Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خليفة المسيح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2011 جلد نهم
نام کتاب خطبات مسر در جلد 9 خطبات 2011ء حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پہلی اشاعت ربوہ پہلی اشاعت انڈیا ستمبر 2016 تعداد 1000 شائع کردہ : نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب،انڈیا 143516 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان Name of the Book Author : : Khutbat-e-Masroor Vol-9 مطبع : Hadhrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih-Vth First Edition Published in India : 2016 Copies Publisher Printed at ISBN : : 1000 : Nazarat Nashr-o-Isha'at Qadian Dist-Gurdaspur, Punjab, India - 143516 : Fazl-e-Umar Printing Press Qadian
MAKHZAN-E-TASAWEER حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : ” خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے.اسے اپنی صفات بخشتا ہے.(الفرقان مئی، جون 1967 ء صفحہ 37) ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اس کا سراسر فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا.ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے درد رکھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے.اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں اور اس پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کوسننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے.زمانے کی ضرورت کے مطابق یہ الہی بندے بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ راہنمائی کرتے ہیں.الہی تائیدات و نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہیں.خدائی صفات ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں.خطبات مسرور کی اس جلد میں ہمارے پیارے آقا اور امام حمام کی قیمتی اور زریں نصائح ہم ملاحظہ کر سکیں گے.گھروں کے مسائل ہوں یا معاشرتی ، ان سب کی بابت ایسی نصائح ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں.اپنی زندگیوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں اور معاشرے میں ایک حسین انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.دنیا بھر میں جو نفسانفسی کا عالم ہے جو انسانیت کو ایک تیسری عالمگیر جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کئے ہوئے ہے، انسان اپنے رب ، اپنے خالق اور مالک سے منہ موڑے ہوئے اس کی ایسی ناراضگی کا مورد بنا ہوا ہے کہ آئے دن طرح طرح کی آفات و مصائب کے عذاب کا شکار ہورہا ہے.ان سب سے بچنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ہمدردی اور شفقت کے جذبات پر مشتمل نصائح کی جھلک بھی آپ ان خطبات میں پائیں گے.مختلف ممالک خصوصاً افریقہ اور ایشیا کے ملکوں کی ترقی اور بہبود کے پیش نظر ان کے سر براہوں کے لئے بھی نصائح ہیں جو ان کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں.ان خطبات میں مغربی دنیا کی طرف سے اسلام مخالف مذموم مہم کے خلاف جماعت احمدیہ کی طرف سے کئے جانے والے جہاد کی تفصیل بھی ہے اور راہنمائی بھی.ان صفحات میں آپ دیکھیں گے کہ کس حکمت و دانائی اور جرات و بے باکی سے دنیا کے سامنے اسلام اور بانی اسلام حضرت خاتم الانبیاءمحمد مصطفی ﷺ کی خو بصورت تعلیم ، مقدس و پاکیزہ سیرت و سوانح کو پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ امن عالم اب اسلام کی تعلیمات کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور سب سے اہم یہ کہ ایک احمدی کو اس کی
ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ ساری دنیا میں احمدیت اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو عام کرنا ہمارا کام ہے، اپنے عمل سے، حکمت سے ، دانائی اور نیک نمونہ سے.حضرت امام مہدی ومسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام نبوت کی تشریح و توضیح کا بھی بیان ہے کہ جو مقام بھی آپ کو ملا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور آپ سے عشق و محبت کی بدولت ہی ملا ہے.اس جلد میں ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے چلائی جانے والی ہوا کے زیر اثر ہزاروں لاکھوں افراد کے قبول احمدیت کے واقعات بھی ملاحظہ کر سکیں گے کہ خدا تعالیٰ کس طرح نیک اور سعید روحوں کو احمدیت کی طرف لا رہا ہے.احمد یہ جماعت کے افراد کی اپنے امام سے عقیدت اور والہانہ محبت کی جھلک بھی پائیں گے کہ کس طرح وہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اموال و نفوس کو خدا کے حضور پیش کرتے چلے جارہے ہیں جو اس حقیقت کا عملی اعلان واظہار ہے کہ مخالفین احمدیت کی بھیانک اور مذموم کوششیں جو پاکستان میں ہوں یا انڈیا میں ، انڈونیشیا میں ہوں یا بنگلہ دیش میں یا عرب کے کسی بھی ملک میں ہوں یہ کسی بھی احمدی کے ایمان میں کمزوری کا باعث نہ پہلے کبھی بنیں اور نہ آئندہ کبھی بن سکیں گی.ہمارا امام اور ہمارا قائد ہمیں یہ بھی حوصلہ دے رہا ہے کہ اس راہ میں مشکلات اور ابتلا ومصائب تو آئیں گے لیکن اے احمد یو! میرے جانثار اور میرے پیارو! گھبرانا نہیں تھکنا نہیں اور ماندہ نہیں ہونا کہ میری دعا ئیں تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے اور فتح اور غلبہ انجام کار ہمارا ہے.پھر ہمارے پیارے امام دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمیں بڑی شدت سے دعاؤں کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور فرمایا کہ میں نے اس لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس شدت سے دعا ئیں کریں کہ دہائی کی طرح آسمان پر پہنچنے والی دعائیں ہوں اور عرش کے پائے ہلیں اور پھر ہم انشاء اللہ فتوحات کے جلد نظارے دیکھیں اور دشمن کو نگو نسار دیکھیں.فرمایا : اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی تو فیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نصائح اور ہدایات کو سننے ، پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسارا اپنے ہر اس ساتھی کے لئے شکر گزار ہے کہ جس نے اس جلد کی تکمیل کے لئے ہاتھ بٹایا.محترم نصیر احمد صاحب قمر ایڈیٹر الفضل انٹرنیشنل لندن اور ان کا عملہ ادارات اور خاکسار کے ساتھ یہاں کام کرنے والے مکرم عامر سہیل اختر صاحب، مکرم افضال احمد صاحب اور مکرم جواد احمد صاحب.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
فہرست خطبات مسرور 2011ء جلد نهم نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ نمبر شمار خطبه فرموده 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 خطبه جمعه فرموده 7 / جنوری خطبه جمعه فرموده 14 / جنوری 17 خطبه جمعه فرموده 21 / جنوری 27 خطبه جمعه فرموده 28 / جنوری 39 خطبه جمعه فرموده 4 فروری خطبه جمعه فرموده 11 فروری خطبه جمعه فرموده 18 فروری خطبه جمعه فرموده 25 فروری خطبه جمعه فرموده 4/ مارچ خطبہ جمعہ فرموده 11 / مارچ 114 15 1 16 17 18 19 19 48 20 60 21 76 22 93 23 104 24 24 خطبه جمعه فرموده 18 / مارچ خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 139 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 25 128 26 27 27 153 168 مجمه خطبہ جمعہ فرموده 15 / اپریل 183 خطبه جمعه فرموده 22 اپریل 198 خطبه جمعه فرموده 29 / اپریل 208 خطبه جمعه فرموده 6 مئی 223 خطبه جمعه فرموده 13 رمئی 235 خطبه جمعه فرموده 20 رمئی 248 خطبه جمعه فرموده 27 رمئی 261 خطبہ جمعہ فرموده 3 / جون 274 خطبہ جمعہ فرموده 10 / جون 287 خطبه جمعه فرموده 17 / جون 297 خطبہ جمعہ فرموده 24 / جون 308 خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 326 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 / جولائی 337 28 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 348 /
نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ 29 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 / جولائی 365 نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ 41 42 43 44 45 46 47 439 48 450 49 462 50 475 51 486 52 498 خطبه جمعه فرموده 14 /اکتوبر 510 خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 521 خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 535 خطبه جمعه فرموده 4/ نومبر 543 خطبه جمعه فرموده 11 / نومبر 555 خطبه جمعه فرموده 18 / نومبر 566 خطبه جمعه فرموده 25 / نومبر 581 خطبه جمعه فرموده 12 دسمبر خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 591 604 خطبه جمعه فرموده 16 / دسمبر 616 خطبه جمعه فرموده 23 / دسمبر | 624 529 خطبه جمعه فرموده 30 دسمبر 637 30 30 خطبه جمعه فرمودہ 29 جولائی 375 31 خطبه جمعه فرموده 5 اگست 385 32 خطبه جمعه فرموده 12 / اگست 400 33 خطبه جمعه فرموده 19 اگست 412 34 35 36 =4 خطبه جمعه فرموده 26 اگست 426 خطبه جمعه فرموده 2 /ستمبر 37 38 لله لي خطبه جمعه فرموده 9 ستمبر خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 40 39 40 80000 خطبه جمعه فرموده 23 /ستمبر خطبه جمعه فرموده 30 ستمبر خطبه جمعه فرموده 7 /اکتوبر
خطبات مسرور جلد نهم 1 1 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 07 جنوری 2011ء بمطابق 07 صلح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةِ بِرَبِّوَةٍ أَصَابَهَا وَابِل فَأَتَتْ أَكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلُّ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ( البقرة : 266) اور اُن لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس کو ثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو تھوڑی سی بارش ہی کافی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے.آج دنیا میں بسنے والا ہر احمدی جس نے احمدیت کو سمجھا ہے، وہ اس یقین پر قائم ہے کہ احمدیت اور ہر احمدی اُس آخری شرعی کتاب پر یقین رکھتا ہے یا احمدیت آخری شرعی کتاب پر یقین رکھتی ہے جو قرآن کریم کی صورت میں حضرت محمد مصطفی صلی اللی کم پر اتری اور اس کا ہر حکم قابل عمل ہے.اور اس کے ہر حکم کی بجا آوری ایک مومن کو حقیقی مومن بناتی ہے.اور خدا کی راہ میں مالی قربانی بھی خدا تعالیٰ کے اہم حکموں میں سے ایک حکم ہے جس کے بارے میں سورۃ بقرہ کی ابتدائی آیات میں ہی یہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے.اُن کے لئے جو الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (البقرة:4) یعنی غیب پر ایمان لانے والے ہیں.وَيُقِيمُونَ الصَّلوة (البقرة:4) اور نمازوں کو قائم کرنے والے ہیں.وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة: 4).اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرنے والے ہیں.پس یہ تینوں باتیں متقی ہونے کے لئے اور قرآنِ کریم سے ہدایت پانے کے لئے ضروری ہیں.جن میں سے ایک جیسا کہ میں نے کہا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے.اور پھر سورۃ البقرۃ میں ہی آخر تک متعدد جگہ قربانیوں کا اور مالی قربانیوں کا مختلف رنگ میں، مختلف حوالوں سے بیان ہوا ہے.اور اسی طرح باقی قرآنِ کریم میں بھی بے شمار جگہ پر رزق کی قربانی کے بارے میں ذکر آتا ہے.پس ایک احمدی مسلمان مالی قربانی کی اہمیت
2 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کو سمجھتا ہے اور جب اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے قربانیاں پیش کرنے کے بعد جب وہ بر او راست خد اتعالیٰ کے غیر معمولی اسلوب کا مور د بنتا ہے تو اس مالی قربانی پر ایمان اور یقین اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین ، اور اسلام کی سچائی پر یقین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے حوالے سے ہی بات ہو رہی ہے.فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی دولت کا اظہار نہیں چاہتے ، جو کسی پر احسان کرنے کے لئے خرچ نہیں کرتے ، جو خرچ کرنے کے بعد احسان جتانے کے لئے خرچ نہیں کرتے بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں.اپنے میں سے کمزوروں کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں.جماعت کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا اور اپنے نفس اور اپنے لوگوں کو ثبات دینے کی خواہش، مضبوط کرنے کی خواہش ہر شریف الطبع اور نیک فطرت کو ہوتی ہے اور ہو سکتی ہے.بد فطرت کو تو یہ خواہش کبھی نہیں ہو سکتی.ایسے لوگ جو اپنی ذات سے بالا تر ہو کے سوچتے ہیں اُن کو یہ خواہش ہوتی ہے.پس جو اپنی ذات سے بالا ہو کر سوچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں، اُن کا خرچ کبھی دولت کے اظہار کے لئے نہیں ہو تا.نہ احسان کرنے اور احسان جتانے کے لئے ہوتا ہے.اور ایسے خرچ میں صرف دولتمند ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ غریب بھی شامل ہوتے ہیں.غریب بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے خواہشمند ہوتے ہیں بلکہ عموماً دولتمندوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے خواہشمند غریب لوگ ہوتے ہیں.انبیاء کی جماعتیں جب بنتی ہیں تو ان میں بھی اکثریت غرباء کی ہوتی ہے اور اس غربت کے باوجود اپنے بھائیوں کی مدد کر کے اُن کی خدمت کرتے ہیں اور جماعت کی بھی جو خدمت وہ کر سکتے ہیں، جس حد تک اُن کی وسعت ہو وہ کرتے ہیں اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں.انفرادی طور پر ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت علی ایم کے صحابہ میں ہجرت مدینہ کے وقت نظر آتی ہے کہ جب انصار نے مہاجرین کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے ، ان کی مدد کرنے کے لئے بے مثال قربانی دی.پھر جماعتی طور پر بھی صحابہ کے ہی نمونے نظر آتے ہیں.جب بھی کسی مہم کے لئے آنحضرت صلی ا ظلم کی طرف سے چندے کی تحریک ہوئی یا کسی بھی مقصد کے لئے چندے کی تحریک ہوئی تو جو کچھ پاس ہو تا اس کا بہترین حصہ اللہ الله تعالیٰ کی راہ میں دے دیتے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی تحریک امیر اور غریب دونوں کو کی ہے.یہ تحریص ہر ایک کو دلائی ہے کہ اگر خدا کی راہ میں خرچ کرو گے تو اپنی اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق جو بھی کوئی خرچ کر رہا ہو گا، اُس کی اس قربانی کے دوگنے پھل اسے ملیں گے.غریبوں کو بھی تسلی کروا دی کہ خالص ہو کر جو
خطبات مسرور جلد نهم 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء خرج اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور اُس کی رضا چاہتے ہوئے کیا جائے تو خدا تعالیٰ ضرور اس کا بدلہ دیتا ہے، جس کے بارہ میں دوسری جگہ قرآن کریم میں بھی بیان ہوا ہے کہ سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ خدا دے سکتا ہے.یہاں یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ بڑی رقموں کو اور بڑی قربانیوں کو قبول کیا جائے گا بلکہ اصل قربانی کی روح ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے.بلکہ ہر عمل کی نیت ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے.بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ بڑی قربانی کے مقابلے میں بظاہر چھوٹی سی قربانی زیادہ رتبہ پاتی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ ایک درہم، ایک لاکھ درہم کے مقابلے میں آج سبقت لے گیا.صحابہ نے عرض کی کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کے پاس دو در ہم تھے.اُس نے ایک درہم کی قربانی کر دی.اور ایک دوسرے شخص کے پاس بے شمار دولت اور جائیداد تھی اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم کی قربانی کی.(سنن النسائى كتاب الزكاة باب جهد المقل حدیث نمبر (2527 جو اس کی دولت کے مقابلے میں بہت کم تھی، گو کہ بہت بڑی رقم ہے.پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا معیار جذبہ اور نسبت کا ہے، مقدار کا نہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اس آیت میں غریبوں کی تسلی فرما دی کہ جس طرح زرخیز زمین پر تھوڑی بارش باغ کو پھلوں سے بھر دیتی ہے اسی طرح اپنی حیثیت کے مطابق نیک نیتی سے کی گئی تھوڑی سی قربانی بھی نیک عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پا کر بڑی قربانی کرنے والوں کے برابر لا کھڑا کرتی ہے.بلکہ بعض دفعہ درجہ میں بڑھا بھی دیتی ہے.جیسا کہ اس ایک مثال سے ثابت ہے جو میں نے پیش کی.پھر اللہ تعالیٰ اسی آیت میں فرماتا ہے وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرُ (البقرہ.266 ) کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے.یہ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ تمہارے جذبے کو جانتا ہے.وہ اس روح کو جانتا ہے جس سے تم قربانی کرتے ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جب بدلے ملتے ہیں تو دلوں کے اور نیتوں کے عمل کے مطابق ملتے ہیں، نیتوں کے مطابق ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہاری مالی حیثیت جانتا ہے.تم نے جو قربانی کی اگر اس حیثیت سے کی تو جو بھی بدلہ ملے گا اس کے مطابق ملے گا.اس لئے قربانیوں کی قبولیت بھی اس نیت کے مطابق اور عمل کے مطابق درجہ پاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی جب آپ مالی تحریک فرماتے تو غریب بھی اور امیر بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مالی قربانی کرتے تھے.آپ کے ماننے والوں کی اکثریت بھی غرباء کی تھی اور ان کی قربانیاں بھی رقم کے لحاظ سے بہت معمولی ہوا کرتی تھیں لیکن یہ جو طل معمولی بارش بھی ہے، ایسی فائدہ مند ہوئی کہ اُن قربانیوں کو اتنے پھل لگے جو آج تک اُن بزرگوں کی نسلیں کھارہی ہیں.پس یہ اُن نسلوں کی بھی ذمہ داری
4 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے کہ جن میں سے بعض آج بہت زیادہ حیثیت کے ہو چکے ہیں، مالی لحاظ سے بہتر ہو چکے ہیں کہ اُن کی قربانیوں کو اب واہل تیز بارش کا نمونہ دکھانا چاہئے.یہ صورت اختیار کرنی چاہئے تاکہ اُن کے اور ان کی نسلوں کے اعمال کے درخت ہمیشہ سر سبز رہتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ایک روپیہ قربانی کرنے والے کا ذکر بھی اپنی کتابوں میں فرمایا ہے جو معمولی قربانی تھی، جس نے مستقل اپنے اوپر لازم کر لیا تھا کہ ایک روپیہ ہر مہینہ ادا کریں گے.آپ کے صحابہ کے کیسے کیسے قربانی کے نمونے تھے اُن میں سے میں ایک مثال دیتا ہوں.چوہدری عبد العزیز صاحب احمدی اوجلوی پٹواری تھے.اُن کے بارے میں قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری فرماتے ہیں کہ گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالی قربانی کی تحریک کی.چوہدری عبد العزیز صاحب پٹواری خود آکر حضور علیہ السلام کی خدمت میں ایک سو روپیہ چاندی کا پیش کر کے گئے اور کہا کہ خاکسار کے پاس یہی رقم موجود تھی جو میں لے آیا ہوں.قاضی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس پٹواری کی اس قربانی پر بڑی حیرت ہوئی اور رشک بھی آیا کہ ایک پٹواری جس کو چھ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے اس نے کس طرح اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کی ہے.قاضی صاحب پھر لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کے اخلاص کے عوض اس پر بڑے فضل کئے.یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں تقویٰ بہت تھا.تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے.آپ سے جو براہ راست فیض پارہے تھے اس کی وجہ سے اُن کے تقویٰ کے معیار بہت بلند تھے.چوہدری صاحب بھی تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے.دوسرے پٹواریوں کی طرح نہیں تھے.ہمارے ملک میں پٹواریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ تنخواہ بیشک ان کی تھوڑی ہو لیکن ان کی زائد آمدنی بہت زیادہ ہو جاتی ہے جو مختلف ذریعوں سے وہ زمینداروں سے ، چھوٹے زمینداروں سے وصول کرتے رہتے ہیں.اور بعض ایسے بھی ہیں جو جب ریٹائر ہوتے ہیں تو ان کے پاس دولت بھی ہوتی ہے، کئی کئی ایکڑوں کے مالک ہوتے ہیں بلکہ سوسو ایکڑوں کے مالک بن جاتے ہیں.مجھے یاد آیا کہ میرے ساتھ سکول میں ایک پٹواری کا لڑکا پڑھا کرتا تھا اور اس کا رہن سہن رکھ رکھاؤ، کپڑے ایسے ہوتے تھے جو ہزاروں کمانے والا کوئی بچہ بھی نہیں رکھ سکتا.اور خود بتاتا تھا کہ میرے باپ کی تنخواہ تو پینتالیس روپے ہے لیکن اللہ کا بڑا فضل ہے.گویا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو معیار ہیں وہ بدل گئے ہیں.جو ناجائز آمد ہے وہ اللہ کا فضل بن گیا اور جو جائز آمد ہے وہ حکومت کی تنخواہ بن گئی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر ہمیں بتایا کہ صحیح اللہ کا فضل کیا ہوتا ہے.اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ کسی مہدی کی ضرورت ہے ، نہ مسیح کی ضرورت ہے ، نہ مصلح کی ضرورت ہے.اگر اس چیز کو یہ تسلیم کر لیں کہ اس کی ضرورت ہے اور ماننے والے کو مان لیں تو تب صحیح پہچان ہو سکتی ہے کہ اللہ کا فضل کس طرح ہوتا ہے اور کیا چیز ہے؟ یہ تو احمدی کو پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کا کرنا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا فضل کس طرح ہوتا ہے؟ واہل ہو یا طل، تیز بارش
خطبات مسرور جلد نهم 5 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء ہو یا ہلکی بارش، بڑی قربانی ہو یا تھوڑی قربانی، دولتمند ہوں یا غریب، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کی گئی قربانیاں دوگنے پھل لاتی ہیں.جیسا کہ حضرت چوہدری عبد العزیز صاحب کے بارہ میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس اخلاص کے بے انتہا پھل لگائے.تنخواہ کے ساتھ شاید تھوڑی سی اُن کی زمین بھی ہو.پٹواری عموماً دیہاتوں کے رہنے والے ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ زمیندارہ ہوتا ہے جس کی آمد بھی ہوتی ہو گی.اس کی وجہ سے کچھ رقم بھی جمع کر لی ہو گی.وہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں لا کے رکھ دی.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کبھی پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں سے پیسوں کی ضرورت ہو.اللہ تعالیٰ جب قربانی کے لئے فرماتا ہے تو بندے کو ثواب دینے کی خاطر.اور یہی حال اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ہوتا ہے.انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ جماعت کے جو اخراجات ہیں کس طرح پورے ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ جب کام شروع کرواتا ہے، کسی کو بھیجتا ہے تو اس کے لئے اسباب بھی مہیا فرما دیتا ہے.ظاہری تحریک انبیاء ضرور کرتے ہیں اور اس کے بعد خلفاء بھی کرتے ہیں لیکن ضرورت پوری کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی یہ وعدہ ہے.اس لئے آپ نے ایک جگہ اس بات کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ فرمایا ہے کہ خرچ کے لئے رقم کہاں سے آئے گی.آپ نے فرمایا یہ تو بہت آئے گی لیکن اس کو دیکھ کر تم لوگ دنیا دار نہ ہو جانا.یعنی انفرادی طور پر بھی جماعت کو خوشخبری دے دی کہ تم لوگوں کو کشائش عطا ہو گی اور جماعتی طور پر بھی کشائش پیدا ہو گی.پس جماعتی طور پر جو کشائش پیدا ہو تو جن کے ہاتھ میں خرچ ہے اُن کو بھی ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم کسی بھی قسم کا غیر ضروری خرچ نہ کریں.ہر پیسے کو سنبھال کے اور احتیاط سے خرچ کریں.غریب قربانی کر رہے ہیں یا امیر قربانی کر رہے ہیں، اس کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا یہ خرچ کرنے والوں کا کام ہے اور بہت اہم کام ہے تا کہ جہاں وہ خدمت دین کر رہے ہیں، خدمت سلسلہ کر رہے ہیں تو ان خرچوں کو سنبھال کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قربانی کی جو روح جماعت میں پیدا کی ہے اللہ تعالی کے فضل سے اس میں جماعت ترقی کرتی چلی جارہی ہے.صحابہ کی قربانیوں کے نمونے نئے آنے والے بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں.دنیا کے دور دراز علاقوں میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں، غریب لوگ ہیں لیکن مالی قربانیاں بھی کرتے ہیں.ہلکی بارش بھی ان کی قربانیوں کو پھلوں سے لا د ر ہی ہے اور واپل کے نمونے بھی ہمیں نظر آتے ہیں.تیز بارش کی طرح مالی قربانیوں میں ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں.اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اُن کے کاروباروں کو کئی گنا بڑھاتی چلی جارہی ہے.اس وقت میں نے چند واقعات لئے ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.
خطبات مسرور جلد نهم 6 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء مثلاً انڈیا سے وہاں کے ناظم وقف جدید لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال 2010ء میں گجرات کے دورے پر گیا تو وہاں گاندھی دھام ایک جگہ ہے اس کے ایک دوست کے پاس جب وقف جدید کا چندہ لینے گیا تو ان کا چندہ وقف جدید اس وقت تیرہ ہزار روپے تھا.کہتے ہیں کہ میں ان کے مالی حالات جانتا تھا.میں نے انہیں تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت نوازا ہے.آپ اپنا وعدہ پچاس ہزار روپے کر دیں.موصوف نے اسی وقت پچپن ہزار روپے کا چیک کاٹ کر دے دیا اور کہا کہ دعا کریں میرا ایک کاروبار ہے اس میں میرے اکیس لاکھ روپے پھنسے ہوئے ہیں جو ملنے کی امید نہیں بن رہی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ دوچار دن کے بعد ہی اُن کی جوڑ کی ہوئی رقم تھی وہ اکیس لاکھ روپیہ ان لوگوں نے خود آکر ان کو دے دیا.اسی طرح ہمارے انسپکٹر وقف جدید ہیں، وہ کہتے ہیں کو ئمبٹور جماعت میں تامل ناڈو میں ایک مخلص دوست جنہوں نے دس سال پہلے بیعت کی تھی.جب انہیں وقف جدید کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور ان کو کہا کہ آپ تیس ہزار روپے اپنا وعدہ لکھوائیں کیونکہ آپ کی آمد کافی ہے.انہوں نے کہا مولوی صاحب! میں نے آپ کی باتیں سن لی ہیں.میں تھیں ہزار نہیں بلکہ پچاس ہزار روپے کا وعدہ لکھواتا ہوں.اس پر کہتے ہیں میں نے اُن سے کہا کہ یہ شاید آپ کی طاقت سے بڑھ کر ہو گا.انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو دینا ہے تو پھر آپ کو اس سے کیا؟ مجھے پتہ ہے کتنی میری طاقت ہے اور اللہ تعالیٰ کس طرح نوازتا ہے.رمضان کے مہینے میں پھر انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کہتے ہیں میری آمد اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس سال کے لئے انہوں نے تحریک جدید اور وقف جدید دونوں کا اپنا وعدہ ایک ایک لاکھ روپیہ لکھوایا ہے.پھر صوبہ بنگال کے انسپکٹر وقف جدید شیخ محمد داؤد ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایک نو احمدی ہیں جو مدرسہ میں پڑھاتے تھے.اس کے بعد پھر انہوں نے معلم کی ٹریننگ لی اور پانچ سوروپیہ چندہ دیتے تھے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرمایا.اب ان کا پانچ ہزار روپیہ چندہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ جب میں غیر احمدی تھا تو لوگوں کے دروازے پر جا کر کھانا کھاتا تھا اور اب بیعت کرنے کے بعد چندے کی برکت سے لوگ میرے دستر خوان پر کھاتے ہیں.پہلے جائیداد نہیں تھی اور اب جائیداد بھی بن گئی ہے.پھر تامل ناڈو کی جماعت کو ٹمبٹور کی جو اکثریت ہے وہ نو احمدیوں کی ہے جس میں زیادہ تر احباب جماعت نے دس سے پندرہ سال قبل بیعت کی تھی.سو اس میں سے اللہ کے فضل سے پچاس فیصد جو زیادہ کمانے والے ہیں وہ اب تک موصی بن چکے ہیں.چند سال پہلے ایک شخص نے بیعت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ چندے میں غیر معمولی اضافہ کیا.اور وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے کاروبار میں اضافہ کر دیا ہے اور میرے غیر از جماعت رشتے دار حیران ہیں کہ تمہارے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آرہا ہے.میں ان کو یہی کہتا ہوں جو بھی ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احمدیت کی برکت ہے.یہ تو میں نے انڈیا کے حالات بتائے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء افریقہ میں وہاں کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کا قربانی کرنے کا کیا جذبہ ہے، یہ دیکھیں.گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک بھائی فوڈے با کولی(Fodayba Colley) ایک غریب آدمی ہیں، جب انہیں وقف جدید کے چندے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے بتایا کہ تنگدستی کی وجہ سے وہ تو فاقوں سے ہیں.تین دن بعد یہ دوست مشن ہاؤس آئے اور پچاس ڈلاسی دیئے اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ برکت کی خاطر میرا نام بھی چندہ ادا کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائے.یعنی فاقے کی نوبت بھی ہے لیکن اس کے باوجود چندہ دینے کی خواہش ہے کہ کہیں میں محروم نہ رہ جاؤں.یہ عجیب جذبہ ہے.پھر ایک اور صاحب تھے ،انہوں نے بھی اسی طرح کہا کہ میں بہت غریب ہوں، ضرورت مند ہوں، میرے پاس کچھ نہیں لیکن سو (100) ڈلاسی دیئے.جماعت بین کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع جماعت اور اکامے (Awrakame) کے جنرل سیکرٹری لطیفو لا میدی صاحب کچھ عرصے سے بیروزگاری کے حوالے سے بہت پریشان تھے.محنت مزدوری اور کاروبار ڈھونڈنے کے سلسلے میں نائیجیریا بھی گئے لیکن کچھ نہ بنا اور پریشان ہی واپس لوٹے.اب وقف جدید کے آخری دوماہ نومبر ، دسمبر رہ گئے تھے اور یہ اس چندے میں بقایا دار تھے.انہیں جب وقف جدید کا چندہ دینے کا کہا گیا اور بتایا گیا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مشکل حالات میں خرچ کرنے والوں کے لئے بھی خاص انعامات ہوتے ہیں تو یہ اگلے دن چندے کی رقم لے کر آگئے اور کہنے لگے کہ جب سارا گھر قرض لے کر کھا رہا ہے تو کیوں نہ خدا کی راہ میں بھی خرچ کے لئے قرض اٹھا لیا جائے.شاید اللہ ہمارے دن موڑ دے.تو اللہ تعالیٰ کا فضل اس طرح نازل ہوا کہ چندہ دینے کے تیسرے دن انہیں ایک خاصے امیر گھرانے میں ملازمت مل گئی اور اتنی اچھی تنخواہ ملی کہ دوماہ میں ان کے تمام قرضے بھی اتر گئے.انہوں نے ایک موٹر سائیکل بھی خرید لی اور اب ہر جگہ کہتے ہیں کہ یہ میرے چندے کی برکت ہے.بین میں ہی جماعت اور اکامے (Awrakame) جو (نام) پہلے بتایا تھا.وہاں معلم صاحب چندہ لینے کے لئے گئے.اس علاقہ کے بہت سے لوگوں نے جو جگہ ہے ” اور اکامے“ (Awrakame)اس کے صدر جماعت کے پیسے دینے تھے.اور یہ بہت بڑی رقم بنتی تھی.مگر کافی عرصے سے ادھار لینے والے رقمیں نہیں دے رہے تھے جس کی وجہ سے صدر صاحب اور ان کے گھر کے بعض افراد نے اپنا وقف جدید کا مکمل چندہ ادا نہیں کیا.معلم صاحب نے صدر اور ان کے گھر والوں کو سمجھایا کہ دیکھو وعدہ ایک قرض ہے.جب تم لوگ خدا کا قرض ادا کرنے کے لئے پس و پیش کرتے ہو تو دوسرے لوگ تمہارا قرض ادا کرنے کے لئے کیوں نہ پس و پیش کریں.یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے فوراً اپنا وقف جدید میں سارے گھر کا چندہ بے باق کیا اور کہتے ہیں کہ لو معلم صاحب، میں نے تو
خطبات مسرور جلد نهم 8 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء خدا کا ادھار چکا دیا.اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرح اپنا فضل فرمایا کہ ہفتے کے اندر اندر جن لوگوں نے ان کے پیسے دینے تھے وہ سب آئے اور ان کی رقمیں واپس کر گئے.اب انہوں نے ایک ایکڑ زمین خریدی ہے جس میں سے آدھی چار کنال جگہ مسجد کے لئے جماعت کو دی ہے.مبلغ نائیجیر یا بیان کرتے ہیں کہ لو کوجہ جماعت کی ایک خاتون اسوت حبیب (Aswat Habib)صاحبہ بتاتی ہیں کہ میں اپنے گھر میں کپڑوں کی، گارمنٹس کی دکان چلاتی ہوں، لیکن اب میرے شوہر نے سکول کھولا ہے جس کی وجہ سے میر از یادہ وقت سکول کے کاموں میں گزرتا ہے.اور سکول بھی گھر سے دور ہے جس کی وجہ سے دکان کے کام میں آمدنی کم رہی.یہ بات میرے لئے پریشان کن تھی.ایک دن مربی صاحب نے چندہ وقف جدید میں قربانی کی تحریک کی اور مجھ سے جتنا ہو سکتا تھا میں نے اس میں ادا کر دیا.اُسی دن چند گھنٹوں کے بعد جب میں نے اپنی گارمنٹس کی دکان کھولی تو چند گھنٹوں میں اتنی سیل ہوئی جو پہلے ہفتوں میں نہیں ہوتی تھی.یہ صرف خدا کی راہ میں چندہ دینے کی برکت ہے جس نے مجھے اتنا نوازا.وذگور یجن کے مبلغ لکھتے ہیں جیالو سیکو (Diallo Seko) صاحب جو یہاں کے گاؤں کے رہنے والے ہیں.انہوں نے گزشتہ سال بیعت کی ہے اور بیعت کے بعد انہوں نے فوراً چندہ دینا شروع کر دیا اور اس چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس مخلص نو مبائع کو ایسی برکت سے نوازا کہ اس کی فصل اسی سال گزشتہ سال کی نسبت دو گنا ہو گئی.اور اب انہوں نے وقف جدید میں دوبارہ اناج کی صورت میں چندہ دیا ہے.امیر صاحب برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ گاوا ریجن (Gava Region) کے صدر جماعت ہیما یوسف (Hema Yousaf) صاحب بتاتے ہیں کہ ایک روز جیب میں صرف تین ہزار فرانک تھے.اہلیہ نے کہا کہ گھر میں پکانے کو کچھ نہیں ہے لا کر دیں.کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں میں پیسے لے کر مشن ہاؤس گیا تو وہاں مربی صاحب نے چندے کے وعدے کے متعلق یاد دہانی کروائی کہ آپ کا وقف جدید کا چندہ رہتا ہے.خاکسار نے یہی سمجھا کہ آج میرا امتحان ہے.میں نے اسی وقت یہ تہیہ کیا کہ چندہ ہی دوں گا اور فوراً تین ہزار فرانک کی رسید کٹوالی اور اللہ تعالیٰ کو میری حقیر قربانی بہت پسند آئی.اسی روز میرے کام کے سلسلے میں ایک شخص گھر آیا اور تین لاکھ فرانک نقد دے کر کہنے لگا کہ میرا آرڈر بک کر لیں اور یہ رقم ایڈوانس کے طور پر رکھ لیں.بقیہ کام مکمل ہو گا تو ادا کروں گا.یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس روز سے میرا اللہ تعالیٰ پر تو کل بہت بڑھ گیا ہے.خصوصاً مالی مشکلات تو بالکل ختم ہو گئی ہیں.بنفورا (Banfora) ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست سوا دو گو (Sawadogo)صاحب چار سال قبل احمدی ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ اخلاص میں ترقی کی اور چندے ادا کرنے شروع کئے.ایک روز بیان کرنے لگے کہ سب سے پہلے چندوں کے نظام میں شامل ہو جائیں کیونکہ اس کی بیشمار برکات ہیں اور اس کا ثبوت میری اپنی ذات ہے.کیونکہ احمدیت میں داخل ہونے سے قبل اور چندوں کی ادائیگی سے قبل میں اکثر لوگوں سے قرض
9 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور ادھار لیتا تھا.مگر آج اللہ تعالیٰ نے میری حالت کو یکسر بدل دیا ہے اور چند ہ ادا کرنے کی برکت سے میں اس قابل ہو ا ہوں کہ لوگوں کو ادھار رقوم دیتا ہوں.پہلے لوگ میرے در پر مجھ سے اپنی رقوم لینے آتے تھے مگر آج امام مہدی علیہ السلام کی برکت سے لوگ میرے در پر مددمانگنے آتے ہیں.نائیجر ، ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے، ان لوگوں کو لینے کی عادت تو ہے، دینے کی نہیں.لیکن خدا تعالی کا خاص فضل ہے کہ جہاں بھی تبلیغ کی جاتی ہے وہاں مالی قربانی کے نظام کے بارہ میں بتایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگ مالی قربانی کی طرف توجہ کر رہے ہیں.کئی دیہات ایسے ہیں جہاں پہلی دفعہ تبلیغ کی اور انہوں نے پہلے ہی دن کچھ نہ کچھ چندہ دیا.مبلغ لکھتے ہیں کہ امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی مالی قربانی میں نائیجر کی سو فیصد جماعتیں شامل ہو چکی ہیں.اور گزشتہ سال وقف جدید میں شاملین کی تعداد ایک ہزار چار سو اٹھہتر تھی جبکہ امسال یہ تعداد بڑھ کے سترہ ہزار سات سوچھ ہے.یعنی وقف جدید میں سولہ ہزار دو سو اٹھائیس (16,228) نومبائعین کا اضافہ ہوا ہے.افریقہ میں صرف چندہ ہی نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھ کر دوسری مالی قربانیاں کرنے کی بھی توفیق مل رہی ہے.لیگوس کے ایک مخلص احمدی ہیں الحاجی ابراہیم الحسن، انہوں نے اپنا نیاگھر بنایا اور اس سے ملحق ایک مسجد اور تین فلیٹ پر مبنی ایک عمارت بنائی.مسجد کے بارہ میں ان کا ارادہ تھا کہ وہ اس کو جماعت کے حوالہ کر دیں گے.کہتے ہیں کہ ابھی میں اپنے اس نئے گھر میں شفٹ نہیں ہوا تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول میرے اس نئے گھر میں تشریف لائے ہیں اور آپ کے بعد خلیفہ ثانی اور خلیفہ ثالث اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع اور خلیفہ خامس سب تشریف لائے اور سب سے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے.آمد کے بعد حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہی اس گھر کے افتتاح کی تقریب ہے اور کوئی افتتاح کی تقریب نہیں ہو گی.اس کے بعد مسجد سے ملحق عمارت جس میں تین فلیٹس بنائے تھے اُن میں سے ایک فلیٹ میں آپ علیہ سلام تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہ بھی مسجد کے ساتھ ہی جماعت کو دے دیں.کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے ارادہ کر لیا کہ فلیٹ بھی مسجد کے ساتھ ہی جماعت کو بطور مشن ہاؤس دے دوں گا.چنانچہ انہوں نے یہ مسجد اور سارے فلیٹس بطور مشن ہاؤس جماعت کو دے دیئے ہیں جس کی کل مالیت نوے ہزار پاؤنڈ بنتی ہے.ٹو گو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ نوچے ریجن کے ایک گاؤں میں جہاں کچھ عرصہ قبل احمدیت کا نفوذ ہوا تھا چندے کا آغاز ایک عجیب واقعہ سے ہوا.مخالفین وہاں پر بہت سا سامان اور پیسے لے کر گئے کہ ان کو دے کر احمدیت سے الگ کیا جائے.یہ ایک غریب گاؤں ہے اور لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں.مخالفین نے ان سے کہا کہ ہم آپ کے لئے پیسے لے کر آئے ہیں جبکہ احمدی آپ سے چندہ مانگتے ہیں اور یہ سارے پیسے اکٹھے کر کے ان سے کاروبار کرتے
خطبات مسرور جلد نهم 10 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء ہیں.گاؤں والوں نے جواب دیا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو.تم ہمیں پیسے دینے آئے ہو تا کہ ہم ایمان سے ہٹ جائیں ؟ اور احمدی ہم سے چندہ مانگتے ہیں تاکہ ہمارے ایمان مضبوط ہوں.اور پھر وہ ہمیں قرآن کی تعلیم بتاتے ہیں کہ ہر مسلمان کو خدا کی راہ میں کچھ نہ کچھ خرچ کرنا چاہیئے اور ہم جانتے ہیں کہ احمد ی اس چندے سے اسلام کی خدمت کرتے ہیں.کھا پی نہیں جاتے یا کاروبار نہیں کرتے.ہم بے شک غریب ہیں اور آپ کی رقم ہماری ضروریات پوری کر سکتی ہے لیکن جو تھوڑا بہت ہمارے پاس ہے ہم خدا کی راہ میں دینا پسند کریں گے.اس طرح وہ چندہ کے نظام میں شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک چندے کے نظام میں شامل ہیں.پس یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں کر رہے ہیں.تھوڑی قربانی بھی ہے.بڑی قربانی بھی ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ان کے پھلوں کو دو گنا کرتا چلا جا رہا ہے.مالی قربانیوں کی ایک روح جیسا کہ ہم نے دیکھا جماعت میں نہ صرف قائم ہے بلکہ بڑھتی چلی جا رہی ہے.نئے ہونے والے احمدی بھی اس میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.وقف جدید کا چندہ جو پہلے صرف پاکستان کے احمدیوں کے لئے ہی خیال کیا جاتا تھا.یعنی اس قربانی میں صرف پاکستانی احمد کی ہی شامل ہوتے تھے.پھر خلافت رابعہ میں یہ پوری دنیا کے لئے عام کر دیا گیا.امیر ممالک سے یعنی مغربی ممالک سے اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے وقف جدید کا چندہ لینے کا بڑا مقصد یہ تھا کہ انڈیا اور افریقہ کے بعض ممالک جن کے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور جماعتوں کی اکثریت بھی نومبائعین کی ہے جنہیں ابھی مالی نظام کا صحیح طرح پتہ نہیں اُن پر ہی رقم خرچ کی جائے.ان کی ضروریات پوری کی جائیں.مساجد کی تعمیر ہے اور دوسرے اخراجات ہیں.لیکن آپ نے دیکھا جو میں نے واقعات بیان کئے ہیں کہ اب نو مبائعین خود بھی کس طرح قربانیوں میں بڑھ رہے ہیں.اور ان کے خود قربانیوں میں بڑھنے سے وہاں کی ضروریات کچھ حد تک پوری ہو رہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ نئے مشن بھی کھل رہے ہیں.اس لئے امیر ممالک سے یا مغربی ممالک سے جو وقف جدید کا چندہ لیا جاتا ہے وہ دوسرے نئے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا جہاں اور مزید ضروریات بڑھ رہی ہیں، مساجد بن رہی ہیں، مشن ہاؤسز بن رہے ہیں، لٹریچر چھپ رہا ہے.یہ قربانیاں جو مغربی ممالک کے احمدی کر رہے ہیں جہاں ان کو اپنے ملک میں جماعتی پروجیکٹس کو اور کاموں کو آگے بڑھانے میں وسعت دینے میں کام آرہی ہیں وہاں غریب ممالک میں احمدیت کی ترقی میں بھی یہ محمد بن رہی ہیں.اور یوں امیر ممالک کے قربانی کرنے والے لوگ بھی انفرادی طور پر بھی جو معمولی قربانی کر رہے ہیں بحیثیت جماعت ان کی قربانی تیز بارش کے نتائج پیدا کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے قبول فرماتار ہے.جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یکم جنوری سے وقف جدید کا سال شروع ہوتا ہے اور جو مثالیں میں نے دیں وہ زیادہ تر وقف جدید کی ہیں.واضح ہے کہ آج کے خطبہ میں وقف جدید کانٹے سال کا اعلان کیا جائے گا.اور گزشتہ
خطبات مسرور جلد نهم 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء سال کے کچھ اعداد و شمار پیش کئے جائیں گے.اللہ کے فضل سے وقف جدید کا یہ تریپنواں (53 واں) سال ہے جو 31 دسمبر کو ختم ہوا ہے.الحمد للہ اس سال میں اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل ہوئے، اور وقف جدید میں جماعت کو اکتالیس لاکھ تر اسی ہزار پاؤنڈ سے اوپر کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی اور گزشتہ سال کے مقابلہ میں یہ قربانی اللہ کے فضل سے چھ لاکھ چونسٹھ ہزار سے زائد ہے.اور اس میں قربانی کے لحاظ سے حسب معمول و حسب سابق پاکستان تو پہلے نمبر پر ہی ہے.اس کے بعد امریکہ ہے اور پھر UK ہے.پھر جرمنی ہے.UK نے بھی اللہ تعالیٰ کے سے گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک لاکھ پاؤنڈ کا اضافہ کیا ہے.اور جرمنی نے بھی اس دفعہ تو UK سے وقف جدید میں اوپر آنے کے لئے پوری کوشش کی ہے اور دولاکھ یورو سے زیادہ وصولی کی ہے لیکن پوزیشن گزشتہ سال والی ہے.پھر کینیڈا ہے.پھر انڈیا ہے.پھر آسٹریلیا ہے.آسٹریلیا کی ایک پوزیشن اوپر آگئی ہے.انڈونیشیا ہے، یجیئم ہے اور دسویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے.اور مقامی کرنسی کے لحاظ سے ، گزشتہ سال کے مقابلے پر زیادہ وصولی کرنے والی پانچ جماعتیں.نمبر ایک منی ہے جس نے تینتیس فیصد اضافہ کیا ہے.پھر بھارت نمبر دو پہ ہے.پھر امریکہ ہے، پھر آسٹریلیا ہے.پھر سلی بیلجیئم ہے.فی کس ادا ئیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہے جن کا اکاسی (81) پاؤنڈ سے اوپر فی کس چندہ ہے.پھر نیچے سوئٹزر لینڈ ہے اڑتالیس پاؤنڈ ، پھر آئر لینڈ ہے، پھر UK ہے.پھر جاپان ہے.فرانس، کینیڈا، سپین وغیرہ نے بھی کافی کوشش کی ہے.افریقہ میں وصولی کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتوں میں گھانا ہے.نائجیریا ہے.پھر ماریشس.چوتھے نمبر پر برکینا فاسو اور پانچویں پر بین ہے.اس سال وقف جدید کا چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد میں پچیس ہزار کا اضافہ ہوا ہے.اس طرح مجموعی تعداد چھ لاکھ سے اوپر ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہانا کیجر نے اس دفعہ کوشش کی ہے تو انہوں نے حالانکہ چھوٹی سی جماعت ہے اور بالکل نئی جماعت ہے، سولہ ہزار شاملین کا اضافہ کر لیا ہے.اگر افریقہ کی باقی جماعتیں کوشش کریں تو یہ اضافہ بہت زیادہ ہو سکتا ہے.گھانا اور نائیجیریا کو تو میں اگلے سال کے لئے کہتا ہوں کہ کم از کم اضافی ٹارگٹ جو ہے وہ پچاس ہزار افراد کار کھیں.اور ان کی گنجائش ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو سکتا ہے.پھر پاکستان کے جو نتائج ہیں اس کے لحاظ سے اول لاہور ہے.کراچی ہے اور ربوہ ہے ، اور ربوہ اور کراچی کا اتنا معمولی فرق ہے کہ اگر ربوہ کو پہلے پتہ ہو تا تو شاید کوئی ایک آدمی ادا کر دیتا.شاید چار پانچ ہزار روپے کا فرق ہے.بالغان میں دس اضلاع.سیالکوٹ ، راولپنڈی ، فیصل آباد، اسلام آباد، شیخو پوره، گوجرانوالہ، سرگودها، ملتان، گجرات اور عمر کوٹ ہیں.اطفال میں اوّل لاہور.دوم کراچی.سوم ربوہ ہے.اطفال کے پہلے دس اضلاع سیالکوٹ ،راولپنڈی، اسلام آباد، شیخوپورہ، فیصل آباد، گوجرانوالہ، نارووال، گجرات، عمر کوٹ اور دسویں نمبر پر حیدر آباد.
خطبات مسرور جلد نهم بوسٹن ہیں.12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں.لاس اینجلیس، ان لینڈ ایمپائر، سیلیکون ویلی، ڈیٹرائٹ، شکاگو ویسٹ اور برطانیہ کی پہلی دس جماعتیں.ووسٹر پارک، مسجد فضل، رینیز پارک، بر منگھم ویسٹ ، ویسٹ ہل، بریڈ فورڈ نارتھ ، سیکسلے اینڈ گرین وچ، چیم، مسجد ویسٹ اور وولور ہیمپٹن.اور وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کے ریجن ہیں ، مڈلینڈ ریجن، ساؤتھ ریجن ، لنڈن ریجن، مڈل سیکس ریجن، اسلام آباد ریجن.جرمنی کی پانچ جماعتیں ہیں.ہیمبرگ، فرینکفرٹ، گروس گیر اؤ، ویز بادن اور ڈار مسٹڈ وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی نمایاں جماعتیں ہیں.روڈر مارک، نوئے ایس، بروخسال، مور فیلڈن (جر من خود ہی ان شہروں کا تلفظ درست کر لیں) روڈس ہائیم، مهدی آباد، بر یمن، نیدر روڈن ، والڈورف ، وائن گارٹن.کینیڈا نے دفتر اطفال اور بالغان علیحدہ کیا ہوا ہے.باقی ممالک جہاں نظام اچھی طرح establish ہو چکا ہے اُن کو بھی میں نے کہا تھا یہ قائم کریں لیکن جرمنی اور امریکہ اور برطانیہ اس بارہ میں کوشش نہیں کر سکے کہ اطفال اور خدام کو علیحدہ علیحدہ کر سکیں، لیکن کینیڈا بہر حال رکھتا ہے.اس لحاظ سے پاکستان کے بعد فی الحال کینیڈا ہے جس نے علیحدہ ریکارڈ رکھا ہوا ہے.اس چندہ بالغان میں مار کھم، پیس ولیج ساؤتھ ، ویسٹن از لنگٹن، کیلگری ساؤتھ ، ووڈ برج.کینیڈا میں دفتر اطفال کی جماعتیں ہیں، ویسٹرن ساؤتھ ، ویسٹرن نارتھ ویسٹ، ویسٹن، از لنگٹن، مارکھم ، پیس و پیج ساؤتھ.انڈیا کی جماعتیں کیرالہ ، جموں کشمیر ، تامل ناڈو، آندھراپردیش، ویسٹ بنگال، کرناٹکہ ، اڑیسہ ، پنجاب، اتر پردیش، راجستھان، دہلی ہیں.پہلے میں نے صوبے بیان کئے تھے اور اب جماعتیں ہیں اور ان کی نمایاں جماعتیں کالی کٹ، کینا نور ٹاؤن ، حیدر آباد، قادیان، چنائی، کلکتہ، کیرولائی، بنگلور، پنج گاڑی، کمبٹور ، آسنور ہیں.اللہ تعالیٰ اس نئے سال میں قربانی کرنے والوں کی توفیق کو بھی بڑھائے.جنہوں نے گزشتہ سالوں میں قربانیاں کی ہیں ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور پہلے سے بڑھ کر یہ قربانیاں کرتے چلے جانے والے ہوں.اور آئندہ بھی ہم جماعت کا ہر قدم ترقی پر دیکھنے والے ہوں.انشاء اللہ تعالیٰ.ایک افسوسناک اطلاع ہے.جرمنی کے مکرم ہدایت اللہ ہیویش صاحب 4 جنوری کو منگل کے دن وفات پا گئے تھے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کی پیدائش 1946ء کی تھی.اس لحاظ سے تقریباً چونسٹھ سال یا پینسٹھ سال عمر بنتی ہے، اگر شروع میں تھی تو پینسٹھ سال ، ہاں پینسٹھ سال تقریباً.اور فرینکفورٹ میں ان کی تعلیم ہوئی.
13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم 1974ء میں ان کی شادی ماریشس کی ایک خاتون سے ہوئی جن سے ایک بیٹی ہیں.ان کی یہ اہلیہ 1989ء میں وفات پاگئی تھیں.پھر ان کی دوسری شادی قادیان میں سعید احمد درویش مہار صاحب کی بیٹی سے ہوئی جن سے ان کے تین بیٹے اور بیٹیاں ہیں.بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے.کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کس طرح کیا ؟ اس کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اپنی والدہ کے گھر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سفید روشنی کندھے کے اوپر سے نکل کر کتابوں کی الماری کی طرف جاتی ہوئی نظر آئی جس میں سینکڑوں کتابیں ترتیب سے پڑی ہوئی تھیں.وہ روشنی ایک کتاب پر آکر رُک گئی.آپ نے جب اٹھا کر اس کتاب کو دیکھا تو وہ جرمن ترجمہ قرآن تھا.آپ قرآنِ کریم کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پڑھنے لگے اور قرآن میں کچھ حصہ پڑھنے کے ساتھ ہی آپ کو یقین ہو گیا کہ خدا تعالیٰ اپنی کتاب کے ذریعے بول رہا ہے.اور یہ کتاب سچی ہے اور مجھے اسے قبول کر لینا چاہئے.چنانچہ اسلام قبول کر لیا.یہ خیال آتے ہی پھر اس کے بعد مسجد کی تلاش شروع کر دی اور مسجد نور کا ان کو پتہ لگ گیا.اس طرح جماعت سے رابطہ ہوا اور مبلغ سلسلہ مکرم مسعود جہلمی صاحب مرحوم سے تعلقات ہوئے.انہوں نے بڑی محبت و شفقت سے ان کو اسلام اور احمدیت کا تعارف کروایا.1969ء میں یہ بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے آپ کا نام ہدایت اللہ رکھا.1970ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث "جب فرینکفورٹ تشریف لے گئے تھے تو وہاں آپ کی حضور سے ملاقات ہوئی.امیر صاحب جرمنی بھی ان کے ذریعہ سے ہی احمدی ہوئے کیونکہ انہوں نے ان کو کافی تبلیغ کی.کیونکہ وہ حق کی تلاش میں قادیان میں گئے تھے اور وہاں یہ بھی جر من تھے اس لئے انہوں نے ان کو ساتھ لے کر سارا قادیان پھر ایا اور تبلیغ کی.ہمیشہ یہ مترجم کے طور پر اور خلفاء کے مترجم کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے.بڑے درویش صفت اور نیک اور مخلص انسان تھے.خدا پر توکل انتہا کو پہنچا ہوا تھا.یعنی ایسے تھے جو بعد میں آئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تو کل اور ایمان اور یقین اور وفا اور محبت اور اخلاص میں وہ بہتوں سے آگے بڑھ گئے.خلافتِ احمدیہ سے ان کو عشق تھا.وفا کا تعلق تھا.یعنی کسی بھی معاملے میں ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں کرنا چاہتے تھے.اگر ایم.ٹی.اے پر خطبہ وغیرہ آرہا ہو تا یا کوئی پروگرام خلیفہ وقت کا آرہا ہو تا تو فوری طور پر بچوں کو چپ کر ادیتے اور خاموشی سے سننے کا کہتے اور خود بھی سنتے.نمازوں میں انہماک انتہا کو تھا.تہجد گزار ، نوافل پڑھنے والے.مجھے یاد ہے گزشتہ سال میں نے وہاں جرمنی میں ایک دن کی ایک شوری بلائی تھی.جرمن زبان میں جماعت کی طرف سے ہی ایک رسالہ وہاں شائع ہوا تھا لیکن اس میں کچھ ایسا مواد تھا جس سے بعض لوگوں کو تحفظات تھے.بہر حال اس میں اس بارے میں ڈسکشن ہو رہی تھی اور مجھے وہ تحفظات صحیح لگ رہے تھے.حالا نکہ ہدایت اللہ صاحب کا اس رسالے میں بڑا رول تھا اور ان کی خواہش تھی اور ان کے کچھ ان کی بچیوں کے بھی مضامین بھی اس میں تھے.بعض دوسروں نے تو اس رسالہ کے حق میں بول کے اس کے مضامین کو Justify کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ہدایت اللہ صاحب کھڑے ہوئے اور پہلی بات انہوں نے یہی کی کہ جن غلطیوں کی نشاندہی آپ کر رہے ہیں بالکل صحیح ہے اور میں اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں اور بہتر یہی ہے کہ اس پر غور کیا
خطبات مسرور جلد نهم 14 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء جائے.کوئی چوں چرا انہیں تھی کہ یہ ہونا چاہئے، وہ ہونا چاہئے.یا کسی بھی قسم کی تجویز نہیں دی کہ میں اب کیا کہتا ہوں.simple اعتراف تھا کہ ہمارے سے غلطی ہوئی ہے اور ہم معافی چاہتے ہیں.تو یہ ان کے اندر روح تھی.اس ایک سال میں بڑی عید وہاں کی تو خاص طور پر بڑا زور دے کے مجھے اپنے گھر بلایا اور پھر اپنے گھر کا ہر کمرہ دکھایا، اپنی لائبریری دکھائی اور سارا گھر تو خوش تھا ہی، ان کی جو خوشی تھی جو باقیوں سے ان کو ممتاز کر رہی تھی وہ دیکھنے والی تھی.خدمت دین کی اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی توفیق عطا فرمائی ہے.جرمن زبان میں اسلام کے بارے میں کا فی کتب لکھی ہیں.میڈیا کے ساتھ ان کا بڑا گہرا تعلق تھا.سوال و جواب کی بہت ساری مختلف مجلسیں غیروں میں جا کے میڈیا پر کرتے تھے.جماعت جرمنی کے پریس سیکرٹری کے طور پر بھی آپ کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی.ایک صاحب علم شخصیت تھے اور ہر طرح سے کہنا چاہئے، جو بھی انسان میں ، ایک مومن میں خصوصیات ہونی چاہئیں وہ ان میں پائی جاتی تھیں.ایم.ٹی.اے جرمن سٹوڈیو کے فعال رکن تھے اور جر من پروگراموں کی یہ جان سمجھے جاتے تھے.جرمن زبان میں تبلیغی اور تربیتی لٹریچر کا ایک بڑا خزانہ انہوں نے جماعت جرمنی کے لئے چھوڑا ہے.جرمنی کے اخبارات اور متعدد ٹی وی چینلز پر اسلام اور احمدیت کا موقف بھر پور انداز میں پیش کرنے کی توفیق ملی.اور جرمن زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی ان کو عبور تھا.جرمن اور انگلش دونوں میں نظمیں بھی لکھا کرتے تھے.جامعہ احمدیہ میں جرمن زبان آج کل پڑھا رہے تھے اور بڑی محنت سے یہ فریضہ انجام دے رہے تھے.جیسا کہ میں نے کہا کہ نظمیں لکھتے تھے.بڑے اچھے شاعر تھے.ان کی شاعری کی کتب بھی شائع ہوئی ہیں.تقاریر بھی جلسے پر کیا کرتے تھے.قرآنِ کریم سے انہیں بے انتہا محبت تھی.اللہ تعالیٰ کی ذات پر بے انتہا اعتماد تھا.کسی مشکل یا پریشانی میں ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ دعا کرو.نمازوں کی پنجوقتہ ادائیگی کے علاوہ نوافل اور تہجد کی طرف بھی التزام تھا.مالی قربانی کی طرف بھی توجہ رہتی تھی.ان کی بیٹی نے مجھے لکھا کہ کئی دفعہ کوئی مسئلہ ہو تا تھا تو ان کا پہلا جواب یہ ہو تا تھا کہ خلیفہ وقت کو دعا کے لئے خط لکھو اور خود دعاؤں میں جت جاؤ.اس کا ایک ہی حل ہے.ان کی تصنیفات جو جماعت سے باہر کی تصنیفات ہیں ان میں آنحضرت صلی علم کی تعلیمات کے جرمن زبان میں دو ایڈیشن ہیں.اسلام کے بارے میں ننانوے سوالات اور ان کے جوابات، اس کا بھی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے.پھر ہے اسلام میں عورت کا مقام، یہ تیسری کتاب ہے اس میں کچھ سوالات اور ان کے جواب ہیں.اسی طرح اسلام میں ”جنت اور جہنم کا تصور ہے اور بھی بہت ساری کتابیں ہیں جو تقریباً بارہ کے قریب کتب ہیں جو انہوں نے مختلف مضامین پر لکھیں اور جو ان کی احمدیت سے باہر شائع ہوئی ہیں.اور جماعتی طور پر جو ان کی کتب ہیں ان کی تعداد تقریباً چار ہے.اس کے علاوہ میگزین وغیرہ تھے، جن میں قادیان دارالامان اور پھر عورت کے کردار کے بارے میں کتاب تھی کہ اسلام میں عورت کا کردار.پھر اسلامی نظموں کے مجموعے ہیں.باقاعدہ جماعتی میگزین میں ان کے مضامین ہوتے تھے.مختلف موضوعات پر کتابچے اور بروشر جو ہیں ان کی تعداد تقریباً ایک سو ہیں ہے.ٹی وی پروگرام اور ٹاک شوز میں شامل ہوتے رہے.جرمنی کے ایک مشہور یہودی کا پروگرام تھا جس کا 66
خطبات مسرور جلد نهم 15 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء موضوع تھا اسلام کتنا خطرناک ہے ؟“ اس میں شامل ہوئے اور اسلام کا دفاع کیا.پھر ان کا ایک ٹاک شو تھا ” کیا اسلام قبول کرنے والے انتہا پسند ہیں ؟“ اس میں بھی انہوں نے بڑا کر دار ادا کیا.غرض کہ کافی ٹی وی پروگرام ان کے تھے.قومی ، بین الا قوامی سیاستدانوں اور اہم دانشوروں اور ادیبوں فنکاروں سے ، صحافیوں سے آپ کے رابطے بھی تھے.اسلام کے ناقدین کے علاوہ اخباروں، رسالوں اور پبلشروں سے بھی رابطے رہتے تھے.جرمنی کے ، بڑے روزنامے "Die Welt" میں آپ کے مضامین چھپتے رہے.آپ کی وفات پر جرمنی کے سولہ اخبارات نے خبر دی ہے اور ان میں کئی بڑے قومی اخبارات شامل ہیں.بہت سے مضامین میں آپ کو مسلمان ہونے والی سب سے مشہور شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا.حیسن صوبہ کے وزیر برائے مذہبی ہم آہنگی نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ اسلام اختیار کرنے والوں میں سب سے مشہور شخصیت تھے.فرینکفرٹ نیو پر میں نے لکھا ہے کہ آپ ایک شاعر اور مبلغ تھے ، ادب کے نوبل انعام یافتہ گنٹر کر اس (Gunter Grass) نے آپ کو 1960ء کی دہائی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا ہے.آخری نظم جو آپ نے لکھی تھی اس میں آپ آنحضرت صلی اللہ کا نہایت ادب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ آپ کی بدولت مجھے سچے اور پاک دین کو قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کر تا چلا جائے.آپ کی جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایک اہلیہ ہیں اور آٹھ بچے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا بھی نگہبان ہو.ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلائے.ایک دو بچیاں تو ہیں جو جماعت کی خدمات کر رہی ہیں.تمام بچے ان کی خواہش کے مطابق جماعت کے خادم بنیں اور وفا کا جو تعلق انہوں نے جماعت کے ساتھ اور خلافت کے ساتھ رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی اس میں بڑھاتا چلا جائے.اسی طرح میں جرمنی کے احمدیوں کو، نوجوان نسل کو بھی کہتا ہوں کہ جرمن ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے احمدی مسلمان ہونے کا ایک حق ادا کیا تو آپ لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور جرمنی میں اور یورپ میں جہاں بھی اسلام کے دفاع کی ضرورت ہے آگے بڑھیں، علم حاصل کریں اور سیکھیں اور ان کی زبان میں ان کو بیان کریں اور اسلام کا دفاع کریں.نہ صرف دفاع کریں بلکہ اسلام کی خوبیاں بیان کر کے اسلام کی برتری تمام مذاہب پر ثابت کریں.یہاں ایک وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں.ہدایت اللہ صاحب جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے لیکن بعض دفعہ کسی کے مقام کو بعض لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس سے دوسروں کے ذہنوں میں بعض سوال اٹھنے لگ جاتے ہیں.یہ تاثر بھی بعض جگہ سے ملا ہے کہ منگل کے روز جو سورج گرہن ہوا تھا شاید سورج
خطبات مسرور جلد نهم 16 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 جنوری 2011ء گرہن کا وہ وقت تھا اور ان کی وفات کا جو وقت تھا وہ ایک ہی تھا یا شاید اس سے سورج گرہن کی بھی کوئی نسبت ہو.اس قسم کی باتوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں.ایک حدیث میں آتا ہے ”حضرت مغیرہ بن شعبہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم کے زمانے میں آپ کے صاحبزادے ابراہیم علیہ نام کی وفات کے دن سورج کو گرہن لگا تو بہت سے لوگ کہنے لگے کہ سورج کو ابراہیم کی وفات کی وجہ سے گرہن لگا ہے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گر ہن نہیں لگتا.جب تم گر ہن دیکھو تو نماز پڑھو اور دعائیں کرو.“ (بخاری کتاب الكسوف باب الصلوة في كسوف الشمس حديث:1040) تمہار ا صرف یہ کام ہے.پس کبھی گرہن دیکھیں تو یہ اصل طریق ہے جو آنحضرت صلی الم نے فرمایا ہے کہ نماز کسوف و خسوف پڑھی جائے.گرہن کی نماز پڑھی جائے.دنیا میں اس دن اور بھی بہت سارے لوگ فوت ہوئے ہوں گے ، پیدا بھی ہوئے ہوں گے اور ہر ایک نے کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی مقام دیا ہوتا ہے.پھر تو ہر ایک جو بھی ان کے اپنے قریبی ہیں، پیارے ہیں، ان کے بارے میں یہی کہیں گے کہ چاند گرہن، سورج گرہن جو لگا ہے وہ اس وجہ سے لگا ہے کہ فلاں کی وفات ہوئی ہے یا فلاں پیدا ہوا ہے.اس سے غلط قسم کی بدعات راہ پاتی ہیں.اس لئے احمدیوں کو ہمیشہ ان سے بچنا چاہئے.صرف وہ کریں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے.اس کے علاوہ میں دعا کی ایک تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں.کل مردان میں مخالفین احمدیت نے پھر ہمارے بعض احمدیوں پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے ہمارے ایک نوجوان میاں وجیہ احمد نعمان جو میاں بشیر احمد صاحب مردان کے بیٹے ہیں.پچیس سال ان کی عمر ہے.ان کے کولہے پر گولی لگی ہے.زخمی ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور دشمنوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 جنوری 2011 ء تا 3 فروری 2011 ءجلد 18 شمارہ 4 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 17 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء بمطابق 14 صلح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: خُذِ الْعَفْوَ وَأَمُرُ بِالْعُرْفِ وَاعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ (الاعراف 200).عفو اختیار کر ، اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر.آنحضرت صلی ال ولیم کے بارہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس فقرے نے کہ كَانَ خُلُقُهُ القرآن.(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحه 144 حديث: 25108) یعنی آپ کی زندگی قرآنی احکام اور اخلاق کی عملی تصویر تھی.آپ کے اعلیٰ ترین اخلاق کے وسیع سمندر کی نشاندہی فرما دی کہ جاؤ اور اس سمندر میں سے قیمتی موتی تلاش کرو.اور خلق عظیم کے جو موتی بھی تم تلاش کرو گے اس پر میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی للی کم کی مہر ثبت ہو گی.یہ ہے وہ مقام خاتمیت نبوت جو الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة: 4) کے خدائی ارشاد میں ہمیں نظر آتا ہے.پس دین کا کمال اور نعمت کا پورا ہونا آنحضرت صلی کم پر آخری شرعی کتاب اتار کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں پورا فرما دیا.پس آپ سے زیادہ کون اس الہی کتاب کو سمجھنے والا اور اپنے رب کے منشاء کو سمجھنے والا ہو سکتا ہے ؟ آپ صلی ایم کی زندگی کا ہر پہلو جہاں قرآن کی عملی تصویر ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہمارے لئے اسوہ حسنہ بھی ہے.اس وقت میں آپ کے سامنے آنحضرت صلی علیکم کی سیرت کے ایک حسین پہلو کی چند جھلکیاں پیش کروں گا جس نے نیک فطرت لوگوں کو تو آپ کے عشق و محبت میں بڑھا دیا.اور منافقین کے گند سے صرف نظر کرتے ہوئے جب آپ نے یہ خُلق دکھایا کہ وَاَعْرِضْ عَنِ الجهلِينَ تو دنیا پر ان لوگوں کی فطرت واضح ہو گئی.یہ خُلق جس کے بارے میں میں بیان کرنا چاہتا ہوں یہ عفو “ ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں.بہت بری طرح ستایا گیا.مگر ان کو اَغْرِضْ عَنِ الجهلِينَ (الاعراف: 200) کا ہی خطاب ہوا.خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللی علوم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں ، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں.مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا؟ ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور ( علی ) کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.“ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 99) کہنے کو تو یہ ایک عام سی بات ہے لیکن مسلسل ظلموں سے خود بھی اور اپنے صحابہ کو بھی گزرتے ہوئے دیکھنا، اور پھر جب طاقت آتی ہے تو عفو کا ایک ایسا نمونہ دکھانا جس کی مثال جب سے کہ دنیا قائم ہوئی ہے ہمیں نظر نہیں آتی ، یہ آنحضرت صلی اللہ کل کا ہی خاصہ ہے.پھر منافقین اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کے مقابل پر آپ نے تحمل اور برداشت کا اظہار فرمایا.یہ بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے.اگر انصاف کی نظر سے دیکھنے والا کوئی تاریخ دان ہو تو باوجود مذہبی اختلاف کے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ کی برداشت اور عفو اور ہر خلق کا نمونہ بے مثال تھا.اور لکھنے والے جنہوں نے لکھا ہے بعض ہندو بھی ہیں اور بعض عیسائی بھی.بہر حال اس وقت میں چند واقعات بیان کرتا ہوں جو آنحضرت صلی ایم کے عفو کے خلق عظیم پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں.پہلے میں عبد اللہ بن اُبی بن سلول کے واقعات لیتا ہوں، جو رئیس المنافقین تھا.ظاہر میں گو آنحضرت صل ال کم کی اطاعت کو منظور کر لیا تھا لیکن آنحضرت صلی کم کی ذات پر غلیظ حملے کرنے کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑتا تھا.مدینہ میں رہتے ہوئے مسلسل یہ واقعات ہوتے رہتے تھے.اس کی دشمنی اصل میں تو اس لئے تھی کہ آنحضرت مصلی ام کے مدینہ ہجرت سے پہلے مدینہ کے لوگ اسے اپنا سر دار بنانے کا سوچ رہے تھے لیکن آپ کی مدینہ آمد کے بعد جب آپ میلی لی تم کو ہر قبلے اور مذہب کی طرف سے سر براہ حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تو یہ شخص ظاہر میں تو نہیں لیکن اندر سے ، دل سے آپ میلی لی ایم کے خلاف تھا اور اس کی مخالفت مزید بڑھتی گئی، اس کا کینہ اور رنجشیں مزید بڑھتی گئیں.ایک روایت میں آپ صلی اللہ ظلم کے مدینہ جانے کے بعد اور جنگ بدر سے پہلے کا ایک واقعہ ملتا ہے جس سے عبد اللہ بن ابی بن سلول کے دل کے بغض اور کینے اور اس کے مقابلے پر آپ کے صبر کا اظہار ہوتا ہے.اور یہ اظہار جو دراصل عفو تھا، یہ عفو اور آپ صلی الی یکم کا رد عمل ظاہر ہوتا ہے.بہر حال روایت میں آتا ہے.امام زہری روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی علیکم فدک کے علاقہ کی ایک چادر ڈال کر گدھے پر سوار ہوئے اور اپنے پیچھے اسامہ بن زید کو بٹھایا اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
19 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کی عیادت کے لئے بنو حارث بن خزرج میں واقعہ بدر سے پہلے (یعنی جنگ بدر سے پہلے) تشریف لے جارہے تھے تو ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبد اللہ بن اُبی بن سلول بیٹھا ہوا تھا.اس نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا.آنحضور صلی اللہ ہم نے دیکھا کہ اس مجلس میں مسلمان بھی بیٹھے ہیں ، بُت پرست بھی ہیں اور یہودی بھی بیٹھے ہیں اور اسی مجلس میں عبد اللہ بن رواحہ بھی بیٹھے ہوئے تھے.جب اس مجلس پر گدھے کے پاؤں سے اٹھنے والی دھول پڑی تو عبد اللہ بن اُبی بن سلول نے اپنی چادر سے ناک کو ڈھانک لیا.پھر کہا ہم پر مٹی نہ ڈالو.پھر رسول اللہ صلی علیکم نے ان سب لوگوں کو سلام کیا.پھر رُک گئے اور اپنی سواری سے اترے اور ان کو دعوت الی اللہ کی.اُن کو قرآن پڑھ کر سنایا.اس پر عبد اللہ بن ابی بن سلول نے کہا اے صاحب! جو بات تم کہہ رہے ہو ، وہ اچھی بات نہیں ہے اور اگر یہ حق بات بھی ہے تو ہمیں ہماری مجلس میں سنا کر تکلیف نہ دو.اپنے گھر میں جاؤ اور جو شخص تمہارے پاس آئے اسے قرآن پڑھ کر سنانا.عبد اللہ بن اُبی بن سلول کی یہ باتیں سن کر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا.کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ ہماری مجالس میں آکر قرآن سنایا کریں کیونکہ ہم قرآن کو سننا پسند کرتے ہیں.یہ سننا تھا کہ مسلمان اور مشرک اور یہود سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح بحث میں الجھ گئے کہ لگتا تھا کہ ایک دوسرے کے گلے پکڑ لیں گے.آنحضرت صلی لی نام ان کو مسلسل خاموش کرواتے رہے اور وہ چپ ہو گئے.جب خاموش ہو گئے تو آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور سعد بن عبادہ کے پاس پہنچے اور اس کو جا کر بتایا کہ ابو حباب یعنی عبد اللہ بن ابی بن سلول نے کیا کہا ہے ؟ اس نے یہ بات کی ہے.تو سعد بن عبادہ نے عرض کی.یارسول اللہ ! اس عفو اور درگزر کا سلوک فرمائیں.اُس ذات کی قسم جس نے آپ پر قرآنِ کریم جیسی عظیم کتاب نازل کی ہے.اللہ تعالیٰ اس حق کو لے آیا جس کو اس نے آپ پر نازل فرمایا.اس سر زمین کے لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن أبي بن سلول کو تاج پہنا کر اپنا بادشاہ بنائیں اور اس کے دست و بازو کو مضبوط کریں.پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس فیصلے سے اس حق کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے انکار کر دیا تو اس سے اس کو بڑا دکھ پہنچا.اس وجہ سے اس نے آپ سے یہ بد سلوکی کی ہے.رسول اللہ صلی اللی کرم نے اس سے عفو کا سلوک فرمایا.ނ (بخاری کتاب الاستيذان باب التسليم في مجلس فيه اخلاط......حديث: 6254) یہ اس وجہ سے نہیں فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے بات کی تھی کہ عفو کا سلوک فرمائیں بلکہ آپ نے اس کو یہ بتانے کے لئے بات کی تھی کہ آج اس نے اس طرح میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے لیکن میں تو بہر حال عفو کا سلوک کرتا چلا جاؤں گا.آگے پھر لکھا ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ مشرکوں اور اہل کتاب سے در گزر کا سلوک فرماتے تھے جیسا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا.اور وہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتے تھے.لیکن کچھ عرصہ بعد جب عبد اللہ بن ابی بن سلول بظاہر مسلمان ہوا تو اپنی منافقانہ چالوں سے آپ کو تکلیف پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کرتارہتا تھا.ایک روایت میں آتا ہے.جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ کسی غزوہ کے
20 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لئے گئے ہوئے تھے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مارا.اس پر اس انصاری نے بآواز بلند کہا کہ اے انصار! میری مدد کو آؤ اور مہاجر نے جب معاملہ بگڑتے ہوئے دیکھا تو اس نے بآواز بلند کہا کہ اے مہاجر و! میری مدد کو آؤ.یہ آوازیں رسول اللہ صلی علیم نے سن لیں.تو آپ نے دریافت فرمایا.یہ کیا زمانہ جاہلیت کی سی آوازیں بلند ہو رہی ہیں ؟ اس پر آنحضور صلی اللہ ہم کو بتایا گیا کہ یارسول اللہ ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مار دیا تھا.آنحضور صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ ایسا کرنا چھوڑ دو.یہ ایک بُری بات ہے.بہر حال پانی پینے کے او پر یہ جھگڑا شروع ہو گیا تھا کہ میں پہلے پہیوں گا، اُس نے کہا پہلے میں.بعد میں یہ بات عبد اللہ بن ابی بن سلول رئیس المنافقین نے سنی تو اس نے کہا مہاجرین نے ایسا کیا ہے؟ اللہ کی قسم اگر ہم مدینہ لوٹے تو مدینہ کا معزز ترین ص مدینہ کے ذلیل ترین شخص کو نکال باہر کرے گا (نعوذ باللہ ).عبد اللہ بن ابی بن سلول کی یہ بات رسول اللہ صلی ال نیم کو معلوم ہو گئی.یہ سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہا یار سول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کا سر قلم کر دوں.حضرت عمر کی بات سن کر آنحضور صلی ا ہم نے فرمایا.اُس سے در گزر کر و.کہیں لوگ یہ باتیں نہ کہنے لگ جائیں کہ محمد علی امین کی اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے.(بخاری کتاب التفسير سورة المنافقين - باب قوله سواء عليهم استغفرت لهم ام لم تستغفر لهم_حديث 4905) اس کے باوجود کہ اس کی ایسی حرکتیں تھیں، آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس کو اپنا سا تھی کہا ہے.کیونکہ جب تک وہ ظاہر آ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہا تھا.روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کو بلوا کر پوچھا کہ اس طرح مشہور ہوا ہے.یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ سب اس بات سے مکر گئے.ان میں بعض انصار تھے انہوں نے بھی سفارش کی اور کہا کہ شاید زید کو جو چھوٹے تھے ، جنہوں نے یہ بتایا تھا کہ اُن کے سامنے یہ بات ہوئی ہے غلطی لگی ہو گی.بہر حال آنحضرت صلی لی ایم نے ان لوگوں کو مزید کچھ نہیں پوچھا.جب اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو وحی کے ذریعے بتادیا کہ یہ واقعہ سچ ہے تو سب دنیا کو ، اُس وقت کے لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ بہر حال یہ سچ ہے.قرآنِ کریم میں اس کا ذکر یوں آتا ہے کہ يَقُولُونَ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْآعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَ وَ لِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون: 9) ترجمہ اس کا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں گے تو ضر ور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اسے جو سب سے زیادہ ذلیل ہے اس میں سے نکال باہر کرے گا.حالانکہ عزت تمام تر اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور مومنوں کی.لیکن منافق لوگ جانتے نہیں.اب اس وحی کے بعد آپ سے زیادہ کون جان سکتا تھا کہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول جو ہے وہ جھوٹا اور منافق ہے.بلکہ آپ کی فراست پہلے سے ہی یہ علم رکھتی تھی کہ یہ منافق ہے لیکن آپ نے صرف نظر فرمایا.بلکہ مدینہ داخل ہونے سے پہلے جب عبد اللہ بن ابی کے بیٹے نے جو ایک مخلص مسلمان نوجوان تھا آپ کے سامنے عرض کی کہ یہ بات میں نے سنی ہے.اور اگر آپ صلی یام کا ارادہ ہے کہ اس کو قتل کرنا ہے تو مجھے حکم دیں کہ میں الله سة
خطبات مسرور جلد نهم 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء اپنے باپ کی گردن اڑا دوں.کیونکہ اگر کسی اور نے اسے قتل کیا یا سزادی تو پھر کہیں میری زمانہ جاہلیت کی رگ نہ پھڑک اٹھے اور میں اُس شخص کو قتل کر دوں جس نے میرے باپ کو قتل کیا ہو.تو آپ نے فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے.کسی قسم کی کوئی سزا دینے کا میں ارادہ نہیں رکھتا.بلکہ فرمایا کہ میں تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا.نہ صرف یہ کہ سزا نہیں دوں گا بلکہ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا.(السيرة النبوية لابن هشام غزوہ بنی المصطلق، طلب ابن عبدالله بن أبي ان يتولى قتل ابيه......صفحه 672 دارالکتب العلمية بيروت ایڈیشن 2001ء) پھر یہی سفر تھا جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غلطی سے پیچھے رہ گئی تھیں.جب قافلہ نے اپنی جگہ سے کوچ کیا تو بعد میں ایک صحابی نے، جو قافلہ چلے جانے کے بعد میدان کا جائزہ لے رہے تھے کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی ، آپ کو دیکھا.حضرت عائشہ اس وقت سوئی ہوئیں تھیں تو انا للہ پڑھا جس سے آپ کی آنکھ کھل گئی.آپ نے فوراً اپنے اوپر چادر اوڑھ لی.اُن صحابی نے اپنا اونٹ لا کر پاس بٹھا دیا اور آپ اس اونٹ پر بیٹھ گئیں.جب یہ لوگ قافلے سے ملے ہیں تو انہی منافقین نے حضرت عائشہ کے بارہ میں طرح طرح کی افواہیں پھیلا نا شروع کر دیں.غلط قسم کے الزام (نعوذ باللہ ) حضرت عائشہ پر لگائے گئے.آپ صلی علیہ تم کو یہ باتیں سن کر بڑی بے چینی تھی.حضرت عائشہ پر الزام لگانا اصل میں تو آنحضرت صلی للی کم کو ہی نقصان پہنچانے والی بات تھی یا کوشش تھی.جب یہ واقعہ ہو گیا اور مدینہ پہنچ گئے تو ایک دن آپ نے مسجد میں تشریف لا کر تقریر فرمائی اور فرمایا جس کا ایک پہلا فقرہ یہ تھا کہ مجھے میرے اہل کے بارہ میں بہت دُکھ دیا گیا ہے.لیکن آپ نے منافقین کے ان الزامات کو برداشت کیا.(بخاری کتاب المغازى باب حديث انك حديث نمبر 4141) اور جنہوں نے یہ الزام لگائے تھے ان کو فوری سزا نہیں دی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب حضرت عائشہ کی بریت کی وحی ہوئی تو تب بھی ان لوگوں کو کوئی سزا نہیں دی جن کے بارہ میں یہ پتہ تھا کہ الزامات لگارہے ہیں بلکہ عفو سے کام لیا.بلکہ روایات میں آتا ہے جب عبد اللہ بن اُبی فوت ہوا تو اس کے بیٹے نے ( جو ایک مخلص مسلمان تھا جیسا کہ میں نے کہا) آنحضرت صلی یی کم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ اپنا کرتہ مجھے عنایت فرمائیں تاکہ اس کرتے میں میں اپنے باپ کو دفناؤں، کفناؤں.آپ نے وہ کر تہ عطا فر مایا.بلکہ آپ کی شفقت اور عفو کا یہ حال تھا کہ آپ اس کے جنازہ کی نماز کے لئے بھی تشریف لائے اور جنازہ پڑھایا.قبر پر دعا کرائی.حضرت عمررؓ نے عرض کی کہ آپ کو ان تمام باتوں کا علم ہے کہ یہ منافق ہے اور منافق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے اور مغفرت طلب کرے تو ان کی مغفرت نہیں ہو گی.آنحضرت علی کرم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک اجازت بھی دی ہوئی ہے.میں کوشش کروں گا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں یعنی کثرت سے کروں گا.اُس کے لئے اگر مجھے اس سے زیادہ بھی بخشش طلب کرنا پڑی تو کروں گا.یہ تھا آپ کا اُسوہ جو آپ نے اُن منافقین کے ساتھ بھی روا رکھا.(بخاری کتاب التفسير باب قوله استغفر لهم او لا تستغفر لهم.حدیث (4670)
خطبات مسرور جلد نهم 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء یہ واقعہ تو میں نے بتایا کہ جس میں رئیس المنافقین کے ساتھ عفو اور بخشش کا سلوک ہے.اب بعض دوسری مثالیں پیش کرتا ہوں.مثلاً اُجڈ، غیر تربیت یافتہ بعض بدؤوں کے اخلاق ہیں جو ادب سے گری ہوئی حرکات کیا کرتے تھے.آنحضرت صلی علیم کے مقام کو نہیں پہنچانتے تھے.ان پر آپ کس طرح عفو فرماتے تھے.اس بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی کم کی معیت میں تھا.آپ نے ایک موٹے حاشیہ والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی.ایک بدوی نے آپ کی چادر کو اتنی زور سے کھینچا کہ اس کے حاشیہ کے نشان آپ کے کندھے پر پڑ گئے.پھر اس نے کہا اے محمد ! صلی للی ) مجھے اللہ تعالیٰ کے اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے یہ دو اونٹ دے دیں.آپ نے مجھے کوئی اپنا یا اپنے والد کا مال تو نہیں دینا؟ اُس کی ایسی کرخت باتیں سن کر پہلے تو نبی صلیالم خاموش رہے پھر فرمایا: الْمَالُ مَالُ اللهِ وَ أَنَا عَبْدُه که مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں.پھر آنحضور صلی کم نے فرمایا کہ تم نے جو مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا تم سے بدلہ لیا جائے گا.اُس بدوی نے کہا مجھے سے اس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا.آنحضرت صلی الی یکم نے فرمایا.تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا ؟ اس بدوی نے کہا.اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے.اس کا یہ کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی ال کی ہنس پڑے، تبسم فرمایا ( تو نرمی کا، عفو کا جو سلوک تھا، پتہ تھا.اسی نے ان لوگوں میں جرآت پیدا کی تھی کہ جو دل چاہے کر دیں).پھر آنحضور صلی الی یوم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے مطلوبہ دو اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دیں.اور وہ اس کو عنایت فرمائیں.(الشفاء لقاضي عياض الباب الثانى فى تكميل الله تعالى - - - الفصل و اما الحلم صفحه 74 جزء اول دار الكتب العلمية بيروت (2002ء) کرتا ہوں.پھر آپ نے مخالفین اسلام کے ساتھ کس طرح عفو فرمایا، کیا سلوک فرمایا ہو گا.اس کی چند مثالیں پیش حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ قریش مکہ کے اتنی آدمی رسول اللہ صلی ال یکم اور آپ کے صحابہ پر نماز فجر کے وقت اچانک جبل تنعیم سے حملہ آور ہوئے.اُن کا ارادہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی ال یکم کو قتل کر دیں مگر ان کو پکڑ لیا گیا.بعد میں رسول اللہ صلی ا ہم نے اُن کو معاف کرتے ہوئے چھوڑ دیا.(سنن الترمذى كتاب تفسير القرآن باب ومن سورة الفتح حديث نمبر (3264 اب اس قسم کی معافی کی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے کہ جنگی مجرم ہیں لیکن سرا پا شفقت و عفو ان کو بھی معاف فرمارہے ہیں کہ جاؤ تمہارے سے کوئی سرزنش نہیں.تمہیں کوئی سزا نہیں.پھر ایک روایت ہے.ہشام بن زید بن انس روایت کرتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ فرماتے
23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی رسول اللہ صلی علیم کے پاس سے گزرا اور اس نے السَّلَامُ عَلَيْكَ کے بجائے السّامُ عَلَيْكَ یعنی تجھ پر ہلاکت وارد ہو ، کہا.پھر رسول اللہ صل للی نیلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا.تمہیں پتہ چلا ہے کہ اس نے کیا کہا تھا.پھر آنحضور صلی یم نے بتایا کہ اس نے السّامُ عَلَيْكَ کہا تھا.صحابہ رضوان الله عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْن نے یہودی کی یہ حرکت دیکھی تو آنحضرت صلی علیہ کم سے دریافت کیا.کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں ؟ آنحضور صلی الم نے فرمایا کہ نہیں.اسے قتل نہیں کرنا.(بخاری کتاب استتابة المرتدين...باب اذا عرض الذمى وغيره بسب النبى حديث (6926) ایک سبق یہ بھی دے دیا کہ میری شفقت صرف اپنوں پر نہیں، غیر وں پر بھی ہے.جو مجھ پر ظلم کرنے والے ہیں ان پر بھی ہے.سزا صرف ایسے جرموں کی دینا ضروری ہے جن پر حدود قائم ہوتی ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سزا مقرر کی ہوئی ہے، جن کا قرآنِ کریم میں واضح حکم دیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے جن کے بارے میں آپ کو بتایا ہے.پھر آپ اور آپ کے صحابہ کو ایک یہودیہ نے گوشت میں زہر ملا کر کھلانے کی کوشش کی اور اقبال جرم کرنے کے باوجود آپ نے اسے معاف فرما دیا.صحابہ کو غصہ تھا، انہوں نے پوچھا بھی کہ اس کو قتل کر دیں، آپ نے فرمایا نہیں، بالکل نہیں.(بخاری کتاب الهبة باب قبول الهدية من المشرکین.حدیث 2617) یہ ایک لمبی روایت ہے.وحشی کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ کو جنگ اُحد میں شہید کرنے کے بعد میں مکہ میں واپس آگیا.اس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا اور یہیں اپنی زندگی کے دن گزار تارہا، یہاں تک کہ مکہ میں ہر طرف اسلام پھیل گیا.پھر میں طائف چلا گیا.طائف والوں نے رسول اللہ صلی مینیم کے پاس اپنے سفیر بھیجے اور مجھے کہا کہ آنحضرت صلی الی یکم سفیروں سے انتقام نہیں لیتے.چنانچہ میں بھی طائف والوں کے سفیروں کے ساتھ ہو لیا.یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہو گیا.جب آنحضور صلی اللہ کریم نے مجھے دیکھا تو دریافت کیا.کیا تم وحشی ہو ؟ میں نے کہا جی، میں وحشی ہوں.آنحضور صلی ایم نے فرمایا.تم نے ہی حمزہ کو قتل کیا تھا؟ وحشی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی.جیسے آپ نے سنا ہے ایسا ہی معاملہ ہے.یہ کہتے ہیں کہ آنحضور صلی ا ولم نے میری خطائیں معاف کرتے ہوئے مجھے کہا کہ کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو ؟ وحشی کہتے ہیں کہ آنحضور صلی می کنم کے اس ارشاد کے بعد میں مدینہ سے چلا آیا.(بخاری کتاب المغازى باب قتل حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه حديث نمبر 4072) آپ کے عفو کی انتہا کا اس بات سے مزید پتہ چلتا ہے کہ جب آنحضرت صلی ا لم نے وحشی سے حضرت حمزہ کی شہادت کے بارہ میں مزید سوال کئے کہ کس طرح شہید کیا تھا اور پھر کیا کیا تھا؟ تو صحابہ کہتے ہیں کہ اس وقت آپ مکئی ملی یکم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اپنے چاکی یاد تازہ ہونے پر یقینا یہ آنسو نکلے ہوں گے.وہ چھا جس نے ابو جہل کے مقابلہ میں آپ کا ساتھ دیا تھا اور آپ کے حق میں کھڑے ہوئے تھے لیکن حضرت حمزہ کے قاتل سے قدرت رکھنے کے باوجود آپ نے شفقت اور عفو کا سلوک فرمایا اور وحشی کو معاف فرمایا.الكامل في التاريخ لابن اثير جلد 2 سنة ثمان ذكر فتح مكة صفحه 125 مطبوعه دارالکتب العلمية بيروت 2006ء)
خطبات مسرور جلد نهم 24 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء و فتح مکہ کے بعد آنحضور صلی الم نے عکرمہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) بن ابو جہل کے قتل کا حکم دیا تھا.کیونکہ یہ جنگی مجرم تھا اس لئے قتل کا حکم دیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اور ان کا والد نبی صلی یکم اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں سب سے زیادہ شدت اختیار کرنے والے تھے.جب عکرمہ کو یہ خبر ملی کہ نبی صلی للی نظام نے اس کے قتل کا حکم دے دیا ہے تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا.اس کی بیوی جو اس کی چچا زاد تھی اور حارث بن ہشام کی بیٹی تھی اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے پیچھے پیچھے گئی.اس نے اسے ساحل سمندر پر کشتی پر سوار ہونے کا منتظر پایا.انتظار میں کھڑا تھا کہ کشتی آئے تو میں یہاں سے سوار ہو کر جاؤں.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مکرمہ کو اس کی بیوی نے کشتی میں سوار پایا اور اسے اس مکالمے کے بعد واپس لے آئی کہ اے میرے چچا زاد ! میں تیرے پاس سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے، سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والے اور لوگوں میں سے سب سے بہتر (یعنی آنحضرت صلی یکم ) کے پاس سے آئی ہوں.تم اپنے آپ کو برباد نہ کرو.میں نے تمہارے لئے امان طلب کر لی ہے.واپس آ جاؤ.آنحضرت صلی ال ولم تمہیں معاف کر دیں گے.کچھ نہیں کہا جائے گا.عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس آئے اور کہا اے محمد (صلی لی یکی میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے.آنحضور صلی علیکم نے فرمایا: وہ درست کہتی ہے.آپ کو امان دی گئی ہے.اس بات کا سننا تھا کہ عکرمہ نے کہا.اَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّكَ عَبْدَهُ وَرَسُولُهُ.پھر عکرمہ نے شرم کے باعث اپنا سر جھکا لیا.اس پر رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا: اے عکرمہ ! ہر وہ چیز جو میری قدرت میں ہے اگر تم اس میں سے کچھ مجھ سے مانگو تو میں تم کو عطا کر دوں گا.عکرمہ نے کہا.مجھے میری وہ تمام زیادتیاں معاف کر دیں جو میں آپ سے کرتا رہا ہوں.اس پر نبی صلى الل ل ا م نے یہ دعا دی کہ اللّهُمَّ اغْفِرْ لِعِكْرَمَةَ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا َو مَنْطَق تكَلَّمَ ہے.کہ اے اللہ ! عکرمہ کو ہر وہ زیادتی جو وہ مجھ سے کرتا رہا ہے بخش دے.یا آپ نے فرمایا کہ اے اللہ ! عکرمہ میرے بارہ میں جو بھی کہتا رہا ہے وہ اس کو بخش دے“.کیا اس جیسی معافی کی کوئی مثال ہے ؟ (السيرة الحلبية لعلامه ابوالفرج نورالدین ذکر فتح مكه شرفها الله تعالى جلد3 صفحه 132 مطبوعه بيروت 2002ء) اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلِّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ - ایک شخص فضالہ بن عمیر فتح مکہ کے موقع پر جب آپ ملی یی یا طواف کر رہے تھے تو آپ کے قریب قتل کی نیت سے آیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے اس منصوبے کی خبر کر دی.آپ نے اسے دیکھ لیا، بلایا تو وہ گھبر ا گیا.پھر آپ نے اس سے پوچھا کہ کس نیت سے آئے ہو.ظاہر ہے جب پکڑا گیا تو اس نے جھوٹ بولنا تھا، بہانے بنانے لگا.آپ مسکرائے اور پیار سے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، بغیر کسی خوف کے کہ ہتھیار اس کے پاس ہے، کس نیت سے وہ آیا ہوا ہے.فضالہ کہتے ہیں کہ جب آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا تو میری تمام نفرت دور ہو گئی.(السيرة النبوية لابن هشام ، تحطيم الاصنام صفحه 747 دار الكتب العلمية بيروت ایڈیشن 2001ء)
25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جس ہستی کے قتل کے ارادے سے میں نکالا تھا اس کے اس دست شفقت نے میرے دل میں اس کی محبت کے دریا بہا دیئے.پس یہ تھا میرے آقا کا اپنے دشمنوں سے سلوک.مجرم پکڑا جاتا ہے تو اسے بجائے سزا دینے کے محبت کے تیر سے اس طرح گھائل کرتے ہیں کہ وہ آپکی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.کیا کوئی اور اس شفقت اور عفو کا مقابلہ کر سکتا ہے ؟ لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی ا ہم تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے.پس ان نمونوں پر چلنا ان کی طرف توجہ دینا آج کے مسلمانوں کا بھی فرض ہے.کاش کہ ان کو سمجھ آجائے.ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ا تم کو جن بھی دو معاملات میں سے ایک کو اختیار کرنے کی اجازت دی گئی، آپ نے اُن میں سے آسان ترین کو اختیار فرمایا سوائے اس کے کہ اسے اختیار کرنا گناہ ہو تا.اور اگر اسے اختیار کرنا گناہ ہو تا تو آپ اس سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ دور بھاگنے والے ہوتے.اور رسول اللہ صلی الیم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا سوائے اس کے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں ناجائز طریق سے داخل ہو تا تو آنحضور صلی ایل میں اس کو اللہ تعالیٰ کی خاطر سزا دیتے.(بخاری کتاب المناقب باب صفة النبى حديث نمبر (3560) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں روایت ہے کہ انہوں نے ایک مر تبہ دورانِ گفتگور سول اللہ لام کو مخاطب کر کے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے والدین آپ پر قربان جائیں.حضرت نوح نے اپنی قوم کے خلاف بد دعا کی تھی اور یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا (نوح:27).اے میرے رب ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ رہنے دے.یا رسول اللہ ! اگر آپ حضرت نوح کی طرح ہمارے لئے بد دعا کرتے تو ہم سب کے سب تباہ ہو جاتے.آپ کی کمر کو لتاڑا گیا.آپ کے چہرے کو خون آلود کیا گیا.آپ کے سامنے کے دانت توڑے گئے مگر آپ نے صرف خیر کی بات ہی کی اور آپ نے یہ دعا کی کہ اللّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِن فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ.اے اللہ میری قوم کو بخش دے، ان کو معلوم نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں.(الشفاء لقاضی عیاض جزء اول صفحه 73 الباب الثانى فى تكميل الله تعالى...الفصل و اما الحلم دار الكتب العلمية بيروت (2002ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : حضرت خاتم الانبیاء صلی علیم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا.اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا.اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پا کر سب کو
خطبات مسرور جلد نهم 26 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 جنوری 2011ء لا تثريب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف:93) کہا.اور اسے عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہو تا تھا.اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے.ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کر لیا.“ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 286-287 حاشیہ نمبر 11) پس یہ آنحضرت صلی اللہ ملک کا فلو تھا جو مخالفوں کی نظر میں بظاہر ایک بہت مشکل بات تھی.کبھی اس طرح کا عفو د کھایا جا سکتا ہے؟.لیکن جب آپ سے یہ حسن سلوک دیکھا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ اسلام قبول کر لیا.کاش آج مسلمان بھی اس نکتہ کو سمجھ لیں تو اسلام کے پیغام کو کئی گنا ترقی دے سکتے ہیں.کاش کہ یہ لوگ شدت پسند گروہوں کے چنگل سے نکل کر اس اسوہ پر غور کریں جو ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صل اللہ ہم نے رکھا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے.آمین الفضل انٹر نیشنل مورخہ 4 فروری تا 10 فروری 2011 ء جلد 18 شماره 5 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 27 3 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء بمطابق 21 صلح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانيه) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج کل پر لیس اور دوسرا الیکٹرونک میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ جو ہے، اس پر مسلم اور غیر مسلم دنیا میں ایک موضوع بڑی شدت سے موضوع بحث بنا ہوا ہے اور یہ ہے ناموس رسالت کی پاسداری یا توہین رسالت کا قانون.ایک سچے مسلمان کے لئے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی علی کم پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے سخت بے چینی کا باعث ہے کہ کسی بھی رسول کی، کسی بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی اہانت کی جائے اور اس کی ناموس پر کوئی حملہ کیا جائے.اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کم کی ذات کا سوال ہو جنہیں خدا تعالیٰ نے افضل الرسل فرمایا ہے تو ایک حقیقی مسلمان بے چین ہو جاتا ہے.وہ اپنی گردن تو کٹوا سکتا ہے، اپنے بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے تو دیکھ سکتا ہے، اپنے مال کو لٹتے ہوئے دیکھ سکتا ہے لیکن اپنے آقا و مولیٰ کی تو ہین تو ایک طرف، کوئی ہلکا سا ایسا لفظ بھی نہیں سن سکتا جس میں سے کسی قسم کی بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا مسلم دنیا میں، خاص طور پر پاکستان میں بعض حالات کی وجہ سے یہ موضوع بڑا نازک موڑ اختیار کر گیا ہے اور اس وجہ سے دنیا کی نظریں آج کل پاکستان پر گڑی ہوئی ہیں.علاوہ اور بہت ساری وجوہات کے یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے.اور مغربی ممالک کے بعض سر بر اہان بھی اور پوپ بھی اس حوالے سے پاکستان کی حکومت سے مطالبات کر رہے ہیں.آج کل یہ مغربی یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک پر لیں میں مسلمانوں کو اور اسلام کو ایک بھیانک، شدت پسند ، عدم برداشت سے پر گروہ اور مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دنیا میں پاکستان، افغانستان یا بعض اور مسلم ممالک کی مثالیں اس حوالے سے بہت زیادہ دی جانے لگی ہیں.بہر حال میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑ رہا کہ ناموس رسالت کے قانون کی مسلمانوں کے نزدیک کتنی اہمیت ہے؟ اور اس کی کیا قانونی شکل ہونی چاہئے؟ یا اس حوالے سے غیر مسلم دنیا کیا فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ؟ اور بعض حالات میں مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 28 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء میں تو آج صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اہل علم کی عزت و ناموس پر اگر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سی بھی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے اس فرمان کہ اِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِعِينَ (الحجر: 96) - یقینا ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تجھے بہت کافی ہیں، کی گرفت میں آجائے گا اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر لے گا.میرے آقائے دو جہان کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عزت و مرتبے کی ہر آن اس طرح حفاظت فرما رہا ہے کہ جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی.آپ صلی الیکم کے مقام، آپ صلی ایم کے مرتبے ، آپ کی عزت کو ہر لمحہ بلند تر کرتے چلے جانے کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے.فرماتا ہے إِنَّ اللهَ وَ مَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ (الاحزاب : 57) یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے سارے فرشتے نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں.پس یہ ہے وہ مقام جو صرف اور صرف آپ کو ملا ہے.یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہیں ہوئے.اور اس مقام کو اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرت کے عاشق صادق نے سمجھا ہے اور ہمیں بتایا ہے.آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی علیکم کا ہی صدق و وفا دیکھئے.آپ نے ہر قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی.یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اِنَّ اللهَ وَمَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سلِمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبی پر “.فرمایا کہ: ”اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے.یعنی آپ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 24، 23 مطبوعہ ربوہ) پس آج یہ صدق و وفا ہے جس کا اُسوہ ہمارے سامنے آنحضرت صلی علیم نے قائم فرمایا ہے.یہ صدق و وفا کا تعلق آنحضرت صلی ا لم نے کس سے دکھایا؟ یہ تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے دکھایا.پس اگر ہم نے آنحضرت صلی یکم کی پیروی کرنی ہے اور آپ کی اُمت کے ان افراد میں شامل ہونا ہے جو مومن ہونے کا حقیقی حق ادا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں صدق و وفا کے ساتھ اُن باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جن کا حکم ہمیں خدا تعالیٰ
29 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نے دیا ہے.اپنی زبانوں کو آنحضرت صلی علیم پر درود بھیجنے سے تر رکھنا ہے تاکہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکیں، تا کہ ہم اُن برکتوں سے فیض پاسکیں جو اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی کے ساتھ وابستہ ہیں.جیسا کہ آنحضرت علی الی ظلم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تمام حدود و قیود سے باہر تھی.اس لئے آپ کو یہ مقام ملا کہ اللہ اور اس کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہیں.اور اس لئے مومنوں کو بھی حکم ہے کہ درود بھیجیں اور درود بھیجتے ہوئے اُن احسانات کو سامنے رکھیں جو آنحضرت صلی اللہ ہم نے ہم پر کئے.ہمیں ایک ایسے دین سے آگاہ کیا جو خدا تعالیٰ سے ملانے والا ہے.ہمارے سامنے وہ اخلاق رکھے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہیں.جہاں آپ صلی ا رام نے خدا تعالیٰ کی غیرت اور توحید کے قیام کے لئے نمونے قائم کئے تو عبد کامل بن کر عبادتوں کے حق بھی ادا کئے.اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کا بے مثال اسوہ بھی ہمارے سامنے پیش فرمایا.قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کو ہر حالت میں سچائی پر چلنے ، امانت و دیانت کا حق ادا کرنے ، اپنے عہدوں کو پورا کرنے ، رحمی رشتوں کا پاس کرنے ، مخلوقِ خدا کی ہمد ردی اور اُن سے محبت اور شفقت کا سلوک کرنے، صبر اور حوصلہ دکھانے ، عفو کا سلوک کرنے، عاجزی اور انکساری دکھانے اور ہر حالت میں خدا تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے علاوہ بہت سارے احکامات ہیں تو اس کی اعلیٰ ترین مثالیں بھی آپ نے ہمارے سامنے قائم فرمائیں.پس مومن کا یہ فرض ہے کہ جب اپنے سید و مولی صلی کم پر درود بھیجے تو ان نمونوں کو قائم کرنے کی کوشش کرے ، تب اُس صدق و وفا کا اظہار ہو گا جو ایک مومن اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی للی کم سے کرتا ہے.اور پھر آپ کے واسطے سے خدا تعالیٰ سے صدق و وفا کا یہ تعلق ہے.اور جب یہ ہو گا تو پھر ہی آنحضرت صلی علیہ علم پر بھیجا جانے والا درود ، وہ درود کہلائے گا جو شکر گزاری کے طور پر ہو گا.الله یہ ہے ایک مومن کا آنحضرت صلی لی نام سے عشق و وفا کا تعلق.یہ ہے آنحضرت صلی کم کی ناموس رسالت کہ غیر کامنہ بند کرنے کے لئے ہم اسوہ رسول پر عمل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑائیں اور غیر کو اپنے اوپر انگلی اٹھانے کا موقع دیں.اور صرف اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ اپنے عملوں کی وجہ سے اپنے پیارے آقاسید المعصومین کے متعلق دشمن کو بیہودہ گوئی یا کسی بھی قسم کے ادب سے گرے ہوئے الفاظ کہنے کا موقع دیں.اگر مخالفین اسلام کو ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے آپ صلی یم کے بارے میں کچھ بھی کہنے کا موقع ملتا ہے تو ہم بھی گناہگار ہوں گے.ہماری بھی جواب طلبی ہو گی کہ تمہارے فلاں عمل نے دشمن کو یہ کہنے کی جرآت دی ہے.کیا تم نے یہی سمجھا تھا کہ صرف تمہارے کھوکھلے نعروں اور بے عملی کے نعروں سے رسول اللہ صلی علیم سے پیار کا اظہار ہو جائے گا یا تم پیار کا اظہار کرنے والے بن سکتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں.اللہ تعالیٰ تو عمل چاہتا ہے.پس مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑا خوف کا مقام ہے.باقی جہاں تک دشمن کے بعضوں، کینوں اور اس وجہ سے میرے پیارے آقاصلی ال نیم کے متعلق کسی بھی قسم کی دریدہ دہنی کا تعلق ہے، استہزاء کا تعلق ہے اُس کا اظہار ، جیسا میں نے بتایا، اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر فرما دیا ہے کہ ان لوگوں کے لئے میں کافی ہوں.
خطبات مسرور جلد نهم 30 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء آنحضرت علی ایم کے مقام کے بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ روشنی دکھائی ہے کہ جس کے لئے ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی شکر گزار ہے اور ہو نا چاہئے.اگر آپ ہمیں صحیح راستہ نہ دکھاتے تو ہمارا بھی آنحضرت صلی علیم سے تعلق کا اظہار صرف ظاہری قانونوں اور جلسے جلوسوں تک ہی ہوتا.اس درود میں جب ہم آلِ محمد کہتے ہیں تو آنحضرت کے پیارے مہدی کا تصور بھی ابھرنا چاہئے جس نے اس زمانے میں ہماری رہنمائی فرمائی.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ ہلم کے اعلیٰ ترین مقام کو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھا ہے اور دیکھا ہے، وہ کیا ہے ؟ یقینا یہ آپ ہی کا حصہ ہے جو اس سے ہمیں آگاہی فرمائی.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملا یک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا.یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی الظلم ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں“( اس اسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں) ” اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی للہ کہ میں پائی جاتی تھی.“ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن.جلد 5 صفحہ 160تا162) پھر اس عاشق صادق کے عشق رسول میں فنا ہونے اور دلی جذبات کے اظہار کا ایک اور نمونہ بھی دیکھیں.آپ فرماتے ہیں: میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دُنیا میں لایا.اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی گنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس
خطبات مسرور جلد نهم 31 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ؟ ہم کا فر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اُس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں“.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد 22.صفحہ 119،118) ”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں.یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر ، تمام مُر سلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احد مجتبی صلی اللیل کم ہے ، جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی“.(سراج منیر.روحانی خزائن.جلد 12- صفحہ 82) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”میر امذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی لی ہم کو الگ کیا جاتا اور گل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے ، سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی یکم نے کی، ہر گز نہ کر سکتے.اُن میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو ملی تھی.اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا.میں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں.لیکن نبی کریم کی فضلیت گل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے.یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں.بد نصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے.ہمارے نبی کریم صلی علیکم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے“.( ملفوظات.جلد اول.صفحہ 420.مطبوعہ ربوہ) آپ فرماتے ہیں: ” نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی ا لی.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی.بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے ؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خد ا سچ ہے اور محمد مصطفی ملی لیے کم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.اور آسمان کے نیچے نہ اُس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے.“ (کشتی نوح - روحانی خزائن.جلد 19.صفحہ 13-14)
خطبات مسرور جلد نهم 32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء پھر آپ آنحضرت صلی یم کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہ آپ کی یہ زندگی کس طرح کی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے مگر اس کامل نبی کے فیضان کی شعاعیں اب تک ختم نہیں ہوئیں.اگر خدا کا کلام قرآن شریف مانع نہ ہو تا ، ( یعنی اس کی وجہ سے کوئی روک نہ ہوتی ) تو فقط یہی نبی تھا جس کی نسبت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اب تک مع جسم عنصری زندہ آسمان پر موجود ہے کیونکہ ہم اس کی زندگی کے صریح آثار پاتے ہیں.اس کا دین زندہ ہے.اس کی پیروی کرنے والا زندہ ہو جاتا ہے.اور اس کے ذریعہ سے زندہ خدامل جاتا ہے.ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدا اُس سے اور اُس کے دین سے اور اُس کے محب سے محبت کرتا ہے.اور یادر ہے کہ در حقیقت وہ زندہ ہے اور آسمان پر سب سے اُس کا مقام برتر ہے لیکن یہ جسم عصری جو فانی ہے یہ نہیں ہے بلکہ ایک اور نورانی جسم کے ساتھ جو لازوال ہے اپنے خدائے مقتدر کے پاس آسمان پر ہے“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22.صفحہ 118-119 حاشیہ) پس اگر کوئی انصاف کی نظر سے دیکھے تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت کے مقام کو پہچانا ہے، کوئی بھی نہیں پہچان سکتا.اور آپ ہی وہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اینم کی ذات پر حملے کی صورت میں سب سے پہلے مؤثر آواز بلند کی.1897ء میں جب پادریوں کی طرف سے مشن پریس گوجر انوالہ میں اسلام کے رڈ میں ایک کتاب شائع ہوئی اور اس میں آنحضرت صلی لیلی کیم کی ذات کے بارہ میں انتہائی دریدہ دہنی کی گئی اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی اور پھر مسلمانوں کا دل دکھانے کے لئے ایک ہزار کاپی اس کتاب کی علماء اور مسلمان لیڈروں کو مفت تقسیم کی گئی اور ایک کاپی اس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بھیجی گئی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار دیا اور حکومت کو توجہ دلائی کہ گو قانون بے شک یہ کہہ دے کہ تمہیں بھی اجازت ہے اور یہ کتاب لکھناتو ہین اور ہتک کے زمرہ میں نہیں آتا، تم لوگ بھی لکھ سکتے ہو.لیکن فرمایا کہ مسلمان تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام یا کسی اور نبی کے بارے میں اس طرح کی لغویات نہیں لکھ سکتے، بیہودہ گوئی نہیں کر سکتے.آپ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو.اور یہی طریق کار ہے جس سے امن امان اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے.اس کے علاوہ اور کوئی بہترین طریق نہیں ہے.آپ کو آنحضرت صلی ایم کے مقام و مرتبہ کی حفاظت اور مخالفین کے آپ کی ذات پر اور اسلام پر حملے کے خلاف ایک جوش تھا، اور ہر موقع پر آپ اس کے دفاع کے لئے کھڑے ہوتے تھے.درد سے مسلمانوں کو بھی سمجھایا کہ کس طرح ہم دشمنوں کے حملے کو پسپا کر سکتے ہیں ؟ کیا طریق کار تم مسلمانوں کو بھی اختیار کرنا چاہئے.قطع نظر اس کے کہ تم کس فرقہ سے
خطبات مسرور جلد نهم 33 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء تعلق رکھتے ہو.آنحضرت صلی علیہ کم کی ذات کی حفاظت ایک ایسا اہم کام ہے جس کے لئے تمام مسلمانوں کو اکٹھے ہو جانا چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ : ”ہمارے مخالفوں نے “ (یعنی اسلام کے مخالفوں نے ہزاروں اعتراض کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بد شکل اور مکروہ ظاہر کریں.ایسا ہی ہماری تمام کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا پایہ ثبوت پہنچاویں.یقینا سمجھو کہ گمراہوں کی حقیقی اور واقعی خیر خواہی اسی میں ہے کہ ہم جھوٹے اور ذلیل اعتراضات کی غلطیوں پر ان کو مطلع کریں اور اُن کو دکھلاویں کہ اسلام کا چہرہ کیسا نورانی، کیسا مبارک اور کیسا ہر ایک داغ سے پاک ہے.ہمارا کام جو ہمیں ضرور ہی کرنا چاہئے ، وہ یہی ہے کہ یہ دجل اور افترا جس کے ذریعہ سے قوموں کو اسلام کی نسبت بد ظن کیا گیا ہے، اُس کو جڑ سے اکھاڑ دیں.یہ کام سب کاموں پر مقدم ہے.جس میں اگر ہم غفلت کریں تو خدا اور رسول کے گنہگار ہوں گے.سچی ہمدردی اسلام کی اور سچی محبت رسولِ کریم (صلی یکی کی اسی میں ہے کہ ہم ان افتراؤں سے اپنے مولیٰ و سید رسول اللہ صلی علیہ یکم اور اسلام کا دامن پاک ثابت کر کے دکھلائیں.اور وسواسی دلوں کو یہ ایک نیا موقع وسوسہ کانہ دیں کہ گویا ہم تحکم سے حملہ کرنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں اور جواب لکھنے سے کنارہ کش ہیں.ہر ایک شخص اپنی رائے اور خیال کی پیروی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانے میں اسلام کی حقیقی تائید اسی میں ہے کہ ہم اس تخم بدنامی کو جو بویا گیا ہے اور اُن اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کو دکھلاویں کہ اُن کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں.اور اُن کے دل ان مفتریوں سے بیزار ہو جائیں جنہوں نے دھوکہ دے کر ایسے مزخرفات شائع کئے ہیں“ (یعنی جھوٹی باتیں شائع کی ہیں).”اور ہمیں اُن لوگوں کے خیالات پر نہایت افسوس ہے جو باوجودیکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کس قدر زہر یلے اعتراضات پھیلائے جاتے اور عوام کو دھو کہ دیا جاتا ہے، پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کے رڈ کرنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں، صرف مقدمات اٹھانا اور گورنمنٹ میں میموریل بھیجنا کافی ہے“.البلاغ، فریادِ در د.روحانی خزائن.جلد 13.صفحہ 382-383) صرف اتنی سی بات کافی نہیں کہ کسی کو پکڑ لیا یا مقدمہ بنا دیا یا میموریل بھیج دیا بلکہ ایک عملی کوشش اور مسلسل کوشش اور مستقل کوشش کرنے کی ضرورت ہے.پس یہ ہے اصل درد کہ اٹھو اور الزامات کو رڈ کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے چلے جاؤ اور اپنے عملوں کو حقیقی مسلمان کا عمل بناؤ نہ کہ صرف میموریل بھیج کر یا جلوس نکال کر یا چند دن شور مچا کر پھر بیٹھ جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت ملا علم کی عزت و ناموس کے لئے کیا جذبات رکھتے تھے ، اس کا اندازہ ان اقتباسات سے ہو سکتا ہے جو میں پیش کرنے لگا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد نهم 34 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء ”جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی ال نیلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں ، اُن سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، نا پاک حملے کرتے ہیں.خدا ہمیں اسلام پر موت دے.ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جانتار ہے.(پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23.صفحہ 459) پھر مخالفین کے الزامات کا ایک جگہ ذکر کرتے ہوئے اور غیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ : ”میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتناد کھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھانے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسولِ پاک کی شان میں کرتے رہتے ہیں.اُن کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر" کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے.خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی پتیلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ تم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں.پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش“.(ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن.جلد 5.صفحہ 15 از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے از سیرت طیبہ صفحہ 41-42) آج بھی بعض اسلام مخالف جو عیسائی پادری ہیں وہ اسلام پر گندے الزامات لگانے سے باز نہیں آتے.گزشتہ دنوں امریکہ کے جس پادری نے قرآن کریم جلانے کا اعلان کیا تھا آج بھی وہ وہی خیالات رکھتا ہے ، خیالات اس کے ختم نہیں ہو گئے.اس کے یہاں انگلستان میں آنے کا پروگرام تھا.گزشتہ دنوں اس کا اعلان بھی ہو ا تھا.کسی گروپ نے یا شاید پارلیمنٹ نے اس کو بلوایا تھا.بہر حال کل کی خبر تھی کہ برطانیہ کی حکومت نے اس بات پر پابندی لگادی ہے کہ ہمارے ہاں مختلف مذاہب کے لوگ ہیں اور ہم کسی قسم کا فساد ملک میں نہیں چاہتے.اور یہ ہم برداشت بھی نہیں کر سکتے ، اس لئے تمہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے.یہ حکومت برطانیہ کا بڑا مستحسن قدم ہے.خدا تعالی آئندہ بھی ان کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور باقی دنیا کی حکومتیں بھی اس سے سبق سیکھیں تاکہ دنیا میں فتنہ و فساد ختم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی مختلف موقعوں پر عملی غیرت کا اظہار کس طرح فرمایا.اس کے ایک دو واقعات پیش کرتا ہوں.
35 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لیکھرام کا واقعہ تو ہر ایک کے علم میں ہے کہ کس طرح آپ نے اس میں غیرت کا مظاہرہ فرمایا.سٹیشن پر آپ وضو فرمارہے تھے تو وہ آیا اور اس نے سلام کیا.آپ نے توجہ نہ دی اور وضو کرتے رہے.وہ سمجھا کہ شاید سلام سنا نہیں.دوسری طرف سے آیا اور سلام کیا.پھر بھی آپ نے جواب نہیں دیا اور چلا گیا.وضو کرنے کے بعد کسی نے کہا کہ لیکھرام آیا تھا اور سلام عرض کرتا تھا.آپ نے فرمایا کہ ”ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے ؟“ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد 1 حصہ اول صفحہ 254 روایت نمبر 281 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) یہ تھی غیرت جو آپ نے دکھائی اور یہ غیرت کا مظاہرہ ہے جو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایک واقعہ لکھتے ہیں.کہتے ہیں ڈاکٹر پادری وائٹ بریخٹ ' کو 1925ء میں لندن میں ملا ( جو آج کل یعنی اُن دنوں میں ڈاکٹر سٹانٹن کہلاتے تھے.یہ لفظ اُردو میں انہوں نے لکھا ہے اس لئے ہو سکتا ہے غلطی ہو.بہر حال) پادری صاحب بٹالہ میں مشنری رہے ہیں اور حضرت صاحب سے بھی ان کی ملاقات ہوئی.کہتے ہیں پادری فتح مسیح صاحب سے بٹالہ میں ایک مباحثہ الہام کے متعلق تھا اُس میں بھی ان انگریز پادری صاحب کا دخل تھا.غرض سلسلے کی تاریخ میں ان کا کچھ تعلق ہے اور اس وجہ سے مجھے شوق پید اہوا کہ میں اس پادری کو ملوں.اس انگریز کو پھر میں لندن میں جا کے ملا.تو کہتے ہیں کہ گفتگو کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے بارہ میں سوالات کے جواب میں بعض واقعات بیان ہو رہے تھے وہ سن کر ایک موقع پر وہ پادری صاحب کہنے لگے کہ میں نے ایک بات مرزا صاحب میں یہ دیکھی جو مجھے پسند نہیں تھی کہ وہ جب آنحضرت صلی للی کم پر اعتراض کیا جاتا تو ناراض ہو جاتے تھے اور ان کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا.یعنی ایسا اعتراض جو ناز یبا الفاظ میں کیا جاتا ہو.باقی اعتراض تو کرتے ہی ہیں جب بحث ہو رہی ہوتی ہے.جہاں کوئی حد ادب سے باہر نکلتے تھے تو آپ عالی سلام فوراً غصہ میں آتے اور چہرہ متغیر ہو جاتا.تو عرفانی صاحب کہتے ہیں، میں نے پادری صاحب کو کہا کہ جو بات آپ کو نا پسند ہے اسی پر میں قربان ہوں.کیونکہ اس سے حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے ایک پہلو پر ایسی روشنی پڑتی ہے کہ وہ آپ کی ایمانی غیرت اور آنحضرت صلی علیم سے محبت اور عشق اور فدائیت کو نمایاں کر دیتی ہے.آپ کے نزدیک شاید یہ عیب ہو مگر میں تو اسے اعلیٰ درجہ کا اخلاق یقین کرتاہوں اور آپ کے منہ سے سن کر حضرت مرزا صاحب کی محبت اور آپ کے ساتھ عقیدت میں مجھے اور بھی ترقی ہوئی ہے.غرض آپ علیہ السلام کو آنحضرت صلی للی کم سے بے انتہا عشق تھا اور برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللی علم کی بے ادبی کرے.(ماخوذ از حیات احمد از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب جلد اول صفحہ 265-266 جدید ایڈیشن) تو یہ ہے غیرت رسول کا ایسا اظہار کہ جس سے دوسرے کو خود ہی احساس ہو جائے کہ اس نے آنحضرت صلی علیکم کے بارہ میں حد ادب کے اندر رہتے ہوئے بات کرنی ہے.WEITBRECHT STANTON PHD, D.D.-'
خطبات مسرور جلد نهم 36 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء غرض کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عمل سے بھی اور اپنی تحریر و تقریر سے بھی دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی عشق رسول اور غیرت رسول کیا ہے ؟ اور پھر اپنی جماعت میں بھی یہی روح پھونکی.یہ غیرت رسول دکھاؤ، لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے.ہر کارروائی کرو لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے.چنانچہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ جب آنحضرت صلی علیکم کے بارے میں ایک دل آزار کتاب ایک آریہ نے لکھی اور پھر ور تمان جو رسالہ تھا اس میں بعد میں ایک مضمون بھی شائع کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس کے رڈ کے لئے ہر قسم کی کوشش کی.لیکن ساتھ ہی یہ بھی نصیحت فرمائی کہ مسلمان کو چاہئے کہ رسول کریم ملی ایم کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت دکھائیں مگر ساتھ ہی یہ بھی دکھا دیں کہ ہر ایک مسلمان اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اس سے مغلوب نہیں ہو تا.جب مسلمان یہ دکھا دیں گے تو دنیا ان کے مقابلہ سے خود بخود بھاگ جائے گی“.(الفضل 5 جولائی 1927ء صفحہ 7.بحوالہ سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 41) اسی دوران آپ نے ایک پوسٹر بھی شائع کروایا.اس کے الفاظ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس قدر غیرت کا مظاہرہ آپ نے فرمایا اور مسلمانوں کو بھی غیرت دکھانے پر آمادہ کیا.جب آنحضرت صلی علی کم پر یہ اعتراضات ہو رہے تھے تو آپ نے اس میں فرمایا کہ کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آسکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بیکسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے ؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسولِ کریم صلى لم فَدَاهُ نَفْسِي وَ أَهْلِی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے.اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پر واہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا ؟.ہماری جانیں حاضر ہیں.ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں.جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدا را نبیوں کے سردار کی ہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم بھی صلح نہیں کر سکتے.ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز صلح نہیں ہو سکتی جو رسول کریم صلی ای کم کو گالیاں دینے والے ہیں.بے شک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائی کورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں ( اس وقت فیصلہ ہوا تھا جو مسلمانوں کے خلاف ہو ا تھا) جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم صلی الی یکم کو گالیاں دے لیں.لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانونِ فطرت ہے.وہ اپنی طاقت کی بنا پر گور نمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانونِ قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے.اور قانونِ قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کو برابھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا“.( تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 597 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
خطبات مسرور جلد نهم 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء اس وقت جب یہ ہوا اور پھر اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں قانون میں تبدیلی بھی ہوئی اور یہ قانون پاس ہوا کہ جو انبیاء ہیں اور جو کسی بھی مذہب کے فرقے کے سر براہ ہیں ان کو برابھلا نہیں کہا جا سکتا.اب آگے چلیں.احمدیوں کی تاریخ میں آج سے بیس سال یا پچیس سال پہلے بد نام زمانہ سلمان رشدی نے جو اپنی مکر وہ کتاب لکھی تھی تو اس وقت حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے خود بھی خطبوں میں اس کا جواب دیا اور پھر کتابی شکل میں بھی جواب لکھوایا گیا جو انگریزی میں چھپا، جس کا اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے.اس کے اردو ترجمہ کا نام ” سلمان رشدی بھوتوں کے آسیب میں ہے.2005 ء میں جب ڈنمارک میں آنحضرت صلی علم کے متعلق بیہودہ تصاویر بنائی گئیں تو ڈنمارک مشن نے بھی اور میں نے بھی خطبات کے ذریعہ اس کا جواب دیا.قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائیاں بھی کیں.ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ کی طرف سے قرآنِ کریم پر حملہ ہوا، اسلام پر حملہ ہوا تو ان کے جوابات دیئے گئے.تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے غیرت کا مظاہرہ ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا سرمایہ ہے.قانون سے باہر نکل کر ہم جو بھی عمل کریں گے وہ آنحضرت صلی ا م سے صدق و وفا کا تعلق نہیں ہے.لیکن اصل چیز جو اس صدق و وفا کے تعلق کو جاری رکھنے والی ہے وہ آپ کا پیغام ہے.اگر مسلمان اس پیغام کی حقیقت کو سمجھتے ہوں، اس خوبصورت پیغام کے پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن جائیں تو آج یہ حالات نہ ہوں.اگر وہ حقیقت میں اس رسول صلی الم کے اسوہ پر عمل کر رہے ہوتے تو دشمن کا منہ خود بخود بند ہو جاتا.اور اگر مسلمانوں میں سے چند مفاد پرست قانون کی آڑ میں ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہوتے بھی یا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے تو قانون ان کو مجرم بنا کر اس مفاد پرستی کی جڑ اکھیڑ دیتا.لیکن یہ سب کام تقویٰ کے ہیں.پس مسلمان اگر ناموس رسالت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو اس تقویٰ کو تلاش کریں جو آنحضرت صلی الله یم ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں غیرت رسول صلی علیکم کے واقعات بھرے پڑے ہیں.ایک خطبہ میں تو ان کا ذکر نہیں ہو سکتا.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.چند خطبوں میں بھی نہیں ہو سکتا.اگر ہم نے اسلام اور آنحضرت صلی کم کی ذات کو ہر قسم کے اعتراضوں اور استہزاء سے پاک کرنا ہے تو کسی قانون سے نہیں بلکہ دنیا کو آنحضرت کے جھنڈے تلے لا کر کرنا ہے.کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے فساد اس وقت ختم ہوں گے جب ہم آنحضرت علی ایم کی اصل تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گے اور دنیا کو آنحضرت صلی یکم کے جھنڈے تلے لائیں گے.لیکن اگر صرف قانون بنا کر پھر اس قانون سے اپنے مفاد حاصل کر رہے ہوں گے تو ہم بھی توہین رسالت کے مر تکب ہو رہے ہوں گے.اور تمان رسالہ جو تھا جس کے بارے میں میں نے بیان کیا کہ خلیفہ المسیح الثانی نے اس کے بارے میں لکھا اور مسلمانوں کو کہا کہ احتجاج کر دو اور پھر ساری مسلم امت جو تھی وہ سراپا احتجاج بن گئی، مقد مے
خطبات مسرور جلد نهم 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جنوری 2011ء بھی چلے لیکن بہر حال آخر تبدیلی لانی پڑی اور مجرم کو سزا بھی ملی.جب اس کا فیصلہ ہو گیا تو اس کے فیصلے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ہی فرمایا اور بالکل صحیح فرمایا کہ: ”میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی للی کم کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے.میرا آقاد نیا کو زندگی بخشنے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے “.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 606 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) کاش کہ آج بھی ہر مسلمان یہ بات سمجھ جائے کہ اگر حقیقت میں کوئی فتنہ ہے تو قانون ظاہری فتنے کا علاج کرتا ہے ، دل کا نہیں.اول تو یہی تحقیق نہیں ہوتی کہ فتنہ ہے بھی کہ نہیں ؟ مسلمان کے لئے حقیقی خوشی اس وقت ہو گی اور ہونی چاہئے جب دنیا کے دلوں میں آنحضرت علی میں کم کی محبت قائم ہو جائے گی.آج احمدیوں کا تو یہ فرض ہے ہی جس کے لئے ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہئے.اگر دوسرے مسلمان بھی سختی کے بجائے عفو اور پیار کا مظاہرہ کریں اور وہ نمونہ دکھائیں جو آنحضرت صلی الی یکم نے دکھایا تو پھر یہی اسلام کی خدمت ہو گی.آپ نے دو کثر دشمنانِ اسلام جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر مزاحمت کا فیصلہ کیا تھا لیکن پھر بعد میں جب لشکر کو دیکھا اور فتح مکہ کی شوکت دیکھی تو گھبر اگئے.اور پھر ایک عورت اُم ہانی ، جن کے خاوند کے وہ عزیز تھے جب اُن کے گھر وہ پناہ لینے کے لئے آئے تو ام ہانی نے پناہ دے دی اور پھر آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ انہوں نے دو اشخاص کو پناہ دی ہے.لیکن میر ابھائی علی کہتا ہے کہ میں انہیں قتل کر دوں گا وہ مجرم ہیں.آپ نے فرمایا کہ اے اُم ہانی ! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی.انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا.(السيرة النبوية لابن هشام باب من أمر الرسول عليه بقتلهم صفحه 742 - 744 مطبع دار الكتب العلمية بيروت 2001ء) اس پناہ کے بعد انہی دشمنوں کو یہ فکر تھی کہ آنحضرت صلی للی نظم نے اس طرح شفقت اور رآفت اور پیار کا سلوک کیا ہے کہ ہم کس طرح ان کو منہ دکھائیں گے.لیکن جب ایک موقع پر حارث بن ہشام کی مسجد کے قریب آنحضرت صلی الی نام سے اتفاقاً ملاقات ہوئی تو اس رحمتہ للعالمین نے نہایت شفقت سے ملاقات فرمائی.اور پھر یہ حارث جنگ یرموک میں اسلام کے دفاع میں جاں نثاری دکھاتے ہوئے شہید ہو گئے.(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد از محمد بن یوسف شامی ذکر اسلام الحارث بن هشام...جلد 5 صفحه 250249 بیروت 1993ء) (اسد الغابة جلد 1 صفحه 478 الحارث بن هشام بن المغيرة مطبوعه دارالفکر بيروت 2003ء) پس ایک عورت کے پناہ دیئے ہوئے کا بھی آنحضرت صلی ا ہم نے یہ احترام فرمایا کہ جس کے نتیجہ میں وہ اسلام کی آغوش میں آگیا.آج بھی ہمیں اسی اُسوہ کی ضرورت ہے اور اسلام کا حقیقی پیغام دنیا میں پہنچانے کی ضرورت ہے نہ کہ ظاہری قانون بنا کر پھر غلط طریقے سے ان پر عمل کرنے کی.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور سب مسلمانوں کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 11 فروری تا 17 فروری 2011 ءجلد 18 شمارہ 6 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد نهم 39 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء بمطابق 28 صلح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت صلی ایم کی ایک حدیث قدسی ہے کہ لَوْلاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ.کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میں تجھے پیدانہ کرتا تو دنیا پیدا نہ کرتا.یہ زمین و آسمان پیدانہ کرتا.(الموضوعات الكبرى لِمُلّا على القاري صفحه 194 حديث نمبر 754 مطبوعة قديمی کتب خانه آرام باغ کراچی) گو مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اس حدیث کی صحت پر اعتراض کرتا ہے لیکن ہمیں اس زمانہ کے امام اور آنحضرت صلی الم کے عاشق صادق نے اس حدیث کی صحت کا علم دیا ہے.یہ وہ مقام ہے جو آنحضرت صلی نیم کے انتہائی مقام کی طرف نشاندہی کرتا ہے.آپ تمام رسولوں سے افضل ہیں.آپ تا قیامت تمام زمانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.آپ کو خدا تعالیٰ نے یہ مقام بخشا ہے کہ آپ کی اتباع سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت پاتا ہے.آپ کو وہ مہر نبوت عطا ہوئی ہے جو تمام سابقہ انبیاء پر ثبت ہو کر ان انبیاء کے نبی ہونے کی تصدیق کرتی ہے.آپ کو وہ مقام خاتم النبیین ملا ہے جس کے امتی کو بھی نبوت کا درجہ ملا اور آپ کا امتی اور عاشق صادق ہونا ہی آپ صلی می کنم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو نبوت کا مقام دلا گیا.آپ کا قرب خداوندی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے کہ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلی (النجم : 9) - یہ اللہ تعالیٰ سے قرب کی انتہا ہے.حضرت مسیح.موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : (یہ) آنحضرت صلی اللہ کم کی شان میں آیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرف ہو کر نوعِ انسان کی طرف جھکا.آنحضرت صلی علم کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور اس کمال میں آپ کے دو درجے بیان فرمائے ہیں.ایک صعود ( یعنی بلندی کی طرف جانا ).دوسر انزول.اللہ تعالیٰ کی طرف تو آپ کا صعود ہو ا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وفا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس ذات اقدس کے دنو کا درجہ آپ کو عطا
40 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہوا.دُنُو ، اقرب سے ابلغ ہے.اس لئے یہاں یہ لفظ اختیار کیا.(یعنی دُنو، قرب کی نسبت زیادہ انتہائی اور وسیع معنی دیتا ہے.قرب میں تو صرف قربت کا تصور پیدا ہوتا ہے لیکن دُنو میں اتنا قرب ہے، یعنی کہ ایک ہو جانا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ) ” جب اللہ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپ نے حصہ لیا تو پھر بنی نوع پر رحمت کے لئے نزول فرمایا.یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ (الانبیاء:108) میں فرمایا ہے (کہ ہم نے مجھے نہیں بھیجا مگر رَحْمَةً لِلْعَلَمينَ بنا کر).آنحضرت صلی ا یلم کے اسم قاسم کا بھی یہی ستر ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں.پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپ کا نزول ہوا.دَنَا فَتَدَٹی میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت صلی ال کم کے علو مر تبہ کی دلیل ہے“.سة ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 356 مطبوعہ ربوہ ) پس آپ کے نزول سے جو نئے زمین و آسمان پید اہوئے، جس میں آپ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی درجہ کا قرب پا کر انسانوں کی نجات اور خد اتعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کا مقام بھی حاصل کیا.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کا مقام عطا فرمایا.آپ سے محبت کو اپنی محبت قرار دیا.یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ افلاک بھی خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص پیار کے نتیجہ میں آپ کے لئے پیدا کئے گئے.اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی علشان کے لئے ہم اس حدیث قدسی کو صحیح تسلیم نہ کریں.پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر آنحضرت صلی اللہ علم کے اس مقام کو پہچانا ہے.اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک میں کیا مشکل ہے ؟ قرآنِ مجید میں ہے خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جبيعًا (البقرة: 30)، زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے.تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے افلاک بھی ہوں ؟“.( اگر زمین میں سب کچھ عام انسانوں کے لئے ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص آدمیوں کے لئے افلاک کی پیدائش بھی کر سکتا ہے).فرمایا کہ دراصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشاء کا خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق کام لے.اور جن پر اس کا تصرف نہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سورج، چاند ، ستارے وغیرہ“.م الله (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 213 مطبوعہ ربوہ) یعنی جس پر انسان کا تصرف نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ سب انسان کے کام پر لگے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ چیزیں سب سے زیادہ آنحضرت صلی علیم کے لئے کام کر رہی ہیں.ماضی میں بھی کیا اور اب بھی کر رہے ہیں.آپ صلی لی نیلم کے زمانے میں شق القمر کا واقعہ ہوا.یہ ایک معجزہ تھا.دنیا نے دیکھا.اس کی تفصیلات اس وقت بیان نہیں کروں گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی بات بیان فرمائی ہے اور ثابت فرمایا ہے کہ یہ معجزہ ہوا.(ماخوذ از سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 60 حاشیہ)
خطبات مسرور جلد نهم 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء اور ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ ہو سکتا ہے یہ کسی قسم کے گرہن کی صورت ہو.(ماخوذ از نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 506) جو دوسروں کو بھی نظر آئی.اور پھر آپ صلی الم نے اپنے مہدی کے لئے جو پیشگوئی فرمائی کہ فلاں مہینے میں اور فلاں دن میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا.(سنن الدار قطنی کتاب العيدين باب صفة صلوة الخسوف والكسوف وهيئتهما نمبر 1777 مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت 2003ء) یہ بھی افلاک کی کائنات کی جو چیزیں ہیں ان کو تابع کرنے والی بات ہے.اور اُس زمانہ میں جب یہ گرہن لگا تو اُس زمانہ کے اخبارات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ واقعہ ہوا.بہر حال اس ساری تمہید سے یا بیان سے میرا مقصد آپ کے بلند مقام کو بیان کرنا ہے.اس کے علاوہ بھی آپ کے بے شمار معجزات ہمیں روایات میں ملتے ہیں جن سے آپ کے مرتبہ اور خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص سلوک کا پتہ چلتا ہے جس کی مثالیں پہلے کبھی نہیں ملتیں، لیکن ان سب باتوں کے باوجو د کافروں کے اس مطالبے پر جو انہوں نے آپ سے کیا کہ ہمارے سامنے آپ آسمان پر چڑھیں اور کتاب لے کر آئیں جسے ہم پڑھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولاً (بنی اسرائیل : 94).ان کو کہہ دے کہ میر ارب ان باتوں سے پاک ہے.میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.پس آپ کا مقام گوسب انسانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ آپ انسان کامل ہیں، لیکن جہاں تک بشر رسول ہونے کا سوال ہے، آپ صلی للی نام سے بھی خدا تعالیٰ نے وہی سلوک فرمایا جو باقی رسولوں سے فرمایا.یعنی جہاں، جس طرح باقی رسولوں کی اُن کی قوموں نے مخالفت کی، آپ سے بھی کی اور آپ کیونکہ تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لئے ہیں اس لئے آپ کی مخالفت اُس زمانہ میں آپ کی زندگی میں بھی کی گئی اور اب بھی کی جارہی ہے اور کی جاتی رہے گی.باقی انبیاء کا بھی استہزاء ہوا تو آپ کا بھی استہزاء ہوا اور کیا جارہا ہے.لیکن سعید فطرت لوگ پہلے بھی انبیاء کو مانتے رہے.آپ کو بھی آپ کے زمانہ میں مانا بلکہ سب سے زیادہ مانا بلکہ آپ کی زندگی میں عرب میں پھیلا اور عرب سے باہر قریب کے علاقوں تک اسلام پھیل گیا.اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ تمام دنیا میں پھیل گیا اور آج تک پھیلتا چلا جارہا ہے اور ایک وقت آئے گا جب دنیا کی اکثریت اسلام اور آنحضرت صلی عوام کے جھنڈے تلے ہو گی.آپ صلی ال نیم کے ذمہ تبلیغ کا کام اللہ تعالیٰ نے لگایا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا بَلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ ربك (المائدة: 68) تیرے رب کی طرف سے جو کلام تجھ پر اتارا گیا ہے، اسے لوگوں تک پہنچا.پس آپ نے حسن و احسان سے ، پیار سے ، عفو سے، صبر سے، دعائیں کرتے ہوئے یہ پیغام پہنچایا.غیر تو خیر آنحضرت صلی علیہ کم پر یہ الزام لگاتے ہی ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا لیکن بعض مسلمان علماء، یا علماء کہلانے والے بھی یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلام جنگوں کے ذریعہ سے پھیلا.حالانکہ ہجرت کے بعد جب مکہ سے مدینہ ہجرت ہوئی ہے اور پھر جب اگلے سال میں جنگ بدر ہوئی ہے تو اس کے بعد صلح حدیبیہ تک مختلف جنگیں ہوتی رہیں، جس میں زیادہ سے زیادہ جنگ احزاب میں
خطبات مسرور جلد نهم 42 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء مسلمان شریک ہوئے تھے اور اُن کی تعداد تین ہزار تک تھی.صلح حدیبیہ کے وقت پندرہ سو افراد کا قافلہ تھا جو آپ کے ساتھ مکہ گیا تھا.صلح حدیبیہ تک یہ تقریباً پانچ سال کا عرصہ بنتا ہے.لیکن صلح حدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک پونے دو سال میں جو لشکر آنحضرت صلی علیم کے ساتھ مکہ گیا، اُس کی تعداد دس ہزار تھی.پس یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ امن کے جو دو سال تھے ، ان میں اسلام زیادہ پھیلا ہے.اسی طرح امن اور پیار کی تبلیغ کے بہت سے واقعات ہیں.عفو کے بہت سے واقعات ہیں جس نے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کیا.آنحضرت صلی اللی علم کے عفو ، در گزر اور شفقت کے سلوک کے واقعات گزشتہ خطبات میں بھی میں بیان کر چکا ہوں.آپ نے یہ سب کیوں کیا؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ یہ آپ نے کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ بے شک یہ میرا پیارا ترین ہے اور قریب ترین ہے مگر انبیاء سے لوگوں کے سلوک کا جو طریق چلا آرہا ہے وہ اس سے بھی ہو گا.آپ کو فرمایا اے نبی ! تجھ سے بھی (ایسا) ہو گا لیکن تو نے صبر ، تحمل، برداشت، عفو، مستقل مزاجی سے تبلیغ کا یہ کام کرتے چلے جانا ہے.سوائے اس کے کہ کوئی جنگ ٹھونسے ، حتی الوسع سختی سے پر ہیز کرنا ہے.ہرزہ سرائیوں پر، بیہودہ گوئیوں پر، ایذاء دہی پر صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے چلے جانا ہے کہ اسلام کا محبت اور امن کا پیغام اسی طرح پھیلنا ہے.قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے ان سب باتوں کو کس طرح بیان فرمایا ہے اور کیا نصیحت فرمائی ہے ؟ وہ میں بیان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ ق میں فرماتا ہے کہ فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (ق: 40 ).پس صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر ، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور غروب سے پہلے بھی.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دلائی کہ یہ طعن و تشنیع جو دشمن کرتا ہے وہ تو ہونی ہے، آپ صبر کے ساتھ اسے برداشت کریں.قرآنِ کریم ان پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی غالب آئیں گے.آخر کار کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کے ساتھ ، اس تعلیم کے ساتھ نصیحت کرتا چلا جا، تنبیہ کرتا چلا جا.پس جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس نصیحت اور تنبیہ سے ڈر کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والا بن جائے گا.پھر خدا تعالیٰ نے دشمن کی زبان درازیوں پر آنحضرت صلی للی علم کو کیا رویہ اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلُ لَهُمْ كَانَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ بَاحٌ : فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَسِقُونَ (احقاف: 36) پس صبر کر جیسے ط اولوا العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے بارہ میں جلد بازی سے کام نہ لے.جس دن وہ اسے دیکھیں گے جس سے انہیں ڈرایا جاتا ہے تو یوں لگے گا جیسے دن کی ایک گھڑی سے زیادہ وہ انتظار میں نہیں رہے.پیغام پہنچایا جا چکا ہے.پس کیا بد کرداروں کے سوا بھی کوئی قوم ہلاک کی جاتی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 43 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء الله سة پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو نظام نو آپ کی آمد سے جاری ہونا تھا وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے وہ جاری ہو چکا ہے.لیکن کامیابیوں کا بھی ایک وقت ہے.اس لئے صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے.اور اے رسول صلی الی یکم آپ نے بھی اور آپ کے ماننے والوں نے بھی اسی صبر و برداشت سے کام لینا ہے کہ یہی اولو العزم نبیوں اور ان کے ماننے والوں کا شیوہ ہے.یہ سختیاں، مشکلات اور ان پر برداشت اور صبر ہی کامیابیاں دلانے کا باعث بنتا ہے اور جب کامیابیاں آئیں گی، دشمن کی پکڑ ہو گی تو تب وہ سوچے گا کہ میں کیا کرتا رہا، تب اسے خیال آئے گا کہ یہ دنیاوی زندگی جسے میں سب کچھ سمجھتا رہا یہ تو ایک گھڑی یا ایک گھنٹے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی.پس جہاں تک انبیاء کے مخالفین کی پکڑ کا سوال ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے.آنحضرت صلی ایم کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر یہی سلوک دکھایا اور آپ کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ ان کے نام و نشان کو مٹا دیا.پس کہاں گئے وہ آپ کے بڑے بڑے دشمن جو سردارانِ مکہ کہلاتے تھے.کہاں گیا وہ بادشاہ جس نے آپ کے پکڑنے کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تھے.پس جب آنحضرت صل للہ یکم کا زمانہ تا قیامت ہے تو خدائی وعدے کے مطابق آپ کے دشمنوں کی پکڑ بھی ہر زمانے میں نشان بنتی چلی جائے گی.آنحضرت صلی لی ایم کے مخالفین نے آپ صلی لی نام کو کس کس طرح تنگ کیا.آپ کے کیا کیا نام رکھے.آپ کو کس طرح بد نام کرنے کی کوشش کی اس بارہ میں قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالُوا يَايُّهَا الَّذِى نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونَ (الحجر : 7 ) اور انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر ذکر اتارا گیا ہے، یقیناتو مجنون ہے.یہ آپ صلی اللہ تم پر استہزاء ہے بلکہ کھلی کھلی ایک گالی ہے.مکہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی اور اس وقت وہاں کی تقریباً ساری آبادی آپ سے یہ سلوک کرتی تھی، سوائے چند ایک نیک فطرت لوگوں کے جو ایمان لے آئے تھے.لیکن جب آپ ملایا کہ مکہ فتح کرتے ہیں تو سب سے محبت اور شفقت کا سلوک کرتے ہیں.بلکہ جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں.یہ لوگ صرف گالیاں دینے والے ہی نہیں تھے.یہ لوگ ظلم کی انتہا کرنے والے تھے.زبر دستی جنگیں ٹھونسنے والے تھے.لیکن آپ نے ہر ایک سے شفقت کا سلوک فرمایا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ خود میں بدلے لوں گا.پھر قرآنِ کریم میں سورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا افْكُ افْتَرَهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْم أَخَرُونَ فَقَدْ جَاء وَ ظُلْمًا وَزُورًا ( الفرقان : 5 ) اور جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے کہا یہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں جو اس نے گھڑ لیا ہے اور اس بارہ میں اس کی دوسرے لوگوں نے مدد کی ہے.پس یقینا وہ سراسر ظلم اور جھوٹ بنانے والے ہیں.گو اس آیت میں بڑے وسیع مضمون بیان ہوئے ہیں لیکن یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ کو دعویٰ کے بعد وہی لوگ نعوذ باللہ جھوٹا کہنے لگ گئے جو آپ کو سچا کہتے تھے اور ان کی زبانیں اس سے نہیں تھکتی تھیں.
44 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم آپ کی سچائی اور امانت کے قائل تھے.پھر آپ صلی میں کمی کے بارہ میں ظالموں کی ہرزہ سرائی کا قرآن کریم میں یوں ذکر آتا ہے.فرمایا کہ وَقَالَ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا (الفرقان: 9) اور ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جو سحر زدہ ہے.پھر ایک آیت میں کافروں کی بیہودہ گوئی کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ منْذِرُ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا اسحرُ كَذَابُ ( سورة ص:5) اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے کوئی ڈرانے والا آیا، اور کافروں نے کہا یہ سخت جھوٹا جادو گر ہے.پس کبھی جھوٹا، کبھی جادوگر، کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور کبھی کسی نام سے یہ کافر آپ کو پکارتے رہے اور آپ کے بارہ میں باتیں کہتے رہے اور مختلف رنگ میں استہزاء کرتے رہے.لیکن آپ کو صبر اور حمد اور دعا کی ہی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی.اور یہی تلقین اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی فرمائی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمور (آل عمران :187) اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا ایک بڑاہمت کا کام ہے.اب ایک مومن کے لئے ، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی الی یکم سے محبت رکھتا ہے، اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے، اُس کے لئے اس سے زیادہ دل آزاری کی اور تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے آقا کے بارے میں ایسی بات سنے جس سے آپ کی شان میں ہلکی سی بھی گستاخی ہوتی ہو.کوئی کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ایسی باتیں تم سنو تو صبر کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی میں نے گزشتہ خطبہ میں مثال دی تھی کہ کس طرح آپ نے رد عمل دکھایا.تو حقیقی رد عمل یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھایا لیکن اس کے لئے بھی تقوی شرط ہے.تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے عمل اور دعاؤں سے جو اس کا جواب دو گے تو وہی اس محبت کا صحیح اظہار ہے.اور جب ہم دشمنوں کی باتیں سن کے تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی دعاؤں سے خدائے ذوالانتقام کے آگے جھکیں گے تو ان دشمنانِ اسلام کے بد انجام کو بھی ہم دیکھیں گے.لیکن ہمارا اپنا تقویٰ شرط ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے آپ صلی یم اور قرآن کریم پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں قرآنِ کریم میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ خود ہی اللہ تعالیٰ بدلے لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک جگہ دشمنوں کو جو جواب دیا وہ یہ ہے کہ سورۃ الحاقۃ میں فرمایا انَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ - وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنَّ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ.تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ العلمين (الحاقة: 41 تا44) یقینا یہ عزت والے رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں ہے.بہت کم ہے جو تم ایمان لاتے ہو.اور نہ یہ کسی کا بہن کا قول ہے.بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.ایک تنزیل ہے تمام جہانوں کے رب کی طرف سے.
45 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تو اللہ تعالیٰ نے ان سب استہزاء کرنے والوں اور آپ کے مختلف نام رکھنے والوں اور نعوذ باللہ جھوٹا اور کذاب کہنے والوں کو یہ جواب دیا.پس یہ ہے جو اب آپ پر الزام لگانے والوں اور استہزاء کرنے والوں کے لئے لیکن اس بات کے باوجود کہ خدا تعالیٰ نے آپ صلی الی یکم اور مومنوں کو صبر اور دعا کی تلقین فرمائی ہے، خدا تعالیٰ نے خود دشمن کو چھوڑا نہیں ہے.صرف یہ جواب نہیں دے دیا کہ نہ وہ کا ہن ہے ، نہ وہ جھوٹا ہے اور نہ جو تم الزامات لگا رہے ہو وہ تمہارے صحیح الزامات ہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ انا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِيْنَ (الحجر: 96) تو اس نے پھر دشمنانِ اسلام سے اس دنیا میں یا مرنے کے بعد بدلے بھی لئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ أَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَا وَبِهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أَعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُم بِهِ تُكَذِبُونَ - وَ لَنْذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (السجدہ:22،21) اور جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانہ آگ ہے.جب کبھی وہ ارادہ کریں گے کہ وہ اس سے نکل جائیں تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے.اور ہم یقینا انہیں بڑے عذاب سے ورے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے.(بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے ) تا کہ ہو سکے تو وہ ہدایت کی طرف لوٹ آئیں.اور کون اس سے زیادہ ظالم ہو سکتا ہے جو اپنے رب کی آیات کے ذریعے اچھی طرح نصیحت کیا جائے، پھر بھی ان سے منہ موڑ لے.یقینا ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ جو اپنے پیارے پر ہر وقت نظر رکھنے والا ہے، اگر دشمن دشمنی سے باز نہ آئے تو اسے بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا.اگر اللہ تعالیٰ کی تنبیہوں سے نہ ڈریں، اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی اصلاح کے لئے جو اپنے بعض جلوے دکھاتا ہے ان سے نصیحت حاصل نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا.پھر ضرور سزاد یتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اختیار میرے پاس ہی ہے.پھر آپ صلی علیکم کو مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرُهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا - وَذَرْنِي وَالْمُكَذِبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهْلَهُمْ قَلِيلًا - إِنَّ لَدَيْنَا انْكَالًا وَجَحِيمًا - وَطَعَامًا ذَاغْضَةٍ وَ عَذَابًا اليمًا (المزمل: 11 تا 14) اور صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور ان سے اچھے رنگ میں جدا ہو جا، اور مجھے اور ناز و نعم میں پلنے والے مکذبین کو الگ چھوڑ دے اور انہیں تھوڑی سی مہلت دے.یقینا ہمارے پاس عبرت کے کئی سامان ہیں اور جہنم بھی ہے.اور گلے میں پھنس جانے والا ایک کھانا ہے اور دردناک عذاب بھی.پس جہاں آپ کو صبر کی تلقین فرمائی وہاں دنیا داروں کے متعلق فرمایا کہ دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں نے ان لوگوں کو کافر بنا دیا ہے، اس کفر کی انہیں سزا ملے گی کیونکہ یہ حد میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.اور سزا بھی ایسی ہو گی جو دوسروں کے لئے عبرت کا نشان ہو گی.پس یہ عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ بھی خدا تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے.اور نبی اور ماننے والوں کو صبر کرنے اور بغیر جھگڑے کے ان کی بیہودہ گوئیوں کو سن کر علیحدہ ہو جانے کا ارشاد فرمایا.پھر خدا تعالیٰ خود آپ سزا دینے کا ذکر سورۃ العلق میں اس طرح فرماتا ہے اَرعَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى - أَلَمْ يَعْلَمُ
46 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بان الله يرى - كَلَّا لَبِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ - نَاصِيَةِ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةِ - فَلْيَدُعُ نَادِيَهُ - سَنَدْعُ الزبانية - (العلق: 14 تا 19) کیا تو نے اس شخص پر غور کیا جو روکتا ہے ایک عظیم بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے.کیا تو نے غور کیا کہ اگر وہ ہدایت پر ہوتا یا تقویٰ کی تلقین کرتا.کیا تو نے غور کیا کہ اگر اس نے پھر جھٹلا دیا اور پیٹھ پھیر لی.پھر کیا وہ نہیں جانتا کہ یقینا اللہ دیکھ رہا ہے.خبر دار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم یقینا اسے پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے ، جھوٹی خطا کار پیشانی کے بالوں سے.پس چاہئے کہ وہ اپنی مجلس والوں کو بلا دیکھے.ہم ضرور دوزخ کے فرشتے بلائیں گے.پس اللہ تعالیٰ کا سزادینے کا طریق اس طرح ہے.آج اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اُس عظیم بندے کی پیروی کرتے ہوئے جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور جو ان کو نمازیں پڑھنے سے روکتے ہیں، وہ کون ہیں؟ پس یہ اُن لوگوں کے لئے بھی بڑا خوف کا مقام ہے جو کسی کو عبادت کرنے سے روکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی خاطر جب زمین و آسمان پیدا کئے ہیں تو پھر اس سے استہزاء کرنے والوں اور کفر میں بڑھنے والوں کو اور تکلیف پہنچانے والوں پر لعنت ڈالتے ہوئے فرماتا ہے کہ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ موَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَ اسْمَعْ غَيْرَ مُسْع وَ رَاعِنَا لَيًّا بِالْسِنَتِهِمْ وَطَعْنَا فِي الدِّينِ وَ لَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَ أَقْوَم وَ لكِنْ تَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قلِيلًا (النساء: 47).یہ سورۃ نساء کی سینتالیسویں آیت ہے.فرمایا کہ یہود میں سے ایسے بھی ہیں جو کلمات کو انکی اصل جگہوں سے بدل دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی.اور بات سُن اس حال میں کہ تجھے کچھ چیز سنائی نہ دے.اور وہ اپنی زبانوں کو بل دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے راعنا کہتے ہیں.اور اگر ایسا ہو تا کہ وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور سُن اور ہم پر نظر کر تو یہ ان کے لئے بہتر اور سب سے زیادہ مضبوط قول ہو تا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کر دی ہے.پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑا.پس یہ لعنت ہے جو اُن لوگوں پر پڑے گی جو یہ راستہ اختیار کریں گے کہ رسول کی توہین کے مر تکب ہوں.پھر یہودیوں کے یہ کہنے پر کہ ہم اتنا کچھ اس رسول مصلی املی کم سے کر رہے ہیں.یعنی کہ جو بھی تکلیفیں پہنچا سکتے ہیں اور جو باتیں بنا سکتے ہیں اور جو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں.اگر یہ رسول سچا ہے تو خدا تعالیٰ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنْجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَ إِذَا جَاءُوكَ حَيْرُكَ بِمَا لَمْ يُحَيْكَ بِهِ اللَّهُ وَ يَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يعد بُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمَصِيرُ (المجادلة: 9) کیا تُو نے ان کی طرف نظر نہیں دوڑائی جنہیں خفیہ مشوروں سے منع کیا گیا؟ مگر وہ پھر بھی وہی کچھ کرنے لگے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا.اور وہ گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے متعلق باہم مشورے کرتے ہیں اور جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو اس طریق پر تجھ سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں جس طریق پر اللہ نے تجھ پر سلام نہیں بھیجا.اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ط
خطبات مسرور جلد نهم 47 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 جنوری 2011ء اللہ ہمیں اس پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں.اُن سے نپٹنے کو جہنم کافی ہے.وہ اس میں داخل ہوں گے.پس کیا ہی بر اٹھکانہ ہے.بعض حدیثوں سے بھی ثابت ہے کہ یہ یہودی بعض دفعہ آنحضرت صلی اللہ علم کی مجالس میں آتے تھے یا ویسے ملتے تھے تو السّلامُ عَلَيْكُمْ کی بجائے السَّامُ عَلَيْكَ کہہ کر نعوذ باللہ آپ کی موت کی خواہش کیا کرتے تھے، جیسا کہ پہلے بھی میں گزشتہ خطبوں میں حدیث بیان کر چکا ہوں.اس پر بعض اوقات صحابہ کہتے کہ ہم اسے قتل کر دیں تو آپ فرماتے : نہیں.(بخاری کتاب استابة المرتدین والمعاندین...باب اذا عرض الذمی وغیرہ...حدیث نمبر 6926) اس لئے کہ ان کی بیہودہ گوئیوں کا معاملہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے.جہنم میں ڈال کر جو سز ا خدا تعالیٰ نے دینی ہے وہ اس دنیاوی سزا کی طرح نہیں ہو سکتی.پس جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں بیشک آپ خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ پیارے ہیں.تا قیامت آپ کا سلسلہ نبوت جاری ہے.تمام انبیاء سے آپ افضل ہیں لیکن اس کے باوجود تمام رسولوں کی طرح آپ کو دشمنانِ دین کی مخالفتوں اور ہر قسم کے نقصان پہنچانے کی تدبیروں کا سامنا کرنا پڑا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر موقع پر یہی کہا کہ اولوالعزم انبیاء کی طرح صبر اور دعا سے کام لے.یہی آپ کے ماننے والوں کو کہا گیا.اور خود بھی بیان فرمایا کہ ان دشمنانِ دین کے استہزاء، بیہودہ گوئیوں اور خباثتوں کا میں کس کس رنگ میں بدلہ لوں گا.بعض کا اس دنیا میں اور بعض کا مرنے کے بعد جہنم کی آگ میں ڈال کر.ہاں اگر دشمن جنگ کرے اور قوم کا امن و سکون برباد کرے تو پھر اس سے مقابلے کی اجازت ہے.کیونکہ اس مقابلہ کی اجازت نہ دی گئی تو مذاہب کے مخالفین ہر مذہب کے ماننے والے کا چین اور سکون برباد کر دیں گے.اس دنیا میں کس طرح خدا تعالیٰ آپ کی توہین کے بدلے لیتا رہا، اس کے بھی بہت سے واقعات ہیں.ایک بدلے کا اعلان قرآنِ کریم میں یہ کہہ کر فرمایا کہ تبت یدا ابی لَهَبٍ وَ تَبَّ (اللهب:2) کہ ابو لہب کے دونوں ہاتھ شل ہو گئے.جب آپ نے پہلے دعوی کیا اور اس وقت جب اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کے لئے اکٹھا کیا تو اس شخص نے جو آپ کا چا تھا بڑے نازیبا الفاظ آپ کے بارہ میں استعمال کئے تھے.(بخاری کتاب التفسیر باب سورۃ تبت ید ابی لہب حدیث 4971) تو قادر و توانا خدا جو بڑے نیچے وعدوں والا ہے اُس نے اس کو کس طرح پکڑا.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک سفر کے دوران اس پر بھیڑیوں نے حملہ کر دیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے '.پس آپ ملی یکم جو تا قیامت خدا کے پیارے اور افضل ہیں.آپ سے کئے گئے خدا تعالیٰ کے وعدے بھی ہمیشہ پورے ہوتے رہیں گے.ہر زمانے میں دشمنانِ اسلام اپنے انجام کو پہنچتے رہے ہیں اور پہنچتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں آپ صلی علیکم کی بند شان کے نظارے اور خدا تعالیٰ کا آپ سے پیار کا سلوک دکھاتا چلا جائے.اور ہم حقیقی رنگ میں قرآنی تعلیم کو بھی اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں اور ایسے مومن بننے کی کوشش کریں جس کی آنحضرت صلی علی کرم نے اپنی امت سے توقع کی ہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 18 تا 24 فروری 2011 ، جلد 18 شماره 7 صفحہ 5 تا 7) 1.نوٹ.وضاحت کے لئے دیکھیں صفحہ نمبر 57-58
خطبات مسرور جلد نهم 48 5 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 فروری 2011ء بمطابق 04 تبلیغ 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ (آل عمران: 111) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو.تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو.اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہت بہتر ہوتا.اُن میں مومن بھی ہیں مگر اکثر ان میں سے فاسق لوگ ہیں.یہ آیت جو آپ نے ابھی سنی، اس کے بارے میں پہلے بھی مختلف موقعوں پر بیان کر چکا ہوں.لیکن یہ ایک ایسا مضمون ہے، ایک ایسی نصیحت ہے، ایک ایسی یاد دہانی ہے جس کا بار بار ذکر ہو نا چاہئے اور مختلف زاویوں سے ذکر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان لانے والوں کے لئے ، ایسے لوگوں کے لئے جو صرف ایمان کا دعوی ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہیں، اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اس میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جانے والے ہیں.اپنے ایمان کی حفاظت اور اس کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت اور اس کی مضبوطی کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں.اور پھر صرف اپنی اور اپنے اہل و عیال کے ایمان کی حفاظت اور اس میں مضبوطی کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے ماحول میں رہنے والے ہر مذہب کے ماننے والے بلکہ لا مذہبوں کو بھی اس لئے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر نیکیاں بجالانے والے ہوں اور ایمان لانے والے بنیں، اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی ذمہ داری مومنوں پر ڈالی ہے.وہ مومن جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللی علم کے غلام صادق اور عاشق صادق کو مان کر اللہ تعالیٰ پر اپنے مضبوط ایمان کا اظہار کیا ہے.پس قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح جنہوں نے قرآنِ کریم کے احکامات اور ارشادات اور آنحضرت صلی اللہ وسلم کے ارشادات کو ہمیشہ سامنے رکھا اور شریعت اور قرآنی احکامات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی
خطبات مسرور جلد نهم 49 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء کوشش کی تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں اور اس میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب بھی ہوئے، اس زمانے میں ہم احمدیوں کا فرض ہے جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی علی کم پر کامل اور مضبوط ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں.جنہوں نے اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے اور قرآنی احکامات کو اپنے پر لاگو کرنے کے لئے زمانے کے امام مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم کس حد تک خیر امت ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں.ہم کس حد تک انسانوں کے فائدے کے لئے ان کا درد دل میں رکھنے کا حق ادا کر رہے ہیں.ہم کس حد تک اپنے قول کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے نیک باتوں کی تلقین کر رہے ہیں.ہم کس حد تک اپنے عمل اور نصائح سے دنیا کو برائیوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں.یہ جائزے ہم اپنی طرف سے کسی قسم کا خود ساختہ معیار بنا کر نہیں لے سکتے.یہ جائزے ہمیں اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لینے ہوں گے جو آنحضرت صلى اللی یکم نے ہمارے سامنے مقرر فرمایا.اس کا میں آگے جا کے ذکر کروں گا.اور جب تک ہم یہ جائزے لیتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ہم ترقی کے راستے پر گامزن رہیں گے، انشاء اللہ.قوموں کا زوال ہمیشہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ خود ساختہ معیاروں کو سامنے رکھتے ہیں، جب وہ ہو اوہوس میں گرفتار ہو جاتے ہیں، جب وہ بنیادی مقصد کو بھول جاتے ہیں.قرآنِ کریم نے گزشتہ انبیاء کا ذکر کر کے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سابقہ قوموں نے جب اپنی تعلیم کو بھلا دیا، جب اپنے مقصد سے روگردانی کرنی شروع کر دی تو پھر یاتو وہ تباہ ہو گئیں یا اُن میں اتنا گاڑ پیدا ہو گیا کہ اصل تعلیم کی جگہ بدعات اور لغویات اُن میں رائج ہو گئیں جو روحانی اور اخلاقی تباہی ہے.برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں بن گئیں.پاکیزگی اور حیااُن کی نظر میں فرسودہ تعلیم بن گئی.مذہب کی خود ساختہ تشریحات ہونے لگیں.انہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیم کو ہی بدل کر رکھ دیا.انبیاء کی تعلیم کے نام پر غلط اور اپنی مرضی کی تعلیم اُن کتب کا حصہ بنادی گئی جو انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا تقدس بھی باقی نہیں رہا اور نہ ہی انبیاء کا اور روحانی لحاظ سے وہ مردہ ہو گئیں.یہی حال آپ دیکھیں آج کل مغرب میں بسنے والی قوموں کا ہے.اس کے علاوہ اسلام سے پہلے کے اور جتنے بھی مذہب اپنے آپ کو کسی سے منسوب کرتے ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے.مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق اس آخری شرعی کتاب کی حفاظت فرمائی.اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے کسی نے ان الفاظ میں نقشہ کھینچا کہ ع رہا دین باقی نہ اسلام باقی (مسدس حالی از خواجہ الطاف حسین حالی صفحہ 32 فیروز سنز پرائیوٹ لمیٹڈ کراچی طبع اول 1988ء) لیکن ایک طبقہ ہر زمانے میں ایسا پیدا ہو تا رہا جو قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہا، اُس کی حفاظت کرتا رہا اور پھر آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات مسرور جلد نهم 50 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء و السلام کو بھیجا، مہدی معہود کو بھیجا.اور آج ہم سب احمدی اس مسیح موعود کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، اُس شخص کا ہاتھ بٹانے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جو ایمان کو ثریا سے زمین پر لایا.اُس امام سے منسوب ہونے والے ہیں جس نے دین محمد صلی یہ کام کو اصل حالت میں دنیا کے کونے کونے میں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور جس کی جماعت نے اس عہد کو پورا کرنا ہے.ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کونے کونے میں مسیح محمدی کے ذریعے دین اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری خود لی ہے اور ہمیں فرمایا کہ تم بھی اس تقدیر الہی کا حصہ بن جاؤ.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ ( تذکرہ صفحہ 260 ایڈ یشن 2004ء) اور تم اس کے حصہ دار بن کے ثواب کماؤ گے.ہمیں کس طرح اس الہی تقدیر کا حصہ بننا ہے ؟ اپنے اندر وہ انقلاب پیدا کر کے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا دے.اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر کے ، اپنے اندر سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کر کے، اپنے قول و فعل میں بیجہتی و ہم آہنگی پیدا کر کے.اب اس آیت میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ ایسی باتیں ہیں جو اگر ہم میں موجود ہوں اور اگر ہم ان کی تبلیغ کرنے والے ہوں تو یہ ہر پاک فطرت کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی ہوں گی.یہ ضروری نہیں کہ ایسی تبلیغ کی جائے جو صرف مذہبی مسائل کے لئے ضروری ہے.یہ باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں جو ایک دنیادار کو بھی اپنی طرف کھینچیں گی چاہے وہ کسی بھی مذہب کا مانے والا ہو بشر طیکہ وہ اخلاقی قدروں کی خواہش رکھتا ہے.اُس کے اندر ایک پاک فطرت ہے جو اچھے اخلاق کو چاہتی ہے، اچھی باتوں کو چاہتی ہے.بلکہ لا مذہب اور دہر یہ بھی اچھے اخلاق کو اچھا ہی کہیں گے.اچھی باتوں کو اچھا کہنے والے ہوں گے اور بری باتوں کو برا کہیں گے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنی اس ذمہ داری کو سمجھو اور دنیا کے فائدے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرو اور برائیوں سے روکو.حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ دلاؤ اور حقوق العباد کے غصب کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کر کے ایسا عمل کرنے والوں کو توجہ دلاؤ، اُن کو روکو.لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہو گی.اپنے اندر کے نظام کو ہم درست کریں گے تو ہماری باتوں کا بھی اثر ہو گا.اور اپنے اندر کے نظام کو درست کرنے کے لئے ہمیں ہر وقت یہ پیش نظر رکھنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی میرے ہر قول اور فعل پر نظر ہے، میرے ہر عمل کو وہ دیکھ رہا ہے.دنیا کو تو میں نے پہلے صرف دنیاوی اخلاق سکھاتے ہوئے نیکی کی تلقین کرنی ہے اور برائی کی پہچان کروا کر اس سے روکنا ہے لیکن میں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت بھی کرنا ہے کہ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ (آل عمران: 111) کہ یہ نصیحت کرنے والے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں اور اللہ پر ایمان اس وقت حقیقی ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی محبت سب رضاؤں اور محبتوں سے زیادہ شدید ہو گی.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لله (البقرة: 166) اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں.انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے اس کا وہ سب سے زیادہ خیال رکھتا ہے.پس جب ایمان کا دعویٰ ہو تو اللہ تعالیٰ سے محبت بھی سب سے
خطبات مسرور جلد نهم 51 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء زیادہ مقدم ہے.اور جب خدا تعالیٰ سے محبت ہو تو اس کے احکام پر عمل بھی سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے.پس جب ہم اپنے جائزے لیں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ خیر امت ہو نا صرف ایمان لانے کا اعلان کرنا نہیں ہے.اسی سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہو جاتا.بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں قدم بڑھانے سے خیر امت میں شمار ہو گا.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرنی ہو گی اور برائیوں سے دوسروں کو روکنا ہو گا.پھر ہم خیر امت کہلا سکتے ہیں اور اس صورت میں جب ایک مومن آگے قدم بڑھائے گا تو ایک حقیقی مومن سب سے پہلے یہ دیکھے گا کہ جس بات کی میں نصیحت کرنے جارہا ہوں کیا یہ نیکی مجھ میں ہے ؟ جس برائی سے میں روکنے جارہا ہوں کیا یہ برائی مجھے میں تو نہیں ؟ وہ سوچے گا کہ ایک طرف تو ایمان کی وجہ سے میرا اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے اور جن سے محبت کا دعویٰ ہو اُن کے سامنے تو انسان اپنے تمام حالات کو ویسے ہی ظاہر کر دیتا ہے.ہر راز کی بات ایک دوسرے کو پتہ لگ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو وہ محبوب ہے جو عالم الغیب والشہادۃ ہے.اس کو بتانے کی ضرورت نہیں وہ تو مخفی اور ظاہر سب علم رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ایک طرف تم ایمان کا دعویٰ کرتے ہو ، محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف میں جو تمہارے دلوں کو جانتا ہوں، میں نے تو اس میں کھوٹ دیکھا ہے یا میں کھوٹ دیکھ رہا ہوں.تم جو کہہ رہے ہو وہ کر نہیں رہے.پس اگر ایک حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کی اس بات پر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دیکھنے والا ہے، وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے تو اس کا اندرونی خود حفاظتی کا جو خود کار نظام ہے وہ اُسے راہ راست پر لے آئے گا بشر طیکہ ایمان ہو.پس ہم میں سے اگر کسی کا یہ خود حفاظتی کا خود کار نظام مؤثر نہیں تو ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ایمان کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہئے.ہر بدی ہر معاشرتی برائی ہمیں آئینہ دکھارہی ہوتی ہے.لیکن یہ آئینہ بھی اس وقت نظر آئے گا جب اللہ تعالیٰ کی محبت کی دل میں تڑپ ہو گی.اگر یہ احساس نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت غالب نہ ہو اور معاشرے اور دنیا داری کا زیادہ غلبہ ہو تو پھر برائیوں اور اچھائیوں کے معیار بدل جاتے ہیں.جماعت کی بعض روایات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور خلفاء نے مختلف وقتوں میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کو جماعت میں قائم کیا ہے.بعض باتوں کو جماعت میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے سختی بھی کی گئی اور کی جاتی ہے.اس لئے کہ ایک حقیقی مومن کا مقصدِ زندگی معروف پر عمل کرنا ہے.نیکیوں پر عمل کرناضروری ہے.اس کے بغیر نہ ہی وہ نیکیوں کی تلقین کر سکتا ہے اور نہ ہی برائیوں سے روک سکتا ہے.پس جب زمانے کے امام کے ساتھ اس لئے منسوب ہوئے کہ ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے اور خیر امت بننے کی کوشش کریں گے تو پھر دنیا داری تو چھوڑنی پڑتی ہے.خود ساختہ نیکیوں کے معیار نہیں بن سکتے.بلکہ نیکیوں کے معیار وہی بنیں گے جو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر سکھائے ہیں.اور آپ نے ان کو جماعت میں رائج کرنے کی کوشش فرمائی ہے، تلقین فرمائی ہے.یہ ایک بہت اہم چیز ہے، ایک بہت اہم بات ہے جسے ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے.
خطبات مسرور جلد نهم 52 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء گزشتہ دنوں ایک جماعت میں خلاف تعلیم سلسلہ ایک شادی پر بعض حرکات ہوئیں جس کی وجہ سے میں نے اُن لوگوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی.اُن میں سے بعض ایسے تھے جو دین کا اتنا علم نہیں رکھتے تھے ، روایات سے بھی واقفیت نہیں تھی گو کہ یہ کوئی عذر نہیں ہے.ہر احمدی کو اپنے حقیقی ایمان کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.لیکن اُن میں سے بعض ایسے بھی تھے جو دین کا علم بھی رکھتے ہیں ، جماعت کی خدمت کرنے والے بھی ہیں ، جماعتی روایات اور تعلیمات کو جاننے والے بھی ہیں.انہوں نے بھی اُس شادی میں شامل ہو کر مداہنت دکھائی، کمزوری دکھائی اور برائی سے روکنا تو ایک طرف رہا وہاں بیٹھ کر وہ سب کچھ دیکھتے رہے جو لغویات ہوتی رہیں اور بجائے اس کے کہ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر پر عمل کرتے اُس برائی کا حصہ بن گئے اور بعد میں مجھے لکھ دیا کہ ہم تو ان کی اصلاح کے لئے شامل ہوئے تھے.یہ عجیب اصلاح ہے کہ نہ اُن لوگوں کو برائی سے روکنے کی طرف توجہ دلائی، نہ نیکی کی تلقین کی اگر کوئی نیکی کی تلقین کی بھی تو مختلف موضوع پر.یہ عجیب اصلاح ہے کہ برائی کسی اور قسم کی ہو رہی ہے ، اسے دیکھ کر تو اس میں شامل ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیکی کی تلقین کی، جو پتہ نہیں حقیقت میں کی بھی گئی کہ نہیں کی گئی لیکن اگر کی بھی تھی تو اس برائی کو روکنے کے لئے نہیں کی گئی بلکہ اور قسم کی نیکیوں کی تلقین کی جاتی رہی.یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی چور کو چوری کرتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے روکنے کی بجائے، اسے پکڑنے کی بجائے، کسی کا نقصان ہونے سے بچانے کی بجائے اُس چوری میں اُس کی مدد کر دیں اور پھر بعد میں اس سے کہہ دیں کہ سچ بولنا بڑی اچھی بات ہے.سچ بولناتو یقینا اچھی بات ہے لیکن اُس وقت نیکی کی تلقین یا اس برائی سے روکنا چور کو چوری سے باز رکھنا تھا.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان ہے تو ایک احمدی کو معاشرے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے.بلکہ دین کو مقدم رکھنا ضروری ہے.آپ نے تو اپنی اولاد اور اپنے ماننے والوں کے لئے یہ دعا کی ہے کہ رعب دجال ان پر نہ آئے.تو مغرب میں رہنے والے اگر اس رُعب دجال کے اندر آگئے تو پھر رہ کیا گیا.یہ جو واقعہ ہوا اس میں بہت سے لوگ ملوث تھے جیسا کہ میں نے کہا تو مجھے یہ کہا گیا کہ بہت سارے لوگ ہیں اس سے جماعت میں بے چینی پیدا ہو جائے گی.اُن کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ سزا تو بہر حال ملے گی.اگر جماعت میں بے چینی پید اہوتی ہے، کچھ لوگ ٹوٹتے ہیں ، جاتے ہیں تو بیشک چلے جائیں مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے.لیکن ہو گا وہی جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے، جس کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے، برائیوں اور لغویات سے بچنا.قول اور فعل کا جو تضاد ہے اُس کو خدا تعالیٰ نے بھی اور اللہ تعالیٰ کے رسول نے بھی نا پسند فرمایا ہے.پہلے بھی میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں، مجھ سے پہلے خلفاء بھی کہہ چکے ہیں کہ اس قسم کی شادیوں اور فنکشنوں پر سے احمدیوں کو اگر وہ کسی احمدی کے گھر میں ہو رہے ہیں تو اٹھ کر آجانا چاہئے.ورنہ یہ بزدلی ہے اور معاشرے کی محبت کا اللہ تعالیٰ کی محبت پر حاوی ہونا ہے اور یہ عمل اُس برائی کی مدد کرنے کے مترادف ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.
53 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اب میں آنحضرت صلی للی کم کی ایک حدیث پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مومن کا معیار کیا ہونا چاہئے ؟ اس حدیث کو پڑھ کر خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ چار خصلتیں ہیں جس میں ہوں وہ پورا منافق ہے.اور جس میں ان خصلتوں میں سے ایک خصلت ہو اُس میں نفاق کی بھی ایک ہی خصلت ہو گی جب تک وہ اسے نہ چھوڑ دے.اُن خصلتوں میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے.اور دوسری بات یہ کہ جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے.تیسری بات یہ کہ جب عہد کرتا ہے تو عہد شکنی کرتا ہے.اور چوتھی بات یہ کہ جب جھگڑتا ہے تو گالی بکتا ہے.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب جنہوں نے جماعت میں صحیح بخاری کی کچھ شرح لکھی تھی.وہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ”ایمان کی بحث میں نفاق کا ذکر لانے سے بھی وہی مقصود ہے جو کفر اور شرک اور ہر قسم کی بد اعتدالی اور ناشائستگی کے ذکر کرنے سے ہے.یعنی نفاق بھی ایمان کو ناقص کرنے والا ہے.پھر لکھتے ہیں کہ ” جیسے جیسے کسی شخص میں ان علامتوں میں سے کوئی علامت پائی جائے گی ویسے ویسے اس میں نفاق زیادہ اور ایمان کم ہوتا جائے گا.نفاق کے معنی ہیں باطن کا ظاہر کے ساتھ مطابق نہ ہونا.( یعنی دل میں کچھ اور ہونا اور ظاہر میں کچھ ہونا) یا واقعہ کے خلاف ہونا“.(کہ حقیقت کچھ اور ہو اور بیان کچھ اور کیا جائے).”اور نفاق کی جو علامتیں آپ نے بتلائی ہیں وہ اس کی صحیح تفسیر ہیں.جھوٹ میں انسان کا قول ، وعدہ خلافی میں انسان کا فعل اور خیانت اور غداری میں اس کی نیت یہ سب واقعہ کے خلاف ہوتے ہیں.معاہدہ توڑنا اور گالی دینا یہ بھی واقعہ کے خلاف کرنا ہے.غرض یہ موٹی موٹی مثالیں ہیں نفاق کی حقیقت بیان کرنے کے لئے.دل میں ایمان نہ ہو زبان پر ہو، یہ بھی حقیقت حال کے خلاف ہے.یا ایمان ہو مگر اقرار نہ ہو یہ بھی واقعہ کے خلاف ہے“.( بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بڑا اچھا سمجھتے ہیں، لیکن دنیا کے سامنے اس کا اقرار نہیں کر سکتے تو یہ بھی نفاق ہے ) یا ایمان ہو اور عملاً اس کی تصدیق نہ ہو “ (ایمان بھی لاتے ہوں لیکن عمل اس کے خلاف ہوں اس تعلیم کے خلاف ہوں) یہ بھی نفاق ہے.غرض جو بات بھی یہ رنگ رکھے گی وہ نفاق ہو گا“.یہ معنی ہیں نفاق کے.(صحیح بخاری - کتاب الایمان ـ باب علامة المنافق حديث:34).(ماخوذ از صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامة المنافق حدیث 34 شرح حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب.جلد اوّل صفحہ 81 مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ) یہ برائیاں جو آنحضرت صلی عوام نے اس حدیث میں کھول کر بیان فرمائیں اس زمانے میں ہمیں بہت زیادہ نظر آتی ہیں.اور معاشرے کے زیر اثر یقینا ہم میں سے بھی بعض ان میں سے کسی نہ کسی کا شکار ہیں یا ہو رہے ہیں.آنحضرت صلی ال نیم کے مطابق ان میں سے کسی ایک کا بھی ہونا دل کے ایک حصہ کو نفاق میں مبتلا کر دیتا ہے.شاید انہی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ آنحضرت کے زمانے میں جو منافق تھے اگر وہ اس زمانہ میں ہوتے تو بڑے بزرگ اور مومن سمجھے جاتے کیونکہ شرجب بہت
54 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بڑھ جاتا ہے تو اس وقت تھوڑی سی نیکی کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے.وہ لوگ جن کو منافق کہا گیا ہے اصل میں وہ بڑے بڑے صحابہ کے مقابل پر منافق تھے“.(ملفوظات جلد 5 صفحہ 310-311 مطبوعہ ربوہ) لیکن ہمیں یادر کھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ہمارے معیار عام مسلمان سے اونچے ہونے چاہئیں.ہمارے لئے اس زمانے کے کمزور ایمان والے یا بعض باتوں میں کمزوریاں دکھانے والے اسوہ نہیں ہیں بلکہ وہ صحابہ اسوہ ہیں جو اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے تھے.جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی اور اپنی رضا کی خوشخبریاں دی ہیں.پس ہم نے وہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ کم کو پسند ہیں.ہماری امانت کے معیار بہت اعلیٰ ہونے چاہئیں.قومی امانتیں ہوں ، جماعتی امانتیں ہوں یا ذاتی امانتیں ہوں ہم نے ہر ایک کا حق ادا کرنا ہے.ہم کسی سرکاری دفتر میں کام کر رہے ہیں تو قطع نظر اس کے کہ ساتھ کا عملہ کیا عمل دکھا رہا ہے ہمارا اپنا امانت کا معیار ہو نا چاہئے جو دوسروں سے ممتاز کرنے والا ہو.پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں تو وہاں ایک احمدی کا نمونہ ہو جو دوسروں سے ممتاز کر رہا ہو.آج ہم بڑے فخر سے غیر وں کو بتاتے ہیں کہ احمدی کا امانت کا معیار دوسروں سے بہتر ہے.لیکن صرف یہ بہتر ہونا کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ فخر کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ ترین معیار ہو.تیسری دنیا کے ملکوں میں جہاں ترقی کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ بعض جگہ تو منفی رفتار ہے ، وہاں یہی وجہ ہے کہ ہر شعبے میں اور ہر جگہ پر اور ہر سطح پر امانت میں خیانت کی جارہی ہے مثلاً پاکستان کو یہ تو بڑا فخر ہے کہ ہم مسلمان ملک ہیں لیکن اب جو نئے اعداد و شمار آئے ہیں، کرپشن کرنے والے ممالک میں اس کا نمبر پہلے سے بڑھ گیا ہے.اسی طرح بعض اور مسلمان ممالک ہیں یا بعض ممالک کے مسلمان ہیں جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں لیکن خیانت میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھتے چلے جارہے ہیں.تو کیا صرف مسلمان ہونے سے خیر امت بن جائیں گے ؟ کیا صرف اسلامی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کرنے سے خیر امت بن جائیں گے ؟ ان لوگوں میں ایک دو برائیوں کا سوال نہیں ہے بلکہ تمام برائیاں ہیں لیکن پھر بھی مومن ہیں.اور جو حقیقی مومن ہیں وہ ان کی نظر میں کا فر ہیں.آج کل کے ایسے ہی نام نہاد مومنوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ آنحضرت کے زمانے کے منافقین ان نام نہاد مومنوں سے بہتر تھے.پس امانت کے معیار قائم کرنے کے لئے اور اس امانت کی حفاظت کرنے کے لئے جس کے امین آنحضرت صلی الم تھے ایک احمدی ہی ہے جو صحیح حق ادا کر سکتا ہے اور حق ادا کرنا چاہئے تاکہ خیر امت میں شمار ہوں.اس بگڑے ہوئے معاشرے میں یہ حق اپنے نمونے قائم کر کے اور ماحول کو نصیحت کر کے ادا ہو گا.آنحضرت جس امانت کو لے کر آئے تھے اور جو دنیا کو خدا تعالیٰ کا توحید کا پیغام پہنچانا تھا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادا ئیگی تھی تو یہ امانت ہے جو ایک احمدی کے ذمہ لگائی گئی ہے.پس آج احمدی اس امانت کا بھی سب سے بڑھ کر امین ہونا چاہئے.اور اس مقصد کے لئے سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح سے اس امانت کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کر کے اس امانت کا حق ادا ہو گا.اپنے بچوں کی تربیت کر کے اس امانت کا حق ادا ہو گا تا کہ ان حقوق کی ادائیگی کی روح انگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی چلی جائے.
55 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پھر آنحضرت نے منافق کی ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے.جو بات کرے گا اس میں جھوٹ کی ملونی ہو گی.(بخاری کتاب الایمان باب علامة المنافق حديث نمبر (33) جھوٹ بولنے والے کے لئے کتنی خطر ناک تنبیہ ہے اور اگر دیکھیں تو یہ قول و فعل کا تضاد ہے اور یہ تضاد ہی منافقت ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ ہے دوسری طرف جھوٹ ہے.گویا جھوٹ کو خدا تعالیٰ کے مقابلے پر لا کھڑا کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے جھوٹ اور بت پرستی کو ایک جگہ بیان فرمایا یعنی جھوٹ اور شرک کو اکٹھا فرمایا.یہ دو باتیں جس میں جمع ہو جائیں یا صرف جھوٹ ہی بولنے والا ہو تو وہ مشرک ہے.اور اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ جھوٹ ہے تو ہر ایک جانتا ہے کہ یہ غلط بیانی ہے اور بڑا واضح نفاق ہے.یعنی اس طرح انسان جھوٹ بول کر اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بجائے شرک کے زیادہ قریب ہو رہا ہوتا ہے.منہ سے بیشک یہ دعویٰ ہے کہ میں مومن ہوں لیکن عمل اس کی نفی کر رہا ہوتا ہے.کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت جھوٹ اور سچ کے اس فرق کو بھول بیٹھی ہے.پس آج اگر احمدیوں نے اس کے خلاف جہاد نہ کیا، اپنے نفس اور اپنے ماحول کو اس سے پاک کرنے کی کوشش نہ کی تو ایک ایسا داغ دل میں لگانے والے بن جائیں گے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے اور اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اصلاح کے لئے آئے تھے، شریعت کے قیام کے لئے آئے تھے، اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھانے کے لئے آئے تھے.اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اینم کی کامل پیروی کرتے ہوئے آپ کی اتباع میں آئے تھے.اگر ہم میں بھی جو آپ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں جھوٹ قائم رہے گا تو شریعت کا قیام کس طرح ہو گا؟ یہ جتنے دعوے ہم کر رہے ہیں یہ کس طرح پورے ہوں گے ؟ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کو دیکھیں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے پر نظر ڈالنی چاہئے کہ کس حد تک ہماری اصلاح ہو رہی ہے.آنحضرت نے منافق کی تیسری علامت یہ بتائی کہ جب عہد کرے، معاہدے کرے تو غداری کرتا ہے.( بخاری کتاب الایمان باب علامة المنافق حدیث نمبر 33) اُن کو ایفاء نہیں کرتا.بد عہدی کرتا ہے.آج کل دنیا میں یہی حالات ہیں.کاروباروں میں بد عہدی ہے.روز مرہ کے معاملات میں بد عہدی ہے.قومی سطح پر اتنی بد عہدی ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.ایک تجارت کا معاہدہ کرتے ہیں اور اس میں اتنی خیانت اور بد عہدی ہے کہ تصور سے باہر ہے.کسی نے مجھے بتایا بلکہ ایک کاروبار کرنے والے نے ہی بتایا کہ پاکستان سے ہم جو اچھا باسمتی چاول دنیا کو بھیجتے ہیں اُس کے درمیان میں ہم نے ایک ایسا طریقہ رکھا ہوا ہے جس میں اِری جو باسمتی چاول نہیں ہوتا، موٹے چاول کی ایک قسم ہے لیکن اتنا موٹا بھی نہیں ہوتا وہ اس طریقے سے ڈالتے ہیں کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے.اور یہ کوئی پر واہ نہیں کہ اگر پتہ لگ جاتا ہے تو اس سے ان کی تجارت پر بھی اثر پڑے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کی بدنامی
خطبات مسرور جلد نهم 56 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء ہو گی.پھر اسی طرح اور بہت سے کام ہیں جو کئے جاتے ہیں.یعنی یہ صرف بد عہدی نہیں ہے بلکہ خیانت بھی ہے، جھوٹ بھی ہے.صرف چار پیسے کمانے کے لئے یہ بد عہدی کر رہے ہوتے ہیں.اور جس رسول صلی الم کی طرف منسوب ہو رہے ہیں ، انہوں نے کیا توقع آپ سے رکھی ہے.انہوں نے تجارت میں تو سوال ہی نہیں جنگی معاہدات میں بھی اور عام معاہدات میں بھی اپنا کیا اسوہ قائم کیا ہے اور کس طرح باریکی سے اس کو پورا فرمایا کہ دنیا کے کسی معاہدے میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی.مثلاً صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب ابھی لکھا جارہا تھا، زبانی شرطیں طے ہو رہی تھیں تو مکہ سے آنے والے ایک صحابی کو آپ نے کفار کے مطالبے پر واپس بھجوا دیا.آپ نے انہیں یہ نہیں کہا کہ ابھی تو شرائط نہیں لکھی گئیں اس لئے واپس نہیں جائے گا.لیکن کیونکہ زبانی ہو چکا تھا، لکھی جارہی تھیں آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تم واپس جاؤ، جب کہ آپ کو علم بھی تھا کہ اس کے واپس جانے سے اس کی جان کو بھی خطرہ ہے.(السيرة النبوية لابن هشام الامر الحديبية على يكتب شروط الصلح صفحه 687 دار الكتب العلميه بيروت 2001ء) تو یہ تھے آپ کے معیار.پس آج آپ کے غلام صادق کے غلاموں نے بھی ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.(پھر ایک دفعہ آپ) بازار میں جارہے تھے.آپ نے ایک ڈھیری پر ہاتھ ڈالا جو گندم کی یا مکئی کی تھی تو پیچ میں آپ کو گیلی گندم نظر آئی.آپ نے کہا تم یہ دھوکہ دے رہے ہو اور ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا.(صحیح ابن حبان كتاب البيوع ذكر الزجر عن غش المسلمين بعضهم بعضا......حديث 4905 دارالمعرفة بيروت 2004ء) تو ہم نے اس قسم کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.تب ہی اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتے ہوئے ہم حقیقی نصیحت کرنے والے بن سکیں گے.پھر ایک علامت منافق کی یہ ہے کہ بحث کرتے ہیں تو فحش کلامی کرتے ہیں، گالم گلوچ پر آ جاتے ہیں.(بخاری کتاب الایما ن باب علامة المنافق حدیث نمبر 34) اب یہ خصوصیت آج کل ہم اپنے مخالفین میں دیکھتے ہیں کہ کتنی زیادہ ہے ؟ اس کا ہر وہ ٹی وی چینل اور ویب سائٹ خود اظہار کر رہے ہیں جو جماعت کے خلاف چل رہے ہیں.پس ایک احمدی کا فرض ہے کہ اس بات سے بچیں.یہ جو نشانی ہے جس کا مخالفین کی طرف سے اظہار ہو رہا ہے یہ انہی کا حصہ ہے.ایک احمدی کو اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے اور کبھی سختی کا جواب اس رنگ میں نہیں دینا چاہئے جس سے گالم گلوچ یا مخش کلامی کی صورت پیدا ہو جائے.ہمارے سامنے ہمیشہ وہ اسوہ ہونا چاہئے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی الی یکم نے قائم فرمایا.اور پھر آپ کے غلام صادق، مسیح الزمان علیہ السلام نے ہمیں دکھایا کہ منہ پر لوگ آپ کو برا بھلا کہتے رہے لیکن کبھی اُس رنگ میں جواب نہیں دیا بلکہ صرف نظر ہی فرمایا.آپ تو رحمت للعالمین تھے.آپ سے تو ہر ایک کو صرف نرمی ہی نہیں بلکہ سختی کے جواب میں بھی رحمت ملی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھے جو ایمان کو برباد کرنے والی ہیں اور معاشرے کے امن کو برباد کرنے والی ہیں.ہم ہمیشہ حقیقی رنگ میں تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ پر عمل کرنے والے ہوں.آج بد قسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت میں انہی بیماریوں کی وجہ سے مسلمانوں کی بدنامی ہو رہی ہے.یہ
خطبات مسرور جلد نهم 57 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء جھوٹ اور امانت میں خیانت، اور معاہدوں کا پاس نہ کرنا، اُن کو آنر (Honour) نہ کرنا، یہی چیز ہے جس نے ملکوں کے امن بر باد کر دیئے ہیں.اکثر مسلمان ملکوں کے اندر حکومتوں اور سیاستدانوں اور عوام کے درمیان جو جنگ کی صورت پیدا ہوئی ہوئی ہے وہ اسی نفاق کا نتیجہ ہے جس کی نشاندہی آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمائی ہے.(مسلمان) ملکوں میں جو نفاق پیدا ہوا ہے اس سے فائدہ اٹھا کر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بیہودہ گوئیاں کرنے اور بدنامی کا موقع مل رہا ہے.اسرائیل کے ایک اخبار میں ایک یہودی نے ایک کالم لکھا کہ اسلام کی تعلیم تو امن پسند ہے ہی نہیں اور ان مسلمانوں کے جو عمل ہیں اس سے یہ واضح ہے کہ اسلام کی تعلیم اس کے خلاف ہے.لکھتا ہے کہ اگر امن کی تعلیم ہے تو یا یہودیت میں ہے یا عیسائیت میں ہے اور اگر مسلمانوں میں کہیں امن کی کوئی بات ہوتی نظر آتی ہے تو وہ ایک بہت تھوڑی اقلیت ہے جو امن کی بات کرتے ہیں.تو یہ کتنا بڑا المیہ ہے.وہ لوگ جن کی تعلیم میں واضح طور پر سختی کی تعلیم لکھی گئی ہے مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے اسلام کی تعلیم پر اعتراض کر رہے ہیں اور انگلی اٹھا رہے ہیں.ہم احمدی اس بات پر تو خوش نہیں ہو سکتے کہ ایک محدود اقلیت سے احمدیوں کی طرف اشارہ ہے یا ایک گروپ مسلمانوں کی طرف بھی ہے تو ہم اس بات پر خوش ہو جائیں کہ چلو ایک اقلیت گروپ جو ہے وہ بدنام نہیں ہے اور امن کی بات کر رہا ہے.ہماری خوشی تو تب ہو گی جب مسلمانوں کی اکثریت کے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ اسلام کی تعلیم کی وجہ سے محبت، پیار اور امن کا پیغام دینے والے ہیں.اسلام کی تعلیم پر یہ گھناؤنا الزام ہے جو ان لوگوں نے لگایا ہے اور لگارہے ہیں اور لگاتے چلے جارہے ہیں اور مسلمانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں.ہمارے لئے تو یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے.ہماری خوشی جیسا کہ میں نے کہا، ایک احمدی کی خوشی تو اس وقت ہو گی جب دنیا یہ کہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی ال یکم کی تعلیم امن، پیار اور محبت کی تعلیم ہے.اور صرف یہی تعلیم ہے جو اس قدر خوبصورت تعلیم ہے کہ جس کے بغیر دنیا میں امن قائم ہی نہیں ہو سکتا.پس آج ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو بھی عقل دے اور وہ حقیقی رنگ میں خیر امت بننے کا حق ادا کرنے والے بنیں اور ہم بھی حقیقی رنگ میں اپنا فرض ادا کرنے والے بن سکیں.گزشتہ خطبے میں میں نے ایک حوالہ پیش کیا تھا.اُس کی وضاحت بھی میں کرنا چاہتا ہوں.وہ ابو لہب کا حوالہ تھا جو آنحضرت صلی الم سے توہین کا سلوک کرتا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کو بھیڑیوں نے چیر پھاڑ دیا.اس میں ایک غلطی تھی جس کی اصلاح آج کرنا چاہتا ہوں.عموما تو میں قرآن اور حدیث ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے خود بھی چیک کر لیتا ہوں یا چیک کروالیتا ہوں.لیکن ہمارے لٹریچر میں یہ مضمون ہمارے علماء میں سے ایک نے لکھا تھا تو اس میں سے میں نے لے لیا.خیال تھا کہ صحیح حوالہ ہو گا لیکن بہر حال اس میں غلطی ہے.لیکن یہ غلطی بھی ایسی ہے جو اس لحاظ سے بہتر ثابت ہو رہی ہے کہ اس کا تعلق ابو لہب سے نہیں بلکہ اس کے بیٹے عتیبہ کی ہلاکت سے ہے (جو خود بھی رسول اللہ صلی الی یکم کی توہین کیا کرتا تھا).اس کی تفصیل یہ ہے کہ روح المعانی میں ایک
58 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم روایت میں یہ ہے کہ ابو لہب کی ہلاکت کے بارے میں سورۃ لہب کی پیشگوئی غزوہ بدر کے سات دن بعد پوری ہوئی، اور وہ طاعون جیسی بیماری السر سے ہلاک ہوا اور تین دن اس حال میں رہا کہ اس سے بو آنے لگی.اس کے خاندان والوں نے ذلت سے ڈر کر ایک گڑھا کھود کر اس کو ایک لکڑی کے ساتھ دھکیل کر اس میں گرا دیا اور پھر اس کے اوپر پتھر پھینک کر اس گڑھے کو پُر کر دیا.(روح المعانی جز 30 صفحه 687 تفسير سورة تبت زير آيت ما اغنى عنه ماله مطبوعه دار احياء التراث بیروت 2000ء) تو اللہ تعالیٰ نے اس توہین کا یہ بدلہ لیا.اور ایک روایت تاریخ طبری کی یہ بھی ہے کہ اُس کو ایک ایسے پھوڑے میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا.اور اس کے دونوں بیٹوں نے دو یا تین راتوں تک اسے نہ دفنایا یہاں تک کہ لاش گھر میں سڑنے لگی.بُو آنے لگی اور پھر اس کو بُو سے ہی دفنا دیا گیا.(تاریخ الطبری جلد 3 صفحه 41 ثم دخلت السنة الثانية من الهجرة ذكر واقعه بدر دارالفكر بیروت 2002ء) بہر حال انجام اُس کا بھی بُرا ہو اور ساتھ اس کے بیٹے عتیبہ کا انجام بھی براہوا.بہر حال میں یہ کہہ رہا ہوں کہ غلطی کی وجہ سے ایک کی بجائے دو( ابو لہب اور عتیبہ کے بارہ میں) روایتیں مل گئی ہیں.عتیبہ کا نکاح آنحضرت صلی للی نظم کی صاحبزادی اُم کلثوم سے ہوا تھا.ایک روایت میں آتا ہے کہ وہ سفر شام پر جانے سے پہلے آنحضرت کی ایذارسانی کی غرض سے آپ کے پاس گیا اور کہا میں سورۃ نجم کا انکاری ہوں پھر ازراہ تحقیر و توہین آپ کے سامنے تھوک کر آپ کی صاحبزادی کو طلاق دی.تب رسول اللہ صلی الیم نے خود کچھ نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف بد دعا دی، اور اسی سفر میں وہ بھیڑیئے یا شیر کے پھاڑنے سے ہلاک ہو گیا.(روح المعانی جز 30 صفحه 687 تفسیر سورة تبت زیر آیت ما اغنى عنه ماله...مطبوعه دار احياء التراث بيروت 2000ء) بہر حال یہ روایت تو اور بھی جگہوں سے مل رہی ہے.خطبہ کے علاوہ تیسری بات جو ہے وہ یہ ہے کہ ابھی نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو مکرم رشید احمد بٹ صاحب ابن مکرم میاں محمد صاحب مرحوم لاہور کا ہے.ان کی 18 اکتوبر 2010ء کو اکہتر سال کی عمر میں بعارضہ قلب وفات ہوئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ 28 مئی 2010ء کو دارالذکر میں تھے اور ان کے بھی ٹانگ پر گولی لگی تھی.زخمی ہوئے تھے.ریسکیو والے آپ کو ڈسٹرکٹ ہسپتال میں چھوڑ آئے جہاں وہ ایک روز داخل رہے.ان کا خون زیادہ بہہ گیا تھا، بہت زیادہ کمزوری ہو گئی تھی، اس وجہ سے دل پر بھی اس کا اثر پڑا.آپ کی جماعتی خدمات یہ ہیں کہ سیکر ٹری رشتہ ناطہ سیکر ٹری اصلاح و ارشاد، زعیم انصار اللہ رہے.نہایت نیک، تہجد گزار ، صاحب رؤیا و کشوف اور خدمتِ خلق اور دعوت الی اللہ کا بھر پور جذبہ رکھنے والے مخلص اور فدائی احمدی تھے.آپ کو ہو میو پیتھی سے بھی لگاؤ تھا.اپنے گھر میں میڈیکل کیمپ لگا کر لوگوں کو فیض پہنچایا کرتے تھے.اور ہزاروں لوگوں نے آپ سے فیض پایا.خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا.اپنی ہر کامیابی کو خلیفہ وقت کی دعاؤں کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے.
خطبات مسرور جلد نهم 59 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 فروری 2011ء 28 مئی کے واقعہ کے بعد انہوں نے اپنا ایک کشف سنایا کہ میں نے ایک اُڑن کھٹولا دیکھا جو فضا میں پھر تاجارہاتھا تو میں نے خواہش کی کہ دیکھوں اس میں کیا ہے؟ تو وہ اُڑن کھٹولا میرے اوپر ٹیڑھا ہو گیا.اور میں نے اس میں دیکھا کہ ستارے جھلمل جھلمل کر رہے ہیں اور کافی دیر تک میرے سامنے رہے.پھر اس کے بعد وہ اُڑن کھٹولا آسمان کی طرف چلا گیا.کہتے ہیں میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ یہ شہداء ہیں جو لاہور کی مساجد میں 28 مئی کو جان دے کر امر ہو گئے.کہتے ہیں کہ کچھ دن بعد جب خطبہ میں میں نے ذکر کیا تو ان کو مزید تسلی ہوئی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ دے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 فروری تا 3 مارچ 2011 ، جلد 18 شماره 8 صفحہ 5 تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 6 60 60 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء بمطابق 11 تبلیغ 1390 ہجری بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) شمسی تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا ۚ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوْتَ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.(سورة البقرة آيات 154 تا 158) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد مانگو.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُن کو مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے.اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے.اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.یہی لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں.گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں درندگی اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفین احمدیت نے جو تین احمدیوں کو شہید کیا ہے اُس سے ہر احمدی غمزدہ ہے.لیکن جیسا کہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت بھی اور ہر احمدی کا ایک مومن ہوتے ہوئے بھی یہی طریق رہا ہے کہ ہم صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان، مال اور ہر قسم کے نقصان کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوتے ہوئے برداشت کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ انَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہ یقینا ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں.یہی مومنین کی اللہ تعالیٰ نے نشانی بتائی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 61 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، انہیں آج احمدیوں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے.دشمن بار بار ہم سے یہ سلوک کرتا ہے اور ہم بار بار ان آیات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے دہراتے رہتے ہیں.جان، مال کی قربانیاں چاہے انڈو نیشیا کا احمدی دے رہا ہو ، یا پاکستان کا احمدی دے رہا ہو ، یا کسی اور ملک کا احمدی دے رہا ہو ، جو مومنانہ شان کا مظاہرہ کرنے کی روح آنحضرت صلی الی و کمر کے عاشق صادق نے ایک احمدی کے دل میں پھونک دی ہے وہ ہر جگہ کے رہنے والے احمدی میں ایک قدر مشترک ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر جو نقصان پہنچایا جارہا ہے ، خدا تعالیٰ کی خاطر جو ہم سے قربانی کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی جواب کی تلقین فرمائی ہے اور اسی جواب کا عملی مظاہرہ ہمارے آقاوسید حضرت محمد مصطفی صلی علیم نے فرمایا تھا اور یہی روح آپ نے اپنے صحابہ میں پھونک دی تھی جنہوں نے اس کے عملی نمونے دکھائے.بلکہ ہر نبی کے ماننے والے پر جب اس کے دشمنوں نے زندگیاں تنگ کیں، ہر زمانے کے فرعون نے جب ایمان لانے والوں کو جان سے ہاتھ دھونے یا اپنے ایمان سے پھر جانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی شرط رکھی تو ایمان لانے والوں نے ہمیشہ اپنے ایمان کی مضبوطی کا ہی اظہار کیا.چنانچہ حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی جب شعبدہ دکھانے والوں پر یہ ظاہر ہو گیا کہ ہمارے جادو کے مقابلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام جو پیش کر رہے ہیں وہ دنیاوی جادو نہیں ہے بلکہ تائید الہی ہے اور ایک ایسا نشان ہے جس کا دنیاوی تدبیروں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.جب اُن پر یہ حقیقت کھل گئی کہ جو پیغام حضرت موسیٰ علیہ السلام دے رہے ہیں وہ الہی پیغام ہے تو وہ اس پر فوراً ایمان لے آئے.اس پر فرعون کی فرعونیت کو بڑی ٹھیس پہنچی.غصہ سے لال بھبھوکا ہو گیا.اُس نے کہا کہ تمہارے اس فعل کی میں تمہیں ایسی عبرتناک سزا دوں گا جو ہمیشہ یاد رہے گی تو اس پر ایمان لانے والوں نے فرعون کو یہی جواب دیا تھا کہ ہم تمہیں خدا تعالیٰ کے نشانات پر فوقیت نہیں دے سکتے ، خدا تعالیٰ پر ایمان پر فوقیت نہیں دے سکتے.فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا (طه: 73).یعنی پس ہمارے ایمانوں کو پھیر نے کے لئے تو جتنا زور لگا سکتا ہے لگا لے.تو صرف ہماری اس دنیاوی زندگی کو ہی ختم کر سکتا ہے.لیکن ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان ہو کر ہمیں جو ملنے والا ہے وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے جس کا تیری بادشاہت تصور بھی نہیں کر سکتی.پس اگر موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے اس ایمان کا مظاہر ہ کر سکتے ہیں تو ہم تو اس افضل الرسل اور خاتم الانبیاء صلی علیم کے ماننے والے ہیں جس پر کامل شریعت اتری، جس پر عمل کرنے سے ہم ایمانوں کی انتہا تک پہنچ سکتے ہیں.اور پھر آنحضرت صلی علیکم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے اُس مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں جس نے ایمان ثریا سے لا کر پھر ایک سلسلہ نشانات کے ذریعہ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کیا.پس کیا ہم آج کے فرعونوں یا فرعون کے چیلوں سے ڈر کر اپنا ایمان ضائع کر دیں گے ؟ جبکہ ہمیں تو خدا تعالیٰ بَشِّرِ الصُّبِرِین کی خوشخبری دے رہا ہے.ہمیں ہمارے صبر کے مظاہروں اور جان کے نذرانے پیش کرنے پر ہمیشہ کی زندگی کی بشارت دے رہا ہے.پس جو لوگ ایمان کی اس حالت پر پہنچے ہوں انہیں نہ دھمکیاں اپنے نیک مقاصد سے ہٹا سکتی ہیں ، نہ ظلم و بر بریت کی انتہا اپنے ایمانوں پر قائم رہنے سے روک سکتی ہے.پس اے دشمنانِ احمدیت! جو دنیا کے
62 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کسی بھی کونے میں بس رہے ہو، تم احمدی پر جو بھی ظلم روا رکھنا چاہتے ہو رکھ لو لیکن ہمیں ہمارے ایمانوں سے سر مو ہٹا نہیں سکتے.ہر جگہ کے احمدی سے تم یہی جواب سنو گے کہ فَاقْضِ مَا انْتَ قَاضٍ تم جو کر سکتے ہو کر لو.ہمیں ہمارے ایمانوں سے نہیں پھیر سکتے.انشاء اللہ تعالی.انڈونیشیا کے احمدیوں نے بھی دشمن کو یہی جواب دیا.وقتاً فوقتاً ان لوگوں کو پہلے دھمکیاں مل رہی تھیں لیکن ایمان کی دولت سے مالا مال ان لوگوں نے ان دھمکیوں کی ذراسی بھی پروا نہیں کی.یہ چھوٹی سی جماعت ہے جہاں یہ واقعہ ہوا ہے.صرف تمہیں افراد پر مشتمل گل جماعت ہے جس میں عورتیں بچے شامل ہیں.سات فیملیز ہیں.صرف سات خاندان ہیں.لیکن یہ سب اس بات پر دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر راضی نہ تھے کہ جماعت سے علیحدگی کا اعلان کریں اور ان نام نہاد ملاؤں کے پیچھے چل پڑیں.اس وقت وہاں ملاں کا یا جو ان کے چیلے تھے اُن کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ اپنے معلم کو یہاں سے نکالو جبکہ معلم کوئی غیر نہیں تھا.کوئی باہر سے آیا ہوا نہیں تھا.بلکہ اُسی قصبے کا رہنے والا تھا.وہیں کا باشندہ تھا.بہر حال جب مخالفت حد سے زیادہ بڑھنی شروع ہوئی تو ساتھ کی جماعتوں کے ہیں خدام مختلف وقتوں میں ڈیوٹی کے لئے وہاں آیا کرتے تھے.وہ وہاں مشن ہاؤس میں آکر بیٹھتے تھے کہ یہ لوگ کہیں مشن ہاؤس پر قبضہ نہ کر لیں.کیونکہ عموماً پولیس کی پشت پناہی ان کو حاصل ہے اور ہمارے ساتھ ان لوگوں کا یہی طریق رہا ہے کہ جب ہم انتظامیہ کے کہنے پر یالوگوں کی وجہ سے اپنا کوئی مکان یا مشن ہاؤس یا مسجد خالی کرتے ہیں تو انتظامیہ اس پر تالے لگا دیتی ہے یا لوگوں کو قبضہ کروادیتی ہے یا خود بھی اگر یہ قبضہ کر لیں تو انتظامیہ اُسے خالی نہیں کرواتی.یہ گزشتہ کئی سال سے تجربہ ہو رہا تھا.اس لئے اب اُس کے بعد سے یہی فیصلہ ہوا ہے کہ جو بھی گزر جائے ہم نے کبھی بھی جگہ خالی نہیں کرنی.ہمارے لوگ مشن ہاؤس میں تھے اور اندر بیٹھے تھے.ان ظالموں نے جب حملہ کیا ہے تو اندر جاکر در انتیوں اور ٹوکوں اور چاقوؤں اور ڈنڈوں سے احمدیوں کو زخمی کر کے کھینچتے ہوئے باہر لے آئے جبکہ پولیس بھی باہر کھڑی تھی اور یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی.سب نے یہ خبر سن لی ہے کہ تین احمدیوں کو شہید کیا اور پانچ کو زخمی کیا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت کی ایمانی حالت اُسی طرح مضبوط ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہے.یہ سب کچھ انتہائی ظالمانہ طریق پر کیا گیا.زمانہ جاہلیت کے کفار کی مثال قائم کر دی گئی.افسوس کہ ان نام نہاد ظالم مسلمانوں نے ہمیشہ کی طرح اُس رَحْمَةٌ لِلعلمین کے نام پر یہ کیا ہے جو رحمتیں بانٹنے آیا تھا.جس عظیم نبی نے جنگ میں بھی بعض اصول مقرر فرمائے تھے کہ ان کی پابندی کی جائے.جس نے جنگ کے جرم میں ملوث مقتولوں کے بارہ میں بھی یہ ہدایت دی تھی کہ ان کا مثلہ نہیں کرنا جو عرب میں عام رواج تھا.کیونکہ یہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے کہ لاشوں کی بے حرمتی کی جائے.مذہب تو ایک طرف، انسانیت کے ادنیٰ اصولوں کے بھی یہ خلاف ہے.لیکن ہمارے احمدیوں پر حملہ کرنے والے ان ظالموں نے ایسے ظالمانہ طور پر لاشوں کی بے حرمتی کی ہے کہ لاشیں پہچانی نہیں جاتی تھیں.پہلے جو رپورٹ آئی تھی اس میں غلطی سے کچھ دوسرے لوگوں کا نام دے دیا گیا تھا.پھر جب دوبارہ پہچان کی گئی تو پتہ لگا کہ نہیں، یہ تو اور لوگ ہیں.اُن کے عزیزوں نے
63 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم آکر پھر مختلف نشانیوں سے اُن لاشوں کو پہچانا.ان لوگوں نے تو لاشوں کی بے حرمتی میں کفار کو بھی مات کر دیا تھا.ہمارا دل ان کی حرکتوں پر جو ہمارے پیاروں کی شہادت اور اُن کی لاشوں سے بے حرمتی پر انہوں نے کیں، بے شک غمزدہ تو ہے اور بے قرار ہے لیکن سب سے بڑا ظلم جو ان لوگوں نے کیا، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے آقا و مولیٰ اور محسن انسانیت اور رَحْمَةٌ لِلْعَلَمينَ علی ایم کے نام پر کیا گیا.یہ اس قدر ظالمانہ کام تھا کہ ملکی اور غیر ملکی دونوں پر میں نے اس کی خبریں دی ہیں اور ویڈیو دکھانے سے اس لئے انکار کر دیا کہ یہ جو انسانیت سوز نظارے ہیں، جو مناظر ہیں، یہ ہم نہیں دکھا سکتے.الجزیرہ چینل جو عموماً اس قسم کی خبریں دے دیتا ہے، اس حرکت پر تو اس نے بھی کانوں کو ہاتھ لگایا.الجزیرہ نے اپنی خبر میں بتایا کہ یہ ایک خوفناک اور دردناک منظر تھا.پولیس کھڑی تھی اور ایک جلوس احمدیوں کے گھروں پر حملہ آور تھا.کہتا ہے پھر قتل و غارت شروع ہوتی ہے اور تین آدمیوں کو ننگا کر کے پتھروں اور لاٹھیوں سے اور چاقوؤں اور نیزوں سے مارا گیا.یہ کہتا ہے کہ اس کی جو فو شیح (Footage) بنائی گئی ہے ، جو تصویریں کھینچی گئی ہیں وہ ایسی نہیں کہ دکھائی جاسکیں.ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے کہا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو یہ ظالمانہ کارروائی ہوئی ہے اس کو مقامی لوگ انڈونیشین علماء کو نسل کے فیصلہ کے مطابق صحیح سمجھتے ہیں.مقامی لوگوں سے مراد وہ جو کرنے والے تھے.یہ ہیں آج کل کے علماء جو آج سے ہزاروں سال پہلے کے جاہلانہ اور ظالمانہ کاموں کو اسلام کے نام پر کرنے کی مسلمانوں کو ترغیب دلا رہے ہیں.The Economist ایک رسالہ ہے، اُس نے لکھا ہے کہ یہ ظلم مسلمانوں اور عیسائیوں کی لڑائی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ مسلمان کہلانے والوں نے مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے.پھر لکھتا ہے کہ اگر کسی میں اس ظالمانہ عمل کی فلم دیکھنے کی طاقت ہو تو دیکھو گے کہ یہ ظالمانہ قتل و غارت گری بالکل مختلف قسم کی تھی جو آج کل کی تعلیم یافتہ اور مہذب دنیا سے بعید ہے.پھر لکھتا ہے کہ جس نے دوسرے شہریوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے.ہمارے بہت سارے احمدیوں نے بھی اس کی ویڈیو دیکھی ہے اور جس نے بھی دیکھی ہے مجھے یہی لکھا ہے کہ ایک آدھ منٹ سے زیادہ ہم دیکھ نہیں سکے.ایک خاتون نے لکھا کہ میں نے بچوں سے چھپ کر دیکھی اور رونے لگی اور بچے پریشان تھے کہ کیا وجہ ہے ؟ ہماری ماں کیوں رو رہی ہے ؟ اسی طرح ایک الجیرین احمدی میرے پاس آئے اور ذکر کرتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئے.اُس کا ایسا خوفناک نقشہ ہے کہ آدمی برداشت نہیں کر سکتا.لیکن ان لوگوں نے اپنے بچوں تک کے دل اتنے سخت کر دیئے ہیں کہ وہاں کھڑے سارے نظارے پر وہ تالیاں بجاتے رہے.نیو یارک ٹائمز ، فنانشل ٹائمز ، ان سب نے تقریباً اسی طرح کی خبریں لکھی ہیں.جکار تا پوسٹ جو اُن کا اخبار ہے، اُس میں ایک مضمون نگار کا مضمون ہے، وہ لکھتا ہے کہ ”جماعت احمد یہ کے افراد پر تازہ حملہ جس وجہ سے بھی ہوا، لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اقلیتی گروپ کے لئے کسی بھی قسم کے مہذب جذبات اور خیالات نہیں ہیں.جبکہ یہ احمدی بھی اور دوسرے مذہبی گروپ بھی تعمیر وطن
خطبات مسرور جلد نهم 64 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء میں برابر کے حصہ دار ہیں.انڈو نیشیا کی تعمیر میں برابر کے حصہ دار ہیں.لکھتا ہے کہ یہ افسوس ناک واقعہ انڈو نیشیا کی تاریخ کا ہمیشہ کے لئے ایک انمٹ حصہ بن چکا ہے.پھر لکھتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی تعلیم غیر اسلامی ہے اس لئے ان کو جینے کا کوئی حق نہیں، یہ سب لوگ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں یا بھٹکا دیئے گئے ہیں.پھر لکھتا ہے کہ بیسویں صدی کی نئی سوچ اور ترقی پسند سوچ احمدی سکالرز نے ہی انڈونیشیا کو دی ہے.کہتا ہے کہ ہمارے لیڈروں نے جن میں صدر سوئی کار نو بھی شامل ہیں، قرآنِ کریم کا ترجمہ جماعت احمدیہ کے سکالر کا ہی لکھا ہوا پڑھا ہے.جس سے ان کو قرآنِ کریم کی سمجھ آئی، جس سے ان کے علم میں اضافہ ہوا.پھر لکھتا ہے کہ ہم اس اقلیتی گروپ کے یقینا شکر گزار ہیں.جماعت احمدیہ کی اس ملک کے لئے خدمات انمول ہیں.یہ اس مضمون کا خلاصہ ہے جو میں نے بیان کیا ہے.یہ لکھنے والے جوگ جا کر تا کی اسلامی یونیورسٹی کے ایک لیکچر رہیں.بہر حال جکارتہ پوسٹ، جکارتہ گلوب وغیرہ نے اس حوالے سے یہ خبریں شائع کی ہیں.اور بڑی سختی سے اس عمل کو اور اس حرکت کو ر ڈ کیا ہے اور حکومت کو توجہ دلائی ہے.کم از کم وہاں کے میڈیا اور پڑھے لکھے لوگوں میں یہ جرآت تو ہے کہ ظلم کے خلاف انہوں نے آواز اٹھائی ہے.کچھ بولنے والے ہیں جس سے قوم کی بہتری کی کوئی امید کی جاسکتی ہے.کاش کہ یہ جرآت پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی پیدا ہو جائے اور پر لیس میں بھی پیدا ہو جائے.جماعت احمدیہ کی مخالفت انڈونیشیا میں کوئی نئی نہیں ہے.جیسا کہ ہمیشہ سے الہی جماعتوں سے طاغوتی طاقتوں کا سلوک رہا ہے، شیطان کا سلوک رہا ہے.جماعت احمدیہ کی بھی کسی نہ کسی رنگ میں خاص طور پر اسلامی ممالک میں مخالفت ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہتی ہے.اور انڈونیشیا میں جماعت کے قیام سے ہی یہ مخالفت رہی ہے.ہمیشہ ملاں راہِ راست سے ہٹا رہا ہے اور انڈونیشیا میں اُس نے جماعت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے.ملاں کا تو خیر طریقہ ہی یہی ہے.وہ کسی بھی ملک کا ملاں ہو ، اُس نے حق کو نہیں ماننا کیونکہ ان کے اپنے مفادات ہیں.یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ حق کو قبول کر لیں گے تو ان کی روزی بند ہو جائے گی، اُن کی اہمیت ختم ہو جائے گی.اُن کے علم کی اصلیت ظاہر ہو جائے گی.بہر حال میں آج جماعت انڈونیشیا کی ابتدائی مختصر تاریخ اور ظلموں کا بھی ذکر کر دیتا ہوں.پھر شہداء کا ذکر کروں گا.انڈو نیشیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز اور احمدیت کا نفوذ الہی تصرفات کے موجب عجیب رنگ میں ہوا ہے.اس ملک کو یہ اعزاز اور فخر حاصل ہے کہ اس کے چار افراد کو جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان میں جاکر خود احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.کوئی مبلغ انڈو نیشیا نہیں گیا جس نے وہاں جماعت قائم کی بلکہ چار افراد خود قادیان آئے اور وہ اس مقصد کے لئے نہیں آئے تھے کہ احمدی ہوں گے بلکہ پھرتے پھراتے آئے.اس کی تفصیل یوں ہے کہ 1923ء میں سماٹرا کے چار نوجوان محترم مولوی ابو بکر ایوب صاحب، مولوی احمد نورالدین
خطبات مسرور جلد نهم 65 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء صاحب، مولوی زینی دحلان صاحب اور حاجی محمود صاحب دینی تعلیم کے حاصل کرنے کے لئے سماٹر اسے ہندوستان آئے.خدا کی تقدیر انہیں کلکتہ، لکھنو اور لاہور کے بعد قادیان کھینچ لائی.اگست 1923ء میں یہ چاروں نوجوان قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ درخواست کی کہ ہماری دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے.چنانچہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے اُن کی تعلیم کا بند وبست فرمایا اور دورانِ تعلیم ہی ان پر احمدیت کی حقیقت و صداقت ظاہر ہوئی اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی.قادیان میں بیعت کرنے والے انڈو نیشین نوجوانوں نے بیعت کے بعد پھر احمدیت کے نور سے جلد اپنے ملک کو بھی منور کرنے کی کوشش کی.وہیں بیٹھے بیٹھے قادیان سے ہی انہوں نے اپنے رشتے داروں کو تبلیغی خطوط لکھنے شروع کر دیئے اور اس طرح انڈونیشیا میں تبلیغ کے لئے راہ ہموار ہو نا شروع ہو گئی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی جب 29 نومبر 1924ء کو یورپ کے دورے سے واپس گئے ہیں تو ایک استقبالیہ حضور کے اعزاز میں دیا گیا.اس دعوت میں ان طلباء نے جو انڈونیشیا سے آئے تھے حضور سے یہ استدعا کی کہ حضور! مشرق کے اِن جزائر کی طرف بھی توجہ فرمائیں.اُس وقت حضور نے وعدہ فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں خود یا میرا کوئی نمائندہ آپ کے ملک میں جائے گا.چنانچہ حضرت خلیفہ ثانی نے حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا انتخاب فرمایا اور آپ کو وہاں بھیجا جو سمندری جہاز کے راستے سفر کرتے ہوئے ستمبر 1925ء میں اس ملک میں پہنچے.اور سب سے پہلے سماٹرا میں آچیہ کی ایک چھوٹی سی بستی تا پا تو آن (Tapatuan) میں وارد ہوئے.وہاں کی تہذیب و معاشرت اور تھی.زبان مختلف تھی.غیر لوگ تھے.اپنا جانے والا بھی کوئی نہ تھا.لیکن یہ تمام ابتدائی مراحل اور مشکلات حضرت مولوی صاحب کی ہمت اور ارادہ میں فرق نہ ڈال سکے اور زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے انفرادی تبلیغ بھی شروع کر دی.پھر علماء سے بحث مباحثے اور مناظرے بھی شروع ہو گئے.حضرت مولوی صاحب کو خدا تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت سے نوازا اور چند ماہ میں ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے انڈو نیشیا کی پہلی جماعت قائم ہو گئی اور آٹھ افراد نے بیعت کی.اس کے بعد مزید بیعتیں ہوتی چلی گئیں.بہر حال ایک لمبی تفصیل ہے.حضرت مولوی صاحب کو جیسا کہ میں نے کہا آغاز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.ایک زبان کا مسئلہ ، پھر مخالفتیں بھی شروع ہوئیں اور تہذیب وغیرہ مختلف تھی، تمدنی روایات مختلف تھیں.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ مولوی صاحب نے اس پر قابو پالیا.علماء نے وہاں یہ فتویٰ دے دیا کہ احمدیوں کی کتب اور مضامین نہ پڑھے جائیں اور نہ ہی ان کے لیکچر سنے جائیں.جب مقامی احمدیوں کی تعداد بڑھنے لگی تو وہاں کے لوگوں نے مقامی احمدیوں کا بائیکاٹ کرنا شروع کر دیا حتی کہ اخبارات والے بھی کوئی خبر چھاپنے کے لئے تیار نہ تھے.کوئی مضمون چھاپنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے.مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ لوگوں کے تین تین ہزار کے مجمعے مولوی صاحب کی رہائش گاہ کے آگے کھڑے ہو کے نعرے بازی اور ہلڑ بازی کرتے تھے اور طرح طرح کے دل آزار نعرے لگاتے تھے اور گالیاں دیتے تھے.بہر حال اس کے بعد پھر حاجی محمود صاحب بھی وہاں آگئے.مولویوں نے کسی طرح زبر دستی اُن سے یہ
66 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بیان لکھوالیا کہ میں احمدیت چھوڑتا ہوں اور اس پر ایک اشتہار شائع کر وا دیا اور بڑا شور پڑا.اس کے بعد مولوی صاحب کی مخالفت اور بھی زیادہ شدت سے شروع ہو گئی.لیکن بہر حال حاجی محمود صاحب بعد میں سنبھل گئے اور علماء کی چالوں سے محفوظ رہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا.اور جب علماء کو یہ پتہ لگا کہ ہمارا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے تو متفقہ طور پر حضرت مولوی رحمت علی صاحب کو ملک بدر کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں اور حکومت کے افراد اور نمائندوں تک گئے.لیکن حکام نے انہیں کہہ دیا کہ ہم مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے.بہر حال یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا.دسمبر 1927ء میں پاڈانگ میں غیر احمدی علماء کے ساتھ ایک مباحثہ ہوا جس میں بڑے علماء اور مشائخ اور اخباروں کے ایڈیٹر اور حکومتی عہدیدار موجود تھے.اس مباحثے میں جماعت احمدیہ کے مبلغ کو ان میں برتری حاصل رہی اور جیسا کہ مقدر تھا یہ ہونا ہی تھا.مخالف علماء کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.اس کے نتیجے میں احمدیت کی تبلیغ کی راہ ہموار ہو گئی.اس دوران میں انڈونیشیا میں تیسری جماعت ڈو کو (Doko) کے مقام پر قائم ہوئی.حضرت مولوی رحمت علی صاحب اکتوبر 1929ء میں واپس قادیان تشریف لائے اور 1930ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے دوبارہ ان کو سماٹر ا جانے کا ارشاد فرمایا.حضرت مولوی صاحب نے حضور کی خدمت میں اپنی معاونت کی غرض سے ایک مزید مبلغ بھجوانے کی درخواست کی.اس درخواست کو حضور نے قبول فرماتے ہوئے محترم مولوی محمد صادق صاحب کو آپ کے ساتھ انڈو نیشیا جانے کا ارشاد فرمایا اور پھر یہ دونوں انڈو نیشیا گئے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 537 تا 539 مطبوعہ ربوہ) انڈونیشیا میں جیسے جیسے احمدیت کو فروغ حاصل ہوتا جارہا تھا احمدیت کی مخالفت میں بھی اضافہ ہونے لگا.ابتداء تین جماعتوں کو ابتلا کا سامنا کرنا پڑا.” تاپک تو آن کی جماعت پر وہاں کے راجہ کی طرف سے ابتلا وار د کیا گیا اور احمدیوں کو با قاعدہ نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا.(وہاں کا جو مقامی راجہ تھا اس نے روک دیا) جمعہ کی نماز کی ممانعت کر دی گئی اور تبلیغ عام بند کر دی گئی.یہ تمام سختیاں اُن پر عائد کر دی گئیں.”لہو سو کن “ کی جماعت کو بھی وہاں کے راجہ نے ظلم کا تختہ مشق بنایا اور سب کو مجبور کیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نعوذ باللہ کذاب اور دجال کہیں ورنہ انہیں اس جگہ سے نکال دیا جائے گا.ایک احمدی مکرم گرو علی صاحب کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا گیا.تنکو عبد الجلیل اور ان کے چھوٹے بھائی کو احمدی ہونے کی بنا پر گاؤں سے نکال دیا گیا.بہر حال مولوی ابو بکر ایوب صاحب بھی اس دوران میں فارغ ہو کے قادیان سے وہاں آ گئے تھے.تو آپ کیسارن“ کے علاقے میں تبلیغ کر رہے تھے.آپ پر تبلیغ کی پابندی عائد کر دی گئی.ایک روز رات بارہ بجے کے بعد شہر کا ایک سرکردہ پولیس افسر پولیس کے ہمراہ وہاں کے سلطان کے حکم سے آپ کو گرفتار کرنے کے لئے آیا.اُس نے اس وقت کے حاضر افراد کے نام نوٹ کر لئے اور کہا کہ آپ اور آپ کے ساتھی صبح چیف ڈسٹرکٹ صاحب کے پاس دفتر میں حاضر ہو جائیں.صبح جب محترم مولوی صاحب اور آپ کے ساتھی دفتر مذکور پہنچے تو آپ پر سوالات کی و چھاڑ کر دی گئی.چیف صاحب سوالات کر کے گرفت کرنا چاہتے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے مولوی
67 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم صاحب انتہائی فراست اور حکمت سے تمام سوالوں کے جواب دیتے رہے اور اس کا چیف جسٹس آفیسر جو تھا اُس پر بڑا اچھا اثر ہوا.کہتے ہیں اُس وقت اس کی حاکمانہ صورت جاتی رہی اور پھر وہ دلچسپی اور خندہ پیشانی کے ساتھ تقریباً آدھا گھنٹہ احمدیت کے بارہ میں معلومات حاصل کرتا رہا اور بعد میں بڑی عزت سے ان سب کو رخصت کر دیا.جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ انڈو نیشین مضمون نگار نے انڈونیشیا کے بنانے میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا ذکر کیا تھا، اس کا مختصر ذکر کر دیتا ہوں.یہ تو ذکر پہلے ہو گیا کہ جماعت کس طرح وہاں قائم ہوئی ؟ کیا کیا مشکلات شروع دور میں ہوتی رہیں ؟ ہمیشہ سے یہاں مخالفت رہی ہے.بہر حال پھر جماعتی خدمات کیا تھیں ؟ اس بارے میں مختصر بیان کرتا ہوں کہ تحریک آزادی انڈونیشیا کے حق میں بر صغیر پاک و ہند سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پر زور آواز بلند کی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک کی کہ وہ مسلمانانِ انڈونیشیا کی تحریک آزادی کی زبر دست تائید کریں.اس کا اظہار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے 16 اگست 1946ء کے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا.حضور کی اس تحریک کے بعد قادیان کے مرکزی پریس کے علاوہ دنیا بھر کے احمدی مشنوں کو بھی انڈونیشیا کی تحریک آزادی کے حق میں مؤثر آواز بلند کرنے کے لئے کہا گیا.یہاں تک کہ بالآخر انڈونیشیا کو آزادی مل گئی.اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ جاپانی حکومت کے خاتمہ پر ڈاکٹر سوئیکارنو نے 17 اگست 1945ء کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ڈچ حکومت کے خلاف سارے ملک میں آزادی کی جنگ لڑی جانے لگی.اس موقع پر مبلغین احمدیت اور دوسرے احمدیوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے ماتحت تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا اور مبلغین احمدیت اور جماعت کے سر بر آوردہ احباب نے ری پبلکن حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا.سید شاہ محمد صاحب ”جو گ جا کرتا پہنچے اور ڈاکٹر سوئیکارنو سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ میں آزادی کی اس تحریک میں شامل ہو کر اس ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں.(آپ بھی مبلغ تھے ) صدر سوئی کار نونے اور کاموں کے علاوہ آپ کے سپر دریڈیو سے اردو زبان میں خبریں نشر کرنے کا کام کیا.آپ کے علاوہ مکرم مولوی عبد الواحد صاحب اور مکرم ملک عزیز احمد خان صاحب نے بھی تقریباً دو تین ماہ ریڈیو پر نشر کا کام کیا.سید شاہ محمد صاحب تو جوش و خروش سے اس تحریک میں شامل رہے.ان کا جوش و خروش اتنا تھا کہ ایک سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ”ہم سید شاہ محمد صاحب کو اپنی قوم ہی کا ایک فرد تسلیم کرتے ہیں.یہ ہندوستانی نہیں.شاہ محمد صاحب کی خدمات کا اعتراف اس طرح سے ہے.سید شاہ محمد صاحب نے تحریک آزادی انڈونیشیا میں جو کردار ادا کیا اور جو خدمات سر انجام دیں ان کو سراہتے ہوئے 3 اگست 1957ء کو انڈونیشیا نے زیر خط (ان کا نمبر ہے) سند خوشنودی عطا کی.اور یہ سند جنرل سیکریٹری وزارت اطلاعات کے توسط سے دی گئی.اور اس میں تحریر کیا گیا کہ ”ہم سید شاہ محمد صاحب ہیڈ آف دی احمد یہ مسلم مشن مقیم جا کر تا کی ان خدمات اور کار ناموں کے لئے انتہائی رنگ میں قدر و منزلت کا اعتراف کرتے ہیں جو انہوں نے انڈو نیشین قوم اور حکومت ری پبلک انڈونیشیا کی
68 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جد وجہد آزادی کے ضمن میں اُس زمانہ میں سرانجام دیں.وزارت اطلاعات کی قیادت میں شعبہ پبلسٹی کے رکن ہونے کی پوزیشن میں جناب موصوف نے ہمیشہ اپنی دماغی قابلیت اور دیگر صلاحیتوں سے پورے یقین و وثوق سے بین الا قوامی رائے عامہ کو اس طرف مبذول کرایا کہ حکومت ریپبلک انڈونیشیا کی جد وجہد صداقت اور حق پر مبنی ہے.پھر لکھا ہے کہ جن دنوں ڈچ حکومت نے جو گ جاکر تا دارالحکومت انڈونیشیا پر حملہ کر کے قبضہ کیا اس زمانہ میں بھی جناب موصوف نے ہماری جدوجہد میں پوری امداد جاری رکھی.(پھر لکھتے ہیں کہ ) یو.این.او کے فیصلہ کی روشنی میں جاکرتا سے جب ڈچ افواج کا انخلاء ہوا اور نئی حکومت جوگ جا کر تا منتقل ہوئی اُس وقت بھی جناب موصوف اس کمیٹی کے ممبر تھے جو حکومت ریپبلک انڈونیشیا کے از سر نو قیام کیلئے بنائی گئی تھی.پھر اسی سند میں لکھا ہے کہ جب پریذیڈنٹ سوئیکار نوڈچ حکومت کی نظر بندی کے بعد جوگ جا کر تا آئے تو موصوف اس کمیٹی کے بھی ممبر تھے جس نے صدر سوئیکار نو کا استقبال کیا.پھر اس سند میں لکھتے ہیں کہ ڈچ حکومت سے اختیارات لینے کے بعد صدر سوئیکار نوجب جا کرتا آئے تو موصوف بھی اس قافلہ میں شامل تھے جو صدر سوئیکارنو کے ہمراہ تھا اور موصوف واحد غیر ملکی تھے.جب حکومت کے دفاتر جوگ جا کر تہ منتقل ہوئے تو بعد میں موصوف ریڈیور پبلک انڈونیشیا کے شعبہ نشر واشاعت سے منسلک ہو کر اُردو کے پروگرام میں نہایت عمدگی سے فرائض سر انجام دیتے رہے.بعد میں اپنے فرائض بحیثیت انچارج احمد یہ مسلم مشن انڈو نیشیا انجام دینے لگے“.انڈونیشیا کے پہلے صدر جن کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے قرآنِ کریم بھی پڑھا تو احمدیوں سے پڑھا، وہ اپنی کتاب جس کا نام انڈو نیشین میں Di Bawa Bendera Revolusi ہے، تحریر کرتے ہیں کہ ”اگرچہ میں احمدیت کے بعض مسائل سے متفق نہیں بلکہ انکار کرتا ہوں، تب بھی اس کی تعلیمات اور اس کے فوائد کا احسان مند ہوں جو مجھے اس کی طرف سے تحریرات کی شکل میں حاصل ہوئے اور جو عقل اور جدید تقاضوں کے عین مطابق اور وسعت ذہن پیدا کرنے والے ہیں“.(صفحہ 346) تو یہ ہے اس کی تفصیل.یہ زبانی قربانیاں یا عملی قربانیاں ہی نہیں تھیں یا صرف مشورے کی حد تک نہیں بلکہ 1946ء میں تحریک آزادی کے دوران بعض احمدی احباب اپنی زندگیاں قربان کر کے شہیدوں میں شامل ہوئے.جن میں ایک ہمارے مکرم راڈین محی الدین صاحب صدر جماعت انڈونیشیا جو سیکرٹری کمیٹی برائے انڈونیشیا بھی تھے ، انڈونیشیا کے پہلے جشن آزادی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ آپ کو ڈچ افواج نے اغوا کر لیا اور بعد میں آپ کو شہید کر دیا.تو ملکی آزادی میں احمدیوں کا خون بھی شامل ہے.یہ تو جماعت احمدیہ کی انڈونیشیا کے لئے ، اس ملک کے لئے قربانی اور کام اور خدمات کا ذکر ہے.لیکن علماء اور شدت پسند گروپوں نے ، گروہوں نے اپنے ظلموں کی داستانیں بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں.بعض پرانے شہدائے احمدیت انڈو نیشیا کا میں ذکر کرتا ہوں.1947ء میں درج ذیل 6 (چھ) احمدی احباب شہید کئے گئے.مکرم جائید صاحب (Jaed) ، مکرم سور اصاحب (Sura)، مکرم سائری صاحب (Saeri)، مکرم حاجی
69 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حسن صاحب، مکرم راڈین صالح صاحب، مکرم دحلان صاحب (Dahlan).ان چھ احباب نے سنگا پار نا ویسٹ جاوا کے گاؤں میں شہادت کا مقام پایا.وہابی موومنٹ کے دارالاسلام نامی ایک گروپ نے ڈنڈوں اور پتھروں سے اِن احمدیوں پر شدید حملہ کیا اور اُن کو گھروں میں اہل خانہ کی آنکھوں کے سامنے بڑی بے دردی سے مارتے مارتے گھسیٹتے ہوئے گاؤں سے باہر لے گئے اور مار مار کر شہید کر دیا.دارالا سلام گروپ نے حملہ سے قبل اُن کو مجبور کیا کہ احمدیت چھوڑ دیں لیکن یہ سب احمدیت پر ثابت قدم رہے.استقامت دکھائی.احمدیوں کے ساتھ وہاں جو سلوک ہو رہا ہے یہ ظالمانہ فعل بہت پرانے ہیں.اس کے دو سال بعد 1949ء میں درج ذیل احمدی احباب نے جام شہادت نوش فرمایا.مکرم سانوسی صاحب (Sanusi)، مکرم او مو صاحب (Omo)، مکرم تحیان صاحب (Tahyan)، مکرم سهر و می صاحب (Sahromi)، مکرم سوما صاحب (Soma) ، مکرم جملی صاحب (Jumli)، مکرم سرمان صاحب(Sarman)، مکرم اوسون صاحب (Uson) اور مکرمہ ایڈوٹ صاحبہ (Idot) اور مکرمہ اونیہ صاحبہ (Uniah) دوخواتین کو بھی شہادت کا اعزاز حاصل ہوا.ان احمدی احباب نے سنگا پارنا ویسٹ جاوا کے گاؤں SANGIANG LABONG میں شہادت کا مقام پایا.ان کو بھی وہابی تحریک کے گروپ دارالاسلام نے ڈنڈوں ، پتھر وں اور اینٹوں سے حملہ کر کے شہید کیا.ان کو بھی گھسیٹتے ہوئے گاؤں سے باہر لے گئے اور وہاں انتہائی ظالمانہ طریق سے مارتے مارتے شہید کر دیا گیا.ان کو بھی مجبور کیا گیا کہ احمدیت سے توبہ کریں لیکن ان سب نے انکار کیا اور استقامت دکھائی اور ثابت قدم رہے.پھر اس کے بعد جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ایک شدید دور 2001ء میں شروع ہوا جس میں مکرم پاپوک حسن صاحب (Papuq Hasan) کو 22 جون 2001ء میں شہید کیا گیا.آپ کی عمر پچپن سال تھی اور قریباً ایک سو مخالفین احمدیت نے مغربی لمبوک کے ایک گاؤں ”لالوا“ (Laloaw) کی جماعت پر حملہ کیا.مخالفین، جماعت کی مسجد کو تباہ کرنا چاہتے تھے.پاپوک حسن صاحب دیگر احمدی احباب کے ساتھ مخالفین کے حملہ کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور شدید زخمی ہوئے اور بیہوش ہو کر گر گئے.فور اہسپتال لے جایا گیا لیکن بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے راستے میں جام شہادت نوش فرمالیا.2002ء میں حکومت کے کارندے بھی ان ظالموں کے ساتھ مل گئے اور مختلف قسم کے ظلم ہوتے رہے.مانسلور (Manislor) کے علاقے میں مخالفین نے احمد یہ مساجد اور احمدی گھروں میں پتھر اؤ کیا.دو مساجد اور بیالیس (42) احمدی گھروں کے شیشے وغیرہ توڑے.لوکل گورنمنٹ نے جماعت مانسلور کی مساعی کو روکنے کے لئے آرڈر جاری کیا کہ احمدی احباب مسجد کا استعمال نہیں کر سکتے.15 جولائی 2005ء کو جماعت انڈونیشیا کی مرکزی مسجد اور سینٹر پر سینکڑوں مخالفین کے گروہ نے حملہ کیا اور جماعتی عمارات اور املاک کو نقصان پہنچایا.پولیس کھڑی تماشا دیکھتی رہی.بعض عمارتوں کو آگ لگائی گئی.اور سارا سینٹر ، مساجد، مشن ہاؤسز، ذیلی تنظیموں کے دفاتر اور دیگر عمارات کو حکومت نے سیل (Seal) کر دیا.یہ حکومت بھی اب ان کے ساتھ شامل ہو رہی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 70 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء 19 ستمبر 2005ء کو پانچ سو مخالفین نے ریجن سیانجور (Cianjur) کی پانچ جماعتوں پر حملہ کیا.پانچوں جماعتوں کی مساجد کو کافی نقصان پہنچایا گیا.دروازے، کھڑکیاں، شیشے توڑے گئے.مشن ہاؤسز کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور سامان وغیرہ لوٹ لیا گیا.بہت ساری چیزیں جلا دی گئیں.چھیاسی (86) گھروں کو نقصان پہنچایا اور توڑ پھوڑ کی گئی.بعض گھروں کو جلا دیا گیا.سامان لوٹ لیا گیا.بعض مقامات پر احمدیہ مدرسوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا.ان جماعتوں میں احمدی احباب کی کاریں موٹر سائیکل بھی جلائے گئے.19 اکتوبر 2005 ء رات نو بجے سو مخالفین جماعت نے کیٹا پانگ (Kitapang) پر حملہ کیا.تین احمدی گھروں کو نقصان پہنچایا.دو احمدی دوست زخمی ہوئے.اس جماعت کے احباب قبل ازیں پانکور (Pancor) اور سیلونگ (Selong) کے علاقے میں مقیم تھے جہاں 2002ء میں مخالفین نے حملہ کر کے ان کو مسجد اور گھروں سے نکال دیا تھا اور ان کے گھروں کو بھی جلا دیا اور مسجد کو بھی جلا دیا تھا.چنانچہ یہ وہاں سے ہجرت کر کے کیٹا پانگ (Kitapang) کے علاقے میں آئے تو ان پر اکتوبر 2005ء میں یہاں بھی حملہ کیا گیا.ہر جگہ سے تکلیفیں برداشت کیں لیکن پھر بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے.فروری 2006ء میں مغربی لمبوک جزیرہ کی جماعت کیٹا پانگ (Kitapang) پر حملہ ہوا.تئیس (23) گھروں کو نقصان پہنچا.چھ گھر جلا دیئے گئے.احباب جماعت کی دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا.سامان لوٹ لیا گیا.ان کے مال مویشی لوٹ لئے گئے.129 احباب جماعت بے گھر ہوئے اور یہ علاقہ چھوڑنا پڑا.10 نومبر 2007ء کو پنگوان (Pangauban) گاؤں میں لوکل مولوی کی قیادت میں مدرسوں کے طلباء نے ہماری مسجد کو گرا دیا اور 26 احمدیوں کو یہاں سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا پڑا.ستمبر 2007ء میں مسجد محمود سنگا پارانہ (Singa Parana) پر مخالفین کی طرف سے اس ماہ میں تیسرا حملہ ہوا.مساجد کی تمام کھڑکیاں توڑ دی گئیں.چھت کو بھی نقصان پہنچایا.دفتری سامان اور فرنیچر توڑ دیا گیا.18 دسمبر 2007ء میں مخالفین نے جن کی تعداد 500 سے زائد تھی مانسلور (Manislor) جماعت پر حملہ کیا.مخالفین کا تعلق ڈیفنس فرنٹ اور مجلس مجاہدین انڈونیشیا سے تھا.جماعت کی دو مساجد کو نقصان پہنچایا.توڑ پھوڑ کی گئی اور جہاں مسجد کے سامان کو نقصان پہنچا یا بارہ (12) قرآن کریم بھی جلا دیئے.9 مساجد کو پولیس نے سیل ( Seal) کر دیا.گھروں کو نقصان پہنچایا گیا.توڑ پھوڑ کی گئی.تین افراد زخمی ہوئے.بہر حال اس وجہ سے لوگوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا اور اب تک مختلف جگہوں پر یہی حالات ہیں.تو (جماعت) انڈونیشیا کے ساتھ یہ سابقہ حالات ہو رہے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے وہ ایمان کی مضبوطی دکھاتے ہوئے ایمان پر قائم ہیں اور ہر شر کا صبر سے، حوصلے سے، دعا سے مقابلہ کرتے چلے جارہے ہیں.اب یہ تازہ شہادتیں جو ہوئی ہیں یہ اس جاری ظلم کا ہی نتیجہ ہیں جو کئی سال پہلے سے شروع ہوا تھا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس دفعہ مقامی پر میں نے بھی کھل کر لکھا ہے اور باہر کی پر میں نے بھی لکھا ہے اور اس کی کافی شہرت ہوئی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 71 بہر حال اب میں ان شہداء کا ذکر خیر کرتا ہوں جو شہید ہوئے ہیں.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء اس میں پہلے شہید ہیں مکرم تو با کوس چاند را مبارک صاحب (Tubaqus Chandra Mubarak).یہ پیدائشی احمدی تھے.ان کی عمر 34 سال تھی.جماعتی مرکز میں رہتے تھے.پسماندگان میں ایک بیوی ہے جو 5 ماہ کی حاملہ ہے.8 سال کی شادی کے بعد پہلا بچہ پیدا ہونے والا ہے.ان کی خواہش ہے کہ بچہ وقف کیا جائے گا.انہوں نے وقف نو کے کاغذات پر کر لئے تھے لیکن ابھی مرکز کو بھجوانے تھے.انشاء اللہ تعالیٰ آجائیں گے.بچہ تو وقف نو میں شامل ہو جائے گا.chandra صاحب جماعت کے سیکرٹری زراعت تھے.اور جماعت کی زمین جو مرکز میں واقع ہے اس کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی.بہت ہی مخلص اور جماعتی کاموں میں بہت فعال تھے.چندہ با قاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے.ان کا سارا خاندان ہی بہت مخلص احمدی ہے.واقعہ کے ایک دن پہلے ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ جماعت Cikesik (جہاں یہ حملہ ہوا ہے وہاں مت جائیں.میں پانچ ماہ کی حاملہ ہوں.آپ کو میر اخیال کرنا چاہئے.یا میر اخیال کریں یا جماعت کا خیال.انہوں نے کہا کہ اس وقت میں جماعت کو ترجیح دیتا ہوں.صرف ڈرائیور کے طور پر وہاں جانا تھا اور ڈیوٹی والے خدام کو وہاں پہنچانا تھا.اور ابھی یہ وہیں تھے کہ حملہ ہو گیا.مرحوم اپنے کارکنان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا کرتے تھے.ہر نماز مسجد میں باجماعت ادا کیا کرتے تھے اور اپنی بیوی کو بھی یہی تاکید کرتے کہ وقت پر نماز ادا ہونی چاہئے.ایک بہادر خادم تھے.تو با کوس چاند را مبارک صاحب (جن کا ذکر ہو رہا ہے ) مشن ہاؤس کے اندر تھے اور سب خدام سے آگے تھے.مخالفین نے ان کے جسم پر چھریوں کے بہت سے وار کئے اور ظالمانہ طور پر مارا.پھر مخالفین نے ان کو لٹکا دیا اور مارتے رہے.بعد میں نیچے اتارا اور ان کی لاش کو ڈنڈوں اور پتھروں سے مارا اور لاش کا حلیہ بگاڑ دیا.پہلے ان کی لاش پہچانی نہیں گئی.بعد میں Chandra صاحب کے چھوٹے بھائی نے آکر اس لاش کو جسم کے ایک نشان سے پہچانا کہ یہ ان کے بھائی Chandra صاحب کی لاش ہے.دوسرے شہید ہیں احمد در سونو صاحب (Warsono).ان کا تعلق شمالی جا کرتا سے تھا.ان کی عمر 38 سال تھی.2002ء میں بیعت کی توفیق پائی.اہلیہ کے علاوہ چار بچے ہیں.ان کو احمدیت کا تعارف 2000ء میں ہوا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع انڈونیشیا تشریف لے گئے تھے.ایک احمدی دوست نے ان کو لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا.انہوں نے دلچسپی سے پڑھا اور دو سال کی تحقیق کے بعد بیعت کا فیصلہ کیا.بعد میں ان کی اہلیہ نے بھی بیعت کی اور بہت جلد احمدیت کی سچائی پر مضبوطی سے قائم ہو گئے.احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک نہیں کرتے تھے.لیکن جب وہ احمدیت میں داخل ہوئے تو ان کے والدین بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے اخلاق اچھے ہو گئے اور وہ والدین کا ادب کرتے اور نرمی سے پیش آتے.روحانیت میں بہت ترقی کی.کہتے تھے کہ میں تبلیغ کرتا ہوں تو آسمانی مدد محسوس کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ میری ضرورتیں پوری کرتا
خطبات مسرور جلد نهم 72 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء ہے.ایک دن ان کو روپے کی سخت ضرورت تھی.گھر کا کرایہ ادا کرنا تھا اور روز مرہ کی ضروریات در پیش تھیں.انہوں نے بہت دعائیں کیں.آخر کچھ دیر بعد ایک آدمی آیا اور ان کو کام کر وانے کے لئے لے گیا اور جور قم بھی اس سے ضرورت پوری ہوگئی.ان کی بڑی خواہش تھی کہ اپنی زندگی میں دوسروں کے کام آئیں.ان کو خواب آئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے ملاقات ہوئی.اور کئی بیعتیں بھی انہوں نے کروائیں.تبلیغ کا بڑا شوق تھا.بہت بہادر تھے.بعد میں آئے لیکن بہتوں سے آگے نکل گئے.ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب حملہ ہواتو ور سو نو صاحب مشن ہاؤس کے اندر تھے.مخالفین نے چھریوں اور درانتی اور ڈنڈوں سے ان کو ظالمانہ طور پر مارا.انکی لاش باہر لائی گئی اور مخالفین باری باری پولیس اور لوگوں کے سامنے لاش کو مارتے رہے.پولیس تماشہ دیکھتی رہی.ان کی لاش بھی پہچانی نہیں گئی تھی بلکہ ایک دوسرے خادم نے غلطی سے کسی دوسرے آدمی کو سمجھا لیکن بعد میں جب صحیح طرح دیکھا گیا تو پتا لگا کہ یہ ور سونو صاحب ہیں ، دوسرے خادم نہیں ہیں.رونی پسیارانی صاحب (Roni Pasarani).شہادت کے وقت ان کی عمر 35 سال تھی.11 جنوری 2008ء میں بیعت کی تھی.ابھی دو سال ہی ہوئے تھے.شمالی جا کر تا کے رہنے والے تھے.پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ 5 اور 6 سال کی دو بچیاں چھوڑی ہیں.بیعت سے قبل قاتل، ڈاکو اور قمار باز تھے.ور سونو صاحب جو خود بھی شہید ہوئے ہیں ان کی تبلیغ سے احمدیت کے بارہ میں علم ہوا.ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ سے ملا ہوں جس نے پگڑی پہنی ہوئی ہے.چنانچہ ایک دن اور سو نو صاحب کے گھر ان کو ملنے آئے اور دیوار پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر کہنے لگے کہ ان کو خواب میں دیکھا تھا.اس طرح یہ احمدیت کے مزید قریب ہو گئے اور جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کیا.چنانچہ 2008ء کے سال میں Roni صاحب نے بیعت کی توفیق پائی.احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی اور ان کی بیوی بہت حیران رہ گئی کہ RONI صاحب پر روحانی انقلاب برپا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی نہ کوئی نیکی پسند آئی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے اعزاز سے نوازا کہ ساری برائیاں چھوڑ کے پہلے احمدیت کی قبولیت کی توفیق عطا ہوئی اور پھر شہادت کا رتبہ بھی پایا.پانچوں نمازوں کے علاوہ تہجد بھی ادا کرتے تھے اور جماعتی کتب با قاعدہ پڑھتے تھے.چندہ با قاعدگی سے ادا کرتے تھے.بہت بہادر تھے.دو سال کا جتنا بھی عرصہ ان کو ملا احمدیت کی بہت تبلیغ کی اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں کئی بیعتیں بھی ہوئیں.ایک اہم بات ان کے بارے میں یہ بھی ہے کہ یہ کئی دفعہ کہتے تھے کہ "شہید کے طور پر مرنے کی خواہش ہے“.اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی.مکرم رونی پسیارانی صاحب کی شہادت بھی مکرم ور سونو صاحب کی طرح ہوئی.مخالفین نے ان کو بھی چھریوں اور درانتیوں اور ڈنڈوں سے مارا.ان کی لاش باہر لائی گئی اور پھر اسی طرح بے حرمتی کی گئی اور حلیہ بگاڑا گیا.
خطبات مسرور جلد نهم 73 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء تو یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں.جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری دی ہے.جو آسمان احمدیت کے روشن ستارے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور خود ان کا حافظ و ناصر ہو.جماعت انڈونیشیا کے ہر فرد کے ایمان میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے جس کشف کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے نقش قدم پر چلنے والے کچھ اور لوگوں کے ملنے کا ذکر فرمایا تھا، ان میں یہ دور دراز علاقے میں رہنے والے لوگ بھی شامل ہیں جن میں سے بہت سوں نے خلفائے احمدیت میں سے بھی کسی کو نہیں دیکھا لیکن ایمان کی مضبوطی ان کی بے مثال ہے.خلافت سے وفا کا تعلق قابل تقلید ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کشف کا میں پہلے بھی پچھلے بعض خطبات میں ذکر کر چکا ہوں، دوبارہ بتاتا ہوں.کشف یوں ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سر و کی کاٹی گئی اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو، تاوہ بڑھے اور پھولے“.آپ فرماتے ہیں ”سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا“.......(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20.صفحہ 76،75) یعنی حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کے بہت سے قائم مقام پیدا کر دے گا.پس یہ شہداء تو اپنا مقام پا کر ، قابل تقلید مثالیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے اور قادیان سے ہزاروں میل دور رہتے ہوئے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کو ثابت کرنے والے بن گئے.لیکن ہم پیچھے رہنے والوں کو بھی اپنی ایمانی حالتوں کا ہر وقت جائزہ لیتے رہنا چاہئے.ہمیں ہر شہادت کے بعد یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم ان ظلموں کی وجہ سے صرف یہ نہیں کہ اپنے ایمانوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس میں بڑھنے کی کوشش کریں گے.انشاء اللہ.کسی قسم کی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے ہماری روایات اور ہمارے صبر پر حرف آتا ہو، جس سے ہماری اپنے ملک سے وفا پر حرف آتا ہو.جیسا کہ میں نے بتایا جماعت انڈونیشیا نے بھی انڈونیشیا کی تعمیر میں ایک کردار ادا کیا ہے.جماعت احمدیہ کا ہر فرد جس ملک میں بھی رہتا ہے اُس کا وفادار ہے اور ہونا چاہیئے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گا.وفا کا یہ تقاضا ہے کہ ہم یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملکوں کو ظالموں کے پنجہ سے آزاد کرے اور ہم پر کبھی ایسے حاکم مسلّط نہ کرے جو رحم کرنا نہ جانتے ہوں.ہم دنیاوی تدبیر کے لئے قانونی چارہ جوئی تو کرتے ہیں لیکن قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے.ہاں اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں.ہمارا زیادہ انحصار ، قانونی چارہ جوئی کرنے سے زیادہ انحصار اپنے رب کے حضور جھکنے میں ہے.اس سے دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد پر ہمارا انحصار ہے.اس کی رحمتوں پر ہمارا انحصار ہے.اور اب بھی ہم ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ
74 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے حضور ہی جھکیں گے.ہمیشہ یہ دعا پڑھتے رہیں رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكفرين (البقرة: 251).اللہ کرے کہ ہمارے میں سے کسی ایک کے بھی پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، آنحضرت صلی اللہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: پ ملی ایم نے صحابہ کو صبر کی ہی تعلیم دی.آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے.ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے.اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے“.آپ فرماتے ہیں ”اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دُکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے.مگر خدا تعالیٰ ان کے ذریعے سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے“.آپ فرماتے ہیں کہ ”جو شخص دُکھ دیتا ہے، یا تو توبہ کر لیتا ہے“.( آخری نتیجہ یہ ہو گا) یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 543.مطبوعہ ربوہ) جو بھی ہمیں دُکھ دے رہا ہے، ان میں سے کچھ تو ہیں جن کی اصلاح ہو جائے گی اور توبہ کر لیں گے یا پھر فتنا ہو جائیں گے.پس دعاؤں اور صبر کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی طاقت بھی عطا فرمائے اور شریر لوگوں کا خاتمہ فرمائے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اور دشمنوں کی پکڑ کرے.ہمارے مخالفین کی ہمارے سے کوئی ذاتی دشمنی تو ہے نہیں.یہ سب جو ہم احمدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی ہی کی وجہ سے ہو رہا ہے.اور اس کی اب ہر جگہ انتہا ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ دشمن کو عبرت کا نشان بنائے اور جن کی اصلاح اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقدر نہیں ہے اُن کے جلد پکڑ کے سامان بنائے.جو زخمی ہیں اُن کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ انہیں جلد شفا عطا فرمائے.تین زخمی ابھی ہسپتال میں ہیں جبکہ دو فارغ کر دیئے گئے ہیں جن کی صحت اللہ کے فضل سے ٹھیک ہے.انڈو نیشین احمدیوں کو بھی میں خاص طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں.کہ تمام احمدیوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.مجھے مختلف خطوط آرہے ہیں جن میں آپ لوگوں کے لئے فکر اور پریشانی کا اظہار کیا جارہا ہے.وہاں ظلم کے یہ نظارے جو مختلف ویب سائٹس وغیرہ پر دکھائے گئے ہیں، اس نے ہر احمدی کو ایک درد اور تڑپ میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ آپ کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر شر سے آئندہ ہر احمدی کو بچائے اور دشمن کے منصوبے انہی پر لوٹائے.
خطبات مسرور جلد نهم 75 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 فروری 2011ء ابھی ان شہداء کی نماز جنازہ غائب بھی میں پڑھوں گا.اس کے ساتھ ہی کل مردان میں ایک واقعہ ہوا ہے.پنجاب رجمنٹ میں خود کش حملے سے وہاں جو فوجی ٹرینگ لے رہے تھے ، اُن میں سے کئی اموات ہوئی ہیں.اُن میں ہمارے ایک احمدی نوجوان منیر احمد بھی شامل تھے جو ابھی بھرتی ہوئے تھے.بیگووال کے رہنے والے اور ٹریننگ لے رہے تھے اور شاید پاسنگ آؤٹ پریڈ تھی یا کیا تھا، بہر حال وہ بھی اس میں شہید ہوئے ہیں.اُن کو بھی اس جنازے میں شامل کر لیں.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے.یہ ہمارے دو واقفین زندگی مبلغین محمود احمد منیر صاحب مربی سلسلہ اور مبشر احمد صاحب کے بھانجے تھے.نوجوان کی صرف اکیس سال عمر تھی.اللہ تعالیٰ ان کے والدین کو بھی صبر ، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 4 مارچ تا 10 مارچ 2011ء جلد 18 شمارہ 9 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 76 7 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء بمطابق 18 تبلیغ 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دو تین دن ہوئے مجھے ہمارے یہاں کے مشنری انچارج عطاء المجیب راشد صاحب نے لکھا کہ اس سال پیشگوئی مصلح موعود کے ایک سو پچیس سال پورے ہو رہے ہیں.مجھے اُن کے خط کی طر ز سے یہ لگا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس موضوع پر ایک خطبہ دوں، گو کہ انہوں نے واضح طور پر تو نہیں لکھا تھا.اس موضوع پر ہر سال جلسے بھی منعقد ہوتے ہیں.دو سال پہلے میں ایک خطبہ بھی دے چکا ہوں.گو کہ ایک خطبہ میں اس موضوع کا پوری طرح احاطہ نہیں ہو سکتا.پہلے تو میں اس طرف مائل نہیں تھا لیکن پھر طبیعت اس طرف مائل ہوئی کہ یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو کسی شخص کی ذات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے.اور اس پیشگوئی کی اصل تو آنحضرت صلی اللہ ظلم کی پیشگوئی ہے.اس لئے اس کا تذکرہ ضروری ہے.اور پھر اس لئے بھی کہ گو جماعتی طور پر جہاں آزادی ہے وہاں تو جلسے بھی ہو جاتے ہیں.مختلف موضوع ہیں.پیشگوئی کے مختلف پہلو ہیں.اُن کو مختلف مقررین بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان میں تو ویسے ہی جلسوں پر پابندی ہے.اُن کے لئے بھی یہ موضوع ایسا ہے کہ نئی نسل کے لئے بھی ضروری ہے.نوجوانوں کو بھی اس بارے میں علم ہونا چاہئے.نئے آنے والوں کو بھی علم ہونا چاہئے.پھر صرف نئے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ انسان کی طبیعت میں جو اتار چڑھاؤ رہتا ہے اُس کی وجہ سے بعید نہیں کہ بعض بڑی عمر کے لوگ بھی اتنا زیادہ اس موضوع کو نہ جانتے ہوں.اس پر غور نہ کیا ہو اور آج اُن کی طبیعت اس طرف مائل ہوئی ہو.بہر حال اس وجہ سے یہ موضوع چاہے کچھ حد تک ہی ہو ، بیان کرنا ضروری ہے.باتوں کو بار بار دہرائے جانے سے نئے ہوں یا پرانے ہوں، اُن کے علم اور ایمان اور عرفان میں اضافہ ہوتا ہے.پھر یہ بھی ہے کہ جماعت جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیزی سے نئے ملکوں میں، نئی جگہوں پر پھیل رہی ہے.وہاں جو مقررین ہیں یا جو معلمین مقرر ہیں، ان کو ہر بات کا اتنا علم نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پیشگوئیاں ہیں ان کا نہ صحیح طرح سے علم ہے ، نہ اتنی گہرائی میں جاکر بیان کر سکتے ہیں.تو اس پہلو سے بھی
77 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم میں نے اس کا بیان کرنا ضروری سمجھا.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا، گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک بیٹا عطا فرمائے گا جو مصلح موعود ہو گا اور اس کی تفصیل میں آپ نے اس کی بہت ساری خصوصیات بیان فرمائی تھیں.لیکن یہ پیشگوئی تو آنحضرت صلی اللہ ہم نے یہ الفاظ بیان فرما کر چودہ سو سال پہلے بیان فرما دی تھی کہ يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَه که عیسی ابن مریم جب زمین پر نزول فرما ہوں گے تو شادی کریں گے اور اُن کی اولاد ہو گی.(مشكاة المصابيح كتاب الرقاق باب نزول عيسى الفصل الثالث حديث نمبر 5508 دار الكتب العلمیۃ ایڈیشن 2003ء) (الوفاء باحوال المصطفى لابن جوزی مترجم محمد اشرف سیالوی صفحه 843 ناشر فريد بك سٹال لاهور) اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، عیسی ابن مریم کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ ولیم نے دوسری احادیث میں فرمائی ہے کہ وہ کون ہیں ؟ بخاری کی حدیث ہے.مسلم نے بھی اور حدیثوں کی کتب نے بھی اس کو درج کیا ہے کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا: كَيْفَ اَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ، اور فَاقَكُمْ مِنْكُمْ.کہ آنحضرت صلی ا لم نے فرمایا کہ تمہاری کیا حالت ہو گی جب ابن مریم مبعوث ہو گا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہو گا.اور پھر یہ بھی روایت میں ہے کہ یہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے تمہاری امامت کے فرائض بھی سر انجام دے گا.( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم حاکمابشریعہ نبینا...حدیث 394،392) پھر ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گاوہ عیسی ابن مریم کا زمانہ پائے گا اور وہی امام مہدی اور حکم و عدل ہو گا جو صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا.یہ مسند احمد کی حدیث ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 479 مسند أبي هريرة حدیث نمبر 9312 عالم الكتب بيروت 1998ء) ھریرۃ پس یہ پیشگوئی جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے گو تفصیل کے ساتھ آنحضرت صلی الم کے عاشق صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اب دوبارہ کی لیکن اس کی بنیاد تو آج سے چودہ سو سال بلکہ اس سے بھی زائد عرصہ پہلے سے آنحضرت صلی للی کم کی پیشگوئی پر ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں اور اللہ تعالیٰ کے آپ پر انعامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑائی کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ تو آپ کے آقا و مطاع، سید و مولا حضرت محمد مصطفی صلی الی یکم کی شان بلند کرنے کے لئے ہیں.آپ صلی علیکم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے ہیں.یہ تائیدی نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے یہ در رحقیقت آنحضرت علی علم کی شان بلند کرنے کے لئے ہیں.اسلام کا زندہ خدا اور زندہ رسول ہونے کی دلیل کے طور پر یہ پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے کروائی ہیں.پس احمدیت اسلام سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر دنیا میں آنحضرت کا عاشق کوئی نہیں ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.”اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی ا یکم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا
78 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے اور ظلماتی پر دے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی بات لے لیں.آپ کی زندگی کے کسی عمل کی طرف نظر کر لیں، آپ کی کسی تحریر کو لے لیں، ان سب کا رُخ اللہ تعالیٰ، قرآن مجید اور آنحضرت صلی الم کی طرف ہی نظر آئے گا.آپ علیہ السلام نے دنیا کو بتادیا اور ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ آج اگر کوئی زندہ مذہب ہے تو وہ اسلام ہے.آج اگر کوئی زندہ رسول ہے جو خدا سے ملاتا ہے تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کی ہیں جن کی پیروی سے خدا املتا ہے.اور آج اگر کوئی کامل کتاب ہے جو تمام قسم کی تحریفوں اور آلائشوں سے پاک ہے اور اپنی اصل حالت میں ہے، جس کے پڑھنے سے حقانی علوم و معارف حاصل ہوتے ہیں، جس کے پڑھنے سے انسان کا دل پاک ہو تا ہے.یعنی خالص ہو کر پڑھنے سے، ورنہ تو جو پاک نہیں ہے، خالص نہیں ہے اس کو تو قرآن پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.یہی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھی فرمایا ہے.پس آپ علیہ السلام نے ہمیں اس سوچ سے پر کیا.ہمارے دل و دماغ کو یہ عرفان عطا فرمایا کہ آج اگر کوئی زندہ نبی ہے تو وہ آنحضرت صلی للی کم کی ذات ہے جنہوں نے ہمیں خدا سے ملایا.ایک براہ راست تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی تا کہ دلوں کے اندھیرے دور ہوں اور بندے اور خدا میں ایک تعلق پید اہو.آپ کی کتاب ہی وہ زندہ کتاب ہے جس میں قیامت تک کے لئے وہ تمام احکام ، اوامر و نواہی اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے طریقے بیان ہو گئے ہیں جن سے باہر سوچنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں، نہ انسان میں طاقت ہے کہ سوچ سکے.اس عظیم اور ہمیشہ زندہ رہنے والے نبی نے اپنی پیروی کرنے والے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جس طرح آج سے چودہ سو سال سے زائد عرصہ پہلے سے جوڑا تھا، ویسا تعلق آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اسی تر و تازگی کے ساتھ جوڑا ہے.بلکہ جب وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) کی قرآنی پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ آیا تو اس عشق و محبت کی وجہ سے جو غلام کو اپنے آقا سے تھا مسیح موعود کی بعثت ایمان کو ثریا سے زمین پر لانے کا باعث بن گئی.اور ایک نئی شان سے دین محمدی دنیا میں دوبارہ مسیح موعود کے ذریعے سے قائم ہو گیا.آخرین جو ہیں وہ اولین سے جوڑ دیئے گئے.حدیث میں ایمان کو ثریا سے لانے کا یوں ذکر ملتا ہے.(براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 558,557 حاشیه در حاشیہ نمبر (3) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی.جب آپ نے اُس کی آیت وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: 4) پڑھی، جس کے معنی یہ ہیں
79 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی اُن صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے.تو ایک آدمی نے پوچھا.یارسول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں ؟ جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی اُن میں شامل نہیں ہوئے.حضور صلى اللیل کلیم نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا.اُس شخص نے تین دفعہ یہ سوال دہرایا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں بیٹھے تھے.آنحضرت صلی المیہ تم نے اپنا ہاتھ اُن کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هُؤلاء که اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا ( یعنی زمین سے اُٹھ گیا) تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اُس کو واپس لائیں گے.رَجُلٌ اور رِجَال دونوں طرح کی روایتیں ہیں.(صحيح بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب قوله و آخرین منھم...حدیث نمبر 4897) بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ تو بعد کا ہے لیکن اس سے پہلے بھی آپ اسلام کی خدمت پر کمر بستہ تھے.اور جب آپ کو الہام الہی کے تحت صدی کا مجدد ہونے کا علم ہوا تو آپ نے ایک اشتہار انگریزی اور اردو میں شائع فرمایا اور اعلان فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس صدی کا مجد د مقرر فرمایا ہے اور میں اس کام پر مامور کیا گیا ہوں کہ میں اسلام کی صداقت تمام دوسرے دینوں پر ثابت کروں اور دنیا کو دکھاؤں کہ زندہ مذہب، زندہ کتاب اور زندہ رسول اب اسلام اور قرآن اور حضرت محمد مصطفی ملی یہ کم ہیں.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے اندر روحانی طور پر صحیح ابن مریم کے کمالات ودیعت کئے گئے ہیں.اور آپ نے تمام دنیا کے مذاہب کو دعوت دی اور چیلنج کیا کہ وہ آپ کے سامنے آکر اسلام کی صداقت کا بیشک امتحان لے لیں.اور اب اسلام ہی ہے جو روحانی امراض سے شفا کا ذریعہ بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی اور دین.اس اعلان نے ہندوستان کے مختلف مذاہب میں ایک زلزلہ سا پیدا کر دیا مگر کسی میں جرات نہیں ہوئی کہ آپ کے اعلان کے مطابق اسلام کی صداقت کا تجربہ کرے.بڑے بڑے پادری جو اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے.جیسے عماد الدین وغیرہ ، انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ کسی قسم کے مقابلے کی یا نشان مانگنے کی ضرورت نہیں.لیکن ایک پادری سوفٹ (Swin) اور لیکھرام وغیرہ جنہوں نے گو بظاہر آمادگی ظاہر کی لیکن بعد کے واقعات نے ان کی آمادگی کو بھی واضح کر دیا کہ یہ صرف دکھاوا تھا.اس سب کی تفصیل جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں موجود ہے.تاریخ احمدیت میں موجود ہے.اس وقت بیان تو نہیں ہو سکتی.بہر حال اس دعوت نے جو اسلام کی صداقت کے لئے آپ نے دی تھی اور جو اشتہار آپ نے شائع فرمایا تھا، اس کا ازالہ اوہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی یوں ذکر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : یہ عاجز اسی قوت ایمانی کے جوش سے عام طور پر دعوتِ اسلام کے لئے کھڑا ہوا اور بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوتِ اسلام رجسٹری کراکر تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیانِ ملک کے نام روانہ کئے.یہاں تک کہ ایک خط اور ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد کے نام بھی روانہ کیا اور
80 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم وزیر اعظم تخت انگلستان گلیڈسٹون کے نام بھی ایک پرچہ اشتہار اور خط روانہ کیا گیا.ایسا ہی شہزادہ بسمارک کے نام اور دوسرے نامی امراء کے نام مختلف ملکوں میں اشتہارات و خطوط روانہ کئے گئے جن سے ایک صندوق پر ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ کام بجز قوت ایمانی کے انجام پذیر نہیں ہو سکتا.یہ بات خود ستائی کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت نمائی کے طور پر ہے تا حق کے طالبوں پر کوئی بات مشتبہ نہ رہے“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 156.حاشیہ ) بہر حال اسلام کی تمام ادیان پر برتری کا کام تو آپ کرتے چلے گئے.اور خاص طور پر عیسائیت کے امڈتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے اس کے آگے ایک بند باندھ دیا.اس دوران آپ کے دل میں دعاؤں کی طرف توجہ دینے کے لئے خاص طور پر چلہ کاٹنے کی تحریک پیدا ہوئی.تو اس کے لئے آپ نے قادیان سے باہر جا کر چلہ کاٹنے کا ارادہ کیا.تو اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما بتایا کہ آپ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گی.چنانچہ آپ نے 22 جنوری 1886ء کو ہوشیار پور کا سفر اختیار کیا اور چلہ کشی کی جس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی اور بہت سی بشارات آپ کو دیں.چنانچہ جب چلہ ختم ہوا ' تو حضور علیہ السلام نے اپنے قلم سے 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار ”رسالہ سراج منیر بر نشانہائے رب قدیر“ کے نام سے تحریر فرمایا، جو اخبار ریاض ہند امر تسریکم مارچ 1886ء میں بطورِ ضمیمہ شائع ہوا.اس میں آپ نے لکھا کہ : ان ہر سہ قسم کی پیشگوئیوں میں سے جو انشاء اللہ رسالے میں بہ بسط تمام درج ہوں گی“ (یعنی تفصیل سے بعد میں رسالہ میں درج ہوں گی ) ” پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے.آج 20 فروری 1886ء میں جو مطابق پندرہ جمادی الاول ہے برعایت ایجاز و اختصار کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے“ ( کہ مختصر طور پر میں نمونہ کے طور پر لکھتا ہوں ) اور مفصل رسالہ میں درج ہو گی ، انشاء اللہ تعالیٰ“.فرماتے ہیں کہ ”پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عز و جل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے ( جلشانہ و عزاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے یہ پایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو(جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پادیں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا.اس بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ کے بعد حسب ذیل وضاحت فرمائی جو آپ کی ہدایت پر یہاں درج کی جارہی ہے آپ نے فرمایا کہ : ” گویا چالیس دن پورے نہیں اغلباً اس دوران یہ اشتہار دیا ہے بہر حال یہ حوالہ تاریخ احمدیت کے مطابق دیا گیا ہے.“
خطبات مسرور جلد نهم 81 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء الله دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مر تبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تالوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی صلی ان کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.آپ نے لکھا کہ ”( اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دو شنبه - فرزند دلبند، گرامی ارجمند، مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاء كَانَ الله نَزَلَ مِنَ السَّمَاء جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا.“ (اشتہار 20 فروری 1886ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 96،95 مطبوعہ ربوہ) فرماتے ہیں: ” پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیر اگھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے بڑی بھائیوں کی کاٹی جائے گی“ (یادوسری جو شاخ تھی ) ” اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی.اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا.لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدارحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں ارد گرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا.اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.تیری ذریت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے، عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا.پر تیرا
خطبات مسرور جلد نهم 82 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گر وہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابر وز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الا خلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے.تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیائے بنی اسرائیل (یعنی ظلی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے ).تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید.تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکر و اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو.اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچانشان پیش کر واگر تم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہر گز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے“.(اشتہار 20 فروری 1886ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 96-97 مطبوعه ربوہ) آپ نے ضمیمہ اخبار ریاض ہند میں یہ اشتہار دیا تھا.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس چلہ کشی کے نتیجہ میں آپ کو جو بشارتیں دی گئی تھیں یہ اُن کا کچھ ذکر ہے.اور اس میں ایک بیٹے کی بشارت بھی دی گئی جس کی مختلف خصوصیات ہیں، جس کا تفصیلی جائزہ لیں تو یہ باون خصوصیات بنتی ہیں.بلکہ ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے اٹھاون بھی بیان فرمائی ہیں.آنحضرت علی الم نے فرمایا تھا کہ مسیح آئے گا تو اُس کی اولاد ہو گی جیسا کہ میں نے ابھی پڑھ کے سنایا.اب اولاد تو اکثر لوگوں کی ہوتی ہے.اس میں کیا خاص بات ہے ؟ آنحضرت صلی للی الم نے اگر پیشگوئی فرمائی تھی تو یقینا کسی اہم بات کی اور وہ یہی بات تھی کہ اُس کی اولاد ہو گی اور وہ ایسی خصوصیات کی حامل ہو گی جو دین کے پھیلانے کا باعث بنے گی، جو توحید کے پھیلانے کا باعث بنے گی، جو آنحضرت صلی علیکم کے مقام کو دنیا پر ظاہر کرنے کا باعث بنے گی.اب اس پیشگوئی کے مطابق جس سال میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی پیدا ہوئے ہیں یعنی 1889ء میں ، اسی سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیعت بھی لی.اُسی سال اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا کہ بیعت بھی لے لو.اور یوں اس سال میں با قاعدہ طور پر اُس جماعت کی بنیاد ڈالی گئی جس نے اسلام کی تبلیغ کا کام بھی کرنا تھا، اپنی حالتوں کو بھی سنوارنا تھا اور مسیح و مہدی کی بیعت میں آکر آنحضرت کی پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنا تھا اور آپ کے جماعت قائم کرنے کا یہی مقصد تھا.
