Khutbat-eMasroor Vol 8

Khutbat-eMasroor Vol 8

خطبات مسرور (جلد 8۔ 2010ء)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خليفة المميم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2010 جلد ہشتم

Page 2

خطبات مسرور جلد ہشت 1 دیباچه بسم الله الرحمن الرحيم وقت کی آواز تو پھر بھی شکر ہے اِمکاں سے باہر جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں: “خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے....اسے اپنی صفات بخشتا ہے.“ الفرقان“ مئی، جون 1967ء صفحہ 37) ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی ، اور اسکا سراسر فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا، ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے درد رکھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے ، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے، اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں اور اس پر عمل کریں.کیونکہ اسکی آواز کو سننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنادین ودنیا کی بھلائی کا موجب ہے.ا س کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے ، زمانے کی ضرورت کے مطابق یہ الہی بندے خدا کے بلائے بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں.الہی تائیدات و نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.خدائی صفات ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں.زیر نظر جلد میں ہمارے پیارے آقا اور امام حمام کی وہ قیمتی اور زریں نصائح ہم ملاحظہ کر سکیں گے.گھروں کے مسائل ہوں یا معاشرتی، ان سب کی بابت ایسی نصائح ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں ، اپنی زندگیوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں اور معاشرے میں ایک حسین انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.دنیا بھر میں جو نفسا نفسی کا عالم ہے اور جو انسانیت کو ایک تیسری عالمگیر جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کئے ہوئے ہے.انسان اپنے رب ، اپنے خالق اور مالک سے منہ موڑے ہوئے اسکی ایسی ناراضگی کا مورد بنا ہوا ہے کہ آئے دن طرح طرح کی آفات و مصائب کے عذاب کا شکار ہو رہا ہے.ایسی ایسی آفتیں دنیا پر نازل ہو رہی ہیں کہ جن کا کبھی مشتمل نام ہی سنا جاتا تھا.ان سب سے بچنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ہمدردی اور شفقت کے جذبات پر نصائح بھی آپ ان خطبات میں پائیں گے.ان خطبات میں اسلام اور قرآن اور آنحضرت صلی الم کی ذات بابرکات پر مغرب کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب بھی تفصیل سے موجود ہے.ان صفحات میں آپ دیکھیں گے کہ کس حکمت و دانائی اور جرات سے دنیا کے سامنے اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی علیکم کی خوبصورت تعلیم کو پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ امن عالم اب اسلام کی تعلیمات کے ساتھ ہی وابستہ ہے.اور سب سے اہم یہ کہ ایک احمدی کو اسکی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے طرح طرح کی بدعات اور بدر سومات جو بجائے خود کسی بھاری آفت سے کم نہیں جو اقتصادی بدحالی کے ساتھ ساتھ اخلاق اور روحانیت کا بھی دیوالیہ نکال

Page 3

2 دیباچه خطبات مسرور جلد ہشتم دیتی ہیں ان سے بچنے کی نصائح ہیں، ساری دنیا میں توحید اور دین حق کا پیغام پہنچانے کے لئے بیت الفضل لندن سے خطبات کا سلسلہ تو جاری رہا ہی البتہ امام جماعت احمد یہ ہمارے پیارے امام ہمام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب اطال اللہ عمرہ وایدہ اللہ بنصرہ العزیز بنفس نفیس سپین، فرانس، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، جرمنی، اور آئر لینڈ تشریف لے گئے.اور اٹلی میں کفن مسیح کی نمائش کے موقعہ پر اس مقدس کفن کو بھی دیکھا جماعت احمدیہ کی کسی بھی خلیفہ کا لئے یہ پہلا موقعہ تھا.یوں یہ سال بہت سے پہلوؤں کے اعتبار سے ایک منفر د سال رہا، اس سال کا آغاز بھی جمعہ المبارک سے ہوا اور اختتام بھی جمعہ جیسے مبارک اور بابرکت دن سے ہوا.یہ سال احمدیت کو ہمیشہ کی طرح بے شمار فضلوں اور برکتوں کا وارث بنا گیا.یہ سال جماعت احمدیہ کی تاریخ کا کبھی بھی نہ بھلایا جانے والا سال اس پہلو سے بھی بن گیا کہ 28 مئی کو لاہور کی دو مساجد میں نماز جمعہ کے موقعہ پر اسی سے زائد معصوم احمدیوں کو شہید کر دیا گیا.آکاش احمدیت پر بنی جانے والی یہ ایسی کہکشائیں ہیں اور یہ شہدا ایسے قطب ستارے بن گئے کہ جن کی چمک اور روشنی آئندہ آنے والوں کو وفا اور استقامت کی راہیں دکھانے کا باعث بنتے رہیں گے.ان کی یہ قربانیاں تو کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی یہ اللہ کے فضل سے دیکھتے ہی دیکھتے پھول پھل لائے گی البتہ مظلوم احمدیوں پر ظلم کرنے والوں کو اب کہیں امان نہیں ملنے کی ، یہ ظالم پاکستان میں ہوں یا ہندوستان میں ، مصر میں ہوں یا انڈو نیشیا میں ، یورپ میں ہوں یا امریکہ میں کہیں بھی ہوں ان مظلوموں کی آہیں ان کا پیچھا کرتی رہیں گی ” تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح کب تلک جنگ ایسے تیروں سے “احمدی مظلوم تو ہے وہ بے بس بھی ہے لیکن وہ بے کس نہیں ہے ، ہر احمدی جو جہاں کہیں بھی ہے وہ لاوارث نہیں ہے اس کا ایک مولا ہے اور وہ قادر مطلق جب اپنے پیاروں کی مدد کو آیا ہے تو پھر ظالموں کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں رہا، حکومتیں پارہ پارہ ہوتی رہیں اور دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر فضاؤں میں بکھرتے رہے ، ہمارا خدا اب بھی وہی خدا ہے اور ہم سے پیار کرنے والا ہمارا امام اب بھی ہمارے پاس موجود ہے وہ ہم سے پیار کرتا ہے ہم اس سے پیار کرتے ہیں، کوئی دکھ اور کوئی تکلیف اور کوئی ابتلاء ہمارے اس تعلق کو ختم کر سکتا ہے نہ کم ، انشاء اللہ.ہاں ہماری ، ہر احمدی کی ایک ذمہ داری ہے اور وہ یہ کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ اور پوری فرمانبرداری کے ساتھ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس شاہراہ صداقت پر چلتے چلے جائیں تیز سے تیز تر خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی ساتھ لے کر.حضور انور ایدہ اللہ ہماری اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: پس یہ ہمیشہ ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ کی قائم کردہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق غالب تو انشاء اللہ تعالی آنا ہے.راستے کی مشکلات ناکامی کی نہیں بلکہ کامیابی کی علامت ہیں.اگر ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اور اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف نظر رکھیں گے، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس نظام کا حصہ بنائے رکھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا تو ہم بھی اس رحمت اور فضل کے حاصل کرنے والے بن جائیں گے جو خدا تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں.اور ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات

Page 4

خطبات مسرور جلد ہشتم 3 دیباچه دیکھیں گی.اگر ہم میں سے کوئی عمر کے اس حصے میں پہنچا ہوا ہے جہاں بظاہر زندگی کا کچھ حصہ نظر آرہا ہے ، بڑی عمر ہے ، ویسے تو کسی کا نہیں پتہ کہ کب قضا آ جائے، لیکن بہر حال بڑی عمر کے لوگوں کو زیادہ فکر ہوتی ہے.جو اس میں بھی پہنچا ہوا ہے تو جس طرح بچوں کی دنیاوی بہتری کے لئے بڑی عمر کے لوگوں کو فکر ہوتی ہے ، بڑا تر ڈد ہوتا ہے،اسی طرح اسے دینی حالت کی بہتری اور جماعت سے اپنی نسلوں کو جوڑے رکھنے کے لئے بھی فکر ہونی چاہیے.دنیاوی بہتری کے سامان کرنے کے لئے، بچوں کے لئے جائیداد، مکان بہتر تعلیم یا کام کی ان کو فکر ہوتی ہے.بڑے لوگ دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں.تو اسی طرح ان کی بچوں کی روحانی اور اخلاقی حالت کی بہتری کے لئے بھی فکر ہونی چاہیئے.یہی تقویٰ ہے اور یہی اس عہد کا حق ادا کرنے کی کوشش ہے جو ہم اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں دہراتے ہیں.پس یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی ترقی ہمارے اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے.جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.اس خدا کی تقدیر ہے جو تمام طاقتوں کا مالک خدا ہے اور وہ نا قابلِ شکست اور غالب ہے.اگر کوئی ہم میں سے راستے کی مشکلات دیکھ کر کمزوری دکھاتا ہے ، اگر ہماری اولادیں ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں، اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دور لے جاتی ہے، اگر کوئی ابتلا ہمیں یا ہماری اولادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کا باعث بن جاتا ہے تو اس سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا.ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ دوسروں کو سامنے لے آتا ہے، اور لوگوں کو سامنے لے آتا ہے، نئی قو میں کھڑی کر دیتا ہے.پس اس اہم بات کو ، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے.سب سے اہم بات اس سلسلے میں ہمارے اپنے پاک نمونے ہیں.“ (جلد ہذ اصفحہ 507) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نصائح اور ہدایات کو سننے ، پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار اپنے ہر اس ساتھی کے لئے شکر گزار ہے کہ جس نے اس جلد کی تعمیل کے لئے ہاتھ بٹایا، الفضل انٹرینشل لندن کا عملہ ادارت مکرم و محترم نصیر احمد قمر صاحب، مکرم و محترم حفیظ احمد کھوکھر صاحب، مکرم و محترم عبد الحفیظ شاہد صاحب اور خاکسار کے ساتھ یہاں کام کرنے والے مکرم عامر سہیل اختر صاحب، مکرم افضال احمد صاحب اور مکرم جو اداحمد صاحب، فجزاهم الله احسن الجزاء والسلام خاکسار

Page 5

خطبات مسرور جلد ہشتم خلاص نمبر تاریخ خطبه صفحات 1 طبات جمعہ 2010ء 11-1 خلاصه خلاص 2010 کا پہلا دن جمعہ کا دن، اصل عید اور خوشی الله 1 یکم جنوری بیت الفتوح لندن کا دن انسان کی توبہ کا دن، جمعہ کے دن کی اہمیت اور کثرت سے حضور صلی علی کم پر درود بھیجنے کا حکم ، نیا سال اور دعائیں، ملک کے لئے دعا جس میں رہ رہا ہے ، آنحضرت صلی علیم سے عشق کی وجہ سے بروزی نبی کا اعزاز ملا، حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں، جہالت اور تقویٰ کبھی جمع نہیں ہو سکتے ، پاکستان ، افغانستان اور دوسرے ممالک میں جو آگ لگی ہے یہ انذار ہیں تقویٰ کی طرف توجہ ہونی چاہیے ، تو بہ کریں، آگ سے مراد صرف قیامت والی آگ نہیں بلکہ دنیا میں بھی طرح طرح کے عذاب ، خوف حزن ، فقر و فاقے.8 جنوری بیت الفتوح لندن 29-12 | دنیا میں کسی بھی نظام کو چلانے کے لئے ، روپیہ پیسہ کی ضرورت ہوتی ہے، چندوں کی ابتداء آپ صلی ایم کے زمانہ سے ہو گئی تھی، زکوۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ بھی ضروری ہے ، نظام وصیت، موصی قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں، تحریک جدید کا آغاز ، وقف جدید کا آغاز اور اس کی وسعت، مالی قربانی کی لگن ، چندوں کی ادئیگی میں انقباض نہیں ہونا چاہیے ، خدا کی رضا کے لئے خرچ کئے گئے مال کے بدلے خدا تعالیٰ بڑھا چڑھا کے دیتا ہے، افریقی ممالک میں مالی قربانی کی روح میں ترقی، افریقہ میں مساجد کی تعمیر تبلیغ و تربیت کا کام اور ان کے چند واقعات، وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان ، مکرم پروفیسر (ریٹائرڈ) محمد یوسف صاحب لاہور کی شہادت.3 40-30 15 جنوری بیت الفتوح لندن مقصد حیات جاہ و حشمت و دولت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے ، قرآن ایک مکمل کتاب ہے اور آپ صلی علی کرم نے اپنے کامل نور اور فراست سے صحابہ میں وہ نور بھر دیا، آنحضرت صلی الم کے اسوہ پر چل کر مقصد حیات کا پایا جا سکتا ہے ، شادی بیاہ کے موقع پر بد رسومات ، ان سے بچنے کی تلقین ربوہ میں صدر صاحب عمومی کی ذمہ داری کہ شادیوں پر بے جا اصراف نہ ہو ، آج احمدی کے علاوہ کس نے عہد کیا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہو ا و ہوس سے باز آجائے گا قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرئے گا قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل بنائے گا، حیا کا معیار بلند کریں ، نوجوان خاص طور پر آج کل کی برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر ان کے جال میں نہ پھنس جائیں، رشوت وغیرہ سے بچیں، 4 22 جنوری بیت الفتوح لندن 51-41 آپ صلی للی کم کا مقام اور کمال نور، نور اور سراج منیر کی پر معارف تشریح، آپ صلی یکم کے حسن و جمال کے بارے چند روایات، آپ صلی یی کم کا نور سب انبیاء کے نور سے زیادہ چمکتا ہوا ہو گا اور آپ صلی علیکم کو ہی شفاعت کا اذن دیا جائے گا، آپ صلی للی کیم کی دعائیں ،اللہ ہمیں ان دعاؤں کو سمجھ کر کرنے اور اس کا فیض پانے والا بنائے.5 الله 65-52 كل بركة من محمد الله فتبارك من علم و تعلم 29 جنوری بیت الفتوح لندن حضرت مسیح موعود کے رفقاء کے حولے سے حضرت مسیح موعود کے حسن اور نور اور آپ کے شمائل کا ذکر ، نعوذ باللہ کوئی احمدی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچ سکتا کہ حضرت مسیح موعود کا مقام آنحضرت صلی الم سے بڑھ کر ہے ، آپ کے اخلاق، دشمن بھی مل کر آپ کے گن گاتے، آپ کا نورانی چہرہ اور نور کے ظاہر ہونے کے بارے روایات.

Page 6

خطبات مسرور جلد ہشتم 2 خلاص 6 76-66 5 فروری بیت الفتوح لندن ذنب اور اثم کا فرق ، زندگی کے ہر کام میں تقویٰ کو سامنے نہیں رکھیں گے تو پھر گناہ کا ارتکاب کریں گے ، اسلام تمام شیطانی کاموں کی سختی سے مناہی کرتا ہے ، نماز تمام بے حیائیوں سے روکتی ہے ، شراب اور جوئے کے تباہ کن نقصانات، لاٹری کا نظام بھی حرام ہے، کمزور بھائیوں کی پردہ پوشی کرو، تجس سے بچو، اللہ تعالی مومنوں میں محبت پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتاہے، غیبت سے جماعت اور عہد پر اروں کو بھی بچنا چاہیے ، بد ظنی سے بچاؤ کی تلقین، مکرم سمیع اللہ صاحب شہداد پور ضلع سانگھڑ کی شہادت.89-77 98-90 109-99 صفت حسیب کے حوالے سے یتیموں کے حقوق اور 7 12 فروری بیت الفتوح لندن رفقاء حضرت مسیح موعود کی محبت و غیرت الہی کے واقعات، پردے کے احکامات، حضرت مسیح موعود کا پیغام کا پہنچنا اور انکار کے نتیجے میں طاعون کا آنا، سندھ میں آریہ سماج کے مقابلے میں جماعت احمدیہ کا کردار، غیروں میں شادیاں، بعد میں نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں احمدی خیال رکھیں ، حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا خدا پر توکل، اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو عاجزی میں اور توکل میں بڑھاتے ہوئے ایمان میں ترقی دینے والا ہو 19 فروری بیت الفتوح لندن صفت حسیب.اسلامی احکامات کا ایک بنیادی حکم کے اپنوں کے ساتھ ساتھ دوسروں سے بھی نیک جذبات کا اظہار کرو، آپ صلی للی کم کا صحابہ کو آپس میں سلام کو رواج ڈالنے کی تلقین اور آپ صلی علی نام کا انداز تربیت کے بارے کی روایات، اس زمانے میں سلامتی اور امن کی ضمانت بنا کر اللہ تعالیٰ نے حضور کو بھیجا ہے ، آنحضرت صلی علی ظلم کا نمونہ تمام تکلیفوں کے باوجود فرمانا کہ کاش تم لوگ سیدھے راستے کی طرف آجاؤ ہدایت پا جاؤ، یہی جذبہ ہے جو آج کل آنحضرت صلی یم کے عاشق صادق کے ماننے والوں کی جماعت کا ہونا چاہیے، احمدیوں کا یقین کہ غلبہ انشاء اللہ اسلام کا ہی ہونا ہے ، تمام مظالم کے جواب میں حسبی اللہ کہیں.9 26 فروری بیت الفتوح لندن ان سے حسن سلوک، یتیموں کی تعلیم و تربیت سے غافل نہ ہو جاؤ، یتیم کو پالنے کی اہمیت کے بارے احادیث ، جماعت میں بھی یقیموں کی پرورش کا خیال رکھا جاتا ہے افریقہ اور بعض اور ممالک میں بھی پاکستان میں یکصد یتامی کمیٹی کام کر رہی ہے، تمام پاکستانیوں کو تحریک جو امریکہ، کینیڈا، اور یورپ یا انگلستان میں رہتے ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لیں اسی طرح پاکستان کے مخیر افراد کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں.5 مارچ بیت الفتوح لندن 122-110 انبیاء کے ماننے والوں کی تعداد عموماً بہت قلیل ہوتی ہے اور ان کی بھر پور مخالفت ہوتی ہے اور یہی سلوک آنحضرت صلی لی نام کے ساتھ دشمنان اسلام نے کیا مگر آپ صلی للی کم نے استقلال کے ساتھ ان سب کا سامنا کیا اور کامیاب ہوئے ، بعض ممالک میں احمدیت کی مخالفت ہے تو یہ احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے 72 فرقوں نے جمع ہو کر زور لگایا ہے مگر جماعت کو نقصان نہیں پہنچانہ پہنچا سکتے ہیں ، ہمارا جواب ہمیشہ یہی رہا ہے حسبنا اللہ و نعم الوکیل ، مخالفین کو سزا دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے اصل کام نبی اور اس کی جماعت کا تبلیغ کرنا ہے ، کسی قوم کی عمر یا طاقت کا لمبا ہو نا دائگی نہیں بلکہ عارضی ہے پہلی قومیں بھی جو پھیلی ہوئی تھیں وہ چھوٹی ہوتی گئیں اب یہی تقدیر امریکہ کے ساتھ بھی دوہرائی جائے گی مسیح محمدی کی جماعت کے لئے خوشخبری کہ جماعت نے دنیا کے کناروں تک پھیلنا ہے یہ زلزلے، طوفان وغیرہ تقدیر کا ایک چکر ہیں ، یہ سب حضرت مسیح موعود کی تائید میں ہی ہیں، حضرت مسیح موعود کا زلزلوں کو اپنانشان قرار دینا اور زلزلوں کا کچھ ریکارڈ، حضور کا اقتباس کہ دنیا ایک قیامت دیکھے گی، اسے یورپ تو بھی امن میں نہیں...یہ وار ننگ خاص طور پر ہندوستان پاکستان کے علاقے کے لئے ہے.10

Page 7

خطبات مسرور جلد ہشتم 11 133-123 3 خلاصہ 12 مارچ بیت الفتوح لندن صفت حسیب، جو حسبنا اللہ کا اعلان کرتے ہیں خدا تعالی اس دنیا میں اور آخرت میں ان کے مخالفین کو پکڑتا ہے اور ظلم کا حساب لیتا ہے ، مومن کا امتیاز تقویٰ پر چلنا ہے ، رزق کا وسیع تر مفہوم ، رزق میں تمام قسم کا رزق مراد ہے قوی وغیرہ بھی، ایٹم بم کا نقشہ حطمہ ، آپ صلی ال نیم کے علم و معرفت کے خزانے جو آپ کی ہم نے تقسیم کئے صحابہ کے ذریعے آج بھی جاری ہیں، متقی بننے کے لئے بنیادی حق ادا کرنے ضروری ہیں، صرف ایمان لانا کافی نہیں بلکہ تقویٰ کا حصول اصل جڑ ہے آج کل غریب حکومتیں خدا کو چھوڑ کر دنیاوی معبودوں کی طرف جھک رہی ہیں جو نشانی ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے، الہی جماعتوں کی نشانی جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ زمین ان پر تنگ کی جاتی ہے اور جگہوں سے خدا تعالیٰ وسعت کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.12 19 مارچ بیت الفتوح لندن 143-133 رزق مادی رزق اور دولت کا نام ہی نہیں بلکہ تمام تر روحانی صلاحیتیں اور قومی جو انسان کو دئے گئے ہیں وہ رزق کے زمرہ میں آتے ہیں اور یہ رزق بھی تمام و کمال اللہ تعالیٰ الله سة نے آپ صلی المی کم کو عطا فرمایا تھا آپ صلی یہ کلم نے وہ روحانی رزق آگے صحابہ میں تقسیم فرمایا اور آج مسیح موعود نے بھی وہی خزانے تقسیم کرنے ہیں ، حارث یعنی حراث والی حدیث کا مضمون، حضرت مسیح موعود کی کتب کے تراجم کا کام ہو رہا ہے اردو پڑھنے والے خاص طور پر اس روحانی غذا سے فائدہ اٹھائیں، عمل کو بھی نیت کے مطابق پر کھا جائے گا، اعمال نامہ ایک ڈائری کی شکل میں تیار ہو رہا ہے اور قیامت کے دن گردن میں لٹکایا جائے گا، انسان کو خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اس طرح انسان محتاط رہتا ہے ، سریع الحساب کی تشریح، دعار بنا اغفرلی سے اپنی مغفرت مراد نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ واحد متکلم جمع متکلم کا ہو جاتا ہے ، ایک عام احمدی اور عہدیدار میں ایک جو فرق ہے اسے بھی ملحوظ رکھنا چاہیے نمازوں کے قیام اور دوسری نیکیوں میں اپنے نمونے قائم کریں.26 مارچ بیت الفتوح لندن 144-156 جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے غیرت دکھاتا ہے اور حساب لیتا ہے، ایسے ایمان افروز واقعات کہ خدا کس طرح اپنے پیاروں کی ضرورتوں کا متکفل ہو جاتا ہے،، آپ صلی الک کے توکل الی اللہ اور سخاوت کے بارے واقعات، آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود کے واقعات ، آئیوری کوسٹ کے احمدی کی مالی قربانی اس کے نتیجہ میں تنخواہ میں اضافہ ، ریجن باسیلا کے ایک احمدی کا چندہ دینے کی برکت سے کاروبار میں بہت برکت کا پڑنا، قرآن میں تبدیلی کرنے والے کا عبرتناک انجام، حضور ایدہ اللہ کا سفر پر جانے کا اعلان اور دعا کا فرمانا.14 02 اپریل مسجد بشارت پید رو آبا.چین 13 167-157 جلسہ سالانہ سپین کا آغاز، جلسوں کا مقصد وقتی جوش دکھانا نہیں بلکہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے، سپین میں رہنے والوں کی ذمہ داری، انشاء اللہ احمدیت کی جلد ترقی دیکھیں گے ، پہلے مبلغ سپین مکرم کرم الہی ظفر صاحب اور ان کی قربانیوں کا ذکر ، دولت ہمیں مذہب سے دور نہ لے جانے والی ہو ، شراب پینے پلانے والوں پر لعنت ام الخبائث شراب ہے ، آج ایمان کو ثریا سے زمین پر لانے کے لئے حضرت مسیح موعود کو بھیجا گیا ان کی خلافت کو جاری فرمایا اب امام الزمان کے ساتھ کئے گئے عہد کے مطابق زندگیاں گزاریں، سپین میں رہنے والوں کو یادہانی کہ ایک زمانے تک مسلمان یہاں رہے ہیں مسلمانوں کا خدا اور دین کی اصل غرض کو بھلا دینے کی وجہ سے جگہ جگہ عبرتیں بکھری پڑی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخری فتح اسلام کی ہوگی اور اس کام کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مبعوث کیا

Page 8

خطبات مسرور جلد هشتم 4 خلاصہ ہے اپنے عہد بیعت کو پورا کریں، شیخ اشرف پرویز صاحب اور شیخ مسعود جاوید صاحب اور شیخ آصف مسعود صاحب کی شہادت، یہ شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی، پاکستان کے تمام احمدی احتیاط کریں.15 09 اپریل مسجد بشارت 177-168 حضرت مسیح موعود کا کام احیاء دین ہے ، ہندوستان جو پید رو آبا.سپین اسلام کا قلعہ کہلاتا تھا اس وقت عیسائی مبلغین اپنا جال بچھا رہے تھے اس وقت حضرت مسیح موعود کو مبعوث کیا اور عیسائی پادری اپنے دفاع پر مجبور ہو گئے بلکہ میدان سے ہی بھاگ گئے ، یورپ بلکہ پوری دنیا مذ ہب کے نام پر شرک میں مبتلا ہیں یا خدا کے وجود کے ہی انکاری ہیں، حضرت مسیح موعود کا مقصد توحید کا قیام ہے آپ نے فرمایا نرمی سے قرآنی تعلیم پر عمل کرو، دعاؤں کے ذریعہ ہماری فتح ہو سکتی ہے ، ایک احمدی کا فعل پوری جماعت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے ، دعا اور صدقات حقوق العباد اور حقوق اللہ کی طرف توجہ ، لوگ اب اسلام کے بارے جاننا چاہتے ہیں اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں ، مربیان، جماعتی نظام، ذیلی تنظیمیں بھی نظام کے ساتھ چلیں اور اس پیغام کو آگے پہنچائیں ، شہروں ، قصبوں میں جا کر جلسے سیمینار کریں جماعت کا تعارف کروائیں لٹریچر دیں وقف نو بچوں کی تربیت کی طرف توجہ.16 16 اپریل بیت التوحید سان 187-178 اٹلی کے شہر سان پیٹرو سے پہلی مرتبہ لائیو خطبہ ، پیٹرو.اٹلی اس جگہ مسجد کی تعمیر کے لئے دعا کی تحریک، اس ملک کا ایک حصہ مسیح کی خلافت کا مرکز ہے اب بہر حال مسیح محمدی نے تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانا ہے اور یہ ذمہ داری ہر احمدی کی ہے، خدا تعالیٰ کا یہ احسان کہ ہمیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ہے یہ احسان ہم زندگی بھر نہیں اتار سکتے ، یہاں کے رہنے والے خاص طور پر اپنے ہم وطنوں کو احمدیت کا پیغام پہنچائیں، ایک عبادت کرنے والا ہی عبد رحمان کہلا سکتا ہے نمازوں کے ساتھ ذکر الہی بھی عبادت ہے، تبلیغ کے ساتھ دعا بھی بہت ضروری ہے حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ ہماری فتح دعاؤں ہی سے ہوئی ہے، خلافت اور نظام جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ ، عہدیداران سے مکمل تعاون کرو.199-188 ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ کہیں بھی ہو ، احمدیوں کے خطوط کہ آپ کا خطبہ ہمارے حالات کے عین مطابق ہوتا ہے، عبد شکور بنیں شکر گزار بندے بنیں ،مال اولاد صحت صلاحیتیں استعدادوں کا شکری ادا کرنے والے بنیں، شکر گزاری بھی ایک نیکی ہے ، آپ اپنے حالات دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی طور پر مضبوط کیا ہے، شرک سے دور رہیں ، اپنے اس عہد کو پرا کریں جو آپ نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کر کے کیا ہے ، بچوں کی تربیت کا خیال ٹی وی انٹر نیٹ وغیرہ پر جب بچے بیٹھیں تو نظر رکھیں، آزاد خیالی کے نام پر برائیوں میں مبتلا نہ ہوں، خلافت اور جماعتی نظام کی اطاعت کریں اگر کوئی شکایت ہے تو خلیفہ وقت کو لکھیں ، نمازوں کی طرف طرف توجہ ، شرائط بیت کا مختصر ذکر نماز ، شرک سے اجتناب، تکبر سے بچاؤ، دین کی عزت کی فکر ، ہمدردی مخوق، اطاعت، اسلام کو میناروں کے نام پر بد نام کرنے کی کوشش، یورپ میں پردہ ایک بہت بڑا ایشو بنا ہوا ہے ، اسلام کی درست تصویر پیش کریں، ایک احمدی بچی کا ذکر پر دہ کی وجہ سے تنگ کرنے والے کو فارغ کر دیا گیا، احمدی اور غیر احمدی کے فرق کو واضح کریں، جماعتی نظام اور ذیلی تنظیمیں فعال پروگرام بنائیں.18 30 اپریل بیت الفتوح لندن 213-200 افریقہ کے بعض ممالک کے دورے کا پروگرام مگر ان کے ملکی حالات کی وجہ سے دورہ ملتوی کیا گیا، سپین کے جلسہ کے ایام میں دورہ، سپین ، فرانس، اٹلی کے سفر کے 17 23 اپریل سوئٹزر لینڈ

Page 9

5 خلاص خطبات مسرور جلد ہشتم حالات ، ایم.ٹی.اے العربیہ کی مقبولیت کا ذکر ان کے لئے دعا، مساجد اور جماعتی بلڈنگز کا افتتاح، سوئٹزر لینڈ کا سفر اور اٹلی میں کفن مسیح کی نمائش ، کسی بھی خلیفۃ المسیح کا پہلی مرتبہ یہ کفن دیکھنا، کفن مسیح کی تاریخ اس کے بارے مختلف نظریات اور جماعت کا مؤقف ان کی لائبریری میں جماعتی لٹریچر اور فائیو والیم انگریزی کمنٹری کا رکھوانا، مرہم عیسی کے بارے تحقیق، میر محمود احمد ناصر صاحب کی نگرانی میں چلنے والی ریسرچ کا ذکر ، عیسائی سکالر نارم والر کا ذکر ، وفات مسیح اور قبر مسیح کا ذکر ، اٹلی کے نوجوان کا ذکر جو حضرت مسیح موعود کی کتب کا اٹالین ترجمہ کر رہا ہے، سر راس برگ میں قیام ، آرچ 19 بشپ کے نمائندے سے حضور ایدہ اللہ کی ملاقات، فرینچ نیشنل مراکش عورت کی خواب اور اس کی بیعت کا ذکر.07 مئی بيت الفتوح لندن 222-214 صفت خالق ، خدا تعالیٰ نے زمینی رزق کے ساتھ ساتھ روحانی رزق کا بھی انتظام کیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی اظہار آپ صلی علی ظلم کے اسوہ پر چل کر ہو سکتا ہے ، آسمانی اور دنیاوی نظام پر غور کرو، عبادت سے ہر گز غافل نہ ہو ، احمدیوں پر حالات تنگ کئے جانے کا ذکر ، اضطرار کے ساتھ خدا سے دعا کریں، آپ صلی الی یکم کی بعثت کے وقت ظهر الفساد فی البر والبحر کا نظارہ ، غلبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو گا، مقصد تخلیق اس وقت پورا ہو گاب ہم اس کو معبود حقیقی سمجھ کر اس کے آگے جھکیں گے.20 21 م الله 14 مئی بیت الفتوح لندن 231-223 سورۃ الا علی کی تفسیر اور آپ صلی للی علم کا جذ بہ شکر اور آپ صلی لنی کیم کی تسبیح و تحمید عاجزی و انکساری ، نمازوں اور عبادات کی ادائیگی، آپ صلی الی یکم کی بعثت ، انبیاء روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے آتے ہیں ، حضرت اقدس مسیح موعود کی بعثت ، اسلام کے نام پر دہشت گردی ، مصر اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی خاص تحریک.21 مئی بیت الفتوح لندن 245-232 اللہ تعالیٰ تیرے لئے کافی ہے بطور ہادی اور مددگار کے، مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم حضرت عمار کے والدین کی قربانیوں کا ذکر ، مخالفت کھاد کا کام دے رہی ہے ، یہ مخالفتیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی بلکہ ایک دن انہیں مخالفین پر لوٹائی جائیں گی، پاکستان میں چک منگلا میں کلمہ طیبہ مٹانے کی ناپاک جسارت، تمام احمدیون کو نصیحت کہ ہم نے کلمہ کی حفاظت کرنی ہے ، تمام احمد کی تمام ارکان اسلام پر یقین رکھتے ہیں ، پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک، پاکستان کی بقا بھی احمدیوں کی دعاؤں میں ہے ، پاکستان کے سیاستدانوں کی حالت اور خطر ناک جھیل کے پانی کا ذکر ، مکرم حفیظ احمد شاکر صاحب گلشن اقبال کراچی کی شہادت، ہمارا معاملہ خدا کے سپر دہے، صبر کرتے چلے جائیں گے، مسیح موعود کی تکذیب ان لوگوں کا ذریعہ رزق ہے، مصر میں احمدیوں کی مخالفت ، ایک بہتان کہ نعوذ باللہ احمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو خاتم النبیین مانتے ہیں.انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ہمارے نزدیک آنحضرت صلی للی کم کا مقام سب سے افضل ہے اور آپ کے بعد نہ کوئی شرعی نبی آسکتا ہے اور نہ قرآنِ کریم کے بعد کوئی اور شرعی کتاب اتر سکتی ہے.حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا جو دعویٰ ہے وہ خالصتا آپ کی غلامی میں اور آپ سے فیض پاتے ہوئے دعوی ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا کہ میں اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرت صلی علیہ کم کا عاشق صادق ہوں.پس ان پڑھے ہوئے لوگوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ آنکھیں بند کر کے کم علموں کی طرح سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے احمدیت کا پیغام تو پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ تو دیکھیں پھر اگر الزام ثابت ہو تا ہو تو دکھائیں.پہلے ہمارا موقف تو سنیں.احمدیت کا موقف تو سنتے نہیں اور سننے کو تیار بھی نہیں اور یک طرفہ فیصلہ

Page 10

خطبات مسرور جلد ہشتم 6 خلاصہ کرتے چلے جا رہے ہیں.خدا کا خوف کرنا چاہئے اور خدا کے غضب سے ڈرنا چاہئے ،facebook پر آنحضرت صلى الم کے خلاف بے ہودہ باتیں اس وجہ سے کہ مسلمان ایک نہیں ہیں، حضرت مسیح موعود کا اسلام کے دفاع میں 80 سے زائد کتابیں لکھنا اور آپ کی وفات پر غیروں کا خراج تحسین، آپ اسلام کے ایک عظیم جرنیل تھے ، حضور کا ارشاد کہ میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو ، احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ الله کے حقیقی معنی سمجھ کر پھر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے.یہ جو کلمے مٹائے جاتے ہیں، یہ جو کلمے کی حفاظت کے نام پر احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، جو کلے کے نام پر احمدیوں کو شہید کیا جاتا ہے یہی کلمہ مرنے کے بعد ہمارے حق میں خدا تعالیٰ کے حضور گواہی دے گا کہ یہی حقیقی کلمہ گو ہیں.اور یہی کلمہ احمدیوں پر ظلم کرنے والوں اور ان کو شہید کرنے والوں کے بارے میں قتل عمد کی گواہی دے گا.پس ہم خوش ہیں کہ جنت کی خوشخبری دے کر اللہ تعالیٰ ہمیں دائمی زندگی سے نواز رہا ہے.پس جہاں شہداء دائمی زندگی کی خوشخبری پار ہے ہیں وہاں ہم سب جو ہیں اور ہم میں سے ہر ایک جو ثبات قدم کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کے پیار کو یقیناً جذب کرنے والا ہے ، ملک عطاء محمد صاحب کی شہادت اور احمد محمد حاتم شافعی صاحب کی نماز جنازہ.22 23 267-255 سة 28 مئی بيت الفتوح لندن 254-246 | ابتدائے عالم سے انسان اور شیطان کی جنگ شروع ہے ، انبیاء کی بعثت اور مخالفت، مسلمانوں کی ابتدائی حالت میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی الیکم کے ساتھ ہمیشہ فرشتوں کی فوج تھی، جو اس زمانے کے امام کو نہیں مانتے وہ تکبر کرتے ہیں ، خدا کے فرستادہ کی تو ہین خدا کی توہین ہے ، علمی شافعی صاحب کے قبولیت احمدیت کے واقعات کا ذکر، تکبر سے بچنے کی تلقین، انبیاء کے جو مخالفین ہوتے ہیں یہی حضرت مسیح موعود کے مخالفین ہیں، لاہور میں دو احمد یہ مساجد پر حملے کا ذکر اور ددعا کی تحریک، حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ، اللہ تعالیٰ شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دے گا اللہ تعالیٰ یقیناً بدلہ لینے پر قادر ہے.04 جون بیت الفتوح لندن سانحہ لاہور کے بعد خطوط کے آنے کا ذکر، حضور ایدہ اللہ کا فون کر کے ہر شہید کے گھر تعزیت اور لواحقین کا جواب کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں، شہداء اور زخمیوں کا صبر اور دہشت گرد پکڑنے کا ذکر ، جزع فزع کی بجائے صبر اور تحمل کی تلقین، حملہ کے مقاصد صرف جانی نقصان کرنا نہیں تھا بلکہ اور بھی تھا مگر سب کو پتہ چل گیا ہے کہ احمدی کیا چیز ہیں ایک امام کی آواز پر اٹھنے بیٹھنے والے لوگ ہیں ، صبر کے نمونے دنیا نے دیکھے ہیں ، شہداء کے واقعات کہ کس طرح صبر اور تحمل کے ساتھ قربانی دی ہے اور ورثاء کی تحریرات کا ذکر ، احمدیوں کو جب بھی دین کے لئے بلایا جاتا ہے تو لبیک کہتے چلے آتے ہیں، مختلف ممالک ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے تعزیت کے پیغامات کا ذکر ، احمدیوں کے خلاف دہشت گردوں کو تحفظ حاصل ہے ، یہ شہید قطب ستارے ہیں جنہوں نے آسمان احمدیت پر نئی کہکشائیں ترتیب دی ہیں ، نارووال کے نعمت اللہ صاحب کی شہادت اور بیٹے کے زخمی ہونا.11 جون بیت الفتوح لندن 289-268 سیدنا بلال فنڈ کے بارے جماعت کو یادہانی، شہداء سانحہ لاہور کے مختصر کوائف اور ان کے واقعات کا 24 25 18 جون بیت الفتوح لندن 310-290 ذکر سانحہ لاہور کے شہداء کے کوئف اور ان کے واقعات کا ذکر

Page 11

خطبات مسرور جلد ہشتم 26 7 خلاصہ خطبات 25 جون منہائیم، فرینکفورٹ.311-331 جلسہ سالانہ جرمنی کا افتتاح، پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک، جلسہ کے انتظامات کا جرمنی ذکر اور خاص طور پر سیکیورٹی والوں سے تعاون کی تلقین، اور دعا کرنے کی تلقین کہ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، سانحہ لاہور کے شہداء کے کو کف اور ان کے واقعات کا ذکر.27 02 جولائی بیت الفتوح لندن 347-332 سانحہ لاہور کے شہداء کے کو ٹف اور ان کے واقعات مکرمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کی والدہ محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولا نا عبد المالک خان صاحب مرحوم کی نماز جنازہ 28 09 جولائی بیت الفتوح لندن 365-348 سانحہ لاہور کے شہداء کے کو ٹف اور ان کے واقعات اور یہ ذکر کہ ان شہداء میں بعض اعلیٰ صفات قدرِ مشترک کے طور پر نظر آتی ہیں.ان کا نمازوں کا خود بھی اہتمام کرنا اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہنا.اور دوسرے اخلاق حسنہ بھی ان میں کثرت سے نظر آتے تھے.اور فرمایا کہ یقیناً یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے.اور ان تمام شہداء اور ان کے اہل خانہ کے لئے دعا کی طرف بھی توجہ دلائی.اور اس کے بعد مکرم نذیر شفیق المردانی صاحب سابق امیر جماعت سیریا کے نماز جنازہ کا اعلان.29 16 جولائی بیت الفتوح لندن 382-366 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات جن میں ان حق کے متلاشیوں کی اپنی سعید فطرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقتوں، محبتوں، قوت قدسی اور مقام کا بھی پتہ چلتا ہے.30 23 جولائی بیت الفتوح لندن 393-383 جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے حوالہ سے ڈیوٹیاں دینے والوں کے فرائض، مہمان نوازی اور مہمانوں سے حسن سلوک کرنے کی نصیحت ، اور اس حوالہ سے رسولِ کریم صلی یکم کا اسوہ حسنہ ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی، محترم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری لندن کی والدہ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ صوفی نذیر احمد صاحب کے نماز جنازہ اور اوصاف حمیدہ کا تذکرہ.31 30 جولائی حديقة المهدى آلٹن.برطانیہ 403-394 جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مہمانوں کو جلسہ کا مقصد اپنے سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ، اصل غرض اس کی یہ ہے کہ دین سیکھا جائے ، مہمانوں کو ڈیوٹی والوں سے مکمل تعاون کرنے کی تلقین ، جلسہ پر آنے والے دو یا تین ہفتوں سے زیادہ نہ ٹھہر کریں، ان دنوں میں سلام کو خاص طور پر رواج دیں، ڈیوٹی والوں کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور اپنا وقت زیادہ سے زیادہ دعاؤں میں گزاریں.32 06 اگست بیت الفتوح لندن 414-404 جماعت احمد یہ برطانیہ کے جلسہ کا کامیاب انعقاد جلسہ کی بہتری اور کامیابی خدا تعالیٰ کے فضلوں کی طرف متوجہ کرتی ہے اور ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں، ایک دوسرے کا شکر گزار بننے کی ضرورت اور یہ بندوں کا حق ہے ، یہی عباد الرحمن کا شیوہ ہے ، تمام کارکنان، کارکنات اور ڈیوٹی والوں کا حضور انور کی طرف سے شکریہ ، شاملین جلسہ کی پروگراموں میں شمولیت اور

Page 12

خطبات مسرور جلد ہشتم 8 خلاص سنجیدگی میں بہت اور بہت توجہ ، ایم ٹی اے کے تمام کارکنان کا بھی شکریہ ، جماعت کی Official ویب سائٹ alislam.org کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دلانا، مکرم مصطفی ثابت صاحب کی وفات اور خدمات سلسلہ کا تذکرہ.33 13 اگست بیت الفتوح لندن 424-415 رمضان المبارک اور روزوں کے لوازمات، روزہ تو ایک مجاہدہ ہے ، یہ مہینہ تو دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے ، عبادات بجالانے ، فسق و فجور سے بچنے اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کا مہینہ ہے.اور اس بارہ میں رسول کریم صلی ال نیم کے ارشادات اور آپ کے اسوہ حسنہ کی پاک جھلک ، آج کل پاکستان میں احمدیوں کے جو حالات ہیں اس نے پوری دنیائے احمدیت کو عبادت کے معیار بہتر بنانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کی طرف مائل کیا ہے، روزہ میں جھوٹ سے بچنے کی تلقین، صلہ رحمی، پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص دعا کی تحریک.34 20 اگست بیت الفتوح لندن 441-425 | رمضان المبارک اور کلام پاک کو خاص طور پر پڑھنے اور سمجھنے کا مہینہ ، رسول کریم صل الم تمام انسانوں کے لئے تا قیامت نبی اور قرآن کریم کا پیغام ایک عالمگیر پیغام ہے، اسلام کی تعلیم رحمت کی تعلیم ہاور آپ صلیالی کی بھی تمام دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے ، امریکہ کے ایک چرچ کا ذکر جس کی طرف سے اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی.اور قرآن کریم کو جلانے کا مذموم اعلان کیا گیا، قرآن کریم کی خوبیوں کا ذکر اور اس چرچ کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کے مختصر جوابات، صوبہ سندھ میں ہونے والی دو شہادتوں مکرم ڈاکٹر نجم الحسن صاحب آف کراچی اور مکرم حبیب الرحمن صاحب شہید آف سانگھڑ اور ایک مخلص دوست مکرم موسی رستمی صاحب کا ذکر خیر.35 27 اگست بیت الفتوح لندن 453-442 رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت لیلۃ القدر کی برکت اور فضیلت رسول کریم صلیال نیلم کے فرمودات کی روشنی میں لیلۃ القدر کے وسیع معانی احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات کی روشنی میں.36 الله سة 03 ستمبر بیت الفتوح لندن 467-454 رمضان المبارک کا آخری عشرہ ، رسول کریم صلی نیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات کی روشنی میں وہ کیا کیا باتیں اور طریق ہیں جن کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور جن کو اختیار کر کے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کریں 37 اور اس کے لئے مستقل کو شش کرتے رہنا ہی ایک مومن کا کام ہے.مکرم شیخ عامر رضا صاحب کی شہادت.10 ستمبر بیت الفتوح لندن 483-468 قرآن کریم کی منتخب مختلف دعائیں، احادیث مبارکہ لی الکریم سے دعاؤں کا انتخاب ، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ دعائیں.آپ میرے ساتھ دہراتے بھی جائیں اور آمین بھی کہتے جائیں، مکرم نصیر احمد بٹ صاحب فیصل آباد کی شہادت.نبویہ 38 17 ستمبر گالوے.آئرلینڈ 49-484 حضور انور کا آئرلینڈ کا پہلا سفر ، اس ملک میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد ، مساجد کی تعمیر اور ان کے لئے قربانیاں اور افرادِ جماعت کی ذمہ داریاں، اپنی اولاد اور آئندہ نسلوں کی تربیت کی اہمیت، تبلیغ اور اس میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت.39 24 ستمبر بیت الفتوح لندن 504-494 ستمبر ، اکتوبر کے مہینے اکثر ممالک کی ذیلی تنظیموں

Page 13

خطبات مسرور جلد ہشتم 9 خلاصہ کے سالانہ اجتماعات کے مہینے ، آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع کے آغاز اور اگلے جمعہ انصار اور لجنہ کے اجتماعات کے آغاز سے ربوہ میں ہونے والے اجتماعات کی یاد تازہ ہو گئی.جب ربوہ کی رونقیں اس وجہ سے دوبالا ہو جایا کرتی تھیں، قرآن کریم میں خدمت دین، اصلاح اور توحید کے قیام کے لئے سورۃ کہف میں مذکور نوجوانوں کے حوالہ سے تذکرہ ، پاکستان کے احمدی بھی ان اصحاب کہف کی سی زندگی گزار رہے ہیں.40 یکم اکتوبر بیت الفتوح لندن 515-505 مجالس انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ یو.کے کے اجتماعات اور بعض اور ممالک میں بھی اجتماعات، یہ دونوں تنظیمیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے بڑی اہم ہیں اور جماعتی ترقی اور تعلیم و تربیت اور اگلی نسل کو سنبھالنے میں عورت اور مرد خاص طور پر اہم کردار ادا کرتے ہیں، یہ ترقی تو مقدر ہے.مگر اس ابتلاء کے دور میں ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے وابستہ رہنے میں ہی ہے.انصار اللہ کی ذمہ داریاں عہد بیعت کی روشنی میں، عورتوں کے فرائض، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بابت دعا.41 108اکتوبر بیت الفتوح لندن 526-516 رحمان کے بندے فتنہ و فساد سے بچتے ہیں اور دوسرے ظلم و فساد کرنے والے ہیں یہ شیطان کے بندے ہیں، پاکستان میں ایک طبقہ ملک کو مذہبی شدت پسندی کی طرف لے جانا چاہتا ہے ، احمدی پاکستان کے مظلوم ترین شہری ہیں.مگر پھر بھی اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کر دار ادا کر رہے ہیں، جماعتِ احمدیہ کو بحیثیت جماعت یا خلافت احمدیہ کو کسی حکومت کسی ملک کی حکومت پر قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ یہ ہمارا مقصد ہے.ہماری بے چینی حکومتوں کے لئے نہیں.ہماری بے چینی ملک کی بقا کے لئے ہے، پاکستان میں آنے والے سیلاب میں جماعت کی خدمات.42 15 اکتوبر بیت الفتوح لندن 539-527 سورۃ المرسلات پر معارف تفسیر ،اور اس میں مذکور پیشگوئیاں، اور نشر صحف کے ضمن میں ایم ٹی اے اور اس کے کارکنان ، جن ممالک میں آزادی ہے وہاں وسیع پیمانے پر جماعت پیغام پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفین کو تنبیہ.43 22 اکتوبر بیت الفتوح لندن 555-540 واقفین زندگی اور واقفین نو کو حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں اس طرف توجہ دلانا کہ آپ علیہ السلام کس قسم کے واقفین چاہتے تھے، سیکرٹریان وقف نو فعال ہوں اور شعبہ وقف نو کی طرف سے ارسال کی جانے والی ہدایات پر عمل کیا کریں.مربیان اپنے وقار کا خیال رکھیں ، تنگی ترشی برداشت کر لیں مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، مربیان کی بیویاں ان کے وقف میں ان کی معاون ہوں.واقفین نو کے حوالہ سے چند انتظامی باتیں.44 29 اکتوبر بیت الفتوح لندن 566-556 شرک ایسی برائی ہے جو انسان کو غیر محسوس طریقے سے گرفتار کر لیتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اور نا قابل معافی گناہ ہے، مغرب میں منائی جانے والی ایک بے ہودہ رسم Halloween کا ذکر اور تاریخی پس منظر ، احمدی بچے اور والدین اس سے بچیں اور ایسی ہر رسم سے جو ایک غیر محسوس طریقے سے تفریح کے نام پر مختلف جرائم کی طرف لے جاتی ہے.45 05 نومبر بیت الفتوح لندن 579-567 انفاق فی سبیل اللہ ، تحریک جدید کا تاریخی پس منظر اگر خرچ کرنے والا حقیقی مومن ہے تو وہ خرچ کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی مرضی دیکھتا ہے اور ان چیزوں پر خرچ

Page 14

خطبات مسرور جلد ہشتم 10 خلاص نہیں کرتا جن پر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہ ہو، گھروں کے سکون برباد کر دینے والی اور بچوں کی تربیت پر برا اثر ڈالنے والے اسباب سے نجات کی راہ ، احمدیوں کا والہانہ جذبہ انفاق فی سبیل اللہ ، تحریک جدید اور سادہ زندگی، آج بحیثیت جماعت تمام دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے افراد يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ کے حقیقی مصداق بن رہے ہیں.اشاعت ہدایت کی تکمیل یا اس کو تمام دنیا میں پھیلانا کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ کام مسیح محمدی کے ماننے والوں کے ذمے لگایا گیا ہے ، پس اب یہ ہماری ذمہ داری ہے جنہوں نے مسیح محمدی کو مانا ہے.گو دنیا کے مقابلے میں ہمارے وسائل بہت کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں.لیکن جس کام کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ ڈالی ہے یا لگائی ہے، اس کے لئے جب ہم رات دن قربانیوں میں مصروف رہیں گے تو برکت دینا پھر اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس کا وعدہ ہے وہ دیتا ہے اور دے گا انشاء اللہ ، جماعت کے افراد کی جانی اور مالی قربانیاں انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن ہماری قلیل تعداد کو کثرت میں بدل دیں گی.ہمارا کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کام کرتے چلے جانا ہے.اور اس کے حصول کے لئے ہم نے دل میں ایک جوش قائم کرتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کرنا ہے کہ کبھی نہیں تھکنا اور کبھی نہیں تھکنا.46 12 نومبر بیت الفتوح لندن 590-580 صبر اور دعا کے بارے میں احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات، مکرم شیخ محمود احمد صاحب آف مردان کی شہادت، ایک قدیمی خادم سلسلہ اور بزرگ مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائیبریری کی وفات اور خدمات کا تذکرہ ،اور مکرم مسعود احمد خورشید سنوری صاحب کی نماز جنازہ غائب.47 19 نومبر بیت الفتوح لندن 603-591 صبر اور مومنین میں اس خلق کے پیدا کرنے کے لئے آنحضرت صلی علیم نے ہمیں کیا اسلوب اور طریقے سکھائے ، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صحابہ کے صبر و استقامت کے اعلیٰ معیار، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات.48 49 50 26 نومبر بیت الفتوح لندن 03 دسمبر بیت الفتوح لندن 618-604 628-619 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صبر و استقامت کے حوالہ سے نمونہ.صبر واستقامت، مومن تمام تر مشکلات ، تکالیف، ذہنی اذیتوں سے گزرنے کے باوجود خدا تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑتے بلکہ پہلے سے بڑھ کر اس میں نہاں ہونے کی کوشش کرتے ہیں.ہر احمدی کو روزانہ کم از کم دو نوافل ادا کرنے کی تحریک ، جن میں جماعتی ترقی کے لئے خاص طور پر دعا کریں، احمدی طلباء کو بھی صبر کی تلقین، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں دعا کی اہمیت اور برکات.10 دسمبر بیت الفتوح لندن 640-629 جماعت کو صبر اور حوصلہ اور استقامت کی تلقین اسلامی تاریخ کا ایک دردناک واقعہ حضرت امام حسین کی شہادت، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے مناقب اور فضائل، یزید پلید اور قاتلین سے خدا تعالیٰ کا انتقام ، کامیاب حضرت امام حسین ہوئے نہ کہ یزید، حضرت مسیح موعود کی اس دور سے مشابہت ، یہ الہی تقدیر ہے کہ وہ باتیں اب نہیں دہرائی جائیں گی جن سے اسلام کو ضعف پہنچا تھا.لیکن ہمیں دعاؤں کی طرف بہر حال توجہ دیتے رہنا چاہئے، اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو جو پہلے ہو چکی ہیں مسیح موعود کے

Page 15

خطبات مسرور جلد ہشتم 11 خلاصہ زمانے میں نہیں دہرائے گا، ان میں ایک خلافت کا تسلسل بھی ہے، اس مہینے میں خاص طور درود شریف پڑھنے کی تحریک، دو افریقن بھائی مکرم مہدی ٹپانی صاحب آف زمبابوے اور مکرم ڈاکٹر الحاج ابو بکر گائی صاحب گیمبیا کے منسٹر آف ہیلتھ کا ذکر خیر ، بنگلہ ڈیسک کے انچارج مکرم فیروز عالم صاحب کی والدہ مکرمہ عزت النساء صاحبہ کا ذکر خیر.51 17 دسمبر بیت الفتوح لندن 659-641 ایسے چند بزرگوں کی روایات اور واقعات کا ذکر جنہوں نے مسیح پاک علیہ السلام کے ہاتھوں کو چھوا اور آپ سے براور است فیض پایا، یہ یادر ہے کہ ان بزرگوں کے کس قدر ہم پر احسان ہیں، پس ان بزرگوں کی نسلوں کو بہت زیادہ اپنے بزرگوں کے لئے دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور ساتھ اپنے ایمان کی ترقی اور استقامت کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.52 24 دسمبر بیت الفتوح لندن 640-629 جلسہ سالانہ قادیان اور ربوہ کے جلسوں کی یادیں، 27 سال گزرنے کے بعد بھی ہم مایوس نہیں وہ رونقیں ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے خواب و خیال نہیں بن گئیں انشاء اللہ تعالٰی یہ رونقیں دوبارہ قائم ہوں گی اور ضرور ہوں گی، شاملین کو جلسہ کے حوالہ سے نصائح اور خصوصیت سے دعاؤں پر زور دینے کی تلقین، مردان کے ایک نوجوان مکرم شیخ عمر جاوید صاحب کی شہادت.53 31 دسمبر بیت الفتوح لندن 681-671 جمعہ کا بابرکت دن جس سے اس سال کا آغاز اور اسی پر اختتام ہو رہا ہے، شہداء کا ذکر خیر اور ان کے گھر والوں کے نیک اور ایمان افروز جذبات کا تذکرہ، ان قربانیوں نے کثرت سے دنیا بھر میں احمدیت کا پر امن پیغام پہنچانے کا موقع دیا، یہ قربانیاں انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی، جمعہ کی اہمیت احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات، آپس کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہونے چاہئی، اگلے سال کا استقبال دعاؤں اور عبادات سے کریں، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا تذکرہ اور رشین ڈیسک کی مساعی ، اور alislam.org ویب سائٹ پر روحانی خزائن کو search engine میں ڈالا جانا، تیسری بات میں آج یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ میرے نام سے آج کل انٹر نیٹ وغیرہ پر فیس بک (Face Book) ہے.فیس بک کا ایک اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے جس کا میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں، میں نے تو جماعت کو کچھ عرصہ ہوا اس بارہ میں تنبیہ کی تھی کہ اس فیس بک سے بچیں.اس میں قباحتیں زیادہ ہیں اور فائدے کم ہیں.خاص طور پر لڑکیوں کو تو بہت احتیاط کرنی چاہیے.اگر ایسی کوئی صورت کبھی پیدا ہوئی جس میں جماعتی طور پر کسی قسم کی فیس بک کی طرز کی کوئی چیز جاری کرنی ہوئی تو اس کو محفوظ طریقے سے جاری کیا جائے گا.

Page 16

خطبات مسرور جلد ہشتم 1 1 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010ء بمطابق یکم صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَامِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَ يَغْفِرُ لَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( الحديد: 29) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال 2010ء کا پہلا دن ہے اور اس پہلے دن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جمعہ کے دن داخل کیا ہے جو دنوں میں سے ایک بہت مبارک دن ہے.اصل عید اور خوشی کا دن اس لحاظ سے سب سے پہلے تو میں آپ سب کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ.سے ہر احمدی کے لئے یہ سال اور آئندہ آنے والا ہر سال مبارک فرماتا چلا جائے.ہم ہر سال کی مبارکباد ایک دوسرے کو دیتے ہیں لیکن ایک مومن کے لئے سال اور دن اس صورت میں مبارک ہوتے ہیں جب وہ اس کی توبہ کی قبولیت کا باعث بن رہے ہوں اور اس کی روحانی ترقی کا باعث بن رہے ہوں، اس کی مغفرت کا باعث بن رہے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ اصل عید اور خوشی کا دن اور مبارک دن وہ ہوتا ہے جو انسان کی توبہ کا دن ہوتا ہے.اس کی مغفرت اور بخشش کا دن ہوتا ہے.جو انسان کو روحانی منازل کی طرف نشاندہی کروانے کا دن ہوتا ہے.جو دن ایک انسان کو روحانی ترقی کے راستوں کی طرف راہنمائی کر نے والا دن ہوتا ہے.جو دن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے.جو دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لانے کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے.جو دن اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے عملی کوششوں کا دن ہوتا ہے.پس ہمارے سال اور دن اُس صورت میں ہمارے لئے مبارک بنیں گے جب ان مقاصد کے حصول کے لئے ہم

Page 17

خطبات مسرور جلد ہشتم 2 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 خالص ہو کر، اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے، اس کے آگے جھکیں گے.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.بیشک آج جمعہ کا دن ہے اور یہ دن بہت بابرکت دن شمار ہوتا ہے اور اس لحاظ سے یہ نیا سال جو آج شروع ہو رہا ہے ایک انتہائی بابرکت دن سے شروع ہو رہا ہے.جمعہ کے دن کی اہمیت آنحضرت صلی الم نے بھی اس دن کی اہمیت کے بارے میں بعض ارشادات فرمائے ہیں.لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ باوجود اس کی اہمیت کے جس طرح حقیقی مومن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، غیر مومن فائدہ نہیں اٹھا سکتا.دن تو وہی ہے.ایک مومن اس دن کو اپنی نجات کا باعث بنانے کی کوشش کرتا ہے.لیکن غیر مومن صرف یہ جانتا ہے کہ یہ ہفتہ کے سات دنوں میں سے ایک دن ہے.ایک مومن آنحضرت صلی علیم کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے جس کا حدیث میں بھی ذکر آتا ہے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے جمعہ کا ذکر کیا اور فرمایا.اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو ایسا وقت میسر آئے اور وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو دعا مانگے قبول کی جاتی ہے.آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ یہ وقت بہت ہی مختصر ہوتا ہے.(موطا امام مالک.کتاب الجمعۃ باب ما جاء في الساعة التي في يوم الجمعة حدیث : 242).پس مومن تو اس دن میں اپنی دعا کی قبولیت کے نظارے دیکھتا ہے اور غیر مومن اپنے لہو و لعب میں لگا ہوتا ہے.سال کا پہلا دن جمعہ کی وجہ سے مومن کے لئے تو اور بھی اہم ہو گیا ہے کہ وہ اس دن کو اپنی دعاؤں سے سجاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ، رات کو بھی اپنی عبادت سے زندہ کرتے ہوئے نئے سال کا استقبال کر رہے ہیں جو انتہائی برکت والے دن سے ہیں جو انتہائی برکت والے دن سے شروع ہو رہا ہے.جبکہ غیر مومن جس کو نہ جمعہ کی اہمیت کا علم ہے، نہ نئے سال کے استقبال کے طریقے کا پتہ ہے، اس کو صرف یہ غرض ہے کہ نئے سال کی پہلی رات اور گزرے سال کی آخری رات کو یہ وقت لہو و لعب، شور شرابا اور شراب کے جام پہ جام چڑھانے میں گزارنا ہے.الله پس خوش قسمت ہیں ہم جو آنحضرت صلی علم کی امت میں سے ہیں.ہم اس رسول صلی ا کرم کے ماننے والے ہیں جو سراپا نور تھے اور ہیں.جنہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے راستے

Page 18

خطبات مسرور جلد ہشتم 3 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 دکھائے.انسان کو، ایک مومن کو اپنی پیدائش کے مقصد کے حصول کی طرف راہنمائی فرمائی اور راستے دکھائے.آپ اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے تھے جن کی پیروی کرنے والوں سے اور آپ کی سنت پر حقیقی رنگ میں چلنے والوں سے اللہ تعالیٰ نے محبت کا اعلان فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ”جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الہی بنا دیتا ہے.اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے.اسی لئے اللہ جلشانہ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی الی یوم کا نام نور رکھا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے: قد جَاءَكُم مِّنَ اللهِ نُورُ (المائدہ: 16) یعنی تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے“.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ نمبر (372) پس یہ خدا تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے.ہمیں چاہئے کہ ہم اس نور کی روشنی سے حصہ لینے والے بنیں.اور اس کا ایک بہترین طریق آپ صلی اللہ کریم نے جمعہ کے دن کی مناسبت سے ہمیں سکھایا ہے تاکہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پائیں.مجھ پر بہت درود بھیجا کرو الله سة ایک حدیث میں حضرت اوس بن اوس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے.اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو.کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے.(ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب تفريع ابواب المجمعة حديث (1047) خدا تعالیٰ آپ کو بتاتا ہے کہ دیکھ اے میرے پیارے محمد صلی علیکم تیری امت کے لوگ شکر گزاری کے جذبات سے پر اور اپنے عمال کو قرآنی تعلیم اور تیرے اُسوہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس بابرکت دن میں تجھ پر درود بھیج رہے ہیں جس کی ایک خاص اہمیت ہے.اس لئے میں ان لوگوں سے پیار کا سلوک کرتے ہوئے ان کی دعائیں قبول کرتا ہوں اور پھر میں نے بھی ان کو حکم دیا تھا کہ تجھ پر درود بھیجیں کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی تجھ پر درود بھیجتے ہیں.جب ان مومنین نے میرے حکم کی تعمیل کی ہے اور میری رضا کے حصول کے لئے میرے پیارے پر درود بھیجا ہے تو میں بھی ایسے عبادت گزاروں کی دعائیں سنتا ہوں اور سنوں گا..پس آج کے درُود اور آج کی گئی دعائیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کو سمیٹنے والی ہوں گی.آنحضرت صلی ا کرم کی خدمت میں پیش کیا جانے والا درود بشر طیکہ خالص ہو کر آنحضرت صلی ال نیم کے عشق میں فنا ہو کر بھیجا جائے آنحضرت صلی لی لی نام کی شفاعت سے سج کر پھر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوتا ہے.