خطبات مسرور جلد نهم 83 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء بہر حال اب میں دوبارہ اُن نشانوں کی طرف آتا ہوں جو مصلح موعود کے نشان کے طور پر بیان کئے گئے ہیں.یا وہ خصوصیات یا علامات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اس موعود بیٹے کے متعلق فرمائی تھیں.وہ بیٹا جس کے ذریعے دنیا میں دین کی تبلیغ ہو گی اور دنیا میں اصلاح کا کام ہو گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس سال خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا ہے ، اسی سال کے جلسہ سالانہ میں تقریر فرماتے ہوئے یہ باون علامات بیان فرمائی تھیں جن کا میں مختصر آپ کے الفاظ میں ہی ذکر کر دیتا ہوں.آپؐ فرماتے ہیں : ” چنانچہ اگر اس پیشگوئی کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی یہ یہ علامتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدرت کا نشان ہو گا.دوسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ رحمت کا نشان ہو گا.تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قربت کا نشان ہو گا.چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فضل کا نشان ہو گا.پانچویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ احسان کا نشان ہو گا.چھٹی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحب شکوہ ہو گا.ساتویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحب عظمت ہو گا.آٹھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ صاحب دولت ہو گا.نویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مسیحی نفس ہو گا.دسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.گیارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمتہ اللہ ہو گا.بارہویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہو گا.تیرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت ذہین ہو گا.چودھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت فہیم ہو گا.پندرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل کا حلیم ہو گا.سولہویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا.سترھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم باطنی سے پر کیا جائے گا.اٹھارویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.انیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ دوشنبہ کا اس کے ساتھ خاص تعلق ہو گا.بیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فرزند دلبند ہو گا.اکیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ گرامی ارجمند ہو گا.بائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الاول ہو گا.تئیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ مَظْهَرُ الْآخِر ہو گا.چو بیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مَظْهَرُ الْحَق ہو گا.پچیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظهَرُ الْعَلاء ہو گا.چھبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ كَانَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاء کا مصداق ہو گا.ستائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول بہت مبارک ہو گا.اٹھائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول جلالِ الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.انتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نور ہو گا.اور تیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی رضامندی کے عطر سے ممسوح ہو گا.اکتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا اس میں اپنی روح ڈالے گا.بتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.تینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا.چونتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اسیر وں کی
خطبات مسرور جلد نهم 84 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء رستگاری کا موجب ہو گا.پینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.چھتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی.سینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.اڑتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دیر سے آنے والا ہو گا.انتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دور سے آنے والا ہو گا.چالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فخر رسل ہو گا.اکتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی ظاہری برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.بیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کی باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.تینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ یوسف کی طرح اس کے بڑے بھائی اس کی مخالفت کریں گے.چوالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر الدولہ ہو گا.پینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شادی خاں ہو گا.چھیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عالم کباب ہو گا.سینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہو گا.اڑتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمتہ العزیز ہو گا.انچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے وہ کلمتہ اللہ خان ہو گا.پچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ناصر الدین ہو گا.اکیاونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فاتح الدین ہو گا اور باونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر ثانی ہو گا.“ ( الموعود.انوار العلوم جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 562 تا 565 مطبوعہ ربوہ) تو یہ علامتیں ہیں جن میں سے ہر ایک علامت جو ہے وہ ایک علیحدہ تقریر کا موضوع بن سکتا ہے، جس کا اس وقت وقت نہیں.بہر حال یہ علامتیں تھیں.اگر ہم حضرت مصلح موعود کی زندگی کا جائزہ لیں اور اُس کا مطالعہ کریں، آپ کے باون سالہ دورِ خلافت کو دیکھیں تو ہر علامت جو ہے آپ میں نظر آتی ہے.اس کی تفصیل میں جانے کا جیسا کہ میں نے کہا وقت نہیں ہے.بعض باتوں کا تذکرہ میں آگے کروں گا اور یہ تفصیل جو ہے جماعتی لٹریچر میں موجود بھی ہے.یہاں یہ بھی بتادوں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیشگوئی شائع فرمائی تو اُس وقت پنڈت لیکھرام نے نہایت گھٹیا زبان استعمال کرتے ہوئے ہر پیشگوئی کے مقابلے پر اپنی دریدہ دہنی اور اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا.پنڈت لیکھرام کی اخلاقی حالت اور پیشنگوئی پر اس کی جو غیظ و غضب کی حالت تھی اُس کے چند نمونے پیش کرتا ہوں.اس کو سارا بیان کرنا بھی مشکل ہے.ایک دو مثالیں دے دیتا ہوں.پنڈت لیکھرام نے 18 مارچ 1886ء کو نہایت گستاخانہ لب و لہجے میں ایک مفتر یانہ اشتہار شائع کیا جس میں حرف بحرف خدا تعالیٰ کے حکم سے لکھنے کا ادعا کر کے جواب دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا نا کہ میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا تو وہ لکھتا ہے کہ ”آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی.غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی زیادہ سے زیادہ تین سال تک شہرت رہے گی).”نیز کہا کہ اگر کوئی لڑکا پیدا بھی ہو اتو وہ آپ کی پیشگوئی میں بیان شدہ صفات سے بر عکس رحمت کا نشان نہیں، زحمت کا نشان ثابت ہو گا.وہ مصلح موعود نہیں ہو گا مفسد موعود ہو گا.“ (نعوذ باللہ)
خطبات مسرور جلد نهم 85 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء چنانچہ اس بد زبان نے پسر موعود سے متعلق پیشگوئی کی ایک ایک صفت کو اپنے تجویز کردہ الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر پوری بے حجابی سے لکھا (اور یہاں تک لکھ دیا کہ) ”خدا کہتا ہے کہ جھوٹوں کا جھوٹا ہے.میں نے کبھی اس کی دعا نہیں سنی اور نہ قبول کی“.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 280 مطبوعہ ربوہ ) اور پھر جب اس کا انجام ہو اوہ تو ساری دنیا کو معلوم ہے.اس قسم کی دریدہ دہنی اور مفتریانہ باتوں سے اس کا اشتہار بھرا پڑا ہے.یہ تو ہندو تھا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہینچ دیا تھا.اسی طرح کچھ عیسائی پادریوں نے بھی جو اسلام کے مخالف تھے ، اس قسم کی باتیں کیں.لیکن بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی اپنی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا.ان لوگوں کی باتوں کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع فرمایا.اُس میں آپ نے اس موعود بیٹے کی پیشگوئی کی عظمت کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے.اور در حقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولی و اکمل وافضل و اتم ہے کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے.اس جگہ بفضلہ تعالٰی و احسانہ و ببرکت حضرت خاتم الا نبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سو اگر چہ بظاہر یہ نشان احیاء موتی کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے.مردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے.مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے.جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت صلی نیلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟“.(اشتہار واجب الا ظہار 22 مارچ 1886ء مجموعہ اشتہارات - جلد اول صفحہ 99 تا 100 مطبوعہ ربوہ.صفحہ 114-115 مطبوعہ لندن) بہر حال یہ پر شوکت پیشگوئی تھی جس نے حضرت مصلح موعود کی خلافت کے باون سالہ دور میں ثابت کر دیا کہ کس طرح وہ شخص جلد جلد بڑھا؟ کس طرح اُس نے دنیا میں اسلام کے کام کو تیزی سے پھیلایا ؟ مشن قائم گئے ، مساجد بنائیں.آپ کے وقت میں باوجود اس کے کہ وسائل بہت کم تھے ، مالی کشائش جماعت کو نہیں تھی، دنیا کے چونتیس پینتیس ممالک میں جماعت کا قیام ہو چکا تھا.کئی زبانوں میں قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا تھا' مشن کھولے جاچکے تھے.اسی طرح جماعتی نظام کا یہ ڈھانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی بنایا تھا جو آج تک چل رہا ہے اور اس سے بہتر کوئی ڈھانچہ بن ہی نہیں سکتا تھا.اسی طرح ذیلی تنظیمیں ہیں اس وقت کی بنائی ہوئی ہیں وہ بھی آج تک چل رہی ہیں.ہر کام آپ کی ذہانت اور فہم کا منہ بولتا ثبوت ہے.قرآنِ کریم کی تفسیر ہے اور دوسرے علمی کارنامے ہیں جو آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے کا ثبوت ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 86 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی اپنے اس بیٹے کو جس کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تھا، مصلح موعود ہی سمجھا.چنانچہ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سر ساوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”ہم نے بار ہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا ہوا ہے ایک ہی دفعہ نہیں بلکہ بار بار سُنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں.اور ہم نے آپ سے یہ بھی سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ”میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں“.(احکم جوبلی نمبر 28 دسمبر 1939ء جلد 42 شمارہ 31 تا40 صفحہ 80 کالم نمبر 3) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آپ کو اس وقت تک اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا جب تک خدا تعالیٰ نے آپ کو بتا نہیں دیا.یہ ایک لمبی رؤیا ہے جس کے بارہ میں آپ نے فرمایا کہ اس میں کشف اور الہام کا بھی حصہ ہے ( جو آپ نے دیکھی تھی) اُس کے آخر میں آپ نے فرمایا کہ: ”میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچاتا ہے.“ دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان انوار العلوم جلد 17 صفحہ 161 مطبوعہ ربوہ) اور آپ نے یہ رویا دیکھ کے 1944ء میں بیان کیا.اب میں بعض غیر از جماعت احباب جو ہیں اُن کی آپ کے بارے میں کچھ شہادتیں پیش کرنا چاہتا ہوں.ایک معزز غیر احمدی عالم مولوی سمیع اللہ خان صاحب فاروقی نے قیام پاکستان سے قبل اظہارِ حق“ کے عنوان سے ایک ٹریکٹ میں لکھا کہ آپ کو ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو.ناقل ) اطلاع ملتی ہے کہ ”میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا.اور اس کے ذریعے سے حق ترقی کرے گا.اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے.“اس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو (وہ آگے لکھتے ہیں) کہ اس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو اور پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی؟ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اُس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچے ہی تھے اور مرزا صاحب کی جانب سے ( یعنی حضرت مسیح موعود کی طرف سے) انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیت بھی نہ کی گئی تھی.بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تھا.چنانچہ اس وقت اکثریت نے حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیا جس پر مخالفین نے محولہ صدر پیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا.لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے.اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانہ میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے“.( یہ غیر از جماعت لکھ رہے ہیں).پھر آگے لکھتے ہیں کہ ”خود مرزا صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود ) کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی.خلیفہ نور الدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں
خطبات مسرور جلد نهم 87 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء مرزائیت قریباً دنیا کے ہر خطے تک پہنچ گئی اور حالات یہ بتلاتے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد 1931ء کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہو گی.بحالیکہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئی ہیں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں.الغرض آپ کی ذریت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی من وعن پوری ہوئی“ ( یہ انہوں نے بیان دیا).(اظہار الحق صفحہ 16،17 مطبوعہ نذیر پرنٹنگ پریس امر تسر باہتمام سید مسلم حسن صاحب زیدی.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 286 ، 287 مطبوعہ ربوہ ) پھر ”ہندوستان کے غیر مسلم سکھ صحافی ارجن سنگھ ایڈیٹر ”ر نگین امر تسر نے تسلیم کیا کہ مرزا صاحب نے 1901ء میں جبکہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب موجودہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی.(اُس نے شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لکھے ہیں) کہ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا اندھیرا کروں گا دُور اس مہ دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فَسُبحَنَ الَّذِي أُخْرَى الْأَعَادِي ( یہ شعر ) لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ”یہ پیشگوئی بیشک حیرت پیدا کرنے والی ہے.1901ء میں نہ میرزا بشیر الدین محمود کوئی بڑے عالم و فاضل تھے اور نہ آپ کی سیاسی قابلیت کے جوہر کھلے تھے.اس وقت یہ کہنا کہ تیرا ایک بیٹا ایسا اور ایسا ہو گا، ضرور کسی روحانی قوت کی دلیل ہے.یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ میرزا صاحب نے ایک دعوی کر کے گدی کی بنیادرکھ دی تھی اس لئے آپ کو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ میرے بعد میری جانشینی کا سہر امیرے لڑکے کے سر پر رہے گا، لیکن یہ خیال باطل ہے.اس لئے کہ میر زا صاحب نے خلافت کی یہ شرط نہیں رکھی کہ وہ ضرور مرزا صاحب کے خاندان سے اور آپ کی اولاد سے ہی ہو.چنانچہ خلیفہ اول ایک ایسے صاحب ہوئے جن کا میر زا صاحب کے خاندان سے کوئی واسطہ نہ تھا.پھر بہت ممکن تھا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول کے بعد بھی کوئی اور صاحب خلیفہ ہو جاتے“.پھر یہ لکھتے ہیں کہ ”چنانچہ اس موقعہ پر بھی مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور خلافت کے لئے امیدوار تھے لیکن اکثریت نے میرزا بشیر الدین صاحب کا ساتھ دیا اور اس طرح آپ خلیفہ مقرر ہو گئے“.لکھتے ہیں ”اب سوال یہ ہے کہ اگر بڑے میر زاصاحب کے اندر کوئی روحانی قوت کام نہ کر رہی تھی تو پھر آخر آپ یہ کس طرح جان گئے کہ میرا ایک بیٹا ایسا ہو گا.جس وقت مرزا صاحب نے مندرجہ بالا اعلان کیا ہے، اُس وقت آپ
خطبات مسرور جلد نهم 88 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء کے تین بیٹے تھے.آپ تینوں کے لئے دعائیں بھی کرتے تھے لیکن پیشگوئی صرف ایک کے متعلق ہے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک فی الواقع ایسا ثابت ہوا ہے کہ اُس نے ایک عالم میں تغیر پیدا کر دیا ہے“.(رسالہ ” خلیفہ قادیان" طبع اول صفحہ 8-7- از ارجن سنگھ ایڈیٹر ر تمین امر تسر.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 288-287 مطبوعہ ربوہ) پسر موعود سے متعلق وعدہ الہی تھا کہ ”وہ اولو العزم ہو گا اور یہ کہ ”وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“.چنانچہ ہندوستان کے نامور صحافی خواجہ حسن نظامی دہلوی (1878-1955) اپنی قلمی تصویر کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں اُن کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں.انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کر کے اپنی مغلئی جواں مردی کو ثابت کر دیا.اور یہ بھی کہ مغل ذات کار فرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے.سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں، یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں“.اخبار ” عادل“ دہلی.24 اپریل 1933 ء بحوالہ خالد نومبر 1955 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 288 مطبوعہ ربوہ ) پھر پسر موعود کے متعلق ایک اہم خبر یہ دی گئی تھی کہ وہ اسیر وں کی رستگاری کا موجب ہو گا“.یہ پیشگوئی جس حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئی اس نے انسانی عقل کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور تحریک آزادی کشمیر اس پر شاہد ناطق ہے کیونکہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کا سہرا آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سر ہے.یہ مشہور کمیٹی حضور کی تحریک اور ہند و پاکستان کے بڑے بڑے مسلم زعماء مثلاً سر ذوالفقار علی خان ، علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال، خواجہ حسن نظامی دہلوی، سید حبیب مدیر اخبار سیاست وغیرہ کے مشوروں سے 25 جولائی 1931ء کو شملہ میں قائم ہوئی.اور اس کی صدارت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو سونپی گئی تھی اور آپ کی کامیاب قیادت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانانِ کشمیر جو مدتوں سے انسانیت کے ادنیٰ حقوق سے بھی محروم ہو کر غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے ، ایک نہایت قلیل عرصے میں آزادی کی فضا میں سانس لینے لگے.اُن کے سیاسی اور معاشی حقوق تسلیم کئے گئے.ریاست میں پہلی دفعہ اسمبلی قائم ہوئی اور تقریر و تحریر کی آزادی کے ساتھ انہیں اس میں مناسب نمائندگی ملی، جس پر مسلم پر یس نے حضرت مصلح موعود کے شاندار کارناموں کا اقرار کرتے اور آپ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ: جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اور اُس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجو د مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا، انہوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا.اُس وقت اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی اور اُمتِ مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا“.سرگزشت صفحه 293 از عبدالمجید سالک اخبار ”سیاست“ 18 مئی 1933 ء.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289 مطبوعہ ربوہ) عبدالمجید سالک صاحب تحریک آزادی کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : شیخ محمد عبد الله ( شیر کشمیر) اور دوسرے کارکنانِ کشمیر مرزا محموداحمد صاحب اور اُن کے بعض کار پردازوں کے ساتھ...اعلانیہ روابط رکھتے تھے.اور ان روابط کی بنا محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیر الوسائل
خطبات مسرور جلد نهم 89 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء ہونے کی وجہ سے تحریک کشمیر کی امداد کئی پہلوؤں سے کر رہے تھے اور کارکنان کشمیر طبعاً اُن کے ممنون تھے“.ذکر اقبال“ از عبد المجید سالک صفحہ 188.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289 مطبوعہ ربوہ) علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی مشہور تفسیر کبیر کا جب مطالعہ کیا تو آپ کی خدمت میں خط لکھا کہ : تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حُسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تبحر علمی، آپ کی وسعتِ نظر ، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا.کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا.کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط علیہ السلام پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا آپ نے هؤلاء بناتی کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے ، اُس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں.خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے “.( یہ 1963ء میں لکھا ہے) الفضل 17 نومبر 1963ء.صفحہ 3.بحوالہ ماہنامہ خالد سید نا مصلح موعود نمبر جون، جولائی 2008ء صفحہ 325-324 ) مولانا عبد الماجد دریا آبادی جو خود بھی مفسر قرآن تھے اور ”صدق جدید “ کے مدیر تھے.حضور کی وفات پر انہوں نے لکھا کہ : قرآن اور علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی، اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ، اُن کا اللہ انہیں صلہ دے.علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح و تبیین اور ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مر تبہ ہے“.( بحوالہ سوانح فضل عمر جلد سوئم صفحہ 168 بحوالہ ماہنامہ خالد سید نا مصلح موعود نمبر جون، جولائی 2008ء صفحہ 325 ) پس یہ میں نے پیشگوئی کے پس منظر کا، پیشگوئی کا اور اس کا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کے بارے میں پورا ہونے کا مختصر بیان کیا ہے.آپ کے علمی کارنامے ایسے ہیں جو دنیا کو نیا انداز دینے والے ہیں جس کا دنیا نے اقرار کیا، جس کے چند نمونے میں نے پیش کئے ہیں.معاشی، اقتصادی، سیاسی، دینی، روحانی سب پہلؤوں پر آپ نے جب بھی قلم اٹھایا ہے یا تقریر کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ، یا مشوروں سے امتِ مسلمہ یا دنیا کی رہنمائی فرمائی تو کوئی بھی آپ کے تجر علمی اور فراست اور ذہانت اور روحانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.آپ مصلح موعودؓ تھے ، دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا، جس میں روحانی، اخلاقی اور ہر طرح کی اصلاح شامل تھی.جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کا باون سالہ دورِ خلافت تھا اور آپ نے خطبات جمعہ کے علاوہ بے شمار کتب بھی تحریر فرمائی ہیں.تقاریر بھی فرمائیں، جن کو جب تحریر میں لایا گیا یا لایا جارہا ہے تو ایک عظیم علمی اور روحانی خزانہ
خطبات مسرور جلد نهم 90 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء بن گیا ہے اور بن رہا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن جو آپ کی وفات کے بعد قائم کی گئی تھی ، خلیفتہ المسیح الثالث " نے قائم فرمائی تھی.وہ آپ کا سب مواد جو ہے کتب کی صورت میں شائع کر رہی ہے اور آج تک اس پر کام ہو رہا ہے.اب تک خطبات کے علاوہ اکیس جلدیں آچکی ہیں جو انوار العلوم کے نام سے مشہور ہیں.اور یہ ہر جلد جو ہے مشتمل ہے.کم از کم چھ سو، سات سو صفحات پر فضل عمر فاؤنڈیشن کو بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ اپنے کام میں تیزی پیدا کریں.ان کو اشاعت کے اس کام کو جو وہ اردو میں اکٹھا جمع کر رہے ہیں ، جلد از جلد ختم کرنا چاہئے پھر اس کا ترجمہ بھی مختلف زبانوں میں شائع کرنا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام زبانوں کو چند زبانوں میں جمع کر کے ہمارے لئے کام آسان کر دیا ہے.بے شمار زبانیں ہیں لیکن چند مشہور زبانوں نے تقریب دنیا پر قبضہ کر لیا ہے.آپ کی مراد تھی کہ اردو عربی کے علاوہ انگلش، جرمن اور فرنچ زبانیں جو ہیں وہ مختلف علاقوں میں تقریباً دنیا میں اکثر بولی اور سمجھی جاتی ہیں.تو اگر ان میں ترجمہ ہو جائے تو توے فیصد آبادی تک ہمارا پیغام پہنچ سکتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی بعض کتب کا ترجمہ ہو چکا ہے، لیکن ابھی بہت سی کتب ایسی ہیں جن کا دنیا کی علمی، روحانی پیاس بجھانے کے لئے دنیا تک پہنچنا ضروری ہے.ابھی تک تو یہ ترجمہ جو ہے وہ دوسرے ادارے کر رہے ہیں،.فضل عمر فاؤنڈیشن نہیں کر رہی.لیکن اصل کام تو یہ فضل عمر فاؤنڈیشن کا ہے.اگر پہلے نہیں بھی تھا تو میں اب ان کو اس طرف توجہ کرواتا ہوں.کیونکہ جماعت کے دوسرے ادارے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی طرف پہلے توجہ کریں گے اور کر رہے ہیں.ساتھ ساتھ جس حد تک ممکن ہو تا ہے حضرت مصلح موعود کی کتب بھی ترجمہ ہو رہی ہیں اور جماعتی لٹریچر بھی ترجمہ ہو رہا ہے.بہر حال فضل عمر فاؤنڈیشن کو بھی اپنے کام میں وسعت پیدا کرنی چاہئے.حضرت مصلح موعود کی ان کتابوں کے ترجمے نہ ہونے کی وجہ سے، بعض لوگوں نے سرقہ بھی کر لیا.آپ کی کتب لے کے نقل کر لیں.اپنے نام سے ترجمہ کر کے شائع کر دیں.چنانچہ ابھی مجھے عربی ڈیسک کے ہمارے ایک مربی صاحب نے بتایا کہ منہاج الطالبین جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ایسی کتاب ہے جو اخلاقیات اور تربیت پر ایک معرکۃ الآراء کتاب ہے، اس سے مواد لے کر ایک صاحب نے اس کو عربی میں اپنی کاوش کے نام سے شائع کر دیا جن کو اردو بھی آتی تھی.جبکہ اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ”میں نے اس مضمون پر غور کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا جدید مضمون میری سمجھ میں آیا ہے جس نے اخلاق کے مسئلے کی کایا پلٹ دی ہے“.( منهاج الطالبین انوار العلوم جلد 9 صفحہ 179 مطبوعہ ربوہ) پس آپ کے کام کو دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کی شوکت اور روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا اصل میں تو یہ آنحضرت صلی للی کم کی پیشگوئی ہے جس سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی ال نیم کے اعلیٰ اور دائمی مرتبے کی شان ظاہر ہوتی ہے.لیکن ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ اس پیشگوئی کے
91 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پورا ہونے کا تعلق صرف ایک شخص کے پیدا ہونے اور کام کر جانے کے ساتھ نہیں ہے.اس پیشگوئی کی حقیقت تو تب روشن تر ہو گی جب ہم میں بھی اُس کام کو آگے بڑھانے والے پیدا ہوں گے جس کام کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے اور جس کی تائید اور نصرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعود عطا فرمایا تھا جس نے دنیا میں تبلیغ اسلام اور اصلاح کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیں.پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں.اپنے علم سے، اپنے قول سے ، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں.اصلاح نفس کی طرف بھی توجہ دیں.اصلاح اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاح معاشرہ کی طرف بھی توجہ دیں.اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھر پور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت لیلی کیم کو بنایا تھا.پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یوم مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے ، ورنہ تو ہماری صرف کھو کھلی تقریریں ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جمعہ کے بعد میں ایک حاضر جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ قائنہ آرچرڈ صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا بشیر احمد صاحب آرچرڈ مرحوم کا ہے جو 16 فروری 2011ء کو اکاسی سال کی عمر میں وفات پاگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.آپ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پوتی ، حضرت خلیفہ علیم الدین صاحب کی بیٹی اور حضرت ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بھتیجی تھیں جو حضرت ام ناصر خلیفہ المسیح الثانی کی پہلی حرم تھیں.صوم و صلوۃ کی پابند، بہت سادہ مزاج اور صابر شاکر خاتون تھیں.یہ غریب پرور تھیں.مہمان نواز تھیں.خلافت سے انتہا محبت رکھنے والی تھیں.مخلص خاتون تھیں.تعلق باللہ اور توکل الی اللہ آپ کی نمایاں خوبیاں تھیں.آپ نے اپنے واقف زندگی شوہر کے شانہ بشانہ بھر پور خدمت کی توفیق پائی.ٹرینیڈاڈ اور گیانا میں لجنہ کی سر گرم رکن اور لجنہ اماء اللہ سکاٹ لینڈ کی دس سال سے زائد صدر لجنہ رہیں.لجنہ اور ناصرات کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں.مرحومہ موصیہ تھیں.ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں.چار بچے تو میں جانتا ہوں جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں.اور کافی حد تک جماعتی خدمت کرنے والے ہیں.بشیر آرچرڈ صاحب نے انڈیا میں ملٹری ڈیوٹی کے دوران اسلام قبول کیا تھا اور پھر 1945ء میں قادیان میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور جماعت میں شامل ہوئے.1946ء میں زندگی وقف کر کے پہلے انگریز مبلغ بننے کا شرف حاصل کیا تھا.ان کی اہلیہ کا انتخاب بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بذات خود فرمایا تھا.ویسٹ انڈیز اور سکاٹ لینڈ، آکسفورڈ میں بطور مبلغ خدمات سر انجام دیں.جب آپ احمدی ہوئے ہیں تو اس وقت حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا کہ پہلے تو میر اخیال نہیں تھا کہ انگریزوں میں اسلام کی طرف
92 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم رجمان ہو گا لیکن ان کو دیکھ کر مجھے خیال پیدا ہوا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انگریزوں میں بھی اسلام کی طرف توجہ پید اہو گی اور وہ اسلام قبول کریں گے ، انشاء اللہ.بہر حال اپنے میاں کے ساتھ انہوں نے بڑی وفا کے ساتھ ہر جگہ جماعتی خدمات ادا کی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں بلند مقام عطا فرمائے.ان کے سب بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: یہ جنازہ کیونکہ حاضر ہے اس لئے نماز کے بعد میں جنازہ پڑھانے کے لئے باہر جاؤں گا.احباب یہیں صفحوں میں کھڑے رہیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 11 مارچ تا 17 مارچ 2011 ءجلد 18 شماره 10 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 93 8 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء بمطابق 25 تبلیغ 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج میں ایک دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا تعلق تمام عالم اسلام سے ہے.اس وقت مسلمانوں سے ہمدردی کا تقاضا ہے اور ایک احمدی کو آنحضرت صلی علیم سے جو محبت ہے اور ہونی چاہئے ، اُس کا تقاضا ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللی کم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کلمہ پڑھتا ہے، جو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، جو بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے نقصان کا نشانہ بنایا جارہا ہے یا کسی بھی مسلمان ملک میں کسی بھی طرح کی بے چینی اور لاقانونیت ہے اُس کے لئے ایک احمدی جو حقیقی مسلمان ہے، اُسے دعا کرنی چاہئے.ہم جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں ہمارا سب سے زیادہ یہ فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی میں بڑھ کر اظہار کرنے والے ہوں.جب ہم عہد بیعت میں عام خلق اللہ کے لئے ہمدردی رکھنے کا عہد کرتے ہیں تو مسلمانوں کے لئے تو سب سے بڑھ کر اس جذبے کی ضرورت ہے.ہمارے پاس دنیاوی حکومت اور وسائل تو نہیں جس سے ہم مسلمانوں کی عملی مدد بھی کر سکیں یا کسی بھی ملک میں اگر ضرورت ہو تو کر سکیں، خاص طور پر بعض ممالک کی موجودہ سیاسی اور ملکی صورت حال کے تناظر میں ہمارے پاس یہ وسائل نہیں ہیں کہ ہم جا کر مدد کر سکیں.ہاں ہم دعا کر سکتے ہیں اور اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے.یا جو احمد کی ان ممالک میں بس رہے ہیں یا اُن ممالک کے باشندے ہیں جن میں آج کل بعض مسائل کھڑے ہوئے ہیں، اُن کو دعا کے علاوہ اگر کسی احمدی کے ارباب حکومت یا سیاستدانوں سے تعلق ہیں تو انہیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہئے کہ اپنے ذاتی مفادات کے بجائے اُن کو قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہئے.لیکن إِلا مَا شَاء الله عموما مسلمان ارباب اختیار اور حکومت جب اقتدار میں آتے ہیں، سیاسی لیڈ رجب اقتدار میں آتے ہیں یا کسی بھی طرح اقتدار میں آتے ہیں تو حقوق العباد اور اپنے فرائض بھول جاتے ہیں.اس کی اصل وجہ تو ظاہر ہے تقویٰ کی کمی ہے.جس رسول صلی علیکم کی طرف منسوب ہوتے ہیں، جس کتاب قرآنِ کریم پر ایمان لانے اور پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے بنیادی حکم کو بھول جاتے ہیں کہ تمہارے
خطبات مسرور جلد نهم 94 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء میں اور دوسرے میں مابہ الامتیاز تقویٰ ہے.اور جب یہ امتیاز باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ پھر دنیا پرستی اور دنیاوی ہوس اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے.گو مسلمان کہلاتے ہیں ، اسلام کا نام استعمال ہو رہاہوتا ہے لیکن اسلام کے نام پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی کی جارہی ہوتی ہے.دولت کو ، اقتدار کی ہوس کو، طاقت کے نشہ کو خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دی جارہی ہوتی ہے یا دولت کو سنبھالنے کے لئے ، اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کیا جارہا ہوتا ہے.غیر طاقتوں کے مفادات کی حفاظت اپنے ہم وطنوں اور مسلم اللہ کے مفادات کی حفاظت سے زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اپنی رعایا پر ظلم سے بھی گریز نہیں کیا جاتا.پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دولت کی لالچ نے سربراہانِ حکومت کو اس حد تک خود غرض بنا دیا ہے کہ اپنے ذاتی یہ خزانے بھرنے اور حقوق العباد کی ادنی سی ادا ئیگی میں بھی کوئی نسبت نہیں رہنے دی.اگر سو (100) اپنے لئے ہے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے ہے.جو خبریں باہر نکل رہی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ کسی سر براہ نے سینکڑوں کلو گرام سونا باہر نکال دیا تو کسی نے اپنے تہ خانے خزانے سے بھرے ہوئے ہیں.کسی نے سوئس بینکوں میں ملک کی دولت کو ذاتی حساب میں رکھا ہوا ہے اور کسی نے غیر ممالک میں بے شمار ، لا تعداد جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں اور ملک کے عوام روٹی کے لئے ترستے ہیں.یہ صرف عرب ملکوں کی بات نہیں ہے.مثلاً پاکستان ہے وہاں مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ بہت سارے عام لوگ ایسے ہوں گے جن کو ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہے.لیکن سربراہ جو ہیں، لیڈر جو ہیں وہ اپنے محلوں کی سجاوٹوں اور ذاتی استعمال کے لئے قوم کے پیسے سے لاکھوں پاؤنڈ کی شاپنگ کر لیتے ہیں.پس چاہے پاکستان ہے یا مشرق وسطی کے ملک ہیں یا افریقہ کے بعض ملک ہیں جہاں مسلمان سر براہوں نے جن کو ایک رہنما کتاب، شریعت اور سنت ملی جو اپنی اصلی حالت میں آج تک زندہ و جاوید ہے.باوجود اس قدر رہنمائی کے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دھجیاں اڑائی ہیں.پس امتِ مسلمہ تو ایک طرف رہی یعنی دوسرے ملک جن کے حقوق ادا کرنے ہیں یہاں تو اپنے ہم وطنوں کے بھی مال غصب کئے جارہے ہیں.تو ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تقویٰ پر چل کر حکومت چلانے والے ہوں گے ، یا حکومت چلانے والے ہو سکتے ہیں.یہ لوگ ملک میں فساد اور افرا تفری پیدا کرنے کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں.طاقت کے زور پر کچھ عرصہ حکومتیں تو قائم کر سکتے ہیں لیکن عوام الناس کے لئے سکون کا باعث نہیں بن سکتے.پس ایسے حالات میں پھر ایک رد عمل ظاہر ہوتا ہے جو گواچانک ظاہر ہو تا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے لیکن اچانک نہیں ہو تا بلکہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے جو آب بعض ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض میں اپنے وقت پر ظاہر ہو گا.جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو پھر یہ بھی طاقتوروں اور جابروں کو بھسم کر دیتا ہے.اور پھر کیونکہ ایسے رد عمل کے لئے کوئی معین لائحہ عمل نہیں ہوتا.اور مظلوم کا ظالم کے خلاف ایک رد عمل ہوتا ہے.اپنی گردن آزاد کروانے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کی جارہی ہوتی ہیں.اور جب مظلوم کامیاب ہو جائے تو وہ بھی ظلم پر
95 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اتر آتا ہے.اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ احمدی کو اسلامی دنیا کے لئے خاص طور پر بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.اس سے پہلے کہ ہر ملک اس لپیٹ میں آجائے اور پھر ظلموں کی ایک اور طویل داستان شروع ہو جائے.خدا تعالیٰ حکومتوں اور عوام دونوں کو عقل دے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اگر مسلمان لیڈر شپ میں تقویٰ ہوتا، حقیقی ایمان ہوتا تو جہاں سربراہانِ حکومت جو بادشاہت کی صورت میں حکومت کر رہے ہیں یا سیاستدان جو جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے ہیں، وہ اپنے عوام کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوتے.پھر اسلامی ممالک کی ایک تنظیم ہے، یہ تنظیم صرف نام کی تنظیم نہ ہوتی بلکہ مسلمان ممالک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے نہ کہ اپنے مفادات کے لئے اندر خانے ایسے گروپوں کی مدد کرنے والے جو دنیا میں فساد پیدا کرنے والے ہیں.اگر حقیقی تقویٰ ہو تا تو عالم اسلام کی ایک حیثیت ہوتی.عالم اسلام اپنی حیثیت دنیا سے منوا تا.براعظم ایشیا کا ایک بہت بڑا حصہ اور دوسرے بڑا اعظموں کے بھی کچھ حصوں میں اسلامی ممالک ہیں، اسلامی حکومتیں ہیں.لیکن دنیا میں عموماً ان سب ممالک کو غریب قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا غیر ترقی یافتہ قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا کچھ ترقی پذیر کہلاتی ہیں.بعض جن کے پاس تیل کی دولت ہے، وہ بھی بڑی حکومتوں کے زیر نگیں ہیں.ان کے بجٹ، ان کے قرضے جو وہ دوسروں کو دیتے ہیں، اُن کی مددجو وہ غریب ملکوں کو دیتے ہیں، یا مدد کے بجٹ جو غریب ملکوں کے لئے مختص کئے ہوتے ہیں اُس کی ڈور بھی غیر کے ہاتھ میں ہے.خوف خدا نہ ہونے کی وجہ سے ، خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے کی وجہ سے، نااہلی اور جہالت کی وجہ سے اور اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ ہی دولت کا صحیح استعمال اپنے ملکوں میں انڈسٹری کو ڈویلپ (Develop) کرنے میں ہوا ہے، نہ زراعت کی ترقی میں ہوا ہے.حالانکہ مسلمان ممالک کی دولتِ مشترکہ مختلف ملکوں کے مختلف موسمی حالات کی وجہ سے مختلف النوع فصلیں پیدا کرنے کے قابل ہے.یہ مسلمان ملک مختلف قدرتی وسائل کی دولت اور افرادی قوت سے اور زرخیز ذہن سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.لیکن کیونکہ مفادات اور ترجیحات مختلف ہیں، اس لئے یہ سب کچھ نہیں ہو رہا.آخر کیوں مسلمان ملکوں کے سائنسدان اور موجد اپنے زرخیز ذہن کی قدر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر کرواتے ہیں.اس لئے کہ ان کی قدر اپنے ملکوں میں اس حد تک نہیں ہے.اُن کو استعمال نہیں کیا جاتا.اُن کو سہولتیں نہیں دی جاتیں.جب اُن کے قدم آگے بڑھنے لگتے ہیں تو سر براہوں یا افسر شاہی کے ذاتی مفادات اُن کے قدم روک دیتے ہیں.مسلمان ملکوں میں ملائشیا مثلاً بڑا ترقی یافتہ یا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے آگے بڑھا ہوا سمجھا جاتا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک اُسے بھی ترقی پذیر ممالک میں ہی شمار کرتے ہیں.بہر حال یہاں پھر وہی بات آتی ہے کہ تقویٰ کا فقدان ہے.اور اس کے باوجود کہ تقوی کوئی نہیں ہے ہر بات کی تان اسلام کے نام پر ہی ٹوٹتی ہے.قدریں بدل گئی ہیں.اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنی صحیح قدروں کی پہچان کرنی ہو گی.اب آج کل کی صورتِ حال کس قدر فکر انگیز ہے.کہاں تو مومن کو یہ حکم ہے کہ مومن ایک دوسرے
خطبات مسرور جلد نهم 96 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء کے بھائی ہیں.ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے.قرآنِ کریم بھی یہ فرماتا ہے کہ انما الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: 11) که مومن تو بھائی بھائی ہیں.لیکن بعض ملکوں میں مثلاً مصر سے بھی اور دوسرے ملکوں سے بھی یہ خبریں آئی ہیں کہ حکومت نے قانونی اختیار کے تحت عوام کے خلاف جو کارروائی کی ہے وہ تو کی ہے لیکن اسی پر بس نہیں بلکہ عوام کو بھی آپس میں لڑایا گیا ہے.جو حکومت کے حق میں تھے انہیں اسلحہ دیا گیا.گویا رعایا، رعایا سے لڑی اور اُس میں حکومت نے کردار ادا کیا.مسلمان ملک اگر جمہوری طرز حکومت اپنانے کا اعلان کرتے ہیں تو پھر جب تک عوام کسی قسم کے پر تشدد احتجاج کا اظہار نہیں کرتے ، اُس وقت تک حکومت کو بھی برداشت کرنا چاہئے.لیکن خبروں کے مطابق تو ایسا رد عمل احتجاج پر بھی حکومتوں کی طرف سے ظاہر ہوا ہے جس نے سینکڑوں جانیں لے لی ہیں.تو ایک طرف تو مغرب کی نقل میں جمہوریت کا نعرہ ہے اور دوسری طرف بر داشت بالکل نہیں ہے اور پھر مستزاد یہ کہ مسلمان مسلمان پر ظلم کر رہا ہے.اگر جمہوریت کی نقل کرنی ہے تو پھر بر داشت بھی پیدا کرنی چاہئے.اسلامی ممالک کی تنظیم کو جو کر دار ادا کرنا چاہئے تھا وہ بھی انہوں نے نہیں کیا.کوئی اصلاح کی کوشش نہیں ہوئی.یہ سب کچھ گزشتہ چند ہفتوں میں مصر، تیونس یا لیبی وغیرہ دوسرے ملکوں میں ہوا یا ہو رہا ہے.یا جو کچھ ایک لمبے عرصے سے شدت پسندوں کے ہاتھوں افغانستان اور پاکستان میں ہو رہا ہے، یہ سب عالم اسلام کی بدنامی کا باعث ہے.یہ سب اُس بھائی چارے کی نفی ہو رہی ہے جس کا مسلمانوں کو حکم ہے کہ بھائی چارہ پیدا کرو.یہ سب اس لئے ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اس وقت تقویٰ بالکل (ملفوظات جلد 3 صفحہ 22 مطبوعہ ربوہ) اُٹھ گیا ہے“.پس اس وقت اسلام کی ساکھ قائم کرنے کے لئے، ملکوں میں امن پیدا کرنے کے لئے ، عوام الناس اور اربابِ حکومت و اقتدار میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے جس کی طرف کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں.توجہ کی صرف ایک صورت ہے کہ توبہ اور استغفار کرتے ہوئے ہر فریق خدا تعالیٰ کے آگے جھکے.تقویٰ کے راستے کی تلاش کرے.یہ دیکھے کہ جب ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :42) یعنی خشکی اور تری میں فساد کی سی صورت حال پیدا ہو جائے تو کس چیز کی تلاش کرنی چاہئے.قرآنِ کریم میں بھی اُس کا حل لکھا ہے.آنحضرت صلی اہل علم نے بھی اس بات کو خوب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اس فساد کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ الله سة راستہ ہے اس زمانے میں آپ کے مسیح و مہدی کو قبول کر کے آپ صلی علیہ کم کا سلام پہنچانا.جب تک اس طرف توجہ نہیں کریں گے ، دنیاوی لالچ بڑھتے جائیں گے.اصلاح کے لئے راستے بجائے روشن ہونے کے اندھیرے ہوتے چلے جائیں گے.اس کے علاوہ اب اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ تقویٰ کا حصول خدا تعالیٰ سے تعلق کے ذریعے سے ہی ملنا ہے.اور خدا تعالیٰ سے تعلق اُس اصول کے تحت ملے گا جس کی رہنمائی آنحضرت صلی اللہ ہم نے فرما دی، اللہ تعالیٰ نے فرما دی.گزشتہ دنوں کسی نے مجھے ایک website سے ایک پرنٹ نکال کر بھیجا جو انگلش میں تھا، جس میں
خطبات مسرور جلد نهم 97 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کوئی مسلمان تنظیم ہے، اُن کی طرف سے یہ توجہ دلائی گئی تھی کہ اس صورتِ حال کا جو آج اسلامی ملکوں میں پید اہور ہی ہے ، مستقل حل کیا ہے ؟ وہ لکھتا ہے، (مختصر آبیان کر دیتا ہوں.مصر اور تیونس کی انہوں نے مثال لی ہے) کہتے ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان مصر اور تیونس کے بھائی بہنوں کی اپنے ممالک کے ظالم حکمرانوں کے خلاف جد و جہدِ آزادی دیکھ کر بہت خوش ہیں ( یہ ترجمہ میں نے کیا ہے اُس کا ).ہم ان واقعات پر چند خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں.تو پہلی بات اُس نے یہ لکھی کہ یہ بات واضح ہو گئی ہے اور ہم سب اس کے گواہ ہیں کہ اس وقت اسلام کو ضرورت ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے.مصر اور تیونس کے واقعات نے دنیا کو بتادیا کہ بد عنوان حکمرانوں کو ہٹایا جا سکتا ہے.پھر آگے مغربی میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسلام کے خلاف ایسی اصطلاحات استعمال کرتا ہے جس سے اسلام ایک خوفناک مذہب کے طور پر دکھائی دیتا ہے.لکھتا ہے کہ حالانکہ یہ لوگ نظام خلافت کو قبول کرنے کو تیار نہیں جس سے قرآن و حدیث کے تحت نظام زندگی کا تصور دیا جاتا ہے.پھر کہتے ہیں کہ اسلامی طرز زندگی سے بددل کرنے کا یہ پروپیگنڈہ ہم گزشتہ دس سال سے دیکھ رہے ہیں.یہ حملہ پر دہ، قرآن مجید ( یعنی بُرقعہ اور قرآن مجید ) اور حضرت محمد رسول اللہ صل ال یکم اور شریعت کی عزت و حرمت پر کیا جاتا ہے جو روز مرہ کی زندگی سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک اثر انداز ہوتا ہے.پھر کہتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں مقام خلافت یا اسلامی طرزِ حکومت چونکہ مرکزی کردار کا حامل ہے، اس لئے ہمارے دین کی جان ہے.اس سے اسلام میں اتحاد کی امید وابستہ ہے جو مصر، غزہ اور سوڈان جیسے ممالک میں اتحاد پیدا کر سکتی ہے.پھر کہتا ہے کہ اسلامی طرز حکومت میں صرف خلافت ہی ہے جو حکمرانوں پر کڑی نظر رکھ سکتی ہے.جہاں وہ حکمران منتخب کئے جاتے ہیں جو ریاست کو جواب دہ ہوتے ہیں.آزاد عدلیہ اور میڈیا کا نظام ہوتا ہے.جہاں عورت کو ماں ، بیوی اور بہن کا مقام بلند دلایا جاتا ہے.جہاں کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں ہوتی.جہاں بلا امتیاز مذہب و ملت امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہوتا ہے.جہاں ریاست عوام کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرتی ہے.یہی ایک راہ ہے جس پر چل کر اُمت ایک بار پھر اسلام کی اخلاقی اور روحانی قدروں کا نور دنیا میں پھیلا سکتی ہے.پھر اُس نے مسلمانوں کو اس بات پر ابھارنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی نظام کے حق میں پروپیگنڈہ کریں اور اس کے بر خلاف جو دنیاوی نظام ہے، اس کے خلاف آواز اٹھائیں.خلافت کے قیام کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر مسلم اللہ میں اور دنیا میں تبدیلی نہیں آسکتی.تو یہ اُس کی باتوں کا خلاصہ ہے.مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے ، انصاف قائم کرنے کے لئے ، دنیا میں
خطبات مسرور جلد نهم 98 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء امن قائم کرنے کے لئے یقینا نظام خلافت ہی ہے جو صحیح رہنمائی کر سکتا ہے.حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی نشاندہی اور اس پر عمل کروانے کی طرف توجہ یقینا خلافت کے ذریعے ہی مؤثر طور پر دلوائی جاسکتی ہے.یہ لکھنے والے نے بالکل صحیح لکھا ہے لیکن جو سوچ اس کے پیچھے ہے وہ غلط ہے.جو طریق انہوں نے بتایا ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہو جائیں اور نظام خلافت کا قیام کر دیں، یہ بالکل غلط ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام خلافت سے وابستگی سے ہی اب مسلم اللہ کی بقا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا اس تنظیم نے مسلمانوں کی حیثیت منوانے اور اُن کو صحیح راستے پر چلانے کے لئے بہت صحیح حل بتایا ہے لیکن اس کا حصول عوام اور انسانوں کی کوششوں سے نہیں ہو سکتا.کیا خلافتِ راشدہ انسانی کوششوں سے قائم ہوئی تھی.باوجود انتہائی خوف اور بے بسی کے حالات کے اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دل پر تصرف کر کے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے کھڑا کر دیا تھا.پس خلافت خدا تعالیٰ کی عنایت ہے.مومنین کے لئے ایک انعام ہے.آنحضرت صلی الی یکم نے اپنے بعد کچھ عرصہ تک خلافت راشدہ کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی.اور اس کے بعد ہر آنے والا اگلا دور ظلم کا دور ہی بیان فرمایا تھا.پھر ایک امید کی کرن دکھائی جو قرآنی پیشگوئی اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعۃ:4) میں نظر آتی ہے اور اس کی وضاحت آنحضرت صلی علیم نے مسیح و مہدی کے ظہور سے فرمائی جو غیر عرب اور فارسی الاصل ہو گا.جس کا مقام آنحضرت صلی علیم کی غلامی اور مہر کے تحت غیر تشریعی نبوت کا مقام ہو گا.پس اگر مسلمانوں نے خلافت کے قیام کی کوشش کرنی ہے تو اس رہنما اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کریں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج النبوت قائم ہو گی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا.اُس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 6 صفحه 285 مسند النعمان بن بشير حديث 18596 عالم الكتب بيروت 1998ء) پس خلافت کے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم نے جوش مارنا تھا نہ کہ حکومتوں کے خلاف مسلمانوں کے پُر جوش احتجاج سے خلافت قائم ہوئی تھی.کیا ہر ملک میں خلافت قائم کریں گے ؟ اگر کریں گے تو کس ایک فرقے کے ہاتھ پر تمام مسلمان اکٹھے ہوں گے.نماز میں امامت تو ہر ایک فرقہ دوسرے کی قبول نہیں کرتا.پس اس کا ایک ہی حل ہے کہ پہلے مسیح موعود کو مانیں اور پھر آپ علیہ السلام کے بعد آپ کی جاری خلافت کو مانیں.یہ وہ خلافت ہے جو شدت پسندوں کا جواب شدت پسندی کے رویے دکھا کر قائم نہیں ہوئی.مسلم امہ کے دو
99 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم گروہوں کے درمیان گولیاں چلانے اور قتل و غارت کرنے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش دلانے سے قائم ہونے والی خلافت ہے.اور جو خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی عنایت سے ملے گی تو وہ نہ صرف مسلم اللہ کے لئے محبت پیار کی ضمانت ہو گی بلکہ گل دنیا کے لئے امن کی ضمانت ہو گی.حکومتوں کو اُن کے انصاف اور ایمانداری کی طرف توجہ دلائے گی.عوام کو ایمانداری اور محنت سے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائے گی.پس جماعت احمد یہ تو ہمیشہ کی طرح آج بھی اس تمام فساد کا جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے ایک ہی حل پیش کرتی ہے کہ خیر امت بننے کے لئے ایک ہاتھ پر جمع ہو کر ، دنیا کے دل سے خوف دور کر کے اُس کے لئے امن، پیار اور محبت کی ضمانت بن جاؤ.خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار نے والے بن جاؤ.اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ اب بھی جسے چاہے کلیم بنا سکتا ہے تاکہ خیر امت کا مقام ہمیشہ اپنی شان دکھا تار ہے.یہ سب کچھ زمانے کے امام سے مجڑنے سے ہو گا.اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے مسلمانوں کی حالت بھی سنورے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :.یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے“.(ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 103) پھر فرمایا: ” میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا.وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا.لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مردہ دلوں کے لئے آپ حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سر چشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیاز مین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا.سو تم مقابلہ کے لئے جلدی نہ کرو اور دیدہ و دانستہ اس الزام کے نیچے اپنے تئیں داخل نہ کرو جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّبْعَ وَ الْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَيكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: 37) (یعنی جس بات کا تجھے علم نہیں ہے اُس کے پیچھے نہ چل.یقیناً کان، آنکھ اور دل سب سے پوچھا جائے گا) فرمایا کہ ”بد ظنی اور بد گمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو ایسا نہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ.(ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 104) وو ط پھر فرماتے ہیں..اے مسلمانو! اگر تم سچے دل سے حضرت خداوند تعالٰی اور اس کے مقدس رسول علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہو اور نصرت الہی کے منتظر ہو تو یقینا سمجھو کہ نصرت کا وقت آ گیا اور یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بنا ڈالی بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہو گئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر
خطبات مسرور جلد نهم 100 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء دی گئی تھی.خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا.قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اس کے باشفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھا لیا.سو شکر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آ گیا.خدا تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی، کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا.وہ ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو.وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 105،104) پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جوش نے جس خلیفہ اللہ کو بھیجا وہ تو ہمارے ایمان کے مطابق آنحضرت صلی یکم کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے ثریا سے زمین پر ایمان لے آئے اور اسلام کے حقیقی نور کو ہم پر آشکار کر دیا.آپ کے بعد آپ کی خلافت کا سلسلہ بھی آپ کی پیشگوئی کے مطابق جاری ہو گیا.اور اس نظام خلافت کے متعلق جیسا کہ آنحضرت صلی نیلم نے فرمایا تھا، ہم نے حدیث پڑھی ہے، آپ نے یہ پیشگوئی بھی فرما دی ہے کہ ”میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی“.(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحه 305) اور یہ بات جیسا کہ میں نے کہا آنحضرت صلی ای کم نے بیان فرما دی ہے.پس احمدی جہاں تک اس پیغام کو پہنچا سکتے ہیں ضرور پہنچائیں کہ اگر تمہیں اپنی بقا خلافت کی ڈھال میں نظر آرہی ہے تو یہ آنحضرت صلی یکم کی پیشگوئی کے مطابق جاری ہے.اس کے لئے کسی پر جوش احتجاج کی ضرورت نہیں، کسی قسم کی گولیاں چلانے کی ضرورت نہیں.اور یہ انعام اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ہی جاری ہو سکتا ہے اور جاری ہوا ہے ، نہ کہ عوامی کوششوں اور تحریکوں سے.پس آؤ اور اس الہی نظام کا حصہ بن کر مسلم اللہ کی مضبوطی کا باعث بن جاؤ.یہی طریق ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے.یہی طریق ہے جس سے محبت رسول صلی علی کم اور اطاعت رسول صلی یی کم کا حقیقی اظہار ہوتا ہے.اللہ کرے کہ مسلمانوں کو اس بنیادی نقطہ کی سمجھ آجائے اور ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلیں.بہر حال یہ تو وہ ایک طریق ہے جو انہوں نے خود کہا کہ اس کا حل یہی ہے اور روحانی طریقہ ہے جو مسلم ائنہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہے.جس کی طرف ہمیں جب بھی موقع ملے احمدی توجہ دلاتے رہتے ہیں اور توجہ دلاتے رہیں گے کہ مسیح و مہدی کو مان کر اپنی بقا کے سامان پیدا کرو.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا احمدی دُعا کی طرف بھی خاص طور پر متوجہ رہیں اور دنیاوی طور پر بھی سمجھاتے رہیں.یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہر مسلمان ملک کو ہوشمند، انصاف پسند اور خدا کا خوف رکھنے والی لیڈرشپ عطا فرمائے.ابھی تک تو جہاں بھی کسی قسم کی بے چینی ہے یا فی الحال بظاہر سکون ہے ، جو بھی حکمران ہیں ہمیں اُن کے اپنے ہی مفادات نظر آتے ہیں اور جو حکمران بننے والے نظر آ رہے ہیں وہ بھی ویسے ہی نظر آرہے ہیں جو اپنے مفادات رکھنے والے ہیں.چہرے بدل جاتے ہیں لیکن طور طریق وہی رہتے ہیں.اب جب بعض ملکوں کے عوام کا
101 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم رد عمل ظاہر ہوا ہے اور پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہو گیا ہے تو جابر بادشاہ بھی عوام کے حقوق کا نعرہ لگانے لگ گئے ہیں.اگر پہلے ہی یہ خیال آجاتا تو نہ املاک کو اتنا نقصان پہنچتا، نہ ہی جانوں کا اتنا نقصان ہوتا.اب لگتا ہے کہ ہر ملک ہی اس لحاظ سے غیر محفوظ ہو گیا ہے.کونسی طاقتیں پیچھے کام کر رہی ہیں؟.یہ حقیقت میں ملک میں امن لانے والی ہیں یا صرف کرسی پر قبضہ کرنے والی ہیں یا فساد پیدا کرنے والی ہیں ؟ سعودی عرب بھی جہاں مضبوط بادشاہت قائم ہے انہوں نے بھی ارد گرد کے ہمسایہ ملکوں کے عوام کا رویہ دیکھ کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہم بھی اپنے عوام کو مزید سہولتیں دیں گے.بہر حال اس صورتِ حال میں بعض قوتیں ابھر رہی ہیں.یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قوتیں نئے سازو سامان کے ساتھ میدان میں اترنے کی منصوبہ بندیاں کر رہی ہیں.ایک تو وہ لوگ ہیں جو بڑی طاقتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تم نے اپنے سابقہ غلاموں کو دیکھ لیا ہے اب ہمیں بھی آزمالو.یا سابقہ حکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے سامنے کچھ لوگ رکھ دیئے ہیں جو اس وعدے کے ساتھ آرہے ہیں یا آئیں گے کہ حکومتی پالیسی وہی رہے گی اور تمہارے مفادات کی حفاظت بھی ہوتی رہے گی.چہرے بدلنے سے عوام خوش ہو جائیں گے یا کچھ دیر کے لئے اُن کی تسلی ہو جائے گی اور بے چینی ختم ہو جائے گی.لیکن اب جو سوچ لوگوں میں ابھر رہی ہے اور اب جو احساس لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے، تجزیہ نگاروں کے جو تجزیے پیش ہو رہے ہیں، وہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ لوگوں میں اتنا شعور پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اس طریق کو اب زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور ہو سکتا ہے بے چینی کا یہ سلسلہ لمبا چلتا چلا جائے.دوسری جو خطر ناک بات ہے وہ یہ کہ ان حالات سے مذہبی شدت پسند گروپ جو ہے وہ بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے بلکہ کر رہے ہیں.ابتدا میں عین ممکن ہے کہ انتہائی معتدل رویہ دکھائیں یا یہ اظہار کریں کہ ہم معتدل ہیں لیکن آہستہ آہستہ گھل کھیلیں گے.جس سے مسلمانوں کے لئے دنیا میں مزید مشکلات کا دور شروع ہونے کا خطرہ ہے.ظاہر ہے بڑی طاقتیں اس کے مقابل پر جو ظاہری اور چھپی چھپی ہوئی حکمت عملی وضع کریں گی وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو گی.بڑی طاقتیں یہ کبھی برداشت نہیں کریں گی کہ بعض مخصوص علاقوں میں اُن کے مفادات متاثر ہوں.بڑی طاقتوں کی آپس کی بھی خاموش یا سرد جنگ ہے جو آہستہ آہستہ دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے.اس کے نتیجہ میں بے چینی اور فساد مختلف قسم کے گروپوں کی پشت پناہی سے پھیلتا چلا جائے گا.آج کل بھی تیسری دنیا کے بعض غریب ملک ہیں بلکہ کہنا چاہئے کہ مسلمان ملک ہیں جن کے اندرونی فساد بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا مسلمان ممالک کا المیہ یہ ہے کہ عموماً جو رہنما ہیں وہ قومی اور ملکی مفادات کی حفاظت کا حق ادا نہیں کرتے.آنا اور تکبر اور ذاتی مفادات کی وجہ سے غیر کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اور پھر ملاں چونکہ تقویٰ سے عاری ہے اس لئے یہ مفاد پرست سیاستدانوں سے بھی زیادہ خطر ناک ہے.ملکی امن اور دنیا کے امن کے لئے بہت زیادہ خطر ناک ہو سکتا ہے.اور یہ صورتِ حال ایسی بھیانک
102 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بن رہی ہے جس کے لئے بہت فکر اور دعا کی ضرورت ہے.اقتدار پر قبضے کے لئے ، وسائل پر قبضے کے لئے ، علاقے کی اہمیت کے پیش نظر ہر قوت جو ہے وہ وہاں پاؤں جمانے کی کوشش کر رہی ہے.مسلمان دنیا میں اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون ان چیزوں پر پہلے قبضہ کرتا ہے جس کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں.ملک چند قدم ترقی کر لیتا ہے تو پھر مفاد پرست قو میں یا قو تیں اُسے کئی قدم پیچھے لے جاتی ہیں.ایک زمانے میں عراق کے متعلق کہتے تھے کہ اس طرح ترقی کر رہا ہے کہ وہاں جا کر لگتا ہے جیسے یورپ کے کسی ترقی یافتہ ملک میں آگئے ہیں، لیکن پھر گزشتہ میں سال کی بے چینی اور فساد اور جنگ نے اسے کھنڈر بنا دیا.اور پھر اگر دیکھیں تو عراق کے ان حالات کے ساتھ عرب دنیا میں خاص طور پر اور بعض افریقن ممالک میں جو عربوں کے ساتھ لگتے ہیں عموماً بدامنی اور بے چینی زیادہ ہو گئی ہے.بڑی طاقتیں وسائل اور علاقے کی اہمیت کے پیش نظر اپنے قدم جمانا چاہتی ہیں تو نام نہاد اسلامی تنظیمیں اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہیں.ملک کے عوام کو دونوں طرف سے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں.اگر سیاستدان ایماندار ہوں، سر بر اہانِ مملکت اپنے عوام کی خیر خواہی نیک نیتی سے چاہتے ہوں، اُن کے حقوق کا تحفظ کریں تو نہ کبھی بے چینی پھیلے، نہ ہی شدت پسند تنظیموں کو اُبھرنے کا موقع ملے ،نہ بیرونی طاقتیں غلط رنگ میں اپنے مفاد حاصل کر سکیں.بہر حال مختصر یہ کہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ جو ظلم ہر جگہ نظر آرہے ہیں دنیا کو تباہی کی طرف لے جاتے نظر آرہے ہیں.اگر حقیقی تقویٰ پیدا نہ ہوا، انصاف قائم نہ ہوا تو آج نہیں تو کل یہ تباہی اور جنگ دنیا کو لپیٹ میں لے لے گی.اور بعید نہیں کہ اس کے ذمہ دار ی وجہ بعض مسلمان ممالک ہی بن جائیں.پس بہت فکر کا مقام ہے.اللہ تعالی اسلامی دنیا کو انصاف پسند اور تقویٰ پر چلنے والے رہنما عطا فرمائے.جو قرآنی حکم وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المائدة: 3) پر عمل کرنے والے ہوں.جو نیکی کے نام پر تعاون کرنے والے ہوں اور تعاون چاہنے والے ہوں.جب وہ عوام سے تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے نیکی کے نام پر تعاون چاہیں گے، جب وہ ہمسایوں سے نیکی کے نام پر تعلقات رکھیں گے ، جب وہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے حقوق العباد ادا کر رہے ہوں گے تو امن بھی قائم ہو گا اور ملک بھی ترقی کریں گے.بظاہر حالات ایسے ہیں کہ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقوى (المائدة: 3) کی صورت نظر نہیں آتی بلکہ ہر طرف ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) کا نظارہ ہی نظر آرہا ہے.ان حالات میں جیسا کہ میں نے کہا ہم دعائیں ہی کر سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ایک محدود طبقے تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں.آج احمد ی ہی اس دنیا کے امن کی ضمانت ہیں.آج دنیاد نیادی داؤ پیچ کو سب کچھ سمجھتی ہے لیکن احمدی جو زندہ خدا کے نشانوں کو دیکھتا ہے، خدا تعالیٰ کی ذات پر انحصار کرتا ہے، خدا تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھتا ہے، خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے لئے خدا کے آگے جھکنا ہی سب کچھ ہے.ایک بنگالی پروفیسر صاحب چند دن ہوئے مجھے ملنے آئے.کہنے لگے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر جماعت احمد یہ اکثریت میں ہو گی، ہوتی ہے یا ہو جائے تو دوسرے فرقوں یا مذ ہبوں پر زیادتی نہیں ہو گی اور لوگوں کے حقوق نہیں دبائے جائیں گے ؟ تو میں نے اُن کو کہا کہ جو اکثریت دلوں کو جیت کر بنی ہو ، جو جبر کے بجائے محبت کا پیغام لے
103 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 فروری 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کر چلنے والی ہو ، وہ ظلم نہیں کرتی بلکہ محبتیں پھیلاتی ہے.اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہوتا ہے.اُس کے پیش نظر خدا تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے.وہ نیکیوں پر تعاون کرتی ہے اور تعاون لیتی ہے، اور پھر جو خلافت راشدہ کا نظام ہے یہ انصاف قائم کرنے کے لئے ہے، حقوق دلوانے کے لئے ہے، حقوق غصب کرنے کے لئے نہیں ہے.اور جو حکومت خلافت کی بیعت میں ہو گی وہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف تو توجہ دے گی، حقوق غصب کرنے کی کوشش نہیں کرے گی.بشری تقاضے کے تحت بعض غلط فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن اگر تقویٰ ہو تو اُن کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے.بہر حال گو مولویوں کے کہنے میں آکر یاد نیاوی خوف سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ، احمدی جو حقیقی مسلمان ہیں اُن کے خلاف ہو کر اُن پر ظلم و تعدی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، اُن سے ظلم کارویہ اپنائے ہوئے ہے.یہ تو ان کا رویہ ہے وہ بے شک ظلم کریں لیکن احمدی اس وقت بے چین ہے ، مجھ سے بعض لوگ خطوط میں بھی اظہار کرتے ہیں کہ عالم اسلام کی حالت دیکھ کر ہماری عجیب حالت ہو جاتی ہے.پس ہمارا کام ہر حالت میں مسلمانوں کی فکر کرنا ہے، اُن سے ہمدردی کے جذبات رکھنا ہے اور اُن کے لئے دعائیں کرنا ہے اور یہ ہم انشاء اللہ کرتے چلے جائیں گے.آخر میں میں پھر کہتا ہوں کہ ہمارے احمدی جو عرب ملکوں میں بھی رہتے ہیں یا اُن کا اسلامی حکومتوں کے سیاستدانوں اور لیڈروں سے بھی کوئی تعلق ہے یار سوخ ہے تو اُن کو بتائیں کہ اگر تم نے ہوش نہ کی، انصاف اور تقویٰ کو قائم کرنے کے لئے بھر پور کوشش نہ کی، مُلاں کے چنگل سے اپنے آپ کو نہ نکالا، شدت پسند گروہوں پر کڑی نظر نہ رکھی تو کوئی بعید نہیں کہ مُلاں مذہب کے نام پر بعض ملکوں میں حکومت پر مکمل قبضہ کرنے کی کوشش پر کا کرے.اور پھر مذہب کے نام پر ایسے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے جو عوام کو مزید اندھیروں میں دھکیل دیں گے.مذہب کے نام پر ایک فرقہ دوسرے فرقے پر ظلم کرتا چلا جائے گا.اور اس فساد کی صورت میں پھر بڑی طاقتوں کو متعلقہ ملکوں میں اپنی مرضی سے در آنے کا پروانہ مل جائے گا.امن کے نام پر وہاں آکر بیٹھ جانے کا اُن کو آپ لائسنس دے دیں گے، جس سے پھر فساد ہو گا، جانوں کو نقصان ہو گا، املاک کا نقصان ہو گا اور بالواسطہ یا بلا واسطہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے کا انتظام بھی ہو سکتا ہے بلکہ یقینی طور پر ہو گا.اور سب سے بڑھ کر یہ جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک وسیع جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، لے لے گی.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور مسلم امہ کو اور ان کے رہنماؤں کو عقل دے، سمجھ دے کہ خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 18 مارچ تا 24 مارچ 2011 ء جلد 18 شماره 11 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 104 9 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبه جمعه فرموده مورخہ 04 مارچ 2011ء بمطابق 04 امان 1390 ہجری بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانيه) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكَرَ السَّيِّئُ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيْئُ إِلَّا بِأَهلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلا سُنَتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلاً وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا اَوَ لَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَوتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا (فاطر: 44-45) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ زمین میں تکبر کرنا چاہتے تھے اور بُرے مکر کرنا چاہتے تھے.اور بُری تدبیر نہیں گھیرتی مگر خود اُس تدبیر کرنے والے کو.پس کیا وہ پہلے لوگوں (پر جاری ہونے والی اللہ ) کی سنت کے سوا کوئی اور انتظار کر رہے ہیں ؟ پس تو ہر گز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تو ہر گز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا.کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھ لیتے کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہو ا جو اُن سے پہلے تھے حالانکہ وہ قوت میں اُن سے بڑھ کر تھے ؟ اور اللہ ایسا نہیں کہ آسمانوں یا زمین میں کوئی چیز بھی اسے عاجز کر سکے.یقیناوہ دائمی علم رکھنے والا (اور ) قدرت رکھنے والا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں اور ہم اس یقین پر اور ایمان پر قائم ہیں کہ یقینا آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں کیونکہ ہر آن اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت ہم آپ کے شامل حال دیکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جو آپ سے وعدے کئے انہیں ہم نے پورا ہوتے دیکھا.اور یہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے سلوک ہمارے ایمان اور یقین میں مزید پختگی پیدا کرتا ہے.بلکہ آپ کے وصال کے بعد بھی جن باتوں کی آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنی جماعت کو اطلاع دی اور ہمیں بتایا ہم اُن باتوں کو بھی پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں.پس آنحضرت ملی یم سے عشق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی ایم کے کام کو آگے
105 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بڑھانے کے لئے نبوت کا مقام عطا فرمایا.لیکن ایسی نبوت جو غیر تشریعی نبوت ہے، ظلی نبوت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علم کا امتی ہونے کی ایک معراج ہے.یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرت صلی کم کو عطا فرمایا ہے کہ آپ کا امتی آپ کے انتہائی عشق اور غلامی کی وجہ سے نبوت کا اعزاز پا گیا.لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مخالف مسلمانوں کے دوسرے فرقے اپنے علماء کے غلط رنگ میں اس مقام نبوت کی تشریح کی وجہ سے احمدیوں کے خلاف جب موقع ملے، جہاں موقع ملے ، نہ صرف آوازیں اُٹھاتے رہتے ہیں بلکہ جس حد تک تکلیف پہنچا سکتے ہیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.اور اس مخالفت میں بعض اوقات تمام حدوں کو پار کر جاتے ہیں.بہر حال جماعتیں جب ترقی کرتی ہیں، پھیلتی ہیں تو اس ترقی کو دیکھ کر مخالفین کھلی دشمنیاں کر کے اپنی طاقت کے استعمال سے اور اُن سہاروں کے استعمال سے جن کو وہ بہت طاقتور اور قدرت والا سمجھتے ہیں، اِس ترقی کو روکنے کی ہر طرح کوشش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر مختلف طریقوں سے کمزور ایمان والوں کو کم تربیت یافتہ کو یا کچے ذہنوں کو جو جوانی کی عمر میں پہنچنے والے ہوتے ہیں یا جوانی کی عمر میں قدم رکھا ہوا ہوتا ہے، بڑی چالا کی سے اپنی باتوں کے جال میں پھنسانے کی کوشش کر کے انہیں حق سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے ہر احمدی کو ایک تو اپنے دینی علم میں اضافے کی کوشش کرنی چاہئے ، اس کو پتہ ہونا چاہئے میں کیا ہوں ؟ کون ہوں ؟ اور کیوں ہوں ؟ تا کہ ایسے چھپے دشمنوں کا جواب دے سکیں.دوسرے سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان کی سلامتی کے لئے خدا تعالیٰ سے مددمانگنی چاہئے کہ اُس کے فضل کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر قسم کے ٹیڑھے پن سے بچنے کے لئے یہ دعا بھی سکھائی ہے کہ ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران:9) کہ اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دے، ہمیں ہدایت دینے کے بعد کبھی ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے اور اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو بہت عطا کرنے والا ہے.پس ایمان کی سلامتی بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے، خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہوتی ہے.اس لئے ایک عاجز بندہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلب گار رہتا ہے اور رہنا چاہئے.بعض لوگ بعض دفعہ مجھے خط بھی لکھ دیتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی نہ کہو یا لوگوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی اس قسم کی باتیں ہوتی تھیں کہ اس سے جو مخالفت ہے اس میں کمی آجائے گی.اس لئے اگر یہ لفظ نہ استعمال کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : ”جو امور سماوی ہوتے ہیں اُن کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہئے ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا جو بیان ہو گیا اور جو باتیں خدا تعالیٰ نے کہہ دیں، اُن کو کہنے سے ڈرنا نہیں چاہئے ) اور کسی قسم کا خوف کرنا اہل حق کا قاعدہ نہیں.صحابہ کرام کے طرز عمل پر نظر کرو.وہ
106 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ اُن کا عقیدہ تھاوہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے، جبھی تو لا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابِمٍ (المائدة: 55) کے مصداق ہوئے“.فرمایا ”ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں“.فرمایا ”خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے.پس ہم نبی ہیں.ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے ( کوئی نئی شریعت والی نبوت نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو منسوخ کر رہی ہو) اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں“.فرمایا ”بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لئے اور کونسا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہوں سے ممتاز کرے ؟“.( ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 446,447 مطبوعہ ربوہ) پس فرمایا: یہ الہام تو دوسروں کو بھی ہو جاتے ہیں لیکن کثرت سے جو الہام ہوتے ہیں، کثرت سے اللہ تعالیٰ جو باتیں کرتا ہے تو یہی نبوت کا مقام ہے اور اس تعریف کی رو سے میں نبی ہوں.ورنہ الہام تو اوروں کو بھی ہو جاتے ہیں.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ایک کھلا اور واضح اعلان ہے اور یہ معین آنحضرت صلی علیکم کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی ہیں.آپ صلی یکم نے فرمایا تھا کہ : میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں.(سنن ابی داود کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث نمبر 4324) پس جب مسیح موعود مانا ہے تو نبی بھی ماننا ضروری ہے.باقی رہی مخالفتیں ، تو وہ الہی جماعتوں کی ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور یہی الہی جماعتوں کی نشانی ہے کہ ان کی مخالفتیں ہوتی ہیں.بڑے بڑے جابر سلطان اور اُن کے جتھے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ تمام جتھے ختم ہو جاتے ہیں، تمام طاقتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی غالب آتی ہے کہ كَتَبَ اللهُ لأَغْلِبَنَ أَنَا وَ رُسُلى (المجادلة: 22) کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے.اور اللہ تعالیٰ کے رسول کے خلاف تدبیریں کرنے والے تمام متکبر خود اپنی ہی تدبیروں کے جال میں پھنس جائیں گے.جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جتھے اور ہمارے اوپر ہمارے دنیاوی آقاؤں کی چھت ہمیں نبی اور اس کی جماعت کے خلاف تدبیروں میں کامیاب کر دے گی تو یہ اُن کی بھول ہے.آخری کامیابی یقینا الہی جماعتوں کی ہی ہوتی ہے.سازشوں اور جھوٹی سکیمیں بنانے میں چاہے جتنے بھی اُن کے ذہن تیز ہوں، وہ خدا تعالیٰ کی تدبیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے بھی مومنوں کو یہ کہہ کر تسلی فرمائی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک اصولی فیصلہ اور عمل ہے کہ وَلَا يَجِيقُ الْمَكْرُ السَبِي إِلَّا بِأَهلِهِ (فاطر (44) که گندی اور نا پاک تدبیریں تو ان تدبیر کرنے
107 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم والوں کے علاوہ کسی کو گھیرے میں نہیں لیتیں.یعنی صرف وہی اُس کے گھیرے میں آجاتے ہیں.بے شک خدا تعالیٰ کے دوسرے قانون کے تحت قربانیوں کا دور بھی چلتا ہے لیکن آخری کامیابی خد اوالوں کو ہی ہوا کرتی ہے.نبی اور اس کی جماعت کو ہی ہوا کرتی ہے اور اس کے دشمن یقینا سزا کے مورد بنتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.اور خدا تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی.یہ ایسی نہ تبدیل ہونے والی سنت ہے جس نے پہلے بھی دشمن کے بد انجام کے نمونے دکھائے اور آج بھی دشمن کے بد انجام کے نمونے دکھا رہی ہے اور دکھائے گی.اس کے بڑے نمونے تو خدا تعالیٰ اپنے وقت پر دکھائے گا جیسا کہ اس دوسری آیت میں ذکر ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے.لیکن مومنوں کے ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ مختلف وقت میں ان تکبر کرنے والوں اور حق کے مخالفین کی تدبیروں اور کوششوں کی ناکامی کے چھوٹے چھوٹے نظارے دکھاتارہتا ہے.گزشتہ دنوں انڈو نیشیا میں ان نام نہاد ملاؤں کے چیلوں نے جو ظالمانہ کارروائی کی اور وہ خود بھی اُس میں شامل تھے.اس کے بعد مُلاں کو مزید جرآت پیدا ہوئی اور باقی جگہوں کے ان نام نہاد مولویوں نے بھی کہا کہ ہم کیوں پیچھے رہ جائیں.چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ یکم مارچ کو جکارتہ میں ایک بڑا جلوس نکالا جائے گا جس میں لاکھوں آدمی شامل ہوں گے.اور انہوں نے اُس کی بڑی تیاری کی تھی اُس جلوس میں ہمارا یہ مطالبہ ہو گا کہ احمدیوں کو مکمل طور پر بین (Ban) کرو.یہ اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دیں.یا پھر اگر مسلمان کہلوانا ہے تو ہمارے میں شامل ہو جائیں.ورنہ ہم اُس وقت تک اس احتجاج کو جاری رکھیں گے جب تک یا حکومت یہ فیصلہ نہیں کر دیتی یا صدر مملکت کو ہم اُن کے صدارتی محل سے باہر نہیں نکال دیتے.اور جتنا بڑا plan تیار ہو رہا تھا اس پر جماعت انڈونیشیا کو بھی خیال تھا اور فکر بھی تھی کہ اس مخالفت، احتجاج اور جو جلوس کا ان کاplan ہے اس کی شدت کا جو اندازہ لگایا جا رہا ہے، وہ بہت زیادہ ہو گی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ معمولی سا اور بے وقعت قسم کا ایک جلوس نکلا اور وہ بھی اپنے وقت سے بہت پہلے ختم ہو گیا.ان کے جلوس کے اس plan سے چند دن پہلے اللہ تعالیٰ نے حکومتی پروردہ مولویوں کے دل میں یہ ڈالا کہ ہم جلسہ کریں، اور ایک بہت بڑا جلسہ ہو گیا جس میں صدرِ مملکت خود بھی چلے گئے.اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان کی جو تدبیریں تھیں ان کے رڈ کرنے کے سامان پیدا فرما دیئے.بہر حال ہمارے تو نہ یہ حکومتی مولوی سگے ہیں نہ حکومت مخالف مولوی.لیکن اللہ تعالیٰ بعض اوقات ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ مخالفین کی آپس میں سر پھٹول ہو جاتی ہے.تو اس جلسے کی وجہ سے جو پہلے ہو گیا اللہ تعالیٰ نے اس شدت پسند جلوس کے ناکام ہونے کے سامان پیدا فرما دیئے.بہر حال ہم حکومت کے بھی شکر گزار ہیں کہ اس کے بعد سے عمومی طور پر حکمرانوں کا رویہ ، سوائے ایک دووزراء کے ، جماعت کے حق میں بہتر رہا ہے.یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جس طرح لاہور کی شہادتوں کے بعد افریقہ کے بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے افراد جماعت کے اخلاص اور وفا کے نظارے دکھائے اور اُن میں بیعتیں بھی ہوئیں، اسی طرح انڈونیشیا کے واقعہ نے بھی جماعت کے حق میں راستے کھولے ہیں اور سعید فطرت لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق ملی ہے.
108 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم افریقہ کے ایک ملک سے مربی صاحب نے لکھا کہ میں نے انٹرنیٹ پر انڈو نیشیا کا یہ واقعہ دیکھا اور سخت بے چینی تھی، بڑی جذباتی کیفیت تھی.میں اُس کو دیکھ کر روتا رہا.کہتے ہیں کہ اُسی دن اتفاق سے شام کو علاقے کے بعض غیر از جماعت معززین اور اُن کے علماء کے ساتھ ایک تبلیغی نشست تھی تو کہتے ہیں کہ میں نے اس میں ٹی وی پر یہ جو ساری بہیمانہ کارروائی ہوئی تھی اُس کی ریکارڈنگ لگا دی اور اُن مہمانوں سے کہا کہ پہلے آپ یہ دیکھ لیں پھر بات شروع کرتے ہیں.اور اس کی تفصیل بھی بتادی کہ احمدیوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے.کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ ریکارڈنگ لگائی ہے تو ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک معلم (وہاں کے علماء جو مولوی یا امام ہیں ان کو افریقہ میں معلم کہتے ہیں) کھڑے ہو گئے اور اُن کا جو طریقہ ہے سر پر ہاتھ رکھ کے دھاڑیں مار مار کے رونے لگ گئے کہ یہ مسلمان ہیں جو یہ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی لیلی کیم کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ ایسے مسلمانوں کے اس اسلام سے تو میں تو بہ کرتا ہوں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ میں آج سے احمدی ہوں.میری فوری بیعت لے لیں.وہ مذہبی بحث تو بعد میں ہوئی تھی، جو مجلس لگنی تھی وہ تو بعد میں ہوئی تھی، اُس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے امام کو ان کی حرکتیں دیکھ کے بیعت کرنے کی توفیق عطا فرما دی.اور پھر کہتے ہیں کہ آگے انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی عہد کرتاہوں کہ ان تین شہداء کے بدلے انشاء اللہ تعالیٰ میں تین گاؤں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی گود میں لاؤں گا.اللہ تعالیٰ اُن کو تو فیق عطا فرمائے.تو دشمن چاہے چھپ کر تدبیر کرے، پیار بھرے انداز میں تدبیریں کرے یا کھل کر دشمنی کرے تا کہ یہ نبی کے ماننے والے خوفزدہ ہو کر یا کسی طریقے سے بھی پیچھے ہٹ جائیں لیکن مضبوط ایمان والوں کا خوفزدہ ہونا تو ایک طرف رہا ان کی تدبیریں نیک فطرتوں کے سینے فورا کھول کر احمدیت کے حق میں ایسی ہوا چلاتی ہیں کہ جو کام ہمارے مبلغین سال میں نہیں کر سکتے وہ دشمنوں کے مکروں سے ہمارے حق میں ایک لمحے میں ہو جاتا ہے.پس کون ہے جو خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک سکے ؟ لیکن ان تکبر کرنے والوں کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ وہ اپنی سنت میں تبدیلی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کی سنت ایک اُس کی تقدیر غالب آنے کی سنت ہے اور دوسرے ایسے ظالموں کو تباہ کرنے کی سنت ہے.پس اللہ تعالی کی طرف سے وارنگ ہے کہ اگر پہلے لوگ اس مخالفت کی وجہ سے اپنے بد انجام کو پہنچے تو آج بھی وہی خدا ہے اور اُسی طاقتوں کے مالک خدا کے وعدے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیاز مین میں نہیں پھرے.اَوَ لَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً (فاطر:45) که کیوں دیکھتے اور جائزہ نہیں لیتے کہ قوموں کی تباہی کی تاریخ تمہیں کیا بتارہی ہے.آج کل تو ٹی وی پروگراموں میں ، رسالوں میں ، گھر بیٹھے ہی پرانے دفینوں کے نظارے ہو جاتے ہیں کہ کتنی قو میں تھیں جو مختلف آفات کی وجہ سے دفنا دی گئیں، پوری کی پوری بستیاں زمین میں دفن ہو گئیں.بلکہ اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب زلزلے آتے ہیں تو کئی بستیاں دفن ہو جاتی ہیں.تو عبرت حاصل کرنے والوں
109 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے لئے یہ بھی بڑا عبرت کا مقام ہے.قرآنِ کریم میں ان کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو عقل کے ناخن لینے کی پہلے ہی ہدایت کر دی تھی کہ ہوش سے کام لینا، اس قسم کی حرکتیں نہ کرنا کہ پہلی تاریخ تم پر بھی دہرائی جائے.لیکن افسوس کہ مسلمان باوجود اس تنبیہ کے اس عبرتناک تنبیہ کو بھول گئے.اللہ تعالیٰ ہر بڑے تکبر کرنے والے اور اپنی تدبیر وں پر بھروسہ کرنے والے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں سرشار کو فرماتا ہے کہ تمہارے یہ تکبر کچھ کام نہیں آئیں گے.فرمایا ؤ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةٌ.کہ وہ بڑے طاقتور لوگ تھے جو تمہارے سے پہلے تھے.ایک تو وہ تمہاری آج کی حکومتوں سے زیادہ طاقتور تھے.دوسرے اُن نبیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور تھے.دنیاوی حیثیت سے نبیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کی لاٹھی چلی، جب اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو فنا کرنے کا ایک فیصلہ کیا تو سب فنا ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس سنت کا ذکر فرما کر ہر زمانے کے طاقتور اور فرعون اور اُن کے پر ور دوں کو بتادیا کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مقابلے میں تمہاری طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی.دوسرے اللہ والوں کے لئے اللہ تعالی کی حمایت کا اعلان بظاہر ان کی کمزور حالت کے باوجود انہیں طاقتور بنا دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اُن کے پیچھے ہوتی ہے.اور طاقتور سمجھے جانے والے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قصہ پارینہ بن جاتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں.کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں تھے اور کہاں گئے ؟ پس اللہ والوں کے مخالفین کو ہوش کرنی چاہئے اور اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کا مقابلہ اللہ تعالیٰ سے مقابلہ ہے.اور اللہ تعالیٰ وہ ہے کہ فرمایا وَ مَا كَانَ اللهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمواتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ (فاطر : 45) کہ آسمان اور زمین میں کوئی نہیں جو اللہ تعالیٰ کو عاجز کر سکے.پس ایک بیوقوف قوم جو ہے وہ یہی بجھتی ہے یا بعض علاقوں کے ، بعض ملکوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم طاقتور ہیں.ہم ان تھوڑے سے اور معمولی حیثیت کے لوگوں کو زیر کر لیں گے.دنیاوی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بیوقوفی نہیں، بڑی صحیح سوچ ہے کیونکہ طاقتور اور چالاک غالب آ جاتے ہیں.اور جب ہم دنیا کے حالات دیکھتے ہیں، آج کل بھی دیکھ لیں، طاقتور اور چالاک ہی ہیں جنہوں نے دنیا پر حکومت کی ہوئی ہے ، حکومت کر رہے ہیں اور بظاہر مومن کہلانے والے اُن کے قبضے میں ہیں لیکن یہاں مقابلہ دنیا والوں کا دنیا والوں کے ساتھ نہیں ہے.جب جماعت احمدیہ کا سوال آتا ہے، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا سوال آتا ہے تو دنیا والوں کا مقابلہ اللہ والوں کے ساتھ ہو جاتا ہے.ایک الہی جماعت کے ساتھ ہو جاتا ہے.پس یہاں دنیاوی اصول نہیں چلے گا بلکہ یہاں وہ جیتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کھڑا ہو کر یہ اعلان فرمائے گا وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعْجِزَہ اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ جسے کوئی عاجز کر سکے.پس آج اس زمانے میں ہمارے لئے یہ خوشخبری ہے لیکن ساتھ ہی ایک ذمہ داری کی طرف بھی توجہ ہے کہ اُس اللہ والے سے حقیقی رنگ میں جڑ کر اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کریں.اُن لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جن کے حق میں اللہ تعالی کی سنت خاص نشان دکھاتی ہے.اپنی عبادتیں، اپنی دعائیں، اپنے عمل اس
110 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نہج پر چلانے کی کوشش کریں جس کی نشاندہی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی الم نے فرما دی ہے اور جس کو کھول کر زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی موعود نے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے.اگر ہم نے اس اصول کو حقیقت میں پکڑ لیا تو چاہے پاکستان کے طاقتور ہوں یا انڈونیشیا کے یا بنگلہ دیش کے یا کسی عرب ملک کے یا کسی بھی ملک کے ہوں، وہ سب طاقتوں اور قدرتوں والے خدا کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے.جس کے علم نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ اللہ والے ہی غالب آیا کرتے ہیں.جن کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید ہو وہی غالب آیا کرتے ہیں.پس ان مخالفین کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے اشارے کو سمجھیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو غالب آنا ہے.اُس وقت کوئی عذر کام نہیں آئے گا کہ یہ وجہ ہو گئی اور وہ وجہ ہو گئی.جب اللہ تعالیٰ کی آخری تقدیر چلتی ہے تو پھر سب کچھ فنا ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں.ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ : خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا اور انہیں دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے اور شریروں کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالتا ہے.شریر انسان کہتا ہے کہ میں اپنے مکروں اور چالا کیوں سے غالب آجاؤں گا اور میں راستی کو اپنے منصوبوں سے مٹادوں گا.اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت اسے کہتی ہے کہ اے شریر میرے سامنے اور میرے مقابل پر منصوبہ باندھنا تجھے کس نے سکھایا؟ کیا تو وہی نہیں جو ایک ذلیل قطرہ رحم میں تھا؟ کیا تجھے اختیار ہے جو میری باتوں کو ٹال دے؟“.(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ 67) پھر آپ فرماتے ہیں : ”ہمیشہ یہ امر واقع ہوتا ہے کہ جو خدا کے خاص حبیب اور وفادار بندے ہیں اُن کا صدق خدا کے ساتھ اُس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ دنیا دار اندھے اُس کو دیکھ نہیں سکتے.اس لئے ہر ایک سجادہ نشینوں اور مولویوں میں سے اُن کے مقابلہ کے لئے اٹھتا ہے اور وہ مقابلہ اس سے نہیں بلکہ خدا سے ہوتا ہے.بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جس شخص کو خدا نے ایک عظیم الشان غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جس کے ذریعے سے خدا چاہتا ہے کہ ایک بڑی تبدیلی دنیا میں ظاہر کرے، ایسے شخص کو چند جاہل اور بزدل اور خام اور نا تمام اور بے وفازاہدوں کی خاطر سے ہلاک کر دے“.فرمایا کہ ”اگر دو کشتیوں کا باہم ٹکراؤ ہو جائے“( دریا میں دو کشتیوں کا ٹکراؤ ہو جائے تو) جن میں سے ایک ایسی ہے کہ اس میں بادشاہ وقت جو عادل اور کریم الطبع اور فیاض اور سعید النفس ہے ، مع اپنے خاص ارکان کے سوار ہے.اور دوسری کشتی ایسی ہے جس میں چند چوہڑے یا چمار یا سائنسی بد معاش بد وضع بیٹھے ہیں.اور ایسا موقع آپڑا ہے کہ ایک کشتی کا بچاؤ اس میں ہے کہ دوسری کشتی مع اس کے سواروں کے تباہ کی جائے تو اب بتلاؤ کہ اُس وقت کونسی کارروائی بہتر ہو گی ؟ کیا اس بادشاہ عادل کی کشتی تباہ کی جائے گی یا ان بد معاشوں کی کشتی کہ جو حقیر و ذلیل ہیں تباہ کر دی جائے گی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بادشاہ کی کشتی بڑے زور اور حمایت سے بچائی جائے گی اور اُن چوہڑوں چماروں کی کشتی تباہ کر دی جائے گی اور وہ بالکل لا پرواہی سے ہلاک کر دیئے جائیں
111 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم گے اور اُن کے ہلاک ہونے میں خوشی ہوگی کیونکہ دنیا کو بادشاہ عادل کے وجود کی بہت ضرورت ہے اور اُس کا مرنا ایک عالم کا مرنا ہے.اگر چند چوہڑے اور چمار مر گئے تو ان کی موت سے کوئی خلل دنیا کے انتظام میں نہیں آسکتا.پس خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب اُس کے مرسلوں کے مقابل پر ایک اور فریق کھڑا ہو جاتا ہے تو گو وہ اپنے خیال میں کیسے ہی اپنے تئیں نیک قرار دیں اُنہیں کو خدا تعالیٰ تباہ کرتا ہے اور انہیں کی ہلاکت کا وقت آجاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جس غرض کے لئے اپنے کسی مرسل کو مبعوث فرماتا ہے اُس کو ضائع کرے کیونکہ اگر ایسا کرے تو پھر وہ خود اپنی غرض کا دشمن ہو گا.اور پھر زمین پر اُس کی کون عبادت کرے گا؟ دنیا کثرت کو دیکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ یہ فریق بہت بڑا ہے، سو یہ اچھا ہے“.(یعنی بڑا ہونے کی وجہ سے یہی ٹھیک ہیں ) ” اور نادان خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ ہزاروں لاکھوں مساجد میں جمع ہوتے ہیں، کیا یہ بُرے ہیں ؟ مگر خدا کثرت کو نہیں دیکھتا وہ دلوں کو دیکھتا ہے.خدا کے خاص بندوں میں محبت الہی اور صدق اور وفا کا ایک ایسا خاص نور ہوتا ہے کہ اگر میں بیان کر سکتا تو بیان کرتا لیکن میں کیا بیان کروں ؟ جب سے دنیا ہوئی اس راز کو کوئی نبی یار سول بیان نہیں کر سکا.خدا کے باوفا بندوں کی اس طور سے آستانہ الہی پر روح گرتی ہے کہ کوئی لفظ ہمارے پاس نہیں کہ اس کیفیت کو دکھلا سکے“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن.جلد 20 صفحہ 72،71) 66 پس مخالفین کی ہزاروں کو ششوں نے آپ کی ترقی میں ذرا سا بھی فرق نہیں ڈالا.اس لئے کہ ان کے ہر مکر اللہ تعالیٰ اُن پر الٹادیتا تھا اور آج تک یہ نظارے ہم دیکھ رہے ہیں.اور جب تک ہم اپنے ایمانوں میں مضبوط رہیں گے، ہم جماعتی ترقی کے نظارے دیکھتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکر یوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.فرمایا کہ ”اے لوگو ! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے.اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو.اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے“.اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 400،399)
خطبات مسرور جلد نهم 112 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء فرمایا: ”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا وے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو جو اُس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامر اور کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان.کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ (يس:31).پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں، اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا؟ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جو آب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اُن کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بد ظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں، سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67،66) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی سچائی تو ہم دیکھ رہے ہیں.آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا سلوک تو ہم دیکھ رہے ہیں.آج اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ایشیا کے ممالک میں بھی اور جزائر میں بھی، یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور افریقہ کے سرسبز علاقوں میں بھی اور ریگستانوں کی دور دراز آبادیوں میں بھی احمدیت کو پھیلا دیا ہے، اور بڑی شان سے نہ صرف پھیلا دیا ہے بلکہ بڑی شان سے پنپ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھیل رہی ہے.ہر احمدی کی ہر قربانی ہمارے لئے نئی منزلوں کے حصول کا ہی ذریعہ بنتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا حصہ بننے کے لئے ، اپنے ایمانوں کی مضبوطی کے لئے پہلے سے بڑھ کر ہمیں دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اور کروٹ لے رہے ہیں یہ انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے حق میں عظیم نظارے دکھانے والے بننے والے ہیں.اور اس کے لئے بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے.اپنی حالتوں
خطبات مسرور جلد نهم 113 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 مارچ 2011ء پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.پس ان دنوں میں خاص طور پر ، خاص طور پر دعاؤں پر ، دعاؤں پر بہت زور دیں.اللہ تعالیٰ ہماری پردہ پوشی بھی فرمائے اور ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو ہمیں اس ترقی کو دیکھنے سے محروم رکھے.آخر میں ایک افسوسناک اعلان ہے.ایک جنازے کا اعلان ہے میں ابھی جمعہ کی نماز کے بعد جنازہ پڑھاؤں گا جو مکرم تراری مرزو کی صاحب المعروف امام اور لیس کا جنازہ ہے.مراکش کے تھے.گزشتہ دنوں پچھتر (75) سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.انہوں نے 2002ء میں بیعت کی تھی اور امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارا وفد ان کے پاس جاتا تھا.بڑی تبلیغی نشستیں لگتی تھیں.امام تھے اور بڑے صاحب علم آدمی ہیں.میں اُن کو ملا ہوں.تو یہ کوئی نہ کوئی راستہ نکلنے کا، فرار کا نکال لیتے تھے.مانا نہیں ہو تا تھا.علماء کی جس طرح ضد ہوتی ہے اس کا ان پر بھی اثر تھا.بہر حال کہتے ہیں ایک دن تبلیغی نشست تھی، ہم بیٹھے تھے.جنرل سیکر ٹری صاحب نے کہا کہ ان سے باتیں کرنا تو یہی ہے کہ پتھروں سے سر ٹکرانا.تو ان کو چھوڑیں.اُس پر یہ کہتے ہیں کہ میں نے اٹھتے ہوئے اُن کو اعجاز المسیح جو کتاب ہے وہ دے دی کہ اس کو پڑھیں اور چند دنوں کے بعد وہ آئے اور کہا کہ میری بیعت لے لیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی.اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے.احمدیت قبول کرنے سے پہلے فرانس میں Strasburg کی ائمہ کمیٹی کے مستقل رکن تھے اور مسلمانوں کی مسجد میں خطبہ بھی دیا کرتے تھے.تمام ائمہ ان کی قابلیت اور ایمانداری کی تعریف کرتے تھے لیکن جب لوگوں کو ان کی احمدیت کا پتہ چلا تو سب نے مخالفت شروع کر دی جس پر انہوں نے خود ہی امامت کا کام چھوڑ دیا.میری ملاقات اِن سے پہلی دفعہ 2003ء میں فرانس کے جلسے میں ہوئی تھی.گزشتہ سال جب میں فرانس گیا ہوں تو ان کی کمزوری بہت زیادہ تھی اور نقاہت تھی.بیماری بہت بڑھ گئی تھی.Strasburg میں گیا ہوں وہاں تشریف لائے اور امیر صاحب کو کہا کہ آپ ہر دفعہ کہتے تھے کہ خلیفہ المسیح سے ملاقات کے لئے لندن چلو لیکن ڈاکٹر مجھے سفر کی اجازت نہیں دیتا تھا اور مجھے بہت زیادہ تکلیف بھی تھی لیکن اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے کیسا انتظام کیا ہے کہ خلیفہ وقت خود میرے پاس آگئے ہیں.خلافت سے آپ کو بے پناہ عشق تھا.قرآنِ مجید ہاتھ سے لکھ رہے تھے.جب میں Strasburg گیا ہوں تو مجھے بھی انہوں نے بتایا کہ میں ہاتھ سے لکھ رہا ہوں.ان کی لکھائی بھی اچھی تھی.مجھے کہا کہ جب میں اسے ختم کرلوں گا تو میں آپ کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں.وفات کے وقت بھی ان کے سرہانے قرآنِ کریم اور صد سالہ جوبلی کا سوو نیئر پڑا تھا.عاملہ کے اجلاسات کے لئے اکثر اپنا گھر پیش کیا کرتے تھے.Strasburg مسجد کے لئے جب چندے کی تحریک کی گئی تو جو بھی ان کے پاس رقم موجود تھی ساری کی ساری انہوں نے پیش کر دی.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اُن کو اپنی رضا کی جنتوں میں بلند مقام عطا فرمائے.ان کے بچے اور باقی عزیز رشتے دار تو احمدی نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے بھی سینے کھولے اور اُن کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 مارچ تا 31 مارچ 2011 ء جلد 18 شماره 12 صفحہ 5 تا 8)
خطبات مسرور جلد نهم 114 10 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء بمطابق 11 امان 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ کو دیکھا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے ہوتے تھے.جب ایک برتن کو مانجھ کر صاف کر دیا جاتا ہے ، پھر اُس پر قلعی ہوتی ہے اور پھر نفیس اور مصفی کھانا اُس میں ڈالا جاتا ہے یہی حالت اُن کی تھی.اگر انسان اسی طرح صاف ہو اور اپنے آپ کو قلعی دار بر تن کی طرح منور کرے تو خدا تعالیٰ کے انعامات کا کھانا اُس میں ڈال دیا جاوے گا“.فرمایا ”لیکن اب کس قدر انسان ہیں جو ایسے ہیں ؟ (البدر جلد 2 نمبر 23 مورخہ 26 جون 1903ء صفحہ 177 کالم نمبر 1) اسی کی ایک اور روایت ہے جس کا ورژن (Version) دوسرے اخبار میں یہ ہے کہ بر تن کی مثال دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جس طرح برتن صاف ہوتا ہے ایسے ہی اُن لوگوں کے ( یعنی صحابہ کے) دل تھے جو کلام الہی کے انوار سے روشن اور کدورت انسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے.گویا قَد أَفْلَحَ مَنْ رکتها (الشمس: 10) کے سچے مصداق تھے.(ماخوذ از الحکم جلد 7 نمبر 24 مورخہ 30 جون 1903ء صفحہ 10 کالم نمبر 2) پس یہ انقلاب تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں میں پیدا فرمایا جو دشمنیوں اور کینوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ ایک دفعہ کی دشمنی نہ صرف یہ کہ سالوں چلتی تھی بلکہ نسلوں تک چلتی تھی.لیکن جب ایمان لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے کامل عبد بننے کی کوشش کی.قرآنِ کریم کو پڑھا، سمجھا اور اپنے پر لاگو کیا اور اس الہی کلام کے نور سے اپنے دلوں کو منور کیا تو پھر ایسے مصفی ہو گئے جیسے قلعی کیا ہوا برتن چمکتا ہے.یہاں رہنے والوں کو یا بعض لوگوں کو شاید قلعی کا صحیح اندازہ نہ ہو کہ بر تن کو قلعی کرنے کا طریق کیا ہے؟
115 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پُرانے زمانے میں تانبے اور دھاتوں کے برتن ہوتے تھے اور کچھ عرصے بعد انہیں قلعی کروانا پڑتا تھا.پاکستان میں اور ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کو تو اندازہ ہو گا کہ کس طرح قلعی ہوتی ہے اور خاص طور پر جو ہمارے لنگر خانوں میں ڈیوٹی دینے والے ہیں اُن کو بھی اندازہ ہے کیونکہ جلسہ سالانہ میں دیگیں قلعی کروائی جاتی ہیں.قلعی کے لئے پہلے بر تن کو آگ میں ڈالا جاتا ہے پھر اُس پر نوشادر یا کچھ کیمیکل ملے جاتے ہیں یا ئل کے آگ میں ڈالا جاتا ہے.بہر حال اُس کے بعد پھر ایک سفید چمکدار دھات ہوتی ہے وہ اُس پر ملی جاتی ہے.جب اچھی طرح اُس کا گند پہلے سے اتارا جائے اور پھر یہ دھات مل کے اُس کو ایک کپڑے سے اچھی طرح پالش کیا جائے تو پھر وہ بر تن اس طرح بالکل صاف شفاف اور چمکدار ہو جاتا ہے جیسے چاندی کا برتن ہو.میں نے یہ وضاحت اس لئے کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ قلعی کئے ہوئے بر تن کی جو مثال دی ہے، یہ کوئی عام کوشش نہیں ہے بلکہ اچھی طرح صاف کرنے کے بعد مزید چمکانے کے لئے آگ میں ڈالا جاتا ہے.ایک پراسس (Process) ہے اُس میں سے گزرنا پڑتا ہے.ایک عمل ہے اُس میں سے گزرنا پڑتا ہے.تو آپ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان جب اُس مقام پر پہنچتا ہے یا پہنچنا چاہتا ہے جب کلام الہی کے نور سے حقیقی رنگ میں منور ہو تو ایک تکلیف سے، ایک محنت سے یا تکلیف دہ محنت سے گزرنا پڑتا ہے، تب ایک انسان اُس فلاح کے مقام کو حاصل کرتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس نے فلاح حاصل کر لی جو پاک ہو گیا.جب تزکیہ نفس ہو یا تزکیہ نفس کرنے کی کوشش ہو تو اس کے لئے ایک محنت درکار ہے.اس زمانہ میں آخرین کو پہلوں سے ملانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنے آقا کی غلامی میں اس لئے مبعوث ہوئے کہ زنگ آلود دلوں کو مصفی کرنے کا طریق بتا کر ان برتنوں کو کلام الہی کے نور سے منور کر دیں.آپ کے صحابہ میں ہم جس کو بھی دیکھتے ہیں یہ مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں.اُن کے دل نور سے بھرے ہوئے تھے اور تقویٰ سے زندگی گزارنے والے تھے.پس یہ عمل ہی ہے جس کو کر کے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکتے ہیں، اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتے ہیں.اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : تم لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ تزکیہ نفس کس کو کہا جاتا ہے.سو یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات میں وَحْدَهُ لا شَرِيك سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اُس کو دکھانا چاہئے اور اُس کی مخلوق کے ساتھ ہمد ردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے.اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بغض، حسد اور کینہ نہیں رکھنا چاہئے.اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہئے“.فرمایا کہ ”خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اُس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا“.( ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 407 جدید ایڈیشن)
116 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم فرمایا کہ ”دنیا میں انسان کو جو بہشت حاصل ہوتا ہے وہ قد اَفْلَحَ مَنْ زَكَهَا (الشمس: 10) پر عمل کرنے سے ملتا ہے.جب انسان عبادت کا اصل مفہوم اور مغز حاصل کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے انعام واکرام کا پاک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور جو نعمتیں آئندہ بعد مردن ظاہری ، مرکی اور محسوس طور پر ملیں گی وہ اب روحانی طور پر پاتا ہے“.(الحکم جلد 6 نمبر 26 مورخہ 24 جولائی 1902ء صفحہ 9 کالم نمبر 3) (یعنی جو نعمتیں مرنے کے بعد ملنی ہیں اور جو محسوس بھی ہوں گی وہ روحانی طور پر اس دنیا میں مل جاتی ہیں) پس یہ وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے کہ انسانوں میں پاک تبدیلیاں لا کر روحانی نعمتوں کو حاصل کرنے والا بنائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس اصل اور مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس حقیقت کو جانا اور اپنے نفسوں کے تزکیہ کے لئے کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوئے.جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اندر غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کیں اور پھر آگے اپنی نسلوں میں بھی منتقل کرنے کی کوشش کی.خوش قسمت ہیں وہ نسلیں جنہوں نے اس فیض کو آگے چلایا.اس وقت میں ایک ایسے ہی بزرگ کا ذکر کرنے لگا ہوں جنہوں نے اپنے صحابی باپ دادا کے نام کو روشن کیا.تزکیہ نفس کی جن خصوصیات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے وہ اس بزرگ میں ہمیں نظر آتی ہیں.میرا اس بزرگ سے بڑا قریبی تعلق تھا اور ہے.یہ بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو جلیل القدر صحابہ کے پوتے اور نواسے تھے.گزشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے.ان کا نام حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب تھا.جیسا کہ میں نے کہا، اُن کے دادا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے جن کا نام حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب تھا جو تقویٰ، طہارت، عاجزی اور انکساری اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بہت بڑھے ہوئے تھے.جن کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک روایت درج کی ہے.حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ : ”حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب نے (خود) مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول سخت بیمار ہو گئے.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب وہ حضور کے مکان میں رہتے تھے.حضور نے بکروں کا صدقہ دیا.میں اُس وقت موجود تھا، ( یعنی ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب موجود تھے.) میں رات کو حضرت خلیفہ اول کے پاس ہی رہا اور دوا پلا تا رہا.صبح کو حضور تشریف لائے ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے).حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کچھ صحت بہتر ہو گئی تھی کہ حضور ! ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے ہیں اور دوا وغیرہ
117 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اہتمام سے پلاتے رہے ہیں.حضور علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے ہم کو بھی ان پر رشک آتا ہے.یہ بہشتی کنبہ ہے.یہ الفاظ چند بار فرمائے.“ (سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحه 545 روایت نمبر 563 مطبوعہ 2008ء) حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب جو سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے دادا تھے.اُن کی وسعت حوصلہ اور صبر کا ایک واقعہ ہے.پہلے بھی کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے.آپ ایک شخص کو تبلیغ کر رہے تھے.مسجد میں بیٹھے تھے.اُس وقت آپ سرکاری ہسپتال میں سول سرجن تھے اور سول سر جن اس زمانہ میں ایک بڑا عہدہ سمجھا جاتا تھا.تو اس شخص سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور دعوی پر بحث ہو رہی تھی تو اس نے ایک وقت میں غصے میں آکر کچی مٹی کا لوٹا اُٹھا کے آپ کی طرف زور سے پھینکا یا سر پہ مارا.بہر حال ماتھے پر لگا اور سر پھٹ گیا جس سے ان کا خون بہنے لگا.تو حضرت ڈاکٹر صاحب بغیر کچھ کہے وہاں سے سر پہ ہاتھ رکھ کے ہسپتال چلے گئے.وہاں جا کے پٹی کروائی اور اس دوران میں اُس شخص کو بھی احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کیا؟ یہ تو بڑے سرکاری افسر ہیں اور پولیس آئے گی اور مجھے پکڑ کے لے جائے گی.بڑا خوفزدہ تھا.لیکن دیکھا کہ تھوڑی دیر بعد حضرت ڈاکٹر صاحب سر پہ پٹی باندھے واپس تشریف لے آئے اور اُس شخص سے کہا کہ مجھے امید ہے تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہو گا.اب دوبارہ بات کرتے ہیں.اس عرصے میں وہ شخص کہتا ہے کہ میر اتو پہلے ہی بُرا حال تھا تو میں اُن سے معافیاں مانگنے لگ گیا اور اُس وقت شرمندگی سے بھی اور خوف سے بھی میری حالت عجیب تھی.(ماخوذ از کتاب ”حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب“ صفحہ 62 مؤلفہ احمد طاہر مرزا شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ) تو یہ صبر کا نمونہ تھا جو باوجود اختیار ہونے کے ڈاکٹر صاحب نے دکھایا.اور یہ اعلیٰ اخلاق وہی دکھا سکتا ہے جس نے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کی ہو.حقیقی رنگ میں تزکیہ نفس ہو.بہر حال یہ حضرت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب جیسا کہ میں نے کہا سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے دادا تھے.اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب ڈاکٹر صاحب کے بیٹے حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب کے دوسرے بیٹے تھے.ان لوگوں کے بارہ میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے معالج خاص تھے ، اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”چوتھے فرزند اس مقدس جوڑے کے ( یعنی حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب اور اُن کی اہلیہ کے) حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے جو نہایت با اخلاق بزرگ تھے.آپ نہ صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ عشق و محبت کا خاص تعلق رکھتے تھے بلکہ خیر خواہی خلق کا جذبہ بھی اعلی درجہ کا پایا جاتا تھا.آپ کی محبت کا حلقہ بہت وسیع تھا.بزرگوں کا ادب کرنا اور چھوٹوں پر شفقت کرنا آپ کا خاصہ تھا.آپ کی دعاؤں کے صدقے آپ کے بیٹے بھی نیک اور پارسا ہیں“.(یعنی آپ کے دونوں بیٹے جن میں سے ایک سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور دوسرے سید مسعود مبارک شاہ صاحب ہیں) سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان میں ایک خوش بخت وہ بھی ہیں جن کے نکاح میں حضرت المصلح الموعودؓ نے اپنی ایک لخت جگر دے دی اور اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو چھ بچے عطا فرمائے.( الفضل ربوہ 3 فروری 1962ء.بحوالہ کتاب ”حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب صفحہ 60 مؤلفہ احمد طاہر مرزا شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان)
خطبات مسرور جلد نهم 118 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے یہ بیٹے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی دامادی میں آئے ، یہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب تھے اور انہوں نے بھی اپنے باپ دادا کی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی خصوصیات بہت زیادہ لی ہوئی تھیں.عبادت میں شغف، قرآن کریم سے محبت ، عاجزی اور انکساری، ہر ایک سے نہایت ادب اور احترام سے ملنا یہ آپ کا خاصہ تھا.بلکہ اپنی اہلیہ کے چھوٹے بھائیوں کی بھی غیر معمولی عزت اور احترام اس لئے کرتے تھے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ہیں.بعض دفعہ قریبی تعلقات میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے لیکن جب بھی آپ سمجھتے کہ ماحول خراب ہو رہا ہے تو نہ صرف خاموش ہو جاتے بلکہ ان چھوٹوں کے ساتھ بھی اس طرح عزت اور احترام کا سلوک کرتے کہ بات بڑی خوش اسلوبی سے ختم ہو جاتی یا وہاں سے اُٹھ کے چلے جاتے.بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں سے خاص طور پر آپ کی جو اولاد تھی، اُس کی آگے اولادوں کی بھی اِس طرح عزت و احترام کیا کرتے تھے کہ عجیب لگا کرتا تھا.صرف اس لئے کہ اُن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خون کا رشتہ ہے.بعض دفعہ دوسروں کے لئے ان کے عزت واحترام کو دیکھ کر میں خود بھی محسوس کرتا تھا کہ یہ ضرورت سے زیادہ احترام کرتے ہیں جو میرے خیال میں اُن حالات میں مناسب نہیں ہو تا تھا.لیکن جو نیکی اور شرافت آپ کی سرشت میں تھی اس کا تقاضا یہی تھا کہ ایسے عمدہ اخلاق کا نمونہ آپ دکھائیں.سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور اُن کی اہلیہ سیدہ امتہ الحکیم بیگم صاحبہ، یہ بھی ایک خوب اللہ ملائی جوڑی تھی.نیکیوں کے بجالانے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے میں یہ دونوں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے.عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ گھروں میں میاں بیوی کی بعض دفعہ اس لئے ان بن ہو جاتی ہے کہ یہ خرچ کیوں ہو گیا؟ وہ خرچ کیوں ہو گیا؟ اِس جوڑے کی ان دنیاوی خرچوں کی طرف تو سوچ ہی نہیں تھی.میں نے دیکھا ہے کہ ان کی کوشش ہوتی تھی کس طرح کسی ضرور تمند کی مدد کی جائے.اگر میاں نے کوئی مدد کی ہے تو بیوی کہتی کہ اور کر دینی چاہئے تھی.اگر بیوی نے کی ہے تو میاں کہتا کہ اگر میرے پاس اور مال ہو تا تو میں مزید دے دیتا.حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب نے خود بیان کیا کہ سیدہ امتہ الحکیم بیگم صاحبہ جن کی آٹھ نو سال پہلے وفات ہوئی ہے، وفات کے بعد وہ کئی دفعہ مجھے خواب میں آکے کہتی ہیں کہ فلاں غریب کی اتنی مدد کر دو اور فلاں کو اتنا صدقہ دے دو اور شاہ صاحب فوراً اُس کو عملاً پورا کر دیتے تھے.جو بھی اُن کی آمد ہوتی تھی اپنے پر تو کم ہی خرچ کرتے تھے دوسروں کو دے دیا کرتے تھے.دونوں میاں بیوی کو میں نے دیکھا ہے اور بعض لوگوں نے بھی مجھے بتایا ہے کہ اُن کے پاس اگر ہزاروں بھی آتا تھا تو ہزاروں بانٹ دیا کرتے تھے.یہ پرواہ نہیں کی کہ ہمارے پاس کیا رہے گا؟ میں نے جب اُن کی زمینوں کا انتظام سنبھالا ہے تو جیسے ہمارے زمینداروں کا طریق ہوتا ہے کہ سال کی گندم چاول وغیر ہ فصل کی کٹائی کے بعد گھر کے خرچ کے لئے جمع کر لی جاتی ہے.تو پہلے سال جب میں نے سیدۃ امتۃ الحکیم صاحبہ سے پوچھا کہ کتنی گندم چاہئے.تو انہوں نے مجھے کہا کہ ایک سو بیس من.میں نے کہا کہ آپ کے گھر کا خرچ تو زیادہ سے زیادہ ہیں، پچھپیں، تیس مئن ہو گا.تو انہوں نے کہا کہ میر ایہی خرچ ہے کیونکہ میں نے بہت سے غریبوں کو بھی
119 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم گندم دینی ہوتی ہے.کئی لوگوں کی سالانہ گندم لگائی ہوئی تھی.یہی حال حضرت شاہ صاحب کا تھا.سید داؤد مظفر شاہ صاحب میرے خالو بھی تھے اور خسر بھی.اُن کی بے شمار خوبیاں تھیں.اُن کی خوبیوں یا اپنی خالہ کی خوبیوں کا میں اس لئے ذکر نہیں کر رہا کہ قرابت داری تھی، رشتے داری تھی یا دامادی کی وجہ سے تعلق تھا.اُن دونوں کو میں نے بچپن سے ہی اس طرح دیکھا ہے جس کا طبیعت پر بڑا اثر تھا.خاموش، دعا گو، بچوں سے بھی ہنس کے ملنا، خوش اخلاقی سے ملنا، عزت و احترام دینا اور ہر قسم کی دنیا داری کی باتوں سے پاک تھے.ہمارے ایک عزیز نے لکھا اور بڑا صحیح لکھا کہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب بہت پیارے وجو د تھے.خاموش، دعا گو اور ہر وقت زیر لب دعاؤں میں مصروف.دُکھ درد میں دوسروں کے کام آنے والے اور عبادت میں گہرا شغف رکھنے والے تھے.آپ کی بعض اور خصوصیات اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے سلوک کا بھی ذکر کروں گا لیکن پہلے نہال کے بارہ میں بتا دوں.جیسا کہ میں نے کہا نہال بھی، ان کے نانا حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صحابی تھے جو جماعت میں بزرگی کا ایک مقام رکھتے ہیں.بڑا لمبا عرصہ مفتی سلسلہ بھی رہے.آپ کی نمازوں کی لمبائی اور گہرائی کا پرانے بزرگ بڑا ذ کر کرتے ہیں.سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں کسی نے لکھا کہ حضرت مولوی صاحب ایک دفعہ مسجد میں کھڑے سنتیں پڑھ رہے تھے یا نفل پڑھ رہے تھے اور بڑی دیر سے ایک ہی نیت باندھ کے ، ایک کونے میں لگے ہوئے کھڑے تھے.کہتے ہیں کہ کافی وقت گزر گیا تو مجنس پیدا ہوا کہ جا کر دیکھوں یہ کس طرح نماز پڑھتے ہیں ؟ تو وہ شخص جب اُن کے قریب گیا تو دیکھا کہ ملکی آواز میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه : 5 بار بار دہرائے جارہے ہیں اور بڑا لمبا عرصہ اُسی طرح دہراتے رہے.حضرت سید سرور شاہ صاحب باجماعت نمازیں بھی پڑھایا کرتے تھے ، امامت کروایا کرتے تھے اور باجماعت نمازیں بھی ان کی بہت لمبی ہوا کرتی تھیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا سید داؤد مظفر شاہ صاحب ان کے نواسے تھے.دعاؤں میں اور اعلیٰ اخلاق میں اعلیٰ معیار سید داؤد مظفر شاہ صاحب کو دونوں طرف سے ورثہ میں ملا تھا.بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا اور اُسے نبھانا بھی کسی کسی کا کام ہے، ہر کوئی نہیں کرتا.لیکن سید داؤد مظفر شاہ صاحب نے اسے خوب نبھایا.یہ اُن بزرگوں میں سے تھے جن کو جب دعا کے لئے کہہ دو تو اُس وقت تک دعا کرتے رہتے تھے جب تک وہ خود آکر نتائج سے آگاہ نہ کر دے.مجھے خود بھی پتہ ہے اور بعضوں نے مجھے لکھا بھی کہ اکثر کہتے تھے کہ لوگ دعا کے لئے کہتے ہیں اور پھر بتاتے نہیں کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے.سال بعد یا کئی مہینوں بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ تو عرصہ ہوا اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گیا.لیکن یہ اس شخص کے لئے دعائیں کرتے چلے جارہے تھے.کوئی ذراسی بھی ان کی خدمت کر دیتا تو اس کے ممنونِ احسان ہو جاتے اور بڑی باقاعدگی سے پھر اُس کے لئے نام لے کر دعا کیا کرتے تھے.جن جن ڈاکٹروں نے اُن کی خدمت کی ہے اُن کے لئے تو بہت دعائیں کرتے تھے.مکرم ڈاکٹر نوری صاحب ربوہ آنے سے پہلے بھی جب بھی ربوہ آتے تھے ، اگر اُن کو سید داؤد مظفر شاہ صاحب کو دیکھنے کے لئے بلایا جاتا یا اُن کی کسی بیماری کے بارہ میں کہا جاتا تو ضرور آکے دیکھا کرتے تھے.اور شاہ صاحب بھی اُن کے لئے پھر بہت دعائیں کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ اُن کی دعائیں ہمیشہ جاری رکھے کیونکہ ڈاکٹر صاحب بھی بڑے نافع الناس وجو د ہیں.اسی طرح
120 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ڈاکٹر عبد الخالق صاحب بھی با قاعدہ حضرت شاہ صاحب کے علاج کے لئے آیا کرتے تھے.ایک لمبے عرصے سے سید داؤد مظفر شاہ صاحب دل کے مریض تھے.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ زیادہ طبیعت بگڑ گئی اور ڈاکٹروں کو بلانا پڑا تو ڈاکٹر خالق صاحب فوراً پہنچتے تھے.ڈاکٹر خالق صاحب نے مجھے لکھا کہ جب بھی میں اُن کی بیماری میں جاتا تھا یا وہ ہسپتال میں داخل ہوتے تھے تو ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کو کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب دعا کریں کہ کبھی ایسا وقت نہ آئے جب دعا اور عبادت سے محروم رہ جاؤں.اور میرا انجام بخیر ہو.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انجام بخیر کی تو بعض لوگوں کو خواہیں بھی دکھائیں.ان کے ایک بھتیجے نے ہی دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع آئے ہیں (چند دن پہلے کی بات ہے) اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں.خود انہوں نے بھی دیکھا.یہ ایک لمبی خواب ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک گرسی اُن کے لئے مخصوص کی ہوئی ہے.ایک خاتون جو اُن کو زیادہ نہیں جانتی تھیں، انہوں نے بھی دیکھا جس کا خلاصہ یہ ہے ( ایک لمبی خواب ہے) کہ اُن کے دل میں ( اُس خاتون کے دل میں) خواب میں ہی ڈالا جاتا ہے کہ شاہ صاحب ایک بڑے بزرگ ہیں.ایسے بزرگ جن کا خدا تعالیٰ کے پاس ایک بڑا مقام ہے.خود بھی انہوں نے ایک دفعہ یہ خواب دیکھی کہ اُن کی اہلیہ سیدہ امہ الحکیم بیگم صاحبہ ایک جگہ ہیں جو بہت اونچی جگہ ہے.وہ وہاں بہت خوش ہیں اور آپ کو کہتی ہیں کہ آپ بھی آجائیں.تو اس پر کسی فرشتے نے یا خدا تعالیٰ نے کہا.آواز آتی ہے کہ یہ ابھی نہیں آئے گا کیونکہ اس نے ابھی کچھ دعائیں کرنی ہیں.دعاؤں اور عبادت میں شغف تو ان کو اپنے دادا کی تربیت کی وجہ سے بھی ہوا.نانا کی صحبت کی وجہ سے بھی ہو ا.دادا کے پاس یہ رہتے تھے.حضرت سید ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب آخری عمر میں جب بہت زیادہ کمزور ہو گئے تو آپ نمازوں کے لئے مسجد نہیں جایا کرتے تھے لیکن گھر پر نماز باجماعت کا اہتمام فرماتے تھے اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب سے امامت کروایا کرتے تھے.اُس وقت اُن کی عمر سترہ سال تھی.سید داؤد مظفر شاہ صاحب اس بارہ میں خود اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ حضرت شاہ جی ( یعنی ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب) کی آخری عمر کے حصے میں میں نے اکثر ان کو نمازیں باجماعت پڑھائی تھیں.خصوصاً جمعہ کی نماز ہیں.وہ نماز باجماعت کے بڑے ہی پابند تھے.جب تک صحت مند رہے مسجد میں جا کر نمازیں پنجوقتہ ادا کیا کرتے تھے.جب چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تو پھر نمازیں گھر میں ہی باجماعت ادا کیا کرتے تھے.اس کے لئے ایک مسجد نما تھڑ اگھر کے اندر اور ایک مسجد نما چبوترا باہر باغ کے اندر بنوایا تھا.وہاں مغرب کی نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے.اس نماز میں باہر کے چند دوست آکر شریک ہوا کرتے تھے.مغرب کی نماز کے بعد عموماً روزانہ حضرت شاہ جی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں سنایا کرتے تھے“.شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ایک دفعہ جمعہ کی نماز میں نے نہیں پڑھائی مسجد اقصیٰ میں پڑھنے چلا گیا.واپس آیا تو حضرت شاہ جی (بڑے ) ناراض ہوئے.کہنے لگے تم نے مجھے نماز نہیں پڑھائی.تمہارا اتبا آئے گا (یعنی ان کے والد سید محمود اللہ شاہ صاحب جو افریقہ میں تھے ) تو میں تمہاری شکایت کروں گا “.اُس کے بعد پھر شاہ صاحب ( حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب) کچھ عرصے بعد ہی وفات پاگئے.
خطبات مسرور جلد نهم 121 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ایک خاص سلوک تھا.دنیا اُن کا مقصود نہیں تھا.اس لئے کوئی غیر معمولی مالی کشائش تو بے شک نہیں تھی.جو تھا اُس پر بھی شکر تھا.اور اس میں سے بھی غریبوں اور ضرور تمندوں کی مدد اس حد تک کرتے تھے جو اکثر بڑی بڑی رقموں والے اور پیسے والے نہیں کرتے.اُن کی ایک بہو جو اُن کے ساتھ ہی رہتی تھیں ( اُن کے بیٹے صہیب کی بیوی) کہتی ہیں کہ جب کوئی رقم آتی تو آخری عمر میں نظر کی زیادہ کمزوری کی وجہ سے خود حساب کتاب نہیں لکھ سکتے تھے اس لئے مجھ سے ( اپنی بہو سے) حساب کرواتے اور فرماتے تھے کہ پہلے تو وصیت کا حصہ نکالو، پھر یتیموں کا کچھ حصہ نکالو، پھر غریب طلباء کا حصہ نکالو اور نادار مریضوں کے علاج کے لئے نکالو ، اس کے بعد اگر کوئی رقم بچ گئی تو اپنی ضرورت کے لئے رکھتے تھے.اور دوسرے مجھے بھی علم ہے کہ جماعتی تحریکات میں، وقف جدید، تحریک جدید اور تحریکات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے.ان کے بچے بتاتے ہیں کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچوں کو پوچھتے تمہیں کوئی پریشانی ہے ؟ جب کہ اُن کے سامنے کوئی ذکر نہیں ہو ا ہو تا تھا اور چند سال سے نظر بھی جیسا کہ میں نے کہا اتنی گر گئی تھی کہ چہرے کے تاثرات سے بھی دیکھ کر اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ کیا پریشانی ہے ؟ بلکہ ان کے بیٹے محمود نے مجھے لکھا کہ بعض دفعہ پریشانی کے حالات ہوتے تھے تو ایک دو دن بعد اتا پوچھتے تھے کہ فلاں شخص سے کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی.اور یہ ایسی باتیں ہوتی تھیں جو حقیقت میں سچ ہوتی تھیں اور سوائے خدا کے انہیں اور کوئی نہیں بتا سکتا تھا.اور پھر آپ کو دعا کی تحریک ہوتی جس سے آسانیاں پیدا جاتیں.اسی طرح ان کی بہو نے لکھا کہ میری بعض پریشانیاں تھیں.مجھے کہتے کہ تمہیں فلاں فلاں پریشانی ہے، حالانکہ ان کے پاس کبھی ذکر نہیں ہوا اور پھر اللہ کے فضل سے اُن کی دعا سے وہ پریشانی دور ہو جاتی.قرآنِ کریم سے بھی اُن کو ایک عشق تھا.روزانہ کئی سپارے پڑھ جاتے تھے.پانچ چھ سپارے کم از کم ، بلکہ بعض دفعہ سات آٹھ.اور اس وجہ سے ایک بڑا حصہ یاد بھی تھا.مجھے ایک دفعہ رمضان میں کہنے لگے کہ نظر کمزور ہو رہی ہے.آنکھوں پر بڑا بوجھ پڑتا ہے.اب میں زیادہ قرآن کریم پڑھ نہیں سکتا جس کی مجھے بڑی تکلیف ہے.تو میں نے اپنے خیال میں بڑی دُور کی چھلانگ لگا کر کہا کیا فرق پڑتا ہے ایک دو سپارے تو آپ اب بھی پڑھ ہی لیتے ہوں گے.تو کہتے ہیں نہیں ابھی بھی، اس حالت میں بھی میں تین چار سپارے تو پڑھ ہی لیتا ہوں.تو یہ قرآنِ شریف سے اُن کا عشق تھا.جب میں نے کہا اتنا پڑھ لیتے ہیں تو پھر کیا حرج ہے.لیکن انہیں یہ بے چینی تھی کہ رمضان میں تو ہر وقت قرآن کریم مطالعہ میں رہنا چاہئے.اور آخری عمر میں دو تین سال پہلے تک جیسا کہ میں نے کہا نظر کی کمزوری کی وجہ سے بالکل ہی نہیں پڑھ سکتے تھے تو پھر جو حصہ یاد ہو تا تھا وہ پڑھتے تھے بلکہ سارا ہی یاد تھا.لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ اپنے پیار کا عجیب سلوک فرمایا.اپنے پوتے کو ایک دن کہنے لگے کہ قرآنِ کریم دیکھ کے تو میں پڑھ نہیں سکتا لیکن جب میں پڑھتا ہوں، یاد حصہ پڑھناشروع کرتاہوں اور جہاں بھول جاتا ہوں وہاں کوئی فرشتہ آ کے مجھے وہ حصہ یاد کر وا جاتا ہے، پڑھا جاتا ہے.وہ دوہراتا ہے اور میں پیچھے دوہر ادیتا ہوں.اُن کے بڑے بیٹے کا مکان ربوہ میں بن رہا تھا تو بار بار اپنے بچوں سے پوچھتے تھے ، کہاں تک پہنچا ہے ؟ ایک
122 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دن اپنی چھوٹی بہو کو کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مولود کا گھر دکھا دیا ہے.اور پھر نقشہ بتایا کہ یہاں یہ کمرہ ہے.اس طرح اُس کا نقشہ ہے.اور بغیر دیکھے بالکل وہی نقشہ تھا جو بن رہا تھا.ان کو سمجھایا بھی نہیں جاسکتا تھا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سمجھایا جا سکے.کوئی انہیں سمجھا سکے کہ کس طرح نقشہ ہے کیونکہ نظر بھی بہت کمزور تھی.اُن کے بچوں کے سپر د جو بھی جماعتی کام ہوتا اُس کے لئے بہت دعا کرتے.میرے ساتھ بھی دامادی کے بعد ایک خاص تعلق پیدا ہو گیا تھا.میرے ذاتی اور جماعتی کاموں کے لئے بھی بہت دعائیں کیا کرتے تھے.اور خلافت کے بعد تو اس تعلق میں ایک عقیدت، احترام اور دعاؤں کے لئے بہت زیادہ درد پیدا ہو گیا تھا.جلسوں، تقریروں وغیرہ کی کامیابیوں کے لئے بہت دعا کیا کرتے تھے.ایسے بزرگ تھے جن کی دعاؤں کی قبولیت کا احساس ہو رہا ہو تا تھا.ہر دورے پر ایک خاص توجہ کے ساتھ میرے لئے دعا کیا کرتے تھے.ہمارے محلے کے بعض خدام جو ہمارے عزیزوں ، بچوں میں سے ہی ہیں ، رات کو محلے کی ڈیوٹیاں دیا کرتے تھے.74ء میں حالات خراب ہوئے یا 74ء میں شاید یہ سندھ تھے.خاص طور پر 84ء میں جب حالات زیادہ خراب ہوئے ، تورات کو محلے کی ڈیوٹیاں ہوتی تھیں.لڑکوں کو جاگنے کے لئے چائے کی عادت تھی ، چائے پیا کرتے تھے تو ان کا گھر ہر وقت کھلا رہتا تھا.بچے آتے تھے ، کچن سے چائے بنائی اور لے گئے.جب انہوں نے دیکھا کہ لڑکے ڈیوٹی دے رہے ہیں اور چائے بھی پیتے ہیں تو رات خود اڑھائی بجے چائے بنا کر کھانے کی میز پر رکھ دیا کرتے تھے تا کہ اُن کو تکلیف نہ ہو اور وہ آکر لے جایا کرتے تھے.اسی طرح کیونکہ رات کو بھی جلدی سونے کی عادت تھی اور پھر ڈیڑھ بجے اُٹھ جایا کرتے تھے.سوتے بھی تھوڑا ہی تھے.تہجد کے لئے اُٹھ جایا کرتے تھے اور اپنے لئے چائے بناتے تھے اور پھر ہماری خالہ کے لئے چائے بنا کے اُن کو تہجد کے لئے جگاتے.اسی طرح جب اِن کا چھوٹا بیٹا جامعہ میں داخل ہوا ہے تو اس کو با قاعدہ تہجد کے لئے اٹھاتے اور اس کو کہتے تمہاری چائے تیار ہے.چائے پیو اور تہجد پڑھو.جوانی سے ہی آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک سلوک رہا ہے.سندھ میں رہے ہیں.وہاں چھوٹے چھوٹے واقعات تو مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلاً ان کے ایک بیٹے نے لکھا کہ وہاں سانپ وغیرہ بہت ہوتے تھے اور جس زمانے میں یہ وہاں رہے ہیں ، اس زمانے میں تو نئی نئی آبادی ہو رہی تھی اور سانپ بہت زیادہ نکلا کرتے تھے اور بڑے بڑے خطرناک سانپ ہوتے تھے.ایک دن کہتے ہیں میری طبیعت خراب تھی میں نے سوچا کہ فجر کی نماز گھر میں پڑھ لیتا ہوں لیکن پھر کسی غیبی طاقت نے مجھے کہا کہ نہیں، مسجد جاؤ.ساتھ ہی مسجد ہے.جب واپس آئے تو دیکھا کہ دو بڑے بچے (اس وقت چھوٹی عمر میں ان کے جو دو بڑے بچے تھے وہ ) چار پائی پر سو رہے ہیں اور ایک بڑا سارا کالا ناگ چار پائی پر چڑھنے کی کوشش کر رہا ہے تو انہوں نے فوراً اُس کو مارا.اگر یہ سو جاتے تو سانپ کچھ بھی نقصان پہنچا سک تھا.تو اللہ تعالیٰ کا اس طرح کا سلوک ہے اور اس طرح کے بہت سے واقعات ان کی زندگی میں ہیں.نا سکتا سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور ان کے بھائی سید مسعود مبارک شاہ صاحب دونوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے تھے.وہیں سے انہوں نے بی.اے کیا.اپنی شرافت اور ڈسپلن کا پابند ہونے کی وجہ سے سٹاف اور طلباء
123 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء دونوں میں بڑے مشہور تھے.سارے کالج میں مشہور تھا کہ ان جیسا اور کوئی شریف آدمی نہیں.ایک دفعہ ان کے ایک عزیز کو شرارت سوجھی.انہوں نے ہوسٹل کے وارڈن یا سپر نٹنڈنٹ کی کچھ چیز میں اٹھا لیں اور ان کے کمرے میں لا کر چھپا دیں.انتظامیہ نے فوری طور پر کارروائی شروع کر دی.پتہ لگ گیا اور ہوسٹل کے ہر کمرے کو چیک کیا گیا اور جب ان کے کمرے کے قریب آتے تو کہتے کہ نہیں یہ دونوں بچے شریف ہیں، ان کے ہاں نہیں ہو سکتا.اور حقیقت یہ تھی کہ اُن لڑکوں نے انہی کے کمرے میں وہ چیزیں چھپائی ہوئی تھیں.خیر ان کو یہ نہیں پتہ تھا.یہ کمرے میں گئے تو دیکھا کہ وہاں چیزیں پڑی ہیں تو بڑے پریشان ہوئے کہ اب سچ بھی بولنا ہے لیکن ساتھ ہی یہ فکر بھی تھی کہ ساتھیوں کو سزا ملے گی تو ان کو سزا سے کس طرح بچایا جائے ؟ کہتے ہیں جب چیکنگ ختم ہوئی تو جلدی سے سامان انہوں نے اُٹھایا اور ہوسٹل سپر نٹنڈنٹ کے کمرے کے سامنے جاکے رکھ دیا.بہر حال کہتے ہیں کہ شکر ہے انتظامیہ نے مزید تحقیق نہیں کی کیونکہ انتظامیہ کو دونوں بھائیوں کی شرافت پر بہت یقین تھا ور نہ انہیں تو سچ ہی بولنا تھا اور جس عزیز پر ان کو شک تھا اُس کا نام آجانا تھا اور سزاملنی تھی.جیسا کہ میں نے کہا انہوں نے گورنمنٹ کالج سے بی.اے کرنے کے بعد پھر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر 1944ء میں زندگی وقف کرنے کا خط لکھا.آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کو لکھا کہ میں بار بار آپ کو خواب میں دیکھ رہا ہوں اس لئے میں زندگی وقف کرتا ہوں اور اپنے بھائی کو بھی تحریک کی کہ وہ بھی زندگی وقف کریں.پھر دونوں نے زندگی وقف کی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایم این سنڈیکیٹ کے تحت سندھ کی زمینوں پر ان کو بھجوا دیا.وہاں یہ کافی عرصہ رہے.پھر تقریبا گیارہ سال 82ء سے 93ء تک وکالت تبشیر میں بھی خدمات سر انجام دیتے رہے.وقت پر دفتر جاتے تھے.اپنے جو مفوضہ کام ہیں وہ سر انجام دیتے.کوئی زائد بات نہیں.بعضوں کو بیٹھ کے گپیں مارنے کی عادت ہوتی ہے.ان کے افسران جو تھے ان سے عمر میں چھوٹے بھی تھے اور بعض قریبی عزیز بھی تھے ، لیکن کامل اطاعت اور عاجزی کے ساتھ اپنے افسران کے دیئے ہوئے کام کو سر انجام دیتے.کبھی شکوہ نہیں کیا کہ اتنا کام دے دیا ہے؟ یہاں ہمارے مبلغ لئیق طاہر صاحب ہیں انہوں نے مجھے لکھا کہ جب میں نائب وکیل التبشیر تھا تو بڑی عاجزی سے کام کرتے تھے اور بڑی عزت سے پیش آیا کرتے تھے.اتنی زیادہ عزت کرتے تھے کہ شرمندگی ہونی شروع ہو جاتی تھی.کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا داماد ہوں یا دو خلفاء کا بہنوئی ہوں.ایک خاموش دعا گو بزرگ ، زیر لب دعائیں کرتے ہوئے دفتر میں آتے تھے اور اپنا دفتر کا کام کر کے چلے جاتے تھے.ایک فرشتہ سیرت انسان تھے.جس کا بھی آپ سے واسطہ پڑا آپ کی تعریف کرتا ہے.غریبوں کی عزت اور احترام بھی اس طرح کرتے جس طرح کسی امیر کا.کسی حق بات پر امیر کو غریب پر فوقیت نہیں دی.بعض لوگ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے آپ پر اعتماد کی وجہ سے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتے رہے اور کی بھی.بشری تقاضا بھی ہے اور قواعد بھی اجازت دیتے ہیں کہ آپ ان نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کر سکتے تھے لیکن آپ نے ہمیشہ اپنا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑا.اور میں نے دیکھا ہے کہ جب ایسے
124 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لوگوں کی ، جو کسی نہ کسی طرح ان کے خلاف رہے ہیں، گرفت ہوئی ہے تو وہ حضرت شاہ صاحب کے پاس اُن کے دروازے پر آتے تھے اور معافیاں مانگتے تھے اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب نے ہمیشہ انہیں معاف فرمایا.یہ بھی نہیں کہا کہ تم نے جو مجھے نقصان پہنچایا ہے اُس کا مداوا کس طرح ہو گا؟ یہ تھے وہ بزرگ جن کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کسی سے بغض، حسد اور کینہ نہیں رکھتے بلکہ نقصان پہنچانے والے سے بھی جب اُس نے معافی مانگی تو شفقت کا سلوک ہی فرمایا.یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے حقیقی رنگ میں تزکیہ نفس کیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے نکاح پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اُس میں سے بعض حصے پڑھنا چاہتا ہوں تا کہ اگلی نسل کو بھی ان باتوں کو سامنے رکھنے کا احساس پیدا ہو.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے چار بچوں کا نکاح پڑھایا جن میں سے ایک آپ کی بیٹی سید داؤد مظفر صاحب کی اہلیہ تھیں.آپ نے خطبہ اس طرح شروع فرمایا تھا کہ : ”دنیا میں سب سے قیمتی وجو د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.زمانے کے گزرنے اور حالات کے بدل جانے کی وجہ سے چیزوں کی وہ اہمیت باقی نہیں رہتی جو اہمیت کہ اُن حالات کی موجودگی اور اُن کے علم کے ساتھ ہوتی ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے، اُس وقت دنیا کی جو حالت تھی اُس کا اندازہ آج لوگ نہیں کر سکتے.اگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ مبعوث نہ فرماتا تو آج دنیا میں دین کے معنی یہ سمجھے جاتے کہ بعض انسانوں کی پوجا کر لی، قبروں کی پوجا کر لی اور بتوں کی پوجا کر لی.قانون ، اخلاق کو دنیا میں کوئی قیمت حاصل نہ ہوتی.مذہب کوئی اجتماعی جد وجہد کی چیز نہ ہوتا.خدا کے ساتھ بنی نوع انسان کا تعلق پیدا ہونا بالکل ناممکن ہوتا.بلکہ ایسے تعلق کو بے دینی اور لامذہبی قرار دیا جاتا ہے.بنی نوع انسان کے مختلف حصوں کے حقوق کی کوئی حفاظت نہ ہوتی.عورتیں بدستور غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہو تیں.ثبت بدستور پوجے جا رہے ہوتے.خدا تعالیٰ بدستور متروک ہو تا.غلامی بدستور دنیا میں قائم ہوتی.لین دین کے معاملات میں بدستور ظلم اور تعدی کی حکمرانی ہوتی.غرض دنیا آج وہ کچھ نہ ہوتی جو آج ہے“.اس کے بعد کچھ حصہ میں چھوڑتا ہوں.یہ بیان کرنے کے بعد پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ....دنیا میں جو اقوال اور جو باتیں لوگوں نے کہی ہیں، ان میں سے راستبازی کے اعلی معیار پر پہنچی ہوئی وہ بات ہے جو حستان نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہی كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِي فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ نے کہا.كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِی، تو میری آنکھ کی پتلی تھا، فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ، پس تیری موت کے ساتھ آج میری آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں.مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ.اب تیرے مرنے کے بعد جو چاہے مرے.فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ ، میں تو تیری موت سے ڈرتا تھا.کسی اور موت کا مجھ پر اثر نہیں ہو سکتا.“
خطبات مسرور جلد نهم 125 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس شعر کے معنوں کی عظمت کا اس بات سے پتہ لگتا ہے جس کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس شعر کا کہنے والا ایک نابینا شخص تھا.اگر ایک بینا شخص یہی شعر کہتا تو وہ صرف ایک شاعرانہ مذاق اور ایک ادبی لطیفہ کہلا سکتا تھا مگر اس شعر کے ایک نابینا شخص کے منہ سے نکلنے کی وجہ سے اس کی حقیقت بالکل بدل جاتی ہے.یعنی حضرت حسّان اس شعر میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو باوجود اس کے کہ میری ظاہری آنکھیں نہیں تھیں، پھر بھی میں بینا ہی تھا.میری جسمانی آنکھیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجھے اندھا سمجھتے تھے لیکن میں اپنے آپ کو اندھا نہیں سمجھتا تھا کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مجھے دنیا نظر آرہی تھی اور اب بھی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ میں ویسا ہی ہوں حالانکہ میں ویسا نہیں.پہلے میں بینا تھا لیکن اب میں اندھا ہو گیا ہوں.تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے قیمتی وجود تھے مگر اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت آپ بھی آخر ایک دن دنیا سے جدا ہو گئے.پھر آگے چلتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں کہ...بہر حال رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے جیسا کہ حسان نے کہا.مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ.ہر انسان پر یہ بات کھل رہی ہے کہ دنیا میں کوئی وجود بھی ہمیشہ نہیں رہا.پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو ہمیشہ قائم رہا ہو اور دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہو.اس صورت میں انسان کی ترقی کا مدار اسی بات پر ہے کہ جانے والوں کے قائمقام پیدا ہوں.اگر مرنے والوں کے قائمقام پیدا ہوتے ہیں تو مرنے والوں کا صدمہ آپ ہی آپ مٹ جاتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اگر ہمارے پیدا کرنے والے کی مرضی ہی یہی ہے تو پھر جزع فزع کرنے یا حد سے زیادہ افسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں.یہ عقل کے خلاف اور جنون کی علامت ہو گی.پھر آگے آپ ایک عباسی بادشاہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ...ایک دفعہ ایک عباسی بادشاہ ایک بڑے عالم سے ملنے گیا.جا کے دیکھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے.بادشاہ نے کہا اپنا کوئی شاگرد مجھے بھی دکھاؤ.میں اس کا امتحان لوں.انہوں نے ایک شاگرد پیش کیا.بادشاہ نے اس سے بعض سوال پوچھے.اُس نے نہایت اعلیٰ صورت میں اُن سوالوں کا جواب دیا.یہ سُن کر بادشاہ نے کہا مَا مَاتَ مَنْ خَلَفَ مثلک.وہ شخص جس نے تیرے جیسا قائمقام چھوڑا کبھی نہیں مر سکتا کیونکہ اُس کی تعلیم کو قائم رکھنے والا تو موجود ہو گا.انسان کا گوشت پوست کوئی قیمت نہیں رکھتا.گوشت پوست جیسے ایک چور کا ہے، ویسے ہی ایک نیک آدمی کا ہے.ہڈیاں جیسے ایک چور کی ہیں ویسے ہی نیک آدمی کی ہیں.خون جیسے ایک چور کا ہے ویسے ہی نیک آدمی کا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ اُس کے اخلاق بُرے ہیں اور اس کے اخلاق اعلیٰ درجہ کے ہیں“.( یعنی چور کے اخلاق بُرے ہیں اور نیک آدمی کے اخلاق اعلیٰ درجہ کے ہیں).اس کے اندر روحانیت نہیں اور اس کے اندر اعلیٰ درجہ کی روحانیت پائی جاتی ہے.پس اگر اس کی وہ روحانیت اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق دوسرے میں باقی رہ جائیں گے تو یہ مرا کس طرح؟ ( یعنی وہ اعلیٰ اخلاق اگر آئندہ نسلوں میں چل رہے ہیں تو پھر مرا نہیں.) فرمایا کہ پیس
126 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ساری کامیابی اس (بات) میں ہے کہ انسان کے پیچھے اچھے قائم مقام رہ جائیں.یہی چیز ہے جس کے لئے قومیں کوشش کیا کرتی ہیں.یہی چیز ہے کہ اگر یہ قوم کو حاصل ہو جائے تو یہ بہت بڑا انعام ہے.آج تک کبھی دنیا نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ساری کامیابی فتوحات میں نہیں بلکہ نسل میں ہے.اگر آئندہ نسل اعلیٰ اخلاق کی ہو تو وہ قوم مرتی کبھی نہیں بلکہ زندہ رہتی ہے.اور اگر آئندہ نسل اچھی نہ ہو تو اُس کی تمام فتوحات پیج اور لغو ہیں.66 پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ ”پس قوموں کی ترقی اُن کی آئندہ نسلوں کی ترقی پر منحصر ہوتی ہے.اس لئے ہمارا زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ آئندہ نسلوں میں ہم اپنے اچھے قائمقام چھوڑیں جو اسلام کی ترقی اور اسلام کے مستقبل کے ضامن ہوں.سب سے زیادہ یہ چیز نکاح سے ہی حاصل ہوتی ہے“.(نکاح کا خطبہ دے رہے ہیں فرمایا کہ اچھی نسل جو ہے سب سے زیادہ نکاح سے ہی حاصل ہوتی ہے ) اور نکاحوں سے ہی نئی نسل آتی ہے.اس لئے نکاح انسانی زندگی کا سب سے اہم کام ہے.یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بارہ میں استخارہ کرنے، غور و فکر سے کام لینے “ ( یہ بھی خاص طور پر نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کو اور خاندانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے ) ”نکاح کے بارے میں استخارہ کرنے، غور و فکر سے کام لینے اور جذبات کی پیروی کرنے سے روکنے کی تعلیم دی ہے.اور آپ نے فرمایا ہے کہ نکاح ایسے رنگ میں ہونے چاہئیں کہ نیک اور قربانی کرنے والی اولاد پیدا ہو.پھر فرمایا ساری خرابی اس وجہ سے پید اہوتی ہے کہ اولاد کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اس کی ناز بر داری کی جاتی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناز برداری کی وجہ سے دین کی روح اُن کے اندر سے مٹ جاتی ہے.قرآنِ مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ شخص دین دار نہیں جو اپنی اولاد کی ناز برداری کرتا ہے اور اُس کو دین کے تابع نہیں رکھتا.دین دار وہ ہے جو اپنی اولاد کو دین کے تابع رکھتا ہے.جو شخص اپنی اولاد کو دین کے تابع رکھے گا وہ کبھی اپنی نسل کو خراب نہیں ہونے دے گا کیونکہ ناز برداری سے ہی نسلیں خراب ہوتی ہیں “.پھر فرمایا ”پس اسلامی زندگی میں اہم ترین چیز نکاح ہے.جیسے عمارت کے لئے بنیاد کھو دی جاتی ہے اور اس کو کاٹا جاتا ہے.لیکن اگر بنیاد پختہ نہیں ہو گی تو عمارت گر جائے گی.اسی طرح اگر نکاح میں غور و فکر اور دعا سے کام نہ لیا جائے تو نکاح بھی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا.گویاوہ چیز جس سے خوشی ہو رہی ہوتی ہے در حقیقت وہی خطرے کا وقت ہوتا ہے“.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” میں نے اپنے بچوں کے نکاحوں میں کبھی بھی اس بات کو مد نظر نہیں رکھا کہ اُن کے نکاح آسودہ حال اور مالدار لوگوں میں کئے جائیں اور میں نے ہمیشہ جماعت کے لوگوں کو بھی یہی نصیحت کی ہے کہ جماعت کے لوگ اس بات کی طرف چلے جاتے ہیں کہ انہیں ایسے رشتے ملیں جو زیادہ کھاتے پیتے اور آسودہ حال ہوں.ہمیں ایسے رشتے ملے ہیں مگر ہم نے اُن کو ر ڈ کر دیا تا کہ ہمارا جو معیار ہے وہ قائم رہے“.الفضل 6 اپریل 1945ء صفحہ 1 تا 3.بحوالہ خطبات محمود جلد نمبر 3 فرمودہ 30 مارچ 1945ء صفحہ 609-616 مطبوعہ ربوہ) ہر ایک کو اپنے معیار کے مطابق رشتے کرنے چاہئیں.پس یہ اصول ہیں جو عمومی طور پر بھی سامنے رکھنے چاہئیں.رشتوں میں بھی یہ بات آئی تو میں نے تو سوچا کہ یہ بیان کر دوں کہ ہمارے ہاں آج کل یہ بڑے مسائل اُٹھ رہے ہیں.اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود
127 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد بھی اور جماعت کے افراد بھی اپنی شادیوں میں یہ بات مد نظر رکھیں کہ اصل چیز دین ہے اور ایک احمدی کا مقصود اللہ تعالیٰ سے تعلق اور دین کی خدمت ہے.دنیا کو بھی دین کے تابع کرنا ہے.دین کو دنیا کے تابع نہیں کرنا.یہی چیز ہے جس طرح کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے جو قومی زندگی کے ہمیشہ زندہ رہنے کا ذریعہ ہے.جماعت کا جب بھی کوئی نیک شخص اس دنیا سے رخصت ہو تا ہے تو جماعت کے افراد کو اور خاص طور پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو کہ جب اُن کے خاندان میں سے کوئی رخصت ہو تو نیکی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنے راستے متعین کرنے چاہئیں.دنیا تو چند روزہ ہے ختم ہو جائے گی.دائمی رہنے والی چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے چار بیٹے مختلف حیثیت سے جماعت کی خدمت کر رہے ہیں.تین بیٹیاں ہیں.ایک میری اہلیہ اور دو دوسری بہنیں ، دونوں واقفین زندگی سے بیاہی گئی ہیں.اللہ کرے کہ ان کی اولاد میں اور آگے نسلیں بھی ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہوں.دو بیٹے جو واقف زندگی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے والدین کی طبیعت کا اثر لئے ہوئے ہیں، کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کرتے ہیں ، کر رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں.یہ بھی اور تمام اولاد بھی اور ان کی اولاد بھی ہمیشہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرنے والی ہو اور ان کی دعائیں ہمیشہ اُن کو لگتی رہیں.اسی طرح ہمارے تمام بزرگوں کی اولادیں، صحابہ کی اولادیں ہمیشہ اپنے والدین کے ، اپنے آباؤ اجداد کے نمونے دیکھنے والی ہوں اور نیک نسل آگے چلانے کے لئے دعا اور اپنے عمل سے کوشش کرنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب کا میں نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم اپریل تا 7 اپریل 2011 ء جلد 18 شمارہ 13 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 128 11 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء بمطابق 18 امان 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانيه) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب بھی دنیا میں زمینی یا آسمانی آفات آتی ہیں تو خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ہر شخص اس خوف سے پریشان ہو جاتا ہے کہ آج جو آفت ایک علاقہ میں آئی ہے کل ہمیں بھی کسی مشکل میں مبتلا نہ کر دے.ہمارا کوئی عمل خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والا نہ بن جائے.اور یہ حالت ایک حقیقی مومن کی ہی ہو سکتی ہے.اس کی ہو سکتی ہے جس کو یہ فہم اور ادراک حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے.اور جب یہ سوچ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اُس کی رضا کی راہوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہے.اور ایسے ہی مومنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ (المؤمنون: 58) که یقینا وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے خوف سے کانپتے ہیں.اور اس خوف کی وجہ سے پایتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ (المؤمنون: 59).اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں.آگے پھر بیان ہوتا ہے کہ اُس کا شریک نہیں ٹھہراتے.ہر حالت میں اُن کا رُخ خدا تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے.یہ نہیں کہ آفات میں گھر گئے تو خدا تعالیٰ یاد آگیا.جب آفات سے باہر آئے تو خد اتعالیٰ کو بھول گئے.نہیں، بلکہ ہر حالت میں، چاہے تنگی ہو یا آسائش ہو ، مشکل میں ہوں یا سکون میں ہوں ، اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا اُس وقت بھی ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی بلاؤں اور مشکلات سے محفوظ رکھا ہوتا ہے اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی اور جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا کسی بھی قسم کے موسمی تغیر یا آفت کو دیکھتے ہیں تو اُس وقت وہ مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں اور تا قیامت ہر آنے والے مومن کے لئے اسوہ حسنہ ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے حالات میں کیا عمل ہوتا تھا اور کیا حالت ہوتی تھی.اس بارہ میں حضرت عائشہ سے ایک روایت ہے.آپ فرماتی ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد نهم 129 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء ”جب تیز آندھی آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے اس آندھی میں مضمر ہر ظاہری اور باطنی خیر کا طالب ہوں اور اس کے ہر ظاہری و باطنی شر سے پناہ مانگتا ہوں.“ (سنن ترمذى كتاب الدعوات باب ما يقول اذا هاجت الريح حديث (3449) نیز آپ یعنی حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل گھر آتے تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور آپ کبھی گھر میں داخل ہوتے اور کبھی باہر نکلتے.کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے اور جب بادل برس جاتا تو آپ کی گھبراہٹ ختم ہو جاتی.کہتی ہیں کہ یہ بات میں آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیتی تھی.آپؐ فرماتی ہیں کہ ایک بار میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس گھبراہٹ کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! یہ اس لئے ہے کہ کہیں یہ بادل قوم عاد پر عذاب لانے والے بادل جیسا نہ ہو.قوم عاد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے جب بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ تو ہم پر مینہ برسانے والا ہے لیکن وہ عذاب لانے والا بن گیا.(صحيح بخارى كتاب بدء الخلق باب ما جاء في قوله : و هو الذي يرسل الرياح بشرا.حدیث 3206) تو یہ ہے کامل بندگی اور خشیت کا اظہار ، اُس خوف کا اظہار کہ وہ عظیم انسان جس سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار وعدے ہیں.ہر قسم کے نقصان سے بچانے کے بھی وعدے ہیں، ترقی اور غلبے کے بھی وعدے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی آفت اور مصیبت مسلمانوں پر نہیں آسکتی، بلکہ دوسرے بھی آپ کی برکتوں سے بچے ہوئے تھے.کسی دنبال کا دجل کامیاب نہیں ہو سکتا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی علم تھا کہ جب آندھی اور طوفان آئے تو آپ کے حق میں آتے ہیں.بدر کی جنگ ہو یا جنگ خندق.آندھیاں اور طوفان دشمن کی بربادی اور ہزیمت کا باعث بنی تھیں لیکن پھر بھی آپ کو فکر ہے.اصل میں تو یہ خیال ہو گا کہ آسمانی آفت سے یہ لوگ صفحہ ہستی سے نہ مٹادیے جائیں.پس آپ کی بے چینی اس رحم کے جذبہ کے تحت تھی جو اس رحمتہ للعالمین کے دل میں مخلوق کے لئے موجزن تھا اور آپ اس قدر بے چینی میں مبتلا ہو جاتے کہ جیسا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا، بدل جاتا.اللہ تعالیٰ کے بے نیاز ہونے کی وجہ سے آپ کو فکر ہوتی تھی کہ کہیں کچھ لوگوں کا تکبر اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی صحیح پہچان نہ کرنا پوری قوم کی تباہی کا باعث نہ بن جائے.سورۃ ھود کے بارہ میں آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ اس نے مجھے بوڑھا کر دیا.(سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب و من سورة الواقعة حديث 3297) قوموں کی تباہی اور بربادی کا اس سورۃ میں ذکر ملتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حقیقی طور پر سمجھتے تھے اور آپ سے زیادہ کوئی اور سمجھ نہیں سکتا، آپ کو یہ فکر رہتی تھی کہ امت کا ہمیشہ صحیح رستے پر چلتے رہنا میری ذمہ داری ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوا(هود: 113) پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہو جا اور وہ جنہوں نے تیرے ساتھ تو بہ کی ہے.اور حد سے نہ بڑھنا.یعنی مومنوں کو حکم ہے کہ حد سے نہ بڑھنا.حد سے بڑھنا خد اتعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے.
130 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھی کہ مومنین کی تو بہ حقیقی تو بہ ہو.آندھی، بادل وغیرہ کو دیکھ کر آپ کا پریشان ہو نا اس وجہ سے بھی تھا کہ کہیں مومنوں کی بد عملیاں کسی آفت کو بلانے والی نہ بن جائیں.یہاں مومنوں کو بھی یہ حکم ہے کہ ایک دفعہ تو بہ کر لی ہے تو تمہارے سامنے جو اُسوہ حسنہ قائم ہو گیا ہے اُس کی پیروی کرو.ور نہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے.مومنوں کو حکم ہے کہ اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جو آفت کو دیکھ کر تو خدا تعالیٰ کو یاد کر لیتے ہیں اور جب مشکل دور ہو جائے تو پھر پرانی ڈگر پر آجاتے ہیں.ایک مومن کی تو بہ تو حقیقی توبہ ہوتی ہے اور مستقل تو بہ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجُ كَالظَّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجُهُمْ إِلَى الْبَرِ فَمِنْهُم مُّقْتَصِلُ ۖ وَمَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا إِلَّا كُلُّ خَنَّارِ كَفُورٍ (لقمان: 33) اور جب انہیں کوئی موج سائے کی طرح ڈھانک لیتی ہے تو وہ عبادت صرف اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہوئے اُس کو پکارتے ہیں.پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اُن میں سے کچھ لوگ میانہ روی پر قائم رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف بد عہد اور ناشکراہی کرتا ہے.پس حقیقی مومن کی پکار مشکل اور مصیبت سے نجات پانے کے بعد بھی اللہ اللہ ہی ہوتی ہے.لیکن بد عہد اور ناشکرے اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور پھر وہی ظلم و تعدسی، شرک اور ہر قسم کی برائیوں کا اُن سے اظہار ہوتا ہے.وہ اسی چیز میں پڑ جاتے ہیں.حقیقی مومن تو اس سے بڑھ کر ہے.یہی نہیں کہ صرف اپنے پر جو مشکل آئے اور مصیبت آئے تو تب ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے.صرف اپنے پر آنے والی مصیبت ہی انہیں ایمان میں مضبوط نہیں کرتی بلکہ جیسا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دیکھا ہے، دوسری قوموں کے انجام بھی خوف دلانے والے ہوتے ہیں.چاہے وہ ماضی میں گزری ہوئی قومیں ہیں یا اس زمانے میں ہمارے سامنے بعض قوموں کی مثالیں نظر آتی ہیں.اگر پرانی گزری ہوئی قوموں کا انجام اللہ تعالیٰ کا خوف دلانے والا ہوتا ہے تو پھر ایک مومن کے لئے جیسا کہ میں نے کہا اپنے زمانے میں دوسری قوموں پر آفات کس قدر خوفزدہ کرنے والی اور اپنے خدا کے آگے جھکنے والی اور اس سے رہنمائی مانگنے والی ہونی چاہئیں.لیکن دنیا اس بات کو نہیں سمجھتی.اکثریت سمجھتی ہے کہ موسمی تغیرات یاز مینی اور آسمانی آفات قانونِ قدرت کا حصہ ہیں اور کچھ عرصے بعد انہوں نے آنا ہی ہو تا ہے.ایک معمول ہے جن کے مطابق یہ آتی ہیں.آج کل کے پڑھے لکھے انسان کو اس علم نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے ہی بے خوف کر دیا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ قانونِ قدرت کے تحت آفات آتی ہیں.یہ بھی ٹھیک ہے کہ زلزلے جب آتے ہیں تو زمین کی نچلی سطح کی جو پلیٹس ہیں اُن میں تغیر زلزلوں کا باعث بنتا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ نیوزی لینڈ یا جاپان وغیرہ کے علاقوں میں، مشرق بعید کے علاقوں میں جو جزائر ہیں وہ ان پلیٹس کے اوپر آباد ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں زلزلے زیادہ آتے ہیں.لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے کسی بھیجے ہوئے اور
خطبات مسرور جلد نهم 131 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء فرستادے نے اپنی سچائی کے لئے ان زلزلوں کی پیشگوئی تو نہیں کی ؟ عرصہ ہوا غالباً یہ مولانا نذیر مبشر صاحب کے وقت کی بات ہے.گھانا میں جب یہ مبلغ ہوتے تھے تو انہوں نے جب احمدیت اور اسلام کی اس علاقہ میں تبلیغ کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کا دعویٰ اور یہ نوید سنائی اور یہ تبلیغ کی تو گھانا کے اس علاقہ میں علماء نے اور اور بہت سارے پرانے لوگوں نے اُن کو کہنا شروع کیا کہ مسیح و مہدی کے آنے کی نشانی تو زلزلے ہیں.اگر آپ کا بیان سچا ہے تو ہمارے ملک میں پھر زلزلے کا نشان دکھائیں.اور گھانا ایسی جگہ ہے جہاں عموماًز لزلے نہیں آتے.چنانچہ آپ نے دعا کی اور اُس کے نتیجہ میں وہاں ایک زلزلہ آیا جس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی اور بہت سارے لوگوں نے عیسائیت میں سے احمدیت قبول کی.مسلمانوں میں سے بھی احمدی مسلمان ہوئے.جنہوں نے نہیں مانتا ہو تا وہ تو نہیں مانتے لیکن بہر حال وہاں زلزلے کا ایک نشان مشہور ہو گیا.(ماخوذ از روح پرور یادیں صفحہ 78-79) بہر حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعویٰ کو زلزلوں اور آفات کے ساتھ کس طرح جوڑا ہے.اس کے بارے میں کیا بیان فرمایا ہے ؟ اور اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر حوادث اور زلزلوں کے بارے میں آپ نے کیا پیشگوئی فرمائی ؟ آپ فرماتے ہیں کہ : حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور شدت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کو تہ و بالا کر دیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی.پھر وہ جو تو بہ کریں گے اور گناہوں سے دستکش ہو جائیں گے خدا اُن پر رحم کرے گا.جیسا کہ ہر ایک نبی نے اس زمانے کی خبر دی تھی ضرور ہے کہ وہ سب کچھ واقع ہو.لیکن وہ جو اپنے دلوں کو درست کر لیں گے اور اُن راہوں کو اختیار کریں گے جو خدا کو پسند ہیں اُن کو کچھ خوف نہیں اور نہ کچھ غم.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تُو میری طرف سے نذیر ہے.میں نے تجھے بھیجا تا مجرم نیکو کاروں سے الگ کئے جائیں.اور فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.فرماتے ہیں کہ آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہو گا مجھے خبر دی اور فرمایا: ”پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی“.اس لئے ایک شدید زلزلہ کا آنا ضروری ہے.لیکن راستباز اُس سے امن میں ہیں.سو راستباز بنو اور تقویٰ اختیار کرو تا بچ جاؤ.آج خدا سے ڈرو تا اُس دن کے ڈر سے امن میں رہو.ضرور ہے کہ آسمان کچھ دکھاوے اور زمین کچھ ظاہر کرے.لیکن خدا سے ڈرنے والے بچائے جائیں گے“.فرماتے ہیں کہ ”خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی.کچھ تو اُن میں سے میری زندگی میں
خطبات مسرور جلد نهم 132 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء ظہور میں آجائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی.اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا.کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد “.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20.صفحہ 302 تا304) تو یہ آپ کا دعویٰ ہے.اور جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے بھی غالبا گزشتہ سال میں اسی حوالے سے بیان کر چکا ہوں کہ گزشتہ سوسال کے دوران جو آفات اور زلازل آئے ہیں وہ اس سے پہلے ریکارڈ نہیں ہوئے.چھوٹے چھوٹے ( ریکارڈ) نہیں ہوئے لیکن جو پرانی بڑی بڑی آفتیں آئی ہیں وہ ریکارڈ میں موجود ہیں.لیکن اتنی زیادہ نہیں جتنی اس سو سال میں.اللہ تعالیٰ یہ نشان دنیا کے مختلف حصوں میں بار بار دکھا رہا ہے.اس لئے بار بار ہمیں اس انذار کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کر سکیں اور دنیا میں بھی اُس پیغام کو پہنچانے کا حق ادا کر سکیں جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے.آپ نے واضح فرمایا ہے کہ میرانشان میری زندگی کے بعد بھی ظاہر ہو تا رہے گا.پس جس طرح شدت سے آپ نے دنیا کو اس نشان سے آگاہ کیا ہے ہمیں بھی دنیا کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے.ابھی گزشتہ ہفتے جاپان میں ایک شدید زلزلہ آیا اور ساتھ ہی سونامی بھی جس نے بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا.زلزلے سے جو بستیاں تباہ ہوئی تھیں، انہیں پانی بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا.وہاں جو احمدی ہیں وہ اس علاقہ میں زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے جارہے تھے تو راستے سے اُن کو فون آیا کہ یہ جگہ جہاں سے ہم گزر رہے ہیں پہلے جب یہاں سے گزرا کرتے تھے تو ایک بستی تھی، ایک قصبہ تھا، پندرہ بیس ہزار کی آبادی تھی اور اب ہم یہاں سے گزر رہے ہیں تو اس جگہ پہ اُس بستی کا کہیں نشان ہی نہیں.اور جو سڑکیں ہیں وہ بھی بالکل ختم ہو چکی ہیں.بڑی بڑی عمارتیں جو بہ گئیں تو سڑکوں کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.بہر حال اس خوف کے ساتھ ہمیں اپنے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو حق پہچانے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ آفات سے بچائے جائیں.بجائے یہ کہ وہ آفتوں سے تباہ ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے سینے کھولے.اور اس کے ساتھ ہی ہمیں پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے اور جاپانیوں کے بارہ میں تو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حسن ظن ہے اور پیغام پہنچانے کی خواہش بھی تھی.اس لئے جہاں یہ آفات، یہ زلزلے آتے ہیں وہاں اُن کے لئے ایک خوشخبری بھی ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حسن ظن کے مطابق وہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی تعلیم کو سمجھ لیں تو بچائے بھی جائیں.اس لئے ہمیں بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.گو وہاں چھوٹی سی جماعت ہے لیکن جتنی بھی ہے اُسے اپنی پوری طاقتوں کے ساتھ بھر پور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ پیغام جس حد تک وہ پھیلا سکتے ہیں پھیلائیں اور پہنچائیں.اور ان حالات میں حکمت سے اسلام کا پیغام بھی پہنچائیں اور خدمت خلق بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں.خدمت خلق کا کام تو متاثرہ جگہوں پر ہمارے احمدی جیسا کہ میں نے کہا کہ کیمپ لگا کر کر رہے ہیں،
133 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم خوراک وغیرہ بھی مہیا کر رہے ہیں.لیکن ان رابطوں کو اب مستقل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پتا چلے.جاپان کو اپنے روایتی شنو مذہب پر فخر ہے.اسی پر اُن کی توجہ رہتی ہے.یا اُن میں بدھسٹ ہیں بلکہ ان کی تحقیق کرنے والے بعض تو یہ کہتے ہیں کہ ان کے دونوں مذہب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں.شادی بیاہ کے لئے شنٹ مذ ہب کی روایات پر عمل کرتے ہیں اور اُس کے مطابق رسوم ہوتی ہیں اور موت فوت پر بدھ مت کے مطابق رسوم ادا کی جاتی ہیں.میرے ایک جاپانی دوست ہیں، جماعت سے اچھا تعلق رکھنے والے ہیں، بڑے سرکاری عہدیدار تو نہیں لیکن بہر حال اچھے بڑے اثر و رسوخ والے آدمی ہیں اور وزراء وغیرہ تک اُن کی پہنچ ہے.وہ ایک دن باتوں میں کہنے لگے کہ ہمارا جو شنٹو مذہب ہے، اس کی وجہ سے جاپانی اسلام کی طرف توجہ نہیں دے سکتے.تو میں نے اُس وقت اُن کو یہی کہا تھا کہ گو اس میں اخلاق کے لحاظ سے بہت اچھی خصوصیات ہیں لیکن ایک دن بہر حال ان کو اسلام کی طرف آنا پڑے گا.جہاں تک ان کے بنیادی اخلاق کا سوال ہے جیسا کہ میں نے کہا، شنو تعلیم جو ہے بعض بڑے اچھے اخلاق کی تعلیم دیتی ہے بلکہ لگتا ہے کہ اسلام کے اعلیٰ اخلاق کو انہوں نے اپنایا ہوا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاپان میں تبلیغ اسلام کی خواہش کا اظہار فرمایا.اور ایک مجلس میں آپ نے فرمایا کہ : مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے اس لئے کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو.جس طرح پر انسان سرا پا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے اسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں.اس کی تعلیم کے سارے پہلوؤں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں.اخلاقی حصہ الگ ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاوے“.اسلام پر ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 372،371 مطبوعہ ربوہ) پھر فرمایا کہ وہ لوگ بالکل بے خبر ہیں کہ اسلام کیا شے ہے؟ فرمایا ”میں دوسری کتابوں پر جو لوگ پر لکھ کر پیش کریں بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ اُن میں خود غلطیاں پڑی ہوئی ہیں ( یعنی دوسرے لوگ جو علاوہ احمدیوں کے لکھ رہے ہیں، اُن میں غلطیاں ہیں.اس لئے بھروسہ نہیں کرتا).ان غلطیوں کو ساتھ رکھ کر اسلام کے مسائل جاپان یا دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنا اسلام پر جنسی کراتا ہے.اسلام وہی ہے جو ہم پیش کرتے (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 374 مطبوعہ ربوہ) ہیں“.پس ہم پر یہ ذمہ داری ڈال دی کہ ایسی جامع کتاب جاپانی میں لکھی جائے جو تمام چیزوں کو cover کرتی ہو.میرے خیال میں ابھی تک تو یہ لکھی نہیں گئی، گو کہ جاپانی زبان میں بعض لٹریچر ہے.بہر حال ہمیں اب اس طرف توجہ بھی کرنی ہو گی.بلکہ اُس زمانے میں ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ایسی کتاب ہو اور پھر کسی جاپانی کو چاہے
خطبات مسرور جلد نهم 134 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء ایک ہزار روپیہ دے کر (اُس زمانے میں ہزار روپیہ کی بڑی قیمت تھی) اس کا ترجمہ کروایا جائے.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 373 حاشیہ ) قرآن کریم کا ترجمہ بھی آج کل دوبارہ ری وائز (Revise) ہو رہا ہے اور اللہ کے فضل سے ہمارے مبلغ ضیاء اللہ صاحب اور ایک جاپانی احمدی دوست جو بڑے مخلص ہیں، وہ کر رہے ہیں اور تقریباً مکمل ہونے والا ہے.یہاں میں جاپان سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی ایک رؤیا کا بھی ذکر کر دیتا ہوں.یہ 1945ء کی بات ہے.لمبی رؤیا ہے.اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”خواب میں بتایا گیا ہے کہ جاپانی قوم جو اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہے.اللہ تعالیٰ اُس کے دل میں احمدیت کی طرف رغبت پیدا کرے گا.( یعنی روحانی لحاظ سے مردہ ہے) اور وہ آہستہ آہستہ پھر طاقت اور قوت حاصل کرے گی اور میری آواز پر اسی طرح لبیک کہے گی جس طرح پرندوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا تھا“.( رؤیا و کشوف سید نا محمود صفحہ 296 تا 298 - الفضل 19 اکتوبر 1945ء صفحہ 2-1) تو رؤیا کا آپ نے یہ نتیجہ نکالا.پس آج ہمارا یہ فرض ہے کہ اس طرف بہت زیادہ توجہ دیں جب کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات بھی پیدا کر رہا ہے.خدمت کے مواقع بھی ہمیں ملتے رہتے ہیں.تبلیغ کے بھی ملتے رہتے ہیں.اس میں زیادہ بہتری اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.آج ہر قوم کو ہو شیار کرنا ہمارا کام ہے.جاپان میں یہ جو زلزلہ اور سونامی آیا ہے بعض کہتے ہیں کہ ہزار سال کی تاریخ میں ایسا نہیں آیا.جاپان دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں زلزلے آتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا.اور یہ اپنی عمارتیں بھی ایسی بناتے ہیں جو زلزلے کو برداشت کرنے والی ہیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر چلتی ہے، پھر کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.کہتے ہیں کہ انسانی سوچ ابھی تک ساڑھے سات یا آٹھ ریکٹر سکیل پر زلزلوں کو سہارنے کا انتظام کر سکتی ہے.وہ عمارتیں وغیرہ بنا سکتی ہے جو سہار سکتی ہیں.لیکن یہ زلزلہ جو آیا یہ تقریباً 9ریکٹر سکیل کا زلزلہ تھا.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا سمندری طوفان نے اس پر مزید تباہی مچا دی اور پھر انسان جو سمجھتا ہے کہ میں نے بڑی ترقی کر لی ہے اور بعض چیزوں کو استعمال میں لا کر میں نئی نئی ایجادیں کر لیتا ہوں.ایٹم کا استعمال ہے، اس کو جاپان میں فائدے کے لئے استعمال میں لایا جا رہا ہے ، جاپانی ویسے تو ایٹم بم کے بڑے خلاف ہیں، کیونکہ ایک دفعہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی طرف سے اُن پر جو ایٹم بم پھینکے گئے تو اس کی وجہ سے بہت زیادہ رد عمل اور خوف ہے.لیکن بہر حال وہ ایٹم سے انسانی فائدے کے لئے اور اپنی معیشت بہتر کرنے کے لئے کام لے رہے ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں.لیکن اس زلزلے کے بعد ان ایٹمی ری ایکٹروں نے بھی تباہی پھیلائی ہوئی ہے.ریڈی ایشن پھیلتی چلی جارہی ہے.آج ہی مجھے جاپان سے فیکس آئی کہ جو ہیلی کاپٹر ہیں وہ ناکام ہو رہے تھے.فائر بریگیڈ کے ٹینکوں کے ذریعے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اُن ری ایکٹر ز کو ٹھنڈا رکھا جائے تاکہ ریڈی ایشن نہ پھیلے.بہر حال اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور مزید تباہی سے اس ملک کو بچائے.لیکن اپنے والنٹیئر ز کو میں نے پیغام دیا تھا کہ ان دنوں میں وہاں بلکہ عمومی طور پر جاپان میں رہنے والے احمد کی اور اُس علاقے میں رہنے والے ریڈیم برومائیڈ (Radium Bromide-CM) اور کار سینوسن (Carcinosan-CM)
135 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم استعمال کریں جو ہو میو پیتھک دوائی ہے.ایک دن ایک، دوسرے دن دوسری.اس کے بعد ایک ہفتے کے وقفے سے ایک دوائی.پھر ایک ہفتے کے وقفے بعد دوسری دوائی.یعنی کہ دو ہفتے بعد ایک دوائی کی باری آئے گی.وہاں اور لوگوں کو بھی کھلائیں.اگر وہاں میسر نہیں ہے تو Humanity first کو جو اور انتظام کر رہی ہے یہ دوائی بھی بھیجوانے کی کوشش کرنی چاہئے.بہر حال اس وقت جاپان کے علاقے میں زلزلے اور سمندری طوفان نے تباہی پھیلائی ہوئی ہے اور پھر ریڈی ایشن کا بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے جس کے بدنتائج دیر تک چلتے ہیں.زلزلہ آیا، سونامی آیا.یہ تو ایک وقتی طور پر آیا تھا، ختم ہو گیا لیکن اگر ریڈی ایشن خدا نخواستہ زیادہ پھیل گئی تو پھر نسلوں تک اس کے اثرات چلتے ہیں.بچے بھی بعض دفعہ اپاہج پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم فرمائے.وہ قومیں جو سمجھتی ہیں کہ ہم محفوظ ہیں لیکن زمانے کے امام کی پیشگوئی کے مطابق وہ بھی محفوظ نہیں ہیں.اور اگر اب بھی انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کی تو جو یہ آفات ہیں ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں.ان کو بھی اللہ تعالیٰ ، خدا تعالیٰ کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.اس سال میں، اِس علاقے میں یعنی اس جاپان اور فارایسٹ (Far East) وغیرہ کے علاقے میں اور آسٹریلیا میں تین مختلف ممالک جو ہیں وہ آفات سے متاثر ہوئے ہیں.نیوزی لینڈ میں بھی ایک شہر کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا.کہتے ہیں وہاں نیوزی لینڈ میں 1931ء میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا جس سے دو شہر تباہ ہو گئے تھے اور اس سال بھی جوز لزلہ آیا ہے اس کی شدت گو 1931ء والے زلزلے سے کم تھی لیکن اس میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے.ستر ہزار لوگوں کو اپنے گھروں کی بربادی کی وجہ سے شہر چھوڑنا پڑا.تقریباً پچھتر فیصد تو شہر ہی تباہ ہو گیا.پھر آسٹریلیا میں بارشوں اور سمندری طوفان نے تباہی مچائی ہے.آسٹریلیا میں بھی ستر شہر اور قصبے تباہ ہو گئے ہیں.پورا کوئینز لینڈ (Queensland) ہی تقریباً متاثر ہوا ہے.اور اس کو ٹینز لینڈ کا جور قبہ ہے وہ لمبائی چوڑائی میں اتنابڑا ہے کہ جاپان سے چار گنا زیادہ ہے.پس یہ زعم بھی ختم ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس بہت رقبہ ہے اور ہم یہاں سے وہاں چلے جائیں گے ، ادھر سے اُدھر چلے جائیں گے.پھر ان کی معیشت کو آسٹریلیا میں بڑا نقصان پہنچا ہے.اس صوبے میں کوئلے کی بڑی کانیں ہیں جن میں سے پچاسی فیصد کو نقصان پہنچا ہے اور کہتے ہیں کہ دو اعشاریہ تین بلین ڈالر کا نقصان کوئلے کی کانوں کو ہوا ہے ، اور کل معیشت کو نقصان تیس بلین ڈالر کا ہوا ہے.پھر اس کے علاوہ وہاں کے علاقے وکٹوریہ میں طوفان آیا اور محکمہ موسمیات کے مطابق وہاں کے وکٹوریہ کی تاریخ میں یہ بد ترین طوفان تھا.تو دنیا کی تو یہ حالت ہے اور پھر یہ زعم کہ ہم بڑے ترقی یافتہ ہیں.اور گزشتہ سالوں میں امریکہ میں بھی طوفان آتے رہے تو کتنوں کو انہوں نے بچا لیا.اُن کی بھی بستیاں تباہ ہو گئیں.تو ان ملکوں کے طوفانوں سے باقی ملک یہ نہ سمجھیں کہ شاید ہمارے لئے بچت ہے اور یہ علاقے ایسے ہیں جہاں طوفان آتے ہیں یا ز لزلے آتے ہیں یا آفات آتی ہیں.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمام دنیا کو، دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کرے اور اپنی پہچان کروائے.اس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے.آپ فرماتے ہیں:
خطبات مسرور جلد نهم 136 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء ” خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الہی باغ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں“.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5.صفحہ 251) پس اسلام کی سچائی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے دنیا میں قائم ہونی ہے اور آپ کے ساتھ جڑنے سے ہی دنیا میں قائم ہوتی ہے.غیر قوموں سے مقابلہ کر کے اسلام کی برتری جب ثابت کرنی ہے تو اس جری اللہ کے ساتھ جڑنے سے ہی ہو سکتی ہے.کوئی اور تنظیم ، کوئی اور جماعت اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتی.اُمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پر غور کرنا چاہئے کہ کس طرح آندھی اور بارش دیکھ کر آپ بے چین ہو جایا کرتے تھے.پس یہ دیکھیں کہ کیا ہم اس اُسوہ پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہیں یا کوشش کرتے ہیں ؟ اگر نہیں تو بڑے فکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا بے نیاز ہے.اُس کا کسی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں.خد اصرف اُس کا ہے جو حقیقی رنگ میں حق بندگی ادا کرنے والا ہے.پاکستان میں جو گزشتہ سال سیلاب آیا جو ملک کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس نے سرحد سے لے کر سندھ تک تمام صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور تجزیہ کرنے والے یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ انڈونیشیا کے سونامی سے بھی زیادہ تباہ کن تھا.ابھی تک وہاں لوگ شہروں میں کیمپوں میں بیٹھے ہوئے ہیں.نہ ہی اُن کی آباد کاری کی طرف حکومت کو توجہ ہے اور نہ ہی اُس ملاں کو جو ان کا ہمدرد بنتا ہے، جنہوں نے ہر وقت احمدیوں کے خلاف ان کو اکسایا ہوا ہے.ملک میں مکمل طور پر افرا تفری ہے.پھر بھی عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ اُن کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے.اور زمانے کے امام کا انکار کئے چلے جارہے ہیں.گزشتہ سیلاب جو آیا تھا اُس میں مولوی عوام کو یہ تسلی دلا دیتا تھا اور بحث ٹی وی پر چلتی جارہی تھی کہ یہ کوئی عذاب نہیں تھا بلکہ ابتلا تھا، اور ابتلا اللہ والوں کو آتا ہے.اور پھر خود ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عذاب تو اس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی نبی آتا ہے اور نبی کا دعویٰ موجود ہو تو چونکہ نبی کوئی نہیں ہے اس لئے یہ عذاب نہیں کہلا سکتا.اور جو دعویٰ ہے اُس کی طرف دیکھنے اور سننے کو تیار نہیں.اللہ تعالیٰ اس قوم پر بھی رحم کرے.چند سال پہلے ایک بدترین زلزلہ آیا تھا جس نے تباہی مچادی تھی پھر بھی ان کو عقل نہیں آئی کیونکہ سوچتے نہیں ہیں کہ ان آفات کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اُس کے فرستادے نے کی ہے جس کے یہ انکاری ہیں.اور جیسا کہ میں نے اقتباس میں پڑھا ہے کہ آپ نے فرمایا، کچھ حوادث اور آفتیں میرے بعد ظہور میں آئیں گی.پس کچھ تو آنکھیں کھولو.اے بصیرت اور بصارت کا دعویٰ کرنے والو! کچھ تو عبرت حاصل کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح فرمایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں آفات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ تم محفوظ ہو، بلکہ واضح فرمایا کہ میری پیشگوئیاں تمام دنیا کے لئے ہیں ، نہ اس سے پنجاب منتقلی ہے.اس وقت
خطبات مسرور جلد نهم 137 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء پنجاب کی بات کرتے تھے کہ پنجاب میں زلزلے نہیں آئے تو آپ نے فرمایا: اس سے پنجاب بھی مستقلی نہیں.نہ بر صغیر کا کوئی اور شہر یا علاقہ مستثنیٰ ہے.آپ نے واضح طور پر فرما دیا کہ حق جو ہے وہ چھپانے سے چھپا نہیں کرتا.اس لئے تم لوگ فکر کرو.(ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 267 تا 269) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.آپ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں کہ : یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہونگے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہو گی.اور اکثر مقامات زیر وزبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی.اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی.یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہو گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہو تا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل : 16).اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچاسکتے ہو ؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو ! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کریگا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں، پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد 22.صفحہ 269،268)
خطبات مسرور جلد نهم 138 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مارچ 2011ء پس بر صغیر کے مسلمانوں کو بھی ہوش کرنی چاہئے کہ وہ بھی محفوظ نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار بڑی شدت سے تنبیہ کی ہے اور آپ کی شدت میں بھی، تنبیہ میں بھی ایک ہمدردی کا پہلو ہے.اس لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بار بار ہمدردی کے جذبے کے تحت لوگوں کو، دنیا کو توجہ دلاتے چلے جائیں کہ ہندوستان کے مسلمان بھی اپنی حالت بدلیں اور مسیح موعود کے خلاف اپنی دریدہ دہنی سے باز آئیں.بنگلہ دیش کے مسلمان بھی اپنی زبانوں کو لگام دیں.پاکستان کے مسلمان بھی ہوش کے ناخن لیں کہ آفات کو قریب سے دیکھ چکے ہیں.پس خدا کا خوف کریں.جزائر کے رہنے والوں پر جو آفات آئی ہیں اور جس حالت سے آجکل جاپان گزر رہا ہے اس حالت کو ہمارے لئے ، سب کے لئے ، دنیا کے لئے عبرت حاصل کرنے والا ہونا چاہئے.اللہ کرے کہ مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور زمانے کے امام کے پیغام کو سمجھیں.اب تو علاوہ آسمانی بلاؤں کے تقریباً ہر مسلمان ملک میں اپنے ہی مسائل اس قدر ہو چکے ہیں کہ ہر ایک ان مسائل میں الجھ گیا ہے.یہ بھی ان ملکوں کے لئے ایک ابتلا بن چکا ہے.عوام اور حکومت ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں.مسلمان، مسلمان کا خون بہا رہا ہے.اس سے بڑی بد قسمتی اور اس سے بڑا المیہ اور امت کے لئے کیا ہو سکتا ہے؟ کاش کہ ان کو سمجھ آجائے کہ امت کی بھلائی کے لئے جس کو خدا تعالیٰ نے بھیجا تھا بھیج دیا.اب اگر عافیت چاہتے ہیں تو اسی کے دامن عافیت میں پناہ لیں.اللہ کرے.اللہ ان کو توفیق دے اور سمجھ دے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی مسلمان بنائے اور ہمدردی کے جذبے سے حقیقی اسلام کے پیغام کو پہنچانے والے بنیں اور دعاؤں پر پہلے سے بڑھ کر زور دینے والے ہوں.ایک افسوسناک خبر ہے.ابھی جمعہ پر آنے سے پہلے مجھے ملی ہے کہ سانگھڑ میں ہمارے ایک نوجوان راتا ظفر اللہ صاحب ابن مکرم محمد شریف صاحب جو سانگھڑ کے قائد مجلس خدام الاحمدیہ اور سیکرٹری مال ضلع تھے ، ان کو دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.رانا صاحب ایک جماعتی پروگرام میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہے تھے.جب آپ گھر کے دروازے کے قریب پہنچے تو دو افراد نے فائرنگ کی اور فرار ہو گئے.ان کی فائرنگ سے آپ کے چہرے پر تین فائر لگے.فائرنگ کی آواز سُن کر آپ کا چھوٹا بھائی گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ وہ زمین پر پڑے ہوئے تھے.انہیں فوری طور پر گاڑی میں ڈال کر نوابشاہ لے جارہے تھے لیکن راستے میں آپ نے شہادت کا رتبہ پایا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے لواحقین میں ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں ہیں.رانا محمد سلیم صاحب شہید سانگھڑ کے آپ عزیز تھے.گزشتہ کچھ عرصے میں، چند سال میں یہ سانگھڑ میں پانچویں شہادت ہے.چھوٹی سی جماعت ہے لیکن جانی قربانی میں سب سے بڑھ کر ہے.اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدیوں کو بھی محفوظ رکھے اور دشمنوں کی پکڑ کے جلد سامان پیدا فرمائے.ان کے بچوں کا، ان کی اہلیہ کا حافظ و ناصر ہو.صبر اور حوصلہ و ہمت عطا فرمائے.اب نمازوں کے بعد میں ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 8 اپریل تا 14 اپریل 2011ء جلد 18 شماره 14 صفحہ 5 تا 8)
خطبات مسرور جلد نهم 139 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء بمطابق 25 امان 1390 ہجری بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانيه) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا (بنی اسرائیل:42) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءُ وَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ( بني اسرائيل: 83) مخالفین اسلام کو اسلام، قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے دلوں کے بغض اور کینے نکالنے کا اُبال اٹھتارہتا ہے.گذشتہ دنوں پھر یہ خبر تھی اور بعض مسلمان ممالک میں اس خبر کا بڑا سخت رد عمل ظاہر ہوا اور ہو رہا ہے.جب ایک بد فطرت امریکی پادری نے جس نے ستمبر 2010ء میں قرآن کریم کے بارہ میں بیہودہ گوئی اور دریدہ دہنی کی تھی اور قرآنِ کریم کو جلانے کی باتیں کی تھیں.اُس وقت تو وہ کسی دباؤ کے تحت یہ ظالمانہ کام نہیں کر سکا تھا.لیکن دو دن پہلے اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قرآنِ کریم کو جلانے کی مذموم حرکت کی ہے.اور اپنی اس ناپاک حرکت کو جسٹیفائی (Justify) اس طرح کرتا ہے، یہ ڈھکو سلا اس نے بنایا ہے کہ ایک جیوری بنائی جس کے بارہ ممبر تھے اور اُس میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے فریق کے طور پر ایک مسجد کے امام کو بھی بلایا گیا کہ قرآن کریم کا دفاع کرو.اور چھ گھنٹے کے بعد جیوری نے فیصلہ کیا کہ نعوذ باللہ قرآنِ کریم شدت پسندی اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اس لئے اس کو جلایا جائے.خود ہی فریق ہیں اور خود ہی حج ہیں بلکہ کہنا چاہئے کہ خود ہی مجرم ہیں اور خود ہی منصف ہیں.بہر حال اس پادری کی امریکہ میں کوئی ایسی حیثیت نہیں ہے کہ بہت ساری اُس کی following ہو، بہت سارے اُس کے پیچھے چلنے والے ہوں ، ماننے والے ہوں.چند سو لوگ شاید اُس کے چرچ میں آنے والے ہیں.وہ سستی شہرت کے لئے یہ ظالمانہ حرکتیں کر رہا ہے.اخباروں اور میڈیا نے اس حرکت کو پھر اٹھایا ہے.اصل میں تو میڈیا ہی ہے جو اس کو ہوا دے رہا ہے اور بجائے اس کے کہ امن کی کوشش کرے فساد کو ہوا دی جارہی ہے.صرف اس لئے کہ اُن کی خبر دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچے اور اس طرح
140 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اُس اخبار کی یا جو بھی سائٹ وغیرہ ہے یا چینل ہے اُس کی مشہوری ہو.لیکن تبصرہ کرنے والے کہتے ہیں کہ باوجو د اس کے کہ میڈیا نے اس کی خبر دی ہے اس خبر کو لوگوں کی طرف سے اتنی توجہ نہیں ملی.انہوں نے مختلف لوگوں سے انٹر ویولئے.امریکہ میں Council on American Islamic Relations ایک تنظیم ہے.اُس کے نمائندے سے بھی پوچھا تو اس نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ خبیث شخص ہے.اس کام کے کرنے سے یہ پندرہ منٹ کی شہرت تو شاید میڈیا میں حاصل کرلے لیکن ہم اگر کچھ بیان دیں گے تو اس سے اس کو چند منٹ کی اور شہرت مل جائے گی اور ہم نہیں چاہتے کہ اس کو مزید کسی قسم کی شہرت ملے.بہر حال ان کا اپنا خیال ہے.اس قسم کی ظالمانہ اور خبیثانہ حرکتیں جیسا کہ میں نے کہا ہمیشہ سے اسلام کے خلاف ہوتی رہی ہیں اور ایسی حرکت چاہے کوئی شخص اپنے چند لوگوں کے درمیان بیٹھ کر کر رہا ہو یا پبلک میں کر رہا ہو، ایک حقیقی مومن کو، جب اس کے علم میں یہ بات آتی ہے تو اس سے تکلیف پہنچتی ہے.لیکن ایک مومن کا اس تکلیف پہنچنے پر یہ رو عمل نہیں ہو تا کہ کسی کے سر کی قیمت لگا دو جس طرح بعض تنظیموں نے اُس کے سر کی قیمت لگائی ہے یا جلوس نکال کر توڑ پھوڑ کی جائے.اپنے ملک کو نقصان پہنچایا جائے اور دشمن کے ہاتھ مزید مضبوط کئے جائیں.بلکہ اصل رد عمل یہ ہے کہ اپنے قول سے ، اپنے عمل سے، اپنے کردار سے قرآنِ کریم کی ایسی خوبصورت تصویر پیش کی جائے کہ دنیا خو د ہی ایسی مکر وہ حرکتیں کرنے والوں پر لعن طعن کرنے لگ جائے.جو اندھے ہیں اُن کو تو قرآنِ کریم کی شان نظر نہیں آتی اور نہ ہی آسکتی ہے ورنہ تو مختلف مذاہب کے بعض منصف مزاج جو ہیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی تعریف میں لکھا ہے.اُن میں ہندؤوں میں سے بھی بعضوں نے لکھا ہے، سکھوں نے بھی لکھا ہے، عیسائیوں نے بھی لکھا ہے اور ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.میں یہاں ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں جو خود بولیں گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان غیروں کی نظر میں کیا مقام ہے ؟ اور قرآن کریم کی تعلیم کس قدر خوبصورت ہے ؟ صرف یہی بد بخت پادری نہیں ہے جو آج کل یہ بول رہا ہے.چند دن ہوئے ایک اخباری کالم لکھنے والے نے بھی امریکہ کے اخبار میں یہ لکھا تھا کہ مسلمان تو بُرے نہیں ہیں.یہ بھی دیکھیں دجال کی چال کس طرح ہے کہ مسلمان تو بُرے نہیں ہیں لیکن قرآنی تعلیم اصل وجہ ہے جو ان کو شدت پسندی اور دہشت گردی سکھاتی ہے.نہ انہوں نے کبھی قرآن پڑھا ہو گا نہ دیکھا ہو گا.صرف دلوں کے بغض اور کینے نکالنے ہیں.بہر حال میں ایک حوالہ ہے جو پیش کرتا ہوں.ایک کتاب ہے History of the Intellectual Development of Europe by John William Draper یہ نیویارک سے چھپی ہے.اس کے 1 Volume کے صفحہ 332 پر اُس نے لکھا ہوا ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر غلط خیال ہے کہ عرب کی ترقی صرف تلوار کے زور پر تھی.تلوار قوم کے مذہب کو تو بدل سکتی ہے لیکن یہ انسان کے خیالات اور ضمیر کی آواز کو نہیں بدل سکتی.(History of the Intellectual Development of Europe by John William Draper V.1 Page: 332)
خطبات مسرور جلد نهم 141 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء پھر آگے چل کے اسی کتاب میں یہ لکھتا ہے.اس کا 344,343 صفحہ ہے.کہتا ہے کہ قرآنِ کریم کو پڑھنے والا ایک منصف مزاج بغیر کسی شک کے اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ کس طرح بات کے مقصد کو احسن رنگ میں ادا کیا گیا ہے.قرآنِ کریم اعلیٰ اخلاق اور تعلیم و احکامات سے بھرا ہوا ہے.اس کی ترکیب و ترتیب ایسی واضح اور ہر لفظ اپنے اندر ایک مطلب سمیٹے ہوئے ہے.ہر صفحہ اپنے اندر ایسے مضامین لئے ہوئے ہے جس کی تعریف کئے بغیر انسان آگے نہیں جاسکتا.(History of the Intellectual Development of Europe by John William Draper V.1 Page: 332,343,344) تو یہ اس مستشرق کا خیال ہے.اور بہت سارے مستشرقین ایسے ہیں جن کو باوجود مذہبی اختلاف کے حق سے کام لینا پڑا ہے.وہ مجبور ہوئے کہ اُن کے دل کی آواز نے اُن کو کہا کہ انصاف سے کام لو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے.لیکن جو بغض اور کینے میں بڑھے ہوئے ہیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا.میں نے جو آیات تلاوت کی ہیں ان میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے کہ قرآن تو سیچ ہے اس میں کوئی شک نہیں.پہلی آیت جو میں نے پڑھی تھی اس کا ترجمہ یہ ہے.اور یقینا ہم نے اس قرآن میں (آیات کو بار بار بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں.بایں ہمہ یہ انہیں نفرت سے دور بھاگنے کے سوا کسی اور چیز میں نہیں بڑھاتا.یہ سورۃ بنی اسرائیل کی بیالیسویں نمبر کی آیت ہے.پس قرآنِ کریم نے تو ان لوگوں کا نقشہ کھینچ دیا ہے.اِن لوگوں کا بھی وہی حال ہے جو کفار کا تھا.قرآنِ کریم کی ہر آیت جہاں اپنی پرانی تاریخ بتاتی ہے وہاں پیشگوئی بھی کرتی ہے.تو ایسے لوگ تو اسلام کی دشمنی میں پیدا ہوتے رہے اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے جو باوجود قرآنِ کریم کی واضح تعلیم کے ہر پہلو کی وضاحت کے اور مختلف زاویوں سے وضاحت کے پھر بھی اس پر اعتراض ہی نکالیں گے.اور نہ صرف اعتراض نکالتے ہیں بلکہ فرمایا کہ قرآنِ کریم کی اس خوبصورت تعلیم کو جو ہم مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں.بجائے اس کے کہ یہ وضاحت جو ہے، مختلف پہلو سے بیان کرنا جو ہے یہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولے وَ مَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا.یہ اُن کو اس خوبصورت تعلیم سے نفرت کرتے ہوئے دُور بھاگنے میں ہی بڑھاتا ہے.یعنی وہ لوگ نفرت کرتے ہوئے اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں.پھر اسی سورۃ میں جو بنی اسرائیل کی ہے، آگے جا کے پھر ایسے لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے.جو میں نے تلاوت کی ہے اُس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم قرآنِ کریم میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسی اور چیز میں نہیں بڑھاتا.پس یہاں مزید وضاحت فرمائی کہ جیسا کسی کی فطرت ہو ویسا ہی اسے نظر آتا ہے.کہتے ہیں یر قان زدہ مریض جو ہے اُس کی آنکھیں زرد ہو جاتی ہیں تو اس کو ہر چیز زرد نظر آتی ہے.جو بد فطرت ہے اُس کو اپنی فطرت کے مطابق ہی نظر آتا ہے.قرآنِ کریم نے جب هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة: 3) کا اعلان فرمایا ہے تو ابتدا میں ہی فرما دیا
142 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے کہ یہ جو ہدایت ہے اور اس قرآن کریم میں جو خوبصورت تعلیم ہے ، جو سب سابقہ تعلیموں سے اعلیٰ ہے، یہ صرف انہی کو نظر آئے گی جن میں کچھ تقویٰ ہو گا.ہدایت اُنہی کو دے گی جن کے دل میں کچھ خوف خدا ہو گا.پس یہ لوگ جتنی چاہے دریدہ دہنی کرتے رہیں ہمیں اس کی فکر نہیں کہ اس ذریعہ سے یہ نعوذ باللہ قرآن کریم کی تعلیم کو نقصان پہنچا سکیں گے.قرآنِ کریم کے اعلیٰ مقام اور اس کی حفاظت کا خد اتعالیٰ خود ذمہ دار ہے بلکہ یہ دوسری آیت جو میں نے پڑھی تھی اس میں تو مومنوں کو خوش خبری ہے کہ قرآنِ کریم تمہارے لئے رحمت کا سامان ہے.اور ہر لمحہ رحمت کا سامان مہیا کرتا چلا جائے گا.تمہاری روحانی بیماریوں کا بھی علاج ہے اور تمہاری جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے، ہر قسم کی تعلیم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے.اور اگر اس سے پہلے کی آیت سے اس کو ملالیں تو حقیقی مومنین کو یہ خوشخبری ہے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل:82) کہ جھوٹ ، فریب، مکاری اور باطل نے بھا گنا ہی ہے ، یہ اُس کی تقدیر ہے.پس یہاں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سروں کی قیمت مقرر کرنے سے یا توڑ پھوڑ کرنے سے یا غلط قسم کے احتجاج کرنے سے قرآنِ کریم کی عزت قائم نہیں ہو گی بلکہ حقیقی مومن اپنے پر قرآنی تعلیم لاگو کر کے ہی قرآنِ کریم کی برتری ثابت کر سکتا ہے اور کرنے والا ہو گا.وہ اس کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کو دکھا کر حق اور باطل میں فرق ظاہر کریں گے.اور جب یہ تعلیم دنیا پر ظاہر ہو گی تو پھر اللہ تعالی کی غالب تقدیر مومنوں کے لئے رحمت اور اُن زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا نظارہ دکھائے گی.قرآنِ کریم کی فتح اور مومنین کی فتح ہو گی.دنیا کو اس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی تعلیم سے اپنی روحانی اور مادی ترقی کے سامان پیدا کرے.اپنے اوپر یہ تعلیم لاگو کرے.پس ہمیں خاص طور پر احمدیوں کو ان لوگوں کے غلیظ اور اوچھے ہتھکنڈوں سے کوئی فکر نہیں ہوتی.ہم تو اس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں جس کو اس زمانہ میں قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں دوبارہ پھیلانے کے لئے بھیجا گیا ہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم سورۃ جمعہ میں فرماتا ہے که: يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ـ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِلٍ مُّبِيْنٍ وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة 2 تا 4) کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے.وہ بادشاہ ہے.قدوس ہے.کامل غلبہ والا ہے.( اور ) صاحب حکمت ہے.وہی ہے جس نے اُقی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا.وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے.انہیں پاک کرتا ہے.انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے.اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی ( اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے.وہ کامل غلبہ والا ( اور ) صاحب حکمت ہے.پس ایک پہلا دور تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور آپ نے اس تعلیم
143 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے ذریعہ سے جو آپ پر اتری، دنیا کی انتہائی بگڑی ہوئی حالت میں ایک انقلاب پیدا کر دیا.وہ لوگ جو جاہل اور ذرا ذراسی بات پر جانوروں کی طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے ، اُن پر خوبصورت آیات تلاوت کیں.انہیں اس خوبصورت تعلیم کے ذریعہ سے پاک کیا.جاہل اور اجڈ لوگوں کو پر معارف اور پر حکمت تعلیم سے مالا مال کر دیا.انہیں اس خوبصورت کتاب سے جو واحد الہی صحیفہ ہے جس نے تاقیامت تمام علوم و حکمت کی باتوں کا احاطہ کیا ہوا ہے، اُس سے روشناس کروایا.جس سے جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے انسان بنے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے یہ لوگ انسان بنے اور پھر انسان سے تعلیم یافتہ انسان بنے اور پھر تعلیم یافتہ انسان سے باخدا انسان بنے.اس دور میں اب پھر ہم پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو بھیجا ہے تاکہ آیات پڑھ کر سنائے.الہی نشانات سے ہماری روحانیت میں اضافہ کرے، ہمارے ایمان اور یقین میں اضافہ کرے، ہماری زندگیوں کو صحیح رہنمائی کرتے ہوئے پاک کرے، ہمیں اس الہی کتاب کی حقیقت اور اس کے اسرار سے آگاہ کرے، ہمیں بتائے کہ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل: 83) کہ یہ شفاء اور رحمت ہے مومنین کے لئے.یہ عظیم کتاب ہمارے لئے شفا کس طرح ہے ؟ اس آخری شریعت کی تعلیم میں جو پر حکمت موتی پوشیدہ ہیں اس سے ہمیں آگاہی دے.پس یہ احسان ہے جو مؤمنوں پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور جو صرف اور صرف آج اُس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور اُن پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے والے، اُس پر چلنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں.اس زمانے میں قرآن کریم کی عظمت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس طرح واضح فرمایا ہے اور توریت کا موازنہ کرتے ہوئے آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ یہ دعویٰ پادریوں کا سراسر غلط ہے کہ قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی“.فرمایا: ”بظاہر ایک نادان توریت کو دیکھ کر دھو کہ میں پڑے گا کہ توریت میں توحید بھی موجود ہے اور احکام عبادت اور حقوق عباد کا بھی ذکر ہے.پھر کونسی نئی چیز ہے جو قرآن کے ذریعہ سے بیان کی گئی.مگر یہ دھو کہ اسی کو لگے گا جس نے کلام الہی میں کبھی تدبر نہیں کیا.واضح ہو کہ الہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توریت میں اس کا نام و نشان نہیں.چنانچہ توریت میں توحید کے باریک مراتب کا کہیں ذکر نہیں.قرآن ہم پر ظاہر فرماتا ہے کہ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہم بتوں اور انسانوں اور حیوانوں اور عناصر اور اجرام فلکی اور شیاطین کی پرستش سے ع باز رہیں بلکہ توحید تین درجہ پر منقسم ہے.درجہ اوّل عوام کے لئے، یعنی ان کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں.دوسرا درجہ خواص کے لئے ، یعنی ان کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ تر قرب الہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں.اور تیسرا درجہ خواص الخواص کیلئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں“.فرمایا: ” اول مرتبہ توحید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر ایک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر ہے خواہ آسمان پر ہے اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے“ (بچا جائے).
خطبات مسرور جلد نهم 144 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء دوسر امر تبہ توحید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تمام کاروبار میں مؤثر حقیقی خدا تعالیٰ کو سمجھا جائے“ یعنی نتیجہ پیدا کرنے والا ، اثر ڈالنے والا حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے) اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں.مثلاً یہ کہنا کہ زید نہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہو تا تو میں تباہ ہو جاتا.اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے“.فرمایا: ”تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا.یہ توحید توریت میں کہاں ہے ؟ ایسا ہی توریت میں بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا.اور شاید کہیں کہیں اشارات ہوں.ایسا ہی توریت میں خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں.اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیسا کہ قرآن شریف میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ (الاخلاص :2 تا 5) ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رک جاتے.ایسا ہی توریت نے حقوق کے مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا.لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی کمال تک پہنچایا ہے.مثلاً وہ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ ايْتَائِي ذِي الْقُرْبَى (النحل: 91) یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے.یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے“.فرمایا: ”ایسا ہی توریت میں خدا کی ہستی اور اس کی واحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے نہیں دکھلایا.لیکن قرآن شریف نے ان تمام عقائد اور نیز ضرورت الہام اور نبوت کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے اور ہر ایک بحث کو فلسفہ کے رنگ میں بیان کر کے حق کے طالبوں پر اس کا سمجھنا آسان کر دیا ہے اور یہ تمام دلائل ایسے کمال سے قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں کہ کسی کی مقدور میں نہیں کہ مثلاً ہستی باری پر کوئی ایسی دلیل پیدا کر سکے کہ جو قرآن شریف میں موجود نہ ہو“.فرمایا: "ماسوا اس کے قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں.اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتی ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں.مگر قرآن شریف کا مد نظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے“.66 (کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد 13 صفحہ 83 تا85) پس یہ ایک جھلک ہے اُس خزانے کی جو زمانے کے امام نے ہمیں قرآن کریم کی برتری کے بارہ میں بتائی ہے.ہم احمدی خوش قسمت ہیں، اور ہم خوش قسمت تبھی کہلا سکتے ہیں جب ہم اپنی زندگیوں کو قرآنِ کریم کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، دنیا کو دکھائیں کہ دیکھو یہ وہ روشن تعلیم ہے جس پر تمہیں اعتراض ہے.تبھی ہم آخرین کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کر سکیں گے.
خطبات مسرور جلد نهم 145 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء میں نے ایک خطبہ میں جرمنی کی مثال دی تھی کہ وہاں جماعت نے مختلف جگہوں پر قرآنِ کریم کی نمائش لگائی ہے اور بعض جگہ چرچ کے ہال بھی نمائش کے لئے استعمال کئے گئے جس کا بڑا اچھا اثر ہوا، میڈیا نے بھی اس کو دیا.تو اُس وقت یہ بتانے کا میرا یہ مطلب تھا کہ دوسرے ممالک کی جماعتیں بھی اس طرح کی نمائشیں لگائیں لیکن اس پر اس طرح کام نہیں ہوا.امریکہ میں ہی اگر صحیح طور پر پروگرام بنا کر نمائش لگائی جاتی تو میڈیا جس کی توجہ آج کل اسلام کی طرف ہے اگر ایک طرف اس ظالم کی باتیں بیان کرتا ہے تو ہماری بھی بیان کرتا.گو امریکہ کی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے امن کا پیغام پہنچانے کے لئے جماعت کا پورا پیغام پہنچانے کے لئے لیف لیٹنگ (Leafletting)اور سیمینارز وغیرہ بڑے وسیع پیمانے پر کئے ہیں اور ایک اچھا کام ہوا ہے اس کو میڈیا میں کافی کوریج ملی ہے لیکن اس طرح کے کام نمائش وغیرہ کے اُس طرح نہیں ہوئے جس طرح ہونے چاہئے تھے.مومن کا کام ہے کہ ہر محاذ پر نظر رکھے.اگر باقاعدہ آر گنائز کر کے امریکہ میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی نمائشوں کا اہتمام ہو، چاہے ہال کرایہ پر لے کر کیا جائے کیونکہ بعض دفعہ جب مساجد میں نمائشیں ہوتی ہیں، اسلام کے بارے میں کیونکہ غلط تاثر اتنا پیدا کر دیا گیا ہے کہ دنیا میں بلاوجہ کا ایک خوف پیدا ہو گیا ہے تو بعض لوگ شامل نہیں ہوتے.تو اگر ہال و غیرہ کرائے پر لئے جائیں، اُس میں نمائش کی جائے قرآنِ کریم کے تراجم رکھے جائیں، اُس کی خوبصورت تعلیم کے پوسٹر اور بینر بنا کے لگائے جائیں، خوبصورت قسم کا وہاں ڈپہلے ہو ، تو یہ لوگوں کی توجہ کھینچے گا، میڈیا کی توجہ بھی اس طرف ہو گی.آج کل اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہوئی ہے، بعض جائز باتیں بھی لکھ دیتے ہیں، جماعت کے بارہ میں جو بھی خبریں آتی ہیں اکثر صحیح بھی لکھ دیتے ہیں، ان کی نیت کیا ہے یہ تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن بہر حال ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.سٹالوں اور عمومی نمائشوں کے ذریعے بیشک ہم حصہ لیتے ہیں لیکن اس کی کوریج میڈیا پر نہیں ہوتی، کیونکہ وہاں اور بڑے بڑے سٹال لگائے ہوتے ہیں ، لوگ آئے ہوتے ہیں، مختلف قسم کی توجہات ہوتی ہیں، ترجیحات ہوتی ہیں، تو خاص طور پر اگر ہم علیحدہ نمائش کریں گے ، تو اس کا بہر حال زیادہ اثر ہو گا.ایک اہتمام سے علیحدہ انتظام ہو تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ قرآنِ کریم کیا ہے ؟ اور اس کی تعلیم کیا ہے؟ جہاد یا قتال کے خلاف دشمن بہت کچھ کہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کن حالات میں اس کی اجازت ہے.اللہ تعالیٰ نے جہاں تلوار اٹھانے کی اجازت دی ہے وہاں ساتھ ہی عیسائیوں اور یہودیوں اور دوسرے مذہب والوں کی حفاظت کی بھی تو بات کی ہے.صرف مسلمانوں کی حفاظت کی بات نہیں کی.پس یہ دجالی چالیں ہیں جو اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے بعض حلقوں سے وقتاً فوقتاً چلائی جاتی ہیں.ہمیں ان کے مکمل توڑ کی ضرورت ہے اور مکمل توڑ کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے.جماعت احمد یہ ہی ہے جو اس کا حقیقی حق ادا کر سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس جو میں نے پڑھا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ کیا اہمیت ہے
خطبات مسرور جلد نهم 146 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء اس قرآن کریم کی تعلیم کی ، اور کس طرح آپ نے موازنہ پیش کیا ہے.پھر اسلام نے جتنا انصاف پر زور دیا ہے کسی اور کتاب نے نہیں دیا.مثلاً ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنة: 9) اور اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کر تا یعنی اس بات سے ، لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم اُن سے نیکی کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.جو تم سے ڈرتے نہیں، تمہیں نقصان نہیں پہنچا ر ہے ، اُن سے قطع تعلق کرنے سے یا ان سے نیکی کرنے سے ، یا اُن کو انصاف مہیا کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں منع نہیں کرتا.پھر فرمایا: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدة : 9) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو.یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے.اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.پھر فرماتا ہے : وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتْلَى وَ الْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (النساء: 37) اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی، اور یتیموں سے بھی، اور مسکین لوگوں سے بھی، اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی، اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی، اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی، اور مسافروں سے بھی، اور اُن سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یقینا اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھار نے والا ہے.اب ان آیات میں پہلے وہ کفار جو دشمنی نہیں کرتے اُن سے نیکی اور انصاف کا حکم ہے.پھر سورۃ مائدہ کی آیت ہے اس میں فرمایا دشمنوں سے بھی عدل اور انصاف کرو کہ دشمنی کی بھی کچھ حدود اور قیود ہوتی ہیں.دشمن اگر کمینی اور ذلیل حرکتیں کر رہا ہے تو تم انصاف سے ہٹ کر غیر ضروری دشمنیاں نہ کرو.جرم سے بڑھ کر سزا نہ دو.جیسے گندے اخلاق وہ دکھا رہا ہے تم بھی ویسے نہ دکھانے لگ جاؤ.پھر تیسری آیت جو سورۃ نساء کی آیت ہے اس میں والدین سے لے کر ہر انسان سے احسان کے سلوک کا ارشاد فرمایا ہے.یعنی گل انسانیت سے حسن سلوک کرو اور احسان کرو تا کہ دنیا میں امن قائم ہو.تو امن کے قیام کے لئے، ایک پُر امن معاشرے کے لئے یہ اعلیٰ تعلیم ہے جو قرآنِ کریم نے ہمیں دی ہے اور یہی آج امن کی
خطبات مسرور جلد نهم 147 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء ضمانت ہے.نہ کہ وہ عمل جو ظالم امریکی پادری نے قرآن کریم کی توہین کر کے کیا ہے.ایسے لوگ یقینا خد اتعالیٰ کے عذاب کو آواز دینے والے ہیں.پس ہمارا کام یہ ہے کہ جب بھی ہم اسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر دشمنوں کے غلیظ حملوں کو دیکھیں تو سب سے پہلے اپنے عملوں کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، پھر معاشرے میں اس خوبصورت تعلیم کا پرچار کریں اور اس کے لئے جو ذرائع بھی میسر ہیں انہیں استعمال کیا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت میں سلسلے کے ایک عالم اور بزرگ کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو حافظ قرآن بھی تھے جن کو قرآن سے خاص تعلق تھا.دنیاوی تعلیم بھی پی ایچ ڈی تھی اور اسٹرانومی میں انہوں نے بڑا نام پیدا کیا ہے لیکن سائنس کو ہمیشہ قرآن کے تابع رکھا ہے.گزشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی، اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کا نام حافظ صالح محمد الہ دین صاحب تھا.گذشتہ تقریباً چار سال سے یہ قادیان کی انجمن احمدیہ کے صدر تھے اور صدر صدر انجمن احمدیہ کے علاوہ اس سے پہلے یہ کافی عرصہ ممبر انجمن احمد یہ بھی رہے ہیں.عثمانیہ یونیورسٹی سے انہوں نے فزکس میں ایم ایس سی کی تھی.پھر بعد میں انہوں نے امریکہ سے اسٹرانومی ، ایسٹروفزکس میں پی ایچ ڈی کی.1963ء میں Observatory University of Chicago USA سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی.اور بڑی خصوصیات کے حامل تھے، علمی لحاظ سے ان کے قریباً پچاس مضامین اور ریسرچ پیپر بین الا قوامی رسالوں میں شائع ہوئے ہیں اور جن پر کئی ایوارڈز بھی ان کو ملے ہیں.چنانچہ ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگناد سہا Megnanad) (Saha ایوارڈ فار ٹھیوریٹیکل سائنس 1981ء میں آپ کو دیا گیا ہے.جب میں ان کی تاریخ دیکھ رہا تھا اس کے علاوہ بے تحاشا ایوارڈ ان کو ملے ہیں.لیکن عاجزی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی.Lunar and Solar Eclipses اور Dynamic of galaxies آپ کے پسندیدہ مضمون تھے جن میں قرآن اور احادیث میں سورج چاند گرہن بطور صداقت حضرت مسیح موعود اور امام مہدی بیان ہوا ہے.چنانچہ اس کے بارہ میں آپ مختلف جلسوں پر تقریریں بھی کرتے رہے.یو کے میں بھی تقریر کی تھی.قادیان میں بھی کرتے تھے.1994-95ء میں اس نشان پر صد سالہ پروگرام کے تحت کئی جماعتی رسائل میں آپ کے مضامین بھی شائع ہوئے.2009ء میں بھی "ہستی باری تعالیٰ فلکیات کی روشنی میں “ آپ نے تقریر کی ، بڑی پر مغز، بڑی علمی تقریر تھی.اور اپنے سائنسی مضامین کا ہمیشہ قرآنی آیات سے استدلال کیا کرتے تھے.جو بھی اپنے سائنسی مضامین تھے اُن کا ہمیشہ قرآنی آیات سے استدلال کرتے تھے اور اس میں ان کو بڑا ملکہ تھا.اور اس طرف ان کا طبعی میلان بھی تھا.مختلف یونیورسٹیز کے ریسرچ سکالر اور ریسرچ فیلو بھی تھے.یہ لمبی ایک فہرست ہے بتائی نہیں جا سکتی.پھر ,Great minds of the 21st century 2003 American biographical institute Raleigh U.S.A نے ان کو 2003ء میں ایوارڈ بھی
خطبات مسرور جلد نهم 148 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء 99 66 دیا.دین میں بھی آپ کی تاریخی خدمات کافی ہیں.آپ نے ”امام مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان چاند اور سورج گرہن “ تحریر فرمائی.”صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ازروئے نشان سورج چاند گہ د گرہن “، ” نشانات سورج گرہن اور چاند گرہن“، ”ہمارا خدا ، The dynamics of colliding Galaxies, The dynamics of stallers system, The Goal of the Man and the way to reach it, ,Views of scientists on the existing of God اس قسم کی کتابیں بھی آپ نے لکھیں.مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمات کرتے رہے، سالہا سال تک صوبائی امیر بھی رہے، سیکر ٹری بھی رہے، صدر جماعت بھی رہے ، ممبر صدر انجمن احمد یہ بھی رہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے ریٹائر منٹ کے بعد کچھ عرصہ پہلے قادیان آ گئے تھے.پھر صدر صدر انجمن احمد یہ بھی ان کو میں نے مقرر کیا تھا.تعلق باللہ بھی اللہ تعالیٰ سے ان کا بڑا تھا.ان کی اہلیہ نے ایک دفعہ بتایا، پاکستان آئے تو کراچی ائیر پورٹ پر کسٹم والوں نے الیکٹرونک کی بعض جو چیزیں تھیں وہ روک لیں، بڑی پریشانی کا سامنا تھا.جائز تھیں، ناجائز کام تو یہ کر ہی نہ سکتے تھے ، لیکن ہمارے ہاں جو سفر کرنے والے ہیں ان کو پتہ ہے کسٹم والوں کا کہ کس طرح روک لیا کرتے ہیں.تو بہر حال ان کی اہلیہ کہتی ہیں تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا تو صالح الہ دین صاحب غائب تھے.میں پریشان ہوئی کہ کہاں چلے گئے ہیں، کچھ دیر بعد واپس آئے تو میں نے پوچھا کہ اس پریشانی کے وقت میں کہاں گئے تھے ، تو کہنے لگے میں نے سوچا کہ اس صورتِ حال میں خدا ہی ہے جو مدد کر سکتا ہے، چنانچہ میں ایک طرف دور کعت نفل ادا کرنے چلا گیا ہے.اب نماز پڑھ آیا ہوں چلو اب چلیں اور اب ہمیں چیزیں مل جائیں گی.چنانچہ بڑے اعتماد سے کسٹم والوں کے پاس گئے.اس عرصہ میں کسٹم کا عملہ تبدیل ہو چکا تھا انہوں نے معذرت بھی کی اور ان کی چیزیں بھی ان کو دے دیں.تو ایسی صورت حال میں کوئی اور ہو تا تو سفارشوں کے پیچھے جاتا یا پریشان ہوتا ہے.یہ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے.ڈاکٹر نصرت جہاں ان کی اہلیہ کی بہن ہیں ، یہ مولوی عبد المالک خان صاحب کے داماد بھی تھے.وہ کہتی ہیں جب میں قادیان گئی تو میں نے دیکھا کہ اپنی بیماری کی وجہ سے مسجد نہیں جاسکتے تھے ، اس کا بہت اُن کو دُکھ تھا.اس کا اظہار کرتے تھے کہ میں مسجد نہیں جا سکتا اور تم لوگ وہاں جا کر نمازیں پڑھتے ہو.یہ کہتی ہیں مجھے انہوں نے بتایا اور مجھے اس بارے میں اور روایتیں بھی ملی ہیں ، دوسروں سے بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ چھبیس سال کی عمر کا ہوں گا کہ ایک دن حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی خدمت میں حاضر ہوا.میں اندر داخل ہوا ہی تھا تو آپ فرمانے لگے کہ ابھی یا آج ہی میں نے خواب میں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے وہ تشریف لائے ہیں تو ( عرفانی صاحب نے کہا) نے کہا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی کرسی پر بیٹھے ہیں.خلیفتہ المسیح الاول تشریف لائے وہ بیٹھے تھے کہ پھر انہوں نے ان کو کرسی پر بٹھا دیا.تو یہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ کہاں میں اور کہاں حضرت خلیفتہ المسیح الاول.یوں بات آئی گئی ہو گی.کہتے ہیں کہ جب وہ قادیان میں آئے تو اُس وقت کچھ عرصے کے بعد صاحبزادہ مرزاو سیم احمد صاحب کی وفات کے بعد
149 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ان کو میں نے صدر صدر انجمن احمد یہ بنایا تو کہتے ہیں اس وقت میں نے تاریخ احمدیت پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ صدر انجمن احمدیہ کے پہلے صدر حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل تھے اور عرفانی صاحب کی خواب اس طرح ایک لمبے عرصے کے بعد پوری ہوئی.قرآنِ شریف سے ان کو بڑا تعلق تھا، اور قرآنِ شریف خود بڑی ہمت کر کے انہوں نے حفظ کیا ہے، سکول کے ایک امتحان کی تیاری تھی کہتے ہیں کہ صبح پر چہ تھا تو میری والدہ نے کہا کہ بیٹے پرچے کی تیاری کر لو.لیکن میں قرآنِ کریم کو پڑھ رہا تھا اور وہی یاد کرتا رہا.انہوں نے خود ہی گھر پہ قرآنِ کریم حفظ کیا.قرآنِ کریم لے کر اپنے گھر میں نیچے basement میں چلے جاتے تھے اور وہاں یاد کرتے رہتے تھے.پھر ان کی والدہ نے جب ان کا شوق دیکھا تو پھر ان کے لئے، قرآن حفظ کرانے کے لئے ایک معلم رکھا گیا.خلافت کی کامل اطاعت تھی اور بڑی جانثاری کا جذبہ تھا.درویشان قادیان سے بہت عقیدت رکھتے تھے.جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا ہے ہر مشکل میں نفل اور دعا میں لگ جاتے تھے.بے نفس، بے ضرر، تہجد گزار قرآنِ کریم کی آیات زیر لب تلاوت کرتے رہتے.مسجد اقصیٰ میں جلسہ سالانہ کے ایام میں تہجد کی امامت بھی کرواتے تھے.ہمیشہ دینی مجالس میں بیٹھنا پسند کیا.دنیا سے کوئی سروکار نہیں تھا.ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا پرانی بات ہے کہ ایک دفعہ اپنے کسی عزیز رشتہ دار کی شادی میں شامل ہونے کے لئے گئے تو جب نکاح کا اعلان ہونے لگا تو ان کے دنیاوی مقام کی وجہ سے بھی اور خاندانی بزرگی کی وجہ سے بھی ان کو انہوں نے کہہ دیا کہ نکاح آپ پڑھائیں.اس پر بڑے سخت ناراض ہوئے کہ تم لوگ مربیوں کا احترام نہیں کرتے، واقفین زندگی کا احترام نہیں کرتے ؟ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مربی یہاں موجود ہے اور میں نکاح پڑھاؤں آئندہ اگر ایسی بات کی تو میں تمہاری شادی میں شامل نہیں ہوں گا.ہمارے ایک مربی ہیں انہوں نے لکھا کہ 2008ء کو جب جوبلی کے جلسے پر عہدِ خلافت لیا، تو اس کے بعد سے ان کی حالت ہی اور ہو گئی تھی، ہر وقت تبلیغ کے لئے کوشاں رہتے.اپنے نئے اور پرانے جاننے والوں سے بھی دوباره contact کئے ، اور اپنا ای میل ایڈریس بنوایا اور پھر اُن سے رابطہ کرنا شروع کیا.پھر قادیان آنے کی انہیں دعوت بھی دیتے رہے جو اُن کے سائنسدان تھے.ضعیفی کی حالت میں بھی کمزوری کے باوجود دہلی میں سائنسدانوں کی میٹنگ میں بھی صرف اس غرض سے تشریف لے گئے تھے کہ اُن سے رابطے ہوں گے اور ان کو جماعت کا لٹریچر دیا، اور کئی پروفیسر صاحبان سے گھر ملنے گئے اور اُن کو قادیان آنے کی دعوت دی.2008ء میں جب یو این او کی جانب سے انٹر نیشنل ایئر آف اسٹرانومی منایا گیا تو بنگلور گئے اور وہاں اُن لوگوں کے سامنے قرآنِ مجید اور سائنس کے موضوع پر ضعیفی کے باوجود بڑی لمبی اور نہایت عالمانہ تقریر کی.اور اس کے بعد پھر کئی پر و فیسر صاحبان سے رابطے کئے.سورج گرہن پر ایک مرتبہ تحقیق کر کے چھوڑ نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیشہ مزید سے مزید تحقیق میں لگے رہتے تھے.یہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ان کو اتنا کمپیوٹر چلانا نہیں آتا تھا میرے سے مدد لیا کرتے تھے ، اور انجمن کے
150 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کاموں کے بعد جب وقت میسر ہو تا تو خود اس کارکن کے پاس جو مربی صاحب تھے آ جاتے ، اور پھر نئے نئے ٹاپکس (Topics) پر تحقیق کرتے.کہتے تھے کہ ہمیں نوجوانوں کی ایک ٹیم بنانی چاہئے جو ہر ماہ شہر سے باہر کھلے دیہات میں جا کر نیا چاند تلاش کرے اور ایک ڈیٹا بیس (Database) بنائے جس میں ہر ماہ کا چاند کب دیکھا گیا اس کو نوٹ کرے کیونکہ یہ چیز سائنس ہمیں نہیں بتا سکتی کہ چاند آنکھوں سے کب نظر آئے گا.اور اس ریکارڈ کو اگر ہم محفوظ رکھیں تو کئی اعتراضات کے جوابات نکلیں گے.اُن کی اپنی ایک سوچ تھی جس پر وہ غور کیا کرتے تھے.کہتے تھے کہ آنکھوں سے چاند کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے.مسلمانوں نے جس قدر حساب میں ترقی کی اس کی وجہ چاند کا مشاہدہ ہی تھا.قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے چاند کی گردش کے متعلق فرمایا ہے کہ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَ الْحِسَابَ (یونس:6).تو کہتے چاند کو ضرور آنکھوں سے دیکھنا چاہئے.راتوں کو اکثر ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور کہتے که فرانس کا ایک بڑا سا ئنس دان تھاوہ بھی یہی کہتا تھا کہ ستاروں سے صرف وہی روشنی نہیں آتی جو ہماری آنکھوں کو منور کرتی ہے بلکہ ان سے ایک ایسی روشنی بھی آتی ہے جو ہمارے دماغوں کو منور کرتی ہے.چنانچہ قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق ہمیشہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرنے والے تھے ، اولو الالباب میں سے تھے.آپ کے دادا احمد کی ہوئے تھے اور ان کا بھی احمد کی ہونے کا واقعہ عجیب ہے، کہتے ہیں کہ میں کاروباری آدمی تھاد نیا دار آدمی تھا، دین سے کوئی رغبت نہیں تھی.ایک دن ریویو آف ریلیجنز رسالہ میرے پاس آیا اور اس پر ساتھ یہ بھی تھا کہ اس کے لئے اشتہار دیں، تو اس پر میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا اشتہار بھی دیکھا.وہ کتاب میں نے منگوا کر پڑھی اور پھر یوں ہوا جیسے سارے اندھیرے چھٹ گئے.اس کے بعد ان کے دادا بھی کہتے ہیں کہ میرے پر ایسا انقلاب آیا ہے کہ میں روزے بھی رکھنے لگ گیا، نفلی روزے بھی رکھنے لگ گیا، نمازوں اور تہجد کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گئی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خواب دیکھی تھی اور اس پر انہوں نے اُس کی تعبیر یہ کی تھی، کیونکہ ان سیٹھ صاحب کا ان کے دادا کا تعلق حضرت مفتی صادق صاحب اور یعقوب علی صاحب عرفانی اور حافظ روشن علی صاحب کے ساتھ تھا، انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے پاس ان کا ذکر کیا ، تو اس لحاظ سے تعارف تھا.تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ میں نے ایک خواب دیکھی ہے کہ یہ احمدیت قبول کریں گے اور عظیم الشان روحانی فیض اور خدمت کی توفیق پائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بیعت کر لی.حضرت مصلح موعود نے ان کے دادا کا بھی ذکر فرمایا ہے.یہ پرانا خاندان ہے اس کا بھی ذکر کر دیتا ہوں کہ ”متواتر سلسلہ کی خدمت میں اُن کا نمبر غالباً سب سے بڑھا ہوا ہے ، ان کی مالی حالت میں جانتا ہوں ایسی اعلیٰ نہیں جیسی کہ بعض لوگ اُن کی امداد کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں.لیکن ان کو خدا تعالیٰ نے نہایت پاکیزہ دل دیا ہے.اور مجھے ان کی ذات پر خصوصاً اس لئے فخر ہے کہ ان کے سلسلہ میں داخل ہونے کے وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن کے اخلاص کے متعلق پہلے سے اطلاع دی تھی حالانکہ میں نے اُن کو دیکھا بھی نہ تھا.میں دیکھتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے درد میں
151 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اس قدر گداز ہیں کہ مجھے اُن کی قربانی کو دیکھ کر رشک آتا ہے اور میں انہیں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھتا ہوں.کاش کہ ہماری جماعت کے دوسرے دوست اور خصوصاً تاجر پیشہ اصحاب اُن کے نمونے پر چلیں اور اُن کے رنگ میں اخلاص دکھائیں“.(الفضل 29 جنوری 1926ء جلد 13 شمارہ 81 صفحہ 2 کالم 1،2) یہ حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ ہیں.مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری کہتے ہیں کہ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اس زمانے میں ان کی مالی قربانی کتنی ہوتی ہے پیسے تو اب رواج ہے ناں کہ ایک روپے میں سو پیسے.اُس زمانے میں آنے ہوتے تھے اور سولہ آنے کا ایک روپیہ.تو کہتے ہیں کہ میں نے حساب لگایا تو دیکھا کہ چودہ آنے یہ خدمت دین پر خرچ کرتے ہیں اور صرف دو آنے اپنی ضروریات کے لئے رکھتے تھے باوجود اس کے کہ بڑے کاروباری تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے دادا کے بارے میں ایک دفعہ فرمایا کہ ” تبلیغ احمدیت کے متعلق اُن کا جوش ایسا ہے جیسے مسیح موعود علیہ والسلام کے پرانے صحابہ مولوی برہان الدین صاحب وغیرہ میں تھا.اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا جوش اس طرح ہے جیسے سیٹھ عبد الرحمن صاحب میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے سیٹھ عبد الرحمن اللہ رکھا کی شکل میں اپنے فرشتے بھجوائے تھے میرے پاس...آپ کی شکل میں فرشتے بھجوائے ہیں“.(تابعین اصحاب احمد.جلد نہم.صفحہ 348-349) پاس تو یہ ہے مختصر ان کا تعارف اور خاندانی تعارف بھی.ان کی سادگی اور بالکل عاجزی کا ایک واقعہ ان کے بیٹے نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ یہ دہلی کے سٹیشن پر کھڑے تھے اور سرخ قمیض پہنی ہوئی تھی، اور جو قلی، مزدور سامان اٹھانے والے ہوتے ہیں ، ان کی بھی سرخ قمیصیں ہوتی ہیں.تو ایک فیملی آئی، انہوں نے سمجھا یہ قتلی ہے، انہوں نے کہا یہ ہمارا سامان اٹھاؤ اور وہاں پہنچا دو.انہوں نے بغیر کچھ کہے اُن کا سامان اٹھایا اور لے گئے.یہ میں حافظ صالح الہ دین صاحب کی سادگی کی بات کر رہا ہوں جن کی ابھی وفات ہوئی ہے، تو یہ وہاں لے گئے سامان اتار کے جب اُس شخص نے مزدوری دینی چاہی تو کہنے لگے کہ آپ نے سامان پہنچانے کا کہا تھا میں نے آپ کی مدد کر دی ہے اس کی کوئی اجرت نہیں ہے.وہ صاحب اس بات پر بڑے شر مندہ ہوئے.یعنی کہ بالکل انتہائی عاجزی تھی.یہاں بھی جلسہ پر پہلی دفعہ 2003ء میں جب آئے ہیں، یا پہلی دفعہ نہیں تو بہر حال 2003ء میں آئے تھے اور کچھ اُن کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی، ائیر پورٹ پر کچھ ٹرانسپورٹ کا انتظام صحیح نہیں تھا، بڑی دیر انتظار کرنا پڑا، پھر رہائش کا انتظام بھی ایسا نہیں تھا لیکن بغیر کسی شکوے کے انہوں نے جماعتی نظام کے تحت وہ دن گزارے.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے، ان کے بچوں کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے.اُن کا حافظ و ناصر ہو.ان کی اہلیہ ان سے پہلے ہی وفات پاچکی ہیں.ان کا جنازہ ابھی میں نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا.دوسرا جنازہ ہے کرنل محمد سعید صاحب ریٹائر ڈ کا ہے، یہ آج کل کینیڈا میں ہوتے تھے، پاکستان جارہے
خطبات مسرور جلد نهم 152 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مارچ 2011ء تھے جہاز میں فلائٹ کے دوران ہی ان کی وفات ہو گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یہ کینیڈا میں وینکور اور کیلگری میں بطور آنریری مربی سلسلہ تعینات رہے تھے.اس کے علاوہ کینیڈا میں بطور جنرل سیکرٹری، صدر قضا بورڈ کینیڈا، سیکر ٹری وصایا وغیرہ خدمات بجالاتے رہے.احمد یہ گزٹ اور وقف نو کے کو آرڈی نیٹر کے طور پر بھی کام کیا.کیوبک (Cubic) میں قرآنِ مجید کے فریج اور گور مکھی ترجمے کی جو ترویج ہے اس میں پیش پیش رہے.بیوت الحمد ربوہ کی تحریک کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جب اعلان کیا تو انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ ایک لاکھ روپیہ اپنی فیملی کی طرف سے ادا کریں گے.تو وہاں اس میں وہ ادا نہیں کر سکے.اس کے بعد کینیڈا چلے گئے وہاں مسجد بیت السلام کی تعمیر کے وقت آپ نے اپنی فیملی کی طرف سے ایک لاکھ ڈالر کی رقم اس مسجد کے لئے ادا کی.قرآن مجید کی دو زبانوں میں اشاعت کے لئے بھی کافی بڑی رقم کی ادائیگی کی ان کو توفیق ملی.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کا حافظ و ناصر ہو.جیسا کہ میں نے کہا ان دونوں بزرگوں کی نماز جنازہ ابھی ادا کروں گا.(الفضل انٹر نیشنل 15 اپریل تا 21 اپریل 2011 ء جلد 18 شمارہ 15 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 153 13 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء بمطابق یکم شہادت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: چند جمعہ پہلے فروری کے آخری جمعہ میں میں نے خطبہ میں عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے احمدی کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں ، طاقت نہیں ہے، مسلمان ملکوں کے بادشاہوں تک کھل کر براہِر است آواز نہیں پہنچا سکتے کہ انہیں سمجھائیں کہ تم اپنے بادشاہ ہونے یا حکمران ہونے کا صحیح حق ادا کر و.چند جگہوں پر ہو سکتا ہے کسی ذریعہ سے آواز پہنچ جائے لیکن واضح پیغام پہنچ سکے کہ نہ ، یہ علم نہیں.بہر حال یہ میں نے اس لئے کہا تھا کہ احمدی جو دعا پر یقین رکھتے ہیں انہیں دعا کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان حکمرانوں کو عقل دے اور یہ اسلامی ممالک ہر قسم کی شکست وریخت سے بچ جائیں.اسی طرح عوام کو بھی پیغام تھا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور اپنے ملکوں کو شدت پسندوں کی یا غیروں کی جھولی میں نہ گرائیں.بہر حال میں اس خطبہ میں اِن ملکوں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی دوبارہ پیغام دیتا ہوں، پہلے بھی پیغام دیا تھا کہ دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور جس حد تک دونوں طرف کو یہ عقل دلا سکتے ہیں دلائیں کہ شدت پسندی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور جو سب سے بڑا ہتھیار ہے وہ دعا ہے.احمدیوں کی اکثریت نے اس پیغام کو سمجھ لیا تھا اور اللہ کے فضل سے احمدی تو عموماً اس توڑ پھوڑ میں حصہ نہیں لیتے.اس لئے انہوں نے عموماًنہ فساد میں حصہ لیا،نہ جنگ و جدل میں حصہ لیا.لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کے ذہنوں میں سوال اٹھتے ہیں کہ ہم جابر اور ظالم حکمر ان کے خلاف یا اس کی غلط پالیسیوں کے خلاف کس حد تک صبر دکھا ئیں ؟ کیا رد عمل ہمارا ہونا چاہئے ؟ یا بعض افریقن ممالک میں انتقالِ اقتدار میں روکیں ڈالنے والوں کے خلاف کیا رد عمل ہونا چاہئے ؟ مثلاً جس طرح آئیوری کوسٹ میں ہو رہا ہے کہ اقتدار منتقل نہیں ہو رہا.اور کس حد تک احمدیوں کو باقی عوام کے ساتھ مل کر اس شدت پسندی میں شامل ہونا چاہئے جس کا رد عمل عوام دکھا رہے ہیں.یا حکومت کے خلاف جلوسوں میں شامل ہونا چاہئے.کیونکہ بعض پڑھے لکھے ہوئے بھی میرے پیغام کی روح کو نہیں سمجھے تھے اور سوال کرتے رہتے ہیں.وہ بعض دفعہ دوٹوک
154 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جواب چاہتے ہیں کہ ہم پر یہ واضح کریں کہ ہم سختی سے اپنے حق کو حاصل کرنے کی مہم میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟ اور کس حد تک ظلموں کو برداشت کریں.اس سلسلے میں میں نے جو عرب ممالک ہیں یا افریقن عربی بولنے والے جو ممالک ہیں اور جنہیں ہمارا عربک ڈیسک ڈیل کرتا ہے ، اُن کے بارہ میں عربک ڈیسک کے ساتھ اور ہانی طاہر صاحب کے ساتھ میٹنگ کی تھی.انہیں بڑا واضح طور پر، بڑا تفصیلی طور پر سمجھایا تھا کہ ان حالات میں ایک احمدی کا رد عمل اور کردار کیا ہونا چاہیئے ؟ دونوں طرف کے اچھے اور بُرے پہلو کیا ہوں گے ؟ اس طرف ہمیں نظر رکھنی چاہئے.اور پھر یہی میں نے کہا تھا کہ یہ باتیں قلمبند کر کے جو بھی متعلقہ ملک ہیں یا ہمارے وہ لوگ جن کا ان سے رابطہ رہتا ہے ان تک یہ پہنچائیں تا کہ احمدی کو حقیقی صورت حال کی سمجھ آجائے.لیکن بعض خطوط اور سوالات سے مجھے لگتا ہے کہ بعض لوگوں کو جماعت احمدیہ کے نقطہ نظر جس کی بنیاد قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات پر ہے اُس کی واضح طور پر سمجھ نہیں آئی.اسے واضح کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے میں نے اس بارہ میں کچھ مواد جمع کروایا ہے، کچھ باتیں اکٹھی کی ہیں جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر قسم کے ابہام دور ہو جائیں.سب سے بنیادی چیز قرآنِ کریم ہے.اس میں بھی ہمیں دیکھنا ہے کہ قرآنِ کریم حکمرانوں کے ساتھ تعاون اور اطاعت کے بارے میں کیا حکم دیتا ہے.پھر یہ کہ عمومی فسادات میں ایک مسلمان کا رد عمل کیا ہونا چاہئے.کس حد تک اُس کو اپنا حق لینے کے لئے حکومت کے خلاف مہم میں حصہ لینا چاہئے.پھر احادیث کیا کہتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ارشاد فرمایا.بہر حال اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وینھی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْي (النحل: 91) یہ حصہ آیت جو ہے ہم ہر جمعہ کو عربی خطبہ میں پڑھتے ہیں.اور اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر قسم کی بے حیائی، نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے تمہیں اللہ تعالیٰ روکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ”بغی“ کے لفظ کی وضاحت کی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ”بغی اُس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کر دے“.فرمایا ”حق واجب میں کمی رکھنے کو بغی کہتے ہیں اور یا حق واجب سے افزونی ( زیادتی) کرنا بھی بغی ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 354) تو یہ ہے قرآن کریم کے احکامات کی خوبصورت تعلیم کہ ہر پہلو اور ہر طبقے کے لئے حکم رکھتا ہے.اس حکم میں یہ خیال نہیں آسکتا کہ ایک طبقے کو حکم ہے اور دوسرے طبقے کو نہیں ہے.اس آیت کی مکمل تفسیر تو اس وقت بیان نہیں کر رہا، صرف بغاوت کے لفظ کی ہی وضاحت کرتا ہوں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، حق واجب میں کمی کرنے اور حق واجب میں زیادتی کرنے دونوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے.یعنی جب حاکم اور محکوم کو حکم دیا جاتا ہے تو دونوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا جاتا ہے.نہ حاکم اپنے فرائض اور اختیارات میں کمی یازیادتی کریں، نہ عوام اپنے فرائض میں کمی یا زیادتی کریں.اور جو بھی یہ کرے گا اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے
155 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم والا ہو گا اور خد اتعالیٰ کی حدود کو توڑنے والا پھر خدا تعالیٰ کی گرفت میں بھی آسکتا ہے.اللہ تعالیٰ کو نہایت نا پسند ہے.پس آج کل چونکہ عوام حکومتوں کے خلاف سختی سے قدم اٹھانے کا جوش رکھتے ہیں اس لئے عوام کی حد تک آج بات کروں گا.اس بارے میں کئی احادیث ہیں جو حکمرانوں کے غلط رویے کے باوجو د عوام الناس کو، مومنین کو صبر کی تلقین کا حکم دیتی ہیں.بخاری کتاب الفتن کا ایک باب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انصار سے یوں فرمانا کہ تم میرے بعد ایسے ایسے کام دیکھو گے جو تم کو بُرے لگیں گے.اور عبد اللہ بن زید بن عامر نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے یہ بھی فرمایا: تم ان کاموں پر حوض کوثر پر مجھ سے ملنے تک صبر کئے رہنا.(بخاری کتاب الفتن باب قول النبی صلی ا یکم سترون بعدی اموراً تنكرونها) زید بن وہب نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن مسعودؓ سے سنا.وہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: تم میرے بعد دیکھو گے کہ تمہاری حق تلفی کر کے دوسروں کو ترجیح دی جارہی ہے.نیز ایسی باتیں دیکھو گے جن کو تم بُرا سمجھو گے.یہ سن کر صحابہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! پھر ایسے وقت میں آپ کیا حکم دیتے ہیں.فرمایا: اُس وقت کے حاکموں کو اُن کا حق ادا کر و اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو.(بخاری کتاب الفتن باب قول النبى الله سترون بعدی اموراً تنكرونها حديث 7052) پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اپنے امیر کی کسی بات کو نا پسند کرے تو اس کو صبر کرنا چاہئے.اس لئے کہ جو شخص اپنے امیر کی اطاعت سے بالشت برابر بھی باہر ہوا تو اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہو گی.(بخاری کتاب الفتن باب قول النبى عمله الا الله سترون بعدی اموراً تنكرونها حديث 7053) پھر اُسید بن حضیر سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.کہنے لگا یار سول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے فلاں شخص کو حاکم بنادیا اور مجھ کو حکومت نہیں دی.آپ نے فرمایا: تم میرے بعد دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی گئی ہے.پس تم قیامت کے دن مجھ سے ملنے تک صبر کئے جاؤ.(بخارى كتاب الفتن باب قول النبي ع الله الله سترون بعدی امورا تنكرونها حديث 7057) سلمہ بن یزید الجعفی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی.یا رسول اللہ ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق مانگیں مگر ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا.اُس نے اپنا سوال پھر دہرایا.آپ نے پھر اعراض کیا.اُس نے دوسری یا تیسری دفعہ پھر اپنا سوال دہرایا.جس پر اشعث بن قیس نے انہیں پیچھے کھینچا ( یعنی خاموش کروانے کی کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال پسند نہیں آیا ).تب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے حالات میں اپنے حکمرانوں کی بات سنو اور اُن کی اطاعت کرو.جو ذمہ داری اُن پر ڈالی گئی ہے اُس کا مواخذہ اُن سے ہو گا اور جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اس کا مواخذہ تم سے ہو گا.(مسلم کتاب الامارة باب فى طاعة الامراء وان منعوا الحقوق حديث (4782
خطبات مسرور جلد نهم 156 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء جنادہ بن امیہ نے کہا کہ ہم عُبادہ بن صامت کے پاس گئے.وہ بیمار تھے.ہم نے کہا اللہ تمہارا بھلا کرے ہم سے ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو.اللہ تم کو اس کی وجہ سے فائدہ دے.اُنہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلا بھیجا.ہم نے آپ سے بیعت کی.آپ نے بیعت میں ہمیں ہر حال میں خواہ خوشی ہو یا نا خوشی، تنگی ہو یا آسانی ہو اور حق تلفی میں بھی یہ بیعت لی کہ بات سنیں گے اور مانیں گے.آپ نے یہ بھی اقرار لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہ کریں سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اُن کو کفر کرتے دیکھو جس کے خلاف تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية.حدیث 4771) ان احادیث میں اُمراء اور حکام کی بے انصافیوں اور خلافِ شرع کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن پھر بھی آپ نے یہ فرمایا کہ ان کے خلاف بغاوت کرنے کا تمہیں حق نہیں ہے.حکومت کے خلاف مظاہرے، توڑ پھوڑ اور باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کا طرزِ عمل خلاف شریعت ہے.اس آخری حدیث کی مزید وضاحت کر دوں کہ اس حدیث کے آخری الفاظ میں جو عربی کے الفاظ ہیں کہ وان لا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَن تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللهِ فِيهِ بُرْهَانٌ.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ اقرار بھی لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اس کو کفر کرتے ہوئے دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو.حدیث کے یہ جو آخری الفاظ ہیں ان کے معنی بعض سلفی وہابی اور باقی متشد د دینی جماعتیں یا جو فرقے ہیں وہ یہ لیتے ہیں کہ صرف اُس وقت تک حکام سے لڑائی جائز نہیں جب تک کہ اُن سے کفر بواح نہیں ظاہر ہو جاتا.(کھلا کھلا کفر ظاہر نہیں ہو جاتا) اگر حاکم سے کفر بواح نظر آجائے تو پھر اس کے ازالے کے درپے ہونا اور اس سے حکمرانی چھین لینا فرض ہے.یہی متشدد جماعتیں ہیں جنہوں نے اس پر یہ دلیل سوچ رکھی ہے کہ حکومتوں کے خلاف بغاوت کی جاسکتی ہے.بلکہ بعض اپنے فتوؤں کو آپس میں ہی اتنا مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فتوے دینے والے یہ کہتے ہیں کہ جن کو ہم نے کافر قرار دے دیا اُن کو جو کا فرنہ سمجھے وہ بھی کافر ہے.اور کافر کو کافر نہ سمجھنے والا بھی کافر ہے.تو یہ جو تکفیر ہے اس کا ایک لمبا سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے.بہر حال اس حدیث میں اصل الفاظ یہی ہیں کہ تم نے اطاعت کرنی ہے سوائے اس کے کہ ایسی بات کی جائے جو کفر کی بات ہو یا تمہیں کفر پر مجبور کیا جا رہا ہو.اس کے علاوہ ہر معاملے میں اطاعت ہونی چاہئے اور اُس صورت میں بھی بغاوت نہیں ہے بلکہ وہ بات نہیں مانی.بہر حال یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے، احمدیوں کا نہیں.ہاں اطاعت نہ کرنے کی بعض حالات میں جیسا کہ میں نے کہا سوائے اس کے کہ کفر پر مجبور کیا جارہا ہو، جو ہمیں جماعت میں ایک مثال نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب پاکستان میں یا بعض دوسرے ممالک میں احمدیوں کو کہا جاتا ہے
157 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کہ تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں.ہم مسلمان کہتے ہیں.یا کلمہ نہ پڑھو.ہم پڑھتے ہیں.یا ایک دوسرے کو سلام نہ کہو، یا قرآنِ کریم نہ پڑھو.تو یہ ہمارے مذہب کا اور دین کا معاملہ ہے.اس بارہ میں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے اطاعت کی ضرورت نہیں.لیکن یہاں بھی ہم بغاوت نہیں کرتے.صرف ان معاملوں میں ہم کبھی کسی قسم کے قانون کو مان ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ شریعت کا معاملہ ہے.اللہ اور رسول کے حکموں کا معاملہ ہے.جہاں تک ملک کے دوسرے قوانین کا تعلق ہے، اس کے باوجود ہر احمدی ہر قانون کی پابندی کرتا ہے.ہمارے نظریہ کی تائید میں پرانے ائمہ میں سے بھی ایک کا حوالہ ہے جو میں پیش کرتا ہوں.اس حدیث کی شرح میں حضرت امام النووی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ کفر بواح کا مطلب ظاہر کفر ہے، اور اس حدیث میں کفر سے مراد گناہ ہے“.پھر مزید فرماتے ہیں کہ ” تم ارباب حکومت سے اُن کی حکومت کے اندر رہ کر جھگڑا نہ کرو اور نہ اُن پر اعتراض کرو.سوائے اس کے کہ تم اُن سے کوئی ایسی بُری بات دیکھو جو ثابت اور متحقق ہو، جس کا بُرا ہو نا تم اسلام کے قواعد یعنی قرآن اور حدیث کی رُو سے جانتے ہو.اگر تم ایسادیکھو تو اُن کی اس بات کا بُرا مناؤ اور تم جہاں بھی ہو حق بات کہو.لیکن ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا، اُن کے ساتھ لڑائی کرنا، مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے.خواہ وہ حکمران فاسق اور ظالم ہوں“.لکھتے ہیں کہ ”اس حدیث کا معنی جو میں نے بیان کیا ہے، دیگر احادیث نبویہ اس کی تائید کرتی ہیں.اہل سنت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ فسق کے بناء پر حکمران کو معزول کرنا جائز نہیں علماء کہتے ہیں کہ فاسق اور ظالم حکمران کو معزول نہ کرنے اور اُس کے خلاف لڑائی نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ ایسی صورت میں مزید فتنے ، خونریزی اور آپس میں فساد پیدا ہو گا.پس فاسق اور ظالم حکمران کا بر سر اقتدار رہنا کم فساد پیدا کرے گا بہ نسبت اس کے جو اُسے معزول کرنے کی کوشش کے نتیجے میں پیدا ہو گا“.(المنهاج بشرح صحيح مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية صفحہ 1430 دار ابن حزم 2002ء) اور یہ بات آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سچ ثابت ہو رہی ہے.دونوں طرف سے لڑائیاں ہو رہی ہیں.بندوقیں چل رہی ہیں.جانیں ضائع ہو رہی ہیں.مسلمان مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں.پھر بخاری کی ایک حدیث ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حدود اللہ میں سستی کرنے والے اور حدود اللہ میں گر پڑنے والے افراد کی مثال اُس قوم کی طرح ہے جنہوں نے کشتی کی بابت قرعہ ڈالا جس کے نتیجے میں بعض کشتی کے اوپر والے حصے پر قیام پذیر ہوئے اور بعض کشتی کے نچلے حصے میں.جب کشتی کے نچلے حصے والے لوگ اوپر والوں کے پاس سے پانی لے کر گزرتے تھے تو وہ اس سے تکلیف محسوس کرتے تھے.جس پر نچلے حصے والوں میں سے ایک نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے لگا جس سے اوپر کے حصے والے اس کے پاس آئے اور اُس سے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے اوپر جا کر پانی لانے سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے اور پانی کے بغیر میر اگزارا نہیں.پس اگر اوپر والے اس کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اُسے بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے اور اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچالیں گے.اگر وہ اسے چھوڑ دیں گے اور کشتی کے پیندے میں سوراخ
خطبات مسرور جلد نهم 158 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء کرنے دیں گے تو وہ اُسے بھی ہلاک کر دیں گے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیں گے.(صحیح بخاری.کتاب الشهادات باب القرعة في المشكلات حديث 2686) اس حدیث سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ عوام بدی کرنے والوں کو ، بدی کے ارتکاب سے یا غلط کاموں سے زبر دستی روک دیں جو درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح باہم جھگڑا اور فساد پیدا ہو جائے گا.اگر اس سے مراد حکومت کے خلاف بغاوت میں تو وہ بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ارشاد بات ہوتی ہے.حدیث یہ ہے.دوبارہ واضح کر دوں.اگر کشتی والے اُن کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اسے ڈوبنے سے بچائیں گے اور اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچالیں گے.اگر چھوڑ دیں گے تو پیندے میں سوراخ ہو گا وہ آپ بھی ہلاک ہو گا، اُن کو بھی ہلاک کرے گا، اس سے ایک تو یہ لیا جاتا ہے کہ اگر کوئی فساد پیدا ہو رہا ہو ، اگر نقصان پہنچ رہا ہو تو اس کا قلع قمع کرنے کے لئے زبر دستی روک دینا جائز ہے لیکن یہ باقی احادیث سے خلاف ہے.حکومتوں کے معاملے میں یہ چیز نہیں ہے.اس کی تائید میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث پیش کی جاتی ہے اور اُس کے حوالے سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سختی کا حکم دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی کوئی بات فرما ہی نہیں سکتے جو قرآن کی تعلیم کے خلاف ہو.یقینا اس کے سمجھنے میں بھی لوگوں کو غلطی لگی ہے.روایت یہ ہے.ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ تم میں سے جو کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے وہ اُسے اپنے ہاتھ سے بدل دے.اگر اسے طاقت نہ ہو تو پھر اپنی زبان سے اور یہ طاقت بھی نہ ہو تو پھر اپنے دل سے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے.“ (صحیح مسلم کتاب الایمان.باب بيان كون النهي عن المنكر من الايمان حديث 177) اس حدیث کی شرح میں ) امام ملا علی قاری لکھتے ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : ہمارے بعض علماء کہتے ہیں کہ ناپسندیدہ کام کو ہاتھ سے تبدیل کرنے کا حکم حکمرانوں کے لئے ہے.زبان سے تبدیل کرنے کا حکم علماء کے لئے ہے اور دل سے ناپسندیدہ بات کو نا پسند کرنے کا حکم عوام مؤمنین کے لئے ہے.(مرقاۃ شرح مشكاة جز 9 ـ كتاب الاداب باب الامر بالمعروف الفصل الاول حدیث 5137 صفحہ 324 دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) پس یہ اس حدیث کی بڑی عمدہ وضاحت ہے کہ تین باتیں تو ہیں لیکن تین باتیں تین مختلف طبقوں کے لئے اور صاحب اختیار کے لئے ہیں.وہاں بھی اگر کشتی میں روکنے کی بات ہے تو اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے صاحب اختیار کو ہی روکنے کا حکم ہے.اگر ہر کوئی اس طرح روکنے لگ جائے گا تو پورا ایک فساد پیدا ہو جائے گا.اور فساد اور بدامنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ - سورۃ بقرۃ کی آیت 206 ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.اگر یہ مراد لی جائے کہ عوام حکمران کی کسی بات کو نا پسند کریں تو وہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور توڑ پھوڑ اور فتنہ و فساد اور قتل و غارت اور بغاوت شروع کر دیں تو یہ مفہوم بھی شریعت کی ہدایت کے مخالف ہے.اس بارہ میں قرآنِ کریم کا جو حکم ہے، فیصلہ ہے وہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں کہ وَيَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْى (النحل: 91)
خطبات مسرور جلد نهم 159 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء انبیاء کا حکومت وقت کی اطاعت کے بارے میں کیا نمونہ رہا ہے ؟ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء دنیا میں آئے.(کنز العمال کتاب الفضائل باب الثانی فی فضائل سائر الا نبیاء...الفصل الثانی الا کمال جلد 6 صفحہ 219 حدیث 32274 دار الكتب العلمیة بیروت 2004ء) قرآنِ کریم نے دو درجن کے قریب انبیاء، بیس پچیس انبیاء کے حالات بیان فرمائے ہیں مگر کسی نبی کی بابت یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے دنیاوی معاملات میں اپنے علاقے کے حاکم وقت کی نافرمانی یا بغاوت کی ہے.یا اُس کے خلاف اپنے متبعین کے ساتھ مل کر مظاہرے کئے ہوں یا کوئی توڑ پھوڑ کی ہو.دینی امور کے بارے میں تمام انبیاء نے اپنے اپنے علاقوں کے حکمرانوں کے غلط عقائد کی کھل کر تردید کی اور سچے عقائد کی پر زور تبلیغ کی.حضرت یوسف کی مثال لیتا ہوں جو عموما بیان کی جاتی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے بیان کی ہے ، حضرت مسیح موعود نے بھی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی.اس کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هذَا الْقُرْآنَ وَ إِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغُفِلِينَ (یوسف: (4) کہ ہم نے جو یہ قرآن تجھ پر وحی کیا ہے اس کے ذریعے ہم تیرے سامنے ثابت شدہ تاریخی حقائق میں سے بہترین بیان کرتے ہیں.جبکہ اس سے پہلے اس بارہ میں تو غافلوں میں سے تھا.ثابت شدہ تاریخی حقائق کیا ہیں جو قرآنِ کریم واضح بیان فرمارہا ہے.سورۃ یوسف میں جو اکثر حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات پر مشتمل ہے، ان حالات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے کافر بادشاہ فرعونِ مصر کی کابینہ میں وزیر خزانہ کے طور پر، مال کے نگر ان کے طور پر کام کیا.اگر بادشاہ کو یہ خیال ہوتا کہ یوسف علیہ السلام اس کے وفادار نہیں ہیں اور نعوذ باللہ محض منافقانہ طور پر اس کی اطاعت کرتے ہیں تو وہ ہر گز اپنی کابینہ میں شامل نہ کرتا.اور ویسے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ خیال کرنا بھی بے ادبی میں داخل ہے کہ نعوذ باللہ وہ دل سے تو فرعونِ مصر کے خلاف بغض و عناد رکھتے تھے مگر ظاہری طور پر منافقانہ رنگ میں اُس کی اطاعت کرتے تھے اور اس سے وفاداری کا اظہار کرتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَذلِكَ كَدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللہ (یوسف: 77).اس طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کی.اس کے لئے ممکن نہ تھا کہ اپنے بھائی کو بادشاہ کی حکمرانی میں روک لیتا سوائے اس کے کہ اللہ چاہتا.یعنی حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ مصر کے قانون کے مطابق اپنے حقیقی بھائی کو مصر میں روکنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تدبیر کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام سے بھلوا کر شاہی پیمانہ جو تھا اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اور تلاشی لینے پر اُن کے بھائی کے سامان میں سے ہی وہ پیمانہ نکل آیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے کافر اور مشرک بادشاہ کے قانون کے پابند تھے.دنیاوی معاملات میں حضرت یوسف علیہ السلام کا فر بادشاہ کے قانون کی پابندی اور وفاداری سے اطاعت کے باوجود دینی امور میں اس کے غلط عقائد کی پابندی اور اطاعت نہیں کرتے تھے.
خطبات مسرور جلد نهم 160 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء پھر قرآنِ کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أولِي الأمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ اَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء: 60) اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہوں کی تابعداری کرو“.یہ شہادۃ القرآن میں فرمایا.شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ (332) پھر ایک دفعہ فرمایا کہ: ” یعنی اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو“.بادشاہوں کی اطاعت اختیار کرو.(الحام 10 فروری 1901ء جلد 5 نمبر 5 صفحہ اکالم نمبر (2) پھر ایک جگہ فرماتے ہیں: ”اے مسلمانو ! اگر کسی بات میں تم میں باہم نزاع واقعہ ہو تو اس امر کو فیصلہ کے لئے اللہ اور رسول کے حوالہ کرو.اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان لاتے ہو تو یہی کرو کہ یہی بہتر اور احسن (ازالہ اوہام.روحانی خزائن.جلد 3 صفحہ 596) تاویل ہے“.فرمایا کہ: ” یعنی اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اس امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کی طرف رڈ کرو اور صرف اللہ اور رسول کو حکم بناؤ ،منہ کسی اور کو“.الحق مباحثہ دہلی.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 184) اور اللہ اور رسول کا فیصلہ جیسا کہ پہلے میں بیان کر آیا ہوں یہی ہے کہ عام دنیاوی حالات میں ایک مومن پہ جو بھی حالات گزر جائیں تو بغاوت نہ کرو.اگر کفر کو دیکھو یا کفر کا حکم سنو تو اطاعت اُس حد تک واجب ہے جہاں تک اس کے علاوہ باتیں ہیں.ان باتوں میں اطاعت نہیں ہے.لیکن بغاوت کی تب بھی اجازت نہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”قرآن شریف میں حکم ہے اطِيعُوا اللَّهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ - (النساء: 60) یہاں اولی الامر کی اطاعت کا حکم صاف طور پر موجود ہے.اور اگر کوئی شخص کہے کہ منکھ میں گورنمنٹ داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے وہ اسے منکم میں داخل کرتا ہے.مثلاً جو شخص ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے.اشارۃ النص کے طور پر قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کے حکم مان لینے چاہئیں“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 171 مطبوعہ ربوہ) فرمایا: ” اگر حاکم ظالم ہو تو اُس کو بُرا نہ کہتے پھر و بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو، خدا اس کو بدل دے گا یا اُسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے.ورنہ مومن کے ساتھ خد اکا ستارہ ہوتا ہے ، مؤمن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو.خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو.“ (الحلم 24 مئی 1901ء.نمبر 19 جلد 5 صفحہ 9 کالم نمبر 2)
161 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم یہ نیکی کے نمونے ہیں جو احمدیوں کو بھی قائم کرنے چاہئیں بلکہ احمدیوں کو ہی قائم کرنے چاہئیں.أولِي الأمْرِ مِنْكُم سے مراد صرف مسلمان حکمران نہیں.اس بارے میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” بعض مسلمان غلطی سے اس آیت کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم صرف مسلمان حکام کے حق میں ہے کہ اُن کی اطاعت کی جاوے.لیکن یہ بات غلط ہے اور قرآن کریم کے اصول کے خلاف ہے.بیشک اس جگہ لفظ منکھ کا پایا جاتا ہے.مگر منکھ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو تمہارے ہم مذہب ہوں بلکہ اس کے یہی معنی ہیں کہ جو تم میں سے بطور حاکم مقرر ہوں.من ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلُ مِنْكُمُ (الانعام: 131).اس آیت میں منگھ کے معنی اگر ہم مذہب کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نَعُوذُ بِالله مِنْ ذَالِكَ رسول کفار کے ہم مذہب تھے.پس ضروری نہیں کہ منگھ کے معنی ہم مذہب کے ہوں.یہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس جگہ اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ حاکم جو تمہارے ملک کے ہوں یعنی یہ نہیں کہ جو حاکم ہو اُس کی اطاعت کرو بلکہ اُن کی اطاعت کرو جو تمہارا حاکم ہو.اور فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ کے یہ معنی نہیں کہ قرآن وحدیث کی رُو سے فیصلہ کرلو.بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر حکام کے ساتھ تنازع ہو جائے تو خدا اور اُس کے رسول کے احکام کی طرف اُس کو لوٹا دو.اور وہ حکم یہی ہے کہ انسان حکومت وقت کو اُس کی غلطی پر آگاہ کر دے.اگر وہ نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ کو چھوڑ دے.وہ خود فیصلہ کرے گا اور ظالم کو اُس کے کردار کی سزا دے گا“.جیسا کہ حضرت یوسف کے واقعہ میں بیان کر آیا ہوں، آپ بھی یہی دلیل دے رہے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ ”قرآنِ کریم میں حضرت یوسف کا واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے وہ بھی دلالت کرتا ہے کہ حاکم خواہ کسی مذہب کا ہو اُس کی اطاعت ضروری ہے.بلکہ اگر اُس کے احکام ایسے شرعی احکام کے مخالف بھی پڑ جاویں جن کا بجالا نا حکومت کے ذمہ ہوتا ہے تب بھی اُس کی اطاعت کرے.چنانچہ حضرت یوسف کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اُن کے بھائی اُن کے پاس چھوٹے بھائی کو لائے تو وہ اُن کو وہاں کے بادشاہ کے قوانین کی رو سے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے اس لئے خدا نے اُن کے لئے خود ایک تدبیر کر دی.اسی طرح آپ آگے جاکر فرماتے ہیں کہ یہ جو آیت ہے اجْعَلْنِي عَلى خَزائِنِ الْأَرْضِ (یوسف:56) اس کے نیچے تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے.اس نے اس کی تفسیر بیان کی ہے.” یعنی اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ”ظالم بلکہ کا فر بادشاہ کی طرف سے عہدوں کا قبول کرنا اس شخص کے لئے جائز ہے جو اپنی جان پر اعتبار رکھتا ہے کہ وہ حق کو قائم رکھ سکے گا.یاد رکھنا چاہئے کہ حق کے قیام سے یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی شریعت کو چلا سکے.کیونکہ جیسا کہ حضرت یوسف کے بھائی کے معاملہ سے ظاہر ہے، کافر کی ملازمت کے لئے یہ شرط نہیں کہ مومن اپنا ذاتی خیال چلا سکے.پس حق کی حفاظت سے یہی مراد ہے کہ ظلم کی باتوں میں ساتھ شامل نہ ہو جائے.پس حضرت یوسف کے معاملہ سے بھی ظاہر ہے کہ خواہ گور نمنٹ کافر ہی کیوں نہ ہو، اُس کی وفاداری ضروری ہے.“ 66 (ترک موالات اور احکام اسلام، بحوالہ انوار العلوم جلد 5 صفحہ 259 260 )
162 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء اس کی مزید وضاحت کہ حکمرانوں سے اختلاف کی صورت میں کیا کیا جائے؟ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ کیا حکمران صرف مسلمان ہیں جن کی اطاعت کرنی ہے.یا یہ جو حکم ہے یہ دونوں کے لئے آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں کیا ارشاد فرمایا؟ آپ نے پہلے خلفاء کی بابت فرمایا کہ ” میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اطاعت اور فرمانبرداری کو اپنا شیوہ بناؤ خواہ کوئی حبشی غلام ہی تم پر حکمران کیوں نہ ہو.جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے ، وہ لوگوں میں بہت بڑا اختلاف دیکھیں گے.پس ایسے وقت میں میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کرنا.تَمَسَّكُوا بِهَا.تم اس سنت کو مضبوطی سے پکڑ لینا اور جس طرح کسی چیز کو دانتوں سے پکڑ لیا جاتا ہے، اسی طرح اس سنت سے چھٹے رہنا اور کبھی اس راستے کو نہ چھوڑنا جو میر اہے یا میرے خلفاء راشدین کا ہو گا.مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث ہے.(مسند احمد بن حنبل ـ مسند العرباض بن ساریہ جلد نمبر 5 صفحہ 842.حدیث نمبر 17275 عالم الكتب بيروت 1998ء) اور دنیاوی حکام کی بابت کیا تعلیم ہے؟ یہ بخاری میں ہی ہے.فرمایا کہ ”تم میرے بعد ایسے حالات دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ بے انصافی ہو گی“.( اس کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے.جو دنیاوی حکام ہیں یہ اُن کے لئے ہے.) تمہارے حقوق دبائے جائیں گے اور دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی.اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم نا پسند کرو گے.صحابہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! ایسے حالات میں آپ ہمیں حکم کیا دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا.اُن کا یعنی ایسے حکمرانوں کا حق اُنہیں دینا اور اپنا حق اللہ سے مانگنا“.(صحیح بخاری کتاب الفتن باب قول النبى الله سترون بعدی اموراً تنكرونها حديث 7052) مسلم میں بھی اس سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ خواہ حکمران بہت ظالم اور غاصب ہو ، اُس کی اطاعت کرنی ہے.(صحیح مسلم كتاب الامارة باب في طاعة الامراء وان منعوا الحقوق حديث 4782) پس ظالم حکمر ان کی بھی اطاعت کا حق ادا کیا جائے.اُس کے خلاف بغاوت نہ کی جائے اور اُس کی اطاعت سے انکار نہ کیا جائے.بلکہ اُس کی تکلیف اور شر کے دور کرنے اور اُس کی اصلاح ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور تفرع کے ساتھ دعا کی جائے.ایک احمدی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے کن شرائط پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہے ؟ شرط دوم مثلاً یہ ہے کہ ”جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا.اور نفسانی جو شوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے“.اور چوتھی شرط یہ ہے کہ یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جو شوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ)
خطبات مسرور جلد نهم 163 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ: 218).....اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے“.(جنگ مقدس.روحانی خزائن.جلد 6 صفحہ 255 ) فرمایا کہ ” أولي الأمر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے.اور جسمانی طور پر و شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اُس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے“.(ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 493) پھر فرمایا کہ خدانخواستہ اگر کسی ایسی جگہ طاعون پھیلے جہاں تم میں سے کوئی ہو تو میں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی سب سے پہلے اطاعت کرنے والے تم ہو.اکثر مقامات میں سنا گیا ہے کہ پولیس والوں سے مقابلہ ہوا.میرے نزدیک گور نمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ہے جو خطر ناک جرم ہے.ہاں گورنمنٹ کا بیشک یہ فرض ہے کہ وہ ایسے افسر مقرر کرے جو خوش اخلاق، متدین اور ملک کے رسم و رواج اور مذہبی پابندیوں سے آگاہ ہوں.غرض تم خود ان قوانین پر عمل کرو اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کو ان قوانین کے ( ملفوظات.جلد اول.صفحہ 134.جدید ایڈیشن) فوائد سے آگاہ کرو.“ پھر ایک دفعہ کالج میں ، یونیورسٹی میں ایک ہڑتال ہوئی.اُس کے بارہ میں فرمایا کہ ”مفسد طلباء کے ساتھ شمولیت کا جو طریق اختیار کیا ہے یہ ہماری تعلیم اور ہمارے مشورہ کے بالکل مخالف ہے.لہذا وہ اس دن سے اس بغاوت میں شریک ہے.“ (یعنی جو بھی اپنے ایک عزیز کے بارے میں فرمایا).پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” جب طلباء نے لاہور میں اپنے پروفیسروں کی مخالفت میں سٹرائیک کیا تھا تو جو لڑ کے اس جماعت میں شامل تھے اُن کو میں نے حکم دیا تھا کہ وہ اس مخالفت میں شامل نہ ہوں اور اپنے استادوں سے معافی مانگ کر فوراً کالج میں داخل ہو جاویں.چنانچہ انہوں نے میرے حکم کی فرمانبرداری کی اور اپنے کالج میں داخل ہو کر ایک ایسی نیک مثال قائم کی کہ دوسرے طلباء بھی فوراً داخل ہو گئے.“ (ملفوظات.جلد پنجم.صفحہ 172، 173.جدید ایڈیشن) حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اس بارہ میں کیا وضاحت ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ وو ” ہر ایک مسلمان کے لئے اطاعت اللہ و اطاعت الرسول و اطاعت اولی الامر ضروری.اگر اولی الا مر صریح مخالف فرمان الہی اور فرمانِ نبوی کی کرے تو بقدر برداشت مسلمان اپنی شخصی و ذاتی معاملات میں اولی الامر کا حکم نہ مانے یا اُس کا ملک چھوڑ دے.اَطِيْعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ صاف نصّ ہے.أُولِي الامر میں حکام و سلطان اول ہیں اور علماء و حکماء دوم درجہ پر ہیں“.(البدر نمبر 8.جلد 9.16 دسمبر 1909ء.صفحہ 4 کالم 2)
164 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء اب بعض لوگ یہ بھی سوال اُٹھا دیتے ہیں کہ کشمیریوں کے حق میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جو جلسہ اور جلوس کیا تھا اور اُس کی اجازت دی تھی.لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جو طریق تھا یہ بھی وہی طریق ہے جو آج کل حکومت کے خلاف بغاوت ہے اور اس لئے جائز ہے.حالانکہ یہ ایک باہر کی آواز تھی.جلوس اور جلسے اُن کے حقوق دلوانے کے لئے تھے.کوئی لڑائی نہیں تھی.کوئی توڑ پھوڑ نہیں تھی.حکومت کو توجہ دلائی گئی تھی کہ کشمیریوں کے جو حقوق غصب کئے جارہے ہیں وہ دیئے جائیں.اُن کی جائیدادیں اُن کے نام برائے نام ہیں ، اور ساری جائیداد کی جو آمد ہے وہ راجہ کے پاس چلی جاتی ہے تو اُن حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اُن کے حقوق اُن کو دلوائے جائیں.بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 1929ء میں 29 نومبر کی ہڑتال کے متعلق دریافت کیا گیا کہ احمدیوں کا اس کے متعلق کیا رویہ ہونا چاہیئے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ” ہڑتال میں شامل نہیں ہونا چاہئے.ہاں، جلسے اور جلوس وغیرہ میں شامل ہو جانا چاہئے“.حقوق کے لئے جہاں تک جلسے جلوس کا تعلق ہے ٹھیک ہے کیونکہ اس کی حکومت نے ایک حد تک اجازت دی ہوئی ہے.لیکن ہڑتال اور دکانیں بند اور توڑ پھوڑ، یہ چیزیں جائز نہیں.پھر ” ایک صاحب نے کہا کہ شہروں میں احمدیوں کی دکانیں چونکہ بہت کم ہوتی ہیں اس لئے اگر وہ کھلی رہیں تو حملہ کا خطرہ ہوتا ہے اور لوگ ڈنڈے سے بند کرواتے ہیں“.اس پر فرمایا کہ ”اگر ڈنڈے سے کوئی بند کرائے تو کر دی جائے اور پولیس میں جاکر اطلاع دے دی جائے کہ ہم دکان کھولنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں فلاں آدمی نہیں کھولنے دیتے.اگر پولیس حفاظت کا ذمہ لے تو کھول دی جائے ورنہ نہ سہی“.ایک صاحب نے عرض کیا کہ کیا ہڑتال قانوناً ممنوع ہے؟ تو جواب میں آپ نے فرمایا کہ ” قانون کا سوال نہیں.یہ یوں بھی ایک فضول چیز ہے جس سے گاہک اور دکاندار دونوں کو نقصان پہنچتا ہے.اب 29 تاریخ کو جو مسلمان باہر سے لاہو ر یا اپنے قریبی شہروں میں سود اوغیرہ خریدنے جائیں گے وہ مجبور ہندوؤں کی دکانوں سے سودا خریدیں گے (کیونکہ مسلمانوں نے ہڑتال کی ہوئی ہے) جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا.“ (ماخوذ از اخبار الفضل قادیان مؤرخہ 10 دسمبر 1929ء نمبر 47 جلد 17 صفحہ 6 کالم 1) پھر آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ قانون شکنی کی تلقین کرنے والوں سے ہم کبھی تعاون نہیں کر سکتے.بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بغاوت کی تعلیم دیتی ہیں.بعض قتل و غارت کی تلقین کرتی ہیں.بعض قانون کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں.ان معاملات میں کسی جماعت سے ہمارا تعاون نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ ہماری مذہبی تعلیم کے خلاف امور ہیں.اور مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اُسے صلیب پر لٹکانا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانونِ شریعت اور قانونِ ملک کبھی نہ توڑا جائے.اگر اس وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیفیں بھی دی جائیں تب بھی یہ جائز نہیں کہ ہم اس کے خلاف چلیں.الفضل 6 اگست 1935ء جلد 23 نمبر 31 صفحہ 10 کالم 3)
خطبات مسرور جلد نهم 165 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء پس ہڑتالوں کے بارہ میں بڑے واضح طور پر یہ سارے احکامات سامنے آگئے ہیں.میں نے پہلے بھی حدیث کی وضاحت میں سورۃ بقرۃ کی آیت 206 کا ایک حصہ سنایا تھا کہ وَاللهُ لا يُحِبُّ الْفَسَادَ - اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.جب زبر دستیاں شروع ہوتی ہیں تو فساد پیدا ہوتا ہے.اس وقت بد قسمتی سے اس فساد کی حالت میں سب سے زیادہ مسلمان ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں.یہ مکمل آیت جو ہے یوں ہے کہ وَ إِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرة : 206) اور جب وہ صاحب اختیار ہو جائے تو زمین میں دوڑا پھرتا ہے تاکہ اس میں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا.تو جب ظالم حکمران ہو جاتے ہیں تو وہ دوسروں کی جو مخالفین ہیں اُن کی جائیدادوں کو ، ان کی فصلوں کو، اُن کی نسلوں کو بے دریغ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.اب یہ پوری آیت جو ہے یہ حکمرانوں کو تنبیہ کر رہی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک عمومی فرمان بھی ہے کہ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ.اس لئے بغاوت کرنے والوں کے لئے بھی یہی حکم ہے.پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ قرآنِ کریم صرف عوام الناس کو یہ حکم نہیں دیتا بلکہ حکمرانوں کو بھی یہی کہتا ہے کہ اپنے اقتدار پر تکبر کر کے ملک میں فساد پیدا نہ کرو.عوام کے حقوق تلف نہ کرو.امیر اور غریب کے فرق کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ عوام میں بے چینی پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں پھر بغاوت کے حالات پیدا ہوں اور اس طرح تم اپنے اس عمل کی وجہ سے بھی خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آؤ.اب دیکھیں جو حالات سامنے آرہے ہیں، بلا استثناء ہر جگہ یہی آواز اُٹھ رہی ہے کہ قومی دولت لوٹی گئی ہے اور عوام کو اُن کے حقوق سے محروم کیا گیا ہے.کس قدر بد قسمتی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر نصیحت کی اور تنبیہ فرمائی تھی، انہی میں سے سب سے آگے یہ لوگ ہیں جو آج کل مسلمان ملکوں کے حکمران ہیں، جو اس قسم کی غلط حرکتیں کر رہے ہیں.عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے، اُن کی اقتصادیات کی بہتری کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے.اُن کی صحت کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے اور اس طرح دوسرے بہت سارے حقوق ہیں.غرضیکہ یہ سب حکومتوں کے کام ہیں.اُن کو یہ ادا کرنے چاہئیں.ان کو سر انجام نہ دے کر یہ لوگ فساد پیدا کر رہے ہیں اور فساد اللہ تعالیٰ کی نظر میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انتہائی ناپسند یدہ ہے.پس ہمارے حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی قدر کرتے ہوئے اُن اصولوں اور اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کی مثالیں ہم دیتے ہیں.حضرت عمر نے جب حکومت تھی تو کس طرح انصاف قائم فرمایا تھا کہ عیسائی، عیسائیوں کی حکومت دوبارہ قائم ہونے پر رو رو کر یہ دعا کرتے تھے کہ مسلمان دوبارہ ہمارے حکمران بن جائیں.اور یہاں یہ حال ہے کہ مسلمان رعایا مسلمان حکمرانوں کے خلاف کھڑی ہے کہ انصاف قائم نہیں ہو رہا.پس اُس تقویٰ کی تلاش کی ضرورت ہے جو آج مسلمانوں میں مفقود ہے، ختم ہو چکا ہے.حکمران ہیں یا عوام ہیں دونوں اگر اس اصل کو پکڑیں گے تو کامیاب ہوں گے.بہر حال احمدیوں کے لئے یہ واضح ہدایت ہے کہ اپنے آپ کو
166 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اس فساد سے بچانا ہے.دعائیں کریں.اگر دل سے نکلی ہوئی دعائیں ہوں گی تو ایک وقت میں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا قبولیت کا درجہ پائیں گی اور ان ظالموں سے اگر ظالم حکمران ہیں تو نجات ملے گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.آگے بھی جو تبدیلیوں کے بعد حالات نظر آرہے ہیں وہ شاید عارضی امن کے تو ہوں لیکن مستقل امن کے نہیں ہیں.اس طرح جو تبدیلیاں ہوتی ہیں، جو ظلم کر کے اقتداروں پر قبضہ کیا جاتا ہے یا انقلاب لائے جاتے ہیں تو اُن میں بھی ایک مدت کے بعد پھر ظالم حکمران پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.ایک ظالم کے جانے کے بعد دوسرے ظالم آجاتے ہیں.اس لئے یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالٰی ہم پر کوئی ظالم حکمران کبھی مسلط نہ کرے.اللہ کرے کہ عامتہ المسلمین بھی اور حکمران بھی اپنے اپنے فرائض اور حقوق کو پہچانیں اور پھر اُن کو ادا کرنے کی کوشش کریں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کریں.اس وقت جمعہ کی نماز کے بعد میں (چند) جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ امۃ الودود صاحبہ اہلیہ مکرم سید عبد الحئی شاہ صاحب ناظر اشاعت انجمن احمد یہ ربوہ کا ہے.دو دن پہلے اچانک بلڈ پریشر ہائی ہوا اور ہسپتال میں داخل تھیں کہ برین ہیمبرج ہو گیا اور وہیں 25 مارچ کو اُن کی وفات ہو گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اُن کی عمر 72 سال تھی.محترم شیخ محبوب الہی صاحب ساکن سری نگر کی بیٹی تھیں جو ایک برہمن تھے اور ہند ومذ ہب ترک کر کے خود احمدی ہوئے تھے.اُن کا پہلا نام رادھا کرشن تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے شیخ صاحب کو قادیان بلا کر دینی تعلیم دلوائی، اور پھر انہوں نے خدمت دین کی.مرحومہ کی والدہ محترمہ خواجہ عبدالعزیز ڈار صاحب ابن حضرت حاجی عمر ڈار صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی تھیں.اچھے آسودہ حال گھرانے سے تھیں لیکن واقف زندگی سے شادی ہوئی ہے تو اپنے وقف کو خوب نبھایا ہے اور ہر حالت میں خوشی سے گزارہ کیا ہے.ملنسار اور غریب پرور تھیں.ایک چھ سات سال کی بچی کو لے کر پالا.تربیت کی، پرورش کی، اُسے تعلیم دلوائی اور اپنے خرچ پر اُس کی شادی کی.ہمارے جو احمد یحی صاحب ہیں Humanity First کے چئیر مین ، یہ ان کی والدہ تھیں.دوسر اجنازہ محمد سعید اشرف صاحب ابن چوہدری محمد شریف صاحب لاہور کا ہے.یہ ایک سڑک عبور کرتے ہوئے 27 مارچ کو ایک ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گئے.تین موٹر سائیکل سواروں نے آپ کو ٹکر ماری.آپ اور آپ کی اہلیہ دونوں جارہے تھے.اہلیہ کو تو چوٹیں لگیں.یہ وہیں سائیڈ پر گر گئے اور موٹر سائیکل ان کے اوپر سے گزر گیا.بہر حال سہارے سے اٹھے اور رکشہ کور کو ایا.ہسپتال جارہے تھے لیکن جب وہاں ہسپتال جا کے مرہم پٹی کی ہے تو ابھی دس منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ سانس رکنے لگا اور وہیں وفات ہو گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُوْن.آپ کے نانا حضرت فضل دین صاحب اور نانی حسن بی بی صاحبہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.اور جماعت سے وفا اور خلافت سے انتہائی وفا اور اخلاص کا تعلق تھا.جماعتی کاموں میں حصہ لینے والے تھے.ان کے ایک بیٹے محمد احسن سعید صاحب مربی سلسلہ ہیں.جامعہ احمدیہ جرمنی میں بطور استاد کام کر رہے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 167 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اپریل 2011ء یہ جانے لگے تھے تو اُن کی والدہ نے کہا کہ وقف کا تقاضا یہی ہے کہ تم یہاں نہ آؤ اور اپنے فرائض انجام دو تو دوسرا جنازہ ان کا ہے جو ادا ہو گا.تیسر ا جنازه نعیمہ بیگم صاحبہ کا ہے.اوہائیو امریکہ میں ان کی وفات ہوئی ہے.ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معالج خاص تھے اُن کی بیٹی تھیں اور خلافت ثانیہ سے لے کر اب تک خلافت سے ان کا بڑا تعلق تھا اور ذاتی تعلق تھا اور بڑا اخلاص و وفا تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے کہنے پر انہوں نے ایم اے ہسٹری کیا ہے.جامعہ نصرت میں کچھ عرصہ پڑھایا.پھر آج کل اپنے بیٹے کے پاس امریکہ میں مقیم تھیں.وہاں بھی یہ لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں.اللہ کے فضل سے تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.وصیہ رَاجِعُون.اگلا ایک اور جنازہ نعیم احمد وسیم صاحب کا ہے جو 6 مارچ کو امریکہ میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ یہ حضرت حاجی محمد دین صاحب تہالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے جو قادیان میں “ دعاؤں کی مشین ” کے نام سے معروف تھے.نہایت مخلص، متوکل اور فدائی خادم سلسلہ تھے اور سب جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ، حضرت مرزا ناصر احمد خلافت سے پہلے جب خلافت ثانیہ میں حفاظت مرکز کی نگرانی کا کام ان کے سپر د تھا تو اس وقت یہ اُن کے ساتھ بھی کام کرتے رہے ہیں.ربوہ کی سنگ بنیاد کی تقریب میں بھی یہ شامل ہوئے تھے.اُس کے بعد یہ امریکہ چلے گئے.وہاں امریکہ میں بھی انصار اللہ کے قائد مال کی حیثیت سے کام کرتے رہے.چند مہینے پہلے ان کو دل کا حملہ ہوا تھا اور کافی حالت خراب ہو گئی تھی.اس وقت بھی مسجد کے لئے انصار اللہ کی کوشش تھی اور چندہ اکٹھا کر رہے تھے تو ہوش میں آتے ہی جو پہلا سوال کیا وہ یہی تھا کہ مسجد کے چندے کا حساب کتاب ٹھیک کر لیا گیا ہے کہ نہیں ؟ یا فلاں فلاں بل کی ادائیگی ہوئی تھی وہ کر دی ہے کہ نہیں کر دی.اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کے درجات بلند فرمائے ، اور ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں جاری رکھے.نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ ہو گی.(الفضل انٹر نیشنل 22 اپریل تا 28 اپریل 2011ء جلد 18 شمارہ 16 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 168 14 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء بمطابق 08 شہادت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچھ روایات پیش کروں گا.پہلے بھی چند مرتبہ یہ روایات پیش کر چکا ہوں اور کوشش یہی ہے کہ یہ دوبارہ دہرائی نہ جائیں اور نئے صحابہ کی روایات سامنے آئیں.جو رجسٹر روایات صحابہ کا ہے اُس میں سے میں نے لی ہیں، تا کہ آپ کو پتہ چلے کہ اُس زمانے میں صحابہ نے، اُن لوگوں نے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی، کس طرح آپ کو دیکھا؟ آپ پر اُن کے تاثرات کیا تھے ؟ مختلف رنگ میں ہر ایک کی روایات ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان روایات کا ایک سلسلہ اپنے خطبات اور خطابات میں شروع کیا تھا.میری کوشش تو یہی ہے کہ نہ وہ دوبارہ سامنے آئیں اور نہ جو میں بیان کر چکا ہوں وہ آئیں بلکہ نئے صحابہ کے نئے واقعات سامنے آتے رہیں.یہ روایات ہمیں جہاں صحابہ کے اخلاص و وفا کے نمونوں اور اُن کے احمدیت میں شامل ہونے کے واقعات کا پتہ دیتی ہیں وہاں ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام اور اپنے مخلصین سے آپ کے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے.ان میں بعض مسائل کا حل بھی موجود ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اُن لوگوں کی یہ روایات میں پیش کرتا ہوں جو آپ کی پاک جماعت کا حصہ بنے.جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام نے فرمایا کہ جماعت نے اخلاص و وفا میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.رض الصلوة پہلی روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب ولد میاں نادر علی صاحب کی ہے، جن کا بیعت کا سن اور زیارت کا سن 1900ء ہے.یہ لکھتے ہیں کہ ”میں نے 1899ء میں بذریعہ خط کے بیعت کی اور اس سے پہلے بھی تین چار سال میرے والد صاحب نے بیعت کے لئے بھیجا تھا مگر میں بسبب بعض وجوہ کے واپس گھر چلا گیا( اور بیعت نہیں کی) اس کے بعد سید بہاول شاہ صاحب جو ہمارے دلی دوست اور استاد بھی ہیں، انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور اُنہوں نے مجھے حضور کی کتابیں سنانی شروع کیں.جتنی اُس وقت تک حضور کی کتب
169 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 08 اپریل 2011ء تصنیف ہو چکی تھیں، قریباً قریباً ساری مجھ کو سنائیں.اُنہی دنوں میں میں نے رؤیاد دیکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، میں حضور سے دریافت کرتا ہوں کہ حضور ! مرزا صاحب نے جو اس وقت دعویٰ مسیح اور مہدی ہونے کا کیا ہے کیا وہ اپنے دعویٰ میں بچے ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہاں سچے ہیں.(خواب میں ہی کہتے ہیں کہ) میں نے کہا حضور ! قسم کھا کر بتاؤ.آپ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ مجھے قسم کھانے کی حاجت نہیں.میں امین ہوں زمینوں آسمانوں میں (میں امین ہوں.اس کے بعد کہتے ہیں ) اُسی رات کی صبح کو میں نے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں بیعت کا خط لکھا.اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام بھی لکھ دیا.اُس کے بعد 1900ء میں قادیان حاضر ہو کر حضور کے ہاتھوں پر بیعت کی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب صفحہ نمبر 120 غیر مطبوعہ ) حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب.ان کی بیعت کا سن 1896ء ہے.کہتے ہیں کہ میری عمر قریباً 14 سال کی تھی، جب میں نے اپنے والد صاحب حضرت مولوی نیک عالم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اور برادرم مولوی غریب اللہ صاحب سکنہ موضع کلری کے، کے ساتھ تحریری بیعت کی.اور 1898ء میں شروع دسمبر سے سالانہ جلسہ تک میں حضور کی خدمت میں حاضر رہا.( جلسہ سالانہ پر گئے لیکن دسمبر کے شروع میں چلے گئے.پھر یہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی تشریف آوری جہلم بمقدمہ کرم دین بھیں پر حضور جری اللہ کی خدمت میں حاضر رہا.( اُس وقت بھی حضور کے ساتھ تھے ) اور 1907ء کے جلسہ سالانہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری زیارت قریبا ڈیڑھ ہفتہ تک کی.آگے بیان کرتے ہیں کہ حضرت جری اللہ کی پہلی زیارت میں پنجگانہ نمازوں میں راقم حضور علیہ السلام کے ایک نمبر بائیں یا دو نمبر بائیں صف اول میں رہتا تھا ( یعنی دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے تھے ).اُن دنوں حضور انور پانچوں نمازوں کے بعد اپنے عاشقین خدام میں آدھ گھنٹہ یا کچھ اس سے کم و بیش عرصہ تشریف فرما ہوا کرتے تھے.اور اپنی قیمتی نصائح سے اپنے خدام کو مستفیض فرمایا کرتے تھے.اور اکثر طور پر مغرب کا کھانا مسجد میں ہی تناول فرمایا کرتے تھے.خصوصاً نماز صبح اور مغرب کے بعد عشاء تک اپنے عاشقوں اور فدائیوں کو روزانہ وعظ و تعلیم سے استفادہ فرمایا کرتے تھے.ان ایام میں خاکسار کو روزانہ حضور علیہ السلام کے پاؤں اور ہاتھ دبانے کا اکثر موقع ملا کرتا تھا.لیکن چونکہ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اس لئے حضور علیہ السلام کے ادب و شرم اور نبیانہ رعب کی وجہ سے خاکسار نے نہ تو کوئی بات حضور کی خدمت میں عرض کی اور نہ کبھی را تم کو کوئی بات کرنے کی جرات ہوئی.حضور علیہ السلام کی تمام گفتگو نہایت ہمدردانہ اور نہایت مشفقانہ اور مربیانہ تھی.لیکن خدا داد نبیانہ رعب کی وجہ سے اس ناچیز کو کبھی کچھ عرض کرنے کی جرات نہ ہوئی.یہ میرا اپنا ہی قصور تھا کہ میں نے کبھی کوئی التماس نہ کی اور ساری فرحت اور خوشی حضور کے کلمات طیبات کے بادب اور ہمہ تن گوش بن کر سننے میں ہی محسوس کرتا تھا.ایک دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سردار فضل حق صاحب مرحوم احمدی
170 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (سابق سندر سنگھ دفعدار) کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کی زیارت کرنی ہے تو وہ سردار صاحب کو دیکھ لے.انہوں نے دنیا کی دولت کو لات مار کر اسلام کی روکھی روٹیاں قبول کی ہیں.پھر لکھتے ہیں کہ میر منشی مرزا جلال الدین صاحب احمدی مرحوم میرے حقیقی پھوپھا تھے اور حضور نے کتاب انجام آتھم میں مندرجہ فہرست میں صحابہ 313 میں موصوف کا نام سب سے اول پر رکھا ہے.ان ہی کے فیض صحبت سے اور سید غلام شاہ صاحب مرحوم احمدی سکنہ نورنگ تحصیل کھاریاں اور مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرحوم احمدی جہلم کے فیض صحبت سے احمدیت کی نعمت را قم اور اُس کے والد کو ملی ہے.سید صاحب موصوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مولوی صاحب موصوف میرے والد ماجد مرحوم کے استاد بھی تھے.مرزا محمد اشرف صاحب پنشنز مهاجر سابق محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان میرے حقیقی پھو پھی زاد تھے.انہی ایام میں حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کی خدمت میں کسی صاحب نے عرض کی.حضور انور مطبع خانہ میں کبھی کبھی تشریف لایا کریں.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ آپ مجھے معاف رکھیں میں وہاں نہیں آسکتا.کیونکہ وہاں حقہ رکھا ہوا ہوتا ہے اور میں حقہ کو دیکھ کر سر سے پاؤں تک شرم میں پنہاں ہو جاتا ہوں.لیکن میں حقہ پینے والوں کو دل سے بر ا نہیں جانتا.پھر فرمایا کہ بعض لوگ بیعت کے واسطے میرے پاس آتے ہیں ، اُن کی داڑھی اُسترے سے منڈھی ہوئی ہوتی ہے ، ان کے منہ سے شراب کی بو آتی ہے اُن کو بھی دل سے برا نہیں جانتا.کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اگر وہ میرے پاس رہیں گے یا کثرت سے میرے پاس آئیں گے تو خداوند کریم اُن کو ضرور متقی اور پاک صاف کر دیں گے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب صفحہ نمبر 121 تا123 غیر مطبوعہ ) پھر ایک روایت حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ولد حافظ محمد حسین صاحب سکنہ وزیر آباد، گوجر انوالہ کی ہے، جن کی بیعت 1897ء کی ہے.یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قادیان دار المسیح میں جس مکان میں میاں بشیر احمد صاحب رہتے ہیں جس کا دروازہ مستقف گلی کے نیچے ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند دوستوں کو جمع فرما کر ایک تقریر فرمائی کہ میں نے ہائی سکول اس لئے قائم کیا تھا کہ لوگ وہاں سے علم حاصل کر کے مخلوق خدا کو تبلیغ حق کریں.مگر افسوس کہ لوگ انگریزی پڑھ کر اپنے کاروبار پر لگ جاتے ہیں اور میر امقصود حاصل نہیں ہوتا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ خالص دینی مدرسہ قائم کیا جائے.کوئی ہے جو خدا کے لئے اپنے بچے کو اس سکول میں دینی علم حاصل کرنے کے لئے داخل کرے؟ اُس وقت میر ابیٹا عبید اللہ مرحوم سات آٹھ سال کا تھا.اُن دنوں مفتی محمد صادق صاحب مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر تھے.اتفاق سے وہ لڑکا اس وقت میرے پاس کھڑ ا تھا.میں نے اُس کو حضرت صاحب کے سپر د کر دیا.اور اُس وقت مدرسہ احمدیہ میں ایک فضل دین نامی در میانہ قد ضلع سیالکوٹ کا چیڑ اسی تھا.حضرت صاحب نے عبید اللہ کو اپنے دست مبارک سے پکڑ کر فضل دین کے سپر د کر دیا کہ اس کو احمد یہ سکول میں لے جا کر داخل کرو.الغرض وہی عبید اللہ اس مدرسہ احمدیہ میں
171 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مولوی فاضل ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے عہد میں ماریشس بھیجا گیا جو سات سال تبلیغ کر کے واصل باللہ ہو گیا اور خلیفہ ثانی کی زبانِ مبارک سے ہندوستان کا پہلا شہید کا خطاب پا گیا.( حضرت مولوی عبید اللہ صاحب ماریشس میں مبلغ تھے.وہیں اُن کی وفات ہوئی.وہیں ان کی تدفین ہوئی.یہ اُن کا ذکر ہے جو ان کے والد صاحب کر رہے ہیں).پھر کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عنا گیا کہ آج گورداسپور میں کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کی تاریخ ہے ، وہاں حضرت صاحب تشریف لے گئے ہیں اور یہ بھی سنا گیا کہ جو سرمایہ ہمارے گھر تھا وہ سب خرچ ہو گیا ہے.میں یہ سُن کر گورداسپور پہنچا.حضور صبح کی نماز کے بعد لیٹے ہوئے تھے اور ایک آدمی دبارہا تھا.میں نے بھی جاتے ہی حضور کو دبانا شروع کر دیا.چونکہ ان دنوں طاقتور تھا اور ہمیشہ سے اپنے سابق استادوں کی خدمت کا شرف حاصل تھا گویا مجھے مٹھی چاپی کرنے کی عادت تھی.میں نے اسی طرح دبانا شروع کیا.حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو میرا دبانا محسوس ہوا.فورآمنہ سے چادر اُٹھا کر میری طرف دیکھ کر بدیں الفاظ ارشاد فرمایا.حافظ صاحب آپ راضی ہیں ؟ خوش ہیں ؟ کب آئے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ حضور ا بھی آیا ہوں.مگر لکھتے ہیں کہ جو بات ذکر کے لائق ہے اور جس کی خوشی میرے دل میں آج تک موجزن ہے وہ یہ ہے کہ میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے پہچانتے ہیں؟ فرمایا کیا حافظ جی ! میں آپ کو بھی نہیں پہچانتا؟ یہ لفظ سنتے ہی میں خوشی سے چشم پر آب ہو گیا.چونکہ حضور نے فرمایا ہوا تھا کہ جو مجھے پہچانتا ہے اور جس کو میں پہچانتا ہوں وہ طاعون سے محفوظ رہے گا.پھر کہتے ہیں حال پرسی کی باتیں ہوتی رہیں.تھوڑی دیر کے بعد کچھ اور آدمی بھی جمع ہو گئے اور سلسلہ گفتگو میں اتفاقاًیہ ذکر آگیا کہ چوہدری حاکم علی صاحب پنیاری نے ذکر کر دیا کہ حضور آج جمعہ ہے.(چوہدری حاکم علی صاحب نو پنیار کے تھے) کہ حضور آج جمعہ ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب نہیں آئے تو جمعہ کون پڑھائے گا.تو حضور نے بلا تائل فرما دیا کہ یہ ہمارے حافظ صاحب جو ہیں، وزیر آبادی یہ پڑھا ئیں گے ( یہ ان کا ذکر ہے).میں یہ سُن کر کچھ بول نہ سکا.ایسا مرعوب ہو گیا کہ اس خیال سے کہ میں اس مامورِ خدا کے سامنے گناہگار آدمی ہوں، کیا کروں گا؟ اور کس طرح کھڑا ہوں گا ؟ پھر دل میں خیال آیا کہ خیر ابھی جمعہ کا وقت دور ہے شاید اور کوئی شخص تجویز ہو جائے.آخر جمعہ کا وقت آگیا اور صفیں باندھ کر نمازی بیٹھ گئے.میں ایک صف میں ڈرتا ہوا شمال کی طرف بیٹھ گیا.آخر اذان ہو گئی.حضرت صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کہاں ہیں ؟ آخر کسی شخص نے مجھے حاضر حضور کر دیا.میں نے حضور کے کان مبارک کے قریب ہو کر آہستہ آواز سے عرض کیا کہ حضور! میں گناہگار ہوں.مجھے جرات نہیں کہ میں حضور کے آگے کھڑا ہو کر کچھ بیان کر سکوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.نہیں، آپ آگے ہو جائیں.میں آپ کے لئے دعا کروں گا.گویا مجھے مصلے پر کھڑا کر دیا.آخر میں نے متوکل علی اللہ خطبہ شروع کر دیا اور سورۃ فرقان كى تَبرَكَ الَّذِى نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِيرا (الفرقان: 2) کی چند آیتیں پڑھیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے توفیق دی، سنایا.میں اُس وقت دیکھ رہا تھا کہ حضور علیہ السلام میرے لئے دعا
172 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم فرمارہے ہیں اور میر اسینہ کھلتا گیا.اُس دن سے آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی کسی بحث میں یا تقریر میں کبھی نہیں جھجکا.الحمد للہ علی ذالک.میں اسی کا نتیجہ سمجھتا ہوں کہ جب میں نومبر 1933ء میں ہجرت کر کے آیا ہوں تو مجھے مسجد اقصیٰ کی امامت کی خدمت سپر د ہوئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت غلام رسول صاحب وزیر آبادی صفحہ نمبر 129 تا 131 غیر مطبوعہ ) پھر یہ اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے قادیان پہنچ کر اپنے مقدمات کا ذکر کیا کہ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کر کے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر میر امکان چھین لیا ہے.حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب! لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنے پر مکان برباد کر دیتے ہیں، آپ کا مکان اگر خدا کے لئے گیا ہے تو جانے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دے دے گا.کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! یہ پاک الفاظ سنتے ہی میرے دل سے وہ خیال ہی جاتا رہا کہ میر امکان چھن گیا ہے.اور پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس مقدس بستی قادیان میں جگہ دی اور مکان اس سے کئی درجے بہتر دے دیا.بیوی بھی دی، اولاد بھی دی.پھر لکھتے ہیں کہ اس ضمن میں ایک اور بات بھی یاد آئی ہے لکھ دیتا ہوں کہ شاید کوئی سعید فطرت فائدہ اٹھائے.وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک دن مسجد مبارک میں خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا مدرسہ احمدیہ میں جو لوگ پڑھتے ہیں وہ مُلاں بنیں گے.وہ کیا کر سکتے ہیں ؟ ( بڑے فخر سے خواجہ صاحب نے کہا کہ تبلیغ کرنا ہمارا ( یعنی خواجہ صاحب جیسے لوگوں کا کام ہے.) پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ مدرسہ احمدیہ اُٹھا دینا چاہئے ( یعنی ختم کر دینا چاہئے ).لکھتے ہیں کہ اُس وقت حضرت محمود اولو العزم ( حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد ) بیٹھے تھے وہ کھڑے ہو گئے ( خلیفہ اول کے زمانے کی بات ہے) اور اپنی اس اولوالعزمی کا اظہار فرمایا کہ اس سکول کو یعنی مدرسہ احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے یہ جاری رہے گا اور انشاء اللہ اس میں علماء پیدا ہوں گے اور تبلیغ حق کریں گے.یہ سنتے ہی خواجہ صاحب تو مبہوت ہو گئے اور میں اُس وقت یہ خیال کرتا تھا کہ خواجہ صاحب کو یقین ہو گیا ہے کہ ہم اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے.اور دیکھنے والے اب جانتے ہیں کہ اسی سکول کے تعلیم یافتہ فضلاء دنیا میں تبلیغ احمدیت کر رہے ہیں.جو کہتے تھے کہ مسیح موعود کا ذکر کر ناسم قاتل ہے انہی کے حق میں سم قاتل ثابت ہوا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت غلام رسول صاحب وزیر آبادی صفحہ نمبر 132 تا133 غیر مطبوعہ ) لکھتے ہیں کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو نکلے تو خاکسار اور چند آدمی بھی ساتھ تھے.اُن میں سے ایک شخص مستری نظام الدین صاحب سابق سیکر ٹری جماعت احمد یہ سیالکوٹ کے تھے جو ابھی تک بفضل خدا زندہ ہیں، انہوں نے مجھے کہا کہ حضرت صاحب آپ کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے ہیں اس لئے یہ عرض کریں کہ پہلی تفسیریں تو کچھ ساقط الاعتبار ہو گئی ہیں (پہلی تفسیر میں اب خاموش ہیں، اتنی زیادہ واضح نہیں ہیں اور نئے زمانے کے لحاظ سے بھی نہیں ہیں ) تو اب مکمل تفسیر قرآن کریم کی حضور لکھ دیں.( حضرت مسیح
173 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم موعود علیہ السلام کی خدمت میں درخواست کریں کہ پہلی تفسیروں کا زمانہ تو اب گزر گیا حضور اپنی مکمل تفسیر لکھیں.چنانچہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب !جو میرے رستے میں آیات قابل بیان اور قابل تفسیر آئی ہیں موجودہ زمانے کے لئے ، وہ میں نے لکھ دی ہیں.اگر میں یا ہم مکمل تفسیر لکھیں تو ممکن ہے کہ آئندہ زمانے میں اور بہت سے معترض پیدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان معترضین کے جواب کے لئے کوئی اور بندہ اپنی طرف سے کھڑا کر دے.میں یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا اور مستری نظام الدین صاحب بھی سن رہے تھے ، وہ بھی خاموش ہو گئے.( انہوں نے فرمایا کہ آئندہ زمانے کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کی تفسیریں آتی رہیں گی.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت غلام رسول صاحب وزیر آبادی صفحہ نمبر 134 غیر مطبوعہ ) پھر ایک روایت خان صاحب منشی برکت علی صاحب ولد محمد فاضل صاحب کی ہے.یہ ڈائریکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس کے ملازم تھے.یہ قادیان میں ناظر بیت المال بھی رہے ہیں.1901ء میں انہوں نے بیعت کی تھی اور 1901ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی.کہتے ہیں کہ جہاں تک مجھے یاد ہے، سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر 1900ء کے شروع میں سننے کا اتفاق ہوا.جبکہ اتفاقاً مجھے شملہ میں چند احمدی احباب کے پڑوس میں رہنے کا موقع ملا.ان دوستوں سے قدرتی طور پر حضور کے دعویٰ مسیحیت اور وفاتِ مسیح ناصری کے متعلق سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہو گیا.میں اگر چہ بڑی سختی سے اُن کی مخالفت کیا کرتا تھا.مگر بیہودہ گوئی اور طعن وطنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا.( وفات مسیح پر میں یقین نہیں رکھتا تھا.لیکن کہتے ہیں کہ اس کے باوجو د طعن اور طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا.آج کل بلکہ ہمیشہ سے ہی مخالفین کا جو یہ طریقہ رہا ہے کہ گالم گلوچ پر آجاتے ہیں.لیکن یہ نیک فطرت تھے ، کہتے ہیں میں طعن و طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا).آہستہ آہستہ مجھے خوش اعتقادی پیدا ہوتی گئی.( آہستہ آہستہ مجھے بھی اس بات پر اعتقاد ہوتا گیا).حضور کا اُنہی دنوں میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ بھی بحث و مباحثہ جاری تھا.حضور نے اس بات پر زور دیا کہ مقابلہ میں قرآن شریف کی عربی تفسیر لکھی جاوے.اور وہ اس طرح کہ بذریعہ قرعہ اندازی کوئی سورۃ لے لی جاوے اور فریقین ایک دوسرے کے بالمقابل بیٹھ کر عربی میں تفسیر لکھیں.کیونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه: 80) ایک کاذب اور مفتری پر اس کے حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے.اس لئے اس طرح فریقین کا صدق و کذب ظاہر و سکتا ہے.ان ہی ایام میں پیر صاحب کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں حضرت مسیح موعود کی طرف چوہیں باتیں منسوب کر کے یہ استدلال کیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (نعوذ باللہ ) ملحد اور اسلام سے خارج ہیں.اس اشتہار میں اکثر جگہ حضور کی تصانیف سے اقتباسات نقل کئے گئے تھے.(کہتے ہیں کہ) میں عموماً فریقین کے اشتہارات دیکھتا رہتا تھا.( ابھی احمدی نہیں ہوا تھا لیکن فریقین کے دونوں طرف سے اشتہار دیکھتا رہتا تھا).مذکورہ بالا اشتہار کے ملنے پر جو غیر احمدیوں نے مجھے دیا تھا میں نے احمد کی احباب سے استدعا کی کہ وہ مجھے اصل ہو
174 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کتب لا کر دیں تا کہ میں خود مقابلہ کر سکوں.مقابلہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ بعض حوالے کو صحیح تھے مگر اکثر میں انہیں توڑ مروڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی.(اور یہی حال آج بھی ہے.اب مخالفین نے ایک نئی مہم شروع کی ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب سے حوالے دیئے جاتے ہیں اور اُن کو توڑ مروڑ کر پھر اس سے اشتہار لگا کر یا پھر بڑے بڑے پوسٹر بنا کے یا جماعت کے خلاف کتابچہ شائع کر کے حضرت مسیح موعود کے خلاف دریدہ دہنی کی جاتی ہے اور ہمارا جو پروگرام ہے راہ ھدی اور اس کی اب ویب سائٹ بھی شروع ہو گئی ہے، اُس میں اس کے جواب آرہے ہیں ، اور اصل حوالے اور اصل کتب کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ جاکے دیکھیں تو خود پتہ لگ جائے.اس سے بھی اب بعض ایسے لوگ جنہوں نے اس طرح جائزہ لینا شروع کیا تو اللہ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہو رہی ہیں.تو یہ اعتراضات، یہ حربہ مولویوں کا ہمیشہ سے رہا ہے.یہ آج کوئی نئی چیز نہیں ہے.بعض دفعہ لوگ گھبر ا جاتے ہیں.اسی طرح جو ویب سائٹ شروع ہوئی ہیں، ان کے انچارج آصف صاحب ہیں.وہ کہنے لگے کہ لوگوں نے بڑی بھر مار کر دی ہے اور ہمارے جو اب اُس طرح نہیں جاسک رہے.تو میں نے اُن کو یہی کہا تھا آپ کچھ دیر انتظار کریں یہ لوگ خود ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے.اور یہی ہوا.اُس میں اعتراضات کی جو بھر مار تھی ان پر جب ہماری طرف سے جوابات کی اس طرح ہی بھر مار ہوئی ہے تو آہستہ آہستہ خاموش ہو کے بیٹھ گئے.بلکہ اب انہوں نے اپنے جو دوسرے سائنٹس ہیں ان میں یہ پیغام دینا شروع کر دیا ہے کہ راہ ھدی کی جو ویب سائٹ ہے اس پر کوئی نہ جائے.اس میں یہ ہمیں صحیح طرح access نہیں دیتے حالانکہ خودان کے پاس جواب نہیں ہیں.کیونکہ مایوس ہو چکے ہیں اس لئے دوسروں کو بھی روک رہے ہیں.بہر حال ہمیشہ سے ہی یہ طریق رہا ہے) تو کہتے ہیں کہ میں نے جب کتابیں کھول کے یہ دیکھا، تو حوالے تو دیئے ہوئے تھے لیکن توڑ مروڑ کر اُن کو پیش کیا گیا تھا.پھر آگے لکھتے ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مقابلے میں تفسیر نویسی کے منظور نہ کرنے پر حضور نے اعجاز المسیح رقم فرمائی اور اس میں چیلنج دیا کہ پیر صاحب اتنے عرصے کے اندر اندر اس کتاب کا جواب تحریر کریں.پیر صاحب نے عربی میں تو کچھ نہ لکھا گو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے اردو میں ایک کتاب لکھی تھی جو بعد میں سرقہ ثابت ہوئی (وہ بھی چوری کی ثابت ہوئی).کہتے ہیں بہر حال اس کشمکش میں میری طبیعت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی جانب زیادہ مائل ہوتی گئی.پھر میں نے خیال کیا کہ احادیث کا تو ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جس پر عبور (حاصل) کرنا مشکل ہے مگر احمدی احباب اکثر قرآن کریم کے حوالہ جات دیتے رہتے ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ قرآنِ کریم کا شروع سے آخر تک بنظر غائر مطالعہ کیا جائے.چنانچہ گو میں عربی نہیں جانتا تھا مگر میں نے ایک اور دوست کے ساتھ مل کر قرآنِ کریم کا اردو ترجمہ پڑھا اور اس کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم میں ایک دو نہیں، ہیں تھیں نہیں بلکہ متعدد آیات ایسی ہیں جن سے وفات مسیح کا استدلال کیا جا سکتا ہے.پھر لکھتے ہیں کہ 1901ء کے شروع میں جب مردم شماری ہونے والی تھی حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں درج تھا کہ جو لوگ مجھ پر دل میں ایمان رکھتے ہیں گو ظاہر أبیعت نہ کی ہو وہ اپنے آپ کو احمدی لکھوا
175 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سکتے ہیں.اُس وقت مجھے اس قدر حسن ظن ہو گیا تھا کہ میں تھوڑا بہت چندہ بھی دینے لگ گیا تھا اور گو میں نے بیعت نہ کی تھی لیکن مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی لکھوا دیا.مجھے خواب میں ایک روز حضور علیہ السلام کی زیارت ہوئی.صبح قریباً چار بجے کا وقت تھا.مجھے معلوم ہوا کہ حضور برابر والے کمرے میں احمدیوں کے پاس آئے ہوئے ہیں.چنانچہ میں حضور سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے اس کمرے میں گیا اور جا کر السلام علیکم عرض کی.حضور نے جواب دیا وعلیکم السلام اور خواب میں فرمایا کہ برکت علی ! تم ہماری طرف کب آؤ گے؟ میں نے عرض کی حضرت ! اب آہی جاؤں گا.حضور اس وقت چار پائی پر تشریف فرما تھے.جسم نگا تھا ( اوپر سے ننگے تھے).سر کے بال لمبے تھے اور اُس وقت کے چند روز بعد میں نے تحریری بیعت کر لی.یہ نظارہ مجھے اب تک ایسا ہی یاد ہے جیسا کہ بیداری میں ہوا ہو.اس کے بعد جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے دارالامان میں حاضر ہو کر دستی بیعت بھی کر لی.اُس وقت میں نے دیکھا کہ حضور کی شبیہ مبارک بالکل ویسی ہی تھی جیسی کہ میں نے خواب میں دیکھی تھی اور اُس سے کچھ عرصہ بعد اتفاقاً اس مہمان خانے میں اترا ہوا تھا جس میں اب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ابن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سکونت پذیر ہیں.میں ایک چارپائی پر بیٹھا تھا کہ سامنے چھت پر غالباً کسی ذرا اونچی جگہ پر حضور آکر تشریف فرما ہوئے.نہا کر آئے تھے.بال کھلے ہوئے تھے اور اوپر کا جسم ننگا تھا.یہ شکل خصوصیت سے مجھے ویسی ہی معلوم ہوئی جو میں خواب میں دیکھ چکا تھا اور مجھے مزید یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ نے میری ہدایت کے لئے مجھے دکھلائی ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر 136 تا 139 غیر مطبوعہ ) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجد مبارک سے حضور غالباً نماز ظہر سے فارغ ہو کر کھڑ کی کے راستے اندر تشریف لے جارہے تھے تو حسب دستور احباب نے آپ کو گھیر لیا.کوئی ہاتھ چومتاتھا، کوئی جسم اطہر کو ہاتھ لگا کر اسے منہ اور سینے پر ملتا تھا.میں بھی اُن میں شامل تھا.اتنے میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول قریب سے گزرے، اور فرمانے لگے ، اخلاص چاہئے ، اخلاص“.میرے دل نے گواہی دی کہ بیشک ظاہر داری کوئی چیز نہیں جب تک اس کے ساتھ اخلاص نہ ہو.( صرف چومنا اور ہاتھ لگانا کوئی چیز نہیں جب تک اخلاص نہ ہو.یہی حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ان کو سبق دیا).چنانچہ اس وقت سے میں ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہوں کہ خدا کے فضل سے اخلاص کے ساتھ تعلق قائم رہے.لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز ظہر کے بعد جبکہ حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما تھے کسی نے عرض کی کہ دو تین آریہ صاحبان ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں.حضور علیہ السلام نے انہیں اندر بلا لیا اور گفتگو شروع ہو گئی.نجات کے متعلق ذکر آنے پر میں نے دیکھا کہ حضور کار عب اس قدر غالب تھا کہ آریہ دوست کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے تھے.یہاں تک کہ انہوں نے بیان کیا کہ نجات کے لئے ویدوں کا مانناضروری نہیں بلکہ جو اچھے کام کرے گا نجات پا جائے گا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر 141،140 غیر مطبوعہ)
خطبات مسرور جلد نهم 176 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں مجھے نماز جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا.نماز حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا کر قبر کے نزدیک بیٹھ گئے.( وہاں مسجد اقصیٰ میں اُن کے والد کی جو قبر ہے).میں بھی موقع پا کر پاس ہی بیٹھ گیا اور نماز میں حضور کی حرکات کو دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں.حضور نے قیام میں اپنے ہاتھ سینے کے اوپر باندھے مگر انگلیاں کہنی تک نہیں پہنچتی تھیں.آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی.نماز کے بعد یہ مسئلہ پیش ہو گیا کہ کیا نماز جمعہ کے ساتھ عصر بھی شامل ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ چنانچہ حضور کے ارشاد کے مطابق اُس دن نماز عصر جمعہ کے ساتھ جمع کر کے ادا کی گئی.حضور کے آخری ایام میں جماعت بفضلہ تعالیٰ ترقی کر گئی تھی اور چھ سات سو احباب جلسہ سالانہ پر تشریف لاتے تھے.( اُس وقت کے صحابہ یہ جماعت کی ترقی کی باتیں کر رہے ہیں کہ چھ سات سو احباب جلسے پر تشریف لاتے تھے ) لکھتے ہیں کہ ایک بار ہمیں بتلایا گیا کہ حضور کا منشاء ہے کہ سب دوست بازار میں سے گزریں تا کہ غیر احمدی اور ہندو وغیرہ خدا کی وحی کو پورا ہوتے ہوئے مشاہدہ کر لیں کہ کس طرح دور دور سے لوگ ہماری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.( اور آج کل کے احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر کتنی زیادہ حمد کرنی چاہئے.اس زمانے کے بزرگوں کی نسلیں بھی آج دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور خود اُن کی ایک ایک کی نسلیں بھی سینکڑوں میں پہنچی ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ جو نئے شامل ہو رہے ہیں وہ تو ہیں ہی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرمارہے ہیں کہ قادیان کی گلیوں میں پھر و تا کہ اظہار ہو کہ ہم کتنی تعداد میں ہو گئے ہیں، اور آج دنیا جانتی ہے اور اخباروں میں لکھا جاتا ہے ، ٹیلی ویژن پروگرام کئے جاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کیا چیز ہے ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے).پھر لکھتے ہیں کہ اس وقت یہ عام دستور تھا کہ مہمان روانگی سے قبل حضور سے رخصت حاصل کر کے واپس جاتے تھے.چنانچہ ایک بار میں نے بھی شام کے وقت رقعہ بھجوا کر اجازت چاہی.حضور نے جو ابا ارشاد فرمایا کہ اجازت ہے مگر صبح جاتے ہوئے مجھے اطلاع دیں.حسب الحکم اگلی صبح روانہ ہونے سے قبل اطلاع کی گئی تو حضور بنفس نفیس رخصت کرنے کو تشریف لائے.اور بھی کئی دوست ہمراہ تھے.حضور علیہ السلام کچی سڑک کے موڑ تک ہمارے ساتھ تشریف لے گئے.راستے میں مختلف باتیں ہوتی رہیں.میں نے دیکھا کہ حضور نہایت اطمینان سے چل رہے تھے اور بظاہر نہایت معمولی چال سے ، مگر وہ دراصل کافی تیز تھی.اکثر خدام کو کوشش کر کے ساتھ دینا پڑتا تھا.بچے تو بھاگ کر شامل ہوتے تھے.پھر لکھتے ہیں کہ غالباً 1900ء میں جبکہ تقسیم بنگال کا بڑا چرچا تھا میں نے اس بات کو مد نظر رکھ کر ایک مضمون حقوق انسانی پر لکھا.حضور علیہ السلام بغاوت کو بالکل پسند نہ فرماتے تھے اور اپنی جماعت کو بھی وفادار رہنے کی ہدایت فرماتے رہتے تھے.ان احکامات کی روشنی میں میں نے مضمون لکھ کر حضور کی خدمت میں بھیجا کہ اگر حضور علیہ السلام پسند فرماویں تو اس مضمون کو اخبار میں اشاعت کے لئے بھجوا دیں.چنانچہ اسے حضور نے البدر میں شائع کر وا دیا.
خطبات مسرور جلد نهم 177 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء آج کل کے حالات میں بھی جو بعض ملکوں میں ہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بغاوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسند نہیں فرمایا بلکہ بغاوت کے خلاف جو مضمون آیا اُسے شائع فرمایا.پھر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ بعد نماز مغرب حضور شاہ نشین پر بیٹھے تھے.کسی دوست نے عرض کی کہ تحصیل دار صاحب علاقہ صبح مینارہ کی تعمیر کے سلسلہ میں موقع دیکھنے کے لئے آرہے ہیں.حضور علیہ السلام مینارة المسیح بنوانا چاہتے تھے ( اس کے بننے سے پہلے کا واقعہ ہے) مگر قادیان کے ہندو وغیرہ اس کی مخالفت کر رہے تھے.اور انہوں نے سرکار میں درخواست دی ہوئی تھی کہ مینارہ بنانے کی اجازت نہ دی جاوے.حضور علیہ السلام نے تحصیل دار کی آمد کے متعلق سن کر فرمایا کہ بہت اچھا.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اُن کا مناسب استقبال کریں اور اُنہیں موقع دکھاویں.( جو مختلف احمدی لوگ ہیں وہ جائیں.اچھی طرح تحصیلدار کا استقبال کریں.اُس کو موقع دکھائیں.پھر فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے کہ مینارہ ضرور تعمیر ہو گا اس کو کوئی نہیں روک سکتا.اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعمیر ہوا.پھر لکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام عام طور پر محفل میں کس طرح بیٹھتے تھے یا کس طرح چلتے تھے.اس بارہ میں کہتے ہیں کہ میں نے حضور کی محفل میں دیکھا ہے کہ حضور کی آنکھیں نیچے جھکی ہوئی ہوتی تھیں اور قریباً بند معلوم ہوتی تھیں.مگر جب کبھی حضور میری جانب نظر اُٹھا کر دیکھتے تھے تو میں برداشت نہیں کر سکتا تھا اور اپنی نظر نیچی کر لیتا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر 142 تا144 غیر مطبوعہ ) لکھتے ہیں کہ غالباً آخری دنوں کا واقعہ ہے کہ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی معرفت عریضہ ارسال کیا اور ملاقات کی خواہش کی.موصوف اُس وقت سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے تھے.حضور علیہ السلام نے اجازت مرحمت فرمائی اور اوپر کمرے میں بلوالیا.میں نے حضور سے عرض کیا کہ میں غیر احمدی ہونے کی حالت میں دفتر میں ایک فنڈ میں شامل تھا جس کا نام Fortune Fund تھا.پندرہ سولہ آدمی تھے.آٹھ آنے ماہوار چندہ لیا جاتا تھا.فراہم شدہ رقم سے لاٹری ڈالی جاتی تھی اور منافع تقسیم کر لیا جاتا تھا.یہ کام احمدی ہونے کے بعد تک جاری رہا.چنانچہ ایک دفعہ ہمارے نام تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے کی لاٹری نکلی.اور قریباً ساڑھے سات ہزار روپیہ میرے حصے میں آیا.(تواب احمدی ہونے کے بعد پوچھ رہے ہیں کہ) مجھے خیال ہوا کہ کیا یہ امر جائز بھی ہے ؟ حضور سے دریافت کرنے پر جواب ملا کہ ” یہ جائز نہیں“.( یہ لاٹری وغیرہ کا جو طریقہ ہے) اس رقم کو اشاعت اسلام وغیرہ پر خرچ کر دینا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز حرام نہیں.پھر انہوں نے اُس کو کچھ چندے میں دیا.کچھ غرباء میں تقسیم کیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر 146 تا 147 غیر مطبوعہ ) پھر ایک روایت حضرت محمد اسماعیل صاحب ولد مکرم مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور کی ہے، جنہوں نے 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی.پیدائشی احمدی تھے.کہتے
178 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہیں ”میں قریباً ہمیں سال کا تھا کہ گورداسپور میں کرم دین بھیں جہلمی جو دراصل بھیں ضلع جہلم کا تھا) کے مقدمہ کا حکم سنایا جانا تھا.میں ایک دن پہلے اپنے گاؤں سے وہاں پہنچ گیا.وہاں پر ایک کو ٹھی میں حضور علیہ السلام بھی اترے ہوئے تھے ( یعنی وہاں ٹھہرے ہوئے تھے).گرمی کا موسم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ادھر کے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے.وہاں پر میرے والد صاحب میاں جمال الدین صاحب، میاں امام دین صاحب سیکھوانی اور چودھری عبد العزیز صاحب بھی موجود تھے.میں نے جاکر حضور کو پنکھا جھلنا شروع کر دیا.حضور نے میری طرف دیکھا اور میرے والد میاں جمال الدین صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا کر فرمایا کہ میاں اسماعیل نے بھی آکر ثواب میں سے حصہ لے لیا ہے.حضور کا معمولی اور ادنیٰ خدمت سے خوش ہو جانا اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو طبیعت میں سرور پیدا ہوتا ہے.“ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4 روایت حضرت محمد اسماعیل صاحب الصفحہ نمبر 150 غیر مطبوعہ ) محمد اکبر صاحب ولد اخوند رحیم بخش صاحب قوم پٹھان اور کزئی سکنہ ڈیرہ غازی خان لکھتے ہیں کہ خاکسار کے والد صاحب کے چا اخوند امیر بخش خان ضلع مظفر گڑھ میں سب انسپکٹر پولیس تھے.خاکسار کے احمدی ہو جانے کے بعد وہ پنشن پا کر اپنے گھر ڈیرہ غازی خان آگئے.اُن دنوں جماعت احمد یہ ڈیرہ غازی خان کے سر کردہ مولوی عزیز بخش صاحب بی.اے تھے جو مولوی محمد علی صاحب ( جو بعد میں پیغامیوں کے امیر بنے تھے) کے بڑے بھائی تھے.وہ مولوی عزیز بخش صاحب اس وقت ڈیرہ غازی خان میں سرکاری ملازم تھے.جس محلے میں وہ رہتے تھے وہاں ایک مسجد تھی جو ویران پڑی رہتی تھی.جماعت احمدیہ نے اُسے مرمت وغیرہ کر کے آباد کیا اور اس میں نماز پڑھنی شروع کر دی.ایک غیر احمدی مولوی فضل الحق نامی نے اس محلے میں آکر کرایہ کے مکان میں رہائش اختیار کی اور محلے کے لوگوں کو اکسایا ( اُس وقت بھی وہی کام ہو تا تھا آج بھی وہی کام ہو رہا ہے ) کہ احمدیوں کو اس مسجد سے نکالنا چاہئے اور اس مسجد میں چند طلباء جمع کر کے اُن کو پڑھانا شروع کر دیا.( مدرسے کا یہ جو نظریہ ہے اور مدرسے کے لڑکوں کے ذریعے جلوس نکالنا اور توڑ پھوڑ کرنا، یہ آج بھی اُسی طرح جاری ہے).کہتے ہیں کہ طلباء کو جمع کر کے اُن کو پڑھانا شروع کر دیا اور نماز کے وقت وہ اپنی جماعت علیحدہ کرانے لگا اور مسجد میں وعظوں کا بھی سلسلہ شروع کر دیا.خاکسار کے رشتے کے چا اخوند امیر بخش خان مذکور نے شہر ڈیرہ غازی خان کے سب انسپکٹر پولیس کو اکسایا کہ وہ رپورٹ کرے کہ اس محلہ میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فساد کا اندیشہ ہے، فریقین کے سر کر دوں سے ضمانت لی جانی چاہئے.( پہلے تو یہاں مسجد ویران پڑی تھی کوئی آتا نہیں تھا جب احمدیوں نے ٹھیک کر کے ، مرمت کر کے آباد کر لی تو سارا فساد شروع ہو گیا).کہتے ہیں کہ خاکسار نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور ایک عریضہ لکھا جس میں اپنے رشتے کے دادا صاحب مذکور کی مخالفت کا ذکر کیا اور لکھا کہ اس کو اس قدر عناد ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو خاکسار کو قتل کر دے.اور جماعت کے متعلق پولیس سے جو اس نے رپورٹ کرائی تھی اُس کا بھی ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی.حضور نے از راہ ذرہ نوازی کمال شفقت سے خود اپنے مبارک ہاتھ سے اس عاجز کے عریضے کی پشت پر جواب رقم فرما کر وہ خط خاکسار کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیا.حضور کے جواب کا مفہوم یہ تھا
179 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم (اصل الفاظ نہیں).مفہوم یہ تھا کہ ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے اور پھر دعا فرمائی کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کا جلد نیک نتیجہ ظاہر ہو گا اور جماعت کو چاہئے کہ ضمانت ہر گز نہ دیوے.(اس مسجد کے لئے کسی قسم کی ضمانت نہیں دینی یا پارٹی بن کے ضمانت نہیں دینی).اگر مسجد چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دی جاوے اور کسی احمدی کے مکان پر باجماعت نماز کا انتظام کر لیا جاوے.مگر جماعت کے کسی فرد کو ضمانت ہر گز نہیں دینی چاہئے.لکھتے ہیں کہ یہ خط خاکسار کے پاس محفوظ تھا.غالباً مولوی عزیز بخش صاحب نے خاکسار سے لے لیا تھا اور واپس نہ کیا اس لئے سامنے نہیں.(مفہوم انہوں نے یہ بیان کیا).پھر کہتے ہیں کہ حضور کے اس جواب کے آنے کے تھوڑے دنوں کے بعد اس عاجز کے داد امذ کور بیمار ہو گئے اور چند دن بیمار رہ کر وہ فوت ہو گئے.جو رپورٹ سب انسپکٹر پولیس نے کی تھی وہ سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس بمراد انتظام مناسب بھیج دی.ڈپٹی کمشنر صاحب نے ایک مسلمان ای.اے.سی کو مقرر فرمایا کہ وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مصالحت کرا دے.چنانچہ وہ کئی ماہ مسلسل کوشش کر تا رہا کہ مصالحت ہو جائے مگر کامیابی نہ ہوئی.( ان لوگوں سے تو فیصلہ نہیں ہوا لیکن خدا تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا وہ بھی عجیب ہے).آخر دریائے سندھ کی طغیانی سے وہ حصہ شہر کا غرق ہو گیا.( دریائے سندھ میں سیلاب آیا اور شہر کا وہ حصہ ہی غرق ہو گیا جس میں مسجد تھی) اور مسجد گر گئی اور بعد ازاں سارا شہر ہی دریا بر د ہو گیا اور نیا شہر آباد کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنی نئی مسجد تعمیر کرائی اور جہاں تک خاکسار کا خیال ہے نئے شہر میں سب سے پہلے جو مسجد تعمیر کی گئی وہ احمدیوں کی تھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3 روایت حضرت محمد اکبر صاحب صفحہ نمبر 126 تا 128 غیر مطبوعہ ) حضرت نظام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں اللہ دتہ صاحب سکنہ وچھو کی تحصیل پسر ور ضلع سیالکوٹ لکھتے ہیں کہ نومبر 1904ء کا واقعہ ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ تشریف لائے تھے.بندہ بھی حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا.غالباً نماز ظہر کے بعد مسجد حکیم حسام الدین صاحب مرحوم میں حضرت نے مندرجہ ذیل نصیحت احباب جماعت کو فرمائی تھی.فرمایا کہ لوگ تمہیں جوش دلانے کے لئے مجھے گالیاں دیتے ہیں مگر تمہیں چاہئے کہ گالیاں سُن کر ہر گز جوش میں نہ آؤ اور جو ابا گالیاں نہ دو.اگر تم انہیں جواباً گالیاں دو گے تو وہ پھر مجھے گالیاں دیں گے اور یہ گالیاں اُن کی طرف سے نہیں ہوں گی بلکہ تمہاری طرف سے ہوں گی.بلکہ تمہیں چاہتے کہ گالیاں سُن کر اُن کو دعائیں دو اور اُن سے محبت اور سلوک کرو تا کہ وہ تمہارے زیادہ نزدیک ہوں.اس کے بعد حضور علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر فرمایا کہ جب کفار اُن کو گالیاں نکالتے تھے اور طرح طرح کی تکالیف دیتے تھے تو وہ اس کے عوض اُن سے نیکی اور ہمدردی کا سلوک کرتے تھے.ایسا کرنے سے بہت سے کفار اُن کے حسن سلوک کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوئے.پس تمہیں بھی اُن کے نقش قدم پر چلنا چاہئے.کہتے ہیں یہ الفاظ جو میں نے بیان کئے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل الفاظ نہیں ہیں.مفہوم یہی ہے.انہوں نے اپنے الفاظ میں اُس کا خلاصہ یہ بیان کیا ہے.(ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3 روایت حضرت نظام الدین صاحب صفحہ نمبر 162 غیر مطبوعہ )
خطبات مسرور جلد نهم 180 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء پھر حضرت منشی عبد اللہ صاحب احمدی محلہ اسلام آباد، شہر سیالکوٹ.ان کی بیعت 4 نومبر 1902ء کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لائے تھے تو انہوں نے بیعت کی تھی.تیرہ سال کی عمر تھی.اور ایک خواب کے ذریعے انہوں نے بیعت کی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی سے انہوں نے تعلیم بھی حاصل کی.یہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں اپنا دعویٰ کرنے کے بعد 4 نومبر 1902ء کو واپس قادیان تشریف لے گئے تو حضور نے ان لوگوں کے نام طلب فرمائے جنہوں نے سیالکوٹ کے احمدیوں کو تکالیف دی تھیں.جب نام تحریر کئے گئے تو اُس کے چند دن بعد سیالکوٹ میں بہت غلیظ طاعون پھوٹ پڑی تو خدا تعالیٰ قادر و قہار نے چن چن کر اُن لوگوں کے خاندانوں کو تباہ کر دیا.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصار پھر ان ہی ایام میں طاعون کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مخالف تھا جب اس کو طاعون ہوئی تو اس نے حکیم حسام الدین صاحب کو بلایا.آپ نے آکر اُس کو صرف اتنا کہا کہ یہ کالا ناگ ہے اس کے نزدیک مت جاؤ.جب وہ قریب المرگ ہوا تو بیوی بوجہ محبت اُس سے چمٹ گئی.اور در حقیقت وہ عورت موت کو مول لے رہی تھی.اسی طرح اُس کی بچی نے کیا اور اس طرح سے اُس کے خاندان کے انیس افراد ہلاک ہو گئے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے حضور سے دریافت کیا کہ حضور کیا کبھی آپ کو بھی ریا پیدا ہوا ہے، دکھاوا ، ریا پیدا ہوا ہے) حضور نے جواب دیا کہ اگر ایک آدمی جنگل میں مویشیوں کے درمیان نماز پڑھ رہا ہو تو کیا اس کے دل میں کبھی ریا پیدا ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا میر اتو یہ حال ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3 روایت حضرت منشی عبد اللہ صاحب صفحہ نمبر 154 تا 155 غیر مطبوعہ ) حضرت محمد يحي صاحب ولد مولوی انوار حسین صاحب ساکن شاہ آباد ضلع ہر دوئی.ان کی پیدائش 1894ء کی ہے.1904ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی.کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب مرحوم مولوی انوار حسین خان صاحب سکنہ شاہ آباد ضلع ہر دوئی، یوپی نے 1889ء میں لدھیانہ آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور اس سے کچھ عرصہ قبل سے ان کی خط و کتابت تھی اور وہ بیعت کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لینے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو قادیان آنے سے روکا ہوا تھا.جب حضور لدھیانہ اس غرض سے تشریف لے چلے تو والد صاحب کو اطلاع کر دی اور والد صاحب مرحوم اس کی تعمیل میں لدھیانہ آکر فیض یاب ہوئے.والد صاحب دیو بند کے دستار بند مولوی تھے.( با قاعدہ دیوبند کے سر ٹیفائیڈ مولوی تھے).حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کا یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے کہ میں پہلی مرتبہ قادیان دارالامان 1892ء میں آیا تھا اور اس وقت مہمان گول کمرے میں ٹھہرا کرتے تھے.میں بھی وہیں ٹھہر ا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اندر تشریف لے جاتے اور کبھی چٹنی کبھی اچار لے کر آتے کہ آپ کو مرغوب ہو گا.غرضیکہ کھانا خود بہت کم کھاتے اور مہمانوں کی خاطر زیادہ کیا کرتے تھے.مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کی کثرت دیکھ کر
خطبات مسرور جلد نهم 181 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 08 اپریل 2011ء ایک مرتبہ والد صاحب مرحوم فرمانے لگے (یہ بعد کی بات ہے جب ان کے والد قادیان آئے اور دیکھا کہ مسجد اقصی نمازیوں سے بھری ہوئی ہے تو کہتے ہیں) کہ پہلی مرتبہ جب میں قادیان آیا تھا تو جمعہ کے دن نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ تشریف لے چلے.رستے میں مولوی شادی کشمیری ملا.اُس کو نماز پڑھنے کے لئے ساتھ لے لیا اور میاں جان محمد صاحب کو ساتھ لے لیا.آگے چل کے کسی بچے کی میت مل گئی تو آپ نے جان محمد کو نماز جنازہ پڑھانے کے لئے فرمایا اور خود اُن کے پیچھے نماز ادا فرمائی.جب مسجد اقصیٰ پہنچے اور نماز جمعہ پڑھی تو اُس وقت کل چھ نفوس تھے اور لکھتے ہیں کہ اب باوجود مسجد اتنی وسیع ہو جانے کے ارد گرد کی چھتیں بھری ہوتی ہیں.میرے لئے یہ بھی معجزہ ہے.پھر بچوں پر شفقت کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کسی کام کی ضرورت پیش آئی تو ہم چھوٹے بچے بورڈنگ تعلیم الاسلام کے جو اُن دنوں مدرسہ احمدیہ میں ہوا کرتے تھے، کام کرنے کی خاطر شوق سے آجاتے.مجھے یاد ہے کہ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم بچوں کے متعلق دریافت فرماتے کہ یہ کون ہے اور وہ کون ہے ؟ خاکسار کے متعلق ایک مرتبہ دریافت فرمایا تو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ انوار حسین صاحب آموں والے کے لڑکے ہیں.فرمانے لگے اسے کہو یہ بیٹھ جائے ، کام نہ کرے.یہ ابھی چھوٹا ہے.مجھے بٹھا دیا اور دوسرے لڑکے کام کرتے رہے.ایک مرتبہ سخت سردی پڑی جس سے ڈھاب کا پانی بھی جمنے لگا.( جو وہاں ڈھاب ہے اُس کا پانی ان ایام میں جم گیا) کہتے ہیں کہ میں گرم علاقے کا رہنے والا ہونے کی وجہ سے بہت سردی محسوس کرتا تھا.(وہاں کے رہنے والے بھی محسوس کرتے تھے اور جو گرم علاقے سے آئے ہوں تو وہ انہیں بہت زیادہ لگتی ہے).اور بورڈنگ میں قریباً سب لڑکوں سے عمر میں بھی بہت چھوٹا تھا تو فجر کی نماز کے لئے جانے میں سردی محسوس کرتا تھا.ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے سابق مہر سنگھ صاحب نے حضور سے ذکر کیا ہو گا.تو آکر مجھے کہا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ اس چھوٹے بچے کو سردی میں بہت تکلیف ہوتی ہے.نماز فجر کے لئے مسجد نہ لے جایا کرو.اُس دن سے مجھے فجر کی نماز تمام سردی بورڈنگ میں ادا کرنے کا حکم مل گیا.یہ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم حضور کے ہمراہ نہر تک گئے.رمضان کا مہینہ تھا پیاس لگی ہوئی تھی، حضور کو معلوم ہو گیا کہ بعض چھوٹے بچوں کا روزہ ہے تو حضور نے فرمایا ان کا روزہ تڑوا دو.بچوں کا روزہ نہیں ہوتا.اس حکم پر ہم نے نہر سے خوب پانی پی کر پیاس بجھائی اور حضور سے رخصت ہو کر قادیان واپس چلے آئے.مہمانوں کے جذبات کا احساس.باہر سے اکثر احباب تشریف لاتے تھے اور خوردہ کے خواہشمند ہوتے تھے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان کا جو بچا ہوا کھانا ہوتا تھا اس کے خواہشمند ہوتے تھے) چونکہ بورڈران میں سے میں چھوٹا تھا اور اندر جایا کرتا تھا.احباب کے ذکر کرنے پر خوردہ لانے پر تیار ہو جایا کرتا تھا.کھانے کا وقت ہوا تو ام المومنین سے عرض کرنے پر خوردہ مل گیا.(اکثر یہ ہو تا تھا کہ کھانے کا وقت ہوا تو میں جا کے حضرت اماں جان سے عرض کرتا تھا تو وہ دے دیا کرتی تھیں).اور کھانے کا وقت نہیں ہو تا تھا تو تب بھی میں جا
182 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے لوگوں کی خواہش کا اظہار کر دیا کرتا تھا تو از راہ شفقت روٹی منگوا کر اس میں سے ایک لقمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے لیا کرتے تھے اور بقیہ دے دیا کرتے تھے جو میں خوشی خوشی لا کر اُن دوستوں کو دے دیا کرتا تھا جنہوں نے مانگا ہوتا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.جلد 3 صفحہ 134 تا 137) حضور کی نماز میں رفت کو انہوں نے کس طرح دیکھا.لکھتے ہیں کہ ”حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا جنازہ حضور نے خود پڑھایا تھا.نماز بہت لمبی پڑھائی.حتی کہ میں کھڑے کھڑے تھک گیا.نماز سے کچھ قبل ایک ٹکڑا بادل کا آگیا اور گر داڑنے لگی.(ہوا بھی چلنے لگی، مٹی اڑنے لگی) اور نماز کے سارے وقت میں یعنی ابتدائی تکبیر سے لے کر سلام پھیر نے تک خوب موٹے موٹے بوند کے قطرے بارش کے پڑتے رہے.اور سلام پھیر نے پر بارش ختم ہو گئی.اور تھوڑی دیر بعد آسمان کھل گیا.“ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3 روایت حضرت محمد یکی خان صاحب صفحہ نمبر 137-138 غیر مطبوعہ ) اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی اور ہمارے اندر بھی احمدیت کی حقیقی روح ہمیشہ قائم فرماتا چلا جائے.ہمیں بھی اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دے.ہمارے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو.ہر آنے والا دن ہمارے اندر بھی اور ہماری نسلوں میں بھی احمدیت کی محبت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف ہمیشہ توجہ بڑھاتا چلا جائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 29 اپریل تا 5 مئی 2011ء جلد 18 شماره 17 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 183 15 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء بمطابق 15 شہادت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دو جمعہ پہلے میں نے حکمرانوں کے غلط رویوں اور عوام کے حقوق صحیح طور پر ادانہ کرنے اور عوام الناس کے رد عمل اور رویے کی قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں وضاحت کی تھی کہ ان حالات میں ایک حقیقی مسلمان کو حکمرانوں کے متعلق کیارڈ عمل دکھانا چاہئے اور آج کل کیونکہ عرب ممالک میں تازہ تازہ اپنے سربراہان اور حکمرانوں کے خلاف یہ ہوا چلی ہے کہ اُن سے کس طرح حقوق لینے ہیں یا اُن کو حکومتوں سے کس طرح اتارنا ہے اور علیحدہ کرنا ہے اس لئے ہمارے عرب ممالک کے رہنے والے احمدی اس موضوع پر زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں.اسی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے عربی چینل کے ایم ٹی اے تھری (3-MTA) کے لائیو پروگرام کرنے والوں نے ، الْحِوَارُ الْمُباشر کا جو اُن کا لائیو پروگرام ہے اور ہر مہینے کی پہلی جمعرات سے اتوار تک ہوتا ہے، اُس میں انہوں نے اس موضوع کو رکھا تھا جو براہِ راست عرب ممالک کے سیاسی حالات سے متعلق تو نہیں تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالتا ہے.اس پروگرام کو کنڈکٹ (Conduct) کرنے والے شریف عودہ صاحب اِس پروگرام کے متعلق مجھے کچھ بتا بھی گئے تھے.پھر بعد میں انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ” الھدی کے کچھ حصہ پر نشان لگا کے بھیجا.یہ اس کا پہلا حصہ ہے.ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہے.یہ تمام مضمون خاص طور پر ان ملکوں کے سر براہوں کے حالات پر منطبق ہے جہاں آج کل یہ فساد ہو رہے ہیں.بلکہ یہ مضمون نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام الناس اور پھر علماء پر بھی منطبق ہوتے ہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کتاب میں اگلا حصہ علماء کے بارہ میں بھی لکھا ہے.اپنے پروگرام میں شاید اس حوالے سے انہوں نے وضاحت سے باتیں بھی کی ہوں گی.بہر حال میں بھی اس بارہ میں کچھ بتانا چاہتا ہوں.یہ صرف چند ملکوں کا جن کے عوام پر جوش ہو کر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اُن کا ہی
184 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نقشہ نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھینچا ہے بلکہ جو نقشہ مسلمان بادشاہوں کا اور حکمرانوں کا اور عوام کا اور علماء کا سو سال سے زائد عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھینچا ہے آج بھی تمام مسلم ممالک آپ کے ان الفاظ کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں.یہی حالات آج کل پیش آرہے ہیں.اور جب ہم مزید نظر دوڑائیں تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے مسلم ممالک نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد جو نئی اسلامی مملکتیں وجود میں آئی ہیں، اُن کے سربراہوں اور رعایا اور نام نہاد علماء کا بھی یہی حال ہے.جو اپنی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.اور پھر اس تمام خوفناک اور قابل شرم صورتِ حال کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب میں بیان فرمائی ہے، حل بھی بیان فرمایا ہے کہ صحیح وقت جس نے آنا تھا وہ آچکا اور ہزاروں نشانات اور آسمانی تائیدات اُس کی آمد کی گواہی دے رہی ہیں.اور اُس کو ماننے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے میں اب مسلمانوں کی بقا ہے.اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے.لیکن آپ کی بات کا مثبت جواب دینے کی بجائے آپ کے خلاف مخالفتوں کے طوفان ہی اُٹھے.تاہم آپ کے دعویٰ کے بعد ایک اچھی صورتِ حال یہ بھی سامنے آئی کہ مخالفین احمدیت نے اسلام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی کوششیں بھی شروع کر دیں.اُن کی ان کوششوں کی حقیقت کیا ہے اور کس حد تک اسلام کا درد ہے؟ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے.اس تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا تو لیکن بہر حال بعض تنظیموں نے اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے.لیکن کیونکہ براہ راست الہی رہنمائی حاصل نہیں تھی اس لئے بہت سی بدعات یا اپنے اپنے خاص مکتبہ فکر جس کی طرف مختلف گروپ منسوب تھے ، ان کے نظریات کی زیادہ تقلید کی گئی اور بہت سارے نظریات اور بدعات راہ پا گئیں.بنیادی اسلامی تعلیم کو بھلایا جاتا رہا.حکم اور عدل تو خدا تعالیٰ نے ایک ہی کو بھیجنا تھا جس نے غلط اور صحیح اور حقیقی اور غیر حقیقی کے درمیان لکیر کھینچ کر واضح کرنا تھا.اُس حکم اور عدل کے بغیر تو غلط نظریات ہی راہ پانے تھے لیکن بہر حال ایک ہل جل ( ہلچل) مسلمانوں میں پیدا ہوئی اور ایک طبقے کو مذہب میں دلچسپی بھی پیدا ہوئی بلکہ بڑھی اور یہ دلچسپی اصل میں تو لوگوں کے اندر کی بے چینی کو دور کرنے کے لئے تھی اور یہ بھی اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی تقدیر کے تحت ہی ہو رہا تھا تا کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کی تلاش کریں.گو کہ بعض جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور ہو رہا ہے وہ تلاش میں کامیاب ہوتے ہیں اور بعض غلط ہاتھوں میں پڑنے کی وجہ سے اس بے چینی کو دور کرنے کی جستجو میں ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں.یہاں میرے پاس جب بیعت کرنے والوں کے واقعات آتے ہیں تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سعید روحیں کس قدر بے چین تھیں، حق کو پانے کے لئے اُن کی کیا حالت تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی کس طرح رہنمائی فرمائی.اس رہنمائی کو بعض اتفاقات کہتے ہیں لیکن اصل میں یہ خدا تعالیٰ کے اس اعلان کی صداقت ہے کہ جس کو وہ چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے.بہر حال ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کو میں کسی وقت بیان کروں گا، جس طرح گذشتہ جمعہ میں صحابہ کے واقعات بیان کئے تھے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ وہ خدا جس طرح پہلے رہنمائی فرماتا تھا آج بھی رہنمائی فرمارہا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 185 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء احمدیت کی ترقی اور تبلیغ کے کام اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو احمدیت کے ذریعے دنیا میں پھیلتا دیکھ کر نیک فطرت مسلمانوں کو روزانہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آتا دیکھ کر بعض مسلمان حکومتوں نے بھی مولویوں کو رقمیں دے کر دنیا میں بھیجا اور پھیلانے کی کوشش کی.افریقن ممالک میں مدر سے بھی کھولے گئے اور کھولے جارہے ہیں.اسلامی یونیورسٹیوں کے نام پر ادارے بھی بنائے جارہے ہیں.کچھ حد تک حکومتوں کی دولت لگ رہی ہے.اس لئے جو غریب ممالک ہیں، ترقی پذیر ممالک ہیں یا غیر ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی حکومتیں بھی انہیں سہولتیں دے دیتی ہیں تاکہ مزید دولت آئے اور ملک کی معیشت بہتر ہو.لیکن ان نام نہاد علماء نے جو اس طرح وہاں تبلیغ کرنے جاتے ہیں ، انہوں نے تبلیغی مراکز کے نام پر اصل میں اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کی تربیت کی کوشش کم کی ہے اور جماعت احمدیہ کے خلاف منصوبہ بندی پر زیادہ زور دیا جارہا ہے.اور إِلَّا مَا شَاء اللہ یہ اپنی کوششوں میں ناکام ہی ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں، پہلے بھی ہوتے رہے ہیں.بہر حال اس بہانے ان ملکوں میں بعض جگہ پر غریبوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی ہے.لوگوں پر اسلام کی حقیقی تعلیم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کے ذریعے کھل جاتی ہے اور ایک دفعہ جب وہ یہ پیغام سمجھ لیتے ہیں تو پھر ہر وہ شخص جو دین کا درد رکھتا ہے، اس پیغام کو اہمیت دیتا ہے اور اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.جو نور خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اُس کا بندے تو مقابلہ نہیں کر سکتے.کوئی انسانی کوشش اُس کے مقابلے پر کھڑی نہیں رہ سکتی.یہ دولتمند حکومتیں چاہے جتنا بھی اسلام کی خدمت کے نام پر احمدیت سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کریں ہر عقلمند انسان جو ہے اُس پر سچائی اور جھوٹ ظاہر ہو جاتا ہے.دنیاوی کوشش چاہے خدا کے نام پر ہی کی جائے، اگر خدا کی منشاء کے خلاف ہو ، تو اس میں برکت پڑ ہی نہیں سکتی.برکت اُسی میں پڑتی ہے، نیک نتائج اُسی کام کے ظاہر ہوتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہوتی ہیں.ہمارے مبلغین، ہمارے معلّمین اور وہ احمدی جو اِن علاقوں میں رہتے ہیں جہاں ان تائیدات کے نظارے دیکھتے ہیں اور اُن کو ہر لمحہ نظر آرہے ہوتے ہیں.یہ نظارے اُن کے ایمان میں اضافہ کرتے ہیں.یہ نظارے ہر طلوع ہونے والے دن میں ان تائیدات کی وجہ سے ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تائید میں خدا تعالیٰ کے ایک زبر دست نشان کا اظہار فرمایا جو ہر روز پورا ہوتا ہے.آپ براہین احمدیہ کی پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”اس کتاب براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ مجھے ایک دعا سکھاتا ہے یعنی بطور الہام فرماتا ہے رَبِّ لا تذرني فَرْدًا وَ اَنْتَ خَيْرُ الورثین یعنی مجھے اکیلا مت چھوڑ اور ایک جماعت بنا دے.پھر دوسری جگہ وعدہ دیتا ہے.يَأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.ہر طرف سے تیرے لیے وہ زر اور سامان جو مہمانوں کے لئے ضروری ہے اللہ تعالیٰ خود مہیا کرے گا اور وہ ہر ایک راہ سے تیرے پاس آئیں گے.فرمایا کہ ”اب غور کرو جس زمانہ میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی یا لوگوں کو بتائی گئی اس وقت کوئی شخص یہاں آتا تھا ؟ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا اور کبھی سال بھر میں بھی ایک خط یا مہمان نہ آتا تھا“.( ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 128 جدید ایڈیشن)
خطبات مسرور جلد نهم 186 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء پھر آپ نے فرمایا کہ یہ تعداد کا بڑھنا، مخلصین کا آنا اور آپ کی بیعت میں شامل ہونا، یہ ایک ایسا نشان ہے ماخوذ از ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 129 جدید ایڈیشن) جو ہر روز پورا ہو رہا ہے.آج بھی ہم خدا تعالیٰ کے یہ نظارے دیکھ رہے ہیں.باوجود تمام تر مخالفتوں کے ، باوجود بعض مرتدین کی کوششوں کے جن کو دنیاوی لالچ نے دین سے دور کر دیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں روزانہ کی ڈاک میں بلا ناغہ بعض دفعہ در جنوں میں، بعض دفعہ سینکڑوں میں اور کبھی ہزاروں میں بھی بیعتوں کی خوشخبریاں پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں.بیعت فارم آتے ہیں اور بعض ایسے ایمان افروز واقعات ہوتے ہیں کہ سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے دلوں کی یہ کیفیت کوئی اور پیدا کر ہی نہیں سکتا جو ان نو مبائعین کے جذبات کی کیفیت ہوتی ہے.پھر یورپ اور امریکہ میں بعض لوگ مجھے ملتے ہیں، جب اُن سے پوچھو کہ کس طرح احمدی ہوئے ؟ تو بتاتے ہیں کہ اپنے کسی غیر احمدی مسلمان دوست کے ذریعہ اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی یا ویسے ہی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور غیر احمدی مسلمانوں سے رابطہ ہوا اور اسلام قبول بھی کر لیا لیکن بے یقینی اور بے سکونی کی کیفیت پھر بھی جاری رہی.اور پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اتفاق سے احمدیت کا تعارف ہوا تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ اس حقیقی اسلام کو قبول کیا جائے اور اس کی آغوش میں آیا جائے تاکہ دل کا سکون حاصل ہو.اسی طرح مسلمانوں میں سے ہزاروں لاکھوں جب اپنی نیک فطرت کی وجہ سے حق کی تلاش کرتے ہیں تو حقیقت اُن پر آشکار ہو جاتی ہے ، اُن پر کھل جاتی ہے.وہ فوراً احمدیت قبول کرتے ہیں اور مسلمانوں میں سے جو احمدیت میں آتے ہیں اور حقیقی اسلام کو سمجھتے ہیں اُن کو تو خاص طور پر احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے خاندانوں اور ماحول کی وجہ سے بعض بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.بعض دفعہ بڑی اذیت ناک صورتِ حال سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں اور اس ثابت قدمی کے لئے دعا کے لئے بھی لکھتے رہتے ہیں.یہ ثابت قدمی وہ اس لئے دکھاتے ہیں کہ حقیقت کو پہچاننے کے بعد حقیقت سے دور ہٹ کر کہیں وہ گناہگار نہ بن جائیں.اپنے علماء کا حال دیکھ کر انہیں نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو ہیں یہ قول و فعل کا تضاد رکھتے ہیں.اُن کی علمی حالت ایسی نہیں کہ غیر مذاہب کے اعتراضات کا جواب دے سکیں بلکہ دفاع تو ایک طرف رہا بعض دفعہ مداہنت دکھا جاتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ ان لوگوں سے بحث کی ضرورت نہیں اور یہ غیر اسلامی بات ہے.خاص طور پر عرب ممالک میں رہنے والے جو ہیں وہ تو اب اکثر جان گئے ہیں.جن لوگوں کا ایم.ٹی.اے سے رابطہ ہو گیا ہے، تعلق بجڑ گیا ہے چاہے انہوں نے احمدیت قبول کی ہے یا نہیں کی ، عیسائی پادریوں کے اعتراضات کے جوابات جس طرح ٹھوس طور پر لاجواب کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے علماء دیتے ہیں اُن کے علاوہ اور کوئی اُن کو دینے والا نظر ہی نہیں آتا.اُن کے علماء تو اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے.کئی خطوط آتے ہیں کہ ہم اسلام پر اعتراضات سُن سُن کر بے چین ہوتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہماری اس بے چینی کو دور کرے اور ہمیں اسلام کی شان و شوکت دکھائے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے ہمیں ایک دن اتفاق سے ایم.ٹی.اے دکھا دیا اور احمدی علماء نے جس طرح اسلام پر
خطبات مسرور جلد نهم 187 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء اعتراض کرنے والوں کے مدلل جواب دیئے ہیں اور انہیں جواب دے کر چپ کرایا ہے ہمارے بھی سر فخر سے اونچے ہو گئے ہیں اور ہمیں بھی سکون کا سانس آیا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کسی وقت ان واقعات اور احساسات کا بھی ذکر کروں گا جو لوگوں کے آتے ہیں.اس وقت جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ”الھدی میں جو بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے یا اُن کا حال پیش فرمایا ہے اُس میں سے کچھ حصے پیش کرتا ہوں.اُس زمانے میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور نیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہو گئے ہیں ( نیکی بالکل نایاب ہو گئی ہے).ان میں نہ تو اخلاق اسلام رہے ہیں اور نہ بزرگوں کی سی ہمدردی رہ گئی ہے.کسی سے بُرا آنے سے باز نہیں آتے خواہ کوئی پیارا یار کیوں نہ ہو.لوگوں کو کھولتا ہوا پانی پلاتے ہیں (یعنی تکلیفیں ہی دیتے چلے جاتے ہیں) خواہ کوئی خالص دوست ہی ہو.اور دسواں حصہ بھی بدلہ میں نہیں دیتے خواہ بھائی ہو یا باپ یا کوئی اور رشتہ دار ہو اور کسی دوست اور حقیقی بھائی سے بھی سچی محبت نہیں کرتے اور ہمدردوں کی بڑی بھاری ہمدردی کو بھی حقیر سمجھتے ہیں.اور محسنوں سے نیکی نہیں کرتے اور لوگوں پر مہربانی نہیں کرتے خواہ کیسے ہی جان پہچان کے آدمی ہوں.اور اپنے رفیقوں کو بھی اپنی چیزیں دینے سے بخل کرتے ہیں بلکہ اگر تم (اپنی نظر دوڑاؤ) دوڑاؤ اپنی آنکھ کو ان میں اور بار بار ان کے منہ کو دیکھو.( یعنی اپنی نظر دوڑاؤ اور ان کو دیکھو ) تو تم اس قوم کی ہر جماعت کو پاؤ گے فسق اور بددیانتی اور بے حیائی کا لباس پہنا ہوا ہے.اور ہم اس جگہ تھوڑا سا حال اپنے زمانہ کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کا لکھتے ہیں جو ہو ا پرست لوگ ہیں....“ پھر آگے بادشاہوں کے حالات میں فرماتے ہیں:.یہ عربی میں ہے ساتھ ساتھ اُس کا ترجمہ بھی آپ نے فرمایا کہ: "خدا تیرے پر رحم کرے کہ اکثر بادشاہ اس زمانہ کے اور امراء اس زمانہ کے جو بزرگانِ دین اور حامیانِ شرع متین سمجھے جاتے ہیں وہ سب کے سب اپنی ساری ہمت کے ساتھ زینت دنیا کی طرف جھک گئے ہیں.اور شراب اور باجے اور نفسانی خواہشوں کے سوا نہیں اور کوئی کام ہی نہیں.وہ فانی لذتوں کے حاصل کرنے کے لئے خزانے خرچ کر ڈالتے ہیں.اور وہ شرابیں پیتے ہیں نہروں کے کناروں اور بہتے پانیوں اور بلند درختوں اور پھل دار درختوں اور شگوفوں کے پاس اعلیٰ درجہ کے فرشوں پر بیٹھ کر اور کوئی خبر نہیں کہ رعیت اور ملت پر کیا بلائیں ٹوٹ رہی ہیں.اُنہیں امور سیاسی اور لوگوں کے مصالح کا کوئی علم نہیں.اور ضبط امور اور عقل اور قیاس سے انہیں کچھ بھی حصہ نہیں ملا...“.فرمایا کہ ”...اسی طرح حرمات اللہ کے نزدیک جاتے ہیں اور اُن سے بچتے نہیں.“ (جو باتیں اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہوئی ہیں اُن کے نزدیک جاتے ہیں ” اور حکومت کے فرائض کو ادا نہیں کرتے اور متقی نہیں بنتے.یہی وجہ ہے کہ شکست پر شکست دیکھتے ہیں اور
188 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہر روز تنزل اور کمی میں ہیں اس لئے کہ انہوں نے آسمان کے پروردگار کو ناراض کیا اور جو خدمت اُن کے سپر دہوئی تھی اُس کا کوئی حق ادا نہیں کیا...“.فرمایا ”...وہ زمین کی طرف جھک گئے ہیں اور پوری تقویٰ سے انہیں کہاں حصہ ملا ہے.اس لئے ہر ایک سے جو اُن کی مخالفت کے لئے اُٹھ کھڑا ہو، شکست کھاتے ہیں اور باوجود کثرتِ لشکروں اور دولت اور شوکت کے بھاگ نکلتے ہیں.اور یہ سب اثر ہے اُس لعنت کا جو آسمان سے اُن پر برستی ہے.اس لئے کہ اُنہوں نے نفس کی خواہشوں کو خدا پر مقدم کر لیا اور ناچیز دنیا کی مصلحتوں کو اللہ پر اختیار کر لیا اور دنیا کی فانی لہو ولعب اور لذتوں میں سخت حریص ہو گئے اور ساتھ اس کے خود بینی اور گھمنڈ اور خود نمائی کے ناپاک عیب میں اسیر ہیں.دین میں سست اور ہار کھائے ہوئے اور گندی خواہشوں میں چست چالاک ہیں...“.فرماتے ہیں کہ ”...اُنہوں نے خواہشوں سے اُنس پکڑ لیا اور اپنی رعیت اور دین کو فراموش کر دیا.(نہ عوام کا خیال ہے، نہ دین کا خیال ہے) اور پوری خبر گیری نہیں کرتے.بیت المال کو باپ دادوں سے وراثت میں آیا ہو امال سمجھتے ہیں اور رعایا پر اسے خرچ نہیں کرتے جیسے کہ پر ہیز گاری کی شرط ہے.اور گمان کرتے ہیں کہ ان سے پرسش نہ ہو گی اور خدا کی طرف لوٹنا نہیں ہو گا.سو ان کی دولت کا وقت خواب پریشان کی طرح گزر جاتا ہے...“.فرمایا”...اگر تم ان کے فعلوں پر اطلاع پاؤ تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور حیرت تم پر غالب آ جائے.سو غور کرو کیا یہ لوگ دین کو پختہ کرتے اور اس کے مدد گار ہیں.کیا یہ لوگ گمراہوں کو راہ بتاتے اور اندھوں کا علاج کرتے ہیں.“ (الهدى والتبصرة لمن يرى روحانی خزائن جلد 18- صفحه 280 تا284) یہ تو ان بادشاہوں کا حال ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ افریقن ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو ناکام کرنے کے لئے یہ اپنی طرف سے کوشش کرتے ہیں.گو اپنی دولت کا تو یہ شاید ہزارواں حصہ بھی خرچ نہیں کرتے.معمولی سی رقم دے کر (کیونکہ دولت ان کے پاس بے انتہا ہے ، تیل کی دولت ہے.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مشن کی مخالفت کے لئے اپنے مشنری بھیجے ہیں.پہلے ان کو خیال نہیں آیا لیکن اب اس کام کے لئے بھیج رہے ہیں.بہر حال پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ : وو انہیں شریعت کے احکام سے نسبت ہی کیا.بلکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ اس کی قید سے نکل کر پوری بے قیدی سے زندگی بسر کریں.اور خلفائے صادقین کی سی قوت عزیمت ان میں کہاں اور صالح پر ہیز گاروں کا سا دل کہاں جس کا شیوہ حق اور عدالت ہو.بلکہ آج خلافت کے تخت ان صفات سے خالی ہیں...“.(لیکن کہتے ہیں کہ ہم میں خلافت قائم ہو گی.اُس کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں.علماء کی طرف سے کبھی کسی کا نام پیش کیا جاتا ہے کبھی کسی کا.فرمایا لیکن بہر حال ان کے دل ان صفات سے خالی ہیں اس لئے خلافت ان میں ہو نہیں سکتی.) پھر فرماتے ہیں کہ ”...دھیان نہیں کرتے کہ ملت کی ہوا ٹھہر گئی ہے اور اس کے چراغ بجھ گئے ہیں اور اس کے رسول کی تکذیب ہو رہی ہے اور اس کے صحیح کو غلط کہا جارہا ہے بلکہ ان میں سے بہتیرے خدا کی منع کی ہوئی چیزوں پر اڑ بیٹھے ہوئے ہیں.اور سخت دلیری سے خواہشوں کو محرمات کے بازاروں میں لے جاتے ہیں...“.(یعنی کھلے عام
189 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ایسی بے حیائیاں کر رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہوا ہے.فرمایا کہ ”...صبح اور شام ان کی خوش زندگی ہر طرح کی لذات میں بسر ہوتی ہے.سو ایسے لوگوں کو خدا سے کیونکر مدد ملے جبکہ ان کے ایسے پر معصیت اور بُرے اعمال ہوں.بلکہ ان عیش پسند غافل بادشاہوں کا وجود مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا بڑا بھاری غضب ہے.“ ( ان کا وجود ہی مسلمانوں کی سزا بھی ہے) ”جو نا پاک کیڑوں کی طرح زمین سے لگ گئے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے پوری طاقت خرچ نہیں کرتے اور لنگڑے اونٹ کی طرح ہو گئے ہیں اور چست چالاک گھوڑے کی طرح نہیں دوڑتے.اسی سبب سے آسمان کی نصرت ان کا ساتھ نہیں دیتی اور نہ ہی کافروں کی آنکھ میں ان کا ڈر خوف رہا ہے جیسے کہ پرہیز گار بادشاہوں کی خاصیت ہے بلکہ یہ کافروں سے یوں بھاگتے ہیں جیسے شیر سے گدھے.اور لڑائی کے میدان میں ان کے دو ہزار کے لئے دو کافر کافی ہیں....“ فرمایا...ایسی خیانت اور گمراہی کے ہوتے انہیں کیونکر خدا سے مدد ملے.اس لئے کہ خدا اپنی دائمی سنت کو تبدیل نہیں کرتا اور اس کی سنت ہے کہ کافر کو تو مدد دیتا ہے پر فاجر کو ہر گز نہیں دیتا.یہی وجہ ہے کہ نصرانی بادشاہوں کو مدد مل رہی ہے اور وہ ان کی حدوں اور مملکتوں پر قابض ہو رہے ہیں اور ہر ایک ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں “.(آج بھی دیکھ لیں ظاہری طور پر اگر نہیں بھی تو عملی طور پر غیر وں کے ہاتھوں میں مسلمان بادشاہوں کی اور ملکوں کی لگامیں ہیں.ان کی معیشت اُن کے ہاتھ میں ہے.) فرمایا کہ ”خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس لئے نصرت نہیں دی کہ وہ ان پر رحیم ہے ( یعنی غیر وں کو جو مدد مل رہی ہے اور مسلمانوں کی جو بری حالت ہے، غیروں کی یہ مدد اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن پر بڑا مہربان ہے) بلکہ اس لئے کہ اس کا غضب مسلمانوں پر بھڑ کا ہوا ہے.کاش مسلمان جانتے.“ الهدى والتبصرة لمن يرى روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 284 تا 287) یہ آپ کا درد ہے.اور آج یہ بات بڑی حقیقت ہے اور اخباروں میں جو حقیقت پسند کالم لکھنے والے ہیں، تبصرہ نگار ہیں ، وہ بھی یہی لکھتے ہیں.گزشتہ دنوں میں نے دی نیشن میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ایک مضمون دیکھا جنہیں پاکستان کا سائنٹسٹ کہا جاتا ہے.انہوں نے بھی قرآنی آیات کی روشنی میں یہ سارا کچھ لکھا ہوا تھا کہ یہ یہ باتیں ہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ہم پر نازل ہو رہا ہے.تو بہر حال یہ تو ان کی حالت ہے.پھر آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر یہ متقی ہوتے تو کیونکر ممکن تھا کہ ان کے دشمن ان پر غالب کئے جاتے.بلکہ جب انہوں نے دعا اور عبادت کو چھوڑ دیا تب خدا نے بھی ان کی کچھ پروانہ کی...“.فرمایا”...خدا کا عہد توڑنے اور قرآن کی حدود کی بے عزتی کرنے کے سبب سے خطر ناک حادثے ان پر نازل ہو رہے ہیں.اور بہت سے شہر ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں...“.فرمایا”...یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا اور گرفت ہے...“.فرماتے ہیں ”...دشمنوں نے انہیں رسوا نہیں کیا بلکہ خدا نے کیا.اس
خطبات مسرور جلد نهم 190 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء لئے کہ خدا کی آنکھوں کے سامنے انہوں نے بے فرمانیاں کیں سو اس نے انہیں دکھایا جو دکھایا اور انہیں آفات میں چھوڑ دیا اور نہ بچایا اور ان کے وزیر بد دیانت اور خائن ہیں...“.پھر آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ ان کے جتنے وزیر اور مشیر ہیں وہ اپنے وزیر اور مشیر ہونے کا حق ادا نہیں کر رہے بلکہ بد دیانتی میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور بد دیانتی کی طرف ان لوگوں کو لے کر جارہے ہیں.آگے لکھتے ہیں کہ ”یورپ کے اخبار انہیں ست اور نالائق لکھتے ہیں“.الهدى والتبصرة لمن يرى روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 287 289) اور آج بھی یہ حقیقت ہے).پھر آپ فرماتے ہیں...مردوں کی خوبو ان میں رہی ہی نہیں...“.”...نماز کی پابندی نہیں کرتے اور خواہشیں ان کی راہ میں چٹان اور روک بن گئی ہیں اور اگر نماز پڑھیں بھی تو عورتوں کی طرح گھر میں پڑھتے ہیں اور متقیوں کی طرح مسجدوں میں حاضر نہیں ہوتے...“.الهدى والتبصرة لمن يرى روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 292.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن) پھر فرمایا: ” اور وعظ کی کوئی بات سن نہیں سکتے.جھٹ کبر اور نخوت کی عزت انہیں جوش دلاتی ہے اور غضب اور غیرت میں نیلے پیلے ہو جاتے ہیں.اور اُن کے نزدیک بڑا مکرم وہ ہوتا ہے جو ان کا حال انہیں خوبصورت کر کے دکھائے اور ان کی اور ان کے اعمال کی تعریف کرے...“.یعنی صرف خوشامدی ان کو پسند ہے.پھر فرمایا کہ...جب خدا نے ان کا فسق و فجور اور ظلم اور جھوٹ اور اترانا اور ناشکر گزاری دیکھی.اُن پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا جو اُن کی دیواروں کو پھاندتے اور ہر بلند جگہ پر چڑھ جاتے ہیں اور ان کے باپ دادوں کی ملکیت پر قبضہ کرتے ہیں اور ہر ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں.اور یہ سب کچھ ہونے والا تھا اور تم قرآن میں یہ باتیں پڑھتے ہو اور سوچتے نہیں...“.جیسا کہ میں نے کہا معیشت کی صورت میں اب مسلمانوں کی ہر چیز غیروں کے قبضے میں ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”...سو جبکہ انہوں نے دلوں کا تقویٰ بدل دیا خدا نے ان کے امور دنیا کو بدل دیا.اور اس لئے بھی کہ وہ گناہوں پر دلیر تھے.اور خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی اندرونی حالت کو آپ نہ بدل لیں اور نہ ہی ان پر رحم کیا جاتا ہے.بلکہ خدا ان گھروں پر لعنت کرتا ہے اور ان شہروں پر جن میں لوگ بدکاری اور جرم کریں.اور بدکاری کے گھروں پر فرشتے اتر کر کہتے ہیں اسے گھر خدا تجھے ویران کرے.“ الهدى والتبصرة لمن يرى روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 292 تا294.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) فرمایا ”بادشاہان نصاری کو مت کو سو “ ( لوگوں کو فرماتے ہیں کہ غیروں کو مت کو سو کہ تمہیں تکلیفیں پہنچارہے ہیں ) ”سو بادشاہانِ نصاری کو مت کو سو اور جو کچھ تمہیں ان کے ہاتھوں سے پہنچا ہے اسے مت یاد کر و.او بد کارو! خود اپنے آپ کو ملامت کرو.کیا تم میری باتیں سنتے ہو.نہیں نہیں تم تو منہ بناتے اور گالیاں دیتے ہو.اور تمہیں سننے والے کان اور سمجھنے والے دل تو ملے ہی نہیں اور تمہیں اتنی فرصت ہی کہاں کہ کھانے پینے سے عقل کی طرف آؤ اور خُم کے سے الگ ہو کر خدا کی طرف دھیان کرو اور تم میں سوچنے والے جوان ہی کہاں ہیں.کیا تم دشمنوں کو کوستے ہو اور تمہیں جو کچھ پہنچا ہے اپنی بد کرداریوں کی وجہ سے پہنچا ہے.“ (الهدى والتبصرة لمن یری.روحانی خزائن جلد 18.صفحہ 295 کمپیوٹرائز ڈایڈیشن)
خطبات مسرور جلد نهم 191 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء پھر آپ نے عوام کو بھی مخاطب کر کے فرمایا، جو آج کل ہر تالیں کر رہے ہیں کہ : سنو تم اگر نیکو کار ہوتے تو بادشاہ بھی تمہارے لئے صالح بنائے جاتے “ ( تم نیک ہوتے تو بادشاہ بھی نیک ہوتے).اس لئے کہ متقیوں کے لئے خدا تعالیٰ کی ایسی ہی سنت ہے.اور مسلمان بادشاہوں کی مدح سرائی سے باز آؤ اور اگر اُن کے خیر خواہ ہو تو اُن کے لئے استغفار پڑھو...“.فرمایا: ”...خدا نے انہیں تمہارے حق میں ساز و سامان اور تمہیں ان کے آلات بنایا ہے.سو اگر مخلص ہو تو تقویٰ اور نیکی پر ایک دوسرے کے مددگار بن جاؤ.اور انہیں ان کی بد کرداریوں پر آگاہ کرو اور لغویات پر انہیں اطلاع دو اگر تم منافق نہیں.واللہ وہ اپنی رعیت کے حقوق ادا نہیں کرتے...“.( فرمایا کہ سمجھانا بالکل ٹھیک ہے، ضروری ہے.جائز ہے کہ بادشاہ کے سامنے حق بات کہنی چاہئے.) فرماتے ہیں کہ ”...قسم بخدا ان کے دل پہاڑوں کے پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں......وہ کبھی خدا کے حضور گڑ گڑاتے نہیں.ان فعلوں اور عملوں سے ثابت ہو گیا کہ انہوں نے خدا کو ناراض کر کے گمراہی کے طریق اختیار کئے ہیں اور خود قاتل زہر کھا کر رعیت کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے سو ان کے لئے وبال سے دوحصے ہیں....فرمایا”...سوائے متکلمو! تم میں کوئی ایسا ہے جو انہیں ان عادات کے نتیجوں پر آگاہ کرے.اس لئے کہ ان لوگوں نے ناپاک خواہشوں کے پیچھے اپنا دین کھو دیا ہے اور تمام احوال میں آخول بن گئے ہیں ، ( یعنی ان کی نظریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں.بھینگے ہو گئے ہیں ) فرمایا بلکہ میرے نزدیک تو وہ بالکل اندھے ہیں.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو“.(بڑا واضح فرمایا.میں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو.کلمہ حق کہو.جنگ کے لئے اجازت نہیں ہے.اور پھر دعا ہے.دعا کی طرف پہلے توجہ دلائی.استغفار کی طرف توجہ دلائی) میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو.بلکہ خدا سے ان کی بہتری مانگو تا کہ وہ باز آجائیں.اور یہ تو ان سے امید نہ رکھو کہ وہ اصلاح کر سکیں گے ان باتوں کی جنہیں دجال کے ہاتھوں نے بگاڑ دیا ہے یا وہ اس قدر تباہی اور پریشانی کے بعد ملت کی حالت کو درست کر لیں گے.اور تم جانتے ہو کہ ہر میدان کے لئے خاص خاص مرد ہوا کرتے ہیں اور کیا ممکن ہے کہ مردہ دوسروں کو زندہ کر سکے یا گمراہ دوسروں کو ہدایت دے.......تو پھر ان سے کیا اُمید رکھ سکتے ہو.ہمیں تو امید نہیں کہ وہ سنور جائیں جب تک انہیں موت ہی آکر بیدار نہ کرے.ہاں وعظ و پند کرنے کا ہمیں حکم ہے...“.(نصیحت کرنے کا حکم ہے وہ کرتے چلے جارہے ہیں).فرمایا...ان میں فراست کی قوت اور اصولِ ملک داری کا علم نہیں.انہوں نے چاہا کہ اپنے عیسائی پڑوسیوں کی مکاریوں کو سیکھیں لیکن بار یک فریبوں اور بچاؤ کی تدبیروں میں ان تک پہنچ نہ سکے.سو وہ اس مرغ کی مانند ہیں جس نے پرواز میں کر گس بنا چاہا...“.
خطبات مسرور جلد نهم 192 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء فرمایا کہ...عیسائیوں کے مقابل جو کچھ انہیں تقوی اللہ کے متعلق تعلیم ملی تھی اس سے تو منہ پھیر لیا اور اپنے مخالفوں کی طرح وہ چالا کیاں اور داؤ بھی پورے نہ سیکھے اور مسلمان بادشاہوں کی نسبت خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ جب تک متقی نہ بنیں گے ان کی کبھی مدد نہ کرے گا اور اس نے ایسا ہی چاہا ہے کہ نصاریٰ کو ان کے مکر میں کامیاب کر دے جبکہ مومنوں نے اُسے ناراض کیا ہے...“.فرمایا”...کیا تم خیال کرتے ہو کہ وہ اسلام کی حدوں کو کفار سے بچا سکیں گے ؟...کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں.سبحان اللہ بڑی بھاری غلطی ہے بلکہ وہ تو بد عتوں سے دین خیر الا نام کی بیخ کنی کرتے ہیں.تمہارا اختیار ہے کہ تم ان کی نسبت نیک گمان کرو اور بد کرداریوں سے اُن کی بریت ثابت کرو.لیکن کن علامتوں سے تم ایسا دعویٰ کرو گے.کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ حرمین شریفین کے خادم اور محافظ ہیں.ایسا نہیں بلکہ حرم انہیں بچا رہا ہے اس لئے کہ وہ اسلام اور رسول خدا کی محبت کے مدعی ہیں“.( دعویٰ تو ان کا ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرنے والے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں ، اس لئے وہ حرمین شریفین کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ وہ اُن کو بچارہا ہے ) اور اگر وہ سچی توبہ نہ کریں تو سز اسر پر کھڑی ہے.سو تم میں کوئی ہے جو انہیں بڑے دنوں سے ڈرائے.تم دیکھتے نہیں کہ اسلام بیداد گر زمانہ کے ہاتھوں سے چور ہو گیا ہے اور موسلا دھار مینہ کی طرح فتنے اس پر برس رہے ہیں.اور دشمنوں کی فوجیں شکاری کی طرح اس کے پھانسنے کو آمادہ ہیں.اور اب ایسی کوئی بات نہیں جو دلوں کو خوش کرے اور دُکھوں کو دور کرے.اور مسلمان جنگل کے پیاسے یا اُس مریض کی طرح ہیں جو سانس تو ڑ رہا ہو...“.فرمایا...بعض لوگ تو مسلمانوں پر جنسی اُڑاتے گزر جاتے ہیں اور بعضے روتے ہوئے ان کی طرف دیکھتے ہیں.اور تم دیکھتے ہو کہ دل سخت ہو گئے ہیں اور گناہ بڑھ گئے ہیں.اور سینے تنگ ہو گئے اور عقلیں تیرہ و تار ہو گئیں اور غفلت اور شستی اور عصیان کی ترقی اور جہالت اور گمراہی اور فساد کا غلبہ ہو گیا ہے اور تقویٰ کا نام و نشان نہیں رہا.اور دلوں میں وہ نور جس سے ایمان کو قوت ہو نہیں رہا اور آنکھیں اور زبانیں اور کان پلید ہو گئے ہیں اور اعتقاد بگڑ گئے اور سمجھیں چھینی گئیں اور نادانیاں ظاہر ہو گئی ہیں اور عبادت میں نمود اور زہد میں خود بینی داخل ہو گئی ہے...سعادت کے نشان مٹ گئے ہیں اور محبت اور اتفاق جاتارہا اور بغض اور پھوٹ پیدا ہوگئی ہے اور کوئی گناہ اور جہالت نہیں جو مسلمانوں میں نہیں اور کوئی ظلم اور گمراہی نہیں جو ان کی عورتوں اور مردوں اور بچوں میں نہیں.خصوصاً ان کے امیروں نے راہ حق کو چھوڑ دیا ہے...“.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا سب کچھ چھوڑنے کے باوجو د علماء نے ان کو اس طرح بگاڑ دیا ہے کہ عوام بھی احمدیت کی مخالفت میں آگے بڑھے ہوئے ہیں.گزشتہ دنوں میں ایک مشنری کی رپورٹ میں دیکھ رہا تھا، اُن کا ایک عیسائی دوست ہے جو ان کے پاس ہندوستان میں اپنے کسی مسلمان واقف کار کے ہاں آیا.اس کو پتہ تھا کہ وہ مسلمان شراب پیتا ہے.تو کہتا ہے میں نے جان کر اسے سنانے کے لئے کہا، باتوں باتوں میں اسے بتایا کہ بعض احمدی بھی
خطبات مسرور جلد نهم 193 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء میرے دوست ہیں.اور وہ مسلمان اس وقت اُس کے سامنے بیٹھا شراب پی رہا تھا.وہ کہتا ہے احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں.تم کیا باتیں کر رہے ہو.کہتا ہے میں نے اسے کہا کہ قرآنِ کریم میں شراب کی حرمت ہے، احمدی شراب نہیں پیتے، اس کے باوجود وہ مسلمان نہیں.احمدی نمازیں پڑھتے ہیں.اس کے باوجود تمہارے مطابق وہ مسلمان نہیں.وہ کہتا ہے احمدی ( جن کو میں نے دیکھا ہے) قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تم کہتے ہو کہ وہ مسلمان نہیں اور تم باوجود اس کے کہ ابھی میرے سامنے شراب پی رہے ہو اور قرآنِ کریم کی تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہو، تم مسلمان ہو.تو کہتا ہے پہلے سنتا رہا اور بولا کچھ نہیں.خاموش ہو گیالیکن شراب کا گلاس بھی ہاتھ میں ہی تھا.تو پھر میں نے اس کو کہا ( یہ عیسائی تھا) کہ پریشان نہ ہو یہ تو ایسے ہی بات سے بات نکل آئی تھی میں نے کر دی.تم یہ شراب پی رہے ہو بیشک پیتے رہو.اس نے بغیر کسی انتظار کے فوراًدوبارہ پینی شروع کر دی.تو یہ مسلمانوں کی حالت ہے.لیکن احمدی (ان کے نزدیک) مسلمان نہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ...نشان ظاہر ہوئے پر انہوں نے قبول نہ کیا.سو خدا کا غضب اُترا.اور جب انہوں نے عذاب دیکھا کہنے لگے کہ تیرے وجود کو ہم نجس سمجھتے ہیں ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کو گندہ سمجھتے ہیں) ” اور یہ طاعون تیرے جھوٹ کی وجہ سے پھیلی ہے“.(خدا تعالیٰ کے جو عذاب آرہے ہیں نعوذ باللہ.یہ اس لئے آرہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نعوذ باللہ جھوٹا دعویٰ کیا ہے.آج بھی یہی اُن کا حال ہے) اور پھر فرماتے ہیں " کہا گیا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے...“.(نعوذ باللہ ) فرمایا کہ ”...خدا نے کوئی رسول نہیں بھیجا جس کے ساتھ آسمان اور زمین سے عذاب نہ بھیجا گیا ہو اس لئے کہ وہ باز آئیں...“.پس یہ عذاب اور آفتیں جو ہیں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائیدات میں ہیں.الهدى والتبصرة لمن يرى، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 295 تا 304) پھر فرماتے ہیں: ”...مجھے بتاؤ کہ تمہارے بادشاہوں سے کس بادشاہ نے اس طوفان کے وقت کشتی بنائی بلکہ وہ خود بھی ڈوبنے والوں کے ساتھ ڈوب گئے اور زمانہ کی قینچی نے ان کے ناخن قلم کر ڈالے اور ان کے منہ کو گر دو غبار نے ڈھانک لیا اور زمانہ نے اُن کا پانی خشک کر دیا اور اقبال ان سے الگ ہو گیا.(اُن کی شان جو تھی وہ ختم ہو گئی اور انہوں نے حیلے تو کئے پر اُن سے کچھ نفع نہ پایا اور ایسے فتنے آشکار ہوئے کہ وہ اپنی کمیٹیوں اور پارلیمنٹوں کے ذریعہ اور دشمنوں کی سرحدوں پر فوجوں کی چھاؤنی ڈال دینے کے وسیلہ ان کی اصلاح نہ کر سکے.بسا اوقات انہوں نے ہتھیار سجائے اور بڑے بڑے لشکر بھیجے مگر نتیجہ سوائے شکست اور بڑی ذلت کے کچھ نہ ہوا (الهدى والتبصرة لمن يرى، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 305) 66 فرماتے ہیں...اب بتاؤ اے طبیبو! تمہارے نزدیک علاج کا کیا طریق ہے ؟ کیا تمہاری رائے میں یہ امراء اس بلا کو دفع کر سکتے ہیں ؟ اور کیا تم امید کرتے ہو کہ یہ بادشاہ ان کانٹوں سے دین کے باغ کو پاک کر سکیں گے ؟ یا تم خیال کرتے ہو کہ یہ بیماریاں اسلامی سلطنتوں اور ان کی معلوم کوشش سے اچھی ہو جائیں گی ؟ نہیں نہیں یہ
194 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بات اس سے زیادہ دشوار ہے کہ تم تھوہر سے تازہ کھجوروں کی امید رکھو“.( تھوہر کے پودے سے تازہ کھجور کی امید رکھو).”اور ان سے کیا توقع کی جائے اور وہ تو بڑے پتھروں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور وہ کیونکر سر اٹھائیں اور وہ ہزاروں غموں کے نیچے آئے ہوئے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آفتوں کا دفع کرنا بادشاہوں اور امیروں کا مقدور نہیں.کیا کبھی اندھا اندھے کو راہ بتا سکتا ہے.اے دانشمند و!.علاوہ بریں اگر چہ یہ بادشاہ مسلمان یا مخلص ہمد رد بھی ہوں لیکن پھر بھی ان کے نفوس پاک کاملوں کے نفوس کی مانند نہیں ہیں اور مقدسوں کی طرح انہیں نور اور جذب نہیں دیا جاتا.اس لئے کہ نور آسمان سے اسی دل پر اترتا ہے جو فنا کی آگ سے جلایا جاتا ہے.پھر اسے کچی محبت دی جاتی ہے اور رضا کے چشمہ سے اُسے غسل دیا جاتا اور بینائی اور سچائی اور صفائی کا سرمہ اس کی آنکھوں میں لگایا جاتا ہے.پھر اسے برگزیدگی کے لباس پہنائے جاتے ہیں اور پھر اسے بقا کا مقام بخشا جاتا ہے.اور جو آپ ہی اندھیرے میں بیٹھا ہو وہ اندھیرے کو کیونکر دُور کر سکتا ہے.اور جو آپ ہی لذات کے تختوں پر سوتا ہو وہ کسی کو کیا جگا سکتا ہے.اور حق بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے بادشاہوں کو روحانی امور سے کوئی مناسبت نہیں.خدا نے ان کی ساری توجہ جسمانی سیاستوں کی طرف پھیر دی ہے.اور کسی مصلحت سے انہیں اسلام کے پوست کی حمایت کے لئے مقرر کر رکھا ہے“.( یعنی ظاہری حمایت کے لئے مقرر کر رکھا ہے.”سیاسی امور ہی ان کے پیش نظر رہتے ہیں...اُن کا فرض اس سے زیادہ نہیں کہ اسلام کی سرحدوں کی نگہداشت کا اچھا انتظام کریں اور ظاہر ملک کی خبر گیری کر کے دشمنوں کے پنجوں سے اسے بچائیں.رہے لوگوں کے باطن اور ان کا پاک کرنا میل کچیل سے.اور بچانا لوگوں کو شیطان سے.اور نہ ان کی نگہبانی کرنا آفتوں سے دعاؤں کے ساتھ اور عقد ہمت کے ساتھ.سو یہ معاملہ بادشاہوں کی طاقت اور ہمت سے باہر اور بالا تر ہے“ (روحانیت میں انہیں کوئی دخل نہیں) اور دانشمندوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں.اور بادشاہوں کو ملک کی باگ اس لئے سپرد کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی صورتوں کو شیاطین کی دستبرد سے بچائیں.اس لئے نہیں کہ وہ نفوس کو پاک صاف کریں اور آنکھوں کو نورانی بنائیں“.الهدى والتبصرة لمن يرى روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 307 تا 309) پھر علماء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان کی اکثریت اسلام کے لئے بیماری کا حکم رکھتی ہے نہ کہ علاج کا...یہ لوگوں کے مال طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے ہتھیاتے ہیں.کہتے ہیں پر کرتے نہیں.(جو حکم دیتے ہیں وہ خود نہیں کرتے ) نصیحت کرتے ہیں پر خود نصیحت نہیں پکڑتے.(خلاصہ ان کی باتوں کا یہ ہے) ان کی زبانیں درشت ، دل سخت اور اندھیروں سے بھرے ہوئے ہیں.ان کی آراء کمزور ، ذہن کند ، ہمتیں پست اور عمل برے ہیں.تھوڑے سے علم پر مغرور ہو جاتے ہیں اور جو ان سے اختلاف کرے اس پر زبان طعن دراز کرتے اور مختلف حیلوں سے کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور دکھ دیتے ہیں اور اس کا مال لوٹ لیتے ہیں...فرمایا...بخل ان کی فطرت ، حسد ان کا شیوہ ، تحریف شریعت ان کا دین ہے...(شریعت میں
195 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تحریف کرتے ہیں اور پھر نعوذ باللہ نام یہ کہ احمدیوں نے کیا ہے) غضب کے وقت یہ بھیڑیئے ہیں...ان کی ناراضگی یا خوشی صرف اپنے نفس امارہ کی خاطر ہوتی ہے اور ان کا ذکر اور تسبیح محض دکھاوے کیلئے ہوتا ہے.اپنے آپ کو لوگوں کی گردنوں کا مالک سمجھتے ہیں.(کیسی حقیقت بیان کی ہے.اور آج کل تو پاکستان میں یہ بہت زیادہ اپنے آپ کولوگوں کی گردنوں کا مالک سمجھنے لگ گئے ہیں) جس کو چاہیں فرشتہ قرار دے دیں اور جسے چاہیں شیطان کا بھائی.ان میں حلم و بردباری کا نام ونشان نہیں بلکہ زبان درازی میں انہوں نے درندوں کو بھی مات دیدی ہے.وہ تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں حالانکہ وہ انواع واقسام کے بہتانوں سے حملہ کرنے والے خونخوار بھیڑئے ہیں.ان کے ہاتھ جھوٹے فتوے لکھتے ہیں اور ایک دو درہم ان کے ایمان کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں.وہ لوگوں کو قبول حق سے روکتے ہیں اور شیطان کی طرح وسوسے ڈالتے ہیں.ان کا تکبر بہت بڑھ گیا ہے اور تدبر کم ہو گیا ہے.کوئی مفید بات کرنے کی قدرت نہیں رکھتے بلکہ شکوک و شبہات کو ہوا دیتے ہیں.جب خاموش ہوتے ہیں تو ان کی خاموشی فرائض کو ترک کرنے کیلئے ہوتی ہے اور جب کلام کرتے ہیں تو اس میں کوئی رعب اور تاثیر نہیں ہوتی.شریعت کے مشکل مسائل کے حل سے ان کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی طریقت کی باریکیوں کی کوئی خبر ہے.عیسی علیہ السلام کی موت کا عقیدہ بڑا واضح ہے لیکن انہیں اسلام کی فتح سے کوئی غرض نہیں ہے...فرمایا...خدا کی طرف سے ان کی قسمت میں صرف شور شرابا ہی ہے.قرآن کو پڑھتے ہیں لیکن صرف زبان سے.ان کے دلوں میں قرآن نے کبھی جھانکا ہی نہیں...فرمایا...ان میں کسل اور غفلت بہت بڑھ گیا ہے اور ذہانت و فراست کم ہو گئی ہے.مشکل اور پیچیدہ مسائل حل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے.تو انہیں جذبات نفس کی وجہ سے مدہوش اور نفس کا اسیر پائے گا...فرمایا...خدائے رحمن کے حقوق کو بھلائے بیٹھے ہیں.اس حال میں کیسے ان سے کسی نصرت دین کی توقع کی جاسکتی ہے؟...فرمایا...تعصب نے انہیں درندہ صفت بنا دیا ہے اور حق بات سننے سے روک دیا ہے.انکا دین حرص وہوا پرستی، کھانا پینا اور مال بٹورنا ہے.اسلام کی مصیبت زدہ حالت پر نہ غم کھاتے ہیں ، نہ ہی روتے ہیں.(اگر روئیں گے بھی تو مگر مچھ کے آنسو ہیں) اپنے بادشاہوں کو تو دیکھ کر ان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے جبکہ خدائے ذوالجلال والا کرام سے کوئی خوف نہیں.نہ ہی انہیں ضلالت اور فتنوں کے پھیلنے اور آفات کے نازل ہونے سے کوئی خوف محسوس ہوتا ہے...ان میں سے ایک فریق جہاد کے نام پر جاہل لوگوں کو تلواروں سے گردنیں مارنے پر ابھار رہا ہے.چنانچہ وہ ہر اجنبی اور راہ رو کا خون کرتے پھرتے ہیں اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے.(ماخوذ از عربی عبارت الصدى والتبصرة لمن پری.روحانی خزائن جلد 18.صفحہ 314 تا333) تو یہ بعض حصے تھے اُن چند صفحات کے جو میں نے پیش کئے.سو سال سے زائد عرصہ پہلے یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھیں.مسلمانوں کی حالت کا جو نقشہ آپ نے کھینچا، آج بھی ہم اسی
196 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم طرح دیکھتے ہیں.آپ کے الفاظ اور آپ کا مشاہدہ جو ہے وہ آج بھی ان کے عمل کی گواہی دے رہا ہے کہ ایسے ہی عمل ہیں اور یہی آپ کے الفاظ کی صداقت پر گواہی ہے.ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کو بتا یا وہ آپ نے بیان فرمایا.حالات کا جو حل آپ نے پیش فرمایا ہے وہ بھی اسی کتاب میں ہے.اس کے بعد کچھ فرقوں کا ذکر فرما رہے ہیں.کچھ مختلف لوگوں کا بھی ذکر فرمار ہے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ: ”ان تمام فرقوں کو چھوڑ دو اور تلاش کرو کہ کہیں اللہ نے اپنی طرف سے کوئی علاج نہ نازل کیا ہو“.(اللہ تعالیٰ نے کہیں اپنی طرف سے کوئی علاج تو نہیں نازل کیا) یاد رکھو کہ ان فتنوں کا علاج آسمان میں ہے نہ کہ لوگوں کے ہاتھوں میں.قرآن کریم میں پرانے لوگوں کے قصے پڑھ کے دیکھ لو کہ ان کے بارہ میں خدا تعالیٰ کی کیا سنت تھی.پھر بعد میں آنے والوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت کیونکر تبدیل ہو سکتی ہے ؟“ فرمایا ” کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ وقت امام کے ظہور کا نہیں ہے ؟...جبکہ تم گمراہی اور جہالت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو.پھر اسلام پر حملے ہو رہے ہیں اور بلائیں جان ہی نہیں چھوڑر ہیں اور اس طوفانِ ضلالت میں تمہارے درمیان کوئی خادم دین نظر نہیں آتا.حالت یہ ہے کہ لوگ خدا کی نصیحت اور قرآن کی ہدایت بھول چکے ہیں اور جو کچھ حدیثوں میں آیا ہے اسے بھی رڈ کر چکے ہیں.کئی گمراہ کن عقائد میں عیسائیوں کے ہم زبان بن چکے ہیں.انہیں اپنے کھانے پینے اور عیش و عشرت کی زندگی کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں.کیا ان لوگوں سے دین کی اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے ؟“ فرمایا ” کہتے ہیں کہ صرف عیسی ہی مس شیطان سے پاک ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھول گیا ہے کہ إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن.کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم اور مس شیطان سے پاک نہ تھے ؟ پس آج حیات عیسی کے عقیدہ سے بڑا گناہ کوئی نہیں ہے.اس عقیدہ کے ذریعہ تم عیسائیوں کی تائید کر رہے ہو“.فرمایا: ”تم خود زمانے کی حالت پر غور کرو.امت اتنے فرقوں میں بٹ گئی ہے کہ بجز خدائے رحمن کی عنایت کے ان کا اکٹھا ہونا محال ہے.کیونکہ ہر ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہا ہے اور اب زبانی بحثوں سے بات جنگ وجدال اور قتال تک جا پہنچی ہے.ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ اختلافات کے اتنے بڑے پہاڑوں کو درمیان سے ہٹا کر تم آپس میں صلح کر کے یکجان ہو کر اسلام کے مخالفین کے سامنے میدان میں آسکتے ہو ؟ ہر گز نہیں“.حالت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک شہر میں ختم نبوت والوں کا جلسہ ہو رہا تھا اور تمام قسم کے شیعہ ، سنی، بریلوی، دیوبندی وغیرہ سب اکٹھے تھے.اور تھوڑے عرصے کے بعد جس دن جلسہ تھا اس سے دو دن پہلے اُن میں پھوٹ پڑ گئی.اور پھر تین مختلف جگہوں پر جلسوں کا انتظام ہوا.ایک جگہ پر جہاں ایک تنظیم نے جلسے کا انتظام کرنا تھا وہاں سے پولیس نے اُن کو اٹھایا اور دوسری جگہ لے کے گئے.ختم نبوت ان کے نزدیک ایک ایسا ایشو ہے جس پر یہ احمدیوں کے خلاف ایک جان ہو چکے ہیں، اکٹھے ہو چکے ہیں، اس ایشو پر بھی اکٹھے ہو کر جلسہ نہیں کر سکے اور تین مختلف جلسے ایک ہی شہر میں ہو رہے تھے.تو یہ تو ان کا حال ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 197 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اپریل 2011ء بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” تمہیں وہ کام کرنے کی طاقت ہی کیونکر حاصل ہو سکتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ ان متفرق لوگوں کو صرف آسمانی صور پھونک کر ہی زندہ فرمائے گا.اور حقیقی صور ان کے دل ہیں جن میں مسیح موعود کے ذریعہ پھونکا جائے گا اور لوگ ایک کلمہ پر جمع ہو جائیں گے.یہی خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ جس امت کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے اسی میں سے ایک شخص کو مبعوث 66 کر دیتا ہے.“ فرمایا لیکن یہ حل علماء اور تمام قوم کو منظور نہیں ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو محمد ی سلسلہ کے مشابہ قرار دیا ہے.جس طرح یہودی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان کے بعد گمراہ ہو گئے تو ایک عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اسی طرح امت محمدیہ میں اسی قدر عرصہ گزرنے کے بعد مسیح موعود کو مبعوث فرمایا ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا مقام ہے نہ کہ اُس کی اِس نعمت کے کفر کرنے کا.مسلمانوں کو تو چاہئے تھا کہ اس خبر کو ایک پیاسے کی طرح قبول کرتے اور اسے خدا کی سب سے بڑی نعمت قرار دیتے لیکن وہ قرآن کو چھوڑ کر لوگوں کی باتوں کے پیچھے چل پڑے اور مسیح موعود کا انکار کر بیٹھے جیسے یہود نے عیسی کا انکار کر دیا تھا.یوں نافرمانی میں بھی دونوں امتیں مشابہ ہو گئیں.“ ( الهدى والتبصرة لمن يرمی، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 354-360) اللہ کرے کہ مسلم امہ کو اس حقیقت کی سمجھ آجائے کہ آپ ہی وہ وجود ہیں جس نے اس زمانے میں مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے آنا تھا اور آئے ہیں.مسلم ممالک کے جو حالات ہیں، دنیا میں مختلف ارضی و سماوی آفات ہیں، یہ مسلمانوں کو یہ باور کرانے والی ثابت ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں جس فرستادے کو بھیجا تھاوہ آچکا ہے اور اسے قبول کریں اور مخالفین اسلام کی اسلام کو بدنام کرنے کی جو مذموم کوششیں ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے اس جری اللہ کا ساتھ دے کر اس جہاد میں حصہ لیں جہاں دوسرے مذاہب کو اسلام نے شکست دینی ہے.امریکہ میں بھی اور یورپ میں بھی وقتاً فوقتاً مختلف لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہودہ قسم کے الزامات لگاتے ہیں یا آپ کی ہتک اور توہین کے مر تکب ہو رہے ہیں یا قرآن کریم کی ہتک کے مر تکب ہو رہے ہیں، ان کے خلاف اگر آج کوئی جہاد کرنے والا ہے تو یہی اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے جس کے ساتھ شامل ہو کر ، جس کے ساتھ جڑ کر ہم دنیا میں اسلام کی برتری ثابت کر سکتے ہیں.جس کے ساتھ جڑ کر ہم قرآن کریم کی تعلیم کی تمام مذہبی کتب پر برتری ثابت کر سکتے ہیں.اسی کے ساتھ جڑ کر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے آپ کے بلند مقام کی شان دنیا پر ظاہر کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 6 مئی تا 2 1 مئی 2011ء جلد 18 شمارہ 18 صفحہ نمبر 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 198 16 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء بمطابق 22 شہادت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانيه) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں بھیجا گیا ہوں کہ تاسچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 293.حاشیہ) ایک احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُسے ان الفاظ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں، ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے.ان پر غور کرنا چاہئے.ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور جب ایک احمد کی یہ کر رہا ہو گا تو تبھی وہ اُسے بیعت کا حق ادا کرنے والا بناتا ہے.ورنہ تو صرف ایک دعویٰ ہے کہ ہم احمدی ہیں.وہ سچائی اور ایمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لانا چاہتے ہیں یا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے، جس سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جیسا کہ آپ کے اس فقرے سے ظاہر ہے کہ ”سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے“ یعنی یہ سچائی اور ایمان اور تقویٰ کا زمانہ کسی وقت میں تھا جو اب مفقود ہو گیا ہے اور اس کو پھر لانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام ہے.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سچائی اور ایمان اور تقویٰ کے قیام کا یہ زمانہ اپنی اعلیٰ ترین شان کے ساتھ اُس وقت آیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیج کر شریعت کو کامل کرتے ہوئے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: 4) کا اعلان فرمایا تھا کہ آج میں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے.یہ اعلان جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا تو وہ وقت تھا جب یہ سب کچھ قائم ہوا.پس اس بات میں تو کسی احمدی کو ہلکا سا بھی شائبہ نہیں، نہ کبھی خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کوئی نئی چیز لے کر آئے ہیں اور نہ کوئی احمدی کبھی ایسا سوچ سکتا ہے.آپ نے تو اس سچائی، اس ایمان اور
199 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اس تقوی کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لئے قرآن کریم کی پیشگوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنا تھا اور آئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی اور جس سے مسلمان اپنی شامت اعمال کی وجہ سے محروم کر دیئے گئے تھے.پس ہم احمدی جب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہم نے وہ ایمان اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی تعلیم قرآن کریم نے دی تھی اور جو صحابہ نے اپنے اندر پیدا کیا ہے ؟ کیا ہم نے اُس سچائی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی یا کر رہے ہیں جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مومنین کی ایک کثیر تعداد نے اپنے اندر انقلاب لاتے ہوئے پیدا کیا؟ کیا ہم نے اپنے دلوں میں وہ تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جس کا ذکر ہم صحابہ رضوان الله عَلَيْهِم کی سیرت میں سنتے اور پڑھتے ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اپنی زندگی میں اپنے صحابہ کی زندگی میں یہ انقلاب پید ا فرمایا تھا جس کا ذکر میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات جب بیان کرتا ہوں تو اُس حوالے سے کرتارہتا ہوں.یہ فقرہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ”میں بھیجا گیا ہوں تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو“ اس کے آگے پھر چند سطریں چھوڑ کر آپ فرماتے ہیں کہ ”سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد 13.صفحہ 293.حاشیہ ) یعنی آپ کے وجود کی ، آپ کی ذات کی اصل اور بنیادی وجہ ہیں.پس جب آپ اپنے ماننے والوں کو ایک جگہ مخاطب کر کے یہ فرماتے ہیں کہ ”میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو“.( فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 34) تو یہ کام جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، یہ کام کرنے والے ہی آپ کے وجود کی سر سبز شاخ بن سکتے ہیں.کیونکہ آپ نے اپنے وجود کا یہی بنیادی مقصد قرار دیا ہے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک شیریں اور میٹھے پھلدار درخت کی کچھ شاخیں زہر یلے پھل دینے لگ جائیں یا سوکھی شاخیں اُس درخت کا حصہ رہیں.سوکھی شاخوں کو تو کبھی اس کا مالک جو ہے رہنے نہیں دیتا بلکہ کاٹ کر علیحدہ کر دیتا ہے.پس بہت خوف کا مقام ہے.ہمیں ہر وقت ذہن میں یہ رکھنا چاہئے کہ بیعت کے بعد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں.جو تو نئے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو رہے ہیں ، اُن کے واقعات اور حالات جب میں سنتا ہوں یا خطوں میں پڑھتا ہوں تو اپنے ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے.لیکن بعض وہ جن کے باپ دادا احمدی تھے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں، جب بعض دفعہ ان کے بعض حالات کا پتہ چلتا ہے کہ بعض کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں تو ڈکھ اور تکلیف ہوتی ہے کہ اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف اُس طرح توجہ نہیں ہے جس طرح ہونی چاہئے.پیدائشی احمدی ہونا بعض دفعہ بعض لوگوں میں ستیاں پیدا کر دیتا ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے اپنا جائزہ
200 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لینا چاہئے.اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا چاہئے کہ کیا ہم کہیں ایسی ستیوں کی طرف تو نہیں دھکیلے جار ہے جو کبھی خدانہ کرے، خدا نہ کرے واپسی کے راستے ہی بند کر دیں، یا ہم صرف نام کے احمدی کہلانے والے تو نہیں ہو رہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ارشادات میں، اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ احمدیت کی حقیقی روح تبھی قائم ہو سکتی ہے جب ہم اپنے جائزے لیتے رہیں اور ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.آپ ہم میں اور دوسروں میں ایک واضح فرق دیکھنا چاہتے ہیں.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ”میں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ظاہر نام میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں.تم بھی مسلمان ہو.وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں.تم کلمہ گو ہو.وہ بھی کلمہ گو ہیں.تم بھی اتباع قرآن کا دعویٰ کرتے ہو.وہ بھی اتباع قرآن ہی کے مدعی ہیں.غرض دعووں میں تو تم اور وہ دونوں برابر ہو.مگر اللہ تعالیٰ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو“.( فرمایا کہ دعوی کے ثبوت میں کچھ عملی تبدیلی ہو اور اس کی پھر دلیل ہو.یہ نظر بھی آرہا ہو کہ دعویٰ میں جو عملی تبدیلی ہے اس کا واضح طور پر اظہار بھی ہو رہا ہے جو اُس کی دلیل بن جائے) پھر فرمایا کہ اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 5.صفحہ نمبر 604.جدید ایڈیشن) فرمایا اللہ تعالیٰ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو.اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو.اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے“.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے عملی ثبوت چاہتے ہیں.اس لئے اگر ہم خود اپنی حالتوں کے یہ جائزے لیں تو زیادہ بہتر طور پر اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں.دوسرے کے کہنے سے بعض دفعہ انسان چڑ جاتا ہے یا بعض دفعہ سمجھانے سے انانیت کا سوال پیدا ہو جاتا ہے.لیکن شرط یہ ہے اور اپنے جائزے لینے کے لئے یہ مذ نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، ہر وقت یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر لمحہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں نے ایک عہد بیعت باندھا ہوا ہے جس کو پورا کرنامیر افرض ہے تو پھر انسان اپنا محاسبہ بہتر طور پر کر سکتا ہے.ایک احمدی چاہے وہ جتنا بھی کمزور ہو، پھر بھی اس کے اندر نیکی کی رمق ہوتی ہے اور جب بھی احساس پید اہو جائے تو نیکی کے شگوفے پھوٹنے شروع ہو جاتے ہیں.پس ہر ایک کو اعمال کے پانی سے اس نیکی کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے.اس کو ترو تازہ کرنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے.جن کو احساس ہو جائے اُن کی حالت دیکھتے ہی دیکھتے سوکھی ٹہنی سے سر سبز شاخ میں بدلنا شروع ہو جاتی ہے.کئی مجھے خط لکھتے ہیں، خطوں میں درد ہوتا ہے کہ ہمارے اندر وہ پاک تبدیلی آجائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں.پس جو بھی اپنے احساس کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو ماں سے بھی بڑھ کر اپنے بندے کو پیار کرنے والا ہے، اپنی طرف آنے والے کو دوڑ کر گلے سے لگاتا ہے تو پھر ایسے
خطبات مسرور جلد نهم 201 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء لوگوں کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ایک سنہری موقع ہمیں اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کا عطا فرمایا ہے، اس سے ہم اگر صحیح طور پر فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو یہ ہماری بد نصیبی ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے صدمے اور درد کا جو اظہار فرمایا ہے وہ اُس وقت فرمار ہے ہیں جبکہ آپ سے براہ راست فیض پانے والے آپ کے صحابہ موجود تھے، جن کے معیار کے نمونے جب ہم سنتے اور پڑھتے ہیں تو رشک آتا ہے کہ کیا کیا انقلاب اُن لوگوں نے اپنے اندر پیدا کیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درد دیکھیں.آپ کا معیار تقوئی دیکھیں جو آپ اپنے مانے والوں سے دیکھنا چاہتے ہیں.اُس وقت بھی آپ بعض کی حالت دیکھ کر فرما رہے ہیں کہ مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے تو ہماری کمزوری کی حالت کس قدر صدمہ پہنچانے والی ہے.گو آپ آج ہم میں اس طرح موجود نہیں ہیں لیکن ہماری حالتوں کو تو اللہ تعالی آپ پر ظاہر فرما سکتا ہے کہ کس کس صحابی یا بزرگ یا آپ کے قریبیوں کی اولاد کی کیا کیا حالت ہے ؟ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں گندے ماحول سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی دنیا چھوڑ کر مسیح کے دامن سے جڑ کر اس عہد کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے رہے کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے ، اُن میں سے بعض کے بچوں کی دینی حالت کمزور ہو گئی ہے اور بعضوں کو اُس کی فکر بھی نہیں ہے.پس ہمیں اپنی حالت سنوارنے کے لئے اپنے بزرگوں کے حالات کی اس نیت سے جگالی کرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے سامنے ایک مقصد ہو جسے ہم نے حاصل کرنا ہے.اُن کی زندگی کے پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے.اُن کی بیعت کی وجوہات معلوم کرنی چاہئیں، تبھی ہم کسی مقصد کی طرف جانے والے ہوں گے اور اُن کی خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں گے.ابھی چند دن ہوئے ہمارے ایک پرانے بزرگ عبد المغنی خان صاحب کے بیٹے مجھے ان کے بارے میں بتارہے تھے کہ انہوں نے علیگڑھ یونیورسٹی سے کیمسٹری کے ساتھ بی.ایس.سی کی.اور اُس زمانے میں عام طور پر مسلمان لڑکے سائنس کم پڑھتے تھے.تو وائس چانسلر نے کہا کہ تم نے یہ مضمون بھی اچھالیا ہے اور اعلیٰ کامیابی بھی حاصل کی ہے.ہم تمہیں یونیورسٹی میں جاب دیتے ہیں.آگے پڑھائی بھی جاری رکھنا.اُن کے والد صاحب نے کسی انگریز دوست سے سفارش کی ہوئی تھی (اُس زمانے میں ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی) تو اُس نے بھی انہیں کسی اچھے جاب کی آفر کی.پھر اُن کو یہ مشورہ بھی ملا کہ ہوشیار ہیں ، انڈین سول سروس کا امتحان دے کر اُس میں شامل ہو جائیں.خان صاحب اُن دنوں قادیان آئے ہوئے تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا زمانہ تھا.اُن کو آپ نے تمام باتیں پیش کیں اور ساتھ ہی عرض کی کہ حضور! میں تو دنیا داری میں پڑنا نہیں چاہتا.میں تو قادیان میں رہ کر اگر قادیان کی گلیوں میں مجھے جھاڑو پھیر نے کا کام بھی مل جائے تو اُسے ان اعلی نوکریوں کے مقابل پر ترجیح دوں گا.تو ایسے ایسے بزرگ بھی تھے جنہوں نے آگے صحابہ سے فیض پایا.پھر آپ کو اس کے بعد سکول میں سائنس ٹیچر لگایا گیا.پھر آپ ناظر بیت المال مقرر ہوئے.غالباً پہلے ناظر بیت المال تھے.بہر حال پرانے بزرگ اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے لیکن چند ایک کی کمزور
202 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حالت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ ہمیں دلی صدمہ پہنچتا ہے.پس ہمیں اپنی حالتوں کی طرف دیکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اگر ہم دیکھیں کہ ہم کس کی اولادیں ہیں.ہمارے بزرگوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر کیا پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں.اس بات پر اگر ہم غور کریں اور یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے نام کو بقہ نہیں لگنے دینا تو یہ خود اصلاحی کا جو طریق ہے یہ زیادہ احسن رنگ میں ہمارے تقویٰ کے معیار بلند کرے گا.ہمیں نیکیوں کے بجالانے کی طرف راغب کرے گا.اور زندہ قوموں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ اُن کے پرانے بھی اپنی قدروں کو مرنے نہیں دیتے اور خوب سے خوب تر کی تلاش کرتے ہیں، اپنے معیار بلند کرتے چلے جاتے ہیں.اور نئے آنے والے بھی ایک نئی روح کے ساتھ جماعت میں شامل ہوتے ہیں.اور جب وہ پرانوں کے اعلیٰ معیار دیکھتے ہیں تو مزید مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے اور یوں نیکیوں کے معیار قومی سطح پر بڑھتے چلے جاتے ہیں.پس جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر اپنی حالتوں کو بھی بدلنا ہے اور دنیا میں بھی ایک انقلاب پیدا کرنا ہے تو اس کے لئے مستقل جائزے لینے ہوں گے.صرف اپنے جائزے نہیں لینے ہوں گے.اپنے بیوی بچوں کے بھی جائزے لینے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کی حالت اور اس کے قول و فعل کی سب سے زیادہ رازدار ہوتی ہے.اگر مرد صحیح ہو گا تو عورت بھی صحیح ہو گی، اور نہ اُسے آئینہ دکھائے گی کہ میری کیا اصلاح کرنے کی کوشش کر رہے ہو پہلے اپنی حالت کو تو بدلو.پس عورتوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ مردوں کی اپنی حالتوں میں بھی پاک تبدیلیاں پید اہوں.ہمیشہ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو اگلی نسلوں کی اصلاح کی بھی ضمانت مل جاتی ہے.پس اگلی نسلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے، انہیں دین پر قائم رکھنے کے لئے مر دوں کو اپنی حالت کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.پھر یہ عورت اور مرد کے جو نمونے ہیں، ماں باپ کے جو نمونے ہیں ، خاوند بیوی کے جو نمونے ہیں یہ بچوں کو بھی اس طرف متوجہ رکھیں گے کہ ہمارا اصل مقصد دنیا میں ڈوبنا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے.یہاں ایک بات کی وضاحت بھی کر دوں کہ کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ نعوذ باللہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں بہت کمزوریاں تھیں اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ کہنا پڑا یا ان کی کچھ تعداد بھی تھی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے چند ایک ہی شاید ایسے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معیار پر پورا نہ اترتے ہوں لیکن آپ چند ایک میں بھی کمزوری نہیں دیکھنا چاہتے تھے.اسی مجلس میں جہاں آپ نے بعض لوگوں کو دیکھ کے اپنے صدمے کا ذکر فرمایا ہے آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ”ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.بعض اوقات جماعت کا اخلاص، محبت اور جوش ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے“.(ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 605.جدید ایڈیشن)
خطبات مسرور جلد نهم 203 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء پس یہ جوش ایمان دکھانے والے بھی بہت تھے بلکہ اکثریت میں تھے ، بلکہ ہمیں تو یہ کہنا چاہئے کہ ہمارے مقابلے میں تو سارے کے سارے تھے.لیکن نبی اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار دیکھنا چاہتا ہے اور ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہ جو ہمارا دور ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی دور ہے.ابھی بہت سی پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی پوری ہونی ہیں.آپ سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدے فرمائے تھے بہت سے ابھی پورے ہونے والے ہیں.پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان وعدوں کو جلد از جلد اپنی زندگیوں میں پورا ہوتا دیکھیں تو ہمیں اپنے صدق و ایمان اور تقویٰ کے معیار پر نظر رکھنی ہو گی.جب ہم اللہ تعالیٰ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں جماعتی ترقی دکھائے تو ہمیں اُس کی رضا کے حصول کے لئے بھی کوشش کرنی ہو گی.یہ بھی بتادوں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے بہت سے لوگ ہیں اور وہ اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں.میں نے ایک دفعہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے اس فکر کا اظہار کیا تھا کہ لاہور کے واقعہ کے بعد خدام یا شاید صف دوم کے انصار بھی جو جماعتی عمارتوں اور مساجد میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اُن میں سے بعض کے متعلق یہ اطلاع ہے کہ ایک لمبا عرصہ ڈیوٹی دینے کی وجہ سے اُن کی طرف سے تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے یا عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ، اس لئے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے یا نظام کو کچھ اور طریقے سے اس بارہ میں سوچنے کی ضرورت ہے.تو یہ بات جب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان نے اپنے خدام تک پہنچائی تو مجھے خدام کی طرف سے، پاکستان کے خدام کی طرف سے اخلاص و وفا سے بھرے ہوئے کئی خطوط آئے کہ ہم اپنے عہد کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہیں.نہ ہم پہلے تھکے تھے اور نہ انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسی سوچ پیدا کریں گے کہ جماعتی ڈیوٹیاں ہمارے لئے کوئی بوجھ بن جائیں.آپ بے فکر رہیں.اسی طرح عورتوں کے خطوط آئے کہ ہمارے بھائی یا خاوند یا بیٹے اپنے کاموں سے آتے ہیں تو فوراً جماعتی ڈیوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور ہم بخوشی انہیں رخصت کرتی ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکیلے رہ کر بھی کسی قسم کا خوف نہیں.پس یہ اخلاص و وفا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جوشِ ایمان کی وجہ سے ہے.اس بارہ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ان فرائض اور ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدا کو کبھی نہ بھولیں.نماز میں وقت پر ادا ہوں اور ڈیوٹی کے دوران ذکر الہی اور دعاؤں سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں.ہماری سب سے بڑی طاقت خدا تعالیٰ کی ذات ہے.ہمیں جو مدد ملنی ہے وہ خدا تعالیٰ سے ملنی ہے.ہماری تو معمولی سی کوشش ہے جو اُس کے حکم کے ماتحت ہم کر رہے ہیں.جو کرنا ہے وہ تو اصل میں خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے.پس جب خدا تعالیٰ سے چمٹ جائیں گے تو خداخود دشمن سے بدلہ لے گا.اُس کے ہاتھ خدا تعالیٰ تو کو روکے گا.پس دعاؤں میں کبھی سست نہ ہوں اور پھر ان عبادتوں اور دعاؤں اور ذکر الہی کا اثر عام حالت میں بھی عملی طور پر ہر ایک کی شخصیت سے ظاہر ہو رہا ہو تو تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے معیار کو پاسکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِيْنَ
خطبات مسرور جلد نهم 204 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء اتَّقَوا وَ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل: 129) تقویٰ طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے والے خدا تعالی کی حمایت میں ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت نافرمانی کرنے سے ترساں ولرزاں رہتے ہیں“.( ڈرتے اور خوفزدہ رہتے ہیں.) ( ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 606.جدید ایڈیشن) پس یہ ہر وقت صرف اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور خوف ہے جو بندے کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اسے دنیاوی خوفوں سے بچا کر بھی رکھتا ہے.پس ایک احمدی کو اگر کوئی خوف ہونا چاہئے تو خدا تعالیٰ کا کہ کہیں وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”:خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے“.(رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) پس یہ ہے ایمان کا معیار جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ یہ معیار ہم اپنے اندر پید ا کرنے والے ہوں.یہاں اطاعت کا بھی ذکر آیا تھا ، اس وقت میں اطاعت کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اطاعت کے کسی درجہ سے بھی محروم نہ ہو.اطاعت کے مختلف درجے ہیں یا مختلف صورتیں ہیں جن پر ہمیں نظر رکھنی چاہئے.اطاعت کے مختلف معیار ہیں.نظام جماعت کی اطاعت ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا بھی اطاعت ہے.اسی طرح اور بہت ساری چیزیں انسان سوچتا ہے اور ایک نظام میں سموئے جانے کے لئے اور نظام پر پوری طرح عمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا فرمانبر دار بننے کے لئے ایک اطاعت ہی ہے جس کی طرف نظر رہے تو اس کے قدم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.مثلاً اطاعت کا معیار ہے.اس کی ایک معراج جو ہے وہ ہمیں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل میں نظر آتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تار آئی کہ فوری آ جاؤ تو آپ اپنے مطب میں ( اپنے کلینک میں) بیٹھے تھے.وہیں سے جلدی سے روانہ ہو گئے.یہ بلا وا اسی شہر سے نہیں آرہا تھا کہ اُسی طرح اُٹھ کے چلے گئے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دبلی میں تھے اور حضرت خلیفہ اول قادیان میں.گھر والوں کو پیغام بھیج دیا کہ میں جارہا ہوں.کوئی زادِ راہ، کوئی خرچ ، کوئی کپڑے، کوئی سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی.سیدھے سٹیشن پر پہنچ گئے.گاڑی کچھ لیٹ تھی تو ایک واقف شخص ملا.امیر آدمی تھا.اُس نے اپنے مریض کو دکھانا چاہا اور درخواست کی.گاڑی لیٹ ہونے کی وجہ سے آپ نے مریض کو دیکھ لیا.اور اس مریض کو دیکھنے کی آپ کو جو فیس ملی، وہی آپ کا سفر کا خرچ بن گیا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کا انتظام فرما دیا اور
205 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اپنے آقا کے حضور حاضر ہو گئے.اور جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح نہیں فرمایا تھا کہ فوری آجائیں.تار لکھنے والے نے تار میں لکھ دیا تھا کہ فوری پہنچیں.لیکن کوئی شکوہ نہیں کہ اس طرح میں آیا، کیوں مجھے تنگ کیا بلکہ بڑی خوشی سے وہاں بیٹھے رہے.(ماخوذ از حیات نور صفحہ نمبر 285) تو یہ اطاعت کا اعلیٰ درجے کا معیار ہے کہ ہر سوچ اور فکر ، حکم کے آگے بے حیثیت ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کا بھی یہ سلوک ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ ساتھ ساتھ انتظامات بھی فرما دیئے.اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتا ہے.پس یہ ہمارے لئے بھی اسوہ ہے.پھر نظام جماعت ہے.اس میں چھوٹے سے چھوٹے عہدیدار سے لے کر خلیفہ وقت تک کی اطاعت ہے.اور اصل میں تو یہ تسلسل ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کا.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اُس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 49 مسند ابى هريرة حديث نمبر 7330 عالم الكتب بيروت 1998) پس نظام جماعت کی اطاعت، اطاعت کے بنیادی درجے کے حصول کے لئے چھوٹی سے چھوٹی سطح پر بھی انتہائی ضروری ہے.کسی بھی جماعت یا اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھیں تو کسی دنیاوی تنظیم یا حکومت کو چلانے کے لئے بھی ایک نظام ہوتا ہے اور اس کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بغیر نظام چل نہیں سکتا.دنیاوی حکومتوں میں بھی ہر درجے پر اُس کے نظام چلانے کے لئے کچھ قانون اور قواعد ہوتے ہیں اور اُن کی پابندی کرناضروری ہوتی ہے.اور حکومتوں کے پاس چونکہ طاقت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے نظام کی پابندی اپنی اس طاقت اور ان قوانین کے تحت کرواتی ہیں جو انہوں نے وضع کئے ہوتے ہیں.لیکن ایک روحانی نظام میں اخلاص و وفا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اطاعت کی بنیاد ہے.اس لئے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر درجے پر اطاعت کرنے والے میرے پسندیدہ ہیں.پس نظام جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے درجے سے لے کر اوپر تک جو نظام کی اطاعت کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ سے جو خلافت کا وعدہ فرمایا ہے اور قرآنِ کریم میں مومنین کی جماعت سے جس خلافت کے جاری رہنے کا وعدہ فرمایا ہے اس کی واحد مثال اس وقت جماعت احمدیہ میں ہے.لیکن اس آیت سے پہلے جو آیت استخلاف کہلاتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ فرمایا ہے، اس آیت سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ یہ بھی فرماتا ہے کہ وَ اقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَبِنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَا تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (النور:54) اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے.تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ.دستور کے مطابق اطاعت کرو.یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.ط
خطبات مسرور جلد نهم 206 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء پس یہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں والی اطاعت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مؤمن کس طرح اطاعت کرتے ہیں.چونکہ جب وہ سنتے ہیں تو وہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہتے ہیں.اسی کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی.ہماری مرضی کے خلاف بھی بات ہو یا ہمارے موافق بات ہو ، ہمارا فرض اطاعت کرنا ہے.یہ ہے اعلیٰ درجہ کا معیار جو ایک مومن کا ہونا چاہئے اور یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو بڑی بڑی قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے.صرف اطاعت در معروف کرو.جو دستور کے مطابق اطاعت ہے وہ کر و.کھڑے ہو کر ہم عہد تو یہ کر رہے ہوں کہ جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اُس کی پابندی کرنی ضروری سمجھیں گے لیکن جب فیصلے ہوں تو اس پر لیت و لعل سے کام لیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہے جو صرف قسمیں نہیں کھاتا بلکہ ہر حالت میں اطاعت کا اظہار کرتا ہے.یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں، پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہاں طاعت در معروف ہے اور معروف فیصلے کی باتیں کی جاتی ہیں تو خلافت احمدیہ کی طرف سے کبھی خلاف احکام الہی کوئی بات نہیں کی جاتی.اور معروف فیصلے کا مطلب یہی ہے کہ شریعت کے مطابق جو بھی باتیں ہوں گی، اس کی پابندی کی جائے گی.اگر ہر احمدی اس یقین پر قائم ہے کہ خلافت کا سلسلہ خلافت علی منہاج نبوت ہے تو اس یقین پر بھی قائم ہونا ہو گا کہ کوئی غیر شرعی حکم خلافت سے ہمیں نہیں مل سکتا.اسی طرح سے نظام جماعت بھی ہے.جب وہ خلافت کے نظام کے تحت کام کر رہا ہے تو کوئی غیر شرعی حکم نہیں دے گا.اور اگر کسی وجہ سے دے گا یا غلطی سے کوئی ایسا حکم آ جاتا ہے تو خلیفہ وقت، جب وہ معاملہ اُس تک پہنچتا ہے، اس کی درستی کر دے گا.پس جب خلافت کے استحکام کے لئے ایک احمدی دعا کرتا ہے تو ساتھ ہی اپنے لئے بھی یہ دعا کرے کہ میں اطاعت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے والا بنوں تا کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ رہوں اور خلافت کے انعام سے جڑار ہوں.جس ہدایت پر قائم ہو گیا ہوں اُس سے خدا تعالیٰ کبھی محروم نہ رکھے.بعض دفعہ بعض لوگ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نظام جماعت پر بد اعتمادی کا اظہار کر جاتے ہیں اور اُس انعام سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال بعد اب عطا فرمایا ہے.مثلاً بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے اگر قضائی نظام میں جو حقیقتاً جماعت کے اندر ایک نظام ہے جس کی حقیقت ثالثی نظام کی ہے، اُس میں جب یہ تحریر مانگی جاتی ہے اور اب نئے سرے سے کوئی تحریر لکھوائی جانے لگی ہے کہ اس ثالثی اور قضائی فیصلے کو میں خوشی سے ماننے کو تیار ہوں اور کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور اس نظام میں میں خود اپنی خوشی سے اپنے معاملے کو لے کر جا رہا ہوں.تو بعض لوگ یہ بد ظنی کرتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں کہ ہمارے جو فیصلے ہیں وہ ہمارے خلاف ہوں گے اس لئے ہم تحریر نہیں دیں گے.تو ایسے لوگوں کی شروع سے ہی نیت نیک نہیں ہوتی.وہ صرف لمبالٹکانا چاہتے ہیں کہ چلو یہاں سے کچھ عرصہ کسی معاملے کو ٹالو.اُس کے بعد یہاں نہیں فیصلہ ہو گا تو حکومت کی عدالتوں میں لے جائیں گے.اور پھر جب یہ لوگ یہاں سے انکار کر کے دنیاوی عدالتوں میں جاتے ہیں اور جب وہاں مرضی کے خلاف فیصلے ہو جاتے ہیں تو پھر قضا میں آنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے معاملات پھر جماعت نہیں
207 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لیتی.کیونکہ وہ پہلی دفعہ اطاعت سے باہر نکل گئے ہیں.انہوں نے نظام جماعت پر اعتماد نہیں کیا.اور نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ وہ اطاعت سے باہر ہیں اور پھر میرے ناپسندیدہ ہیں.اور جب انسان اللہ تعالیٰ کا نا پسندیدہ ہو جائے تو چاہے وہ ظاہر میں جماعت کا ممبر بھی کہلاتا ہو ، حقیقتاً وہ جماعت کے اس فیض سے فیض نہیں پا سکتا جو خدا تعالیٰ افراد جماعت کو جماعت کی برکت سے پہنچاتا ہے.پس بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن ذاتی اناؤں اور بدظنیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دیتی ہیں.پس ہر احمد ی کو کوشش کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا پسندیدہ بننے کی کوشش کرے کہ اسی میں ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہے.اس کے ساتھ ہی میں عہدیداران جماعت سے بھی یہ کہوں گا کہ وہ خلافت کے حقیقی نمائندے تبھی کہلا سکتے ہیں جب انصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرنے والے ہوں.کسی بھی عہدیدار کی وجہ سے کسی کو بھی ٹھو کر لگتی ہے تو وہ عہدیدار بھی اُس کا اُسی طرح قصور وار ہے کیونکہ اُس نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی امانت کا حق ادا نہیں کیا.اگر اُس کی غلطی کی وجہ سے ٹھو کر لگ رہی ہے اور جان بوجھ کر کہیں ایسی صورت پیدا ہوئی ہے تو بہر حال وہ قصور وار ہے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والا ہے.پس ہر احمدی کو چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہو ، ہمیشہ یہ سمجھنا چاہئے کہ میں نے اپنے عہد بیعت کو قائم رکھنے کے لئے، اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لئے ہر حالت میں صدق اور تقویٰ کا اظہار کرتے چلے جانا ہے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والا بن سکوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”میں کثرت جماعت سے کبھی خوش نہیں ہو تا کہ صرف جماعت کی جو تعداد ہے یہ خوشی کی بات نہیں ہے) «حقیقی جماعت کے معنے یہ نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف بیعت کر لی بلکہ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہو سکتی ہے کہ بیعت کی حقیقت پر کار بند ہو.سچے طور سے ان میں ایک پاک تبدیلی پید اہو جاوے اور اُن کی زندگی گناہ کی آلائش سے بالکل صاف ہو جاوے.نفسانی خواہشات اور شیطان کے پنجے سے نکل کر خد اتعالیٰ کی رضا میں محو ہو جاویں.حق اللہ اور حق العباد کو فراخ دلی سے پورے اور کامل طور سے ادا کریں.دین کے واسطے اور اشاعت دین کے لئے اُن میں ایک تڑپ پیدا ہو جاوے.اپنی خواہشات اور ارادوں، آرزوؤں کو فنا کر کے خدا کے بن جاویں“.فرمایا کہ متقی وہی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الہی کے خلاف ہیں.نفس اور خواہشات نفسانی کو اور دنیا ومافیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بیج سمجھیں“.( ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 455،454.جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 مئی تا 19 مئی 2011ء جلد 18 شماره 19 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 208 17 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 2011ء بمطابق 29 شہادت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانيه) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعض کتب میں اپنے مسیح و مہدی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے حق کی تلاش کرنے والے علماء و صلحاء اور عوام الناس کو اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ بلاوجہ تکفیر کے فتوے لگانے یا عوام الناس کو بغیر سوچے سمجھے علماء کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے.لیکن شرط یہ ہے کہ خالی الذہن ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں تو یقینا اللہ تعالی رہنمائی فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ایک کتاب ”نشانِ آسمانی “ میں یہ طریق بھی بتایا ہے کہ توبتہ النصوح کر کے رات کو دور کعت نماز پڑھو.پہلی رکعت میں سورۃ یسین پڑھے ، دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے ، پھر بعد اس کے تین سو مر تبہ درود شریف اور تین سو مر تبہ استغفار پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے کہ تو پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، اس شخص کے بارے میں مجھ پر حق کھول دے.پھر اس میں آپ نے دوبارہ یہ تاکید فرمائی ہے کہ اپنے نفس سے خالی ہو کر یہ استخارہ کر ناشر ط ہے.لیکن اول تو توبۃ النصوح ہی بہت بڑی کڑی شرط ہے.اس پر عمل ہی کوئی نہیں کرتا اور خاص طور پر علماء تو بالکل ہی نہیں کر سکتے.آپ نے فرمایا کہ اگر دل نبغض سے بھر اہو اور بد ظنی غالب ہو تو پھر شیطانی خیالات ہی آئیں گے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بہت دعا کرتے ہیں ہمیں تو کوئی سچائی نظر نہیں آئی.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر دل میں ہی کینہ بھرا ہوا ہے، بغض بھرا ہوا ہے تو پھر شیطان نے رہنمائی کرنی ہے.پھر خدا تعالی رہنمائی (ماخوذاز نشان آسمانی روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 401،400) نہیں کرتا.اسی طرح علماء اور صلحاء کو خاص طور پر اپنی کتاب ”کتاب البریہ “ میں مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد (ماخوذ از کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر 13 صفحہ 364) چاہنے کی تجویز دی.لیکن بغض سے بھرے ہوئے علماء اس تجویز پر کبھی عمل نہیں کرتے اور عوام الناس کو بھی اپنے ساتھ
خطبات مسرور جلد نهم 209 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء ڈبو رہے ہیں.بہر حال اس کے باوجود بہت سے سعید فطرت ہیں جو اس نسخے کو آزماتے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی رہنمائی فرمائی اور اس کے علاوہ بعض سعید فطرت ایسے ہیں جو نیکی کی تلاش میں رہتے ہیں ان کی اللہ تعالیٰ ویسے بھی رہنمائی فرماتا ہے.بہر حال اس زمانے میں بھی آج کل بھی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اُن لوگوں کی رہنمائی فرماتا چلا جا رہا ہے جو حق کی تلاش میں سنجیدہ ہیں.اس وقت میں ایسے ہی لوگوں کے چند واقعات پیش کروں گا.تبشیر کی رپورٹ کے مطابق جو عربی ڈیسک نے اُن کو دی کہ اس ماہ اپریل کے اَلحِوَارُ المُبَاشِر میں ایم.ٹی.اے تھری پر جو عربی پروگرام آتا ہے اس میں ایک مصری دوست مکرم عبدہ بکر محمد بکر صاحب نے فون کر کے بتایا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق استخارہ کیا اور یہ دعا کی تو اُسی رات رؤیا میں دیکھا کہ میں اپنے ایک سلفی رشتے دار کو اپنے ہاتھ کی انگلی ہوا میں لہراتے ہوئے بڑے جوش سے کوئی بات کہہ رہا ہوں لیکن میرے الفاظ مجھے سنائی نہیں دیتے.جب میں خواب سے بیدار ہوا تو اگلے دن پھر اسی طریق پر دعا کی اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ اے اللہ ! مجھے کوئی واضح چیز دکھا جس سے انشراح صدر ہو جائے.چنانچہ میں نے دوبارہ وہی رؤیا دیکھا کہ میں اپنے اسی رشتے دار کے سامنے کھڑا ہوں اور اپنے ہاتھ کی انگلی لہراتے ہوئے تین بار کہتا ہوں کہ واللهِ الْعَظِيْمِ إِنَّ الْجَمَاعَةَ الْأَحْمَدِيَّةَ جَمَاعَةُ الْحَقِّ.یعنی خدائے عظیم کی قسم ہے کہ جماعت احمد یہ ہی کچی جماعت ہے.اس کے بعد کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیعت کی توفیق دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ایک دن دعا کر کے نہ بیٹھ جاؤ بلکہ کم از کم اس سنجیدگی سے دو سے تین ہفتے یازیادہ دعا کرو.جب اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہو تو اللہ تعالیٰ ایک وقت میں رہنمائی فرمائے گا.(ماخوذ از نشان آسمانی روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 401) پھر ہمارے امریکہ کے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ عبدل سلیم صاحب پچھلیں، تیس سال پہلے نبی سے لاس انجلیس امریکہ آئے تھے اور عیسائی ماحول ہونے کی وجہ سے عیسائیت قبول کر لی مگر بعد ازاں ایک مسلمان کی تبلیغ سے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا.کہتے ہیں اُن کی دوستی خاکسار ( یعنی ہمارے جو مبلغ ہیں انعام الحق کو ثر اُن) سے ہو گئی اور یہ ہماری مسجد میں آنے لگے.انہیں احمدیت کے متعلق تفصیل بتائی.مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا اور یہ مشورہ دیا کہ وہ دعا کر کے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کریں.اور دعائے استخارہ کا مسنون طریقہ بتایا.چنانچہ انہوں نے استخارے کی دعا کی اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نظر آئے.اگلے روز وہ حسب عادت غیر احمدیوں کی مسجد میں گئے.وہاں عرب سے کوئی شیخ آئے ہوئے تھے.اُس شیخ نے حاضرین کو سوال کرنے کی دعوت دی تو عبدل سلیم صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ قرآن وحدیث کے مطابق یہ زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا ہے.چنانچہ میں نے دعا کی کہ اے خدا! تو مجھے بتا.کیا امام مہدی آگئے ہیں ؟ اور اگر آگئے ہیں تو کون ہیں ؟ تو کہتے ہیں میں نے اُن کو بتایا کہ میری خواب میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آئے.اس پر شیخ نے کہا کہ یہ
210 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم شیطانی خواب ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں.تم کثرت سے تعوذ پڑھو اور درود شریف پڑھو.چنانچہ انہوں نے پھر دعا کی.کثرت سے درود شریف پڑھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو خواب میں نظر آئے.چنانچہ یہ پھر دوبارہ شیخ کی مجلس سوال و جواب میں گئے اور وہاں ذکر کیا.اُس شیخ نے پھر کہا کہ یہ شیطانی خواب ہے.عبدل سلیم صاحب نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ رات کو میں کثرت سے تعوذ پڑھتا ہوں.درود شریف پڑھتا ہوں.پھر دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! تو مجھے امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتا.مگر بقول آپ کے خدا تعالیٰ مجھے جواب نہیں دیتا مگر صرف شیطان جواب دیتا ہے.یہ تو بڑی عجیب بات ہے.یہ جواب سن کر مسجد میں شور مچ گیا اور انہوں نے کہا اس کو یہاں سے باہر نکالو.یہ کافر ہے.یہ پلید ہے.کہتے ہیں یہاں تک کہ عورتوں کی طرف جو سائڈ سکرین تھی، وہاں سے بھی سکرین بیٹی جانے لگی کہ اسے باہر نکالو.یہ کافر ہے.بہر حال یہ کہتے ہیں میں وہاں سے اُٹھ کر آگیا اور یہ سارا واقعہ انہوں نے ہمارے مبلغ کو سنایا اور پھر کہا کہ اب مجھے شرح صدر ہو گئی ہے کیونکہ شیخ کے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں اور اب میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ انہوں نے بیعت کی.جس دن بیعت کی تو اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکمل طور پر خواب میں اُن پر ظاہر ہوئے اور اُن کو سلام کیا اور مصافحہ کیا اور احمدیت قبول کرنے پر مبارکباد دی.اور کہتے ہیں اگلے دن میں بڑا خوش تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے اس طرح میں نے مصافحہ کیا.تو یہ لوگ جو گزشتہ ایک سو بیس سال سے شیخ ہیں یا نام نہاد علماء ہیں ، اسی طرح عوام الناس کو ، مسلمانوں کو ور غلاتے چلے جارہے ہیں.اور آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ بڑی شان سے پورے ہو رہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ”میں دیکھتا ہوں اور آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کافر کہنے والے موجود نہیں اور خدا تعالیٰ نے مجھے اب تک زندہ رکھا اور میری جماعت کو بڑھایا ہے“.لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 250،249) اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گو اپنے وجود کے ساتھ ہم میں موجود نہیں لیکن جماعت کا بڑھنا، آپ کالو گوں میں خوابوں کے ذریعے سے آکے اپنی سچائی ثابت کرنا یہی زندگی کا ثبوت ہے.پھر انڈونیشیا سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ڈیڈی سناریہ Dedi Sunarya) صاحب جماعت احمدیہ سیانجوڑ (Cianjur) ویسٹ جاوا کے ممبر ہیں.ان تک جماعت کا پیغام 2006ء تک پہنچ چکا تھا.انہوں نے جماعتی کتب کا مطالعہ شروع کیا.اُن کی پسندیدہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی معرکۃ الآراء کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی تھی.وہ کہتے ہیں بارہا اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی انہیں احمدیت قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی.ایک دن انہیں کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے استخارہ کریں.چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتے رہے اور فروری 2008ء میں انہوں نے خواب میں ایک زبان میں ایک جملہ سنا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اگر تم وہاں جانا چاہتے ہو تو پہلے تمہیں مضبوط ہونا ہو گا اس کے بعد جلد ہی اُنہیں ایک اور خواب آئی جس میں انہیں کہا 66
خطبات مسرور جلد نهم 211 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء گیا کہ وہ چالیس دن روزے رکھیں.ان روزوں میں اُنیسویں اور اکیسویں رات انہیں کشف دکھایا گیا جس میں ایک سفید لباس میں ملبوس شخص یہ کلمات دہرارہا تھا کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ - احمدیت سچی ہے، تمہیں یقینالیلتہ القدر حاصل ہو گئی ہے اور حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں.کہتے ہیں یہ کشف مجھے کئی مرتبہ ہوا.بالآخر 2008ء میں انہوں نے اپنی اہلیہ سمیت احمدیت قبول کر لی اور اس کے بعد کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام مشکلات کو انہوں نے بڑے صبر اور حوصلے سے بر داشت کیا.کینیڈا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ سینٹ تھا مس (اونٹاریو) کے رہائشی ایک مقامی لوکل شخص بل روبنسن (Bill Robinson) تھے جو بڑے پر جوش عیسائی تھے.لیکن رفتہ رفتہ عیسائیت سے بیزار ہو گئے اور خدا سے دعا کرنے لگے کہ اے خدا! صحیح راستہ مجھے دکھا.کہتے ہیں ایک شب نہایت شدت سے میں نے دعا کی کہ اگر خدا موجود ہے تو مجھے صحیح راستہ دکھا.صبح کو اُس نے دیکھا کہ اس کے میل باکس میں جماعت احمدیہ کا پمفلٹ پڑا ہوا ہے.بل نے اُسے خدائی نشان سمجھتے ہوئے جماعت سے رابطہ کیا اور مارچ 2011ء میں بیعت کر لی.اُن کا کہنا تھا که مسلمان ہونے کے بعد جب وہ نہائے تو محسوس کیا کہ اُن کے سارے گناہ ڈھل کر بہہ گئے ہیں اور وہ نئے انسان بن گئے ہیں.تو جو نیک فطرت ہیں اُن کو معجزوں کی کثرت کی ضرورت نہیں رہتی.انہوں نے صرف اپنے پوسٹ باکس میں ایک پمفلٹ دیکھ کے اس کو بھی خدائی تائید سمجھتے ہوئے احمدیت کا مطالعہ کیا اور پھر احمدیت قبول کر لی.پھر قزاقستان سے وہاں کے ہمارے مقامی معلم روفات تو کا موف صاحب لکھتے ہیں کہ گل سیزم آئمہ کینا صاحبہ نے 2010ء میں بیعت کی.اس سے قبل وہ صوفی ازم سے منسلک رہیں.اُن کا پہلا سوال حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں تھا.وہ عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کے بارے میں ہم سے سُن کر بہت حیران ہوئیں.اُس نے بتایا کہ جماعت میں داخل ہونے سے تقریباً تین چار ماہ پہلے اُس نے خواب دیکھا کہ گویا کسی نے بورڈ پر عربی زبان میں کچھ لکھا ہے جسے وہ نہ پڑھ سکیں.تا ہم اُس کا مفہوم اُسے یہ بتایا گیا کہ امام مہدی آپ کے در میان موجود ہے.اس کے تقریباً دو ہفتے بعد اُس نے وہاں ایم.ٹی.اے پر جلسہ سالانہ جرمنی میں مجھے خطاب کرتے ہوئے دیکھا تو اُس پر بڑا گہرا اثر ہوا.وہ کہتی ہیں مجھے پہلے ہی دکھا یا گیا تھا کہ امام مہدی آچکے ہیں اور امام مہدی کی باتیں ہو رہی ہیں.اُس کے بعد اُس نے احمدیت قبول کر لی.سیر الیون کے ہمارے مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ کینیما ڈسٹرکٹ کے بنڈ وما(Gbandoma) گاؤں میں ڈاکٹر تامو صاحب مشنری صالح لہائے صاحب اور معلم مصطفی فوفانا، تینوں داعیان الی اللہ تبلیغ کے لئے گئے.تبلیغ کرنے کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے الحاجی مصطفی تا مو کو استخارہ کرنے کا طریق بتایا کہ اس طرح آپ احمدیت کی صداقت معلوم کر سکتے ہیں.اگلی صبح الحاجی مصطفی تا مو صاحب جو ابھی احمد کی نہ تھے.انہوں نے مسجد میں نماز فجر کے بعد خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر حق کھول دیا ہے.
212 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رات خواب میں دیکھا کہ وہ بائیسکل پر شہر جانا چاہتے ہیں.(اب افریقنوں کو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آتی اور ہم زیادہ ترقی پسند ، ترقی پذیر اور علم دوست ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے جب رہنمائی فرمانی ہو ، جس کو ہدایت دینی ہو، اس کے لئے چھوٹی سی چیز میں ہی ایک رہنمائی فرما دیتا ہے جو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں.اور یہ دیکھیں کہتے ہیں کہ خواب میں دیکھا کہ بائیسکل پر شہر جانا چاہتے ہیں اور ان کے پاس بھاری سامان ہے.فکر مند ہیں کہ کس طرح بھاری سامان لے کر شہر پہنچیں؟ اتنے میں ایک لڑکے نے آکے پیغام دیا کہ تمہارا بھائی صالح ( جو ہمارے معلم ہیں) تمہیں بلا رہے ہیں کہ تم میرے ساتھ گاڑی پر آجاؤ.میں نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو میر ابھائی صالح جو احمدی ہے ایک خوبصورت پگڑی پہنے ہوئے ہے اور کہہ رہا ہے کہ آؤ کار پر چلیں.انہوں نے کہا کہ انہوں نے فوراً سمجھ لیا کہ میری مشکلات سے نجات احمدیت میں ہی ہے.اور حقیقی عزت اسی میں ہے.اس خواب بیان کرنے کے بعد وہ آئے کہ میری بیعت لے لیں.شام سے ہمارے ایک دوست ہیں یا سر برہان الحریری صاحب.وہ کہتے ہیں میں نے اپنے کزن رتیب الحریری صاحب سے جماعت کا ذکر سنا تو سنتے ہی میرے دل میں حق راسخ ہو گیا اور میں بیعت کرنے پر بھی رضامند ہو گیا.دوروز قبل میں نے دور کعت نماز پڑھی اور دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے حق کے بارے میں کھول کر بتادے اور پھر اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما.کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں ایک ان پڑھ انسان ہوں.میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچے چلا جارہا ہے.میں کافی دور تک اُس کے ساتھ چلتا رہا.پھر پوچھا کہ تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ؟ اس نے کہا کچھ دیر بعد تم خود ہی دیکھ لو گے.چنانچہ میں نے آگ کے بلند شعلے اور بہت کثرت سے لوگ دیکھے.یہ دیکھ کر میں نے خوفزدہ ہوتے ہوئے اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا.اُسی وقت آسمان سے نور نازل ہوا اور جب میں نے اُسے دیکھا تو اس شخص کو کہا کہ اب میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا.کیونکہ اس نور کو دیکھ کر مجھے راحت و اطمینان اور سکینت مل گئی ہے.اس رؤیا کے بعد مجھے انشراح صدر ہو گیا.الحمدللہ اُس کے بعد بیعت کر لی.مکرمہ رنا محمد البواعنہ صاحبہ اردن کی ہیں.یہ کہتی ہیں کہ میر ا جماعت سے تعارف اپنے خاوند کے ذریعے ہوا.انہوں نے تین سال ایم.ٹی.اے دیکھنے کے بعد چند ماہ قبل بیعت کر لی تھی.میں نے بیعت کے بعد اپنے میاں میں خدا تعالیٰ سے تعلق میں نمایاں تبدیلی دیکھی.اُن کی دعا کا انداز اور نمازوں کی پابندی اور خشوع و خضوع نمایاں طور پر بدل گیا.وہ مجھ سے بھی جماعتی عقائد کی بات گاہے بگاہے کرتے اور مجھے امام الزمان کی کتابوں کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے رہے.خصوصاً اسلامی اصول کی فلاسفی “ پڑھنے کے لئے دی جو مجھے بہت پسند آئی اور اس کے بعد میں نے عربی کتاب ”التبلیغ کا مطالعہ کیا اور وہ بھی بہت عمدہ تھی.اس پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور انشراح صدر کے لئے دعا کی.چنانچہ مجھے بہت سی خوا ہیں آئیں جن میں سے ایک یہ تھی.کہتی ہیں میں نے دیکھا کہ میرے میاں مختلف رنگوں کے گلاب کے پھولوں سے سجے ہوئے ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہیں اور آپ کے ساتھ بہت زیادہ لوگ موجود ہیں جو بہت خوش ہیں.جبکہ میں نیچے پستی میں کھڑی ہوں اور اُن کی طرف دیکھ رہی ہوں اور
213 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم خواہش کرتی ہوں کہ اُن کے ساتھ مل جاؤں.چنانچہ میں نے اُن کی طرف چڑھنا شروع کیا.اوپر کی طرف راستہ بہت خوبصورت اور ہر طرف سے سبز و شاداب اور دیدہ زیب رنگ برنگے پھولوں سے سجا ہوا تھا.جب میں اوپر چڑھتے چڑھتے تھک جاتی تو مختلف پھولوں سے سجائے ہوئے بہت دلکش گھڑوں سے پانی پیتی جو بہت شیریں اور اس قدر مزے دار تھا کہ اس جیسا میں نے پہلے کبھی نہیں پیا.کہتی ہیں اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ جو کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے وہی حقیقی رنگ میں اسلام کی دلکش اور خوبصورت تعلیم ہے.لہذا میں نے اپنے میاں سے کہا کہ میری بیعت بھی ارسال کر دیں.پھر الجزائر کی ایک فتیحہ صاحبہ ہیں.وہ کہتی ہیں میں نے ایم.ٹی.اے کے بہت سے پروگرام دیکھنے کے بعد خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جماعت میں شامل ہوں جس کی رہنمائی (میر الکھا کہ خلیفۃ المسیح الخامس اپنے روایتی لباس میں کر رہے ہیں.اور ایک مسجد کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں جس کے دروازے کھلے ہیں اور اس مسجد کے اندر نور چمک رہا ہے.اس خواب کے بعد 9 فروری 2010ء کو کہتی ہیں میں نے بیعت ارسال کر دی اور بڑی شدت سے جواب کا انتظار کرنے لگی.اُسی رات میں نے دیکھا کہ میں ایک فریم کئے ہوئے آئینے میں دیکھ رہی ہوں.اچانک مجھے اپنی شکل فریم میں نظر آنے لگی اور وہ شکل بہت چمکدار، روشن تھی.میں نے زندگی بھر اپنی شکل اتنی خوبصورت نہیں دیکھی.پھر اچانک وہ تصویر غائب ہوگئی اور آئینہ میں میری بچپن کی تصویر اسی طرح روشن اور نہایت خوبصورت شکل میں ظاہر ہوئی.میں اُسے دیکھ کر خواب میں بہت زیادہ خوش تھی اور اچانک میں نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو میرا ایک اسٹنٹ نظر آیا جس نے کہا کہ دیکھو، احمدیت کے آثار کس طرح میرے اندر منعکس ہو رہے ہیں.محمد يحي سیہوب الجزائر کے ہیں.کہتے ہیں میں نے چند ماہ قبل بیعت کی توفیق پائی.اس کا سہر امیرے بیٹے سلیم کے سر ہے جسے مختلف چینل دیکھنے کا شوق ہے.اور اسی تلاش میں اُسے ایم.ٹی.اے مل گیا جہاں پر وگرام حوار مباشر جاری تھا.چنانچہ اس نے کئی پروگرام دیکھے اور پروگرام کے درمیان فون بھی کئے اور عربی ویب سائٹ پر موجود مواد کا مطالعہ بھی کیا.جب کوئی بات خلاف شریعت نظر نہ آئی اور واضح دلائل سنے تو بیعت کر لی.لیکن میں نے بیعت سے قبل استخارہ کیا اور خدا تعالیٰ سے التجا کی کہ مجھے اس شخص یعنی سید نا احمد علیہ السلام کی حقیقت بتا دے.تو میں نے خواب میں کچھ لوگوں کو اُن کے گھروں میں دیکھا کہ وہ شدید آندھی کا سامنا کر رہے ہیں.وہ اپنے گھر کے باہر والے اُس پردہ کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو باہر سے اُن کے بر آمدے کو ڈھانکتا ہے لیکن وہ اُسے پکڑ نہیں سکتے اور پر دہ اوپر ہوا میں اُٹھ جاتا ہے اور وہ بے پر دہ ہو جاتے ہیں اور گھر کے اندر سے چیزیں نظر آنے لگتی ہیں.اس کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ جیسے حقیقت میں ایک بڑا زلزلہ برپا ہو گیا ہے.اس پر میں نے بے ساختہ ڈر کر نہایت مرعوب آواز میں کلمہ شہادت پڑھا اور دل کی گہرائیوں سے تین بار دہرایا.اس کے بعد سکون ہو گیا اور کہتے ہیں میں نے مؤذن کی آواز سنی اور یہ سب کچھ فجر سے پہلے ہوا.جب میں بیدار ہوا تو میری آنکھیں خدا تعالیٰ
214 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سے ڈر کی وجہ سے آنسوؤں سے تر تھیں.پھر نماز کے لئے اُٹھا تو میر ا یہ ڈر ختم ہو گیا تھا اور سکینت میرے دل پر اترتی محسوس ہوئی.یہ کہتے ہیں کہ اس خواب سے مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صداقت مجھ پر واضح ہو گئی، سمجھ آ گئی کیونکہ میں دعا کر رہا تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالنے کے لئے تشریف لائے ہیں.ہانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل لبنان سے ایک دوست مکرم جمیل صاحب نے بیعت کی تھی.انہوں نے اپنی بہن یاسمین کو تبلیغ کرنی شروع کی لیکن وہ قائل نہ ہوتی تھی.آج انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اب اس نے ایک خواب کی بنا پر بیعت کا فیصلہ کیا ہے.لکھتی ہیں کہ ہفتہ کے روز نماز عصر ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے طلب ہدایت کے لئے بہت دعا کی.رات کو سونے سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پڑھ رہی تھی.(بیعت تو نہیں کی تھی لیکن دشمنی ایسی بھی نہیں تھی کہ کتابیں نہ پڑھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پڑھ رہی تھیں) اسی دوران نیند آگئی اور خواب میں حضور انور کو بعض اور لوگوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا.حضور نے پوچھا کہ کیوں بیعت کرنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کی باتیں درست اور معقول ہیں.اس لئے بیعت کرنا چاہتی ہوں.اس کے بعد خواب میں ہی بیعت کر لی.بیدار ہونے کے بعد محسوس ہوا کہ خواب حقیقت سے بھی زیادہ واضح تھی.محمود يحي علی صاحب یمن کے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت جاننے کے لئے استخارہ کیا تو خواب میں آپ کو دیکھا کہ آپ خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس ایک سفید شاخوں والے درخت کے پاس کھڑے ہیں جس کی بلندی تقریبا دو میٹر ہے اور کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں، اس کے بعد آنکھ کھل گئی لیکن حضور کے الفاظ یاد نہیں رہے.کہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد پھر میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خانہ کعبہ میں منبر رسول پر کھڑے خطاب فرما رہے ہیں.اس پر آنکھ کھل گئی.اس کے بعد لوگوں کو جماعت کے افکار و عقائد کی تبلیغ میں نے شروع کی تو ان کی طرف سے ہنسی مذاق کا نشانہ بنا پڑا.انہوں نے مجھے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم ذہنی مریض ہو گئے ہو.بعض نے بد زبانی کی.بعض نے بات کرنا ہی چھوڑ دی.لیکن الہی جماعتوں کے ساتھ تمسخر اور استہزاء تو لوگوں کی پرانی عادت ہے جس کا قرآنِ کریم میں بھی ذکر ہے.بہر حال میں نے مع اہلیہ وبچے بیعت کر لی.مکرم عبد القاعد احمد صاحب یمن سے لکھتے ہیں کہ دو سال سے ایم.ٹی.اے دیکھ رہا ہوں.اُن سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہیں جن کا جواب جماعت احمدیہ کے علاوہ کسی کے پاس نہ تھا.پہلی دفعہ ایم.ٹی.اے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر دل کو تسلی ہو گئی کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا.اس کے بعد متعدد مبشر خواہیں دیکھی ہیں.چند ایک عرض ہیں.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دیکھا کہ حضرت عزرائیل مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ تمہاری عمر ختم ہو چکی ہے.پھر مجھے ایک خوبصورت اور خوشنما جگہ پر لے گئے جہاں غیر عرب لوگ سفید لباس اور پگڑیاں پہنے ہوئے ہیں.پھر
215 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم عزرائیل نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ پڑھی.اس کے بعد مجھے بیہوشی کی سی کیفیت محسوس ہوئی ( یہ خواب میں ہو رہا تھا) اور پھر کہتے ہیں پھر میری آنکھ کھل گئی.غالباً اس سے مراد یہ تھی کہ جماعت احمدیہ سے تعارف کے بعد ایک پاک زندگی کی طرف میرا سفر شروع ہو گیا.خواب میں مسیح الدجال کو دیکھا جو بیساکھیوں کے سہارے چل رہا تھا.میں نے بڑھ کر اس کی گردن توڑ دی.اس کی تعبیر میرے ذہن میں آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کے بعد مجھے اور میرے ایمان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا.کہتے ہیں کچھ مدت کے بعد پھر خواب میں حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کو پیٹھ پھیر کر جاتے دیکھا اور اُس کی تعبیر یہ سمجھ آئی کہ اب مسیحی عقیدے کے ختم ہونے کا وقت آگیا ہے.اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں اور ہم آپ کا نورانی چہرہ دیکھ رہے ہیں.آپ کا رنگ مرجان کے موتیوں کی طرح ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور حضور سے ملتے ہی آپ کے ہاتھ چوم کر میں رونے لگ گیا.آپ نے کمال شفقت سے فرمایا."آؤ نماز پڑھیں تب ہم نے نماز پڑھی.اس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی.نائیجیریا سے ہمارے مبلغ ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ بینوے سٹیٹ (Benue State) کے ایک امام خالد شعیب صاحب سے ہمارے ایک معلم کا رابطہ قائم ہوا.ان کو جماعت کا لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا گیا.ان کی دلچسپی بڑھی اور یہ جماعت کے ہیڈ کوارٹر ابو جا آئے اور مبلغ سلسلہ سے کافی سوال وجواب ہوئے.اور مزید عربی لٹریچر حاصل کیا.کچھ دنوں کے بعد امام صاحب نے بتایا کہ اب مجھے مکمل تسلی ہے اور میں نے ایک خواب بھی دیکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نائیجیریا میں ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب فرمارہے ہیں.اور میں ہاؤ سازبان میں اس خطاب کا ترجمہ کر رہا ہوں.خطاب کے اختتام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے دو قلم اور ایک کتاب عطا فرمائی.اس لئے اب میری تسلی ہے اور میں دل سے احمد کی ہو چکا ہوں.چنانچہ انہوں نے اپنی طرف سے ہی ہاؤ سازبان میں ایک خط تیار کیا جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کا ذکر کیا ہے اور انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جماعت کی کتابیں پڑھی ہیں جس میں الْمَسِيحُ النَّاصرى فى الهند“ اور ”الْقَوْلُ الصَّرِيحَ فِي ظهورِ المھدی والمسیح“ شامل ہیں.اور میں اس بات پر ایمان لا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ہی وہ مسیح ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے تھے.لہذا میں نے جماعت کو قبول کر لیا ہے.نیز خط میں لکھا ہے کہ باقی ائمہ کرام کو بھی اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اس جماعت کو قبول کر لیں.اور امام صاحب نے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے اپنی طرف سے "القول الصريح في ظهور المهدى والمسيح “ کا ہاؤ سازبان میں ترجمہ شروع کر دیا تھا لیکن چند روز قبل کہتے ہیں میں نے خواب دیکھی کہ ایک سفید آدمی جو سفید لباس میں ملبوس ہیں میرے پاس آئے اور کہا کہ پہلے الْمَسِيحُ النَّاصري في المن“ کا ترجمہ کریں.یہ میری کتاب ہے اور اس ترجمے کو کوگی سٹیٹ Kogi) (State میں اپنے لوگوں تک پہنچائیں.لہذا میں نے اس کتاب کا ترجمہ شروع کر دیا ہے جو اب مکمل ہونے والی ہے.کہتے ہیں میرے کئی شاگرد ہیں اُن تک بھی میں انشاء اللہ احمدیت کا پیغام پہنچاؤں گا.
216 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم برکینا فاسو سے ہمارے مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک معلم نے اپنے ایک زیر تبلیغ دوست زیلا ابو بکر کو کہا کہ اگر تم جماعت احمدیہ کی سچائی پر کھنا چاہتے ہو تو میں ایک نسخہ بتاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ تم روزانہ بلاناغہ دو نوافل ادا کر و اور اس میں صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے جماعت احمدیہ کی سچائی دریافت کرو.انشاء اللہ خدا تعالیٰ تمہاری رہنمائی فرمائے گا.چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور ایک دن زیلا ابو بکر صاحب نے خواب دیکھا کہ ایک آدمی جو سفید فام ہے آیا اور کہا کہ اوپر چڑھ آؤ.لگتا تھا کہ وہ سفید فام زمین سے اوپر کی طرف کرسی پر ہے اور ہمیں بلا رہا ہے.زیلا ابو بکر صاحب کہتے ہیں خواب میں خاکسار اور ہمارے گاؤں کا امام ساتھ تھے.جب اس سفید فام آدمی نے ہمیں اوپر چڑھنے کی دعوت دی تو خاکسار تیزی کے ساتھ اوپر چلا گیا اور امام صاحب نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کہا کہ میں نہیں جاتا.جب اُن کو تصاویر دکھائی گئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جو ان کی خواب میں آئے تھے اور جو ہمیں ایمان لانے کی طرف بلا رہے تھے.چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی.محمود عیسی صاحب شام کے ہیں.کہتے ہیں کہ میرا ایم.ٹی.اے سے تعارف میرے ایک کزن کے ذریعے ہو ا جو ڈاکٹر ہے اور مکذبین میں شامل ہے.اُس نے بطور تمسخر بتایا کہ ایک شخص امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور اس کے متبعین ہر جگہ موجود ہیں اور اس کی وفات پر سو سال گزر چکے ہیں.میں نے اُس سے ایم.ٹی.اے کے بارے میں معلومات لیں.شروع میں مجھے بہت دھکا لگا اور مایوسی ہوئی کہ امام مہدی آکر چلا بھی گیا اور ہمیں کوئی خبر نہ ہوئی.جبکہ میں خاص طور پر انتظار کر رہا تھا کہ وہ آکر اُمتِ مسلمہ عربیہ کو آزادی دلائیں.میں نے دل میں کہا شخص امت کو آزاد کرانے والا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کسی نے بیعت نہیں کی.بہر حال میں نے اپنے کزن سے کہا کہ شاید یہ لوگ سچے ہوں لیکن اس نے میری بات نہیں سنی.لکھتے ہیں کہ میں کوئی صالح انسان نہیں.کوئی نیک انسان نہیں ہوں.بلکہ میں لامذہب آدمی تھا.نماز بھی نہ پڑھتا تھا اور شراب بھی پی لیتا تھا لیکن اس کے باوجود مجھے ہمیشہ حق و عدل کی تلاش رہی.چار سال قبل میں نے خواب میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.آپ اپنے خیمے میں تشریف فرما ہیں اور آپ کے گرد صحابہ کرام جمع ہیں.میں نے آگے ہو کے دیکھا تو ایک چمکتے دسکتے چہرے والا انسان ہے.جب میں نے ارد گرد کے لوگوں سے پوچھا کہ اس شخص کی تو داڑھی نہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ بعثت سے پہلے رسول کی شکل ہے.میں جب بیدار ہوا تو بہت خوش تھا.پھر دو سال قبل جب میں نے ایم.ٹی.اے دیکھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ وہ شکل جو میں نے خواب میں دیکھی تھی وہ سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں.میں نے بڑے تعجب سے اپنی بیگم کو بتایا کہ فرق یہ تھا کہ حضور کی داڑھی ہے.باقی شکل وہی تھی.کہتے ہیں میں نے بیعت میں تاخیر اس لئے کی کہ میرے اعمال اچھے نہیں تھے اور میں جماعت میں شامل ہو کر جماعت کو بدنام نہیں کرنا چاہتا تھا.یہ سوچ ہے نئے آنے والوں کی اور یہ لمحہ فکر یہ ہے ہم پرانوں کے لئے بھی.کہتے ہیں میں ایک لبنانی رسالہ ”عشتروت“ میں لکھتا ہوں اور شعر بھی کہتا ہوں.میرا ارادہ تھا کہ دیوان نشر کروں.لیکن جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار پڑھے ہیں میری زندگی کلیۂ بدل گئی ہے.آپ کے شعر غیر معمولی ہیں.
217 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم قرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں.ایک نوجوان سیچ تک (Tinchtik) صاحب ہیں.اپنا واقعہ وہ تیچ تک صاحب خود بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ میں کچھ عرصے سے جماعت احمدیہ کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا لیکن تاحال بیعت کے لئے شرح صدر نہیں تھا.انہی ایام میں ایک رات خاکسار نے خواب دیکھا کہ چھت پر ایک کالی شبیہ نظر آتی ہے.اُس وقت میں فوراً سورۃ فاتحہ اور لا اِلهَ اِلَّا اللہ کا ورد کرتاہوں.اُس کے بعد خواب میں مجھے ایک سفید صاف ورق دکھایا جاتا ہے جس کے اوپر عربی میں کچھ لائنیں لکھی ہوئی ہیں.اُن کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی.اس کے فوراً بعد دیکھتا ہوں کہ بائیں طرف اوپر کونے میں رشین میں لکھا ہوا تھا اسلام حقیقی دین“ اور اونچی آواز آرہی تھی کہ احمدیت حقیقی اسلام “.اس خواب کے بعد میر ادل مطمئن ہو گیا اور میں نے فوراً بیعت کر لی.انڈونیشیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ مکرم رونی پسارونی (Roni Psaroni)جو کہ جماعت احمد یہ ویسٹ جکارتہ کے ممبر ہیں.انہوں نے احمدیت قبول کرنے سے قبل خواب میں سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نورانی وجود دیکھا جس نے سر پر پگڑی بھی پہنی ہوئی تھی.اس خواب نے ان صاحب پر بڑا گہرا اثر چھوڑا.چند دن بعد یہ صاحب ایک دوست کے گھر گئے اور تصویر میں وہی وجود دیکھا جو انہیں خواب میں دکھایا گیا تھا.اس تصویر کے بارے میں پوچھا تو ان کے دوست نے بتایا کہ یہ تصویر امام مہدی بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی ہے.اس کے بعد رونی صاحب نے جماعتی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور ان کی اہلیہ کا بیان ہے کہ بعض اوقات وہ در جنوں جماعتی کتب، چھوٹی چھوٹی کتابیں صرف دو دن میں پڑھ لیتے تھے.آخر 2008ء میں انہوں نے بیعت کی.اور گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں جو اکٹھی تین شہادتیں ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھے.بین کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ باسلہ ریجن کے گاؤں ” کو کو (Ikoko)“ میں ہمارے لوکل مشنری حسینی علیو صاحب کئی بار تبلیغ کے لئے گئے.وہاں کے امام مولوی عبد الصمد صاحب جماعت کے اشد مخالف تھے.وہاں بیعتوں کے حصول میں رکاوٹ بنتے تھے.اس امام سے بھی کئی بار بات چیت ہوئی لیکن وہ مخالفت پر قائم رہے.معلم علیو صاحب بتاتے ہیں کہ پھر تقریباً آٹھ مہینے سے ان مولوی صاحب سے رابطہ منقطع تھا.ایک دن صبح کے وقت مذکور مولوی صاحب نے فون کیا اور گاؤں آکر ملنے کے لئے کہا.جب ان کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ رات خواب میں آپ کے امام خلیفتہ المسیح الخامس ( میر ابتایا کہ وہ) آئے ہیں.اُن کو میں نے خواب میں دیکھا اور کہتے ہیں کہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہو ؟ جماعت میں داخل ہو جاؤ.یہ الفاظ کئی بار دہرائے.تو کہتے ہیں میں رعب کی وجہ سے اُن کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکا.اس میں مجھے سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واضح نشان ہے کہ احمدیت سچی ہے، قبول کر لو.اس کے بعد مولوی صاحب نے مخالفت چھوڑ دی اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی جماعت کی طرف مائل کر رہے ہیں.اور کہتے ہیں کہ سب کو لے کر انشاء اللہ میں جماعت میں شامل ہوں گا.بہر حال ان کی مخالفت چھوڑنے کی وجہ سے وہاں بیعتیں بھی ہوئی ہیں اور اکاون بیعتیں پھر مذکورہ امام کی وجہ سے حاصل ہوئیں.
خطبات مسرور جلد نهم 218 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء امیر صاحب انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ عزیزہ اڈہ سکندیانہ (Ida Skandiana)جو جماعت احمدیہ پارونگ (Kimang Parnung) کی ممبر ہیں.اگر چہ وہ نو عمر بچی تھی لیکن اس کے باوجود کئی خوابوں میں امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کر چکی تھی.وہ جانتی نہ تھی کہ امام مہدی کون ہیں ؟ انہوں نے نقشبندی تحریک میں شمولیت اختیار کی لیکن وہ امام مہدی جو انہیں خواب میں دکھائے گئے تھے اُن کی تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں.مئی 2007ء میں ایک دن انہیں ان کے نئے ہمسائے نے دعوت پر بلایا.یہ صاحب ہمارے مبلغ ظفر اللہ پونتو صاحب تھے.جب اڈہ سکندیا نہ ان کے گھر داخل ہوئیں تو اُن پر ایک لرزہ طاری تھا.وہاں ایم.ٹی.اے لگا ہوا تھا اور اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا پروگرام آرہا تھا تو اڈہ قائل ہو گئی کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں دیکھا کرتی تھی.چنانچہ 24 مئی 2007ء کو انہوں نے بیعت کر لی.قرغزستان کے سلومت کشتو بوئیو (Salmat Kyshtobaev) صاحب نے چند سال پہلے لندن میں بیعت کی.آج کل جماعت قرغزستان کے صدر ہیں.کہتے ہیں بیعت سے پہلے میں اسلام سے متنفر ہو چکا تھا.دین کے ساتھ کسی قسم کا کوئی لگاؤ نہیں تھا.احمدی ہونے سے تقریباً دو سال قبل ایک خواب دیکھا جو میرے خیال میں اب مکمل ہوا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک رات خواب آئی.خواب دیکھتا ہوں کہ میر ابڑا بھائی نورلان (Nurlan) مجھے کہہ رہا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہوں.مجھ پر یقین کرو.کہتے ہیں میں یقین کر لیتا ہوں.پھر وہ کہتے ہیں کہ آپ سب لوگ بہشت میں جائیں گے لیکن بہشت میں جانے کے لئے اللہ کی راہ میں رقم دینی ضروری ہے.ان کا خواب ختم ہو جاتا ہے.پھر دو سال کے بعد یہ احمدیت قبول کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”رسالہ الوصیت“ کا جب قرغیز میں ترجمہ ہوا تو یہ پڑھ کر انہوں نے وصیت کی.کہتے ہیں کہ میں نے دو سال پہلے جو خواب دیکھا تھا آج پورا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی صداقت مجھے پہلے ہی بتادی تھی کہ وصیت ایک الہی نظام ہے.اس میں شامل ہو نا میرے لئے باعث برکت ہے.عبد القادر حداد صاحب الجزائر کے ہیں، یہ کہتے ہیں 2004ء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دو شخصیتوں میں دیکھا.اک بڑھاپے کی عمر میں اور ایک پینتالیس سالہ انسان کی حالت میں،.جس میں لمبی داڑھی ہے اور اُن کے سر پر پگڑی ہے.پھر مجھے 2006ء میں دوبارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، دو شخصیتوں کی صورت میں.حضور کا چہرہ مبارک سفید اور نورانی تھا اور آپ نے فرمایا ”خوش ہو جاؤ یہ خدا کا رسول ہے“.اس کے دو ماہ بعد میں نے ایم.ٹی.اے پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصویر دیکھی جو وہی دوسری شخصیت کی تھی.اس کے بعد میں نے پندرہ بیس دن تک مسلسل گھر میں بیٹھ کر ایم.ٹی.اے کے پروگرام دیکھے اور بیعت کر لی.امیر صاحب کا نگو کنشاسا لکھتے ہیں کہ ”دیدی کی گنگالہ (DIdl Kikangala) صاحب لوبو مباشی“ شہر میں وکیل ہیں.مذہب عیسائی تھے.چند ماہ سے زیر تبلیغ تھے.تاہم بیعت نہیں کرتے تھے.ایک رات انہوں نے
219 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم خواب دیکھا کہ بہت سے خطر ناک قسم کے جنگلی جانور اور درندے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں.ان کو اور کچھ نہیں سوجھا لیکن وہ صرف اللہ کا لفظ کہہ کر ان پر پھونک مارتے ہیں.اس پر وہ جانور گرتے جاتے ہیں.یہ سلسلہ خواب بھی بہت دیر تک چلتا رہا.صبح ہوتے ہی وہ مشن ہاؤس آئے.بہت پر جوش تھے اور باقی افراد جو وہاں موجود تھے اُن کو بھی بڑے جوش سے خواب سنا رہے تھے اور گواہی دینے لگے کہ اسلام سچا مذ ہب ہے اور جماعت احمد یہ برحق ہے.چنانچہ اُسی روز بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے.اور بڑے اخلاص و وفا سے یہ جماعت سے چمٹے ہوئے ہیں.سامح محمد عراقی صاحب مصر کے ہیں.تین سال سے زائد عرصہ قبل کی بات ہے.کہتے ہیں کہ میں ایک معروف عیسائی پادری کے اسلام پر حملوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تفصیل سنتا اور دل ہی دل میں گڑھتا تھا کیونکہ میں خود کو اس کا جواب دینے سے عاجز پاتا تھا.یہ احساس مجھے اندر ہی اندر مارے جارہا تھا.چونکہ میں مصر کی ایک مسجد میں خطیب تھا اس وجہ سے مجھے اسلامی علوم کا بہت حد تک ادراک تو تھا لیکن اس بات کی کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ ایک مسلمان کیونکر ان افتراؤں کا جواب دینے سے بے بس اور عاجز ہے ؟ جب انٹر نیٹ پر اس بارہ میں کچھ ریسرچ کی تو اسی نتیجہ پر پہنچا کہ گزشتہ تفاسیر اور علماء کا طریق اس پادری کا جواب دینے سے قاصر ہیں.بلکہ اُنہی کی وجہ سے تو پادری کو اعتراضات کرنے کی جرات ہوئی ہے.پھر اچانک مجھے مصطفی ثابت صاحب کی کتاب ”اجو بہ عن الایمان مل گئی.آپ کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو مجھے جماعت کی ویب سائٹ اور ایم.ٹی.اے سے تعارف ہو گیا.چنانچہ جب میں نے مزید مطالعہ کیا اور ایم.ٹی.اے کے پروگرام دیکھے تو یقین ہو گیا کہ یہ علوم کسی انسان کی ذاتی کوشش کا نتیجہ نہیں ہو سکتے.بہر حال میں نے دو سال تک کسب فیض کیا.جس کا لب لباب یہ ہے کہ مجھے قرآنِ کریم مل گیا.پھر میں نے خواب میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کو دیکھا.آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک جگہ لے گئے جہاں برادران پانی طاہر صاحب، تمیم ابو دقہ، طاہر ندیم صاحب ا یک دستر خوان کے گرد بیٹھے تھے ، آپ نے مجھے بھی اُن کے ساتھ بٹھا دیا اور اس رؤیا کے بعد خدا تعالیٰ نے بیعت کے لئے میر اسینہ کھول دیا.ایک رشین خاتون صفیہ اُولگا صاحبہ نے 2009ء میں بیعت کی.وہ اپنی خواب بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں انہیں خواب آئی کہ گویا اس کی زندگی شطرنج کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہے گویا بہت مشکل ہے.پھر اُسے کوئی کہتا ہے کہ درمیان میں پہنچنے تک سب بدل جائے گا.پھر جیسے دوسرے حصے میں پہنچتے ہی ایک صاف سر سبز گھاس والا لان نمودار ہوتا ہے جہاں روشن سورج چمکتا ہے ( اس لان کے اوپر ایک روشن سورج چمکتا ہے).مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ بھارت ہے، انڈیا ہے.وہاں وہ تباہ شدہ قلعہ دیکھتی ہیں لیکن انہیں وہاں تک جانے نہیں دیا جاتا.کہا جاتا ہے کہ وہاں جانے کے لئے کچھ کرنا ہو گا جس کے بعد اُسے وہاں جانے دیا جاتا ہے.اس خواب کے تقریباً تین چار ہفتے بعد اسے ایک امام جو احمدی نہیں تھے لیکن جماعت احمدیہ کے مبلغ سے علم حاصل کرتے رہے ہیں وہ احمد یہ سنٹر میں ہمارے مبلغ طاہر حیات صاحب کے پاس لے کر آئے.یہاں اس خاتون کو جماعت کا تعارف
خطبات مسرور جلد نهم 220 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء کروایا گیا تو اُسے سن کر بہت حیرانگی ہوئی کہ امام مہدی ہندوستان میں آئے ہیں اور مجھے خواب میں چمکتا ہوا روشن سورج بھی ہندوستان میں ہی دکھایا گیا ہے.پھر اُس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی.تو بہت سارے واقعات میں سے یہ چند واقعات میں نے لئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اب وقت آگیا ہے کہ پھر اسلام کی عظمت و شوکت ظاہر ہو اور اس مقصد کو لے کر میں آیا ہوں.مسلمانوں کو چاہئے کہ جو انوار اور برکات آسمان سے اتر رہے ہیں ، وہ اُن کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وقت پر اُن کی دستگیری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اس مصیبت کے وقت اُن کی نصرت فرمائی.لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ اُن کی کچھ پرواہ نہ کرے گا.وہ اپنا کام کر کے رہے گا مگر ان پر افسوس ہو گا “.لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 290) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے سینے کھولے اور وہ حقیقت کو پہچاننے کے لئے اپنے خدا سے حقیقی رنگ میں مدد مانگنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو بھی مضبوط کرتا چلا جائے.ابھی جمعہ کی نماز کے بعد میں چند جنازہ غائب پڑھاؤں گا جن میں سے ایک ہمارے احمد کی دوست سیریا کے ہیں احمد با کیر صاحب.5 مارچ کو کینسر کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی تھی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.آپ کو بچپن سے ہی مسجد سے لگاؤ تھا.(غیر احمدیوں کی مسجدوں سے لگاؤ تھا) لیکن اپنی سعید فطرت کے سبب جلد پہچان گئے کہ مولوی جو کچھ کہتے ہیں وہ خود نہیں کرتے.ان کا عمل کچھ اور ہے اور ان کا کہنا کچھ اور ہے.خدا تعالیٰ نے انہیں مولویوں سے متنفر کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ دنیا داری میں نہیں پڑے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تعارف جماعت احمدیہ سے کروا دیا.اُنہوں نے جماعت کے بارے میں استخارہ کیا.جو مضمون بیان ہو رہا ہے یہ بھی اُسی کا ہی تسلسل ہے.دیکھیں کہ استخارہ کیا تو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ آپ ایک مشہور سلفی مولوی کی طرف گئے ہیں اور قریب پہنچنے پر وہ مولوی غائب ہو گیا.حضور علیہ السلام اس مرحوم نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یہ مولوی دور کر دیا گیا ہے.اس پر یہ نوجوان خواب سے بہت متاثر ہوئے اور 15 جولائی 2009ء کو جب صرف 17 سال ان کی عمر تھی، اس میں انہوں نے بیعت کر لی.باوجود اس کے کہ آپ کینسر کے مریض تھے.تبلیغ کا بڑا جوش تھا.جو مولوی بھی آپ کو مرتد کرنے کے لئے آیا وہ آپ کے سامنے کھڑا نہ ہو سکا.بڑی سچی خوا ہیں آتی تھیں.بعض دوستوں نے بتایا کہ آجکل جو ملک کے، سیریا کے حالات ہیں، اس بارے میں بھی انہوں نے ایک سال قبل ہی خواب کی بنا پر بعض دوستوں کو بتادیا تھا.تو ایک تو ان کا جنازہ ہو گا.دوسر ا تامر الراشد صاحب کا ہے.یہ 8 اپریل 2011ء کو سیریا کے شہر حمص کے مختلف گلی محلوں میں جو جلوس نکالے جارہے ہیں، شور شرابہ ہو رہا ہے ، اندھادھند فائرنگ ہو رہی ہے تو عمارتوں کی چھتوں سے بھی لوگ فائرنگ کر رہے ہیں.اس فائرنگ کے دوران تامر الراشد صاحب کی شہادت ہوئی ہے.ان کے بارے میں ان کے
221 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بھائی بیان کرتے ہیں کہ فائرنگ کے وقت میں گھر سے باہر تھا.چنانچہ میرے بھائی فائرنگ کی آواز سن کر مجھے تلاش کرنے گھر سے باہر نکلے اور تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ مجھے دیکھ لیا تو فورا گھر پہنچنے کو کہا اور یہ کہہ کر جب خود واپس مڑے تو ایک گولی کا نشانہ بن گئے جو انہیں دل پر لگی اور فوری وفات ہو گئی ، انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.انہوں نے کچھ دن پہلے میر ابتایا کہ میں نے خاص طور پر یکم اپریل کا جو خطبہ دیا تھا، اس سے میں وہ پیغام سب کچھ سمجھ گیا تھا اور ہر تالوں میں شامل ہونے کا سوال نہیں تھا.بہر حال باہر نکلے ہیں اور وہاں فائرنگ ہورہی تھی اس میں یہ گولی کا نشانہ بن گئے.بڑے خوش مزاج اور محبت کرنے والی شخصیت تھے.آپ کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں.آپ کی عمر صرف اکنتیس سال تھی.بیعت سے قبل شیخ عبد الہادی البانی کے متبعین میں سے تھے جس کا دعوی ہے کہ امام مہدی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام دمشق میں موجود اس شخص کی مسجد میں نزول فرمائیں گے.پھر جب انہوں نے وفات مسیح کے دلائل سنے تو 2008ء میں یہ بیعت کر کے احمد کی ہو گئے.تیسر اجنازہ محمد مصطفیٰ رعد صاحب سیریا کا ہے.یہ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد اپنے گھر کی چھت پر کچھ آرام کر رہے تھے اور نیچے گلی میں لوگ مظاہرہ کر رہے تھے.ان کا بیٹا چھت کی منڈیر کے قریب ہو کر دیکھنے لگا تو یہ اُسے پیچھے کرنے کے لئے بڑھے.لیکن اسی اثناء میں ایک گولی آئی اور ان کی آنکھ پر لگ گئی اور وہیں وفات ہو گئی.انا کی گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُون.1971ء میں یہ پیدا ہوئے تھے اور ائیر پورٹ میں ملازمت کرتے تھے.ایم.ٹی.اے کے ذریعے سے احمدیت کا پتہ چلا.پھر تحقیق کے بعد 2008ء میں انہوں نے بیعت کی.ان کی اہلیہ غیر احمدی ہیں لیکن احمدیت کی صداقت سے مطمئن ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ احمدیت قبول کریں.ان کے بیٹے اور بیٹی کے علاوہ ان کے دو بھائی اور بعض اور افراد بھی جماعت میں داخل ہو چکے ہیں.بڑے مخلص، مطیع، با اخلاق اور خلافت سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے.یہی حال ان کے بچوں کا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو حوصلہ اور صبر دے.ایک جنازہ ہمارے مکرم لطف الرحمن صاحب شاکر کا ہے ان کی ایک طویل علالت کے بعد 27 اپریل کو وفات ہوئی ہے.تقریباً اسی سال کی عمر تھی.یہ مولانا عبد الرحمن انور صاحب جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہوئے ہیں بلکہ تحریک جدید کے ابتدائی ممبران میں سے تھے.اُن کے بڑے بیٹے تھے.یہ خود واقف زندگی تھے اور فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے ساتھ ڈسپنسر کے طور پر کام کرتے تھے.اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ساتھ ان کو افریقہ اور یورپ کے سفر کا بھی موقع ملا.ان کا خلافت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا.ربوہ کے لوگوں کی خدمت کرنے والے تھے.حضرت اماں جان حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت مصلح موعودؓ، حضرت خلیفہ المسیح الثالث ، سب کی خدمت کا ان کو موقع ملا.بلکہ جو ٹیکے لگاتے تھے ان کی سرنجیں یا سوئیاں بھی، حضرت اناں جان کی، حضرت خلیفہ ثانی کی، حضرت خلیفہ ثالث کی سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں.ان کو بہر حال انہوں نے ایک تبرک سمجھ کر رکھا تھا.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فضل عمر ہسپتال اور گائنی کا ونگ اور ہارٹ انسٹیٹیوٹ دونوں کی طبی سہولتوں میں بہت ساری وسعت
222 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اپریل 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پیدا ہو چکی ہے.ربوہ میں ابتدائی طور پر اُس وقت صرف ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ہوتے تھے اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے بیٹے ڈاکٹر محمد احمد صاحب ہوتے تھے.اور جو لیبارٹری تھی وہ ساری لطف الرحمن صاحب شاکر ہی چلایا کرتے تھے.اور اس کے علاوہ جب بھی ضرورت پڑے، لوگ گھروں میں بلا لیا کرتے تھے.جو بھی طبی سہولت تھی فوری طور پر خوش اخلاقی سے مہیا کیا کرتے تھے.تو یہ جو ربوہ کے فضل عمر ہسپتال کے ابتدائی کارکنان ہیں اُن میں سے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے.آپ کی اہلیہ حضرت خان صاحب قاضی محمد رشید خان صاحب کی بیٹی ہیں.مرحوم موصی تھے.آجکل جرمنی میں تھے.ان کے بچے بھی جرمنی میں ہیں اور شاید ربوہ ان کے جنازہ کے لئے لے جائیں گے.بہر حال ان سب مرحومین کے میں جنازہ غائب ابھی پڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے اور آئندہ نسلوں میں بھی سب کا احمدیت اور خلافت سے وفا کا تعلق رہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 20 مئی تا 26 مئی 2011ء جلد 18 شمارہ 20 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 223 18 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مئی 2011ء بمطابق 6 ہجرت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَعُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة: 256) کچھ عرصہ ہوا، میں نے اپنے ایک خطبہ میں اس حوالے سے بات کی تھی کہ آج کل عموماً مسلمان اپنی توجہ نیکیوں کی طرف رکھنے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور اس میں بڑھنے کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس جانے یا اُن کی قبروں پر منتیں مانگنے یا پرانے بزرگوں اور اولیاء کی قبروں اور مزاروں پر جا کر اُن سے اس طرح مانگنے میں لگے ہوئے ہیں جس طرح خدا تعالیٰ سے مانگا جاتا ہے.پاکستان ہندوستان وغیرہ کی اکثریت تعلیم کی کمی کی وجہ سے اور نسلاً بعد نسلاً پیر پرستی کے تصور کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ یہ پیر یا فقیر یا بزرگ اور اولیاء ہماری مرادیں پوری کر سکتے ہیں ، ہماری داد رسی کر سکتے ہیں.اس لئے اُن سے دعائیں مانگی جاتی ہیں.اور بعض تو شرک میں اس حد تک بڑھے ہوئے ہیں کہ قبروں پر سجدے بھی کر دیتے ہیں.بلکہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ عورتیں کہتی ہیں کہ یہ بیٹا ہمیں خدا تعالیٰ نے نہیں دیا بلکہ داتا صاحب نے دیا ہے.تو اس حد تک شرک بڑھا ہوا ہے.پس ایسے وقت میں جب مسلمان جو سب سے بڑھے موحد کہلانے چاہئیں کہ اُن کی تعلیم ہی یہ تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات پر زور دیتے رہے، قرآن کریم ہمیں اسی بات کی تعلیم دیتا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ موحد بھی اس شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں.ان میں ایسے شرک کی باتیں ہو رہی ہیں جو بعض دفعہ ان کو اسلام کے بجائے مشرکین کے زیادہ قریب کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہم پر احسان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا تا کہ اس زمانہ میں اس غلط تعلیم کو اور اس بگاڑی ہوئی تعلیم کو جو پیروں فقیروں کی وجہ سے بگڑ گئی ہے، اس کی صحیح طرف رہنمائی فرمائیں.اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے، زمانے کے حکم اور عدل، مسیح و مہدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
224 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء کے عاشق صادق نے ہمیں اس شرک کے گند سے نکالنے کے لئے وہ رہنمائی فرمائی ہے جو عین اُس تعلیم کے مطابق ہے جو قرآن کریم کی تعلیم ہے.جس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم ہوتی ہے.جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیم کا پتہ لگتا ہے.جس سے آپ کی بڑائی اور برتری ثابت ہوتی ہے.جس سے تمام مذاہب پر اسلام کی برتری ثابت ہوتی ہے.دوسرے مذاہب والے جتنا بھی چاہیں یہ کہتے پھریں کہ ہمارے مذہب میں نجات ہے اور خاص طور پر عیسائیت کا یہ دعویٰ ہے کہ مسیح نے صلیبی موت سے ہمارے لئے کفارہ ادا کر دیا ہے.اب مسیح ہی ہمارے لئے راہ نجات ہے اور پھر اس لئے بھی کہ وہ خدا کا بیٹا ہے اور اس کے ماننے والے ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں تو اس وجہ سے وہ بلکہ عیسائیت میں جو سینٹس (Saints) کہلاتے ہیں وہ بھی شفاعت کا ذریعہ بن جاتے ہیں.گزشتہ دنوں سابقہ پوپ جان پال دی سیکنڈ جو تھے ، ان کے بارہ میں بھی عیسائی دنیا میں کہا گیا کہ اس کے بعض معجزات کی وجہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ اُسے بھی شفاعت کا مقام مل گیا ہے کیونکہ ایک خاص مقام پر وہ فائز ہو گیا ہے.اُس کو ایسا قرب مل گیا ہے جہاں وہ شفاعت کر سکتا ہے اور وہاں جنت میں بیٹھ کر وہ یہ کام کر سکتے ہیں.بہر حال یہ تو اُن کے نظریات ہیں.اُن کی جو غلط تعلیم ہے اُس کے مطابق وہ کرتے ہیں.جو وہ سمجھتے ہیں سمجھتے رہیں.اصل تو یہ ہے کہ اُن کی تعلیم ہی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مکمل طور پر خلاف چلتے ہوئے شرک پر بنیاد کر رہی ہے.لیکن اس تعلیم کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں عیسائیت کے ان غلط نظریات کے بارہ میں بتایا.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: سویا د رکھو کہ خدائی کے دعوی کی حضرت مسیح پر سراسر تہمت ہے.انہوں نے ہر گز ایسا دعویٰ نہیں کیا.جو کچھ انہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ الفاظ شفاعت کی حد سے بڑھتے نہیں.سونبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے.حضرت موسیٰ کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑکتے ہوئے عذاب سے نجات پاگئے اور میں خود اس میں صاحب تجربہ ہوں“.فرمایا ” اور میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض کے مبتلا اپنے دُکھوں سے رہائی پاگئے اور یہ خبریں اُن کو پہلے سے دی گئی تھیں.اور مسیح کا اپنی امت کی نجات کے لئے مصلوب ہونا اور اُمت کا گناہ اُن پر ڈالے جانا ایک ایسا مہمل عقیدہ ہے جو عقل سے ہزاروں کوس دور ہے.خدا کی صفات عدل اور انصاف سے یہ بہت بعید ہے کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کسی دوسرے کو دی جائے.غرض یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے“.لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 236) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : حقیقی اور سچی بات یہ ہے کہ شفیع کے لئے ضرورت ہے کہ اوّل خدا تعالیٰ سے تعلق کا مل ہو تا کہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کرے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہو تا کہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتا ہے مخلوق کو پہنچاوے.جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں شفیع نہیں ہو سکتا.
خطبات مسرور جلد نهم 225 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابل غور یہ ہے کہ جب تک نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا اور ساری بخشیں فرضی ہیں “.( یعنی خدا تعالیٰ کا تعلق اور پھر مخلوق سے تعلق اور اُس کا فیض، اللہ تعالیٰ کے تعلق کا فیض بھی مخلوق کو پہنچانا، اس کے نتیجے ہونے چاہئیں.اگر یہ نہیں تو فرضی بخشیں ہیں ).فرمایا کہ "مسیح کے نمونہ کو دیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے.ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل کی رو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا“.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ انجیل یہ کہتی ہے کہ اپنے حواریوں کو بھی درست نہیں کیا اور اُنہیں بُرا بھلا کہا) فرمایا کہ "بالمقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انہوں نے عذاب الیم سے چھڑایا اور گناہ کی زندگی سے اُن کو نکالا کہ عالم ہی پلٹ دیا.ایسا ہی حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا.عیسائی جو مسیح کو مشیل موسیٰ قرار دیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ موسیٰ کی طرح اُنہوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو“.(بائبل میں Old Testament میں حضرت موسیٰ کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن حضرت عیسی کے بارے میں نہیں.جو بھی کہا ہے پولوس (Paul) نے کہا ہے یا کچھ اور لوگوں نے جن کے نام تعارف میں نہیں دیئے جاتے.) فرمایا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت ہی بگڑ گئی اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تو لنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جا کر دیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھڑا دیا ہے یا پھنسا دیا ہے“.(اب جو گناہ ہے، گناہ کی تعریف ہے، جو برائی ہے.اگر اُس کی تعریف بدل دی جائے، برائیاں آزادی اور نیکیاں شمار ہونے لگیں تو پھر تو بے شک ان کی تعلیم یا جو عمل ہے وہ ٹھیک ہے.لیکن آپ نے فرمایا کہ جو حقیقی برائیاں ہیں، اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں ہیں، انسان کا انسانیت سے یا اخلاقی لحاظ سے باہر نکلنا وہ برائیاں تو یورپ میں بہت زیادہ ہیں.اس لئے یہ گناہ سے نکالنا نہیں ہے بلکہ گناہ میں اور ڈبونا ہے) فرمایا کہ ” میرے دعوے ہی دعوے ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیں ہے.پس عیسائیوں کا یہ کہنا کہ مسیح چھوڑانے کے لئے آیا تھا ایک خیالی بات ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑ گئی اور روحانیت سے بالکل دور جا پڑی.(بلکہ چرچ تو اب خود کہتے ہیں کہ روحانیت سے ہم بہت دور ہٹتے چلے جا رہے ہیں) فرمایا کہ ”ہاں سچا شفیع اور کامل شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے قوم کو بت پرستی اور ہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنادیا اور پھر اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر زمانہ میں آپ کی پاکیزگی اور صداقت کے ثبوت کے لیے اللہ تعالی نمونہ بھیج دیتا ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 160،159 مطبوعہ ربوہ) تو یہ ہے اصل تصویر جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیت کی دکھائی ہے کہ بائبل کی رُو سے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی زندگی میں اپنے حواریوں کی اصلاح نہ کر سکنا ثابت ہے.پھر صلیبی موت جو ان کے نزدیک لعنتی موت بھی ہے.یہ بھی یہودیوں کے نزدیک تو ایک برائی تھی گو اس کی جو مرضی تاویلیں اب پیش کی جائیں.گو ہم احمدی مسلمان اس بات کو نہیں مانتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نبی کو بھی اپنے اُن تمام الزامات سے بچایا جو یہودی آپ پر لگانا چاہتے تھے اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک لمبی عمر پائی اور
226 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء اپنے مشن میں کامیاب ہوئے.اُس مقصد میں کامیاب ہوئے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے اُن کو بھیجا تھا.پوپ کے حوالے سے یہ وضاحت، یہ بیان جو میں نے کیا ہے، اس لئے بھی بیان کیا ہے کہ آج کل سکولوں میں بھی کافی discussion ہو رہی ہے اور بچے اور نوجوان معجزہ کے بارے میں باتیں سنتے ہیں، ذکر سنتے ہیں اور پھر بعض دفعہ متکثر بھی ہو جاتے ہیں.تو انہیں یہ پتہ چلے کہ حقیقت کیا ہے؟ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کا جو مقام ہے وہی اصل مقام ہے، بلند مقام ہے.اور آپ کی زندگی سے لے کر آج تک آپ کے وصال کے بعد بھی یہ معجزات ہوتے چلے جارہے ہیں اور نمونے قائم ہو رہے ہیں.آپ کے ماننے والوں میں ایسے لوگ پید اہو رہے ہیں جو معجزات دکھانے والے ہیں.ہم احمدی تو بڑے وثوق سے اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے طفیل اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا چلا جارہا ہے.اور اس یقین پر بھی ہم قائم ہیں اور اس ایمان پر قائم ہیں کہ کسی سینٹ (Saint) کی کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہے.قرآن کریم کی تعلیم پر عمل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی سے خد املتا ہے.عیسائی تو یہ خاص مقام کسی کو کسی کے مرنے کے بعد دلوا ر ہے ہیں اور وہ بھی خدا تعالیٰ نہیں دے رہا بلکہ لوگ دے رہے ہیں.یہ مقام، جس کی حقیقت بھی اب پتہ نہیں کہ وہ معجزات تھے کہ نہیں تھے.بلکہ پولینڈ کے ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹروں کی جو ٹیم بعض معجزات کے فیصلے کرتی ہے ، ان کی تشخیص صحیح بھی ہو کہ نہیں.جس عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کو پارکنسن (Parkinson) تھی ، ہو سکتا ہے اُس سے ملتی جلتی کوئی اور بیماری ہو جس کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے اور جو تھوڑے عرصے بعد خود ہی ٹھیک بھی ہو جاتی ہے.بہر حال اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شفاعت کا صحیح اسلامی نظریہ کیا ہے؟ ایک مسلمان کے نزدیک شفاعت کیا ہے؟ اور کیا ہونی چاہئے ؟ قرآنِ شریف میں اس بارہ میں کئی آیات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بہت جگہ پر مختلف آیات کے حوالے سے کھول کر یہ بیان فرمایا ہے کہ شفاعت کی حقیقت کیا ہے ؟ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام یا عیسائیت کے نظریہ کے تعلق میں دو مثالیں میں پیش کر چکا ہوں.ابھی جو میں نے آیت تلاوت کی ہے، یہ آیتہ الکرسی کہلاتی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے اور ہم عموماً پڑھتے بھی رہتے ہیں.اکثروں کو یہ ترجمہ آتا بھی ہو گا.لیکن بہر حال ترجمہ سُن لیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ! اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے.اُسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے، نہ نیند.اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اُس کے اذن کے ساتھ.وہ جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے.اور وہ اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے.اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں.اور وہ بہت بلند شان اور بڑی عظمت والا ہے.
227 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اس آیت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمام آیات کی سردار ہے.(سنن الترمذى كتاب فضائل القرآن باب ما جاء في فضل سورة البقرة وآية الكرسی حدیث نمبر 2878 ) اور اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے.بلکہ یہ بھی روایت ہے کہ سورۃ بقرۃ کی پہلی چار آیات اور آیتہ الکرسی اور اس کے ساتھ کی دو آیات اور آخری تین آیات پڑھنے والے کے گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے.(سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فضل أول سورة البقرة و أية الكرسي حديث 3383) یعنی اگر انسان ان کو پڑھے، اس پر غور کرے، اس کو سمجھے ، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو شیطان ویسے ہی دور چلا جاتا ہے.پس ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہے کہ اسلامی تعلیم پر عمل ہو.اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہو اور دل کو ہمیشہ پاک رکھنے کی کوشش ہو.یہ عمل ہیں جن کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں.اور ایسے لوگوں کے بارہ میں احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ انسانی بشری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتا ہے.لیکن عمل کچھ نہ ہوں، اللہ تعالیٰ پر یقین نہ ہو ، نمازوں کی طرف توجہ نہ ہو ، خد اتعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف بے رغبتی ہو تو صرف پیروں فقیروں یا اولیاء کی قبروں پر دعاؤں پر ہی انحصار کرنے سے بخشش اور شفاعت کے سامان نہیں ہوتے.یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے کہ صرف پیروں فقیروں پر انحصار کیا جائے.عیسائیوں کا ظاہری شرک ہے تو یہاں مسلمانوں میں ظاہری بھی اور چھپا ہوا بھی، دونوں طرح کا شرک ملتا ہے.بہر حال اس آیت میں جو پیغام ہے، اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفاسیر کی روشنی میں ہی بیان کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی اللہ تعالی ہی ایک ایسی ذات ہے جو جامع صفات کاملہ اور ہر ایک نقص سے منزہ ہے.(ہر ایک نقص سے پاک ہے) وہی مستحق عبادت ہے.اُسی کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ حتی بالذات اور قائم بالذات ہے“ (زندہ رہتا ہے.اپنی ذات میں زندہ ہے.ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا) اور بجز اس کے اور کسی چیز میں حيّ بالذات اور قائم بالذات ہونے کی صفت نہیں پائی جاتی“.رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 ء مرتبہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 138.مطبوعہ قادیان 1899ء) پھر آپ نے وضاحت فرمائی کہ باقی تمام چیزوں میں جو مخلوق ہیں، جو بھی ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ ہی موجود ہو اور پھر قائم بھی رہے.(ماخوذاز رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 ء مرتبہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 138 مطبوعہ قادیان 1899ء) یہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی.باقی سب اُس کی مخلوق ہیں.اُن کو ایک وقت میں زندگی ملتی ہے یا وجود میں آتی ہیں اور پھر ختم ہو جاتی ہیں، قائم نہیں رہ سکتیں، ہمیشہ نہیں رہ سکتیں.اور جس کی زندگی ہی تھوڑی ہے اور قائم نہیں رہ سکتا اس نے دعائیں کیا سنی ہیں.اُس نے کسی کی دعا کی قبولیت کیا
خطبات مسرور جلد نهم 228 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء کرنی ہے اور کسی کو اولاد کیا دینی ہے ؟ پس اللہ ہی ایک ذات ہے جو سب طاقتوں کی مالک ہے.ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی.اس آیت میں ابتدا میں ہی پہلی یہ بات بتادی کہ اللہ ہی تمہارا معبود ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں.اس لئے اگر اس کی صفات سے فیض پانا ہے تو ظاہری شرک اور مخفی شرک ہر ایک سے بچو.پھر فرمایا یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے کہ اسے نیند نہیں آتی نہ اونگھ آتی ہے.اُس کی ہر وقت اپنی مخلوق پر نظر ہے اور تمام نظام جو ہے وہ اس کو وہ چلا رہا ہے اور اس نظام کو چلانے سے تھکتا نہیں.ہمارے پیر فقیر تو تھک جاتے ہیں بلکہ اکثر تو آج کل کے ، آجکل کیا ، جو بھی گدی نشین پیر بنے ہوئے ہیں وہ تو نمازوں اور عبادتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اور اُن کا کام تو صرف کھانا پینا، عیاشیاں کرنا، اور پرخوری کرنا ہے.پھر اس آیت میں شفاعت کے پہلو کو بیان کیا گیا ہے.گو شفاعت کا مسئلہ صحیح ہے.شفاعت ہوتی ہے.پچھلے خطبہ کا جو میں نے ذکر کیا تو اُس کے بعد مجھے کسی نے پوچھا تھا کہ اس طرح آپ نے ظاہر کیا کہ جس طرح کسی قسم کی شفاعت ہو ہی نہیں سکتی.شفاعت ہوتی ہے لیکن ان پیروں فقیروں کو اللہ تعالیٰ نے حق نہیں دیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ باذنہ.اللہ تعالیٰ کے اذن سے شفاعت ہو سکتی ہے.آج مسلمانوں میں بھی کون یہ دعوی کر سکتا ہے.بیشک اسلام خدا تعالیٰ کا آخری اور مکمل دین ہے لیکن نہیں کہہ سکتے کہ اس پر پورا عمل کرنے والے کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کا اذن ہے.جنہوں نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ویسے ہی باہر نکل رہے ہیں.جو احمدی ہیں، کتنے بھی بڑے بزرگ ہوں، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو لیکن کوئی شفاعت کے اذن کا دعویٰ نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خود اپنا یہ حال ہے.ایک واقعہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بیٹے ایک دفعہ شدید بیمار ہو گئے.انہوں نے دعا کی درخواست کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اُن کے لئے جب صحت کی دعا کی تو یہی جواب ملا کہ صحت نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ دعا نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں.اُس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ تم کون ہوتے ہو بغیر اذن کے شفاعت کرنے والے.کہتے ہیں اس بات پر میں کانپ کر رہ گیا اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ حالت دیکھی تو تھوڑی دیر کے بعد ہی فرمایا کہ انک انْتَ الْمَجَازُ.کہ تجھے اس شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے.اور پھر انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے وہ بیٹے بڑ المبا عرصہ زندہ رہے.(ماخوذاز حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 229) ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اذن ہو گا تب آپ شفاعت کریں گے.ایک لمبی حدیث ہے اس کا ایک حصہ ہے.(سنن الدارمى كتاب الرقاق باب فى الشفاعة حديث 2806)
229 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور پھر ایک روایت ہے.زیاد بن ابی زیاد جو بنی مخزوم کے غلام تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خادم مرد یا عورت سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خادم سے دریافت فرماتے رہتے تھے کہ کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ ایک روز اُس نے کہا کہ یارسول اللہ ! میری ایک حاجت ہے.آپ نے دریافت فرمایا، تمہاری حاجت کیا ہے ؟ خادم نے عرض کی.میری حاجت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز میری شفاعت فرمائیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اس بات کی طرف کس نے توجہ دلائی؟ خادم نے عرض کیا میرے رب نے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیوں نہیں، پس تم سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو.مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر5 صفحه 517 حدیث خادم النبى حديث نمبر 16173 عالم الكتب بيروت 1998ء) پس شفاعت اگر چاہتے ہو تو پھر سجدوں کی کثرت کی بھی ضرورت ہے.ایک آدھ نماز پڑھ لینے سے، پیروں کی قبروں پر سجدے کر لینے سے شفاعت نہیں ہو گی بلکہ سجدوں کی کثرت کرنے سے شفاعت ہو گی اور سجدے بھی وہ چاہئیں جو خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور کئے جائیں.اللہ تعالیٰ کو واحد و یگانہ اور سب طاقتوں کا مالک سمجھتے ہوئے کئے جائیں.اللہ تعالیٰ کو تمام حاجات کا پورا کرنے والا سمجھا جائے.پھر ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ آپ سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہ ! قیامت کے روز لوگوں میں سے وہ کون خوش قسمت ہے جس کی آپ سفارش فرمائیں گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوہریرہ! مجھے یہی خیال تھا کہ تم سے پہلے یہ بات مجھ سے اور کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ میں دیکھ چکا ہوں جو حرص تمہیں حدیث کے متعلق ہے.قیامت کے روز میری شفاعت کے ذریعے لوگوں میں سے خوش قسمت وہ شخص ہو گا جس نے اپنے دل یا فرمایا اپنے نفس کے اخلاص سے یہ کہا.اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں.پس اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ ”جو اخلاص سے کہا گیا، دل سے کہا گیا، نفس کی کسی ملونی کے بغیر کہا گیا، وہی اصل چیز ہے، اور یہی اصل ہے جو شفاعت کا حقدار ٹھہراتی ہے.اور ایسے لوگوں کی شفاعت کرنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار فرمایا.ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ آپ سے یہ اعلان کرواتا ہے کہ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (آل عمران:32 ) کہ تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا.اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.یہ آیت جہاں عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے ایک کھلا اعلان ہے کہ تمہارے یہ دعوے کہ تم خدا کے پیارے ہو اور اُس کے بچے ہو ، خاص طور پر عیسائی جو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے کے ماننے والے ہیں، اس لئے خدا کے پیارے ہو گئے یاوہ ہمارے لئے نجات کا باعث بن گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے (صحيح البخاری کتاب العلم باب الحرص على الحديث حديث :99)
230 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دعوے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کا پیارا بنا سکتی ہے.یہ تمام مذہب والوں کو ایک چیلنج ہے.اسی طرح ہمارے لئے بھی اس میں یہی حکم ہے کہ نام کا اسلام ہی نہیں بلکہ پیروئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہے.اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ وجود ہیں جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو جاننے والے ہیں اور اُس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے والے تھے.پس اگر آپ کی شفاعت سے حصہ لینا ہے تو پھر آپ کی سنت پر عمل کرنا ہو گا، آپ کے عمل کو دیکھنا ہو گا.اپنے اوپر قرآن کریم کی حکومت کو لاگو کرنا ہو گا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہی فرمایا ہے کہ كَانَ خُلُقُهُ انقزان.یہی آپ کا امتیاز اور آپ کی شان تھی کہ آپ کا ہر فعل، ہر قول، ہر عمل قرآنِ کریم کے مطابق تھا.(مسند احمد بن بن حنبل مسند عائشہ جلد 8 صفحہ 305 حدیث 25816.مطبوعہ عالم الكتب بیروت ایڈیشن 1998) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : اور قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بارے میں مختلف مقامات میں ذکر فرمایا گیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمُ (آل عمران: 32) ترجمہ: کہہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے.اب دیکھو کہ یہ آیت کس قدر صراحت سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا جس کے لوازم میں سے محبت اور تعظیم اور اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں یعنی اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے اس زہر کا اثر جاتا رہتا ہے اور جس طرح بذریعہ دوا مرض سے ایک انسان پاک ہو سکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہو جاتا ہے اور جس طرح نور ظلمت کو دور کرتا ہے اور تریاق زہر کا اثر زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے ایسا ہی سچی اطاعت اور محبت کا اثر ہو تا ہے“.(عصمت انبیاء علیہم السلام.روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 680 جدید ایڈیشن) پس یہ کچی اطاعت اور پیروی جو ایک مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی چاہئے.اسی سے آپ کا امتی ہونے کا صحیح حق ادا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ایک انسان، ایک مسلمان، ایک حقیقی مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے کی گئی دعاؤں کا وارث بنتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو مزید کھول کر اور اس کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: دو یہ ہر ہر گز نہ سمجھنا چاہئے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں.ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر یہ نص صریح ہے وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكن لَهُمُ (التوبه : 103).یہ شفاعت کا فلسفہ ہے.یعنی جو گناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈ اپڑ جاوے.شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہوں کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جو شوں اور جذبات میں ایک برودت آ جاتی ہے.جس سے گناہوں کا صدور بند ہو کر اُن کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں.پس شفاعت کے مسئلہ نے اعمال کو بیکار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی
231 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے “.شفاعت کے مسئلے سے نیک اعمال بجالانے کی مزید تحریک پیدا ہوتی ہے.فرمایا : شفاعت کے مسئلہ کے فلسفہ کو نہ سمجھ کر احمقوں نے اعتراض کیا ہے.اور شفاعت اور کفارہ کو ایک قرار دیا.حالانکہ یہ ایک نہیں ہو سکتے ہیں.کفارہ اعمال حسنہ سے مستغنی کرتا ہے“.( فلاں شخص نے جو کفارہ ادا کر دیا اور میر اجرم لے لیا، اس لئے مجھے نیکیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.تو یہ کفارہ ہے.اب عیسائی جو مرضی کرتے رہیں.حضرت عیسی اُن کی خاطر لعنتی موت مر گئے (نعوذ باللہ ) تو کفارہ ہو گیا.اس لئے کفارے نے تو اعمال حسنہ سے ایک انسان کو فارغ کر دیا).فرمایا: ” اور شفاعت اعمال حسنہ کی تحریک ( کرتی ہے).جو چیز اپنے اندر فلسفہ نہیں رکھتی ہے وہ بیچ ہے.ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اسلامی اصول اور عقائد اور اس کی ہر تعلیم اپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہے اور علمی پیرا یہ اس کے ساتھ موجود ہے جو دوسرے مذاہب کے عقائد میں نہیں ملتا“.66 فرمایا: ” شفاعت اعمال حسنہ کی محترک کس طرح پر ہے ؟ ( یہ سوال اٹھتا ہے ) اس سوال کا جواب بھی قرآن شریف ہی سے ملتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ کفارہ کا رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی “ (جو عیسائی مانتے ہیں).کیونکہ اس پر حصر نہیں کیا جس سے کا بلی اور سستی پیدا ہوتی ہے“.( یہ جو کفارہ ہے اگر اس پر انحصار کریں تو کابلی اور سستی پیدا ہوتی ہے) بلکہ فرمایا اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ (البقرة:187).یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ وہ کہاں ہے ؟ تو کہہ دے کہ میں قریب ہوں.قریب والا تو سب کچھ کر سکتا ہے.دور والا کیا کرے گا؟ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو دور والے کو جب تک خبر پہنچے اُس وقت تک تو شاید وہ جل کر خاک سیاہ بھی ہو چکے.اس لئے فرمایا کہہ دو میں قریب ہوں.پس یہ آیت بھی قبولیتِ دعا کا ایک راز بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت پر ایک ایمان کامل پیداہو اور اسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جاوے“.اور ایمان ہو کہ وہ ہر پکار کو سنتا ہے.”بہت سی دعاؤں کے رڈ ہونے کا یہ بھی ستر ہے کہ دعا کرنے والا اپنی ضعیف الایمانی سے دعا کو مسترد کر الیتا ہے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ دعا کو قبول ہونے کے لائق بنایا جاوے.کیونکہ اگر وہ دعا خدا تعالیٰ کی شرائط کے نیچے نہیں ہے تو پھر اس کو خواہ سارے نبی بھی مل کر کریں تو قبول نہ ہو گی اور کوئی فائدہ اور نتیجہ اس پر مرتب نہیں ہو سکے گا“.(اس کو دعا قبول کروانے کے لئے اپنے آپ کو ان شرائط کے نیچے بھی لانا ہو گا اور شرائط وہی ہیں.فَاتَّبِعُونِی.میری پیروی کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو.قرآنِ کریم پر عمل کرو).فرمایا: ”اب یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: صَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنَّ لَهُمْ (التوبة: 103).تیری صلوۃ سے اُن کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے“.( تیری دعا سے اُن کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور جوش اور جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے.دوسری طرف فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي (البقرة:187) کا بھی حکم فرمایا.ان دونوں آیتوں کے ملانے سے دعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات پھر اُن تعلقات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں، اُن کا بھی پتہ لگتا ہے“.(ایک تو آپس میں دعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات کا پتہ لگتا ہے.پھر اُن کے نتائج کا بھی پتہ لگتا ہے.اللہ تعالیٰ سے انسان مانگے ، مکمل پیروی کرے، مکمل ایمان دکھائے تو پھر انسان
232 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے کی گئی دعاؤں کا بھی وارث بنتا ہے.اس کے یہ نتائج پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہ نتائج نظر آتے ہیں.کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور دعا ہی کافی ہے اور خود کچھ نہ کیا جاوے.اور نہ یہی فلاح کا باعث ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور دعا کی ضرورت ہی نہ سمجھی جاوے“.(ملفوظات جلد 2 صفحہ 701 تا 703 مطبوعہ ربوہ) پس انسان کے اپنے عمل ، اُس کا اللہ تعالیٰ کے حضور خالص ہو کر جھکنا، اُس کی عبادت کرنا، اُس سے اپنی حاجات مانگنا یہ چیزیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حقیقی فرد بناتی ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور چھوٹاسا اقتباس ہے.آپ نے فرمایا: دعا اُسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلاح کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے سچے تعلق کو قائم کرتا ہے.پیغمبر کسی کے لئے اگر شفاعت کرے لیکن وہ شخص جس کی شفاعت کی گئی ہے اپنی اصلاح نہ کرے اور غفلت کی زندگی سے نہ نکلے تو وہ شفاعت اُس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی“.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 172 مطبوعہ ربوہ) ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ایک خاص دعا ہوتی ہے جو کہ وہ نبی مانگتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی اس خاص دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لئے قیامت تک بچا کر رکھوں گا.(صحیح مسلم كتاب الايمان بَابُ اخْتِبَاءِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْوَةَ الشَّفَاعَةِ لِأُمَّتِهِ حديث 487) اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری تا قیامت آنے والی نسلوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں حقیقی رنگ میں شامل ہونے والا بنائے تا کہ شفاعت سے فیض پانے والے ہوں.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شفاعت کے تعلق سے بعض دعائیں پیش کر تاہوں جو آئینہ کمالات اسلام میں درج ہیں.آپ فرماتے ہیں.رَبِّ اجْزِ مِنَّا هَذَا الرَّسُولَ الكَرِيمَ خَيْرَ مَا تَجْزِى أَحَدًا مِّنَ الْوَرى وَتَوَفَّنَا فِي زُمْرَتِهِ وَاحْشُرْنَا فِي أُمَّتِهِ وَاسْقِنَا مِنْ عَيْنِهِ وَاجْعَلْهَا لَنَا السُّقْيَا وَاجْعَلْهُ لَنَا الشَّيعَ الْمُشَفَّعَ فِي الْأَوْلِى وَالْأُخْرَى رَبِّ فَتَقَبَّلْ مِنَّا هَذَا الدُّعَاءَ وَأَوِنَا فِي هَذَا القُرى آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 366،365) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے میرے رب اس معزز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف سے وہ بہترین جز اعطا فرما جو مخلوق میں سے کسی کو دی جاسکتی ہے اور ہم کو اس کے گروہ میں سے ہوتے ہوئے وفات دے اور ہم کو اس کی امت میں سے ہوتے ہوئے قیامت کے دن اُٹھا اور ہم کو اس کے چشمے سے پلا.اور اس چشمے کو ہمارے لئے سیر ابی کا ذریعہ بنا دے اور اُسے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہمارے لئے شفاعت کرنے والا اور جس کی
خطبات مسرور جلد نهم 233 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء شفاعت قبول کی جائے ، بنادے.اے ہمارے رب !ہماری یہ دعا قبول فرما اور ہم کو اس پناہ گاہ میں جگہ دے.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: اللَّهُمَّ فَصَلِّ وَسَلَّمْ عَلَى ذَلِكَ الشَّفِيعِ الْمُشَفِّعِ الْمُنَجِّى لِنَوْعِ الْإِنْسَانِ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 5) اے اللہ ! پس تو فضل اور سلامتی نازل فرما اس شفاعت کرنے والے پر ، جس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے اور جو نوعِ انسان کا نجات دہندہ ہے.اور نوع انسان کا نجات دہندہ اب صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: رَبِّ يَا رَبِّ إِسْمَعْ دُعَائِي فِي قَوْمِي وَ تَضَرُّ عِى فِى اِخْوَتِي إِنِّي أَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ خَاتَمِ النَّبِيِّيْنِ وَشَفِيعٍ وَمُشَطَّعِ لِلْمُذْنِبِيْنَ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 22) اے میرے رب! تو میری قوم کے بارے میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارے میں میری تضرعات کو سن.میں تیرے نبی خاتم النبیین اور گناہگاروں کی مقبول شفاعت کرنے والے کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں فرماتے ہیں.یہ آخری اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ : نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے ؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے.اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دُنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کیلئے ضروری تھا.کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کیلئے ایک مسیج روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کیلئے دیا گیا تھا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحه : 7،6)“.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14،13)
خطبات مسرور جلد نهم 234 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 مئی 2011ء پس اب ہمیشہ رہنے والا اور زندہ نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہے اور پھر آپ کے فیض سے فیض پا کر اللہ تعالیٰ نے جس مسیح و مہدی کو بھیجا ہے اُس کے ساتھ جڑناضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں اس تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مسیح و مہدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں آنے والے اس نبی اللہ کی جماعت کے ساتھ تعلق کو مضبوطی سے ہمیشہ جوڑے رکھنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور ہمیشہ ہم منعم علیہ گروہ میں شامل ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 مئی تا 2 جون 2011 ، جلد 18 شماره 21 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 235 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مئی 2011ء بمطابق 13 ہجرت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ”نزول المسیح میں فرماتے ہیں کہ ” خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.پس چونکہ میں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاکر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.“ ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 380-381) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں جس آیت کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سورۃ مجادلہ کی یہ آیت ہے کہ: كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ (المجادلة:22) چند دن ہوئے مجھے پاکستان سے کسی نے لکھا، گو کہ میں لکھنے والے سے متفق نہیں ہوں کیونکہ جس طرح اس لکھنے والے نے تصویر کھینچی ہے، میرے نزدیک اس بات کو عموم کا رنگ نہیں دیا جا سکتا.لکھنے والا لکھتا ہے کہ اس بات کو بہت زیادہ جماعت کے لٹریچر اور اشاعت کے ذرائع میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی اللہ ہیں.کیونکہ لوگ آپ کو نبی کہنے سے جھجکتے ہیں.میرے نزدیک یہ افراد جماعت پر بد ظنی ہے.اس کو عموم کا رنگ نہیں دیا جا سکتا.ہو سکتا ہے کہ اس لکھنے والے کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے حالات کی وجہ سے مداہنت کا مظاہرہ کرتے ہوں.لیکن یہ وہ چند لوگ ہیں جن پر دنیاداری غالب آجاتی ہے.وہ مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو نہ کبھی دیکھا ہے، نہ پڑھا ہے.بلکہ میرے خطبات بھی نہیں سنتے کیونکہ میں تو یہ کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح بات سے بات نکلے اور بات سے بات نکالتے ہوئے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام واضح کروں.
236 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بہر حال اگر کسی کے دل میں یہ بات ہے تو ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے یہ واضح ہو نا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق نبی اللہ ہیں.اور اس بارہ میں اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے شخص کے دل میں، جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے ، انقباض ہے تو اس کو دور کر لینا چاہئے.جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس اقتباس میں فرمایا ہے جو میں نے پڑھا ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں مگر بغیر کسی شریعت کے اور نبی کریم اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اور آپ کا نام پاکر اور اخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) کی قرآنی پیشگوئی کے مطابق.جہاں تک پاکستان کے احمدیوں کا سوال ہے یا انڈونیشیا کے احمدیوں کا سوال ہے اُن کو تو ظلم کی چکی میں پیسا ہی اس لئے جارہا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی کیوں کہتے ہیں، نبی کیوں سمجھتے ہیں ؟ اس لئے سوائے اتحاد کا مداہنت اختیار کرنے والے کے عموم کے رنگ میں پاکستانی احمدیوں کے بارہ میں یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو نبی نہیں سمجھتے.بلکہ ہمارے مخالفین تو مبالغہ کرتے ہوئے احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آخری نبی مانتے ہیں.حالانکہ کوئی احمدی کبھی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور آخری شرعی نبی ہو سکتا ہے اور آپ سے بڑھ کر کسی کا مقام ہو سکتا ہے.یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے جو احمدی بیان کرتے ہیں اور جو ہر احمدی کے ایمان کا حصہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ بلند مقام عطا فرمایا ہے اور وہ مر تبہ عطا فرمایا ہے جس کے ماننے والے کو اور جس سے عشق کرنے والے کو اور جس کی حقیقی رنگ میں پیروی کرنے والے کو اور جس کا امتی بننا فخر سمجھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا مقام عطا فرمایا.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ ہی کی پیروی میں نبی اللہ ہیں.اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی اللہ نہ مانیں تو پھر ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہو گا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور اسلام کا غلبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے ذریعے ہو گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ کا وعدہ رسول کے ساتھ ہے جیسا کہ اس آیت میں ظاہر کیا گیا ہے.کسی مجد دیا کسی مصلح کے ساتھ نہیں ہے.اسلام کے آخری زمانہ میں غلبہ کا وعدہ مومنین کی اس جماعت کے ساتھ ہے جو " وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم (الجمعة:4)‘ کی مصداق بننے والی ہے.تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کو تاکید فرمائی تھی اور یہ نصیحت فرمائی تھی کہ جب مسیح و مہدی کا ظہور ہو تو خواہ برف کی سلوں پر سے بھی گزر کر جانا پڑے تو جانا اور جا کر میر اسلام پہنچانا.(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المهدی حدیث : 4084) کیوں؟ اس لئے کہ اس سے اپنے ایمان کو بھی مضبوط کروگے اور اسلام کے غلبہ کی جو آخری جنگ لڑی جانے والی ہے ، جو تلوار سے نہیں، جو توپ سے نہیں بلکہ دلائل و براہین سے لڑی جانے والی ہے، اُس میں حصہ دار بن کر میری حقیقی پیروی کرنے والے بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جاؤ گے.حقیقی مومن کہلانے والے بن جاؤ گے.
خطبات مسرور جلد نهم 237 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء پس احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس لئے ایمان لائے کہ آپ کے ساتھ جڑ کر ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان میں بھی مزید پختہ ہوں اور اسلام کے غلبہ کے نظارے بھی دیکھیں.پھر یہ بھی یاد رہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی نہیں تو پھر خلافت بھی نہیں.کیونکہ خلافت کا اس لئے نبوت کے ساتھ تعلق ہے کہ خلافت نے منھاج نبوت پر چلنا ہے.آپ علیہ السلام خاتم الخلفاء تھے اور اس خاتم الخلفاء ہونے کی وجہ سے آپ کو نبی کا درجہ ملا اور اس کے بعد پھر آپ کے ذریعہ سے سلسلہ خلافت شروع ہوا.پس جماعت احمدیہ کے نظام خلافت کا جو ہر ایک تسلسل ہے اس کا تعلق اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی تسلیم کریں، مانیں اور یقین رکھیں.ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن کے ایمان کی مضبوطی کے لئے مختلف تفصیلی نصائح فرمائیں جن کا خلاصہ یہ ہے.فرمایا کہ: صرف زبان سے بیعت تو بہ نہ ہو، بلکہ دل سے اقرار ہو ، اور جب یہ ہو گا تو پھر خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے بھی دیکھو گے.بیعت کرنے والا چاہتا ہے اور حقیقت میں اُس کی یہ خواہش ہوتی ہے) کہ وہ بیعت کر کے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے.اور یہ نظارے آجکل بھی بیعت کرنے والے دیکھتے ہیں.روحانیت میں بڑھتے جاتے ہیں.کئی بیعت کرنے والے جو ہیں وہ اپنے خطوط میں یہ ذکر کرتے ہیں بلکہ ایک پاک تبدیلی جو اُن میں پیدا ہوتی ہے، اُسے دوسرے بھی دیکھ کر محسوس کر رہے ہوتے ہیں.بیوی بچے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا تھا اور ابھی کیا ہو گیا ہے؟.یہ کیا انقلاب ہے جو اس میں پیدا ہوا ہے.تو یہ سچی بیعت ہے جو اس قسم کی پاک تبدیلیاں پیدا کرے.پھر ان بیعت کرنے والوں کو آپ نے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ کبھی اپنی بیعت کو کسی دنیاوی مقصد سے مشروط نہ کر نا بلکہ اپنے اعمال میں بہتری پیدا کر و اور پھر دیکھو اللہ تعالیٰ بغیر انعام اور اجر کے نہیں چھوڑتا.پھر فرمایا کہ بیعت کر کے پریشان نہیں ہونا چاہئے.تکالیف آتی ہیں مگر آہستہ آہستہ حقیقی مومن دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں کیونکہ اُس کا وعدہ ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.(ماخوذاز ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 219 تا 221) پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ”ہمارے غالب آنے کے ہتھیار، استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مد نظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں“.فرمایا کہ ”نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے.جب نماز پڑھو تو اُس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوقِ الہی کے متعلق ہو ، خواہ حقوق ( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 222،221) العباد کے متعلق ہو ، بچو“.پس ہمیں ہمیشہ ان اہم باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.یہ نصائح صرف نئے احمدیوں کے لئے نہیں تھیں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یا جو آج نئی بیعتیں کرتے ہیں بلکہ ہر احمدی کے لئے ہیں اور جتنا پرانا احمد کی ہو اس
خطبات مسرور جلد نهم 238 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 13 مئی 2011ء کے ایمان میں زیادہ ترقی ہونی چاہئے.اس میں ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش اُن سے بڑھ کر ہونی چاہئے جو نئے آنے والے ہیں.استغفار کیا ہے ؟ اپنے اگلے پچھلے گناہوں سے بخشش طلب کرنا.اللہ تعالی کی پناہ میں آنا تا کہ گناہوں سے بچتا بھی رہے.تو بہ یہ ہے کہ جن غلط کاموں میں پڑا ہوا ہے اُن سے کراہت کرتے ہوئے اُن سے بچے رہنے کا پکا اور پختہ اور مصمم ارادہ کرنا.اور پھر اُس ارادے پر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے کار بند رہنا، اس پر عمل کرنا کہ کوئی بھی چیز اُس کو اُس سے ہلا نہ سکے.پھر دینی علوم کی واقفیت ہے.اس میں سب سے پہلے قرآنِ کریم ہے.پھر قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے.آپ کی کتب ہیں.آپ کی مختلف تحریرات وارشادات ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیم کی برتری دنیا پر دلائل وبراہین سے ثابت کرتے ہیں، جس کے مقابل پر کوئی اور دین کھڑا نہیں رہ سکتا کیونکہ اسلام ہی آخری، کامل اور مکمل دین ہے.پھر خدا تعالیٰ کی عظمت ہے.اگر خدا تعالیٰ کی عظمت مد نظر رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ یقین اور ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو ہر چیز کو پیدا کرنے والی ہے اور تمام ضروریات کو پورا کرنے والی ہے اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کے کامل علم نے اُس کا احاطہ کیا ہوا ہے.وہ ہمارا رب ہے.زندگی اور موت بھی اُس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر آن ہمیں دیکھ رہا ہے.تو پھر ایک انسان کبھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے خلاف ہو.اور جب اللہ تعالیٰ کی یہ عظمت دلوں میں قائم ہو جائے گی تو پھر پانچ وقت نمازوں کی طرف بھی خود بخود توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی.دعاؤں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی.خدا تعالیٰ کے ساتھ اس بڑھتے ہوئے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر یقین پیدا ہو تا چلا جائے گا بلکہ اس میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے گی.اور نماز کے بارہ میں یہ فرمایا کہ یہ تمام دعاؤں کی کنجی ہے.نماز ہی وہ اصل دعا ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے.اور بندے کا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑتی ہے.پس نمازوں کو سنوار کر اور وقت پر پڑھنے کی قرآنی تعلیم بھی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو خاص طور پر اس طرف متوجہ فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے.پس جب انسان ان باتوں پر عمل کرے گا تو حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر یہ انقلاب تم اپنے اندر پیدا کر لو تو پھر اُس غلبے میں تم بھی حصہ دار بن جاؤ گے جو مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے مقدر ہے، جس کا مقدر اس سے جڑا ہوا ہے.اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا فرمانا ہے لیکن ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار تو یہ باتیں ہیں.اگر تم ان باتوں کو اختیار کر لو تو غلبے میں تم بھی حصہ دار بن جاؤ گے.ورنہ نام کے احمدی تو ہو لیکن عملی احمدی نہیں.پس ہم میں سے ہر ایک کو وہ عملی احمدی بننے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلبے کی مہم کا حصہ بنے.
239 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بے شمار جگہ پر اس غلبے کی بشارات دی ہوئی ہیں.اور ہر دن جو جماعت پر چڑھتا ہے ہم ان بشارات کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں.جس شدت سے جماعت کی مخالفت کی جارہی ہے اگر یہ کسی انسان کا کام ہو تا تو ایک قدم بھی آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے، ایک لمحہ بھی زندہ رہنا مشکل ہوتا.لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اس لئے تمام روکوں ، تمام مخالفتوں کے باوجو د جماعت ترقی کی راہ پر گامزن ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو الہامات کے ذریعے اس ترقی کی بشارتیں دی تھیں جیسا کہ میں نے کہا.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی بشارات بالکل حق ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا مقدر یقینا غلبہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے تو ماننے والوں پر بھی بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان پر بھی کچھ فرائض لاگو ہوتے ہیں جن کا ادا کر ناضروری ہے.اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”میں تیری تبلیغ کو (تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.یقینا یہ کام خدا تعالیٰ ہی کر رہا ہے.اور آج کل اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ایم.ٹی.اے کو اس کا بہت بڑا ذریعہ بنایا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام زمین کے کناروں تک پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو یہ پیغام ہے یہ زمین کے کناروں تک پہنچے اور ایم.ٹی.اے اس کا حق ادا کر رہا ہے.لیکن اگر ہم ایم.ٹی.اے کی مشینیں لگا کر آرام سے بیٹھ جائیں، کوئی کام نہ کریں، پروگرام نہ بنیں ، کسی قسم کی ریکارڈنگ نہ ہو ، جو مختلف تبلیغی پروگرام ہوتے ہیں وہ نہ ہوں تو جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا ہے اُس کا استعمال نہ کر کے ہم اپنے آپ کو اس سے محروم کر رہے ہوں گے اور اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے ہوں گے.جو لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مہیا فرمایا ہے اُس سے استفادہ کر کے اگر ہم آگے نہیں پہنچاتے ، اُس کو پھیلاتے نہیں تو ہم اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے ہوں گے اور پھر گناہگار بن رہے ہوں گے.گو اللہ تعالیٰ نے یہ کام تو کرنے ہیں.ہمارے سے نہیں تو کسی اور ذریعے سے کروا دے گا.لیکن ہم اگر ان ذرائع کو استعمال نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم گناہگار ہیں.دنیا میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ نبی یا اُس کی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے بعد سب کام چھوڑ دیئے ہوں اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون اللہ تعالیٰ کا پیارا ہو سکتا ہے ؟ لیکن جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے مغلوب ہونے کی بشارت دی تو آپ کے صحابہ کو کوشش بھی کرنی پڑی، قربانیاں بھی دینی پڑیں.دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر اُن کو کچلنا چاہا تو دنیا کی نظر میں انہیں بظاہر حقیر لوگوں نے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جو ایمان کی دولت سے مالا مال تھے ، جو توبہ استغفار کرنے والے تھے ، جو نمازوں کو اس خوبصورتی سے ادا کرنے والے تھے کہ اُن پر رشک آتا تھا، جو اللہ تعالیٰ کی عظمت دلوں میں بٹھائے ہوئے تھے، کوئی دنیاوی شان و شوکت اور بادشاہوں کی جاہ و حشمت اُن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا.اُن کی حکومتوں کو پاش پاش کر دیا.محنت کی،
240 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم قربانیاں کیں تو تب یہ کچھ حاصل ہوا.یہ یقین اور ایمان تھا جس نے اُن میں یہ ایمانی مضبوطی پیدا کی کہ بیشک دنیاوی جاہ و حشمت اور طاقتیں ان لوگوں کے پاس ہیں، ان بادشاہوں کے پاس ہیں.کثرت تعداد اُن کی ہے لیکن یہ ساری چیزیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ ملنا ہے اور ہم نے کوشش کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا.پس ایک پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی تھی اور ہوئی لیکن اُن کی یہ کوشش تھی کہ اگر ہمارے ہاتھ سے پوری ہو جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے.پس یہی حالت آج ہماری ہونی چاہئے.ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے یقینا پورے ہونے ہیں.اگر ہم ان وعدوں کو پورا کرنے میں اپنی حقیر کوشش شامل کر لیں، اگر ہم اپنی ذمہ داری کی اہمیت کو سمجھنے والے بن جائیں تو ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے.ہر احمدی کو ، ہر کارکن کو اس ذمہ داری کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں.بے شمار پیشگوئیاں ہیں جو واضح ہیں.تذکرۃ الشہادتین میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اے تمام لو گوئن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا“.فرمایا یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا.اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے، نامر اور کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی“.( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 66) پس یہ ہے یقین جس کا اظہار آپ نے کیا ہے اور اس یقین پر آپ قائم تھے.یہ یقین اس لئے ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں یہ کروں گا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ضرور کرے گا.اور اسلام کا غلبہ اب صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے سے ہو گا اور یقینا انشاء اللہ ہو گا.اور ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو پورا کیا اور پورا فرما تا چلا جارہا ہے.1903ء کا یہ اقتباس ہے.گو ہندوستان سے باہر اُس وقت جماعت کا تعارف ہو گیا تھا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ جماعت پھیل رہی ہے.لیکن آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے 198 ممالک میں جماعت کی نمائندگی موجود ہے اور دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کا تعارف پہنچ چکا ہے.پس جس خدا نے دنیا میں احمدیت کے ذریعے اسلام کے پیغام کو پہنچایا ہے اور پہنچا رہا ہے وہ اس پیشگوئی کے اگلے حصے کو بھی پورا فرمائے گا.کہیں مخالفین احمدیت، احمدیت کے پیغام پہنچانے میں وجہ بن رہے ہیں، اور اس مخالفت کی وجہ سے سعید روحوں میں احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے.بظاہر تو وہ مخالفتیں کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو احمدیت سے دور ہٹائیں لیکن
241 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جو سعید فطرت لوگ ہیں اُن میں اس سے توجہ پیدا ہو رہی ہے اور کہیں احمدیت کا محبت، پیار کا پیغام جو ہے وہ دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے.کہیں ہمارے عاجزانہ اور نہایت معمولی خدمت خلق کے جو کام ہیں اُس سے لوگوں کی جماعت کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے.اور کہیں اللہ تعالیٰ رؤیا و کشوف کے ذریعے لوگوں کو احمدیت سے متعارف کروا رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا پہچان رہی ہے.پھر جو دلائل جماعت کے پاس ہیں، جو براہِ راست اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سکھائے ہیں، یہ دلائل اور براہین جب ایم.ٹی.اے کے ذریعے سے دنیاد دیکھتی ہے تو اُن کی توجہ ہوتی ہے.دشمنانِ احمدیت بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ لوگ ایم.ٹی.اے نہ دیکھیں.بلا استثناء آج کل ہر اسلامی ملک میں مولوی اور نام نہاد علماء جو ہیں لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ ایم.ٹی.اسے نہ دیکھو.اس سے تمہارے ایمان پر زد آئے گی.تم ان کے کفر اور دجل سے نعوذ باللہ متاثر ہو جاؤ گے.لیکن جن پر حق کھل گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ غلط ہیں تو دلیل سے ان کو رڈ کرو.زبر دستی منع کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ تمہارے پاس دلیل نہیں ہے اور اسلامی تعلیم ایسی نہیں کہ جو بغیر عقل اور دلیل کے بات کرے.پس یہ ہے شان اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کی کہ آہستہ آہستہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعے اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے لا رہا ہے، توحید پر قائم کر رہا ہے.پس ہر احمدی کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے.یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور پورا ہو جائے گا ہمیں کیا ضرورت ہے ؟ جتنا بڑا وعدہ ہے، جتنی بڑی خوشخبریاں ہیں اُن میں حصہ دار بننے کے لئے ہماری بھی اتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں.حقوق اللہ کی ادائیگی میں ہمیں خالص ہو کر کوشش کرتے ہوئے حصہ لینا ہے.حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیں تمام نفسانی خواہشات اور ترجیحات سے بچتے ہوئے حصہ لینا ہے.دعوت الی اللہ کے لئے ہم نے اپنی طاقتوں، اپنے علم، اپنی کوششوں کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حصہ لینا ہے، تبھی ہم اس عظیم مہم اور اُس کی عظیم برکات سے فائدہ اُٹھانے والے بن سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ ایک جگہ خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ لاَ تَيْنَسُوا مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَةِ رَبِّي، إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَر.کہ اللہ کی رحمت کے خزانوں سے ناامید مت ہو، ہم نے تجھے خیر کثیر دیا ہے.(تذکرۃ صفحہ نمبر 440 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) پس مسلمانوں کی حالت پر یا اسلام کی حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو جو بے چینی تھی اس کو دُور فرماتے ہوئے یہ تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانوں سے ناامید مت ہو.ہم نے خیر کثیر تجھے دے دیا ہے، تیرے لئے مقدر کر دیا ہے.جو خیر کثیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھاوہ آخرین کو بھی تیرے ذریعہ سے مل رہا ہے اور ملے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کا چشمہ اب پھر تیرے ذریعہ سے جاری ہو گیا ہے.پس خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانوں نے پھر ایک نئی شان سے دروازے کھول دیئے
خطبات مسرور جلد نهم 242 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء ہیں.اُن کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں اور جو ان دروازوں سے خزانے کے حصول کے لئے داخل ہوں گے وہ اپنے آپ کو مالا مال کر لیں گے.آج کل مسلمانوں میں جو بے چینی ہے اور دین کی مدد کا بعض میں احساس بھی ہے، بعض سنجیدہ بھی ہیں لیکن رہنمائی نہیں، اُن کو راستہ نظر نہیں آتا اور پھر مایوسی چھا جاتی ہے.اور پھر یہ مایوسی بے چینی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے غلط طریق پر چلاتی ہے.تو ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے اور ہمارے لوگ جو اُن تک پیغام پہنچا سکتے ہیں اُن کو پہنچانا چاہئے کہ یہ کو شرکا چشمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے، اپنے محبوب کے عاشق اور عاشق صادق، جسے اس عشق کی وجہ سے امتی نبی ہونے کا مقام ملا ہے کے ذریعے سے پھر جاری فرما دیا ہے.پس اگر مایوسی کو ختم کرنا ہے تو اس مسیح و مہدی کی آغوش میں آکر ، اس سے جڑ کر اپنی اس مایوسی کو ختم کرو.کیونکہ یہی وہ اللہ تعالیٰ کا تائید یافتہ ہے جس کا تم انتظار کر رہے ہو.غور کرو اور دیکھو کہ تمام طاقتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز کو دبانے اور ختم کرنے کے لئے متحد ہو گئیں.گزشتہ سو سال سے زیادہ عرصہ سے متحد ہیں.لیکن کیا اس آواز کو خاموش کیا جا سکا؟ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ یہ آواز دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے اور بڑی شان کے ساتھ دنیا میں گونج رہی ہے اور انشاء اللہ تعالی گونجتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے حق میں زلزلوں کے نشان کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”یادر ہے کہ ان نشانوں کے بعد ابھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھلے گی اور حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ کیا ہو ا چاہتا ہے ؟ ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بد تر آئے گا.خدافرماتا ہے کہ میں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کرلیں“.( مجموعہ اشتہارات جلد نمبر 2 النداء من وحی الشماء “صفحہ 638 مطبوعہ ربوہ) آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کا ہر ملک قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے.اگر دنیا اس کو صرف ایک قدرتی عمل سمجھ کر ، جو سائنسدانوں کے نزدیک یاد نیاداروں کے نزدیک ہر کچھ عرصہ کے بعد ہوتا ہے، نظر انداز کرتی رہے گی اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف توجہ نہیں دے گی تو یہ یاد رکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے ساتھ ان آفات اور زلازل کا بڑا گہرا تعلق ہے.یہ آفات دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی رہیں گی.پس دنیا کو ہوشیار کرنے کے لئے ہر احمدی کا بھی کام ہے کہ جہاں وہ اپنی اصلاح اور اپنے ایمان کی پختگی کی طرف توجہ دے وہاں اس پیغام کے پہنچانے کے لئے بھر پور کوشش کرے.دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کرے کہ یہ ایک انتہائی اہم کام ہے جو ہمارے سپر د کیا گیا ہے.جہاں جماعت کا تعارف محبت، امن اور پیار کے حوالے سے کروادیا گیا ہے وہاں اگلا پیغام یہ ہے کہ یہ ہمارے دل کی محبت، پیار اور امن کی آواز ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم انسانیت کو
243 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تباہ ہونے سے بچانے کے لئے کوشش کریں.دنیا کو خدا تعالیٰ کی پہچان کروائیں اور اس مقصد کی پہچان کرائیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے تا کہ وہ ان آفات سے محفوظ رہ سکیں.اللہ تعالیٰ اس کے مقصد پیدائش کی طرف توجہ دلانے کے لئے یہ آفات جو ہیں وقتا فوقتاً بھیجتارہتا ہے.اگر انسان توجہ نہیں کرے گا تو یہ آفات آتی چلی جائیں گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.دنیا کو ہوشیار کرنے کا یہ کام آج ہمارا ہی ہے.یہ جماعت احمدیہ کا ہی کام ہے.کوئی اور اس کو کرنے والا نہیں.کیونکہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرما دیا ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص قرب اور پیار کا مقام ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک الہام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرزندی کا مقام عطا فرمایا.فرمایا.اِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ الله - ( ملفوظات جلد نمبر 4 صفحه 569 مطبوعہ ربوہ) کہ میں تیرے ساتھ ہوں اے رسول اللہ کے بیٹے.پس آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ روحانی فرزند ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو پورا کرنا ہے اور یہی آپ کے ماننے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل کرنی ہے، اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بننا ہے تو تبلیغ کے کام کو پہلے سے بڑھ کر کریں.جس شدت اور جس تعداد میں گزشتہ چند سالوں میں دنیا میں آفات آئی ہیں، اس شدت سے اور کوشش سے دنیا کو ہوشیار کرنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس الہام کے ساتھ جو دوسرا الہام ہے وہ یہ ہے کہ ب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلی دِيْنِ وَاحِدٍ (ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 569 مطبوعہ ربوہ) گو یہ حکم اور الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا، براہِ راست آپ کا کام تھا اور آپ نے کیا لیکن یہ آپ کے ماننے والوں کا بھی کام ہے.ہمارا بھی یہ کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچائیں.گو بعض مسلمان ممالک میں احمدیوں پر پابندیاں اور سختیاں ہیں.ہم پیغام پہنچا نہیں سکتے ، کھلے عام تبلیغ نہیں کر سکتے.نام نہاد علماءلوگوں کو پیغام سننے کے لئے روکیں کھڑی کرتے رہتے ہیں.لیکن ایک ذریعہ بند ہو تو حکمت سے دوسر اذریعہ اختیار کیا جاسکتا ہے.ایک علاقے میں بند ہو ، ایک ملک میں بند ہو تو دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے.اگر ان ملکوں میں احمدیوں کو براہِ راست تبلیغ کی اجازت نہیں ہے تو ایم.ٹی.اے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انتظام فرما دیا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ذریعہ سے باوجود تمام روکوں کے تبلیغ کا پیغام پہنچ بھی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں بھی ہو رہی ہیں.پھر بعض ایسے ممالک ہیں جہاں ایسی کوئی قانونی پابندیاں تو نہیں ہیں لیکن بعض علماء کی طرف سے مخالفتیں ہوتی ہیں لیکن اُن میں سے ہی بعض ایسے سعید فطرت بھی ہیں، ایسے نیک فطرت بھی ہیں جو ہماری مجالس میں آکر ہمارے پروگرام دیکھ کر احمدیت کی طرف مائل بھی ہو رہے ہیں.پھر ایسی جگہوں پر جہاں کوئی قانونی روکیں نہیں اور کچھ لوگوں کی توجہ بھی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے مسلمان ملکوں میں خاص طور پر افریقہ میں
244 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہماری کوششیں پہلے سے زیادہ تیز ہونی چاہئیں.یہ ہر جگہ کے جماعتی نظام کا کام ہے.افریقہ کے بعض ممالک میں امام جو ہیں اپنے ماننے والوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور یہ بھی ایک الہی تصرف ہے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو دلوں کو پھیر رہا ہے.ہماری تو حقیر کوششیں ہوتی ہیں.یہ الہام جو ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلى دِينِ وَاحِدٍ.یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ.اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے “.یہ حکم جو ہیں یہ حکم تو ہیں لیکن یہ ایسے حکم ہیں جن میں چھپی ہوئی یہ پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ ایسے لوگ ہوں گے جو یہ نہیں کریں گے اس لئے حکم دیا کہ کرو.خاص توجہ دلائی گئی ہے.فرمایا کہ ”جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محترف مبدل نہ کرنا.یہ بتاتا تھا کہ بعض اُن میں سے کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے“.فرمایا ” دوسرا امر کوئی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں، جیسے قلنا ينارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَمًا (الانبياء: 70 ).(کہ ہم نے کہا اے آگ ! تو ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم علیہ السلام پر ).اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا.( اسی طرح ہو گیا).اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اس قسم کا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ روے زمین عَلى دِيْنٍ وَاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں“.( ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 569-570) پس اس الہام کی جو وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے یہ ہمیں خوشخبری دیتی ہے کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کے کوئی امر میں سے ہے.یعنی جس کے بارے میں خدا تعالیٰ جب کن کہتا ہے ( جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب میں کُن کہوں تو وہ ہو جاتا ہے ) تو وہ ہو جاتی ہے.تو یہ وہ امر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کن کہہ دیا.کُن کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کُن کہا اور فوری ہو جائے گا، جب اعلان ہو ا تو ساتھ شروع ہو گیا.بلکہ قانونِ قدرت کے تحت جو عرصہ درکار ہے وہ لگتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت جتنا عرصہ لگنا ہے وہ لگتا ہے.لیکن نتیجہ ضرور اس کے حق میں ظاہر ہوتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے جب بچے کی پیدائش کی بنیاد پڑتی ہے تو ہر جانور یا انسان کو جتنا عرصہ اس بچے کی پیدائش میں قانونِ قدرت کے مطابق لگنا ہے وہ لگتا ہے.یہ نہیں ہو جاتا کہ کن ہوا اور ایک دو دن میں یا دو منٹ میں بچہ پیدا ہو جائے.جتنا عرصہ لگنا ہے وہ لگتا ہے اور یہ سب کچھ پراسس (Process) جو ہوتا ہے وہ اللہ کے کُن سے ہی ہوتا ہے.پس یہاں بھی کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ مسلمان دین واحد پر جمع ہوں گے ، اور وہ پراسس
245 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم (Process) شروع ہو چکا ہے.اور آہستہ آہستہ مسلمانوں میں سے بھی اور مسلمانوں کے ہر فرقے میں سے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں.اس لئے اس پریشانی کی ضرورت نہیں کہ مسلمان ملکوں میں سے بعض ملکوں میں تو ہم احمدیوں سے تیسرے درجہ کے شہریوں کا سلوک کیا جاتا ہے تو اُن میں سے مسلمان ہمارے اندر کس طرح شامل ہوں گے ؟ یا ان ملکوں کے مسلمان کس طرح ہم میں شامل ہوں گے ؟ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے، اس طرح ہو گا اور انشاء اللہ ضرور ہو گا.ہمیں بیشک آج تکلیفیں پہنچائی جارہی ہیں، مسلمانوں کی طرف سے ہی تکلیفیں پہنچائی جارہی ہیں لیکن انشاء اللہ تعالی انہی میں سے قطرات محبت بھی ٹپکیں گے اور انشاء اللہ ہم دیکھیں گے.پس جو کمزور طبع لوگ ہیں وہ بھی اس یقین پر اور اس ایمان پر قائم رہیں اور جن میں دنیاداری ہے یا اُن کو دنیا داری نے کچھ حد تک گھیر رکھا ہے وہ بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب آنا ہے.اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم کہیں بھی، کسی بھی جگہ مداہنت دکھائیں ، کمزوری دکھائیں یا شرمائیں یا مخالفین کی مخالفتوں سے پریشان ہوں کہ پتہ نہیں اگر ہم نے اپنے ایمان کا اظہار کر دیا تو ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ یہ تکلیفیں تو ہوتی ہیں اور ایک مومن تو ایسی تکلیفوں کو سوئی کی چھن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا.ان سوئیاں چبھونے والوں سے خوفزدہ ہو کر ہم اپنے کام بند نہیں کر سکتے ، ہم اپنے ایمان کو چھپا نہیں سکتے.پاکستان کے احمدیوں کی اکثریت بلکہ ننانوے اعشاریہ نو نو (99.99) فیصد تو مخالفتوں کی شدید آندھیوں کے باوجود ان کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کر رہے ہیں اور پاکستان کے احمدیوں اور انڈونیشیا کے احمدیوں اور جہاں بھی جماعت کے خلاف مخالفتوں کے طوفان کھڑے کئے جاتے ہیں وہاں کے احمدیوں کی قربانیاں ہی ہیں جو دنیا میں نئے نئے تبلیغی راستے بھی کھول رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن مسلم دنیا بھی اور غیر مسلم دنیا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق جوڑ کر ہی امت واحدہ کا نظارہ پیش کرے گی.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے“.(تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 409) پس یہ زبر دست بشارت ہے جو اصل میں اسلام کے دنیا پر غالب آنے سے تعلق رکھتی ہے.پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ایمانوں میں مزید پختگی پیدا کرتے چلے جائیں.اپنی عبادتوں کو سنوارتے چلے جائیں.اپنے تعلق باللہ کو بڑھاتے چلے جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام ہونا ہے اور ہو
خطبات مسرور جلد نهم 246 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء رہا ہے اس میں آپ کے ممد و معاون بنتے چلے جائیں تا کہ ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی بنتی رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج نماز جمعہ کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا.ایک جنازہ مکرم صاحبزادہ راشد لطیف صاحب را شدی امریکہ کا ہے جن کی 27 اپریل کو لاس اینجلس میں وفات ہو گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ حضرت شہزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور صاحبزادہ محمد طیب لطیف صاحب کے صاحبزادے تھے.ابتدائی تعلیم بنوں میں حاصل کی.پھر تعلیم الا سلام کالج لاہور میں پڑھتے رہے.پھر افغانستان چلے گئے.کچھ عرصہ وہاں رہے.جماعت سے نہایت اخلاص کا تعلق تھا.ان کے گھر میں آکر احباب جماعت نماز پڑھا کرتے تھے.65ء میں یہ امریکہ چلے گئے.وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی.پھر امریکہ میں سیٹل (Settle) ہو گئے.امریکہ کی سیاٹل (Seattle) جماعت کے صدر بھی رہے.کافی عرصہ سے کیلیفورنیا میں رہائش پذیر تھے.جماعت کے جلسہ سالانہ میں تقاریر بھی کرتے رہے.2005ء میں قادیان جلسے پر گئے تو وہاں بھی ان کو تقریر کا موقع ملا.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے کہنے پر تذکرۃ الشہادتین کا دری جو افغان کی افغانستان کی زبان ہے.اس زبان میں انہوں نے ترجمہ بھی کیا.ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.دو سر اجنازہ مکرم مبارک محمود صاحب مربی سلسلہ کا ہے.4 مئی کو بڑی لمبی علالت کے بعد 42 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.1989ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے تھے.نو سال تک پاکستان کے مختلف شہروں میں مربی رہے.پھر 1998ء میں تنزانیہ چلے گئے.آٹھ سال وہاں خدمت انجام دی.تنزانیہ میں ان کو کینسر ہو گیا تھا.وہاں سے پھر واپس پاکستان آئے.علاج ان کا ہو تا رہا اور پھر سواحیلی ڈیسک میں وکالت تصنیف میں انہوں نے کام کیا.باوجود بیماری کے بڑی جانفشانی سے کام کرتے رہے.بڑی تکلیف دہ بیماری ہے اس تکلیف کا بھی بڑے صبر سے مقابلہ کیا.کبھی کوئی ناشکری یا بے صبری کا کلمہ زبان پر نہیں آیا.مسکراتے تھے.خندہ پیشانی سے ہمیشہ ہر ایک سے بات کرتے رہے.یہ موصی تھے.آپ کی اہلیہ اور تین بیٹیوں کے علاوہ ان کے والدین بھی ہیں.چار بھائی ہیں.سیف علی شاہد صاحب امیر ضلع میر پور خاص کے بیٹے، حیدر علی ظفر صاحب مبلغ انچارج جر منی کے بھتیجے ہیں.تیسر اجنازہ مظفر احمد صاحب ابن مکرم میاں منور احمد صاحب سید والا شیخو پورہ کا ہے.مظفر احمد صاحب، فرزانہ جبین صاحبہ ، عزیزه امۃ النور صاحبہ ، عزیزم ولید احمد ، عزیزم تصویر احمد.یہ پوری فیملی ہے جو موٹر سائیکل پر فیصل آباد سے چنیوٹ آرہے تھے.راستے میں ایکسیڈنٹ ہوا ہے تو پوری فیملی اللہ کو پیاری ہو گئی.چھ سال، چار سال، دو سال کے ان کے تین بچے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں شعبان احمد صاحب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے قادیان جاکر خواب کے ذریعہ سے احمدیت قبول کی تھی.مظفر احمد صاحب
خطبات مسرور جلد نهم 247 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مئی 2011ء قائد خدام الاحمدیہ تھے.نگران حلقہ اور سیکرٹری نو مبائعین کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پائی.وفات سے قبل سیکرٹری تحریک جدید اور سیکر ٹری اصلاح و ارشاد اور ناظم اطفال کے طور پر خدمت بجالا رہے تھے.انتہائی صاف گو، انصاف پسند اور مخلص انسان تھے.سید والا کی مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی تو اس وقت بھی آپ نے اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں بڑا کردار ادا کیا کیونکہ کافی پابندیاں رہتی ہیں اور احتیاط کرنی پڑتی ہے.اس مسجد کو پھر بعد میں، 2001ء میں شہید بھی کیا گیا.آپ کچھ عرصہ اسیر راہ مولیٰ بھی رہے ہیں.موصی تھے.ان کے پسماندگان میں دو بہنیں اور چار بھائی ہیں.اسی طرح اہلیہ کے پسماندگان میں والد ہیں شیخ فضل کریم صاحب ( لاہور) اور چھ بہنیں اور چار بھائی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 جون تا 9 جون 2011 ء جلد 18 شماره 22 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 248 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 2011ء بمطابق 20 ہجرت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق، غلام صادق، امام الزمان اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے اندھیرے زمانے کے بعد بھیج کر ہم پر جو احسان کیا ہے اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے.اور شکر کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادہ کے اقوال، ارشادات اور تحریرات کو پڑھ کر غور کریں اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جو یہ فرمایا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: 119).صادقین کے ساتھ ہو جاؤ.صادقین کی صحبت سے فیض پاؤ.اس کے سب سے خوبصورت نظارے تو ہمیں اُس وقت ملتے ہیں جب صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے فیض پاتے ہوئے آپ کی مجالس اور صحبت کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پہنچائے.آپ کی مجالس کے تذکرے سنائے.آپ کی نصائح ہم تک پہنچائیں، پھر یہ دوسر ازمانہ ہے جس میں آپ کے غلام صادق کا ظہور ہوا.آپ علیہ السلام نے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور قرآن کریم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بے شمار کتب تحریر فرمائیں.اسلام کی بالا دستی اور برتری دنیا پر ثابت کی.لیکن آپ کی بہت سی مجالس ایسی بھی ہیں جو صحابہ کے ساتھ لگتی تھیں.بعض چھوٹی، بعض بڑی اور بعض جلسوں کی تقاریر کی صورت میں ایسی بھی ہیں جو ان کتب میں نہیں ہیں، جن میں آپ کے صحابہ اس صحبت سے فیض پاتے تھے جو اس زمانے کے صادق اور غلام صادق کے وجود سے برکت یافتہ تھی.ان مجالس کو اُس زمانے میں جماعت کے اخباروں نے محفوظ کیا.کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہوں نے امام الزمان کی مجالس سے فیض پایا اور صحبت صادقین کے قرآنی حکم پر عمل پیرا ہوئے.ہم اُس مجلس میں بیٹھنے والوں اور مختلف قسم کے سوال کرنے والوں اور پھر اُن پر حکمت باتوں کو محفوظ کرنے والوں کے بھی شکر گزار ہیں کہ اُن کے ذریعہ سے آج سو سال گزرنے کے بعد بھی ہم ان باتوں کو پڑھ اور سُن سکتے ہیں.اور ان کو سُن کر، پڑھ کر چشم تصور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کی مجلس میں اپنے آپ کو بیٹھا ہوا محسوس کر سکتے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 249 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء آج میں نے ایسی ہی مجالس میں سے نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں آپ نے جو نصائح فرمائیں اُن میں سے چند ارشادات کو ، چند نصائح کو لیا ہے.1907ء کے جلسے کی اپنی ایک تقریر میں جو ایک لمبی تقریر ہے، ایک جگہ دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ” یاد رکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتداء بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پر ہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا.اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا.ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مُردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے.اور سب گمراہ ہیں مگر جس کو خدا ہدایت دے.اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بینا کرے.غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہو تاتب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے“.(ملفوظات جلد نمبر 10 صفحہ 62.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء) (ملفوظات جلد 5 صفحہ 399-400 مطبوعہ ربوہ) یہ جو دنیا کی محبت کا پھندا پڑا ہوا ہے یہ گلے میں پڑا رہتا ہے.وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے.مگر یا در کھنا چاہئے کہ خدا کا فیض بھی دعا سے ہی شروع ہو تا ہے.اگر فضل حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے بھی دعا مانگو.پھر نماز میں وساوس کو دور کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ : یہ کیا دعا ہے کہ مُنہ سے تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتح: 6) کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے.فلاں چیز رہ گئی ہے.یہ کام یوں چاہئے تھا.اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یوں کریں گے.یہ تو صرف عمر کا ضائع کرنا ہے.جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عمل درآمد نہیں کر تاتب تک اُس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے“.(ملفوظات جلد 5 صفحہ 400 مطبوعہ ربوہ) اس کے لئے پھر وہی آپ نے بتایا کہ دعا کرو.حضرت مصلح موعود نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بزرگ تھے وہ کسی مسجد میں گئے.وہاں کا جو امام الصلوۃ تھاوہ نماز پڑھاتے ہوئے اپنے کاروبار کے متعلق سوچ رہا تھا کہ میں یہ مال امر تسر سے خرید لوں گا، پھر دہلی لے کر جاؤں گا.وہاں سے اتنا منافع کماؤں گا.پھر اس کو کلکتہ لے جاؤں گا وہاں سے اتنا منافع ہو گا.پھر آگے چلوں گا.تو وہ بزرگ جو پیچھے نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز توڑ دی اور علیحدہ ہو کر نماز پڑھنے لگے.کشفی طور پر اُن کو اللہ تعالیٰ نے اُس امام کے دل کی حالت بتادی.بعد میں مقتدیوں نے شکایت کی مولوی صاحب ! اس نے آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھی، توڑ دی تھی.بڑے غصہ میں انہوں نے پوچھا کہ بتاؤ کیا وجہ ہے؟ تم نے کیوں نماز توڑی؟ تمہیں پتہ ہے یہ کتنا گناہ ہے.اُس نے کہا مولوی صاحب! میں کمزور بوڑھا آدمی ہوں.آپ نے سفر شروع کیا امر تسر سے اور کلکتہ پہنچ گئے، ابھی آپ نے بخار تک جانا تھا.میں اتنی دور آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا.تو بعض دفعہ نماز پڑھانے والوں کا بھی یہ حال ہوتا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 250 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء پھر 1906ء کی ایک تقریر میں آپ فرماتے ہیں کہ : نماز کیا ہے ؟ یہ ایک دعا ہے جس میں پور اور د اور سوزش ہو.اسی لئے اس کا نام صلوۃ ہے.کیونکہ سوزش اور فرقت اور درد سے طلب کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بد ارادوں اور بُرے جذبات کو اندر سے دور کرے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیض عام کے ماتحت پیدا کر دے“.فرمایا ”صلوۃ کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تیرے الفاظ اور دعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک سوزش، رفت اور در د ساتھ ہو.خدا تعالیٰ کسی دعا کو نہیں سنتا جب تک دعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے.دعامانگنا ایک مشکل امر ہے اور لوگ اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں.بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں امر کے لئے دعا کی تھی مگر اس کا اثر نہ ہوا اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بدظنی کرتے ہیں اور مایوس ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں.وہ نہیں جانتے کہ جب تک دعا کے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.دعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہو اور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہو بلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعا میں لگار ہے.پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دعا قبول ہو گی“.فرمایا ”نماز بڑی اعلیٰ درجہ کی دعا ہے مگر افسوس لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہی سمجھتے ہیں کہ رسمی طور پر قیام، رکوع، سجود کر لیا اور چند فقرے طوطے کی طرح رٹ لئے ، خواہ اُسے سمجھیں یا نہ سمجھیں“.فرمایا کہ ”...یاد رکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالب حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے ( یعنی نماز جیسی نعمت کے ہوتے ہوئے ) کسی اور بدعت کی ضرورت نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی تکلیف یا ابتلا کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ہمارا اپنا اور اُن راستبازوں کا جو پہلے ہو گزرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں.جب انسان قیام کرتا ہے تو وہ ایک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے.ایک غلام جب اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ دست بستہ کھڑا ہوتا ہے.پھر رکوع بھی ادب ہے جو قیام سے بڑھ کر ہے اور سجدہ ادب کا انتہائی مقام ہے.جب انسان اپنے آپ کو فنا کی حالت میں ڈال دیتا ہے اس وقت سجدہ میں گر پڑتا ہے.افسوس اُن نادانوں اور دنیا پرستوں پر جو نماز کی ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور رکوع سجود پر اعتراض کرتے ہیں.یہ تو کمال درجہ کی خوبی کی باتیں ہیں....جب تک کہ انسان اس عالم میں سے حصہ نہ لے جس سے نماز اپنی حد تک پہنچتی ہے تب تک انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں.مگر جس شخص کا یقین خدا پر نہیں وہ نماز پر کس طرح یقین کر سکتا ہے“.( ملفوظات جلد 9 صفحہ 109-111 مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء) (ملفوظات جلد 5 صفحہ 93-94 مطبوعہ ربوہ) پھر آپ نے فرمایا ” پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح اور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھا دے.کھایا ہوا یاد رہتا ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے.اور پھر اگر کسی بد شکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اُس کے بالمقابل مجسم ہو کر
251 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سامنے آجاتی ہے.ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا.اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر ، سردی میں وضو کر کے ، خواب راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشوں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اُسے بیزاری ہے.وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اُس کو اطلاع نہیں ہے.پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو“.( ملفوظات جلد نمبر 9 صفحہ 7 مطبوعہ لندن.ایڈیشن 1984ء ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 28 مطبوعہ ربوہ) پھر 1906ء کی ایک مجلس میں آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”دعا کے معاملہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خوب مثال بیان کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک قاضی تھا جو کسی کا انصاف نہ کرتا تھا اور رات دن اپنی عیش میں مصروف رہتا تھا.ایک عورت جس کا ایک مقدمہ تھا وہ ہر وقت اُس کے دروازے پر آتی اور اُس سے انصاف چاہتی.وہ برابر ایسا کرتی رہتی یہاں تک کہ قاضی تنگ آگیا اور اُس نے بالآخر اس کا مقدمہ فیصلہ کیا اور اُس کا انصاف اُسے دیا“.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دیکھو کیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں کہ وہ تمہاری دعا سنے اور تمہیں تمہاری مراد عطا کرے.ثابت قدمی کے ساتھ دعا میں مصروف رہنا چاہئے.قبولیت کا وقت بھی ضرور آہی جائے گا.استقامت شرط ہے“.بدور اور (ملفوظات جلد نمبر 9صفحہ 41.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء)( ملفوظات جلد 5 صفحہ 45) پھر ایک جگہ آپ نے ایک مجلس میں فرمایا کہ دیکھو: ”نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود خدا تعالیٰ نے لعنت اور وکیل بھیجا ہے چہ جائیکہ اُن کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو.وَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ (الماعون : 5) خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.یہ اُن نمازیوں کے حق میں ہے جو نماز کی حقیقت سے اور اُس کے مطالب سے بے خبر ہیں.صحابہ ( رضوان اللہ علیہم ) تو خود عربی زبان رکھتے تھے اور اُس کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے واسطے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی سمجھیں اور اپنی نماز میں اس طرح حلاوت پیدا کریں.مگر ان لوگوں نے تو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ دوسرا نبی آگیا ہے اور اس نے گویا نماز کو منسوخ ہی کر دیا ہے“.( یعنی بجائے اس کے کہ نماز کو سمجھیں، صرف رسمی چیزیں رہ گئی ہیں اور نماز کو اب اس طرح بنالیا ہے جیسا کہ حکم ہی نئے آگئے ہیں اور کسی نئے نبی نے حکم دے دیئے ہیں).فرمایا: ”دیکھو ! خدا تعالیٰ کا اس میں فائدہ نہیں، بلکہ خود انسان ہی کا اس میں بھلا ہے کہ اُس کو خدا تعالیٰ کی حضوری کا موقعہ دیا جاتا ہے اور عرض معروض کرنے کی عزت عطا کی جاتی ہے جس سے یہ بہت سی مشکلات سے نجات پاسکتا ہے.میں حیران ہوں کہ وہ لوگ کیونکر زندگی بسر کرتے ہیں جن کا دن بھی گزر جاتا ہے اور رات بھی گزر جاتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ اُن کا کوئی خدا بھی ہے.یاد رکھو کہ ایسا انسان آج بھی ہلاک ہوا اور کل بھی “.فرمایا: ”میں ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں کاش لوگوں کے دل میں پڑ جاوے.دیکھو عمر گزری جارہی ہے.غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختیار کرو.اکیلے ہو ہو کر خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضی اور خوش ہو جائے“.( ملفوظات جلد نمبر 10 صفحہ 413،412 مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 661 مطبوعہ ربوہ)
252 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مارچ 1907ء کی ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو وہاں دو احباب کی آپس کی ناراضگی کا ذکر ہوا کہ اُن میں ناراضگی ہو گئی ہے.اس بارہ میں بھی آپ نے مختلف نصائح اُس مجلس میں فرمائیں اور پھر یہ بھی فرمایا کہ : ”جب تک سینہ صاف نہ ہو ، دعا قبول نہیں ہوتی.اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی“.فرمایا کہ یہ جو آپس میں لڑائیاں اور رنجشیں اور جھوٹی اناؤں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراضگیاں ہیں ان کو چھوڑ دو اور دلوں کے بغض اور کینے نکال دو.کیونکہ اگر سینے میں یہ بغض اور کینے ہیں تو فرمایا تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی.فرمایا کہ ”اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہئے اور دنیوی معاملہ کے سبب کبھی کسی کے ساتھ بغض نہیں رکھنا چاہئے.اور دنیا اور اس کا اسباب کیا ہستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے عداوت رکھو “ ( ملفوظات جلد نمبر 9 صفحہ 218-217.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء) (ملفوظات جلد 5 صفحہ 170 مطبوعہ ربوہ) آپ صبح سیر کو تشریف لے جاتے تھے.بعض احباب بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے.کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی تھی.1908ء کی ایک صبح کی سیر کا ذکر ہے.یہ لمبی گفتگو تھی اس کا ایک حصہ میں نے لیا ہے فرمایا ” بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں.ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے.چاہے جتنی نصیحت کرو مگر اُن کو اثر نہیں ہوتا.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پر واہ نہیں کرتا.دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اُس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے.پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے.جیسا کہ فرمایا.امَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ ( النمل : 63) دعا اور مضط (ملفوظات جلد نمبر 10 صفحہ 137.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984 ء) (ملفوظات جلد 5 صفحہ 455 مطبوعہ ربوہ) (کہ کون کسی کی دعا کو سنتا ہے جب وہ اُس سے دعا کرتا ہے اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے.کسی بے کس کی ر مضطر کی دعا کو وہ سنتا ہے).آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان دعاؤں کو سنتا ہے.لاہور میں ایک مجلس میں جس میں غیر احمدی احباب بھی شامل تھے آپ نے ایک لمبی تقریر فرمائی جس میں دعا کے بارہ میں فرمایا کہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے“.فرمایا ” مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا.ہاں اس میں کلام نہیں“.( اس میں کوئی شک نہیں ) " کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے.لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے.انسان کمزور ہے.جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کر سکتا.خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضعف حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء: 29).یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے.پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سر اسر خام خیالی ہے.اس کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے.دعا ایک زبر دست
خطبات مسرور جلد نهم 253 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے.کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے.جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگارہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے.ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے“.(پوری کوشش کرے اور اُس کے ساتھ دعا سے کام لے.اسباب سے کام لے.اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا، یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے.اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے.اور نرے اسباب پر گر رہنا اور دعا کو لاشیء محض سمجھنا، یہ دہریت ہے.یقینا سمجھو کہ دعابڑی دولت ہے.جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی.وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں.لیکن جو دعاؤں سے لا پروا ہے وہ شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے.وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہر گز نہیں ہے.ایک لمحے میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا.اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی.اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اُس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے.یہی دعا اُس کے لئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اُس میں لگار ہے“.اُس ( ملفوظات جلد نمبر 7 صفحہ 193-192.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 148-149) پھر ایک مجلس میں جو لاہور میں ہی تھی آپ نے فرمایا کہ ”درستی اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے“.( اپنے اخلاق درست کرو.اس کے بعد دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کرنے کی کوشش کرو.ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میٹر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں اُن سب سے الگ ہو کر ایک مصفی قطرہ کی طرح بن جاوے.جب تک یہ حالت میسر نہ ہو گی تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے.لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لئے فالمُدَتِراتِ اَمْرًا (النازعات: 6) کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے.جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لئے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کر دے گا اور رسم، عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہو گا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کر لے گا.یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کر کے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی.حالانکہ دعا کا حق تو اُن سے ادا ہی نہ ہوا تو قبول کیسے ہو ؟.اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوئی تو کیا اُس کی شکایت بجا ہو گی ؟ ہر گز نہیں.جب تک وہ پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لے گا تب تک کچھ فائدہ نہ ہو گا.یہی حال دعا کا ہے.اگر انسان لگ کر اُسے کرے اور پورے آداب سے بجالاوے.وقت بھی میتر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کو پالیوے.لیکن راستہ میں ہی چھوڑ دینے سے صدہا انسان مر گئے ( گمراہ ہو گئے) اور صدہا ابھی آئندہ مرنے کو تیار ہیں “.(اگر رستے میں چھوڑ دیں گے تو گمراہ
خطبات مسرور جلد نهم 254 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء ہونے کو تیار رہیں).فرمایا اسی طرح وہ بد اعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاؤں تک غرق ہیں اُن کے ہوتے ہوئے چند دن کی دعا کیا اثر دکھا سکتی ہے.پھر عجب، خود بینی، تکبر اور ریا وغیرہ ایسے امراض لگے ہوئے ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کر دیتے ہیں.نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اُسے قید رکھو گے تو وہ رہے گا ورنہ پرواز کر جائے گا.اور یہ بجز خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكهف: 111).عمل صالح سے یہاں یہ مراد ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو.صلاحیت ہی صلاحیت ہو.نہ تُحجب ہو ، نہ کبر ہو، نہ نخوت ہو،نہ تکبر ہو، نہ نفسانی اغراض کا حصہ ہو ، نہ رُو بخلق ہو“.(یعنی لوگوں کی طرف توجہ رہے کہ اُن سے اُمیدیں رکھیں) حتی کہ دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو.صرف خدا تعالیٰ کی محبت سے وہ عمل صادر ہو.جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھو کر کھائے گا اور اس کا نام شرک ہے.کیونکہ وہ دوستی اور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے.ایسا انسان جس دن اُس میں فرق آتا دیکھے گا اُسی دن قطع تعلق کر دے گا.جو لوگ خدا تعالیٰ سے اس لئے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلاں فلاں امور میں کامیاب ہو جاویں اُن کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرہ میں ہے.جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا.( یعنی اپنی ذاتی خواہشات کو کوئی نقصان پہنچا، نہ پوری ہوئیں) اسی دن ایمان میں فرق آجائے گا.اس لئے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا“.( خدا تعالیٰ کی عبادت اس لئے نہیں کرتا کہ یہ ہو گا تو تب میں عبادت کروں گا).( ملفوظات جلد نمبر 7 صفحہ 132-131.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 102-103) پھر 1904ء کے اگست میں لاہور کی ہی ایک مجلس ہے.یہاں آپ فرماتے ہیں کہ : ”بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ اُن کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اُس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں.اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو.بغیر اس کے یقین کامل ہر گز حاصل نہیں ہو سکتا.وہ اُس وقت حاصل ہو گا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے.گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو“.( گناہ سے بچنے کے لئے دعا کرو، ساتھ تدبیر بھی کرو.”اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے، اُن کو ترک کرو“.( یہ نوجوانوں کے لئے خاص طور پر بڑا ضروری ہے کہ تمام محفلیں، مجلسیں، دنیاوی لغویات جن سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ، اُن کو ترک کریں).اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو.اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاو قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں، جبتک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہر گز رہائی نہیں ہوتی.نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا
255 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تب تک وہ سچی نماز ہر گز نہیں ہو گی.نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہر گز نہیں.نماز وہ شئی ہے جس سے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے.جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے.اور تضرع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں.اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے.اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس امارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے.جیسے اژدہا میں ایک سم قاتل ہے، اسی طرح نفس امارہ بھی سم قاتل ہوتا ہے.اور جس نے اُسے پیدا کیا اُسی کے پاس اُس کا علاج ہے“.(یعنی خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو جتنے گناہ ہیں، جو نقصان دہ چیزیں ہیں، ان کا علاج بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو لیکن خالص ہو کر ، خود کوشش کرتے ہوئے).فرمایا کہ: ( ملفوظات جلد نمبر 7 صفحہ 123.مطبوعہ لندن.ایڈیشن 1984ء) ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 96) پھر 1904ء میں ایک مجلس میں جہاں نئے بیعت کرنے والے شامل تھے آپ نے نصیحت کرتے ہوئے دعا کے لئے انسان کو اپنے خیال اور دل کو مٹولنا چاہئے کہ آیا اُس کا میلان دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف ؟ یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لئے ہیں یا دین کی خدمت کے لئے ؟.“ ( یہ بڑی نوٹ کرنے والی چیز ہے.یہ دیکھو تمہارا میلان کس طرف ہے.دنیا کی طرف یا دین کی طرف ؟ اور اس کا معیار کیا بنایا.فرمایا کہ یہ دیکھو تم جو دعائیں کرتے ہو اُن میں زیادہ تر دعائیں تمہاری دنیاوی آسائشوں کے لئے ہیں، دنیاوی ضروریات کے لئے ہیں یا دین کے لئے ہیں، یا دین کی خدمت کے لئے).پس اگر معلوم ہو کہ اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اُسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصود نہیں تو اسے اپنی حالت پر رونا چاہئے“.( اگر صرف دنیاوی فکریں ہی ہیں اور دین اس کا مقصد نہیں ہے تو فرمایا کہ اُسے اپنی حالت پر رونا چاہئے).”بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کمر باندھ کر حصولِ دنیا کے لئے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں.دعائیں بھی مانگتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں.بعض مجنون ہو جاتے ہیں، لیکن سب کچھ دین کے لئے ہو تو خدا تعالیٰ اُن کو کبھی ضائع نہ کرے.قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے.اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اُسے لے جا کر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اسے پڑے پڑے گھن لگ جاوے گا.ایسے ہی اگر قول ہو اور اس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا.اس لئے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے“.(یعنی اعمال کی طرف بڑھنے کی کوشش کرو.ایک دانے کو اگاؤ گے تو اس میں سے پودا پھوٹ پڑے گا.رکھ دو گے تو گھن لگ جائے گا).( ملفوظات جلد نمبر 7 صفحہ 117.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 91) پھر جنوری 1908ء کی ایک مجلس میں گفتگو فرماتے ہوئے کہ حقیقی دعا کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ”دعا دو قسم ( کی) ہے.ایک تو معمولی طور سے، دوم وہ جب انسان اُسے انتہا تک پہنچا دیتا ہے.پس یہی دعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے.انسان کو چاہئے کہ کسی مشکل پڑنے کے بغیر بھی دعا کر تار ہے“.( یہ ضروری نہیں ہے کہ جب
256 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مشکلات آئیں تبھی دعائیں کرتی ہیں بلکہ عام حالات میں بھی دعا کرتارہے) کیونکہ اسے کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ کے کیا ارادے ہیں ؟ اور کل کیا ہونے والا ہے ؟ پس پہلے سے دعا کرو تا بچائے جاؤ.بعض وقت بلا اس طور پر آتی ہے کہ انسان دعا کی مہلت ہی نہیں پاتا.پس پہلے اگر دعا کر رکھی ہو تو اُس آڑے وقت میں کام آتی ہے“.( یہ ہے دعا کی اہمیت).(ملفوظات جلد نمبر 10 صفحہ 122، 123.مطبوعہ لندن ، ایڈیشن 1984ء) ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 443 مطبوعہ ربوہ) پھر اپنی ایک تقریر کے دوران آپ نے فرمایا کہ ”انسان کی ظاہری بناوٹ ، اُس کے دو ہاتھ ، دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کار ہنما ہے.جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقوى (المائدة: 3) کے معنی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے “.( یعنی انسانی جسم کے ہاتھ ہیں، پاؤں ہیں، یہ جو انسانی جسم کی بناوٹ ہے.جسم کا جو ہر عضو ہے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے ہے).تو فرمایا اسی طرح ” تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المائدة: 3) کے معنی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے.ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ تلاش اسباب بھی بذریعہ دعا کرو“.( یعنی جو دنیاوی سامان ہے اُس کی تلاش کرنی ہے تو بھی دعا کے ذریعہ کرو).”امداد باہمی میں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کر دہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تم اس سے انکار کرو.اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت اُن رسولوں کو باقی نہ رہنے دے.مگر پھر بھی ایک وقت اُن پر آتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِی إِلَى اللهِ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں.کیا وہ ایک ٹکڑ گدا فقیر کی طرح بولتے ہیں ؟ نہیں.مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللہ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے.وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں“.( انبیاء جب مَنْ أَنْصَارِی إِلَى الله (آل عمران : 53) کہ کون ہیں اللہ کے لئے میرے مدد گار ؟ کہتے ہیں.تو وہ اُن کو ضرورت نہیں ہوتی).فرمایا ”وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں“.(یہ بھی دنیا کو سکھانے کے لئے ہے جو دعا کا ایک شعبہ ہے.ور نہ اللہ تعالیٰ پر اُن کو کامل ایمان اُس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ (ہے کہ) إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (المؤمن :52) - ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے.میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد دے سکتا ہے.اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے نِعْمَ الْمَوْلَى وَ نِعْمَ الْوَكِيْل وَنِعْمَ النَّصِير.دنیا اور دنیا کی مددیں ان لوگوں کے سامنے کالمیت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں.لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں.وہ حقیقت میں اپنے کاروبار کا متولی خدا اتعالیٰ ہی کو جانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے.وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ (الاعراف: 197).اللہ تعالیٰ اُن کو مامور کر دیتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو دوسروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے.اسی لئے کہ وہ وقت نصرت الہی کا تھا، اس کو تلاش کرتے تھے کہ وہ کس کے شامل حال ہوتی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 257 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء یہ ایک بڑی غور طلب بات ہے.دراصل مامور من اللہ لوگوں سے مدد نہیں مانگتا بلکہ مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللہ کہہ کر وہ اس نصرت الہیہ کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بے قراروں کی طرح اس کی تلاش میں ہوتا ہے.نادان اور کو تاہ اندیش لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے مدد مانگتا ہے بلکہ اس طرح پر اس شان میں وہ کسی دل کے لئے جو اس نصرت کا موجب ہوتا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے.پس مامور من اللہ کی طلب امداد کا اصل ستر اور راز یہی ہے جو قیامت تک اسی طرح رہے گا.اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے امداد چاہتے ہیں مگر کیوں؟ اپنے ادائے فرض کے لئے تاکہ دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت کو قائم کریں.ورنہ یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ قریب یہ کفر پہنچ جاتی ہے اگر غیر اللہ کو متوتی قرار دیں.اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا امکان محال مطلق ہے.( ملفوظات جلد 9 صفحہ 12-14 مطبوعہ لندن 1984ء) (ملفوظات جلد 3 صفحہ 31-32 مطبوعہ ربوہ) پھر آپ فرماتے ہیں : ” دعا کی مثال ایک چشمیہ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے.وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے.جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بد معاشی میں میسر آسکتا ہے، بیچ ہے.بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الہی ہے.دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اُسے اپنی طرف کھینچتا ہے.جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو بھی اُس پر رحم آجاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کا متولی ہو جاتا ہے.اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الہی توتی کے بغیر انسانی زندگی قطعا تلخ ہو جاتی ہے.دیکھ لیجئے جب انسان حد بلوغت کو پہنچتا ہے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے تو نامر ادیوں نا کامیابیوں اور قسم قسم کے مصائب کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.وہ اُن سے بچنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتا ہے.دولت کے ذریعہ ، اپنے تعلق حکام کے ذریعہ ، قسما قسم کے حیلہ وفریب کے ذریعہ“.(جب دنیا میں مصائب شروع ہو جائیں تو وہ بچنے کے لئے کیا کرتا ہے.اگر اس کے پاس دولت ہے، پیسہ ہے، تو اس سے بچنے کے لئے اس کو استعمال کرتا ہے.اگر اُس کے بڑے افسران سے تعلقات ہیں تو ان تعلقات کو استعمال کرتا ہے یا مختلف قسم کے حیلے اور فریب، دھو کے کے ذریعہ سے، کسی نہ کسی طریقے سے) وہ بچاؤ کے راہ نکالتا ہے، لیکن مشکل ہے کہ وہ اُس میں کامیاب ہو.بعض وقت اُس کی تلخ کامیوں کا انجام خود کشی ہو جاتی ہے.اب اگر ان دنیا داروں کے عموم و ہموم اور تکالیف کا مقابلہ اہل اللہ یا انبیاء کے مصائب کے ساتھ کیا جاوے تو انبیاء علیہم السلام کے مصائب کے مقابل اول الذکر جماعت کے مصائب بالکل بیچ ہیں.لیکن یہ مصائب و شدائد اُس پاک گروہ کو رنجیدہ یا محزون نہیں کر سکتے“.( انبیاء اور اولیاء کو جو مشکلات آتی ہیں وہ انہیں رنجیدہ نہیں کرتیں، افسردہ نہیں کرتیں ان کی خوشحالی اور سرور میں فرق نہیں آتا کیونکہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ کی توتی میں پھر رہے ہیں.دیکھو اگر ایک شخص کا ایک حاکم سے تعلق ہو اور مثلاً اُس حاکم نے اُسے اطمینان بھی دیا ہو کہ وہ اپنے مصائب
258 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے وقت اس سے استعانت کر سکتا ہے تو ایسا شخص کسی ایسی تکلیف کے وقت جس کی گرہ کشائی اُس حاکم کے ہاتھ میں ہے، عام لوگوں کے مقابل کم درجہ رنجیدہ اور غمناک ہوتا ہے تو پھر وہ مومن جس کا اس قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط تعلق احکم الحاکمین سے ہو ، وہ کب مصائب و شدائد کے وقت گھبر اوے گا؟ انبیاء علیہم السلام پر جو مصیبتیں آتی ہیں اگر اُن کا عشر عشیر بھی ان کے غیر پر وارد ہو تو اس میں زندگی کی طاقت باقی نہ رہے.یہ لوگ جب دنیا میں بغرض اصلاح آتے ہیں تو اُن کی گل دنیادشمن ہو جاتی ہے.لاکھوں آدمی اُن کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں کہ لیکن یہ خطرناک دشمن بھی اُن کے اطمینان میں خلل انداز نہیں ہو سکتے.اگر ایک شخص کا ایک دشمن بھی ہو تو وہ کسی لمحہ بھی اُس کے شر سے امن میں نہیں رہتا.چہ جائیکہ ملک کا ملک اُن کا دشمن ہو اور پھر یہ لوگ با امن زندگی بسر کریں.ان تمام تلخ کامیوں کو ٹھنڈے دل سے برداشت کر لیں.یہ برداشت ہی معجزه و کرامت ہے.رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت اُن کے لاکھوں معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے.گل قوم کا ایک طرف ہونا، دولت، سلطنت، دنیوی وجاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمتہ الله، لا إلهَ إِلَّا اللهُ سے رُک جاویں.لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالت مآب کا قبول کرنا اور فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا.میں تو حکم خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرف سب تکالیف کی برداشت کرنا، یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے.یہ سب طاقت اور برداشت اُس دعا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو مومن کو خد اتعالیٰ نے عطا کی ہے.ان لوگوں کی دردناک دعا بعض وقت قاتلوں کے سفاکانہ حملہ کو توڑ دیتی ہے.حضرت عمرؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے جانا آپ لوگوں نے سنا ہو گا.ابو جہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالت مآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام واکرام کا مستحق ہو گا.حضرت عمرؓ نے مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے ابو جہل سے معاہدہ کیا اور قتل حضرت کے لئے آمادہ ہو گیا.اُس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی، دریافت پر اُسے معلوم ہوا کہ حضرت“ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) ”نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرضِ نماز آتے ہیں.یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سر شام خانہ کعبہ میں جا چھپے.آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لا الهَ اِلَّا الله کی آواز آنا شروع ہوئی.حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمد الہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمررؓ کا دل پسیج گیا.اُس کی ساری جرآت جاتی رہی اور اُس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا.نماز ختم کر کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو چلے تو اُن کے پیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آہٹ پاکر دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ اے عمر ! کیا تو میرا پیچھانہ چھوڑے گا؟ حضرت عمر بد دعا کے ڈر سے بول اُٹھے کہ حضرت! میں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا.میرے حق میں بد دعا نہ کیجئے گا.چنانچہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی“.( ملفوظات جلد نمبر 7 صفحہ 61-59.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء) (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 45 تا 47)
خطبات مسرور جلد نهم فعل پرا 259 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء دوران گفتگو مجلس میں آپ نے فرمایا کہ: "دشمن بد اندیش صرف عداوت کے سبب ہماری ہر بات اور ہر اعتراض کرتا ہے، کیونکہ اُس کا دل خراب ہے.اور جب کسی کا دل خراب ہوتا ہے تو پھر چاروں طرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے.یہ نادان کہتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہیں اور کچھ کام نہیں کرتے“.(یعنی آپ کے متعلق کہا کہ اپنی جگہ پر بیٹھا ہے کوئی کام نہیں کرتے) مگر وہ خیال نہیں کرتے کہ مسیح موعود کے متعلق کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تلوار پکڑے گا اور نہ یہ لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا بلکہ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعے سے تمام کام کرے گا.اگر میں جانتا کہ میرے باہر نکلنے سے اور شہروں میں پھرنے سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے تو میں ایک سیکنڈ بھی یہاں نہ بیٹھتا.مگر میں جانتا ہوں کہ پھرنے میں سوائے پاؤں گھسانے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہو سکیں گے.دعا میں بڑی قوتیں ہیں“.فرمایا ” کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ملک پر چڑھائی کرنے کے واسطے نکلا.راستے میں ایک فقیر نے اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا.بادشاہ حیران ہوا اور اُس سے پوچھا کہ تو ایک بے سر و سامان فقیر ہے تو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا؟ فقیر نے جواب دیا کہ میں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار سے تمہارے مقابلہ میں جنگ کروں گا.بادشاہ نے کہا، میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا.غرض دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعاہی کے ذریعہ سے ہو گا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ اُس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے.گزشتہ انبیاء کے زمانہ میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی مگر خدا جانتا ہے کہ ہم ضعیف اور کمزور ہیں.اس واسطے اُس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک ملا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا.اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان بھی مہیا ہو جاتے.جب ہماری دعائیں ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے.نادان دشمن جو سیاہ دل ہے وہ کہتا ہے کہ اُن کو سوائے سونے اور کھانے کے اور کچھ کام ہی نہیں ہے.مگر ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں.سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے“.(ملفوظات جلد نمبر 9صفحہ 28،27.مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1984ء) (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 36 مطبوعہ ربوہ ) پس یہ دعا کے مضمون کے چند نمونے ہیں جو میں نے آج آپ کے سامنے پیش کئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعاؤں کے مضمون کو سمجھنے اور اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ ہمارے پیش نظر خدا تعالیٰ کی ذات ہو ، اُس کی رضا کا حصول ہو.ہر آسائش میں بھی اور ہر مشکل میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اُس سے دعائیں مانگنے کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں.ہم اُس روح کو سمجھنے والے ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ رشتہ بیعت جوڑ کر ہم پر کیا ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں.اور یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی
260 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے کہ اب ہمارا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں اور اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں.ان دنوں میں جب مخالفین احمدیت کی طرف سے حملے شدت اختیار کر رہے ہیں، جماعت کی حفاظت کے لئے بھی بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ دشمن کا ہر شر اُس پر الٹائے اور جماعت کی ہر آن حفاظت فرمائے.اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِم - اے اللہ ! ہم ان مخالفین کے مقابلہ میں تجھے لاتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں.رَبِّ إِنِّي مَظْلُومٌ فَانْتَصِز.اے میرے رب! مجھ پر ظلم کیا گیا ہے.تو ہی انتظام لے.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِى وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي.اے میرے رب ! ہر چیز تیری خادم ہے.پس مجھے حفاظت میں رکھ.میری مدد فرما اور میری حفاظت فرما اور مجھ پر رحم فرما.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خاص دعا ہے رَبِّ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِيْنَ كم اے میرے خدا ! اسلام پر مجھے وفات دے اور نیکوکاروں کے ساتھ مجھے ملادے.ہمیشہ ہم صالحین کے ساتھ شامل ہونے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول فرمائے.ہمیں اُس طریق پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 10 جون تا 16 جون 2011 ءجلد 18 شماره 23صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 261 21 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2011ء بمطابق 27 ہجرت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: بِمَا تَعْمَلُونَ وَ اقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَبِنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَا تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُيْلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حِلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَاغُ الْمُبِينُ - وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۖ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ - وَاقِيمُوا الصَّلوةَ وَأَتُوا الزَّكَوةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (النور آیات 54 تا 57) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے.تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ.دستور کے مطابق اطاعت کرو.یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.کہہ دے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو.پس اگر تم پھر جاؤ تو اس پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے جو اُس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم پر ڈالی گئی ہے.اور اگر تم اُس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے.اور رسول پر کھول کھول کر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ ذمہ داری نہیں.تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے اُن کے دین کو ، جو اُس نے
262 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہر ائیں گے.اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں، ان میں سے ایک آیت جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور ترجمہ بھی آپ نے شنا، آیت استخلاف کہلاتی ہے.یعنی وہ آیت جس میں مومنین سے خدا تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مختلف کتب میں اس آیت کی تفصیل بیان فرمائی ہے.اور تفصیل بیان فرماتے ہوئے مختلف طریق پر اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے.لیکن اپنی ایک مختصر سی کتاب یار سالہ ”الوصیت“ میں اس حوالے سے اپنے بعد جماعت احمدیہ میں نظام خلافت جاری ہونے کی خوشخبری عطا فرمائی.یہ رسالہ آپ نے دسمبر 1905ء میں تصنیف فرمایا جس میں تقویٰ، توحید ، اپنے مقام خلافت اور قرب الہی کے حصول کے لئے جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے مالی قربانی کے جاری رکھنے کے لئے وصیت کا عظیم الہی منصوبہ بھی پیش فرمایا جو در حقیقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک ایسا نظام ہے جس کے سامنے تمام معاشی نظام بے حقیقت ہیں کیونکہ وہ تقویٰ سے عاری اور صرف چند لوگوں یا چند ظاہری پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں.بہر حال اس کی تفصیلات اور جزئیات تو بہت سی ہیں لیکن میں آپ علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں ، جو آپ نے اس رسالہ میں بیان فرمائے تھے ، کچھ اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا.وصیت کا نظام تو جیسا کہ میں نے کہا کہ 1905ء میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی، اس وقت سے جاری ہو گیا تھا.لیکن آیت استخلاف کے حوالے سے جو بات آپ علیہ السلام نے اس کتاب میں بیان فرمائی ہے یعنی خلافتِ احمد یہ.وہ اس رسالے کے لکھے جانے کے تین سال بعد آج سے ایک سو تین سال پہلے آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد آج کے روز 27 مئی 1908ء کو جاری ہوئی.اور یہ نظام خلافت وہ نظام ہے جو چودہ سو سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے.لیکن اس سے پہلے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ آپ کے سامنے رکھوں یا اقتباسات پیش کروں، ان آیات کی مختصر وضاحت پیش کروں گا تا کہ نظام خلافت سے متعلقہ قرآنی احکام بھی سامنے رہیں.ان آیات میں اللہ اور رسول کو ماننے والوں کے لئے اور خلفاء کی بیعت کرنے والوں کے لئے بھی ایک مکمل لائحہ عمل سامنے رکھ دیا ہے.اور پہلی بات اور بنیادی بات یہ بیان فرمائی کہ اطاعت کیا چیز ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے ؟ اطاعت کا معیار یہ نہیں ہے کہ صرف قسمیں کھا لو کہ جب موقع آئے گا تو ہم دشمن کے خلاف ہر طرح لڑنے کے لئے تیار ہیں.صرف قسمیں کام نہیں آتیں.جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے
263 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں.کامل اطاعت دکھاؤ گے تو سبھی سمجھا جائے گا کہ یہ دعوے کہ ہم ہر طرح سے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں حقیقی دعوے ہیں.اگر اُن احکامات کی پابندی نہیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے دیئے ہیں تو بسا اوقات بڑے بڑے دعوے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں.پس اصل چیز اس پہلو سے کامل اطاعت کا عملی اظہار ہے.اگر یہ عملی اظہار نہیں اور بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات جو ہیں اُن میں بھی عملی اظہار نہیں تو پھر دعوے فضول ہیں.اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ کہہ کر یہ واضح فرما دیا کہ انسانوں کو دھو کہ دیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے، ہر مخفی اور ظاہر عمل اُس کے سامنے ہے، اس لئے اُس کو دھو کہ نہیں دیا جا سکتا.پس ہمیشہ یہ سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے.اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اور جب ایک انسان کو اس بات پر یقین قائم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دیکھ رہا ہے تو پھر صرف سمیں ہی نہیں رہتیں بلکہ دستور کے مطابق اطاعت کا اظہار ہوتا ہے.ہر معروف فیصلے کی کامل اطاعت کے ساتھ تعمیل ہوتی ہے.اللہ اور رسول کی اطاعت بجالانے کے لئے انسان حریص رہتا ہے.اُس کے لئے کوشش کرتا ہے.اَطِیعُوا اللهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ کے ساتھ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم بھی یعنی امیر اور نظام جماعت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے.خلیفہ وقت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو یہ کامل اطاعت نہیں دکھاتے اور اپنی مرضی کرتے ہیں، فرماتا ہے کہ تمہارے ان احکامات پر عمل نہ کرنے اور پھر جانے کا گناہ جو ہے، یہ بار جو ہے یہ تم پر ہے اور تمہی اس کے بارے میں پوچھے جاؤ گے.رسول سے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا.اللہ کے رسول پر اس کی ذمہ داری نہیں ہو گی.جو احکام شریعت تھے وہ اللہ کے رسول نے پہنچا دیئے اور پھر رسول کی اتباع میں خلیفہ وقت نے اللہ اور رسول کے احکام پہنچا دیئے.پس نصیحت کرنے والے، شریعت کے احکام دینے والوں نے تو اپنا کام کر دیا.اُن پر عمل نہ کر کے عمل نہ کرنے والے جوابدہ ہیں.یہاں جو میں رسول کے ساتھ خلیفہ کی بات بھی جوڑ رہا ہوں تو ایک تو میں نے بتایا ہے قرآنِ کریم میں اُولی الْأَمْرِ مِنْكُم آتا ہے.دوسرے خلافت راشدہ جو ہے وہ رسول کے کام کو ہی آگے بڑھانے کے لئے آتی ہے اور یہی نبوت کا تسلسل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ میری سنت پر چلنا اور پھر خلفاء راشدین کے طریق پر چلنا.یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ خلفاء راشدین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور سنت اور شریعت کو لے کر ہی آگے بڑھنے والے ہیں.یہ جو حدیث ہے یہ پوری اس طرح ہے.حضرت عبدالرحمن بن عمر و سلمی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا پُر اثر وعظ کیا کہ جس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہ پڑے، دل ڈر گئے.ہم نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول! یہ تو ایسی نصیحت ہے جیسے ایک الوداع کہنے والا وصیت کرتا ہے.ہمیں کوئی ایسی ہدایت فرمائیے کہ ہم صراطِ مستقیم پر قائم رہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں تمہیں روشن اور چمکدار راستے پر چھوڑے جا رہا ہوں.اس کی رات بھی اُس کے دن کی طرح ہے.سوائے بد بخت
264 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے اس سے کوئی بھٹک نہیں سکتا.یعنی یہ بڑے واضح راستے ہیں.اور تم میں سے جو شخص رہا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا.(ساتھ انذار بھی کر دیا کہ باوجود ان واضح راستوں کے اختلافات پیدا ہو جائیں گے.) ایسے حالات میں تمہیں میری جانی پہچانی سنت پر چلنا چاہتے اور خلفاء راشدین مہدین کی سنت پر چلنا چاہئے.تم اطاعت کو اپنا شعار بناؤ خواہ حبشی غلام ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے.اس دین کو تم مضبوطی سے پکڑو.مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے.جدھر اُسے لے جاؤ وہ اُدھر چل پڑتا ہے اور اطاعت کا عادی ہوتا ہے.(سنن ابن ماجه باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين حديث: 43) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اطاعت ہے یہ تمہارے لئے ضروری ہے.وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا.کہ اگر تم اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور ہدایت پاتے رہو گے.اس کے بعد خد اتعالیٰ نے خلافت سے متعلق احکام دیئے جو آیت استخلاف میں درج ہیں.اللہ فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ.کہ اللہ تعالیٰ کا اُن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے.ایمان اور عمل صالح کا معیار جو ہے وہ پہلی آیت میں بیان فرما دیا کہ کامل اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھو، تبھی حقیقی مومن کہلاؤ گے.کامل اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھ کر سبھی نیک اعمال بجالانے کی طرف بڑھنے والے ہو گے.اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا تو پھر خلافت کی نعمت سے فیض پاؤ گے ورنہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ضرور مسلمانوں میں خلافت جاری رہے گی بلکہ وعدہ فرمایا ہے جو بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اُن میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کامل اطاعت ہو.پہلی خلافتِ راشدہ کا تسلسل تبھی ٹوٹا تھا کہ مسلمان اطاعت سے باہر ہوئے.مسلمان حقیقی خلافت سے اُس وقت محروم کئے گئے جب وہ اطاعت سے باہر ہوئے.اطاعت سے باہر نکل کر بعض گروہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم اپنی بیعت کو بعض شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں جن میں ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینا تھا یا بعض فتنہ پر دازوں کی باتوں میں آکر اطاعت سے باہر نکلنے والے بنے.باوجود اس کے کہ اُس وقت صحابہ بھی موجود تھے لیکن جب کامل اطاعت سے باہر نکلے تو خلافت سے محروم کر دیئے گئے.اور کیونکہ خلیفہ بنانے کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو پھر اختلافات کے بعد ، اطاعت سے نکلنے کے بعد خلیفہ بنے یا بنانے کی ان کی سب کو ششیں ناکام ہو گئیں.اور خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کرلی.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جس طرح نظام خلافت پہلے اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا تھا اس طرح جاری کرے گا، تو اللہ تعالیٰ نے پہلا نظام خلافت نبوت کی صورت میں جاری فرمایا تھا.اور پہلی قوموں میں نبی خو د خد اتعالیٰ بھیجتا تھا.اب کیونکہ شریعت کا مل ہو گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تا قیامت شرعی نبی ہیں اس لئے خلافت راشدہ کا اجراء فرما دیا جس کا ظاہری طور پر چناؤ کا طریق تو بیشک لوگوں کے ہاتھ میں رکھا لیکن اپنی فعلی شہادت اور تائیدات سے اللہ تعالیٰ نے اس خلافت کو اپنی پسند کی طرف منسوب فرمایا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے کیونکہ آخری غلبہ اور کامل شریعت اسلام کے ذریعے سے ہی قائم فرمانی تھی اس لئے یہ پیشگوئی بھی فرما دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم
265 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کی غلامی میں ایک نبی مبعوث ہو گا جس کی تفصیل وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَنَا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: 4).میں بیان فرما دی اور جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر فرما دی کہ میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں.(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال حديث 4324 مطبع المعارف للنشر والتوضيح طبع اوّل) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسیح و مہدی بھی ہیں، نبی بھی ہیں اور خاتم الخلفاء بھی ہیں.اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال کے بعد مومنین کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے پھر اس خلیفہ کو بھیجا جو امتی ہونے کی وجہ سے نبوت کا اعزاز پا کر پھر خلافت جاری کرنے کا ذریعہ بن گیا.اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک دین اسلام تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے لیکن خوف کو امن کی حالت میں بدلنے کے لئے کامل اطاعت کے ساتھ اور خلافت کے نظام کے ساتھ جڑ کر ہی تم اس کا حقیقی فیض حاصل کر سکو گے اور یہ ضروری ہے.اور جو اس نظام سے جڑے رہیں گے اُن کے حق میں اس کے ذریعے سے ہر خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی اور اُن خلفاء کے ذریعے سے ہی غلبہ اسلام کے دن بھی قریب آتے چلے جائیں گے.لیکن یہاں یہ فرما دیا کہ خلیفہ وقت اور خلافت سے منسلک ہونے والوں کا یہ کام ہے اور اُن کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خالص ہو کر توجہ دینے والے بنیں.نمازوں کا قیام اور توحید خالص کا قیام اور اس کے لئے کوشش اُن کو خلافت کے انعام سے فیضیاب کرتی رہے گی.اُن کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنے گا.اُن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا.اپنے انعامات سے انہیں نوازے گا.لیکن جو یہ سب دیکھ کر پھر بھی خلافت حقہ کے ساتھ منسلک نہیں ہوں گے ، فرمایا وہ نا فرمان ہیں.اُن کی نافرمانی کی سزا ملے گی.وہ ان انعامات سے محروم ہوں گے جو مومنین کے ساتھ وابستہ ہیں.میں اکثر کہا کرتا ہوں اور آج آپ عامتہ المسلمین کو دیکھ لیں کہ بے چینیوں نے انہیں گھیر اہوا ہے اور غیر وں کے دباؤ میں آکر اتنی بے حسی طاری ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کو مروانے کے لئے مسلمان خود غیر وں کی مدد حاصل کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ امت کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.پھر اس تسلسل میں جو آخری آیت میں نے پڑھی ہے، اس میں پھر تین باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نماز کا قیام ، زکوۃ کی ادائیگی اور کامل اطاعت تا کہ اللہ تعالیٰ رحم فرماتے ہوئے اپنے انعام جاری رکھے.پس اللہ تعالیٰ نے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو اپنے انعام کا سلسلہ جاری فرمایا ہے ، اس سے فیض پانے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کا وعدہ کامل اطاعت کرنے والوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں.کیونکہ کامل اطاعت کرنے والا وہی ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے اور اُس کی عبادت کرنے والا ہو.اور عبادت کرنے کے لئے بہترین ذریعہ جو ہمیں بتایا گیا وہ نمازوں کا قیام ہے.پس الہی جماعت کا حقیقی حصہ وہی بن سکتا ہے جو نمازوں کے قیام کی بھر پور کوشش کرتا ہو.نمازوں کے قیام کی ایک بڑی اعلیٰ تشریح اور وضاحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح فرمائی ہے کہ صلوۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں امام خطبہ پڑھتا ہے اور نصائح کرتا ہے.اور خلیفہ وقت دنیا
266 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کی مختلف قوموں کی وقتاً فوقتاً اُٹھتی ہوئی اور پیدا ہوتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر نصائح کرتا ہے جس سے قومی وحدت اور یکجہتی پید اہوتی ہے.سب کا قبلہ ایک طرف رکھتا ہے.آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل تصویر ہمارے سامنے ہے.اور جماعت احمدیہ میں یہ تصویر ہمیں نظر آتی ہے.جبکہ خلیفہ وقت کا خطبہ بیک وقت دنیا کے تمام کونوں میں سنا جار ہا ہوتا ہے.اور مختلف مزاج اور ضروریات کے مطابق بات ہوتی ہے.میں جب خطبہ دیتا ہوں، جب نوٹس لیتا ہوں تو اُس وقت صرف آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، وہی مد نظر نہیں ہوتے.بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی جو مجھے رپورٹس آتی ہیں اُن کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی زیادہ زور یورپ کے حالات کے مطابق خطبہ میں ہو.کبھی ایشیا کے کسی ملک کے حالات کے مطابق ہو یا عمومی طور پر اُن کے حالات کے مطابق ہو.کبھی افریقہ کے مطابق ہو.کبھی جزائر کے مطابق ہو.لیکن اسلام چونکہ ایک بین الا قوامی مذہب ہے اس لئے ہر بات جو بیان ہو رہی ہوتی ہے وہ ہر ملک اور ہر طبقے کے احمدیوں کے لئے نصیحت کا رنگ رکھتی ہے.چاہے کسی کو بھی مد نظر رکھ کر بات کی جارہی ہو کچھ نہ کچھ پہلو ان کے اپنے بھی اس میں موجود ہوتے ہیں.مجھے خطبے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک سے خط بھی آتے ہیں، روس کی ریاستوں کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں، افریقہ کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور دوسرے ممالک کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور یہ اظہار ہوتا ہے کہ یوں لگتا ہے یہ خطبہ جیسے ہمارے لئے ہے.بہر حال اقامت صلوۃ کی ایک تشریح یہ بھی ہے جو خلافت کے ذریعہ سے آج دنیائے احمدیت میں جاری ہے.پھر ز کوۃ کی ادائیگی ہے یا تزکیہ اموال ہے، جس میں زکوۃ بھی ہے اور باقی مالی قربانیاں بھی ہیں.یہ بھی آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے سے ہی جاری ہے اور خلیفہ وقت کی ہدایت کے ماتحت دنیا میں چندے کے نظام کے ذریعے سے افراد جماعت اور جماعتوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں.ایک ملک میں اگر کمی ہے تو دوسرے ملک کی مدد سے اُس کمی کو پورا کیا جاتا ہے.ایک جگہ اگر زیادہ مالی کشائش ہے تو غریب ملکوں کی تبلیغ کی، اشاعت لٹریچر کی، مساجد کی تعمیر کی جو ضروریات ہیں وہ اور مختلف طریقوں سے پوری کی جاتی ہیں.تو یہ ایک نظام ہے جو خلیفہ وقت کے تحت چل رہا ہوتا ہے.کہیں غریبوں کی ضروریات پوری ہو ر ہی ہوتی ہیں.کہیں طبی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں.کہیں تعلیمی ضروریات پوری کی جارہی ہوتی ہیں.کہیں تبلیغ اسلام کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نظام وصیت اور نظام خلافت کو اکٹھا بیان فرمایا ہے تو اس میں ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے.اور پھر لوگ جو چندہ دیتے ہیں وہ خلافت کے نظام کی وجہ سے اس اعتماد پر بھی قائم ہیں کہ اُن کا چندہ فضولیات میں ضائع نہیں ہو گا بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے استعمال ہو گا.بلکہ غیر از جماعت بھی یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ اگر ہم زکوۃ احمدیوں کو دیں تو اس کا صحیح مصرف ہو گا.گھانا میں مجھے کئی لوگ
267 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اپنی فصلوں کی زکوۃ دے کر جایا کرتے تھے کہ آپ صحیح استعمال کریں گے یاوہاں مشن میں جمع کرا دیا کرتے تھے.کئی زمیندار میرے واقف تھے وہ جنس کی صورت میں مجھے دے جایا کرتے تھے کہ آپ جمع کروادیں.کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ہم اگر یہ زکوۃ اپنے مولویوں کو دیں گے، اماموں کو دیں گے تو وہ کھا جائیں گے اور اس کا صحیح استعمال نہیں ہو گا.بلکہ آج بھی مختلف جگہوں سے مجھے جماعتوں کی طرف سے یہ خط آتے ہیں کہ غیر از جماعت زکوۃ یا صدقہ دینا چاہتے ہیں تو اس بارے میں کیا ہدایت ہے.جہاں تک زکوۃ اور صدقات کا تعلق ہے جماعت اُن کو لے سکتی ہے اور لیتی ہے لیکن دوسرے طوعی اور لازمی چندے جو ہیں وہ صرف احمدیوں سے لئے جاتے ہیں.بہر حال زکوۃ کا نظام بھی خلافت کے نظام سے وابستہ ہے.آخر پر اس میں پھر اطاعت کا مضمون بیان کیا گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے حقیقی تعلق اور اُس کے نتیجے میں خلافت سے تعلق کا نقطہ اور محور کامل اطاعت ہے، جب یہ ہو گی تو مومن انعامات کا وارث بنتا چلا جائے گا.اب میں رسالہ الوصیت کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس پیشگوئی کا اعلان فرمارہے ہیں کہ یہاں یہ وعدہ بھی ہے اور پیشگوئی بھی کہ آپ کی وفات قریب ہے.ایک پیشگوئی تھی کہ آپ کی وفات قریب ہے.آپ کو اطلاع دی جارہی تھی اور ساتھ یہ پیشگوئی تھی اور اطلاع کے ساتھ وعدہ کیا جارہا تھا کہ وفات کا وقت تو قریب ہے لیکن ہم ایسے تمام اعتراض ڈور اور دفع کر دیں گے جن سے آپ علیہ السلام کی رسوائی مطلوب ہو.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تجھ سے راضی ہوں گا.پھر فرمایا کھلے کھلے نشان تیری تصدیق کے لئے ہمیشہ موجود رکھیں گے.دنیا نے دیکھا کہ آپ کی رسوائی کے جو طلبگار تھے اور کوشش کرنے والے تھے وہ رسوا ہوئے.اُن کا نام و نشان دنیا سے مٹ گیا.آج اُن کو یاد کرنے والا کوئی نہیں.گالیاں دینے والے، الزام لگانے والے مر کھپ گئے لیکن آپ کی جماعت دنیا میں پھیلتی چلی جارہی ہے.نشانات کا جو سلسلہ آپ کی زندگی میں شروع ہوا تھا آج بھی جاری ہے.لاکھوں بیعتیں جو ہر سال ہوتی ہیں اُن میں سے اکثر خدا تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ملنے پر ہوتی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشانات ہیں.پس یہ خدا تعالیٰ کی تائیدات ہیں جو آپ کی صداقت کا ثبوت ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ: خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی.کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی.اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا.کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد “.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 303-304) پس یہ وعدہ ہم آج تک پورا ہو تا دیکھ رہے ہیں.یہ پیشگوئی ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں.آفات کا زور بھی اب زیادہ ہو تا چلا جارہا ہے.روزانہ خبروں میں کسی نہ کسی ملک میں قدرتی آفات کی خبر ہوتی ہے.کوئی نہ کوئی ملک قدرتی آفات کا نشانہ بن رہا ہوتا ہے.ان آفات کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیشگوئی فرما چکے ہیں کہ یہ آئیں گی.کیا یہ باتیں عقل رکھنے والوں کے لئے کافی نہیں.سوچیں کہ ایک دعویدار نے خدا تعالیٰ سے
خطبات مسرور جلد نهم 268 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خبر پا کر یہ اطلاع دی کہ اس طرح آفات آئیں گی، زلازل آئیں گے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کی آفات نے دنیا کو گھیر ا ہوا ہے.آج اُن لوگوں کو جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کرنے والے ہیں چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے اس فرستادہ کی باتوں پر غور کریں.پھر اُن لوگوں کے لئے یہ خاص طور پر سوچنے کا مقام ہے جو ہر وقت جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں کہ باوجود اُن کی تمام تر کوششوں کے جماعت کا ہر قدم ہر لمحے ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے.کیا یہ کسی انسان کا کام ہو سکتا ہے کہ اس طرح ترقی ہو رہی ہے اور لوگوں کے دلوں پر اثر ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو دلوں کو زمانے کے امام کی طرف پھیر رہا ہے.آخر کب تک یہ لوگ خد اتعالیٰ سے لڑیں گے.سوائے اس کے کہ اپنی دنیا و عاقبت خراب کریں ان کو کچھ حاصل نہیں ہو گا.بڑے واضح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرما چکے ہیں.تمہاری آنکھیں گل جائیں، تمہارے ناک زمین پر رگڑ رگڑ کر گل جائیں تب بھی تم میر اکچھ نہیں بگاڑ سکتے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے كتَبَ اللهُ لاغلبنَ آنَا وَرُسُلى (المجادلة: 22) - اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے.اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا، بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو جنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے.اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسر ا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں“.(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 304) اور پھر آگے اپنی تحریر میں اللہ تعالیٰ کی اس دوسری قدرت کے بارے میں فرمایا کہ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے.(ماخوذ از رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305) آج جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے، جو پیشگوئی فرمائی ہے، جس کا اعلان زمانے کے امام کے ذریعہ سے کروایا وہ ہر آن اور ہر لمحہ ایک نئی شان سے پورا ہو رہا ہے.چاہے وہ خلافتِ اولیٰ کا دور تھا جس میں بیرونی مخالفتوں کے علاوہ اندرونی فتنوں نے بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا.یا خلافت ثانیہ کا دور تھا جس میں انتخاب خلافت سے لے کر تقریباً آخر تک جو خلافت ثانیہ کا زمانہ تھا، مختلف فتنے اندرونی طور پر بھی اُٹھتے رہے.جماعت کا ایک حصہ علیحدہ بھی ہوا.پھر بیرونی مخالفتوں نے بھی شدید حملوں کی صورت اختیار کر لی لیکن جماعت کی ترقی کے قدم نہیں رُکے.پھر خلافت ثالثہ میں بھی بیرونی حملوں کی شدت اور بعض اندرونی فتنوں نے سر اُٹھایا لیکن جماعت ترقی کرتی چلی گئی.اور جماعت کو خلافت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے ہی بڑھاتی رہی.
خطبات مسرور جلد نهم 269 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء پھر خلافت رابعہ کا دور آیا تو دشمن نے ایسا بھر پور وار کیا کہ اُس کے خیال میں اُس نے جماعت کو ختم کرنے کے لئے ایسا پکا ہاتھ ڈالا تھا کہ اس سے بچنانا ممکن تھا، کوئی راہ فرار نہیں تھی.لیکن پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ اپنی شان کے ساتھ پورے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور ظاہر کہ ہر کرے گا اور وہ ہوئی.اور اُس زبر دست قدرت نے اُن مخالفین کی خاک اُڑا دی.پھر خلافت خامسہ کا دور ہے.اس میں بھی حسد کی آگ اور مخالفت نے شدت اختیار کرلی.کمزور اور نہتے احمدیوں پر ظالمانہ حملے کر کے خون کی ایسی ظالمانہ ہولی کھیلی گئی جنہیں دیکھ کر یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ انسانوں کا کام ہے یا جانوروں سے بھی بد تر کسی مخلوق کا کام ہے.پھر اندرونی طور پر جماعت کے ہمدرد بن کر جماعت کے اندر افتراق پیدا کرنے کی بھی بعض جگہ کوششیں ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت کی زبر دست قدرت اس کا مقابلہ کرتی رہی اور کر رہی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا مقابلہ کر رہا ہے.میں تو ایک کمزور ناکارہ انسان ہوں.میری کوئی حیثیت نہیں لیکن خلافتِ احمدیہ کو اُس خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے جو قادر و توانا اور سب طاقتوں کا سر چشمہ ہے.اور اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی وعدہ کیا ہے کہ میں زبر دست قدرت دکھاؤں گا.اور وہ دکھا رہا ہے اور دکھائے گا.اور دشمن ہمیشہ اپنی چالا کیوں، اپنی ہو شیاریوں، اپنے حملوں میں خائب و خاسر ہو تا چلا جائے گا اور ہو رہا ہے.آج کل دشمن نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لئے الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ کے جو بھی مختلف ذرائع ہیں ، اُن کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے.تو خلافت کی رہنمائی میں دنیا کے ہر ملک میں اللہ تعالیٰ نے نوجوانوں کی ایک ایسی فوج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرما دی ہے جو حضرت طلحہ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں.بلکہ ایسے ایسے جواب دے رہے ہیں کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد دل میں پیدا ہوتی ہے اور اُس کے وعدوں پر یقین اور ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے.قدرتِ ثانیہ کے جاری رہنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں تسلی دلاتے ہوئے پھر فرماتے ہیں کہ : ”سواے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدر تیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو “ یعنی اپنی وفات کی اطلاع دی تھی ”اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا تعالیٰ کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیر وہیں قیامت تک دوسروں پر
خطبات مسرور جلد نهم 270 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خد ا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی“.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 305-306) پس خلافت احمدیہ کا وعدہ دائمی ہے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ہے.جو نظام خلافت سے جڑے رہیں گے ، اپنی کامل اطاعت کا اظہار کرتے رہیں گے ، خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھیں گے وہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوتا دیکھتے رہیں گے.دشمن اور بد فطرت انسانوں کی آنکھیں تو اندھی ہیں جو انہیں خدا تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے نظر نہیں آتے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم تو ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھ رہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہماری نسبت جو وعدہ فرمایا ہے اُس کی نئی شان ہمیں ہر روز نظر آتی ہے.دشمن کا زیادتی پر اتر آنا اور نہتوں پر ہتھیاروں سے حملے کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کے پاس دلیل مقابلہ کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے.اور جماعت احمدیہ کا دلائل سے لوگوں کا منہ بند کرنا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے کی بھی دلیل ہے.اُس نے فرمایا کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.یہ غلبہ ان دلائل سے ہے جن کے رڈ کرنے کی کسی مخالف میں طاقت نہیں ہے.پھر خلافت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے دوبارہ آپ نے قدرتِ ثانیہ کا آنا بیان فرما کر اس کے قائم ہونے کا طریق بتایا ہے.فرمایا کہ: میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجو د ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دُعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائیگی“.فرمایا اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.اور جب تک کوئی خدا سے رُوح القدس پاکر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام (رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 306-307) کرو“.پس اس میں اپنے وصال کے بعد خلیفہ کے انتخاب تک اور ہر خلیفہ کے بعد اگلے خلیفہ کے انتخاب تک کا عرصہ بیان کر کے اس بات کی تلقین کی کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہے، یہ جو چند دن، ایک دو دن بیچ میں وقفہ ہو ، اس
271 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم میں بگڑ نہ جانا.اگر دوسری قدرت کا فیض پانا ہے تو پھر اس عرصے میں اکٹھے رہو ، دعائیں کرتے رہو اور خلیفہ کو منتخب کرو.اس بات سے یہ غلطی نہیں لگنی چاہئے کہ آپ نے فرمایا کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر لوگوں سے بیعت لیں.گو یا خلافت ایک شخص سے وابستہ نہیں بلکہ افراد کے مجموعے سے وابستہ ہے.اس کو بہانہ بناکر غیر مبائعین انجمن کو بالا سمجھنے لگ گئے تھے جبکہ اس کی وضاحت آپ علیہ السلام نے اسی کے حاشیہ میں فرما دی ہے کہ ”ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہو گا“.فرمایا کہ ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہو گا.” پس جس شخص کی نسبت“ یہاں پھر واحد کا صیغہ آگیا) ”جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا“.( یہاں جمع نہیں آئی.پھر آگے ہے کہ وہ شخص بیعت لے گا) اور چاہئے کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کے لئے نمونہ بناوے“.کسی انجمن کے نمونہ بنانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ وہ شخص نمونہ بنے.(رساله الوصیت ، روحانی خزائن جلد نمبر 20 ، صفحہ 306 حاشیہ ) پس جہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا وہاں کوئی انجمن نہیں ہے بلکہ خلفاء کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو آئندہ آنے والے خلفاء ہیں وہ یہ بیعت لیں گے.پھر اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے جماعتی نظام میں انتخاب خلافت کے لئے انتخاب خلافت کی ایک مجلس قائم ہے جس کے تحت خلافت ثانیہ کے بعد اب تک انتخاب خلافت عمل میں آتا ہے.اب اگر یہ سوال ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ کا ہے ؟ تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اور تائیدات اور افراد جماعت کے رویائے صالحہ جو مختلف افراد کو اللہ تعالی دکھاتا ہے وہ کافی ہیں.پھر خلیفہ وقت کے حکموں پر عمل کرنا اور دل سے عمل کرنا، اور دلوں کا خلیفہ وقت کی تائید میں پھر نا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی دلیل ہیں.پہلے میں اس ضمن میں مثالیں بھی دے آیا ہوں کہ دشمن کی کیا کوشش رہی ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کی زبر دست قدرت نے کیا نشان دکھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رسالے میں مزید نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے رُوح القدس سے حصہ لو کہ بجز رُوح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی.اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کیلئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کیلئے تلخی کی زندگی اختیار کرو.وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے.اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے.اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر ، اپنی لذات چھوڑ کر ، اپنی عزت چھوڑ کر ، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اُٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے
خطبات مسرور جلد نهم 272 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء پیش کرتی ہے.لیکن اگر تم تلفنی اُٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں.اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.“ (رساله الوصیت ، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 307) پھر آپ نے فرمایا: یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دیگا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوئی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بد بختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہو تاتو اس کیلئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ، ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.“ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 309) اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمدیہ میں دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جارہے ہیں، اور اللہ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں اُن کو ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.احمدی کس جرآت سے اور کس قربانی کے جذبے سے اور کس ہمت سے جانی قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں اور مالی قربانیاں بھی پیش کرتے چلے جارہے ہیں.لیکن یہ جو آپ کے اقتباسات ہیں، ان میں بعض انذار بھی ہیں اور خوشخبریاں بھی ہیں جو آپ نے خلافت اور جماعت سے منسلک رہنے والوں کو دی ہیں.پس ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ ان خوشخبریوں سے حصہ پانے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کے وعدے سے فیض اُٹھانے کے لئے خدا کی عظمت دلوں میں بٹھانے والے بنیں.عملی طور پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اظہار کرنے والے ہوں.بنی نوع سے سچی ہمدردی کرنے والے ہوں.دلوں کو بعضوں اور کینوں سے پاک کرنے والے ہوں.ہر ایک نیکی کی راہ پر قدم مارنے والے ہوں.اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنے والے ہوں.کامل اطاعت کا نمونہ دکھانے والے ہوں.ایمان میں ترقی کرتے چلے جانے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے قدم صدق کے قدم شمار ہوں اور ہم اُس کے وعدوں سے فیض پانے والے بنیں.اس کتاب ”رسالہ الوصیت“ کے آخر میں آپ نے اُن تقویٰ شعار لوگوں اور ایمان میں بڑھنے والوں
273 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مئی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے لئے جنہوں نے اعلیٰ ترین معیار کے حصول کے لئے کوشش کی اور اُس مالی نظام کا حصہ بنے جو آپ نے جاری فرمایا تھا، اور جس کا اعلان آپ نے فرمایا تھا کہ جو اپنی آمد اور جائیدادوں کی وصیت کریں گے ، اس سے ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن اور کتب دینیہ اور سلسلہ کے واعظوں کے لئے خرچ ہوں گے.آپ نے فرمایا ان اموال میں سے ان خرچوں کے علاوہ ان یتیموں اور مسکینوں اور نو مسلموں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں“.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 319) آپ نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے یہ اموال جمع ہوں گے اور کام جاری ہوں گے کیونکہ یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.آپ نے ایسے لوگوں کو جو اس وصیت کے نظام میں شامل ہوں گے اور دین اور مخلوق کی مالی اعانت کریں گے ، دعاؤں سے بھی نوازا.یہ وصیت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مقبرہ موصیان یا بہشتی مقبرے میں دفن ہوں گے فرمایا: ”اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور و رحیم! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجالاتے ہیں.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 317) پس جو لوگ نظام وصیت میں شامل ہیں اُن کے ایمان، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں.انہوں نے ایک عہد کیا ہے.اس لئے وصیت کرنے کے بعد پھر تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش بھی پہلے سے زیادہ ہونی چاہئے.خلافت سے وفا کا تعلق بھی پہلے سے بڑھ کر ہونا چاہئے.خدا تعالیٰ ہر احمدی کو اس میں ترقی کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتار ہے.نظام خلافت کے الہی وعدوں سے فیض پانے کی ہر احمدی کو توفیق ملتی رہے تا کہ یہ نظام ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس سے فیض پاتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 17 جون تا 23 جون 2011 ، جلد 18 شماره 24 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 274 22 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03جون 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جون 2011ء بمطابق 03 احسان 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ غلام صادق ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے دنیا میں بھیجا.آپ کا جو کچھ بھی ہے وہ آپ کا نہیں بلکہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.اور جو کچھ بھی آپ نے فیض پایا آپ کی غلامی سے پایا.آپ ایک جگہ "رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں کہ : نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے.“ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 311) پس آپ نے یہ فیض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیروی کی وجہ سے اس مقام تک پہنچایا جو نبوت کا مقام ہے.لیکن آپ نے فرمایا کہ صرف کامل پیروی بھی کافی نہیں ہے یا کامل پیروی کی وجہ سے انسان نبی نہیں بن جاتا کیونکہ اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے.ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ جب جمع ہوتے ہیں، دونوں کا اجتماع جو ہے ، اس پر وہ صادق آسکتی ہے، کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں بلکہ نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ ظاہر ہوتی ہے.پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کی وجہ سے اور آپ کی کامل پیروی اور عشق کی وجہ سے نبوت کا مقام اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا.یعنی نبوت کا مقام امتی ہونے کی وجہ سے ملا اور اس عشق کی وجہ سے ملا.اُمتی ہونا ایک لازمی شرط ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات سے نواز کر آپ کے حق میں نشان دکھا کر ایک دنیا کی توجہ آپ کی طرف پھیری اور یہ سلسلہ جو آپ کے دعویٰ سے شروع ہوا آج تک چل رہا ہے اور نیک طبع اس جاری فیض سے فیض پارہے ہیں اور آپ کی بنائی ہوئی جماعت میں، آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار ہو رہے ہیں.لیکن یہاں بھی اپنے آقا کی پیروی میں جو فیض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حاصل ہوا، اُس سے وہی فائدہ اُٹھارہا ہے جو آپ کے بعد اللہ تعالیٰ
275 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سے تائید یافتہ آپ کی خلافت سے منسلک ہے.آج بھی اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو آپ کی صداقت کے بارے میں رہنمائی فرماتا ہے، فرمارہا ہے اور اس رہنمائی کی وجہ سے لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں.اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ آپ کے بعد آپ کی خلافت بھی بر حق ہے، ان لوگوں کو رویائے صادقہ کے ذریعہ سے آپ کے ساتھ آپ کے خلفاء کو بھی دکھا دیتا ہے جس سے اُن کا ایمان اور تازہ ہوتا ہے.اس وقت میں چند واقعات پیش کروں گا جو اُن لوگوں کے ہیں جو رڈیا کے ذریعے سے جماعت میں شامل ہوئے دنیا کے مختلف کونوں کے لوگ، دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگ، مختلف رنگ کے لوگ، مختلف نسل کے لوگ.گیمبیا کے ایک صاحب ہیں، وہاں کے Wellingara گاؤں کے ہیں، Modou Nijie صاحب.اُن کا جماعت سے رابطہ 2003ء کے آخر پر ہمارے داعیان الی اللہ کے ذریعے سے ہوا.اُس وقت وہ تیجانیہ (Tijaniyya) فرقہ (یہ تیجانیہ فرقہ افریقہ میں بڑا عام ہے) سے گہری وابستگی رکھتے تھے.لیکن انہیں دین کا کوئی شعور نہیں تھا.بس جس طرح عام مسلمانوں میں طریق ہے ملا کے غلام تھے ، جو اُس نے کہہ دیا کر دیا، اسلام کا کچھ نہیں.نشے کے بھی عادی تھے.احمدیت قبول کرنے سے کچھ عرصہ پہلے وہ کہتے ہیں میں نے خواب دیکھی کہ ایک جنگل میں جھاڑیوں کی صفائی کر رہا ہوں اور خواب میں ہی شدید محنت و مشقت کے بعد بالآخر وہ جگہ صاف کرنے میں کامیاب ہو گئے.اب وہ ایک صاف ستھری سفید اور چمکدار جگہ میں تھے.پھر انہوں نے خواب میں خدا کے ایک بزرگ برگزیدہ شخص کو دیکھا جو اپنے صحابہ کے ساتھ تھے.دیکھا کہ یہ بزرگ انہیں اپنی طرف بلا رہے ہیں کہ اگر اپنی اصلاح مقصود ہے تو میری طرف آؤ.تو یہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ خواب، اس طرح کی، اس سے ملتی جلتی، تقریباً یہی مضمون احمدیت قبول کرنے سے قبل تین دفعہ دیکھی اور پھر انشراح صدر کے ساتھ احمدیت میں شامل ہو گئے.بیعت کرنے کے بعد انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر دکھائی گئیں تو ان تصاویر میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھتے ہی وہ بول اُٹھے کہ یہی وہ خدا کے برگزیدہ بزرگ ہیں جو مجھے خواب میں اپنی طرف بلا رہے تھے.احمدیت قبول کرنے کے بعد ان میں ایک انقلاب پید ا ہوا، ایک تبدیلی آئی.پنجوقتہ نماز با جماعت کے عادی ہو گئے ، انہوں نے قرآن کریم پڑھنا سیکھا، دیگر تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر بڑی عمر کے ہونے کے باوجود قرآن کریم مکمل کرنے کے بعد بڑے شوق سے اپنی آمین بھی کروائی.اس کے بعد اپنے بچوں اور دیگر احمدی بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانا شروع کیا.(اس بڑی عمر میں سیکھا بھی اور پھر آگے اس کو عام بھی کیا).اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ صاحب اب موصی ہیں، تہجد کی باقاعدگی سے ادا ئیگی کرنے والے ہیں.ان کے رشتہ داروں نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا.ان کے عزیز کہتے ہیں کہ جب ہم ان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شخص ہے جس میں یہ انقلاب برپا ہوا.پھر گیمبیا کے ہی ایک استاد ہیں استاد عیسی جوف صاحب.امیر صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے.وہ کہتے ہیں کہ بہت چھوٹی عمر میں جب میں کیتھولک فرنچ سکول میں پڑھتا تھا اس وقت میری عمر دس سال تھی جب
خطبات مسرور جلد نهم 276 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جون 2011ء میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک پرانے گھر میں جس میں روشنی بھی کافی مدھم ہے اُس میں سو رہا ہوں.جب میں نے چھت کی طرف دیکھا تو چھت نہیں تھی.آسمان پر مجھے ایک شخص نظر آیا جس نے سرخ رنگ کی چادر اور سنہری پگڑی زیب تن کی ہوئی تھی.وہ شخص مجسم نور تھا اور اُس کے ارد گر د روشنی کا ایک ہالہ تھا.وہ آسمان سے میری طرف آرہا تھا.وہ شخص درود شریف پڑھ رہا تھا جیسے ہم احمدی پڑھتے ہیں، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے.کہتے ہیں جب میں سولہ سترہ سال کا ہوا اُس وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جھاڑیوں سے گزرتا ہوا ایک متروک اور پرانے مکان تک آیا لیکن اس مرتبہ مکان کی مرمت اور تزئین و آرائش ہو چکی تھی.اُس کی دیواریں سفید اور دروازے اور کھڑکیاں سبز رنگ کی تھیں.مجھے خواب میں ہی یہ احساس ہو تا ہے کہ اب یہ جگہ متروک نہیں رہی بلکہ اُسے عزت و حرمت دی گئی ہے.جب میں نے مالک مکان کے آنے سے قبل ہی مکان سے نکلنا چاہا اس موقع پر ایک بزرگ شخص باہر آیا اور مجھے آواز دی.میں خوفزدہ ہو گیا اور انکار کر دیا.اس بزرگ نے دوبارہ آواز دی.میں نے کہا میں اس وقت نہیں آؤں گا جب تک مجھے نہیں بتاتے کہ تم کون ہو ؟ اُس بزرگ نے جواب دیا میں آخری ایام میں آؤں گا سو میں آیا ہوں تم خوف نہ کرو.اس پر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں اس بزرگ کے ساتھ ایک دفتر میں گیا جس میں کچھ لیبارٹری کی طرح کے آلات پڑے ہوئے تھے.اس بزرگ نے کہا یہ میری لیبارٹری ہے اور میں کیمیا دان ہوں.مجھے اس بزرگ سے محبت اور ہمدردی پیدا ہو گئی.میں نے اس بزرگ سے کہا کہ آپ مکان میں افسردہ تنہا زندگی گزار رہے ہوں گے.اُس بزرگ نے جواب دیا ہماری تحریک ہر جگہ تنہا لوگوں کے لئے کام کر رہی ہے.ہم ان تمام پیاروں اور تنہالوگوں کی مجلس میں ہوتے ہیں.اس کے بعد میں ان بزرگ سے الگ ہو گیا اور کہتے ہیں جب میری آنکھ کھلی ہے تو اُس بزرگ کی محبت سے میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اس بزرگ کی انسانیت کے لئے خدمات کے باوجود تنہا زندگی پر افسردہ تھا.دس سال بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو یہ بعینہ وہی بزرگ تھے جو مجھے دونوں خوابوں میں نظر آئے تھے.پہلی خواب میں آسمان سے نازل ہوئے اور دوسری خواب میں بزرگ کی صورت میں.اب دیکھیں بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ کس طرح رہنمائی فرماتا ہے.پھر تنزانیہ کے ایک شخص محمد علی صاحب ہیں، انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک سفید رنگ کے بزرگ نے انہیں نماز پڑھائی اور اُن کے پیچھے نماز پڑھ کر روحانی تسکین ملی.اُن کے چند دن بعد وہ مورو گورو ہماری مسجد میں آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر کہنے لگے کہ یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مجھے خواب میں نماز پڑھائی تھی.چنانچہ اُسی وقت بیعت کر لی.بیعت کے بعد اُن کو بڑی سختیاں جھیلنی پڑیں.اور اُن کے والد نے اُن کو جائداد سے محروم کر دیا چھوٹا ساز میندارہ تھا اس سے نکال دیا.یہ سختیاں صرف پاکستان میں یا اور بعض جگہوں پر نہیں ہیں، بعض دفعہ افریقہ میں بھی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں.بہر حال یہ دوسرے علاقے میں آگئے.باپ
277 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نے جو زمین چھینی تھی یا اس سے جو مل سکتی تھی وہ تو ایک ایکڑ زمین تھی اللہ تعالیٰ نے اُس کے بدلے میں اُن کو چھ ایکٹر زمین عطا فرمائی اور اخلاص و وفا میں بڑی ترقی کرنے والے ہو گئے اور تبلیغ میں بڑے آگے بڑھنے والے ہیں.اب تک ان کی تبلیغ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اُس ماحول میں چھ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.یہ ایک واقعہ 2003ء کا برکینا فاسو کا ہے، ایک گاؤں تو لتامہ کے نوجوان کا بورے موسیٰ صاحب نے اپنی قبول احمدیت کے وقت (ہمارے اس وقت کے مبلغ کو یہ خواب سنائی کہ اُن کے والد صاحب نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں انہیں بلا کر تاکید کی کہ اگر تم امام مہدی کی خبر سنو تو ٹال مٹول سے کام نہ لینا، سنجیدگی سے تحقیق کر کے قبول کر لینا.اس نصیحت کے بعد جلد ہی والد صاحب وفات پاگئے.میں نے بہت سوچ بچار شروع کر دی اور کثرت سے نوافل ادا کر کے دعا کی کہ خدا مجھے سچائی دکھا دے.ایک روز میں نے رویا میں دیکھا کہ میں شہر کی طرف گیا ہوں تو دیکھا کہ سب لوگ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، خون بہ رہے ہیں.میں نے ایک آدمی سے پوچھا کیوں لڑ رہے ہو ؟ وہ میری طرف مڑا اور دوسروں کو آواز دے کر کہنے لگا کہ دیکھو اس کو کسی نے نہیں مارا ، اسے بھی مارو.مجمع میری طرف بڑھا.قریب تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر مارتے کہ ایک بزرگ شخص نے مجھے بچے کی طرح اُٹھا لیا اور مجمع سے اُٹھا کر خطرہ سے دور لے گئے اور ایسی کھلی کشادہ سڑک پر مجھے رکھ دیا جو دور تک صاف دکھائی دے رہی تھی.میں سڑک پر چلنے لگا.کچھ دور ایک مسجد نظر آئی اور میں اس میں داخل ہو گیا.اندر دیگر نمازیوں کے علاوہ عربی تبلیغ کر رہے تھے.اس رؤیا کے بعد جب وہ وہاں بوبو جلا سو کے ہمارے مشن ہاؤس آئے، وہاں سفید مسجد بھی دیکھی اور نمازیوں کو بھی دیکھا.دو پاکستانی بھی دیکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جب تصویر انہیں دکھائی گئی تو نہایت جوش سے کہنے لگے کہ خدا کی قسم یہی وہ بزرگ ہیں جو مجھے خطرہ کے وقت مجمع سے بچا کر لے گئے تھے.چونکہ یہ وہاں کے امام تھے ان کے بیعت کرنے کی وجہ سے گاؤں میں کافی تعداد میں افراد نے احمدیت قبول کی.پھر سینیگال کے علاقہ کا سامانس میں ایک پیر صاحب نے بیعت کی ہے.اُن کے ماننے والے 132 مقامات پر ہیں.اِن پیر صاحب کی قبولیت احمدیت ایک خواب کی بنا پر ہے.اُنہوں نے جامعہ مسجد میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی اور بتایا کہ میں نے مندرجہ ذیل خواب دیکھا ہے اور اس خواب کو دیکھے کافی سال ہو گئے ہیں لیکن میں اس خواب کے مصداق حضرت امام مہدی علیہ السلام کا متلاشی تھا جو اب مجھے خدا کے فضل سے مل گئے.وہ خواب اس طرح سے ہے.کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ کلمہ طیبہ لَا اِلهَ اِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ زمین پر گرا پڑا ہے.سارے اولیاء اور بزرگ مل کر اُس کلمہ کو اوپر بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر نہیں کر سکے.اتنے میں ایک بزرگ تشریف لائے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کا نام محمد المہدی ہے.انہوں نے آکر اکیلے ہی اس کلمے کو بلند کر دیا.امیر صاحب لکھتے ہیں کہ جب وہ اُن کے علاقہ میں دورے پر گئے تو اُن کے گھر بھی گئے.انہوں نے اپنے گھر میں ایک بینر لگایا ہوا ہے جس پر لکھا تھا أَيُّهَا سُكَّانُ الْبَلَدِ اِسْمَعُوا جَاءَ الْمَسِيحُ جَاءَ الْمَسِيحُ اِسْمَعُوا حَضْرَةَ المِيرزا غلام احمد القادياني عليه السلام هُوَ الْمَسِيحُ الْمَهْدِی.تو اللہ تعالیٰ دور
خطبات مسرور جلد نهم مسیح 278 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03جون 2011ء دراز علاقوں میں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت لوگوں پر ظاہر کر رہا ہے.اور حضرت موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جن کے ذریعے سے اس وقت کلمہ کی حقیقت دنیا پر واضح ہو رہی ہے.نہیں تو آج کل کے علماء جو ہیں انہوں نے تو اسلام کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے.پھر الجزائر کے ایک دوست عبد اللہ فاتح صاحب مشن ہاؤس آئے اور سوال جواب کی مجلس میں شامل ہوئے.مجلس کے اختتام پر انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب ”خطبہ الہامیہ“ اور الہدی مطالعہ کے لئے دی گئیں.مطالعہ کے بعد آئے اور کہنے لگے کہ یہ تحریر کسی جھوٹے کی نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ ایک کپڑے کو سر پر پگڑی کی طرح لپیٹا اور کہا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک شخص کو خواب میں دیکھا جس کا چہرہ انتہائی پر نور تھا اور اُس نے اپنے سر پر اس طرح سے کپڑا باندھا ہوا تھا.تب اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی مگر یہ نہ بتایا گیا کہ یہ کون ہیں.وہ تصویر کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے خواب میں دیکھا ہے اور پھر بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے.پھر فن لینڈ کے ایک عرب تھے.کہتے ہیں تین سال قبل میرے والد بزرگوار فوت ہوئے.اُن کی وفات سے چند ماہ بعد میں نے درج ذیل خواب دیکھا کہ میرے والد قبر میں سوئے پڑے ہیں.یہ قبر اٹھتی ہے اور اُس کے اندر سے ایک اور بزرگ نہایت باوقار ، پر نور مجتہ پہنے ہوئے نکلتے ہیں.اُن کی ریش مبارک سیاہ ہے.چہرہ نہایت منور اور خیر و برکت کا عکاس ہے.اُن کے سینے پر نام بھی لکھا تھا جو میں صحیح طرح یاد نہ رکھ سکا.یہ بزرگ قبر سے نکلتے ہیں اور میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر مجھے قبر کی دوسری جانب لے جارہے ہیں.میں اُن کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہوں اور والد کی طرف دیکھ رہا ہوں.کہتے ہیں خواب کے چھ ماہ بعد میں ڈش کا چینل ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک ایم.ٹی.اے.آ گیا اور اُس میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع اور علمی صاحب تھے.کہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے ایک بزرگ کی تصویر نکال کر اپنے پروگرام میں دکھائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی.تو کہتے ہیں جب تصویر میں نے دیکھی تو میں پہچان گیا کہ جس بزرگ کو میں نے خواب میں دیکھا تھا یہ وہی تھے.سینیگال کے ایک احمدی ہیں، انہوں نے خواب میں آسمان پر دو بزرگوں کی تصویر دیکھی لیکن یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کونسی ہے؟ اُن کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ ایک تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور ایک حضرت امام مہدی علیہ السلام کی.پھر ایک تصویر غائب ہو جاتی ہے اور دوسری بالکل قریب آجاتی ہے.یہ قریب آنے والی شکل کہتی ہے کہ امام مہدی میں ہوں.اس خواب کو دیکھنے کے بعد عمر باہ صاحب (یہ سینیگال کے تھے ، ان کو یقین ہو گیا کہ امام مہدی آگئے ہیں.چنانچہ مبلغ لکھتے ہیں وہاں جب ہمارا وفد تبلیغ کے دوران ان کے پاس پہنچا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر انہیں دکھائی تو انہوں نے کہا کہ بالکل یہی تصویر تھی جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی.اُس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی.شام کے ایک دوست ہیں، جب ان کا احمدیت سے تعارف ہوا تو تحقیق شروع کی.ابتدا حضرت مسیح
خطبات مسرور جلد نهم 279 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03جون 2011ء موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے کی.کہتے ہیں کہ میں نے حضور کی تمام عربی کتب پڑھ لیں اور بہت فائدہ اُٹھایا.آپ کے کلام نے مجھ پر جادو کا سا اثر کیا.اس کے بعد میں نے استخارہ کیا تو ایک دفعہ یہ آیت سنائی دی.عبدًا مِنْ عِبَادِنَا أَتَيْنَهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَهُ مِن لَّدُنَا عِلْمًا (الكيف : 66) - جبکہ دوسری طرف مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی ہوئی.یہ آیت جو ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ہے جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی ہے اور اپنی جناب سے خاص علم عطا کیا ہے.اس کے بعد کہتے ہیں دوسری دفعہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو میرے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے صرف مرزا غلام احمد ہی سفینہ نجات ہیں.کہتے ہیں پھر میں نے اپنی بیوی سے استخارہ کرنے کو کہا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اُسے کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد اس زمانے کے مجدد ہیں.لیکن اس واضح خواب کے باوجود انہیں اطمینان نہیں ہوا اور بیعت نہیں کی.تو کہتے ہیں میں دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا قائل ہو گیا تھا لیکن اعلان اس لئے نہیں کیا تا کہ اپنے حلقہ احباب کو خود سوچنے کا موقع دوں.تا وہ میرے پیچھے بلا سوچے سمجھے نہ چل پڑیں.دوسرے یہ کہ میں چاہتا تھا کہ جماعت کے مخالفین کی کچھ کتب پڑھ لوں.بالآخر جولائی 2009ء میں انہوں نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ بیعت کر لی.آئیوری کوسٹ کے ایک گاؤں شینالا (Shinala) کے بے ما (Bema) صاحب نے لوگوں کے سامنے ایک عجیب واقعہ بیان کیا.کہتے ہیں عرصہ میں سال قبل خاکسار سخت بیماری میں مبتلا ہوا.مرگی کے دورے پڑنے لگے.ہر ممکن علاج کیا.ذرا بھی افاقہ نہ ہوا.شہر کے ایک عامل نے کچھ تعویذ گنڈے دیتے ہوئے کہا کہ ان کو کمر سے باندھ لو ، یہی تمہاری بیماری کا علاج ہیں.انہی ایام میں کشف کی حالت میں ایک بزرگ آئے اور کہا کہ تم نے یہ کیا پہنا ہوا ہے اسے اتار ڈالو.تو میرے دل میں بہت زور سے احساس پیدا ہوا کہ یہ بزرگ امام مہدی ہیں.میں نے کمر سے باندھے تعویذ گنڈے اُتار ڈالے.اُسی روز خدا تعالیٰ نے مجھے شفا سے نواز دیا.اُس دن سے آج تک مجھے کبھی مرگی کا دورہ نہیں پڑا.میں تو اسی روز سے امام مہدی کو قبول کر کے اُن کی تلاش میں تھا.آپ لوگ آئے اور امام مہدی کی باتیں کی ہیں تو میں سمجھا ہوں کہ امام مہدی مل گئے ہیں.پھر اُن کو ہمارے مبلغ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی، خلفاء کی تصاویر دکھائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے فوراً کہا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جو مجھے خواب میں ملے تھے اور تعویذ گنڈے سے منع کیا تھا.تو یہ سب خرافات جو ہیں آجکل کے مولویوں نے، پیروں فقیروں نے کمائی کے لئے شروع کی ہوئی ہیں.ان خرافات کو ختم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں، تبھی تو آپ کا نام مہدی بھی رکھا گیا.پھر ابو ظہبی سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جس قدر کتابیں مجھے مہیا ہو سکیں اُن کے مطالعے سے نیز ایم.ٹی.اے کے پروگرام الحوار المباشر کے باقاعدگی سے دیکھنے سے مجھے
280 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جماعتی عقائد پر اطلاع ہوئی.شروع میں تو جہالت اور گزشتہ خیالات کی وجہ سے میں نے فوری منفی رد عمل ظاہر کیا.لیکن جب قرآنی آیات و احادیث اور خدائی سنت کا بغور مطالعہ کیا تو میر ادل مطمئن ہونے لگا.اب میرے سامنے دو راستے ہو گئے.یا تو میں مسلسل حضرت عیسی بن مریم کے آسمان سے نزول کا انتظار کئے جاؤں اور اس سے قبل دنجال کا انتظار ، جس کی بعض ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کو زیبا ہیں جیسے احیائے موتی وغیرہ.اور پھر جن بھوتوں کے قصے اور قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کے عقیدے سے چمٹار ہوں.یا پھر حضرت احمد علیہ السلام کو صحیح موعود اور امام مہدی مان لوں جنہوں نے اسلام کو خرافات سے پاک فرمایا ہے اور اسلام کے حسین چہرے کو نکھار کر پیش فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع بھی فرمایا ہے.بہر حال کہتے ہیں میں نے خدا تعالیٰ سے مدد چاہی اور بہت دعا کی کہ میری رہنمائی فرمائے اور حق اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.اس کے بعد میں نے جماعت احمد یہ اور حضرت احمد علیہ السلام کی طرف ایک دلی میلان محسوس کیا.میں نے قانون پڑھا ہوا ہے.جب میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار سنے تو میرا جسم کانپنے لگا اور آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور میں نے زور سے کہا کہ ایسے شعر کوئی مفتری نہیں کہہ سکتا.ایک مفتری کے سینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت کیسے ہو سکتی ہے ؟ پھر ایک عجمی کا اتنا قوی اور فصیح و بلیغ عربی زبان کا استعمال کرنا بغیر خدائی تائید کے ناممکن ہے.اس طرح پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہدایت کے سامان پیدا فرمائے.شام سے ایک دوست مصطفیٰ حریری صاحب ہیں.کہتے ہیں کہ میں ایک سادہ انسان ہوں، پڑھ لکھ نہیں سکتا اور نہ ہی میرے پاس کوئی وسائل ہیں.گزشتہ چار ماہ میں میں نے بہت سی خواہیں دیکھی ہیں کہ میری روح قبض کی جارہی ہے.آخری خواب میں میں نے دیکھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم طر طوس شہر میں تشریف لائے ہیں اور ہمارے گھر کے ہی ایک کمرے میں تشریف فرما ہیں جس کا اصل میں ایک ہی دروازہ ہے لیکن مجھے خواب میں اُس کے دو دروازے نظر آئے.ایک مغرب کی طرف اور دوسرا قبلے کی طرف.میرے والد صاحب اس دروازے پر کھڑے تھے.انہوں نے مجھے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرو.میں نے سلام عرض کیا.جب میں نے مصافحہ کیا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میرے دل میں داخل ہوا اور اطمینانِ قلب نصیب ہوا.میں نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں موجود ہیں.احمدیت قبول کرنے کے بارہ میں میں نے استخارہ کے بعد جس میں میں نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگی تھی کہ اے خدا! میں ایک سادہ ان پڑھ انسان ہوں، مجھے حق دکھا تو خدا تعالیٰ نے میرے عمل مجھے دکھائے جو اچھے نہیں تھے کیونکہ میں نماز کا بھی پابند نہ تھا.اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو اپنی والدہ کے ساتھ قبرستان میں دیکھا..حضرت امام مہدی علیہ السلام میری روح قبض کرنے آئے ہیں اور انہوں نے میری گردن پر ٹھو کر ماری ہے جس سے میری گردن پر ایک مہر کا نشان پڑ گیا ہے.اُس کے بعد میں وہاں سے چل پڑا حتی کہ میں نے ایک نوجوان کو دیکھا اور میں نے اُسے تعجب سے کہا کہ میری گردن پر امام مہدی کی مہر لگی ہوئی ہے.تو اُس نے کہا یہ نشان میری گردن پر بھی ہے اور یہ بیعت کی مہر ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 281 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جون 2011ء الجزائر کے عرقوب بن عمر صاحب ہیں.کہتے ہیں ایک دن ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ کا چینل دیکھ کر اور آپ کا عیسائیوں سے مقابلہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کی جماعت حق پر ہے.تب اپنے رب سے کہا کہ میں اس جماعت پر ایمان لاتا ہوں، مجھے ان کی تصدیق کے لئے کسی خواب وغیرہ کی ضرورت نہیں.میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت کے مطابق حضرت امام مہدی کو قبول کرتا ہوں.تو اس طرح کے سعید فطرت بھی لوگ ہوتے ہیں کہ سچائی دیکھ کر پھر کسی اور دلیل کو یا کسی اور نشان کو نہیں مانگتے.کہتے ہیں کہ پھر میں نے خواب میں دیکھا کہ ناصر صلاح الدین عیسائیوں سے مقابلے میں ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے.پھر اچانک آسمان پھٹ گیا اور میں نے آواز سنی کہ اپنا موبائل کھولو اس پر ایک نمبر آئے گا اور اس سال اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور تمام دنیا میں پھیل جائے گا.میں نے موبائل کھولا تو وہاں 2150 نمبر تھا.میں سمجھا کہ یہ بات 2150 سن میں پوری ہو گی.اسی لمحے میری آنکھ لگ گئی اور میں نے گھڑی دیکھی تو وہ گھڑی میں (ڈیجیٹل گھڑی تھی) اس میں وقت آرہا تھا 21:50 یعنی شام کے نو بج کے پچاس منٹ.کہتے ہیں سات ماہ قبل جب سے میں نے بیعت کی ہے روزے رکھ رہا ہوں اور ایک خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملاؤں اور علماء پر غضبناک ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے سخت لہجے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول ہے اور میرے بعد آنے والا نبی.سو دیکھیں دُور دراز رہنے والا ایک شخص ہے.دعا کرتا ہے اور اس طرح بھی اللہ تعالیٰ آپ کی نبوت کے بارے میں اس پر واضح کر دیتا ہے.پھر الجزائر کے حداد عبد القادر صاحب ہیں.کہتے ہیں 2004ء میں رمضان المبارک میں خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ آؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے لے چلتا ہوں.میں نے دیکھا کہ تقریباً ایک میٹر اونچی دیوار کے پیچھے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں.آپ مجھے دیکھ کر مسکرائے.پھر دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیوار کے مابین ایک گندمی رنگ کا شخص کھڑا ہے جس کی سیاہ گھنی داڑھی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ ھذا رَسُولُ اللہ کہ یہ اللہ کا رسول ہے.پھر آپ مشرق کی جانب ایک نور کی طرف چلے جاتے ہیں جبکہ یہ شخص اُسی جگہ کھڑا رہتا ہے.کہتے ہیں کہ چار سال بعد 2008ء میں اتفاقا آپ کا چینل دیکھا تو اس پر مجھے اس شخص کی تصویر نظر آئی جس کو میں نے خواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر تھی.چنانچہ میں نے اُسی وقت بیعت کر لی.پھر شمس الدین صدیق صاحب ہیں کردستان کے.کہتے ہیں میں نے پچیس سال قبل خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چاند کے اندر بیٹھے ہوئے آسمان سے اترتے دیکھا تھا.اب ایم.ٹی.اے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ کے چاند سے اترنے کی تعبیر یہی ایم.ٹی.اے ہے.اور میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.پھر عراق کے عبدالرحیم صاحب ہیں.کہتے ہیں کچھ عرصہ قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات مسرور جلد نهم 282 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03جون 2011ء مجھے کہتے ہیں کہ تم ہمارے آدمی ہو لہذا تمہیں بیعت کر لینی چاہئے.اس پر مجھے انہوں نے خط لکھا تھا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں اسے قبول کریں.مصر کے ایک محمد احمد صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ بیعت سے پہلے میں اندھیروں میں بھٹک رہا تھا کیونکہ یہ نام نہاد علماء ایسے فتوے جاری کرتے ہیں جنہیں عقل ماننے کے لئے تیار نہیں.باوجودیکہ یہ سب لوگ معترف ہیں کہ کوئی مصلح آنا چاہئے اور دعائیں بھی کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کی حالت ابتر ہی ہوتی جاتی ہے.دوسرے مسلمانوں کی طرح میں بھی مختلف وساوس اور شکوک میں گرفتار تھا کہ میں نماز کیوں پڑھتا ہوں.کیوں مسلمان ہوں ؟ اس کائنات کا خالق ہے کہ نہیں ؟ مسلمانوں کا اتحاد کیسے ہو گا ؟ ان سب سوالوں کا کوئی شافی جواب مجھے کہیں نہیں ملتا تھا.میں نے مختلف چینل گھمانے شروع کئے کہ شاید عیسائیت میں کوئی تسلی ملے یا شیعوں کے پاس کوئی حل ہو تو اچانک ایم.ٹی.اے العربیہ مل گیا جہاں کچھ اجنبی لوگ نظر آئے جو مسلمانوں سے مشابہ تھے لیکن ان کی باتیں اجنبی تھیں، لیکن تھیں قرآنِ کریم کے مطابق.کہتے ہیں ان کا چینل اسلامی تھا لیکن ان کا اسلام میرے لئے اجنبی تھا اور کہنے والے کہتے تھے کہ ہمارا امام مہدی ظاہر ہو چکا ہے اور وہی مسیح موعود ہے جو قاتل دجال ہے.وہی قرآن کے نور سے حکم اور عدل ہے.وہ خدا تعالیٰ کی وحی کے ذریعے مہدی کا لقب پانے والا ہے اور وحی منقطع نہیں ہوئی، وغیرہ وغیرہ.کہتے ہیں یہ ساری باتیں سن کر اور ان میں گہرے غور و فکر کے نتیجے میں چند دن تک میر اسر چکرانے لگا کہ میں کیا سُن رہا ہوں.پھر جب تو ازن بحال ہوا تو دل نے فتویٰ دیا کہ مزید پروگرام دیکھنے چاہئیں.لیکن ساتھ یہ خیال بھی آتا تھا کہ بہت سے علماء کہلانے والے ان لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں.اس عرصے میں وہ تحقیق بھی کرتے رہے، علماء سے پوچھتے رہے.انہوں نے کہا یہ لوگ تو کافر ہیں.کہتے ہیں پھر مجھے خیال آیا کہ تکذیب تو سب نبیوں کی ہوئی ہے، انہیں جادو گر اور مجنون کہا گیا ہے، خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں کہ اُمت فرقوں میں بٹ جائے گی، اسلام اجنبی ہونے کی حالت میں شروع ہوا اور پھر دوبارہ اجنبی ساہو جائے گا.اور ایسے اجنبیوں کو مبارک ہو.پھر ایسی پیشگوئیاں بھی موجود ہیں کہ علماء بہت ہوں گے لیکن فقہاء کم ہوں گے.پھر حضور علیہ السلام نے مشکلات کے باوجود امام مہدی کی اتباع پر بہت زور دیا اور تاکید فرمائی ہے.کہتے ہیں آخر میں نے خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی.دعا کی اور نمازیں پڑھیں، قرآنِ کریم کی تلاوت بکثرت شروع کر دی.پھر مجھے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک جماعت بنائی ہے جس کے آپ امام ہیں اور اس جماعت کا دستور قرآنِ کریم ہے اور قول و فعل میں اس کا اسوہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ نے اسلام کی سچائی پر زور دیا ہے اور مختلف آراء و اقوال میں سے صحیح کو لیا ہے اور باقی کا غلط ہونا ثابت کیا ہے.پھر ان باتوں پر میں نے غور کیا تو ان سب کو پاکیزہ اور ثابت شدہ حقائق پایا جنہیں کوئی جھوٹا شخص بیان نہیں کر سکتا.چنانچہ میں ان باتوں کی طرف مائل ہو گیا کیونکہ یہی قرآنِ کریم میں بھی بیان ہوا ہے، یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور اسی پر صحابہ بھی ایمان لائے تھے.یہی سنت سے بھی ثابت ہے.کہتے ہیں احادیث کو میں نے دیکھا تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات مسرور جلد نهم 283 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جون 2011ء کی تائید میں نظر آئیں.لیکن ایک عام مسلمان جس نے سلف و خلف کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا اور صرف علماء سے سنا ہے.نہ پہلے لوگوں کا مطالعہ کیا ہے نہ بعد کا، تو یہ باتیں یقینا اسے اجنبی معلوم ہوتی ہیں.کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل درست اور قوی ہیں.کہتے ہیں آخری فیصلے کے لئے میں نے استخارہ کیا تو 2007ء رمضان میں دو خوا ہیں دیکھیں جو مسلسل اللہ تعالیٰ نے دکھائیں.جس سے حضور علیہ السلام کی صداقت مجھ پر کھل گئی.پہلی خواب میں میں نے دیکھا کہ آپ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کریز نامی ایک سبز رنگ کا پھل کھلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں میں نے فوراً بیعت کر لی، اور کہتے ہیں اُس کے بعد پھر میرے حالات بہت بہتر ہو گئے.دوسرے گیمبیا کے ایک صاحب تھے جو وہاں کے نمبر دار تھے.وہ کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ دو آدمی آتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ زمانہ امام مہدی کے ظہور کا ہے اور وہ آچکا ہے اور ہر دفعہ وہی دو شخص ملتے تھے.کہتے ہیں ایک دفعہ میں ڈاکار میں تھا جو سینیگال کا دارالحکومت ہے یہ خواب دیکھا کہ میرا بھتیجا میرے پاس تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر آتا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ دو آدمی سمندر کے کنارے پر تیرا انتظار کر رہے ہیں.جب میں وہاں پہنچا تو اُن میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس زمانے کا امام مہدی ہے اس کو مان لو.جب یہ مبلغ کے پاس آئے تو انہوں نے اُسے کہا کہ اگر میں تمہیں تصویر دکھاؤں کیا تم پہچان لو گے ؟ پھر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر اور خلفاء کی تصویریں بھی ساتھ دکھائیں.انہوں نے دیکھیں تو ایک تصویر پر فوراً انہوں نے کہا کہ انہی کو میں نے خواب میں دیکھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر پر ہاتھ رکھا کہ ایک یہی تھے اور پھر حضرت خلیفتہ البیع الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی تصویر پر انگلی رکھی کہ شخص یہ تھے جو امام مہدی کے ساتھ تھے.پھر کہتے ہیں ایک اور خواب میں سنانے والا ہوں.( یہ اس کے بعد کی بات ہے جب ہمارے مبلغین اُس گاؤں میں گئے ہیں، ان کو تصویریں دکھائیں تو پھر ان کو ایک دوسری خواب سنارہے ہیں ).کہتے ہیں کہ آج ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ دو آدمی کار پر آئے ہیں اور مجھے ان آدمیوں کی تصویر دکھاتے ہیں جن کو میں ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں.اور یہ خواب میں نے صبح اپنی بیوی کو سنایا تھا اور کہا کہ آج کچھ مہمان آنے والے ہیں اس لئے آج سارا دن میں کہیں نہیں گیا اور انتظار میں رہا کہ کب آتے ہیں.تو آپ ہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے مجھے بنایا تھا.آپ شام کو آئے اور مجھے تصاویر دکھائی ہیں.میری خواب پوری ہو گئی ہے.اس نے بڑی جرات سے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ امام مہدی آچکا ہے اور احمدیت کچی ہے.قلاب ذیح یوسف صاحب الجزائر کے ہیں.کہتے ہیں میں نے چھوٹی عمر میں ایک رؤیا دیکھا کہ ایک سفید رنگ کا آدمی مجھے کہتا ہے کہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو تاکہ میں تمہیں ساتھ لے جاؤں.لیکن میں کسی قدر
284 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم متر ڈر اور خائف ہوا.یہ رؤیا مجھے تقریباً ایک سال تک دکھایا جاتارہا اور بالآخر میں نے سفید رنگ کے آدمی کی بات مان لی.اُس وقت اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جس کی وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہے اور وہی گورے رنگ والے شخص کو میر ا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لانے کا حکم دے رہا تھا.تو کئی سال گزرنے کے بعد ایک دن اچانک نائل ساٹ پر ایم.ٹی.ابے پر میں نے اس شخص کو دیکھا جو خواب میں مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا کہہ رہا تھا اور پھر اسی چینل پر میں نے اس شخص کو بھی دیکھا جو اس گورے شخص کو ایسا کرنے کا حکم دے رہا تھا.میں سخت حیران تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور جب حقیقت حال کا علم ہوا تو میں نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سب اس لئے دکھایا ہے تا میں مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے اس کی جماعت میں شامل ہو جاؤں.لہذا میں نے بیعت کر لی.خواب میں دکھایا جانے والا سفید رنگ کا آدمی مصطفی ثابت صاحب تھے اور جو ان کو حکم دینے والا شخص تھا کہ اس کو لے آؤ، وہ حضرت خلیفتہ المسیح الرابع تھے.پھر عراق کے ایک شاعر ہیں مالک صاحب، وہ کہتے ہیں کہ خاکسار کو ایم.ٹی.اے کے ذریعے اُس وقت جماعت سے تعارف حاصل ہو ا جب ابھی عربی چینل شروع نہیں ہوا تھا.اُس وقت تک کہتے ہیں کہ میں خلیفہ رابع رحمہ اللہ کو بدھ مت کا نمائندہ سمجھتا تھا.لیکن جب حضور کی وفات ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ نور محمدی آپ کے چہرے پر برس رہا ہے.ہم سب گھر والوں کے دل سے آواز اُٹھی کہ کاش یہ شخص مسلمان ہو تا( یہ واقعہ شاید میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں بہر حال ) اس کے باوجود حضور کی وفات پر ہم لوگ نجانے کس بنا پر بہت روئے.پھر اچانک ایک روز ایم.ٹی.اے کا عربی چینل اتفاق سے مل گیا.اس وقت سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہیں.چنانچہ میری بیوی نے دو خوابیں دیکھنے کے بعد پہلے ہفتے ہی بیعت کر لی تھی.پہلی خواب میں دیکھا کہ حضرت علی میری بیٹی کو کچھ کا غذات دے رہے ہیں.میری بیوی نے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ بیعت فارم ہیں.دوسری خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط میری بیوی کے نام لے کر آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ جو شخص میرے گھر میں داخل ہوتا ہے وہ میرے اہل بیت میں سے ہے.اس کے بعد میری اہلیہ نے بہت سی خواہیں دیکھیں.چنانچہ میرے بیٹے اور اس کی بیوی نے تقریباً تین ماہ قبل اور میری تیسری خواب کے بعد بیعت کر لی.پھر کہتے ہیں خواب میں انہوں نے دیکھا کہ یہ خواب اس طرح تھی کہ ہمیں نجف شہر میں امام مہدی کے ظہور کی اطلاع ملی ہے.کہتے ہیں ہم تین دوست تھے.خواب میں ہم ان کے پاس گئے اور کہا کہ کیا آپ امام مہدی ہیں ؟ تا کہ ہم آپ کی بیعت کر لیں، انہوں نے کہا ہر گز نہیں.میں تو صرف ایک مصلح ہوں.مہدی تو قادیان میں ظاہر ہو چکا ہے.اور تیسری خواب میں انہوں نے مجھے دیکھا.کہتے ہیں میں نے آپ کو دیکھا کہ ایک ڈھلوان جگہ پر ایک بڑے مجمع کو خطاب کر رہے ہیں اور مجمع میں تمام لوگ کھڑے تھے ، صرف اکیلا میں آپ کے پاس نیچے بیٹھا تھا، اور اچکن کو دیکھ رہا ہوں.اور دل میں کہتا ہوں، سبحان اللہ آپ نے امام مہدی کا لباس کیسے پہن لیا؟ اس کے بعد جب خطاب ختم ہو گیا اور میں نے اُن کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن سے پوچھا کیا آپ کا دل مطمئن ہو گیا ہے ؟ اور پھر ساتھ یہ
خطبات مسرور جلد نهم 285 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جون 2011ء بھی کہا کہ لگتا ہے آپ کو بھوک لگی ہے چلیں آپ کو کھانا کھلاؤں.تو یہ اُن کی تیسری خواب تھی.بہر حال انہوں نے بیعت کی.اسی طرح سیریا کے یسین محمد شریف صاحب ہیں.وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بیعت کے بعد مجھے فضلوں اور برکات سے نوازا ہے.میں اسلام اور مسلمانوں کی حالت پر غمناک تھا اور قریب تھا کہ اس غم میں ہلاک ہو جاتا.میں نے کئی فرقوں اور مولویوں کی پیروی کی.آخر پر جس شخص کی مرافقت اختیار کی، اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک اور بڑے مولوی کا شاگرد ہے جو حلب کے ایک قطب کا گدی نشین ہے.پھر اس شخص نے مہدی ہونے کا دعوی کر دیا جس کو میں نے واضح طور پر حق سے دور پایا اور اس کے منہ پر کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو.بعد میں یہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا.97ء میں کہتے ہیں میں نے ڈش خریدی، مسجد کی امامت چھوڑ کر گھر میں بیٹھ گیا.میرا اعتقاد تھا کہ میں حق پر ہوں، لیکن اسلام کی حالت زار کی وجہ سے تمنا کر تا تھا کہ یہ فانی زندگی جلد ختم ہو اور اُخروی اور ابدی زندگی کا آغاز ہو.دس سال کی گوشہ نشینی اور غم کی کیفیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے آپکی طرف رہنمائی فرمائی، جس سے میرے دل کو سکون اور راحت مل گئی.اب جون میں اپنی والدہ اور بیوی کے ہمراہ عمرہ کرنے گیا تو متعدد عمرے کئے جن میں سے پہلا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے تھا.اس کے بعد تمام خلفاء کی طرف سے عمرے ادا کئے.دعا ہے کہ اللہ قبول فرمائے.پھر یہ لکھتے ہیں کہ میں نے بیعت کرنے سے قبل چار احمدی احباب کو خواب میں دیکھا اور انہیں کہا کہ تم بڑے مرتبے والے لوگ ہو اور تم جیسا کوئی نہیں ہے.اُن میں سے ایک نے میر اہاتھ پکڑ لیا.میں نے اس سے پوچھا کہ خدا کی قسم کھا کر بتاؤ کہ کیا تم خدا اور اُس کے رسول کی سنت پر قائم ہو ؟ اور اسلام کی حقیقت کو جانتے ہو ؟ چنانچہ اس نے اس کو اتنی مرتبہ جوش سے دہرایا کہ مجھے اُس کی گردن کی رگیں نظر آنے لگیں.اس پر میں نے اُس سے کہا کہ آج سے میں بھی احمدی ہوں.پھر وہ مجھے لکھ رہے ہیں کہ اس کے بعد میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ آتے ہیں اور جیسے جلدی میں ہیں، چنانچہ آپ ہماری طرف دیکھتے ہوئے مشرق کی جانب چلے جاتے ہیں.پھر کہتے ہیں بیعت کے بعد میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ عالم برزخ میں ہوں وہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتا ہوں کہ اتنے میں ایک شخص کہتا ہے کہ اب ٹیلی فون مرزا کے پاس ہے، یعنی جس نے بھی اس ٹیلی فون پر بات کرنی ہے وہ مرزا صاحب کے ذریعے سے کر سکتا ہے.بین کے پوبے (Pobe) شہر کے ایک احمدی چندوں کی ادائیگی میں سُست تھے باوجود اس کے کہ مالی کشائش تھی.وقتا فوقتا تو جہ دلائی جاتی تھی ، نصیحت کی جاتی تھی لیکن اُن پر اثر نہیں ہوتا تھا.مربی صاحب کہتے ہیں کہ آخری ہتھیار دعا ہی کا تھا.تو وہ ایسا کارگر ہوا کہ کچھ عرصہ قبل وہی صاحب آئے اور کہنے لگے کہ خواب میں اُنہوں نے مجھے دیکھا کہ میں اُن کے پاس گیا ہوں اور اُن سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے چندوں کے حسابات کلیئر کرو.تم سمجھتے ہو کہ یہ بہت زیادہ ہیں مگر یہ زیادہ نہیں ہیں.کہتے ہیں انہوں نے خواب بیان کرنے کے بعد اپنے تمام حسابات آ کے صاف کر دیئے.پھر الجزائر کے ایک شریفی عبد المومن صاحب ہیں.کہتے ہیں کہ چھ ماہ قبل جماعت سے تعارف حاصل
286 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہوا.میری تسلی ہو گئی.میں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصدیق کر دی لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کیا کرنا چاہئے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے دو خوا ہیں دکھائیں.پہلی میں انہوں نے مجھے دیکھا اور کہتے ہیں اس پر بڑی خاص کیفیت طاری ہوئی.میں بیان نہیں کر سکتا.پھر دوسری خواب میں دیکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ وہ رورہے ہیں اور اللہ کا واسطہ دے کر مجھے کہہ رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہیئے ؟ جس پر میں نے اُن کو دو بیعت فارم پکڑائے.چنانچہ بیدار ہونے کے بعد انہوں نے انٹر نیٹ کھولا تو کہتے ہیں وہی دو بیعت فارم مجھے مل گئے جو میں نے خواب میں دیکھے تھے، چنانچہ میں نے فوراً بیعت کر لی.اور اُس وقت سے میں اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی محسوس کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ان تمام مخلصین اور ان تمام سعید روحوں کو جو ہر سال صداقت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ کر جماعت احمدیہ میں شامل ہوتی ہیں، جن کو ہر سال اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے، ہمیشہ استقامت عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ایمان اور یقین میں ان کو ترقی عطا فرمائے اور ہم میں سے بھی ہر ایک کے ایمان اور ایقان کو بڑھائے اور ہمیں زمانے کے امام کی حقیقی پیروی کرنے والا بنائے.اور ہم بھی اُن برکات سے حصہ لینے والے ہوں، اُن انعامات سے حصہ لینے والے ہوں جس کا فیضان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہے.الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 24 جون تا 30 جون 2011ء جلد 18 شماره 25 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 287 23 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 2011ء بمطابق 10 احسان 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: 27 مئی کے خطبے میں میں نے قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے جماعت میں خلافت کے جاری نظام کی بات کی تھی.اس سلسلے میں اُس وقت میں مسجد دین کے حوالے سے بھی کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چونکہ مضمون تھوڑی سی تفصیل چاہتا تھا اس لئے بھی اور کچھ میں مزید حوالے دیکھنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے اُس دن بیان نہیں کیا، اس بارے میں آج کچھ بیان کروں گا.کچھ عرصہ ہوا وقف نو کلاس میں ایک بچے نے سوال کیا کہ کیا آئندہ مجدد آسکتے ہیں ؟ اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ سوال یا تو بعض گھروں میں پیدا ہوتا ہے کیونکہ بچوں کے ذہنوں میں اس طرح سوال نہیں اُٹھ سکتے.یا بعض وہ لوگ جو جماعت کے بچوں اور نوجوانوں میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں سوال پیدا کرواتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپ نے ہر صدی کے سر پر مجدد آنے کا فرمایا(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة حديث 4291) اور جماعت میں مختلف وقتوں میں یہ سوال اٹھتے رہے ہیں، جماعت کے مخلصین میں نہیں، بلکہ ایسے لوگ جو جماعت میں رخنہ ڈالنے والے ہوں اُن لوگوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھائے جاتے رہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس بارے میں مختلف موقعوں پر وضاحت فرمائی ہے.پھر خلافت ثالثہ میں یہ سوال بڑے زور و شور سے اُٹھایا گیا، اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مختلف موقعوں پر اور خطبات میں اس پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے.پھر خلافت رابعہ میں بھی حضرت خلیفتہ المسیح الرابع سے بھی یہ سوال کیا گیا.بہر حال یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کو وقتاً فوقتاً اُٹھایا جاتا ہے یا ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، یا پیدا ہو تا رہا ہے.اور منافق طبع لوگ جو ہیں اُن کی یہ نیت رہی ہے کہ کسی طرح جماعت میں بے چینی پیدا کی جائے کہ خلافت اور مجددیت میں کیا فرق ہے ؟ اس بارے میں عموماًبڑی ہوشیاری سے علم حاصل کرنے کے بہانے سے بات کی جاتی
288 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے یا اُس حوالے سے بات کی جاتی ہے.لیکن بعد میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیت کچھ اور تھی.خاص طور پر خلافتِ ثالثہ میں یہ ثابت ہوا کہ اس کے پیچھے ایک فتنہ تھا.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی جاری خلافت کے لئے بھی وہ زبر دست قدرت کا ہاتھ دکھائے گا.(ماخوذ از رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304) اس لئے ایسے فتنے جب بھی اٹھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ختم کر دیئے کیونکہ جماعت کی اکثریت اُن کا ساتھ دینے والی نہیں تھی.گو آج یہ فتنہ اس طرح تو نہیں ہے جو تکلیف دہ صور تحال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے لئے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن بہر حال کیونکہ سوال اکا دُکا اُٹھتے رہتے ہیں اس لئے اس کی تھوڑی سی وضاحت کر دیتا ہوں.اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ہر صدی میں تجدید دین کے لئے مجد د کھڑے ہوں گے.(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائة حديث 4291) اور وہاں جو الفاظ ہیں اُس میں صرف واحد کا صیغہ نہیں ہے بلکہ اُس کے معنی جمع کے بھی ہو سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اپنے دعوے کی صداقت کے طور پر بھی پیش فرمایا ہے.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس بارہ میں آپ کے ارشادات اور تحریرات تو بے شمار ہیں جن کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے، تاہم چند حوالے جیسا کہ میں نے کہا کہ میں پیش کر تاہوں.اگر ان کو غور سے دیکھا جائے تو آئندہ آنے والے مجددین کے بارہ میں بھی بات واضح ہو جاتی ہے.آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” خدا نے اسلام کے ساتھ ایسانہ کیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سر سبز رہے اس لئے اُس نے ہر یک صدی پر اس باغ کی نئے سرے آبپاشی کی اور اس کو خشک ہونے سے بچایا.اگرچہ ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندہ خدا اصلاح کیلئے قائم ہو ا جاہل لوگ اُس کا مقابلہ کرتے رہے اور اُن کو سخت ناگوار گزرا کہ کسی ایسی غلطی کی اصلاح ہو جو اُن کی رسم اور عادت میں داخل ہو چکی ہے“.یہ شور مچانے والے پہلے شور بھی مچاتے ہیں پھر مخالفت بھی کرتے ہیں تو بہر حال فرماتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ اس آخری زمانہ میں جو ہدایت اور ضلالت کا آخری جنگ ہے خدا نے چودھویں صدی اور الف آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پاکر پھر اپنے عہد کو یاد کیا.اور دین اسلام کی تجدید فرمائی.مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہیں ہوئی.اس لئے وہ سب مذہب مر گئے.ان میں روحانیت باقی نہ رہی اور بہت سی غلطیاں اُن میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑہ پر جو کبھی دھویا نہ جائے میل جم جاتی ہے.اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفس امارہ سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ان مذاہب کے اندر بے جاد خل دے کر ایسی صورت اُن کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اور ہی چیز ہیں“.لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 203-204) تو آپ واضح یہ فرما رہے ہیں کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اس روشنی کو قائم کرنے کے لئے جو آنحضرت
289 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے مختلف موقعوں پر مختلف اولیاء اور مجد دین پیدا کئے جو اپنے اپنے دائرے میں دین کی روشنی کو پھیلاتے رہے، کیونکہ اس دین کو اللہ تعالیٰ قائم رکھنا چاہتا تھا جبکہ باقی دینوں کے ساتھ ایسی کوئی ضمانت نہیں تھی اور اسی لئے ان میں ایسی آلائشیں شامل ہو گئیں جن سے وہ دین بگڑ گئے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: تمام زمانہ کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں وہ مجدد بھیجا ہے جس کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے اور جس کا انتظار مدت سے ہو رہا تھا اور تمام نبیوں نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں اور اس سے پہلے زمانہ کے بزرگ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اُس کے وقت کو پائیں“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 82) اب یہاں جو مجدد جس کے لئے آپ فرما رہے ہیں وہ وہ مجدد ہے جو مسیح موعود ہے جس کا انتظار کیا جارہا تھا.کوئی ایسا مجدد نہیں جس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہو کہ اُس کا انتظار ہے سوائے مسیح موعود کے.جس کی پرانے نبیوں نے بھی خبر دی اور پیش خبری فرمائی، کیونکہ اس کا زمانہ وہ آخری زمانہ ہے جس میں دین کی اشاعت ہونی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام دنیا میں پھیلنا ہے، پیغام دنیا میں پھیلنا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا.اب یہاں الفاظ پر غور کریں کہ تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا.اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ...اس دنیا کے لوگ تیر ھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے.تب میں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اُس کو دوبارہ قائم کروں“.(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3) یہ مجدد کا کام ہے، تبلیغ حق اور اصلاح اس کا پہلے ذکر فرمایا.ایمان جو اُٹھ گیا تھا اس کو دوبارہ قائم کرنا.اور اس ایمان اُٹھنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ایک رجل فارس پیدا ہو گا جو اُس کو زمین پر لے کر آئے گا.پھر آپ فرماتے ہیں: اور خدا سے قوت پا کر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کی اصلاح اور تقویٰ اور راست بازی کی طرف کھینچوں دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راست بازی کی طرف کھینچوں اور اُن کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحی الہی میرے پر تصریح کھولا گیا کہ وہ صحیح جو اس امت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانے میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ میں ہی ہوں“.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3-4)
خطبات مسرور جلد نهم 290 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء پس آپ کا یہ جو مقام ہے صرف مجددیت کا نہیں ہے بلکہ مہدویت اور مسیحیت کا مقام بھی ہے اور اس کی وجہ سے نبوت کا مقام بھی ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : اس میں کس کو کلام ہو سکتا ہے کہ مہدی کا زمانہ تجدید کا زمانہ ہے اور خسوف کسوف اُس کی تائید کے لئے ایک نشان ہے.سو وہ نشان اب ظاہر ہو گیا جس کو قبول کرنا ہو قبول کرے“.حمتہ اللہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 160) اور یہ خسوف و کسوف کا نشان، چاند گرہن اور سورج گرہن کا نشان جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سے کہ زمین و آسمان بنے ہیں یہ نشان کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوا.(سنن الدارقطني جزو دوم صفحه 51 كتاب العيدين باب صفة صلاة الخسوف والكسوف وهيئتهما حديث 1777 دار الكتب العلمیة بیروت 2003ء) نہیں یہ صرف ہمارے مہدی کا نشان ہے اُس مہدی کا جس کا مقام بہت بلند ہے، صرف مجددیت کا مقام نہیں ہے بلکہ بہت بلند مقام ہے.اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف چودھویں صدی کے مجدد نہیں بلکہ مسیح و مہدی بھی ہیں.باوجود اس کے کہ آپ کو تجدید دین کے کام کے لئے بھیجا گیا ہے اور ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن مقام آپ کا بہت بلند ہے اور مجد دیت سے بہت بالا مقام ہے.گو آپ نے یہ فرمایا کہ چودھویں صدی کا مجدد میں ہوں لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس مقام کی وجہ سے آپ کو نبوت کا درجہ بھی ملا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : جاننا چاہئے کہ اگر چہ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ حدیث صحیح ثابت ہو چکی ہے کہ خدائے تعالی اس امت کی اصلاح کے لئے ہر ایک صدی پر ایسا مجدد مبعوث کرتا رہے گا جو اس کے دین کو نیا کرے گا.لیکن چودھویں (صدی) کے لئے یعنی اس بشارت کے بارہ میں جو ایک عظیم الشان مہدی چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو گا، اس قدر اشارات نبویہ پائے جاتے ہیں جو ان سے کوئی طالب منکر نہیں ہو سکتا.نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 378) پھر فرمایا: ”خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانہ میں یہ ثابت کر کے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں بیچ ہیں“.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 266) پس ایک تو آپ کا یہ مقام ہے کہ آپ عظیم الشان مسجد دہیں اور کامل مجدد ہیں.آپ علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ کی خلافت یا مجددیت تو حضرت عیسی پر آکر ختم ہو گئی تھی.(ماخوذ از تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 123) لیکن اسلام کی تعلیم کو ترو تازہ رکھنے کے لئے ہر صدی میں مسجد دین کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے تاکہ بدعات جو سو سال کے عرصے میں دین میں داخل ہوئی ہوں یا برائیاں جو شامل ہوئی ہوں، دین کی اصلاح کی ضرورت ہو ، اُن کی اصلاح کر سکے.جو کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں وہ دور ہوتی رہیں.اور اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں اس خوبصورت تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے اس کو اصلی حالت میں رکھنے کے لئے
291 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مجد دین آتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعویٰ پیش فرمایا کہ جب پہلے مسجد دین آتے رہے تو اس صدی میں کیوں نہیں ؟ اس صدی میں بھی مجدد آنا چاہئے.اور فرمایا کہ میرے علاوہ کسی کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں اس زمانے کا مجدد ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود بھی ہوں اور مسیح موعود کو کیونکہ نبی کا درجہ ملا ہے اس لئے کامل مجدد ہوں.اور چودھویں صدی کا مجدد ہونے کی حیثیت سے، مسیح و مہدی ہونے کی حیثیت سے عظیم الشان مجدد تھے جس کی پیشگوئیاں پہلے نبیوں نے بھی کی ہیں.یہ بات اپنی صداقت کے طور پر آپ اُن مخالفین کو فرمارہے ہیں جو کہتے تھے کہ آپ کا دعویٰ غلط ہے.پس یہ آپ کی شان ہے اور اس حوالے سے ہمیں ان سارے حوالوں کو پڑھنا چاہئے.اب آپ کی اس شان کو اگر سامنے رکھا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خلافت کے قیام کے بارے میں حدیث پیش کی جاتی ہے اُس کو سامنے رکھا جائے تو آئندہ آنے والے مسجد دین کا معاملہ حل ہو جاتا ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور واضح ارشاد ہے.آپ نے لیکچر سیالکوٹ میں ایک جگہ فرمایا کہ ”یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مسجد دصدی بھی ہے اور مجد دالف آخر بھی.“ (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 208) الف آخر کا مطلب ہے کہ آخری ہزار سال.اس کی وضاحت آپ نے یہ فرمائی کہ ہمارے آدم کا زمانہ سات ہزار سال ہے اور ہم اس وقت آخری ہزار سال سے گزر رہے ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے کے ایک ہزار سال کو اندھیر اسال فرمایا تھا، اندھیرا زمانہ ہو گا اور پھر مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا چودھویں صدی میں، اور پھر مسیح و مہدی کے ظہور کے ساتھ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو گی.اُس اندھیرے ایک ہزار سال میں کئی مجد دین پیدا ہوتے رہے.مختلف علاقوں میں مجددین پیدا ہوتے رہے.لیکن اُن کی حیثیت چھوٹے چھوٹے لیمپوں کی تھی جو اپنے علاقے کو روشن کرتے رہے، اپنے وقت اور صدی تک محدود ر ہے، بلکہ ایک ایک وقت میں کئی کئی آتے رہے.لیکن یہ اعزاز اس عظیم الشان مجدد کو ہی حاصل ہوا کہ اُس کو آخری ہزار سال کا مجدد کہا گیا.آپ کا اعزاز صرف ایک صدی کا مجدد ہونے کا نہیں بلکہ آخری ہزار سال کا مجدد ہونے کا ہے، کیونکہ دنیا کی زندگی کا یہ آخری ہزار سال تھا.تو آپ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے یہ ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پید اہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اُس کے لئے بطور ظل کے ہو.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 208) اُس کے زیر نگین ہو گا، اُس کے تابع ہو گا.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صدی میں مجدد آسکتے ہیں آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آسکتے ہیں لیکن آپ کے ظال کے طور پر.اور جس ظل کی آپ نے بڑے واضح طور پر نشاندہی فرمائی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہے اور وہ حدیث یہ ہے: حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں جب تک اللہ تعالیٰ
292 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم چاہے گا نبوت قائم رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا اور پھر جب تک اللہ چاہے گا خلافت علی منہاج النبوۃ قائم رہے گی.پھر وہ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھالے گا.پھر ایذارساں بادشاہت جب تک اللہ چاہے گا قائم ہو گی.پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا.پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی، جب تک اللہ چاہے وہ رہے گی.پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھالے گا.اُس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی، پھر آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 6 مسند النعمان بن بشیر صفحہ 285 حدیث نمبر 18596 عالم الكتب بيروت 1998) پس خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو جائے گی تو یہی حقیقت میں تجدید دین کا کام کرنے والی ہو گی.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ ہیں کہ ”میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں، اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.“ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306) اور دوسری قدرت کی مثال آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے دوسری قدرت کا نمونہ دکھایا.پس آپ جو آخری ہزار سال کے مجدد ہیں آپ کے ذریعہ سے حدیث کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی.تو خلافت ہی اس کام کو آگے چلائے گی جو تجدید دین کا کام ہے، جو مجدد کا کام ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تربیت، اصلاح، تبلیغ کے کام جو ہیں خلافت کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں اور گزشتہ ایک سو تین سال سے ہم دیکھ رہے ہیں.پس عین ممکن ہے کہ آئندہ صدیوں میں بھی اس حدیث کے مطابق بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا ہے کوئی مجد د ہونے کا اعلان کرے لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تابع ہو.اور اُس دوسری قدرت کا مظہر ہو جس کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.پس اگر کبھی دو صدیوں کے سنگم پر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسے مجدد کا مقام کسی بھی خلیفہ کو دے سکتا ہے.جو اُس وقت کا خلیفہ ہو گا، وہ اُس سے اعلان کروا سکتا ہے.کیونکہ ایسے مجد دین بھی اُمت میں پیدا ہوتے رہے ہیں جن کی وفات کے بعد پھر لوگوں نے کہا کہ مجدد تھے.سوضروری نہیں کہ مجدد کا اعلان بھی ہو.لیکن اگر اللہ چاہے تو مجدد کا اعلان اُس خلیفہ سے کروا سکتا ہے کہ میں مجد د ہوں.لیکن یہ بھی واضح ہو کہ ہر خلیفہ اپنے وقت میں مجدد ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اُسی کام کو آگے بڑھا رہا ہے جو نبی کا کام ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام ہے.چاہے وہ مسجد دہونے کا اعلان کرے یا نہ کرے کیونکہ مجدد ہونے کے اعلان سے یا مجدد ہونے سے خلافت کا مقام نہیں بنتا.بلکہ خلافت کا مقام پہلے ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر خلیفہ مجدد ہوتا ہے.مجدد کا مطلب ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے بدعات کا خاتمہ کرنے والا، اصل تعلیم کو جاری رکھنے والا ، اصلاح کی کوشش کرنے والا، تبلیغ اسلام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہوئے اُس کو آگے پھیلانے والا.پس یہ کام تو خلافت احمد یہ کے تحت ہو ہی رہا ہے.بلکہ یہ کام تو خلافت کے نظام کے تحت مستقل مبلغین کے علاوہ بہت سے احمدی بھی اپنے دائرے میں کر
293 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم رہے ہیں.گویا تجدید دین کے یہ چھوٹے چھوٹے دیے یا lamp تو ہر جگہ جل رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں تو تجدید دین کے لئے ایک ایک وقت میں سینکڑوں نبی اور مجدد گزرے ہیں، وہی نبی جو تھے وہ خلیفہ بھی کہلاتے تھے اور مجد د بھی کہلاتے تھے.(ماخوذ از تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 123) اسلام میں ہزاروں کیوں نہیں ہو سکتے ؟ الفاظ میرے ہیں، مفہوم کم و بیش یہی ہے.اور یہ جو سوال اُٹھتا ہے کہ ہر صدی کے مجدد تھے، اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے بارہ صدیوں کے بارہ مجد د گزرے ہیں اور چودھویں صدی کے تیرھویں مجدد آپ ہیں.تو تاریخ اسلام سے تو یہ ثابت ہے کہ ہر علاقے میں مجد دین پیدا ہوئے ہیں یہ صرف بارہ کا سوال نہیں ہے بلکہ ایک ایک وقت میں کئی کئی مسجد دین پیدا ہوئے ہیں.دین کی اصلاح کے لئے جہاں جہاں ضرورت پڑتی رہی اللہ تعالیٰ لوگوں کو کھڑا کر تا رہا.لیکن پھر سوال یہاں یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں بھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ ہم بارہ مسجد دین کیوں گنتے ہیں ؟ عربوں میں تو اکثریت ایسی ہے جو اس بات کو نہیں مانتی کہ یہ بارہ مجد دتھے ، خاص طور پر اس ترتیب سے جس سے ہم ہندوستانی مسجد دین گنتے ہیں.اکثریت مسلمانوں کی یہ تو مانتے ہی نہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ایک بہت اچھا جواب دیا ہے.آپ ایک جگہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ ہندوستانی بارہ مجد دین کے نام پیش کرتے ہیں کہ شاید یہ تمام دنیا کے لئے تھے حالانکہ یہ غلط ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ : مجد دین کے متعلق لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ایک ہی مجدد ساری دنیا کی طرف مبعوث ہو تا ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک اور ہر علاقے میں اللہ تعالیٰ مجد د پیدا کیا کرتا ہے مگر لوگ قومی یا ملکی لحاظ سے اپنی قوم اور اپنے ملک کے مجدد کو ہی ساری دنیا کا مجدد سمجھ لیتے ہیں ، حالا نکہ جب اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں میں مختلف مجد دین کھڑے ہوں.حضرت سید احمد صاحب بریلوی بھی بے شک مجدد تھے مگر وہ ساری دنیا کے لئے نہیں تھے بلکہ صرف ہندوستان کے مجدد تھے.اگر کہا جائے کہ وہ ساری دنیا کے مجدد تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عرب کو کیا ہدایت دی.انہوں نے مصر کو کیا ہدایت دی.انہوں نے ایران کو کیا ہدایت دی.انہوں نے افغانستان کو کیا ہدایت دی.ان ملکوں کی ہدایت کے لئے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا لیکن اگر ان ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو ان میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صاحب وحی اور صاحب الہام تھے اور جنہوں نے اپنے ملک کی رہنمائی کا فرض سر انجام دیا.پس وہ بھی اپنی اپنی جگہ مجدد تھے.“ وہ لوگ چاہے انہوں نے اعلان کیا یا نہیں، کسی نے اُن کے بارے میں کہا یا نہیں، جنہوں نے بھی دین کی رہنمائی کا فرض ادا کیا، اصلاح کا فرض ادا کیا وہ اپنی اپنی جگہ مجدد تھے.”اور یہ بھی اپنی جگہ مجدد تھے “یعنی ہندوستان والے.فرق صرف یہ ہے کہ کوئی بڑا مجدد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا.ہندوستان میں آنے والے مجددین کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ اُس ملک میں آئے جہاں مسیح موعود نے آنا تھا اور اس طرح اُن کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے بطورِ ارہاص تھا“.آپ سے پہلے آنے والے تھے ، بتانے والے تھے کہ مسیح.