Page 19

خطبات مسرور جلد ہشتم 4 خطبہ جمعہ فرموده مور محد یکم جنوری 2010 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ فرمایا اور زمانہ کے امام ہونے کا درجہ پایا تو وہ آنحضرت صلی نام سے سچے عشق اور درود کی وجہ سے ہی تھا.جس سے پھر نور کے ستون آسمان سے زمین کی طرف آنے لگے اور یہی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بھی جو آپ کی بیعت میں شامل ہیں فرمائی ہے کہ اگر تمہیں میری بیعت میں آنے کا دعویٰ ہے، اگر تمہیں آنحضرت صلی علیم سے محبت کا دعویٰ ہے تو خالص ہو کر آنحضرت علی الم پر درود بھیجو اور اپنی استعدادوں کے مطابق پھر تم بھی اس نور سے حصہ لو گے جو خدا تعالیٰ کا نور ہے اور پھر یہی چیز تمہاری دنیا بھی سنوارے گی اور تمہاری آخرت بھی سنوارے گی.پھر احادیث میں آج کے دن کی ایک اور اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے.یہ مسلم کی حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ سلم نے فرمایا کہ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيْهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا (مسلم كتاب الجمعة باب فضل يوم الجمعۃ حدیث 1986 ( یعنی دنوں میں سے بہترین دن جس میں سورج چڑھتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے.اس دن میں آدم پیدا کئے گئے.اس دن میں جنت میں لے جائے گئے اور اسی دن جنت سے نکالے گئے.پس اس دن میں برکت سمیٹنے کے بھی مواقع ہیں اور سزا یا محرومی بھی ہو سکتی ہے.پس آدم کی اولاد کی صوابدید پر ہے کہ اس نے کسی گروہ میں شامل ہونا ہے.اس دن کے تقدس کا خیال ، دعائیں، درود اور اعمال صالحہ جنت میں لے جانے کا باعث بھی بنیں گے.اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ لینے والے بھی بنائیں گے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر باوجود اس دن کی برکت کے جس طرح آدم کو جنت سے نکلنا پڑا یہی اصول ابن آدم کے لئے بھی ہے.اگر نیکیوں کی طرف توجہ رہے گی.دعاؤں اور درود کی طرف توجہ رہے گی تو جنت کی طرف قدم بڑھتے رہیں گے.یہ دنیا بھی جنت بن جائے گی اور آخرت میں بھی جنت کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دیتا ہے.اگر انسان برائیوں میں مبتلا ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ جنت سے نکلنے کی خبر دیتا ہے.یہ دنیا بھی پھر جہنم بن جاتی ہے.پس اس دن کی اہمیت نیک نیتی سے کئے گئے اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط ہے اور ہزاروں ہزار درود ہوں اس محسن پر جس نے آدم کی اولاد کو دنیوی اور اخروی جنتوں کے راستے دکھائے جیسا کہ میں نے احادیث بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور کی گئی دعائیں اور درود ان جنتوں کا وارث بناتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی رکھی ہیں اور آخرت میں بھی رکھی ہیں.پس جمعہ کی اہمیت اور جنت میں داخل ہونا یا نکلنا اعمال کے ساتھ مشروط ہے.دنیوی اور اخروی جنتوں کا قرآن کریم میں ایک جگہ یوں ذکر آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ

Page 20

5 مخطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جنتن (الرحمن : (47) یعنی جو شخص اپنے رب کی شان اور مقام سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں مقرر ہیں.دنیوی بھی اور اخروی بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں بیان فرماتے ہیں کہ : ”جو شخص خدا تعالیٰ کے مقام اور عزت کا پاس کر کے اور اس بات سے ڈر کر کہ ایک دن خدا کے حضور میں پوچھا جائے گا گناہ کو چھوڑتا ہے اُس کو دو بہشت عطا ہوں گے.(1) اول اسی دنیا میں بہشتی زندگی اس کو عطا کی جاوے گی اور ایک پاک تبدیلی اس میں پیدا ہو جائے گی اور خدا اس کا متولی اور متکفل ہو گا.(2) دوسرے مرنے کے بعد جاودانی بہشت اس کو عطا کیا جائے گا.یہ اس لئے کہ وہ خدا سے ڈرا اور اس کو دنیا پر اور نفسانی جذبات پر مقدم کرلیا“.لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 158 ) پس جمعہ کو جب اللہ تعالیٰ اپنے قرب کی تلاش کے موقعے زیادہ مہیا فرماتا ہے تو جو اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے والا ہے وہی حقیقی مومن ہے.نیا سال اور دعائیں پس آج اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ نئے سال کے پہلے ہی دن کو اس طرح دعاؤں سے سجاؤ کہ سارا سال قبولیت دعا کے نظارے نظر آتے چلے جائیں.اپنے لئے دعائیں ہیں.اپنے اہل و عیال کے لئے دعائیں ہیں.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے قربانیاں کرنے والوں کے لئے دعائیں ہیں.جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں ہیں.جن جگہوں پر ہیں اس ماحول اور معاشرے کے لئے دعائیں ہیں.ملک کے لئے دعائیں ہیں.ایک مومن تبھی حقیقی مومن بھی کہلا سکتا ہے جب جس ملک میں رہ رہا ہے، جس کا شہری ہے، اس کے لئے بھی دعا کر رہا ہو.پس یہ سب فرائض ہیں جو ایک احمدی کے سپرد کئے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے.احمدیوں کی دعاؤں سے ہی دنیا کی بقا ہے.انسانیت کی بقا ہے.جنت کے راستوں کی طرف راہنمائی ہے.اگر خود ہی ان راستوں کی طرف نہیں چل رہے تو دوسروں کو کیا راستہ دکھائیں گے.ہم احمدی تو اس زمانہ کے آدم کے ماننے والے بھی ہیں جو جنت سے نکلنے کے لئے نہیں آیا.جو نہ صرف دونوں جنتوں کا وارث بنا بلکہ جنت کی طرف لے جانے کے لئے اُس تعلیم کے ساتھ آیا جو آپ کے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی ال ل لم لائے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ ”خَلَقَ آدَمَ فَاكْرَمَهُ - جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ بُشْرَى لَكَ يَا أَحْمَدِی.اس نے اس آدم کو پیدا کیا اور پھر اُس کو

Page 21

خطبات مسرور جلد هشتم 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 عزت دی یہ رسولِ خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اس میں موجود ہے.تجھے بشارت ہو اے میرے احمد.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 82،81) جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبیاء کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ”اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیهم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں.خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے“.: (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 116) آنحضرت علی الم سے عشق کی وجہ سے ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے اور آنحضرت صلی علیم سے تو عشق صادق کی وجہ سے بروزی نبی کا اعزاز پاتے ہوئے آپ کو آنحضرت صلی علی نیم کے نور سے جو حصہ ملا ہے اس کی تو کوئی انتہاء نہیں ہے.یہ آدم جو اس زمانہ میں آیا یہ نور محمدی سے پر ہے.اس لئے روشنی کے نئے سے نئے راستے ہمیں دکھاتا ہے.دعاؤں کے طریقے اور قرینے ہمیں سکھائے.دنیا و آخرت کی حسنات کے حصول کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی تاکہ ہم ہمیشہ دنیوی اور اخروی جنتوں کے وارث بنے رہیں.پس اس نور سے فیض حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی کے سال کے پہلے دن کو ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دن کو بابرکت بنانے کے لئے دعاؤں اور اعمال صالحہ کی ضرورت ہے جس کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.میں امید کرتا ہوں کہ آج اس سال کے اس بابرکت دن کو احمدیوں نے اس جذبے کے تحت ہی گزارا ہو گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد میں باجماعت تہجد کی نماز بھی ادا کی گئی ہے.اب یہ جذبہ اس پہلے دن میں ختم نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہر آنے والا دن اس کے اثرات کو ظاہر کرتے چلے جانے والا بنتا چلا جائے.ہمارا ہر قدم تقویٰ کی طرف بڑھنے والا ہو.رسول پر ایمان مضبوط تر کرنے والا ہو.پہلے دن کی اس سلسلہ میں کی گئی کوشش 365 دنوں پر حاوی ہونے والی ہو.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.وہ تمہیں اپنی رحمت میں سے دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں ایک نور عطا کرے گاجس کے ساتھ تم چلو گے.اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.

Page 22

خطبات مسرور جلد هشتم حقوق العباد 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 یہ ہے ایک مومن کی نشانی، اس کا مقام کہ وہ اس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ آدم اور ابن آدم کی غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ ایک شخص کی لعنتی موت ہو سکتی ہے.بلکہ ایک حقیقی مومن کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے، مسلسل قربانی ہے.اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے اور اس پر قائم رہنا ہے.حقوق العباد کی طرف توجہ دینا بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح روحانی ترقی کے لئے کوشش، توجہ اور حقوق اللہ کی ادائیگی ضروری ہے.اپنی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کو گناہوں سے بچانے کی کوشش بھی انتہائی ضروری ہے.دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ نئے سال کا استقبال نشے میں دھت ہونے اور بیہودگیاں کرنے سے نہیں کیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور پاک دل لے کر حاضر ہونے سے کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے روحانی معیاروں کو بڑھانے کے لئے دعاؤں سے کیا جاتا ہے.مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے لئے قربانیاں کرنے سے کیا جاتا ہے.توبہ و استغفار سے کیا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی جہنم سے بھی بچائے اور آخرت کی جہنم سے بھی بچائے.ہر ایک خود اپنے عمل کا جوابدہ ہے.کوئی کسی کا کفارہ نہیں بن سکتا.پس یہ نیک اعمال ہیں جو دنیا کی حسنات سے حصہ دلانے کا بھی باعث بنتے ہیں اور آخرت کی حسنات سے حصہ دلانے کا بھی باعث بنتے ہیں.پس یہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی کامل پیروی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والی ہوتی ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے.رسول اللہ صلی کم کی کامل پیروی خدا تعالیٰ کا محبوب بناتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ جو دوہرا حصہ دیتا ہے اور نور عطا فرماتا ہے یہ دوہرا حصہ اس دنیا کی بھی حسنات ہیں اور آخرت کی بھی حسنات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : ”اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی

Page 23

خطبات مسرور جلد هشتم 8 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے“.آپ نے فرمایا کہ تقویٰ سے جاہلیت ہر گز جمع نہیں ہو سکتی ( یعنی تقویٰ اور جاہلیت کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے) ”ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقوی کم و بیش ہو سکتا ہے“.(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 177-178) یہ نکتہ ہمیشہ یادرکھنا چاہیے تقویٰ سمجھ ہے.اس کا علم ہے.اس کا فہم و ادراک ہے.جتنا اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق سے تعلق ہے وہ اس کے مطابق، اس مرتبے کے مطابق اوپر نیچے ہو سکتا ہے.لیکن جہالت اور تقویٰ جمع نہیں ہوسکتے.تقویٰ کے مختلف معیار ہیں.اس لئے انسان کو کہا گیا ہے کہ تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ.پس چاہے کوئی کم پڑھا لکھا احمدی ہے.یا پڑھا لکھا ہے.دینی علم رکھنے والا ہے یا کم دینی علم رکھنے والا ہے اگر تقویٰ پر قائم ہے تو جاہلانہ باتوں سے وہ ہمیشہ بچتا رہے گا.پس یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جہالت اور تقویٰ کبھی جمع نہیں ہو سکتے.تقویٰ کے معیار بیشک اوپر نیچے ہوسکتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا.حقیقی مومن وہی ہے جو تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اعمال بجالانے کی کوشش کرے.اس دعا کے ساتھ اپنے ہر دن اور ہر سال میں داخل ہو کہ اللہ تعالیٰ اُسے ہمیشہ تقویٰ پہ قائم رکھے اور دین و دنیا کی حسنات سے نوازتا رہے.انسان کے اپنے اعمال ہی ہیں جو اسے حسنات سے نوازتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب بناتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بناتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ واضح فرمایا ہے بلکہ کئی جگہ فرمایا ہے کہ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (سورة الفاطر : 19) کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی.پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنی رحمت میں سے ان لوگوں کو دوہرا حصہ دے گا جو تقویٰ پر قائم ہوتے ہیں اور رسول پر ایمان لاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رسول اللہ صلی ال دلم پر درود ود بھیجتے ہیں اور آپ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دوہرا حصہ ملتا ہے وہ وہ حسنات ہیں جو دنیوی جنتوں کا بھی وارث بناتی ہیں اور اُخروی جنتوں کا وارث بھی بناتی ہیں.پھر اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں دعا بھی سکھا دی کہ جنتوں کا وارث بننے کے لئے تمہیں دعا بھی کرنی چاہئے.کس کس طرح انسان خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرے.اس کا حق کبھی ادا ہو ہی نہیں سکتا.پس ایک ہی طریق ہے کہ انسان مسلسل خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے آگے جھکا رہے.ان حسنات کے لئے، اللہ تعالیٰ نے رحمت سے دوہرا حصہ لینے کے لئے حقیقی مومن کو جو دعا سکھائی ہے اور نشانی بتائی ہے وہ یہ ہے جس کا سورۃ بقرہ میں ذکر ہے کہ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ

Page 24

خطبات مسرور جلد ہشتم 9 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 النَّارِ (البقرة : 202) کہ انہی میں سے وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.تاکہ پس یہ وہ حقیقی مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دنیا کی حسنہ بھی مانگتے ہیں اور آخرت کی حسنہ.بھی مانگتے ہیں.نئے سال کے شروع ہونے کی دعا میں صرف دنیاوی ترقیات ہی نہیں مانگتے بلکہ روحانی ترقی کے لئے بھی دعا کرتے ہیں.صرف اپنی بہتری کے لئے ہی نہیں سوچتے بلکہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی سوچتے اور دعا کرتے ہیں.پس تقویٰ پر چلنے والے اور حقیقی مومن جہاں دنیا کی حسنات کی تلاش میں ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ سے آخرت کی حسنہ کے حصول کی بھی دعا کرتے ہیں یہ ہر دو حسنات جو ہیں انہیں آگ کے عذاب سے بچائیں.یہ ایک ایسی جامع دعا ہے جو عارضی حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے اور مستقل حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے.روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللوم یہ دعا اکثر مانگا کرتے تھے.( صحیح مسلم کتاب الذكر والدعاء و التوبة باب فضل الدعاء باللهم اتنا فى الدنيا حسنة..حديث 6735-6736) یہ دعا ایسی ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرتے ہوئے جہاں ایک مومن کو اس دنیا میں آگ کے عذاب سے بچاتی ہے وہاں اس عمل کی وجہ سے جو ایک مومن ان حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے اگلے جہان میں بھی اُسے آگ کے عذاب محفوظ رکھتی ہے.اس دنیا میں بھی انسان عَذَاب النّار سے گزرتا ہے.کئی قسم کے دکھ ہیں.حسرتیں ہیں.مختلف قسم کی مصیبتیں ہیں.جنگیں ہیں.یہ سب عَذَابَ النَّار ہی ہیں.آگ کے عذاب ہی ہیں.عذاب النار آج کل دیکھیں پاکستان میں، افغانستان میں اور بعض دوسرے ممالک میں کیا کچھ ہورہا ہے.اب گزشتہ دنوں کراچی میں ہی جو آگ لگی ہے وہ ان متاثرین کے لئے بلکہ پورے ملک کے لئے عَذَابَ النَّار ہی ہے اس آگ نے پوری ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا.صرف ایک شہر کی معیشت تباہ نہیں ہوئی.کھربوں کا نقصان ہوا ہے.پس آگ کے جو عذاب ہیں وہ اس دنیا میں بھی انسان کے ساتھ ہیں اور اس کے لئے انسان کو پناہ مانگنی چاہئے اور اگر انسان تقویٰ سے عاری ہے، نیک اعمال نہیں.اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی نہیں.تو ایسے لوگوں کے لئے پھر اللہ تعالیٰ کے بڑے انذار ہیں.پس جب انسان دعا کرتا ہے تو حسنات مانگنے کے ساتھ فوراً تقویٰ کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے.اپنے آپ کو ہر ایسے کام میں ملوث ہونے سے بچانے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے جس کے نتائج بُرے ہوں اور اس طرف بھی توجہ ہونی چاہئے کہ میں اپنے کسی مخفی گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حسنہ سے محروم نہ رہ جاؤں.

Page 25

خطبات مسرور جلد ہشتم 10 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے.اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونو سنور جاتے ہیں.اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونو میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے.دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة:202).اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی آرام اور آسائش کے سامان عطا فرما.اور آنے والے جہاں میں آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.دیکھو در اصل ربنا کے لفظ میں تو بہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ ربنا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربوں کو جو اُس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس رب کی طرف آیا ہے.اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا.رب کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو.اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں.اپنے حیلوں اور دغابازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے رب ہوتے ہیں.اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اُس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اُس کا رب ہے.غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.جب تک اُن سب کو ترک کر کے اُن سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور دینا کی پُر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانہ پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا.پس جب ایسی دلسوزی اور جان گدازی سے اُس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اور اُسے مخاطب کرتا ہے کہ ربنا یعنی اصلی اور حقیقی رب تو تو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے.اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اور تیرے آستانہ پر آتا ہوں.غرض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے جب تک انسان کے دل سے دوسرے ربّ اور اُن کی قدرومنزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا“.پھر فرمایا ”بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا رب بنایا ہوا ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں گزارہ مشکل ہے.بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو اپنا رب بنائے ہوئے ہیں.ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں.سو ان کے ارباب وہ چیزیں ہیں.دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقع بھی

Page 26

خطبات مسرور جلد ہشتم 11 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جنوری 2010 اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اُس کا رزق آسکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے.غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے اُن کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت ؟“ ( اپنے حیلوں کو اپنے بہانوں کو اپنے ذرائع کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ان کی پھر توجہ دعا کی طرف بھی نہیں ہوتی).دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس در کے نہ ہو.اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے.رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً الى ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں.اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ بیچ ہیں“.شخص فرمایا کہ ”آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی بلکہ دنیا میں بھی جو ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں.تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے.طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن، فقرو فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے ، ہزاروں قسم کے دکھ ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں اُلجھن.غرض یہ سب آگ ہیں.تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا.جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ “.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 145-144 مطبوعہ ربوہ) اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا یہ ایک بڑا جامع قسم کا اقتباس ہے.اور بھی بہت سارے ہیں لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس کس طرح انسان کو مشکلات آتی ہیں اور اس دعا کا کیا مقصد ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے، ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کو دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دنیا و آخرت کے حسنہ سے نوازتا رہے.دنیوی اور اخروی ہر قسم کے آگ کے عذاب سے ہمیں بچائے.نیکیوں پر قدم مارنے کی توفیق دے اور یہ سال بھی اور آئندہ آنے والا ہر سال بھی جماعت کے لئے، افراد جماعت کے لئے ہر قسم کے دکھوں اور تکلیفوں سے محفوظ رکھتے ہوئے ہر قسم کی حسنہ لے کر آئے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حقیقی رنگ میں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس نور سے حصہ پاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ نام لے کر آئے تھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 4 مورخہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2010 صفحہ 5تا8)

Page 27

خطبات مسرور جلد ہشتم 12 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جنوری 2010ء بمطابق 8 صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيْضُعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ، وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَنْقُطُ وَإِلَيْهِ دوروور ترجعون ( البقرة : 246) دنیا میں کسی بھی نظام کو چلانے کے لئے سرمایہ یا روپیہ پیسہ انتہائی ضروری اور بڑا اہم ہے.چاہے وہ دنیاوی نظام ہے یا دینی اور مذہبی نظام ہے تاکہ ملکی، معاشرتی، جماعتی ضرورتوں کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہوتی رہے.چندوں کی ابتداء اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ” چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے.ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا.پیغمبر خداصلی ایم نے فرمایا کہ حسب مقدور کچھ دینا چاہئے اور آپ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے“.فرمایا ”ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں.چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے“.زکوة لازمی چندہ ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه 361 مطبوعہ ربوہ) پس جماعت میں جو چندوں کا نظام رائج ہے یہ اسی اصول کے تحت ہے کہ جماعتی ضروریات

Page 28

13 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پوری کی جائیں اور اس کے لئے جو افراد جماعت ہیں وہ چند ہ ادا کرتے ہیں.جماعت کے چندہ کے نظام میں بعض لازمی چندہ جات ہیں جیسے زکوۃ ہے.وصیت کا چندہ ہے.چندہ عام ہے.جلسہ سالانہ ہے اور اس کے علاوہ بھی بعض دوسرے چندے ہیں جو لازمی نہیں ہیں.زکوۃ کا جو نظام ہے یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے.آنحضرت صلی الم اس کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا اور اس کی وصولی کے لئے آنحضرت صل الم کے وصال کے بعد بھی جب ایک گروہ نے مسلمان کہلانے کے باوجود اس کی ادائیگی سے انکار کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سختی کر کے بھی زکواۃ وصول کی.( صحیح بخاری کتاب استتابة المرتدين....باب قتل من ابى قبول الفرائض...حدیث نمبر 6925) پس جن پر زکوۃ واجب ہے ان کے لئے اس کی ادائیگی بھی ضروری ہے.اور اسی طرح زکوۃ کی فرضیت کے باوجود بھی اور اس کی وصولی کے باوجود بھی بعض اوقات ایسی ضروریات پڑتی تھیں جب آنحضرت صلی ال لا من بعض مہمات کے لئے زائد چندہ کی تحریک فرمایا کرتے تھے.نظام وصیت ( السيرة الحلبية جلد 3 "غزوة تبوک “ صفحہ 183-184 دار الكتب العلمية بيروت 2002ء) پھر جماعت میں جیسا کہ میں نے کہا وصیت کا ایک نظام ہے.یہ وصیت کا چندہ ایک ایسا چندہ ہے جو نظام وصیت کے جاری ہونے کے ساتھ جاری ہوا.جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ 1905ء میں اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو جاری فرمایا اور اس نظام میں شامل ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ 1/10 سے لے کر 1/3 تک اپنی آمد اور جائیداد کی وصیت کر سکتا ہے اور وصیت کرنے کے بعد یہ عہد کرتا ہے کہ میں تا زندگی اپنی آمد کا 1/10 ے 1/3 تک ( جو بھی کوئی اپنے حالات کے مطابق خوشی سے شرح مقرر کرتا ہے) ادا کروں گا.اسی طرح اگر زندگی میں نہ ادا کیا گیا ہو تو مرنے کے بعد بھی جائیداد میں سے اسی شرح کے اندر رہتے ہوئے جو پیش کی گئی ہو اپنے عہد کے مطابق اس کی ادائیگی کے لئے اپنے ورثاء کو کہہ کے جاتا ہے.اور ہر موصی سے یہی توقع رکھی جاتی ہے اور رکھی جانی چاہئے کہ وہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی حقیقی آمد میں سے چندہ ادا کرے اور اس بارہ میں کسی قسم کا عذر نہ کرے اور عموماً موصی نہیں کرتے.موصی.قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے پس ہر موصی کو خود بھی ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کہیں تقویٰ سے ہٹ کر میں

Page 29

خطبات مسرور جلد ہشتم 14 خطبه جمعه فرموده مور محد 08 جنوری 2010 اپنی کسی آمد کو چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو ظاہر نہ کر کے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا؟ پس موصیان اور موصیات جماعت میں چندہ دینے والوں کا وہ گروہ ہے جس کے متعلق یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے حصول کی کوشش کرنے والے ہیں اور ہر لحاظ سے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہیں جو اپنی آمد اور جائیداد کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی خوشی سے پیش کرتے ہیں.نیز اپنے اعمال پر نظر رکھنے والے ہیں اور اس کے لئے کوشش کرنے والے ہیں.اپنی عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں.اپنے اخلاق بہترین رنگ میں سنوارنے کی کوشش کرنے والے ہیں.حقیقی مومن بننے کی طرف ہر طرح سے کوشش کرتے ہوئے قدم بڑھانے والے ہیں.اللہ کرے کہ ہر موصی اسی جذبہ سے وصیت کرنے والا اور اس کو قائم رکھنے والا ہو.زکوۃ کے بارہ میں تو کہہ چکا ہوں.پھر ایک چندہ عام ہے.یہ بھی جماعت میں رائج ہے جو شرح کے لحاظ سے 1/16 ہے اور خلافت ثانیہ میں چندہ عام کا یہ نظام باقاعدہ اس شرح سے جاری ہوا.یہ چندہ بھی در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی جاری ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں بڑی سختی سے فرمایا ہے کہ اس کو اپنے اوپر فرض کرو اور ماہوار ادا کرو چاہے ایک پیسہ کرو.(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 358 ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) اسے جو اپنے اوپر مقرر کیا ہے تو اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ پھر 1/16 کیوں؟.اس بارہ میں یہ واضح ہو کہ حالات کے مطابق اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا.پہلے دھیلا تھا.پھر پیسہ ہوا.4 پیسے ہوئے.6 پیسے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ مالی قربانی کرنے کے لئے باقاعدگی سے دینے کے لئے اگر چار روٹیاں کھاتے ہو تو دین کی خاطر ایک روٹی قربان کرو.آپ نے یہ ایک روٹی کی قربانی جو فرمائی ہے تو یہ تو پھر % 25 قربانی ہو گی.1/16 کی شرح تو نہ رہی.یہ کم از کم مطالبہ ہے.پس یہ کہنا کہ ایک پیسہ یا پھر مرضی پر چھوڑا گیا ہے کہ کتنا چندہ ادا ہے.مطالبہ کا انحصار جماعتی ضروریات کے مطابق ہے اور اخراجات کے مطابق ہے.(ماخوذ ملفوظات جلد سوم صفحه 361 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) غلط کرنا ہے ، یہ جس طرح نئے پروگرام بنتے ہیں ان کے مطابق بعض تحریکات بھی ہوتی ہیں.پس ان سب چندوں کے باوجود جب بھی اخراجات میں اضافہ ہوا ، جماعتی پروگراموں اور ان کی منصوبہ بندی میں وسعت پیدا ہوئی.اسلام کے حقیقی پیغام کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو بھیجا ہے اس کے

Page 30

خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم 15 لئے جب بھی اخراجات کی ضرورت پیدا ہوئی اور ان چندوں سے جو لازمی چندہ جات ہیں اخراجات پورے نہ ہوئے تو خلفاء تحریکات کرتے رہے.تحریک جدید ایک بہت بڑی تحریک خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کی کی جبکہ دشمن نے قادیان کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بڑ ماری تھی.آپ نے اُس وقت ایک تبلیغی پروگرام پیش کیا کہ اس طرح جماعت کو اپنی تبلیغ کو وسعت دینی چاہئے کہ ہم ملک سے باہر بھی نکلیں اور باہر نکل کر احمدیت یعنی اسلام کے حقیقی پیغام کو پھیلائیں.وقف جدید اور اس کی وسعت پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ہی ایک اور تحریک پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد 1957ء میں وقف جدید کے نام سے جاری فرمائی جس میں کچھ نہ کچھ دینی علم رکھنے والے واقفین کا آپ نے مطالبہ کیا کہ اپنے آپ کو پیش کریں اور براہ راست کسی دفتر کے تحت نہیں ،بلکہ میرے ماتحت ہو کر کام کریں.(ماخوذ از خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 9 جولائی 1957ء بحوالہ خطبات وقف جدید صفحہ 3،4 ایڈیشن اول 2008 ناشر نظامت ارشاد وقف جدید مطبوعه ربوہ) بھی معلمين ان لوگوں کا کام دیہاتی علاقوں میں اور بعض خاص علاقوں میں تبلیغ کرنا تھا.پس جس طرح تحریک جدید کے ذریعہ دنیا میں مشن قائم ہوئے وقف جدید کے ذریعہ اندرون ملک بھی اور خاص طور پر سندھ کے علاقے میں کام لیا گیا اُس وقت پاکستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں ان کے ذریعہ سے جن کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے براہ راست اپنے ماتحت رکھا تھا اور عارضی تربیت دی گئی تھی، تبلیغ اور تربیت کا کام کیا گیا.وہاں ہندوؤں میں غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے پوری کوشش کی گئی اور وہاں پہ کافی بڑا کام ہوا.بہر حال وقف جدید کی جو تحریک تھی یہ بھی آہستہ آہستہ پھیلتی گئی اور پہلے تو چند ایک عارضی معلمین تھے ، پھر ان میں اضافہ ہوتا رہا.چند مہینے کا معمولی کورس کروا کر ان کو میدان عمل میں بھیج دیا جاتا تھا.پھر ان معلمین کی تربیت کا، تعلیم کا بھی باقاعدہ منظم نظام قائم کیا گیا اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں مدرسۃ الظفر کے نام سے با قاعدہ ایک مدرسہ ہے جہاں سیمین تیار ہوتے ہیں تقریباً تین سال کا کورس ان کو کروایا جاتا ہے اور واقفین نو بچوں کے بعد تو اس مدرسہ میں مزید وسعت پیدا ہوئی ہے اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے.تو یہ تحریک جیسا کہ میں نے کہا عموماً پاکستان کے لئے تھی اور اس تحریک میں چندہ پر زور بھی صرف معلمہ.

Page 31

خطبات مسرور جلد هشتم 16 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 پاکستان میں ہی دیا جاتا تھا.باہر کے ممالک اپنی خوشی سے اگر دے دیتے تھے تو ٹھیک تھا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ضروریات بڑھنے پر خلفاء تحریکات کرتے رہے.چنانچہ تبلیغ کے جو اخراجات تھے ان کو دیکھتے ہوئے اور خاص طور پر افریقہ اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں کام کو وسعت دینے کے لئے بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے پاکستان سے باہر بھی اس تحریک کو عام کرنے کا اعلان فرمایا اور جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لینے لگیں.(ماخوذ از خطبه جمعه فرموده 27 دسمبر 1985ء بحوالہ خطبات وقف جدید صفحہ 297 ایڈیشن اول 2008 ناشر نظامت ارشاد وقف جدید، مطبوعہ ربوہ) مالی قربانی کی لگن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر سال وقف جدید کے نئے سال کا جنوری میں اعلان ہوتا ہے اور اس موقع پر وقف جدید کی مالی قربانی کا ذکر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ احسان ہے کہ احباب میں مالی قربانی میں بڑھنے کی ایک خاص لگن پیدا کر دی گئی ہے، ایک جوت لگا دی گئی ہے.اس کام کے لئے جوت.جوت جگاتا چلا جاتا ہے.احباب جماعت مالی قربانی کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے اور جس کا قرآن شریف میں اور بھی کئی جگہ ذکر آیا ہے.ایک حقیقی مومن پر مالی قربانی کی حقیقت کھول کر واضح کی گئی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے تاکہ وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھائے اور اللہ ( رزق) قبض بھی کر لیتا ہے ( اسے روک بھی لیتا ہے) اور کھول بھی دیتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف لغات سے لفظ يُقْرِضُ پر بحث کی ہے اور مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا کے معنی اس طرح کئے ہیں کہ ”کون ہے جو اپنے مال کے ایک حصے کا ٹکڑا اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے اور دوسرے یہ کہ اور کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرے ایسی صورت میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی جزا کی امید رکھے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 550 مطبوعہ ربوہ) پس دنیاوی حکومتوں کے کام چلانے کے لئے جو چندہ یا ٹیکس لیا جاتا ہے وہ تو صرف مال تک محدود ہے اور دنیاوی منصوبہ بندی کر کے صرف قوم اور ملک کی بہتری کے لئے، عوام کی عمومی اخلاقی حالت کے درست کرنے کے لئے انتظام کئے جاتے ہیں.ان کی اللہ تعالی کی طرف توجہ پیدا کرنے کے لئے اس میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی.لیکن مذہبی اور دینی جماعتوں کی ضروریات کے لئے جو اللہ

Page 32

خطبات مسرور جلد ہشتم 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 تعالیٰ نے کہا ہے کہ مالی قربانی کرو ، اللہ تعالیٰ کو قرض دو تو وہ صرف مال تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے اعمال بھی شامل ہیں جو ایک مومن کی روحانیت کی ترقی کا باعث بھی بنیں.یعنی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے مال بھی پیش کرتا ہے اور اپنے اعمال بھی پیش کرتا ہے اور جب یہ مال اور اعمال خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو کئی گنا بڑھا کر لوٹاتا ہے.یہ اس کا وعدہ ہے.اللہ تعالیٰ کو تو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے.مالی قربانی کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو وہ ایک مومن کو نیک کام پر خرچ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتا ہے.اعمال ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر بجا لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے قرضہ حسنہ دو میں ضرورت مند ہوں.فرمایا مجھے دو ، میری رضا کی خاطر خرچ کرو تا کہ میں اس کو کئی گنا بڑھا کر تمہیں واپس کر دوں.تم جماعتی ضروریات کے لئے قربانی کرو گے تو میں تمہیں اس کا اجر دوں گا.چندوں کی ادائیگی میں انقباض نہیں ہونا چاہیے پس جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنا ہے تو خرچ کرنے والے کے دل میں چندوں کی ادائیگی کے وقت کسی قسم کا انقباض نہیں ہونا چاہئے.اس یقین پہ قائم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجھے خوشی سے قربانی کرنی چاہئے.اور پھر یہ کہ کبھی دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ میں نے اتنا چندہ دیا ہے اس وجہ سے جماعتی کارندوں کو میرا شکر گزار ہونا چاہئے.یا نظام کو میرا شکر گزار ہونا چاہئے.بے شک جماعتی کارکن جو ہیں اس کام کے لئے وہ چندہ دینے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں.رسید پر بھی جزاکم اللہ لکھا ہوتا ہے لیکن دینے والے کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے کوئی احسان نہیں کیا.اُس نے تو خدا تعالیٰ سے اپنا مال بڑھانے کا سودا کیا ہے.ایسا سودا کیا جو نہ صرف اس کا مال بڑھانے والا ہے بلکہ اس کی نیکیوں میں درج ہو کر مرنے کے بعد بھی اس کے کام آنے والا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلى الم سورة الصكم التكاثر پڑھ رہے تھے.آپ نے اس کی تلاوت کے بعد فرمایا: ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال! میرا مال! اے ابن آدم کیا کوئی تیرا مال ہے بھی؟ سوائے اس مال کے جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا.یا جو تو نے پہنا اور پرانا اور بوسیدہ کر دیا.یا جو تو نے صدقہ کیا اور اسے آگے بھیج دیا.(مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن المومن وجنة الكافر حدیث 7314) پس مال کی تو یہ حقیقت ہے.جو کھایا وہ بھی ختم ہو گیا.لوگ کپڑوں سوٹوں، پوشاکوں،

Page 33

خطبات مسرور جلد ہشتم 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 جوڑوں پر بڑا خرچ کرتے ہیں.وہ تو ایک دن پرانا ہو کر ختم ہو جائے گا.اگر کچھ عرصہ پہن کر کسی کو دے بھی دیا ( دل سے اتر گیا) تو اپنے پاس بہر حال نہ رہا.اور اس کے بنانے میں جو مال خرچ ہوا وہ بھی دوسرے کے پاس چلا گیا.پھر جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کیا ہے و ہی آگے بھیجا ہوا مال ہے جو پھر اگلے جہان میں کام آئے گا اور اس انسان کی جس نے خرچ کیا ہے اس کی نیکیوں میں شمار ہو گا.ایک دفعہ آنحضرت علی الم نے بکری ذبح کروائی.گھر آئے تو پوچھا کہ کیا کچھ اس میں سے بچا ہے؟ تو جواب ملا کہ ایک دستی بچ گئی ہے باقی سب اِدھر اُدھر تقسیم کر دیا ہے.فرمایا کہ دستی کے سوا سب کچھ بچ گیا ہے.(سنن ترمذی کتاب صفۃ القیامة و الرقائق باب 98/33 حدیث 2470) جو اللہ کی راہ میں دے دیا وہی حقیقت میں کام آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ قبول ہوتا ہے.پس جو مال خرچ کرنے والا ہے وہ جو مال بھی خرچ کرے اس کو کبھی یہ خیال دل میں نہیں لانا چاہئے کہ میں نے کوئی احسان کیا ہے.اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی فائدہ پہنچاتا ہے اور اگلے جہان میں بھی، یہ اس کا وعدہ ہے.دنیاوی قرضہ حسنہ لینے والا تو اتنا ہی لوٹاتا ہے جتنا کہ قرض لیا گیا ہو اور اس میں بڑی ٹال مٹول سے کام لیتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ تو کئی گنا بڑھا کر واپس لوٹاتا ہے.پس جب مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے تو یہ سوچ کر دینا چاہئے کہ میں ایک ایسی ہستی کے نام پر دے رہا ہوں جو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے.اگر وہ مانگ رہا ہے تو اپنے لئے نہیں مانگ رہا بلکہ میرے فائدے کے لئے مانگ رہا ہے، دینے والے کے فائدے کے لئے مانگ رہا ہے.اور جب اس کے نام پر اس کی جماعت کی ترقی کے لئے دینا ہے تو بغیر کسی تردد کے دوں اور بہترین دوں.اس میں کسی بھی قسم کی خیانت نہ ہو.بد عہدی نہ ہو.جو میرے پہ فرض ہے جو میں نے وعدہ کیا ہے اس کو ادا کرنے میں اپنی ذاتی ضرورتوں کو ترجیح نہ دوں.اور پھر جیسا کہ اس کے معنی میں ہم نے دیکھا ہے اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے جزا کی امید رکھے.مالی قربانی کر کے ایک مومن فارغ نہیں ہو جاتا بلکہ ان شرائط کے ساتھ مالی قربانی کر کے جن کا میں نے ذکر کیا ہے پھر اپنے اعمال پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے اور اس سوچ کے ساتھ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خدا تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے.نظام جماعت سے مضبوط تعلق بھی میرے فائدہ کے لئے

Page 34

خطبات مسرور جلد ہشتم 19 خطبه جمعه فرمودہ مور محد 08 جنوری 2010 ہے.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے کس قدر پیار کا سلوک ہے کہ بندے کو اپنی بھلائی کے لئے اس کی نیکیوں میں اضافے کے لئے احکام دیتا ہے اور پھر جب بندہ ان احکامات کی بجا آوری کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ تو نے یہ نیک کام میری خاطر کئے ہیں گویا کہ مجھے قرضہ حسنہ دیا ہے.اب اس قرضے کو میں تجھے کئی گنا واپس کر کے لوٹاتا ہوں.یعنی ہر عمل جو انسان کرتا ہے ہر نیکی جو انسان کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی قرضہ حسنہ کہا ہے اور اس لحاظ سے بندہ کو لوٹاتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.ہمارے خدا کی یہ کیا شان ہے کہ اس قدر اپنے بندوں پر مہربانی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:..' شخص ہے جو ”ایک نادان کہتا ہے کہ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا (البقرة : 246) - (كون اللہ کو قرض دے.اس کا مفہوم یہ ہے کہ گویا معاذ اللہ خدا بھوکا ہے.( یہ آپ نادان آدمی کی تشریح فرما رہے ہیں ) فرماتے ہیں کہ احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوکا ہونا کہاں سے نکلتا ہے؟ (اس بات سے یہ کہاں سے نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھوکا ہے اس لئے قرض مانگ رہا ہے ) یہاں قرض کا مفہوم اصل تو یہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے.( یہ مفہوم ہے اس کا کہ ایسی چیز ہے جس کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے.نادان اپنی طرف سے ہی) ان کے ساتھ افلاس اپنی طرف سے لگا لیتا ہے.فرمایا کہ یہاں قرض سے مراد ہے کہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کو اعمال صالحہ دے.اللہ تعالیٰ ان کی جزا اسے کئی گنا کر کے دیتا ہے.یہ خدا کی شان کے لائق ہے جو سلسلہ عبودیت کا ربوبیت کے ساتھ ہے.اس پر غور کرنے سے اس کا یہ مفہوم صاف سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بدوں کسی نیکی، دعا اور التجا اور بدوں تفرقہ کافر و مومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے.( فرمایا کہ اس کا صرف ایک ہی مطلب نظر آرہا ہے کہ اس کی خاطر جو کام کیا جائے اللہ تعالیٰ جزا کے طور پر اس کو کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے.اب یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ بندے کا اور خدا تعالیٰ کا جو تعلق ہے اس پر غور کرو تو صاف یہی سمجھ آتا ہے کہ نیکی دعا اور التجا کے بغیر بھی اور کافر و مومن کے کسی فرق کے بغیر اللہ تعالیٰ ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے.بغیر مانگے لوگوں کو دے رہا ہے.) فرمایا کہ اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض کو فیض پہنچا رہا ہے.پھر وہ کسی کی نیکیوں کو کب ضائع کرے سے سر گا؟ (جب عمومی فیض ہر جگہ جاری ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ نیکی کرنے والے کی نیکی کو ضائع کر دے.) اس کی شان تو یہ ہے کہ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ ( الزلزال:8) جو ذرہ بھی نیکی کرے اس کا بھی اجر دیتا ہے اور جو ذرہ بدی کرے گا.اس کی پاداش بھی ملے گی.یہ ہے قرض کا

Page 35

20 خطبہ جمعہ فرمودہ مور محمد 08 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اصل مفہوم جو اس آیت سے پایا جاتا ہے، چونکہ اصل مفہوم قرض کا اس سے پایا جاتا تھا.اس لئے یہی کہہ دیا مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا (البقرة: 246) اور اس کی تفسیر اس آیت میں موجود مَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ ( الزلزال : 8).“ (ملفوظات جلد اول صفحه 147-148 مطبوعہ ربوہ) پس اللہ تعالیٰ جب چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی بغیر جزا کے نہیں چھوڑ تا تو اس کی خاطر کی گئی قربانیوں کو جو بڑی قربانیاں ہیں ان کو کس طرح بغیر جزا کے چھوڑے گا اور مال کی فراخی بھی اور عمل صالح کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اس لئے ہمیشہ اس کے آگے جھکے رہنا چاہئے.جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ يَقْبِضُ وَ يَبضُطُ وہ روک بھی لیتا ہے اور فراخی بھی دیتا ہے.تو پھر ایک مومن کو ہمیشہ خدا پر نظر رکھنی چاہئے اور نیک اعمال سے اُسے راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ مالی فراخی بھی ملتی رہے اور اس دنیا میں بھلائیاں بھی نصیب ہوں.اور مرنے کے بعد بھی اس کی رضا حاصل ہو.یہ وہ اصل ہے جسے ایک مومن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اس کو اپنے سامنے رکھتی ہے.خدا کرے کہ یہ جذبہ ہمیشہ ہمارے اندر قائم رہے اور جب تک یہ قائم رہے گا ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے.جیسا کہ میں نے کہا کہ لندن ہجرت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے محسوس کیا کہ جماعت کے منصوبوں میں وسعت کی ضرورت ہے اور خاص طور پر افریقہ کے ممالک اور ہندوستان میں تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کے اخراجات کے لئے ، مال کی ضرورت ہے، روپے پیسے کی ضرورت ہے اور جماعت کے عمومی بجٹ سے یہ کام نہیں ہو رہا ، اخراجات پورے نہیں ہو رہے تو آپ نے تمام دنیا کے لئے وقف جدید کے چندے کو پھیلا دیا.یعنی تمام جماعتوں خاص طور پر امیر جماعتوں پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ اس تحریک میں چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جماعت نے لبیک کہا اور ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کی ادائیگی میں اضافہ ہو رہا ہے.اس کے اعداد و شمار تو میں آخر میں پیش کروں گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں بھر پور شمولیت سے تبلیغی پروگراموں میں بھی بڑی وسعت پیدا ہوئی ہے.تحریک جدید تو اپنا کام کر رہی ہے، پہلے بھی کر رہی تھی.وقف جدید کی وجہ سے یورپ اور امریکہ کے ملکوں کے وقف جدید کے جو چندے ہیں یہ افریقہ وغیرہ میں خاص طور پر اور ہندوستان میں کاموں کو آگے بڑھانے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں.

Page 36

خطبات مسرور جلد ہشتم 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 افریقن ممالک میں قربانی کی روح کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ ان ملکوں میں رہنے والے جو احمدی ہیں شاید وہ اس مد میں قربانیاں نہیں دے رہے.افریقہ کے ممالک میں بھی جماعت کے اندر باقی اور ملکوں کی طرح قربانیوں کی روح پیدا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جا رہی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ لوگ اپنے خرچ پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح ہندوستان کی جماعتیں ہیں.خاص طور پر گزشتہ ایک دو سال میں مالی قربانیوں کی طرف ان میں بڑی تیزی سے توجہ پیدا ہو رہی تعالیٰ قربانیوں کے معیار بھی بڑھاتا چلا جائے.ہے.اللہ اس وقت میں آپ کے سامنے افریقہ کے بعض واقعات رکھوں گا کہ ہمارے جو پروگرام ہیں، منصوبے ہیں ان کی وجہ سے کس طرح وہاں کام ہو رہے ہیں اور کس طرح لوگوں کی توجہ پیدا ہو رہی ہے.مساجد کی تعمیر گھانا سے جبرئیل سعید صاحب کی ایک رپورٹ ہے کہ نومبائعین کے علاقوں اور نئی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 9 مساجد زیر تعمیر ہیں.دو مساجد مکمل ہو چکی ہیں.ان نئے علاقوں میں مزید 25 مساجد کی تعمیر کا پروگرام ہے.اس وقت احمدیت میں نئے داخل ہونے والے 30اماموں کو تربیت دی جا رہی ہے اور ان کا ٹریننگ کورس ہو رہا ہے.48 نوجوانوں کا ان کے دیہات سے انتخاب کر کے ان کو امام بنانے کی ٹریننگ دی جا رہی ہے.ٹریننگ کے بعد ان کو علاقوں میں امام بنا کر بھجوایا جائے گا.وقف جدید کے اصول کے تحت جس طرح پہلے معلمین کو عارضی ٹریننگ دی جاتی تھی اسی طرح معلمین کو وہاں ٹرینگ دی جاتی ہے.وہاں امام کہتے ہیں اور کچھ معلم کہتے ہیں.یہ پچھلے مہینہ کی رپورٹ تھی..پھر سیرالیون کے امیر صاحب لکھتے ہیں.مکینی (Makini)جو کہ ناردرن صوبہ کار یجنل ہیڈ کوارٹر ہے اس میں ایک لمبے عرصے تک چونکہ مسجد نہیں تھی اس لئے مشن ہاؤس کے بر آمدے میں نمازیں ادا کی جاتی تھیں.بعض احمدی بھی غیر احمدیوں کی مساجد میں جاتے تھے اور گنتی کے چند احباب نمازوں اور جمعوں پر آیا کرتے تھے.مسجد نہ ہونے کی وجہ سے احمدی بھی ادھر چلے جاتے تھے.لیکن مکینی کی مسجد بنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف احمدی واپس آئے ہیں بلکہ بہت ساری نئی بیعتیں ہوئی ہیں اور اب جمعہ کے روز یہ مسجد کم پڑ جاتی ہے اور اس سے چندوں میں بھی غیر معمولی ترقی ہوئی ہے.مسجد کی وجہ سے ایک جگہ ان کو مل گئی.ایمان میں مضبوطی پیدا ہوئی.پہلے تو

Page 37

خطبات مسرور جلد ہشتم 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 ادھر اُدھر چلے جاتے تھے.اس کی وجہ سے جہاں دوسری نیکیاں بجا لانے کی طرف توجہ پیدا ہوئی وہاں چندوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی.اور کہتے ہیں کہ اسی طرح اس مسجد کی تعمیر کی وجہ سے مکینی شہر میں ہی دوسرے محلے میں تبلیغ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور مضبوط جماعت قائم ہوئی ہے اور ایک بنی بنائی مسجد بھی ملی ہے اور یہ لوگ بھی باقاعدہ چندہ ادا کرتے ہیں اور روزانہ وہاں لوکل مشنری جو معلم ہے ان کی تربیتی کلاس بھی لیتے ہیں.تو ایک مسجد بنائی تھی.اللہ تعالیٰ نے اضافہ کیا.دوسری خود عطا فرما دی.یوگنڈا کے امیر صاحب کو میں نے کہا تھا کہ 2010-2009ء میں 25 مساجد بنائیں.اس میں سے 10 مساجد جماعت یوگنڈا اپنے خرچ پہ بنائے گی اور 15 مساجد کے لئے مرکز 30 ملین شلنگ مہیا کرے گا.وہ لکھتے ہیں کہ اس طرح 25 مقامات پر مساجد کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے اور ان جگہوں پر نومبائعین میں ایک نئی روح پیدا ہوئی ہے اور بڑے جوش و خروش سے اپنی اپنی مساجد کے لئے وقار عمل کر رہے ہیں اور پختہ بلاک وغیرہ جو ہیں وہ بناتے ہیں.اس کے علاوہ اور بعض جگہیں ہیں.دوسری جگہوں میں کمولی زون میں4 مساجد کی اجازت ملی تھی.اس میں بھی لوگ مالی قربانیاں کر رہے ہیں.اسی طرح اور جگہوں پر بھی.امبالے زون میں ایک مخیر احمدی دوست مکرم سلیمان مفابی صاحب نے 15 ہزار امریکن ڈالر خرچ کر کے ایک بہت خوبصورت مسجد بنا کے جماعت کو دی ہے اور لاؤڈ سپیکر کا انتظام بھی کروایا ہے.وہاں کے لوگ بھی جو احمدی ہو رہے ہیں قربانیوں میں آگے بڑھ رہے ہیں.یہ نہیں کہ صرف یہاں کی قربانیوں پر انحصار ہے.یہی دوست امبالے ہی میں ایک اور جگہ پر ایک بڑی مسجد بنا رہے ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہر سال مساجد بنوانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے.یہی قربانی کی روح ہے جو ان لوگوں میں بڑھ رہی ہے.پھر مکونوزون میں خدا کے فضل سے پانچ مقامی احمدیوں کی ایک ٹیم بن گئی ہے.جو مخیر حضرات ہیں وہ اپنے طور پر ہر سال 3 نئی مساجد اپنے ذمہ لے لیتے ہیں اور سارا سال ان کی تعمیر کرواتے ہیں.ان کے مکمل ہونے پر مزید جماعتوں کا انتخاب کر لیتے ہیں.تو یہ جو مسجدیں بنانے کی جاگ لگی تھی پہلے تو انحصار تھا اب ان میں خود بھی روح پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے، انہوں نے بھی چندے دینے شروع کر دیئے ہیں.ہے بین کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ریجن داسا (Dasa) میں مخالفت آج کل زوروں پر اور مخالفین نے جماعتوں میں جا کر احمدیت کے خلاف لوگوں کو بھڑ کانے کا کام تیز کر دیا ہوا ہے

Page 38

.23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور جماعت احمدیہ نے جہاں ابھی مسجد نہیں بنائی ان کو مساجد کا وعدہ دے کر جماعت کو چھوڑنے پر اکساتے ہیں.بعض عرب ملکوں سے یہ لوگ پیسہ لیتے ہیں.وہاں جماعت کے خلاف بڑی مہم چل رہی ہے.مثلاً حال ہی میں داسا سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جماعت Igangba میں مولویوں کا وفد پہنچا اور جماعت کی مخالفت شروع کر دی تو اس جماعت کے لوگوں نے انہیں روک دیا اور کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہم مسلمان ہیں.آپ تو کبھی ہماری تربیت یا ہمیں نماز روزہ سکھانے نہیں آئے.اب احمدیوں نے یہ کام شروع کیا ہے تو تم مسجد بنانے آ گئے ہو.یہاں سے چلے جاؤ.اگر مسجد بنے گی تو جماعت احمدیہ کی بنے گی.پھر کونگو برازویل سے مربی سلسلہ کی رپورٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل میں 51 نئے دیہات میں پہلی دفعہ جماعت کا پودا لگانے کی توفیق ملی اور 22 جماعتیں قائم ہوئیں.تبلیغ کی جو مہم شروع کی گئی تھی اس میں یہ قائم ہو رہی ہیں.گزشتہ سال ہم نے پہلی مسجد تعمیر کی تھی اور اسی سال دوسری مسجد Kiossi کے مقام پر تعمیر کر رہے ہیں جو ایک مہینہ تک مکمل ہو جائے گی.اسی طرح اور جگہوں پر مسجدیں بنتی چلی جائیں گی.سے 2009ء ان ملکوں میں تبلیغ کے کام میں یہ بڑا کام ہو رہا ہے اور یہاں مرکز سے ان کو مالی امداد کی جاتی ہے اپنے ذرائع فی الحال ان کے پاس ایسے نہیں.غانا میں تبلیغ اور تربیت کا کام ملک کے شمالی اور جنوبی دونوں علاقوں میں جاری ہے.جبرئیل سعید صاحب کی رپورٹ ہے کہ اس وقت جنوبی غانا میں آچم (Akyim) اور ایک اور علاقہ ہے آکو یا بچم (Akuapim) کے علاقوں میں تبلیغ کا کام جاری ہے.شمالی علاقے میں بھی Yendi کے علاقے میں ایک ہی ٹیم تبلیغ اور تربیت دونوں کام کر رہی ہے اور اس کے علاوہ والے والے (Walewale) میں ایک ان کا علاقہ ہے اوور سیز (Over Seas) ان علاقوں میں 15 معلمین تربیت کا کام سرانجام دے رہے ہیں.یہ نام اوورسیز عجیب لگتا ہے لیکن آگے اس کی وضاحت آئے گی.اسی طرح دریائے وولٹا کے کنارے کام ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس جماعتیں قائم ہوئی ہیں.وہاں بھی تربیتی ٹیم بھجوانے کا پروگرام ہے.قابل ذکر بات یہ ہے کہ اوورسیز کا جو ذکر کیا گیا تھا.یہ علاقہ بہت وسیع ہے اور بڑے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے.اس میں بہت سے گاؤں شامل ہیں اور سہولیات بالکل نہیں ہیں.بہت کمی ہے.سفر کی دقت اور راستے کی ڈوری کی وجہ سے یہ علاقہ اوور سیز کے نام سے مشہور ہے.جب سفر کر کے وہاں جاؤ تب یہ احساس ہوتا ہے کہ چل کے تو پیدل ہی آئے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ کالے

Page 39

24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم پانی آ گئے، سات سمندر پار کا علاقہ ہے.یہ علاقہ واقعی اسم بامسمیٰ ہے.اس جگہ پر پہلی مرتبہ کوکوا (Kuka) کے مقام پر تقریباً 50لوگوں نے بیعت کی اور دو مسلمان گھرانوں کے علاوہ باقی لوگ غیر مسلم ہیں اور اکثر احمدی مسلمان بن گئے ہیں اور ان علاقوں میں بھی جماعت کے پروگراموں کے دوران جمعہ کا دن بھی آیا لیکن پورے علاقے میں کہیں کوئی مسجد نہیں تھی.یہاں کبھی کسی نے جمعہ نہ پڑھا اور نہ ہی پڑھایا تھا.اس موقعہ پر کہتے ہیں میں نے پہلی دفعہ درخت کے نیچے جمعہ کی نماز پڑھائی اور یوں اس دور دراز علاقے میں پہلی مرتبہ احمدیت کی برکت سے جمعہ کی نماز ادا کی گئی.اب اس علاقہ میں ایک مسجد کی تعمیر کا پروگرام ہے اور انشاء اللہ جلدی شروع ہو جائے گی.کونگو برازویل سے ہمارے مبلغ) لکھتے ہیں کہ ہمارے ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ ، مجالس سوال و جواب جاری ہیں.ریڈیو اور ٹی وی کے ایک پروگرم میں ایک دہریہ نے کہا کہ مجھے ”خدا ہے“ کی سمجھ نہیں آتی، آپ مجھے خدا ہے کا مسئلہ سمجھا دیں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا.تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ آدھے گھنٹے میں اس کو خدا ہے کا مسئلہ سمجھ آ گیا اور بہت بڑے مجمع میں اس نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ آج تک کوئی پادری مجھے یہ مسئلہ نہیں سمجھا سکا.لیکن مسلمانوں کے مشنری نے میری تسلی کرا دی ہے اور آج میں مسلمان ہوتا ہوں.اسی طرح ہمارے ایک معلم، جو وہیں سے ٹریننگ لے کر کام کر رہے ہیں تبلیغ کی غرض سے ایک گھر میں چلے گئے اور گھر کے مالک کو بتایا کہ اسلام کا پیغام لے کر آیا ہوں.جو نہی اس نے اسلام کا نام سنا آگ بگولا ہو گیا اور برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور لوگ بھی جمع ہو گئے.ہمارے معلم نے کہا ٹھیک ہے آپ جو مرضی سمجھتے رہیں.لیکن ایک دفعہ میری بات سن لیں.لوگوں نے کہا کہ چلو سن لو کیا کہتا ہے؟ معلم نے پہلے تو ان کے غلط عیسائی عقائد کا رد بائبل کی رو سے کیا.پھر اسلام کی حسین پیش کی جس کا لوگوں پر خاص اثر ہوا.اس وقت تو وہ شخص نہیں بولا.لیکن دوسرے دن معلم کے پاس آیا اور معافی مانگی کہ کل جو کچھ میں نے کیا تھا اچھا نہیں کیا اب مجھے سمجھ آگئی ہے.اسی طرح نائیجیریا میں تبلیغ کا بڑا کام ہو رہا ہے.بہت سارے امام کام کرر ہے ہیں.معلمين اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں.کنشاسا میں بہت کام ہو رہا ہے اور بڑے بڑے دُور دراز علاقوں میں اسلام کا تبلیغی پیغام بھی پہنچ رہا ہے.تبلیغ بھی ہو رہی ہے اور مساجد بنانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے.بور کینیا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ریڈیو کے سلسلے میں ایک اور واقعہ درج ہے کہ ماہ دسمبر میں ایک بزرگ جن کا نام تارورے تمو گو ہے ان کی عمر 85 سال ہے، احمد یہ مشن آئے اور بتایا

Page 40

25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کہ وہ بیعت کرنے آئے ہیں.وہ کافی عرصہ سے ریڈیو احمد یہ سن رہے ہیں اور اب زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور 10 دسمبر 2009ء کو انہوں نے بیعت کر لی.دوران ماہ بو بوجلاسو مشن میں 40 افراد آئے اور بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے.انہوں نے بتایا کہ ریڈیو کے ذریعہ پیغام پہنچا.ریجن وایو گیا کے مشنری لکھتے ہیں کہ وہ ایک گاؤں پوبے منگاو(Pobe Mengao) میں رسالہ ریویو آف ریلیجز تقسیم کر رہے تھے جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر تھی.جب انہوں نے یہ رسالہ ایک شخص ساوا دو گو آدم (Sawadogu Adam) نامی کو دیا تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھتے ہی کہا کہ یہ بزرگ تو کئی بار مجھے خواب میں مل چکے ہیں.اس پر ہمارے مشنری صاحب نے بتایا کہ یہ بانی جماعت احمدیہ اور مسیح موعود ہیں.اس پر وہ شخص بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گیا.رپورٹ وقف جدید بہر حال اس طرح کے کافی واقعات ہیں.لیکن وقت تھوڑا ہے.وقف جدید کی جو رپورٹ پیش کی جاتی ہے وہ سامنے رکھتا ہوں.یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے نئے سال کا اعلان بھی کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس سال کو بے انتہا برکات کا حامل بنائے اور پہلے سے بڑھ کر جماعت کو قربانی کی توفیق ملے.وقف جدید کا یہ جو 52 واں سال تھا اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے 35لاکھ 21 ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کی.الحمدللہ.یہ گزشتہ سال سے 3 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.پاکستان حسب سابق نمبر ایک پہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ لوگ باوجود غربت کے حالات کے قربانیاں کر رہے ہیں اور اس دفعہ وقف جدید میں 8 ہزار نئے افراد شامل ہوئے ہیں.امریکہ دوسرے نمبر پر ہے انہوں نے بھی 62 ہزار ڈالر کا اضافہ کیا ہے اور برطانیہ تیسرے نمبر پر پر ہے.برطانیہ نے بھی اس سال پچھلے سال سے ایک لاکھ آٹھ ہزار پاؤنڈ زائد اضافہ کیا ہے اور 2 ہزار افراد شامل ہوئے ہیں.امریکہ اور برطانیہ ہیں تو 2 اور 3 برطانیہ میں بھی مساجد کی طرف توجہ ہے امریکہ میں بھی توجہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں ایک چیز کے لحاظ سے UK کا دوسرا نمبر ہے.امریکہ میں چند ایک لوگوں نے آخر میں غیر معمولی چندہ دے کر جو کمی تھی اسے پورا کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ چند ہزار ڈالر یا پاؤنڈ اوپر چلے گئے ہیں.لیکن عمومی لحاظ سے رپورٹ دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ شاملین کی طرف توجہ اور محنت جو ہے وہ UK جماعت نے زیادہ کی ہے اور ان کی جو کوشش ہے وہ

Page 41

26 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کافی قابل ستائش ہے.تو اس لحاظ سے ان چار پانچ چھ آدمیوں کو نکال دیا جائے جنہوں نے امریکہ میں غیر معمولی قربانی دی ہے تو برطانیہ دوسرے نمبر پر ہی ہے.ان پانچ چھ آدمیوں کی قربانیوں کا بھی فائدہ ہے لیکن مجموعی طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں جو نظام ہے اس نے اس طرح توجہ نہیں دی اور محنت نہیں کی جس طرح UK میں کی گئی ہے.اس لئے میرا خیال ہے انشاء اللہ تعالیٰ اگلے سال اس لحاظ سے بھی برطانیہ آگے نکل جائے گا.اور دوسری پوزیشن پہ آ جائے گا.چوتھے نمبر پر جرمنی ہے.انہوں نے پچھلے سال اپنی چوتھی پوزیشن کھو دی تھی اس سال ایک لاکھ 9 ہزار یورو کا انہوں نے اضافہ کیا ہے.کینیڈا پانچویں نمبر پر ہے.دفتر اطفال میں بچوں کو شامل کرنے میں کینیڈا بہت محنت سے کام کر رہا ہے.پھر انڈیا ہے، انڈیا بھی چھٹے نمبر پر ہے انہوں نے بھی اپنی مقامی کرنسی میں 29لاکھ روپے کا اضافہ کیا ہے.یہ بھی جیسا کہ میں نے کہا قربانیوں میں بڑھ رہے ہیں.کہیں نام نہیں ہوتا تھا اب آہستہ آہستہ اوپر آ رہے ہیں.پھر ساتویں نمبر پر انڈونیشیا ہے، آٹھویں نمبر پر آسٹریلیا ہے، دسویں سے آٹھویں پوزیشن پر آگئے ہیں.پھر نویں پر بیلجیم ہے، دسویں پر فرانس اور سوئٹزر لینڈ ہیں.کرنسی کے لحاظ سے لوکل کرنسی میں اگر دیکھا جائے تو گزشتہ سال کے مقابل پر پانچ ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے زیادہ وصولی کی ہے.آسٹریلیا نے 48 فیصد اضافہ کیا ہے اور انڈیا 47.05 فیصد اضافہ کرکے نمبر 2 پر ہے.جرمنی نے 26.6 فیصد اضافہ کیا ہے.برطانیہ نے 20.18 فیصد اضافہ کیا ہے.بیلجیئم نے 12.05 فیصد اضافہ کیا.فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہے.جیسا کہ میں نے کہا وہاں چند ایک امیر لوگ ہیں جو زائد رقم دے کر یہ کمی پوری کر دیتے ہیں.فرانس ے کر یہ کمی پوری کر دیتے ہیں.فرانس دوسرے نمبر پر 43 پاؤنڈ اور برطانیہ تیسرے نمبر پر 38 پاؤنڈ یا 39 سمجھ لیں، سوئٹزر لینڈ چوتھے نمبر پر اور کینیڈا پانچویں نمبر پر ہے.افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتیں یہ ہیں.نمبر ایک پہ گھانا ہے، نمبر 2 پہ نائیجیریا ہے نمبر 3 پہ ماریشس ہے، نمبر 4 پہ بورکینا فاسو ہے.بورکینا فاسو اس لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ انہوں نے اپنے شاملین کی تعداد میں 43 فیصد سے زائد کا اضافہ کیا ہے اور یہی میں نے کہا تھا کہ اصل چیز یہ ہے کہ نئے آنے والوں میں بھی اور بچوں میں بھی قربانیوں کی روح پیدا کی جائے.جس کے لئے بورکینا فاسو میں خاص کوشش کی گئی ہے.پانچویں نمبر پر بین ہے.اس کے علاوہ اور بہت سارے ملک ہیں جو کافی کوشش کر رہے ہیں.