294 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم موعود آنے والا ہے.چودھویں صدی کا مجدد آنے والا ہے.فرماتے ہیں کہ ”ورنہ ہمارا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صرف یہی مجدد ہیں باقی دنیا مجد دین سے خالی رہی ہے.ہر شخص جو الہام کے ساتھ تجدید دین کا کام کرتا ہے وہ روحانی مجد د ہے.ہر شخص جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے تجدید کا کوئی کام کرتا ہے وہ مجدد ہے چاہے وہ روحانی مجدد نہ ہو.جیسے میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ اور نگزیب“ (جو بادشاہ تھاوہ) ” بھی مجدد تھا.حالانکہ اور نگزیب کو خود الہام کا دعویٰ نہیں تھا“.( تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 199 ) پس یہ حقیقت ہے مجددین کی کہ ایک ایک وقت میں کئی کئی ہو گئے، بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں.جبکہ خلیفہ ایک وقت میں ایک ہی ہو گا.اب حیثیت اُس کی بڑی ہے جو ایک وقت میں ایک ہو یا وہ جو ایک وقت میں کئی کئی ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خلافت کو مقام دیا ہے کہ وہ علی منہاج نبوت ہو گی.مجددیت کو کوئی اہمیت نہیں دی.اور جو حدیث ہے مجدد کے بھیجے جانے کے متعلق اُس کے الفاظ یہ ہیں.حضرت ابو ہریرۃ سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایسا مجدد بھیجے گا جو اُس اُمت کے دین کی تجدید کرے گا.(سنن أبي داؤد كتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة حديث 4291) اب یہاں ترجمے میں تو انہوں نے واحد کا صیغہ استعمال کیا ہے لیکن یہاں کئی لوگ بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ عربی دان کہتے ہیں مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِینَھا میں مَنْ جو ہے اس میں جمع کا صیغہ بھی استعمال ہو سکتا ہے.تو جو اُمت کے دین کی تجدید کرے گا یعنی اُمت میں جو بگاڑ پید اہو گیا ہو گا اُس کی اصلاح کرے گا اور دین کی رغبت اور اُس کے لئے قربانی کو بڑھائے گا.اب ہر صدی کے سر پر مجدد کہا ہے، یا ہر صدی میں مجدد کہا ہے، یا مجد دین کا کہا ہے تو اس کو اگر خلافت علی منہاج نبوت والی حدیث سے ملا کر پڑھیں تو اُس میں پہلے نبوت، پھر خلافت علی منہاج نبوت کا بیان فرمایا.پھر اس نعمت کے اُٹھ جانے کے بعد بادشاہت کا، ایذارسان بادشاہت ہے.اب جب تک خلافت علی منہاج نبوت تھی پھر اُس کے بعد صحابہ بھی زندہ رہے، بلکہ تابعین بھی رہے، تبع تابعین بھی زندہ رہے، ایک صدی گزر گئی، دین میں اتنا بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا.اُس وقت تک مجدد کے لئے نہیں کہا.صدی گزرنے کے بعد فرمایا کہ مجدد پیدا ہو گا.کیونکہ مجددین کی پہلی صدی میں ضرورت نہیں تھی.مجدد آنے کی پیشگوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو سال گزرنے کے بعد کی فرمائی ہے.گویا یہ ایک لحاظ سے خلافت کے ختم ہونے کی پیشگوئی بھی تھی اور بدعات کے اسلام میں داخل ہونے کی پیشگوئی بھی تھی کہ زیادہ کثرت سے بدعات داخل ہو جائیں گی.مختلف فرقے بن جائیں گے.گو یہ بدعت ایسی چیز تھی جس کی اصلاح کے لئے مسجد دین نے پید اہونا تھا اور پھر یہ مجددین کا سلسلہ اس اصلاح کے لئے شروع ہوا.اور جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی لکھا ہے تاریخ بھی ثابت کرتی ہے کہ ایک ایک وقت میں کئی کئی مجددین ہوئے.لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مسیح موعود اور عظیم الشان مجدد اور آخری ہزار سال کے مجدد کے آنے کی خوشخبری دی تو پھر دوبارہ خلافت علی
295 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم منہاج نبوت کی خوشخبری دی.پھر آپ نے خاموشی فرمائی.پس مجددیت کی ضرورت جس نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر اپنے محدود دائرے میں تجدید دین کرنی ہے یا کرنی تھی تو وہ اُس وقت تک تھی جب تک کہ مسیح موعود کا ظہور نہ ہوتا.جب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ظہور ہو گیا جو چودھویں صدی کے مجد د بھی ہیں اور آخری ہزار سال کے مجدد بھی ہیں تو پھر اس نظام نے چلنا تھا جو خلافت علی منہاج نبوت کا نظام ہے.اور جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ زبر دست قدرت ہے.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی طرف مختلف روحوں کی رہنمائی بھی فرماتا رہتا ہے.اُن لوگوں کو جن کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ مختلف مذہبوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، رؤیا میں اُن کو خلفاء کو دکھا کر اس بات کی تائید فرماتا ہے کہ اب نظام خلافت ہی اصل نظام ہے اور اس کے ساتھ جڑ کر ہی تجدید دین کا کام سر انجام پانا ہے.کیونکہ نہ ہی قرآنِ کریم میں اور نہ ہی حدیث میں کہیں مجددوں کا ذکر ملتا ہے ہاں خلافت کا ذکر ضرور ملتا ہے جس کا گزشتہ جمعہ سے پہلے 27 مئی کے خطبہ میں جیسا کہ میں نے کہا میں نے آیت استخلاف کے حوالے سے ذکر بھی کیا تھا.پس مجددیت اب اُس خاتم الخلفاء اور آخری ہزار سال کے مجدد کے ظہور کے بعد اُس کے ظل" کے طور پر ہو گی اور حقیقی ظل جو ہے وہ نظام خلافت ہے.اور وہی تجدید دین کا کام کر رہی ہے اور کرے گی انشاء اللہ تعالی.پس اس بحث میں پڑنے کی بجائے کہ اگلی صدی کا مجدد کب آئے گا اور آئے گا کہ نہیں آئے گا یا آسکتا ہے یا نہیں آ سکتا ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی پر پختہ یقین پیدا کرتے ہوئے آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے.اپنی اصلاح کی طرف نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنی نسلوں کی اصلاح کی طرف نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے.اپنے آپ کو بھی بدعات سے بچانے کی ضرورت ہے اور اپنی نسلوں کو بھی بدعات سے بچانے کی ضرورت ہے.حقیقی اسلامی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے اور اُسے پھیلانے کی ضرورت ہے.اس زمانے میں اشاعت کا کام مختلف ذریعوں سے بھی ہو رہا ہے.کتابوں کی رسالوں کی صورت میں بھی اور ٹی وی چینل کے ذریعے سے بھی، اور اسی وجہ سے ہمارے اوپر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اس کام کو آگے بڑھائیں.اس کام کو بجالانے کی طرف ہمیں بھر پور توجہ دینی چاہئے.اسلام میں جو بدعات اور غلط تعلیمات داخل ہو گئی ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دُور فرمایا ہے اور خلافت احمد یہ اسی کام کو آگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہے.پس اس طرف ہر احمدی کو بھی پوری طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے.ابھی کل یا پرسوں کی ڈاک میں میں دیکھ رہا تھا کہ ایک عرب نے لکھا کہ ملاؤں کے عمل اور مختلف قسم کی بدعات اور غلط تعلیمات اور نظریات سے میرا دل بے چین تھا، اتفاق سے مجھے ایم.ٹی.اے کا چینل مل گیا اُس پر اسلام کی حقیقی تعلیمات دیکھیں، حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ وفات یافتہ ہیں نہ کہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پھر یہ باتیں سُن کر دل کو تسلی ہوئی.لکھنے والے لکھتے ہیں کہ کیونکہ میر ادل پہلے ہی اس بات کو نہیں مانتا تھا کہ کوئی شخص دو ہزار سال سے زندہ آسمان پر موجو د ہو.اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ پس میں جماعت میں شامل ہو تا ہوں.تو یہ چیزیں ہیں جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے دنیا کو پتہ لگ رہی
296 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہیں.سو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد کوئی نئے مجدد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اب پورا ایک ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی مجدد ہیں جس کا آپ نے خود ذکر فرمایا ہے.اور اس کے لئے ہمیں آپ کا بھر پور دست و بازو بنے کی ضرورت ہے تاکہ اصل تعلیم کو دنیا کے سامنے نکھار کر پیش کریں.اس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی اور مسجد دالف آخر کو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان مہیا فرما دیئے ہیں.ہم نے صرف دنیا کی تربیت کے لئے اُن کو آگے پہنچانا ہے.اس لئے ہر وہ شخص جو اس خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے میں کوشاں ہو گا اور پھیلانے کی طرف توجہ دے رہا ہے آپ کا اور آپ کی خلافت کا سلطان نصیر بن رہا ہے اور وہ تجدید کاہی کام کر رہا ہے.پس ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ اس کام کو ہم آگے بڑھانے والے ہوں اور اسلام کی فتح کے نظارے دیکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت ایک افسوسناک اطلاع ہے.ابھی جمعہ کے بعد ایک جنازہ ہے جو میں پڑھاؤں گا.یہ مکرم خیر الدین با روس صاحب آف انڈونیشیا کا ہے.یہ 1947ء میں Medan انڈونیشیا میں پیدا ہوئے اور 1971ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق پائی.1973ء میں انہوں نے جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخلہ لیا.اور فصل خاص میں داخل ہوئے.پھر اردو زبان سیکھی.پھر مسلسل محنت کے ساتھ پڑھائی کرتے ہوئے آپ 1982ء میں جامعہ سے شاہد ڈگری حاصل کر کے کامیاب ہوئے.آپ کی پہلی تقرری انڈونیشا میں بطور مبلغ سلسلہ جون 1982ء میں اپنے آبائی شہر Medan میں ہوئی.پھر 83ء میں چار ماہ کے لئے ملائشیا بھجوایا گیا، جہاں انہوں نے کوالا لمپور میں مسجد کی تعمیر کا کام کروایا.ملائشیا سے واپسی پر 1993ء میں آپ کو انڈو نیشیا کی مختلف جماعتوں میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق ملی.1993ء سے 1998ء تک آپ بطور مشنری انچارج فلپائن کام کرتے رہے.98ء سے آپ کی تقرری پاپوا نیو گنی میں بطور مبلغ انچارج ہوئی اور اپنی وفات تک آپ وہیں خدمت کی توفیق پارہے تھے.6 جون 2011ء کو مختصر علالت کے بعد بقضائے الہی وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ خیر الدین باروس صاحب ایک مخلص، اطاعت شعار اور کامل وفا اور وقف کی روح کے ساتھ خدمت دین بجالانے والے مبلغ سلسلہ تھے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.ان کے ذریعے سے بہت سی جماعتیں قائم ہوئیں.مساجد تعمیر ہوئیں.جماعت نے جو بھی کام ان کے سپرد کیا بڑی ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے انہوں نے ادا کیا.موصی بھی تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کافی شادیاں تھیں اور اس وقت آپ کی تین بیویاں ہیں اور گل بچوں کی تعداد چودہ ہے جن میں آٹھ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ سب لواحقین کو صبر کی تو فیق عطا فرمائے اور باروس صاحب کے درجات بلند کرے.اور نیک اور صالح اور خادم دین ان کی نسل میں سے بھی پیدا ہوتے رہیں.الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ یکم جولائی تا 7 جولائی 2011 ءجلد 18 شمارہ 26 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد نهم 297 24 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 2011ء بمطابق 17 احسان 1390 ہجری شمسی بمقام گراس گیراؤ (جرمنی) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.ایک احمدی غور کرے تو اس احسان پر تمام زندگی بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر تار ہے تو پھر بھی ادا نہیں کر سکتا.کہتے ہیں اس وقت دنیا میں مسلمان دو ارب کے قریب ہیں.سب کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی اور حکم ہے کہ چودھویں صدی میں مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا.ایک اندھیرے زمانے کے بعد پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہو گا.اس لئے جب وہ ظہور ہو ، وہ نشانیاں پوری ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ نشانی کہ چاند اور سورج گرہن رمضان کے مہینے میں مقررہ تاریخوں پر ہو تو یہ ایک ایسی نشانی ہے کہ جب سے کہ زمین و آسمان بنے ہیں یہ نشانی کبھی واقع نہیں ہوئی، تو اُس خدا کے فرستادے اور میرے عاشق صادق کو مان لینا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.پھر قرآنِ کریم نے وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعه: 4) کہہ کر مزید اس طرف توجہ پھیر دی اور جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر فرما دی کہ غیر عرب لوگوں میں سے اُس کو تلاش کرنا.(صحیح بخارى كتاب التفسير سورة الجمعة باب و آخرین منھم...حدیث نمبر 4897) اور آپ نے فرمایا کہ برف کے سلوں پر بھی گھٹنوں کے بل چل کر جانا پڑے تو جانا اور اُسے میر اسلام پہنچانا.(ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المھدی حدیث 4084) پھر مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ ہدایت پر رہنے اور ہدایت قبول کرنے کی دعائیں بھی سکھائیں لیکن اس کے باوجود اس وقت تک پانچ سات فیصد لوگوں کو ہی زمانے کے امام کو پہچاننے کی توفیق ملی.باوجود اس کے کہ مسلمان اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقیم کی دعا اپنی نمازوں میں کئی بار پڑھتے ہیں.اور باوجود اس کے کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ قرآنِ کریم کی پیشگوئیاں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اور ارشادات سامنے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت اس امام کو جو زمانے کا امام ہے ، ماننے سے انکاری ہے.اور نہ صرف ماننے سے انکاری ہے بلکہ تکذیب پر شدت سے زور دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سعید فطرت غیر مسلموں
298 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بلکہ لا مذ ہبوں اور اس سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والوں کو بھی ہدایت عطا فرمارہا ہے ، ہدایت کے راستوں کی طرف رہنمائی فرمارہا ہے.اور ان لوگوں میں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں جماعت میں شامل ہوتے ہیں.لیکن بد قسمتی سے نام نہاد اور مفاد پر ست ملاؤں کے پیچھے چل کر بعض جگہ مسلمان کہلانے والوں نے امام الزمان کی دشمنی کی انتہا کی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کو عقل دے.علماء جو نام نہاد علماء ہیں وہ تو ایسے حال پر پہنچے ہوئے ہیں کہ لگتا ہے اُن کے لئے بظاہر اصلاح کے سب ذریعے بند ہو چکے ہیں.لیکن وہ لوگ جو معصومیت میں یا اپنے خیال میں عشق رسول میں ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ صحیح راستوں کی طرف ہدایت عطا فرمائے تاکہ وہ امام کو پہچا نیں.اور جو دشمنی وہ اس زمانہ کے امام سے کر رہے ہیں، جس کی بعض جگہوں پر انتہائی حدوں کو چھٹو ا جارہا ہے، اُس سے وہ باز آجائیں اور اپنی عاقبت سنوارنے والے بن جائیں.کاش راهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا مسلمانوں کے دل کی آواز بن کر نکلے اور مسلم امت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنے.اور دنیا ان کو بھی عزت اور تکریم کی نظر سے دیکھنے والی ہو.ایک جگہ اس یعنی اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: قرآن شریف نے جیسا کہ جسمانی تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیر حکم ہو کر چلیں.یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحه: 6 - 7 - پس سوچنا چاہئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان، بلکہ کوئی حیوان بھی خدا تعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے.لہذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر نعمت روحانی کی بارش ہوئی ہے ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تاہم ان کی پیروی کریں.سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد نمبر 13 صفحہ 494) ساتھ ہو جاؤ“.امام الزمان کی تعریف آپ نے یہ فرمائی کہ وہ رسول بھی ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لئے مامور فرمائے.پس اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق امام الزمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق مسیح موعود و مہدی معہود ہی ہیں جو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انعام لے کر مبعوث ہوئے ہیں.اس لئے وہ انعام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے تا قیامت جاری رہنا ہے ، اب آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے جاری رہنا ہے.اور جیسا کہ آپ نے فرمایا یہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مجڑ کر ہی دوسروں کو مل سکتا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 299 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء آج سے چودہ سو سال پہلے جو نعمت جاری ہوئی اس سے آپ کے صحابہ نے خوب فیض پایا.ہر وقت اس فکر میں رہتے کہ کس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اپنے ایمانوں میں تازگی پیدا کریں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا وِرد اُن کی زبانوں پر ہوتا تھا.نماز پڑھتے تھے تو ہر ہر لفظ اور دعا اُن کے دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھی.ایک ایسار شتہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قائم فرمایا تھا جس کی مثال نہیں ملتی.اور پھر خدا تعالیٰ نے بھی اُن کو ایسا نوازا کہ رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کا خطاب اور اعزاز انہوں نے پایا.پس اس نعمت کو حاصل کرنے کے لئے اور ہدایت پر قائم رہنے کے لئے صراط مستقیم پر ہمیشہ چلتے چلے جانے کے لئے جب ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مانتے ہوئے اس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی کو مانا ہے تو پھر اس سے ایسا تعلق ہمیں جو ڑنا ہو گا جو ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائے اور جب کہ ہم نے خود بیعت کے وقت یہ عہد کیا ہے کہ اس رشتے کو ہم سب سے سوا رکھیں گے ، سب رشتوں پر فوقیت دیں گے.جیسا کہ دسویں شرط بیعت میں درج ہے.وہ شرط یہ ہے: یہ کہ اس عاجز سے ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے) عقد اخوت محض اللہ با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ نمبر 160) پس صرف بیعت کر کے ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ہماری اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا قبول ہو گئی یا اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا قبول کرلی اور ہمیں اپنے فضل سے اُن کے گھروں میں پیدا کر دی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمانے کے امام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دی، یہ کافی نہیں ہے.اب جب ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس امام کو مان لیا ہے تو ہمیں آگے قدم بھی بڑھانے ہوں گے.بلکہ اب پہلے سے بڑھ کر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی دعا کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ یہ عہد جو طاعت در معروف کا ہم نے باندھا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ قائم رکھے.ہم صراط مستقیم پر ہمیشہ چلتے چلے جانے والے ہوں.اور ہم اس قرآنی حکم پر عمل کرنے والے ہوں کہ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ (البقرة : 133) پس ہر گز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبر دار ہو.انسان پر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو وہ کبھی اپنی کوشش سے کامل اطاعت اور فرمانبرداری نہیں دکھا سکتا.اُسے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہو گا.اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر وقت متوجہ رکھنے کے لئے یہ دعا سکھا دی ہے.اور ہر نماز میں اور ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ حکم دیا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کو سامنے رکھو.کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہدایت دینے والا ہے.اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں قائم رکھتے ہوئے اس سے راہِ ہدایت پر قائم رہنے کی دعا کرتے چلے جاؤ.اس کے بغیر یہ بہت مشکل ہے کہ انسان کسی سے ایسا تعلق رکھے جو کسی اور خادمانہ حالت میں پائی نہ جاتی ہو.ایسا تعلق ہو جو کسی بھی اور رشتے میں پایانہ جاتا ہو.ایسا تعلق ہو جس میں کامل اطاعت ہو اللہ تعالیٰ کے
خطبات مسرور جلد نهم 300 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء فضلوں کے بغیر ممکن نہیں.پس اللہ تعالیٰ سے ہی ہدایت چاہنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے ہی مدد چاہنے کی ضرورت ہے.پس اگر ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ عہد بیعت کو حقیقت میں نبھانا ہے تو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی حقیقت کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے.اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے.ایک تڑپ کے ساتھ اس دعا کو مانگنے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس امام کے ساتھ بجڑنے کے بعد صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے زمانے کے امام کی بیعت کر لی اور بس.بلکہ پھر اُس نظام کے ساتھ بھی تعلق جوڑنا ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمایا ہے اور جس کا بیان آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ 'رسالہ الوصیت میں فرما دیا کہ وہ خلافت کا نظام ہے.ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان لیتا ہے لیکن اگر اس آئندہ آنے والی قدرت کا انکاری ہے یا طاعت در معروف کے عہد میں حیل و حجت سے کام لیتا ہے تو پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خادمانہ تعلق کو بھی توڑنے والا بن گیا ہے اور پھر اُن برکات سے بھی محروم ہو گیا ہے جو آپ کے ساتھ جڑے رہنے سے ملتی ہیں.غیر مبائعین کی مثال ہمارے سامنے بڑی واضح مثال ہے.انہوں نے بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت تو کی یا بیعت کرنے کا دعویٰ تو کیا لیکن آپ کے اس پیغام کہ خلافت کے نظام کو بھی اُسی قدرت کا تسلسل سمجھنا جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے جاری فرمائی ہے، کو اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ سمجھے یانہ سمجھنے کی کوشش کی.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کے بعد پھر دوسری قدرت کے ساتھ بھی تعلق اخوت اور وفا کو قائم کیا.لیکن ایک احمدی کے لئے یہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی انتہا نہیں ہے.جیسا میں نے کہا، محاسبہ نفس ہر وقت کرتے رہنا چاہئے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ایک تسلسل ہے آگے بڑھتے چلے جانے کا.اور ہر وقت ہدایت کی راہ کی تلاش میں رہتے ہوئے اس کے لئے استقامت کی دعا کرنا ہی ایک مومن کی شان ہے.عام انسان جو روحانیت کے اعلیٰ مدارج پر نہیں ہے اُس کی تو ہر وقت شیطان سے لڑائی ہے، یا یہ کہہ لیں کہ باوجو د نیکیاں بجالانے کے شیطان اس کو ورغلانے کے پیچھے لگا ہوا ہے.باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے باوجو د خلافت سے وفا کا تعلق جوڑنے کے ، باوجو د مالی قربانیوں میں حصہ لینے کے ، باوجو د جماعتی خدمات اور وقار عملوں میں حصہ لینے کے کئی لوگ ایسے ہیں جو مجھے مل کر خود اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ نمازوں میں سست ہوں.اور نماز جو انسان کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہے اُس میں اگر سستی ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ دوسری نیکیوں کو بھی چھڑا لیتی ہے.اور ایسے بھی ہیں جو بہت سی نیکیاں تو کرتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں لیکن اپنے گھر میں ، اپنے اہل کے ساتھ سلوک میں اچھے نہیں ہیں.یہ بھی ہدایت کے راستے سے بھٹکنے والے لوگ ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی بیشک دعا کر رہے ہوں لیکن تمام حکموں پر عمل کرنے والے نہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا ہے.(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء حديث (1977) پس ہدایت کے راستے تلاش کرنے والا ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو سامنے رکھ کر ، اس عشق و محبت کو سامنے رکھ کر جو ایک مومن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا چاہئے ، یہ کوشش
301 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کرتا ہے کہ اُس پر چلے جس پر اللہ اور اُس کا رسول ہمیں چلانا چاہتا ہے.جب ہم اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر وہ ٹارگٹ ہو ، وہ اسوہ ہو جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے.جس کو آپ سے فیض پانے والے صحابہ نے ہمارے سامنے رکھ کر منعم علیہ لوگوں کا نمونہ دکھایا.جس کو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے قول و فعل سے ہمارے سامنے پیش فرما کر ہمیں اند ھیروں سے روشنی کی طرف جانے کے راستے دکھائے.جن کے ذریعے سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کر کے اعلیٰ روحانی مدارج کو حاصل کیا.میں نے گھریلو زندگی کا ذکر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے صحابہ کو اپنے اہل سے پنے گھر والوں سے حسن سلوک کا کس طرح ارشاد فرماتے تھے ؟.ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہو کر یہ بیان کیا کہ میری بیوی اپنے میکے میں اتنا عرصہ رہ کر آئی ہے اور اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے کبھی میکے نہیں جانے دینا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بات کوٹن کر بڑا رنج پہنچا، بڑی تکلیف ہوئی.آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے کہا کہ ہماری مجلس سے چلے جاؤ کہ یہ باتیں ہماری مجلس کو گندہ کر رہی ہیں.اور آپ نے کافی سخت الفاظ اُنہیں فرمائے.پھر اُنہوں نے معافیاں مانگیں.ایک دوسرے صحابی جو اپنی بیوی سے زیادہ حسن سلوک نہیں کرتے تھے وہ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے ، وہ وہاں سے فوراً اُٹھ کر بازار گئے.بازار جا کر کچھ چیزیں بیوی کے لئے خریدیں اور گھر لے جا کر اُس کے سامنے رکھیں کہ یہ تمہارے لئے تحفہ ہیں اور بڑے پیار سے باتیں کیں.بیوی پریشان کہ آج میرے خاوند کو کیا ہو گیا ہے.یہ انقلاب کیسا ہوا ہے ؟ اُس سے پوچھا کہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی مجلس میں بیوی سے بد سلوکی کا بیان ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سخت تکلیف اور ناراضگی دیکھ کر آیا ہوں.اللہ میرے گزشتہ گناہ معاف کرے.جو تم سے میں سلوک کرتا رہا تم بھی مجھے معاف کرو اور آئندہ حسن سلوک ہی کروں گا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 128-129 روایات محمد اکبر صاحب تو یہ تبدیلی ہے جو ہدایت کے راستوں کی طرف لے جاتی ہے.گھریلو زندگی سے شروع ہوتی ہے.معاشرے میں پھیلتی ہے اور پھر دنیا میں پھیلتی ہے اور اسی بات کا آج ایک احمدی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت باندھا ہے.اور اسی سے پھر اللہ تعالیٰ کے قرب کے رشتے حاصل ہوتے ہیں.تو ہدایت صرف کسی مامور کو مان لینا نہیں ہے یا نظام سے وابستہ ہو جانا ہی نہیں ہے بلکہ اپنی زندگیوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنا اور اُس پر قائم ہونا ہدایت کی اصل ہے، بنیاد ہے.پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا صرف حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے نہیں ہے.یہ دعا صرف اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے نہیں ہے بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو فرمایا ہے یہ دعا تمہاری زندگی کے ہر شعبے کے لئے ہے.(ماخوذ از کشی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 58-59)
خطبات مسرور جلد نهم 302 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء یہاں آپ میں سے بھی کئی لوگ ہیں جن میں سے بعض کا مجھے علم ہے جو اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں، بعض ایسے ہیں جن کا علم نہیں ہے.باہر وہ بڑے اچھے ہیں ، لوگوں کی نظر میں انتہائی شریف اور راہ ہدایت پر قائم ہیں لیکن اپنے گھروں کے معاملات میں صراطِ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں.اپنے اہل سے حسن سلوک کرنا، اپنے گھر والوں سے حسن سلوک کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ بیان فرما کر کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے، آخر میں اپنی مثال دی کہ میں تم میں سب سے زیادہ اپنے اہل سے حسن سلوک کرنے والا ہوں.(سنن ابن ماجه كتاب النكاح باب حسن معاشرة النساء حديث 1977) یہ ایک ایسا عمل ہے جو معمولی عمل نہیں ہے.اس عمل کی اہمیت بتانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال پیش فرمائی ہے.پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ہر کام کو سامنے رکھتے ہوئے مومن کو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نیکیوں کے معیار بڑھتے چلے جائیں اور جب موت آئے تو وہ خالص فرمانبرداری کی موت ہو.پس ایک حقیقی مومن وہ ہے جو امام الزمان کو مان کر ہر وقت اپنی نیکیوں کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش میں لگار ہے.ہر وقت اپنے ایمان میں ترقی کے لئے کوشاں رہے.اللہ سے یہ دعا مانگے کہ جس صراطِ مستقیم پر تو نے مجھے قائم فرما دیا ہے اس میں میرے قدم ترقی کی طرف بڑھیں.ہر وقت اس کوشش میں ہو کہ تقویٰ میں ترقی کرنے والا ہو.جو تقویٰ میں ترقی کرتا ہے وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتا ہے اور جس کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جائے وہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں ترقی کرنے کے لئے بھی کوشش اور دعا کرتا ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی کوشش اور دعا کرتا ہے.ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرتا ہے وہ خدمت دین کی خواہش میں بھی ہر روز بڑھتا ہے اور خالص ہو کر خدمتِ دین کرنے والا ہو تا ہے.اور نہ صرف خواہش میں بڑھتا ہے بلکہ اس کے لئے ہر وہ عمل ، ہر قدم جو اس عمل کی طرف وہ اُٹھاتا ہے جس کی خدا اور اُس کے رسول نے ہدایت فرمائی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُٹھاتا ہے.پس ایک حقیقی مومن کو اُن لوگوں کی طرح نہیں بننا چاہئے جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو نیک اور پارسا سمجھتے ہیں، جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو کسی مقام پر پہنچا ہوا سمجھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کو کوئی مستقل مقام مل گیا ہے یا ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ محفوظ ہو گئے ہیں.جب کبھی انسان کو یہ خیال آیا چاہے وہ کتنا بھی پار سا ہو تو سمجھو کہ روحانی لحاظ سے وہ مارا گیا اور شیطان کے شکنجے میں آگیا.پس ہمیشہ اپنا محاسبہ کرنا اور پھر اگلی منزل کی طرف قدم بڑھانا ہی ایک مومن کا شیوہ اور شان ہے.جس نے اپنے زعم میں اپنی منزل کو پا لیا.جماعت کی تھوڑی سی خدمت کر کے اُس پر فخر ہو گیا.جماعتی خدمات کو، اپنی عبادات کو کافی سمجھ کر حقوق العباد کی طرف سے توجہ پھیر لی اگر وہ کسی مقام پر پہنچا بھی ہو تو ایک وقت میں اپنے اس عمل کی وجہ سے وہ مقام کھو دیتا ہے.اس لئے ایک حقیقی مومن صرف اپنے آج کے نیک عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنے انجام کی طرف دیکھتا ہے اور انجام بخیر ہونے کی دعا کرتا ہے.
303 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تو کسی کی قوت قدسی اس دنیا کے کسی انسان میں نہیں ہو سکتی.آپ کا کاتب وحی یا آج کل کے زمانے میں کہنا چاہئے سیکرٹری، جو نوٹس لیتے تھے، اس قدر انہوں نے قربت کا مقام پایا کہ ہر وقت وحی لکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو یاد فرماتے تھے.یہ مقام ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اس پر اعتماد تھا، آپ کو اُس پر اعتبار تھا.دوسرے مسلمانوں کی نظر میں بھی عبد اللہ بن ابی سرح کاتب وحی کا مقام یقینا ہو گا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتا ہے.لیکن انجام کیا ہوا؟ اُسے ٹھوکر لگی اور اپنے اہم مقام سے گرا دیا گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی بعض ایسے لوگ تھے جو عشق و محبت میں بڑھے ہوئے تھے ، جب ان کی بد بختی نے ان کو ٹھوکر لگائی تو وہ آپ کے اشد ترین مخالفین میں ہو گئے.آپ پر نہایت گندے اور گھٹیا الزام لگانے لگ گئے.ہر روز نئے نئے اعتراض کرنے لگ گئے.پس انجام بخیر ہونے کے لئے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا بھی بہت ضروری ہے.اس پر غور کریں اور پڑھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراطِ مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے جس کو اس سورۃ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.یا اللہ ! ہم کو سیدھی راہ دکھا اُن لوگوں کی اور جن پر تیرا انعام ہوا.یہ وہ دعا ہے جو ہر وقت ہر نماز اور ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے.اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے“.(آپ فرماتے ہیں ) ”ہماری جماعت یاد رکھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے.اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رٹ دینا اصل مقصود نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو انسانِ کامل بنانے کا ایک کار گر اور خطا نہ کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہئے اور تعویذ کی طرح مذ نظر رہے“.آپ نے فرمایا کہ اس دعا سے مخلوق کا بھی، انسان کا بھی حق ادا ہو جائے گا اور جو انسانی طاقتیں انسان کو دی گئی ہیں اُن کا بھی حق ادا ہو جائے گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرناہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تاکہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے“.(الحکم 31 مارچ1905ءجلد 9نمبر 11 صفحہ 5-6) یہ بہت بڑا کام ہے.ایک اعزاز تو ہے لیکن بہت بڑا کام ہے، بہت بڑی ذمہ واری ہے جماعت کے ہر فرد پر کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر ہر احمدی کو گواہ ٹھہر نا چاہئے.پس ہر احمدی قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر تبھی گواہ ٹھہر سکتا ہے جب اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا پڑھتے ہوئے ترقی کے مدارج طے کرتا جائے اور انعام یافتہ لوگوں کے معیار حاصل کرتا چلا جائے.قرآن کریم کی تعلیم کے ہر پہلو کو اپنی زندگی کا حصہ بنالے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل
304 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کرنے کی کوشش ہو.پس یہ مدارج حاصل کرنے کے لئے ہم نے کوشش کرنی ہے اور جب ہم یہ کوشش کریں گے تو حقیقت میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے مضمون کو سمجھنے والے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو بھی پورا کرنے والے ہوں گے.ورنہ یہ دعا بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے طوطے کی طرح رٹے ہوئے الفاظ ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ”خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں اگر کوئی حصہ کھوٹ کا ہو گا تو اسی قدر اُدھر سے بھی ہو گا.“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں کھوٹ ہو گی تو اللہ تعالیٰ کھوٹ تو نہیں کرتا لیکن اللہ تعالیٰ اُس کھوٹ کو سمجھتا ضرور ہے اس لئے جو تم سمجھتے ہو کہ معاملے میں کھوٹ کر جاؤ گے ، دھو کہ دے دو گے، اُس دھوکہ کی وجہ سے تمہیں اجر نہیں ملے گا.اللہ تعالیٰ تو ہر چیز جانتا ہے.فرماتے ہیں مگر جو اپنا دل خدا سے صاف رکھے اور دیکھے کہ کوئی فرق خدا سے نہیں ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس سے کوئی فرق نہ رکھے گا.انسان کا اپنا دل اُس کے لئے آئینہ ہے.وہ اس میں سب کچھ دیکھ سکتا ہے.پس سچا طریق دُکھ سے بچنے کا یہی ہے کہ سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور وفاداری اور اخلاص کا تعلق دکھاؤ اور اس راہ بیعت کو جو تم نے قبول کی ہے سب پر مقدم کرو کیونکہ اس کی بابت تم پوچھے جاؤ گے“.(ملفوظات جلد 3 صفحہ 63) پس اپنے نفس کا محاسبہ ضروری ہے.دنیا میں اربوں مسلمان ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا پڑھتے ہیں، لیکن کیونکہ طوطے کی طرح آئے ہوئے الفاظ پڑھنے والا معاملہ ہے اس لئے نمازوں کے بعد اُن کی فتنہ وفساد کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے.بعض کے منہ سے جماعت کے خلاف مغلظات ہی نکلتی ہیں.مسجدوں میں کھڑے ہو کر مغلظات ہی بکتے ہیں.یا آپس کے فتنوں میں پڑے ہوئے ہیں.کیا یہ وہ صراط مستقیم ہے جس کی دعا سکھائی گئی ہے؟ یقینا نہیں.ہمارے سامنے تو اس صراط مستقیم کے راستے ہیں جو جانوروں کی حرکات چھوڑ کر انسان بنانے والی تھیں.اور پھر تعلیم یافتہ انسان بنانے والی تھیں اور پھر وہ تعلیم یافتہ انسان با خدا انسان بنے.تو یہ نمونے ہمارے سامنے کوئی قصہ کہانی کے رنگ میں نہیں ہیں کہ آئے اور ہم نے قصے سن لئے اور کہانیاں سُن لیں بلکہ ہمارے سامنے یہ نمونے ہمیں عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں.اور انہی باتوں کی طرف اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سے بیعت لی ہے.پس اس جذبے کو اپنے اندر قائم رکھتے ہوئے، قرآنی تعلیم پر عمل کر کے ہی ہم راہ بیعت کو مقدم رکھ سکتے ہیں.ورنہ خدا تعالیٰ صرف اس بات پر خوش نہیں ہو گا کہ ہم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے الفاظ کروڑوں دفعہ پڑھتے اور دہراتے رہیں.بلکہ یہ کوشش اور روح کی گہرائی سے نکلے ہوئے الفاظ جو اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر چلنے اور قائم رہنے کی دعا اور مدد مانگ رہے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے بنیں گے.ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تم پوچھے جاؤ گے کہ تمہارا دعویٰ تو کچھ
خطبات مسرور جلد نهم 305 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء اور ہے اور عمل کچھ اور ہے.پس ہر دعا کے ساتھ کوشش اور نیک نیت شرط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:72) جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اُس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے“.فرمایا ” یہ تو وعدہ ہے اور اُدھر یہ دعا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مد نظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے“.(بڑے الحاج کے ساتھ دعا کرو) اور تمنا رکھے کہ وہ بھی اُن لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں.ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اُٹھایا جاوے“.(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 38-39 مطبوعہ قادیان 1899ء) پس اب جبکہ ایک لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بصیرت عطا فرما دی کہ اللہ اور اُس کے رسول کے پیغام کو سمجھ کر زمانے کے امام سے ہم جڑ گئے ہیں، مان لیا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ ترقی کے راستے ہمیشہ کھلے ہیں اور روحانی مدارج تو ہمیشہ طے ہوتے چلے جاتے ہیں، آپ کے قدم ترقی کی طرف بڑھنے چاہئیں.آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ جماعت میں داخل ہو کر اپنے اندر ایک تغیر قائم کرو اور وہ نظر بھی آنا چاہئے.کسی بھی حکم کو خفت کی نظر سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 472) پس قرآن شریف کے سینکڑوں احکامات کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر انسان خود اپنے جائزے لے سکتا ہے اور کوشش کر سکتا ہے.اور اگر احساس ہے تو سب سے بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ خود اپنے جائزے لے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان کا دل آئینہ ہو تا ہے ذرا اپنے دل کے آئینے کو صاف کر کے اس میں اپنے چہرے دیکھیں، اس میں اپنے دلوں کی کیفیت دیکھیں تو ہر ایک کو اُس کے اندر کی کیفیت نظر آجائے گی.دوسروں پر اعتراض ختم ہو جائیں گے اور اپنی اصلاح کی طرف ہی توجہ پید اہوتی چلی جائے گی.اور خود اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف توجہ ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ اندرونی جائزے کی تبدیلی ہے جو میں جماعت میں چاہتا ہوں.پس یہ جائزے ہمیں عہد بیعت اور ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہیں گے.جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہے جو ایمان میں ترقی کے لئے کوشاں ہے.اب مومن ہونے کے جو معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمائے ہیں وہ بھی بیان کر دیتا ہوں.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”جب تک کسی کے پاس حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ نہیں ہے“ (ایک دو نیکیاں نہیں حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ نہیں ہے) تب تک وہ مومن نہیں ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا تعلیم فرمائی ہے کہ انسان چوری، زناوغیرہ موٹے موٹے بڑے کاموں کو ترک کرنا ہی نیکی نہ جان لے“.(بڑے بڑے گناہ جو ہیں ان کو
خطبات مسرور جلد نهم 306 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء نہ کرنا ہی نیکی نہ جان لو ) بلکہ.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ـ فرما کر بتلا دیا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شے ہے.جب تک اُسے حاصل نہ کرے گا تب تک نیک اور صالح نہیں کہلائے گا.دیکھو خدا تعالیٰ نے یہ دعا نہیں سکھلائی کہ تو مجھے فاسقوں اور فاجروں میں داخل نہ کر اور اسی پر بس نہیں کیا.بلکہ یہ سکھلایا کہ انعام والوں میں داخل کر “.(البدر 10 جنوری 1905ء نمبر 1 جلد 4 صفحہ 3- کالم 1 تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (سورۃ الفاتحہ) جلد اول صفحہ 287) پس جیسا کہ میں نے کہا صرف ایک آدھ نیکی نہیں بلکہ ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ جمع کرے اور یہ حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ اللہ تعالیٰ اور بندوں، دونوں کے حقوق ادا کرنے سے ہی ملتا ہے.قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”یقینا سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے.جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہو تا ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے.لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کا ملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اُسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالی پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہو سکتا“.(اگر خدا تعالیٰ پر حقیقی ایمان ہے تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ وہ گناہ نہیں کرے گا) کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے.دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں تو وہ آنکھوں سے بد نظری کیونکر کر سکتا ہے“ (آنکھیں ہی نہیں تو بد نظری کیا کرنی ہے) ” اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا.اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دیئے جائیں، شہوانی قوی کاٹ دیئے جائیں پھر وہ گناہ جو ان اعضاء سے متعلق ہیں کیسے کر سکتا ہے.ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفس مطمئنہ کی حالت میں ہوتا ہے تو مطمئنہ اُسے اندھا کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی.وہ دیکھتا ہے پر نہیں دیکھتا کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے.وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سُن سکتا.اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں.اُس کی ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہو سکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میت کی طرح ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے.وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اُٹھا سکتا.یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اُسے دیا جاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہئے“.فرمایا ”اور ہماری جماعت کو اس کی ضرورت ہے.اور اطمینانِ کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمانِ کامل کی ضرورت ہے“.فرماتے ہیں پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں“.(ملفوظات جلد 3 صفحہ 504) صرف مان لینا کافی نہیں یہ ایمان کی کیفیت ہے جو ہمیں حاصل کرنی ہے.پس یہ وہ معیار ہیں جو حضرت
خطبات مسرور جلد نهم 307 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 جون 2011ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں.اللہ کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پید ا کرتے ہوئے یہ معیار حاصل کرنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ سے قرب کے تعلق میں بڑھنے والے ہوں.جس ہدایت پر اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے، جو احسان ہم پر فرمایا ہے اُس انعام اور احسان کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی میں ترقی کرتے چلے جانے والے بنیں.اپنی نسلوں میں احمدیت کے نام کو جاری رکھنے کے لئے اپنی کوششوں اور دعاؤں میں کبھی سست نہ ہوں.ان ملکوں میں جو دنیاوی آسائشیں ہیں یہ کبھی ہمیں اپنے مقصد کے حصول سے ہٹانے والی نہ بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 8 جولائی تا 14 جولائی 2011ء جلد 18 شماره 27 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 308 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 2011ء بمطابق 24 احسان 1390 ہجری شمسی بمقام کالسرو (Karlsruhe)(جرمنی) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: الحمد للہ کہ آج پھر جر منی کا ایک اور جلسہ سالانہ دیکھنے اور سننے کی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرما رہا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے یہ جلسہ اس لئے ہم منعقد کرتے ہیں کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچانتے ہوئے خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کریں اور سال کے یہ تین دن خالصتہ اللہ گزارنے کے لئے جمع ہوں.علمی، تربیتی اور روحانی ماحول میں یہ دن گزار کر اپنے دینی علم میں ترقی کریں.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 281 اشتہار 7 دسمبر 1892ء) اپنی تربیت کے از خود جائزے لیں.جو یہاں باتیں سنیں اُن کو سن کر پھر اپنی حالتوں پر نظر رکھیں.یہ دیکھیں کہ کیا ہم اپنی کمزوریوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق قابو پاچکے ہیں یا پانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں.جلسے کے روحانی ماحول میں خدا اور رسول کی باتیں سن کر روحانیت میں ترقی کرنے والے بنیں اور بننے کی کوشش کریں.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں تربیت اور روحانیت میں ترقی کا باعث بن جاتی ہیں.ایک ماحول میں رہ کر دوسرے کی اچھی باتیں احساسات کو جھنجھوڑنے کا باعث بن جاتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بعض بد قسمت روحانی ماحول اور جلسے سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور صرف اپنے دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے آتے ہیں.ایسے لوگ چاہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت کا دعویٰ کریں لیکن حقیقت میں وہ آپ کی تعلیم سے دور بھاگنے والے ہیں.پس دعاؤں اور استغفار کے ساتھ یہ دن گزاریں.جن لوگوں کی میں نے مثال دی چاہے وہ چند ایک ہی ہوں لیکن اکثریت کی دعائیں بھی بعض دفعہ کمزوروں کے دن پھیر دیتی ہیں.جہاں اُن کی اپنی حالتیں بہتر ہوتی ہیں، ان کے ہمسایوں کی بھی حالت بہتر ہو رہی ہوتی ہے.پس دعاؤں کے ساتھ یہ دن گزاریں کہ شیطان انسان کو اُس کے نیک مقاصد سے ہٹانے کے لئے ہمیشہ کوشش میں ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اُس سے محفوظ رکھے.تمام شاملین جلسہ بھی اور تمام کارکنان بھی جن کی مختلف شعبوں میں کسی خدمت پر ڈیوٹی لگی ہوئی ہے، دعاؤں، درود اور استغفار کے ساتھ شیطان کے شر سے بچنے کی کوشش کریں.
خطبات مسرور جلد نهم 309 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء اس نئی جگہ پر اس سال جماعت احمد یہ جرمنی جلسہ منعقد کر رہی ہے.تو جس طرح منہائم میں عمومی طور پر گزشتہ بیس پچیس سال کے عرصے میں یا جو بھی عرصہ ہے اس عرصے میں وہاں جلسہ منعقد کر کے وہاں کے شہریوں اور انتظامیہ پر جماعت کا ایک اچھا نیک اثر قائم ہوا ہے، اُس سے بہتر اثر جماعت کا یہاں کے شہریوں اور انتظامیہ پر چھوڑنے کی کوشش کریں تا کہ یہ نیک نمو نے اسلام اور احمدیت کے حقیقی پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنیں.مثلاً یہاں کے ہوٹلوں کو بڑی تعداد میں ایشین لوگوں کو ٹھہرانے کا یہ پہلا موقع ہے تو قدرتی بات ہے کہ آج کل جس طرح بعض مسلمان گروپوں کی طرف سے ، اسلام کا غلط تصور پیش کیا جا رہا ہے ہو ٹلوں کے مالکان کو بھی کچھ تحفظات تھے.لیکن میرے علم میں آیا ہے کہ پولیس نے انہیں تسلی دی ہے کہ ہماری تحقیق کے مطابق یہ ایک پر امن جماعت ہے اس لئے کسی قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں.پس ان دنوں میں صرف جلسہ گاہ کے ماحول میں ہی نہیں بلکہ باہر بھی جہاں بھی احمدی رہائش پذیر ہیں یا شہر میں سے گزر کر دوسرے شہروں سے آرہے ہیں وہاں بھی، عمومی طور پر ، بھی ہر جگہ اپنے نیک نمونے چھوڑیں جو احمدیت کی تبلیغ کا باعث ہوں.آپ کے ایسے نمونے ہوں جو آپ کے حق بیعت نبھانے کا واضح اظہار کر رہے ہوں.اگر کوئی زیادتی کرتا بھی ہے تو ایک سچے احمدی کو پلٹ کر وہی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے.بعض گزشتہ تجربات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ چند ایک ایسے لوگ بھی ہیں جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں جو بظاہر احمدی ہیں جلسے کے دنوں میں اپنے دنیاوی مقاصد کے لئے آتے ہیں یا بعض دفعہ اپنی پرانی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف غلط حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں.انتظامیہ تو بہر حال ایسے لوگوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں کرے گی اور نہ کرنی چاہئے، لیکن ایک فریق کی زیادتی سے دوسرے فریق کو بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے.اور یہ دن کیونکہ خدا تعالیٰ کی خاطر گزارنے کے لئے آئے ہیں اس لئے اپنے معاملات خدا تعالیٰ پر چھوڑ نے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے.پس اس احسان کی قدر کرنا ہر بچے احمدی کا فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس جماعت میں شمولیت اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے قو میں تیار ہو رہی ہیں تو اس بات کو پر انے احمدیوں کو بھی ایک فکر کے ساتھ لینا چاہئے.اس جلسے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی نئے شامل ہونے والے احمدی مختلف ممالک سے شامل ہو رہے ہیں.اُن اپنے کی نظروں میں ، اُن کی حرکات میں ایک اخلاص اور وفاٹپک رہا ہوتا ہے.پس جو پرانے احمدی ہیں اُن کو ایک فکر ا.ایمان کے لئے بھی کرنی چاہئے اور اُن کے لئے بھی نمونے قائم کرنے چاہئیں.یہ نہ ہو کہ نئی قو میں آکر اور حقیقی مسلمان بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائیں اور پرانے احمدی خاندان دنیا میں ڈوب کر، اپنی اناؤں میں ڈوب کر ، اُن فضلوں سے محروم ہو جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہیں.پس اس سوچ کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ یہ دن گزاریں.
خطبات مسرور جلد نهم 310 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء اس اہم بات کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب میں بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض روایات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو رجسٹر روایات صحابہ سے میں نے لی ہیں جن میں مختلف قسم کے مضامین بھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ عشق و محبت کے واقعات ، آپ کی نصائح، صحابہ کے آپ کی نصائح کو سمجھنے کے طریق، آپ کی مہمان نوازی، اس کے جواب میں صحابہ کا رد عمل.ان باتوں نے صحابہ کی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کر دیا جس نے اُن کی روحانی تربیت بھی کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے عشق اور محبت کو مزید نکھارا بھی اور بڑھایا بھی.تو جیسا کہ میں نے کہا بعض واقعات آپ کی بے تکلف مہمان نوازی کے ہیں.بعض مہمانوں کے صبر اور حوصلے کے ہیں ، باتوں باتوں میں ہی بعض علمی مضامین بیان ہوئے ہیں ، بعض نصائح بھی ہیں.پس ان کو غور سے سنیں اور یہ جو ڈیوٹی والے کارکنان ہیں اُن کو بھی ان چیزوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.ایک روایت ہے.حضرت خان صاحب ضیاء الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم تین احمدی اشخاص، یعنی یہ خاکسار ( ضیاء الحق صاحب اور اُن کے خالہ زاد بھائی سید اکرام الدین صاحب اور اُن کے بہنوئی سید نیاز حسین صاحب مرحوم سو نگڑہ سے روانہ ہو کر کلکتہ ہوتے ہوئے ہم قادیان پہنچے.یہ غالباً 1900ء کا واقعہ ہے.قریباً دس گیارہ بجے دن کا وقت ہو گیا جب قادیان پہنچے.اُسی دن نماز ظہر کے وقت مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مسجد میں ملاقات ہوئی اور اُسی دن بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں، یہ کہتے ہیں کہ ، ہم تینوں نے مع دیگر نو وارد حاضرین بیعت کی.ملاقات کے وقت حضور نے جب میرا نام دریافت فرمایا تو میں نے اپنا نام ضیاء الحق ، ق کو بولتے ہیں جس طرح خاص انداز میں ادا کیا.تو حضور نے فرمایا ضیاء الحق.( 'ق، کے تلفظ کو چھوٹی ہی سے بیان فرمایا) تو کہتے ہیں اُس دن یہ سننے کا میر اپہلا موقع تھا کہ پنجاب میں عام بول چال میں ق کوک کی طرح بول دیا جاتا ہے.بہر حال کہتے ہیں حضور نے مولوی محمد احسن صاحب کو فرمایا کہ ان تینوں کو سلسلہ کی کچھ کتابیں پڑھنے کی دی جاویں تو میں نے عرض کیا کہ فتح اسلام اور توضیح مرام اور ازالہ اوہام کتابیں میں نے پڑھ لی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا.پھر تاکید کر دی کہ لنگر خانہ میں ہم تینوں اُڑیسہ کے مہمانوں کے لئے چاولوں کا بندوبست کر دیا جائے.کہتے ہیں ہم قریباً سات دن قادیان میں ٹھہرے اور ہر روز بعد نماز مغرب حضور کے پیر دبانے والوں میں شریک ہوتے تھے، مگر خدام کی کثرت کی وجہ سے پیر کا کوئی حصہ ملنادشوار ہو جاتا تھا.حضور کا پیر خوب مضبوط معلوم ہو تا تھا.ہر روز صبح شام، صبح بعد ناشتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ سیر میں ہم شریک ہوتے تھے.حضور خوب تیز چلتے تھے ، حتی کہ بعض ہمراہیوں کو دوڑنا پڑتا تھا.حضور کی چھتری برداری کا فخر ایک عرب غالباً مولوی ابوسعید صاحب کو ملتا تھا.کہتے ہیں ایک روز کا ذکر ہے کہ میں نے حضور سے دریافت کیا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں ہم کس طرح
311 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نماز ادا کریں.حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا غیر احمدی نماز ادا کرنے کی اجازت دیں گے ؟ تو میں نے عرض کیا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے ہم کو کون روک سکتا ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی روک نہیں تو علیحدہ نماز ادا کر لی جاوے ورنہ نہیں.شروع میں ہم کو خبر نہ تھی کہ مخالفت اس قدر ہو گی کہ محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا تو در کنار ، اس کے اندر جانے کی بھی اجازت نہ ہو گی اور برادری سے قطع تعلق ہو گا.ہم کو کا فر، ضالّ اور مضل کا خطاب دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ.(ماخوذ از روایات حضرت ضیاء الحق صاحب رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 57،56 غیر مطبوعہ ) تو شروع شروع میں بعض دفعہ جب لوگ بیعت کرنے آتے تھے، تو یہ احساس نہیں ہو تا تھا کہ مخالفت اس قدر بڑھی ہوئی ہے اور یہ مخالفت تو آج بھی ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے بعد میں وہاں بھی مسجدیں بنانے کی توفیق دی اور دنیا میں آج ہر جگہ مسجدیں بن رہی ہیں.جرمنی میں اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو چھ مسجدیں یا چار مساجد با قاعدہ اور دو کو مسجد میں بدلنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا.پھر ایک بے تکلف مجلس کا ذکر ہے، حضرت نظام الدین صاحب معرفت نظام اینڈ کو شہر سیالکوٹ.یہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ سے رخصت ہو کر گھر واپس جانے کے لئے حضرت اقدس کے حضور اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور رخصت دے کر اندرون کی کھڑکی سے اندر جانے لگے.تو میرے ہمراہ ایک صاحب ملتان کے رہنے والے بھی تھے ، انہوں نے اجازت حاصل کر لینے کے بعد اپنی ملتانی زبان میں کہا، ملتانی زبان پنجابی اپنا طرز ہے اُن کا) کہا کہ حضرت! ”میں کو کوئی وظیفہ ڈشو“ یعنی مجھے کوئی وظیفہ بتائیں.تو حضور مسکر ا پڑے اور فرمانے لگے کہ درود شریف کثرت سے پڑھا کرو یہی وظیفہ ہے.) ماخوذ از روایات حضرت نظام الدین صاحب رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 103 غیر مطبوعہ ) پس یہ آج بھی ہمارے لئے ان دنوں میں خاص طور پر یہی وظیفہ ہے اس کو بہت زیادہ پڑھنا چاہئے.پھر کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہار کے موسم میں دوستوں کو ساتھ لے کر باغ میں گئے اور خادموں سے کہا کہ توت کی ٹوکریاں بھر کے لاؤ.چنانچہ دو ٹوکریاں یا پراتیں توت اور شہتوت سامنے رکھ دیں.خود بھی حضور کچھ کھانے لگے.اس پارٹی میں بہت صحابی نہ تھے ، غالباً پندرہ میں ہوں گے.(ماخوذ از روایات حضرت نظام الدین صاحب رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 103 غیر مطبوعہ ) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈھاب کا کنارہ بھر کر اس جگہ ایک پلیٹ فارم سا بنوایا گیا تھا اور مٹی ڈلوائی گئی تھی، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں آج کل ( اس زمانے کی جو بات کر رہے ہیں ) مرزا مہتاب بیگ صاحب درزی کی دکان ہوتی تھی اور کچھ بک ڈپو اور گلی والی زمین بھی شامل ہو گی.کہتے ہیں یہاں جلسہ سالانہ ہوا تو مولوی برہان الدین صاحب مرحوم مغفور دوستوں کو اپنے لوہے کے لوٹے سے جو ان دنوں اپنے کندھے پر اٹھایا کرتے تھے ( سماوار ٹائپ چیز ہو گی کوئی) اُس میں پانی پلاتے رہے تھے.اب دیکھیں ان کا انداز بھی کیسا پیارا ہے.کہتے ہیں مولوی صاحب مرحوم پانی پلاتے پلاتے ناچنے لگ گئے اور دوستوں سے کہا کہ پوچھو میں کون ہوں اور کیوں ناچ رہا ہوں ؟ دوستوں
خطبات مسرور جلد نهم 312 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء میں سے کسی نے کہا حضرت خود ہی فرمائیے.تو فرمانے لگے کہ میں مسیح دا چپڑاسی ہوں.میں اس خوشی میں آکر ناچ رہا ہوں کہ میں مسیح کا چپڑاسی ہوں.(ماخوذ از روایات حضرت نظام الدین صاحب رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 104،103 غیر مطبوعہ) حضرت میاں امیر الدین صاحب احمدی گجراتی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنے قرضدار ہونے کی شکایت حضرت صاحب کے پاس کی.آپ نے فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو.اب وہ بہت سارے لوگ جو اپنے مسائل کے بارہ میں لکھتے ہیں، معاشی مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں ، اُن کو عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہی بتاتے تھے کہ پانچ نمازیں پڑھا کرو اور درود شریف پڑھا کرو.فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو.بس یہی میر اوظیفہ تھا کہ مجھ کو مولیٰ کریم نے برکت دی اور قرض سے پاک ہو گیا.اور جب میں قادیان میں آتا تھا تو چھوٹی مسجد میں جو اس وقت بڑی ہو چکی تھی (یعنی مسجد مبارک) جبکہ چھ آدمی صف میں اُس میں کھڑے ہوتے تھے.اوقاتِ نماز میں اُس مسجد میں میں کھڑکی کے آگے بیٹھ رہتا تھا.(اُس کھڑکی سے جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے تھے.) اس غرض سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں سے آتے تھے تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے لئے تشریف لاتے تو میں فوراً کھڑا ہو جاتا اور نماز میں آپ کے بائیں بازو کے ساتھ کھڑا ہوتا اور یہ وہ وقت تھا جبکہ ساتھ ہی کا کمرہ جو مسجد کے ساتھ ہے اس میں حضرت صاحب اور چند مہمان جو اس وقت ہوا کرتے تھے جو پانچ سے زائد نہ ہوتے تھے، اس کمرے میں آپ چاول یا کھانا اپنے ہاتھ سے خود کھلاتے تھے.تمام پیشگوئیاں میرے سامنے پوری ہو ئیں اور میں اُن کا گواہ ہوں.(ماخوذ از روایات حضرت میاں امیر الدین صاحب احمدی گجراتی رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 189 غیر مطبوعہ ) کہتے ہیں پھر میں یہ بھی ایک موقعہ عرض کئے دیتا ہوں کہ جب طاعون کے متعلق جلسہ ہوا ہے تو میں بھی اُس میں شریک تھا اور وہ بوہر “ جو قادیان سے مشرق کی طرف جھیل کے کنارے پر ہے اُس کے نیچے جا کر جلسہ ہوا تھا اور آپ نے اس بوہڑ کے نیچے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی تھی.میرے قیاس میں اس وقت جلسے میں شریک ہونے والے آدمی قریباً تین چار سو تھے ، کمی و بیشی وَ اللهُ اَعْلَم.پھر اس کے بعد میں نے جماعت کو بڑھتے ہوئے دیکھا اور وہ وقت آگیا کہ جب جلسہ دسمبر کے مہینے میں قائم کیا گیا تو بہت خلقت آنے لگی.(ماخوذ از روایات حضرت میاں امیر الدین صاحب احمدی گجراتی رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 191 غیر مطبوعہ ) ایک دن شام کے وقت کھانا کھلانے کے واسطے یہ تجویز تھی کہ حضرت صاحب نے حکم دیا ہوا تھا اور اس مکان پر جو کہ چھتی ہوئی گلی کے مغرب کی طرف ہے وہاں کھلایا گیا، اور اس وقت ایک ضلع کے آدمیوں کو بند کر کے کھانا کھلاتے تھے ، اُس وقت گوجر انوالہ کے آدمی کھارہے تھے اور دروازہ بند تھا.میں بھوک سے تنگ آکر اُس جگہ گیا، مجھے داخل نہ کیا گیا.میں واپس آکر بھو کا سورہا.رات کو حضرت صاحب کو الہام ہوا.( انہوں نے جو لکھا ہے.يايُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمِ الْقَانِعَ وَالْمُعْتَر.تذکرہ میں جو الہام ہے اور دوسری روایات میں بھی یايُّهَا النَّبِيُّ
313 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر ہے.کہ اے نبی! بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلا.پھر صبح حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ کھانے کی کیا تجویز ہو رہی ہے.تو عرض کیا گیا کہ ایک ضلع کے آدمیوں کو بلا کر دوسرے کو بلاتے ہیں.میرے سامنے حضرت صاحب نے یہ فرمایا کہ ” دروازے کھول دو، جو آئے اُس کو کھانے دو“.(ماخوذ از روایات حضرت میاں امیر الدین صاحب احمدی گجراتی رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 192،191 غیر مطبوعہ ) حکیم عبد الصمد صاحب بھی اپنی روایت بیان کرتے ہیں اُس میں بھی اس کا کچھ حصہ آجائے گا جو عبد الغنی صاحب دہلی کے بیٹے تھے.کہتے ہیں کہ میں 1907ء میں قادیان میں حاضر ہوا.عصر کے بعد کھانا کھانے کے لئے جب ہم انگر خانہ میں جانے لگے تو کچھ لوگ دروازے میں کھڑے تھے.میں بھی وہیں کھڑا ہو گیا.دروازہ کھلنے پر لوگوں نے اندر جانا چاہا.ایک لڑکے نے اُن کو دھکے دے کر دروازہ بند کر دیا.وہ لوگ بہت شر مندہ اور نادم ہو کر واپس چلے گئے.میں پھر تھوڑی دیر کے بعد واپس گیا تو دروازہ کھلا ہو اتھا.صبح کی نماز کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت صاحب تشریف لائے ہیں.میں مسجد مبارک کے پرانے زینہ کے پاس کھڑا ہو گیا.اوپر سے حضرت صاحب تشریف لے آئے.بہت سا مجمع تھا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ کل کوئی قصہ ہوا ہے یا فرمایا کوئی جھگڑا ہوا ہے.مجھے صحیح الفاظ یاد نہیں.حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ منتظمین کی غلطی تھی، بعض معزز آدمی اندر جانا چاہتے تھے ، ایک لڑکے نے دھکا دے کر لنگر کا دروازہ بند کر دیا.وہ معزز لوگ تھے وہ ناراض ہو کر اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے.پھر ان کو کھانا بھیجا گیا.بعض نے کھا لیا مگر بعض نے نہیں کھایا.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جن لوگوں کی غلطی سے یہ حرکت ہوئی ہے ان کو شرم کرنی چاہئے اور وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں جن کی چیخ و پکار کی آواز آسمان پر سنی گئی.اس کے بعد فرمایا کہ آج رات اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایسے الفاظ سے مخاطب کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.يَأَيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر.کہ اے نبی! تو بھوکوں اور بیقراروں کو کھانا کھلا.حضرت صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ یہ الفاظ تکمیل کے ہیں.میں اُس وقت اس فقرے کے معنی نہیں سمجھا تھا.( یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ رتبہ بخشا ہے اور یہ خطاب فرمایا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.یاَيُّهَا النَّبِی.ایک پورا ہونے والی بات ہے اور پورا ہو رہی ہے.اب مجھے سمجھ آتا ہے کہ اس سے مراد یہ تھی کہ ایک وقت آئے گا جب لوگ حضرت صاحب کا درجہ گھٹانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کامل نبی تھے.یہ جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے.لنگر خانہ اس وقت اُس مکان میں تھا جہاں آج کل حضرت سیدہ مریم صاحبہ رہتی ہیں.اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے بالکل مقابل میں اس کا دروازہ کھلتا ہے.(ماخوذ از روایات حضرت حکیم عبد الصمد صاحب رجسٹر روایات جلد 12 صفحہ 19 تا 21 غیر مطبوعہ ) ایک دفعہ میں ایک پورا خطبہ اس بات پر بھی دے چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہیں اور جن لوگوں کو کسی بھی قسم کی غلط فہمی ہے یا بعض لوگ بزدلی یا مداہنت میں غیروں کے سامنے، بات کرتے ہوئے ، بحث کرتے ہوئے، اظہار کر جاتے ہیں اُن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے آپ کو نبی کہہ کر پکارا ہے
خطبات مسرور جلد نهم 314 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء اور اللہ کے فضل سے آپ نبی ہیں لیکن غیر شرعی نبی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں آئے ہوئے اور آپ سے کامل محبت اور عشق کرنے والے نہیں.لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ بعض لوگ جن کو دھکا دیا گیا تھا وہ لوگ جو واپس چلے گئے تھے ، وہ آبدیدہ ہو گئے اور بے اختیار اُن کی زبان سے نکلا کہ مولیٰ ہم یہاں کھانا کھانے تو نہیں آئے تھے بلکہ تیرے حکم کی تعمیل میں تیرے مسیح کے در پر آئے تھے.(ماخوذ از روایات حضرت حکیم عبد الصمد صاحب رجسٹر روایات جلد 12 صفحہ 21 غیر مطبوعہ ) پس کارکنان کو ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے.پھر چوہدری عبد العزیز صاحب احمد می پنشنر نوشہرہ سگے زیاں لکھتے ہیں کہ دسمبر 1907ء کے سالانہ جلسے پر جو آخری جلسہ حضرت صاحب کی حیاتِ طیبہ کا تھا، میں حاضر ہوا تھا.نو بجے حضرت صاحب گھر سے اُن سیڑھیوں کے ذریعے نیچے تشریف لائے جو مسجد مبارک سے چھتی ہوئی گلی میں دفتر محاسب کے کونے کے عین مقابل اترتی ہیں.حضور دوسری سیڑھی پر کھڑے ہو گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خاص طور پر بلوا کر فرمایا کہ رات جو مہمان دیر سے آئے ہیں اُن کو کھانا نہیں ملا اور وہ بالکل بھوکے رہے ہیں.اُن کی فریاد عرش معلی تک پہنچی ہے“.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور درست ہے.واقعی اُن کو کھانا پہنچانے میں کو تاہی ہوئی ہے.فرمایا ” ایک کمیٹی چار پانچ آدمیوں کی بنائی جائے جو رات بھر مہمانوں کی آمد ورفت کی نگہداشت اور اُن کے کھانے کا بند وبست کرے تاکہ آئندہ دوستوں کو تکلیف نہ ہو“.(ماخوذ از روایات حضرت چوہدری عبد العزیز صاحب احمدی رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 217 غیر مطبوعہ ) میاں اللہ دتہ صاحب ولد میاں خیر محمد صاحب سہرانی احمدی سکنہ بستی رنداں ڈیرہ غازی خان کہتے ہیں کہ 1902ء یا 1903ء کا واقعہ ہے کہ میں قادیان شریف گیا.موقع عید کا تھا اور لنگر خانے میں لنگر چلا تو عام و خاص کی تجویز ہونے لگی.( لنگر چلا تو عام اور خاص کی تجویز ہونے لگی کہ یہ لوگ خاص مہمان ہیں یہ عام مہمان ہیں).کھانے کی تقسیم کے لئے ، تو میری نیت میں فرق آنے لگا.فوراً مجھے یہ بدظنی پیدا ہوئی کہ جو مہدی معہود ہو گا وہ حکماً عدل ہو گا مگر اس لنگر خانے میں ریا ہونے لگا ہے، مساوات نہیں ہے.پھر صبح کو مسجد مبارک میں گیا تو حضرت مسیح موعود اذان سے پہلے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا: مولوی نورالدین صاحب کہاں ہیں ؟ حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور !میں حاضر ہوں.حضرت اقدس نے فرمایا رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیر ا لنگر خانہ ناخن کی پشت برابر بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ لنگر خانے میں رات کو ریا کیا گیا ہے اور اب جو لنگر خانے میں کام کر رہے ہیں اُن کو علیحدہ کر کے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں.اتنی سختی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی کہ جنہوں نے مہمانوں کے درمیان امتیاز کیا تھا، اُن کو نہ صرف فارغ کر و کام سے بلکہ چھ ماہ کے لئے قادیان سے نکال دو) اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت ہوں اور صالح ہوں اور فرمایا کہ فجر کی روٹی ( یعنی صبح کا کھانا جو ہے ناشتہ ) میرے مکان کے نیچے چلایا جائے اور میں اور میاں محمود احمد اوپر سے دیکھیں گے.
خطبات مسرور جلد نهم 315 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء ان کو جو بد ظنی پیدا ہوئی تھی کہ یہ ریا ہونے لگ گیا ہے، کہتے ہیں میں نے فجر کی نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ اور استغفار پڑھی کہ میں نے بدگمانی کی، یا اللہ مجھے معاف کر دے.یہ کرامات حضرت اقدس کی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں.(ماخوذ از روایات حضرت میاں اللہ دتہ صاحب رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 194 195 غیر مطبوعہ ) پس یہ بدظنیاں ہیں جو بعض دفعہ بہت دور لے جاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت پر رکھنا چاہے اس کے لئے فوراًوہ سامان پیدا کر دیتا ہے تا کہ بدظنیاں دور ہو جائیں، اس سے بچنا چاہئے اور انسان عمومی طور پر استغفار اگر کرتارہے تو بدظنیوں سے بچتا چلا جاتا ہے.ایک شخص کی غلطی سے پوری انتظامیہ کو غلط قرار نہیں دینا چاہئے.پھر ایک روایت ہے جناب حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے بارہ میں ہے.مولوی مہر دین شاگرد مولوی صاحب نے بیان کی ہے.کہتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی (مولوی صاحب نے ان کو بتایا، انہوں نے آگے یہ روایت لکھی ہے).تو میں نے اس کتاب کو پڑھا تو میں نے خیال کیا کہ یہ شخص آئندہ کچھ ہونے والا ہے یعنی اس کو بڑارتبہ اور مقام ملنے والا ہے اس لئے میں اُن کو دیکھ آؤں.میں اُن کو دیکھنے کے لئے قادیان پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ آپ ہوشیار پور تشریف لے گئے ہیں.میں نے کہا کہ بار بار آنا مشکل ہے اس لئے ہوشیار پور جا کر دیکھ آؤں.میں نے اُن کا پتہ پوچھا تو کسی نے بتلایا کہ اُن کی بہلی کے بیل سفید ہیں ( بیل گاڑی جو ہے اُس کے بیل سفید ہیں) وہ اب واپس آرہی ہو گی، آپ راستے میں سے پتہ پوچھ لیں.جب ہم دریا پر پہنچے تو ہماری کشتی نے پہلی والے کی کشتی سے کچھ فاصلے پر تھی اس لئے کچھ دریافت نہ کر سکا.جب میں ہوشیار پور پہنچا تو مرزا اسماعیل بیگ حضور کے ہمراہ بطور خادم تھے.حضور کو انگریزی میں الہام ہوا تھا، اُس کا ترجمہ کرانے کے لئے وہ جا رہے تھے کہ مجھے راستے میں ملے.میں نے اُن سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں انہوں نے کہا کہ شہر میں تلاش کر لیں، بتایا نہیں.معلوم نہیں حضرت صاحب نے منع کیا ہوا تھا یا کوئی اور بات تھی.آخر میں پوچھ کر آپ کے مکان پر پہنچا اور دستک دی.خادم آیا اور پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا برہان الدین جہلم سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آیا ہے.اُس نے کہا کہ ٹھہرو میں اجازت لے لوں.جب وہ پوچھنے گیا تو مجھے اُسی وقت فارسی میں الہام ہوا کہ جہاں تم نے پہنچنا تھا، پہنچ گیا ہے.اب یہاں سے نہیں ہٹنا.خادم کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی مجھے فرصت نہیں ہے اُن کو کہہ دیں کہ پھر آئیں.خادم نے جب یہ مجھے بتلایا تو میں نے کہا کہ میر اگھر دور ہے میں یہاں ہی بیٹھتا ہوں جب فرصت ملے گی ، تب ہی سہی.(جب حضرت مسیح موعود کو فرصت ہو گی تب مل لوں گا.) جب خادم یہ کہنے کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ مہمان آوے تو مہمان نوازی کرنی چاہئے.اس پر حضرت صاحب نے خادم کو حکم دیا کہ جاؤ جلدی سے دروازہ کھول دو.میں جب حاضر ہوا تو حضور بہت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور فرمایا کہ ابھی مجھے یہ الہام ہوا ہے.میں نے عرض کیا کہ مجھے فارسی میں یہ الہام ہوا ہے کہ اس جگہ سے جانا نہیں.(ماخوذ از روایات حضرت مولوی مہر دین صاحب رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 222 تا 224 غیر مطبوعہ )
خطبات مسرور جلد نهم 316 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء اور اللہ تعالیٰ نے پھر آپ کو بیعت میں آنے کے بعد بہت بڑا مقام عطا فرمایا.حضرت مستری اللہ دتہ صاحب ولد صدر دین صاحب سکنہ بھانبڑی ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا دوست اگر تمہارے پاس آیا کرے تو اس کی خاطر تواضع کیا کرو.ذمہ دار مہمان قادیان میں آگئے تھے ، گرمیوں کے دن تھے اُس وقت صبح آٹھ بجے کا وقت ہو گا.حضرت صاحب نے باور چی سے پوچھا کچھ کھانا ان کو کھلایا جائے.باورچی نے کہا کہ حضور ! رات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ہیں.حضور نے فرمایا کچھ حرج نہیں لے آؤ.یعنی جب بھی کوئی دوست آئیں، اُن کو کھانا کھلایا کرو.روٹیاں اگر فوری تیار نہیں ہو سکتیں وہی باسی لے آؤ.چنانچہ باسی روٹیاں لائی گئیں.حضور نے بھی کھائیں اور ہم سب مہمانان نے بھی کھا لیں.غالباً وہ مہمان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اٹھوال جانے والے تھے.حضور نے فرمایا کہ باسی کھالینا سنت ہے.(ماخوذ از روایات حضرت مستری اللہ دتہ صاحب رجسٹر روایات جلد 4 صفحہ 106 غیر مطبوعہ ) اب بعض دفعہ بعض لوگ ناراض ہو جاتے ہیں یہاں تو خیر Pita Bread یا جو بڑی بنی بنائی روٹی ملتی ہے وہ ویسے بھی مشینوں کی بنی ہوئی بازاروں میں ہوتی ہے اور باسی ہوتی ہے لیکن پھر بھی سالن وغیرہ کے لئے بعض دفعہ ہوتا ہے.لیکن باسی سالن کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انتظامیہ باسی سالن سڑا کر ان کو کھلانا شروع کر دے.روایات حضرت محمد علی اظہر صاحب جالندھر ، مولوی غلام قادر صاحب کے بیٹے ہیں، کہتے ہیں کہ 1906ء کا جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں ہوا تھا جس کا صحن بھرتی ڈال کر بہت وسیع کر لیا گیا تھا.اس کے جنوب مشرقی کونے پر اس محلہ کے ساتھ جس میں آج کل سلسلہ کے دفاتر ہیں کسی ہندو برہمن کا ایک کچا مکان تھا.جگہ کی تنگی کی وجہ سے کچھ دوست اس مکان کی چھت پر بھی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے تھے.اُس پر صاحب مکان نے حضرت اقدس کو اور جماعت کو گالیاں دینی شروع کیں.ہندو تھا گالیاں دینی شروع کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز سے فارغ ہوتے ہی جماعت کو صبر کی تلقین کی اور اس چھت پر جانے سے منع فرمایا.مزید احتیاط کے لئے منڈیر پر اونچی دیوار بنوا دی گئی.کچھ عرصے کے بعد تار کا جنگلہ لگوادیا گیا تا کہ کوئی دوست اس چھت پر بھول کر بھی نہ جائے.آخر وہ مکان برباد ہوا، وہ بھی ایک الہام تھا اور مالکوں کو اس کو فروخت کرنا پڑا اور جماعت نے وہ خریدا اور اب وہ مسجد اقصیٰ کا ایک جزو ہے.(ماخوذ از روایات حضرت محمد علی اظہر صاحب رجسٹر روایات جلد 5 صفحہ 13 غیر مطبوعہ) پہلے تو وہ ایک حصہ تھا صحن کے ساتھ دفاتر تھے.اب دو سال پہلے اللہ کے فضل سے وہاں جب مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی ہے وہ سارا حصہ اس میں آگیا ہے اب مسجد کے اُس حصے میں ہی تقریباً دو اڑھائی ہزار آدمی نماز پڑھ لیتا ہے.حضرت چراغ محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد چوہدری امیر بخش صاحب کھارے کے رہنے والے تھے.یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نے مسجد اقصیٰ میں ایک بڑی لمبی تقریر فرمائی.ظہر کے بعد کا وقت تھا.میں مسجد کی شمالی جانب کی دیوار پر بیٹھا تھا.میرے ساتھ گاؤں کا ایک اول درجے کا مخالف تھا جس کے زیر سایہ اس وقت گاؤں کا ایک آدمی تھا جو سخت مخالف تھا.جوں جوں حضور تقریر فرماتے جاتے تھے وہ بار بار سر ہلاتا اور سُبْحَانَ الله سُبْحَانَ اللہ کہتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ میں اب حضور کی مخالفت نہیں کروں گا.حضور جو
خطبات مسرور جلد نهم 317 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء فرما ر ہے ہیں سب سچ ہے.دو چار دن بعد میں اُسے ملا اور دریافت کیا کہ بتاؤ اب کیا رائے ہے ؟ کہنے لگا معلوم نہیں، اُس وقت تو مجھے حضور کی ہر بات درست معلوم ہوتی تھی اور اب نہیں.(ماخوذاز روایات حضرت چراغ محمد صاحب رجسٹر روایات جلد 5 صفحہ 15 غیر مطبوعہ ) جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے اُن کے دل پھر اس طرح سخت ہو جاتے ہیں.حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ بقا پوری جب قادیان آئے تو انہوں نے دیکھا کہ قادیان والوں کو کس طرح آزمایا جائے.اب آزمانے کا انہوں نے طریقہ جو نکالا، کہتے ہیں مجھے خیال ہوا کہ علماء میں سے ایک بڑے عالم کو دیکھا اور خود مدعی مسیح اور مہدویت کی بھی زیارت کی.اُن کو تو دیکھا، بڑے عالم کو بھی دیکھا، اُن کو علم سے بھرا ہوا پایا، اخلاق میں اعلیٰ پایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا، اور اُن کی تو خیر کوئی مثال تھی ہی نہیں، اخلاق کا ایک سمندر تھے.تو اب یہاں کے عام لوگوں کی بھی اخلاقی حالت دیکھنی چاہئے.چنانچہ اس امتحان کے لئے کہتے ہیں میں لنگر خانے چلا گیا جو اُس وقت حضرت خلیفہ اول کے مکان کے جنوبی طرف اور بڑے کنوئیں کی مشرق کی طرف تھا.لنگر خانے میں ایک چھوٹا سا دیگچہ تھا جس میں دال اور ایک چھوٹی سی دیچی میں شوربہ تھا.میاں نجم الدین صاحب بھیروی مرحوم اس کے منتظم تھے.میں نے میاں نجم الدین صاحب سے کھانا مانگا تو انہوں نے مجھے ایک روٹی اور دال دی.میں نے کہا میں دال نہیں لیتا، گوشت دو.میاں نجم الدین صاحب مرحوم نے دال الٹ کر گوشت دے دیا.( دال واپس ڈال دی، گوشت ڈال دیا بغیر کچھ کہے ).لیکن میں نے پھر کہا کہ نہیں نہیں دال ہی رہنے دو.تب انہوں نے گوشت اُلٹ کر دال ڈال دی.( پھر واپس کیا گوشت، پھر دال ڈال دی).اور گوشت اور دال کے اس ہیر پھیر سے میری غرض یہ تھی کہ تا میں کارکنوں کے اخلاق دیکھوں.مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھے دال پسند ہے یا گوشت پسند ہے.اتنی دفعہ دال اور گوشت کو بدلوایا کہ دیکھنا یہ چاہتے تھے کہ ان کے اخلاق اچھے ہیں کہ نہیں.یہ کہیں غصے میں آکر یہی دال کی پلیٹ تو نہیں میرے اوپر پھینک دیں گے.تو میں نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہاں کے مختلف لوگوں سے باتیں کیں.منتظمین لنگر کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی، یہ فقرہ دیکھیں کہ منتظمین لنگر کی ( جو بھی کارکنان تھے وہاں اُن کی ) ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی.اس سے بھی میرے دل میں گہرا اثر ہوا.اب یہ تھی نیکی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے صحابہ میں اپنے ساتھ رہنے والوں میں پیدا کی.دوسرے دن صبح قریباً تمام کمروں سے قرآنِ شریف پڑھنے کی آواز آتی تھی.فجر کی نماز میں میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور یہ نظارہ بھی میرے لئے بڑا دلکش اور جاذب نظر تھا.(ماخوذ از روایات حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری رجسٹر روایات جلد 8 صفحہ 11،10 غیر مطبوعہ ) پس یہ نظارے ہیں جو ان دنوں میں بھی، جلسے کے دنوں میں خاص طور پر ہم میں نظر آنے چاہئیں، اور کارکنان کو بھی خاص طور پر نوٹ کرنا چاہئے کہ اُن کی ہر بات، اُن کا ہر عمل ایسا ہو جس سے ظاہر ہو تا ہو کہ حقیقت
318 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہے اور خد اتعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے.اور پھر یہ باتیں زندگی کا مسلسل حصہ ہونی چاہئیں کہ نمازیں بھی ہوں، قرآنِ کریم کی تلاوت بھی ہو اور پھر نہ صرف ان تین دنوں میں، بلکہ گھروں میں جاکر بھی ان کو جاری رہنا چاہئے.حضرت منشی محبوب عالم صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان گیا کیونکہ میں حضرت صاحب کو روزانہ خط لکھا کرتا تھا اس واسطے حضرت اقدس کو بھی میرے ساتھ بہت محبت ہو گئی.جب کبھی میں لاہور سے جاتا فوراً ہی مجھے شرف ملاقات بخشتے.کبھی مجھے اندر بلاتے ، کبھی خود باہر تشریف لاتے.ایک دفعہ میں قادیان گیا تو حضور مسجد مبارک میں تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ آپ یہاں بیٹھ جائیں میں آپ کے لئے کچھ کھانا لا تا ہوں.چنانچہ میں کھڑکی کے آگے بیٹھ گیا.حضور اندر تشریف لے گئے کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد سویوں کی ایک تھال اپنے دست مبارک میں اُٹھائی ہوئی میرے لئے لے آئے اور فرمانے لگے ، یہ ابھی آپ کے لئے اپنے گھر والوں سے پکوا کر لایا ہوں.میں بہت شرمسار ہوا کہ حضور کو تکلیف ہوئی مگر دل میں میں خوش بھی ہوا کہ حضرت اقدس کے دست مبارک سے مجھے یہ پاکیزہ غذا میسر ہوئی ہے.چنانچہ میں نے سوئیاں کھائیں اور بہت خدا کا شکر ادا کیا.پھر حضور نے مجھے رات کو فرمایا آج آپ یہیں سوئیں، چنانچہ مسجد کے ساتھ کے کھڑ کی والے کمرہ میں اکیلا سویا مگر مجھے رات بھر نیند نہ آئی اور میں جاگتا ہی رہا.اور دعائیں کرتا رہا اور دل میں خیال کرتا تھا کہ میرا یہاں سونا کسی غفلت کا موجب نہ ہو، تاکہ حضرت کو روحانی طور پر یہ معلوم نہ ہو جائے کہ میں سویا رہا ہوں.اسی خوف سے میں جاگتا رہا اور درود شریف پڑھتا رہا اور دعائیں کرتا رہا اور جب چار بجے تو حضور خود میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ جاگیں اب نماز کا وقت ہونے والا ہے.میں تو پہلے ہی جاگتا تھا اُٹھ کھڑا ہوا اور مسجد مبارک میں آ گیا.اتنے میں اذان ہوئی اور حضرت صاحب بھی اندر سے تشریف لائے.(ماخوذ از روایات حضرت منشی محبوب عالم صاحب رجسٹر روایات جلد 9 صفحہ 220 تا 222 غیر مطبوعہ ) حضرت میاں وزیر خان صاحب ولد میاں محمد صاحب افغان غوری لکھتے ہیں کہ ایک روز 1895ء یا 1896ء کی بات ہے، حضرت صاحب اور مولوی صاحبان یعنی مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب، مولوی محمد احسن صاحب اور چند دوست جن میں میں بھی تھا، گول کمرے میں کھانا کھا رہے تھے کہ کھانے کے وقت قیمہ بھرے ہوئے کریلے آئے.حضرت صاحب نے ایک ایک کر کے تقسیم کر دیئے.دورہ گئے اور مجھے کوئی نہیں دیا.میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے تو نہیں دیا.بڑے بڑے مولویوں کو دے دیا ہے، مجھے نہیں دیا.حضرت صاحب نے معا دونوں کریلے اُٹھا کر میرے آگے رکھ دیئے.میں نے عرض کی حضور بھی لے لیں.آپ نے فرمایا نہیں، آپ کھائیں.(ماخوذ از روایات حضرت میاں وزیر خان صاحب رجسٹر روایات جلد 14 صفحہ 3 36 ،364 غیر مطبوعہ ) تو فوراً ایسی صور تحال بعض دفعہ ہوتی تھی کہ خیال آیا اور ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کے خیال کے مطابق، خواہش کے مطابق یا جو بھی اگر کوئی بدظنی پیدا ہوئی ہو تو اس کو دور کرنے کے لئے فوراًوہ عمل کر دیا.
خطبات مسرور جلد نهم 319 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء حضرت میاں عبد الرحیم صاحب ولد میاں محمد عمر صاحب جو قادیان کے رہنے والے تھے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی کرم الدین صاحب کے مقدمہ میں حضور گورداسپور تشریف لے گئے اور بوجہ روزانہ پیشیوں کے حضور نے وہاں قیام فرمالیا.میری عادت تھی کہ میں پہلے کھانا نہیں کھایا کرتا تھا بلکہ حضور جب کھانا کھالیتے تو پھر کھایا کرتا تھا.سارے کا سارا کھانا پکوا کر بھجوا دیا کرتا تھا.یہ کھانا پکواتے تھے مہمانوں کا بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی، لیکن اپنے لئے نہیں نکالتے تھے ، سارا بھجوا دیتے تھے.ایک دن میں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو تاکید کی کہ میرا کھانا یہاں لے آنا مگر اُس دن خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ کئی دوست تھے ، وہ سب کھانا کھاگئے اور میرے واسطے کچھ بھی نہیں بچا.میں حافظ صاحب سے غصے ہو گیا اور یو نہی سو گیا.صبح حضور نے آواز دی کہ کیا کھانا تیار ہے.حافظ حامد علی صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ ابھی تو کھانا پکانے والا ہی نہیں اُٹھا اور ہم سے غصہ ہیں.پھر حضور نے کھڑ کی کی طرف سے آواز دی.کھڑ کی چو بارے کی تھی اور باورچی خانے کے سامنے تھی مگر میں نے پھر بھی آواز نہ دی.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آواز دے رہے ہیں انہوں نے پھر بھی جواب نہیں دیا).اس پر حضور نے پھر آواز دی میں نے پھر بھی جواب نہیں دیا.پھر حضور خود تشریف نیچے لے آئے اور فرمایا کہ ” کا کا“ آج کیا ہو گیا ہے، کھانا کس طرح تیار کرو گے ؟ اس پر حافظ حامد علی صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور! یہ رات سے ناراض ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ حضور کے کھانے کے بعد میرا کھانالانا، مگر چونکہ کھانا بچا نہیں تھا اس لئے اس کو نہ دے سکا.اس پر حضور نے فرمایا کہ اس کو پہلے دے دیا کرو.اُس نے عرض کیا (حافظ حامد علی نے) کہ یہ پہلے نہیں لیتا.پھر حضور نے حافظ صاحب کو کہا کہ اس کے لئے ایک سیر دودھ روزانہ لایا کر و.اُس بات کو سن کے میں مچلا بنا ہوا سو رہا تھا.میں فوراً اُٹھا اور عرض کی کہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر کھانا تیار ہو جائے گا.چنانچہ میں نے جلدی جلدی آگ جلا کر آدھا گھنٹہ گزرنے سے پہلے کھانا تیار کر دیا.جب حضور کے پاس کھانا گیا تو میں بھی اوپر چوبارے پر چلا گیا.حضور نے پوچھا تم نے کیا طلسمات کیا ہے ؟ کیا جادو کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا پھر بتاؤں گا.دوسرے دن صبح جب مہندی لگانے کے لئے گیا تو فرمایا کل کیا جادو کیا تھا کہ کھانا اتنی جلدی تیار ہو گیا.چونکہ حضور اکیلے تھے میں نے حضور سے عرض کیا کہ دراصل خالی گوشت پک رہا تھا، گوشت رکھ کے تو ہلکی آنچ میں نے رکھ دی تھی، اور تیز آگ بند کی ہوئی تھی.اُس وقت جب آپ نے کہا تو میں نے جلدی سے سبزی ڈالی اور کھانا تیار ہو گیا.حضرت صاحب اس سے بڑے ہنسے اور خوش ہوئے.(ماخوذ از روایات حضرت میاں عبد الرحیم صاحب رجسٹر روایات جلد 8 صفحہ 228 تا 230 غیر مطبوعہ ) حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب ولد شیخ عمر بخش صاحب گوجر انوالہ کے ہیں.یہ کہتے ہیں 1900ء یا 1901ء کا واقعہ ہے کہ سالانہ جلسے کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے، نماز ظہر کا وقت تھا اور نمازی جمع تھے.حضور نماز ادا کرنے کے بعد تقریر فرمارہے تھے.ایک شخص اس وقت باہر سے آیا اور دوستوں کے سر سے پھاند تا ہوا حضور کے قرب میں چلا گیا.(اوپر سے پھلانگتا ہوا آیا، آگے چلا گیا)
خطبات مسرور جلد نهم 320 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء اُس کی اس جدوجہد میں ایک دوست کی پگڑی اُتر گئی، ٹھوکر لگی جو بیچ میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے کسی کی پگڑی اُتر گئی اُس سے ، اور اُس نے حضور کو شکایتی رقعہ لکھ دیا.حضور اُس کو پڑھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور گھر کی کھڑکی کے پاس پہنچ کر حضرت مولانا نورالدین صاحب کو بلایا اور کھڑکی کے پاس چند باتیں کر کے اندر تشریف لے گئے.مولوی صاحب واپس آکر کھڑے ہو گئے اور تقریر شروع کی.تقریر تو دس پندرہ منٹ کی کی، مگر شروع کے مطلب کے الفاظ مجھے آج بھی من و عن یاد ہیں.حضور نے فرمایا ( حضرت خلیفہ اول نے) کہ دیکھو آج میں تمہیں ایک خوفناک بات سناتا ہوں.خود نہیں، بلکہ مامور کیا گیا ہوں (خود نہیں بتا رہا میں، بلکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ) کہ یہ بات بتا دو.تمہیں بتاؤں کہ آج ہمارا امام دعا کر رہا ہے کہ "خشک ڈالی مجھ سے کائی جاوے“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اُن کو کہا کہ آج میں یہ دعا کر رہا ہوں کہ جو خشک ڈالیاں ہیں وہ مجھ سے کائی جائیں.جو اپنے ایمان میں مضبوط نہیں ہونا چاہتے وہ مجھ سے کٹ جائیں.پھر حضرت خلیفہ اول نے کہا یہ بھی آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ تم دوسروں کے سر کچل کر خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتے، قرب الہی اُس کے فضل سے ملتا ہے.(ماخوذ از روایات حضرت میاں شیخ مشتاق حسین صاحب رجسٹر روایات جلد 11 صفحہ 329 غیر مطبوعہ ) لوگوں کے سروں سے پھلانگتے ہوئے جاؤ، کسی کو تکلیف دو، کسی کو ٹھو کر مارو کہ قریب پہنچ کر میں زیادہ قرب حاصل کر لوں گا.تو فرمایا کہ لوگوں کو تکلیف دینے سے قرب نہیں ملا کرتا، قرب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے اُس فضل کو تلاش کرو.پس آج بھی بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے بعض پڑھے لکھے لوگ بھی پھلانگتے ہوئے آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کو احتیاط کرنی چاہئے.جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں.کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنیں.اور جلسے کے دنوں میں کیونکہ رش ہوتا ہے اس لئے جو پہلے آنے والے ہیں وہ آگے آکر بیٹھ جایا کریں تا کہ پیچھے سے آنے والے آرام سے بیٹھا کریں، بجائے اس کے کہ بیچ میں جگہ خالی ہو اور پھر لوگوں کو پھلانگ کر آنا پڑے.حضرت غلام محمد صاحب، یہ نارووال کے تھے پولہ مہاراں کے.وہ کہتے ہیں کہ جلسہ 1904ء میں شمولیت کے لئے خاکسار بمع دیگر احمدیان چوہدری محمد سر فراز خان غیر مبائع سکنہ بدوملہی اور میاں چراغ دین صاحب مرحوم ستواڑو، چوہدری حاکم سکنہ منگولہ اور یہ سارے لوگ بہت سارے جو تھے رات کو امر تسر گاڑی پر پہنچے.کہیں رات کو کسی جگہ بٹالے میں اترے.کسی سید کی مسجد میں رات گزاری.پھر صبح قادیان پہنچ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دالان میں تقریر فرمارہے تھے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا گھر ہے جہاں آج کل، یہیں پہلے مہمان خانہ ہوتا تھا.تقریر سورۃ بقرۃ کے رکوع نمبر ایک اور سورۃ دھر کی تفسیر تھی.نفس اتارہ، نفس لوامہ ، نفس مطمئنہ کی تشریح تھی.یعنی نفس امارہ وہ ہوتا ہے جب انسان گناہ ہی کرتا ہے.تو نفس انارہ غالب ہو تا ہے.نفس لوامہ گناہ بھی کرواتا ہے اور نیک کام بھی، اور بعض بعض دفعہ نفس امارہ اور نفس لوامہ کی باہمی لڑائی رہتی
321 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے.کبھی گناہ کی حالت غالب کر لیتی ہے، کبھی نیکی کی.نیکی غالب ہو جانے پر ، اگر مکمل طور پر نیکی غالب آجاتی ہے جب اور گناہ دور بھاگ جاتا ہے تو پھر نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے.انسان گناہ نہیں کر تابلکہ نیکی سے ہی واسطہ رہتا ہے.اس صورت میں پھر جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے.نفس امارہ ونفس لوامہ کی گشتی ہوتی ہے.یعنی برائی کو ابھارنے والا نفس اور پھر اس پر ملامت کرنے والا نفس جو ہے وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں.کبھی وہ جیت گیا، کبھی وہ جیت گیا.کبھی وہ اوپر ہوتا ہے کبھی وہ نیچے، کبھی وہ اوپر کبھی وہ نیچے.پھر کہتے ہیں کہ اس کے بعد آیت اِنَّ الْأبرار يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا (الدھر: 6) تلاوت فرمائی کہ خدا کے نیک بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو ایسے پیالے پیش کئے جائیں گے جن میں کافور کی خاصیت ملی ہوئی ہو گی.اس تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا کہ جس طرح کا فوری شربت ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، اسی طرح جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جاوے، اطمینان ہو جاتا ہے.پھر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا (الدھر: 18) کہ اور اس میں ان پیالوں میں پلایا جاتا ہے جس میں زنجبیل ملی ہوئی ہو گی.پھر فرمایا کہ جس طرح زنجبیل کا شربت لذیذ ہو تا ہے ایسا ہی نفس مطمئنہ حاصل ہو جانے پر نیکی کی لذت حاصل ہو جاتی ہے.بدی کی طرف خیال بھی نہیں جاتا.(ماخوذ از روایات حضرت غلام محمد صاحب رجسٹر روایات جلد 3 صفحہ 172، 173 غیر مطبوعہ ) پس یہ روایت میں نے خاص طور پر اس لئے بھی لی تھی کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کو کس طرح سنتے تھے ؟ کس طرح اُن سے استفادہ کرتے تھے ؟ اور کس طرح اُن کو یاد رکھتے تھے ؟ پھر بڑے سادہ الفاظ میں آگے بیان بھی کر دیا کہ دوسروں کو سمجھ بھی آجائے.پس اسی سوچ کے ساتھ ہمارے یہاں ے پر آنے والے ہر شخص کو جلسے میں شامل ہو کر تقاریر کو سننا بھی چاہئے اور اُن سے علمی فیض بھی حاصل کرنا چاہئے ، روحانی فیض بھی حاصل کرنا چاہئے اور یاد بھی رکھنا چاہئے، تا کہ پھر آگے اس علم اور روحانیت کو پھیلانے جلسے پر والے بھی بنیں.حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحب بنوں ہسپتال کے انچارج تھے ، یہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1905ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.دستی بیعت دسمبر 1905ء میں کی.بذریعہ خط اپریل 1905ء میں اور دستی دسمبر 1905ء میں.جلسہ سالانہ کے موقع پر کی تھی یہ بیعت.اُس وقت میری عمر ہیں سال کی تھی اور میں میڈیکل کالج لاہور میں سب اسسٹنٹ سرجن کلاس میں پڑھتا تھا.بیعت کرنے کے بعد بہت سے لوگ تھے چنانچہ ایک لمبی پگڑی پھیلا دی گئی تھی جس پر لوگوں نے ہاتھ رکھے ہوئے تھے.بیعت کنندگان میں شیخ تیمور صاحب بھی تھے.شیخ صاحب نے پہلے بھی بیعت کی ہوئی تھی مگر ہمارے ساتھ بھی شامل ہو گئے.حضور (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کے ہاتھ پر شیخ صاحب کا ہاتھ تھا اور شیخ صاحب کے ہاتھ پر میر اہاتھ تھا.حضور الفاظ بیعت فرماتے جاتے تھے اور ہم سب بیعت کنندگان اُن کو دہراتے جاتے تھے.بیعت کے بعد حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی.جلسے کے اختتام پر ہم پانچ ڈاکٹر کلاس کے طالب علموں نے حضور سے واپسی کے
322 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لئے اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا کہ ٹھہر و.رسالہ الوصیت اُس وقت چھپ کر آیا تھا.ابھی گیلا ہی تھا کہ ہم کو اُس کی ایک ایک کاپی عنایت کر دی گئی اور ساتھ ہی حضور نے ہمیں واپسی کی اجازت بھی دے دی.چنانچہ ہم رسالہ الوصیت لے کر واپس لاہور آگئے.لاہور میڈیکل کالج کے ہسپتال اسسٹنٹ کلاس نے جن میں میں بھی شامل تھا، 1906ء کے آغاز میں بعض شکایات کی بنا پر سٹر اٹک کر دی ( ہڑتال کر دی) اس میں احمدی میڈیکل طلباء بھی شامل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے از راہ کرم ایک تاکیدی حکم ہمیں بھیجا کہ ایسی تحریکات میں حصہ لینا اسلام کے خلاف ہے اور جماعت احمدیہ کی بھی روایات کے خلاف ہے اس لئے تم سب پر نسپل صاحب سے معافی مانگ کر کالج میں پھر داخل ہو جاؤ.ساتھ ہی پرنسپل صاحب میڈیکل کالج کو بھی لکھا اور ساتھ ہی سفارش بھی کی کہ ہماری جماعت کے طلباء کو معافی دے کر پھر داخل کر لیویں.چنانچہ ہم پانچوں احمدی طلباء معافی مانگ کر پھر داخل ہو گئے.اس پر پیسہ اخبار لاہور نے مسیح کے پانچ حواری کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احمدی جماعت پر بہت اعتراض کئے.لیکن پھر بھی اثر نہیں ہوا، باقی لڑکے بھی اُس کے بعد معافی مانگ کر داخل ہو گئے.کہتے ہیں حضور کے بہت سارے خطوط میرے پاس ہیں.لیکن جنگ عظیم کی وجہ سے باہر تھے ، وہ گم گئے.(ماخوذ از روایات حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحب رجسٹر روایات جلد 1 صفحہ 53 ،54 غیر مطبوعہ ) تو بہر حال ہڑتال کے بارے میں سٹرائکوں کے بارے میں ہمارا کیا موقف ہے اس بارے میں میں بڑے واضح طور پر خطبات دے چکاہوں.چوہدری غلام رسول صاحب بسراء 99 شمالی سرگودھا کہتے ہیں کہ دسمبر 1907ء جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ جمعرات کی شام کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صبح باہر سیر کو جائیں گے.اس وقت دستور یہ تھا کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ لیا جاتا تھا اور آپ اس حلقے کے بیچ چلتے تھے.( جس طرح چین (Chain) بنا لیتے ہیں بازو پکڑ کے) چنانچہ میں نے اپنے ہمرائیوں مولوی غلام محمد گوندل امیر جماعت احمد یہ چک 99 شمالی، چوہدری میاں خان صاحب گوندل اور چوہدری محمد خان صاحب گوندل مرحوم سے صلاح کی کہ اگر خدا نے توفیق دی تو صبح جب آپ باہر سیر کو نکلیں گے تو ہم آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ بنائیں گے، اس طرح پر ہم حضور کا دیدار اچھی طرح کر سکیں گے.صبح جب نماز فجر سے فارغ ہوئے تو تمام لوگ حضور کے انتظار میں بازار میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے.یہ مکمل پتہ تو نہیں تھا کہ حضور کس طرف سے باہر تشریف لے جائیں گے لیکن جس طرف سے ذراسی بھی آواز اُٹھتی کہ آپ اس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے لوگ اُسی طرف ہی پروانہ وار دوڑے جاتے تھے.کچھ دیر اسی طرح ہی چہل پہل بنی رہی.آخر پتہ لگا کہ حضور شمال کی جانب سے ریتی چھلا کی طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے.ہم لوگوں نے جو آگے ہی منتظر تھے کپڑے وغیرہ گس لئے اور تیار ہو گئے کہ جس وقت حضور بازار سے باہر دروازے پر تشریف لے آئیں، اسی وقت ہم بازؤوں کا حلقہ بنا
323 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کر آپ کو بیچ میں لے لیں گے.ہم اس تیاری میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑے جم غفیر کے درمیان میں (اس جمگھٹے کے ) آپ آرہے ہیں.اس جمگھٹے نے ہمارے ارادے خاک میں ملا دیئے اور یہ جمگھٹا جو تھا ہمیں روند تا ہوا چلا گیا.ریتی چھلے کے بڑ کے مغرب کی طرف ایک لسوڑی کا درخت تھا.آپ اس لسوڑی کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں ہی آپ لوگوں سے مصافحہ کرنے لگے.کسی نے کہا حضرت صاحب کے لئے کرسی لائی جاوے تو آپ نے فرمایا.مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے کہا ہے کہ لوگ بہت بڑی کثرت سے تیرے پاس آئیں گے لیکن ( پنجابی میں باتیں ہو رہی تھیں شاید تو فرمایا) توں آگیں نہ اور تھکیں نہ“.(ماخوذ از روایات حضرت چوہدری غلام رسول بسراء صاحب رجسٹر روایات جلد 1 صفحہ 71 غیر مطبوعہ ) دیکھیں کس شان سے آج بھی آپ کا یہ الہام پورا ہو رہا ہے.اس ملک میں بیٹھے ہوئے کثرت سے لوگ جلسہ سننے کے لئے آرہے ہیں.اصل میں تو یہ عربی کا الہام ہے جس کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے.یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا.حضرت مولوی محمد جی صاحب ولد میر محمد خان صاحب کہتے ہیں کہ جلسے پر میں نے حضرت اقدس کو تقریر کرتے دیکھا ہے.کوئی وقت معین نہیں ہوتا تھا جب ارادہ آپ فرماتے تھے تو اعلان کیا جاتا.میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں جلسہ ہو رہا تھا.آپ لکڑی کی سیڑھی سے اتر کر آئے جو دالان کے اندر لگی ہوئی تھی اور زندگی وقف کرنے کا ارشاد کیا.( اُس وقت زندگی وقف کرنے کا ارشاد فرمایا جلسے کی تقریر میں).مسجد اقصیٰ میں ایک جلسے میں آپ کے لئے کرسی رکھی گئی اور بیٹھ کر تقریر کی.تقریر میں فرمایا، ہر ایک آدمی جو یہاں ہے وہ میر انشان ہے، پس اس وقت بھی جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں جلسے پر ، دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے، یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہیں.اور اس صداقت کے نشان کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.حضرت اقدس کی تقریر میں تسلسل ہوتا تھا، شروع میں کچھ دھیمی آواز ہوتی تھی پھر بلند ہو جاتی تھی.مقرر اپنی تقریروں میں بعض فقروں پر زور دیا کرتے ہیں، آپ کی یہ عادت نہیں تھی.قرآنِ مجید کی آیت بھی سادہ طرز سے پڑھتے تھے ، نہ ہاتھ سے اور نہ انگلی سے اشارہ کرتے.لاٹھی ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوتے تھے کبھی دونوں ہاتھ اس پر رکھ لیتے.آپ کی تقریر نہایت دلکش ہوتی، بالکل اطمینان سے آپ تقریر فرماتے گویا قدرتی مشین ہے جس کو قدرت کے ہاتھ نے کام لینے کے لئے کھڑا کیا ہے.(ماخوذ از روایات حضرت مولوی محمد جی صاحب رجسٹر روایات جلد 8 صفحہ 146،145 غیر مطبوعہ ) حضرت صوفی نبی بخش صاحب روایت کرتے ہیں کہ 27 دسمبر 1891ء کے جلسے پر جس میں حاضرین کی تعداداشی (80) کے قریب تھی میں بھی حاضرِ خدمت ہوا اور دن کے دس بجے کے قریب چائے پینے کے بعد ارشاد ہوا کہ سب دوست بڑی مسجد میں جو اب مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہے تشریف لے جائیں.حسب الحکم سب کے ساتھ میں بھی وہاں پہنچ گیا.زہے قسمت کہ میرے لئے قیام ازل نے اس بر گزیدہ بندے کی جماعت میں داخل
324 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہونے کے لئے یہی دن مقرر کر رکھا تھا.اُس وقت مسجد اتنی وسیع نہ تھی جیسی آج نظر آتی ہے.سب کے بعد حضرت صاحب خود تشریف لائے اور مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ” آسمانی فیصلہ سنانے کے لئے مقرر کیا.لیکن میرے لئے یہ ایک حیرت کا مقام تھا کیونکہ میں نے حضرت اقدس کے رُوئے مبارک اور لباس کی طرف دیکھا تو وہ وہی حلیہ تھا اور وہی لباس تھا جس کو ایام طالب علمی میں میں نے دیکھا تھا.حاضرین تو بڑی توجہ سے آسمانی فیصلہ کو سننے میں مشغول تھے اور میں اپنے دل کے خیالات میں مستغرق تھا اور فیصلہ کر رہا تھا کہ یہ تو وہی نورانی صورت ہے جس کو طالب علمی کے زمانے میں میں نے عالم خواب میں دیکھا تھا.روایات حضرت صوفی نبی بخش صاحب رجسٹر روایات جلد 5 1 صفحہ 109 غیر مطبوعہ ) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کی وفات کے متعلق الہامات ہو رہے تھے انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ جلسہ سالانہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا.حضور نے اس جلسہ میں نماز کے متعلق تقریر فرماتے ہوئے سورۃ فاتحہ کی تشریح فرمائی اور عبودیت کے معنی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عبد جب صحیح طور پر عبودیت کے رنگ سے رنگین ہوتا ہے تو اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں پڑ کر آگ کا انگارہ ہو جاتا ہے.اسی طرح صفات الہیہ سے عبد متصف ہو جاتا ہے جس طرح کہ وہ لوہا کا ٹکڑا آگ نہیں ہو تا بلکہ اپنی ماہیت میں لوہا ہوتا ہے اور عارضی طور پر آگ کی کیفیت اُس میں سرایت کرتی ہے.اسی طرح عبد اپنی حقیقت میں انسان ہوتا ہے لیکن اس میں صفات الہیہ کام کر رہی ہوتی ہیں ایسے عبد کا ارادہ اپنا نہیں ہو تا بلکہ الہی ارادے کے ساتھ اس کی تمام حرکات و سکنات وابستہ ہوتی ہیں.روایات حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رجسٹر روایات جلد 4 1 صفحہ 50 غیر مطبوعہ ) پس ایسی عبودیت کی تلاش کی کوشش ہر احمدی کو کرنی چاہئے اور یہی حقیقی مومن ہونے کی نشانی ہے اور یہی چیزیں پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے.حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری روایت کرتے ہیں کہ غالباً 1906ء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آپ نے اپنی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میری موت اب قریب ہے اور میں جب اپنی جماعت کی حالت دیکھتا ہوں تو مجھے اُس ماں کی طرح غم ہوتا ہے جس کا دو تین دن کا بچہ ہے اور وہ مرنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر مجھے کامل یقین ہے کہ وہ میری جماعت کو ضائع نہیں ہونے دے گا.یہ ایک دل کا اطمینان ہے.روایات حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقایورٹی رجسٹر روایات جلد 8 صفحہ 68 غیر مطبوعہ ) پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کو پورا فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت روزانہ بڑھ رہی ہے اور بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن صرف تعداد میں بڑھنا ہی کافی نہیں، ہمیں اپنے ایمانوں کی بھی فکر کرنی چاہئے ، اپنی روحانیت کی بھی فکر کرنی چاہئے اور اس میں بھی بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.اور اپنے ایمانوں کو اور اپنی نسلوں کے ایمانوں کو بچانے کے لئے ہر وقت اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ نہ صرف یہ ایمان ہمارے تک
325 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جون 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہی محدودر ہیں بلکہ اپنی اگلی نسلوں میں بھی ہم یہ ایمان پیدا کرنے والے بنیں اور اس کے لئے نیک نمونے قائم کریں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے ہمیشہ فیض پانے والے بنتے چلے جائیں اور آپ کی فکروں کو دور کرنے والے بنتے چلے جائیں.اور یہی چیزیں ہیں جو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھائیں گی اور یہ جو صحابہ کے واقعات میں نے بیان کئے ہیں یہ اصل میں تو اس لئے کئے ہیں تا کہ ہمارے سامنے کچھ نمونے ہوں اور ہمیں مختلف ذریعوں سے پتہ لگے کہ کس طرح صحابہ اپنے عشق و محبت کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کرتے تھے ، کس طرح کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے ساتھ تھا اور کیا وہ روحانی انقلاب تھا جس کے لئے وہ پروانے ہر وقت شمع کے گرد اکٹھے رہتے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے ایمانوں میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور کبھی کسی بھی قسم کی ایسی حرکت ہم سے سرزد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 15 جولائی تا 21 جولائی 2011ء جلد 18 شمارہ 28 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 326 26 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 2011ء بمطابق یکم و فا1390 ہجری شمسی بمقام مسجد خدیجہ.برلن (جرمنی) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی: فَاذْكُرُونِي اذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة: 153) پس میر اذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا اور میر اشکر کر و اور میری ناشکری نہ کرو.الحمد للہ کہ گزشتہ اتوار کو جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچا.اس مرتبہ نئی جگہ پر جلسہ منعقد کرنے کی وجہ سے یہاں جماعت جرمنی کی انتظامیہ اور امیر صاحب کو ایک شوق اور ایک excitement بھی تھی.ایک نئے جوش کا اظہار تھا اور یہ یقینا باقی افراد جماعت کو بھی ہو گا کیونکہ جلسہ کی پہلی جگہ منہائم جو تھی ، وہاں صرف ایک ہال تھا اور وہ بھی تنگ پڑ رہا تھا.پھر عورتوں کے لئے مار کی لگانی پڑتی تھی جس میں گرمی کے دنوں میں بیٹھنا مشکل ہو جاتا تھا، خاص طور پر بچوں والی عورتوں کے لئے.جبکہ یہاں جو نئی جلسہ گاہ ہے کارلسر روئے (Karlsruhe)، یہاں بڑے ائیر کنڈیشنز ہالوں کی سہولت موجود تھی.بعض اور سہولتیں بھی تھیں، اس لئے قدرتی بات ہے کہ ان سہولتوں کی وجہ سے خوشی یا excitement تھی لیکن وہاں نئی جگہ ہونے کی وجہ سے ان سہولتوں اور ایک ہی چھت کے نیچے تقریباً تمام انتظامات ہونے کے باوجود ایک فکر بھی سب کو تھی اور یہ فکر قدرتی بات ہے، ہونی چاہئے اور ایک مؤمن کی یہ خاصیت ہے کہ اُسے فکر رہتی ہے کہ کہیں اُس کی ذاتی خواہش اور پسندیا بشری غلطیوں کی وجہ سے کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو انتظامات میں کسی خرابی کا باعث ہو یا کسی مخفی معصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہو کر بعض مسائل پیدا نہ ہو جائیں جن تک انسان کی نظر رسائی نہیں کر سکتی.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور ایک شوق اور نئے جوش اور فکر کو ساتھ ساتھ رکھتے ہوئے انتظامیہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکی بھی رہی اور افسر صاحب جلسہ سالانہ جو تھے وہ تو بار بار بڑی فکر کے ساتھ اس دوران میں بھی مجھے دعا کے لئے کہتے بھی رہے.اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو اپنی طرف منسوب کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرتا ہے اور اس کی مدد چاہتا ہے اور جب ایسی صورت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ
327 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بھی اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے.اور جلسوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو حکم فرمایا تھا کہ ان کا انعقاد کرو تا کہ جماعت کے مخلصین ایک جگہ جمع ہو کر اپنی دینی اور روحانی ترقی کے بھی اہتمام کریں اور سامان کریں اور ایک دوسرے کو مل کر آپس کی محبت کو بھی پروان چڑھائیں.پس جب یہ نیک ارادے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک کام کیا جارہا ہو اور اُس کی خاطر جمع ہونے والے لوگوں کے لئے بہتر سہولتوں اور انتظامات کی کوششیں کی جارہی ہوں تو پھر اللہ تعالی تو ایسے کاموں میں برکت ڈالتا ہی ہے.پس اگر یہاں اس نئی جگہ پر اگر کوئی کمیاں یا خامیاں رہ بھی گئی تھیں جو نئی جگہ پہلی مرتبہ جلسہ منعقد ہونے کی وجہ سے رہ بھی جائیں تو کوئی ایسی اچھنبے کی بات نہیں ہے لیکن چونکہ انتظامیہ کی نیت نیک ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالی پردہ پوشی فرماتا ہے اور فرمائی ہے.پس اللہ تعالیٰ کی اس پردہ پوشی کی وجہ سے انتظامیہ کو اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے.آج دنیائے احمدیت میں ہر ملک میں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور تقریباً سارا سال ہی یہ تسلسل رہتا ہے.گزشتہ ہفتے میں جیسا کہ میں نے کہا اور ہم سب جانتے ہیں کہ جرمنی کا جلسہ تھا تو آج سے امریکہ اور کینیڈا کے جلسے شروع ہو رہے ہیں.جو فکرمیں گزشتہ ہفتے یہاں کی انتظامیہ کو تھیں ، وہی فکریں اور دعاؤں کی کیفیت آج کینیڈا اور امریکہ کی جلسہ کی انتظامیہ کو ہو گی، اور ہونی چاہئے.لیکن جب شاملین جلسہ بھی انتظامیہ کی اس فکر کو سمجھ لیں اور اپنے آپ کو مہمان سمجھنے کی بجائے اُس نظام کا حصہ سمجھتے ہوئے مدد گار بن جائیں تو انتظامیہ کی پریشانیاں بھی کم ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ عموماً شامل ہونے والے اپنے رویوں ، عمل اور دعاؤں سے مدد گار بنتے ہیں اور جرمنی کی جماعت نے اس سال عمومی طور پر بھی جماعتی انتظامیہ سے یعنی افراد جماعت نے جماعتی انتظامیہ سے بہت تعاون کیا ہے.اللہ کرے کہ اس وقت امریکہ اور کینیڈا کے جو جلسے آج شروع ہو رہے ہیں وہاں بھی ہر شامل ہونے والا روحانی مائدہ سے اپنی جھولیاں بھرنے کی فکر کرتے ہوئے جلسے میں شامل ہو اور بھر پور فائدہ اُٹھانے اور اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے کی کوشش کرے تاکہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں.صرف میلہ سمجھ کر شامل نہ ہوں اور صرف ملاقاتوں اور خوش گپیوں میں وقت گزارنے والے نہ ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب عموماً ہر جگہ دنیا میں جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں، تقریروں کے معیار بھی بہت اچھے ہوتے ہیں.اللہ کرے کہ شاملین جلسہ ان سے بھر پور فائدہ اُٹھائیں اور جو باتیں سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بھی ہوں.آج جیسا کہ میں نے کہا کینیڈا اور امریکہ کے جلسے ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کو اس کی توفیق عطا فرمائے.عموماً میں جن جلسوں میں شامل ہوتا ہوں اُس کے بعد شکر گزاری کے مضمون کے حوالے سے جلسوں اور دوروں کا مختصر ذکر بھی کر دیتا ہوں.آج بھی یہی مضمون رکھوں گا لیکن جلسے کے حوالے سے کینیڈا اور امریکہ کے جلسوں کا ذکر بھی بیچ میں اس لئے بیان کر دیا تھا کہ یہ دو بڑی جماعتیں ہیں جہاں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور یہ دنیا
328 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء میں منعقد ہونے والے جلسے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے ایک لامتناہی سلسلے کو لئے ہوئے ہیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی اپنے بعض خطبات میں بیان کیا ہے کہ بحیثیت جماعت آج جماعت احمدیہ ہی ہے جس پر چو ہمیں گھنٹے دن چڑھا رہتا ہے.یہاں اگر اس وقت دو پہر کا وقت ہے اور سورج ڈھل رہا ہے تو امریکہ اور کینیڈا میں یہ سورج ضحی کا نظارہ پیش کر رہا ہے.اور صرف جماعت احمدیہ ہے جس میں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی پروگرام ہر وقت بن رہے ہیں یا پیش کئے جارہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو گنا اور اُن کا شکر کرنا، اُن کا احاطہ کرناہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ کس طرح تیر اگر وں اے ذوالمن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127) پس اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہ سلوک آج بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے.ہر روز نہیں بلکہ ہر لمحہ شکر گزاری کے نئے مضامین دکھاتے ہوئے گزرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو لے کر آتا ہے اور جب تک ہم اپنے اس مقصد کے ساتھ چمٹے رہیں گے جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے ہم یہ نظارے انشاء اللہ تعالیٰ دیکھتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں پر ہم کس طرح شکر گزار ہو سکتے ہیں، اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے“.پھر فرمایا: "اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو ، کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 49.مطبوعہ ربوہ) پس اس شکر گزاری کے طریق کو ہم نے اپنانا ہے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے.انہوں نے بھی جو جلسوں میں شامل ہونے کے لئے جمع ہو رہے ہیں اور انہوں نے بھی جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور اُن کے جلسے خیریت سے اختتام کو پہنچے.پس ہر احمدی جو جلسے میں شامل ہوا ہے اب اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہے اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو ہمارے غلبے میں روک ڈال سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے کے مطابق غلبہ تو انشاء اللہ تعالٰی، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمانا ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم تقویٰ سے چھٹے رہے تو ہم بھی اس غلبے کا حصہ بن جائیں گے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا فرمانا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 329 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء پس ہمیشہ ہر احمدی کو جو کینیڈا، امریکہ یا یورپ کے امیر ممالک میں رہتا ہے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتا ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے غلبے کے ہتھیار نہ مغربی ملکوں میں آنا ہے، نہ یہاں کی آسانیاں ہیں اور آسائشوں کے ساتھ یہاں رہنے میں ہے، نہ یہ غلبہ کسی دولت سے ہونا ہے، نہ یہ غلبہ کسی دنیاوی کوشش سے ہونا ہے بلکہ غلبے کے ہتھیار جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تقویٰ میں بڑھنا ہے.اور اس تقویٰ میں بڑھنے سے یہ غلبہ ہونا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو سال کے چند دن لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ، اپنی جماعت کے افراد کو تقویٰ کی ٹریننگ دینے کا ارشاد فرمایا ہے، یہ اس لئے ہے کہ جو زنگ لگے ہیں وہ دھل جائیں.آپس میں مل کے بیٹھیں، ایک دوسرے کی باتیں سنیں ، محبت اور پیار کی فضا پید اہو اور ایک نئے سرے سے ایک احمدی چارج ہو کر پھر اپنے مقصد پیدائش کے حصول کی کوشش کرے.اپنی علمی پیاس بجھائے، اپنی تربیت کے سامان کرے.روحانیت میں آگے بڑھنے کی طرف قدم بڑھائے.پس ایک ہفتہ بعد جرمنی والے بھی صرف جر منی کے کامیاب اور بارونق جلسے کا صرف ذکر ہی باقی نہ رکھیں.صرف یہی یاد نہ رہے کہ فلاں مقرر کی تقریر اچھی تھی، فلاں نے نظم اچھی پڑھی، بلکہ جو کچھ سنا ہے اسے اب اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور یہی جذبہ ہے جسے لے کر کینیڈا اور امریکہ کے احمد کی اپنے جلسوں کی کارروائی سنیں.جب یہ حالتیں ہوں گی تو ہم حقیقی رنگ میں اُس شکر گزاری میں شامل ہونے والوں میں سے ہو جائیں گے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر یہ عرض کیا ہے کہ کس طرح تیر اکروں اے ذوالمنن شکر و سپاس ”.ہر لمحہ ہمیں خد اتعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اپنے دل و دماغ کو اسی آس سے تازہ رکھنا چاہئے.ہر لمحہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے اپنی زبانوں کو تر رکھ کر اپنی شکر گزاری کا اظہار کرنا چاہئے.ہر لمحہ ہمیں اپنے عملوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھال کر اپنے جسم کے ذرہ ذرہ کو خدا تعالیٰ کا شکر گزار بنانا چاہئے اور پھر جب ہماری یہ حالت ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ بھی ہمیں اپنی رحمتوں اور فضلوں کی چادر میں مزید لپیٹ لے گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فاذكروني اذكركم.پس تم میر اذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یادرکھوں گا.وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ.اور میر ال ا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو.پس جب بندہ خدا تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا کوئی عمل بغیر جزا کے نہیں جانے دیتا بلکہ کئی سو گنا تک جزا دیتا ہے.اُس سے بڑھ کر پھر اللہ تعالیٰ ذکر کا وعدہ فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا کیا ہے ؟ جب اللہ کہے کہ میں بندے کا ذکر کرتاہوں تو وہ ذکر کیا ہے ؟ جب اللہ تعالیٰ ذکر کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے انعامات سے نوازتا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ بندے کے مسلسل ذکر کی وجہ سے اُسے اپنے انعامات سے نوازتا ہے اُسے یاد رکھتا ہے تو پھر نیکیاں بجالانے اور تقویٰ پر چلنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.نئے معیار قائم ہونے لگتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے قریب کرنے کے نئے نئے راستے دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو ہر وقت یاد رکھتا ہے ، مشکلات سے اُسے نکالتا ہے، آفات سے اُسے بچاتا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 330 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء پس بندہ جب خدا تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اُسے سب طاقتوں کا مالک سمجھ کر اُس کی پناہ میں آنے کے لئے ، اُس کی مدد حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے " اذکرکھ ، کہ میں تمہارا ذکر کروں گا، تمہیں یاد رکھوں گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندے کو انعامات سے نوازے گا، اُسے اپنی پناہ میں لے لے گا، اُس کے دشمن سے خود ہی بیٹے گا اور بدلے لے گا.اُس کے لئے ہر قسم کے رزق کے ایسے دروازے کھولے گا جس کا بندے کو وہم و گمان بھی نہیں ہو گا.اور ایسے قرب پانے والے لوگ ہی ہیں جن کے خلاف دنیا والے ہزار کوشش کر لیں اُن کو اُن کے مقاصد کے حصول سے نہیں روک سکتے.پس جماعت احمدیہ کی ترقی ایسے ذکر کرنے والوں سے ہی خدا تعالیٰ نے وابستہ فرمائی ہے.اور یہی ذکر ہے جو ہر فردِ جماعت کی دنیا و آخرت سنوارنے والا بنے گا.اور اُس بندے کو حقیقی شکر گزار بنائے گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ذکر کے مضمون کے ساتھ ہی شکر کا مضمون بھی جاری فرما دیا ہے.خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ بندے کو انعام واکرام سے نوازتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے.اور پھر ان انعامات کو دیکھ کر جب بندہ شکر گزاری کا اظہار کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک اور دور شروع ہو جاتا ہے، ایک نیا سلسلہ انعامات شروع ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آخر میں پھر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھنا کبھی نا شکر گزاروں میں سے نہ ہونا، وَلا تَكْفُرُونِ ، کبھی ان نعمتوں کو ر ڈ کرنے والے نہ بن جانا.اب کون عقلمند ان تمام فضلوں اور نعمتوں کو دیکھ کر پھر انہیں رڈ کرنے والا بن سکتا ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان لا شعوری طور پر اُن کو رڈ کرنے والا اور ناشکر گزار بن جاتا ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں کر تا تو بے شک وہ زبان سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کا اظہار کرے لیکن عملی طور پر وہ اللہ تعالیٰ کی یاد کا اظہار نہیں کر رہا ہو تا.دنیا میں جب ایک انسان دوسرے انسان کی بہت زیادہ چاہت اور یاد دل میں بسائے ہوئے ہو تو اس کے منہ کو دیکھتا ہے.یہ دیکھتا ہے کہ کس طرح میں اُس کی خواہشات کو پورا کروں ؟ کب وہ کوئی بات کرے اور میں اُس پر عمل کروں.تو اگر اللہ تعالیٰ کی یاد کا دعویٰ ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنا بھی ضروری ہے.اُس کے احکامات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے.اُس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ صحیح استعمال بھی ضروری ہے.اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جو صحیح شکر گزاری کی کیفیت ہے جو تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے.اور اگر یہ حقیقی تقویٰ نہیں تو پھر یہ کفرانِ نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے.اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومن کے لئے ایسے راستے متعین کر دیئے ہیں جو شکر گزاری سے نکل کر خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے بن جاتے ہیں، اُس کے ذکر سے نکل کر اُس کی شکر گزاری میں لاتے ہیں.پھر اُس کو اللہ تعالیٰ کے قریب ترین کرنے والے بن جاتے ہیں.اور یہی ایک مومن کی خواہش ہونی چاہئے اور ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے.پس یہ مضمون ہے جو ہر احمدی کو اپنے میں جاری کرنا چاہئے.اب میں جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں جلسہ جرمنی کے حوالے سے چند باتیں کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا عمل
331 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کہ اس دفعہ نئی جگہ تھی اس لئے جہاں بعض سہولتیں نظر آئیں اور آرام دہ انتظام ہو اوہاں بعض خامیاں بھی رہ گئی ہوں گی بلکہ رہی ہیں لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے انتظامیہ کو بہت زیادہ موردِ الزام ٹھہرایا جائے اور پریشان کیا جائے.سو فیصد perfection تو کسی انسانی کام میں ہو ہی نہیں سکتی.یہ کاملیت تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اس لئے انسانی کاموں میں بہتری کی ہر وقت گنجائش رہتی ہے اور اُس کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا کے مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بندے کا کام ہے کہ عمل کرو.جو طریقے ہیں وہ اختیار کرو.اپنی کوشش پوری کرو پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو اور دعا کرو کہ باقی جو کمیاں رہ گئی ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو خود پورا فرمائے.اور پھر جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اُس کے لئے اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کی طرف بھی توجہ دلائی ہے تاکہ ان خامیوں اور کمیوں میں مزید بہتری پیدا ہو سکے.جب انسان ایک چیز بہتر کرتا ہے تو اُس پر شکر گزاری کرے تو اللہ تعالیٰ پھر اگلا قدم بہتری کی طرف لے جاتا ہے.اور یہی سبق ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے عمل سے دیا ہے.بعض باتیں جو میں نے نوٹ کی ہیں یا جو مجھے بتائی گئیں اُن میں آئندہ بہتری کے لئے اُن کا ذکر کر دیتا ہوں.لیکن اس سے پہلے میں اُن لوگوں سے جو صرف تنقید کرنا جانتے ہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ حقیقت میں بہتری کے خواہش مند ہیں تو ادھر اُدھر باتیں کرنے کی بجائے انتظامیہ کو اپنے مشورے دیں.اُن کو نقائص بتائیں جو آپ نے دیکھے اور کام کرنے والوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں آئندہ مزید بہتر رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور انتظامیہ کو بھی کھلے دل کے ساتھ توجہ دلانے والوں کی باتوں پر غور کرنا چاہئے اور جلسے کی ایک لال کتاب ہوتی ہے جس میں تمام خامیوں کا ذکر ہوتا ہے ان کمیوں کو جو حقیقت میں کمیاں ہیں اور جن کے بارے میں توجہ دلائی گئی ہے اُس میں ان کو تحریر کیا جانا چاہئے.ایک کمی جس کا انتظامیہ کو بھی احساس ہو چکا ہے وہ ماحول میں، مردانہ ہال میں بھی، زنانہ ہال میں بھی آواز کی گونج تھی جس کی وجہ سے پہلے دن میر اخطبہ ہال میں بیٹھے ہوئے تقریباً 1/4 حصہ لوگوں کو صحیح طرح سے سمجھ نہیں آسکا یا وہ سن نہیں سکے.بعد میں انتظامیہ نے اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی اور کچھ بہتری بھی پیدا ہوئی لیکن واضح بہتری پھر بھی نہیں تھی.اس لئے آئندہ سال یا تو ساؤنڈ سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا یا سٹیج کی جگہ کو بدل کر ٹھیک کرنا ہو گا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، یا کوئی اور نقص جو بھی ہے اُس کو معلوم کرنا ہو گا اور اُسے ٹھیک کرنا ہو گا.اس چیز کو دیکھنا بہت ضروری ہے.اس کے بغیر تو انتظامی لحاظ سے لوگوں کو خاموشی سے بٹھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے.اگر آواز نہ آرہی ہو.مرد تو شاید خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں لیکن وہاں بھی جو چھوٹی عمر کے بچے ہیں ، دس بارہ سال کے ، وہ نہیں بیٹھ سکتے.مر دیا بیٹھے رہیں گے یا وہاں سے اُٹھ کر چلے جائیں گے.لیکن عورتوں کو اور خاص طور پر بچوں والے ہال میں عورتوں اور بچوں کو خاموش کروانا بہت مشکل ہو جاتا ہے.لیکن اس دفعہ میں نے عورتوں میں ایک اچھی بات دیکھی ہے کہ کم از کم میری تقریر کے دوران باوجود اس کے کہ میری آواز واضح ان تک نہیں پہنچ رہی تھی اور اس کے لئے کئی مرتبہ پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین نے انتظامیہ کو پیغام بھی بھیجے کہ آواز کو درست کر ولیکن
خطبات مسرور جلد نهم 332 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء مجبوری تھی آواز ٹھیک نہیں ہو سکتی تھی، لیکن اس کے باوجود بڑی خاموشی اور تحمل سے خواتین بیٹھی رہیں اور اتنی خاموشی اور تحمل میں نے پہلی دفعہ جرمنی کی عورتوں میں دیکھا ہے.بعض کے نزدیک شاید اس کی یہ بھی وجہ ہو کہ بال ائیر کنڈیشن تھے اور باہر گرمی تھی اس لئے بیٹھنا ہی بہتر تھا لیکن ہمیں حسن ظن سے بھی کام لینا چاہئے.عمومی طور پر جب سے میں نے لجنہ کو تقریباً تین چار سال پہلے یہ وارنگ دی تھی کہ اگر شور کیا تو اُن کا جلسہ نہیں ہو گا، بہتری کی طرف بہت زیادہ رجحان ہے.ایک نقص اس وجہ سے بھی پیدا ہوا کہ اس دفعہ بچوں کو بھی ایک ہی ہال میں بٹھا دیا گیا.گو پارٹیشن کی گئی تھی لیکن پردے سے آواز نہیں رک سکتی اور بچوں کی جگہ پر ظاہر ہے کہ شور ہو تا ہے.یہ شور بعض دفعہ مین ہال (Main Hall) میں بھی ڈسٹرب کرتا تھا.اس کا بھی آئندہ سال کوئی بہتر انتظام ہونا چاہئے.باقی کچھ اور چھوٹی موٹی کمیاں اور خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی انتظامیہ کو آئندہ سال کوشش کرنی چاہئے اور لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے کوئی چیز دیکھی ہے تو بتائیں تا کہ آئندہ سال بہتر انتظامات ہو سکیں.جلسے کی لال کتاب میں یہ درج کریں اور ان کی بہتری کے بارے میں جلسہ سالانہ کی جو کمیٹی ہے وہ غور کرے.ہمارے قدم ہمیشہ بہتری کی طرف بڑھنے چاہئیں.عمومی طور پر تو اللہ تعالیٰ یہ نظارے ہمیں ہر جگہ دکھاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بہتری کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں اور جو غیر مہمان جرمنی سے بھی اور دنیا کے مختلف ممالک سے خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے تھے ، اُنہوں نے اچھا تاثر لیا ہے، اُن کو تو ہمارے انتظامات بہت اچھے لگے ہیں لیکن اپنے اندر خامیاں تلاش کرتے ہیں تاکہ مزید بہتری پید اہو.میں نے مہمانوں میں سے جس سے بھی پوچھا ہے وہ انتظامات اور لوگوں کے آپس کے محبت اور پیار اور ڈیوٹی دینے والوں کے رویوں سے بہت اچھا تاثر لے کر گئے ہیں.پس یہ جلسے بھی ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنتے ہیں اس لئے ہر احمدی کو جیسا کہ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اس سوچ کے ساتھ رہنا چاہئے کہ ہم احمدیت کے سفیر ہیں، ہمارے نمونے ہیں جو دنیا نے دیکھنے ہیں.اس دفعہ بلکہ ہر دفعہ ہوتا ہے ہر جلسے پر ، بعض بیعتیں بھی یہ سارا ماحول دیکھ کر ہوئی ہیں.بعض لوگ جو قریب تھے انہوں نے جب جلسے کا ماحول دیکھا اور لو گوں کے رویے دیکھے تو اُن پر اچھا نیک اثر ہوا اور انہوں نے بیعت کرنے کا اظہار کیا اور جلسہ کے بعد انہوں نے فوراً بیعت کر لی.لیکن ایک ایسا واقعہ بھی میرے علم میں آیا ہے کہ کسی کا بٹوہ چوری ہو گیا.ہو سکتا ہے کچھ اور واقعات بھی ایسے ہوئے ہوں اور شرم کی بات یہ ہے کہ وہ جس کا بٹوہ چوری ہو اوہ نو مبائع جر من نوجوان تھا.اُس نے اس واقعہ کو اپنی تربیت کے اثر کے طور پر بیان کیا ہے.لیکن خدمت خلق کی ڈیوٹی دینے والوں کے لئے یہ بڑی فکر کی بات ہے.ایسے واقعات ہوتے تو ہیں لیکن اگر پوری نگرانی کی جائے اور اس جگہ تو پوری نگرانی ہو سکتی تھی تو ایسے واقعات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے بلکہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ سو فیصد ختم کئے جائیں.اُس نوجوان نے تو جس کا میں ذکر کر رہا ہوں مجھے اس طرح بیان کیا تھا کہ میں بہت سخت غصے والا تھا، ہر چھوٹی چھوٹی بات پر مجھے غصہ آجایا کرتا تھا اور بڑا لڑنے اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا تھا لیکن یہ سب باتیں احمدی ہونے سے پہلے کی تھیں.کہنے لگا کہ اگر
333 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم میں سوچوں کہ میرے احمدی ہونے سے پہلے اگر میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہو تا اور میرا بٹوہ چوری ہو جاتا تو میں نے وہاں کھڑے ہوئے ہر شخص سے لڑنا تھا اور شور مچا کر انتظامیہ کی بھی بری حالت کر دینی تھی لیکن احمدیت نے مجھے صبر سکھایا ہے اور میں نے اس بات کو محسوس نہیں کیا.کہنے لگا یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو میں نے احمدی ہونے کے بعد اپنے اندر محسوس کی ہے کہ احمدیت کی وجہ سے انتہائی غصیلہ ہونے والا شخص اتنا نرم ہو جائے.یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.تو یہ سبق ہے اُن احمدیوں کے لئے بھی جو لمبا عرصہ تربیت میں رہنے کے باوجو د غصے پر کنٹرول نہیں رکھتے اور ذراذراسی بات پر لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.پس احمدی ہونے کی ایک پہچان اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے کی بھی بنائیں کہ ہم احمدی ہیں، ہم نے اپنے جذبات کو کنٹرول رکھنا ہے، صبر کا مظاہرہ کرنا ہے.بہر حال جو بعض نقائص سامنے آتے ہیں اُس سے بعض تربیتی پہلو بھی نکل آتے ہیں، بعض سبق بھی مل جاتے ہیں.عمومی طور پر احبابِ جماعت نے جو تعاون کیا ہے اُس پر انتظامیہ کو بھی اُن کا شکر گزار ہونا چاہئے اور کارکنان نے جس محنت اور ذمہ داری سے عمومی طور پر اپنی ڈیوٹی دی ہے اُس پر شاملین جلسہ کو بھی اُن کا شکر گزار ہونا چاہئے.جرمنی میں افراد جماعت میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ اخلاص و وفا کے جذبات ابھرے ہوئے ہیں.اس کے نظارے میں نے جلسہ پر بھی دیکھے ہیں اور مختلف جگہوں پر مسجدوں کے افتتاح کے لئے گیا ہوں تو وہاں بھی دیکھے ہیں.اللہ تعالیٰ اس اخلاص و وفا کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے.خاص طور پر نوجوانوں کو میں نے اخلاص میں بڑھا ہوا پایا ہے.جماعت میں کمزور لوگ بھی بیشک ہوتے ہیں لیکن ایک کمزور ہوتا ہے، ایک ٹیڑھا پن دکھاتا ہے تو اللہ تعالی سینکڑوں ہزاروں مخلص و فاشعار کھڑے کر دیتا ہے.ایسے لوگ کھڑے کر دیتا ہے جو اپنے نمونے دکھانے والے ہوتے ہیں.پس یہ خوبصورتی ہے جماعت احمدیہ کی جو آج ہمیں کسی اور جگہ نظر نہیں آتی.اللہ تعالیٰ اس میں مزید نکھار پیدا کرتا چلا جائے.جلسہ کے حوالے سے ایک اہم کام وائنڈ آپ (Wind Up) کا ہوتا ہے اور خاص طور پر اُس وقت جب جگہ محدود دنوں کے لئے کرائے پر لی گئی ہو اور اس دفعہ نئی جگہ کے حوالے سے یہ فکر بھی تھی کہ تمام جلسہ گاہ کو وقت پر سمیٹنا ہے تا کہ ایک تور تم زیادہ خرچ نہ ہو اور اس کے لئے صرف دو دن تھے ، نہیں تو زائد کرایہ دینا پڑنا تھا.دوسرے اس لئے بھی کہ اُن لوگوں پر جن سے اب تعلق بن رہے ہیں جماعت کا منفی اثر نہ پڑے.الحمد للہ کہ اندرونی ہال تو کارکنان اور احباب جماعت نے وقارِ عمل کر کے میری رپورٹ کے مطابق دو دن کے اندر خالی کر دیا ہے اور باہر کی جگہ میں گو ایک زائد دن لگ گیا لیکن جتنا وسیع انتظام تھا اس لحاظ سے یہ بھی اچھے وقت میں ہو گیا.اس دفعہ جلسے کے پہلے کے وقار عمل میں بھی اور بعد کے وائنڈ آپ میں بھی پاکستان سے نئے آئے ہوئے اسائلم لینے والوں کا بھی بہت بڑا طبقہ شامل ہوا ہے، انہوں نے بڑی محنت کی ہے.وہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں، ان اساعلم والوں سے میں کہتا ہوں کہ باہر آکر اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ جماعت کے بغیر اُن کی کوئی زندگی ہے.جماعت کے بغیر اُن
خطبات مسرور جلد نهم 334 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء کی کوئی زندگی نہیں ہے.شاید اس کے بغیر تھوڑی سی دنیا تو اُن کو مل جائے لیکن نسلیں برباد ہو جائیں گی.اس لئے ہمیشہ جماعت اور نظام جماعت سے جڑے رہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ عمومی طور پر باہر سے آئے ہوئے غیر از جماعت مہمانوں نے بڑا اچھا اثر لیا ہے.وفود بھی مجھے ملے ہیں، افراد بھی ملے ہیں.جو بار بار آنے والے ہیں اُن کی نظروں میں پہچان اور محبت بڑھ رہی ہے، احمدیت کے قریب آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ جلد اُن کے سینے کھلیں اور وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو ماننے والے ہوں.الفضل میں رپورٹس شائع ہوں گی تو وہاں سے بھی کچھ تفصیلات لوگوں کو مل جائیں گی، اُن لوگوں کے تاثرات مل جائیں گے.بہر حال مختصر میں بھی بتا دیتا ہوں.ایک عیسائی دوست ہیں مالٹا سے اپنی اہلیہ کے ساتھ شامل ہوئے ہیں، دوسری دفعہ شامل ہوئے ہیں، پڑھے لکھے ہیں، اخبارات میں آرٹیکل لکھتے ہیں وہاں کی بعض حکومتی کمیٹیوں کے ممبر بھی ہیں.کہنے لگے میں نے تمہاری تقریروں سے بعض پوائنٹس نوٹ کئے ہیں اور انہوں نے ڈائری دکھائی کہ اُس پر وہ پوائنٹس نوٹ کرتے رہے ہیں.اور وہ کہنے لگے کہ اب ان پر جا کر میں لکھوں گا اور خاص طور پر مجھے کہا کہ تمہاری آخری تقریر مجھے بہت پسند آئی ہے، اس کے بھی میں نے پوائنٹس لکھ لئے ہیں.اب آخری تقریر جو خالصتاً جماعتی تربیت کے لئے تھی اس میں بھی اُن کو اپنے لحاظ سے بعض باتیں مل گئیں.اسی طرح ایک عیسائی وکیل ہیں بلغاریہ سے آئے ہوئے، اکثر آتے ہیں.انہوں نے مستورات کی تقریر میں عورتوں کی تربیت اور طلاق خلع کے معاملات جو تھے اُن کو بڑے غور سے سنا اور ان معاملات نے اُن کو اپنی طرف متوجہ کیا.وہ وکیل ہیں.اور انہوں نے کہا کہ مجھے تمہاری جماعت کی یہ بات بہت اچھی لگی ہے کہ صلح صفائی کے لئے تمہارے اندر بھی ایک نظام موجود ہے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ تم نے بالکل صحیح بات کی ہے کہ برداشت بہت زیادہ کم ہوتی جارہی ہے اور عمومی طور پر ساری دنیا میں ہی کم ہوتی جارہی ہے ، اور ظاہر ہے اُس کا اثر جماعت پر بھی پڑ رہا ہے.اس لئے ہمیں فکر بھی کرنی چاہئے کہ ہم ہمیشہ دنیا کے بد اثرات سے بچے رہیں اور مجھے انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ہمارے پاس بھی اب عدالتوں میں طلاق کے واقعات کے کیس بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں لیکن جو پسند اُن کو چیز آئی وہ یہی تھی کہ تمہارا تو ایک اندرونی تربیتی نظام بھی ہے.ہمارے ہاں وہ بھی نہیں ہے.پس غیر بھی باتوں کا اثر لیتے ہیں اور نوٹ کرتے ہیں اور یہ چیزیں اُن کی توجہ کھینچنے کا باعث بن رہی ہیں.میں تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہو تا ہوں اور جماعت کو بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ اسلام کی تعلیم کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے لوگوں تک پہنچانے کا کام اللہ تعالیٰ نے سپرد فرمایا ہے وہ لوگوں کی توجہ کھینچنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے.لیکن یہ بات ہمارے اُن لوگوں کو بھی توجہ دلانے والی ہونی چاہئے جو تقریروں پر بھی پوری توجہ نہیں دیتے، باتوں کو بھی غور سے نہیں سنتے اور اپنے کوئی معاملات ہوں، جھگڑے ہوں تو نظام جماعت کو چھوڑ کر دنیاوی عدالتوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں ، جبکہ دنیا والے ہمارے طریق کو پسند کر رہے ہیں کہ یہ بڑا اچھا تربیتی طریق ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 335 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء جر من مہمانوں کے ساتھ ایک علیحدہ پروگرام بھی ہوتا ہے اس میں بھی مجھے انہیں مختصر طور پر اسلام کی تعلیم بتانے کی توفیق ملی.کیونکہ وہ پروگرام انگلش اور جرمن میں تھا اس لئے اُس مجلس میں سے جلسہ میں شامل ہونے والے بھی بہت کم شامل تھے اور شائد ٹی وی پر بھی بہت کم لوگوں نے یہ پروگرام دیکھا ہو لیکن اسلام کا جو پیغام اُن کو پہنچایا گیا، گو میری تقریر وہاں کچھ لمبی ہو گئی تھی لیکن بڑے تحمل سے اُن سب نے سنی اور دو چار وہاں سے اٹھ کر گئے ہیں وہ بھی اجازت لے کر اور بڑی معذرت کے ساتھ کہ ہماری کچھ اور مصروفیات ہیں جہاں ہمارا پہنچنا ضروری ہے ، تب گئے ہیں.ایک تاثر ایک مہمان کا بتادیتا ہوں.جب میری تقریر ختم ہوئی ہے تو اس نے ہمارے ایک احمدی کو کہا کہ میں نے اُس وقت گھڑی دیکھی تو پتہ چلا کہ کافی وقت گزر چکا ہے لیکن تقریر اتنی دلچسپ تھی کہ مجھے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا.پھر مجھے کسی نے امریکہ سے لکھا کہ اُن کے ایک امریکن دوست ہیں اُن کے ساتھ یہ بیٹھے سُن رہے تھے.وہ امریکن عیسائی دوست کہنے لگے کہ بڑی ربط والی اور بڑی دلچسپ باتیں تھیں بلکہ اُس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پوپ اس طرح نہیں کہہ سکتایا نہیں کہتا، اس کی تقریر ایسی نہیں ہوتی.تو یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور اسلام کی برتری ہے اور قرآنِ کریم کی برتری ہے جو دنیا پر ظاہر ہو رہی ہے.اس میں میری کوئی کوشش نہیں ہے یا کسی مقرر کی کوئی کوشش نہیں ہوتی.یہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھر دیا ہے اور یہ وہ بیان ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے ہم نے حاصل کیا اور آگے پہنچارہے ہیں.جو نیک فطرت ہیں وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور ان فضلوں کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے.احمدی طلباء لڑکوں اور لڑکیوں کی ایسوسی ایشن سے بھی میری میٹنگ ہوئی تو انہیں بھی میں نے یہی کہا تھا کہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے قرآنِ کریم کو رہنما بنالو اور اپنی تعلیم کے میدان میں اور ریسرچ میں اس کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بڑی اچھی تعداد طلباء اور طالبات کی تعلیمی میدان میں آگے نکل رہی ہے.پس ان کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اس ملک میں آکر تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا موقع عطا فرمایا ہے.اب اُن کا فرض ہے کہ اس تعلیمی ترقی کو قرآن کریم کی تعلیم کے تابع رکھیں، اسلام کی تعلیم کے تابع رکھیں اور جماعت سے مضبوط تعلق پیدا کر کے اس کے لئے مفید وجو د بنیں.ایم.ٹی.اے کا ذکر بھی پہلے ہونا چاہئے تھا وہ رہ گیا.ایم.ٹی.اسے جرمنی کے کارکنوں نے بھی دن رات محنت کر کے جہاں اپنے لائیو (Live) پروگرام دکھائے وہاں وقفوں میں اپنے مختلف سٹوڈیو کے پروگرام بھی دکھاتے رہے اور وہ بڑے اچھے پروگرام تھے.لندن سے بھی کچھ نوجوان مدد کے لئے آئے ہوئے تھے اور سب نے مل کر جلسے کی کارروائی اور دوسرے پروگراموں کو دنیا تک پہنچایا ہے.ابھی تو میں سفر میں ہوں میں نے خطوط وصول نہیں کئے لیکن مجھے امید ہے ہمیشہ کی طرح جب میں ان شاء اللہ لندن پہنچوں گا تو خطوط کا انبار ہو گا جو
خطبات مسرور جلد نهم 336 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء ایم.ٹی.اے کے لوگوں کو بھی، کارکنوں کے کام کو بھی سراہ رہے ہوں گے.اور اس کے لئے شکر گزاری کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اس لئے میں پہلے ہی آپ تک پہنچا دیتا ہوں.ایم.ٹی.اسے جرمنی نے اپنا ایک موبائل ٹرک بھی بنایا ہے جو ٹرانسمیشن کے لئے یا کنٹرول کے لئے ہے بہر حال اس میں کچھ لیجٹس (Gadgets) لگائے ہیں جو ان کے کام آ رہا ہے.وہ ایڈیٹنگ وغیرہ کے لئے اور دوسرے پروگراموں کے لئے بھی شاید کام آتا ہے وہاں کھڑا کیا گیا تھا.بہر حال جو بھی اُس کا مقصد تھا پہلے جو منہائم میں اپنا ایک پورا سسٹم ایک کمرے میں یا کمرہ نما ہال میں شفٹ کرتے تھے ، وہ سارا سسٹم اب ان کے ٹرک میں لگ گیا ہے جس کو لے کر ہر جگہ جاسکتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم.ٹی.اسے جرمنی نے بھی بڑی ترقی کی ہے اور بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ تمام کام کرنے والے کارکنان کو اور والنٹیر ز کو جزا عطا فرمائے.اس دورہ میں جر من جماعت کی ایک بات پہلی دفعہ دیکھنے میں آئی ہے کہ انہوں نے پڑھے لکھے لوگوں اور انتظامیہ اور سیاستدانوں سے رابطے خوب بڑھائے ہیں، میڈیا سے بھی رابطے بڑھے ہیں اور خدام الاحمدیہ نے خاص طور پر اور جماعت نے عموماً جماعت کا پیغام لیف لٹس (Leaflets) کے ذریعہ سے پہنچانے میں بڑا کر دار ادا کیا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.انہی رابطوں کا اثر ہے کہ مجھ سے بہت سے پڑھے لکھے لوگ اور ڈپلومیٹس (Diplomates) اور سیاستدان ملنے کے لئے آئے اور ان کے رویوں میں بڑا احترام بھی تھا.اسی رابطے کا نتیجہ ہے کہ ہمبرگ کے کونسل ہال میں وہاں کی ایک سیاسی جماعت ہے، گرین پارٹی، انہوں نے ایک فنکشن بھی ترتیب دیا جس میں اسلام کی تعلیم کی روشنی میں مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا.مختلف مذاہب کے لوگ، مختلف طبقوں کے لوگ وہاں موجود تھے ، اُن کے سامنے اسلام کی تعلیم بیان کی گئی.اسی طرح میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگوں کی توجہ اسلام کی حقیقت جاننے کی طرف ہو رہی ہے.یہ کوششیں جو آپ لوگ لیف لیٹس (Leaflets) کے ذریعہ سے اور مختلف ذرائع اور وسائل کے ذریعے سے کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے اور لوگوں کے سینے کھولے.ایک طرف اگر اسلام کے خلاف شدت پسندی کی لہر اُبھر رہی ہے تو دوسری طرف وسیع طور پر توجہ بھی پیدا ہو رہی ہے.پس اب افراد جماعت جرمنی کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری کے طور پر ان رابطوں اور تعلقات کو آگے بڑھائیں اور تبلیغی کاوشوں کو مزید تیز کریں تا کہ جلد ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کے اثرات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے دیکھیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 22 جولائی تا 4 اگست 2011 جلد 18 نمبر 30، 29 صفحہ نمبر 5 تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 337 27 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جولائی 2011ء بمطابق 08وفا1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح (لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ دنوں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں میں جلسہ جرمنی میں شمولیت کے لئے گیا ہوا تھا.اس کے بارہ میں تو گزشتہ خطبہ میں، جو برلن میں دیا تھا، بیان کر چکا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلسے میں دیکھا، محسوس کیا اور اس کے علاوہ بھی جرمنی کی جماعت نے جو پروگرام بنائے ہوئے تھے اُن میں بھی وہ فضل نظر آئے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نئے نئے پہلو نظر آئے.جماعت کے تعارف کے نئے راستے کھلے.اب جر منی جماعت کو چاہئے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.جرمنی کے علاوہ سفر میں جاتے اور آتے وقت یورپ کے دو اور ممالک میں بھی مختصر قیام تھا.جاتے ہوئے بیلجیئم اور واپسی پر ہالینڈ میں.گو یہاں مختصر قیام تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے یہاں بھی نظر آرہے ہیں.بیجیم میں ایک رات قیام تھا، شام کو وہاں پہنچے تو شام کو ہی بعض نو مبائعین اور جماعت کے قریب آئے ہوئے دوستوں کے ساتھ ملاقات تھی.ایک مجلس تھی جس میں ساٹھ ستر کے قریب احباب و خواتین شامل تھے.اُنہیں بھی کچھ کہنے کا موقع ملا.اس مجلس کے دوران ہی بعض جو قریب آئے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل کھولے اور اُنہیں شرح صدر عطا فرمایا اور اُن کو اللہ تعالیٰ نے بیعت کی توفیق عطا فرمائی.میں اس مجلس میں اُن کو بتارہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آخرین میں مبعوث ہوئے تو اُس کام کو آگے بڑھانے کے لئے مبعوث ہوئے جو آپ کے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک بہت بڑا انقلاب پیدا فرمایا اس میں جاہلوں کو جو بعض دفعہ درندگی کی حد تک گر جاتے تھے حقیقی انسانی قدروں کی پہچان کروائی.انہیں انسان اور پھر تعلیم یافتہ انسان بنا کے خدا تعالیٰ کے قریب کر دیا اور یوں وہ باخدا انسان بن گئے اور اپنے مقصد پیدائش کو نہ صرف پہچاننے لگ گئے بلکہ اُس کے حصول کے لئے حقیقی کوششیں شروع کر دیں اور معیار حاصل کیا.اُن کا اللہ تعالیٰ سے ایسا پختہ تعلق قائم ہوا کہ انہیں دنیا کی ہر چیز بیچ نظر آنے لگی.اس دنیا کی کسی چیز کی کوئی حقیقت نہ رہی.اُن کی دنیا بھی دین بن گئی اور یہی چیز
338 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے جو قرآنی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں پیدا کرنے آئے ہیں.تو اُس وقت ایک شخص جس کے بارہ میں پہلے میں اُس کی باتیں سن کر سمجھا تھا کہ احمد ی ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے اُس وقت تک بیعت نہیں کی تھی لیکن جماعت کے بہت قریب تھا میری بات ختم ہونے کے بعد اجازت لے کر کھڑا ہوا ( یہ دوست غالباً مراکو کے تھے ) اور بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگا کہ آج آپ کی یہ باتیں سُن کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کا یہ کام بھی ہے کہ انسانوں کو باخدا انسان بنائیں.میں عہد کرتا ہوں کہ اپنی بھی اصلاح کروں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ مسیح موعود کا مددگار بن کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں پھیلا کر دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے والا بھی بنوں گا.وہ کہنے لگا کہ آج میں احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان بھی کرتا ہوں.اگر پہلے کوئی شکوک و شبہات تھے بھی تو آپ کی باتیں سُن کر یہ ختم ہو گئے ہیں.کہنے لگا کہ بس میری بیعت لیں اور مجھے سیح موعود کے سلطان نصیر میں شامل کریں.چنانچہ انہوں نے بیعت کی اور اُن کے ساتھ سات آٹھ اور بھی بیعت میں شامل ہوئے جس کی تفصیلی رپورٹ تو وکیل استبشیر ، ماجد صاحب لکھ رہے ہیں.الفضل میں شائع ہو رہی ہے.بہر حال ان سب بیعت کرنے والوں کی بڑی جذباتی کیفیت تھی اور ایک عزم تھا کہ اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے جس کی بھی ضرورت ہے وہ ہم کریں گے اور جو ہم نے حاصل کیا ہے اُسے آگے بھی پہنچائیں گے.وہاں جو بیعتیں ہو رہی ہیں، جو نئے آنے والے ہیں اُن میں تبلیغ کا بھی بڑا شوق ہے اور سب سے پہلے اپنے خاندان اور عزیزوں سے تبلیغ شروع کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اُنہیں حقیقی اسلام کی آغوش میں لا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن میں اس کے لئے ایک جذبہ اور جوش پیدا ہوا ہوا ہے.یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ گزشتہ جمعہ سے تین دن کے لئے بیلجیئم کا بھی جلسہ سالانہ ہوا تھا جس کا میں گزشتہ جمعہ میں ذکر نہیں کر سکا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ بیلجیئم بھی اب بیعتوں اور رابطوں اور احمدیت کا پیغام پہنچانے میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے.اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی راستے کھول رہا ہے.دنیا میں ہر جگہ ایک ہوا چلی ہوئی ہے.جماعت جو ہے اُس کی حقیقی شکر گزاری یہی ہے کہ جو راستے اللہ تعالیٰ کھول رہا ہے اُس سے بھر پور فائدے اُٹھائیں اور نئے آنے والوں کو رہا سنبھالیں اور اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں.اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا واپسی پر ہالینڈ میں بھی قیام تھا.ہالینڈ کا جلسہ بھی آج سے شروع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے جلسہ میں شامل ہونے والوں کو بھی جلسہ کی برکات سے مستفیض فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے.ہر لحاظ سے یہ جلسہ بابرکت ہو اور پھر یہ لوگ بھی پہلے سے بڑھ کر تبلیغی اور تربیتی میدان میں بہت زیادہ ترقی کرنے والے بنیں.وہاں اسلام کے خلاف کیونکہ اکثر کہیں نہ کہیں سے آواز اُٹھتی رہتی ہے اس لئے انہیں بہت زیادہ محنت اور دعا کی ضرورت ہے اور کوشش بھی کرنی چاہئے.تمام ذیلی تنظیموں کو بھی اور جماعت کو بھی مربوط پروگرام بنا کر اسلام کی خوبصورت تعلیم ملک کے ہر شخص تک پہنچانے کے بارے میں سوچنا چاہئے.
خطبات مسرور جلد نهم 339 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء بہر حال سفر کا بتا رہا تھا تو وہاں مختصر قیام کے دوران بعض عربی بولنے والے نو مبائعین اور جماعت کے قریب آئے ہوؤں سے بھی ملاقات ہوئی.ایک دوست جو جماعت کے قریب تھے انہوں نے بیعت بھی کی.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا چلائی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں عجیب تسکین کے سامان پیدا فرمارہا ہے اور احمدیت کی سچائی اُن پر واضح کر رہا ہے.ہمارا بھی فرض ہے کہ ان فضلوں سے حصہ لینے کے لئے اپنی طرف سے بھی مکمل کوشش کریں کہ یہ لوگ جتنی جلد ہو سکے زیادہ سے زیادہ حقیقی اسلام کے قریب آئیں.یہ نئے لوگ جو آرہے ہیں اُن کی جذباتی کیفیت الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے.بہر حال ان دو ملکوں کا میں نے مختصر ذکر کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر طرف ایسی ہوا چلی ہوئی ہے اور اس کے فضل کے دروازے اس طرح کھل رہے ہیں کہ مختصر قیام میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے نظر آتے ہیں.اور پھر نئے شامل ہونے والے ایک نئے جذبے اور جوش سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو آگے پہنچانے کا اعلان کرتے ہیں.اور یہ انقلاب لمحوں میں ان میں پیدا ہو تا نظر آرہا ہے.آتے ہیں، ملتے ہیں، بات کرتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے ایک عجیب کیفیت اُن پر طاری ہو جاتی ہے اور ایک نئے جذبے اور جوش سے وہاں سے اُٹھ کے جاتے ہیں.پس یہ خاص فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید و نصرت کا ایک نظارہ ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کے نئے نئے پہلو واضح ہوتے ہیں کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ (براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 267 حاشیه در حاشیہ نمبر 1) یعنی میں تیری مدد ایسے لوگوں کے ذریعے کروں گا جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.اور حقیقت یہی ہے کہ ان میں سے اکثریت وہ ہے جن میں خدا تعالیٰ نے حق کی تلاش کا جوش پیدا کیا.پھر اُن کا جماعت سے کسی ذریعہ سے رابطہ ہوا اور احمدیت اور حقیقی اسلام کی خوبصورت تعلیم نے اُن کے دلوں میں گھر کر لیا.اب مولوی چاہے جتنا بھی زور لگالیں جن دلوں کو اللہ تعالیٰ پاک کر کے مائل کر رہا ہے وہ اُن کے دنیاوی لالچوں اور خوفوں سے ڈر کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی صداقت اور ایمان میں مضبوطی کو چھوڑنے والے اور کمزوری دکھانے والے نہیں ہو سکتے.گزشتہ دنوں میں کیمرون کی ایک رپورٹ میں دیکھ رہا تھا جو نائیجیریا کے سپر د ہے ،وہاں ہمارے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ کیمرون کے انگریزی بولنے والے علاقوں کے بعد اب فرنچ بولنے والے علاقوں میں بھی بڑی تیزی سے جماعت ترقی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے جو مخالف مقامی مولوی ہیں اور بعض دفعہ وہاں تبلیغی جماعت کے یا دوسرے پاکستانی مولوی بھی پہنچ جاتے ہیں، اُن کی حسد کی آگ بڑھ رہی ہے.چنانچہ لکھتے ہیں کہ پاکستانی تبلیغی جماعت کا ایک گروپ بعض لو کل ملاؤں کے ساتھ مل کے 29 مئی کو ( یہ جو گزشتہ 29 مئی گزری ہے ہماری جماعت مامفے (Mamfe) کی مسجد بیت الہدیٰ میں آئے اور اُن لوگوں نے جماعت کے خلاف زبان درازی کی اور احباب جماعت کو جو چند وہاں بیٹھے ہوئے تھے ورغلانے کی کوشش بھی کی.اس پر احباب نے انہیں کہا کہ اگر یہاں، نماز پڑھنے آئے ہو تو پڑھو ورنہ یہاں سے چلے جاؤ ہم تمہاری بکواس نہیں سن سکتے.جس پر یہ لوگ
340 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم وہاں سے چلے گئے لیکن یہاں سے ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ناگوئی (Naguti) جگہ ہے، اُس میں ہماری ایک دوسری مسجد ہے ”مسجد بیت السلام ، جس کا اس سال افتتاح ہوا ہے وہاں پہنچے اور اُس وقت وہاں کی جو قریبی جماعت تھی اس میں بڑے وسیع پیمانے پر یوم خلافت کا ایک جلسہ ہو رہا تھا اور لوگ اُس میں شامل ہونے کے لئے گئے ہوئے تھے.چند ایک لوگ ہی وہاں بیٹھے تھے یہ (مولوی) اُن کے پاس گئے اور اُن کو ڈرایا دھمکایا لیکن اُنہوں نے نہ تو اُن کی باتیں سنیں اور نہ ہی اُن سے یہ کہا کہ ہاں ہم تمہارے ساتھ ہیں.لیکن بہر حال کیونکہ مقامی مولوی بھی ساتھ تھے اور کچھ بڑے لوگ بھی تھے اس کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں سکے اور ان مولویوں نے ہماری مسجد جس کا میں نے ذکر کیا کہ افتتاح ہوا ہے ، وہاں سے قرآنِ کریم اور لٹریچر اُٹھایا اور مسجد کے باہر جو بورڈ لگا ہوا تھا اُس کو بھی توڑ کے اپنے ساتھ لے گئے.بہر حال جب ہماری جماعت کے لوگ واپس آئے تو پھر حکام سے رابطہ کیا.گو ان لوگوں نے ہمارے خلاف وہاں کے جو حکام تھے اُن کو کافی ورغلایا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں اور فساد پیدا کرنے والے ہیں اور دہشت گرد ہیں اور ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے ہیں.لیکن بہر حال افسران سے رابطے تھے بلکہ وہاں کے ایک بڑے افسر تھے اس علاقے کے ڈی پی او، ایڈ منسٹریٹو ہیڈ ہیں ، اُن کو جب مسجد کا افتتاح ہوا ہے تو بلایا ہوا تھا اور وہ آئے ہوئے تھے.بہر حال جب معاملہ اُن تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ اب تو یہ لوگ چلے گئے ہیں آئندہ یہ آئیں تو مجھے اطلاع کرنا اور میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروں گا اور گرفتار کروں گا.تو یہ لوگ تو ہر جگہ اپنی کوششیں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی ہوا چلائی ہے کہ جہاں بیعتیں کروارہا ہے وہاں دوسروں کے دلوں میں جو ابھی تک شامل نہیں ہوئے نرمی بھی پیدا کر رہا ہے.پس یہ لوگ جن کو کہا جاتا ہے کہ افریقہ میں رہنے والے ہیں اور جو دنیاوی تعلیم سے اتنے آراستہ نہیں لیکن ان کے دل اللہ تعالیٰ نے نور یقین سے بھر دیئے ہیں، وہ اپنے ایمان میں مضبوط ہیں.وہ ان نام نہاد علماء کے بھرے میں آنے والے نہیں.ایمان سے پھیر ناتو شیطان کا کام ہے اور یہی اُس نے کہا تھا کہ اے اللہ ! تیرے خالص بندے ہی ہیں جو میرے قابو میں نہیں آئیں گے.باقیوں کو تو میں ہر راستے سے ور غلانے کی کوشش کروں گا.پس جو ان ورغلانے والوں کا کام ہے وہ یہ کرتے چلے جائیں لیکن جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق پیدا ہو چکا ہے، جن لوگوں کو راستی دکھائی دے چکی ہے، اللہ تعالیٰ کے خالص بندے بن چکے ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایمانوں پر قائم رہیں گے اور یہی اظہار ہر جگہ ہمیں نظر آ رہا ہے.اب میں کچھ اور واقعات پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بعض لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے بلکہ حیران کن طور پر رہنمائی فرماتا ہے.قرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں: آرتر (Artur) صاحب نے گزشتہ رمضان المبارک میں بیعت کی تھی.وہ ایک دینی جماعت کے ممبر تھے.انہوں نے بیان کیا کہ میرے اساتذہ نے مجھے برائیوں سے بچنے کے لئے اور سیدھے راستے پر چلنے کے لئے ایک دعا سکھائی.اس دعا کو سکھے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا لیکن میں نے وہ دعا نہیں کی تھی.کہتے ہیں کہ تین چار روز قبل میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعامانگی کہ اپنے فضل سے مجھے سیدھی راہ دکھا.
341 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اس دعا کے تین چار روز بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور وہاں سے آگے کئی اور چوٹیاں ہیں.میں ایک چوٹی سے پھلانگ کر دوسری چوٹی پر جارہا ہوں.اس دوران آگے سے دو بند ر نکلے ہیں اُن میں سے ایک بندر میرے بائیں طرف لپٹ گیا ہے جبکہ دوسر ا سیدھا میری طرف آرہا ہے.اس دوران ایک دیو ہیکل کوئی چیز آتی ہے اور اُس نے طاقت سے اُس بندر کو مجھ سے علیحدہ کر دیا اور میری جان بچائی.کہتے ہیں اس خواب کے بعد میں بیدار ہو گیا اور میں حیران تھا کہ یہ کیا خواب ہے.اس کے چند دن بعد میر ا جماعت احمدیہ سے رابطہ ہو گیا اور مجھے جماعت کے بارے میں معلومات دی گئیں.میں نے چند کتب پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.بعد میں مجھے اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوئی کہ بمطابق حدیث اس دور کے بگڑے ہوئے علماء دراصل بند رہی ہیں اور جماعت احمدیہ نے مجھے اس سے نجات دلائی ہے.پھر انڈونیشیا کے ایک دوست تھے جن کو گو بیعت کئے ہوئے تو چند سال ہو چکے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بیمار ہوا.ملٹری ہسپتال میں داخل تھا تو ہوش آتے ہی میں نے ایک کشف دیکھا کہ جیپ کی چھت پر ایک وسیع ٹیلی ویژن سکرین لگی ہوئی ہے یا چھت اس سکرین کی طرح چمک رہی ہے اور اس پر پہلے عربی میں کلمہ لکھا ہوا دیکھا.اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ الله - پھر اس کے بعد قرآن کریم اور کچھ احادیث بھی دکھائی دیں اور آخر پر باری باری یہ کلمات لکھے دکھائے گئے.اسلام سے قبل نہیں مرنا.قیامت ابھی نہیں آئی.اور پھر یہ لکھا ہوا آیا کہ انسان کی زندگی ایک کتاب کی سی ہے.یہ کتاب انسان کی پیدائش کی طرح کھلتی ہے اور انسان کے مرنے کی طرح بند ہو جاتی ہے اور کسی وقت یہ دوبارہ کھولی جائے گی.ان کلمات میں سے ایک جملے سے ویول (Wewil) صاحب ( اُن کا نام تھا) بڑے بے چین ہو گئے.اور یہ جو جملہ تھا کہ ”اسلام سے قبل نہیں مرنا“.اس پر بڑے حیران تھے کہ میں تو مسلمان ہوں اور میرے مسلمان ہونے کے باوجود مجھے یہ جملہ دکھایا گیا ہے.صحتیاب ہونے کے بعد انہوں نے بہت ساری مذہبی کتابیں پڑھیں.ایک حدیث پڑھی جس میں اسلام میں تہتر فرقوں کا ذکر تھا جس میں ایک فرقہ ناجی ہے اور باقی نہیں.کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اہلسنت والجماعت فرقہ کی تلاش شروع کر دی.جب وہ اپنے کسی عالم یا مولوی سے ملتے تو ضرور اس کے متعلق سوال کرتے اور جواب ہمیشہ یہی ہو تا کہ ہم ہی اہل سنت والجماعت ہیں لیکن دلی طور پر یہ صاحب تسلیم نہیں کرتے تھے.کہتے ہیں سالہا سال تک وہ ناجی فرقہ کی تلاش میں رہے لیکن انہیں کچھ نہ ملا.حتی کہ جب حج کرنے مکہ گئے تو وہاں بھی فرقہ اہل سنت والجماعت کو نہ پاسکے.1998ء میں فوج سے ریٹائر ہوئے.کسی سے اپنی بے چینی کا ذکر کیا کہ یہ کیا چیز ہے جس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی.پھر اُن کو ہمارے کسی احمدی نے بتایا کہ ” جماعت“ کے لئے ضروری ہے کہ ایک جماعت ہو ، جماعت کا ایک امام ہو اور پھر اُس کے پیروکار بھی ہوں.اور مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ امام بھی ایسا ہو جو عالمی سطح پر ہو اور اُس کے پیروکار اُس کے مکمل مطبع ہوں.تو اس احمدی نے جب ان غیر احمدی کرنل کو بتایا کہ اس زمانے میں وہ جماعت جس کا ایک عالمی امام ہے وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے اور یہ امام
خطبات مسرور جلد نهم 342 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی ، جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے خلیفہ ہیں تو پھر اُس وقت یہ جو غیر احمدی کرنل ویول صاحب تھے ، انہوں نے کہا کہ علماء کے نزدیک تو بانی جماعت احمد یہ نعوذ باللہ فتنہ پرداز تھے.اس کے جواب میں احمدی نے حقائق پیش کئے اور بتایا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اس زمانے میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ دن بدن میرا ایمان ترقی کرتا چلا گیا.آخر انہوں نے ایک وقت میں بیعت کر لی اور بیعت کرنے کے بعد تبلیغ کے میدان میں بڑی ترقی کر رہے ہیں اور تبلیغی شوق جو ہے اتنا ہے کہ وہاں سے ہمارے رپورٹ دینے والے مبلغ کہتے ہیں کہ جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے اور بعض جماعتیں بھی ان کے ذریعے سے قائم ہوئیں.پھر امیر صاحب گیمبیا کہتے ہیں کہ اپر ریور ریجن (Upper River Region) میں ایک گاؤں ”سرائے محمود“ کے نام سے موسوم ہے.وہاں ہماری اپنی مسجد ہے جہاں احمدی اور غیر احمدی اکٹھے نماز ادا کرتے ہیں.دو مہینے پہلے پڑوس کے گاؤں میں غیر احمدیوں نے اپنی مسجد تعمیر کرلی.”سرائے محمود “ سے ایک غیر احمدی نے اس نئی مسجد میں جا کر جمعہ کی نماز ادا کرنے کا ارادہ کیا.جمعہ کی صبح نماز فجر کے بعد وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا اور واپس گھر آکر جمعہ سے قبل کچھ دیر کے لئے سو گیا تو خواب میں دیکھا کہ غیر احمدیوں کی تعمیر کردہ مسجد میں جمعہ پڑھنے جارہا ہے تو خواب میں اُسے دکھایا گیا کہ جس مسجد کو تم چھوڑ کر جارہے ہو یعنی احمدیوں کی مسجد ، وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے بہ نسبت اُس مسجد کے جہاں تم اب نماز پڑھنے جارہے ہو.جاگنے کے بعد وہ احمد یہ مسجد میں گئے اور وہاں جمعہ کی نماز ادا کی اور اپنی خواب سنائی اور کہا کہ اب مجھ پر حقیقت کھل گئی ہے اور احمدیت واقعی سچی ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے بیعت کر لی اور بڑے مخلص احمدی ہیں.گیمبیا کے امیر صاحب ہی لکھتے ہیں کہ وہاں ایک گاؤں ہے کنفینڈا (Kanfenda) ،وہاں کے سامبا جالو (Samba Jallow) صاحب ہیں.انہوں نے خواب دیکھا کہ کچھ سفید فام لوگ پاکستانی لباس میں کسی مقام پر چڑھے ہیں.یہ صاحب پوچھتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ اُن کو جواب ملتا ہے کہ یہ لوگ قادیان سے ہیں اور جس مہدی نے اس زمانے میں آنا تھا یہ اُس کے ساتھ ہیں.سامبا صاحب نہیں جانتے کہ قادیان کیا ہے اور کہاں ہے ؟ خواب میں سامبا صاحب نے دیکھا کہ سورج اور چاند ایک دوسرے کے پیچھے مغرب سے مشرق کی طرف جارہے ہیں اور اس طرح کہ سفید فام لوگ اُسے بتاتے ہیں کہ یہ مہدی کے آنے کی علامت ہے.جب سامبا صاحب فرافینی ٹاؤن میں آئے تو وہاں اُنہوں نے امیر صاحب گیمبیا کو دیکھا اور اُنہوں نے دیکھتے ہی کہا کہ ایسے ہی افراد تھے جو اُنہیں خواب میں دکھائی دیئے.اُنہیں جماعت کا تعارف کروایا گیا تو انہوں نے وہیں بیعت کر لی.بیعت سے قبل سامبا صاحب ملاؤں کے پیچھے لگ کر مشرکانہ زندگی گزار رہے تھے.بیعت کے بعد یہ صاحب پنجوقتہ نمازی ہیں اور مالی معاونت میں بڑے پیش پیش ہیں.جماعتی چندوں میں بڑے آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ایک پاکیزہ زندگی گزار رہے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 343 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء پھر ایک صاحب ہیں محمد رمضان صاحب، کافی دیر کی بات ہے کہ یہ ہمارے ایک مشنری کے پاس آئے.ہمارے مبلغ محمود شاد صاحب جو شہید ہو گئے ہیں یہ اُس وقت تنزانیہ میں تھے یہ اُن کا بیان ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں.تو میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے جماعت کا تعارف حاصل کیا ہے یا ویسے ہی آپ آئے ہیں.کہنے لگے میں پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکا ہوں.اب مجھے تیسری دفعہ خواب میں رہنمائی کی گئی ہے.اس لئے آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ لازماً بیعت کرنی ہے.اُس نے بتایا کہ اس نے خود خدا سے رہنمائی مانگی تھی کہ سچے لوگ کون ہیں اور خواب میں مجھے تین دفعہ مورو گورو کی احمد یہ مسجد دکھائی گئی اور آخری دفعہ تو میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں ایک پہاڑی پر ہوں جہاں نور ہی نور ہے اور میرے ساتھی جو مجھے احمدیت سے روکتے تھے بہت نیچے ہیں.چنانچہ آج میں بیعت کرنے آیا ہوں.انہوں نے بیعت فارم پر کیا اور ساتھ اُس کے بعد فوری طور پر چندوں کی ادائیگی بھی شروع کر دی اور کہا کہ میں نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گیا.الجزائر کے ایک (دوست) محمد رابح صاحب ہیں.کہتے ہیں ایک سال سے زائد عرصہ سے میں ایم.ٹی.اسے دیکھ رہا تھا.شروع میں وفات مسیح، دجال اور امام مہدی وغیرہ کے بارے میں جماعت کے خیالات سُن کر تعجب ہوا.استخارہ کرنے پر خواب میں دیکھا کہ مصطفی ثابت صاحب اور شریف صاحب کے ساتھ ایک مسجد میں ہوں.انہوں نے پوچھا کہ تمہیں امام مہدی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟ میں نے کہا کہ استخارہ سے.مجھے شروع سے ہی امام مہدی کے ظہور کا انتظار اور اس کے ساتھ ہو کر لڑنے کا شوق تھا.یہ کہتے ہیں اُس کے بعد میں احمدی ہو گیا لیکن دوست احباب مجھے چھوڑ گئے.مجھے اس کی پر واہ نہیں.صرف خدا کی رضا چاہتا ہوں.اور بیعت کی درخواست کی.زمبابوے کے مبلغ لکھتے ہیں کہ یہاں مسلم یو تھ کے ایک عہدیدار نے بیعت کی.اسلام قبول کرنے سے پہلے جب وہ ایک عیسائی چرچ کے ممبر بنے تو ان کو Baptise کرنے کے لئے پادری نے تاریخ مقرر کی.اس دن اچانک پادری صاحب بیمار ہو گئے.دوسری بار تاریخ مقرر کی تو پادری صاحب کی والدہ بیمار ہو گئیں.تیسری بار جب تاریخ مقرر کی تو اس زور کی بارش ہوئی کہ کوئی وہاں نہ جا سکا.اس کے بعد اس نوجوان نے خواب میں دیکھا کہ ایک مجمع ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام ایک طرف کھڑے ہیں اور اُسے اپنی طرف بلاتے ہیں.یہ نوجوان کوشش کرتا ہے کہ مسیح تک پہنچے لیکن پہنچ نہیں سکا.اسی اثناء میں آنکھ کھل گئی.اس کے بعد اُس نے عیسائیت کو چھوڑ دیا.اب بیعت کرنے سے پہلے اس نوجوان نے خواب دیکھا کہ اس کا سارا جسم گردن تک دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اُس کو کسی نے پکڑ کر دلدل سے نکال دیا ہے.تو ہمارے مبلغ نے اُن سے پوچھا کہ تمہیں ان کا چہرہ یاد ہے کہ دلدل سے کس نے نکالا تھا ؟ کہنے لگا ہاں یاد ہے.جب اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی تو کہنے لگے.یہی چہرہ تھا جنہوں نے مجھے پکڑ کے دلدل سے نکالا تھا.پھر برکینا فاسو میں ڈوری سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں پوئی ٹینگا ہے.اس کے تبلیغی دورے کے دوران ایک بزرگ نے بیعت کی جن کی عمر پینسٹھ سال ہو گی.بیعت کے بعد وہ بتانے لگے کہ آپ لوگوں کے
344 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم آنے سے پہلے میں نے رویا میں ایک بزرگ کو دیکھا جو مجھے کہنے لگا کہ آدم علیہ السلام نازل ہوئے ہیں اُن کو قبول کرو.ایک ماہ کے وقفے کے بعد بعینہ وہی بزرگ دوبارہ مجھے ملے اور یہی پیغام دیا کہ آدم علیہ السلام نازل ہوئے ہیں اُن کو قبول کرو.ان کو تفصیلاً بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کی آپ نے بیعت کی ہے اُن کا نام بھی اللہ نے آدم رکھا ہے.اور اپنے اس رؤیا کے پورا ہونے پر بڑے خوش ہوئے.اُس کے بعد اپنے خاندان میں انہوں نے تبلیغ کی اور سو کے قریب افراد کو جماعت میں شامل کیا.پھر مصر کی ہالہ صاحبہ ہیں.وہ کہتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امام مہدی اور آپ کی جماعت پانی کے اوپر چل رہے ہیں.میں نے درخواست کی کہ مجھے بھی شرف مصاحبت بخشیں.انہوں نے کہا کہ واپسی پر ہم آپ کو ساتھ لے لیں گے.اس رؤیا کے بعد میں نے صوفی ازم میں تلاش حق شروع کی لیکن اطمینان نہ ہوا.میں نے کہا کہ میری خواب سے مراد صوفی فرقہ نہیں ہو سکتا.باوجود اس کے کہ ان لوگوں کا اصرار تھا کہ میں نے انہی کو خواب میں دیکھا تھا.گھر آکر میں ٹی وی پر مختلف چینل دیکھنے لگی یہاں تک کہ ایم.ٹی.اے العربیہ نظر آیا اور میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ میں نے اس چینل پر وہی شخص دیکھا جس کو خواب میں دیکھا تھا کہ وہ پانی پر چل رہا ہے اور امام مہدی ہے.اور مجھے انہوں نے لکھا کہ اس وقت انہوں نے مجھے دیکھا تھا.تو یہ سب خوا ہیں جو اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے ، لوگ جو خلفاء کو دیکھتے ہیں تو اس سے بھی اصل میں اللہ تعالیٰ کا یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کا جو نظام ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی ایک تسلسل ہے.پور تو نو دو ( بین) سے مبلغ ہمارے لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایک لطیفہ نامی عورت بطور ملازمہ کے آئیں اور چند دن کے بعد ہی بیمار پڑ گئیں اور دو تین ہفتے کی چھٹی کی اور پھر یو کے کا جو جلسہ ہونا تھا اس جلسہ کے قریب دوبارہ کام پر آنا شروع ہوئیں اور آکر انہوں نے مربی صاحب کی اہلیہ کو بتایا کہ اس بیماری کے دوران دو تین مرتبہ مجھے خواب آئی ہے اور اُس کا مجھ پر بڑا شدید اثر ہے.کہتی ہیں بیماری کے دوران میں خوب دعائیں کرتی رہی اور دعائیں کرتی ہوئی سوتی تھی کہ اے اللہ ! میرے گناہ بخش اور مجھے اور میری بچی کو جو شدید بخار میں ہے بچالے اور ہمیں اپنے سیدھے راستے پر موت دینا.کہتی ہیں کہ ایک دن خواب میں کیا دیکھتی ہوں کہ میرا کمرہ خوب روشن ہو گیا اور نور ہی نور ہے.تو میں یہ نظارہ دیکھ کر ابھی ڈر ہی رہی تھی کہ بہت ہی خوبصورت سفید رنگ کا عمامہ پہنے ہوئے بزرگ ظاہر ہوئے اور مجھے اپنی طرف بلا رہے ہیں.اُس دن یہ نظارہ ختم ہو گیا.پھر دو چار دن کے بعد ایسا ہی نظارہ دوبارہ دیکھا اور دو شخص ہیں جو ایک بہت بڑے سفید گھر میں داخل ہوتے ہیں اور لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر کچھ باتیں کرتے ہیں.وہاں بہت زیادہ کالے لوگ بھی ہیں، گورے بھی ہیں، ہر نسل کے ہیں جو اس کے پیچھے پیچھے الفاظ دہراتے ہیں اور بعد میں یہ کھڑے ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں کرتے ہیں.تو جب یہ خاتون آئیں اور انہوں نے مربی صاحب کی اہلیہ کو یہ خواب سنائی تو کہتے ہیں کہ اس دن جلسہ یو کے میں عالمی
345 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بیعت کا دن تھا.میں نے اس کو کہا کہ جس طرح کی تم بات کر رہی ہو اس سے لگتا ہے کہ اس کو وہاں مسجد میں ہی لے آؤ جہاں بیعت ہو رہی ہے.تو خیر یہ خاتون مربی صاحب کی اہلیہ کے ساتھ مسجد چلی گئیں اور ایم.ٹی.اے پر جو نظارہ دیکھتی تھیں تو بار بار ان کی اہلیہ کے گھٹنوں پر ہاتھ مار کر کہتی تھیں کہ ماما! بالکل یہی میں نے دیکھا ہے (وہاں افریقہ میں کسی عورت کو عزت سے بلانا ہو تو ماما کہتے ہیں ).یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے.پھر کہتے ہیں کہ جب یہ عالمی بیعت شروع ہوئی اور (ایک سفید مار کی میں جب میں داخل ہوا) تو یہ عورت اچھی طرح اہلیہ کو متوجہ کر کے کہتی ہیں کہ یہی وہ شخص تھا جو میری خواب میں آیا تھا اور دیکھو وہ بڑے سارے سفید گھر میں داخل ہوئے ہیں، (مار کی سفید رنگ کی تھی).دیکھو لوگ بھی بہت زیادہ ہیں.پھر عالمی بیعت کر کے بہت خوش تھیں.اور گھر پہنچنے پر سارا خواب بڑی تسلی سے پھر دوبارہ سنایا.جس پر مربی صاحب کہتے ہیں میں نے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری رہنمائی بڑی وضاحت سے کی ہے.اس لئے امام مہدی کی جماعت میں شامل ہو جاؤ اور سچے دل سے شامل ہو گی تو یہی تمہارے مسائل کا حل ہے.کیونکہ تمہیں خلیفہ وقت نے خود آکر اپنی طرف بلایا ہے، تمہیں اس بارے میں غور کرنا چاہئے.اُس نے کہا کہ گو میں الفاظ تو دہر اچکی ہوں لیکن سوچ کر جواب دوں گی کہ میں مانتی ہوں کہ نہیں.گو ان کی بڑی عمر تھی اور والدین بھی بڑھاپے میں تھے.گھر جا کر اپنے والدین کو بتایا تو والد بڑے ناراض ہوئے کہ تمہیں اس دن کے لئے ہم نے پیدا کیا تھا کہ اپنے باپ دادا کے دین سے منحرف ہو رہی ہو ؟ بہر حال ایک دن وہ آئیں اور رو پڑیں کہ وہ بزرگ دوبارہ میری خواب میں آئے ہیں یعنی خلیفۂ وقت ( مجھے دیکھا انہوں نے) اور کہا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بتاتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ میری طرف آ جاؤ.اسی میں تیری نجات ہے.اس لئے میں بڑی پریشان ہوں.پتہ نہیں موت مجھے کیسے آگھیرے.پہلے ہی پچاس سال سے اوپر ہو چکی ہوں.اس لئے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب میں احمدیت میں داخل ہو جاؤں اور مجھے میرے باپ نے تو قبر کے عذاب سے نہیں بچانا.چنانچہ انہوں نے سچے دل سے بیعت کر لی ہے اور اپنی تنخواہ میں سے با قاعدہ چندہ بھی دینا شروع کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس سچائی کو دلوں میں ڈالنے کے واقعات تو بے شمار ہیں.ان کا بیان ممکن نہیں ہے.ان شاء اللہ جلسہ آرہا ہے.اس سال کے کچھ واقعات وہاں بھی آپ سنیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشوں کو بھی دیکھیں گے لیکن سب کو سمیٹنا ممکن نہیں.اس لئے جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اب میں نے دورانِ سال بھی یہ ذکر کرنا شروع کر دیا ہے تا کہ ہم ان نئے آنے والوں کے لئے بھی اور اپنے ایمانوں کی مضبوطی کے لئے بھی دعا کریں اور اللہ تعالیٰ کے ان انعامات پر حمد اور شکر بھی کریں کہ خد اتعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں سچائی کے راستے دکھا رہا ہے اور پھر اس پر قائم بھی کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے یہ نظارے ہمیشہ ہمیں دکھاتا چلا جائے اور ہم سب کو اور نئے آنے والوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے.پس وہ لوگ جو اپنے زعم میں دنیا میں پھر پھر کر احمدیت کے خلاف زہر اگل کر نیک فطرتوں کو احمدیت سے بد ظن کرنا چاہتے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں میں یہ کہتا ہوں.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد نهم 346 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جولائی 2011ء ”اے سونے والو! بیدار ہو جاؤ.اے غافلو! اُٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا.یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا.اور تضرع کا وقت ہے نہ ٹھٹھے اور جنسی اور تکفیر بازی کا.دعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو اور نیز اس نور کو بھی جو رحمت الہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کے لئے تیار کیا ہے.پچھلی راتوں کو اُٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو اور ناحق حقانی سلسلہ کے مٹانے کے لئے بددعائیں مت کرو اور نہ منصوبے سوچو.خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا.وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بیوقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا.اور اپنے بندہ کا مددگار ہو گا اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے.پھر وہ جو داناو بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودہ کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کر رہا ہے“.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 54،53) اب چند جنازے ہیں جو میں جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا اُن کے بارے میں ذرا بتانا چاہتا ہوں.پہلا تو ہے مکرم ڈاکٹر سید فاروق احمد صاحب کا جو سید محی الدین احمد صاحب رانچی انڈیا کے بیٹے تھے.برمنگھم میں رہتے تھے.پرسوں 6 جولائی کو اُن کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ 1958ء میں ڈاکٹر کی ڈگری لینے کے بعد جو انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی انڈیا سے حاصل کی ، 1964ء میں یو.کے آئے اور رائل کالج آف سرجن میں شمولیت اختیار کی.ویسٹرن انگلینڈ میں GP کی حیثیت سے کام کرتے رہے.نہایت سادہ، ہمدرد، مخلص اور باوفا انسان تھے.پر جوش داعی الی اللہ بھی تھے ان کو بہت سے خاندانوں کو احمدیت میں شامل کرنے کا موقع ملا.آپ نے سیکر ٹری تبلیغ، زعیم انصار اللہ اور صدر جماعت اور ریجنل امیر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.مالی قربانی میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.اپنی امارت کے دوران ویسٹ مڈلینڈ میں مسجد دار البرکات رمنگھم کے علاوہ اور بھی مساجد تعمیر کروانے کی توفیق پائی.آپ موصی تھے.ان کے چھوٹے بھائی سید لئیق احمد گزشتہ سال اٹھائیس مئی کو جو واقعہ ہوا ہے، اس میں شہید ہو گئے تھے.تمام خاندان ہی بڑا مخلصین کا خاندان ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.دوسر اجنازہ ہے مکرمہ صدیقہ قدسیہ صاحبہ کا جو رانا حفاظت احمد صاحب سیالکوٹ کی اہلیہ تھیں.ان کے ایک بیٹے رانا صباحت احمد مربی سلسلہ ہیں جو آج کل نظارت اصلاح و ارشاد مرکز یہ میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں.21 مارچ کو 57 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.سکول ٹیچر تھیں.گاؤں والوں سے اچھا تعلق تھا.گاؤں میں صرف ایک ہی احمدی گھرانہ تھا جس کی وجہ سے کئی ابتلا کے مواقع آئے لیکن آپ نے ہمیشہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا.جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا کا گہرا تعلق تھا.نیک سیرت، نمازوں کی پابند، دعوت الی اللہ میں بھر پور جذبہ رکھنے والی خاتون تھیں.چندوں اور پردے کی بڑی پابندی اور باقاعدگی تھی.موصیہ بھی تھیں.
خطبات مسرور جلد نهم 347 خطبه جمعه فرمودہ مور محمد 08 جولائی 2011ء اور تیسر اجنازہ ہے عزیزم شاہد مرید تالپور جو نور احمد تالپور صاحب حیدرآباد کے بیٹے تھے.آج کل ایڈلیڈ میں ساؤتھ آسٹریلیا میں تھے.2 جون کو اپنے گھر کے سامنے سڑک عبور کرتے ہوئے ان کی وفات ہو گئی.اڑتیس سال ان کی عمر تھی.ان کے والد نور احمد تالپور صاحب ایک لمبا عرصہ امیر جماعت حیدرآباد بھی رہے ہیں.شاہد مرید نے مہران یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجنیئر نگ کی تھی اور پھر کچھ عرصہ پاکستان میں ایک کمپنی میں کام کرتے رہے.پھر آسٹریلیا آگئے اور یہاں بھی ایک کمپنی میں نیٹ ورک انالسٹ (Analyst) کے طور پر کام کر رہے تھے.پاکستان میں بھی یہ قائد مجلس کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے اور اچھے قائدین میں سے تھے ، علم انعامی حاصل کرنے والے.1992ء میں کوٹری مسجد کی حفاظت کے دوران بائیس افراد کو اسیر بنایا گیا جن میں یہ بھی شامل تھے.ان کے والد اچھے وکیل تھے.اثر ورسوخ والے تھے.اس وجہ سے جب یہ عدالت میں آتے تو بعض دفعہ پولیس والے ان کو کرسی دے دیتے تھے اور یہ ہمیشہ اپنے جو سینئر انصار تھے اُن کو بٹھا دیا کرتے تھے.ایک دفعہ حج نے ان کو کہا کہ میں آپ کے بیٹے کو ضمانت پر رہا کر دیتا ہوں تو ان کے والد صاحب بھی بڑے مخلص آدمی تھے انہوں نے کہا کہ میرے لئے تو سارے بائیس افراد جو ہیں یہ سب میرے بیٹے ہیں یا تو سب کو آزاد کر دیا اس کو بھی اندر رکھو.تو یہ بڑا وفا سے احمدیت پر قائم رہنے والا خاندان تھا اور ہے.رہائی کے بعد لطیف آباد کے تین خدام کو اپنی مسلسل آٹھ سال تک یہ عدالت میں پیشی کے لئے لے جاتے رہے اور واپس لاتے رہے.1999ء میں یہ آسٹریلیا چلے گئے تھے اور وہاں بھی اللہ کے فضل سے جماعت کے سیکرٹری امور عامہ ، سیکرٹری تعلیم ، جنرل سیکر ٹری کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے.ایڈلیڈ کی مسجد کمیٹی کے ایک فعال رکن تھے.اور وفات والے دن بھی مسجد کمیٹی کے ممبران کے ساتھ چند جگہیں دیکھنے گئے تھے.واپس لوٹے ہی تھے کہ گھر کے قریب سڑک عبور کرتے ہوئے حادثے میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.بڑے اطاعت گزار اور نظام جماعت کی طرف سے جو کام بھی سپر د ہوتا نہایت محنت ، اخلاص اور دیانتداری سے بروقت کرتے تھے.ان کی وفات بھی گویا جماعتی خدمت کے دوران ہی ہوئی ہے اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے.بڑے خوش اخلاق تھے اور عبادت گزار اور نیک.ضرور تمندوں کی پوشیدہ طور پر مدد کرتے تھے.ہر ایک کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آتے.جماعت میں بڑا احترام تھا.ہر فرد کا احترام کرتے تھے.خاص طور پر عہدے داروں کا بڑا احترام کرتے تھے.موصی بھی تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں ہیں.ان سب کے جنازے انشاء اللہ ابھی نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند کرے.گاڑی پر الفضل انٹر نیشنل مورخہ 22 جولائی تا 4 اگست 2001 ء جلد 18 شماره 29،30 صفحہ 15 تا18 )
خطبات مسرور جلد نهم 348 28 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 2011ء بمطابق 15 وفا1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مہمان نوازی کی اہمیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ بلکہ زیادہ جگہ فرمایا که وَابْنَ السَّبِيلِ - (البقرة: 178) یعنی مسافروں کو اُن کا حق دو.وَابْنَ السَّبِیلِ جو ہیں یہ مسافر ہیں.فرمایا ان کو ان کا حق دو.اور ایک دوسری جگہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ جب مہمان اُن کے پاس آئے تو فوراً بُھنا ہوا بچھڑا اُن کو پیش کیا.(ھود: 70) پھر ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ مہمان کی تکریم کرے.(بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمته ایاه بنفسه حدیث 6135) یعنی مہمان کی تکریم بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کے لئے ضروری ہے.پس مہمان نوازی صرف ایک دنیاوی فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ ایمان کی علامت بھی ہے اور ایک فرض ہے جس کا ادا کرنا بہر حال ضروری ہے.تکریم کا مطلب ہے کہ بہت زیادہ عزت و احترام کرنا.پھر ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے مہمان کا جائز حق ادا کریں.عرض کیا گیا کہ جائز حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک دن اور رات مہمان نوازی.بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کے دنوں کی حد مقرر فرمائی ہے، فرمایا کہ تین دن تک مہمان نوازی فرض ہے تم پر.(صحیح مسلم كتاب اللقطة باب الضيافة ونحوهاحديث 4513) ایک دن تو کم از کم اُس کا حق ہے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ تین دن تک فرض بھی ہے.لیکن بعض حالات میں کئی دن بلکہ دنوں سے بھی زیادہ لمبا عرصہ، آپ نے مہمان نوازی فرمائی ہے.اور صحابہ کے سپر د بھی مہمان فرمائے.
خطبات مسرور جلد نهم 349 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء بنیادی نقطہ جو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ مہمان نوازی مکمل عزت واحترام کے ساتھ ہونی چاہئے.اور یہ عزت و احترام اس لئے ہے کہ مہمان کا حق ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ کامل شریعت اور احکامات لے کر آئے تھے اس لئے ہر طرح کے لوگوں کا اور ہر پہلو کا آپ نے خیال رکھا ہے.بعض حدود جو آپ نے مقرر فرمائی ہیں جن کا ان حدیثوں میں ذکر ہے.وہ مہمانوں کو بھی اُن کے فرض یاد دلانے کے لئے ہیں.اس حوالے سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ بات ہو گی.لیکن اس وقت جیسا کہ عموماً میر اطریق ہے، میں میز بانوں اور ڈیوٹی دینے والے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں.اس لئے اُن کو توجہ دلا رہا ہوں کہ مہمان نوازی کا وصف ایسا ہے جس کے بارے میں جیسا کہ میں نے بتایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کے لئے ضروری ہے اور مہمان کا یہ حق ہے کہ اس کی مہمان نوازی کی جائے.اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ”مسافروں کو اُن کا حق دو ہم پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ مہمان نوازی کے وصف کو بہت زیادہ اپنائیں.صرف یہاں جلسے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام طور پر گھروں میں بھی مہمان نوازی احمدی مسلمان کا ایک امتیاز ہونا چاہئے.بہر حال یہاں کیونکہ آج جلسے کے حوالے سے بات ہو رہی ہے ہر کارکن کو اور اُس گھر کو جس میں جلسے کے مہمان آرہے ہیں ، یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مہمانوں کو صحیح عزت و احترام دیا جائے.اگر عام مسافروں کا حق اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والوں کا تو بہت زیادہ حق ہے کہ اُن کو عزت و احترام دیا جائے اور اُن کا حق ادا کیا جائے.انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ سے جیسا کہ ہم جانتے ہیں جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو رہا ہے اس لئے دور دراز ممالک سے مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی ہے.یہ مہمان جماعتی نظام کے تحت بھی ٹھہرے ہوئے ہیں یا ٹھہریں گے اور گھروں میں بھی.ان مہمانوں کو خاص طور پر ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو بہت زیادہ اہمیت دینی چاہئے.اور اللہ تعالی کی خاطر سفر اختیار کرنے والے مسیح محمدی کے ان مہمانوں کی حتی المقدور مہمان نوازی کا حق ادا کرنا چاہئے.اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اُن ممالک میں جہاں جماعتیں بڑی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کا بھی بڑا وسیع انتظام قائم ہو گیا ہے.اور یو کے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ممالک میں سے ایک ہے بلکہ شاید اب تو ربوہ کے بعد اس وقت لنگر خانے کا سب سے زیادہ وسیع نظام یو کے میں ہی ہے.اور ظاہر ہے کہ خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے یہ وسعت ہوئی تھی لیکن یہاں جو ان مستقل لنگر چلانے والوں کی سب سے بڑی خوبی ہے ، وہ یہ ہے کہ تقریباً تمام یا بہت بڑی اکثریت volunteer ہیں جو سالوں سے بڑی خوشی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کے لئے وقت دے رہے ہیں.گور بوہ اور قادیان کے لنگر بھی بڑے وسیع ہیں، لیکن وہاں با قاعدہ تنخواہ دار عملہ ہے.لیکن یہاں کا لنگر مستقل بنیادوں پر volunteers کے ذریعے چل رہا ہے.تو بہر حال یو.کے جماعت نے مہمان نوازی کے اس مستقل فرض کو خوب نبھایا ہے اور نبھاتے چلے جارہے ہیں.اب جلسے کے دن ہیں، جلسے پر بھی ہمیشہ اس مہمان نوازی کے فریضے کو بڑی خوش اسلوبی سے ہمارے کارکنان
350 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نبھاتے ہیں.یہ باتیں میں صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ یاد دہانی کروا دی جائے کیونکہ نئے آنے والے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس سال بھی تمام کارکنان کو اس فرض کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس مہمان نوازی سے جو ہمارے کارکنان کرتے ہیں یا ہمارے جلسے کے جو انتظامات ہوتے ہیں باہر سے آئے ہوئے غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمان ہمیشہ متاثر ہوتے ہیں.یہاں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی.پس جو میز بان کارکنان ہیں آئندہ بھی ہمیشہ اپنے اس تاثر کو قائم رکھنے کی کوشش کریں جو تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے.ایک لحاظ سے ہر کارکن جب وہ ڈیوٹی ادا کر رہا ہوتا ہے احمدیت کی عملی تبلیغ کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے.اور یہ ہر کارکن کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے.اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس لنگر خانے کے علاوہ بھی دوسری ڈیوٹیاں بھی ہیں اُن کا بھی حتی الوسع حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے.جو جو کام کسی کے سپر د کئے گئے ہیں کسی کو تفویض کئے گئے ہیں اُن کی پوری ادا ئیگی کریں اور پوری ذمہ واری سے اُس کی ادائیگی ہونی چاہئے.ہر کام، ہر ڈیوٹی، ہر فرض جو کسی کے سپر د کیا گیا ہے اُس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.ہر ایک کی ذمہ داری ہے.ہر جگہ پر اگر ہر ڈیوٹی کو ایک اہمیت دی جائے گی تو تبھی پورا نظام جو ہے وہ صحیح لائنوں پر چل سکے گا.اس لئے اس بارے میں ہر کارکن کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے تا کہ کسی بھی جگہ کسی بھی شعبہ میں کسی کے کام میں کمی کی وجہ سے ، فرض کی ادائیگی میں کمی کی وجہ سے ، کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو.پس یہ بنیادی بات ہمیشہ ہر کارکن کو یاد رکھنی چاہیئے.ان باتوں کے بعد اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کے متفرق واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا جو میں نے رجسٹر روایات صحابہ سے لئے ہیں.لیکن ہر روایت میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان کا بڑا احترام کیا کرتے تھے.ہر ایک کی مہمان نوازی انتہائی عزت و احترام سے کرتے تھے.اکرام ضیف کا بڑا خیال رکھا کرتے تھے.حضرت شیخ اصغر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد شیخ بدر الدین صاحب کہتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام مہمانوں کی خاطر تواضع کا خود بہت خیال فرمایا کرتے تھے ).بھائی حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اس طرف توجہ دلانے کے علاوہ خود بھی خاص واقفیت اس پہلو میں رکھا کرتے تھے ).اور مہمانوں کی حیثیت کے مطابق کھانا بہم پہنچانے کا اہتمام ہوا کرتا تھا.غالباً 1902ء میں جب میں ایمن آباد سے قادیان دارالامان آرہا تھا تو مرحوم و مغفور سید ناصر شاہ صاحب لاہور اسٹیشن پر جس کمرہ انٹر کلاس میں قادیان آنے کے واسطے بیٹھے ہوئے تھے اس میں اتفاق سے میں بھی آ بیٹھا اور ہم دونوں اکٹھے آئے.لاہور سے بارش ہونی شروع ہوئی اور جب گاڑی بٹالہ پہنچی تو زور کی بارش تھی.اترتے ہی ہم نے مسافر خانہ میں ہی یگہ کرائے پر کیا اور روانہ ہوئے.بارش شاید قادیان کے موڑ پر پہنچنے کے بعد بند ہوئی تھی.دار الامان پہنچنے پر ہم دونوں کو حضرت اقدس کے حکم سے اُس کمرہ میں جگہ
351 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دی گئی جس میں بک ڈپو ہے اور وہ شاید حامد علی شاہ صاحب مرحوم و مغفور کے خرچ سے تازہ بنوایا گیا تھا.حضور انور کے حکم سے ( مجھ کو جہاں تک یاد ہے) صبح ناشتے میں عمدہ حلوہ بھی ہو تا تھا اور مکلف کھانا گھر سے آتا تھا.مجھ کو خیال ہے کہ حضور انور شاہ صاحب مرحوم سے دریافت بھی فرماتے تھے کہ آپ لوگوں کو کوئی تکلیف تو نہیں تھی.مہمان کا احترام حد درجہ حضور انور کے زیر نظر رہتا تھا.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 4 صفحہ 168 غیر مطبوعہ ) پھر منظور احمد صاحب ولد مولوی دلپذیر صاحب جو بھیرہ کے تھے ، وہ لکھتے ہیں کہ ”میرے والد بزرگوار بہت پہلے کے احمدی ہیں.1894ء میں مع اپنی والدہ کے پہلی دفعہ حضرت خلیفہ اول سے ملنے کے لئے قادیان آئے اور مع والدہ کے اُسی وقت بیعت کی.خلیفہ اول بچپن میں میرے دادا بزرگوار سے کچھ پڑھتے رہے تھے اور جو میرے دادا بزرگوار کی تیسری بیوی تھی حضرت خلیفہ اول کی منہ بولی بہن تھیں.والد بزرگوار سے میں نے پوچھا کہ کوئی اُس وقت کا واقعہ یاد ہے ؟ تو آپ نے بتایا کہ ہم آٹھ آدمی تھے کہ حضور کے ساتھ ایک دن دو پہر کا کھانا مسجد مبارک میں جو اپنی پہلی حالت پر تھی، کھانے بیٹھے تھے.( یعنی اس وقت چھوٹی تھی، آٹھ دس آدمی ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے ) جن میں حضور اور خلیفہ اول بھی شامل تھے.دو قسم کا سالن تھا اور دونوں میں گوشت تھا.حضور اپنے سالن سے کبھی کبھی بوٹی اُٹھا کر باری باری سے دوسروں کے سالن میں رکھ دیتے تھے اور ایسا ہی خلیفہ اول بھی.مہمانوں میں سے ایک نے عرض کیا حضور کھانے کے ساتھ آم کھانا کیسا ہے ؟ ( یعنی اگر آم ہو جائے کھانے کے ساتھ تو کیسا لگے ؟ آپ نے فرمایا بہت اچھا.(بڑی اچھی بات ہے) پھر دوسرے نے عرض کیا حضور میں بازار سے لے آتا ہوں.آپ نے فرمایا ٹھہر جائیں یا کچھ اور فرمایا یہ ٹھیک یاد نہیں رہا.(کہتے ہیں) بہر حال ابھی بات ہو رہی تھی کہ ایک آدمی بٹالہ سے آموں کا پارسل لے کر آگیا جس میں آٹھ ہی ہم تھے جو بڑے بڑے تھے.سب کے آگے حضور نے ایک ایک رکھ دیا.پھر چا تو پوچھا تو ایک نے چاقو پیش کیا.آپ نے فرمایا پھانکیں کریں.انہوں نے سب کی پھانکیں کر کے آگے رکھ دیں.حضور اپنے آگے کی پھانکوں میں سے ایک ایک کر کے باری باری سب کے آگے رکھ دیتے رہے.یاد نہیں کہ حضور نے اُن میں سے آپ بھی کوئی کھائی ہو“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 5 صفحہ 36-37 غیر مطبوعہ ) تو اللہ تعالیٰ نے یہ کیسی مہمان نوازی کی ان مہمانوں کی کہ ایک مہمان نے خواہش ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کا انتظام بھی فرما دیا.پھر حضرت فضل الہی صاحب ولد مولوی کرم دین صاحب مرحوم کہتے ہیں کہ ” قادیان میں یہ عاجز کثرت سے لاہور سے جایا کرتا تھا.اکثر حضرت مفتی محمد صادق صاحب رفیق سفر ہوتے.اور کئی دفعہ حضرت اقدس اندر بلا لیتے اور بڑی شفقت سے خود نیچے جا کر چائے وغیرہ خود اُٹھا کر لاتے اور مہمان نوازی فرماتے اور مسجد مبارک میں حضرت اقدس کے ساتھ بیٹھ کر بہت دفعہ کھایا پیا.کئی دفعہ حضور نے اپنے کھانا میں سے عاجز کو بھی کوئی چیز عنایت فرمائی.ازروئے شفقت.ایک دفعہ حضرت اقدس بعد نماز مغرب مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر شہ نشین
352 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ر مشرق کی طرف رُخ فرمائے بیٹھے تھے اور یہ عاجز مغرب کی طرف منہ کر کے حضور کے سامنے بیٹھا تھا کہ مشرق نکلتی اور سے چاند کا طلوع ہوا جو قریباً چودہ یا پندرہ تاریخ کا چاند تھا.اُس وقت مجھے حضور کے چہرہ مبارک سے شعائیں کو چاند کی شعاعوں سے ٹکراتی نظر آتی تھیں.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 6 صفحہ 8 الف ب غیر مطبوعہ ) پھر حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں صدر الدین صاحب کہتے ہیں کہ ” شیخ تکلیف نہ ہو“.مظفر الدین صاحب آف پشاور کے والد صاحب نے لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کی.کمرہ چھوٹا تھا اور لوگ زیادہ آگئے تھے.میں حضور کے پاس کھڑا تھا، بیٹھنے کے لئے جگہ نہ تھی.حضور نے مجھے دیکھ کر اور اپنا زانو اُٹھا کر اور مجھے اپنے دست مبارک سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا اور فرمایا کہ میرے ساتھ کھاؤ.اس پر میں نے حضور کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 4 صفحہ 58 غیر مطبوعہ ) حضرت ذوالفقار علی خان صاحب ولد عبد العلی خان صاحب رام پور کے تھے ، یہ کہتے ہیں کہ ”جب میں آتا تھا تو میرے کھانے میں پلاؤ ضرور ہو تا تھا.ایک دن میں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے پوچھا کہ پلاؤ دونوں (وقت) کیوں ہوتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا جب آپ پہلی بار آئے تھے تو حضور نے مجھے بلا کر فرمایا تھا کہ تحصیلدار صاحب کے لئے پلاؤ ضر ور لایا کرو.حضور نے میرے باورچی سے ایک مرتبہ گورداسپور میں بریانی پکوائی تھی اُسی سے غالباً خیال کیا ہو گا کہ یہ اکثر کھاتے ہیں جبھی باور چی مشاق ہے اور یہ واقعہ تھا اس لئے ہدایت فرمائی کہ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 6 صفحہ 379 غیر مطبوعہ ) ( یعنی کسی وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ہاں گئے تھے ، یہ تحصیلدار تھے.وہاں بریانی پکائی گئی تھی جو اچھی تھی.اس باورچی نے جو بریانی پکائی تھی اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خیال ہوا یہ لوگ اکثر کھاتے ہیں تبھی باورچی جو ہے وہ اچھی بریانی پکاتا ہے.اس بات پہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں حاضر ہوئے تو آپ نے اُن کی مہمان نوازی اس طرح فرمائی کہ فرمایا کہ ان کو دونوں وقت پلاؤ بنا کے کھلایا کرو.) حضرت بدر دین صاحب ولد گل محمد صاحب مالیر کوٹلہ کے تھے ، کہتے ہیں کہ ”ایک روز عاجز اپنے والد صاحب کے ہمراہ بورڈنگ والے کنویں سے پانی نکال رہا تھا، رات کے نو بج چکے تھے اور نماز عشاء بھی ہو چکی تھی تو حضور اپنے ہاتھ پر ایک پیالہ جس میں دودھ اور ڈبل روٹی پڑی تھی، اُٹھائے کنویں پر آگئے اور آکر میرے والد صاحب سے فرمانے لگے : ”بابا جی کوئی مہمان بھوکا ہے.اس پر والد صاحب نے کہا کہ حضور میاں نجم الدین توسب جگہوں سے دریافت کر گئے ہیں سب نے کھانا کھا لیا ہے.تب حضور نے فرمایا اچھا میرے ہمراہ چلو.تب ہم دونوں باپ بیٹا حضور کے ہمراہ ہو لئے.جب مہمان خانہ میں جا کر مہمانوں سے معلوم کیا تو کوئی نہ ملا.تو پھر ہم شیر محمد صاحب دوکاندار والی دوکان جو اُس وقت کھلی تھی اُس کے پاس پہنچے تو وہاں سے ایک صاحب نے کہا کہ حضور! میں نے تو دودھ ڈبل روٹی کھانی ہے.اس پر حضور نے وہ پیالہ اُس صاحب کو دے دیا‘“.که.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 7 صفحہ 170 غیر مطبوعہ )
خطبات مسرور جلد نهم لے کر آئے) 353 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء (مہمانوں کی تلاش میں تھے یقینا اللہ تعالیٰ نے بتایا ہو گا کہ ایک مہمان کی یہ خواہش ہے تو آپ گھر سے وہ حضرت نور احمد خان صاحب ولد چوہدری بدر بخش صاحب لکھتے ہیں کہ ” مجھے جلسہ سالانہ پر آنے کا اتفاق ہوا.دوآبہ یعنی ضلع جالندھر اور ہوشیار پور کے تمام احمدی ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے.ہمارے ساتھ چوہدری غلام احمد صاحب رئیس کا ٹھگڑھ بھی تھے.رات کو قادیان پہنچے تھے.کمرہ میں بسترے رکھ کر تمام دوست بیٹھ گئے مگر نصف رات تک کھانا نہ ملا.لوگ بہت بھوکے تھے اور بار بار چوہدری صاحب مذکور کے پاس شکوہ کرتے تھے کہ ابھی تک کھانا نہیں ملا.اخیر چوہدری صاحب نے کہا کہ بازار میں جا کر دودھ پی لو.مگر اتنی بے چینی پیدا نہ کرو، کھانا مل جائے گا.لوگ کھانے کا انتظار کر کے تھک گئے ، آخر بہت دوست بھو کے سو گئے.رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی، اچانک چند آدمی نمودار ہوئے ، کہنے لگے کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ مہمان بھو کے ہیں، اُن کو کھانا کھلاؤ.بدیں وجہ لوگ کمروں میں جگا جگا کر کھانا دے رہے ہیں، ہمارے کمرے میں بھی چند آدمی کھانا لے کر آئے.چوہدری صاحب نے تمام دوستوں کو جگا کر کھانا کھلایا، ہمارے ساتھ چوہدری غلام قادر صاحب سر وعہ والے بھی تھے انہوں نے کہا کہ یہ کھانا خدا نے جگا کر دیا ہے وہ بقیہ ٹکڑے بطور تبرک کے کہ یہ الہامی کھانا ہے اپنے پاس سروعہ کو لے گئے“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 6 صفحہ 273-274 غیر مطبوعہ ) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب انچارج نور ہسپتال جو بڑا لمبا عرصہ حضرت مصلح موعودؓ کے معالج بھی رہے ہیں، بلکہ وفات تک آپ کے ساتھ ہی رہتے تھے وہ لکھتے ہیں کہ ”جلسہ کے موقع پر ایک شب بحیثیت اپنی جماعت کے سیکرٹری کے صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس میں میری حاضری ہوئی.یہ اجلاس بعد نماز مغرب اور عشاء مسجد مبارک میں منعقد ہوا.خاکسار اپنی ناتجربہ کاری اور سادگی کی وجہ سے یا شوق کی وجہ سے اعلان شدہ وقت کے اول وقت میں ہی اجلاس کے مبارک مقام یعنی مسجد مبارک میں پہنچ گیا.گو وہ وقت کھانے کا تھا اور مجھے سخت بھوک بھی لگی ہوئی تھی کیونکہ صبح آٹھ بجے کا کھانا کھایا ہوا تھا مگر جلسہ کے احترام کی وجہ سے یا پابندی وقت کے خیال سے خاکسار نے اپنی ناچیز حاضری کو اول درجہ پر بر قرار رکھا.یعنی نماز ہائے مغرب و عشاء جو جمع ہو کر ادا ہو ئی تھیں کے بعد بجائے باہر جانے کے مسجد میں ہی بیٹھ گیا اور جلسہ کے انعقاد کی انتظار کرنے لگا.ممبران کی آمد دیر کے بعد شروع ہوئی اور قریب ساڑھے نو بجے کے جلسے کی کارروائی شروع ہوئی اور قریب گیارہ بارہ بجے جلسہ ختم ہوا.اس دوران میں شدت بھوک کی وجہ سے خاکسار کی حالت ناگفتہ بہ رہی اور یہ شدت مجھے دیر تک یادر ہی اور اب تک بھی بھولی نہیں.جلسہ سے فارغ ہو کر جب میں اپنے جائے قیام پر گیا تو جماعت پٹیالہ کے احباب میں سے غالباً حافظ بھائی ملک محمد صاحب میرے لئے ایک روٹی کا ٹکڑا لے آئے تھے.لنگر خانہ بند ہو چکا تھا، میں نے اس ٹکڑے کو چبانا شروع کر دیا.ابھی وہ ختم نہ کیا تھا کہ ایک زبر دست دستک ہمارے کمرہ کے دروازے پر پڑی اور آواز آئی کہ کوئی
354 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مہمان بھوکا ہو جس نے کھانا نہ کھایا ہو وہ آجائے، اور چل کر لنگر خانے میں کھانا کھالے.خاکسار کے ساتھیوں نے مجھے بھی نکال باہر کیا اور لنگر میں پہنچ کر جو کچھ ملا بعد شکر کھایا.اگلے روز قریب دس بجے دن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے دیکھا اور خدام کو گلی میں حضور کی طرف رُخ کئے ہوئے کھڑے دیکھا اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی تھے اور حضور کچھ جوش کے ساتھ ارشاد فرما رہے تھے کہ مہمانوں کے کھانے وغیرہ کا انتظام اچھا ہونا چاہئے.رات مجھے الہام ہوا.يَأَيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر.کہ اے نبی! بھوکے اور مُعتر لو گوں کو کھانا کھلا.چنانچہ مجھے معلوم ہوا کہ آدھی رات کو جگانا اس الہام کی بنا پر تھا“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 8 صفحہ 192-193 غیر مطبوعہ ) حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد صدر دین صاحب فرماتے ہیں کہ : ایک سالانہ جلسہ پر حضور نے فرمایا.”سب آنے والوں کو ایک ہی قسم کا کھانا کھلاؤ.“ اس پر خواجہ صاحب یا کسی اور نے عرض کیا کہ حضور بعض غرباء ایسے بھی آتے ہیں جن کو اپنے گھر میں دال میسر نہیں آتی اس لئے اُن کو یہاں دال کھلا نا معیوب نہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ گو اُن کو گھر میں دال نہ ملتی ہو لیکن جب دوسرے کو گوشت یا پلاؤ کھاتے ہوئے دیکھیں گے تو اُن کو کھانے کی خواہش ضرور پیدا ہو گی اور بصورت نہ ملنے کے اُن کی دل شکنی ہو گی.میرے مرید خواہ وہ غریب ہوں یا امیر ، میرا اُن کے ساتھ ایک ہی جیسا تعلق ہے اس لئے ایک ہی قسم کا کھانا پکاؤ.گوشت پلا ؤ وغیرہ دو تو سب کو دو اور دال دو تو سب کو دو“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 8 صفحہ 64 غیر مطبوعہ ) پس ہمیشہ یہی اصول مد نظر رکھنا چاہئے.حضرت مفتی چراغ صاحب ولد مفتی شہاب الدین صاحب لکھتے ہیں کہ ”حضرت صاحب کو کپور تھلہ کی جماعت سے خاص اُنس تھا.حضور نے الگ اس جماعت کے لئے پلاؤ تیار کروایا تھا.جب تیار ہو چکا تو حضور نے کسی کو فرمایا کہ جماعت کو کھلا دو.( یہ جلسے کے علاوہ کی بات تھی) اس شخص نے عرض کیا کہ حضور وہ تو چلے گئے ہیں.فرمایا یگہ پر کھانا بٹالہ لے جاؤ اور جب وہ سٹیشن پر اُتریں تو کھانا پیش کر دو.اُن کے پیچھے کھانا بھجوایا.چنانچہ حضور کا آدمی یگہ پر ، ( ٹانگے پر) کھانا لے کر ہمارے پاس سے گزر گیا.ہمیں علم نہ ہوا.جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو حضور کی طرف سے کھانا پہلے موجود تھا.حضور کے آدمی نے کہا کہ کھانا کھا لیں.ہم حیران ہوئے کہ یہ کھانا کہاں سے آیااس پر اُس نے سارا قصہ کہہ سنایا“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9صفحه 11-12 غیر مطبوعہ) حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل بیان فرماتے ہیں کہ ” حضور علیہ السلام کے وقت میں جلسہ سالانہ اُس جگہ ہوا کرتا تھا جہاں آج کل مدرسہ احمدیہ اور مولوی قطب دین صاحب کے مطب کی درمیانی جگہ ہے.یہاں ایک پلیٹ فارم بنایا گیا تھا جس پر جلسہ ہوتا تھا.حضرت صاحب کے زمانہ میں جلسہ کے دنوں میں عموماً ہم زردہ پلاؤ
خطبات مسرور جلد نهم 355 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء ہی کھایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ بہت قحط پڑ گیا اور آثار وپے کا پانچ سیر ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لنگر کے خرچ کی نسبت فکر پڑی تو آپ کو (پھر) الہام ہوا.الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.اس پر آپ نے فرمایا کہ آج سے لنگر کا خرچ دو گنا کر دو.اور بڑا مر غن شور بہ پکا کر تا تھا.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9صفحه 105 غیر مطبوعہ ) یہ فیض آج تک جاری ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے.اب روپے کا پانچ سیر آٹا اس زمانے میں ، آج کل تو بہت مہنگا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فکریں دور کی ہوئی ہیں اور دنیا میں ہر جگہ لنگر کے انتظامات بڑے احسن طریقے سے چلتے ہیں.حضرت بابو غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ریٹائرڈ ہیڈ ڈرافٹس مین.یہ کہتے ہیں کہ ”گورداسپور کے مقدمہ کے دوران میں ایک رات ٹرین سے ہم اُترے اور سخت ہوا تیز چلی.موسم سرما کا تھا، حضور علیہ السلام ایک کو ٹھی میں فروکش ہوئے.اور آتے ساتھ ہی حکم دیا کہ تکان ہے اب سب سو جائیں.ہم سب اپنا اپنا بستر لے کر لیٹ گئے.کچھ دیر بعد حضور اپنے بستر پر سے اُٹھے اور دبے پاؤں ایک چھوٹی سی لالٹین لئے ہوئے ہر ایک کا بستر ٹولا کہ تا یہ معلوم کریں کہ کسی کے پاس بسترا ناکافی تو نہیں.جس کسی کا بستر ا کم دیکھتے حضور اپنے بستر پر سے جا کر کوئی ایک کپڑا اٹھا لاتے اور اُس پر ڈال دیتے.جس طرح سے ماں اپنے بچوں کی حفاظت ایسے سردی کے وقت میں کرتی ہے، حضور نے اپنے بستر میں سے پانچ سات کپڑے نکال کر مہمانوں پر ڈال دیئے.میں جاگ رہا تھا اور حضور کی اس شفقت کو دیکھ رہا تھا“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9صفحہ 159-160 غیر مطبوعہ ) حضرت ملک غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں کریم بخش صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مولوی برہان الدین صاحب جہلمی آئے اور ملاقات کی.حضرت صاحب نے مجھے بلا کر فرمایا کہ میاں غلام حسین! یہ مولوی صاحب تو تمہارے ہیں جہاں تم مناسب سمجھو ان کو رکھو.میں نے عرض کیا حضور یہ میرے پاس ہی رہیں گے.مولوی صاحب بڑے خوش رہے ، فرمایا ان کا خاص خیال رکھو، بوڑھے ہیں.ساتھ سالن بھی اندر سے زیادہ منگوا دیا کرو اور شور بہ زیادہ دیا کرو تا کہ ان کو تکلیف نہ ہو“.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 10 صفحہ 340-341 غیر مطبوعہ ) حضرت چوہدری عبد العزیز صاحب ولد چوہدری احمد دین صاحب کہتے ہیں کہ ”میں یہاں (گوجر انوالہ ) سے لاہور کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا تھا، وہاں سے میں اور میاں محمد رمضان صاحب قادیان حضور کی زیارت کے لئے گئے.ایک رات ہم وہاں رہے تھے، صبح جب واپس آنے لگے تو حضور نے خود اپنی زبانِ مبارک سے فرمایا کہ ذرا ٹھہر جاؤ.پھر ہم نے کھانا کھایا اور دو پہر کو جب چلنے لگے اور اجازت مانگی تو حضور نے اجازت بھی عطا فرمائی اور فرمایا کہ یہاں کثرت سے آیا کرو.میں نے دستی بیعت بھی کر لی تھی مگر میرے ساتھی نے بیعت نہیں کی تھی.حضور نے ہمیں آتی دفعہ ایک پر اٹھا اور کچھ سالن بھی رومال میں باندھ کر اپنے ہاتھ سے عطا فرمایا تھا.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 10 صفحه 107 غیر مطبوعہ )
خطبات مسرور جلد نهم 356 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحب ولد چوہدری الہی بخش صاحب داتہ زید کا لکھتے ہیں کہ ”ایک دفعہ ستمبر کے مہینہ میں چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور میں ظہر کے وقت قادیان پہنچے.وضو کر کے جماعت میں شامل ہو گئے.نماز کے بعد حضرت صاحب محراب میں تشریف فرما ہو گئے.چوہدری صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا چوہدری صاحب ابھی آئے ہو ، کھانا کھا لو.چوہدری صاحب نے مسکرا کر عرض کیا کہ حضور ! کھانے کا کوئی وقت ہے؟ مسکر اکر فرمایا چوہدری صاحب! کھانے کا بھی کوئی وقت ہوتا ہے.جب بھوک لگی کھالیا.حضور نے خادم کو بھیجا، کھانا تیار کروا کر لایا اور ہم نے مولوی محمد علی صاحب کے کمرہ میں بیٹھ کر کھایا.اسی سال کا ذکر ہے بارش بڑی ہوئی تھی جس مکان میں آج کل حضرت میاں بشیر احمد صاحب ہیں یہ مہمان خانہ ہوا کرتا تھا (یہ مسجد اقصیٰ کے قریب کا مکان ہے) ہم اس جگہ ٹھہرے ہوئے تھے.میاں نجم الدین لنگر خانہ کے مہتمم تھے.لوگوں نے حضرت صاحب کو آواز دے کر عرض کیا کہ حضور! ایک پٹھان ہے وہ گوشت کے بغیر کھانا نہیں کھاتا.حضور نے فرمایا اُس کو گوشت پکا دو.میاں نجم الدین صاحب نے عرض کی کہ حضور ! بارش کی وجہ سے قصابوں نے گوشت کیا نہیں ہے.( آج کوئی بکر اوغیر ہ قصائیوں نے ذبح نہیں کیا.حضور نے فرمایا : اچھا(تو) مرغ تیار کر کے کھلا دو.ایک دن وہ پھر آئے اور حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ! ایک پٹھان ہے جو کہتا ہے کہ میں نے کھچڑی کھانی ہے.فرمایا ان کو کھچڑی پکا دو“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 10 صفحہ 272-273 غیر مطبوعہ ) سو مہمانوں کی (جو عام طور پر مہمان آتے تھے) اُن کی خواہشات کا بھی احترام فرمایا کرتے تھے.حضرت چوہدری عبد الرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے مجھے پانچ سو روپیہ عطا فرمایا اور فرمایا کہ جلسے کا انتظام آپ کے سپرد کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ تمام احباب کے لئے صرف ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جائے.(اگر عام دنوں میں عام مہمان آرہے ہیں تو ان کے لئے جو اُن کی خواہش ہوتی تھی وہ پکوا دیا جاتا تھا، لیکن جلسے کے لئے فرمایا کہ سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار ہونا چاہئے.پہلے بھی ایک روایت آگئی ہے، اب یہ دوسری روایت ہے).بعض لوگوں نے عرض کی کہ مولوی حکیم فضل دین صاحب زیادہ تجربہ رکھتے ہیں مگر حضور نے کوئی جواب نہ دیا.خیر خواجہ کمال دین صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میرے لئے چاول تیار کروا دو.میں نے کہا مجھے تو حضرت صاحب کا حکم ہے کہ سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کروایا جائے اس لئے اگر آپ چاول کھانا چاہتے ہیں تو اجازت لے دیں.کہنے لگے چاولوں کے لئے کیا اجازت مانگوں.میں نے کہا پھر تو میں حضور کی اجازت کے بغیر ایک چاول بھی نہیں دے سکتا.اس پر وہ بہت ناراض ہوئے اور جب تک یہاں رہے مجھ پر ناراض ہی رہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 11 صفحه 175 غیر مطبوعہ ) میاں عبد العزیز صاحب مغل رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ ” جب مہمان خانہ اُس مکان میں ہوتا تھا
357 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جہاں آج کل حضرت میاں بشیر احمد صاحب رہتے ہیں تو خواجہ کمال الدین صاحب نے لنگر سے ایک بکرے کا گوشت لیا اور تین سیر گھی ، کچھ شلجم اور ایک دیگ میں چڑھا کر رات کے وقت پکانا شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اتفاق سے ساڑھے گیارہ بجے مہمانوں کو دیکھنے تشریف لائے.دیگ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ کسی نے عرض کیا کہ حضور! یہ شب دیگ ہے.فرمایا شب دیگ کیا ہوتی ہے ؟ اس نے کہا کہ حضور! کچھ گھی ہے ، کچھ گوشت، اور کچھ شلجم یہ تمام رات پکیں گے.فرمایا مجھے تو کچھ نا پسند ہی ہے کہ لنگر سے الگ پکانا ہو.( کہ لنگر میں ایک کھانا پک رہا ہے کسی کے لئے اُس سے الگ ایک پکایا جائے) خیر اُس کے بعد حضور تو چلے گئے لیکن جب یہ سب لوگ سو گئے اور دیگ کے نیچے سے آگ ٹھنڈی ہو گئی تو کہتے ہیں کہ دس بارہ گتے آگئے اور انہوں نے دیگ کو اوندھا کیا اور گوشت کھاناشروع کر دیا.جب وہ آپس میں لڑنے لگے تو ان کی نیند کھل گئی.انہوں نے کتوں کو ہٹایا اور دیکھا کہ دیگ میں بہت کم سالن رہ گیا ہے.اور حضرت صاحب سے عرض کیا کہ ہم یہ سالن چوہڑوں کو دے دیتے ہیں.فرمایا کہ پہلے ان کو کہہ دینا کہ یہ کتوں کا جوٹھا ہے پھر اُن کا دل چاہے تو لے جائیں، چاہے نہ لے جائیں.جب چوہڑوں سے جا کر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تو بہ تو بہ.ہم کتوں کا جوٹھا کیوں کھانے والے ؟ غرض دیگ کو پھینک دیا گیا.خواجہ کمال دین صاحب جنہوں نے بڑے شوق سے اپنے کھانے کے لئے لنگر سے ہٹ کے یہ دیگ پکوائی تھی، ان کے منہ سے کہتے ہیں کہ بے اختیار نکلا کہ ”مر زاجی دی نظر لگ گئی اے“.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9 صفحہ 46-47 غیر مطبوعہ ) کھانے کو نہیں ملا بیچاروں کو.حضرت ملک غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ” مولوی عبد الرحمن صاحب شہید افغانستان سے آئے تو حضور سے ملاقات کرنی چاہی.کسی شخص نے اُن کو کہا کہ میاں غلام حسین صاحب ملاقات کرایا کرتا ہے اسے کہو.وہ مجھے ملے اور فرمایا کہ حضرت صاحب سے ملاقات کرنی ہے.میں نے کھانا کھلایا.پھر فرمایا کہ حضرت صاحب سے ملنا ہے آپ اطلاع کریں.(مولوی عبد الرحمن صاحب نے کھانے کے بعد کہا کہ میں نے حضرت صاحب سے ملنا ہے، آپ اطلاع کریں.کہتے ہیں) قریباً ایک بجے کا وقت تھا، میں اندر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، یا، کسی لڑکے نے باری ( یعنی کھڑ کی ) کھولی.میں نے عرض کی کہ حضرت جی ! فرمایا جی.میں نے عرض کیا کہ ایک آدمی کابل سے آئے ہیں، مولوی عبد الرحمن اُن کا نام ہے ملنا چاہتے ہیں.فرمایا ابھی اذان ہو گی مسجد میں مل لیں گے.میں نے عرض کیا کہ حضور ! وہ الگ ملنا چاہتے ہیں.حضور اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر فرمایا کہ جاؤ اُن کو بلا لاؤ.میں اُن کو اندر لے گیا.وہ ڈرتے ڈرتے اندر گئے.اُن کے پاس ایک بہت بڑا سردہ کچھ بادام کچھ چلغوزے اور کچھ اور میوہ جات تھے.یہ چیزیں انہوں نے حضرت کے حضور پیش کیں.حضور تخت پوش پر تشریف فرما تھے.فرمایا مولوی صاحب! اتنی تکلیف آپ نے کیوں کی ہے ؟ آپ کو تو بہت فاصلہ سے یہ چیزیں اُٹھانی پڑی ہوں گی.عرض کیا کہ حضور ہر گز کوئی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ بڑی خوشی سے میں آیا ہوں.ریل گاڑی پر
خطبات مسرور جلد نهم 358 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء بھی کم سوار ہوا ہوں.بہت سا حصہ پیدل چل کر آیا ہوں.حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب! چائے پئیں گے یا شربت.انہوں نے عرض کیا کہ حضور اس وقت میں کھانا کھا چکا ہوں آپ تکلیف نہ کریں.فرمایا نہیں تکلیف بالکل نہیں ہے.مجھے فرمایا کہ میاں غلام حسین ! ان کو شربت پلاؤ.میں اندر گیا اور حضرت ام المومنین نے فرمایا.پانی ٹھنڈا نہیں ہے بڑی مسجد سے لے آؤ.میں بڑی مسجد سے پانی لایا ( یعنی مسجد اقصیٰ سے) حضرت ام المومنین نے مجھے شربت بنا دیا.میں نے پیش کیا.انہوں نے ایک گلاس پیا.حضور نے فرمایا اور پیو.چنانچہ ایک گلاس انہوں نے پیا، کچھ باقی بچ گیا.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی، حضور آپ بھی پی لیں.فرمایا نہیں، لے جاؤ.( کہا بس لے جاؤ، میں نہیں پیوں گا.حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ یہ بہت دور سے آئے ہیں ، ان کے لئے کھانا الگ تیار کیا کرو اور اچھا کھانا ان کو کھلایا کرو.وہ کوئی دوماہ یہاں رہے اور مجھ پر بہت خوش رہے.حضرت صاحب نے تیار کیا اور کھلایا وہ اور پر مجھے خاص ہدایت کی تھی کہ ان کے لئے ایک وقت (میں) پلاؤ پکا یا کرو“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 10 صفحہ 325-326 غیر مطبوعہ ) حضرت بابو عبد العزیز صاحب اوور سیئر گوجرانوالہ کے تھے یہ لکھتے ہیں کہ ” مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں صرف ایک دفعہ دو دن قادیان آنے کا اتفاق ہوا.اور میں طالب علم تھا اور ایک طالب علم میرے ہمراہ تھا.میری سابقہ بیعت تحریری تھی اور میں دستی بیعت کے لئے حاضر ہوا تھا.بیعت کرنے کے بعد شام کو ہم دونوں واپس آنے لگے تو حضور نے خود زبانِ مبارک سے فرمایا تھا کہ آج رات کو مزید رہو.اور رات حضور خود اپنے دست مبارک سے ہمارے لئے بستر لائے اور ہم کو اپنے ساتھ بٹھا کر وہیں کھانا کھلایا.اور دوسرے روز صبح دو پر اٹھے رومال میں باندھ کر ہم کو دیئے اور تھوڑی دور گلی میں ہمارے ساتھ ہمراہ آکر واپس تشریف لے گئے.یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جبکہ حضور جہلم میں کرم دین کے مقدمے کے لئے تشریف لے گئے تھے.ہاں رات کو ہم دونوں کو گول کمرے کے پاس ملحقہ کسی کمرے میں حضور نے ٹھہرایا تھا.وہ پر اٹھے میں گھر لے آیا تھا اور سب کو بانٹ دیئے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصے کے بعد میری والدہ اور میرے بھائی دونوں احمد کی ہو گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 12 صفحه 134 غیر مطبوعہ ) ( انہوں نے تبرک کو اس کی وجہ سمجھی).حضرت منشی ظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ” حضرت اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے تھے بلکہ کنڈ الگا کر بیٹھتے تھے.( دروازہ بند کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھا کرتے تھے).حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب تھوڑی دیر کے بعد آکر کہتے، ابا گنڈا کھول، اور حضور اُٹھ کر کھول دیتے تھے.ایک دفعہ حاضرِ خدمت ہوا.حضور بوریے پر بیٹھے تھے ، مجھے دیکھ کر آپ نے پلنگ اُٹھایا، اندر اُٹھا کر لے گئے.میں نے کہا حضور میں اُٹھالیتا ہوں.آپ فرمانے لگے، بھاری زیادہ ہے، آپ سے نہیں اُٹھے گا.اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں، مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے.پہلے میں نے انکار کیا لیکن آپ نے فرمایا نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں
359 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پھر میں بیٹھ گیا.مجھے پیاس لگی تھی، میں نے گھڑوں کی طرف نظر اٹھائی.وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا.آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کو پیاس لگ رہی ہے ، میں لاتا ہوں.نیچے زنانے سے جا کر آپ گلاس لے آئے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے جو منی پور سے کسی نے بھیجیں تھیں.بہت لذیز شربت تھا.فرمایا کہ ان بوتلوں کو رکھے ہوئے بہت دن ہو گئے کیونکہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر پھر خود پئیں گے.آج مجھے یاد آگیا.چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا.میں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں پھر میں پیوں گا.آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا.اور میں نے پی لیا.میں نے شربت کی تعریف کی.آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلا دیں.آپ نے ان دو بوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہو گا.میں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 13 صفحہ 344-345 غیر مطبوعہ ) حضرت میاں خیر دین صاحب سیکھوائی" کہتے ہیں کہ ”ایک دفعہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسجد میں محکم الدین صاحب وکیل بیٹھے ہوئے تھے.وکیل صاحب نے مجھے کہا کہ کیا آپ پس خوردہ یعنی تبرک کھانا چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا، ہاں.تو اُسی وکیل صاحب نے حضور کی خدمت میں پیغام بھیجا.حضور نے ایک تھالی چاول اور اُس پر شور بہ بکری کا ڈالا ہوا تھا.اور ایک طرف سے چند لقمے کھائے ہوئے تھے ایک خادمہ کے ہاتھ بھیجا جو ہم رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 14 صفحہ 33 غیر مطبوعہ ) نے مل کر کھایا.ماسٹر نذیر خان صاحب ساکن نادون لکھتے ہیں کہ ماموں صاحب شہامت خان صاحب نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ قادیان جاتے ہوئے میں کمال الدین ( یہ دوست بھی احمدی تھے ) کو اپنے ساتھ قادیان لے گیا.ہمارے لئے حضرت صاحب نے مرزا خدا بخش کو مقرر کیا کہ ہمارے کھانے وغیرہ کا انتظام رکھیں.آپ نے حکم دیا کہ یہ پہاڑ سے آئے ہیں یہ چاول کھانے کے عادی ہیں، ان کے لئے چاول ضرور تیار کئے جائیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 14 صفحہ 296 غیر مطبوعہ) (جلسے کے دنوں میں بھی، پاکستان میں بھی ربوہ میں جلسے ہوتے تھے ، تو سر حد سے آئے ہوئے لوگوں کے لئے گو باقی سالن تو ایک ہی پکتا تھا.لیکن اُن کے لئے خاص اس لئے خمیری روٹی بنائی جاتی تھی کہ وہ فطیری روٹی نہیں کھاتے تھے ، یا بعض کے لئے پر ہیزی کھانا پکتا تھا، اس لئے اتنی تو احتیاط رکھی جاتی ہے کہ مریضوں کے لئے یا بعض جو خاص کھانے کے عادی ہیں اور دوسرا کھا نہیں سکتے اُن کے لئے بعض چیزیں پک جاتی ہیں لیکن عموماً ایک ہی کھانا پکتا ہے اور اب یہی نظام ہر جگہ رائج ہے کہ عموماً ایک ہی کھانا دیا جاتا ہے.اور سوائے اس کے کہ غیر ، مہمان آئے ہوں جو کھانہ سکتے ہوں اُن کے لئے بھی ہے.ایک اعتراض یہ رہتا تھا کہ وی آئی پی مار کی.حالانکہ کھانا اس وی آئی پی میں صرف ایک ہی ہو تا تھا.اب اُس کا بھی نام بدل دیا گیا ہے.reserve کر دیا گیا ہے.تو بہر حال جلسے کے انتظام کے لئے عموماً ایک کھانار کھا جاتا ہے سوائے اُن لوگوں کے لئے جو بالکل خاص چیزیں کھانے کے عادی ہوں).
360 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حضرت شیخ جان محمد صاحب پنشنز انسپکٹر پولیس لکھتے ہیں کہ ”میری عمر اس وقت ستاسٹھ سال کی ہے.میں نے 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلے بذریعہ خط بیعت کی پھر 1904ء میں بمقام گورداسپور دورانِ مقدمه مولوی کرم دین بھیں والے میں حاضر ہوا اور سعادةً دستی بیعت سے مشرف ہوا.میں منٹگمری سے آیا اور والد صاحب مرحوم چوہدری غلام احمد خان صاحب مرحوم آف کا ٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور سے بمقام گورداسپور حاضر ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول نے چوہدری صاحب مرحوم کی وجہ سے کہ وہ افیون کھاتے تھے ایک علیحدہ چھولداری ہم کو دے دی جس میں ہم تین ٹھہرے اور دیگر احباب بعض نیچے مکان میں اور بعض چھولداریوں میں ٹھہرے ہوئے تھے.چوہدری غلام احمد خان مذکور نے مجھے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ باور چی خانے میں بٹیرے پکائے گئے ہیں مجھے دو بٹیرے لا دو.چنانچہ میں نے باورچی خانے سے دریافت کیا تو اُس نے بتلایا کہ لاہور سے مہمان آئے ہوئے ہیں یہ اُن کے لئے پکائے گئے ہیں.میں ان سے اصرار کر رہا تھا کہ چوہدری غلام احمد خان ایک امیر آدمی اور خوش خور ہیں اور میرے والد صاحب کے دوست ہیں تو ضر ور دو بٹیرے دے دو کہ ان کے لئے میں جو لے جا رہا ہوں وہ امیر آدمی بھی ہیں اور اچھا کھانے والے ہیں).اسی اثناء میں حافظ حامد علی صاحب مرحوم بالائی حصہ مکان میں آگئے اور یہ ماجرا انہوں نے سنا.باورچی نے بتلایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ آئے ہوئے ہیں، اُن کے لئے بٹیرے پکائے گئے ہیں تو میں مایوس ہو کر چھولداری میں آگیا.تھوڑی دیر بعد حافظ حامد علی صاحب مرحوم ایک طشتری میں دو بٹیرے بھنے ہوئے لے کر آگئے اور فرمایا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا تھا.حضور نے فرمایا کہ جلد انہیں بٹیرے پہنچاؤ اور فرمایا کہ کل سب کے لئے بٹیرے پکائے جائیں.چنانچہ دوسرے دن ایک بڑے دیگچہ میں بٹیرے پکائے گئے اور سب کو کھلائے گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 15 صفحہ 17 غیر مطبوعہ ) ڈاکٹر سلطان علی صاحب کی روایت ہے جو چو ہدری محمد شریف صاحب بی.اے نیروبی نے تحریر کی ہے کہ ”1901ء میں میں قادیان گیا اور بوقت نماز مغرب قادیان مسجد مبارک میں پہنچا جو اس وقت بہت چھوٹی سی تھی.مغرب کے بعد میرے ایک دوست نے جو ہموطن بھی تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ افریقہ سے آئے ہیں اور چند سال ہوئے کہ انہوں نے حضور علیہ السلام کی بیعت کی تھی.حضور نے مجھ سے افریقہ کے احمدی دوستوں کے حالات دریافت فرمائے.پھر ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی اور میرے ساتھی کو تاکید کی کہ کھانے اور بستر وغیرہ کا خیال رکھیں.جب ہم رات کو مہمان خانے میں سوئے تو ایک صاحب دودھ لائے اور فرمایا یہ حضرت صاحب نے آپ کے لئے بھیجا ہے.“ رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 2 صفحہ 68 غیر مطبوعہ ) منشی امام دین صاحب لکھتے ہیں کہ ” ایک مرتبہ میری اہلیہ قادیان آئیں.مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی جھنگلاں کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں.واپسی پر میری اہلیہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان پر پہنچیں اور اندر داخل ہونے لگیں تو حضرت صاحب تمام خاندان کے ساتھ بیٹھ کر
361 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کھانا تناول فرمار ہے تھے.ہم جلدی سے واپس ہو گئیں.حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ کون ؟ عرض کیا گیا کہ مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی کی اہلیہ ہیں اور دوسری منشی امام الدین صاحب پٹواری کی اہلیہ ہیں.حضور نے اندر بلالیا.ان دنوں میری اہلیہ کی گود میں عزیزم نثار احمد تھا.حضور نے اپنے کھانے سے ایک برتن میں کچھ کھانا ڈال کر دیا.میری اہلیہ کو کہا کہ لو یہ کھانا بچے کو کھلاؤ.ایسا کئی مرتبہ ہوا.جب کبھی بھی اہلیہ کھانے کے وقت پہنچیں حضور نے بچے کے لئے کھانا دیا اور یہ حضور کی ذرہ نوازی تھی کہ اپنے مریدین سے ایسی شفقت فرماتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 11 صفحہ 325-326 غیر مطبوعہ ) حضرت ضمیر علی صاحب ولد محمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ "کمترین بچپن کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں اکثر جایا کرتا تھا.ایک دفعہ ہمارے محلے کی بہت سی عورتیں گئیں تو میں بھی اُن کے ہمراہ گیا.اُن ایام میں میرے دائیں ہاتھ پر ضرب آئی ہوئی تھی کوئی چوٹ لگی ہوئی تھی.جب میں حضور کے ہاں گیا تو حضور اس وقت مسجد مبارک کے قریب والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے.میں بھی اس کمرے میں چلا گیا.حضور نے بڑے پیار سے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا.اس کے بعد حضرت اُم المومنین گاجروں کا حلوہ لائیں، پہلے حضور نے میرے منہ میں دو تین لقمے اپنے ہاتھ مبارک سے ڈالے اور بعد میں فرمایا، کہ بائیں ہاتھ سے کھالو، کیونکہ تمہارے دائیں ہاتھ میں چوٹ لگی ہوئی ہے.اور پھر کہتے ہیں کہ میں نے پیٹ بھر کر کھایا.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 5 صفحہ 132 غیر مطبوعہ ) ایک روایت حضرت شیخ زین العابدین صاحب کی ہے جو شیخ حافظ حامد علی صاحب اور شیخ فتح محمد صاحب کے بھائی تھے.کہتے ہیں کہ ”حضور کے زمانے میں مہمانوں کے لئے کھانے کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا.حضور کو مہمانوں کی مدارات کا خاص خیال رہتا تھا.میرے بھائی حافظ حامد علی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ غالباً جلسہ سالانہ کا موقع تھا اور چار دیگیں چاولوں کی پک رہی تھیں، دو زر دے کی اور دو پلاؤ کی.ایک دن حضور علی الصبح لنگر خانہ میں گئے اور باورچی کو کہا کہ ڈھکنا اٹھاؤ، ہم چاول دیکھنا چاہتے ہیں.اُس نے ڈھکنا اٹھایا حضور کو خوشبو ا چھی نہ آئی.اس پر حضور نے دوسری دیگیں بھی دیکھیں اور فرمایا کہ زردے کی دونوں دیگوں کو ڈھاب میں پھینک دو( یہ اچھی نہیں ہے.یقینا اللہ کی طرف سے ہی کچھ دل میں ڈالا گیا ہو گا کہ دیگیں چیک کرنی چاہئیں.فرمایا کہ ) جب ہمیں اُن کی خوشبو پسند نہیں آئی تو ہمارے مہمانوں کو کیسے آئے گی؟ چنانچہ حضور کے اس حکم کی تعمیل کی گئی“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 11 صفحہ 71 غیر مطبوعہ ) حضرت میاں اللہ دتہ صاحب ولد میاں مکھن خان صاحب مال پور ضلع ہوشیار پور لکھتے ہیں کہ ”میں جب 1906ء کو سالانہ جلسہ پر قادیان آیا تو حضور کی دو تقریریں سنیں.پہلی تقریر صبح کے وقت حضور کے مکان پر ہوئی جواب حضرت بشیر احمد صاحب کا مکان ہے اور اس کو بیٹھک کہا کرتے تھے.جہاں اب باہر کی طرف سیڑھی بنی ہوئی ہے وہاں کھڑ کیاں بھی تھیں اور ایک دروازہ تھا، دروازے کا نشان ابھی تک موجود ہے.حضور نے مہمانوں کے
خطبات مسرور جلد نهم 362 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء آگ تاپنے کے لئے ایک انگیٹھی بھجوائی.“ ( سردی کے دن تھے ، انگیٹھی بھجوائی، کو ملے بھجوائے) جس کے بعد جلدی ہی حضور بھی تقریر کے لئے اوپر سے تشریف لے آئے“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 4 صفحہ 51 غیر مطبوعہ ) مہمانوں کا اس لحاظ سے بھی خیال رکھا کہ اُن کو سر دی نہ لگے.میاں عبدالعزیز صاحب مغل رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ ” ایک دفعہ ہم آٹھ بجے شام کو بٹالہ اُترے.ہم ہیں بائیں آدمی تھے.چاند کی روشنی تھی اور گرمیوں کے دن تھے.مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے، با بو غلام محمد صاحب بھی تھے.ہم رات کے ساڑھے گیارہ بجے قادیان پہنچے.حضور باہر تشریف لائے.حافظ حامد علی صاحب کو آواز دی وہ بھی آگئے.حضور نے دریافت کیا کہ لنگر میں جا کر دیکھو کوئی روٹی ہے ؟ عرض کیا حضور اڑھائی روٹیاں اور کچھ سالن ہے.فرمایا وہی لے آؤ.مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر سفید چادر بچھا کر حضور ایک طرف بیٹھ گئے.ہم تمام آس پاس بیٹھ گئے.حضور نے ان روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے آگے پھیلا دیئے.مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ہم تمام نے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی وہ ٹکڑے بچے ہوئے تھے تو اُسی چادر میں وہ لپیٹ کر لے گئے “.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9صفحہ 15 غیر مطبوعہ ) اس کی دوسری روایت سے بھی تصدیق ہوتی ہے.میاں محمد یسین صاحب احمدی ٹیچر گورنمنٹ سکول دالبندین لکھتے ہیں کہ حضرت امیر الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساکن گجرات نے بیان کیا کہ شروع شروع میں بہت کم آدمی ہوتے تھے.ایک دفعہ ہم پانچ سات آدمی حضرت مسیح موعود کے مہمان ٹھہرے تو حضور نے چاولوں کا دیگچہ لا کر اور خود نکال کر برتن میں ڈالے اور ہمارے آگے رکھ کر ہم کو کھلائے.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 12 صفحہ 101 غیر مطبوعہ) پھر جس طرح یہ تعداد بڑھتی گئی، لنگر خانے کے سپر د اور باقی انتظامیہ کے سپر د حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انتظام کیا اور ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ان کا خیال رکھیں.ملک غلام حسین صاحب مہاجر ولد میاں کریم بخش صاحب لکھتے ہیں کہ ”حضور ہمیشہ تاکید فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو میاں غلام حسین! مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 10 صفحہ 336 غیر مطبوعہ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ آج بھی ہمارے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا حضرت میاں غلام حسین کے لئے تھا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے اور تمام کارکنان کو کوشش بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں احسن رنگ میں اپنے فرائض مہمان نوازی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ یاد رکھیں کہ صرف کھانا کھلانا ہی نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے کہا تمام انتظامات مہمانوں کی سہولت کے لئے ہوتے ہیں، اس لئے ہر جگہ پر تمام کارکنان اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے
363 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ابھی نماز جمعہ کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا.ایک تو جنازہ حاضر ہے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ابن مکرم خان فرزند علی خان صاحب کا جو یہاں لمبے عرصے سے رہ رہے تھے.اور ان کے والد خان فرزند علی خان صاحب بھی جماعت میں بڑی پہچان والے ہیں.جو 1928-29ء میں انگلستان میں امام بھی رہے ہیں.انہوں نے ریٹائر ہو کر زندگی وقف کی تھی.پھر یہ ناظر بیت المال بھی رہے.کچھ عرصہ ناظر اعلیٰ بھی رہے اور ”خان“ کا خطاب آپ کو انگریز حکومت کی طرف سے ملا تھا.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب اُن کے بیٹے تھے.10 جولائی کو 90 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے، إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.آپ کو کچھ عرصہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی.پھر پاکستان میں آپ کو نائب ناظر تعلیم کے طور پر کام کرنے کی توفیق ملی.1961ء میں یہ یو کے آگئے تھے.یہاں بحیثیت صدر قضاء بورڈ، نیشنل سیکرٹری امور عامہ، سیکرٹری رشتہ ناطہ کے علاوہ کئی شعبوں میں خدمت کی توفیق پائی ہے.نہایت ہمدرد اور سلسلہ کے فدائی اور خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والے خادم سلسلہ تھے.باوجود پیرانہ سالی کے اور بیماریوں کے بڑی باقاعدگی سے مجھے خط بھی لکھا کرتے تھے اور ایک دو دفعہ ملنے بھی آئے ہیں.بڑا اخلاص اور وفا کا تعلق تھا.عہدیداران کی بھی بہت عزت کیا کرتے تھے.مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.اپنی اولاد کو بھی اس کی تلقین کرتے رہتے تھے.تبلیغ کا بھی شوق تھا.اپنے حلقہ احباب میں کسی نہ کسی رنگ میں پیغام پہنچاتے رہتے تھے.ان کے پسماندگان میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی اپنے بزرگ والدین، ان کے دادا کی طرح جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے.دوسر اجنازہ جو غائب جنازہ ہے وہ ملک مبرور احمد صاحب شہید نوابشاہ کا ہے جن کو 11 جولائی 2011ء کو رات تقریباً سوا آٹھ بجے ان کے چیمبر میں شہید کر دیا گیا.یہ وکیل تھے.انہوں نے اپنی گاڑی باہر چیمبر میں کھڑی کی اور چیمبر سے باہر نہیں آئے تھے کہ قریبی جھاڑی میں سے چھپے ہوئے ایک نامعلوم شخص نے باہر نکل کر کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کر دیا اور جو حملہ آور تھا وہ فائر کرنے کے بعد سٹیشن کی طرف بھاگ گیا.ان کے بھائی ملک و سیم احمد صاحب بھی ان کی گاڑی کے قریب ہی تھے ، وہ حملہ آور کے پیچھے دوڑے تو انہوں نے ان پر بھی فائر کئے لیکن الحمد للہ یہ بھائی تو بچ گئے.لیکن بہر حال ملک مبرور احمد صاحب کی شہادت ہوئی ہے اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.پہلے بھی ایک دفعہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا.ان کی عمر پچاس سال تھی.گو جماعتی مخالفت کے علاوہ بھی ان کی کاروباری دشمنی تھی یا یکطرفہ دشمنی کہنا چاہئے کیونکہ بعض ایسے مقدمات تھے جن میں انہوں نے وہاں کے بعض بڑے لوگوں نے جو قتل کئے ہوئے تھے ان کے مقتولوں کے مقدمے لڑے اور ان کے ساتھ دیئے ہوئے تھے اس وجہ سے بھی دشمنی تھی ، کچھ اور بھی دشمنیاں تھیں لیکن بہر حال جماعتی دشمنی غالب تھی.تو یہ جماعتی خدمات بھی انجام دے رہے تھے.اور خدام الاحمدیہ میں بھی ناظم عمومی ضلع کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے.سیکر ٹری جائداد بھی رہے.آجکل جماعت نوابشاہ کے صدر تھے.اور پولیس وغیرہ سے تو ان کے تعلقات گہرے تھے اس لئے ان کے جو
364 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دوسرے دشمن تھے ان کی دشمنی بھی اس وجہ سے بڑھ گئی تھی کہ ان تعلقات کی وجہ سے عموماًجو کیس یہ لیتے تھے یا جن مقتولوں کی انہوں نے حمایت کی، اور اُن کے کیس لڑے اُن کی وجہ سے جو قاتل تھے وہ بہر حال ان کے خلاف ہو گئے تھے اور پھر احمدیت کی وجہ سے بھی ان کو دھمکیاں ملتی رہی تھیں.ان کا بھی جنازہ غائب ادا کیا جائے گا.تیسر اجنازہ غائب ہے مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ دارالرحمت وسطی ربوہ کا جو 25 جون کو فوت ہوئی ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.آپ حضرت میاں عبد اللہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیٹی اور ہمارے مبلغ سلسلہ قازقستان سید حسن طاہر بخاری کی والدہ تھیں.نیک، عبادت گزار تھیں، خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والی، نظام جماعت کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے والی، مخلص خاتون تھیں.باوجود غربت کے آپ نے 24 سال کی عمر میں 1/3 حصہ کی وصیت کی تھی.کچھ عرصہ شدید مالی تنگی کی وجہ سے وصیت ادانہ کر سکیں تو دفتر وصیت کی طرف سے انہیں کہا گیا کہ وصیت کا حصہ کم کروالیں، لیکن آپ نے جواب دیا کہ میں نے خدا تعالیٰ سے وعدہ کیا ہوا ہے وہ انشاء اللہ خود ہی سامان فرمائے گا اور توفیق بخشے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُن کے ساتھ ایسا ہی سلوک فرمایا اور ایک موقعہ پر انہوں نے اپنا سارا بقایا یکمشت ادا کر دیا.آپ کو دو تین شدید حادثات بھی پیش آئے.ایک مرتبہ ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے ٹرین نے ٹکر مار دی جس سے آپ شدید زخمی ہوئیں.اس کے علاوہ بھی بعض حادثات ہوئے لیکن شدید حادثات اور لمبے عرصے پر محیط مشکل حالات کو بڑی ہمت اور صبر سے انہوں نے تنہا بر داشت کیا.حسن طاہر بخاری ، جو آپ کے بیٹے ہیں ، آپ کی وفات کے وقت ملک سے باہر تھے.ہمیشہ اُن کی ہمت بندھایا کرتی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان تمام مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے.ابھی نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد میں باہر جاکر (کیونکہ ایک حاضر جنازہ ہے اس لئے وہاں جاکر جنازہ پڑھوں گا اور احباب یہیں مسجد میں رہیں اور میرے پیچھے نماز جنازہ ادا کریں.الفضل انٹر نیشنل 5 اگست تا 11 اگست 2011ء جلد 18 شمارہ 31 صفحہ 5 تا10)
خطبات مسرور جلد نهم 365 29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 2011ء بمطابق 22 وفا1390 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی.آلٹن.ہمپشائر تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے میز بانوں اور ڈیوٹی کے کارکنوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے مہمانوں کی عزت و احترام کے ساتھ مہمان نوازی ایک حقیقی مومن کا وصف ہے.اور جلسے کے ان دنوں میں اس اعلیٰ خُلق کا اظہار ہر کارکن کے عمل اور رویہ سے ہونا چاہئے، چاہے وہ کسی بھی شعبے میں کام کر رہا ہو.آج پھر چند باتیں اسی حوالے سے کروں گا، لیکن آج مہمانوں کی ذمہ داری اور ایک مومن کو کیسا مہمان ہونا چاہئے ؟ اس کا بھی ساتھ ذکر ہو گا.اسی طرح جیسا کہ میرا طریق ہے عموماً جلسے کے حوالے سے بعض انتظامی ہدایات بھی دی جاتی ہیں سو ان کی بھی یاد دہانی کروائی جائے گی.یہ بہت ضروری ہے.گو یہ ہدایات جلسہ سالانہ کے پروگرام میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں لیکن تجربہ یہی ہے کہ ان کے پڑھنے کی طرف لوگ کم توجہ دیتے ہیں یا اس کو اتنا اہم نہیں سمجھتے.ویسے بھی یاد دہانی فائدہ مند چیز ہے اور اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مومنوں کو نصیحت جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے احکامات کے تحت کی جاتی ہے وہ یقینا ان کے لئے نفع رساں ہے اُن کو فائدہ پہنچانے والی ہے (سورۃ الاعلیٰ : 10) اور جماعت احمدیہ کی یہ بھی خوبی ہے کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو مانا ہے، جس کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں ہے، یا اس کی بنیاد ہی اللہ تعالٰی کے اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت ڈالی گئی ہے.اور پھر آپ ہی وہ جماعت ہیں جس کو آج دنیا میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے قائم کردہ نظام خلافت سے وابستہ ہیں.پس جب اس جماعت کے افراد کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ کے اور اُس کے رسول کے حوالے سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ خاص طور پر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کرنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہم میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ہم ایک ہاتھ کے تحت اٹھنے اور بیٹھنے والے ہیں اور نصیحتوں کو ئن کر اُن پر توجہ دینے والے ہیں.اللہ کرے کہ اس خطبہ میں کی گئی باتوں پر بھی آپ عمل کرنے والے ہوں اور
خطبات مسرور جلد نهم 366 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء اس جلسے میں جو میری طرف سے یا دوسرے مقررین کی طرف سے علمی، روحانی اور تربیتی مضامین بیان ہوں اُن کو سُن کر یہاں بھی اور بعد میں بھی اپنے گھروں میں جا کر عمل کرنے والے ہوں.گزشتہ جمعہ میں میں نے ایک حدیث کے حوالے سے میز بانوں اور کارکنوں کو بتایا تھا کہ ایک مومن جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کا یہ فرض ہے کہ اپنے مہمان کی تکریم کرے، عزت اور احترام کرے اور عمومی مہمان نوازی تین دن رات تک ہے.(بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمته اياها بنفسه حدیث 6135) گو بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ مہمان نوازی ہو سکتی ہے اور ہوتی رہی ہے لیکن یہاں تین دن رات کہہ کر مہمانوں کو بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بیشک میزبان کا کام ہے کہ عزت و تکریم کے ساتھ اپنے مہمان کی مہمان نوازی کرے اور یہ اُس مہمان کا جائز حق ہے، لیکن مہمان کو بھی اپنی حدود کا خیال رکھنا چاہئے.اگر حدود سے زیادہ چاہو گے تو پھر بعض اوقات میز بانوں کی طبیعتوں میں بے چینی بھی پیدا ہو سکتی ہے.اس لئے اس حدیث میں آگے یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے اور یہ کہہ کر مہمان کی غیرت کو بھی اُبھارا گیا ہے کہ اس سے زیادہ مہمان نوازی کروانا صدقہ ہے.اور کوئی صاحب حیثیت یا با غیرت اور عزت والا شخص صدقہ کھانا پسند نہیں کرتا.پھر اس حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ یہ جائز نہیں کہ مہمان اتنا عرصہ مہمان نواز کے پاس رہے، میزبان کے پاس رہے کہ اُس کو تکلیف میں ڈال دے.ظاہر ہے جب تکلیف میں ڈالا جائے گا تو طبیعتوں میں بے چینی پیدا ہو گی اور ہوتی ہے.ہر ایک کے اپنے اپنے حالات اور مصروفیات ہیں.جماعتی نظام ہے تو اس کے بھی اپنے بعض مسائل ہیں.اس لئے مہمان نوازی ایسا خُلق ہے جو عزت و تکریم کا احساس پیدا کرنے کے لئے ہے، آپس میں محبت پیدا کرنے کے لئے ہے، پیار و محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے ہے.جب تکلیف پہنچانی شروع کی جائے پھر اس میں بال آنے شروع ہو جاتے ہیں.جماعتی طور پر اجتماعی قیام گاہوں میں چاہے وہ مسجد کے ہالوں میں ہیں یا متفرق جگہوں پر ہیں ایک محدود وقت تک ٹھہرایا جا سکتا ہے.اُس کے بعد حکومتی کارندوں کی بھی نظر ہوتی ہے کہ وہاں رہائش کا جو بھی انتظام ہے ، اُس کے اندر رہتے ہوئے، شرائط پوری کرتے ہوئے انتظام ہو رہا ہے کہ نہیں.اس لئے خاص طور پر یورپ سے باہر سے آئے ہوئے مہمان اس بات کا خیال رکھیں کہ یہاں جماعتی قیامگاہیں بھی ایک محدود وقت تک کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں.اس لئے اگر زیادہ ٹھہرنا ہے تو پھر اپنا کوئی اور بندوبست کریں.لیکن اور دوسرے بندوبست میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سامنے رکھیں کہ میزبان کو تکلیف میں نہ ڈالو.ہر بات کی تفصیل بیان کرنا یہ اسلام کا ہی خاصہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر معمولی باتوں کو بھی سامنے رکھ کر ہماری ہر طرح سے تربیت فرمائی ہے.پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اُن کی پاسداری کرے.ان بظاہر چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھنے سے بڑی نیکیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے اور توفیق ملتی ہے اور ایک پیار اور محبت کرنے والا ایک دوسرے کے جذبات کا احساس کرنے والا معاشرہ قائم ہوتا ہے.اور یہی ایک بہت بڑا مقصد حضرت
خطبات مسرور جلد نہم 367 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کے مقاصد میں سے ہمیں بتایا ہے کہ ایک پیار، محبت اور اخوت کارشتہ قائم ہو اور معاشرہ قائم ہو.(ماخوذاز آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 352) ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس حسین معاشرے کی بنیاد جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اللہ اور رسول کی اطاعت اور اولوا الامر کی اطاعت میں ہے.پس جتنے جتنے اطاعت کے معیار ہوں گے، یا بلند ہوتے چلے جائیں گے اتنی ہی باتوں کو سننے اور عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی.پس ہر آنے والے کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اطاعت کے معیار بھی بلند کرنے ہیں اور اس کے لئے کوشش بھی کرنی ہے تاکہ ہمارے پاؤں ، ہمارے قدم پیچھے کی طرف نہ پھسلنے شروع ہو جائیں، تاکہ ہم جلسے کے فیض سے فیضیاب ہو سکیں.بعض لوگ یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں جو دو ہفتے کا یا تین ہفتے کا جماعتی انتظام ہے اُس کے مطابق ہی ہم ٹھہریں گے اور پھر اگر زیادہ ٹھہر نا ہوا تو اپنا انتظام کرلیں گے.لیکن عملاً بعض لوگ کئی کئی مہینے ٹھہرتے ہیں، انتظامیہ بھی تنگ آجاتی ہے.پھر اگر جماعتی پروگراموں کی وجہ سے ان جگہوں کی ضرورت ہو ، اُن جگہوں سے اِن مہمانوں کو ادھر اُدھر کیا جائے تو اعتراض بھی کرتے ہیں، میرے پاس بھی بعض شکایتیں آتی ہیں.تو ایسے لوگوں سے بھی میں درخواست کروں گا کہ ایک تو جو زبان دی ہے، جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا کریں، دوسرے اطاعت نظام کا خیال رکھیں.ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی اطاعت انسان کو نیکیوں کی توفیق دیتی ہے.اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی اہمیت نہ ہوتی، معاشرے پر اس کا اثر نہ پڑ رہا ہوتا، انسان کے اخلاق پر اس کا اثر نہ پڑ رہا ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ہمیں ان باتوں کی طرف اتنی توجہ نہ دلواتے.محدود وقت کے لئے مہمان نوازی کا ایک حدیث میں جہاں ذکر آتا ہے، اس کی مزید وضاحت بھی ہوتی ہے.یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے جو ابی شریح خذائی سے روایت ہے.کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مہمان نوازی تین دن تک ہے اور اس کی خصوصی خاطر داری ایک دن اور رات ہے.مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا ٹھہرے کہ اُسے گناہگار کر دے.صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اُسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا.آپ نے فرمایا وہ اس کے پاس اتنا ٹھہرا رہے کہ اُس کے پاس کچھ نہ ہو جس سے وہ اُس کی ضیافت کر سکے.اب اگر میزبان ضیافت نہیں کر رہا، مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کر رہا، چاہے وہ کسی مجبوری کی وجہ سے ہی ہو تو میزبان گناہگار بن رہا ہے اور پھر بات یہیں نہیں رکتی.جیسا کہ پہلی حدیث میں ذکر ہو چکا ہے کہ میز بان کو تکلیف میں نہ ڈالو.اب میزبان اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے قرض لے کر بھی مہمان نوازی کرتا ہے اور اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتا ہے.پھر اگر وعدے کے مطابق قرض دینے والے کا قرض نہیں چکا تا تو پھر گناہگار بنتا ہے.پھر بعض دفعہ لمبی مہمان نوازی ہے، میزبان یا اُس کے گھر والے بھی، گھر میں سے کسی بھی فرد میں اس وجہ سے چڑ چڑا پن پیدا (صحیح مسلم كتاب اللقطة باب الضيافة و نحوهاحدیث نمبر 4514)
خطبات مسرور جلد نهم 368 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء ہو جاتا ہے کہ مہمان ہمارے گھر بیٹھا ہوا ہے، جاتا نہیں.چاہے غیب میں ہی سہی وہ مہمان کو کوسنے لگ جائے ، بُرا بھلا کہہ دے تو پھر گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے.پھر یہ ہے کہ اس سے مہمان کی عزت و تکریم نہیں رہتی.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضیافت نہ کر کے گناہگار ہونے کا ہی فرمایا ہے لیکن اگر اس کی جزئیات میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسی ایک لفظ میں بہت سی نصائح آپ نے فرما دیں.پھر ایک اور رنگ میں میزبان کو بھی توجہ دلا دی کہ تم مہمان کا جائز حق نہ دے کر اس فعل کو معمولی نہ سمجھو.اگر یہ فرض ادا نہیں کرو گے تو گناہگار بن جاؤ گے ، تمہارا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان بھی ختم ہو جائے گا.لیکن مہمان کو فرمایا کہ پھر اس صورت میں تمہارا بھی اپنے میزبان کو گناہگار بنانے میں حصہ ہو گا.اس لئے تم بھی پوچھے جاؤ گے.تو دیکھیں بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے جو کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے.اگر ہر ایک اپنے اپنے حق ادا کرے تو پھر نہ تو وہ میزبان گناہگار بنتا ہے اور نہ ہی مہمان گناہگار بننے والا یا بنانے والا بنتا ہے.اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بڑا فضل ہے کہ 99.99 فیصد لوگ بات سنتے ہیں، ہدایات سنتے ہیں تو اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں.پس ایسے لوگوں کو بھی چاہئے کہ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھائیں اور جماعت کا جو حسن ہے اُس کو اور نکھارنے کی کوشش کریں.اگر ایسے لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ کیا ضرورت ہے کہ معمولی لوگوں کی بات کو اتنا اُبھار کر پیش کیا جائے.یہ جو چند ایک لوگ ہیں، ان کو جو نصائح کی جاتی ہیں وہ بھی فائدہ مند ہو جاتی ہیں.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو جو نصائح فرمائیں تو مجموعی طور پر صحابہ کے عمل کو دیکھ کر نہیں فرمائی تھیں بلکہ کسی ایک آدھ کے عمل کو دیکھ کر ہی فرمائی ہوں گی.صحابہ میں سے اکثریت نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں پر پہنچی ہوئی تھی، بلکہ مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ میں آئے ہیں تو ایک لمبا عرصہ انصار نے اُن کی ایسی خدمت کی جس کی مثال ہی نہیں ملتی.بے شک یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو بھائی بھائی بن گئے تھے.مؤاخات پیدا ہو گئی تھی اور گھر کے فرد کی طرح تھے، لیکن انصار کے رویے باوجود اس کے کہ وہ مہاجر مستقل حیثیت سے ہی رہنے لگ گئے تھے اور ایک رشتہ بھی قائم ہو گیا وہ اُن کے ساتھ مہمانوں والا سلوک ہی کرتے تھے.اکثر اپنے سے بہتر خوراک وغیرہ کا انتظام اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے کرتے تھے.لیکن اُدھر مہاجروں کا بھی ایک رویہ تھا.اُن میں ایسے تھے جو کہتے تھے کہ ہماری مہمان نوازی اس طرح نہ کرو.ہمیں اپنے حقوق میں سے اس طرح نہ دو.تم ہمیں بازار کا رستہ بتا دو تا کہ ہم اپنے پاؤں پر پر کھڑے ہو دیں اور خود کمائیں.(ماخوذ از اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد 3 ذكر " عبدالرحمن بن عوف، صفحہ 377 دار الفکر بیروت 2003ء) سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اس کے کہ آپ کے صحابہ کی اکثریت نیکیوں پر قائم رہنے والی اور ہر بات کا خیال رکھنے والی تھی پھر بھی نصیحت فرماتے ہیں.اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ چند ایک کی خاطر اتنی بڑی نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو مستقل اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ
369 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دلاتے رہتے تھے اس لئے کہ اُن کے معیار کم نہ ہو جائیں.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی تھی جس نے ایسے اعلیٰ اخلاق دکھانے والے پیدا کئے ، دونوں طرف سے ایسے اظہار کرنے والے پیدا کئے جن کی مثالیں نہیں ملتیں.اور پھر اس لئے بھی نصیحت ہوتی تھی کہ نئے آنے والے بھی جو میزبان بن رہے ہیں یا مہمان بن رہے ہیں اُن کی تربیت کے لئے یہ باتیں سامنے لا کر اُن کے نیکیوں کے معیار بلند تر کئے جائیں.پھر قرآن شریف بھی ہمیں فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرُتِ (البقرة:149 ) کا حکم دیتا ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے بنو.یہ حکم ہے.ایک تو ان باتوں کی طرف توجہ دلانے سے ہر ایک کی نیکیوں میں بڑھنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.دوسرے یہ بھی کہ اگر نیکیوں میں آگے بڑھ رہے ہو اور دیکھ رہے ہو کہ میر ابھائی پیچھے رہ رہا ہے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بھی آگے لاؤ.نیکیوں کی سیڑھیوں پر چڑھ رہے ہو تو جہاں نیکیوں میں آگے بڑھنے والوں سے مقابلہ ہے وہاں پیچھے رہ جانے والوں کو بھی کوشش کر کے اوپر لاناضروری ہے تاکہ من حیث القوم ترقی کی طرف قدم بڑھتے چلے جائیں اور کوئی ایسا خلق نہ رہ جائے جس میں ہم میں سے ایک بھی اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش نہ کر رہا ہو.یہ خوبصورتی اور حُسن اُس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب مومنین ایک جماعت کی صورت میں ہوں.پس جب نصائح کی جاتی ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو یہ کسی کو شر مندہ کرنے کے لئے نہیں ہو تیں یا پھر جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے نہیں ہو تیں بلکہ ان کی نیکیوں کے معیار بلند کرنے کے لئے ہوتی ہیں.مہمان نوازی کے ذکر میں گزشتہ جمعہ میں میں نے کہا تھا کہ کسی کے یہ کہنے پر کہ غریب لوگ گھر میں دال کھاتے ہیں یا غریب ممالک میں بعض کو دال بھی نہیں ملتی لیکن امیر گوشت کھانے کے عادی ہیں، اس لئے لنگر میں عام طور پر جو عام لوگ ہیں، غریب ہیں اُن کے لئے تو بیشک دال پکا کرے، اُن کو بیشک دال کھلائی جائے اور امیروں کے لئے گوشت اور اچھا کھانا پکنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو سُن کر انتہائی ناپسند فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ جلسے کے مہمانوں کے لئے ایک ہی طرح کا کھانا پکا کرے گا.(ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 8 صفحہ 64 غیر مطبوعہ ) لیکن آپ نے ایک موقع پر غرباء کو بھی نصیحت فرمائی.یہ شیخ محمد اسماعیل صاحب سر سادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے.کہتے ہیں کہ دو پہر کا کھانا دونوں مجلسوں کو میں کھلایا کرتا تھا.ایک مجلس نئے مہمانوں کی ہوتی تھی جو حضرت صاحب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتی تھی.ایک عموماً یہاں اپنے والوں کی ہوتی تھی.حضرت اقدس بعض اوقات تقریروں میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو اگر ایک شخص غریب ہے ہمیشہ گھر میں دال روٹی کھاتا ہے تو اگر یہاں بھی اُسے دال کھانے کو ملے تو اُسے برا نہیں مانا چاہئے.ہم بعض اوقات اُمراء کے لئے گوشت روٹی کا انتظام خصوصیت سے بھی کر دیتے ہیں تا وہ عادت کی وجہ سے بیمار نہ ہو جائیں.اُن کو اگر دال ہی دی جائے تو جس غرض کے لئے وہ آتے ہیں وہ غرض پوری نہیں ہو سکتی.اُن کی صحت خراب ہو جاتی ہے، غرباء کو اُن کی ریس نہیں کرنی چاہئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 10 صفحہ 350-351 غیر مطبوعہ )
خطبات مسرور جلد نهم 370 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء اور اس لئے بعض دفعہ یہاں بھی بعض قوموں کی طبائع کے مطابق مختلف کھانے پکتے ہیں.پس حالات کے مطابق اگر کبھی کسی وقت مختلف کھانا پکانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو کسی فریق کو بُرا نہیں منانا چاہئے ، کسی شخص کو بُرا نہیں منانا چاہئے.لیکن عموما کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایک جیسا کھانا ملے سوائے بیماروں کے جیسا کہ میں نے کہا یا غیر ملکی مہمان جو ہیں یا غیر از جماعت جو ہیں اُن کے لئے کچھ تھوڑا سا خاص کھانا بھی پکایا جاتا ہے لیکن انتظامیہ یا عہدیداروں کا یہ کام نہیں ہے کہ اپنے لئے خاص کھانے پکوائیں.وہاں جب ایک جگہ یہ سوال اُٹھا تھا جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ ایک عہدیدار نے اپنے لئے بٹیرے پکوالئے اور ایک دوسرے شخص کے لئے جو مہمان تھے ، جب اُن کو پتہ لگا اُنہوں نے مطالبہ کیا تو انہیں نہیں دیئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم میں جب یہ آیا تو آپ نے فوری طور پر باورچی سے بٹیرے منگوا کر اس مہمان کو بھجوائے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کل سب کے لئے بٹیرے پہکیں گے تاکہ انصاف قائم رہے.(ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ جلد 15 صفحہ 17 غیر مطبوعہ ) سنا ہے اس پر کسی نے مذاقاً جلسے کی انتظامیہ کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ اب تمہارے ذمہ یہ لگا دیا گیا ہے کہ جلسہ پر بٹیرے پکایا کر و.شاید افسر صاحب جلسہ سالانہ اس پیغام کو سن کر پریشان بھی ہو گئے ہوں.کیونکہ ان کا یہ پہلا سال ہے اور پریشان بھی ذرا جلدی ہو جاتے ہیں کچھ موسمی حالات کی وجہ سے بھی پریشان ہیں.اُن کے لئے دعا بھی بہت کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے کاموں میں برکت ڈالے.اور افسر صاحب بھی تسلی رکھیں کہ بٹیروں کا یہ مطالبہ کوئی سنجیدہ مطالبہ نہیں ہے.لیکن بہر حال ہر ایک کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مہمان کی عزت اور جذبات کا خیال رکھا جائے.بٹیروں کی بجائے بیشک دال کھلا ئیں لیکن عزت کے ساتھ کھلائیں.حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل روایت کرتے ہیں کہ جب لاہور میں حضرت صاحب ایک لیکچر کے ارادہ سے تشریف لائے.سولہ دن آپ کا قیام لاہور میں رہا.کھانے کا انتظام جن احباب کے سپر د تھا اُن میں میں بھی شامل تھا.غالباً خلیفہ رجب الدین نے کسی مہمان کو کہہ دیا کہ پانی بھی ساتھ پیو.بیچارے زیادہ کھانا کھانے والے ہوں گے.کہہ دیا کھانا کھائے جار ہے ہو پانی بھی ساتھ پیو.یہ بات کسی طرح حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچ گئی کہ مہمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے اور کھانا خاطر خواہ نہیں ملتا.حضور باہر تشریف لائے اور دروازے میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ کون منتظم ہے ؟ ہم نے عرض کی حضور ہم حضور کے خادم ہیں.حضور نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ لوگوں کو کھانا اچھا نہیں ملتا اور بعض کو کہا جاتا ہے کہ بازار سے کھا لو ، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ حضرت! بے تکلفی میں کسی نے کسی کو کہا ہے ورنہ انتظام سب ٹھیک ہے.فرمایا نہیں ہم اپنے لنگر کا انتظام خود کریں گے، مہمان ہمارے ہیں اور لنگر کا انتظام بھی ہمارے ہی ذمہ عائد ہوتا ہے.بعض لوگوں نے مل کر معافی کی درخواست کی اور آئندہ احتیاط کا وعدہ کیا.پھر حضور نے معاف فرمایا اور لنگر جماعت کی طرف سے جاری رہا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9 صفحہ 270-271 غیر مطبوعہ )
خطبات مسرور جلد نهم 371 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء پس چاہے کارکنان اپنے کسی بہت ہی بے تکلف قریبی عزیز سے ہی بات کہہ رہے ہوں، اگر وہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر میں مہمان بن کر آیا ہے تو اُس کی عزت نفس کا بھی بہر حال خیال رکھنا ہو گا اُس کی عزت و تکریم کرنی ہو گی.اگر صرف ایک دفعہ کے بعد دو دفعہ یا چار دفعہ نہیں، دس ہیں دفعہ بھی اگر کوئی پلیٹ لے کر کھانے کے لئے آتا ہے تو بغیر کسی اظہار کے اُس کو سالن ڈال کر دینا چاہئے.لیکن یہاں میں مہمانوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سالن ضائع نہ کیا کریں.بعض دفعہ میں نے جا کر دیکھا ہے کہ سالن پلیٹ میں چھوڑ جاتے ہیں اور ضائع کر رہے ہوتے ہیں.بعض لوگ آلو گوشت میں سے خاص پسند کی چیز کھالیتے ہیں، بوٹیاں کھالیں یا تھوڑا سا شور بہ کھالیا لیکن اکثر آلو ضائع کر دیتے ہیں، سوائے یہاں یورپ کے رہنے والے لوگ کچھ آلو کھا لیتے ہیں.بہر حال سوائے اُن کے جن کو آلو انتہائی نا پسندیدہ ہوں بعض بالکل کھا ہی نہیں سکتے یا کسی کو کوئی طبی وجہ ہو.مہمان جو ہیں اُن کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ سالن ضائع نہ ہو.جتنا ڈالیں یا ڈلوائیں وہ کھائیں.بہر حال میزبان اور مہمان دونوں کا رویہ ہے جو ایک خوبصورت ماحول پیدا کرتا ہے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک کارکن پر اس لئے بہت زیادہ ناراض ہوئے کہ اُس نے مہمانوں کے سامنے سے پلیٹیں اُٹھانی شروع کر دی تھیں.مہمان کھا رہے تھے.بعض آہستہ آہستہ کھاتے ہیں تو جب کافی وقت گزر گیا اُس نے جو پلیٹیں ہیں وہ اُٹھانی شروع کر دیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک مہمان کھا کر خود نہ کہے کہ پلیٹ اُٹھاؤ، تمہارا کام نہیں.اور آئندہ سے مہمان کو یہ نہیں کہنا کہ ہم نے کام ختم کرنا ہے جلدی کرو.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 13 صفحہ 454-455 غیر مطبوعہ ) لیکن مہمانوں کو بھی یہ عمومی نصیحت ہے کہ کھانا کھا کر پھر اُٹھ جاؤ.جتنی دیر کھانے میں لگتی ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن اُس کے بعد بیٹھ کے گپیں مارنے نہ لگ جاؤ.گو یہ نصیحت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے دی ہے کہ وقت ضائع نہ کیا کرو، اُٹھ جایا کرو.لیکن یہ اعلیٰ اخلاق کا ایک بنیادی اصول ہے جس کو عموم میں بھی استعمال ہونا چاہئے.کام کرنے والے بھی کارکنان ہیں انہوں نے بھی آرام کرنا ہو تا ہے، اپنا کام سمیٹنا ہوتا ہے ، مہمانوں کو اُن کا بھی خیال رکھنا چاہئے.جلسے کا ایک بہت بڑا مقصد تعلق باللہ پیدا کرنا ہے.اس لئے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے ، کارکنان بھی اور مہمان بھی ہمیشہ یادرکھیں کہ اس تعلق کو پیدا کرنے کے لئے اپنی نمازوں اور نوافل کی طرف بہت توجہ دیں، دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں کہ انہی میں ہمارے مسائل کا حل ہے.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس بارے میں کیا نمونے ہوتے تھے، کس طرح ذوق و شوق سے وہ نمازیں ادا کیا کرتے تھے اس کی ایک مثال دیتا ہوں.حضرت عطا محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد نتھے خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی یہ ایک برکت تھی کہ باوجودیکہ میں بچہ تھا لیکن نماز میں کھڑے ہوتے ہی رقت
372 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم طاری ہو جاتی اور آنسو بند نہ ہوتے تھے کہ سلام پھر جاتا اور نماز ختم ہو جاتی.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی اللہ ، جری اللہ فی حلل الانبیاء کی زیارت کا موقع بخشا.یہ ایک فضل عظیم ہے جو اس نے مجھ پر کیا.ورنہ میں نے اپنے نانا جان کو ترستے اور روتے عنا تھا کہ نہ معلوم کہ مہدی علیہ السلام کا زمانہ کب آئے گا؟ اس نے ہم پر فضل کیا، ہمیں اُس کی زیارت کا شرف بخشا.الحمدللہ رب العالمین.اور حضور کے ہزاروں نشان دیکھے جس سے حضور کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 5 صفحہ 167 غیر مطبوعہ ) پس ہم وہ لوگ ہیں جن کو گو آپ کی زیارت کا شرف تو حاصل نہیں ہوا لیکن آپ کے دعاوی پر ایمان لانے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو پورا کرنے والے بنے.پس اپنی نمازوں اور نوافل میں بھی ہمیں خاص توجہ کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے ان دنوں میں نمازوں اور نوافل میں سوزوگد از پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسیح موعود کو ماننے والا بنایا، اس کی توفیق عطا فرمائی اور پھر آج کل کا دور جو ہے جس میں مخالفین احمدیت اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، انفرادی اور اجتماعی دعائیں اور خد اتعالیٰ سے تعلق ہی ہے جو ان کا توڑ ہے اور اس طرف آج کل بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے.پھر ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ جلسے پر لوگ آتے ہیں، میل ملاقات بھی ہوتی ہے، بعض لمبے عرصے کے بعد ایک دوسرے کو ملتے ہیں، بعض دفعہ نئی واقفیتیں پیدا ہوتی ہیں پھر خواہش ہوتی ہے کہ مل بیٹھیں ذرا مزید معلومات حاصل کریں، لیکن اس کے لئے جلسے کی کارروائی کے بعد وقفوں میں بیشک بیٹھیں اپنی مجلس لگائیں لیکن ان میں بھی اِدھر اُدھر کی فضول گفتگو کی بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا ذکر ہو.بہت سارے پیارے ہیں جو رخصت ہوئے ، اُن کا بھی ذکر ہو ، اُن کی نیک یادوں کا ذکر ہو.بعض نیک واقعات کا ذکر ہو.بعض کے نئے رشتے بھی ان دنوں میں قائم ہوتے ہیں تو اس وجہ سے بھی خاص طور پر بیٹھنا پڑتا ہے.عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ صرف وقفے کے دوران باتیں کریں اور چاہے وہ اجتماعی قیامگاہیں ہیں یا وقفہ ہے یا گھروں میں ہیں، تو پھر وہاں بھی باتیں ایک حد تک ہونی چاہئیں.بعض دفعہ لوگ ساری ساری رات جاگتے ہیں اور پھر صبح کی نماز بھی ضائع ہو جاتی ہے.پس اتنا نہ جاگیں کہ رات کو نوافل اور فجر کی نماز ضائع ہو جائے بلکہ خاص اہتمام سے گھروں میں بھی اور جہاں بھی ٹھہرے ہوئے ہیں تہجد کا اہتمام ہونا چاہئے.تبھی روحانی ماحول سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.عورتوں کو خاص طور پر اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے.(ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395) اس لئے اس میں شامل ہونے والے کی نظر اس بات پر مرکوز ہونی چاہئے کہ ہم نے اپنے روحانی، اخلاقی اور علمی معیاروں کو بلند کرنا ہے.اس میں ترقی کرنی ہے اور اس ماحول سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھانا ہے.جب یہ سوچ ہو گی تو وہ خواتین بھی جو اپنے لباس اور زیوروں کی نمائش کر رہی ہوتی ہیں وہ بھی سادہ لباس میں آئیں گی یا اس سوچ کے ساتھ آئیں گی کہ اصل مقصد ہمارا جلسہ سننا ہے.پس یہ سوچ رکھنی چاہئے اور لباس مناسب اور ڈھکے ہوئے ہونے چاہئیں.بعض کے
373 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لباس کے بارے میں شکایات آتی ہیں کہ ایسے ہوتے ہیں جس سے کسی طرح بھی کسی احمدی عورت کا تقدس ظاہر نہیں ہو رہا ہوتا.پس لباس وہ ہو جو زینت کو چھپانے والا ہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرما دی کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے جو لباس تم زیب تن کرو گے ، وہی تمہاری زینت چھپانے والا لباس ہے.اسی طرح مردوں اور عورتوں کو یہ حکم بھی ہے کہ وہ غض بصر سے کام لیں.راستہ چلتے ہوئے بلا وجہ ادھر اُدھر نہ دیکھیں، نظریں نہ دوڑائیں، یہ بھی انتہائی ضروری چیز ہے.اس ماحول میں بعض سڑکوں پر عورتیں اور مرد اکٹھے چل رہے ہوتے ہیں وہاں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.ماحول کے تقدس کے لئے بہت ضروری ہے، اپنے اخلاق کے لئے بہت ضروری ہے.پس اس طرف بھی بہت زیادہ توجہ دیں.اب چند انتظامی باتوں کی طرف بھی توجہ دلا دوں کہ آپ لوگوں کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی کے انتظام میں جو سختی ہے اُسے خوشی سے برداشت کریں.سکینر (Scanner) سے گزرنا اور سامان چیک کر وانا انتہائی ضروری ہے اور خود اس کے لئے پیش کرنا چاہئے.اگر کبھی غلطی سے کسی کی نظر سے اوجھل بھی ہو گئے ہیں تب بھی خود پیش ہوں کہ ہمیں چیک کرو.یہ نہ سمجھیں کہ ایک دفعہ چیک کر لیا.بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے باہر چلے گئے ، دوبارہ اندر آگئے تو دوسری دفعہ چیکنگ کی ضرورت نہیں ہے.جتنی مرتبہ بھی باہر جائیں گے جب بھی اندر آنا ہو گا، چیکنگ ہو گی اور چیکنگ کرنے والوں کا بھی کام ہے چاہے بیشک واقف کار بھی ہوں اُن کی چیکنگ کرنی ہے.اس لئے اس بات پر کبھی مہمانوں کو یا شامل ہونے والوں کو چڑنا نہیں چاہئے.لیکن مردوں اور عورتوں کی طرف جن کارکنان یا کار کنات کی سکینرز (scammers) پر ڈیوٹی ہے، چیکنگ پر ڈیوٹی ہے، اُن سے بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چیک تو ضرور کریں لیکن یہ بھی کوشش کریں کہ تمام احتیاطوں کے ساتھ جتنی جلدی چیکنگ ہو سکتی ہے ہو جائے تا کہ لوگوں کو زیادہ تکلیف کا سامنانہ کرنا پڑے اور جلسہ بھی وقت پہ شروع ہو اور وقت پر پنڈال میں داخل ہو جائیں، مار کی میں آجائیں.پھر ڈیوٹی والے کارکنان یا سکیورٹی والے ہیں اُن کو تو میں پہلے بھی سیکورٹی کی طرف توجہ دلا چکا ہوں.جہاں جہاں بھی مینسیں (Fences) لگائی گئی ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ فینس (Fence) کافی ہے.اُن فینسوں کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ڈیوٹی بھی دینی چاہئے.اور بڑی احتیاط سے اپنے فرض کو سمجھتے ہوئے ڈیوٹی ادا کریں.کسی بھی ڈیوٹی کو جہاں بھی کسی کی لگائی گئی ہے معمولی نہ سمجھیں.شرارتی عنصر کوئی بھی شرارت کر سکتا ہے، اور کسی سے کوئی بعید نہیں.اس لئے صرف ڈیوٹی دینے والے ہی نہیں بلکہ جلسے میں سب شامل ہونے والے جو ہیں اپنے ماحول پر نظر رکھیں.جیسا کہ میں نے کہا اپنے یہ دن دعاؤں میں گزاریں.اس کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق صدقات پر بھی توجہ دیں.سکینرز کی بات میں نے کی تھی تو اس دفعہ کوشش کی گئی ہے کہ عموماً اندر آنے کے زیادہ سے زیادہ راستے بنائے جائیں تا کہ کسی کو تکلیف نہ ہو.مریضوں کو ، بچوں والوں کو زیادہ سہولت میسر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن پھر بھی بعض دفعہ بعض دقتیں سامنے آجاتی ہیں، اس پر بے صبر اور بے حوصلہ نہیں ہونا چاہئے.پھر تقریروں کے دوران ضرورت سے زیادہ نعرے نہ لگائیں.بعض لوگوں کو نعرے لگانے کی بہت عادت ہے.بلکہ
374 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نعرے لگانے کا جو مرکزی نظام ہے اُس کے تحت ہی نعرہ لگنا چاہئے.انہی کی ذمہ داری ہے، انہی میں رہنے دیں لیکن جب نعرہ لگائیں تو پھر نعرے کا جواب بڑے پر جوش طریقے سے ہونا چاہئے.پھر یہ نہیں کہ آواز ہی نہ نکلے.تمام تقریریں جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سنیں.اس دوران میں باہر جانا، ادھر اُدھر جانا، پھرنا، یہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں ، کہ مناسب نہیں ہے.جس مقصد کے لئے آئے ہیں اُس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں.ہر تقریر کوئی نہ کوئی ایسا پہلور کھتی ہے جو آپ کے فائدے کے لئے ہے، جو آپ کے لئے نیا ہے.صفائی کا خاص خیال رکھیں، اپنے گند بھی ادھر اُدھر نہ پھینکیں بلکہ اگر کہیں کاغذ یا ڈسپوز ییل (Disposable) گلاس، پلیٹیں یا کوئی چیزیں پڑی ہوئی دیکھیں تو اس کو بھی فوری طور پر ڈسٹ بن میں ڈال دیں.اسی طرح غسل خانوں کی صفائی کا کام ہے، اس کا بھی خاص اہتمام کریں.کار کن تو یہ صفائی کرتے ہی ہیں اور جو اس ڈیوٹی پر متعین ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بے لوث ہو کر ، مرد ہوں، عور تیں ہوں، وہ اپنا یہ کام کر رہی ہیں.لیکن مہمان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ غسل خانوں میں، ٹوائلٹس میں خاص صفائی ہونی چاہئے.خاص طور پر کیچڑ والے پاؤں لے کر جب جاتے ہیں تو پھر اس کی صفائی بھی کریں.گو بارش رُک گئی ہے لیکن پتہ کوئی نہیں، لیکن اُس کے باوجود بھی زمین نرم ہے اور زمین کی نرمی کی وجہ سے پاؤں پر مٹی بھی لگ جاتی ہے، اس لئے صفائی کا بہت خیال رکھیں، غسل خانوں میں گند نہیں ہونا چاہئے.پھر جلسہ گاہ کے اندر مار کی میں داخل ہو کر ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ جو پہلے آنے والے ہیں اُن کو اگر کوئی جائز عذر نہیں ہے تو آگے آکر بیٹھیں تا کہ پیچھے سے آنے والے پھر آرام سے بیٹھ سکیں.اسی طرح جو بعد میں آنے والے ہیں اُن کو جہاں جگہ ملتی ہے وہ بیٹھ جائیں اور ایک دوسرے پر سے پھلانگ کر نہ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک مجلس میں اسی طرح پھلانگ کر جانے والے ایک شخص پر آ ر آپ بڑے ناراض ہوئے اور مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے اور حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ ان کو نصیحت کرو.اور پھر انہوں نے بڑے سخت الفاظ میں نصیحت فرمائی تھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 11 صفحہ 329 غیر مطبوعہ) پس جس کو جہاں جگہ ملتی ہے ، وہ بیٹھے.پہلے آنے والے آگے آئیں.بعد میں آنے والے جہاں جہاں اُن کو جگہ مل رہی ہے بیٹھتے چلے جائیں.لیکن بہر حال ہر ایک کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بعد میں بھی لوگ آنے والے ہیں اس لئے کہیں بھی خالی جگہ نہ ہو.جس جس طرح آتے جائیں خالی جگہ کو پر کرتے چلے جائیں.آخر میں پھر دوبارہ میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اس ماحول کو اپنی دعاؤں سے معطر رکھیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 12 اگست تا 18 اگست 2011ء جلد 18 شماره 32 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 375 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 2011ء بمطابق 29وفا1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو کے کا جلسہ سالانہ گزشتہ اتوار اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور بے انتہا احسانات کا اظہار کرتے ہوئے، پھیلاتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا.مجھے اُن لوگوں کے خطوط آ رہے ہیں جنہوں نے ایم.ٹی.اے کے ذریعہ اس جلسے میں شمولیت کی یا وہ لوگ بھی خطوط کے ذریعہ سے اظہار کر رہے ہیں جو بذات خود جلسے میں شامل ہوئے اور اسی طرح شامل ہونے والے زبانی جو اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں.بلا استثناء ہر ایک کا یہ اظہار ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور احسانوں کی بارش کو برستے ہوئے دیکھا.اللہ کرے کہ یہ جذبات، یہ احساسات، یہ پاک تبدیلیاں جو ہر ایک نے اپنے اندر محسوس کی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے نظارے جو ہر ایک نے مشاہدہ کئے یا محسوس کئے ان کے پاک نتائج عارضی نہ ہوں بلکہ دائمی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات اور توقعات کو ہم ہمیشہ پورا کرتے چلے جانے والے ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدود نہیں ہونا چاہئے.یہ اصل مقصد نہیں.تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 4 صفحه 410 مطبوعہ ربوہ) پس ہمارے احساسات، جذبات صرف اظہار کے طور پر نہ ہوں، صرف باتیں نہ ہوں.عارضی جوش کا اظہار نہ ہو.بلکہ یہ تمام احساسات، جذبات اس بنیادی مقصد کے حصول کا ذریعہ بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے لئے چاہتے ہیں.یہ تمام باتیں جن کا ہم خطوط میں اور زبانی اظہار کر رہے ہیں ان کے اظہار ہمیشہ ہماری حالتوں سے ہوں، ہمارے عمل سے ہوں.اگر ہمارے نفوس کا تزکیہ اس جلسہ کے ماحول سے ہوا ہے تو اصل مقصد تبھی حاصل ہو گا جب ہم اُسے ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے.اگر اصلاح کی طرف ہماری توجہ پیدا ہوئی ہے تو یہ مقصد تبھی حاصل ہو گا جب اس کے حصول کے لئے مسلسل جدوجہد کریں گے.ہر وقت اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ اتنا بے شمار خرچ جلسہ پر ہوتا ہے، جو تزکیہ نفس اور اصلاح کے لئے
خطبات مسرور جلد نهم 376 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء خلیفہ وقت اور نظام جماعت کی طرف سے کوشش کی گئی ہے اور ہوتی ہے اس کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا ہے اور جب اس طرف بھر پور کوشش ہو گی تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بن سکیں گے.اور جلسوں کے دائمی فیض سے حصہ پانے والے ہوں گے.تبھی ہم اس شکر گزاری کے نتیجے میں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہے کہ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُم (ابراهیم: 8) کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں مزید تمہیں بڑھاؤں گا.پس یہاں اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے یا واضح طور پر اس بنیادی اصول کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ تمہاری ترقی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے صحیح استعمال سے وابستہ ہے.ورنہ اگر ان نعمتوں کا اُس طرح شکر ادا نہیں کر رہے جو اس کے ادا کرنے کا حق ہے تو یہ صرف منہ کی باتیں ہیں، زبانی جمع خرچ ہے کہ ہم نے اللہ کے فضل سے جلسہ کو دیکھا اور خوب فائدہ اُٹھایا.حقیقی فائدہ اور شکر تبھی ہو گا جب ہم اس جلسے کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنالیں گے.جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی.ہر روز میں تو جب اپنی ڈاک دیکھتا ہوں تو جماعتی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھتا ہوں.پھر دوروں اور جلسوں پر جہاں بھی شامل ہوں وہاں یہ عجیب نظارے نظر آتے ہیں.پس جماعت احمدیہ کا من حیث الجماعت تو لمحہ لمحہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے گزرتا ہے اور ہم اُس پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری بھی کرتے ہیں.لیکن ہر احمدی پر انفرادی طور پر بھی اس شکر گزاری کا اظہار ہو نا چاہئے.ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اُس کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی تلاش کے لئے جد و جہد ہے، کوشش ہے.میں جماعتی فضلوں کی بات کر رہا تھا.گزشتہ مہینے میں جرمنی کے جلسہ میں شمولیت کے لئے گیا.وہاں جلسے کے پروگراموں کے علاوہ اور پروگرام بھی تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بھی بڑی کامیابی سے ہوئے.اُن کی شکر گزاری کا ذکر چل رہا تھا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی ایسی بارش برسائی کہ یو کے کا یہ جلسہ سالانہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دکھاتا ہوا آیا اور چلا گیا.پس وہ احمد کی جو اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر میری ترجیحات بدل گئی ہیں ، میری ذات کی خوشیاں جماعت اور اللہ تعالیٰ کی رضا سے اب وابستہ ہو گئی ہیں ، وہ ہر وقت سجدہ شکر بجالاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے وعدے پورے فرما رہا ہے اور کیسے کیسے انعامات سے ہمیں نواز رہا ہے.ہماری روحانی تربیت و ترقی کے بھی مواقع مہیا فرمارہا ہے.ہماری اخلاقی تربیت اور ترقی کے بھی مواقع مہیا فرمارہا ہے.ہماری عبادات کے معیاروں کی بہتری اور ترقی کے بھی مواقع وقتا فوقت مہیا فرماتا رہتا ہے.اور پھر اب ہماری روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے چند دن بعد ایک اور موقع مہیا فرمانے لگا ہے جو رمضان المبارک کی صورت میں آئے گا انشاء اللہ.پس ہماری شکر گزاری اگر اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی کوششوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواقع مہیا فرمانے اور بھر پور فائدہ اُٹھانے پر ہو گی تو پھر فضلوں کی بارش بھی پہلے سے بڑھ کر ہم اپنے پر برستادیکھیں گے.انشاء اللہ.