Page 42

خطبات مسرور جلد ہشتم 27 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 وقف جدید میں چندہ ادا کرنے والوں کی تعدا د جو ہے اللہ کے فضل سے 5 لاکھ 73 ہزار سے تجاویز کر گئی ہے.36 ہزار 323 اس دفعہ نئے شامل ہوئے ہیں.پاکستان میں چندے کے لحاظ سے اطفال اور بالغان کا علیحدہ علیحدہ بھی حساب رکھا جاتا ہے.کوشش بھی کی جاتی ہے.اس لئے ان کے لئے یہ رپورٹ بھی دینی ضروری ہے.بالغان جو ہیں ان میں پہلی تین جماعتیں یہ ہیں.پہلے نمبر پر لاہور، دوسرے پر کراچی اور تیسرے پر ربوہ.اور بالغان میں پہلے دس اضلاع جو ہیں.وہ ہیں سیالکوٹ، دوسرے پر راولپنڈی، تیسرا اسلام آباد، چوتھا فیصل آباد، پانچواں شیخوپورہ، چھٹا گوجرانوالہ ، ساتواں ،ملتان، آٹھواں سرگودھا، نواں گجرات اور دسواں عمر کوٹ.اور اطفال میں پہلی تین جماعتیں ہیں اوّل کراچی، دوم لاہور اور سوم ربوہ.اور اس میں بھی پہلے دس اضلاع ہیں.نمبر ایک سیالکوٹ، دوم اسلام آباد، تین راولپنڈی، چار شیخو پورہ، پانچ گوجرانوالہ ، فیصل آباد، سات نارووال، آٹھ سرگودھا، نو گجرات اور دس بہاولنگر.مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں.نمبر ایک پر سیلیکان ویلی، دو.لاس اینجلس ایسٹ، تین.ڈیٹر ائٹ، چار.لاس اینجلس ویسٹ ، اور پانچ.لاس اینجلس ایسٹ ان لینڈ امپائر.اور برطانیہ کی پہلی دس جماعتیں ہیں.یہ ان سے رعایت کی ہے باقیوں کو پانچ پانچ رکھا ہے، آپ کو دس رکھ دیا ہے.نمبر ایک مسجد بیت الفضل ، ووسٹر پارک، تین سٹن، چار نیو مولڈن، پانچ ویسٹ ہل، چھ ٹوٹنگ ، سات انر پارک، آٹھ بیت الفتوح، نوسر بٹن اور دس ساؤتھ ایسٹ لندن.ریجن کے لحاظ سے لندن ریجن اول ہے، مڈلینڈ دوم اور نارتھ ایسٹ ریجن سوم.یہ موازنے یہ بتانے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ یہ یہ قربانیاں آپ نے کی ہیں.اصل قربانیاں تو مومن اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے.جرمنی کی پانچ نمایاں لوکل امارتیں یہ ہیں ہمبرگ، گروس گراؤ، فرینکفرٹ، مائنز.ویز بادن اور ڈار مشڈ کینیڈا میں جیسا کہ میں نے کہا اطفال اور بالغان کا انہوں نے علیحدہ علیحدہ حساب رکھنے کی کوشش کی ہے.ان میں بالغان جو بڑے لوگ ہیں ان کی چندے کے لحاظ سے پانچ جماعتیں جو ہیں ان میں مار کھم، بریمپٹن سپرنگ ڈیل، آٹوا، ٹورانٹو سنٹرل اور کیلگری ساؤتھ ویسٹ.اور اطفال کے لحاظ سے بیری، مار کھم ، ویسٹن آئی لنگٹن (Weston Islington) ، ویسٹن ساؤتھ (Weston South)، ویسٹن نارتھ ایسٹ (Weston North East).

Page 43

خطبات مسرور جلد ہشتم 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 اللہ تعالیٰ سب قربانیاں کرنے والوں کی ان قربانیوں کو قبول فرمائے.ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور ہمیشہ ان کے ایمان و اخلاص میں اضافہ کرتا چلا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے کہ اس پُر خطر اور پر فتنہ زمانہ میں کہ جو ایمان کے ایک نازک رشتہ کو جو خدا اور اس کے بندے میں ہونا چاہئے بڑے زورو شور کے ساتھ جھٹکے دے کر ہلا رہا ہے اپنے اپنے حسن خاتمہ کی فکر کریں اپنے اپنے اچھے خاتمہ کی فکر کریں اور وہ اعمال صالحہ جن پر نجات کا انحصار ہے اپنے پیارے مالوں کے فدا کرنے اور پیارے وقتوں کو خدمت میں لگانے سے حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کے اس غیر متبدل اور مستحکم قانون سے ڈریں جو وہ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) یعنی تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہر گز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں“.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 38-37) اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دیتا رہے.قربانیوں کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہم ہمیشہ تیار رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس مشن کو لے کر آئے تھے اس کو ہمیشہ آگے بڑھانے والے ہوں.آج ایک افسوسناک خبر بھی ہے.ہمارے لاہور کے ایک احمدی مکرم پروفیسر (ریٹائرڈ) محمد یوسف صاحب ابن مکرم امام دین صاحب رچنا ٹاؤن 5 جنوری کی صبح اپنی رہائش سے ملحقہ بیٹے کے جنرل سٹور پر بیٹھے ہوئے تھے کہ سوا آٹھ بجے کے قریب موٹر سائیکل پر سوار دو نقاب پوش آئے اور انہوں نے فائرنگ شروع کر دی.فائرنگ کی آواز سن کے ان کا بیٹا باہر نکلا لیکن دیکھا تو ان کو زخمی حالت میں پایا اور ہسپتال لے جایا گیا لیکن راستے میں ہی وفات پا گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.شہید مرحوم کی عمر 65 سال تھی.اس علاقہ میں بڑے عرصے سے مخالفت جاری تھی اور مولوی مختلف بینر لگا لگا کے اور اشتہار لگا کے احمدیوں کے خلاف اکسا رہے تھے.بحیثیت صدر آپ جماعت میں 20 سال سے کام کر رہے تھے.تین سال سے زعیم اعلیٰ انصار اللہ تھے.آپ کو دو دفعہ اسیر راہ مولی رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا.بڑی سلجھی ہوئی شخصیت تھے.ایم اے پنجابی اور ایم ایڈ کیا ہوا تھا اور گورنمنٹ ملازم کے طور پر ٹیچنگ کرتے رہے.گو رنمنٹ ہائی سکول شاہدرہ میں سینئر سائنس ٹیچر تھے.سینئر ہیڈ ماسٹر رہے.گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول مرید کے میں پرنسپل رہے.ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا ایک سکول

Page 44

29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 جنوری 2010 تعلق ہے.خطبات مسرور جلد ہشتم بھی کھولا.بڑے ملنسار، فدائی احمدی تھے.خاندان میں اکیلے ہونے کے باوجود ہر لحاظ سے ہمیشہ استقامت دکھائی.آپ نہ صرف خود خلیفہ وقت کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے بلکہ اپنی اولاد کی بھی اس رنگ میں تربیت کی کہ ساری اولاد کا احمدیت اور خلافت سے پختہ موصی تھے اور آپ کی ساری اولاد بھی نظام وصیت میں شامل ہے.آپ کے پسماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹی اور چار بیٹے ہیں.ابھی انشاء اللہ تعالی نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے.ان کے درجات بلند فرمائے اور اپنی جنتوں میں ان کو اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 5 مورخہ 29 جنوری 2010 تا4 فروری 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 45

خطبات مسرور جلد ہشتم 30 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010ء بمطابق 15 صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّوْرِ الَّذِي أَنْزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (التغابن: 9) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ احسان عظیم ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بناکر ایسا دماغ عطا فرمایا جس کے استعمال سے وہ خد اتعالیٰ کی پیدا کر دہ باقی مخلوق اور ہر چیز کو نہ صرف اپنے زیر نگیں کر لیتا ہے بلکہ اس سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے اور ہر نیادن انسانی دماغ کی اس صلاحیت سے نئی نئی ایجادات سامنے لا رہا ہے.جو دنیاوی ترقی آج ہے وہ آج سے دس سال پہلے نہیں تھی اور جو دنیاوی ترقی آج سے دس سال پہلے تھی وہ 20 سال پہلے نہیں تھی.اسی طرح اگر پیچھے جاتے جائیں تو آج کی نئی نئی ایجادات کی اہمیت اور انسانی دماغ کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے.زندگی کا مقصد لیکن کیا یہ ترقی جو مادی رنگ میں انسان کی ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے ؟ ہر زمانے کا دنیا دار انسان یہی سمجھتا رہا کہ میری یہ ترقی اور میری یہ طاقت ، میری یہ جاہ و حشمت، میرا دنیاوی لہو و لعب میں ڈوبنا، میرا اپنی دولت سے اپنے سے کم تر پر اپنی برتری ظاہر کرنا، اپنی دولت کو اپنی جسمانی تسکین کا ذریعہ بنانا، اپنی طاقت سے دوسروں کو زیر نگیں کرنا ہی مقصد حیات ہے.یا ایک عام آدمی بھی جو ایک دنیا دار ہے جس کے پاس دولت نہیں وہ بھی یہی سمجھتا ہے بلکہ آج کل کے نوجوان جن کو دین سے رغبت نہیں دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جو نئی ایجادات جو ہیں، ٹی وی ہے ، انٹر نیٹ ہے، یہی چیزیں اصل میں ہماری ترقی کا باعث بنے والی ہیں اور بہت سے ان چیزوں سے متاثر ہو جاتے ہیں.پس یہ انتہائی غلط تصور ہے.اس تصور نے بڑے بڑے غاصب پیدا کئے.اس تصور نے بڑے بڑے ظالم پیدا کئے.اس تصور نے عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے انسان پیدا کئے.اس تصور نے ہر زمانہ میں فرعون پیدا کئے کہ ہمارے پاس طاقت ہے ، ہمارے پاس دولت ہے ، ہمارے پاس جاہ و حشمت ہے.لیکن اس تصور کی خدا تعالیٰ نے جو رب العالمین ہے، جو عالمین کا خالق ہے بڑے زور سے نفی فرمائی ہے.فرمایا کہ جن

Page 46

خطبات مسرور جلد ہشتم 31 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 باتوں کو تم اپنا مقصد حیات سمجھتے ہو یہ تمہارا مقصد حیات نہیں ہیں.تمہیں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ ان دنیاوی مادی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ اور دنیا سے رخصت ہو جاؤ.نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ الا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: (57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ ا اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) میں نے جن اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں.مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مد نظر رکھیں.وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں.وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں.انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے“.قرآن ایک مکمل کتاب ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 137 مطبوعہ ربوہ ) اس بات کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے کہ اپنے مقصد پیدائش کو کس طرح پہچاننا ہے اور اس کی عبادت کے طریق کس طرح بجالانے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا رہا ہے جو اپنی قوموں کو اس عبادت کے طریق اور مقصد پیدائش کے حصول کے لئے راہنمائی کرتے رہے اور پھر جب انسان ہر قسم کے پیغام کو سمجھنے کے قابل ہو گیا اس کی ذہنی جلا اس معیار تک پہنچ گئی جب وہ عبادات کے بھی اعلیٰ معیاروں کو سمجھنے لگا اور اس نے دنیاوی عقل و فراست میں بھی ترقی کی نئی راہیں طے کرنی شروع کر دیں.آپس کے میل جول اور معاشرت میں بھی وسعت پیدا ہونی شروع ہو گئی تو انسان کامل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ملا ل یہ کام کو اس آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھیجا جس نے پھر اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر یہ اعلان کیا کہ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا - (المائدہ:4) کہ آج میں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتوں اور احسان کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا.اور اس قرآن میں جس کے لئے دین کو مکمل کیا اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے طریقے بتائے.عبادتوں کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے کے طریق بھی بیان فرمائے.معاشرتی تعلقات نبھانے کے طریق بھی بیان فرمائے.دشمنوں سے سلوک کے طریق بھی بیان فرمائے.معاشرہ کے کمزور طبقے کے حقوق کی ادائیگی کے طریق بھی بیان فرمائے.عورتوں کے حقوق کی

Page 47

32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ادائیگی کے طریق بھی بیان فرمائے.آئندہ آنے والی نئی ایجادات کے آنے اور ان سے انسان کے فائدہ اٹھانے کے بارہ میں بھی بیان فرما دیا.زمین و آسمان میں جو بھی موجود ہے اس کے بارہ میں انسانی عقل و فراست کی حدود تک جتنی بھی، جہاں تک پہنچ ہو سکتی تھی اس کے سمجھنے کے بارہ میں بھی راہنمائی فرمائی.ہر وہ چیز بیان فرما دی جن تک آج انسان کی عقل کی رسائی ہو رہی ہے بلکہ آئندہ پیش آمدہ باتوں کے بارہ میں بھی بیان فرما دیا جس کے بارہ میں آج سے 1400 سال پہلے کا انسان سمجھ نہیں سکتا تھا اور اس سے پہلے کا انسان تو بالکل بھی نہیں سمجھ سکتا تھا گو کہ اُس وقت جب یہ باتیں قرآن کریم میں بیان ہوئیں ایک عام مسلمان مومن سمجھ نہیں سکتا تھا.لیکن ان سب باتوں کو انسان کامل اور حضرت خاتم الانبیاء علی الی یکم کی فراست جو تھی اس وقت بھی سمجھتی تھی.پس وہ ایک ایسا نور کامل تھے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور تھا اور جنہوں نے اپنے صحابہ میں ان کی استعدادوں کے مطابق بھی وہ نور بھر دیا.انہیں عبادتوں کے طریق بھی سکھائے.انہیں عبادتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی.ان کو اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ دلائی.اور پھر آپ صلی یکی کم سے وہ نور پا کر صحابہ نے اپنی استعدادوں کے مطابق پھر وہ نور آگے پھیلانا شروع کر دیا اور چراغ سے پھر چراغ روشن ہوتے چلے گے اور جن باتوں کا فہم اس وقت کا عام انسان نہیں کر سکتا تھا اس کے بارہ میں بھی بتا دیا کہ اس کامل کتاب سے تاقیامت اب چراغ روشن ہوتے چلے جائیں گے اور آئندہ زمانہ کے مومنین اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کو دیکھ لیں گے.ایک دنیا دار تو صرف دنیا کی نظر سے دیکھے گا لیکن ایک حقیقی مومن اپنے مقصد پیدائش کا حق ادا کرتے ہوئے اُن کو اس نظر سے دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق آج ہی یہ چیزیں پیدا ہوئی ہیں.مومن کی نظر صرف ان ایجادات سے اور ان دنیاوی چیزوں سے دنیاوی فائدوں تک ہی محدود نہیں ہو گی بلکہ وہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس حقیقی نور سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا جو اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی اور افضل الرسل صلی یم لے کر آئے تھے.جس طرح ضلالت اور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے لوگ آج سے 14 سو سال پہلے اس نبی کے نور سے فیضیاب ہوئے تھے اور ہر میدان میں اعلیٰ معیاروں کو چھونے لگے.اسی طرح اب تا قیامت جو بھی اس رسول اور اس کامل شریعت سے حقیقی تعلق جوڑے گا، ظلمتوں سے نور کی طرف نکلتا چلا جائے گا اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس کا ذکر سورۃ طلاق کی آیت 12 میں یوں فرمایا ہے رَّسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِ اللَّهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الطَّلِحَتِ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ يَعْمَلُ صَالِحًا يُدْخِلُهُ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا.(الطلاق:12 ) کہ ایک رسول کے طور پر جو تم پر اللہ کی روشن کر دینے والی آیات تلاوت کرتا ہے تاکہ ان

Page 48

33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے.اور جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ اسے (ایسی) جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں.( ہر ) اس (شخص) کے لئے (جو نیک اعمال بجالا تا ہے) اللہ نے بہت اچھا رزق بنایا ہے.آنحضرت علی الم کا اسوہ پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو پھر آنحضرت صلی للی نیم کے اسوہ اور آپ پر اتری ہوئی تعلیم کی پابندی کرنا بھی لازمی ہے.اس تعلیم پر پابندی اور آپ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش ہی اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنے گی.اس نور سے حصہ پانے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی بھی شرط رکھی ہے.صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں ہے.ایک مومن کو اعمال صالحہ کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.فسق و فجور سے بچنے کی ضرورت ہے.جو آیت میں نے پہلے شروع میں تلاوت کی تھی اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اللہ پر ایمان، اس کے رسول پر ایمان اور قرآن کریم پر ایمان ہی نور سے حصہ دلانے والا بنے گا، جنت کا وارث بنائے گا.اللہ تعالیٰ انسان کے ہر عمل سے باخبر ہے.اس کے علم میں ہے کہ انسان کون سے اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بجالا رہا ہے.اُسوہ رسول اور تعلیم پر کس حد تک عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.ایمان کا دعویٰ دل سے ہے یا صرف زبانی باتیں ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جو انسانوں پر احسان کیا کہ ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی دنیا و آخرت میں انسان کی بقا ہے تو ان لوگوں کا جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کس قدر یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اوپر اس تعلیم کو لاگو کریں جو کامل اور مکمل تعلیم ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کا جاری احسان دیکھیں کہ وَآخَرِينَ مِنْهُم (الجمعة:4) کی خبر دے کر یہ تسلی بھی کروائی کہ آنحضرت صلی الی یوم اور قرآن کریم کا فیضان جو فیضان نور ہے یہ جاری ہے.اندھیرے زمانہ کے بعد آنحضرت صلی الم کے عاشق صادق اور آپ صلی ال نیم کے نور سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے جس امام اور صحیح و مہدی نے آنا ہے اس کے ذریعہ پھر اندھیروں سے نور کی طرف راہنمائی ہو گی.آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود نے پھر اُمت کو بھی اور باقی دنیا کو بھی اعتقادی اور عملی اندھیروں سے نکالنا ہے اور جو اس کے ساتھ جڑ جائے گا، جو اسے قبول کرے گا، جو اس سے سچا تعلق رکھے گا، جو دنیا کی لغویات سے بچتے ہوئے اس سے کئے گئے عہد کی پابندی کرے گاوہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے جنتوں کی خوشخبری سنے گا.پس ایک احمدی کو جہاں اس بات سے تسلی ہوتی ہے وہاں فکر بھی ہے.اپنے جائزے لینے کی ضرورت بھی ہے.اس نور سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا (التغابن: 10) کی شرط

Page 49

34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم رکھی ہے کہ اللہ پر ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے.پس ہمیشہ اپنے مد نظر یہ بات رکھنی چاہئے کہ کون سا عمل صالح ہے اور کون ساغیر صالح ہے.بعض بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.مثلاً خوشیاں ہیں.یہ دیکھنے والی بات ہے کہ خوشیاں منانے کے لئے ہماری کیا حدود ہیں اور غموں میں ہماری کیا حدود ہیں.خوشی اور غمی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور دونوں چیزیں ایسی ہیں جن میں کچھ حدود اور قیود ہیں.آج کل دیکھیں، مسلمانوں میں خوشیوں کے موقعوں پر بھی زمانے کے زیر اثر طرح طرح کی بدعات اور لغویات راہ پاگئی ہیں اور غموں کے موقعوں پر بھی طرح طرح کی بدعات اور رسومات نے لے لی ہے.لیکن ایک احمدی کو ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کام بھی وہ کر رہا ہے اس کا کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ نظر آنا چاہئے.اور ہر عمل اس لئے ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی علی رام نے جو حدود قائم کی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہر کام کرنا ہے.معاشرے کی بدر سومات میں نے خوشی اور غمی کا جو ذکر کیا ہے تو خوشیوں میں ایک خوشی جو بہت بڑی خوشی سمجھی جاتی ہے وہ شادی کی خوشی ہے اور یہ فرض ہے.جب بعض صحابہ نے یہ کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کی عبادت کی خاطر اپنی زندگیاں تجرد میں گزاریں گے ، شادی نہیں کریں گے تو آنحضرت صلی علیہ کم نے اسے برا منایا اور فرمایا کہ نیکی وہی ہے جو میری سنت پر عمل کرتے ہوئے اور تعلیم کے مطابق کی جائے.اور میں نے تو شادیاں بھی کی ہیں.روزے بھی رکھتا ہوں.عبادات بھی کرتا ہوں.( بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح حدیث نمبر 5063) اور آپ کی عبادات کا جو معیار ہے وہ تو تصور سے بھی باہر ہے.پس یہ مسلمانوں کے لئے ایک فرض ہے کہ اگر کوئی روک نہ ہو، کوئی امر مانع نہ ہو تو ضرور شادی کرے.لیکن ان میں بعض رسمیں خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی معاشرہ میں راہ پاگئی ہیں جن کا اسلام کی تعلیم سے کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے.اب بعض رسوم کو ادا کرنے کے لئے اس حد تک خرچ کئے جاتے ہیں کہ جس معاشرہ میں ان رسوم کی ادا ئیگی بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے وہاں یہ تصور قائم ہو گیا ہے کہ شاید یہ بھی شادی کے فرائض میں داخل ہے اور اس کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی.مہندی کی ایک رسم ہے.اس کو بھی شادی جتنی اہمیت دی جانے لگی ہے.اس پر دعوتیں ہوتی ہیں.کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.سٹیج سجائے جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کئی دن دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور شادی سے پہلے ہی جاری ہو جاتا ہے.بعض دفعہ کئی ہفتہ پہلے جاری ہو جاتا ہے.اور ہر دن نیا سٹیج بھی سج رہا ہو تا ہے اور پھر اس بات پر بھی تبصرے ہوتے ہیں کہ آج اتنے کھانے پکے اور آج اتنے کھانے پکے.یہ سب رسومات ہیں جنہوں

Page 50

35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نے وسعت نہ رکھنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایسے لوگ پھر قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں.غیر احمدی تو یہ کرتے ہی تھے اب بعض احمدی گھرانوں میں بھی بہت بڑھ بڑھ کر ان لغو اور بیہودہ رسومات پر عمل ہو رہا ہے یا بعض خاندان اس میں مبتلا ہو گئے ہیں.بجائے اس کے کہ زمانہ کے امام کی بات مان کر رسومات سے بچتے.معاشرہ کے پیچھے چل کر ان رسومات میں جکڑتے چلے جارہے ہیں.چند ماہ پہلے میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہندی کی رسم پر ضرورت سے زیادہ خرچ اور بڑی بڑی دعوتوں سے ہمیں رکنا چاہئے.تو اس دن یہاں لندن میں بھی ایک احمدی گھر میں مہندی کی دعوت تھی.جب انہوں نے میر اخطبہ سنا تو انہوں نے دعوت کینسل (Cancel) کر دی اور لڑکی کی چند سہیلیوں کو بلا کر کھانا کھلا دیا اور باقی جو کھانا پکا ہو اتھاوہ یہاں بیت الفتوح میں ایک فنکشن (Function) تھا اس میں بھیج دیا.تو یہ ہیں وہ احمدی جو توجہ دلانے پر فوری رد عمل دکھاتے ہیں اور پھر معذرت کے خط بھی لکھتے ہیں.لیکن مجھے بعض شکایات پاکستان سے اور ربوہ سے بھی ملی ہیں.بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اب ان رسموں میں پڑنے لگ گئے ہیں اور ربوہ کیونکہ چھوٹا سا شہر ہے اس لئے ساری باتیں فوری طور پر وہاں نظر بھی آجاتی ہیں.اس لئے اب میں کھل کر کہہ رہا ہوں کہ ان بیہودہ رسوم و رواج کے پیچھے نہ چلیں اور اسے بند کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ : ” ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 70) آج سے سو سال پہلے یا اس سے زیادہ پہلے اس زمانے میں تو صد ہاروپیہ کا خرچ بھی بہت بڑا خرچ تھا.لیکن آج کل تو صد ہا کیا لاکھوں کا خرچ ہوتا ہے اور اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ ہوتا ہے.جو شاید اس زمانے کے صدبا روپوں سے بھی اب زیادہ ہونے لگ گیا ہے.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ آتش بازی و غیرہ بھی حرام ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 49 جدید ایڈیشن) شادیوں پر آتش بازی کی جاتی ہے.اب لوگ اپنے گھروں میں چراغاں بھی شادیوں پر کرتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ کر لیتے ہیں.ایک طرف تو پاکستان میں ہر طرف یہ شور پڑا ہوا ہے ہر آنے والا یہی بتاتا ہے، اخباروں میں بھی یہی آرہا ہے کہ بجلی کی کمی ہے.کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے.مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے.اور دوسری طرف بعض گھر ضرورت سے زیادہ اسراف کر کے نہ صرف ملک کے لئے نقصان کا باعث بن رہے ہیں بلکہ گناہ بھی مول لے رہے ہیں.اس لئے پاکستان میں عموماً احمدی اس بات کی احتیاط کریں کہ فضول خرچی نہ ہو اور ربوہ میں خاص طور پر اس بات کا لحاظ رکھا جائے.اور ربوہ میں یہ صدر عمومی کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں کہ شادیوں پر بے جا اسراف اور دکھاوا اور اپنی شان اور پیسے کا جو اظہار ہے وہ نہیں ہو نا چاہئے.جماعت پر اللہ

Page 51

خطبات مسرور جلد ہشتم 36 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ عظمی کے موقعوں پر جو رسوم ہیں ان سے تو بچے ہوئے ہیں.ساتواں دسواں، چالیسواں، یہ غیر احمدیوں کی رسمیں ہیں ان پر عمل نہیں کرتے.جو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ یہی ہوتا ہے کہ یہ رسمیں گھر والوں پر بوجھ بن رہی ہوتی ہیں.لیکن اگر معاشرے کے زیر اثر ایک قسم کی بدر سومات میں مبتلا ہوئے تو دوسری قسم کی رسومات بھی راہ پا سکتی ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں یہاں بھی شروع ہو جائیں گی.صحیح اسلامی تعلیم پر عمل ہو پس ہر احمدی کو اپنے مقام کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اب یہ فرض ہے کہ صحیح اسلامی تعلیم پر عمل ہو.شادی بیاہ کے لئے اسلامی تعلیم میں جو فرائض ہیں وہ شادی کا ایک فرض ہے اس کے لئے ایک فنکشن کیا جاسکتا ہے.اگر توفیق ہو تو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جا سکتا ہے.یہ بھی فرض نہیں کہ ہر بارات جو آئے اس میں مہمان بلا کے کھانا کھلایا جائے اگر دُور سے بارات آرہی ہے تو صرف باراتیوں کو ہی کھانا کھلایا جا سکتا ہے.لیکن اگر ملکی قانون روکتا ہے تو کھانے وغیرہ سے رکنا چاہئے اور ایک محدود پیمانے پر صرف اپنے گھر والے یا جو چند باراتی ہیں وہ کھانا کھائیں.کیونکہ پاکستان میں ایک وقت میں ملکی قانون نے پابندی لگائی ہوئی تھی.اب کیا صورت حال ہے مجھے علم نہیں لیکن کچھ حد تک پابندی تواب بھی ہے.دوسرے ولیمہ ہے جو اصل حکم ہے کہ اپنے قریبیوں کو بلا کر ان کی دعوت کی جائے.اگر دیکھا جائے تو اسلام میں شادی کی دعوت کا یہی ایک حکم ہے.لیکن وہ بھی ضروری نہیں کہ بڑے وسیع پیمانے پر ہو.حسب توفیق جس کی جتنی توفیق ہے بلا کر کھانا کھلا سکتا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقصد پیدائش بتایا ہے.ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے.اگر یہ مد نظر رہے تو اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.بدعات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں.فضول خرچیوں سے بھی ہم بچ سکتے ہیں.لغویات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں اور فلموں سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.یہ ظلم ایک تو ظاہری ظلم ہیں جو جابر لوگ کرتے ہی ہیں.ایک بعض دفعہ لاشعوری طور پر اس قسم کی رسم و رواج میں مبتلا ہو کر اپنی جان پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.اور پھر معاشرے میں اس کو رواج دے کر ان غریبوں پر بھی ظلم کر رہے ہوتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شاید فرائض میں داخل ہو چکی ہے.اور جس معاشرے میں ظلم اور لغویات اور بدعات وغیرہ کی یہ باتیں ہوں، وہ معاشرہ پھر ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہوتا ہے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا ایک دوسرے پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے.لیکن اگر ہم ان چیزوں سے بچیں گے تو ہم حق مارنے سے بھی بچ رہے ہوں گے.ظلموں سے بھی بیچ رہے ہوں گے

Page 52

37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بن رہے ہوں گے.اور آج احمدی سے بڑھ کر کون ایسے معاشرہ کا نعرہ لگاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسروں کے حقوق قائم کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہو او ہوس سے باز آجائے گا.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل بنائے گا.پس جب احمدی ہی ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کریم کے نور سے فیض پانے کے لئے زمانہ کے امام کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے جو شرائط بیعت میں داخل ہے تو پھر اپنے عہد کا پاس کرنے کی ضرورت ہے.اس عہد کی پابندی کر کے ہم اپنے آپ کو جکڑ نہیں رہے بلکہ شیطان کے پنجے سے چھڑا رہے ہیں.خدا اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے تحفظ کے سامان کر رہے ہیں.اپنی فہم و فراست کو جلا بخش رہے ہیں.اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کر رہے ہیں.اپنی حیا کے معیار بلند کر رہے ہیں.صبر اور قناعت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اپنے اندر زہد و تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کر رہے ہیں.اپنی امانت کے حق کی ادائیگی کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جھکنے کے معیار حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں تا کہ اپنے مقصد پیدائش کو حاصل کر سکیں.پس اگر اندھیروں سے نکلنا ہے اور نور حاصل کرنا ہے اور زمانہ کے امام کی بیعت کا صحیح حق ادا کرنا ہے تو دنیا داری کی باتوں کو چھوڑنا ہو گا.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی.اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے کے لئے جد وجہد کرنی ہو گی.حیا کا معیار بلند کرنے کا میں نے ذکر کیا ہے.حیا بھی ایک ایسی چیز ہے جو ایمان کا حصہ ہے.آج کل کی دنیاوی ایجادات جیسا کہ میں نے شروع میں بھی ذکر کیا تھا، ٹی وی ہے، انٹر نیٹ وغیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے.کھلی کھلی بے حیائی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیائی نہیں ہے.پس ایک احمدی کے حیا کا یہ معیار نہیں ہونا چاہئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ پر کوئی دیکھتا ہے.یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہو ا و ہوس میں گرفتاری ہے.بے حجابیوں اور بے پردگی نے بعض بظاہر شریف احمدی گھرانوں میں بھی حیا کے جو معیار ہیں الٹا کر رکھ دیئے ہیں.زمانہ کی ترقی کے نام پر بعض ایسی باتیں کی جاتی ہیں، بعض ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو کوئی شریف آدمی دیکھ نہیں سکتا چاہے میاں بیوی ہوں.بعض حرکتیں ایسی ہیں جب دوسروں کے سامنے کی جاتی ہیں تو وہ نہ صرف ناجائز ہوتی ہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہیں.اگر احمدی گھرانوں نے اپنے گھروں کو ان بیہودگیوں سے پاک نہ رکھا تو پھر اُس عہد کا بھی پاس نہ کیا اور اپنا ایمان بھی ضائع کیا جس عہد کی تجدید انہوں نے اس زمانہ میں زمانے کے امام کے ہاتھ یہ کی ہے.

Page 53

خطبات مسرور جلد هشتم 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 آنحضرت علی ایم نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْإِيْمَانِ کہ حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان وافضلها..حدیث نمبر 59) پس ہر احمدی نوجوان کو خاص طور پر یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آج کل کی برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے.انہی بیہودگیوں کا اثر ہے کہ پھر بعض لوگ جو اس میں ملوث ہوتے ہیں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے پھر بعضوں کو اخراج از جماعت کی تعزیر بھی کرنی پڑتی ہے.ہمیشہ یہ بات ذہن میں ہو کہ میر اہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے.ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت علی الم نے فرمایا : بے حیائی ہر مر تکب کو بد نما بنا دیتی ہے اور شرم و حیاہر حیادار کو حسن و سیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے.( ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الفحش والتفحش.حدیث نمبر 1974) پس یہ خوبصورتی ہے جو انسان کے اندر نیک اعمال کو بجالانے اور اس کی تحریک سے پیدا ہوتی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی علی کم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی شرم دل میں ہو جیسا کہ اس سے شرم کرنے کا حق ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں شرم بخشی ہے.آنحضرت صلی لی ہم نے فرمایا: یوں نہیں.بلکہ جو شخص شرم رکھتا ہے وہ اپنے سر اور اس میں سمائے ہوئے خیالات کی حفاظت کرے.(یہ شرم ہے کہ اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کی حفاظت کرو).پیٹ اور جو اس میں خوراک بھرتا ہے اس کی بھی حفاظت کرے.موت اور ابتلا کو یاد رکھنا چاہئے.جو شخص آخرت پر نظر رکھتا ہے وہ دنیوی زندگی کی زینت کے خیالات کو چھوڑ دیتا ہے.پس جس نے یہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی خدا کی شرم رکھی.( ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع باب 24/ 89 حدیث نمبر 2458) آنحضرت صلی علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے.پس ذہن میں آنے والے ہر خیال کو اللہ تعالیٰ کی شرم لئے ہوئے آنا چاہئے.اگر کوئی بد خیال آتا بھی ہے تو اسے فوری طور پر جھٹکا جانا چاہئے.استغفار کے ذریعہ سے اس کو جھٹکنا چاہئے.جب خیالات پاکیزہ ہوں گے تو عمل بھی پاک ہوں گے.پھر لغویات ایسے انسانوں پر کوئی اثر نہیں ڈال سکیں گی.اسی طرح انسان اپنی روزی کے بھی حلال ذرائع استعمال کرے.محنت کرے.محنت سے کمائے.بجائے اس کے کہ دوسروں کے پیسے پر نظر رکھ کر چھینے کی کوشش کرے یا غلط طریق سے پیسے کمائے.پاکستان وغیرہ میں رشوت وغیرہ بھی بڑی عام ہے یہ سب حلال کی کمائیاں نہیں ہیں.آپ نے یہی فرمایا کہ اپنے پیٹ اور اس میں جو خوراک بھرتا ہے اس کی بھی حفاظت کرے.پس جائز کمائی سے اپنا بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی پیٹ پالے اور ایسے ہی لوگ ہیں جو پھر اللہ اور اس کے رسول پر صحیح ایمان لانے والے ہوتے ہیں.

Page 54

خطبات مسرور جلد هشتم نے فرمایا کہ: 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا ہے.اللہ کو پانے کے لئے یہ دعا لکھی ہوئی ہے.آپ ”اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے راہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یاد نیا کی حرص و ہوا“.پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 439 مطبوعہ ربوہ) پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے عہد کو نبھاتے ہوئے، اپنی بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقیقی ایمان لانے والوں میں شامل ہوں.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا.ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی.اگر اس کے بعد پھر ہم دنیا داری میں پڑکر رسم و رواج یا لغویات کے طوق اپنی گردنوں میں ڈالے رہیں گے تو ہم نہ عبادتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں نہ نور سے حصہ لے سکتے ہیں.قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی الم کے بارے میں یہ فرمایا.کہ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ - (الاعراف: 158) کہ جو اس پر ایمان لانے والے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان پر ناپاک چیز میں حرام قرار دیتا ہے اور ان سے ان کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے.گر دنوں میں جو پھندے پڑے ہوئے ہیں وہ اتار دیتا ہے.جو پھندے پہلی قوموں میں پڑے ہوئے تھے ، پہلی نسلوں میں پڑے ہوئے تھے ، اپنے دین کو بھول کر رسم و رواج میں پڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں نے گلوں میں جو پھندے ڈالے ہوئے تھے اب وہی باتیں بعض مسلمانوں میں پیدا ہو رہی ہیں.اگر ہم میں بھی پیدا ہو گئیں تو پھر ہم یہ کس طرح دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم اس وقت آنحضرت صلی الیکم کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں.پس یہ طوق ہمیں اتارنے ہوں گے.پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہم اس نبی پر بھی ایمان لائے ہیں جس نے ہمارے لئے حلال و حرام کا فرق بتا کر دین کے بارہ میں غلط نظریات کے طوق ہماری گردنوں سے اتارے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ باوجود ان واضح ہدایات کے پھر بھی بعض طوق اپنی گردنوں پر ڈال لئے ہیں.لیکن ہم احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت کے بعد اس حقیقت کو دوبارہ سمجھے ہیں کہ یہ طوق اپنی گردنوں سے کس طرح اتارنے ہیں.اللہ کا احسان ہے کہ قبروں پر سجدے سے ہم بچے ہوئے ہیں.پیر پرستی سے عموماً بچے ہوئے ہیں.بعض جگہ اکاڈ کا شکایات آتی بھی ہیں.عمومی طور پر بعض غلط قسم کے رسم

Page 55

خطبات مسرور جلد هشتم 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جنوری 2010 ورواج سے ہم بچے ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا بعض چیزیں راہ پارہی ہیں.اگر ہم بے احتیاطیوں میں بڑھتے رہے تو یہ طوق پھر ہمارے گلوں میں پڑ جائیں گے جو آنحضرت صلی الی یکم نے ہمارے گلوں سے اتارے ہیں اور جن کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتارنے کی پھر نصیحت فرمائی ہے.اور پھر ہم دین سے دور ہٹتے چلے جائیں گے.اب ظاہر ہے جب ایسی صورت ہو گی تو پھر جماعت سے بھی باہر ہو جائیں گے.کیونکہ جماعت سے تو وہی جڑ کر رہ سکتے ہیں جو نور سے حصہ لینے والے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور کتاب سے حصہ لے رہے ہیں.جو اللہ اور رسول اور اس کی کتاب سے حصہ نہیں لے رہے وہ نور سے بھی حصہ نہیں لے رہے.جو نور سے حصہ لینے کی کوشش نہیں کر رہے وہ ایمان سے بھی دور جارہے ہیں.تو یہ تو ایک چکر ہے جو چلتا چلا جاتا ہے.پس ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے.آنحضرت صلی یکم جو خود بھی نور تھے اور آسمان سے کامل نور آپ پر اتر تھا یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ میرے دل اور میرے دیگر اعضاء میں نور رکھ دے.( بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذانتبه من اللیل حدیث نمبر 6316) یہ دعا اصل میں تو ہمیں سکھائی گئی ہے کہ ہر وقت اپنی سوچوں اور اپنے اعضاء کو، اپنے خیالات کو ، اپنے دماغوں کو ، اپنے جسم کے ہر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق استعمال میں لانے کی کوشش کرو اور اس کے لئے دعا کرو کہ ذہن بھی پاکیزہ خیال رکھنے والے ہوں اور عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں.اللہ اور اس کے رسول کے قول پر عمل کرنے والے ہوں.رسم و رواج سے بچنے والے ہوں.دنیاوی ہو اوہوس اور ظلموں سے دور رہنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہم ہمیشہ حصہ پاتے چلے جائیں.کبھی ہماری کوئی بد بختی ہمیں اس نور سے محروم نہ کرے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 6 مورخہ 5 فروری تا 11 فروری 2010 صفحہ 5تا8)

Page 56

خطبات مسرور جلد ہشتم 41 4 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010ء بمطابق 22 صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت صلی علیکم کے مقام اور کمال نور کو بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”..عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے).(براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 195.حاشیہ نمبر 11) کہ عقلی لحاظ سے بھی اور باقی اخلاق کے لحاظ سے بھی آپ صلی اللہ ہم اس مقام پر واقع تھے جس کی کوئی انتہا نہیں اور ہر چیز ، ہر اخلاق، ہر عمل جو تھا اس میں ایک نور بھرا ہوا تھا اور روشنی خود بخود نظر آتی تھی.قرآن کریم کے فرمان نُورٌ عَلی نُورٍ (النور: 36) نور فائض ہوا نور پر ، کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ( یعنی جب کہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی الیکم میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نور آسانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود بانجو د خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا.براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 195.حاشیہ نمبر (11) ( نوروں کا مجموعہ بن گیا).پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” قرآن شریف میں آنحضرت صلی یی کم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے“.(براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 196.حاشیہ نمبر (11) ایک جگہ نور اور سراج منیر کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”آپ کا نام چراغ رکھنے میں ایک اور باریک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس میں کوئی نقص بھی نہیں آتا.چاند سورج میں یہ بات نہیں.اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرت علی علیکم کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھوں انسان اس مرتبہ پر پہنچیں گے اور آپ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اور جاری ہو گا.غرض یہ سنت اللہ ہے کہ ظلمت کی انتہا کے وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کی

Page 57

خطبات مسرور جلد ہشتم 42 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 وجہ سے کسی انسان کو اپنی طرف سے علم اور معرفت دے کر بھیجتا ہے اور اس کے کلام میں تاثیر اور اس کی توجہ میں جذب رکھ دیتا ہے.اس کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں.مگر وہ ان ہی کو جذب کرتے ہیں اور ان ہی پر ان کی تاثیرات اثر کرتی ہیں جو اس انتخاب کے لائق ہوتے ہیں.دیکھو آنحضرت ملا لیے کم کا نام سراجًا منيرا ہے مگر ابو جہل نے کہاں قبول کیا؟“ نور اور سراج منیر علی ام ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 665 جدید ایڈیشن) آج میں اللہ تعالیٰ کے اس نور اور روشن چراغ جو نُورٌ عَلى نُورٍ ہے، کے مقام اور آپ کے ظاہری حسن کے بارہ میں کچھ احادیث پیش کروں گا.جن سے آپ کے ظاہری حسن کے نور کا بھی پتہ چلتا ہے.اسی طرح آپ کے مقام اور اپنی اُمت کو نور سے حصہ دینے کے لئے بعض دعائیں جو آپ نے سکھائی ہیں ان کا ذکر کروں گا.خیال یہ تھا کہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی اس حوالے سے واقعات بیان ہوں لیکن یہ واقعات کافی ہیں اس لئے آج تو بیان نہیں ہو سکیں گے.آئندہ انشاء اللہ.انسان کامل جن کا نام محمد مصطفی صلی ا کم ہے جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی علیکم! میں نے زمین و آسمان کو بھی تیری وجہ سے پیدا کیا ہے.اپنے نور ہونے کے بارے میں آپ صلی علی یم خو د فرماتے ہیں.ایک روایت مرقاة المفاتیح شرح مشکوۃ کتاب الایمان میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میر انور ہے.(مرقاة المفاتيح شرح مشکوۃ المصابيح كتاب الايمان باب الایمان بالقدر الفصل الثانی شرح حدیث نمبر 94 جلد اول صفحہ 270 حاشیہ مطبوعہ بیروت لبنان 2001ء) یعنی اللہ تعالیٰ نے ابتداء سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس انسان کامل کو دیا جانے والا نور وہ نور ہے جو نہ پہلوں میں کبھی کسی کو دیا گیا اور نہ بعد میں آنے والوں کو دیا جائے گا.وہ صرف اور صرف انسان کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علم میں ہو گا.آنحضرت صلی غیر کم اپنی والدہ کی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے اندر سے ایک نور نکلا ہے.جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 64 مسند عتبة بن عبد السلمی حدیث نمبر 17798 مطبوعہ بیروت 1998ء) پس دور دراز کے علاقوں تک اور بڑے بڑے محلات تک، بڑی بڑی حکومتوں تک آپ کے نور کے پھیلنے کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو بھی دی تھی.جس والدہ نے اپنے بچے کی پیدائش بھی ہیوگی کی حالت میں دیکھی اور خود بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت اپنے اس عظیم بچے کے بچپن کا پورا زمانہ بھی نہیں دیکھنا تھا، ان کو اللہ تعالیٰ نے تسلی کرادی کہ باپ کے سائے سے محروم یہ بچہ محرومیت میں زندگی گزارنے والا نہیں ہے.بلکہ اس کے

Page 58

خطبات مسرور جلد ہشتم 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 نور نے تمام انسانیت کی روشنی کا ذریعہ بننا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ کسی عظمت اور شان سے آپ کی والدہ کی یہ رویا پوری ہو رہی ہے.آنحضرت صلی اللہ ظلم کے خدو خال کے بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے ”حضرت حسن بن علی نے کہا: میں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے نبی کریم صلی علیہ کم کا حلیہ مبارک پوچھا اور وہ نبی صلی الیکم کا حلیہ خوب بیان کرتے تھے اور میں چاہتا تھا کہ وہ میرے سامنے بھی ان (خد و خال ) کا کچھ ذکر کریں جس سے میں چمٹ جاؤں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی للی نم بارعب اور وجیہ شکل و صورت کے تھے.آپ کا چہرہ مبارک یوں چمکتا جیسے چودھویں کا چاند.“ (شمائل النبي صلى ال ال باب ما جاء فی خلق رسول اللہ صلی علم حدیث نمبر 7 اردو ترجمہ شائع کردہ نور فاؤنڈیشن.ربوہ) پھر آپ کے حسن اور خوبصورتی کے بارہ میں ایک روایت میں ہے.”حضرت جابر بن سمرہ کی روایت ہے.انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی للی یکم کو چاندنی رات میں دیکھا.آپ سرخ جوڑے میں ملبوس تھے (سرخ کپڑے پہنے ہوئے تھے.میں کبھی آپ کی طرف دیکھتا کبھی چاند کی طرف دیکھتا.آپ میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے.“ ( شمائل النبی صلی ا باب ما جاء فی خلق رسول اللہ صلی ا یک حدیث نمبر 9 اردو ترجمہ شائع کر دہ نور فاؤنڈیشن.ربوہ) پھر ایک روایت میں آتا ہے.”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی ال نیم سفید رنگ تھے گویا کہ آپ کو چاندی سے بنایا گیا ہے.“ س ( شمائل النبي صلى الله علم باب ما جاء فی خلق رسول اللہ صلی ا یکم حدیث نمبر 11 اردو ترجمہ شائع کر دہ نور فاؤنڈیشن.ربوہ) اسی طرح ایک روایت میں آپ کے حسن اور پر نور چہرے کا یوں بیان ہوا ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الیکم کے سامنے والے دانت ریخدار تھے ( یعنی دانتوں میں ہلکا ہلکا فاصلہ تھا جب آپ کلام فرماتے تو سامنے کے دانتوں کے درمیان سے ایک نور سا ظاہر ہو تا تھا.( شمائل النبی صلی ا باب ما جاء فی خلق رسول اللہ صلی ا یکم حدیث نمبر 14 اردو ترجمہ شائع کر دہ نور فاؤنڈیشن.ربوہ) پھر اپنوں کو ہی نہیں بلکہ آپ کا نور ہر سعید فطرت کو نظر آتا تھا.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الی یکم مدینہ میں تشریف لائے تو کہا گیا کہ رسول اللہ صلی ال تم تشریف لے آئے.میں بھی لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لئے آیا.جب میں نے غور سے رسول اللہ صلی الیم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو میں جان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے.(سنن ترمذی کتاب القیامۃ والرقائق والورع باب 107/42 حدیث 2485) جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ صلی علیکم کا نام چراغ رکھا، اور چراغ سے

Page 59

44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہزاروں چراغ روشن ہوتے ہیں.دنیا نے دیکھا کہ آپ نے اپنی زندگی میں ہی ہزاروں لاکھوں چراغ روشن کر دیئے اور آج تک یہ روشنی دنیا میں پھیلتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان روشنی پانے والوں ، عبادت کرنے والوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کو خوشخبریاں بھی دی ہیں کہ وہ جنت کے وارث بنیں گے.آنحضرت علی کرم نے فرمایا: میں ان نور حاصل کرنے والوں کو پہچان لوں گا.اس کی تفصیل ایک روایت میں یوں بیان ہوئی ہے.عبد الرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر اور حضرت ابو درداء سے سنا کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اُمتوں میں سے میں اپنی اُمت کو پہچان لوں گا.(صحابہ) نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ کیسے اپنی امت کو پہچان لیں گے ؟ فرمایا کہ میں ان کو پہچان لوں گا کیونکہ ان کی کتاب ان کو دائیں ہاتھ میں دی جائے گی اور کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں کی علامتوں سے میں ان کو پہچان لوں گا اور میں انہیں ان کے نور کی وجہ سے پہچان لوں گا جو ان کے آگے ہو گا.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 275 مسند ابوالدرداء حديث 22083 مطبوعہ بیروت 1998ء) اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کی نشانی بتائی ہے کہ نور ان کے آگے آگے چلے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سجدہ کرنے والوں کے متعلق فرماتا ہے یا مومنوں کے متعلق فرماتا ہے جن کے چہروں سے نور ظاہر ہوتا ہے کہ تربهُم رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ اثرِ السُّجُودِ (الفتح: 30) تو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا.وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں.سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر ان کی نشانی ہے.پس چہروں کا یہ نور ، کثرت سجود اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر دم تیار رہنے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی وجہ سے انہی کے آگے آگے چلے گا جو اعمال صالحہ بجالانے والے ہوں گے ، جو عبادات کرنے والے ہوں گے.پس آنحضرت صلی الم نے امت میں انہیں شامل فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں اور عبادت میں بھی طاق ہیں.پس ایک احمدی کو اس مضمون کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہئے.عبادتوں کے معیار اونچے کرنے سے نور حاصل ہونے کے بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت بُریدہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الہ وسلم نے فرمایا: اندھیرے میں مسجد کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی بشارت دے دے.(سنن ابو داؤد کتاب الصلاة باب ما جاء فى المشى الى الصلاة في الظلام حديث 561) یعنی فجر اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے لئے مسجد میں آنے والوں کو نور کی بشارت دے دے جو تکلیف

Page 60

45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کر کے آتے ہیں.ایک جگہ تو فجر اور عشاء کی نماز نہ پڑھنے والوں کے بارہ میں بڑی سختی سے انذار بھی فرمایا ہوا ہے.پس یہ ہیں وہ لوگ جو آنحضرت صلی یک کم کی پیروی میں آپ کے احکامات پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے نور حاصل کرتے ہیں.پھر بخشش اور شفاعت کا مضمون ہے جو آنحضرت صلی علیکم کے ساتھ ، آپ کے وجود کے ساتھ خاص اہمیت رکھتا ہے.ایک روایت میں اس کا یوں ذکر آیا ہے.حضرت عقبہ بن عامر جہنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب اللہ اولین و آخرین کو جمع کرے گا اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اور جب وہ فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا تو ومنین کہیں گے کہ ہمارے رب نے ہمارے درمیان فیصلہ کر دیا ہے.کون ہے جو ہمارے رب کے حضور ہمارے لئے شفاعت کرے.( یہ مومنین کا فیصلہ ہوا ہے اور مومنین پوچھ رہے ہیں.کون ہے جو شفاعت کرے؟).پھر وہ کہیں گے کہ آدم کے پاس چلو کیونکہ اللہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور اس سے کلام کیا ہے.وہ آدم کے پاس آکر کہیں گے کہ آپ چلیں اور ہمارے رب کے حضور ہماری شفاعت کریں تو آدم کہیں گے تم نوح کے پاس جاؤ.پھر وہ نوح کے پاس آئیں گے تو وہ ان کو ابراہیم کے پاس بھیج دیں گے.پھر وہ ابراہیم کے پاس آئیں گے تو وہ ان کو موسیٰ کے پاس جانے کا کہیں گے.پھر وہ موسیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ ان کو عیسی کی طرف راہنمائی کریں گے.وہ عیسی کے پاس آئیں گے تو وہ ان سے کہیں گے میں تمہاری نبی امی کی طرف راہنمائی کرتاہوں.آپ نے فرمایا کہ پھر وہ میرے پاس آئیں گے پھر اللہ تعالیٰ مجھے اپنے حضور کھڑے ہونے کی اجازت دے گا.پھر میرے بیٹھنے کی جگہ سے ایسی خوشبودار ہوا اٹھے گی جسے کبھی کسی نے پہلے نہیں سونگھا ہو گا.یہاں تک کہ میں اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گا.پھر وہ مجھے شفاعت کی اجازت دے گا اور میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پاؤں کے ناخنوں تک نور بھر دے گا.اُس وقت کافر ابلیس سے کہیں گے کہ مومنوں نے تو ایسے وجود کو ڈھونڈ لیا ہے جو ان کی شفاعت کرے.پس تو بھی اٹھ اور اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کر کیونکہ تو نے ہی ہمیں گمراہ کیا تھا.آپ صلی للی یکم نے فرمایا کہ وہ اٹھے گا تو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے ایسی بدبودار ہوا آئے گی جسے کبھی کسی نے پہلے نہیں سونگھا ہو گا.پھر اسے جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا.اس وقت وہ کہے گا کہ وَ قَالَ الشَّيْطنُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُكُمْ فَاخْلَفْتُكُمْ - (ابراہیم : 23) اور شیطان کہے گا کہ جب یہ فیصلہ نپٹا دیا جائے گا کہ یقیناً اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا جبکہ میں ہمیشہ تم سے وعدہ کرتا تھا اور پھر میں خلاف ورزی کر تا رہا.( سنن الدار می کتاب الرقاق باب فی الشفاعۃ حدیث 2806) اور آج بھی یہ اس وعدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے.پس یہ مقام ہے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی علیکم کہا کہ آپ کا نور سب انبیاء کے

Page 61

خطبات مسرور جلد ہشتم 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 نوروں سے چمکتا ہوا ظاہر ہو گا اور شفاعت کا اذن صرف آپ کو دیا جائے گا.پس ہزاروں ہزار درود و سلام ہوں ہمارے اس پیارے نبی پر جن کے ساتھ جڑنے سے دنیا بھی سنورتی ہے اور عاقبت بھی سنورتی ہے.ایک روایت میں آتا ہے.رسول اللہ صلی لینکم نے فرمایا.جب صبح ہو تو چاہئے کہ تم میں سے ہر کوئی یہ کہے ہم نے صبح کی اور اللہ کی سلطنت نے بھی جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے.ہم نے اور تمام سلطنت نے اللہ تعالیٰ کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے صبح کی.اے اللہ ! میں تجھ سے اس دن کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس کی فتح اور مدد کا طلب گار ہوں اور اس کا نور اور برکت اور ہدایت چاہتا ہوں اور اس میں جو شر پوشیدہ ہے اور جو شر اس کے بعد آنے والا ہے اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں.پھر جب شام ہو تو چاہئے کہ وہ یہی کلمات دوہرائے.(سنن ابی داؤ د کتاب الادب باب ما يقول اذا اصبح حدیث نمبر 5084) پس نور حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین ذریعہ جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے عبادات ہیں، راتوں کی عبادت ہے ، دل کا تقویٰ ہے ، دن کی فرض نمازیں ہیں.الفارس ایک روایت میں آنحضرت صلی علی نکم نے نور کے حصول کے لئے اور آپ صلی الی یوم کے نور سے فیض حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت دلوں میں قائم کرنے کے لئے کہ اس کے بغیر خدا کا نور نہیں ملتا، مومنوں کو یہ نصیحت فرمائی.سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے فرمایا : جس نے سورۃ کہف کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی وہ اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک نور بن جائیں گی اور جس نے ساری سورۃ کی تلاوت کی تو وہ اس کے لئے آسمان و زمین کے درمیان نور بن جائے گی.(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 374 مسند معاذ بن انس حدیث 15711 مطبوعہ بیروت 1998ء) ایک حدیث میں دجال کے فتنے سے بچنے) کے لئے بھی سورۃ کہف کی پہلی دس آیات اور آخری دس آیات پڑھنے کی طرف آنحضرت صلی علی تم نے توجہ دلائی اور اس کی تلقین فرمائی ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 890،896 مسند ابو الدرداء عویمر حدیث نمبر 28090-28066 مطبوعہ بیروت لبنان 1998ء) اور دجال کا فتنہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے انکار کا فتنہ ہے.پس آجکل یہ فتنہ زوروں پر ہے اور اس کے زوروں پر ہونے کی وجہ سے ان آیات کے پڑھنے کی طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.دجال نے اپنے دجل سے جو مختلف قسم کے شرک پھیلائے ہوئے ہیں، ان سے بچنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار اور توحید کے قیام کے لئے عبادات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.ان آیات پر غور کرنے کی ضرورت ہے.جب ہم اپنے دلوں میں حقیقی توحید قائم کریں گے تو پھر اس نور سے حصہ لینے والے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کا نور ہے.

Page 62

47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جس کے سب سے اعلیٰ اور اکمل فرد حضرت محمد مصطفی اللہ علیہ وسلم تھے جو انسان کامل کہلائے.پس صرف آیات پڑھ کر یا آیات پڑھ لینے سے انسان نور سے حصہ نہیں لے گا بلکہ اس اُسوہ پر چلنے سے حصہ ملے گا جو توحید کے قیام کے لئے آنحضرت صلی اللی کلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.پھر آپ نے امت کو فتنوں اور فساد سے بچنے کے لئے، معاشرے کو خوبصورت بنانے اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اس نور سے منور کرنے کے لئے دعا سکھائی ہے.ایک روایت میں ذکر آتا ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال کی ہمیں کلمات سکھایا کرتے تھے لیکن آپ کا یہ کلمات سکھانا ہمیں تشہد سکھانے کی طرح نہ تھا.(کلمات یہ تھے) اے اللہ ! ہمارے دل پر خیر جمع کر دے اور ہمارے درمیان صلح کے سامان مہیا فرما اور ہمیں سلامتی کی راہیں دکھا اور ہمیں اند ھیروں سے نجات دے اور نور کی طرف لے آ اور ہمیں بُری باتوں اور فتنوں سے بچا.خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے.اور اے ہمارے رب ہمارے کانوں، آنکھوں اور دلوں میں برکت دے اور بیویوں اور اولاد میں بھی برکت عطا فرما اور ہم پر رجوع بر حمت ہو.یقیناً تو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اور ہمیں اپنی نعمت کا شکر گزار اور اس کی تعریف کرنے والا اور اسے قبول کرنے والا بنا اور وہ نعمت ہم پر پوری کر.(سنن ابی داؤد کتاب الصلاة باب التشهد حديث 969) اور سب سے بڑی نعمت ایک مومن کے لئے اس کے دین پر قائم رہنا ہے.اعمال صالحہ بجالانا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے.اس کے حقوق ادا کرنا ہیں.اس کے لئے ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے.الله پھر آپ نے ایک اور دعا سکھائی.طاؤس روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ جب نبی صلی علی کم نماز تہجد کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! تعریف کے لائق تو ہی ہے.تو ہی آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان کو قائم رکھنے والا ہے.تعریف کے لائق صرف تو ہی ہے.زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی بادشاہی تیری ہے.تعریف کا تو ہی مستحق ہے.زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کا نور تو ہی ہے.اور تعریف کے لائق تو ہی ہے.تو ہی آسمان وزمین کا مالک ہے اور تعریف کے لائق تو ہی ہے.تو بر حق ہے اور تیر اوعدہ برحق ہے اور تیری ملاقات برحق ہے اور تیرا قول بر حق ہے اور جنت بر حق ہے اور دوزخ برحق ہے اور انبیاء برحق ہیں اور محمد صلی علیہ کم بر حق ہیں اور قیامت کا ظہور پذیر ہو نا برحق ہے.اے اللہ ! میں تیری طرف متوجہ ہو تا ہوں اور تجھ پر ایمان لاتا ہوں اور تجھ پر توکل کرتا ہوں اور تیری طرف جھکتا ہوں اور تیری مدد کے ساتھ مجادلہ کرتا ہوں اور تجھ سے ہی میں فیصلہ کا طالب ہوں.پس تو مجھے میرے وہ گناہ بخش دے جو مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں یا جو آئندہ سرزد ہوں گے اور وہ بھی جو میں نے پوشیدہ طور پر کئے ہیں اور جو اعلانیہ طور پر

Page 63

خطبات مسرور جلد هشتم 48 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010.سب سے پہلے بھی تو ہے اور سب سے آخر بھی تو ہے.تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.( بخاری کتاب التجد - باب التجد بالليل...حدیث نمبر (1120) پس نفس کی پاکیزگی اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے شیطان سے ایک جنگ کرنی پڑتی ہے.آنحضرت صلی علیکم کا شیطان تو آپ نے فرمایا کہ مسلمان ہو گیا ہے.(سنن الترمذی کتاب الرضاع باب 17 /17 حدیث :1172) جب آپ یہ دعائیں کرتے ہیں اور اس درد سے کرتے ہیں تو ایک عام مومن کو کس قدر درد کے ساتھ دعائیں کرنے کی ضرورت ہے اور یہ دعائیں اور شیطان سے یہ جنگ، دعائیں کرنے کی یہ توفیق اللہ تعالیٰ کی مدد سے ملتی ہے.اور شیطان سے جو جنگ انسان نے کرنی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں.اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا حصول اس وقت ممکن ہے جب اس کے حضور جھکنے والا بنا جائے.جب اس کا حق ادا کیا جائے.اس کے نور کی تلاش کی جائے.اللہ تعالیٰ ہر مومن کو اس کی توفیق عطا فرمائے.پھر ایک روایت میں ایک دعا اس طرح بیان ہوئی ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: اگر کسی کو کوئی تکلیف اور کوئی غم پہنچا ہو تو وہ یہ کلمات کہے کہ اے اللہ !میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے بندے کا اور تیری لونڈی کا بیٹا ہوں.ایک عام غلام کا ایک عورت کا بیٹا ہوں.یعنی ایک عام آدمی کا اور ایک عورت کا بیٹا ہوں.میری پیشانی کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں.(تو ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے.) تیر ا حکم میرے بارہ میں چل رہا ہے اور میرے بارہ میں تیری قضاء و قدر انصاف پر مبنی ہے.( ظلم تو تو بہر حال مجھ پر نہیں کرے گا.جو بھی تو کرے گا وہ میرے گناہوں کی سزا ہے، میرے اپنے اعمال کی سزا ہے.جزا ہے تو وہ بھی تیری باتیں ماننے کی وجہ سے اور تیرے فضل کی وجہ سے ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کبھی ظلم نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ میں ظلم نہیں کرتا.رحمت اللہ تعالیٰ کی وسیع ہے لیکن اللہ تعالیٰ کسی بندے پر ظلم کبھی نہیں کرتا.میرے بارہ میں تیری قضاء و قدر انصاف پر مبنی ہے).میں تجھے تیرے ان تمام صفاتی ناموں کے ساتھ جن سے تو نے اپنے آپ کو یاد کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے مانگتا ہوں یا جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اس کے ساتھ مانگتا ہوں.یا جسے تو نے اپنے علم غیب میں ترجیح دی ہوئی ہے اس کے ذریعہ سے سوال کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا تو انسان کو علم نہیں.اس لئے اپنے علم غیب کے لحاظ سے جنہیں ترجیح دی ہے ان کے واسطہ سے بھی مانگتا ہوں) کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار بنادے اور میرے سینے کانور بنادے اور میرے غم و حزن کو بھگانے اور دور کرنے کا باعث بنادے.جب وہ یہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم اور حزن کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ فرحت اور سرور رکھ دے گا.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا.یارسول اللہ صلی للی کم کیا ہم اس کو یاد نہ کر لیں.آپ نے فرمایا کیوں نہیں جو بھی اسے سنے چاہئے کہ وہ اس کو یاد کرلے.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 47 مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث 3712 مطبوعہ بیروت 1998ء)

Page 64

خطبات مسرور جلد ہشتم 49 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 جیسا کہ پہلے بھی میں ایک خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ا اور قرآن کریم وہ نور ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان کے حملوں سے بچا جاسکتا ہے.پس اس دعا میں قرآن کریم کو بہار بنانے کا مطلب ہے کہ اسے پڑھنے ، اس پر عمل کرنے ، اس کو سمجھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور جب ہم اس دعا پر غور کرتے ہوئے قرآن کریم کو پڑھیں گے ، سمجھنے کی کوشش کریں گے ، عمل کریں گے تو ظاہر ہے جو بھی عمل ہو گا اس سے لازماً حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہو رہی ہو گی اور حقوق اللہ بھی ادا کرنے کی کوشش ہو رہی ہو گی اور حقوق العباد بھی ادا کرنے کی طرف توجہ ہو رہی ہو گی اور کوشش ہو رہی ہو گی.عبادت کے معیار بڑھیں گے اور الا بذکر اللهِ تَطْمَينُ القُلُوبُ ( سورة الرعد: آیت (29) کا مضمون اپنی شان دکھاتے ہوئے اطمینان قلب کا باعث بنے گا.مشکلات سے نکالنے کا باعث بنے گا.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رات کو جب رسول اللہ صلی الم نماز سے فارغ ہوئے میں نے آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا.اے اللہ !میں تیری اس رحمت خاص کا طلبگار ہوں.جس کے ذریعہ تو میرے دل کو ہدایت عطا کر دے اور میرے کام بنا دے اور میرے پراگندہ کاموں کو سنوار دے اور میرے بچھڑے ہوؤں کو ملا دے.اور میرے تعلق رکھنے والے کو رفعت دے.تو اپنی رحمت کے ذریعہ میرے عمل کو پاک کر دے اور مجھے رشد و ہدایت الہام کر اور جن چیزوں سے مجھے الفت ہے وہ مجھے مل جائیں.ہاں ایسی رحمت خاص جو مجھے ہر برائی سے بچالے.اور اے اللہ ! مجھے ایسا دائمی ایمان وایقان بھی نصیب فرما جس کے بعد کفر نہیں ہوتا.( اب آنحضرت علی علیہ یکم کا مقام دیکھیں فرماتے ہیں) اے اللہ مجھے ایسا دائمی ایمان و ایقان بھی نصیب فرما جس کے بعد کفر نہیں ہوتا.( یہ دعا ہمیں کس قدر کرنی چاہئے؟).ایسی رحمت عطا کر جس کے ذریعہ مجھے دنیا و آخرت میں تیری کرامت کا شرف نصیب ہو جائے.اے اللہ ! میں تجھ سے ہر فیصلے میں کامیابی چاہتا ہوں اور شہیدوں کی سی مہمان نوازی اور سعادت مندی کی زندگی اور دشمنوں پر فتح و نصرت کا خواستگار ہوں.مولیٰ میں تو اپنی حاجت لے کر تیرے در پر حاضر ہو گیا ہوں.اگر میری سوچ ناقص اور میری تدبیر کمزور بھی ہے تب بھی میں تیری رحمت کا محتاج ہوں.پس اے تمام معاملات کے فیصلے کرنے والے اور اے دلوں کو تسکین عطا کرنے والے ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح بھرے سمندروں میں تو انسان کو بچالیتا ہے اسی طرح مجھے آگ کے عذاب سے بچالے.ہلاکت کی آواز اور قبر کے فتنے سے مجھے پناہ دے اور اے میرے مولیٰ !جس دعا سے میری سوچ کو تاہ ہے ( جہاں تک میری سوچ نہیں پہنچ سکتی) اور جس امر کے لئے میں نے دست سوال دراز نہیں کیا ہاں وہ خیر اور وہ بھلائی جس کی میں نیت بھی نہیں باندھ سکا.نہ صرف یہ کہ دست سوال نہیں پھیلا یا بلکہ نیت بھی نہیں

Page 65

50 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم باندھ سکا).مگر تُو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ اس خیر کا وعدہ کر رکھا ہے یا اپنے بندوں میں سے کسی کو وہ خیر تو عطا کرنے والا ہے.تو ایسی ہر خیر کے لئے میں رغبت رکھتا ہوں.( مجھے بھی عطا فرما ) اور اے سب جہانوں کے رب ! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تجھ سے وہ خیر مانگتا ہوں.اے اللہ ! مضبوط تعلق والے اور رشد و ہدایت کے مالک ! میں قیامت کے روز تجھ سے امن کا خواہاں ہوں اور اس دائمی دور میں جنت چاہتا ہوں.تیرے دربار میں حاضری دینے والے مقرب بندوں کے ساتھ اور رکوع و سجود بجالانے والوں اور عہد پورا کرنے والوں کی معیت میں.یقینا تو بہت رحم اور محبت کرنے والا ہے.(دیکھیں میں تیرے دربار میں حاضری دینے والے مقرب بندوں کے ساتھ، رکوع و سجود بجالانے والوں اور عہد پورا کرنے والوں کی معیت میں.پس عہد پورا کرنا بھی ایک بہت ضروری چیز ہے.یقینا تو بہت رحم اور محبت کرنے والا ہے).بے شک تو جو چاہتا ہے کرتا ہے.اے اللہ! ہمیں ایسا ہدایت یافتہ را ہنما بنادے جو خود گمراہ ہونے والے ہوں نہ گمراہ کرنے والے بنیں.( نہ خود گمراہ ہوں نہ دوسروں کو گمراہ کرنے والے بنیں).تیرے پیاروں اور دوستوں کے لئے ہم سلامتی کا پیغام ہوں.اگر مسلمان بھی یہ دعا کریں اور اگر نیک نیتی سے دعا کی جائے تو ان کو اس زمانہ کے امام کو ماننے کی بھی توفیق ملے.) فرمایا اور تیرے دشمنوں کے لئے جنگ کا نشان، تیرے پیاروں اور دوستوں کے لئے ہم سلامتی کا پیغام ہوں اور تیرے دشمنوں کے لئے جنگ کا نشان.فرمایا ہم تیری محبت کے صدقے ، تیرے ہر محب سے محبت کرنے والے اور تیری مخالفت اور دشمنی کرنے والوں سے تیری خاطر عداوت رکھنے والے ہوں.اے اللہ! یہ ہماری عاجزانہ دعا ہے جس کا قبول کرنا تیرے پر منحصر ہے.اے اللہ ! بس یہی دعا ہماری سب محنت اور تدبیر ہے اور سب بھروسہ تیری ذات پر ہے.اے اللہ میرے لئے میرے دل میں نور پیدا کر دے.میری قبر کو بھی روشن کر دے.میرے آگے اور میرے پیچھے نور کر دے.میرے بائیں بھی نور کر دے اور میرے اوپر بھی نور کر دے اور میرے نیچے بھی نور کر دے اور میری سماعت میں بھی نور بھر دے اور میری بصارت میں بھی نور بھر دے اور میرے بالوں میں بھی نور بھر دے اور میری جلد کو بھی نورانی کر دے اور میرے گوشت اور میرے خون میں بھی نور بھر دے اور میرے دماغ میں بھی نور بھر دے.اور میری ہڈیوں میں بھی نور بھر دے.اے اللہ میرے دل میں نور کی عظمت پیدا کر دے اور پھر مجھے وہ نور عطا کر.بس مجھے سراپا نور ہی نور بنادے.پاک ہے وہ ذات جو بزرگی کالباس زیب فرما کر عزت کے ساتھ ممکن ہے.پاک ہے وہ ذات کہ جس کے سوا کسی کی پاکیزگی بیان کرنی مناسب نہیں.پاک ہے وہ صاحب فضل و نعمت وجود.پاک ہے وہ عزت و بزرگی کا مالک اور پاک ہے وہ جلال اور اکرام والا.(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب 30/30 حدیث (3419)

Page 66

51 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اللہ تعالیٰ ہمیں اس دعا کو سمجھ کر کرنے اور اس کا فیض پانے والا بنائے.ہم اللہ تعالیٰ کے اس نور سے فیض پانے والے ہوں جو آنحضرت صلی ا نام لے کر آئے.آپ سراپا نور تھے لیکن پھر بھی کس درد کے ساتھ یہ دعائیں کرتے تھے.یہ دعائیں اصل میں آپ ہمیں سکھا رہے ہیں کہ میری اُمت کے لوگ، مومنین یہ دعائیں کریں اور سراپا نور بننے کی کوشش کریں.میرے اسوہ پر چلنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں.مخلوق کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں.آپ اپنے متبعین کو بھی اس نور سے منور کرنے کے لئے بے چین تھے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجالانے والے ہوں اور اپنے آقاو مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللی کم کے پیار کو سب پر مقدم رکھتے ہوئے آپ کی اپنی امت کے لئے نیک خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں.آپ نے امت سے جو امیدیں وابستہ رکھیں ان کو پورا کرنے والے ہوں اور ہمیشہ اس نور عملی نُور سے فیض پاتے ہوئے امت ہونے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی علیم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی الی ایم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہاء نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں (الحکم مورخہ 28 فروری 1903ء جلد : 7 شمارہ: 8 صفحہ 7 کالم نمبر 1،2) اور یہ حقدار کون ہیں ؟ وہ جو حقوق اللہ بجالانے والے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے سینے بھی اس نور کو جذب کرنے والے ہوں جو آنحضرت صلی للہ نام کے سینے سے نکل رہا ہے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 7 مورخہ 12 تا18 فروری 2010 صفحہ 5تا8)

Page 67

خطبات مسرور جلد ہشتم 52 5 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010ء بمطابق 29 صلح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) وو تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے خطبہ الہامیہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی اور فرمایا كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 310 حاشیہ ) یعنی نبی کریم صلی للہ ہم نے تمہیں اپنی روحانیت کی تاثیر کے ذریعہ سکھایا اور اپنی رحمت کا فیض تیرے دل کے برتن میں ڈال دیا تا تجھے اپنے صحابہ میں داخل کریں اور تجھے اپنی برکت میں شریک کریں اور تا اللہ تعالیٰ کی خبر وأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ اس کے فضل اور اس کے احسان سے پوری ہو.پس اس فیض نے آپ کو جہاں روحانی نور سے منور کیا وہاں ظاہری نور بھی عطا فرمایا تا کہ نیک فطرت ہر لحاظ سے اس نور سے فیضیاب ہو سکیں.کیونکہ آخرین کا امام ہونے کی وجہ سے صرف عام صحابہ کا نور آپ کو عطا نہیں ہو اتھا بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے آقا کے حسن و احسان میں نظیر بنایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود ) وہ بھی ظلی طور پر آنحضرت صلی یہ کم سے مشابہت رکھتا ہے.جیسا کہ خود آنحضرت صلی یم نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گا“.(ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 307) پس یہ مشابہت ضروری ہے تا کہ آقا کا جلوہ غلام میں بھی نظر آئے.آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حسن اور نور اور آپ کے شمائل کا کچھ ذکر کروں گا.سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ آپ کے ظاہری حسن اور خلیے کو کس طرح دیکھتے تھے.

Page 68

خطبات مسرور جلد هشتم 53 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ” آپ ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کے تمام خلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے.مگر یہ فقرہ بالکل نا مکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ ”یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا.“ اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں امت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا.آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت، ہیبت اور استکبار نہ تھے بلکہ فروتنی، خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی..آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا.یعنی اس میں ایک نورانیت اور سرخی جھلک مارتی تھی اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائی تھی.کبھی کسی صدمہ ، رنج، ابتلاء مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا.کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا.علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں.یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا اور ایمان کا نور بد کار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہو سکتا“.) سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 447 صفحہ 411-410 مطبوعہ ربوہ) آپ کے حسن کا، آپ کے نور کا کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے لیکن یہ ظاہری نور بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے دیا تھا کہ آپ نور مصطفوی میں ڈوب کر اپنے وجود کو کلیتاً اپنے آقا و مطاع کے جسمانی اور روحانی نور میں فنا کر چکے تھے تاکہ آپ کے نور میں بھی نور محمد ی نظر آئے.اپنے ایک فارسی کلام میں آپ فرماتے ہیں.وارث مصطفی شدم به یقین شده رنگین به رنگ یار حسین ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 477) کہ میں یقیناً مصطفی کا وارث اس حسین یار کے رنگ میں حسین ہو کر بن گیا ہوں.فرمایا.لیک آئینه ام زرب غنی از پئے صورت می مدنی ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 478) لیکن رب غنی کی طرف سے آئینہ کی طرح ہوں اس مدنی چاند کی صورت دکھانے کے لئے.پس آپ کا اپنا تو کچھ نہ تھا.روح و جسم نور محمدی کا آئینہ دار تھا.عبادات میں، عادات میں، اخلاق میں غرض ہر چیز میں اپنے آقا و مطاع کے منہ کی طرف دیکھ کر اس کی پیروی کرتے تھے.اپنے اس پیارے مسیح و مہدی

Page 69

54 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اور غلام صادق کے بارہ میں، اس کے مقام کے بارہ میں آنحضرت صلی الی یوم نے بھی یوں فرمایا تھا کہ میرے اور میرے مہدی کے درمیان کوئی نبی نہیں.(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث نمبر 4324) پس یہ مقام نبوت بھی آپ کو اس فنا کی وجہ سے ملا.یہ عشق و محبت کی باتیں ہیں جو حسن و احسان میں اور مقام میں نظیر بناتی ہیں.لیکن انسان کامل ایک ہی تھا جو صرف اور صرف آنحضرت صلی علیکم کی ذات ہے.حضرت خلیفہ ثانی نے بھی اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ.شاگر د نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمد کو محمد سے تم کیسے جدا سمجھے کوئی احمدی ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام آنحضرت صلی الم سے بڑھ کر ہے.یہ الزام جماعت پر ، احمدیوں پر آئے دن لگتے رہتے ہیں لیکن اصل میں احمد ی ہی ہیں جن کو آنحضرت صلیم کے مقام کا، آپ کے نور کا صحیح فہم وادراک ہے.آقا و غلام کے تعلق کے بارہ میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ایک روایت میں فرماتے ہیں.انہوں نے ایک رؤیا دیکھی.کہتے ہیں کہ ”سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد سعادت میں ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی ایلام، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خاکسار تینوں ایک جگہ کھڑے ہیں.آنحضرت صلی اللہ تم کا چہرہ مبارک سورج کی طرح تاباں ہے (روشن ہے) اور آپ مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا چہرہ مبارک چاند کی طرح روشن ہے.اور آپ مغرب کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں.اور (کہتے ہیں کہ ) خاکسار ان دونوں مقدس ہستیوں کے درمیان میں کھڑا ہے.ان کے روشن چہروں کو دیکھ رہا ہے اور اپنی خوش بختی اور سعادت پر نازاں ہو کر یہ فقرہ کہ رہا ہے کہ ”ہم کس قدر خوش نصیب اور بلند بخت ہیں کہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی علی ملک کو بھی پایا اور حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کو بھی پالیا“.(کہتے ہیں کہ ) اُس وقت جب میں نے ان دونوں مقدسوں کے چہروں کی طرف نگاہ کی تو مجھے ایسا نظر آیا کہ حضرت مسیح موعود کا چہرہ مبارک آنحضرت صلی علیم کے چہرہ مبارک کے نور سے منور ہو رہا ہے.( پھر کہتے ہیں کہ ) اس رؤیا کے بعد جب میں دوسری رات سویا تو خواب میں مجھے حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ ملے اور فرمایا کہ ”آپ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ نے امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ پایا ہے“.پھر فرمایا کہ ”میری طرف سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضور السلام علیکم عرض کر دینا“.(کہتے ہیں کہ ) میں اُن دنوں اپنے وطن موضع را جیکی میں مقیم تھا.اس وقت تک جماعت کا نام احمدی نہ رکھا گیا تھا.میں جب صبح بیدار ہوا تو حضرت شیخ سعدی کی خواہش کے مطابق ایک عریضہ ( ایک خط) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں لکھ کر آپ کا تحفہ سلام (یعنی شیخ سعدی کا سلام) حضور کی خدمت میں عرض کر دیا اور اپنی رؤیا بھی بیان

Page 70

خطبات مسرور جلد ہشتم 55 کر دی.اس کے چند روز بعد ( کہتے ہیں ) مجھے پھر رویا میں حضرت شیخ صاحب" کی زیارت ہوئی.آپ نے سلام پہنچانے پر بہت ہی مسرت کا اظہار کیا اور میرے ہاتھ میں ایک کتاب دے کر فرمایا کہ یہ بطور ہدیہ ہے.جب میں نے اس رسالہ کو دیکھا تو اس کے سرورق پر اس کا نام ”سراج الاسرار “ لکھا ہو ا تھا.حیات قدی صفحہ 437-436 مطبوعہ ربوہ) پھر ایک روایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ( ایک خاتون) امۃ الرحمن بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی (یہ آپ کے پہلے دو بیٹوں میں سے چھوٹے بیٹے تھے.) تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے.حضور علیہ السلام جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کا اس طرح ہوتا کہ گویا بشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے.(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1596.حصہ پنجم.صفحہ 323 مطبوعہ ربوہ) میاں رحیم بخش صاحب کی ایک روایت ہے کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب اندر چلے گئے ( مسجد سے اپنے گھر چلے گئے ) ہم نے پیچھے سنتیں پڑھیں اتنے میں باری کے رستے سے (یعنی کھڑکی کے راستے سے) حضور نے حضرت خلیفہ اول کو بلایا.حضور کوئی کتاب لکھ رہے تھے اور حکیم صاحب سے اس کے متعلق کوئی حوالہ پوچھنا تھا یا کوئی بات پوچھنی تھی.میں نے اس باری (کھڑ کی) سے جب حضور کو دیکھا حضور کے سر پر پگڑی نہیں تھی، پٹے رکھے ہوئے تھے.اس نظارہ کی میں کیفیت بیان نہیں کر سکتا.وہ مکان مجھے نور سے بھر اہوا نظر آتا تھا.چہرہ کی وجہ سے مکان منور ہو رہا تھا.آہ اس نورانی چہرہ کا جب بھی تصور آتا ہے جی میں عجیب قسم کے خیالات موجزن ہوتے ہیں.اس وقت کا نقشہ اب تک میری آنکھوں میں ہے.حضور نے حضرت خلیفہ اول سے کوئی بات دریافت کی.وہ باہر آگئے اور حضور نے پھر اندر سے کنڈ الگالیا.(رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ رجسٹر جلد 10 صفحہ 185-184 روایات حضرت میاں رحیم بخش صاحب) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شمائل کے متعلق ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنی تصنیف ”مجدد اعظم میں تحریر کرتے ہیں کہ 1906ء میں میں لمبی رخصت لے کر قادیان گیا ہوا تھا.ایک روز حضرت اقدس کی طبیعت ناساز تھی.سر میں سخت درد تھا.مگر اسی تکلیف میں آپ ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے.مجھے سامنے سے آتے نظر آئے تو گو سر درد کی وجہ سے چہرہ پر تکلیف کے آثار تھے لیکن پیشانی پر ایک نور کا شعلہ چمکتا نظر آتا تھا.جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو تیں اور دل کو سرور آتا تھا.آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ غیر معمولی چمک کس چیز کی تھی.یہ تو خاص اوقات کا ذکر میں نے کیا جن کا اثر غیر معمولی طور پر دل پر رہ گیاور نہ آپ کے چہرہ پر تقدس کے آثار ایسے نمایاں تھے اور انوار روحانی کی بارش کا وہ سماں نظر آتا تھا کہ نا ممکن تھا کہ کوئی شخص

Page 71

56 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اسے دیکھے اور متاثر نہ ہو.ہند و تک اس کے مقر تھے.( یعنی اس بات کا اقرار کرتے تھے ، اس بات کو مانتے تھے).(کہتے ہیں کہ) بٹالہ اور قادیان کے درمیان نہر کے کنارے ایک ہندو دکاندار چھابڑی لگا کر بیٹھا رہا کرتا تھا.وہ کہا کرتا تھا کہ ”مہاراج میں تو ہر ایک آنے جانے والے کو دیکھتا ہوں.بڑے بڑے پٹھان اور شور مایہ کہتے ہوئے ادھر سے گزرے ہیں کہ آج مرزا کا فیصلہ کر کے آویں گے لیکن جب واپس گئے تو مرزا کے ہی گن گاتے ہوئے گئے.مہاراج مرزا تو کوئی دیوی کا روپ ہے “.( یہ ایک ہندو کی تصدیق ہے.) مجد داعظم جلد دوم صفحہ 1242 بار اول 1940ء شائع کردہ احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ) پھر ڈاکٹر بشارت صاحب ہی ایک روایت کرتے ہیں کہ ”وہ آثار تقدس اور انوار آسمانی جو آپ کے چہرہ پر ہر وقت نظر آتے تھے ان کو نہ قلم بیان کر سکتی ہے نہ فوٹو د کھا سکتا ہے.جس وقت آپ ایک چھوٹے سے دروازہ کے ذریعہ گھر میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لاتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ایک نور کا جھمگٹا سامنے آکھڑا ہوا.سب سے پہلے خاکسار مولف نے حضرت اقدس کو سیالکوٹ میں 1891ء میں دیکھا تھا.آپ حکیم حسام الدین مرحوم کے مکان سے نکلے.گلی میں سے گزر کر سامنے کے مکان میں چلے گئے.لیکن مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک نور کا پتلا آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا.جو مقدس سے مقدس شکل میرا ذہن تجویز کر سکتا تھا وہ اس سے بھی بڑھ کر تھا اور بے اختیار میرے دل نے کہا کہ یہ شکل جھوٹے کی نہیں بلکہ کسی بڑے مقدس انسان کی ہے.ایک دفعہ سردیوں کا موسم تھا.میں قادیان گیا ہوا تھا.شام کا وقت اور بارش ہو رہی تھی اور نہایت سرد ہوا چل رہی تھی.مسجد مبارک میں جہاں نماز مغرب پڑھی جاتی تھی.کچھ اندھیر اسا ہورہا تھا.حضرت اقدس اندر سے تشریف لائے تو موم بتی روشن کی ہوئی آپ کے ہاتھ میں تھی جس کا عکس آپ کے چہرہ مبارک پر پڑرہا تھا.اللہ ، اللہ جو نور اس وقت آپ کے چہرہ پر مجھے نظر آیا وہ نظارہ آج تک نہیں بھولتا.چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا جس کے سامنے وہ شمع بے نور نظر آتی تھی.“ مجد داعظم جلد دوم صفحہ 1241-1242.بار اول 1940 ء شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ) حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بیعت کی منظوری آنے کے ایک مہینے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب ( یعنی حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب ) سے عرض کیا کہ میں قادیان جاکر دستی بیعت بھی کرنا چاہتا ہوں مگر میں کبھی گڑھ شنکر سے باہر نہیں گیا.نہ ریل کبھی دیکھی ہے.مجھے قادیان کا راستہ بتا دیں.آپ نے کہا یہاں سے بنگہ پہنچو.وہاں میاں رحمت اللہ صاحب مرحوم باغانوالہ کی دکان پر جا کر ان سے کہنا کہ پھگواڑہ ریلوے سٹیشن کا راستہ بتادیں اور پھر وہاں سے بٹالہ چلے جانا، بٹالے رات کو دس بجے پہنچ جاؤ گے اور ٹھہرنے کی کوئی جگہ معین نہیں ہے.سٹیشن پر ٹھہر جانا تو بٹالہ سے پھر قادیان کچی سڑک جاتی ہے.صبح فجر کے بعد قادیان چلے جانا.تو کہتے ہیں انہوں نے راستہ بتا دیا.میں روانہ ہوا اور جب بٹالہ سٹیشن سے نکلا تو سڑک پر

Page 72

57 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ایک چھوٹی سی مسجد پر نظر پڑی.میں نے کہا کہ مسجد میں ہی رات گزار لیتے ہیں، صبح قادیان تو چلے جانا ہے.کہتے ہیں کہ مسجد میں میں ابھی گیا ہی تھا.تھوڑا وقت ہوا تھا تو ایک شخص آیا اور آکر کہا کہ تم کون ہو.میں نے کہا مسافر ہوں قادیان جانا ہے.اس نے گالی دیتے ہوئے سختی سے کہا کہ خبیث مرزائی آکر مسجد کو خراب کر جاتے ہیں.صبح مسجد دھونی پڑے گی تم یہاں سے نکل جاؤ.میں نے کہا میں تو یہاں آیا ہوں.میں تو رات گزاروں گا.میں نے نہیں جانا.کس طرح تم مجھے خدا کے گھر سے نکال سکتے ہو ؟ تو پھر وہ گالیاں دیتا ہوا چلا گیا.کہتے ہیں صبح کی نماز میں نے پہلے وقت میں پڑھ لی اور قادیان کی طرف روانہ ہوا.مسجد مبارک میں جب میں پہنچا تو پہنچنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک کھڑکی میں سے مسجد مبارک میں تشریف لائے.میں نے جب حضور کو دیکھا تو بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ یہ تو سر پانور ہی نور ہے.یہ تو بچوں اور راستبازوں کا چہرہ ہے.یہ وہی شخص ہے جس کی بابت اخبار الحکم میں کلمات طیبات حضرت امام الزمان پڑھا کرتا تھا اور جس مقدس وجود کی مجھے تلاش تھی.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 202-201 مطبوعہ ربوہ ) پھر حضرت محمد صدیق صاحب آف گو گھیاٹ کی ایک روایت رجسٹر روایات صحابہ نہیں ہے.کہتے ہیں کہ ”مجھے نبی اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شرف زیارت بطفیل عمویم جناب مولوی فخر الدین صاحب سابق ہیڈ کلرک کیمل کو ر حال مہاجر محلہ دارالفضل قادیان غالباً مارچ 3ء میں ہوا جبکہ آپ مجھے اپنے ہمراہ گھر سے قادیان دارالامان لے گئے.میری عمر اس وقت کوئی دس سال کی ہو گی.ہم بے شمار لوگ بہلی کے ساتھ ساتھ پیدل قادیان آئے.راستے میں سکھ اور غیر لوگ بھاگ بھاگ کر پہلی کا پردہ ہٹا ہٹا کر زیارت کرتے.( چھوٹی بیل گاڑی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھے ہوئے تھے.کور (Covered) تھی ، پر دہ تھا.اس کا پردہ اٹھا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کیا کرتے تھے ).اور ترس ترس کر دیکھتے تھے.میں اگر چہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدائشی احمدی تھا مگر مسجد مبارک میں تین چار دوستوں سمیت حضور کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر بھی بیعت کرنے کا موقعہ نصیب ہو گیا.بعد بیعت حضور نے لمبی دعا فرمائی.بیعت کے کلمات کہلواتے وقت جو در د اور انکسار حضور کی زبان مبارک اور منور چہرہ سے ظاہر ہو تا تھا اس کا نقشہ تو کوئی بشر کیا کھینچ سکتا ہے.“ (رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ.رجسٹر.جلد اوّل.صفحہ 25-24 روایات حضرت محمد صدیق صاحب آف گھو گیاٹ) پھر حضرت فضل احمد صاحب پٹواری حلقه گورداس ننگل، تحصیل گورداسپور روایت کرتے ہیں کہ ”جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعد فراغت مقدمہ مولوی کرم الدین صاحب دارالامان تشریف لائے تو آپ شام کے وقت تشریف لائے اور نماز مغرب میں کچھ دیر ہو گئی.حضور جس وقت مسجد میں تشریف لائے تو مسجد میں اجالا ہو گیا.وہ روشنی فدوی کی آنکھوں میں اب تک موجزن ہے.“ (رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد اوّل صفحہ 49 روایت فضل احمد صاحب پٹواری ) پھر حضرت چوہدری علی محمد صاحب گوندل چک 99 شمالی ضلع سرگودھا لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ

Page 73

58 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات سے سات دن پہلے (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ، بچپن میں فوت ہو گئے تھے ان کی وفات سے سات دن پہلے ) بہ ہمراہی مولوی غلام حسین والد مولوی محمد یار عارف چک 8 9 شمالی اور دو اور ہمراہی جن کے اب نام یاد نہیں، ہم چاروں بیعت کی غرض سے قادیان گئے.اس سے پہلے میں نے بذریعہ خط بیعت کی ہوئی تھی.ہم چاروں آپ کے مکان پر چلے گئے.آواز دینے پر آپ باہر تشریف لائے.مکان کے باہر دو چار پائیاں، ایک بڑی اور ایک چھوٹی پڑی ہوئی تھی.آپ نے ہماری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ بڑی چارپائی پر بیٹھ جاؤ اور آپ چھوٹی چار پائی پر بیٹھ گئے.ہم چونکہ آگے پیروں سے ڈرے ہوئے تھے.ہم نیچے بیٹھنے لگے مگر آپ نے دوبارہ مجبوراً کہا کہ چار پائی پر بیٹھو.ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے.آخر ہمیں مجبور آچار پائی پر بیٹھنا پڑا.اس سے آپ کے اخلاق حسنہ کا پتہ لگتا ہے کہ کس قدر وسیع القلب تھے ، کہتے ہیں کہ میں چونکہ سب سے چھوٹا تھا اس لئے میں سب سے نچلی طرف بیٹھا.مولوی غلام حسین جو حضرت مولوی محمد یار عارف صاحب کے والد تھے ، مجھ سے بڑی عمر کے تھے اور خوب مولویانہ بالشت بھر چمکدار سیاہ داڑھی تھی اور بیٹھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عین سامنے تھے.میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولوی غلام حسین صاحب پر اپنی نظر شفقت فرما دیں گے مگر آپ نے میرے اس خیال کے بر خلاف کیا اور آپ نے میرے ہی ہاتھ پر دست شفقت رکھا باقی ساتھیوں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور آپ نے ہماری بیعت لی.عین اس وقت جبکہ آپ نے اپنا دست مبارک میرے ہاتھ سے مس کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے ہاتھوں سے کوئی چیز بجلی کی طرح میرے تمام جسم میں سرایت کر گئی ہے.اس وقت آپ کا جلال اس قدر تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ اس دنیا میں اس وقت آپ کی شان کا کوئی انسان نہیں ہے.اس وقت ہم نے آپ کو نبی سمجھ کر بیعت کی تھی.اس بات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کی نظر میں بڑوں کا ہی لحاظ نہ تھا بلکہ چھوٹوں پر بھی دست شفقت تھا.آپ کی وفات پر ہمارے چک میں بہت سے لوگوں نے ٹھو کر کھائی اور احمدیت سے منحرف ہونے لگے، مگر باوجود ان پڑھ ہونے کے مجھ پر اللہ تعالیٰ کے فضل نے اور احمدیت کے جلال نے وہ اثر ڈالا ہوا تھا کہ میں نے کہا کہ اگر ساری دنیا بھی احمدیت چھوڑ جائے مگر میں احمدیت کو نہ چھوڑوں گا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود ( غیر مطبوعہ ) جلد نمبر 1 صفحہ 70-69 روایت چوہدری علی محمد صاحب گوندل) حضرت نظام الدین صاحب پوسٹ ماسٹر نبی پور روایت کرتے ہیں کہ ”میں ایک دفعہ سخت بیمار قریب المرگ ہو گیا.میں بیہوشی کی حالت میں تھا کہ حضرت مسیح موعود تشریف لائے تو کمرہ نُورٌ عَلی نُور ہو گیا.ایک الماری جو بو تلوں سے دوائیوں سے قدر تابھری ہوئی تھی.اپنے دست مبارک سے کھول کر ایک بوتل کے لیبل پر انگشت مبارک رکھ کر حضور نے ارشاد فرمایا: منشی جی اس سے 20 بوندیں پیو.اسی وقت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخش دی.رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود ( غیر مطبوعہ ) جلد 1 صفحہ 75 روایت نظام الدین صاحب)

Page 74

خطبات مسرور جلد هشتم 59 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 پھر حضرت سید میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانہ ایک روایت کرتے ہیں کہ ہماری برادری میں ہی خان بہادر ڈپٹی امیر علی شاہ صاحب مرحوم کا مکان تجویز کیا گیا.(اس وقت ٹھہر نے کیلئے حضرت مسیح موعود نے وہاں تشریف لے جانی تھی.تو ڈ پٹی امیر علی شاہ صاحب کا مکان تجویز ہوا کہ وہاں رہائش فرمائیں گے).تو کہتے ہیں چنانچہ ڈپٹی صاحب مرحوم کو کہا گیا کہ اپنے تکلفات کا سامان اٹھا لیجئے.قالین، صوفے وغیرہ جو پڑے ہیں وہاں سے اٹھا لیں.کیونکہ حضرت مرزا صاحب کی آمد پر غرباء نے بھی آنا ہے اور یہ ایک للہی محفل ہو گی آپ کو بعد میں کوئی شکایت نہ ہو.لیکن ڈپٹی صاحب مذکور کے مختار نے بتلایا کہ ہمارے قالین، گاؤ تکیے ایک بزرگ انسان کے قدموں سے برکت حاصل کریں گے.اس میں ہی ہماری خوشی ہے.چنانچہ حسب تحریر جب حضور لدھیانہ کے لئے روانہ ہوئے.شہر میں ایک شور پڑ گیا اور پبلک سٹیشن پر پہنچی.(بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے سٹیشن پر).بعض پلیٹ فارموں سے اندر اور بعض باہر کھڑے رہے.سوائے میر عباس علی شاہ کے کوئی حضور پر نور کے چہرے سے واقف نہ تھا.میں بھی مین گیٹ یعنی صدر دروازے پر کھڑا تھا.میر صاحب اندر گئے ، میں ٹکٹ کلکٹر کے پاس اکیلا ہی کھڑ اتھا.گاڑی کی آمد پر میر صاحب مذکور اندر گاڑیوں میں تلاش کرنے لگے.حضرت صاحب اگلی گاڑی سے یکا یک اتر کر بنفس نفیس صدر دروازے پر تشریف لے آئے.اس وقت حضرت صاحب کے ہمراہ تین آدمی تھے.میں گو پہچانتا نہ تھا.میں نے مسافروں کے چہرے پر نظر دوڑائی.حضرت اقدس کی سادگی اور نورانی چہرے سے میں نے معادل میں خیال کیا کہ یہی حضور والا صفات ہوں گے اور میں نے مصافحہ کر لیا اور ہاتھوں کو بوسہ دیا.تین آدمی جو ہمراہ تھے وہ یہ تھے مولوی جان محمد صاحب والد میاں بگا صاحب مرحوم حافظ حامد علی صاحب مرحوم اور لالہ ملا وامل صاحب.(ماخوذ رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود (غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 1 صفحہ 109-108 روایات سید میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی) پھر ایک روایت میاں فیروز الدین صاحب ولد میاں گلاب دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساکن سیالکوٹ کی ہے.کہتے ہیں جب حضور نے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو میرے دادا صاحب نے کچھ عرصہ کے بعد حضور کی بیعت کر لی اور سارے خاندان کو کہا کہ میں ان کا اس زمانے سے واقف ہوں جبکہ حضور یہاں ملازم تھے اس لئے آپ لوگ میرے سامنے بیعت کریں.یہ مونہہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا.چنانچہ 1892ء میں ہمارے سارے خاندان نے بیعت کر لی.(رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 10 صفحہ 128-127 روایات میاں فیروز الدین صاحب ولد میاں گلاب دین صاحب ) پھر ایک روایت ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحب ابن مکرم قدرت اللہ خان صاحب مہاجر شاہجہانپوری کی ہے.کہتے ہیں کہ گرمی کا موسم تھا.قریب ایک بجے دن آپ جلدی جلدی چھت پر سے اتر کر باہر تشریف لے گئے.میں آہستہ آہستہ دبے پاؤں حضور کے پیچھے چلا کہ دیکھوں حضور اس وقت دو پہر میں کہاں تشریف لے

Page 75

خطبات مسرور جلد ہشتم 60 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 جاتے ہیں.جبکہ ایک بوہڑ کے درخت کے پاس جو زنانہ جلسہ گاہ ہے تشریف لے گئے.تو اچانک پھر کر دیکھا تو مجھ کو کہا کہ تم میرے پیچھے مت آؤ.چنانچہ میں اس درخت کے نیچے ٹھہر گیا.آپ اس درخت کے قریب دو فرلانگ جا کر ایک چھوٹے سے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے.اور میرا خیال ہے کہ قریب 15 منٹ وہاں بیٹھے رہے ( یا کچھ عرصہ) چونکہ فاصلہ زیادہ تھا.میں نہ معلوم کر سکا کہ آپ دعا کر رہے ہیں یا کیا.اس وقت مجھ کو خیال آیا کہ کیونکہ حضور نے مجھے اپنے ساتھ آنے سے منع کیا تھا.میں واپس آگیا اور اپنی والدہ مرحومہ کو اس واقعہ کا ذکر کیا.اس وقت ظہر کی اذان ہوئی تو حضور بھی تشریف لے آئے.وہاں میں نے دیکھا کہ حضور کا چہرہ چمک رہا تھا.( یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ خوشخبری ملی ہو گی).(ماخوذرجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 12 صفحہ 89-88) پھر ایک روایت مولوی فضل الہی صاحب قادیان کی ہے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ مجھے یاد آگیا کہ بعد نماز مغرب حضور شہ نشین پر مشرق کی طرف رخ فرمائے تشریف فرماتھے اور چاند کی تاریخ پندرہ یا سولہ غالباً تھی.اندھیرے میں جب مشرق سے چاند طلوع ہوا تو یہ عاجز مغرب کی طرف (حضور کے چہرہ مبارک کی طرف) منہ کر کے بیٹھا ہوا تھا.مجھے نظر آیا کہ حضور کے چہرہ مبارک سے شعاعیں نکلتی ہیں اور چاند کی شعاعوں سے ٹکراتی نظر آتی ہیں.(رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 12 صفحہ 326 روایات مولوی فضل الہی صاحب) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ 1904ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسہ میں آپ نے تقریر فرمائی.ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اس تقریر میں موجود تھے.وہ کہتے ہیں کہ دوران تقریر میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود کے سر سے نور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جارہا تھا.اس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے.میں نے انہیں کہا.دیکھو وہ کیا چیز ہے.انہوں نے دیکھا تو فوراً کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے.اس نظارہ کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرلی“.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 121 مطبوعہ ربوہ) حضرت میاں غلام محمد صاحب ارائیں پھیر و چیچی ضلع گورداسپور روایت کرتے ہیں کہ ”میں نے 1907ء میں بیعت کی اور متواتر ہم اسی طرح جمعہ پڑھنے جاتے رہے.بعد میں حضور لاہور گئے اور ہمیں معلوم ہوا کہ حضور اسہال کی بیماری کی وجہ سے وفات پاگئے اور مخالفین نے مشہور کیا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور وفات کے

Page 76

خطبات مسرور جلد ہشتم 61 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 بعد حضور کا چہرہ سیاہ ہو گیا ( نعوذ باللہ ).حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اپنے لڑکوں ابراہیم و جان محمد کو ساتھ لے جایا کرتا تھا اور ان کو کہتا تھا کہ یہ حضرت مسیح موعود ہیں.تو یہ دونوں لڑکے حضور کے پاؤں کو چمٹ جاتے تھے اور حضور بڑے خوش ہوتے تھے اور جب حضور وفات پاگئے میں مع جماعت اور مع اپنے ان بچوں کے قادیان پہنچا اور لڑکوں کو بھی حضور کا چہرہ دکھایا اور آپ بھی دیکھا اور لڑکے بار بار مجھے کہتے.اے لالہ ! ہمیں میاں کا چہرہ دکھا اور سخت روتے کہ جب ہم آتے تو حضور کو لپٹ جاتے.اب ہم کس کے ساتھ لپیٹیں گے.اس طرح کوئی چار دفعہ حضور کا چہرہ ان کو دکھایا.(کہتے ہیں کہ) جس طرح ہم سنا کرتے تھے کہ آنحضرت رسول کریم صلی علیم کا حلیہ مبارک ہے ویسا ہی ان کا نورانی چہرہ ہے.اس سے پہلے نہ کوئی ایسا ہوا اور نہ آئندہ.گویا کہ رسول کریم صلی تم تو اصل تھے یہ ان کے عکس ہیں.( یعنی وہ جو نعوذ باللہ دشمنوں نے مشہور کیا ہوا تھا کہ چہرہ سیاہ ہو گیا اور یہ ہو گیا.ہم تو سنا کرتے تھے آنحضرت صلی للی یکم کے بارہ میں کہ آپ کا چہرہ مبارک نورانی تھا تو یہاں بھی ہمیں نور نظر آیا کیونکہ وہ ظل تھے رسول کریم صلی نیلم کے ).اور پھر حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کی اور حضرت مسیح موعود کو اپنے ہاتھوں سے دفنایا.اس کے بعد ہم گھر واپس آگئے اور پھر کہتے ہیں ہم نے حضرت مسیح موعود کے معجزات بیان کر کے تبلیغ کرنی شروع کی.“ (رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود غیر مطبوعہ.جلد اول.صفحہ 86 روایات حضرت میاں غلام محمد صاحب ارائیں) میں نے یہ رجسٹر روایات صحابہ میں سے کچھ واقعات لئے تھے.ویسے تو بے شمار واقعات ہیں.کبھی موقع ہوا تو انشاء اللہ آئندہ بھی بیان ہوتے رہیں گے.اب میں بعض ایسی روایات بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے روحانی معیاروں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نور سے حصہ پانے کی وجہ سے اعلیٰ مقام کی نشاندہی کرتی ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے انتخاب خلافت کے وقت بعض دنیاداروں پر ابتلا آیا اور جماعت سے علیحدہ بھی ہو گئے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اکثریت کو محفوظ رکھا اور بعض کی فوری راہنمائی بھی فرمائی.ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بیان کرتے ہیں کہ ” ایک دن میں مسجد احمد یہ پشاور میں بیٹھا ہوا تھا.میرے پاس مکرمی میاں شمس الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ پشاور بھی بیٹھے ہوئے تھے.مجھ پر اچانک کشفی حالت طاری ہو گئی.میں نے دیکھا کہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی تشریف لائے ہیں.آپ کا دل مجھے سامنے نظر آرہا ہے.جس میں کئی روشن سورج چمک رہے ہیں.جن کی چمک اور روشنی بڑے زور کے ساتھ ہمارے اوپر پڑ رہی ہے.آپ کے دل کے سامنے میر ادل ہے جس میں بلب کی روشنی کے برابر روشنی نظر آتی ہے.حیات قدسی صفحہ 295 مطبوعہ ربوہ)

Page 77

خطبات مسرور جلد ہشتم 62 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 جو بزرگ تھے نیک فطرت تھے ، سعید فطرت تھے باوجود اس کے کہ وہ بیعت میں فورا شامل ہو گئے تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ مزید مضبوطی پیدا کرنے کے لئے بعض کشوف اور رؤیاد کھاتا ہے.ایک روایت مکرم سوہنے خان صاحب آف سٹھیانہ ہوشیار پور کی ہے.کہتے ہیں اب میں صداقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیان کرتا ہوں کہ جو میرے پر ظاہر ہوئی.جس وقت احرار کا زور تھا اور مستریان نے حضور پر تہمت لگائی تھی.( یہ ایک اور واقعہ ہو ا جب احرار نے شور مچایا اور اندرونی فتنہ بھی اٹھا اور بیرونی فتنہ بھی اٹھا تو اس وقت کہتے ہیں کہ ) میں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے اللہ ! میرے پیر کی عزت رکھ.وہ تو میرے مسیح کا بیٹا ہے.بہت دعا کی اور بہت درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتارہا تو کہتے ہیں) خواب عالم شہود میں ایک شخص میرے پاس آیا.اس نے بیان کیا (کہ) مشرق کی طرف بڑھ گاؤں میں مولوی آئے ہوئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو ہم نے جڑ سے اکھیڑ دینا ہے اور بندہ اور برکت علی احمدی اور فتح علی احمدی کو ساتھ لے کر خواب ہی میں ان کی طرف روانہ ہوئے.( یعنی وہ ان کو لے کے تین آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوئے.کہتے ہیں کہ) ہم موضع پنڈوری قد میں پہنچے اس وقت نماز عصر کا (وقت) ہو گیا اور میں (نے) امام بن کر ہر دو احمدی کو نماز پڑھانی شروع کر دی.اتنے میں خرد خان اور غلام غوث احمدی پھگلا نہ بھی آگئے.میں نے آسمان کی طرف دیکھا آسمان پر دو چاند ہیں ایک چاند بہت روشن ہے دوسر اچاند مربع شکل اس کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ بے نور ہے.روشنی نہیں ہے.میرے دیکھتے دیکھتے اس میں روشنی ہونے لگ گئی.غرضیکہ وہ چاند دوسرے چاند کے برابر روشن ہو گیا.میں نے دعا کی.یہ دونوں ایک قسم کے روشن ہو گئے ہیں.اس وقت مجھے نداہوئی ( آواز آئی) کہ پہلا چاند مرزا صاحب یعنی مسیح موعود ہیں اور یہ دوسرا چاند جواب روشن ہوا ہے یہ میاں بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی نہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر 12 صفحہ 200-199 روایات میاں سوہنے خان صاحب) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مسیح موعود کے وہ موعود بیٹے تھے جن کے بارہ میں بے شمار پیشگوئیاں پیدائش سے پہلے تھیں.مصلح موعود کی پیشگوئی سب سے مشہور ہے اور ہر احمدی جانتا ہے.آپ کے دور خلافت میں باوجود انتہائی نامساعد حالات کے تبلیغ اسلام اور انوار محمدی پھیلانے کا بہت وسیع کام ہوا ہے.اس وقت بھی فتنے اٹھتے تھے اور اب بھی وقتاً فوقتاً بعض فتنے اٹھ جاتے ہیں اور عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے نام پر اٹھتے ہیں.جماعت میں کوئی بے چارہ مجذوب جس کا دماغ بل جائے تو اور اس کو کچھ سوجھے نہ سوجھے وہ کم از کم مصلح موعود ہونے کا دعویٰ ضرور کرتا ہے.لیکن اصل خطر ناک بات یہ ہے کہ وہ بے چارے اس وقت تو مجبور ہیں، دماغی حالت ایسی ہوتی ہے لیکن اس کو بھڑ کانے والے، اس فتنے میں شامل ہونے والے بعض ایسے لوگ جو جماعت میں رہ کر اس فتنے کی پشت پناہی کر رہے ہوتے ہیں وہ یقیناً منافق ہوتے ہیں.یا ایسے لوگ ہیں جو پھر جماعت کو بھی چھوڑتے ہیں

Page 78

63 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور اس کی پشت پناہی صرف اس لئے کرتے ہیں کہ فساد پیدا کیا جائے اور جماعت میں رخنہ ڈالا جائے.باقی جہاں تک مصلح موعود ہونے کا سوال ہے تو اس کی ایسی واضح دلیلیں ہیں کہ کوئی بے وقوف ہی ہو جو اس پر یقین نہ کرے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک اور روایت ہے.کہتے ہیں کہ ”خاکسار نے ایک دفعہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں تحریر کیا کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کے بعد حضور کے فیضان سے مجھے غسل دماغ نصیب ہوا ہے......اب اگر قلبی عنسل اور انار کا افاضہ حضور کے طفیل ہو جائے تو دماغ کے ساتھ قلب بھی منور ہو جائے.( یعنی جو باطنی نور ہے وہ بھی مجھ میں پیدا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے عطا فرمادے.تو کہتے ہیں) اس کے کچھ عرصہ بعد حضور...نے قادیان کی مسجد مبارک میں مجلس علم و عرفان میں تقریر کرتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ہر نماز کے فرضوں کے بعد بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اور بارہ دفعہ درود شریف پڑھا کریں.یہ ہدایت زیادہ تر ممبران خدام الاحمدیہ کو تھی لیکن خاکسار نے اسی دن سے اس پر باقاعدہ عمل شروع کر دیا اور آج تک بالالتزام اس ہدایت پر عمل پیرا ہے.( کہتے ہیں کہ ) اس عمل سے بفضلہ تعالیٰ مجھے بہت سے فوائد حاصل ہوئے جن میں سے ایک بڑا فائدہ ہوا کہ مجھے تصفیہ قلب (یعنی دل کی پاکیزگی اور تجلیہ کروح ( یعنی روح کی روشنی) کے ذریعہ ایک عجیب قسم کی انارت ( محسوس ہوئی.ایک عجیب قسم کی روشنی) محسوس ہونے لگی اور جس طرح آفتاب و مہتاب کی روشنی کو آنکھ محسوس کرتی ہے اسی طرح میر ا قلب دعا کے وقت اکثر کبھی بجلی کے قمقمے کی طرح اور کبھی گیس لیمپ کی طرح منور ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میر اوجو د سر سے پاؤں تک باطنی طور پر نورانی ہو گیا ہے اور جب سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی توفیق ملے یا صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود میں سے کسی مقدس وجود کی اقتداء کا موقع نصیب ہو اور نماز بہ قراءت جہر ہو رہی ہو تو بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے ہر ہر لفظ سے نور کی شعاعیں نکل نکل کر میرے قلب پر مستولی رہی ہیں اور اس وقت ایک عجیب نورانی اور سرور بخش منظر محسوس ہوتا ہے.“ حیات قدسی صفحہ 593-592 مطبوعہ ربوہ) اور یہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ ایک ایسی دعا ہے جس کے بارہ میں حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلیم نے فرمایا کہ كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ، ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيْزَانِ ، حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْم - ( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح حدیث نمبر 6682) کہ ایسے کلمات جو زبان سے کہنے پہ بہت ہلکے ہیں لیکن ان کا وزن ان کے لحاظ سے بہت بھاری ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اور یہ وہی ہیں کہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ

Page 79

خطبات مسرور جلد هشتم 64 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 الله العظیم.حضرت مسیح موعود کی جو ایک الہامی دعا ہے وہ بھی ہے، ”سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم - اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ “ (تذکرہ صفحہ 25 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ ) جس میں درود بھی آجاتا ہے.تو بہر حال یہ تو ہم پڑھتے ہیں اور اس کو پڑھتے رہنا چاہئے.میں نے جو بلی کی دعاؤں میں جو شامل کروائی تھیں اس میں ایک درود یہ بھی تھا.اس کو بند نہیں ہونا چاہئے ، ہمیشہ جاری رہنا چاہئے کیونکہ درود شریف اور یہ جو دعا ہے، اللہ تعالیٰ کی جو تحمید اور تسبیح ہے یہ دل کی پاکیزگی کے لئے بہت ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے.اور اس زمانے میں جو لہو ولعب کا زمانہ ہے ہمیں بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے تاکہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو جاری رکھنے والے بن سکیں.اور وہ اسی وقت ہو گا جب ہمارے دل بھی اس نور سے منور ہوں گے.اور اسی سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کو ہم جذب کرنے والے ہوں گے.پس درود اور عبادات سے ہمیں اپنی زندگیوں کو سجانا چاہئے.پھر آپ علیہ السلام کے ماننے والوں کے نورانی ہونے کے بارہ میں اللہ تعالیٰ غیر وں کو کس طرح بتاتا ہے.لیکن بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اطلاع دے دے پھر بھی اس سے فیض نہیں پاسکتے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں کہ ”میری برادری میں سے میرے ایک چازاد بھائی میاں غلام احمد تھے ان کی کچھ جائیداد موضوع لنگہ ضلع گجرات میں بھی تھی.ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ایک تحریر کے کام کے لئے فرمائش کی جس کی تعمیل کے لئے میں ان کے ہمراہ موضع لنگہ چلا آیا.گرمیوں کا موسم تھا اس لئے میں دو پہر کا وقت اکثر ان کے دالان کے پیچھے ایک کو ٹھڑی میں گزارا کرتا تھا.ایک دن حسب معمول میں دو پہر کو اس کو ٹھڑی میں سو رہا تھا میری آنکھ کھلی تو میں نے سنا کہ غلام احمد کی خالہ اور والدہ کہہ رہی تھیں کہ اس رسولے (یعنی حضرت مولوی غلام رسول صاحب کا ہمیں بڑا افسوس ہے کہ گاؤں گاؤں اور گھر گھر میں لوگ اس کی برائی کرتے ہیں.اس نے تو مرزائی ہو کر ہمارے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے.اتفاق کی بات ہے کہ اس روز برابر کی کو ٹھڑی میں بھائی غلام احمد بھی سویا ہوا تھا.اس نے بیدار ہوتے ہی ان کی یہ مغلظات سنیں تو کہنے لگا تم کیا بکواس کر رہی ہو.میں نے تو ابھی ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ غلام رسول پر آسمان سے اتنا نور برس رہا ہے کہ اس نے چاروں طرف سے اس کو گھیر لیا ہے.تمہیں کیا معلوم ہے کہ تم جسے برا سمجھتی ہو وہ خدا کے نزدیک برانہ ہو.اتنے میں میں بھی کو ٹھڑی سے باہر نکل آیا اور ان کو احمدیت کے متعلق سمجھا تا رہا مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا.بلکہ یہی میاں غلام احمد جس پر اللہ تعالیٰ نے رؤیا کے ذریعہ سے اتمام حجت کر دی تھی، میرا اتنا مخالف اور دشمن ہو گیا کہ علماء کو بلا کر بھی احمدیت پر حملے کراتا اور مجھے ذلیل کرنے کی کوشش میں لگارہتا تھا.آخر میرے مولا کریم نے میری نصرت کے لئے موضع را جیکی میں طاعون کا عذاب مسلط کیا اور غلام احمد اور اس کے ہمنواؤں کا صفایا کر دیا.“ حیات قدسی جلد اول صفحہ 39 مطبوعہ ربوہ)

Page 80

خطبات مسرور جلد ہشتم 65 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جنوری 2010 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : آپ یادر کھیں اور ہمارا مذہب یہی ہے کہ کسی شخص پر خدا کانور نہیں چمک سکتا، جب تک آسمان سے وہ نور نازل نہ ہو.یہ سچی بات ہے کہ فضل آسمان سے آتا ہے.جب تک خدا خود اپنی روشنی اپنے طلبگار پر ظاہر نہ کرے اس کی رفتار ایک کیڑے کی مانند ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، کیونکہ وہ قسم قسم کی ظلمتوں اور تاریکیوں اور راستہ کی مشکلات میں پھنسا ہوا ہوتا ہے، لیکن جب اس کی روشنی اس پر چپکتی ہے ، تو اس کا دل و دماغ روشن ہو جاتا ہے اور وہ نور سے معمور ہو کر برق کی رفتار سے خدا کی طرف چلتا ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 464 جدید ایڈیشن) پس اللہ تعالیٰ کا نور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کرنے سے آتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے وہ نور عطا فرمائے جو اس کا حقیقی نور ہے.جو اس کے پیاروں سے محبت کرنے سے ملتا ہے.جس کو حاصل کرنے کے طریقے اس زمانے کے امام نے نور محمدی سے حصہ پا کر ہمیں سکھائے.ہم دنیا کی لغویات میں پڑنے کی بجائے اپنے خدا سے اس نور کے ہمیشہ طلبگار رہیں اور ان لوگوں میں شمار ہوں جو ہمیشہ یہ دعا کرتے رہے ہیں کہ ربَّنَا اتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ (التحریم:9) کہ اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے.یقینا تو ہر چیز پر جسے تو چاہے دائی قدرت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی اس دعا کے اثرات دکھائے اور مرنے کے بعد بھی ہمارے لئے یہ نور دائمی بن کر ہمارے ساتھ رہے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 8 مورخہ 19 تا 25 فروری 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 81

خطبات مسرور جلد ہشتم 66 6 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010ء بمطابق 5 تبلیغ 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَه إِنَّ الَّذِيْنَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ (الانعام: 121) اور تم گناہ کے ظاہر اور اس کے باطن ( دونوں) کو ترک کر دو.یقیناً وہ لوگ جو گناہ کماتے ہیں وہ ضرور اس کی جزا دئے جائیں گے جو (برے کام) وہ کرتے تھے.اس آیت میں اثہ کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے.اٹھ کے لغوی معنی ہیں گناہ یا جرم یا کسی بھی قسم کی غلطی یا حدود کو توڑنا یا ایسا عمل جو نافرمانی کرواتے ہوئے سزا کا مستحق بنائے.یا ایسا عمل یا سوچ جو کسی کو نیکیاں بجالانے سے روکے رکھے.یا کوئی بھی غیر قانونی حرکت.ذنب ایک لفظ ہے جس کا معنی بھی گناہ کا ہے لیکن اہل لغت کے نزدیک ذنب اور اشہ میں یہ فرق ہے کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ ذنب ارادہ بھی اور غیر ارادی طور پر دونوں طرح ہو سکتا ہے.لیکن اثہ جو ہے وہ عموماً ارادہ ہوتا ہے.بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اشہ کے حوالے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.ایک حکم یہ ہے کہ تم گناہ کی ظاہری صورت سے بھی بچو اور اس کے باطن سے بھی بچو.ہر کام کرنے سے پہلے غور کرو.بعض چیز میں اور بعض عمل ایسے ہوتے ہیں جو واضح طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں کہ غلط ہیں اور یہ شیطانی کام ہیں.لیکن دوسری قسم کے وہ عمل یا با تیں بھی ہیں جو بظاہر تو اچھے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بد نتائج پر منتج ہوتے ہیں.ان کی اصل حقیقت چھپی ہوتی ہے.شیطان کہتا ہے کہ یہ کام کر لو کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں لیکن کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کام سے یہ ایسا گند ہے جس میں پھنس گیا ہوں اس سے نکلنا مشکل ہے.اور پھر ایسا چکر چلتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا گناہ سر زد ہو تا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر چلنے والے کا کام ہے کہ ظاہر برائیاں جو ہیں ان پر بھی نظر رکھے اور باطن اور حقیقی برائیاں جو ہیں جن کے بد نتائج نکل سکتے ہیں ان پر بھی نظر رکھے.ہر کام

Page 82

67 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کرنے سے پہلے خد اتعالیٰ سے مدد چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شر سے بچائے ، جو بھی اس کام میں شر ہے اس سے بچائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف ظاہری حسن دیکھ کر کسی کام کے کرنے پر تیار نہ ہو جاؤ، اس پر آمادہ نہ ہو جاؤ، کسی چیز کو دیکھ کر اس کے حسن کو دیکھ کر اس پہ مرنے نہ لگو.بلکہ جہاں شبہات کا امکان ہے وہاں اچھی طرح چھان پھٹک کر لو اور ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی اور مدد چاہو.اس سے کام میں ایک تو برکت پڑتی ہے اور برائیوں میں ڈوبنے سے یا برائیوں کے بداثرات سے انسان بچتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے.زندگی کے ہر کام میں تقویٰ دوسری بات یہ واضح فرما دی کہ اگر زندگی میں ہر کام میں تقویٰ کو سامنے نہیں رکھو گے، پھونک پھونک کر قدم نہیں اٹھاؤ گے ، حلال، حرام کے فرق کو نہیں سمجھو گے تو پھر گناہ کا ارتکاب کرو گے.جو بھی گناہ کرو گے اس کی سزا ملے گی.یہ بہانے کام نہیں آئیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں چلا.اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں ایک اصولی بات یہ بیان فرما دی کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشوں کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں.اس لئے تمہیں ہوشیار ہونا چاہئے حلال حرام کے فرق کو پہچانو.جس کام سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اس سے رک جاؤ.اللہ کا لفظ استعمال فرما کر واضح فرما دیا کہ اس ہدایت کے باوجوداگر تم باز نہیں آتے اور غلط راستے پر چلانے والوں کی باتوں میں آتے ہو تو یہ ایسا گناہ ہے جو ظاہر ہے پھر تم جان بوجھ کر کر رہے ہو.اور جو گناہ جان بوجھ کر کئے جائیں وہ سزا کا مورد بنادیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اشہ ، گناہ کے حوالے سے قرآن کریم میں متعدد احکامات دے ئے ہیں جن میں سے بعض اور بھی میں یہاں بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف میں اس بات کی یوں وضاحت فرمائی ہے.فرمایا کہ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَنَا وَ أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (الاعراف:34) تو کہہ دے کہ میرے رب نے محض بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی جو اس میں سے ظاہر ہو اور وہ بھی جو پوشیدہ ہو.اسی طرح گناہ اور ناحق بغاوت کو بھی اور اس بات کو بھی کہ تم اس کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ جس کے حق میں اس نے کوئی حجت نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بات کو مزید واضح فرمایا کہ تمام قسم کے غلط اور شیطانی کام کی اسلام سختی سے مناہی فرماتا ہے.ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کی تلاش میں رہے کہ کون سے کام تقویٰ پر چلانے والے ہیں اور کون سے کام تقویٰ سے دور لے جانے والے ہیں اور خد اتعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں.