خطبات مسرور جلد نهم 377 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء پس اس جلسہ کی برکات کو رمضان کی برکات میں داخل کرتے ہوئے رمضان کے روحانی ماحول سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.اپنے اندر جو پاک تبدیلی ہم نے محسوس کی ہے اُسے مزید صیقل کرنے کی ہم رمضان میں کوشش کریں گے تو تبھی ہم جلسہ کے کامیاب انعقاد پر اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بن سکیں گے.پس جلسے پر ہمیں جو انفرادی اور اجتماعی عبادتیں کرنے کی توفیق ملی اور مجھے بتانے والے بتاتے ہیں کہ خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کی کافی تعداد اس دفعہ تہجد کے لئے ، جو جماعتی تہجد ہوتی تھی، مار کی میں آتے تھے.اور تہجد پڑھنے والے بچوں کی یہ تعداد گزشتہ سالوں کی نسبت پہلے سے بہت زیادہ تھی.ایک باپ مجھے کہنے لگا کہ میرا چودہ پندرہ سال کا جو لڑکا ہے پہلے نماز کے لئے بھی مشکل سے جاگتا تھا اب یہاں تین دنوں میں ایک آواز پر تہجد کے لئے اُٹھ بیٹھتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم تبھی مستقل حاصل کر سکتے ہیں کہ ان تبدیلیوں کو زندگی کا حصہ بنانے کی ہر بڑا، بچہ ، مرد، عورت کوشش کرے.خوش قسمتی سے اللہ تعالیٰ ایک اور روحانی ماحول ہمیں مہیا فرمانے لگا ہے جو چند دنوں بعد آنے والا ہے.جیسا کہ میں نے کہا، رمضان کا مہینہ انشاء اللہ شروع ہونے والا ہے، اُس سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھا ئیں تو تب ہی ہماری زندگیوں میں یہ نہ ختم ہونے والا شکر گزاری کا مضمون جاری رہے گا.اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ لرزید نکھ سے ہم فیض پاتے، فیض یاب ہوتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میرا طریق ہے کہ جلسہ کے بعد کے ایک خطبہ میں جلسہ کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا ذکر چلتا ہے لیکن کسی فخر کے رنگ میں نہیں، انتظامیہ یا کارکنان اپنی کوششوں پر کامیابی کا ذکر نہیں کرتے ، یا اُن کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کے لئے یہ ذکر کیا جاتا ہے.ایک دوسرے کا شکر گزار ہونے کے لئے یہ ذکر چلتا ہے کہ بندے کا شکر کرنا بھی ضروری ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو بندے کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا“.(سنن ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في الشكر لمن احسن اليك حديث نمبر 1954) پس اس حوالے سے شکر گزاری کا یہ مضمون بیان ہوتا ہے اور پھر جو واقعات سامنے آتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین مزید بڑھتا ہے.بچوں اور نوجوانوں کی تہجد کی طرف توجہ کا میں نے ذکر کیا ہے اس پر والدین کو خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے ہمارے بچوں کی اس طرف توجہ پیدا کر وائی اور اس کے لئے حقیقی شکر گزاری یہ ہے کہ والدین خود بھی اپنے نوافل کو پہلے سے زیادہ احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں.جو نہیں کرتے وہ اس طرف توجہ کریں تاکہ بچوں کے لئے نمونہ بنیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے جلسہ کے آخری دن بتایا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ میں، چھیانوے ممالک کو ، اُن کے افراد کو ، احمدیوں کو نمائندگی کی توفیق عطا فرمائی.ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد بڑھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کو دیکھ کر مختلف قوموں کا یقین بڑھتا اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی“.
378 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ یہ قومیں شامل ہو رہی ہیں.پس یہ لوگ جو آتے ہیں احمدیوں کے ساتھ غیر از جماعت مسلمان اور غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں اور جہاں یہ پہلی دفعہ شامل ہونے والے احمدی جلسہ کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں وہاں غیر مسلم بھی اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں اور جماعتی نظام اور جلسہ کے انتظام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.بعض کے خیالات کا اظہار آپ جلسے میں سن چکے ہیں.غیر احمدیوں کے تو تصور سے بھی یہ دور ہے، باہر ہے کہ اتنے آرام سے، اتنے انتظامات، نہ صرف یہ کہ والنٹیئر ز کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں بلکہ ایسے والنٹیئر ز کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں جو عام زندگی میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہیں.اُن کے ہاں اتنے بڑے مجمعے ہوں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انتظام ہو سکے بلکہ فتنہ پردازوں اور شیطان صفت لوگوں کا اتنا دخل ہو جاتا ہے کہ بعضوں کو امن سے رہنا ہی نصیب نہیں ہوتا.ہمارے ہاں جب یہ سارے کام کرنے والے آرام سے کام کر رہے ہوتے ہیں تو یہ اُن کے لئے بہت متاثر کرنے والی چیز ہے کہ ایسے لوگ جن کا پیشہ مختلف ہے وہ جو کام کر رہے ہیں اُس سے اُن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے.مثلاً کھانا پکانے والے وہ لوگ ہیں کہ ان میں سے بعض یہاں اچھے بھلے عہدوں پر کام کرنے والے افسران ہیں.اچھے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں.اپنے کاروبار کرنے والے ہیں.اسی طرح دوسرے شعبہ جات ہیں، صفائی وغیرہ جو ہے یا دوسرے بیشمار شعبے ہیں، ہر شعبہ میں کام کرنے والا بے نفس ہو کر کام کرتا ہے.پس یہ خوبصورتی جو جماعت احمدیہ کے کارکنان کی ہے یہ دوسروں کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.پھر بچوں کا پانی پلانا، یہ بھی لوگوں کو بڑا متاثر کرتا ہے.مختلف جگہوں پر ، مختلف طریقوں سے سکیورٹی ڈیوٹیاں ہیں اور یہ سب کام جو مختلف کارکنان اور کارکنات ہنستے مسکراتے انجام دے رہے ہوتے ہیں غیروں کو خاص طور پر متاثر کئے بغیر نہیں رہتا.اور جماعت کے متعلق اُن کے خیالات مزید بہتر ہوتے ہیں.مثلاً اس دفعہ ترکی کے وفد میں بعض غیر از جماعت آئے ہوئے تھے جو مختلف مذہبی تعلیمات کے یونیورسٹی پروفیسر تھے.کوئی حدیث کا ماہر تھا، کوئی تصوف کا تو کوئی کسی اور مضمون کا.جلسہ کے انتظامات دیکھ کر اور ایک پر امن ماحول دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے تھے.بعض کو تو لگتا تھا کہ جب اس معاملہ میں بات کرو تو تھوڑی دیر بولنے کے بعد اُن کے پاس بالکل الفاظ نہیں رہتے تھے اور بعض تو بالکل ہی گنگ ہو گئے تھے.حیران تھے ، پریشان سے لگتے تھے کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں.اُن پر کیونکہ ابھی اپنے معاشرے کا خوف ہے اس لئے بہر حال احمدیت قبول کرنے کی تو شاید ابھی انہیں جرات نہ ہو لیکن جلسہ کے بعد مجھے امید ہے کہ وہ مخالفین کو خود ہی جواب دینا شروع کر دیں گے، کم از کم حقیقت اُنہوں نے دیکھ لی ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے ذریعہ سے غیروں کے شکوک و شبہات دور فرماتا ہے.اور یہ جلسہ بعض سعید روحوں کی رہنمائی کا بھی باعث بنتا ہے.غیروں میں سے اور اسی طرح اپنوں میں سے بھی جو لوگ مجھے ملے ہیں یہ سب کارکنان کے شکر گزار ہیں.انہوں نے اس کا بہت اظہار کیا.تو اُن کی طرف سے میں بھی کارکنان اور کار کنات تک اُن کے شکریہ کے
خطبات مسرور جلد نهم 379 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء جذبات پہنچا دیتا ہوں.اسی طرح باہر سے خطوط کے ذریعہ ، فون کے ذریعہ سے جو پیغامات آرہے ہیں وہ بھی اس سارے نظام سے بہت متاثر ہوئے ہیں.ہمیشہ ہی ہوتے ہیں اور ہر دفعہ نئے تبصرے ہوتے ہیں اور ایم.ٹی.اے کے بھی شکر گزار ہیں.اُن کو بھی انہوں نے پیغام دیا ہے.جو پیغامات فوری طور پر تیار ہو سکے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، یہ زیادہ عرب دنیا کے ہی ہیں.ایک غیر احمدی خاتون یمن سے یہاں جلسہ پر آئی تھیں.وہ کہتی ہیں کہ میں اس جلسہ میں شمولیت سے بہت خوش ہوں اور بہت سے احمدی بہن بھائیوں سے ملاقات کر کے بہت خوش ہوں جنہوں نے احمدیت سے متعلق میرے ذہن سے بہت سے غلط خیالات کی اصلاح کی اور احمدیت کی صحیح اور واضح تصویر پیش کی.آپ کی غیر معمولی مہمان نوازی پر شکر واجب ہے.ہر طرح سے مہمانوں کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے کی بھر پور کوشش کی گئی.پھر ایک نو مبائع خالد صاحب ہیں، انہوں نے عکرمہ نجمی صاحب کو بتایا.( انہوں نے اس سال 11 مئی کو بیعت کی تھی.وہ کہتے ہیں کہ میں نے ٹی.وی پر جلسہ کی ساری کارروائی دیکھی ہے.ماشاء اللہ جلسہ کے انتظامات بہت اعلیٰ تھے اور کارکنان کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی.ٹی وی پر دیکھنے والے بھی محسوس کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ہاشم صاحب نے یہاں سے روانگی سے دو دن قبل مجھے بتایا.اگر کچھ عرصہ قبل بتاتے تو میں بھی ضرور اس مبارک جلسہ میں شامل ہو تا.اگلے سال میں ضرور شامل ہوں گا.پھر کہا بیر کے ایک صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نہایت فخر اور سرور کے ساتھ ہم نے جلسہ سالانہ بر طانیہ کے جملہ پروگرام دیکھے.جلسے کا نظام اور تیس ہزار کے قریب شاملین جلسہ کی بڑے سکون کے ساتھ اور بغیر کسی اکتاہٹ کے خدمت اس شہد کے چھتے کا سماں پیش کر رہی تھی جس کا کام صرف صاف شہد فراہم کرنا ہوتا ہے.پھر لکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں نے ایم.ٹی.اے العربیۃ کے ذریعے عرب دنیا کے لئے جلسہ کے جملہ پروگراموں کو نشر کرنے کیلئے جو کوششیں کی ہیں وہ قابل تعریف ہیں.پھر میری آخری تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ خطاب دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم کرنے والا اور انسانی ضمیر کو جگانے والا اور روح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ پر جھکانے والا تھا.اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا صرف اور صرف جماعت احمدیہ پر چار کر رہی ہے.پھر اسامہ جلس مالدووا سے لکھتے ہیں کہ عالمی بیعت کے وقت جب تمام خدام رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ وقت کے ہاتھ کے ساتھ ہاتھوں کی زنجیر بناتے ہوئے عہد بیعت دہراتے جا رہے تھے اُس وقت اس منظر اور ان کلمات نے دل میں کچھ ایسا جوش پیدا کر دیا کہ ہم بے اختیار ہو کر اشک آلود آنکھوں کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرانے لگے.کاش میں بھی اس مبارک موقع پر وہاں ہوتا اور ان روحانی و آسمانی برکات سے حصہ پاتا.پس اے جلسہ میں شرکت کرنے والے بھائیو! آپ سب کو تجدید عہد بیعت اور اس جلسے میں شمولیت مبارک ہو.پھر لکھتے ہیں کہ ایم.ٹی.اے کا بہت بہت شکریہ جس کے ذریعے اس جلسے میں شامل نہ ہونے والوں کو
خطبات مسرور جلد نهم 380 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء اہم امور اور خطابات اور جلسے کے ماحول سے اطلاع دی جاتی رہی.اس سیاق میں عرب ڈیسک کی کوششیں قابل ذکر ہیں جنہوں نے بھر پور کوشش کی کہ جلسے کی جملہ تصویر ہمارے تک پہنچ سکے.فجزاھم اللہ پھر شام سے یسین صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد کے موقع پر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے دلی مبارکباد پیش خدمت ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکات سے عرب دنیا کو بھی مستفیض فرمائے.تاریہ امام الزماں کی بیعت میں آکر حقیقی اسلام کو قبول کر لیں اور پھر بلادِ عربیہ میں بھی ایسے جلسہ جات منعقد ہوں جن میں ہم بھی شریک ہو سکیں اور ان ملکوں میں بھی امن وسلامتی کی فضا قائم فرمادے.ریم صاحبہ لکھتی ہیں کہ جلسہ سالانہ کی کارروائی اور کامیابی سے انعقاد کو دیکھ کر اس مبارک جماعت کارکن ہونے پر بہت فخر محسوس ہوا.مجھے لکھتی ہیں کہ میں تجدید بیعت کرتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ تمام شرائط بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی.میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اگلے سال جلسہ میں شرکت اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے.پھر شام سے ام احمد صاحبہ، کہتی ہیں جلسہ سالانہ اور عالمی بیعت کی تقریب پر مبارکباد عرض ہے.کہتی ہیں کہ میری قسمت اتنی اچھی نہیں تھی کیونکہ امسال جلسہ پر آنے کی بھر پور کوشش کے باوجود ہمیں ویزہ نہ ملا اور میں آنہ سکی لیکن میرا شوق اور محبت یہاں آنے کا اور ملنے کا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے.پھر کہتی ہیں کہ دنیا کی عورتوں کی خوشی تو شاید دنیاوی امور کے حصول سے وابستہ ہوتی ہے لیکن میری خوشی آپ کی محفل میں حضوری سے ہی عبارت ہے.لکھتی ہیں کہ نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب میں حدیقۃ المہدی کے خوبصورت روحانی رنگوں کی رِداء زیب تن کروں گی اور میری خوشیوں کی انتہا نہ رہے گی.پھر لکھتی ہیں اس روحانی مائدہ کو پیش کرنے پر بہت بہت شکریہ اور مبارکباد عرض ہے.ہم نے جلسہ سالانہ کو دیکھا اور آپ کے خطابات سے بھر پور استفادہ کیا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر آن خلافت کی نعمت کے ساتھ وابستہ رکھے اور اس کی اطاعت کی کماحقہ توفیق عطا فرمائے.پھر عرب امارات سے عبد اللطیف صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے اس مبارک موقع پر دلی مبارکباد پیش خدمت ہے جس میں لاکھوں احمدیوں کے دل محبت و ایمان اور رحمت کی نعمت سے بھر جاتے ہیں.بلاشک جلسہ سالانہ ہمتیں بلند کرنے اور نیک عادتوں کو مزید طاقت بخشنے کے لئے آیا ہے.یہ جلسہ اُن لوگوں پر غلبہ کا اعلان ہے جو خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنانور پورا کر کے رہے گا چاہے کا فر اُسے کتنا ہی نا پسند کریں.پھر یہیں سے شامل ہونے والی ایک عرب، امیمہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ سب سے پہلے تو میں آپ کو ( مجھے لکھ رہی ہیں کہ) اس غیر معمولی طور پر کامیاب جلسے کے انعقاد پر مبارکباد عرض کرنا چاہتی ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ اُس نے تمام اسباب مہیا فرمائے اور ہمیں اس عظیم الشان جلسے میں شمولیت کی توفیق بخشی.دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کے قیمتی خطابات اور ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری اولادوں کو بھی اس
381 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مبارک جماعت کے فعال کارکن اور خدام بنائے رکھے.لکھتی ہیں جس طرح ہمارے پاکستانی بھائی بے لوث خدمت کرتے ہیں اور انکساری اور صبر اور استقامت کے زیور سے آراستہ ہیں، دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہم عربوں کو بھی انہی اخلاق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے.یہ بھی اُن کی عاجزی اور کسر نفسی ہے.عرب بھی جہاں جہاں بھی اُن کے سپرد کام.کئے گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت سے اور عاجزی سے خدمات بجالا ر ہے ہیں.پھر مصر سے ایک صاحب لکھتے ہیں جو جلسہ میں شامل ہوئے تھے کہ میں اور میرے تمام ساتھی جلسہ سے بہت متاثر ہوئے.یہ عبد السلام صاحب ہیں.لکھتے ہیں کہ آپ کے آخری دن کے خطاب نے عزم صمیم اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی روح پیدا کی اور ختم نبوت پر ہمارا ایمان پختہ کیا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تمام امانتوں اور ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشے.اکرام ضیف اور مہمان نوازی کی عجیب شان تھی.یوں لگتا تھا جیسے اس تمام مقام پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات جلوہ گر ہیں.ہر طرف اخلاق عالیہ نظر آتے تھے.جس دن سے جلسہ میں حاضر ہو اہر طرف دین اسلام کی اور قرآنِ کریم اور سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی تجلیات نظر آرہی تھیں.اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی معیت محسوس ہوتی تھی جو سارے کام از خود سنوار رہے تھے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہتوں کے لئے ہدایت کا موجب بنائے.پھر مصر کی ایک نواحمدی خاتون لکھتی ہیں کہ قبل ازیں ایم.ٹی.اے پر جلسے کے بارہ میں عنا کرتی تھی.پھر وہ دن آیا جب میں خدا کے فضل سے حدیقہ المہدی پہنچ گئی جہاں خود خلیفۃ المسیح موجود تھے.عالمی بیعت کے روز ہم میاں بیوی بیعت میں شامل نہ ہو سکے کیونکہ میرے خاوند کو اس احاطے میں جانے کے لئے کارڈ نہ دیا گیا اور مجھے چھوٹے بچوں کی وجہ سے بچوں والی عورتوں کے لئے مخصوص خیمے میں جانا پڑا.لیکن وہاں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے باہر کھڑی ہو کر ٹی وی پر بیعت کا نظارہ دیکھا.اس دوران جماعت کے لئے ( مجھے لکھ رہی ہیں کہ) آپ کے لئے دعائیں کرتی رہی.اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے جماعت سے نظام کی اطاعت کا سبق سیکھا ہے.چنانچہ ایک لفظ بھی زبان پر لائے بغیر اطاعت نظام کرتی ہوئی خاموشی سے بچوں کو لے کر باہر چلی گئی.جہاں تک نظم و ضبط کا تعلق ہے تو اس کا انتظام کرنے والوں کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.آپ نے ہمیں مہمان نوازی اور اُن کے استقبال کے طریق سکھائے.ہر کام کرنے والے کے چہرے کی مسکراہٹ سے اُن کے اخلاص کا پتہ چلتا تھا.گویا یہ مہمان اُن کے گھر کے افراد ہوں.کہتی ہیں کہ میرے بچے بالعموم اپنے والد کے ساتھ جلسہ گاہ میں ہوتے تھے جو کبھی سو جاتے تھے اور پھر نعروں کی آواز سُن کر جاگ جاتے اور بے اختیار نعرے لگانے لگتے.دعا کریں کہ ہمیں ہر سال جلسہ میں شرکت کی توفیق عطا ہو.کیونکہ اب ہم نے ایک دفعہ جلسہ دیکھ لیا ہے تو اسے مس (Miss) نہیں کر سکتے.پھر مراکش کے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد عرض ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ وقت جلد لائے جب اگلے جلسے مکۃ المکرمہ میں منعقد ہوں اور ہم رُکن و مقام کے مابین عالمی بیعت کے نظارے دیکھیں.تو یہ چند تاثرات ہیں جو چند عربوں کے ہیں، باقیوں کے تو تحریر میں نہیں آئے.اس مرتبہ امریکہ کے کافی لوگ یہاں آئے ہوئے تھے جو جلسہ میں شامل ہوئے.تیس سے زائد تو مقامی امریکن احمدی شامل ہوئے تھے.
382 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء میرے ساتھ جب اُن کی ملاقات تھی تو اس میں وہ لوگ جو جلسہ پر شامل ہوئے شکر اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات سے لبریز تھے.پھر جماعت اور خلافت سے وابستگی پر اُن کے جذبات نا قابل بیان تھے.وہ جذبات سے اتنے مغلوب تھے کہ اُن کے لئے بات کرنا بھی مشکل تھا.خلافت کی محبت، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، محض اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے اُن کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ اُن سب کے ایمان وایقان کو مزید بڑھائے.امریکن احمدیوں کے دلوں میں یا عربوں میں یا دوسرے احمدیوں کے دلوں میں جو جلسے میں شامل ہوئے ، جلسہ نے جو انقلاب پیدا کیا ہے یہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں دکھانے والا ہو.جیسا کہ میں نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ ایم.ٹی.اے نے دنیائے احمدیت کو ایک کرنے اور جلسوں اور دوسرے پروگراموں کو دکھانے میں جو کردار ادا کیا ہے اور کر رہا ہے اس سے تمام دنیا کے احمدی ایم.ٹی.اے کے کارکنوں کے بہت شکر گزار ہیں.اس مرتبہ جلسہ کے دنوں میں وقفوں کے دوران جو مختلف پروگرام دکھائے گئے ، ایم.ٹی.اے نے اس دفعہ پیٹرن (Pattern) بھی بدلا تھا اور پریزنٹر (Presenter) کے طور پر جو نئے نوجوان چہرے آئے اُسے دنیائے احمدیت میں بہت پسند کیا گیا.ہمارے پروگرام تو دنیا کو حقیقت سے آشکار کرنے اور تصنع سے پاک ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں.جبکہ دوسرے چینلوں کا خیال ہوتا ہے کہ سکرین پر آنے والا پہلے میک اپ کر کے آئے ، بات کرے تو تصنع اور بناوٹ ہو ، پھر جو پروگرام ہوتے ہیں اُس میں ہر ایک جھوٹ کے ذریعے سے اپنا نکتہ نظر بیان کر رہا ہوتا ہے یا جھوٹے پروگرام یا ڈرامے ہوتے ہیں.آج اللہ تعالی کے فضل سے ایم.ٹی.اے ہے جو چوبیس گھنٹے ان فضولیات سے پاک ہے.ہمارے پریزنٹر بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک اور اخلاص و وفا سے پر ہوتے ہیں.یہی اخلاص و و فاجب دنیا سکرین پر دیکھتی ہے تو تعریف کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب پروگرام پیش کر نیوالوں اور پروگراموں میں شامل ہو نیوالوں، مختلف پروگرام تیار کرنے والوں اور دکھانے والوں کو جز اعطا فرمائے.میں اپنی طرف سے بھی اور تمام دنیائے احمدیت کی طرف سے بھی ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ایم.ٹی.اے میں کام کرنے والے ان مردو خواتین کو اخلاص و وفا میں بڑھاتا رہے.جب اپنے بارہ میں تعریفی کلمات سنیں تو ان کارکنان اور کارکنات کو بھی اس میں مزید عاجزی دکھاتے ہوئے اور شکر کے مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید عاجزی سے جھکنا چاہئے ، یہ ہر ایک مومن کا فرض ہے، تبھی اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرے گا.عموماً اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان اور کارکنات اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ جلسے کی ہر ڈیوٹی کو سر انجام دیتے ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا، پہلے بھی ہر سال میں ذکر کر تا رہا ہوں.اس مرتبہ بھی واقفین نو کارکنان اور کار کنات کو بعض اہم ڈیوٹیاں سونپی گئی تھیں، اُنہوں نے بھی بہت ذمہ داری اور اخلاص سے نمایاں ہو کر اپنے فرائض ادا کئے ہیں اور جو بھی مختلف کام دیا گیا تھا اس پر ان کے انچارج کی طرف سے مجھے اچھی رپورٹس ملیں.اللہ تعالی ہمیشہ انہیں اپنے وقف کی روح کو قائم رکھتے ہوئے یہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما تار ہے.
383 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مجھے جرمنی کے جلسے کے بعد کسی نے لکھا تھا کہ میں نے جرمنی کے جلسہ میں شمولیت کی اور وہاں لجنہ کے ہال میں یہ بات بہت اچھی لگی کہ بغیر کسی کو خاموش کروائے یا خاموش کروانے کی ڈیوٹی والیوں کے عورتیں خاموشی سے جلسے کی کارروائی سن رہی تھیں اور اسی مضمون کا خط مجھے امریکہ سے بھی آیا کہ یہاں جلسہ میں پہلی مرتبہ شامل ہوئی ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ یہاں یو.کے کے جلسہ کی طرح عورتوں کو خاموش کروانے کے لئے مختلف جگہوں پر بورڈ اُٹھائے ہوئے یا کارڈ اُٹھائے ہوئے کارکنات کھڑی نہیں ہوتیں بلکہ خود بخود عور تیں ڈسپلن سے بیٹھی ہیں اور خاموش ہیں.یہ ڈسپلن یو.کے میں بھی ہونا چاہئے.تو جیسا کہ جرمنی اور امریکہ کے بارہ میں انہوں نے لکھا تھا تو میں نے یہ خط پڑھ کر اس پر زیادہ توجہ تو نہیں دی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ لکھنے والوں نے یو.کے لجنہ کی کمزوریوں پر کچھ زیادہ ہی مبالغہ کیا ہے.لیکن جلسہ پر مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کم از کم میری تقریر کے دوران مجھے کارڈ اُٹھائے کوئی ایسی کار کن نظر نہیں آئی اور اس کے باوجود خاموشی کا معیار بہت بلند تھا اور بڑے غور سے تقریر کو سننے کی طرف توجہ تھی.اور مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ عام طور پر بھی لجنہ نے بہت خاموشی سے جلسے کی کارروائی سنی تھی اور کسی بھی قسم کی کوئی ڈسٹر بنس (Disturbance) نہیں ہوئی.پس اس لحاظ سے جلسہ میں شامل ہونے والی جو خواتین ہیں ان کا بھی کار کنات کو شکر ادا کرنا چاہئے اور جو شامل ہونے والیاں ہیں اُن کی بھی شکر گزاری یہ ہے کہ آئندہ اس سے بھی بڑھ کر اپنے ڈسپلن کا اظہار کریں اور جلسے کی برکات کو سمیٹنے کی کوشش کریں اور پھر ہمیشہ انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکم اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ عورتوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.یہی چیز ہے جو آپ کو حقیقی شکر گزار بنانے والی ہو گی.ایک غیر نے کام کرنے والے ایک کارکن کے جذبات کا اظہار جو مجھے بتایا وہ آپ کو بھی سنا دیتا ہوں.سویڈن سے آئے ہوئے جو ایک ہمارے کالمار، وہاں کے شہر کے میئر تھے وہ مجھے کہنے لگے کہ ایک کار کن جو کسی شعبہ کے ناظم تھے، وہ مجھے نظارہ دکھانے کے لئے اونچی جگہ پر لے گئے، جہاں سے تمام جلسہ کا جو دلیج ہے وہ نظر آتا تھا.جو بھی مارکیاں وغیرہ لگی ہوئی تھیں سڑکیں وغیرہ ہر چیز نظر آتی تھی.تو وہ کارکن ان کو بڑے جذباتی انداز میں یہ کہنے لگا کہ یہ خوبصورت نظارہ جو آپ دیکھ رہے ہیں اس کو کھڑا کرتے ہوئے جس میں میں بھی شامل تھا ہمیں دو ہفتے لگے ہیں اور ایک ہفتے کے بعد اس کو ہم صاف کر دیں گے اور یہاں صرف میدان ہو گا.اس بات کو کہتے ہوئے وہ کارکن بڑے جذباتی ہو گئے.تو جو محنت سے کام کر رہے ہوتے ہیں، اُن کے اپنے جذبات ہوتے ہیں جس کا اظہار وہ کرتے رہتے ہیں.بہر حال یہ تو ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ جس حد تک ہمیں اجازت ہے اس حد تک ہی ہم اُس جگہ کو آباد کر سکتے ہیں اور یہ ہر سال اسی طرح ہوتا ہے کہ آبادی بھی ہوتی ہے اور پھر اُس کے بعد اُس سب کچھ کو وہاں سے اُٹھا بھی لیا جاتا ہے.اور یہ کارکنان جو ہیں یہ بڑی محنت سے مار کیاں لگانے کا کام ، اس سارے نظام کو قائم کرنے کا کام اور پھر وہاں سے اُس کو وائنڈ آپ کرنے کا کام کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.شامل ہونے والوں کی بھی شکر گزاری ہے کہ ان کو جہاں یہ شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو
384 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جولائی 2011ء خطبات مسرور جلد نهم شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی وہاں اُن کو کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے اُن کے لئے سہولیات مہیا کیں اور کارکنان بھی شکر گزار ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت کا موقع مہیا فرمایا اور دونوں کا مقصد ایک تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ اپنے رب کے حضور جھکائے رکھے ، اپنے حضور جھکائے رکھے.اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہمیشہ ہمارا مقصد رہے.ہم حقیقی اور بچے احمدی مسلمان بننے والے ہوں.دنیا میں اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے والے ہوں.تبھی ہم امام الزمان کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کر کے حقیقی شکر گزار بن سکتے ہیں.اس کے حصول کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو بھی سامنے رکھنا چاہئے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ”اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ“.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ( ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 615 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حقیقی ایمان کی روح پھونکے جو اس سلسلہ کے ذریعے سے اُس نے چاہا ہے.“ ( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 499 مطبوعہ ربوہ) پس جیسا کہ شروع میں میں نے کہا تھا کہ جلسہ کا اصل مقصد پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 19 اگست تا 25 اگست 2011ء جلد 18 شماره 33 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 385 31 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء تلاوت فرمائی: خطبہ جمعہ فرموده 05 اگست 2011ء بمطابق 05 ظهور 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: 28،27) ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ ہر چیز جو اس پر ہے ( یعنی زمین پر ہے یا کائنات میں ہے) فانی ہے اور باقی رہنے والا صرف تیرے رب کا جاہ واکرام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ”ہر یک چیز فنا ہونے والی ہے اور ایک ذات تیرے رب کی رہ جائے گی“.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ہر ایک چیز کیلئے بجز اپنی ذات کے موت ضروری ٹھہرادی“.ست بیچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 231) (چشمیر معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 165) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے علاوہ ہر چیز کے لئے موت ضروری ٹھہرادی ہے.پھر اپنے ایک شعری کلام میں جو آپ نے ، محمود کی آمین، کے نام سے منظوم فرمایا.یہ نظم آپ نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سید نا محمود مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمین پر لکھی تھی جو دعائیہ اشعار اور نصائح سے پر نظم ہے.ان اشعار میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان دعاؤں اور نصائح میں دوسرے دو بیٹوں کو بھی شامل فرمایا بلکہ پوری جماعت ہی اس میں شامل ہے.یہ لمبی نظم ہے.اس میں ایک جگہ دنیا کے عارضی ہونے اور اس سے بے رغبتی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.”دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے پھر آگے ایک مصرعہ ہے کہ
خطبات مسرور جلد نهم 386 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء موقعہ پر شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے“ ( محمود کی آمین، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 323) پس وہ امام الزمان جو اس زمانہ میں بندے کو خدا سے قریب کرنے آئے تھے وہ اپنی اولاد کی خوشی کے بھی اپنی اولاد کو بھی ، اپنی نسل کو بھی اور اپنی جماعت کو بھی اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ ہماری حقیقی خوشی اپنے خدا سے تعلق پیدا کرنے اور اُس کی رضا کے حصول میں ہے.دنیا خوشیاں مناتی ہے تو عجیب و غریب قسم کی بدعات کو فروغ دیتی ہے، لغویات میں پڑتی ہے، دنیاوی دکھاووں کے لئے خوشیاں منائی جارہی ہوتی ہیں لیکن آپ نے یہ سبق دیا کہ ہماری تمام تر توجہات کیونکہ خدا کی طرف ہونی چاہئیں اس لئے ہمارے ہر عمل یا اعمال خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہوں.اور جب اس چیز کا ادراک پیدا ہو جائے گا تو ہماری غمی اور خوشی کے دھارے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی طرف بہہ رہے ہوں گے.آپ علیہ السلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے لئے آئے تھے ، آپ کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کی بات ہو سکتی تھی کہ آپ کی اولاد اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب جو قرآنِ کریم کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری اُسے پڑھنے والے اور اُس پر عمل کرنے والے ہوں.پس جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کا پہلا دور مکمل فرمایا تو آپ نے ایک دعوت کا اہتمام فرمایا اور اس تقریب کے لئے خاص طور پر یہ نظم لکھی جس کا ہر شعر جیسا کہ میں نے کہا پُر درد دعاؤں، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نصائح سے پر ہے.اس خوشی پر بھی آپ نے اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اپنی اولاد اور متبعین کو یہ توجہ دلائی کہ دنیا اور دنیا والوں سے دل نہ لگانا.خدا کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ یہی زندگی کا مقصد ہے.ایک وقت آئے گا جب دنیا اور اس کی تمام چیزیں یہیں رہ جائیں گی اور انسان اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا.فرماتے ہیں:."شکوہ کی کچھ نہیں جایہ گھر ہی بے بقا ہے“ ( محمود کی آمین ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 323 ) پس جب یہ دنیا اور اُس کی چیزیں باقی رہنے والی نہیں تو پھر اس سے دل لگانا بھی بے فائدہ ہے.پھر شکوہ کیسا؟ اگر ہمیشہ کا فائدہ حاصل کرنا ہے تو اُس ہستی سے تعلق جوڑ کر حاصل کیا جا سکتا ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور ہمیشہ رہنے والی ذات خدائے ذوالجلال والاکرام کی ذات ہے.پس یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے دو اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.پہلی بات تو یہ کہ ہر چیز میں زوال ہے.آہستہ آہستہ اُس نے ختم ہونا ہے اور ہر انسان کی آخری منزل موت ہے لیکن پھر ساتھ ہی اس طرف بھی توجہ دلائی، دوسری بات یہ کہی کہ مومنوں کو ، ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرنے والوں کو یہ بھی
387 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اُمید رکھنی چاہئے کہ جو بندے اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں، اُس کی تلاش میں رہتے ہیں، اپنی نسلوں کی نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے تربیت کرتے ہیں، اپنی روحانیت بڑھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، قرآنی تعلیمات کے پابند رہنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس زندگی سے جو دنیاوی زندگی ہے، اس سے تو بیشک گزر جاتے ہیں یا ان کی یہ زندگی تو ختم ہو جاتی ہے لیکن ایک اور زندگی جو دائمی زندگی ہے جو اس دنیاوی زندگی سے جانے کے بعد انسان کو ملتی ہے اُس کو پالیتے ہیں، اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں آجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیار بھری آواز سنتے ہیں کہ فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِى ( الفجر : 31-30).پس آاور میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا.اور آ اور میری جنت میں داخل ہو جا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس زمانے میں اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ بندے کو خدا سے ملائیں.اُسے فَادْخُلی فی عبدی کا مضمون سمجھائیں تا کہ اُسے دائمی جنتوں اور دائمی زندگی کا وارث بنائیں.اس نظم میں جو خوشی کے موقع پر لکھی گئی، اس مضمون کا اظہار فرمایا کہ دائمی زندگی کی تلاش کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ کو پائے بغیر زندگی نہیں مل سکتی.خدا تعالیٰ کو حاصل کئے بغیر یہ دائمی زندگی نہیں مل سکتی.قرآن کریم میں سورۃ فصص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكُ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُلْمُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: 89) اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی معبود کو مت پکار.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.ہر ایک چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے جس کی طرف اُس کی توجہ ہو ( یعنی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہو.وہی بچنے والی چیز ہے.باقی سب ہلاک ہونے والی چیزیں ہیں) حکم اُسی کے اختیار میں ہے اور اُسی کی طرف سب کا لوٹنا ہے..پس یہ مضمون ہے جو ہمیں یاد رکھنا ہے.یہ وہ طریق ہے جسے ہم نے اپنانے کی کوشش کرنی ہے.یہ وہ مقصود ہے جسے ہم نے حاصل کرنا ہے کہ یہی ہماری پیدائش کا مقصد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57) کہ ہم نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں.پس یہ عبادت کا مفہوم اس وقت سمجھ آئے گا، اُس وقت اس پر عمل کی کوشش ہو گی جب انسان اس یقین پر قائم ہو گا کہ لَا اِلهَ اِلَّا هُوَ کہ اُس یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تمام چیزیں ہلاک ہونے والی اور فناء ہونے والی ہیں سوائے اس کے جس کی طرف اللہ کی توجہ ہو.اور اللہ تعالیٰ اُن کی طرف توجہ کرتا ہے جو نیک نیتی سے اُس کی عبادت کی کوشش کرتے ہیں.اُسے ایک مانتے ہوئے اُس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جب عبادت کے طریق بتائے ہیں، تو عبادت کے ان معیاروں کو حاصل کرنے اور انہیں صیقل کرنے کے لئے مختلف مواقع بھی پیدا فرمائے ہیں.یہ رمضان المبارک جس میں سے ہم گزر رہے ہیں یہ بھی ہر سال اس لئے آتا ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کر کے اپنے آپ کو ہلاکت سے بچائیں.اپنی نیکیوں کے معیاروں کو بڑھائیں.اپنی روحانیت کے معیار اونچے کریں.پس خوش قسمت ہیں وہ جو ان مواقع سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی ادائیگی کے لئے اس کا عبد بننے کے لئے تمام سال کوشاں رہتے ہیں.اور مستقل مزاجی سے
388 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے وہی کوشاں رہتے ہیں، وہی کوشش کرتے ہیں جو اس بات کو بھی سامنے رکھتے ہیں کہ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكُ اور صرف ایک ہستی ہے جس کو نہ زوال ہے، نہ موت ہے.اور ہم نے مرنے کے بعد اُس کے حضور حاضر ہونا ہے جہاں ہمارے عملوں کا حساب ہو گا.پس كُلُّ شَيْءٍ هَالِك میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ بیشک موت برحق ہے، اس سے تو کوئی فرار نہیں.کوئی انسان نہیں جو موت سے بچ سکے.لیکن جو لوگ وجہ اللہ میں محو ہو جاتے ہیں وہ نئی زندگی حاصل کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں آجاتے ہیں.یہاں پھر میں واپس اسی مضمون کی طرف جاتا ہوں کہ وجہ اللہ میں محو ہونے والے کون لوگ ہیں ؟ وہ وہی لوگ ہیں جو اپنے مقصد پیدائش کو پہنچانے والے ہیں.اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہیں.پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس دنیا میں، اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس مضمون کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ رمضان ہمیں اس مقصد کے قریب تر کرنے والا ہو جو ہمارے بزرگوں نے جو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی.اُس پر چلنے کے لئے جو دعائیں اور کوششیں کی تھیں، نئی نسل میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ہم بھی اپنی حالتوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.جب کوئی اپنا پیارا اور بزرگ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس مضمون کی طرف مزید توجہ پیدا ہوتی ہے اور یقینا ہر اُس شخص کو اس مضمون کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے جس کو خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین ہے.گزشتہ دنوں میری والدہ کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.میں جب بھی اُن کی زندگی پر غور کرتا ہوں، اُن کی عبادت کے معیار مجھے نمونہ نظر آتے ہیں.اُن کا قرآنِ کریم پر غور کرتے ہوئے گھنٹوں پڑھنا مجھے نمونہ نظر آتا ہے.اُن کی نمازوں میں انہماک اور مغرب کو عشاء سے جوڑنا اور پھر عشاء گھنٹوں لمبی چلنا، وہ میرے سامنے ایک نمونہ ہے.میری والدہ وہ تھیں جنہوں نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تو نہیں دیکھا لیکن ابتدائی زمانہ دیکھا.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیار اور دعائیں حاصل کیں.صحابہ اور صحابیات سے فیض پایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب کے زمانے کے زیر اثر اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی اور بچوں میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے براہ راست فیض یاب ہونے والوں کی صحبت کا اثر اُن میں نمایاں تھا.آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، بول چال، رکھ رکھاؤ میں ایک وقار تھا اور وقار بھی ایسا جو مومن میں نظر آنا چاہئے.خدا تعالیٰ سے کو لگانے کی ایک تڑپ تھی.اس تڑپ کا اظہار آپ نے اپنے شعروں میں بھی کیا ہے.میں یقینا جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کی نمازوں میں انہاک کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے شعر وادیوں میں بھٹکنے والے شاعروں کی زبان دانی اور سطحی الفاظ نہیں تھے بلکہ دل کی آواز تھی.ایک نظم ہے، اس کے چند شعر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں کہ.
خطبات مسرور جلد نهم 389 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء محبت بھی، رحمت بھی، بخشش بھی تیری میں ہر آن تیری رضا چاہتی ہوں اطاعت میں اُس کی سبھی کچھ ہی کھو کر میں مالک کا بس آسرا چاہتی ہوں میرے خانہ دل میں بس تو ہی تو ہو میں رحمت کی تیری رداء چاہتی ہوں ایک مرتبہ ایک جنازہ گزر رہا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ وہاں کھڑے تھے، صحابہ نے اُس مرنے والے کی تعریف کی تو آپ صلی لی ہم نے فرما یا واجب ہو گئی.بعد میں یہ پوچھنے پر کہ کیا واجب ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا.جنت واجب ہو گئی ( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی المتین حدیث نمبر 1367) کیونکہ جس کی نیکیوں کی لوگ تعریف کریں اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.میری والدہ کی وفات پر جو بیشمار تعزیتی خطوط آرہے ہیں اور جن سے اُن کا براہِ راست واسطہ پڑتارہا، سب ہی اُن کے مختلف اوصاف کی تعریف لکھ رہے ہیں.پس مختلف لوگوں کے یہ خطوط اور جو میں نے انہیں دیکھا ہے اس سے امید ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس دعا کو کہ میں رحمت کی تیری رِداء چاہتی ہوں ، قبول کرتے ہوئے اپنی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لیا ہو گا.اے میرے پیارے خدا! تو میری والدہ سے وہ سلوک فرما جو اُس نے اپنی اس دعا میں تجھ سے چاہا اور ہم جو اُن کی اولاد ہیں ہمیں بھی اس مضمون کو سمجھنے والا بنا.ہمیں بھی اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹے رکھنا اور ہم کبھی اُن توقعات سے دور جانے والے نہ ہوں جو آپ نے اپنی اولاد سے کیں.بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کی آئندہ نسلوں کو بھی اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرمائے.آپ کے متعلق مختصر البعض باتوں کا بھی ذکر کر دیتا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا آپ حضرت مصلح موعودؓ کی سب سے بڑی بیٹی اور بچوں میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے بعد دوسرے نمبر پر تھیں.آپ حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ جو حضرت ام ناصر کے نام سے جانی جاتی ہیں اُن کے بطن سے اکتوبر 1911ء میں پیدا ہوئیں.حضرت اُم ناصر سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح کا واقعہ بھی مختصر بیان کر دیتا ہوں.یہ نکاح 1902ء میں ہوا.حضرت اُمّم ناصر سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں.حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب وہ ہیں جن کی مالی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اب یہ مالی قربانیاں نہ بھی کریں تو جو کر چکے ہیں وہ بھی بہت ہیں.(ماخوذ از تقاریر جلسہ سالانہ 1926ء انوار العلوم جلد 9 صفحہ 403) لیکن بہر حال وہ پھر بھی آخر دم تک مالی قربانیاں کرتے رہے.1902ء میں نکاح ہوا تھا.اکتوبر 1903ء میں شادی ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب حضرت ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ تجویز کیا، اس کی تحریک فرمائی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کو لکھا کہ ”اس رشتہ پر محمود
خطبات مسرور جلد نهم 390 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء بھی راضی معلوم ہوتا ہے اور گوا بھی الہامی طور پر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں...مگر محمود کی رضامندی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالباً واللہ اعلم جناب الہی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہو گا.“ تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه 45 مطبوعہ ربوہ) یقینا یہ رشتہ جناب الہی کی رضامندی سے تھا کہ آپ کے سب سے بڑے بیٹے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی رِداء پہنائی.میری والدہ کا نکاح 2 جولائی 1934ء کو میرے والد حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ساتھ ہو ا جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے بیٹے تھے اور ساتھ ہی حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا بھی نکاح ہوا.اس موقع پر حضرت خلیفہ المسح الثانی نے مسجد اقصیٰ قادیان میں ایک لمبا خطبہ ارشاد فرمایا.ان ہر دو نکاح میں پہلا نکاح حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث کا اور دوسرا جیسا کہ میں نے کہا میرے والد ، والدہ کا تھا.یہاں اُس خطبہ کے بعض حصے خاص طور پر بیان کر دیتا ہوں.عام طور پر تو پوری جماعت کے لئے ہے، لیکن خاص طور پر خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد کے لئے کہ اس کوشن کر ان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور میری والدہ جو ہمیشہ اپنوں اور غیروں کی تربیت کے لئے کوشاں رہیں، اُن کے اعلیٰ معیار کے لئے کوشاں رہیں اُن کو بھی اس کا ثواب مل جائے کہ اُن کی وفات کی وجہ سے میری اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ : " وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: 4) سے مراد ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل.آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر اُس وقت ایسا شخص مبعوث ہو چکا ہو جسے میر اوجود کہا جاسکے تو وہ اس دجال کا مقابلہ کرے گا ور نہ سوائے اس کے اور کوئی صورت نہ ہو گی کہ مسلمان اس دجال سے لڑ کر مر جائیں.اس عظیم الشان فتنہ کے مقابلہ کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی کی ہے یا یوں کہنا چاہتے کہ اپیل کی ہے کہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ جب یہ فتنہ عظیم پیدا ہو گا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو تمام قسم کے خطرات اور مصائب کو برداشت کرتے ہوئے پھر دنیا میں ایمان قائم کر دیں گے.“ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : ”میں سمجھتا ہوں یہ خالی پیشگوئی ہی نہیں بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک آرزو ہے.ایک خواہش ہے.ایک امید ہے.اور یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ خدا کار سول ابنائے فارس سے کیا چاہتا ہے ؟ اس فتنہ سے خطرات کے لحاظ سے بہت کم، نتائج کے لحاظ سے بہت کم ، زمانہ اور اثرات کے لحاظ سے بہت کم، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی فتنہ اُٹھا.صحابہ نے اُس وقت جو نمونہ دکھایا وہ تاریخ کی کتابوں میں آج تک لکھا ہے“.( اور پھر آپ نے اُس کی تفصیل بیان فرمائی کہ صحابہ نے کیا نمونہ دکھایا، کس طرح اُنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں.پھر حضرت مصلح موعودؓ آگے جا کر اُس جنگ کا ذکر کرتے ہیں جو فتح مکہ کے بعد ہوئی اور جس میں نو مسلم بھی شامل ہوئے تھے اور اُن کو اپنی تعداد پر بڑاز عم اور بھروسہ تھا، اُس پر تکبر کر رہے تھے لیکن کفار کے تیروں کی جب بارش پڑی ہے تو اس کے آگے ٹھہر نہ سکے اور اُن نو مبائعین کی کمزوری ایمان کی وجہ
391 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سے یا ٹرینگ نہ ہونے کی وجہ سے جب اُن سب کے گھوڑے پر کے ہیں تو انہوں نے جو پرانے صحابہ تھے اُن کی صفوں میں بھی بے ترتیبی پیدا کر دی، کھلبلی مچادی، جس کی وجہ سے اُن کے گھوڑے بھی بد کنے لگے.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف دس بارہ صحابہ رہ گئے.تب صحابہ کو بلکہ خاص طور پر انصار ہے.کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو کہہ کر یہ اعلان کروایا کہ انصار ! خدا کار سول تمہیں بلاتا ہے اُس وقت جب ان سب کے گھوڑے بدک رہے تھے اور باوجود موڑنے کے نہیں مڑ رہے تھے ، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اتنی زور سے اُس کی لگا میں کھینچتے تھے کہ اُن کی گردنیں مڑ کے پیچھے لگ جاتی تھیں لیکن اُس کے باوجو د جب ڈھیلی چھوڑو پھر گھوڑے واپسی کی طرف دوڑتے تھے تو اس وقت جب یہ اعلان ہوا کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارے جسموں میں ایک بجلی سی دوڑ گئی ہے.سواریوں کو قابو کرنے کی کوشش کی تو پھر بھی نہیں مڑتی تھیں، کسی کی سواری مرسکی تو سواری پر چڑھ کر ورنہ پھر اس آواز کے بعد اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کی گرد نہیں اُڑاتے ہوئے ، اُن کی گردنیں کاٹ کر اور وہیں اُن کو گرا کے پیدل ہی چند منٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر جمع ہو گئے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس آواز سے زیادہ شان کے ساتھ ، اُس آواز سے زیادہ یقین کے ساتھ ، اُس آواز سے زیادہ اعتماد کے ساتھ ، اُس آواز سے زیادہ محبت کے ساتھ ، اُس آواز سے زیادہ اُمید کے ساتھ خدا کے رسول صلی اللہ ہم نے تیرہ سو سال پہلے کہا تھا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِّنْ أَبْنَاءِ الفارس وہ وقت جب میری اُمت پر آئے گا کہ جب اسلام مٹ جائے گا، جب دجال کا فتنہ روئے زمین پر غالب آ جائے گا، جب ایمان مفقود ہو جائے گا، جب رات کو انسان مومن ہو گا اور صبح کا فر ، صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر، اُس وقت میں اُمید کرتا ہوں کہ اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو پھر اس آواز پر جو میری طرف سے بلند ہوئی ہے لبیک کہیں گے.پھر ایمان کو ثریا سے واپس لائیں گے.ان الفاظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالی رَجُلٌ نہیں کہا بلکہ رجال کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اشاعت اسلام کی ذمہ داری رجل فارس پر ہی ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ اس کی اولاد پر بھی وہی ذمہ داری عائد ہو گی اور اُن سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کی اُمید رکھتے ہیں جس کی امید آپ نے رجل فارس سے کی.یہ وہ آواز ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناامیدی کی تصویر کھینچنے کے بعد جس سے صحابہ کے رنگ اُڑ گئے اور اُن کے دل دھڑکنے لگ گئے تھے اُن کے دلوں کو ڈھارس دینے کے لئے بلند کی.اور یہ وہ امید و اعتماد ہے جس کا آپ نے ابنائے فارس کے متعلق اظہار کیا“.فرماتے ہیں کہ ”میں آج اس امانت اور ذمہ داری کو ادا کرتا ہوں اور آج ان تمام افراد کو جو رجل فارس کی اولاد میں سے ہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام پہنچاتا ہوں.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت اُمید ظاہر کی ہے کہ لَنَالَهُ رِجَالٌ مِّنْ فَارس اور یقین ظاہر کیا ہے کہ اس فارسی النسل موعود کی اولاد دنیا کی لالچوں، حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام
392 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا جھنڈ ابلند کیا جائے.ایمان کو ثریا سے واپس لایا جائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے، یہ امید ہے جو خدا کے رسول نے کی.اب میں اُن پر چھوڑتا ہوں وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں.خواہ میری اولاد ہو یا میرے بھائیوں کی ، وہ اپنے دلوں میں غور کر کے اپنے فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد اُن پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.“ (خطبات محمود (خطبات نکاح) جلد سوم صفحہ 342تا345) اللہ کرے کہ ہم جو اُس رجل فارس سے منسوب ہونے والے ہیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس درد بھرے پیغام کو سمجھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنے والے ہوں.ہماری اولا دیں اس کی ذمہ داری ادا کرنے والی ہوں.ہمارے خاندان کی جو بزرگ ہستی ہم سے جدا ہوئی ہے اُس کا جدا ہونا خاندان کے افراد کو خصوصاً اور افراد جماعت کو عموما اس اہم فریضے کی طرف توجہ دلانے والا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے سپرد فرمایا ہے جس کا اظہار کئی بار مختلف موقعوں پر آپ نے فرمایا کہ میں جماعت کے کیا معیار دیکھنا چاہتا ہوں.اپنی والدہ کی زندگی کے متفرق واقعات کا بھی میں ذکر کرتا ہوں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی دنیاوی اور دینی تعلیم پر اس وقت کے حالات کے مطابق زور دیا، آپ کو پڑھایا، آپ کو ایف.اے تک تعلیم دلوائی، پھر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت سیدۃ امتہ الحئی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی وفات پر اظہار فرمایا تھا کہ میرے ذہن میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق ایک سکیم آئی ہے اس کا عملی اظہار 17 مارچ 1925ء کو ہوا جب ایک مدرسہ کھولا گیا اور میری والدہ بھی اس مدرسہ کی ابتدائی طالبات میں سے تھیں.1929ء میں اس مدرسے کی کل سات خواتین نے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور سب کامیاب رہیں جن میں آپ بھی شامل تھیں.(ماخوذ از تاریخ لجنہ اماء اللہ.جلد اول صفحہ 166 تا 170) (الفضل 13 مئی 1927ء جلد 14 نمبر 89 صفحہ 9،10) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے بچوں کی آمین پر بھی ایک نظم لکھی جو دعاؤں سے پر ہے.بعض بڑے بچوں کا اس میں ذکر فرمایا.میری والدہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا بھی اُس میں ذکر فرمایا.اُن کے ذکر میں فرماتے ہیں کہ وہ میری ناصرہ وہ نیک اختر عقیلہ باسعادت پاک جو ہر الفضل نمبر 3 جلد 19، مورخہ 7 جولائی 1931ء صفحہ 2 و کلام محمود مع فرہنگ صفحه 206 مطبوعہ قادیان 2008) یہ خصوصیات صرف باپ کے پیار کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نظر نہیں آئیں بلکہ میری والدہ کے ساتھ کام کرنے والیاں لجنہ اماءاللہ کی بہت ساری ممبرات ہیں، جنہوں نے لمبا عرصہ اُن کے
393 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ساتھ کام کیا ہے، وہ بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں.اُن کے ساتھ ایک کام کرنے والی پرانی صدر نے لکھا کہ لجنہ کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا.اس کے لئے نئے سے نئے طریق سوچتی تھیں.نئی تدابیر اختیار کرتی تھیں، ہمیں بتاتی تھیں.یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی ہر بچی اور ہر عورت تربیت کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی ہو.کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اگر پردہ کے معیار کو گرا ہوا دیکھا تو سڑک پر چلنے والی کو ، عورت ہو یا لڑکی یا لڑکیوں کو اس طرح چلتے دیکھا جو کہ احمدی لڑکی کے وقار کے خلاف ہے تو وہیں پیار سے اُس کے پاس جا کر اسے سمجھانے کی کوشش کر تھیں.بتائیں کہ ایک احمدی بچی کے وقار کا معیار کیا ہونا چاہئے.پردے کے ضمن میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک تقریر کا ایک حصہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا.1982ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کی خلافت کا جو پہلا جلسہ تھا اس پر لجنہ کے جلسہ گاہ میں آپ نے جو تقریر فرمائی، اس میں پردے کا بھی ذکر فرمایا.اس ضمن میں ہماری والدہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”ہماری ایک باجی جان ہیں، اُن کا شروع سے ہی پردہ میں سختی کی طرف رجحان رہا ہے، کیونکہ حضرت مصلح موعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی تربیت میں جو پہلی نسل ہے اُن میں سے وہ ہیں.جو گھر میں مصلح موعودؓ کو اُنہوں نے کرتے دیکھا جس طرح بچیوں کو باہر نکالتے دیکھا ایسا اُن کی فطرت میں رچ چکا ہے کہ وہ اس عادت سے ہٹ ہی نہیں سکتیں.ان کے متعلق بعض ہماری بچیوں کا خیال ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو.پاگل ہو گئے ہیں، پرانے وقتوں کے لوگ ہیں.ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں.لیکن اگلے وقت کونسے ؟ میں تو ان اگلے وقتوں کو جانتا ہوں، ( فرماتے ہیں کہ) میں تو ان اگلے وقتوں کو جانتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے وقت ہیں.اس لئے ان کو اگر اگلے وقتوں کا کہہ کر کسی نے کچھ کہنا ہے تو اُس کی مرضی ہے وہ جانے اور خد اکا معاملہ جانے ، لیکن یہ جو میری بہن ہیں واقعہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس بات پر سختی کرتی تھیں.“ (خطاب حضرت خلیفة المسیح الرابع بر موقع جلسہ سالانہ مستورات فرمودہ 27 دسمبر 1982ء.بحوالہ الازھار لذوات الخمار جلد دوم حصہ اول صفحہ 8) پھر جب لمبا عرصہ لجنہ کی صدر رہی ہیں تو یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی پوزیشن ہمیشہ پاکستان کی تمام مجالس میں نمایاں رہے، اس کے لئے بھر پور کوشش کرتی تھیں.صرف نمبر لینے کے لئے نہیں، جس طرح کہ بعض صدرات کا یا ذیلی تنظیموں کے قائدین و زعماء کا کام ہوتا ہے بلکہ اس سوچ کے ساتھ کہ ربوہ میں خلیفہ وقت کی موجودگی ہے اس لئے بھی کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ چراغ تلے اندھیرا.کہ خلیفہ وقت کی موجودگی کے باوجود ان کا معیار دوسروں سے نیچے ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود تھی.ایک لکھنے والی مجھے لکھتی ہیں کہ آپ کے فیصلے بڑے دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں.مشورے ضرور لیتی تھیں اور ہر صاحب مشورہ کا بہت احترام کرتی تھیں.مولانا ابو المنیر نورالحق صاحب کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ میں بڑا عرصہ اپنے محلے کی صدر لجنہ رہی.تعلیم و تربیت اور علم میں اضافے کے لئے ایک یہ بھی آپ نے اپنے ہر ممبر کو کہا
394 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہوا تھا کہ در ثمین یا کلام محمود سے ہر اجلاس میں دو شعر یاد کر کے آؤ.تو لکھتی ہیں اس سے یہ فائدہ ہوا کہ جہاں شعروں کے ذریعہ علم و عرفان اور روحانیت میں اضافہ ہوتا تھا وہاں اجتماعوں کے موقعوں پر بیت بازی میں ربوہ کی لجنہ اول آیا کرتی تھیں.وہ کہتی ہیں خود بھی بہت شعر یاد تھے اور یقینا مجھے بھی اس بات کا علم ہے کہ امی کو بہت شعر یاد تھے.غالباً امام صاحب کی اہلیہ نے مجھے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چند خواتین کے ساتھ جماعتی دورے پر انہیں بھی میری والدہ کے ساتھ غالباً سیالکوٹ کے سفر کا موقع ملا تو آپ نے کہا کہ بجائے اس کے کہ ہم بیٹھ کر ادھر اُدھر کی باتیں کریں، گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کار میں یا جو دین تھی، اس میں بیت بازی کرتے ہیں، سفر بھی اچھا گزر جائے گا اور ہم فضول گفتگو سے بھی بچ جائیں گے.تو اس طرح پھر بیت بازی ہوتی رہی اور سب نے بڑا enjoy کیا.یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے والد حضرت مرزا منصور احمد صاحب کو بھی خاص طور پر در تمین کے بہت سے شعر زبانی یاد تھے اور یہ جو در خمین کی ایک لمبی نظم ہے ”اے خدا اے کار ساز و عیب پوش و کردگار “ یہ تو مجھے لگتا تھا کہ پوری نظم یاد ہے اور سفر میں جب بھی ہم جاتے تھے بیت بازی کا مقابلہ شروع ہو جاتا تھا.ایک ٹیم ابا کی بن جاتی تھی ایک اُمی کی اور ہم بچوں کو بھی شوق پیدا کرنے کے لئے اپنے ساتھ ملالیا کرتے تھے.اسی طرح اُمی کو قصیدہ یاد تھا.آخری عمر میں جب یہ محسوس کیا کہ یادداشت میں کمی ہو رہی ہے، بعض شعر یا الفاظ فوری طور پر یاد نہیں آتے تو میرے والد صاحب کی وفات کے بعد اپنی نواسیوں میں سے جو بھی ساتھ سوتی تھیں، اُسے قصیدہ والی کتاب پکڑا دیتی تھیں اور خود ( زبانی) پڑھتی تھیں اور یہ روزانہ کا معمول تھا کہ ستر اشعار والا جو قصیده ” يَا عَيْنَ فَيْضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ“ وہ مکمل ختم کر کے سوتی تھیں.آخر عمر تک بھی کہیں کوئی ایک آدھ مصرعہ بھول جاتی ہوں گی عموماً تمام شعر یاد تھے.اسی طرح میں نے دیکھا ہے کہ قرآنِ کریم جیسا کہ میں نے کہا، بڑے اہتمام سے غور کر کے پڑھتی تھیں.بسا اوقات دن کے وقت جب کام سے فارغ ہوتی تھیں، یہ نہیں کہ گھر کے کام نہیں تھے ، گھر میں کام کرنے والیوں کے بھی ہاتھ بٹاتی تھیں، مختلف کاموں میں دلچسپی لیتی تھیں، لجنہ کے کام بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے تھے.جب کام سے فارغ ہوتی تھیں تو علاوہ اس تلاوت کے جو صبح کی نماز کے بعد کیا کرتی تھیں، دس گیارہ بجے بھی میں نے دیکھا ہے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قرآن کریم پڑھ رہی ہوتی تھیں اور اُن کو غور کرتے دیکھا ہے.لیکن یہ بھی تھا کہ یہ عادت بالکل نہیں تھی کہ بلاوجہ اپنی علمیت کا اظہار کریں لیکن مطالعہ بڑا گہر ا تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ بھی گہرا تھا جیسا کہ میں نے بتایا کہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا تھا، عربی پڑھی ہوئی تھی، عربی کتب بھی پڑھ لیتی تھیں اور اچھی عربی آتی تھی.پھر دوسروں کے لئے ہمدردی کا جذبہ بہت تھا.اپنے وسائل کے لحاظ سے جس حد تک مدد ہو سکتی تھی کرتی تھیں.نقد بھی اور جنس کی صورت میں بھی.دوسروں کو بھی توجہ دلاتی تھیں کہ فلاں قابل مدد ہے اس کی مدد کرو.اس وجہ سے بعض مخیر لوگ جن کا آپ کے ساتھ قریبی تعلق تھاوہ آپ کو ہی رقم دے دیتے تھے کہ خود ہی تقسیم کر دیں.ربوہ کی کیونکہ لمبا عرصہ صدر رہی ہیں اور محلوں میں جاکر وہاں اجلاسوں میں شامل ہوتی تھیں تو اس لئے مختلف محلوں کے غریبوں سے ذاتی واقفیت بھی تھی اور اُن کے حالات کا علم بھی تھا.
خطبات مسرور جلد نهم 395 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء چوہدری حمید اللہ صاحب نے مجھے بتایا.وہ لمبا عرصہ امداد گندم کمیٹی کے صدر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ صدر لجنہ ربوہ کی طرف سے جو سفارش امداد کی آتی تھی وہ یقین ہو تا تھا کہ مکمل تحقیق کے بعد آئی ہے اور جائز سفارش ہے.مزید تحقیق کی ضرورت نہیں ہے.آپ کی صدارت صرف انتظامی اور دفتری حد تک نہیں تھی ، بلکہ لجنہ ربوہ کی صدر ہونے کے ناطے تقریباً ہر گھر سے ذاتی رابطہ بھی تھا.ربوہ کی لجنہ کی تنظیم پہلے مرکزی لجنہ کے زیرِ انتظام تھی.جنوری 1953ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ لجنہ ربوہ کی تنظیم کو مرکز سے، مرکزی لجنہ سے علیحدہ کر دیا جائے لیکن صدر لجنہ ربوہ مرکزی عاملہ کی ممبر ہو گی.بہر حال اس فیصلہ کے مطابق ربوہ کے محلہ جات کی طرف سے جب یہ رائے لی گئی کہ کس کو صدر بنایا جائے تو متفقہ طور پر صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو صدر بنانے کی تجویز آئی.یہ تاریخ لجنہ میں لکھا گیا ہے.اور ان آراء کی روشنی میں پھر آپ کو صدر لجنہ ربوہ مقرر کیا گیا.غالباً 1988ء یا89ء تک آپ صدر رہی ہیں اُس کے بعد آپ نے اپنی کمزوری صحت کی وجہ سے معذرت کی لیکن تب بھی عاملہ کے ایک ممبر کی حیثیت سے لجنہ کے کام کرتی رہی ہیں.غالباً سیکرٹری خدمت خلق رہی ہیں.آپ کی صدارت کے دور میں لجنہ ربوہ تقریباًہر شعبہ میں نمایاں کار کردگی دکھاتی رہیں.مجھے واقف کاروں کی طرف سے تعزیت کے جو خط آرہے ہیں اُن میں تقریباً ہر خط میں ایک بات مشترک ہے کہ جب بھی ملنے گئے بڑی خندہ پیشانی سے ملتی تھیں.مہمان نوازی کرتی تھیں.موسم کے لحاظ سے جو بھی چیز ہوتی تھی پیش کرتی تھیں.بچوں سے حسن سلوک ہوتا تھا.فراست اور قیافہ شناسی بھی بڑی تھی.چہرے دیکھ کر حالات کا اندازہ کر کے پھر حالات پوچھتیں اور دعاؤں اور نیک تدبیروں کی طرف توجہ دلا تیں.اولاد کی تربیت کے بارے میں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دلاتیں.یہاں مہمان نوازی کا ذکر ہوا ہے تو بتادوں کہ جیسا کہ میں نے بتایا کہ لمبا عرصہ لجنہ کی صدر رہیں.تو ربوہ کے مختلف محلہ جات کی صدرات تھیں اور عاملہ ممبرات کے اجلاس بڑا لمبا عرصہ ہمارے ہی گھر میں ہوتے تھے.ہمارے گھر کا ایک بڑا وسیع بر آمدہ تھا، پینتیس چالیس فٹ لمباتو کم از کم ہو گا اُس میں انتظامات ہوتے تھے.اور اجلاس والے دن ہمیں عصر کے فوراً بعد گھر سے نکلنا پڑتا تھا کیونکہ پھر تمام کمروں کے راستے بند ہو جاتے تھے اور گھر پر لجنہ کا قبضہ ہوتا تھا.اگر اندر ہیں تو پھر دو گھنٹے کمرے کے اندر ہی رہنا پڑتا تھا کیونکہ راستہ کوئی نہیں.اور پھر یہ کہ اتنے بڑے مجمع کی عورتوں کی جو تعداد تھی ڈیڑھ دو سو عورت ہوتی تھی ان کو چائے یا شربت جو بھی موسم کے لحاظ سے ضروری چیز ہوتی تھی وہ پیش کی جاتی تھی، ساتھ کھانے کے لئے کچھ پیش ہو تا تھا.اور یہ سب کچھ وہ اپنے طور پر کرتی تھیں.مہمان نوازی کے بارہ میں میرے ایک کلاس فیلو سعید صاحب تھے انہوں نے لکھا کہ میں ایک دفعہ تمہارے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ایک حاجی صاحب ہوتے تھے جو کبھی کبھی آیا کرتے تھے.وہ آئے تو آپ صحن میں پھر رہی تھیں.باہر سے ہی ان کی آواز سن لی، تو میری والدہ نے مجھے آواز دی کہ جاؤ حاجی صاحب آئے ہیں.انہیں اندر بٹھاؤ اور کھانے کا وقت ہے پوچھو کہ کھانا تو نہیں کھانا ؟ تو اس طرح مہمان نوازی کی طرف بہت توجہ تھی.
396 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دوسروں کی ہمدردی کا ذکر ہے تو ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ اُن کے علم میں ( میری والدہ کے علم میں) آیا کہ اُن کے حالات اچھے نہیں ہیں اور پھر بچوں کو بھی باہر بھجوانے کی کوشش ہے تو انہوں نے ایک دن کسی کے ہاتھ اپنی جائے نماز بھجوائی کہ اس پر میں نے تمہارے لئے اور تمہارے بچوں کے لئے بہت دعا کی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ تمہارے سارے بچوں کے باہر جانے کا انتظام ہو جائے گا.اور وہ لکھتے ہیں چنانچہ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے غیر معمولی سامان پیدا فرمائے کہ تمام کا انتظام ہو گیا اور جو ایک آدھ بچے کا نہیں تھا اسے بھی کچھ عرصہ پہلے ویزہ مل گیا.تو لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اگر کہو تو دعا تو کرتے ہی ہیں لیکن ہمدردی ایسی ہے کہ بغیر کہے کہیں سے سُن لیا کہ اس کے حالات ایسے ہیں تو خاص طور پر دعا کی اور پھر پیغام بھجوایا.ایک دفعہ میری والدہ نے خود ذکر فرمایا.ایک خواب سنائی تھی، اس کا کچھ حصہ بتاتا ہوں خواب تو یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہے.اس طرح ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جرمنی کے روشن مستقبل یعنی جرمنی میں جماعت کے روشن مستقبل کے بارے میں بھی ایک خواب میں ذکر تھا.اس مرتبہ جب میں دورہ پہ جرمنی گیا ہوں تو جماعت کے رابطے اور اثر دیکھے ہیں تو مجھے اپنی والدہ کی خواب بھی یاد آجاتی رہی.خدا کرے کہ یہ روشن مستقبل کی طرف قدم ہو اور راستے کھلتے چلے جائیں.اقی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ چندوں کا حساب بڑی باقاعدگی سے رکھا کرتی تھیں.جائیداد سے جو بھی آمد ہوتی تھی پہلے چندہ وصیت اور جلسہ سالانہ پورا حساب سے، تحریک جدید ، وقف جدید جو بھی وعدے ہوتے تھے اور اس کے علاوہ مختلف تحریکات میں اُن کا جو بھی حصہ ہو تا تھا، اُن کی ادائیگی کرتی تھیں اور جب تک میں وہاں رہا ہوں یہ چندوں کی ادائیگی کا حساب مجھ سے کروایا کرتی تھیں.ادائیگی مجھ سے کروایا کرتی تھیں اور بار بار پوچھتی تھیں کہ حساب صحیح ہو کہیں کم ادائیگی نہ ہو جائے.بڑی فکر رہتی تھی.اُن کی مختلف جائیدادوں سے متفرق آمد نیاں تھیں، بعض دفعہ حساب میں اگر کہیں غلط فہمی ہو گئی اور جب بھی اُن کو دوبارہ حساب کر کے کہا کہ اس میں مزید اتنا چندہ ادا کرنا ہے تو فوراً ادا کر دیا کرتی تھیں.اور اسی طرح چندہ مجلس عام طور پر اس میں لوگ سستی دکھا جاتے ہیں اُس کو بھی اپنی جو آمد تھی اس کے مطابق با قاعدہ دیا کرتی تھیں اور میرا خیال ہے شاید اس آمد کے حساب سے سب سے زیادہ ادائیگی انہی کی طرف سے ہوتی ہو کیونکہ بڑی باریکی میں جاکے حساب کیا کرتی تھیں.ڈاکٹر نوری صاحب نے مجھے تعزیت کا خط لکھا تو اس میں اُن کا ایک خط بھجوایا.1999ء میں جب میں جیل گیا ہوں تو نوری صاحب نے جیل سے میری رہائی کے بعد ان کو جب مبارکباد کا خط لکھا تو اس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ : عزیزم نوری ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط ملا جس پر عزیزم مسرور کی بخیریت واپسی پر خوشی کا اظہار تھا.خدا تعالیٰ نے بہت فضل کیا اور نہ دشمنوں کے منصوبے تو بہت خطر ناک تھے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنی قدرت کا اظہار فرمایا.جتنا بھی شکر کریں، کم ہے.قریبا ر بوہ کے ہر فرد نے اور ربوہ سے باہر بھی
خطبات مسرور جلد نهم 397 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء لوگوں نے بہت دردمند دانہ دعائیں کیں.خدا تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو قبول فرمایا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.آئندہ بھی اللہ تعالی سب کی حفاظت فرمائے.تو یہ بھی ان کی عاجزی ہے اور شکرانے کا بہت بڑا اظہار ہے کہ ماں کے ناطے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں نے بھی بہت دعائیں کیں.یقینا میرے لئے بہت دعائیں کی ہوں گی لیکن جماعت کے افراد کی دعاؤں کو بہت اہمیت دی.اور پھر صرف دعا میں خود غرضی نہیں دکھائی ، یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ میری یا میرے بچوں کی حفاظت فرمائے بلکہ لکھا کہ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.تو یہ وہ خوبی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ہے.اور جس کا اظہار آپ نے اس اعلیٰ تربیت کی وجہ سے کیا جو آپ کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں سے ہوئی.آپ کے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی بہت سے واقعات ہیں جو طوالت کی وجہ سے بیان نہیں ہو سکتے.آپ کے انٹرویو بھی آگئے ہیں، جنہوں نے سنتا ہے اُس میں بھی سن لیں گے یا پڑھ لیں گے.آپ کی طبیعت میں اپنے اوپر بڑا ضبط اور کنٹرول تھا، لیکن میرے بیٹے نے بتایا کہ دو تین سال پہلے جب وہاں وہ گیا ہے تو میرے ذکر پر بڑی جذباتی ہو گئی تھیں.اللہ تعالیٰ اُن کی تمام دعائیں میرے لئے اور میرے بہن بھائیوں کے لئے اور ہماری اولادوں کے لئے پوری فرمائے.خلافت کے بعد میرے ساتھ تعلق میں ایک اور رنگ ہی آ گیا تھا.جب بھی فون پر بات ہوتی تھی تو میں اس کو محسوس کر تا تھا.جب دورے پر جانے سے پہلے فون کر تا تھا، اُن کو میری حالت کا پتہ تھا.ماں سے زیادہ تو کوئی نہیں جانتا، میرے انداز کا بھی پتہ تھا کہ بات مختصر کرتا ہوں، تھوڑی کرتا ہوں، کم بولتا ہوں.تو ہمیشہ یہی کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری زبان میں تمہاری تقریروں میں برکت ڈالے اور خاص طور پر یہ کہتیں کہ میں نفل بھی پڑھ رہی ہوں اور ہر نماز پر کم از کم ایک سجدہ میں دعا بھی کرتی تھی، لیکن جب 2005ء میں قادیان میں خلافت کے بعد میری پہلی دفعہ ملاقات ہوئی ہے اُن سے تو میرے لئے ایک عجیب صور تحال تھی، ایک عجیب انوکھا تجربہ تھا.خلافت سے وہ تعلق جو میں نے اُن کی آنکھوں میں پہلے خلفاء کے لئے دیکھا تھا وہ میرے لئے بھی تھا.وہ بیٹے کا تعلق نہیں تھا وہ خلافت کا تعلق تھا جس میں عزت و احترام تھا.عزیزم ڈاکٹر ابراہیم منیب صاحب جو میر محمود صاحب کے بیٹے ہیں انہوں نے ، اُن کا وہاں انٹر ویو بھی لیا.مختلف پرانی باتوں کا انٹرویو لیا اس میں میرا بھی ذکر آگیا.انہوں نے بنایا بلکہ مجھے کیسٹ بھیجی ہے، اُس میں اُن کو وہاں ریکارڈ کروایا اور میرے متعلق بتایا کہ میں اب عزت و احترام اس لئے کرتی ہوں کہ وہ خلیفہ وقت ہے.میری پیاری والدہ نے دین کے رشتے کو ہر رشتے پر مقدم رکھا.یہاں بھی خلافت کا رشتہ بیٹے کے رشتے پر حاوی ہو گیا.جب ملنے جاتا تو ان کی آنکھوں میں ایک خوشی اور چمک ہوتی تھی.چہرے پر خوشی پھوٹ رہی ہوتی تھی.قادیان میں جو دن گزرے اس عرصے کے دوران جلسے کی مصروفیات سے جتنا وقت مجھے ملتا تھا، میں جاتا تھا تو پیار کرتیں اور ساتھ بٹھا کر کافی دیر تک باتیں ہوتی رہتی تھیں.لیکن قادیان کا یہ
خطبات مسرور جلد نهم 398 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء عرصہ صرف پندرہ دن کا تھا.آخر میں بھی جب رخصت ہوئی ہیں.وہاں سے پہلے پاکستان واپس چلی گئی تھیں تو دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوئیں.ڈاکٹر فرخ یہ بھی میر محمود احمد صاحب کے بیٹے ہیں ( چھوٹے بیٹے) انہوں نے مجھے لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی وفات پر جب میں گیا اور میں نے تعزیت کی تو نصیحت کی اور دعا کی تحریک کی، ساتھ یہ فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ جو بھی نیا خلیفہ ہے اُس کی بیعت کی توفیق ملے اور جذباتی وابستگی اور تعلق بھی اُس سے پیدا ہو جائے.پس اُن کا تعلق خلافت سے تھا جس کے لئے دعا بھی کی اور نصیحت بھی کی.اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.واقعات تو بہت ہیں جیسا کہ میں نے کہا.آخر میں ایک بات میں پیش کرنا چاہتا ہوں.1913ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت اُم ناصر صاحبہ نے ابتدائی سرمایہ کے طور پر اپنا کچھ زیور پیش کیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے دل میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اُس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو ( یہ بھی ایک عاجزی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑامند موم تھا، ( آپ نے ) اپنے دو زیور مجھے دے دیئے کہ میں اُن کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں، اُن میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے( سونے کے)، اور دوسرے اُن کے بچپن کے کڑے سونے کے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلما اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے ، میں زیورات کو لے کر اُسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے اور اُس سے پھر یہ اخبارالفضل جاری ہوا.(الفضل نمبر 1 جلد 12 مورخہ 4 جولائی 1924ء صفحہ 4 کالم 3) قارئین الفضل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعاؤں میں یادرکھیں کہ الفضل کے اجراء میں گو بیشک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا، اور یہ الفضل جو ہے آج انٹر نیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے.اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور اُن کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ اُن کا نماز جنازہ بھی غائب پڑھاؤں گا.اس کے علاوہ اور جنازے بھی ہیں ایک جنازہ چوہدری نذیر احمد صاحب کا ہو گا، یہ گورنمنٹ سروس میں رہے اور 1981ء میں وہاں سے جب ریٹائر ہوئے تو انہوں نے وقف کیا، حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے انہیں نائب ناظر زراعت اور نائب وکیل الزراعت لگایا.اور ایک لمبا عرصہ 2003ء تک اس خدمت پر وہ مامور رہے، بڑی اچھی طرح خدمت کرتے رہے، بڑی
خطبات مسرور جلد نهم 399 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 اگست 2011ء عاجزی سے اور بڑی محنت سے انہوں نے کام کیا.افریقہ کے بعض ممالک میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اُن کو بھجوایا.میرے ساتھ بھی سندھ کی زمینوں کی وجہ سے اُن کا بڑا تعلق رہا.نہایت عاجز انسان تھے اور بڑا عزت و احترام کیا کرتے تھے.باوجود اس کے کہ عمر میں مجھ سے کئی سال بڑے تھے ، بڑے احترام سے پیش آتے تھے.اور جب یہ کالج میں پڑھتے تھے تو اس وقت کالج میں چھٹیوں کے دوران حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ انہوں نے ترجمہ قرآن انگریزی میں بھی مدد کی ہے اور اس طرح ان کا قرآنِ کریم کے ترجمہ میں بھی حصہ ہے.ان کے دو بیٹے ہیں، ایک بیٹی ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن سب کو صبر عطا فرمائے.اور چوہدری صاحب کے درجات بلند فرمائے.ان کے بارہ میں لکھا ہے کہ جوانی سے ہی ان کو با قاعدہ تہجد کی عادت تھی، یہ تو میں نے بھی دیکھا ہے کہ انہوں نے جب بھی میرے ساتھ سفر کیا ہے، تو تین بجے رات کو یا جو بھی وقت ہوتا تھا تہجد کے لئے اٹھتے اور بڑے انہماک سے، بڑے خشوع سے تہجد پڑھا کرتے تھے.بلکہ ان کے خاندان میں ان کی اس نیکی کی وجہ سے صوفی نذیر احمد کے نام سے مشہور تھے.یا بہت زیادہ نمازیں پڑھنے والے چوہدری صاحب کہلایا کرتے تھے.تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اس کے علاوہ ایک جنازہ مکرم مرزا رفیق احمد صاحب کا ہے یہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، ان کی بھی چار پانچ دن پہلے وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کی جماعتی خدمات تو ایسی کوئی نہیں ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں.اللہ کے فضل سے ان سب کا خلافت سے بڑا وفا کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی صبر دے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں.میں ابھی انشاء اللہ نماز جمعہ کے بعد ان سب کے جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 26 اگست تا یکم ستمبر 2011ء جلد 18 شماره 34 صفحہ 5تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 400 32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء تلاوت فرمائی: خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اگست 2011ء بمطابق 12 ظہور 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : 187) اس آیت کا ترجمہ ہے.اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.دنیا کو آج جتنی خدا کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے اتنا ہی یہ خدا سے دور جارہی ہے.یعنی اس دنیا میں بسنے والا انسان جو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اسے جس قدر دنیا کے فسادوں اور ابتلاؤں سے بچنے کے لئے اور پھر اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے، اسی قدر اس تعلق میں کمزوری ہے.خدا سے تعلق جوڑنے کا دعویٰ کرنے والے بھی اُن لوازمات کی طرف توجہ نہیں دے رہے یا دینے کی کوشش نہیں کر رہے یا اُن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ خدا سے تعلق جوڑنے کے لئے صرف ظاہری ایمان اور ظاہری عبادت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اُس روح کی تلاش کی ضرورت ہے جو ایمان اور عبادات کی گہرائی تک لے جاتی ہے.یہ تو ایمان کا دعویٰ کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا دعویٰ کرنے والوں کا حال ہے.لیکن دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے (تقریباً تین چوتھائی آبادی) جس نے یا تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر شریک کھڑے کر کے اپنے آپ کو شرک میں مبتلا کیا ہوا ہے یا پھر خدا کی ہستی پر یقین ہی نہیں ہے.خدا کے وجود کے ہی انکاری ہیں، اور نہ صرف آپ خود انکاری ہیں بلکہ ایک دنیا کو بھی گمراہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑ رہے.لیکن اس تمام صورتحال میں ایک چھوٹا سا طبقہ ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدے پر یقین کرنے والا، اُس پر ایمان رکھنے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے آپ سے وعدوں کے پورا ہونے کی تصدیق کرنے والا ہے.جو اس بات پر یقین کرتا ہے
401 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور رکھتا ہے کہ اس زمانہ میں جب دنیا اپنے پیدا کرنے والے اور اس زمین و آسمان کے خالق کو بھول رہی ہے یا اُس کی ہستی کا مکمل فہم و ادراک نہیں رکھتی، اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے اظہار کے لئے ، زمانے کو فساد کی حالت سے نکالنے کے لئے، بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لئے ایک امام الزمان کو بھیجا ہے.اور یہ طبقہ یا گروہ یا جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم احمدیوں کا ہے.لیکن کیا اس پر ایمان اور اس یقین پر قائم ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ نے بھیجنے والے کو بھیج دیا، کافی ہے ؟ اور اب وہ آنے والا یا اُس کے چند حواری ہی خالق و مخلوق کا تعلق جوڑنے اور دنیا کے فسادوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ؟ اگر ہم احمدیوں کی یہ سوچ ہے تو ہماری سوچ بھی اُن لوگوں کے قریب ہے جو صرف ایمان لانے کا دعویٰ کرنے والے اور عبادتوں کا دعویٰ کرنے والے ہیں، لیکن عمل سے دور ہیں.اگر ہماری اپنی حالتوں پر نظر نہیں، اگر ہم اپنے خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے والے نہیں.اگر ہم اپنی نسلوں اور اپنے ماحول کو اِس آنے والے کے پیغام سے روشناس کروانے والے نہیں اور اُس سے آگاہی دلانے والے نہیں تو پھر ہم نے بھی پا کر کھو دیا.ہم نے دنیا کی دشمنیاں بھی مول لیں اور خدا کو بھی نہ پایا.پس احمدی ہونے کے بعد ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اُس روح کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو ایک حقیقی عبدِ رحمان میں ہونی چاہئے.اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرنے آئے تھے اور جن کے اُمت کے اندر سے نکل جانے کی خبر جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ کو امت کے بارے میں فکر پیدا ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو پریشان دیکھتے ہوئے اور آپ کی دعاؤں کو امت کے حق میں قبول کرتے ہوئے فرمایا.وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة: 4) - اور ان کے سوا ایک دوسری قوم بھی ہے جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی یہ کہہ کر دور فرما دی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس جاہل اور مشرک قوم کو باخدا انسان بنا دیا تھا، جس طرح عیاشیوں میں پڑے ہوئے اور خدا کے وجود سے بے بہرہ عبادتوں کے معیار حاصل کرنے والے بن گئے تھے اسی طرح اُمت کے بگڑنے کے باوجود اخرین میں تیرا ایک عاشق صادق پیدا کر کے اُس کے ذریعہ پھر وہ عبادالرحمن بناؤں گا جو میری بندگی کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! گو ایک عارضی زوال تو ہو گا لیکن غالب اور حکمت والے خدا نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ اب دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمام انسانیت کے لئے نجات کا دین ہے، اب دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا کے فسادوں کو دور کرنے کے لئے آخری امید گاہ اور علاج ہے.اب اس دین نے ہی اپنی خوبصورتی دکھا کر دنیا کے دینوں پر غالب آنا ہے.اب اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے مسیح محمدی اور اُس کے ماننے والوں نے ہی کر دار ادا کرنا ہے.پس اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے ، اُس نے اشرف المخلوقات کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے خیر امت کو اُس کا مقام دلانے کے لئے یہ سامان فرمایا اور آئندہ بھی فرماتارہے گا.اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی دلائی کہ یہ عاشق صادق آئے گا جو پھر دنیا میں دین کو قائم کرے گا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے ہی یہ آنے والا مسیح موعود آئے گا.
402 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ رب العالمین کی ربوبیت کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے قول رب العالمین میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے.اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے.اور اس زمین پر جو بھی ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور خطا کار گروہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں.کبھی گمراہی، کفر، فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا ”عالم “ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر جاتی ہے اور لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں.نہ وہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں.زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک اور ”عالم“ لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل جاتی ہے اور ایک نئی تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے اور لوگوں کو عارف دل ( یعنی پہنچاننے والے دل) اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے ناطق زبانیں....( بولنے والی زبانیں) عطا ہوتی ہیں.پس وہ اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک پامال راستہ کی طرح بنالیتے ہیں اور خوف اور امید کے ساتھ اُس کی طرف آتے ہیں.ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیاء کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں اور ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں (اُس طرف متوجہ ہوتے ہیں جہاں سے اُن کی حاجتیں پوری ہونی ہوں.یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.) اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے.ایسے وقتوں میں اُن لوگوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے جب معاملہ گمراہی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور حالت کے بدل جانے سے لوگ درندوں اور چوپاؤں کی طرح ہو جاتے ہیں تو اُس وقت رحمت الہی اور عنایت از لی تقاضا کرتی ہے کہ آسمان میں ایسا وجود پیدا کیا جائے جو تاریکی کو دور کرے اور ابلیس نے جو عمارتیں تعمیر کی ہیں اور خیمے لگائے ہیں انہیں منہدم کر دے.تب خدائے رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے تاکہ وہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے.اور یہ دونوں (رحمانی اور شیطانی لشکر بر سر پیکار رہتے ہیں اور ان کو وہی دیکھتا ہے جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہوں.یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امور باطلہ کی سراب نما دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں.پس وہ امام دشمنوں پر ہمیشہ غالب اور ہدایت یافتہ گروہ کا مددگار رہتا ہے.ہدایت کے علم بلند کرتا ہے اور پر ہیز گاری کے اوقات و اجتماعات کو زندہ کرنے والا ہوتا ہے.یہاں تک کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اُس نے کفر کے سرغنوں کو قید کر دیا ہے اور اُن کی مشکیں کس دی ہیں اور اس نے جھوٹ اور فریب کے درندوں کو گر فتار کر لیا ہے اور ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں اور اُس نے بدعات کی عمارتوں کو گرا دیا ہے اور اُن کے گنبدوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے“.(اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحه 131 تا 134) (ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 92 تا94) یہ عظیم انقلاب جس کا بیان آپ نے فرمایا ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے آگیا، کیا یہ عارضی انقلاب تھا؟ یہ وقتی ” عالم تھا جو پیدا ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات مسرور جلد نهم 403 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء تو خاتم الانبیاء تھے.آپ کا زمانہ تو تا قیامت قائم رہنے والا زمانہ ہے.آپ کی اُمت تو تا قیامت فتحیاب رہنے والی امت ہے اور آپ مسلم اُمت کے نبی ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس انقلاب کے جاری رہنے کے لئے آپ کو خبر دی تھی کہ آئندہ زمانے میں ایک آدمی آئے گا.اس بات کو کھولتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر آگے فرماتے ہیں : پھر اللہ پاک ذات نے اپنے قول رب العالمین میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں اُسی کی حمد ہوتی ہے.اور پھر حمد کرنے والے ہمیشہ اُس کی حمد میں لگے رہتے ہیں اور اپنی یاد خدا میں محو رہتے ہیں.اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر ہر وقت اُس کی تسبیح و تحمید کرتی رہتی ہے.اور جب اُس کا کوئی بندہ اپنی خواہشات کا چولہ اُتار پھینکتا ہے ، اپنے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اور اُس کی راہوں اور اس کی عبادات میں فنا ہو جاتا ہے.اپنے اس رب کو پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات سے اُس کی پرورش کی.وہ اپنے تمام اوقات میں اُس کی حمد کرتا ہے اور اپنے پورے دل بلکہ اپنے وجود کے) تمام ذرات سے اُس سے محبت کرتا ہے تو اس وقت وہ شخص عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے.اسی لئے اَعْلَمُ الْعالمین کی کتاب ( قرآن کریم) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام اُمت رکھا گیا.اور عالمین سے ایک عالم وہ بھی ہے جس میں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے.ایک اور عالم وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے طالبوں پر رحم کر کے آخری زمانے میں مومنوں کے ایک دوسرے گروہ کو پیدا کرے گا.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ (القصص: 71) میں اشارہ فرمایا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمد وں کا ذکر فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفی اور رسولِ مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور دوسرا احمد احمد آخر الزمان ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا ہے.یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعلمین سے اخذ کیا ہے.پس ہر غور و فکر کرنے والے کو غور کرنا چاہئے.“ (اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحه 137 تا 139) (ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 97،96) یہ دونوں حوالے آپ کی عربی کتاب اعجاز المسیح کے ہیں.پس عبد کامل کی کامل پیروی اور اُس کے عشق و محبت کی انتہا کی وجہ سے اپنی خواہشات کا چولہ اُتار پھینکنے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہو جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ میں مسیح موعود کو مبعوث فرمایا جنہوں نے پھر ہمیں اللہ تعالیٰ سے عشق و وفا اور عبودیت کے راستے دکھائے.جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے وہ انقلاب پیدا فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے منکر اور مشرک باخدا انسان بن گئے اور پھر انہوں نے دنیا کو بھی یہ پیغام دے کر قوموں اور ملکوں کو خدائے واحد و یگانہ کا عبادت گزار بنادیا ہے لیکن پھر خدا تعالی کو بھولنے اور دنیا داری میں پڑنے کی وجہ سے اپنے مقصد پیدائش کو بھول کر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے محروم کر دیئے گئے.بیشک اُس اندھیرے دور میں بھی کہیں کہیں اس روحانی نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے مقامی طور
خطبات مسرور جلد نهم 404 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء پر اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کھڑا کر تا رہا لیکن وہ جاہ و حشمت وہ ساکھ جو مسلمانوں کی تھی ، وہ تعلق باللہ جو ابتدائے اسلام میں عموماً نظر آتا تھا وہ غائب ہو گیا.پس اب احمد ثانی کے ذریعہ سے رب العالمین نے جو انقلاب پیدا کرنے کا اعلان فرمایا ہے اُسے آپ کے ماننے والوں نے جاری رکھنا ہے.اور جو جاری رکھنے والے ہیں وہی حقیقت میں آپ کے ماننے والے ہیں.عبدِ رحمان بننا ہے اور عبد رحمان اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے بنانے ہیں.تبھی ہم آج دوسرے مسلمانوں سے مختلف کہلانے کا حق رکھتے ہیں ورنہ جیسا کہ میں نے کہا صرف ایمان کا دعویٰ تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے ہم دوسروں سے اپنے آپ کو ممتاز سمجھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا عظیم کام کر گئے.آپ کے صحابہ میں سے وہ عبادالرحمن پیدا ہوئے جو صاحب رؤیا و کشوف تھے.وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عبد بننے کا حق ادا کیا.پس گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی آخرین کی پیشگوئی پوری ہوئی.پھر آپ کے صحابہ کو وہ مقام ملا جس نے اُن کو پہلوں سے ملایا، لیکن اب یہ نظام اور جماعت کی ترقیات کی پیشگوئیاں تاقیامت ہیں.ہم جب بڑے فخر سے اس کا ذکر کرتے ہیں تو صرف ذکر کافی نہیں ہے، ہمیں اس انقلاب کا حصہ بننے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنا ہو گا.صرف اپنے بزرگوں کے حالات پر ہم خوش نہیں ہو سکتے.ہمیں اس تسلسل کو بھی قائم رکھنے کی ضرورت ہے جو انقلاب کی صورت میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگیوں میں ہمیں نظر آتا ہے.آج دنیا کو آفات سے بچانے اور اس کا خدا سے تعلق جوڑنے کی ذمہ داری ہر احمدی پر ہے.پس اس کے لئے ہم جب تک انفرادی اور اجتماعی کوشش نہیں کریں گے ، ہر ایک اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، ہم احمد ثانی کے حقیقی ماننے والوں میں شامل ہونے والے نہیں کہلا سکتے.اور یہ ذمہ داری ہم ادا نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے وہ عباد بننے کی کوشش نہیں کرتے جو فَلْيَسْتَجِيبُوانی کا عملی مظاہرہ کرنے والے ہیں.جو وَلْيُؤْمِنُوا ٹی کی عملی تصویر بنتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ہماری حالتوں کو سنوارنے کے لئے ایک اور رمضان المبارک سے گزرنے کا ہمیں موقع عطا فرمایا جس میں خدا کا قرب پانے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر لبیک کہنے ، ایمان میں ترقی کرنے کے راستے مزید کھل جاتے ہیں.پس ہم میں سے خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیار سے کہے گئے اس لفظ ”عِبادِی یعنی میرے بندے ” کا اس رمضان میں اعزاز پانے والے ہوں.اللہ کرے کہ ہم ایک شوق، ایک لگن سے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مہینے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے”.فرمایا صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب ” ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 561 مطبوعہ ربوہ) دلوں کو روشنی بخشنے کے لئے یہ مہینہ بڑا اعلیٰ مہینہ ہے.کیوں اعلیٰ ہے؟ اس کی ذاتی حیثیت تو کوئی نہیں
خطبات مسرور جلد نهم 405 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء ہے.جس طرح باقی مہینے ہیں انیس یا تیس دن کے یہ مہینہ بھی ہے.مہینہ اس لئے عمدہ مہینہ ہے کہ اس میں دو عبادتوں کو اکٹھا کیا ہے خدا تعالیٰ نے اور اپنے بندوں کو یہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے یا موقع دیا ہے.آپ فرماتے ہیں: تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جائے ( دوری ہو جائے) اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اُس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 561-562 مطبوعہ ربوہ) پس یہ ہمارا وہ مقصود ہے جسے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.رمضان میں دو عباد تیں جمع ہو گئیں، جیسا کہ میں نے کہا، نماز بھی اور روزہ بھی.پس رمضان میں اپنی نمازوں کی بھی خاص حالت بنانے کی ضرورت ہے جس سے ایسا تزکیہ حاصل ہو جو نفس کی برائیوں اور شہوات سے اتنا دور کر دے کہ پھر ہم فَإِنِّي قَرِيبُ کی آواز سن سکیں.ہماری نمازیں، ہمارے روزے صرف رمضان کے مہینے تک ہی محدود رہنے کے جوش میں نہ ہوں بلکہ اس نیت سے ہوں کہ جو تبدیلی ہم نے پیدا کرنی ہے، اُسے دائمی بنانا ہے.اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر ہمیشہ لبیک کہنے والا رہنا ہے.اپنے ایمانوں کو مزید صیقل کرنا ہے.یہ سب کچھ یہ سوچ کر کرنا ہے کہ آج ہماری بقا بھی اس میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے بہنیں اور دنیا کی بقا بھی ہم سے وابستہ ہے.ہم خود اندھیروں میں ہوں گے تو دنیا کو کیا راستہ دکھائیں گے ؟.ہم خود عِبَادِی کے لفظ کی گہرائی سے نا آشنا ہوں گے تو دوسروں کو عباد اللہ بننے کے لئے کیا ر ہنمائی کریں گے ؟ اس زمانہ میں جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُس کام کے آگے بڑھانے کے لئے بھیجا ہے جس کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے ، پس جو سوال اللہ کے بندوں نے ، ان بندوں نے جو اللہ تعالیٰ کو پانے کی خواہش رکھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا، وہی سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق سے دنیا نے کیا اور آپ نے اُن کو اصلاح کا طریق بتایا، اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کا طریق بتایا اور ایک جماعت اپنے ارد گرد جمع کر لی، اور یہی سوال مومنین کی جماعت سے آج دنیا کا ہے.پس مومنین کی جماعت اُس وقت اس کا صحیح جواب دے سکتی ہے جب جماعت کا ہر فرد اس معیار کو حاصل کرنے والا ہو جو لبیک کہنے والوں اور ایمان لانے والوں کا ہونا چاہئے، ایمان میں ترقی کرنے والوں کا ہونا چاہئے.جب ہماری پکاروں کے بھی خدا تعالیٰ جواب دے رہا ہو گا، جب ہمیں فانی قریب کا صحیح ادراک حاصل ہو گا.آج دنیا میں ہر جگہ فساد ہی فساد نظر آ رہا ہے.مشرق ہو یا مغرب، مسلمان ممالک ہوں یا عیسائی ترقی یافتہ ممالک، ایک بے چینی نے دنیا کو گھیر اہوا ہے.اور گزشتہ دنوں اسی ملک میں جو توڑ پھوڑ اور بے چینی کا اظہار کیا گیا ہے اُس نے ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں کہ صرف غریب ملکوں کا امن ہی خطرے میں نہیں ہے، ان لوگوں کا امن بھی خطرے میں ہے.پس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کا عبد بنایا جائے لیکن کس طرح؟ ہمارے پاس تو کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی کسی دنیاوی طاقت کے ذریعہ سے خدا تعالی کی پہچان کروائی جاسکتی ہے.دنیا کی
406 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حالت کو سنوارنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ ہے جو اس زمانہ کے امام نے ہمیں بتایا ہے کہ جہاں اس امن کا پیغام پہنچاؤ وہاں دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی چاہو.دعاؤں کی طرف زیادہ زور دو.جہاں کوششیں کرو وہاں کوششوں سے زیادہ دعاؤں پر انحصار کرو.لیکن جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور دعاؤں کی قبولیت اُنہیں ہی ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر نیو الے اور اللہ پر اپنے ایمان کو مضبوط کرنے والے ہیں.دعاؤں کی قبولیت کے جو طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائے ہیں، ان میں سے بعض کو مختصر آپ پیش کرتا ہوں.وہ کونسی باتیں ہیں جن پر لبیک کہلوا کر ، اللہ تعالیٰ دعاؤں کے سننے اور جواب دینے کا فرماتا ہے.وہ کس قسم کا ایمان ہے جو ہدایت کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے بندے اور خدا کے تعلق کو مضبوط کرتا ہے.ایک شرط جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ انسان تقویٰ پر چلنے والا ہو (ماخوذاز ملفوظات جلد 1 صفحہ 535 مطبوعہ ربوہ ).خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہر وقت اُس کے سامنے رہے.ہر وقت یہ سامنے رہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے.میرا ہر حرکت و سکون اُس کے سامنے ہے.میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہو.جسمانی اعضاء بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق عمل کرنے والے ہوں اور تمام اخلاق اور مخلوق سے تعلق بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہو.اور یہی اصل تقویٰ ہے کہ انسان کی آنکھ ، کان، ناک ، زبان ، ہاتھ ، پاؤں سب وہ حرکت کر رہے ہوں جو خدا تعالیٰ کو پسندیدہ ہیں.اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین ہو.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین پیدا کرو.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اہم بات یہ بھی فرمائی کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین ضروری ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 522 مطبوعہ ربوہ) پھر اس بات پر یقین کہ اگر خدا تعالیٰ ہے اور یہ زمین و آسمان اور یہ کائنات اور تمام کا ئنا تیں اور ہر وہ چیز جس کا ہمیں علم ہے یا نہیں، اُس کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور صرف پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ وہ تمام قدرتوں کا مالک بھی ہے ، وہ تمام طاقتوں اور قدرتوں کا سر چشمہ بھی ہے.وہ قدرت رکھتا ہے کہ جس چیز کو پیدا کیا اُس کو فنا بھی کر سکے.وہ قدرت رکھتا ہے کہ جس چیز کو چاہے وہ پیدا کر دے.وہ زندگی دینے والا بھی ہے اور موت دینے والا بھی ہے.عمر دوں کو زندہ کرنے والا ہے اور زندوں کو مارنے والا ہے.اور دعاؤں کے ذریعہ سے وہ ایسا انقلاب پیدا کرنے والا ہے جو مر دوں میں نئی روح پھونک دیتی ہیں اور تب یہ ایمان ہو گا کہ وہ سب قدرت رکھتا ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کرے، اور وہ کرتا ہے اُن دعاؤں کو جسے وہ بہتر سمجھتا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 267 مطبوعہ ربوہ) آپ نے فرمایا کہ: ”اُن دعاؤں کو سن کر قبول کرتا ہے جسے وہ بہتر سمجھتا ہے“.پھر دعا کے لوازمات میں سے یہ بھی لازمی امر ہے کہ ”اس میں رقت ہو.“(ملفوظات جلد 3صفحہ 397 مطبوعہ ربوہ) جب دعا کی جائے صرف زبانی تھوڑے سے الفاظ دہرا کر نماز سے یا دعاؤں سے فارغ نہ ہو جاؤ، بلکہ ایک
خطبات مسرور جلد نهم 407 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء رفت ہو، ایک سوز ہو ، دل پگھل جائے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوں.جو اس سوچ کے ساتھ بہہ رہے ہوں کہ خدا تعالیٰ ہی وہ آخری سہارا ہے جو میری دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے.ایک اضطراب کی کیفیت طاری ہو جائے.ایک بے قراری ہو کہ یہ آخری سہارا ہے، اگر یہ ختم ہو گیا تو میری دنیاو آخرت برباد ہو جائے گی.حضور نے فرمایا کہ یہ حالت ہونی چاہئے تمہاری دعاؤں کی.پھر ایک شرط دعا کی قبولیت کی عاجزی ہے.یہ عاجزی ہی ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک شعر میں فرماتے ہیں: بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 18) کہ اپنی عاجزی کی انتہا تک پہنچو گے ، اپنے آپ کو کمتر سمجھو گے، اپنے نفس کو ہر قسم کے تکبر سے پاک کرو گے تب ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے.ورنہ متکبر کا خدا تعالیٰ سے قرب کا کوئی امکان نہیں ہے.اور جب خدا تعالیٰ کا وصل اور قرب میسر نہیں تو پھر دعاؤں کی قبولیت بھی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 397 مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ اصل اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے.انسان مسلسل دعا کرتا رہے کہ مجھے دعاؤں کی توفیق بھی ملے.یعنی مقبول دعاؤں کی توفیق ملنے کے لئے بھی دعاؤں کی ہی ضرورت ہے.پس جب یہ سوچ ہو گی تو پھر دعاؤں سے غفلت اور اُن اعمال سے دوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جن اعمال کے کرنے اور قرب الہی کا ذریعہ بننے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا.آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا.جب کوئی شخص بکاو زاری سے اس دروازہ میں داخل ہو تا ہے تو وہ مولائے کریم اُس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اُس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بیجا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کو سوں بھاگ جاتا ہے“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 315 مطبوعہ ربوہ) پس خوش قسمت ہیں وہ جو بکا وزاری سے اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے دنیا کی لغویات سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اُن مقربوں میں سے ہو جاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کا غلبہ فرما دیتا ہے.اُن کو برائیوں سے دور کر دیتا ہے.لیکن اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے بھی کوشش پہلے انسان کو ہی کرنی پڑتی
خطبات مسرور جلد نهم 408 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء ہے.اُسی کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا پڑتا ہے.یہی قانونِ قدرت ہے.یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے.قانونِ شریعت ہے.اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے.پھر دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک اہم حکم یہ ہے جس کا پہلے بھی مختصر ذکر ہو چکا ہے ، وہ اللہ تعالی اور بندوں کے حقوق ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : تم ایسے ہو جاؤ کہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خدا کا.یاد رکھو جو مخلوق کا حق دباتا ہے، اس کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے”.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 195 مطبوعہ ربوہ) پھر آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالی ) کار حم اُس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے.جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلا تا خدا تعالیٰ اسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا.اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 539 مطبوعہ ربوہ) پس فرمایا کہ امن کی حالت میں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنی چاہئے.اُس سے دعائیں کرنی چاہئیں.یہی دعاؤں کی قبولیت کا راز ہے.اللہ تعالیٰ نے جو کہا ہے نا کہ میری بات مانو تو یہ اُن باتوں میں سے بات ہے کہ ہر حالت میں اُس سے دعائیں مانگتے رہو.صرف رمضان کے مہینے میں نہیں، کسی مشکل کے وقت میں نہیں، کسی مصیبت کی گھڑی میں نہیں بلکہ ہر امن اور سلامتی کے وقت میں، عام حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ضروری ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے.اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 21 مطبوعہ ربوہ) پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَلْيَسْتَجِيبُوالی.پس وہ میری بات پر لبیک کہیں تو ان تمام باتوں کی تلاش کرنی ہو گی جن کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، تاکہ اُن کو بجا لا کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو.اور اُن تمام باتوں کو تلاش کر کے اُن باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور قرآن کریم میں یہ احکام سینکڑوں کی تعداد میں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اُس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو، اور یاد رکھو
خطبات مسرور جلد نهم 409 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر ایک مرتبہ فہم اور مرتبۂ فطرت اور مرتبہ سلوک اور مرتبۂ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو.جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا.اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ“.دین العجائز یہی ہے کہ جو احکامات ہیں ان پر جس حد تک عمل ہو سکتا ہے کرو.اس کے آگے پھر ترقی کرو گے اور آگے پھر اگلی سلوک کی راہیں ہوں گی.لیکن بنیاد یہی ہے کہ جو احکامات ہیں ان پر جس طرح فرض کئے گئے ہیں، عمل کرنے کی کوشش کی جائے.فرمایا کہ: " قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہو گا اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا.پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا.دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھا در پیش ہے.بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے.چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہو جاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہو کہ وہ محبوب حقیقی اور محسن حقیقی راضی ہو جاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھو کر کی جگہ ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 548) اللہ کرے کہ اس رمضان میں ہم اس نکتے کو بھی سمجھتے ہوئے محسن حقیقی کو راضی کرنے والے بن جائیں.رمضان کے ساتھ دعاؤں کی قبولیت، احکامات کی پابندی، ایمان میں مضبوطی اور ہدایت کے حصول کو جوڑ کر اللہ تعالیٰ نے جو ہماری اس طرف توجہ مبذول کروائی ہے کہ میں تو اپنے بندوں کی بہتری اور اُن کو آفات، مصائب اور عذاب سے بچانے کیلئے ہر وقت تیار ہوں لیکن بندوں کو بھی اپنا حق بندگی ادا کرنا ہو گا.اپنے آپ کو میرے خالص بندوں کی یا خاص بندوں کی طرف منسوب کر کے تمہیں بھی اُن باتوں کے بجالانے کی کوشش کرنی ہو گی، اُس تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندے خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے لائے ہیں یا لاتے ہیں.تاکہ دنیا میں عبادالرحمن کی کثرت نظر آئے ، تاکہ ان عبادالرحمن کی وجہ سے دنیا پیار، محبت اور امن کا گہوارہ بنے.تاکہ اس دنیا میں جنت کے نظارے نظر آئیں.پس ہمارا ایمان میں مضبوطی کا دعویٰ ، زمانے کے منادی کو سننا اور قبول کرنا، مخلوق خدا سے ہمدردی کا اہم فریضہ جو الہی جماعتوں کے سپرد کیا جاتا ہے، ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خالص بندوں میں شامل ہوں.ان بندوں میں شامل ہوں جن کی دعائیں خدا تعالیٰ قبول فرماتا ہے.اُن بندوں میں شامل ہوں جو اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرتے ہیں.اُن بندوں میں شامل ہوں جو مخلوق کی ہمدردی کی وجہ سے اُسے برائیوں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچانے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 410 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء پس یہ رمضان ہمیں انہیں باتوں کی ٹریننگ دینے اور ہمیں حقیقی عبد بننے کے معیار حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی اور چلا پیدا کرنے کے لئے آیا ہے.پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر اس سے بھر پور فائدہ اٹھا دیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج دنیا کو فسادوں سے بچانے اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے کسی دنیاوی ساز و سامان کی ضرورت نہیں جیسا کہ میں نے کہا اور نہ وہ کام آسکتا ہے.صرف اور صرف ایک ہتھیار کی ضرورت ہے اور وہ دعا کا ہتھیار ہے.پس اس رمضان میں جہاں اپنے لئے، اپنی نسلوں کے ایمان اور تعلق باللہ کے لئے دعائیں کریں اس دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعائیں کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اُن کا خدا دعاؤں کا سننے والا ہے”.( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 148 مطبوعہ ربوہ) لیکن اس بات کا حقیقی اور اک بھی آج صرف احمدیوں کو ہی ہے.پس جب ہمارا خدا دعاؤں کا سننے والا ہے تو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور یقینا مایوس نہیں اور اس یقین پر قائم ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ تمام باتیں ضرور پوری ہوں گی جو جماعت کی ترقی سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائی ہیں.انشاء اللہ.اور یقینا وہ دن انشاء اللہ آئیں گے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا پر لہرائے گا.اور خدا تعالیٰ کے اُن بندوں کی اکثریت ہو گی جو رُشد و ہدایت پانے والے ہوتے ہیں.پھر میں یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس دعا کو کبھی نہ بھولیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ان بندوں میں شامل رکھے جو اُس کے ہدایت یافتہ اور خالص بندے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رمضان کے فیض سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرما تار ہے.آج پھر میں نماز جمعہ کے بعد کچھ جنازے پڑھاؤں گا.ایک جنازہ مکرم صوبیدار ریٹائر ڈ راجہ محمد مرزا خان صاحب ربوہ کا ہے جن کی 4 اگست کو نوے سال کی عمر میں وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یہ فوج میں رہے اور دوسری جنگ عظیم میں بھی فوج میں تھے.پھر پاکستان بننے سے کچھ عرصہ قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر قادیان آگئے، وہاں رہے اور آپ کی صحبت سے فیض پاتے رہے.فرقان بٹالین میں بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی اور 1953ء میں بھی بعض اہم کام انجام دینے کی توفیق ملیں.تہجد گزار ، تلاوت کے پابند، نمازوں کی پابندی اور قناعت شعار ، قناعت کرنے والے اور متوکل انسان تھے اور دعوت الی اللہ کا بھی آپ میں ایک جوش تھا.خلافت سے بڑا تعلق تھا اور ہر پروگرام کو جو خلیفہ وقت کا ہو تا تھا بڑے غور سے دیکھتے، سنتے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے تھے.موصی تھے.ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.ایک بیٹے راجہ منیر احمد صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ کے جو نیٹر سیکشن کے پرنسپل ہیں اور دوسرے راجہ محمد یوسف صاحب جرمنی کے امورِ خارجہ کے سیکرٹری ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.
خطبات مسرور جلد نهم 411 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اگست 2011ء دوسرا جنازہ امینہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ نذیر احمد صاحب دار الرحمت ربوہ کا ہے.یہ بھی 7 اگست کو وفات پا گئی تھیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یہ ربوہ کے ابتدائی مکینوں میں سے تھیں جو قادیان سے ہجرت کر کے آئے تھے.نیک، خوش اخلاق ، خدمت دین کا جذبہ رکھنے والی مخلص اور فدائی خاتون تھیں.خلافت سے وفا اور عشق کا تعلق تھا.محلہ کی سطح پر پچاس سال سے زائد لجنہ کی مختلف شعبوں میں خدمت کی توفیق پائی اور اعلیٰ کار کر دگی پر سندات بھی حاصل کیں.اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ محلے کے دوسرے بچے بچیوں کو قرآنِ کریم بھی پڑھاتی رہیں.ان کے بیٹے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ناظر بیت المال آمد ربوہ ہیں.اور دوسرے شیخ منیر احمد صاحب جرمنی میں ہیں جو انصار اللہ جرمنی کے دعوت الی اللہ کے قائد ہیں اور ایک ان کے داماد بھی مربی سلسلہ ہیں.ہمسایوں سے بھی ان کا بڑا اچھا تعلق تھا، خلوص تھا.انہوں نے وصیت کی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے.الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 2 ستمبر تا 8 ستمبر 2011ء جلد نمبر 18 شمارہ نمبر 35 صفحہ 5 ت8)
خطبات مسرور جلد نهم 412 33 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبہ جمعہ فرموده 19 اگست 2011ء بمطابق 19 ظہور 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”اصلی اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 397 مطبوعہ ربوہ) پھر آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ”ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوۃ میں اور دعا میں کیا فرق ہے ؟ جو حدیث میں آیا ہے، صلوٰۃ ہی دعا ہے ، نماز عبادت کا مغز ہے“.(ماخوذ از ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 283 مطبوعہ ربوہ) پھر فرماتے ہیں کہ ”یاد رکھو.یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی“.فرمایا: ”نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بد عملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے “.فرمایا: ”اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی“.یعنی ایسی نماز جو بد عملی اور بے حیائی سے بچاتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے لیکن فرمایا کہ یہ اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور فرمایا کہ ” یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا“.( ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 403 مطبوعہ ربوہ) ایسی نماز جو بد عملی اور بے حیائی سے بچائے، ایسی عبادت جو صحیح رستے پر ڈالنے والی ہو ، بے حیائی سے بچانے والی ہو ، وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے نہیں مل سکتی.یہ تمام باتیں ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ ہماری عبادتیں اور دعائیں کیسی ہونی چاہئیں.دعائیں کرنے کے لئے ہمیں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے ؟ ان عبادتوں اور دعاؤں کے ہماری حالتوں پر کیا نتائج مترتب اور ظاہر ہونے چاہئیں؟ یہ عبادتیں اور دعائیں اور نمازیں کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پاسکتی ہیں.اگر یہ باتیں سمجھ آجائیں اور انسان اس بات کا فہم و ادراک حاصل کر لے کہ عبادت ہی ہے جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے سے ہی اُس کی دنیا و آخرت سنور سکتی ہے تو تمام دوسری باتوں اور چیزوں کو چھوڑ کر وہ اس اہم مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح
413 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے.اور یہ سب کچھ ، یہ مقصدِ پیدائش کا حصول خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.ہم صرف اپنی کوشش سے اپنی پیدائش کے مقصد کو نہیں پاسکتے.اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان ہے اُس نے قرآنِ کریم کی پہلی سورۃ میں ہی ہمیں یہ دعا سکھا دی اور پانچ فرض نمازوں اور سنتوں اور نوافل کی ہر رکعت میں اس دعا کا پڑھناضروری قرار دیا ہے کہ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کہ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں.تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکتے جب تک تیری مدد شامل حال نہ ہو.پس ایک روح کے ساتھ ، ایک دل کی گہرائی کے ساتھ نکلی ہوئی عاجزانہ پکار کے ساتھ جب ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو توفیق بھی عطا فرماتا ہے.پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ ہر سال رمضان کا مہینہ لا کر اللہ تعالیٰ اپنے قریب ہونے کا اعلان فرماتا ہے.یہ اعلان فرماتا ہے کہ میں نے شیطان کو بھی جکڑ دیا ہے.یہ اعلان فرماتا ہے کہ میں ہر اُس بندے کی مدد اور استعانت کے لئے تیار ہوں، بلکہ اُس کی مدد کرتا ہوں جو خالص ہو کر میری طرف آتا ہے، میرے پر کامل ایمان رکھتا ہے، میرے حکموں پر عمل کرتا ہے.آئندہ سے خالص ہو کر صرف اور صرف میری عبادت کرنے اور میر ا خالص عبد بنے کا وعدہ کرتا ہے تو پھر میں اپنے ایسے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہوں، سنتا ہوں.پس اگر کہیں کمی ہے تو ہم بندوں میں کمی ہے.خدا تعالیٰ کے احسانوں اور اعانت میں کمی نہیں ہے.پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے کو ہماری اصلاح کے لئے بھیج دیا ہے جو اُس عبد کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کے طور پر آیا ہے جس نے پھر ہمیں خدا تعالیٰ سے ملانے اور اُس کا عبد بنے ، اُس کی عبادتوں میں طاق ہونے ، اُس کی اعانت حاصل کرنے والا بننے کے طریق سکھلائے ہیں.پس اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمودات اور ارشادات کی روشنی میں ہی إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ: 5) کی کچھ وضاحت کروں گا.جس بار یکی اور گہرائی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه:5) کا مطلب سمجھایا ہے، اگر ہم اس کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بن جائیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمادے) تو پھر ہم خدا تعالیٰ کی عبودیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بھی بن جائیں گے.اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم اپنی عبادتوں کے بھی معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں اور پھر عاجزی سے اُن معیاروں کو حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اُس کی مدد چاہیں.جب یہ ہو گا تو تب ہی ہم اُن لوگوں میں سے کہلا سکیں گے جو عبد رحمن کہلاتے ہیں.ایمان میں اُس پختگی کو پیدا کرنے والے بن سکیں گے جس کا اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے.یا جس کی ایک مومن سے توقع کی جاسکتی ہے یا کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو عرفان عطا فرما یا اس خزانے میں سے جو آپ نے اپنے لٹریچر میں ہمیں مہیا فرمائے ہیں چند جو اہر پیش کروں گا.
خطبات مسرور جلد نهم آپ فرماتے ہیں کہ : 414 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء اللہ تعالیٰ نے جملہ ايَّاكَ نَعْبُدُ کو جملہ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ سے پہلے رکھا ہے اور اس میں (بندہ) کے توفیق مانگنے سے بھی پہلے اس ( ذات باری) کی (صفت) رحمانیت کے فیوض کی طرف اشارہ ہے گویا کہ بندہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور کہتا ہے اے میرے پروردگار ! میں تیری ان نعمتوں پر تیر اشکر ادا کر تاہوں جو تو نے میری دعا، میری درخواست، میرے عمل، میری کوشش اور جو ( تیری) اس ربوبیت اور رحمانیت سے جو سوال کرنے والوں کے سوال پر سبقت رکھتی ہے.میری استعانت سے پیشتر تو نے مجھے عطا کر رکھی ہیں.پھر میں تجھ سے ہی (ہر قسم کی) قوت، راستی، خوشحالی اور کامیابی اور اُن مقاصد کے حاصل ہونے کے لئے التجا کرتا ہوں جو درخواست کرنے، مدد مانگنے اور دعا کرنے پر ہی عطا کی جاتی ہیں اور تو بہترین عطا کرنے والا ہے.“ 66 (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحه 119-120) (ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 189) پس جب بندہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کی وجہ سے کئے ہیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتا ہے تو یہ عبادت اور حقیقی عبد بننے کی طرف پہلا قدم ہے.جب اس مقام کا ادراک ایک بندہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر عبادت میں آگے بڑھنے کی کوشش ہوتی ہے.پھر بندہ اپنے خدا سے کہتا ہے کہ یہ جو تُو نے عبد بننے کے معیار حاصل کرنے کے مختلف معیار رکھے ہیں، اُن کو بھی میں حاصل کرنا چاہتا ہوں.تیری ہر قسم کی نعمتوں سے بھی میں حصہ لینا چاہتا ہوں.اپنی روحانی اور مادی ترقی کے مزید سامان چاہتا ہوں، لیکن یہ سب کچھ تیری مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا.پس میری مدد فرما اور پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور ترقی کی منزلیں بھی طے ہوتی ہیں.تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کی وجہ سے جو انعامات دیئے ہیں جب اُن کے شکر گزار بنو گے تو پھر عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی پھر اُس کی مدد کی طرف حاصل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی.پس یہ ہے وہ بنیادی نقطہ اور روح جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کی دعا کرنی چاہئے.پھر آپ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اس دعا کی طرف کیوں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے، فرماتے ہیں : اور ان آیات میں ان نعمتوں پر شکر کرنے کی ترغیب ہے جو تجھے دی جاتی ہیں اور جن چیزوں کی تجھے تمنا ہو ان کے لئے صبر کے ساتھ دعا کرنے اور کامل اور اعلیٰ چیزوں کی طرف شوق بڑھانے کی ( ترغیب ہے) تا تم بھی مستقل شکر کرنے والوں اور صبر کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ.پھر ان (آیات) میں ترغیب دی گئی ہے بندے کے اپنی طرف ہمت اور قوت کی نسبت کی نفی کرنے کی اور (اس سے) آس لگا کر اور امید رکھ کر ہمیشہ سوال، دعا، عاجزی اور حمد کرتے ہوئے (اپنے آپ کو) اللہ سبحانہ کے سامنے ڈال دینے کی اور خوف اور امید کے ساتھ اس شیر خوار بچہ کی مانند جو داریہ کی گود میں ہو (اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا) محتاج سمجھنے کی ( ترغیب) ہے اور تمام مخلوق سے اور زمین کی سب چیزوں سے موت ( یعنی پوری لا تعلقی) کی.“ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ 120) (ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 189-190)
خطبات مسرور جلد نهم 415 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء پس فرمایا کہ اس میں شکر کرنے کی ترغیب دی ہے کہ انسان شکر گزار بندہ بنے.صبر ، دعا کی ترغیب دی ہے تاکہ تم پھر اس صبر کی وجہ سے، اس مستقل مزاجی سے دعا کی وجہ سے مستقل شکر کرنے والوں اور صبر کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ جن کو پھر اللہ تعالیٰ انعامات سے نوازتا ہے.فرمایا کہ ”پھر ان ( آیات) میں ترغیب دی گئی ہے بندے کے اپنی طرف ہمت اور قوت کی نسبت کی نفی کرنے کی ، اور (اس سے) آس لگا کر اور امید رکھ کر ہمیشہ سوال، دعا، عاجزی اور حمد کرتے ہوئے (اپنے آپ کو) اللہ سبحانہ کے سامنے ڈال دینے کی.“ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحه 120) ( ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 189) یعنی اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا.انسان کے ذہن میں یہ ہونا چاہیئے کہ سب طاقتوں کا مالک اور رب اللہ ہے.اس لئے اُس کے آگے اپنے آپ کو ڈال دو.اسی طرح تمام دنیاوی وسیلوں اور رشتوں سے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے مقابلے میں لا تعلقی حاصل کر لو.جب یہ حالت ہو گی کہ نہ اپنے زور بازو پر بھر وسہ ہو گا، نہ اپنے نفس اور طاقت پر بھروسہ ہو گا، نہ دنیا کے وسیلوں اور طاقتوں پر بھروسہ ہو گا تو تب ہی انسان سے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ: 5) کی حقیقی دعا نکلے گی.پھر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ انسان کو ، ایک دعا کرنے والے کو اپنی کمزوری کا مکمل اعتراف ہو تو تبھی وہ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه : 5 ) کا حق ادا کر سکتا ہے ، فرماتے ہیں: اسی طرح ان ( آیات) میں اس امر کا اقرار اور اعتراف کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ ہم تو بہت کمزور ہیں.تیری دی ہوئی توفیق کے بغیر تیری عبادت نہیں کر سکتے اور تیری مدد کے بغیر ہم تیری رضا کی راہوں کی تلاش نہیں کر سکتے.ہم تیری مدد سے کام کرتے ہیں اور تیری مدد سے حرکت کرتے ہیں اور ہم تیری طرف جلن کے ساتھ ان عورتوں کی طرح جو اپنے بچوں کی موت کے غم میں گھل رہی ہوتی ہیں اور ان عاشقوں کی طرح جو محبت میں جل رہے ہوتے ہیں تیری طرف دوڑتے ہیں“.فرمایا ” پھر ان آیات میں کبر اور غرور کو چھوڑنے کی “ پہلی جو بات تھی اس میں تو یہ فرمایا کہ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنے کی ایک جلن اور درد اور تڑپ ہونی چاہئیے اور اس کی مثال دی کہ اس طرح جلن جس طرح کوئی عورت اپنے بچے کی موت میں گھل رہی ہوتی ہے یا ایسے عاشق کی جلن جو اپنے محبوب کے عشق میں، محبت میں جل رہا ہو تا ہے.).پھر فرماتے ہیں کہ ان آیات میں کبر اور غرور کو چھوڑنے کی نیز معاملات کے پیچیدہ ہونے اور مشکلات کے گھیر لینے پر محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی) طاقت اور قوت پر بھروسہ کرنے کی اور منکسر المزاج لوگوں میں شامل ہونے کی ( ترغیب ہے) گویا کہ ( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بند و اپنے آپ کو مردوں کی طرح سمجھو اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کرو.پس تم میں سے نہ کوئی جو ان اپنی قوت پر اتر ائے اور نہ کوئی بوڑھا اپنی لاٹھی پر بھروسہ کرے اور نہ کوئی عقل مند اپنی عقل پر ناز کرے اور نہ کوئی فقیہ اپنے علم کی صحت اور اپنی سمجھ اور اپنی دانائی کی عمدگی ہی پر اعتبار کرے اور نہ کوئی ملہم اپنے الہام یا اپنے کشف یا اپنی دعاؤں کے خلوص پر تکیہ
416 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کرے.کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.جس کو چاہے دھتکار دیتا ہے اور جس کو چاہے اپنے خاص بندوں میں داخل کر لیتا ہے“.( پھر فرمایا کہ) ايَّاكَ نَسْتَعِينُ میں نفس امارہ کی شر انگیزی کی شدت کی طرف اشارہ ہے جو نیکیوں کی طرف راغب ہونے سے یوں بھاگتا ہے جیسے ان سدھی اونٹنی سوار کو اپنے اوپر بیٹھنے نہیں دیتی اور بھاگتی ہے.یا وہ ایک اثر دہا کی طرح ہے جس کا شر بہت بڑھ گیا ہے اور اس نے ہر ڈسے ہوئے کو بوسیدہ ہڈی کی طرح بنا دیا ہے اور تو دیکھ رہا ہے کہ وہ زہر پھونک رہا ہے یادہ شیر ( کی طرح) ہے کہ اگر حملہ کرے تو پیچھے نہیں ہٹتا.کوئی طاقت ، قوت، کمائی، اندوختہ (کارآمد) نہیں سوائے اس خدا تعالیٰ کی مدد کے جو شیطانوں کو ہلاک کرتا ہے“.(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ 120 ( ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 190-191) پس جب دعا کرتے ہوئے یہ سوچ بھی ایک انسان رکھتا ہے یا رکھے کہ نفس امارہ مجھے برائیوں میں مبتلا کرنے کی طرف لے جارہا ہے اور میں نے اس سے بچنا ہے تو ، یہ سوچ ہونی چاہئے کہ میں اپنی کوشش اور طاقت سے نہیں بچ سکتا، اس وقت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو شیطان کے حملوں سے بچا سکتا ہے اور نیکیوں کی توفیق دے سکتا ہے.پس بندہ عاجز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو اور دعا کرے کہ اے اللہ ! آج مجھے شیطان سے بچانے والا صرف تو ہی ہے.اگر خدا تعالیٰ کے پیارے لوگ جو اس عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں اور مانگتے چلے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی مدد کے بغیر نہیں رہ سکتے تو ایک عام انسان کو کس قدر خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہئیے ؟ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کی مثال دی ہے جب انہوں نے نفس امارہ سے بچنے کی دعا مانگی تھی کہ وَمَا أُبَرِی نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمُ (يوسف:54).یعنی اور میں اپنے نفس کو غلطیوں سے بری قرار نہیں دیتا.کیونکہ انسانی نفس سوائے اُس کے جس پر اللہ رحم کرے بری باتوں کا حکم دینے پر بڑا دلیر ہے.میر ارب بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس یہ دعا اور سوچ ہے جو پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کی دعا سے فیضیاب کرتی ہے.جب انسان دل میں یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی یہ دعامانگنے والے ہیں تو ہمیں کس قدر دعائیں مانگنی چاہئیں.تبھی پھر ایک انسان صحیح عبد بن سکتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : و دو اور نَعْبُدُ کو نَستَعِينُ سے پہلے رکھنے میں اور بھی کئی نکات ہیں جنہیں ہم ان لوگوں کے لئے یہاں لکھتے ہیں جو سارنگیوں کی رُوں رُوں پر نہیں بلکہ قرآنی آیات مثانی ( سورۃ فاتحہ ) سے شغف رکھتے ہیں اور مشتاقوں کی طرح ان کی طرف لپکتے ہیں اور وہ ( نکات یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ایسی دعا سکھاتا ہے جس میں اُن کی خوش بختی ہے اور کہتا ہے اے میرے بندو! مجھ سے عاجزی اور عبودیت کے ساتھ سوال کرو اور کہواے ہمارے ، اِيَّاكَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) لیکن بڑی ریاضت، تکلیف، شر مساری، پریشان خیالی اور شیطانی وسوسہ اندازی اور خشک افکار اور تباہ کن اوہام اور تاریک خیالات کے ساتھ ہم سیلاب کے گدلے پانی کی مانند ہیں.یارات کو لکڑیاں اکٹھا کرنے والے کی طرح ہیں اور ہم صرف گمان کی پیروی کر رہے ہیں ہمیں یقین حاصل نہیں“.(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحه 120-121 ) ( ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 191) رب
خطبات مسرور جلد نهم ވ ވ 417 دو خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء اب یہ ايَّاكَ نَعْبُدُ ہے لیکن ان ساری باتوں پر یقین نہیں ہے، ایک پریشان حالی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے ہماری خوش بختی کا خیال رکھتے ہوئے ایسی دعا سکھائی ہے جس میں عبودیت کا حق ادا کرتے ہوئے دعا کرنے کی طرف ترغیب بھی ہے اور قبولیت کا وعدہ بھی تو کسی قدر اس پر غور کر کے اس دعا کو کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ آگے پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہا گیا.جب شرمساری کی ایسی حالت پیدا ہوتی ہے اور انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا تو پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا کرتا ہے ، تب پھر اللہ تعالیٰ پھر مدد کے لئے آتا ہے.پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(اور پھر ) وَ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہو“.( یعنی جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی پھر ایاک نَسْتَعِينُ ) یعنی ہم تجھ سے ہی مددمانگتے ہیں ذوق، شوق، حضور قلب، بھر پور ایمان ( ملنے) کے لئے، روحانی طور پر ( تیرے احکام پر) لبیک کہنے (کے لئے) سرور اور نور (کے لئے) اور معارف کے زیورات اور مسرت کے لباسوں کے ساتھ دل کو آراستہ کرنے کے لئے ( تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں) تاہم تیرے فضل کے ساتھ یقین کے میدانوں میں سبقت لے جانے والے بن جائیں اور اپنے مقاصد کی انتہا کو پہنچ جائیں اور حقائق کے دریاؤں پر وارد ہو جائیں.“ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحه 121) ( ترجمه از تغییر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 191-192) پس یہ دعا روحانیت میں ترقی، عبادت کا شوق اور ذوق اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور ایمان وو میں ترقی کا باعث بنتی ہے.اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:5) میں عبودیت کی معراج کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : پھر اللہ تعالیٰ کے الفاظ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ایک اور اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس( آیت) میں اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت میں انتہائی ہمت اور کوشش خرچ کریں اور اطاعت گزاروں کی طرح ہر وقت لبیک لبیک کہتے ہوئے (اس کے حضور ) کھڑے رہیں گویا کہ یہ بندے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم مجاہدات کرنے تیرے احکام کے بجالانے اور تیری خوشنودی چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہے لیکن تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور عجیب اور ریاء میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور ہم تجھ سے ایسی توفیق طلب کرتے ہیں جو ہدایت اور تیری خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو اور ہم تیری اطاعت اور تیری عبادت پر ثابت قدم ہیں پس تو ہمیں اپنے اطاعت گزار بندوں میں لکھ لے“.(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحه 121) ( ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 192) پس جب یہ سوچ اور دعا ہو گی کہ اطاعت اور عبادت پر ثابت قدم ہیں اور رہنا ہے تو پھر احکامات کی بجا آوری اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش بھی ہو گی.ایک نماز کے بعد اگلی نماز کی ادائیگی کی فکر بھی ہو گی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ایک مومن ایک نماز کے بعد اگلی نماز کی فکر کرتا ہے اور ایک جمعہ کے بعد اگلے جمعہ کی فکر کرتا ہے ، ایک رمضان کے بعد اگلے رمضان کی فکر کرتا ہے تاکہ عبادتوں کا حق ادا کر سکے.(صحيح مسلم كتاب الطهارة باب الصلوات الخمس والجمعة الى الجمعۃ...حدیث نمبر 552)
خطبات مسرور جلد نهم 418 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء پھر اعلیٰ اخلاق کے حصول کی کوشش بھی ہو گی اور یہی عبودیت کی معراج حاصل کرنے کی کوشش ہے.اور پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ یہ دعا اپنی نسلوں، اور اپنے خاندان اور اپنی جماعت کے لئے بھی ہے تا کہ سب کے سب دھارے ایک ہی طرف بہہ رہے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : اور یہاں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بندہ کہتا ہے کہ اے میرے رب! ہم نے تجھے معبودیت کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے اور تیرے سوا جو کچھ بھی ہے اس پر تجھے ترجیح دی ہے پس ہم تیری ذات کے سوا اور کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور ہم تجھے واحد و یگانہ ماننے والوں میں سے ہیں.اس آیت میں خدائے عزو جل نے متکلم مع الغیر کا صیغہ اس امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختیار فرمایا ہے“ (”ہم“ کہہ کے دوسرے کو بھی جو اپنے ساتھ شامل کیا ہے تو وہ اس لئے شامل فرمایا ہے کہ یہ دعا تمام بھائیوں کے لئے ہے نہ صرف دعا کرنے والے کی اپنی ذات کے لئے اور اس میں ( اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو باہمی مصالحت، اتحاد اور دوستی کی ترغیب دی ہے اور یہ کہ دعا کرنے والا اپنے آپ کو اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے.( اب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کی دعا جب انسان پڑھ رہا ہو تو دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی ، یہ احساس ہو گا کہ اگر میں نے اللہ تعالی کی بندگی کا حق ادا کرنا ہے اور میں اپنے لئے ، اپنے حقوق کے لئے، یا اپنی روحانی ترقی کے لئے یہ دعا مانگ رہا ہوں تو ساتھ ہی میں اپنے بھائی کے لئے بھی وہی سوچ رکھوں.تو جب یہ سوچ ہو گی تو ایک حسین معاشرہ پیدا ہو گا.فرماتے ہیں کہ یہ سوچ ہو کہ ) ” اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے.پس جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کی صحیح سوچ ہو تو پھر کسی کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.فرمایا اور اس کی (یعنی اپنے بھائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا ہی اہتمام کرے اور بے چین ہو جیسے اپنے لئے بے چین اور مضطرب ہو تا ہے اور وہ اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان کوئی فرق نہ کرے اور پورے دل سے اس کا خیر خواہ بن جائے.گو یا اللہ تعالی تاکیدی حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے اے میرے بندو! بھائیوں اور محبوں کے ( ایک دوسرے کو) تحائف دینے کی طرح دعا کا تحفہ دیا کرو“.( ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه : 5) میں جب جمع کیا گیا ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد مانگتے ہیں تو یہ دعا کا تحفہ ہے اپنے بھائیوں کے لئے.) فرمایا ” دعا کا تحفہ دیا کرو( اور انہیں شامل کرنے کے لئے ) اپنی دعاؤں کا دائرہ وسیع کرو اور اپنی نیتوں میں وسعت پیدا کرو.اپنے نیک ارادوں میں (اپنے بھائیوں کے لئے بھی ) گنجائش پیدا کر و اور باہم محبت کرنے میں بھائیوں، باپوں اور بیٹوں کی طرح بن جاؤ.“ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ 121-122) (ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 192-193)
419 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پھر آپ فرماتے ہیں کہ اس دعا میں تدبیر اور دعا کو جمع کر دیا ہے کیونکہ مومن تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیتے ہیں.کیونکہ بغیر تدبیر کے دعا کوئی چیز نہیں اور بغیر دعا کے تدبیر کوئی چیز نہیں.فرمایا ” تدبیر اور دعا دونوں (کو) باہم ملا دینا اسلام ہے، اسی واسطے میں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لئے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے اور اس قدر دعا کرے جو دعا کا حق ہے.اسی واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ فاتحہ میں ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھ کر فرمایا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5).اِيَّاكَ نَعْبُدُ اسی اصل تدبیر کو بتاتا ہے اور مقدم اسی کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایت اسباب اور تدبیر کا حق ادا کرے مگر اس کے ساتھ ہی دعا کے پہلو کو چھوڑ نہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مد نظر رکھے.مومن جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاً اس کے دل میں گذرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اُس کا فضل اور کرم نہ ہو.اس لئے وہ معاً کہتا ہے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.یہ ایک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا“.(ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 521 مطبوعہ ربوہ) (الحلم 10 فروری 1904ء صفحہ 2 جلد 8 نمبر 5 کالم 1)( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 194) فرمایا کہ ”مومن...تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیتا ہے، پوری تدبیر کرتا ہے اور پھر معاملہ خدا پر چھوڑ کر دعا کرتا ہے اور یہی تعلیم قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ میں دی گئی ہے.چنانچہ فرمایا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5).جو شخص اپنے قویٰ سے کام نہیں لیتا ہے وہ نہ صرف اپنے قومی کو ضائع کرتا اور اُن کی بے حرمتی کرتا ہے بلکہ وہ گناہ کرتا ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 569-570 مطبوعہ ربوہ) پوری تدبیر اگر نہیں کرتا اور صرف اس بات پر ہی راضی ہو کہ میں دعا کر رہا ہوں اور دعا سے مسئلے حل ہو جائیں گے تو فرمایا کہ یہ بھی گناہ ہے.فرمایا کہ انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے.پس اس خیال کے واسطے اس کو امداد الہی کی بہت ضرورت ہے.اسی لئے پنجوقتہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا.اُس میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ( فرمایا) اور پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے.یعنی ہر نیک کام میں قوی، تدابیر ، جدوجہد سے کام لیں.یہ اشارہ ہے نَعبُدُ کی طرف.کیونکہ جو شخص نری دعا کرتا اور جدوجہد نہیں کرتا وہ بہرہ یاب نہیں ہوتا.جیسے کسان بیج بو کر اگر جد وجہد نہ کرے تو پھل کا امیدوار کیسے بن سکتا ہے اور یہ سنت اللہ ہے.اگر بیج بو کر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے.“ ( ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 174 مطبوعہ ربوہ) اب زمیندار جانتے ہیں کہ بیج بونے کے بعد کھاد دینی بھی ضروری ہے پانی دینا بھی ضروری ہے.جڑی بوٹیاں بھی نکالناضروری ہے.جنگلی جانوروں سے حفاظت بھی ضروری ہے.پس یہ قانونِ قدرت ہر جگہ پر لاگو ہے اور یہاں بھی ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس کو جس خوبصورتی سے اسلام نے بیان فرمایا ہے کسی اور مذہب نے بیان نہیں فرمایا.پھر آپ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اس دعا کو مستقل مزاجی سے کرتے
420 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم رہنا چاہئے کیونکہ دعا کی قبولیت کی بھی ایک گھڑی ہے پتہ نہیں کب دعا قبول ہو جائے.اللہ تعالیٰ کو کب کوئی ادا پسند آجائے.آپ فرماتے ہیں کہ ”اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه : 5 ) (یعنی) جو لوگ اپنے رب کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی عاجزی منظور ہو جاوے تو انکا اللہ خود مددگار ہو جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 374 مطبوعہ ربوہ) پس بندے کا کام عاجزی اور انکسار سے دعا کرتے چلے جانا ہے، اُس سے مدد مانگتے چلے جانا.ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ”استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی پر قرآنِ کریم نے زور دیا ہے.چنانچہ فرمایا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ، 66 (ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 340 مطبوعہ ربوہ ) (ماخوذ از الحکم 24 جولائی 1902ء صفحہ 5 جلد 6 نمبر 26 کالم 2) پس یہ نکتہ ہے جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ مستقل مزاجی اور تکرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اُس کے حضور کھڑے ہو کر مانگی جائے ، اُس سے مستقل ما نگتے چلے جائیں.ایک واقعہ ہے، حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی تھے ( نام مجھے یاد نہیں رہا) لیکن بہر حال لکھنے والے لکھتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ بیس پچیس منٹ سے وہ نماز میں کھڑے ہیں، مسجد اقصیٰ قادیان میں نفل پڑھ رہے تھے ، نیت باندھی ہوئی ہے ، ہاتھ باندھے ہوئے ہیں.تو مجھے شوق پیدا ہوا کہ قریب جاکر دیکھوں کیونکہ ہلکی سی آواز بھی اُن کی آرہی تھی.جب میں قریب گیا تو کہتے ہیں پندرہ منٹ وہاں ساتھ بیٹھارہاہوں اور ملکی آواز میں وہ صرف ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہی پڑھتے چلے گئے.تو یہ عرفان تھا جو ان لوگوں کو حاصل ہوا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پائی.(ماخوذ از سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحه 190-191 مرتبہ ملک نذیر احمد ریاض صاحب) پس یہ فہم اور ادراک ہے اور یہ عرفان ہے جو ہر مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی سے عبودیت کا حق ادا ہوتا ہے.پھر آپ یہ بیان فرماتے ہوئے کہ عبودیت کا حق کس طرح ادا ہو سکتا ہے.فرماتے ہیں کہ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام کی تمام سعادت خدائے رب العالمین کی صفات کی پیروی کرنے میں ہے ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 197) ( یا اُس کو اپنانے میں ہے).پس جب بندہ تکرار سے یہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے آپ کو اُس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی بھی ضرورت ہے ورنہ تو یہ دہرانا ہے اور طوطے کی طرح رٹے ہوئے الفاظ کو بولنا ہی ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی اس کا عرفان حاصل کیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں جو ر ہے انہوں نے عرفان حاصل کیا، اللہ کے فضل سے جماعت میں اب بھی ہیں جو اس چیز کو سمجھتے ہیں اور اس طرح دعا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.پھر چونکہ ان درجات کے حصول میں بڑی روک ریا کاری ہے.( درجات کے حصول میں بڑی روک
خطبات مسرور جلد نهم 421 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء جو ہے ریاکاری ہے) جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے اور تکبر ہے جو بد ترین بدی ہے اور گمراہی ہے جو سعادت کی راہوں سے دور لے جاتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ( اپنے ) کمزور بندوں پر رحم فرماتے ہوئے جو خطا کاریوں پر آمادہ ہو سکتے ہیں اور اپنی راہ میں قدم مارنے والوں پر ترس کھا کر ان مہلک بیماریوں کی دوا کی طرف اشارہ فرمایا.پس اُس نے حکم دیا کہ لوگ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہا کریں تا وہ ریا کی بیماری سے نجات پائیں اور ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کا حکم دیا تا وہ کبر اور غرور سے بچ جائیں.پھر اس نے احیانا کہنے کا حکم دیا تا وہ گمراہیوں اور خواہشات نفسانی سے چھٹکارا پائیں.پس اس کا قول اِيَّاكَ نَعْبُدُ خلوص اور عبودیت تامہ کے حصول کی ترغیب ہے اور اس کا کلام ايَّاكَ نَسْتَعِينُ قوت، ثابت قدمی، استقامت کے طلب کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے.اور اس کا کلام اهدِنَا الصِّرَاطَ اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اور ہدایت طلب کی جائے جو وہ ازراہ مہربانی بطور اکرام انسان کو عطا کرتا ہے.پس ان آیات کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کا راہ سلوک اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ نجات کا وسیلہ بن سکتا ہے جب تک انتہائی اخلاص، انتہائی کوشش اور ہدایات کے سمجھنے کی پوری اہلیت حاصل نہ ہو جائے بلکہ جب تک کسی خادم میں یہ صفات نہ پائی جائیں وہ در حقیقت خدمات کے قابل نہیں ہوتا“.(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحه 146) (ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 198-199) پس یہ مقام ہے عبد بنے کا جو ایک مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام مقبول دعاؤں یا مقبول عبادت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : واضح ہو کہ اس عبادت کی حقیقت جسے اللہ تعالیٰ اپنے کرم و احسان سے قبول فرماتا ہے ( وہ در حقیقت چند امور پر مشتمل ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی بلند و بالا شان کو دیکھ کر مکمل فروتنی اختیار کرنا نیز اس کی مہر بانیاں اور قسم قسم کے احسان دیکھ کر اس کی حمد و ثنا کرنا اس کی ذات سے محبت رکھتے ہوئے اور اس کی خوبیوں، جمال اور نور کا تصور کرتے ہوئے اسے ہر چیز پر ترجیح دینا اور اس کی جنت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو شیطانوں کے وسوسوں سے پاک کرنا ہے“.اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحه 165 ( ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 201) جب اس طرح کی عبادت ہو تو پھر فرمایا کہ تب ہی اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کا حقیقی تصور اُبھرے گا اور انسان ان بندوں میں شامل ہو گا جو عبد الرحمان کہلانے والے ہیں.عبادت سے مراد کیا ہے ؟ اس بارے میں مزید فرمایا کہ : "خداوند کریم نے پہلی سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم دی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه:5) اس جگہ عبادت سے مراد پرستش اور معرفت دونوں ہیں.( یعنی ظاہری عبادت بھی اور اُس کا عرفان حاصل کرنا بھی
خطبات مسرور جلد نهم 422 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 اگست 2011ء ضروری ہے.اور دونوں میں بندے کا عجز ظاہر کیا گیا ہے“.( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 195) ( الحکم 30 جون 1899 جلد نمبر 3 شمارہ نمبر 23 صفحہ نمبر 3 کالم نمبر 2) یہ دونوں چیزیں جو ہیں، عجز ظاہر کیا گیا کہ یہ پیدا کر و تو عجز پیدا ہو گا یا معجز ہو گا تو یہ چیزیں پیدا ہوں گی.پس جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کہیں تو یہ ظاہری عمل بھی ہو اور اس کی معرفت بھی حاصل ہونی ضروری ہے کہ کیوں ہم یہ دعا پڑھ رہے ہیں اور یہ معرفت اُس وقت حاصل ہو گی جیسا کہ میں نے کہا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب مکمل عجز ہو گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پر ستار الہی کہلا سکتے ہیں ؟ بلکہ پرستش اُس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود در میان سے اُٹھ جائے اؤل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حُسن و احسان پر ( اللہ تعالیٰ نے کتنے احسانات ہم پر کئے ہیں) پوری اطلاع ہو.( ہر نعمت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے پتا تو ہے کہ مجھے مل رہی ہے، لیکن یہ پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے.اُس کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو ) اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دُنیا اُسکی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُسکے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے.مگر یہ حالت بجز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو.اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه:5).یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو.خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دیکر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں.مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا.اُسکے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے.خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اُسی پر توکل کرے اور اُسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اُسی کی یاد کو سمجھے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 54) (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 196،195) پھر عبادت کے اصول کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اسی کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ واستغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تاکہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا سے پکا تعلق پیدا ہو جاوے اور اُسی کی
423 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم محبت میں محو ہو جاوے.اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورۃ فاتحہ میں ہی آجاتا ہے دیکھو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اپنی کمزوریوں کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لئے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے اور پھر اسکے بعد نبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دعا مانگی گئی ہے اور ان انعامات کو حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اور جو انہیں کی اتباع اور انہیں کے طریق پر چلنے سے حاصل ہو سکتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگی گئی ہے کہ ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا اور اسی جہان میں ہی ان پر غضب نازل ہوا.یا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اصل مقصود سمجھ لیا اور ر اور است کو چھوڑ دیا.( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 195) (الحکم 24 اکتوبر 1907 جلد نمبر 11 شمارہ نمبر 8 3صفحہ نمبر 11 کالم نمبر 1) گناہ سے نفرت ایک بہت بڑی نعمت ہے.یہ کس طرح حاصل ہو سکتی ہے.اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : اس سے بڑھ کر کوئی نعمت انسان کے لئے نہیں ہے کہ اُسے گناہ سے نفرت ہو اور خدا تعالیٰ خود اُسے معاصی سے بچا لیوے مگر یہ بات نری تدبیر یا نری دعا سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ دونوں سے مل کر حاصل ہو گی.جیسے کہ خدا تعالیٰ نے تعلیم دی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه:5) جس کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ قویٰ خدا تعالیٰ نے انسان کو عطا کئے ہیں اُن سے پورا کام لے کر پھر وہ انجام کو خدا کے سپر د کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ جہاں تک تو نے مجھے تو فیق عطا کی تھی اس حد تک تو میں نے اس سے کام لے لیا.یہ راناكَ نَعْبُدُ کے معنے ہیں اور پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِین کہہ کر خدا سے امداد چاہتا ہے کہ باقی مرحلوں کے لئے میں تجھ سے استمداد طلب کرتا ہوں.وہ بہت نادان ہے جو کہ خدا کے عطا کئے ہوئے قویٰ سے تو کام نہیں لیتا اور صرف دعا سے مدد چاہتا ہے ایسا شخص کامیابی کا منہ کس طرح دیکھے گا ؟“ البدر یکم مارچ 1904 جلد نمبر 3 شمارہ نمبر 9صفحہ نمبر 3 کالم نمبر 1-2 تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 204-205) فرمایا ” جو شخص دعا اور کوشش سے مانگتا ہے وہ متقی ہے.“ (ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 487 مطبوعہ ربوہ) اُسی کی دعائیں پھر قبول ہوتی ہیں.اگر وہ کوشش کے ساتھ دعا نہیں کرتا جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ”اگر وہ کوششوں کے ساتھ دعا بھی کرتا ہے اور پھر اُسے کوئی لغزش ہوتی ہے تو خدا اسے بچاتا ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 487 مطبوعہ ربوہ) (البدر 24 دسمبر 1903ء صفحہ 384 جلد 2 نمبر 48 کالم (3)
424 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جب کوشش بھی ہو اور دعا بھی ہو تو پھر اگر کسی کمزوری کی وجہ سے لغزش ہوتی ہے، کوئی گناہ سر زد ہو تا ہے یا ہونے لگتا ہے تو فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے.پس جب اپنی طرف سے پوری کوشش ہو اور اس کے ساتھ دعا ہو تو خدا تعالیٰ گناہوں سے نفرت بھی پیدا کرتا ہے اور اُن کے بد نتائج سے بھی بچا لیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی صفات الْحَیٰ اور القیوم کا تعلق إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:5) سے جوڑتے ہوئے وو آپ فرماتے ہیں کہ : جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کئے ہیں الْحَقُّ اور الْقَيُّومُ الْحَقُّ کے معنے ہیں خود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا.القیوم خود قائم ہے اور دوسروں کے قیام کا اصلی باعث.ہر ایک چیز کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہیں دونوں صفات کے طفیل سے ہے.پس حتی کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہے اور الفیوم چاہتا ہے کہ اس سے سہارا طلب کیا جاوے.اس کو اِيَّاكَ نَسْتَعینُ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے.“ ( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 160 مطبوعہ ربوہ ) ( الحکم.17 مارچ 1902ء جلد 6 نمبر 10 صفحہ 5 کالم 1) پس چاہے دنیاوی معاملات اور ترقیات ہیں یا روحانی معاملات اور ترقیات ہیں اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن کر ہی انسان ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے.دنیا و آخرت کی نعمتوں کا وارث بن سکتا ہے.جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ رحمانیت پر شکر گزاری عبادت کی طرف راغب کرتی ہے اور رحیمیت کی طالب ہوتی ہے اور طلب ہی یہ ہے وہ استعانت ہے، مدد ہے.اور جیسا کہ مضمون سے ظاہر ہے، یہ دنیاوی معاملات پر بھی حاوی ہے اور روحانی معاملات پر بھی حاوی ہے.جیسا کہ میں نے شروع میں بیان کیا تھا کہ نماز جو عبادت کا مغز ہے اُس کی اہمیت کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اور سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ انسان التزام کے ساتھ پانچوں نمازیں اُن کے اول وقت پر ادا کرنے اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر مداومت رکھتا ہو اور حضورِ قلب، ذوق، شوق اور عبادت کی برکات کے حصول میں پوری طرح کوشاں رہے کیونکہ نماز ایک ایسی سواری ہے جو بندہ کو پروردگارِ عالم تک پہنچاتی ہے.اس کے ذریعے ( انسان) ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں گھوڑوں کی پیٹھوں پر بیٹھ کر) نہ پہنچ سکتا.اور نماز کا شکار، ثمرات یعنی اس کے جو پھل ہیں) تیروں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا.اس کا راز قلموں سے ظاہر نہیں ہو سکتا.(لکھنے سے اور پڑھنے سے نہیں مل سکتا).اور جس شخص نے اس طریق کو لازم پکڑا اُس نے حق اور حقیقت کو پالیا اور اُس محبوب تک پہنچ گیا جو غیب کے پردوں میں ہے اور شک و شبہ سے نجات حاصل کر لی.پس تو دیکھے گا کہ اُس کے دن روشن ہیں، اس کی باتیں موتیوں کی مانند ہیں اور اس کا چہرہ چودھویں کا چاند ہے، اُس کا مقام صدر نشینی ہے.جو شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی سے جھکتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے بادشاہوں کو جھکا دیتا ہے اور اُس مملوک بندہ کو مالک بنا دیتا ہے“.( اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحه 165-167 ( ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحہ 201-202) یہ بھی اعجاز المسیح کا عربی حوالہ ہے، اس کا ترجمہ ہے.نماز بیشک افضل عبادت تو ہے، بندے کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بھی ہے لیکن بعض لوگوں کو اللہ
425 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے کہ اُن کی نمازیں قبول نہیں ہو تیں.اس لئے کہ اُس کا حق ادا نہیں ہوتا.بعض لوگ خود کہتے ہیں کہ نماز میں مزہ نہیں آتا.وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو ہونی چاہئے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں لذت نہیں آتی مگر میں بتلاتا ہوں کہ بار بار پڑھے اور کثرت کے ساتھ پڑھے.تقویٰ کے ابتدائی درجہ میں قبض شروع ہو جاتی ہے اُس وقت یہ کرنا چاہئے کہ خدا کے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نستعین کا تکرار کیا جائے.شیطان کشفی حالت میں چور یا قزاق دکھایا جاتا ہے اس کا استغاثہ جناب الہی میں کرے کہ یہ قزاق لگا ہوا ہے تیرے ہی دامن کو پنجہ مارتے ہیں جو اس استغاثہ میں لگ جاتے ہیں“( اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں مشغول ہو جاتے ہیں دعاؤں میں شیطان کے خلاف.فرمایا ”جو اس استغاثہ میں لگ جاتے ہیں اور تھکتے ہی نہیں وہ ایک قوت اور طاقت پاتے ہیں جس سے شیطان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس قوت کے حصول اور استغاثے کے پیش کرنے کے واسطے ایک صدق اور سوز کی ضرورت ہے.“ (سچائی بھی ہو اور بڑی درد ہو اس دعا کو مانگنے کے لئے) اور یہ چور کے تصور سے پیدا ہو گا“.( یہ درد کس طرح پیدا ہو گا ؟ یہ سچائی سے آگے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا کس طرح پیدا ہو گا؟ جب یہ تصور کیا جائے کہ شیطان چور کی طرح میرے پیچھے پڑ گیا ہے.) ” اور یہ چور کے تصور سے پیدا ہو گا جو ساتھ لگا ہوا ہے.وہ گویا ننگا کرنا چاہتا ہے اور آدم والا ابتلاء لانا چاہتا ہے.اس تصور سے روح چلا کر بول اُٹھے گی.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ “.الحكم 17 فروری 1901 جلد نمبر 5 شمارہ نمبر 6 صفحہ نمبر 2 کالم نمبر (3) ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحہ 208) جیسا کہ پہلے بھی میں نے مثال دی کہ صحابہ یا جن لوگوں کو عرفان حاصل ہے وہ کس طرح نماز میں اسی لفظ کو بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کریں اور اُس سے مدد چاہتے ہوئے شیطان سے بھی بچیں اور پھر مزید اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا ” نمازوں میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا تکرار بہت کرو.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ خدا کے فضل اور گمشدہ متاع کو واپس لاتا ہے “ (جیسا کہ میں نے پہلے بھی مثال دی تھی کہ یہ بار بار کا جو تکرار ہے یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے.آپ فرماتے ہیں) کہ گمشدہ متاع کو واپس لا تا ہے.“ (جو سامان انسان سے کھویا گیا ہے اُس کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ واپس لے کے آتا ہے.) ( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 469 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ ان شہ پاروں کو ، جواہر پاروں کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے والا بنائے اور ہم خدا تعالیٰ کے ان بندوں میں شامل ہو جائیں جن کو ہر آن اللہ تعالیٰ کی استعانت حاصل رہتی ہے اور جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھتا ہے.اور اس رمضان سے ہم بھر پور فائدہ اُٹھانے والے ہوں.جو بقیہ دن رہ گئے ہیں ان میں خاص طور پر دعاؤں پر بہت زور دیں.الفضل انٹر نیشنل 9 ستمبر تا 15 ستمبر 2011ء جلد 18 شماره 36 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد نهم 426 34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 2011ء بمطابق 26 ظہور 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گذشتہ خطبہ میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کے حوالے سے سورۃ فاتحہ کی آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کی وضاحت کی تھی.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا احسان ہے، بہت عظیم احسان ہے کہ اُس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جن سے ہمیں قرآنِ کریم کے گہرے معانی اور تفسیر کا علم ہوا.اُس کے بعد مجھے بہت سے خط آئے کہ ہمیں اس خطبے کے بعد اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه: 5) کا جو عرفان حاصل ہوا ہے اور نماز میں اس دعا پر غور کرتے ہوئے پڑھنے سے جو لذت آئی ہے اُس کا مزہ ہی کچھ اور تھا اور ہے.بعض عربی بولنے والے عرب لوگوں نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب "کرامات الصادقین“ ہم نے پہلے بھی پڑھی ہوئی تھی لیکن خطبہ میں اس کے حوالے سُن کر جو عرفان حاصل ہوا ہے اُس کے بعد لگتا تھا کہ یہ پہلے نہیں پڑھا گیا.یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ایسا ہے جس کی جگالی کرتے رہنا چاہئے.بار بار جب یہ کلام سامنے آتا ہے تو نئے باب کھلتے ہیں، نئے اسرار ورموز کا پتہ چلتا ہے.رمضان میں ویسے بھی دعاؤں کی طرف توجہ ہوتی ہے اس لئے دعا کا جو مضمون ہے وہ دل کو جا کر لگتا ہے.دعاؤں کا یہ مضمون اور آپ کی تفسیر آج بھی جاری رہے گی.گذشتہ خطبہ میں میں نے ایک اقتباس پڑھا تھا اب میں اُس کا خلاصہ بیان کروں گا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ايَّاكَ نَعْبُدُ میں خالص ہو کر اللہ کا عبد بننے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں عبودیت کے لئے قوت، ثابت قدمی، استقامت اور مستقل مزاجی کی دعا طلب کی گئی ہے.کیونکہ قوت اور ثبات قدمی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے.اگر قوت اور ثبات قدمی نہ ہو تو عبودیت کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا.عبادت کرنے کی اگر کوشش بھی ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہیں ہو گی تو چند دن کی عبادت کے بعد پھر وہی عبادت میں بے قاعد گی، بے لذتی اور دل کے اُچاٹ ہونے کا عمل شروع ہو سکتا ہے.کئی لوگ لکھتے ہیں کہ رمضان کے ماحول کی وجہ سے عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی.ایک ماحول بنا ہوا تھا، اُس کے دھارے میں ہم بھی بہتے جارہے تھے.رمضان ختم ہوا تو پھر
427 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء وہیں واپسی ہو گئی جہاں سے شروع ہوئے تھے.نمازیں ہیں لیکن اُن میں وہ لذت اور ذوق نہیں.پس اس ماحول میں جب دعاؤں کی طرف توجہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے عبادت میں ذوق شوق، قوت اور ثبات قدمی کی جو دعا سکھائی ہے وہ دعا بھی کرنی چاہئے تا کہ عبودیت کا صحیح حق ادا ہو اور ہمیشہ ہو تا چلا جائے.اگر ثبات قدمی نہیں تو عبودیت کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : عبد بنے کی طرف توجہ اور ثبات قدمی کی طلب کے بعد پھر وہ کونسی اہم چیز ہے جو ایک مومن میں ہونی چاہئے.اس بارہ میں میں نے جو اقتباس پچھلے خطبہ میں پڑھا تھا اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اہم چیز یہ ہے کہ ایک مومن کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کسی قسم کی قوت ہے اور وہ قوت کس طرح حاصل ہو گی، ثبات قدم کس پر ہو اور اس کا معیار کیا ہو ؟ اگر اس کا علم نہ ہو، اگر عبد بننے کے لئے ہدایت کے راستے کی نشاندہی نہ ہو تو پھر انسان اندھیرے میں ہاتھ پیر مار تارہے گا، اُسے پتہ ہی نہیں ہو گا کہ وہ کس قسم کی عبودیت کی تلاش میں ہے.اور وہ کیا چیز ہے ؟ کونسی عبادتیں اس نے کرنی ہیں ؟ کیا چیزیں اُس نے مانگی ہیں ؟ کن راستوں کی اُس نے تلاش کرنی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس لئے ضروری ہے کہ علم اور ہدایت کی تلاش کے لئے اهْدِنَا الصِّرَاط کی دعا کی جائے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے.تا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی عبادت اور اُس کی کوشش میں برکت ڈالتے ہوئے ایک حقیقی عابد اور اللہ تعالیٰ کے راستوں کے متلاشی کو ہمیشہ ہدایت کے راستوں پر گامزن رکھے، اس پر توفیق دیتا چلا جائے.(ماخوذ از کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 146) (ماخوذ از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 198-199) پس اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا اُس ثبات قدم اور قوت کے حصول اور اُس کا علم رکھنے کے لئے ہے جو مستقل مزاجی سے عبودیت کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے.اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے.آپ علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق ان تینوں دعاؤں کا خلاصہ گویا یہ بنے گا کہ جب تک انتہائی اخلاص، انتہائی کوشش اور ہدایت کو سمجھنے کی پوری صلاحیت حاصل نہ ہو جائے اُس وقت تک ایک حقیقی مومن کو، سچا عابد بننے والے کو آرام سے نہیں بیٹھنا چاہئے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم نجات یافتہ ہو گئے یا ہم نے اپنے مقصد کو پالیا، یا خد اتعالیٰ کے پیار کے سلوک کے ان اعلیٰ معیاروں کو حاصل کر لیا جو معیار ایک مومن کا مطمح نظر ہونے چاہئیں.پس جب یہ سوچ ایک مومن کی ہو کہ ہم نے آرام سے نہیں بیٹھنا جب تک کہ ان راستوں پر نہیں چلتے تو پھر ایسے مومن کے قدم آگے بڑھتے ہیں، پھر مسجدوں میں دل لگتے ہیں، پھر نمازوں کی حفاظت کی فکر ہوتی ہے.پھر رمضان کے روزوں کا حق ادا ہوتا ہے.پھر رمضان کے بعد بھی عبادت میں ذوق کی اور شوق کی اور جس طرح پچھلی دفعہ میں نے پڑھا تھا کہ فرمایا ایک جلن ہونی چاہئے ، اس جلن کو حاصل کرنے کی کوشش رہتی ہے.(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 120.تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 190-191) گزشتہ جمعہ میں جیسا کہ میں نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ :5) کی وضاحت تو کچھ حد تک ہو
خطبات مسرور جلد نهم 428 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء گئی تھی اور اس کے مختلف پہلو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے وہ آپ کے سامنے رکھے تھے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) کا مطلب، اس کے بعض گہرے مطالب، اس کے معنی، اس کی روح کیا ہے ؟ وہ پیش کروں گا جن سے پتہ لگتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) کی جو دعا ہے وہ کس قدر وسیع ہے اور ہمارے ہر معاملے کا کس طرح اس دعانے احاطہ کیا ہوا ہے ؟ پہلے جو اقتباس میں پیش کروں گا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہدایت پانے کے قابل کون لوگ ہوتے ہیں ؟ وہ کون لوگ ہیں جنہیں ہدایت پانے کے صحیح راستوں کا پتہ چلتا ہے اور ان راستوں پر چلنے کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.( یہ بھی کرامات الصادقین کا ہی حوالہ ہے جس کا ترجمہ پڑھتا ہوں) ”اور اس سورۃ میں ( یعنی سورۃ فاتحہ میں) اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندوں کو تعلیم دیتا ہے.پس گویاوہ فرماتا ہے.اے میرے بندو! تم نے یہود و نصاری کو دیکھ لیا ہے.تم اُن جیسے اعمال کرنے سے اجتناب کرو اور دعاء اور استقامت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور یہود کی مانند اللہ کی نعمتوں کو مت بھلاؤ ورنہ اُس کا غضب تم پر نازل ہو گا.اور تم سچے علوم اور دعا کو مت چھوڑو اور نصاری کی طرح طلب ہدایت میں سُست نہ ہو جاؤ ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے اور ہدایت کے طلب کرنے کی ترغیب دی اس (بات کی) طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہدایت پر ثابت قدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا اور گریہ وزاری میں دوام کے بغیر ممکن نہیں“.( ہدایت پر ثابت قدمی جب تک مستقل مزاجی سے دعا نہیں کرو گے ، گریہ وزاری نہیں کرو گے یہ ممکن نہیں ہے) فرمایا ”مزید بر آں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی (ملتی) ہے اور جب تک کہ خدا تعالیٰ خود بندہ کی رہنمائی نہ کرے اور اسے ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل نہ کر دے وہ ہر گز ہدایت نہیں پاسکتا.پھر اس (امر کی) طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدایت کی کوئی انتہا نہیں اور انسان دعاؤں کی سیڑھی کے ذریعہ ہی اُس تک پہنچ سکتے ہیں اور جس نے دعا کو چھوڑ دیا اس نے اپنی سیڑھی کھو دی.یقینا ہدایت پانے کے قابل وہی ہے جس کی زبان ذکر الہی اور دعاء سے ترر ہے اور وہ اس پر دوام اختیار کرنے والوں میں سے ہو“.شخص ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 214) (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 124) پس ایک مومن کے لئے جو ہدایت کی تلاش میں ہے یہ ہدایات ہیں کہ دعا اور استقامت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو.یہ کبھی نہ چھوٹے.طلب ہدایت میں سست نہ ہو ور نہ گمراہ ہو جاؤ گے.یادرکھو! ہدایت پر ثابت قدمی، مستقل مزاجی سے دعا اور گریہ وزاری کے بغیر ممکن نہیں.اگر دعا نہیں کرو گے تو ہدایت کے راستے بھی بند ہو جائیں گے کیونکہ ہدایت بندہ اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتا بلکہ یہ خدا کی طرف سے ملتی ہے.پھر فرمایا یہ بات ہمیشہ سامنے رکھو کہ ہدایت کی کوئی انتہا نہیں ہے کہ ہم نے ہدایت پالی اور جو حاصل کرنا تھا وہ کر لیا.ایک مقام پر پہنچ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں مکمل طور پر ہدایت یافتہ ہو گیا.پس جب انتہا نہیں تو دعاؤں کی سیڑھی کی ہر وقت ضرورت ہے.پس ایک مومن کو یہ اہم بات یاد رکھنی چاہئے کہ صرف وقتی عبادت ہدایت کا باعث نہیں بنتی بلکہ
429 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حقیقی ہدایت پانے والے وہ ہیں جن کی زبان ذکر الہی اور دعا سے تر ر ہے.پس ان دنوں میں جبکہ ہمیں رمضان کی وجہ سے ذکر الہی کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے، دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اسے مستقل اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہدایت کے راستوں پر ہمیشہ گامزن رہیں اور اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی ہم کوشش کرتے چلے جائیں.پھر آپ ہمیں صراط مستقیم کے معنے سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”صراط لغت عرب میں ایسی راہ کو کہتے ہیں جو سیدھی ہو یعنی تمام اجزاء اس کے وضع استقامت پر واقع ہوں اور ایک دوسرے کی نسبت عین محاذات پر ہوں“.(الحکم 10 فروری 1905ء صفحہ 4 جلد 9 شمارہ 5 کالم نمبر (2) ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 217) یعنی کوئی کبھی نہ ہو، کوئی ٹیڑھا پن نہ ہو، کوئی پریشان کرنے والی چیز نہ ہو ، واضح اور سیدھا اور ایک مقصد کی طرف لے جانے والا راستہ ہو ، یہ نہیں کہ ایک جگہ پہنچ کر انسان سوچے اور confuse ہو جائے کہ میں نے دائیں جانا ہے کہ بائیں جانا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کو پانے کا جو مقصد ہے، اُس طرف لے جانے والا راستہ ہو ، اُسی راستے کو صراط کہتے ہیں.خطرے کی نشاندہی کرے، جہاں مڑنا ہے وہاں مڑنے کی طرف رہنمائی کرے.پھر آپ علیہ السلام اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) کے حقیقی معنی بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : صوفی لوگ.....اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے معنی بھی فنا ہی کے کرتے ہیں.یعنی روح، جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہو جائیں اور اپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مر جائیں“.فرمایا " بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادے اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دنیا ہی کے جو شوں اور ارادوں کی ناکامیوں میں اس دنیا سے اُٹھ جاتے ہیں.فرمایا ”نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے، ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں“.(حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط صفحہ 18و20، 21 حوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 218) ملفوظات جلد 3 صفحہ 3735) یعنی مستقل مزاجی سے دعاؤں کی طرف لگے رہو گے اللہ کی طرف جاؤ گے تو تبھی انسانیت کے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں یا اُن کی طرف قدم بڑھ سکتا ہے.پس جب اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ: 6) کی دعا انسان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھی سامنے رکھنا ہو گا.اوامر اور نواہی کو بھی دیکھنا ہو گا کہ کونسی باتیں کرنے کی ہیں اور کونسی نہیں کرنے کی، قرآنِ کریم کے حکموں پر نظر رکھنی ہو گی.اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے کیونکہ حقوق العباد بھی خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں.جب یہ ہو گا تب ہی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی جو دعا ہے وہ دل کی آواز بنے گی تبھی استقامت کا مقام حاصل ہو گا.تبھی انسانیت کے کمال حاصل کرنے کی طرف حقیقی توجہ اور کوشش ہو گی اور تبھی انسان پھر خدا تعالیٰ کی آغوش میں آکر قبولیتِ دعا کے نظارے بھی دیکھے گا.انسان جب استقامت دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا چلا جاتا ہے.ہدایت پر رہنے کے لئے صرف خدا کو پکارتا ہے تو پھر ہی صراطِ مستقیم قائم رہتی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 430 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو آگے چلاتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : دعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسم اعظم جمع ہوں اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے.خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بت کیوں نہ ہو ؟ جب یہ حالت ہو جائے تو اُس وقت اُدعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 37 مطبوعہ ربوہ) و ور کا مزا آ جاتا ہے”.جب انسان ربنا اللہ کہتا ہے جب یہ پکار ہو گی اور پھر اُس پر استقامت دکھاتا ہے تو تب جو دعاؤں کی توفیق ملتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ اصل توفیق ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ اُدعُونِي استجب لکھ کا مزا آتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعاؤں کو سنوں گا.پس استقامت شرط ہے اور اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھتے ہوئے ، اُسی کو رب سمجھتے ہوئے ، اُس کے آگے جھکنا شرط ہے.پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ یہ دعا لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے، یعنی کسی بھی مرتبے کا آدمی ہو اُسے اس دعا کی ضرورت ہے.آپ فرماتے ہیں : پس خلاصہ یہ ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) کی دعا انسان کو ہر کجی سے نجات دیتی ہے اور اس پر دین قویم کو واضح کرتی ہے اور اُس کو ویران گھر سے نکال کر پھلوں اور خوشبوؤں بھرے باغات میں لے جاتی ہے اور جو شخص بھی اس دعا میں زیادہ آہ وزاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو خیر و برکت میں بڑھاتا ہے.دعا سے ہی نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت حاصل کی اور اپنے آخری وقت تک ایک لحظہ کے لئے بھی دعا کو نہ چھوڑا اور کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس دعا سے لا پرواہ ہو یا اس مقصد سے منہ پھیر لے، خواہ وہ نبی ہو یا رسولوں میں سے ، کیونکہ رُشد اور ہدایت کے مراتب کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ بے انتہا ہیں اور عقل و دانش کی نگاہیں اُن تک نہیں پہنچ سکتیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی اور اسے نماز کا مدار ٹھہرایا تالوگ اُس کی ہدایت سے فائدہ اُٹھائیں اور اس کے ذریعہ توحید کو مکمل کریں اور ( خدا تعالیٰ کے وعدوں کو یاد رکھیں اور مشرکوں کے شرک سے نجات پاویں.اس دعا کے کمالات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے اور ہر فرد پر بھی حاوی ہے.وہ ایک غیر محدود دعا ہے جس کی کوئی حد بندی یا انتہا نہیں اور نہ اس کی کوئی غایت یا کنارہ ہے.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو خدا کے عارف بندوں کی طرح اس دعا پر مداومت اختیار کرتے ہیں، زخمی دلوں کے ساتھ جن سے خون بہتا ہے اور ایسی روحوں کے ساتھ جو زخموں پر صبر کرنے والی ہوں اور نفوسِ مطمئنہ کے ساتھ “.( یعنی مستقل مزاجی کے ساتھ اور درد کے ساتھ اس دعا پر قائم رہتے ہیں).فرمایا یہ وہ دعا ہے جو ہر خیر ، 66 سلامتی، پختگی اور استقامت پر مشتمل ہے اور اس دعا میں رب العالمین کی طرف سے بڑی بشارتیں ہیں.“ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 136-137 صفحہ 95-94.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 234،233) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.میں اس کا خلاصہ بیان کر دوں کہ کیوں یہ سب مراتب کے لوگوں کے لئے ضروری ہے؟ اس لئے کہ انسان کو ہر قسم کے ٹیڑھے پن اور کبھی سے یہ بچاتی ہے.
431 خطبات مسرور جلد نهم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء انسان کے راستے میں مختلف طریق سے ورغلانے کے لئے شیطان بیٹھا ہوا ہے اگر دل سے نکلی ہوئی اِهْدِنَا الصراط الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) کی دعا ہو تو یہ دعا پھر شیطان کے حملوں سے بچاتی ہے.اُن کو ایمان پر قائم رکھتی ہے.آجکل جب دنیا مذ ہب سے دور ہو رہی ہے، یہ دعا بہت بڑی دعا ہے جو ایک انسان کو سیدھے راستے پر قائم رکھ سکتی ہے بشر طیکہ جیسا کہ پہلے میں بیان کر چکا ہوں کہ انسان مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ سے مدد کا طالب رہے ، بلکہ اگر خالص ہو کر کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہے تو اللہ تعالیٰ صحیح دین کی طرف رہنمائی فرماتا ہے.بلکہ لامذہبوں کی بھی رہنمائی فرماتا ہے.اُن کے لئے بھی یہ ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے بشر طیکہ نیت نیک ہو.آپ نے فرمایا کہ: نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت اس دعا کے ذریعہ سے حاصل کی ہے.پس کسی بھی مرتبے کا انسان ہو، کوئی بھی شخص ہو جتنی زیادہ آہ وزاری سے یہ دعامانگے گا خدا تعالیٰ اُس کو خیر و برکت میں بڑھائے گا.پس ایک مومن کہلانے کا دعویٰ کرنے والے کے لئے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ وہ اس دعا سے غفلت برتے بلکہ نبیوں اور رسولوں کے لئے بھی یہ دعا ضروری ہے کیونکہ رُشد و ہدایت کے مراتب اور معیار کبھی ختم نہیں ہوتے.ہر انسان کا جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اُس کا رشد و ہدایت کا ایک مرتبہ ہے اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی کوئی حد نہیں اس لئے ہدایت کے اگلے مرحلوں کی تلاش بھی ایک مومن کے لئے ضروری ہے.ایک جگہ پر پہنچ کر پھر اگلے مرحلے کو تلاش کرنا چاہئے اور اُس کی تلاش کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا سکھائی ہے کہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6).فرمایا کہ : توحید بھی اس دعا کے ذریعہ مکمل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے ، اس کے بتائے ہوئے ہدایت کے راستوں پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس ہی جایا جاتا ہے.اس سے مدد مانگی جاتی ہے.وہی ہے جو ہمیں ہدایت یافتوں میں رکھ سکتا ہے نہ کہ کوئی غیر.پس یہ دعا ہر مرتبے کے انسان کے لئے ضروری ہے.ہر اُس شخص کے لئے ضروری ہے جو خدا کی بتائی ہوئی ہدایت کی تلاش میں ہے اور اُس کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.آپ نے فرمایا کہ حقیقی مومن وہی ہے جو مستقل مزاجی سے اور ایک درد کے ساتھ اس دعا کو کرنے والا ہے.پس جب یہ دعا ہر مرتبہ کے لوگوں کے لئے ضروری ہے تو اس کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے.اس اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ : ساتویں صداقت جو سورہ فاتحہ میں درج ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة:6) ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم کو وہ راستہ دکھلا اور اس راہ پر ہم کو ثابت اور قائم کر کہ جو سیدھا ہے جس میں کسی نوع کی کبھی نہیں.اس صداقت کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی حقیقی دعا یہی ہے کہ وہ خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ طلب کرے کیونکہ ہر یک مطلوب کے حاصل کرنے کے لئے طبعی قاعدہ یہ ہے کہ ان وسائل کو حاصل کیا جائے جن کے ذریعہ سے وہ مطلب ملتا ہے اور خدا نے ہر یک امر کی تحصیل کے لئے یہی قانون قدرت ٹھہر ارکھا ہے کہ جو اس کے حصول کے
432 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم وسائل ہیں وہ حاصل کئے جائیں اور جن راہوں پر چلنے سے وہ مطلب مل سکتا ہے وہ راہیں اختیار کی جائیں اور جب انسان صراط مستقیم پر ٹھیک ٹھیک قدم مارے اور جو حصول مطلب کی راہیں ہیں ان پر چلنا اختیار کرے تو پھر مطلب خود بخود حاصل ہو جاتا ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ان راہوں کے چھوڑ دینے سے جو کسی مطلب کے حصول کے لئے بطور وسائل کے ہیں یو نہی مطلب حاصل ہو جائے بلکہ قدیم سے یہی قانون قدرت بندھا ہوا چلا آتا ہے کہ ہر یک مقصد کے حصول کے لئے ایک مقرری طریقہ ہے جب تک انسان اس طریقہ مقررہ پر قدم نہیں مار تاتب تک وہ امر اس کو حاصل نہیں ہوتا.پس وہ شے جس کو محنت اور کوشش اور دعا اور تضرع سے حاصل کرنا چاہئے صراط مستقیم ہے.جو شخص صراط مستقیم کی طلب میں کوشش نہیں کرتا اور نہ اس کی کچھ پر واہ رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایک کج رو آدمی ہے اور اگر وہ خدا سے بہشت اور عالم ثانی کی راحتوں کا طالب ہو تو حکمت الہی اسے یہی جواب دیتی ہے کہ اے نادان اول صراط مستقیم کو طلب کر.پھر یہ سب کچھ تجھے آسانی سے مل جائے گا.سو سب دعاؤں سے مقدم دعا جس کی طالب حق کو اشد ضرورت ہے طلب صراط مستقیم ہے“.(براہین احمدیہ.حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد اول حاشیہ نمبر 11 صفحہ 532 تا 537) تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 235،234) پھر صراطِ مستقیم کی روح اور حقیقت کو بیان فرماتے ہوئے اور یہ کہ ایک مومن کو صراطِ مستقیم کے کن معیاروں کے حصول کی کوشش کرنی چاہیئے.آپ فرماتے ہیں کہ : صراطِ مستقیم کی حقیقت جو دین قویم کے مد نظر ہے وہ یہ ہے کہ جب بندہ اپنے فضل و احسان والے خدا سے محبت کرنے لگے ، اُس کی رضا پر راضی رہے.اپنی روح اور دل اُس کے سپرد کر دے اور اپنے آپ کو اُس خدا کو سونپ دے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے.اُس کے علاوہ کسی اور سے دعانہ کرے.اسی سے خاص محبت رکھے.اُسی سے مناجات کرے اور اُسی سے رحمت و شفقت مانگے.اپنی بے ہوشی سے ہوش میں آجائے.اپنی چال سیدھی کرے اور خدائے رحمان سے ڈرے.محبت الہی اُس کے رگ وریشہ میں سرایت کر جائے.اللہ تعالیٰ اُس کی مدد کرے اور اُس کے یقین اور ایمان کو پختہ کرے.تب بندہ اپنے پورے دل، اپنی خواہشات، اپنی عقل، اپنے اعضاء اور اپنی زمین اور کھیتی باڑی سب کے ساتھ کلی طور پر اپنے رب کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کے سوا سب سے موڑ لیتا ہے.اُس کی نگاہ میں اپنے رب کے سوا اور کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا.وہ اپنے محبوب ہی کی پیروی کرتا ہے.(ترجمه عربی عبارت کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 133-134 - بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 239،238) " پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقیم کی دعا جو ایک حقیقی مومن کو کرنی چاہئے اُس سے دنیا بھی ملتی ہے اور دین بھی مل جاتا ہے.فرمایا کہ اس کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے.اپنی بیہوشیوں سے نکلنا پڑے گا.دین سے جو غفلت ہے یہ بیہوشی کی حالت ہے اس سے نکلو اور اس کی تلاش کرو.ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو.جب یہ چیز ہو گی تو پھر تمہاری دنیا بھی دین بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام ہو رہا ہو گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلامی ہدایت پر قائم رہنے کے لئے تین چیزیں ہیں جن کا ایک مسلمان کو خیال رکھنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہدایت مشکل ہے.یہی تین باتیں ہیں جو اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ
خطبات مسرور جلد نهم 433 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء کونسی ہدایت ہے جو ایک مومن کو طلب کرنی چاہئے.اور اُس کو اپنانا چاہئے.فرمایا سب سے پہلی چیز (1) قرآنِ شریف جو کتاب اللہ ہے، جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے.وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے.دوسری سنت (ہے)...(اور ) سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآنِ شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی.یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خد اتعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں.“ ( اُن کے عمل جو ہیں خدا تعالیٰ کے حکموں کی تفسیر ہوتی ہے).”تا اس قول کا سمجھنالوگوں پر مشتبہ نہ رہے“ ( واضح ہو جائے ہر چیز ) ” اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں“( اور تیسری چیز) ”تیسر اذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے“.( ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 209- 210 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 242،241).( حدیثیں جو ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد ، مختلف راویوں کے ذریعے سے جمع کی گئی تھیں اُس کی تیسری حیثیت ہے).پس ان میں سے وہ جو قرآن اور سنت سے نہیں ٹکراتیں وہی صحیح احادیث ہیں اور ایک مومن کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہیں.آپ نے فرمایا کہ اہل حدیث کی طرح ہم سنت اور حدیث کو ایک چیز نہیں سمجھتے.تو بہر حال یہ ایک تفصیلی لائحہ عمل ہے جو ایک مومن کی ہدایت کے لئے موجود ہے.جب بھی ہدایت کی دعا ایک مومن مانگے تو ان چیزوں کو سامنے رکھے اور اُن کی تلاش میں رہے اور یہی پھر حقیقی ہدایت کی طرف رہنمائی کرے گی اور بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق بھی پختہ ہو گا.بعض لوگ پیروں فقیروں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں.بعض دفعہ مجھے شکایتیں ملتی ہیں کہ غیروں کے زیر اثر بعض احمدی بھی پیروں سے ، دوسروں سے ، دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اور اپنی دعاؤں کی طرف کم توجہ ہوتی ہے یا جادوٹونے پر یقین ہوتا ہے اس لئے اُس کو تڑوانے کے لئے دوسروں کے پاس جاتے ہیں اور بعض دفعہ غیروں کے پاس بھی چلے جاتے ہیں.بعض لوگوں میں جہالت اس حد تک ہے اور اپنے عملوں کی طرف توجہ نہیں ہے.دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہے.یہ چیز انتہائی غلط ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ شکر ہے کہ چند ایک کے علاوہ شاید احمدیوں میں ایسے لوگ نہ ہوں ورنہ غیروں میں تو شرک کی انتہا ہوئی ہوئی ہے اور پھر یہ لوگ اپنے آپ کو مومن اور مسلمان بھی سمجھتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے“.( یعنی اسلام کا نام استقامت رکھا ہے) ”جیسا کہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - (الفاتحہ 7،6) یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر
434 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم قائم کر “.(استقامت وہ رستہ جس پر مستقل مزاجی سے انسان چلے اور ہدایت یافتہ ہو.تو آپ نے فرمایا کہ اس لئے اسلام کا نام اس حوالے سے قرآنِ کریم میں استقامت ہے).اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے“.فرماتے ہیں کہ ”واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے“.( اس کی وجہ ، اصل وجہ جو ہے اُس پر غور کر کے سمجھی جاتی ہے).اور انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے“.(انسان کے وجود کا مقصد کیا ہے ؟) کہ ”نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے“.( انسان جو ہے وہ خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اُس کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے).“ پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی وہ در حقیقت خدا کے لئے ہو جائے.اور جب وہ اپنے تمام قومی سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہو گا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑ کی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آجاتی ہیں.ایسا ہی جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بالکل سیدھا ہو جائے اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں کچھ حجاب نہ رہے تب فی الفور ایک نورانی شعلہ اس پر نازل ہوتا ہے اور اس کو منور کر دیتا ہے اور اس کی تمام اندرونی غلاظت دھو دیتا ہے.تب وہ ایک نیا انسان ہو جاتا ہے اور ایک بھاری تبدیلی اسکے اندر پیدا ہوتی ہے.تب کہا جاتا ہے کہ اس شخص کو پاک زندگی حاصل ہوئی.اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے.اسی کی طرف اللہ جلّ شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَغْنِي فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا (بنی اسرائیل : 73).یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا اور خدا کے دیکھنے کا اُس کو نور نہ ملاوہ اُس جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا“.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 345،344) پھر آپ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) کی دعا کی قبولیت کے لئے کن پہلوؤں کو مد نظر رکھنا چاہئے ، فرماتے ہیں کہ : اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لحاظ رکھیں.کیونکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر مقدم رکھا ہے.پس پہلے عملی طور پر شکریہ کرنا چاہئے اور یہی مطلب اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ میں رکھا ہے“.عملی شکر جو ہے اُس کی تفسیر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے یا اُس میں اس کی وضاحت آئی ہے.یعنی دعا سے پہلے اسباب ظاہری کی نگہداشت ضروری طور پر کی جاوے اور پھر دعا کی طرف رجوع ہو.اولاً عقائد ، اخلاق اور عادات کی اصلاح ہو پھر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم " ( پہلے اپنے عقیدے درست کر و.بدعات اور غلط قسم کی جو چیز میں رواج پاگئی ہیں ان کو چھوڑو.اس عقیدے پر قائم ہو جو حقیقی اسلامی عقیدہ ہے پھر اپنے اخلاق بہتر کرو.اپنے عمل صحیح کرو.اُن کی اصلاح ہو جائے تو پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ہو.تب ہی اللہ تعالیٰ پھر اس کو قبول فرماتا ہے.فرمایا " اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا تعلیم کرنے میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ انسان تین پہلو ضرور مد نظر رکھے.اول اخلاقی حالت.دوم حالت عقائد.سوم اعمال کی حالت.مجموعی طور پر یوں کہو کہ انسان
435 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم خداداد قوتوں کے ذریعہ سے اپنے حال کی اصلاح کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مانگے“.( اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو طاقتیں دی ہیں، عقل ہے، شعور ہے، اُس کے ذریعے سے اپنی اصلاح کی کوشش کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مانگے کہ جو مجھ میں تھا اُس کو تو استعمال کر رہا ہوں اب تو مجھے ہدایت کی طرف لے کر آ، کیونکہ تیری مدد کے بغیر ہدایت نہیں مل سکتی.یہ مطلب نہیں کہ اصلاح کی صورت میں دعانہ کرے“.(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ءصفحہ 148.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 266-267( اُس وقت بھی مانگتا ر ہے جب خود اپنے طور پر بھی کوشش کر رہا ہے تب بھی دعا ضروری ہے).فرمایا کہ "اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں دعا انسان کی زبان، قلب اور فعل سے ہوتی ہے“.(یعنی زبان سے بھی اُس کا اظہار ہو رہا ہو ، دل سے بھی اُس کا اظہار ہو رہا ہو اور انسان کے ہر عمل سے اُس کا اظہار ہو رہا ہو تبھی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا حقیقی دعا بنے گی).اور جب انسان خدا سے نیک ہونے کی دعا کرے تو اُسے شرم آتی ہے مگر یہی ایک دعا ہے جو ان مشکلات کو دور کر دیتی ہے“.(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ 145) (جب انسان زبان سے اقرار کرے گا.دل بھی اس کا اس طرف مائل ہو گا.کوشش بھی ہو گی تو ظاہر ہے پھر اس طرف توجہ بھی پیدا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ سے اب میں مانگ رہا ہوں ، تو اس شرم کے ساتھ کہ دوہرا عمل ہو جائے گا انسان ایک طرف دعا کے ساتھ کوشش کر رہا ہو گا اور جب دعا کر رہا ہو گا تو پھر دوبارہ ان چیزوں میں اپنی زبان کی درستی میں ، اپنے دل کی درستی میں، اپنے عملوں کی درستگی میں کوشش کر رہا ہو گا اور اسے شرم آرہی ہو گی کہ میں بغیر ان کی درستگی کے کس طرح اللہ تعالیٰ سے مانگوں کہ مجھے سیدھے رستے پر چلا ).پھر آپ فرماتے ہیں کہ : اهْدِنَا الصراط المستقیم کی دعا دین اور دنیا کی ساری حاجتوں پر حاوی ہے.کیونکہ کسی امر میں جب تک صراطِ مستقیم نہ ملے کچھ نہیں بنتا.یہ دعا صرف روحانی طور کے لئے ضروری نہیں ہے بلکہ دنیا کی حاجتوں کے لئے بھی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ضروری ہے.فرمایا کہ ”طبیب کو ، زراعت کرنے والے کو، غرض ہر انسان کو ہر کام میں صراطِ مستقیم کی ضرورت ہے“.(احکم جلد نمبر 7 شمارہ 3 مؤرخہ 24 جنوری 1903ء صفحہ 12 کالم 1 تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 281( کوئی زمیندار ہے، ڈاکٹر ہے یا کسی بھی پیشے کا کرنے والا ہے، اُس کو اپنے کام میں صراطِ مستقیم کی ضرورت ہے.اگر نہیں ہو گی تو اُس کے کام میں خرابی پیدا ہو گی).فرماتے ہیں کہ ”بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے.جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آ جاوے گا تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا“.( اگر ایک زمیندار ہے اُس کو جب زمینداری کرنے کا صحیح طریق آئے گا تو تبھی وہ زمینداری کے صراطِ مستقیم پر پہنچے گا.ایک ڈاکٹر ہے جب وہ پورا کوالیفائی کر لیتا ہے، پڑھائی مکمل کر لیتا ہے ، پھر مختلف جگہوں پر جو اُس کے ہاؤس جاب ہوتے ہیں وہ مکمل کرتا ہے.پھر بعض تجربہ کار ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرتا ہے تو تبھی اُس کو صراطِ مستقیم کے جو مختلف مدارج ہیں حاصل ہوتے ہیں.اسی طرح دوسرے پیشے کے لوگ ہیں).فرمایا کہ ”زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا.اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراطِ مستقیم تلاش کرو“.( خدا کے ملنے کی بھی صراطِ مستقیم تلاش کرو.اس کے لئے بھی پہلے کوشش کرو اور پھر دعا کرو).
436 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور دعا کرو کہ یا الہی ! میں ایک تیرا گناہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں، میری رہنمائی کر، ادنی اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل منعطی وہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے“.(الحکم 10-17 نومبر 1904 جلد 8 نمبر 38-39 صفحہ 6 کالم 4 ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 281)(اصل نیکی یہی ہے کہ بہت دعا کرو.پس جیسا کہ میں نے کہانہ تو کسی پریشانی کے دُور کرنے کے لئے کسی جادو ٹونے کو زائل کرنے والے کی ضرورت ہے نہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے کہیں پیروں فقیروں کی قبروں پر جانے کی ضرورت ہے.خالص ہو کر اپنی حالتوں کی درستی کرتے ہوئے اگر بندہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکے تو وہی ہے جو انسان کی تمام حاجتیں پوری کرنے والا ہے).پھر آپ فرماتے ہیں: نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے ، اس میں دعا کی جاوے اور اسی لئے اُم الادعیہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دعا مانگی جاتی ہے“.(ملفوظات جلد 2 صفحہ 346) آپ فرماتے ہیں کہ نماز میں خالص ہو کر یہ دعا مانگو اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ جو ہے وہ دعاؤں کی ماں ہے.نماز معراج ہے دعاؤں کی اور اس میں اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقیم کی دعادعاؤں کی ماں ہے.اور یہ مانگو تواللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے دروازے کھولتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراطِ مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے“.( یہ مقصد اور غرض ہے جو ہر انسان کو ، ہر مومن کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے).”جس کو اس سورۃ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اهْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة : 7-6) - یا اللہ ہم کو سیدھی راہ دکھا.اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا.یہ وہ دعا ہے جو ہر وقت ہر نماز اور ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے.اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے“.فرمایا: ”ہماری جماعت یادرکھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رٹ دینا اصل مقصود نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو انسانِ کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطانہ کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہئے اور تعویذ کی طرح مد نظر رہے.اس آیت میں چار قسم کے کمالات کے حاصل کرنے کی التجا ہے.اگر یہ ان چار قسم کے کمالات کو حاصل کرے گا تو گویا دعا مانگنے اور خلق انسانی کے حق کو ادا کرے گا.اور ان استعدادوں اور قویٰ کے بھی کام میں لانے کا حق ادا ہو جائے گا جو اس کو دی گئی ہیں”.( صِرَاط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ: 6) میں جو چار معیار ہیں، وہ معیار یہ ہیں: نبی ہے، صدیق ہے، شہید ہے اور صالح).پھر آگے فرماتے ہیں کہ ”میں یہ بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اور اد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم علیہ کی راہ کا سچا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے جن پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے.آپ نے جو راہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے.اس راہ کو چھوڑ کر اور ایجاد کرنا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہو تا ہو میری رائے میں
437 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے.......غرض مُنْعَم عَلَيْهِم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمُ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ، اُن کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تاکہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے“.ا حکم 31 مارچ 1905ء جلد 9 نمبر 11 صفحہ 6-5- بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحہ 287 288 ) پھر آپ نے فرمایا کہ: ”یقینا جانو کہ اللہ تعالیٰ اُس وقت تک راضی نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص اُس تک پہنچ سکتا ہے جب تک صراطِ مستقیم پر نہ چلے.وہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو شناخت کرے اور اُن راہوں اور ہدایتوں پر عمل درآمد کرے جو اُس کی مرضی اور منشاء کے موافق ہیں“.فرمایا کہ ”جب یہ ضروری بات ہے تو انسان کو چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے“.(ملفوظات جلد 4 صفحہ 326) پھر اس دعا کی وسعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ” دعا کے بارہ میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں یہ دعا سکھلائی ہے.یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں.(1) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے “ ( جب یہ دعا کر رہے ہو تو گل انسانیت کو اس میں شریک کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صراط مستقیم پر چلائے اور ہدایت دے اور اُن کو بھی انعامات میں شامل کرے).( پھر دوسرے نمبر پر ) (2) تمام مسلمانوں کو “ (بھی شامل کرو.پھر ) ”(3) تیسرے اُن حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں“ (جو مسجد میں تمہارے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اُن کو بھی اپنے ساتھ اس دعا میں شامل کرو).فرمایا ”پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشاء خدا تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس سے پہلے اسی سورت میں اس نے اپنا نام رَبُّ العلمین رکھا ہے جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے جس میں حیوانات بھی داخل ہیں.پھر اپنا نام رحمان رکھا ہے اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مؤمنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ رحیم کا لفظ مؤمنوں سے خاص ہے.اور پھر اپنا نام ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ رکھا ہے.اور یہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یومِ الدائن وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی.سواسی تفصیل کے لحاظ سے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ہے.پس اس قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام نوع انسانی کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو“.(الحکم 29 اکتوبر 1898ء جلد 2 نمبر 33 کالم 1-2 صفحہ 4 کالم 1-2.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 290-291) فرمایا آیت اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اشارہ ہے اور اس امر پر ترغیب دلائی گئی ہے کہ صحیح معرفت کے لئے دعا کی جاوے.گویا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اپنی صفات کی ماہیت تمہیں دکھائے اور تمہیں شکر گزار بندوں میں
438 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اگست 2011ء سے بناوے کیونکہ پہلی قومیں اللہ تعالیٰ کی صفات، اُس کے انعامات اور اُس کی خوشنودی کی معرفت سے اندھا ہونے کے بعد ہی گمراہ ہوئی ہیں.انہوں نے اپنی زندگی کے دن ایسے اعمال میں ضائع کر دیئے جن اعمال نے انہیں گناہوں میں اور بھی آگے بڑھا دیا.پس اُن پر خدا کا غضب نازل ہوا اور اُن پر خواری مسلط کر دی گئی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے.سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب انہی لوگوں کا رُخ کرتا ہے جن پر اُس غضب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انعام کئے ہوں“.( یہ بڑی غور کرنے والی چیز ہے.فرمایا غضب انہی پر ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کئے ہوں.پس اگر انسان سمجھے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے اتنے انعامات ہیں تو اُس کو بہت زیادہ ڈر کے رہنا چاہئے.) فرمایا: ”پس اس آیت میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اُن نعمتوں اور برکتوں کے بارہ میں جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر انہیں پر نازل فرمائی تھیں اس (کے احکام) کی نافرمانی کی.اپنی خواہشات کی پیروی کی اور انعام کرنے والے خدا اور اُس کے حق کو بھول گئے اور منکروں میں شامل ہو گئے.اسی طرح ضاتین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے صحیح رستہ پر چلنے کا ارادہ تو کیا لیکن صحیح علوم، روشن اور حقیقی معارف اور محفوظ رکھنے والی اور توفیق بخشنے والی دعائیں اُن کے شامل حال نہ ہوئیں بلکہ اُن پر تو ہمات غالب آگئے اور وہ اُن کی طرف جھک گئے“.( جیسا کہ میں نے بتایا کہ آجکل بعض مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے).فرمایا کہ اپنے صحیح) راستوں سے بھٹک گئے اور سچے مشرب کو بھول گئے.پس وہ گمراہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے افکار کو واضح اور کھلی سچائی کی چراگاہوں میں نہیں چھوڑا اور اُن کے افکار ، اُن کی عقلوں اور نظروں پر تعجب ہے کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ اور اُس کی مخلوق پر وہ کچھ جائز قرار دے دیا جس کو فطرتِ صحیحہ اور قلبی انوار ہر گز قبول نہیں کرتے.وہ نہیں جانتے کہ شریعتیں (دراصل) طبائع کی (بطورِ علاج) خدمت کرتی ہیں اور طبیب طبیعت کا معاون ہوتا ہے نہ اُس کا مخالف.پس افسوس ہے کہ یہ لوگ صادقوں کی راہ سے کتنے غافل ہیں“.( ترجمه عربی عبارت کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 123-124.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 323 تا325) یہ بھی کرامات الصادقین کا عربی ترجمہ ہے.پس یہ لوگ جو اس زمانہ کے امام کو نہیں مان رہے ، حضرت مسیح موعود کو نہیں مان رہے وہ بھی بھٹکے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں خالص ہو کر اپنے حضور دعا کرنے والا بنائے.اُن لوگوں میں سے کبھی نہ بنائے جو ہدایت کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کے غضب کے مورد بنتے ہیں.گمراہ ہو کر اپنی دنیا و عاقبت برباد کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صحیح معرفت عطا فرمائے اور ہمیشہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پر چلتا رکھے.اس رمضان کو ہمارے لئے اپنے جاری فضلوں اور ہدایت میں ترقی کرنے کا ذریعہ بنائے.ہمیشہ ہم اس کے آگے جھکنے والے رہیں.الفضل انٹر نیشنل 16 ستمبر تا 22 ستمبر 2011ء جلد 18 شماره 37 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 439 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 02 ستمبر 2011ء بمطابق 02 تبوک 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے سلسلہ بیعت میں آنے والوں کو جو نصائح فرمائیں ان میں بنیادی اور اہم نصیحت یہی ہے کہ بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرو.اپنے خدا سے تعلق جوڑو، اپنے اخلاق کے معیار اعلیٰ کرنے کی کوشش کرو.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کار رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تاوہ نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی اُن کے نزدیک نہ آسکے.وہ پنج وقت نماز جماعت کے پابند ہوں.وہ جھوٹ نہ بولیں وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں.وہ کسی قسم کی بد کاری کے مر تکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے“.مجموعه اشتہارات جلد 2 صفحہ 220 مطبوعہ ربوہ) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں نے زمانہ کے امام کو مانا ہے یامان رہے ہیں وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ یہ پاک تبدیلیاں ہم میں پید اہوں اور قائم رہیں.ایک انقلاب ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہوا ہے اور ہو رہا ہے جنہوں نے بیعت کی حقیقت کو سمجھا.میں اس وقت اُن لوگوں کے چند واقعات پیش کروں گا جو اپنے اندر بیعت کے بعد ایک انقلاب پیدا کرنے والے بنے ہیں.دنیا کی مختلف قوموں، مختلف نسلوں کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے میں ترقی کی ہے.نیکیوں کے بجالانے اور اعلیٰ اخلاق میں ترقی کی ہے.اپنے نفس کی خواہشات کو مارنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند رہنے میں ترقی کی ہے.اپنی روحانیت کے بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.اللہ کا خوف اور محبت دنیا کے خوفوں اور محبتوں پر حاوی ہے.یہ واقعات میں نے جلسہ کے
440 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دوسرے دن کی (جو رپورٹ پیش کی جاتی ہے اُس) رپورٹ میں سے لئے ہیں.یہ واقعات ہیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے اُس وقت بیان نہیں ہوئے تھے اور عنوان بھی بیان نہیں ہوا تھا.عنوان یہ ہے کہ ”احمدیت قبول کرنے کے بعد نو مبائعین میں غیر معمولی تبدیلی تو جیسا کہ میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ بعد میں بیان کروں گا تو آج میں یہ بیان کروں گا.یہ بڑا اہم عنوان ہے جو پرانے احمدیوں کو بھی ایمان میں بڑھانے اور اصلاح کا باعث بن جاتا ہے اور نئے بھی جب یہ سنتے ہیں تو مزید ایمان میں ترقی کرتے ہیں.امیر صاحب جماعت احمدیہ دبلی لکھتے ہیں کہ جو لوگ احمد کی ہو رہے ہیں اُن میں نمایاں تبدیلی پید اہورہی ہے.لکھتے ہیں کہ : عثمان صاحب جو جلسہ سالانہ قادیان 2010ء کے موقع پر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے، بیان کرتے ہیں کہ بیعت کرنے سے پہلے میں کبھی کبھار نماز پڑھتا تھا لیکن بیعت کے دن سے ہی نہ صرف پانچوں وقت کی نماز ادا کر تاہوں بلکہ اکثر تہجد ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے.“ خدا کرے کہ ان نو مبائعین جن کے اکثر یہ واقعات ہیں اور لکھتے بھی رہتے ہیں ان کا بھی یہ سلسلہ مستقل مزاجی سے چلتا رہے اور جو پرانے احمدی ہیں ہم میں سے جو بعض دفعہ نمازوں میں ستیاں دکھا جاتے ہیں، اُن کو بھی احساس پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت میں آکر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے جو بہت اہم ذمہ داریاں ہیں جس کے بغیر ہمارا بیعت کرنا صرف نام کا بیعت کرنا ہے اور سب سے بڑی اور اہم چیز جو ہے وہ نمازوں کی ادائیگی ہے، اس کی طرف توجہ ہے اور اس کے بعد پھر نوافل کی ادائیگی ہے.پس ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ نئے آنے والے کس طرح اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں طارق محمود صاحب اپر ایسٹ ریجن گھانا کے ، وہ لکھتے ہیں کہ : گزشتہ دنوں گمبا گا کے مقام پر نواحمدیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی گئی.اس موقع پر ایک نواحمدی امام نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم لوگ مسلمان تھے.( یہ گھانا کا نارتھ کا علاقہ ہے، اکثریت اُن میں مسلمانوں کی ہے اور وہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں ہو رہی ہیں.پھر اُس زمانے میں جب احمدیت گھانا میں پھیلی ہے تو سمندر کے ساتھ ساتھ کے علاقے میں پھیلی، ساؤتھ کے علاقے میں پھیلی جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ عیسائیت سے احمدیت میں شامل ہوئے اور بڑی تیزی سے جماعت نے اُس علاقے میں ترقی کی.اور جو مسلمانوں کا علاقہ تھا وہاں مخالفت بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی سوائے چند ایک کے یا ایک جماعت قائم ہوئی جو وا (wa) کی جماعت تھی جہاں آج سے پچاس ساٹھ ستر سال پہلے، بلکہ شروع میں ہی کہنا چاہئے جب احمدیت وہاں گئی ہے تو احمدیت کا پودالگا اور پھر جماعت بڑھتی گئی لیکن باقی علاقہ میں نارتھ میں مسلمان ہونے کی وجہ سے شدید مخالفت رہی ہے.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند سالوں سے نارتھ میں بھی بڑی تیزی سے احمدیت کا نفوذ ہو رہا ہے ).تو لکھتے ہیں کہ ہمارے جو نو احمدی امام تھے ( جو اُن کے ماننے والے ہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے اُن کے سمیت جماعت میں شامل ہورہے ہیں )
خطبات مسرور جلد نهم 441 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء کہ ہم لوگ مسلمان تھے مگر اسلام کی حقیقی تعلیم سے بے خبر تھے.احمدیت نے ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم سے روشناس کروایا.وہ امام صاحب کہتے ہیں کہ میں پہلے لوگوں کو تعویذ لکھ کر دیا کرتا تھا مگر احمدیت کی برکت سے یہ کام چھوڑ دیا ہے اور اب اسے غیر اسلامی سمجھتا ہوں.یہ جو تعویذ گنڈے کا کاروبار ہے یہ مسلمانوں میں عام رواج ہے.یہ دنیا میں ہر جگہ ہے.صرف ہندوستان پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ عربوں میں بھی ہے اور دوسرے لوگوں میں بھی ہے.یہ بدعات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر دور فرمایا اور فرمایا کہ جو اصل اور حقیقی اسلامی تعلیم ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کرو، بر اوراست تعلق پیدا کر و اور اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرو.اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے.پھر لو کوسا ریجن کے ایک گاؤں کے صدر جماعت سو سو گاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ پہلے مجھے بہت جلد غصہ آجاتا تھا اور اس حالت میں بیوی اور بچوں کو مارنا شروع کر دیتا تھا اور گالی گلوچ میر ا معمول تھا.جب سے میں نے بیعت کی ہے نمازوں کی طرف توجہ ہو گئی ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھ میں صبر اور برداشت پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہے.تو یہ افریقہ کے دور دراز علاقے کے نئے احمدی ہونے والے کی پاک تبدیلی ہے جو اس میں پیدا ہوئی اور اُس کی وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا، نمازوں کی طرف توجہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالانے اور اُس پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی.جرمنی کے دورے میں جو میر ا گزشتہ دورہ ہوا ہے، اُس میں ایک جرمن نوجوان احمدی ہوئے، اُس نے مجھے یہی بات کہی (میں پہلے بھی بیان کر چکاہوں ) کہ میں سخت قسم کا عصیلہ انسان تھا.ذرا ذراسی بات پر مجھے غصہ آجاتا تھا لیکن احمدی ہونے کے بعد ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوئی ہے مجھے لگتا ہے کہ احمدیت نے مجھے صبر اور تحمل اور برداشت سکھائی ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پید اہوا اور جب اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا تو اپنی طبیعت پر کنٹرول بھی پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوئی.پھر ایک اور نو مبائع دوست نے کہا کہ ہم شراب پیتے تھے، سگریٹ نوشی کرتے تھے، احمدیت قبول کرنے سے ہم نے یہ دونوں چیزیں چھوڑ دی ہیں، بلکہ اگر نمازیں باقاعدہ ہوں ( وہ خود وہ لکھتے ہیں کہ اگر نمازیں با قاعدہ ہوں) تو ان فضول چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی.تو یہ تعلق ہے جو اللہ تعالیٰ سے ان لوگوں نے قائم کیا کہ نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی، اللہ تعالی سے تعلق بڑھا اور ان سب فضولیات سے، لغویات سے اور گناہوں سے تو بہ کرنے والے بنے.پس حقیقی نمازیں ہیں جو ان برائیوں سے چھڑانے والی ہو جاتی ہیں اور ہونی چاہئیں.جماعت احمد یہ صرف پرانے قصے پیش نہیں کرتی بلکہ آج بھی، اس زمانہ میں بھی، بندے کا خدا سے تعلق جوڑنے کے بیشمار واقعات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے سے، آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے ایک انقلاب کی صورت میں لوگوں میں پید اہوئے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 442 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء قرآنِ کریم کا جو یہ اعلان ہے، یہ دعوی ہے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: 46) کہ یقینا نماز بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے، آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے پوری ہو رہی ہے اور اپنی سچائی کا اعلان کر رہی ہے.یہ اعلان کہ جو لوگ خالص ہو کر نمازیں پڑھتے ہیں، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں، یہ نمازیں یقینا اُن کو برائیوں سے اور فحشاء سے اور ناپسندیدہ باتوں سے روکنے والی ہیں.بلکہ قرآن کریم کا ہر دعویٰ ہر پیشگوئی جس طرح اس زمانے میں صحیح ثابت ہو رہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل پر کرنے والے لوگ ہیں اُن کے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہیں وہ غیر وں کو چاہے وہ مسلمان ہوں نظر نہیں آسکتیں.پھر ایک نو مبائع کے تبلیغ کے شوق کے بارہ میں امیر صاحب غانا تحریر کرتے ہیں کہ جب ہم تبلیغ کے لئے اپر ایسٹ گئے تو بمباگو (Bimbaago) نامی جگہ پر ایک ٹیچر نے احمدیت کی تعلیم سے متاثر ہو کر بیعت کر لی.اس کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ کچھ عرصے کے بعد بولگا (Bolga)(وہاں پر ایک شہر کا نام ہے، نارتھ میں بڑا شہر ہے) بولگا میں خدام کا نیشنل اجتماع ہوا (وہ جو ٹیچر تھا جس نے بیعت کی) اپنے ساتھ ہمیں اساتذہ کو لے کر اس اجتماع میں شامل ہوا اور سب لوگ پہلے ہی اُس کی تبلیغ سے احمدی ہو چکے تھے.تو دیکھیں کہ نہ صرف یہ کہ بیعت کی اور اپنی اصلاح کی بلکہ اُن لوگوں میں تبلیغ کا بھی ایک شوق ہے، ایک لگن ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑھ رہی ہیں.پھر برکینا فاسو کے ریجن کو پیلا میں سانہ سلیمان ایک احمدی خادم اور اُن کے تین بھائی احمدیت کی آغوش میں ہیں، ان کے والد جماعت کے شدید مخالف ہیں اور اکثر جماعت کی مخالفت میں اندھے ہو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو گالیاں دیتے ہیں اور گھر سے نکال دیتے ہیں.وہاں برکینا فاسو میں ہماری جماعت کے کئی ریڈیو سٹیشن بھی چل رہے ہیں اور جو دوسرے ریڈیو سٹیشن ہیں ان میں بھی جماعتی پروگرام کچھ گھنٹوں کے لئے نشر ہوتے ہیں.تو ایک روز ان کے ( ان تین بچوں کے والد نے ) ریڈیو لگایا تو اسلام کی تعلیم پر ایک خوبصورت درس جاری تھا.اس درس کو سننے کے بعد ان بچوں کے والد اتنے متاثر ہوئے کہ سب بچوں کو بلایا اور کہا کہ دیکھو تم جو کافروں کے ساتھ ملے ہوئے ہو ، ( یعنی احمدیوں کو کافر کہا ) کہ باز آجاؤ اور اس پروگرام کو سنو جو ریڈیو پر آرہا ہے.کتنا خوبصورت پروگرام ہے ، یہ ہیں اصل اللہ والوں کے الفاظ.والد صاحب کہنے لگے کہ یہ اصل اللہ والوں کے الفاظ ہیں جو دل میں گھر کر جاتے ہیں ، دل میں اترتے چلے جاتے ہیں.یہ پیغام سنو، یہ اللہ والوں کا پیغام ہے تم کیوں احمدیوں کی طرف جھکے ہوئے ہو اور اُن کی باتیں سنتے ہو اور اُن سے متاثر ہو کر اُن میں شامل ہو گئے ہو.پھر ان کے والد صاحب کہتے ہیں سنو یہ ہے اسلام.تو یہ والد صاحب اس بات کو بالکل نہیں جانتے تھے کہ یہ وقت جماعتی ریڈیو پر جماعتی پروگرام کا ہے.پروگرام گورنمنٹ کے ریڈیو پر آرہا تھا.لیکن جب پروگرام کے آخر پر تعارفی نظم احمدیت زندہ باد، احمدیت زندہ باد گونجی تو یہ سننا تھا کہ فوراًموصوف نے ریڈیو بند کر دیا.اس پر بچوں نے اُن کو کہا کہ ابا جان! واقعی آپ صحیح کہتے تھے یہی اصل اللہ والے لوگ ہیں جن کے الفاظ دل میں گھر کر جاتے ہیں اس لئے ہم آج پہلے سے بھی زیادہ
443 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم احمدیت کے ساتھ مضبوط رشتے میں جڑ گئے ہیں.پس ان لوگوں کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیروں اور تعلیم کے مطابق اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور وہ تفسیریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی بیان کی ہیں، ان کو سنیں.کیونکہ آج دنیا میں اس سے بہتر کوئی اور علم دے ہی نہیں سکتا.پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں ارشد محمود صاحب قرغزستان سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت قرغزستان کے نیشنل صدر سلامت صاحب کے ذریعہ Jildiz Abdullaeva صاحبہ (جو بھی نام ہے ان کا) نام کی ایک لڑکی نے بیعت کی.وہ لڑکی قرغزستان میں موجود امریکن ہیں میں کام کرتی ہے.وہاں اُس کے ساتھ کام کرنے والے ایک امریکن عیسائی نوجوان نے لڑکی کے نیک چال چلن اور باحیاء ہونے کی وجہ سے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا.لڑکی نے کہا کہ میں احمدی مسلمان ہوں اور اپنی جماعت سے پوچھ کر آپ کو کوئی جواب دوں گی.چنانچہ وہ مشن ہاؤس آئی اُسے بتایا گیا کہ ایک مسلمان لڑکی غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.چنانچہ اس غیرت مند اور نیک فطرت نو مبائع بچی نے غیر مسلم امریکن کی شادی سے انکار کر دیا.اُس کی پیشکش ٹھکرا دی.اس عیسائی نوجوان نے جو اُس کا بڑا گرویدہ ہو ا ہوا تھا، کہا کہ اگر میں اسلام قبول کر لوں تو کیا پھر ہم شادی کر سکتے ہیں ؟ تو لڑکی نے جواب میں کہا کہ اگر اسلام قبول کرنا ہے تو سچا دین سمجھ کر قبول کرو.شادی کی خاطر قبول کرنا جو ہے یہ مجھے منظور نہیں ہے، یعنی اگر تم اس لئے قبول کر رہے ہو تو تب میں شادی نہیں کروں گی.ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے قرغزستان کی لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں.لیکن اس بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش کو ٹھکرادیا.اس کی تھولک عیسائی نوجوان نے مسلسل چھ ماہ تک تحقیقات کرنے اور جماعتی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد یکم جولائی 2011ء کو اسلام قبول کر کے ، بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت اختیار کی.اس تحقیق کے سفر کے دوران (جب تحقیق کر رہا تھا یہ نوجوان ) اس نوجوان نے احمدیت مخالف ویب سائٹس کو بھی دیکھا، وہاں جا کر بھی مطالعہ کیا.اور آخر کار احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر ہی اس کا دل مطمئن ہوا اور اُس کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی توفیق عطا فرمائی.پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے جس کے لئے دعا کی جاتی ہے ، دعا کی جانی چاہئے.یہ لڑکی جو ہے نئی احمد ی ہوئی، غربت بھی تھی، اچھا رشتہ مل رہا تھا اُس کے لحاظ سے ، دنیا داری کے لحاظ سے، لیکن اُس نے دین کی خاطر ٹھکرادیا.اس میں اُن لوگوں کے لئے بھی لمحہ فکر یہ ہے کہ جب بعض بچیاں جو ایسے غیروں میں شادی کو پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں.اس لئے یہ قاعدہ بنا ہوا ہے کہ جب تک بیعت میں ایک سال نہ گزر جائے اور لڑکے کا اخلاص نہ دیکھ لیا جائے ہماری لڑکیوں کو عمو مانئے نو مبائعین سے شادی کی اجازت نہیں دی جاتی.تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کہیں شادی کی خاطر تو بیعت نہیں کی ؟ بعض کمزور ایمان والوں کو ، کم علم کو (پہلے بھی جس کا میں گزشتہ دنوں میں دو دفعہ ذکر کر چکا ہوں).
444 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بعض ویب سائٹس نے وسوسوں میں ڈالا ہوا ہے.گو متاثر ہونے والے ایسے چند ایک لوگ ہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں بہر حال وسوسے پیدا ہوتے ہیں، بے چینی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ امریکن نوجوان جو عیسائی تھا اس نے مخالف ویب سائٹس بھی دیکھیں پھر جماعت کی ویب سائٹ دیکھی اور موازنہ کیا، پھر دعا کی اور اس کے بعد اُس کے حقیقت سامنے آئی اور اُس نے احمدیت کے ذریعے سے اسلام قبول کر لیا.تو ہمارے نوجوانوں کو ، بچوں کو خاص طور پر جو نئے نئے ابھی ٹین ایج ( Teenage) میں ہوتے ہیں بعض دفعہ لوگ انہیں بھڑ کانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو دوستیوں کی وجہ سے اُن کو بھڑ کا یا جاتا ہے، اُن کو بھی اللہ تعالیٰ سے دعامانگنی چاہئے اور پھر دنیاوی لحاظ سے بھی کسی کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعلیم دلائل سے بھری ہوئی ہے کیونکہ یہ حقیقی اسلام کی تعلیم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں بھی اپنے دعوے کی سچائی کو ثابت کیا ہے کسی بھی پہلو سے ثابت کیا ہے وہاں دلیل سے ثابت کیا ہے، اس لئے کوئی کمپلیکس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ضرورت ہے تو ہمیں دینی علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے.اسی طرح انصر عباس بھٹی صاحب مبلغ بین لکھتے ہیں کہ آلاڈا (Alada)ر یجن کے گاؤں لو کولی (Lokoli) میں جلسہ نومبائعین رکھا اور اس میں دورانِ تقریر لوگوں کو ایک مسلمان کی ذمہ داریاں بتانی شروع کیں.جلسے کی اختتامی تقریب کے بعد ایک غیر احمدی مولوی وہاں آیا اور لوگوں کو بہکانے اور پھسلانے کی کوشش کی کہ اگر تم نے ان لوگوں کو مان لیا ہے، یہ جو لوگ احمدی ہیں تم سب نے آگ میں چلے جانا ہے.یہ سب لوگ جہنمی ہو جائیں گے.فوراً تو بہ کا اعلان کر و اُس نے کہا کہ تمام ائمہ مسلمہ ان کو جہنمی قرار دیتے ہیں (مسلمان علماء جو ہیں، پڑھے لکھے لوگ جو ہیں ، امام جو ہیں، اور مسلمانوں کے جو لیڈر ہیں، وہ احمدیوں کو جہنمی قرار دیتے ہیں) تو تم کس جہنم میں گرنے لگے ہو؟ یا گر گئے ہو.تم لوگ سب ان لوگوں کے ساتھ جہنمی ہو جاؤ گے.پھر کہنے لگا کہ پاکستان کے مسلمان ان کو پسند نہیں کرتے ، وہاں بھی ان کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے.اس پر ہمارے معلم صاحب نے سارے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مولوی صاحب ہمارے مہمان ہیں.ہم ان کی عزت کرتے ہوئے ان سے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کیا خدا کے پاک کلام قرآن کریم سے یہ ثابت کر سکتے ہیں ؟ کیا قرآنِ کریم اس کی تصدیق کرتا ہے.قرآن کو بنیاد بنا کر ہم بات کرتے ہیں.اگر قرآن ان کا ساتھ دیتا ہے تو ہم سب ان کی بات مان لیں گے.ہاں اگر قرآن ہمارے ساتھ رہتا ہے تو پھر ہم قرآن کو نہیں چھوڑ سکتے.تو یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مولوی صاحب جھٹ بولے، کہنے لگے کہ قرآن کو کیوں لیں.بین کے تمام ائمہ آپ کو غلط کہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ غلط ہیں بس کافی ہیں غلط ہیں کوئی دلیل کی ضرورت ہی نہیں.آپ لوگ جہنمی ہیں (دیکھیں خود ہی فیصلہ کر دیا.گویا خد ابن بیٹھے ہیں).اس کو دیکھ کر ہمارے نو مبائعین جو تھے وہ جوش میں آ گئے.وہاں اکثریت نو مبائعین کی تھی کہ اگر تمہیں قرآن کی ضرورت نہیں ہے تو ہمیں تمہاری بھی ضرورت نہیں ہے اور یہاں سے نکل جاؤ اور اُسے مسجد سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے.ہمارے معلم صاحب نے بڑا اُن کو سمجھایا
خطبات مسرور جلد نهم 445 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء کہ یہ ہماری جگہ پر آئے ہیں ذرا تحمل سے ، ذرا برداشت سے کام لو، اخلاق سے کام لو، یہ طریق اچھا نہیں ہے لیکن لوگوں میں اس بات کو سُن کر اتنا جوش پیدا ہوا کہ اُنہوں نے اُس مولوی کو مسجد سے نکال دیا.تو یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی ملاؤں اور نام نہاد علماء کا طریق چلا آرہا ہے.پرانے واقعات بھی کئی ایسے ملتے ہیں کہ جب احمدی قرآن کے ذریعہ سے کوئی دلیل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آیات کے ذریعہ سے، تو ہمیشہ یہ لوگ حدیث اور دوسری باتوں کی طرف لے جاتے ہیں.وہ حدیثیں جن کی اپنی مرضی سے interpretation کرتے ہیں یا دوسرے علماء کی باتیں.ایک صحابی کا پر انا واقعہ بھی اس طرح ہی ملتا ہے کہ انہوں نے جب بیعت کی ہے تو ایک بڑے عالم کو انہوں نے کہا کہ میں نے احمدی مولوی صاحب کو اس بات پر منالیا ہے کہ وہ قرآنِ کریم سے وفات مسیح ثابت کر دیں.وہ عالم صاحب کہنے لگے کہ میں ان لوگوں کو کھینچ کھینچ کر قرآن سے باہر لا رہا ہوں، دوسری طرف لے کر جا رہا ہوں، تم انہیں پھر اُسی طرف لے آئے ہو، قرآنِ کریم سے تو ہم حیات مسیح ثابت ہی نہیں کر سکتے.تو یہ تو ان کے پرانے طریقے کار ہیں.(ماخوذ از تذکرۃ المہدی مؤلّفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی صفحہ 155 تا 158 مطبوعہ قادیان ایڈیشن 1915) انصر عباس صاحب مبلغ بین لکھتے ہیں کہ آجاجی ذنبو مے (Ndjadji Zimbomy) میں 12 جولائی 2011ء نماز مغرب کے بعد تبلیغی پروگرام شروع ہوا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد اور آپ کے ذریعے سے اسلام کی ترقی بتائی گئی تو گاؤں والوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم بھی اس میں شامل ہو نا چاہتے ہیں، وہیں جانا چاہتے ہیں جہاں اسلام کی ترقی ہو رہی ہے.جن کے ذریعہ سے اسلام کی ترقی ہو رہی ہے ، چنانچہ اس مجلس میں 167 افراد نے بیعت کی توفیق پائی.تو واپس جانے سے قبل ہمارے مربی صاحب نے ، معلم نے کہا کہ ہم پرسوں آئیں گے کیونکہ پرسوں جمعہ کا دن ہے اور آپ لوگوں کے ساتھ جمعہ پڑھیں گے.یہ لوگ جنہوں نے بیعت کی یہ لوگ پہلے مسلمان تھے اور ان کی حالت کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ جب ہم نے کہا کہ پر سوں آئیں گے اور جمعہ پڑھیں گے ، تو اس بات پر گاؤں والوں نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ جمعہ کیا ہوتا ہے ؟ ہم نے تو کبھی جمعہ نہیں دیکھا، نہ کبھی پڑھا ہے، پندرہ سال سے ہم مسلمان ہیں، آج تک کسی مولوی نے ہمارے کسی بڑے مذہبی لیڈر نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ جمعہ بھی پڑھا جاتا ہے.چنانچہ جمعہ والے دن وہاں جا کر جمعہ پڑھایا گیا.پھر ان لوگوں کا ریفریشر کورس بھی کیا.انہیں سمجھایا گیا کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے، جمعہ کیا ہے؟ نماز کیا ہے ؟ عیدین کیا ہیں ؟ باقی کیا عباد تیں ہیں، قرآنِ کریم کی کیا تعلیم ہے؟ بلکہ یہ لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ والے گاؤں میں بھی لوگ احمدی ہوئے تھے ، انہیں بھی یہاں جمعہ پڑھنے کا کہا گیا کہ اگلی دفعہ یہاں جمعہ آکر پڑھیں تو یہ جواب ملا کہ ہمارے سالہا سال سے ان گاؤں والوں سے اختلافات چل رہے ہیں.(پہلے گاؤں میں جہاں 167 آدمی بیعت کر کے شامل ہوئے، اُن سے ہمارے اختلافات چل رہے ہیں) نہ ہم کبھی وہاں گئے ہیں اور نہ ہی یہاں اُن کا آنا ہم پسند کرتے ہیں.دونوں گاؤں کے بڑے پرانے اختلافات تھے.پھر دونوں گاؤں والوں کو جو احمدی ہوئے تھے الگ الگ کر کے سمجھایا گیا کہ
446 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہم احمدی ہو گئے ہیں، احمدی ہونے سے ہمارے اختلافات ختم ہو گئے ہیں، آج ہم دوبارہ ایک ہو گئے ہیں اور ہمیں ایک ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہر ایک کو جمع کرنے آئے ہیں، اکٹھا کرنے آئے ہیں، ایک بنانے کے لئے آئے تھے تا کہ ہم مسلمان ایک ہو کر اسلام کی ترقی کے لئے آگے بڑھیں اور اس لئے بہر حال ہمیں اکٹھا ہو نا چاہئے اور مل کے جمعہ پڑھنا چاہئے.چنانچہ دونوں پہ اس کا اثر ہوا اور جو مدتوں کے بچھڑے ہوئے تھے آپس میں لڑائیاں تھیں ہو سکتا ہے قبائلی لڑائیاں ہوں جمعہ کے ذریعہ پھر مل گئے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جماعت کے ذریعہ سے یوم الجمعہ کا مضمون بھی ایک نئے طریقے سے پورا ہوا.پندرہ سال کے بعد ان لوگوں نے جمعہ پڑھا اور پھر اس جمعہ کی برکت سے دونوں گاؤں کی آپس کی رنجشیں بھی ختم ہو گئیں.بس جب یہ باتیں ہوتی ہیں تو پھر صرف رنجشیں ختم نہیں ہو تیں، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رُحَمَاءُ بينهم کا ایک مضمون شروع ہوتا ہے.پھر ایک دوسرے کی خاطر رحم کے جذبات ابھرتے ہیں، قربانی کے جذبات اُبھرتے ہیں اور یہی ایک مومن کی شان ہے اور یہی وہ پاک تبدیلیاں ہیں جن کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے.پھر امیر صاحب جماعت احمدیہ دہلی تحریر کرتے ہیں کہ محمد مرسلین صاحب 2008ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.آپ بیان کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کے تین دن بعد خواب میں دیکھا کہ آپ کسی پروگرام میں گئے ہیں اور وہاں ایک پرانی سی عمارت کے ایک کمرے میں چلے جاتے ہیں.اس کمرے میں دونوگ اور بھی تھے جواند ھیرا ہونے کی وجہ سے پہچانے نہ جا سکے.یہ لکھتے ہیں امیر صاحب، که مرسلین صاحب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں اور جب یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اور بھی ہیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو چھو کر دیکھتے ہیں.پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی چھت کی طرف اُٹھائی اور یوں لگا کہ پورا آسمان پھٹتا چلا گیا.اور یہ لکھتے ہیں کہ مجھے بہت خوبصورت اور دلکش نظارہ جس میں پھولوں کے باغات وغیرہ تھے نظر آنے لگے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انگلی گھمائی اور یہ نظارہ بند ہو گیا.آپ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں ممبئی جارہا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ پنجاب کیوں نہیں جاتے؟ اس کے بعد کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی.کہتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کو جو اُن کے واقف تھے سنایا، انہوں نے کہا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اس لئے ہم قادیان چلتے ہیں.تو قائد صاحب کے ساتھ یہ پہلی دفعہ قادیان گئے.وہاں دار المسیح کی زیارت کی، لکھتے ہیں کہ جب میں بیت الریاضت میں گیا تو میں نے اُس کمرے کو ویسا ہی پایا جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا.اس سے میرے ایمان کو بہت تقویت ملی اور دل کو بہت سکون ملا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت میں بھی شامل ہوئے اور ایمان میں بھی ترقی کر رہے ہیں.ان نئے شامل ہونے والوں کو ایمان میں ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کے نشانات بھی دکھاتا ہے.اس کے چند واقعے پیش کرتا ہوں جو ان دور دراز رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی ازدیاد ایمان کا باعث بنے ہیں اور ہمارے لئے بھی یقینا بنیں گے.
خطبات مسرور جلد نهم 447 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء امیر صاحب برکینا فاسو بیان کرتے ہیں کہ سے تینگا (Seytenga) کے رہائشی اور ڈوری ریجن کے ریجنل زعیم انصار الله الحاج بنتی (Bunty) چند ماہ قبل شدید بیمار ہو گئے اور جب اُنہیں ہسپتال لایا گیا تو مقامی ڈاکٹر نے ان کے گھر والوں کو بلالیا اور کہا کہ اس مریض کا علاج بے سود ہے، یہ اب چند لمحوں کا مہمان ہے ، اس لئے اُسے گھر لے جاؤ.اس پر ان کو وا گا ڈوگو (شہر کا نام ہے) جو وہاں کا کیپیٹل (Capital) ہے وہاں لایا گیا.یہاں کے سرکاری ہسپتال میں بھیجا گیا تو وہاں بھی ڈاکٹر نے علاج کرنے سے انکار کر دیا کہ مریض بس چند گھنٹوں کا مہمان ہے جس سے سب گھر والے مایوس ہو گئے.اس پر امیر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اُن سے کہا کہ یہ بات نا ممکن ہے.ڈاکٹر صرف ظاہری کیفیت پر نظر رکھتے ہیں.زندگی تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.آپ بھی خلیفہ وقت کو خط لکھیں اور اسی روز انہوں نے خط لکھا اور مجھے بھی یہاں بھجوایا.اور پھر خود بھی سارے ان دعاؤں میں لگ گئے.تو کہتے ہیں کہ اس خط کے لکھنے کے بعد اور دعاؤں میں شدت پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ صحت واپس آنا شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے الحاج بنتی صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہو گئے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے کام کر رہے ہیں.سب میٹنگز میں شامل ہوتے ہیں اور انصار اللہ کا کام بڑی مستعدی سے کر رہے ہیں.اس کے بالمقابل ایک اور گاؤں چلے (Challe) کے ایک رہائشی کا نام بھی الحاج پنتی ہی تھا.وہ جماعت کا شدید مخالف تھا اور ہر وقت جماعت کے خلاف لوگوں کو اکساتا رہتا تھا لیکن صحت کے لحاظ سے بہت اچھا تھا اور کوئی بیماری نہ تھی.ایک روز گاؤں میں لوگ احمد یہ ریڈیو پر جاری تبلیغ سن رہے تھے کہ ان صاحب کا وہاں سے گزر ہوا.بہت شدید غصے میں آکر اس نے جماعت کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور کہا کہ یہ لوگ کافر ہیں ان کی تبلیغ نہ سنو.لوگوں نے کہا کہ آپ ان سے راضی نہیں تو نہ سہی مگر گالیاں تو نہ دیں، ان کی ہتک کرنا چھوڑ دیں.مگر اس نے کہا کہ وہ ایسا ہی کرتارہے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا.تو اس رات مکمل صحت کی حالت میں وہ شخص سویا ہے تو اگلے دن اپنے بستر پر مردہ پایا گیا.رات کو نامعلوم کس وقت اُس کو کسی قسم کی بیماری کا حملہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کو وفات دے دی.پورتونووو (Porto Novo) ریجن بین کے معلم رائگی زکریا صاحب بتاتے ہیں کہ حفیصو صاحب نامی احمدی کا بچہ گم ہو گیا.اس پریشانی میں انہوں نے سارے علاقہ کی خاک چھان ماری.ریڈیو پر کئی دفعہ اعلانات بھی کرواتے رہے مگر بچہ نہ ملا.پریشانی اور بے بسی کی حالت میں اُن کا فون آیا کہ میرا نہیں خیال کہ بچہ ملے.معلم زکریا صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ مایوسی گناہ ہے.ہم تو ایسے امام کو ماننے والے ہیں جس کا دعویٰ ہے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں.اس نسخے کو آزما کر دیکھو اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کر تا ہوں، ہم سب مل کے دعا کرتے ہیں تو بچے کے والد حفیصو صاحب کہتے ہیں کہ میں سجدے میں پڑ گیا، معلم صاحب کی یہ بات سننے کے بعد اور واسطے دینے لگ گیا کہ اے اللہ ! اس علاقہ میں باقی تو کسی نے تیرے امام کو قبول نہیں کیا صرف میں ہی ہوں اکیلا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو قبول کیا ہے اور تیرا امام ضرور سچا ہے.میں تجھے اس
448 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کی سچائی کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے میرا بچہ دے دے.کہتے ہیں کہ میں کافی دیر دعا میں روتارہا اور اپنے رب سے بچے کی واپسی کی دعا کر تا رہا.دعا ختم کرنے کے بعد میں اُس راستے سے گھر لوٹ رہا تھا کہ جہاں سے بچہ گم ہوا تھا، ابھی راستے میں ہی تھا کہ اچانک جنگل سے میرابیٹا مجھے نظر آ گیا.تو کہتے ہیں کہ میرے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کا زندہ معجزہ تھا جو خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا.پھر امیر صاحب نائیجر بیان کرتے ہیں کہ یہاں ایک دوست محمد ثالث بینک میں ملازم ہیں.احمد یہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتے تھے.(مسلمان تھے ، نماز پڑھنے آتے تھے ، ، ابھی تک بیعت نہیں کی تھی).ایک روز انہوں نے بیعت کر لی.اُن کے بینک کے افسران اور ساتھی اُنہیں تنگ کرنے لگ گئے کہ جماعت نے انہیں کوئی پیسے دیئے ہیں جس کی وجہ سے وہ احمدی ہوئے ہیں.وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کا بڑا دکھ ہوا کہ یہ لوگ مجھ پر الزام لگارہے ہیں کہ میں پیسے لے کر احمدی ہو ا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ اُس رات میں نے جماعت کی سچائی کے حوالے سے بہت دعا کی کہ اے اللہ ! تو خود میری رہنمائی فرما.بظاہر تو یہ جماعت اسلام کی خدمت میں سب سے آگے ہے مگر اندر کی بات تو مجھے سمجھا دے.میں تو ظاہری بات کو دیکھ کر بات کر رہا ہوں.تو وہ کہتے ہیں کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا اجتماع ہے، جہاں تک نظر جاتی ہے لوگ ہی لوگ نظر آرہے ہیں اور سب نے سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سٹیج پر انہوں نے مجھے دیکھا لکھ رہے ہیں، اپنے امیر صاحب کو ) خلیفہ المسیح الخامس کو دیکھا، سٹیج پر میں کھڑا ہوں اور کہتے ہیں آپ نے بھی سفید کپڑے زیب تن کئے ہوئے ہیں اور اونچی آواز میں آپ لااِلهَ إِلَّا اللہ دہرا رہے ہیں اور لوگ بھی آپ کے ساتھ لا اله الا اللہ دہرا رہے ہیں اور ایک عجیب سرور کی سی کیفیت ہے.محمد صالح صاحب کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی اور میری زبان پر لا الهَ اِلَّا اللہ جاری تھا.اس پر یہ بات میرے دل میں شیخ کی طرح گڑھ گئی کہ اس دور میں لا اله الا اللہ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی ہوئی ہے.اس خواب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مجھے تسلی دلائی کہ میر ا جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ درست ہے لہذا اب مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں ایمان میں مزید پختہ ہو گیا ہوں.تو یہ تھے چند واقعات جو میں نے بیان کئے.کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ بیعت کر کے ایمان میں پختگی حاصل کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اُن کو بعض نظارے ایسے دکھاتا ہے جن سے مزید ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا؟ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائید ات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا.وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بد زبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے
449 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اُٹھایا.وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں.نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسووں سے تر کرتے ہیں بہتیرے ان میں (سے) ایسے ہیں جنہیں سچی خوا میں آتی ہیں.بعضوں کو الہام ہوتے ہیں.ان میں سے ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچے تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں.وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن اُن کے دلوں کو پاک کر رہا ہے.اور اُن کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے.جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا.غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اخَرِينَ مِنْهُمُ (الجمعة:4) کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا.(ماخوذ از ایام الصلح روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 306-307) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان وایقان میں ترقی و مضبوطی پیدا فرمائے.ہمارا خالص تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے بڑھتا چلا جائے اور کبھی ہمارے ایمان میں لغزش نہ آئے.آج جمعہ کے بعد ایک جنازہ حاضر میں پڑھاؤں گا جس کی تدفین آج ہی ہوئی تھی اس لئے جمعہ کے بعد پڑھاناضروری ہے.یہ محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم عبد المنان دین صاحب مرحوم کا جنازہ ہے.اس کا شاید پہلے اعلان بھی ہو چکا ہے 27 اگست کی صبح وفات پائی تھی.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مرحومہ مکرم بابو قاسم دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھتیجی اور بابو عزیز دین صاحب کی بہو تھیں.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے ، لواحقین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے.جمعہ کے بعد ان کا جنازہ ہو گا انشاء اللہ.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 ستمبر تا 29 ستمبر 2011ء جلد 18 نمبر 38 صفحہ 5 تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 450 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 2011ء بمطابق 09 تبوک 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سچائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کے اپنانے کے بارے میں صرف مذہب ہی نے نہیں کہا بلکہ ہر شخص جس کا کوئی مذہب ہے یا نہیں اس اعلیٰ خُلق کے اپنانے کا پر زور اظہار کرتا ہے.لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو اس اظہار کے باوجود سچائی کے اظہار کا حق نہیں ادا کیا جاتا.جس کو جب موقع ملتا ہے اپنے مفاد کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے.انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الا قوامی تعلقات تک میں سچائی کا خُلق اپنانے کا جس شدت سے اظہار کیا جاتا ہے اُسی شدت سے وقت آنے پر اس کی نفی کی جاتی ہے.اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے روز مرہ کے معمولی معاملات میں بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور وہ حقیقی سچائی جسے قولِ سدید کہتے ہیں اُس کی نفی ہو رہی ہوتی ہے.کاروباری معاملات ہیں تو دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ ان میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے.معاشرتی تعلقات ہیں تو ان میں بسا اوقات جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے.ملکی سیاست ہے تو اس میں سچ کا خون کیا جاتا ہے.بین الا قوامی سیاست اور تعلقات ہیں تو اس کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہے.اکثر دفعہ تو یہی دیکھنے میں آیا ہے.حتی کہ مذہب جو خالصتاً سچائی کو لانے والا اور پھیلانے والا ہے اس میں بھی مفاد پرستوں نے جھوٹ کو شامل کر کے سچ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ سچ کو اس طرح چھپادیں کہ سچ کا نشان نظر نہ آئے.بعض لوگ تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ جو ہے وہ جھوٹ بن جائے اور جھوٹ جو ہے وہ بیچ بن جائے.یہ بے خوفی اور بیا کی سچائی کو ہر سطح پر پامال کرنے کی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا.اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر سطح پر جھوٹ کا سہارا اس طرح نہ لیا جائے جس طرح اس زمانے میں لیا جاتا ہے یا اکثر لیا جاتا ہے.ذاتی زندگی میں گھروں میں ناچاقیاں اس لئے بڑھتی ہیں کہ سچائی سے کام نہیں لیا جاتا اور اس سچائی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میاں بیوی پر اعتماد نہیں کرتا اور بیوی میاں پر اعتماد نہیں کرتی اور جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بہت سے موقعوں پر جھوٹ بول رہے ہیں تو بچوں میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے.نئی نسل جب بعض غلط کاموں میں پڑ جاتی ہے وہ اس لئے کہ گھروں کے جھوٹ انہیں برائیوں پر اُبھارتے ہیں.یوں لاشعوری طور پر یا شعوری طور پر اگلی نسلوں میں
451 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بجائے سچائی کی قدریں پیدا کرنے کے اُسے بعض گھر زائل کر رہے ہوتے ہیں.اپنے بچوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں.پھر باقی معاشرے سے تعلقات کا بھی یہی حال ہے.اسی طرح کاروباری جھوٹ ہیں.جیسا کہ میں نے کہا بد قسمتی سے مسلمان ممالک میں یہ زیادہ عام بیماری ہے.سچائی اور صداقت کا جتنا شور مچایا جاتا ہے اتنا ہی عملاً اس کی نفی کی جاتی ہے.اسی طرح ملکی سیاست ہے اس میں عموماً جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن مسلمان کہلانے والے ممالک جن کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی پر قائم رہنے اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی تلقین کی ہے، بڑی شدت سے ہدایت دی ہے وہ اُتنا ہی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں.گزشتہ دنوں پاکستان میں کراچی اور سندھ کے حالات پر جب ایک سیاستدان نے اپنے لوگوں سے ناراض ہو کر اندر کا تمام کچا چٹھا بیان کیا تو بعض سیاستدانوں اور تبصرہ نگاروں نے یہ تبصرہ کیا کہ سچائی کا اظہار سیاستدان کا کام نہیں ہے.سیاستدان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کبھی سچ بولے.یہ اگر سچ بول رہا ہے تو یہ سیاستدان نہیں ہے بلکہ پاگل ہو گیا ہے.اس کا انکار نہیں کیا کہ جو باتیں ہیں وہ غلط ہیں، تبصرہ ہو رہا ہے تو اس بات پر کہ یہ سچ بول رہا ہے اس لئے پاگل ہے.تبصرے والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاسی زندگی اور دنیاوی منفعت کو داؤ پر لگادیا ہے، جو صرف ایک پاگل ہی کر سکتا ہے.گویا ان کے نزدیک یہ سچائی اور صداقت زوال کا ذریعہ بنے گی.یہ تو ان کا حال ہے.پس ان کی نظر میں سیاست اور حکومت خدا کے قول پر حاوی ہے.اللہ اور اُس کا رسول کہتے ہیں جھوٹ نہ بولو.لیکن یہ کہتے ہیں کہ سیاست اور حکومت کے لئے جھوٹ بولو، اگر نہیں بولو گے تو تم غلط کرو گے.اس کے باوجود یہ لوگ پکے مسلمان ہیں اور احمدی غیر مسلم ہیں جو سچائی کی خاطر اپنے کاروباروں، منفعتوں اور جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں جس نے کہا ہے کہ جھوٹ شرک ہے اور اُس نبی کو ماننے والے ہیں جس پر آخری شرعی کتاب قرآنِ کریم نازل ہوئی اور جن کا فرمان ہے کہ تمام برائیوں کی اور گناہوں کی جڑ جھوٹ ہے.پھر بین الا قوامی سیاست ہے تو اس میں مسلمان حکومتیں ہوں یا مغربی حکومتیں ہوں ان سب کا ایک حال ہے.ان ملکوں کو جو آپس کے تعلقات میں عموماً سچائی کا اظہار کرتے ہیں.کچھ نہ کچھ ان میں سچ ہے.جب دوسرے ممالک کا سوال پید اہو ، مسلمان ممالک کا سوال پیدا ہو، دوسری حکومتوں کا سوال پیدا ہو تو ان کی سچائی کے نظریے بالکل بدل جاتے ہیں.ان کا حال تو پہلے عراق پر جو حملے انہوں نے کئے اُسی سے پتہ چل گیا.جب صدام حسین کو اُتارنے کے لئے عراق کو تباہ وبرباد کر دیا، اس کے وسائل پر قبضہ کر لیا تو پھر کہ دیا کہ ہمیں غلطی لگی تھی.جتنا ظلم اور خوفناک منصوبہ بندی اور خطر ناک ہتھیاروں سے دنیا کو تباہ کرنے اور ہمسایوں کو زیر نگیں کرنے کی ہمیں اطلاعیں ملی تھیں کہ صدام حسین کرنا چاہتا ہے، اتنا کچھ تو وہاں سے نہیں نکلا.پھر لیبیا کو نشانہ بنایا گیا تو اب کہتے ہیں کہ اصل میں غلط اطلاعیں تھیں.اتنا ظلم وہاں عوام پر نہیں ہو رہا تھا.تو یہ سب باتیں مغربی پر یس ہی اب دے رہا ہے.انہی کے تبصرے آرہے ہیں.پس پہلے جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے حملے کئے جاتے ہیں.پھر سچا بننے کے لئے اپنے میڈیا
452 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے ذریعے سے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں غلطی لگی.جتنا کچھ ہمیں بتایا گیا تھا اتنا کچھ ثابت نہیں ہوا.اصل میں تو یہ سچائی بھی جھوٹ چھپانے کے لئے ہے.مقصد وسائل پر قبضہ کرنا تھا جو ہو گیا لیکن اس کا موقع بھی مسلمان ہی مہیا کرتے ہیں.اگر سینکڑوں بلین ڈالرز کی ملک کی دولت عوام پر خرچ کی جائے تو نہ کبھی ملک کے اندر ایسے فتنے فساد اُٹھیں ، نہ ان لوگوں کو دخل اندازی کی جرات ہو.بہر حال خلاصہ کلام یہ کہ بین الا قوامی جھوٹ اور صداقت کو نہ صرف چھپانے بلکہ اس کی دھجیاں بکھیرنے میں عموماً تمام دنیا کی حکومتیں ہی اپنا اپنا کر دار ادا کر رہی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بچ جائیں گے.اگر اس دنیا میں بچ بھی جائیں تو ایک آئندہ زمانہ بھی آتا ہے، ایک آئندہ زندگی بھی ملنی ہے، ایک آئندہ دنیا بھی ہے جس میں تمام حساب کتاب ہوتے ہیں.پھر ان دنیا داروں پر ہی بس نہیں ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد علمبر دار سچائی کو رد کرتے ہیں اور جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں.اس میں اسلام دشمن طاقتیں بھی ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے مخالفین بھی ہیں یعنی مسلمان بھی شامل ہیں جو اسلام دشمن طاقتوں کا ہی کردار ادا کر رہے ہیں.سچائی کو جانتے ہیں لیکن اپنے مفادات اور منبر کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں.عوام الناس کے ذہنوں کو بھی زہر آلود کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ رہے ہیں.کئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کی کتب اور لٹریچر پڑھ کر درس دیتے ہیں، اُسی سے تقریریں تیار کرتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس مخالفین اسلام کا منہ بند کرنے کے لئے کوئی دلائل نہیں ہیں، کوئی مواد نہیں ہے، لٹریچر نہیں ہے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے اسلام کا دفاع ایسے پر زور اور پر شوکت رنگ میں کیا ہے اور ایسے دلائل کے ساتھ کیا ہے کہ جس کو کوئی رد نہیں کر سکتا.لیکن عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ شخص جھوٹا ہے.پہلے بھی میں ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں اور ایک دو دفعہ نہیں، مختلف لوگوں کے بارے میں، علماء کے بارے میں جو ٹی وی پر آکر بڑے درس بھی دیتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں کسی نے بتایا ہے کہ خود انہوں نے اُن کے گھروں میں تفسیر کبیر کی اور کتب کی جلدیں دیکھی ہیں اور اس لئے نہیں کہ صرف اعتراض تلاش کریں.وہ تو ظاہر کرنے کے لئے کرتے ہی ہیں، لیکن خود انہوں نے بتایا کہ اس سے فائدہ اُٹھا کر یہ اپنے درسوں وغیرہ میں دلائل استعمال کرتے ہیں.تو ان لوگوں کو اسلام کی برتری ثابت ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے.اس لئے عوام الناس کو بھی سچائی کے راستے دیکھنے کے طریق کبھی نہیں بتائیں گے کہ کہیں اس سے ان کے منبر و محراب ہاتھ سے نہ نکل جائیں.اس سے ہاتھ نہ دھونے پڑ جائیں.لیکن بہر حال یہ ان کی کوششیں ہیں اور ہر زمانے میں جب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی فرستادے کو بھیجتا ہے تو مخالفین یہی کوششیں کرتے ہیں لیکن ایک اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی چلتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمیشہ غالب رہتی ہے.سچائی کو ہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب کرنا ہے اور اسی لئے ہمیشہ خدا تعالیٰ
453 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دنیا میں انبیاء بھیجتا آیا ہے کہ جب جھوٹ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب فساد اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، سچائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اُس وقت یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور انبیاء آتے ہیں جو سچائی کو پھر دنیا میں قائم کرتے ہیں، جو مخالفت کے باوجو د سچائی کا پرچار کرتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.ان کے راستے میں دشمن لاکھ روڑے اٹکائے مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب ہو کر رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمیشہ ان انبیاء کے ساتھ رہتی ہے، اُس کے فرستادوں کے ساتھ رہتی ہے ، اُن کی مدد کرتی رہتی ہے.یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرما تا چلا جا رہا ہے.یہ جلسے کرتے ہیں جلوس نکالتے ہیں ظلم کرتے ہیں.اب سات ستمبر کے حوالے سے پاکستان میں جلسے ہوئے ، ربوہ میں بھی جلسہ ہوا.بڑے بڑے علماء، جو ان کے چوٹی کے علماء آتے ہیں، آئے اور جلسوں کا نام رکھا ہوتا ہے ” تاجدارِ ختم نبوت کا نفرنس“ اور وہاں سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دینے کے جماعت کے خلاف یاوہ گوئی کرنے کے اور کچھ نہیں ہو رہا ہو تا.ساری رات اسی طرح کی بیہودہ گوئی کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر اللہ اور رسول کے نام پر.تو بہر حال یہ تو ان کا حال ہے لیکن اُس کے باوجو د اللہ تعالیٰ کی تقدیر چل رہی ہے اور جماعت کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جار ہے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر نہ ہو.اللہ تعالیٰ اگر اپنے وعدوں کو پورا نہ کرے اور اس کے بھیجے ہوئے غالب نہ آئیں تو پھر اللہ تعالیٰ تو نعوذ باللہ اپنے وعدوں میں غلط ثابت ہو اور دین پر سے انبیاء پر سے خدا تعالیٰ پر سے دنیا کا ایمان اُٹھ جائے.پس اللہ تعالیٰ تو اس ایمان کو قائم رکھنے کے لئے نیک فطرتوں کے ایمانوں کو بڑھانے کے لئے ایسے نظارے دکھاتا ہے جو ہر لمحہ اُن کے ایمان میں تقویت کا باعث بنتے ہیں.کچھ پرانے قصوں میں سچائی کے واقعات بیان کر کے اپنے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں، کچھ تازہ واقعات بیان کر کے اپنے دین کے بانی اور ان کے سچے ہونے کے واقعات سے متاثر کرتے ہیں اور اُس کے ماننے والے متاثر ہوتے ہیں، کچھ کو اللہ تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے کی سچائی کے بارے میں اطلاع دے کر رہنمائی فرماتا ہے.بہر حال مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی سچائی اور صدق ہی اُسے اپنے وقت میں، اپنی زندگی میں یعنی اُس نبی کی زندگی میں اُس فرستادے کی زندگی میں لوگوں کی توجہ کھینچنے کا ذریعہ بناتا ہے اور کچھ بعد میں دین کی ترقیات دیکھ کر ماننے والوں کے عمل دیکھ کر ، اُس جماعت کو دیکھ کر جو اُس نبی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ، خدا کی طرف سے رہنمائی پا کر ہدایت پاتے ہیں.بہر حال جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو آپ کو لوگ، اُس زمانے کے کفار بھی صدوق وامین کے نام سے ہی جانتے تھے.(السيرة النبوية لابن ہشام، حدیث بنیان الکعبۃ...صفحہ 155، مادار بین رسول اللہ صلی علیکم وبین رؤساء قریش صفحہ 224 دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ہی تھی کہ جب آپ نے اپنے عزیزوں اور مکہ کے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس ٹیلے کے پیچھے ایک فوج چھپی ہوئی ہے جو تمہیں نظر نہیں آرہی تو کیا یقین کر لو
454 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم گے.جو بظاہر ناممکن بات تھی کہ اس کے پیچھے کوئی فوج چھپی ہو یہ ہو نہیں سکتا کہ نظر نہ آئے.لیکن اس کے باوجود سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) تُو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اس لئے ہم یقین کر لیں گے.(صحیح بخاری کتاب التفسیر ، سورۃ تبت یدا ابی لھب...باب 1/1 حدیث نمبر 4971) پھر آپ نے اُن لوگوں کو تبلیغ کی.لیکن یہ دنیا دار لوگ تھے.جو پتھر دل تھے اُن پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو ا، اُن کے انجام بھی بد ہوئے ، کچھ بعد میں مسلمان ہوئے.تو بہر حال انبیاء اپنی سچائی سے ہی دنیا کو اپنی طرف بلانے کے لئے قائل کرتے ہیں.قرآنِ کریم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغ کے ذکر کو بیان فرماتے ہوئے قرآنِ کریم میں آپ کے یہ الفاظ محفوظ فرمائے ہیں کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس: 17) یعنی پس میں اس سے پہلے بھی تمہارے در میان ایک عمر گزار چکا ہوں کیا تم عقل نہیں کرتے.یہ وہ دلیل ہے جو نبوت کی سچائی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کے متعلق دی کہ میں نے ایک عمر تمہارے درمیان گزاری ہے کبھی جھوٹ نہیں بولا اب بوڑھا ہونے کو آیا ہوں تو کیا اب جھوٹ بولوں گا اور وہ بھی خدا تعالیٰ پر ؟ جس نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور یہ بھی میری تعلیم میں درج ہے.اور میں تو آیا ہی توحید کے قیام کے لئے ہوں.پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا.پس انبیاء کی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ اور ہتھیار اُن کی سچائی کا اظہار ہوتا ہے.اُن کی زندگی کے ہر پہلو میں سچائی کی چمک ہوتی ہے جس کا حوالہ دے کر وہ اپنی تبلیغ کرتے ہیں اپنا پیغام پہنچاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا کہ وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ اور میں ایک عمر تک تم میں رہتارہاہوں کیا تم کو عقل نہیں.اس بارے میں ”نزول المسیح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: قریباً 1884ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.اور اس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگا سکے گا.چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے (جب آپ نے یہ لکھا فرمایا کہ میری عمر پینسٹھ سال ہے) کوئی شخص دور یا نزدیک رہنے والا ہماری گزشتہ سوانح پر کسی قسم کا داغ ثابت نہیں کر سکتا بلکہ گزشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پر زور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنتہ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں.پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے پیشگوئی وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ کا ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 590) پس سچائی ایک ایسی چیز ہے جو نبی کے سچا ہونے کے لئے اور تبلیغ کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، تبھی تو مصدق ہے“.
455 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اللہ تعالیٰ بھی اپنے انبیاء کی اس بات کو کہ میں ایک عمر تک تم میں رہا ہوں کبھی جھوٹ نہیں بولا کیا اب بولوں گا، اس بات کو اپنے پیاروں کی ایک بہت بڑی خاصیت اور صفت کے طور پر پیش فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے بارے میں یہ اقتباس بھی جو پڑھا ہے، آپ نے سنا.جب آپ کی سیرت پر دشمن بھی داغ نہیں لگا سکے تو سچائی جو سیرت کا سب سے اعلیٰ وصف ہے اس کے بارے میں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں.آجکل کے مولوی یا جو بھی اعتراض کرنے والے ہیں جو مرضی کہتے رہیں.ہاں منہ سے بک بک کرتے ہیں کرتے رہیں لیکن کسی بات کو ثابت نہیں کر سکے.اور آج بھی جو لوگ نیک نیت ہیں اور نیک نیت ہو کر خدا تعالیٰ سے ہدایت اور مد دما نگتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی ثابت فرماتا ہے.ابھی گزشتہ جمعہ پر میں نے بعض واقعات بیان کئے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کی تصدیق فرمائی جن لوگوں نے خالص ہو کر نیک نیت ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد اور دعا مانگی.پس یہ سچائی ہے جس کو انبیاء لے کر آتے ہیں جس کا اظہار اُن کی زندگی کے ہر پہلو سے ہوتا ہے اور یہ سچائی ہی ہے جس کو ہم نے (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے ہیں ) دنیا پر ظاہر کرنا ہے.کیونکہ انبیاء کے ماننے والوں کا بھی کام ہے کہ جس نبی کو وہ مانتے ہیں اس کی سچائی کے بارے میں بھی دنیا کو بتائیں.انہیں بھی ہدایت کے راستوں کی طرف لائیں اور اس زمانے میں اسلام ہی وہ آخری مذہب ہے جو سب سچائیوں کا مرکز ہے.یہی وہ واحد مذہب ہے جو اپنی تعلیم کو اصلی حالت میں پیش کرتا ہے.یہی وہ واحد مذہب ہے جس میں ابھی تک خدا تعالیٰ کی کتاب اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور انشاء اللہ قیامت تک موجود رہے گی.یہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے جو سچائی اور ہدایت کا سر چشمہ ہے.باقی سب مذہبی کتب میں کہانیوں اور قصوں اور جھوٹ کی ملونی ہو چکی ہے.پس اس سچائی سے دنیا کو روشناس کروانا ایک مسلمان کا فرض ہے.لیکن مسلمانوں کی اکثریت تو خود غلط کاموں میں پڑی ہوئی ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا وہ کسی کو سچائی کا کیا راستہ دکھائیں گے.ایک موقع پر غیروں کے ساتھ ایک مجلس ہو رہی تھی.اکثریت عیسائی تھے ، اکثریت کیا بلکہ تمام ہی عیسائی تھے.تو یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ پیغام لے کر آئے ہیں اور تمام دنیا کے لئے پیغام ہے، مسلمانوں کے لئے بھی ہے، عیسائیوں کے لئے بھی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ جو نیک فطرت ہیں وہ آپ کے ہاتھ پر جمع ہوں گے ، چاہے وہ عیسائی ہوں یا ہندو ہوں یا کوئی ہو.تو اُس عیسائی نے ایک بات کی غالباً کسی یونیورسٹی کا پروفیسر تھا لیکن مذہب سے اس کا کافی تعلق تھا.مجھے کہنے لگا پہلے مسلمانوں کی اصلاح کر لیں پھر ہماری عیسائیوں کی اصلاح کریں.تو بہر حال اُس کو جواب تو میں نے اُس وقت دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح ہو نا ضروری ہے اور مسلمانوں کی وجہ سے ہی بعض دفعہ شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے.لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اس لئے آئے تھے تاکہ مسلمانوں کی بھی اصلاح کریں اور مسلمانوں کے لئے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم فرمایا تھا کہ جب وہ امام مہدی آئے تو تم اس کو ماننا، چاہے برف کی سلوں پر جا کر ماننا پڑے.(سنن ابن ماجه كتاب الفتن باب خروج المهدى حديث نمبر 4084)
456 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لیکن ہم احمد کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم نے یہ سچائی کا پیغام دنیا کو پہنچاتا ہے، لیکن کس طرح؟ پہلے تو ہمیں اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا ہو گا.انبیاء نے اپنی سچائی کی دلیل اپنی زندگی میں سچ کی مثالیں پیش کر کے دی کہ روز مرہ کے عام معاملات سے لے کر انتہائی معاملات تک کسی انسان سے تعلق میں، Dealing میں کبھی ہم نے جھوٹ نہیں بولا.پس یہ سچائی کا اظہار ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں کرنا ہو گا.اور یہی کام ہے جو انبیاء کے ماننے والوں کا ہے کہ جس طرح انبیاء اپنی مثال دیتے ہیں اُن کے حقیقی ماننے والے بھی اپنی سچائی کو اس طرح خوبصورت کر کے پیش کریں کہ دنیا کو نظر آئے.ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کا حکم ہے.پس اس اسوہ پر چلتے ہوئے سچائی کے خُلق کو سب سے زیادہ ہمیں اپنانا ہو گا.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو تبھی پورا کر سکتے ہیں جب اس خُلق کو اپنائیں گے.تبھی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.لیکن سچائی کے یہ معیار تبھی حاصل ہوں گے جب ہم ہر سطح پر خود اپنی زندگی کے ہر لمحے کو سچائی میں ڈھالیں گے.ہماری گھریلو زندگی سے لے کر ہماری باہر کی زندگی اور جو بھی ہمارا حلقہ اور ماحول ہے اُس میں ہماری سچائی ایک مثال ہو گی، تبھی ہماری باتوں میں بھی برکت ہو گی ، تبھی ہمارے اخلاق اور سچائی دوسروں کو متاثر کر کے احمدیت اور اسلام کے قریب لائیں گے.پس اس کے لئے ہمیں ایک جد و جہد اور کوشش کرنی ہو گی.اپنے عملوں کو سچائی سے سجانا ہو گا.اگر ہم چھوٹے چھوٹے مالی فائدوں کے لئے جھوٹ کا سہارا لینے لگ گئے تو پھر ہماری باتوں کا کیا اثر ہو گا.جیسا کہ پہلے میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اگر ہم غلط بیانی کر کے مثلاً حکومت سے ، کونسل سے مالی مفاد حاصل کر رہے ہیں، اگر ہم اپنے ٹیکس صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے تو پکڑے جانے پر پھر جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ احمدی کا ہر ایک کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے اور جب بد نامی ہو جائے تو پھر تبلیغ کیا ہو گی ؟ کس طرح ثابت کریں گے کہ جس جماعت سے آپ کا تعلق ہے جس کا دعویٰ ہے کہ احمدی برائیوں میں ملوث نہیں ہوتے ، قانون کے پابند رہتے ہیں، باقی مسلمانوں سے مختلف ہیں کیونکہ انہوں نے اس زمانے میں اُس شخص کی بیعت کی ہے جو دنیا کی رہنمائی کے لئے آیا ہے تو یہ ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا.پس یہ ثابت کرنے کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو درست کرنا ہو گا، چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا ہو گا.ہم کس طرح ثابت کریں گے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرنے والے ہیں.پس ہمیں اس کام کو پھیلانے کے لئے جماعت کی نیک نامی کے لئے اپنی ذاتی اصلاح کی طرف بھی بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے.جھوٹ پکڑے جانے پر نہ صرف ہم اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہیں بلکہ جماعت اور اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں.پھر بعض دوسری بداخلاقیاں ہیں.بعض نوجوانوں کا غلط قسم کی صحبت میں اُٹھنا بیٹھنا ہے.پھر میاں بیوی کے گھریلو جھگڑے ہیں، پہلے بھی میں نے عرض کیا، جن میں بعض اوقات پولیس تک معاملے پہنچ جاتے ہیں.وہاں پھر کوئی نہ کوئی فریق غلط بیانی سے کام لیتا ہے.تو بہر حال یہ سب چیزیں جماعت کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں غلط اثر قائم ہو کر تبلیغ میں روک کا بھی باعث
خطبات مسرور جلد نهم 457 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء بنتی ہیں.پھر اس کے علاوہ اگر غلط بیانی کی عادت پڑ جائے تو جماعت کے اندر بھی اپنے معاملات میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر اس جھوٹ سے ہر معاملے میں بے برکتی پڑتی چلی جاتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس سے گھروں میں بھی بچوں پر برا اثر پڑ رہا ہوتا ہے.بات کا اثر نہیں ہوتا.کئی بچے بچیاں مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ ہمارا باپ باہر بظاہر بڑا نیک شریف اور سچا اور کھرا مشہور ہے.خدمت کرنے والا بھی ہے لیکن گھروں کے اندر ہمیں پتہ ہے غلط باتیں کرنے والا ہے اور سچائی سے ہٹا ہوا ہے.تو ایسے باپوں کا بچوں پر کیا اثر ہو گا یا ایسی ماؤں کا بچوں پر کیا اثر ہو گا جو غلط بیانی سے کام لیتی ہیں ؟ اگر پوچھو تو پھر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے کہ ہم ٹھیک ہیں.سب ٹھیک ہے.تو پھر ایسے لوگوں کی تبلیغ کا اور بات کا بھی اثر نہیں ہوتا.جن کے گھروں کے بچوں پر ہی اثر نہیں ہو رہا جن کے گھروں کے بچے ہی اُن سے غلط اثر لے رہے ہیں، اُن پر غلط اثر قائم ہو رہا ہے وہ باہر کیا اصلاح کریں گے ؟ پس اس بات کا ہر احمدی کو بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے.اگر ہم میں یہ باتیں پید اہو رہی ہیں اور بڑھ رہی ہیں تو پھر تو ہم اُن لوگوں میں شمار ہوں گے جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ احمدیت کچی ہے، حقیقی اسلام ہے.ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ”محبت سب کے لئے (ہے) نفرت کسی سے نہیں“ لیکن سب سے پہلے تو ہم نے اپنے گھروں کو محبت دینی ہے وہاں سچائی قائم کرنی ہے.اپنے عزیزوں، رشتے داروں کو محبت دینی ہے، اپنی جماعت کے افراد کو محبت دینی ہے، اپنے ماحول کو محبت دینی ہے، تبھی ہماری محبت وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جائے گی، تبھی سچائی سے آگے سچائی پھیلتی چلی جائے گی.ورنہ ہمارا یہ نعرہ کھو کھلا ہے.ہم جھوٹے نعرے لگا رہے ہیں.ہمارے گھروں میں تو بے چینیاں ہوں اور ہم دوسروں کو بلا رہے ہوں کہ آؤ اور سچائی کو پا کر اپنی بے چینیوں کو دور کرو.ہم دوسروں کو جا کر تو محبت کی تبلیغ کر رہے ہوں اور اپنے ہمسایوں سے ہمارے تعلقات اچھے نہ ہوں جس کا سب سے زیادہ حق ہے.قرآنِ کریم میں ہمسائے کا سب سے زیادہ حق لکھا ہے.اسلام میں سب سے زیادہ حق ہمسائے کو دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تمہارا دینی بھائی بھی تمہارا ہمسایہ ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 215 مطبوعہ ربوہ) یہ صرف گھر سے گھر جڑنا ہمسائیگی نہیں ہے بلکہ ہر دینی بھائی جو ہے وہ تمہارا ہمسایہ ہے اُس کا حق ادا کرو.پس اگر ہم سچے ہیں تو آپس کے تعلقات کو بھی مضبوط جوڑنا ہو گا ورنہ ہماری تبلیغ بے برکت ہو گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:3) (کہ اے وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ کیونکہ اگر تمہارے عمل تمہارے قول کا ساتھ نہیں دے رہے تو یہ منافقت ہے اور اس میں کبھی برکت نہیں پڑ سکتی.اس سے ہمیشہ بے برکتی پیدا ہو گی.ایمان کو اپنے قول و فعل کے تضاد سے داغدار نہ کرو.جس بچے اور کامل نبی کے عاشق صادق کے ساتھ تم بجڑ گئے ہو یا جڑنے کا دعوی کرتے ہو اس کے ساتھ حقیقت میں جڑنا تو شبھی ہو گا جب کوئی تم پر یہ کہہ کر انگلی نہ اٹھائے کہ یہ شخص جھوٹا ہے.اگر یہ جھوٹا ہے تو ہر کہنے والا یہی کہے گا کہ یہ خود جھوٹا ہے تو جس کے ساتھ جڑ کر یہ سچائی کا اعلان کر رہا ہے تو اس کی سچائی بھی محل نظر ہو گی.تبھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے ساتھ جڑ کر ہمیں بد نام نہ کرو.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 145.مطبوعہ ربوہ)
خطبات مسرور جلد نهم 458 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی فتح کے لئے سچائی کا ہتھیار ہے جو ہم نے استعمال کرنا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی تعلیم سچی ہے، قرآنِ کریم سچا ہے اور اس تعلیم نے تاقیامت رہنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شرعی نبی ہیں اور اب کوئی نئی شریعت، کوئی نئی سچائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں اترنی.نبوت کے تمام کمال آپ پر ختم ہو چکے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کا دعوی سچا ہے.آپ ہی وہ مسیح و مہدی موعود ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی اور اب اسلام کی ترقی احمدیت کی ترقی سے وابستہ ہے لیکن اس ترقی کا حصہ بننے کے لئے ، اس سچائی کے پھیلانے کے لئے جو احمدیوں کی ذمہ داری ہے اُس کو ادا کرنے کے لئے ہمیں اپنے عمل بھی بچے کرنے ہوں گے.اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے ہوں گے جس تعلیم کی ہم تبلیغ کر رہے ہیں.پس اگر ہم نے اس غلبے کا حصہ بننا ہے جو اسلام کے لئے مقدر ہے انشاء اللہ ، اگر ہم نے اُس غلبے کا حصہ بننا ہے جس کا وعدہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ بھی کیا ہے تو پھر ہمیں ہر آن اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم سچے ہیں ؟ اپنے گھروں میں ، اپنے ماحول میں، اپنے جماعتی معاملات میں، اپنے کاروباری معاملات میں ہمیں جائزے لینے ہوں گے.اگر جائزے بے چینی پیدا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں فکر کی ضرورت ہے.بیشک احمدیت کا غلبہ تو یقینی ہے انشاء اللہ اور اس غلبے کو ہم ہر روز مشاہدہ بھی کر رہے ہیں ، لیکن سچائی کا حق ادانہ کرنے والے اس غلبے کا حصہ بننے سے محروم رہیں گے.پس یہ لمحہ فکر یہ ہے، غور کرنے کا مقام ہے، اس بات کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ سچائی کو پا کر ہم کس طرح اپنے عملوں کو جھوٹ سے پاک کرنے والے بنیں.ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے کہ جھوٹ شرک ہے.جن احمدیوں نے سچائی کے اظہار اور اسے قائم رکھنے کے لئے قربانیاں دی ہیں یا دے رہے ہیں وہ اصل میں شرک کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں.وہ خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں.وہ جابر انتظامیہ اور حکومت اور ظالم ملاں کی اس بات کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں کہ اگر تم زندگی چاہتے ہو، اگر تم اپنے مالوں کو محفوظ کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنے بچوں کا سکون چاہتے ہو تو پھر سچائی کو چھوڑ دو اور جھوٹ کو اختیار کر کے ہمارے پیچھے چلو.پس یہ قربانیاں کرنے والے جو مقصد ادا کر رہے ہیں ہم باہر رہنے والوں کا بھی فرض ہے کہ ہر وہ احمدی جو نسبتا سکون سے زندگی گزار رہا ہے اُس کا یہ فرض ہے کہ سچائی کے معیار کو اتنابلند کرے کہ جھوٹ اپنی موت آپ مر جائے.اور جب ہم نیک نیتی سے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہوں گے تو یقینا جھوٹ کو فرار اور موت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہو گا.ابوسفیان نے فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی عرض کیا تھا کہ اگر ہم سچے ہوتے اور ہمارے معبود بچے ہوتے اور طاقتور ہوتے ، کسی قدرت کے مالک ہوتے تو جس کسمپرسی کی حالت میں آپ مکہ سے نکلے تھے اور آپ کے ختم کرنے کی جو کوششیں ہم نے کی ہیں اس کی وجہ سے آج آپ کی جگہ ہم بیٹھے ہوتے.لیکن ہمیشہ کی طرح یہ ثابت ہو گیا کہ جس طرح آپ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں سچائی کا اظہار کرتے رہے اور جس
459 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم طرح آپ کے منہ سے ہمیشہ سچی بات کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلا آج یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کا اعلان کہ سچ اور صدق یہی ہے کہ اس عالم کون کا ایک خدا ہے، اُس کی عبادت کرو اس کی بندگی کا حق ادا کر ووہی سچا خدا ہے.یقینا آپ کا یہ اعلان بھی سچا تھا اور سچا ہے اور اسلام کا خدا یقینا سچا خدا ہے اور اُس کے ماننے والے بھی سچے ہیں.اس لئے ابوسفیان نے اعلان کیا کہ میں بھی کلمہ پڑھتاہوں اور اسلام میں داخل ہوئے.) سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد از علامہ محمد بن یوسف صالحی جلد 5 صفحہ 217 فی غزوة الفتح الا عظم....دارالکتب العلمیة بیروت 1993) پس یہ تھے وہ سچائی کے نمونے جو دنیا نے دیکھے.جس نے سخت ترین دشمنوں کو بھی حق کی دہلیز پر لا ڈالا.پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو عظیم فساد کی حالت میں دیکھا اور سچائی کے نور سے اس فساد کو ختم کر کے باخدا انسان بنادیا.مشرکوں کو توحید پر قائم کر دیا.کفارِ مکہ کے تکبر اور جھوٹ کو سچائی نے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں نے پارہ پارہ کر دیا آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی یہی وعدے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپ کے ذریعہ بھی اسلام کا غلبہ ہونا ہے لیکن ہمیں باخدا بننے کی ضرورت ہے.سچائی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے.سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنے ایمانوں کو قوی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ یہ نظارے دیکھ سکیں.ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر عہد بیعت کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے، سچائی کو قائم کریں گے اور جھوٹ اور شرک کا خاتمہ کریں گے.پس آج سچائی کا اظہار اور صداقت کا قائم کرنا احمدیوں کا کام ہے.کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے صادق کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت کر کے سچائی کو دنیا میں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور عہدوں کے پورا کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہم پوچھے جائیں گے.پس بڑے فکر اور خوف کا مقام ہے.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو سچائی کا نمونہ نہ بنایا تو پھر ہم کبھی توحید کو قائم کرنے اور اُس صدق کو پھیلانے والے نہیں بن سکتے جس کی تکمیل و اشاعت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے.وہ صدق جو آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا لیکن مسلمانوں کی ہی شامت اعمال کی وجہ سے وہ صدق آج دنیا سے مفقود ہے اور دنیا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :42) کا نمونہ بنی ہوئی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بے انتہا احسان کرنے والا ہے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اور آپ کے ذریعے ایک جماعت کو قائم کر کے اس کے دُور کرنے کے سامان بھی پیدا فرما دیئے ہیں.خلافت علی منہاج نبوت کے ذریعے ایک جماعت کا قیام کر کے ہمیں سچائی کے قائم کرنے کی اُمید میں بھی دلا دی ہیں.پس ہر سطح پر اس فساد کو دور کرنا اور سچائی کو قائم کرنا اور اس کے لئے کوشش کرنا ہر اُس احمدی کا کام ہے جو اپنے آپ کو جماعت سے منسوب کرتا ہے.ہمیں اس فساد اور جھوٹ کو گھروں سے بھی ختم کرنا ہے جو گھروں میں فتنے کا باعث بنا ہوا ہے.ہمیں اس فساد کو محلوں سے بھی ختم کرنا ہے.ہمیں اس فساد اور جھوٹ کو شہروں سے بھی ختم کرنا ہے اور ہمیں اس فساد اور جھوٹ کو اس دنیا سے بھی ختم کرنا ہے تاکہ دنیا میں پیار اور محبت اور امن اور صلح کا ماحول قائم ہو جائے.
460 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس رسول کے ماننے والے ہیں جو تمام دنیا کے فتنوں اور فسادوں کو ختم کرنے آیا تھا جو دنیا کے لئے ایک رحمت بن کے آیا تھا ، جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء: 108 ) کہ ہم نے تجھے دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.پس دنیا میں سچائی کا بول بالا کر کے اور فسادوں کو دُور کر کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کا باعث بننا ہے.پس آج یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس اصدق الصادقین اور رحمتہ للعالمین کی سنت پر قائم ہوں.اپنوں کو بھی سچائی کے اظہار سے اپنا گرویدہ کریں، پیار و محبت کا پیغام پہنچائیں اور غیروں کو بھی صدق کے ہتھیار سے مغلوب کریں.پستول، بندوقیں، رائفلیں اور تو ہیں تو گولیاں اور گولے برساکر زندگیوں کو ختم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں لیکن جو سچائی کا ہتھیار ہم نے اپنے عملوں اور اظہار سے چلانا ہے اور کرنا ہے یہ زندگی بخشنے والا ہتھیار ہے.پس اس ہتھیار کو لے کر آج ہر احمدی کو باہر نکلنے کی ضرورت ہے.اللہ کرے کہ ہم سچائی کے پھیلانے کا یہ روحانی حربہ استعمال کر کے دنیا کے سعید فطرتوں اور نیکیوں کے متلاشیوں کو جمع کر کے ان کے ذریعہ صدق کی ایسی دیواریں کھڑی کرنے والے بن جائیں جس کو کوئی جھوٹی اور شیطانی طاقت گرانہ سکے.اور پھر یہ صدق کا نور جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے وہ نور جو خدا تعالیٰ کے نور کا پر تو ہے دنیا میں پھیلے اور پھیلتا چلا جائے، انشاء اللہ ، اور دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر توحید کے نظارے دیکھنے والی بن جائے، اللہ ہمیں اس کی توفیق دے.آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے.میں جمعہ کے بعد انشاء اللہ ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا.ہمارے فیصل آباد کے ایک احمدی بھائی نسیم احمد بٹ صاحب ابن مکرم محمد رمضان بٹ صاحب کو دو تین دن ہوئے فیصل آباد میں شہید کر دیا گیا ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کے دادا کے ذریعے سے ان کے خاندان میں احمدیت آئی تھی جن کا نام غلام محمد صاحب تھا.اُن کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیعت کی سعادت حاصل ہوئی.نسیم احمد بٹ صاحب 1957ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور پیدائشی احمدی تھے.4 ستمبر بروز اتوار کو نامعلوم افراد آپ کے گھر دیوار پھلانگ کر آئے اور فائرنگ کر کے شہید کر دیا، اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.تین اور چار ستمبر کی رات کو یہ آئے تھے.آپ باہر صحن میں سوئے ہوئے تھے ، آپ کو اُٹھایا اور نیند کی حالت میں آپ پر فائرنگ کر دی.دو فائر پیٹ میں لگے دوسر اکمر میں لگا، زخمی حالت میں آپ کو ہسپتال پہنچایا گیا اور چار ستمبر کو صبح نو بجے آپ کی ہسپتال میں وفات ہوئی.شہادت سے قبل گولیاں لگنے کے بعد خود کو سنبھالا اور اپنی بیوی کو حوصلہ اور صبر کی تلقین کرتے رہے.آپ کے چھوٹے بھائی وسیم احمد بٹ صاحب 1994ء میں اور پھر آپ کے تایا زاد بھائی نصیر احمد بٹ صاحب ولد اللہ رکھا صاحب کو گزشتہ سال شہید کیا گیا تھا.اس موقع پر بھی آپ نے بڑے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا.شہادت کے وقت مکرم نسیم بٹ صاحب کی عمر 54 سال تھی.ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے.بااخلاق اور باکردار شخصیت کے حامل اور بڑے بہادر نڈر انسان تھے.جماعتی کاموں میں حصہ لیتے تھے.جماعتی چندوں کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے.
461 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مسجد گھر سے کچھ فاصلے پر ہونے کے باوجود نماز جمعہ با قاعدگی کے ساتھ مسجد میں جا کر ادا کیا کرتے تھے.نظامِ جماعت اور خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق تھا.طبیعت میں سادگی تھی.بیوی بچوں کے ساتھ بہت محبت اور شفقت کا سلوک کیا کرتے تھے.ہمدردی خلق اور غریب پروری نمایاں خُلق تھا.ان کے لواحقین میں اہلیہ آسیہ نسیم صاحبہ کے علاوہ چار بیٹیاں سندس ناز شادی شدہ ہیں غلام عباس صاحب کی اہلیہ.زارا نور صاحبہ یہ بھی شادی شدہ ہیں.سارہ کوثر صاحبہ یہ بھی شادی شدہ ہیں.شمائلہ کنول بعمر پندرہ سال، یہ نویں کلاس میں پڑھ رہی ہیں اور بیٹا عزیزم سافر رمضان گیارہ سال کا ہے، چوتھی جماعت میں پڑھ رہا ہے.ایک بیٹا ان کا پچھلے سال بیماری کی وجہ سے بائیس سال کی عمر میں وفات بھی پا گیا تھا.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد جیسا کہ میں نے کہا ان کی نماز جنازہ ادا ہو گی.(خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) یہ جو شہید ہوئے ہیں ان کے دو دن بعد فیصل آباد میں ہی ہمارے جماعت کے سیکرٹری امور عامہ تھے اُن کے اوپر فائرنگ کی گئی اور چار گولیاں اُن کو لگی ہیں.ہسپتال میں داخل ہیں.کل تک کریٹیکل (Critical) حالت تھی.اللہ کے فضل سے اب کچھ بہتر ہیں.اُن کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو شفائے کاملہ و عاجلہ سے نوازے.انہیں پیٹ میں اور گردن پر اور بازو پر گولیاں لگی تھیں.ان کی انتریوں کو کافی زیادہ نقصان پہنچا ہے.مرمت کی گئی ہیں اور کچھ کائی ہیں.اسی طرح کل ہی لاہور میں ایک احمدی کو کار روک کے فائرنگ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایک گولی میں (Miss) ہوئی دوسری چل نہیں سکی.بہر حال مخالفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ اُن سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 30 ستمبر تا 6 اکتوبر 2011ء جلد 18 شمارہ 39 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 462 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 2011ء بمطابق 16 تبوک 1390 ہجری شمسی بمقام باد کرو ئز ناخ (جرمنی) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یہاں خدام الاحمدیہ جرمنی اور لجنہ اماء اللہ جر منی کا اجتماع شروع ہو رہا ہے.اور برطانیہ میں بھی خدام الاحمدیہ برطانیہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے.اسی طرح بعض اور ملک بھی ہیں جہاں آج جلسے اور اجتماعات ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام اجتماعات کو اپنے خاص فضل سے کامیاب فرمائے.ہر شامل ہونے والا بے اتنہا فیض اُٹھانے والا ہو ، اس اجتماع کے مقصد کو پورا کرنے والا ہو.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام شامل ہونے والوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے.حاسدین اور مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ہر دن جماعت میں ترقی دیکھتے ہیں اور جوں جوں یہ ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے دنیا کے ہر ملک میں حسد کرنے والے اور شر پھیلانے والے پیدا ہو رہے ہیں.اور یہ حاسدین اور شر پھیلانے والوں کا بڑھنا ہی اس بات کی علامت اور دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی کے فضل سے دنیا میں جماعت احمدیہ کے قدم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں.پس یہ مخالفین اور دشمن کی منصوبہ بندیاں جماعت کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا معیار ہیں اور اس سے ایک مومن کو پریشان نہیں ہونا چاہئے.ہاں اگر کوئی پریشانی کی بات کسی مومن کے لئے ہے یا ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ اُس کے جماعت اور خلافت کے ساتھ اخلاص میں کہیں کمی نہ ہو جائے.اُس کے تقویٰ پر چلنے کے معیار گرنے نہ شروع ہو جائیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر نیکی اور تقویٰ میں ایک جگہ ٹھہر بھی گئے ہو تو یہ بھی تمہارے لئے بڑی خطر ناک بات ہے، سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس کے بعد پھر نیچے گراوٹ شروع ہو جاتی ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ نمبر 455.مطبوعہ ربوہ) پس ہمارے مردوں کو ، ہماری عورتوں کو ، ہمارے بچوں کو ، ہمارے بڑوں کو ، ہمارے نوجوانوں کو ، ہمارے بوڑھوں کو اپنے اُس دشمن کی فکر کرنی چاہئے جو انہیں تقویٰ میں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے، انہیں نیکیوں میں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
خطبات مسرور جلد نهم 463 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء میں پھر جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ تم لوگ ان کی مخالفتوں سے غرض نہ رکھو.تقویٰ طہارت میں ترقی کر و تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور ان لوگوں سے وہ خود سمجھ لیوے گا.وہ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا و الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ ( نحل : 129) " یعنی یقینا اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے اور جو نیکیاں کرنے والے ہیں“.وو ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 112.مطبوعہ ربوہ) پس اگر نیکیوں اور تقویٰ میں ہمارے قدم آگے بڑھ رہے ہیں تو دشمن ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا.گزشتہ تقریباً سوا صدی سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں.ہر ایک یہی مشاہدہ کر رہا ہے ، یہی ہم نے دیکھا ہے کہ دشمن نے ہمارے چند پیاروں کی زندگی تو گو ختم کر دی اور ہمارے مالوں کو تو بے شک لوٹا ہے، اس کے بدلے میں اس دنیا سے جو جا نہیں رخصت ہوئیں اُن کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے دائمی زندگی مل گئی.وہ ان لوگوں میں شامل ہو گئیں جو دائمی زندگی پانے والے لوگ تھے اور انفرادی طور پر بھی مال کی کمی بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دی.آپ میں سے بہت سارے یہاں بیٹھے ہیں جو اس چیز کے گواہ ہیں اور جماعتی طور پر بھی اس قربانی کے بدلے اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نوازا ہے اس کا تو کوئی حساب اور شمار ہی نہیں ہے.پس اگر ہمیں فکر ہونی چاہئے تو دشمنوں کے مکروں کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تقویٰ کی کہ یہ نہ کہیں ہمارے ہاتھ سے نکل جائے، اس میں ہماری طرف سے کمی نہ پیدا ہو جائے.اگر ہمارا پختہ تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو گا تو ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچیں گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما یاد شمن سے خداخود سمجھ لے گا اور سمجھ رہا ہے.مخالفین کے اتنے شور شرابے کے باوجود، صرف مقامی طور پر ملکوں کے اندر یہ مخالفت نہیں ہے بلکہ اخباروں اور ٹی وی چینلز کے ذریعے سے تمام دنیا میں احمدیت کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن مخالفت جماعت کے تعارف کا باعث بنتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں بھی نہیں پتہ چلتا کہ کس طرح ہمارا پیغام پہنچ رہا ہے.ایک مجلس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: کثرت کے ساتھ لوگ اس سلسلہ میں داخل ہو رہے ہیں.بظاہر اس کے وجوہ اور اسباب کا ہمیں علم نہیں.ہماری طرف سے کون سے واعظ مقرر ہیں جو لوگوں کو جا کر اس طرف بلاتے ہیں یہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشش لگی ہوئی ہوتی ہے جس کے ساتھ لوگ کچے چلے آتے ہیں...“.فرمایا ”جہاں تک اللہ تعالی اس سلسلہ کو پہنچانا چاہتا ہے اُس حد تک اس نے کشش رکھ دی ہے“.(ملفوظات جلد 4 صفحہ 318 مطبوعہ ربوہ) پس ایک تو لوگوں کا رُخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ اور آپ کی کتب پڑھ کر آپ کی طرف ہوا، کچھ آپ کے پیغام کو سن کر جو آپ کے واعظین و مبلغین نے پھیلا یا اس کوشن کر لوگوں کی توجہ پید اہوئی، کچھ لوگوں کو اُن کی تڑپ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے راہِ ہدایت دکھائی اور دکھاتا ہے اور دکھاتا چلا جارہا ہے.پس ایسے ہی لوگ ہیں جو کسی کوشش کے ذریعے سے نہیں بلکہ کہیں سے پیغام سن لیا یا اللہ تعالی نے جن کی رہنمائی فرمائی.یاجو بھی سعید فطرت ہدایت کی دعا کرتے ہیں ان ہی لوگوں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
464 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیدا فرماتا ہے اور ایک مقناطیسی کشش کی طرح وہ آپ کی طرف کچے چلے آتے ہیں.اُس زمانے میں بھی کچے چلے آرہے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجو د اس دنیا میں تھا اور آج بھی کھچے چلے آرہے ہیں جبکہ آپ کا پیغام دنیا میں کسی بھی شکل میں پہنچتا ہے.اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ یہ کشش اللہ تعالیٰ نے آج بھی رکھی ہوئی ہے.آج بھی خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرماتا ہے کہ لوگوں کی توجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ہو رہی ہے.ہم پر باوجود مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے چلے جارہے ہیں جس کا اظہار اللہ تعالیٰ فرماتا رہتا ہے.ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مخالفین کی مخالفتوں اور اللہ تعالیٰ کا کیا منشاء ہے؟ کے بارے میں ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے: إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَا مَنَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَطِينَ “ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود ہی اس الہام کی وضاحت فرماتے ہیں کہ آخر کو ظاہر کروں گا کہ فرعون یعنی وہ لوگ جو فرعون کی خصلت پر ہیں اور ہامان یعنی وہ لوگ جو ہامان کی خصلت پر ہیں اور اُن کے ساتھ کے لوگ جو اُن کا لشکر ہیں یہ سب خطا پر تھے“.(تذکرہ صفحہ 451 452 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مجلس میں فرمایا کہ یہ الہام مجھے رات کو ہوا.فرمایا کہ: فرعون اور اس کے ساتھی تو یہ یقین کرتے تھے کہ بنی اسرائیل ایک تباہ ہو جانے والی قوم ہے اور اس کو ہم جلد فنا کر دیں گے.پر خدا نے فرمایا کہ وہ ایسا خیال کرنے میں خطا کار تھے.ایسے ہی اس جماعت کے متعلق مخالفین و معاندین کہتے ہیں کہ یہ جماعت تباہ ہو جائے گی، مگر خدا تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہے“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 261.مطبوعہ ربوہ) پس دنیا والے چاہے وہ حکومتیں ہوں یا تنظیمیں، الہی جماعتوں کو تباہ نہیں کر سکتیں.بڑے بڑے فرعون آئے، ہامان آئے اور اس دنیا سے ناکام و نامراد گزر گئے.بڑے بڑے حاسد آئے اور اپنی حسد کی آگ میں آپ ہی جل کر بھسم ہو جاتے رہے اور ہو رہے ہیں.بڑے بڑے شریر اُٹھتے ہیں لیکن خود اپنے شروں کا نشانہ بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے رُخ پھیرتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ذکر فرمایا کہ ہمیں پتہ نہیں لگتا بعض جگہ کس طرح پیغام پہنچتا ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا اس کی آج بھی ہمیں مثالیں نظر آتی ہیں اور کثرت سے نظر آتی ہیں.ان واقعات میں سے جو آجکل ہو رہے ہیں چند واقعات میں نے مثال کے طور پر لئے ہیں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہمارے ایک فلسطین کے عوض احمد صاحب ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ بچپن کی ایک خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی تھی کہ تم امام مہدی کے سپاہی بنو گے.تب سے امام مہدی کی تلاش میں تھا،
465 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ایک روز اچانک ایک عیسائی چینل دیکھا جس پر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی کر رہے تھے ، تب فوراً عربی چینلز گھمانا شروع کئے کہ شاید کوئی اس کا جواب دے لیکن وہاں تو جادو، طلاق اور منافعوں کی باتیں ہو رہی تھیں بجائے اس کے کہ انہیں جواب دیتے.کچھ عرصے کے بعد خوش قسمتی سے ایم.ٹی.اے مل گیا.مجھے احساس ہوا کہ یہ سچے لوگ ہیں.پھر مستقل طور پر اُسے دیکھنا شروع کر دیا.اس چینل نے مجھے ہلا کر رکھ دیا.اب شرح صدر حاصل ہونے کے بعد بیعت کرنا چاہتا ہوں براہ کرم قبول فرمائیں.پھر عرب ملک کے ایک ہمارے دوست احمد ابراہیم صاحب ہیں کہتے ہیں کہ اچانک ایم.ٹی.اے دیکھنے کا موقع ملا.پہلے کچھ تردد تھا پھر آہستہ آہستہ شرح صدر حاصل ہوتا گیا.استخارہ کرنے پر جواب ملا.اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ.گھر والوں کی طرف سے مخالفت اور مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ مولویوں کے زیر اثر ہیں.مجھے لکھتے ہیں کہ میرے ثبات قدم اور فیملی کی ہدایت یابی کے لئے دعا کی درخواست ہے.اللہ تعالیٰ ان کی نیک تمنائیں اور دعائیں قبول فرمائے.پھر ایک محمد عبد العاطی صاحب ہیں مصر کے ، کہتے ہیں دو سال پہلے کی بات ہے کہ ٹی وی چینل گھماتے ہوئے اچانک ایم.ٹی.اے دیکھنے کا موقع مل گیا اور پروگرام سُن کر میں حیران رہ گیا اور جماعت کی طرف سے کی جانے والی قرآن و حدیث کی تفسیر پر غور و خوض کرنے پر مجبور ہو گیا.دوسری طرف دیگر مولویوں کے پروگرام بھی دیکھتا رہا.اس تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ اب تک حقیقت مجھ سے مخفی تھی اور اصل اور صاف ستھرا اسلام وہی ہے جو آپ لوگ پیش کرتے ہیں باقی سب خرافات ہیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی.میں ایک سادہ سا مسلمان ہوں.گھر والے سارے میرے احمدی ہونے کے مخالف ہیں اور کوئی بات سننے کو تیار نہیں کیونکہ مولویوں نے ان کا برین واش کر رکھا ہے.ان سب کی ہدایت یابی کے لئے دعا کی درخواست ہے.اللہ تعالیٰ ان کی بھی نیک خواہشات پوری فرمائے.پھر ایک مصر کے حُسنی صاحب ہیں.کہتے ہیں کہ بیعت کر کے یوں لگا جیسے ہم نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رہ رہے ہیں.قبل ازیں کئی مسائل مثلاً وفات مسیح وغیرہ کے بارے میں کچھ سمجھ نہ آتی تھی لیکن جماعت کے پاس گم گشتہ متاع مل گئی.تاہم مولویوں نے ہماری شدید مخالفت اور تکفیر شروع کر دی ہے.ہمارے پاس وسیع گھر ہے جسے ایک عرصے سے مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کو ایسا منظور نہ تھا.اب انشاء اللہ اُسے مسجد بنا کر جماعت کو پیش کریں گے.مولوی شدید مخالفت اور احمدیت سے مر تذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اسی دوران استخارہ کیا تو جواب ملا کہ یہ لوگ امام مہدی کے مکذب ہیں.یہ اپنے بارہ میں لکھ رہے ہیں ہم ایم.ٹی.اے سنتے ہیں لوگوں سے ملتے ہیں، تبلیغ کرتے ہیں اور اُن کے جواب دیتے ہیں.کہتے ہیں کہ پچھلی حکومت کے دوران مجھے اسیر راہ مولی بن کر تکالیف سہنے کا موقع ملا.مولویوں نے میرے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں تو حکومتی کارندوں کی طرف سے مجھے کئی قسم کی سخت اذیت دی گئی اور دورانِ
خطبات مسرور جلد نهم 466 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء تحقیق میں نے ان کو تبلیغ بھی کی.ایک طرف جیل میں اذیتیں دی جارہی تھیں.دوسری طرف یہ تبلیغ کر رہے تھے.ایک متعلقہ افسر نے کہا کہ میں آپ کے دلائل سن کر وفات مسیح کا قائل ہو گیا ہوں.اُنہوں نے جہاد کے بارے میں ان کی رائے پوچھی تو میں نے بتایا کہ ہم صرف دفاعی جہاد کے قائل ہیں.تو دیکھیں مقصد احمدیت سے ہٹانا تھا لیکن خود ان کو قائل ہونا پڑا.صرف آپ اپنے دام میں صیاد نہیں آیا بلکہ شکار شکاری کے دام میں آ گیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی خوبصورت تعلیم کا لوگوں پر اثر ہے.کہتے ہیں کہ انہوں نے جماعت کے بارے میں اور مصر میں احمدیوں کے بارے میں مختلف سوالات پوچھے.نیز یہ کہ تم تبلیغ کیوں کرتے ہو ؟ میں نے کہا کہ میں از خود کسی کو تبلیغ نہیں کرتا لیکن اگر وہ مجھ سے پوچھے تو میں ضرور بتاؤں گا کیونکہ احمد کی جھوٹ نہیں بولتے.اب یہ ایک خصوصیت ہے جو ایک احمدی کا نشان ہے ، دنیا میں ہر جگہ جھوٹ چل رہا ہے.پچھلے خطبے میں میں نے جھوٹ کے اوپر بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا تھا.پس یہ ہمیں بھی یاد رکھنا چاہئے ، ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس اپنی ایک عظیم خاصیت کو کبھی کسی احمدی کو چھوڑنا اور بھولنا نہیں چاہئے.نئے آنے والے آئے یہ معیار قائم کرتے ہیں اور اس پر پابندی سے استقامت سے عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولنا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اپنے دلوں میں جو ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے وہ اُسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ہر چیز ہر قدم آپ کا صدق کا قدم ہو اور ہر بات آپ کی صدق کی بات ہو.پس یہ ایک شان ہے احمدی کی جسے قائم رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے کہ احمدی جھوٹ نہیں بولتا.کہتے ہیں، انہوں نے کہا یعنی پولیس والوں نے کہ اگر تم نے تبلیغ جاری رکھی تو ہم تم پر بم بلاسٹ کرنے کا الزام لگا کر تمہیں سزا دیں گے.یہاں تک ان کی مخالفتیں ہوتی ہیں.لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ میری بیوی کو بھی مولویوں نے کہا کہ تمہارے خاوند نے تجھے دھو کہ دے کر اس جماعت میں داخل کیا ہے لیکن بیوی بھی ایمان میں پختہ تھی.اُس نے اپنی ایمان کی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سے پہلے احمدی ہوں.پس یہ ہے جرآت اور شان جو آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت نے ایمان میں پیدا کی ہے.پھر الجزائر کے ایک دوست اُسامہ صاحب ہیں.کہتے ہیں دو سال قبل تک جماعت کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا.ایک روز اچانک بیٹے نے ایم.ٹی.اے کے بارے میں بتایا لیکن میں نے ہنسی مذاق میں ٹال دیا.پھر ایک وقت میں گھر یلو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تب انبیاء کی زندگی اور مذہبی امور کے بارے میں غور و خوض کرنے لگا.آپ کا چینل دیکھا تو اس میں سارا حق پایا.آپ کی تعلیمات اور تفاسیر سے دل مطمئن ہوا.تفسیر کبیر کا مطالعہ شروع کیا اور تفاسیر سے دل مطمئن ہوا اور پھر تبلیغ شروع کر دی لیکن مخالفت کا سامنا ہوا.تب سابق انبیاء کی سیرت پر نظر ڈالی تو اس قسم کی مخالفت وہاں بھی نظر آئی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہوتی ہے.وغیرہ وغیرہ.لکھتے ہیں کہ براہ کرم میری بیعت قبول فرمائیں.میں ہر طرف سے حضور کے حکموں پر عمل کروں گا.عجیب اخلاص و وفا میں بڑھنے والے یہ لوگ ہیں.