Page 83

68 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بیشک بعض غلط کام انسان سے پوشیدہ بھی ہوتے ہیں اور شیطان اس تلاش میں ہے کہ کب میں ابن آدم کو آدم کی طرح در غلاؤں اور ان گناہوں کی طرف راغب کروں.اور ایسے خوبصورت طریق سے ان غلط کاموں اور گناہوں کا حسن اس کے سامنے پیش کروں کہ وہ غلطی نہیں بلکہ اسے اچھا سمجھتے ہوئے اسے کرنے لگے اور پھر ان برائیوں میں ڈوب کر ان کو کرتا چلا جائے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہوشیار کر دیا کہ ان سے بچو یہ حرام چیزیں ہیں.یہ تمہیں سزا کا مستوجب ٹھہرائیں گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ (الاعراف:34) کہ میرے رب نے بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے.خواہ وہ ظاہری بے حیائیاں ہیں اور بد اعمال ہیں یا چھپی ہوئی بے حیائیاں ہیں یا بُرے اعمال ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ بے حیائی کی باتیں حرام ہیں بات ختم نہیں کر دی بلکہ جہاں بے حیائی کی باتوں کی نشاندہی فرمائی ہے کہ کون کون سی باتیں بے حیائی کی باتیں ہیں وہاں اس کا علاج بھی بتایا ہے کہ فواحش سے تم کس طرح بچ سکتے ہو ایک جگہ فرمایا کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: 46) کہ یقیناً نماز فحشاء اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.اور کیونکہ بے حیائی اور فحشاء اس زمانہ میں تو خاص طور پر ہر وقت انسان کو اپنے روز مرہ کے معاملات میں نظر آتے رہتے ہیں اور اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے پانچ وقت کی نماز میں رکھ کر ان سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کا راستہ دکھایا اور اس کی تلقین فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”نماز کیا ہے ؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الہیہ کا مورد بنا دیتی ہے.کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے.اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے.اب ذرا غور کرو“.فرمایا ” اب ذرا غور کرو.نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے.اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے.یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لا اِلهَ إِلَّا اللہ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے.یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اول و آخر اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور “.فرمایا کہ ”میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے.پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 37 مطبوعہ ربوہ) پس اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے پر غور کریں کہ انسان کا اسم اعظم استقامت ہے تو ایک کوشش کے ساتھ اس نماز کی تلاش میں رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے تو اسے وہ نماز ادا کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شیطان کے حملوں سے محفوظ

Page 84

69 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم رکھتی ہے ، جو فحشاء سے روکتی ہے، جو حسنات کا وارث بناتی ہے.ظاہری اور باطنی فواحش سے انسان محفوظ رہتا ہے.ایسی نمازوں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری مزید راہنمائی فرمائی ہے.فرمایا کہ: نماز سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی ”نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بد عملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے مگر اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی.اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگا ر ہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہو سکتا.اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403 ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد سے اپنے دلوں کو بھرنے کی ضرورت ہے تاکہ آج دنیا میں فحشاء اور بے حیائیوں کے جو ہر طرف نظارے نظر آتے ہیں ان سے ہم بچے رہیں.کیونکہ اس کے بغیر شیطان ہمیں ایسے گناہوں کی طرف لے جاتا ہے جو اثم کہلاتے ہیں ، جن میں انسان ڈوبتا چلا جاتا ہے، جو ہمیں اپنے فرائض کے بجالانے سے روکے رکھتے ہیں، غلطیوں پر غلطیاں سرزد ہوتی چلی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرتے چلے جاتے ہیں.اس لئے فرمایا کہ بغاوت سے بھی بچو.یہ بھی حرام ہے.اگر احساس پیدا نہ کیا تو تمام حدود قیود جو ہیں ان کو تم توڑ دو گے.تمہیں احساس نہیں رہے گا کہ کون سے عمل احسن ہیں اور صالح ہیں اور کون سے غیر صالح.بعض نمازیں پڑھنے والے بھی ہیں جو اللہ تعالی کی حدود کو توڑ رہے ہوتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نمازوں کا صحیح مقام حاصل کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی مدد اور استعانت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے کی ضرورت ہے.ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی ضرورت ہے.پس جب یہ صور تحال پیدا ہو گی تبھی ایک مومن حقیقی مومن کہلائے گا اور بے حیائی کی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا.پھر سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ اس کے حوالہ سے بعض اور برائیوں کا بھی ذکر فرماتا ہے.فرمایا کہ يَسْتَدُونَكَ عَنِ الْخَيْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمَ كَبِيرُ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا (البقرة:220) کہ وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھی.اور دونوں کا گناہ (کا پہلو ) جو ہے ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے.شراب اور جوئے کے بارہ میں پہلے فرمایا کہ ان میں بڑا گناہ ہے.اور پھر فرمایا کہ ان میں خدا تعالیٰ نے

Page 85

خطبات مسرور جلد هشتم 70 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 فوائد بھی رکھے ہیں لیکن فرمایا کہ اس کا گناہ جو ہے اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہے.اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے نشانات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچ اور فکر سے کام لو.شراب اور جوئے کے تباہ کن نقصانات پس واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جو بنائی ہے بیشک اس کے فوائد بھی ہوتے ہیں اور نقصان بھی.اس لئے یہ اصولی بات یاد رکھو کہ جس چیز کے نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہوں اس کے استعمال سے بچو اور یہ دونوں چیزیں جو ا اور شراب تو ایسے ہیں جواثم کبیر ہیں.ان میں بڑے بڑے گناہ ہیں.باوجو د فائدہ کے یہ گناہ میں بڑھانے والے ہیں اور جیسا کہ میں نے اثم کے لغوی معنوں میں بتایا تھا اور قرآن کریم میں بھی ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ( الفرقان : 69) یعنی اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا.پس باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جوئے اور شراب میں فائدہ بھی ہے ، یہ کھول کر بیان کر دیا کہ تم غور کرو لیکن غور اس بات پر نہیں کہ میں تھوڑا فائدہ اٹھاؤں یا زیادہ.یہ دیکھوں کہ اس میں فائدہ ہے کہ نہیں ہے.غور اس بات پر کرنا ہے کہ اگر میں نے اس کو استعمال کیا یا یہ کام کیا تو گناہگار بنوں گا اور سزا کا سزاوار ٹھہروں گا.کیونکہ اِثْمُهُمَا أَكْبَر کہہ کر بتا دیا کہ تمہیں اس کے جرم کی سزا ملے گی.اور یہ ایسا گناہ ہے جس میں ایک دفعہ انسان پڑتا ہے تو پھر پڑتا چلا جاتا ہے.جان بوجھ کر اس گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے.دونوں کاموں کے کرنے کا ایک نشہ ، ایک چاٹ لگ جاتی ہے اور یوں بغاوت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے سزا کا بھی مستحق بن جاتا ہے.تو دونوں چیزیں ہی ایسی ہیں جس میں انسان اپنے پاکیزہ مال کو بھی ضائع کر رہا ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ پاکیزہ مال ضائع کر رہا ہو تا ہے بلکہ حرام مال جو ہے اس کو اپنے طیب مال میں شامل کر کے تمام مال کو ہی حرام بنا لیتا ہے.جو کھیلنے والا مال ضائع کر دیتا ہے.شراب پینے والا جو ہے وہ شراب میں مال ضائع کر دیتا ہے.اپنی صحت برباد کر لیتا ہے.قرآن کریم میں دوسری جگہ واضح طور پر مناہی کر کے بتایا کہ شراب، جوئے اور قرعہ اندازی کے تیر جو ہیں یہ سب شیطانی کام ہیں جو نیکیوں سے روکتے ہیں، اعلیٰ اخلاق سے روکتے ہیں.عبادات سے روکتے ہیں.سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَنُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ عَنِ الصَّلوةِ ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ - وَ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ احْذَرُوا ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَاغُ الْمُبِينُ (المائده : 93-91) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً مدہوش کرنے والی چیز اور جوا اور بت ( پرستی) اور تیروں سے قسمت آزمائی یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں.پس ان سے پوری طرح بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ.یقیناً شیطان چاہتا ہے کہ نشے اور جوئے کے

Page 86

71 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دوران تمہارے در میان بغض اور عناد پیدا کر دے اور تمہیں ذکر الہی اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم باز آجانے والے ہو ؟ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ( برائی سے بچتے رہو اور اگر تم پیٹھ پھیر جاؤ تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف پیغام پہنچانا ہے.آجکل ان ملکوں میں شراب مجوا تو عام ہے بلکہ اب تو ہر جگہ ہے.جہاں پابندیاں ہیں وہاں بھی بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگ جا کر پیتے ہیں.ان ملکوں میں تو ہر جگہ نہ صرف یہ کہ عام ہے بلکہ کسی نہ کسی طریق سے اس کی تحریص بھی کروائی جاتی ہے.ہر سروس سٹیشن پر یا ہر بڑے سٹور پر جوئے کی مشینیں نظر آتی ہیں.کسی نہ کسی رنگ میں اس میں جوا کھیلا جاتا ہے اور جہاں تک شرک کا سوال ہے اگر ظاہری بت نہ بھی ہوں تو نفس کے بہانوں کے بہت سے بت انسان نے تراش لئے ہیں.باوجود ایمان لانے کے بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کی انسان پر واہ نہیں کرتا.اور پھر یہ جو بت ہیں، بعض ایسے جو مخفی شرک ہیں یہ عبادات میں روک بنتے ہیں ، نمازوں میں روک بنتے ہیں.نمازیں جو فحشاء کو دور کرنے والی ہیں ان کی ادائیگی میں روک بن جاتے ہیں.پھر تیروں سے قسمت نکالنا ہے اور آج کل اس کی ایک صورت لاٹری کا نظام بھی ہے اس میں بھی لوگ بے پرواہ ہیں.زیادہ تر پر واہ نہیں کرتے اور لاٹری کے ٹکٹ خرید لیتے ہیں.یہ چیز بھی حرام ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب شیطانی کام ہیں.پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ عبادات میں استقامت دکھائے.نیک اعمال بجالانے کی کوشش میں استقامت دکھائے.برائیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کے لئے استقامت دکھائے اور یہ استقامت اس وقت آئے گی جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نمازوں کی طرف توجہ ہو گی.پھر نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے اور گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ اس طرح حکم فرمایا ہے کہ فرمایا تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدہ : 3) کہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں تعاون نہ کرو.اور اللہ سے ڈرو.یقیناً اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے.یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ اس میں پہلے یہ بیان کر کے کہ دشمن کی زیادتی اور دشمنی بھی تمہیں کسی قسم کی زیادتی پر آمادہ نہ کرے، پھر فرمایا کہ نیکی اور تقویٰ میں ہمیشہ تمہارا تعاون رہے.اصل تقویٰ تو ایک مومن کے اندر ہے اور ہو نا چاہئے.پس نیکی کے کاموں میں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے تعاون ہمیشہ جاری رہنا چاہئے اور تقویٰ ہی ہے جو پھر مزید نیکیوں کے بیج بوتا چلا جاتا ہے.اگر کوئی چیز ایک مومن کو بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے اور دوہرانی چاہئے تو وہ نیکیوں کی طرف توجہ اور نیکیوں کا فروغ ہے.اور اگر کسی چیز سے بچنا ہے تو وہ گناہ اور زیادتی ہے.ایک مومن کی شان نہیں کہ اثہ اس سے سرزد ہو.ایسا گناہ سر زد ہو جو جان بوجھ کر کیا جائے.جو

Page 87

72 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم زیادتی کرنے والوں سے زیادتی کرواتا چلا جائے.زیادتی کرنے والوں کو یہ احساس نہیں ہو تا کہ میں کیا کر رہا ہوں.وہ ظلموں کی انتہا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اثم اور عدوان یا بار بار کئے جانے والے گناہ اور زیادتی سے نہیں رکو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بڑا سخت ہے.ایسی خوبصورت تعلیم ہوتے ہوئے پھر یہ الزام اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ ظلم و زیادتی سے اسلام پھیلا ہے اور اسلام زیادتی کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے اور آئے دن کہیں نہ کہیں ان ملکوں میں اسلام کے خلاف کچھ نہ کچھ شوشے چھوڑے جاتے ہیں.لیکن آج کل اگر ہم دیکھیں تو مغرب میں کیا ہو رہا ہے.عراق وغیرہ پر یا بعض اور ملکوں میں جو ظلم کئے جارہے ہیں، عراق کے ظلموں کا حال تو ہم نے سن لیا جو پبلک انکوائری ہو رہی ہے اس میں بہت ساروں نے تسلیم کیا کہ یہ ظلم تھا اور ہے لیکن ظلم کے باوجود بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بالکل ٹھیک ہوا ہے اور ہونا چاہئے تھا.لیکن اسلام کہتا ہے کہ نہیں، تقویٰ کا یہ کام نہیں.جہاں تمہاری غلطی ہے اس غلطی کو مانو اور جہاں صلح صفائی کی ضرورت ہے یا نیک کاموں میں بڑھنے کی ضرورت ہے وہاں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے نیکیوں کو پھیلاؤ.زیادتیوں سے اپنے آپ کو رو کو اور اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر یہ چیز اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کو سزا کا مستحق بناتی ہے.جب غیروں کو اس قدر تاکید ہے تو اپنوں سے حسن سلوک کس قدر ہونا چاہئے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور اُن کو طاقت دی جاوے.یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ایک تیر نا جانتا ہے اور دوسرا نہیں تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے.اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے.اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوی ( المائدہ: 3) کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ، عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ.بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو.کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے.صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو، کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے.اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے“.فرمایا: ” دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں.ایسا ہر گز نہیں چاہئے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں.کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے

Page 88

خطبات مسرور جلد هشتم 73 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے.ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں...جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے.پردہ پوشی کی جاوے.جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں...خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاد دلائی ہے.اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی ال نیم کے ذریعہ ان کو ملی.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 263-265 مطبوعہ ربوہ) پس یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو نیکی اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہیں اور گناہ سے بچاتے ہیں اور زیادتی سے روکتے ہیں.عبادتوں سے جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے تو یہ اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان سے پھر حقوق العباد کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی ہے.حسن ظن پھر ایک بہت بڑی برائی کی طرف خدا تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلاتے ہوئے یہ حکم فرمایا کہ يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْهُ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ( الحجرات: 13) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بکثرت ظن سے اجتناب کیا کرو.یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.اور تجسس نہ کیا کرو.اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے.پس فرمایا کہ بد ظنی سے بچو کیونکہ بد ظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے، جو نہ صرف انسان کی اپنی ذات کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو معاشرے کے امن کو بھی برباد کر دیتا ہے.دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے.ایک ایسا گناہ جو انسان بعض اوقات اپنی انا کی تسکین کے لئے کر رہا ہو تا ہے.پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو، تجسس بھی بعض اوقات بدظنی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کسی کے بارہ میں تجسس کر رہا ہوتا ہے اس کے بعد بھی جب پوری معلومات نہیں ملتیں تو جو معلومات ملتی ہیں انہی کو بنیاد بنا کر پھر بدظنیاں اور بڑھ جاتی ہیں اور بدظنی میں بعض اوقات انسان اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی حالت دیکھ کر

Page 89

74 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ہیں، خدمت کرنے والے بھی ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جاہل اجڈ عور تیں بھی نہیں کرتی ہوں گی.چھوٹے چھوٹے شکووں کو اتنازیادہ اپنے اوپر سوار کر لیا جاتا ہے.بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اس سے بڑی بات ہی کوئی نہیں ہے.اور اس سے نہ صرف اپنے کاموں میں حرج کر رہے ہوتے ہیں.ایسی سوچوں کے ساتھ اپنی زندگی بھی اجیرن کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ادھر اُدھر باتیں کر کے جس کے خلاف شکوہ ہو تا ہے اس کی زندگی بھی اجیرن کر رہے ہوتے ہیں.اور بعض دفعہ ایسے معاملات میرے پاس بھی آجاتے ہیں اور جب تحقیق کرو تو کچھ بھی نہیں نکلتا.بڑی معمولی سی بات ہوتی ہے.پھر بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا شکایت کرنے والے کے ساتھ براہ راست معاملہ بھی نہیں ہوتا.ادھر سے بات سنی ادھر سے بات سنی، تجسس والی طبیعت ہے شوق پیدا ہوا کہ مزید معلومات لو اور ادھ پچری جو معلومات ملتی ہیں ان کو پھر فوراً اپنے پاس سے حاشیہ آرائی کر کے اچھالا جاتا ہے.تو جب کسی کے بارہ میں باتیں کی جاتی ہیں اور انہیں اچھالا جاتا ہے تو اس شخص بیچارے کی زندگی اجیرن ہوئی ہوتی ہے کیونکہ اس ماحول میں اس کو دیکھنے والا ہر شخص ایسی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے وہ بہت بڑا گناہگار انسان ہے.وہ چھپتا پھرتا ہے.بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.بہر حال یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے.ہر احمدی کو اس سے بچنا چاہئے.پھر غیبت ایک گناہ ہے جس سے اصلاح کی بجائے معاشرے میں بد امنی کے سامان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس گندے فعل سے کراہت دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم تو آرام سے غیبت کر لیتے ہو.یہ سمجھتے ہو کہ کوئی بات نہیں ، بات کرنی ہے کرلی.زبان کا مزا لینا ہے لے لیا.یا کسی کے خلاف زہر اگلنا ہے اگل دیا.لیکن یاد رکھو یہ ایسا مکر وہ فعل ہے ایسی مکر وہ چیز ہے جیسے تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھالیا.اور کون ہے جو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہت نہ کرے.غیبت یہی ہے کہ کسی کی برائی اس کے پیچھے بیان کی جائے.پس اگر اس شخص کی اصلاح چاہتے ہو جس کے بارہ میں تمہیں کوئی شکایت ہے تو علیحدگی میں اسے سمجھاؤ تا کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور پھر بھی اگر نہ سمجھے تو پھر اصلاح کے لئے متعلقہ عہدیدار ہیں ، نظام جماعت ہے ، امیر جماعت ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی مصلحت آڑے آرہی ہے یا تسلی نہیں ہے تو مجھ تک پیغام پہنچایا جا سکتا ہے.بعض لوگ مجھے شکایت کرتے ہیں لیکن ان شکایتوں سے صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ اصلاح کی بجائے اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں اور پھر اکثر یہی ہوتا ہے کہ شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے صرف ایک احمدی یا ایک ہمد رد لکھ دیتے ہیں نیچے یا پھر ایسا نام اور پتہ لکھتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں ہو تا جو بالکل غلط ہوتا ہے.ایسے لوگ سوائے میرے دل میں کسی کے خلاف گرہ پیدا کرنے کی کوشش کے اور کچھ نہیں کر رہے ہوتے.اور اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے.کیونکہ نام چھپانے سے ایک تو صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ کوئی ہمدرد نہیں ہے بلکہ صرف کسی دوسرے کو بد نام کرنا چاہتے ہیں.عموماً تو ایسے خطوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور میرا کام تو ویسے بھی یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے

Page 90

خطبات مسرور جلد ہشتم 75 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 پہلے تحقیق کرواؤں، پستہ کروں اور جس کا نام پتہ ہی نہیں اس کی تحقیق بھی نہیں ہو سکتی.لیکن اگر کسی کو سزا ہو بھی تو میرے دل میں اس کے خلاف نفرت کبھی نہیں پیدا ہوئی، نہ کوئی گرہ پیدا ہوتی ہے بلکہ دکھ ہوتا ہے کہ ایک احمدی کو کسی بھی وجہ سے سزا ہوئی ہے.بہر حال ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاتَّقُوا اللهَ کہ تقویٰ اختیار کرو.اِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِیم کہ اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے.جن کو اس قسم کی بدظنیوں کی یا تجسس کی یا غیبت کی عادت ہے اپنے دلوں کو ٹولیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف کریں.اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احساس ندامت لے کر میرے پاس آؤ گے تو میں تمہاری توبہ قبول کروں گا اور تمہارے ساتھ رحم کا سلوک کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”فساد اس سے شروع ہو تا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزلِ مقصود پر پہنچنا مشکل ہے.بدظنی بہت بُری چیز ہے.انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بد ظنی شروع کر دیتا ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 375 جدید ایڈیشن) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں : ”بد ظنی صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے.اس لئے تم اس سے بچو اور صدیق کے کمالات حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرو“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 247 مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا : ” بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں.جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے.مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے( شکوے شکایتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے ) ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں.حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا ہے.ایحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْنًا (الحجرات: 13) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہو تا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہو نا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یادشمنی پیدا ہو.یہ سب بُرے کام ہیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 653-654 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر ہم عمل کرنے والے ہوں اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والے ہوں.آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے.مکرم سمیع اللہ صاحب ابن مکرم ممتاز احمد صاحب شہداد پور ضلع سانگھڑ

Page 91

76 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کو تین فروری کو شہداد پور میں شہید کر دیا گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کی وہاں الیکٹرک اور موٹر وائنڈنگ وغیرہ کی ایک دکان تھی.وہ شام کو بند کر کے واپس آرہے تھے اپنے گاؤں کے قریب پہنچے تو دو موٹر سائیکل والے قریب آئے پہلے ان کو روکا پھر ایک شخص نے راستہ پوچھا اور دوسرے نے ان کے سر پر پستول رکھ کر گولی چلا دی اور یہ وہیں موقع پر شہید ہو گئے.ان کی عمر 53 سال تھی.جماعت کے بڑے فعال رکن تھے.سیکرٹری اصلاح و ارشاد، سیکرٹری دعوت الی اللہ ، زعیم انصار اللہ اور نائب ناظم انصار اللہ ضلع کی حیثیت سے بھی خدمت کرتے رہے.فعال داعی الی اللہ بھی تھے.دکان پر بغیر کسی خوف کے، باوجود مخالفت کے ایم ٹی اے لگوایا ہوا تھا.تبلیغ کرتے رہتے تھے.جماعتی مذاکرے اور سوال وجواب کی مجلسیں بھی ان کے گھر پر ہوتی تھیں.ایمانی غیرت رکھنے والے بڑے بہادر اور نڈر انسان تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ان کی دو شادیاں تھیں.ایک اہلیہ اور تین بیٹیاں اور ایک بیٹا کینیڈا میں ہیں اور دوسری شادی سے ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں جو ان کے پاس ہی تھے.اللہ تعالیٰ شہید کو اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے اور درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو بھی صبر اور حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے.ان کا حافظ و ناصر ہو.نماز کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب بھی ادا کی جائے گی.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 9 مورخہ 26 فروری تا 24 مارچ صفحه 5 تا 8)

Page 92

خطبات مسرور جلد ہشتم 77 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010ء بمطابق 12 تبلیغ 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض صحابہ کے ایسے ایمان افروز واقعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح وہ یقین پر قائم تھے ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان کو یقین تھا.اور کیسا ان کا تو کل تھا اور کیسی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی محبت تھی اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کے لئے غیرت کے کیسے عجیب نمونے دکھاتا رہا، ان کا اظہار فرما تارہا.پہلا واقعہ تو یہ ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول بیان فرماتے ہیں کہ وہاں( یعنی کشمیر میں) ایک بوڑھے آدمی تھے انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی حدود یعنی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں.اور بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے.وہ جو کچھ بھی بیان کرتے یہ جو عالم صاحب تھے ، یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے.کیونکہ ان کو ہر چیز کی تعریف کے پختہ الفاظ یاد تھے.اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ ایک دن سر در بار مجھ سے دریافت کیا (راجہ کے دربار میں) که مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں ؟ اس نے اپنی طرف سے ایسا سوال کیا کہ کوئی تعریف بتائیں گے تو میں غلطی نکالوں گا.تو حضرت خلیفہ اول کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی سے بچنے کا نام حکمت ہے.وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کہاں لکھی ہے ؟ تو خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ میرے پاس دہلی کے حکیم تھے جو حافظ بھی تھے ، بیٹھے ہوئے تھے.میں نے انہیں کہا کہ ان کو سورۃ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سنا دو جس میں آتا ہے کہ ذلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ (بنی اسرائیل : 40) پھر تو وہ بہت حیرت زدہ ہوئے.(ماخوذ از حیات نور باب سوم - صفحہ 174) (ماخوذ از مرقاة الیقین صفحہ 253,254 مطبوعہ ربوہ) یہ چوتھار کو ع 32 آیت سے لے کر 41 آیت تک ہے.اس میں مختلف باتیں بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ سب برائیاں ہیں اور ان سے بچنا حکمت ہے.یہ تو علماء کو چیلنج کیا کرتے تھے لیکن اس قسم کے علماء ہر

Page 93

خطبات مسرور جلد ہشتم 78 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 زمانے میں پائے جاتے ہیں جن کا مقصد علم پھیلانا نہیں ہو تا بلکہ اپنی علمیت کا رعب ڈالنا ہوتا ہے.تقویٰ سے عاری ہوتے ہیں.آجکل کے علماء کا بھی یہ حال ہے.اُس زمانہ میں بھی تھا کہ دوسروں پر اپنا علمیت کا رعب ڈالا جائے.پردہ کا حکم آج کل مختلف ٹی وی چینلز آتے ہیں.اور ان میں یہ لوگ نظر آتے ہیں.اس حوالہ سے میں سب احمدیوں سے اور خاص طور پر نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج کل جو مختلف ٹی وی پر و گر ام آرہے ہیں ان کے حوالوں سے متاثر نہ ہو جایا کریں.مثلاً پچھلے دنوں میں پاکستان میں ایک ٹی وی چینل پر ایک عالم نے نوجوانوں کو اپنے ساتھ لگانے کے لئے ، اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک یہ شوشہ چھوڑا کہ قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ عورتوں کے لئے پردہ ضروری ہے ، یہ تو صرف نبی کی بیویوں کے لئے تھا.حالانکہ قرآن کریم میں سورۃ احزاب میں جہاں نبی کی بیویوں کے لئے حکم ہے وہاں عام مومنوں کے لئے بھی حکم ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ی يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَ بَنْتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ (الاحزاب:60 ) کہ اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی بیویوں سے کہہ دے کہ جب وہ باہر نکلا کریں تو اپنی چادر سروں پر گھسیٹ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں.اب اس میں بھی بعض لوگوں نے تاویلیں نکالنی شروع کر دی ہیں کہ چادر سروں سے گھسیٹ کر سینوں پر لانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سر نگا بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عموماً مسلمان ملکوں میں اب نہ سر کا پردہ رہا ہے نہ ہی باقی جسم کا پردہ رہا ہے.اس کی وجہ سے یہاں یورپ میں تو ایک رد عمل ہے جو پردہ کے خلاف بعض جگہ مہم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.اور یہی عالم صاحب جو ہیں، میں نے خود تو ان کا پروگرام نہیں سنا لیکن میں نے سنا ہے کہ انہوں نے ایک یہ بھی شوشہ چھوڑا ہے کہ قرآن کریم سے کہیں ثابت نہیں ہو تا کہ اب خلافت کی ضرورت ہے یا یہ کہ خلافت قائم رہے گی.ہاں بلاشبہ ان لوگوں کے لئے تو نہیں ہے کیونکہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے نہیں ہیں، زمانہ کے امام کو ماننے والے نہیں ہیں ، نہ ان میں خلافت قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کو وہ برکات حاصل ہو سکتی ہیں جو اس سے وابستہ ہیں.بہر حال یہ تو ضمنا ایک ذکر آگیا.اگلا واقعہ بھی حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا ہی ہے.عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کہیں لاہور تشریف لائے.( یہ پہلے کی بات ہے) ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے.کالج کے پروفیسر مسٹر آرنلڈ صاحب نے کہا کہ تثلیث کا مسئلہ کسی ایشیائی دماغ میں آہی نہیں سکتا.( یعنی یہ عیسائیوں کا مسئلہ ہے یہ تو کسی ایشیائی دماغ میں نہیں آسکتا).تو ڈاکٹر صاحب موصوف جو علامہ اقبال کہلائے ، وہ حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی خدمت میں آئے اور پروفیسر کی یہ بات بتائی.اور عرض کی کہ میں اس کا

Page 94

خطبات مسرور جلد ہشتم 79 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 جواب کیا دوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ پروفیسر صاحب کو جا کر کہیں کہ اگر آپ کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو حضرت مسیح اور آپ کے حواری بھی اس مسئلے کو نہیں سمجھے ہوں گے کیونکہ وہ بھی ایشیائی تھے.یہ جواب سن کر پروفیسر صاحب ایسے خاموش ہوئے کہ گویا انہوں نے کبھی یہ دعوی کیا ہی نہیں.پھر آگے لکھا ہے کہ سنا گیا ہے کہ یورپ میں بھی ایک کانفرنس میں انہوں نے یہ اعتراض پیش کیا مگر وہاں سے بھی انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا.(حیات نور از عبد القادر (سابق سوداگر مل) صفحه 107-106) پھر ایک واقعہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں جبکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں طاعون کے حملے ہو رہے تھے میں تبلیغ کی غرض سے موضع گوٹریالہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات گیا اور وہاں ایک مخلص احمدی چوہدری سلطان عالم صاحب کے پاس چند دن رہا.دوران قیام میں ہر رات میں ان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر تقریریں کر تارہا اور لوگوں کو احمدیت کے متعلق سمجھاتا رہا.چونکہ ان تقریروں میں اُن لوگوں کو طاعون وغیرہ کے عذابوں سے بھی ڈرا تا رہا.اس لئے ایک دن صبح کے وقت اس گاؤں کے کچھ افراد میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ نے اپنی تقریروں میں مرزا صاحب کے نہ ماننے والوں کو طاعون وغیرہ سے بہت ڈرایا ہے.مگر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ موضع گوٹریالہ بہت بلندی پر واقع ہے اور پھر اس کی فضا اور آب و ہوا اتنی عمدہ ہے کہ یہاں وبائی جراثیم پہنچ ہی نہیں سکتے.تو مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے ان کو کہا کہ یہ تو بالکل درست ہے.مگر آپ لوگ یہ بتائیں کہ مجھ سے پہلے کبھی کوئی احمدی مبلغ اس گاؤں میں آیا ہے جس نے آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کی ہو ؟.گاؤں والوں نے کہا نہیں پہلے تو کوئی نہیں آیا.تو مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے کہا یہی وجہ ہے کہ آپ کا گاؤں ابھی تک محفوظ ہے.اب میری تبلیغ اور آپ لوگوں کے انکار کے بعد بھی اگر یہ گاؤں خدا تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہا تو پھر میں سمجھوں گا کہ آ واقعی اس گاؤں کی عمدہ فضا خد اتعالیٰ کے ارشاد وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ( بنی اسرائیل: 16) کی وعید کو روک سکتی ہے.( یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ہر گز عذاب نہیں بھیجتے جب تک کسی بستی میں رسول نہ بھیج دیں).تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ میں تو ان لوگوں کو یہ بات کہہ کر چلا آیا لیکن چند دن بعد ہی اس گاؤں میں چوہے مرنے شروع ہو گئے.پھر طاعون نے ایسا شدید حملہ کیا کہ اس گاؤں کے اکثر محلے موت نے خالی کر دیئے اور کئی لوگ بھاگ کر دوسرے دیہات میں چلے گئے.(ماخوذ از حیات قدسی از حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی صفحہ 136) تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بھی مختلف طریقے ہیں.طاعون تو ایک ایسا عذاب تھا جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے خبر دی تھی.پھر آپ نے اپنا ایک نشان زلزلوں کا بھی بتایا.آج بھی دنیا میں مختلف شکلوں میں عذاب آرہے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی نہ پہچان کرنا چاہتے ہیں ، نہ زمانہ کے امام کی پہچان کرنا چاہتے

Page 95

80 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہیں.نہ دنیا حضرت محمد رسول اللہ صلی للی کم کی پہچان کرنا چاہتی ہے بلکہ حس ہی مرگئی ہے.دنیا میں ہر جگہ تباہی پر تباہی آرہی ہے.لیکن بالکل اس بارہ میں سوچنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کو عقل دے اور دنیا کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھے.پھر ملک صلاح الدین صاحب مولانا بقا پوری صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے کے بارہ میں اپنی روایت میں لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سندھ کے علاقہ میں تبلیغی مشن قائم فرمایا.مولا نا بقا پوری صاحب کو اس علاقہ میں امیر التبلیغ مقرر فرمایا.اس وقت سنجوگی قوم میں جو سندھ میں ایک لاکھ کے قریب ہے آریہ قوم نے ملکانوں کی طرح ارتداد کا جال پھیلا دیا تھا.مولانا صاحب محنت کر کے چند ماہ میں سندھی کی چند کتابیں پڑھ کر تقریر کرنے کے قابل ہو گئے.(اب یہ بھی اس زمانہ میں ان لوگوں کی بڑی ہمت اور محنت اور شوق تھا کہ چند مہینے میں سندھی زبان بھی سیکھ لی اور تقریر کرنے کے قابل بھی ہو گئے.) اور اولاً سب علاقہ میں آریہ سماجیوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا.جس جگہ یہ لوگ سادہ لوح سندھیوں کو ورغلا کر ارتداد پر آمادہ کرتے مولانا صاحب وہاں پہنچ کر انہیں اسلام پر پختہ کرتے.اس طرح شب و روز کی ایک لمبی جد وجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ سات آٹھ ماہ میں ہی سنجوگی قوم جو تھی اس سے آریہ سماج مایوس ہو گئے اور ارتداد کی یہ آگ بھی سر د ہو گئی.لیکن پھر دوسرے سال یہ واقعہ ہوا کہ 1924ء میں علماء، امراء، فقراء یہ تینوں مل کر مولوی صاحب کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے اور جابجا مباحثات شروع ہو گئے اور مولانا بقا پوری صاحب اکیلے ہوتے تھے اور غیر احمدی علماء کافی تعداد میں آتے تھے.بعض دفعہ کہتے ہیں کہ در جن تک ہو جاتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ آپ ہی کو غلبہ ہو تا.نتیجتاً احمدیت کی طرف لوگوں کی توجہ اور بڑھتی گئی.اس وجہ سے سندھ میں بعض مقامات پر جماعتیں بھی قائم ہو گئیں.پھر مزید لوگ باتیں سننے لگے.دلچسپی پیدا ہوئی تو علماء پر بھی رعب پڑ گیا اور مولوی بقا پوری کا نام لے کر کہتے تھے کہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے جو شریف لوگ تھے ان کی مزید توجہ پیدا ہوئی.بہت سے افراد کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.1928ء میں ( باوجود علالت کے وہ مختلف شہروں میں جا کے تبلیغ کر رہے تھے تو اس وقت سندھی احمدیوں کی صرف ایک جماعت تھی جو دو چار خاندانوں پر مشتمل تھی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 50 جماعتیں وہاں قائم ہو گئیں.) مولانا بشارت بشیر صاحب بھی لکھتے ہیں کہ سنجوگی قوم نے قبول اسلام کے بعد غیر مسلم اقارب سے رشتے ناطے جاری رکھے اور یہی وجہ ان کے ایمان کی کمزوری کی ہوئی.بعد میں پھر آہستہ آہستہ وہ احمدیت سے بھی اور اسلام سے بھی دور ہٹتے چلے گئے.پس آج بھی احمدیوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں، جذباتی فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں.غیروں میں شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں جس سے پھر آئندہ نسلیں تباہ ہو رہی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ پورا خاندان دین سے ہٹ جاتا ہے.

Page 96

خطبات مسرور جلد ہشتم 81 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 پھر کہتے ہیں کہ مولانا صاحب کو علم ہوا کہ لاڑکانہ کے قریب ایک شہر میں شدھی ہونے والی ہے.تو آپ وہاں پہنچے اور مسلمان حافظ گوکل چند نامی کو جو رئیس اور وہاں کے مسلمان نمبر دار تھے ،انہیں سمجھایا.کہنے لگے مولویوں نے ہماری مدد نہیں کی.اب ہندوؤں سے عہد ہو چکا ہے پرسوں سارا شہر جو ہے وہ ہند و ہو جائے گا.پھر انہوں نے مولوی صاحب کو کھانے کے لئے کہا تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا میں تمہاری روٹی ہر گز نہیں کھاؤں گا اور ساتھ ہی زار زار رونا شروع کر دیا.اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے.پھر باتیں کرنے لگے.آپ کو کھانا کھانے کو کہا آپ نے پھر انکار کر دیا اور آنسو جاری رہے.تو رئیس نے کہا کہ عہد توڑنا تو جرم ہے، گناہ ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی.تو یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے کہا کہ ہم ہر گز شدھ نہیں ہوں گے اور ہم خط بھجوا دیتے ہیں کہ وہ ہر گز نہ آئیں.مولوی صاحب نے کہا کہ پہلے آپ خط لکھیں.پھر میں کھانا کھاؤں گا.چنانچہ آپ نے خط لکھوایا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور ہم تمہیں بھی اس کے قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں.ہم میں سے کوئی بھی اپنا مذ ہب نہیں چھوڑے گا اور اگر کسی نے دوبارہ آنے کی کوشش کی تو بہت ذلیل ہو گا.اس کے بعد پھر آپ نے کھانا کھایا اور آر یہ وہاں بھی ناکام ہوئے اور بڑے تلملائے.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 10 صفحہ 234 تا 236) سید سرور شاہ صاحب کے بارہ میں ایک روایت ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا علم جس اعلیٰ پایہ کا تھا اور علماء ہم عصر پر جو اثر تھا وہ ذیل کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے.(حضرت سرور شاہ صاحب بڑے لمبے عرصہ تک مفتی سلسلہ بھی رہے ہیں.) سید صاحب علاج کے لئے ہری پور میں مقیم تھے کہ ہسپتال کے قریب ایک پہلوان سے آپ نے دریافت کیا کہ یہ سامنے مولوی صاحب کون ہیں.( آپ کو کوئی مولوی صاحب نظر آئے ہوں گے).اس نے کہا کہ کوٹ نجیب اللہ کے مولوی منہاج الدین ہیں جو اپنے آپ کو رئیس المناظرین کہتے ہیں اور آپ سے مباحثہ کرنا چاہتے ہیں.( انہوں نے سنا کہ مولوی صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں اور بڑے عالم ہیں تو انہوں نے غیر احمدی مولوی سے کہا کہ اچھا میں تو بہت بڑا مناظر ہوں.تو میں مباحثہ کروں گا.) آپ کے دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ نئی بات جو آپ نے اختیار کر لی ہے اس کے متعلق یعنی احمدیت کے بارہ میں کل اس مقام پر اسی وقت 10 بجے مباحثہ ہو گا.چنانچہ آپ اگلے روز انتظار کرتے رہے اور مخالف مولوی نہ آئے.(یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے.) ہری پور بازار کے آخری سرے کے آگے کچھ حصہ خالی ہے.پھر سکندر پور بازار شروع ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں ہری پور بازار کی طرف آپ روانہ ہوئے اور وسط میں پہنچ کر دیکھا کہ مولوی صاحب اور اس کے ساتھی آرہے ہیں لیکن آپ کو دیکھتے ہی واپس مڑے اور بھاگنا شروع کر دیا.یعنی اس غیر احمدی مولوی نے بھاگنا شروع کر دیا.تو مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں بھی ان کے پیچھے دوڑا.میرا خیال تھا کہ جامعہ مسجد میں پہنچے ہوں گے لیکن وہاں سے

Page 97

82 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پتہ لگا کہ وہ ادھر نہیں آئے.چنانچہ میں دوسری طرف گیا تو دیکھا کہ مولوی صاحب ایک کیچڑ والے نالے میں سے گزر کر پار باغ کی طرف جارہے ہیں.وہ پہلوان جو تھا وہ اس کنارے پر کھڑابڑے زور سے ہنس رہا تھا.اتنا ہنس رہا تھا کہ ہنس ہنس کے اس کی آنکھوں سے آنسو آگئے.تو اس نے بتایا کہ یہ مولوی منہاج الدین صاحب کل فلاں مولوی صاحب کے پاس سکندر پور گئے اور ان سے کتابیں لے کر مباحثہ کے لئے تیاری کرنے لگے اور ساری رات کتابیں پڑھتے رہے.صبح مولوی صاحب ( یعنی جو دوسرے غیر احمدی مولوی صاحب تھے ) فجر کے لئے آئے تو دریافت کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں کہ آپ ساری رات نہیں سوئے.انہوں نے کہا مولوی سرور شاہ صاحب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے حوالے تلاش کرتارہا ہوں.لیکن جس تفسیر کو دیکھتا ہوں اس میں حضرت عیسی کی زندگی اور وفات دونوں کا ذکر پایا جاتا ہے.اس لئے کوئی قاطع دلیل (کوئی اچھی دلیل جو منہ بند کرانے والی ہو) وہ نہیں مل رہی.تو سکندرپور والے مولوی صاحب استاذ الگل تھے انہوں نے مباحثہ کے لئے تیاری کرنے والے مولوی کو کہا کہ مولوی سرور شاہ صاحب کے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھے آپ سے زیادہ صدمہ ہوا ہے اور مجھے بھی ان لوگوں نے ان کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے آمادہ کیا ہے لیکن میں نے اس امر سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اس لئے کہ مولوی صاحب سارے ضلع کو آگے لگا لینے والے ہیں ان سے مباحثہ کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمام ضلع کے علماء ان کے آگے آگے بھاگنے لگیں گے اور ان سے جتنی زیادہ باتیں کی جائیں گی اتنا ہی زیادہ نقصان ہو گا اور علماء کی مٹی پلید ہو گی.سو پہلوان نے کہا کہ اسی وجہ سے مولوی صاحب مباحثہ کے لئے آپ کے پاس نہیں آئے اور اب آپ کو دیکھ کر بھاگ گئے ہیں.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد پنجم صفحہ 45-44) آج بھی علماء کا یہی حال ہے.دعوے بڑے کرتے ہیں.ٹی وی پر بھی آتے ہیں لیکن جب پیغام بھیجو کہ ٹھیک ہے ہمارے سے اپنے ٹی وی چینل پر یا ہمارے پہ ایک مناظرہ کر لو تو کوئی جواب ہی نہیں دیا جاتا.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو الہام ہے.نصرت بالرغب ( تذکرہ صفحہ 53 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) اس کا اللہ تعالیٰ آپ کے ماننے والوں کے ذریعہ بھی لوگوں پر اثر دکھارہا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا.یہ دنیا کا مشہور ترین پادری اور امریکہ کا رہنے والا تھا.وہ وہاں کہیں بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹر تھا اور یوں بھی ساری دنیا کی عیسائی تبلیغی سوسائٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا.اس نے قادیان کا بھی ذکر سنا ہو ا تھا.جب وہ ہندوستان میں آیا تو اور مقامات دیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا.اس کے ساتھ ایک اور پادری گارڈن (یا گورڈن) نامی بھی تھا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے.انہوں نے اسے

Page 98

خطبات مسرور جلد هشتم 83 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 قادیان کے تمام مقامات دکھائے مگر پادری آخر پادری ہوتے ہیں وہ بھی طنزیہ بات کرنے سے نہیں رہ سکا.ان دنوں قادیان میں ابھی ٹاؤن کمیٹی وغیرہ نہیں تھی اور ویسے بھی ہمارے ہند و پاکستان کے چھوٹے گاؤں اور قصبے جو ہیں وہاں گلیوں میں بعض دفعہ بلکہ اکثر گند نظر آتا ہے.یعنی گلیوں میں بہت گند پڑا رہتا تھا.پادری زو یمر باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگا کہ ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اور نئے مسیح کے گاؤں کی صفائی بھی دیکھ لی.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسے ہنس کے کہنے لگے پادری صاحب ! ابھی پہلے مسیح کی ہی ہندوستان پر حکومت ہے اور یہ اس کی صفائی کا نمونہ ہے.نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی.اس پر وہ بہت شرمندہ ہوا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 89 مطبوعہ ربوہ) پیر سراج الحق صاحب نعمانی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب ساکن کپور تھلہ اور ایک شاگر دیا مرید مولوی رشید احمد گنگوہی میں حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی وفات و حیات کے متعلق گفتگو ہوئی.اس گفتگو میں تو مولوی صاحب کا مرید ناکام رہا کہ حیات مسیح علیہ السلام ثابت کر سکے.مگر گفتگو اس پر آٹھہری کہ اتنی لمبی عمر کسی انسان کی پہلے ہوئی ہے ؟ یعنی 120 سال.اور اب ہو سکتی ہے کہ نہیں.اس میں بھی وہ لاجواب رہا.انہوں نے دلیلیں دیں.آخر کار اس نے ایک خط مولوی رشید احمد صاحب کو لکھا.مولوی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہاں اتنی لمبی عمر ، 120 سال ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ عمر بھی ہو سکتی ہے.بلکہ عیسی تو دو ہزار سال سے آسمان پر بیٹھے ہیں.( مولوی صاحب کی دلیل ذرا سنیں کہ) دیکھو حضرت آدم کے وقت سے شیطان اب تک زندہ چلا آتا ہے اور کتنے ہزار برس ہو گئے.اس کے جواب میں منشی ظفر احمد صاحب نے فرمایا کہ ذکر تو انسانوں کی عمر کا تھانہ کہ شیطان کا.کیا نعوذ باللہ حضرت مسیح شیطانوں میں سے تھے جو شیطانوں کی عمر کی مثال دی ہے اور یہ بھی ایک دعوی ہے.یہ تمہارا دعویٰ ہے.مولوی رشید احمد صاحب دعویٰ اور دلیل میں فرق نہیں سمجھتے تھے.( ایک دعویٰ ہوتا ہے ایک دعویٰ کے بعد اس کی سچائی کے لئے دلیل دی جاتی ہے.) تو دعویٰ اور دلیل میں فرق ہے.کہتے ہیں مولوی صاحب دعویٰ اور دلیل کا فرق نہیں سمجھتے تھے کہ اس پر کیا دلیل دی ہے کہ وہی شیطان آدم والا اب تک زندہ ہے اور اس کی اتنی بڑی لمبی عمر ہے.منشی صاحب موصوف کے اس جواب کو سن کر مولوی رشید صاحب کو ان کے مرید نے پھر ایک خط لکھا کہ مولوی صاحب یعنی منشی ظفر احمد صاحب یہ جواب دے رہے ہیں.تو مولوی رشید صاحب نے ان کو (اپنے مرید کو ) جواب دیا کہ تمہارا مقابل مرزائی ہے اس سے کہہ دو کہ ہم مرزائی سے کلام نہیں کرتے اور تم بھی مت ملو.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 50.مطبوعہ قادیان) تو یہ تو ہے نام نہاد علماء کا قصہ.آج بھی پہلے بھی اور کل بھی رہے گا.حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے متعلق بیان کیا جاتا ہے.روایت ہے کہ ڈاکٹر صاحب رام پور

Page 99

خطبات مسرور جلد ہشتم 84 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 کے دربار میں داخل ہو کر بلند آواز سے السلام علیکم کہتے جو کہ آداب دربار کے خلاف تھا کہ اتنی اونچی آواز میں السلام علیکم کہا جائے.اس طرح آپ نواب صاحب کے آگے تعظیم کے لئے جھکتے بھی نہیں تھے.درباری لوگوں کا یہ رواج تھا کہ جب کوئی دربار میں داخل ہو تو بڑے ادب سے داخل ہو اور آگے بڑا جھک کے اور بڑی آہستگی سے سلام کرو.جب ڈاکٹر صاحب کو توجہ دلائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں سوائے خدا کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا.نواب صاحب نے تبدیلی اور سخت اقدامات کی دھمکی دی کہ آپ کو تبدیل کر دوں گا اور بھی سخت اقدامات کروں گا.یہ ڈاکٹر تھے.سرکاری ملازم تھے.تو آپ نے فرمایا کہ میرے خدا کے ہاتھ میں آپ کی گردن ہے.جب چاہے آپ کو اس منصب سے ہٹا سکتا ہے اور نواب صاحب کے دربار میں اس کو چیلنج کر دیا اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا.حضرت ڈاکٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے عریضہ لکھا جس کے جواب میں حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ” محبی عزیزی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ.آپ کا کارڈ پہنچا.میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا.مگر آپ نہایت استقامت سے اپنے تئیں رکھیں.کم دلی ظاہر نہ ہو.خد اتعالیٰ کا فضل ہر جگہ پر در کار ہے.مسافرت اور غربت میں دعا اور تضرع سے بہت کام لینا چاہئے“.اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعانے وہ اثر دکھایا کہ نواب رام پور کو انگریزی ریذیڈنٹ کی سفارش پر حکومت ہند نے دماغی مریض ثابت ہونے پر نا اہل قرار دے دیا اور معزول کر دیا.جو شخص ڈاکٹر صاحب کی تبدیلی اور فراغت کی دھمکیاں دے رہا تھا باوجود صاحب اقتدار ہونے کے خود ہی بیچارہ معزول ہو گیا.(ماخوذ از سیرت و سوانح حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مصنفہ حنیف احمد محمود صفحه 70) حضرت خلیفۃ المسیح الاول بیان کرتے ہیں کہ ایک زمانہ میں میں لاہور کے سٹیشن پر شام کو اترا.بعض اسباب ایسے تھے کہ چینیاں والی مسجد میں گیا تو شام کی نماز کے لئے وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھائی میاں علی محمد نے مجھ سے کہا کہ جب عمل قرآن مجید اور حدیث پر ہوتا ہے تو ناسخ و منسوخ کیا بات ہے.(غیر احمدیوں کا نظریہ ہے ناں کہ کچھ آیتیں منسوخ ہیں).تو میں نے ان کو کہا یہ کچھ نہیں ہیں.وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے گو میر ناصر کے استاد تھے.ان کا دینی علم زیادہ نہیں تھا.انہوں نے اپنے بھائی سے ذکر کیا ہو گا.مولوی محمد حسین بٹالوی یہ ان دنوں جوان تھے اور بڑا جوش تھا.یہ خلیفہ اول کی بیعت سے پہلے کی بات ہے.تو کہتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا اور وہ مولوی صاحب جوش سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے.جب میں نماز سے فارغ ہوا تو انہوں نے کہا ادھر آؤ تم نے میرے بھائی کو کہہ دیا کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں ہیں.میں نے کہا ہاں نہیں ہیں.تب بڑے جوش سے کہا کہ تم نے ابو مسلم اصفہانی کی کتاب پڑھی ہے ؟ وہ احمق بھی قائل نہ تھا.حضرت خلیفہ اول کہتے ہیں میں نے کہا پھر تم ہم دو ہو گئے.پھر اس نے کہا کہ سید احمد کو جانتے ہو ؟ مراد آباد میں صدر الصدور

Page 100

خطبات مسرور جلد ہشتم 85 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 ہے.میں نے جواب دیا کہ میں رام پور لکھنو اور بھوپال کے عالموں کو جانتا ہوں ان کو نہیں جانتا.اس پر کہا کہ وہ بھی قائل نہیں.تب میں نے کہا کہ بہت اچھا پھر ہم اب تین ہو گئے.پھر مولوی صاحب کہنے لگے کہ یہ سب بدعتی ہیں.امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو نسخ کا قائل نہیں وہ بدعتی ہے.تو میں نے کہا تم دو ہو گئے.میں ناسخ و منسوخ کا ایک آسان فیصلہ آپ کو بتاتا ہوں، تم کوئی آیت پڑھ دوجو منسوخ ہو.اس کے ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ ان پانچ آیتوں میں سے پڑھ دے تو کیا جواب دوں گا.خدا تعالی ہی سمجھائے تو بات بنے.فکر پیدا ہوئی.(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے سے پہلے کا قصہ ہے).اس نے ایک آیت پڑھی میں نے کہا کہ فلاں کتاب میں جس کے تم بھی قائل ہو اس کا جواب دیا ہے.کہنے لگا ہاں.پھر میں نے کہا اور پڑھو تو خاموش ہی ہو گیا.علماء کو یہ وہم رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہتک ہو.اس لئے اس نے یہی غنیمت سمجھا کہ چپ رہے.(ماخوذ از مرقاة الیقین فی حیات نور الدین.مرتبہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی.صفحہ 126-125) لیکن آج کل کے بیچارے علماء کا یہ حال نہیں.ڈھٹائی کی انتہا ہوئی ہوتی ہے.ویسے بعد میں تو ان کا بھی یہی حال تھا.انہی مولوی محمد حسین بٹالوی کی آگے جاگ چل رہی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ میرا خدا ہمیشہ میر اخزانچی رہا ہے.یہ تو گل کی بھی ایک مثال ہے کیونکہ میرا تو کل ہمیشہ خدا پر رہا ہے اور وہی قادر ہر وقت میری مدد کر تا رہا ہے.چنانچہ ایک وقت مدینہ میں میرے پاس کچھ نہ تھا حتی کہ رات کو کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا.جب نماز عشاء کے لئے وضو کر کے مسجد کو چلا.تو راستے میں ایک سپاہی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا افسر آپ کو بلاتا ہے.میں نے نماز کا عذر کیا، پر اس نے کہا میں نہیں جانتا میں تو سپاہی ہوں.حکم پر کام کرتا ہوں.آپ چلیں ورنہ مجھے مجبوراً لے جانا ہو گا.ناچار میں اس کے ہمراہ ہو گیا.وہ ایک مکان پر مجھے لے گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک امیر افسر سامنے جلیبیوں کی بھری ہوئی رکابی رکھ کے بیٹھا ہے.اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے کیا کہتے ہیں.میں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اسے جلیبی کہتے ہیں.کہا کہ ایک ہندوستانی سے سن کر میں نے یہ بنوائی ہیں.خیال کیا کہ اس کو پہلے کسی ہندوستانی کو ہی کھلاؤں گا.چنانچہ مجھے آپ کا خیال آگیا.اس لئے میں نے آپ کو بلوایا اب آپ آگے بڑھیں اور کھائیں.میں نے کہا نماز کے لئے اذان ہو گئی ہے.فرصت سے نماز کے بعد کھاؤں گا.کہا مضائقہ نہیں.ہم ایک آدمی کو مسجد بھیج دیں گے کہ تکبیر ہوتے ہی آکر کہہ دے.خیر کھا کر میرا پیٹ بھر گیا تو ملازم نے اطلاع دی کہ نماز تیار ہے اور تکبیر ہو چکی ہے.تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے کھانے کا انتظام کیا.پھر فرماتے ہیں کہ دوسری صبح ہی جب میں اپنا بستہ صاف کر رہا تھا اور اپنی کتا بیں الٹ پلٹ کر رہا تھا تو نا گہاں ایک پاؤنڈ مل گیا.چونکہ میں نے کبھی کسی کا مال نہیں اٹھایا اور نہ کبھی مجھے کسی کا روپیہ دکھلائی دیا اور میں یہ

Page 101

خطبات مسرور جلد ہشتم 86 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 خوب جانتا تھا کہ اس مقام پر مدت سے میرے سوا کوئی اور آدمی نہیں رہا اور نہ کوئی آیا.لہذا میں نے اسے خدائی عطیہ سمجھ کر لے لیا اور شکر کیا کہ بہت دنوں کے لئے یہ کام دے گا.(ماخوذ از حیات نور صفحہ 516-515.جدید ایڈیشن.مطبوعہ ربوہ) حضرت حافظ روشن علی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا.سبق کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے کھانے کا وقت گزر گیا.اس فکر میں تھے کہ کہیں میں چلا گیا تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی کلاس نہ شروع ہو جائے ، آپ پڑھایا کرتے تھے).حتی کہ ہمارے حدیث کا سبق شروع ہو گیا.میں اپنی بھوک کی پرواہ نہ کر کے سبق میں مصروف ہو گیا اور کہتے ہیں کہ میں ابھی سبق پڑھنے والے طالب علم کی آواز سن رہا تھا اور سب کچھ دیکھ بھی رہا تھا کہ یکا یک سبق کی آواز جو تھی مدھم ہو گئی اور میرے کان اور آنکھیں باوجود بیداری کے سننے اور دیکھنے سے رہ گئے.اس حالت میں میرے سامنے کسی نے تازہ بتازہ تیار ہوا ہوا کھانا رکھ دیا.گھی میں تلے ہوئے پر اٹھے اور بھنا ہوا گوشت تھا.میں نے خوب مزہ لے لے کر کھانا کھایا.جب میں سیر ہو گیا، پیٹ بھر گیا تو پھر میری یہ حالت منتقل ہو گئی.واپس اسی پہلی حالت میں آگیا اور مجھے پھر سبق کی آواز سنائی دینے لگی.مگر اس وقت بھی میرے منہ میں کھانے کی لذت موجود تھی اور میرے پیٹ میں سیری کی طرح کھانا کھانے کے بعد جو بو جھل پن ہو تا ہے وہ بھی تھا.اور اسی طرح لگ رہا تھا کہ یہ کھانا کھانے سے مجھے بالکل تازگی ہوگئی ہے جیسی کہ عموماً ظاہری کھانا کھانے سے ہوتی ہے.جبکہ میں کہیں گیا بھی نہیں تھا اور نہ کسی نے مجھے کھانا کھاتے دیکھاہے.(ماخوذ از حیات نور صفحہ 290-289) تو یہ بھی ایک نظارہ تھا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جگہ اسی حوالے سے اس نظارے کو بیان فرمایا ہے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے بیان کیا کہ میری موجودگی کا واقعہ ہے کہ گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مقدمہ کے تعلق میں قیام فرما تھے.(بہت سارے لوگ آتے تھے اور کھانا بھی پکایا جاتا تھا) تو باورچی نے دیکھا.جتنے دوست موجود تھے ان کی تعداد کے مطابق کھانے کا انتظام کیا گیا.لیکن پھر اور مہمان آگئے ، اندازے سے زیادہ مہمان آگئے اور کھانا پھر بھی کفایت کر گیا (پور اہو گیا).تو اس نے صبح کے کھانے کے متعلق یہ ماجر احضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کر کے کہ کیا اتنا ہی کھانا گل بھی ریکانا ہے جتنا آج کا یا تھا یازیادہ پکاؤں (کیونکہ مہمان زیادہ آگئے تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کیا تم خدا تعالیٰ کا امتحان کرنا چاہتے ہو ؟ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد چہارم صفحه 228 227 مطبوعہ قادیان) اللہ تعالیٰ نے اس وقت عزت رکھ لی اب تم زیادہ کھانا تیار کرو.تو یہ بھی جو اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کو آزمایا جائے.