467 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پھر مراکش میں الطیب صاحب ہیں.اپنے واقعات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر عیسائیوں کا حياة چینل“ نہ ہوتا تو مجھے بیعت کی توفیق نہ ملتی.تفصیل اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ میں کافی عرصے سے یہ چینل دیکھتا رہا ہوں اور اُن کی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گالیاں سُن کر اور مسلمانوں کو جواب سے عاجز آکر خاموشی اختیار کرتے دیکھ کر دل ہی دل میں گڑھتا لیکن کچھ پیش نہ جاتی.اچانک ایک دن ہاٹ برڈ ریسیور پر چینل گھما رہا تھا کہ مجھے ایم.ٹی.اے العربیہ مل گیا.( یہ آجکل سپین میں مقیم ہیں) حالانکہ میں بالعموم ہاٹ برڈ کے چینل نہیں دیکھتا.بہر حال اس پر عصمت انبیاء اور بائبل کی تحریف وغیرہ پر عیسائیوں کے ساتھ بحث ہو رہی تھی.میں سُن کر بہت خوش ہوا کہ مجھے اپنے مطلب کی چیز مل گئی اور گم شدہ متاع ہاتھ آگئی.کچھ عرصہ دیکھنے کے بعد میری تسلی ہو گئی اور میں بیعت کا خط ارسال کر رہا ہوں.اب میں ان مولویوں کے ہد ہد اور نملہ اور جنوں وغیرہ کے بارے میں مضحکہ خیز تفسیریں سنتا ہوں تو ہنسی آتی ہے.حالانکہ اس سے پہلے انہی کوشن کر تعریفیں کرتے تھے.پھر مراکش کے ایک عبد اللہ صاحب ہیں.کہتے ہیں کہ میں چند ماہ سے آپ کے پر وگرام دیکھ رہاہوں اور مجھے آپ کا قرآن کریم کے مضامین کا اور اک اور تعمیری اسلامی طرز فکر بہت پسند آیا.یہ معروف بات ہے کہ روایتی تفاسیر میں بہت سی خرافات موجود ہیں اور غلط تفاسیر جو لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ ہو گئی ہیں اور ان میں منطق اور عقل کے خلاف باتیں موجود ہیں مثلاً جنوں کے بارے میں یہ خیال کہ وہ لوگوں کو چمٹ جاتے ہیں اور غیر مرئی ، غیر معمولی مخلوق ہے کو میں پہلے ہی رد کرتا تھا.بعض جگہ بعض کمزور احمدیوں کو جن کی تعلیم صحیح نہیں ہے یا علم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.خاص طور پر عورتوں میں اب بھی اس قسم کی وبا ہے.گوچند ایک ہی ان پڑھ اور جاہل ہیں لیکن میں نے سنا ہے یہاں بھی ایسی ہیں.اُن کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہر عقل مند انسان جو ہے اس کو رد کرتا ہے.یہ کوئی چیز نہیں ہے.کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے افسر سے حضرت آدم کے پہلے انسان نہ ہونے کے بارے میں بات کی اور میں نے کہا کہ فرشتوں نے جو یہ کہا کہ یہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا تو اگر پہلے سے انسان موجود نہ تھے تو فرشتوں کو کیسے معلوم ہوا کہ بشر کے اندر خون ہوتا ہے وغیرہ.تو اُس افسر نے کہا کہ یہ بہت خطر ناک خیالات ہیں.انہیں کسی کے پاس بیان مت کرنا.پھر لکھتے ہیں کہ پھر اچانک آپ کے چینل سے تعارف ہوا تو قرآنِ کریم کے زندہ اور روشن کتاب ہونے کے بارے میں آپ کے بیان سے بہت خوش ہوا.فضلوں اور احسانوں والے خدا نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو اپنے نورانی اسرار الہام کئے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی عقلوں میں پڑے شکوک و شبہات کے اس ڈھیر کا صفایا کر دیا جائے جس نے عقل کو ماؤف کر چھوڑا تھا اور جس کے نتیجے میں عرب تمدنی اور تہذ یہی ترقی کے قافلہ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور گراوٹ اور انحطاط اور پستی اور تفرقہ کا شکار ہو چکے ہیں.مجھے لکھتے ہیں کہ حضور! میری بیعت قبول فرمائیں.مجھے آج جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر بڑے فخر کا احساس ہو رہا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 468 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء پھر سلطنت عمان کے ایک یاسر صاحب ہیں.انہوں نے جون 2011ء میں لکھا کہ ایک عرصے سے حق کی تلاش میں تھا جسے اب پالیا ہے.الحمد للہ.مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر شدت سے خواہش ہوتی تھی کہ کاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امت کی ترقی کی خاطر دوبارہ آجائیں.ایک بار مختلف چینل گھما رہا تھا کہ اچانک ایم.ٹی.اے کو دیکھنے کا اتفاق ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر یوں لگا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ہو.یہ تصویر دل میں گھر کر گئی.ایک روز کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ظہور کے بارے میں ذکر کیا اور دجال کے بارے میں بتایا کہ اس سے مراد عیسائی پادری ہیں.میں نے شروع میں اس کی سخت مخالفت کی لیکن بعد میں حقیقت کھل گئی.اس رات دو بجے تک ایم.ٹی.اسے دیکھتا رہا اور جماعت اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ محبت بڑھتی گئی.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے صحیح اسلام کی طرف رہنمائی فرمائی اور قبول کرنے کی توفیق بخشی.یہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی کتب اور حضرت خلیفہ ثانی کی تفسیر کبیر پڑھی اور بہت پسند آئیں اور پھر مجھے لکھتے ہیں کہ آپ سے ملاقات کا بہت شوق ہے.دعا کریں.تو یہ لوگ نہ صرف بیعت کر رہے ہیں بلکہ بیعت کر کے اپنے علم کو بڑھا بھی رہے ہیں.یہ اُن لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو پیدائشی احمدی سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس ہمارے خون میں احمدیت ہے تو اب مزید علم حاصل کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے.اپنے تقویٰ کو ، نیکیوں کے معیاروں کو بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے.پھر ایک خاتون ہیں ، بیریفان صاحبہ، ان کے دو بچے بھی ہیں.ناروے میں رہتی ہیں اور کردستان کی ہیں.کہتی ہیں کہ 2006ء میں اچانک ایم.ٹی.اے دیکھنے کا اتفاق ہوا.آپ کی باتیں اور اسلام کی صحیح تصویر آپ سے سن کر بہت خوشی ہوئی.بعد میں اس چینل کا نمبر کہیں گم ہو گیا.اچانک 2010ء میں ایک روز پھر مل گیا.پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشِر “ چل رہا تھا.آپ کے دلائل تفسیر قرآن سن کر بہت متاثر ہوئی.پروگرام کے آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دکھائی گئی.آپ کی صداقت پر ایک لمحے کے لئے بھی شک نہ ہوا.تاہم افسوس ہوا کہ ابھی تک آپ کے بارے میں پتہ کیوں نہ چلا.البتہ آپ کے نبی ہونے کے بارے میں خلش تھی جو جماعت کی طرف سے دی گئی تفسیر و تشریح سے دور ہو گئی.اب میں گواہی دیتی ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام بچے امام مہدی ہیں.پھر لکھتی ہیں کہ آپ جو خدمت کر رہے ہیں اس کو بہت رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور اس جہاد میں شریک ہونا چاہتی ہوں.براہِ کرم مجھے بھی اس کا موقع دیں.تو یہ وہ خوبصورت جہاد ہے جس کی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے اور قرآن اور حدیث سے علم پا کر دی ہے.یہ جہاد ہے جو آپ نے اس زمانے میں متعارف کروایا ہے جو صرف مردوں کے لئے نہیں ہے بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ عور تیں بھی اس جہاد میں حصہ لے رہی ہیں اور لیتی ہیں.بلکہ بعض اوقات مردوں سے بڑھ کر حصہ لے رہی ہیں.پھر حسین محمد صالح صاحب ہیں.یہ الجزائر کے ہیں.مجھے لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تقریباً دس سال قبل مجھے اسلام کا کچھ علم نہ تھا سوائے اس رسمی اسلام کے جو سب لوگ جانتے ہیں اور کئی ایک مسائل کا سامنا تھا لیکن پھر
469 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بھی میں قرآن پڑھتا تھا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا.ایک دن میں ٹی وی کے آگے بیٹھا کوئی مذہبی چینل تلاش کر رہا تھا کہ مجھے ایم.ٹی.اے مل گیا جہاں پروگرام الْحِوَارُ الْمُباشر “ چل رہا تھا جس کا انداز اور علمیت اور مضمون مجھے پسند آیا.اور خاص طور پر پروگرام میں شریک علماء کا تمام ادیان کے بارے میں علم اور خصوصاً اسلامی علوم پر گرفت نے مجھے متاثر کیا.چنانچہ میں اسی لمحے سے احمدی ہوں اور میری روحانیت میں بہت اضافہ ہوا ہے.اور مجھے لکھتے ہیں کہ آپ کے خطبات ، بہت سی عربی اور فرینچ کتابیں اور رسائل میرے پاس ہیں.میں نے تفسیر کبیر بھی ڈاؤن لوڈ کر کے پرنٹ کر لی ہے تاکہ لوگوں سے رابطہ کرنے میں آسانی رہے.لکھتے ہیں کہ بیعت میں تاخیر اس لئے کی کہ میں خود کو بظاہر احمدی سمجھتا تھا لیکن نورِ ایمان میرے دل میں راسخ نہیں ہوا اور مجھے ڈر لگا کہ عہد بیعت کی خلاف ورزی نہ کرنے والا ٹھہروں.لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہدایت عطا فرمائے اور مغفرت فرمائے اور استقامت بخشے.پس یہ فکریں ہیں نئے آنے والوں کی.بہت سارے پرانے احمد کی جو بزرگوں کی اولادیں ہیں اُن کو بھی یہ فکریں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں کہ ہم نے عہد بیعت کو کس طرح اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ نبھانا ہے اور اُسے پورا کرنا ہے تبھی ہم حقیقی احمدی کہلا سکتے ہیں.پھر ایک ناصر صاحب ہیں.یہ بھی عرب ہیں.کہتے ہیں کہ چار سال قبل میرے اندر حق کی تلاش شروع ہوئی اور میں نے سنیوں اور شیعوں اور اثنا عشریوں وغیرہ سب کے مناظرات دیکھے.(اثنا عشری بھی شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو بارہ اماموں کو مانتے ہیں).کہتے ہیں کہ سب کے مناظرات دیکھے اور مجھے سنیوں کے دلائل مضبوط نظر آئے.پھر تقریباً تین ماہ قبل اتفاق سے میرا تعارف ایم.ٹی.اے سے ہوا اور مکرم ہانی طاہر صاحب نے میری توجہ کھینچی اور میری دلچسپی جماعت میں بڑھی اور معلوم ہوا کہ جماعت کے بارے میں جو باتیں لوگوں میں پھیلائی جاتی ہیں اُن کی بنیاد جماعت کے مخالف مولویوں احسان الہی ظہیر وغیرہ کی کتابوں پر ہے.اسی طرح اپنے معاشرے میں موجود علماء کا اپنے سے خیالات میں اختلاف رکھنے والے لوگوں کے عقائد کے بارے میں رویے نے مجھے بڑا پریشان کیا کیونکہ یہاں ہمارے پاس کچھ شیعہ ہیں اور لوگ ان سے تمسخر اور تحقیر سے پیش آتے ہیں.میں ہمیشہ اپنے دل میں یہ کہا کرتا تھا کہ مذہب کے معاملے میں کسی کو طعن کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے.کیونکہ ہمارے والدین بھی تو شیعہ یا نصاری وغیرہ تھے اور ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اگر میں حق پر ہوں تو مجھے دوسروں کے لئے دعا کرنی چاہئے نہ کہ ان کی تحقیر اور تکبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ یہی انبیاء کی سنت ہے.اسی طرح سلفیوں کے عقائد کو بھی میں صحیح نہیں سمجھتا.میں اصولی طور پر مکرم ہانی صاحب کے بیان کردہ دلائل سے متفق ہوں.مجھے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے مزید دلائل مہیا فرمائیں اور یہ کہ بیعت کے بعد مجھے کیا کرنا ہو گا.میری مدد اور رہنمائی فرمائیں.تو اس طرح لوگ خط لکھتے ہیں.پھر عراق کے ایک غریب محمد صاحب ہیں.یہ کہتے ہیں کہ تین سال سے ایم.ٹی.اے دیکھ رہاہوں اور تحقیق کر رہا تھا پھر استخارہ کیا لیکن کئی روز تک کوئی خواب نہ دیکھی.تاہم استخارہ جاری رکھا.پھر ایک روز خواب میں
470 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کوئی مجھے کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں یاد فرمارہے ہیں.پھر وہ شخص مجھے لے گیا اور کہنے لگا کہ اس خیمے میں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرو.تب میں نے ایک ٹیلے کے اوپر لگے خیمے میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا.پھر وہی شخص کہنے لگا کہ اب دوسرے ٹیلے پر جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرو.میں خواب میں حیران ہوتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو کیسے ہو سکتے ہیں ؟ تاہم میں نے دوسرے ٹیلے پر بھی خیمے کے اندر آنحضرت کو اُسی شکل و صورت میں دیکھا گو قد ذرا سا کم تھا.اس خواب کے بعد مجھے انشراح صدر ہوا اور اب بیعت کرنا چاہتا ہوں.سب سے اچھی بات مجھے یہ لگتی ہے کہ جماعت میں ہر ملک و قوم کے لوگ بغیر تمیز رنگ و نسل کے شامل ہو رہے ہیں.پس تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا جو کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د ہے وہ آج صرف جماعت احمد یہ کر رہی ہے..پھر ایک صاحب ہیں خالد صاحب، کہتے ہیں کہ ایک روز ایک غیر احمدی دوست نے جماعت کے بارے میں بتایا کہ یہ لوگ ہندوستان میں مسیح موعود کے ظہور کے قائل ہیں.بعض دیگر عقائد بھی بتائے.مجھے شروع سے ہی اطمینانِ قلب نصیب ہونے لگا.پھر ایم.ٹی.اے دیکھا تو مزید تسلی ہوئی اور میں نے اس دوست کو بتایا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.اس نے تعجب سے کہا کہ کیا تم پاگل ہو گئے ہو.میں نے کہا کہ میر ادل مطمئن ہے اور میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.قبل ازیں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صرف تصویر دیکھ کر آپ کی صداقت کا قائل ہو چکا تھا.ایم.ٹی.اے سے اسلام کی صحیح تصویر کا علم ہوا.الحمد للہ کہ اس کے ذریعے امام الزمان کا پتہ ملا.تقریباً ایک سال قبل خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چہرے پر بوسہ دیا تھا.خاکسار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی حکومت اور حاکموں اور خراب حالات کا شکوہ کیا.پھر لکھتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہماری آنکھیں کھولیں اور اندھیروں سے نکال کر حق دکھایا ہے.جزاکم اللہ.پھر مجھے لکھتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ میں آپ کی دستی بیعت کروں.ایسے بہت سارے واقعات اور ہیں سب کی تفصیل تو بیان نہیں ہو سکتی.پھر ایک واقعہ افریقہ سے میں نے لیا ہے.امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ بارہ ایریا میں وہاں کے مقامی جماعت کے صدر صاحب کی نگرانی میں تبلیغی پروگرام تشکیل دیا گیا.اس پروگرام کے ذریعے ایک دوست علیو کمار ا صاحب سے رابطہ ہوا.(افریقہ میں اکثر ایسا ہے کہ نام کے ساتھ آخر میں ”واؤ“ یا ”پیش لگادیتے ہیں.علیو کا مطلب ہے ”علی“.علی کمارا صاحب.یہ مسلمان تھے ) ان کو جماعت کے عقائد کے بارے میں بتایا گیا.ان کے ساتھ دو ہفتے تک مسلسل تبادلہ خیال ہو تا رہا.پھر صدر صاحب نے اُن سے کہا کہ آپ خدا تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں اور میں بھی آپ کے لئے دعا کروں گا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُسی دن پچھیں اور چھبیس مئی 2011ء کی درمیانی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک پگڑی والے بزرگ ہیں جو اُن کو اپنی طرف بلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ادھر آؤ ہدایت یہاں ہے.صبح اُٹھ کر انہوں نے خواب بتائی تو کہنے لگے کہ جس بزرگ کو میں نے خواب میں دیکھا ہے وہی امام مہدی ہیں کیونکہ ان کی تصویر وہ ایک
خطبات مسرور جلد نهم 471 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء.میگزین جو انہیں دوران تبلیغ دیا گیا تھا اس میں پہلے دیکھ چکے تھے.اس پر انہیں بیعت فارم دیا گیا اور کہا گیا کہ اس کو پر کرنے سے پہلے اس کا اچھی طرح مطالعہ کر لیں.علیو کمار ا صاحب نے جب بیعت فارم پڑھا.کہنے لگے کہ میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا.چنانچہ اُسی وقت بیعت فارم پر کر کے جماعت میں داخل ہو گئے.شخص پھر امیر صاحب آئیوری کوسٹ لکھتے ہیں کہ وواقے ریجن کے گاؤں نیاکارہ میں ایک مارا بو یعنی وہ مولوی جو تعویذ گنڈے کیا کرتا تھا، اُن کا نام کونے ابراہیم تھا.انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ اُسے ملتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں عیسیٰ نبی ہوں.ایک دن وہ احمدیہ مشن ہاؤس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جو اپنا تعارف نبی عیسی کروار ہے تھے.اور اُس نے اُسی وقت بیعت کر لی اور یہ جو کام تھا تعویذ گنڈے کا اس سے بھی تو بہ کر لی.غرض کہ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ باوجود مخالفتوں اور راہِ راست سے گمراہ کرنے کی کوششوں کے جو مولوی اور دوسرے لوگ کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح نیک فطرت لوگوں کی مختلف طریقوں سے رہنمائی فرماتا رہتا ہے اور فرما رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سُن کر یا تصویر دیکھ کر ایک کشش کی کیفیت اُن میں پیدا ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی اُن کوششوں سے کئی گنازیادہ ہے جو ہم کر رہے ہیں.پس یہ الہی کام ہے جس نے تکمیل کو تو انشاء اللہ تعالیٰ اب پہنچنا ہی ہے لیکن یہ ترقی ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ ہم جن کو ایک عرصہ ہو گیا ہے احمدیت پر قائم ہوئے ہوئے یا ہم اُن لوگوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کی تھی، ہم نے اپنی حالتیں کیسی بنانی ہیں ؟ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟ ہمارے معیار کیا ہونے چاہئیں ؟ جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر تم نیکیوں میں پیچھے جارہے ہو تو فکر کرو کہ اس سے انسان پھر گر تا چلا جاتا ہے اور بہت دور چلا جاتا ہے.بیعت میں آکر کیا باتیں ہیں جو ہم نے کرنی ہیں، اس پر ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے.بعض توجہ طلب امور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے مبارک الفاظ میں میں بیان کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے.ایک حق اللہ ، دوسرے حق العباد.حق اللہ تو یہ ہے“ ( اللہ تعالیٰ کا حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت ، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا.اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر ، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے“.(کسی بھی قسم کا نہ کیا جائے).گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو.سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں“.فرماتے ہیں ”سنے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں“.اور یہی کام ہے جو آج احمدیوں کے سپرد ہے.آسان کام تو نہیں.مولویوں کی طرح پکے پکائے حلوے تو ہم نے نہیں کھانے.یہ اپنی اصلاح کا کام ہی ہے جو ہم نے کرنا ہے، ہر احمدی کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 472 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائم ہو سکتا ہے“.پس ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اُس کا فضل ما نگیں کہ ہمارے قدم کبھی پیچھے نہ ہٹیں، نیکیوں میں ہم پیچھے نہ جائیں، تقویٰ میں ہم ترقی کرنے والے ہوں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شامل حال ہو.فرمایا کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے ( یعنی غصے میں بہت جلدی آجاتا ہے).”جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان“.( جب انسان غصے میں آتا ہے، غضب میں آتا ہے تو پھر فرمایا کہ نہ دل اُس وقت پاک ہے ، نہ اس کی زبان پاک ہے اور یہی ہمیں دیکھنے میں آیا ہے.بہت سارے مسائل، بہت ساری لڑائیاں ، بہت ساری رنجشیں اسی لئے پیدا ہوتی ہیں، یا دلوں میں کینے پلتے ہیں اور بدلے لئے جاتے ہیں یا پھر زبان اس طرح چلائی جاتی ہے کہ وہ لگتا ہی نہیں کسی ایک مومن کی زبان ہے جس سے شریفانہ الفاظ ادا ہو رہے ہوں).پھر فرمایا ” دل سے اپنے بھائی کے خلاف نا پاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے.اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے.کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اللہ کو توڑتا ہے“.( ان ملکوں میں گندی فلمیں دیکھنا، بے حیائی کی باتیں سننا، ان لغویات کو دیکھنا یہ سب اسی لئے پیدا ہوتی ہیں کہ دل میں تقویٰ نہیں ہوتا اور یہی قوتِ شہوت ہے جو غالب ہو جاتی ہے.نوجوانوں کو خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہئے).فرمایا: غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل ایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا.پس بہت قابل فکر بات ہے کہ عہد تو ہم یہ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان میں بڑھیں گے.آپ فرما رہے ہیں کہ کامل ایمان پیدا ہی نہیں ہو سکتا اگر یہ باتیں تمہارے اندر ہیں.فرمایا: ”پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے“.(جب آپ نے اس بات پر یقین قائم کر لیا کہ میں ایک خدا کی عبادت کرنے والا ہوں تو پھر اپنے اخلاق کو بھی درست کرو).فرمایا ”میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے“.(حالانکہ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ، اخلاقی حالت کے معیار بہت اعلیٰ تھے.آپ اُن سے بھی اونچا دیکھنا چاہتے تھے.آج ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری کیا حالت ہے).فرماتے ہیں کہ اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے.وہ اپنے بھائی سے نیک خلفی نہیں رکھتے اور ادنی ادنی سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے برے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف “ (یعنی یہ باتیں کرنے والے کی طرف) منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو.اس لیے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بد ظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے، کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور انس پید اہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلا کینه ، بغض، حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے“.( مخالفین کی حسد کی
خطبات مسرور جلد نهم 473 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء آگ تو ویسے ہی ہمارے خلاف بڑھ رہی ہے.اگر آپس میں بھی ہم اس قسم کی حرکتیں کریں تو پھر اُس جماعت میں رہنے کا کیا فائدہ).پھر آپ نے فرمایا: ”پھر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں.اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسر ا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لیے تیار نہیں ہو تا.یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں.حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شور بازیادہ کر لو تا کہ اسے بھی دے سکو.اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں ، لیکن اس کی کچھ پروا نہیں.یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو.بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 214-215.مطبوعہ ربوہ) پس جب ہم اپنی حالتوں کی اصلاح کرلیں گے تو یقینا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کا صحیح حق ادا کرنے والے ہوں گے.اللہ کرے کہ نو مبائعین بھی اپنی حالتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور پرانے احمدی اور وہ ست احمدی جو اپنے معیاروں کی بلندی کے حصول کو بھول گئے ہیں وہ بھی آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بنیں.اور ہم بھی آپ کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں.اپنی بعثت کا مقصد اور مخالفین کی مخالفت اور سلسلے کی ترقی کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں“.یعنی یہ مخالفین جو خاص طور پر مسلمانوں میں سے ہیں.یہ دو مقصد ہیں تقویٰ قائم کرنا اور توحید کو قائم کرنا، اس کو دیکھ کر بھی یہ لوگ میری مخالفت کرتے ہیں.” نہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو کام نفاق طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے“.یہ مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو میں کام کر رہا ہوں اگر نفاق ہے میری طبیعت میں اور اس دنیا کی خواہشات اور گندی زندگی کے لئے ہیں تو اس زہر سے انسان خود ہی ہلاک ہو جاتا ہے.” کیا کا ذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے ؟“.فرمایا: ” إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَابُ (المومن: 29)“ ( کہ یقینا اللہ اُسے ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھا ہوا اور سخت جھوٹا ہو) ” کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے.لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں.کون ہے جو اس کو تلف کر سکے ؟ یادر کھو میر اسلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا.لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے اور یقینا اسی کی طرف سے ہے تو خواہ ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے“.
خطبات مسرور جلد نهم 474 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 ستمبر 2011ء فرمایا اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے.تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 472-473.مطبوعہ ربوہ) کامیاب ہو گا“.پر دیکھیں کہ جو واقعات ہم نے سنے ان میں کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں خود یہ بات پیدا کر رہا ہے.ایک شخص کو بچپن سے اللہ تعالیٰ دل میں ڈال رہا ہے کہ تم امام مہدی کے سپاہی ہو اور سالوں بعد بڑے ہو کر جبکہ نوجوانی بھی گزر رہی ہے تب جا کے اُس کو پتہ لگتا ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے.پس اس طرح اللہ تعالیٰ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مدد گار پیدافرمارہا ہے.یہی مطلب ہے اس کا کہ جب کوئی بھی مدد نہیں کرے گا تو تب بھی اللہ تعالی مدد فرمائے گا اور یہ سلسلہ قائم ہو گا.پس ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : مخالفت کی میں پروا نہیں کرتا.میں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہوں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چپ چاپ ا.قبول کر لیا ہو.دنیا کی تو عجیب حالت ہے.انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں“.فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے سلسلہ کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے.بعض اوقات چار چار پانچ پانچ سو کی فہرستیں آتی ہیں اور دس دس پندرہ پندرہ تو روزانہ درخواستیں بیعت کی آتی رہتی ہیں اور وہ لوگ علیحدہ ہیں جو خود یہاں آکر داخل سلسلہ ہوتے ہیں“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 473.مطبوعہ ربوہ ) اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں ہیں اور جیسا کہ میں نے واقعات میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں اب یہ رو چلائی ہے کہ آپ کی بیعت میں آنے والوں کی تعداد روزانہ بعض اوقات پانچ پانچ سو سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے ، ہزاروں میں بھی چلی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ تو اپنا کام کئے چلے جارہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ اپنی بیعت کا اور اس سلسلے میں شامل ہونے کا حق ادا کر نے والے ہوں.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نہایت عارفانہ دعا پیش کرتا ہوں جس سے آپ کے دلی درد کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے.آپ کی مجلس میں کثرت زلازل اور تباہیوں کا ذکر تھا، اور آج کل بھی آپ دیکھیں اسی طرح تباہیاں آرہی ہیں تو آپ نے فرمایا: ”ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنیا پر یہ ظاہر ہو جائے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) بر حق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہو جائے.خواہ کیسے ہی زلزلے پڑیں.پر خدا کا چہرہ لوگوں کو ایک دفعہ نظر آجائے اور اس ہستی پر ایمان قائم ہو جائے“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 261.مطبوعہ ربوہ) آجکل کی بھی جیسا کہ میں نے کہا کثرت سے جو آفات اور تباہیاں ہیں ، خدا کرے کہ ان کو دیکھ کر دنیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو پہچان لے اور مسلمان بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو شناخت کر کے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنے والے بن جائیں اور توحید کے قیام کا باعث بن جائیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 7 اکتوبر تا 13 اکتوبر 2011 ء جلد 18 شماره 40 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 475 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 2011ء بمطابق 23 تبوک 1390 ہجری شمسی بمقام گروس گیراؤ.جرمنی تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ ہفتہ لجنہ اماء الله جرمنی اور خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماعات منعقد ہوئے اور ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دکھانے کا باعث ہوئے.مجھے جو خدام اور خواتین کے خطوط آرہے ہیں، اُن سے لگتا ہے کہ اُن کو جو بھی باتیں میں نے کیں، کہیں، ان باتوں نے اُن کے اندر کی جو سعید فطرت تھی اس کو جھنجوڑا ہے، اور یہی ایک احمدی کی خوبی ہے اور ہونی چاہیئے کہ جب بھی انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم ذکر کے تحت نصیحت کی جائے، یاد دہانی کروائی جائے تو وہ اُس پر کان دھرتے ہیں.اور ایک اچھی تعداد افراد جماعت کی نصیحت پر ، یاد دہانی پر ، مؤمنانہ رویہ دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی اس تعریف کے تحت آتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُوا عَلَيْهَا صُنَّا وَ عُميَانًا (الفرقان: 74) یعنی اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیات یاد دلائی جائیں تو ان سے وہ بہروں اور اندھوں کا معاملہ نہیں کرتے.یہ نہیں کہتے کہ ہم نے تو سنا ہی نہیں کہ کیا کہا ہے اور وہاں کیا ہو رہا تھا، کس قسم کا ماحول تھا.بلکہ اگر کمزور ہیں تو ندامت اور احساس شرمندگی ہوتا ہے.اگر پہلے سے اپنی کوشش نیکیوں میں بڑھنے کی کر رہے ہیں تو ان نصائح اور باتوں کو سن کر ان پر عمل کرنے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کرتے ہیں.اس اجتماع میں دونوں طرف تقریباً نصف جماعت کی حاضری تو تھی.اگر حاضر ہونے والوں کی اکثریت اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے والی بن جائے تو جو انقلاب دنیا کی اصلاح کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لانا چاہتے تھے اور انقلاب اُن کی جماعت کو لانا چاہئے اُس میں یہ لوگ مدد گار بننے کا کردار ادا کرنے والے ہوں گے.اکثریت میں نے اس لئے کہا ہے کہ یقینا ایسے بھی بیچ میں بیٹھے ہوتے ہیں جو زیادہ اثر نہیں لیتے، لیکن جنہوں نے اثر لیا ہے ، اپنے جائزے لئے ہیں، مجھے خطوط لکھے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ اگر آپ ان باتوں کی جگالی نہیں کرتے رہیں گے ، اگر ذیلی تنظیمیں میری طرف سے کہی گئی باتوں کی ہر وقت جگالی نہیں کرواتی رہیں گی تو پھر کچھ عرصہ بعد یہ باتیں، یہ جوش، یہ شرمندگی کے جو اظہار ہیں یہ ماند پڑنے شروع ہو جاتے ہیں.
476 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پس ذیلی تنظیمیں یادر کھیں کہ اگر حقیقت میں اجتماع میں شامل ہونے والوں اور ایم.ٹی.اے کے ذریعے سے سننے والوں پر دنیا میں کہیں بھی کوئی اثر ہوا ہے تو یہ لوہا گرم ہے اس کو اُس مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں جس مزاج کو پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے.ایم.ٹی.اے پر سننے والوں کی میں نے بات کی ہے تو ان کی طرف سے بھی مجھے اظہارِ جذبات کے خطوط مل رہے ہیں بلکہ بعض بچوں کے والدین کے تاثرات بھی مل رہے ہیں کہ ہمارے بچوں نے ، اطفال نے آپ کا خطاب سنا تو ان دس گیاہ سال کے بچوں کے چہروں پر شرمندگی کے آثار تھے.بلکہ ایک بچے کی ماں نے مجھے بتایا کہ میر ابچہ جب خطاب سُن رہا تھا تو اُس نے منہ کے آگے cushion رکھ لیا کہ میں بعض وہ باتیں کرتا ہوں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے.میرے متعلق کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ٹی.وی پر مجھے دیکھ دیکھ کر یہ باتیں کر رہے ہیں، خطاب کر رہے ہیں تو میں نے منہ چھپالیا کہ نظر نہ آؤں.پس یہ سعید فطرت ہے، یہ وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ نے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے بچوں میں بھی پیدا کی ہوئی ہے کہ نصیحتوں پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ شر مندہ ہو کر اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ، بعضوں نے اپنے موبائل فون بند کر دیئے ہیں.سکول میں بیٹھ کر بجائے پڑھائی پر توجہ دینے کے بعض بچے اس سوچ میں رہتے تھے کہ ابھی بریک ہوئی یا ابھی چھٹی ہو گی تو پھر اپنے موبائل پر کوئی گیم کھیلیں گے یا اور اس قسم کی فضولیات میں پڑ جائیں گے جو فونوں پر آجکل مہیا ہوتی ہیں.اب جب میری باتیں سنی ہیں تو انہوں نے کہا یہ سب فضولیات ہیں، ہم اب اس کو استعمال نہیں کریں گے ، ان کھیلوں کو نہیں کھیلیں گے.یہ کھیلیں ایسی ہیں جو صحت نہیں بناتیں، جو دماغی ورزش بھی نہیں ہے بلکہ ایک نشہ چڑھا کر مستقل انہی چیزوں میں مصروف رکھتی ہیں، ایک پاگل پن یا انگلش میں جسے craze کہتے ہیں) وہ ہو جاتا ہے.لیکن ہم صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے.جو ہوشمند اور بڑے ہیں اُن کو تو خود اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور مستقل مزاجی سے ان جائزوں کی ضرورت ہے.ان جائزوں کو لیتے چلے جانا ہے اور اسی طرح والدین کو مستقل اپنے بچوں کو یاد دہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ جب ایک اچھی عادت تم نے اپنے اندر پیدا کر لی ہے تو پھر اُسے مستقل اپنی زندگی کا حصہ بناؤ.ماحول سے متاثر نہ ہو جاؤ.پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے لئے عارضی خوشیاں کوئی خوشیاں نہیں ہیں بلکہ جب تک ہماری خوشیاں، ہماری نیکیاں، ہمارے اندر پاک تبدیلیاں، ہمارے اندر مستقل رہنے کا ذریعہ نہیں بنتیں ہم چین سے نہیں بیٹھ سکتے.جبتک ہم مستقل اپنی حالتوں کے جائزے نہیں لیتے رہتے ، ہم عظیم انقلاب کا حصہ نہیں بن سکتے.پس جیسا کہ میں نے اجتماع میں بھی کہا تھا کہ اچھے معیار حاصل کر لینا پہلے سے زیادہ فکر کا باعث بنتا ہے، خود ہر فرد جماعت پر بھی ذیلی تنظیموں پر بھی اور نظام جماعت پر بھی پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں ڈالتا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 477 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء اس مرتبہ میں لجنہ سے اس لحاظ سے بھی متاثر ہوا ہوں کہ بچیاں بھی اور خواتین بھی بڑی خاموشی سے اور توجہ سے میری لجنہ میں جو تقریر تھی اُسے سنتی رہی ہیں.عموماً میں عورتوں کے مزاج کی وجہ سے کوشش کرتا ہوں کہ چالیس پینتالیس منٹ میں اپنی بات ختم کر دوں اس سے زیادہ نہ لوں لیکن اس مرتبہ لجنہ کے اجتماع پر جب میں نے وقت دیکھا تو تقریباً سوا گھنٹہ گزر چکا تھا.لیکن چھوٹی بچیاں بھی، جو ان بچیاں بھی، بڑی عمر کی عور تیں بھی پورا وقت بڑے انہماک سے میری باتوں کو سنتی رہی ہیں.خدا کرے کہ میری باتیں اُن پر اثر ڈالنے والی بھی ہوں.یعنی مستقل اثر ہو اور لجنہ کی تنظیم اس بات پر خوش نہ ہو جائے کہ ہمارا اجتماع بڑا اچھا ہوا اور ہماری تعریف ہو گئی، بلکہ مستقل اور مسلسل عمل کے لئے ان باتوں کو اپنے لائحہ عمل میں شامل کریں.عہدیدار اپنے بھی جائزے لیں اور ممبروں کے بھی جائزے لیں تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مدد گار بن سکتے ہیں.تبھی ہم اُس زمانے میں شمار ہونے والے کہلا سکیں گے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت ایک مبارک اُمت ہے یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری.(ترمذی کتاب الامثال باب 81 / 6 حدیث 2869) ( یعنی دونوں زمانے اپنی الگ الگ شان رکھنے والے ہیں).یہ آخری زمانہ کونسا ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو پہلے زمانے کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوڑا ہے.یہ زمانہ جو آخری زمانہ ہے یہ آخرین کا زمانہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام صادق نے مبعوث ہو کر آخرین کو اولین سے ملانا تھا.دین کو ثریا سے واپس لانا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کو د نیا پر قائم کر ناتھا.اس کا نعوذ باللہ یہ مطلب نہیں ہے کہ مقام کے لحاظ سے آنے والا جو نبی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو گا اور یہ پہچان مشکل ہو جائے گی کہ یہ بہتر ہے یا وہ بہتر ہے.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.ایک آتا ہے اور دوسرا غلام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اپنے زمانے میں ایک اندھیرے زمانے کے بعد ہدایت کی روشنی دنیا میں پھیلائی، جس کا مسلم کی حدیث میں ایک جگہ یوں ذکر ملتا ہے ، بہت ساری حدیثیں ہیں اس بارے میں، ایک حدیث یہ ہے کہ حضرت عمران بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد آئیں گے.عمران کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے دو دفعہ یا تین دفعہ فرمایا.بہر حال آپ نے اس کے بعد فرمایا.ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو بن بلائے گواہی دیں گے ، خیانت کے مر تکب ہوں گے ، دینداری چھوڑ دیں گے ، نذریں مان کر پوری نہیں کریں گے.عہد کے پابند نہیں رہیں گے اور عیش و آرام کی وجہ سے موٹا پا اُن پر چڑھ جائے گا.(مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم.....حديث 6475) پس ایسے لوگوں کے بعد پھر جیسا کہ دوسری حدیثوں سے بھی ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
478 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے اس ارشاد سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جو امت مسلمہ پر سے اندھیروں کے بادل چھٹنے کا زمانہ ہو گا.جس میں آخرین میں مبعوث ہونے والا مسیح و مہدی اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے ساتھ جگہ جگہ روشنی کے مینار کھڑا کرتا چلا جائے گا.اور ہر طریق سے راہ ہدایت کے پھیلانے کے سامان کرتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ جو دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ہوا، جو ہدایت کی نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنے کمال کو پہنچی وہ اس زمانے میں جبکہ ذرائع اور وسائل نے دنیا کو قریب لا کر جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ Global Village بنا دیا ہے، رابطوں کی وجہ سے تمام کرہ ارض ایک شہر ہی بن گیا ہے.اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی کامل ہدایت کی تکمیل اشاعت ہو رہی ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح محمدی کا زمانہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ ہے.پس چاہے اُمت کا اول زمانہ ہو یا اُمت کا آخری زمانہ.دونوں زمانے اس لئے مبارک ہیں کہ ان دونوں زمانوں کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے (ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ 49-50).پس جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب ہوتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں تو تکمیل اشاعت ہدایت کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم پر ڈالی جاتی ہے اور اشاعت ہدایت اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہم خود بھی اپنی ہدایت کے سامان کرنے والے ہوں.ہم اپنے عہدوں کی تجدید کرتے ہوئے اُس دور کی مثالوں کو دیکھنے والے ہوں جب تکمیل ہدایت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور قرونِ اولی کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو اُس ہدایت اور تعلیم کا نمونہ بنایا تھا.اپنے قول و فعل سے اُس کا اظہار کیا تھا اور اُن کے نمونے دیکھ کر ، اُن کے عمل دیکھ کر اُن کا خد اتعالیٰ سے تعلق دیکھ کر ، اُن کے اعلیٰ اخلاق دیکھ کر ایک زمانہ اُن کا گرویدہ ہو گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اسلام پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ تلوار کے زور سے پھیلا ، یہ بتاؤ کہ چین میں کونسی فوجیں چڑھی تھیں جہاں اسلام پھیلایا گیا تھا.اور یہ مثال دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں، وہاں کونسے مسلمان تلواریں لے کر جنگ کے لئے گئے تھے؟ فرمایا کہ تاجروں اور مبلغین اور مختلف کاموں سے منسلک جو صحابہ تھے یا اُن کے قریبی، اُن کے بعد میں آنے والے تابعین جو تھے اُن مسلمانوں نے ہی اسلام کا پیغام وہاں پہنچایا تھا.اور اس طرح پہنچایا تھا کہ یہ تاجر لوگ یا مختلف کاروباروں میں ملوث لوگ جو وہاں گئے ہیں تو انہوں نے اپنے نمونے دکھائے، اپنی پاک تعلیم کا اظہار کیا اور اُس کے ذریعے سے وہاں اسلام پھیلا (ماخوذ از پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 468).اور آج چین میں ہم دیکھتے ہیں کہ کروڑوں مسلمان بس رہے ہیں.پس ہر طبقے کے لوگوں کو اپنی حالتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے.مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم نے اسلام کا پیغام پہنچانا ہے ، کس طرح ہم نے اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہے؟ چین کی مثال لی ہے تو یہ ذکر بھی کر دوں کہ آجکل چین میں بد قسمتی سے براہِ راست تبلیغ کر کے مسیح محمدی کا پیغام پہنچانا مشکل ہے.لیکن کیونکہ یہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ خود ہی اس پیغام
479 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پہنچانے کے مختلف ذرائع پیدا کر تا رہتا ہے.یہ بھی عجیب توارد ہے کہ جہاں جماعت جر منی کو جہاں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام جرمنی میں پھیلانے کا موقع مل رہا ہے ، اشاعت کے مختلف ذرائع اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں وہاں ایک نمائش کے ذریعے تعارف چینیوں سے ہوا اور دو سال سے جماعت جر منی کو جرمنی سے چین جا کر نمائش میں حصہ لے کر جماعت کے پیغام اور لٹریچر کا سٹال لگا کر چینی زبان میں یہ لٹریچر چینیوں تک پہنچانے کا موقع آپ کو مل رہا ہے ، اور نئے راستے کھل رہے ہیں.اگر چینی زبان میں لٹریچر مہیانہ ہو تا تو یہ کام نہیں ہو سکتا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا پہلے سے انتظام کیا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا جو چینی ڈیسک ہے وہ اپنا کام خوب انجام دے رہا ہے.مکرم عثمان چینی صاحب اس کے انچارج ہیں اور قرآن کریم بھی اور باقی لٹریچر کی اشاعت کا کام ہو رہا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہاجر منی کی جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لٹریچر کو وہاں تک پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے.اسی طرح دنیا کے دور دراز ممالک میں اُن ملکوں کی اپنی زبان میں قرآن کریم اور دوسر الٹریچر پہنچانے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما رہا ہے.یہ اس زمانے کے مبارک ہونے کی نشانی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے ؟ اور مبارک ہیں وہ لوگ بھی جو تکمیل اشاعت ہدایت میں حصہ لے رہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی سے حصہ پارہے ہیں، آپ کے دور کی تجدید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پس اس بات کو ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے، صرف وقتی طور پر جذبات کا اظہار کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو موقعے عطا فرما رہا ہے اُن کو ایک خاص فضل الہی سمجھ کر ان سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے حتی المقدور کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اب جیسا کہ میں نے بتایا کہ چین میں جرمنی کی جماعت کو ہی پیغام پہنچانے کا موقع مل رہا ہے، اسی طرح دوسرے ہمسایہ ملک بھی ہیں، ان میں بھی یہ موقع مل رہا ہے.پس اس فضل الہی کو جذب کرنے کی کوشش کریں.پہلے اگر دو چار کی اس طرف توجہ تھی یا اگر چند سو کی بھی توجہ تھی تو جس طرح اجتماع کے بعد آپ لوگ جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اپنے پاک نمونوں، اپنے نیک عملوں، اپنے عہدوں کی تجدید سے اُس انقلاب میں حصہ دار بنیں اور اُن مبارک لوگوں میں شامل ہوں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری عطا فرمائی تھی کہ آخری زمانہ بھی مبارک ہے.پس وہی لوگ اس آخری زمانے کے مبارک ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو آپ کی اُمت کے بارے میں خوشخبریاں عطا فرمائی تھیں اُن خوشخبریوں میں ایک خلافت کی خوشخبری بھی تھی.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ کی امت کے بارے میں خلافت کی خوشخبری عطا فرمائی ہے، اس خوشخبری پر مرکزیت کا انحصار ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ مرکزی خوشخبری ، وہ بنیادی اہمیت کی چیز جس پر اُمت کی ترقی کا مدار ہے وہ خلافت ہے.امت کی ترقی کا مدار آپ نے اپنے بعد خلافتِ راشدہ کو ہی قرار دیا تھا اور اُس کے بعد پھر ایذاء رساں بادشاہت اور جابر بادشاہت کے دور کا آپ نے ذکر فرمایا تھا جس میں اُمت کے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور دل میں تنگی محسوس کریں گے جو ایک اندھیرا
480 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم زمانہ ہو گا.لیکن پھر ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا، اُمت پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑے گی تو ظلم و ستم کے دور کو اللہ تعالیٰ ختم فرمائے گا اور خلافت علی منھاج نبوت کا قیام ہو گا جس نے دائمی رہنا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285 حدیث : 18596 مسند النعمان بن بشیر مطبوعہ عالم الكتب بیروت 1998ء) امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لئے جو خیر امت بنایا ہے اس کی تجدید ہو گی.آج مختلف مسلمان علماء اور تنظیموں کی طرف سے وقتا فوقتا جو یہ معاملہ اُٹھایا جاتا ہے کہ اُمت میں خلافت کا قیام ہو یہ اس لئے ہے کہ یہ سب جانتے ہیں کہ اُمت کی بقا خلافت کے بغیر نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے.لیکن ساتھ ہی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور اللہ تعالی کے فرستادے کو ماننے کو تیار نہیں جس کے ذریعہ سے خلافت علی منہاج نبوت کا قیام ہوا.پس قرآن اور حدیث جو ہیں اس بات کی تائید فرمارہے ہیں کہ اُمت کی بقا اور اُمت میں سے ظلموں کا خاتمہ اور اندھیروں کا خاتمہ اُس نظام کو چاہتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعے شروع فرمایا.آج ہر مسلمان ملک کی اندرونی حالت اس بات کا پکار پکار کر اعلان کر رہی ہے کہ سوچو اور غور کرو کہ تمہارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ اور اللہ اور اُس کا رسول جس بات کی طرف بلا رہے ہیں اُس کی طرف آؤ کہ یہی حل ہے تمہارے تمام مسائل کا، تمہارے ملکوں کے اندر کی بے چینیوں کا، تمہارے ملکوں کی دولت پر طاقتور قوموں کی للچائی ہوئی نظروں کا.صرف ایک حل ہے کہ اس اللہ تعالیٰ کے آئے ہوئے اس مسیح و مہدی کو مان لو.پس یہ پیغام ہے جو دنیا میں ہم نے پہنچانا ہے.اور یہی پیغام جرمنی کے لئے بھی ہے، یورپ کے لئے بھی ہے، ایشیا کے لئے بھی ہے، عرب ملکوں کے لئے بھی ہے.خاص طور پر مسلمان ملکوں کو یہ پیغام ہے کہ جس طرف خدا اور اُس کا رسول تمہیں بلا رہے ہیں، اُس طرف آؤ.خدا تعالیٰ کے رحم نے جو جوش مارا ہے اور اُس جوش کے تحت اپنے پیارے کو جو مبعوث فرمایا ہے تو اس مسیح و مہدی کی پہچان کرو اور اُس کے مدد گار بن جاؤ اسی میں تمہاری بقا ہے.احمدی باوجود اس کے کہ مسیح موعود کا پیغام پہنچانے سے اکثر مسلمان ممالک میں ظلموں کا نشانہ بنتے ہیں لیکن وہ اُمت کی ہمدردی کے جذبے کے تحت یہ پیغام پہنچاتے چلے جارہے ہیں.دراصل تو یہ پیغام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے تا کہ اُمت کی اکثریت اُن لوگوں میں شامل ہو جو آخرین کا زمانہ پا کر اُمت کے مبارک لوگوں میں شامل ہوئے.پس جب یہ ہر احمدی کا فرض بھی ہے کہ اس پیغام کو پھیلائے تو پھر جیسا کہ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے کہ ہم جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ہم میں سے کتنے ہیں جو چوبیس گھنٹے میں ایک مرتبہ یا ہفتے میں ایک مرتبہ، یا مہینے میں ایک مرتبہ اس بات پر گہرا غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب سمجھتے ہیں تو پھر منسوب ہوتے ہوئے ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ ان پر کبھی غور کیا؟ ہماری عبادتوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں ؟ ہمارے اخلاق کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں اور فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارے اندر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہے تو اُس کی مدد کرنے کے لئے ہم کیا کر دار ادا کر رہے ہیں؟ پس یہ سوچنے کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ کے رحم نے تو جوش مارا ہے اور
481 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسا عظیم انسان اور آنحضرت کے عاشق صادق کو ہماری اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ ہم اُس کی بیعت کر لیں.لیکن کیا اس عظیم انسان کی بیعت کر لینا ہی کافی ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ بھی پہلے زمانے کی طرح بہتر اور مبارک ہے تو آپ کی اس سے مراد یہ تھی کہ مسیح محمدی کے ماننے والے اُس عظیم انقلاب کے لانے کا باعث بنیں گے جس کے لانے کے لئے مسیح موعود کو بھیجا گیا ہے.وہ اس تغیر کو زمانے میں لانے میں حصہ دار بنیں گے جس تغیر کے لانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا گیا تھا.وہ جنت دنیا میں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے جو آئندہ کی زندگی کی جنت کا وارث بنانے میں بھی مدد گار ہو گی.پس آج ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ انقلاب لانے میں اپنا کر دار ادا کرے.زمانے میں ایک عظیم تغییر لانے میں اپنا کردار ادا کرے.دنیا کو جنت بنانے میں اپنا کر دار ادا کرے.اور اس کے لئے ہمیں قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہوئے اُس کے احکامات پر غور کرنا ہو گا اور جب ہم اپنی زندگیوں کو اُس طرح ڈھال لیں گے جس سے انقلاب پیدا ہوتے ہیں، جس سے تغیر پیدا ہوتے ہیں، جس سے دنیا بھی جنت بن جاتی ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ دنیا ہمارے پیچھے آئے گی اور ضرور آئے گی.آج ہم کمزور ہیں ، بظاہر دنیا کی نظر میں ہماری کوئی حیثیت نہیں، ہر جگہ ہم ظلموں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن جب ہم اپنی بیعت کی حقیقت کو جانتے ہوئے ایک نئے عزم کے ساتھ اُٹھیں گے تو اگر ان لوگوں کو توفیق نہ ملی تو ان کی نسلیں ضرور ایک دن مسیح محمدی کے غلاموں میں شامل ہونا اپنا فخر سمجھیں گی.پس اپنے قول و فعل کو اپنی بیعت کا حق دار بنانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.ان مغربی ممالک میں دنیا کی رنگینیوں میں غائب نہ ہو جائیں.اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اجتماعات در جلسے آپ کی زندگیوں پر اثر ڈالتے ہیں تو اس اثر کو عارضی نہ رہنے دیں بلکہ انہیں زندگیوں کا حصہ بنائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، اپنے نفس کی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور اس کی روح کو سمجھ کر کرتے ہیں.یہ لوگ نوجوانوں میں بھی ہیں، مردوں میں بھی ہیں، عورتوں میں بھی ہیں.پہلے مجھے واقفین نو نو جوانوں کی یہ فکر ہوتی تھی کہ اُن کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وقف کو کیا چیز ہے ؟ جو ان ہو گئے ہیں، سمجھتے تھے کہ جو واقفین کو جامعہ میں چلے گئے وہی جماعت کا کام کرنے والے ہیں باقی کا کوئی مقصد نہیں ہے.چنانچہ انہوں نے اپنے کام شروع کر دیئے اور مرکز کو پتہ ہی نہیں ہو تا تھا کہ کہاں گیا واقف کو ؟ سمجھتے تھے کہ وقف نو کا نام ہمیں مل گیا بس یہ کافی ہے.لیکن اب یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے جو سٹوڈنٹ ہیں اُن سے بھی پوچھو تو یہی بتاتے ہیں کہ ہم یہ تعلیم آپ سے پوچھ کر ، مرکز سے پوچھ کر حاصل کر رہے ہیں اور ختم کرنے کے بعد مکمل طور پر جماعت کی خدمت کے لئے حاضر ہو جائیں گے انشاء اللہ.پس یہ روح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے.اس ماحول میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو غلط کاموں سے ، غلط باتوں سے پاک رکھنے کی کوشش کریں اور یہ لوگ پاک رکھنے کی کوشش کرتے بھی ہیں.مالی قربانی کا سوال ہے تو کل ہی ایک خاتون ایک ڈھیر سونے کے زیورات کا مجھے دے گئیں کہ میں نے جماعت کو دینے کا عہد کیا ہوا تھا اب یہ مجھ پر حرام ہے.باوجود میرے کہنے کے کہ اپنے لئے کچھ رکھ لو یہی کہا کہ جو
482 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم عہد میں نے اپنے خدا سے کیا ہے اس کو پورا کرنے سے مجھے نہ روکیں.پس یہ انقلاب تو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے افراد میں پیدا کیا ہے.یہ لوگ عبادت کرنے میں بھی خشوع و خضوع دکھانے والے ہیں.شریعت کے دوسرے احکام میں بھی عمل کرنے والے ہیں.چاہے وہ کاروباری معاملات ہوں یا گھریلو معاملات ، تا کہ گھر بھی اور معاشرہ بھی جنت نظیر بن جائے.اس زمانے میں جب ہر طرف دنیا داری اور نفسا نفسی کا غلبہ ہے، نیکیوں کا جاری کرنا اور انہیں جاری رکھنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعامانگنا، یہ یقینا اللہ تعالی کی رضا کا باعث بناتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا، ایسے لوگ تو ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی اکثریت ہونی چاہئے تا کہ ہمارا پورا ماحول اور ہمارا معاشرہ اس دنیا میں بھی اور آئندہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنا رہے.اور مسیح موعود کے زمانے کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی فرمایا ہے کہ اُس زمانے میں جنت قریب کر دی جائے گی جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا الْجَنَّةُ ازْلِفَتْ (التکویر:14) اور جب جنت کو قریب کر دیا جائے گا.پس خوش قسمت ہیں وہ جو مسیح موعود کی بیعت میں آکر اس قریب کی ہوئی جنت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور فکر کا مقام ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے بھر پور فائدہ نہیں اُٹھا رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف ایک قسم کی نیکی کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی مکمل رضا کے حقدار بن جاؤ گے بلکہ تمام نیکیوں کو بجالانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر تم پر پڑے.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام اعمال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو جنت ہمارے قریب کر دی گئی ہے اُسے پکڑ سکیں.ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جس نے ہمیں تقویٰ پر چلنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف بے انتہا توجہ دلائی ہے.ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم ولی اور پیر بنو نہ کہ ولی پرست اور پیر پرست.(ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ 139) آجکل کے پیروں نے تو دین کو استہزاء کا نشانہ بنایا ہوا ہے.اب دیکھ لیں یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپ ہم سے خواہش رکھتے ہیں کہ ولی اور پیر بنو.خود ہر ایک اپنی ذات میں ولی اور پیر ہو.لیکن آجکل کے پیروں کی طرح نہیں جنہوں نے اسلام کو استہزاء کا نشانہ بنا لیا ہوا ہے.آجکل کے پیر تو لوگوں کو غلط راستے پر ڈال کر جنت کا لالچ دے کر دوزخ کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرما یا کرتے تھے کہ اُن کی ایک بہن کسی پیر کی مرید تھی.حضرت خلیفہ اول نے انہیں کہا کہ تم بھی اب کچھ خوف خدا کرو، اب سمجھ جاؤ، اپنی دنیا و عاقبت سنوارو اور احمدی ہو جاؤ.تو وہ کہنے لگی کہ مجھے احمدی ہونے کی ضرورت نہیں.میں نے فلاں پیر صاحب کی بیعت کر لی ہے وہ بڑے پہنچے ہوئے پیر صاحب ہیں.انہوں نے مجھے کہہ دیا ہے کہ تمہیں کسی قسم کی نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں.تم ہماری کچی مریدنی ہو ، جو جی میں آئے کرتی رہو، کوئی نیکی بجالانے کی ضرورت نہیں، تمہارے سب گناہ ہم نے اُٹھالئے ہیں.گویا کفارہ کا نظریہ صرف عیسائیوں میں نہیں ہے ان مسلمان
483 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پیروں نے بھی پیدا کیا ہوا ہے تو کیا یہ لوگ خیر امت میں سے کہلانے کے حقدار ہیں ؟ بہر حال حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کو کہا کہ دوبارہ اپنے پیر صاحب کے پاس جاؤ تو اُن سے پوچھنا کہ جب قیامت کے دن ایک ایک شخص سے اُس کے عمل کے بارہ میں پوچھا جائے گا اور گناہوں کی وجہ سے جو تیاں پڑنی ہیں تو پھر پیر صاحب کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ نے اپنے مریدوں کے گناہ اُٹھا لئے ہیں آپ کو کتنی جو تیاں پڑیں گی ؟ تو بہر حال وہ کہنے لگیں کہ میں پیر صاحب سے ضرور پوچھوں گی.دوبارہ جب آپ کو ملنے آئیں تو آپ نے فرمایا کہ کیا پیر صاحب سے سوال پوچھا تھا؟ کہنے لگیں میں نے پوچھا تھا اور جس بات کو آپ نے بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا تھا، پیر صاحب نے تو اسے منٹوں میں حل کر دیا.آپ نے فرمایا کیسے ؟ کہنے لگی میرے سوال پر پیر صاحب کہنے لگے دیکھو جب فرشتے تم سے پوچھیں کہ تم نے فلاں فلاں گناہ کیوں کئے ہیں تو کہہ دینا مجھے تو اس کا کچھ نہیں پتہ.یہ پیر صاحب یہاں کھڑے ہیں مجھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جو جی میں آئے کرو ، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا.اب یہ پیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھ لیں.اس پر وہ تمہیں چھوڑ دیں گے، تمہاری طرف نہیں دیکھیں گے.جب تمہاری طرف سے نظریں پھیریں تم دوڑ کر جنت میں داخل ہو جانا.پیر صاحب کہتے ہیں باقی رہ گیا میرا معاملہ تو جب فرشتے مجھے سے پوچھیں گے تو میں اپنی لال لال آنکھیں نکال کر غصے سے کہوں گا کہ کربلا میں ہمارے نانا حضرت امام حسین نے جو قربانیاں دی تھیں کیا وہ کافی نہیں تھیں کہ آج پھر تم لوگ ہمیں تنگ کر رہے ہو.دنیا میں دنیا والوں نے ہمارا جینا حرام کر دیا تھا اور آج یہاں آئے ہیں تو تم بھی وہی طریق اختیار کئے ہوئے ہو اور ہمارے اعمال کے بارے میں پوچھ رہے ہو کہ کئے کہ نہیں کئے.تو اس پر فرشتے شرمندہ ہو کر ایک طرف ہٹ جائیں گے اور ہم گردن اکڑاتے ہوئے جنت میں بڑے رعب دبدبے سے داخل ہو جائیں گے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 208-209) یہ ہے اس وقت کے پیروں کا حال.آجکل کے پیر بھی اس قسم کے ہیں کہ بغیر اعمال کے جنتیں دینے والے، جو حقیقت میں دوزخ کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں.خود بھی دوزخ میں گرنے والے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس طرف لے جانے والے ہیں.حقیقت میں جو جنت اس مبارک زمانے میں انسانوں کے قریب کی گئی ہے وہ وہ جنت ہے جس کے راستے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھائے ہیں.قرآن وحدیث کی خوبصورت وضاحت کر کے ، اعمال کے بجالانے کی طرف توجہ دلا کر ، لغویات اور بدعات کو ختم کر کے، دنیا کو خدا کے حضور سر بسجود ہونے کے طریق بتا کر، یہ راستے ہیں جو جنت میں جانے کے ہیں اور اس طرح جنت قریب کی گئی ہے.جہاں تک پیروں کا ذکر ہے یہ صرف اُس زمانے کے پیر نہیں جیسا کہ میں نے کہا جو حضرت خلیفہ اول نے بیان فرمایا ہے، بلکہ آجکل بھی یہی حال ہے.ایک بہت بڑا طبقہ پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی بلکہ اکثر مسلمان ممالک میں جاہل لوگوں کا تو ہے ہی لیکن صرف جاہلوں کا ہی نہیں بلکہ ایسے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو کم از کم پڑھا لکھا سمجھتے تو ہیں، جن میں ہمارے لیڈر بھی ہیں اور سیاستدان بھی ہیں.کئی کا مجھے علم بھی ہے
484 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جو نہ نمازیں پڑھیں گے ، نہ قرآن پڑھیں گے لیکن پیروں کے مرید ہیں اور اُن کی دعاؤں کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتے ہیں.اگر جنتیں اس طرح قریب ہونی ہیں اور ملنی ہیں پھر تو قرآنِ کریم کے احکامات کی نعوذ باللہ کوئی ضرورت ہی نہیں ہے.قرآنِ کریم کی بھی ضرورت نہیں ہے.پس ہم بڑے خوش قسمت ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مان کر جنت کی حقیقت کا پتہ لگایا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک حاصل کیا ہے.کئی لوگ مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں ، تو جب پوچھا کہ تم نمازوں میں با قاعدہ ہو ؟ تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں ہیں.تو میں تو یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ پہلے خود دعا کرو اور اپنی دعا سے میری دعا کے قبولیت میں مددگار بنو اور یہ سنت کے مطابق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمائی ہے.ایک مرتبہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کیا تو آپ نے فرمایا میں دعا کروں گا لیکن تم بھی اپنی دعاؤں سے میری مدد کرو.(مسلم کتاب الصلوۃ باب فضل السجود والحث عليه حدیث: 1094) پس یہ ہے وہ خوبصورت نقشہ جو ایک مسلمان معاشرے کا ہونا چاہئے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کرو، اپنے لئے دعائیں کرو اور جس کو دعا کے لئے کہو اُس کی بھی اپنی دعاؤں کے ذریعے سے مدد کرو.دعائیں وہی قبولیت کا درجہ پاسکتی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کی جائیں، اور کوئی ذریعہ نہیں ہے.اور ان دعاؤں میں بھی دین کی برتری کے لئے دعا کو ترجیح دینی چاہئے.جب اس سوچ کے ساتھ زندگی بسر ہو رہی ہو گی اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو گی تو پھر وہ عظیم انقلاب بھی پیدا ہو گا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عظیم غلام کو دنیا میں بھیجا تھا اور جس کے آنے سے جنت انسان کے قریب کر دی گئی تھی.پس ہر احمدی کو اپنی سوچوں کو اس طریق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، اپنے عملوں کو اس نہج پر بجالانے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی.ہاں خد متگار کے طور پر تو بیشک ہو سکتی ہے لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہو سکتی.یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ جس کا تعلق صافی اللہ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے.اللہ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے.جب یہ حالت ہے تو پھر کیوں ایسی شرطیں لگا کر ضد میں جمع کرتے ہیں.ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں.جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے.صحابہ کی حالت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا.حضرت عمرؓ کو دیکھو کہ آخر وہ اسلام میں آکر کیسے تبدیل ہوئے.اسی طرح پر ہمیں کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے ایمانی قوی ویسے ہی نشو و نما پائیں گے.اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے.اگر ایسے لوگ نہ ہوں جن کے قومی نشو و نما پا کر ایک جماعت قائم کرنے والے ہوں تو پھر سلسلہ چل کیسے سکتا ہے.مگر یہ خوب یاد رکھو کہ جس جماعت کا قدم خدا
485 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے لیے نہیں اس سے کیا فائدہ؟ خدا کے لیے قدم رکھنا امر سہل بھی ہے جبکہ خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو جاوے اور روح القدس سے اس کی تائید کرے.یہ باتیں پیدا نہیں ہوتی ہیں.جبتک اپنے نفس کی قربانی نہ کرے اور نہ اس پر عمل ہو.“ فرمایا ” وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (النازعات: 41-42) “ اور وہ جو اپنے رب کے مرتبے سے خائف ہوا اور اُس نے اپنے نفس کو ہوس سے روکا تو یقینا جنت ہی اُس کا ٹھکانہ ہو گی“.فرمایا: ” (اس) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اگر ہوائے نفس کو روک دیں.“ فرمایا کہ ”صوفیوں نے جو فنا وغیرہ الفاظ سے جس مقام کو تعبیر کیا ہے وہ یہی ہے کہ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الهوی“ کہ اپنے نفس کو ہوس سے رو کو، اس کے نیچے ہو.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 320 مطبوعہ ربوہ) پھر فرماتے ہیں: ”میں یہ سب باتیں بار بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی، اسے دوبارہ قائم کرے.عام طور پر تکبر دنیا میں پھیلا ہوا ہے.علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں.فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے.اُن کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا.اُن کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے.اس لیے اُن کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کے ہیں جیسے ذکرِ ارہ وغیرہ.جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا.(ایسی ایسی ریاضتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہو تیں، پتہ نہیں چلتا).فرمایا ”میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں.صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں.یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں.پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے.نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھاوہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھلا دیا ہے.اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو اور اس کو اُس نے اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے“.فرمایا ”پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 213-214 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے ، تاکہ ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ آنے والے اُس انقلاب اور تغیر کا حصہ بن سکیں جو اب آپ کے ذریعہ مقدر ہے انشاء اللہ تعالیٰ الفضل انٹر نیشنل مورخہ 14 اکتوبر تا 20 اکتوبر 2011 ، جلد 18 شماره 41 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 486 39 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء تلاوت فرمائی: خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 2011ء بمطابق 30 تبوک 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت النصر او سلو، ناروے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكَوةَ وَ لَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولبِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة: 18) الحمد للہ آج ایک لمبے انتظار کے بعد جماعت احمد یہ ناروے کو اپنی اس خوبصورت مسجد کے افتتاح کی توفیق مل رہی ہے.جس طرح اس مسجد کی تعمیر نے ایک لمبا عرصہ لیا اُسی طرح بعض روکیں پڑنے کی وجہ سے اس کے رسمی افتتاح میں آپ لوگوں کو کچھ انتظار کرنا پڑا.لیکن یہ رسمی افتتاح تو صرف شکرانے کا ایک مزید اور دنیا کے سامنے اظہار ہے ورنہ مساجد کی تعمیر کا ان رسمی افتتاحوں سے کوئی ایسا تعلق نہیں کہ جس کے بغیر مسجد کا ید مکمل نہ کہلائی جاسکے.پس آج میرا یہاں آنا اور نماز جمعہ پڑھانا، یہ خطبہ دینا اور غیروں کے ساتھ ، مہمانوں کے ساتھ شام کو انشاء اللہ مسجد کی تقریب میں ، افتتاح کی تقریب میں شامل ہونا اس احسان کی شکر گزاری کے طور پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ ناروے پر اس مسجد کی صورت میں فرمایا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اُس کی نعمتوں کو اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے بیان کرو.تا کہ اس شکر گزاری کے نتیجے میں جو ایک مؤمن کے دل سے اللہ تعالیٰ کے لئے پیدا ہو رہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ مزید فضلوں اور انعاموں کا وارث ہمیں بنائے.ایک شکر گزاری تو ہماری یہاں نمازیں پڑھ کر اس مسجد کو آباد کر کے ہو گی.اور ایک شکر گزاری اس ظاہری اظہار کے ذریعے سے بھی ہے جو مہمانوں کے لئے reception یا اُن کا آنا ہے.لیکن حقیقی شکر گزاری مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے سے ہی ہے.پس یہ اہم بات ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے.اور پھر اللہ تعالیٰ اس ادا ئیگی حق کو بدلے کے بغیر نہیں چھوڑتا.بدلہ بھی اتنازیادہ ہے کہ اس دنیا میں انسان اُس کا تصور اور احاطہ بھی نہیں کر سکتا.ایک حدیث میں ایسے لوگوں کا ذکر اس طرح آیا ہے جو مسجد کو آباد رکھنے کے لئے ، مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے اُس میں جاتے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 487 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء حضرت ابوہریر کابیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسجد کو صبح شام جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت میں اپنی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے.(بخاری کتاب الاذان باب فضل من غدا الى المسجد ومن راح حديث:662) پس اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد میں آنے والوں کے لئے جنت میں مہمان نوازی کے سامان تیار ہو رہے ہیں.روزانہ پانچ مرتبہ یہ مہمان نوازی کے سامان تیار ہو رہے ہیں.اور پھر جو چالیس ، پچاس، ساٹھ سال زندہ رہتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ لمبی عمر زندہ رہتا ہے اور نمازیں ادا کرتا ہے.تو مہمان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کس قدر سامان تیار کئے ہوں گے.یہ تو ایک انسان کے تصور سے بھی باہر ہے.دنیا میں ہمارا کوئی پیارا مہمان آئے تو ہم مہمان کے آنے کا پتا چلتے ہی انتظامات شروع کر دیتے ہیں اور اس مہمان سے جتنا جتنا پیار اور تعلق ہو اُس کے مطابق اپنی مہمان نوازی کی انتہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہمارے پاس تو وسائل بھی محدود ہوتے ہیں لیکن خدا جس کے وسائل کی بھی کوئی حد نہیں، جس کی رحمت کی بھی کوئی حد نہیں، جس کی مہمان نوازی کی بھی کوئی حد نہیں ہے وہ کس طرح اپنے عابد بندے کے لئے مہمان نوازی کے سامان کرتا ہو گا.یہ چیز انسانی سوچ سے بھی بالا ہے.پس ہمیں ایسی مہمان نوازی کے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مجھے امید ہے کہ یہاں رہنے والا ہر احمد کی اس مسجد کا انشاء اللہ اس سوچ کے ساتھ حق ادا کرنے والا ہو گا.تاکہ حق کی یہ ادا ئیگی جہاں اللہ تعالیٰ سے اس کے تعلق کو مضبوط کرنے والی اور اُس کا پیارا بنانے والی ہو وہاں اپنوں اور غیروں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے والی ہو.گویا ایک مؤمن اگلے جہان کی جنت کے لئے اور اُس کی مہمان نوازی کے حصول کے ساتھ اس دنیا کو بھی جنت بنانے کی کوشش کرتا ہے یا کر رہا ہو تا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا اس کے لئے ظاہری شکر گزاری بھی ہونی چاہئے ، یہ ظاہری شکر گزاری اُس حسین معاشرے کے قیام کے لئے بھی ایک کوشش ہے جو اس دنیا کو بھی جنت نظیر بنانے والا ہو.گزشتہ دو دنوں میں ریڈیو ، ٹی وی اور اخباری نمائندوں نے مختلف وقتوں میں میرے انٹر ویو لئے ہیں، اُس میں ہر ایک متفرق سوالوں کے علاوہ اس بات میں بھی دلچسپی رکھتا تھا کہ مسجد کا مقصد کیا ہو گا اور اس میں بھی کہ مسجد بنائی ہے تو یہاں کیا ہو گا؟ آپ کے احساس و جذبات کیا ہیں؟ تو میر ایہی جواب تھا کہ ماحول کو پر امن اور ایک دوسرے کے لئے محبت بھرے جذبات سے بھر کر اس دنیا کو جنت نظیر بنانا ایک خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا اپنی زندگیوں میں اظہار کر کے دنیا کو امن، صلح اور آشتی کا گہوارہ بنانا یہ اس کا مقصد ہے.پس اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اس مسجد کے ماحول میں ، اس شہر میں، اس ملک میں محبت اور پیار کو فروغ دینے کا کام یہاں کے احمدیوں کی پہلے سے بڑھ کر ذمہ داری بن گئی ہے.یہ میڈیا کا آنا، انٹر ویو لینا، اخبار ، ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کا مثبت انداز میں اس مسجد کی تعمیر کا ذکر کرنا پھر ہمیں جیسا کہ میں نے کہا مزید شکر گزاری کی طرف مائل کرتا ہے اور اس طرف ہی لے جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانیوں کا بدلہ اس صورت میں بھی عطا فرمایا ہے کہ میڈیا کو توجہ پیدا ہوئی اور عموماً اچھے رنگ میں جماعت کا اور مسجد کا ذکر ہوا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 488 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء پس یہ دنیاوی سطح پر بھی جماعت کے مخلصین کی قربانیوں کا ذکر انہیں دوبارہ شکر گزاری کے مضمون کی طرف لوٹاتا ہے.اور پھر اس شکر گزاری کا حق ادا کر کے انسان اللہ تعالیٰ کے مزید انعامات سے فیض پاتا ہے.گویا یہ ایک ایسا فیض کا دائرہ ہے جو اپنے دائرے کے اندر ہی نہیں رہتا بلکہ لہروں کے دائرے کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے.پانی میں آپ کنکر پھینکیں یا کوئی چیز پھینکیں تو دائرہ بنتا ہے ، چھوٹا دائرہ، بڑا دائرہ، بڑا دائرہ اور پھر وہ دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے لیکن اس دائرے کی یہ بھی خوبی ہے کہ جب یہ دائرہ انتہا کو پہنچتا ہے تو ختم نہیں ہو جاتا بلکہ انسان کی زندگی میں اگر نیکیاں جاری ہیں تو دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور جب انسان کی زندگی ختم ہوتی ہے تو اگلے جہان میں خدا تعالیٰ اس میں مزید وسعت پیدا کرتا چلا جاتا ہے.پس یہ مسجد اس کو آباد کرنے والوں کے لئے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کے سامان لے کر آئی ہے.اور ہر مسجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں اُس کا یہی مقصد ہے.اسے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کے سامان لے کر آنا چاہئے.اب ان فضلوں اور برکتوں کو سمیٹنا یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے.جتنی محنت سے اس کو سمیٹنے کی کوشش کریں گے اسی قدر فیض پاتے چلے جائیں گے ، یہاں بھی اور اگلے جہان میں بھی.قرآنِ کریم میں مسجد کو آباد کرنے والوں کا ذکر اس آیت میں ایک جگہ آیا ہے جو میں نے تلاوت کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لئے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے.پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں.اب اللہ پر ایمان کی شرط سب سے ضروری ہے جو پہلے رکھی گئی ہے، یہ ایمان صرف منہ سے کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کی اور مؤمن کی بعض نشانیاں بتائی ہیں، صرف اسلام میں شامل ہو نامؤمن نہیں بنا دیتا، جب تک مومنانہ اعمال بجالانے کی بھی کوشش نہ ہو.جب عرب کے دیہاتی آتے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے تو اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا اسلمنا (الحجرات: 15) یہ نہ کہو کہ تم ایمان لے آئے ہو بلکہ یہ کہو کہ ہم نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا ہے، فرمانبرداری اختیار کر لی ہے.اور ایمان کی یہ نشانی بتائی کہ تم اللہ اور اُس کے رسول کی سچی اطاعت کرو.آج مسلمانوں میں سے غیر ہمیں اس بات کا نشانہ بناتے ہیں کہ تم مسلمان نہیں ہو حالانکہ ہم تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہوئے زمانے کے امام کو مانا ہے اور یہ کامل اطاعت ہمیں پکا مسلمان اور حقیقی مؤمن بناتی ہے.گو ہمیں دوسرے مسلمان فرقے بیشک غیر مسلم کہتے رہیں لیکن اس اطاعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے اس حکم کی وجہ سے ہم پکے مومن ہیں.آج احمدی ظلموں کا نشانہ بنائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی احمدیت سے منحرف نہیں ہوتے تو حقیقی مسلمان ہم ہوئے یا دوسرے؟ ہم کسی کلمہ گو کو غیر مسلم نہیں کہتے لیکن ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم نے حقیقی مسلمان اس کو قرار دیا ہے جو ہر طرح کی اطاعت کر کے اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے والا ہو اور مضبوطی پیدا کرتا چلا جائے.ہر دن اُس کے لئے ایمان میں اضافے کا باعث ہو اور جب تک ہم
489 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اس کی کوشش کرتے رہیں گے نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں گے ہم مؤمنین اور حقیقی مسلمانوں کے زمرے میں شمار ہوتے رہیں گے.پس ہمیں کسی مولوی، مفتی کے فتوے یا کسی حکومت کے فیصلے نے مؤمن ہونے اور حقیقی مسلمان ہونے کا سر ٹیفکیٹ نہیں دینا نہ کسی کی سند چاہئے، نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.ہمارے ایمان پر اصل مہر ہماری اللہ اور اُس کے رسول کے احکامات پر چلنے کی کوشش نے لگانی ہے.جس قدر ہم کوشش کرنے والے ہوں گے اُسی قدر ہماری مہریں لگتی چلی جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کا عمل جو اُسے انعامات کا وارث بنائے گا صرف یہ نہیں کہ ایک دو یا چند ایک نیک عمل کر لئے بلکہ تمام اعمالِ صالحہ بجالانے کی طرف توجہ ہو گی تو حقیقی مؤمن انسان بن سکتا ہے.پس ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے زمانے کے امام اور مسیح موعود کو مان لیا اور یہ کافی ہے.بیشک ہم نے دوسرے مسلمانوں کی نسبت خدا اور رسول کی اطاعت میں ایک قدم آگے اُٹھا لیا ہے لیکن یه زندگی تو مسلسل کوشش اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی تلاش اور ایمان میں بڑھتے چلے جانے کے لئے ہے اور یہی مقصد اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا بتایا ہے.عبادت کرو اور اُس میں بڑھتے چلے جاؤ.پس ایک مؤمن ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے مؤمن کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں وہ آپ کے سامنے اُن میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرة:166) کہ سب سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے.یہ تو ایک ایسے شخص کو جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اُسے بھی پتا ہے کہ جس سے شدید محبت ہو اُس کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا.پس ایک مسلمان جب اپنے ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو اُس کی اللہ تعالیٰ سے محبت تمام محبتوں پر حاوی ہونی چاہئے.پھر جب یہ صورت حال ہو تو دنیا کی دولت، دنیاوی چمک دمک، دنیا کی مصروفیات ، اولاد، بیوی، خاندان سب خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلے میں بیچ ہو جاتے ہیں.اور ہونے چاہئیں.اور جب اس کی یہ محبت خدا تعالیٰ کے لئے پیدا ہو گی تو ایسے شخص کی عبادت بھی خالص ہو گی.اُس کی عبادت کی طرف بھی خاص توجہ ہو گی.اور جب عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو انشاء اللہ پھر آپ کی یہ مسجد ، یہ نماز سینٹر جہاں بھی ہیں اور آئندہ بننے والی مساجد بھی آباد رہیں گی اور ان کی یہ آبادی حقیقی آبادی کہلائے گی.جب ہمارے اپنے دل میں خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہو رہا ہو گا تو ہماری اولا دیں بھی اُس کے اثر لے رہی ہوں گی.بہت سے لوگ اولاد کے لئے دعا کے لئے کہتے ہیں تو اس کے لئے انہیں اپنے نمونے دکھانے ہوں گے اور جب یہ اثر اولادوں میں جارہاہو گا تو نتیجہ نسلاً بعد نسلا اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار اور مساجد کی آبادی ہوتی رہے گی اور ہم پر فرض ہے کہ جہاں ہم خدا تعالیٰ سے یہ محبت اپنے اندر پیدا کریں اور اُس کے لئے کوشش کریں وہاں اپنی اولادوں اور نسلوں کو بھی اس محبت کی چاٹ لگانے کی کوشش کریں.اور جب یہ ہو گا تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ مخالفتیں اور مخالفین کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی موت آپ مر جائیں گی.کیونکہ جب بندہ خدا سے محبت کرتا ہے تو خدا اس
490 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سے بڑھ کر اُس سے محبت کرتا ہے اور اپنے بندے کا مولیٰ اور ولی ہو جاتا ہے اور جس کا ولی خدا ہو جائے اُس کو یہ عارضی مخالفتیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں.چند او باش لوگ یا بڑوں کے بھڑ کانے پر چند چھوٹے بچے جو پتھر مار کر مسجد کے شیشے توڑ جاتے ہیں یا گند پھینک جاتے ہیں وہ یا تو یہ خود تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے یا آپ کا خدا سے تعلق دیکھ کر ان میں سے سعید فطرت خود آپ میں شامل ہو جائیں گے.انشاء اللہ پس جیسا کہ میں نے کہا.یہ مسجد بنانا آپ کے کام کی انتہا نہیں ہے بلکہ اس کے بعد مزید اپنی حالتوں کی طرف دیکھنے اور جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے.اپنے خدا سے اپنی محبت کے معیار دیکھنے کی ضرورت ہے.ماحول میں خدا تعالیٰ سے محبت کے اظہار کی اس لئے ضرورت ہے تاکہ دنیا کو پتا لگے، دنیا کو یہ پتا چلے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی خاطر قربانیاں کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے.پس یہ چھوٹا موٹا پتھر اؤ یا گند پھینکنا، یا نعرے لگانا اللہ والوں کی ترقی میں کبھی روک نہیں بنا اور نہ بن سکتا ہے.پس مسجدیں آباد کرنے والوں کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اپنے ایمان اور ایقان میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، مومن کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جب اُنہیں اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو اُن کا جواب سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (البقرہ: 286) ہوتا ہے.یعنی ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا.اللہ تعالیٰ سمعنا وَأَطَعْنَا کا جواب دینے والوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ اُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:105) کہ یہ لوگ کامیاب ہونے والے ہیں.پس کامیابی نتیجہ ہے، سنتے ہی اطاعت کرنے کا، جو اللہ اور رسول کے نام پر جو احکامات دیئے جائیں ان کو سنتے ہی اطاعت کرنے کا نتیجہ کامیابی ہے.اور یہ سننا اور اطاعت کرنا ان تمام باتوں کے لئے ہے، جن کے کرنے اور نہ کرنے کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے کہ ”اپنی امانتوں کا حق ادا کرو.“ آپ کی امانتیں آپ کی ذمہ داریاں ہیں.ایک ذمہ داری جس طرح پڑتی ہے انسان اسے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، امانتیں جو آپ کے سپرد کی گئی ہیں وہ بھی اسی طرح کی ذمہ داری ہے.جن کے کرنے کا آپ کو حکم ہے.عہدے دار ہیں تو اُن کا جماعت کے لئے وقت دینا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنا.افراد جماعت کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرنا یہ امانتیں ہیں.ایک جماعتی) عہدے دار کوئی دنیاوی عہدے دار نہیں ہے جس نے طاقت کے بل پر اپنے کام کروانے ہیں بلکہ وہ خادم ہے.حدیث میں بھی آتا ہے کہ قوم کا سر دار قوم کا خادم ہوتا ہے.(الجامع الصغیر حرف السين صفحه 292 حديث 4751 دارالكتب العلمية بيروت 2004ء) پس اس خدمت کے جذبے کو بڑھانے کی ضرورت ہے.تبھی جو خدمت جو امانت آپ کے سپر د ہے آپ اُس کا حق ادا کر سکتے ہیں.میرے پاس جب بعض لوگ آکر یہ کہتے ہیں کہ میرے پاس فلاں فلاں عہدہ ہے تو میں عموماً یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ کہو کہ فلاں خدمت میرے سپرد ہے.دوسرا تو بیشک عہدیدار کہے لیکن خود اپنے آپ کو خادم سمجھنا چاہئے اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے خدمت کا موقع دیا ہوا ہے.کیونکہ عہدہ کہنے سے سوچ میں فرق پڑ جاتا ہے.ایک بڑے پن کا احساس زیادہ ہو جاتا ہے، بڑے پن کا احساس اس طرح کہ دماغ میں ایک افسرانہ شان
491 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پیدا ہو جاتی ہے ، جبکہ عہدے دار ، جماعتی عہدے دار ایک خادم ہوتا ہے.اور جب عہدے دار اپنی امانتوں کے حق ادا کر رہے ہوں گے تبھی وہ خلافت کے ، خلیفہ وقت کے حقیقی مددگار بن رہے ہوں گے.عہدے داروں کی عزت اور احترام افراد جماعت پر یقینا فرض ہے.لیکن وہ یہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی افراد جماعت کی خلافتِ احمدیہ سے وابستگی ہے اور کسی عہدے دار کے حکم کی نافرمانی کر کے وہ خلیفہ وقت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے.پس ہر سطح کے عہدے داروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے حق صحیح طور پر ادا کرنے کی کوشش کریں.ہر عہدے دار کا رکھ رکھاؤ، بول چال، عبادت کے معیار دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں، ایک فرق ہونا چاہئے.لجنہ کی عہدیدار ہیں تو انہیں مثلاً قرآنی حکم میں ایک پردہ ہے اس کا خیال رکھنا ہو گا ورنہ وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہی ہوں گی.باقی احکام تو ہیں لیکن مردوں سے زیادہ عورتوں کو ایک زائد حکم پر دے کا بھی ہے.ناروے کے بارے میں پر دے کی شکایات وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک وقت میں بڑی سخت تنبیہہ کی تھی.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الرابع بھی سمجھاتے رہے.لیکن آپ جو عہدیداران ہیں اگر اب بھی آپ کے پردے کے معیار نہیں ہیں.عورتوں مردوں میں میل جول آزادانہ ہے ، ایک دوسرے کے گھروں میں بغیر پر دے کے آزادانہ آنا جانا ہے اور مجلسیں جمانا ہے جبکہ کوئی رشتے داری وغیرہ بھی نہیں ہے، صرف یہ کہہ دیا کہ فلاں میر ابھائی ہے اور فلاں میر امنہ بولا چایاماموں ہے اور اس لئے حجاب کی ضرورت نہیں یا اور اسی طرح کے رشتے جوڑ لئے تو قرآن اس کی نفی کرتا ہے اور ایک مؤمنہ کو تاکیدی حکم دیتا ہے کہ تمہارے پر پردہ اور حجاب فرض ہے.حیاء کا اظہار تمہاری شان ہے.اگر لجنہ کی ہر سطح کی عہدے دار خواہ وہ حلقہ کی ہوں، شہر کی ہوں یا ملک کی ہوں، اگر عہدے دار اپنے پر دے ٹھیک کر لیں اور اپنے رویے اسلامی تعلیم کے مطابق کر لیں تو ایک اچھا خاصہ طبقہ باقیوں کے لئے بھی، اپنے بچوں کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی نمونہ بن جائے گا، ایک لجنہ کی عہدیدار کا امانت کا حق تبھی ادا ہو گا جب وہ اور باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے پردہ کا حق بھی ادا کر رہی ہو گی.مجھے بعض کے پردہ کا حال تو ملاقات کے دوران پتہ چل جاتا ہے جب اُن کی نقابیں دیکھ کر یہ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد یہ نقاب باہر آئی ہے جس کو پہنے میں دقت پیدا ہو رہی ہے.پس عہدے دار بھی اور ایک عام احمدی عورت کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کریں.آج کل اپنے زعم میں بعض ماڈرن سوچ رکھنے والے کہہ دیتے ہیں کہ پردے کی اب ضرورت نہیں ہے یا حجاب کی اب ضرورت نہیں ہے اور یہ پرانا حکم ہے.لیکن میں واضح کر دوں کہ قرآنِ کریم کا کوئی حکم بھی پرانا نہیں ہے.اور نہ کسی مخصوص زمانے اور مخصوص لوگوں کے لئے تھا.احمدی مرد اور عورتیں خلافت سے وابستگی کا اظہار بڑے شوق
492 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سے کرتے ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ نے خلافت جاری رہنے کا قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے وہاں عبادتوں اور اعمالِ صالحہ سے اس کو مشروط بھی کیا ہے.سورۃ نور میں جہاں یہ آیت ہے ، اُس سے دو آیات پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ دعوی نہ کرو کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بلکہ فرمایا طَاعَةُ معروفة کا اظہار کرو، ایسی اطاعت کرو جو عام اطاعت ہے ، ہر اُس معاملے میں اطاعت کرو جو قرآن اور رسول کے حکم کے مطابق تمہیں کہا جائے اُس پر عمل کرو اور اس کے مطابق اطاعت کرو.قرآن اور رسول کا حکم جب پیش کیا جائے تو فوراً مانو.اس بارے میں میں بہت مرتبہ کھل کر بتا بھی چکا ہوں.پس جہاں مردوں کے ساتھ عورتیں اپنے عبادتوں کے معیار بلند کریں، اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کریں وہاں وہ خاص حکم جو عورتوں کو ہیں اُن پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں.یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ پر دے کے بارہ میں اپنے آپ کو ڈھانکنے کا حکم گو عورت کو ہے لیکن اپنی نظریں نیچی رکھنے کا اور زیادہ بے تکلفی سے بچنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے، بلکہ اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم پہلے مردوں کو ہے پھر عورتوں کو ہے.تا کہ مرد بے حجابی سے نظریں نہ ڈالتے پھریں.پھر امانتوں میں ووٹ کے حق کا صحیح استعمال ہے، جہاں بھی استعمال ہونا ہو، پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے عہد بیعت کا حق ادا کرنا ہے، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ جس کے سپر د جو بھی امانتیں ہیں تم اُس کے لئے پوچھے جاؤ گے.پھر اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال میں تکبر سے بچنے اور عاجزی اختیار کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.ہمارے ہاں اکثر مسائل اور جھگڑے تفاخر اور تکبر سے پیدا ہوتے ہیں.اگر انسان اپنی حیثیت پر غور کرتارہے تو ہمیشہ عاجزی کا اظہار ہو اور اس کے جائزے سب سے زیادہ انسان خود لے سکتا ہے.دوسرے کے کہنے پر تو بعض دفعہ غصہ بھی آجاتا ہے چڑ بھی جاتا ہے لیکن خود اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں تو یہ سب سے بہترین طریقہ ہے.ایمانداری سے ، قرآنی احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزے لیں.اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہو اور یقینا ہر احمدی میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے، صرف ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تو یہ جائزے بڑی آسانی سے لئے جاسکتے ہیں.پس قرآنِ کریم کو پڑھتے وقت اللہ تعالیٰ کے حکموں پر غور کرنے کی عادت ڈالیں.آج مختصر وقت میں میں تمام احکامات کی تفصیلات تو آپ کے سامنے نہیں رکھ سکتا، جیسا کہ میں نے کہا خود ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ہو گا جب قرآنِ کریم کی ہر گھر میں با قاعدہ تلاوت بھی ہو ، اُس کو سمجھنے کی کوشش بھی ہو اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو.بچوں کی بھی نگرانی ہو کہ وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں، قرآنِ کریم کو پڑھنے کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں.ہر احمدی کو جس کا ایمان لانے کا دعویٰ ہے یہ یادر کھنا چاہئے کہ ایمان کا دعویٰ تبھی مکمل ہوتا ہے جب یوم آخرت پر بھی ایمان ہو اور یقین ہو اور یہ واضح ہو کہ مرنے کے بعد کی ایک زندگی ہے جس میں اس دنیا کے کئے گئے اعمال کا حساب دینا ہو گا.جہاں آخری فیصلہ ہو گا.جہاں جزا سزا کا فیصلہ ہو گا.پس اللہ تعالیٰ نے مساجد آباد کرنے والوں کی یہ نشانی بھی بتائی ہے کہ اُن کو آخرت پر بھی ایمان ہوتا ہے.مرنے کے بعد کی زندگی اور وہاں حساب کتاب کو بھی وہ بر حق سمجھتے ہیں
خطبات مسرور جلد نهم 493 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء اور جب بر حق سمجھتے ہیں تو جہاں مسجد میں عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں اُس کے انعامات کے وارث بنیں.اور پھر فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل ہو گا اس یقین پر انسان قائم ہو گا کہ آخرت کے سوال جواب سے بھی گزرنا پڑنا ہے تو پھر انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے گا.اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ خد اتعالیٰ کی عبادت کرے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ بہترین عبادت نماز ہے.(جامع الاحادیث از جلال الدین سیوطی باب الهمزة مع الف جلد 5 صفحہ 186 حدیث:3952 بحوالہ المكتبة الشاملة (CD) جب مؤمنین کی جماعت نماز کے لئے جمع ہوتی ہے تو پھر جہاں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے وہاں ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات اور جماعتی وابستگی اور وحدت کا بھی اظہار ہو رہا ہوتا ہے.پھر اُن تمام نیک اعمال بجالانے کی طرف بھی توجہ جاتی ہے جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حق سے ہے یا اُس کی مخلوق کے حق سے ہے.اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلانے کا حق ادا کرنے کے لئے اور مخلوق کا حق ادا کرنے کے لئے کیونکہ ہمیشہ وسائل کی ضرورت ہے اس لئے مساجد آباد کرنے والوں کے عملوں کے ذکر میں یہ اہم بات بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دی کہ وہ زکوۃ دینے والے ہوتے ہیں، مالی قربانی کرنے والے ہوتے ہیں، اپنے مال کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ دین اور مخلوق کے حق کی ادائیگی کے لئے اپنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں.یہاں زکوۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قرآن کریم میں دوسرے کئی مقامات پر نماز کے قیام کے ساتھ عمومی مالی قربانی کا ذکر کیا گیا ہے.تا کہ جہاں دینی ضروریات پوری ہوتی ہوں وہاں محروم طبقہ کی ضرورت بھی پوری ہو رہی ہو.پس مسجدیں اور انہیں آباد کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو تا ہے.اُن کے دل میں خدا کا خوف اور خشیت ہوتی ہے.اُس پیار کی وجہ سے جو انہیں خدا تعالیٰ سے ہو تا ہے اور پھر یہ خوف اور خشیت مزید نیکیوں کی طرف لے جارہی ہوتی ہے.ایسے ہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں اور جنہیں اللہ تعالی ہدایت یافتوں میں شمار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناروے کی جماعت نے بڑی قربانی دی ہے اور مسجد نصر کے لئے تقریباً ایک سو چار (104) ملین کرونر خرچ جماعت نے اُٹھایا ہے، کچھ خرچ ابتدائی مرکز نے دیا تھا باقی جماعت نے اُٹھایا ہے.گو کہ اس میں بڑا لمبا عرصہ لگ گیا جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا لیکن جب میں نے جماعت کو دو ہزار پانچ میں (2005) اس طرف توجہ دلائی ہے، تو فوری توجہ پیدا ہوئی پہلے توجہ بھی کم تھی، اُس وقت کسی نے اپنا مکان بیچ کر وعدہ کیا اور اس کی ادائیگی کی، مجھے لکھا، میں مکان بیچ رہا ہوں، کسی نے کار پیچ کر رقم مسجد کو ادا کی، کسی نے زائد کام کیا کہ اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر ہو جائے اور میں زیادہ سے زیادہ چندہ دے سکوں.اللہ کے فضل سے عورتوں نے قربانیاں دیں.بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے کاروبار بند ہونے کے باوجو د بھی اپنے وعدے پورے کئے.اللہ تعالی تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.آج کل حالات کی وجہ سے اُن کے کاروبار میں کچھ نقصان ہے تو اللہ تعالیٰ اُن میں برکت ڈالے.
خطبات مسرور جلد نهم 494 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء میں امید کرتاہوں کہ یہ سب قربانیاں اس سوچ کے ساتھ ہوئی ہوں گی کہ ہم نے مسجد کو آباد کرنا ہے اور آباد اُس طریق پر کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اپنے ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ، اپنے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا کرتے ہوئے، حقوق العباد کی ادائیگی کی سوچ رکھتے ہوئے اعمالِ صالحہ بجالانے کے معیار حاصل کرتے ہوئے، اپنے بچوں اور نسلوں میں بھی مسجد اور خدا کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پھر اسی طرح اس زمانے میں جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے ، اُس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے، اُس کے مشن کو آگے چلانے کے لئے بھر پور کوشش کرتے ہوئے یہ پیغام پہنچانے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیتے ہوئے.اسے آباد کرنا ہے.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے یہ مسجد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈال رہی ہے.ہم نے مسجد بنا کر اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو بہت وسعت دے دی ہے.اگر اس ذمہ داری کو ادا نہ کر سکے تو خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر سے محروم ہو سکتے ہیں.اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو.پس جہاں ہمارے لئے یہ ایک بہت بڑی خوشی ہے کہ ناروے میں پہلی احمد یہ مسجد تعمیر ہوئی ہے وہاں فکر کا مقام بھی ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی اس فکر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے والا ہو، اپنی ذمہ داریاں نبھانے والا ہو ، بڑی بڑی خطیر رقمیں پیش کر کے اس مسجد کی جو تعمیر کی گئی ہے اور اُسے خوبصورت بنایا ہے اور کسی نے لاکھوں کرونر خرچ کر کے کارپٹ ڈلوا دیا ، کسی نے لاکھوں کرونر خرچ کر کے فرنیچر دے دیا.تمام مسجد کے کمپلیکس کے لئے فرنیچر مہیا کر دیا، تو یہ ایک دفعہ کی قربانی نہ ہو یا ایک دفعہ کی قربانی پر یہ لوگ خوش نہ ہو جائیں، صرف خوبصورت فرنیچر اور سجاوٹ دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارے لئے کافی ہو گیا ہے بلکہ اس کی اصل خوبصورتی کو قائم رکھنے والے ہوں جو پانچ وقت کی نمازوں سے پیدا ہوتی ہے.ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سامنے مسجدوں کی تعمیر کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ:.مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اُن نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.“ ( اس زمانے میں ویران تھیں) ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی.کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا.مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.“ فرمایا ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی.وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرادی گئی.اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا.یعنی ضرر رساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 491 مطبوعہ ربوہ) پس یہ تقویٰ ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنا ہے اور اس کا بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اظہار فرمایا ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:.جائیں.“
خطبات مسرور جلد نهم 495 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء قرآن شریف تقویٰ ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علت غائی ہے.“ (یعنی یہی اس کا مقصد ہے) اگر انسان تقوی اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہو سکتی ہیں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه 390 مطبوعہ ربوہ) فرمایا کہ تقویٰ نہیں ہے تو نمازیں بے فائدہ ہیں بلکہ نمازیں دوزخ کی طرف لے جانے والی ہوں گی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ :.”ساری جڑ تقویٰ اور طہارت ہے اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے.“ پھر فرمایا:.(ملفوظات جلد 2 صفحہ 550-551 مطبوعہ ربوہ) ”اس سلسلہ کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ ہی کے لئے قائم کیا ہے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے ہم پر ڈالی) کیونکہ تقویٰ کا میدان بالکل خالی ہے.“ فرماتے ہیں ”جو تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہی ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 649 مطبوعہ ربوہ) پس ہمیں ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے وہ نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے جو تقویٰ پر چلتے ہوئے ادا ہوں.آج احمد ی ہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑ کر اس عرفان کو حاصل کر سکتا ہے.پس اگر ہم نے بیعت کا دعویٰ بھی کیا اور تقویٰ کے خالی میدان کو بھرنے کی کوشش نہ کی تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہو سکتے کیونکہ جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اس سلسلے کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے ہی قائم کیا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمد کی اس اہم ذمہ داری کو سمجھنے والا ہو.ان ممالک میں جو شرک کے گڑھ ہیں اگر ہم نے تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں اور اپنی بیعت کے مقصد کو نہ پہچانا تو ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں قابل مواخذہ ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنے اُن بندوں میں شامل رکھے جن پر اُس کے پیار کی نظر پڑتی ہے.یہاں میں مسجد نصر کی تعمیر اور تکمیل کے بارے میں بھی کچھ کو ائف بیان کروں گا.مسجد کے پلاٹ کا کل رقبہ نو ہزار پانچ سو تریسٹھ مربع میٹر ہے.اور مسجد کے پلاٹ کا رقبہ 7759 مربع میٹر ہے.مسجد کے مردانہ حصے کا رقبہ 880 مربع میٹر ہے اور تقریباً چودہ سو نمازیوں کی گنجائش ہے.گیلری میں جو 298 مربع میٹر ہے، پانچ سو نمازیوں کی گنجائش ہے.زنانہ مسجد میں 850 نمازیوں کی گنجائش ہے.پھر نیچے بھی ایک ہال بنایا گیا ہے جو سب سے پہلے بنا تھا، اور بغیر مزید تعمیر کے کافی دیر پڑا رہا.اُس میں آٹھ سو پچاس نمازیوں کی گنجائش ہے.پھر اسی طرح ایک مشن ہاؤس اپارٹمنٹ بھی ہے، اس میں تین بیڈ روم ہیں، ڈرائنگ روم ہے، سیلف کنڈیکٹ پورا گھر ہے ماشاء اللہ.اسی طرح مسجد بیت النصر کے مزید کوائف یہ ہیں کہ کل ملا کے 2250 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں اور اسی طرح جو نیچے ہال ہے اُس کی چھت جو ٹیرس (Terrace) کے طور پر استعمال ہو رہی ہے، اُس میں بھی اگر موسم کھلا ہو تو رش ہو تو
496 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم قریباً آٹھ سو سے ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں.مسجد کے مینار کی اونچائی اکیس میٹر ہے، گنبد کی اونچائی پانچ میٹر ہے.ایک لائبریری بھی ہے ذیلی تنظیموں کے بھی اور مرکزی جماعتی دفاتر بھی ہیں، اسی طرح مسجد کالجنہ کا جو حصہ ہے.اس کی اپنی ایک الگ لائبریری ہے اور نیچے اس کے ساتھ اُن کا دفتر بھی ہے.ایک بڑا اور کافی وسیع کچن بھی ہے ماشاء اللہ اسی طرح کو نسل سے ایک مسئلہ چل رہا تھا اور لمبے عرصہ سے جو مسجد کی اجازت نہیں مل رہی تھی تو اس کی وجہ وہ اُس میں سڑک بنانے کا معاملہ تھا جو مسجد کے ایک سائیڈ پر ہے تو جماعت نے لوگوں کی سہولت کے لئے، بہتری کے لئے ، رفائے عامہ کے لئے وہ سڑک بھی بنا کے دی ہے ، فٹ پاتھ بھی بنا کے دیا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کل ایک سو چار ملین کا اس میں خرچ ہوا.ہماری مسجد مین سڑک کے اوپر ہے جو اوسلو ائیر پورٹ جانے والی سڑک ہے.اور شہر میں آتے جاتے یہ نظر آتی ہے اس کا بڑا خو بصورت نظارہ ہے.یہ ای سکس (6-E) موٹر وے پر واقع ہے.روزانہ اسی ہزار گاڑیاں اس سڑک سے گزرتی ہیں.یہاں انڈر گراؤنڈ سروس اور بس سروس بھی مہیا ہے.گویا ایک مرکزی جگہ ہے.جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائی ہے.خدا کرے کہ اس کی آبادی بھی اسی جذبے سے ہو جو عموماً یہاں کے احمدیوں نے اس کی تعمیر میں دکھایا ہے.اللہ کرے کہ یہ مسجد اس علاقے کے لوگوں کے دل کھولنے کا ذریعہ بنے.مقامی لوگ تو عموماً خوش ہیں لیکن اس علاقے میں جو مسلمان آباد ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا وہ ملاؤں کے غلط اور ظالمانہ الزامات کی وجہ سے مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں.اس لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ مسجد کی تعمیر کے دوران یہاں توڑ پھوڑ کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن ہم تو صبر اور دعا سے کام لینے والے ہیں اور لیتے رہیں گے انشاء اللہ تعالی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کے لئے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ خدا تعالیٰ اُن کو صراطِ مستقیم کی طرف لے کر آئے، اُن کی رہنمائی فرمائے.جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے گو وہ خوش تو ہیں لیکن ہماری خوشی تب ہو گی جب ان کے دل اسلام کی خوبصورت تعلیم کے قبول کرنے کے لئے کھلیں گے لیکن اس کے لئے ہمیں، اس پیغام کے پھیلانے کے لئے بھر پور کوشش کرنی ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو کوئی نہ جانتا ہو وہاں مسجد بنا دو تو تمہارا تعارف خود بخود ہو جائے گا (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 93 مطبوعہ ربوہ) اور اللہ کے فضل سے یہ مسجد کی تعمیر ثابت کر رہی ہے کہ اس علاقے میں اس ملک میں جماعت کا تعارف ہو رہا ہے.ہمیں ان لوگوں کو یہ بتانا ہو گا کہ مساجد وہ جگہیں ہیں جہاں خدائے واحد کی عبادت کی جاتی ہے اور خدا کے حقیقی عبادت گزار کبھی اس کی مخلوق کا بُرا نہیں چاہ سکتے.پس ہماری مسجدیں اور یہ مسجد بھی ہر جگہ ہمیشہ امن اور محبت اور پیار کا نعرہ بلند کرے گی.خدا کرے کہ ہم مسجد کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرتے ہوئے اپنے تقویٰ میں، اپنی روحانیت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں، اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کر کے سکونِ قلب کے سامان پیدا کرنے والے ہوں اور ہم میں سے ہر ایک محبت، پیار اور بھائی چارے کا ایک نمونہ بنے والا ہو.
خطبات مسرور جلد نهم 497 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 ستمبر 2011ء " جس قدر تم آپس میں محبت کرو گے اُسی قدر اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 537-538 مطبوعہ ربوہ) اللہ کرے کہ ہم آپس کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں، کیونکہ جب تک آپس کی محبت میں اعلیٰ معیار حاصل نہیں کریں گے تو غیروں کو بھی محبت کی صحیح تعلیم نہیں پہنچاسکتے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد ایک افسوسناک اطلاع بھی ہے، میں ابھی جمعہ کی نماز کے بعد یا نمازوں کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھوں گا جو مکرم سفیر احمد بٹ صاحب ابن مکرم حمید احمد بٹ صاحب کراچی کا ہے.یہ سندھ کے رہنے والے تھے ، 1972ء میں وہاں پیدا ہوئے.وہیں ایف.اے تک تعلیم حاصل کی.ان کے دادا حافظ عبد الواحد صاحب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے محافظ تھے ، جو کہ واقف زندگی تھے.سفیر بٹ صاحب حافظ عبد الواحد صاحب کے پوتے تھے.ان کے والد حمید احمد بٹ صاحب، تعلیم الاسلام پرائمری سکول بشیر آباد کے ٹیچر تھے.25 ستمبر کو نامعلوم افراد نے مکرم سفیر احمد بٹ صاحب پر فائرنگ کر دی جس سے وہ وفات پاگئے، اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُونَ یہ پولیس میں.اے ایس آئی تھے ، اچھے بہادر اور جرات مند پولیس والوں میں شمار ہوتے تھے.کسی کی فون کال آئی جس پر یہ موٹر سائیکل لے کر چل پڑے اور جہاں جانا تھا جاتے ہوئے راستے میں ان پر فائرنگ ہوئی.ایک عرصے سے ان کو پولیس میں سپیشل ڈیوٹی پر دہشت گردوں اور جو نشہ آور چیزیں بیچتے ہیں، ان کے خلاف مہم میں استعمال کیا جارہا تھا، انہوں نے کافی کامیابیاں حاصل کی تھیں بظاہر وجہ یہی لگتی ہے کہ اس وجہ سے ان کو شہید کیا گیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.احمد کی ایک تو احمدیت کی وجہ سے بھی، مذہب کی وجہ سے بھی پاکستان میں شہید ہوتے ہیں، اور وہاں جو عمومی لاقانونیت ہے اُس کی وجہ سے بھی احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور پھر احمدی جو حکومتی محکموں میں فرائض ادا کر رہے ہیں، ملک کی بہتری کے لئے کوشش کر رہے ہیں، وہ ملک کی خاطر بھی قربان ہورہے ہیں، اس کے باوجود یہ شکوہ ہے کہ احمدی ملک کے وفادار نہیں ہیں.جہاں کہیں کسی خاص جگہ پر کسی بہادر ہمت والے اور انصاف پسند کی ضرورت پڑے تو وہاں احمدی ہی کی تعیناتی کی جاتی ہے.یہ موصی بھی تھے، ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی گو پولیس نے آکے بڑا آنر دیا اور اپنی روایات کے مطابق ان کا جنازہ وغیرہ پڑھا لیکن جب یہ قربانیاں ہو جائیں تو پھر بھی علماء اور نام نہاد ملاں یہی الزام دیتے ہیں کہ احمدی ملک کے وفادار نہیں، جبکہ آج حقیقی وفاداری کا نمونہ دکھانے والے صرف احمدی ہیں.بہر حال جو ہمارا کام ہے ہم نے کئے جانا ہے، اللہ ان لوگوں کو بھی عقل اور سمجھ دے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے، انکے بچے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے بیوی بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ دے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 21 اکتوبر تا 27 اکتوبر 2011 ء جلد 18 شماره 42 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 498 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 107اکتوبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 107اکتوبر 2011ء بمطابق 107 خاء1390 ہجری شمسی بمقام ہیمبرگ (Hamburg).جرمنی تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جماعت احمدیہ کی مخالفت اور احمدیوں کو تکلیفیں پہنچانا کوئی آج کا یا جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ماضی قریب کا قصہ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے ساتھ ہی اس مخالفت کی بنیاد پڑگئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض قریبی جو دوستی کا دم بھرتے تھے جن کے نزدیک آپ سے زیادہ اسلام کی خدمت کرنے والا اس زمانے میں اور کوئی پیدا نہیں ہوا تھا، لیکن جب دعویٰ سنا، جب آپ کا یہ اعلان سنا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار مجھے کہا ہے کہ جو مسیح و مہدی آنے والا تھا وہ تم ہی ہو ، اس زمانے میں بندے کو خدا سے ملانے والے اور خدا کے اس زمانے میں محبوب تم اس لئے ہو کہ آج تم سے بڑھ کر حبیب خدا سے محبت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے، تم ہی ہو جو وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: 4) کے مصداق ہو ، تو ان سب لوگوں نے جو آپ کو اسلام کا پکا اور سچا مجاہد سمجھتے تھے کہ اس وقت زمانے میں آپ جیسی کوئی مثال نہیں ہے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ سے آنکھیں پھیر لیں بلکہ آپ کو تکالیف پہنچانے اور آپ کی ایذارسانی کے لئے غیر مسلموں کے ساتھ مل کر، اُن لوگوں کے ساتھ مل کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں پیش پیش تھے آپ کے خلاف قتل تک کے ناجائز مقدمات کروائے اور اُن میں بڑھ بڑھ کر اپنی گواہیاں اور شہادتیں پیش کیں.پس یہ مخالفت جس کا آج تک ہم سامنا کر رہے ہیں یہ کوئی جماعت احمدیہ میں نئی چیز نہیں ہے.آپ کو بذاتِ خود جب آپ کے ساتھ چند لوگ تھے ، جیسا کہ میں نے کہا، اس ظالمانہ مخالفت سے گزرنا پڑا.مقد مے بھی قائم ہوئے.پھر آپ کی زندگی میں ہی آپ کے ماننے والوں کو دنیاوی مال و اسباب سے محروم ہونے کی سزا سے گزرنا پڑا.بیوی بچوں کی علیحدگی کی سزا سے گزرنا پڑا، یہاں تک کہ اپنے مریدوں میں سے دو وفا شعاروں کی زمین کابل میں شہادت کی تکلیف دہ اور بے چین کرنے والی خبر بھی آپ کو سننا پڑی.اُن میں سے ایک شہید وہ تھے جو رئیس اعظم خوست تھے ، جن کے اپنے مرید ہزاروں میں تھے ، جو بادشاہ کے دربار میں بڑی عزت کا مقام رکھتے تھے.پس آپ کو ایسے وفا شعار، فرشتہ صفت، بزرگ سیرت مرید کی شہادت کی خبر کا صدمہ سہنا پڑا.آپ نے اس شہید کی شہادت پر
499 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 107اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تفصیل سے ایک کتاب ”تذکرۃ الشہاد تین لکھی.اُس میں اُن کی نیکی، تقویٰ، قبول احمدیت اور سعادت اور غیر معمولی ایمانی حالت کا ذکر کرنے کے ساتھ شہادت کے واقعات بھی مختلف خطوط سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُن کے مریدوں نے لکھے تھے اُن میں سے خلاصہ لے کر اُن واقعات کا بھی ذکر کیا، اور آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”اے عبد اللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا“.(تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 60) پھر اُسی کتاب میں آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : (ہم) اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس قسم کا ایمان“ (یعنی حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف جیسا ایمان) حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے رہیں، کیونکہ جب تک انسان کچھ خدا کا اور کچھ دنیا کا ہے تب تک آسمان پر (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 48) اُس کا نام مومن نہیں“.پس یہ دعا ہے جو ہر احمدی کو کرنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے عملوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہم جانتے ہیں کہ انبیاء کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اُن پر اُن کے ماننے والوں پر سختیاں اور تنگیاں وارد کی گئیں اور یہاں تک کہ ہمارے آقا و مولیٰ محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کی خاطر میں نے زمین و آسمان پیدا کئے ، آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو بھی ان مصائب سے اور تکالیف سے گزرنا پڑا.تاریخ اکثر لوگ پڑھتے ہیں پتہ ہے، علم ہے.مال، اولاد کی قربانی کے ساتھ سینکڑوں کو جان کی قربانی دینی پڑی.پس جب بھی جماعت پر ابتلا کے دور کی شدت آتی ہے انبیاء کی تاریخ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا دور ہمیں استقامت کے نمونے دکھانے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ساتھ ہی اس یقین پر بھی قائم کرتا ہے کہ یہ ابتلا اور امتحان کے دور آئندہ غلبہ کی راہ ہموار کرنے کے لئے آتے ہیں.ہمیں ایمان میں ترقی کی طرف بڑھاتے چلے جانے کے لئے آتے ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کرتے چلے جانے کے لئے آتے ہیں.ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلانے کے لئے آتے ہیں.بیشک صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جان، مال، وقت کی قربانیاں اسلام کی ترقی کے راستے میں دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن اسلام کا غلبہ اور فتوحات صرف اس امتحان کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ اُن مسلمانوں کا جو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق تھا، دعاؤں کے لئے جس طرح خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے تھے ، اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو رات کو اپنی دعاؤں سے عرش کے پائے ہلا دیا کرتے تھے اُس نبی کی دعائیں جو خدا تعالیٰ میں فنا ہو چکا تھا، جس نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیا تھا، اصل میں اُس فانی فی اللہ کی دعاؤں نے وہ عظیم انقلاب پیدا کیا تھا.لیکن کیا اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کی دعاؤں کی قبولیت کے ذریعے اسلام کی تاریخ کا غلبہ اور فتوحات کا زمانہ صرف پچاس ساٹھ سال یا پہلی چند صدیوں کا تھا ؟ یقینا نہیں.آپ جب تا قیامت خاتم الانبیاء کا لقب پانے والے ہیں تو یہ غلبہ بھی تاقیامت آپ کے حصے میں ہی
500 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 107اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم آنا تھا.بیشک ایک اندھیر ازمانہ بیچ میں آیا اور گزر گیا لیکن آخرین کے ملنے سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کے بعد پھر وہ دور شروع ہو نا تھا جس نے اسلام کی ترقی کے وہی نظارے دیکھنے تھے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے دیکھے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے سب سے بڑھ کر اور پھر اُس کے بعد تابعین نے، وہ لوگ جنہوں نے صحابہ سے فیض پایا اور پھر وہ لوگ جنہوں نے اُن سے فیض پایا، اُن سب کا انحصار سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا، نہ کہ اپنی کوششوں پر ، اور اس کے لئے وہ دعاؤں پر زور دیتے تھے ، اپنی راتوں کو دعاؤں سے سجاتے تھے.پس آخرین کے دور میں تو خاص طور پر جب تلوار کی جنگ اور جہاد کا خاتمہ ہو گیا، دعاؤں کی خاص اہمیت ہے اور اس کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.بیشک یہ زمانہ علمی جہاد کا ہے اور براہین اور دلائل کی اہمیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان براہین و دلائل سے جماعت کو کیس کر دیا ہے اور دنیا کا کوئی دین اسلام کی، قرآن کی عظیم الشان تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن اصل یہی ہے کہ علم وبراہین بھی تب کام آئیں گے جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اُس کے حضور جھکنا اور دعاؤں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرناضروری ہے.اس وقت جماعت احمد یہ جہاں دوسرے مذاہب کے سامنے اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے سینہ سپر ہے اور دونوں طرف سے ظاہری اور چھپے ہوئے مخالفین کا سامنا کر رہی ہے.دنیا کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ اور آپ کی سیرت کے حسین پہلو پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے.دشمن کے آپ پر حملوں کے نہ صرف جواب دے رہی ہے.بلکہ آپ پر اعتراض کرنے والوں کو اُن کا اپنا چہرہ بھی دکھا رہی ہے.قرآنِ کریم پر اعتراضات کے جواب دے رہی ہے.بلکہ قرآنِ کریم کی برتری دنیا کی دوسری مذہبی کتابوں پر ثابت کر رہی ہے.چند سال پہلے جب یہاں جرمنی میں ہی پوپ نے اسلام اور قرآنی تعلیم پر اعتراض کیا تھا تو میں نے جرمنی کی جماعت کو کہا تھا کہ اُس کا جواب کتابی صورت میں شائع کریں اور جر من جماعت کے بہت سارے لوگوں نے مل کے یہ جواب تیار کیا اور اللہ کے فضل سے بڑا اچھا جو اب تیار کیا.کسی اور مسلمان فرقے کو اس طرح تفصیلی جواب کی بلکہ مختصر جواب کی بھی توفیق نہیں ہوئی.پھر امریکہ میں جو پادری اسلام کی تعلیم کے خلاف بڑا شور مچاتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ بعض اور جو اسلام پر اعتراض کرنے والے ہیں اور لکھنے والے ہیں، اُن کے اعتراضات کے جواب دیئے ، اُن کو چیلنج دیا لیکن مقابلے پر نہیں آئے.ہالینڈ، ڈنمارک وغیرہ میں اعتراضات کے جواب دیئے بلکہ اُن کو اُن کا آئینہ دکھایا کہ وہ کیا ہیں.پس اسلام مخالف طاقتوں سے تو ہم نبرد آزما ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ہمارے اپنے بھی ہمارے مخالف ہیں اور مخالفت میں تمام حدوں کو پھلانگ رہے ہیں.مسلمان کہلا کر پھر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے نام پر آپ کے عاشق صادق پر ظالمانہ حملے کر رہے ہیں.آپ کی جماعت پر ظالمانہ
501 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور بہیمانہ حملے کر رہے ہیں اور پاکستان کے نام نہاد علماء اس میں سب سے پیش پیش ہیں، آگے بڑھے ہوئے ہیں.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تذکرۃ الشہادتین میں یہ لکھا ہے کہ امیر کابل بھی مولویوں سے خوفزدہ ہے اور مولویوں کے کہنے پر صاحبزادہ صاحب کی شہادت بھی ہوئی.شاید اس کے دل میں اُن کا کوئی احترام تھا.باوجودیکہ وہ وہاں کا بادشاہ تھا مگر اس امیر کی ڈور اُن مولویوں کے ہاتھ میں تھی.(ماخوذ از تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 52) بعینہ اسی طرح آج پاکستان میں حکومت اور اس کی وجہ سے عوام بھی، کیونکہ عوام تو خوفزدہ رہتے ہیں، ان ظالم علماء کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں.یا یہ حکومتی کارندے اکثر وہ لوگ ہیں جو ان مولویوں کی انسانیت سوز باتوں کو ماننے پر مجبور ہیں.بہر حال آج پاکستان میں بسنے والا احمد ی صرف اپنی جان ومال کے نقصان کی وجہ سے ہی پریشان نہیں ہے یا فکر مند نہیں ہے.بہت سے احمدی لکھتے ہیں کہ اب تو لگتا ہے کہ یہ ہماری زندگیوں کا حصہ ہے.ہم تو اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے پھر رہے ہیں.اب تو یہ معمول بن گیا ہے.یہ خوف تو کوئی اتنازیادہ نہیں رہا لیکن ہمیں زیادہ بے چین کرنے والی چیز یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق انتہائی نازیبا الفاظ میں اشتہار چھاپ کر تقسیم کرتے ہیں.بڑے بڑے پوسٹر لگاتے ہیں اور سرکاری عمارتوں پر لگا دیتے ہیں بلکہ نازیبا تو ایک عام لفظ ہے، انتہائی گھٹیا اور لچر الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کو ایک شریف آدمی پڑھ اور شن بھی نہیں سکتا.یہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہ الفاظ جو ہیں ، یہ اشتہارات جو شائع ہوتے ہیں یہ ہمارے نقصانوں سے زیادہ ہمارے دلوں کو زخمی کرنے والے ہیں.ہمیں بے چین کر رہے ہیں.یہ گندی زبان لاؤڈ سپیکروں پر سُن کر اور گندہ لٹریچر دیکھ کر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے اور جب حکومتی کارندوں اور ارباب حکومت کو کہو تو پائن کر دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں یا پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، مجبوریاں ہیں.بہر حال صبر اور حوصلے کی بڑی عظیم اور نئی داستانیں ہیں جو پاکستان میں رہنے والے احمدی رقم کر رہے ہیں.پس ان صبر کے جذبات کو نتیجہ خیز بنانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائیں.دعاؤں سے اپنی سجدہ گاہیں تر کر لیں.اللہ تعالیٰ کے عرش کے پائے ہلانے کے لئے وہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے لئے فتوحات کے دروازے کھول دیئے تھے.آج دعائیں ہی ہیں جو ہمارے دلوں کو ان لوگوں کے چر کے لگانے اور حملوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں.یہ دعائیں ہی ہیں جو ہمیں ان لوگوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں.مخالفین کی اسلام کے نام پر ، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ، احمدیت دشمنی میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسی قدر تیزی سے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونی چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد جذب کرنے والے بنیں.پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو میں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دعاؤں کی طرف، صرف عام دعائیں نہیں بلکہ خاص دعاؤں کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں بلکہ ان دعاؤں کے ساتھ ہفتے میں ایک نفلی روزہ
502 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 اکتوبر 2011ء بھی رکھنا شروع کر دیں.اسی طرح دنیا میں بسنے والے پاکستانی احمدی بھی اپنے پاکستانی احمدی بھائیوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کریں.اسی طرح دنیا بھر کے احمدی بھی جو پاکستانی نہیں ہیں اپنے پاکستانی احمدی بھائیوں کے لئے بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان ظلم کرنے والوں کی جلد صفیں لپیٹ دے تا کہ ملک میں جلد امن وسکون قائم ہو سکے ، تاکہ خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے متعلق جھوٹ اور مغلظات کے جو طومار باندھے جارہے ہیں اُن کا خاتمہ ہو اور ملک بچ جائے ورنہ ملک کے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں.یقینا پاکستانی احمدیوں کا یہ حق ہے کہ اُن کے لئے غیر پاکستانی احمدی بھی دعائیں کریں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام آپ تک پہنچایا ہے.یقینا جب اضطراری کیفیت میں دعائیں کی جائیں تو خدا تعالیٰ سنتا ہے اور آج جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دریدہ دہنی کی انتہا ہو رہی ہے، اس سے زیادہ اور کونسی تکلیف ہے جو ہم میں اضطرار پیدا کرے گی.پس آج ہر احمدی کو مضطر بن کر دعا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مضطر کی دعاخد اتعالیٰ کبھی رد نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خداوہ خدا ہے جو بیقراروں کی دعا سنتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے، آمَن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل : 63)‘.ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 259-260) پھر فرماتے ہیں : ” یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پر وا نہیں کرتا.دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اُس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے.پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل: 63 ).“ 66 ( ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 455 مطبوعہ ربوہ) پس آج ہر احمدی کو خاص طور پر اضطراری حالت میں یہ دعائیں کرنی چاہئیں اور پھر پاکستان کے احمدیوں کو تو پاکستان کے حالات کے حوالے سے خاص طور پر بہت زیادہ کرنی چاہئیں.احمدیوں پر ظلم کی انتہا سے نجات کے لئے بہت زیادہ اور اضطراب سے دعاؤں کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے کہا پاکستان کے رہنے والے بعض احمدی تو ، تمام نہیں، اس اضطراب کا اظہار بعض جگہ کر بھی رہے ہیں.اس کا مزید اظہار ہونا چاہئے.مزید اس کا اظہار کریں اور ہر احمدی خالص ہو کر ظالموں اور ظلموں سے نجات کے لئے دعا کرے.یہی ہمارے ہتھیار ہیں اور اسی کی طرف بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے.مجھے یاد ہے خلافت رابعہ میں جب میں ربوہ میں تھا تو خلیفہ رابع نے مجھے ناظر اعلیٰ مقرر کر دیا تھا.پاکستان کے حالات کے متعلق اُس وقت دعا کی ، حالانکہ اُس وقت حالات آجکل کے حالات کے عشر عشیر بھی نہیں تھے، کوئی نسبت بھی نہیں تھی تو خواب میں مجھے یہ آواز آئی کہ اگر سو فیصد پاکستانی احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائیں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کی دعاؤں سے ہو سکتا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 503 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 اکتوبر 2011ء میں پہلے دن سے ہی جماعت کو اپنی حالتوں کی درستی کی طرف اور دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ بہت توجہ کریں.پاکستان میں جماعت کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.لاشعوری طور پر میرا ہر مضمون اسی طرف پھر جاتا ہے.پس یہ تو یقینی بات ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کا غلبے کا وعدہ ہے وہ تو پورا ہونا ہی ہے اور نہ صرف پورا ہونا ہے بلکہ ہو رہا ہے.اس وعدہ کے پورا ہونے کا نظارہ ہم پاکستان میں بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود نامساعد حالات کے وہاں جماعت ترقی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے.دشمن کا ہر حربہ اور ہر حملہ جس شدت اور جس نیت سے کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمن کو وہ نتائج حاصل نہیں کرنے دیتا.دشمن کے بڑے خطرناک عزائم ہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی حفاظت فرماتا چلا جارہا ہے لیکن یہ ابتلا ہمیں اس طرف شدت سے راغب کرنے والے ہونے چاہئیں کہ ہم پہلے سے بڑھ کر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.ہمارا ہر بچہ ، جوان، بوڑھا، مرد اور عورت اپنے نفسانی جذبات و خواہشات کو پرے پھینک کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے آگے مکمل طور پر گردن جھکا کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی مکمل کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے تو پھر یہ ظالم اور ظلم ہماری آنکھوں کے آگے انشاء اللہ تعالی فنا ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غالب آتا ہے لیکن اس تقدیر کے غالب آنے میں جلدی یا دیر بعض دفعہ بندوں کے اعمال اور دعاؤں پر بھی منحصر ہوتی ہے.بعض دفعہ ایک نسل کو بھی انتظار کرنا پڑتا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ یہ اشارہ کرے کہ میں نے تو اس کام کو کرنا ہی ہے لیکن اگر تمہیں جلدی ہے تو پھر اپنے اندر اس فیصلہ کے ، جو میں نے مقدر کیا ہوا ہے، جلد پورا کرنے کے لئے ایک انقلاب پیدا کرو، اپنی طبیعتوں میں ایک انقلاب پیدا کرو تو ہمیں خدا تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنا چاہئے.پس آئیں اور آج اپنی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے عرش کے پائے ہلانے کی کوشش کریں.ہم میں سے ہر ایک خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو یقینا ہمارے لئے جوش میں ہے پہلے سے بڑھ کر جوش میں آئے اور ہمیں ان ظالموں سے نجات دلوائے.اگر سو فیصد میں انقلاب پیدا نہیں ہو تا تو ہمارے میں سے اکثریت میں اگر یہ انقلاب پیدا ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم پہلے سے بڑھ کر فتوحات کے نظارے دیکھیں گے.اللہ کرے کہ ہم دعا کی روح کو سمجھنے والے اور اس کے آداب کو بھی مد نظر رکھنے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کو جلد سے جلد جذب کرنے والے بن سکیں.کبھی یہ احساس ہمارے دل میں نہ آئے کہ ہم اتنی دعائیں کر رہے ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ قبول نہیں کر رہا یاوہ نظارے نہیں دکھا رہا.اول تو اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرما رہا ہے.بلکہ ہماری معمولی دعاؤں کو ، ہماری معمولی کوششوں کو اپنی رحمت خاص سے اتنے پھل لگا رہا ہے کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بڑھتا ہے.ایک تو جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح دشمن کے منصوبے ہیں اور اُن میں روز بروز جس طرح تیزی آرہی ہے اس کے مقابلے میں اُن کی کامیابی کچھ بھی
504 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 107اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نہیں ہے.پھر پاکستان میں ہی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں ترقی کر رہی ہے اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل ہیں جو وہ دیکھ رہی ہے اور پھر دنیا میں جس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو متعارف کروارہا ہے اور ترقیات دکھا رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہماری معمولی کوششوں اور معمولی دعاؤں کے پھل ہیں.دوسری بات یہ کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ ہلکا سا بھی شائبہ ہے کہ نعوذ باللہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ نہیں سنتا تو اُسے استغفار کرنی چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور ہمارا کام مالک سے مانگتے چلے جانا ہے.اس کے بھی کچھ آداب ہیں اور یہ آداب ادا کرنا ہمارا کام ہے جنہیں ہم نے پوری طرح ادا کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کے آداب کے بارے میں ہمیں خاص طور پر توجہ دلاتے ہیں.آپ نے ہمیں بتایا کہ دعا کرتے ہوئے کبھی تھک کر مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ سنتا نہیں.ایک تو دعاؤں کی قبولیت قانونِ قدرت کے تحت اپنا وقت لیتی ہے، دوسرے قبولیت کے نظارے ضروری نہیں کہ اُسی صورت میں نظر آئیں جس صورت میں دعا میں مانگا جا رہا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ اور صورتوں میں اپنے پیار کا اظہار فرماتا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 693 مطبوعہ ربوہ) جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا کی ترقیات میں ، پاکستان کے احمدیوں کی قربانیوں اور دعاؤں کا بہت بڑا حصہ ہے.تیسری یہ بات کہ بندے کو اپنے حال پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا اُس نے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے سر کو اللہ تعالیٰ کے آستانے پر جھکایا ہے ؟ پس غور کریں گے تو قصور ہندے کا ہی نکلے گا.پھر ایک جگہ دعا کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مد نظر رکھتے ہیں.اسی لئے سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحه : 2) - یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا.الرَّحْمٰنِ.یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والا.الرَّحِیمِ.یعنی انسان کی سچی محنت پر شمراتِ حسنہ مرتب کرنے والا ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحہ:4).جزا سزا اُسی کے ہاتھ میں ہے.چاہے رکھے چاہے مارے“.فرمایا اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اس دنیا کی بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے.“ ایک جزا سزا اس دنیا کی ہے اور ایک آخرت کی، دونوں اُسی کے ہاتھ میں ہیں.فرمایا کہ ”جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ رب ہے، رحمن ہے ، رحیم ہے.اُسے غائب مانتا چلا آ رہا ہے“.یعنی یہ دعا جب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان بالغیب ہوتا ہے اور پھر اُسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے“.یہ پہلی حالتیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ان پر ایمان بالغیب ہوتا ہے اور اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کو وہ حاضر ناظر جانتا ہے، اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھتا ہے اور پھر پکارتا ہے کہ " إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6.5) یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے اس میں کسی قسم کی بھی نہیں ہے.ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کے وو
خطبات مسرور جلد نهم 505 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 اکتوبر 2011ء تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے.پھر آگے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَبْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة: 7) یعنی اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں.پھر غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ.نہ اُن لوگوں کی جن پر تیر اغضب ہوا اور ولا الضالين.اور نہ اُن کی جو دُور جا پڑے ہیں“.( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 679-680 مطبوعہ (بود) پس دعا کے آداب کا بھی ہمیں کچھ پتہ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات جو رب ، رحمان، رحیم ، مالک یوم الدین ہے اُن پر کامل ایمان ہو اور جب ان صفات پر کامل اور مکمل ایمان ہو گا تو پھر ہی عبادت اور دعا کی طرف توجہ ہوتی ہے اور بندہ عاجزی سے اُس سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے.اُن انعامات کے حصول کے لئے اُسے پکارتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے خالص بندوں کو نوازتا ہے.یہ خوف رہنا چاہئے کہ میرا کوئی فعل کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے والا نہ ہو.ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں قائم ہو.ہمیشہ ایک عاجز بندہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کبھی میں اپنے خدا سے دور نہ ہوں.کبھی وہ وقت نہ آئے جب میں خدا کو بھلانے والا بنوں.پس جب ایسی حالت ہوتی ہے تو دعائیں قبول ہوتی ہیں اور انعامات نزدیک کر دیئے جاتے ہیں ، فتوحات کے نظارے دکھائے جاتے ہیں، دشمن کی تباہی اور بربادی نظر آتی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا آئیں اب پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان کو مضبوط کریں، خالص ہو کر اُس کے آگے جھکیں.اگر ہمارا دشمن انتہا تک پہنچ گیا ہے تو ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مصرعے کے مصداق بنے کی کوشش کریں کہ ”نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں“.( در خمین اردو، بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین صفحہ 58.الحکم 10 دسمبر 1901ء شمارہ نمبر 45 جلد نمبر 5 صفحہ 3 کالم نمبر 2) یقینا جب ہم اپنے خدا کی مدد اُس میں ڈوب کر اُس سے مانگیں گے تو وہ دوڑتا ہوا آئے گا اور ہمارے مخالفین کو تباہ و برباد کر دے گا.اگر ایک بندہ جو اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق رکھنے والا تھا بادشاہ کے درباریوں کو رات کے تیروں سے ، رات کی اُن دعاؤں سے جو عرش کے پائے ہلا دیا کرتی ہیں، ان دعاؤں سے شکست دے سکتا ہے اُنہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے، اُن درباریوں کو یہ کہنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ ہم ان تیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.(ماخوذ از تعلق باللہ صفحہ نمبر 2-3 تقریر حضرت مصلح موعودؓ جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1952ء) تو یقینا ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ میں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں.( تذکرہ صفحہ نمبر 630 مطبوعہ ربوہ ایڈیشن چہارم (2004ء) اگر ہم دعائیں کریں گے ، رات کے تیروں سے دشمن کا مقابلہ کریں گے تو یقینا ہماری کامیابی ہے.لیکن شاید اُن درباریوں کے اندر کوئی نیکی کی رمق تھی جس کی وجہ سے اُن درباریوں نے اُس بزرگ کو رات کے تیروں کے خوف سے تنگ کرنا، خوف کی وجہ سے تنگ کرنا چھوڑ دیا اور اپنی جگہ بدل لی، گانے بجانے چھوڑ دیئے.لیکن ان لوگوں کو جو آج مولوی کہلاتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، جو رسول کے نام پر ، اُس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو رحمت للعالمین ہے، ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں
506 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ان میں تو کوئی نیکی کی رمق نہیں ہے.انہیں تو نہ خدا پر یقین ہے نہ رسول پر یقین ہے.ان سے تو کوئی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی.ان کا مقدر تو اب لگتا ہے کہ صرف تباہی ہے جو صرف اور صرف ہمارے رات کے تیروں سے ہو سکتی ہے.ہم اس مسیح محمدی کے غلام ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے تسلی دی تھی، جیسا کہ میں نے کہا کہ ، ”میں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں“.پس جب ہم اپنے پیارے خدا کو خالص ہو کر پکاریں گے ، اپنی راتوں کے تیروں کو دشمن پر چلائیں گے تو یقینا خدا اپنی قدرت کے خاص نشان دکھائے گا.پس دعا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ اگر کوئی اس سے کامل یقین اور خالص ہو کر کام لے تو کوئی اس کے مقابلے پر ٹھہر نہیں سکتا.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اُس کے فرستادے ہیں اور وہ عظیم ہستی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس زمانے میں بندے کو خد ا سے ملانے کے لئے آئے تھے تو پھر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آپ سے جو وعدے ہیں وہ پورے ہوں گے اور ضر ور پورے ہوں گے ان شاء اللہ.کیونکہ ہمیں اس بارے میں ہلکا سا بھی شک نہیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے پورے نہیں فرماتا.وہ اپنے وعدے پورے فرماتا ہے اور ضرور فرماتا ہے ، وہ سچے وعدوں والا ہے.جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دعویٰ سے لے کر آج تک مخالفتوں کی آندھیاں چلتی رہی ہیں یہاں تک کہ ایک وقت میں خلافت ثانیہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی احراریوں نے بڑ ماری تھی.پھر ایک شخص نے حکومت کے نشے میں جماعت احمدیہ کے ہاتھوں میں کشکول پکڑانے کی بڑماری تھی.پھر کسی نے اپنی حکومت کے نشے میں احمدیت کو کینسر کہہ کر اسے جڑ سے اکھیڑ نے کی قسم کھائی تھی لیکن نتیجہ کیا ہوا کہ آج احمدیت دنیا کے دو سو ممالک میں پھیل چکی ہے.پس یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا پیارا سلسلہ ہے جس نے اپنے پیارے کو اس زمانے میں بھیج کر اسلام کی آبیاری کے لئے اس سلسلے کو جاری فرمایا ہے.اور ہر آن ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتے ہیں.پس اگر فکر کی کوئی بات ہو سکتی ہے تو یہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کے نیچے اور فرستادے نہیں.یا یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے وعدوں کو نعوذ باللہ پورا نہیں فرمارہا بلکہ فکر صرف اس بات پر ہونی چاہئے کہ ہم اپنے فرض کو احسن طور پر ادا کرنے والے ہیں یا نہیں ؟ ہم دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہیں یا نہیں، ہم انابت الی اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے جھکنے والے ہیں یا نہیں ؟ پس اب یہ ہمارا کام ہے کہ اپنا فرض ادا کریں.اپنے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ظالمانہ الفاظ سُن کر اور پڑھ کر صرف افسوس کرنے والے اور دلوں کی بے چینی کا ظاہری اظہار کرنے والے نہ ہوں بلکہ اپنی راتوں کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کو جلد تر اپنے حق میں پورا کروانے کی کوشش کرنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر بھی ایسی دعاؤں کی توفیق دے جو اس کے رحم اور فضل کو کھیچنے والی ہوں.ہم ایسی دعائیں کرنے والے ہوں جو عرش الہی کو ہلا دیں اور اللہ تعالیٰ اپنی فوجوں کو حکم دے ، اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ جاؤ اور جا کر ان مظلوموں کی مدد کرو.اللہ تعالیٰ فرشتوں کو یہ کہے کہ جو مجھے اس دعا کے ساتھ پکار رہے ہیں کہ اِنِّي مَغْلُوبٌ
507 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07اکتوبر 2011ء فَانتَصِرُ.(تذکرہ صفحہ نمبر 71 مطبوعہ ربوہ.ایڈیشن چہارم 2004.اے میرے خدا! میں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے لے.فَسَحِقْهُمْ تَسْحِيْقًا.(تذکرہ صفحہ نمبر 426 مطبوعہ ربوہ.ایڈیشن چہارم 2004ء) پس ان کو پیس ڈال.پس جاؤ اور ان مظلوموں اور بے کسوں کی مدد کرو جن کو اکثریت اپنی اکثریت کے زعم میں ظلموں کا نشانہ بنا رہی ہے.جن کو حاکم ظالمانہ قوانین کے تحت ہر حق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.جن کو مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار اسلام کے نام پر صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے کر رہے ہیں.جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے میرے فرستادے کی آواز پر یہ اعلان کیا کہ ہم نے منادی کی آواز کو سنا اور ہم ایمان لائے.پس اے فرشتو! جاؤ اور دنیا کو ان کی مدد کر کے بتا دو کہ یہ لوگ میری آواز پر لبیک کہنے والے ہیں.پس میں ان کا والی ہوں اور میں ان کو حامی و مدد گار ہوں.آج بھی میرا یہ اعلان سچ ہے کہ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال: 41).پس کیا ہی اچھا آقا ہے اور کیا ہی اچھا مددگار ہے.پس جو بھی ان سے ٹکرائے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ میری گرفت میں آئے گا.پس خدا تعالیٰ کے اس پیار کے سلوک کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائے، دعائیں کرے، یہاں تک کہ عرش الہی سے ہمارے دشمنوں کے خلاف ہماری مدد کا حکم جاری ہو جائے.ہم کمزور ہیں، ہم ان حرکتوں کا بدلہ نہیں لے سکتے جو یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کر کے کر رہے ہیں.پس ایک ہی علاج ہے کہ اپنی سجدہ گاہوں کو تر کریں.اپنے مولی، بے کسوں کے والی اور مظلوموں کے حامی کو پکاریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کو پکاریں جس نے کمزور اور نہتے مسلمانوں کو محکوم سے حاکم بنادیا، جس نے دشمن کا ہر مکر اُن پر الٹا دیا.پس اے خدا! آج ہم تجھ سے تیری رحمت اور جلال کا واسطہ دے کر یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ زمین جو تیرے پیارے رسول کے ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنے ملکوں میں، اپنے مفادات اور اناؤں کی تسکین کے لئے تیرے مظلوم بندوں پر تنگ کی ہوئی ہے، یہ لوگ اسے ہمارے لئے خاردار اور جنگل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اپنی رحمت خاص سے اسے ہمارے لئے جنت بنا دے.ہمارے لئے اسے گل و گلزار کر دے.ہمیں تقویٰ میں ترقی کرنے والا بنادے.ہمیں اپنانہ ختم ہونے والا وصال عطا فرما.ہماری دعاؤں کو ہمیشہ قبولیت بخش.ہمیں اُمت مسلمہ کی اکثریت کو نام نہاد علماء کے چنگل سے نکال کر اپنے حبیب کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اُمت مسلمہ خیر امت ہونے کا حق ادا کرنے والی بن جائے اور دنیا کو ظلم سے پاک کرے.اے ارحم الراحمین خدا! تو ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں اس کی توفیق عطا فرما.اس وقت ایک افسوسناک خبر ہے، پاکستان میں انہی ظالموں کے ظلم کا نشانہ ایک اور احمدی بنے ہیں، جن کو چند دن ہوئے شہید کر دیا گیا.مکرم ماسٹر رانا دلاور حسین صاحب شہید ابن محمد شریف صاحب، شیخو پورہ کے تھے.ماسٹر دلاور حسین صاحب کی 25 مئی 1969ء کی پیدائش ہے.شیخو پورہ میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی.پھر بی.اے کیا.ٹیچر ٹریننگ کورس کیا اور یکم اکتوبر 2011ء کو ہفتے کے دن دو پہر ساڑھے بارہ بجے نامعلوم قاتل
خطبات مسرور جلد نهم 508 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 107اکتوبر 2011ء افراد سکول میں کلاس روم کے اندر آئے جبکہ آپ کلاس میں پڑھارہے تھے اور آپ پر فائر کئے.ایک گولی گردن پر لگی اور پیٹ میں لگی اور آپ کو شہید کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُوْن.سکول میں تو زخمی حالت میں تھے کافی حالت خراب تھی، ہسپتال لے جایا جار ہا تھا رستے میں شہادت ہو گئی.یہ نواحمدی تھے.طبیعت میں شروع ہی سے دینی امور میں دلچپسی اور حق کی تلاش اور جستجو تھی.آپ مختلف علماء سے ملتے تھے اور کتب کے مطالعہ میں مصروف رہتے تھے.اسلامی فرقوں کے متعلق ریسرچ آپ کا معمول تھا.چنانچہ سعید فطرت ہونے اور ذاتی تحقیق کی بنا پر آپ ان باتوں کو (جو آج کل بدعات پھیلی ہوئی ہیں، علماء پھیلاتے ہیں) بیعت سے پہلے ہی ترک کر چکے تھے.جو باتیں آج رسم و رواج کی صورت میں اسلام میں راہ پاگئی ہیں ان سے آپ کو نفرت تھی مثلاً قتل ہے، تعویذ گنڈے، ختم وغیرہ اور بیعت سے پہلے ہی اپنے عزیزوں کو بھی یہ کہا کرتے تھے کہ چھوڑو یہ فضولیات ہیں.احمدیت کا پیغام آپ تک آپ کے بعض عزیزوں کی طرف سے پہنچا جس پر آپ جماعت کے متعلق تحقیقات کی غرض سے متعدد بار اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ ربوہ بھی آئے اور مختلف جماعتی رسائل اور کتب کے مطالعہ کے علاوہ ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے پروگرام سنتے رہے.اسی دوران آپ کی ملاقات و ہیں ایک معروف احمدی سے ہوئی.ان کے رابطہ میں رہنے لگے اور کچھ عرصے بعد آپ نے بیعت کا ارادہ کر لیا.جب آپ کو کہا گیا کہ ابھی کچھ وقت مزید تحقیق کر لیں اور تسلی کر لیں پھر آپ کی بیعت لیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ بس اب میری بیعت لے لیں.کیا پتہ کس دوران میری موت آئے اور میں جہالت کی موت نہیں مرنا چاہتا اس لئے آپ میری بیعت لیں.چنانچہ 29 ستمبر 2010ء کو یہ اپنے بیوی بچوں سمیت احمدیت کی آغوش میں آگئے اور بیعت کرنے کے بعد غیر معمولی اخلاقی اور روحانی تبدیلی رونما ہوئی.نہ صرف یہ کہ نمازوں میں مزید توجہ پیدا ہوئی.قرآنِ کریم کی تلاوت کے پابند ہو گئے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے.گھر پر نماز باجماعت کا اہتمام کرواتے تھے.خلافت سے بھی آپ کو والہانہ عشق تھا.بیعت کے فوراً بعد گھر میں ایم ٹی اے کا انتظام کر والیا.نہ صرف خود دیکھتے تھے بلکہ بچوں کو بھی ساتھ لے کے دکھاتے تھے.ایم ٹی اے کے اکثر پروگرام سنتے تھے.دعوت الی اللہ کا جذبہ اور شوق غیر معمولی طور پر بھرا ہوا تھا.چنانچہ اپنے عزیزوں اور ساتھی ٹیچر ز کی دعوتوں کا اہتمام فرماتے تھے اور مقامی مربی سے ان کا رابطہ مسلسل کرواتے رہتے تھے.اس کے علاوہ جماعتی سی ڈیز اور ایم ٹی اے اور جماعتی کتب ورسائل ان تک پہنچاتے تھے اور خود بھی مختلف کتب اپنے زیر مطالعہ رکھتے تھے.ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ تبلیغ کرنے کے معاملے میں بڑے نڈر تھے.اسی طرح خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب نام آتا یا ان کی تصویریں دیکھتے تھے تو بڑا عقیدت و احترام ان کی آنکھوں میں نظر آتا تھا.مربیان اور معلمین اور جماعتی عہدیداروں سے غیر معمولی اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے تھے.مہمان نوازی کی صفت ان میں بہت نمایاں تھی.جمعہ پڑھنے کے لئے باقاعدگی سے جاتے اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے کر جاتے.انہیں اپنے بچوں کی تربیت کی بہت فکر تھی اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا چھوٹا بیٹا مربی بنے.ہر قربانی کے لئے ہر وقت
509 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 107اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تیار رہتے تھے.بیعت کے فوراً بعد جماعتی چندہ جات میں بھی شامل ہوئے.آپ کو بیعت کے بعد بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.عزیزوں رشتہ داروں نے آپ کا بائیکاٹ کر دیا لیکن اس بائیکاٹ کے باوجو د آپ ایمان میں پختہ ہوتے چلے گئے.آخر ان کے گھر والے بعض مولویوں سے ان کے بحث مباحثہ بھی کرواتے رہے لیکن مولویوں کے پاس تو کوئی دلیل نہیں وہ عاجز آ جاتے تھے.مولویوں نے ان کے گھر کے سامنے ایک جلسہ کیا، اکیلے اُس میں چلے گئے اور جب مولویوں کو کچھ بات نہ بنی تو کفر کے فتوے اور واجب القتل کے فتوے دینے لگے لیکن آپ بلا خوف اس جلسے میں شامل رہے اور اُن مولویوں کے ساتھ دلائل کے ذریعہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن مولویوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی آخر وہ گالیاں دے کر وہاں سے چلے گئے.آپ کی پہلے ایک شادی ہوئی تھی لیکن وہ بیوی وفات پاگئی تھیں.پھر 93ء میں پہلی بیوی کی دوسری بہن سے شادی ہوئی ، اُن سے آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کی عمریں 17 سال،15 سال، 9سال،5 سال ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی استقامت عطا فرمائے.ایمان میں ترقی دے اور ان کا حامی و ناصر ہو.صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان کا جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد ادا کروں گا انشاء اللہ.ایک دوسرا جنازہ غائب ہے جو ہمارے فضل عمر ہسپتال کے بہت پرانے کارکن عبد الجبار صاحب ابن مکرم فضل دین صاحب کا ہے.14اکتوبر کو صبح آٹھ بجے 69 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.کافی لمبے عرصے سے بیمار تھے.دل کی تکلیف تھی.ان کا علاج تو بہر حال ہو رہا تھا.لیکن اس تکلیف کے باوجود اپنے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے.تقریباً پینتالیس سال تک فضل عمر ہسپتال میں ان کو خدمت کی توفیق ملی.انہوں نے پرانے بزرگوں کی خدمات کی ہیں.ان کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی کافی خدمت کا موقع ملا.بڑے ملنسار اور منکسر المزاج تھے بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہسپتال کے عملے میں سب سے زیادہ خوش اخلاق یہی تھے اور مریض ان کو پسند بھی بہت کرتے تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.تیسر اجنازہ ناصر احمد ظفر صاحب ابن مکرم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کا ہے.یہ بھی گو سرکاری ملازم تھے لیکن مختلف موقعوں پر ان کو جماعتی خدمات کرنے کی توفیق ملی اور ریٹائر منٹ کے بعد مستقل وقف کی طرح انہوں نے جماعت کی خدمات انجام دی ہیں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ ان کا اچھا میل جول تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث بھی ، خلیفہ المسیح الرابع بھی، اور ان کے بعد میں بھی مختلف لوگوں سے تعلق کی وجہ سے ان کو مختلف کاموں کے لئے بھیجتارہتا تھا.علاقے کے ایک اچھے شوشل اور کر بھی تھے اور تعلقات بھی ان کو رکھنے آتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور ہمت عطا فرمائے.یہ تمام جنازے ابھی انشاء اللہ نمازوں کے بعد ادا ہوں گے.الفضل انٹر نیشنل 28 اکتوبر تا 3 نومبر 2011 ، جلد 18 شماره 43 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد نهم 510 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 2011ء بمطابق 14 اخاء1390 ہجری شمسی بمقام مسجد نور.ننسپیٹ ہالینڈ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ زمانہ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے.وہ زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے اسلام کی برتری تمام دینوں پر ثابت کرنی ہے.اور ہم احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس یقین پر قائم ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر لحاظ سے اسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کر رہا ہے اور عیسائیت کے خاص طور پر بندے کو خدا بنانے کے عقیدے کے خلاف جس طرح جماعت احمد یہ کھڑی ہے اُن دلائل و براہین کے ساتھ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمائے اور اُن آسمانی تائیدات کے ساتھ جو خدا تعالیٰ ہر دم دکھا رہا ہے کوئی اور مسلمان فرقہ اس کا کروڑواں حصہ بھی مقابل کے سامنے پیش نہیں کر رہا اور نہ ہی کر سکتا ہے کیونکہ اس زمانے میں یہ کام اللہ تعالٰی نے مسیح و مہدی اور اُس کی جماعت سے ہی لینا تھا اور لے رہا ہے.عیسائی دنیا ہے تو وہ اس بات کا اعتراف کر رہی ہے اور سعید فطرت مسلمان ہیں تو وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ راہ ہدایت جو ہے وہ احمدیت میں ہی ہے اور اس سے راہ ہدایت پارہے ہیں.اُن سعید فطرت لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کی طرف سے ہی ہیں.ایک زمانہ تھا جب آج سے ساٹھ ستر سال پہلے افریقہ میں عیسائی پادری یہ نعرے لگارہے تھے کہ عنقریب تمام افریقہ عیسائیت کی جھولی میں آکر خدا کے بیٹے کی خدائی کو تسلیم کرنے والا ہے اور تقریباً آج سے ایک سو ہیں تیس سال پہلے تک عیسائی مشنری ہندوستان کے بارے میں بھی یہ اعلان کر رہے تھے کہ عیسائیت کا ہندوستان میں جلد غلبہ ہونے والا ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بندے کو خدا بنانے کے نظریے کو خود اُن کی اپنی کتاب اور عقلی دلائل سے باطل کیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مسلمان جو عیسائیت کی جھولی میں گرنے والے تھے یا عیسائیت کو اسلام سے بہتر سمجھتے تھے ہوش میں آنے لگے اور اُس جھوٹے نظریے کو اختیار کرنے سے بچ گئے.ایک بہت بڑی روک اور دیوار تھی جو آپ نے کھڑی کر کے خدائے واحد کی وحدانیت اور اسلام کی سچائی اور برتری دنیا پر ثابت کر دی.اسی طرح افریقہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغین نے اسلام کی تبلیغ کر کے
511 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تثلیث کے غلط نظریے کی حقیقت کھول کر عیسائی مشنریوں کے سامنے ایک روک کھڑی کر دی جس کا انہیں بر ملا اظہار کر نا پڑا کہ احمدی ہمارے سامنے روکیں کھڑی کر رہے ہیں.لیکن اسلام کے اس جری اللہ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کے کام کو دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے بجائے خوشی سے اچھلنے اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کے آپ کے خلاف بغض، عناد اور کینہ کا وہ بازار گرم کیا کہ الامان والحفیظ.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو بہر حال اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا ساتھ دینا ہے اور دے رہی ہے.سعید فطرت لوگ آہستہ آہستہ مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں لیکن اکثریت نام نہاد ملاؤں کے خوف اور علم کی کمی کی وجہ سے مخالفت پر کمر بستہ ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی مخالفانہ کارروائی مسلمان کہلانے والے ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں احمدیت کے خلاف ہوتی رہتی ہے.بعض ٹی وی چینل بھی اس میں پیش پیش ہیں جو یورپ اور دنیا میں سنے جاتے ہیں، جو کم علم مسلمانوں کے غلط رنگ میں جذبات بھڑ کا کر احمدیت کے خلاف اکساتے رہتے ہیں.بعض ٹی وی چینل اپنی پالیسی کے مطابق اس کی اجازت نہیں دیتے تو کسی رفاہی کام کے بہانے وقت خرید کر یہ شدت پسند لوگ اور فساد پیدا کرنے والے لوگ اس پر بھی کسی نہ کسی بہانے سے اعلان کر دیتے ہیں کہ احمدی واجب القتل ہیں.گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک چینل پر یہاں یورپ میں ایک مولوی نے یہ اعلان کیا لیکن بہر حال جب چینل کے مالک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے معذرت کی اور آئندہ اس مولوی کو اپنے چینل پر نہ آنے کی یقین دہانی کروائی.لیکن بہر حال ان بد فطر توں نے اسلام، ناموس رسالت اور ختم نبوت کے نام پر کم علم مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے کا کام سنبھالا ہوا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اسلام کی تبلیغ اور برتری ثابت کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دنیا پر واضح کرنے کے لئے جو کوشش جماعت احمد یہ کر رہی ہے اُس کا اعتراف تو خود اسلام مخالف قوتیں اور مشنری بھی کر رہے ہیں.یہ جو مسلمان کہلانے والے اور پھر احمدیوں پر اعتراض کرنے والے ہیں ان لوگوں کو تو اتنی توفیق بھی نہیں ہے کہ اسلام کی تبلیغ کے لئے چند روپے خرچ کر دیں.ہاں ملک کی دولت لوٹنے کی ہر ایک کو فکر ہے.آج اسلام اور ناموس رسالت کے نام پر جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے، جو ملک میں دہشت گردی پھیلی ہوئی ہے اس نے ہر شریف النفس کو بے چین کر دیا ہے.کوئی جان بھی محفوظ نہیں ہے.احمدیوں کے خلاف تو یہ شدت پسندی ہے ہی اور احمدیوں کو اس کی ایک عادت پڑ چکی ہے.میں کئی دفعہ اس کا اظہار کر چکا ہوں لیکن خود پاکستان کا کوئی شہری بھی اس سے محفوظ نہیں ہے.سوچتے نہیں کہ ایک طرف لا قانونیت ہے، ملک میں فساد پھیلا ہوا ہے، کوئی حکومت نہیں ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی آفات نے ملک کو گھیر اہوا ہے.یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے ؟ قوم کس طرف جارہی ہے؟ اللہ تعالیٰ کس انجام کی طرف ان کو لے کر جارہا ہے اور کیا انجام ان کا ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ہی ان کو عقل دے کہ یہ سوچیں اور سمجھیں.جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے وہ تو ملک کے وفادار ہونے کی وجہ سے باوجود اس کے کہ اُن پر قانونا بعض
خطبات مسرور جلد نهم 512 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء تنگیاں وارد کی جارہی ہیں ، اور تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملک کو ہر طرح کی تباہی سے بچائے.گزشتہ خطبہ میں جب میں نے دعا کی تحریک کی تھی اور روزہ رکھنے کا بھی کہا تھا تو اس بارے میں پھر یہ کہا تھا کہ ایک نفلی روزہ ہر ہفتہ رکھیں تو ضمناً بتادوں کہ مناسب ہو گا کہ جماعتی طور پر ایک ہی دن روزہ رکھا جائے.ہر مقامی جماعت اپنے طور پر بھی فیصلہ کر سکتی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ پھر مقامی جماعت میں بھی ایک فیصلہ ہو.پیر یا جمعرات کا دن رکھ لیا جائے.یہی پاکستان کے احمدیوں کو میں نے کہا تھا.بہر حال جو میں نے تحریک کی تھی اس پر جماعت کو بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس دعا کی تحریک میں بھی جہاں میں نے جماعت کو ان دشمنوں اور دشمنیوں اور ظالموں اور ظلموں سے بچنے کے لئے کہا تھا وہاں ملک کو بھی ان سے پاک کرنے کے لئے کہا تھا کہ فسادیوں سے اللہ تعالیٰ ملک کو بھی پاک کرے تا کہ یہ ملک بچ جائے.ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے.اس لئے ہمارے دل یہ چیزیں دیکھ کر بے چین ہو جاتے ہیں.بہر حال یہ ہمارا فرض ہے، ہر احمدی پاکستانی کا فرض ہے اور اُس نے اسے ادا کرنا ہے.اب میں واپس اپنی پہلی بات کی طرف آتا ہوں.میں نے کہا تھا کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ سے ہدایت پا کر آپ کی جماعت کے افراد ہی ہیں جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور اس کی تمام دینوں پر برتری ثابت کرنے کا کام کر رہے ہیں.اور اس وجہ سے چاہے افریقہ ہو، یورپ ہو یا امریکہ ہو یا دنیا کا کوئی بھی علاقہ ہو اسلام کے دفاع کے لئے ، نہ صرف دفاع کے لئے بلکہ اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے احمدی سب سے آگے بے دھڑک کھڑ ا ہو جاتا ہے.جہاں تیل کی کوئی دولت کام نہیں کرتی وہاں احمدی کا اپنی معمولی آمد سے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیا ہو اچندہ کام کرتا ہے.بیشک اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے.یہ کوئی فخر نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہماری معمولی قربانیوں میں برکت ڈالتا ہے اور اس کے بیشمار پھل لگتے ہیں.پس ہمارا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے اُس کے حضور اپنی معمولی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں.ہم احسان فراموش نہیں ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی.اگر ہمارے باپ دادا کو یہ توفیق دی تو ہمیں اس پر قائم رہنے کی توفیق دی تا کہ ہم امام الزمان کے ساتھ جڑ کر اُس کے مشن کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا اور عاقبت سنوار سکیں لیکن یاد رکھیں کہ صرف مالی قربانی کر کے ہمارے کام ختم نہیں ہو جاتے.ہم نے اپنے اندر اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دل پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے.ہم نے اپنے اعلیٰ اخلاق کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو جو اسلام کا حقیقی پیغام ہے اپنے اپنے ملک میں پھیلانے کی بھی کوشش کرنی ہے.اسلام کے خلاف اُٹھائے گئے الزامات کو دور کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم بھی دنیا کے سامنے پیش کرنی ہے.پس ہالینڈ کی جماعت بھی جو گو چھوٹی سی جماعت ہے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھے.چند ایک کے کام کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا.ہالینڈ میں رہنے والے ہر احمدی کو اپنے ماحول میں اس اہم کام کو کرنے کی کوشش
513 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کرنی ہو گی.یہ ہالینڈ ہی ہے جس میں وہ بد قسمت شخص بھی رہتا ہے جو اپنی سیاست چمکانے کے لئے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دریدہ دہنی میں بڑھتا چلا جارہا ہے ، دشمنی اور مخالفت میں بڑھتا چلا جارہا ہے.اس حد تک بغض و عناد میں بڑھ گیا ہے کہ اسلام کے نام پر اس کے منہ سے غصہ میں جھا گیں نکلنے لگتی ہیں.گزشتہ دنوں جب کسی مسلمان تنظیم نے دہشت گردی کے عمل کی شدت سے مذمت کی تو اس ظالم نے جس کا نام ویل گلڈر ہے یہ اعلان کیا کہ یہ کافی نہیں ہے ، ہم اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک تم یہ نہیں کہتے کہ اسلام مذہب ہی ایسا ہے جو شدت پسندی کی تعلیم دیتا ہے، جھوٹا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے.جب تک تم یہ اعلان نہیں کرتے ہم کسی قسم کی معذرت ماننے کو تیار نہیں.یہ اُس کے ارادے ہیں.پس یہ پیغام ہم نے اسے دینا ہے کہ اے ظالم شخص ! سن لو کہ تم، تمہاری پارٹی اور تم جیسا ہر شخص تو فنا ہو گا لیکن اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا قیامت دنیا میں رہنے کے لئے آئے ہیں اور رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت چاہے وہ کتنے بڑے فرعون اور دشمن اسلام کی ہو ، اسلام کو نہیں مٹا سکتی.اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اُس جری اللہ کو بھیجا ہے جس نے تم جیسے دشمنوں کی انتہائی دشمنی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسلام کو دنیا پر غالب کرنا ہے.اور ہر احمدی جو اس جری اللہ کی بیعت میں شامل ہے اس بات کا علم رکھتا ہے اور یہ عہد بھی کرتا ہے کہ ہم اپنی جان، مال، وقت قربان کر کے اس مقصد کو حاصل کر کے رہیں گے ، انشاء اللہ.پس یہ ہے وہ پیغام جو آج آپ لوگ جو اس ملک میں رہ رہے ہیں.آپ نے یہاں کے ہر باشندے تک پہنچانا ہے.اور دنیا میں بسنے والا ہر احمدی جو ہے، اُس کے لئے بھی یہی پیغام ہے جو دنیا کو دینا ہے.آپ نے یہاں کے ہر باشندے تک پہنچانا ہے.بیشک یہ سیاستدان، یہ اسلام کا بدترین دشمن حکومت میں سیٹیں جیتا چلا جائے، پہلے سے زیادہ سیٹیں بھی لے لے لیکن آپ دنیا کو یہ بتادیں کہ اس کی جو یہ حرکتیں ہیں یہ خد اتعالیٰ کے ہاتھوں اس کی ہلاکت کے سامان کریں گی.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے رسول کی لاج رکھی ہے ، اُس کے ناموس کی حفاظت کی ہے، آج بھی کرے گا انشاء اللہ.ہم کوئی طاقت نہیں رکھتے ، نہ ہم کوئی دنیاوی حربہ استعمال کریں گے لیکن جن کے دل زخمی کئے جائیں اُن کی دعائیں اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتی ہیں اور یہاں تو پھر سوال اللہ تعالیٰ کے حبیب کا ہے.یہاں تو ہماری دعاؤں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی غیرت خود وہ کام دکھائے گی کہ ایسے گھٹیا لوگوں کی خاک کے ذرے بھی نظر نہیں آئیں گے.ہالینڈ میں یہ نہیں کہ سب ایسے ہی ہیں.بہت سے ایسے لوگ ہیں جو شریفانہ خیال بھی رکھتے ہیں.اس بد بخت کی باتوں کو رد کرتے ہیں.تبھی تو اس بد بخت پر یہاں مقدمہ چلایا گیا تھا.یہ اور بات ہے کہ لگتا ہے یہ بھی سیاست کی نظر ہو گیا.لیکن ایسے شرفاء ضرور اس ملک میں ہیں جو اس کے اس قسم کے خیالات اور فعل سے بیزار ہیں.پس ایسے لوگوں کی تلاش کر کے انہیں اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچائیں.دنیا میں امن، محبت، بھائی چارے کو قائم کرنے والوں کی تلاش کریں اور پھر انہیں دنیا میں فساد پیدا کرنے والوں سے ہوشیار کریں.ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے والے اور ایک دوسرے کے مذہب کی عزت کرنے والوں کو جمع کر کے دنیا میں امن قائم
514 خطبات مسرور جلد نهم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء کرنے کی مہم چلائیں.دنیا کو بتائیں کہ آج اسلام ان سب سے زیادہ اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کرو.یہاں تک کہ شرک جو خدا تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے، ان شرک کرنے والوں کا بھی خیال رکھ کر یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کے بتوں کو بھی برا نہ کہو کہ جواب میں وہ خدا کے متعلق باتیں کریں گے اور ملک میں فساد پھیلے گا.پس آج ہالینڈ کے احمدیوں کو اپنی کوششوں کو تیز کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.آج اگر آپ نے اپنی ذمہ داری کا صحیح احساس کیا ہو تا جیسا کہ میں بہت عرصے سے توجہ بھی دلا رہا ہوں تو المیرے میں جہاں آپ مسجد بنانا چاہتے تھے، حکومت مسجد کی زمین دے کر پھر واپس نہ لیتی.یہ ٹھیک ہے کہ یہ دشمن اسلام کا علاقہ ہے اس کا وہاں زور ہے لیکن پھر بھی اس شہر میں بہت سے شرفاء ہیں جو آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں.پس اپنی کوشش کو پہلے سے زیادہ مربوط، مضبوط اور تیز کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے کوئی کام دعاؤں کے بغیر نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں.دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں.یہاں میں یہ بھی کہوں گا کہ ملک کی ملکہ کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ ایک طبقہ ملکہ کے پیچھے بھی اس لئے پڑ گیا ہے کہ ملکہ مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کے ظالمانہ سلوک سے روکتی ہے اور مسلمانوں کو بھی ملک کا شہری سمجھتے ہوئے اُن کے حقوق اور جذبات کا خیال رکھنے کے لئے کہتی ہے.اور مسلمانوں کے لئے تو حکم ہے کہ احسان کا بدلہ احسان سے چکاؤ.پس ملکہ کے لئے دعا کریں کہ اُس کے خلاف ہر قسم کی سازش ناکام ہو اور اللہ تعالیٰ اُس کا سینہ بھی کھولے اور اسی طرح اس ملک کے لوگوں کا بھی کھولے کہ وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو سمجھنے والے ہوں.پس ہم نے انصاف کے قیام اور اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہے.اس لئے کہ ہم اُس جری اللہ کو ماننے والے ہیں جس نے اسلام کی برتری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو دنیا سے منوانا ہے، اُن کے قدموں میں لا کر رکھنا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے بر صغیر میں باطل کی یلغار کو روکا.بر صغیر کے مسلمان چاہے مانیں یا نہ مانیں، آپ ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو شرک کی جھولی میں گرنے سے بچایا.آپ ہی تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا.پھر افریقہ میں ہمارے مبلغین نے اسلام کی تبلیغ کر کے تثلیث کے قائل لوگوں کو توحید پر قائم کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا بنا دیا.جلسوں پر افریقن احمدیوں کو ”لا اِلهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله " کی خوبصورت آواز میں ورد کرتے ہوئے ہم سنتے ہیں، ان میں سے اکثریت عیسائیت سے ہی اسلام میں آئی ہوئی ہے.غانا میں تو اکثریت عیسائیت میں سے آئی ہے.پس یہ وہ کام ہے جو آج جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے سیکھ کر دنیا میں کر رہی ہے.آج آپ سے جدا ہو کر اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ آپ ہی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے وہ مہدی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت لے کر آئے ہیں جنہوں نے اس زمانے میں دنیا کی ہدایت کا کام کرنا
515 خطبات مسرور جلد نهم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء تھا.آپ ہی وہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ مقام محمدیت کے منوانے کے لئے قربان کر دیا.آپ کے دل میں جو عشق رسول تھا اُس کا اندازہ آپ کی تحریرات سے ہو سکتا ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں.جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اُٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں“.(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحه 557 حاشیه در حاشیہ نمبر (3) پھر آپ فرماتے ہیں: ”وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مراہوا اُس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلين، فخر النبيين جناب محمد مصطفى صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ اتمام الحجة روحانی خزائن جلد نمبر 8 صفحہ 308) بھیجا ہو“.پھر آپ فرماتے ہیں: ” جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں اُن سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیٹریوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے ، جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں.خدا ہمیں اسلام پر موت دے.ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جا تار ہے“.پیغام صلح روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 459) پس کیا اس طرح عشق محمد اور مقام محمدیت اور غیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کرنے والا آج اس زمانے میں ہمیں کوئی نظر آتا ہے ؟ سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کوئی نظر نہیں آئے گا.روئے زمین پر تلاش کر لیں، ایسا عاشق صادق دنیا کو کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا.لیکن مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی ہے کہ پھر بھی نہ صرف اس عاشق رسول کا انکار کر رہے ہیں بلکہ ظالمانہ طور پر آپ کو بیہودہ گوئیوں اور رقسمتی ہے.گالیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے.پاکستان میں تو آئے دن جیسا کہ میں نے کہا یہ ملاں ایسے پروگرام کرتے رہتے ہیں.ربوہ میں بھی جہاں اٹھانوے فیصد احمدیوں کی آبادی ہے، وہاں احمدی جو ہیں اُنہیں تو جلسہ اور اجتماع کرنے کی اجازت نہیں لیکن ختم نبوت کے نام پر دشمنانِ احمدیت کو احمدیت کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنے کی اجازت ہے.کل شام سے پھر ان لوگوں کا ایک جلسہ ہو رہا ہے جو یہ اکتوبر میں ربوہ میں کرتے ہیں.جو آج شام ختم ہو نا تھا جس میں اب تک کی جو رپورٹیں آئی ہیں عشق رسول کی بات تو کم ہوئی ہے.
516 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق دریدہ دہنی اور غلیظ زبان زیادہ استعمال کی جارہی ہے.ختم نبوت کے نام پر اس عاشق رسول کو نشانہ بنایا جا رہا ہے.اُس کے ماننے والوں کے دلوں کو چھلنی کیا جا رہا ہے.لیکن ہم یہ سب کچھ عشق رسول کے نام پر ہی برداشت کرتے ہیں اور اپنے پیارے خدا کے آگے جھکتے ہیں جس نے کبھی ہمیں نہیں چھوڑا.ہماری طرف سے تبلیغ اسلام کی کوشش اگر کم بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے پیارے مسیح و مہدی کی سچائی ثابت کرنے کے لئے خود لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے اور پچھلے ایک سو پچیس سال سے فرماتا چلا جارہا ہے.اُن کے دلوں کو کھولتا ہے اور انہیں جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دیتا چلا جاتا ہے.اس وقت میں چند واقعات آپ کے سامنے رکھوں گا جو آپ کے ازدیاد ایمان کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں.ہمارے جرمنی کے مبلغ ہیں محمد احمد صاحب.وہ لکھتے ہیں کہ ایک غیر از جماعت دوست سر باد باش صاحب کئی سال سے خاکسار کے زیر تبلیغ تھے.جماعت کے عقائد کو ہر لحاظ سے درست سمجھتے تھے لیکن بیعت کے متعلق انہیں قلبی اطمینان حاصل نہ تھا.یہ تبلیغ بھی کرتے تھے اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں بعض اوروں نے بیعت کرلی.خود بیعت نہیں کی لیکن احمدیت کی تبلیغ کرتے تھے اور کہتے تھے ابھی کچھ تحفظات ہیں.مربی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ایک دن خاکسار کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بیعت کرنے کا طریق کیا ہے.میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگے کہ رات میں نے ایک رؤیا د یکھی ہے.اس رویا میں مجھے یہ آواز آئی کہ احمدیت وہ سمند رہے جس کے خزائن پر اطلاع پاتا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے.کہنے لگے کہ اس آواز نے میرے قلب وروح کی کیفیت بدل دی ہے.چنانچہ انہوں نے اسی وقت بیعت کر لی.آئیوری کوسٹ کے ایک گاؤں سو سے آبے (Soce Abe) میں ہمارے مبلغ تبلیغ کے لئے پہنچے اور امام مہدی کی آمد کا اعلان کیا تو اس گاؤں کے بانی بیچی جاتے صاحب (Yahya Diabate) نے کھڑے ہو کر اپنی رؤیا بیان کی کہ رات انہوں نے انتہائی شمالی افق پر تقریباً دو بجے صبح ایک روشنی اُبھرتی ہوئی دیکھی.پھر ایک ہفتے بعد ایک روشنی جنوبی افق کی طرف سے نمودار ہوئی.اس گاؤں کے چیف نے اپنا یہ خواب علماء کے سامنے بیان کیا تو علماء نے جواب دیا کہ تمہیں بہت بڑی خوش بختی ملنے والی ہے.اس خواب کے کچھ ہی دنوں بعد جب احمدی مبلغین کا وفد اس گاؤں پہنچا اور امام مہدی کی خبر اُن کو سنائی گئی تو خوشی کے مارے اُچھل کر وہ لوگوں کے سامنے آئے اور سارا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ خوش بختی ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے شمال اور جنوب کی طرف سے نمودار ہونے والی روشنی کی صورت میں مجھے خبر دی تھی.میں صداقت کو قبول کرتا ہوں اور اپنے لوگوں کو کہا کہ جو تم میں سے قبول کرنا چاہے اُسے یقین دلاتا ہوں کہ احمدیت خدا تعالیٰ کی طرف سے بھجوائی ہوئی خوش بختی ہے اُسے قبول کر لو.اور پھر وہاں تقریباً پورے گاؤں نے بیعت کر لی.پھر عراق سے ایک صاحب ہیں وحید مراد صاحب.وہ کہتے ہیں کہ میں شیعہ ماحول میں رہتا ہوں.والد
517 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور دادا بھی شیعہ ہیں لیکن امام مہدی کے بارے میں شیعہ عقائد پر اطمینان نہ ہو تا تھا اور خیال آتا تھا کہ ضرور کہیں کوئی خلل موجود ہے.ایک روز خواب میں دیکھا کہ ایک کمرے میں بیٹھا ہوں.اسی دوران چار اشخاص کے آنے کی آواز سنائی دی جن کو میں نہیں جانتا.باہر نکل کر دیکھا تو یہ چاروں پانی کا پائپ لے کر میرے گھر پر پانی چھڑک رہے تھے.میں حیرت سے پوچھتا ہوں کہ یہ کیا کر رہے ہو.وہ کہنے لگے کہ ہمیں آپ کے گھر کو صاف کرنے کا حکم ہے.میں نے پوچھا کہ باقی پڑوسیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کہنے لگے کہ ہمیں صرف آپ کے گھر کو صاف کرنے کا حکم ہے.خواب کے دوسرے روز ٹی وی کھولا تو سکرین پر چار افراد مصطفی ثابت صاحب، شریف صاحب اور ہانی صاحب اور مومن صاحب پروگرام الْحِوَارُ الْمُباشر میں موجود تھے.مجھے یقین ہو گیا کہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.لہذا مجھے بیعت کر لینی چاہئے.فرانس کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ری یونین آئی لینڈ کی ایک خاتون میٹنگ میں شرکت کے لئے فرانس آرہی تھی.آنے سے قبل انہیں خواب میں بتایا گیا کہ فرانس جا کر اپنے عزیز ایل ایم سے ضرور ملنا.چنانچہ وہ فرانس پہنچ کر اپنے اس عزیز کو ملیں جو اللہ کے فضل سے پہلے ہی بیعت کر چکے تھے.وہ اس خاتون کو مشن ہاؤس لائے.تبلیغی مجلس کے بعد اس خاتون نے بیعت کر لی.اگلے روز جب اس خاتون کو ائیر پورٹ پر چھوڑنے کے لئے اس کے قیام والی جگہ پر پہنچے تو وہاں اُس کا خاوند اور بیٹے بھی موجود تھے.انہوں نے بتایا کہ ہمیں احمدیت کے بارے میں پتہ چل چکا ہے.اب آپ ہماری بیعت لے لیں.چنانچہ وہ سارا خاندان احمدی ہو گیا.پھر مصر سے عبدالمجید صاحب کہتے ہیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ہوں اور ہاتھ میں ایک چپو ہے اور بے مقصد و منزل گھوم رہا ہوں.جبکہ سمندر میں طغیانی ہے اور کشتی گرنے اُلٹنے کے قریب ہے.تب میں نے اللہ تعالی کی آواز سنی کہ یہ لو موسیٰ کا عصا اور سمندر پر مارو.اس پر کسی قدر ٹیڑھا عصا ہاتھ آگیا.میں نے اُسے آسمان سے لیا اور سمندر پر مارا.اتنے میں کشتی ایک بلند مقام پر ٹھہر گئی جو خوبصورت عمارتوں والا ایک شہر ہے.اس میں سارے لوگ خوش شکل اور خوش و خرم تھے.مجھے بتایا گیا کہ یہ جماعت احمدیہ کا شہر ہے اس سے میں نے سمجھا کہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مجھے بیعت کر لینی چاہئے.چنانچہ مجھے بیعت کی توفیق ملی.صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے.ہالینڈ کے آپ کے جو مبلغ صاحب ہیں انہوں نے مجھے لکھا کہ ایک ہندو عورت جن کا نام مالتی ہے.انہوں نے تقریبا پندرہ سال قبل اسلام قبول کیا تھا.مراکش کے باشندے یوسف منصور اللہ سے شادی کی.شادی کے بعد اس خاتون نے خواب میں دیکھا کہ ہندوستان میں مختلف علاقوں کے لوگ جنہوں نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ایک بزرگ کے گرد جمع ہو رہے ہیں اور یہ لوگ ہاتھوں کے اشارے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص مسیح موعود ہے.اس خاتون نے اپنے خاوند کو خواب سنایا.خاوند نے ایم ٹی اے دیکھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے حوالے سے
خطبات مسرور جلد نهم 518 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء بات ہورہی تھی.منصور باللہ صاحب نے اپنی اہلیہ کو بلا کر جو دکھایا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر فوراً پہچان لیا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا.ان دونوں نے ایم ٹی اے دیکھا اور آخر بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا.اللہ تعالیٰ اب ان کو احمدیت پر قائم رکھے.جماعت کا کام ہے کہ ایسے سعید لوگ جو احمدیت میں شامل ہوتے ہیں اُن کو سنبھالے بھی.ایسے لوگوں سے مستقل رابطہ رہنا چاہئے تا کہ اُن کو قریب ترلے کے آئیں.پھر عیسائیوں کے واقعات بھی ہیں.امیر صاحب کینیڈا ایک خاتون برینڈی ولسن Brandy) (Wilson کی قبول احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ٹورنٹو میں رہنے والی یہ نوجوان خاتون ہمارے ایک داعی الی اللہ حسن فاروق صاحب کے زیر تبلیغ تھیں.انہوں نے یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا.جنہوں نے انہیں تسلی دی اور اسلام کی طرف دعوت دی.چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی.پھر کینیڈا میں ہی عمانوئل رو پیتھس (Emmanuel Rovithis) کی بیعت کا واقعہ ہے.انٹاریو کا رہنے والا یہ چو ہیں سالہ سفید فام نوجوان بچپن سے ہی خواب میں روشنی دیکھا کرتا تھا جو شروع میں مدھم دکھائی دیتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ روشن ہوتی چلی گئی.ڈیڑھ برس قبل جب یہ نوجوان مسلمان ہوا تو یہ روشنی مزید واضح ہو گئی اور احمدیت کے متعلق تحقیق کے دوران مزید روشن ہوتی گئی.یہاں تک کہ اُسے اس روشنی میں ایک چہرے کے دھندلے نقوش نظر آنے لگے.حتی کہ ایک روز ایک احمدی دوست کے ساتھ تین چار گھنٹے گفتگو کے بعد رات کو خواب میں ایک واضح چہرہ نظر آیا.اس نے فوراً اس احمدی دوست کو اس بارے میں بتایا جس نے اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلیفہ رائج کی تصویر یا شاید خلفاء کی تصویریں دکھائیں لیکن جب میری تصویر دیکھی تو اس نے کہا کہ یہی وہ چہرہ تھا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا.چنانچہ مارچ 2011ء میں انہوں نے بیعت کر لی.یوگنڈا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارا وفد دورانِ تبلیغ جب ایک گھر میں پیغام احمدیت لے کر گیا تو صاحب خانہ جو ایک عیسائی تھا اُس نے ہمارے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ ہی وہ لوگ ہیں جن کی میں انتظار کر رہا تھا کیونکہ آج ہی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ مسلمان ہیں جو مختلف فرقوں اور قبائل کے لوگوں کو اکٹھا کر رہے ہیں صرف اس لئے کہ ان کو ایک خدا اور مسیح کی آمد ثانی کا بتایا جائے.آپ لوگوں نے میری خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے.میری بیعت لے لیں.اس پر ہمارے وفد نے کہا کہ آپ بیعت فارم تو پڑھ لیں اور پہلے تسلی کر لیں.اس عیسائی نے کہا میں تو پہلے ہی ایمان لا چکا ہوں.میرے لئے تاخیر کے اسباب نہ کریں.چنانچہ اُسی وقت اُس نے اپنی فیملی کے ساتھ بیعت کر لی.
خطبات مسرور جلد نهم 519 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء سیر الیون کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حسن کمارا صاحب سیکنڈری سکول لنگی میں لینگوئج اور آرٹ کے استاد ہیں.انہوں نے 2006ء میں خواب دیکھا کہ آسمان پر بہت ہی خوشخط اور روشن الفاظ میں یہ تحریر لکھی ہوئی ہے کہ "The Allah is greatest".چونکہ یہ اُس وقت عیسائی تھے ، ایک خدا کو نہیں مانتے تھے لیکن پوری تسلی بھی نہیں تھی کہ عیسی جو کہ خدا کے نبی ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کہتے ہیں یہ تحریر دیکھتے ہی خوف سے اُن کا جسم کانپنے لگا اور گھبراہٹ سے آنکھ کھل گئی.2008ء میں پھر اس سے ملتی جلتی خواب دیکھی کہ آسمان پر ایک روشنی کا بہت بڑا گولا نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پھٹ گیا اور اندر سے یہی الفاظ The Allah is" "greatest نکل کر آسمان پر پھیل گئے.پھر جولائی 2008ء میں خلافت جو بلی سوونیئر جو پاکستان سے شائع ہوا ہے خریدا اور مطالعہ شروع کر دیا.اور آہستہ آہستہ خدا کے فضل سے احمدیت کی طرف مائل ہو نا شروع ہو گئے.بہت سے سوالوں کے جوابات بھی اُن کو اس سود نیئر کے مطالعے سے مل گئے.2009ء میں پھر ایک خواب دیکھی کہ وضو کر رہے ہیں اور تیاری کے بعد احمد یہ مسجد میں نماز کے لئے جاتے ہیں.جب پہنچتے ہیں تو باجماعت نماز ختم ہو چکی ہوتی ہے.کہتے ہیں کہ نماز باجماعت کے Miss ہونے کا بہت افسوس ہوتا ہے.اس کے بعد ان کی آنکھ کھل جاتی ہے.ستمبر 2010ء میں مبلغ سلسلہ نے انہیں گھر بلایا اور پوچھا کہ بیعت کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے کہ ابھی کچھ سوالات باقی ہیں.جب اُن کے جوابات ملیں گے تو بیعت کر لوں گا.اس سال جنوری 2011ء میں اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر کے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ بھی بڑے شوق سے کر رہے ہیں.الحمد للہ.ایک ریڈیو جر نلسٹ مسٹر جین ٹیگامبو (Jaen Tangambu) ہماری نمائش میں آئے.انہوں نے کہا کہ آج پہلی دفعہ اسلام کا پیغام سمجھا ہے.آج اسلام کو دریافت کیا ہے.آج اسلام کو بطور مذ ہب مانا ہے.میں اسلام کو بہت برا سمجھتا تھا.آج پہلی دفعہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو سمجھا ہوں“.پھر ایک مہمان فوسٹن امبوائی (Fostin Maboyi) نے کہا ”سنا تھا کہ مسجد جادو نگری ہوتی ہے.آج پہلی بار مسجد میں داخل ہو کر جماعت احمدیہ کی مسجد میں داخل ہو کر پتہ چلا کہ یہ جگہ تو بہت پر سکون ہے“.پس جب اللہ تعالٰی اپنی قدرت کے نظارے دکھا رہا ہے، خود سعید فطرت انسانوں کی دنیا میں ہر جگہ رہنمائی فرمارہا ہے اور گھیر گھیر کر جماعت میں شامل کر رہا ہے جو مسیح محمدی کو پہچان کر اُس سے ایک پختہ تعلق جوڑ رہے ہیں تو پھر ہمیں ان مخالفین احمدیت کی روکوں اور مخالفتوں اور گالیوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے.ہاں مخالفین احمدیت یا مخالفین اسلام جب ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور آپ کے عاشق صادق کے لئے بیہودہ گوئی کرتے ہیں تو ہمارے دل ضرور چھلنی ہوتے ہیں اور اُس کا ایک ہی علاج ہے کہ دعاؤں کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائیں.اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں
520 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور اپنے عمل سے بھی اور علم سے بھی اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.یورپ میں احمدیوں کو مخالفین اسلام اور مخالفین احمدیت ، دونوں کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے.مسلمانوں کی طرف سے بھی مخالفت ہے چاہے وہ کسی بھی ملک کے ہوں کیونکہ آجکل مولویوں نے اُن کے ذہنوں کو زہر یلا کر دیا ہوا ہے اور اسلام مخالف قوتیں تو ہیں ہی.ہماری ترقی، ہماری مساجد دونوں کو چھتی ہیں.بیلجیم میں بھی قو انشاء اللہ تعالیٰ وہاں کی باقاعدہ پہلی مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھنا ہے.وہاں دونوں حلقوں کی طرف سے جماعت کو مخالفت کا سامنا ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دشمن کا ہر مکر اور ہر شر اُن پر الٹائے اور خیریت سے بنیاد کی یہ تقریب بھی ہو جائے اور مسجد بھی جلد مکمل ہو کر خدائے واحد کی وحدانیت کا اعلان کرے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے ہم پہلے سے بڑھ کر پیش کر سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر تا 10 نومبر 2011 ء جلد 18 شماره 44 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 521 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اکتوبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اکتوبر 2011ء بمطابق 21 اخاء 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ یورپ کے مختلف ممالک کے دورے پر رہا ہوں جس میں جرمنی ، ناروے، ہالینڈ، ڈنمارک، بیلجیم وغیرہ شامل تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دورے کے دوران ہر آن اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھے.ہمیشہ کی طرح جہاں جماعتوں کے اندر بھی ایمان و اخلاص اور وفا کے نمونے نظر آئے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر وں میں بھی جماعت کا اثر اور غیروں کی جماعت کے ساتھ تعلق بڑھانے اور قائم کرنے کی کوشش اور اسلام کو سمجھنے کی طرف غیر معمولی توجہ بھی پہلے سے زیادہ نظر آئی.پس یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہے کہ جماعت کا ہر قدم جو ترقی کی طرف اٹھتا ہے ، ہماری کوشش سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا جو تعارف اور آپ کے حوالے سے اسلام کا جو حقیقی پیغام دنیا کو پہنچ رہا ہے ، اس کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر ایک احمدی کو مزید مضبوط کرتے ہیں.اگر صرف انسانی کوششوں کا سوال ہو تو ہماری دنیاوی لحاظ سے بالکل چھوٹی سی جماعت کی طرف کبھی کسی کی نظر نہ ہو.پس یہ توجہ اور ترقیات کے خدائی وعدے ہیں جو پورے ہو رہے ہیں اور ہمیں نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.” ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں.کوئی انسانی عقل یا دوراندیشی یاد نیوی اسباب ان وعدوں تک ہم کو نہیں پہنچا سکتے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 333 مطبوعہ ربوہ ) پھر اس بات کا اظہار فرماتے ہوئے کہ جو لوگ ہمارے مخالف ہیں، سمجھتے ہیں کہ اپنے خیال سے اور دنیاداری کی طرز پر یہ بھی کوئی فرقہ بن گیا ہے جیسا کہ آج کل بھی مسلمانوں کی اکثریت جماعت کے متعلق یہ خیال کرتی ہے یا اکثریت کو اُن کے علماء نے اس طرف ڈال دیا ہے کہ شاید یہ بھی کوئی دنیاوی تنظیم ہے اور طرح طرح سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بدنام کیا جاتا ہے، آپ کو طرح طرح کے نام دیئے جاتے ہیں اور ہمارے دلوں پر نیش زنیاں کی جاتی ہیں.بہر حال جو بھی یہ لوگ سمجھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد نهم 522 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 اکتوبر 2011ء میں جانتا ہوں کہ خدا نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور اُس کے فضل سے اس کا نشو و نما ہو رہا ہے.اصل یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور نہ اُس کا نشو و نما ہو سکتا ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کے لئے چاہتا ہے تو وہ قوم بیج کی طرح ہوتی ہے.جیسے قبل از وقت بیچ کے نشو و نما اور اُس کے آثار کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اس قوم کی ترقیوں کو بھی محال اور ناممکن سمجھتے ہیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 333 حاشیه، مطبوعہ ربوہ) پس یہ خدا تعالیٰ کی جماعت ہے.ہر آن اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیں جماعت کے ساتھ نظر آتی ہے.جماعتی ترقی دیکھ کر دنیادار اور مخالفین احمدیت اور زیادہ بوکھلا گئے ہیں اس لئے جماعت کی دشمنی بھی آجکل زوروں پر ہے.میں گزشتہ خطبوں میں اس کی طرف توجہ بھی دلا چکا ہوں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے یہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ جماعت ترقی کرے اور اسلام کا غلبہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ذریعے سے ہو اور یہ ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ.ان مخالفین کی تمام کوششیں اور دشمنیاں رائیگاں جائیں گی اور ہر سعید فطرت اس جماعت کی آغوش میں آئے گا.انشاء اللہ.بہر حال جیسا کہ میں ہر سفر کے بعد عموماً سفر کے حالات مختصر آبیان کرتا ہوں آج بھی آپ کے سامنے کچھ بیان کروں گا.تفصیلات تو جو رپورٹس الفضل میں شائع ہو رہی ہیں، اُن میں کچھ حد تک آجائیں گی.بعض باتیں میں بیان کر دیتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ کے مختلف رنگ میں جو فضل ہو رہے ہیں اُن پر کچھ روشنی پڑتی ہے.اپنوں کو، احمدیوں کو تو دوروں کے دوران ملنے سے فائدہ ہوتا ہی ہے.غیروں کو ، دنیا داروں کو جن کی اسلام کی طرف توجہ ہو رہی ہے اُن کو بھی فائدہ ہو رہا ہوتا ہے.اسلام کی اصل تصویر پیش کرنے کا موقع ملتا ہے.بعض پڑھے لکھے اور سیاستدان یا حکومت کے سر کردہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید دنیاوی فائدے کی خاطر یا ماحول کو بہتر کرنے کی خاطر ا.اپنے اپنے ماحول میں احمدی اپنے ملنے جلنے والوں کو امن اور محبت کا پیغام دیتے ہیں اور اسلام کی ایک خوبصورت تصویر دکھاتے ہیں.اکثر جگہ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لوگ میرے سے براہ راست سننا چاہتے ہیں کہ احمدیت کیا ہے ؟ بیشک اُن کو پہلے احمدیوں نے بتایا بھی ہو.لیکن اپنی تسلی کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ خود میرے سے سنیں.پس ان ملاقاتوں سے جو غیر وں کے ساتھ ہوتی ہیں، علاوہ دوسری باتوں اور تعلقات کی وسعت کے ، اسلام کے بارے میں خاص طور پر پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں سے ، شکوک و شبہات دور کرنے کا موقع ملتا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا اور بعض موقعوں پر اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں کہ جرمنی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ اور تعلقات کی وسعت میں ایک خاص کوشش کر رہی ہے.اب ان کی کوششیں جو ہیں وہ پہلے سے بہت بڑھ کر ہیں اور اس کی وجہ سے اسلام کا پیغام اور جماعت کا تعارف بہت بڑھ کر جر من قوم میں پہنچ رہا ہے.اس مرتبہ بھی انہوں نے ان تعلقات رکھنے والے بعض پڑھے لکھے لوگوں کو مجھ سے ملوانے کا انتظام کیا ہوا تھا، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اُن کو ہمارے نوجوانوں نے ملوانے کا انتظام کیا تھا.چنانچہ فرینکفرٹ میں تو یونیورسٹی کے دو پروفیسر
523 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ملنے آئے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں جرمنی میں نوجوانوں میں کچھ عرصے سے کافی بیداری دیکھ رہا ہوں.ان کے تعلقات بھی وسیع ہو رہے ہیں اور تبلیغ کی طرف بھی رجحان ہے.بہر حال چند ملاقاتوں کا یہاں ذکر کروں گا اور ساتھ ہی جہاں جہاں دوسرے جماعتی پروگرام ہوئے، ان کا بھی ذکر آتارہے گا.جرمنی میں مار برگ (Marburg) یونیورسٹی ہے، اس کے دو پر وفیسر ملنے آئے تھے.دونوں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں.پیری ہیکر (Pierre Hecker) اور البیشٹ فوکس (Albpecht Fuess).اور یہ دونوں یونیورسٹی میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر ہیں.عربی بھی ان کو آتی ہے، اسلام کا علم بھی کافی ہے.اور اُن میں سے ایک جو تھے انہوں نے ترکی زبان میں سپیشلائزیشن کی ہوئی ہے.ان کے مضامین اسلامی تاریخ کے تھے.پھر ان سے اسلامی تاریخ کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں.ان کو میں نے یہی کہا کہ جو آپ کے مؤرخین ہیں، یا ایسے مؤرخین جو مغربی مورخین سے متاثر ہوئے ہوئے ہیں، صرف اُن کی کتابیں نہ پڑھیں بلکہ عربی جانتے ہیں تو بعض دوسرے مؤرخین جن کے اصل ماخذ عربی ہیں یا دوسرے ماخذ ہیں ، پھر احادیث ہیں اُن کو بھی آپ کو دیکھنا چاہئے.اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جو سیرۃ النبی کی کتاب ہے اُس کا ایک حصہ ترجمہ ہو چکا ہے ، اُن کو میں نے کہا ہے کہ وہ مہیا کی جائے وہ بھی پڑھیں.اُس سے آپ کو پتہ لگے گا کہ کس طرح ایک تو سیرت بیان کی گئی ہے.دوسرے کچھ اعتراضات کے جواب دیئے گئے ہیں.اللہ کرے کہ باقی حصہ بھی اُس کا ترجمہ ہو جائے.بہر حال یہ بڑی اچھی کتاب ہے ایسے لوگوں کے لئے جن کو سیرت کے ساتھ ساتھ اسلام پر کئے گئے اعتراضات کے بھی کچھ نہ کچھ جواب مل جاتے ہیں.ان کی یونیورسٹی کی لائبریریوں میں Five Volume Commentary بھی اور سیرت کی یہ کتاب جو انگلش میں ترجمہ ہو چکی ہے رکھوانے کا بھی کہا ہے، انشاء اللہ پہنچ جائے گی.اُن کو میں نے ایم.ٹی.اے کا بھی کہا کہ دیکھیں.اس کو دیکھنے سے بہت سارے سعید فطرت جو ہیں ان کو اسلام کی حقیقت کے بارے میں پتہ لگ رہا ہے، صحیح تعلیم پتہ لگ رہی ہے.وہ کہنے لگے کہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں آپ کے بارہ میں کیا سوچ ہے.وہاں کوئی بات ہوئی ؟ تو ان کو میں نے کہا کہ اُن کے پروفیسروں سے بھی چند سال پہلے بات چیت چلتی رہی اور اس پر پھر ہمارے عربی ڈیسک والوں نے اور شریف عودہ صاحب وغیرہ نے اُن کو بھجوانے کے لئے ایک کتاب تیار کی تھی جو اُن کو بھیجی گئی تھی لیکن ان لوگوں کے دل سخت ہیں، وہ مانتے نہیں لیکن جو سعید فطرت ہیں وہ اگر پڑھیں تو اُن کے دل بہر حال کھلتے ہیں.تو یہ لمبی گفتگو تھی جو ایسے لوگوں سے ہوئی اور وہ بعد میں کافی اثر لے کر گئے.فرینکفرٹ میں ارد گرد کے ماحول میں کچھ فاصلے پر (کچھ فاصلے سے مراد ہے) ایک ڈیڑھ سو کلو میٹر سے زیادہ اور ایک تقریباً ستر اسی کلومیٹر کے اندر دو مساجد کے سنگ بنیاد رکھنے کا بھی موقع ملا.وہاں ایک مسجد کی تقریب سنگ بنیاد میں میئر کے نمائندے کے طور پر اُن کے ڈپٹی میئر جو تھے وہ آئے ہوئے تھے.اس تقریب میں انہوں نے بھی کچھ الفاظ کہے ، اور میں نے بھی مسجد کے حوالے سے کچھ باتیں کیں لیکن بعد میں باتیں کرتے ہوئے وہ کہنے
524 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم لگے کہ میں نے سنا ہے ( یہ دیکھیں جہالت کا جو تصور ہے یہ صرف پر انا نہیں ہے بلکہ آج اس پڑھے لکھے زمانے میں اور یورپ میں بھی یہ تصور قائم ہے) کہ غیر مسلم کو قرآنِ کریم کا پڑھنا یادیکھنا اسلام میں جرم ہے.میں نے کہا آپ کو یہ کس نے بتایا؟ ابھی آپ نے تلاوت سنی، اس کا ترجمہ سنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام دنیا کے لئے آئے تھے ، تمام انسانوں کے لئے آئے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروایا اور قرآنِ کریم تو ہر سعید فطرت کے لئے رحمت اور علاج ہے.اس لئے بالکل غلط آپ نے سنا ہے.بلکہ ہمارے ترجمے چھپے ہوئے ہیں.آپ کو دیئے جائیں گے آپ پڑھیں.یہ ہے تصور قرآنِ کریم کی تعلیم کا جو بعض مسلمان حلقوں کی طرف سے آج بھی بعض جگہوں پر پیش کیا جاتا ہے اور احمدی جو قرآنِ کریم کی اشاعت کے لئے کوشش کر رہے ہیں اس میں روکیں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.ضمناً میں ذکر کر دوں کہ گزشتہ دنوں انڈیا میں، دہلی میں بڑے اچھے علاقے میں قرآن کریم کی ایک نمائش ہوئی.قرآن کریم کی تعلیم کے بارہ میں یہ بڑی وسیع نمائش تھی اور بڑے خوبصورت طریقے سے سجائی گئی تھی.ہندو، سکھ ، عیسائی اور اچھے پڑھے لکھے مسلمان بھی اُس میں آئے ، دیکھتے رہے.تین دن کی نمائش تھی.پہلے دو دن تو علماء جو نام نہاد علماء ہیں انہوں نے اتنا شور مچایا اور پریشر ڈالا کہ وہاں حکومت کو خیال پیدا ہوا کہ کہیں فساد نہ پیدا ہو جائے.اس لئے تیسرے دن حکومت نے جماعت کو درخواست کی کہ یہ نمائش بند کر دی جائے.وہاں کے بڑے بڑے اخباروں نے اس کی بڑی تعریف کی کہ بڑی اعلی نمائش تھی اور قرآن کریم کی تعلیم اور قرآن کریم کی حکمت کے بارے میں ہمیں اب پتہ لگا ہے.بعض مسلمانوں نے یہ تبصرے کئے کہ قرآن شریف کی تعلیم کا ایسا خوبصورت علم تو ہمیں پہلے تھا ہی نہیں لیکن یہ مسلمان ہمیشہ روڑے اٹکاتے رہتے ہیں، ایسے ایسے غلط تصور ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.پھر مجھے ایک اور بات یاد آگئی.میں کل پر سوں کی ڈاک میں دیکھ رہا تھا.ایک شخص نے پاکستان سے لکھا کہ کہیں میں اپنے کسی غیر احمدی دوست کے ہاں افسوس کرنے گیا تو وہاں باتیں ہوتی رہیں.ایک صاحب وہاں کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے کہ احمدی ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ احمدی کرنے سے پہلے تمہیں ایک کمرے میں بند کر دیتے ہیں ، وہاں الماری پر قرآنِ کریم رکھ دیتے ہیں، پھر اُس کو کہتے ہیں الماری کو ہلا ؤ اور دھکے دو، اگر قرآن کریم گر جائے تو سمجھو کہ تم پکے احمدی ہو گئے.یہ تصورات ہیں، اس قسم کی جھوٹی باتیں ہیں.سوائے اس کے کہ ان لوگوں پر لعنت بھیجی جائے اور کیا کیا جا سکتا ہے.ان لوگوں نے اس طرح قوم کو بیوقوف بنا دیا ہے کہ کوئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی.بہر حال جرمنی کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں تو جرمنی میں فرینکفرٹ کے قیام کے دوران (جیسا کہ آپ نے ایم.ٹی.اے کے ذریعے بھی دیکھ لیا کہ ) خدام اور اطفال اور لجنہ کے اجتماعات بھی ہوئے، اُن میں شمولیت کی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے وہاں جانے اور اجتماع میں شامل ہونے کے فیصلے میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی.پہلی مرتبہ میں نے اجتماع میں اطفال کو اُن کے مطابق کچھ باتیں کہیں اور وہیں مجھے خط آنے لگ گئے کہ ہم اب
525 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء ان نصائح پر عمل کریں گے.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے.موبائل فون رکھنے کی اور اس قسم کی باتیں جو بچوں میں پید اہو رہی ہیں ان کی میں نے بعض مثالیں بھی پیش کی تھیں.ٹی وی یا انٹر نیٹ پر مستقل جو بیٹھے رہتے تھے بلکہ مستقل چھٹے رہتے ہیں انہوں نے اس سے پر ہیز کرنے کا وعدہ کیا ہے.اصل چیز اعتدال ہے.ہمارے بچوں اور بڑوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہر جائز کام بھی اعتدال کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے.اور غلط اور ناجائز کے تو قریب بھی نہیں جانا.پس یہ روح اگر ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو ان بچوں اور نوجوانوں کا مستقبل بھی محفوظ ہو جائے گا اور جماعت کی مجموعی تربیت میں بھی اس سے ترقی ہوتی ہے.اسی طرح خدام الاحمدیہ نے بھی میری باتیں سُن کر جس طرح مثبت رد عمل دکھایا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس پر مستقلاً عمل کرنے کی بھی توفیق دے اور ان کو جزا دے کہ فوری طور پر بات سن کر پھر لبیک بھی کہتے ہیں.لجنہ میں بھی بڑا اچھا پروگرام ہوا.اس کا ذکر بھی پہلے میں کر چکا ہوں.لیکن ایک بات کی طرف لجنہ کو بلکہ ساری دنیا کی لجنہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میرے اس خطبے کے حوالے سے ایک خاتون نے لکھا کہ مین ہال میں تو بڑا اچھا ماحول تھا.خاموشی سے آپ کا خطاب سنا گیا لیکن جو بچوں کا ہال تھا اُس میں بچوں کا شور تو جو ہوتا ہے وہ تھوڑا بہت ہوتا ہی ہے.مائیں خود اس حوالے سے کہ ڈور بیٹھی ہیں بے تحاشہ باتیں کر رہی ہوتی ہیں.تو لجنہ میں جو علیحدہ مار کی یا علیحدہ ہال ایسی عورتوں کو دیا جاتا ہے جن کے بچے ہیں اُن کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بچوں کو حتی الوسع اشارے سے خاموش کرانے کی کوشش کریں اور خود تقریر کی طرف توجہ دیا کریں.جو پروگرام ہو رہا ہے اس کی طرف توجہ دیا کریں اور سنا کریں.یہ ہال اُن کو اس لئے نہیں دیا جاتا ہے کہ خود بیٹھ کے اپنی گپیں اور اپنی کہانیاں شروع کر دیں.آئندہ سے اس بارے میں بھی احتیاط ہونی چاہئے اور انتظامیہ کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے.فرینکفرٹ میں دوسرے جماعتی پروگرام بھی ہوتے رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہار پورٹ میں ان کا ذکر آجائے گا.بہر حال یہ قیام وہاں قریب دو ہفتے کا تھا.اس کے بعد وہاں سے ناروے روانگی ہوئی.جیسا کہ آپ لوگوں نے خطبے میں سن لیا ہے کہ ناروے میں مسجد نصر کا افتتاح ہوا.ماشاء اللہ بہت خوبصورت مسجد ہے.یہاں سے بھی بعض لوگ گئے ہوئے تھے انہوں نے دیکھی ہے.بہت بڑی ہے اور صرف شمالی یورپ کی بہت بڑی مسجد نہیں ہے بلکہ میر اخیال ہے کہ مسجد بیت الفتوح کے بعد (خیال نہیں بلکہ یقین ہے) یقینا یہ مسجد یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے.وہاں کی جماعت تو بہت چھوٹی ہے لیکن اس مسجد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت بڑی جماعت ہے یا یہ بہت امراء کی جماعت ہے لیکن دونوں باتیں غلط ہیں.نہ یہ بڑی جماعت ہے نہ وہاں امیر لوگ زیادہ ہیں.صرف خیال آنے اور احساس پیدا ہونے کی ضرورت تھی.وہ جب آیا تو توجہ پیدا ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے زمانے میں اس مسجد کی یہ زمین خریدی گئی تھی اور اُس پر ایک ہال تقریباً بیسمنٹ کی طرز پر بنایا گیا تھا.شاید اُس وقت مسجد کی بیسمنٹ (Basement) بنوانا چاہتے تھے.بہر حال بعد میں کچھ نقشہ بھی تبدیل ہوا.مرکز نے اُس وقت تین چار ملین کروز یا تقریب چار پانچ لاکھ پاؤنڈ ان کی مدد کی
526 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تھی.پھر اُن کو کہا گیا کہ اپنے وسائل سے یہ مسجد بنائیں.2003ء میں میں نے بھی ان کو توجہ دلائی.اُس وقت سے توجہ دلانی شروع کی لیکن ناروے کی جماعت اپنی جگہ سے ہلتی نہیں تھی.کبھی یہ مسئلہ آ جاتا تھا، کبھی دوسرا مسئلہ آجاتا تھا.مجھے بھی انہوں نے اتنا تنگ کیا کہ میں نے ان کو کہہ دیا کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں اس سے کریں.اگر بڑی مسجد نہیں بن سکتی تو ایک چھوٹی سی مسجد کہیں اور جاکے ، چھوٹی جگہ لے کے، بنالیں.پھر جماعت خود بھی ایک وقت میں سوچنے لگ گئی کہ اس پلاٹ کو بیچ دیا جائے.کچھ نے رائے دی کہ نہیں بیچنا چاہئے.بہر حال پھر آخر فیصلہ ہوا کہ بڑا با موقع پلاٹ ہے، شہر سے جو سٹرک ائیر پورٹ کو جاتی ہے اُس پر واقعہ ہے، اونچی جگہ ہے، اس لئے اس کو بیچنا نہیں چاہئے.2005ء میں جب میں گیا تو اتفاق سے وہاں جو جمعہ پڑھا گیا، اس کے لئے جو ہال وہاں لیا گیا وہ بھی اس پلاٹ کے بالکل ساتھ تھا.تو میں نے انہیں اس خطبہ میں وہاں توجہ دلائی تھی کہ انشاء اللہ ناروے میں مسجدیں تو بنیں گی، ایک دو نہیں بلکہ اس ملک میں ہر جگہ مساجد بنیں گی، یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ اُس نے جماعت کو پھیلانا ہے لیکن آپ کی آئندہ نسلیں جب یہاں سے گزرا کریں گی تو یہ کہا کریں گی کہ یہ جگہ ، ایک باموقع پلاٹ، ایک خوبصورت جگہ ایک زمانے میں ہمارے باپ دادا کو ملی تھی جس کو اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے گنوادیا.کچھ خوف خدا کریں.جو عزم کیا ہے، جو ارادہ کیا ہے، اس کو ایک دفعہ پورا کرنے کی کوشش کریں.بہر حال کم و بیش انہی الفاظ میں توجہ دلائی تھی کہ اپنی نسلوں کے سامنے نیک نمونے قائم کریں، اور اُن کی دعاؤں کے بھی وارث بنیں.بہر حال یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی خوبصورتی ہے کہ وہ خلیفہ وقت کی طرف سے کہی گئی باتوں کو سنتے ہیں اور پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایک جوش اور ولولہ اُن میں پیدا ہو جاتا ہے تبھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر ہمیں بھی بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 605 مطبوعہ ربوہ) بہر حال جب ناروے جماعت نے ارادہ کیا اور اس توجہ دلانے پر اُن کی آنکھیں کھلیں تو انہوں نے قربانیوں کی مثالیں بھی قائم کیں جن کا اپنا ایک لمباذکر ہے.پچھلے ناروے کے خطبے میں کچھ میں نے بیان بھی کیا تھا اور تقریباً سو ملین کرونر سے زیادہ کی قربانی دے کر اس مسجد کی تکمیل ہوئی ہے.کرونر میں بعض دفعہ بعضوں کے علم میں حوالے یار یفرنس نہیں ہوتے تو یہ تقریباً بارہ ملین پاؤنڈ بنتا ہے.بارہ لاکھ نہیں، بارہ ملین پاؤنڈ بلکہ اس سے اوپر رقم بنتی ہے.اور یہ لوگ جیسا کہ میں نے کہا کوئی غیر معمولی امیر لوگ نہیں ہیں لیکن جب ان کو توجہ دلائی گئی اور ان کو یہ باور کروایا گیا کہ آئندہ نسلوں کے لئے کیا نمونہ چھوڑ کر جانے لگے ہو تو صرف وقتی جذ بہ نہیں، انہیں وقتی غیرت نہیں آئی بلکہ وہ نیکی کی رگ اُبھری جو ایک احمدی میں ہر وقت موجود رہتی ہے.اگر وقتی جوش ہو تا تو ایک سال کے بعد تھک کر بیٹھ جاتے.گو ایسے موقعے آئے کہ انتظامیہ نے پریشان ہو کر پھر مجھے لکھنا شروع کر دیا لیکن توجہ دلانے پر پھر بجت جاتے تھے.آخر پانچ سال یا چھ سال کی قربانی کے بعد وہاں صرف آٹھ نو سو افراد کی جو جماعت ہے، انہوں نے یہ سب سے بڑی مسجد بنالی.ائیر پورٹ سے شہر کو جاتے ہوئے جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک
527 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے.وہاں کے وزیر اعظم نے بھی یہ اعتراف کیا کہ یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے جو اس سڑک پر ہوا ہے.روزانہ تقریباً اسی نوے ہزار گاڑیاں، کاریں وغیرہ وہاں سے گزرتی ہیں جو اس مسجد کو دیکھتی ہیں.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی چیز کی چاٹ لگ جائے تو پھر اس کے حصول کے لئے ہر کوشش ہوتی ہے.ہماری ناروے کی جماعت میں بھی لگتا ہے کہ اکثر لوگوں میں یہ صورت پید اہو رہی ہے.یا تو یہ حال تھا کہ دس سال تک مسجد بنانے کے بہانے تلاش کرتے رہے کہ بن سکتی ہے کہ نہیں بن سکتی ؟ مشکلات کی ایک فہرست پیش کرتے رہے یا اب کہتے ہیں کہ وہاں ایک اور شہر ہے جس کا نام کرسچن سانڈ ہے، وہاں چھوٹی سی جماعت ہے، کہ ہم نے وہاں بھی مسجد بنانی ہے اور اُس کے بھی جو اخراجات ہیں وہ کافی آرہے ہیں کیونکہ ناروے میں مہنگائی بھی کافی ہے.میں نے انہیں کہا ہے کہ یہ مسجد تو ابھی آپ نے مکمل کی ہے، فوری طور پر نئی مسجد کس طرح شروع کر دیں گے ؟ تو اب ماشاء اللہ اُن کی جرات اتنی بڑھ گئی ہے کہ عاملہ نے بھی اور بعض لوگوں نے بھی مجھے ذاتی طور پر کہا کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہم بنا لیں گے ، اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.پس یہ جوش و جذبہ ہے جو ایک احمدی میں ہے.ایک مرتبہ ارادہ کر لیا تو پھر کوئی بند نہیں ہے.اگر نیت نیک ہے تو سب بند ٹوٹ جاتے ہیں.ہر روک جو ہے وہ ختم ہو جاتی ہے.اور یہ سب چیز جو ہے یہ کسی فرد کا یا ان چند افراد کا کمال نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ برکت ڈالتا ہے اور دلوں کو بدلتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدوں کے پورا ہونے کی یہ دلیل ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ کہ وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.(تذکرۃ صفحہ 39 مطبوعہ ربوہ 2004) پس جب ارادے نیک ہوئے، نیتیں نیک ہوئیں، دعا کی طرف بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی توجہ ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کے دلوں کو ایسا کھولا کہ ہر وقت مدد کے لئے تیار ہوتے چلے جا رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام، آپ کی اس خواہش کو پورا کرنے کا کام کہ اسلام کو متعارف کرانے کے لئے مسجدیں بنا دو.یعنی وہ مسجدیں جن کے بنانے والے اور عبادت کرنے والے خدا اور رسول کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں تو پھر اسلام اس طرح خوبصورت رنگ میں متعارف ہوتا ہے کہ دنیا اس کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے.پس افرادِ جماعت نے نیک کام کے لئے اپنی حالتوں کو بدلنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی غیر معمولی وسعت حوصلہ اور توفیق میں وسعت عطا فرما دی اور دنیا میں اور جگہوں پر بھی فرما رہا ہے.اس مرتبہ تو دورے کے دوران یہ لوگ مجھے پہلے سے بہت بڑھ کر ایمان و اخلاص میں بڑھے ہوئے نظر آئے.اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و اخلاص کو ہمیشہ بڑھا تار ہے اور ہر احمدی کے ایمان واخلاص کو بڑھا تار ہے.ناروے بھی یورپ کے اُن ممالک میں سے ہے جہاں عموماً تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت پڑتی ہے.دنیا داری کی طرف رجحان بھی ہے لیکن اس مرتبہ مجھے وہاں مردوں اور عورتوں کو ، بچوں کو ، بچیوں کو سمجھانے پر اُن کی نظروں میں شرم و حیا اور افسوس بھی نظر آیا.یہ عزم اور ارادہ نظر آیا کہ ہم اپنی کمزوریاں بھی دور کریں
528 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم گے.خاص طور پر واقفین نو اور واقفات نو نے اس بات کا اظہار کیا.جب میں نے انہیں اُن کی کلاس کے دوران سمجھایا کہ اُن کی کیا ذمہ داریاں ہیں.واقفات نو نے تو بہت زیادہ عزم کا اظہار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلیں گی بلکہ اپنے ماحول کی حالتوں کو بدلیں گی اور اس بات پر شرمندگی کا اظہار کیا کہ اُن سے پر دے اور لباس اور احمدی لڑکی کے وقار کے اظہار میں جو کمیاں اور کو تاہیاں ہوتی رہی ہیں وہ نہ صرف اُن کو دور کریں گی بلکہ اپنے ماحول میں، جماعتی ماحول میں بھی اور باہر کے ماحول میں بھی ایک نمونہ بن کے دکھائیں گی.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کے ہر احمدی بچے کو اور بچی کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ احمدیت کا صحیح نمونہ ہو.کیونکہ اگر ہماری لڑکیوں اور عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو آئندہ نسلوں کی اصلاح کی بھی ضمانت مل جاتی ہے.اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈالتا ہے.بہر حال ناروے کی جماعت میں مجھے پانچ سال میں بعض لحاظ سے بہت زیادہ بہتری نظر آتی ہے.ناروے میں غیروں کے ساتھ جو پروگرام ہوتے رہے اُن کا بھی کچھ ذکر کر دیتا ہوں اور اس سے پہلے ناروے کی حکومت کا بھی شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے وہاں اپنے حالات کی وجہ سے سکیورٹی کا بڑا انتظام رکھا، کیونکہ جولائی میں وہاں ایک واقعہ ہو گیا تھا اور کچھ ویسے بھی اُن کو شاید کوئی اطلاعیں تھیں ، تو انہوں نے مسجد میں مستقل سیکیورٹی رکھی.میرے قیام کے دوران میرے ساتھ بھی رہے.اللہ تعالیٰ اُن کو اس کی جزا دے.وہاں ایک ممبر پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں وزٹ کا ایک پروگرام رکھا ہوا تھا جس میں چار پانچ پارلیمنٹ کے ممبر بھی موجود تھے.یہاں چھوٹی سی ریسپشن بھی تھی.وہاں بھی اچھا پروگرام رہا.وہاں کے پارلیمنٹ کے پریذیڈنٹ اینڈرسن (Anderson) جو ہمارے ہاں سپیکر کہلاتے ہیں، اُن سے بھی ملاقات ہوئی.اُن کو بھی جماعت کے تعارف کا تفصیل سے موقع ملا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ، آپ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی، اس طرح تفصیل سے ساری باتیں ہوئیں.خود ہی مجھے پوچھنے لگے کہ شیعہ سنی اور تم لوگوں میں کیا فرق ہے؟ اس سے پھر آئندہ آگے مزید باتیں کھلتی ہیں تو بہر حال باتیں چلتی رہیں.اسی طرح مختلف اخبارات اور ریڈیو اور ٹی وی چینل کے نمائندوں نے بھی انٹر ویولئے.ناروے ایک چھوٹا سا ملک ہے.کل آبادی تو پانچ ملین ہے.جس اخبار نے انٹرویو لیا اس کی سر کو لیشن تین لاکھ پچاس ہزار ہے اور اچھے ماحول میں اُس نے انٹر ویو لیا.مسجد کا مقصد ، اسلام کی تعلیم ، جماعت احمدیہ کا کیا مقصد ہے، یہ ساری باتیں ان لوگوں نے اپنے انٹرویو میں یا اخباروں میں شائع کیں ، یاریڈیو میں بیان کیں یا ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بیان کیں اور اچھے وقت لئے بیان کرتے رہے.پھر جماعت کا اور خلیفہ وقت کا کیا تعلق ہے ؟ کیا کرنے آئے ہیں ؟ اس قسم کے سوالات تھے.ان کے بڑے تفصیلی جواب اُنہیں دیئے اور اس کا پھر خود بھی انہوں نے مشاہدہ کیا.جب وہ باہر نکلتے تھے تو جماعت کے افراد سے بھی پوچھ لیتے تھے اور پھر افراد جماعت کا جو اپنا ایک جذباتی تعلق ہوتا ہے جب وہ بیان کرتے تھے تو اس سے وہ اور متاثر ہوتے تھے کہ کس طرح ایک جماعت ہے جس میں خلافت اور جماعت کا وجود ایک بنے ہوئے ہیں.بہر حال باقی تو مسلمانوں کے حوالے سے باتیں ہوتی رہیں کہ مسلمان کیا کہتے ہیں اور آپ کیا کہتے ہیں اور آپ
529 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کو مسجد کیوں نہیں کہنے دیتے اور آپ کو مسلمان کیوں نہیں سمجھتے؟ یہ تو تفصیلی با تیں ہیں جو رپورٹس میں آجائیں گی.ناروے میں جب ہماری مسجد کی reception ہوئی ہے تو اُس میں 120 کے قریب لوکل نارویجین افراد تھے جن میں سے گیارہ پارلیمنٹیرین تھے.وہاں کی وزیر دفاع خاتون ہیں جو وزیر اعظم کی نمائندگی میں وہاں آئی تھیں.وزیر اعظم کا پیغام بھی انہوں نے پڑھا اور اس سے پہلے اُن سے بھی کچھ تفصیلی باتیں ہوتی رہیں.میں نے کہا کہ میں نے آپ کو پیغام بھی بھیجا تھا اور آپ کے درد کو ہم محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہمارے احمدی بھی اسی طرح شہید کئے جاتے ہیں.پھر اسی طرح اُن کو جو جماعتی خدمات ہیں، انسانی ہمدردی کی خدمات، تعلیمی خدمات، طبی خدمات اُن کے بارے میں تفصیل سے تعارف کروایا تو بڑی حیران تھیں کہ کوئی مسلمان تنظیم ایسی بھی ہے جو اس طرح کام کر سکتی ہے.انہوں نے کہا تھا کہ میں تھوڑے وقت کے لئے آئی ہوں.تقریبا رات پونے آٹھ بجے انہوں نے واپس جانا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ جو میرے سے پہلے بولنے والے مقررین تھے اُن کی باتیں کچھ لمبی ہو گئیں تو پونے آٹھ بجے میری تقریر شروع ہوئی اور تقریر بھی کافی لمبی تھی تو وہ آرام سے بیٹھی رہیں.عموماً سکینڈے نیوین ملکوں میں میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ تیس پینتیس منٹس (Minutes) سے زیادہ سننے کے عادی نہیں.لیکن میری باتیں تقریباً وہ پچاس منٹ تک خاموشی سے سنتی رہیں.میں نے بعد میں معذرت کی.کہنے لگیں کہ نہیں مجھے لگا کہ آج میں نے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا ہے اور پھر اُس کے بعد بھی وہ بیٹھیں، کھانا کھایا اور جہاں پونے آٹھ بجے جانا تھا وہاں ساڑھے نو تک بھی اُن کا اُٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا.بہر حال وہاں کافی باتیں ہوتی رہیں.کیونکہ reception میں مسجد کے حوالے سے میں نے بتایا کہ ہماری مسجد تو اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، ایک خدا کی عبادت کی جائے.اور یہاں جب ایک خدا کی عبادت کے لئے انسان آتا ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا کہ کسی دہشت گردی، کسی قسم کی بدامنی کا خیال بھی پیدا ہو.سکینڈے نیوین ممالک میں بھی بعض ایسے طبقے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنی تعلیم پر بہت زیادہ اعتراضات کرتے ہیں اس لئے اُن کو قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کافی وضاحت سے میں بتانا چاہتا تھا جو میں نے بتایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا کہ آپ کی تڑپ تو یہ تھی اور آپ کی حالت یہ تھی کہ آپ کی راتیں بے چین ہوتی تھیں اور تڑپ کے دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سیدھے راستے پر چلائے اور یہ خدا کو پہچان لیں.میں نے ان کو بتایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کسی بھی قسم کا ایسا خیال ہو تا کہ دنیا پر قبضہ کرنا ہے تو یہ راتوں کی تڑپ نہ ہوتی.راتوں کی یہ تڑپ صرف اس دنیا کے امن کے لئے نہیں تھی بلکہ لوگوں کو آئندہ زندگی میں بھی، جو مرنے کے بعد کی زندگی ہے، اس کے امن کی ضمانت کے لئے بھی یہ تڑپ اور دعائیں تھیں.تو بہر حال قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے ایک بڑا اچھا پروگرام رہا.اُن سے کافی تفصیلی باتیں ہوئیں.باتیں کیا ہوئیں اس تقریر میں، اُس reception میں یہ سب کچھ میں نے بیان کیا.اسی طرح وہاں کالمار کی کاؤنٹی کے پریذیڈنٹ بھی آئے ہوئے تھے.سکینڈے نیوین ملکوں میں جو پارٹیاں
530 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہیں وہ آپس میں سسٹر پارٹیاں کہلاتی ہیں یا مختلف ملکوں میں بس ایک ہی نام سے چل رہی ہیں اور وہ لوگ ایک دوسرے کو سپورٹ بھی کرتے ہیں.تو یہ جو پریذیڈنٹ صاحب تھے یہ بھی موجودہ حکومتی پارٹی کے ممبر ہیں جو اس کے مقابل پر سویڈن میں حکومتی پارٹی ہے.بہر حال انہوں نے اپنے اچھے خیالات کا اظہار کیا.یہ یہاں جلسے پر بھی پہلے آچکے ہیں.انہوں نے بتایا کہ میں جلسے پر جا چکا ہوں اور جماعت احمد یہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتی ہے اور اس سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں.یہ حقیقی امن کی علم بردار ہے.پھر اسی طرح ایک دن پیغام ملا کہ وہاں کے سابق پرائم منسٹر جو ہیں وہ بھی مسجد دیکھنے آرہے ہیں اور ملنا بھی چاہتے ہیں.آج کل ناروے کی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے صدر ہیں.اُن سے بھی اچھی تفصیلی گفتگو ہوتی رہی.جماعت کی خدمات اور جماعت کے ساتھ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے ، ان سے یہ ساری باتیں ہوئیں.یہ جو مسجد ہے اس کی وجہ سے جو تعارف ہوا اُس کا بھی ذکر کر دوں.عالمی دنیا میں ہونے والی تعمیرات سے متعلق جو خبریں شائع ہوتی ہیں، اس کے لئے ایک آن لائن ورلڈ آرکیٹکچر نیوز اخبار ہے.اس کو ماہانہ دس یا گیارہ ملین لوگ visit کرتے ہیں.اور ان کا ایک ہفت روزہ e.news letter بھی ہے جو 147 ہزار افراد کو ای میل کیا جاتا ہے اور تعمیرات کے حوالے سے دنیا بھر کے جو تعمیر کرنے والے ہیں، سٹوڈنٹ ہیں یا تعمیراتی ادارے ہیں وہ اس کے ممبر ہیں.تو اس اخبار نے بھی اور اس ویب سائٹ نے بھی مسجد کی تصویر اور خبر شائع کی کہ شمالی یورپ کی سب سے بڑی مسجد یہاں تعمیر ہوئی ہے اور اس کا افتتاح کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے سر براہ آئے ہیں اور ایک قومی لینڈ مارک ہے.اس طرح کی خبر اور اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی اُس میں دی گئی کہ مسجد خاص طور پر اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ امن کی علامت لگے.تو اس لحاظ سے مسجد کے مختصر تعارف کے ساتھ جو میں نے بیان کیا ہے اسلام کے تعارف کی بھی کافی لمبی تفصیل پیش ہوئی.پھر Sys-Con media ہے.اس کا انٹر نیٹ ٹیکنالوجی اور میگزین پبلشنگ میں بھی ایک اہم نام ہے.اس میں ٹیکنالوجی کی خبریں شائع ہوتی ہیں.اس نے بھی مسجد کے حوالے سے، پھر احمدیت کی اور اسلام کی تعلیم کے حوالے سے، reception کے حوالے سے اور افتتاح کے حوالے سے اُس میں کافی لمبی خبر دی ہے.بلکہ اس نے وہاں نارویجین وزیر دفاع کا یہ حوالہ بھی کوٹ (Quote) کیا کہ وہ کہتی ہیں کہ نئے ناروے کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار مذہب کا بھی ہے.اس لئے ہمیں ہر ایک کے لئے اپنے دل کھولنے ہوں گے اور ہر ایک کو ساتھ ملانا ہو گا.جیسا کہ ہم آج یہاں یعنی ہماری مسجد کی reception میں دیکھ رہے ہیں.یہ لکھنے والا اخبار میں لکھتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ قطع نظر اس کے کہ یہ میری عبادت گاہ نہیں ہے میں یہاں حقیقی خوشی محسوس کر رہی ہوں.پھر میں نے وہاں جو نارویجین واقعہ ہوا تھا اُس پر افسوس کا اظہار کیا تھا.اُس کی بھی تفصیل اُس نے میرے حوالے سے لکھی.ناروے سے پھر ہیمبرگ میں واپسی ہوئی.وہاں بھی دو پارلیمنٹیرین تھے وہ ملنے کے لئے آئے.ان کی پارلیمنٹ میں اچھی پوزیشن ہے.ہیومن رائٹس کے حوالے سے وہ کام کر رہے ہیں.اُن سے تفصیلی بات ہوئی تو اُن
531 خطبات مسرور جلد نهم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء کو میں نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کیا چیز ہیں اور کچھ سوال بھی اُن سے میں نے پوچھے.کچھ دیر بعد مجھے کہنے لگے کہ جیسا سوال تم پوچھ رہے ہو اس کی تو میں تیاری کر کے نہیں آیا.اس کے بعد میں نے بتایا کہ کس طرح اصل امن دنیا میں قائم کر سکتے ہیں.قرآنی تعلیم کیا ہے اور آپ لوگ یعنی بعض مغربی ممالک کیا کر رہے ہیں.اس کے بعد باہر جا کے ہمارے جو دو احمدی دوست لے کے آئے تھے، اُن سے کہتے ہیں کہ اس نے تو مجھے سوچنے کے بعض نئے زاویے دیئے ہیں.ہماری تو ایک سوچ ہوتی ہے.اب ان زاویوں پر میں سوچوں گا تاکہ ہمیں پتہ لگے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے کیا طریقے اختیار کرنے چاہئیں اور ان سے باہر آنا چاہئے جو ہم کر رہے ہیں.ان کو بھی میں نے کھل کر کہا تھا کہ ایک طرف وہی طاقتیں ہیں جو امن کا نعرہ لگاتی ہیں اور دوسری طرف وہی طاقتیں ہیں جو لڑنے والوں کو اسلحہ بھی دے رہی ہوتی ہیں.اس طرح تو امن قائم نہیں ہو سکتا.پھر امن کے نام پر تم لوگ ظلم کرتے چلے جاتے ہو.لیبیا وغیرہ کی مثالیں سامنے ہیں.بہر حال کچھ نہ کچھ اُن کو سمجھ آگئی تھی اور میں نے کہا کہ قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ جب امن قائم کر جاؤ تو پھر واپس لوٹ آؤ.پھر بدلے اور ذاتی انائیں اور ذاتی مفادات کی طرف توجہ نہ دو.تو یہ قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم ہے جس پر تم عمل کرو گے تو دنیا کا امن قائم ہو سکتا ہے.نہیں تو نہیں.بہر حال ان کو کچھ نہ کچھ سمجھ آئی.انہوں نے کہا کہ میں سوچوں گا بھی اور اپنے حلقے میں بھی یہ باتیں پہنچاؤں گا.یہاں سے ایک دن ہم ڈنمارک کا ایک شہر ہے ناکسکو ، وہاں بھی گئے تھے.وہاں ہمارے البانین اور بوسنین لوگوں کی جماعت ہے.تقریباً سو کے قریب افراد ہیں.یہاں کوئی پاکستانی نہیں ہے.میرے خیال میں تو ان کی خواہش بھی تھی کہ میں وہاں آؤں.بڑا اخلاص رکھنے والی جماعت ہے.اس کا فائدہ بھی ہو ا.اُن کے بعض تربیتی مسائل تھے اُن کا پتہ چلا.بعض گھرانے تو اخلاص و وفا میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.کبھی پہلے ملے نہیں، دیکھا نہیں.بچوں سے لے کر بڑوں تک سب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں تو وہاں جانے کا بہت فائدہ ہوا.ایک رات وہاں گزاری بھی.ایک سینٹر ہے جو جماعت نے کچھ عرصہ ہو اوہاں لیا ہے جہاں اب باجماعت نماز اور جمعہ وغیرہ ہوتا ہے.اس کو فی الحال تو مسجد کی شکل دی ہے لیکن وہاں کے میٹر کا نمائندہ جو ڈپٹی میئر تھے اور کچھ اور پڑھے لکھے لوگ ملاقات کے لئے آئے تھے تو وہاں میں نے کہا کہ اگر ہمیں باقاعدہ مسجد کے لئے جگہ مل جائے تو ہم مسجد بنائیں گے.اس پر انہوں نے وعدہ تو کیا ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ جگہ نہ ملے.ہم انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بنائیں گے کیونکہ ہمیں اب پتہ لگ گیا ہے کہ جماعت ایک پر امن جماعت ہے.یہی شہر جس میں چند مہینے پہلے جو سینٹر بنایا گیا یا مسجد کی شکل دی گئی ہے تو اس میں آکے وہاں کے مقامی لوگوں نے جو اسلام کے خلاف ہیں کچھ پینٹ وغیرہ کئے ، کچھ گند وغیرہ پھینکا لیکن بہر حال مقامی انتظامیہ اور پولیس نے کافی ساتھ دیا.دشمنی تو وہاں ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کا جو پیغام ہے، اسلام کا جو پیغام ہے وہ پہنچ رہا ہے اور پڑھے لکھے طبقہ کو احساس پید اہو رہا ہے کہ احمدیت اسلام کی وہ تصویر پیش کرتی ہے جو حقیقی اسلام ہے اور پر امن اسلام ہے اور اس کا بڑا فائدہ ہوتا ہے اور
خطبات مسرور جلد نهم 532 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21اکتوبر 2011ء دوروں کے دوران جب اخبارات بھی خبریں شائع کرتے ہیں تو مزید لو گوں تک وہ پیغام پہنچتا ہے.پھر اسی طرح واپسی پر برسلز (Brussels) بیلجیم میں پہلی مسجد جس کا نام بیت انجیب رکھا گیا ہے اس کا سنگ بنیاد رکھنے کی بھی توفیق ملی اور انشاء اللہ یہ مسجد بھی امید ہے کہ اب ایک سال میں بلکہ اس سے پہلے ہی مکمل ہو جائے گی.اچھی خوبصورت مسجد بن رہی ہے اور یہ بیلجیم کی پہلی مسجد ہو گی.وہاں بھی مختلف ممبر آف پارلیمنٹ اور کچھ میٹر ز آئے ہوئے تھے.جس علاقے میں ہمارا پہلے مشن ہاؤس ہے، دلبیکس (Dilbeeks) اس کا نام ہے وہاں کے میئر بھی آئے ہوئے تھے.اور کچھ دوسری پارٹیز کے نمائندے بھی تھے.تو ان سب نے اچھے خیالات کا اظہار کیا اور سب نے مسجد کے پروگرام کو، جماعت کی تعلیم کو خوب سراہا، بلکہ میئر نے اپنے تاثرات میں بعد میں ایک تو یہ کہا کہ مجھے اپنی تصاویر دو، اس سارے پروگرام کی سی ڈیز دو، ڈی وی ڈیز دو کہ وہ جماعت احمدیہ کے امن کے اس خوبصورت پیغام اور اس مسجد کو اپنے علاقے کی کو نسل اور عوام کو دکھانا چاہتے ہیں اور ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں بھی ایسی خوبصورت مسجد اور ماحول کا آغاز جلد ہونا چاہیے.دوسرے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن سے جو میر اخطاب تھا، وہ اس تقریب کی کارروائی اپنی کو نسل کی آفیشل ویب سائٹ پر چلانا چاہتے ہیں.پھر وہاں فؤاد حیدر صاحب جو مرا کو کے ہیں اور مسلمان ہیں لیکن برسلز پارلیمنٹ کے ممبر ہیں.انہوں نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا خلافت کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہے.انہوں نے میرے بارے میں یہ بھی کہا کہ وہ میرے خیالات اور جماعت احمدیہ کا امن اور سلامتی کا پیغام اپنے پیشہ ورانہ دوستوں کو بلا امتیاز چاہے وہ مسلمان ہوں یا دوسرے مذہب والے ہوں، سب کو اور اسی طرح اپنے حلقہ احباب میں شامل دوسرے احباب کو ضرور پہنچائیں گے.بلکہ انہوں نے ہمارے مبلغ کو کہا کہ اس ہفتے مجھے آکے ملیں.یہ پہلے بھی مجھے ایک دفعہ مل چکے ہیں.بڑے اچھے شریف النفس انسان ہیں اور جماعت سے اچھا تعلق ہے اور بڑے جرآت والے اور آؤٹ سپوکن (Out Spoken) ہیں.کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے جانے سے جو اخباروں کی توجہ پیدا ہوتی ہے، ان سیاستدانوں یالیڈروں کی توجہ پیدا ہوتی ہے، پڑھے لکھے لوگوں کی توجہ پید اہوتی ہے تو بہت فوائد ہوتے ہیں.لیکن پھر بھی یہ ہماری کوششیں ہیں، اصل پھل تو اللہ تعالیٰ نے لگانے ہیں.اللہ کرے کہ یہ پھل لگتے چلے جائیں.بلکہ ایک اور علاقے کے میئر بھی وہاں آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ اس تقریب میں شامل ہو کر بیحد خوشی ہوئی.کہتے ہیں کہ آج ایک منسٹر برائے ایجو کیشن یو تھ پاسکل سمتھ (Pascal Smith) نے ان کے شہر ایک آفیشل دورے پر آنا تھا اور بطور میئر میری وہاں موجود گی ضروری تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرا اس تاریخی موقع پر جبکہ خلیفتہ المسیح یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں.اس تقریب میں شامل ہو نا ہی میرے لئے سب سے اہم اور ضروری کام تھا.لہذا میں آج آپ کے در میان موجو د ہوں.اللہ تعالیٰ اُن کو جزا دے.پھر ایک علاقے کے ڈپٹی میئر اور کونسلر ہیں، انہوں نے کہا کہ چونکہ اس مسجد کی منظوری کے لئے میں
533 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نے جماعت احمدیہ بیلجیم کو اپنا تعاون اور مدد فراہم کی تھی.لہذا اب میں اس موقع پر (میرا کہا کہ) خلیفتہ المسیح کا خطاب سننے کے بعد بھی بہت خوش ہوں اور یقین کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ میر ا جماعت کی مدد اور تعاون کا فیصلہ بالکل درست تھا اور مجھے خلیفتہ المسیح کی یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ مسجد صرف ایک مسجد ہی نہیں بلکہ یہ مسجد بیلجیم اور اس علاقے کے عوام کے لئے امن اور محبت کا ایک نشان اور علامت بھی ہے.پس ہر لحاظ سے یہ دورہ بابرکت ہوا.اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی.بیجیم میں ایک طبقہ جو اسلام کے خلاف ہے انہوں نے کچھ دن پہلے علاقے میں شدید اشتہار بازی کی تھی کہ اس مسجد کو نہیں بنے دینا چاہئے اور پھر جلوس کی تاریخ مقرر کی، دو دن پہلے جلوس نکالا تھا.ہفتے کو بنیا د ر کھی گئی.جمعرات کو جلوس تھا.لیکن پھر جلوس میں اس دن تو کوئی چند لوگوں کی معمولی تعداد شامل ہوئی اور کسی نے توجہ نہیں دی.اللہ تعالیٰ نے ایساماحول کو پھیرا ہے کہ وہاں کی انتظامیہ کو جو فکر تھی، بالکل غائب ہو گئی.بہر حال یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہماری کوششیں تو بچوں کا کھیل ہے.نہ لوگوں کے دلوں سے ہم وہ گند نکال سکتے ہیں جو آجکل دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، نہ کمال محبت الہی کا اُن کے اندر بھر سکتے ہیں.نہ اُن کے درمیان باہمی کمالِ اُلفت پیدا کر سکتے ہیں جس سے وہ سب مثل ایک وجود کے ہو جائیں.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.چنانچہ قرآن شریف میں صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا ہے.هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَ بِالْمُؤْمِنِينَ.وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الَفتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيم.(الانفال : 64،63) وہ خدا جس نے اپنی نصرت سے اور مومنوں سے تیری تائید کی اور ان کے دلوں میں ایسی الفت ڈالی کہ اگر تو ساری زمین کے ذخیرے خرچ کر تا تو بھی ایسی الفت پیدا نہ کر سکتا، لیکن خدا نے ان میں یہ الفت پیدا کر دی.وہ غالب اور حکمتوں والا خدا ہے.جس خدا نے پہلے یہ کام کیا وہ اب بھی کر سکتا ہے.آئندہ بھی اسی پر توکل ہے.جو کام ہونے والا ہوتا ہے اس میں خدا کے فضل کی روح پھونکی جاتی ہے.جیسا کہ باغبان اپنے باغ کی آبپاشی کرتا ہے تو وہ تر و تازہ ہوتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ اپنے مرسلین کے سلسلہ کو ترقی اور تازگی عطا فرماتا ہے.جو فرقے صرف اپنی تدبیر سے بنتے ہیں ان کے درمیان چند روز میں ہی تفرقے پیدا ہو جاتے ہیں جیسا کہ بر ہمو تھوڑے دن تک ترقی کرتے کرتے آخر رک گئے اور دن بدن نابود ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کی بنا صرف انسانی خیال پر ہے“.ط ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 332-333 مطبوعہ ربوہ) پس یہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے اس نے ترقی کرنی ہے اور کرتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی جو بھی معمولی سی، حقیر سی کوششیں ہیں وہ کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم اس ثواب میں حصے دار بن جائیں.اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد نهم 534 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اکتوبر 2011ء ہماری کوششوں میں برکتیں ڈالے اور ہمیں ان ترقیات کے نظارے بھی دکھائے.نماز کے بعد میں آج ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری غلام قادر صاحب آف کھیوہ باجوہ ضلع سیالکوٹ کا ہے.4 اکتوبر کو ان کی وفات ہوئی تھی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.بطور صدر لجنہ کھیوہ باجوہ لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی.تہجد گزار خاتون تھیں، صوم صلوۃ کی پابند، قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والی.بچوں کو نمازوں کا پابند اور قرآنِ کریم کی تلاوت کا عادی بنایا اور ہمیشہ کوشش رہتی تھی.موصیہ تھیں.ان کے ایک بیٹے محمد اقبال صاحب ہیں جو مڈغاسکر میں ہمارے مبلغ ہیں.یہ جنازے میں بھی شامل نہیں ہو سکے.ان کی نماز جنازہ غائب ان شاء اللہ نماز کے بعد پڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 11 نومبر تا 17 نومبر 2011 ء جلد 18 شماره 45 صفحہ 95)
خطبات مسرور جلد نهم 535 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28اکتوبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 2011ء بمطابق 28 اخاء 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو جماعت قائم فرمائی اور اُس کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ پہلوں کے ساتھ ملا دی گئی یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے، یہ کوئی معمولی جماعت نہیں ہے.ہزاروں لاکھوں نیک فطرت مسلمان اس زمانے کے پانے کی خواہش میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے.پس ہم میں سے ہر ایک کو جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے منسوب کرتا ہے اُن باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن پر پہلوں نے عمل کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیعت کا تعلق جوڑا.آپ کی امت میں شامل ہوئے اور آپ کی تربیت کے زیر اثر اللہ تعالیٰ سے ایسا پختہ تعلق جوڑا کہ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ (البقرة : 208) جو اپنی جان کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتے ہیں.پس انہوں نے خدا کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کی.اپنی جان کو بھی مشکل میں ڈالا اور اُس کی کوئی پرواہ نہیں کی.اُن کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو تا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ بھی اُنہیں بے انتہا نو از تارہا.صحابہ کرام قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ انہیں اس حد تک اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا شوق تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے کہ کس طرح نیکیاں کریں.بعض اس حد تک سوال پوچھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا کہ شریعت نازل ہو رہی ہے تم سوال نہ کرو.کیونکہ اگر بعض تمہارے سوالات پر تمہیں احکامات مل جائیں تو تمہیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ رَسُوفُ بِالْعِبَادِ ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے.اپنی خاص رحمت کی نظر رکھتا ہے جو بندے کو تکلیف سے بچاتی ہے، اُس بندے کو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر تکلیف کو اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، اُس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اُس پر خاص شفقت فرماتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق جوڑنے والے بھی اپنے ماحول میں خدا تعالیٰ کی صفات کے پر تو بنتے ہیں.ان تمام احکامات کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھی شفقت کا سلوک کرتے ہیں.اُن کے حق ادا کرتے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 536 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28اکتوبر 2011ء پس یہ وہ حقیقی اسلام ہے جو بندے کا خدا سے تعلق جوڑ کر پھر حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے.اور یہی حقیقی اسلام صحابہ نے پایا اور سیکھا اور عمل کر کے دکھایا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں سکھانے آئے ہیں، ہمیں بتانے آئے ہیں، ہمیں ان راستوں پر چلانے آئے ہیں.پس اس کے لئے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اس وقت اس سلسلے میں میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کروں گا جو ہمیں اپنے جائزوں کی طرف اپنی حالتوں کی طرف توجہ دلانے والے ہیں.سب سے پہلے تو میں نے جو اقتباس لیا ہے اس میں آپ نے اس زمانے کا نقشہ کھینچا ہے اور پھر بتایا کہ جماعت کو کیسا ہونا چاہیے ؟ آپ عام علماء کے بارے میں جو اس زمانے کے علماء ہیں جنہوں نے آپ کو نہیں مانا فرماتے ہیں کہ : میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہو رہی ہے لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف: 03) " قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ علماء کی آجکل یہی حالت ہے کہ تم وہ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں فرمایا کہ یہ اس کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں اور قرآنِ شریف پر بلفتن ایمان رہ گیا ہے؛ ورنہ قرآن شریف کی حکومت سے لوگ بکلی نکلے ہوئے ہیں.احادیث سے پایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا تھا کہ قرآنِ شریف آسمان پر اُٹھ جائے گا.میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ وہی وقت آگیا ہے.حقیقی طہارت اور تقویٰ جو قرآن شریف پر عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے آج کہاں ہے ؟ اگر ایسی حالت نہ ہو گئی ہوتی تو خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو کیوں قائم کرتا.ہمارے مخالف اس بات کو نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ دیکھ لیں گے کہ آخر ہماری سچائی روز روشن کی طرح کھل جائے گی“.فرماتے ہیں ” خدا تعالیٰ خود ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو قرآنِ شریف کی ماننے والی ہو گی“.(اب یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے جماعت پر ڈالی ہے.آپ نے توقع رکھی ہے کہ قرآنِ کریم کی ماننے والی ہو گی.قرآنِ کریم کو مانا صرف ایک کتاب کو ماننا نہیں بلکہ اُس کے احکامات پر عمل کرنا ہے) فرمایا: ”ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی ( ہمیں اپنے یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک قسم کی ملونی جو دنیاوی ملونی ہے اس میں سے نکال دی جائے.) ” اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوے گا اور وہ یہی جماعت ہے.اس لیے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہو جاؤ اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو جو صحابہ کرام نے کی تھی.ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ٹھو کر کھاوے“.(ہر احمدی کو نمونہ ہونا چاہئے) فرمایا: ”ہاں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ افتراء اور کذب کے سلسلہ سے الگ ہو جاوے.پس تم دیکھو اور منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو دیکھو“.(جو سلسلہ نبوت کے طریق پر چل رہا ہے.جو نبوت چلانا چاہتی ہے اُس پر چلو) ”یہ میں جانتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور زمین پر بارش ہوتی ہے تو جہاں مفید اور نفع رساں بوٹیاں اور پودے پیدا ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی زہریلی بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں“.(اس بارے میں آپ نے بتایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوں گے جو غلط قسم کے دعوے کرنے والے ہوں گے.بہر حال پھر آپ فرماتے ہیں ) پس ہر
خطبات مسرور جلد نهم 537 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اکتوبر 2011ء شخص کا فرض ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ سے کشور کار کے لیے دعا کرے“ (کہ جو کام ہیں وہ پورے ہوں.جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں وہ پورے ہوں )”اور دعاؤں میں لگارہے.ہمارے سلسلہ کی بنیاد نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر ہے.پھر اس سلسلہ کی تائید اور تصدیق کے لیے اللہ تعالی نے آیاتِ ارضیہ اور سماویہ کی ایک خاتم ہم کو دی ہے“.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کے جو زمینی اور آسمانی نشانات ہیں وہ دیئے ہیں اور ایک ایسی مہر دی ہے جو تمام لوگوں پر آپ کی صداقت کی حجت ہے) فرمایا ” یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسے ایک مہر دی جاتی ہے اور وہ مہر محمد کی مہر ہے جس کو ناعاقبت اندیش مخالفوں نے نہیں سمجھا“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 468،467 مطبوعہ ربوہ) اب اس زمانے میں اللہ تعالی کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی آئے گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آئے گا اور وہ آپ کی ہی مہر ہے جس کے تحت وہ کام کرے گا لیکن لوگ نہیں سمجھتے.لیکن فرمایا تم اپنے نمونے قائم کرو تا کہ دنیا سمجھے کہ یہ سلسلہ قائم ہوا ہے جو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق جوڑنے والا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : ”اے میری جماعت !خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کے لئے ایسا طیار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طیار کئے گئے تھے.خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے.لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بد قسمت ہے وہ جس کا تمام ہم و غم دنیا کے لئے ہے.ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63) پھر ہماری اصلاح اور استقامت کے لئے صحیح طریق بتاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے.نہ علمی ، نہ خاندانی، نہ مالی“.( اس قسم کے تکبر جو ہیں یہ عموماً انسانوں میں پائے جاتے ہیں.کسی کو علم کا فخر ہے.کسی کو اپنے خاندان کا، کسی کو مال کا.فرمایا کسی قسم کا تکبر نہ کرے) ”جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے.آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 213.مطبوعہ ربوہ) تو دور کر دے“.
خطبات مسرور جلد نهم 538 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28اکتوبر 2011ء پس ہر قسم کی جو عنایات ہیں اللہ تعالیٰ کی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں.اللہ تعالیٰ چاہے تو قائم رکھتا ہے، چاہے تو ختم کر دیتا ہے تو پھر تکبر کس بات کا؟ نہ کسی کو اپنے تقویٰ پر زعم ہونا چاہئے ، نہ اپنی ایمانی حالت پر نہ اپنی عبادتوں اور دعاؤں پر زعم ہو ، نہ اپنی پاکیزگی پر زعم ہو ، اسی طرح جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے نہ ہی دنیاوی معاملات میں.ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف ہمیشہ جھکے رہنا چاہئے.فرمایا: ” پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئے محض سمجھے “ (یعنی اس کے نفس کی کوئی ہستی ہی نہیں ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں ہے) اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے.اور اس نورِ معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے“ ( دل کھل جائے.دعاؤں کی قبولیت کا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے کھلنے کا شرح صد ر حاصل ہو جائے) تو اس پر تکبر اور نازنہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو“.(جب اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلیں اور اس کو احساس ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل مجھ پر نازل ہو رہے ہیں تو مزید عاجزی پیدا ہو) کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لائی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خد اتعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے.پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے“.(جب تکبر پیدا ہو جائے تو دوسرے کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتا ).( ملفوظات جلد چہارم صفحه 213 مطبوعہ ربوہ ) پس جیسا کہ میں نے کہا ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے اس عمدہ طریق پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”اے سعادتمند لو گو تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے.تم خدا کو واحد لاشریک سمجھو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو.نہ آسمان میں سے ، نہ زمین میں سے.خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں.سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور عضوں سے الگ ہو جاؤ“ ( یہ کینے اور غصے بھی انسان کو کھا جاتے ہیں.اُس کے اخلاق تباہ و برباد کر دیتے ہیں ) فرمایا: کینوں اور عصوں سے الگ ہو جاؤ.انسان کے نفس انارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے“.(تکبر سب سے بڑا گند اور گناہ ہے.اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کا فرنہ رہتا.سو تم دل کے مسکین بن جاؤ.عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو.جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو“.(اب ہمارے علماء
خطبات مسرور جلد نهم 539 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اکتوبر 2011ء بھی ہیں ، ہمارے داعیان بھی ہیں، اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ، بڑی بڑی خدمات کر رہے ہیں لیکن بعض دفعہ ایسے معاملات آتے ہیں جو جب ذاتیات پر آتے ہیں تو پھر بھول جاتے ہیں.پھر بعض دفعہ تکبر سامنے آ جاتا ہے.اپنی انائیں سامنے آجاتی ہیں.فرمایا کہ تم جو بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو) سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو جب اپنے معاملات آجائیں تو پھر وہاں خیر خواہی نہ ہو بلکہ بدخواہی سامنے آجائے) ”خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم اُن سے پوچھے جاؤ گے“(اللہ تعالیٰ نے جو فرائض عائد کئے ہیں اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا.اس کے لئے دل میں ایک خوف پیدا کرو.) فرمایا: ”نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے.ہر ایک بدی جو ڈور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دُور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اُس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63) آج کل ہر احمدی کو تو خاص طور پر یہ حالت اپنے اوپر طاری کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم زیادہ سے زیادہ سمیٹنے والے بنیں.فرمایا: ”اے میری عزیز جماعت ! یقینا سمجھو کہ زمانہ اپنے آخر کو پہنچ گیا ہے اور ایک صریح انقلاب نمودار ہو گیا ہے سو اپنی جانوں کو دھو کہ مت دو اور بہت جلد راستبازی میں کامل ہو جاؤ“.( یہ بہت اہم بات ہے.سچائی کو اختیار کرو.سچائی اللہ تعالیٰ کے تعلق میں ہے.عبادات میں خالص ہو کر عبادات کرنا ہے.حقوق العباد کی ادائیگی ہے.اللہ تعالیٰ کے دو ہی اہم حکم ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد، ان میں راستبازی اور سچائی ہونی چاہئے.جماعتی خدمات ہیں ، آپس کے تعلقات ہیں ، ان میں راستبازی اور سچائی ہونی چاہئے.) پھر فرمایا: ” قرآن کریم کو اپنا پیشوا پکڑو اور ہر ایک بات میں اس سے روشنی حاصل کرو.اور حدیثوں کو بھی رڈی کی طرح مت پھینکو کہ وہ بڑی کام کی ہیں اور بڑی محنت سے اُن کا ذخیرہ طیار ہوا ہے.لیکن جب قرآن کے قصوں سے حدیث کا کوئی قصہ مخالف ہو تو ایسی حدیث کو چھوڑ دو تا گمراہی میں نہ پڑو.قرآن شریف کو بڑی حفاظت سے خدا تعالیٰ نے تمہارے تک پہنچایا ہے سو تم اس پاک کلام کی قدر کرو.اس پر کسی چیز کو مقدم نہ سمجھو کہ تمام راست روی اور راست بازی اسی پر موقوف ہے“.(سچائی اور سچائی پر چلنا، عمل کرنا قرآن شریف کی تعلیم پر ہی موقوف ہے) کسی شخص کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اُسی حد تک مؤثر ہوتی ہیں جس حد تک اس شخص کی معرفت اور تقویٰ پر لوگوں کو یقین ہوتا ہے“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64) پس معرفت اور تقویٰ جب بڑھے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری باتوں کا اثر بھی ہو گا.
خطبات مسرور جلد نهم 540 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28اکتوبر 2011ء پھر اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ”یقینا سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولتمند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں.پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف“.( یعنی دنیا کی طرف نہ پڑو بلکہ دین کو دنیا پر مقدم کرو.آپ کے اپنے وقت میں جو جماعت کی حالت تھی اس کا ذکر فرمارہے ہیں حالانکہ اُس وقت لوگوں میں بڑی پاک تبدیلیاں پید اہو رہی تھیں.لیکن آپ فرماتے ہیں کہ اگر میں جماعت کی موجودہ حالت پر ہی نظر کروں تو مجھے بہت غم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی کمزور حالت ہے اور بہت سے مراحل باقی ہیں جو اس نے طے کرنے ہیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں جو اس نے مجھ سے کئے ہیں تو میرا غم امید سے بدل جاتا ہے.منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے جو فرمایا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (آل عمران : 56) “ اور اُن لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے اُن لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست کرنے والا ہوں.اگر اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ فکر تھی اور آپ نے اپنے ماننے والوں کو توجہ دلائی تو اب ایک زمانہ گزرنے کے بعد تو ہمیں اور بھی زیادہ اس کی فکر ہونی چاہئے کہ جوں جوں ہم دور جارہے ہیں ہماری حالتیں کہیں بگڑتی نہ جائیں.پس بہت غور کرنے کی ضرورت ہے ، بہت زیادہ جائزے لینے کی ضرورت ہے.فرمایا یہ تو بیچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا.جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہو سکتا.پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقش قدم پر چلے ، اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا“.( فرمایا:) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لیے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.اس سے مجھے تسلی ملتی ہے اور میرا غم امید سے بدل جاتا ہے“.فرماتے ہیں : ہر حال خد اتعالیٰ کے وعدوں پر میری نظر ہے اور وہ خدا ہی ہے جو میری تسکین اور تسلی کا باعث ہے.ایسی حالت میں کہ جماعت کمزور اور بہت کچھ تربیت کی محتاج ہے یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو اور اس کو مقدم کر لو اور اپنے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھو.ان کے نقش قدم پر چلو“.آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے بارے میں فرمایا کہ: ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 596 ،597.مطبوعہ ربوہ ) یاد رکھو اب جس کا اصول دنیا ہے اور پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دست بردار ہے.
541 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 128اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم یہ کوئی مت خیال کرے کہ میں ایسے خیال سے تباہ ہو جاؤں گا.یہ خداشناسی کی راہ سے دور لے جانے والا خیال ہے.خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اس کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کریم ہے جو شخص اس کی راہ میں کچھ کھوتا ہے وہی کچھ پاتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کو پیار کرتا ہے اور انہیں کی اولا د بابرکت ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے.اور یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرماں بردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے.دنیا ان لوگوں ہی کی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہر امر کی طناب اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا.کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور کسی قسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آسکتی.دولت ہو سکتی ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ بیوی یا بچوں کے ضرور کام آئے گی.ان باتوں پر غور کرو اور اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرو“.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 595.مطبوعہ ربوہ ) جماعت کو خاص نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یا درکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے وَيُطْعِمُونَ الطَعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمَا وَ اسیرا (الدھر: 9) (اور وہ کھانے کو اُس کی چاہت ہوتے ہوئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیر وں کو کھلاتے ہیں.) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے.اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی“.آپ نے جب یہ بیان کیا تو اس وقت آپ کی طبیعت خراب تھی.فرمایا جب مجھے صحت ہو جاوے تو میں ایک کتاب لکھوں گا جو اخلاق کے بارے میں ہو گی.بہر حال پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ ”میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میر امنشاء ہے وہ ظاہر ہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لیے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اللہ کی را ہیں اس میں دکھائی جائیں.مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ.میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی.میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اُٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا.اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر ، مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 219.مطبوعہ ربوہ ) بعض لحاظ سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور توجہ سے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا، آپ نے اپنے صحابہ کے پاک نمونے دیکھے اور اس زمانے میں بھی خدا تعالیٰ پورا فرمارہا ہے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض لحاظ سے بالغ ہو چکی ہے لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ بعض برائیاں بھی جڑ پکڑ رہی ہیں.تکبر، نفس کی انائیں وغیرہ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے بعض جگہ بہت
542 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28اکتوبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم زیادہ نظر آنے لگی گئی ہیں.ایک دوسرے کے خلاف مقدمات ، لڑائیاں، رنجشیں بہت زیادہ بڑھ رہی ہیں.اس طرف ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے.پس اگر ہم نے آپ کی حقیقی جماعت میں ہونے کا حقدار کہلانا ہے تو ہمیں اپنی حالتوں کی طرف ہر لمحہ اور ہر آن نظر رکھنی ہو گی.ہمارا علم کس کام کا ہے اگر موقع پر وہ ہمارے اخلاق کو ظاہر نہیں کرتا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم تبلیغ کرتے ہو ، دوسروں کو نصیحت کرتے ہو لیکن جب موقع آئے تو تمہارے سے وہ ظاہر نہیں ہوتا، تمہاری اپنی حالتوں پر اُس کا اظہار نہیں ہو رہا ہو تا.پس علم وہی کام کا ہے جس کا سایہ ہمارے اوپر بھی نظر آتا ہو.جب تک ہمارے آپس کے تعلقات کا اظہار ہمارے اندر اور باہر کو ایک کر کے نہیں دکھاتا اُس وقت تک ہمارا علم بے فائدہ ہے.آج کے دور میں جبکہ جماعت کے خلاف مخالفت بھی شدت کو پہنچی ہوئی ہے ہمیں ہر سطح پر اپنی ذاتی خواہشوں اور اناؤں کو پس پشت ڈال کر ایک ہونے کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو صحابہ کے نمونے پر چلانا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.گزشتہ جمعہ ، خطبہ ثانیہ کے دوران میری ذرا لمبی کھانسی کی وجہ سے بعض لوگوں کو پریشانی بھی ہوئی تھی.عرب ملکوں سے بھی بعض اور جگہوں سے بھی بڑی فیکسیں اور خط بھی آئے کہ ہم انتظار نہیں کر سکتے.اور اس کے ساتھ نسخے بھی اتنی بڑی تعداد میں آئے ہیں کہ اگر میں اُن کو استعمال کرنا شروع کر دوں تو شاید مزید بیمار ہو جاؤں.بہر حال لوگوں نے اپنی طرف سے نیک جذبات کا اظہار کیا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے.اور یہ جو وبائی بیماریاں ہوتی ہیں اپنا وقت تو لیتی ہی ہیں.علاج میں اپنے طور پر ہو میو پیتھی کا کرتا ہوں.باقی ڈاکٹروں کی مدد سے بھی کچھ نہ کچھ کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.بس دعاؤں میں یاد رکھیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 18 نومبر تا 24 نومبر 2011ء جلد 18 شماره 46 صفحہ 5تا7)
خطبات مسرور جلد نهم 543 44 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 04 نومبر 2011ء بمطابق 04 نبوت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچاوے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآنِ کریم لایا ہے اور دار النجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ (حجۃ الاسلام روحانی خزائن.جلد 6 صفحہ 53،52) رَّسُولُ اللہ ہے“.پس اس زمانے میں جس جری اللہ نے قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا تھا، قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا کے ہر باشندے کو اُس کی زبان میں پہنچانا تھا وہ یہی عاشق قرآن اور غلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہے.آپ ہی وہ اللہ کے پہلوان ہیں جنہوں نے لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کا جھنڈا دنیا میں لہرا کر بھٹکی ہوئی انسانیت کو نجات کے راستے دکھانے تھے.آپ کا روحانی معارف سے پر لٹریچر اور کتب اور آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ نے اُس کام کا جو آپ کے سپر د کیا گیا تھا، حق ادا کر دیا.اُس زمانے میں جبکہ آپ کے پاس دنیاوی وسائل نہیں تھے ، معمولی حد تک بھی نہیں تھے، اتنا بڑا کام کرنا یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فرستادوں کو کامل تو کل کیونکہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے.اس لئے آپ نے اپنے سپر د کئے گئے اس کام کے لئے کسی دنیاوی وسیلے پر انحصار نہیں کیا بلکہ حسب ضرورت خدا سے مانگا اور اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپ کی مدد فرمائی.گو دنیاوی تدبیر کے لئے، جسے کرنے کا حکم بھی خدا تعالیٰ نے دیا ہے، آپ نے اپنے قریبوں اور اپنے متبعین کو مختلف موقعوں پر قربانیوں کی تحریک کی جس میں مالی قربانیاں بھی تھیں، لیکن کبھی کسی پر بھروسہ نہیں کیا.جیسا کہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں اور انبیاء کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ اپنے سپر د کئے گئے کاموں کے لئے قربانیوں کی تحریکات بھی کرتے ہیں، آپ نے بھی تحریک کی لیکن ہمیشہ یہی فرمایا کہ میر اتو کل میرے خدا پر ہے جس نے اس عظیم کام کی، جو میرے سپر دہے ، تکمیل کے لئے میرے سے وعدہ کیا ہوا ہے.پس ایک ایسے شخص کا جو بر صغیر کے ایک دور دراز علاقے کے چھوٹے سے قصبے میں
544 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم رہنے والا تھا، یہ اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں تھا کہ خدا نے میرے سپر د قرآنِ کریم کی تعلیم کو پھیلانے اور لا الہ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کی عظمت دلوں میں بٹھانے کا کام کیا ہے.اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ پیغام اُس بستی سے نکل کر نہ صرف ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں اور ہر کونے میں پھیلا بلکہ یورپ اور امریکہ تک پہنچ گیا.اسلام کی عظمت دلوں میں قائم ہونے لگی.بڑے بڑے پادری یا دوسرے مذاہب کے لیڈر جو اسلام مخالف تھے اور جو اپنے زعم میں طاقتور اور دولتمند تھے، آپ کے مقابلے پر اور آپ کے راستے میں جب آئے تو یا تو ذلیل ورسوا ہوئے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے انہیں تباہ و برباد کر دیا اور مخالفین اسلام کی ذلت و رسوائی کے یہ نظارے نہ صرف بر صغیر پاک و ہند کی زمین نے دیکھے بلکہ یورپ اور امریکہ نے بھی دیکھے.لیکن افسوس ہے اُن مسلمان علماء اور پیروں پر جن کی آنکھیں یہ نظارے دیکھ کر بھی نہ کھلیں بلکہ مخالفت میں اور بھی سر گرم ہوئے.لیکن خدائی تقدیر کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اپنوں اور غیروں کی یہ مخالفتیں اور دشمنیاں تو وہ کام کرتی رہیں اور اب تک کر رہی ہیں جو فصلوں اور درختوں کے لئے کھاد اور پانی کرتے ہیں.آج تک ہم یہ نظارے دیکھ رہے ہیں کہ جب بھی جماعت کو کسی بھی جگہ کسی بھی طریق سے دبانے کی کوشش کی گئی تو اس جری اللہ کی جماعت ایک نئی شان سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنے ہوئے ترقی کی نئی منزلیں دکھانے والی بنی.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہمیشہ اس لئے جماعت کے شامل حال ہے کہ جماعت نے اُس مقصد کو پیش نظر رکھا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.افراد جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھا جو آپ نے رسالہ الوصیت میں فرمایا ہے کہ: خد اتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خد اتعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے“.( الوصیت.روحانی خزائن جلد 20.صفحہ 307،306) پس دنیا کو دین واحد پر جمع کر کے توحید پر قائم کرنا، قرآن کریم کی حکومت دنیا میں قائم کرنا، اس کی تعلیم کو پھیلانا اور نیک فطرتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا، یہ وہ وسیع اور عظیم کام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بعد جماعت کے سپرد فرمایا.مگر یہ کام اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیوں، قربانیوں اور دعاؤں کے بغیر نہیں ہو سکتا.اور جب تک ہم اس کے لئے کوشش کرتے رہیں گے ہم یہ ترقیاں دیکھتے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کی ہیں.آج تک جماعت کی یہی خوبصورتی اور شان ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرتے ہوئے جماعت من حیث الجماعت آگے بڑھتی چلی جارہی ہے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کر رہی ہے، اس کے لئے قربانیاں دیتی چلی جارہی ہے.اگر اس مقصد کے حصول کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ رہی تو انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم ترقی کے نظارے دیکھتے چلے جائیں گے.جب بھی جماعت کو اس مقصد کے حصول کے لئے توجہ دلائی گئی ، جماعت
خطبات مسرور جلد نهم 545 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 04 نومبر 2011ء نے ہمیشہ اللہ تعالی کے فضل سے لبیک کہا اور پہلے سے بڑھ کر جماعت اور اسلام کی ترقی کے لئے دعاؤں میں مشغول ہو گئے ، باقی قربانیوں میں لگ گئے.گزشتہ دنوں جب میں نے نفلی روزوں اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تو جو خطوط مجھے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ بے انتہا شوق سے جماعت نے اس طرف توجہ دی اور لبیک کہا ہے اور ہر ایک دعاؤں میں مصروف ہے.جن کو نہیں بھی کہا تھاوہ بھی دعاؤں میں مشغول ہیں.صرف پاکستانی نہیں بلکہ افریقہ کے لوگ بھی، یورپ کے لوگ بھی، امریکہ کے لوگ بھی، جو پاکستانی قومیت نہیں رکھتے انہوں نے بھی دعاؤں کی طرف توجہ دی اور اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے اور ہر اُس احمدی کے لئے جو کسی بھی طرح، کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہے یا تکالیف میں مبتلا کیا جارہا ہے ، اُس کے لئے دعاؤں میں مشغول ہو گئے.اگر مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی تو مالی قربانیوں میں بڑھ گئے اور ایسے ایسے نمونے دکھائے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح دین کی خاطر قربانیوں میں یہ لوگ بڑھ رہے ہیں.فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے لٹریچر ، کتب کی اشاعت بڑی ضروری ہے.مبلغین کا انتظام ہے، مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے اور دوسرے ذرائع جو آجکل کے تیز زمانے میں میڈیا میں ایجاد ہوئے ہیں ان سب کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.آجکل صرف ایم ٹی اے ہی ایک وسیع تبلیغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے جس میں اس وقت چار مختلف سیٹلائٹس سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہے جس سے اب دنیا کا کوئی کو نہ ایسا نہیں کہ جہاں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام نہ پہنچ رہا ہو اور پھر سات آٹھ بڑی زبانوں میں یہ پیغام پہنچ رہا ہے.پس یہ تبلیغ کا، اسلام کا پیغام پہنچانے کا، اُس مقصد کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے.اور اس کے لئے مالی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے جو جماعت ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر کرتی ہے.آج میں حسب روایت تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کروں گا.جب یہ تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے شروع فرمائی تھی اس وقت مخالفین احمدیت نے اس پیغام کو دنیا سے مٹانے کا اعلان کیا تھا جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے جب اُس کے جواب میں دنیا کے کونے کونے میں اس پیغام کو پہنچانے کے لئے مالی تحریک کی تو ایک والہانہ لبیک کا نظارہ دنیا نے دیکھا اور آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے دوسو ممالک میں موجود ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف ایم ٹی اے کے ذریعے ہی ایک انقلاب دنیا میں آرہا ہے.پس خلافت کے سائے تلے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا آپ کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے جماعت قربانیاں دے رہی ہے.کاش کہ وہ مسلمان جو حب پیغمبری کا دعویٰ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کو سمجھیں اور توحید کے قیام، قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے اس جری اللہ کے ساتھ جڑ کر کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور پھر دیکھیں کہ اُن کی کھوئی ہوئی ساکھ کس طرح دوبارہ بحال ہوتی ہے.پھر دیکھیں کہ بڑی بڑی طاقتیں کس طرح اُن کی عزت و احترام کرتی ہیں.پھر دیکھیں کہ کسی بد بخت کارٹونسٹ اور رسالے کے ایڈیٹر یا کوئی
خطبات مسرور جلد نهم 546 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 04 نومبر 2011ء بھی ہو اس کو کبھی جرات نہیں ہو گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی بھی قسم کی بیہودگی کا اظہار کرے.چند دن ہوئے فرانس میں ایک رسالے نے پھر ایک خبیثانہ حرکت کی ہے جس سے ہمارے دل زخمی ہیں.فرانس کی جماعت کو تو میں نے کہا ہے کہ اس کے خلاف قانون کے اندر رہتے ہوئے احتجاج بھی کریں.ان لوگوں کو سمجھائیں بھی اور پبلک کو بھی ہوشیار کریں کہ اس قسم کی حرکتوں سے خدا تعالی کی گرفت اور پکڑ بھی آتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی گرفت اور پکڑ سے بچو.آجکل دنیا تو ویسے ہی تباہی کی طرف جارہی ہے، کہیں آفات ہیں اور کہیں معاشی تباہی بڑھ رہی ہے.اس کی وجوہات یہی ہیں کہ خدا کو بھول گئے ہیں، اُس کے پیاروں کے متعلق گھٹیا اور اوچھی باتیں کی جاتی ہیں، تضحیک کی جاتی ہے.خدا کی غیرت کو یہ لوگ للکار رہے ہیں.پس دنیا کو خدا کا خوف دلانے کی ضرورت ہے.آج احمدی تو یہ کام کر ہی رہے ہیں لیکن اگر تمام مسلمان بھی اب اس حقیقت کو سمجھ جائیں تو جہاں اپنی دنیا و عاقبت سنواریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے بھی مورد بنیں گے، وارث بنیں گے.کاش ان کو عقل آجائے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا جب مسلمانوں کا ایک گروہ احمدیت کو ختم کرنے کے بلند بانگ دعوے کر رہا تھا تو حضرت مصلح موعودؓ نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایک تحریک کا اعلان کیا.اس پر احباب جماعت نے ، بچوں، عورتوں ، مردوں نے لبیک کہا اور لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کی مثالیں قائم کیں اور ان قربانیوں کے نتیجے میں آج ہم دنیا میں تحریک جدید کے پھل لگے ہوئے دیکھ رہے ہیں.بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے پھل دار درخت بلکہ پھلوں سے لدے ہوئے درخت لگے ہوئے دیکھ رہے ہیں.جہاں مختلف لازمی چندوں اور دوسری تحریکات میں جماعت کے افراد قربانی کر رہے ہیں وہاں تحریک جدید میں بھی غیر معمولی قربانیاں ہیں.آجکل جبکہ دنیا مالی بحران کا شکار ہے تو یہ قربانیاں جو احمدی کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز کر دیتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ جماعت کا اخلاص و محبت اور جوش ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 605 مطبوعہ ربوہ) مالی بحران کے ضمن میں یہ بھی ضمناً کہوں گا کہ ابھی پتہ نہیں کہ کہاں جا کر اس نے ٹھہر نا ہے اور کس حد تک اس میں شدت آنی ہے.اس لئے احمدیوں کو گھروں میں ہر وقت کچھ دنوں کی جنس ضرور رکھنی چاہئے.غریب ملکوں کو تو ایسے حالات برداشت کرنے کی عادت ہے اور کچھ نہ کچھ انہوں نے رکھا بھی ہوتا ہے لیکن ان ملکوں میں عادت نہیں ہے.اس لئے پتہ ہی نہیں کہ بحران کیا ہوتے ہیں.ان لوگوں نے تو آخری بحران دوسری جنگ عظیم میں ہی دیکھا تھا اس کے بعد پھر نہیں دیکھا.اس لئے ان کی نئی نسل کو تو کوئی احساس ہی نہیں کہ کیا ہو سکتا ہے ؟ لیکن کسی panic کی ضرورت نہیں ہے.احتیاط کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے احمدیوں کو جس حد تک ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ خشک راشن ضرور گھروں میں رکھنا چاہئے.بہر حال یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں اور خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائیں، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.
خطبات مسرور جلد نهم 547 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء اب میں واپس جماعت کے اخلاص و وفا کے اظہار کی طرف آتے ہوئے ان کی مالی قربانیوں کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح دنیا کے ہر کونے میں مختلف قسم کی مالی قربانیوں میں احباب جماعت کس اخلاص و وفا کا اظہار کر رہے ہیں.ایمان میں ترقی کے لئے کس طرح اپنی قربانیوں کے لئے کمر بستہ ہیں.جو لوگ جماعت کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے وہ تو آج کہیں نظر نہیں آتے ، اُن کے چیلے چانٹے اور اُن کی فطرت رکھنے والے ہی یہ دیکھ لیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اسلام کی ترقی کے لئے لوگ غربت کے باوجود قربانیاں دے رہے ہیں اور اخلاص و وفا کے نمونے دکھارہے ہیں.ہمارے آئیوری کوسٹ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست آئیڈو وڈراگو صاحب (Alido Oudrago) نے 2009ء کے آخر میں بیعت کی اور بیعت کے پہلے دن سے ہی اپنی آمدنی کا حساب کر کے باقاعدہ شرح کے مطابق چندہ ادا کرنا شروع کر دیا.اس دوران انہوں نے چندے کی بے شمار برکات کا مشاہدہ کیا.ایک دن جماعت کے پرانے ممبران کے ساتھ ان برکات کا ذکر کر رہے تھے.ان پرانے ممبران میں سے ایک جس نے 2004ء میں بیعت کی تھی، ان واقعات کو سنتے ہوئے اپنا چندہ دو ہزار فرانک سے بڑھا کر پانچ ہزار فرانک سیفا کرنے کی حامی بھر لی.کہتے ہیں کہ ابھی ادائیگی شروع نہ کی تھی کہ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ان کی آمدنی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے.چنانچہ وہ پرانے ممبر میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کر کے کہا کہ انہوں نے پانچ ہزار فرانک سیفا کی حامی بھری تھی مگر آج سے میں پانچ کی بجائے دس ہزار فرانک سیف ماہانہ ادا کروں گا اور پھر اس کے مطابق ادا ئیگی بھی شروع کر دی.اور اس طرح بے تحاشہ اور ممبران ہیں جو چندوں میں آگے بڑھ رہے ہیں.گئی کنا کری کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان محترم محمد ماریگا صاحب (Muhammad Marega) لمبا عرصہ تبلیغ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں داخل ہوئے.پیشے کے اعتبار سے یہ ایک آرکیٹکٹ انجنیئر ہیں.جب انہوں نے بیعت کی تو یہ کنسٹرکشن کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور معمولی تنخواہ لیتے تھے.بیعت کے بعد جب ان کو جماعت کے مالی نظام کا تعارف کروایا تو انہوں نے پوچھا کہ ان چندوں میں سب سے اہم چندہ کونسا ہے.انہیں بتایا گیا کہ چندہ وصیت، چندہ عام اور چندہ جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے جاری کردہ ہیں اور وصیت کی اہمیت کے متعلق انہیں بتایا.فوراً کہنے لگے کہ میں آج سے ہی چندہ وصیت ادا کروں گا.مبلغ نے انہیں بتایا کہ وصیت کا ایک نظام ہے اُس میں داخل ہونے کے بعد آپ چندہ وصیت ادا کر سکتے ہیں.تو کہنے لگے میں اس نظام میں بھی داخل ہوتا ہوں.پھر انہوں نے رسالہ الوصیت پڑھا اور اُس کے بعد وصیت کی اور بڑی ایمانداری سے اپنی تنخواہ کا دسواں حصہ چندہ دینا شروع کیا اور وصیت کی منظوری میں کچھ وقت لگتا ہے تو اس وقت کے آنے تک مسلسل باقاعدگی سے وصیت دیتے رہے، اور پھر کچھ عرصے بعد اس کے علاوہ دوسری مالی تحریکات جو ہیں اُن میں بھی انہوں نے حصہ لیا.پھر کچھ عرصے بعد کمپنی چھوڑ دی اور اپنا کاروبار شروع کیا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی کمپنی کے مالک ہیں اور سارے ملک میں اپنی ایمانداری کی وجہ سے مشہور ہیں اور اُس کی
خطبات مسرور جلد نهم 548 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء وجہ سے اُن کا کاروبار بھی بڑا چھکا ہے اور سب کے سامنے بیٹھ کر بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ یہ نعمتیں مجھے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے اور نظام وصیت میں شامل ہونے سے ملی ہیں.پھر گھانا سے ہمارے مبلغ جبرئیل سعید صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست الحاج محمد اگبو بے میرے ساتھ تبلیغی دورے پر ٹو گو گئے، وہاں ایک جگہ ناجونگ (Najong) میں ہم نے دھوپ میں کھڑے ہو کر نماز ظہر ادا کی.الحاج محمد اگبو بے نے کہا ان لوگوں کے لئے مسجد بنانا ان کا حق ہے.بالکل چھوٹی سی نئی جماعت ہے ، چھوٹا گاؤں ہے.چنانچہ انہوں نے بڑی مالی قربانی کرتے ہوئے ایک خوبصورت مسجد اُن کے لئے بنوا دی.یہ الحاج صاحب اچھے امیر آدمی ہیں اور اس مسجد میں تین سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں، اب اس مسجد کے مینار بھی بن رہے ہیں.اور چونکہ یہ جگہ بہت دور دراز علاقے میں ہے، سامان پہنچانا مشکل ہے لیکن پھر بھی یہ الحاج صاحب خود بڑی تکلیف سے اور خرچ کر کے یہ سامان جو تعمیر کا سامان ہے وہاں پہنچار ہے ہیں.آئیوری کوسٹ کی صدر لجنہ کہتی ہیں کہ اس سال مجلس شوریٰ میں جماعت آئیوری کوسٹ کی پچاس سالہ جوبلی کے موقع پر مرکزی مسجد کی تعمیر کے لئے چندے کی تحریک کی گئی تو لجنہ ممبرات نے اُسی وقت ایک ایک لاکھ فرانک سیفا کا وعدہ لکھوا دیا اور کہتی ہیں کہ ہماری سیکرٹری تحریک جدید جو ایک مخلص احمدی ہیں انہوں نے ایک لاکھ فرانک سیفا کی فوری ادائیگی بھی کر دی.اُن لوگوں کے لئے یہ بہت بڑی رقم ہے.گو ویسے تو ان کی کرنسی میں گو ایک لاکھ ہیں لیکن صرف ایک سو پینتیس پاؤنڈ بنتے ہیں ، لیکن افریقہ کے لئے بہت بڑی رقم ہے کیونکہ اس خاتون کی چھوٹی سی سبزی کی ایک دکان تھی اور بڑی عیالدار خاتون ہیں.برکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بادلہ (Badala) نامی جماعت کے ایک دوست وا تار اعبد الحئی صاحب نے ہمارے مشنری کی ایک تقریر سن کر عہد کیا کہ بیشک میں غریب ہوں اور سوائے اناج کے یعنی زمیندارہ کے اور کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں لیکن عہد یہی ہے کہ اب ہر ماہ سو فرانک چندہ دیا کروں گا.ابھی اس بات کو کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ بارشوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اور سارے لوگ اس کی وجہ سے پریشان ہونے لگے.لیکن یہ کہتے ہیں کہ جو بات سب نے میرے ساتھ مشاہدہ کی وہ میری فصل تھی جو اللہ کے فضل سے بہت اچھی تھی.اس بات نے میرا ایمان چندوں کے بارے میں اور بڑھا دیا اور میں نے عہد کیا کہ اب میں چھ ہزار فرانک سیفا تحریک جدید میں دوں گا.اس عہد پر بھی ابھی کچھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ فصل کی کٹائی کی باری آگئی اور میری فصل کی پیداوار سب سے الگ اور زیادہ تھی.اس پر میں نے سوچا کہ جو بھی غیر معمولی فصل ہوئی ہے وہ چندے کی برکت سے ہوئی ہے تو میں نے اپنے تحریک جدید کے چندے کو بڑھا کر بارہ ہزار فرانک کر دیا.برکینا فاسو کے امیر صاحب ہی لکھتے ہیں کہ سوری (Souri) نامی گاؤں کے ایک احمدی بزرگ کا بورے (Kabore) صاحب خاندان میں اکیلے احمد کی ہیں.وہ خود بتاتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے سے اپنی ضعیف العمری اور مختلف عوارض کی وجہ سے وہ نمازوں کی ادائیگی میں کمزور تھے اور اس بات کا ہر لمحہ اُنہیں رنج تھا.اس سال
549 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم انہوں نے بیعت کے بعد ستر ہزار فرانک سیفا چندوں میں ادا کر دیا.کہتے ہیں کہ چندہ ادا کرنے کی دیر تھی کہ عرصے سے بگڑی صحت واپس آنے لگی.نمازوں کی کھوئی توفیق واپس آنے لگی.یہاں تک کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری نمازیں مع تہجد ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور میری مالی قربانی کی برکت سے ہوا ہے کہ چندوں نے نمازوں کی بھی توفیق عطا کی.امیر صاحب آسٹریلیا کہتے ہیں کہ نومبر 2010ء میں جب تحریک جدید کے لئے نئے سال کا اعلان ہوا تو میں نے جو اُن کو ہدایت کی تھی اُس کی روشنی میں آسٹریلیا میں شعبہ تحریک جدید کی طرف سے تمام جماعتوں کو تحریک جدید کی مالی قربانی میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی گئی.جماعت احمد یہ ملبورن نے وعدہ کیا کہ انشاء اللہ ہم دو گنا کر دیں گے.چنانچہ انہوں نے بہت محنت کی اور محض اللہ کے فضل سے پچھلے سال سے ایک سو چونسٹھ فیصد اضافہ کرتے ہوئے اپنا چندہ پیش کیا.جماعت احمد یہ کینیڈا نے پچھلے سال سے پچہتر فیصد اضافہ کرتے ہوئے اپنا چندہ پیش کیا.اسی طرح اجتماعی قربانی میں بھی جماعتیں غیر معمولی طور پر آگے بڑھ رہی ہیں.ہمارے انسپکٹر تحریک جدید انڈیا لکھتے ہیں کہ فروری میں خاکسار وکیل المال صاحب کے ساتھ صوبہ تامل ناڈو کے دورے پر تھا.ہم لوگ جماعت احمدیہ کو ئمبٹور پہنچے.بعد نماز مغرب ایک تربیتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں وکیل المال صاحب نے تحریک جدید کے اغراض و مقاصد اور پس منظر کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی.اجلاس کے بعد مسجد میں موجود تمام احباب جماعت سے نئے سال کے وعدے لئے گئے.ایک مخلص دوست کا سابقہ وعدہ ہیں ہزار روپیہ تھا.اُن کی مالی حالت اچھی تھی.عموماً کیرالہ کے علاقے میں امیر لوگ ہیں.وکیل المال صاحب نے موصوف کو سالِ نو کے لئے ایک لاکھ روپیہ وعدہ لکھوانے کی تحریک کی.پہلے تو موصوف نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا، پھر اس قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے.اُس وقت ان کے ساتھ ان کی دو واقفات نو بچیاں بھی موجود تھیں.انسپکٹر کہتے ہیں کہ مسجد سے نکل کر سیکر ٹری صاحب تحریک جدید کے گھر جاتے ہی اُن کو ان صاحب کا فون آیا، جنہوں نے ایک لاکھ وعدہ کیا تھا کہ میری بڑی بیٹی کہہ رہی ہے ، واقفات تو بچیاں جو ساتھ تھیں، کہ ابا جان آپ نے جو تحریک جدید کا وعدہ لکھوایا ہے وہ ہمارے لئے کم ہے.اس کو اور بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ روپے کر دیں.اس لئے میر اوعدہ ڈیڑھ لاکھ لکھ لو.پھر تحریک جدید کے نمائندے نے جب کشمیر کا دورہ کیا ( جو انڈیا کا کشمیر ہے).تو کہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ آسنور کے ایک معمر مخلص دوست سے ملاقات ہوئی.موصوف کی گزر بسر اور علاج معالجہ کا انحصار محدود سرکاری پنشن پر تھا.گزشتہ دنوں دوائیوں کا خرچ پنشن سے بھی زیادہ ہو گیا تھا.موصوف کے حالات کو دیکھتے ہوئے مناسب نہیں تھا کہ ہم اُن کے بجٹ میں اضافہ کرتے مگر دعا کے بعد جب ہم اُن سے رخصت ہونے لگے تو موصوف نے فرمایا آپ اپنے آنے کا مقصد تو بتائیں.تو یہ نمائندہ کہتے ہیں کہ خاکسار نے انہیں بسلسلہ اضافہ چندہ تحریک جدید اُن کو جو ہدایت گئی تھی اس سے آگاہ کیا تو موصوف یکلخت تازہ دم ہو کر کہنے لگے کہ جبتک میں زندہ ہوں خلیفہ المسیح کے فرمان پر لبیک کہتا رہوں گا.یہ کہتے ہی اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا کہ جب خدا نے میرا
خطبات مسرور جلد نهم 550 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 04 نومبر 2011ء دنیاوی ادویات کا بجٹ بڑھا دیا ہے تو میں آخرت کے بجٹ میں کیوں کمی کروں.چنانچہ ان کے ارشاد کی تعمیل میں موصوف نے نہ صرف بجٹ میں اضافہ کیا بلکہ اپنا نصف چندہ اُسی وقت ادا بھی کر دیا.ایڈیشنل وکیل المال پاکستان لکھتے ہیں کہ سندھ میں ایک صاحب ہیں ( گزشتہ دنوں جو بارشیں ہوئیں اس کی وجہ سے سندھ کے حالات بڑے خراب ہیں).اُن کا وعدہ پچاس ہزار روپے تھا، کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ فصلوں کو نقصان ہوا ہے میں نے اُن کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہ وہ امیر آدمی تھے ، ان کو کہا کہ آپ کا وعدہ تو زیادہ ہونا چاہئے.اُس پر انہوں نے اپنا وعدہ پانچ لاکھ روپے کر دیا اور اُس کی نقد ادا ئیگی بھی کر دی مگر چند روز کے بعد جبکہ یہ واپس حیدرآباد آچکے تھے.انہوں نے ان کو فون کیا کہ آپ خلیفتہ المسیح کے نمائندے کے طور پر میرے پاس آئے تھے اور پانچ لاکھ کا اُس وقت میں نے وعدہ کیا کیونکہ آپ نے میرے حالات دیکھتے ہوئے مجھے اتناہی بتایا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عہد بیعت کا تقاضا ہے کہ اس سے بڑھ کر وعدہ کروں.جو موجو د ہے اس میں سے وہ دوں اور انہوں نے وہیں دس لاکھ روپے کا وعدہ کر دیا.گھر گئے تو اُن کی اہلیہ نے کہا کہ میرے جو زیورات ہیں وہ میں اپنی طرف سے تحریک جدید میں پیش کرنا چاہتی ہوں.ان کا فون آیا کہ اب رات کا وقت ہے اور میری اہلیہ کہہ رہی ہیں کہ ابھی جا کر مرکزی نمائندے کو یہ زیورات دے کر آؤ، رات میں نہیں رکھوں گی.تو انہوں نے ان کی اہلیہ کو فون پر سمجھایا کہ رات کا وقت ہے.سندھ کے حالات ایسے ہیں کہ رات کو سفر مناسب نہیں ہے، صبح مل جائے گا.لیکن وہ بضد تھیں کہ نہیں ابھی میں نے پہنچانا ہے.چنانچہ پھر خاوند کو مجبوراً آنا پڑا.لیکن جب نیت ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کے حضور وہ چیز پہنچ جاتی ہے.حالات کو دیکھتے ہوئے اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہئے.اگر حالات وہاں خراب ہیں تو رات کے وقت سفر مناسب نہیں.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کچھ نہیں ہوا لیکن بہر حال احتیاط کرنی چاہئے.بلا وجہ اپنے آپ کو ابتلا میں بھی نہیں ڈالنا چاہئے.قازقستان کے ایک نو مبائع دوست کے بارے میں ہمارے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت کی مرکزی مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ایک قطعہ زمین انہوں نے خرید کر دیا اور اس کے ساتھ ایک دو منزلہ زیر تعمیر مکان کی خرید کی.پھر دوسرے شہر میں بھی مسجد کی تعمیر کے لئے ایک پلاٹ خرید کر دیا.یہ نومبائع دوست ہیں اور مجموعی طور پر انہوں نے اس کے لئے چار لاکھ پچانوے ہزار ڈالر کی قربانی کی.جرمنی کے سیکرٹری تحریک جدید لکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے بارے میں ایک جگہ تحریک کی تو اُس کی برکات سننے کے بعد ایک خاتون نے ایک ہزار یورو جو زیور خریدنے کے لئے رکھے تھے وہ اُن کو پیش کر دیئے.جماعت جرمنی کی بہت سی لجنات نے اپنا زیور تحریک جدید کے لئے دے دیا.ایک بہن نے کمیٹی ڈالی ہوئی تھی وہ کمیٹی کی رقم ساری دے دی.کہتے ہیں کہ ایک جگہ میں دورے پر گیا تو ایک دوست نے ایک پرچی خاکسار کو دی.( ان کو جو سیکرٹری تحریک جدید تھے).اُس پر لکھا ہوا تھا ہمیں ہزار یورو چندہ تحریک جدید.اور اس پر چی کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ میر انام ظاہر نہ کیا جائے.کہتے ہیں جب میں دوسری جگہ گیا تو وہاں میں نے یہ مثال پیش کی کہ اس طرح بھی لوگ قربانیاں
551 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم دیتے ہیں.میٹنگ ختم ہوئی تو وہاں بھی ایک دوست نے ایک پر چی مجھے دی جس پر لکھا ہوا تھا اکیس ہزار یورو برائے چندہ تحریک جدید اور نیچے یہی لکھا ہوا تھا کہ میرا نام ظاہر نہ کریں.تو یہ چند واقعات میں نے لئے ہیں.بیشمار واقعات تھے.شاید اس سے بھی زیادہ ایمان افروز بعض واقعات ہوں لیکن میں نے کوئی خاص چن کر نہیں لئے بلکہ بغیر غور کئے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.اب اس کے بعد حسب روایت گزشتہ سال کے کوائف پیش کرتا ہوں اور تحریک جدید کے اٹھہترویں ( 78 ) سال کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس نئے سال کو بھی بیشمار برکتوں اور پھلوں سے نوازے.اللہ کے فضل سے گزشتہ سال جو تحریک جدید کا سترواں مالی سال تھا اور اکتیس اکتوبر کو ختم ہوا.اب تک جو رپورٹس آئی ہیں اُن کے مطابق تحریک جدید کے مالی نظام میں جماعت نے چھیاسٹھ لاکھ اکتیس ہزار پاؤنڈ (£6631,000) کی قربانی پیش کی ہے.الحمد للہ.یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے گیارہ لاکھ باسٹھ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.صرف ایک سال میں اتنا بڑا اضافہ پہلے بھی تحریک جدید کے چندوں میں نہیں ہوا اور یہ اضافہ چندہ دینے والوں کی تعداد میں بھی ہوا ہے اور معیار قربانی بھی بہت بڑھا ہے جبکہ دنیا کے معاشی حالات اور خاص طور پر یورپ کے جیسا کہ میں نے کہا ابتر ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس رقم میں بھی برکت ڈالے اور جو جماعتی منصوبے ہیں ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ بغیر کسی روک کے مکمل ہوتے چلے جائیں.جس طرح دنیا کے مالی بحران نے چندہ میں کمی نہیں کی، قربانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی اسی طرح اللہ کرے کہ یہ مالی بحران ہمارے منصوبوں میں بھی کوئی روک نہ ڈال سکے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان نے سخت مالی حالات کے باوجود، معاشی حالات کے باوجود اپنی قربانی کا پہلے نمبر کا جو معیار قائم رکھا ہوا ہے، وہ قائم ہے.اس کے بعد دوسرے نمبر پر اس سال امریکہ ہے.تیسرے نمبر پر جر منی ہے اور چوتھے نمبر پر بر طانیہ (یوکے) ہے.پچھلے سال یو کے کا پاکستان کے بعد دوسرا نمبر تھا.تیسرا امریکہ کا تھا اور چو تھا جر منی کا تھا.جرمنی چوتھے سے تیسرے پر آیا ہے اور بہت بڑی قربانی دے کر آیا ہے.کینیڈا حسب سابق پانچویں نمبر پر ، ہندوستان چھٹے نمبر پر.انڈو نیشیا نے بھی گومالی لحاظ سے بہت قربانی دی ہے لیکن ہندوستان کی جماعتوں نے بھی بہت زیادہ قربانی دی ہے اس لئے انڈو نیشیا ساتویں نمبر پر ہی رہا ہے.آسٹریلیا آٹھویں نمبر پر.ایک عرب ملک ہے جس کا میں نام لینا نہیں چاہتا، نویں نمبر پر.سوئٹزر لینڈ دسویں نمبر پر.اور فی کس ادائیگی کے لحاظ سے اُس عرب ملک کے علاوہ امریکہ ایک سو اٹھارہ پاؤنڈ فی کس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے.پھر سوئٹزر لینڈ ہے، پھر بیلجیم ہے.اور اسی طرح مقامی کرنسیوں میں بھی جو اضافہ ہوا ہے اُس میں جرمنی سب سے زیادہ وصولی کرنے والا ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 552 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا قربانی کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے.اس سال ایک لاکھ نو ہزار نئے چندہ دینے والے شامل ہوئے ہیں.اس طرح یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے پر ایک لاکھ نو ہزار بڑھ گئی اور گو اس میں ابھی بھی بہت گنجائش ہے جیسا کہ میں نے افریقن جماعتوں کو کہا تھا اس پر نائیجیریا نے اچھا کام کیا ہے.مجموعی وصولی کے لحاظ سے افریقن جماعتوں میں گھانا سر فہرست ہے.اس کے بعد ماریشس ہے.پھر نائیجیریا ہے.جنہوں نے نمایاں اضافہ کیا ہے اُن میں گیمبیا اور برکینا فاسو نے اچھی کوشش کی ہے.شاملین کی تعداد میں اضافے کے لحاظ سے نائیجیر یاد نیا بھر کے ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے.انہوں نے اس سال چھپن ہزار افراد کا اضافہ کیا ہے اور اس کے بعد پھر سیر الیون، آئیوری کوسٹ، برکینا فاسو وغیرہ ہیں.مرکزی ریکارڈ کے مطابق دفتر اول کے کل مجاہدین کی تعداد پانچ ہزار نو سو ستائیس ہے، جس میں سے تین سو چالیس خدا کے فضل سے ابھی زندہ موجود ہیں جو اپنا چندہ خود ادا کر رہے ہیں.باقی مرحومین کے چندے اُن کے ورثاء دے رہے ہیں.چندوں کے لحاظ سے پاکستان کی تین بڑی جماعتوں میں اول لاہور ہے ، دوم ربوہ ہے اور سوم کراچی ہے.اور دس شہری جماعتوں میں راولپنڈی نمبر ایک پہ ہے، اسلام آباد نمبر دو، کوئٹہ نمبر تین، اوکاڑہ نمبر چار، حیدرآباد نمبر پانچ ، پشاور چھ ، میر پور خاص سات، بہاولپور آٹھ ، ڈیرہ غازی خان نو اور نوابشاہ دس.ضلعی سطح پر قربانی کرنے والے پاکستان کے اضلاع میں سیالکوٹ نمبر ایک، عمر کوٹ نمبر دو( اس سال اس ضلع میں میر پور خاص اور عمر کوٹ میں تو بارشوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے اور اکثر جماعتیں زمیندارہ جماعتیں ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی قربانی کو قائم رکھا ہے) سرگودھا نمبر تین، شیخو پورہ نمبر چار ، گجرات نمبر پانچ بہاول نگر نمبر چھ ، بدین سات، نارووال آٹھ ، سانگھڑ نمبر نو اور میر پور آزاد کشمیر اور حافظ آباد نمبر دس پر ہیں.امریکہ کی پہلی دس جماعتیں.Los Angeles ان لینڈ ایمپائر نمبر ایک.پھر Detroit، پھر سیلی کون ویلی، شکاگو ویسٹ، ہیرس برگ، ڈیلس (Dalas)، لاس اینجلس ویسٹ، بوسٹن، سلور سپرنگ Silver) (Spring اور پوٹومیک (Potomac) ہیں.(وصولی کے لحاظ سے ) جرمنی کی جماعتیں روئیڈر مارک ، نوئے ایس، کولون، فلوئر ز ہائم، آؤ گس برگ، نوئے ایزن بُرگ، کار لز روئے، مہدی آباد ، آلزائے اور مار بُرگ ہیں.وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی جو پہلی دس لوکل امار تیں ہیں ان میں ہیمبرگ، فرینکفرٹ ، گروس گیراؤ، ڈار مشٹڈ، ویز بادن، من ہائم ، ریڈ شنڈ ، ڈیٹسن باخ، آفن باخ شامل ہیں.وصولی کے لحاظ سے یو کے کی پہلی دس بڑی جماعتیں جو ہیں ان میں مسجد فضل لندن، نیو مالڈن، ووسٹر پارک، چیم سکنتھورپ،ماسک ویسٹ ، ویسٹ بل، بیت الفتوح، رینیز پارک اور مانچسٹر ساؤتھ شامل ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 553 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء پہلے تین ریجن جو ہیں ان میں لنڈن ریجن پہلے نمبر پر پھر نارتھ ایسٹ ریجن اور پھر مڈلینڈ ریجن ہے.ادائیگی کے لحاظ سے پہلی پانچ چھوٹی جماعتیں.بر املے اور یو شم، لینگٹن سپا، وولور ہیمپٹن ، سپن ویلی اور کیتھلے ہیں.وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی جماعتیں ایڈ منٹن ، وان ویسٹ، پیس ویج ویسٹ، سرے ایسٹ اور سسکاٹون ہیں.انڈیا کا گو چھٹا نمبر ہے لیکن نام اس لئے لے رہا ہوں کہ یہ وہ جگہ ہے جس میں قادیان بھی ہے اور اس جگہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے.آپ کا شہر وہاں ہے.انڈیا کی جو جماعتیں ہیں اس کے صوبہ جات میں کیرالہ پہلے نمبر پر رہا ہے، تامل ناڈو دو نمبر پر ، آندھراپردیش، جموں کشمیر، بنگال، کرناٹک، اڑیسہ ، پنجاب، یوپی اور دبلی ہیں.جبکہ جماعتوں میں کیرولائی، کالی کٹ، حیدرآباد ، کلکتہ، کنانور ٹاؤن، قادیان نمبر چھ پر، کوئمبٹور، چنائی، پینگاڈی اور دہلی ہیں.اس دفعہ بعض جماعتوں نے اپنے چندوں میں کیونکہ غیر معمولی اضافے کئے ہیں اس لئے اگر چہ تحریک جدید کا جو چندہ ہے یہ مرکزی چندہ ہوتا ہے اس میں مقامی ملکی جماعت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور مرکز کے جو پر اجیکٹ ہیں وہ انڈیا میں بھی ہیں اور باقی غریب ممالک افریقہ میں ہیں یا جو مرکزی اخراجات ہیں وہ اس سے پورے کئے جاتے ہیں لیکن اس دفعہ ان کی غیر معمولی وصولیوں کی وجہ سے جو امریکہ نے بھی تقریباً ایک لاکھ اٹھاسی ہزار پاؤنڈ کا غیر معمولی اضافہ کیا ہے.اس لئے ان کی ڈالروں کی جو رقم ہے اس میں سے ویسے تو ان کو حق نہیں لیکن ان کو میں اس دفعہ اس میں سے بھی ایک لاکھ ڈالر کا حصہ دے رہا ہوں.جرمنی نے تین لاکھ سے اوپر کا غیر معمولی اضافہ کیا ہے، اس لئے ان کو ڈیڑھ لاکھ یورو اس میں سے دیا جارہا ہے اور یہ اس لئے دیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور جرمنی میں کیونکہ مساجد کی تعمیر ہورہی ہے یہ رقم وہ مساجد پر خرچ کریں.یو کے کا بھی اضافہ کافی ہے لیکن جتنا پہلی دو جماعتوں کا ہے اتنا نہیں.اس لئے پچاس ہزار پاؤنڈ ان کو بھی مساجد کی تعمیر کے لئے دیئے جارہے ہیں کیونکہ اب مساجد کی طرف یہاں بھی توجہ پیدا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ مبارک کرے اور آئندہ بھی پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے.ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.ابھی نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے ایک بزرگ مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی کا جنازہ ہے جو تین نومبر کو صبح تین بجے اکانوے سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.پرانے خادم سلسلہ تھے.واقف زندگی تھے.ایڈیٹر روزنامہ الفضل رہے ہیں.1920ء میں ان کی دہلی میں پیدائش ہوئی تھی.ان کے والد صحابی تھے جنہوں نے 1900 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی اور ان کے دادا بھی صحابی تھے جنہوں نے 1890ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.1944ء میں مکرم دہلوی صاحب نے زندگی وقف کی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے روز نامہ الفضل میں بطور اسٹنٹ ایڈیٹر ان کو مقرر فرمایا اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے جنرل ازم میں پوسٹ گریجویشن کروایا.1946ء سے 71ء تک بطور نائب ایڈیٹر روزنامہ الفضل خدمت کی توفیق پائی.71ء سے لے کے 88ء تک ایڈیٹر روزنامہ
خطبات مسرور جلد نهم 554 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 نومبر 2011ء الفضل کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.اس طرح مجموعی طور پر 43 سال تک الفضل قادیان، لاہور اور ربوہ کے ادارے سے وابستہ رہے.46ء میں قائمقام وکیل التبشیر کے طور پر قادیان میں بھی خدمت کی توفیق پائی.47ء کے پُر آشوب حالات میں اس وقت کے ناظر امورِ خارجہ کے ساتھ اسٹنٹ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.پھر 1950ء سے 1953ء کے پر آشوب دور میں آپ نے رپورٹنگ کے حوالے سے بہت خدمات انجام دیں.1960ء سے 73 ء تک ماہنامہ انصار اللہ جو انصار اللہ پاکستان کا رسالہ ہے اُس کے ایڈیٹر بھی رہے.74ء میں بھی صحافتی ذمہ داریاں بڑی خوش اسلوبی سے نبھائیں.75ء،76ء اور 80ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث " کے یورپ، امریکہ ، کینیڈا اور مغربی افریقہ کے دوروں پر آپ کے ساتھ جانے کی توفیق ملی.82ء میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع' کے ساتھ مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر گئے.89ء میں خلیفہ المسیح الرابع کی ہدایت پر جماعت احمد یہ جرمنی میں قضا کا نظام قائم کرنے کی توفیق ملی اور حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی جو کتاب تھی Murder in the name of Allah اُس کے جو باب حضور رحمہ اللہ نے انگریزی میں لکھے تھے ان کا اردو ترجمہ آپ نے کیا.اسی طرح ، Christianity-A Journey from facts to fiction کا اردو میں ترجمہ کیا.دو تین اپنی کتابیں بھی لا جن میں سے ایک سفر حیات ہے.ان کے بچے عرفان احمد خان صاحب اور عثمان خان صاحب جرمنی میں ہیں اور ڈاکٹر عمران خالد ربوہ میں ہیں.بڑے نیک سادہ طبیعت کے مالک تھے.ہر سال جر منی جلسہ پر آیا کرتے تھے.یہاں بھی آیا کرتے تھے.ابھی جب دوبارہ میں گیا ہوں تو ان کی طبیعت بڑی خراب تھی، بیمار تھے، ہسپتال میں تھے لیکن جب میرے آنے کا سنا تو یہی فکر تھی کہ ہسپتال سے میں جلدی فارغ ہوں اور جا کے مسجد میں پیچھے نمازیں پڑھنے کا موقع ملے.اور پھر بہر حال آئے اور جمعہ والے دن جمعہ بھی پڑھا.عموماً جمعہ کے بعد یا کسی بھی نماز کے بعد میں مسجد میں نہیں ملا کر تالیکن اُس دن مجھے بڑا خیال آیا کہ ان سے ملوں.چنانچہ جمعہ کے بعد ان سے وہیں آخری ملاقات ہوئی.اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے.لکھیں الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 نومبر تاکیم دسمبر 2011 ، جلد 18 شماره 47 صفحہ 5تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 555 45 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 2011ء بمطابق 11 نبوت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: احمدیوں پر خاص طور پر پاکستان میں سختیاں تو اُس وقت سے روار کھی جارہی ہیں یا اُن پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جب سے کہ احمدیوں کو اسمبلی نے 1974ء میں غیر مسلم قرار دینے کے لئے قانون پاس کیا تھا اور پھر جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمریت کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس قانون کو یہ کہتے ہوئے مزید سخت کیا کہ یہ احمدی (وہ احمدی تو نہیں کہتے، قادیانی یا مرزائی کہتے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جن کے خلاف ہم نے قانون پاس کیا، انہیں اپنے زعم میں اپنے میں سے ، اُمت مسلمہ میں سے باہر نکالا.انہیں کہا کہ تم اپنے آپ کو غیر مسلم کہو.انہیں کہا کہ تم نے کلمہ نہیں پڑھنا.انہیں کہا کہ تم نے کسی کو السلام علیکم نہیں کہنا.انہیں کہا کہ تم نے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے معمولی سا بھی اس بات کا اظہار ہو کہ تم مسلمان ہو لیکن تم پھر بھی ان تمام چیزوں سے باز نہیں آرہے.تم پھر وہی باتیں اور عمل کر رہے ہو جو ایک سچے اور پکے مسلمان میں ہونی چاہئیں.اس لئے ہم تمہیں یا تو قید وبند کی سزا دیں گے یا تمہیں اس آرڈینس کی نافرمانی میں اپنے آپ کو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکائیں گے ، تمہیں پھانسی دیں گے.تم میں اتنی ہمت کہ اتنی تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اکثریت کے دلوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر زخمی کرو.پس یہ خلاصہ ہے پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ سلوک اور قانون کا.احمدیوں کے متعلق یہ جو کچھ کہتے رہے اور احمدی اقلیت کا جو نعرہ لگا کر یہ احمدیوں کو اپنے ایمان سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے اور کر رہے ہیں یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے.مذاہب کی تاریخ میں یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے.ہر زمانے کے فرعون نے اپنے وقت کے انبیاء اور اللہ والوں کو یہی کچھ کہا ہے.قرآنِ کریم کا یہ مضمون آج بھی جاری ہے جس میں فرعون نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَابِظُوْنَ (الشعراء:56،55) کہ یقینا یہ لوگ ایک کم تعداد حقیر جماعت ہیں اور اس کے باوجود یہ ضرور ہمیں طیش دلا کر رہتے ہیں.پس ہم احمدی تو جب اس مخالفت کو دیکھتے ہیں تو ایمان تازہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تاریخ دہرائی جارہی ہے.
556 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء ہم بیشک آج تھوڑے ہیں اور دنیا کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.ہمارے پر طیش اُنہیں اس لئے نہیں آتا کہ ہم کوئی گناہ کر رہے ہیں یا بڑا جرم کر رہے ہیں، ہم کوئی قانون توڑ کر ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں ، ہم قانون کی پابندی نہ کر کے لوگوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں، ہم کسی قسم کی دہشت گردی کر رہے ہیں.ہمارے پر طیش اُنہیں اس لئے آرہا ہے کہ ہم چونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و وفا کا رشتہ نبھارہے ہیں.ہم کیونکہ وطن کی محبت میں امن کا مظاہرہ کر رہے ہیں.ہم اللہ کی مخلوق کے حقوق سلب اور پامال کیوں نہیں کر رہے.ہم کیوں اُس دہشت گردی کا حصہ نہیں بنتے جس نے ملک میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے.پس ہمارا انہیں یہی جواب ہے کہ ہم اس زمانے کے امام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے والے ہیں جس نے دنیا میں آکر اپنے آقا و مطاع کی سنت کو جاری کرتے ہوئے دنیا کو محبت، پیار، امن، آشتی اور صلح کے اسلوب سکھانے تھے.پس جب ہم اس امام الزمان کی بیعت میں آکر یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو اپنے آقا وسید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.وہ نمونے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کئے تھے.ہمیں یہ جرات اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہونے کا حوصلہ اس جری اللہ نے دیا ہے جسے اس زمانے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے.ہمیں اپنی زندگیوں سے زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کا حوصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عاشق صادق نے دیا ہے جو ثریا سے زمین پر ایمان لے کر آیا ہے.پس ہم جب ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار ہیں، اس بات کا صحیح ادراک رکھتے ہوئے تیار ہیں کہ ہم اُس امام کو ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاء ( بر این احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 116) که رسولِ خدا ہے تمام نبیوں کے پیرائے میں.پھر براہین احمدیہ حصہ پنجم میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے.اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی (ہے).“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 116) پس جب تمام نبیوں میں سے آپ کو حصہ ملا ہے تو بعض مخالفانہ واقعات بھی اُن انبیاء کی تاریخ کے آپ کے ساتھ اور آپ کی جماعت کے ساتھ ہونے تھے.لیکن یہ مخالفانہ کارروائیاں یا قانون سازیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں.کیونکہ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اُن فتوحات کی بھی خبر دے دی، اُن کامیابیوں کی بھی خبر دے دی جو انبیاء کو ملیں بلکہ اُس سے بڑھ کر کامیابیوں کی خبر دی اور آپ کے
خطبات مسرور جلد نهم 557 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء ایک الہام میں ایک جگہ آپ کو فرمایا کہ بُشرى لَكَ يَا احْمَدِی (تحفہ بغداد روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ 23) تجھے بشارت ہو اے میرے احمد ! پس یہ قانون ، یہ سختیاں، یہ ظلم مسیح موعود کی جماعت کی ترقی کو روک نہیں سکتے.انجام کار فتوحات کے دروازے کھلنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہی خبر دی ہے.اور متعددبار اور مختلف پیرائیوں میں یہ خوشخبری دی ہے.گو ایک دور میں سے گزرنا پڑ رہا ہے.بعض جگہوں پر زیادہ سختی ہے اپنی کتاب آسمانی فیصلہ میں آپ فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ آنَا الْفَتَّاحُ افْتَحُ لَكَ تَرَى نَصْرًا عَجِيْباً و يَخِرُّونَ عَلَى الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ...یعنی میں فتاح ہوں.مجھے فتح دوں گا.ایک عجیب مدد تو دیکھے گا.اور منکر یعنی بعض اُن کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش ، ہم خطا پر تھے“.آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 342) پھر آپ کا ایک الہام ہے کہ "لَكَ الْفَتْحُ وَلَكَ الْغَلَبَةَ (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 702) کہ تیرے لئے فتح ہے اور تیرے لئے غلبہ.پس جن مشکلات اور جماعت کے خلاف کارروائیوں اور قانون سازیوں سے خاص طور پر پاکستان کی جماعت اور پھر انڈونیشیا، ملائیشیا کی جماعتیں یا بعض اور مسلم ممالک کی جماعتیں گزر رہی ہیں ان کے پیچھے اس سے زیادہ کامیابیوں اور فتوحات کی نوید اور خوشخبریاں اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے جن سے ہمارے مظلوم احمدی گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو ایمانی جرآت زمانے کے امام نے ہمیں دی ہے وہ ان ظلموں اور تنگیوں کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتی.اگر کوئی اور دنیاوی جماعت ہوتی تو ان ظلموں کی وجہ سے کب کی ظالموں کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہوتی یا منافقانہ رویہ اپنار ہی ہوتی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نہ صرف ظلم کا مقابلہ کر رہی ہے بلکہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجو د ترقی کی راہ پر گامزن ہے.اگر کوئی عقل رکھنے والا ہو ، انصاف پسند ہو تو اُس کے لئے اس جماعت کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے اور ہونی چاہئے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا جو میں نے ابھی پڑھا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انہی میں سے جو اس وقت نام نہاد ملاں کے زیر اثر یا اُس کے خوف کے زیر اثر یا قانون کے خوف سے حق کو نہیں پہچان رہے، اپنی سجدہ گاہوں پر گر کر خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق سے وابستہ ہونے میں فخر محسوس کریں گے اور جو بد فطرت ہیں وہ اپنے انجام کو اس طرح دیکھیں گے یا وہ دنیا کے لئے اس طرح عبرت کا نشان بنیں گے جس طرح پہلے نبیوں کے مخالفین اور حق کے مخالفین بنتے رہے جس کا قرآنِ کریم میں کئی جگہ ذکر آیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ اَو لَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَ أَثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ
خطبات مسرور جلد نهم 558 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء اللهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللهِ مِنْ وَاقٍ - ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللهُ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المومن : 22، 23 ) کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھ لیتے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے ؟ وہ ان سے قوت میں اور زمین میں نشانات چھوڑنے کے لحاظ سے زیادہ شدید تھے.پس اللہ نے ان کو بھی ان کے گناہوں کے سبب پکڑا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا.یہ اس لئے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آتے رہے پھر بھی انہوں نے انکار کر دیا.پس اللہ نے ان کو پکڑ لیا.یقیناوہ بہت طاقتور اور سزا دینے میں سخت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جن الہامات کا میں نے ذکر کیا ہے یہ کوئی اپنی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں تھا.یہ الہامات تھے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور مجھے اُس نے فتوحات کی خبر دی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا بہت بڑی بات ہے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نہیں بخشا جو اللہ تعالیٰ کی طرف بات غلط بات منسوب کریں.پس جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کو دیکھ رہے ہیں تو یقینا یہ سب باتیں ہمیں اس یقین پر مزید قائم کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس طرح آپ کے زمانے میں آپ کے ساتھ تھا اور آپ کی تائید فرما تار با آئندہ زمانے میں بھی فرماتارہے گا اور آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرمارہا ہے اور آج بھی حقائق اور واقعات اس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات سے نواز رہا ہے.ہاں جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے، مخالفین انبیاء اور الہی جماعتوں پر ظلم کرنے والوں کو خدا تعالیٰ ایک مدت تک چھوٹ دیتا ہے پھر ایک روز ضرور پکڑتا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو پھر کوئی قوت ، کوئی طاقت، کوئی عددی اکثریت کام نہیں آتی.آج احمدیوں پر سختیاں وارد کرنے والے اور قانون بنانے والے اور کشکول پکڑوانے والے یا نعوذ باللہ احمدیت کے کینسر کو ختم کرنے والوں کے پاس تو تھوڑی سی طاقت ہے جن کو اللہ تعالیٰ جب ختم کرنا چاہے تو ان کو پتہ بھی نہیں لگنا.جن کی مثالیں اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ختم کیا ہے وہ تو بہت دولت رکھنے والے تھے.ان لوگوں کی جو آج ہم پر ظلم کر رہے ہیں، ان کی تو اپنی دولت بھی نہیں ہے.ملک چلانے کے لئے غیر قوموں کی طرف قرضے کے لئے دیکھتے ہیں.پس ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی اور عوام الناس کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ لاشعوری طور پر ظلم کر کے، ظلم کا ساتھ دے کر، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو اپنی ہر تحریر اور سرکاری کاغذ میں گالیاں دے کر ، کیونکہ آجکل پاکستان میں کوئی ایسا کاغذ نہیں ہے، کوئی بھی (document) بنانا ہو، کوئی سند لینی ہو ، کہیں داخلہ لینا ہو، کوئی چیز کرنی ہو تو کوئی ایسا کاغذ نہیں ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گند لکھا ہوا نہ ہو اور یہ نہ کہا جائے کہ اگر تم مسلمان ہو تو اس پر دستخط کرو.بازاروں اور دفتروں یا پارکوں میں بڑے بڑے غلیظ گالیوں کے پوسٹر لگا کر یہ سب لوگ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں.جو خاموش ہیں وہ بھی لاشعوری طور پر گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں.یا تو شرافت ختم ہو گئی ہے یا خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا.غلط رنگ
559 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم میں احمدیوں پر مقدمے قائم کر کے ایسے عمل کے مرتکب ہو رہے ہیں جو اللہ تعالی کی نظر میں یقینا نا پسندیدہ ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم دشمن سے بھی عدل سے کام لو.اُن لوگوں سے بھی انصاف کرو اور ظلم نہ کرو جنہوں نے تم پر ظلم کیا ہے.لیکن اس کے برعکس ان لوگوں کے عمل کیا ہیں ؟ بالکل ہی الٹ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جھوٹ شرک ہے اور شرک ایک ایسی نجس چیز ہے اور گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ نہیں بخشا.لیکن ان کی اپنی حالت کیا ہے.ان کے تقویٰ اور نیکی اور اللہ اور رسول کے نام کو اونچا کرنے کی حقیقت ہم احمدی تو روز مشاہدہ کرتے ہیں.ایک واقعہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس سے ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.گزشتہ دنوں ایک احمدی پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا.قتل کے مقدمے میں اُس کو ملوث کیا گیا.جب ان کو بتایا گیا، سمجھایا گیا کہ یہ غلط ہے.تم یہ کیا ظلم اور زیادتی کر رہے ہو.تو انہوں نے ، مدعیان نے جنہوں نے مولویوں کے زیر اثر مقدمہ قائم کیا تھا کہا کہ ہمیں پتہ ہے یہ غلط ہے اور یہ بے قصور ہے ، معصوم ہے لیکن یہ احمدی ہے اس لئے ہم نے یہ مقدمہ قائم کیا ہے.اگر آج یہ احمدیت سے تائب ہو جائے، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے تو ہم مقدمہ واپس لے لیتے ہیں بلکہ جیل سے چھڑانے میں ہر طرح کوشش کریں گے.باہر آئے تو اس کو ہار پہنائیں گے.استقبال کریں گے.تو یہ ان لوگوں کی حالت ہے.لیکن اس کے باوجود یہ پکے مسلمان کہلانے والے ہیں اور احمدی کا فر ہیں.جھوٹ کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.پس اے مخالفین احمدیت! اُس خدا سے ڈرو جس کے سامنے تمہاری دولت، تمہارے گھمنڈ، تکبر، تمہاری مساجد کی امامت، تمہاری سیاسی پارٹیاں، تمہاری حکومت، تمہاری عددی اکثریت کوئی حیثیت نہیں رکھتی.ہمارا ان تمام ظلموں کے جواب میں وہی جواب ہے جو قرآنِ کریم نے ان آیات میں دیا ہے کہ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ کہ یقینا وہ بہت طاقتور اور سزا دینے میں سخت ہے.ظلم کی یہ انتہا اب اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ سکولوں کے احمدی معصوم بچوں کو کہا جاتا ہے کہ تم مرزائی کافر ہو اس لئے سکول میں نہیں رہ سکتے.ہاں سکول میں پڑھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو گالیاں دو.اگر سکول کا کوئی ہیڈ ماسٹر یا کسی پرائیویٹ سکول کا مالک کچھ شرافت دکھانے والا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اگر احمدی بچے اس سکول میں پڑھیں گے تو ہم اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجیں گے اور تمہارے خلاف احتجاج کریں گے اور تمہارا سکول بند کر وائیں گے.اگر کوئی شرفاء ان مولویوں اور فسادیوں کی بات نہیں مانتے تو ان کو بھی نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں.غرض کہ ایک فساد ہے جو ملک میں برپا ہے اور انتظامیہ ، سیاستدان اپنے سیاسی مقاصد اور نا اہلی کی وجہ سے ان مولویوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا چاہے مولوی ہوں یا مفاد پرست سیاستدان ہوں یا کوئی بھی حکومتی اہلکار ہو ، جو بھی اس ظلم میں شریک ہے وہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ شَدِيدُ الْعِقَابِ ہے.یہ مضمون کوئی سابقہ قوموں کا قصہ نہیں ہے بلکہ زندہ خدا کے زندہ ہونے اور سب طاقتوں کے مالک ہونے کی آج بھی نشانی ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 560 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی کرنے والے اور مخالفت میں تمام حدوں کو توڑنے والے یاد رکھیں کہ حق و صداقت کا انکار اور پھر صداقت بھی وہ جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور جو قرآنِ کریم میں بھی موجود ہے جس کو بڑے شوق سے یہ پڑھتے ہیں یا پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس صداقت کا انکار کر کے وہ انہی لوگوں میں شامل ہو رہے ہیں جنہوں نے اپنے بد انجام دیکھے یا جن کے بد انجام آنے والی قوموں نے دیکھے یا آنے والی قوموں کے لئے عبرت کا نشان بنے اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ کونسا گناہ ہے جو آجکل یہ نہیں کر رہے.علاوہ اس کے جو احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے ہر قسم کا گناہ ملک میں پھیلا ہوا ہے.رشوت ہے، دوسرے ہر قسم کے گناہ ہیں، گند ہے، غلاظت ہے ، اخلاقی برائیاں ہیں، چوری ہے ، ڈاکے ہیں، قتل و غارت ہے.غرض ہر قسم کی جو برائی ہے آج ہمیں نظر آتی ہے.پس کیا یہ سب کچھ اللہ تعالی کے غضب کو بھڑ کانے والا نہیں.کچھ تو سوچو غافلو ! ہماری تو یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم پر رحم فرمائے.آج احمد ی ہی ہیں جن کا یہ فرض بنتا ہے کہ باوجود تمام تر ظلموں کے سہنے کے پھر بھی اُمت کی ہمدردی کے ناطے ، انسانیت کی ہمدردی کے ناطے جہاں عملی کوشش ہو سکتی ہے وہاں عملی کوشش کریں اور ساتھ ہی سب سے بڑھ کر دعاؤں پر زور دیں اور جہاں عملی کوشش نہیں ہو سکتی، جہاں ہماری بات سننے کو کوئی تیار نہیں، جہاں سلام کہہ دینے سے ہی مقدمے قائم ہو جاتے ہیں، وہاں دعاؤں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے امت کی اصلاح کے لئے بھیک مانگیں.جیسا کہ میں نے کہا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فتح اور غلبہ عطا فرمانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے انبیاء کو، اپنے بھیجے ہوؤں کو غلبہ عطا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ أَنَا وَ رُسُلَى إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ (المجادلة : 22) کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.اللہ یقینا طاقتور اور غالب ہے.جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے کہ یہ غلبے کا فیصلہ خدا کا ہے.اور غلبے کا جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے بتایا ہے یا جو غلبے کی دلیل دی ہے وہ خد اتعالیٰ کا طاقتور اور غالب ہونا ہے.پس اس بات میں مومنوں اور منکرین اور کافروں دونوں فریق کے لئے سبق ہے اور اعلان ہے کہ اس پر غور کرو.مومنوں کو بتا دیا کہ جب اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں کا مالک ہے اور غالب ہے اُس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اس نے اور اُس کے رسول نے غالب آنا ہے تو پھر تم اپنی کمزوری اور عددی کمی کو نہ دیکھو.یہ نہ سمجھو کہ ہماری کوئی حیثیت نہیں.اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو.اللہ تعالیٰ سے لو لگاؤ.اس کو لگانے کے لئے ، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے جو کر سکتے ہو وہ کرو اور اُس کی انتہا تک پہنچو.تمہیں تو انگلی لگا کر غلبہ میں شامل کیا جارہا ہے.پس تم نیکیوں کو بجالاؤ.عبادات میں طاق ہو جو تمہارا مقصد پیدائش ہے.اُس میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اور غلبے کا حصہ بن جاؤ.اور مخالفین کو یہ چیلنج ہے کہ تم اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ زور لگالو لیکن یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ قومی اور عزیز ہے.اس کا یہ فیصلہ ہے کہ اس نے اپنے پیارے کو فتح دینی ہے، غلبہ دینا
561 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہے، انشاء اللہ.تو پھر تمہارے مکر، تمہارے تمام حیلے ، تمہاری معصوم بچوں کو تنگ کرنے کی کوششیں، تمہاری احمدی ملازموں کو تنگ کرنے کی کوششیں، تمہاری احمدی کار و باری لوگوں کو تنگ کرنے کی کوششیں، تمہاری راہ چلتوں پر مقدمے قائم کرنے کی کوششیں اللہ اور اُس کے رسول کے غلبے کو روک نہیں سکتیں.اگر یہ بندوں کا کام ہوتا تو بیشک تمہاری طاقت کام آسکتی تھی لیکن یہ خدا کا کام ہے اور انجام کار اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی غالب آتی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ کہا ہے تو یہ اعلان فرمایا ہے کہ یہ کام میں نے کرنا ہے اور یہاں تعداد کی قلت اور کثرت یا مال و دولت کی قلت یا کثرت یا ساز و سامان کی قلت یا کثرت کوئی حیثیت نہیں رکھتی.کیا جنگ بدر میں یا جنگ اُحد میں یا کسی بھی جنگ میں مال و دولت کی کثرت نے وہ نتائج مترتب کئے تھے جو ظاہر ہوئے.یقینا نہیں.ہاں ایک بات یقینا ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کے وعدوں کے ، باوجود خدا تعالیٰ کی یقین دہانیوں کے ، باوجود خدا تعالیٰ کے روشن نشانوں کے اللہ تعالیٰ کے رسول معمولی ظاہری کوشش اپنے وسائل کے مطابق ضرور کرتے ہیں.لیکن اصلی توجہ اُن کی دعاؤں کی طرف ہوتی ہے اور اس میں سب سے بڑھ کر کامل نمونہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا.بدر کی جنگ ہمیں اس کا عظیم نظارہ پیش کرتی ہے.باوجود تمام تر تسلیوں اور وعدوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی اور بے چین کیفیت میں دعائیں اور جو حالت تھی اور جو رقت تھی اور ایک ایسی حالت تھی کہ یوں لگتا تھا جس طرح بار بار کوئی جان کنی کی حالت ہو.بار بار آپ کی چادر اس رقت کی وجہ سے کندھے سے اتر جاتی تھی جو دعاؤں میں پیدا ہو رہی تھی.( شرح العلامة الزرقانی جلد نمبر 2 باب غزوة بدر الکبری صفحہ نمبر 281 تا 284 دار الكتب العلمیة بیروت 1996ء) پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آتے ہیں تو اللہ کے رسول بھی خدا تعالیٰ میں ڈوب کر الہی فیصلوں کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور حصہ بن جاتے ہیں.اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور تربیت نے وہ صحابہ پیدا کئے جن کے دن جنگوں میں مصروف ہوتے تھے تو راتیں عبادتوں میں.د نیاوی لحاظ سے دیکھیں تو کوئی بھی جنگ جو مسلمانوں نے لڑی کسی نسبت کے بغیر تھی.مسلمانوں میں اور مخالفین میں، دشمنوں میں کوئی نسبت ہی نہیں تھی.لیکن اللہ تعالیٰ سے تعلق اور عبادتوں نے انہیں اللہ اور رسول میں فنا ہو کر غلبے کا حصہ بنا دیا.یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دن کے وقت بھی باوجود دشمنوں کے حملوں کے اور جنگوں کے اور سخت حالات کے فرض نمازوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کبھی غافل نہیں ہوئے.ایک موقع ایسا آیا کہ دشمن کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کو موقع نہیں ملا کہ نمازیں پڑھ سکیں اور نماز کا وقت نکل گیا اور پانچ نمازیں جمع کر کے پڑھنی پڑیں.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ تھا کہ آپ نے دشمنوں کو یہ کہہ کر بد دعادی کہ براہو، ہلاک ہو دشمن جس کی وجہ سے ہمیں نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑیں.پس کسی جانی مالی نقصان کی وجہ سے آپ کبھی پریشان نہیں ہوئے اور نہ دشمن کے حق میں بد دعادی.مگر یہ موقع آیا تو صرف اس وجہ سے کہ آج دشمن نے ہمیں وقت پر عبادت کرنے کا، اپنے خدا کے حضور جھکنے کا موقع نہیں دیا.باوجود اس کے 1 نوٹ.وضاحت کے لئے دیکھیں صفحہ نمبر 566 تا570
خطبات مسرور جلد نهم 562 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء کہ آپ کا دل ہر وقت خدا تعالیٰ کی یاد میں رہتا تھا.ذکر الہی سے زبان آپ کی ہر وقت تر رہتی تھی لیکن فرائض ضائع ہونے کا افسوس آپ کی برداشت سے باہر تھا.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے غلبے کے وعدے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو نبھانے اور اُس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے عبادتوں کی طرف توجہ بھی ضروری ہے اور بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر اللہ کے رسول کی جماعت میں شامل ہونے والے نہیں کہلا سکتے.اللہ کے رسول کی جماعت میں وہی شامل ہوں گے جو اپنی عبادتوں کی طرف بھی توجہ دینے والے ہوں گے.پس جب ہم مخالفین احمدیت کی سختیاں دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا حصہ بننے کے لئے ہمیں اُس کی عبادت سے کبھی غافل نہیں ہونا.نبی اور رسول تو آتے ہی بندے کا خدا سے تعلق جوڑنے کے لئے ہیں.اگر ہم اس تعلق کو جوڑنے والے نہیں بنیں گے تو پھر نبی کی جماعت کس طرح کہلائیں گے ؟ اُن فتوحات کا حصہ کس طرح بنیں گے جو نبی اور اُس کی جماعت کے لئے مقدر ہیں.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بھی مقصد تھا.پس ہمیں ہمیشہ اس کو سامنے رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ، کتاب البریہ کے مقدمے میں فرماتے ہیں کہ : در حقیقت وہ خد ا بڑا ز بر دست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہر گز ضائع نہیں کئے جاتے.دشمن کہتا ہے کہ میں اپنے منصوبوں سے اُن کو ہلاک کر دوں اور بد اندیش ارادہ کرتا ہے کہ میں ان کو کچل ڈالوں.مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان ! کیا تو میرے ساتھ لڑے گا؟ اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا؟ در حقیقت زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا کیا گیا ہے.پس ظلم کے منصوبے باندھنے والے سخت نادان ہیں جو اپنے مکر وہ اور قابل شرم منصوبوں کے وقت اس بر تر ہستی کو یاد نہیں رکھتے جس کے ارادہ کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا.لہذا وہ اپنے ارادوں میں ہمیشہ ناکام اور شرمندہ رہتے ہیں اور اُن کی بدی سے راستبازوں کو کوئی ضر ر نہیں پہنچتا بلکہ خدا کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خلق اللہ کی معرفت بڑھتی ہے.وہ قوی اور قادر خدا اگر چہ ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا مگر اپنے عجیب نشانوں سے اپنے تئیں ظاہر کر دیتا ہے“.(کتاب البریہ.روحانی خزائن.جلد نمبر 13.صفحہ 19-20) پس اگر ہم محبت اور وفا سے اس قومی اور زبر دست خدا کے آگے جھکے رہے تو دشمن کا کوئی مکر، کوئی کوشش انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو نقصان نہیں پہنچا سکتی.اسی لئے میں نے گزشتہ دنوں دعاؤں اور عبادتوں اور نفلی روزوں کی خاص تحریک کی تھی کہ اب جو دشمن اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ احمدیت پر حملہ کر رہا ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار یہ دعائیں ہی ہیں.احمدیت کی مخالفت اب جو بین الا قوامی شکل اختیار کر چکی ہے یہ جہاں اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے غلبے کے اظہار کے لئے پہلے سے بڑھ کر اپنے جلوے دکھانا
563 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم چاہتا ہے اور انشاء اللہ دکھائے گا، وہاں دنیائے احمدیت کو بھی اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ ہم نے سب سے زیادہ عزیز اور پیارا اپنی عبادتوں کو رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھانا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے.”بعد 11“.(اربعین نمبر 4 روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 457 حاشیہ) احمد کی اپنے طور پر اندازے لگاتے رہتے ہیں، مجھے بھی لکھتے رہتے ہیں.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمایا ہے: ”میں نہیں جانتا کہ گیاراں دن یا گیاراں ہفتے یا گیاراں مہینے یا گیاراں سال“.اربعین نمبر 4 روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 457 حاشیہ) فرمایا کہ اس عرصے میں میری بریت کا نشان ظاہر ہو گا.آج کیونکہ گیارہ نومبر ہے اور نومبر بھی گیارہواں مہینہ ہے اور 2011ء ہے.اس لئے احمد کی اپنے اپنے خیال کے مطابق سوچتے ہیں.بہر حال اگر اس گیارہ میں کچھ مقدر ہے جو آج کی تاریخ اور آج کے مہینے اور آج کے سال میں ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ ضرور ظاہر ہو گا.لیکن یہ یادرکھنا چاہئے کہ بہت سے الہامات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی مدد، تائید و نصرت ، رحمانیت کے جلوے دکھانے کے لئے ”بغْتَةً“ کے لفظ کا وعدہ ہے یعنی یہ سب کچھ اچانک ہو گا.بعید نہیں کہ ان تاریخوں سے، آج کی تاریخوں سے ، آج کے دن سے ، اس مہینے سے ، اس سال سے، اس تقدیر کا عمل شروع ہو جائے.لیکن بعض دفعہ خود ہی بعض کمزور طبائع اندازے لگا کر نتائج مرتب کر کے اگر اس طرح واقع نہ ہو جس طرح وہ اندازے لگا رہے ہوتے ہیں تو مایوسی کی طرف جانا شروع ہو جاتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف جو توجہ ہے اُس میں کمی ہو جاتی ہے.مومن کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ کبھی مایوس ہو.غلبہ یقینی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہو کر رہے گا بلکہ ہو رہا ہے.دشمن کی جو مخالفتیں ہیں اور مخالفین احمدیت کی جو حالتیں ہیں جس طرح وہ حواس باختہ ہوئے ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کی ہی تو دلیل اس ضمن میں ایک بات یہ بھی بتادوں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی قادیان سے ہجرت کے وقت کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح ہجرت ہوئی.وہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل تھا.ہجرت پر غور ہو رہا تھا.آپ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا تو اُس وقت یہ الہام بھی میرے سامنے آیا.” بعد گیارہ “ اور میں نے سمجھا کہ یہ تو یقینی بات ہے کہ ہجرت ہوتی ہے.پھر کچھ ٹرانسپورٹ وغیرہ کے مسائل سامنے آئے تو اُس پر بھی تاریخوں کی وجہ سے اسی گیارہ تاریخ پر غور ہو رہا تھا.پھر آخر میں بڑی تگ و دو کے بعد جو انتظام ہوا اُس میں دوبارہ روک پڑنی شروع ہو گئی اور جس دن جانا تھا اُس دن بھی روک پڑنے کے عموماً آثار ظاہر ہو رہے تھے.دس بج گئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کہا کہ وہ جو انتظام تھا اب تو لگتا ہے کہ مشکل ہے.لیکن حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں یہ بعد گیارہ کا الہام تھا اور میں سمجھتا تھا کہ شاید گیارہ بجے کے بعد ہو.ہے.