Page 102

خطبات مسرور جلد ہشتم 87 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بارہ میں مختار احمد صاحب ہاشمی ذکر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے ہدایت فرمائی کہ اگر آپ کی نظر میں کوئی امداد کا مستحق ہو اور وہ خود سوال کرنے میں حجاب محسوس کرتا ہو تو ایسے افراد کا نام آپ اپنی طرف سے پیش کر دیا کریں.مگر یہ خیال رہے کہ وہ واقعی امداد کا مستحق ہے.چنانچہ میں اس عرصہ میں ہر موقع پر مستحق افراد کے نام پیش کر کے انہیں امداد دلوا تارہا ہوں.ایک دفعہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند غرباء کو رقم بطور امداد ادا کرنے کی مجھے ہدایت فرمائی.مگر میں خاموش ہو رہا اس پر حضرت میاں صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے میری خاموشی کی وجہ دریافت فرمائی.میں نے عرض کیا کہ امدادی فنڈ ختم ہو چکا ہے اور کوئی گنجائش باقی نہیں رہی.آپ نے مشفقانہ نگاہوں سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ گھبر ائیں نہیں.رقم اوور ڈرا( Overdraw) کروالیں اور ان لوگوں کو ادا کر دیں.اللہ تعالیٰ بہت روپیہ دے گا چنانچہ اگلے چند دنوں میں ہی اس مد میں سینکڑوں روپے آگئے.(ماخوذ از حیات بشیر مصنفہ عبد القادر سابق سوداگر مل صفحہ 271 مطبوعہ.ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) صباح الدین صاحب کی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے بارہ میں ایک روایت ہے.کہتے ہیں میں نے ان سے خود سنا ہے جب آپ انگلستان تشریف لائے تو اس دوران مختلف سفر بھی ہو رہے تھے.ایک کارخانہ بھی قادیان میں لگنا تھا شاید اس کے لئے کچھ چیزیں بھی خرید رہے تھے.یا اور معلومات لے رہے ہوں گے.بہر حال سفر کے دوران آپ نے اپنے ساتھ مدد کے لئے ایک انگریز بھی رکھا ہوا تھا.اس نے بتایا کہ سفر خرچ کا جو فنڈ ہے وہ ختم ہو رہا ہے اور اب سفر جاری رکھنا مشکل ہے.تو آپ نے فرمایا : فکر نہ کرو.انشاء اللہ انتظام ہو جائے گا.تو وہ شخص جو انگریز تھا.بہت حیران ہوا کہ اس ملک میں آپ اجنبی ہیں اور پھر یہاں رقم کا کیسے انتظام ہو سکے گا.حضرت میاں صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے خدا سے دعا کی کہ خدا تو ہی اس پر دیس میں ہماری مدد فرما.فرماتے ہیں کہ اگلے ہی روز ہم بازار سے جارہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو روک لیا اور سینٹ سینٹ (Saint,Saint) پکارنے لگا.جس کے معنی ہیں ولی.اور ایک بڑی رقم کا چیک آپ کی خدمت میں پیش کر کے آپ سے دعا کی درخواست کی.تو وہ شخص جو آپ کا مددگار تھا اس واقعہ سے بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ واقعی آپ لوگوں کا خد انرالا ہے.(ماخوذ از سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ 86-85 مطبوعہ ربوہ) حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سفر ڈلہوزی میں میرے ہمراہ میری اہلیہ اول، ان کے بھائی اکبر علی صاحب اور میرے بھائی امیر احمد صاحب سفر کر رہے تھے.ہم ایک سرکاری پردہ دار بیلوں والے ٹانگہ میں تھے.تین چار ٹانگے ہند و کلرکوں کے بھی تھے.اس زمانہ میں وہی ذریعہ آمد ورفت تھا، لمبا سر کاری سفر تھا.تو ہم شام کے وقت ڈنیرا کے پڑاؤ پر پہنچے.وہاں کے ہند و سٹور کیپروں نے اپنے ہند و بھائیوں کو خیمے دے دیئے جن میں ان کے اہل و عیال اتر پڑے اور میں کھڑارہ گیا.ہر چند ادھر اُدھر مکانات اور

Page 103

88 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم خیموں کی تلاش کی مگر بے سود.اکبر علی صاحب نے گھبرا کر مجھے کہا کہ رات سر پر آگئی ہے اب کیا ہو گا؟ میں نے کہا خدا داری چه غم داری.(کہ جو خدا پر بھروسہ کرے اسے کیا غم ہے.) خداضرور کوئی سامان کر دے گا.اتنے میں ایک گھوڑ سور آیا اور اس نے مجھ سے محبت سے سلام کیا اور کہا: ہیں! آپ کہاں ؟ میں نے قصہ سنایا.کہنے لگا آپ ذرا ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں.تھوڑی دیر میں وہ ایک خیمہ اور گھاس لایا اور چند سپاہی بھی.جن کے ذریعہ اس نے خیمہ لگوایا اور گھاس اس میں بچھا کر کہا اپنے گھر والوں کو اس میں اتار دیں.پھر ایک اور خیمہ بطور بیت الخلاء کے لگوا دیا.پھر کہا کہ میں آپ کے لئے کھانالا تا ہوں مگر کچھ دیر ہو جائے گی آپ معاف کریں.چنانچہ ضروری سامان پانی وغیرہ بھجوا کر خود قریباً گیارہ بجے رات کے کھانا زردہ، دال روٹی وغیرہ لایا اور معذرت کرنے لگا کہ چونکہ دیر ہو گئی تھی اس لئے گوشت نہیں مل سکا.دال ہی مل سکی ہے آپ یہی قبول فرمائیں.پھر پوچھنے پر کہنے لگا آپ مجھے نہیں جانتے.میں نے کہا معاف کریں.مجھے آپ سے ایک دفعہ کی ملاقات کا شبہ پڑتا ہے وہ بھی کچھ یاد نہیں کہاں ہوئی تھی.تو اس نے کہا آپ نے میری درخواست لکھی تھی جس پر مجھے دفعداری مل گئی تھی.(سرکاری نوکری کی پروموشن ہو گئی تھی.اس لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں.اور کہا اب رات بہت ہو گئی ہے میں جاتا ہوں اور چند آدمی چھوڑ گیا جو رات کو پہرہ دینے والے تھے تاکہ وہاں کوئی سامان وغیرہ چوری نہ ہو.اور کہتے ہیں اس کے بعد میں نے سجدات شکر ادا کئے اور اللہ تعالیٰ کی اس بندہ نوازی نے میرے ایمان میں بڑی ترقی بخشی.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد سوم صفحہ 79-80.جدید ایڈیشن.مطبوعہ قادیان) حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے مجھ سے کہا کہ کیوں مولوی جی تم ہم کو تو کہتے ہو کہ تم سور کھاتے ہو اس لئے بے جا حملہ کر بیٹھتے ہو.(مہاراجہ کشمیر کے سامنے اس کو یہ کہتے تھے کہ آپ لوگ صرف سور کھاتے ہیں اور کوئی گوشت نہیں کھاتے.اس لئے غصہ میں ذراسخت ہیں.بھلا یہ تو بتاؤ کہ انگریز بھی تو سور کھاتے ہیں.وہ کیوں اس طرح ناعاقبت اندیشی سے حملہ نہیں کرتے ؟ میں نے کہا کہ وہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں اس سے اصلاح ہو جاتی ہے.سن کر خاموش ہو گئے اور پھر دوبرس تک مجھ سے کوئی مذہبی مباحثہ نہیں کیا.( مرقاة الیقین فی حیات نور الدین مرتبه اکبر شاہ خان نجیب آبادی صفحه 252 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”وہ ( اللہ تعالیٰ ) قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے.جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آسکتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا ( الكهف: 111) یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اُس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے.پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو.یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کی

Page 104

خطبات مسرور جلد هشتم 89 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 فروری 2010 وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں.اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں.اور نہ ان میں کوئی ایسی بد بو ہو جو محبت ذاتی کے بر خلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو.نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے، نہ ہوا، نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے.اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا ان پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں.اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے.بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز، بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خد اتعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے.اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیر ہیں.پس اس نے افتاں و خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا“.( گرتے پڑتے اس تک پہنچ گئے ) ” اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 154 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو عاجزی میں بڑھاتے ہوئے، تو کل میں بڑھاتے ہوئے ، اپنے ایمان میں ترقی دینے کی توفیق عطا فرمائے.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہم اپنے ساتھ بھی دیکھیں اور علم و عمل میں ترقی کرنے والے ہوں اور اس ( نظارے) کو بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے انعام سمجھیں.ہم ہمیشہ تکبر اور دنیا داری سے بچتے رہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ سے اپنی مدد اور نصرت کا جو سلوک رکھا ہمیں بھی ایسے عمل کی توفیق دے کہ ہم اس میں سے حصہ لیتے رہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ جھکنے والے رہیں اور ہمیشہ اس چشمے سے سیراب ہونے کی کوشش کرتے رہیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 10 مورخہ 5 مارچ تا 11 مارچ 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 105

خطبات مسرور جلد ہشتم 90 8 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 فروری 2010ء بمطابق 19 تبلیغ 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک لفظ حسیب ہے جس کے معنی لغات میں لکھے ہوئے ہیں ، کہ حساب کرنے والا یا حساب لینے والا.کافی اور حساب کے مطابق بدلہ لینے والا.یہ تمام خصوصیات کامل طور پر تو دنیا کے کسی انسان میں نہیں پائی جاسکتیں.اگر ان باتوں میں کوئی کامل ذات ہو سکتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت الحسیب ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس میں یہ بیان کردہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں.اور وہی ہے جو ہماری مختلف حالتوں کے پیش نظر اپنی اس صفت کا حسب ضرورت اظہار فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی آیات میں اس صفت کا اظہار فرمایا ہے.اس وقت میں چند آیات پیش کروں گا جن میں اللہ تعالیٰ کے انحسیب ہونے کی صفت کا اظہار مختلف احکامات کے ساتھ یا تنبیہ کرتے ہوئے ہوا ہے.سب سے پہلے سورۃ نساء کی آیت نمبر 87 پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا حُيَيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ( النساء: 87).اور اگر تمہیں کوئی خیر سگالی کا تحفہ پیش کیا جائے تو اس سے بہتر پیش کیا کر دیا وہی لوٹا دو.یقینا اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے.اس آیت میں اسلامی احکامات کا ایک ایسا بنیادی حکم دیا گیا ہے جو نہ صرف اپنوں سے اچھے تعلقات کی ضمانت ہے بلکہ غیروں کے ساتھ تعلقات کے لئے اور ان تعلقات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے ایک بیمثال نسخہ ہے.اس آیت میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات کے اظہار کی نہ صرف تلقین فرمائی بلکہ فرمایا کہ اگر ملنے پر ایک شخص تمہارے لئے نیک جذبات کا اظہار کرے.تمہیں سلام کہے.ایک ایسی دعا تمہیں دے جو تمہاری دین و دنیا سنوارنے والی ہو تو تمہارا بھی فرض ہے کہ اس سے بڑھ کر اظہار کرو اور فرمایا کہ یہ تمہارا ایک ایسا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے کہ اگر اس کو انجام نہیں دو گے تو خدا تعالیٰ کے سامنے تمہیں اس کا جواب دینا ہو گا.یہ خوبی صرف اسلام میں ہے کہ ایک دوسرے سے ملنے کے وقت ایسے با مقصد الفاظ کے ساتھ جذبات کا اظہار ہے اور

Page 106

91 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 فروری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ایک دوسرے سے ملنے پر السلام علیکم کہنے کا حکم ہے کہ تم پر سلامتی ہو.یعنی تم ہر قسم کی پریشانیوں اور مشکلات سے محفوظ رہو.اب یہ دعا ایسی ہے کہ اگر دل کی گہرائی سے دوسرے کو دی جائے تو پیار، محبت اور بھائی چارے کے جذبات ابھرتے ہیں.تمام قسم کی نفرتیں دُور ہوتی ہیں.اسی طرح جسے سلام کیا جائے اسے حکم ہے کہ تم ان سلامتی کے الفاظ کا ان جذبات کا بہتر رنگ میں جواب دو اور بہتر شکل کیا ہے.یہ کہ جب انسان و علیکم السلام جب انسان کہتا ہے تو اس کے لئے ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھی کہے کہ تم پر اللہ کی رحمتیں بھی ہوں اور برکتیں بھی ہوں.یا فرمایا کہ کم از کم اتنا ہی اظہار کر دو جتنا تمہیں سلام میں پہل کرنے والے نے کیا ہے تو یہ عمل تمہیں جزا پہنچائے گا.پس یہ ایک ایسا اصول ہے جو معاشرے میں امن پیدا کرتا ہے.آنحضرت صلی للہ ہم نے بڑے زور سے اور بڑی شدت سے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ سلام کو رواج دو.( صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب افشاء السلام حدیث نمبر 6235) اور صحابہ اس بارہ میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کیا کرتے تھے.آنحضرت صلی للی یکم کو اس بارہ میں اتنا خیال رہتا تھا اور کس طرح آپ سلام کے رواج کے لئے صحابہ کی تربیت فرماتے تھے ، اس کا اظہار بعض احادیث سے ہوتا ہے.حضرت كلد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ مجھے صفوان بن امیہ نے آنحضرت صلی یم کی خدمت میں دودھ ، ہرن کے بچے کا گوشت اور لکڑیاں دے کر بھیجا کہ آنحضرت مئی یہ کام کی خدمت میں یہ تحفہ دے دو.میں حضور علی کیم کے پاس بلا اجازت اور بغیر سلام کہے چلا گیا.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے باہر جاؤ.پھر السلام علیکم کہہ کر اندر آنے کی اجازت مانگو تو پھر تم اندر آ سکتے ہو.( سنن ابی داؤد کتاب الادب باب کیف الاستئذان حدیث 5176) آپ صلی اللہم نے یہ نہیں سوچا کہ چھوٹا ہے اگر اندر آگیا تو کوئی حرج نہیں.بلکہ فوری تربیت فرمائی کہ اعلیٰ اخلاق ابتدا سے ہی بچوں کے ذہنوں میں پیدا کرنے ہیں.ایک تو یہ کہ بلا اجازت کسی کے گھر میں نہیں جانا.ہمیشہ اجازت لے کر جانا چاہئے.دوسرے اجازت کا بہترین طریق جو ہے وہ سلام کرنا ہے.ایسے طریق سے اجازت چاہو جس سے محبت کی فضا پیدا ہو.جس سے ایک دوسرے کے لئے تمہارے دل سے دعائیں نکلیں اور تمہیں بھی دعائیں ملیں اور یہ آپس میں دعاؤں کا سلسلہ چلے.جب ایک سلام کرنے والا دوسرے کو سلام کرتا ہے تو دوسرے شخص کی طرف سے بھی وہی سلام لوٹایا جاتا ہے.تو یہ دعاؤں کا سلسلہ ہے پھر آپ نے صحابہ کی مجبوری کے پیش نظر جب صحابہ کو بازار میں بیٹھنے کی اجازت دی تو راستے کے جو حقوق ہیں ان میں اس حق کے حکم کی بھی خاص طور پر تلقین فرمائی کہ پھر آنے جانے والوں کو سلام کرو.( صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب قول اللہ تعالیٰ یا ایھا الذین امنوالا تدخلوا بيوتا...حدیث نمبر 6229)

Page 107

خطبات مسرور جلد ہشتم 92 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 فروری 2010 اس پر کیوں اتنا زور ہے؟ اس لئے کہ مومن ایک دوسرے کے امن کی ضمانت ہے.اگر مسلمان غور کریں تو اسلام کی امن قائم کرنے والی تعلیمات میں سے یہی ایک حکم ہی امن ، پیار اور محبت کی ضمانت بن جاتا ہے.لیکن بد قسمتی سے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بھول کر مسلمان ہی مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں.صحابہ اس کا کس طرح خیال رکھا کرتے تھے.ایک دن ایک صحابی دوسرے صحابی کے پاس آئے اور کہا آؤ بازار چلیں.بازار گئے اور چکر کاٹ کر لوگوں کو مل کر واپس آگئے.کچھ خریدا نہیں.چند دنوں بعد پھر پہلے والے صحابی دوسرے صحابی کے پاس آئے کہ چلو بازار چلیں.انہوں نے کہا کہ اگر تو کچھ خریدنا ہے تو پھر تو جاؤ اور اگر پچھلی دفعہ کی طرح تم نے چکر کاٹ کر ہی واپس آنا ہے تو اس کا فائدہ کیا؟ تو پہلے صحابی نے جواب دیا کہ میں تو اس لئے جاتا ہوں کہ بازاروں میں دوسروں کو سلام کروں ان کو دعائیں دوں اور ان سے دعائیں لوں.اور سلام کو رواج دینے اور پھیلانے کے حکم پر عمل کروں.الموطا.کتاب السلام باب جامع السلام حدیث (1793) تو یہ تھا صحابہ کا حال کہ چھوٹے چھوٹے حکموں پر ایک فکر سے عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے.احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے اور بڑھ کر جواب دینے کی کوشش کرنی چاہئے.اور یہی چیز ہے جو ہمارے اندر بھی ہمارے معاشرے میں بھی امن اور پیار کی فضا پیدا کرے گی.ایک دوسرے کے جذبات کی طرف توجہ دلائے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے خیر سگالی کے جذبات اور امن کا پیغام پہنچانے کے اس عمل کی جزا دے گا.یہ ایسی چیز ہے جس کی تمہیں جزا ملے گی.اگر محبت سے بڑھے ہوئے ہاتھ کو پکڑو گے ، اگر دعاؤں کا جواب دعاؤں سے دو گے تو جزا پاؤ گے.اگر اس کو رڈ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کا حساب لوں گا.سلامتی اور امن کی ضمانت اس زمانہ میں اب اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہم دیکھتے ہیں.سلامتی اور امن کی ضمانت بن کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے.آپ نے دنیا کی سلامتی اور حقیقی عمل کے لئے، دنیا کی خیر سگالی کے لئے بڑے درد سے اپنے لٹریچر میں اپنی کتب میں پیغام دیا ہے.لیکن عموماً دنیا نے ، جس میں مسلمان بھی ایک بڑی تعداد میں شامل ہیں، اس کا نہ صرف جواب نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف بجائے اچھا تحفہ لوٹانے کے دشنام طرازیوں اور گالیوں سے بھر پور وار آپ کی ذات پر کئے.باوجود آپ کے یہ کہنے کے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور تمہاری بھلائی کے لئے بھیجا گیا ہوں، تمہیں خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے بھیجا گیا

Page 108

خطبات مسرور جلد ہشتم 93 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 ہوں، غیر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں نے بھی آپ کی مخالفت کی.چاہئے تو یہ تھا کہ آنحضرت صلی الم جو دنیا کی بھلائی کے لئے پیغام لائے تھے.اس کو ماننے والے آپ صلی علیکم کی پیشگوئیوں کے پورا کرنے کے مصداق بنے.زمانہ کے امام کو بھی سلام پہنچاتے اور ان نیکیوں کو پھیلانے میں زمانہ کے امام کی مدد کرتے جو آنحضرت نے قائم فرمائے اور اسلام کے غلبہ کے دن قریب لانے میں مدد گار بنتے.لیکن اس کی بجائے، اس کے بالکل بر عکس نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر قرآن کے حکموں کو عامۃ المسلمین بالکل بھول گئے اور آنحضرت صلی ایام کے حکم کو بھی بھول گئے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ نہ صرف بھول گئے بلکہ سلامتی کے مقابلے میں شدت پسندی کا مظاہرہ کیا.حضرت مسیح موعود کے اس پیغام کی ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ کس طرح آپ کے اندر درد تھا.آپ کس طرح لوگوں کی خیر سگالی اور لوگوں کی ہمدردی چاہتے تھے.الله سة آپ فرماتے ہیں:.” آج میں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں تا قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو میں نے پورا کیا.سو اب میں بکمال ادب و انکسار، حضرات علما مسلمانان و علما عیسائیاں و پنڈتاں ہندوان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتا ہوں کہ میں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں.اور میر اقدم حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم پر ہے.انہی معنوں سے میں مسیح موعود کہلاتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دنیا میں پھیلاؤں.میں اس بات کا مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اٹھائی جائے اور مذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں.اور میں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں میں سے دور کر دوں اور پاک اخلاق اور بُردباری اور حلم اور انصاف اور راست بازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلاؤں.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میر افرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میر ااصول.میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے.اور مجھے جو اہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیر ااس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس

Page 109

94 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اسے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے ؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچانا.اور سچا ایمان اس پر لانا، اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا، اور سچی برکات اس سے پانا.پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہو گا.میرا دل ان کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گزرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جو اہر ان کو اتنے ملیں کہ ان کے دامن استعداد پر ہو جائیں“.( اربعین نمبر 1 ، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 343تا345) یہ دیکھیں آپ نے کس عاجزی سے دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے دنیا کی بھلائی کے لئے جذبات کا اظہار فرمایا ہے.دنیا کے حق کو پہچاننے کے لئے کس درد کا آپ نے اظہار فرمایا ہے تاکہ وہ تباہی سے بچیں.پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ( النساء: 87) کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے.یہ تو خد اتعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس طرح ان مخالفین کا حساب لیتا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بات نہ ماننے والے ہیں بلکہ صرف بات نہ ماننے والے ہی نہیں بلکہ مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں اور حکومتیں بھی اس میں شامل ہیں.لیکن اگر مسلمان غور کریں اور جن مشکلات اور آفات سے گزر رہے ہیں اور بعض جگہ ذلت ورسوائی کا بھی انہیں سامنا ہے.یہ بات ضرور خوف پیدا کرے گی بشر طیکہ غور کرنے کی عادت ہو اور عقل بھی ہو کہ کہیں اس دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ نے حساب لینا تو شروع نہیں کر دیا؟ باوجو د خیر امت ہونے کے ہم غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والے بن گئے ہیں.اور اس وجہ سے اسلام مخالف قوتیں مسلمانوں سے اور مسلمان حکومتوں سے اپنی مرضی کی باتیں منواتی چلی جارہی ہیں.غلبہ اسلام ہم احمدیوں کو یہ تو یقین ہے کہ غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کا ہی ہوتا ہے اور ہونا بھی آنحضرت صلی ال نیم کے عاشق صادق کے ذریعہ سے ہی ہے.لیکن مسلمانوں کو شدت سے توجہ دلانا بھی احمدیوں کا کام ہے.یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ مسیح محمدی کے اس عاجزی اور امن اور سلامتی کے پیغام کو سمجھیں.مسیح محمدی کے نیک جذبات اور پیغام کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں بڑھ کر ان جذبات کو لوٹائیں اور لوٹانا یہی ہے کہ مسیح محمدی کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری ہو.اور یہ جیسا کہ میں نے کہا صرف اس صورت میں ممکن ہے.اور کامل اطاعت بھی اس صورت میں ہو گی جب اس کی جماعت میں شامل ہوں گے.پھر دیکھیں کہ مسلمانوں کو کس قدر طاقت ملتی ہے ؟ پھر دیکھیں کہ ان کا کھویا ہوا و قار کس طرح قائم ہوتا ہے ؟ اور اسلام کا محبت اور بھائی چارے کا پیغام کس تیزی سے

Page 110

خطبات مسرور جلد ہشتم 95 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 فروری 2010 دنیا میں پھیلتا ہے ؟ اور جب یہ ہو گا تو یہ مسلمانوں کی طرف سے آنحضرت صلی الی یوم کے عظیم خیر سگالی کے پیغام کو جو آپ دنیا کی بھلائی کے لئے آپ لے کر آئے تھے، اس کے اعلیٰ رنگ میں پھیلانے کی کوشش ہو گی.کاش کہ مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں.اور ہم اسلام کے اس پیغام کو جو زندگی کا پیغام ہے آنحضرت صلی یہ کیا اور آپ کے غلام صادق کی بیعت میں آکر دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کی بھر پور کوشش کریں.یہ ہمارا ہی فرض بنتا ہے اور یہی ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تم اس کے لئے اس شدت سے درد رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس بات کو بیان فرمایا ہے اور سورۃ توبہ کی ایک آیت میں فرمایا: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ انْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبہ : 128) کہ یقینا تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا.اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو.(اور) وہ تم پر ( بھلائی چاہتے ہوئے) حریص ( رہتا) ہے.مومنوں کے لئے بے حد مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.پس اس آیت میں مومنوں اور غیر مومنوں دونوں کے لئے آپ کے نیک جذبات کا ذکر فرمایا گیا.میں نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو اقتباس پڑھا تھا.وہ اصل میں اپنے آقا و مطاع حضرت محمد صلی علیکم کی پیروی میں ایک جذبات کا اظہار تھا.یہاں دیکھیں کہ آنحضرت صلی ال نیم کے انسانیت کے لئے درد اور نیک جذبات کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح بیان فرمایا ہے.غیر مسلموں اور کفار کو بھی فرمایا کہ یہ بات اس رسول یعنی آنحضرت صلی اللہ نام کے لئے نہایت صدمہ کا باعث بنتی ہے.جب آپ صلی علیہ یکم ایمان نہ لانے والوں کو مشکلات میں دیکھتے ہیں.باوجود اس کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے اس عظیم رسول صلی علی یکم اور آپ کے ماننے والوں کو تکلیفیں پہنچانے ، مارنے، قتل کرنے، کھانا پانی بند کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا لیکن پھر بھی آنحضرت صلی للی سیم کا دل ان بیوقوفوں کے لئے ، ان ظالموں کے لئے ان کی تکلیف میں اس طرح جوش مارتا ہے جس طرح ایک ماں کا دل اپنے بچے کو تکلیف میں دیکھتا ہے.کسی بھی قسم کی زیادتیاں اور سختیاں جو کفار کی طرف سے بجالائی جاتی رہیں.اس نے اس دلی ہمدردی کو آنحضرت صلی الم کے دل سے دور نہیں پھینک دیا.یہ ہمدردی کا جذبہ ہی ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کافروں کو مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ اے کا فرو اور منکر و! یہ دلی ہمدردی کا جذبہ ہے جو آنحضرت صلی للی کم کو تمہارے لئے فکر میں رکھتا ہے کہ کاش تم لوگ سیدھے راستے کی طرف آجاؤ اور ہدایت پا جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جاؤ.پس یہی جذبہ آج کل آنحضرت علی ایم کے عاشق صادق کو مانے والوں کی جماعت کا ہونا چاہئے کہ نہ صرف ایک لگن سے غیر وں کو پیغام پہنچانے کی کوشش کریں بلکہ خاص دعاؤں سے اپنی ان کوششوں کے ثمر آور ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.آنحضرت صلی ال نیم کے عاشق صادق کی جماعت میں آنا ہماری ایک بہت الله

Page 111

خطبات مسرور جلد هشتم 96 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 بڑی خوش قسمتی ہے.ہم آنحضرت صلی ای کریم کے حکم کے مطابق سلامتی اور خیر سگالی کے جذبات زمانہ کے امام کو پہنچانے والے ہیں.اور اس لحاظ سے اُن مومنوں میں شامل ہیں جو اپنے آقا کی سنت پر چلتے ہوئے دنیا کی ہمدردی میں نیکی کے راستے دکھانے والے ہیں.ان کو سیدھے راستے دکھانے کی کوشش میں ہیں اور اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنے والے ہیں.ایک احمدی کا جان، مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کا عہد اسی مقصد کے لئے ہے.دین کی وجہ سے آج اگر کوئی گھر سے بے گھر ہے تو وہ احمدی ہے.لیکن آنحضرت صلی علیم کے حال کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ تمہارے سے زیادہ ظلم سہنے کے باوجود آنحضرت صلی الیہ کم ہمدردی کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے.اس لئے تم بھی کبھی اپنے اندر مخالفین کے لئے نفرتوں کے الاؤ نہ جلانا.کیونکہ تم زمانے کے امام پر ایمان لانے کی وجہ سے اُن لوگوں میں شامل ہو گئے ہو جن کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کی تھیں اور تا قیامت حقیقی مومنوں کو یہ دعائیں پہنچتی رہیں گی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے زمانہ کے مومنوں کے لئے روؤف ورحیم نہیں تھے بلکہ آپ کی اندھیری راتوں کی دعائیں تا قیامت حقیقی مومنوں کو پہنچنے والی تھیں.اور ان دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہمیں بھی آپس میں مہربانی کے سلوک کو سامنے رکھنا چاہئے.اور مہربانی کا سلوک کرنا چاہئے.اور صرفِ نظر کرتے ہوئے ہمیں اپنے بھائیوں کے لئے عفو اور رحم کے نمونے دکھانے ہوں گے تاکہ اُس معاشرہ کے قیام کی کوشش کر سکیں جس کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”جذب اور عقدِ ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتا ہے اور ظل اللہ بنتا ہے پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے.ہمارے نبی کریم علی علیہ کی اس مرتبہ میں کل انبیاء علیم اسلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لئے آپ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ (اتو به 128) - یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 341 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فَاتَّبِعُونِي کے حکم کے تحت اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اس سوچ اور جذبات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں اور دنیا کو فیض پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ کی آخری آیت میں پھر بیان فرمایا ہے کہ اے نبی ! تیرا ہمدردی کرنا، تیرا پیغام پہنچانانہ ماننے والوں پر، کفار پر اگر کوئی اثر نہیں ڈالتا اور اپنی زیادتیوں اور ظلموں اور استہزاء میں اگر وہ بڑھتے رہیں اور تیری باتوں کو توجہ سے نہ سنیں اور اس کی طرف توجہ نہ دیں، پیٹھ پھیر کر چلے جائیں تو تو کہہ دے اللہ مجھے کافی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ ہے.

Page 112

خطبات مسرور جلد هشتم 97 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 الْعَظِيمِ (التوبہ: 129).پس اگر وہ پیٹھ پھیر لیں تو کہہ دے میرے لئے اللہ کافی ہے.اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.اسی پر میں تو گل کر تا ہوں اور وہ عرشِ عظیم کا رب ہے.پس اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس انکار کا اور منہ پھیر کر چلے جانے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا ہے.کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے.اور مذاہب کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ نہ ماننے والے ، منہ پھیر کر چلے جانے والے ہی آفات اور تباہی کا منہ دیکھتے ہیں.انبیاء کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.ان کے لئے تو اللہ کافی ہوتا ہے.وہ تو خدائے واحد کے نمائندہ ہوتے ہیں اور اسی طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں.اور آپ خاتم الانبیاء ہیں جن پر شریعت کامل ہوئی.آپ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ نعوذ باللہ آپ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں.تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں آپ کا جواب ریکارڈ کر دیا کہ مجھے تو کوئی ضرورت نہیں.وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ.وہ عرش عظیم کا رب ہے اور میں اپنے تخت کے لئے نہیں بلکہ اس عرش عظیم کے رب کے تخت کے قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہوں.میں اپنی کسی طاقت کے اظہار کے لئے تمہیں اپنی طرف نہیں بلا ر ہابلکہ اس خدا کی طرف بلا رہا ہوں جو عرش عظیم کا رہ ہے.میں تو اس رب العالمین کا عاشق ہوں.مجھے دنیا کی عارضی بادشاہتوں سے کیا ؟ نہ عرب میں ، نہ کہیں اور مجھے کسی جگہ بھی دنیا کی حکومت کی ضرورت نہیں.بلکہ میں تو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں اور وہی قائم کروں گا.کیونکہ وہ حکومت جو دنیا میں قائم ہو گی تو میری حکومت خود بخود قائم ہو جائے گی.لیکن دنیاوی تختوں پر نہیں بلکہ مومنین کے دلوں پر قائم ہو گی.اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح آپ کی حکومت لوگوں کے دلوں پر قائم ہوئی.اور کس طرح آج اس زمانہ میں مسیح محمدی کے ذریعے دنیا میں آنحضرت صلی اللہ نیم کے پیغام کو پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرما رہا ہے ؟ اور آج مسیح محمدی کے ماننے والے آنحضرت صلی اللہ نام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں.اور جس طرح ہمارے آقا نے فرمایا تھا کہ حسبِی اللہ کہ میرے لئے اللہ کافی ہے، یہی نظارے اپنے آقا و مطاع علی علیکم کی برکت سے ہم دیکھ رہے ہیں.اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود حسبی اللہ کی ایک نئی شان ہم دیکھتے ہیں.اور یہ سب اس لئے ہے کہ ہم اپنے آقا صلی علیکم کی تعلیم کو ہی آگے پھیلانے والے ہیں.اسی شریعت کو آگے پھیلانے والے ہیں جو آپ لائے تھے.اسی قرآنِ کریم کے حکموں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلانے والے ہیں جو آنحضرت صلی علی کم پر اترا تھا تا کہ دنیا میں پیار، محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو تا کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا پر یقین قائم کرے، تاکہ دنیا میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو اور سلامتی کی فضا ہر طرف قائم ہو.اور اس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود اس زمانے میں تشریف لائے تھے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

Page 113

خطبات مسرور جلد ہشتم وو 98 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں.اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں.اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں.اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں“.(یعنی اپنی حالت میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر کے دنیا کو دکھاؤں کہ اس طرح ایک صحیح مومن ہوتا ہے.صرف باتوں سے نہ ہو.اور یہی چیز ہے جو ہر احمدی میں پیدا ہونی چاہئے کہ اس کی صرف باتیں نہ ہوں.تبلیغ کے ساتھ اس کی اپنی حالت بھی ایسی ہو کہ یہ نظر آئے کہ حقیقی مومن بننے کی کوشش کی جارہی ہے).فرمایا: ” اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں.اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے“.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس اہم مقصد کے حصول کے لئے تمام تر صلاحیتیں اور استعدادیں بروئے کار لانے والے ہوں.دنیا کے خوف ہم سے دور رہیں دنیا کی لالچیں ہم سے دور رہیں.اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہم کوشش کرتے چلے جائیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود آئے تھے اور جس کو ابھی میں نے بیان کیا ہے.اور حسبى الله اور عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 11 مورخہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2010 صفحہ 5تا7)

Page 114

خطبات مسرور جلد ہشتم 99 9 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 فروری 2010 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 فروری 2010ء بمطابق 26 تبلیغ 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَابْتَلُوا الْيَتَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ أَنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا إسْرَافًا وَ بدَارًا اَنْ تَكْبَرُوا وَ مَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ اِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا ( النساء: 7) گذشتہ خطبہ میں میں نے ایک قرآنی حکم کی طرف توجہ دلائی تھی جو اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے بجالایا جائے تو معاشرے کے امن کی ضمانت بن جاتا ہے.اور چونکہ اس حکم کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حسیب ہونے کا ذکر فرمایا.اس لئے یہ ہر مسلمان کے لئے تنبیہ ہے کہ اگر اس اہم حکم یعنی ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے پر عمل نہیں کروگے تو خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گے.بہر حال اسی تسلسل میں ایک دوسرا اہم حکم جو نہ صرف حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ایک اہم حکم ہے بلکہ معاشرے کے امن اور نفرتوں کو مٹانے کے لئے بھی بہت اہم ہے.اور یہ حکم سورۃ نساء کی ساتویں آیت میں ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اس کے آخر میں بھی خدا تعالیٰ نے اپنے حسیب ہونے کے حوالے سے تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر اس حکم کو نہیں بجالاؤ گے تو خد اتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہو گے.قیموں کے حقوق اور حسن سلوک اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں.پس اگر تم ان میں عقل کے آثار محسوس کرو تو ان کے اموال ان کو واپس کر دو.اور اس ڈر سے اسراف اور تیزی کے ساتھ ان کو نہ کھاؤ کہ کہیں وہ بڑے نہ ہو جائیں.اور جو امیر ہو ، اس کو چاہئے کہ وہ ان کا مال کھانے سے کلیۂ احتراز کرے.ہاں جو غریب ہو وہ مناسب طور پر کھائے.پھر جب تم ان کی طرف ان کے اموال لو ٹاؤ، تو ان پر گواہ ٹھہر الیا کرو.اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے.

Page 115

خطبات مسرور جلد هشتم 100 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 یتیموں کے بارہ میں یہ بعض احکامات ہیں کہ ان سے کس طرح کا سلوک کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے شروع ہی اس طرح فرمایا ہے کہ وا نبتَلُوا الْيَتُمی کہ یتیموں کو آزماتے رہو.آزمانا کیا ہے ؟ کس طرح آزمانا ہے ؟ یہی کہ تمہارے سپر د جو یتیم کئے گئے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھو.انہیں لاوارث سمجھ کر ان کی تربیت سے غافل نہ ہو جاؤ ، ان کی تعلیم سے غافل نہ ہو جاؤ بلکہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت مہیا کرو.اور جس طرح اپنے بچوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہتے ہو، اُن کے بھی جائزے لو کہ تعلیمی اور دینی میدان میں وہ خاطر خواہ ترقی کر رہے ہیں یا نہیں ؟ پھر جس تعلیم میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں اس کے حصول کے لئے ان کی بھر پور مدد کرو.یہ نہیں کہ اپنا بچہ اگر پڑھائی میں کم دلچسپی لینے والا ہے تب اس کے لئے تو ٹیوشن کے انتظام ہو جائیں، بہتر پڑھائی کا انتظام ہو جائے اور اس کی پڑھائی کے لئے خاص فکر ہو اور یتیم بچہ جس کی کفالت تمہارے سپر دہے وہ اگر آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تب بھی اس کی تعلیم پر ، اس کی تربیت پر کوئی نظر نہ رکھی جائے.نہیں! بلکہ اس کی تمام تر صلاحیتوں کو بھر پور طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے.یہ اصل حکم ہے.اور جتنی بھی اس کی استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں اس کے مطابق اس کو موقع میسر کیا جائے کہ وہ آگے بڑھے اور مستقبل میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو.کبھی اسے یہ خیال نہ ہو کہ میں یتیم ہونے کی وجہ سے اپنی استعدادوں کے صحیح استعمال سے محروم رہ گیا ہوں.اگر میرے ماں باپ زندہ ہوتے تو میں اس وقت سبقت لے جانے والوں کی صف میں کھڑ ا ہو تا.پس چاہے کوئی انفرادی طور پر کسی یتیم کا نگران ہے یا جماعت کسی یتیم کی نگرانی کر رہی ہے اس کی تعلیم و تربیت کا مکمل جائزہ اور دوسرے معاملات میں اس کی تمام تر نگرانی کی ذمہ داری ان کے نگرانوں پر ہے.اور پھر یہ جائزہ اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ نکاح کی عمر تک نہ پہنچ جائیں.یعنی ایک بالغ ہونے کی عمر تک نہ پہنچ جائیں.ایک بالغ اپنے اچھے اور بُرے ہونے کی تمیز کر سکتا ہے.اگر بچپن کی اچھی تربیت ہو گی تو اس عمر میں وہ معاشرے کا ایک بہترین حصہ بن سکتا ہے.لیکن یہاں بھی دیکھیں کہ کتنی گہرائی سے ایک اور سوال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ صرف بالغ ہو نا کسی کو اس قابل نہیں بنا دیتا کہ اگر اس کے ماں باپ نے کوئی جائیداد چھوڑی ہے تو اس کو صحیح طور پر سنبھال بھی سکے.یہاں عاقل ہونا بھی شرط ہے یعنی ذمہ داری کا احساس اور اس دولت کے صحیح استعمال کا فہم ہونا بھی ضروری ہے.اس لئے فرمایا کہ ان کی عقل کا جائزہ بھی لو.اگر تو ایک بچہ جوانی کی عمر کو پہنچنے تک اپنی پڑھائی میں بھی اور دوسری تربیت میں بھی، اپنے اٹھنے بیٹھنے میں بھی، چال ڈھال میں بھی عمومی طور پر بہتر نظر آرہا ہے اس کی عقل بھی صحیح ہے تو ظاہر ہے اس کے سپر د اس کا مال کیا جائے.اس لئے کہ وہ حق دار بنتا ہے کہ اس کو اس کا ورثہ لوٹایا جائے.وہ خود اس کو سنبھالے یا اس کو آگے بڑھائے یا جو بھی کرنا چاہتا ہے کرے.لیکن اگر کوئی باوجود بالغ ہونے کے دماغی طور پر اتنی صلاحیت نہیں رکھتا کہ اپنے مال کی حفاظت کر سکے تو پھر اس کے مال کی حفاظت کرو.اس

Page 116

101 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کے نگر ان کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ پھر تم اس مال کی نگرانی کرو.اور ضرورت کے مطابق اس کے خرچ ادا کرو.لیکن اس عرصہ میں بھی جوں جوں اس کی عمر بڑھ رہی ہے ، بعضوں کو ذرا دیر سے سمجھ آتی ہے، اسے مالی امور کے جو نشیب و فراز ہیں وہ سمجھاتے رہو تا کہ وہ کسی نہ کسی وقت پھر اپنا مال سنبھال سکے.بعض معاملات میں بعض بظاہر کمزور سمجھ رکھنے والے ہوتے ہیں ہر چیز کو پوری طرح نہیں سنبھال سکتے.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اس کے باوجو د ان کو پیسے کا استعمال اور پیسے کا رکھنا بڑا اچھا آتا ہے.سوائے اس کے کہ بالکل کوئی فاتر العقل ہو.لوگ سمجھتے ہیں کہ بیوقوف ہے.بعض لوگ کہتے ہیں جھلتا ہے.لیکن وہ جھلا بھی ایسے ایسے کاروبار کرتا ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے نہیں کر رہے ہوتے.پھر فرمایا کہ جو نگران بنائے گئے ہیں وہ اس یتیم کے ماں باپ کی جائیداد کے استعمال میں اسراف سے کام نہ لیں.یعنی ان یتیموں پر ان کے ماں باپ کی جائیداد یار تم میں سے اس طرح خرچ نہ کرو جس کا کوئی حساب کتاب ہی نہ ہو.اور بہانے بنا کر اس رقم سے ان یتیموں کے اخراجات کے نام پر خود فائدہ اٹھاتے رہو.اور یہ کوشش ہو کہ ان یتیموں کی رقم سے جتنا زیادہ سے زیادہ اور جتنی جلدی میں فائدہ اٹھالوں، بہتر ہے.کیونکہ اگر وہ بڑے ہو گئے تو پھر ان کی جائیداد ان کے سپر د کرنی پڑے گی، یا اگر کوئی ظالم ہے تو وہ خود لڑ کر بھی لے لیں گے.کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ بڑے ہونے تک لوگ ان کی جائیدادیں سنبھالے رکھتے ہیں اور آخر پھر عدالتوں میں یا قضا میں جاکر جائیداد ان کو واپس ملتی ہے.بہر حال فرمایا کہ اگر تمہاری نیتیں خراب ہو ئیں تو تمہیں حساب دینا پڑے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے کسی بدنیت یا ظالم کے ظلم کو روکنے کے لئے مزید پابندی لگادی کہ جو امیر ہے اور یتیم کو پالنے کا خرچ برداشت کر سکتا ہے اس کی خوراک، لباس، تعلیم و تربیت کے لئے اچھا انتظام کر سکتا ہے اس کے لئے یہی لازمی ہے کہ وہ یتیم کی جائیداد میں سے کچھ خرچ نہ لے بلکہ اپنے پاس سے اپنی جیب سے خرچ کرے.يَسْتَغفف کا مطلب ہی یہ ہے کہ کبھی دل میں یہ خیال بھی آئے کہ کچھ خرچ کر لوں تو تب بھی اس خیال کو جھٹکے اور کوشش کر کے اپنے آپ کو ایسی حرکت اور ظلم سے بچائے، اور شیطانی خیالات کو نکال کر باہر پھینکے.اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف جو بھی حکم دل میں آئے گا وہ شیطانی خیال ہو گا.پس صاحب ثروت کے لئے تو یہ حکم ہے کہ وہ یتیم کی پرورش اپنی جیب سے کرے.چاہے نابالغ یتیم کے والدین جتنی بھی جائیداد اس کے لئے چھوڑ گئے ہوں.فرمایا، جو غریب ہیں، اتنی مالی کشائش نہیں رکھتے کہ اپنے گھریلو اخراجات کے ساتھ کسی یتیم کے اخراجات اور اس کی اچھی تعلیم وغیرہ کا خرچ برداشت کر سکیں تو ان کے لئے جائز ہے کہ وہ یتیم کے لئے اس کے والدین کی طرف سے چھوڑی گئی جائیداد میں سے اس کے اوپر خرچ کریں.لیکن یہ خرچ بہت احتیاط سے ہو اور مناسب ہو اور اس کا حساب رکھا ہو.یہ نہیں کہ یتیم پر خرچ کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کا بھی خرچ کرنا شروع کر دو کہ میں نے اسے اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے اس لئے اب میں خرچ کرنے کا حق رکھتا ہوں.اس کی رہائش یا بجلی پانی کا خرچ بھی اس میں شامل کر دوں.بعض کنجوس یا بد نیت ایسے ہوتے ہیں جو اس حد تک بھی چلے جاتے ہیں.

Page 117

102 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 فروری 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم یتیم کو پالنے کی کتنی اہمیت ہے، اس کے بارہ میں ایک حدیث میں آتا ہے کہ عمرو بن شعیب اپنے دادا کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی للہ ہم سے دریافت کیا کہ میرے پاس مال نہیں ہے مگر ایک یتیم کا کفیل ہوں.اس پر حضور نے فرمایا کہ اپنے زیر کفالت یتیم کے مال سے صرف اسی قدر کھاؤ کہ نہ اسراف ہو،نہ فضول خرچی ہو.اور نہ ہی اس کے مال سے اپنا ذاتی مال بڑھاؤ.اسی طرح یہ بھی نہ ہو کہ اس کے مال سے اپنا مال بچاؤ.( مسند احمد بن حنبل.جلد 2 صفحہ 706 حدیث : 7022 مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص ) یعنی یہ نہ ہو کہ تم اس کے مال کو اپنے مال کے ساتھ تجارت میں لگا دو اور منافع کھاتے رہو کہ اصل سرمایہ تو اس کا محفوظ ہے.فرمایا جو منافع آ رہا ہے اس سے اپنا مال بڑھاتے جاؤ.اور نہ یہ ہو کہ اپنا مال بچائے رکھو اور اس کے مال میں سے اپنے پر بھی خرچ کرتے جاؤ اور اس پر بھی خرچ کرتے جاؤ.دونوں صورتوں کو منع فرمایا ہے.پھر ایک حکم یہ ہے کہ تم نے یتیم پر مالی کشائش رکھتے ہوئے اگر نہیں بھی خرچ کیا یا مالی کشائش نہ رکھتے ہوئے خرچ کیا بھی ہے تب بھی جب وہ یتیم بالغ اور عاقل ہو جائے اور جب تم اس کا مال اسے لوٹانے لگو تو پورے حساب کتاب کے ساتھ اسے لو ٹاؤ کہ یہ جائیداد تھی.بلکہ یہ بات زیادہ مستحسن ہے کہ اس کے مال کو تجارت میں بھی لگا دو اور بڑھاؤ اور حساب کتاب دیتے ہوئے یہ بتاؤ کہ یہ تمہارا اصل سرمایہ تھا، یا یہ جائیداد تھی یا یہ رقم تھی اور اس پر اتنا منافع ہوا ہے اور یہ جو ٹوٹل منافع اور اصل زر ہے وہ تمہیں واپس لو ٹارہا ہوں.اسی طرح اگر کسی غریب نے اُس مال میں سے یتیم کی پرورش کے لئے خرچ کیا ہے تو بلوغ کو پہنچنے پر ایک ایک پائی کا تمام حساب کتاب اسے دو.اور یہ حساب کتاب دیتے وقت گواہ بھی بنالیا کرو تا کہ کسی وقت بھی بدظنی پیدا نہ ہو.یتیم کے دل میں کبھی رنجش نہ آئے.کیونکہ بعض دفعہ ، بعد میں، یتیم کے دل میں وسوسے بھی آسکتے ہیں.یا بعض اوقات بعض لوگ یتیموں کے ہمدرد بن کر اس کے دل میں وسوسے ڈال سکتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ جب بھی یتیم کا مال لوٹاؤ تو پورا حساب دو اور اس میں گواہ بنالو.کیونکہ یہ نگر ان کو بھی کسی ابتلاء سے بچانے کے لئے ضروری ہے اور یتیم کو بھی کسی بد ظنی سے بچانے کے لئے ضروری ہے.پس جس تفصیل سے قرآن کریم میں یتیموں کے حقوق کے بارہ میں حکم دیا گیا ہے، کہیں اور نہیں دیا گیا.کسی اور شرعی کتاب میں نہیں دیا گیا.اسی ایک آیت میں تقریباً سات بنیادی باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ کہ یتیموں کو آزماتے رہو.ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دو.اور دیکھو کہ ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں کہ نہیں.دوسری بات یہ کہ اُن کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور پر ان کے بالغ ہونے تک توجہ رہے.یہ نہیں کہ راستے میں چھوڑ دینا ہے.

Page 118

خطبات مسرور جلد ہشتم 103 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 تیسری بات یہ کہ جب بھی وہ اپنے مال کی حفاظت کے قابل ہو جائیں تو ان کا مال انہیں فوری طور پر واپس لوٹا دو.چوتھی بات یہ کہ یتیم کا مال صرف اُس پر خرچ کرو.تم نے اس سے مفاد نہیں اٹھانا.اور پانچویں بات یہ کہ امیر آدمی اگر کسی یتیم کی پرورش کر رہا ہے تو اس کے لئے بالکل جائز نہیں کہ وہ یتیم کی پرورش کے لئے اس یتیم کے مال میں سے کچھ لے.اور چھٹی بات یہ کہ غریب جس کے وسائل نہیں ہیں اور وہ کسی یتیم کا نگران بنایا جاتا ہے تو اس کو یتیم کے مال میں سے مناسب طور پر خرچ کرنے کی اجازت ہے.اور ساتویں بات یہ کہ جب مال لو ناؤ تو اس پر گواہ بنالو.تاکہ نہ تمہاری نیت میں کبھی کھوٹ آئے، نہ تم پر کبھی کوئی الزام لگے اور نہ یتیم کے دل میں بد ظنی پیدا ہو.اور آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے.اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.تمہاری نیتوں کا بھی اسے پتہ ہے.اس لئے یادر کھو کہ اگر یہ حساب کتاب نہیں رکھو گے تو پھر تمہارا بھی ایک دن حساب ہونا ہے.تم سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا.قرآن کریم میں متعدد جگہ یتیم کی پرورش اور اس سے حسن سلوک کا حکم ہے.اور ان کے مال کی حفاظت کی تاکید کی گئی ہے.ایک جگہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے سورہ بنی اسرائیل کی آیت 35 ہے کہ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّةَ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ( بنی اسرائیل: 35) اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریق پر کہ وہ بہترین ہو.یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے.اور عہد کو پورا کرو.یقیناً عہد کے بارہ میں پوچھا جائے گا.اس آیت میں ایک تو وہی حکم ہے یا احکامات ہیں کہ جس کی تفصیل پہلے آگئی.ایک بات اس میں بظاہر زائد لگتی ہے.وہ یہ ہے کہ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْعُولا کہ یقیناً عہد کے بارہ میں پوچھا جائے گا.یہ کون ساعہد ہے جس کے بارہ میں پوچھا جائے گا؟ یہ کون سا حکم ہے جس کے بارہ میں پوچھا جائے گا؟ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ یہاں عہد سے مراد ذمہ داری ہے.پس یتیموں کی پرورش اور ان کے مال کی حفاظت افراد اور معاشرے پر فرض ہے.اور یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے اور افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان کا خیال بھی رکھے اور ان کے مال کی حفاظت بھی کرے.اور جب تک وہ اس قابل نہیں ہو جاتے کہ اپنے مال کو خود سنبھال سکیں ان کی حفاظت کرتے چلے جائیں.اور اگر احمدی ہو تو یہ جماعت کی بھی ذمہ داری ہے اور یہ ان یتیموں پر کوئی احسان نہیں ہے کہ بعد میں جتاتے پھرو کہ میں نے تمہارے مال کی، تمہاری جائیداد کی حفاظت کی اور نگرانی کر تا رہا.اگر میں نہ کر تا تو تم ٹھوکریں کھاتے پھرتے.نہیں! بلکہ اسلامی معاشرے کا یہ فرض ہے اور یتیم کا یہ حق ہے.

Page 119

خطبات مسرور جلد هشتم 104 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 فروری 2010 دوسری بات یہ ہے کہ یہ فرض تم پر خدا تعالیٰ عائد کر رہا ہے.اس لئے ایک مومن کی حیثیت سے خدا تعالیٰ تمہارے سے یہ عہد لے رہا ہے کہ اگر اس فرض کو پورا نہیں کروگے اور یتیم کے مال میں غلط تصرف کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں پوچھے گا.دوسرے لفظوں میں یہ وہی مضمون ہے جو پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا کہ اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے.پھر اس بات کو مزید کھول کر اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی ایک دوسری آیت میں تنبیہ فرمائی کہ وَاتُوا الْيَتَى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَ لَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ ۖ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كبيرا ( النساء:3).اور یتامی کو ان کا مال دو.اور خبیث چیزیں پاک چیزوں کے تبادلے میں نہ لیا کرو.اور ان کے اموال اپنے اموال سے ملا کر نہ کھا جایا کرو.یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے.یہاں بھی وہی مضمون دہرایا جارہا ہے.اور واضح فرمایا کہ اگر تم یتیم کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر اپنے مفاد اٹھانے کی کوشش کرو گے تو تمہارا مال اگر پاک بھی ہے تو اس بد نیتی کی وجہ سے وہ خبیث مال بن جائے گا.اور یہ حرام مال ایک بہت بڑا گناہ کمانا ہے.تمہیں اس گناہ کی سزا ملے گی.سورۃ نساء کی ایک آیت میں آگے جاکر اللہ تعالیٰ کی شدت ناراضگی کا اظہار یوں ہوتا ہے.فرمایا کہ اِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ( النساء: 11) کہ یقیناً وہ لوگ جو یتیموں کا مال ازراہِ ظلم کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ جھونکتے ہیں اور یقیناً وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑیں گے.پس یہ یتیموں کا مال کھانا ایسا ہی ہے جیسے آگ.اور یہ آگ ان کو اس دنیا میں بھی جلائے گی اور مرنے کے بعد بھی وہ اس آگ میں پڑیں گے.تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم.کس شدت سے یتیم جو معاشرہ کا کمزور حصہ ہے، اس کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے تاکہ معاشرے کا امن قائم رہے.جو لوگ ناجائز طریق پر دوسرے کا مال کھاتے ہیں.سکون تو انہیں پھر بھی نہیں ملتا.بے چینی ہی میں رہتے ہیں.کبھی کسی ناجائز طور پر مال کھانے والے کو آپ پر سکون نہیں دیکھیں گے.پس اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.اس کے لئے ایک مومن کو شش کرتا ہے اور اسے کو شش کرنی چاہئے.پھر صرف مالدار یتیموں کی حفاظت کے بارہ میں یہ حکم نہیں ہے کہ کوئی سمجھے کہ جو صرف مال رکھنے والے یتیم ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے اور ان کے مال کی حفاظت کا کہا گیا ہے.اگر غور کیا جائے تو اس میں ایک عمومی حکم بھی ہے کہ پرورش اور تربیت تمہاری ذمہ داری ہے.چاہے وہ غریب ہے.اگر یتیم غریب بھی ہے تب بھی پرورش تمہاری ذمہ داری ہے.لیکن اگر وہ صاحب جائیداد ہے تو تب بھی یہ تمہاری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی صحیح تعلیم و تربیت ، جو ایک یتیم کا حق ہے، وہ تم نے کرنی ہے.اس کے ساتھ ساتھ اس کے مال کی بھی حفاظت کرو اور یتیم کی پرورش اس کے مال کے لالچ میں نہ ہو.بلکہ اس کی قیمی کی حالت کی وجہ سے ہو.

Page 120

خطبات مسرور جلد ہشتم 105 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی ہی دسویں آیت میں فرمایا.وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعْفًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللهَ (النساء:10).اور جو لوگ ڈرتے ہیں کہ اپنے بعد کمزور اولاد چھوڑ گئے تو ان کا کیا بنے گا تو ان کو دوسروں کے متعلق بھی یعنی یتیموں کے متعلق بھی ڈر سے کام لینا چاہئے.اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہئے.پس یہ یتیموں کے حقوق قائم کروانے کے لئے مزید تنبیہ ہے کہ کسی کو اپنی موت کا وقت معلوم نہیں.اس لئے یتیموں کی پرورش کرتے ہوئے یہ خیال دل میں رہنا چاہئے کہ ہمارے بچے بھی یتیم ہو سکتے ہیں.اور ان کے ساتھ اگر بد سلو کی ہو تو یہ سوچ کر ہی ہمارے دل بے چین ہو جاتے ہیں.پس جب اپنے متعلق یہ سوچتے ہیں تو دوسروں کے متعلق بھی اسی طرح سوچو.یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.پس بچوں کی تربیت کے بارہ میں بھر پور کوشش کرنی چاہئے.خاص طور پر انہیں جن کے سپر د یتیم بچے کئے گئے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا بہترین حصہ بن سکیں.بعض دفعہ اس کا الٹ بھی ہو جاتا ہے کہ تربیت صرف لاڈ پیار کو سمجھا جاتا ہے.خاندان کے بزرگ نانا، نانی، دادا، دادی، غلط طریقے پر بچوں کو لاڈ پیار سے بگاڑ دیتے ہیں.تو یہ طریق بھی غلط ہے.اصل مقصود ان کی تربیت کر کے ان کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانا ہے.پس اصل چیز یہی ہے کہ یتیم جو بعض لحاظ سے بعض اوقات احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنی صلاحیتیں ضائع کر دیتے ہیں ان کی ایسے رنگ میں تربیت ہو کہ وہ انہیں بہترین شہری بنادے.معاشرہ کا بہترین فرد بنادے.پس نہ زیادہ سختیاں اچھی ہیں، نہ ضرورت سے زیادہ نرمی.بلکہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح ان کی تربیت کرناضروری ہے.اور جس طرح ماں باپ کے سائے تلے رہنے والے بچے کا حق ہے اسی طرح ایک یتیم کا بھی حق ہے.یتیموں کے حق کے بارہ میں اور ان کی تربیت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورہ بقرہ میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَتَى قُلْ إِصْلَاح لَهُمْ خَيْرٌ وَ إِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَ اللهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ (البقرة:221) کہ دنیا کے بارہ میں بھی اور آخرت کے بارہ میں بھی.اور وہ تجھ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دے ان کی اصلاح اچھی بات ہے اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی بند ہی ہیں.اور اللہ فساد کرنے والے کا اصلاح کرنے والے سے فرق جانتا ہے.اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ضرور مشکل میں ڈال دیتا.یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.اب یہاں صرف کسی مال والے یتیم کے بارہ میں حکم نہیں دیا گیا.بلکہ ہر قسم کے کمزور، غریب، بے وسیلہ یتیم کا ذکر ہے.یتیم کی اصلاح، اچھی پرورش، اچھی تعلیم بہت عمدہ کام ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو امامہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی علیم نے فرمایا.جس نے یتیم بچے یا بچی کے سر پر محض اللہ تعالیٰ کی

Page 121

خطبات مسرور جلد ہشتم 106 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 خاطر دستِ شفقت پھیر ا.اس کے لئے ہر بال کے عوض، جس پر اس کا مشفق ہاتھ پھرے، نیکیاں شمار ہوں گی.اور جس شخص نے زیر کفالت یتیم بچے یا بچی سے احسان کا معاملہ کیا وہ اور میں جنت میں یوں ہوں گے.آپ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر دکھائیں.(مسند احمد بن حنبل مسند ابو امامته البابلی جلد 7 صفحہ 425-426 حدیث : 22640) پس یتیم کی پرورش کرنے والے کا یہ مقام ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے اسے جنت کی خوشخبری دی ہے.اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے والے کو ، اس کا خیال رکھنے والے کی نیکیوں کو اس بچے کے سر کے بالوں کے برابر شمار کیا ہے.آنحضرت صلی می نم کے صحابہ تو اس بات پر لڑتے تھے اور حریص رہتے تھے کہ یتیم کی پرورش کریں.اور اگر کوئی یتیم ہو تا تو ایک کہتا کہ میں اس کی پرورش کروں گا اور دوسرا کہتا کہ میں اس کی پرورش کروں گا.تیسرا کہتا کہ میں اس کی پرورش کروں گا.اور اس بات پر وہ لوگ حریص تھے کہ جنت میں بھی آنحضرت صلی الم کے قدموں میں جگہ ملے.وہ جب یتیموں کو پالتے تھے تو بڑے احسن رنگ میں ان کی تربیت کرتے تھے.اپنے بچوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے تھے.پھر یہ کہہ کر وَإِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ (البقرة:221) کہ اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں.یتیموں کو پالنے والوں کو بڑا بھائی کہہ دیا کہ وہ ان بڑے بھائیوں کی طرح چھوٹے بھائی کی ذمہ داری ادا کرے جو حقیقت میں چھوٹے بھائیوں کا حق ادا کرنے والے ہیں.بعض بڑے بھائی بھی چھوٹے بھائیوں پر ظلم کرتے ہوتے ہیں.فرمایا کہ بڑا بھائی بن کر ان کا حق ادا کرو.بلکہ اگر وہ ضرورت مند ہیں تو تعلیم و تربیت کے بعد ان کے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے ہر طرح کی مدد کرو.اگر تمہارے پاس مالی وسائل ہیں اور ان کی مالی مدد بھی کی جاسکتی ہے تو کرو.ان کی کاروباروں میں یا اور کسی لحاظ سے مدد کرنی پڑے تو کرو.اس طرح کرو جس طرح بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں کی کرتے ہیں.اور بے نفس ہو کر یہ خدمت کرو.اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اپنی ذات کے ہر جگہ موجود ہونے کا احساس دلا دیا کہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے اور اصلاح کرنے والے کو جانتا ہے.پس ان یتیموں سے انہیں معاشرے کا بہترین حصہ بنانے کے لئے حسن سلوک کرو.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جو ضرورت مند ایسے ہیں کہ یتیم کی صحیح طرح کفالت نہیں کر سکتے ان کو اجازت دے دی کہ اگر یتیم کا مال ہے تو ان کی ضرورت کے مطابق اس میں سے خرچ کر لو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا.یہاں یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر پالنے والے کے یا اس نگر ان کے اپنے وسائل نہ ہوں اور یتیم کا مال بھی نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے ؟ اللہ تعالیٰ چونکہ جانتا تھا کہ نیک خواہشات کے باوجود تم کچھ نہیں کر سکتے اسی لئے تمہیں ”تم اپنے آپ کو مشکل میں نہ ڈالو “ کہہ کر اجازت دے دی کہ جماعتی نظام سے رجوع کرو.جو ارباب حل و عقد ہیں

Page 122

خطبات مسرور جلد ہشتم 107 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 ان سے رجوع کرو.اور ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرو.مقصود یتیم کی تعلیم و تربیت ہے.تمہیں مشکل میں ڈالنا نہیں.اس لئے اگر جماعت کی مدد کی ضرورت ہے تو جماعت کو آگاہ کرو.0 پھر یتیم کی تکریم اور عزت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَلَّا بَلْ لَّا تَكْرِمُونَ الْيَتِيمَ (الفجر: 18) که خبر دار! در حقیقت تم یتیم کی عزت نہیں کرتے.اور اس عزت نہ کرنے اور بعض دوسری نیکیوں کو نہ بجالانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عذاب کی خبر دی ہے.دوسری جگہ فرمایا کہ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ ( الماعون : 3).پس وہی ہے جو یتیم کو دھتکار تا ہے.اس آیت میں ایسے بے دینوں کا ذکر ہے، جن کی علاوہ اور نشانیوں کے ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھتکارتے ہیں.پس یہ بھی ایک ایسی برائی ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ معاشرہ کی گراوٹ اور بربادی کی علامت ہے.پس اعلیٰ معاشرے کے قیام کے لئے اس بُرائی کو دور کرنے کی بہت کوشش ہونی چاہئے.کیونکہ یتیموں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے سے جماعت میں سے قربانی کا مادہ ختم ہو جاتا ہے.اور جو یتیم ہیں اگر ان کے حقوق کی ادائیگی نہ کی جائے تو ان کی ترقی میں روک بن جاتا ہے.انہیں آگے بڑھنے سے محروم کر دیتا ہے.اور اگر اس کا صحیح طور پر سد باب نہ کیا جائے تو امیر غریب کے فاصلے بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر پُر امن معاشرے کی بجائے فسادی معاشرہ جنم لینا شروع کر دیتا ہے.جبکہ خدا تعالیٰ کو انسانوں کے حقوق کی ادائیگی نہ صرف پسند ہے بلکہ ایک مومن کے لئے فرض قرار دی گئی ہے.جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پھر یتیموں کی کس طرح پرورش کرتے ہیں؟ فرمایا.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمَا وَ آسِيراً (الدھر : 9).وہ کھانے کو اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے مسکینوں، اور یتیموں اور اسیر وں کو کھلاتے ہیں.پس یہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانی کرتے ہیں.معاشرے کے محروم طبقہ کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں.اور کھانے کا انتظام کیا ہے؟ ان کی تربیت اور پرورش کا انتظام، تعلیم کا انتظام اور باوجود اس کے کہ وہ خود ضرورتمند ہوتے ہیں یا بہتر مالی حالت کی خواہش رکھتے ہیں اور گو کہ مناسب گزارہ ہو رہا ہوتا ہے مگر اتنے اچھے حالات نہیں ہوتے.لیکن وہ قربانی کرتے ہوئے یتیموں کا حق ادا کرتے ہیں.پس ”چاہت ہوتے ہوئے“ کے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان سے یہ بتادیا کہ وہ اپنا بچا کھچا ہوا نہیں دیتے بلکہ وہ چیز دیتے ہیں جو ان کی چاہت ہے، جو ان کی پسندیدہ چیز ہے.یہ اصل قربانی ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز قربان کی جائے تاکہ معاشرے کا محروم طبقہ اس محرومیت سے نکل کر برابری کے درجہ پر آجائے اور اس کو بھی آگے بڑھنے کے مواقع فراہم ہو جائیں.پس یہ وہ خو بصورت معاشرہ ہے جس کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیں تلقین اور ہدایت فرماتا ہے.آنحضرت صلی علی کی بھی اس پر بہت زور دیا کرتے تھے.ایک حدیث میں پہلے بیان کر چکا ہوں.اسی طرح کی، اس سے ملتی جلتی دو اور حدیثیں میں پیش کرتا ہوں جو یتیم کی پرورش کرنے والے کے مقام کا پتہ دیتی ہیں.

Page 123

خطبات مسرور جلد ہشتم 108 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 فروری 2010 ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس سے ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا جس شخص نے تین یتیموں کی کفالت کی وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو قائم باللیل اور صائم النھار ہو اور اس نے صبح شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں تلوار سونتے ہوئے گزاری ہو.میں اور وہ دونوں جنت میں دو بھائیوں کی طرح ہوں گے.جیسے یہ دو انگلیاں ہیں.اور آپ نے اپنی شہادت والی انگلی اور در میانی انگلی کو باہم ملایا.(سنن ابن ماجہ.کتاب الآدب.باب حق الیقیم حدیث : 3680) پس جو یتیم کی کفالت کرنے والے ہیں ان کا مقام ایسا ہی ہے جیسے وہ راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے ہیں اور روزے رکھنے والے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں.پھر مالک بن حارث اپنے خاندان کے ایک شخص کی روایت بیان کرتے ہیں کہ اس نے نبی اکرم صلی للہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص مسلمان والدین کے یتیم بچے کو اپنے کھانے پینے میں با قاعدہ طور پر شامل کر لیتا ہے یہاں تک کہ وہ امداد کا محتاج نہ رہے تو اس کے لئے جنت یقینی ہے.(مسند احمد بن حنبل مند مالک بن الحارث جلد 6 صفحہ 463 حدیث : 19234) یہ حقیقی پرورش ہے کہ اپنے جیسا کھانا پلانا، ضرورت کا خیال رکھنا اور اسے اس مقام تک پہنچانا جہاں سے وہ خود اپنی ترقی کے راستے تلاش کرتا چلا جائے.یعنی معاشرے کا بہترین حصہ بن جائے.تو پھر اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے یہ خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت کی خوشخبری دیتا ہے.ایک دوسری روایت میں آتا ہے سوائے کسی ایسے گناہ کے جو بخشانہ جائے.(مجمع الزوائد لکھیمی جلد 8 صفحہ 209 کتاب البر والصلۃ باب ماجاء فی الايتام والارامل حدیث : 13524) اور سب سے بڑا گناہ تو شرک ہے.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ یتیموں کی پرورش کرنے والے کو بہت جزا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بھی یتیموں کی پرورش کا خیال رکھا جاتا ہے.افریقہ اور بعض اور ممالک میں جماعت احمدی یتیم بچوں کے علاوہ غیر از جماعت اور عیسائیوں کے بچوں کا بھی خرچ برداشت کرتی ہے.لیکن اس وقت میں پاکستان کے حوالے سے یتامی کی خبر گیری کی جو تحریک ہے اس کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان میں یکصد یتامی کمیٹی کام کر رہی ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے 1989ء میں جو بلی سال میں شکرانے کے طور پر یہ تحریک فرمائی تھی کہ ہم سو یتیموں کا خیال رکھیں گے.اب اس کے کام میں بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے.پہلے تو سو (100) یتیم ہوسٹل میں رکھنے تھے لیکن ان کے عزیزوں اور رشتے داروں نے (جو ضرورت مند تھے ) یہی کہا کہ ہم انہیں اپنے پاس رکھیں گے جماعت ان کے اخراجات پورے کر دے..تو بہر حال وہ تعداد اب سو سے بہت بڑھ چکی ہے.اور اس کام میں بڑی وسعت پید اہو چکی ہے.یتیموں کے خبر گیری کے الہی احکامات اور احادیث ہم نے سنیں.ان سے اس کی اہمیت کا اندازہ بھی لگ

Page 124

109 خطبه جمعه فرموده مورخه 19 فروری 2010 خطبات مسرور جلد هشتم گیا کہ یہ کتنا اہم کام ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کام میں وسعت پیدا ہو چکی ہے.اس وقت تک پاکستان میں بجائے 100 کے 500 خاندان کے دو ہزار سات سو یتیم ہیں جو اس کمیٹی کے زیر کفالت ہیں.اور ان پر ماہوار پچیس تیس لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے.اور یہ خرچ بڑی احتیاط سے کیا جاتا ہے.یہ نہیں کہ ضائع کیا جارہا ہے.اس میں کھانے پینے کے اخراجات ہیں.ان کی تعلیم و تربیت کے اخراجات ہیں.پھر علاج معالجہ کے اخراجات ہیں.پھر جو بچیاں جوان ہوتی ہیں ان کی شادیوں کے اخراجات بھی اسی میں سے کئے جاتے ہیں.پھر بعض ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے مکان وغیرہ بنائے لیکن اس کو maintain کرنے کے ، مرمت کرنے کے پیسے ان کے پاس نہیں ہوتے تو وہ بھی دیئے جاتے ہیں.بہر حال ایک وسیع خرچ ہے.اور اس فنڈ میں وہاں شدت سے اضافہ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے.صدر صاحب بتامی کمیٹی ڈھکے چھپے الفاظ میں توجہ دلاتے رہتے ہیں.واضح طور پر تو انہوں نے کبھی نہیں کہا.لیکن دعا کے لئے کہتے ہوئے پتہ چل رہا ہوتا ہے.اس لئے میں آج تمام ان پاکستانی احمدیوں کو جو امریکہ ، کینیڈا اور یورپ یا انگلستان میں رہتے ہیں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اس تحریک میں حصہ لیں اور اس سے بڑی خوش قسمتی ایک مومن کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُسے آنحضرت صلی ایم کے قدموں میں جگہ ملے.میں نے ایک اندازہ لگایا تھا کہ اگر انگلستان، یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے احمدی گھر کے افراد کے حساب سے فی کس سات سے دس پاؤنڈ سالانہ بھی دیں.ماہانہ نہیں، سالانہ دس پاؤنڈ بھی دیں تو پاکستان میں ان یتامی کا ایک بڑا بوجھ سنبھال سکتے ہیں جن کی کفالت یتامی' کمیٹی کر رہی ہے.یہاں رہنے والوں کے لیے تو سال میں دس پاؤنڈ ایک معمولی رقم ہے.لیکن اگر گھر کا ہر فرد دینے والا ہو اور جو مخیر حضرات ہیں وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتے ہیں تو یہ دس پاؤنڈ کئی یتیموں کے روشن مستقبل میں بڑا کر دار ادا کر سکتے ہیں.عموماً وہاں جو مختلف ضروریات کے تحت یتیموں کی مدد کی جاتی ہے اس میں بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک ایک ہزار سے تین ہزار تک ماہوار خرچ ہوتا ہے.اس کے علاوہ دوسرے اخراجات ہیں.اسی طرح پاکستان کے جو مخیر احمدی حضرات ہیں، صاحب حیثیت ہیں، ان کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یتیموں کے فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ ”اپنے لئے چاہتے ہوئے بھی وہ خرچ کرتے ہیں“ اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.باقی جو پاکستانی احمدیوں کے علاوہ احمدی ہیں ان کو میں حصہ لینے سے روک نہیں رہا.وہ بھی بے شک حصہ لیں.اگر ایسی رقمیں آتی ہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ ان کی رقوم میں سے افریقہ کے بعض غریب ملکوں میں یا قادیان میں خرچ ہو سکتا ہے لیکن پاکستانیوں کو تو خاص طور پر پاکستان کے یتیموں کے لئے تحریک کر رہاہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم معاشرے کے اس کمزور طبقہ کا حتی الوسع حق ادا کرنے والے بنیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 12 مورخہ 19 تا 25 مارچ 2010 صفحہ 5تا8)

Page 125

خطبات مسرور جلد ہشتم 110 10 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010ء بمطابق 5 امان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ الہی جماعتوں کے افراد کی بھی وہی ذمہ داری ہوتی ہے جو ان کے قائم کرنے والے انبیاء کی.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف بلانا اور لوگوں کے گمراہ کن خیالات اور تعلیمات، جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں، کی نشاندہی کر کے انہیں سچائی کا راستہ دکھانا.اور مذاہب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی انبیاء اور ان کے ماننے والوں نے، جو عموماً شروع میں بہت قلیل تعداد میں ہوتے ہیں، یہ کام کیا تو ان کی بھر پور مخالفت ہوئی.اور زمانے کے فرعون اور ہامان اور ان کے ٹولے اپنا پورا زور لگاتے ہیں کہ کس طرح انبیاء اور ان کی جماعت کو نیست و نابود کر دیا جائے.اور یہ سلوک مذاہب کے ساتھ ہو تا رہا ہے جب تک وہ اپنے حقیقی دین پر قائم رہے.پس جب کہ سنت اللہ یہی ہے تو ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی ایم کے ساتھ بھی یہی سلوک دشمنانِ اسلام نے کرنا تھا.باوجود اس کے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ پیارے اور برگزیدہ تھے ، آپ سے کوئی احسان نہیں ہوا.بلکہ ابتلاؤں، آزمائشوں ، تکلیفوں اور جنگوں وغیرہ سے جس طرح آپ کو گزرنا پڑا اس کی مثال گزشتہ انبیاء میں نہیں ملتی.سب سے بڑھ کر ہے.لیکن آپ جو استقلال اور عظمت کے انتہائی مقام پر فائز تھے ان سب سے کامیاب گزرتے چلے گئے.اور یہی ایمان کی پختگی اور چٹانوں کی طرح مضبوط عزم اور ایمان اور ایقان میں ترقی آپ نے اپنے جانثار صحابہ میں پیدا فرما دی.اور کوئی تکلیف، کوئی زخم ، تعداد میں کمی، ہتھیاروں کی کمی ان صحابہ کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکی.چنانچہ قرآنِ کریم میں ان ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ نے اس طرح ذکر فرمایا ہے.سورۃ آلِ عمران میں.دو آیتیں ہیں 173,174 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ (آل عمران: 173 ) کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے ، ان میں سے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے.

Page 126

خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 پھر فرماتا ہے الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَ قَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران : 174) یعنی وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں.پس ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا.اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے.ایمان کی اس مضبوطی اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا نظارہ ہمیں جنگ اُحد میں اس طرح نظر آتا ہے کہ جب مسلمانوں کے ایک دستے کی غلطی کی وجہ سے واضح طور پر جو جیتی ہوئی جنگ تھی اس کا پانسا پلٹا اور کفار نے دوبارہ مڑ کر حملہ کیا تو مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ تم کو بھی زخم آئے.آپ کا دانت بھی شہید ہوا.لیکن اس وقت آپ کے صحابہ اس طرح مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہو گئے تھے کہ کوئی طاقت ان کو وہاں سے ہلا نہیں سکتی تھی.اور اپنی جان کی پر واہ کئے بغیر آنحضرت صلی اللہ تم پر دشمن کے ہر دار اور حملے کو ناکام و نامراد کر رہے تھے.جس کا ایک عجیب نظارہ مذاہب کی تاریخ میں نظر آتا ہے.بہر حال کفارِ مکہ گو دوسری دفعہ کے حملے میں بظاہر برتری حاصل کئے ہوئے لگتے تھے لیکن جنگی نقطۂ نظر سے یہ کوئی برتری نہیں تھی.جب کفار کا یہ لشکر جنگ سے واپس لوٹ رہا تھا تو بعض عرب قبائل نے ان پر طنز کیا کہ تم بڑے نعرے لگاتے ہو اور اپنے زعم میں بدر کا بدلہ لے کر جا رہے ہو کہ جنگ جیت لی ہے.یہ کون سی جیت ہے ؟ جس میں نہ کوئی مالِ غنیمت ہے اور نہ کوئی جنگی قیدی ہے اور دعویٰ کر رہے ہو کہ ہم نے مسلمانوں سے بدلہ لے لیا ہے.اس پر راستے میں ہی کفارِ مکہ نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہیں راستے سے ہی واپس لوٹا جائے.اور مسلمان جو اس وقت زخموں سے چور ہیں اور تھکے ہوئے ہوں گے ، ان پر حملہ کر کے فتح کو مکمل کیا جائے.لیکن اس سوچ میں بھی دو گروہ بن گئے.ایک کا خیال تھا کہ جتنی فتح ہو گئی وہ ٹھیک ہے کیونکہ اب مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں وہ مسلمان بھی شریک ہو جائیں گے جو اُحد میں شریک نہیں ہوئے تھے.اور پھر مدینہ پر حملے کی وجہ سے اب تمام ہی جان توڑ کر لڑیں گے.ادھر آنحضرت کو بھی کسی طرح کفار کے اس ارادے کا پتا چل گیا.تو آپ نے اگلے دن ہی صحابہ کو جمع کیا اور کفار کا پیچھا کرنے کے لئے لشکر کی تیاری کے لئے کہا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی شر ط لگادی کہ اس لشکر میں صرف وہی صحابہ شرکت کریں گے جو اُحد کی جنگ میں گئے تھے.اب ان کی حالت کا اندازہ لگائیں جو جنگ کی وجہ سے تھکے بھی ہوئے تھے اور اکثر ان میں سے زخمی حالت میں بھی تھے.چنانچہ 250 مسلمانوں کا یہ لشکر تشکیل دیا گیا جو مدینہ سے روانہ ہوا.یہ سب کے سب اس خوشی اور جوش سے نکلے تھے جیسے کوئی فاتح لشکر ہے جو دشمن کے تعاقب کے لئے نکلتا ہے.مدینہ سے 8 میل کے فاصلے پر آپ نے حمراء الاسد کے میدان میں ڈیرہ ڈالا.اور آپ نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ 500 مختلف جگہ پر آگیں روشن کر دو.اور جب یہ روشن کی گئیں تو دور سے ہی دیکھنے والوں کو مرعوب کرتی تھیں.

Page 127

112 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مسلمانوں کے اس لشکر کی کفار کو بھی کسی طرح اطلاع مل گئی اور ابو سفیان اور دوسرے سرداروں نے اسی میں بہتری سمجھی کہ واپس مکہ لوٹ جائیں.کفار کے واپس چلے جانے کی اطلاع جب آنحضرت صلی للی نمی کو ملی تو آپ بھی ایک دو دن ٹھہر کر مدینہ واپس لوٹ آئے اور فرمایا کہ کفار پر یہ رعب اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ ان زخمیوں کی تعریف فرما کر جو قربانیوں کی اعلیٰ ترین مثال قائم کئے ہوئے ہیں، ان تقوی شعاروں کو اجر عظیم کی خوشخبری دیتا ہے.الطبقات الكبرى لابن سعد الجزاء الثانی صفحہ 274 باب غزوہ رسول اللہ صلی ا لم حمراء الاسد مطبوعہ بیروت 1996) (السيرة النبوية لابن هشام باب غزوہ حمراء الاسد صفحہ 546,547 مطبوعہ بیروت 2001) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اُحد سے لوٹتے وقت ابو سفیان نے یہ اعلان کیا تھا اور چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر دوبارہ ہماری پوری جنگ ہو گی.آنحضرت صلی اللہ ہم نے بھی اس چیلنج کو قبول کیا اور اعلان فرمایا کہ ٹھیک ہے، آجانا.بہر حال 4 ہجری میں آنحضرت صلی علیم نے ڈیڑھ ہزار صحابہ کا لشکر تیار کیا اور لشکر لے کر اس میدان کی طرف نکلے.ادھر ابوسفیان نے بھی مکہ میں دو ہزار کا لشکر تیار کیا لیکن دل میں ڈرتا بھی تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے تھوڑا ہے.جاسوسی کا انتظام تو وہاں تھا.پتالگ گیا تھا کہ کتنے مسلمان تیار ہو رہے ہیں.تو اس نے یہ چال چلی کہ ایک شخص کو مدینہ روانہ کیا کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرو کہ کفار مکہ کا تو بہت بڑا لشکر تیار ہو کر آ رہا ہے اور تم لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمنوں کے یہ پروپیگینڈے مسلمانوں کو ایمان میں بڑھاتے ہیں.اور ان کا جواب یہ تھا اور ہوتا ہے.کہ حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کار ساز ہے.بہر حال آنحضرت صلی للی نام کے ساتھ مسلمانوں کا یہ لشکر جو ڈیڑھ ہزار کی تعداد میں تھا بدر کے میدان میں پہنچا.لیکن کفار کا لشکر مکہ سے کچھ دور باہر آکر پھر واپس مڑ گیا.اور یہ بہانہ کر دیا کہ یہ قحط کا سال تھا اور ہماری تیاری نہیں ہوئی، اور اگلے سال اچھی طرح تیاری کر کے ہم پھر نکلیں گے.پس کفار جو یہ چال چلنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ڈرا کر اور بڑے لشکر کی خبر دے کر خوفزدہ کر کے جنگ کے لئے نکلنے سے روک دیں، ان کی یہ تدبیر بھی کامیاب نہیں ہوئی.اور اللہ تعالیٰ نے بھی مومنین کی حالت کی گواہی قرآن کریم میں فرمائی کہ موت سے ڈرنے کی باتیں کفار کے لئے تو اہم ہو سکتی ہیں لیکن مسلمانوں کو تو یہ ایمان میں بڑھاتی ہیں.بہر حال مسلمان بدر کے میدان میں جا کر کچھ دن رُکے.الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزاء الثانی صفحہ 280, 279 باب غزوہ رسول اللہ صلی الله ام بدر الموعد مطبوعہ بیروت 1996) السيرة الحلمية از علامہ ابو الفرج نورالدین حلبی جلد 2 صفحہ 373,375 باب ذکر مغازیة غزوہ بدر الآخر مطبوعہ بیروت 2002) اور جیسا کہ میں نے کہا کہ مسلمانوں نے کفار سے تو کیا خوفزدہ ہونا تھا، اُلٹا کفار کا لشکر خوفزدہ ہو کر سامنے آنے کی جرات نہ کر سکا.پس یہ خدائی رعب تھا جو کفار پر پڑا.اور یہ حسبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران : 174) کا دل سے نکلا ہوا انعرہ ہے جو مسلمانوں کو ہمیشہ قوی تر کرتا چلا جاتا ہے.یہ کوئی ایک دو واقعات نہیں ہیں بلکہ صحابہ کی

Page 128

خطبات مسرور جلد ہشتم 113 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ دشمن کا ایک ہونا اور مومنین کو یا صحابہ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرنا کبھی کامیاب نہیں ہو سکا.آج بھی یہی اعلان اور جواب ہے جو ایک حقیقی مومن کا ہونا چاہئے.آج مسیح محمدی کی جماعت کے افراد کو بھی اسی طرح خوف دلانے کی کوشش کی جاتی ہے.لیکن مومنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کسی گروہ، کسی ٹولے، کسی اسمبلی یا کسی تنظیم کے ڈرانے سے نہیں ڈرتے.بلکہ ہمیشہ صبر اور استقامت دکھاتے ہوئے اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں.ماریں کھاتے ہیں، صبر کرتے ہیں.مالی نقصان اٹھاتے ہیں لیکن ایمان میں لغزش نہیں آنے دیتے.شہید کئے جاتے ہیں کہ اس طرح ان کے عزیز، بیوی، بچے ، ماں باپ، بہن بھائی خوفزدہ ہو کر دین چھوڑ دیں گے لیکن مومنین کے خلاف یہ سب منظم سازشیں انہیں مخالفین کے گروہ کے رعب میں نہیں آنے دیتیں بلکہ ان کا جواب ہمیشہ حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ( آل عمران:174) ہوتا ہے.ہمیشہ ان کی نظر خدا تعالیٰ پر ہوتی ہے.دشمن جب شور و فغاں میں بڑھتا ہے تو وہ یارِ نہاں میں اور زیادہ ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں.پس آج دنیا کے بعض ممالک میں احمدیت کی مخالفت ہے تو یہ احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے.یہ بات ہمیں پہلے سے زیادہ دعاؤں کی طرف متوجہ کرنے والی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.اس مخالفت نے اور گروہ بندی نے، بلکہ تمام 72 فرقوں نے جمع ہو کر، مخالفت میں پورا زور لگا کر پاکستان میں احمدیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایانہ پہنچا سکتے ہیں.مومن کے نزدیک ظاہری نقصان کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اصل چیز ایمان کی دولت ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شہید کی شہادت کے بعد ان کے بیوی بچوں، ماں باپ اور عزیزوں کی طرف سے میں ایمان میں مضبوطی اور پہلے سے بڑھ کر اخلاص و وفا کے اظہار کے خطوط وصول کرتا ہوں.یہی حال مخالفت کا آج کل ہند وستان کے بعض علاقوں میں ہے.تمام مولوی ٹولے جمع ہو گئے ہیں اور احمدیوں کو، نو مبائعین کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں.اپنے دین سے پھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں.یہی حال بنگلہ دیش میں تھا اور اب بھی جب ان کو موقع ملتا ہے کہیں کہیں ہو جاتا ہے.یہی حال عرب کے بعض ممالک میں ہے.شام ہو یا مصر ہو یا کوئی اور دوسرا علاقہ ہو جہاں احمدیوں کا پتا چلتا ہے ، حکومتی ادارے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہی حال بلغاریہ میں احمدیوں سے کیا جارہا ہے تاکہ وہ احمدیت چھوڑ دیں.سرکاری مفتی پولیس کے ذریعہ دباؤ ڈلواتا ہے.یہی حال روس کی بعض مسلمان ریاستوں میں ہے.وہاں کا جو مرکزی مفتی ہے وہ حکومتی ایجنسیوں کے ذریعہ سے ہمارے مبلغین اور افرادِ جماعت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.غرض دنیا کے مختلف ممالک میں مسیح محمدی کی جماعت کی مخالفت اس کی عالمگیریت ثابت کرتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت حسیب کو سمجھنے والے ہمیشہ ، ہر جگہ یہی جواب دیتے ہیں کہ جتنی چاہے گروہ بندیاں کر کے مخالفتیں کر لو.ہمارا ہمیشہ یہ جواب ہے کہ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ

Page 129

114 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم الوكيل ( آل عمران :174) کیونکہ ہم نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی للی کم اور آپ کے صحابہ سے یہی سیکھا ہے.پس احمدیوں کو ہمیشہ صبر اور برداشت سے بغیر کسی خوف کے ان تکلیفوں کو برداشت کرتے چلے جانا چاہئے.اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جانا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کی اس طرح بھی وضاحت فرمائی ہے.فرمایا کہ: ان آیات میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ حقیقی شجاعت کی جڑ یہ صبر اور ثابت قدمی ہے اور ہر ایک جذبہ نفسانی یا بلاجو دشمنوں کی طرح حملہ کرے اس کے مقابل ثابت قدم رہنا اور بزدل ہو کر بھاگ نہ جانا، یہی شجاعت ہے“.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 359) پس یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کا ایک اور مضمون کھولا ہے کہ ظاہری دشمنی کے علاوہ بھی ایک دشمنی ہے اور وہ دشمن ہے جو نفسانی جذبہ ہے.اور یہ بھی ایک بلا ہے جو دشمن کی طرح حملہ کرتی ہے.اس کے مقابل پر بھی ثابت قدم رہنا کہ یہی مومنانہ شان ہے.ظاہری دشمن کے مقابلے کی طاقت تو تب پیدا ہو گی جب نفسانی جذبے کے حملے کا مقابلہ کر سکو گے.ایمان میں ترقی اس وقت ہوتی ہے جب یہ خیال دل میں رہے کہ سب کچھ خدا کا ہے اور اس کی خاطر ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہے.اگر زمانے کی ہوا و ہوس سے مرعوب ہو گئے اور اس رو میں بہ گئے جس میں زمانہ چل رہا ہے تو مخالفین کے ٹولوں اور جان مال کے نقصان کی برداشت کی طاقت بھی نہیں رہے گی.پس نفسانی دشمن پر بھی قابو پانا اور اس کے سامنے ثابت قدمی دکھانا مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے.اور پھر یہی چیز جیسا کہ میں نے کہا، ظاہری دشمن کے مقابلے کے لئے بھی طاقت بخشے گی.اور حسبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ( آل عمران :174) کا نعرہ دل سے اٹھے گا اور عرش پر پہنچے گا.اور پھر اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے وہ نظارے نظر آئیں گے جس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”اس اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو.اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو.پیغمبر خدا صلی لی ہم نے مکہ میں تیرہ برس دکھ اٹھائے.تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں.مگر آپ نے صحابہ کو صبر ہی کی تعلیم دی.آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے.ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے.اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے.اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں.مگر جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چپ ہو جائیں گے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دُکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے.تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے.جو

Page 130

115 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم شخص دکھ دیتا ہے، یاتو وہ تو بہ کر لیتا ہے، یا فنا ہو جاتا ہے.کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب تو بہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں“.( آج کل بھی بہت سارے لوگوں کے اسی طرح کے خطوط آتے ہیں) صبر بھی ایک عبادت ہے پھر فرمایا کہ: ” صبر بھی ایک عبادت ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے.یعنی ان پر بے حساب انعام ہوں گے.یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے.دوسری عبادت کے واسطے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے.جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے.اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالی کی حمایت میں ہے.اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہو جاتا ہے.صبر جیسی کوئی شے نہیں ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 543,544) آج کے لئے ”حسیب کے حوالہ سے میں نے گو مضمون منتخب نہیں کیا تھا لیکن بہر حال کچھ نہ کچھ آپس میں ملتے جلتے ہیں.ایک تو یہی ہے جو بیان ہو گیا ہے جو مومنوں کی ایمانی حالت کی تصویر کشی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ثابت قدم اور صابر مومنین کے لئے مخالفین کی مخالفت انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہے.اور انہیں حَسْبُنَا اللہ کا ادراک دلاتی ہے.دوسری آیت جو میں اب بیان کرنے لگا ہوں بلکہ یہ دو آیات ہیں کہ انبیاء اور ان کی جماعت کا کیا مقصد ہے؟ اس کے بارے میں بتاتی ہیں کہ جو پیغام نبی پر اترا ہے ، اسے کھول کر دنیا تک پہنچا دو اور یہی تمہارا کام ہے.اس کا حساب لینا کہ مانتے ہیں کہ نہیں مانتے اور نہیں مانتے تو کیا سلوک کرنا ہے ، یہ خد اتعالیٰ کا کام ہے.اور خد اتعالیٰ حساب لینے میں تیز ہے.یہ مضمون بھی سورۃ رعد کی ان آیات میں بیان ہوا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ مَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُم أَوْ نَتَوَفَّيَنَكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ - أَوَ لَمْ يَرَوْا أَنَّا نَاتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (الرعد: 41-42) اور اگر ہم تمہیں ان انذاری باتوں میں سے کچھ دکھا دیں جو ہم اُن سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو ہر صورت میں تیرا کام صرف کھول کھول کر پہنچا دینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے.کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ یقینا ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹائے چلے آرہے ہیں.اور اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے.اس کے فیصلے کو ٹالنے والا کوئی نہیں.اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے.پہلی آیت جو اکتالیسویں آیت ہے.اس میں اس سے پہلی آیت کے مضمون کو چلاتے ہوئے بات ہو رہی

Page 131

116 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہے کہ خدا تعالیٰ کا سزادینے کا اپنا طریق ہے.وہ مالک ہے.کب اور کس طرح مخالفین کو سزا دینی ہے.یہ وہ بہتر جانتا ہے.وہ عالم الغیب ہے.اس کے علم میں ہے کہ کب سزا کی ضرورت پڑنی ہے اور کس کے لئے پڑنی ہے.ایک عمومی بات کہنے کے بعد ضروری نہیں کہ وہ ضرور ان سزاؤں کو فوری طور پر لاگو بھی کر دے گا.سزا جو کہ ایک نشان کے طور پر ہے اس کا مقصد اصلاح ہے.اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ ان میں سے کون سے ایسے ہیں جو نبی کی مخالفت سے باز آجائیں گے اور اصلاح کر لیں گے اور سزا سے بچ جائیں گے.اور کون ہیں جن پر سزا کا کچھ حصہ پڑے گا تو وہ اصلاح کی طرف توجہ کریں گے.اور کتنے ایسے ہیں جو کسی صورت میں بھی باز آنے والے نہیں.وہ مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.شرارتوں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.ان پر سزاوار د ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ! کچھ انذاری وعدے جو تیرے ذریعہ کئے گئے ہیں، بعض لوگوں کے عملوں کی وجہ سے تو فوری دکھا دیں گے.زندگی میں نظر آجائیں گے.اور بعض ہو سکتا ہے کہ اے نبی! تیری وفات کے بعد پورے ہوں.بدر کی جنگ میں ہی دیکھ لیں.اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ انہوں نے ایمان نہیں لانا تو آنحضرت صلی علیکم نے جہاں جہاں نشان لگائے تھے کہ ابو جہل کی، عتبہ کی شیبہ کی لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہیں.عین آپ کی پیشگوئی کے مطابق وہ وہیں قتل کئے گئے اور ان کی موت ٹل نہیں سکی.(بخاری کتاب المغازی باب دعا النبي صلى الله علی کفار قریش..حدیث (3960) اور بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ایمان لے آنا تھا جیسے ابو سفیان ہیں ، عکرمہ ہیں.یہ ایسے لوگ تھے کہ اسلام کے خلاف جنگوں میں شریک بھی ہوئے اور اس کے باوجو د بچتے رہے.آخر کار ایمان لے آئے.اور پھر اسلام کی خاطر لڑے.اصل کام تبلیغ پس فرمایا اصل کام نبی اور اس کی جماعت کا تبلیغ کرنا ہے.کسی قوم کو سزا دینا اصل مقصود نہیں ہے.اصل مقصود ایک خدا کا عبادت گزار بنانا ہے.پس جو حد سے بڑھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں بھی انذاری پیشگوئیاں پوری ہوں گی اور بعض کو چھوٹ بھی دی جائے گی.لیکن یہ اصولی بات ہے کہ جن عملوں پر انذار کیا گیا ہے وہ نبی کی زندگی میں موجود لوگ کریں یا بعد میں کریں.اگر اصلاح نہیں کرتے تو ان پر پکڑ ہو گی.اور کس طرح پکڑ ہو گی ؟ یہاں ہو گی یا اگلے جہان میں ہو گی یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا چیز فائدہ مند ہے کس طرح کی اصلاح کی ضرورت ہے.فوری پکڑ ضروری ہے یا چھوٹ دینا ضروری ہے ؟ پس اللہ تعالی فرماتا ہے کہ حساب لینا ہمارے ذمہ ہے.اعتراض کرنے والے اگر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی، وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے پر جب خدا تعالیٰ حساب لے گا تو سب واضح ہو جائے گا.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین بھی یہی اعتراض کرتے ہیں.تو یہی جواب ان کو بھی ہے.

Page 132

117 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ بعض باتیں نبی کی زندگی کے بعد پوری ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نبی کی جماعت کے ذریعہ پورا کروانا چاہتا ہے.اور احمد کی اس بات پر گواہ ہیں کہ بہت ساری پیشگوئیاں جو ہیں وہ پوری ہو رہی ہیں.اور ہر نیا دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو ظاہر کرتے ہوئے طلوع ہو تا ہے.پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخالفین اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ یہ بات پوری نہیں ہوئی اور وہ بات پوری نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان مخالفین کو نظر نہیں آتا کہ کس طرح ہم زمین کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ؟ آنحضرت ملا لی ایم کی زندگی کا ہر دن گواہ ہے کہ کس طرح اسلام آپ کے زمانے میں پھیلتا چلا جار ہا تھا اور مخالفین کے پاؤں سے زمین نکل رہی تھی.مختلف شہروں کے امیر غریب اسلام میں شامل ہو کر اپنے آپ کو محفوظ حصار میں لا رہے تھے.اور پھر آنحضرت صلی علیم کی زندگی میں ہی مکہ بھی فتح ہو گیا اور عرب سے باہر بھی اسلام پھیل گیا اور پھر خلافت راشدہ میں اور بعد کے دور میں بھی اسلام پھیلتا چلا گیا.جہاں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اس قوم کے لوگوں کو سزا دینی ہے ، وہاں سزا بھی دی.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ یا تولوگوں کے اسلام قبول کرنے سے اسلام مخالف طاقتوں کی زمین گھٹتی جائے گی یا اللہ عذاب اور آفات کے ذریعہ سے ان پر زمین تنگ کرتا ہے.ماضی میں بھی کرتارہا ہے اور اب بھی کرتا ہے اور کرتا رہے گا.اللہ تعالیٰ کے حکم کو کوئی توڑنے والا نہیں.پس جب اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ساتھ ہے تو کون ہے جو اس کی ترقی میں روک بن سکے ؟ پس لا مُعَقِّبَ لِحُكْيه (الرعد 42) یعنی اس کے فیصلے کو کوئی ٹالنے والا نہیں کہہ کر مومنوں کو یہ حوصلہ بھی دے دیا کہ اگر تم حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ کے بنے رہو تو کوئی وجہ نہیں کہ دشمن سے خوفزدہ ہو.تبلیغ کا کام تمہارے سپر د ہے وہ کرتے چلے جاؤ.اور آخر پر فرمایا کہ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (الرعد (42).کہ وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے.یعنی حساب لینے میں آتا ہے تو فوراً لے لیتا ہے.یہ نہیں کہ فوری طور پر سزا دے دیتا ہے.جب فیصلہ کر لیا کہ حساب لینا ہے تو فوری طور پر لیتا ہے.پھر دوسرے اور کاموں کی طرح نہیں، کسی انسان کی طرح نہیں کہ یہ کام کر لوں، اس کے ساتھ تدبیریں چل رہی ہوتی ہیں اور اس کے حکم کو کوئی روک نہیں سکتا.انا نأتي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد: 42) کے مضمون کو ایک دوسری جگہ سورۃ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے.کہ بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلاء وَ آبَاءَهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبیاء : 45) بلکہ ہم نے ان کو بھی اور ان کے آباء واجداد کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا ہے یہاں تک کہ عمران پر دراز ہو گئی.پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں ؟ تو کیا وہ پھر بھی غالب آسکتے ہیں؟ مسیح محمدی کے ماننے والوں کے لئے خوشخبری پس اگر کسی قوم کی عمر لمبی ہو جائے یا ان کا طاقت کا عرصہ لمبا ہو جائے اور وہ اس وجہ سے تکبر میں مبتلا ہو

Page 133

خطبات مسرور جلد ہشتم 118 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی یہ حالت اب دائمی رہنے والی ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو لمبا عرصہ فائدہ پہنچایا ہے.بہت مال و متاع ان کے پاس تھا اور ہے.دولتیں بھی اکٹھی کرتے چلے جاتے ہیں.لیکن یاد رکھو، اس طرف بھی نظر رکھو، اس طرف بھی دیکھو کہ پہلی قومیں بھی ختم ہو گئی تھیں.وہ بڑی بڑی طاقتور قومیں تھیں اور ان کی سرحدیں چھوٹی ہوتی رہیں.اب ماضی قریب میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یورپین قوموں کی حکومتیں جو تھیں، بہت پھیلی ہوئی تھیں.ہندوستان کی سرحدیں بھی کہاں سے کہاں تک مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی تھیں اور پھر وہ چھوٹی ہوتی چلی گئیں.کئی ملک آزاد ہوئے اور نئے ملک وجود میں آئے.روس کس قدر وسیع رقبہ پر پھیل گیا تھا لیکن اب وہاں بھی آزاد ریاستوں کا قیام ہو گیا ہے.یہی تقدیر کسی وقت امریکہ کے ساتھ بھی دہرائی جائے گی.اسی طرح جب یہ بڑے ملک محفوظ نہیں تو چھوٹے ملک جو ہیں وہ کس بات پر بھروسہ کر رہے ہیں، ان کی اسمبلیاں کس طاقت پر زعم کئے بیٹھی ہیں؟ ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں، وہ بھی ختم ہو جائیں گی.لیکن اسلام کے لئے خوشخبری ہے.حقیقی مسلمانوں کے لئے خوشخبری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کے لئے خوشخبری ہے کہ مسیح محمدی کی آمد کے ساتھ اسلام نے دنیا کے کناروں تک پھیلنا ہے.اور پھیل رہا ہے.پس ہماری تبلیغ تو ایک معمولی کوشش ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسلام نے غالب آنا ہے.انشاء اللہ.اور انشاء اللہ آکر رہے گا.لیکن محبت اور پیار کے پیغام سے اور دعاؤں سے.یہی کام ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے.باقی خدائی تقدیر کس طرح فیصلہ کرے گی یا کر رہی ہے یہ جو سب زلزلے، طوفان، تباہیاں ہیں یہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا ایک چکر چل رہا ہے.غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کا ہے اور خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دکھانا ہے.کاش کہ مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کا حصہ بننے کے لئے آپ کی جماعت کا حصہ بنیں اور آپ کے مددگار بنیں اور مخالفتیں ترک کر دیں.اس زمانے میں بھی جو آفات آرہی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ہیں.آفات میں غریب کیوں مارے جاتے ہیں ؟ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ مخالفتیں تو ائمۃ الکفر کر رہے ہیں یا بڑے بڑے لوگ کر رہے ہیں اور آفات سے ہم بیچارے غریب مارے جاتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے ؟.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جواب دیا ہوا ہے آپ کے الفاظ میں پیش کرتاہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : " غرض عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کسی صادق کی حد سے زیادہ تکذیب کی جائے یا اس کو ستایا جائے تو دنیا میں طرح طرح کی بلائیں آتی ہیں.خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں یہی بیان فرماتی ہیں اور قرآنِ شریف بھی یہی فرماتا ہے.جیسا کہ حضرت موسیٰ کی تکذیب کی وجہ سے مصر کے ملک پر طرح طرح کی آفات نازل ہوئیں.

Page 134

خطبات مسرور جلد ہشتم 119 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 جوئیں برسیں، مینڈ کیں برسیں، خون برسا اور عام قحط پڑا.حالانکہ ملک مصر کے دور دور کے باشندوں کو حضرت موسیٰ کی خبر بھی نہ تھی، اور نہ ان کا اس میں کچھ گناہ تھا اور نہ صرف یہ بلکہ تمام مصریوں کے پہلوٹھے بچے مارے گئے.اور فرعون ایک مدت تک ان آفات سے محفوظ تھا اور جو محض بے خبر تھے وہ پہلے مارے گئے.اور حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں جن لوگوں نے حضرت عیسی کو صلیب سے قتل کرنا چاہا تھا ان کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا اور وہ آرام سے زندگی بسر کرتے رہے.لیکن چالیس برس بعد جب وہ صدی گزرنے پر تھی تو طیطوس رومی کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی قتل کئے گئے اور طاعون بھی پڑی.اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ یہ عذاب محض حضرت عیسی (علیہ السلام) کی وجہ سے تھا.ایسا ہی آنحضرت صلی علیم کے وقت میں سات برس کا قحط پڑا اور اکثر اس قحط میں غریب ہی مارے گئے.اور بڑے بڑے سردار، فتنہ انگیز جو دکھ دینے والے تھے ، مدت تک عذاب سے بچے رہے.خلاصہ کلام یہ کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں.جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں.پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں.اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے اَنَا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد ( 42 ).یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں.اس میرے بیان میں ان بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آگیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے.اور کانگڑہ اور بھا گسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہو گئے.ان کا کیا قصور تھا؟ انہوں نے کون سی تکذیب کی تھی؟ سو یا د رہے کہ جب خدا کے کسی مرسل کی تکذیب کی جاتی ہے.خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو.مگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے اور آسمان سے عام طور پر بلائیں نازل ہوتی ہیں.اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل شریر پیچھے سے پکڑے جاتے ہیں جو اصل مبدء فساد ہوتے ہیں.جیسا کہ اُن قہری نشانوں سے جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے فرعون کا کچھ نقصان نہ ہوا، صرف غریب مارے گئے.لیکن آخر کار خدا نے فرعون کو مع اس کے لشکر کے غرق کیا.یہ سنت اللہ ہے جس سے کوئی واقف کار انکار نہیں کر سکتا“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 165 تا 167) ایک اور اقتباس کہ آفتیں کیوں آتی ہیں ؟ وہ بھی پڑھ دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں.طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اکثر غریب مرتے ہیں اور امر اء اور ہمارے بڑے

Page 135

120 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں“.فرمایا: ”لیکن سنت اللہ یہی ہے کہ ائمۃ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں.چنانچہ حضرت موسیٰ کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے اُن سب میں فرعون بچا رہا.چنانچہ قرآنِ شریف میں بھی آیا کہ اَنَا نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد : 42) یعنی ابتد ا عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں.اور بعض کے بچانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں تو بہ کرنی ہوتی ہے یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 200-201 مطبوعہ ربوہ) گذشتہ دنوں چلی میں بھی ایک زلزلہ آیا ہے.اور اس سے دو مہینہ پہلے بیٹی میں بھی زلزلہ آیا تھا.تو چلی میں جو زلزلہ آیا وہ بیٹی کے زلزلے سے 64 گنا زیادہ طاقتور تھا.اور پندرہ لاکھ گھر وں کو مجموعی طور پر نقصان پہنچا جن میں سے پانچ لاکھ تو بہت زیادہ تباہ ہوئے ہیں.اس زلزلے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زلزلے کی جو ریکارڈڈ ہسٹری ہے اس میں یہ ساتواں خوفناک ترین زلزلہ ہے.اس کے بارے میں اور بھی معلومات سائنسدانوں نے دی ہیں.مثلاً یہ کہ زلزلے کے اس جھٹکے سے زمینی دن میں 1.26 سیکنڈ فرق پڑا ہے اور اکثر زلزلوں سے اس طرح فرق پڑتے ہیں.پھر سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین اپنے figure axis جو اس کا مرکز ہے، اس سے تین انچ ہٹ گئی ہے.اور یہ figure axis نارتھ ساؤتھ کا axis نہیں ہے جس کے گرد زمین گھوم رہی ہے.بلکہ سائنسدان کہتے ہیں کہ figure axis وہ ہے جس پر زمین اپنا توازن قائم کرتی ہے.اور ہر زلزلے میں اس میں فرق پڑتا جاتا ہے.گویا یہ بھی زمین کو ہٹاتے چلے جانے کی ایک صورت بن رہی ہے.پھر برف پگھلنے سے زمین کے ڈوبنے کی جو سائنسدان پیشگوئی کر رہے ہیں وہ ایک علیحدہ آفت ہے، جس نے دنیا کو پریشان کیا ہوا ہے.یہ سب مسیح موعود کی تائید میں ہی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلوں کو اپنے نشانوں میں سے ایک نشان قرار دیا ہے.کچھ آپ کی زندگی میں آئے.اور چلی میں بھی ایک زلزلہ 1906ء میں آیا تھا جو آپ کی زندگی میں آیا تھا.اور چلی کے اس زلزلے کی خبر جب آپ تک پہنچی تھی تو اس کو بھی آپ نے اپنا ایک نشان قرار دیا تھا.یہ سب چیزیں جو ہیں، یہ حضرت مسیح موعود کی تائید میں ہی ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ معلوم تاریخ کے مطابق 1570ء سے جو ریکارڈ نظر آیا ہے اس کے مطابق 1835ء تک پانچ زلزلے آئے تھے.1835 ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کا سال تھا.اور پھر 1835ء کے بعد 1868ء میں ایک زلزلہ آیا.پھر آپ کے دعویٰ کے بعد 1906ء کا یہ زلزلہ آیا جس کو آپ نے اپنا نشان فرمایا ہے اور اس کے بعد آج تک پہلے تین سو سال میں تو صرف پانچ ریکارڈ ہوئے تھے.اس کے بعد اس سو سال میں آج تک چلی میں ہی 18 بڑے زلزلے آچکے ہیں.چھوٹے تو وہاں آتے ہی رہتے ہیں.

Page 136

خطبات مسرور جلد ہشتم 121 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 بڑے ہی خوفناک زلزلے آچکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلی کے زلزلے کے حوالے سے ہی فرماتے ہیں.میں اقتباس پڑھتا ہوں.فرمایا: کہ کئی مرتبہ زلزلوں سے پہلے اخباروں میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے.یہاں تک کہ زمین زیر وزبر ہو جائے گی.پس وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فار موساوغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ تو سب کو معلوم ہیں.لیکن حال میں 16/ اگست 1906ء کو جو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چلی کے صوبے میں ایک سخت زلزلہ آیا وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا“.(اس زلزلے کے بارہ میں بھی پتا لگتا ہے کہ تین دن تک تو ساتھ کے شہروں کو پتا ہی نہیں لگا کہ وہاں اتنی زیادہ تباہی ہوئی ہے ).فرماتے ہیں کہ : " جس سے پندرہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے برباد ہو گئے اور ہزارہا جانیں تلف ہوئیں.اور دس لاکھ آدمی اب تک بے خانمان ہیں.شاید نادان لوگ کہیں گے کہ یہ کیونکر نشان ہو سکتا ہے.یہ زلزلے تو پنجاب میں نہیں آئے.مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا تمام دنیا کا خدا ہے.نہ صرف پنجاب کا.اور اس نے تمام دنیا کے لئے یہ خبریں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے.یہ بد قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کو ناحق ٹال دینا اور خدا کے کلام کو غور سے نہ پڑھنا اور کوشش کرتے رہنا کہ کسی طرح حق چھپ جائے.مگر ایسی تکذیب سے سچائی چھپ نہیں سکتی“.دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی پھر فرمایا کہ: یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے.ایسا ہی یورپ میں بھی آئے.اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے.اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے.اور اس قدر سخت موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے.اور زمین پر اس قدر تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہو گی.اور اکثر مقامات زیر وزبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی.اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی.یہاں تک کہ ہر ایک عقل مند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی.اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتا نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پید اہو گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے ؟ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی.اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی.کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے.اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہو تا تو ان بلاؤں میں کچھ

Page 137

122 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تاخیر ہو جاتی.پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے.جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل:16) ( یعنی ہم کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے جب تک ہم وہاں کوئی نبی مبعوث نہ کر لیں.اور مسیح محمدی تو ساری دنیا کے لئے آئے ہیں).فرمایا: اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے.اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو ؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے“.اور اس کے آگے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ اقتباس بھی ہے جو اکثر پڑھا جاتا ہے.جس میں آپ نے فرمایا کہ : ”اے یورپ تو بھی امن میں نہیں.اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ نمبر 267 تا 269) اور یہ وار ننگ خاص طور پر ہندوستان پاکستان کے علاقے کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی عقل دے اور سمجھ دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کو پہچاننے والے ہوں.اور اللہ تعالی کی سزا سے بچیں.ہمیں بھی اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس راستے میں ہر مشکل اور تکلیف ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہو نہ کہ خوفزدہ ہو کر ہم اپنے کاموں سے رک جائیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 13 مورخہ 26 مارچ تا یکم اپریل 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 138

خطبات مسرور جلد ہشتم 123 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010ء بمطابق 12 امان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ حسیب کے حوالے سے ایک تو مومنوں کی حالت کا ذکر ہوا تھا کہ وہ ایمان کی مضبوطی کی وجہ سے ہر ابتلا میں، ہر تکلیف میں جو انہیں مخالفین کی طرف سے پہنچائی جاتی ہے، حَسْبُنَا اللهُ کا اعلان کرتے ہیں اور دنیا داروں کی طرف سے پہنچنے والی کوئی تکلیف، کوئی دباؤ یا کسی بھی قسم کے ظلم کا طریق ان کے ایمان کو کمزور نہیں کرتا.اور دوسری بات یہ ہوئی تھی کہ انبیاء اور مومنین کے مخالفین، ان کے دشمنوں اور انہیں تکلیف پہنچانے والوں سے اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لئے کافی ہے.سَرِيعُ الْحِسَابِ.جس کا مطلب ہے کہ وہ فیصلہ کرلے کہ مخالفین اور زیادتیوں میں حد سے بڑھنے والوں سے کیا سلوک کرنا ہے ؟ تو پھر وہ ہر مغرور اور متکبر کو اس دنیا میں یا آخرت میں پکڑتا ہے.اور اس کے ظلموں کا حساب لیتا ہے.عموماً ظالم انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کسی گرفت سے بچتا ہے.تو سمجھتا ہے کہ میں جو کر رہا ہوں ٹھیک کر رہا ہوں.اور یہ بات اسے ظلم و تعدی میں بڑھا دیتی ہے.وہ بظاہر منہ سے خدا کا نام لے رہا ہو تا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے علم میں ہر چیز ہے.اسے پتہ ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے ؟ پس ایسے لوگوں کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ حساب کا حکم جاری فرماتا ہے.تو بڑا خوفناک انجام ہوتا ہے.اس کی وضاحت ایک حدیث سے یوں ہوتی ہے جس میں بڑا سخت انذار فرمایا گیا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا کہ قیامت کے روز جس کا حساب لیا گیا.اسے عذاب دیا جائے گا.اس پر حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا؟ کہ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يسيرا ( صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہ واھلہا باب اثبات الحساب.حدیث نمبر 7119 دار الفکر بیروت.لبنان 2004ء) یعنی پھر اس سے آسان حساب لیا جائے گا.رسول اللہ علی ایم نے فرمایا کہ یہ وہ حساب نہیں ہے جس حساب کا ذکر قرآن کریم میں ہے.یہ تو صرف پیش ہونا ہے.جس سے قیامت کے روز کرید کرید کر حساب لیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا.

Page 139

خطبات مسرور جلد ہشتم 124 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010 پس یہ بڑا خوفناک انذار ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک پر رحم فرمائے.ایک مومن کا امتیاز تو تقویٰ پر چلنا ہے.اور تقویٰ پر چلنے والا اللہ تعالیٰ کے انعامات سے حصہ پانے والا ہوتا ہے.تقویٰ پر چلنے والے وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں.اپنے اعمال پر نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں.اور جب یہ کوشش ہو رہی ہو تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفت حسیب کس طرح ظاہر ہوتی ہے.اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ اپنے حسیب ہونے کا یوں ذکر فرماتا ہے.فرمایا کہ وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قدرًا ( الطلاق: 4) یعنی وہ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا.اور جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کے لئے کافی ہے.یقیناً اللہ اپنے فیصلہ کو مکمل کر کے رہتا ہے.اللہ نے ہر چیز کا ایک منصوبہ بنا رکھا ہے.“ اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ( الطلاق : 3) یعنی جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا.رزق کا وسیع تر مفہوم پس متقی کو اللہ تعالیٰ رزق عطا فرماتا ہے اور ایسے راستے کھولتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے.ایک متقی رزق کے لئے صرف اور صرف خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے.اور جب تو کل حقیقی ہو تو پھر خد اتعالیٰ اپنے حسیب ہونے کا اور اپنے کافی ہونے کا نظارہ دکھاتا ہے.یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ رزق محدود لفظ نہیں جو اس مادی رزق تک ہی محدود ہو بلکہ اس کے بڑے وسیع معنی ہیں.چنانچہ اس کے معنی لغات میں ہر قسم کے رزق کے بھی کئے گئے ہیں.مادی رزق کے بھی جو زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہے خوراک ہے اور دوسری چیزیں روپیہ پیسہ ہے.اس کے معنی روحانی رزق کے بھی ہیں.روحانیت کے ملنے کے بھی ہیں.اور اس کے معنی علم کی دولت کے بھی ہیں بلکہ تمام انسانی قوی بھی اس میں شامل ہیں.ایک متقی انسان کو اور خد اتعالیٰ پر توکل کرنے والے کو صرف دنیاوی مادی رزق کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر قسم کے رزق کی اللہ تعالیٰ سے خواہش رکھتا ہے.رزق کے وسیع تر معنوں کے لحاظ سے یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم پر بہت اعلیٰ رنگ میں کھولا ہے اور جب آپ یہ مضمون بیان فرماتے ہیں جب اس کی مثالیں بیان فرماتے ہیں تو پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی ال نیم کے اس غلام صادق کی کوئی بات جس کو کسی اعلیٰ ترین مثال سے بیان کرنا مقصود ہو بغیر آقا کے ذکر کے ہو.پس جب آپ روحانی رزق کا بھی ذکر کرتے ہیں تو مثال آنحضرت صلی کمی کی ہی بیان فرماتے ہیں.فرمایا کہ ”برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے

Page 140

125 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم حارج ہوں“.یعنی ایسی مشکلات جن سے دینی امور میں حرج آتا ہو ان سے اللہ تعالیٰ نجات دلاتا ہے.ایسا ہی اللہ تعالیٰ متقی کو خاص طور پر رزق دیتا ہے“.فرمایا کہ ” یہاں میں معارف کے رزق کا ذکر کروں گا.آنحضرت کو باوجو د اُمّی ہونے کے تمام جہان کا مقابلہ کرنا تھا.جس میں اہل کتاب، فلاسفر ، اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق والے لوگ اور عالم فاضل شامل تھے لیکن آپ کو روحانی رزق اس قدر ملا کہ آپ سب پر غالب آئے اور ان سب کی غلطیاں نکالیں.یہ ر روحانی رزق تھا جس کی نظیر نہیں“.رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 35-34- تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 4 صفحہ 401 زیر آیت سورۃ الطلاق:4) قرآن کریم.روحانی مائده قرآن کریم کی صورت میں جو روحانی مائدہ آنحضرت صلی اللہ تم پر اترا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.یہ قرآنِ کریم کا چیلنج ہے کہ اس جیسی ایک سورۃ بھی کوئی نہیں بنا سکتا.چاہے وہ چھوٹی سورۃ ہی کیوں نہ ہو.یہ ایک ایسا رزق ہے اور ایک ایسا علمی اور روحانی خزانہ ہے جو آنحضرت علی علیکم کو دیا گیا.جس نے نہ صرف آپ ملی ایم کی زندگی میں دنیا کے منہ بند کرنے کے نشان دکھائے بلکہ تا قیامت یہ زندہ جاوید کتاب ہے جس میں ایک پڑھنے والے پر، غور کرنے والے پر، تفکر کرنے والے پر ہر نئی ایجاد اور ہر نئے علم کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں.بشر طیکہ غور کرنے کی نظر ہو.جو علم آنحضرت صلی علی نام کو دیا گیا اس میں سے بعض باتیں تو ایسی تھیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.اس وقت تو اُن تک صحابہ کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی تھی.اس لئے بعض باتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں ابھی یہ سمجھ نہیں کہ کون کون سے علمی خزانے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی الم کو دیئے گئے ہیں.مثلاً ایٹم کے بارے میں اس زمانے کے عام مومن تو کیا بڑے بڑے کبار صحابہ جو تھے ، ان کا تصور بھی نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایٹم کی خوفناکیوں کے بارے میں آپ صلی یا نیم کو علم عطا فرمایا جس کا نام قرآنِ کریم نے حُطَمَة رکھا ہے.اور فرمایا وَ مَا ادريكَ مَا الْحُطَمَةُ ( الهمزة: 6) اور تجھے کیا معلوم ہے کہ حُطَمَة کیا ہے.اب یہ صحابہ کو مخاطب کیا گیا ہے.پھر فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جو دلوں تک پہنچتی ہے.یعنی پہلے دل متاثر ہوتے ہیں پھر باقی جسم پر اثر ہوتا ہے.جاپان میں ناگا ساکی میں بھی ایک میوزیم بنایا ہوا ہے.جہاں ایٹم بم پڑا تھا.جس میں ایٹم بم پڑنے کے وقت لوگوں کی جو حالت تھی اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے.جو شخص جہاں بیٹھا ہے وہیں بیٹھارہ گیا.دل بند ہو گیا اور اسی حالت میں رہا اور پھر اسی بیٹھی ہوئی حالت میں یا لیٹی ہوئی حالت میں یا کھڑے ہونے کی حالت میں جسم پر جو کھال وغیرہ ہے وہ پگھل گئی ہے اور لٹک رہی ہے.بہر حال یہ ایک مثال ہے اور ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں.جو جو سائنسی ایجادیں ہو رہی ہیں ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی برتری کو ثابت کرتی ہیں.آنحضرت صلی علیم کے مقام اور آپ کی علمی اور روحانی برتری کو یہ چیزیں ثابت کرتی ہیں.آنحضرت صلی علیم کے

Page 141

126 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم صحابہ جنہوں نے آپ سے روحانی فیض پایا اور اپنی استعدادوں کے مطابق علم و معرفت کے خزانے حاصل کئے.ان کی فکریں بھی دینی اور روحانی رزق کی تلاش میں ہی تھیں.اور بعض تو ایسے تھے کہ دنیاوی اور مادی رزق کو خدا کے سپر د کیا ہوا تھا اور اس کوشش میں ہوتے تھے کہ کب ہمیں علم و معرفت کے خزانے آنحضرت صلی علی کرم کی زبانِ مبارک سے سننے کو ملیں.اور ہم اپنے آپ کو اس رزق سے مالا مال کریں.جن میں ایک مثال حضرت ابوہریرہ کی ہے جو ہر وقت آنحضرت صلی ایام کے در پر بیٹھے رہتے تھے کوئی فکر نہیں ہوتی تھی.بھوک اور پیاس سے برا حال ہو جاتا تھا.لیکن جو علم کا رزق، جو روحانیت کا رزق انہوں نے حاصل کیا وہ آج دیکھیں کہ حضرت ابو ہریرہ کی روایات ہم تک پہنچ کر اس رزق کی تقسیم آج بھی جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گی.تو یہ لوگ تھے جو اپنے رزق سے جو انہوں نے حاصل کیا فیض پانے والے تھے اور فیض پہنچانے والے تھے.بے شک صحابہ کی اکثریت کاروباروں اور تجارتوں میں بھی مصروف ہوتی تھی.لیکن تقویٰ پر چلتے ہوئے ان کی سب سے پہلی اور بڑی خواہش یہی ہوتی تھی کہ وہ روحانیت میں بڑھنے والے ہوں.اور آنحضرت صلی علیم کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے ہوں.اور روحانی مائدوں سے فیض پانے والے ہوں جو آنحضرت صلی للی کم پر تازہ بتازہ اتر تا تھا.اور پھر ان میں سے ایسے تھے جو تھوڑا سا کام بھی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ اس میں ایسی برکت ڈالتا تھا کہ اس کا منافع بے شمار اور بے حساب انہیں دیتا تھا.ایک صحابی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی للی نمی کو ایک دفعہ انہوں نے رزق و برکت میں دعا کے لئے عرض کی.اس کے بعد کہتے ہیں کہ میرے کاروبار میں ایسی برکت پڑی ہے کہ میں مٹی کو بھی ہاتھ لگا تا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی.الشفاء القاضی عیاض جلد اول باب الرابع فيما اظهره على يديه من المعجزات فصل فی اجابة دعائہ صفحہ 200 تا 203 مطبع دار الكتب العلمیہ بیروت 2002) پس جب انہوں نے تقویٰ پر قدم مارا، دین کو دنیا پر مقدم کیا تو دنیا ان کی غلام بن گئی.کئی صحابہ ایسے تھے جو دنیا کے کاروبار بھی کرتے تھے لیکن دنیا کے کیڑے نہیں تھے.جب ان کی وفات ہوئی تو بعض اوقات انہوں نے کروڑوں کا سونا پیچھے چھوڑا.پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے روحانی رزق کے ساتھ مادی رزق کے بے حساب پانے کے نظارے بھی دیکھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : جو خدا کا متقی اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی نظر میں.اس کو خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اُسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ کہاں سے اور کیونکر آتا ہے.خدا کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا ہے اور بڑار حیم کریم ہے.جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہ اسے ہر ذلت سے نجات دیتا اور خود اس کا حافظ و ناصر بن جاتا ہے.مگر وہ جو ایک طرف دعویٰ اتقاء کرتے ہیں اور دوسری طرف شاکی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے ان دونو میں ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا

Page 142

127 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ2010 خطبات مسرور جلد هشتم خدا تعالیٰ پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے.اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا.ہم اس مدعی کو جھوٹا کہیں گے.اصل یہ ہے کہ ان کا تقویٰ یا ان کی اصلاح اس حد تک نہیں ہوتی کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں قابل وقعت ہو یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے.لوگوں کے متقی اور ریا کار انسان ہوتے ہیں.سو ان پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی مار ہوتی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلات دنیا میں مبتلا رہتے ہیں.خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا اور پورا ہے“.پھر فرمایا کہ ”حضرت داؤد زبور میں فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا، جو ان ہوا.جوانی سے اب بڑھاپا آیا مگر میں نے کبھی کسی متقی اور خداترس کو بھیک مانگتے نہ دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو دَر بدر دھکے کھاتا اور ٹکڑے مانگتے دیکھا“.فرمایا ” یہ بالکل سچ اور راست ہے کہ خدا اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسروں کے آگے ہاتھ پسارنے سے محفوظ رکھتا ہے بھلا اتنے جو انبیاء ہوئے ہیں، اولیاء گزرے ہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھیک مانگا کرتے تھے.یا ان کی اولاد پر یہ مصیبت پڑی ہو کہ وہ در بدرخاک بسر ٹکڑے کے واسطے پھرتے ہوں ہر گز نہیں“.فرمایا ”میر اتواعتقاد ہے کہ اگر ایک آدمی باخدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدار حمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے“.(ملفوظات جلد 3 صفحہ 182) ( الحکم جلد 7 نمبر 12 مورخہ 31 مارچ 1903ء صفحہ 5 کالم 1) برکت پس اللہ تعالیٰ کا بننا، تقوی اختیار کرنا بنیادی شرط ہے اور تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش ہر ایک انسان جس کا ایمان لانے کا دعویٰ ہے اس کی اور ہر ایک مومن کی تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش ہونی چاہئے.تقویٰ کے ساتھ دوسری بنیاد اللہ تعالیٰ پر توکل ہے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا متقی یا متوکل بن کر ایک مومن نہ صرف اپنے رزق کے سامان پیدا کرتا ہے بلکہ اپنی نسلوں کے رزق کے سامان بھی پیدا کرتا ہے.یہاں یہ بات بھی واضح ہو کہ متقی کی اولاد اگر ظلم اور بغاوت پر قائم ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کا دوسرا قانون چلتا ہے.اور وہ برک اور حفاظت کا ہاتھ اٹھالیتا ہے.پس حقیقی متقی کی اولاد اس نیک تربیت کی وجہ سے ، ان دعاؤں کی وجہ سے جو وہ اپنی اولاد کے لئے کرتا ہے ، خود بھی تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرنے والی ہوتی ہے.اور اس طرح نیکی کی جاگ کے ساتھ اگلی نسل میں اللہ تعالیٰ کی محبت برکت اور حفاظت کی جاگ بھی لگتی چلی جاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ کسی قانونِ قدرت کے خلاف نہیں اور نہ واقعات کے خلاف ہیں کہ نوح کا بیٹا کیونکر غرق ہو گیا؟ نوح کے بیٹے نے اس تقویٰ سے حصہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ بغاوت کی.اس لئے اپنے انجام کو پہنچا.لیکن ایک نیک اور متقی شخص کی اولاد اگر شرک کے علاوہ کسی بھی قسم کی کمزوری دکھاتی ہے.یانا سمجھی کی وجہ سے مادی رزق میں یا کاروبار میں اُسے کسی قسم کا دھچکا لگتا ہے یا احتمال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات ہی پیدا نہیں کرتا جس کی وجہ سے اس کا اتنا براحال ہو جائے کہ بھوک کے حالات پیدا ہو جائیں بلکہ ان کو جلد سنبھالا دے دیتا ہے اور اگر وہ تقویٰ پر قائم ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے خود بھی دیکھ لیتے ہیں.