خطبات مسرور جلد نهم 564 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء چنانچہ اچانک اللہ تعالیٰ نے سامان پیدافرمائے اور وہ سب کچھ بھی اچانک ہو گیا اور گیارہ بجے کے بعد انتظامات مکمل ہو (ماخوذ از الفضل 31 جولائی 1949ء جلد نمبر 3 شمارہ 174 صفحہ 5-6) گئے.اور یہ تاریخی ہجرت جو قادیان سے پاکستان کی طرف ہوئی وہ واقع ہوئی.لیکن اور رنگ میں بھی کئی جگہ یہ الہام پورا ہو چکا ہے.یہ ڈکٹیٹر ہی جو احمدیت کو ختم کرنا چاہتا تھا، احمدیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا، اُس کی حکومت خود جڑ سے اُکھڑ گئی اور عین گیارہ سال کے بعد اُکھڑ گئی.بعض اور بھی مواقع ہیں جیسا کہ میں نے کہا جس پر یہ الہام چسپاں ہو سکتا ہے ، لیکن پیشگوئیاں ، الہامات بار بار پورے ہوتے ہیں.اس لئے مزید اور واضح اور روشن نشانوں کی ہمیں امید رکھنی چاہئے.لیکن یہ بھی یادر کھیں کہ اس الہام کے ساتھ فارسی کا یہ الہام بھی لکھا ہے کہ.بر مقام فلک شده یارب گر امیدے دیہم مدار عجب “ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ( خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری دُہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے اب میں اگر تجھے کوئی امید اور بشارت دوں تو تعجب مت کر.میری سنت اور موہبت کے خلاف نہیں) بعد 11 انشاء (تذکرہ صفحہ نمبر 327 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) اللہ.( فرمایا اس کی تفہیم نہیں ہوئی)“.پس یہاں پھر دعا کا مضمون بیان ہوا ہے کہ دہائی آسمان پر پہنچنا.ہمیں بڑی شدت سے دعاؤں کی طرف توجہ کرنی چاہئے جیسا کہ پہلے میں نے کہا.میں نے اس لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس شدت سے دعائیں کریں کہ دہائی کی طرح آسمان پر پہنچنے والی دعائیں ہوں اور عرش کے پائے ہلیں اور پھر ہم انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے جلد نظارے دیکھیں اور دشمن کو نگو سار دیکھیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے.نمازوں کے بعد آج بھی میں دو نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.ایک تو ہمارے قادیان کے درویش مکرم چوہدری محمد صادق صاحب تنگلی ابن مکرم وریام دین صاحب تنگلی کا ہے.یہ 29 اکتوبر کو گر گئے تھے اور کو لہے کی ہڈی ٹوٹ گئی.دل کی تکلیف بھی تھی.علاج وغیرہ ہو تا رہا لیکن بہر حال پانچ نومبر کو ان کی وفات ہو گئی.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ - حضرت مصلح موعودؓ نے جب درویشی کی تحریک کی تو آپ ابھی چھوٹے تھے لیکن آپ نے اس تحریک پر بڑے اخلاص کے ساتھ لبیک کہا اور آخر دم تک پوری وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا.آپ مرکزی دفاتر میں خدمت بجالاتے رہے.علاوہ ازیں قادیان میں جماعت کی بہت سی ایسی زمینیں جو غیر ہموار تھیں ، انہیں ہموار کرنے کی بھی توفیق پائی.آپ ایک ہمدرد، ذہین اور مخلص کارکن تھے.آپ کو خدمت خلق کا بہت شوق تھا.دودھ ، سبزیاں، پھل اور اناج وغیرہ چونکہ گھر کا ہوتا تھا اس لئے آپ مختلف گھروں میں بلا معاوضہ کچھ نہ کچھ روزانہ بھجوایا کرتے تھے.جلسہ سالانہ قادیان پر آنے والوں مہمانوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.اُن کے آرام اور کھانے پینے کے لئے اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کیا کرتے تھے.انتہائی ملنسار، غریب پرور ، صابر و شاکر، صوم و صلوۃ کے پابند
خطبات مسرور جلد نهم 565 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2011ء مخلص انسان تھے.اولاد کی بہترین رنگ میں تربیت فرمائی.موصی تھے.ان کے پسماندگان میں چار بیٹے ہیں جو ان کی یاد گار ہیں.آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب جو افسر جلسہ سالانہ اور ناظر بیت المال خرچ تھے گزشتہ سال وفات پاگئے تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.دو سر اجنازہ مکرم احمد یوسف الخابوری صاحب شہید کا ہے.یہ شام کے عرب دوست ہیں.انہیں گزشتہ ماہ شہید کر دیا گیا.آجکل جو وہاں فساد ہو رہے ہیں اُس میں یہ شہید ہوئے.اِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ 31 اکتوبر کو عصر کے وقت کام سے گھر آرہے تھے.جس علاقے سے انہوں نے گزرنا تھا وہ نہایت فساد زدہ علاقہ ہے جہاں وقتا فوقتا گولی چلتی رہتی ہے.شہید مرحوم ذرا اونچا سنتے تھے.بعض لوگوں نے ان کو اس طرف سے گزرنے سے منع کیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اونچا سنے کی وجہ سے ان کی بات نہیں سمجھ پائے اور وہاں سے گزر گئے.جب جارہے تھے تو ان کے سر میں گولی لگی اور موقع پر ہی شہید ہو گئے.1976ء میں پیدا ہوئے تھے اور پرائمری تک معمولی تعلیم تھی.محنت مزدوری کرتے تھے.ابھی شادی نہیں ہوئی تھی.دس سال سے زیادہ عرصہ قبل انہیں احمدیت کی تبلیغ پہنچ چکی تھی تاہم بیعت کی توفیق انہیں گزشتہ سال نومبر میں، تقریباً ایک سال پہلے ملی.شہید مرحوم کے ایک بھانجے مکرم یونس صاحب بیان کرتے ہیں کہ مرحوم مجھ سے جماعت کے بارے میں بڑی مؤثر گفتگو کیا کرتے تھے.چنانچہ ان کی باتیں سن کر میں نے ان سے پہلے بیعت کر لی لیکن انہیں ایک ماہ بعد بیعت کی توفیق ملی.اسی طرح مرحوم کی بہن اور بھانجیوں نے بھی ان کی تبلیغ سے بیعت کر لی.شہید مرحوم بیعت سے قبل علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور باوجودیکہ ان پر بڑا پریشر تھا انہوں نے بڑے اخلاص اور صدق سے بیعت کی.جماعت کے ہر پروگرام میں شامل ہوتے تھے.مرحوم بڑے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.طبیعت میں سادگی اور دوسروں کی مدد کا جذبہ نمایاں تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ، مغفرت کا سلوک فرمائے.ان دونوں کے جنازے جمعہ کے بعد انشاء اللہ ہوں گے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 2 دسمبر تا 8 دسمبر 2011 ءجلد 18 شمارہ 48 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد نهم 566 46 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 2011ء بمطابق 18 نبوت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کو میں نے حدیث کی ایک روایت بیان کی تھی کہ جنگ احزاب میں ایک دن ایسا آیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو پانچوں نمازیں دشمن کے لگاتار حملوں کی وجہ سے جمع کر کے پڑھنی پڑیں.اس پر ہمارے عربی ڈیسک کے ( محمد احمد ) نعیم صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ مجھے بھجوایا جو اس روایت کی نفی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی.آپ اس زمانے کے امام ہیں.بلکہ روایات کے متعلق آپ نے بیان فرمایا کہ میں نے خود رؤیا میں یا کشف کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں یا آپ نے اس کی تصدیق فرمائی.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 10 حصہ اول صفحہ نمبر 262 روایت حضرت مولوی عبد الواحد خان صاحب ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ) پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جو روایت میں نے بیان کی تھی یہ حدیث کی بعض کتب میں ہے.لیکن اصل واقعہ اس طرح نہیں تھا اور احادیث کی سب کتب اس پر متفق بھی نہیں ہیں.جو روایت ہے وہ پانچ نمازوں کی نہیں.جن حدیثوں میں بھی ہے، پانچ نمازوں کی نہیں بلکہ چار نمازوں کی ہے.لیکن اس پر بھی اختلاف ہے اور زیادہ معتبر یہی ہے کہ صرف عصر کی نماز ہی مغرب کے ساتھ پڑھی گئی یا تنگی وقت کے ساتھ ادا کی گئی.اس بارے میں علم کی خاطر بعض روایات بھی پیش کر دیتا ہوں، بعض لوگوں کا شوق بھی ہوتا ہے.جہاں تک چار نمازوں کے جمع کرنے کا سوال ہے، یہ سنن ترمذی کی روایت ہے اور وہ حدیث اس طرح ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خندق کے روز چار نمازوں سے روکے رکھا، یہاں تک کہ جتنا اللہ نے چاہارات کا حصہ چلا گیا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے اذان دی پھر اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی.پھر اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی.اور پھر اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھائی.پھر اقامت کہی گئی تو آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی.جیسا کہ میں نے کہا یہ سنن ترمذی کی کتاب، کتاب الصلوۃ میں ہے.(سنن ترمذی کتاب الصلوة باب ما جاء في الرجل تفوته الصلوات بايتهن يبحأحديث 179)
خطبات مسرور جلد نهم 567 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء اور اسی طرح بیہقی نے بھی اس روایت کو لکھا ہے اور سعودی عرب میں کوئی مکتبہ ، مکتبة الرشد ہے انہوں نے 2004ء میں یہ شائع کی تھی، وہاں سے بھی یہ ملتی ہے.(السنن الکبری از امام بیهقی کتاب الصلاة ، ذکر جماع ابواب الاذان والاقامة باب صحة الصلاة مع ترك الاذان والاقامة او ترك احدهما حديث 1954 جلد 1 صفحه 540-541 ، مكتبة الرشد سعودی عرب 2004ء) لیکن صحیح بخاری، مسلم اور سنن ابی داؤد میں حضرت علیؓ کے حوالے سے جو حدیث ہے وہ اس طرح ہے کہ حضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ خندق کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھرے.انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطی سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.( صحیح بخاری کتاب الجهاد و السير باب الدعاء على المشركين بالهزيمة والزلزلۃ حدیث 2931) (مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب التغليظ في تفويت صلاة العصر حديث 1420) (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی وقت صلاة العصر حديث (409) تو اس سے یہی استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ نماز عصر تھی.بہر حال جو میں بیان کرنا چاہتا تھاوہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازوں کے ضائع ہونے کی اس قدر تکلیف تھی کہ آپ نے دشمن کو بد دعادی.یہاں تو پھر اس کی اہمیت اس مضمون کے تحت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایک وقت کی نماز کا ضائع کرنا بھی آپ کو بر داشت نہیں تھا اور آپ نے دشمن کو سخت کہا.اس بارے میں صحیح بخاری کی ایک روایت ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفارِ قریش کو بُرا بھلا کہنے لگے.انہوں نے کہا یار سول اللہ ! مجھے تو عصر کی نماز بھی نہیں ملی یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا! میں نے بھی نہیں پڑھی.اس پر ہم اُٹھ کر بطحان کی طرف گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لئے وضو کیا اور ہم نے بھی اس کے لئے وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد آپ نے عصر کی نماز پڑھی.پھر اس کے بعد آپ نے مغرب کی نماز پڑھی.( صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلاة باب من صلى بالناس جماعة بعد ذهاب الوقت حدیث 596) علامہ ابن حجر عسقلانی بخاری کی شرح فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ ابنِ عربی نے اس بات کی تصریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نماز جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکے رکھا گیا تھا وہ صرف ایک نماز تھی یعنی نماز عصر.اس نماز کی ادائیگی یا تو اس وقت کی گئی تھی جب مغرب کی نماز کا وقت ختم ہو گیا تھا یا یہ ہے کہ سورج کے غروب ہونے کا آخری وقت تھا جب عصر کی نماز ادا کی گئی.(فتح الباری شرح صحيح بخارى لعلّامه ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحه 88 89 کتاب مواقيت الصلاة باب من صلى بالناس جماعة بعد ذهاب الوقت حديث 596.قدیمی کتب خانہ کراچی) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر جو تفصیل سے روشنی ڈالی ہے وہ اب پڑھ دیتا ہوں.
568 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ایک عیسائی پادری فتح مسیح صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ اعتراض کئے اور ایک بڑا گندہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا تو اس کا جواب آپ نے نور القرآن حصہ دوم میں دیا ہے.مختلف قسم کے اعتراضات ہیں، اُن کے جواب ہیں.اُس میں ایک یہ اعتراض بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن چار نمازیں نہیں پڑھیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جواب فرمایاوہ اُس میں لکھا ہوا یہ ہے کہ آپ فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اور آپ کا یہ شیطانی وسوسہ “ یعنی فتح مسیح کا یہ شیطانی وسوسہ) کہ خندق کھودتے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں.اول آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے.اے نادان قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں.ترک نماز کا نام قضاہر گز نہیں ہوتا.اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے“ ( چھٹ جاوے ) تو اُس کا نام فوت ہے.اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی تک قضا کے معنی بھی معلوم نہیں“.اس بارے میں عموماً ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا.وہ یہی سمجھتے ہیں کہ قضا کا مطلب یہی ہے کہ نماز ضائع ہو گئی.حالانکہ قضا کا مطلب ہے ادائیگی کی گئی.اور کچھ وقت کے بعد نماز کی ادائیگی ہو گئی.فرماتے ہیں کہ ”جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے “.( یہ جو گہرے امور ہیں ان پر کسی قسم کا اعتراض کرے.)’باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں.اس احمقانہ وسوسے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے“.(یعنی کسی قسم کی کوئی تنگی اور سختی نہیں) یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو.اس لئے اُس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے.مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں“.( یعنی چار نمازیں جمع کرنے کا ذکر نہیں ہے) ”بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی.اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرا بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہو گئی تھیں ( یعنی ادا ہی نہیں کی گئی تھیں.چار نمازیں تو خود شرع کی رُو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء.ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئی تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رد کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی“.( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 389-390) پس آپ علیہ السلام کے اس فیصلہ کے بعد، اس مہر ثبت کرنے کے بعد یہ چار نمازیں پڑھنے والی بھی جو حدیث ہے وہ بھی غلط ہے.صرف عصر کی نماز کا ہوا تھا لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنادُ کھ تھا کہ آپ نے دشمن کو بُرا کہا اور کہا کہ ہماری نمازیں ضائع کر دی ہیں.بہر حال یہ حدیث جو میں نے
569 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پچھلی دفعہ خطبہ میں پڑھی تھی اس کو پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے لٹریچر میں بھی جہاں اس کا ذکر ہے وہاں اصلاح ہو جائے گی.ایک تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی سیرۃ النبی کی جو کتاب ہے اُس میں بیان ہوئی ہے لیکن وہاں صحیح رنگ میں بیان ہوئی ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اور وہاں آپ نے ولیم میور کے الفاظ لکھے ہیں جس نے چار نمازیں جمع کرنے کا ذکر کیا ہے.لیکن حضرت میاں صاحب نے ( مرزا بشیر احمد صاحب نے) وہاں اس کے بیان کی نفی کر دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو فیصلہ ہے کہ صرف عصر کی نماز بے وقت ادا ہوئی تھی، جو حدیثوں میں بھی ملتا ہے ، بخاری سے ہی ملتا ہے ، اسی کے مطابق اس کی وضاحت کی ہے.(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین صلی میری کم از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صفحہ 588 ایڈیشن سوم 2003ء) لیکن ایک اور جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 23 مئی 1986ء میں اپنے ایک خطبے میں پانچ نمازوں کے جمع ہونے کا بیان فرمایا ہے اور مسند احمد بن حنبل کے حوالے سے بھی یا بخاری کے حوالے سے بیان فرمایا ہے.لیکن طاہر فاؤنڈیشن نے جو خطبات شائع کئے ہیں اُس میں بخاری کتاب المغازی کا حوالہ دیا ہوا ہے حالا نکہ وہاں بخاری میں اس کتاب المغازی کے تحت یہ اس طرح بیان نہیں ہوئی.(خطبات طاہر جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 377 تا 379- (خطبہ جمعہ 23 مئی 1986ء) طاہر فاؤنڈیشن ربوہ) میں عموماً اصل حدیثیں خود دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں نے حدیث کا یہ حوالہ کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے اُس خطبہ میں دیکھا تھا اس لئے میں نے چیک نہیں کیا.اور پھر یہ حوالہ بھی ( درج) تھا اس لئے غلطی بھی بہر حال ہوئی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس غلطی کا فائدہ ہوا.ایک تو لٹریچر میں جہاں کہیں بھی اگر ہے تو درستی ہو جائے گی.دوسرے مجھے خود بھی احساس ہو گیا ہے کہ بعض دفعہ جو حوالے کہیں سے لیتا ہوں اُن کو مزید چیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تیسرے یہ کہ ہمارے ادارے یہ خیال رکھیں کہ جب پہلے خلفاء کی بھی تقریر یا خطبہ شائع کر رہے ہوں تو اصل حوالہ اور اگر اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی ارشاد ہو تو اسے ضرور دیکھنا چاہئے.یہ تو ٹھیک ہے کہ خلیفہ وقت کے الفاظ کو خود کوئی ٹھیک نہیں کرے گا بلکہ خلیفہ وقت سے ہی پوچھنا چاہئے.اور پہلے خلفاء کا اگر کہیں بیان ہوا ہے تو ان حوالوں کی صحیح روایت احادیث میں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتاب میں کہیں ملتی ہے تو اُس کے مطابق درستی ہونی چاہئے لیکن وہ خلیفہ وقت سے پوچھ کر درستی ہو گی.اس لئے طاہر فاؤنڈیشن والوں کو بھی اس خطبے میں جو 1986ء کا خطبہ ہے، جہاں پانچ نمازوں کے جمع ہونے کی یہ مثال دی گئی ہے، اس کی اصلاح کرنی چاہئے تھی.اب آئندہ ایڈیشنوں میں اس کی اصلاح کریں.کس طرح کرنی ہے ؟ وہ مجھے لکھ کر بھجوائیں گے تو پھر ان کی رہنمائی کی جائے گی کہ کس طرح اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.اور آئندہ بھی یہی اصول ہے.جو بھی خلفاء ہوں گے وہ پچھلے خلفاء کی ( تحریر میں) اگر کہیں غلط روایت آجاتی ہے تو وہ اپنی ہدایت کے مطابق
570 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ٹھیک کریں گے لیکن من و عن اُس کو بغیر تحقیق کے شائع کر دینا غلط طریق ہے جبکہ دوسری روایات موجود ہوں یا بعض روایات مشکوک ہوں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس کے بارے میں فیصلہ ہو تو پھر پوری تحقیق ہونی چاہئے.بہر حال اس وضاحت کو میں ضروری سمجھتا تھا اور جیسا کہ میں نے کہا اس کا یہ فائدہ سب کو ہو گیا ہے کہ واقعاتی اور علمی صورت بھی سامنے آگئی ہے.اُس کی بھی اصلاح ہو گئی اور بعض ضمنی علمی باتیں بھی سامنے آگئیں اور انتظامی رہنمائی بھی ہو گئی.اب اس کے بعد میں جس مضمون کی طرف آنا چاہتا ہوں وہ گزشتہ دنوں وفات پانے والے چند بزرگان کا ذکر خیر ہے جن میں سے سب سے پہلے میں بیان کروں گا کہ گزشتہ ہفتہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ جو میری خالہ بھی تھیں اُن کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ را جِعُون.وفات کے وقت آپ کی عمر 82 سال تھی اور ماشاء اللہ آخر وقت تک ایکٹو (Active) تھیں.تین چار دن پہلے دل کی تکلیف ہوئی.ہسپتال میں داخل ہوئیں.ڈاکٹر نوری صاحب نے علاج کیا.ایک نالی کی اینجو پلاسٹی وغیرہ بھی ہوئی.اُس کے بعد ٹھیک بھی ہو رہی تھیں لیکن لگتا ہے کہ پھر دو تین دن بعد دوبارہ اچانک ہارٹ اٹیک ہوا ہے جو جان لیوا ثابت ہوا.ہسپتال میں ہی تھیں.اور اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں.مرحومہ بہت ہنس مکھ ، خوش مزاج اور دوسروں کا ہر طرح سے خیال رکھنے والی تھیں.ظاہری مالی مدد بھی اور جذبات کا خیال رکھنا بھی آپ کا خاص وصف تھا.ان کے جاننے والوں کے جو تعزیت کے خط مجھے آرہے ہیں، اُن میں یہ بات تقریباً اُن کے ہر واقف نے لکھی ہے کہ ان جیسے بے نفس اور دوسروں کے احساسات اور جذبات کا گہرائی سے خیال رکھنے والے ہم نے کم دیکھے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری ان خالہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں میں انہیں جگہ دے.ان کی پیدائش اپریل 1929ء میں حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ہوئی تھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی حرم ثالث تھیں، تیسری بیوی تھیں.آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات جب ہوئی ہے تو صاحبزادی امت النصیر بیگم صرف ساڑھے تین سال کی تھیں.تو آپ کے بچپن کے جذبات اور احساسات کا نقشہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنے ایک مضمون میں کھینچا ہے.وہ ایسا نقشہ ہے جسے پڑھ کر انسان جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہیں رہتا.میں اپنے آپ پر بڑا کنٹرول رکھتا ہوں.کم از کم علیحدگی میں جب پڑھ رہا تھا تو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے.بہر حال اُس میں سے کچھ حصے جو ان کے بچپن سے ہی اعلیٰ کردار کے متعلق ہیں میں بیان کروں گا.اور اس میں بھی ہر ایک کے لئے بڑے سبق ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کی عمر صرف ساڑھے تین سال تھی جب ان کی والدہ فوت ہوئیں.لیکن اُس بچپنے میں بھی ایک نمونہ قائم کر گئیں.اور وہ مضمون جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے لکھا ہے بڑا تفصیلی مضمون ہے.بہر حال میں اُس کے کچھ حصے ، ایک دو باتیں بیان کروں گا.جب اس مضمون کو انسان پڑھ رہا ہو تو اُس موقع کی ایک
571 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جذباتی حالت ہے اور پھر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا بیان ہو تو عجیب کیفیت ہو جاتی ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ایک مضمون کا کچھ حصہ آگے جا کے پیش کروں گا.مختصر اپہلے ان کی سیرت کے بارے میں مختلف لوگوں نے جو مجھے لکھا ہے وہ میں بیان کرتا ہوں.بلکہ میری والدہ بتایا کرتی تھیں کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہاری خالہ کو اُن کی والدہ کی وفات کے بعد حضرت ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپر د کر دیا تھا اور اس کا ذکر حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمایا ہے.اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس وقت میری والدہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ ان کا خیال رکھنا.میری والدہ ان سے تقریباً 19 سال بڑی تھیں اور بچوں والا تعلق تھا.جب میری والدہ کی شادی ہوئی ہے تو اس وقت ہماری یہ خالہ سات آٹھ سال کی یازیادہ سے زیادہ نو سال کی ہوں گی.جب میری والدہ کی رخصتی ہونے لگی تو خالہ نے ضد شروع کر دی کہ میں باجی جان کے بغیر نہیں رہ سکتی میں نے بھی ساتھ جانا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے پھر سمجھایا تو خیر سمجھ گئیں.خاموش تو ہو گئیں اور بڑی افسردہ رہنے لگیں لیکن وہی صبر اور حوصلہ جو ہمیشہ بچپن سے دکھاتی آئی تھیں اُس کا ہی مظاہرہ کیا.بہر حال پھر بعد میں حضرت اماں جان ام المؤمنین کے پاس رہیں.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربوہ میں اپنے بچوں کے جو گھر بنا کر دیئے ہوئے ہیں ان میں خالہ کا اور ہماری والدہ کا گھر ساتھ ساتھ ہیں.دیوار سانجھی ہے.جب تک گھروں کے نقشے نہیں بدلے تھے اور مزید تعمیر نہیں ہوئی تھی، بعد میں کچھ مزید تعمیر ہوتی رہی تو بیچ میں دروازے بھی تھے ، ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور بڑی بے تکلفی ہوتی تھی.میں نے خالہ کو ہمیشہ ہنتے اور خوش دلی سے ملتے اور اپنے گھر میں ہر بڑے چھوٹے کا استقبال کرتے دیکھا ہے.مہمان نوازی آپ میں بہت زیادہ تھی.امیر ہو یا غریب ہو ، بڑا ہے یا چھوٹا ہے ، اپنے گھر آئے ہوئے کی خاطر کرتی تھیں.ان کے میاں، ہمارے خالو مکرم پیر معین الدین صاحب جو پیر اکبر علی صاحب کے بیٹے تھے ، ان کے خاندان کی اکثریت غیر از جماعت تھی.خالہ نے اُن کے ساتھ بھی بڑا تعلق نبھایا.مکرم پیر معین الدین صاحب کی ایک بھتیجی نے لکھا کہ ہمارے ددھیال والے غیر از جماعت ہیں لیکن اُن کے ساتھ بھی ہماری چی کا سلوک بہت محبت اور پیار اور احترام کا تھا اور سب ان کی بہت قدر کرتے اور محبت سے ان کا ذکر کرتے ہیں.یہ پیار کا سلوک اللہ کرے کہ قریب لانے کا باعث بھی بنے ، ان کی دعائیں بھی قریب لانے کا باعث بنیں اور ان لوگوں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچانے اور ماننے کی توفیق ملے.اپنے بھانجے بھانجیوں، بھتیجے بھتیجیوں سے بڑی بے تکلفی اور پیار کا تعلق تھا اور وہ سب ان سے راز داری بھی کر لیتے تھے اور اسی بے تکلفی کی وجہ سے اُن کی نصیحت کو سنتے بھی تھے اور بر انہیں مناتے تھے.ڈانٹ بھی اُن کی پیار اور ہنسی کے ساتھ ہوتی تھی.اگر نصیحت کرنی ہوتی تو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت اماں جان ( ام المومنین) اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات سنا کر تنبیہ اور نصیحت فرمایا کرتی تھیں.اُن کی ایک بھانجی نے مجھے بتایا کہ ایک موقع پر اُن سے اور ایک کزن سے غیر ارادی طور پر ایک ایسی غلطی ہوئی جس
خطبات مسرور جلد نهم غلط 572 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء طی میں لطیفہ بھی تھا.دونوں بے چین تھیں کہ کسی بڑے کو بھی اس میں شامل کیا جائے لیکن جس طرف نظر دوڑاتے تھے یہی نظر آتا تھا کہ ڈانٹ پڑے گی.آخر دونوں ان کے پاس آئیں.انہوں نے بڑے تحمل سے ان کی بات سنی.لطیفہ بھی ایسا تھا کہ ہنسی بھی آئی اور پھر اُن کو پیار سے ڈانٹا بھی اور بتایا کہ ایسے موقع پر اسلامی تعلیم اس طرح کی ہے.تو کوئی موقع بھی اسلامی تعلیم کا، احمدیت کی روایات بیان کرنے کا ضائع نہیں کرتی تھیں.جب بھی موقع ملتا اس لحاظ سے سمجھانے کی کوشش کرتیں.اور ان کی یہ ساری باتیں اسی کے گرد گھومتی ہیں.ساتھ ہی یہ بھی خاندان کی بچیوں کو سمجھاتیں کہ تمہارا اپنا ایک وقار ہے.تم لوگوں کو اُس کے اندر رہنا چاہئے.میں پہلے بھی جب اُن کے گھر گیا ہوں تو ہمیشہ خوب خاطر مدارات کی جس طرح کہ بڑوں کی کی جاتی ہے.اور خلافت کے بعد تو اُن کا تعلق پیار اور محبت کا اور بھی بڑھ گیا.اطاعت اور احترام بھی اُس میں شامل ہو گیا.با قاعدہ دعا کے لئے خط بھی لکھتی تھیں، پیغام بھی بھجواتی تھیں.خلافت کے ساتھ اظہار غیر معمولی تھا.یہاں دو مرتبہ جلسے پر آئی ہیں.انتہائی ادب اور احترام اور خلافت کا انتہا درجے میں پاس جو کسی بھی احمدی میں ہونا چاہئے وہ اُن میں اُس سے بڑھ کر تھا.اس حد تک کہ بعض دفعہ اُن کے سلوک سے شرمندگی ہوتی تھی.جب بھی آتی تھیں تو یہی فرمایا کہ ہر سال آنے کو دل چاہتا ہے لیکن عمر کی وجہ سے سوچتی ہوں اور پھر بعض دفعہ پروگرام بنا کے پھر عمل درآمد نہیں ہو تا تھا.جیسا کہ میں نے کہا، حضرت اماں جان ) اُم المومنین کے پاس بڑا عرصہ رہی ہیں.جب میری والدہ کی شادی ہو گئی تو زیادہ عرصہ پھر حضرت اماں جان کے پاس ہی رہی ہیں.بہت روایات اور واقعات حضرت اماں جان کے اُن کو یاد تھے.یہاں بھی جب ایک سال ایک جلسے پر آئی تھیں تو لجنہ یو کے کو کچھ ریکارڈ کروائے تھے ، صدر صاحبه لجنہ نے اس کا انتظام کیا تھا.وہ واقعات جو حضرت اماں جان کے ہیں اگر ان کے حوالے سے شائع نہیں ہوئے تو لجنہ کو شائع کرنے چاہئیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک مرتبہ اپنی دو بیویوں کی حضرت اناں جان کے ہاں رات کی ڈیوٹی لگائی کہ باری باری جایا کریں.جب اُن کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میرے لئے تو یہ بچی ٹھیک ہے.مجھے اسی کی عادت ہو گئی ہے.کسی اور کو میرے پاس بھیجنے کی ضرورت نہیں.حضرت اماں جان بھی آپ سے بہت محبت اور پیار کا سلوک کرتی تھیں.جب آپ کی شادی ہوئی تو حضرت اماں جان بہت اداس رہنے لگی تھیں.جب کچھ دنوں کے بعد ملنے واپس آئی ہیں تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ان کو بازو سے پکڑ کر حضرت اناں جان کے پاس لے گئے اور کہا یہ لیں آپ کی بیٹی ملنے آئی ہے.تو حضرت اناں جان کا بھی بہت پیار کا سلوک تھا.خلافت کے تعلق میں بات کر رہا تھا.خلافت سے محبت اور وفا کے ضمن میں یہ بھی بتادوں کہ وہ اس میں اس قدر بڑھی ہوئی تھیں کہ کسی بھی قریبی رشتے کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور اس وجہ سے بعض دفعہ اُن کو بعض پریشانیاں بھی اٹھانی پڑیں لیکن ہمیشہ خلافت کے لئے وہ ایک ڈھال کی طرح کھڑی رہیں.اُن کے گھر میں پلنے بڑھنے والے لڑکے نے جو جوان ہے بلکہ بڑی عمر کا ہو گا، اُس نے مجھے لکھا کہ محترمہ بی بی جان کی وفات پر ہمارے دل کو بہت
573 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم صدمہ پہنچا ہے کیونکہ ہم ایک نہایت نیک، دعا گو اور بزرگ ہستی سے محروم ہو گئے.پھر آگے لکھتے ہیں کہ بی بی جی نہایت نیک دعا گو ، غریبوں اور مستحق لوگوں کی مدد کرنے والی، خدا ترس عورت تھیں.ہمیشہ سے ہمیں خلافت سے چمٹے رہنے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور خلیفہ وقت کے احکامات کی تکمیل کے لئے موقع ڈھونڈھتی رہتی تھیں.پھر کہتے ہیں کہ محلے میں لجنہ کے کام بھی کرتی تھیں تو اکثر لجنہ کا جو ”مصباح “ رسالہ ہے، اُس کا چندہ وغیرہ لینے کے لئے جو ممبرات تھیں اُن کے پاس مجھے بھیجا کرتی تھیں اور اگر کسی کے گھر سے دیر ہو جاتی یا چندہ نہیں آتا تھا تو اپنے پاس سے دے دیا کرتی تھیں اور یہی فکر رہتی تھی کہ چندے جمع کروانے میں لیٹ نہ ہوں.پھر یہ لکھا کہ کبھی کبھی بازار سے سودا لینے بھیجتیں تو پیسے تھوڑے ہو جاتے.میں اپنی طرف سے خرچ کر لیتا تو کہتیں فوراً میرے سے لے لیا کرو.میں کسی کا مقروض نہیں رہنا چاہتی.اسی طرح یہ لکھنے والے (ممتاز نام ہے اس کا) لکھتے ہیں کہ پھر جس مہینے کوئی زیادہ شادی کارڈ آتے تو مجھے فرماتیں کہ ان تمام کارڈ کی لسٹ بناؤ اور مجھے یاد کرا دینا اور بتاتی تھیں کہ خاندان کی یا بزرگوں کی جو سابقہ خادمہ یا پرانی خادمائیں تھیں اُن کے ضرور جاتی تھیں، یا کہتیں کہ ایک غریب لڑکی کی شادی ہے یہ ضرور یاد کرانا اور بعض اوقات دن میں تین تین بار کہتی تھیں کہ میں نے اس غریب لڑکی کی شادی پر ضرور جانا ہے، تیار رہنا.اور اسی طرح اُن کی اور نصیحتیں ہیں.ان کے داماد سید قاسم احمد نے لکھا ہے کہ خلیفہ وقت سے محبت اور اطاعت میں خالہ نے محلے کی لجنہ میں جس کی وہ صدر رہی ہیں بہت غیر معمولی اثر پیدا کیا تھا.اس معاملے میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ایک فطری جذبہ تھا.جس دن وفات ہوئی ہے صبح بار بار کہہ رہی تھیں کہ حضور کی خدمت میں میرے لئے دعا کی درخواست کر دو.معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں اپنی وفات کا اندازہ تھا کیونکہ اپنی ایک نواسی کو انہوں نے اپنی فوت شدہ ایک بھابھی کے بارے میں کہا کہ وہ آئی ہیں.بیٹیوں کو بلا کر پیار کیا اور کہا کہ مجھے معاف کر دینا.بے شمار خوبیاں تھیں.بطور ماں اور ساس اور بیوی کے ان کا نمونہ نہایت اعلیٰ تھا.اپنے میاں مرحوم کے مزاج کے مطابق اُن کا ہمیشہ خیال رکھا اور کبھی کوئی شکوے کا موقع نہیں دیا.یہ جو پرانے بزرگ ہیں ان کی مثالیں میں اس لئے بھی پیش کرتا ہوں کہ ہمارے نئے جوڑوں کو، ایسے خاندانوں کو، میاں بیوی کو جن کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ان پر بھی غور کرنا چاہئے.خاص طور پر لڑکیوں کو ، عورتوں کو اس بات کا خوب خیال رکھنا چاہئے کہ اُن کی سب سے پہلی ذمہ واری اپنے گھروں کو سنبھالنا ہے.پھر لکھتے ہیں اپنے میاں کی کامل اطاعت کی اور بیٹیوں کو بھی اپنے خاوندوں کے بارے میں یہی نصیحت کی کہ اپنے خاوندوں کا خیال رکھا کرو.کبھی اپنے میاں سے اُن کو بحث کرتے نہیں دیکھا.نصیحت کرتیں تو اکثر حضرت مسیح موعود، حضرت مصلح موعود اور حضرت اماں جان کا ذکر ہوتا.غصہ اگر کبھی آیا بھی تو بہت تھوڑی دیر کے لئے اور پھر وہی شفقت والا انداز ہو تا.اور لڑکیوں کو ، خاندان کی لڑکیوں کو ہمیشہ نصیحت کیا کرتی تھیں کہ ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم سے کسی کو ٹھو کر نہیں لگنی چاہئے.اللہ کرے کہ اُن کی یہ دعائیں اور یہ نصیحتیں اُن کی بچیوں کے بھی اور خاندان کی دوسری بچیوں کے بھی کام آنے والی ہوں.پھر یہ لکھتے ہیں کہ ملازموں کے ساتھ بھی بہت شفقت کا سلوک تھا.جو بچیاں گھر میں پل بڑھ کے جو ان
574 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء ہوئیں، اُن کا جہیز چھوٹی عمر سے ہی بنانا شروع کر دیا.شادیوں کے اخراجات بھی ادا کئے.بعض دفعہ دیکھنے میں آیا کہ کام کرنے والی خاتون اور اُن کی بیٹیوں نے انتہائی بد تمیزی کی.بعض نے مشورہ دیا کہ فور فارغ کر دینا چاہئے مگر فرماتی رہیں کہ ابھی تو میں نے ان کی شادیاں کرنی ہیں.شادی کے بعد اُن کے دکھ سکھ میں شامل ہوتی تھیں.آج کل جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں رشتوں کو نبھانے کے لئے یہ نصیحت بھی بڑی کام کی ہے کہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ بہو کو سمجھانا ہو تو بیٹے کو نصیحت کرنی چاہئے اور اگر داماد کو سمجھانا ہو تو بیٹی کو نصیحت کرنی چاہئے.احسان کرتے وقت طریق ایسا اختیار کرتیں کہ اگلے کو محسوس نہ ہو.عبادات اور چندوں میں غیر معمولی با قاعدگی تھی اور کوشش ہوتی تھی کہ اپنے اوپر اگر تکلیف بھی وارد کرنی پڑے تو زیادہ سے زیادہ کریں اور ان فرائض کو کبھی پڑے نہ کریں.1944ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک کی تو آپ نے اپنا تمام زیور اس میں پیش کر دیا.تیرہ سال کی عمر میں قادیان میں منتظمہ دار المسیح کا فریضہ انجام دیا.سیکرٹری ناصرات قادیان بھی رہیں.ہجرت کے بعد رتن باغ اور پھر ربوہ میں خدمات سر انجام دیں.اُن کو ہر طرح مختلف موقعوں پر خدمت کا موقع ملا اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ اُن کو کسی عہدے کی خواہش ہو.عہدہ رکھتے ہوئے بھی اگر ایک معمولی سا کام کہا گیا تو فوراً اُس کے لئے تیار ہو جاتی تھیں.علمی اور انتظامی لحاظ سے، دینی تعلیم کے لحاظ سے بڑی باصلاحیت تھیں.انہوں نے اپنے ایک انٹر ویو میں بتایا کہ رتن باغ لاہور میں ممانی جان حضرت صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ساتھ رات کو دورہ کرتی تھیں اور جن کے پاس اوڑھنے کو کپڑا نہیں ہو تا تھا اُن کو کمبل دیا کرتی تھیں.یہ بھی ان کا تاریخی واقعہ ہے کہ 1949ء میں حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اماں جان کے ساتھ اُن کی گاڑی میں ربوہ آنے کا اعزاز حاصل ہوا.آپ فرمایا کرتی تھیں کہ یہ میری زندگی کا یاد گار واقعہ ہے.مسجد مبارک ربوہ کی سنگ بنیاد کی تقریب میں ایک اینٹ پر دعا کرنے والی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواتین میں شامل تھیں.جب ربوہ آباد ہوا تو کچے مکان تھے.ان کو وہاں بھی ربوہ کے کچے مکانوں میں لجنہ کی خدمت کی توفیق ملی.پھر ان کو صدر لجنہ حلقہ دارالصدر شمالی بڑا لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی.1973ء سے 1982ء تک نائب صدر لجنہ ربوہ رہیں.جب میری والدہ وہاں صدر لجنہ ربوہ تھیں تو اُس وقت اُن کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ملی.پھر 82ء کے بعد ایک دو سال خدمتِ خلق کی سیکرٹری لجنہ رہیں.سیکرٹری ضیافت بھی رہیں.اور اسی طرح محلے کے علاوہ مختلف عہدوں پر کام کرتی رہیں.اور ہر موقع پر جو بھی خدمت ان کے سپر د ہوئی، جو بھی عہدہ تھا بڑی عاجزی سے خدمت کیا کرتی تھیں.ان کی ایک بیٹی نے لکھا کہ امی کی بیماری میں اگر کوئی آپ سے ملاقات کے لئے آتا اور ملاقات نہ ہو سکنے کی وجہ سے واپس چلا جاتا تو آپ کو بہت زیادہ افسوس ہو تا تھا.ہمیں بار بار سمجھاتی تھیں کہ کوئی بھی جو ملاقات کے لئے آئے اُسے نہ روکا کرو.کبھی منع نہ کیا کرو.حضرت مصلح موعودؓ کی ڈیوڑھی سب کے لئے کھلی رہتی تھی، ہر کوئی مل سکتا تھا تو پھر میری طرف سے کیسے انکار ہو سکتا ہے.پھر ایک بیٹی اُن کی لکھتی ہیں کہ امی کو اپنے سب بہن بھائیوں سے بہت محبت تھی.یہ بات مذاق میں بھی برداشت نہیں تھی کہ اُن
575 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کے بہن بھائیوں کے بارے میں کوئی بات کرے یا سوال کرے کہ فلاں آپ کا سگا بہن بھائی ہے یا سوتیلا.(حضرت مصلح موعودؓ کی بیویاں تھیں.ہر بیوی سے مختلف اولاد تھی تو سگے سوتیلے کا بھی وہاں سوال نہیں اُٹھا) اور اگر کبھی کوئی پوچھ بھی لیتا تو فوراً کہتیں کہ یہ سگے سوتیلے کی باتیں نہیں کرنی کیونکہ یہ بات اباجان کو یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو سخت ناپسند تھی.لکھتی ہیں کہ ہمارے ایک غیر احمدی چانے کہا کہ بھا بھی ہمیشہ بہت وقار کے ساتھ رہتی ہیں.پھر والدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ خالہ امی سے بہت محبت تھی اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ باجی جان نے مجھے پالا ہے.ایک دفعہ ابا جان نے مجھے باجی جان کے سپر د کر دیا اور باجی جان نے اُسے ہمیشہ نبھایا.( ہماری والدہ کو چھوٹے بہن بھائی باجی جان کہتے تھے).حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی ایک خواب کا ذکر کیا.بڑی لمبی خواب ہے جس میں حضرت سید و سارہ بیگم صاحبہ آئی ہیں اور اور باتوں کے علاوہ انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو کہا کہ آپ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں اُن کو جواب دیا کہ تم نے تو مجھے چھیرو (صاحبزادی امتہ النصیر کو گھر میں پیار سے چھیر و کہتے تھے ) جیسی بیٹی دی ہے میں کیسے خفا ہو سکتا ہوں.(ماخوذ از رؤیاو کشوف سیدنا محمود صفحه 567-568 رویا نمبر 598 زیر اہتمام فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) اس بات کا بہت خیال رکھتی تھیں کہ آپ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں اور یہ کہ آپ کی وجہ سے حضور رضی اللہ عنہ کی ذات پر کوئی حرف نہ آئے.ایک واقعہ جو آپ نے کئی اجلاسات میں بھی سنایا کہ ایک دفعہ آپ اپنے بھائی کے گھر جارہی تھیں جو سڑک کے دوسری طرف تھا.یعنی ادھر ان کا گھر ہے اور سڑک کے پار بھائی کا گھر تھا کہ سامنے تو بھائی کا گھر ہے جہاں جانا ہے تو آپ نے بجائے اس کے کہ با قاعدہ برقعہ پہنیں اور نقاب باندھیں برقعہ کا نچلا حصہ سر پر ڈال لیا.برقعہ کا جو کوٹ ہوتا ہے وہ سر پر ڈال کے گھونگٹ نکال کے چل پڑیں.جب گھر سے باہر نکلیں اور سڑک کے درمیان میں پہنچیں تو دیکھا کہ حضرت مصلح موعودؓ بھی سڑک پر تشریف لا رہے ہیں.پرانے زمانے کی بات ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی قصر خلافت سے اس طرف آرہے تھے.فرماتی ہیں کہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا.چنانچہ میں اسی طرح اپنے گھر آگئی.میرا خیال تھا کہ حضور کا دھیان میری طرف نہیں ہو گا.اگلے روز جب میں ناشتے کے وقت حضور سے ملنے گئیں تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا.دیکھو تم ایک قدم آگے بڑھاؤ گی تو لوگ دس قدم آگے بڑھائیں گے.پس پردے کا خیال، لحاظ رکھو.اس طرح حضرت مصلح موعودؓ تربیت فرمایا کرتے تھے.اللہ کرے ان کے بچوں میں بھی اور خاندان کی باقی بچیوں میں بھی اور جماعت کی بچیوں میں بھی پر دے کا احساس اور خیال ہمیشہ رہے.حضرت مصلح موعودؓ نے جو مضمون لکھا جس کا میں نے ذکر کیا تھا اس میں آپ لکھتے ہیں کہ امتہ النصیر جو تین ساڑھے تین سال کی عمر کی بچی ہے اور ہر وقت اپنی ماں کے پاس رہنے کے سبب اس سے بہت زیادہ مانوس تھی.اپنے بھائی کے سمجھانے کے بعد وہ خاموش سی ہو گئیں جیسے کوئی حیران ہو تا ہے.وہ موت سے ناواقف تھیں.وہ
576 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم موت کو صرف دوسروں سے سن کر سمجھ سکتی تھیں.نامعلوم اُس کے بھائی نے اُسے کیا سمجھایا کہ وہ نہ روئی، نہ چینی، نہ چلائی، وہ خاموش پھرتی رہی اور جب سارہ بیگم کی لاش کو چارپائی پر رکھا گیا اور جماعت کی مستورات جو جمع ہو گئی تھیں، رونے لگیں تو ( صاحبزادی امتہ النصیر) کہنے لگی کہ میری اُمی تو سورہی ہیں یہ کیوں روتی ہیں ؟ میری امی جب جاگیں گیں تو میں اُن سے کہوں گی کہ آپ سوئی تھیں اور عور تیں آپ کے سرہانے بیٹھ کر روتی تھیں.جب ان کی والدہ کی وفات ہوئی ہے تو حضرت مصلح موعودؓ سفر پر تھے اور پیچھے سے ان کی تدفین ہو گئی تھی.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جب میں سفر سے واپس آیا اور امۃ النصیر کو پیار کیا تو اس کی آنکھیں پر نم تھیں لیکن وہ روئی نہیں.میں نے اُسے گلے لگا کر پیار کیا مگر وہ پھر بھی نہیں روئی.حتی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اُسے نہیں معلوم کہ موت کیا چیز ہے.مگر نہیں یہ میری غلطی تھی.یہ لڑکی مجھے ایک اور سبق دے رہی تھی.سارہ بیگم دارالا نوار کے نئے مکان میں فوت ہوئیں.جب ہم اپنے اصلی گھر دار المسیح میں واپس آئے تو معلوم ہوا اس کے پاؤں میں بوٹ نہیں.ایک شخص کو بوٹ لانے کے لئے کہا گیا.وہ بوٹ لے کر دکھانے کے لئے لایا تو میں نے امۃ النصیر سے کہا تم پسند کر لو.جو بوٹ تمہیں پسند ہو وہ لے لو.وہ دو قدم تو بے دھیان چلی گئی پھر یکدم رکی اور ایک عجیب حیرت ناک چہرے سے ایک دفعہ اس نے میری طرف دیکھا اور ایک دفعہ اپنی بڑی والدہ کی طرف ( یعنی حضرت اُم ناصر کی طرف) جس کا یہ مفہوم تھا کہ تم تو کہتے ہو جو بوٹ پسند ہو وہ لے لو مگر میری ماں تو فوت ہو چکی ہے.مجھے بوٹ لے کر کون دے گا؟ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ اُس حالت میں وفور جذبات سے اُس وقت مجھے یقین تھا کہ میں نے بات کی، یہاں وہاں ٹھہرارہا تو آنسو میری آنکھوں سے ٹپک پڑیں گے.اس لئے میں نے فور آمنہ پھیر لیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ بوٹ اپنی امی جان کے پاس لے جاؤ.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں سب بچے اپنی ماؤں کو امی کہتے ہیں اور میری بڑی بیوی ام ناصر کو امی جان کہتے ہیں تو میں نے جاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو امۃ النصیر اپنے جذبات پر قابو پا چکی تھیں.وہ نہایت استقلال سے بوٹ اُٹھائے اپنی امی جان کی طرف جارہی تھی.بعد کے حالات نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ اپنی والدہ کے وفات کے حادثے کو باوجود چھوٹی عمر کے خوب سمجھتی ہے.(ماخوذ از میری ساره, انوار العلوم جلد نمبر 13 صفحہ 186-187) پھر حضرت خلیفہ ثانی اُن کے لئے دعا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ننھی سی کلی کو مرجھا جانے سے محفوظ رکھے.وہ اس چھوٹے سے دل کو اپنی رحمت کے پانی سے سیراب کرے اور اپنے خیالات اور اچھے افکار اور اچھے جذبات کی کھیتی بنائے جس کے پھل ایک عالم کو زندگی بخش، ایک دنیا کے لئے موجب برکت ثابت ہوں.ارحم الراحمین خدا تو جو دلوں کو دیکھتا ہے، جانتا ہے کہ یہ بچی کس طرح صبر سے اپنے جذبات کو دبارہی ہے تیری صفات کا علم تو نا معلوم اسے ہے یا نہیں مگر تیرے حکم پر تو وہ ہم سے بھی زیادہ بہادری سے عامل ہے.اے مغیث ! میں تیرے سامنے فریادی ہوں کہ اس کے دل کو حوادث کی آندھیوں کے اثر سے محفوظ رکھ.جس طرح اُس نے ظاہری صبر کیا ہے اسے باطن میں بھی صبر دے.جس طرح اُس نے ایک زبر دست طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تو اُسے
577 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم حقیقی طاقت بھی بخش.میرے رب! تیری حکمت نے اُسے اس کی ماں کی محبت سے اس وقت محروم کر دیا ہے جبکہ وہ ابھی محبت کا سبق سیکھ رہی تھی.عشق و محبت کے سرچشمے ! تو اُسے اپنی محبت کی گود میں اٹھا لے اور اپنی محبت کا بیچ اس کے دل میں بو دے.ہاں ہاں تو اسے اپنے لئے وقف کر لے.اپنی خدمت کے لئے چن لے.وہ تیری ، ہاں صرف تیری محبت کی متوالی، تیرے در کی بھکارن اور تیرے دروازے پر دھونی رمانے والی ہو اور تو اُسے دنیا کی نعمت بھی دے تا وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہ ہو.باوجود ہر قسم کی عزت کے اُس کا دنیا سے ایسا تعلق ہو جیسا کہ کوئی س بارش کے وقت ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف جاتے وقت دوڑتا ہوا گزر جاتا ہے.(ماخوذ از میری ساره, انوار العلوم جلد نمبر 13 صفحہ 187-188) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی جو ساری زندگی تھی اس میں نظر آتا تھا کہ یہ دعا حضرت مصلح موعودؓ کی بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے.اللہ کرے کہ ان کے بچے بھی اس دعا کے مصداق بنیں بلکہ خاندان کے تمام افراد اور جماعت کے تمام افراد اس دعا کے مصداق بننے والے ہوں.پھر اپنے تمام بچوں کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دعا کی جو میں سمجھتا ہوں بیان کرنی ضروری ہے.میں پڑھتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس کا مصداق پوری جماعت کو بھی بنائے.کیونکہ آجکل یہ زمانہ ہے جس میں انشاء اللہ ہم آئندہ فتوحات کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں.تو اگر یہ ہماری حالت رہے گی تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.آپ کی یہ دعا ہے کہ : ”اے میرے رب !!......اپنے باقی بچوں کو بھی تیرے سپر د کر تا ہوں.یہ دنیا کے گنتے نہ ہوں، یہ تیری جنت کے پرند ہوں.یہ دین کے ستون ہوں اور بیت اللہ کے محافظ - آسمان کے ستارے جو تاریکی میں گمراہوں کے رہنما ہوتے ہیں.چمکنے والا سورج جو تاریکی کو پھاڑ کر محنت، ترقی اور کسب کے لئے راستہ کھول دیتا ہے.سوتوں کو جگاتا اور بچھڑوں کو ملاتا ہے.یہ محبت کے درخت ہوں جن کے پھل بغض و حسد کی کڑواہٹ سے کلی طور پر پاک ہوتے ہیں.یہ راستہ کا کنواں ہوں جو سایہ دار درختوں سے گھرا ہوا ہو جس پر ہر تھکا ہو امسافر ہر واقف اور ناواقف آرام کے لئے ٹھہر تا ہو.جس کا ٹھنڈا پانی ہر پیاسے کی پیاس بجھاتا اور جس کا لمباسایہ ہر بے کس کو اپنی پناہ میں لیتا ہو.یہ ظالموں کو ظلم سے روکنے والے، مظلوموں کے دوست، خود موت قبول کر کے دنیا کو زندہ کرنے والے، خود تکلیف اُٹھا کر لوگوں کو آرام دینے والے ہوں.وہ وسیع الحوصلہ، کریم الاخلاق اور طویل الآیا دی ہوں.جن کا دستر خوان کسی کے لئے ممنوع نہ ہو.وہ سابق بالخیرات ہوں.ان کا ہاتھ نہ گردن سے بندھا ہوا ہو نہ اس قدر کھلا کہ ندامت و شر مند گی اس کے نتیجے میں پیدا ہو.اے میرے ہادی! وہ دین کے مبلغ ہوں.اسلام کی اشاعت کرنے والے ، مردہ اخلاق کو زندہ کرنے والے، تقویٰ کے مٹے ہوئے راستوں کو پھر روشن کرنے والے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوان، لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے مصداق، ابنائے فارس کی سنت کو قائم رکھنے والے، تیرے لئے غیرت مند، تیرے دین کے لئے سینہ سپر ، تیرے رسولوں کے فدائی، پاک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے سردار کے
خطبات مسرور جلد نهم 578 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء حقیقی فرزند ، عاشق صادق جن کے عشق کی آگ کبھی دھیمی نہ ہوتی ہو.اے میرے مالک! وہ تیرے غلام ہوں، ہاں صرف تیرے غلام.دنیا کے بادشاہوں کے سامنے اُن کی گردنیں نیچی نہ ہوں لیکن تیرے دربار میں وہ سب سے زیادہ منکسر المزاج ہوں.پاک نسلوں کے چھوڑنے والے، دنیا کو معرفت کی راہوں پر چلانے والے، ایک نہ مٹنے والی نیکی کا بیج بونے والے.نیکوں کو اور اونچالے جانے والے، بدوں کی اصلاح کرنے والے، مردہ دلی سے متنفر اور روحانی زندگی کے زندہ نمونے.اے میرے حی و قیوم خدا! وہ اور ان کی اولادیں اور ان کی اولاد میں ابد تک دنیا میں تیری امانت ہوں جس میں شیطان خیانت نہ کر سکے.وہ تیر امال ہوں جسے کوئی پچرانہ سکے.وہ تیرے دین کی عمارت کے لئے کونے کا پتھر ہوں جسے کوئی معمار رد نہ کر سکے.وہ تیری کھنچی ہوئی تلواروں میں سے ایک تلوار ہوں جو ہر شر کو جڑ سے کاٹنے والی ہو.وہ تیرے عفو کا ہاتھ ہوں جو گناہگاروں کو معاف کرنے کے لئے بڑھایا جائے.وہ زیتون کی شاخ ہوں جو طوفان کے ختم ہونے کی بشارت دیتی ہے.ہاں اے حی و قیوم خدا! وہ تیر انگل ہوں جو تو اپنے بندوں کو جمع کرنے کے لئے بجاتا ہے.غرضیکہ وہ تیرے ہوں اور تُو اُن کا ہو یہاں تک کہ اُن میں سے ہر ایک اس وحدت کو دیکھ کر کہہ اُٹھے کہ من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی تا کس نه گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری آمين ثُمَّ آمِيْن وَ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتْ يَا رَبِّ الْعَالَمِيْن.میری ساره، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 188-189) یہ وہ دعا ہے جو اللہ کرے کہ پوری جماعت کے ہر فرد پر پوری ہو.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور ان کے بچوں کو ان کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے.دوسر ا ذ کر ہمارے سلسلے کے ایک بزرگ کا ہے جو مکرم مولانا عبد الوہاب احمد صاحب شاہد مربی سلسلہ ابن مکرم مولانا عبد الرحمن صاحب مرحوم ہیں.عبد الوہاب احمد شاہد صاحب 11 ستمبر 2011ء کو ڈیڑھ ماہ شدید بیمار رہنے کے بعد بقضائے الہی وفات پاگئے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.عبد الوہاب شاہد صاحب مربی سلسلہ مؤرخہ 5 ستمبر 1943ء کو گوئی ضلع کوٹلی آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے.وہیں تعلیم حاصل کی.1967ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی.آپ نے پاکستان میں دس مختلف جگہوں پر خدمات سر انجام دیں.اس کے بعد 1991ء تا 1999ء نظارت دعوت الی اللہ کے تحت مختلف اضلاع میں دعوت الی اللہ کے اہم فریضے کی نگرانی کا کام سر انجام دیتے رہے.بیرونِ ملک تنزانیہ میں مارچ 1976ء سے اکتوبر 1979ء تک خدمت کی توفیق پائی.دوسری دفعہ تنزانیہ میں ہی جولائی 1986ء تک بطور امیر و مشنری انچارج خدمت کی توفیق پائی.1999ء تاد سمبر 2006ء بطور مربی دارالضیافت ربوہ خدمت کی توفیق پائی اور اب اس کے بعد سے دفتر اصلاح و ارشاد مرکز یہ میں خدمت سر انجام دے رہے تھے.آپ نہایت خوش مزاج، ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے.خلافت کے ساتھ والہانہ عشق و
خطبات مسرور جلد نهم 579 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء محبت کا تعلق تھا.مہمان نواز اور غریبوں کے ہمدرد تھے.ہر دلعزیز اور پسندیدہ شخصیت تھے.علم سے شغف تھا.الفضل اور دیگر جرائد میں مضامین لکھتے رہتے تھے.چار کتب کے مصنف تھے.آپ کے خاندان کے مورث اعلیٰ اور جد امجد دہلی کے پرانے گدی نشین تھے جنہوں نے ہندوستان میں اسلام پھیلایا.اُن کی نسل سے حضرت مولانا محبوب عالم صاحب پیدا ہوئے.آپ دہلی سے گجرات ہجرت کر کے چک میانہ ڈھلوں میں فروکش ہوئے.پھر یہاں سے درس و تدریس کے سلسلے میں کشمیر گئے.آپ گوئی کے علاقہ میں تھے جب آپ کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا علم ہوا.آپ کہا کرتے تھے کہ یہ ایک مصلح ربانی کی آمد کا وقت ہے.امام مہدی کو آہی جانا چاہئے.اسی خیال میں مستغرق تھے کہ رویا میں دیکھا کہ مسیح اور مہدی موعود کا ظہور ہو چکا ہے.چنانچہ آپ بغرضِ تحقیق روانہ ہوئے اور اپنے استاد حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی سے جا کر ملے اور اپنی رؤیا کا ذکر کیا.انہوں نے کہا کہ ہم تو احمدیت قبول کر چکے ہیں.آپ بھی علامات کے مطابق پرکھ لیں.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں جلوہ افروز تھے.آپ لاہور پہنچے اور دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.بیعت کر کے جب واپس لوٹے تو آپ کی بہت مخالفت ہوئی لیکن کئی سعید فطرت لوگوں نے آپ کے ذریعے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی.تیسر اوفات یافتہ کا جو ذکر ہے وہ مکرم عبد القدیر فیاض صاحب چانڈیو مربی سلسلہ ابن مکرم ماسٹر غلام محمد صاحب چانڈیو مر حوم ہیں.8 ستمبر کو ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.مرحوم بچوں کو سکول چھوڑنے جا رہے تھے کہ راستے میں ہارٹ اٹیک ہوا.ہسپتال پہنچایا گیا لیکن اللہ کی تقدیر غالب آئی اور وفات پاگئے.یکم مئی 1974ء کو شاہد کی ڈگری حاصل کی اور میدانِ عمل میں قدم رکھا.پاکستان میں اصلاح وارشاد مقامی، مرکزیہ اور وقف جدید کے تحت چودہ مختلف مقامات پر خدمت دین کی خدمت پائی.دو مر تبہ بیرونِ ملک تنزانیہ میں بھی خدمت کی توفیق پائی.آپ نے مٹھی نگر پارکر میں بطور نائب ناظم وقف جدید خدمت کی توفیق پائی اور آجکل کراچی میں تعینات تھے.مرحوم نہایت خوش مزاج، نیک سیرت، ہنس مکھ اور با اخلاق انسان تھے.جس جماعت میں جاتے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنالیتے.مہمان نواز، غریبوں کے ہمدرد اور ان سے گھل مل کر رہتے تھے.آپ کی نمایاں خوبی تھی کہ نہایت صابر و شاکر تھے.برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھا.اگر کوئی تکلیف بھی دیتا تو اس سے ہمیشہ حسن سلوک کرتے اور کبھی بدلہ نہ لیتے.خلافت احمدیہ سے والہانہ محبت اور عشق کا تعلق تھا اور خلیفہ وقت کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتے اور مکمل اطاعت کرتے اور جماعتوں سے بھی اطاعت کروانے کی کوشش کرتے رہتے.مرحوم کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا.اپنے حلقے میں ہر دلعزیز اور پسندیدہ شخصیت تھے.جن جماعتوں میں آپ نے خدمت کی توفیق پائی وہ آج بھی آپ کو بہت اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہیں.آپ سندھ کے مشہور چانڈیو قبیلے سے پہلے واقف زندگی تھے اور سندھی مربیان میں تیسرے واقف زندگی تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.چوتھا ذکر مکرم منیر احمد خان صاحب ابن مکرم عبد الکریم خان صاحب کراچی کا ہے جو 7 نومبر کو چھہتر
580 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ حضرت حکیم مولوی انوار حسین خان صاحب کے پوتے اور حضرت عبد الرحیم نیر صاحب کے نواسے اور مکرم یحیی خان صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے بھتیجے تھے.آپ ایک ذہین اور قابل انجنیر تھے.ربوہ میں جو جلسہ ہو تا تھا اس جلسہ سالانہ پر خدمات بجا لاتے رہے.ربوہ میں جب پہلا روٹی پلانٹ لگا تو آپ کو اس موقعے پر بھی نمایاں خدمت کی توفیق ملی.آپ جلسہ سالانہ برطانیہ کے ٹرانسلیشن اور کمیونی کیشن سیٹ اپ میں بھی اپنی خدمت پیش کرتے رہے.آپ نے کشتی نوح کے بارے میں تحقیق کی اور اس پر قرآن، بائبل اور زمانہ قدیم کی دیگر کتب کی روشنی میں ایک کتاب مرتب کرنے کی توفیق پائی جو ابھی شائع نہیں ہو سکی.کشتی نوح کے متعلق ان کی ریسرچ کو حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے درس القرآن اور سوال و جواب کی مجالس میں بھی بیان فرمایا ہوا ہے.بڑے مخلص، باوفا اور غیروں کی فراخدلی سے مدد کرنے والے نیک انسان تھے.موصی تھے.ان کی اہلیہ حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کی ماموں زاد بہن ہیں.یعنی یہ حضرت سید عبد الرزاق صاحب کے داماد تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، مغفرت کا سلوک فرمائے.تمام مرحومین جن کا میں نے ذکر کیا ہے، نمازوں کے بعد ، انشاء اللہ اُن کا جنازہ غائب بھی ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 9 دسمبر تا 15 دسمبر 2011ء جلد 18 شمارہ 49 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 581 47 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 2011ء بمطابق 25 نبوت 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج کل براعظم افریقہ کے بعض ممالک کی آزادی کی گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے.ان تقریبات کے منانے میں ہماری پین افریقن ایسوسی ایشن بھی حصہ لے رہی ہے.یہ ایسوسی ایشن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے وقت میں یہاں بنائی گئی تھی جو افریقن احمدی احباب کی ایسوسی ایشن ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ہماری یہ ایسوسی ایشن بھی افریقن ممالک کی خوشیوں میں شامل ہو رہی ہے، پروگرام بنا رہی ہے.انہوں نے مجھے بھی کہا کہ اس موقع پر جو فنکشن کیا جارہا ہے اُس میں شامل ہوں.اُن کا جو فنکشن ہو گا اُس میں تو انشاء اللہ میں شامل ہوں گا لیکن آج آزادی کے حوالے سے آپ کے سامنے کچھ کہنا چاہتا ہوں.غلامی سے آزادی اور آزادی مذہب و ضمیر ایک بہت بڑی نعمت ہے.افریقہ بھی وہ براعظم ہے جس کے اکثر ممالک بڑا المبا عرصہ محکوم قوم کے طور پر غلام بن کر زندگی گزارتے رہے.اس لئے ان ممالک کی یوم آزادی کی خوشیاں اور جوبلی منانا یقینا اُن کے لئے بہت اہم ہے اور یہ اُن کا حق ہے.اللہ کرے کہ یہ آزادی جو انہوں نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے مختلف ممالک سے حاصل کی، یہ حقیقی آزادی ہو اور دوبارہ وہ غلامی کی زندگی میں نہ جکڑے جائیں بلکہ اگر نیک نیتی سے ، ایمان داری سے، انصاف سے یہ اپنی اس آزادی کا فائدہ اُٹھاتے رہے تو کوئی بعید نہیں کہ آئندہ آنے والے سالوں میں ایک وقت میں براعظم افریقہ دنیا کی رہنمائی کرنے والا ہو.اگر مذاہب کی تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو بانیان مذاہب یا انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جن اہم کاموں کے لئے آتے ہیں اُن میں سے ایک بہت بڑا اور اہم کام آزادی ہے.چاہے وہ ظالم بادشاہوں اور فرعونوں کی غلامی سے آزادی ہو یا مذہب کے بگڑنے کی وجہ سے یا مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے اپنے مفادات کی خاطر رسم و رواج یا مذہبی رسومات کے طوق گردنوں میں ڈالنے کی غلامی سے آزادی ہو.ہر قسم کی غلامی سے رہائی انبیاء کے ذریعہ سے ہوتی ہے.لیکن یہ بد قسمتی ہے کہ بہت سی قوموں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور آزادی کے حقیقی علم برداروں کا انکار کر کے نہ صرف اپنی حقیقی آزادی سے محروم ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آکر
خطبات مسرور جلد نهم 582 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء تباہ و برباد بھی ہوئے.انہوں نے دنیاوی حاکموں کی غلامی کو احکم الحاکمین کی غلامی پر ترجیح دی.اس غلامی پر ترجیح دی جس غلامی سے آزادیوں کے نئے باب کھلتے ہیں.پس آزادی کی ترجیحات بدلنے سے نہ صرف آزادی ہاتھ سے جاتی رہی بلکہ دنیا و آخرت بھی برباد ہو گئی.پس اگر آزادی کی حقیقت کی گہرائی میں جائیں تو اصل آزادی انبیاء کے ذریعہ سے ہی ملتی نظر آتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے سامنے جو آزادی کا سورج ہے، جس کی کرنیں دور دور تک پھیلی ہوئی اور ہر قسم کی آزادی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جنہوں نے ظاہری غلامی سے بھی آزادی دلوائی اور مختلف قسم کے طوق جو انسان نے اپنی گردن میں ڈالے ہوئے تھے ، اُن سے بھی آزاد کروایا.بلکہ آپ کے ساتھ حقیقی رنگ میں جڑنے سے آج بھی آپ کی ذات آزادی دلوانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین کے خطاب سے نوازا تو آپ کی خاتمیت تمام دینی و دنیاوی حالات کا احاطہ کرتے ہوئے اُس پر مہر ثبت کر گئی.پس اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ تعالٰی کی گواہی اور اعلان کے بعد کسی سعید فطرت کے ذہن میں یہ شک پیدا بھی نہیں ہو سکتا کہ صرف اور صرف مُہر محمدی ہی ہے جو تمام قسم کے کمالات پر مہر ثبت کرنے والی ہے اور ان کمالات کی انتہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہی پوری ہوتی ہے.پس جب ہر کام اور ہر معاملے کی انتہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو کسی بھی رنگ میں آزادی دلوانے کے کمالات بھی آپ کی ذات سے ہی پورے ہونے تھے اور ہوئے.اور ایک دنیا نے دیکھا کہ یہ کمالات بڑی شان سے آپ کے ذریعے پورے ہوئے یا پورے ہو رہے ہیں اور جو حقیقت میں آپ کے ساتھ جڑنے والے ہیں وہ اب تک اس کا نظارہ دیکھ رہے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی کامل کتاب جو خاتم الکتب بھی کہلاتی ہے، اس میں آزادی کے مضمون کو مختلف حوالوں اور مختلف رنگ سے بیان کیا گیا ہے اور پھر اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اس خوبصورت تعلیم کی شان کو چار چاند لگادیتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے فَقُ رَقَبَةٍ (البلد: 14) گردن چھڑانا.یا اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ غلام کو آزاد کرنا یا آزادی میں مد د کرنا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ایک آیت کا کچھ حصہ پڑھتا ہوں کہ وائی الْمَالَ عَلَى حُبَّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَى وَ الْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ ( البقرة : 178) اور مال دے اُس کی محبت رکھتے ہوئے، اقربا کو، اور یتامی کو اور مساکین کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے آزاد کرنے کے لئے، یعنی غلاموں کے آزاد کروانے کے لئے.اور جو مضمون اس سے پہلے چل رہا ہے، اُس کو سامنے رکھیں تو بتایا گیا ہے کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے.اللہ تعالی، یومِ آخر اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر ایمان لانے کے بعد یہی نیکیاں ہیں جو بندے کو خدا کا قرب دلاتی ہیں اور ان میں غلاموں کی آزادی بھی شامل ہے.پس ایمان کی حالت کو قائم رکھنے کیلئے، نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کے لئے ، نیکیوں کے اعلیٰ نمونے دکھانے کے لئے غلاموں کی آزادی یا کسی انسانی جان کو آزاد کروانا یہ ایک
خطبات مسرور جلد نهم 583 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء بہت بڑی نیکی ہے.احادیث میں بھی اس کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں.ایک روایت میں آتا ہے، یہ بخاری کی حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا، اللہ تعالیٰ اُسے دوزخ سے کلی نجات عطا کرے گا.( بخاری کتاب کفارات الایمان باب قول اللہ تعالی: او تحریر رقبہ...حدیث نمبر 6715) پھر اسلام میں مختلف مواقع پر کفارہ کے طور پر غلام آزاد کرنے کی تعلیم قرآنِ کریم میں متعدد جگہ ہے.کہیں فرمایا کہ اگر کوئی مومن غلطی سے کسی مومن کے ہاتھ سے قتل ہو جائے تو غلام آزاد کرو اور خون بہا بھی ادا کرو.(النساء: 93) اور صرف مومن کے قتل پر ہی غلام آزاد کرنے کی یہ سزا نہیں سنائی گئی یا اس کی تحریک نہیں کی گئی.بلکہ فرمایا کہ اگر کسی قوم کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اور اُس کا کافر بھی تم سے قتل ہو گیا ہے تو ایک غلام کو آزاد کرو.(النساء: 93) پھر خدا کی قسم کھا کر توڑنے کی سزا میں جہاں اپنی حیثیت کے مطابق مختلف امکانات دیئے گئے ہیں کہ اگر یہ نہیں تو یہ سزا ہے، یہ نہیں تو یہ سزا ہے، وہاں ایک سز اغلام آزاد کرنے کی بھی ہے.(المائدہ : 90) پس مختلف موقعوں پر غلاموں کی آزادی کا جو ذکر ہے یہ اس لئے ہے کہ اسلام آہستہ آہستہ غلامی کے سلسلہ کو ختم کرنا چاہتا ہے.اُس زمانے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یا آپ سے پہلے کا زمانہ تھا، غلام رکھنے کا عام رواج تھا.اسلام نے آکر اس غلامی کے طریق کو ختم کرنے کے لئے مختلف موقعوں پر زور دیا ہے جیسا کہ میں نے بتایا.بلکہ احادیث میں یہ بھی آتا ہے، ایک روایت اسماء بنت ابی بکر سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو فرمایا کرتے تھے کہ سورج گرہن کے موقع پر بھی غلام آزاد کیا کرو.(بخاری کتاب العتق باب ما يستحب من العتاقة في الكسوف والایات حدیث 2520) یعنی جو صاحب حیثیت ہیں جن کو توفیق ہے وہ ایسا ضرور کریں.پھر غلام کی عزت اور اُس کے حق کی آپ نے اس طرح بھی حفاظت فرمائی کہ ایک روایت میں آتا ہے.سات بھائی تھے اور اُن کے پاس ایک مشترک غلام تھا.ایک موقع پر ایک بھائی کو غلام پر غصہ آیا تو اس نے اُس کو غصے میں زور سے ایک طمانچہ مار دیا، چپیڑ مار دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا اس غلام کو آزاد کرو.(مسلم كتاب الايمان باب صحبة المماليك و كفارة من لطم عبده حديث 4304) تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس غلام کو رکھو کیونکہ تمہیں غلام سے حسن سلوک ہی نہیں کرنا آتا.غرض کہ اگر اُس زمانے میں جائیں جہاں غلام رکھنا ایک عام بات بھی تھی اور جو امراء تھے اُن کے لئے ایک بڑی دولت بھی تھی.جتنے زیادہ کسی کے پاس غلام ہوتے تھے اتنا ہی وہ امیر سمجھا جاتا تھا اور امیر لوگ غلام رکھتے بھی تھے.اس وقت یہ حکم ہیں کہ اگر اصل دولت چاہتے ہو جو ایمان کی دولت ہے تو بہتر ہے کہ غلاموں کو آزاد کرو.اُن کی آزادی کے سامان پیدا کرو.اور اس حکم کے تحت صحابہ نے حسب توفیق در جنوں سے ہزاروں تک غلاموں کو آزاد کیا ہے.حضرت عثمان بن عفان کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے ایک ہی موقع پر بیس ہزار غلام آزاد کئے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے کئے.جن کو جتنی جتنی توفیق تھی انہوں نے اتنے کئے.بعضوں نے درجنوں کئے اور
خطبات مسرور جلد نهم 584 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء بعضوں نے ہزاروں کئے.جن کے پاس کام کاج کے لئے بھی غلام تھے انہیں بھی اسلامی تعلیم یہ ہے کہ ان سے بھائیوں جیسا سلوک کرو.جو خود پہنو، انہیں پہناؤ.جو خود کھاؤ، انہیں کھلاؤ.(بخاری کتاب الایمان باب المعاصى من أمر الجاهلیة..حدیث نمبر (30) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوہ یہ تھا کہ حضرت خدیجہ نے جب شادی کے بعد دولت اور اپنے غلام آپ کو دے دیئے تو آپ نے آزاد کر دیئے.اُن میں سے ایک غلام حضرت زید بن حارثہ تھے اُن کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور ایسا شفقت اور پیار کا سلوک فرمایا کہ جب اُن کے حقیقی والدین اُن کو لینے آئے تو زید نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.(اسد الغابة فى معرفة الصحابة جلد 2 زيد بن حارثة صفحه 141-142 دار الفکر بیروت 2003) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسن سلوک تھا.حسن و احسان کے کمال کی یہ وہ معراج تھی جس نے آزادی پر غلامی کو ترجیح دی، جس نے آپ کی محبت کے مقابلے میں خونی رشتے اور محبت کو جھٹک دیا.پس اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والے اس آزادی کے ہزارویں بلکہ لاکھوئیں حصے کی مثال پیش نہیں کر سکتے کہ کسی نے کبھی اس حد تک غلاموں کی آزادی کے سامان کئے ہوں، انسانیت کی آزادی کے سامان کئے ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا کہ اپنے غلاموں سے اُن کے کام کاج کے دوران حسن سلوک کرو.اور اگر سخت کام دو تو اُن کا ہاتھ بٹاؤ.(بخاری کتاب الایمان باب المعاصى من أمر الجاهلیة..حدیث نمبر (30) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کی تعریف بدل دی.اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک اٹالین مستشرق ہے، ڈاکٹر ویگیری (Vaglieri) لکھتی ہیں کہ : غلامی کا رواج اُس وقت سے موجود ہے جب سے انسانی معاشرے نے جنم لیا اور اب تک بھی باقی ہے.مسلمان خانہ بدوش ہوں یا متمدن، ان کے اندر غلاموں کی حالت دوسرے لوگوں سے بدرجہا بہتر پائی جاتی ہے.یہ نا انصافی ہو گی کہ مشرقی ملکوں میں غلامی کا مقابلہ امریکہ میں آج سے ایک سو سال پہلے کی غلامی سے کیا جائے.حدیث نبوی کے اندر کس قدر انسانی ہمدردی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ مت کہو کہ وہ میر اغلام ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میر الڑکا ہے.اور یہ نہ کہو کہ وہ میری لونڈی ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میری لڑکی ہے“.پھر لکھتی ہیں کہ ”اگر تاریخی لحاظ سے اُن واقعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں عظیم الشان اصلاحیں کیں.اسلام سے پہلے قرضہ ادانہ ہونے کی صورت میں بھی ایک آزاد آدمی کی آزادی کے چھن جانے کا امکان تھا“.(اگر ایک شخص نے کسی سے قرض لیا ہے اور وہ قرض ادا نہیں کر سکا تو جب تک وہ قرض ادا نہیں کرتا تھا اُس کو قرض دینے والے کی غلامی کرنی پڑتی تھی یا اس کے امکانات موجود تھے ) لکھتی ہیں کہ ”لیکن اسلام لانے کے بعد کوئی مسلمان کسی دوسرے آزاد مسلمان کو غلام نہیں بنا سکتا تھا.خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو محدود ہی نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بارے میں اوامر و نواہی جاری کئے اور مسلمانوں کو کہا کہ وہ قدم آگے بڑھاتے رہیں حتی کہ وہ وقت آجائے جب رفتہ رفتہ تمام غلام آزاد ہو جائیں“.page (An Interpretation of Islam by Laura Veccia Vaglieri translated by Dr.Aldo Caselli no.72-73 The Oriental & Religious Publishing Corporation Limitd Rabwah Pakistan)
خطبات مسرور جلد نهم 585 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء یہ پروفیسر دیگیری جو ہیں، انہوں نے اٹالین میں کتاب لکھی ہے.اس کا انگلش میں ترجمہ ہوا ہے اور اس میں اسلام کی تعلیم کے بارے میں بڑے اچھے طریقے سے بیان کیا گیا ہے.ایک زمانے میں جماعت احمد یہ امریکہ نے یہ کتاب شائع کی تھی اس کو دوبارہ شائع کرنا چاہئے.اگر کسی کے نام اُس وقت کے حقوق محفوظ نہیں ہیں اور امریکہ والوں کو اجازت ملی تھی تو اس کو شائع کرنا چاہئے.یہ اُن دشمنوں کا منہ بند کرنے کے لئے بہت کافی ہے جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں.پس یہ تعلیم ، یہ اسوہ جس کا اعتراف غیر بھی کئے بغیر نہیں رہے وہ عظیم الشان تعلیم اور اسوہ ہے جو انسان کی آزادی کی حقیقت ہے.یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں.قرآنِ کریم اور احادیث میں ہمیں اس بارے میں بے شمار احکامات اور رہنمائی اور ہدایات ملتی ہیں اور یہی حقیقی تعلیم ہے جس پر کار بند ہو کر دنیا کو آزادی مل سکتی ہے اور امن ، انصاف اور صلح کا قیام ہو سکتا ہے.افریقہ میں جن کو آزادی ملی ہے وہاں جماعت احمدیہ کا ، اُن لوگوں کا جو احمد ی ہوئے یہ کام ہے کہ اس تعلیم کو عام کریں، اس کو پھیلائیں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لائیں تا کہ اُن کو آزادی کی حقیقت معلوم ہو.صرف ایک دفعہ گولڈن جوبلی منا لینے سے آزادی نہیں قائم ہوتی بلکہ آزادی اُس وقت قائم ہو گی جب جو حکمران ہیں وہ بھی اور جو عوام ہیں وہ بھی اس حقیقت کو جانیں گے کہ ہم نے کس طرح اس آزادی کو قائم رکھنا ہے اور اس کے لئے کیا طریق اختیار کرنا ہے اور وہ طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اور قرآنی تعلیم میں ہی ملے گا.ویگلیری صاحبہ نے تو صرف مسلمان غلام نہیں بن سکتا لکھا ہے لیکن جو حقیقی مسلمان معاشرہ ہے اس میں کبھی بھی کوئی غلام نہیں بن سکتا.یہ بات بھی ایک مسلمان کے لئے بہت اہم ہے اور ہمیشہ یادر کھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل جو آخری نصیحت امت کو فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ نمازوں اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم کو نہ بھولنا.(سنن ابن ماجه كتاب الوصايا باب هل أوصى رسول الله صل اللہ حدیث 2698) لیکن مسلمانوں کی اکثریت کی اور خاص طور پر امراء اور ارباب حکومت کی یہ بد قسمتی ہے کہ ان ہی دونوں تعلیموں کو بھلا بیٹھے ہیں.نہ ہی نمازوں میں وہ ذوق و شوق نظر آتا ہے اور خوف خدا نظر آتا ہے، نہ ہی غلامی کو دور کرنے کی کوشش ہے.گو وہ زر خرید غلاموں والی کیفیت تو آج نہیں ہے لیکن حکومت کے نام پر عوام سے غلاموں والا سلوک کیا جاتا ہے.بعض ملکوں میں جو بے چینی اور شور شرابہ ہے ، خاص طور پر بعض مسلمان عرب ملکوں میں بھی وہ اس لئے ہے کہ عوام الناس کو یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم سے غلاموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے.ایک حکومت جمہوریت کے نام پر آتی ہے تو پھر اُس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو صدر بنا ہے وہ تاحیات رہے اور اُس کے بعد جو اُس کی اولاد ہے وہ حکومت پر قبضہ کرلے.خوشامدیوں اور مفاد پرستوں نے ان لوگوں کے ارد گرد جمع ہو کر اُن کی
586 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محد 25 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ترجیحات اور قدریں ہی بالکل بدل دی ہیں اور پھر وہ حکومت قائم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں.اپنے ہی عوام پر گولیاں چلائی جاتی ہیں.اور پھر اسلام دشمن طاقتیں یا بڑی طاقتیں یا مفاد حاصل کرنے والی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے ، ملک کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے ان فسادات کو جو عوام کی طرف سے حکومت کے ظلموں سے نجات کے لئے کئے جاتے ہیں اور زیادہ ہو ادیتی ہیں.مدد کے نام پر آتے ہیں اور پھر یہ ایک ایسا شیطانی چکر شروع ہو جاتا ہے جو ملک کی ترقی کو بھی سو سال پیچھے لے جاتا ہے اور عوام کی آزادی کی کوشش کو بھی مزید غلامی میں جکڑ لیتا ہے.اگر براہِ راست نہیں تو بالواسطہ اپنوں کی غلامی سے نکل کر غیر وں کی غلامی میں چلے جاتے ہیں.میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بعض بڑی طاقتیں جن حکومتوں کی پشت پناہی کر کے انہیں سالوں کرسی پر بٹھائے رکھتی ہیں اور عوام کی آزادی کے سلب ہونے کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کرتیں، ان کے اپنے مفادات جب اُن حکومتوں سے ختم ہو جاتے ہیں تو عوام کی آزادی کے نام پر اُن حکومتوں کے تختے الٹائے جاتے ہیں، ان کو نیچے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے.لیکن اب بعض ملکوں میں ماضی قریب میں ایسی صور تحال پیدا ہوئی ہے کہ جب تختے الٹے اور نئی حکومتیں بنی ہیں تو اُن کو دیکھ کر یہ طاقتیں بھی پریشان ہونے لگ گئی ہیں کہ ہماری مرضی کی حکومتیں نہیں آئیں.بعض جگہوں پر اُن کی مرضی کی تبدیلیاں نہیں ہوئیں یا ایسے امکانات پید اہو رہے ہیں کہ تبدیلیاں نہیں ہوں گی.یہ چیزیں پھر اُن کی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں اور پھر ایک اور فساد کا سلسلہ اور منافقت کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے بلکہ بعض جگہوں پر ہو چکا ہے.عوام بھی غلط فہمی کا شکار ہیں.ایک حکومت کی غلامی سے نکل کر دوسرے کی حکومت کی غلامی میں جارہے ہیں اور بعض جگہوں پر تو چلے گئے ہیں.اب اُن کو احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ملکی دولت اب بھی عوام کی بہبود پر ، اُن کی بہتری کے لئے ، اُن کو حق و انصاف دلانے کے لئے ، اُن کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے خرچ نہیں ہو رہی اور نہ ہو گی کیونکہ جو حکومتیں آرہی ہیں وہ بھی اپنے مفادات لے کر آرہی ہیں.عوام میں غربت اور کم معیار زندگی پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی جو خوش فہمی ہے کہ دُور ہو جائے گاوہ نہیں دُور ہو گا بلکہ قائم رہے گا.یہ کچھ عرصے بعد آپ خود ہی دیکھ لیں گے.اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر حکمران عمل نہیں کرتے.مسلمان کہلاتے ہیں لیکن آپ کی نصیحت پر عمل کرنے والے نہیں.پہلے زمانوں میں تو ایک شخص اپنی دولت کے بل بوتے پر غلام رکھتا تھا.اب ملکی دولت کو ملک کے عوام کو ہی غلام بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.اب تو میڈیا بھی بولنا شروع ہو گیا ہے اور ظاہر بھی کرتا ہے تصویریں بھی آجاتی ہیں کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں بھی غربت و افلاس ہے.ایک طرف سونے کے محلات ہیں تو دوسری طرف ایک گھرانے کو دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر مہیا نہیں ہوتی.پس حقوق غصب کر کے عوام کو غلام بنایا جار ہا ہے اور بنادیا گیا ہے.کہاں تو وہ زمانہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپنی فوجوں کو عیسائی علاقے سے واپس بلانا پڑا کہ اُس وقت دشمنوں کی طاقت کی وجہ سے مسلمان اپنا قبضہ اُس علاقے میں برقرار نہیں رکھ سکتے تھے تو اُن عیسائیوں کو مسلمانوں نے اُن سے لی ہوئی وہ رقم واپس کی جو ٹیکس کے طور پر تھی اور اُن کی حفاظت اور بہبود کے لئے تھی، اُن
خطبات مسرور جلد نهم 587 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء کے حقوق ادا کرنے کے لئے تھی کہ ہم اب کیونکہ تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے اس لئے جور قم لی گئی تھی تمہیں واپس کرتے ہیں.اُس وقت وہ جو عیسائی رعایا تھی وہ روتے تھے اور روتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ تم لوگ دوبارہ واپس آؤ.(ماخوذ از سیر الصحابه جلد نمبر2 حضرت ابو عبیدہ بن الجراح صفحہ نمبر 171–172 اداره اسلامیات لاہور) کیونکہ تم جیسے حاکم ہم نے نہیں دیکھے.مسلمان حکومت کے تحت ہمیں جو انصاف اور حقوق ملے ہیں وہ ہمیں ہماری حکومتوں میں نہیں ملے.اور کہاں اب یہ زمانہ ہے کہ مسلمان حکمران مسلمانوں کی دولت لوٹ رہے ہیں اور ملک میں انصاف ختم ہے.حقوق غصب کئے جارہے ہیں.کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں ہے.اور پھر بڑی ڈھٹائی سے یہ دعویٰ ہے کہ ہم عوام کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں کوئی اور نہیں کر سکتا.یہ جو انقلابی صورت مختلف ممالک میں پیدا ہوئی ہے اور جس سے جیسا کہ میں نے کہا مفاد پر ست فائدہ اُٹھا رہے ہیں.بعض مذہب کے نام پر اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں.یہ کبھی نہ ہوتا اگر عوام کے حقوق انہیں دیئے جاتے.اگر حکومتیں انصاف پر قائم ہو تیں، عوام کی آزادی کی حفاظت کی جاتی اور حکومتیں بھی لالچ کے بجائے انصاف قائم رکھنے کی کوشش کر تیں تو کبھی یہ فسادنہ ہوتا.مذہبی لوگوں کا میں نے ذکر کیا ہے تو انہوں نے عوام کو دینی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے، دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے دین میں غلط رسوم پیدا کر کے ، غلط تشریحات کر کے اُن کی گردنوں میں ان رسوم و رواج کے اور غلط تعلیمات کے طوق ڈال دیئے ہیں، اور اس طرح ان کو غلام بنایا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے تو اس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو انسانیت کی عظمت قائم کرنے آیا تھا یہ فرمایا ہے.وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الاعراف: 158) کہ یہ ہمارا نبی اُن کے بوجھ دور کرتا ہے اور جو طوق اُن کی گردنوں میں پڑے ہوئے ہیں انہیں کا تا ہے.لیکن یہاں آجکل کیا ہو رہا ہے ؟ ہمیں تو بالکل اس کے الٹ نظر آتا ہے.مسلمان ممالک کو جو اس نبی کے ماننے والے ہیں یا ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، ماننے کے بعد حق و انصاف اور آزادی دینے کا نمونہ ہونا چاہئے تھا.دوسرے ممالک کو ، غیر مسلم ممالک کو ان کا حق و انصاف اور عوام کی آزادی اور ترقی کو دیکھ کر نمونہ پکڑنا چاہئے تھا.لیکن یہاں اس کے بالکل الٹ ہے اور علماء جو حقیقی اسلامی تعلیم کے پھیلانے والے ہو کر ہر قسم کی بدعات سے مسلمانوں کو پاک کرنے والے ہونے چاہئے تھے انہوں نے بھی اُن کے گلوں میں طوق ڈال دیئے ہیں.دونوں نے مسلمان عوام الناس کو غلامی کے بوجھوں تلے دبایا ہوا ہے اور طوقوں میں جکڑا ہوا ہے.پس صرف حکمرانوں پر ہی الزام نہیں ہے بلکہ آجکل کے علماء بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے جھوٹے رسم و رواج اور جھوٹے عقائد کو دین کا نام دے کر عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں ایک طرح سے غلام بنالیا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا، کبھی ختم نہیں ہو گا تاوقتیکہ یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اُس فرستادے کو نہیں مان لیتے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں انسانی قدریں قائم کرنے کیلئے اور ہمیں ہر قسم کے بوجھوں اور طوقوں
588 خطبات مسرور جلد نهم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء سے آزاد کروانے کیلئے بھیجا ہے.اور صرف اور صرف ایک غلامی میں آنے کی تعلیم دی ہے اور وہ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہے.جس غلامی سے پھر آزادیوں کے نئے راستے نظر آتے ہیں، انصاف نظر آتا ہے، برابری نظر آتی ہے اور ایک ایسا حسین معاشرہ نظر آتا ہے جہاں حقوق لینے کے لئے جلوس نہیں نکالے جاتے.آزادی حاصل کرنے کے لئے غلط طریق استعمال نہیں کئے جاتے بلکہ حقوق دینے کے لئے بادشاہ بھی اور فقیر بھی کوشش کر رہا ہوتا ہے.پس اب مسلمانوں کے وقار اور ہر قسم کے فسادوں سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے، ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ تعالٰی اور اُس کے رسول کے احکامات اور تعلیمات پر عمل کیا جائے.اور یہ ممکن نہیں ہے جب تک اس شخص کے انکار سے باز نہیں آتے جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہر دو قسم کے حقوق قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف مواقع پر بڑے خوبصورت رنگ میں ہمارے سامنے اس تعلیم کو رکھا ہے جو حق و انصاف کو قائم رکھتی ہے، جو مستقل آزادی کی ضمانت ہے.آپ فرماتے ہیں:.یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے.اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اُس کی ذات اور صفات میں وحدہ لا شریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اس کو دکھانا چاہئے اور اُس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے“.فرمایا: ”جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہو گا اُس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا.گو ان دونوں قسم کے حقوق میں بڑا حق خدا تعالیٰ کا ہے مگر اُس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے.جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا“.لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ بھائی سمجھا بھی تو جائے.جو اپنے آپ کو بالا سمجھے ، دوسرے کو حقیر سمجھے اور اُس کے لئے کوشش بھی کرتا رہے، اُس سے کبھی انصاف اور بھائی چارے کی توقع نہیں کی جاسکتی.بہر حال پھر آپ آگے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ” ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت بنائی تھی اُن میں سے ہر ایک ز کی نفس تھا “ (پاک نفس تھا) اور ہر ایک نے اپنی جان کو دین پر قربان کر دیا ہوا تھا.اُن میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو منافقانہ زندگی رکھتا ہو.سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے تھے“.(ملفوظات جلد نمبر 5 صفحہ 407-408.مطبوعہ ربوہ) پس جب دین دنیا پر مقدم ہو تبھی وہ حالت پیدا ہوتی ہے جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر نے والا بناتی ہے اور مخلوق کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے.آج بظاہر ہمیں ایک بھی لیڈر مسلمانوں میں، مسلمان ملکوں میں نظر نہیں آتا جو یہ معیار قائم کرنے والا ہو.اور جب حقیقی اور انصاف پسند اور حقوق ادا کرنے والے رہنما نہ ہوں تو پھر ہر ایک اپنے حق اور آزادی کے لئے اپنے طریق پر عمل کرتا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا، اس سے مفاد پرست پھر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں اور پھر انصاف اور آزادی کے نام پر ظلموں کی نئی داستانیں رقم ہوتی ہیں، ایک
589 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم نئی کہانیاں شروع ہو جاتی ہیں.پس آجکل کی جو آزادی ہے وہ آزادی کے نام پر ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں جانا ہے.افریقہ کے اکثر ممالک میں دیکھ لیں یادوسرے مسلمان ممالک میں دیکھ لیں یہی صورت نظر آتی ہے.اگر غیروں کی غلامی سے نجات ملی ہے تو اپنوں کی غلامی نے گھیر لیا ہے.اللہ کرے کہ مسلمان ملکوں کے سربراہ بھی اور افریقن ممالک کے سربراہ بھی اور سیاستدان بھی اور فوج بھی جو اکثر انقلاب کے نام پر حکومتوں پر قبضہ کرتی رہتی ہے اور مذہبی لیڈر بھی یا علماء کہلانے والے بھی اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ اپنے ہم قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے سے ، انصاف پر نہ چلنے سے، دوسروں کے حقوق کی ادا ئیگی نہ کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے.ہر راعی سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی رعایا کا حق ادا کیا؟ جو تمہاری ذمہ داری تھی تم نے ادا کی یا ملکی دولت کو اپنی تجوریوں میں بھرتے رہے؟.اسلام اور اللہ رسول کا نام تو لیتے رہے.کیا اس نام کا پاس تم نے کیا؟ اور نفی میں جواب پر یقینا اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولا جاسکتا.خدا تعالیٰ سے کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے.حقیقی مؤمن وہ ہیں جو لامنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رعُونَ (المومنون : 9) اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں.پس سر بر اہان اپنی امانتوں کے بارے میں پوچھے جائیں گے جبکہ وہ خاص طور پر اپنے عہد لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو گواہ بھی بناتے ہیں.یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ملک کے مفاد اور عوام کی بہتری، اُن کے حقوق کی ادائیگی، انصاف کے قیام اور آزادی کی خاطر ہر کوشش بروئے کار لائیں گے لیکن یہ بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ اکثر جگہ ہم قومی دولت کو لٹتا ہواہی دیکھتے ہیں.علماء ہیں تو انہوں نے دین کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور عوام کو جیسا کہ میں نے کہا غلط رسم و رواج اور تعلیم اور عقائد کے طوق پہنا کر صرف اور صرف اپنے زیر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.عوام الناس ہیں تو وہ بھی اپنے حق ادا نہیں کر رہے.غرض کہ امانتوں کی ادائیگی کا حق ادانہ کر کے بھی ہر کوئی اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دے رہا ہے.اور آجکل کے ملکوں کے فساد اسی بات کا منطقی نتیجہ ہیں.اور دہشت گردی، معاشی بد حالی، بدامنی یہ نہ صرف آجکل حال کی حالت ہے بلکہ ایک انتہائی بے چین کر دینے والے مستقبل کی بھی نشاندہی کر رہی ہے.پاکستان میں ہی مثلاً آزادی کے بعد باسٹھ تریسٹھ سال میں ان تمام باتوں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے اور ہر روز اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل کیا ہونے والا ہے.اس لئے کس طرح ہم توقع کر سکتے ہیں کہ بہتر مستقبل ہو گا.انگریزوں کی غلامی سے تو ہمیں نجات مل گئی لیکن اپنوں کی غلامی کے طوق اور بھی زیادہ تنگ ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر بھی رحم فرمائے اور عوام پر بھی رحم فرمائے.جس پاکستان کو حاصل کرتے وقت قائد اعظم نے اعلان کیا تھا کہ یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی ہے اور پاکستانی شہری کی حیثیت سے تمام شہری برابر ہیں، وہاں احمدیوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا جارہا؟ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی غلامی میں رہنا ہر احمدی ہزاروں آزادیوں پر ترجیح دیتا ہے اور اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے تیار ہے، ان کے حوالے سے غلط باتیں احمدیوں کی طرف منسوب کر کے ، احمدیوں پر افتراء کرتے ہوئے ، جھوٹے الزام لگاتے ہوئے
590 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 نومبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم احمدیوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والے ہیں.ہم شہری حقوق سے محروم ہونے کو تو کوئی حیثیت نہیں دیتے اور نہ اس کی کوئی حیثیت سمجھتے ہیں ، ہمیں تو تمام حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے تو ہم یہ برداشت کر لیں گے اور کر رہے ہیں لیکن ان نام نہاد علماء اور حکمرانوں کی خواہش کے مطابق ہم کبھی اپنے آپ کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ نہیں کر سکتے.احمدی کیوں پاکستان میں ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکتا.اس لئے کہ یہ کہتے ہیں کہ تمہارا یہ حق رائے دہی اور آزادی اس اعلان سے مشروط ہے کہ کہو کہ ہم مسلمان نہیں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب نہیں ہیں.خدا کی قسم !ہم میں سے ہر احمدی بوٹی بوٹی ہو نا تو گوارا کر سکتا ہے لیکن ایسی آزادی اور حق رائے دہی پر تھوکتا بھی نہیں جو ہمیں ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ کر دے.پس ایسی آزادی تم دنیا داروں کو مبارک ہو.ہم نے تو ایسی آزادی پر اُس غلامی کو ترجیح دی ہے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کی خاک بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنادے.جو حقوق اللہ کی ادائیگی کا ادراک رکھتے ہوئے اُنہیں ادا کرنے والا بھی ہو اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ادراک رکھتے ہوئے اُنہیں بجالانے والا بھی ہو.اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن آئے گا کہ ہماری یہی عاجزی، ہماری یہی غلامی دنیا کو حقیقی آزادی کا نظارہ دکھائے گی.اور اپنے آپ کو آزاد کہنے والے جو اغلال میں جکڑے ہوئے ہیں، بوجھوں اور طوقوں میں پڑے ہوئے ہیں یہ یا اُن کی نسلیں ایک دن مسیح محمدی کی غلامی پر فخر محسوس کریں گی.جن سے اُن کو اُس حقیقی آزادی کا ادراک حاصل ہو گا جس کے قائم کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے.اللہ کرے دنیا اس آزادی کے دن جلد دیکھ لے اور اُن خوفناک نتائج سے بچ جائے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کے انکار کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر احمدی کو بھی صبر اور استقامت سے ان سختیوں کے دن دعاؤں میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 16 دسمبر تا22 دسمبر 2011 ءجلد 18 شمارہ 50 صفحہ 5 تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 591 48 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02دسمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 02 دسمبر 2011ء بمطابق 02 فتح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مسلمانوں میں سے ایک طبقہ تو ایسا ہے جو نام نہاد علماء جن کا کام فساد پیدا کرنا ہے اُن کے پیچھے چل کر بغیر سوچے سمجھے احمدیت کی مخالفت کرنے والا ہے.بعض ایسے ہیں اور بڑی کثرت سے ایسے ہیں جو مذہب سے لا تعلق ہیں.صرف عید کی نماز پڑھنے والے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کبھی کبھار جمعہ پڑھ لیا.کچھ ایسے ہیں جو باوجود مذہب میں کسی بھی قسم کی سختی کو نا پسند کرنے کے اور تکفیر کے فتووں سے جو ان علماء کی طرف سے لگائے جاتے ہیں بیزاری کا اظہار کرنے کے خوف کی وجہ سے چپ رہتے ہیں.لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جو گو اسلام کا اور مذہب کا زیادہ علم تو نہیں رکھتے ، دین کا زیادہ علم تو نہیں رکھتے لیکن خواہش رکھتے ہیں کہ غیر کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر جو انگلی اٹھتی ہے، اعتراضات ہوتے ہیں اُن کا تدارک کیا جائے.اُن کو کسی طرح سے روکا جائے.اُن کو جواب دیا جائے.اُن کے منہ بند کروائے جائیں.اُن کی خواہش ہے کہ اسلام کے تمام فرقے ایک ہو کر دشمنانِ اسلام اور د جالیت کا مقابلہ کریں.اس گروہ میں پاکستان، ہندوستان کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں، عرب ممالک کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں اور دوسرے مسلمان ممالک کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں.ان لوگوں کی طرف سے جو اسلام کو صرف اسلام کے نام سے جاننا چاہتے ہیں نہ کہ کسی فرقے کے نام سے ، جماعت احمدیہ پر بھی یہ اعتراض ہوتا ہے اور مختلف موقعوں پر سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا پہلے اسلام میں فرقے کم ہیں جو آپ نے بھی ایک فرقہ بنالیا.ہمیں کہتے ہیں کہ اگر آپ لوگ اسلام کے ہمدرد ہیں تو مسلمانوں کو فرقہ بندیوں سے آزاد کرانے کی کوشش کریں.سب سے پہلے تو میں ایسے سوال کرنے والوں کا اس لحاظ سے شکریہ ادا کرتاہوں کہ کم از کم وہ ہمیں مسلمانوں کا ایک فرقہ تو سمجھتے ہیں، مسلمان تو سمجھتے ہیں.بلا سوچے سمجھے تکفیر کا فتویٰ نہیں لگا دیتے.ایسے لوگوں سے میں یہ عرض کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم اللہ پر رحم کھاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اپنے وعدے کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر اس لئے بھیجا ہے کہ فرقوں کا خاتمہ ہو.جو مسلمان جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا
592 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سلام پہنچا رہے ہیں وہ اسلام کے مختلف فرقوں میں سے آکر فرقہ بندی کو ختم کرتے ہوئے حقیقی اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہی جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن پر فضل کرتے ہوئے اُن کی بصیرت کی آنکھ کو کھولا ہے تو انہوں نے فرقہ بندی کو خیر باد کہہ کر حقیقی اسلام کو قبول کیا ہے.اس حکم اور عدل کی بیعت میں آگئے ہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی تا کہ جو غلط روایات، تعلیمات اور بدعات مختلف فرقوں میں راہ پاگئی ہیں اُن کو حقیقی قرآنی تعلیم کی روشنی کے مطابق دیکھا جائے.اور حقیقی قرآنی تعلیم کے مطابق اُن کو اختیار کیا جائے اور اُن پر عمل کیا جائے.یہ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے کی اسلامی تعلیم کی حقیقی روشنی اور تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ جماعت احمد یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتی ہے.کسی مسلمان شخص کے لئے کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وه لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کا اقرار کرتا ہو اور یہی حدیث سے ثابت ہے.ہر دیتا ہے.(مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان و الاسلام والاحسان...حدیث نمبر 93) لیکن اس کے مقابلے پر دوسرے فرقوں کو دیکھیں تو ہر ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر کے فتوے پس ان اسلام کا درد رکھنے والوں کی یہ غلط فہمی کہ امت مسلمہ پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے، جماعت احمدیہ نے ایک اور فرقہ بنا کر فساد کی ایک اور بنیاد رکھ دی ہے ، قرآن و حدیث کے علم میں کمی کا نتیجہ ہے.کسی بھی دوسرے فرقے کے لٹریچر کا مطالعہ کر لیں تو تکفیر کے فتوؤں کے انبار ایک دوسرے کے خلاف نظر آئیں گے.اگر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کریں تو غیر مذاہب کے اسلام پر حملوں کا دفاع نظر آئے گا.یا مسلمانوں سے یہ درخواست نظر آئے گی کہ اس تکفیر بازی کے زہروں سے بچیں اور خدمتِ اسلام کے لئے کمر بستہ ہو جائیں.یا یہ نظر آئے گا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے.یا اس بات پر زور نظر آئے گا کہ دنیا میں محبت، پیار، صلح اور آشتی کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے اور نفرتوں کے انگاروں کو بجھانے کے لئے ہمیں کیا کوشش کرنی چاہئے.یا یہ نظر آئے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا مقام کیا تھا اور ہر ایک اُن میں سے ایک روشن ستارہ ہے جو قابل تقلید ہے ،ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے.پس جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں تو یہ خوبصورت باتیں نظر آتی ہیں نہ کہ تکفیر کے فتوے.جیسا کہ میں نے کہا کہ تکفیر کے فتووں کے انبار ہیں، کسی بھی فرقے کے فتووں کی کتاب کو اُٹھا لیں ایک دوسرے کے خلاف فتوے نظر آئیں گے.اس آخری بات کو جو میں نے کہی کہ صحابہ کا کیا مقام ہے ؟ اس بات کو میں لیتا ہوں.اگر دیکھیں تو اسلام میں دو بڑے گروہ ہیں، اُن کی آگے فرقہ بندیاں ہیں.شیعہ اور سنی.اور دونوں نے ، شیعہ اور سنی نے غلو اور زیادتی سے کام لیتے ہوئے ان صحابہ کے مقام کو گرانے سے بھی گریز نہیں کیا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
593 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ساتھ ابتدائی زمانے میں بے انتہا قربانیاں دیں.یہ لوگ ایک دوسرے پر اس غلو کی وجہ سے تکفیر کے فتوے بھی لگاتے ہیں اور لگائے ہیں انہوں نے اور لگاتے چلے جارہے ہیں.اگر ایک نے غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت علی اور حضرت حسین کے مقام کو غیر معمولی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور دوسرے کبار صحابہ اور خلفائے راشدین کے مقام کو انتہائی ظلم کرتے ہوئے گرانے کی کوشش کی ہے تو دوسروں نے بھی اس کے جواب میں کمی نہیں کی.پھر ان بڑے گروہوں کے اندر مزید فرقہ بندیاں ہیں جیسا کہ میں نے کہا.اور اس فرقہ بندی نے ایک اور فساد برپا کیا ہوا ہے.غرض کہ لگتا ہے کہ ان سب کی غرض نعوذ باللہ اسلام کو متشدد، کفر کے فتوے لگانے والا اور فساد بر پا کرنے والا مذہب قرار دینا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا، جماعت احمدیہ کا مقصد تو ایک خوبصورت مقصد ہے.اسلام کا حسن اور خوبصورت تصویر پیش کرنے والا مقصد ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو ان گروہوں اور فرقوں کی طرح تصور کرنا جماعت احمدیہ پر ایک زیادتی ہے.آجکل ہم محرم کے مہینے سے گزر رہے ہیں اور ہر سال اس مہینے سے ہم گزرتے ہیں، تو جن جن ممالک میں سنیوں اور شیعوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں ہمیں محرم کے مہینے میں دونوں طرف کا جانی اور مالی نقصان نظر آتا ہے.پاکستان ہو یا عراق ہو یا کوئی ملک ہو، ہر طرف ہم یہی دیکھتے ہیں کہ محرم میں کوئی نہ کوئی فساد برپا ہو تا ہے ، جان اور مال کا نقصان کیا جارہا ہوتا ہے.گو کہ اب تو یہ نقصان ایک روزانہ کا معمول بن گیا ہے لیکن محرم میں خاص طور پر زیادہ ہو رہا ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ ان لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوؤں کے انبار لگائے ہوئے ہیں.میں نے جب دیکھا تو بہت سارا مواد اکٹھا ہو گیا، لیکن اتنے اتنے غلیظ فتوے ہیں اور گالیاں ہیں کہ وہ مثال کے طور پر بھی وہ یہاں پیش نہیں کرنا چاہتا.آج میں صرف اس زمانے کے حکم اور عدل مسیح و مہدی معہود کے حکیمانہ ارشاد جو آپ علیہ السلام نے خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور حضرت امام حسین علی وغیرہ کے متعلق بیان فرمائے ہیں، پیش کرتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس خوبصورت طریقے سے آپ نے فساد کی بنیاد کو ختم کرنے کی کوشش فرمائی ہے.جب میں نے یہ ارشادات جمع کروائے تو اس کے سینکڑوں صفحات بن گئے ہیں، لیکن وقت کے لحاظ سے اس وقت صرف چند ایک آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.جماعت احمدیہ میں بھی مختلف فرقوں سے بیعت کر کے آنے والے جن کی ابھی صحیح طرح تربیت نہیں ہوئی، ان کے لئے بھی یہ ارشادات سننا ضروری ہیں اور بعض وہ لوگ جن کی مثال میں نے دی ہے کہ بعض دفعہ ایم ٹی اے دیکھ لیتے ہیں یا کبھی خطبہ سن لیتے ہیں اور جماعت میں دلچسپی لیتے ہیں یا اسلام سے اُن کو ہمد ردی ہوتی ہے لیکن اُن کے ذہن میں ایک سوال پھرتا ہے کہ جماعت احمد یہ بھی ایک ایسا فرقہ ہے جو دوسرے عام فرقوں کی طرح ہے.اُن کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات آجائیں تا کہ انہیں بھی پتہ چلے کہ حضرت
594 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اسلام کے مختلف فرقوں کو اکٹھا کرنے آئے تھے اور ہر قسم کی زیادتی سے پاک کرنے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک کرنے کا کام سپر د کرتے ہوئے الہام فرمایا ہے کہ ”سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو، عَلى دِينِ واحِدٍ “ (تذکرہ صفحہ نمبر 490 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) پس آپ تو آئے ہیں فرقوں کو ختم کرنے کے لئے اور تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر، ایک دین پر اکٹھا کرنے کے لئے.اس لحاظ سے جیسا کہ میں نے کہا بعض اقتباسات میں پیش کروں گا.سب سے پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ اقتباس سامنے رکھتا ہوں جس میں آپ نے خلفائے راشدین کے طریق پر چلنے کو مومن ہونے اور مسلمان ہونے کی نشانی بتایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضوان الله عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْن کا سارنگ پیدا نہ ہو.وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں“.لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 294) خلفائے راشدین کے مقام کے بارے میں پھر ایک اور جگہ سر الخلافہ کے صفحہ 328 میں آپ فرماتے ہیں.یہ صفحے میں اس لئے نمبر بولا ہے کہ یہ عربی کی کتاب ہے اور عربی والوں کو صبح میں نے حوالے کا صفحہ نمبر دے دیا تھا تا کہ اُن کو ترجمے میں آسانی رہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو زبان ہے، اُسی اصل الفاظ میں اگر عربوں کے بھی سامنے آئے تو زیادہ اثر رکھتی ہے کیونکہ ترجمان ترجمے کے اُس مقام تک نہیں پہنچ سکتے چاہے وہ عربی دان ہی ہوں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.بہر حال آپ فرماتے ہیں کہ : ”خدا کی قسم ! ( یہ خلفائے کرام ) وہ لوگ ہیں جنہوں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و اعانت میں موت کے منہ میں بھی جانے سے دریغ نہ کیا اور خدا کی خاطر اپنے والدین اور اپنی اولاد تک کو چھوڑنا اور اُن سے قطع تعلق کرنا گوارا کر لیا.انہوں نے اپنے دوستوں سے لڑائی مول لے لی.خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے اموال و نفوس کو قربان کر دیا.اس کے باوجود وہ نادم و ماتم کناں رہے کہ وہ کما حقہ اعمال بجا نہ لا سکے.اُن کی آنکھیں اکثر خواب راحت کی لذت سے نا آشنار ہیں اور اپنے نفسوں کے آرام کا خیال بھی نہ کیا.وہ تن آسان و عافیت کوش نہ تھے.پس تم نے کیسے گمان کر لیا کہ یہ لوگ ظالم و غاصب، جادہ عدل کے تارک اور جور و جفا کے خوگر تھے حالانکہ اُن کے متعلق ثابت ہے کہ وہ بندہ حرص و ہوا نہ تھے اور آستانہ الہی پر گرے رہتے تھے.یہ ایک قوم تھی جو خدا میں (اردو ترجمه از عربی عبارت، سر الخلافه ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 328) پس فرمایا کہ یہ لوگ خلفائے راشدین جو تھے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فنا ہو گئی“.
خطبات مسرور جلد نهم 595 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 دسمبر 2011ء اور اسلام کی خاطر اور اللہ تعالیٰ میں فنا ہو گئے.پھر سر الخلافہ کے ہی صفحہ 355 میں آپ حضرت ابو بکر کے متعلق فرماتے ہیں کہ : آپ مکمل معرفت والے ، عارف، حلیم اور رحیم فطرت والے تھے اور آپ انکسار اور غربت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے.آپ بہت زیادہ عفو، شفقت اور رحم کرنے والے تھے.اور آپ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے.اور آپ کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا تعلق تھا.اور آپ کی روح خیر الوریٰ کی روح سے ملی ہوئی تھی.اور اس نور سے ڈھانپ دی گئی تھی جس نور سے اُن کے پیش رو اور محبوب الہی کو ڈھانپ دیا گیا تھا.اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانائی کے نور کے نیچے اور آپ کے عظیم فیوض کے نیچے چھپادی گئی تھی.اور آپ فہم قرآن اور سید الرسل اور فخر نوع انسانی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سب سے ممتاز تھے.اور جب آپ پر نشاۃ اُخروی اور اسرار البہی کا ظہور ہوا تو آپ نے تمام دنیاوی تعلقات کو توڑ دیا اور جسمانی تعلقات کو چھوڑ دیا اور محبوب کے رنگ میں رنگین ہو گئے.اور مطلوب واحد کے لئے تمام مرادیں ترک کر دیں.اور آپ کا نفس جسمانی کدورتوں سے خالی ہو گیا.اور سچے خدا کے رنگ میں رنگین ہو گیا.اور رب العالمین کی رضا میں غائب ہو گیا.اور جب صادق حُب الہی آپ کے رگ وریشہ میں اور آپ کے دل کی تہہ میں اور آپ کے وجود کے ذرات میں متمکن ہو گئی اور اس کے انوار ، اس کے اقوال و افعال اور قیام و قعود میں ظاہر ہو گئے تب آپ کو صدیق کا لقب دیا گیا“.(اردو ترجمه از عربی عبارت ، سر الخلافه ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 355) یعنی کہ جب آپ مکمل طور پر آنحضرت صلعم کی ذات میں فنا ہو گئے تو پھر آپ کو صدیق کا لقب ملا.یہ آپ کا مقام ہے.پھر حضرت ابو بکر صدیق کے مقام صدیقیت کی مزید تصویر کشی کرتے ہوئے کہ کیوں اور کس طرح آپ کو یہ مقام ملا.آپ فرماتے ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اُس کے دل کے اندر ہے.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابو بکر نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے.اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اُس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے.جب تک ابو بکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا، صدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے“.فرماتے ہیں ابو بکری فطرت کیا ہے ؟ اس پر مفصل بحث اور کلام کا یہ موقعہ نہیں کیونکہ اس کے تفصیلی بیان کیلئے بہت وقت درکار ہے“.فرمایا کہ ”میں مختصر ا ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
خطبات مسرور جلد نهم 596 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 دسمبر 2011ء نبوت کا اظہار فرمایا اُس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ شام کی طرف سوداگری کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے.جب واپس آئے تو ابھی راستہ ہی میں تھے کہ ایک شخص آپ سے ملا.آپ نے اس سے مکہ کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.جیسا کہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان سفر سے واپس آتا ہے تو راستہ میں اگر کوئی اہل وطن مل جائے تو اس سے اپنے وطن کے حالات دریافت کرتا ہے.اس شخص نے جواب دیا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمد نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے.آپ نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگر اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو بلا شبہ وہ سچا ہے.اسی ایک واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کو کس قدر حسن ظن تھا.معجزے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے ناواقف ہو اور جہاں غیریت ہو اور مزید تسلی کی ضرورت ہو.لیکن جس شخص کو حالات سے پوری واقفیت ہو تو اسے معجزہ کی ضرورت ہی کیا ہے.الغرض حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ راستہ میں ہی آنحضرت کا دعوی نبوت سن کر ایمان لے آئے.پھر جب مکہ میں پہنچے تو آنحضرت کی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ کیا آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے.اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ گواہ رہیں کہ میں آپ کا پہلا مصدق ہوں.آپؐ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھا بلکہ آپ نے اپنے افعال سے اسے ثابت کر دکھایا اور مرتے دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 247 ،248 مطبوعہ ربوہ) پھر حضرت ابو بکر صدیق سے اس وفا اور قربانیوں کا اظہار کس طرح ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ “ ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپ کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اُسے مروڑنا شروع کیا.قریب تھا کہ آپ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابو بکر آنکلے اور انہوں نے مشکل سے چھڑایا.اس پر ان دشمنوں نے ابو بکر کو اس قدر مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے“.(سوانح عمری حضرت محمد صاحب بانی اسلام مر تبہ شردھے پر کاش دیو جی صفحہ 37 پبلشر نرائن دت سہگل اینڈ سنز لاہور، بحواله چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 257-258) پھر اُمت پر حضرت ابو بکر صدیق کے ایک بہت بڑے احسان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ایسا ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اس آیت سے استدلال کرنا کہ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران : 145) صاف دلالت کرتا ہے کہ اُن کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ پہلے نبیوں میں سے بعض نبی تو جناب خاتم الانبیاء کے عہد سے پیشتر فوت ہو گئے ہیں مگر بعض اُن میں سے زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک فوت نہیں ہوئے تو اس صورت میں یہ آیت قابل استدلال نہیں رہتی کیونکہ ایک ناتمام دلیل جو ایک قاعدہ کلیہ کی طرح نہیں اور تمام افراد گزشتہ پر دائرہ کی
597 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم طرح محیط نہیں وہ دلیل کے نام سے موسوم نہیں ہو سکتی.پھر اُس سے حضرت ابو بکر کا استدلال لغو ٹھہرتا ہے.اور یاد رہے کہ یہ دلیل جو حضرت ابو بکڑ نے تمام گزشتہ نبیوں کی وفات پر پیش کی کسی صحابی سے اس کا انکار مروی نہیں حالا نکہ اس وقت سب صحابی موجود تھے اور سب سُن کر خاموش ہو گئے.اس سے ثابت ہے کہ اس پر صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا اور صحابہ کا اجماع حجت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا.سو حضرت ابو بکر کے احسانات میں سے جو اس امت پر ہیں ایک یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے اس غلطی سے بچنے کے لئے جو آئندہ زمانہ کے لئے پیش آنے والی تھی اپنی خلافت حقہ کے زمانہ میں سچائی اور حق کا دروازہ کھول دیا اور ضلالت کے سیلاب پر ایک ایسا مضبوط بند لگا دیا کہ اگر اس زمانہ کے مولویوں کے ساتھ تمام جنیات بھی شامل ہو جائیں تب بھی وہ اس بند کو توڑ نہیں سکتے.سو ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت ابو بکر کی جان پر ہزاروں رحمتیں نازل کرے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے پاک الہام پا کر اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ مسیح فوت ہو گیا ہے.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد نمبر 15 صفحہ 461-462 حاشیہ ) پھر ایک عظیم فتنے کے دور کرنے کے لئے ، فرو کرنے کے لئے جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عظیم کارنامہ ہے ، اُس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:.اس زمانہ میں بھی مسیلمہ نے ابا حتی رنگ میں لوگوں کو جمع کر رکھا تھا.ایسے وقت میں حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کر سکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پیدا ہوئی ہوں گی.اگر وہ قوی دل نہ ہوتا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ اُس کے ایمان میں نہ ہو تا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبر اجاتا.لیکن صدیق نبی کا ہم سایہ تھا (یعنی سائے کے نیچے تھا اُسی سائے میں تھا.آپ کے اخلاق کا اثر اُس پر پڑا ہوا تھا اور دل نورِ یقین سے بھرا ہوا تھا.اس لئے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُس کی نظیر ملنی مشکل ہے.اُن کی زندگی اسلام کی زندگی تھی.یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر کسی لمبی بحث کی حاجت ہی نہیں.اس زمانہ کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کی ہے اُس کا اندازہ کر لو.میں سچ کہتا ہوں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کے لئے آدم ثانی ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر کا وجو د نہ ہو تا تو اسلام بھی نہ ہوتا.ابو بکر صدیق کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا.اپنی قوتِ ایمانی سے گل باغیوں کو سزا دی اور امن کو قائم کر دیا.اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ میں بچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا.یہ پیشگوئی حضرت صدیق کی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی.پس یہ صدیق کی تعریف ہے کہ اس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہئے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 252 مطبوعہ ربوہ) پھر خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے مقام حب رسول اور اخلاص کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں:.”ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے گھر میں گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں اور آپ
598 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں.تب عمر کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا.آپ نے فرمایا کہ اے عمر! تو کیوں روتا ہے.حضرت عمر نے عرض کی کہ آپ کی تکالیف کو دیکھ کر مجھے رونا آ گیا.قیصر اور کسریٰ جو کا فر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے اور آپ ان تکالیف میں بسر کرتے ہیں، تب آنجناب نے فرمایا کہ مجھے اس دنیا سے کیا کام! میری مثال اُس سوار کی ہے کہ جو شدت گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جارہا ہے اور جب دو پہر کی شدت نے اُس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لئے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھہر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اُسی گرمی میں اپنی راہ لی“.ہیں کہ : چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299، 300) حضرت عمر کے رتبہ و مقام کے بارے میں ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات اُن کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور اُن کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے.دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہو تاتو عمر ہو تا.تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں.اگر اس اُمت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے“.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 219) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ : بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہو نا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاً ظاہر ہوں یا کسی اور شخص کے واسطہ سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کہ قیصر وکسری کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں.حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے.اور آنجناب نے نہ قیصر اور کسری کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں.مگر چونکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود دظلی طور پر گویا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا اس لیے عالم وحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا“.ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” جب تک امام کی دستگیری افاضہ علوم نہ کرے تب تک ہر گز ہر گز خطرات سے امن نہیں ہوتا.اس امر کی شہادت صدر اسلام میں ہی موجود ہے“ (اسلام کے شروع میں موجود ہے کیونکہ ایک شخص جو قرآنِ شریف کا کاتب تھا اُس کو بسا اوقات نور نبوت کے قرب کی وجہ سے قرآنی آیت کا اُس وقت میں الہام ہو جاتا تھا جبکہ امام یعنی نبی علیہ السلام وہ آیت لکھوانا چاہتے تھے.ایک دن اُس نے خیال کیا کہ مجھ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا فرق ہے؟ مجھے بھی الہام ہوتا ہے.اس خیال سے وہ ہلاک کیا گیا اور لکھا ہے کہ قبر نے بھی اُس کو باہر
599 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم پھینک دیا.(فوت ہوا، دفنایا گیا تو قبر نے بھی باہر پھینک دیا) جیسا کہ بلغم ہلاک کیا گیا اس کو بھی اپنی نیکی کا اور وحی کا یہی زعم تھا).فرماتے ہیں مگر عمر رضی اللہ عنہ کو بھی الہام ہو تا تھا انہوں نے اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھا اور امامتِ حقہ جو آسمان کے خدا نے زمین پر قائم کی تھی اس کا شریک بنانہ چاہا بلکہ ادنی چاکر اور غلام اپنے تئیں قرار دیا، اس لئے خدا کے فضل نے اُن کو نائب امامت حقہ بنا دیا“.( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 473-474) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر اپنے آپ کو حقیر سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے، فضل کرتے ہوئے پھر اُن کو خلیفہ بنادیا جو نبی کا نائب ہے.پھر سر الخلافہ کے صفحہ 326 میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ : ”میرے رب نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان (رضوان اللہ علیھم اجمعین) غایت درجہ ایماندار اور رُشد و ہدایت سے مامور تھے.وہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے اور جو خاص طور پر موردِ افضال الہیہ ہوئے ہیں.عارفوں کی ایک بڑی جماعت اُن کی خصوصیات کی گواہ اور اُن کی خوبیوں کی معترف ہے.انہوں نے محض رضائے الہی کی خاطر اپنے وطنوں کو چھوڑا اور ہر معرکے میں بلا دریغ داخل ہو گئے.انہوں نے شدت گرمی کا خیال کیا نہ ہی سردترین راتوں کی پرواہ کی بلکہ مردِ میدان بن کر دین کی راہ میں قدم مارتے چلے گئے.اس راہ میں نہ کسی قرابت دار کی پرواہ کی ، نہ کسی اور کی اور رب العالمین کی خاطر سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے.اُن کے اعمال حسنہ سے بوئے خوش آتی اور افعال پسندیدہ سے خوشبو کی لپٹیں آتی ہیں.اُن سے اُن کے باغ درجات ، ان کے گلستانِ حسنات کی طرف رہنمائی ہوئی ہے.اُن کی بادِ نسیم اپنے ہی عطر بیز جھونکوں سے اُن کے اسرار کی خبر دیتی ہے اور اُن کے انوار ہم پر ضوفگن ہوتے ہیں.سو ان کی خوشبو سے اُن کی نیک شہرت کی طرف رہنمائی ہو سکتی ہے“.(اردو ترجمه از عربی عبارت، سر الخلافه ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 326 ) پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا: یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ “ یعنی حضرت عثمان ) ” اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھما اگر دین میں بچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے“.(مکتوبات احمد جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 151 مکتوب نمبر 2 مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب مطبوعہ ربوہ) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت علی کے مقام و مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یہ بھی سر الخلافہ کا صفحہ 358 ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ:
600 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم "آپ ( یعنی حضرت علیؓ) بڑے متقی اور پاک صاف تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے سب سے پیارے ہیں اور اچھے خاندانوں والے تھے اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے.غالب خدا کے شیر اور مہربان خدا کے نوجوان تھے.بہت سخی اور صاف دل تھے.آپ وہ منفرد بہادر تھے جو مرکز میدان سے نہیں ہتے تھے خواہ آپ کے مقابل پر دشمنوں کی ایک فوج ہی کیوں نہ ہو.آپ نے کسمپرسی کی زندگی بھی بسر کی اور نوع انسانی کی پرہیز گاری میں مقام کمال تک پہنچے.اور آپ مال و دولت عطا کرنے، غم و ہم دور کرنے اور یتیموں، مسکینوں اور پڑوسیوں کی دیکھ بھال کرنے والے پہلے شخص تھے اور مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے.اور آپ تلوار اور نیزے کی جنگ میں عجائب باتوں کے مظہر تھے.اور اس کے ساتھ ہی آپ شیریں بیان اور فصیح اللسان تھے.(بڑے خوبصورت بیان کرتے تھے ) اور آپ اپنے کلام کو دلوں کی تہ میں داخل کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ اس ذریعے سے ذہنوں کے زنگ کو دور کرتے اور اُس کے مطلع کو دلیل کے نور سے منور کرتے تھے اور آپ ہر قسم کے اسلوب میں قادر تھے.اور جو کوئی آپ سے کسی معاملے میں فاضل ہوتا بھی، تو وہ بھی آپ کی طرف مغلوب کی طرح معذرت کرتا ہوا نظر آتا“.(یعنی پڑھے لکھے لوگ بھی آپ کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے تھے ) اور آپ ہر خوبی اور فصاحت و بلاغت کی راہوں پر کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو گویا وہ بے حیائی کے رستے پر چل پڑا.(اردو ترجمه از عربی عبارت، سر الخلافه ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358) پھر صحابہ رضوان اللہ علیھم کا مجموعی طور پر ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.میں پھر صحابہ کی حالت کو نظیر کے طور پر پیش کر کے کہتا ہوں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنی عملی حالت میں دکھایا کہ وہ خدا جو غیب الغیب ہستی ہے اور جو باطل پرست مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ اور نہاں ہے.انہوں نے اپنی آنکھ سے ، ہاں آنکھ سے ، ہاں آنکھ سے دیکھ لیا ہے.ورنہ بتاؤ تو سہی کہ وہ کیا بات تھی جس نے اُن کو ذرا بھی پروا نہیں ہونے دی کہ قوم چھوڑی، ملک چھوڑا ، جائیدادیں چھوڑیں، احباب اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا.وہ صرف خدا ہی پر بھروسہ تھا اور ایک خدا پر بھروسہ کر کے انہوں نے وہ کر کے دکھایا کہ اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں تو انسان حیرت اور تعجب سے بھر جاتا ہے.ایمان تھا اور صرف ایمان تھا اور کچھ نہ تھا ورنہ بالمقابل دنیا داروں کے منصوبے اور تدابیر اور پوری کوششیں اور سرگرمیاں تھیں پر وہ کامیاب نہ ہو سکے.“ ( یعنی دنیادار کامیاب نہ ہو سکے.) ان کی تعداد ، جماعت، دولت سب کچھ زیادہ تھا مگر ایمان نہ تھا“.(غیروں میں) ”اور صرف ایمان ہی کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے اور کامیابی کی صورت نہ دیکھ سکے.مگر صحابہ نے ایمانی قوت سے سب کو جیت لیا.انہوں نے جب ایک شخص کی آواز سنی جس نے باوصفیکہ اُمّی ہونے کی حالت میں پرورش پائی تھی مگر اپنے صدق اور امانت اور راستبازی میں شہرت یافتہ تھا، جب اُس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں یہ سنتے ہی ساتھ ہو گئے اور پھر دیوانوں کی طرح اُس کے پیچھے چلے.میں پھر کہتا ہوں کہ وہ صرف ایک ہی بات تھی جس نے ان کی یہ حالت بنادی اور وہ ایمان تھا.یاد رکھو! خدا پر ایمان بڑی چیز ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 408،407 مطبوعہ ربوہ)
خطبات مسرور جلد نهم 601 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02دسمبر 2011ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خلفائے راشدین یا صحابہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے تعلق اور محبت کا اظہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے تھا.اور جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اسے آپ ایمان کا جزو سمجھتے تھے.ایک دوسری جگہ آپ اس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”ہمارا ایمان ہے کہ بزرگوں اور اہل اللہ کی تعظیم کرنی چاہئے لیکن حفظ مراتب بڑی ضروری شئے ہے“.تعظیم تو کرنی چاہئے لیکن ہر ایک کا اپنا اپنا مر تبہ اور مقام ہے اُس کے مطابق ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ حد سے گزر کر خود ہی گنہ گار ہو جائیں“.(غلو سے کام نہیں لینا چاہئے.) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے نبیوں کی ہتک ہو جائے.وہ شخص جو کہتا ہے کہ گل انبیاء علیهم السلام حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی امام حسین کی شفاعت سے نجات پائیں گے اُس نے کیسا غلو کیا ہے جس سے سب نبیوں کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 268-269 حاشیہ مطبوعہ ربوہ) پھر حضرت علی اور حضرت حسین سے اپنی مناسبت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : اور مجھے علی اور حسین کے ساتھ ایک لطیف مناسبت حاصل ہے.اور اس راز کو مشرقین اور مغربین کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا.اور میں، علی اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں.اور جو اُن سے عداوت رکھتا ہے اُن سے میں عداوت رکھتا ہوں.اور بائیں ہمہ میں جور و جفا کرنے والوں میں سے نہیں.اور یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اس سے اعراض کروں جو اللہ نے مجھ پر منکشف فرمایا.اور نہ ہی میں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہوں.“ یہ بھی سر الخلافہ کا ترجمہ ہے.(اردو ترجمه از عربی عبارت، سر الخلافه ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 359) پھر اس مناسبت کو مزید کھول کر آپ فرماتے ہیں کہ : اسلام میں بھی یہودی صفت لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنی غلط فہمی پر اصرار کر کے ہر ایک زمانہ میں خدا کے مقدس لوگوں کو تکلیفیں دیں.دیکھو کیسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے“.(امام حسین کو چھوڑ کر ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے ) اور اس امام معصوم کو ہاتھ اور زبان سے دکھ دیا.آخر بجز قتل کے راضی نہ ہوئے اور پھر وقتاً فوقتاً ہمیشہ اس امت کے اماموں اور راستبازوں اور مجد دوں کو ستاتے رہے اور کافر اور بے دین اور زندیق نام رکھتے رہے.ہزاروں صادق ان کے ہاتھ سے ستائے گئے اور نہ صرف یہ کہ ان کا نام کا فر رکھا بلکہ جہاں تک بس چل سکا قتل کرنے اور ذلیل کرنے اور قید کرانے سے فرق نہیں کیا.یہاں تک کہ اب ہمارا زمانہ پہنچا اور تیرھویں صدی میں جابجا خود وہ لوگ یہ وعظ کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں امام مہدی یا مسیح موعود آئے گا اور کم سے کم یہ کہ ایک بڑا مجدد پیدا ہو گا لیکن جب چودھویں صدی کے
خطبات مسرور جلد نهم 602 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02دسمبر 2011ء سر پر وہ مجدد پیدا ہوا اور نہ صرف خدا تعالیٰ کے الہام نے اُس کا نام مسیح موعود رکھا بلکہ زمانہ کے فتن موجودہ نے بھی بزبانِ حال یہی فتویٰ دیا“ (جو فتنہ زمانہ پھیلے ہوئے تھے) کہ اس کا نام مسیح موعود چاہئے تو اس کی سخت تکذیب کی اور جہاں تک ممکن تھا اُس کو ایذادی اور طرح طرح کے حیلوں اور مکروں سے اس کو ذلیل اور نابود کرنا چاہا.“ ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 254-255) جھٹلایا، تکلیفیں دیں اور ذلیل و نابود کرنے کی کوشش کی.ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ: ”میں نے اس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے یہ انسانی کارروائی نہیں.خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسی جیسے راستباز پر بد زبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا.اور وعید مَنْ عَادَی وَلِيًّا لنی.دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے.پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے.“ ( اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 149) یہ حدیث ہے کہ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ کہ جس نے میرے ولی سے دشمنی اختیار کی تو میں نے اس کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا.(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع حدیث نمبر 6502) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جو کچھ میں لکھتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور مرضی سے اور حکم سے لکھتا ہوں.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اُس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں.اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اُس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں.اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.لیکن بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں.دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے.اور بلا شبہ وہ سر دارانِ بہشت میں سے ہے.اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اُس سے موجب سلب ایمان ہے.اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے.اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اُس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے.اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو
603 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم عملی رنگ میں اُس کی محبت ظاہر کرتا ہے.اور اُس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبتِ الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں.دنیا کی آنکھ وہ شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین یا کسی بزرگ کی جو ائمہ مظہرین میں سے ہے، تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اُس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے.کیونکہ اللہ جل شانہ اُس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اُس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 653-654 اشتہار نمبر 270 " تبلیغ الحق مطبوعہ ربوہ) پس یہ ہے وہ خوبصورت اور انصاف پر مبنی تعلیم اور مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے اور فرقہ بندی کو ختم کرنے کی تعلیم جو اللہ تعالیٰ کے اس بھیجے ہوئے اور فرستادے نے ہمیں دی ہے.جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام صادق بن کر صلح اور سلامتی کا پیغام لے کر آیا تھا.خدا کرے کہ مسلم امہ اس پیغام کو سمجھے اور فرقہ بندیوں اور فسادوں اور ایک دوسرے کے قتل وغارت سے بچے تا کہ اسلام ایک نئی شان سے دنیا کے کونے کونے تک اپنی چمک اور دمک دکھائے.اللہ کرے یہ محرم کا مہینہ ہر جگہ امن و امان اور سلامتی کے ساتھ گزرے.ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رکھنے والا ہو.مسلمان ملکوں کی عمومی حالت اور فسادات سے بچنے کے لئے بھی بہت زیادہ دعا کریں.اکثر ملک آجکل بہت بُرے حالات میں سے گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرپسندوں کے شر سے اسلام اور مسلمانوں کو محفوظ رکھے.مسلمان ملکوں میں، اکثر میں جیسا کہ میں نے کہا اندرونی فساد اور شر بھی ہیں جن سے وہاں امن برباد ہو رہا ہے اور بجائے ترقی کے تیزی سے پیچھے کی طرف جارہے ہیں.دنیا کی عمومی معاشی حالت بھی بے چینیاں پیدا کر رہی ہے جس کا اگر یہاں مغرب پہ اثر ہے تو مسلمان ملکوں پر مشرق میں بھی اور ہر جگہ اثر ہے.اور پھر ایک تیسری بڑی گھمبیر صورتحال جو پیدا ہو رہی ہے اور ہونے والی ہے وہ بظاہر جو لگ رہا ہے کہ دنیا عالمی جنگ کی طرف بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ انسانیت پر رحم کرے.اُن کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے.ہمیں ان دنوں میں بہت زیادہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور ہر قسم کی احتیاطی تدابیر بھی کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 دسمبر تا 29 دسمبر 2011 ء جلد 18 شمارہ 51 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 604 48 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 09 دسمبر 2011ء بمطابق 09 فتح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مخالفین احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے سے لے کر آج تک نہ کسی دلیل کے ساتھ بلکہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور آنا اور مفادات کی وجہ سے آپ کے دعوے کو رد کر رہے ہیں، جبکہ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہزاروں دلائل ازروئے قرآن، ازروئے حدیث، از روئے اقوال و تفسیرات، صلحاء و علماء گزشتہ سے ثابت فرمایا کہ آپ ہی وہ مسیح اور مہدی ہیں جس کی پیشگوئی قرآن و حدیث میں موجود ہے.پھر آپ نے اپنی تائید میں الہی نشانات کی تفصیل بیان فرمائی.ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ جو سلوک رہا اُس کی روشنی میں واضح فرمایا، لیکن جن کے دلوں پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مہر لگ جائے.اُن کے دلوں کے قفل کوئی نہیں کھول سکتا جن کو خدا تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے انہیں کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.لیکن سعید فطرت لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا، آپ کی بیعت میں شامل ہوئے.اُن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے کی سعادت پائی، جن کے مقدر میں خدا تعالیٰ نے ہدایت لکھ دی تھی لیکن جو لوگ نام نہاد علماء کے خوف سے یا اُن کے پیچھے چل کر آپ کی بیعت میں نہیں آئے وہ باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل کے نازل ہونے کے روحانی بارش کے برسنے کے اس فضل اور روحانی بارش سے محروم رہے اور اب تک رہ رہے ہیں.لیکن اس کے مقابل پر جیسا کہ میں نے کہا جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے، جن میں نیکی اور سعادت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کر رہے ہیں آپ کے وقت میں بھی قبول کیا اور آج تک کرتے چلے جارہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زمانے کے فساد کی حالت میں آنے کی تمام نشانیاں پوری ہو چکی ہیں.دنیا کی ہوا و ہوس زیادہ ہے اور خدا تعالیٰ کا خوف کم ہو چکا ہے.اس کی انتہا یہاں تک ہو چکی ہے کہ یہ نام نہاد مولوی اور اُن کے چیلے اپنی گراوٹوں کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں.اس حد تک گر چکے ہیں کہ احمدیوں پر ظلم ڈھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم اور اُس کے رسول کی ہتک سے بھی باز نہیں آتے اور پھر کہتے ہیں کہ یہ تو قادیانیوں نے کیا ہے.خود قرآن کریم کے پاکیزہ اور بابرکت اوراق کو ، صفحوں کو زمین پر یانالی میں پھینک دیں گے،
605 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم کوڑوں کے تھیلوں میں ڈال دیں گے اور پھر کسی احمدی کا نام لگا دیں گے اور احمدی کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ ہو کیا رہا ہے.اُسے تو اُس وقت پتا چلتا ہے جب پولیس اس کے گھر اُس کو پکڑنے کے لئے آجاتی ہے یا اُس کے خلاف ان گندہ ذہنوں کے جلوس سڑکوں پر نکل رہے ہوتے ہیں یا پھر ان کا یہ بھی طریق ہے کہ سکولوں میں دیواروں پر ، غلط جگہ پر ، غلط طریقے سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عزت و ناموس پر ہر احمد کی اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ اپنی اولاد کو بھی قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے.آپ کا نام لکھ کر پھر سکول کے احمدی بچوں کا نام لگا دیا جاتا ہے.اور بچوں کو سکول سے نکال دیا جاتا ہے اس وجہ سے، اُن پر ظلم کئے جاتے ہیں، اُن کو مارا پیٹا جاتا ہے.بلکہ ان معصوم بچوں پر ہتک رسول کے مقدمات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے اور سزا بھی انتہا کی ہے.ایسی حرکت ہمارے احمدی معصوم بچوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس کے متعلق وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے.پس جب اخلاقی گراوٹ اس حد تک چلی جائے ، جب خدا تعالیٰ کا خوف دلوں سے بالکل ہی غائب ہو جائے ، جب گھٹیا اور ذلیل حرکتوں کی انتہا ہونے لگے تو پھر مظلوموں کی آہیں اور فریادیں اور پکاریں بھی اپنا کام دکھاتی ہیں.پس آجکل خاص طور پر پاکستان میں جو حالات ہیں، جن سے احمدی وہاں گزر رہے ہیں اس حالت میں جیسا کہ میں اکثر پہلے بھی کئی مر تبہ توجہ دلا چکا ہوں کہ اپنی دعاؤں کا محور صرف اور صرف ہمیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی کو بنانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی جلد پکڑ کرے جو خدا اور اسلام کے نام پر ظلموں کی انتہا کئے ہوئے ہیں.خدا اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ہمیں ان دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ ان میں سے جو نیک فطرت ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ زمانے کے امام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانے والا بنیں.ہمارے مختلف پروگرام جو ایم ٹی اے پر آتے ہیں ان میں سے جولائیو پروگرام ہیں ان میں کئی کالر (Callers) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حقیقت کو سمجھ کر پھر بیعت بھی کر لیتے ہیں.پس یہ نہیں کہ مسلمانوں میں سے اکثریت اس فساد اور ظلم کا حصہ ہے لیکن یہ بہر حال ہے کہ ایک اکثریت خوف اور لاعلمی کی وجہ سے احمدیت کے پیغام کو سمجھنا نہیں چاہتی یا اگر سمجھتی ہے تو ملکی قانون کی وجہ سے خوفزدہ ہے اور ملکی قانون ملاں کے خوف سے احمدی کو عام شہری کے حقوق دینے پر بھی تیار نہیں.آجکل قانون کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ ملاں کی حکمرانی ہے.ملاں نے کم علم مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ نعوذ باللہ احمد ی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو آخری نبی مانتے ہیں جبکہ یہ بالکل غلط ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عاشق صادق تمام نبیوں کے حلل میں، تمام مذاہب کے ماننے والوں کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنے کے لئے آیا ہے نہ کہ خود مقابلہ کرنے کے لئے اور آپ نے اپنے دلائل و براہین سے دنیا کے منہ بند کئے ہیں.اسلام پر حملے کرنے والوں کے آگے ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح آپ کھڑے ہو گئے.آپ نے دلائل و براہین سے نہ صرف اسلام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ
خطبات مسرور جلد نهم 606 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء کرنے والوں کو روکا بلکہ انہیں پھر پسپا کیا.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان دلائل و براہین کے ساتھ دشمن پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ اُس کو بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا.آپ کو الہام ہوا کہ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقد كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ 66 عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ “ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 265) یعنی کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور یقینا باطل بھاگنے والا ہی تھا.ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے پس مبارک ہے وہ جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی.یہ الہامات اور اس کے ساتھ فارسی اور اردو کے اور الہامات بھی ہیں ، انہیں بیان فرمانے کے بعد آپ اپنی کتاب " تریاق القلوب “ میں فرماتے ہیں کہ : ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دے گا.سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے.میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقایق اور معارف چمک رہے ہیں.اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقایق کے بیان کرنے میں میر امقابلہ کر سکے.میں وہی ہوں جسکی نسبت یہ حدیث صحاح میں موجود ہے کہ اسکے عہد میں تمام ملتیں ہلاک ہو جائیں گی.مگر اسلام کہ وہ ایسا چمکے گاجو در میانی زمانوں میں کبھی نہیں چمکا ہو گا“.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 267-268) پس اسلام کی خوبصورت تعلیم آج دنیا میں ہمیں آپ کے ذریعے سے پھیلتی نظر آرہی ہے.آج آپ کی جماعت ہی ہے جو با قاعدہ نظم و ضبط کے ساتھ ایک نظام کے ماتحت خلافت کے سائے تلے تبلیغ اسلام کا کام سر انجام دے رہی ہے.افریقہ میں تبلیغ اسلام ہو یا یورپ میں یا کسی بھی دوسرے براعظم میں، کسی بھی ملک میں، اسلام کی حقیقی تصویر جماعت احمد یہ ہی پیش کر رہی ہے.میں نے جب جماعتوں کو کہا کہ دشمنانِ اسلام قرآن کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں تو قرآن کی نمائش لگائی جائے، قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم کو واضح کیا جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف جگہوں پر نمائشیں لگیں اور لگ بھی رہی ہیں اور اس کے بعد دنیا سے ہر جگہ سے یہی رپورٹس آرہی ہیں کہ جو غیر لوگ آنے والے ہیں وہ دیکھ کے کہتے ہیں کہ جو قرآنی تعلیم اور جو اسلام تم پیش کر رہے ہو یہ تو اتنا خو بصورت اسلام ہے کہ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہم اس کی مخالفت کس طرح کر رہے تھے.ہمارے سامنے تو اسلام کا یہ خوبصورت پہلو کبھی آیا ہی نہیں.یہ ہماری لا علمی تھی، اکثروں کا بڑا معذرت خواہانہ لہجہ ہوتا ہے.قرآنِ کریم اور دوسرا اسلامی لٹریچر لے کر جاتے ہیں.ان نمائشوں میں آنے والے پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے، تعلیم یافتہ مسلمان بھی
607 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہیں ، عیسائی بھی ہیں ، دوسرے مذاہب والے بھی ہیں اور سب بلا استثناء اس کام کو سراہ رہے ہیں کہ یہ عظیم کام ہے جو تم لوگ کر رہے ہو لیکن بد قسمتی سے ایک ملاں ہے.ان کا بھی ایک طبقہ ہے جو بعض ملکوں میں اس نمائش کی مخالفت کرتا ہے.اسلام کی تعلیم پھیلانے کی مخالفت کرتا ہے.میں نے شاید پہلے بھی یہاں بتایا تھا کہ ہندوستان میں دہلی میں ایک بہت بڑے ہال میں جو حکومت سے کرائے پر لیا گیا تھا، ہم نے قرآنِ کریم کی نمائش لگائی تو اُس پر وہاں کے ملاں نے اپنے ساتھ چند شر پسندوں کو ملا کر اتنا شور مچایا کہ وہ نمائش جو تین دنوں کے لئے لگنی تھی دو دن میں سمیٹنی پڑی لیکن ان دو دنوں میں بھی اس نے اپنا بھر پور اثر قائم کیا.وہاں کے ایک بڑے پڑھے لکھے صاحب ہیں جن کا ایک مقام بھی ہے، وہ نمائش کے بعد وہ قادیان آئے اور پھر بتایا کہ میں پہلی مرتبہ قادیان آیا ہوں اور اس طرف سفر کر کے آیا ہوں اور چاہتا تھا کہ قرآن کریم اور اسلام کی اتنی عظیم خدمت کرنے والے جہاں رہتے ہیں وہ جگہ بھی دیکھوں اور پھر قادیان کی مختلف جگہیں دیکھیں اور متاثر ہوئے.لیکن یہ بھی بڑے افسوس سے میں کہتا ہوں کہ یہاں یو.کے (UK) میں ایک شہر میں گزشتہ دنوں ہم نمائش لگا رہے تھے تو ملاؤں کے شور کی وجہ سے پولیس نے وہاں ہماری انتظامیہ کو نمائش نہ لگانے کی درخواست کی.اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں دلائل سے رد کر دینا چاہئے لیکن وہاں کی مقامی جماعت یا جماعت کی مقامی انتظامیہ نے اُن کی یہ بات مان لی اور نمائش کینسل کر دی.اگر یہاں اس ملک میں یا ان ملکوں میں یورپ میں، جہاں ہر طرح کی آزادی ہے اور حکومت کی طرف سے آزادی دینے کا اعلان کیا جاتا ہے ، اگر ہم نے ملاں کو سر پر چڑھا لیا تو ہم اس ملک میں بھی شدت پسندی کو فروغ دینے والے بن جائیں گے.یہ بات ہمیں انتظامیہ کو بھی اچھی طرح باور کروانی چاہئے اور اس نمائش کا دوبارہ اہتمام کرنا چاہئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خاموشی سے لگالی جائے.اگر خاموشی سے لگانی ہے تو اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ ایک طرف دعویٰ ہے کہ ہم نے جری اللہ کے مشن کو آگے بڑھانا ہے اور دوسری طرف پھر ہم مداہنت بھی دکھائیں؟ یہ نہیں ہو سکتا.اس ملک میں جیسا کہ میں نے کہا قانون کی حکمرانی ہے، حکومت دعوی کرتی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے تو قانون سے کہیں کہ تمہارا کام اس کو نافذ کرنا ہے اور ہر شہری کے حق کی ادائیگی کرنا اور اُسے تحفظ دینا.اور یہ تم کرو.بہر حال یہ حال ہے مُلاں کا کہ غیر مسلم ممالک میں ، جیسے ہندوستان یا یہاں انگلستان میں جب قرآن اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے تو غیر مسلم نہیں بلکہ یہ نام نہاد مسلمان علماء کھڑے ہوتے ہیں.کہ ہیں ! یہ کس طرح ہو سکتا ہے ایسا خطر ناک کام، قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کا کام یہ احمدی کر رہے ہیں، یہ ہم کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے.یہ ہے ان اسلام کے ٹھیکیداروں کی اصل تصویر اور رُخ.لیکن ہم نے اپنا کام کئے جانا ہے.ہم نے ہر صورت میں اسلام کے مخالفین کے منہ بند کرنے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے انشاء اللہ تعالی.اور ظاہر ہے ہم یہ کرتے چلے جائیں گے تاکہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لانے کی کوشش کریں.جیسا کہ میں نے کہا مغربی ممالک کی یہ عمومی خوبی ہے کہ ہر ایک کو قانون کے سامنے ایک نظر سے دیکھتے ہیں اس لئے یہاں اگر ہمارے کام میں کوئی روک ڈالتا ہے تو ہمیں قانون کی مدد لینی چاہئے.یہاں ان کے قانون کی
خطبات مسرور جلد نهم 608 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء برتری کی ایک مثال بھی پیش کر دیتا ہوں.گزشتہ دنوں جب میں یورپ کے دورے پر گیا تھا تو واپسی پر ایک جمعہ ہالینڈ میں بھی پڑھایا تھا اور وہاں میں نے وہاں کے ایک سیاستدان، ممبر آف پارلیمنٹ اور ایک پارٹی کے لیڈر جن کا نام خیرت ولڈر ہے، کو یہ پیغام خطبہ میں دیا تھا کہ تم لوگ اسلام کے خلاف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو دریدہ دہنی میں بڑھے ہوئے ہو، گھٹیا قسم کی باتیں کر رہے ہو، دشمنی میں انتہا کی ہوئی ہے.اس چیز سے باز آؤ، نہیں تو اس خدا کی لاٹھی سے ڈر و جو بے آواز ہے جو اپنے وقت پر پھر تم جیسوں کو تباہ و برباد بھی کر دیا کرتی ہے.وہ خدا یہ طاقت رکھتا ہے کہ تم جیسوں کی پکڑ کرے.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس طاقت تو کوئی نہیں، ہم دعاؤں سے تم جیسوں کا مقابلہ کریں گے.اس خطبہ کا خلاصے پر مشتمل پریس ریلیز جو ہمارا پریس سیکشن بھیجتا ہے، اُن کے انچارج جب یہ ریلیز بنا کر میرے پاس لائے، تو باقی چیزیں تو انہوں نے لکھی ہوئی تھیں لیکن یہ فقرہ نہیں لکھا تھا.پھر اُن کو میں نے کہا کہ یہ فقرہ بھی ضرور لکھیں کہ ہمارے پاس کوئی دنیاوی ہتھیار نہیں ہے.یہی میں نے کہا تھا لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ تم اور تم جیسے جتنے ہیں وہ فنا ہو جائیں.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارا اپنے تمام مخالفین اور دشمنوں سے مقابلہ یا تو دلائل کے ساتھ ہے یا پھر سب سے بڑھ کر دعاؤں کے ساتھ.بہر حال یہ پریس ریلیز جو تھی، یہ خیرت ولڈر جو سیاستدان ہے اس نے بھی پڑھی اور انہوں نے اپنی حکومت کو خط لکھا اور حکومت سے ہوم منسٹر سے چند سوال کئے.جب یہ وہاں پریس میں آئے تو وہاں کی جماعت نے مجھے لکھا کہ اس طرح اُس نے سوال کئے ہیں.لگتا تھا کہ جماعت والوں کو تھوڑی سی گھبراہٹ ہے اُس پر میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر ہوم آفس والے پوچھتے ہیں تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، پریشان بھی ہونے کی ضرورت نہیں، کھل کر اپنا موقف بیان کریں، بنیاد تو اُس شخص نے خود قائم کی تھی جو غلط قسم کی حرکتیں کر رہا ہے.جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط فلمیں بھی بنائی ہیں.انتہائی سخت زبان اس نے استعمال کی تھی، اسلام کو بدنام کیا تھا.ہم نے تو اُس کا جواب دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے نبی کی غیرت رکھنے والا ہے اور وہ پکڑ سکتا ہے.خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے.بہر حال اُس نے یہ سوال جو اپنی حکومت کو بھیجے تھے ، اُس کے سوالوں کا کچھ دنوں بعد حکومت نے جواب بھی دیا اور یہ وہاں اخبار میں بھی آگیا.ولڈر نے پہلا اُس نے سوال یہ کیا تھا کہ کیا یہ آرٹیکل کہ World muslim leader sends warning to Dutch politician Geert Wilders عالمی مسلمان رہنما کی ہالینڈ کے سیاستدان خیرت ولڈر کو تنبیہہ.آپ یعنی وزارت داخلہ ہالینڈ کے علم میں ہے ؟ تو وزیر داخلہ نے اس کو جواب دیا کہ ہاں مجھے علم ہے، یہ آرٹیکل میں نے پڑھا ہے.پھر اگلا سوال اُس کا یہ تھا (میر انام لیا تھا) کہ مرزا مسرور احمد نے یہ کہا ہے کہ تم سُن لو کہ تمہاری پارٹی اور تمہارے جیساہر شخص بالاخر فناء ہو گا.یہ ولڈر نے منسٹر کو لکھا.پھر آگے اس کی تشریح خود کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ اس مفسدانہ بیان پر وزارت داخلہ اسلامی تنظیم کے خلاف کیا قدم اُٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے ؟ ڈچ وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ پریس ریلیز کے مطابق مرزا مسرور احمد نے کہا ہے کہ ایسے افراد اور گروہ کسی فساد یا دیگر سیکولر حربوں
609 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم سے نہیں بلکہ صرف دعا کے ذریعے ہلاک ہوں گے.اس بیان پر میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھتا جو کہ فساد کو ہوا دیتی ہو یا باعث فساد ہو.اس لئے مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں احمد یہ مسلم جماعت کے خلاف کوئی قدم اٹھاؤں.پھر تیسر اسوال اُس نے کیا تھا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی ہالینڈ کا عالمگیر جماعت احمد یہ مسلمہ اور مسرور احمد سے کیا تعلق ہے ؟ اُس ڈچ وزیر نے جواب دیا کہ احمدیہ مسلم جماعت ہالینڈ عالمگیر جماعت احمد یہ مسلمہ کا ہی ایک ہے.تو یہ ہے اُن کا جواب.پس یہ اُن لوگوں کی انصاف پسندی ہے.ایک سیاستدان جو پارٹی کا لیڈر بھی ہے، ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہے اور پھر اُن کا اپنا ہم مذہب ہے.جب سوال اُٹھاتا ہے تو اُس کے سوالوں کا انصاف پر مبنی جواب دیا جاتا ہے.سنا ہے ولڈر صاحب اب جماعت کے بارے میں مزید تحقیق کر رہے ہیں کہ کس طرح جماعت کے منفی پہلو حاصل کریں.لیکن یہ مخالفین جتنا چاہے زور لگا لیں یہ الہبی جماعت ہے اور ہمیشہ وہی بات کرتی ہے جو حق ہو اور صداقت ہو.اور اس میں سے یہی کچھ اُن کو نظر آئے گا.پس ہمیں تو اس زمانے کے امام نے اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے اور دشمن کا منہ دلائل سے بند کرنے کا فریضہ سونپا ہے اور اپنی اپنی بساط اور کوشش کے مطابق ہر احمدی اس کام کو سر انجام دے رہا ہے.اور جہاں اسلام پر دشمنانِ اسلام کو حملہ آور دیکھتا ہے وہاں احمدی ہے جو دفاع بھی کرتا ہے اور منہ توڑ جواب بھی دیتا ہے.دنیا کو سمجھاتا بھی ہے.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی ملی ہوئی علم و معرفت ہے جس کو ہم استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر احمدی بغیر کسی احساس کمتری کے بڑے بڑے لیڈروں اور مذہبی سر براہوں کو بھی اسلام کا پیغام پہنچا رہا ہے.دوسرے اگر لیڈروں کو ملنے جاتے ہیں تو مدد لینے جاتے ہیں یا دنیاوی مفادات لینے جاتے ہیں.کبھی اسلام کا پیغام پہنچانے کی جرات نہیں کرتے.ابھی گزشتہ دنوں ہمارے کہا بیر کے امیر صاحب کو ایک وفد کے ساتھ اٹلی جانے کا موقع ملا.جانے سے پہلے انہوں نے مجھے بھی کہا کہ یہ جو وفد جا رہا ہے اُس میں کیونکہ ہر مذہب کے لوگ انہوں نے رکھے ہیں اور ایک ایسی مذہبی تقریب پیدا ہو رہی ہے کہ پوپ سے بھی ملاقات ہو گی بلکہ پوپ کے بلانے پر جارہے ہیں اس لئے اگر مناسب سمجھیں تو آپ کی طرف سے اُسے کوئی پیغام دے دوں اور قرآنِ کریم کا تحفہ بھی دے دوں.تو میں نے اُنہیں کہا کہ بڑی اچھی بات ہے ضرور دیں.چنانچہ انہیں میں نے یہاں سے اپنا پیغام لکھ کر بھجوایا کہ پوپ کو جا کے دے دیں.اُس کی انہوں نے کا پیاں بھی کروا لیں اور وہاں جب وہ گئے ہیں تو پوپ کو بھی دیا اور ویٹیکن کے اور بڑے بڑے پادری جو تھے اُن کو بھی دیا.قرآنِ کریم کا تحفہ بھی پوپ کو دیا.اس کی تصویر بھی وہاں اخباروں میں آئی.اُن کی رپورٹ کا ایک حصہ میں سناتا ہوں جو اس کے بعد شریف اودے صاحب نے لکھی.وہ لکھتے ہیں کہ خاکسار نے اٹلی میں پوپ کی رہائش گاہ ویٹیکن میں مورخہ 10.11.2011 کو اُن مذہبی لوگوں کے گروپ کے ساتھ ملاقات کی جن میں اسرائیل کے ھاخام اعظم جو اُن کے بہت بڑے رہائی ہیں اور کچھ عیسائی اور یہودی اور مسلمان
610 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم عہدے داران شامل تھے.خاکسار نے پوپ کو (میر الکھتے ہیں کہ ) حضور کا خط پہنچایا اور انہیں بتایا کہ اس میں حضرت امام جماعت احمدیہ عالمگیر کا بہت اہم پیغام ہے.انہوں نے یہ خط خود اپنے ہاتھ سے وصول کیا.اسی طرح میں نے اُنہیں اٹالین ترجمہ قرآن کا بھی ایک نسخہ پیش کیا.اٹالین اور اسرائیل ٹی وی نے نیز اٹالین اخبارات اور اسرائیل کے عربی اور عبرانی اخبارات نے خاکسار کی تصویریں پوپ کے ساتھ نشر کیں.ملاقات کے بعد ویٹیکن ریڈیو پر ایک پر یس کا نفرنس تھی میں نے اس میں حضور کے خط کا ذکر کیا اور خلاصہ بیان کیا اور صحافیوں میں اس خط کی کاپیاں تقسیم کیں.اسی طرح میں نے ویٹیکن میں مشرق وسطی میں موجود چر چز (Churches) کے ذمہ دار کارڈینل وغیرہ کو بھی کاپی مہیا کی.میں نے یہاں مذاکرات بین المذاہب کی کمیٹی سے بھی ملاقات کی اور انہوں نے مجھے اپنی کا نفرنس میں بلانے کے لئے مجھ سے ایڈریس بھی لیا.ان کی اگلی کا نفرنس آئندہ سال سرائیو میں ہو گی.جو خط میں نے پوپ کو لکھا تھا اُس کا خلاصہ یہ ہے پہلے کچھ دعائیہ کلمات تھے ، پھر قرآن کریم کی یہ آیت تھی کہ قُلْ يَاَهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ (آل عمران : 65) کہ تو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوارب نہیں بنائے گا.پھر اس کا میں نے ذکر کیا تھا(خلاصہ بیان کر رہا ہوں ) کہ آجکل اسلام اس لحاظ سے دنیا کی نظر میں ہے کہ اُس کی تعلیم کو نشانہ بنایا جارہا ہے.گو بعض مسلمانوں کے عمل اس کی وجہ ہیں لیکن جس وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے یہ بالکل غلط ہے اور بعض مسلمان لوگوں کے جو غلط عمل ہیں اُن کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ بھی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کرنے سے نہیں چوکتے.جس طرح کہ ہر مذہب کے بانی کی تعلیم ہے یا ہر مذہب کی تعلیم ہے کہ اس کا مقصد بندے کو خدا سے ملانا ہے اسی طرح اسلام کی تعلیم ہے اور بڑھ کر ہے.پس چند لوگوں کے غلط عمل کی وجہ سے اسلام پر غلط قسم کے حملے نہیں ہونے چاہئیں.اسلام ہمیں تمام انبیاء کی عزت کرنا سکھاتا ہے، اُن انبیاء کا جن کا ذکر بائبل میں بھی ہے اور قرآنِ کریم میں بھی.ہم جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجز غلام ہیں، ہمیں بڑی شدید تکلیف پہنچتی ہے جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر حملے کئے جاتے ہیں.ہم ان حملوں کا جواب دیتے ہیں لیکن آپ کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کر کے.قرآنِ کریم کی تعلیم دنیا کے سامنے رکھ کر جو پیار محبت اور بھائی چارے کی تعلیم ہے.اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو اور یہی آواز اس کو پھیلانے کے لئے ہماری مسجدوں سے پانچ وقت گو نجتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.پھر آگے یہ بھی لکھا کہ آجکل دنیا کے امن کی بربادی اس لئے ہے کہ آزادی خیال اور ضمیر کی آڑ میں بعض لوگ ایک دوسرے کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور مذہبی طور پر بھی تکلیف پہنچائی جاتی ہے.آجکل دنیا
611 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم میں چھوٹے پیمانے پر جنگیں شروع ہیں.آج دنیا کو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جنگوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے.ورنہ عالمی جنگ کی صورت بھی بن سکتی ہے.جس کی تباہی نا قابل بیان ہو گی.پھر میں نے انہیں لکھا کہ پس ہمیں دنیا کی مادی ترقی کی طرف زیادہ توجہ دینے کی سوچ رکھنے کے بجائے اس کو تباہی سے بچانے کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ تباہی یقینی ہے.پس مذہبی لیڈروں کو آپس کی دشمنیوں اور حقوق کی تلفی سے دنیا کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور پھر میں نے لکھا کہ کیونکہ آپ دنیا میں ایک آواز رکھتے ہیں.آپ کی بڑی زیادہ following ہے، اس لئے اس امر کی کوشش کریں تمام مذاہب عالم کو آج آپس میں تعاون کرتے ہوئے امن کی کوشش کرنی چاہئے اور اس طرح سے اپنے پیدا کرنے والے خدائے واحد کو پہچاننے کی طرف توجہ کریں.یہ اس خط کا خلاصہ ہے جو اُن کو بھیجا گیا تھا.اللہ کرے کہ یہ پیغام اُن کی سمجھ میں بھی آجائے اور پڑھ بھی لیا ہو.یہ لوگ انسانیت کی قدروں کو قائم کرنے والے ہوں اور مذاہب کا احترام کرنے والے ہوں اور سب سے بڑھ کر خدائے واحد کو پہنچاننے والے ہوں.جیسا کہ شریف صاحب کی رپورٹ سے بھی ظاہر ہے کہ اس موقع پر بعض اور مسلمان مذہبی لیڈر بھی تھے یا بڑے لوگ تھے لیکن پوپ کو اسلام کا اور قرآن کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی تو زمانے کے امام اور جری اللہ کے ایک غلام کو.پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں.اور نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی بہتک کرنے والے ہیں.ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑ کر اسلام کی آج تک ایک نئی شان سے کامیابیوں کے نظارے دیکھ رہے ہیں.بلکہ غیر جن کے دل میں بغض اور کینے نہیں ہیں وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو کام ہے اس میں یقینا آپ نے اپنے مقصد کو پالیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ایک مقدمہ قائم ہوا تھا یہ بڑا مشہور مقدمہ ہے جو ایک پادری ہنری مارٹن کلارک نے قائم کیا تھا.اصل میں تو اس کے پیچھے اُس شکست کا بدلہ لینا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور عیسائیوں کے درمیان ایک مباحثے میں عیسائیوں کو ہوئی تھی، جس بحث کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب جنگ مقدس میں ملتی ہے.یہ مقدمہ مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر قتل کا جھوٹا مقدمہ قائم کر کے کیا تھا.اس کی تفصیل بھی آپ کی کتاب ”کتاب البریہ “ میں ملتی ہے.بہر حال اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُس وقت کے حج کپتان ڈگلس نے باعزت بری کیا تھا.آپ نے اس حج کو پیلاطوس ثانی کا خطاب دیا تو یہ بھی ایک لمبی تفصیل ہے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اُس مقدمے میں بہت ذلیل ہوا تھا بلکہ حج نے کہا تھا آپ ان کے خلاف ہتک عزت کا دعوی بھی کر سکتے ہیں، ان کے خلاف مقدمہ بھی کر سکتے ہیں.گزشتہ دنوں مجھے ہمارے آصف صاحب جو ایم.ٹی.اے کے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہنری مارٹن کلارک کے پڑ پوتے سے رابطہ ہوا ہے اور وہ مجھے ملنا چاہتا ہے تو میں نے انہیں کہا کہ بڑی خوشی سے آجائیں کسی دن اُن کو لے آئیں.چنانچہ وہ گزشتہ دنوں مجھے ملے یاملنا تو شاید اتنا اہم نہیں ایک ملاقات ہوتی ہے لوگ ملنے آتے رہتے ہیں لیکن
612 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جو باتیں اُنہوں نے کیں ، اُن میں سے چند آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صداقت کی نشانی ہے.کس شان سے اللہ تعالیٰ آج بھی آپ کی تائید فرماتا ہے.میں نے باتوں باتوں میں جنگ مقدس کے حوالے سے بات کی تو کہنے لگے کہ میں نے تو اس بارے میں حال ہی میں تحقیق کی ہے لیکن آج مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہنری مارٹن کلارک ماضی میں کھو گیا ہے.یہ اُن کے پڑپوتے کا بیان ہے کہ ہنری مارٹن کلارک ماضی میں کھو گیا ہے جبکہ اُس کے مد مقابل جو شخص تھا وہ دنیا بھر میں کامیاب ہے.کہنے لگے.مجھے خود کچھ سال پہلے معلوم نہیں تھا کہ میرے پڑدادا کون ہیں.ابھی حال ہی میں میں اپنے آباؤ اجداد کی تلاش کر رہا تھا تو مجھے یہ پتا چلا کہ ہنری مارٹن کلارک میرے پڑدادا ہیں.بہر حال تقریباً آدھا گھنٹہ ہماری گفتگو ہوتی رہی.بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں اور احتیاط سے میرے ساتھ بات کر رہے تھے.میں سمجھا شاید یہ اُن کا انداز ہو گا لیکن بعد میں آصف صاحب کو کہنے لگے کہ ساری ملاقات میں میں بڑی جذباتی کیفیت میں رہا ہوں اور اُس کے بعد جب باتیں ہوئیں آصف صاحب نے انہیں دوبارہ بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہنری مارٹن کلارک کے بارے میں اگر بعض سخت الفاظ استعمال کئے ہیں تو وہ اُس مارٹن کلارک کی ضد کی وجہ سے تھا، اُس مباحثے کی صور تحال کی وجہ سے تھا جو اُس وقت پیدا ہوئی تھی باوجود اس کے کہ بڑا واضح ہے اور سارے مباحثے کو پڑھ کر انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ فتح اسلام کی ہوئی لیکن وہ یہی نعرہ لگاتارہا اور اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ عیسائیت جیت گئی تو پھر آپ نے یہی فرمایا کہ دعا کے ذریعے سے فیصلہ ہو جائے تا کہ اللہ تعالیٰ واضح نشان دکھائے کافی لمبی باتیں کیں.اس پر وہ بے ساختہ کہنے لگا.God has certainly shown a sign even today.یعنی اللہ تعالیٰ نے یقینی طور پر نشان دکھا دیا بلکہ آج بھی نشان دکھا دیا ہے.ملاقات کا بھی اس نے ذکر کیا تو اس کی تفصیل تو آصف صاحب کو کہا ہے کہ کسی وقت مضمون بنا کر لکھ دیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت آج انہی دشمنانِ اسلام کی اولادوں کے منہ سے اللہ تعالیٰ ظاہر فرما رہا ہے.اگر سمجھ نہیں آتی تو ان ملاؤں کو ، جو دین کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”میرا انکار میر انکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرالیتا ہے جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجو د وعدہ اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجر :10) کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح محمدی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا.مگر اس نے معاذ اللہ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے
613 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم معاذ اللہ.کیونکہ اس سلسلہ کی اتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی امت میں سے ایک مسیح پیدا ہو تا اسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا.اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ الحمد سے لے کر والناس تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا پھر سوچو کہ میری تکذیب کوئی آسان امر ہے یہ میں از خود نہیں کہتا بلکہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گاوہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کر دی اور خدا کو چھوڑ دیا.اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے اَنْتَ مِنِّی وَ آنَا مِنْكَ“ بے شک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اقرار سے خدا تعالیٰ کی تصدیق ہوتی اور اس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے.اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرات کرے.ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے ؟“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 364-365 مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ دوسری کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں: پس تم خوب یاد رکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلواریں ماررہے ہو سو تم ناحق آگ میں ہاتھ مت ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑ کے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے.یقینا سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہو جاتے اور نیز یہ اس اپنی عمر تک بھی ہر گز نہ پہنچتا....کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گذرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افتر ا کر کے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہے.پھر اس مدت مدید کے سلامتی کو پالیا ہو.افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآن کریم کی ان آیتوں کو یاد نہیں کرتے جو خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت اللہ جل شانہ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افتر اکر تا تو میں تیری رگ جان کاٹ دیتا.پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ ترکون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افترا کر کے اب تک بچا رہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو.سو بھائیو نفسانیت سے باز آؤ.اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے خاص ہیں ان میں حد سے بڑھ کر ضد مت کرو اور عادت کے سلسلہ کو توڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو تا تم پر رحم ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے.سوڈرو اور باز آجاؤ.کیا تم میں ایک بھی رشید نہیں.وَاِنْ لَّمْ تَنْتَهُوا فَسَوْفَ يَأْتِيَ اللهُ بِنُصْرَةٍ مِّنْ عِنْدِهِ وَ يَنْصُرُ عَبْدَهُ وَيُمَزِّقُ أَعْدَاءَهُ 66 وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا “ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 54-55)
خطبات مسرور جلد نهم 614 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء اگر تم باز نہ آئے تو پس عنقریب اللہ تعالیٰ اپنی خاص نصرت کے ساتھ آئے گا اور اپنے بندے کی مدد کرے گا اور اُس کا دشمن پیسا جائے گا اور اسے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکو گے.اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین کو کچھ عقل آئے اور اس پیغام کو سمجھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ تمام احمد یوں کو ہر جگہ ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے آگے جھکنے کی اور دعاؤں کی تو فیق عطا فرمائے.اب نمازوں کے بعد میں آج بھی چند جنازے پڑھاؤں گا جس میں سے پہلا جنازہ محترمہ مریم خاتون صاحبہ اہلیہ مکرم محمد ذکری صاحب آف چوبارہ ضلع لیہ کا ہے.5 دسمبر 2011ء کو شام تقریباً پانچ بجے جماعت احمدیہ چوبارہ ضلع لیہ میں چند غیر احمدی افراد نے ایک احمدی فیملی پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں موقع پر ہی آپ کی وفات ہو گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یعنی یہ شہید خاتون ہیں.آپ کا گھر مربی ہاؤس سے ملحقہ ہے.اس رقبے میں دیگر چند احمد می گھرانے بھی آباد ہیں.چند سال قبل اسی جگہ مخالف فریق نے مشترکہ کھاتے سے زمین خریدی اور بعد میں محکمہ مال سے ساز باز کر کے مرحومہ کے خاندان کا انتقالِ اراضی منسوخ کر وا دیا.مقدمہ عدالت میں زیر سماعت بھی ہے پہلے بھی مخالف فریق نے قبضہ کرنے کے لئے حملہ کیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے.واقع کے روز اس گروہ نے رقبے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو مزاحمت کرنے پر بظاہر اینٹ مار کر جبکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق کسی کے دستے کے وار سے یہ شدید زخمی ہو گئیں اور موقع پر ہی جان جان آفریں کے سپر د کر دی.احمدیت کی وجہ سے ساری مخالفت تھی.ان کے خاوند کی دو بہنیں بھی زخمی ہوئی ہیں لیکن اُن کی حالت اب تسلی بخش ہے.مرحومہ کی عمر 25، 26 سال تھی.یہ پورا خاندان پیشے کے لحاظ سے زمیندار ہے.ان کے خسر نے 1992ء میں جب یہ رقبہ خرید اتو اُس میں سے احمد یہ مسجد کے قریب واقعہ ایک کنال کا پلاٹ جماعت کو پیش کیا جس پر اب مربی ہاؤس تعمیر ہو چکا ہے.مخالف فریق کافی عرصے سے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور ہائی کورٹ تک یہ مقدمہ گیا ہوا تھا.ہائی کورٹ میں بھی ناکامی ہوئی اس کے بعد انہوں نے ریکارڈ تبدیل کرنے کی کوشش کی اور وہاں جس طرح کہ پاکستان میں طریق ہے یہ مل کر ساز باز کر کے اور اُس کو ریکارڈ کو اپنے نام تبدیل بھی کروالیا.لیکن بہر حال مقدمہ ابھی چل رہا تھا.کیونکہ کافی ٹینشن تھی اس لئے جب ڈی پی او کو جماعت نے رپورٹ کی تو ڈی پی او نے صاف لفظوں میں معذرت کرلی کہ میں مخالف فریق کو ناراض نہیں کر سکتا.بہر حال مریم خاتون صاحبہ کی وفات کے بعد قریبی جماعت شیر گڑھ ضلع لیہ میں ان کی تدفین کی گئی ہے.جس نے ان کو شہید کیا وہ پولیس کی مدد سے ہی فرار ہو چکا ہے.ان کے پسماندگان میں خاوند کے علاوہ تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.بڑے بیٹے کی عمر نو سال ہے ، اور بچی ماریہ پروین ساڑھے چھ سال کی ہے اور پھر بچہ ساڑھے پانچ سال کا ہے.دوسرا جنازہ ہے مکرمہ عظیم النساء صاحبہ اہلیہ مکرم بہادر خان صاحب درویش مرحوم قادیان کا ہے، یہ تین دسمبر 2011ء کو وفات پا گئیں.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ مونگھیر صوبہ بہار کی رہنے والی تھیں اور حضرت میاں شادی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہو تھیں.بچپن
خطبات مسرور جلد نهم 615 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09دسمبر 2011ء سے ہی قادیان جانے کے لئے دعا کرتی تھیں اور اس کے لئے آپ نے ایک لمبی نظم بھی کہی تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعاسنی اور شادی کے بعد 1952ء میں قادیان آگئیں.نظم کا ایک شعر اس طرح سے ہے دعائے آرزو یارب عاجزہ عظیم النساء کی دکھادے جلد بستی قادیاں دار الاماں کی تو آپ نے خاوند کے ساتھ زمانہ درویشی ہر قسم کے نامساعد اور کٹھن حالات کے باوجو د نہایت وفا اور اخلاص کے ساتھ گزارا.اور میاں کی وفات کے بعد 29 سال کا طویل عرصہ نہایت صبر اور شکر کے ساتھ بیوگی کی حالت میں قادیان کی مقدس سرزمین میں مقیم رہیں.بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھتی تھیں.انہیں بڑے عمدہ رنگ میں قرآن کریم پڑھایا کرتی تھیں، ان کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے یاد گار ہیں اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.تیسر اجنازہ ہے مکرم سلیمان احمد صاحب مرحوم مبلغ انڈونیشیا.ان کی وفات یکم دسمبر 2011ء کو ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.دل کی بیماری کی وجہ سے وفات ہوئی.1953ء کی ان کی پیدائش تھی.1978ء میں انہوں نے بیعت کی.1979ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ میں فصل الخاص میں داخل ہوئے.جولائی 1985ء میں مبشر کا امتحان پاس کیا اور واپس انڈونیشیا آگئے.ان کا تقرر بو گور (Bogor) میں ہوا اور بعد میں ان کو نو (9) مختلف مقامات پر خدمت کی توفیق ملی.وفات کے وقت جماعت بانڈ ونگ (Bondung) میں متعین تھے.ان کی اہلیہ کے علاوہ ان کے تین بچے بھی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے.چو تھا جنازہ الحاج ڈی ایم کالوں صاحب سیر الیون کا ہے.یہ 26 نومبر 2011ء کو مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ میں غربت میں آنکھ کھولی تھی اور کہا کرتے تھے کہ پندرہ سال کی عمر تک وہ ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے مگر علم سے محبت نے اُن کی کامیابیوں کے قدم چومے اور نوجوانی میں سیر الیون پروڈیوس مارکیٹنگ بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہو گئے.خود پڑھے، تعلیم حاصل کی.بڑے خوش اخلاق، ملنسار اور مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے مخلص انسان تھے.ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں اور آپ کی اہلیہ حاجیہ سلمی کالوں صاحبہ سیر الیون میں بطور نیشنل صدر لجنہ اماء اللہ خدمت کی توفیق پارہی ہیں.آپ کے ایک بیٹے ٹومی کالوں صاحب ہیں جو یہاں رہتے ہیں، سابق صدر خدام الاحمدیہ بھی رہ چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی اولادوں میں بھی جاری رکھے.ان سب کی نماز جنازہ انشاء اللہ نماز کے بعد ادا ہو گی.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 30دسمبر 2011ء تا 5 جنوری 2012 ء جلد 18 شمارہ 52 صفحہ 5 تا8)
خطبات مسرور جلد نهم 616 50 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 2011ء بمطابق 16 فتح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمارے بچے عموماً ماشاء اللہ بڑی چھوٹی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیتے ہیں.جن کی ماؤں کو زیادہ فکر ہوتی ہے کہ ہماری اولا د جلد قرآن کریم ختم کرے وہ اُن پر بڑی محنت کرتی ہیں.یہاں بھی اور مختلف ملکوں میں جب میں جاتا ہوں تو وہاں بھی بچوں اور والدین کو شوق ہوتا ہے کہ میرے سامنے بچوں سے قرآنِ کریم پڑھوا کر اُن کی آمین کی تقریب کروائیں.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ قرآن کریم ختم کروانے کے بعد پھر اُن کی دہرائی اور بچے کو مستقل قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے عموماً اتنا تردد اور کوشش نہیں ہوتی جتنا ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کروانے کے لئے کی جاتی ہے.کیونکہ میں جب عموماً پوچھتا ہوں کہ تلاوت با قاعدہ کرتے ہو یا نہیں.(بعضوں کے پڑھنے کے انداز سے پتا چل جاتا ہے ) تو عموماً تلاوت میں باقاعدگی کا مثبت جواب نہیں ہوتا.حالانکہ ماؤں اور باپوں کو قرآن کریم ختم کروانے کے بعد بھی اس بات کی نگرانی کرنے چاہئے اور فکر کرنی چاہئے کہ بچے پھر با قاعدہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیں.پس اپنی فکر میں صرف ایک دفعہ قرآن کریم ختم کروانے تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ بعد میں بھی مستقل مزاجی سے اس کی نگرانی کی ضرورت ہے.یقینا پہلی مرتبہ قرآنِ کریم پڑھانا اور ختم کروانا ایک بہت اہم کام ہے.بعض مائیں چار پانچ سال کے بچوں کو قرآنِ کریم ختم کروا دیتی ہیں اور یقینا یہ بڑا محنت طلب کام ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ مستقل مزاجی سے اسے جاری رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے.گزشتہ دنوں ایک خاتون کا مجھے خط ملا جس میں میری والدہ کا ذکر تھا اور لکھا کہ ایک بات جو انہوں نے مجھے کہی اور آج تک میں اس پر اُن کی شکر گزار ہوں کہ ایک دفعہ میں اپنی بچی یا بچے کو لے کر گئی جس نے قرآن کریم ختم کیا تھا تو میں نے بڑے فخر سے انہیں بتایا کہ اس بچے نے چھ سال کی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیا ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ چھ سال یا پانچ سال میں قرآنِ کریم ختم کرنا تو اتنے کمال کی بات نہیں ہے.مجھے تم یہ بتاؤ کہ تم نے بچے کے دل میں قرآنِ کریم کی محبت کتنی پیدا کی ہے؟ تو حقیقت یہی ہے کہ قرآنِ کریم پڑھانے کے ساتھ ہی قرآن کریم کی محبت پیدا کرنی بھی ضروری ہے.اور
617 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم تبھی بچے کو خود پڑھنے کا شوق بھی ہو گا.اور جس زمانے اور دور سے ہم گزر رہے ہیں جہاں بچوں کے لئے متفرق دلچسپیاں ہیں.ٹی وی ہے ، انٹر نیٹ ہے، دوسری کتابیں ہیں.ان دلچسپیوں میں بچے کا خود صبح با قاعدہ تلاوت کرنا اور پڑھنا اُسے قرآنِ کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس زمانے میں جب مختلف قسم کی دلچسپیوں کے سامان ہیں، مختلف قسم کی دلچسپی کی کتابیں موجود ہیں، مختلف قسم کے علوم ظاہر ہو رہے ہیں، اس دور میں قرآنِ کریم پڑھنے کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے اور ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے.پس اس کو پڑھنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.بچوں میں قرآنِ کریم کی محبت اس وقت پیدا ہو گی جب والدین قرآنِ کریم کی تلاوت اور اُس پر غور اور تدبر کی عادت بھی ڈالنے والے ہوں گے.اُس کے پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں گے.جب ہر گھر سے صبح کی نماز کے بعد یا آجکل کیونکہ سردیوں میں نماز لیٹ ہوتی ہے، اگر کسی نے کام پر جلدی نکلنا ہے تو نماز سے پہلے تلاوت با قاعدہ ہو گی تو وہ گھر قرآن کریم کی وجہ سے برکتوں سے بھر جائے گا اور بچوں کو بھی اس طرف توجہ رہے گی.بچے بھی ان نیکیوں پر چلنے والے ہوں گے جو ایک مؤمن میں ہونی چاہئیں.اور جوں جوں بڑے ہوتے جائیں گے قرآن کریم کی عظمت اور محبت بھی دلوں میں بڑھتی جائے گی.اور پھر ہم میں سے ہر ایک مشاہدہ کرے گا کہ اگر ہم غور کرتے ہوئے با قاعدہ قرآنِ کریم پڑھ رہے ہوں گے تو جہاں گھروں میں میاں بیوی میں خدا تعالیٰ کی خاطر محبت اور پیار کے نظارے نظر آرہے ہوں گے ، وہاں بچے بھی جماعت کا ایک مفید وجود بن رہے ہوں گے.اُن کی تربیت بھی اعلیٰ رنگ میں ہو رہی ہو گی.اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے پوری توجہ اور کوشش سے کرنی چاہئے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو ہم میں پید اکرنے کے لئے بہت کوشش فرمائی ہے اور آپ کے آنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرآن کریم کو دنیا میں ہر چیز سے اعلیٰ مقام دینے والے بنیں اور اسے وہ عزت دیں جس کے مقابلے میں کوئی اور چیز نہ ہو.قرآنِ کریم کی عزت کو ہم صرف اس حد تک ہی نہ رکھیں جو عموماً غیر از جماعت کرتے ہیں کہ خوبصورت کپڑوں میں رکھ لیا، خوبصورت شیلف میں رکھ لیا، خوبصورت ڈبوں میں رکھ لیا.قرآنِ کریم کی اصل عزت یہ ہے اور اس کی محبت یہ ہے کہ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے، اس کے اوامر اور نواہی کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے.جن چیزوں سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اُن سے انسان رُک جائے اور جن کے کرنے کا حکم ہے اُن کو انجام دینے کے لئے اپنی تمام تر قوتوں اور استعدادوں کو استعمال کرے.اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام نے بیشمار جگہ اپنی کتب میں ، اپنی مجالس میں، ملفوظات میں قرآنِ کریم کی اہمیت بیان فرمائی ہے اور ان باتوں کا ذکر فرمایا ہے.ان توقعات کا ذکر فرمایا ہے جو ایک احمدی سے اور ایک بیعت کنندہ سے آپ کو ہیں.پس ہمیں اپنے گھروں کو تلاوتِ قرآنِ کریم سے بھرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اس بات کی
618 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ضرورت ہے کہ تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی پڑھیں تا کہ اُس کے احکام سمجھ میں آئیں.گھروں میں بچوں کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کے سمجھنے، اس کے ترجمے کے تذکرے اور کوشش بھی ہو ، صرف تلاوت کی عادت نہ ڈالی جائے بلکہ ایسی مجلسیں ہوں جہاں قرآنِ کریم سے چھوٹی چھوٹی باتیں نکال کے بچوں کے سامنے بیان کی جائیں تا کہ اُن میں بھی شوق پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز اور قرآن کے ترجمے کو سمجھنا اور پڑھنا بڑا ضروری قرار دیا ہے.لیکن صرف ترجمہ پڑھنا اور اصل عربی متن یا عبارت نہ پڑھنا اس کی اجازت نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ: ”ہم ہر گز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے، اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے.جو شخص یہ کہتا ہے (کہ صرف ترجمہ پڑھنا کافی ہے) وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میں نہ رہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 265 مطبوعہ ربوہ ) پس یہی قرآن کریم کا اعجاز ہے اور یہ ایک بہت بڑا اعجاز ہے کہ اب تک اپنی اصلی حالت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر :10) که یقینا ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.اور یہ اعجاز جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ اصلی عبارت میں عربی عبارت میں آج تک چلا آرہا ہے.اور شدید سے شدید معترضین اور مخالفین اسلام جو ہیں وہ بھی اعتراف کئے بغیر نہیں رہتے کہ قرآنِ کریم اپنی اصلی شکل میں اپنی اصلی حالت میں آج تک محفوظ ہے، اگر صرف ترجموں پر انحصار شروع ہو جائے تو ترجمے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو رہے ہیں.بلکہ جب ہم اپنا تر جمہ دنیا کے سامنے رکھتے ہیں تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ترجمہ بالکل مختلف ہے کیونکہ غیروں نے صحیح ترجمے نہیں کئے ہوئے.اسلام پر اعتراض کرنے والے ایک بہت بڑے پادری نے امریکہ میں قرآنِ کریم کے کچھ ترجموں (صرف ترجمے لئے تھے، عربی ٹیکسٹ نہیں لیا تھا، متن نہیں لیا تھا) اعتراض کر دیا کہ اسلام یہ کہتا ہے، اسلام یہ کہتا ہے اور قرآن یہ کہتا ہے.اُس کو جب ہم نے اپنی تفسیر بھجوائی تو اس کا جواب بھی اُس نے دیا اور بڑا پیچھا کرنے کے بعد یہی جواب تھا کہ میں نے جو ترجمے کئے ہیں وہ بھی مسلمانوں کے لکھے ہوئے ہیں.تو بہر حال یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں ترجمے میں بھی عربی متن کے قریب تر کر دیا اور اُس کے صحیح معنی اور معارف سکھائے ہیں.یہاں ضمناً یہ بھی بتادوں کہ گزشتہ دنوں احمدیت پر کسی اعتراض کرنے والے کا اعتراض نظر سے گزرا جس میں اُس نے کہا تھا کہ اگر مرزا صاحب نبی تھے تو پھر انہوں نے اپنی جماعت کو یہ کیوں کہا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی پیروی کرو.تو اس کا جواب تو آپ کی تحریر کی رو سے بہت جگہ آیا ہوا ہے.یہ قطعا کبھی کہیں نہیں کہا گیا کہ پیروی کرو، لیکن قرآن کریم کے حوالے سے بات کرتا ہوں یہ ایک حوالہ ہے، کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات مسرور جلد نهم 619 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء والسلام کی مجلس میں ذکر کیا کہ حنفی مذہب میں صرف ترجمہ پڑھنا کافی سمجھا گیا ہے.اس پر آپ نے فرمایا: اگر یہ امام اعظم کا مذہب ہے تو پھر اُن کی خطا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 265 مطبوعہ ربوہ) ان کی وہ بات غلط تھی ، بیشک وہ امام ہیں انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے، بہت سارے مسائل اکٹھے کئے ہیں لیکن اگر انہوں نے یہ کہا ہے کہ صرف ترجمہ پڑھنا کافی ہے تو یہ غلط ہے.بہر حال اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا اصل حفاظت کرنے کا ذریعہ بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے.آپ نے اپنی جماعت کو قرآن کریم سمجھنے اور اس سے محبت کرنے کی بیشمار جگہ تلقین فرمائی ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف قانونِ آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحه 130 مطبوعہ ربوہ) گو اس فقرہ کے سیاق و سباق میں ایک بحث کا ذکر چل رہا ہے جو آپ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی قرآنِ شریف سے وفات ثابت کرنے کے لئے بیان فرمارہے ہیں لیکن یہ عمومی اصول بھی ہے کہ قرآنِ شریف قانونِ آسمانی ہے اور اس لحاظ سے نجات کا ذریعہ ہے.ہم اگر دیکھیں تو دنیاوی قانون بھی صرف قانون بن جانے سے فائدہ نہیں دیتا جبتک کہ اُسے لا گو نہ کیا جائے اُس پر عمل درآمد نہ کروایا جائے.اسی طرح قرآنِ کریم کا قانون بھی اُس وقت فائدہ مند ہے اور نجات دلانے والا ہے جب اُس پر عمل کیا جائے.اگر اُس پر عمل نہیں ہو گا تو یہ نجات دلانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا.صرف پڑھ لینے اور عمل نہ کرنے سے نجات نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور انعامات کے ہم وارث نہیں بن سکتے.پس قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : یاد رکھو.قرآن شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ اُن لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں ، لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اُسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپر واہیں، اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجو د اس علم کے اور باوجو د پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اُس کی
خطبات مسرور جلد نهم 620 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیر اب ہو کر اُس کے لطف اور شفا 66 بخش پانی سے حظ اٹھاتا.مگر باوجو د علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 140 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں اس پیغام کو ان درد سے بھرے الفاظ کو سمجھتے ہوئے قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اسے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.ہماری بیعت کا حقیقی حق اسی صورت میں ادا ہو گا جب ہم قرآن کریم کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گے اور قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہوئی ہر برائی سے رکنا اور اس میں بیان شدہ ہر نیکی کو اختیار کرنا اور اس کو اختیار کرنے کی بھر پور کوشش کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترک شر کر کے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب کمال ہو گیا، بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاق فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سر زد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور اُن کا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 208 مطبوعہ ربوہ) پس اگر ایک مومن کو قرآنِ کریم سے حقیقی محبت ہے تو وہ اس معیار پر خود بھی پہنچنے کی کوشش کرے گا اور کرتا ہے اور اپنے بچوں کو بھی وہاں تک لے جانے کی کوشش کرے گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.شہر اور برائی سے رکنا کوئی کمال نہیں، کسی بری حرکت سے رکنا، کسی شر سے رکنا یہ تو کوئی کمال نہیں ہے ، یہ ہمارا مطمح نظر نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ ہمیں اپنے ٹارگٹ بڑے رکھنے چاہئیں اور اُس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے کہ قرآنِ کریم میں بیان ہوئی ہوئی تمام قسم کی نیکیوں کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں.جب یہ کوشش ہر مرد، عورت اور بچے سے ہو رہی ہو گی تو ایک پاک معاشرے کا قیام ہو رہا ہو گا.اس معاشرے کا قیام ہو گا جس کو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.آئے دن جو اسلام اور قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے والے ہیں اُن کے منہ بھی بند ہوں گے.یہاں دو عورتوں کا آجکل بڑا شہرہ ہے.جو اسلامی قوانین پر اعتراض میں حد سے بڑھی ہوئی ہیں، مختلف جگہوں پر وہ لیکچر وغیرہ دیتی رہتی ہیں.گزشتہ دنوں خدام الاحمدیہ یو.کے (UK) کی کوشش سے یو سی ایل (UCL) میں ایک مباحثہ ہوا ان کے ساتھ ایک ڈیبیٹ (Debate) کی صورت پیدا ہو ئی جو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے آرگنائز کی تھی.جس میں ان دو خواتین نے جو اُن کا طریقہ کار ہے اپنی طرف سے اسلام پر اعتراضات کی بڑی بھر مار کی، لیکن ہمارے خدام جن میں سے ایک پاکستانی اور بچین (Origin) کے ہیں اور یہاں ہمارے یو.کے (UK) کے جامعہ میں پڑھتے ہیں، جامعہ کے طالبعلم ہیں، اور دوسرے ایک انگریز نواحمدی.ان دونوں نے اُن کو ایسے مسکت اور مدلل جواب قرآنِ کریم سے اور قرآن شریف کی تعلیم کی روسے دیئے.اسلام کی حقیقی تعلیم کی رو
621 خطبات مسرور جلد نهم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء سے دیئے کہ وہ اس وقت غصہ سے پیچ و تاب کھاتی رہیں ، بلکہ اُن کے حمایتیوں نے بھی اُن کی اس حالت پر جس طرح وہ اعتراض کر رہی تھیں بڑھ بڑھ کے افسوس کا اظہار کیا، اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی نوجوانوں کے ذریعہ سے اسلام کی تعلیم کی فتح ہوئی.پس ہمیں قرآنِ کریم سمجھنے کی بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے ، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، تبھی ہمارے اپنے گھر بھی جنت نظیر بنیں گے اور اپنے معاشرے اور ماحول میں بھی ہم تبلیغ کا حق ادا کرنے والے بن سکیں گے.قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا طریق سکھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے.حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ يَلْعَنُهُ الْقُرْآنُ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اُس پر عمل نہیں کرتا اُس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآنِ کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 157 مطبوعہ ربوہ) یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب اس کی اہمیت کا اندازہ ہو ، اس سے خاص تعلق ہو.پس یہ اہمیت اور خاص تعلق ہم نے اپنے دلوں میں قرآنِ کریم کے لئے پیدا کرنا ہے.بعض لوگوں کے اس بہانے اور یہ کہنے پر کہ قرآن شریف سمجھنا بہت مشکل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کو نہیں سمجھ سکتے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے کہ یہ بہت مشکل ہے، یہ اُن کی غلطی ہے.قرآن شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بے مثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں.یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل ان پڑھ تھے سمجھا دیا تھا.تو پھر اب کیونکر اس کو نہیں سمجھ سکتے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 177 مطبوعہ ربوہ) اس زمانے میں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے جنہوں نے ہمیں ظاہری احکام ہی نہیں بتائے بلکہ گہرے حقائق و معارف قرآنِ کریم کے ہمیں کھول کر بیان کر دیے.وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة:4) کا فیض ہمیں پہنچایا ہے.پس اس خزانے سے ہمیں جواہرات جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیئے.اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جبتک ہم اس سے حقیقی محبت کرنے والے نہیں بنیں گے.جماعت سے باہر مسلمانوں میں دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی قرآت بڑی اچھی ہے ، انعامات حاصل کرتے ہیں، بڑی بڑی ریکارڈنگ کی کیسٹس اُن کی دنیا میں چلتی ہیں لیکن اس کے باوجود اچھی قراءت کرنے والوں میں
خطبات مسرور جلد نهم 622 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء سے بعض ایسے بھی ہیں جن کو قرآنِ کریم کے معانی اور مطالب کا نہیں پتا.بلکہ بڑے بڑے علماء کو نہیں پتا لگتا تبھی تو اسلام میں بہت عرصہ آیات کے ناسخ و منسوخ کا ایک مسئلہ چلتا رہا ہے اور پھر ابھی بھی بعض آیتوں کی ان کو سمجھ نہیں آتی جس میں ایک حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ بھی ہے.بہر حال یہ ان کے معانی و مطالب سے نا آشنا ہیں.اس بارے میں بڑی انذار کرنے والی ایک حدیث ہے جو حضرت عباس بن عبد المطلب روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ایسے لوگ پید ا ہو جائیں گے جو ڈینگیں ماریں گے کہ ہم سے بڑا قاری کون ہے؟ ہم سے بڑا عالم کون ہے ؟ پھر آپ نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں ایسے لوگوں میں کوئی بھلائی والی بات دکھائی دیتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا.ہر گز نہیں.اس پر آنحضرت صلی علیم نے فرمایا یہ لوگ تم میں سے اور اسی امت میں سے ہی ہوں گے لیکن وہ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہوں گے.(مجمع الزوائد و منبع الفوائد كتاب العلم باب كراهية الدعوى حدیث 876 جلد نمبر 1 صفحہ 251-252.دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی اصل چیز عاجزی سے قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھ کر اُس پر عمل کرنا ہے.اس کو پیشہ بنانا نہیں ہے بلکہ اس سے محبت کرنا ہے.اور یہ آج ہم میں سے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس پر توجہ دے.اس کے حصول کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کشتی نوح میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے بر خلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو.اور اُس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِی الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اُس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے.اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے.اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی.اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے.پس اس نعمت کی قدر کر وجو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے.یہ بڑی دولت ہے.اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح “ (گندے لو تھڑے کی طرح تھی) ” قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں بیچ ہیں.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27) 66
خطبات مسرور جلد نهم 623 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2011ء پس پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے.اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے ؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا “ (یعنی اس کا شریعت اور روحانیت کا فیض جو ہے وہ قیامت تک جاری ہے ) ” اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دُنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تعمیل کیلئے ضروری تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کیلئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کیلئے دیا گیا تھا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة: 6-7) “ 66 (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13-14) اللہ کرے کہ ہم اور ہماری اولادیں اور آئندہ نسلیں تاقیامت جو بھی آنے والی نسلیں ہوں، جنہوں نے مسیح محمدی کو مانا ہے، وہ قرآنِ کریم سے حقیقی رنگ میں محبت رکھتے ہوئے اس کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں ، اور اس کی برکات سے ہر دم فیض پاتے چلے جانے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 6 جنوری 2012ء تا 12 جنوری 2012ء جلد 19 شماره 1 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد نهم 624 51 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 دسمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 2011ء بمطابق 23 فتح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جو انسان دنیا میں آیا ایک دن اُس نے رخصت ہونا ہے، یہ قانونِ قدرت ہے اس سے کسی کو مفر نہیں.قرآن کریم میں بھی کئی جگہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ المَوتِ (آل عمران : 186) کہ ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے کہہ کر مختلف رنگ میں اس طرف توجہ دلائی کہ انسان کو اپنی موت کو سامنے رکھنا چاہئے کہ اسی سے پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رہتی ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی ذات کے باقی رہنے اور باقی ہر چیز جو اس زمین پر ہے بلکہ اس کائنات میں ہے، بلکہ کائناتوں میں ہے ، سب کے فنا ہونے کی خبر دی ہے.پس جب خدا تعالیٰ کی ذات ہی باقی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کو اس دنیا کی زندگی سے زیادہ اگلے جہان کی زندگی کی طرف توجہ دلائی ہے، جو حقیقی اور لمبی زندگی ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی وجہ سے اُس کے انعامات کا بھی وارث ہو گا اور نافرمانی کی وجہ سے سزا پانے والا بھی ہو سکتا ہے.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس دنیا پر اگلی دنیا کو ترجیح دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے ہیں.اُس حقیقی دلدار کو راضی کرنے کے لئے اپنی زندگی کا اکثر حصہ گزارتے ہیں یا یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح گزاریں جس سے دلدار راضی ہو.دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں.اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ خدمت دین کے علاوہ انہیں کوئی دوسری دلچسپی نظر ہی نہیں آتی.دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہیں تو اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ حقوق العباد بھی ادا کرو کہ یہ بھی دین ہے.اپنے عہدوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نبھاتے ہیں اور اس کے نبھانے کے لئے راستے کی کسی روک کو خاطر میں نہیں لاتے.اُن کے سامنے عسر میں میسر میں، تنگی میں، آسائش میں ، بیماری میں، صحت میں، صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ میں نے اپنے خدا سے جو عہد کیا ہے اُسے پورا کرنے والا بن سکوں.جو امانت میرے سپر د ہے اُس کے ادا کرنے کا حق ادا کرنے والا بن سکوں.ایسے لوگوں کا شمار اُن لوگوں میں ہو تا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ (البقرة : 208) اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنی جان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتے ہیں.اُن کے چہروں پر ہر وقت ایک سکون نظر آتا ہے.گویا نفس مطمئنہ کی تصویر بنے ہوتے ہیں.
خطبات مسرور جلد نهم 625 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2011ء گزشتہ دنوں ان خوبیوں کے مالک ہمارے ایک بزرگ کی وفات ہوئی ہے جو یقینا جماعت کا عظیم سرمایہ تھے جن کا نام محترم سید عبد الحئی شاہ صاحب ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اللہ تعالیٰ اُن کو اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے.اس جماعتی نقصان کو محض اور محض اپنے فضل سے پورا فرمائے.اُن کے بیشمار نعم البدل پیدا فرمائے تا کہ احمدیت کا یہ قافلہ اپنی منزلوں کی طرف ہمیشہ اور تیزی سے رواں دواں رہے.اس وقت میں محترم سید عبد الحئی صاحب کا کچھ ذکر خیر کروں گا.مکرم شاہ صاحب 12 جنوری 1932ء کو کوریل ضلع اننت ناگ کشمیر میں پیدا ہوئے.اور بڑے ہوئے تو پھر یہ قادیان آگئے تھے ، اور قادیان آنے کے بعد پھر وہیں سے جب ہندو پاک کی پارٹیشن ہوئی ہے تو یہ پاکستان آئے.ان کی والدہ کشمیر میں ہی تھیں ، اُن سے یہ علیحدہ ہوئے ہیں اور پھر چالیس سال کے بعد اُن کو جا کر مل سکے ہیں.چالیس سال تک اپنی والدہ کو نہیں مل سکے.اور یہ جدائی انہوں نے دین کی خاطر برداشت کی.(ماخوذ از روزنامه الفضل جلد 61-96 نمبر 286 مورخہ 21 دسمبر 2011ءصفحہ 1) ان کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ ان کے دادا سید محمد حسین شاہ محلہ خانیار سری نگر کے گیلانی سید خاندان کے فرد تھے.اس خاندان کے افراد نے مذہبی اختلافات کی بنا پر آبائی علاقہ کو چھوڑا اور علاقہ ناڑواد میں مقیم ہو گئے.ان کے ایک فرزند سید عبد المنان شاہ صاحب تھے جنہوں نے جوانی میں بیعت کی اور احمدی ہوئے ، بلکہ بچپن میں ہی انہوں نے احمدیت قبول کر لی تھی اور پیری مریدی کو احمدیت پر قربان کر دیا تھا.انہوں نے انتہائی عاجزی اور انکساری سے زندگی گزاری.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جموں و کشمیر مصنفہ محمد اسد اللہ قریشی صفحہ 132 مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ) تاریخ احمدیت جموں اور کشمیر میں مکرم عبد الحئی شاہ صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ مکرم سید عبد الحئی صاحب شاہد 1941ء میں قادیان آئے اور 1945ء میں اسلام کے لئے زندگی وقف کر کے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.تقسیم ملک کے بعد 1949ء میں احمد نگر ضلع جھنگ میں دوبارہ جامعہ احمدیہ میں آئے.1953ء میں مولوی فاضل پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اول قرار پائے.1955ء میں جامعتہ المبشرین سے شاہد پاس کیا.بعد میں ایم.اے عربی بھی امتیاز کے ساتھ پاس کیا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جموں و کشمیر مصنفہ محمد اسد اللہ قریشی صفحہ 132) اور بڑے تحقیقی کام سرانجام دیتے رہے.خدام الاحمدیہ میں بھی ایک لمبا عرصہ ان کو خدمت کا موقع ملا.دو تین سال ماہنامہ انصار اللہ کے اور مجلہ جامعہ کے مدیر رہے.تقریباً بارہ تیرہ سال پر نٹر خالد و تشخیذ الاذہان بھی رہے.ضیاء الاسلام پر یس کے مینجر اور پرنٹر رہے.مینیجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ رہے.صدر بورڈ الفضل تھے.پہلے مینیجنگ ڈائریکٹر ایم.ٹی.اے پاکستان تھے.ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن اور طاہر فاؤنڈیشن تھے، ناظر اشاعت تھے اور یہ متعدد کمیٹیوں کے ممبر رہے ہیں.قائم مقام ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی کے فرائض کی ادائیگی کی بھی ان کو تو فیق ملی.کشمیری زبان میں ترجمہ قرآن کی نظر ثانی کی توفیق پائی.بطور ناظر اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ
626 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم السلام کی کتب کا سیٹ روحانی خزائن کی کتابت اور پھر جدید کمپیوٹرائز ڈایڈیشن کی تیاری اور نگرانی فرمائی.متعد د کتب کے انڈیکس بنائے اور پیش لفظ و تعارف لکھے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے ترجمہ قرآن کے حوالے سے بھی بہت سی خدمات سر انجام دیں.حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے لیکچرز پر مشتمل کتاب ”ہو میو پیتھی“ کی تیاری میں بھی آپ نے بھر پور حصہ لیا.بڑے صائب الرائے، سادہ مزاج، شریف النفس، معاملہ فہم ، حلیم الطبع، مدبر ، کم گو اور ہمیشہ نپی تلی بات کرنے والے تھے.ٹھوس علمی پس منظر کی وجہ سے ہر معاملے کی خوب گہرائی سے تحقیق کرتے تھے اور اپنی پختہ رائے سے نوازتے تھے.خلفائے سلسلہ کی طرف سے موصول ہونے والے علمی موضوعات کی تحقیق اور حوالہ جات کی تخریج و تکمیل کو اول وقت میں انجام دینے کی کوشش کرتے تھے.کتب کی تیاری، طباعت ، اشاعت تک کے مراحل میں اپنے عملے کی رہنمائی کرتے اور بڑے گہرے مشورے دیتے.آپ کے کاموں میں یہ چند اہم باتیں پھر ناظر اشاعت کو پر نٹنگ کا بھی تجربہ ہونا چاہئے اور جیسا کہ الفضل اور دوسرے رسالوں کے پر نٹر و پبلشر تھے.اس لحاظ سے ان کو پر نٹنگ کے کاغذ کو چیک کرنے کی بڑی مہارت تھی.پریس مشینری کی ایک ایک چیز اُن کی قسمیں، ٹیکنیکل معلومات آپ کو ازبر ہوتی تھیں.اسی طرح کتاب کی اشاعت ہو یا اخبارات کی طباعت ، ہر معاملے میں بڑی معین اور ٹھوس رہنمائی فرماتے.(ماخوذ از روزنامه الفضل جلد 96-61 نمبر 285 مورخہ 20 دسمبر 2011ءصفحہ 1و8 ) پھر عبد الحئی شاہ صاحب کے بارے میں الفضل میں بھی لکھا گیا ہے کہ اپریل 1945ء میں زندگی وقف کرنے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن عہد وقف زندگی کا فارم 11 نومبر 1950ء کو پر کیا.اور جیسا کہ پہلے میں نے بتایا کہ مڈل تک تعلیم حاصل کی پھر جامعہ میں داخلہ لیا اور جامعہ کی تعلیم کے دوران ، میٹرک کا امتحان، یونیورسٹی میں چھٹی پوزیشن حاصل کر کے پاس کیا.جامعہ میں بھی ہر سال اللہ کے فضل سے پہلی پوزیشن لیتے رہے.اسی طرح مولوی فاضل کے امتحان میں صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی.فروری 1956 ء میں ان کی پہلی تقرری ہوئی اور مختلف شعبہ جات میں خدمات سر انجام دیتے رہے.29 جون 1982ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے آپ کو ناظر اشاعت مقرر فرمایا اور حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کے علمی نکات سے مزین درس القرآن میں حوالہ جات کی تخریج کے ذریعے معاونت کا شرف حاصل کیا.روزانہ رات تین تین بجے تک اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر آپ نے یہ کام سر انجام دیا.جب تک جملہ امور مکمل کر کے لندن فیکس نہ کر دیتے تھے ، آرام نہیں کرتے تھے.خطبات وغیرہ کے لئے بھی علمی معاونت کی.حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے ترجمہ قرآن کی اور ہو میو پیتھی کی جو کتاب تھی اُس کی تدوین ٹیم کے ممبر تھے.اس سلسلے میں اپنے مفوضہ کاموں کو بہت خوش اسلوبی سے مکمل کیا.تراجم قرآن منصوبہ کے تحت قرآن کریم کے پنجابی، سندھی، پشتو اور سرائیکی زبانوں میں تراجم کی تکمیل و اشاعت کی توفیق ملی.(ماخوذ از روزنامه الفضل جلد 96-61نمبر 286 مورخہ 21دسمبر 2011ءصفحہ 1و8 )
خطبات مسرور جلد نهم 627 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2011ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابع" نے آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک دفعہ 6 ستمبر 1997ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ”سید عبد الحئی صاحب میں میں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ جب بھی ان کو کوئی بات معین سمجھا دی جائے، خواہ وہ ذاتی علم نہ بھی رکھتے ہوں، ذاتی علم والوں کی تلاش کرتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو میں نے کسی کتاب کے متعلق ہدایت کی ہو اور بعینہ وہی چیز انہوں نے تیار نہ کی ہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے گہری فراست حاصل ہے.بہت باریک بینی سے چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں.“ (خطبه جمعه فرمودہ 26 ستمبر 1997ء بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ جلد 83-48 نمبر 35 مورخہ 14 فروری 1998ء صفحہ 3 کالم 1) پھر اب جب 2008ء میں میں نے ان کو کہا کہ روحانی خزائن کی کمپیوٹر ائز ڈاشاعت ہونی چاہئے ، پر نٹنگ ہونی چاہئے ، تو بڑی محنت سے انہوں نے اُس کام کو سر انجام دیا.اس سیٹ کا جو نیا کمپیوٹرائزڈ سیٹ چھپا ہے ، اس کی بہت سی خصوصیات کے علاوہ عبد الحئی شاہ صاحب نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ یہ ایڈیشن روحانی خزائن کے سابقہ ایڈیشن کے صفحات کے عین مطابق رہے تا کہ جماعتی لٹریچر میں گزشتہ نصف صدی سے آنے والے جو حوالہ جات ہیں اُن کی تلاش میں سہولت رہے.اس کے علاوہ اس سیٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض مضامین عربی نظمیں وغیرہ جو کسی وجہ سے پہلے نہیں شائع ہو سکی تھیں، وہ بھی اس میں شامل کی گئیں.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا اردو زبان میں جو قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا ہے، اس کے آغاز میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے اظہار تشکر کے عنوان کے تحت تحریر فرمایا ہے کہ : قرآنِ کریم کا جو یہ ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے اس کی تیاری میں میرے ساتھ یہاں لندن میں علماء کی ایک ٹیم نے مسلسل کام کیا ہے.اسی طرح مرکز سلسلہ ربوہ میں بھی علماء کی ایک ٹیم مکرم سید عبد الحئی صاحب ( ناظر اشاعت) کی قیادت میں ترجمہ پر نظر ثانی کر کے قیمتی مشوروں اور آراء سے میری معاونت کرتی رہی ہے.ان سب کی اگر اجتماعی مدد میرے ساتھ نہ ہوتی تو مجھ اکیلے کے لئے یہ کام ممکن نہیں تھا.“ قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمد زیر اظہار تشکر “ شائع شدہ اسلام انٹر نیشنل پبلی کیشنز لمیٹیڈ، یو.کے 2002ء) پھر حضرت خلیفتہ المسح الرابع نے 1997ء کے اپنے ایک خط میں محضر نامہ جو شائع ہوا تھا اور اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا کے حوالہ سے فرمایا کہ:.محضر نامہ بہت اچھا شائع ہو گیا ہے، بہت خوشی ہوئی ہے.ماشاء اللہ آپ بہت محنت اور سلیقہ سے کام (مکتوب حضرت خلیفہ المسح الرابع بنام مکرم سید عبد الحی شاہ صاحب بتاریخ 14 اپریل 1997ء) کرتے ہیں.“ پھر ایک خط میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے شاہ صاحب کو لکھا کہ : آپ کی مرسلہ رپورٹ (93-5-562/10) موصول ہوئی.ماشاء اللہ بڑا بھر پور کام کر رہے ہیں اور بہت productive ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ واحد ناظر ہیں کہ جنہیں مفوضہ کاموں کے لئے کبھی یاد دہانی کی ضرورت پیش نہیں آئی.جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ وَ بَارِكْ.“ ( آگے پھر خط ہے) (مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بنام مکرم سید عبد الحمی شاہ صاحب بتاریخ 9 جون 1993ء)
خطبات مسرور جلد نهم 628 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2011ء اللہ تعالیٰ نے اُن کو کام کرنے کی بڑی توفیق بھی عطا فرمائی.ان تمام تعریفی کلمات نے اُن میں مزید عاجزی پیدا کی اور محنت کی طرف مزید توجہ پیدا ہوئی.یہ نہیں کہ تعریفی کلمات ہو گئے ہیں تو پھر کام میں کمی آجائے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو ملفوظات کی جلدیں ہیں اُن کو پاکستان میں دس سے پانچ میں تبدیل کیا گیا اور ان جلدوں میں موجود تمام قرآنی آیات، تمام قرآنِ کریم کے حوالہ جات درج کئے گئے.حسب ضرورت نئے عناوین قائم کئے.قارئین کی سہولت کے لئے ہر جلد کے آخر میں مضامین، آیات قرآنی، اسماء اور مقامات کے انڈیکس نئے سرے سے مرتب کئے گئے.لیکن اب پچھلے سال یا اسی سال کے جلسے پر جب آئے تو میں نے اُن کو کہا کہ پانچ جلدوں کے بجائے دوبارہ دس جلدوں میں اُس کو بدل دیں اور وہاں بھی اسی طرح پرنٹ ہو تو زیادہ بہتر ہے.انہوں نے ہلکا سا بھی یہ اظہار نہیں کیا کہ اتنی محنت کر کے ہم نے اس کو پانچ جلدوں میں سمیٹا ہے اور اس طرح انڈیکس بنائے ہیں تو دوبارہ اس کو پھیلانے میں کچھ دقت ہو گی.بغیر کسی ہلکے سے بھی اظہار کے فوراً انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اس کو دس جلدوں میں دوبارہ شائع کرنا شروع کر دیتے ہیں.ملفوظات وہ کتا بیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات پر مشتمل ہیں، اس میں volume چھوٹا ہو جائے تو پڑھنے میں زیادہ آسانی ہو جاتی ہے.آدمی ہر وقت ساتھ سفر میں، چلتے ہوئے، لیٹے ہوئے، کسی وقت بھی پڑھ سکتا ہے.کیونکہ چھوٹی جلد میں بہ نسبت بھاری جلد کے میرے خیال سے زیادہ فائدہ رہتا ہے، اور پڑھنے میں آسانی رہتی ہے.تو بہر حال انہوں نے فوراً اس پر کام شروع کر دیا.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تفسیر کبیر پر مشتمل علوم و معارف کاجو بیش بہا اور نایاب خزانہ ہے اس کی بہت سی مختلف جلدیں ہیں.جو دس جلدوں کے ایک سیٹ کی شکل میں شائع شدہ ہیں انہوں نے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے ان کا بھی ایک بڑا comprehensive قسم کا انڈیکس بنا دیا ہے جس میں اسماء ہیں، جغرافیائی مقامات ہیں، حل لغات کے مکمل انڈیکس ہیں.آپ انجمن کی مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے.مشاورتی پینل شعبه تاریخ احمدیت، مجلس افتاء، خلافت لائبریری کمیٹی، منصوبہ بندی کمیٹی، آڈیو وڈیو کیسٹس محفوظ کرنے کی کمیٹی، تبرکات کے محفوظ کرنے کی کمیٹی، صد سالہ خلافت جو بلی کمیٹی کے ممبر رہے.اسی طرح آپ کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا.الفضل بورڈ کے آپ صدر تھے.عبد الحئی شاہ صاحب اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی سے کی.کہتے ہیں کہ حضور کی پر رعب شخصیت اور شفقت کے تعلق میں یہ بات بھی مجھے یاد آئی ہے کہ جب حضور نے سلسلے کے بعض اہم کام میرے سپرد فرمائے تو پہلی محکمانہ ملاقات میں جب حضور نے خاکسار کو یاد فرما یا تو میں حضور کے سامنے گیا تو میرے ہاتھ فرط رعب سے لرز رہے تھے.حضور نے انتہائی ملاطفت سے خاکسار کو فرمایا.نروس ہونے کی کیا بات ہے کام کو اچھی طرح مجھ سے سمجھ لیا کرو اور اُسے پوری محنت سے کرو.پھر میرے
629 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا جس سے میری یہ حالت جاتی رہی.حضور اعتماد کرنے میں جلدی نہیں کرتے تھے اور جب حضور کسی پر اعتماد کر لیتے تھے تو پھر اُس کو بھر پور شفقت، رہنمائی اور عفو و در گزر سے نوازتے تھے اور نوازتے ہی چلے جاتے تھے.(ماخوذ از ماہنامہ خالد جلد 30 شمارہ 6-7 ” سید نا ناصر نمبر “ اپریل مئی 1983ء صفحہ 156) لکھتے ہیں کہ ایک مقدمہ کے سلسلے میں میری گرفتاری کے وارنٹ نکلے.(وہاں پاکستان میں رسالوں کے ایڈیٹرز اور پرنٹرز وغیرہ پر وارنٹ گرفتاری تو بہت سارے نکلتے رہتے تھے، تو ان کے بھی وارنٹ گرفتاری نکلے ) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو جب پتہ لگا، آپ نے اُن کو بلایا، ساتھ وکلاء کو بلایا، میٹنگ ہوئی.اُس کے بعد لکھتے ہیں کہ جب ہم چلے آئے تو حضور نے اپنے ایک بیٹے کو بھجوایا کہ عبد الحئی کو کہو گھبر انا نہیں میں اس کے لئے دعا کروں گا.(ماخوذ از ماہنامہ خالد جلد 30 شمارہ 6-7 ”سید نا ناصر نمبر “ اپریل مئی 1983ء صفحہ 157) آگے خلیفہ المسیح الثالث " کے اُس بیٹے کا یہ حوالہ ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جانے کے بعد مجھے بلا کر کہا کہ دیکھو ! ابھی یہاں سے شاہ صاحب وغیرہ گئے ہیں.ایک کیس ہے انہوں نے لاہور یا اسلام آباد جانا تھا، ابھی گئے نہیں ہوں گے اُن کو جا کر کہو کہ اُن کے جانے کے فوراً بعد پریشانی میں جب میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ میری زبان پر جاری فرمائے کہ کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو “ (ماخوذ از ماہنامہ خالد جلد 30 شمارہ 6-7 ”سید ناناصر نمبر “اپریل مئی 1983ء صفحہ 37) اس لئے پریشانی کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ چند دن میں ( ان کے خلاف ایک بڑا خوفناک کیس بنایا گیا تھا، بڑا سنگین قسم کا کیس تھا) وہ سب معاملہ ختم ہو گیا.تو اللہ تعالیٰ کا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کو یہ بتانا، اس بات کی بھی سند ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محترم شاہ صاحب کا شمار نیک بندوں میں ہو تا تھا جو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہتے ہیں.لیکن ایک اور موقع پر بعد میں اُن پر کیس ہو ا تو اسیر راہ مولیٰ ہونے کا بھی اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا.یہ کیس جو ان پر بنایا گیا، یہ ایک پمفلٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مصرعہ پر تھا کہ: ”یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے.“ جو لجنہ کی طرف سے رسالے میں شائع ہوا تھا جب یہ شائع ہوا تو اس پر سیکرٹری لجنہ ، اُن کے کاتب محمد ارشد صاحب اور سید عبد الحئی شاہ صاحب پر یہ مقدمہ قائم کر دیا گیا اور عبد الحئی شاہ صاحب اور محمد ارشد صاحب کو کئی روز حوالات میں رکھا گیا اور ان پر مقدمہ کئی ماہ جاری رہا.( ماخوذ از سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ 534 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) ایک مربی صاحب نے لکھا کہ شاہ صاحب بتاتے ہیں شروع میں واقف زندگی کو الاؤنس بہت تھوڑا ملا کرتا تھا، جس سے گزارہ بڑی مشکل سے ہوا کرتا تھا تو اس پر میرے سُسر نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ تم دنیاوی لحاظ سے
630 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم بھی بہت زیادہ پڑھے لکھے ہو اس لئے تم دنیا کی طرف چلے جاؤ، وہاں کیوں نہیں چلے جاتے ؟ میں نے انہیں کہا (شاہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ ) میں نے دو معاہدے کئے ہوئے ہیں ، ایک معاہدہ تو یہ شادی کا آپ کی بیٹی کے ساتھ ہے اور دوسرا خدا کے ساتھ وقف زندگی کا عہد ہے.اب آپ بتائیں کونسا عہد توڑوں ؟ اور پھر کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد میں نے اُن کو کہا کہ اگر پہلا عہد قائم رکھتے ہوئے دوسرے عہد کو توڑ دوں تو یہ کس طرح ہو گا ؟ اس بات کوٹن کے اُن کے سسر خاموش ہو گئے اور آئندہ کبھی پھر اس موضوع پر بات نہیں کی.شاہ صاحب کہتے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ساری زندگی بے حساب نوازا ہے.پرانے بزرگوں کی یہ بھی ایک نیک فطرت تھی کہ آپ کے سر کو وقتی طور پر آپ کی حالت دیکھ کر جو ایک بشری تقاضا بھی ہے خیال آیا، لیکن آپ کے جواب سے بالکل خاموش ہو گئے کہ خدا سے عہد توڑنے کا تو ایک احمدی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا اور اس سے شاہ صاحب کے توکل کا بھی پتہ چلتا ہے اور اُس وقت خدا تعالیٰ نے بھی آپ کے توکل اور عہد کی پابندی کے جذبات کو ایسا نوازا کہ کہتے ہیں پھر ساری زندگی کبھی مجھے کوئی تنگی نہیں ہوئی.اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک اور جذبات کا بہت خیال رکھتے تھے.ان کے اکاؤنٹنٹ بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب کے ساتھ پندرہ سال کام کیا ہے.مجھے سوائے ایک واقعہ کے اور کوئی موقع یاد نہیں جب آپ نے کبھی شدید غصے کا اظہار کیا ہو اور ہوا یہ تھا کہ کسی غلط فہمی کی بنا پر ہم نے ایک دفتر کو کچھ کتابیں محترم شاہ صاحب کو بتائے بغیر دے دی تھیں.جب کسی دوست نے محترم شاہ صاحب کو اس امر کے بارے میں بتایا تو شاہ صاحب نے شدید برہمی کا اظہار فرمایا اور شاہ صاحب کی ناراضگی کی وجہ سے میں دو دن تک آپ کے کمرے میں نہیں گیا.دو روز بعد آپ نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور مسکرائے اور آپ کے سامنے بسکٹ وغیرہ پڑے ہوئے تھے وہ آپ نے مجھے دیئے.ایک اور ان کے مددگار کار کن محمد اقبال صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں.کہ بیس سال کا عرصہ ہو گیا ہے ہمیشہ بیٹیوں کی طرح ہمارے ساتھ سلوک رہا.کارکنان کے ساتھ ہمیشہ بہت پیار اور محبت کا سلوک رہا اور آپ کا رنگ حد درجہ درویشانہ تھا.اگر کسی کارکن کی مدد کرتے تو دوسرے کو اس کا علم بھی نہ ہونے دیتے.اسی طرح اگر اپنا ذاتی کام کرواتے تو با قاعدہ حق ادا کیا کرتے تھے.اسی طرح اگر کسی کارکن کے بچے کی شادی ہوتی تو جس حد تک مدد کر سکتے تھے آپ کیا کرتے تھے.اس کے علاوہ بھی بیشمار ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے.اُن کی وسعت علمی کے بارے میں عبد المجید عامر صاحب جو ہمارے یہاں عربی ڈیسک کے ہیں، لکھتے ہیں کہ جب سے خاکسار نے روحانی خزائن کا ترجمہ شروع کیا ہے اُن کے ساتھ تعلق رہا.خاکسار کو بعض مشکل مقامات کے حل کے سلسلے میں اُن سے رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت پڑتی تھی.محترم شاہ صاحب نے ہر دفعہ خندہ پیشانی سے نہایت محققانہ اور عالمانہ رنگ میں بر وقت رہنمائی فرمائی.خاکسار کے تاثرات پر ان کا جواب ہمیشہ بہت مدلل اور تسلی بخش اور سوال کے تمام جوانب پر ، ہر پہلو پر پوری طرح محیط اور ساتھ ہی شفقت اور اخلاق عالیہ کی چاشنی سے پر ہوا کرتا تھا.اگر خاکسار کوئی تجویز پیش کرتا تو بڑی خندہ پیشانی سے اُسے قبول فرماتے.اُن کی شفقتوں کا یہ سلسلہ تادم آخر جاری رہا.
خطبات مسرور جلد نهم 631 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2011ء مبشر ایاز صاحب لکھتے ہیں کہ جامعہ کی سالانہ کھیلوں پر تقسیم انعامات کے لئے سلسلہ کے بزرگوں میں سے بعض خصوصی مہمان بلائے جایا کرتے تھے.ایک سال جن بزرگ خادم سلسلہ کو بلایا گیا اُن کا تعارف کرواتے ہوئے مکرم پر نسپل صاحب جامعہ احمدیہ نے فرمایا کہ کام کرنے والے کئی قسم کے ہوتے ہیں.کچھ تو وہ ہوتے ہیں جو ایک ہاتھ سے کام کرتے ہیں اور ایک ہاتھ سے تالی بجاتے رہتے ہیں یعنی اپنے کاموں کو مشہور کرتے رہتے ہیں.بتاتے بھی ہیں کہ ہم نے یہ کام کیا اور وہ کام کیا.کچھ وہ ہوتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے تالی بجار ہے ہوتے ہیں اور کام وام کچھ نہیں کر رہے ہوتے ، شور شرابہ زیادہ ہوتا ہے، پراپیگنڈہ زیادہ ہوتا ہے.اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے کام کرتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اُن کے کام کو کوئی دیکھے اور اُن کی واہ واہ ہو.آج ایسے ہی خادم سلسلہ ہمارے مہمان ہیں یعنی سید عبد الحئی شاہ صاحب.تو یہ سو فیصد درست بات ہے، میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے بڑی خاموشی سے کام کرتے چلے جاتے تھے.بیمار تھے ، پاؤں سوجے ہوتے تھے.ایک دن میں نے اُن کو پوچھا بھی کہ آپ کے پاؤں سوجے ہوتے ہیں تکلیف نہیں ہوتی ؟ تو انہوں نے کہا مجھے تو کام کرتے وقت کبھی احساس نہیں ہوا، پھر میں کام میں اتنا جت جاتا ہوں کہ مجھے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ کیا ہورہا ہے.انجمن کے اجلاسوں میں میں نے دیکھا ہے بہت کم بولتے تھے لیکن جب بولتے تھے تو بڑی ٹھوس صائب رائے ہوتی تھی.پھر مبشر ایاز صاحب ہی لکھتے ہیں کہ خاکسار کو جب اُن کے کچھ قریب ہونے کا موقع ملا اور پھر کچھ عرصہ اُن کے نائب کے طور پر کام کرنے کا بھی موقع ملاتو انہیں واقعی ایسا ہی پایا.خاموش طبع، درویش صفت، انتھک محنت کرنے کے ساتھ اور بھی بیشمار خوبیوں کا مالک پایا.دفتر آتے ہی کام میں گویا مجت جاتے تھے.پنجابی میں محاورہ ہے سرسٹ کے کام کرنا شروع کر دیتے تھے.دفتری خطوط سے لے کر روحانی خزائن اور قرآن مجید کی پروف ریڈنگ کا کام خود کرتے اور پھر اس خادم اور قابلِ رشک اور تقلید خادم سلسلہ کو کچھ پتہ نہ چلتا کہ کب چھٹی ہوئی ہے اور لوگ جا بھی چکے ہیں.کام کرتے کرتے پاؤں سوج جایا کرتے لیکن یہ اللہ کا بندہ کام کام اور صرف کام کرتارہتا.بے غرض اور بے نفس اور ایک درویش صفت انسان تھے.بہت قریب سے خاکسار کو دیکھنے کا موقع ملا.دکھاوا اور نمود و نمائش تو چھو کر بھی نہیں گزری.حلیمی اور چشم پوشی انتہا کی تھی.سلسلے کی تاریخ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اور ماخذ تھے.باوجو د کثرت کار کے ہنس مکھ تھے.درویش طبع اور عجز و انکسار کے پتلے تھے.میں نے خود مشاہدہ کیا کہ سلسلے کے پیسے کو بہت احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر بلکہ کئی دفعہ سوچ کر خرچ کرتے تھے.بہت احساس تھا کہ سلسلے کا پیسہ ضائع نہ ہو.اپنے کارکنان کے ساتھ ہمدردی اور ستاری اور حلیمی کا بہت زیادہ مادہ تھا.لمبا عرصہ بیمار رہے لیکن بیماری کو اپنے کام میں روک نہیں بننے دیا.پھر ان کے ایک اور مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ذات میں آنا اور کبر کا ادنی سا بھی شائبہ نہ تھا اور حقیقی طور پر ایک بے نفس درویش صفت اور فرشتہ سیرت انسان تھے.
خطبات مسرور جلد نهم 632 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 دسمبر 2011ء ایک اور مربی صاحب لکھتے ہیں کہ جب روحانی خزائن کا کام ہو رہا تھا تو اس وقت اس عاجز کو ایک واقعہ سے پتہ چلا کہ آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر کس قدر یقین ہے.وہ واقعہ اس طرح ہے کہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر جگہ حج کا نام ڈگلس لکھا ہے، لیکن روحانی خزائن جلد 15 کتاب تریاق القلوب صفحہ 349 میں حج کا نام ہے.آر.ڈریمنڈ اور جگہ کا نام پٹھانکوٹ لکھا ہے.اس کام کے لئے ریسرچ سیل اور تاریخ احمدیت والوں کو بھی لکھا گیا کہ یہ کیا معاملہ ہے.دونوں کی رائے یکساں تھی کہ سہو کتابت ہے.لیکن مکرم شاہ صاحب کی رائے یہ تھی کہ اتنی بڑی سہو نہیں ہو سکتی اور آپ نے اس کے اوپر کوئی حاشیہ نہ دیا اور اس کو اسی طرح رہنے دیا.لیکن جب روحانی خزائن جلد 18 میں نزول المسیح کے اوپر کام ہو رہا تھا تو وہاں صفحہ 578 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے ”عبد الحمید دوبارہ ڈیڑھ سال بعد پکڑا گیا تو اُس سے وہی بات دوبارہ پوچھی گئی تو وہ اپنے بیان پر قائم رہا کہ میں نے عیسائیوں کے سکھلانے پر کہا تھا“ (یعنی دوسری دفعہ جب پکڑا گیا تو اس وقت حج دوسر ا تھا جس کا وہ نام تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا، نہ کہ پہلی دفعہ) پھر لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب کبھی بے چین نہیں ہوتے تھے اور ہمیشہ اپنے کارکنان کے ساتھ محبت کا سلوک کرنے والے تھے.خلافت لائبریری ربوہ کے لائبریرین صاحب لکھتے ہیں کہ بہت ہی نافع الناس وجو د تھے.خاکسار نے دیکھا ہے کہ وہ سلسلے کا کام بہت محنت اور لگن سے کرتے.اپنی بیماری کے باوجود پور اوقت کام کرتے رہتے.ہمیشہ اُن کے پاؤں سوجے رہتے تھے.اُن کو بیماری تھی، تکلیف تھی، دل کی تکلیف بھی تھی.لکھتے ہیں کچھ ماہ قبل براہین احمدیہ کے ایڈیشن چیک کرنے سے متعلق ایک کام لندن سے آیا تھا ( مختلف ایڈیشنز جو تھے اُن کو چیک کرنے کے لئے میں نے ایک کام سپر د کیا تھا) تو محترم شاہ صاحب نے خاکسار کو پیغام بھیجا (لائبریرین صاحب کو ) کہ جتنے ایڈیشن براہین احمدیہ کے تھے اُن کو ایک کارٹن میں ڈال کر اکٹھے کر لیں.کہتے ہیں میں نے سب ایڈیشن اکٹھے کر کے ایک کارٹن میں ڈال دیئے اور پوچھا کہ چیک کروانے کے لئے لے آؤں؟ تو کہنے لگے کیوں تکلیف کرتے ہو میں خود آجاتا ہوں.اور اس کے باوجود کہ چلنا مشکل تھالا ئبریری خود تشریف لائے اور براہین احمدیہ کے سارے ایڈیشن چیک کئے.کہنے لگے کہ پرانے ایڈیشن میں سے کوئی ضائع نہ ہو جائے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آکر خود چیک کر لوں اور پھر کئی گھنٹے لگا کر خود چیک کئے.ہمارے عربی ڈیسک کے محمد احمد نعیم صاحب لکھتے ہیں کہ تفسیر کبیر کا تفصیلی انڈیکس تیار کرنا جب کہ کمپیوٹر بھی نہیں ہو تا تھا بہت محنت طلب اور باریک بینی کا متقاضی تھا جو آپ نے بڑی محنت سے تیار کیا.پھر آپ کی انکساری یہ ہے کہ موجودہ روحانی خزائن میں کئی ایک پرنٹنگ کی غلطیاں رہ گئی ہیں اور ترجمے کے دوران جب بھی ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے جہاں غلطی تھی بڑے حوصلے سے اعتراف کیا اور جہاں کوئی وضاحت ہو سکتی تھی مناسب وضاحت کی اور بہت جلد ایسے استفسارات کا جواب موصول ہو جاتا تھا.بڑی محنت سے انہوں نے پروف ریڈنگ بھی کی تھی لیکن بشری تقاضے کے تحت غلطیاں پھر بھی رہ جاتی ہیں ، لیکن اس کا ان کو صدمہ بھی بڑا تھا کہ اتنا خوبصورت پرنٹ شائع ہوا ہے تو اس میں غلطیاں نہیں رہنی چاہئے تھیں.
خطبات مسرور جلد نهم 633 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 دسمبر 2011ء ہمارے ایک مربی سلسلہ کلیم احمد طاہر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے گیارہ سالوں میں آپ کو ہمیشہ کام میں ہی مصروف پایا.بہت ہی خاموش خدمت گزار تھے اور ہر کام بہت محنت اور ذمہ داری سے کرتے تھے.حیرت ہوتی تھی کہ اس عمر میں بھی ماشاء اللہ اتنا کام کرتے ہیں.پھر دفتر ٹائم کے بعد شام کو عربک بورڈ کے اجلاسات میں شامل ہوتے.آپ نے روحانی خزائن کے کام کے دوران ہر کتاب کا ایک ایک پروف خود لفظ لفظاً پڑھا ہے.غرضیکہ بہت علمی آدمی تھے اور بڑی محنت کرنے والے واقف زندگی تھے.اپنے پرانے مبلغین کو بتایا کرتے تھے کہ صدر انجمن احمدیہ کا میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب بہت سادگی تھی اور کفایت شعاری کی وجہ سے بہت سی سہولتیں جو غیر ضروری سمجھی جاتی تھیں وہ نہیں ہوتی تھیں اور چھت کی طرف اشارہ کر کے کہتے تھے کہ اب تو ہر جگہ بجلی کے پنکھے چل رہے ہیں، یہاں جو یہ ایک پائپ لگا ہوا ہے پرانے دفتر میں اس پر ایک پنکھا ہو تا تھا جس کے ساتھ رہتی ہوتی تھی.جب ہوا کی ضرورت ہوتی تو اُس رستی کو ہلا لیا کرتے تھے ، کوئی بجلی نہیں تھی کوئی کچھ سہولت نہیں تھی.انہوں نے بتایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقبوضہ کشمیر کے کسی علاقے میں اُن کو ایک پیغام پہنچانے کے لئے بھیجا.راولپنڈی پہنچے تو دیکھا کہ کوئی سواری نہیں تھی، اگر کسی سواری کا انتظام کرتے تو دیر ہو جاتی اور خلیفہ المسیح کے حکم کی تعمیل کو اول وقت میں کرنے کی غرض سے آپ راولپنڈی سے پیدل ہی روانہ ہو گئے اور واپسی بھی پیدل کی اور حضور کا پیغام متعلقہ جگہ بخوبی پہنچادیا.آپ نے ایک بچی بھی پالی ہوئی تھی جس کا مربی کے ساتھ بیاہ کیا اور اس کو بچوں کی طرح رکھا اور ہمیشہ بعد میں بھی اُس کا حال پوچھتے رہتے ، اظہار کرتے رہتے، تحفے تحائف بھیجتے تھے.گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک تھا.بچے کہتے ہیں کبھی اونچی آواز میں ہم نے اُن کو بولتے یا ڈانٹتے نہیں سنا.بچوں کی عزت نفس کا بہت خیال کرتے تھے.بہت اعلیٰ انداز میں تربیت کی.زندگی کے ہر عمل میں سادگی کا پہلو نمایاں تھا.خود نمائی سخت ناپسند تھی.ہر عمل میں صبر کی اعلیٰ مثال تھے.کبھی اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کرتے تھے چاہے بیماری ہو یا کوئی اور پریشانی ہو.اس قدر صبر تھا کہ آپ کی والدہ جو مقبوضہ کشمیر میں تھیں اُن کی وفات کی خبر جب بذریعہ خط ملی تو بڑے صبر سے اس صدمے کو برداشت کیا اور کئی دن کسی سے ذکر بھی نہیں کیا.مہمان نوازی بہت زیادہ تھی.جلسہ سالانہ پر کشمیر سے مہمان آیا کرتے تھے ، تو سارا گھر ان کو دے کر خود اپنے بچوں سمیت ایک سٹور میں چلے جایا کرتے تھے.اور وقف کے عہد کو نبھانے کی کوشش میں ہر وقت کوشاں رہتے تھے.آخری وقت تک اس بارے میں متفکر رہے.آخری چند سالوں میں کئی دفعہ اپنے بچوں کے پاس بیرونِ ملک تشریف لے گئے.ان کے بچوں میں تقریباً سارے بیٹے ان کے باہر ہی ہیں.بڑے بیٹے ان کے احمد بیٹی صاحب ہیں جو Humanity first کے چیئر مین بھی ہیں.جب بچوں کے پاس آتے تھے تو عزیزوں نے اور بچوں نے اصرار کیا کہ یہیں رہ جائیں تو فرماتے تھے کہ میں نے زندگی وقف کی ہے کچھ تھوڑا سا وقت وقف نہیں کیا.آپ کے پاؤں کی بہت تکلیف تھی ہر وقت سو جن رہتی تھی جیسا کہ میں نے بتایا.اس کے باوجود با قاعدہ دفتر جاتے تھے
634 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم اور اپنے کام میں حرج نہ ہونے دیتے تھے.آخری بیماری میں پانچ دفعہ ہسپتال گئے لیکن ہر دفعہ ڈاکٹر سے یہی سوال ہو تا تھا کہ میں دفتر کب جاسکوں گا.وفات سے دو تین دن پہلے دفتر گئے ، وہاں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ اس دوران میں ان کو تکلیف ہوئی ہے اور پھر وہاں سے بارہ بجے چیک اپ کے لئے گئے تو ڈاکٹروں نے داخل کر لیا.وہاں بھی بیڈ پر لیٹے ہوئے دفتر کا کام چیک کیا کرتے تھے.کارکنان کا غذات لے آتے تھے اور کام کرتے رہتے تھے.آخری دن کہا کہ دعا کریں اور اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو.اُن کو پتہ لگ گیا تھا کہ اُن کی وفات کا وقت قریب ہے تو کہنے لگے کہ میری فلائٹ کا وقت ہو گیا ہے.جو بھی یہاں سے فیکس جاتی تھی، ہمیشہ اپنے ہاتھ سے اُس کا جواب دیا کرتے تھے.اب تک جو اُن کا آخری خط بھی مجھے آیا، وہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا کسی کلرک سے نہیں لکھوایا اور نہ ہی کمپوز کرواتے تھے اور آرام آرام سے بڑا خو بصورت لکھتے تھے.حالانکہ کمزوری کی وجہ سے اُن کے ہاتھ بھی کانپتے تھے لیکن پھر بھی بڑا وقت لگا کر لکھا کرتے تھے.14 دسمبر کو ساڑھے گیارہ بجے دفتر میں رہے اُس کے بعد وفات ہوئی جیسا کہ میں نے بتایا، آپکی خواہش یہی تھی کہ آپ کی وفات دفتر میں ہی ہو.ہسپتال میں یہ فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ روحانی خزائن کی تمام غلطیوں کا کام مکمل کر کے اس فرض سے فارغ ہو جاؤں لیکن اس بات کی مہلت نہیں ملی.ایک مربی سلسلہ جو نظارت اشاعت میں ہیں لکھتے ہیں کہ عبد الحئی شاہ صاحب کے ہم زلف نے انہیں بتایا کہ 17 دسمبر کو شاہ صاحب نے خواب دیکھا کہ ان کی اہلیہ آئی ہیں اور انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے ابھی تک ٹکٹ نہیں لیا.شاہ صاحب نے کہا کہ ابھی تک نہیں لیا.کچھ وقفے کے بعد دوبارہ شاہ صاحب نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہاں میں نے ٹکٹ بھی لے لیا ہے اور بورڈنگ بھی ہو گئی ہے.جس روز محترم شاہ صاحب کی وفات ہوئی اس دن صبح دس بجے کے قریب اُن کے دوست ہسپتال میں شاہ صاحب کی عیادت کے لئے گئے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے یہ کہا ہے کہ ہم نے جو کوشش کرنی تھی وہ کر لی ہے.اُس کے بعد شاہ صاحب نے اپنے بیٹے عمران کو بلایا اور ہلکا سا کہا کہ فلائٹ آگئی ہے.بیٹے کو سمجھ نہ آئی، اور بات سمجھنے کے لئے قریب ہوا لیکن اس کے بعد وفات ہو گئی کوئی بات نہ کر سکے.تو یہ خادم سلسلہ آخر دم تک سلسلہ کے لئے وقف رہا اور حتی المقدور سلسلے کے کام کو ہر دوسری بات پر ترجیح دی.شاہ صاحب نے دینی علم حاصل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھیں تو اُن پر عمل بھی کیا.صرف علم ہی حاصل نہیں کیا جیسا کہ مختلف احباب نے بیان کیا ہے اور میں نے بتایا ہے.حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی ہمیشہ کوشش کی.جب میں ناظر اعلیٰ تھا تو اُس وقت وہ ناظر اشاعت تھے اس وقت بھی میں نے ان کو کامل اطاعت کرنے والا پایا.اور جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا مجھے پہنائی تو شاہ صاحب کو اخلاص و وفا میں پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھا ہوا پایا، اور یقینا ہونا بھی یہی چاہئے تھا کہ خلافت سے ایک تعلق اور ہوتا ہے.بیعت کی روح کو سمجھنے والے اور اپنی تمام تر طاقتوں سے اُس کا حق ادا کرنے والے تھے.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور خلیفہ وقت کو اور خلافت احمدیہ کو ہمیشہ ایسے جانثار اور خدمت کرنے والے سلطان نصیر اللہ تعالیٰ عطا فرماتار ہے.(آمین)
635 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ابھی جمعہ کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ انشاء اللہ پڑھاؤں گا.اس کے ساتھ ہی چند جنازے اور بھی ہیں.پہلا ہے امتیاز بیگم صاحبہ کا جو مکرم و محترم مولانا محمد منور صاحب مرحوم جو ایسٹ افریقہ میں مبلغ رہے ہیں، اُن کی اہلیہ تھیں.15دسمبر کو اُن کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.1936ء میں آپ پیدا ہوئی تھیں اور 24 نومبر 1952ء کو ان کی شادی مولانا محمد منور صاحب سے ہوئی تھی.آپ مولوی صاحب کی دوسری اہلیہ تھیں، اور شادی کے وقت سے لے کے جب تک مولوی محمد منور صاحب ریٹائر ہو کے میدانِ عمل سے واپس آئے ، سوائے تین چار سال کے باقی سارا عرصہ مرحومہ کو اپنے بزرگ واقف زندگی خاوند کے ساتھ کینیا، تنزانیہ، فلسطین اور نائیجیریا میں خدمت کی توفیق ملی.مولوی محمد منور صاحب نے اپنی کتاب ”ایک نیک بی بی کی یاد میں اپنی دونوں بیویوں کی آپس کے سلوک کی بہت تعریف فرمائی ہے اور اس کتاب کی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بھی بڑی تعریف فرمائی تھی کہ اس طرح رہنا چاہئے.مولانا محمد منور صاحب کی پہلی بیوی کو یہ ( دوسری بیوی جو تھیں جن کی وفات ہوئی ہے) ہمیشہ آپا کہ کر بلایا کرتی تھیں.کبھی ان کے لئے سوت یاسوکن کا لفظ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی منفی رویہ اور سلوک روارکھا.دونوں بیویوں کا آپس میں بڑا ہی اچھا سلوک تھا.دونوں ایک دوسرے کی اولاد کا اتنا خیال رکھا کرتی تھیں کہ لوگ اُن کے بچوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ان دونوں میں سے آپ کی حقیقی والدہ کون سی ہیں.دوسروں کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کئی مرتبہ اپنی پینشن کی رقم نکلوا کر اور بعض اوقات قرض لے کر بھی دوسروں کی مدد کیا کرتی تھیں.آپ کے بیٹے مبارک احمد طاہر صاحب جو سیکرٹری نصرت جہاں ربوہ ہیں.یہ بتاتے ہیں کہ خدمتِ دین کا شوق رکھنے والی، بڑی نڈر، بہادر اور بہت جرات مند خاتون تھیں.احمدی اور غیر احمدی سب کی یکساں مدد کیا کرتی تھیں.یہ جو مبارک احمد طاہر صاحب ہیں یہ پہلی والدہ سے ہیں.مولانا محمد منور صاحب کی یہ اہلیہ جواب فوت ہوئی ہیں اس والدہ سے ان کی بہن ہے ان سے، ایک بیٹی امتہ النور طاہرہ صاحبہ ہیں جو عبد الرزاق بٹ صاحب مبلغ سلسلہ کی اہلیہ ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی اولادوں میں بھی جاری فرمائے.اگلا جو وفات کا اعلان ہے وہ سٹر زینب وسیم صاحبہ بنت مکرم کمال الدین کاہلوں صاحب آف یو.ایس.اے کا ہے جو 6 دسمبر کو تر اسی سال کی عمر میں وفات پاگئیں انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ نے صدر لجنہ کلیولینڈ کے علاوہ مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی.نہایت نیک اور سلسلہ کا درد رکھنے والی مخلص خاتون تھیں، لوکل امریکن تھیں.ان کے میاں اور دو بیٹے یاد گار ہیں.پھر اگلا جنازہ امۃ الرحمن صاحبہ کیلگری کا ہے، جن کی اکسٹھ سال کی عمر میں کینسر سے وفات ہوئی.انا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.نہایت نیک، نمازوں کی پابند، تہجد گزار ، متقی خاتون تھیں.عمرہ کی سعادت ملی.قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کو بیحد لگاؤ تھا.مرحومہ موصیہ تھیں.انگلی وفات یافتہ ہیں سیدہ وسیمہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم جو امریکہ سے ہیں.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے سب سے بڑے ماموں تھے ، یہ اُن کی بڑی بیٹی
636 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم ہیں.چوراسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے اور ماشاء اللہ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں.ہر خطبہ کے بعد ان کا مجھے فون آیا کرتا تھا اور خاص طور پر مجھے بھی دعا کے لئے کہنا، اپنے بچوں کے لئے کہنا کہ صحیح رستے پر قائم رہیں.ان کے بیٹے ندیم فیضی صاحب امریکہ کی ایک جماعت کے صدر جماعت بھی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور نیکیاں بچوں میں قائم رکھے.اگلا جنازہ میاں عبد القیوم صاحب ابن مکرم میاں وزیر محمد صاحب کوئٹہ کا ہے.6 دسمبر کو ان کی اٹھاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کو والہانہ عشق تھا، خلافت سے بڑا تعلق تھا.ان کا نکاح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھایا تھا اور وکیل کے فرائض بھی حضرت مصلح موعودؓ نے خود انجام دیئے تھے.پھر محمد مصطفی صاحب حلقہ اورنگی ٹاؤن کراچی کے ہیں 27 ستمبر کو ان کی وفات ہوئی تھی إِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.1971ء میں احمدیت قبول کی تھی، خاندان میں اکیلے احمدی تھے.احمدی ہونے پر آپ کو بہت سے مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.بھائیوں نے گاؤں والوں کے سامنے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا.احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ کا شمار بھی احمدیت کے شدید معاندین میں ہو تا تھا مگر احمدی ہونے کے بعد آپ کی کایا پلٹ گئی اور جماعت کے ساتھ آپ نے ہمیشہ اخلاص اور وفا کا تعلق رکھا.آپ کو اپنے حلقے میں بطور سیکرٹری تعلیم القرآن، مربی اطفال، سیکرٹری دعوت الی اللہ اور معلم مقامی کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی.بے شمار اطفال، انصار، ناصرات اور لجنہ کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا.قرآنِ کریم کا بیشتر حصہ حفظ تھا.پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا نوید مصطفیٰ مربی سلسلہ یاد گار چھوڑے ہیں.پھر ملک نذیر احمد صاحب آف چکوال ہیں.21 جولائی کو ان کی وفات ہوئی تھی انہوں نے درخواست کی تھی کہ جنازہ غائب پڑھایا جائے.حضرت ملک کرم دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے.1930ء میں ان کے والد انہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت کے لئے قادیان چھوڑ گئے جہاں آپ سترہ سال رہ کر بھر پور خدمت سر انجام دیتے رہے.مرحوم موصی تھے، انتہائی مخلص اور خلافت سے بے پناہ عشق کرنے والے تھے.پھر فتح محمد خان صاحب ہیں ان کی 28 نومبر کو وفات ہوئی ہے.بڑے نیک، شریف النفس انسان تھے.پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں.آپ کے بیٹے مکرم حافظ برہان محمد صاحب واقف زندگی جامعہ احمدیہ میں استاد ہیں اور ایک داماد میر عبد الرشید تبسم صاحب مرحوم مربی سلسلہ تھے.اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کے درجات بلند فرمائے.ان کے پسماندگان کو صبر ، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے، نیکیوں پر قائم رکھے اور اخلاص و وفا سے جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا نمازوں کے بعد ان سب کی نماز جنازہ غائب ادا کی جائے گی.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 جنوری تا 19 جنوری 2012ء جلد 19 شماره 62 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد نهم 637 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 2011ء بمطابق 30 فتح 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو، جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے.وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہے جو احمد کے بروز کے ساتھ ہوں گے“.( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام احمد بھی ہے اور آپ کا بروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.) فرماتے ہیں ” چنانچہ فرمایا.وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو، بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہو گی“.( یعنی وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا، آپ کی بیعت کی، آپ کی صحبت سے مستفیض ہوئے پھر اپنے ایمان وایقان میں ترقی کی.آپ نے فرمایا کہ یہ جماعت بھی صحابہ کی ہو گی.) آپ مزید فرماتے ہیں کہ اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے منھم کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ ہی کی طرح ہو گا.“ دوو لملفوظات جلد 1 صفحہ 431 مطبوعہ ربوہ) پس وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پایا یقینا اُن کا ایک مقام ہے اور ان میں سے ہر ایک ہمارے لئے ایک نمونہ ہے جن کی نیکی، تقویٰ اور پاک تبدیلیوں کا معیار یقینا قابل تقلید ہے.یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان صحابہ کی زندگی کے بعض واقعات ہم تک پہنچے ہیں.پھر ان صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجالس کے واقعات اور کیفیات بھی ہم تک پہنچی ہے.صحابہ کی روایات کا میں وقتاً فوقتاً ذکر کرتارہتا ہوں.آج بھی میں چند ایسے واقعات یار وایات پیش کروں گا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تربیت کی وجہ سے اس نور کی وجہ سے جو آپ نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے لیاء اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ کی ایسی کا یا پلٹی کہ ہر ایک، ایک عجیب شان رکھنے والا بن گیا.چاہے وہ غریب تھا یا امیر تھا.پڑھا لکھا تھا یا ان پڑھ تھا.
خطبات مسرور جلد نهم 638 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء سب کے سب ہمیں ایک غیر معمولی رنگ میں رنگین نظر آتے ہیں.تو گل ہے تو وہ اپنی ایک شان رکھتا ہے.خدمتِ دین کا جذبہ ہے تو وہ بے لوث اور عجیب شان والا ہے.قرآنِ کریم سے تعلق ہے تو اس میں بھی گہرائی ہے، ایک محبت ہے، ایک پیار ہے.اور پھر خدا تعالیٰ کا خود اُن کو قرآن سکھانا اور اُن کے دل و دماغ کو وہ عرفان عطا کر ناجو اُن کے خدا تعالیٰ سے خاص تعلق کی نشاندہی کرتا ہے یہ بھی اُن کا خاصہ ہے.اور پھر اسی طرح دوسرے معاملات ہیں.اللہ تعالیٰ کا اُن سے ہر معاملے میں ایسا سلوک ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب پانے والوں سے ہی خدا تعالیٰ روا ر کھتا ہے.پھر ان روایتوں میں ہمیں اپنے صحابہ کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ان کو مسائل کے حل کا طریق سکھانا یہ بتاتا ہے کہ فوری طور پر مختصر فقروں میں کس طرح جواب دینا ہے.مختصر فقروں میں ایسی تربیت جس سے مقابل کا دلائل و براہین سے مقابلہ کر سکیں.پس بہت ہی خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ سو سال بعد اس غلام صادق اور عاشق صادق کا زمانہ پایا.جیسا کہ میں نے کہا میں رجسٹر روایات صحابہ سے بعض روایتیں آج بھی پیش کروں گا.حضرت مولوی صوفی عطا محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اخبار میں یہ پڑھا کہ حضرت اقدس جہلم تشریف لارہے ہیں مگر مجھے تو جہلم جانے کی بھی اجازت نہ مل سکتی تھی.ملازم تھے.مگر میں بہت بیقرار تھا، گھر والوں کو میں نے کہا کہ کل اتوار ہے اور حضرت اقدس جہلم تشریف لائے ہیں، آپ کسی کو بتائیں نہیں، میں جاتا ہوں.وقت گاڑی کا بالکل تنگ تھا اور تین میل پر سٹیشن تھا.رستہ پہاڑی ( اور ) رات کا وقت.دن کو بھی لوگوں کو اس طرف پر چلنا مشکل تھا لیکن ایک لگن تھی رات کے وقت بھی آپ نکل پڑے.) کہتے ہیں کہ میں نے خدا پر تو کل کیا اور چل پڑا.( اور ) اتفاق سے کوئی بیٹی تمام راستہ میرے آگے چلتی گئی ، شاید کوئی اور آدمی بھی کہیں جارہا ہو گا (اور) خدا خدا کر کے پہاڑی رستہ دوڑتے ہوئے کھلے کیا.( فرماتے ہیں کہ کوئی بتی آگے چل رہی تھی شاید کوئی انسان جارہا ہو لیکن اللہ پر توکل کر کے چلے تھے ، مسیح و مہدی کو ملنے کے لئے جارہے تھے تو یقینا اللہ تعالیٰ نے ہی اسٹیشن پر انتظام فرمایا تھا کہ آگے آگے ایک بتی چلتی گئی اور دوڑتے ہوئے وہ رستہ طے کر لیا.) کہتے ہیں جب (میں)ا پہنچا تو گاڑی بالکل تیار تھی، ٹکٹ لیا اور جہلم پہنچا، حضور کی زیارت سے مشرف ہوا.وہاں ایک سیٹھ احمد دین تھے انہوں نے کہا کہ لطف تب ہے کہ آپ آج کوئی نظم سنائیں.جب انہوں نے بیعت کی ہے تو اس وقت ایک نظم انہوں نے لکھی تھی جس میں دعائیہ الفاظ تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں انہوں نے بیعت کے خط کے ساتھ پیش کی تھی.وہ ایک لمبی نظم تھی، تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ آپ وہ نظم سنائیں.تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر حضرت صاحب اجازت دیں تو میں سنا سکتا ہوں.حضرت اقدس نے اجازت دے دی.کہتے ہیں میں فوراً کھڑا ہوا اور پورے جوش سے نظم سنائی اور اس نظم کا حاضرین پر ایسا اثر ہوا کہ کسی شخص نے کہا کہ آپ یہ نظم دے دیں تو میں نے کہا کہ میں نے تو زبانی پڑھی ہے.نظم سنانے کے بعد حضور نے جو وظیفہ بتایاوہ بالکل
خطبات مسرور جلد نهم 639 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خط والا وظیفہ تھا جب انہوں نے بیعت کا خط لکھا اور یہ نظم لکھی تو اُس میں ساتھ یہ بھی خط میں لکھا کہ حضور مجھے کوئی وظیفہ بتائیں جو میں کیا کروں، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کو ایک وظیفہ لکھ کے دیا کہتے ہیں جب میں نے زبانی پوچھا تو تب بھی وہی وظیفہ تھا.میں حیران ہوا کہ حضور کا حافظہ کتنا تیز ہے کہ جو وظیفہ لکھنے کے لئے ارشاد فرمایا وہی زبانی بھی فرمایا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ جلد 11 صفحہ 209-210 روایت حضرت مولوی صوفی عطا محمد صاحب) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو وظیفہ یہ لکھا تھا اور وہاں زبانی بھی فرمایا کہ وظیفے کا آپ پوچھ رہے ہیں تو کسی اور وظیفے کی ضرورت نہیں ہے ، درود شریف کثرت سے پڑھا کریں.الحمد شریف کثرت سے پڑھا کریں.استغفار کثرت سے کیا کریں اور قرآنِ شریف کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور پڑھیں اور با قاعدہ تلاوت کریں.یہی وظیفہ ہے جو کامیابیوں کا راز ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ جلد 11 صفحہ 209 روایت حضرت مولوی صوفی عطا محمد صاحب) بہت سے لوگ مجھے بھی خط لکھتے رہتے ہیں، اُن کو اکثر میں اسی رہنمائی کی وجہ سے عموما یہ بتاتا رہتا ہوں اور ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے کسی کو کہ لاحول بھی پڑھا کریں.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيُّ الْعَظِیم.یہ دعا بھی پڑھنی چاہئے.(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 291 مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب مکتوب نمبر 80 مطبوعہ ربوہ) تو یہی ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں.پھر ایک روایت ہے حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں کی.یہ خلیفہ نورالدین صاحب جمونی تھے.یہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کا نام ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور صحابی تھے وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ جموں سے پیدل براہ گجرات کشمیر گیا.(گجرات کے راستے کشمیر گیا) راستے میں گجرات کے قریب ایک جنگل میں نماز پڑھ کر اللهُمَّ اِنّي اَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَةِ وَالْحُزْنِ والی دعانہایت زاری سے پڑھی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا سامان کچھ ایسا کر دیا کہ مجھے کبھی تنگی نہیں ہوئی اور باوجود کوئی خاص کاروبار نہ کرنے کے غیب سے ہزاروں روپے میرے پاس آئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 68 روایت حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جموٹی) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد آپ کی قوت قدسی سے ایسا انقلاب ان لوگوں میں پیدا ہوا.یہ دعائیں کرتے تھے تو دعاؤں کی قبولیت بھی اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طور پر دکھاتا تھا.اس حالت میں کہ میں کبھی کسی سے نہ مانگوں، کبھی مجھے ہم و غم نہ ہو ، دعا کی تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی مجھے مالی تنگی نہیں ہوئی.پھر میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مولوی صاحب متوکل انسان تھے ، بیان کیا کرتے تھے کہ ہم کو
640 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے خدا تعالیٰ خود ہی مہیا فرما دیتا ہے.( عجیب تو گل ہے ) ہمیں ضرورت نہیں ہوتی کہ کسی سے کہیں.(یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی سے کچھ کہیں) کہا کرتے تھے کہ مجھے 19-1918ء میں انجمن نے ملازم رکھا اور بیس پچیس روپے دینے مقرر کئے (انجمن کا جو الاؤنس مقرر ہو اوہ اس وقت ہیں پچیس روپے تھا) تو ان دنوں غلہ بہت گراں تھا.( یعنی گندم وغیرہ جو تھی بہت مہنگی ہو گئی تھی) خانصاحب منشی فرزند علی خان صاحب ناظر بیت المال فیروز پور میں تھے.والد صاحب اُن کے ماتحت تھے.ایک دن یہ کہہ بیٹھے (یعنی فرزند علی خانصاحب نے مولوی جلال الدین کو کہا ) کہ آپ کو تنخواہ ملتی ہے، اس لئے آپ تند ہی سے کام کرتے ہیں.( بہت محنت سے کام کرتے ہیں تنخواہ کی وجہ سے) والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور میں نے کہہ دیا کہ میں نے کیا آپ سے تنخواہ مانگی تھی.(میں نے تو وقف کیا تھا، دین کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا) جو الاؤنس مقرر کیا ہے وہ تو خود جماعت نے کیا ہے.میں نے تو نہیں مانگا، میرا تو کوئی مطالبہ نہیں.کہنے لگے میں نے ناظر بیت المال کو کہا کہ میں یہ الاؤنس اب نہیں لوں گا.خانصاحب فرمانے لگے ( ناظر بیت المال تھے ) کہ کام پہلے کی طرح کرو گے یا اپنی مرضی سے کرو گے.یعنی تنخواہ تو نہیں لو گے لیکن کام بھی اُسی طرح کرو گے کہ نہیں جس طرح پہلے محنت سے کرتے تھے تو مولوی جلال الدین صاحب نے فرمایا کہ پہلے سے بھی زیادہ تندہی سے اور کامل اطاعت سے کام کروں گا.محنت بھی پہلے سے زیادہ کروں گا اور پوری اطاعت کے ساتھ کام کروں گا.کام اور اطاعت کا تنخواہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.یہ ملے نہ ملے میں نے تو دین کی خدمت کرنی ہے.کہتے ہیں کہ یہ بات کہہ کر میں اپنے تبلیغی دورے پر چلا گیا.پیدل جارہا تھا (سواریاں تو اُس وقت ہوتی نہیں تھیں.عموماً مبلغین تبلیغی دورے پر جاتے تھے تو پیدل جایا کرتے تھے ) کہ رستے میں یہ خیالات آنے شروع ہو گئے کہ ان روپوں سے وقت کٹ جاتا تھا.(جو الاؤنس ملتا تھا اس سے کچھ نہ کچھ ضروریات پوری ہو جاتی تھیں) آجکل تنگی ہے (گندم وغیرہ جو ہے وہ بھی مہنگی ہے تو ) اب کس طرح وقت کٹے گا.( یہ خیالات آرہے تھے.پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان خیالات کے آنے کے بعد پھر اُن سے کیسا سلوک فرمایا.کہتے ہیں کہ) والد صاحب بیان کرتے تھے کہ میں انہی خیالات میں جار ہا تھا کہ ناگہاں ایک گرج کی سی آواز آئی.(ایک خوفناک گرج کی آواز آئی) جس سے میرا دل دہل گیا.(اور آواز کیا تھی ؟ اس زور دار آواز میں ایک پیغام آیا کہ آگے اتنی مدت تم کو کوئی تنخواہ دیتا آیا ہے، کیا تنخواہ لے کر تم اتنے بڑے ہوئے ہو یعنی اتنا عرصہ گزر گیا تم تنخواہ میں پلے بڑھے ہو ، یہاں تک اس عمر تک پہنچے ہو ؟ (کہتے ہیں ) اس آواز اور زجر کا میرے کان میں پڑنا ہی تھا کہ میرے تمام ہم و غم کا فور ہو گئے اور میں نے نہایت ہی عاجزی سے عرض کی کہ یا باری تعالیٰ مجھ کو ان کی تنخواہ کی کیا ضرورت ہے، تیرے مقابلے میں یہ کیا ہستی رکھتے ہیں.اس کے بعد میر اوقت آگے سے بھی اچھا گزرنے لگا.(کہتے ہیں اُس کے بعد پھر ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح سنبھالا کہ پہلے سے بھی زیادہ اچھے حالات ہو گئے.کہتے ہیں ) مولوی صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ خانصاحب میرے دیرینہ دوست تھے.یہ لفظ ویسے (ہی) ان کی زبان سے نکل گئے ( مذاق میں) جو کہ بعد میں تنخواہ والے شرک کو توڑنے کا باعث بنا.(اس وجہ سے یہ شرک بھی میرے سے نکل گیا) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 12 صفحہ 276-277 غیر مطبوعہ روایت حضرت مولوی جلال الدین صاحب بیان کردہ میاں شرافت احمد صاحب)
خطبات مسرور جلد نهم 641 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء پھر حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم جن کا پہلے ذکر آیا ہے کے حالات بیان کرتے ہوئے ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب جوا کھیل رہے ہیں مولوی صاحب نے (جلال الدین صاحب نے ) یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کی تو حضور نے فرمایا: مولوی صاحب! یعنی مولوی جلال الدین صاحب کو کہ) مولوی صاحب جوا ہی کھیلتے ہیں (یعنی حضرت خلیفہ المسیح الاول حضرت مولانا نورالدین صاحب جو اہی کھیلتے ہیں) مگر خدا سے.یہ بھی جوا کھیلنے والوں کی طرح جس طرح وہ سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے.اسی طرح مولوی صاحب بھی سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں داؤ پر رکھ دیتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی راہ پر ان دونوں فقروں میں سے کوئی انہوں نے کہا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 12 صفحہ 280-281 غیر مطبوعہ روایت حضرت مولوی جلال الدین صاحب بیان کر وہ میاں شرافت احمد صاحب) یعنی یہ ایک سودا ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح الاوال کرتے ہیں اور دنیادار تو دنیاوی فائدے کے لئے جوا میں پیسے داؤ پر لگاتے ہیں ناں.حضرت خلیفہ اول کے بارے میں فرمایا کہ یہ اپنی دنیا و عاقبت دونوں چیزوں کو سنوارنے کے لئے اپنا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں حضرت خلیفہ المسیح الاول کی زندگی کے واقعات بیشمار واقعات ہیں، کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہر دنیاوی ضرورت پوری کی اور بے انتہا پوری کی اور اسی طرح دین میں جو مقام اُن کو ملا وہ تو سب جانتے ہی ہیں.پھر حضرت صوفی غلام محمد صاحب ولد میاں ولی محمد صاحب فرماتے ہیں کہ 1912ء میں میں نے پنجاب یونیورسٹی سے بی.اے کا امتحان پاس کیا اُس کے بعد میں نے حضرت خلیفہ اول سے پوچھا کہ قرآن شریف یاد کروں یا ایم.اے کا امتحان دوں.فرمایا قرآن کریم یاد کرو، ایم.اے کیا ہوتا ہے سو میں نے چھ ماہ میں قرآنِ شریف یاد کیا اور جب میں نے خلیفہ اول سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے سجدہ شکر کیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 7 صفحہ 285 غیر مطبوعہ روایت حضرت صوفی غلام محمد صاحب) یہ صحابہ کی تربیت تھی، یہ ان کی اطاعت تھی، یہ محبت قرآنِ کریم کی تھی کہ دنیا کو چھوڑ کر پہلے قرآنِ کریم حفظ کیا پھر آگے پڑھائی کی.پھر حضرت سید اختر الدین احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے.لکھتے ہیں کہ ذکرِ حبیب کم نہیں وصل حبیب سے.محب کا دل اپنے حبیب کی یاد اور ذکر کرنے اور ستانے کی تڑپ رکھتا ہے.چہ جائیکہ خداوند رحمان و رحیم کا فرستادہ سردار انبیاء ہمارے آقا محبوب و مطاع حضرت نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزِ کامل، مظہر جمال، حبيبنا و متاعنا و نبینا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسے عظیم الشان انسان کے ذکر کی تڑپ نہ رکھتا ہو اور آپ کی یاد سے لذت نہ اُٹھاتا ہو.لیکن خوف مجھے یہ ہو تا رہا کہ اس عاجز کا حافظہ کمزور اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک صحبت پر ایک مدت گزر گئی.یعنی 1902ء کے آخر سے لے کے 1903ء کے آخر تک قریباً ایک سال میسر آئی تھی اور اُس وقت میری عمر 24 سال کی تھی.اُن دنوں خاکسار اور خاکسار کے ماموں
642 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم مولوی سید احمد حسین صاحب مرحوم صرف دو کشکی مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تھے ، یہ شاید کٹک سے آئے ہوئے تھے ہم دونوں کے لئے کئی ماہ تک چاول کے مکلف کھانے آتے رہے.کیونکہ یہ غالباً اڑیسہ کا چاول کھانے والا علاقہ ہے.تو چاول کھانا آتارہا اور حضور علیہ السلام میاں نجم الدین مرحوم کو اچھی طرح مہمان نوازی کی تاکید فرمایا کرتے تھے جس طرح کہ مرحوم نجم الدین ہم دونوں سے بیان کیا کرتے تھے کہ تم لوگوں کے متعلق حضرت جی کی بڑی تاکید ہے.پھر یہی سید اختر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ خاکسار طالبعلمی کی حالت میں تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ کے درسوں میں شامل ہوا کرتا تھا.آپ یعنی حضرت خلیفہ اول اس عاجز سے بہت ہی محبت فرمایا کرتے تھے ، حضرت والد ماجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت والدہ ماجدہ مرحومہ، ربّ ارحمهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا ( بنی اسرائیل : 25) نے جبکہ گھر واپسی کا حکم صادر فرمایا تو اسی عاجز کے یہ عرض کرنے پر کہ آمد ورفت میں اخراجات کثیر دارالامان کی مراجعت مشکل.حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب یہاں آنے لگو تو لکھنا میں زاد راہ بھیج دوں گا.والدین نے جب واپسی کا حکم دیا.اور جب میں اپنے گھر جانے لگا تو میں نے خلیفہ اول کو کہا کہ کیونکہ اخراجات کافی ہوتے ہیں اس لئے اب یہاں قادیان میری واپسی مشکل ہو گی.تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ جب آنے لگو تو مجھے بتانا میں تمہیں سفر خرچ بھیج دوں گا.جس وقت اس عاجز سے گھر واپسی کا زمانہ قریب ہونے لگا تھا اُن دنوں چھوٹی مسجد مبارک کے بالائی حصے میں نماز ہوا کرتی تھی.آپ نے جانب مشرق نیچے سے اپنے مبارک ہاتھوں کو اس عاجز کے کندھے پر رکھ کر پیار سے فرمایا کہ اختر الدین میں نے سنا ہے کہ تم کئی استادان بزرگ سے قرآن مجید بہت پڑھا کرتے ہو.( کہتے ہیں اُس وقت میں بہت سارے استادوں سے قرآنِ کریم پڑھا کرتا.خلیفہ اول نے ان کو یہ فرمایا: وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ - (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 7 صفحہ 212-213 غیر مطبوعہ روایت حضرت سید اختر الدین صاحب) کہ اللہ کا تقویٰ کا اختیار کرو، اللہ تمہیں پڑھائے گا.پس قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے کی بنیادی شرط یہی ہے.صحابہ میں قرآنِ کریم پڑھنے کا بڑا شوق تھا.حضرت خلیفہ اول سے بھی پڑھا کرتے تھے نوجوانی میں درس لیا کرتے تھے اور دوسرے اساتذہ سے بھی پڑھتے تھے کہ اور مزید سیکھیں.اور پھر متقی کو اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم پڑھاتا ہے، رہنمائی فرماتا ہے اور اسی طرح صحابہ کی زندگیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کو ماشاء اللہ قرآن کریم کا بڑا اعلم تھا.پھر ایک روایت حضرت خیر دین صاحب ولد مستقیم صاحب کی ہے.ان کی بیعت 1906ء کی ہے اور 1906ء میں ہی ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی توفیق ملی.کہتے ہیں کہ ایک دن کی بات ہے کہ حضور مغرب کی نماز کے بعد بیٹھے رہے.اتفاقا اس دن مسجد میں روشنی نہیں تھی.حضور کے ارد گرد چند اور لوگ بھی اور خاکسار بھی بیٹھا ہوا تھا.ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور مولوی کہتے ہیں یعنی غیر از جماعت مولوی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام ناصری، حضرت عیسی علیہ السلام جانور بنایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ شیخ صاحب ! خدا خالق اور مسیح بھی خالق ؟ بس ایک فقرہ فرمایا یہ روایت کرنے والے لکھتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ شیخ صاحب کون تھے
643 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم (کیونکہ اندھیرا تھا) مگر وہ شیخ صاحب پھر نہیں بولے.حضور نے دوبارہ خود ہی فرمایا کہ ہمارے مولویوں کو اتنے اتنے مختصر فقرے بحث میں استعمال کرنے چاہئیں.یعنی انہوں نے کہا عجیب بات ہے کہ مسیح پرندے بنایا کر تا تھا، پیدا کیا کرتا تھا، جانور بنایا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا بھی خالق (خالق ہونا تو خدا کی صفت ہے) اور مسیح بھی خالق.کہ تم مسلمان ہو کر بھی اس شرک کے مر تکب ہو رہے ہو.پھر فرمایا کہ اتنے مختصر فقرے بعض دفعہ تبلیغ میں کام آتے ہیں.فرمایا کیونکہ لمبی بحث میں بات خلط ملط ہو جاتی ہے.“ اس کے بعد حضرت خیر دین صاحب لکھتے ہیں کہ میں اپنے گاؤں واپس چلا گیا.مجھے قرآنِ شریف پڑھنے کا بہت شوق تھا.حضور نے ایک دن مجھے رویا میں فرمایا ( قرآن شریف پڑھنے کا شوق تھا ایک دن خواب آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم قادیان آجاؤ ہم تم کو قرآن شریف پڑھا دیں گے.(تو یہ انہوں نے خواب دیکھی اور اُس وقت یہ خواب دیکھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو چکا تھا، آپ وفات پاچکے تھے) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ایک اور خواب دیکھا اور وہ یہ کہ میں ہجرت کر کے آگیا ہوں، اُس جگہ جہاں اب محلہ ناصر آباد بنا ہوا ہے.(ہجرت کر کے قادیان آگیا اور وہاں آ کے اُترا ہوں جہاں آجکل محلہ ناصر آباد ہے) اس میدان میں میں اپنا سامان اتار رہا ہوں اور میں نے پوچھا کہ اس جگہ کا نام کیا ہے ؟ تو آسمان سے آواز ایک شکل کے رنگ میں آرہی تھی، گویا کہ وہ کوئی ٹھوس چیز تھی جس کی شکل و صورت فٹبال جیسی تھی اُس میں سے یہ آواز نکل رہی تھی کہ اس جگہ کا نام ابراہیمی جنگل ہے جہاں تم اپنا سامان اُتار رہے ہو.گو یا خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کا نام ابراہیم بتایا.اس وقت مجھے معلوم نہ تھا یہ جو حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ.میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار (ماخوز از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 7 صفحہ 154 غیر مطبوعہ.روایت حضرت خیر دین صاحب) تو یہ کہتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے آواز دے کے یہ پیغام دیا اور تب مجھے پتالگا یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے باتوں کی، ناموں کی، الہامات کی تائیدات کے نظارے اللہ تعالیٰ آپ کے صحابہ کے ذریعے سے دکھاتا تھا.پھر حضرت خیر دین صاحب مزید فرماتے ہیں کہ میں کسر نفسی سے نہیں کہتا بلکہ حقیقت ہے کہ میں گناہ گار تھا.یہ جواب بیان کرنے لگاہوں یہ یقینا یقینا نور نبوت سے ہو گا نہ کہ میری طرف سے، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار تو یہ یقینی بات ہے جو نور سے تعلق پیدا کرے گا اُس کو نور سے ضرور حصہ ملے گا.ہاں یہ بھی بات نہایت واضح ہے کہ وہ نور اپنی اپنی قابلیت کے مطابق ملتا ہے.(مولوی صاحب، حضرت خیر دین صاحب کہتے ہیں کہ) ہمیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ الہام کس کو کہتے ہیں، کشف کس کو کہتے ہیں، رویائے صادقہ کیا ہوتی ہے.اب خدا تعالیٰ کے
خطبات مسرور جلد نهم 644 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء فضل سے اس فرستادہ خدا کے ہاتھ سے ہاتھ ملانے سے نہ صرف ہم کو الہام کا علم ہوا اور (نہ) صرف کشف کا علم ہوا اور نہ صرف رویائے صادقہ کا علم ہوا بلکہ ان تینوں کو ہم نے اپنے اوپر وارد ہوتے دیکھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 7 صفحہ 154 155 غیر مطبوعہ روایت حضرت خیر دین صاحب) یہ انقلاب تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا فرمایا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے بارے میں بھی آتا ہے ناں، کئی دفعہ ہم سن چکے ہیں کہ جب اُن سے کسی نے پوچھا حضرت مولوی صاحب آپ تو پہلے ہی بڑے بزرگ تھے ، آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت میں آکے کیا ملا.حضرت خلیفہ اول نے جواب دیا.دیکھو اور تو بہت سارے فائدے ہیں وہ تو ہیں ہی، ایک فائدہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں.پہلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار خواب میں کیا کرتا تھا، اب کھلی آنکھیں جاگتی حالت میں کشفی حالت میں کر تا ہوں تو یہ انقلاب ہے جو مجھ میں مرزا صاحب نے پیدا کیا.(ماخوذ از حیات نور از مولانا عبد القادر صاحب (سابق سوداگر مل ) صفحہ 194 مطبوعہ ربوہ) تو حضرت خیر دین صاحب لکھتے ہیں کہ اب ہم حق الیقین کے طور پر ان باتوں کی حقیقت بیان کر سکتے ہیں.مثلاً میں نے مبارک مسجد میں بیٹھے ہوئے غالباً ظہر کا وقت تھا، ایک یہ الہام پایا کہ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.اس میں یہ بتایا کہ اس جماعت کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں.سو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو معمولی سی حیثیت کے لوگ نظر آتے ہیں اُن کا آخری انجام اچھا ہو رہا ہے اور ان سے اچھے اچھے کام بھی ہو رہے ہیں اور اُن کی دعاؤں میں ایک خاص اثر معلوم ہوتا ہے.پھر میں نے ایک دفعہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تیرا قرب پانے کے لئے کونسا طریق اچھا ہے ( یہ دیکھیں ان لوگوں کی کس طرح کی خواہشات تھیں، اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا اور تعلق کو بڑھانے کے لئے کیا کیا جتن کرتے تھے، دعا کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تیر اقرب پانے کے لئے کو نساطریق ہے) تو خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ ہمارا قرب حاصل کرنے کے دو طریق ہیں.یا چندہ دو یا تبلیغ کرو.یہ دو طریق ہم کو پسند ہیں.( یہ جواب آیا ) تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ ! میں تو اتنا پڑھا ہوا نہیں.(آپس میں بیٹھے اللہ تعالیٰ سے یہ باتیں ہو رہی ہیں، میں تو اتنا پڑھا ہوا نہیں).میں تبلیغ کس طرح کروں؟ اللہ تعالیٰ نے پھر جواب دیا اور فرمایا کہ قرآن شریف تو تم کو ہم نے پڑھا دیا ہے.جب یہ فقرہ جناب الہی نے فرمایا تو مجھ سے اُس وقت یہ آیت حل ہوئی کہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللہ رھی.کیونکہ جب میں اپنے گاؤں میں تھا تو اس وقت مجھے جناب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خواب میں ملے تھے (اس کا پہلی خواب میں ذکر ہوا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ تم قادیان آجاؤ.ہم تمہیں قرآن شریف پڑھا دیں گے.اب دیکھئے کہ وعدہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا مگر جواب خدا تعالیٰ نے دیا کہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھا دیا ہے.سو خاکسار دیکھ رہا ہے کہ اپنی قابلیت کے مطابق اب خدا تعالیٰ کے فضل سے جو قرآن شریف پڑھنا چاہے اسے پڑھا سکتا ہوں.چنانچہ آج کل مہمان خانے میں صبح کے وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ
645 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم قرآن شریف ترجمے کے ساتھ پڑھاتا ہوں.جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھا دیا تو ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ تم نے عاد اور ثمود کے قصے قرآن شریف میں نہیں پڑھے ؟ ایک رکوع پڑھا اور لوگوں کو سنا دیا کہ نبیوں کی نافرمانی کرنے والوں کا کیا حال ہوتا ہے ؟ اسی طرح دعا کے بارے میں جناب الہی نے یہ فرمایا کہ تم گھی بہت کھایا کرو.تو میں نے عرض کیا بھی کھانے سے کیا مراد ہے ؟ تو جناب الہی نے تیسرے دن جواب دیا کہ تھی کھانے سے مراد بہت دعا کرنا ہے.یہ فقرے پنجابی زبان میں عنایت فرمائے کہ جس گھر میں دعا ہوتی ہے وہ گھر موجوں میں رہتا ہے.پھر یہ بھی آواز سنی کہ جس کے ساتھ خدا بولتا نہیں وہ مسلمان نہیں ہے.( پس ہمیں بھی اگر موجیں کرنی ہیں تو اپنے گھروں کو دعاؤں سے بھرنا ہو گا) فرماتے ہیں: کیا میرے جیسا آدمی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ میری طاقت سے ہیں.بلکہ صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ نورِ نبوت سے ہے.چنانچہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی فقرہ دہر ادیتا ہوں فرماتے ہیں.میں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 7 صفحہ 155-156 غیر مطبوعہ.روایت حضرت خیر دین صاحب) پھر حضرت حافظ نبی بخش صاحب ولد حافظ کریم بخش صاحب موضع فیض اللہ چک کے رہنے والے ہیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت حضرت مسیح موعود کے دعویٰ سے پہلے ہی کی تھی اور بیعت بھی ابتدائی زمانے میں کی.حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ جو حافظ صاحب کے بیٹے تھے ، وہ لکھتے ہیں کہ آپ کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ایک عشق موجود ہے اور طبیعت میں احتیاط ایسی ہے کہ جب کبھی کوئی حضور علیہ السلام کے حالات سنانے کے لئے کہے تو یہی جواب دیتے ہیں کہ مجھے اپنے حافظے پر اعتبار نہیں، ایسانہ ہو کہ کوئی غلط بات حضور کی طرف منسوب کر بیٹھوں.آپ محکمہ نہر میں پٹواری تھے اور گرداوری کے دنوں میں قریباً سارا سارا دن گھومنا پڑتا حتی کہ جیٹھ ، ہاڑ کے مہینوں میں بھی (یعنی مئی، جون کے ، جو سخت گرمی کے مہینے ہوتے ہیں میں بھی گھومنا پڑتا اور اس سے جس قدر تھکاوٹ انسان کو ہو جاتی ہے وہ بالکل واضح ہے ، مگر رات کو آپ تہجد کے لئے ضرور اُٹھتے اور ہم پر بھی زور دیتے ( اپنے بچوں کو بھی کہتے ) جب رمضان کے دن ہوتے تو باوجود اس قدر گرمی کے روزے بھی باقاعدہ رکھتے.سردی کے دنوں میں تہجد کی نماز بالعموم قراءت جہری سے پڑھ کر بچوں کو ساتھ شامل فرمالیتے.(آپ خدا کے فضل سے حافظ قرآن تھے ) ہمیں نماز روزے کی بہت تاکید فرماتے بلکہ کڑی نگرانی فرماتے.(اور یہی والدین کا کام ہے) اور سستی پر بہت ناراض ہوتے.قرآنِ کریم ہمیں خود پڑھایا.جب دن کو اپنے کاروبار میں مشغولیت کے باعث وقت نہ ملتا تورات کو پڑھاتے.ہم تین بھائی تھے.ہم سب میں سے بڑا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ قادیان میں تعلیم پانے کی حالت میں ہی غالباً 1907ء میں فوت ہوا اور باقی ہم دونوں کو بھی مجھے اور عزیزم حبیب الرحمن بی اے کو والد صاحب جبکہ ان کی عمر 12-13 سال تھی، حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک اور حافظ حامد علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنھما کے ساتھ جبکہ حضور براہین احمدیہ تصنیف فرما
646 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خطبات مسرور جلد نهم رہے تھے حضور کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوئے اور اس کے بعد عموماً حاضر ہوتے رہے اور بیعت بھی نہایت جلدی کر لی تھی.کیونکہ وہ یعنی حافظ صاحب (جو حکیم فضل الرحمن کے والد صاحب تھے ) دعویٰ سے پہلے ہی بیعت لینے کو عرض کرتے رہتے تھے.مجھے اصل سن بیعت اور ملاقات کا یاد نہیں مگر جب وہ پہلی دفعہ آئے تو پھر حضور کے ہی ہو رہے.پھر لکھتے ہیں کہ مجھے قادیان میں ہی تعلیم دلوائی (یعنی حکیم فضل الرحمن صاحب کو ، اپنے بیٹے کو قادیان میں تعلیم دلوائی ) آپ صدموں کے وقت رضا بالقضاء کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتے.(حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ) جب ہمارے بڑے بھائی کی 1907 ء میں وفات ہوئی، اُس وقت ہماری دو بڑی بہنوں کی شادی کے دن قریب تھے اور اس غرض کے لئے ہم سب والد صاحب کی ملازمت کی جگہ سے اپنے وطن فیض اللہ چک گئے ہوئے تھے.ایک بہن کی بارات راہوں ضلع جالندھر سے آئی تھی.جب بارات آنے میں تین دن رہ گئے تو ان کے بھائی عبد الرحمن صاحب کا قادیان میں جگر کے پھوڑے سے انتقال ہو گیا، اس پر راہوں سے ہمیں تار آئی (لڑکے والوں نے کہا کہ ) وہ اس وفات کے پیش نظر شادی کی تاریخ تھوڑا سا آگے کر دیتے ہیں.خود ہی انہوں نے پیشکش کی.حکیم صاحب کے والد صاحب نے کہا کہ وفات ایک قضائے الہی تھی وہ ہو گئی.آپ اپنے وقت پر بارات لے کر آئیں اور لڑکی کا رخصتانہ لے جائیں.چنانچہ اپنے عزیز بچے کی وفات کے تین دن کے اندر دو لڑکیاں بیاہ دیں جو کہ ایک دنیا دار شخص کے لئے نہایت کڑا امتحان ثابت ہو.پھر لکھتے ہیں کہ خلافت اولی و ثانیہ دونوں کے وقت آپ کو خدا کے فضل سے کبھی کوئی ابتلاء پیش نہیں آیا اور نہ ہی آپ نے دونوں خلفاء کی بیعت میں کوئی تر ڈد کیا.خلافت کے ماننے میں اس قدر اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ میں دو دفعہ تبلیغ کے لئے مغربی افریقہ میں آیا ہوں، حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب بڑ المباعرصہ مغربی افریقہ میں مبلغ رہے ہیں) پہلی مرتبہ جب آٹھ برس متواتر رہا تھا اور اب بھی سات برس ہو گئے ہیں، باوجود کئی مختلف حالات میں سے گزرنے کے جن میں دنیاوی سامانوں کے لحاظ سے میں اُن کے لئے بہت بڑی مدد کا موجب ہو سکتا تھا آپ نے مجھے ہمیشہ یہی نصیحت فرمائی کہ میں ہر گز کسی قسم کی بے صبری نہ دکھاؤں.جب حضرت خلیفتہ المسیح واپس بلانے کا ارشاد فرمائیں تب ہی واپس آؤں (یعنی خود کچھ نہیں کہنا، کوئی مطالبہ نہیں کرنا).زمانہ ملازمت میں آپ سلسلے کے جملہ اخبارات خریدتے رہے اور چندہ با قاعدہ ادا فرماتے رہے.غرباء کی بہت مدد کی.مہمان نوازی حد درجہ کی فرماتے.آپ نے وصیت کی ہوئی ہے اور ایام ملازمت میں حصہ آمد ادا کرتے رہے.آپ کی کسی قدر زمین فیض اللہ چک میں ہے جس کے عشر کی آپ نے وصیت کی ہے.انجمن کے نام اپنی زمین کرادی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 12 صفحہ 1 تا 3 غیر مطبوعہ.روایت حضرت حافظ نبی بخش صاحب) جن صحابہ کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کے پڑپوتے عزیزم عمیر ابن ملک عبد الرحیم صاحب کو 28 مئی کو ماڈل ٹاؤن مسجد میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کا مرتبہ بھی عطا فرمایا.اس کے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کا حافظ و ناصر ہو تمام شہداء جو ہیں اور جو نوجوان شہداء تھے ، اُن کے بچوں اور بیو گان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اور
خطبات مسرور جلد نهم 647 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء اسی طرح اُن کے والدین کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کا حامی و ناصر ہو.اُن کو صبر اور حوصلہ دے اور بیوگان کے جو نوجوان بیوگان ہیں اُن کے رشتوں کے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدافرمائے.حضرت محمد یعقوب صاحب ولد میاں سراج دین صاحب جن کی بیعت 1900ء کی ہے اور 1904ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی.لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی آغوش شفقت میں بچوں کو زیادہ جگہ عطا فرماتے.بندہ حضور کی گود میں کھیلتا رہتا.حضور کا چہرہ انور نُورٌ عَلَى نور تھا ہمیں بچپن میں ایسا معلوم ہو تا تھا کہ ماں باپ سے زیادہ محبت ہم سے کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو حضور ہمارے غریب خانے کو رونق دے کر فخر بخشتے.ایک دفعہ حضور سیر کو حسب دستور گئے تو حضور بند گاڑی میں جایا کرتے تھے.جب واپسی کا وقت تھا تو میرے خاندان کے بزرگ قبلہ والد میاں سراج الدین صاحب مرحوم اور چچا میاں معراج الدین صاحب عمر اور میاں تاج الدین صاحب اور دیگر خاندان کے ممبر حضور کی آمد کے منتظر تھے.ہمارے مکانوں کے سامنے سرکاری باغ تھا.باغ کی سڑک پر جو ہمارے مکانوں سے متصل تھی، موچی دروازہ، بھائی دروازہ کے بد معاش لوگوں کا بڑا ہجوم تھا.جب حضور علیہ السلام تشریف لائے تو وہ سیڑھیوں پر سے مکان میں تشریف لے گئے تو بد معاش لوگوں نے پتھر برسانے شروع کئے.اتنے میں والد صاحب مرحوم اور ہمارے بچا صاحب نے مشورہ کیا کہ کیا تدارک ہونا چاہئے تو والد صاحب نے جو میرے لئے خادم رکھا ہو ا تھا اُس کو فرمایا کہ اس کو اُٹھا لو چھوٹے بچے تھے اور اس وقت بندہ کچھ بیمار بھی تھا تو خادم نے بندے کو اُٹھا لیا تو انہوں نے اسی وقت اس ہجوم کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا.مقابلہ کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اب ان کو جانے دیں.یہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ بندہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ تھا.حضور علیہ السلام مکان پر ٹھہرے.جاتے ہوئے ایک جگہ پر کاغذ قلم دوات رکھی ہوئی تھی تو پھر کچھ لکھتے.میرے والد صاحب نے عرض کیا کہ لڑکی کا نام پوچھا تو آپ نے امینہ بیگم فرمایا.پھر ان کی ایک روایت ہے کہ جب کبھی قادیان اپنے والد صاحب کے ہمراہ بندہ آتا تو بچپن کی عادت پر بندہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطب میں چلا جاتا جہاں آپ حکمت فرمایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ بھی گود میں لے لیتے اور محبت کرتے.وہ اکثر قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور بچوں کو پڑھاتے.(حضرت خلیفۃ المسیح الاول گود میں بچوں کو لے لیتے ، اگر کوئی مریض نہیں ہوتا تھا ، تو قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور بچوں کو بھی پڑھاتے ) اور یہاں سے اُٹھا تو جب مسجد مبارک میں بندہ جاتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا موقع ملتا تو حضوڑ اپنے پاس بٹھاتے تو کچھ باتیں دریافت کرتے.اس وقت چند مہمانوں سے مسجد مبارک میں رونق ہوتی تھی.قادیان بالکل چھوٹا سا قصبہ تھا.یہ ہر گز امید نہ کی جاسکتی تھی کہ حضور کے الہام ایسے رنگ میں پورے ہوں گے.میرے والد صاحب مرحوم حضور کے بہت ہی عاشق تھے.پرانے
خطبات مسرور جلد نهم 648 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء خدام میں سے تھے.والد صاحب مرحوم مجھے فرماتے تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بابت فتح و نصرت کے زمانے کے متعلق اکثر ایسی باتیں فرماتے جو ہمارے دیکھنے میں آتی ہیں.( یعنی جو پہلے انہوں نے بتادی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یقین تھا اور آپ کے جو الہامات تھے ان پر یقین کی وجہ سے یہ کہا کرتے تھے کہ یہ باتیں پوری ہوں گی اور پھر کہتے ہیں ہم نے وہ پوری ہوتی دیکھیں) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 7 صفحہ 128- 129 غیر مطبوعہ.روایت حضرت محمد یعقوب صاحب) پس یہ صحابہ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑا اور جو آپ علیہ السلام پر ایمان میں اس قدر پختہ تھے کہ کوئی ان کو اس ایمان سے ہلا نہیں سکتا تھا.دینی غیرت قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کرنے والی تھی.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بات کو پلے باندھ لیا اور اس کا ادراک حاصل کیا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ”جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صد ہانشان اُس نے ظاہر کئے ہیں اس سے اُس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آجاوے.جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں، چونکہ وہ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 67 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ نے جیسا کہ میں نے کہا: آپ کی اس تعلیم اور خواہش کو پورا کر کے دکھایا.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں جاری کرنے اور قائم رکھنے والے بنیں.انشاء اللہ پرسوں سے بلکہ کل رات بارہ بجے سے نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کرے یہ سال بھی جماعت کے لئے پہلے سے بڑھ کر برکتیں لانے والا ہو.مخالفین احمدیت کے ہاتھ اللہ تعالیٰ رو کے اور ان میں حق کو پہچاننے کے سامان پیدا فرمائے ، توفیق پیدا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی پر ذاتی طور پر اور بحیثیت جماعت بھی بے انتہا برکتیں نازل فرما تار ہے.آمین نمازوں کے بعد میں آج ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو مکرم جمال الدین صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا ہے.یہ مکرم جمال الدین صاحب 15 دسمبر 1938ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.آپ پیدائشی احمدی تھے.انہوں نے اٹھارہ سال کی عمر میں جماعتی خدمات کا آغاز کیا.27 دسمبر 2011ء کو 73 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی ہے.تقریباً پچپن سال اللہ تعالیٰ نے ان کو سلسلے کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی.مختلف اوقات میں، مختلف دفاتر میں کام کیا جن میں نظامت
خطبات مسرور جلد نهم 649 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2011ء جائیداد، دفتر وصیت، دارالضیافت، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری، نظارت خدمتِ درویشاں شامل ہیں.پھر جولائی 2003ء میں بطور آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ آپ کا تقرر ہوا اور تاوقت وفات آپ اسی عہدے پر خدمات سر انجام دیتے رہے.اپریل 2008ء سے جون 2009ء تک بطور قائمقام افسر محاسب اور پراویڈنٹ فنڈ بھی فرائض انجام دیئے.خاموش طبع، سادہ زندگی بسر کرنے والے، شریف النفس انسان تھے.اپنے کارکنوں کے ساتھ بھی بڑا شفقت کا سلوک فرماتے تھے.ہر ایک کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے.عزیز و اقرباء اور بیوی بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیار محبت اور نیک سلوک کیا.خدا کے فضل سے بہت بہادر اور نڈر تھے.نمازوں اور روزے کے پابند، تہجد گزار تھے.ان کو خلافت سے والہانہ عشق تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے کام میں بڑے فعال تھے اور کبھی شستی نہیں دکھائی.جماعتی کاموں کو ہمیشہ اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دی اور حقیقی وقف کی روح کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ کام کیا اور نہایت عاجزی سے کام کیا.جو بھی ان کے افسر تھے ان کے بھی انتہائی اطاعت گزار تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے.ان کی اہلیہ پہلے وفات پاچکی ہیں.اللہ ان کے بچوں کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ دے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 20 جنوری تا 26 جنوری 2012ء جلد 19 شماره 63 صفحہ 5 تا8)
اشاریہ (مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز) آیات قرآنیہ احادیث نبویہ صلی الیکم 1 4 الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 7 متفرق مضامین اسماء مقامات کتابیات 8 52 76 91
آیات قرآشید 490 105 230 $229 540 610 50 $48 624 44 252 146 46 160 خطبات مسرور جلد نهم سورۃ الفاتحہ الحمد لله رب العلمين: 2-7 504،505 آیات قرآنیہ 431 سمعنا واطعنا: 286 سورة آل عمران اهدنا الصراط المستقيم : 6-7 298،623،233 ربنا لا تزغ قلوبنا: 9 اهدنا الصراط کی دعا سے دنیا بھی ملتی ہے اور دین بھی :432 قل ان كنتم تحبون الله : 32 اھدنا الصراط نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت اس دعا جاعل الذين اتبعوك: 56 کے ذریعہ حاصل کی: قل يا اهل الكتاب 65 اھدنا الصراط زندگی کے ہر شعبہ کے لئے دعا ہے: 301 کنتم خير امة : 111 اهدنا الصراط دعا کی اہمیت وضرورت : 300،299 كل نفس ذائقة الموت: 186 اهدنا الصراط مسلمان اپنی نمازوں میں یہ دعا پڑہنے کے لتسمعن من الذين أوتوا الكتاب : 187 با وجود آنحضرت صلی الم کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے سورة النساء والے امام کی تکذیب کر رہے ہیں: 297 خلق الانسان ضعيفا: 29 اهدنا الصراط المستقم اياك نعبد کی پر معارف واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا: 37 تفسیر: 438 427 4250413 اياك نعبد کی عرفان انگیز تفسیر : سورة البقرة هدى للمتقين : 3 الذين يؤمنون بالغيب 4 خلق لكم ما في الارض جميعا: 30 فلا تموتن الا وانتم مسلمون : 133 فاستبقوا الخيرات: 149 فاذکرونی اذکر کم: 153 ولا تقولوا لمن يقتل: 154-158 والذین امنوا اشد حبا لله : 166 واتى المال على حبه : 178 وابن السبيل: 178 واذا سألك عبادي: 187 فليستجيبوا لي: 189 والله لا يحب الفساد: 206 ومن الناس من يشرى نفسه: 208 والفتنة اكبر من القتل: 218 الله لا اله الا هو : 256 ومثل الذين ينفقون: 266 141 1 40 299 369 326 60 489.50 582 348 400-231 231 165 158 624 $535 163 223 311 من الذين هادوا يحرفون الكلم : 47 60: -- يايها الذين امنوا اطيعوا الله سورة المائده تعاونوا على البر : 3 اليوم اكملت: 4 ياايها الذين امنوا كونوا قوامین: 9 لا يخافون لومة :55 بلغ ما انزل اليك: 68 سورة الانعام رسل منكم : 131 الم ياتكم سورۃ الاعراف ويضع عنهم اصرهم:158 وهو يتولى الصالحين: 197 خذ العفو و امر بالعرف: 200 سورة الانفال نعم المولى ونعم النصير: 41 هوالذى ايدك : 63-64 سورة التوبه انما يعمر مساجد الله :18 وصل عليهم : 103 256 102 198.17 146 106 41 161 587 256 18.17 507 533 486 231-230
خطبات مسرور جلد نهم كونوا مع الصادقين: 119 سورة يونس لتعلموا عدد السنين:6 فقد لبثت فيكم: 17 سورة هود فاستقم كما امرت: 113 سورة يوسف نحن نقص عليك احسن القصص: 4 وما ابرئ نفسي: 54 كذالك كدنا : 77 لا تثريب عليكم اليوم:93 سورۃ ابراہیم لئن شكرتم لازيدنكم:8 سورة الحجر انا نحن نزلنا الذكر: 10 انا كفيناك المستهزءين: 96 سورة النحل 2 428 150 454 129 159 416 159 26 376 618-612 45.28 154.158 144 463 ان الله يامر بالعدل: 91 ان ا الله مع الذين اتقوا: 128 سورۃ بنی اسرائیل وما كنا معذبين: 16 رب ارحمهما: 25 ولا تقف ما ليس لك به علم : 37 ولقد صرفنا في هذا :42 من كان في هذه اعمى: 73 ان الباطل كان زهوقا: 82 وننزل من القرآن: 83 قل سبحان ربي هل كنت الا بشرا : 94 سورة الكهف عبدا من عبادنا: 66 فمن كان يرجوا : 111 سورة طه فاقض ما انت قاض: 73 سورة الانبياء قلنا یا نار کونی: 70 137 642 99 139 434 142 143.139 41 279 254 61 244 آیات قرآنیہ وما ارسلناك الا رحمة: 108 سورة المؤمنون 460 $40 لا منتهم وعهدهم راعون: 9 589 ان الذين هم من خشية ربهم : 58-59 158 سورة النور و اقسموا بالله جهد:54 261 205 سورة الفرقان تبرك الذي نزل الفرقان: 2 وقال الذين كفروا : 5 وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا :9 والذين اذا ذكروا : 74 171 43 44 475 سورة الشعراء ان هولاء لث اء لشرذمة: 55-56 سورة العمل 555 امن يجيب المضطر : 63 ان الله مع الذين اتقوا : 129 502-252 204 سورة القصص ولا تدع مع ا الله :89 سورة العنكبوت 387 ان الصلاة تنهى: 46 والذين جاهدوا فينا : 72 442 305 سورة الروم ظهر الفساد في البر : 42 459.96.102 سورة لقمان واذا غشيهم موج: 33 130 سورة السجده واما الذين فسقوا : 21-23 سورۃ الاحزاب 45 ان الله وملئكته يصلون: 57 28 سورة فاطر استكبارا في الارض...:44-45 106،104 سورۃ میں يحسرة على العباد: 31 112 سورة ص و عجبوا ان جاءهم : 5 44
3 آیات قرآنیہ سورة المزمل واصبر على ما يقولون: 11-14 45 سورة الدهر ان الابرار يشربون : 6 ويطعمون الطعام: 9 ويسقون فيها كأسا:18 321 541 321 سورة النازعات فالمدبرات امرا : 6 واما من خاف: 41-42 253 485 سورة التكوير واذا الجنة ازلفت:14 482 سورة الفجر فادخلی فی عبادی: 30-31 387 سورة البلد فك رقبة: 14 582 سورة الشمس قد افلح من زكها: 10 116.114 سورة العلق ارء يت ان کذب و تولی: 14-15 سورة الماعون ويل للمصلين : 5 46 251 47 144 سورة اللهب تبت یدا ابي لهب:2 سورة الاخلاص قل هو الله احد:2-5 558 473 256 42 96 488 42 387 39 358 173 خطبات مسرور جلد نهم سورة المؤمن اولم يسيرو ا:22-23 ان | الله لا يهدى من هو :29 انا لننصر رسلنا: 52 سورۃ الاحقاف فاصبر كما صبر اولوا العزم:36 سورة الحجرات انما المؤمنون اخوة: 11 قل لم تؤمنوا :15 فاصبر على ما يقولون: 40 سورة الذاريات وما خلقت الجن : 57 سورة النجم ثم دنا فتدلى : 9 سورة الرحمن كل من عليها فان 27-28 سورۃ الواقعہ لا يمسه الا المطهرون: 80 سورۃ المجادلہ الم ترالى الذين نهوا عن النجوى: 9 46 560 235106 146 536 457 كتب الله لا غلبن :22 سورة الممتحنة لاينها كم الله عن الذين : 9 سورة الصف يا يها الذين أمنوا لم تقولون : 3 سورة الجمعه الله يسبح ما في السموت : 2-4 وأخرين منهم: 4 142 $297.265 236 78.98 637 621 613 498 449 401 •390 20 44 25 سورة المنافقون يقولون لئن رجعنا : 9 سورة الحاقه انه لقول رسول کریم: 41-44 سورة نوح رب لا تذر على الارض: 27
خطبات مسرور جلد نهم 4 احادیث احادیث عکرمہ بن ابو جہل کو معاف کرتے ہوئے فرمانا اللهم آسان طریق کو اختیار فرماتے کسی سے انتقام نہیں لیا 25 حضرت ام ہانی کا دو دشمنوں کو پناہ دینا اور آپ کا فرمانا کہ 24 38 اغفر لعكرمة...حضرت عمرؓ کا آنحضور صلی ا تم کو مخاطب کر کے کہنا کہ نوح جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی...نے اپنی قوم کے خلاف بددعا کی تھی.لیکن آپ صلی الی تم میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت اختیار نے یہ دعا کی اللهم اغفر لقومی...كان خلقه القرآن (مسند احمد ) 230،17 25 کرنا...تمہارے حقوق دبائے جائیں گے...263.162 162 لولاك لما خلقت الافلاک گو مسلمانوں کا ایک بڑا حکمر ان ظالم اور غاصب ہی کیوں نہ ہو اس کی اطاعت کرنا 162 حصہ اس حدیث کی صحت پر اعتراض کرتا ہے لیکن ہمیں تم میرے بعد دیکھو گے کہ تمہارے حقوق دبائے جائیں اس زمانہ کے امام نے اس حدیث کی صحت کا علم دیا ہے 39 گے.اپنے حق اللہ سے مانگنا ينزل عیسیٰ ابن مریم...فیتزوج و يولد له 77 آنحضرت صلی الم کا انصار سے فرمانا کہ تم میرے بعد ایسے كيف انتم اذا نزل فيكم ابن مريم لوكان الايمان عند الثريا...من عادى لي وليا...رب قار يلعنه 77 79 602 621 کام دیکھو گے...162 155 حضرت ابن عباس کی روایت جو شخص امیر کی بات کو نا پسند کرے تو اس کو صبر کرنا چاہئے 155 اُسید بن حضیر کی روایت کہ تم میرے بعد دیکھو گے کہ تم 155 میں ان منافقین کے لئے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار پر دوسروں کو ترجیح دی گئی ہے.تم صبر کرنا سلمہ بن یزید الجعفی کی روایت اگر حکمران ہمیں ہمارا حق نہ 21 155 کروں گا...آنحضرت صلی علم کا واقعہ افک پر مسجد نبوی میں تشریف دیں...فرمایا ان کی اطاعت کرو...لا کر فرمانا کہ مجھے میرے اہل کے بارہ میں بہت دکھ دیا گیا جنادہ بن امیہ کی روایت...ہم نے بیعت کی خوشی اور ہے.21 22 حق تلفی میں...قرعہ ڈالنے...156 157 ایک بدو کا آپ کو چادر سے کھینچ کر کہنا کہ جو اللہ نے مال حدود اللہ میں سستی کرنے والے کی مثال کشتی کے بارہ آپ کو دیا ہے اس میں سے مجھے دیں.جبل تنعیم سے اسی حملہ آوروں کا پکڑے جانا جو قتل کرنے بدی کرنے والوں کو زبر دستی روکنے....سے غلط کے لئے حملہ آور ہوئے لیکن معاف کر دیا.22 ایک یہودی کا آپ صلی ایم کو السام علیک کہنا اور آپ کا ابوسعید خدری کی روایت کہ تم میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو ہاتھ سے بدی کو روکے.اس کی تشریح دیگر کتب در گذر فرمانا.23 یہودیہ کا زہر ملا کر مارنے کی کوشش کرنا، اقبال جرم کے باوجو د آپ صلی اللی کم کا معاف فرما دینا 47.23 استدلال ނ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے 158 158 159 آنحضور صلی اللہ ظلم کا وحشی سے حمزہ کی شہادت کے بارہ پوچھنا سورج چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں کہ کیسے کیا....آنکھوں میں آنسوؤں کا آجانا 23 لگتا...حضرت عائشہ کا فرمانا کہ آپ صلی امیم دو معاملات میں ایک درہم ایک لاکھ درہم کے مقابلہ میں سبقت لے گیا 3 الله 16
خطبات مسرور جلد نهم 5 احادیث جب مہدی کا ظہور ہو تو برف کی سلوں پر سے بھی گذر کر چار خصائل جس میں ہوں تو وہ پورا پورا منافق.امانت میں 297-236 227 خیانت، جھوٹ، عہد شکنی، گالیاں دینا 53 ابو لہب کا آپ صلی امیم کے بارہ میں نازیبا الفاظ بیان کرنا47 جانا پڑے تو جانامیر اسلام کہنا آیت الکرسی، تمام آیات کی سردار آنحضرت صلی الم کو اذن ہو گا تب آپ صلی یہ یکم شفاعت حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ تم میں نبوت قائم رہے گی، پھر خلافت علی منھاج النبوۃ...228 98 کریں گے زیاد بن ابی زیاد کی روایت کہ ایک خادم کا کہنا کہ قیامت حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب تیز آندھی آتی 129،128 کے روز میرے شفاعت کریں فرمایا سجدوں کی کثرت سے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بادل آتے...میرے مدد کرو 229 سورۃ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا 129 129 ابوہریرہ کی روایت کہ قیامت کے روز میری شفاعت اس ایک زمانہ آنے والا ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے ہوگی جس نے اخلاص سے کہا اللہ کے سوا کوئی ایسے ہوں گے کہ جو ڈینگیں ماریں گے کہ بڑا قاری کون معبود نہیں 229 ہے...622 حضرت ابو ہریرہ کی روایت کہ ہر نبی کے لئے ایک خاص ایک مومن ایک نماز کے بعد اگلی نماز...اور جمعہ کے دعا ہوتی ہے.میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے قیامت بعد اگلے جمعہ اور ایک رمضان کے بعد اگلے رمضان کا فکر تک بچا کر رکھوں گا 232 میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں 265،106 کرتا ہے حضرت حذیفہ کی روایت کہ جب تک اللہ چاہے گا نبوت مہدی کے لئے چاند سورج گرہن کی پیشگوئی رہے گی پھر خلافت علی منھاج النبوۃ 480-292 291.98 حضرت ابو ہریرہ کی روایت کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مجدد بھیجے گا 294 417 297 (آنے والے مہدی کو غیر عرب میں تلاش کرنا297 تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا ہے 302-300 جنگ احزاب کے موقعہ پر نمازیں جمع کرنے کی روایت اور ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا کی تشریح 287 288 حضور انور کی وضاحت خسوف و کسوف کا نشان چاند ، سورج گرہن...290 جنگ خندق پر چار نمازیں جمع کرنے کا ذکر 566 566 جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تکریم حضرت علی کی روایت....اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو آگ کرے 348 مہمان کا جائز حق ادا کریں.ایک دن اور رات مہمان نوازی 348 سے بھر دے ہمیں صلوۃ وسطی سے روکے رکھا 567 جنگ خندق کے موقعہ پر نماز عصر...سورج غروب ہونے کے قریب...567 تین دن تک مہمان نوازی تم پر فرض 367،366،348 کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے یہ جائز نہیں کہ مہمان اتنا عرصہ مہمان نواز کے پاس رہے کلی نجات عطا کرے گا 366 کہ اس کو تکلیف میں ڈال دے جو بندے کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا 377 سورج گرہن کے موقعہ پر غلام آزاد کرو جنازہ گذرنے پر لوگوں نے تعریف کی تو فرمایا واجب ہو گئی 389 غلام کو طمانچہ مارنا...فرمایا آزاد کر دو 583 583 583 آنحضرت صلی می کنم کا گندم، مکئی کے ایک ڈھیر میں گندم گیلی غلام سے بھائیوں جیسا سلوک کرو جو پہنتے ہو انہیں نظر آنا...یہ دھوکا ہے جو مسلمان کو زیب نہیں دیتا 56 پہناؤ...کھلاؤ 584
خطبات مسرور جلد نهم احادیث غلام سے ان کے کام کے دوران حسن سلوک کرو....سخت میری امت ایک مبارک امت ہے ، یہ نہیں معلوم ہو سکے 584 گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری 477 کام دو تو ہا تھ بٹاؤ آنحضرت صلی ال کی آخری نصیحت...نمازوں اور بہتر لوگ میرے زمانے کے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئیں غلاموں کے بارہ 585 گے 477 کسی کے مسلمان ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ لا الہ ایک صحابی کا آنحضرت صلی الم کی خدمت میں حاضر ہو کر الا اللہ...کا اقرار کرتا ہو شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو عمر قرآن شریف آسمان پر اٹھ جائے گا 592 598 598 598 536 عربی الہامات ان فرعون و هامان...انا الفتاح....انك انت المجاز انی معك يا ابن رسول الله انی مغلوب فانتصر بشرى لك يا احمدی الله جرى في حلل الانبياء رب لا تذرنی فردا...فسحقهم تسحيقا قل جاء الحق.لا تيئسوا من خزائن رحمة ربي لك الفتح 464 557 228 243 507 557 556 185 507 606 241 557 يا ايها النبى اطعموا الجائع 312، 354 دعا کا کہنا فرمایا تم بھی اپنی دعاؤں سے میرے مدد کر و 484 487 490 493 جو مسجد کو صبح و شام جاتا ہے اللہ جنت میں اس کے لئے مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے قوم کا سر دار قوم کا خادم بہترین عبادت نماز ہے الہامات اردو، فارسی الہامات بر مقام فلک شده بعد گیارہ کی بابت حضور انور کی رہنمائی 564 563 سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو علی دین واحد 594 میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا “ 50 ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ آج کل ایم ٹی اے کے ذریعے یہ پیغام پہنچ رہا ہے 239 میں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں 505 ياتيك من كل فج..ينصرك رجال نوحي 185 527 $339
خطبات مسرور جلد نهم 7 انڈیکس مضامین اللہ تعالی الف مضامین امامت، تمہاری سیاسی پارٹیاں، تمہاری حکومت، تمہاری عددی اکثریت کوئی حیثیت نہیں رکھتی 559 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور ان کی شرائط اور آج دنیا کو آفات سے بچانے اور اس کا خدا سے تعلق علامات 2 جوڑنے کی ذمہ داری ہر احمدی پر ہے 404 اللہ تعالیٰ کا دنیا بھر میں لوگوں کی حضرت مسیح موعود کی ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے 340-346 وعدے ہیں طرف رہنمائی کرنا، مختلف واقعات خدا تعالیٰ کا خود لوگوں کے دلوں کو کھول کر جماعت کی رب العالمین کی ربوبیت کی وسعت 516 521 402 ہمارا انحصار خدا کے حضور جھکنے ، اسی کی مدد اور رحمت پر طرف لانا.اور اس کے چند واقعات غیر مسلموں، ہندو، عیسائیوں کی خدا کی طرف سے احمدیہ ہے 517.518 73 ہماری غمی اور خوشی خدا کی رضا کے حصول کی خاطر 386 جماعت کے حق میں رہنمائی اللہ کے فضل کے بدلے ہوئے معیار کی ایک مثال.ناجائز آخری آمد اللہ کا فضل اور جائز آمد حکومت کی تنخواہ...4 اه غلط اور جھوٹا الزام کہ احمدی آنحضرت کی بجائے مرزا اللہ کے فضل حاصل کرنے کے طریق.قربانی اور مصلح صاحب کو آخری نبی مانتا ہے اور اس کی تردید...605 آخرین کا تعلق اولین سے جوڑنے والا زندہ نبی 78 4 اور مہدی کی ضرورت و اہمیت اگر استہزاء کرنے والا دشمن باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ اسے بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا 45 آڈیٹر صدرانجمن آزادی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ آزادی کشمیر اور حضرت مصلح موعود شکر 330 649 88 آزادی مذہب، ضمیر اور غلامی سے آزادی ایک بڑی نعمت صحیح استعمال بھی ضروری ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر شکر گزار ہونے کا طریق 328 جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تو کبھی ختم ہے ہی نہیں ہوتی 376 581 اسلام میں آزادی / غلاموں کی آزادی کی تعلیم 581،589 اللہ تعالیٰ ایسی جماعت تیار کرنا چاہتا ہے جیسی آنحضرت ایک دن آئے گا کہ ہماری یہی عاجزی یہی غلامی دنیا کو حقیقی کے وقت میں کی 437 آزادی کا نظارہ دکھائے گی 590 اللہ تعالیٰ نے ( جماعت کے حق میں) ایک ہوا چلائی ہوئی آج کل کی آزادی.آزادی کے نام پر ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں جانا ہے، مسلم ،افریقن ممالک کے ہے 339 408 سر براہ، فوج اور مذہبی رہنماؤں کے لئے.589 خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ دنیا کو آج جتنی خدا کی ضرورت ہے اتنا ہی یہ خد اسے دور جا آزادی کا قیام: بانیان مذاہب یا انبیاء کا ایک اہم کام 581 رہی ہے 400 خاتم الکتب.قرآن، اور آزادی کا مضمون 582 اے مخالفین احمدیت! اُس خدا سے ڈرو جس کے سامنے قائد اعظم کا اعلان کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو تمہاری دولت، تمہارے گھمنڈ، تکبر، تمہاری مساجد کی آزادی.احمدیوں کے ساتھ ظلم 589
خطبات مسرور جلد نهم آفات: 8 انڈیکس مضامین احمدیت قبول کرنے پر مخالفت اور ان کی ثابت قدمی 186 آفات اور زلازل، دنیا کا ہر ملک قدرتی آفات کی لپیٹ میں احمدیت قبول کرنے کے بعد نو مبائعین میں غیر معمولی ہے.یہ صرف قدرتی عمل نہیں.مسیح موعود کے ساتھ تبدیلی اس کا گہر ا تعلق 242 4480440 احمدیت قبول کرنے کی برکت.رزق میں اضافہ 6 پاکستان میں لاقانونیت اور فساد، آفات کا نزول 511 احمدیت کی ترقی دیکھ کر بعض حکومتوں کا مولویوں کو رقمیں دنیا کو آفات سے بچانے کے لئے ایک انتہائی اہم کام دے کر افریقہ بھیجنا اور دیگر منصوبے...احمدیوں کے سپرد ہے.انسانیت کو تباہی سے بچانے کی احمدیت کی مخالفت، انبیاء کی تاریخ دہرائی جارہی ہے 555 صرف تعداد کا بڑھنا کافی نہیں ایمان اور روحانیت کی فکر کوشش 242.243 آج دنیا کو آفات سے بچانے اور اس کا خدا سے تعلق کرنی چاہیئے جوڑنے کی ذمہ داری ہر احمد کی پر ہے 404 185 324 ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگنا دسہا پانے والے احمدی 147 آفات کی وجہ سے پریشانی اور ایک مؤمن کارد عمل 128 سائنسدان موسمی تغیرات اور آفات.حکمت اور اسباب 130 احمدی طلباء (لڑکوں اور لڑکیوں) کی ایسوسی ایشن سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی حضور کی میٹنگ.احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے آم - حضرت مسیح موعود کا دوستوں کو آم کھلانا 351 قرآنِ کریم کو رہنما بنا لو ، اپنی تعلیم کے میدان میں، ریسرچ میں اس کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہارا آمدنی 88 335 اللہ کے فضل کے بدلے ہوئے معیار کی ایک مثال.ناجائز مقابلہ نہیں کر سکتا آمد اللہ کا فضل اور جائز آمد حکومت کی تنخواہ...4 احمدی کا حکومت / کونسل سے غلط بیانی سے مالی مفاد حاصل کر ناٹیکس صحیح طور پر ادانہ کرنا، بدنامی کا باعث پھر تبلیغ آمین بچوں کا قرآن کریم ختم کروا کے آمین کروانا...ماؤں اور کیونکر کرے گا باپوں کو قرآن کریم ختم کروانے کے بعد بھی اس بات کی پرا 456 احمد یہ جماعت کے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے لوگ جو نگرانی کرنے چاہئے اور فکر کرنی چاہئے کہ بچے پھر باقاعدہ اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں اور اس کی قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیں.616 آپ کی آمین پر لکھی گئی دعائیہ نظم "محمود کی مثال.پاکستان کے خدام اور عورتوں کے خطوط......203 آمین 386.385 احمدیوں کے سپر د کام.اپنی اصلاح 471 حضرت مصلح موعود کا اپنے بچوں کی آمین پر نظم لکھنا 392 اس وقت جماعت احمد یہ دوسرے مذاہب کے سامنے ابتلاء: جماعت پر ابتلاء کے دور کی شدت آتی ہے 499 اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے سینہ سپر ہے.اس کی اجتماع.خدام و لجنات جرمنی اور اجتماع خدام برطانیہ 462 تفصیلات اور جماعت کے مخالفین کار د عمل احساس کمتری 500 اسلام کی برتری اور جماعت احمدیہ کی کوششیں اور اسلام 511 احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے قرآن کریم کو رہنما بنا مخالف قوتوں کا اعتراف لو ، اپنی تعلیم کے میدان میں، ریسرچ میں اس کو سامنے احمدیت کے پیغام کو اکثریت ملکی قانون اور ملاں کے خوف رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہار ا مقابلہ نہیں کر سکتا 335 سے سمجھنا نہیں چاہتی احمدیت / احمدی 605 ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ جائزہ لیتا رہے کہ کہاں تک خیر احمدیت قبول کرنا.خد ا کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے 512 امت ہونے کا حق ادا کر رہا ہے 49
خطبات مسرور جلد نهم انڈیکس مضامین اللہ تعالیٰ ایسی جماعت تیار کرنا چاہتا ہے جیسی آنحضرت تیل کی کوئی دولت کام نہیں کرتی وہاں احمدی کا اپنی معمولی آمد کے وقت میں کی سے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیا ہو اچندہ کام کرتا ہے 512 اللہ تعالیٰ نے ( جماعت کے حق میں) ایک ہوا چلائی ہوئی جماعت احمدیہ کی (شہادتوں) کے بدلہ میں بے حساب 437 339 انعامات 463 ان کوششوں سے کئی گنازیادہ جماعت ترقی کر رہی ہے جو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مختلف ادوار کے مخالفین اور ہم کرتے ہیں 471 ان کا انجام...506 آج جماعت احمدیہ ہی ہے جس پر چو میں گھنٹے دن چڑھا رہتا جماعت احمدیہ کی مخالفت اور جماعت کی ترقی ایک غیر ہے.اور کوئی نہ کوئی پروگرام ہر وقت بنتے رہتے ہیں 328 احمدی کے تاثرات 87 اے مخالفین احمدیت! اس خدا سے ڈرو جس کے سامنے جماعت احمدیہ کی مخالفت ، تعارف کا باعث بنتی ہے 463 تمہاری دولت، تمہارے گھمنڈ، تکبر، تمہاری مساجد کی دنیا کو آفات سے بچانے کے لئے ایک انتہائی اہم کام امامت، تمہاری سیاسی پارٹیاں، تمہاری حکومت، تمہاری احمدیوں کے سپرد ہے.انسانیت کو تباہی سے بچانے کی عددی اکثریت کوئی حیثیت نہیں رکھتی ایک احمدی پر یہ کہہ کر جھوٹا مقدمہ کہ تم احمدی ہو اس دنیا میں پھر پھر کر احمدیت کے خلاف زہر اگل کر احمدیت سے بد ظن کرنے کی کوشش کرنے والوں کو تنبیہہ 345،346 559 559 کوشش 242.243 ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود کی نصائح کے مطابق اپنی دنیا میں ہر جگہ انڈو نیشیا ہو یا پاکستان، مؤمنانہ شان کا مظاہرہ جس کی روح آنحضرت کے عاشق صادق نے ایک احمدی زندگی ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیئے ایک احمدی کی ذمہ داریاں 198 480 کے دل میں پھونک دی ہے 61 آج دنیا کو آفات سے بچانے اور اس کا خدا سے تعلق اے دشمنانِ احمدیت! جو دنیا کے کسی بھی کونے میں بس 404 رہے ہو، تم احمدی پر جو بھی ظلم روا رکھنا چاہتے ہو رکھ جوڑنے کی ذمہ داری ہر احمدی پر ہے پیدائشی احمدی ہونا بعض اوقات ستیاں پیدا کر دیتا ہے لو لیکن ہمیں ہمارے ایمانوں سے سر موہٹا نہیں سکتے.ہر 200.199 اس کا علاج تحریک آزادی انڈو نیشیا میں جماعت احمدیہ کی خدمات اور تعمیر وطن اور...68.67 جگہ کے احمدی سے تم یہی جواب سنو گے کہ فَاقْضِ مَا انت قاض تم جو کر سکتے ہو کر لو.ہمیں ہمارے ایمانوں سے نہیں پھیر سکتے.انشاء اللہ تعالی 61.62 تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا کام جماعت احمد یہ کر سرکاری دفاتر یا پرائیویٹ کمپنی میں کام کے اعتبار سے ایک رہی ہے 470 جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تو کبھی ختم احمدی کا امانت کا معیار ممتاز کرنے والا...عالم اسلام اور ایک احمدی کی بے چینی...ہی نہیں ہوتی 376 54 103 دنیا کے ہر کونے میں جماعت احمدیہ کے قربانیوں کے معیار غیر مسلم ممالک میں احمدیہ جماعت کا اسلام کا پیغام پہنچانا بڑھتے چلے جارہے ہیں...272 اور نام نہاد مسلمان علماء کی مخالفت...607 اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور تمام دینوں پر برتری ثابت کرنے کا مخالفین احمدیت کے حملوں میں شدت کے موقعہ پر دعائیں کام، افریقہ، یورپ یا امریکہ یا دنیا کا کوئی بھی علاقہ ہو اسلام پڑھنے کی تحریک: کے دفاع کے لئے ، اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے 1- اللهم انا نجعلك...-2 رب اني مظلوم...احمدی سب سے آگے بے دھڑک کھڑ ا ہو جاتا ہے.جہاں 3.رب كل شيء...4 رب توفني مسلم....260
خطبات مسرور جلد نهم 10 انڈیکس مضامین مخالفین کی ہرزہ سرائی کے باوجو د جماعت کے قدم آگے الطيب مراکش، ایم ٹی اے العربیہ دیکھ کر بیعت کی 467 سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں 453 بل رو بسن (Bill Robinson) سینٹ تھامس مختلف ممالک میں سیاسی ابتری اور احمدیوں کے لئے رہنما (اونٹاریو)، کے پر جوش عیسائی دعا کے ذریعہ احمدیت ہدایات اور عریبک ڈیسک اور ہانی طاہر صاحب کے ساتھ تفصیلی گفتگو...154.153 معصوم احمدی بچوں پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام اور مقدمات کا سلسلہ.سکول سے نکالا جانا 605 قبول کرنا 211 برینڈی ولسن (Brandy Wilson) کینیڈا ، خواب میں اللہ تعالی ، رسول اکرم صلی ایام اور عیسی کو دیکھا اور اسلام احمدیت قبول کی 518 بيريفان صاحبہ، ناروے، ایم ٹی اے حضور انور نظام جماعت کی اطاعت کی اہمیت اور ضرورت 205 کی باتیں سن کر ، الحوار المباشر اور حضرت اقدس ہر احمدی احمدیت کا سفیر ہے ہمارے نمونے دنیا نے دیکھنے کی تصویر دیکھ کر احمدی ہونا...ہیں 332 ہم نے انصاف کے قیام اور اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا 514 468 تا مو ڈاکٹر سیر الیون استخارہ اور قبول احمدیت 211 حداد عبد القادر ، الجزائر، خواب میں آنحضرت صلی اللام کا فرمانا کہ ھذا رسول اللہ چار سال بعد ایم ٹی اے بھر پور کر دار ادا کرنا ہے ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے دیکھنا ، تصویر دیکھنا ، احمدیت قبول کرنا وعدے ہیں 521 281 حسنی مبارک ، مصر ، بیعت کر کے یوں لگا جیسے ہماری غمی اور خوشی خدا کی رضا کے حصول کی خاطر 386 آنحضرت صلی الم کے زمانہ میں رہ رہے ہیں ،استخارہ کا غلط اور جھوٹا الزام کہ احمدی آنحضرت کی بجائے مرزا جواب ملا یہ لوگ امام مہدی کے مکذب ہیں “ صاحب کو آخری نبی مانتا ہے اور اس کی تردید...605 مخالفت کا سامنالیکن تبلیغ کا شوق.465، 466 یہ خدا تعالیٰ کی جماعت ہے.جماعتی ترقی دیکھ کر دنیا دار اور حسین محمد صالح ، الجزائر، ایم ٹی اے پر الحوار المباشر مخالفین زیادہ بوکھلا گئے.ان کی تمام کوششیں اور دشمنیاں اور کتب تفسیر کبیر وغیرہ دیکھ کر احمدی ہونا..469 رائیگاں جائیں گی 522 خالد.ایم ٹی اے اور حضرت اقدس کی تصویر دیکھ 470 احمدیوں پر ایک یہ ظلم کہ قرآن اور اس کے رسول کی کر قبول احمدیت...ہتک خود کر کے الزام احمدیوں پر لگا دیتے ہیں 604 ڈیڈی سناریہ (Dedi Sunarya ، انڈونیشیا سیا نجوڑ احمدیت قبول کرنے کی ایک روجو خدا تعالیٰ نے چلائی ویسٹ جاوا، استخارہ اور قبول احمدیت 210 خواب / استخاره / دعا / ایم ٹی اے کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے والے سعادت مند : عزیزہ اڈہ سکندیانہ انڈونیشیا نے بذریعہ خواب احمدیت قبول کی 218 رنا محمد البواعنه صاحبہ ، اردن ، حضرت اقدس مسیح موعود کی تصنیف ”اسلامی اصول کی فلاسفی “ اور التبلیغ کے مطالعہ سے شرح صدر پر دعا ، بذریعہ 212 احمد ابراہیم ، ایم ٹی اے اور استخارہ قبول احمدیت 465 رؤیا قبول احمدیت احمد با کیر آف سیریا کا ذکر خیر ، یہ بھی بذریعہ استخارہ رونی پیارانی، تیسرے احمدی شہید انڈونیشیا، ان کا ایک خواب جس میں حضرت مسیح موعود کو احمدی ہوئے 220 72 اسامہ - الجزائر، ایم ٹی اے اور تفسیر کبیر کے مطالعہ دیکھا...بذریعہ خواب قبول احمدیت کے ذریعہ قبول احمدیت...زیلا ابو بکر، برکینا فاسو بذریعہ استخاره قبول احمدیت 216 466
خطبات مسرور جلد نهم 11 انڈیکس مضامین سامح محمد ، مصر ایم ٹی اے اور جماعت کی ویب عبد اللہ فاتح ، الجزائر ، حضور کی کتب ”خطبہ الہامیہ “ سائیٹ کے ذریعہ احمدیت کا تعارف بذریعہ خواب ”الھدی“ پڑھ کر کہنا کہ یہ تحریر کسی جھوٹے کی نہیں ہو سکتی ، خواب میں حضرت مسیح موعود کو احمدیت قبول کرنا 219 اور سامبا جالو (Samba Jallow گیمبیا ، بذریعہ خواب دیکھ کر احمدیت قبول کی احمدیت قبول کرنا 342 278 عبد الله منشی حضرت خواب کے ذریعہ حضرت مسیح سر باد باش خود بیعت نہ کی لیکن دوسروں کو تبلیغ موعود کی بیعت کرتے 180 رہے اور بیعت کرواتے، ایک دن خواب عبد المجید مصر، خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کی 517.دیکھی کہ احمدیت وہ سمندر ہے اور بیعت کر لی 516 سلومت کشتو بوئیو Salmat Kyshtobaer، قرغزستان بذریعہ خواب احمدیت قبول کی 218 عبد الرحیم ، عراق ، خواب کے ذریعہ احمدی 282 عرقوب بن عمر ،الجزائر ایم ٹی اے اچانک دیکھا جو عیسائیت کا مقابلہ کر رہا تھا اور بغیر کسی خواب حضرت شریفی عبد المؤمن الجزائر ،خواب کے ذریعہ قبول احمدیت 285 ابو بکر کی سنت کے مطابق امام مہدی کو قبول کرنے 281 شمس الدین صدیق 25 سال قبل خواب میں حضرت کا اعلان مسیح موعود کو چاند میں بیٹھ کر آسمان سے اترتے علی کمارا (علیو کمارا گیمبیا، بذریعہ خواب حضور کی دیکھا اب ایم ٹی اے دیکھ کر یہ تعبیر کی کہ وہ ایم ٹی تصویر دیکھ کر احمدی ہوئے اے تھا 281 470 عمانوئل روو یتھس Emmanuel Rovithis کینیڈا، عوض احمد، فلسطین ، بچپن کا خواب کہ امام مہدی خلیفہ خامس کی تصویر خواب میں اور...احمدی ہو کے سیاہی بنو گے ، ایم ٹی اے دیکھ کر احمدیت قبول کرنا...465 عبد الصمد مولوی بین بذریعہ خواب قبول احمدیت 217 عبدل سلیم ، نجی سے لاس اینجلس امریکہ آئے اور جانا 518 عیسی جوف ، گیمبیا ، خواب کے ذریعہ احمدی، خواب میں حضرت مسیح موعود کو دیکھا 276-275 عیسائی ہو گئے اور پھر اسلام قبول کیا دعا استخارہ کی ، غریب محمد ، عراق، ایم ٹی اے، استخارہ، آنحضرت کو 209 خواب میں دیکھا....470.469 احمدیت قبول کی عبدہ بکر محمد بكر، مصر کے ایک دوست کا استخارہ کرنا حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھ کر احمدیت قبول209 209 اور احمدیت کی سچائی کا علم ہونا قلاب ذبیح یوسف، الجزائر ، خواب ایک سال تک عبد القادر حداد، الجزائر ، خواب میں رسول اللہ صلى العلم دیکھا ، کئی سال بعد ایم ٹی اے پر دیکھا عین اس اور امام مہدی کو دیکھا...احمدیت ایم ٹی اے دیکھ کے مطابق ، ایک مصطفیٰ ثابت صاحب اور دوسرے کر قبول کی 218 خلیفہ رابع 284 عبد القاعد احمد ، یمن، ایم ٹی اے کے ذریعہ ٹی وی پر حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھ کر کہا کہ کا بورے موسیٰ.برکینا فاسو.والد کا وصیت کرنا کہ امام مہدی کی خبر سنو تو تحقیق کر کے قبول کر لینا.214 جھوٹا نہیں، مبشر خوا ہیں اور قبول احمدیت عبد الله ، مراکش، جماعتی تعلیم اور تفسیر سے متاثر ، خواب میں حضرت مسیح موعود کو دیکھنا اور احمدیت ایم ٹی اے دیکھ کر بیعت کی 467 قبول کرنا 277
خطبات مسرور جلد نهم 12 انڈیکس مضامین سکتا کونے ابراہیم، خواب میں بزرگ کا کہنا کہ میں عیسی زمبابوے ایک عیسائی ہونے والا شخص.تین بار نبی ہوں...تصویر دیکھ کر کہا یہ وہی ہیں...بیعت تاریخ مقرر ہونے کے باوجود عیسائی نہ ہو خواب، حضور اقدس کی تصویر دیکھ کر احمدی ہونا 343 471 اور تعویز گنڈے سے توبہ مالک صاحب ، عراق کے ایک شاعر ، ایم.ٹی.اے کے سرائے محمود.گیمبیا کے ایک گاؤں میں خواب کے ذریعے جماعت سے تعارف.پھر اچانک ایک روز ایم.ٹی.اے ذریعہ احمدی ہونا 284 بذریعہ خواب احمدیت 342 341.340 کا عربی چینل اتفاق سے مل گیا.اس وقت سے ہم حضرت مسیح قرغزستان - آرتر صاحب.دعا مانگنے کی وجہ سے موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہیں.محمد علی تنزانیہ، خواب میں مسیح موعود کو دیکھ کر خواب میں حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ ثانی احمدی، مخالفت اور والد کا جائیداد سے محروم کرنا 276 کو دیکھا تصویر دیکھ کر قبول احمدیت محمود یحیی ، یمن ، استخارہ کرنا اور بذریعہ خواب قبول یوگنڈا.کے ایک شخص کا خواب کے مطابق...احمدی احمدیت 214 مصطفی حریری ، خواب میں آنحضرت صلی ایم کی چادر ہونا فیملی سمیت اخلاص ووفا 283 518 میں امام مہدی کو دیکھنا ، احمدیت قبول کرنا 280 احمد یہ جماعت کے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے لوگ جو ہالہ ، مصر ، ایم ٹی اے العربیہ اور خواب کے ذریعہ اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں اور اس کی احمدی...344 مثال.پاکستان کے خدام اور عورتوں کے خطوط...203 یسین محمد شریف سیریا ، بذریعہ خواب قبول احمدیت اخلاق 285 ہمارا علم کس کام کا ہے اگر موقعے پر وہ ہمارے اخلاق کو یاسر، عمان، ایم ٹی اے دیکھ کر قبول احمدیت 468 ظاہر نہیں کرتا اسماعلم یاسر برہان الحریری، شام ، دعا کرنا اور بذریعہ خواب احمدیت قبول کرنا 212 542 پاکستان سے آکر اسائلم لینے والے کبھی نہ بھولیں کہ یاسمین صاحبه، لبنان ، دعا اور بذریعہ خواب قبول جماعت کے بغیر ان کی کوئی زندگی نہیں ہے 333 احمدیت 214 استخاره بیٹی جاتے (Yahya Diabate) خواب کے ذریعہ احمد ابراہیم ، ایم ٹی اے ، بذریعہ استخارہ قبول احمدیت 465 احمدیت قبول کرنا...احمدیت خدا کی طرف سے احمد با کیر آف سیریا کا ذکر خیر ،یہ بھی بذریعہ استخارہ احمدی ہوئے 220 بھجوائی ہوئی خوش بختی ہے اسے قبول کرلو ،پورا حسنی مبارک ، مصر ، بیعت کر کے یوں لگا جیسے گاؤں احمدی ہو گیا 516 آنحضرت صلی ان کے زمانہ میں رہ رہے ہیں ، استخارہ کا پور تونو دو (بین)، لطیفہ نامی خاتون کا خواب میں جلسہ جواب ملا ”یہ لوگ امام مہدی کے مکذب ہیں “ یو کے عالمی بیعت کا منظر اور حضور انور کو دیکھنا اور مخالفت کا سامنالیکن تبلیغ کا شوق.466.465 ظاہری طور پر ایسے ہی دیکھ کر احمدی ہونا 344 زیلا ابو بکر، برکینا فاسو بذریعہ استخارہ قبول احمدیت 216 ڈوری.برکینا فاسو کے گاؤں پوٹی ٹینگا.ایک معمر عبدل سلیم ، نجی سے لاس اینجلس امریکہ آئے اور بزرگ کا بذریعہ خواب احمدیت اور سو کے قریب عیسائی ہو گئے اور پھر اسلام قبول کیا دعا استخارہ کی ، مزید احمدی کرنا 344 احمدیت قبول کی 209
خطبات مسرور جلد نهم 13 انڈیکس مضامین عبدہ بکر محمد بكر، مصر کے ایک دوست کا استخارہ کرنا مغربی ممالک کا مسلمانوں اور اسلام کو ایک بھیانک اور شدت پسند گروہ اور مذہب کے طور پر پیش کرنا اور 209 اور احمدیت کی سچائی کا علم ہونا غریب محمد، عراق، ایم ٹی اے، استخارہ، آنحضرت کو پاکستان / افغانستان کو مثال کے طور پر پیش کرنا...27 یہ زمانہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے، جس میں خدا نے 470.469 خواب میں دیکھا....شام کے ایک دوست کا استخارہ آنحضرت کا خواب میں اسلام کی برتری تمام دینوں پر ثابت کرنی ہے 510 فرمانا کہ اس زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے صرف اسلام پر الزام کہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے اس کی تردید مرزا غلام احمد ہی سفینہ نجات ہیں استغفار 279 238 اور چین میں اسلام پھیلنے کی مثال اسلام زندہ مذہب اور محمد زندہ رسول ہیں اسلام کا دفاع کرنے والا احمد کی ہے.478 78 609 استغفار کی پر معارف تفسیر مختلف مسائل کے بارہ میں حضور کا فرمانا کہ کثرت سے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوششوں کا مقابلہ کرنے درود / استغفار اور پانچوں نمازیں پڑھا کریں 312 کے لئے اس زمانے کے فرستادے کو قبول کریں 197 حضور کا بیان فرمودہ وظیفہ درود شریف، الحمد شریف، اسلام کی سچائی اب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے دنیا استغفار، قرآن کا مطالعہ اور تلاوت اور لاحول 639 میں قائم ہوتی ہے 136 آنحضرت صلی الم کا فرمانا میں ان منافقین کے لئے ستر سے اسلام کا پیغام محبت، احسان، عفو و صبر اور دعاسے پہنچایا 41 زیادہ مر تبہ استغفار کروں گا...اسلام میں آزادی کی تعلیم استقامت ، 21 اسلام ہمیں انبیاء کی عزت کرنا سکھاتا ہے 589.581 610 139 401 قرغزستان کی ایک نو احمدی غیرت مند اور نیک فطرت اسلام، قرآن اور آنحضرت کے خلاف مخالفین کے بغض نو مبائع بچی، باحیا لڑکی جس نے غیر مسلم امریکن کی شادی کا اظہار سے انکار کر دیا...ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے اسلام میں آزادی / غلاموں کی آزادی کی تعلیم 581،589 اب دین محمد ہی دنیا کے فسادوں کو دور کرنے کے لئے قرغزستان کی لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں.لیکن اس بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش آخری امید گاہ اور علاج ہے کو ٹھکرادیا.پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے جرمنی اور یورپ میں اسلام کے دفاع کی ضرورت ہے جس کے لئے دعا کی جاتی ہے، دعا کی جانی چاہئے..443 دعاء عمل اور علم سے اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیم اگر استہزاء کرنے والا دشمن باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ اسے استهزاء بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا 45 آگے بڑھیں علم حاصل کریں...اسلام کی برتری کو تمام مذاہب پر ثابت کریں دنیا کے سامنے پیش کریں 15 تو 520 اس وقت جماعت احمد یہ دوسرے مذاہب کے سامنے آج کل کے پیر جنہوں نے اسلام کو استہزاء کا نشانہ بنایا.اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے سینہ سپر ہے.اس کی جنت کا لالچ دے کر دوزخ کی طرف رہنمائی اسلام 482 103 عالم اسلام اور ایک احمدی کی بے چینی...عالم اسلام اور مسلمان ممالک کی بے بسی اور 95 500 تفصیلات اور جماعت کے مخالفین کار د عمل اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور تمام دینوں پر برتری ثابت کرنے کا کام، افریقہ، یورپ یا امریکہ یاد نیا کا کوئی بھی علاقہ ہو اسلام کے دفاع کے لئے ، اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے
14 انڈیکس مضامین خطبات مسرور جلد نهم احمد کی سب سے آگے بے دھڑک کھڑا ہو جاتا ہے.جہاں حضرت مسیح موعود کا گورنمنٹ کی اطاعت کی ہدایت و تیل کی کوئی دولت کام نہیں کرتی وہاں احمدی کا اپنی معمولی نصائح 163.162 آمد سے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیا ہو اچندہ کام کرتا ہے پاکستان یا دوسرے ممالک میں جب احمدیوں کو یہ کہا جاتا ہے تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو ہم یہ بات ماننے 111 512 607 غیر مسلم ممالک میں احمدیہ جماعت کا اسلام کا پیغام پہنچانا کو تیار نہیں.ہم مسلمان کہتے ہیں.یا کلمہ نہ پڑھو.ہم اور نام نہاد مسلمان علماء کی مخالفت...پڑھتے ہیں.یا ایک دوسرے کو سلام نہ کہو، یا قرآن کریم اسلام کی برتری اور جماعت احمدیہ کی کوششیں اور اسلام نہ پڑھو.تو یہ ہمارے مذہب کا اور دین کا معاملہ ہے.اس بارہ میں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے اطاعت کی ضرورت نہیں.لیکن یہاں بھی ہم بغاوت نہیں کرتے.صرف ان معاملوں میں ہم کبھی کسی قسم کے قانون کو مان ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ شریعت کا معاملہ ہے.اللہ اور رسول کے مخالف قوتوں کا اعتراف 511 514 ہم نے انصاف کے قیام اور اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہے اسلامی ممالک کی تنظیم.نام کی.جو کر دار ادا کرنا چاہیے تھا حکموں کا معاملہ ہے.جہاں تک ملک کے دوسرے قوانین وہ نہیں کیا 95.96 کا تعلق ہے، اس کے باوجود ہر احمدی ہر قانون کی پابندی اسم اعظم کی تشریح.انسان کا اسم اعظم استقامت ہے 429 کرتا ہے.اصلاح 537 157 افسر صاحب، جلسہ برطانیہ کے لئے دعا کی تحریک 370 افک 21 اصلاح اور استقامت کا صحیح طریق جماعت کی نیک نامی ثابت کرنے کے لئے اپنی ذاتی اصلاح آنحضرت صلی اینم کا واقعہ افک پر مسجد نبوی میں تشریف کی طرف بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے 456 لا کر فرمانا کہ مجھے میرے اہل کے بارہ میں بہت دکھ دیا گیا احمدیوں کے سپر د کام.اپنی اصلاح اصلاح و ارشاد مرکزیه اصلاح و ارشاد مقامی اطاعت اطاعت اور اس کا معیار اطاعت کی اہمیت 471 579.578 579 204 262 ہے.الزام 21 معصوم احمدی بچوں پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام اور مقدمات کا سلسلہ.سکول سے نکالا جانا 605 غلط اور جھوٹا الزام کہ احمدی آنحضرت کی بجائے مرزا صاحب کو آخری نبی مانتا ہے اور اس کی تردید...605 احمدیوں پر ایک یہ ظلم کہ قرآن اور اس کے رسول کی سلمہ بن یزید الجنی کی روایت اگر حکمران ہمیں ہمارا حق نہ 155 ہتک خود کر کے الزام احمدیوں پر لگا دیتے ہیں 604 اسلام پر الزام کہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے اس کی تردید دیں...فرمایا ان کی اطاعت کرو...نظام جماعت کی اطاعت کی اہمیت اور ضرورت 205 اور چین میں اسلام پھیلنے کی مثال اطاعت در معروف اور اس کی وضاحت 492،206 حضرت مصلح موعودؓ کی انگریزوں کے اسلام قبول کرنے 204 کی امیدیں 478 92 اطاعت کی معراج خلیفہ اول میں.الحوار المباشر - 3-MTA کے ذریعہ مسلمانوں کے اطاعت کے معیار بلند کرنے کی برکت اور فائدہ 367 موجودہ حالات پر روشنی حکومت، قانون کی اطاعت اور دائرہ کار 161،159 الشركة الاسلاميه دینی اور دنیاوی حکام کی اطاعت کی بابت احکامات 162 الہی جماعتوں کی نشانی.مخالفت 183 625 106
خطبات مسرور جلد نهم 15 انڈیکس مضامین السر : ابولہب کا طاعون جیسی بیماری السر سے ہلاک ہونا اور عبرتناک انجام ، گڑھے میں پھینک دیا 58 کس طرح اصل امن دنیا میں قائم ہو سکتا ہے قرآنی تعلیم الہام کیا ہے.اور مغربی طاقتوں کا دوہر ارو یہ...531 کاتب قرآن کا الہام ہونے کا گمان اور ہلاکت.قبر نے بھی امن کے قیام کے لئے بنیادی ضرورت.تقویٰ کی 96 امین کے قیام اور پر امن معاشرے کے لئے قرآن کی اعلیٰ اس کو باہر پھینک...حضرت عمرؓ کو الہام ہوتا تھا 598 599 تعلیم 146 الیکٹرانک میڈیا، انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعہ دشمن احمدیت ملکوں کے امن برباد کرنے اور مسلمان ملکوں کے اندر کی کوشش اور...امام 269 جنگ کا بنیادی سبب.نفاق 57 امیر.حضرت ابن عباس کی روایت جو شخص امیر کی بات کو تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ عیسی بن مریم کا زمانہ پائے گا اور وہی امام مہدی ہو گا...77 نا پسند کرے تو اس کو صبر کرنا چاہئے 155 اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملنا اللہ کا احمدی پر ایک انبیاء دیکھیں زیر لفظ ”نبی“ احسان عظیم ہے تمام زندگی بھی شکر ادا کریں تو کم 297 امام الزمان رسول بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی جو لوگوں کی ایک شخص کی غلطی سے پوری انتظامیہ کو غلط قرار نہیں دینا ہدایت کے لئے مامور ہوتے ہیں 298 چاہیے زمانے کے امام کو اور مسیح موعود کو مان کر ہی خوش ہو ناکافی انتقام 489 315 اگر استہزاء کرنے والا دشمن باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ اسے نہیں...مسلسل کوشش...حلب کے ایک گدی نشین کا امام مہدی ہونے کا بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا دعویٰ کرنا اور بیوی سمیت ہلاک ہو جانا امام الصلوة 285 انٹرنیٹ 45 الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ دشمن احمدیت 269 حضرت مصلح موعودؓ کا بیان فرمودہ واقعہ ایک بزرگ کی کوشش اور...کا نماز پڑھنا اور امام الصلوۃ کا خیالات میں امرتسر، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، موبائل فون وغیرہ کا بے جا استعمال اور دہلی جانا، بزرگ کو کشفا پتہ لگ جانا ،الگ ہو کر نماز بچوں اور خدام کا حضور کی نصیحت پر مثبت رد عمل.....525 پڑھنا فرمانا کمزور بوڑھا ہوں آپ کے ساتھ اتنا سفر اس ٹی وی ، انٹرنیٹ کے دور میں صبح با قاعدہ تلاوت کرنا.اسے قرآن کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا 617 نہیں کر سکتا...امانت 249 انٹرویو.حضور انور کی والدہ محترمہ کا انٹرویو 397 ” انجام نیز دیکھیں احمدیت / مخالفین“ امانت کا حق ادا کرنے کی اہمیت اور کیفیت 491،492 سرکاری دفاتر یا پرائیویٹ مینی کام کے اعتبار سے ایک جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مختلف ادوار کے مخالفین اور 54 احمدی کا امانت کا معیار ممتاز کرنے والا...ہماری امانت کے معیار بہت اعلیٰ ہونے چاہیئں 54 امت امت کی بد قسمتی اور المیہ...138 ان کا انجام...انڈیکس 506 سید عبد الحی شاہ صاحب کا مختلف کتب تفسیر کبیر وغیرہ کا انڈیکس بنانا.ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ جائزہ لیتا ر ہے کہ کہاں تک خیر انسان امت ہونے کا حق ادا کر رہا ہے 49 628 انسان کو انسان کامل بنانے کا کار گر نسخہ سورۃ فاتحہ 436
خطبات مسرور جلد نهم انسانیت 16 انڈیکس مضامین اے دشمنانِ احمدیت! جو دنیا کے کسی بھی کونے میں بس دنیا کو آفات سے بچانے کے لئے ایک انتہائی اہم کام رہے ہو ، تم احمدی پر جو بھی ظلم روا رکھنا چاہتے ہو رکھ احمدیوں کے سپرد ہے.انسانیت کو تباہی سے بچانے کی لو لیکن ہمیں ہمارے ایمانوں سے سر موہٹا نہیں سکتے.ہر جگہ کے احمدی سے تم یہی جواب سنو گے کہ فَاقْضِ مَا کوشش 242.243 انسپکٹر تحریک جدید انڈیا.کا مختلف مقامات کا دورہ اور انت قاضٍ تم جو کر سکتے ہو کر لو.ہمیں ہمارے ایمانوں سے نہیں پھیر سکتے.انشاء اللہ تعالیٰ احمدیوں کے اخلاص و وفا کی مثالیں انصاف 549 61.62 اس قسم کا ایمان حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے ہم نے انصاف کے قیام اور اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا رہیں...بھر پور کردار ادا کرنا ہے انعام / انعامات 514 ایم ٹی اے 499 625.593.508 ایم ٹی اے.وسیع اور عظیم کام جو خدا نے اس جماعت کے جماعت احمدیہ کی شہادتوں) کے بدلہ میں بے حساب سپرد کیا انعامات 463 544 ایم ٹی اے.وسیع تبلیغ کا ذریعہ.دنیا کے ہر کونے میں حضرت مصلح موعودؓ کی انگریزوں کے اسلام قبول کرنے احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے کی امیدیں انفاق نیز دیکھیں ”چندہ / قربانی“ 92 ایم ٹی اے کی افادیت 545 523 ایم ٹی اے دیکھ کر احمدیت قبول کرنا 464،212 ت471 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور ان کی شرائط اور ایم ٹی اے نہ دیکھنے کی مولویوں کی کوشش علامات انقلاب 2 241 ایم ٹی اے.اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے والا.اور 295 اس کے بارہ میں تاثرات یورپ میں بیعت کرنے والوں میں لمحوں میں پیدا ایم ٹی اے.پر جاری مختلف پروگرام لائیو.ان میں کئی ہونے والا روحانی انقلاب 339 605 Caller حقیقت کو سمجھ کر بیعت کرتے ہیں ایڈیشنل وکیل المال پاکستان کا دورہ سندھ اور مالی قربانیوں ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھ کر کی کے واقعات ایسوسی ایشن 550 تصویر کا گمان ہونا...احمدی طلباء کی ایسوسی ایشن سے حضور کی میٹنگ 335 ایم ٹی اے جرمنی کی ترقی اور تیزی ایم ٹی اے جرمنی کے کارکنوں کی محنت ایمان 468 336 335 186 نیکیاں بجا لانے اور ایمان کی حفاظت خود بھی اور اپنی ایم ٹی اے کی عرب ممالک میں اسلام کی تائید میں نسلوں اور ماحول میں بھی...کوشش کرنے والے 48 جوابات اور لوگوں کا خوشی و فخر کا اظہار ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خد اتعالیٰ پر ایمان لانا ایم ٹی اے.( جلسہ برطانیہ) پر پیٹرن اور پریزینٹر بدلنے ہے 306 کو پسند کیا جانا 382 حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کی طرف اللہ تعالیٰ کا دنیا ایم ٹی اے کا جلسوں اور دیگر پروگرام دکھانے کے ذریعہ بھر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا، مختلف واقعات 340،346 دنیائے احمدیت کو ایک کرنے میں کردار صرف تعداد کا بڑھنا کافی نہیں ایمان اور روحانیت کی فکر الحوار المباشر - 3-MTA کے ذریعہ مسلمانوں کے کرنی چاہیئے 324 موجودہ حالات پر روشنی 382 183
خطبات مسرور جلد نهم 17 انڈیکس مضامین ایم ٹی اے کی بابت ایک دوست کا تبصرہ کہ اس کے برائی بالمقابل باقی چینلز مولویوں کے پروگرام خرافات حدیث کہ تم میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو ہاتھ سے بدی کو رو گے.اس سے ایک غلط استدلال اور درست مفہوم 158.465 ایوارڈ.ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگنا دسہا پانے والے معاشرتی برائیاں جن سے بچنا بہت ضروری ہے 541،542 ں جن سے بچنا احمد کی سائنسدان ب، پ، ت،ٹ 147 برکت احمدیت قبول کرنے کی برکت.رزق میں اضافہ 6 باسی روٹیاں مہمانوں کو پیش کرنا اور فرمانا کہ باسی کھا لینا بغاوت سنت ہے 316 حضور بغاوت کو پسند نہ فرماتے.176 بٹیر.مقدمہ گورداسپور کے دوران سب مہمانوں کے لئے بیعت کی اس شرط کو یاد رکھنا چاہئے کہ...بغاوت کے بٹیر پکائے گئے بچے بچوں سے حضور کا باتیں کرنا...پاس بٹھانا بچوں کی بھی نگرانی.نماز و تلاوت وغیرہ 360 647 492 605 طریقوں سے بچتا رہے گا 162 پاکستان یا دوسرے ممالک میں جب احمدیوں کو یہ کہا جاتا ہے تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں.ہم مسلمان کہتے ہیں.یا کلمہ نہ پڑھو.ہم معصوم احمدی بچوں پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام اور پڑھتے ہیں.یا ایک دوسرے کو سلام نہ کہو، یا قرآنِ کریم مقدمات کا سلسلہ.سکول سے نکالا جانا نہ پڑھو.تو یہ ہمارے مذہب کا اور دین کا معاملہ ہے.اس ٹی وی ، انٹرنیٹ ، موبائل فون وغیرہ کا بے جا استعمال اور بارہ میں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے اطاعت کی ضرورت بچوں اور خدام کا حضور کی نصیحت پر مثبت رد عمل.....525 نہیں.لیکن یہاں بھی ہم بغاوت نہیں کرتے.صرف اِن حفیصو صاحب کا بچہ کم ہو جانا اس پر مسیح موعود کی معاملوں میں ہم کبھی کسی قسم کے قانون کو مان ہی نہیں سچائی کا واسط دے کر دعا کرنا اور بچہ مل جانا، امام سکتے کیونکہ یہ شریعت کا معاملہ ہے.اللہ اور رسول کے حکموں کا معاملہ ہے.جہاں تک ملک کے دوسرے قوانین کا تعلق ہے، اس کے باوجود ہر احمدی ہر قانون کی پابندی مہدی کی صداقت کا زندہ معجزہ 448 181 بچوں کو روزہ نہ رکھنے کا حکم حضرت مسیح موعود کا اور حضرت ام المؤمنین کا بچوں سے شفقت بد اخلاقی 181 کرتا ہے.بغض 157 اسلام، قرآن اور آنحضرت کے خلاف مخالفین کے بغض کا اظہار بدظنی بعض دفعہ بہت دور لے جاتی ہے.اس سے بچنا بہشتی کہ 315 139 عبد الستار شاہ سید حضرت خلیفہ اول کی خدمت کرنا اور چاہئے.استغفار کرنا چاہئے دنیا میں پھر پھر کر احمدیت کے خلاف زہر اگل کر احمدیت سے حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ یہ بہشتی کنبہ ہے116، 117 بد ظن کرنے کی کوشش کرنے والوں کو تنبیہہ...345،346 بدنامی بہشتی مقبره ربوه 648 بہشتی مقبره یا مقبرہ موصیان میں دفن ہونے والوں کے 273 میاں بیوی کے جھگڑے...یہ بھی بدنامی کا باعث 456 لئے حضرت مسیح موعود کی دعا احمدی کا حکومت کو نسل سے غلط بیانی سے مالی مفاد حاصل پہلی کر نائیکس صحیح طور پر ادانہ کرنا، بدنامی کا باعث پھر تبلیغ حضرت مسیح موعود جس بہلی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے کیونکر کرے گا 456 اس کے بیل سفید رنگ کے تھے 315
خطبات مسرور جلد نهم بیت الریاضت، دارا مسیح بیت بازی 18 446 انڈیکس مضامین کے ایک ہم مکتب پٹواری کے بیٹے کا ذکر پرائیویٹ سیکر ٹری.دفتر 4 649 حضرت ام ناصر کا شعر کا شوق اور سفر سیالکوٹ کا ایک سرکاری دفاتر یا پرائیویٹ مینی میں کام کے اعتبار سے ایک واقعہ.ربوہ لجنہ کا بیت بازی میں اول...بے چینی 394 103 احمدی کا امانت کا معیار ممتاز کرنے والا...پرده 54 پردہ اور اس کی اہمیت.پردہ اور حجاب فرض ہے ، حیاء کا عالم اسلام اور ایک احمدی کی بے چینی...ایک سچے مسلمان کے لئے کسی رسول کی اہانت.سخت بے اظہار تمہاری شان ہے.لجنہ کی عہدیداران کے لئے ایک چینی کا باعث ہے بیعت 27 ضروری نصیحت 491 حضرت مصلح موعودؓ کی اپنی ایک بیٹی کو پردے کی بیعت کرنے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود کی نصائح 237 بابت بصیرت افروز نصیحت بیعت کی اس شرط کو یاد رکھنا چاہئے کہ...بغاوت کے پرنسپل جامعہ احمدیہ طریقوں سے بچتا رہے گا 162 پریس 575 631 بیعت کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر و.حضور کاش یہ جرأت پاکستان کے لوگوں اور پریس میں بھی پیدا کے ارشاد کی روشنی میں نیک تبدیلی پیدا کرنے والے ہو جائے احمدی بیعت کے بعد حضرت اقدس کا دعا کرانا بیعت کے بعد ہماری ذمہ داریاں بیعت کی شرائط اور ایک احمدی کی ذمہ داری 439 321 199 162 ضیاء الاسلام پر لیں.مینیجر ، پرنٹر ضیاء الاسلام پر میں.ربوہ پوپ کا پاکستان کی حکومت سے مطالبہ 64 625 566 27 حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ جرمنی جلسہ کے نیک اثر کے نتیجہ میں لوگوں کا بیعت کا پوپ کو خط لکھنا جس میں اسلام اور بانی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بیان....کرنے کا اظہار بیوی 332 610 کبابیر کے امیر صاحب کا اٹلی جا کر پوپ سے ملنا اور بیویوں پر ظلم کرنے والے احمدیوں کو حضور انور کی قرآن کریم کا تحفہ پیش کرنا...اور حضور انور کا نصیحت.بظاہر شریف اور ہدایت پر قائم لیکن...302 پیغام...ویٹیکن کے پادریوں کو بھی.اٹالین اور میاں بیوی کے جھگڑے...یہ بھی بدنامی کا باعث 456 اسرائیلی اخبارات میں تشہیر اپنے اہل اور گھر والوں سے حسن سلوک کی تلقین اور پیدا ستی احمدی اہمیت 301 610.609 پیدائشی احمدی ہونا بعض اوقات ستیاں پیدا کر دیتا ہے بھیڑیوں کا دشمن رسول کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا 47 اس کا علاج پاکبازی پیر 199.200 ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خد اتعالیٰ پر ایمان لانا آج کل کے پیر جنہوں نے اسلام کو استہزاء کا نشانہ بنایا.ہے پٹواری 306 جنت کا لالچ دے کر دوزخ کی طرف رہنمائی 482 پیروں کا جال اور جاہلوں کا حال.جن میں پڑھے لکھے بھی حضرت مسیح موعود کے حضور ایک پٹواری کی مالی قربانی.اور سیاستدان لیڈر بھی پاکستان، ہندوستان اور مسلمان اور ہمارے ملک میں پٹواریوں کی عام شہرت.حضور انور ممالک بھی 483
خطبات مسرور جلد نهم 19 انڈیکس مضامین پیشگوئی مصلح موعود 80.82 کاروباری مثال 55 پیشگوئی مصلح موعود اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں.اپنے تجدید دین.ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود کا پیغام اور 91 اس خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے میں کوشاں ہو پیشگوئی مصلح موعودؓ ایک عظیم الشان پیشگوئی اسلام کی نشاۃ گا.اور پھیلانے کی طرف توجہ دے رہا ہے آپ کا اور آپ کی خلافت کا سلطان نصیر بن رہا ہے اور تجدید دین کا ہی کام اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے پیشگوئی مصلح موعودؓ کے ایک سو پچیس سال کر رہا ہے پین افریقن ایسوسی ایشن.جو خلیفہ رابع کے وقت میں تحریک بنائی گئی متاثرات 76 76 581 296 مخالفین احمدیت کے حملوں میں شدت کے موقعہ پر دعائیں پڑھنے کی تحریک جماعت احمدیہ کی مخالفت اور جماعت کی ترقی ایک غیر 1- اللهم انا نجعلك 2- رب انی مظلوم 3.رب احمدی کے تاثرات تاریخ 87 كل شئی...4.رب توفنی مسلماً...260 پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو دعاؤں کی خاص احمدیت کی مخالفت ، انبیاء کی تاریخ دہرائی جارہی ہے 555 تحریک اور نفلی روزے کی تحریک.دیگر دنیا بھر کے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مختلف ادوار کے مخالفین اور احمدیوں کو دعا کی تحریک ان کا انجام...تاریخ احمدیت شعبه تبدیلی 506 632 تحریک جدید تحریک جدید کا پس منظر تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان 501 545 545 جو لوگ احمدی ہو رہے ہیں ان میں نمایاں تبدیلی 440 تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان، کو ائف اور دعا 551 بیعت کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے حضرت مصلح موعودؓ کا تحریک جدید کا اجراء اور جماعت احمدی تبلیغ 439 کا والہانہ لبیک 546.545 کوئمبٹور کے ایک احمدی کا تحریک جدید چندہ میں تبلیغ کی اہمیت.صرف مذہبی مسائل کا بیان ہی تبلیغ قربانی اور اپنی واقفات نو بچیوں کے کہنے پر مزید نہیں...50 قربانی جرمنی جماعت کا تبلیغ اور تعلقات میں وسعت کی کوشش تحریک آزادی اور حضور انور کا اظہار خوشنودی 522 549 تحریک آزادی انڈونیشیا میں جماعت احمدیہ کی خدمات اور ایک صحابی کا دعا کرنا کہ الہی تیرا قرب کیسے پا سکتا ہوں تعمیر وطن...644 67.68 تحریک آزادی کشمیر اور حضرت مصلح موعودؓ 88 جواب ملا کہ چندہ دو یا تبلیغ کرو احمدی کا حکومت / کونسل سے غلط بیانی سے مالی مفاد حاصل ترقی کر نائیکس صحیح طور پر ادانہ کرنا، بدنامی کا باعث پھر تبلیغ ان کوششوں سے کئی گنازیادہ جماعت ترقی کر رہی ہے جو کیونکر کرے گا تجارت 456 ہم کرتے ہیں 471 مخالفین کی ہزاروں کوششوں کے باوجود ہم جماعتی ترقی تجارتی خیانت اور بدعہدی قومی سطح پر.پاکستان میں کے نظارے دیکھتے رہیں گے 111
خطبات مسرور جلد نهم 20 انڈیکس مضامین مخالفین کی ہرزہ سرائی کے باوجود جماعت کے قدم آگے دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے 110 453 تکبر کے نقصانات سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں جماعت احمدیہ کی مخالفت اور جماعت کی ترقی ایک غیر تلاوت احمدی کے تاثرات مخالف قوتوں اور مولویوں کو 87 520 538 ایک دوست کا قادیان آگر آزمائش کرنا اور قادیان کا ہماری ترقی، ہماری مساجد دونوں کو چبھتی ہیں.اسلام نقشہ.تمام کمروں سے تلاوت قرآن کی آواز 317 با قاعدہ تلاوت کا اہتمام کرنے کی طرف توجہ کریں 616 تعلیمی ترقی کو قرآن اور اسلام کی تعلیم کے تابع رکھیں اور ہمیں اپنے گھروں کو تلاوت قرآن کریم سے بھرنے کی جماعت سے مضبوط تعلق پیدا کر کے اس کے لئے مفید ضرورت ہے، تلاوت کے ساتھ ترجمہ بھی اس ٹی وی ، انٹرنیٹ کے دور میں صبح با قاعدہ تلاوت وجود بنیں 335 617 جماعت احمدیہ کی مخالفت اور جماعت کی ترقی ایک غیر کرنا.اسے قرآن کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا 617 وظیفہ.حضور کا بیان فرموده درود شریف، الحمد شریف استغفار ، قرآن کا مطالعہ اور تلاوت اور لاحول 639 احمدی کے تاثرات تزکیہ نفس کے لئے ایک محنت درکار ہے تصویر 87 115 تمثیل بذریعہ خواب / تصویر دیکھ کر...احمدی ہونے والے چند حضرت عیسیٰ کی ایک تمثیل ، دعا کے حوالہ سے، قاضی ، ایک عورت کا انصاف مانگنا...کیا تمہارا خدا واقعات 4710464 ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھ کر کی تصویر کا گمان ہونا...تعارف 468 جماعت احمدیہ کی مخالفت، تعارف کا باعث بنتی ہے 463 تعزیری سزا ނ قاضی جیسا بھی نہیں تنبیه 251 دنیا میں پھر پھر کر احمدیت کے خلاف زہر اگل کر احمدیت سے بد ظن کرنے کی کوشش کرنے والوں کو تنبیہ...345،346 خلیفہ وقت کی نصائح اور ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری اور خلاف تعلیم سلسلہ ایک شادی میں حرکات اور تعزیری سزا نظام جماعت اور اس کی تفصیل تعویذ 52 476.475 اسلامی ممالک کی تنظیم.نام کی.جو کر دار ادا کرنا چاہیئے تھا وہ نہیں کیا تعویذ گنڈے کا کاروبار اور بدعت ہندوستان، پاکستان، توبه عرب سمیت دنیا میں ہر جگہ 441 96.95 تعویذ گنڈے.یہ سب خرافات ہیں جو آج کل کے ہمیں دکھ دینے والے تو بہ کر لیں گے یا فنا ہو جائیں گے 74 مولویوں اور پیروں فقیروں نے کمائی کے لئے شروع کی توجہ دلانا ہمارا فرض ہے کہ...ہندوستان، بنگلہ دیش، ہوئی ہیں ان کو ختم کرنے کے لئے مسیح موعود مہدی پاکستان کے مسلمان بھی ہوش کے ناخن لیں...138 توکل: صحابہ کی قبولیت دعا اور توکل تشریف لائے تقوی 279 ملکوں میں امن کے قیام کے لئے بنیادی ضرورت.تقویٰ کی 96 640.639 توہین رسالت.اللہ نے ہمیشہ اپنے رسول کی لاج رکھی ہے آج بھی 513 میرے آقائے دو جہاں کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کے عزت و مرتبے کی ہر آن حفاظت فرما رہا ہے...کہ خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا اور انہیں جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی 28
خطبات مسرور جلد نهم 21 انڈیکس مضامین ایک آریہ کا آنحضرت کے خلاف دل آزار کتاب لکھنا اور ٹی وی حضرت خلیفہ ثانی کا اس کے رد کے لئے جوش و جذبہ 36 ٹی وی ، انٹر نیٹ ، موبائل فون وغیرہ کا بے جا استعمال اور ایک سچے مسلمان کے لئے کسی رسول کی اہانت.سخت بے بچوں اور خدام کا حضور کی نصیحت پر مثبت رد عمل....525 اس ٹی وی ، انٹرنیٹ کے دور میں صبح باقاعدہ تلاوت 27 )......( چینی کا باعث ہے ایک مسلمان اپنی گردن کو اسکتا ہے..لیکن اپنے آقا و کرنا.اسے قرآن کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا 617 مولیٰ کی توہین کا ایک ہلکا سا لفظ بھی نہیں سن سکتا 27 ٹیکس 27 توہین رسالت کے قانون کی بابت...احمدی کا حکومت / کونسل سے غلط بیانی سے مالی مفاد حاصل رسول کی توہین کے مرتکب ہونے والوں کے لئے لعنت 46 کر ناٹیکس صحیح طور پر ادانہ کرنا، بدنامی کا باعث پھر تبلیغ ناموس رسالت کے مظاہرے اور توہین رسالت جیسے کیونکر کرے گا حالات.آنحضرت کے خوبصورت پیغام کے پہنچانے کے ٹیلی فون حقدار بن جائیں 37 456 ایک سیرین دوست کا خواب دیکھنا کہ اب ٹیلی فون مرزا آنحضرت صلی الم کی توہین کرنے والا ہالینڈ کا ممبر کے پاس ہے جس نے بھی اس ٹیلی فون پر بات کرنی ہے وہ یارلیمنٹ اور حضور انور کی اس کو وارننگ..608 مرزا صاحب کے ذریعہ سے کر سکتا ہے آنحضرت صلی الم کی ذات بابرکات کے بارہ میں توہین اور خلفائے احمدیت کا عاشقانہ جوش و جذبہ 36، 37 آنحضرت صلی الم کی ذات پر حملے کی صورت میں فرمائی جائزہ ج، چ، ح، خ 285 خود اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں.اور اس کے فوائد اور سے پہلے موثر آواز حضرت مسیح موعود نے بلند 32 طریق 492 آنحضرت صلی علیم کی شان میں گستاخی پر حقیقی رو عمل وہی ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ جائز ہ لیتار ہے کہ کہاں تک خیر 44 49 536 ہے جو حضرت مسیح موعود نے دکھایا امت ہونے کا حق ادا کر رہا ہے آنحضرت صلی الم کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے دکھائیں مگر نفس کو قابو میں رکھیں.تو دنیا ان کے مقابلہ جاپانی قوم کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا ایک رؤیا 36 سے خود بخود بھاگ جائے گی آنحضرت صلی الم کے ساتھ مخالفین کا استہزاء اور خدا کی گرفت 43...احمدیت کی طرف رغبت ہوگی جادو 134 آنحضرت صلی ایم کے مخالفین اور دشمنوں کی پکڑ ہر جادو ٹونہ اور پیروں فقیروں کے پاس جانے کا جاہلانہ زمانے میں نشان بنتی چلی جائے گی 43 معصوم احمدی بچوں پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام اور مقدمات کا سلسلہ.سکول سے نکالا جانا تجانیہ فرقہ کے ایک شخص کا احمدی ہونا تیل 605 275 طریق.شرک جامعہ احمد یہ ربوہ جامعہ احمدیہ (جرمنی) جامعہ نصرت جلسه 433 625-615-578-296 14 167 جہاں تیل کی کوئی دولت کام نہیں کرتی وہاں احمدی کا اپنی جلسوں کی اہمیت اور غرض وغایت معمولی آمد سے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیا ہو ا چندہ کام جلسہ سالانہ کی غرض وغایت اور ہدایات یہ جلسے بھی ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنتے ہیں کرتا ہے...512 326 308 332
خطبات مسرور جلد نهم 22 انڈیکس مضامین جلسے کا ایک بہت بڑا مقصد تعلق باللہ ہے نمازوں اور نوافل جلسہ کے حوالہ سے عورتوں کے لئے نصائح جلسہ کے حوالہ سے ایک اہم کام وائنڈ اپ 371 372 333 اور دعاؤں کی طرف توجہ دیں جلسہ کا ایک مقصد.پیار ، محبت اخوت کارشتہ قائم ہو 367 جلسہ کے حوالے سے انتظامی امور کے بارہ میں ہدایات 372 سیکیورٹی، چیکنگ وغیرہ 373 جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں جلسہ کی بدولت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والا جلسہ کے دنوں میں وی آئی پی مار کی.اعتراض اور نام بدل کر Reserve نام رکھنا انقلاب 382 359 332 جلسہ کے انتظامات اور غرباء کو حضور کی نصیحت 369 جلسہ کے دوران بٹوہ چوری ہونے کا ایک واقعہ.ڈیوٹی والوں کے لئے فکر کی بات ہے جلسہ سالانہ برطانیہ اجتماعات اور جلسوں کے اثر کو عارضی نہ رہنے دیں دنیائے احمدیت میں ہر ملک میں جلسوں کا انعقاد 327 481 جلسہ سالانہ (برطانیہ) اور مہمانوں کا احترام 580 349 زندگیوں کا حصہ بنائیں جلسہ سالانہ جرمنی کا تذکرہ...کوائف اور دیگر امور کی جلسہ پر دنیاوی مقاصد کے لئے آنے والوں کو تنبیہہ اور نصیحت 309 374 طرف توجہ 331-330 امریکہ کے احمدیوں کا جلسہ برطانیہ میں شامل ہونا.خلافت کی محبت، آنحضرت، مسیح موعود کی محبت سے مغلوب یہ تمام تقریریں جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سنیں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ جو جلسہ پر آئے وہ حضرت مخلص 323 382 378 مسیح موعود کی صداقت کا نشان ہیں جلسہ سے متاثر ہونے والے احباب و خواتین جلسہ کے موقعہ پر حضور کا مہمانوں کے آگ تاپنے کے مراکش کے ایک دوست کا جلسہ برطانیہ کے متعلق اپنے 362 321 جذبات.خدا وہ وقت جلد لائے جب جلسے مکہ مکرمہ 381 317 378 374 لئے انگیٹھی بھیجوانا جلسہ کے موقعہ پر صفائی کا خاص خیال رکھیں 374 میں منعقد ہوں اور ہم رکن مقام کے مابین عالمی جلسہ کے شاملین کو تقاریر سننا، یاد رکھنا.اور آگے علم اور بیعت کے نظارے دیکھیں روحانیت کو پھیلانے والے بنیں کارکنان جلسہ کے لئے خاص ہدایت...اتنا نہ جاگیں کہ رات کے نوافل اور نماز فجر ضائع ہو جائے 372 کارکنان جلسه (برطانیہ) کی شکر گزاری جلسہ سعید روحوں کی رہنمائی کا باعث بھی بنتا ہے 378 مجلس میں (جلسہ گاہ میں) ایک دوسرے پر سے پھلانگ انتظامیہ جلسہ سالانہ کی فکر ، دعا اور مہمانوں کا تعاون 327 کر نہ جائیں.حضور کی نارضگی ایک جلسہ پر حضور کا فرمانا کہ ”سب آنے والوں کو ایک ہی ڈھاب کا کنارہ بھر کر ایک پلیٹ فارم بنوایا گیا جہاں جلسہ قسم کا کھانا کھلاؤ اس پر خواجہ صاحب کا...354 سالانہ ہوا حضرت چوہدری عبد الرحیم کو حضور علیہ السلام نے کشمیریوں کے حق میں حضرت مصلح موعودؓ کا ہندوستان 500 روپے دے کر فرمایا کہ جلسہ کا انتظام آپ کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جلسہ اور جلوس اور اس کی کے سپرد..ایک قسم کا کھانا تیار کرنا وضاحت.اور ایک سوال کا جواب جلسہ سالانہ 06ء مسجد اقصیٰ میں ہوا جس کا صحن بھرتی ڈال پاکستان اور ربوہ میں ہونے والے ختم نبوت کے جلسے اور اس میں حضرت مسیح موعود اور جماعت کے 356 316 کر وسیع کر لیا گیا جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمان اور دیگر احباب کے لئے خلاف بے ہودہ گوئی...بنیادی ہدایات اور نصائح 371.365 جماعت نیز دیکھیں ”احمدیت“ 311 164 453
خطبات مسرور جلد نهم 23 انڈیکس مضامین اللہ تعالیٰ ایسی جماعت تیار کرنا چاہتا ہے جیسی آنحضرت پر لہرائے گا کے وقت میں کی 437 جھوٹ ان کوششوں سے کئی گنازیادہ جماعت ترقی کر رہی ہے جو جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہم کرتے ہیں 471 جھوٹ کی مذمت.یہ بھی ایک شرک ہے 410 451 55 جماعت اور نظام جماعت سے جڑے رہیں اس کے بغیر اپنی ایک عظیم خاصیت کہ احمدی جھوٹ نہیں بولتا نہیں شاید تھوڑی سی دنیا تو مل جائے لیکن نسلیں برباد ہو جائیں چھوڑنا اور نہیں بھولنا گی 334 احمدیوں کو جھوٹ کے خلاف جہاد کرنا ہو گا جن.جنوں وغیرہ کے بارہ میں خلاف عقل باتیں 467 جھوٹ کے نقصانات اور مہلک اثرات جنگ جنگ احد جنگ احزاب 23 41 466 55 450 مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد علمبر دار سچائی کو رد کرتے ہیں اور جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں اسلام دشمن طاقتیں بھی ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود...452 جنگ بدر 41 جھوٹ.مسلمان ممالک میں بیماری زیادہ ہے 451 جنگ خندق کے موقعہ پر.پادری فتح صحیح کا پانچ نمازیں جمع معصوم احمدی بچوں پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام اور کرنے پر اعتراض اور حضور کا جواب 568 فتح الباری شرح بخاری میں ، جنگ خندق پر نماز عصر آخری وقت میں پڑھنے کا ذکر امن کے زمانہ میں اسلام زیادہ پھیلا 567 42 مقدمات کا سلسلہ.سکول سے نکالا جانا جہاد 605 جہاد یا قتال پر اعتراض کرنے والی دجالی چالیں جو اسلام کے خلاف چلائی جاتی ہیں...جماعت احمد یہ ہی اس کو توڑنے 145 دنیا کو ضرورت ہے کہ جنگ ختم کرنے کی کوشش کی جائے 611 کا حق ادا کر سکتی ہے عالمی جنگ کی بننے والی صورت جس کی تباہی نا قابل بیان جماعت احمدیہ کا خدمت کا جہاد خوبصورت جہاد.جس میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ بلکہ بڑھ کر حصہ لے رہی ہوگی 611 عالمی جنگ کے خطرات..اور دعا اور احتیاطی تدابیر 603 ہیں 468 یہ الزام اور غلط نظریہ کہ اسلام جنگوں کے ذریعہ سے پھیلا 41 آخرین کے دور میں تلوار کی جنگ اور جہاد کا خاتمہ یہ زمانہ 22 علمی جہاد کا ہے جنگی مجرم کو معاف کر دینے کا واقعہ ایک فقیر کا بادشاہ کو کہنا کہ میں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار چ 259 500 586 سے تمہارے مقابلے میں جنگ کروں گا چال.بعض بڑی طاقتوں کی چالیں جھگڑا.اکثر مسائل اور جھگڑے تفاخر اور تکبر سے پیدا جہاد یا قتال پر اعتراض کرنے والی دجالی چالیں جو اسلام کے خلاف چلائی جاتی ہیں...جماعت احمد یہ ہی اس کو توڑنے ہوتے ہیں 492 میاں بیوی کے جھگڑے...یہ بھی بدنامی کا باعث 456 کا حق ادا کر سکتی ہے جھنڈا چاند 145 150 ایک وقت آئے گا کہ جب دنیا کی اکثریت اسلام اور آنکھوں سے چاند کے مشاہدہ کی اہمیت مسلمانوں نے جس قدر حساب میں ترقی کی ہے اس کی وجہ آنحضرت کے جھنڈے تلے ہو گی 41 یقیناً وہ دن انشاء اللہ آئیں گے جب آنحضرت کا جھنڈا دنیا چاند کا مشاہدہ تھا 150
خطبات مسرور جلد نهم 24 انڈیکس مضامین حافظ صالح الہ دین کا فرمانا کہ نیا چاند تلاش کر کے کوئمبٹور کے ایک احمدی کا تحریک جدید چندہ میں ڈیٹا بیس بنایا جائے جس میں ہر ماہ چاند کے بارے قربانی اور اپنی واقفات نو بچیوں کے کہنے پر مزید 150 362 قربانی 549 معلومات درج کی جائیں چاولوں کے دیگچھ.سے نکال کر چاول کھلانا.سات گیمبیا کے فوڈے باکولی صاحب.فاقوں کے باوجود آدمی...چندہ وقف جدید ادا کرنے کا عجیب جذبہ 7 چرچ کا کہنا کہ ہم روحانیت سے دور ہٹتے جارہے ہیں 225 ود گو ریجن کے مبلغ.جیالو سیکو صاحب نو مبالع کا چلہ کشی ہوشیار پور کے بارہ میں حضور انور کی ایک وقف جدید چندے کی ادائیگی اور برکات 8 وضاحت...80 ٹی وی چینل یورپ میں جماعت کے خلاف اور فساد کی باتیں: ہر چندہ نیز دیکھیں ” قربانی / مالی قربانی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور ان کی شرائط اور روز کوئی نہ کوئی مخالفانہ کارروائی مسلمان کہلانے والے علامات 2 ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں احمدیت کے خلاف ہوتی آنحضرت علی ایم کی طرف سے چندوں کی تحریک اور رہتی ہے.بعض ٹی وی چینل بھی اس میں پیش پیش ہیں جو صحابہ کی قربانیاں چندہ دینے کی برکات 2 7 یورپ اور دنیا میں سنے جاتے ہیں چینی ڈیسک کی مساعی ایک صحابی کا دعا کرنا کہ الہی تیرا قرب کیسے پا سکتا ہوں حدیث جواب ملا کہ چندہ دو یا تبلیغ کرو 644 511 479 حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ رؤیا یا کشف کی حالت میں جہاں تیل کی کوئی دولت کام نہیں کرتی وہاں احمدی کا اپنی آنحضرت سے روایت آپ نے سنی یا تصدیق...566 معمولی آمد سے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیا ہو ا چندہ کام 512 حساب کرتا ہے...مسلمانوں نے جس قدر حساب میں ترقی کی ہے اس کی وجہ کا بورے (Kabore)، چندہ ادا کرنے کی برکت سے صحت یابی 549.548 چاند کا مشاہدہ تھا 150 محمد ماریگا صاحب گنی کناکری، چندوں اور نظام وصیت حاسدین کا بڑھناد لیل ہے کہ جماعت احمدیہ کے قدم ترقی میں شمولیت اور برکات 547 کی طرف بڑھ رہے ہیں 462 301 ٹوگو.نوچے ریجن.کے گاؤں میں غریب مخلص حسن سلوک.اپنے اہل اور گھر والوں سے حسن سلوک کی احمدی جن کے پاس مخالفین پیسے لے کر گئے کہ تلقین اور اہمیت احمدی تو چندہ مانگتے ہیں ہم تمہیں دیتے ہیں لیکن ان حفظ مراتب کا یہ پیشکش ٹھکرا دینا اور چندے کے نظام میں شمولیت 9 واتارا عبدالحئی، بادله (Badala) برکینا فاسو ، غریب ہمارا ایمان ہے کہ بزرگوں اور اہل اللہ کی تعظیم کرنی چاہئے.لیکن حفظ مراتب بڑی ضروری شئے ہے 601 احمدی، چندوں کے بارے میں بڑھتا ہوا ایمان اور حضرت مسیح موعود سے درخواست کہ مطبع خانہ میں 548 مالی قربانی تشریف لائیں فرمایا کہ وہاں حقہ ہے میں نہیں آسکتا 170 کشمیریوں کے حق میں حضرت مصلح موعودؓ کا ہندوستان سوری(Souri)، برکینا فاسو، چندہ ادا کرنے کی برکت حقوق سے صحت یابی 549.548
خطبات مسرور جلد نهم 25 انڈیکس مضامین کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جلسہ اور جلوس اور اس کی خانہ کعبہ 164 50 ختم نبوت 258 ختم نبوت کے نام پر عاشق رسول کو اور اس کے ماننے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ایک احمدی کو بڑھ والوں کے دلوں کو چھلنی کیا جارہا ہے وضاحت.اور ایک سوال کا جواب حقوق العباد کی ادائیگی کی ضرورت کر کوشش کرنی چاہیئں حقوق العباد کی اہمیت اور ضرورت 54 536 516 تاجدار ختم نبوت کا نفرنس.اور اس میں بے ہودہ گوئی اور گالیاں 453 اجتماعات اپنے آنحضرت کا فرمانا تم میرے بعد دیکھو گے کہ تمہارے حقوق دبائے جائیں گے.اپنے حق اللہ سے مانگنا 162 ربوہ جہاں احمدی 98 فیصد ہیں انہیں کی اجازت نہیں لیکن اس شہر میں دوسروں کو ختم حکمران حکمرانوں اور عوام الناس کے لئے سوچنے کا مقام 558 نبوت کے نام پر غلیظ زبان استعمال کرنے کی کھلی 165 چھٹی...515 حکمرانوں کے فرائض اور ذمہ داریاں حکمرانوں کے لئے آنحضرت کے ارشادات اور نصیحت.پاکستان اور ربوہ میں ہونے والے ختم نبوت کے جلسے پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں بے امنی اور...586 اور اس میں حضرت مسیح موعود اور جماعت کے یہ سوال کہ جابر اور ظالم حکمر ان کے خلاف کس حد تک خلاف بے ہودہ گوئی...جس پر 153 453 صبر ( دکھائیں) یورپ میں جماعت کے خلاف اور فساد کی باتیں: ہر حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ مسلمان بادشاہوں اور روز کوئی نہ کوئی مخالفانہ کارروائی مسلمان کہلانے والے حکمرانوں کا نقشہ...حکومت کیونکر کرے گا 184 456 ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں احمدیت کے خلاف ہوتی رہتی ہے.بعض ٹی وی چینل بھی اس میں پیش پیش ہیں جو احمدی کا حکومت کو نسل سے غلط بیانی سے مالی مفاد حاصل یورپ اور دنیا میں سنے جاتے ہیں، جو کم علم مسلمانوں کے کر نائیکس صحیح طور پر ادانہ کرنا، بدنامی کا باعث پھر تبلیغ غلط رنگ میں جذبات بھڑ کا کر احمدیت کے خلاف اکساتے رہتے ہیں.بعض ٹی وی چینل اپنی پالیسی کے مطابق اس کی حکومت کے خلاف مظاہرے خلاف شریعت عمل 156 اجازت نہیں دیتے تو کسی رفاہی کام کے بہانے وقت خرید حکومت وقت کو غلطی پر آگاہ کر دے اگر وہ نہ مانے تو کر یہ شدت پسند لوگ اور فساد پیدا کرنے والے لوگ اس پر بھی کسی نہ کسی بہانے سے اعلان کر دیتے ہیں کہ احمدی معاملہ اللہ پر چھوڑ دے 161 دنیا کی حکومتیں اور تنظیمیں الہی جماعتوں کو تباہ نہیں کر واجب القتل ہیں.گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک چینل پر سکتیں 464 حیات مسیح.قرآن سے ثابت نہیں کر سکتے.حضور کے زمانہ میں ایک مولوی کا اقرار اور قصہ قرآن، خاتم الکتب.اور آزادی کا مضمون 445 582 یہاں یورپ میں ایک مولوی نے یہ اعلان کیا لیکن بہر حال جب چینل کے مالک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے معذرت کی اور آئندہ اس مولوی کو اپنے چینل پر نہ آنے کی یقین دہانی کروائی.لیکن بہر حال ان بد فطرتوں نے اسلام، ناموس رسالت اور ختم نبوت کے نام پر کم علم مسلمانوں خاندان مسیح موعود / ابنائے فارس کی ذمہ داریاں اور ہر کے جذبات کو انگیخت کرنے کا کام سنبھالا ہوا ہے 511 احمدی کے لئے 390 خدام الاحمدیہ 625
خطبات مسرور جلد نهم 26 خدام الاحمدیہ.جر منی کا قابل تحسین کردار جماعت کا پیغام خلافت احمدیہ.کی خوشخبری لیف لیٹس کے ذریعہ 336 احمد یہ جماعت کے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے لوگ جو انڈیکس مضامین 262 خلافت جوبلی سووینئر.پاکستان سے شائع ہونے والا.کا مطالعہ احمدیت قبول کرنے کا باعث...خلافت کا ملوکیت کا شکل اختیار کرنا 519 264 اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں اور اس کی خلافت کی اہمیت اور ضرورت کا غیروں کو احساس اور اس مثال.پاکستان کے خدام اور عورتوں کے خطوط...203 کے لئے تڑپ 97 ٹی وی ، انٹرنیٹ ، موبائل فون وغیرہ کا بے جا استعمال اور خلافت کے نظام کی اہمیت حضرت مسیح موعود کو بچوں اور خدام کا حضور کی نصیحت پر مثبت رد عمل..525 ماننے کے باوجود خلافت کو نہ ماننے والا ان برکات سے خدام و لجنات جرمنی اور اجتماع خدام برطانیہ خدمت خلق 462 محروم 300 خلافت کے حصول کے لئے پہلے مسیح موعود کو ماننا ہو گا 98 جماعت احمدیہ کا خدمت کا خوبصورت جہاد جس میں عورتیں اللہ کا وعدہ ہے کہ خلافت کے لئے بھی وہ زبر دست قدرت مردوں کے شانہ بشانہ بلکہ بڑھ کر حصہ لے رہی ہیں 468 کا ہاتھ دکھائے گا خدمت سلسلہ کرنے والے ہر پیسے کو سنبھال کے اور احتیاط سے خرچ کریں.کارکنان کو نصیحت خط 5 احمد یہ جماعت کے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے لوگ جو اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں اور اس کی 288 الوصیت میں مذکور دوسری قدرت سے مراد...292 خلافت ہی تجدید دین کے کام کو جو مجدد کا کام ہے کرے گی 292.295 خلیفہ وقت کی نصائح اور ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری اور نظام جماعت 475.476 خطبہ جمعہ.صلوۃ کا بہترین حصہ.خلیفہ وقت دنیا کے مثال.پاکستان کے خدام اور عورتوں کے خطوط...203 حضرت مسیح موعود کا گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ اور 80.79 حالات دیکھتے ہوئے نصائح کرتا ہے 266 267 رسالہ الوصیت اور نظام خلافت لوگوں کا خوابوں میں خلفاء کو دیکھنا اصل میں اللہ کا یہ بتانا وزیر اعظم گلیڈسٹون کے نام خط حضرت مسیح موعود کا بارہ ہزار کے قریب والیان ریاست مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت کا جو نظام ہے وہ حضرت مسیح موعود کا ہی ایک تسلسل ہے 344 الحاج بنتی صاحب نا قابل علاج مریض.حضور کو خط کو...دعوتِ اسلام پر مبنی خط روانہ کرنا دعا اور معجزانہ شفا 79 447 مسلمان علماء اور تنظیموں کا خلافت کے قیام کا ذکر کر نا480 مسلمان حقیقی خلافت سے اس وقت محروم کئے گئے جب وہ خطبہ جمعہ.صلوۃ کا بہترین حصہ.خلیفہ وقت دنیا کے 266 اطاعت سے باہر ہو گئے حالات دیکھتے ہوئے نصائح کرتا ہے خلاف تعلیم سلسلہ ایک شادی میں حرکات اور تعزیری سزا نظام خلافت اور قرآنی احکام اور لائحہ عمل اور اس کی تفصیل خلافت خلافت احمدیہ کا وعدہ دائمی ہے 52 نظام خلافت سے وابستگی.ایک اعزاز 264 262 365 270 نظام خلافت.نبوت کی صورت میں 264 وہ بنیادی اہمیت کی چیز جس پر امت کی ترقی کا مدار ہے وہ خلافت احمدیہ کے مختلف ادوار خلافت اور جماعت کی خلافت ہے ترقی...268.269 ہر خلیفہ اپنے وقت میں مسجد دہی ہوتا ہے 479 292
خطبات مسرور جلد نهم خواب 27 انڈیکس مضامین درخت.میرے درخت وجود کی سر سبز شاخو.کی 199 خواب میں ایک شخص کو بندر دکھایا جانا بمطابق حدیث اس خوبصورت تشریح دور کے بگڑے ہوئے علماء دراصل بند رہی ہیں 341 درد.انسانوں کے فائدہ کے لئے درد دل رکھنا...49 خواب میں حضور کا فرمانا کہ برکت علی تم ہماری طرف کب درس القرآن.میں حوالہ جات کی تخریج کے ذریعہ خلیفہ آؤ گے...175 رائع کی معاونت درود ایک سیرین دوست کا خواب دیکھنا کہ.اب ٹیلی فون مرزا کے پاس ہے جس نے بھی اس ٹیلی فون پر بات کرنی ہے وہ درود شریف کی حکمت درود شریف پڑھنے کی نصیحت 285 626 28 28.29 مرزا صاحب کے ذریعہ سے کر سکتا ہے درود شریف پڑھتے ہوئے جب آل محمد " کہتے ہیں تو رویائے صادقہ کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے والے.جو آنحضرت کے پیارے مہدی کا تصور بھی ابھرنا چاہیئے جس جاتے ہیں 2860275 نے اس زمانے میں ہماری راہنمائی فرمائی 30 ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت بھی برحق ہے کیونکہ خواب میں خلفاء بھی دکھائے مختلف مسائل کے بارہ میں حضور کا فرمانا کہ کثرت سے درود / استغفار اور پانچوں نمازیں پڑھا کریں 312 لوگوں کا خوابوں میں خلفاء کو دیکھنا اصل میں اللہ کا یہ بتانا وظیفہ.حضور کا بیان فرموده درود شریف، الحمد شریف مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت کا جو نظام استغفار ، قرآن کا مطالعہ اور تلاوت اور لاحول 639 ہے وہ حضرت مسیح موعود کا ہی ایک تسلسل ہے 344 بذریعہ خواب احمدیت قبول کرنا 284 بذریعہ خواب / تصویر دیکھ کر...احمدی ہونے والے چند واقعات 4710464 دشمن 74 اللہ تعالیٰ دشمن کو عبرت کا نشان بنائے اے دشمنانِ احمدیت! جو دنیا کے کسی بھی کونے میں بس عزیزہ اڈہ سکند یا نہ بذریعہ خواب احمدیت قبول کی 218 رہے ہو ، تم احمدی پر جو بھی ظلم روا رکھنا چاہتے ہو رکھ جاپانی قوم کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا ایک رؤیا لو لیکن ہمیں ہمارے ایمانوں سے سر موہٹا نہیں سکتے.ہر...احمدیت کی طرف رغبت ہوگی خوشی 134 جگہ کے احمدی سے تم یہی جواب سنو گے کہ فَاقْضِ مَا انت قاض تم جو کر سکتے ہو کر لو.ہمیں ہمارے ایمانوں ہماری غمی اور خوشی خدا کی رضا کے حصول کی خاطر 386 سے نہیں پھیر سکتے.انشاء اللہ تعالیٰ خوف 62.61 ہر زمانے میں دشمنان اسلام اپنے انجام کو پہنچتے رہے اور احمدیت کے پیغام کو اکثریت ملکی قانون اور ملاں کے خوف رہیں گے سے سمجھنا نہیں چاہتی خیانت اور بد عہدی.کی برائی اور نقصانات 605 55 47 اگر استہزاء کرنے والا دشمن باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ اسے بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا تجارتی خیانت اور بد عہدی قومی سطح پر.پاکستان میں دفاتر کاروباری مثال د، د، ذ، ر دار الضیافت 55 649.578 دجال کا مقابلہ کرنے کے لئے رسول کریم کے بروز کامل کی بعثت 390 45 سرکاری دفاتر یا پرائیویٹ کمپنی میں کام کے اعتبار سے ایک احمدی کا امانت کا معیار ممتاز کرنے والا...دعا دعا کی اہمیت، آداب 54 418
خطبات مسرور جلد نهم دعا کے آداب 28 504.505 انڈیکس مضامین دعا.اے خدا آج ہم تجھ سے تیری رحمت...507 حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ دعاؤں کا مضمون اور دعاؤں اور صبر کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لئے تحریرات کی روشنی میں حضور انور کی عرفان انگیز پر ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھتا چلا جائے 74 دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے دعا کی عالمی تحریک 93 4380426 معارف تفسیر و تشریح حضرت مسیح موعود کی ایک نہایت عارفانہ دعا 474 صحابہ کی قبولیت دعا اور توکل 640.639 دعا کے متعلق ایک نکتہ.مستقل مزاجی اور تکرار 420 عالم اسلام کے لئے دعا.ایک احمدی کی ذمہ داری 153 دعا کے واسطے بھی دعاہی کی ضرورت ہے 412 501 نو مبائعین کے قبولیت دعا کے واقعات 446تا448 ہمیشہ یہ دعا پڑھتے رہیں.ربنا افرغ علينا..74 دعاؤں کی ضرورت اور اہمیت...دعاؤں کی قبولیت اور اس کے لوازمات و شرائط 406 افسر صاحب، جلسہ برطانیہ کے لئے دعا کی تحریک 370 دعاؤں کے لئے ہمیں کیا طریق اختیار کرنا چاہیئے ؟412 الحاج بنتی صاحب ناقابل علاج مریض.حضور کو خط دعا کی تحریک.اللہ تعالی ظلم کرنے والوں کی جلد صفیں دعا اور معجزانہ شفا لپیٹ دے 502 447 حفیصو صاحب کا بچہ گم ہو جانا اس پر مسیح موعود کی دعا، عمل اور علم سے اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیم سچائی کا واسط دے کر دعا کرنا اور بچہ مل جانا، امام 520 مہدی کی صداقت کا زندہ معجزہ 448 دنیا کے سامنے پیش کریں اپنی دعاؤں کا محور اسلام کی ترقی کو بنائیں تا اللہ ان لوگوں کو حضرت عیسی کی ایک تمثیل ، دعا کے حوالہ سے، جلد پکڑے جو خدا اور اسلام کے نام پر ظلموں کی انتہاء کئے قاضی سے ایک عورت کا انصاف مانگنا...کیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں جا رہے ہیں 605.251 اپنی کوشش پوری کرو پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو اور دعا حضور کا دعا کرنا.خشک ڈالی مجھ سے کائی جاوے..320 کر و باقی جو کمیاں رہ گئی ہیں اللہ ان کو خود پورا فرمائے.331 دعاؤں کی مشین: محمد دین تهالوی حضرت جو قادیان میں ”دعاؤں کی مشین“ کے نام سے معروف تھے، ربوہ کے سنگ بنیاد میں شامل تھے آج ہر احمدی کو خاص طور پر اضطراری حالت میں یہ دعائیں کرنی چاہیئں.خاص طور پر پاکستان کے حالات دکھ کے حوالے سے.....502 167 ہمیں دکھ دینے والے تو بہ کر لیں گے یا فنا ہو جائیں گے 74 اللہ ہمارے ملکوں کو ظالموں کے پنجہ سے آزاد کرے 73 دل ایک دعا جو ہر احمدی کو کرنی چاہیئے.اس قسم کا ایمان دنیا میں ہر جگہ انڈونیشیا ہو یا پاکستان، مؤمنانہ شان کا مظاہرہ 499 جس کی روح آنحضرت کے عاشق صادق نے ایک احمدی حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے رہیں...مخالفین احمدیت کے حملوں میں شدت کے موقعہ پر دعائیں کے دل میں پھونک دی ہے پڑھنے کی تحریک 1.اللهم انا نجعلك2ـ رب انى دنیا مظلوم -3 رب كل شئی -4 رب توفنى مسلماً 260 ایک فقیر کا بادشاہ کو کہنا کہ میں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار سے تمہارے مقابلے میں جنگ کروں گا ایک مجذوب کا بادشاہ کو کہنا کہ رات کی دعاؤں کے تیروں سے مقابلہ کروں گا...259 505 دنیا سے دل لگانا بے فائدہ ہے 61 386 484 دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی.حضور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں 540
خطبات مسرور جلد نهم 29 انڈیکس مضامین خوش قسمت ہیں وہ جو اس دنیا پر اگلی دنیا کو ترجیح دیتے کی خوشبو پسند نہیں آئی تو ہمارے مہمانوں کو کیسے آئیگی 361 ہیں.اتناہی 624 دین 484 دنیا کو آج جتنی خدا کی ضرورت ہے اتنا ہی یہ خدا سے دور جا دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی.حضور اب دین محمد ہی تمام انسانیت کے لئے نجات کا دین ہے 401 رہی ہے 400 اپنی والدہ سے چالیس سال بعد ملانا ( سید عبد الحئی صاحب کا ) دنیا میں رونما ہونے والے ابتر حالات اور ان کا حل.امام دین کی خاطر جدائی برداشت کرنا 183 625 خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم جماعت احمدیہ کی رہنمائی آفات اور زلازل، دنیا کا ہر ملک قدرتی آفات کی لپیٹ میں کر لیتے ہیں ہے.یہ صرف قدرتی عمل نہیں.مسیح موعود کے ساتھ 242 540 خوش قسمت ہیں وہ جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں.624 ڈالی اس کا گہرا تعلق ہے اب دین محمد ہی دنیا کے فسادوں کو دور کرنے کے لئے حضور کا دعا کر نا.خشک ڈالی مجھ سے کاٹی جاوے..0 آخری امید گاہ اور علاج ہے 401 ڈھاب دنیا کو آفات سے بچانے کے لئے ایک انتہائی اہم کام حضور کا جلسہ کے موقعہ پر زردے کی دیگیں چیک فرمانا اور احمدیوں کے سپرد ہے.انسانیت کو تباہی سے بچانے کی خوشبو اچھی نہ آنے پر ڈھاب میں پھنکوا دینا.جب ہمیں ان کی خوشبو پسند نہیں آئی تو ہمارے مہمانوں کو کیسے آئیگی 361 کوشش 242.243 آج دنیا کو آفات سے بچانے اور اس کا خدا سے تعلق حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں سخت سردی ڈھاب کا پانی جم گیا.نماز فجر بورڈنگ میں ایک لڑکے کو حضور کی طرف 404 جوڑنے کی ذمہ داری ہر احمد ی پر ہے تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا کام جماعت احمدیہ کر سے اجازت رہی ہے 470 ڈیٹا بیس 181 دنیا کے ہر کونے میں جماعت احمدیہ کے قربانیوں کے معیار حافظ صالح الہ دین کا فرمانا کہ نیا چاند تلاش کر کے ڈیٹا بیس بنایا جائے جس میں ہر ماہ چاند کے بارے 272 150 بڑھتے چلے جارہے ہیں...دنیامیں ہر جگہ انڈو نیشا ہو یا پاکستان، مؤمنانہ شان کا مظاہرہ معلومات درج کی جائیں انڈونیشیا جس کی روح آنحضرت کے عاشق صادق نے ایک احمدی ڈیوٹی کے دل میں پھونک دی ہے ایک دن آئے گا کہ ہماری یہی عاجزی یہی غلامی دنیا کو حقیقی اور عورتوں کے اخلاص و وفا کا ذکر.ذکر الہی اور 61 590 پاکستان میں ڈیوٹیاں دینے والے احمدی خدام و انصار دعاؤں سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں 203 آزادی کا نظارہ دکھائے گی اسلام کی سچائی اب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے دنیا ذکر فاذکرونی اذکر کم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا کیا ہے ؟329 میں قائم ہوتی ہے دنیادار 136 ذمہ داری اس زمانے میں ہمارے لئے خوشخبری اور ساتھ ہی ایک جماعتی ترقی دیکھ کر دنیا دار اور مخالفین زیادہ بوکھلا گئے.ان ذمہ داری بھی خدا سے تعلق پیدا کریں کی تمام کوششیں اور دشمنیاں رائیگاں جائیں گی 522 دیگ 109 480 ایک احمدی کی ذمہ داریاں خاندان مسیح موعود / ابنائے فارس کی ذمہ داریاں اور ہر حضور کا جلسہ کے موقعہ پر زردے کی دیگیں چیک فرمانا اور خوشبو اچھی نہ آنے پر ڈھاب میں پھنکوا دینا.جب ہمیں ان احمدی کے لئے 390
خطبات مسرور جلد نهم 30 انڈیکس مضامین خلیفہ وقت کی نصائح اور ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری اور روزه نظام جماعت راشن 475.476 پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو دعاؤں کی خاص تحریک اور نفلی روزے کی تحریک.دیگر دنیا بھر کے 546 نفلی روزے کی تحریک اور دن کی تعیین 501 512 (یورپ) کے احمدیوں کو گھروں میں خشک راشن کی احمدیوں کی دعا کی تحریک تحریک راہ ہدی کی ایک ویب سائٹ.جس کے انچارج آصف حضرت مسیح موعود.بچوں کو روزہ نہ رکھنے کا حکم 181 صاحب...ربوبیت رب العالمین کی ربوبیت کی وسعت رحمت رزق 174 402 رہنما آج کل کی آزادی.آزادی کے نام پر ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں جانا ہے ، مسلم ، افریقن ممالک کے ہمارا انحصار خدا کے حضور جھکنے اسکی مددور حمت پر ہے 73 سربراہ، فوج اور مذہبی رہنماؤں کے لئے...589 احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے قرآن کریم کو رہنما بنا احمدیت قبول کرنے کی برکت.رزق میں اضافہ 6 لو ، اپنی تعلیم کے میدان میں، ریسرچ میں اس کو سامنے رضا بالقضا.نوجوان بیٹے کی وفات لیکن...بیٹی کا رخصتانہ رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا 335 ملتوی نہیں کیا...رضا بالقضا کا نمونہ ہماری غمی اور خوشی خدا کی رضا کے حصول کی خاطر 386 غیر مسلموں ، ہندو، عیسائیوں کی خدا کی طرف سے احمدیہ رمضان 646 404 413 یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے رمضان کے مہینہ کی برکت اور افادیت رمضان کی برکات سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ضرورت اور نصیحت 377 404 رمضان کے مہینہ کی برکات اور اہمیت روایات.جماعتی روایات کی اہمیت اور حکمت 51 صحابہ حضرت کا روایت بیان کرنے میں احتیاط 645 روح دنیا میں ہر جگہ انڈو نیشیا ہو یا پاکستان، مؤمنانہ شان کا مظاہرہ جس کی روح آنحضرت کے عاشق صادق نے ایک احمدی کے دل میں پھونک دی ہے 61 خدا چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہے...544 رہنمائی جماعت کے حق میں رہنمائی ریا 518.517 حضور سے سوال کہ کبھی آپ کو ریا ہو ا ہے.جو اب 180 ریسرچ احمدی طلباء ( لڑکوں اور لڑکیوں) کی ایسوسی ایشن سے حضور کی میٹنگ.احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے قرآن کریم کو رہنما بنا لو ، اپنی تعلیم کے میدان میں، ریسرچ میں اس کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا 335 632 ریسرچ سیل ریڈی ایشن سے بچاؤ کے لئے امدادی ہو میو پیتھی دوائی.ریڈیم برومائیڈ cm...روحانی خزائن.کی کتابت اور کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن کی زرده تیاری.محترم سید عبد الحی شاہ صاحب 626 134 حضور کا جلسہ کے موقعہ پر زردے کی دیگیں چیک فرمانا اور
خطبات مسرور جلد نهم 31 خوشبو اچھی نہ آنے پر ڈھاب میں پھنکوا دینا.جب ہمیں ان رسالے کے ایڈیٹر کو جرات نہ ہو...کی خوشبو پسند نہیں آئی تو ہمارے مہمانوں کو کیسے آئیگی 361 سال نو کے لئے دعائیں.کرنے کی تحریک سائنس / سائنسدان حضور کے زمانہ میں جلسہ میں زردہ پلاؤ زکوۃ.نظام خلافت سے وابستہ 354 266 انڈیکس مضامین 545 648 ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگنا دسہا پانے والے احمدی گھانا میں غیر از جماعت لوگوں کا حضور انور کو زکوۃ سائنسدان 267.266 دینا کہ صحیح مصرف ہو گا زلزلہ.جاپان کا حالیہ زلزلہ گزشتہ ہنر ارسال کی تاریخ میں نہیں آیا...134 147 فرانس کے ایک سائنسدان اور حافظ صالح الہ دین صاحب کا فرمانا کہ ستاروں کی ایک ایسی روشنی ہمارے دماغوں کو منور کرتی ہے سایه آفات اور زلازل، دنیا کا ہر ملک قدرتی آفات کی لپیٹ میں شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے ہے.یہ صرف قدرتی عمل نہیں.مسیح موعود کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے زمانہ آخری زمانے کی اہمیت اور بابرکت مقام 242 477 ستاره 150 598 فرانس کے ایک سائنسدان اور حافظ صالح الہ دین صاحب کا فرمانا کہ ستاروں کی ایک ایسی روشنی ہمارے دماغوں کو منور کرتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا 137 سجدوں کی کثرت سے شفاعت ہو گی...زندگی سچائی 150 229 ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود کی نصائح کے مطابق اپنی سچائی سے کام نہ لینے کیوجہ سے گھریلو تباہیاں...198 پریشانیاں زندگیاں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیئے زوال.قوموں کے زوال کے اسباب.خود ساختہ معیار، سچائی کا ہتھیار.زندگی بخشنے والا ہتھیار سچائی کی اہمیت اور برکات ہو او ہو س...زہر 49 450 460 450 سچائی کے نمونے جو دنیا نے آنحضرت سے دیکھے اور اس 459 سے برپا ہونے والا انقلاب دنیا میں پھر پھر کر احمدیت کے خلاف زہر اگل کر احمدیت سے ابو سفیان کا فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت کو کہنا کہ اگر ہم بد ظن کرنے کی کوشش کرنے والوں کو تنبیہہ...345،346 نیچے ہوتے...زیور.سندھ کی ایک خاتون کا سارے زیورات تحریک جدید میں دے کر خاوند کو کہنا کہ ابھی دے کر آؤ.رات کا اپنے عملوں کی سچائی سے سجانا ہو گا وقت...550 458 456 احمدی کا بیعت کرنا اور عہد کرنا.اس عہد کے مطابق سچائی کو قائم کرنا احمدیوں کا کام ہے 459 حضرت مصلح موعودؓ نے جائیدادیں وقف کرنے کی احمدی نے سچائی کا پیغام دینا ہے لیکن کس طرح ؟456 تحریک کی تو صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ نے اپنا تمام بین الاقوامی سیاست، مسلمان اور مغربی حکومتوں کے زیور اس میں پیش کر دیا س 574 451 سچائی کے بدلتے ہوئے نظریات ہر سطح پر اس فساد کو دور کرنا اور سچائی کو قائم کرنا.احمدی کا 459 ساکھ.مخالفین اگر حضرت مسیح موعود کا ساتھ دیں تو کھوئی کام ہے ہوئی ساکھ دوبارہ بحال ہو جائے.اور دنیا کی طاقتیں عزت و ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ احمدیت کی فتح کے لئے سچائی کا احترام کرنا شروع کر دیں گی کسی بد بخت کارٹونسٹ اور ہتھیار ہے 458
خطبات مسرور جلد نهم ستی 32 انڈیکس مضامین مغربی حکومتوں کی سچائی بھی جھوٹ چھپانے کے لئے ہے452 قرغزستان کی ایک نو احمدی غیرت مند اور نیک فطرت نو مبائع بچی ، باحیا لڑکی جس نے غیر مسلم امریکن کی شادی پیدائشی احمدی ہونا بعض اوقات ستیاں پیدا کر دیتا ہے سے انکار کر دیا...ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے اس کا علاج سفیر 200.199 قرغزستان کی لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی ہر احمدی احمدیت کا سفیر ہے ہمارے نمونے دنیا نے دیکھنے ہیں.لیکن اس بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش کو ٹھکرادیا.پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے جس کے لئے دعا کی جاتی ہے ، دعا کی جانی چاہئے.یہ لڑکی جو ہیں سکول 332 معصوم احمدی بچوں پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام اور ہے نئی احمدی ہوئی، غربت بھی تھی، اچھا رشتہ مل رہا تھا، مقدمات کا سلسلہ.سکول سے نکالا جانا سواحیلی ڈیسک.وکالت تصنیف سو بستر 605 246 لیکن اُس نے دین کی خاطر ٹھکرا دیا.اس میں اُن لوگوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جب بعض بچیاں جو ایسے غیروں میں شادی کو پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر خلافت جوبلی سووینئر.پاکستان سے شائع ہونے والا.کا بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں.443 519 مطالعہ احمدیت قبول کرنے کا باعث...سیاست بین الاقوامی سیاست، مسلمان اور مغربی حکومتوں کے سچائی کے بدلتے ہوئے نظریات 451 سیاسی ابتری مختلف ممالک میں سیاسی ابتری اور احمدیوں کے لئے رہنما ہدایات اور عریبک ڈیسک اور بانی طاہر صاحب کے ساتھ تفصیلی گفتگو...سیلاب 154.153 شان دنیا میں ہر جگہ انڈونیشیا ہو یا پاکستان، مؤمنانہ شان کا مظاہرہ جس کی روح آنحضرت کے عاشق صادق نے ایک احمدی کے دل میں پھونک دی ہے شب دیگ 61 خواجہ کمال دین صاحب کا شب دیگ پکوانا 357 شدت پسندی.مذہبی شدت پسند گروہ.اور اس کے بھیانک نقصانات 101 پاکستان میں آنے والا سیلاب ملک کی تاریخ کا بد ترین مغربی ممالک کا مسلمانوں اور اسلام کو ایک بھیانک اور سیلاب انڈونیشیا کی سونامی سے بھی زیادہ تباہ کن 136 شدت پسند گروہ اور مذہب کے طور پر پیش کرنا اور پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور مولویوں کا عوام پاکستان / افغانستان کو مثال کے طور پر پیش کرنا 27 کو یہ تسلی دلانا کہ یہ عذاب نہیں تھا...کیونکہ عذاب شرک نبی...ش 136 شرک کی بجائے توحید اور خدا کے قریب لانے کے لئے ایک امام کی بعثت اور چھوٹی سی جماعت احمدیہ جماعت 401 400 شادیوں اور رشتوں میں پیدا ہونے والے مسائل اور ان دنیا کا ایک بڑا حصہ شرک میں مبتلا ہے جادو ٹونہ اور پیروں فقیروں کے پاس جانے کا جاہلانہ کاحل 127.126 طریق.شرک خلاف تعلیم سلسلہ ایک شادی میں حرکات اور تعزیری سزا جھوٹ کی مذمت.یہ بھی ایک شرک ہے اور اس کی تفصیل 52 433 55
خطبات مسرور جلد نهم شعر / اشعار بد تر بنو ہر ایک سے دنیا بھی اک سرا ہے....کس طرح تیر اکروں اے ذوالمنن 407 385 328 33 انڈیکس مضامین اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ صحیح استعمال بھی ضروری ہے 330 اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر شکر گزار ہونے کا طریق 328 شنوازم جاپانیوں کا شنٹو ازم اور بدھ مت کی پیروی کرنا 133 كنت السواد لناظری...حضرت حسان کا شعر جو شہادت شہید.نابینا تھے.شعر کا پس منظر اور...من تو شدم.میں کبھی آدم کبھی موسی...میں وہ پانی ہوں...رحمت بھی بخشش بھی تیری“ شفا 125.124 578 643 645 ہمیں ہر شہادت کے بعد یہ عہد کرنا چاہیئے کہ ہم ان ظلموں کی وجہ سے ایمان ضائع نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس میں بڑھنے کی کوشش کریں گے جماعت احمدیہ کی (شہادتوں) کے بدلہ میں بے حساب حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے اشعار ”عمر محبت بھی انعامات 389 73 463 شہدائے انڈو نیشیا.آسمان احمدیت کے روشن ستارے 73 رشید احمد بٹ صاحب کا ایک کشف شہدائے لاہور الحاج بنتی صاحب ناقابل علاج مریض.حضور کو خط کے بارہ میں دعا اور معجزانہ شفا شفاعت شفیع اور شفاعت کا مقام اور...شفاعت کا صحیح اسلامی نظریہ کیا ہے 447 224 226 آنحضرت صلی ا تم کو اذن ہو گا تب آپ صلی ا یکم شفاعت 228 شیطان شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے ص صبر کی تعلیم اور تلقین 59 598 74.42 کریں گے ایک خادم کا کہنا کہ قیامت کے روز میرے شفاعت کریں یہ سوال کہ جابر اور ظالم حکمر ان کے خلاف کس حد تک 229 صبر ( دکھائیں) صحابه 153 فرمایا سجدوں کی کثرت سے میرے مدد کرو ابو ہریرہ کی روایت کہ قیامت کے روز میری شفاعت اس کے لئے ہوگی جس نے اخلاص سے کہا اللہ کے سوا کوئی حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ اگر کسی نے آنحضرت صلى الم کے صحابی کی زیارت کرنی ہے تو وہ سردار فضل معبود نہیں 229 170.169 حضرت ابو ہریرہ کی روایت کہ ہر نبی کے لئے ایک خاص حق کو دیکھ لے دعا ہوتی ہے.میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے قیامت صحابہ حضرت مسیح موعودؓ کی زندگیوں میں پیدا ہونے والا تک بچا کر رکھوں گا شق القمر 232 آنحضرت صلی الم کے زمانہ میں شق القمر کا معجزہ 40 انقلاب...کچھ روایات صحابہ رسول کا عظیم مقام صحابہ کا غلاموں کو آزاد کرنے کا نمونہ 648.637 114 583 ہو سکتا ہے یہ کسی قسم کے گرہن کی صورت ہو 41 صحابہ کا مسیح موعود کی باتیں غور سے سننے اور استفادہ شکر گزاری اس زمانے کے امام کو مانے کی توفیق مانا اللہ کا احمدی پر ایک کرنے کا اشتیاق...صحابہ کا مقام و مرتبہ احسان عظیم ہے تمام زندگی بھی شکر ادا کریں تو کم 297 321 600
خطبات مسرور جلد نهم صحابہ کا مقام.اور اسلام میں دو بڑے گروہ.شیعہ اور سنی...592 34 b انڈیکس مضامین طاعون.جو مجھے پہچانتا ہے اور جس کو میں پہچانتا ہوں وہ صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے 637 طاعون سے محفوظ رہے گا صحابہ کے اخلاص و وفا کے نمونے 168 171 ابولہب کا طاعون جیسی بیماری السر سے ہلاک ہونا صحابہ کے حضرت مسیح موعود کے ساتھ عشق و محبت کے اور عبرتناک انجام ، گڑھے میں پھینک دیا 58 واقعات...مہمان نوازی و غیرہ 325310 صحابہ کے سامنے توت اور شہتوت کی ٹوکریاں رکھ دیں...311 طاہر فاؤنڈیشن طلباء 625.569 احمدی طلباء.احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے قرآن ایک صحابی کو خواب اور آواز آنا محلہ ناصر آباد اس جگہ کا نام کریم کو رہنما بنالو ، اپنی تعلیم کے میدان میں، ریسرچ میں ابراہیمی جنگل 643 حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے تقویٰ کا اعلیٰ معیار 4 اس کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا 335 حضرت مسیح موعود کے صحابہ کی روایات کا تذکرہ 168 طلاق.خلع طلاق کے مسائل.ایک سبب برداشت کا کم حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں پیدا ہونے والا انقلاب 325 حضرت مسیح موعود کے صحابہ نے اپنے اندر جو انقلاب پیدا ہونا...ظ 334 کیا 201 حضرت مسیح موعود کی صحابی کو آسمانوں سے آواز آنا640 اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کی جلد صفیں لپیٹ دے 502 ایک صحابی کا حضرت مسیح موعود سے کہنا کہ میں نے اب یہ ظالم اور ظلم ہماری آنکھوں کے آگے فنا ہو جائیں گے.اپنی بیوی کو میکے نہیں جانے دینا اور حضور کا سخت رد انشاء الله عمل...301 503 اللہ ہمارے ملکوں کو ظالموں کے پنجہ سے آزاد کرے 73 ایک صحابی کا دیر تک نفل پڑھتے ہوئے صرف ایاک نعبد.ع کا تکرار صحابہ کی قبولیت دعا اور توکل 420 640-639 عاجزی / عجز ایک دن آئے گا کہ ہماری یہی عاجزی یہی غلامی دنیا کو حقیقی کبار صحابہ اور خلفائے راشدین حضرت علی اور حضرت آزادی کا نظارہ دکھائے گی حسین کا مقام احمدیہ جماعت کے نزدیک.حضرت بانی عالم اسلام اور ایک احمدی کی بے چینی...سلسلہ کے ارشادات صد سالہ خلافت جوبلی کمیٹی صدر قضا بورڈ کینیڈا 603 593 628 152 عبادت کی حقیقت عرب 590 103 421 عرب ممالک میں حکمرانوں کے خلاف تازہ رو اور حضور صدی.چودھویں صدی میں امام مہدی.اور بڑے مجد د کا انور کی رہنمائی...انتظار اور پھر اس کی تکذیب صلح حدیبیه 602.601 42.41 183 عرب ڈیسک.کی قابل ذکر کوششیں (جلسہ کے حوالہ سے) 380 صلح حدیبیہ کے موقعہ پر عہد پورا کرنے کی سنہری مثال 56 ایک عرب ملک جو تحریک جدید کی مالی قربانی میں نمایاں 551
خطبات مسرور جلد نهم 35 انڈیکس مضامین بعض ملکوں اور خاص طور پر عرب ممالک میں شور شرابہ.عورت اس کی ایک وجہ کہ عوام کا خیال.غلاموں جیسا سلوک 585 احمدیہ جماعت کے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے لوگ جو اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں اور اس کی مثال.پاکستان کے خدام اور عورتوں کے خطوط...203 عربی کا احترام کرنے کی مثال...عریبک ڈیسک 149 مختلف ممالک میں سیاسی ابتری اور احمدیوں کے لئے رہنما عورتوں کی اصلاح کی اہمیت.اگلی نسلوں کی اصلاح کی بھی ہدایات اور عریبک ڈیسک اور بانی طاہر صاحب کے ساتھ ضمانت تفصیلی گفتگو.عزت اسلام ہمیں انبیاء کی عزت کرنا سکھاتا ہے 153.154 610 عہدیدار 202 کسی عہدیدار کے لئے الگ سے بٹیر پکے تو حضور نے سب علم / علماء کے لئے بٹیر پکوائے عہد ید اران اور ممبر ان بھی جائزہ لیں 370 478 آخرین کے دور میں تلوار کی جنگ اور جہاد کا خاتمہ یہ زمانہ عہدیداران جماعت کی اطاعت اور عہدیداران کو بھی 500 نصیحت علمی جہاد کا ہے دعاء، عمل اور علم سے اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیم عہدیداران کے فرائض اور نصائح سے یہ دنیاوی عہدہ نہیں.وہ خادم ہے 520 207 491.490 490 دنیا کے سامنے پیش کریں ہر احمدی کو اپنے علم میں اضافے کی کوشش کرنی چاہیئے 105 عیسائی / عیسائیت ہمارا علم کس کام کا ہے اگر موقعے پر وہ ہمارے اخلاق کو ایک عیسائی کا طنزاً کہنا کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کر ظاہر نہیں کرتا 542 لیں...455 جرمنی اور یورپ میں اسلام کے دفاع کی ضرورت ہے حضرت عیسیٰ اور عیسائیت کی اصل بائبل کی روسے 225 آگے بڑھیں علم حاصل کریں..اسلام کی برتری کو تمام 15 536 عیسائی مذہب اور شفاعت کا تصور Saints کو اور پوپ جان پال دی سیکنڈ کے بارہ میں شفاعت کا مقام رکھنے کا 224 مذاہب پر ثابت کریں عام علماء کی حالت کا بیان جو مکفرین تھے غیر مسلم ممالک میں احمد یہ جماعت کا اسلام کا پیغام پہنچانا عقیده اور نام نہاد مسلمان علماء کی مخالفت...موجودہ زمانے میں صرف حکمران ہی نہیں علماء بھی ملوث حضرت مسیح موعود اور جماعت کے مبلغین کی مساعی سے ہیں...607 587 عیسائیت کا تمام افریقہ کو عیسائی بنانے کا دعویٰ اور زعم.ایک دیوار کھڑی کر دی.لیکن مسلمانوں کا رد عمل...510 مخالف علماء کا عوام کو ورغلانے کا طرز عمل اور خد اتعالیٰ کا غیر مسلموں ، ہندو، عیسائیوں کی خدا کی طرف سے احمدیہ فعلی تائیدی ثبوت عمره 210 جماعت کے حق میں رہنمائی 518.517 حضرت عمرؓ کا نظام حکومت کہ عیسائیوں کا خواہش سیر یا (شام) کے ایک شخص کا احمدی ہونا اور حضرت کرنا دعا کرنا دوبارہ آؤ مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کی طرف سے عمرہ کرنا 285 عمل.حکمرانوں کے لئے آنحضرت کے ارشادات اور غلامی غ 586.587.165 نصیحت جس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں بے امنی 586 اسلام میں آزادی / غلاموں کی آزادی کی تعلیم 589،581
خطبات مسرور جلد نهم 36 انڈیکس مضامین 341 آج کل کی آزادی.آزادی کے نام پر ایک غلامی سے نکل ناجی فرقہ کی تلاش میں ایک شخص....احمدیت قبول کر لینا کر دوسری غلامی میں جانا ہے، مسلم ، افریقن ممالک کے سربراہ، فوج اور مذہبی رہنماؤں کے لئے...589 یہ سوال کرنے والے کہ فرقے کم ہیں جو آپ نے بھی ایک فرقہ بنالیا...اگر آپ اسلام کے ہمدرد ہیں تو فرقہ بندیوں سے آزاد کرنے کی کوشش کریں...ایسے سوال غلبه دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو ہمارے غلبہ کو روک سکے.اور کرنے والوں کا شکر یہ اور جواب ہمارے غلبہ کے ہتھیار...ہمارے غلبہ کے ہتھیار تقویٰ میں بڑھنا ہے غلط بیانی 328 329 591 حضرت مسیح موعود فرقوں کو ختم کرنے آئے 594 آپ کی بعثت اور فرقوں کا خاتمہ فساد 591 احمدی کا حکومت / کونسل سے غلط بیانی سے مالی مفاد حاصل اب مسلمانوں کے وقار اور ہر قسم کے فسادوں سے بچنے کی کر نائیکس صحیح طور پر ادانہ کرنا، بدنامی کا باعث پھر تبلیغ ایک ہی راہ ہے کیونکر کرے گا 456 588 احمدیوں نے اپنے آپ کو فساد سے بچانا ہے 166،165 دنیا کو فساد اور تباہی سے بچانے کے لئے صرف دعا کا ہتھیار 410 ہماری غمی اور خوشی خدا کی رضا کے حصول کی خاطر 386 دنیا میں فساد اور بے چینی.اور اس کا علاج 405 اب دین محمد ہی دنیا کے فسادوں کو دور کرنے کے لئے غیر مبالعین غیر مبالعین کا رسالہ الوصیت کے ایک اقتباس سے غلط آخری امید گاہ اور علاج ہے استدلال اور خلافت کو ایک شخص کی بجائے افراد کا مجموعہ فضل قرار دینا غیر مبائعین کی محرومی اور اس کا سبب غیر مسلم 270-271 300 401 اللہ کے فضل کے بدلے ہوئے معیار کی ایک مثال.ناجائز آمد اللہ کا فضل اور حائز آمد حکومت کی تنخواہ...4 اللہ کے فضل حاصل کرنے کے طریق.قربانی اور مصلح غیر مسلموں ، ہندو، عیسائیوں کی خدا کی طرف سے احمدیہ اور مہدی کی ضرورت و اہمیت جماعت کے حق میں رہنمائی ف 518.517 فرستادہ.اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی آمد کا سبب اور پس منظر فرعون 453.452 4 جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی 376 اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر شکر گزار ہونے کا طریق 328 فضل عمر فاؤنڈیشن 625 کیا ہم آج کے فرعونوں یا اس کے چیلوں سے ڈر کر اپنا فضل عمر فاؤنڈیشن.کا قیام اور انوار العلوم کی اکیس جلدوں کی اشاعت اور ان کے ترجمہ کے لئے...اپنے 61 ایمان ضائع کر دیں گے...؟ ہر زمانے کے فرعون کے سامنے ایمان لانے والوں کا کام میں تیزی پیداکریں فضل عمر ہسپتال جرأت مندانہ اظہار فرقان بٹالین فرقه 61 410 90 221 فضل عمر ہسپتال کی موجودہ وسعت اور ابتدائی حالات 222،221 فا اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے کو کافر کہنا 592 ہمیں دکھ دینے والے تو بہ کر لیں گے یافت ہو جائیں گے 74
خطبات مسرور جلد نهم ق قاضی 37 قرآن انڈیکس مضامین حضرت مسیح موعود کا قرآن کریم کی محبت اور عظمت کی 6230617 حضرت عیسی کی ایک تمثیل ،دعا کے حوالہ سے، اہمیت اپنی کتب میں.قاضی سے ایک عورت کا انصاف مانگنا...کیا تمہارا قرآن اور اسلام کا انصاف پر جتنا زور دیا ہے اور کسی کتاب خدا قاضی جیسا بھی نہیں قانون قانون اور گورنمنٹ کا ایک فرض...251 163 نے نہیں دیا 146 قرآن اور اسلامی قوانین پر اعتراضات کرنے والے، خاص طور پر دو عورتیں جن کا (انگلستان میں) بڑا شہرہ ہے قانون شکنی کی تلقین کرنے والوں سے ہم کبھی تعاون نہیں خدام الاحمدیہ یو کے کی کوشش سے ایک ڈیبیٹ.اور جامعہ کے دو طالب علموں نے...ان کو لاجواب کر سکتے آج کل قانون کی نہیں ملاؤں کی حکمرانی ہے 164 605 کر دیا...اور اسلامی تعلیم کی فتح 621-620 احمدیت کے پیغام کو اکثریت ملکی قانون اور ملاں کے خوف قرآن زندہ کتاب ہے جس میں قیامت تک کے لئے وہ تمام احکام ، اوامر و نواہی...ہیں سے سمجھنا نہیں چاہتی احمدی ہر قانون کی پابندی کرتا ہے 605 157 گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ہے جو خطر ناک جرم ہے...163 78 قرآن کا صرف ترجمہ پڑھنا اور متن نہ پڑھنا.درست نہیں.حضور قرآن، خاتم الکتب.اور آزادی کا مضمون 618 582 539 1 491 " قرآن کریم کو اپنا پیشوا پکڑو پاکستان یا دوسرے ممالک میں جب احمدیوں کو یہ قرآن کریم کا کوئی حکم بھی پرانا نہیں کہا جاتا ہے تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں.ہم مسلمان کہتے ہیں.یا کلمہ نہ پڑھو.ہم قرآن کریم کی عظمت حضرت مسیح موعود کی تحریرات 143 پڑھتے ہیں.یا ایک دوسرے کو سلام نہ کہو ، یا قرآن کریم قرآن کریم میں رزق / مالی قربانی کا ذکر نہ پڑھو.تو یہ ہمارے مذہب کا اور دین کا معاملہ ہے.اس قرآن کو جلانے کا رد عمل یہ ہو کہ اپنے قول، عمل اور بارہ میں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے اطاعت کی ضرورت کردار سے قرآن کی خوبصورت تصویر پیش کی جائے 140 نہیں.لیکن یہاں بھی ہم بغاوت نہیں کرتے.صرف ان قرآن نمائش.لگانے کا حکم اور اس کی حکمت...اور معاملوں میں ہم کبھی کسی قسم کے قانون کو مان ہی نہیں افادیت سکتے کیونکہ یہ شریعت کا معاملہ ہے.اللہ اور رسول کے احمدی قرآن کریم اور آنحضرت کی عظمت پر تبھی گواہ حکموں کا معاملہ ہے.جہاں تک ملک کے دوسرے قوانین ٹھہر سکتا ہے جب اھدنا الصراط...کی دعا پڑھتے ہوئے کا تعلق ہے ، اس کے باوجود ہر احمدی ہر قانون کی پابندی ترقی کے مدارج طے کرتا جائے 157 606 303 کرتا ہے.امریکہ سمیت دیگر ممالک میں قرآن نمائش لگانے کی مغربی ممالک میں قانون کی برتری.اس سے حکمت تحریک اور اس کی افادیت.اور اصولی رہنما ہدایت 145 کے ساتھ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور اس قانون برتر ایسی مجلسیں ہوں جہاں قرآن کریم سے چھوٹی چھوٹی باتیں نکال کے بچوں کے سامنے بیان کی جائیں کی ایک مثال 608.607 618 ایک بد فطرت پادری امریکی کی قرآن کریم کو جلانے کی ہم دنیاوی تدبیر کے لئے قانونی چارہ جوئی تو کرتے ہیں لیکن ذموم حرکت اور اس کی مذمت...اور ایک مؤمن کارد قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے 73 عمل...140.139
خطبات مسرور جلد نهم 38 انڈیکس مضامین 616 بڑھتے چلے جارہے ہیں...4 272 احمدیوں پر ایک یہ ظلم کہ قرآن اور اس کے رسول کی اللہ کے فضل حاصل کرنے کے طریق.قربانی اور مصلح ہتک خود کر کے الزام احمدیوں پر لگا دیتے ہیں 604 اور مہدی کی ضرورت و اہمیت بچوں کا چھوٹی عمر میں قرآن کریم ختم کرنا اور ماؤں کا محنت دنیا کے ہر کونے میں جماعت احمدیہ کے قربانیوں کے معیار کرنا اور حضور سے آمین کروانے کا شوق اس ٹی وی ، انٹرنیٹ کے دور میں صبح با قاعدہ تلاوت قربانی کا معیار جذ بہ اور نسبت کا ہے مقدار کا نہیں 3 کرنا.اسے قرآن کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا 617 احمدی کا اخلاص و وفا اور مالی قربانی کا اظہار.کچھ واقعات 547 ترجمہ قرآن خلیفہ رابع میں شاہ صاحب کی محنت اور حضور مالی قربانی کرنے والے مختلف ممالک کے احمدیوں کے اخلاص اور فضل کے تذکرے کا اظہار تشکر 627 1006 ترجمه قرآن کشمیری زبان.نظر ثانی کرنے کی توفیق پائی.مالی قربانی کے نتیجہ میں ایک احمدی کے ایمان میں اضافہ 625 سید عبدالحئی کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن.کا قرآن جلانے کی خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار 140 مخالفین کا اعتراض کہ قرآن کریم شدت پسندی اور 139 اور پختگی 2 اللہ کو کبھی پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی.بندے کو ثواب دینے کی خاطر...اور یہی حال انبیاء کا ہوتا ہے انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ جماعت کے اخراجات کس طرح پورے ہوں گے.انبیاء اور خلفاء ظاہری تحریک کرتے دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے مستشرقین کا آنحضرت اور قرآن کی تعریف کرنا 141 ہیں...ہر احمدی قرآن کریم کو آخری شرعی کتاب پر یقین رکھتا ایک خاتون کا ڈھیر سونے کے زیورات حضور انور کی خدمت میں دے کر جانا کہ جماعت کو دینے کا عہد تھا کہ ہے 1 امن کے قیام اور پر امن معاشرے کے لئے قرآن کی اعلیٰ تعلیم 146 481 481 اب مجھ پر حرام ہے مالی قربانی.خدا تعالٰی کے حکموں میں سے ایک حکم 1 ہمارا یہ کام ہے کہ جب بھی اسلام / آنحضرت / قرآن پر نفس کی قربانی اور اس کی روح کو سمجھ کر قربانی کرنے دشمنوں کے غلیظ حملوں کو دیکھیں تو اپنے عملوں کو صحیح والے نوجوان، مرد اور عور تیں اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں 147 ہر احمدی کی ہر قربانی ہمارے لئے نئی منزلوں کے حصول کا قرآن کریم کو رہنما بنالو ، اپنی تعلیم کے میدان میں، ریسرچ میں اس کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہارا قربانیوں میں اصل قربانی کی روح ہے.زیادہ یا تھوڑے کا مقابلہ نہیں کر سکتا 335 ذریعہ بنتی ہے سوال نہیں 112 2 حضور کا بیان فرموده درود شریف، الحمد شریف، استغفار، قرض کی شکایت.حضور علیہ السلام کا فرمانا کہ کثرت قرآن کا مطالعہ اور تلاوت اور لاحول قربانی 639 سے درود شریف پڑھا کرو قسم.خدا کی قسم.حضرت مسیح موعود کا مالی قربانیوں کی تحریک کرنا لیکن قلعی کرنے کا پر اسیس بھروسہ کبھی کسی پر نہیں کیا.اور ہمیشہ خدا کے فرستادے قوم ایسا کرتے آئے 543 آج ہر قوم کو ہوشیار کرنا ہمارا کام ہے 312 590 115.114 134
خطبات مسرور جلد نهم 39 وہ تو میں جو سمجھتی ہیں کہ ہم محفوظ ہیں لیکن زمانے کے امام کلمہ گو.ہم کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے کی پیشگوئی کے مطابق وہ بھی محفوظ نہیں...وہ ک 135 انڈیکس مضامین 488 کمپلیکس.احمدیوں کو دینی علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلاء نہ ہو...444 کارکنان کو ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہیے 314 کن.کے عمل کا پروسیس.تفسیر کام احمدیوں کے سپر د کام.اپنی اصلاح کتب حضرت مسیح موعود كتب مسیح موعود کی اہمیت اور افادیت 471 248 روحانی معارف سے پر لٹریچر جو آپ کے کارناموں کا گواہ 543 مخالفین کی ایک نئی مہم کہ حضرت مسیح موعود کی کتب سے حوالے توڑ مروڑ کر پیش کرنا 174 حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ دعاؤں کا مضمون اور 244 کنبه حضرت سید عبد الستار شاہ ،خلیفہ اول کی خدمت کرنا حضرت مسیح موعود کا فرمانا.یہ بہشتی کنبہ ہے 116، 117 کوشش ان کوششوں سے کئی گنازیادہ جماعت ترقی کر رہی ہے جو ہم کرتے ہیں کونسل 471 احمدی کا حکومت / کونسل سے غلط بیانی سے مالی مفاد حاصل تحریرات کی روشنی میں حضور انور کی عرفان انگیز پر کر نا ئیں صحیح طور پر ادانہ کرنا، بدنامی کا باعث پھر تبلیغ 438 426 معارف تفسیر و تشریح حضرت مسیح موعود کا کلام ایسا ہے جس کی جگالی کرتے رہنا کیونکر کرے گا چاہیے 426 کھانا 456 سیح موعود کے بیان فرمودہ شہ پارے اور جواہر پارے 425 ایک مہمان کے لئے کھانا (سویاں) گھر سے بنوا کر حضور حضرت مسیح موعود کے لٹریچر (کتب) میں علم و عرفان خود لائے.کے خزانے 413 318 حضرت ام المؤمنین کا گاجر کا حلوہ لانا اور حضور نے حضرت مسیح موعود کا قرآن کریم کی محبت اور عظمت کی اپنے ہاتھ سے ایک مہمان بچے کے منہ میں ڈالا فرمایا تمہارے دائیں ہاتھ میں چوٹ لگی ہے تم بائیں ہاتھ اہمیت اپنی کتب میں.کردار 6230617 سے کھا لو 361 ہم نے انصاف کے قیام اور اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا حضرت چوہدری عبدالرحیم کو حضور علیہ السلام نے بھر پور کردار ادا کرنا ہے 514 کشتی نوح کے بارہ میں تحقیق پر مبنی ایک کتاب...580 پر کشف 500 روپے دے کر فرمایا کہ جلسہ کا انتظام آپ کے سپرد..ایک قسم کا کھانا تیار کرنا 356 جب بھی کوئی دوست آئیں ان کو کھانا کھلایا کرو 316 حضرت مسیح موعود کا ایک کشف...صاحبزادہ عبد گول کمرے میں مہمانوں کا کھانا کھانا اللطیف صاحب کے نقش قدم پر چلنے والے...73 گ 318 رشید احمد بٹ صاحب کا ایک کشف شہدائے لاہور گاجر کا حلوہ: حضرت ام المؤمنین کا گاجر کا حلوہ لانا اور کے بارہ میں 59 حضور نے اپنے ہاتھ سے ایک مہمان بچے کے منہ حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ رؤیا یا کشف کی حالت میں میں ڈالا فرمایا تمہارے دائیں ہاتھ میں چوٹ لگی ہے آنحضرت سے روایت آپ نے سنی یا تصدیق...566 تم بائیں ہاتھ سے کھا لو 361
خطبات مسرور جلد نهم گالی 40 انڈیکس مضامین پاکستان میں احمدیہ جماعت پر مظالم گھٹیا لٹریچر اور فحش کلامی اور گالم گلوچ.ایک احمدی کا فرض ہے کہ اس پوسٹر کی اشاعت...بات سے بچیں...56 لجنہ اماء الله فرمایا لوگ تمہیں جوش دلانے کے لئے گالیاں دیتے ہیں.لجنہ اماء اللہ کی تعریف ان سے محبت کا سلوک کرو دعائیں دو 179 لجنہ اماء اللہ سکاٹ لینڈ 501 477 91 392 مخالفین کی روکوں اور گالیوں سے پریشان ہونے کی لجنہ ربوہ کے لئے حضرت ام ناصر کی خدمات ضرورت نہیں خدا کے لئے سعید فطرت کو آج بھی ساری دنیا کی لجنہ کو حضور کا خطاب سننے کے بارہ میں جماعت گرہن 519 ہدایت...خدام و لجنات جرمنی اور اجتماع خدام برطانیہ اپنے مہدی کے لئے آنحضرت کا سورج اور چاند گرہن کی لمحہ فکریہ پیشگوئی فرمانا 41 525 462 قرغزستان کی ایک نو احمدی غیرت مند ، نیک فطرت نو مبائع چاند، سورج گر ہین.اور حافظ صالح الہ دین صاحب 149 بچی ، باحیالڑ کی جس نے غیر مسلم امریکن کی شادی سے انکار کر سورج گرہن کا کسی کی وفات کے ساتھ کسی کی پیدائش کا دیا اس میں ان لوگوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جب بعض تعلق نہیں گناہ سے نفرت ایک بہت بڑی نعمت ہے گورنمنٹ 16.15 423 حضرت مسیح موعود کا گورنمنٹ کی اطاعت کی ہدایت و نصائح 163.162 بچیاں جو ایسے غیروں میں شادی کو پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں.443 لنگر خانہ حضور کے زمانہ میں ایک مقام لنگر کا...وہ مکان جہاں بعد میں حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ...ہ...313 حضرت مسیح موعود کا گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ اور لنگر خانہ.خلیفہ اول کے مکان کی جنوبی طرف بڑے کنویں 80.79 کے مشرق کی طرف 317 وزیر اعظم گلیڈ سٹون کے نام خط حضرت مسیح موعود کا بارہ ہزار کے قریب والیان ریاست لنگر خانہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کی وسعت، ربوہ کو...دعوتِ اسلام پر مبنی خط روانہ کرنا گول کمرے میں مہمانوں کا کھانا کھانا ل لائبریری.خلافت لائبریری 79 318 632 کے بعد یو کے ، جہاں وسیع انتظام ہے 349 لنگر خانہ کے معاونین کی آزمائش کا ایک نرالا طریق 317 باوجود مہنگائی کے دنیا میں ہر جگہ انگر کے انتظامات بڑے احسن طریق سے چلتے ہیں 355 لاٹری Fortune Fund.کی رقم جائز نہیں.اشاعت لنگر خانہ کے منتظمین کو چھ ماہ کے لئے قادیان سے نکال دیا اسلام پر خرچ ہو 177 جانا...اور حضور کا خود اور میاں محمود کی نگرانی میں کھانا لٹریچر.جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی خوبصورتی اور تکفیر کھلانے کی تجویز...592 314 لنگر خانہ میں عام اور خاص مہمانوں کی تجویز پر حضور نے کے فتووں سے پاک حضرت مسیح موعود کے مخالفین کا حضور ہی کا لٹریچر پڑھ کر اگلے روز فرمایا کہ اللہ نے خبر دی ہے کہ تیر النگر خانہ منظور فائدہ اٹھانا...درس دینا تقریریں کرنا...452 نہیں ہوا...314
خطبات مسرور جلد نهم 41 حضور کے زمانہ میں قحط لنگر کے خرچ کا فکر ہوا تو الہام ہوا | مجلس الیس اللہ...فرمایا لنگر کا خرچ دگنا کر دو.لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود.لیف لیٹس 355 137 خدام الاحمدیہ.جر منی کا قابل تحسین کر دار جماعت کا پیغام لیف لیٹس کے ذریعہ مالی قربانی 336 انڈیکس مضامین مجلس کے آداب.سروں سے پھلانگ کر جانا نہیں چاہیئے...محاسبہ.اپنے نفس کا محاسبہ ضروری ہے 320 304 میں علی اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جوان سے عداوت رکھتا ہے ان سے میں عداوت رکھتا ہوں 601 ہماری مسجدیں ہر جگہ ہمیشہ امن اور محبت اور پیار کا نعرہ بلند اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور ان کی شرائط اور کریں گی علامات 2 حضرت مسیح موعود کا مالی قربانیوں کی تحریک کرنا لیکن بھروسہ کبھی کسی پر نہیں کیا.اور ہمیشہ خدا کے فرستادے ایسا کرتے آئے مجدد 543 496 محرم کا مہینہ اور مختلف ممالک میں اس نسبت سے فساد...مخالفت / مخالفین تزکیہ نفس کے لئے ایک محنت درکار ہے جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ نئی نہیں حضرت ابوہریر ہؓ کی روایت کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مخالفت.الہی جماعتوں کی نشانی مجدد بھیجے گا 294 593 115 106 498 ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا کی تشریح 288،287 مجدد ہر ملک اور ہر علاقے میں پیدا کیا کرتا ہے 293 احمدیت قبول کرنے پر مخالفت اور ان کی ثابت قدمی 186 ایک ایک وقت میں کئی کئی مجددین ہوئے احمدیت کی مخالفت، انبیاء کی تاریخ دہرائی جارہی ہے 555 جس نے بھی دین کی رہنمائی کا فرض ادا کیا اصلاح کا فرض جماعت احمدیہ کی مخالفت، تعارف کا باعث بنتی ہے 463 جماعت احمدیہ کی مخالفت اور جماعت کی ترقی ایک غیر 294 293 87 ادا کیا وہ اپنی اپنی جگہ مجد دتھے احمدی کے تاثرات کیا آئندہ مجدد آسکتے ہیں؟ اس کا تفصیلی بصیرت افروز غیر مسلم ممالک میں احمدیہ جماعت کا اسلام کا پیغام پہنچانا جواب 287 منافق طبع لوگوں کی نیت کہ کسی طرح جماعت میں بے اور نام نہاد مسلمان علماء کی مخالفت...چینی پیدا کی جائے اور ایک طریق یہ کہ خلافت اور مخالفتوں کا انجام.مجددیت میں کیا فرق ہے؟ 287 مخالفین کو چیلنج 607 490.489 560 مجددین کی آمد کے بارہ میں خلافت ثانیہ، ثالثہ اور رابعہ مخالفین کے لئے خدائی وارنگ...اولم یسیروا فی میں جوابات ہر خلیفہ اپنے وقت میں مسجد دہی ہو تا ہے 287 292 الارض...(فاطر :45) 108 اے مخالفین احمدیت! اس خدا سے ڈرو جس کے سامنے مجددین کی گنتی کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا تمہاری دولت، تمہارے گھمنڈ، تکبر، تمہاری مساجد کی جواب.293 امامت، تمہاری سیاسی پارٹیاں، تمہاری حکومت، تمہاری حضرت مسیح موعود کا مقام صرف مجددیت کا نہیں بلکہ عددی اکثریت کوئی حیثیت نہیں رکھتی مہدویت اور مسیحیت کا مقام بھی ہے 290 559
خطبات مسرور جلد نهم 42 انڈیکس مضامین جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مختلف ادوار کے مخالفین اور حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے عورتوں کے لئے ایک مدرسہ کا اجراء اور حضرت ناصرہ بیگم صاحبہ کا ان کا انجام...506 474 186 ابتدائی طالبات میں سے ہونا 392 170 مخالفت کی میں پر واہ نہیں کرتا.“حضور انبیاء کے مخالفین کی پکڑ خدا نے اپنے ہاتھ میں لی ہے 43 حضرت مسیح موعود کا دینی مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ 170 باوجود مخالفت کے آج بھی ڈاک میں سینکڑوں خط حضرت مسیح موعود کا تقریر فرمانا کہ میں نے سکول اس خوشخبریوں اور بیعت کے...لئے قائم کیا کہ لوگ وہاں سے علم حاصل کر کے مخلوق خدا جب ہم اپنے خدا کی مدد اس میں ڈوب کر اس سے مانگیں کو تبلیغ کریں مگر...گے تو وہ دوڑتا ہوا آئے گا اور ہمارے مخالفین کو تباہ و برباد خواجہ کمال دین صاحب کا مسجد مبارک میں یہ کہنا کہ مدرسہ میں پڑہنے والے ملاں بنیں گے تبلیغ کرنا ہم مخالفت سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں احمدیوں کی جیسوں کا کام ہے حضرت مصلح موعودؓ کھڑے ہو کر قربانیاں نئے نئے تبلیغی راستے کھول رہی ہیں.ایک دن فرمانے لگے اس سکول کو یعنی مدرسہ احمدیہ کو مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا حضرت مسیح موعود سے تعلق حضرت مسیح موعود نے قائم فرمایا ہے یہ جاری رہے کر دے گا جوڑ کر امت واحدہ کا نظارہ پیش کرے گی 505 245 گا اور انشاء اللہ اس میں علماء پیدا ہوں گے اور تبلیغ مخالفتوں کے باوجود احمدیہ جماعت کو مساجد بنانے کی ہر حق کریں گے مذہب / مذاہب جگہ توفیق ملنا 311 172 اس وقت جماعت احمدیہ دوسرے مذاہب کے سامنے مخالفین احمدیت کے حملوں میں شدت کے موقعہ پر دعائیں پڑھنے کی تحریک اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے سینہ سپر ہے.اس کی تفصیلات اور جماعت کے مخالفین کار د عمل 500 1- اللهم انا نجعلك - 2- رب انی مظلوم...3.قائد اعظم کا اعلان کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو رب کل شئی...4.رب توفنی مسلماً...260 آزادی احمدیوں کے ساتھ ظلم مخالفین کی ہرزہ سرائی کے باوجود جماعت کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں 453 589 پاکستان یا دوسرے ممالک میں جب احمدیوں کو بہ تہ کہا جاتا ہے تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو ہم یہ بات ماننے اس وقت جماعت احمدیہ دوسرے مذاہب کے سامنے کو تیار نہیں.ہم مسلمان کہتے ہیں.یا کلمہ نہ پڑھو.ہم 500 پڑھتے ہیں.یا ایک دوسرے کو سلام نہ کہو، یا قرآنِ کریم اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے سینہ سپر ہے.اس کی تفصیلات اور جماعت کے مخالفین کا رد عمل یہ خدا تعالیٰ کی جماعت ہے.جماعتی ترقی دیکھ کر دنیا دار اور نہ پڑھو.تو یہ ہمارے مذہب کا اور دین کا معاملہ ہے.اس بارہ میں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے اطاعت کی ضرورت مخالفین زیادہ بوکھلا گئے.ان کی تمام کوششیں اور دشمنیاں نہیں.لیکن یہاں بھی ہم بغاوت نہیں کرتے.صرف ان رائیگاں جائیں گی 522 معاملوں میں ہم کبھی کسی قسم کے قانون کو مان ہی نہیں اسلام، قرآن اور آنحضرت کے خلاف مخالفین کے بغض کا اظہار مدرسہ احمدیہ 139 625 مدرسہ احمدیہ.جہاں پہلے جلسہ سالانہ ہوا کرتا 354 سکتے کیونکہ یہ شریعت کا معاملہ ہے.اللہ اور رسول کے حکموں کا معاملہ ہے.جہاں تک ملک کے دوسرے قوانین کا تعلق ہے، اس کے باوجود ہر احمدی ہر قانون کی پابندی کرتا ہے.157
خطبات مسرور جلد نهم 43 انڈیکس مضامین مرید.”میرے مرید خواہ وہ غریب ہوں یا امیر...میرا زر خیز.دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت 95 مسلمان ملکوں کے لئے دعا کی اپیل کہ ہر قسم کے شر ان کے ساتھ ایک ہی جیسا تعلق ہے.مسجد مسجد بنا دو تمہارا اتعارف خود بخود ہو جائے گا مسجد بنانا ہمارے کام کی انتہاء نہیں 354 496 490 پسندوں سے محفوظ رکھے...603 بر صغیر کے مسلمانوں کو ہوش کرنی چاہیے کہ وہ بھی محفوظ نہیں...138 مسجد کی تعمیر پر شکر گزاری مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک ابو بکر، عمر، عثمان، علی کا سے ہی ہے 486 جماعت احمدیہ کی تعمیر کردہ مساجد کے مقاصد 487 جماعت احمدیہ ناروے.کی خوبصورت مسجد کا افتتاح اور کوائف 495.486 سارنگ پیدا نہ ہو وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے...خدا 594 کی راہ میں زندگیاں وقف کی ہوئی تھیں مسلم ممالک کے بعض سر بر اہان کی خود غرضی 94 مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں نمازیوں مسلمان ممالک کا ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا ہونا اور پھر بھی کے ساتھ...494 مؤمن اور جو حقیقی مؤمن ہیں وہ ان کی نظر میں کافر 54 مسجد بیت السلام “ کینیڈا کا تعمیر کے لئے ایک لاکھ ڈالر مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے اسلام کی تعلیم پر مسجد اقصیٰ مسجد اقصیٰ قادیان 152 323 324 180.176.120 420 181 اعتراض...ہم احمدیوں کو اس سے خوشی نہیں...57 مسلمانوں میں بے چینی.مایوسی کا علاج کہ مسیح و مہدی کی آغوش میں آجاؤ 242 مسجد اقصیٰ کے جنوب مشرقی کونے میں ایک ہندو کا گھر.ہمیں مسلمان ہونے کے لئے کسی مولوی کے فتوے یا اس کا گالیاں دینا.اور اب وہ مسجد اقصیٰ کا جزو ہے 316 حکومت کے فیصلے کی ضرورت نہیں.ہمارے ایمان پر مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ صرف 6 افراد اصل مہر ہماری اللہ اور اس کے رسول کے احکامات...489 مسجد خدیجہ برلن جرمنی سے حضور انور کا خطبہ جمعہ 326 مسلمانوں میں سے.ایک طبقہ جو مفسد علماء کے پیچھے چل کر بغیر سوچے سمجھے احمدیت کا مخالف.ایک لا تعلقی ہے مذہب سے ، اور خوف سے خاموش.ایک چاہتا ہے کہ تمام فرقے ایک ہو کر اسلام مخالف قوتوں کو جواب دیا فضل مي مسجد مبارک 12 647.175 642 مسجد مبارک کے بالائی حصہ پر نماز مسجد مبارک حضور کی مجلس میں ایک دوست کا سروں سے جائے...پھاندتے ہوئے حضور کے قریب جانا کسی کی پگڑی اتر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ 591 86 جانا.حضور نے خلیفہ اول کو کچھ فرمایا ان کی تقریر 320 حضرت مسیح موعود بھی مرزا بشیر الدین محمود صاحب کو ہی مسجد مبارک میں کھڑکی کے راستہ حضور کا تشریف لانا اور مصلح موعودؓ سمجھتے تھے ساتھ والے کمرہ میں مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانا 312 حضرت مسیح موعود کا پیشگوئی فرمانا مصلح موعود کے بارہ میں 77 ہماری ترقی، ہماری مساجد دونوں کو چھتی ہیں.اسلام مظاہرے نیز دیکھیں ”حکومت / ہڑتال“ حکومت کے خلاف مظاہرے خلاف شریعت عمل 156 مخالف قوتوں اور مولویوں کو 520 مغرب میں بسنے والی قوموں کی حالت 49 مسلم / مسلمان مسلمان ملک قدرتی وسائل کی دولت اور افرادی قوت سے کس طرح اصل امن دنیا میں قائم ہو سکتا ہے قرآنی تعلیم
خطبات مسرور جلد نهم کیا ہے.اور مغربی طاقتوں کا دوہر ارو یہ...531 44 موسم انڈیکس مضامین مفاد پرست ملا.جو امام زمان کی تکذیب کر رہا ہے اور عوام موسمی تغیرات اور آفات.حکمت اور اسباب 130 کو بھی گمراہ کر رہا ہے لگتا ہے کہ ان کے لئے بظاہر اصلاح مولوی / ملاں 298 احمدیت کے پیغام کو اکثریت ملکی قانون اور ملاں کے خوف کے سب ذریعے بند ہو چکے ہیں مقدمہ.کرم دین والے مقدمہ میں گورداسپور.حضرت سے سمجھنا نہیں چاہتی مسیح موعود کا فرمانا کہ جو سرمایہ ہمارے گھر تھا وہ سب خرچ پاکستان میں ملاؤں کے بے ہودہ ہو گیا...171 پروگرام گوئی پر 605 مشتمل 515 ایک احمدی پر یہ کہ کر جھوٹا مقدمہ کہ تم احمدی ہو اس اگر سکول کا ہیڈ ماسٹر یا شریف مولویوں اور فسادیوں کی لئے...کے 559 بات نہیں مانتا تو...559 معصوم احمدی بچوں پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام اور مفاد پرست ملا.جو امام زمان کی تکذیب کر رہا ہے اور عوام کو بھی گمراہ کر رہا ہے لگتا ہے کہ ان کے لئے بظاہر اصلاح مقدمات کا سلسلہ.سکول سے نکالا جانا مناد سپا 605 کے سب ذریعے بند ہو چکے ہیں ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگنا دسہا پانے والے احمدی سائنسدان ملک / ممالک 147 298 خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا اور انہیں دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے.110 احمدی جو ملک کی خاطر قربان ہو رہے ہیں.پھر بھی شکوہ کہ ہماری ترقی ہماری مساجد دونوں کو چھتی ہیں.اسلام یہ ملک کے وفادار نہیں 497 مخالف قوتوں اور مولویوں کو 520 آج کل کی آزادی.آزادی کے نام پر ایک غلامی سے نکل حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بھی مولویوں اور علماء کا کر دوسری غلامی میں جانا ہے ، مسلم ، افریقن ممالک کے کردار کہ قرآن سے مقابلہ نہیں کر سکے سربراہ، فوج اور مذہبی رہنماؤں کے لئے...589 مومن 445 منارۃ المسیح کی تعمیر کے سلسلہ میں تحصیلدار کا قادیان مومن کا کام ہے کہ حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ جمع کرے 306 آنا...منافق / منافقت 177 مومن کا کام ہے کہ ہر محاذ پر نظر رکھے 145 مہاجرین.مہاجرین سے انصار کا محبت بھر اسلوک لیکن منافق طبع لوگوں کی نیت کہ کسی طرح جماعت میں بے مہاجرین مہمان نوازی کرانے کی بجائے خود کماتے...368 چینی پیدا کی جائے اور ایک طریق یہ کہ خلافت اور مهدی مجددیت میں کیا فرق ہے؟ 287 جب مہدی کا ظہور ہو تو برف کی سلوں پر سے بھی گذر کر عمل اگر قول کا ساتھ نہیں دیتا تو یہ منافقت ہے اور اس جانا پڑے تو جانا میر اسلام کہنا میں کبھی برکت نہیں پر سکتی نفاق کے بھیانک نقصان 457 56 موبائل فون کے غلط اور لغو استعمال اور حضور کی نصیحت 476 297-236 حضرت مسیح موعود کا مقام صرف مجددیت کا نہیں بلکہ مہدویت اور مسیحیت کا مقام بھی ہے 290 اللہ کے فضل حاصل کرنے کے طریق.قربانی اور مصلح پر.یہ ترک کر دینا ٹی وی ، انٹر نیٹ ، موبائل فون وغیرہ کابے جا استعمال اور اور مہدی کی ضرورت و اہمیت 4 بچوں اور خدام کا حضور کی نصیحت پر مثبت رد عمل..525 درود شریف پڑھتے ہوئے جب ”آل محمد “ کہتے ہیں تو
خطبات مسرور جلد نهم 45 انڈیکس مضامین آنحضرت کے پیارے مہدی کا تصور بھی ابھرنا چاہیئے جس حضور کا مہمان کے لئے خود پلنگ اٹھا کر لانا اور فرمایا پلنگ بھاری ہے آپ سے نہیں اٹھے گا...آپ اس پر بیٹھ نے اس زمانے میں ہماری راہنمائی فرمائی مہمان / مہمان نوازی مہمان کی خواہش کا احترام.حضور کا خلق 30 356 جائیں.اور خود پانی لا کر پلانا...358 حضور کا خود مہمان کے لئے بستر لانا واپسی پر کھانا باندھ کر 358 مہمان کی عزت نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے 371 370 دینا اور گلی تک چھوڑنا.یہ طالب علم تھے حضور کا فرمانا کہ یہاں کثرت سے آیا کرو...اور پر اٹھا 348 مہمان نوازی کی اہمیت مہمان نوازی.تین دن کے لئے گو بعض حالات میں زیادہ اور سالن رومال میں باندھ کر اپنے ہاتھ سے عطا فر مایا 355 بھی...مہمان نوازی.لطیف طریق...366 352 حضور کا گورداسپور سفر فرمانا.سردیوں کی رات تیز ہو ا تھی ٹرین سے اترے.سب کا سو جانا.حضور کا ایک ایک کا بستر ایک مہمان پٹھان.گوشت کے بغیر کھانا نہ کھانا...356 چیک کرنا اور اپنے بستر کے کپڑے لا کر ڈالنا...355 ایک مہمان کا بھو کا سونا اور حضور کو الہام ہو ایا ایھا النبی اطعموا...312 رات کے وقت حضور کا دودھ کا پیالہ اور ڈبل روٹی اٹھا کر 352 ایک مہمان کو حضور نے شربت پلایا...اور الگ کھانا تیار مہمان کو ڈھونڈنا...حضور کا مہمانوں کی خدمت اور نگہداشت کے لئے ایک کرنے کا حکم 358 360 کمیٹی بنانا 314 ایک مہمان کے لئے حضور کا دودھ بھیجنا جلسہ کے مہمانوں کے لئے ایک ہی طرح کا کھانا پکا کرے گا 369 حضور کے زمانہ میں ایک بار مہمانوں کے ساتھ معاونین کی دیکھو میاں غلام حسین ! مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو 362 بد تمیزی اور حضور علیہ السلام کا رد عمل...313،314 مہاجرین سے انصار کا محبت بھرا سلوک لیکن مہاجرین حضور کے زمانہ میں کھانا کھلانے کا انتظام ایک ضلع مہمان نوازی کرانے کی بجائے خود کماتے...368 کے آدمیوں کا کھانا کھلانا، دروازہ بند کر کے.ایک الہام مہمانوں کا رات بھوکے سونا اور حضور کو الہام ہونا...اور کے بعد فرمایا دروازے سب کے لئے کھول دو 313،312 حضور کو الہام ہونا کہ جب مہمان آوے تو مہمان نوازی نصف رات کے بعد کھانا " الہامی کھانا“ 353 315 میزبان اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان کے لئے نصائح 349 کرنی چاہیئے مہمانوں کی ذمہ داریاں اور فرائض (جلسہ سالانہ) 365،374 حضور کا مہمانوں کے جذبات کا احساس اڑھائی روٹیاں حضور نے مہمانوں کے آگے رکھیں اور ہیں حضور کی مہمان نوازی بائیس آدمی سیر ہو گئے اور ٹکڑے بچے ہوئے تھے 362 میڈیا کی امن خراب کرنے کی کوشش اور قرآن جلانے کی حضور کا جلسہ کے موقعہ پر زردے کی دیگیں چیک فرمانا اور خوشبو ا چھی نہ آنے پر ڈھاب میں پھنکو ادینا.جب ہمیں ان خبر...ن کی خوشبو پسند نہیں آئی تو ہمارے مہمانوں کو کیسے آئیگی 361 ناظر اشاعت حضور کے زمانہ میں مہمانوں کے لئے ناشتہ میں عمدہ حلوہ ناظر بیت المال.پہلے اور مکلف کھانا جو گھر سے آتا 351 ناموس رسالت: دیکھیں توہین رسالت حضور مہمانوں کی خاطر تواضع کا بہت خیال فرمایا کرتے 350 نبوت / نبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلق مہمان نوازی 350 اسلام ہمیں انبیاء کی عزت کرنا سکھاتا ہے 181 180 139 626.625 201 610
46 خطبات مسرور جلد نهم انڈیکس مضامین غلط اور جھوٹا الزام کہ احمدی آنحضرت کی بجائے مرزا ٹی وی ، انٹر نیٹ ، موبائل فون وغیرہ کا بے جا استعمال اور صاحب کو آخری نبی مانتا ہے اور اس کی تردید...605 بچوں اور خدام کا حضور کی نصیحت پر مثبت رد عمل..525 کسی کا حضور کی خدمت میں لکھنا کہ حضرت مسیح موعود کو خطبہ جمعہ ، صلوۃ کا بہترین حصہ.خلیفہ وقت دنیا کے حالات لوگ نبی کہنے سے جھجکتے ہیں.اس کو زیادہ اجاگر کرنے کی دیکھتے ہوئے نصائح کرتا ہے ضرورت ہے...حضور کا تبصرہ اور...235 266 مسلمانوں کو نصیحت.آنحضرت کے عفو کے اسوہ کو سمجھ نبوت محمد یہ سب نبوتوں سے زیادہ فیض اس میں ہے 274 لیں تو اسلام کو ترقی مل سکتی ہے.شدت پسند لوگوں کے چنگل سے نکل کر اس اسوہ پر غور کریں 543 598 26 خدمت سلسلہ کرنے والے ہر مسے کو سنبھال کے اور یے نجات کا دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا احتیاط سے خرچ کریں.کارکنان کو نصیحت آخرین کا تعلق اولین سے جوڑنے والا زندہ نبی 78 264 نظام خلافت.نبوت کی صورت میں آزادی کا قیام بانیان مذاہب یا انبیاء کا ایک اہم کام 581 نظارت خدمت درویشاں نظارت دعوت الی اللہ نظام 5 649 578 احمدیت کی مخالفت، انبیاء کی تاریخ دہرائی جارہی ہے 555 نظام جماعت کی اطاعت کی اہمیت اور ضرورت 205 انبیاء کا حکومت وطن کی اطاعت میں کیا نمونہ تھا 159 نظامت جائیداد انبیاء کی جماعت ابتداء میں اکثریت غرباء کی اور ان غریبوں کی مالی قربانی کا جذبہ...نشان مہدی کے لئے نشان کسوف و خسوف نصیحت / نصائح 2 290 649 نعرہ ”محبت سب کے لئے...“.سب سے پہلے ہمیں اپنے گھروں کو محبت دینی ہے...ورنہ یہ کھو کھلا نعر ہ 457 نعرے.تقریروں کے دوران ضرورت سے زیادہ نعرے نہ لگائیں نعمت 373 ایک احمدی کی خوبی کہ نصیحت کی جائے تو وہ سن کر عمل کرتے ہیں ( اجتماع جر منی پر حضور کی نصائح اور....475 اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ بیویوں پر ظلم کرنے والے احمدیوں کو حضور انور کی صحیح استعمال بھی ضروری ہے 330 نفاق ( نیز دیکھیئے منافق) نصیحت.بظاہر شریف اور ہدایت پر قائم لیکن...302 56 نفاق کے بھیانک نقصان ملکوں کے امن برباد کرنے اور مسلمان ملکوں کے اندر پر دہ اور حجاب فرض ہے ، حیاء کا اظہار تمہاری شان ہے.لجنہ کی عہدیداران کے لئے ایک ضروری نصیحت 491 جنگ کا بنیادی سبب نفاق پیروں فقیروں کے پاس جانا، قبروں پر منتیں مانا وغیرہ کی 57 حضور کا جلسہ سالانہ 04ء پر تقریر فرمانا نفس امارہ، لوامہ کی بدعات اور مشرکانہ عادات کے متعلق حضور انور کی نصائح 223 جب نصائح کی جاتی ہیں تو کسی کو شر مندہ کرنے کے لئے تشریح 321 نہیں بلکہ نیکیوں کے معیار بلند کرنے کے لئے...369 نکاح میں اپنے معیار کے مطابق رشتے کرنے چاہیئں 126 ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود کی نصائح کے مطابق اپنی نماز 198 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز زندگیاں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیئے بیعت کرنے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود کی نصائح 237 نماز کی اہمیت اور برکات 176 412
خطبات مسرور جلد نهم 47 نماز کی باقاعدگی فضول چیزوں سے چھڑا دیتی ہے 441 سے فساد.اور نمائش بند ہونا نماز کیا ہے ؟ یہ ایک دعا ہے...نماز میں وساوس دور کرنے...250 249 انڈیکس مضامین 524 دہلی میں قرآن نمائش.اثرات اور ملاں کے خوف سے نمائش کا حکومت کو بند کروا دینا اور حضور کی ایک نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی بابت حضرت مسیح اصولی گہری حکمت پر مبنی نصیحت اور راہنمائی 607 موعود کے ارشادات و روایات 2600249 نمونه آنحضرت اور آپ کے صحابہ نمازوں سے کبھی غافل نہیں ہر احمدی احمدیت کا سفیر ہے ہمارے نمونے دنیا نے دیکھنے ہوئے ایک موقعہ پر نمازیں جمع کر کے پڑھنی پڑھیں 561 ہیں پانچ نمازیں جمع کرنے کا.”ہمارے لٹریچر میں جہاں اس کا نومبا لعین 569 332 518 ذکر ہے وہاں اصلاح ہو جائے گی.“ نو مبائعین سے مستقل رابطہ رکھنے کی تلقین فتح الباری شرح بخاری میں ، جنگ خندق پر نماز عصر نو مبائعین کا علم و اخلاص میں بڑھنا پیدائشی احمدیوں کے 567 لئے لمحہ فکریہ 468 آخری وقت میں پڑہنے کا ذکر جماعتی خدمات سے محروم ،وقار عمل میں حصہ نہ لینا، نو مبائعین کی ایمانی جرآت اور شان نمازوں میں سستی کرنے والے...آہستہ آہستہ دوسری عہد بیعت کی بابت نو مبائعین کا فکر اور احتیاط جو پرانے نیکیوں سے بھی محروم سب سے بڑی اور اہم نمازوں کی ادائیگی ہے نماز میں لذت نہ آنے کا سوال...300 440 424 46 احمدیوں کے لئے قابل فکر 466 469 احمدیت قبول کرنے کے بعد نو مبائعین میں غیر معمولی تبدیلی 448 440 سے انکار کر دیا...ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے نمازیں پڑھتے ہو لیکن اپنے گھر میں، اپنے اہل سے اچھا قرغزستان کی ایک نو احمدی غیرت مند اور نیک فطرت سلوک نہیں تو یہ بھی راہ ہدایت سے بھٹکنے والے 300 نو مبائع بچی ، باحیا لڑکی جس نے غیر مسلم امریکن کی شادی نماز پڑھنے سے روکنے والوں کے لئے تنبیہہ نمازوں کا قیام اور حضرت مصلح موعودؓ کی پر معارف تشریح 265 قرغزستان کی لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی مختلف مسائل کے بارہ میں حضور کا فرمانا کہ کثرت سے ہیں.لیکن اس بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش درود، استغفار اور پانچوں نمازیں پڑھا کریں نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کرنے کا مسئلہ.اور حضور کا جس کے لئے دعا کی جاتی ہے ، دعا کی جانی چاہئے.یہ لڑکی جو ، ہے نئی احمدی ہوئی، غربت بھی تھی، اچھا رشتہ مل رہا تھا، 312 176 کو ٹھکرادیا.پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے نماز جمع کروانا حضرت مصلح موعودؓ کا بیان فرمودہ واقعہ ایک بزرگ لیکن اُس نے دین کی خاطر ٹھکرا دیا.اس میں اُن لوگوں کا نماز پڑھنا اور امام الصلوۃ کا خیالات میں امرتسر، کے لئے بھی لمحہ فکر یہ ہے کہ جب بعض بچیاں جو ایسے دہلی جانا، بزرگ کو کشفا پتہ لگ جانا ،الگ ہو کر نماز غیروں میں شادی کو پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر پڑھنا فرمانا کمزور بوڑھا ہوں آپ کے ساتھ اتنا سفر بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں.نہیں کر سکتا...نمائش 249 443 نو مبائعین کے قبولیت دعا کے واقعات 446 تا 448 نوافل.بچوں اور نوجوانوں کا تہجد اور نوافل کی طرف دہلی میں جماعت کی طرف سے قرآن نمائش جس کا توجہ.والدین خود بھی پہلے سے زیادہ احسن رنگ میں ادا غیر مسلموں پر بہت اچھا اثر.نام نہاد علماء کی طرف کریں 377
خطبات مسرور جلد نهم 48 کا وفادار ہے نیکی کی ایک رگ جو ایک احمدی میں ہر وقت موجود رہتی وقف جدید وقف جدید ( تنظیم) 526 انڈیکس مضامین 73 579 نیکی کے نمونے جو احمدیوں کو قائم کرنے ہیں 161 وقف جدید کو ساری دنیا کے لئے عام کر دینا اور اس کا مقصد اور اہمیت اور افادیت 10 واقف زندگی.ایک واقف زندگی کا اپنے سسر کو جواب تحریک / وقف جدید چندوں کی ادائیگی میں احمدیوں کی قربانیوں اور اخلاص کے واقعات 10.6 دین کی بجائے دنیا کی طرف جانے کا کہا تو 630 والدہ.اے میرے پیارے خدا! تو میری والدہ سے وہ وقف جدید چندہ ادا کرنے والوں میں اضافہ اور افریقہ کی سلوک فرما جو اس نے اپنی اس دعا میں تجھ سے چاہا 389 جماعتوں کو اضافہ کرنے کی تلقین وصیت 11 وقف جدید سال نو ( 53 واں) کا اعلان اور اعداد و شمار 11 وصیت کا عظیم الہی منصوبہ.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نائیجر.ایک غریب ملک کی مخلص جماعت جہاں سو 262 ادائیگی کا نظام جو لوگ نظام وصیت میں شامل ہیں ان کے ایمان اطاعت اور فیصد جماعتیں وقف جدید میں شامل اور نو مبائعین کا اضافه 9 قربانیوں کے معیار ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہیں 273 محمد ماریگا صاحب (Muhammad Marega) گنی ود گو ریجن کے مبلغ.جیالو سیکو صاحب نو مبائع کا کناکری، چندوں اور نظام وصیت میں شمولیت اور وقف جدید چندے کی ادائیگی اور برکات برکات دفتر وصیت وطن 547 649 وقف نو 8 481 واقفین نو.میں نیک اور مثبت تبدیلی وقف نو کلاس میں ایک بچے کا سوال کہ کیا آئندہ مجدد تحریک آزادی انڈونیشیا میں جماعت احمدیہ کی خدمات اور آسکتے ہیں؟ تعمیر وطن اور..وظیفہ 68.67 287 واقفین نو کارکنان و کارکنات کا ڈیوٹی جلسہ پر نمایاں خدمات سر انجام دینا 382 وظیفہ پوچھنے پر فرمایا درود شریف کثرت سے پڑھا کرو 311 کوئمبٹور کے ایک احمدی کا تحریک جدید چندہ میں حضور کا بیان فرمودہ درود شریف، الحمد شریف، استغفار، قربانی اور اپنی واقفات نو بچیوں کے کہنے پر مزید 639 قرآن کا مطالعہ اور تلاوت اور لاحول قربانی مختلف مسائل کے بارہ میں حضور کا فرمانا کہ کثرت سے ووٹ درود / استغفار اور پانچوں نمازیں پڑھا کریں 312 ووٹ کے حق کا صحیح استعمال 549 492 وعدہ.ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے احمدی پاکستان میں ووٹ کا حق کیوں استعمال نہیں کرتا590 بڑے وعدے ہیں وفاداری 521 511 احمدیوں کی ملک سے وفاداری...وفا.جماعت احمدیہ کاہر فرد جس ملک میں بھی رہتا ہے اس ویب سائٹ ایک امریکن عیسائی نوجوان کا مخالف ویب سائٹس دیکھ کر.احمدی ہونا 444
49 انڈیکس مضامین خطبات مسرور جلد نهم ٹی وی چینل اور ویب سائٹ جو جماعت کے خلاف چل امت اور انسانیت کی ہمدردی کے ناطے احمد کی دعائیں ہی رہے ہیں ان کا مخش کلامی اور گالی گلوچ کا انداز 56 کرتا ہے 560 مخالف ویب سائٹس کا کمزور ایمان والوں کے دلوں میں حقوق العباد اور دوسروں کے لئے ہمدردی 473،472 وساوس پید اکرنے کی کوشش...دعامانگنی چاہیے کسی بھی ہمسایہ دنیاوی کمپلیکس میں مبتلا نہیں ہونا چاہیئے 444 ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی اہمیت اور ضرورت 457 راہ ہدی کی ایک ویب سائٹ.جس کے انچارج آصف ہرزہ سرائی صاحب...بتک 174 احمدیوں پر ایک یہ ظلم کہ قرآن اور اس کے رسول کی مخالفین کی ہرزہ سرائی کے باوجود جماعت کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں ہڑتال ہر تال.دوکانیں بند ، توڑ پھوڑ جائز نہیں 453 164 ہتک خود کر کے الزام احمدیوں پر لگا دیتے ہیں 604 ہماری تعلیم کے خلاف ہے.حضرت مسیح موعود کی ہڑتال ہٹ دھرمی کی بابت احکام یونیورسٹی کالج میں حضرت مسیح موعود کا اپنے دعاوی کی صداقت کے لئے ہندو قرآن ،حدیث کے دلائل اور تائیدات الہی پیش کرنا.مخالفین کی ہٹ دھرمی ہجرت 604 حضرت مصلح موعود کی قادیان سے ہجرت اور بعد گیارہ کا الہام 563 569 163 غیر مسلموں ، ہندو، عیسائیوں کی خدا کی طرف سے احمدیہ جماعت کے حق میں رہنمائی 518.517 ہوا اللہ تعالیٰ نے ( جماعت کے حق میں) ایک ہوا چلائی ہوئی ہے ہدایات.اداروں کو خصوصی اصولی ہدایات مختلف ممالک میں سیاسی ابتری اور احمدیوں کے لئے رہنما ہیومن رائٹس 339 ہدایات اور عریبک ڈیسک اور ہانی طاہر صاحب کے ساتھ ہیومن رائٹس کے حوالے سے ان کے ممبران پارلیمنٹیرین کا حضور انور سے مصافحہ اور حضور کی گفتگو اور 154.153 530 تفصیلی گفتگو...ہدایت.آج بھی جو لوگ نیک نیت ہو کر خدا تعالیٰ سے امن کے بارہ میں رہنمائی ہدایت اور مدد مانگتے ہیں خدا تعالیٰ ان پر حضرت مسیح ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا کہ احمدیوں کے خلاف جو 455 موعود کی سچائی ثابت فرماتا ہے اسلامی ہدایت کے لئے تین ذرائع قرآن، سنت، حدیث 433 فیصلہ کے مطابق صحیح سمجھتے ہیں ظالمانہ کارروائی ہوئی ہے اس کو انڈو نیشین علماء کونسل سے تکمیل اشاعت ہدایت کا یہ مبارک زمانہ اور ایک احمدی کی ذمہ داری اور اہمیت و برکت صرف وقتی عبادت ہدایت کا باعث نہیں بنتی ہمدردی 479.478 428 یہود ی 63 یہود کا آنحضرت کی مجالس میں آکر ”السام علیکم“ کہنا اور تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو 541 آپ کا در گذر فرمانا 47
خطبات مسرور جلد نهم 50 ایک یہودی کا یہ کہنا کہ اسلام میں امن کی تعلیم نہیں بلکہ کوشش...اور الزامات ہودیت یا عیسائیت میں ہے 57 انڈیکس مضامین 225 یہودیہ کا زہر ملا کر مارنے کی کوشش کرنا، اقبال جرم کے الله امت کے اماموں، مجد دوں کو ستانے والے اور کافر کہنے باوجو د آپ صلی یکم کا معاف فرما دینا واے یہودی صفت لوگ 601 اسلام میں یہودی صفت لوگ جو امام حسین کو چھوڑ کر یزید کے ساتھ ہو گئے...601 یہود کا حضرت عیسی کو صلیب کے ذریعہ مارنے کی 23
خطبات مسرور جلد نهم الف آنحضرت محمد مصطفی صل الله عالم 610.81 محمد صلی الم کی امن اور محبت کی تعلیم جس کے بغیر دنیا میں امن قائم ہی نہیں ہو سکتا 57 میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے سید مولی حضرت اسماء 51 آنحضرت صلی الظلم کا بدر کے موقعہ پر دعا کرنا 561 اسماء آنحضرت صلی ایم کا حضرت مسیح موعود کے ذریعہ 459 خلافت علی منھاج النبوۃ کی امید دلانا آپ کی خلافت کے بارہ میں خوشخبری آنحضرت صلی الم کا خواب میں بتانا کہ حضرت مسیح موعود بچے ہیں محمد صلی الم کی عزت و ناموس پر اگر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سی بھی کوشش کرے تو وہ گرفت میں آجائے 479 169 آنحضرت علی ایم کا خواب میں فرمانا کہ (مسیح موعود) رسول ہے اور میرے بعد آنے والا نبی...281 گا اور اپنی دنیا و آخرت برباد کرے گا.28 آنحضرت صلی ایم کو کفار کا صدوق و امین کہنا 453 آنحضرت صلی الی آخری شرعی نبی ، نبوت کے تمام آنحضرت صلی علیم کی تربیت، صحابہ دن کو جنگوں میں 458 مصروف اور راتوں کو عبادت میں...561 کمال آپ پر ختم ہو چکے ہیں آنحضرت صلی الیکم جن پر نبوت کے سارے کمالات آنحضرت صلی الم کے صحابہ کی ہجرت مدینہ کے وقت 436 قربانی کی اعلیٰ ترین مثال 2 ختم ہو گئے آنحضرت صلی ا م کا مقام اور الفاظ جو کسی اور نبی کی آنحضرت صلی ایم کی توہین کرنے والا ہالینڈ کا ممبر شان میں استعمال نہیں ہوئے آنحضرت صلی الم کا مقام خاتمیت آنحضرت صلی ایام کا مقام شفاعت 281 17 233 230 یارلیمنٹ اور حضور انور کی اس کو وارننگ..608 محضرت علی ایم کی ذات بابرکات کے بارہ میں توہین اور خلفائے احمدیت کا عاشقانہ جوش و جذبہ 36، 37 آنحضرت صلی ال نیم کی بلند شان اور مقام و مرتبہ 39 آنحضرت صلی الم کے زمانے کے منافقین ان نام نہاد آنحضرت صلی المر تا قیامت شرعی نبی ہیں 264 مومنوں سے بہتر تھے 54 آنحضرت صلی ال تیم خاتم الانبیاء اور آپ کی امت تا آنحضرت صلی یم کی ذات پر حملے کی صورت میں سب سے پہلے موثر آواز حضرت مسیح موعود نے بلند قیامت فتحیاب رہنے والی امت ہے آنحضرت صلی علیم خاتم النبیین ہیں 403 236 فرمائی 32 آنحضرت کا شفاعت کا مقام اصل مقام ہے 226 آنحضرت علی الم کی سچائی کا شہرہ...کفار کا کہنا کہ آنحضرت صلی الم سے عشق و وفا کے تعلق کا اظہار کا پہاڑ پیچھے فوج کا بھی کہیں گے تو مان لیں گے کہ طریق ایسا ہو کہ دشمن کو بھی بے ہودہ گوئی کا موقع آپ صلی یکم جھوٹ نہیں بولتے نہ دے...الله 29 454 آنحضرت صلی الم کی شان میں گستاخی پر حقیقی رد عمل آنحضرت صلی علم قرآن اور اسلام پر حملہ ہو تو قانون وہی ہے جو حضرت مسیح موعود نے دکھایا 44 کے دائرے کے اندر رہ کر غیرت کا مظاہرہ کرنا آنحضرت صلی علیم کی عرش کو ہلا دینے والی دعائیں اور ان کی قبولیت کے ذریعہ عظیم انقلاب اور فتوحات، 37 ایک حقیقی مسلمان کا سرمایہ ہے آنحضرت صلی اللی علم کا اسوہ غلاموں کے حوالے سے 584 آپ تا قیامت خاتم الانبیاء کا لقب پانے والے 499
خطبات مسرور جلد نهم 52 اسماء 33 آنحضرت صلی الم کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت مسیح موعود کے جذبات دکھائیں مگر نفس کو قابو میں رکھیں...تو دنیا ان آنحضرت صلی الم کے نمونے پر چلنا اور توجہ دینا آج 36 کے مقابلہ سے خود بخود بھاگ جائے گی آنحضرت صلی علیم کی غلامی میں رہنا ہر احمدی ہزاروں المدرسة 589 مسلمانوں کا فرض ہے آدم علیہ السلام آسیه نیم 25 344 461 آنحضرت صلی علیم کی غیرت اور عشق کے بارے میں آصف (باسط) صاحب کا ہنری مارٹن کلارک کے پڑپوتے آزادیوں پر ترجیح دیتا ہے حضرت خلیفہ ثانی کی تحریر 36 سے رابط اور ان کی حضور انور سے ملاقات 612-611 آنحضرت صلی الم کی مدح میں حضرت اقدس مسیح عزیزہ اڈہ سکندیانہ (IdaSkandiana)،انڈونیشیا بذریعہ 77 خواب احمدیت قبول کی أسيد بن حضير موعودؓ کی تحریرات آنحضرت صلی ان کے ذریعہ جو نعمت جاری ہوئی اب صرف مسیح موعود کے ساتھ وابستہ ہونے سے مل حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی سکتی ہے 299.298 ابراہیم : آپ صلی العلم کے صاحبزادے آنحضرت صلی ان کے زمانہ میں شق القمر کا معجزہ 40 ابراہیم منیب ڈاکٹر آنحضرت مصلی الم کے ساتھ مخالفین کا استہزاء اور خدا حضرت ابراہیم مولوی بقایوری کی گرفت 43 43 218 155 348 16 397 317.354 ابن حجر علامه، شرح بخاری فتح الباری میں ، جنگ خندق 155 آنحضرت صل الم کے مخالفین اور دشمنوں کی پکڑ ہر پر نماز عصر آخری وقت میں پڑھنے کا ذکر 567 زمانے میں نشان بنتی چلی جائے گی حضرت ابن عباس آنحضرت صلی علم کے مقام و مرتبہ اور عظمت کے حضرت ابو بکر بارے میں حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی حضرت ابو بکر کے فضائل اور اسلام قبول کرنے کا تشریح 515 32 واقعہ 292 596.595 599 596 آنحضرت صلی ا کے مقام و مرتبہ کی حفاظت کے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے فضائل لئے حضرت مسیح موعود کا جوش حضرت ابو بکر کا امت پر بہت بڑا احسان آنحضرت صلی الم نے حقیقی انسانی قدروں کی پہچان حضرت ابو بکر ، اسلام کے آدم ثانی تھے حضرت ابو بکر حضرت عمر، ذوالنورین حضرت عثمان اور کروائی 337 رض 599 599 آنحضرت صلی ا نے غلامی کی تعریف ہی بدل حضرت علی یہ سب دین میں امین تھے حضرت ابو بکر کا حضرت عیسی کی وفات کا استدلال 596 584 دی...حسن سلوک...آنحضرت صلی علیہم کی استقامت لاکھ معجزوں سے بڑھ ابو حباب ( عبد اللہ بن ابی ) 258 ابو شریح خزاعی کر ایک معجزہ ہے آنحضرت صلی ایم کی زندگی کا ہر پہلو قرآن کی عملی ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود 17 تصویر اور ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے آنحضرت صلی الم کی طرف سے چندوں کی تحریک اور صحابہ کی قربانیاں 2 آنحضرت صلی علم کی عزت و ناموس کے لئے حضرت ابو بکر ایوب مولوی ابو جہل حضرت ابو حذیفہ حضرت ابوسعید خدری 19 367 566 64.66 258 98 158
خطبات مسرور جلد نهم 53 اسماء ابو لہب کا آپ صلی کریم کے بارہ میں نازیبا الفاظ بیان الطيب مراکش، ایم ٹی اے العربیہ دیکھ کر بیعت کی 467 کرنا 47 اللہ دتہ مستری حضرت رض ابولہب کا طاعون جیسی بیماری السر سے ہلاک ہوا اور اللہ دتہ میاں عبرتناک انجام ، گڑھے میں پھینک دیا 58 حضرت ابوہریرہ 486،78، 583،294،232،229 احسان الہی ظہیر 469 احمد ابراہیم، ایم ٹی اے اور استخارہ قبول احمدیت 465 احمد با کیر آف سیریا کا ذکر خیر یہ بھی بذریعہ استخارہ احمدی ہوئے 220 الہی بخش چوہدری 316 361.314.179 356 امام اعظم کا مذہب اگر ہے تو ان کی خطا ہے 619 ا اگر امام دین منشی امام دین میاں سیکھواں امام زہری 361.360 178 18 ام احمد ، شام، جلسہ سالانہ برطانیہ پر نیک خواہشات 380 حضرت ام المؤمنين ( حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم 358.181 221.572.571 احمد بریلوی سید حضرت ، صرف ہندوستان کے مجدد صاحبه ) تھے ان کا وجود حضرت مسیح موعود کے لئے بطور حضرت ام المؤمنین کا گاجر کا حلوہ لانا اور حضور نے ارہاص تھا احمد دین چوہدری احمد دین سیٹھ احمد نورالدین مولوی 293 355 638 64 اپنے ہاتھ سے ایک مہمان بچے کے منہ میں ڈالا فرمایا تمہارے دائیں ہاتھ میں چوٹ لگی ہے تم بائیں ہاتھ سے کھا لو حضرت صاحبزادی امۃ النصیر بیگم صاحبہ 361 احمد در سونو، انڈونیشیا کے احمدی شہید ، ان کا ایک حضرت خلیفہ ثانی کی بیٹی اوصاف حمیدہ اور پاکیزہ 72.71 578 570 خواب جس میں حضرت خلیفہ اول ، ثانی، ثالث ، رابع محاسن کا تذکرہ رضوان اللہ علیہم سے ملاقات مسجد مبارک ربوہ کی سنگ بنیاد ،ایک اینٹ پر دعا احمد کی ، ہیومینٹی فرسٹ کے چیئر مین 633، 166 کرنے والی خاندان کی خواتین میں آپ شامل 574 احمد یوسف الخابوری صاحب شہید، شام کے عرب مصلح موعود اور حضرت اماں جان کے ساتھ دوست ، نماز جنازه اختر الدین احمد سید حضرت 565 641 574 ان کی گاڑی میں ربوہ آنے کا اعزاز حضرت مصلح موعودؓ کا مضمون اپنی بیٹی امتہ النصیر ارجن سنگھ ایک سکھ صحافی ایڈیٹر رنگین امر تسر کے صاحبہ کے متعلق تاثرات بابت حضرت مصلح موعودؓ ارشد محمود مبلغ قرغستان 89.87 443 اسامہ - الجزائر، ایم ٹی اے اور تفسیر کبیر کے مطالعہ کے ذریعہ قبول احمدیت...اسامه بن زيد اسامه جلس مالدووا ، ، عالمی روح پرور منظر کے تاثرات...اسماعیل بیگ مرزا اسماء بنت الى بكر اصغر علی شیخ حضرت اکرام الدین سید 466 18 570 575 حضرت مصلح موعود کاسیدہ سارہ بیگم صاحبہ کو فرمانا تم نے تو مجھے چھیرو جیسی بیٹی دی ہے حضرت اماں جان کے بارہ میں روایات جو صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ نے لجنہ یوکے کو ریکارڈ کروائیں، شائع کرنے کی ہدایت بیعت کے ایمان افروز ام کلثوم حضرت 379 315 583 350 310 572 58 571.389.91 120 ام ناصر، حضرت امه الحکیم بیگم، سیده بھی ایک خوب اللہ ملائی جوڑی تھی...دونوں کے اوصاف حسنہ اور غریب پروری کا ذکر 118 امت الحی سیدہ ،حضرت 393
خطبات مسرور جلد نهم امۃ الرحمٰن ، کیلگری کا ذکر خیر 635 54 اسماء ان کو ہوشیار پور میں فارسی میں الہام ہونا ، اور امة الودود اہلیہ سید عبد الحی شاہ کا ذکر خیر و نماز جنازہ دوسری طرف حضور کو ایک الہام ہونا امتیاز بیکم اہلیہ محمد منور مولانا امیر الدین حضرت امیر الدین گجراتی میاں حضرت 166 635 362 312 315 لوہے کا لوٹا ( سماوار) کندھے پر اٹھا کر مہمانان جلسہ کو پانی پلانا اور خوشی سے ناچنا...کہ میں مسیح کا چپڑاسی ہوں 312 311 برہان محمد حافظ واقف زندگی استاد جامعہ احمدیہ 636 امیمہ ، عرب خاتون ، امارات جلسہ برطانیہ پر نیک برینڈی ولسن، کینیڈا ، خواب میں اللہ تعالیٰ، رسول تاثرات 380 امینہ بیگم اہلیہ شیخ نذیر احمد دارالرحمت ربوه 411 کی انس، حضرت اکرم صلی الم اور عیسی کو دیکھا اور اسلام احمدیت قبول حضرت مرزا بشیر احمد 518 175 116-313.361 انس بن مالک،حضرت انصر عباس بھٹی ، مبلغ بین انعام الحق کوثر مبلغ انوار حسین خان مولوی حکیم 22 22 445.444 209 580 انوار حسین مولوی ( دیوبند کے مولوی)، بیعت کی درخواست کرنا لیکن...اور نگ زیب بھی مجدد تھا اوسون Uson اومو Omo اونیہ صاحبہ Uniah ایڈوٹ صاحبہ Idot ایل ایم ب پ ت ث 180 294 69 69 69 69 517 آپ کے گھر کے دالان میں جلسہ ، حضور کا تقریر فرمانا ، یہیں ان دنوں مہمان خانہ ہوتا تھا 320-323 356 569 آپ کا مکان ، مہمان خانہ آپ کی کتاب سیرت النبی صلی الالم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود ،82، 253، 221، 201، 167، 120.410 648 636 159 161 166 177.564.482 460.171 389.314 بل رو بنسن Bill Robinson سینٹ تھا مس (اونٹاریو)، کے پر جوش عیسائی دعا کے ذریعہ احمدیت قبول کرنا بدرالدین حضرت بدر بخش چوہدری بدردین شیخ 211 352 353 350 173 برکت علی منشی ناظر بیت المال قادیان حضرت مسیح موعود بھی مرزا بشیر الدین محمود صاحب کو ہی مصلح موعودؓ سمجھتے تھے 86 جاپانی قوم کے متعلق ایک رؤیا...احمدیت کی طرف رغبت ہوگی آپ کی آمین آمین 134 ر لکھی گئی دعائیہ نظم ”محمود کی 386.385 آپ کا تھوڑی تھوڑی دیر بعد آکر کہنا ”ابا کنڈی کھول“...358 آپ کی طرف سے عورتوں کے لئے ایک مدرسہ کا اجراء اور حضرت ناصرہ بیگم صاحبہ کا ابتدائی طالبات میں سے ہونا 392 حضرت مولانا برہان الدین جہلمی 311،151، 170، آپ کا اپنے بچوں کی آمین پر نظم لکھنا جس میں 579.355 حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا ذکر 392 آپ کا تحریک آپ کا براہین احمدیہ پڑھنے سے حضور کی ملاقات کا اشتیاق قادیان گئے پھر ہوشیار پور گئے اور حضور سے لبیک ملاقات کی 315 جدید کا اجراء اور جماعت کا والہانی 546.545
خطبات مسرور جلد نهم 55 اسماء آپ کا ایک پیغام...عبدالحی شاہ صاحب راولپنڈی خواجہ میر حسن نظامی دہلوی کا حضرت مصلح موعودؓ کا سے پیدل ہی کشمیر چلے گئے...633 خاکہ بیان کرنا آپ کا سید داؤد مظفر شاہ سے اپنی بیٹی کا خطبہ نکاح 124 بشیر آرچرڈ...قادیان آپ کی تربیت کہ سگے سوتیلے کا فرق ختم...575 بلال حضرت آپ کی قادیان سے ہجرت اور بعد گیارہ کا الہام 563 88 91 566 599 آپ کا ایک خواب جس کی تعبیر کہ حضرت سیٹھ الحاج بنتی Bunty صاحب ناقابل علاج مریض.حضور 150 کو خط دعا اور معجزانہ شفا صاحب احمدیت قبول کریں گے آپ کا صالح محمد الہ دین صاحب کے دادا سیٹھ بنو حارث بن خزرج بھائی ملک محمد حافظ 151 447 19 353 صاحب کے بارہ اظہار محبت...آپ کی اپنی ایک بیٹی کو پردے کی بابت بصیرت بیریفان صاحبہ، ناروے، ایم ٹی اے پر حضور انور کی باتیں سن کر ، الحوار المباشر اور حضرت اقدس افروز نصیحت 575 آپ ( مصلح موعود) کی خصوصیات و علامات اور ان کا کی تصویر دیکھ کر احمدی ہونا...کچھ تذکرہ 83.82 حسن Papuq Hasan 468 69 آپ نے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک کی تو پاسکل سمتھ (Pascal Smith) منسٹر برائے صاحبزادی امة النصیر صاحبہ نے اپنا تمام زیور اس ایجو کیشن میں پیش کر دیا 574 532 الحاج پینتی، چلے Challe کا رہائشی ، شدید مخالف ہلاکت 447 آپ کی بابت غیروں کا خراج تحسین 86 تا 90 کا عبرتناک نشان آپ کا دعویٰ مصلح موعود کا پر شوکت اعلان 86 پیری ہیکر Pierre Hecker اور البیشٹ فوکس Albpecht Fuess پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، جرمنی کی آپ کے کارنامے 85 آپ کی انگریزوں کے اسلام قبول کرنے کی امیدیں 92 مارگ برگ یونیورسٹی کے دو پروفیسر ز کی حضور انور 363 576 سے ملاقات تاج الدین میاں 523 647 آپ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری آپ کی دعائیں اپنے بچوں کے بارہ میں آپ کا جواب مسجد دین کی گنتی کے بارہ میں 293 تامر الراشد، حمص ، سیریا کی شہادت اور ذکر خیر 220 آپ کا انڈونیشیا کی آزادی کی تحریک کی تائید فرمانا 67 تامو ڈاکٹر سیرالیون استخارہ اور قبول احمدیت 211 اور امام تحیان Tahyan 69 تراری مرزو کی صاحب المعروف امام اور لیس مراکش 113 آپ کا بیان فرمودہ واقعہ ایک بزرگ کا نماز پڑھنا الصلوة کا خیالات میں امرتسر، دہلی کا ذکر خیر اور نماز جنازہ جانا، بزرگ کو کشفا پتہ لگ جانا ، الگ ہو کر نماز پڑھنا تمیم ابو دقه فرمانا کمزور بوڑھا ہوں آپ کے ساتھ اتنا سفر نہیں سچ تک (Tinchtik) قرغزستان بذریعہ خواب کر سکتا...249 احمدیت قبول کرنا 219 217 66 آپ کا مضمون بیٹی امۃ النصیر صاحبہ کے متعلق 570 تنکو عبد الجلیل آپ کا سیده ساره بیگم صاحبہ کو فرمانا تم نے تو مجھے تو با کوس چاندرا مبارک، انڈونیشیا میں ہونے والے چھیرو جیسی بیٹی دی ہے 575 شهید 71
خطبات مسرور جلد نهم تیمور شیخ کی بیعت کرنا ٹومی کالوں ج، چ، ح، خ جابر بن عبد اللہ ، حضرت جان محمد شیخ حضرت جائید Jaed جبرئیل سعید مبلغ گھانا جلال الدین مولوی حضرت جلال الدین مرزا منشی میر ، 321 615 19.567 360 68 548 641.639 170 56 اسماء حبیب سید ، مدیر اخبار ”سیاست“ 88 حداد عبد القادر ،الجزائر، خواب میں آنحضرت صل العالم کا فرمانا کہ ھذا رسول اللہ چار سال بعد ایم ٹی اے دیکھنا ، تصویر دیکھنا ، احمدیت قبول کرنا حذیفہ حضرت..حسام الدین حکیم حسن بی بی حسن حاجی حسن طاہر بخاری سید مبلغ قازقستان حسن فاروق 281 292 <291 180.179 166 69 364 518 جمال الدین ، آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ذکر حسن کمارا لنگی سیرالیون خوابوں کے ذریعہ احمدی خیر جمال الدین مولوی سیکھواں جملی Jumli جمیل ، لبنان کا قبول احمدیت جنادہ بن امیه ہے.آر.ڈریمنڈ 648 178.177 69 214 156 632 مسٹر جین ٹیگامبو (Jaen Tangambu) ،ریڈیو جرنلسٹ، جماعت کی نمائش دیکھ کر متاثر ہونا کہ پہلی دفعہ اسلام اور محمد صلی میں نیم کے پیغام کو سمجھا 519 چراغ دین میاں حضرت چراغ محمد حضرت چراغ مفتی حضرت 320.352 316 354 ہونا 519 حسن نظامی دہلوی میر خواجہ،حضرت مصلح موعودؓ کا خاکہ 88 حسنی مبارک ، مصر ، بیعت کر کے یوں لگا جیسے آنحضرت صلی نیلم کے زمانہ میں رہ رہے ہیں ، استخارہ کا جواب ملا یہ لوگ امام مہدی کے مکذب ہیں “ مخالفت کا سامنا لیکن تبلیغ کا شوق.465، 466 حسین حضرت امام حضرت امام حسین کی شفاعت اور غلو...آپ کی عظمت و مقام اور یزید بد نصیب..602 میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان ، حسین یا عیسی جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا 593 601 602 چھیرو (حضرت صاحبزادی امۃ النصیر صاحبه حضرت حسین محمد صالح ، الجزائر، ایم ٹی اے پر الحوار المباشر مصلح موعودؓ کا سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کو فرمانا تم نے تو مجھے چھیرو جیسی بیٹی دی ہے حارث بن ہشام حاکم چوہدری حاکم علی چوہدری رض 575 38.24 320 171 تفسیر کبیر وغیرہ دیکھ کر احمدی ہونا...469 حسینی علیو.اکو کو باسلہ ریجن، ببین کے لوکل مشنری 217 حشمت اللہ خان حضرت ڈاکٹر 222.117 آپ کا اجلاس کی وجہ سے بھوکا رہنا اور الہام 353 حفاظت احمد رانا سیالکوٹ 346 حضرت حافظ حامد علی 319، 350، 352، 360،352، حفیصو صاحب کا بچہ گم ہوجانا اس پر مسیح موعود کی سچائی کا واسط دے کر دعا کرنا اور بچہ مل جانا، امام 645.361 حبیب الرحمن 645 مهدی کی صداقت کا زندہ معجزہ 448
خطبات مسرور جلد نهم 57 اسماء حمزہ حضرت کو مارنے والے کو معاف کردینا اور ڈیڈی سناریہ (Dedi Sunarya ، انڈونیشیا سیانجوڑ فرمانا کہ میرے سامنے نہ آیا کرو 23 Cianjur) ویسٹ جاوا، استخارہ اور قبول احمدیت 210 حمید اللہ چوہدری ، حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے ذوالفقار علی حضرت ، ان کے لئے کھانے میں پلاؤ اور بارہ میں تاثرات حیدر علی ظفر جرمنی 395 246 خالد نو مبائع ، ٹی وی پر جلسہ دیکھ کر تاثرات 379 اس کی وجہ...ذوالفقار علی خان سر راڈین صالح خالد.ایم ٹی اے اور حضرت اقدس کی تصویر دیکھے راڈین محی الدین کر قبول احمدیت خان فرزند علی خان امام مسجد انگلستان خدا بخش مرزا خلیفہ رجب الدین خلیل الرحمن ماسٹر حضرت 352 88 69 68 246 212 راشد لطیف راشدی صاحبزادہ کا ذکر خیر رتيب الحريري رحمت علی مولوی ، انڈونیشیا کے پہلے مبلغ اور ابتدائی مشکلات رحیم بخش اخوند رحیم بخش مولوی تلونڈی جھنگلاں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین، 66.65 178 361.360 91 خورشید بیگم اہلیہ چوہدری غلام قادر خورشید بیگم اہلیہ عبد المنان خیر الدین حضرت خیر الدین باروس انڈونیشیا کا ذکر خیر خیر دین سیکھوانی میاں حضرت خیر محمد سہرانی میاں داتا صاحب د، ذ، ر، ز 470 363 359 370 169 534 449 642 296 359 314 223 داؤد مظفر شاہ سید حضرت کا ذکر خیر اور اوصاف حمیدہ کا ذکر 127.116 حضرت خلیفہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ اب یہ مالی قربانی نہ بھی کریں تو جو وہ کر چکے ہیں وہ ہی بہت ہے رشید احمد بٹ ابن میاں محمد کا ذکر خیر 389 58 رشید احمد بٹ کا ایک کشف شہدائے لاہور کے بارہ میں 59 رضیه بیگم دارالرحمت وسطی ربوہ کا ذکر خیر 364 آپ کے نیک انجام کی بابت بعض خوابوں کا تذکرہ 120 رفیق احمد مرزا ، حضرت خلیفہ ثانی کے صاحبزادے کی نماز جنازہ آپ کی ایک بیٹی جو ہمارے امام ہمام حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ کی حرم محترم ہیں....دحلان Dahlan 127 69 399 رنا محمد البواعنه صاحبه ، اردن ، حضرت اقدس مسیح موعود کی تصنیف ”اسلامی اصول کی فلاسفی “ اور دلاور حسین رانا ماسٹر ابن محمد شریف شیخوپورہ کی ”التبلیغ" کے مطالعہ سے شرح صدر پر دعا ، بذریعہ شہادت اور نماز جنازہ دلپذیر مولوی 507 351 رؤیا قبول احمدیت روشن علی، حضرت حافظ دیدی کی گنگالہ ( Didi Kikangala) کا نگو کنشاسا بذریعہ روفات تو کاموف ، مقامی معلم خواب قبول احمدیت ڈگلس ڈی ایم کالوں الحاج سیرالیون 218 632 615 212 150 211 رونی پسیارانی، تیسرے احمدی شہید انڈونیشیا، ان کا ایک خواب جس میں حضرت مسیح موعود کو دیکھا...بذریعہ خواب قبول احمدیت 72
58 اسماء خطبات مسرور جلد نهم رونی پسارانی، انڈو نیشیا بذریعہ خواب احمدیت قبول کرنا 217 سعید، حضور انور کے ایک کلاس فیلو کا حضرت سیدہ ریم صاحبہ جلسہ برطانیہ پر نیک جذبات کا اظہار 380 ناصرہ بیگم صاحبہ کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ 395 زیلا ابو بکر، برکینا فاسو بذریعہ استخاره قبول احمدیت 216 سفیر احمد بٹ ابن حمید احمد بٹ کا ذکر خیر نماز جنازہ، پولیس میں اے ایس آئی ، شہادت اور پورے زارا نور زیاد بن ابی زیاد زید 461 229 20 زید بن حارثہ حضرت ، آنحضرت صلی الم کے حسن پولیس آنر کے ساتھ ربوہ میں تدفین سلامت سلطان علی ڈاکٹر 497 443 360 سلوک کی بدولت اپنے والدین کے ساتھ جانے سے سلمان رشدی ، کی مکروہ کتاب اور خلیفہ رابع کا انکار کر دیا زین العابدین سید حضرت زین العابدین شیخ حضرت 584 324 361 زینب وسیم سسٹر بنت کمال الدین کاہلوں آف یو ایس اے (صدر لجنہ کلیو لینڈ) کا ذکر خیر 635 خطبات میں جواب اور کتابی شکل میں جواب لکھوانا بھوتوں کے آسیب میں ، سلمہ بن یزید الجعفی...سلمی کالوں حاجیہ 37 155 615 زینی دحلان مولوی س، ش، ص، ض ساره بیگم سیده ساره کوثر سافر رمضان 65 570 461 461 سامح محمد ، مصر ایم ٹی اے اور جماعت کی ویب سلومت کشتو بوئیو Salmat Kyshtobaev قرغزستان بذریعہ خواب احمدیت قبول کی 218 سلیمان احمد مبلغ اندونیشیا کا ذکر خیر نماز جنازہ 615 سمیع اللہ فاروقی مولانا سندس ناز سورا Sura سوفٹ (Swift) پادری سائیٹ کے ذریعہ احمدیت کا تعارف بذریعہ خواب احمدیت قبول کرنا 219 سامبا جالو (Samba Jallow گیمبیا ، بذریعہ خواب احمدیت قبول کرنا سانوسی Sanusi 342 69 Somal سوئیکارنو، ڈاکٹر سہرومی Sahromi سیف علی شاہد ،امیر ضلع میر پور خاص سانہ سلیمان ، برکینا فاسو، کو پیلا ریجن کی نیک تبدیلی شادی خان میاں حضرت شادی کشمیری مولوی اور تبلیغ کا شوق سائری Saeri 442 68 شاہ محمد سید کی انڈونیشیا کے لئے خدمات سر باد باش ، خود بیعت نہ کی لیکن دوسروں کو تبلیغ شاہد مرید تالپور کرتے رہے اور بیعت کرواتے، ایک دن خواب شرافت احمد میاں 86 461 68 79 69 68.67 69 246 614 181 67 347 639 دیکھی کی احمدیت وہ سمندر ہے اور بیعت کر لی 516 شردھے پر کاش دیو جی (مصنف سوانح عمری حضرت سرمان Sarman سعد بن عبادہؓ، حضرت سعید احمد درویش مهار 69 19.18 13 محمد صاحب) شریف شریف اودے / عوده 596 343 609.523
خطبات مسرور جلد نهم 59 اسماء شریفی عبد المؤمن الجزائر ،خواب کے ذریعہ قبول ضیاء اللہ ، ایک جاپانی احمدی دوست کے ساتھ ترجمہ احمدیت شعبان میاں حضرت شمائلہ کنول 286.285 246 461 قرآن جاپانی میں...ط، ظ، ع، غ طارق محمود مبلغ اپر ایسٹ ریجن گھانا 134 440 شمس الدین صدیق ، کردستان 25 سال قبل خواب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع 120،71، میں حضرت مسیح موعود کو چاند میں بیٹھ کر آسمان سے اترتے دیکھا اب ایم ٹی اے دیکھ کر یہ تعبیر کی کہ وہ ایم ٹی اے تھا شہاب الدین مفتی شہامت خان، حضرت شیر علی مولوی، حضرت شیر محمد ، (دوکاندار) 281 354 359 399 352 626.569.580 509.168.554.399.246 530 525 آپ کا سید عبدالحی شاہ صاحب کو خراج تحسین 627 طاہر حیات طاہر ندیم ظفر اللہ رانا ابن محمد شریف ، سانگڑھ ظفر احمد منشی حضرت 219 219 138 358 صالح محمد الہ دین حافظ کا ذکر خیر ، اوصاف حمیدہ اور عوض احمد ، فلسطین ، بچپن کا خواب کہ امام مہدی نماز جنازه صدر صدرا انجمن احمدیہ قادیان 147 کے سپاہی بنو گے ، ایم ٹی اے دیکھ کر احمدیت قبول صالح الہ دین حافظ کے خاندان کا تعارف سلسلہ کی کرنا...150 حضرت عائشہ 465 17 خدمت کرنے میں بڑھا ہوا خاندان صالح الہ دین حافظ کا فرمانا کہ نیا چاند تلاش کر کے عائشہ حضرت پر الزام لگانے والے منافقین ڈیٹا بیس بنایا جائے جس میں ہر ماہ چاند کے بارے معلومات درج کی جائیں 150 صالح الہ دین صاحب کی قرآن سے محبت اور قرآن حفظ کرنا صالح لہائے ، سیر الیون صباحت احمد رانا 149 211 346 صدام حسین کو اتارنے کے لئے عراق کو تباہ و برباد اور آپ صلی مریم کا عفو...عبادہ بن صامت" عباس بن عبد المطلب حضرت 21 156 622 عبد الجبار ، کار کن فضل عمر ہسپتال ، نماز جنازه و ذکر خیر عبد الحمید 509 632 کیا گیا اور پھر کہا گیا کہ ہمیں غلطی لگی تھی.451 عبد الحی شاہ سید ، بے شمار خوبیوں کے مالک ، جماعت صدر الدین صدر الدین میاں صدر دین صدیقہ قدسیہ کا ذکر خیر صفیہ اُولگا ،رشین بذریعہ خواب احمدیت ضمیر علی حضرت ضیاء الحق خان حضرت ضیاء الحق جنرل 316 352 354 346 219 361 310 555 عظ حیم سرمایہ، اوصاف حمیدہ کا تذکرہ 624 تا 635 سید عبدالحی شاه ، خاندانی تاریخ ، تعلیمی کوائف ، جماعتی خدمات ، اور سیرت و سوانح 634 0625 روحانی خزائن کی کتابت اور کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن کی تیاری.626 آپ واحد ناظر ہیں کہ جنہیں مفوضہ کاموں کے لئے کبھی یاد دہانی کی ضرورت پیش نہیں آئی “خلیفہ رائع 627
خطبات مسرور جلد نهم 60 اسماء آپ کا اپنی خلیفہ ثالث سے پہلی ملاقات کا ذکر 628 عبد الکریم مولوی 324 318 180.171 آپکا مختلف کتب تفسیر کبیر وغیرہ کا انڈیکس بنانا.628 عبد الکریم ، حضرت مولوی کی نماز جنازہ حضرت مسیح عبد الخالق ڈاکٹر عبد الرحمن اللہ رکھا عبد الرحمن مولانا عبد الرحمن مولوی شهید افغانستان 120 151 578 357 موعود کا پڑھانا...182 عبد اللطيف، عرب امارات جلسہ سالانہ برطانیہ نیک جذبات...عبد اللہ میاں حضرت 380 364 عبد الرحیم چوہدری حضرت کو حضور علیہ السلام نے عبد اللہ مولوی حضرت مبلغ ماریشس ، ہندوستان کا پہلا شہید...500 روپے دے کر فرمایا کہ جلسہ کا انتظام آپ کے سپرد..ایک قسم کا کھانا تیار کرنا عبد الرحیم میاں حضرت عبد الرحیم نیر حضرت 356 319 580 171 170 عبد الله ، مراکش، جماعتی تعلیم اور تفسیر سے متاثر ، ایم ٹی اے دیکھ کر بیعت کی عبد اللہ بن ابی بن سلول 467 20.19 عبد الستار شاہ سید حضرت خلیفہ اول کی خدمت کرنا اور عبد اللہ بن ابی کا آنحضرت صلی ایم کے ساتھ برا حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ یہ بہشتی کنبہ ہے 117،116 سلوک اس کے بیٹے کی ایمانی غیرت کہ عبد السلام ، مصر، جلسہ برطانیہ میں شامل ہوئے ، آخری آنحضور صلی الم کا فرمانا...2118 دن کے خطاب سے ختم نبوت پر ایمان پختہ ہوا....عبد اللہ بن ابی بن سلول کا آنحضور صلی الم سے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اکرام ضیف اور مہمان نوازی بد تمیزی کرنا اور آپ صلی یی کم کا در گذر فرمانا 18، 19 عبد اللہ بن ابی کے لئے وفات پر کرتہ عطا فرمانا اور کی عجیب شان تھی 381 313 21 19 53 356 66 عبد الصمد حلیم جنازہ پڑھانا...عبد الصمد مولوی، ببین بذریعہ خواب قبول احمدیت 217 عبد اللہ بن رواحہ، حضرت عبد العاطی، مصر ، ایم ٹی اے دیکھا ، اس کے بالمقابل عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت باقی چینلز مولویوں کے پروگرام خرافات لگے 465 عبد اللہ خان چوہدری حضرت عبد العزیز میاں مغل 362،354، 356،370 عبد الله فاتح ، الجزائر ، حضور کی کتب ”خطبہ الہامیہ اور ”الھدی“ پڑھ کر کہنا کہ یہ تحریر کسی جھوٹے عبد العزیز چوہدری پنشنز عبد العزیز چوہدری حضرت عبد الغنی 314 355 313 کی نہیں ہو سکتی ، خواب میں حضرت مسیح موعود کو دیکھ کر احمدیت قبول کی 278 عبد القادر حداد، الجزائر ، خواب میں رسول اللہ صل اللقلم عبد الله منشی حضرت ، خواب کے ذریعہ حضرت مسیح اور امام مہدی کو دیکھا...احمدیت ایم ٹی اے دیکھ موعود کی بیعت کر قبول کی 218 180 عبد المجید مصر، خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کی 517 630 عبد القاعد احمد ، یمن، ایم ٹی اے کے ذریعہ ٹی وی عبد المجيد عامر ، عربی ڈیسک پر حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھ کر کہا کہ یہ عبد المغنی، ان کے بیٹے کا حضور انور کو ان کی سیرت جھوٹا نہیں ، مبشر خواہیں اور قبول احمدیت عبد القدیر فیاض چانڈیو کا ذکر خیر 214 579 کے بارہ میں بتانا..باوجود اعلیٰ تعلیم کے قادیان کی گلیوں میں جھاڑو لگانے کی آرزو 201
خطبات مسرور جلد نهم عبد المنان شاہ سید عبد الواحد خان مولوی حضرت عبد الواحد مولوی عبد الوہاب احمد شاہد مولانا کا ذکر خیر عبد الرحمن بن عمر و سلمی عبد الرحمن ماسٹر بے اے سابق مہر سنگھ عبد الرحمن عبد الرحمن انور مولانا 625 566 67 578 263 181 645 221 عبد الرحیم ، عراق ، خواب کے ذریعہ احمدی 282 عبد الرزاق سید حضرت عبد الرشید تبسم میر عبد الستار سید ڈاکٹر شاہ 580 636 120 61 عبد الہادی البانی شیخ 221 اسماء عبدل سلیم ، نجی سے لاس اینجلس امریکہ آئے اور عیسائی ہو گئے اور پھر اسلام قبول کیا دعا استخارہ کی ، احمدیت قبول کی 209 عبدہ بکر محمد بكر، مصر کے ایک دوست کا استخارہ کرنا اور احمدیت کی سچائی کا علم ہونا عتیبہ ، ابو لہب کا بیٹا عثمان حضرت عثمان حضرت ، ہیں ہزار غلام آزاد کرنا 209 58 264 583 عثمان ، جلسہ سالانہ قادیان پر بیعت کرنے کے بعد نیک تبدیلی 440 عثمان خان 554 عبد الستار سید ڈاکٹر کا صبر اور وسعت حوصلہ 117 عرباض بن ساریہ ، حضرت عبد العزیز بابو حضرت 358 عبد العزیز او جلوی پٹواری چوہدری کا حضرت مسیح عرفان احمد خان 263 554 موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک سو روپیہ پیش عرقوب بن عمر ، الجزائر ایم ٹی اے اچانک دیکھا جو کرنا ***** 5<4 عیسائیت کا مقابلہ کر رہا تھا اور بغیر کسی خواب حضرت ابو بکر کی سنت کے مطابق امام مہدی کو قبول کرنے عبد العزیز ڈار خواجہ ابن حضرت حاجی عمر ڈار 166 کا اعلان عبد العلی خان 352 عروہ بن زبیر، حضرت عبد القیوم میاں کا ذکر ، ان کا نکاح خلیفہ ثانی نے عزرائیل حضرت پڑھایا اور وکیل بھی خود تھے عبد اللطیف شہزادہ کے پوتے 636 246 عزیز احمد خان ملک 281 18 214 67 عبد اللطیف شہید حضرت اور ان کے قائم مقام 73 عزیز بخش مولوی ، مولوی محمد علی صاحب کے بڑے اللطیف صاحبزاده، رئیس اعظم خوست کی بھائی عزیز دین بابو جماعت کے لئے شہادت اور حضور کی ان کی شہادت پر کتاب تذکرۃ الشہاد تین لکھنا عطا محمد صوفی، مولوی حضرت عبد الله بن سرح، با وجود آنحضرت صلی الم کی قربت عطاء المجیب راشد کے ٹھوکر...499 <498 303 عطاء محمد حضرت 178 449 638 76 371 عبد الماجد دریا آبادی مولانا، حضرت مصلح موعودؓ کی عظیم النساء اہلیہ بہادر خان درویش قادیان کا نماز خدمت و اشاعت قرآن عبد المالک خان مولوی 89 148 جنازه 614 کا فتح مکہ کے موقعہ پر بھاگ کر آنا اور عبد الواحد حافظ واقف زندگی حضرت خلیفہ ثانی کے آپ صلی الہ وسلم کا اس کو معاف کر دینا...محافظ 497 عکرمہ فجمی 24 379
خطبات مسرور جلد نهم رض م الدین خلیفہ ، حضرت علی حضرت علی حضرت کا مقام و مرتبہ اسماء عیسی حضرت نے لمبی عمر پائی اور اپنے مشن میں 62 91 567.593.284 599 کامیاب ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام 226-225 343 علی حضرت ، اور حضرت حسین سے حضور کو ایک میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان ، حسین یا عیسی مناسبت علی قاری ملا امام 601 158 جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا 602 علی کمارا (علیسو کمارا) گیمبیا، بذریعہ خواب حضور کی حضرت عیسی کی ایک تمثیل ،دعا کے حوالہ سے، قاضی سے ایک عورت کا انصاف مانگنا...کیا تمہارا تصویر دیکھ کر احمدی ہوئے عماد الدین 470 79.خدا قاضی جیسا بھی نہیں 251 عمانوئل روویتھس Emmanuel Rovithis کینیڈا، عیسی جوف ، گیمبیا ، خواب کے ذریعہ احمدی، خواب خلیفہ خامس کی تصویر خواب میں اور...احمدی ہو میں حضرت مسیح موعود کو دیکھا جانا حضرت عمر آنحضرت صلی ایم کے قتل کا ارادہ حضرت عمرؓ کا ہاتھ پیغمبر خدا کا ہاتھ م الله سة 518 567.484.20 258 598 آپ کا مقام حب رسول صلی امیم اور اخلاص 597 ė 598 599 غریب اللہ مولوی 276-275 169 غریب محمد ، عراق، ایم ٹی اے، استخارہ، آنحضرت کو خواب میں دیکھا.470 <469 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مقام 159 104 شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے حضرت عمر کو الہام ہوتا تھا حضرت مسیح موعود مجدد صدی بھی اور مجدد الف آخر بھی 291 حضرت عمر کا عبد اللہ بن ابی کے جنازہ پڑھانے پر حضرت مسیح موعود آنحضرت کے غلام صادق سب فیض عرض کرنا اور حضور صلی الم کا جواب...21 آنحضرت سے پایا...حضرت عمرؓ کا نظام حکومت کہ عیسائیوں کا خواہش حضرت مسیح موعود نے اللہ سے عشق و وفا اور عبودیت کے راستے دکھائے کرنا دعا کرنا دوبارہ آؤ 586،587،165 اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو عمر 598 حضرت مسیح موعود کا مقصد اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا حضرت عمرؓ کے بارہ میں احادیث عمران حضرت عمران خالد ڈاکٹر ربوہ عمران (سید عبد المی شاہ صاحب کے بیٹے) 598 598 477 554 634 319 274 403 116 حضرت مسیح موعود نبی بھی ہیں مہدی بھی خاتم الخلفاء...265 مسیح موعود کی بعثت ایک احسان ہے خدا کا اس پر جتنا بھی شکر کریں کم ہے اور شکر کا طریق اس کی تحریرات کو 248 پڑھیں اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں حضرت مسیح موعود اللہ کے نبی ہیں.اور آپ کے مقام نبوت کی تشریح اور وضاحت 236 عمر بخش شیخ عمیر ابن ملک عبدالرحیم ،ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں حضرت مسیح موعود کو نبی کہنے یا نہ کہنے میں کیا حرج ہے 105 ہونے والے شہید عیسی حضرت 646 519-225-32 حضرت مسیح موعود آنحضرت صلی الم کی پیشگوئی کے مطابق نبی ہیں 106
خطبات مسرور جلد نهم 63 اسماء حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھ کر احمدیت قبول 209 حضرت مسیح موعود کا جاپان میں ایک تبلیغ اسلام کے لئے ایک خط 429 133 حضور کی عربی کتب کے مطالعہ کے بعد ایک شامی دوست کا کتاب لکھنے کی خواہش اور حضور کا فرمانا...حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ بلا وجہ تکفیر کے فتوے 279 کہنا کہ جادو کا سا اثر کیا حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہی کلمہ کی حقیقت دنیا پر واضح لگانے کی بجائے دعا کر کے میری صداقت کے لئے خدا سے مدد مانگ لو.اور اس کا ایک طریق ”نشان آسمانی“ میں ہو رہی ہے 278 حضرت مسیح موعود کا نواب محمد علی خان صاحب کے لئے بتایا...اور اس پر عمل کرنے والوں کے واقعات 208 سیح موعود ہی وہ وجود ہیں جس نے اس زمانے میں دعا کرنا...228 حضرت مسیح موعود.کا فرمانا کہ مسیح پر خدائی کا دعویٰ مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے آنا تھا اور وہ 224 آئے 197 حضرت مسیح پر سراسر تہمت ہے حضرت مسیح موعود کی جماعت کی ترقی کے متعلق پیش حضرت مسیح موعود کا گورنمنٹ کی اطاعت کی ہدایت و 240 نصائح 163.162 17 خبریاں حضرت مسیح موعود نے قربانی کی روح جو جماعت میں پیدا آپ کا خلق «عفو“ کا بیان کی اس میں جماعت ترقی کرتی چلی جارہی ہے 5 حضرت مسیح موعود آنحضرت کے عفو و در گذر کی بابت 25 حضرت مسیح موعود کے زمانے میں غریب امیر کی قربانی.حضوڑ کے سامنے ایک نظم پڑھ کر سنانا جس کا پھل آج تک ان کی نسلیں کھا رہی ہیں اور ان حضور کے تیزی حافظہ کی کرامت 638 639 647 نسلوں کی ذمہ داری کہ مالی قربانی کا نمونہ دکھائیں 3 حضور کا نام رکھنا.حضور کا فرمانا کہ ہر ایک آدمی جو یہاں ہے وہ میر انشان ہے 323 حضور کی لاہور آمد پر اوباشوں کا پتھر برسانا اور...647 حضور کا لاہور آنا تو...ہمارے گھر آنا (حضرت محمد 36.34 حضرت مسیح موعود کی غیرت رسول حضرت مسیح موعود نے اپنی تحریر و تقریر سے ثابت کر دیا نوب صاحب ولد میاں سراج دین صاحب) 647 حضرت مسیح موعود کی بچوں سے شفقت کہ حقیقی عشق رسول اور غیرت رسول کیا ہے.قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے...اور جماعت میں بھی یہی حضور کا فرمانا کہ بحث / تبلیغ میں مختصر فقرے استعمال 36 روح پھونکی حضرت مسیح موعود کی تحریرات آنحضرت کے اعلیٰ مقام کی بابت.اور آنحضرت کی غیرت حضرت مسیح موعود کا ہم پر احسان کہ...37028 30 کریں...647 643 سوال کہ مسیح جانور بنایا کرتے تھے...حضور کا جواب 642 حضور کا مہمان (کٹک والوں) کے لئے خاص تاکید 642 حضرت مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا عظیم کام اور عباد الرحمن کے اندر روحانی انقلاب 404 حضرت مسیح موعود کا دنیا بھر میں زلازل اور آفات کی حضرت مسیح موعود بھی مرزا بشیر الدین محمود صاحب کو ہی پیشگوئی...137 مصلح موعودؓ سمجھتے تھے 86 حضرت مسیح موعود کے بعد کے سو سال میں زیادہ آفات حضرت مسیح موعود کا گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ اور کا آنا...132 وزیر اعظم گلیڈسٹون کے نام خط 80.79 حضرت مسیح موعود کا اپنے دعویٰ کو زلزلہ اور آفات کے حضرت مسیح موعود کا بارہ ہزار کے قریب والیان ریاست ساتھ جوڑنا 131 کو...دعوتِ اسلام پر مبنی خط روانہ کرنا 79
خطبات مسرور جلد نهم 64 اسماء حضرت مسیح موعود کا تمام دنیا کے مذاہب کو چیلنج میرے حضور کا جلسہ سالانہ 04ء پر تقریر فرمانا نفس امارہ، لوامہ.اندر روحانی طور پر مسیح ابن مریم کے کمالات ودیعت کئے کی تشریح 321 گئے ہیں...میرے سامنے آکر اسلام کی صداقت حضور کا دعا کرنا.خشک ڈالی مجھ سے کاٹی جاوے..320 حضور کا کارکنان کا خیال رکھنے کا ایک انداز 79 319 303 کا امتحان کر لیں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں اور آپ پر ہونے والے حضرت مسیح موعود سے عشق و محبت میں بڑھے ہوئے انعامات حضرت محمد کی شان بلند کرنے کے لئے ہیں 77 ٹھو کر کھا کر شدید مخالف ہو گئے حضرت مسیح موعود کا پیشگوئی فرمانا مصلح موعود کے بارہ میں 77 حضور کی سیر اور خدام کا پاؤں دبانے کا معمول 310 حضرت مسیح موعود کا ایک کشف...صاحبزادہ عبد حضرت مسیح موعود کا بیوی سے حسن سلوک کی نصیحت اور اللطیف صاحب کے نقش قدم پر چلنے والے...73 ایک صحابی کارد عمل حضرت مسیح موعود کا خلافت کی بابت پیشگوئی حضرت مسیح موعود جس پہلی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے کردار کہ قرآن سے مقابلہ نہیں کر سکے اس کے بیل سفید رنگ کے تھے حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ دعاؤں کا مضمون اور حضرت مسیح موعود کو مان کر ہمارے معیار تمام مسلمانوں تحریرات کی روشنی میں حضور انور کی عرفان انگیز پر سے اونچے ہونے چاہیں لاہور میں حضور کا سولہ روز قیام 100 315 54 370 301 حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بھی مولویوں اور علماء کا معارف تفسیر و تشریح 445 4380426 474 حضرت مسیح موعود کی ایک نہایت عارفانہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اہل خاندان کے ساتھ مل حضرت مسیح موعود کا کلام ایسا ہے جس کی جگالی کرتے رہنا کر کھانا کھانا 360.361 360 چاہیے کے خزانے 426 حضور کا ہاتھ اٹھا کر دعا فرمانا سیح موعود کے بیان فرمودہ شہ پارے اور جواہر پارے 425 حضور کا فرمانا کہ یہاں کثرت سے آیا کرو...اور پر اٹھا حضرت مسیح موعود کے لٹریچر (کتب) میں علم و عرفان اور سالن رومال میں باندھ کر اپنے ہاتھ سے عطا فرمایا 355 حضور کا گورداسپور سفر فرمانا.سردیوں کی رات تیز ہوا تھی حضرت مسیح موعود.اخلاق کا ایک سمندر حضور کی تقریر سن کر ایک اشد مخالف کا سبحان اللہ ، سبحان اللہ کہنا 413 317 316 ٹرین سے اترے.سب کا سو جانا.حضور کا ایک ایک کا بستر چیک کرنا اور اپنے بستر کے کپڑے لا کر ڈالنا...355 حضور کی زیارت کے لئے جہلم کا سفر.رات کو سفر.آگے حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ مسلمان بادشاہوں اور آگے ایک روشنی...حضور کے زمانہ میں جلسہ میں زردہ پلاؤ 638 354 حکمرانوں کا نقشہ...184 حضور کے تبرک / پس خوردہ کی خواہش 181،182 حضرت مسیح موعود.بچوں کو روزہ نہ رکھنے کا حکم 181 حضور کے زمانہ میں قحط.لنگر کے خرچ کا فکر ہوا تو الہام ہوا حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں سخت سردی ڈھاب کا پانی الیس اللہ...فرمایا لنگر کا خرچ دگنا کر دو.حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد 355 337 جم گیا.نماز فجر بورڈنگ میں ایک لڑکے کو حضور کی طرف سے اجازت 181 حضرت مسیح موعود کا مقام صرف مجددیت کا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود کا اور حضرت ام المؤمنین کا بچوں سے مہدویت اور مسیحیت کا مقام بھی ہے حضرت مسیح موعود کا نبی ہونا اور...290 313 181 شفقت حضور سے سوال کہ کبھی آپ کو ریا ہو ا ہے.جواب 180
خطبات مسرور جلد نهم 65 اسماء 179 بد نام نہ کرو“ 457 حضرت مسیح موعود کا سیالکوٹ تشریف لانا حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک جگہ مسجد کے سلسلہ حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ کوئی شخص ہماری گزشتہ سوانح میں تنازعہ اور حضور کا فرمانا کہ کہیں اور نماز پڑھ لیا پر کسی قسم کا کوئی داغ ثابت نہیں کر سکتا کریں...حضور کے بیٹھنے ، چلنے کا انداز 179 177.176 454 حضرت مسیح موعود کے مخالفین کا حضور ہی کا لٹریچر پڑھ کر فائدہ اٹھانا...درس دینا تقریریں کرنا...452 حضرت مسیح موعود کا جہلم میں مقدمہ کے سلسلہ میں ایک آفات اور زلازل ، دنیا کا ہر ملک قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے.یہ صرف قدرتی عمل نہیں.مسیح موعود کے ساتھ کو ٹھی میں قیام حضور“ بغاوت کو پسند نہ فرماتے.حضرت مسیح موعود کا طریق نماز 178 176 176 اس کا گہرا تعلق کا 242 حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جنت قریب کیا جانا 483 حضرت مسیح موعود کی خدمت میں تفسیر قرآن لکھنے کی حضرت مسیح موعود کا اپنی جماعت کے افراد میں پیدا کرنے 173.172 والا انقلاب 482 544 درخواست اور حضور کا جواب حضرت مسیح موعود کا حضرت حافظ غلام رسول صاحب حضرت مسیح موعود کے مقابل پر آنے والے مذہبی رہنما وزیر آبادی کی اقتداء میں نماز جمعہ گورداسپور میں 171 اور مخالفین اسلام کی ذلت ورسوائی حضرت مسیح موعود کا دینی مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ 170 حضرت مسیح موعود کا مالی قربانیوں کی تحریک کرنا لیکن حضرت مسیح موعود کا تقریر فرمانا کہ میں نے سکول اس بھروسہ کبھی کسی پر نہیں کیا.اور ہمیشہ خدا کے فرستادے لئے قائم کیا کہ لوگ وہاں سے علم حاصل کر کے مخلوق خدا ایسا کرتے آئے 170 543 کو تبلیغ کریں مگر...حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اللہ نے جو جماعت قائم فرمائی حضور کا فرمانا میرے پاس بیعت کرنے والے آتے ہیں اس کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ پہلوں کے ساتھ ملا دی گئی.یہ کوئی معمولی اعزاز اور معمولی جماعت نہیں 535 داڑھی استرے سے منڈھی ہوتی ہے شراب کی بو آتی حضرت مسیح موعود کی جماعت کی خوبصورتی.کہ وہ خلیفہ 170 وقت کی طرف سے کہی گئی باتوں کو سنتے ہیں اور پورا کرنے ہے.ان کو بھی دل سے بر انہیں جانتا حضرت مسیح موعود سے درخواست کہ مطبع خانہ میں کی کوشش کرتے ہیں...اخلاص و وفا کو دیکھ کر حیرت تشریف لائیں فرمایا کہ وہاں حقہ ہے میں نہیں آسکتا 170 ہوتی ہے حضرت مسیح موعود کھانا مسجد میں کھاتے...169 حضرت مسیح موعود فرقوں کو ختم کرنے آئے...594 حضرت مسیح موعود کا قرآن کریم کی محبت اور عظمت کی آپ کی بعثت اور فرقوں کا خاتمہ اہمیت اپنی کتب میں.6230617 526 591 اسلام کی سچائی اب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے دنیا 136 حضرت مسیح موعود پر ہونے والا مقدمہ اقدام قتل 611 میں قائم ہونی ہے حضرت مسیح موعود کا اپنے دعاوی کی صداقت کے لئے آپ کے فیصلہ کے بعد چار نمازوں والی روایت بھی غلط ہے 568 قرآن ،حدیث کے دلائل اور تائیدات الہی پیش کرنا.مسجد مبارک کے اوپر چھت پر شہ نشین پر حضور علیہ السلام کا تشریف فرما ہونا ایک صحابی کا چودھویں دیکھنا اور حضور کے چہرہ سے شعاعوں کا 604 مخالفین کی ہٹ دھرمی حضرت مسیح موعود جو لکھتے ہیں وہ اللہ کے اذن سے.اور مرضی سے 602 حکم کا چاند نکلنا اور....حضرت مسیح موعود کا فرمانا.”ہمارے ساتھ جڑ کر ہمیں حضور کا مہمانوں کے جذبات کا احساس 352.351 181
خطبات مسرور جلد نهم حضور کا مہمان کو بنفس نفیس رخصت کرنا 176 180 66 حضرت مسیح موعود کے صحابہ کی روایات کا تذکرہ 168 حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے تقویٰ کا اعلیٰ معیار 4 اسماء حضور کی مہمان نوازی حضور کو الہام ہونا کہ جب مہمان آوے تو مہمان نوازی حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں پیدا ہونے والا انقلاب 325 کرنی چاہیئے 315 حضرت مسیح موعود کے صحابہ نے اپنے اندر جو انقلاب پیدا حضور کا جلسہ کے موقعہ پر زردے کی دیگیں چیک فرمانا اور کیا 201 خوشبو اچھی نہ آنے پر ڈھاب میں پھنکوا دینا.جب ہمیں ان حضرت مسیح موعود کے صحابی کو آسمانوں سے آواز آنا 640 کی خوشبو پسند نہیں آئی تو ہمارے مہمانوں کو کیسے آئیگی 361 حضور کا ہاتھ اٹھا کر دعا فرمانا 360 حضور کے زمانہ میں مہمانوں کے لئے ناشتہ میں عمدہ حلوہ 351 غلام احمد چوہدری رئیس کا ٹھگڑھ غلام احمد خان چوہدری حسین ملک حضرت غلام غلام رسول حافظ وزیر آبادی 353 360 355-362-357 170 اور مکلف کھانا جو گھر سے آتا حضور مہمانوں کی خاطر تواضع کا بہت خیال فرمایا کرتے 350 قادیان میں حضور کی خدمت میں غلام رسول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلق مہمان نوازی 350 صاحب وزیر آبادی کا حاضر ہو کر عرض کرنا کہ حضور کا مہمان کے لئے خود پلنگ اٹھا کر لانا اور فرمایا پلنگ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کر کے اور جھوٹی قسمیں کھا بھاری ہے آپ سے نہیں اٹھے گا...آپ اس پر بیٹھ کھا کر میر امکان چھین لیا ہے.حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب! لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنے پر مکان برباد کر 358 جائیں.اور خود پانی لا کر پلانا...حضور کا خود مہمان کے لئے بستر لانا واپسی پر کھانا باندھ کر دیتے ہیں، آپ کا مکان اگر خدا کے لئے گیا ہے تو جانے دینا اور گلی تک چھوڑنا.یہ طالب علم تھے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دے دے گا.کہتے رات کے وقت حضور کا دودھ کا پیالہ اور ڈبل روٹی اٹھا کر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! یہ پاک الفاظ سنتے ہی میرے دل 358 352 سے وہ خیال ہی جاتا رہا کہ میر امکان چھن گیا ہے.اور اللہ مہمان کو ڈھونڈنا...حضور کا مہمانوں کی خدمت اور نگہداشت کے لئے ایک تعالیٰ نے مجھ کو اس مقدس بستی قادیان میں جگہ دی اور مکان اس سے کئی درجے بہتر دے دیا.کمیٹی بنانا 314 172 322 حضور کے زمانہ میں ایک بار مہمانوں کے ساتھ معاونین کی غلام رسول بسراء چوہدری بد تمیزی اور حضور علیہ السلام کا رد عمل...313،314 غلام شاہ سید ، سکنہ نورنگ تحصیل کھاریاں 170 313 غلام عباس 461 353 316 حضرت مسیح موعود کا نبی ہونا اور...حضور کے زمانہ میں کھانا کھلانے کا انتظام ایک ضلع غلام قادر چوہدری سروعہ کے آدمیوں کا کھانا کھلانا دروازہ بند کر کے.ایک الہام کے غلام قادر مولوی بعد فرمایا دروازے سب کے لئے کھول دو313،312 غلام محمد بابو حضرت حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ رؤیا یا کشف کی حالت میں غلام محمد (نسیم احمد بٹ صاحب شہید کے دادا ) 460 آنحضرت سے روایت آپ نے سنی یا تصدیق...566 غلام محمد حضرت اللہ تعالیٰ کا دنیا بھر میں لوگوں کی حضرت مسیح موعود کی غلام محمد صوفی حضرت طرف رہنمائی کرنا، مختلف واقعات غلام محمد گوندل مولوی 346.340 355 320 641 322
خطبات مسرور جلد نهم ف،ق، ک،گ 67 اسماء دیکھا ، کئی سال بعد ایم ٹی اے پر دیکھا عین اس فاروق احمد سید ڈاکٹر کا ذکر خیر فتح محمد خان کا ذکر خیر فتح محمد شیخ 346 636 361 کے مطابق ، ایک مصطفیٰ ثابت صاحب اور دوسرے خلیفہ رابع 284 قیصر 598 نتیحه صاحبه، الجزائر، خواب میں حضرت خلیفۃ المسیح کا بورے (Kabore)، چندہ ادا کرنے کی برکت سے الخامس کو دیکھنا...احمدیت قبول کرنا فرخ ڈاکٹر ( غلام احمد فرخ) فرزند علی خان منشی فرعون 213 398 640 464 صحت یابی 549.548 کا بورے موسیٰ.برکینا فاسو.والد کا وصیت کرنا کہ امام مہدی کی خبر سنو تو تحقیق کر کے قبول کر لینا.خواب میں حضرت مسیح موعود کو دیکھنا اور احمدیت فضالہ بن عمیر ، کا آنحضرت صلی الم کے قریب قتل قبول کرنا کی نیت سے آنا آپ صلی نیم کا اس کے سینے پر ہاتھ کرم دین ملک رکھنا اور اس کے دل میں سے تمام نفرت کا دور ہو کرم دین بھینی جانا فضل الہی حضرت فضل الحق مولوی فضل الرحمن حکیم ، مبلغ افریقہ 24 351 178 646.645 کرم دین مولوی کریم بخش حافظ کریم بخش میاں کری 277 636 169 351.319 645 362.355 598 633 فضل حق همسر دار ، حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ اگر کسی کلیم احمد طاہر ، مربی سلسلہ نے آنحضرت صلی الم کے صحابی کی زیارت کرنی ہے تو وہ کمال الدین سردار کو دیکھ لے فضل دین فضل دین حضرت حيم 170.169 509 166 356 247 359 356-319 357 کمال الدین خواجہ خواجہ صاحب کا شب دیگ پکوانا آپ کا مسجد مبارک میں یہ کہنا کہ مدرسہ میں پڑہنے والے ملاں بنیں گے تبلیغ کرنا ہم جیسوں کا کام ہے...حضرت محمود ( مصلح موعود) کھڑے ہو کر فرمانے قواد حیدر، مرا کو کے مسلمان ، برسلز پارلیمنٹ کے ممبر کا کہنا کہ خلافت کے بغیر مسلمانوں کا کوئی لگے اس سکول کو یعنی مدرسہ احمدیہ کو حضرت مسیح دین فضل کریم شیخ لاہور 532 موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے یہ جاری رہے گا اور انشاء اللہ اس میں علماء پیدا ہوں گے اور تبلیغ مستقبل نہیں اور جماعت کی تعریف فوسٹن امبوائی (Fostin Maboyi) جماعت احمدیہ حق کریں گے کی مسجد میں داخل ہو کر پتہ چلا کہ یہ جگہ تو پرسکون ہے...جادو نگری قاسم دین بابو حضرت 519 449 172 کونے ابراہیم، خواب میں بزرگ کا کہنا کہ میں عیسی نبی ہوں...تصویر دیکھ کر کہا یہ وہی ہیں...بیعت قانتہ آرچرڈ اہلیہ مولانا بشیر احمد آرچرڈ کا ذکر خیر اور اور تعویز گنڈے سے توبہ نماز جنازہ 91 گرو علی 471 66 قلاب ذبیح یوسف، الجزائر، خواب ایک سال تک گل سیزم آئمہ کینا صاحبہ قزاقستان کا قبول احمدیت 211
خطبات مسرور جلد نهم 68 352 اسماء گل محمد سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل گلیڈسٹون.حضرت مسیح موعود کا گورنمنٹ برطانیہ کے ہیں.چنانچہ میری بیوی نے دو خوا ہیں دیکھنے کے بعد پہلے شہزادہ اور وزیر اعظم گلیڈسٹون کے نام خط 80،79 ہفتے ہی بیعت کر لی تھی.پہلی خواب میں دیکھا کہ حضرت گنٹر کر اس (Gunter Grass، ادب کا نوبل انعام علی میری بیٹی کو کچھ کاغذات دے رہے ہیں.میری بیوی یافتہ ) کا ہدایت اللہ ہیویش کو 1960 کی دہائی کا عظیم نے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ بیعت فارم ہیں.دوسری خواب مصنفین میں شمار کرنا میں دیکھا کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط میری بیوی کے نام لے کر آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ جو ل، م، ن، و، ه ، ی 15 221 لطف الرحمن شاكر ذکر خیر ، تحریک جدید کے شخص میرے گھر میں داخل ہوتا ہے وہ میرے اہل بیت ابتدائی ممبر ، حضرت ام المؤمنین اور خلفاء کو لگنے میں سے ہے.پھر کہتے ہیں خواب میں انہوں نے دیکھا کہ والے ٹیکوں کی سرنجیں اور سوئیاں سنبھال کر رکھی یہ خواب اس طرح تھی کہ ہمیں نجف شہر میں امام مہدی ہوئی تھیں کہ تبرک ہیں کے ظہور کی اطلاع ملی ہے...تیسری خواب میں انہوں لئیق احمد سید 28 مئی کو شہید ہونے والے 346 نے مجھے دیکھا.کہتے ہیں میں نے آپ کو دیکھا کہ ایک ڈھلوان جگہ پر ایک بڑے مجمع کو خطاب کر رہے ہیں اور رام اور پادری سوفٹ کا حضرت مسیح موعود کے مجمع میں تمام لوگ کھڑے تھے ، صرف اکیلا میں آپ کے چیلنج کو قبول کرنے کا ، بظاہر آمادگی...79 پاس نیچے بیٹھا تھا، اور اچکن کو دیکھ رہا ہوں.اور دل میں کہتا لیکھرام پنڈت کی بے باکیاں ، پیشگوئی حضرت مصلح ہوں، سبحان اللہ آپ نے امام مہدی کا لباس کیسے پہن لیا ؟ بہر حال انہوں نے بیعت کی.لیق طاہر موعودؓ کے حوالے سے 123 84 284 لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دینا اور عشق رسول مبارک احمد شیخ این خان فرزند علی خان کا ذکر خیر 363 مبارک احمد شیخ ناظر بیت المال ملی ایم کا اظہار 35 ماجد (عبد المساجد طاہر) وکیل التبشیر ، دورہ جات کی مبارک احمد طاہر ، سیکرٹری نوابشاہ ربوہ رپورٹ تیار کرنے والے 338 مبارک محمود مالتی ، ایک ہندو عورت ، جنہوں نے خواب اور ایم ٹی مبرور احمد ملک شہید نوابشاہ کا ذکر خیر اے اور حضرت مسیح موعود کی تصویر کو دیکھ کر کہا یہ وہی ہیں 518.517 مبشر احمد مبشر ایاز (سید مبشر احمد ایاز) 411 635 246 363 75 631 166 318 579 مالک صاحب ، عراق کے ایک شاعر ، ایم.ٹی.اے کے محبوب الہی شیخ ذریعے جماعت سے تعارف ، خلیفہ رابع رحمہ اللہ کو بدھ محبوب عالم منشی حضرت مت کا نمائندہ سمجھنا.وہ کہتے ہیں : جب حضور کی وفات امام مہدی کے بارہ میں رویا اور لاہور آ کر حضرت ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ نور محمدی آپ کے چہرے پر برس اقدین کی دستی بیعت رہا ہے.ہم سب گھر والوں کے دل سے آواز اُٹھی کہ کاش محکم الدین وکیل یہ شخص مسلمان ہو تا اس کے باوجود حضور کی وفات پر ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (دیکھیں سب سے پہلے لوگ نہ جانے کس بنا پر بہت روئے.پھر اچانک ایک روز آنحضرت صلی العلم ایم.ٹی.اے کا عربی چینل اتفاق سے مل گیا.اس وقت محمد ابراہیم حافظ حضرت ولد میاں نادر علی 168 359
خطبات مسرور جلد نهم محمد ابرہیم بقاپوری مولوی حضرت محمد احسن مولوی محمد احسن سعید جرمنی محمد احسن مولوی محمد احمد ڈاکٹر محمد احمد مبلغ جرمنی 324 310 166 318 222 516 69 اسماء محمد سعید اشرف ابن چوہدری محمد اشرف 166 محمد سعید کرنل کی نماز جنازہ اور ذکر خیر ، آنریری مربی وینکور کیلگری محمد سلیم رانا محمد شریف چوہدری بی اے محمد صاحب میاں افغان غوری 152.151 138 360 318 محمد احمد مصر ، ایم ٹی اے العربیہ دیکھ کر احمدیت 282، 283 محمد صادق مفتی محمد احمد نعیم ، عربی ڈلیک محمد ارشد ، کاتب محمد اسماعیل حضرت محمد اسماعیل سرساوی شیخ حضرت محمد اسماعیل یادگیری مولوی محمد اشرف مرزا، سابق محاسب محمد اقبال ، کارکن (نظارت اشاعت) محمد اقبال ڈاکٹر سر محمد اقبال مبلغ مڈغاسکر محمد اکبر 566.632 629 178 177 369.86 151 170 630 88 533 178 362-351-170-150 محمد صادق مولوی محمد صادق ننگلی چوہدری ، درویش قادیان محمد طیب لطیف صاحبزاده محمد عارف ڈاکٹر افسر جلسہ سالانہ قادیان محمد عبد اللہ شیخ (شیر کشمیر)...66 564 246 565 88 361 316 محمد علی محمد علی اظہر حضرت محمد علی تنزانیہ ، خواب میں مسیح موعود کو دیکھ کر محمد علی خان نواب حضرت محمد علی مولوی احمدی، مخالفت اور والد کا جائیداد سے محروم کرنا 276 639.599 87 محمد اگبو بے الحاج، ناجونگ، ٹوگو مسجد تعمیر کروانا 548 محمد علی مولوی کے کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھانا 356 محمد جی حضرت مولوی محمد حسین حافظ محمد حسین.سید مولوی محمد حسین شاہ سید محمد خان میر 323 170 642 625 323 محمد عمر میاں محمد فاضل 319 173 گئی محمد ماریگا صاحب Muhammad Marega) کناکری، چندوں اور نظام وصیت میں شمولیت اور برکات 547 راجہ محمد مرزا خان ریٹائرڈ صوبیدار کا ذکر خیر 410 محمد دین تہالوی حضرت جو قادیان میں ”دعاؤں کی محمد مرسلین ، خواب اور قادیان جانا ، نیک تبدیلی 446 محمد مصطفیٰ ، کراچی کا ذکر خیر مشین“ کے نام سے معروف تھے، ربوہ کے سنگ.بنیاد میں شامل تھے محمد دین ڈاکٹر حضرت 167 321 محمد رابح ، الجزائر ، ایم ٹی اے اور استخارہ کے ذریعہ بیعت محمد رشید خان حضرت محمد رمضان ، خواب کے ذریعہ احمد کی ہونا محمد رمضان میاں 343 222 343 355 636 محمد مصطفیٰ رعد، سیریا کا ذکر خیر ،ایم ٹی اے کے 221 58 362 ذریعہ احمدی ہوئے تھے محمد میاں محمد یسین میاں محمد يحمي سيهوب، الجزائر، ایم ٹی اے ، حوار مباشر کر احمدیت کی طرف رجحان، استخارہ کے ذریعہ احمدیت قبول کی 213
خطبات مسرور جلد نهم محمد یحی حضرت 180 محمد یعقوب حضرت ولد میاں سراج الدین 647 محمد یوسف پشاوری قاضی حضرت 5،3 محمد یوسف راجہ محمد سرفراز خان چوہدری محمود احمد منیر 410 320 75 70 610 اسماء آپ نے پوپ کو جوخط لکھا اس کا خلاصہ آپ کا ایاک نعبد کی تفسیر حضور“ کی تحریرات کی میں اور احباب جماعت کے اندر عرفان و 426 ایمان کی تبدیلی اور تاثرات آپ کا معمول کہ جس جلسہ میں شمولیت فرمائیں بعد میں شکر گزاری اور دورہ کی تفصیلات کا ذکر 327 محمود احمد میر (سید میر محمود احمد ناصر ) 397، 398 آپ کا جرمنی ، ٹیم ہالینڈ کا دورہ.337 تا 340 محمود اللہ شاہ سید محمود حاجی رض 118 117 66.65 343 آپ کالوگوں سے استفسار پروہی وظیفہ تحریر فرمانا جو حضرت اقدس مسیح موعود بیان فرمایا کرتے تھے.639 آپ کا جلسہ برطانیہ کا اختتامی خطاب، عرب دنیا کے ایک دوست کا اظہار، یہ خطاب دلوں میں آنحضرت محمود عیسی ، ایم ٹی اے کے ذریعہ تعارف ، خواب محمود شاد ، مبلغ تنزانیہ کے ذریعہ قبول احمدیت 216 صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم کرنے والا اور انسانی ضمیر کو محمود یحیی ، یمن ، استخارہ کرنا اور بذریعہ خواب قبول جگانے والا اور روح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ پر احمدیت محمود (سید محمود احمد شاہ) 214 121 جھکانے والا تھا....379 آپ خلافت رابعہ میں جب ناظر اعلیٰ تھے تو پاکستان کے حالات کے متعلق دعا کرنا..اور آواز آنا..502 محمودہ بیگم سیده، حضرت ام ناصر ،سوانحی خاکہ اور آپ کا نفلی روزوں اور دعا کی تحریک فرمانا اور خدمات دینیه و اوصاف حمیده محی الدین سید ،رانچی انڈیا 389 346 جماعت کا والہانہ لبیک 545 آپ کا پہلے دن ہی سے جماعت کو اپنی حالتوں کی مریم خاتون اہلیہ محمد ذکری آف چوبارہ ضلع لیہ کی درستی اور دعاؤں کی طرف توجہ دلانا شہادت 614 503 آپ کا ایک ماہ سے زائد عرصہ یورپ کا دورہ اور اس مریم بیگم حضرت سیدہ، کا مکان جو پہلے ایک وقت کی تفصیلات و واقعات میں لنگر خانہ تھا مستقیم صاحب 313 642 533 521 آپ کے دورہ کے فوائد اور برکات اخبارات ،میڈیا اور سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی توجہ 532 حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایده امریکن عیسائی کا حضور انور کی تقریر میں دلچسپی لینا اللہ تعالیٰ اور...335 آپ کی والدہ ماجدہ کا آپ کے لئے ہر نماز میں ایک آپ کے دوروں کی اہمیت اور ضرورت ”یہ لوگ برے سے براہ راست سننا چاہتے ہیں کہ احمدیت سجدہ...دعا کا...397 522 عراق کے ایک شاعر مالک صاحب کا خواب میں کیا ہے؟“ حضور انور ایدہ اللہ کو دیکھا.کہتے ہیں میں نے آپ کو دیکھا آپ کا بیلجیئم میں خطاب اور یہاں کی مسجد کے کہ ایک ڈھلوان جگہ پر ایک بڑے مجمع کو خطاب کر رہے بنیاد کی تقریب، میئر کا حضور انور کی تصاویر ہیں...اور دل میں کہتا ہوں، سبحان اللہ آپ نے امام تقریب کی سی ڈیز CDs لے کر اپنی کونسل کی مہدی کا لباس کیسے پہن لیا ؟ آفیشل ویب سائٹ پر چلانے کا اظہار 284 532
خطبات مسرور جلد نهم 71 اسماء آپ کا ناروے میں دہشت گردی کے ہونے والے منصور احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا ، در ثمین کے اشعار یاد ہونا اور حضور انور ایدہ اللہ کی والدہ ماجدہ کو پاکیزہ 53 394 افسوسناک واقعہ پر اظہار افسوس ہالینڈ کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ خیرت ولڈر کو اشعار کثرت سے یاد ہونا اور بیت بازی خدا کی گرفت کی وارننگ.اس پر اس کا رد عمل کہ خلیفہ ثانی کا مسجد اقصیٰ میں آپکا لمبا خطبہ نکاح 390 مرزا مسرور کو گرفتار کیا جائے وغیرہ...اور ہالینڈ کی حکومت کا تحقیق کے بعد اس کے تمام الزامات کو منور احمد مرزا ڈاکٹر رد کر دینا 609.608 397 منظور احمد 351 222 <221 منیر احمد خان ولد عبد الکریم خان کراچی 580 منیر احمد خاں راجہ، پرنسپل جامعہ احمدیہ جونئیر 410 آپ کا ایک انداز، مختصر بات ، کم بولنا آپ کی والدہ ماجدہ علیھا الرحمۃ کی وفات اور اوصاف منیر احمد شیخ حمیدہ کا تذکرہ 398 287 411 منیر احمد، مردان میں پنجاب رجمنٹ پر ہونے والے آپ کی جیل سے رہائی اور آپ کی والدہ صاحبہ کا حملہ میں ایک احمدی کی شہادت منیر بخش اخوند خان عاجزانہ شکرانے کا اظہار 397.396 آپ کو خطبہ کے دوران کھانسی کی تکلیف اور عشاق جماعت کی محبت و جاشاری کا تذکرہ آپ کا اپنا علاج خود ہو میو پیتھی سے فرمانا 542 542 منیر بخش چوہدری 75 178 316 موڈو نیجی (Modou Nijie) گیمبیا خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کی ، حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھنا اور ایک روحانی انقلاب مسعود احمد خان دہلوی ، ایڈیٹر الفضل کا ذکر خیر اور موسیٰ حضرت نماز جنازہ 553 275 225 حضرت موسیٰ کے بالمقابل فرعون کا غصہ کے ساتھ جرمنی میں قضا کا نظام قائم کرنے کی توفیق پانے عبرتناک سزا دینے کا اعلان...اور اس وقت کے والے مسعود دہلوی صاحب مسعود جہلمی مسعود مبارک شاہ سید مشتاق حسین شیخ حضرت مصطفی فوفانا مصطفی ثابت 554 13 122.117 319 211 343 مؤمنوں کا رد عمل مہتاب بیگ مرزا درزی مہر دین مولوی حضرت مہر علی گولڑوی پیر 61 311 315 173 ناصر ، عرب، کا ایم ٹی اے دیکھنا اور رابطہ کرنا کہ مجھے لٹریچر چاہئیے....469 مصطفی حریری ، خواب میں آنحضرت صلی علم کی چادر ناصر احمد ظفر ابن مولانا ظفر محمد ظفر کا ذکر خیر ، نماز میں امام مہدی کو دیکھنا ، احمدیت قبول کرنا 280 جنازه مظفر احمد ابن میاں منور احمد کا ذکر خیر مظفر الدین شیخ معراج الدین عمر میاں مغیرہ بن شعبہ حضرت مکھن خان میاں ممتاز 509 حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث 167ء 509 554 389-398-390-221 <215 246 352 647 16 361 573 آپ کا (سید عبدالحی) شاہ صاحب کے لئے دعا کرنا تو اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ زبان پر جاری فرمائے..کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو...629
خطبات مسرور جلد نهم ناصر شاہ، حضرت سید 350 72 317 215 اسماء حجم الدین میاں بھیروی حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ ، والدہ ماجدہ حضرت ندیم ، نائیجیریا کے مبلغ خليفة اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کی والدہ ماجدہ علیھا الرحمہ کی وفات اور اوصاف نذیر احمد چوہدری کا ذکر خیر ، نائب ناظر زراعت و 398 287 ندیم فیضی ، امریکہ 398 636 636 حمیدہ کا تذکرہ نائب وکیل زراعت حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ، خدا سے لولگانے کی نذیر احمد مبشر مولانا کی دعا سے گھانا جیسے ملک میں تڑپ ، آنحضرت صلی علیم کی زیارت، لمبی نمازوں کی زلزلے کا نشان ، عیسائیوں کا احمدیت قبول کرنا 131 ادائیگی کا نمونہ، تلاوت قرآن کا اہتمام، صحابہ سے نذیر احمد ملک آف چکوال کا ذکر خیر فیض پانا، مؤمنانه و قار، بڑا ضبط اور کنٹرول ، ربوہ لجنہ نذیر خان ماسٹر میں نمایاں خدمات ، تقویٰ پر قائم ، صاحب فراست احمد بٹ ابن محمد رمضان بٹ فیصل آباد کی ، بصیرت افروز ،فیصلے، پاکیزه شعری شوق، اعلی شہادت انتظامی صلاحیت ، ہمدردی مخلوق ، مہمان نوازی نصر اللہ خان چوہدری نصرت جہاں ، ڈاکٹر 398387 6 359 460 356 148 460 311.179 173 172 چندوں کی باقاعدگی آپ کی والدہ محترمہ کا ایک خاتون کے کہنے پر کہ نصیر احمد بٹ ولد اللہ رکھا میں نے 6 سال کی عمر میں اپنے بچے کو قرآن ختم نظام الدین حضرت کروا دیا...فرمایا بچے کے دل میں قرآن کریم کی نظام الدین مستری محبت کتنی پیدا کی ہے...نعیم احمد وسیم ابن حضرت حاجی محمد دین تہالوی 167 حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ والدہ ماجدہ حضور انور ایده نعیمہ بیگم بنت ڈاکٹر حشمت اللہ خان کا ذکر خیر 167 نوح حضرت ، کا اپنی قوم کے خلاف بددعا کرنا 25 بارے میں اعلیٰ معیار اور اللہ کے پر دے کے 616 حضرت خلیفة المسیح الرابع " کا خراج تحسین...393 نور الحق مولانا ابو المنير 393 آپ کا ،خلافت کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ تعلقات حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفة المسیح الاول 397 318 354.159.351 360 176.314.86 میں احترام کا تعلق حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے ساتھ کام کرنے والی آپ کا جواب "مرزا جی کی بیعت سے کیا فائدہ ہوا “644 آپ کی بیماری پر حضرت مسیح موعود کا بکرے صدقہ لجنات کے تاثرات 395-393-392 کرنا...حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ ) کی جیل سے رہائی اور حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کا آپ کا بچوں کو گود میں اٹھا لینا...عاجزانہ شکرانے کا اظہار نبی بخش حافظ ، فیض اللہ چک نبی بخش صوفی حضرت نتھے خان نثار احمد حجم الدین میاں 397.396 645 323 371 361 642-356-352 116 647 آپ کا ایک عزیز کو فرمانا قرآن یاد کرو ایم اے کیا ہوتا ہے...اور اس کے قرآن یاد کرنے پر آپ کا سجده شکر 641 آپ کی ایک بہن کا واقعہ جو کسی سید پیر کی مرید تھیں کسی قسم کی نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں.483 <482
خطبات مسرور جلد نهم 73 اسماء آپ کے بارہ میں خواب کہ جوا کھیل رہے ہیں وسیمہ بیگم سیدہ بنت حضرت سید ولی اللہ شاہ ،امریکہ 641 کا ذکر خیر حضور کی تعبیر....یعقوب علی عرفانی ، حضرت شیخ ، کا ایک رؤیا کہ حافظ ولی اللہ شاہ سید حضرت، شارح بخاری 635 53 صالح الہ دین حضرت مولوی نور الدین کی کرسی پر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بیٹھے ہیں...نور احمد تالپور نور احمد خان حضرت نور الدین خلیفہ جموں نور محمد حافظ نوری ڈاکٹر مسعود الحسن نووی امام حضرت نیاز حسین سید 149.148 347 353 639 645 570.396.119 157 310 نیاز فتح پوری علامہ، تفسیر کبیر پر تاثرات 89 نیک عالم مولوی حضرت 169 کے ماموں ولی محمد میاں ولیم میور 635 641 569 ویگیری (Vaglieri) ڈاکٹر اٹالین مستشرقہ 584 ویل گلڈر کی بد دیانتی اور اس کو الہی گرفت کی وار ننگ باشم 513 379 ہالہ ، مصر ، ایم ٹی اے العربیہ اور خواب کے ذریعہ احمدی...344 بامان واتارا عبدالحئی، بادله (Badala) برکینا فاسو ، غریب بانی طاہر احمدی، چندوں کے بارے میں بڑھتا ہوا ایمان اور ہدایت اللہ ہیوبش 548 464 469-219-214 ہدایت اللہ ہیوبش، قبول اسلام کی روداد 13 15C12 مالی قربانی وائٹ بریخٹ سٹانٹن پادری ڈاکٹر کا حضرت مسیح موعود ہدایت اللہ ہیوبش کا ذکر خیر کا آنحضرت صلی اللی کی بابت غیرت کے بارے حضرت خلیفة المسیح الثالث نے ان (ہیوبش صاحب ) کا لمنٹس دینا 35 13 الله نام ہدایت اللہ رکھا میاں وجیہہ احمد نعمان ابن میاں بشیر احمد صاحب ہدایت اللہ ہیوبش کی کتب ، آنحضرت صلی ایم کی کا زخمی ہونا اور دعا کی تحریک تعلیمات، اسلام کے بارے میں ننانوے سوالات اور وحشی ، حضرت حمزہ کو شہید کرنے والے کو معاف جوابات، اسلام میں عورت کا مقام، اسلام میں جنت اور جہنم کا تصور کر دیا...16 23 14 وحید مراد ، عراق ،خواب،الحوار المباشر دیکھا تو وہی گنٹر کر اس (Gunter Grass ادب کا نوبل انعام یافتہ) کا ہدایت اللہ ہیوبش کو 1960 کی دہائی کا عظیم خواب کے مطابق احمدی ہو گئے وریام دین ننگلی وزیر خان میاں حضرت وزیر محمد میاں وسیم احمد مرزا صاحبزاده وسیم احمد ملک وسیم احمد بٹ 517 564 318 636 148 363 460 مصنفین میں شمار کرنا 15 ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی وفات اور جرمنی کے احمدیوں کو ایک خاص نصیحت : ” میں جرمنی کے احمدیوں کو ، نوجوان نسل کو بھی کہتا ہوں کہ جرمن ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے احمدی مسلمان ہونے کا ایک حق ادا کیا تو آپ لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں
خطبات مسرور جلد نهم 74 150.35 اسماء اور جرمنی میں اور یورپ میں جہاں بھی اسلام کے دفاع کی یعقوب علی عرفانی ، حضرت ضرورت ہے آگے بڑھیں ، علم حاصل کریں اور سیکھیں یعقوب علی عرفانی ، حضرت شیخ کا ایک رؤیا کہ حافظ اور ان کی زبان میں ان کو بیان کریں اور اسلام کا دفاع صالح الہ دین ، حضرت مولوی نور الدین کی کرسی پر کریں.نہ صرف دفاع کریں بلکہ اسلام کی خوبیاں بیان کر بیٹھے ہیں...کے اسلام کی برتری تمام مذاہب پر ثابت کریں“ 15 حضرت یوسف ہشام بن زید ہنری مارٹن کلارک 22 632 149.148 161 آپ اور حکومت وقت کی اطاعت کا نمونہ 159 یوسف منصور الله 518.517 565 ہنری مارٹن کلارک جس نے حضور پر مقدمہ کیا اس یونس صاحب کے پڑپوتے کی حضورانور سے ملاقات اور اس کی Jildiz Abdullaeva صاحبہ ، قرغزستان کی ایک نو تفصیل 611 یسین محمد شریف سیریا ، بذریعہ خواب قبول احمدیت 285 احمدی غیرت مند اور نیک فطرت نو مبائع بچی ، باحیا لڑکی جس نے غیر مسلم امریکن کی شادی سے انکار کر دیا...ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے قرغزستان کی یسین ، شام ، جلسہ پر مبارکباد اور عرب ممالک میں لڑکیاں غیر ملکیوں سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں.لیکن اس بھی جلسوں کے انعقاد کی خواہش 380 یاسر، عمان، ایم ٹی اے دیکھ کر قبول احمدیت 468 بچی نے احمدی ہونے کی وجہ سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا.یاسر برہان الحریری، شام ، دعا کرنا اور بذریعہ خواب پس یہ پاک تبدیلی ہے اور یہی استقامت ہے جس کے لئے دعا کی جاتی ہے، دعا کی جانی چاہئے.یہ لڑکی جو ہے نئی احمدی احمدیت قبول کرنا 212 یاسمین صاحبه، لبنان ، دعا اور بذریعہ خواب قبول ہوئی، غربت بھی تھی، اچھا رشتہ مل رہا تھا ، لیکن اُس نے دین کی خاطر ٹھکرادیا.اس میں اُن لوگوں کے لئے بھی لمحہ احمدیت 214 یکھی جاتے (Yahya Diabate) خواب کے ذریعہ فکر یہ ہے کہ جب بعض بچیاں جو ایسے غیروں میں شادی کو احمدیت قبول کرنا...احمدیت خدا کی طرف سے پسند کرتی ہیں جو صرف شادی کی خاطر بیعت کر کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں.بھیجوائی ہوئی خوش بختی ہے اسے قبول کرلو ،پورا 443 گاؤں احمد کی ہو گیا یحیی خان ، پرائیویٹ سیکرٹری خلیفہ ثانی 516 580
خطبات مسرور جلد نهم 75 مقامات مقامات آجای زنبوے(Ndjadji Zimbomy) تبلیغی پروگرام اور 167 افراد کا احمدیت قبول کرنا آچیه آسٹریلیا 446 <445 65 551.11 آسٹریلیا اور کینیڈا کا چندہ تحریک جدید میں اضافہ کرنے کی قربانی 549 جاپان ، فارایسٹ ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، وغیرہ میں ہونے والی آفات...نقصانات آستور 135 12 آئیوری کوسٹ کی ایک سبزی فروش احمدی خاتون، مالی قربانی کی مثال 548 ری یونین آئی لینڈ سے فرانس آئی خاتون کا بیعت کرنا ابزرویٹری یونیورسٹی شکاگو.امریکہ 517 147 ابو ظہبی کے ایک دوست، حضور کا عربی کتب پڑھنا.ایم ٹی اے کے پروگرام الحوار المباشر دیکھا...حضرت مسیح موعود کا نعتیہ کلام پڑھ کر آنکھوں میں آنسو...ابو جا.نائیجیریا اپر ریور ریجن گیمبیا 280 215 342 12 آسنور.کشمیر.ایک معمر بیمار جس کی دوائیوں کا خرچ اتر پردیش پنشن سے بھی زیادہ ہو گیا.جب تک میں زندہ ہوں اٹلی، امیر جماعت احمدیہ کہا بیر کا ویٹیکن اٹلی میں پوپ خلیفة المسیح کے فرمان پر لبیک کہتا رہوں گا.جب خدا کو قرآن کریم اور حضور انور ایدہ اللہ کا ایک خط پیش کرنا 609 نے ادویات کا بجٹ بڑھا دیا ہے تو میں آخرت کے احمد نگر ضلع جھنگ بجٹ میں کیوں کمی کروں آکسفورڈ 550 91 از لنگٹن 625 310.12 12 آلا ڈا.بین کے گاؤں لوکولی نومبائعین کا جلسہ اور اسرائیل کے ایک اخبار میں ایک یہودی نے کالم غیر احمدی مولوی سے ان کا ایمان افروز جوش کا لکھا کہ اسلام کی تعلیم تو امن پسند ہے ہی نہیں.57 مظاہرہ آندھرا پردیش آئر لینڈ آئیوری کوسٹ 444 12 11 552.471.153 اسرائیل کے ہاخام اعظم.رہائی اسلام آباد اسلام آباد ریجن 609 629.552.11 12 افریقہ 360،120،221،399،108،266،11،10 آئیوری کوسٹ، آلیڈو وڈراگو صاحب.چندے کی بے افریقن کا لا الہ الا اللہ کی خوبصورت آواز میں ورد شمار برکتوں کا مشاہدہ اور دوسرے ممبران کا بھی کرنا جماعت کے مبلغین کا تثلیث کی جگہ توحید.514 افریقہ، یا کسی بھی بر اعظم میں اسلام کی حقیقی تصویر چندے میں اضافہ کرنا 547 606 آئیوری کوسٹ.بے ما Bema صاحب.مرگی کے احمدیہ جماعت پیش کر رہی ہے دورے ، تعویذ ، خواب میں امام مہدی نے کہا کہ یہ آئندہ آنے والے سالوں میں افریقہ براعظم دنیا کی اتار دو...تصویر دیکھی تو وہی...دیکھ کر 279 رہنمائی کرنے والا بن سکتا ہے...581
خطبات مسرور جلد نهم 76 مقامات 340 ان کے دل اللہ نے نور یقین سے بھر دیئے ہیں وہ برصغیر کے ایک چھوٹے سے قصبہ سے اعلان کرنا اپنے ایمان میں مضبوط ہیں...کہ خدا نے میرے سپرد قرآن کی تعلیم کو پھیلانے افریقہ کے احمدیوں کی مالی قربانی اور اخلاص 9،7 اور لاالہ الا اللہ کی عظمت دلوں میں بٹھانے کا افریقہ میں اماموں سمیت احمدی ہونا.ان ملکوں میں کام..یہ پیغام اس بستی سے نکل کر ہندوستان، یورپ ہماری کوششیں پہلے سے زیادہ تیز ہونی چاہئیں 244 امریکہ تک پہنچا افریقہ میں نو احمدیوں میں پیدا ہونے والی نیک ان لینڈ ایمپائر امریکہ تبدیلی 441 انٹاریو پاکستان مشرق وسطی افریقہ کے بعض ممالک انڈونیشیا 94 544 12 518 551 217.108.11 انڈونیشیا کی تاریخ میں شہدائے احمدیت 68 تا 72 کے سربراہان کی عیاشیاں اور...براعظم افریقہ کے بعض ممالک کی آزادی گولڈن انڈونیشیا کے ایک کرنل ویول صاحب کا کشف اور جوہلی اور حضور انور کی رہنمائی واظہار مسرت 581 تفصیلی تحقیق کے بعد احمدیت قبول کرنا عرب و افریقن ممالک میں بے چینی اور اسباب 102 انڈونیشیا میں احمدیت کا آغاز افغانستان 357-293 341 64 انڈونیشیا میں احمدیوں کے خلاف ظالمانہ کارروائی اور اکو کو.باسلہ ریجن، بین کے لوکل مشنری حسینی علیو مولویوں کی شمولیت اور الہی تقدیر کے تحت ان میں صاحب الجزائر 217 466 پھوٹ پڑنا 107 انڈونیشیا میں جماعت کی مخالفت کی تاریخ 64 المیرے.مسجد تعمیر کرنے کی کوشش اور.514 انڈونیشیا میں درندگی اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے امر تسر 320-249 ہوئے تین احمدیوں کی دردناک شہادت 60 امریکہ 383،11،246،12،137،327،329،328 انڈونیشیا میں ہونے والی شہادتوں پر مختلف آراء اور 12.554.551 135 تبصرے 63 امریکہ میں آنے والے طوفان اور...انڈو نیشین احمدیوں کے لیے تمام احمدیوں کی دعائیں 74 امریکہ کے ایک پادری کی سستی شہرت حاصل انڈیا / بھارت / ہندوستان 10،6، 87،65،37،11، 139 551 518-240-223-220-115 کرنے کی مذموم کوشش امریکہ اور یورپ میں آنحضرت کی توہین انڈیا کے مخلص احمدیوں کے چندوں میں بڑھ چڑھ کرنے والے بد باطنوں کا مقابلہ کرنے کا ایک ہی حل کر قربانی کا جذبہ 197 6 ہندوستان، پاکستان، عرب سمیت تعویذ گنڈے کی 441 ہے.آنے والے کو مان لیں امریکہ کے پادری کا قرآن جلانے کا اعلان ، برطانیہ بدعت کی حکومت کا اسے برطانیہ آنے کی اجازت نہ دینا.برصغیر کے ایک چھوٹے سے قصبہ سے اعلان کرنا 34 کہ خدا نے میرے سپرد قرآن کی تعلیم کو پھیلانے حضور انور کا اس اقدام کو سراہنا امریکہ میں مخالف پادری ، ہالینڈ، ڈنمارک وغیرہ میں اور لاالہ الا اللہ کی عظمت دلوں میں بٹھانے کا اسلام پر اعتراضات کرنے والوں کو جواب جماعت کام..یہ پیغام اس بستی سے نکل کر ہندوستان، یورپ کی طرف سے 500 امریکہ تک پہنچا 544
خطبات مسرور جلد نهم 77 مقامات دہلی (ہندوستان) میں جماعت کی طرف سے قرآن برکینا فاسو گاوا ریجن کے صدر کی مالی قربانی اور نمائش جس کا غیر مسلموں پر بہت اچھا اثر.نام نہاد برکات علماء کی طرف سے فساد.اور نمائش بند ہونا 524 برکینا فاسو میں جماعت کے ریڈیو اسٹیشن اور ان کے 171 ذریعہ تبلیغ ہندوستان کا پہلا شہید...ہندوستان کے مذاہب میں زلزلہ پیدا کرنے والا چیلنج 79 برلن انگلستان / انگلینڈ برطانیہ / یو کے 607،551،12،11 یو کے.صدر قضاء بورڈ 363 برمنگھم برمنگھم ویسٹ یو کے جامعہ کے دو طالب علموں کا ایک ڈیبیٹ میں برو خال ایک مشہور معترض عورت کو لاجواب کرنا..620 بریڈ فورڈ نارتھ یو کے جلسہ کے اختتام پر اظہار تشکر اور دوسروں بریمن بڑی مسجد (مسجد اقصیٰ) کے تاثرات 375 یو کے جماعت مہمان نوازی کے مستقل فرض کو خوب بستی رنداں.ڈیرہ غازی خان نبھا رہی ہے اور کزئی.ڈیرہ غازی خان اورنگی ٹاؤن کراچی اوسلو اوکاڑہ اوہائیو امریکہ 349 178 636 496 552 167 347 293 635 266.137 350 ایڈلیڈ.ساؤتھ آسٹریلیا ایران ایسٹ افریقہ ایشیا ایمن آباد ٹ،ث ب پ ت ٹ ث باد کروئز ناخ.جرمنی باسله ریجن.بین بانڈونگ بٹالہ بخارا بدو ملی برکینا فاسو 249 320 552-277-216.11 462 217 615 362-351-350-320-354-35 8 442 337 346 12 12 12 12 358 314 بلغاریہ کے ایک وکیل صاحب کا صلح کے جماعتی - نظام سے متاثر ہونا بمبا گو.گھانا 334 442 بنفورا.ریجن کے سوا دو گو صاحب نومبائع کا چندوں میں اخلاص اور ترقی اور برکات 9،8 بنگال بنگلور بنوں 176 149.12 321-246 بنیوے سٹیٹ کے ایک معلم خالد شعیب بذریعہ خواب احمدیت بوسٹن امریکہ بولگا.غانا بہاولپور بھائی دروازہ بھانبڑی ضلع گورداسپور بھیرہ 215 12 442 552 647 316 351 178 486 بھیں ضلع جہلم بیت النصر.اوسلو ناروے بیت النصر ناروے تعمیر کرنے کے لئے مخلصین قابل رشک کی قربانیاں اور ان کے لئے دعا 494،493
خطبات مسرور جلد نهم بیکسلے اینڈ گرین وچ.برطانیہ بیگووال بیلجئیم بیلجیئم.بیت الحبیب کا سنگ بنیاد رکھنا 12 75 520.11 532 78 مقامات پاکستان کے غیر احمدی دوست کا ایک احمدی سے کہنا کہ احمدی ہونے کا طریق یہ ہے...ایک غلط تصور اور ایسے جھوٹ پر لعنت 524 پاکستان کا تحریک جدید کی قربانی میں اول آنا 551 بیلجیئم کی مسجد : امن اور محبت کی علامت قرار دینا پاکستان کا ظالمانہ قانون حضرت مسیح موعود کے 533.532 337 خلاف گند لکھ کر.کوئی بھی سرکاری تحریر یا سند نہیں ہے....یہ سب لوگ بڑے گناہ کے مرتکب ہو بیلجیئم میں حضور انور کا قیام اور تفصیل جرمنی، ناروے، ہالینڈ، ڈنمارک، بیٹیئم کا دورہ اور رہے ہیں 558 مخلصین کے اخلاص و وفاء دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا پاکستان کی بڑھتی ہوئی ابتر حالت...اللہ ہمارے اور اسلام کی طرف پہلے سے زیادہ غیر معمولی ملک اور عوام پر بھی رحم فرمائے 589 توجہ...ببینن 521 217.11 پاکستان کے ایک سیاستدان کا کراچی اور سندھ کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سچائی کا اظہار کیا تو اس بین.اور اکامے جماعت کے لطینولا میری قرض کو پاگل کہا گیا.کہ سیاستدان اور سچ لے کر خدا کی راہ میں چندہ وقف جدید 7 451 پاکستان کے نام نہاد علماء کا جماعت کی مخالفت میں بینن کے شہر پوبے Pobe کے احمدیوں کا چندوں میں پیش پیش 501 سست ہونا ایک خواب کے ذریعہ یہ سستی ختم ہونا 285 پاکستان مسلمان ملک لیکن کرپشن کرنے والے پاپوا نیو گنی یاڈانگ 296 66 ممالک میں نمبر پہلے سے بڑھ کر...54 پاکستان مشرق وسطی افریقہ کے بعض ممالک پاکستان 12،11، 115، 148، 151، 223، 235، کے سر بر اہان کی عیاشیاں اور...444-410-398-363-347-333-276-246 625-593-579-578.564 94 پاکستان میں احمدیوں پر مظالم اور سختیاں اور ناروا ظالمانہ قوانین 555 501 پاکستان قائد اعظم کا اعلان کہ ہر مذہب کے پاکستان میں احمدیہ جماعت پر مظالم گھٹیا لٹریچر اور ماننے والوں کو آزادی احمدیوں کے ساتھ ظلم 589 پوسٹر کی اشاعت...پاکستان میں بھی جلسہ کے دنوں میں ربوہ میں سرحد پاکستان میں آنے والا سیلاب ملک کی تاریخ کا بد والوں کے لئے خمیری روٹی اور پرہیزی کھانا تیار ترین سیلاب انڈونیشیا کی سونامی سے بھی زیادہ تباہ 359 کن.136 کرنے کی روایت پاکستان اور ربوہ میں ہونے والے ختم نبوت کے جلسے پاکستان میں بڑھنے والی مخالفت اور احمدیوں پر حملے اور اس میں حضرت مسیح موعود اور جماعت کے دعا کی تحریک خلاف بے ہودہ گوئی...453 461 کاش یہ جرات پاکستان کے لوگوں اور پریس میں 64 پاکستان پر مغربی ممالک کی نظریں اور وجہ 27 بھی پیدا ہو جائے پاکستان سے آکر اسائلم لینے والے کبھی نہ بھولیں کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کے جلسوں پر پابندی 76 جماعت کے بغیر ان کی کوئی زندگی نہیں ہے 333 پاکستان میں ڈیوٹیاں دینے والے احمدی خدام و انصار
خطبات مسرور جلد نهم 79 اور عورتوں کے اخلاص و وفا کا ذکر.ذکر الہی اور پنجاب یونیورسٹی دعاؤں سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں 203 پنج گاڑی پنگوان مقامات 641.625.553 12 70 پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو دعاؤں کی خاص تحریک اور نفلی روزے کی تحریک.دیگر دنیا بھر کے پورتونو دوبین ، لطیفه نامی خاتون کا خواب میں جلسہ 501 یو کے عالمی بیعت کا منظر اور حضور انور کو دیکھنا اور احمدیوں کی دعا کی تحریک پاکستان میں شدید مخالفت نامساعد حالات کے باوجود ظاہری طور پر ایسے ہی دیکھ کر احمدی ہونا 344 پورتونو و ریجن.بین کے معلم رائگی زکریا 447 503 ترقی کی طرف جماعت...پاکستان میں لاقانونیت اور فساد، آفات کا نزول 511 پولہ مہاراں.نارووال پاکستان میں ملاؤں کے بے ہودہ پروگرام گوئی پر مشتمل 515 میں ویج ساؤتھ تا پا تو آن Tapatuan 320 12 65 پاکستان یا دوسرے ممالک میں جب احمدیوں کو یہ تایا تو آن مقامی راجہ کی طرف سے احمدیوں کو نماز کہا جاتا ہے تم اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو ہم یہ بات ماننے تبلیغ وغیرہ کی ممانعت کر دینا کو تیار نہیں.ہم مسلمان کہتے ہیں.یا کلمہ نہ پڑھو.ہم تامل ناڈو پڑھتے ہیں.یا ایک دوسرے کو سلام نہ کہو، یا قرآن کریم 66 549.12 ترکی کے ایک پروفیسر صاحب جلسہ برطانیہ کے نہ پڑھو.تو یہ ہمارے مذہب کا اور دین کا معاملہ ہے.اس انتظامات دیکھ کر متاثر ہونا...بارہ میں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے اطاعت کی ضرورت نہیں.لیکن یہاں بھی ہم بغاوت نہیں کرتے.صرف ان تعلیم الاسلام پرائمری سکول بشیر آباد معاملوں میں ہم کبھی کسی قسم کے قانون کو مان ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ شریعت کا معاملہ ہے.اللہ اور رسول کے حکموں کا معاملہ ہے.جہاں تک ملک کے دوسرے قوانین کا تعلق ہے ، اس کے باوجود ہر احمدی ہر قانون کی پابندی کرتا ہے.157 تنزانیہ 635-578-579-343-246 تولتامہ.برکینا فاسو تیونس ٹرینیڈاڈ 378 497 277 97 91 ٹوگو.نوچے ریجن.کے گاؤں میں غریب مخلص پاکستان یہ قانون اور سختیاں اور ظلم مسیح موعود کی احمدی جن کے پاس مخالفین پیسے لے کر گئے کہ جماعت کی ترقی کو روک نہیں سکتے 557 ہندوستان، پاکستان، عرب سمیت تعویذ گنڈے کی یا نگور پٹنہ یونیورسٹی پٹھانکوٹ پٹیالہ پسرور پشاور پنجاب پنجاب ہائی کورٹ 441 70 346 632 353 179 552-352 310.137.136.12 36 احمدی تو چندہ مانگتے ہیں ہم تمہیں دیتے ہیں لیکن ان کا یہ پیشکش ٹھکرا دینا اور چندے کے نظام میں شمولیت جاپان ج، چ، ح، خ 9 130.11 جاپان ، فارایسٹ ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، وغیرہ میں ہونے والی آفات...نقصانات 135 اسلام کی طرف ایک دن انہیں آنا پڑے گا 133 جاپان میں شدید زلزلہ اور سونامی کی تباہی اور احمدیوں کا خدمت خلق کا کام...132
خطبات مسرور جلد نهم جالندھر 353.316 554.551410.222.166-327-13-12-11 Z جرمنی فرینکفرٹ 524 80 مقامات کریں اور جرمنی میں اور یورپ میں جہاں بھی اسلام کے دفاع کی ضرورت ہے آگے بڑھیں ، علم حاصل کریں اور سیکھیں اور ان کی زبان میں ان کو بیان کریں اور اسلام کا جرمن جماعت کا پڑھے لکھوں اور سیاستدانوں اور دفاع کریں.نہ صرف دفاع کریں بلکہ اسلام کی خوبیاں بیان 336 335 کر کے اسلام کی برتری تمام مذاہب پر ثابت کریں“ 15 جرمنی کا جلسہ ، افتتاحی خطبہ اور ہدایات 308 میڈیا سے روابط.خوشی کا اظہار جرمن مہمانوں کو اسلام کی تعلیم بتانا جرمنی کی خواتین کا تحریک جدید کے لئے قربانی زیور جرمنی کے روشن مستقبل کے بارہ میں حضور انور ایدہ کے لئے رکھی ہوئی رقم، زیور اور کسی نے کمیٹی کی اللہ کی والدہ ماجدہ کا ایک خواب 396 رقم اور ایک پرچی بیس ہزار یورولیکن نام ظاہر نہ کیا جرمنی کے نوجوانوں میں بیداری اور تبلیغی مساعی 523 جائے اور ایک نے اکیس ہزار یورو نام نہ ظاہر کیا جرمنی میں افراد جماعت کے اخلاص و وفا کا ذکر جائے 551-550 خاص طور پر نوجوانوں میں 333 کسی جرمنی، ناروے، ہالینڈ، ڈنمارک، بیلجیئم کا دورہ اور جرمنی میں پوپ کا اسلام اور قرآن پر اعتراض مخلصین کے اخلاص و وفاء دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا جماعت کی طرف سے کتابی صورت میں جواب.کسی اور اسلام کی طرف پہلے سے زیادہ غیر معمولی دوسرے فرقہ یا مسلمان کو توفیق نہیں ملی 500 جرمنی میں قضا کا نظام قائم کرنے کی توفیق پانے ہ....521 ایک جرمن نو احمدی نوجوان نیک تبدیلی 441 والے مسعود دہلوی صاحب 376-337 554 جماعت جرمنی کو تبلیغی رابطے اور کاوشیں تیز جرمنی جلسہ افضال الہی کا تذکرہ جرمنی جلسہ کے حوالہ سے غیروں کے تاثرات 334 کرنے کی ہدایت جرمنی جلسہ میں عورتوں کی خاموشی کا قابل تقلید جرمنی.ہیمبرگ نمونہ....383 جرمنی جلسہ میں عورتوں کی خاموشی اور متحمل..332 ایک جرمن نو مبائع اور نیک تبدیلی 332 منی کا جرمنی اور چین میں احمدیت اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق و مساعی 479 جرمنی کا جلسہ سالانہ جو نئی جگہ پر ہوا اس کے اختتام 326 جزائر جموں کشمیر جوگ جاکر تہ جہلم.336 12 266.137 639.12 68.67 638-358-315.170.169 چک میانہ ڈھلوں.گجرات چکوال 579 636 چلے Challe کا رہائشی الحاج بنتی، شدید مخالف ہلاکت 447 12 12 یر اظہار تشکر اور انتظامات کا ایک جائزہ جرمنی کا منہائم کی بجائے نئی جگہ پر جلسہ 309 کا عبرتناک نشان ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی وفات اور جرمنی کے چنائی احمدیوں کو ایک خاص نصیحت: ” میں جرمنی کے احمدیوں چیم.برطانیہ کو، نوجوان نسل کو بھی کہتا ہوں کہ جرمن ہونے کے چین میں اسلام کی اشاعت اور آج کل بد قسمتی سے باوجود انہوں نے اپنے احمدی مسلمان ہونے کا ایک حق ادا براہ راست تبلیغ میں مشکل کیا تو آپ لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش حدیقۃ المہدی.آلٹن ہمپشائر 478 380.365
خطبات مسرور جلد نهم عیسن (صوبہ.جرمنی) 81 15 رام پور حلب، حلب کے ایک گدی نشین کا امام مہدی ہونے رائچی انڈیا کا دعویٰ کرنا اور بیوی سمیت ہلاک ہو جانا 285 625 حیدر آباد خانیار سری نگر 347-552.12.11 د، د، ذ، ر، ز دانہ زید کا دار الصدر شمالی دالبندین د لبیکس بیلجیم بيلجية دیلی 579-553-313.249.151.149.12 356 574 362 532 راولپنڈی راہوں ضلع جالندھر مقامات 352 346 552.11 646 ربوه 11، 121،120، 152، 221، 222، 394، 571-554-552 <497 <396 ربوہ.روٹی پلانٹ میں خدمات کا موقعہ...580 ربوہ جہاں احمدی 98 فیصد ہیں انہیں اپنے اجتماعات کی اجازت نہیں لیکن اس شہر میں دوسروں کو ختم نبوت کے نام پر غلیظ زبان استعمال کرنے کی کھلی چھٹی...515 574 12 12 دہلی میں جماعت کی طرف سے قرآن نمائش جس کا رتن باغ لاہور غیر مسلموں پر بہت اچھا اثر.نام نہاد علماء کی طرف روڈر مارک سے فساد.اور نمائش بند ہونا دہلی میں قرآن نمائش.ملاں کے خوف سے نمائش ری یونین آئی لینڈ سے فرانس آئی خاتون کا بیعت کا حکومت کو بند کروا دینا اور حضور کی ایک اصولی کرنا گہری حکمت پر مبنی نصیحت اور راہنمائی ڈار مسٹر ڈاکار.سینیگال 524 607 12 283 روڈس ہائیم 517 ریتی چھلہ (قادیان) کی طرف سیر کرتے ہوئے لسوڑی کے درخت کے نیچے حضور کا رکنا 323،322 رینیز پارک.برطانیہ 12 ڈنمارک.میں آنحضرت کے متعلق بے ہودہ تصاویر زمبابوے ایک عیسائی ہونے والا شخص تین بار تاریخ بنانا اور حضور انور کا خطبات کے ذریعہ اور مقرر ہونے کے باوجود عیسائی نہ ہو سکنا خواب، حضور قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائیاں..37 اقدس کی تصویر دیکھ کر احمدی ہونا س، ش، ص، ض جرمنی، ناروے، ہالینڈ، ڈنمارک، بیجیئم کا دورہ اور مخلصین کے اخلاص و وفا، دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا سے زیادہ غیر معمولی اور اسلام کی طرف پہلے توجہ...521 ڈوری.برکینا فاسو کے گاؤں پوٹی ٹینگا.ایک معمر ساؤتھ ریجن سپین سرائیو 343 12 467.11 610 بزرگ کا بذریعہ خواب احمدیت اور سو کے قریب سرائے محمود.گیمبیا کے ایک گاؤں میں خواب کے مزید احمدی کرنا ڈو کو Docco ڈیٹرائیٹ امریکہ ڈیرہ غازی خان راجستھان 344 66 12 552 12 ذریعہ احمدی ہونا حد سر گودھا سری نگر سعودی عرب 342 136 11 166 567
خطبات مسرور جلد نهم سکاٹ لینڈ سماٹرا 82 91 66.65 سماٹر ا ( انڈونیشیا) سے 4 نوجوانوں کا حضرت خلیفہ ثانی مقامات تنسگا.کے الحاج بنتی صاحب ناقابل علاج ریض.حضور کو خط دعا اور معجزانہ شفا شام 447 596 کی خدمت میں قادیان آگر تعلیم کے بندوبست کی شام کے ایک دوست کا استخارہ آنحضرت کا خواب میں فرمانا کہ اس زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے صرف درخواست کرنا سندھ 65 497.136.399.123.122 مرزا غلام احمد ہی سفینہ نجات ہیں 279 سندھ.چانڈیو قبیلہ کے پہلے واقف زندگی اور سندھی سیر یا (شام) کے ایک شخص کا احمدی ہونا اور حضرت سیح موعود اور آپ کے خلفاء کی طرف سے عمرہ مربیان میں تیسرے 579 سنگا پارنا ویسٹ جاواSangiang Labong سنگا پارانہ 69 70 97 کرنا شاہ آباد ضلع ہر دوئی شکاگو ویسٹ امریکہ سوری(Souri)، برکینا فاسو، چندہ ادا کرنے کی برکت شمالی جاکر تا سوڈان سے صحت یابی سوسے آبے (Soce Abe) آئیوری کوسٹ سونگڑہ سوئٹزر لینڈ سویڈن سیائل.امریکہ سیالکوٹ 549.548 516 310 551.11 530 246 552 394 311.179.172.11 شمله شیخوپوره ضیاء الاسلام پر لیں.مینجر ، پر نٹر ضیاء الاسلام پر لیں.ربوہ ط، ع، غ طائف طرطوس شہر.شام 285 180 12 72 173.88 11 625 566 23 280 سیالکوٹ کے سفر میں جن لوگوں نے احمدیوں کو عراق 593 تکلیف دی حضور کا ان کے نام منگوانا.وہاں طاعون عراق عرب اور افریقن ممالک میں بے چینی اور پھوٹنا اور خاندانوں کو تباہ کر دیا سیانجور.انڈونیشیا سید والا شیخوپوره سیرالیون 180 70 246 519.552.211...اسباب 102 عرب 293 عرب دنیا سے ملنے والے پیغامات جلسہ برطانیہ کے حوالہ سے تاثرات 379 سیر یا (شام) کے ایک شخص کا احمدی ہونا اور حضرت عرب مخلصین کی خدمات کا تذکرہ 381 مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کی طرف سے عمرہ ہندوستان، پاکستان، عرب سمیت تعویذ گنڈے کی کرنا سیکھواں ضلع گورداسپور سیلونگ سیلیکون و ملی امریکہ 285 177 70 12 بدعت عرب ممالک میں بے چینی اور اسباب 441 102 عرب ممالک میں حکمرانوں کے خلاف تازہ رو اور حضور انور کی رہنمائی...183 سینیگال.کے ایک پیر صاحب کا خواب کے ذریعہ عرب ڈیسک.کی قابل ذکر کوششیں (جلسہ کے حوالہ احمدیت قبول کرنا 277 سے) 380
خطبات مسرور جلد نهم 83 مقامات 635 ایک عرب ملک جو تحریک جدید کی مالی قربانی میں نمایاں 551 فلسطین بعض ملکوں اور خاص طور پر عرب ممالک میں شور شرابہ.فن لینڈ کے ایک عرب کا خواب میں حضرت مسیح اس کی ایک وجہ کہ عوام کا خیال.غلاموں جیسا سلوک 585 موعود کو دیکھنا.ایم ٹی اے پر خلیفہ رابع اور علمی عمر کوٹ غانا / گھانا 552.11 552 گھانا اور نائیجیریا کو اضافی ٹارگٹ وقف جدید میں شاملین کی بابت گھانا میں احمدیت کا نفوذ 11 440 گھانا میں غیر از جماعت لوگوں کا حضور انور کو زکوۃ دینا کہ حیح مصرف ہو گا غانا کے ایک نو مبائع کا جوش تبلیغ غزه ف،ق، ک، گ صاحب کو دیکھنا...فیروز پور فیصل آباد فیض اللہ چک 278 640 11 645 قادیان 12، 13، 64، 66،65، 67، 149،148، 180.177 172 170 169.166.164 313 310 284 246 246 <201.181 342 320 319.318 316 315 314 359 358 356 355 353 351 350 411 410 397 390 362 361 <360 642.636.625.615 607 <554 <440 648.647 646 <645 267.266 442 97 فارایسٹ، جاپان، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، وغیرہ میں ایک خاتون عظیم النساء کی قادیان جانے کی تڑپ اور ہونے والی آفات...نقصانات فدک.فرانس 135 18 517.11 113 فرانس.Strasburg فرانس کے ایک سائنسدان اور حافظ صالح الہ دین صاحب کا فرمانا کہ ستاروں کی ایک ایسی روشنی ہمارے دماغوں کو منور کرتی ہے 150 ایک نظم کہنا.دکھا دے جلد بستی قادیاں دارالاماں کی 615 351 647 قادیان کا بک ڈپو حامد علی شاہ صاحب کے خرچ سے تازہ بنوایا گیا قادیان کا چھوٹا سا قصبہ ہونا قادیان میں ایک بار ایک بچے کی نماز جنازہ میاں جان محمد کو پڑھنے کا فرمایا اور خود اس کے پیچھے نماز پڑھی فرانس میں ایک رسالے کی خبیثانہ حرکت جس نے دلوں کو زخمی کر دیا.اور جماعت کا قانون کے اندر رہتے ہوئے احتجاج..یہ خدا کی غیرت کو للکار رہے النصير صاحبة ہیں فرینکفرٹ 546 524.13.12 181 قادیان میں منتظمہ ”دار المسیح صاحبزادی امتہ 574 قادیان میں ہونے والا جلسہ طاعون جو مشرق کی جانب جھیل کے کنارے بوہڑ کے نیچے ہوا 312 فرینکفرٹ میں یونیورسٹی کے دو پروفیسرز کی ملاقات 523 قازقستان کے ایک نو مبائع دوست کا مسجد اور مکان فرینکفرٹ کے قریب ایک مسجد کا سنگ بنیاد اور ڈپٹی کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کرنا میئر کا قرآن کو پڑھنے کے بارہ میں کہنا کہ سنا ہے غیر مسلم کا قرآن کو دیکھنا پڑھنا جرم ہے 524 قرغزستان - آرتر صاحب.دعا مانگنے کی وجہ سے فلپائن 296 قرغزستان بذریعہ خواب احمدیت 550 218.217 341.340
خطبات مسرور جلد نهم قزاقستان کابل کا تھنگڑھ ضلع ہوشیار پور کارلسروئے / کالسر و.جرمنی 84 211 357 360 326.308 کالمار.سویڈن کے میئر کے جذبات کا اظہار 383 کوئٹہ کوئمبٹور.تامل ناڈو انڈیا مقامات 636.552 6 کوئمبٹور کے ایک احمدی کا تحریک جدید چندہ میں قربانی اور اپنی واقفات نو بچیوں کے کہنے پر مزید قربانی کوئنز لینڈ کالمار کاؤنٹی کے پریذیڈنٹ کا حضور کا خطاب سنا...ان کا اظہار جماعت احمدیہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کھارا کرتی ہے اور حقیقی امن کی علمبردار ہے 530،529 کھیوہ باجوہ.سیالکوٹ کالی کٹ کانگو کنشاسا 12 218 کیٹا پانگ کیر الہ.انڈیا کہا بیر سے ایم ٹی اے العربیہ پر جلسہ برطانیہ دیکھ کر کیرولائی اپنے جذبات کا اظہار 379 کیلگری ساؤتھ کیلیفورنیا 549 135 316 533 70 549.12 12 12 246 کہا بیر کے امیر صاحب کا اٹلی جا کر پوپ سے ملنا اور قرآن کریم کا تحفہ پیش کرنا...اور حضور انور کا کیمرون میں پاکستانی تبلیغی جماعت مولویوں کا جماعت.ویٹیکن کے پادریوں کو بھی.اٹالین اور کے خلاف زبان درازی اور ان کی ذلت و نامرادی 339 پیغام.اسرائیلی اخبارات میں تشہیر 610.609 کپور تھلہ جماعت سے محبت اور حضور کا ان کے لئے کینا نور ٹاؤن کینیا کینیڈا 12 635 518-329-327-328-211.151.11 الگ سے پلاؤ تیار کروانا کٹک کراچی کردستان کرناٹکہ کسارن (علاقہ) کشمیر موضع کلری کمیٹور 354 642 579.552.497.148.11 468 12 66 کنفنڈا.گیمبیا کوالا لمپور کوٹری کوریل.اننت ناگ کشمیر کو گی سٹیٹ.نائیجیریا 639.633.579 169 249-310-65 12 12 342 296 347 625 215 554.551 کینیڈا کا دفتر اطفال اور بالغان علیحدہ کرنا اور باقی ممالک کے لئے بھی یہی حکم گاندھی دھام.گجرات انڈیا گجرات گروس گیراؤ 12 6 639.362.11 475.12 گمبا گا.گھانا.نواحمدیوں کی کانفرنس.احمدیت کے نفوذ اور نیک انقلاب گوئی ضلع کوٹلی آزاد کشمیر گوجر انوالہ 440 579-578 319.11.170-358-355-312 گورداسپور 360،171،355،319،4،178،177 گورداسپور میں حضور کا ایک مرتبہ بریانی پکوانا 352 گورنمنٹ کالج لاہور 122 گھانا دیکھیں غاتا گیانا 91
7 85 مقامات 451 552 171 13.11 مالٹا.کے ایک عیسائی کے تاثرات حضور کی تقریر کی خطبات مسرور جلد نهم گیر اس گراؤ جرمنی گیمبیا گیمبیا 297 552 لیبیا پر حملہ لیگوس کے ایک مخلص احمدی الحاجی ابراہیم الحسن کا فلیٹس اور مسجد جماعت کو دے دینا اور ان کا ایک خواب میں حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ ثانی رویا پانچوں خلفاء اور حضرت مسیح موعود تشریف 283 کو دیکھا تصویر دیکھ کر قبول احمدیت گیمبیا کے فوڈے پاکولی صاحب.فاقوں کے باوجود چنده وقف جدید ادا کرنے کا عجیب جذبہ ل، م، ن، و،ه،ی لاس اینجلس.امریکہ لالوا.گاؤں 12 69 +370-254-253-252.58.164.65.11.629.554.552-355-351.318.350 مار کم.کینیڈا ماریشس 9 12 334 361 352 339 70.69 579 41.23.21.20.18.2 12 12 517 پسندیدگی مالی پور ضلع ہوشیار پور مالیر کوٹلہ مامفے.کیمرون.مسجد بیت الہدیٰ لاہور میں ایک احمدی کو کار روک کر فائرنگ کی مانسلور.انڈونیشیا کوشش 461 لاہور کی شہادتوں کے بعد افریقہ میں افراد جماعت کے اخلاص و وفا کے نظارے اور بیعتوں کا ہونا اسی طرح انڈونیشیا کے واقعہ نے بھی راستے کھولے اور واقعات...108.107 مٹھی.نگر پار کر مدینہ مڈل سیکس ریجن مڈلینڈ ریجن مراکش لاہور کے قیام کے دوران ایک بار کسی مہمان کی دل شکنی کی وجہ سے حضور کا فرمانا کہ آئندہ سے لنگر کا مراکش کے ایک دوست کا جلسہ برطانیہ کے متعلق اپنے انتظام ہم خود کریں گے یہ ہمارے مہمان ہیں 370 جذبات.خدا وہ وقت جلد لائے جب جلسے مکہ مکرمہ لاہور میں حضور کی دعوت.کمرہ تنگ ہونا اور حضور میں منعقد ہوں اور ہم رکن مقام کے مابین عالمی بیعت کے نظارے دیکھیں کا دوستوں کو ساتھ بٹھا لینا لاہور میں حضور کا سولہ روز قیام لدھیانہ لطیف آباد لکھنو لندن لندن کے کارکنان ایم ٹی اے لنڈن ریجن لو بو مباشی کانگو کنشاسا 352 370 180 347 65 335.113.35 335 12 218 381 مراکو کے ایک شخص کا جذباتی انداز میں کہنا کہ حضرت مسیح موعود کے ماننے والوں کا یہ کام بھی ہے کہ انسانوں کو با خدا بنائیں اور احمدیت قبول کرنے کا اعلان 338 مردان میں احمدیوں پر فائرنگ اور ایک نوجوان میاں وجیہہ احمد نعمان ابن میاں بشیر احمد صاحب کا زخمی ہونا اور دعا کی تحریک 16 مردان میں پنجاب رجمنٹ پر ہونے والے حملہ میں لو کو سا ریجن.سوسو گاجی صاحب.احمدی ہونے کے ایک احمدی کی شہادت اور نماز جنازہ.منیر احمد 75 بعد نیک تبدیلی 441 مسجد اقصیٰ 180،176،120 ، 356،323،324
خطبات مسرور جلد نهم مسجد اقصیٰ قادیان 420 86 مظفر گڑھ ضلع مقامات 178 مسجد اقصیٰ کے جنوب مشرقی کونے میں ایک ہندو کا گھر.مغربی افریقہ اس کا گالیاں دینا.اور اب وہ مسجد اقصیٰ کا جزو ہے 316 مغربی افریقہ میں تبلیغ.مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ صرف 6 افراد مسجد بشارت سپین 181 554 مغربی لمبوک جزیره 554 646 70 596-459-458-41.23 مسجد بیت السلام “ کینیڈا کا تعمیر کے لئے ایک لاکھ ڈالر خدا وہ وقت جلد لائے جب جلسے مکہ مکرمہ میں منعقد ہوں اور ہم رکن مقام کے مابین عالمی بیعت کے 152 نظارے دیکھیں مسجد خدیجہ برلن جرمنی سے حضور انور کا خطبہ جمعہ 326 فضل مسجد مبارک 12 647 360-353.175 642 مسجد مبارک کے بالائی حصہ پر نماز مسجد مبارک حضور کی مجلس میں ایک دوست کا سروں سے پھاند تا ہوا حضور کے قریب جانا کسی کی پگڑی اتر جانا...حضور نے خلیفہ اول کو کچھ فرمایا ان کی تقریر...320 ملائشیا 381 296 ملبورن.آسٹریلیا کا چندہ تحریک جدید میں قربانی 549 مانتان منگری منگوله منهائم 311.11 360 320 336-326 مسجد مبارک میں کھڑکی کے راستہ حضور کا تشریف لانا اور منی پور سے شربت کی بوتل آنا اور آپ کا نیست ساتھ والے کمرہ میں مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانا 312 کرنا کہ پہلے کسی دوست کو پلائیں گے پھر خود359 مسجد مبارک کے اوپر چھت پر شہ نشین پر حضور موچی دروازه علیہ السلام کا تشریف فرما ہونا ایک صحابی کا چودھویں کا چاند دیکھنا اور حضور کے چہرہ سے شعاعوں کا 352.351 مور فیلڈن مورو گورو تنزانیہ مو نھیر صوبہ بہار نکلنا اور....مسجد مبارک مہمان اور دوستوں کو کھانا کھلانے کا مهدی آباد حضور انور علیہ السلام کا طریق مبارک مسجد نور.فرینکفرٹ مسجد نور.ننسپیٹ، ہالینڈ مہران یونیورسٹی میڈیکل کالج لاہور 647 12 343.276 614 12 347 321 مسجد ویسٹ.برطانیہ 351 13 510 12 میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل کو حضور کا لکھنا اور احمدی طلباء کی سفارش...322 مشرق وسطی افریقہ کے بعض ممالک کے سربراہان لاہور میڈیکل کالج میں سٹرائیک احمدی طلباء کو حضور کا کی عیاشیاں اور...مشن پریس گوجرانوالہ 94 32 حکم کہ پرنسپل سے معافی مانگ کر داخل ہو جاؤ ایسی تحریکات میں حصہ لینا اسلام کے خلاف ہے مصر الازہر یونیورسٹی سے عریبک ڈیسک کے ذریعہ میر پور خاص جماعت کا رابطہ اور...523 293.159.97 نادون نارووال 322 552 359 320.11 مصر کی ایک نو احمدی خاتون ، جلسہ برطانیہ میں نارویجیئن وزیر دفاع کا ناروے مسجد کے بارے میں شمولیت اور نیک جذبات و تاثرات 381 نیک تاثرات کا اظہار 530
خطبات مسرور جلد نهم 87 مقامات ناروے پارلیمنٹ کا حضور انور کا وزٹ ،حضور کے نائیجر.ایک غریب ملک کی مخلص جماعت جہاں سو 529.528 فیصد جماعتیں وقف جدید میں شامل اور نو مبالعین کا انٹرویو، اسلام کا پیغام.ناروے جماعت کی مالی قربانیوں کا تذکرہ 526 اضافه ناروے حضور کا دورہ اور یورپ کی سب سے بڑی نائیجیریا مسجد ( بیت الفتوح کے بعد) کا افتتاح...525 9 635-552-339-11 نائیجیریا.محمد ثالث صاحب احمدی ہونا،لوگوں کا تنگ ناروے کے ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے صدر اور کرنا.دعا.خواب میں خلیفہ خامس کو دیکھنا..448 سابق وزیر اعظم کا ناروے کی مسجد دیکھنے آنا اور نایجیریا.اسوت حبیب صاحبہ.چندہ وقف جدید ادا حضور انور سے ملاقات ناروے مزید مساجد بنانے کا عزم 530 527 کرنا اور اس کی برکت 8 گھانا اور نائیجیریا کو اضافی ٹارگٹ وقف جدید میں ناروے مسجد اور حضور انور کے اس کا افتتاح کرنے شاملین کی بابت کی تفصیلی خبر اور تشہیر اور اس کو قومی لینڈ مارک نوابشاہ قرار دینا 530 نورنگ تحصیل کھاریاں ناروے مسجد کی تعمیر، احمدیت اسلام کے حوالے سے نوشہرہ ککے زئیاں خبر.وسیع اشاعت 530 نوئے ایس ناروے مسجد کے بارہ میں وزیر اعظم کا اعتراف کہ نیا کارہ.آئیوری کوسٹ ایک خوبصورت اضافہ ہے ناروے میں گزشتہ سالوں سے بہتری 526 528 نیدر روڈن نیروبی 11 552 170 314 12 471 12 360 130 ناروے میں ہر جگہ مساجد بنیں گی.انشاء اللہ 526 نیوزی لینڈ ناروے واقفین نو اور واقفات نو کے ساتھ حضور کی جاپان ، فارایسٹ ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، وغیرہ میں کلاس ذمہ داریوں کی طرف توجہ اور نیک تبدیلی کا ہونے والی آفات...نقصانات عزم 528.527 جرمنی، ناروے بہالینڈ ، ڈنمارک، بیلجیئم کا دورہ اور مخلصین او وا.گھانا وال ڈورف کے اخلاص و وفا، دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا اور اسلام وائن گارٹن کی طرف پہلے سے زیادہ غیر معمولی توجہ...نار واد ناصر آباد.قادیان 521 625 وچھو کی تحصیل پسرور وداقے ریجن.آئیوری کوسٹ 135 440 12 12 179 471 643 ودگو ریجن کے مبلغ.جیالو سیکو صاحب نو مبالع کا ناکسکو.ڈنمارک میں حضور انور کا قیام اور احمدیت وقف جدید چندے کی ادائیگی اور برکات 8 531 وزیر آباد اسلام کا پیغام ناگوئی (کیمرون) مسجد بیت السلام میں مولویوں کی ووڈ برج ہلڑ بازی...اور انتظامیہ کا تعاون 340 ووسٹر پارک برطانیہ 170 12 12
خطبات مسرور جلد نهم ویز بادن ویسٹ انڈیز ویسٹ بنگال ویسٹ مڈلینڈ دارالبرکات برمنگھم ویسٹ ہل.برطانیہ ویسٹرن انگلینڈ ویسٹرن ساؤتھ ویسٹرن نارتھ ویسٹ ویسٹن 12 91 12 346 12 346 12 12 12 88 اس کے بیل سفید رنگ کے تھے ہیمبرگ.جرمنی مقامات 315 498.12 ہیمبرگ کونسل ہال میں گرین پارٹی کی طرف سے فنکشن جس کے ذریعہ اسلام کی تعلیم بیان ایک کرنے کا موقعہ 336 ہیمبرگ میں حضور انور کا قیام اور ملاقاتیں 530 یمن 24 یمن کی ایک خاتون جو جلسہ برطانیہ میں شامل ہوئی اور نیک جذبات کا اظہار 379 606 ہالینڈ کی جماعت کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی تلقین 513،512 یورپ 137،65، 554،371،266،329،221 ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ کی طرف سے اسلام افریقہ، یورپ میں اسلام کی حقیقی تصویر احمدیہ اور قرآن پر حملہ اور حضور انور کا جواب 37 جماعت پیش کر رہی ہے ہالینڈ جماعت اور تمام ذیلی تنظیموں کو مربوط یورپ سے باہر سے آئے ہوئے مہمان خیال رکھیں پروگرام بنا کر اسلام کی خوبصورت تعلیم ملک کے ہر کہ جماعتی قیام گاہوں میں بھی محدود وقت تک خص تک پہنچانے کے بارہ میں سوچنا چاہئے 338 قیام...ہالینڈ کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ خیرت ولڈر کو یورپ میں جماعت کے خلاف اور فساد کی باتیں: ہر خدا کی گرفت کی وارننگ.اس پر اس کا رد عمل کہ روز کوئی نہ کوئی مخالفانہ کارروائی مسلمان کہلانے والے مرزا مسرور کو گرفتار کیا جائے وغیرہ...اور ہالینڈ ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں احمدیت کے خلاف ہوتی کی حکومت کا تحقیق کے بعد اس کے تمام الزامات کو رہتی ہے.بعض ٹی وی چینل بھی اس میں پیش پیش ہیں جو رد کر دینا 609.608 338 ہالینڈ میں حضور انور کا قیام جرمنی، ناروے، ہالینڈ، ڈنمارک، بیلجیئم کا دورہ.اور 366 یورپ اور دنیا میں سنے جاتے ہیں، جو کم علم مسلمانوں کے غلط رنگ میں جذبات بھڑ کا کر احمدیت کے خلاف اکساتے رہتے ہیں.بعض ٹی وی چینل اپنی پالیسی کے مطابق اس کی مخلصین کے اخلاص و وفا، دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا اجازت نہیں دیتے تو کسی رفاہی کام کے بہانے وقت خرید اور اسلام کی طرف پہلے سے زیادہ غیر معمولی توجہ...ہندوستان.دیکھیں انڈیا ہوشیار پور 521 353.315 80 پر کر یہ شدت پسند لوگ اور فساد پیدا کرنے والے لوگ اس پر بھی کسی نہ کسی بہانے سے اعلان کر دیتے ہیں کہ احمدی واجب القتل ہیں.گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک چینل پر یہاں یورپ میں ایک مولوی نے یہ اعلان کیا لیکن بہر حال ہوشیار پور حضرت اقدس کی چلہ کشی ہوشیار پور میں حضرت اقدس کو انگریزی الہام ہونا جب چینل کے مالک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے معذرت اور ایک خادم کا کسی سے پوچھنے کے لئے جانا 315 کی اور آئندہ اس مولوی کو اپنے چینل پر نہ آنے کی یقین حضرت مسیح موعود جس پہلی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے دہانی کروائی.لیکن بہر حال ان بدفطرتوں نے اسلام،
خطبات مسرور جلد نهم ناموس رسالت اور ختم نبوت کے نام پر کم علم مسلمانوں 89 Bogor Cikesik کے جذبات کو انگیخت کرنے کا کام سنبھالا ہوا ہے 511 یورپ میں بیعت کرنے والوں میں لمحوں میں پیدا Medan.انڈونیشیا 339 Wellingora سیمبیا مقامات 615 71 296 275 ہونے والا روحانی انقلاب یو گنڈا.کے ایک شخص کا خواب کے مطابق...احمدی Strasburg مسجد کے لئے ساری رقم چندے میں تہونا فیملی سمیت 518 دے دینا (یورپ) کے احمدیوں کو گھروں میں خشک راشن کی 99 شمالی سرگودھا 113 322 تحریک 546
خطبات مسرور جلد نهم 90 انڈیکس کتب آیا آسمانی فیصلہ 557-367 آئینہ کمالات اسلام 34،30، 81، 82، 136، 232، 613346 233 ابن ماجه 455.264-302-300-297-236 ابو داؤد اتمام الحجة اجوبه عن الایمان اربعین 567-294-287-265.106 515 219 563.111 الشفا.لقاضی عیاض الفضل 25.22 626-625-579-564-393-164.151.126 الفضل جواب الفضل انٹر نیشنل کی صورت میں بھی جاری ہے 398 الفضل.روزنامہ کا آغاز اور حضرت ام ناصر اور حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ...398 الفضل.قارئین الفضل حضرت مصلح موعودؓ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعاؤں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجراء میں...اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا، 398 ازالہ اوہام 598،310،409،160،100،99،80،79 الفضل میں دورہ جات کی رپورٹس شائع ہونا 522،338 اسد الغابه اسلامی اصول کی فلاسفی 584.368.38 210-154 اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ کر قبول احمدیت 150 الكامل في التاريخ لابن اثیر اصحاب احمد اظہار حق ٹریکٹ اعجاز احمدی 566 86 602 424 421 403.402 113 215 23 القول الصريح في ظهور المهدى والمسيح المسیح الناصری فی الہند.کا بذریعہ خواب ہاؤسا زبان میں ترجمہ کرنا 215 157 اعجاز المسیح اعجاز المسیح کے مطالعہ سے قبول احمدیت الأزبار لذوات الخمار البدر البلاغ فریاد درد الجامع الصغير الحق مباحثہ دہلی 393 423.306 176.163.114 33 490 160 المنهاج شرح صحیح مسلم الموضوعات الكبراى الموعود انوار العلوم جلد 17 39 84 الوصیة 132،100، 544،292،288،274،204 الوصیۃ 1905ء کے جلسہ پر شائع ہو کر آگیا تھا 322 الوصیۃ اس میں نظام خلافت کی خوشخبری 273،262 رسالہ الوصیت کا قرغیز ترجمہ پڑھ کر وصیت کرنا 218 الوفاء باحوال المصطفى ابن جوزی الحلم 86، 114، 116، 160، 303، 419، 424، الهدى ( والتبصرة لمن يرى) 437 436 435.429 77 197.183 امام مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان چاند اور سورج الدار قطنی الدار می السيرة الحلبية السيرة النبوية ابن ہشام 290 228 24 453.56.38.24 گرہن انجام آتھم انجیل انصار اللہ ماہنامہ 148 170 225 625.554
خطبات مسرور جلد نهم ايام الصلح 602-598-502.449 ایک نیک بی بی کی یاد میں.حضرت خلیفہ رابع کا اس کتاب کی تعریف کرنا 635 ب، پ، ت، ث بائیل 610.225 91 انڈیکس کتب تریاق القلوب 632-606-597.290 625 تعلق باللہ - از حضرت مصلح موعود تفسیر حضرت مسیح موعود 420، 422، 423، 424، 505 433 432 430 429 428 <427 <425 438-437-436 <435 بخاری 16، 19، 20، 21، 23، 25، 53،47، 55، تفسیر کبیر 229 162 158 157.155 <129.79 583 567 487-454-389-366 <348 <297 602.584 483.294 تفسیر کبیر اور کتب حضرت مسیح موعود پڑھ کر براہین احمدیہ ،26، 78 ، 185، 339، 432، 515، 632.645 براہین احمدیہ حصہ پنجم بھوتوں کے آسیب میں بیہقی اخبار لاہور پیغام صلح تابعین اصحاب احمد 556.407.328 37 567 322 515.478.34 151 88.89.85.80.66.36-38 625 58 392 245 557 293.290 تاریخ احمدیت تاریخ احمدیت جموں و کشمیر.تاریخ طبری تاریخ لجنہ اماء الله تجليات الهيد تحفہ بغداد تحفہ گولڑویہ 527.505.594.564 <464-312-241-50 احمدیت قبول...توضیح مرام 468 310 ج، چ، ح، خ جامع الاحادیث.از سیوطی 493 جکارتا پوسٹ اخبار.احمدی بھی انڈونیشیا کی تعمیر میں برابر کا حصہ دار ہے جکارتہ گلوب.اخبار جنگ مقدس چشمه معرفت حجة الاسلام حمة الله 64.63 64 163 598.596-385 543 290 حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب - مؤلفہ احمد طاہر مرزا صاحب 117 حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب.مؤلفہ احمد طاہر مرزا صاحب حقیقة الوحی حیات احمد 117 422.228.137.32.31 35 تذکرۃ الشہادتین کا دری زبان میں ترجمہ 246 حیات نور از عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل 644،205 تذكرة الشهادتين 111، 289،240،112، 499، خالد ماہنامہ 501.539.537 خالد مصلح موعود نمبر تذکرۃ المہدی.مصنفہ پیر سراج الحق نعمانی 445 خطبات طاہر ترک موالات اور احکام اسلام نرمندی 161 566-477-377-227<129.22 خطبات محمود خلیفہ قادیان رساله 629.625 89 569 392.126 88
خطبات مسرور جلد نهم ذ، ر، ز ذکر اقبال از عبد المجید سالک 89 92 سنن دار قطنی سنن نسائی انڈیکس کتب 41 3 رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء از عرفانی صاحب سوانح عمری حضرت محمد صاحب، شردھے پر کاش دیو جی 596 435 305-227-18 رجسٹر روایات 169 170 ، 172، 175، 177، سوانح فضل عمر سیاست اخبار سير الصحابه سیرت المہدی 89.36 88 587 35 311 310 301 182 180 179 178 321 320 318 316 315 313 312 354 353 352 351 350 <324 <322 361 360 359.358.357.356.355 639 374 372 371 370.369 <362 648-666.645.644.643.642 641.640 رؤیا و کشوف سیدنا محمود 575.134 سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب.مرتبہ ملک ریاض احمد صاحب 420 سیرت طیبہ - از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 34 سيرة النبي - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب کا انگریزی ترجمہ شرح العلامه الزرقانی روحانی خزائن کی کتابت اور کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن کی تیاری.محترم سید عبد الحمی شاہ صاحب روح المعانی روح پرور یادیں ریاض اخبار ہند امر تسر ریاض اخبار ہند ضمیمہ ریویو آف ریلیجنز ریویو بر مباحثہ بٹالوی...س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع سبل الهدی والرشاد ست بچن 626 58 131 80 82 150 433 459.38 385 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 434 رساله سراج منیر بر نشانہائے رب قدیر سراج منیر سر الخلافه 80 31 601-600-599.595.594 سرگزشت از عبد المجید سالک سرمه چشم آریہ 88 40 554 629 سفر حیات سلسلہ احمدیہ 523 561 372.160 56 599.298.163 58 شهادة القرآن صحیح ابن حبان ضرورت الامام طبری عادل اخبار دہلی عشتروت.لبنانی رسالہ عصمت انبیاء ( روحانی خزائن) ف،ق، ک، گ فتح اسلام فرینکفرٹ نیو پریس فتانشل ٹائمز قادیان دارالامان از ہدایت اللہ صاحب 14 قرآن کریم 88 216 230 310.199 15 63 610 قرآن کریم.جو محمد پر اترا.آخری شرعی کتاب 1 قرآن صرف عوام الناس کو ہی نہیں حکمرانوں کو بھی نصیحت کرتا ہے ملک میں فساد نہ کرو 165 قرآن اور آنحضرت کو غیروں کا خراج تحسین 140 قرآن کریم کا فروغ اور گورمکھی ترجمہ...152
خطبات مسرور جلد نهم قرآن کریم.کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ 409 قرآن کریم.ان کفار کا نقشہ کھینچ کر بتاتا ہے جو اب 141 بھی مخالفت کر رہے ہیں كتاب البرية 611،563،208،199،198،144 انڈیکس کتب 93 <494.485.482 478 474 473 464 463 462 537.533.526 522-521-505 504.497.495 601 600 597.596-588-546.541.540.538 648-637-621-620-619-618-613 کرامات الصادقين 414،110، 416، 417، 418، ملفوظات.حضور انور کا اسکو دس جلدوں میں شائع 426-438 432 430 428 427 <421 کرنے کا ارشاد 628 منہاج الطالبین کی اہمیت اور ایک غیر احمدی کا اپنے کشتی نوح کلام محمود کنز العمال لیکچر سیالکوٹ لیکچر لدھیانہ مجله جامعه مجمع الزوائد 622-233.31 392 159 291.288-224 220-21 625 622 مجموعہ اشتہارات 242،162،82،81،85، 298، 603-439-308.299 نام سے عربی میں شائع کرنا 90 میری سارہ.578.577.576 نزول المسیح 454.235.632 <41 نشانات سورج گرہن اور چاند گر ہن.تصنیف حافظ صالح محمد الہ دین صاحب نشان آسمانی نور القرآن نمبر 2 148 324-290-208 568 نیو یارک ٹائمز 63 وهی در تمان.رسالہ 37.36 مرقاة شرح مشكاة مسدس حالی.کتاب 158 49 367 348.162.158.156 155.77 592.583 484.477.417 ورلڈ آرکیٹیکچر نیوز آن لائن کے ذریعہ ناروے مسجد کی تشہیر وسیع پیمانے پر 530 مسند احمد بن حنبل 229،162،98،77،17، 230، ہمارا خدا.تصنیف حافظ صالح محمد الہ دین صاحب 148 480.569.292 مشكاة مصباح مکتوبات احمد 77 573 639.599 ملفوظات 54،40،31،28، 115،106،74، 160،134، ہو میو پیتھی.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع Die Welt.جرمن اخبار 626 15 The dynamics of colliding Galaxies, The dynamics of stallers system, The Goal of the Man and the way to reach it, Views of scientists on the existing of ,God تصنیف حافظ صالح محمد الہ دین صاحب 148 Di Bawa Bendova Revolusi.ڈاکٹر سوئیکارنو 68 کی کتاب <232.225.207.204.201 200 186 185.163 <254.253.252 251 250 249 244-243 <237 306 305 304 289 259.258-257-256.255.412.408.407 406 405 404.384 375 328 <457.437.436 430 425 424 423 420 419
خطبات مسرور جلد نهم 94 انڈیکس کتب Five Volume Commentary اور سیرت النبی The Economist رسالہ Christianity facts کا اردو ترجمہ 523 63 554 Murder in the name of Allah.انگریزی The Nation میں ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کا لائبریری میں رکھوانے کا ارشاد ابواب کا اردو ترجمہ کرنے والے 554 An Interpretation of Islam by Laura مضمون کہ ہم پر خدا کا عذاب کیوں نازل ہو رہا ہے 189 آنحضرت کی ذات کے بارہ میں پادریوں کی طرف Veccia جماعت احمدیہ امریکہ کا یہ کتاب شائع کرنا سے شائع ہونے والی کتاب اور حضرت مسیح موعود اور حقوق کے ساتھ دوبارہ شائع کرنے کا اظہار.کا رد عمل گورنمنٹ کو قانون بنانے کی تجویز 32 585.584 History of the Intellectual by John William Draper.140