Page 143

خطبات مسرور جلد ہشتم 128 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ2010 پھر بعض اوقات بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں.دوسری نیکیاں بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مگر ہمارے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں.یہاں ایک بات ہمیشہ یادرکھنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع میں بیان کی کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں متقی ہو اور اس کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے.ایسے لوگوں کو فکر کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.استغفار پڑھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا.اگر کہیں بھی کمی ہے تو ہمارے اندر کمی ہے.ہماری کوششوں میں ہی کمی ہے.تقویٰ باریک سے باریک نیکیوں کو بجالانے کا، ان کا خیال رکھنے کا نام ہے.پس اگر کہیں ایسی صورت پید ا ہو رہی ہے جہاں باوجود تمام محنت اور کوشش کے حالات بھی بد سے بدتر ہو رہے ہوں، تو ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کاروباری آدمی کے متعلق کاروبار کے سلسلے میں اگر معمولی جھوٹ بھی بولا جائے تو یہ چیز انسان کو تقویٰ سے دور لے جاتی ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ پر توکل کے بھی خلاف ہے.پس اللہ تعالیٰ کے انعامات سے فیض پانے کے لئے ہمیں باریک بینی سے اپنے جائزے لینے ہوں گے.کہ کہیں ہماری باتوں میں جھوٹ کی ملونی تو نہیں؟ کہیں نیت میں کھوٹ تو نہیں؟ جو بھی کام کیا ہے صاف اور کھرا اور قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے کیا ہے ؟ قولِ سدید صرف سچائی کا نام نہیں ہے.بلکہ ایسی سچائی ہے جو واضح طور پر دوسرے کو سمجھ میں آنے والی ہو.پھر عبادت کا حق ہے.متقی بننے کے لئے عبادت کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے.پس حقیقی متقی وہی ہے جو حقوق اللہ ادا کرنے والا بھی ہو اور حقوق العباد ادا کرنے والا بھی ہو.اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا حقیقی طور پر گہرائی میں جاکر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.بعض لوگ بلکہ فی زمانہ تو ایک بہت بڑی تعداد دھوکے سے دولت کما لیتی ہے ، بڑے امیر بن جاتے ہیں اور ظاہر میں بڑی کشائش رکھنے والے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ دولت ان کے لئے آگ ہے.ایک تو اس دنیا میں یہ لوگ بیماریوں کی صورت میں ، مقد موں کی صورت میں، پھر اور تکلیفوں کی صورت میں، بلاؤں کی صورت میں ہر قسم کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں.اور یہ دولت پھر ان کے لئے بے چینی کا باعث بنتی ہے.دوسرے آخرت کی آگ ہے.خدا تعالیٰ اس سے بھی ڈراتا ہے.پس یہ جو ان کی دولت ہے یہ کوئی قابلِ رشک چیز نہیں ہے جس کی طرف ہماری نظر ہو ، ایک مومن کی نظر ہو.بلکہ یہ خوف دلانے والی بات ہے.لیکن مومن کے لئے جب رزق کا ذکر خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو بابرکت رزق کا ذکر فرماتا ہے.اصل مقصود ایک مومن کا روحانی رزق ہے.جو ہر چیز پر مقدم ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی اطمینانِ قلب نصیب ہو تا ہے اور مرنے کے بعد بھی جو دائمی ٹھکانا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ اپنی رضا کا، اپنی جنتوں کا وعدہ فرماتا ہے.پس ایک دنیا دار کے معیار اور ایک مومن کے معیار بہت مختلف ہیں.جس کو خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب ہو وہ دنیا کے پیچھے نہیں دوڑتا.بلکہ دنیاوی مادی رزق کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ مومن کو بغیر حساب کے رزق دینے اور کافر اور دنیادار کے لئے اس دنیا کی آسائشوں میں ڈوبنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.

Page 144

خطبات مسرور جلد ہشتم 129 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010 زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (البقرة: 213) کہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دنیا کی زندگی خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے.اور یہ ان لوگوں سے تمسخر کرتے ہیں جو ایمان لائے.اور وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا وہ قیامت کے دن ان سے بالا ہوں گے.اور اللہ جسے چاہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے.b پس یہ آیت جہاں خاص طور پر کافروں کے دنیا کی دولت کو ہی سب کچھ سمجھنے کے بارے میں بتارہی ہے.وہاں عموم کے رنگ میں ہر دنیا دار کی تصویر کھینچ رہی ہے کہ دنیا دار ایک مومن کو اپنی دولت کی وجہ سے حقیر سمجھتا ہے.طاقتور بظاہر خدا کے نام پر.لیکن دراصل دنیا کے نشے میں ڈوب کر کمزور مومنوں پر زیادتی کرتا ہے.لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت کا بھی ایک دن مقرر ہے.اور اس دن خوب کھل جائے گا کہ ظلم اور تعدی کرنے والے، اپنی حکومت پر زعم کرنے والے، اپنے گروہ کی طاقت کا اظہار کرنے والے کامیاب ہیں یاوہ مسکین جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر زیادتی برداشت کرنے والے ہیں.پس یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے ” وَالَّذِينَ اتَّقَوا“ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ تقویٰ کا حصول اصل جڑ ہے.اس کو حاصل کرنا ضروری ہے.مومنوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اگر تقویٰ نہیں تو صرف ایمان لانا خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں کر سکتا.آج جب ہم عمومی طور پر عالم اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو باوجود اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے کہ جنگوں میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا فروں پر برتری اور فوقیت دیتا ہے.مسلمانوں کی حالتِ زار کا ہی نمونہ ظاہر ہو رہا ہے.یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ تقویٰ کی کمی ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو وعدہ فرماتا ہے کہ میں ایسے ایسے راستے مومنوں کے لئے کھولتا ہوں جس کا ان کو گمان بھی نہیں ہو تا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بغیر حساب دیتا ہوں.اس بغیر حساب کے دیئے جانے کا نظارہ ہمیں قرونِ اولیٰ میں نظر آتا ہے جب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی قربانیوں سے بہت زیادہ بڑھ کر انہیں عطا فرمایا اور جب تک ان میں تقویٰ کا کچھ حصہ بھی قائم رہا اسلامی حکومتوں کا رعب اور دبدبہ قائم رہا.آج بے شک مادی لحاظ سے بعض اسلامی ممالک کو خد اتعالیٰ نے تیل کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود مغربی طاقتوں نے معاشی غلامی کا طوق ان کی گردنوں میں ڈالا ہوا ہے.اور اس وجہ سے غریب مسلمان ممالک کی معیشت کو سنبھالنے میں یہ دولت کام نہیں آرہی یا سنبھالنے کی نیتیں نہیں یا خوف ہے.جو بھی صورتِ حال ہے بہر حال مسلمان مسلمان کے اس طرح کام نہیں آرہا جس طرح آنا چاہئے.اگر کہیں غریب کی مدد کرنی بھی ہو تو پہلے یہ حکومتیں مغربی حکومتوں کی طرف دیکھتی ہیں.ایک تو وہ زمانہ تھا جب باوجود کمزور ہونے کے فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے بھی ، تعداد کے لحاظ سے بھی، دولت کے لحاظ سے بھی، ہر لحاظ سے

Page 145

130 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کمزور ہونے کے مسلمانوں نے ایران کی ناقابل شکست تصور کی جانے والی حکومت اور دوسری بڑی بڑی حکومتوں سے ٹکر لی اور انہیں اپنے زیر کیا.حکومتیں فتح کرنے کے لئے نہیں بلکہ ظلموں کو روکنے کے لئے اس ایمان نے کام دکھایا جو تقویٰ سے پر تھا.پس ان کو اللہ تعالیٰ نے بے حساب دیا.لیکن آج غریب اسلامی حکومتیں جو ہیں وہ تو مغربی ممالک کی طرف دیکھتی ہی ہیں.بظاہر چند ایک جو دولت مند حکومتیں ہیں وہ اپنے حقیقی رب اور مالک اور معبود کو چھوڑ کر دنیاوی ربوں اور مالکوں اور معبودوں کی طرف نظر کئے ہوئے ہیں.یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے.جس نے ان لوگوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے دنیا کے لئے رہنما بنایا تھا.محکوم بنایا اور ایک طرح کی غلامی کی زنجیریں ہیں جن میں یہ مسلمان جکڑے گئے ہیں.اور یہ بات یقیناً اللہ تعالیٰ کی آخری تقدیر کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے إِنَّ اللهَ بَالِغ آمده (الطلاق: (4) کہ یقینا اللہ اپنے فیصلے کو مکمل کر کے رہتا ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا کئی جگہ قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول غالب آتے ہیں (المجادلہ:22).دنیا کی تقدیر اب اسلام کے ساتھ وابستہ ہے لیکن کس طرح؟ اس کا جواب یہ ہے.اس طرح جس طرح صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ ہم سے فیض پا کر دنیا کو اپنی لونڈی بنایا تھا اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تھا.تقویٰ کی باریک راہوں کی تلاش کی اور اس پر چلے.اسلام کی خاطر جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوئے.دشمن کے حملوں اور زیادتیوں سے تنگ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہجرت کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے ایسے دروازے کھولے جن کو شمار کرنا بھی مسلمانوں کے لئے مشکل ہو گیا.اس کے بعد پھر بغیر حساب دیئے جانے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی جگہ یوں فرمایا ہے.فرمایا.قُل لِعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَ اَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةُ إِنَّمَا يُوَقَى الصُّبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (الزمر:11) " تو کہہ دے کہ اے میرے بند وجو ایمان لائے ہو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو.ان لوگوں کے لئے جو احسان سے کام لیتے ہیں اس دنیا میں بھی بھلائی ہو گی اور اللہ کی زمین تو وسیع ہے.یقیناً صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے ان کا بھر پور اجر دیا جائے گا.“ اس زمانے میں مسلمانوں کی جو حالت زار تھی.جب اسلام کی ابتداء تھی تو مسلمان مکہ میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہتے تھے.آنحضرت صلی لیلی کیم کی ذات تک پر کفار ظلم کرنے سے باز نہیں آتے تھے اور غریب مسلمانوں پر تو ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے مردوں عورتوں کو شہید بھی کر دیا جا تا تھا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو فرما رہا ہے.پہلی بات یہ کہ ایمان کے ساتھ تقویٰ سب سے بنیادی شرط ہے اور پھر فرمایا جو تقویٰ پر چلتے ہوئے تمام نیکیاں بجالانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں آخرت کے علاوہ اس دنیا میں بھی اجر ملے گا.پھر فرمایا.جب مکہ میں ظلم کی انتہاء ہو گی تو اس ظلم سے بچنے کے لئے تمہارے لئے بہتر ہے کہ ہجرت کر جاؤ.اور یہ ہجرت جو ہے تمہارے T

Page 146

131 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم لئے وسعتوں کے سامان پیدا کرے گی.یہ نہ سمجھو کہ جو ظلم تم پر ہوئے یہ یونہی رائیگاں چلے جائیں گے.ہر ہر ظلم کے بدلے میں خد اتعالیٰ تمہیں ایسے اجروں سے نوازے گا جن کا تم شمار بھی نہیں کر سکتے اور یہی صبر کرنے والوں کی جزا ہے.اور پھر جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ ان صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ایک بڑے حصے کا حکمران بنادیا.ان کو حکومتیں عطا ہوئیں.پس وہ تقویٰ تھا، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی تھی جس نے نہتوں اور کمزوروں کو حکومتیں عطا فرمائیں.آج یہ مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ حکومتیں ہونے کے باوجود ایک لحاظ سے محکوم ہیں لیکن ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کیونکہ سچے وعدوں والا ہے ، اس نے یہ تمام نظارے آنحضرت صلی یہ تم کو پہلے دکھا کر یہ بھی بتادیا تھا کہ تقویٰ اور صبر کے پھل صرف کسی زمانے تک محدود نہیں.بلکہ جس طرح قرونِ اولیٰ کے مومنوں نے نمونے دکھائے اور یہ پھل کھائے.ایک تاریک زمانے کے بعد مومنین پھر یہ پھل کھائیں گے اور آنحضرت صلی الم کو یہ خوشخبری دی کہ غلبہ اسلام تیرے عاشق صادق اور اس کی جماعت کے ذریعے سے ہو گا اور یہی حالات جو بیان ہوئے ہیں ہزاروں مسلمانوں پر من حیث الجماعت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت پر بھی گزریں گے اور جس طرح ابتداء میں مسلمانوں پر زمین تنگ کی گئی تھی تو اسلام کے پھیلنے کے دروازے کھلتے چلے گئے، اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام پر بھی زمین تنگ کی جائے گی اور اس کے بعد یہ راستے کھلیں گے.اس لئے آنحضرت صلی علیم نے مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی تھی بلکہ وصیت فرمائی تھی کہ تم اس زمانے میں مسیح محمدی کو تنگ کرنے والوں میں سے نہ ہو جانابلکہ اس کو جاکر میر اسلام پہنچانا اور اس کی مدد کرنا.(المعجم الاوسط جلد 3 من اسمه عیسی حدیث نمبر 4898 صفحہ 383-384.دار الفکر ، عمان اردن طبع اول 1999ء) آج ہر احمدی گواہ ہے کہ پاکستان میں جماعتی طور پر ہمارے پر زمین تنگ کی گئی.مختلف قسم کی پابندیاں لگائی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے آج 195 ممالک میں احمدیت کا پودا لگا دیا.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ افراد کی ترقی جماعت کی ترقی سے وابستہ ہے.انفرادی نقصانات سے جماعت کی ترقیاں رک نہیں جاتیں.پہلے زمانے میں بھی مسلمانوں کی شہادتوں نے نئی حکومتوں کے دروازے کھولے تھے اور آج بھی احمدیوں کی قربانیاں احمدیت کی ترقی کا باعث بنتی چلی جارہی ہیں.آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں مسیح محمدی کا پیغام نہیں پہنچ رہا.جہاں آنحضرت مصلی املی کم پر درود بھیجنے والے موجود نہیں.دنیا میں اس وقت MTA کے ذریعہ سے ہر جگہ پیغام پہنچ رہا ہے اور جب MTA کے ذریعے سے درود پڑھا جاتا ہے تو دنیا کے ان ملکوں میں چاہے کوئی پڑھنے والا ہو نہ ہو ، اس کی فضاؤں میں وہ درود بہر حال پھیل رہا ہے.اس وقت جیسا کہ میں نے کہاد نیا کے 195 ممالک ایسے ہیں جہاں MTA کا چینل دیکھا اور سنا جا رہا ہے لیکن دنیا کے کسی اور چینل کی یہ ضمانت نہیں ہے کہ ایک وقت میں تمام بر اعظموں کے 195 ممالک میں ان

Page 147

132 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کاٹی وی چینل دیکھا اور سنا جاتا ہو.اور یہ چینل احمدیوں کے علاوہ غیر از جماعت بھی دیکھ رہے ہیں.بعض اعتراض تلاش کرنے کے لئے دیکھتے ہیں.بعض علم کے حصول کے لئے دیکھتے ہیں.لیکن بہر حال دیکھا ضرور جاتا ہے.پس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ الہی جماعتوں کی یہی نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ جب ان پر زمین تنگ کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے اور جگہوں پر اور مختلف رنگ میں اور مختلف طریقوں سے وسعت کے سامان پید ا فرما دیتا ہے اور مسیح محمدی کی جماعت کے ساتھ یہ سلوک تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایا اور فرمانا تھا کہ اسلام کی آخری فتح اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرت صلی علیم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے ہونی ہے.انشاء اللہ.اللہ کرے کہ ہم انفرادی طور پر بھی اس اہم ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے والے ہوں جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے بغیر حساب آجر کے نظارے دیکھنے والے ہوں.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 14 مورخہ 2 اپریل 18اپریل 2010 صفحہ 5 تا 7)

Page 148

خطبات مسرور جلد ہشتم 133 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010ء بمطابق 19 امان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج میں پہلے تو ایک امر کا ذکر کروں گا جو گزشتہ خطبہ کا ہی حصہ ہے جس کے بارہ میں گزشتہ خطبہ میں توجہ نہیں دلا سکا.اس کے بعد پھر بعض آیات کی وضاحت ہو گی جو آج کا مضمون ہیں.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ رزق صرف مادی رزق اور دولت کا نام نہیں بلکہ انسان کی تمام تر روحانی صلاحیتیں اور جو قویٰ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشے ہیں رزق کے زمرہ میں آتے ہیں.یا کسی بھی قسم کی صلاحیتیں جو اس میں موجود ہیں اور یہ رزق بھی تمام و کمال اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی علیہ ہم کو عطا فرمایا تھا جو آگے صحابہ کو آپ نے بانٹا.اس میں ایک تو قرآن کریم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا اور دوسرے آپ کی سنت، آپ کے ارشادات، جن سے صحابہ نے روحانی فیض پایا اور خوب خوب اپنی جھولیاں بھریں.اور پھر آخری زمانہ کے لئے بھی آپ صلی علیہم نے پیشگوئی فرمائی کہ جس طرح دنیا روحانی دیوالیہ پن کا شکار تھی.آنحضرت صلی الم کے زمانہ میں اور اس میں انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور میرے آنے سے یہ روحانی رزق تقسیم ہوا اور اس رزق سے پھر ہزاروں لاکھوں روحانی مردوں میں جان پڑ گئی.تو ایک وقت آئے گا کہ خال خال کے علاوہ پھر مسلمانوں میں بھی اس رزق کی کمی ہو جائے گی.اس روحانی مائدہ اور خزانہ پر توجہ نہ دے کر عمومی مسلمان بھی اس روحانی دولت سے بے فیض اور محروم ہو جائیں گے.اور اُس وقت پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جری اللہ ، مسیح موعود اور مہدی موعود کی صورت میں آئے گا اور پھر میرے اس خزانے کو تقسیم کرے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ خزانے تقسیم کرنے تھے اور کئے جن کے بارہ میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اب میں وہ حدیث جو ابو داؤد نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کر کے اس کے مصداق کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں.سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جو ابو داؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص

Page 149

134 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم حارث نام یعنی حراث ، ماوراء النہر سے یعنی سمرقند کی طرف سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے گا.جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہو گی اور الہامی طور پر مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہو گا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں“.(ایک ہی مضمون رکھتی ہیں) اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے.مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے.اس کی علامات خاصہ در حقیقت دو ہی ہیں.ایک یہ کہ جب وہ مسیح آئے گا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہو گی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کر جواہرات علوم حقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا.یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نادار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پر کر دی جائیں گی اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے ان کو دئے جائیں گے “.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 141-142 حاشیہ) پس یہ روحانی خزانہ ہے جسے ایک طرف تو وہ بد قسمت لوگ ہیں جو اسے لینے سے انکار کر رہے ہیں اور دوسری طرف سچائی کے بھو کے اور پیاسے ہیں جو اس سے سیر ہو رہے ہیں اور ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روحانی علوم و معارف کا وہ خزانہ ہمیں دے دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے نوازنے والا اور آنحضرت صلی لام کی محبت دلوں میں بھرنے والا ہے اور تمام ادیان پر اسلام کی سچائی ثابت کر کے دکھلانے والا ہے.پس ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس علمی اور روحانی خزانے سے اپنی جھولیاں بھریں اور کامیاب اور بامر ادہوں.اردو پڑھنے اور سمجھنے والے تو آپ کے اس روحانی خزانے کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کر رہے ہیں اور کرنی چاہئے.میں پہلے بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ تمام ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی اس بات کا خاص اہتمام کریں.اور اردو نہ جاننے والے آپ کا کلام جو دوسری زبانوں میں جس حد تک میسر ہے اس سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں.تراجم کا کام بھی ہو رہا ہے.انگریزی زبان میں زیادہ اور دوسری زبانوں میں ذرا کم یا کچھ حد تک.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس روحانی خزانے کو جلد از جلد دنیا تک مختلف زبانوں میں پہنچانے والے ہم بن سکیں.آج کی جو آیات میں نے صفت حسیب کے حوالے سے چنی ہیں اب میں ان کے بارہ میں کچھ کہوں گا بات کروں گا.سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَ اِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوِ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمُ بِهِ اللهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة:285) که

Page 150

135 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اللہ ہی کا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور خواہ تم اسے ظاہر کر و جو تمہارے دلوں میں ہے یا اسے چھپاؤ اللہ اس کے بارہ میں تمہارا محاسبہ کرے گا.پس جسے وہ چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.ایک مومن کا ایمان تبھی مکمل ہوتا ہے جب وہ ہر وقت اپنے نفس پر نظر رکھنے والا ہو اور اس کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت علی ایم کے ذریعے ہمیں عطا فرمائی ہے.ورنہ اس کی ظاہری عبادتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.اس کی جماعتی خدمات بھی جو وہ بجالا رہا ہوتا ہے اور جس کو دنیا یعنی اس کے اردگرد کے لوگ اور معاشرے کے لوگ بعض دفعہ بڑا سر او رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اسے علم ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے.تو اگر صرف دکھاوے کے لئے ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اگر تبلیغ کر کے پیغام پہنچارہا ہے لیکن اپنے عمل اس کے مطابق نہیں تو یہ بات بندوں سے تو چھپی رہ سکتی ہے خدا تعالیٰ سے نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے مومن پر یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور جو پوشیدہ نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا اجر بھی اس کے مطابق ہے جو کسی کے اپنے نفس کی کیفیت اور حالت ہے.اس لئے آنحضرت صلی ا ہم نے بھی فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.( صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف كان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اہل حدیث نمبر (1) یعنی کسی بھی عمل کو اس کی نیت کے مطابق پر کھا جائے گا جو کسی بھی عمل کرنے والے کے دل میں ہے.اب نیتوں کا حال تو صرف خدا ہی جان سکتا ہے اور جانتا ہے اس لئے مومنوں کو واضح کیا کہ جس خدا نے زمین و آسمان پیدا کیا ہے وہ اس میں موجود ہر چیز کی کنہ تک سے واقف ہے اور انسان بھی اس سے باہر نہیں ہے.پس جب اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے جو تم چھپ کر کرتے ہو یا ظاہر کرتے ہو اس سے واقف ہے بلکہ ہر خیال جو تم دل میں لاتے ہو اس سے بھی واقف ہے تو اپنے نفسوں کا تزکیہ کرو.اپنے دلوں کو خالصتاً خدا تعالیٰ کے لئے پاک کرنے کی کوشش کرو.پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يُحَاسِبُكُم بِهِ اللهُ (البقره: 285) یعنی اللہ تعالیٰ اس کا حساب لے گا تو اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے تمہارے عمل تمہارے دل کی حالت اور نیت کے مطابق جزا پائیں گے.قرآن کریم میں ایک اور مقام پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ نَضَحُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيِّمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَ إِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ آتَيْنَا بِهَا ، وَ كَفَى بِنَا حسبِينَ (الانبیاء: 48) اور ہم قیامت کے دن ایسا پورا تو لنے والے سامان پیدا کریں گے کہ جن کی وجہ سے کسی جان پر ذرا سا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو گا تو ہم اسے موجود کر دیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں.

Page 151

136 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم پس اللہ تعالیٰ ہر جزا سزا انسان کے عمل کے مطابق دیتا ہے اور کبھی ظلم نہیں کرتا.لیکن کیونکہ دلوں کی پاتال تک سے بھی واقف ہے.ہر عمل کا محرک اور نیت اس کے علم میں ہے اس لئے اس بات کا بھی حساب ہو گا کہ نمازیں خد اتعالیٰ کی خاطر پڑھی جارہی تھیں یا دکھاوے کے لئے.صدقات خد اتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے جارہے تھے یا دئے جارہے تھے یاد کھاوے کے لئے.یا جو بھی نیکیاں ہیں ان کے کرنے کا محرک کیا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تزکیہ نفس ہر وقت تمہارے مد نظر رہنا چاہئے اور اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہر عمل بجالانا چاہئے.پھر برائی یا نیکی کے بعض خیالات ہیں ان کی جزا بھی خدا تعالیٰ دیتا ہے لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اس لئے ہر برائی کا خیال جو دل میں آتا ہے اس کی پکڑ نہیں کرتا.بلکہ اس خیال کو جب انسان دل میں بٹھالیتا ہے اور موقع ملنے پر اس بد خیال کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر قابل مواخذہ ہوتا ہے.جیسے مثلاً ایک انسان دشمنی میں یا کسی بھی قسم کے بغض اور کینے کی وجہ سے دوسرے انسان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے گو عملاً نقصان نہ پہنچایا ہو کو لیکن دل میں یہ خیال جمائے بیٹھا رہے کہ جب بھی موقع ملا اس کو نقصان پہنچاؤں گا تو ایسے عمل پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں.لیکن کیونکہ انسان کمزور واقع ہوا ہے اور برائی کے خیالات بھی دل میں آسکتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ ہر عمل پر فوری پکڑ نہیں لیتا.لیکن اگر انسان نیت کرے کہ میں نے کرنا ہے تب پکڑ میں آتا ہے.اگر انسان ایسے بُرے خیالات پر عمل کرنے کی نیت نہ کرے اور موقع کی تلاش میں نہ رہے تو ایسے بد خیالات جو انسان کے دل میں آتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے.اس بارہ میں آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ اگر میر ابندہ کوئی براکام کرنے کا سوچے تو یہ گناہ نہیں لکھنا.لیکن اگر وہ اس کو عملی شکل دینے کی کوشش کرے تو پھر اس کا گناہ لکھا جائے گا.اور اگر کوئی نیکی کا ارادہ کرے مگر وہ کر نہ سکے یا کسی وجہ سے رک جائے تو ایک نیکی لکھ لو اور اگر عملاً اس نیکی کو سر انجام دے دے تو اس کے بدلے میں دس نیکیاں لکھو.( صحیح مسلم کتاب الایمان باب اذا هم العبد بحسية كتبت...حدیث نمبر (233) پس اللہ تعالیٰ تو اس طرح اپنے بندوں پر مہربان ہے.ایک مومن کا کام ہے کہ اپنے اعمال اور اپنی نیتوں کو درست کرنے کی کوشش کرتا رہے.اپنے گناہوں اور اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے تاکہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمت سے حصہ پائے اور عذاب سے بچے.پھر ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكُل اِنْسَانِ الْزَمْنَهُ طَبِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ كِتبًا يَلْقُهُ مَنْشُورًا - اِقْرَأْ كِتَبَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (بنی اسرائیل:15-14) اور ہر انسان کا اعمالنامہ ہم نے اس کی گردن سے چمٹا دیا ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے لئے اسے ایک ایسی کتاب کی

Page 152

خطبات مسرور جلد ہشتم 137 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 صورت میں نکالیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا.اور اگلی آیت میں ( یہ دو آیتیں ہیں ) فرمایا کہ اپنی کتاب پڑھ ،اللہ فرمائے گا آج کے دن تیر انفس تیر احساب لینے کے لئے کافی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں پھر انسان کو متنبہ کیا ہے کہ اپنے اعمال پر نظر رکھو.یہ نہ سمجھو کہ ایک عمل نیک یا بد جو تم نے بھی کیا ہے وہ بھولی بسری چیز بن گئی ہے.ایک تو جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چاہے چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ کرے گا جو بھی تمہارے دل میں ہے.یہاں مزید کھولا کہ چھپانے کا کیا سوال ہے تمہارا ہر عمل تمہاری گردن کے ساتھ لٹکا دیا گیا ہے.ایک ڈائری ہے جو روز کی بن رہی ہے جس میں نیکیاں بھی لکھی جار ہی ہیں اور بدیاں بھی لکھی جارہی ہیں اور قیامت کے دن یہ کتاب کھل کر سامنے آجائے گی.بعض دفعہ کیا بلکہ اکثر اوقات انسان اپنی برائیوں کو یاد نہیں رکھتا یا ان کو اتنی اہمیت ہی نہیں دیتا کہ وہ یاد رہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب جو لکھی جارہی ہے ، جو تمہاری گردن میں لٹکائی گئی ہے اس میں ہر واقعہ مع تاریخ اور وقت کے لکھا جارہا ہے.ہر عمل جو تم کرتے ہو اس پر لکھا جارہا ہے اور یہ تمہارے اعمالنامے کا ایک دائمی حصہ بن چکا ہے.اس سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا.پس انسان کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی لکھا ہو ا سامنے ہو گا.اس لئے بجائے اس کے کہ انسان مرنے کے بعد اعمالنامے کو پڑھے اور پھر اگر بُرے اعمال ہیں تو خفت اٹھانی پڑے یا اللہ تعالی کی سزا کا مستوجب بنے.انسان کو اس زندگی میں اپنا روز محاسبہ کرنا چاہئے اور یہ جو روزانہ کا محاسبہ ہے وہ جہاں انسان کو معاشرہ کی نظروں سے بچاتا ہے وہاں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بناتا ہے.بہت سارے کام انسان معاشرے میں کرتا ہے اور پھر لوگ اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں.لیکن اگر انسان خود اپنا محاسبہ کر رہا ہو تو جہاں یہ محاسبہ ہر وقت انسان کو محتاط کرے گا وہاں لوگوں کی نظروں سے بھی انسان بچے گا.پس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جب کتاب ملے تو نیک اعمال لئے ہوئے ہو گو کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو تا ہے.لیکن اس کے فضل کے حصول کے لئے بھی اسی کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے.ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبَهُ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يسيرا ( الانشقاق : 9-8) تو اس سے جلد ہی آسان حساب لیا جائے گا.داہنے ہاتھ سے مراد نیکیاں ہیں.ایسے لوگوں کی برائیوں پر نیکیاں غالب ہوں گی اور حساب آسان ہو گا.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یہ حساب آسان کر دے گا.اور دوسرا اگر وہ وہ ہے جس کا حساب مشکل ہو گا.ان کو پیٹھ پیچھے سے کتاب دی جائے گی.میں نے گزشتہ خطبہ میں ایک حدیث بھی سنائی تھی کہ مومنوں کا جو حساب ہے وہ حساب نہیں ہے.(مسلم كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها ـ باب : اثبات الحساب -.حدیث نمبر (7119)

Page 153

138 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم آسان حساب ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے گا.تو ایسا گروہ جن کو پیٹھ پیچھے سے کتاب دی جائے گی، اللہ تعالیٰ انہیں یہ کتاب دے کر فرمائے گا کہ یہ کتاب پڑھ اور پھر اپنا محاسبہ کر.کیونکہ تیر انفس خود ہی حساب کے لئے کافی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يشاء وہ جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا تو کسی زبر دستی کی وجہ سے نہیں ہے.بلکہ ہر انسان کو اس کی کتاب دے کر فرمائے گا کہ اقرا كتبك (بنی اسرائیل: 15) کہ اپنی کتاب پڑھ.اور بد اعمال کرنے والوں کے نفس خود یہ گواہی دے رہے ہوں گے کہ ہاں ہمارے عمل ہی ایسے ہیں جو ہمیں سزا کا مستوجب بنارہے ہیں.اللہ تعالیٰ کسی سے بے انصافی نہیں کرتا.وہ تو رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل کی جزا دیتا ہے.چھوٹے سے چھوٹے عمل کی بھی جزا دیتا ہے.ہاں وہ کیونکہ ہر چیز پر قادر ہے اس لئے چاہے تو بخش بھی سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف بار بار یہی فرماتا ہے کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے.بلکہ اس کے تمام نظارے اسی دنیاوی زندگی کے اظلال و آثار ہیں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.ہم نے اسی دنیا میں ہر ایک شخص کے اعمال کا اثر اس کی گردن سے باندھ رکھا ہے اور انہی پوشیدہ اثروں کو ہم قیامت کے دن ظاہر کر دیں گے اور ایک کھلے کھلے اعمالنامے کی شکل پر دکھاویں گے.اس آیت میں جو طَائِیر کا لفظ ہے تو واضح ہو کہ طَائِر اصل میں پرندے کو کہتے ہیں پھر استعارے کے طور پر اس سے مراد عمل بھی لیا گیا ہے.کیونکہ ہر ایک عمل نیک ہو یا بد ہو وہ وقوع کے بعد پرندے کی طرح پرواز کر جاتا ہے اور مشقت یا لذت اس کی کالعدم ہو جاتی ہے اور دل پر اس کی کثافت یا لطافت باقی رہ جاتی ہے“.( ہر عمل کو انسان بھول جاتا ہے اور پھر اس کا نیکی یا بدی کا جو اثر ہے وہی دل پر قائم رہتا ہے.) فرمایا کہ “ یہ قرآنی اصول ہے کہ ہر ایک عمل پوشیدہ طور پر اپنے نقوش جماتا رہتا ہے.جس طور کا انسان کا فعل ہو تا ہے اسی کے مناسب حال ایک خدا تعالیٰ کا فعل صادر ہوتا ہے اور وہ فعل اس گناہ کو یا اس کی نیکی کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اس کے نقوش دل پر ، منہ پر ، آنکھوں پر ، کانوں پر ، ہاتھوں پر ، پیروں پر لکھے جاتے ہیں اور یہی پوشیدہ طور پر ایک اعمالنامہ ہے جو دوسری زندگی میں کھلے طور پر ظاہر ہو جائے گا“.( اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 400-401) اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف بھلائی اور خیر کے کرنے اور برائی اور شر سے بچنے کی طرف تاکید نہیں فرمائی بلکہ اس حقیقت کی وجہ سے کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اور کمزوریوں اور گناہوں کی طرف راغب ہو سکتا ہے اور ان عملوں کی وجہ سے سزا کا مستوجب بن سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمت نے بندے پر یہ بھی احسان فرمایا ہے کہ اسے اپنی رضا کے حصول کے لئے دنیا و آخرت کی حسنات کے حاصل کرنے کے لئے دوزخ کے عذاب سے

Page 154

خطبات مسرور جلد ہشتم 139 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 بچنے کے لئے دعائیں بھی سکھا دی ہیں تاکہ یہ دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کو نیک اعمال کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی رہے اور برائیوں سے بچنے کا احساس بھی رہے.سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ دو آیات ہیں کہ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة:202) اور انہیں میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے ربّ ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پھر فرمایا أُولبِكَ لَهُم نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (البقرة: 203) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ایک بڑا اجر ہو گا اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے.پس پہلے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن کے اعمال اور کوششیں صرف اس دنیا کی حسنہ کے حصول تک ہی محدود نہیں رہتیں.ایک تو وہ دنیا کی حسنات کی تلاش میں بھی رہتے ہیں.دوسرے آخرت کی حسنات کی تلاش میں بھی رہتے ہیں.تیسرے آگ کے عذاب سے بچنے کی بھی دعا کرتے ہیں.اور آگ کا عذاب صرف آخرت میں آگ کا عذاب نہیں ہے بلکہ ہر ایسی چیز جو کسی بھی انسان کے لئے تکلیف کا باعث بن سکے وہ آگ کا عذاب ہے.اللہ تعالیٰ اس سے بچائے.یہ دعا ان کی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رہتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر خیر کے وہ متلاشی ہوتے ہیں.چاہے وہ دنیا کی خیر ہو یا آخرت کی خیر ہو اور ہر اس عمل سے خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں خدا تعالیٰ سے دور لے جاکر عذاب کا باعث بنائے.پس یہ بڑی جامع دعا ہے اور ہر طبقہ اور استعداد کے انسان کے لئے اس کی روحانی اور دنیاوی ترقی کے لئے بہت اہم دعا ہے جو ہمیں بہت زیادہ کرنی چاہئے اور ایک حقیقی مومن کو خاص طور پر آنحضرت صلی الیکم نے یہ تلقین فرمائی ہے کہ اپنی دنیا و آخرت کی حسنات کے لئے یہ دعامانگا کرو.ت کی حسنا.( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول النبی صلی للی کم ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ، حدیث نمبر 6389) پس اس دنیا کی حسنات طلب کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو طلب کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک حسنات ہیں.جس میں پاک رزق بھی شامل ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی شامل ہے.نیک اعمال بھی شامل ہیں جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہیں.احسن رنگ میں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عبادات بھی شامل ہیں.اور پھر ان حسنات کی وسعت اس طرح ہے کہ جو حسنات ایک انسان کے علم میں ہیں یا نہیں وہ بھی ایک مومن خد اتعالیٰ سے مانگتا ہے اور جب یہ حسنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہوں گی تو دنیا کی ہر قسم کی تکلیفوں اور ایسے اعمال سے جو اسے آگ کے عذاب کا مورد بنا سکتے ہوں اللہ تعالیٰ ایک حقیقی مومن کو بچالیتا ہے اور یہ دنیا کی حسنات ہی آخرت کی حسنات سے نوازے جانے کا باعث بھی بنتی ہیں.

Page 155

خطبات مسرور جلد هشتم 140 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو اقتباس میں نے لئے ہیں جو اس پر بڑی روشنی ڈالتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : ”مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں.کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے ( یعنی مومن کا ) ” اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو.جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یااور زادراہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے.نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات.اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً (البقرة:202) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے.لیکن کس دنیا کو ؟ حَسَنَة الدنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہو جاوے.اور اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حَسَنَة الدُّنْيَا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو کہ ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئیں.دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو نہ وہ طریق کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو ، نہ ہم جنسوں میں کسی عار اور شرم کا باعث.ایسی دنیا بیک حسنة الآخرة کا موجب ہو گی.پس یاد رکھو کہ جو شخص خدا کے لئے زندگی وقف کر دیتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ بے دست و پا ہو جاتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ دین اور الہی وقف انسان کو ہو شیار اور چابکدست بنا دیتا ہے.سستی اور کسل اس کے پاس نہیں آتا.حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا.تو میرے باپ نے جواب دیا کہ میں بڑھاہوں کل مر جاؤں گا.پس اس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگاوے.( پھر راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریم صلی الیکم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے.میں پھر کہتا ہوں کہ سست نہ بنو.اللہ تعالیٰ حصول دنیا سے منع نہیں فرماتا بلکہ حسنۃ الدنیا کی دعا تعلیم فرماتا ہے.( الحکم جلد 4 نمبر 29 مورخہ 16 اگست 1900ء صفحہ 3-4) ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه 695-694 زير سورة البقرة آيت (202) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے جو یہ حدیث یہاں کوٹ (Quote) کی اس کا مطلب تھا کہ میں تو اب مر رہا ہوں مجھے دنیا کی حسنات سے کیا غرض ہے.لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیں تمہیں جب تک تمہاری

Page 156

141 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم زندگی ہے اس دنیا کی حسنات کے لئے بھی کوشش کرتے رہو.اگر اپنے لئے نہیں تو اپنی اولاد کے لئے ، جو بعد میں آنے والوں کے لئے بھی دنیاوی حسنہ بن جائے.اور بعض دفعہ اولاد کے لئے دنیاوی سامان کرنا بھی دین کے لئے ضروری ہو جاتا ہے تا کہ اولاد در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے اور کوئی مجبوری، غربت، افلاس انہیں دین سے دور نہ کر دے اور اس طرح وہ اپنی عاقبت بگاڑ لیں.یعنی حسنہ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی نسلوں کے لئے بھی دنیا کی بعض حسنات ہیں جو جاری ہو جاتی ہیں اور ہمیشہ جاری رہتی ہیں بشر طیکہ اولاد کی روحانی تربیت بھی ہو اور اس حسنہ سے بھی وہ فائدہ اٹھا رہے ہوں اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں.اور پھر اپنے والدین کے لئے ایسی اولاد ہی ہے جو دعا بھی کرتی ہے اور یہ دعا پھر ان کی آخرت کی حسنات کا موجب بن جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن شریف میں سکھاتی ہے کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّنِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل : 25) کہ ان سے رحم کا سلوک فرما، میرے بچپن میں جو رحم فرماتے رہے.مجھے انہوں نے اس دنیا کی حسنات سے نوازا.پھر ایک اور اقتباس ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے.ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب شدائد اور ابتلاء وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے.دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے.تو دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء: 29)“ فرمایا کہ دو چیزیں ہیں جن چیزوں کا انسان محتاج ہے.ایک تو اس دنیا کی زندگی ہے جو مختصر زندگی ہے گو کہ بعض دنیا دار اس کو بہت لمبی زندگی سمجھتے ہیں اس میں جتنی مصیبتیں آتی ہیں، مشکلات آتی ہیں تکالیف آنی ہیں ابتلاء آنے ہیں ان سے بچنے کے لئے کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بچے.دوسرے فسق و فجور اور جتنی روحانی بیماریاں ہیں جو اسے خدا سے دُور کر دیں ایک دیندار کے لئے یہ بھی بڑا ضروری ہے کہ وہ ان سے بھی نجات پائے تو یہ دنیا کی حسنات ہیں ؟ فرمایا کہ ایک ناخن ہی میں درد ہو تو زندگی بیزار ہو جاتی ہے...اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے جیسے بازاری عورتوں کا گروہ ہے کہ ان کی زندگی کیسی ظلمت سے بھری ہوئی اور بہائم کی طرح ہے کہ خدا اور آخرت کی کوئی خبر نہیں.تو دنیا کا حسنہ یہی ہے کہ خدا ہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیاکا ہو خواہ آخرت کا ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے اور فِي الْآخِرَةِ حَسَنَة میں جو آخرت کا پہلو ہے وہ بھی دنیا کی حسنہ کا ثمرہ ہے.اگر دنیا کا حسنہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے“.( اگر اس دنیا میں انسان کو حسنہ دنیا کی حسنات مل جائیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اوپر ذکر فرمایا.تو فرمایا کہ وہ آخرت کے لئے نیک فال ہے.یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حسنہ کیا مانگتا ہے آخرت کی بھلائی ہی مانگو.صحت جسمانی وغیرہ ایسے

Page 157

142 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم امور ہیں جس سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اس لئے ہی دنیا کو آخرت کا مزرعہ کہتے ہیں کہ دنیا جو ہے وہ آخرت کی کھیتی ہے ) اور در حقیقت جسے خداد نیا میں صحت عزت اولاد اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمال صالح اس کے ہوویں تو امید ہوتی ہے کہ اس کی آخرت بھی اچھی ہو گی.“ (تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 696-695 زیر سورۃ البقرہ آیت 202) ( تب بھی اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رہتا ہے.اعمال کر کے انسان بے پرواہ نہیں ہو جاتا کہ اب میں نے ایسے اعمال کر لئے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا یقینی ہے اور جنت یقینی ہے.فرمایا کہ امید ہوتی ہے کہ اس کی آخرت بھی اچھی ہو گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اس دنیا کی جو حسنات ہیں وہ آخرت میں بھی کام آئیں گی.اور پھر یہ دوسری آیت جو میں نے پڑھی تھی اس میں یہ فرمایا ہے کہ أُولَبِكَ لَهُم نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (البقرة : 203) کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ایک بڑا اجر ہو گا اس میں سے جو انہوں نے کمایا.اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے.اس میں ایک تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ یہ دعا کریں گے کہ انہیں حسنات ملیں اور پھر اپنے عملوں کو بھی حتی المقدور اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے ، ان حسنات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ان کو ان کے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ اجر عطا فرمائے گا اور یقیناً وہ دنیا کی حسنات بھی حاصل کرنے والے ہوں گے.دین کی حسنات بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور آخرت کی حسنات بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور یہ جو فرمایا کہ وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ یہاں اس کا یہ مطلب ہے کہ اصل یہ دعا ہے جو پہلے کی گئی ہے جب تمہارے عمل دعا کے ساتھ مل جائیں گے تو جو نیکیاں کماؤ گے اللہ تعالیٰ پھر اس کی جزا بھی دیتا ہے اور فوری دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کسی نیکی کا ادھار نہیں رکھتا بلکہ فوری بدلہ دیتا ہے.وہ نیکیاں فوری طور پر انسان کے کھاتے میں لکھی جاتی ہیں اور اپنے وقت پر وہ ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں.دعاؤں کی قبولیت کے نشان جو ہیں ہر احمدی اس کا گواہ ہے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ تجربہ ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہی حسنات کا ایک اظہار ہے.پھر ایک اور دعا ہے جو عموماً نماز میں تشہد اور درود شریف کے بعد پڑھتے ہیں.حضرت ابراہیمؑ کی دعا ہے کہ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ - رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ( ابراھیم : 41-42) کہ اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی اے ہمارے رب اور میری دعا قبول کر اور اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب بر پا ہو گا.پس جب ہر نماز میں حساب کے دینے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو یہ اس لئے ہے کہ ہمیں یہ کہا گیا ہے اپنے ہر عمل پر نظر رکھو.حسنات یو نہی نہیں مل جاتیں.دنیا کی حسنات کے لئے جو آخرت کی حسنات کا باعث بننے

Page 158

143 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم والی ہیں اپنے ہر عمل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.روز مرہ خود اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے.عبادات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.نماز کے قیام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور پھر اپنی اولاد کی نمازوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.ان کی عبادات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.اس طرف بھی توجہ دینا ایک راعی کی حیثیت سے ، گھر کے نگر ان کی حیثیت سے تمہارا فرض ہے.اور پھر اس میں من حیث الجماعت افراد جماعت کو توجہ دلائی گئی کہ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں.اپنے والدین کے لئے بھی اور تمام مومنین کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگیں جس دن کہ حساب قائم ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ رَبَّنَا اغْفِرْ لِی سے صرف اپنی مغفرت مراد نہیں ہے.آگے اس کی وضاحت بھی ہوتی ہے لیکن فرمایا کہ بعض دفعہ جو واحد متکلم ہے جمع متکلم ہو جاتا ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 586،585) (ماخوذ از البدر جلد اول نمبر 9 مورخہ 26 دسمبر 1902ء صفحہ 69 کالم 1) یعنی کہ جو ایک کلام کرنے والا ہے، اپنے لئے مانگنے والا ہے بول رہا ہو تا ہے تو وہ بعض صورتوں میں ایک نہیں رہتا بلکہ جمع ہو جاتا ہے.اور یہاں یہی صورت ہے کہ پوری جماعت کے لئے دعا مانگی گئی ہے.پورے مومنین کے لئے دعا مانگی گئی ہے.پس اس دعا کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں تمام نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا اور آخرت کی حسنات حاصل کرنے کے لئے ہمیں تمام ان راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی راستے ہیں، جو اس طرف لے جانے والے راستے ہیں.اسی طرح ایک اور بات کی طرف بھی اس حوالے سے توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک عام احمدی اور ایک عہدیدار میں بھی جو فرق ہے وہ عہدیداروں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے اور نمازوں کے قیام کے لئے بھی اور دوسری نیکیاں بجالانے کی طرف بھی اپنے نمونے قائم کریں.تبھی ایک عام احمدی جو ہے اس کی بھی اس طرف توجہ ہو گی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 15 مورخہ 9 اپریل تا 15 اپریل 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 159

خطبات مسرور جلد ہشتم 144 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010ء بمطابق 26 امان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے اور اس پر توکل کرے، اس کے لئے وہ کافی ہے.اور اس کے لئے ایسے سامان پیدا فرماتا ہے جن کا گمان بھی انسان کی سوچ میں نہیں ہو تا.اس وہم و گمان سے بالا مدد کے نظارے جو اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے بندوں کو اور ایمان والوں کو دکھاتا رہتا ہے اس کے چند واقعات میں آج پیش کروں گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ غیرت دکھاتے ہوئے جس طرح حساب لیتا ہے اس کے بھی بعض واقعات میں نے آج چنے ہیں.جماعت کی تاریخ میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت سارے واقعات ہیں.کیونکہ آپ کی سیرت بڑی تفصیل سے لکھی گئی ہے.چوہدری غلام محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حکیم خادم علی صاحب کے ایک رشتہ دار سے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے بارہ میں سنا کہ : ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب کشمیر سے راولپنڈی کے راستے سے واپس آرہے تھے کہ دورانِ سفر روپیہ ختم ہو گیا.( کہتے ہیں ) میں نے اس بارہ میں عرض کیا (تو) آپ گھوڑی پر سوار تھے.آپ نے فرمایا کہ یہ گھوڑی چار پانچ صد روپے میں بیچ دیں گے ( اور ) فور پک جائے گی اور خرچ کے لئے کافی روپیہ ہو جائے گا.آپ نے وہ گھوڑی سات سو روپیہ میں خریدی تھی.( وہ کہتے ہیں ) تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ گھوڑی کو درد قولنج ہوا ( پیٹ میں بڑی درد ہوئی، قولنج اسے کہتے ہیں) بہر حال راولپنڈی پہنچ کر وہ گھوڑی مرگئی.( کہتے ہیں) تانگے والوں کو کرایہ دینا تھا.آپ ٹہل رہے تھے ( پیسوں کی ضرورت تھی).میں نے عرض کی کہ ٹانگہ والے کرایہ طلب کرتے ہیں.آپ نے نہایت رنج کے لہجہ میں فرمایا کہ نورالدین کا خدا تو وہ مرا پڑا ہے.اب اپنے اصل خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں.وہی کار ساز ہے.تھوڑی دیر کے بعد ایک سکھ اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر حاضر ہوا.آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھا( اور بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ) اُس نے ہمیں اتنی رقم دے دی کہ جموں تک کے اخراجات کے لئے کافی ہو گئی.(ماخوذ از حیات نور صفحہ 168-169.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

Page 160

خطبات مسرور جلد ہشتم 145 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 تو یہ تقویٰ ہے کہ اگر غلطی سے کسی دنیاوی ذریعہ پر انحصار کیا بھی تو اس کے ضائع ہو جانے پر رونا پیٹنا شروع نہیں کر دیا.بلکہ کامل توکل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوئی، دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فوراً پھر خلاف توقع انتظام بھی فرما دیا.جیسا کہ میں نے کہا حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے.اور ان کو پڑھا جائے تو ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے.اسی طرح مرزا سلام اللہ صاحب مستری، قطب الدین صاحب دہلوی کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عید الاضحیہ کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے گھر سے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی کپڑے دھلے ہوئے ہیں ؟ معلوم ہوا کہ صرف ایک پاجامہ ہے اور وہ بھی پھٹا ہوا.آپ نے اس میں آہستہ آہستہ ازار بند ڈالنا شروع کر دیا.قادیان کا واقعہ ہے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب ان دنوں صدر انجمن کے سیکرٹری تھے.انہوں نے پیغام بھیجا کہ حضور نماز عید میں دیر ہو رہی ہے.لوگوں نے قربانیاں بھی دینی ہیں.اس لئے جلد تشریف لائیں.فرمایا.تھوڑی دیر تک آتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا.حضور نے اسے پھر پہلے کا سا جواب دیا.اتنے میں ایک آدمی نے آکر دروازہ پر دستک دی.آپ نے ملازم کو فرمایا دیکھو باہر کون ہے ؟ آنے والے نے کہا.میں وزیر آباد سے آیا ہوں.حضرت صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.حضور نے اسے اندر بلالیا.عرض کی کہ حضور میں وزیر آباد کا باشندہ ہوں.حضور کے ، اناں جی کے اور بچوں کے لئے کپڑے لایا ہوں.چونکہ رات کو گہ نہیں مل سکا تھا، اس لئے بٹالہ ٹھہرا رہا.اب بھی پیدل چل کر آیا ہوں.( تو اللہ تعالیٰ نے فوراً وہاں انتظام (ماخوذ از حیات نور صفحہ 641.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) صوفی عطا محمد صاحب بھی اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت خلیفہ اول کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عید کی صبح حضرت مولوی صاحب نے غرباء میں کپڑے تقسیم کئے حتٰی کہ اپنے استعمال کے کپڑے بھی دے دیئے.گھر والوں نے عرض کی کہ آپ عید کیسے پڑھیں گے.فرمایا خد اتعالیٰ خود میرا انتظام کر دے گا.یہاں تک کہ عید کے لئے روانہ ہونے میں صرف پانچ سات منٹ رہ گئے.عین اس وقت ایک شخص حضرت کے حضور کپڑوں کی گٹھڑی لے کر حاضر ہوا.حضور نے وہ کپڑے لے کر فرمایا.دیکھو ہمارے خدا نے عین وقت پر ہمیں کپڑے بھیج دیئے.فرمایا).(حیات نور صفحہ 641-642.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس دیکھیں کس طرح خدا تعالیٰ آپ کی ضرورتوں کا خود متکفل ہو جاتا تھا اور وقت پر آپ کی تمام حاجات پوری فرماتا تھا.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میر ابڑالڑ کا عزیزم میاں

Page 161

146 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اقبال احمد سلمہ ابھی بچہ ہی تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور میری اہلیہ اور عزیز موصوف سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں مقیم ہیں اور اس وقت مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ میری اہلیہ حضرت اقدس کی لڑکی ہے اور عزیز موصوف حضور کا نواسہ ہے.پھر میں نے دیکھا کہ میں اور میرا یہ لڑکا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں دبا رہے ہیں کہ حضور علیہ السلام مجھے دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں (پنجابی میں فرمایا کہ) ” جا تینوں کوئی لوڑ نہ رئے“.یہ پنجابی زبان کا ایک فقرہ ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ تیری سب حاجتیں (خواہشیں پوری کرے.(تجھے کسی قسم کی حاجت نہ رہے).اس خواب کے بعد ( مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ واقعی آج تک خدا تعالیٰ میری ہر ایک ضرورت کو مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ پورا فرما رہا ہے.جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا وہاں وہاں سے میری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور میرے گھر والے اور میرے پاس رہنے والے اکثر لوگ اس روحانی بشارت کو اپنی آنکھوں سے پورا ہو تادیکھ رہے ہیں.(ماخوذ از حیات قدسی حصہ دوم صفحہ 138 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) اس طرح مولوی صاحب کے بھی اور بے شمار واقعات ہیں.آپ کی کتاب بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : صل رازق خدا تعالیٰ ہے.وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا.وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر تو کل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے میں اس کے لئے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں.پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 273 مطبوعہ ربوہ) رنگین اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہو جاؤ.انبیاء اس کی صفات میں ہو بہو رنگ ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی یکم کی ذات سے اس کا اظہار ہو تا ہے.کہ آپ کسی طرح خد اتعالیٰ کے رنگ میں رنگین تھے.اس بارے میں بعض احادیث ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی علیم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو تا تو یہ بات میرے لئے زیادہ خوشی کا باعث ہوتی کہ تین دن اور تین راتیں گزرنے پر اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی نہ رہتا سوائے اس حصہ کے جسے میں قرض کی ادائیگی کے لئے بچا کے رکھ لیتا.( صحیح بخاری کتاب الاستقراض و اداء الديون باب اداء الدیون حدیث نمبر 2389) یعنی اتنی زیادہ دولت بھی ہوتی تو مجھے پسند نہیں کہ میرے پاس رہے.بے حساب تقسیم کرتا چلا جاتا.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت موسیٰ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم

Page 162

خطبات مسرور جلد ہشتم 147 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 سے اسلام کے نام پر جب بھی کچھ مانگا گیا تو آپ نے فوراً عطا فرما دیا.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا بکریوں کا ریوڑ عطا فرما دیا.وہ اپنی قوم کی طرف لوٹا تو کہنے لگا.اے میری قوم! مسلمان ہو جاؤ.کیونکہ محمد صل اللہ تم تو اتنا عطا کرتے ہیں کہ جس کی موجودگی میں فاقہ کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا.( صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول الله شيئا فقط فقال لا و كثرة عطائه حدیث نمبر 5914) ابن شہاب زھری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یکم فتح مکہ کے بعد اپنے ساتھ موجود مسلمانوں کے ساتھ نکلے اور حسنین کی جنگ لڑی.اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے دین اور مسلمانوں کی نصرت فرمائی.اس موقع پر نبی کریم صلی الی یوم نے صفوان بن امیہ کو سو اونٹ عطا فرمائے.پھر سو اونٹ دیئے، پھر سو اونٹ دیئے.( یعنی تین سو اونٹ عطا فرمائے.) یہ مسلم کی روایت ہے.( صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ شیئا قط فقال لا حدیث نمبر 5916) الله ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ سعید بن المسیب نے مجھے بتایا کہ صفوان خود کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی نیلم نے مجھے جب یہ عظیم الشان انعام عطا فرمایا تو اس سے پہلے آپ میری نظر میں سب دنیا سے زیادہ قابل نفرت وجود تھے.لیکن جوں جوں آپ مجھے عطا فرماتے چلے گئے آپ مجھے محبوب ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ مجھے سب دنیا سے زیادہ پیارے ہو گئے.( صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ شیئا قط فقال لاحدیث نمبر 5916) بعض دفعہ دنیا کی دولت بھی دین کی طرف لے آتی ہے اور سچائی کا رستہ دکھا دیتی ہے.جب آپ صفوان کے پیارے ہو گئے تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑی دولت ان کے نزدیک پھر آپ کی محبت تھی.ایک روایت میں ان کے بارہ میں اس طرح بھی آتا ہے کہ ایک وادی سے گزرے.صفوان ساتھ تھے.آنحضرت صلی یکم جب گزرے تو وادی میں ریوڑ چر رہا تھا.صفوان نے اس ریوڑ کو بڑی حسرت کی نظر سے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بہت اچھا لگ رہا ہے ؟ اس نے کہا: جی.تو آپ نے فرمایا جاؤ یہ تم لے لو.صفوان اتنی بڑی عطا پر حضور صلی الیکم کے قدموں میں گر گیا اور اسلام قبول کر لیا.اور یہ کہنے لگا کہ اتنی بڑی عطا خدا کا ا الناس نبی ہی کر سکتا ہے.صفوان ایک ایسا شخص تھا جو بد ترین دشمن تھا اور فتح مکہ کے وقت بھی مکہ سے بھاگ گیا تھا اس لئے کہ اس کو علم تھا کہ میں نے جو زیادتیاں مسلمانوں پر کی ہوئی ہیں اس کی وجہ سے کوئی امکان ہی نہیں کہ میں بخشا جاؤں، سزا سے بچ جاؤں.لیکن آنحضرت ملی لی ایم نے اس کو بھی نہ صرف یہ کہ معاف فرما دیا بلکہ بے انتہا عطا بھی فرمایا.( السيرة الحلمية جلد 3 صفحہ 135 باب ذکر مغازیہ.دار الکتب العلمیة بیروت.طبع اول 2002 ء ) آنحضرت صلی الم نے اپنے صحابہ کو اور اپنی اُمت کو دین کے معاملے میں خرچ کرنے میں کنجوسی نہ

Page 163

خطبات مسرور جلد ہشتم 148 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 کرنے کی خاص طور پر نصیحت فرمائی اور اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اس میں بھی کمی نہیں ہونی چاہئے.حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت نبی کریم صلی الم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو.ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا.(یعنی کنجوسی سے خرچ نہ کرو) اور اپنی تھیلی کا منہ بند کر کے نہ بیٹھ جاؤ ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا.(یعنی اگر روپیہ نکلے گا نہیں، پیسہ خرچ نہیں کرو گے ، تو پھر آئے گا بھی نہیں.اس لئے فرمایا کہ ) جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو.( صحیح بخاری کتاب الزکوۃ باب التحريض على الصدقۃ.حدیث نمبر 1433) ہر ایک کی طاقت اس کی استعدادوں کے مطابق ہوتی ہے.اس کے مال کے مطابق ہوتی ہے.اس کے فرائض کے مطابق ہے.اس کو مد نظر رکھتے ہوئے دین کے اوپر خرچ کرنا چاہئے.یہ تقویٰ اور تو گل جو آپ اپنے صحابہ میں پیدافرمانا چاہتے تھے اور صحابہ کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ تو کل ان کے اندر پیدا ہوا.اور وہ لوگ جو ان پڑھ اور جاہل کہلاتے تھے وہ باخدا انسان کی عظیم مثالیں بن گئے.آپ صلیالی نمک کو امت کے لئے ہر وقت یہ فکر تھی ، دولت کی فکر نہیں تھی.یہ فکر تھی کہ میری اُمت با خدا بنی رہے اور اس کے لئے صحابہ کو نصائح فرماتے تھے.اور یہ نصائح اس لئے تھیں کہ آگے بھی پہنچتی رہیں.سة ایسے ہی ایک موقع پر آپ صلی الیکم نے صحابہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.اس کاروایت میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمرو بن عوف انصاری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی علیم نے ابو عبیدہ بن الجراح کو جزیہ لانے کے لئے بحرین بھیجا.رسول کریم صلی الی یکم نے اہل بحرین کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تھا اور ان پر حضرت علاء بن الحضر می کو امیر مقرر فرمایا تھا.چنانچہ جب حضرت ابو عبیدہ بحرین سے مال لے کر لوٹے اور انصار کو آپ کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ کافی تعداد میں آنحضرت صلی علیم کے ساتھ صبح کی نماز میں حاضر ہوئے.آپ جب نماز فجر پڑھا کر لوٹنے لگے تو یہ انصار حضور کے سامنے آگئے.آپ صلی الی یکم نے جب انہیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ شاید تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ کچھ لے کر لوٹے ہیں.انہوں نے کہا: جی ہاں یارسول اللہ !.آپ نے فرمایا: تو پھر خوشخبری ہو اور بے شک خوشکن امیدیں رکھو.کیونکہ اللہ کی قسم ! میں تمہارے بارہ میں فقر و غربت سے نہیں ڈر تابلکہ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا داری کی بساط اس طرح کھول دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کھول دی گئی تھی.اور پھر تم اُن کی طرح اس میں مقابلہ کرنے لگ جاؤ.اور پھر یہ دنیاداری اُن کی طرح تمہیں بھی ہلاک کر دے.( صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر حدیث نمبر 7319) آنحضرت صلی علیم کو یہ فکر تھی.لیکن افسوس! آپ کے اس شدت کے اظہار کے باوجود، اس تنبیہ کے

Page 164

خطبات مسرور جلد هشتم 149 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ2010 باوجود اُمت کی اکثریت اسی دوڑ میں مبتلا ہے.لیکن ایک احمدی کو اپنا عہد بیعت نبھاتے ہوئے اس طرف خاص توجہ الله دینی چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی علی کیم کے اُسوہ، آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس طرح اپنے ساتھیوں سے، صحابہ سے اظہار فرمایا کرتے تھے.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنی کتاب ”مجد داعظم “ میں لکھتے ہیں کہ : سید غلام حسین صاحب نے اپنا ایک واقعہ الحکم 28 / مئی و 7 / جون1939ء میں شائع کیا.میں اس کا خلاصہ یہاں اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں.واقعہ یوں ہے کہ غالباً 1898ء کا ذکر ہے کہ سید غلام حسین صاحب قادیان میں تھے اور دل سے متمنی تھے کہ حضرت اقدس کوئی خدمت ان کے سپر د کریں تو وہ خوشی سے بجالائیں.آخر ایسا ہوا کہ ڈاک دیکھتے دیکھتے حضرت اقدس نے سید صاحب کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ” یہ ایک بلٹی ہے آپ بٹالہ سے جا کر لے آئیں.ساتھ ہی بلٹی ان کے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ ”ابھی ٹھہریئے“.پھر آپ اندر تشریف لے گئے اور پانچ روپے لا کر سید صاحب کو دیئے کہ یہ رستہ اور بلٹی کے اخراجات کے لئے ہیں.اُن دنوں قادیان میں یگے ایک دو ہی ہوا کرتے تھے اور وہ اس وقت موجود نہ تھے.سید صاحب اس وقت 15 سالہ نوجوان تھے.جوش خدمت میں پیدل ہی چل پڑے.بٹالہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ پارسل آیا ہوا ہے.رات وہیں سرائے میں رہے.صبح پارسل چھڑانے گئے تو معلوم ہوا کہ پارسل کا محصول جو ہے وہ بھی بھیجنے والے نے ادا کر دیا ہے.پارسل لے کر واپس ہوئے تو یکہ والے کرایہ زیادہ مانگنے لگے.انہوں نے کفایت شعاری کی وجہ سے ایک مزدور سے چار آنے کی اجرت ٹھہرائی اور ٹوکری اس کی بہنگی میں رکھ دی اور خود پیدل چل پڑے.قادیان پہنچ کر حضرت کے عطا کردہ پانچ روپے میں سے چار آنے تو اس مزدور کو دیئے اور باقی پونے پانچ روپے جیب میں رکھ لئے.یہ ٹوکری ہاتھ میں لی.مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے چڑھ کر زنان خانہ کے دروازے پر پہنچے اور اندر اطلاع کروائی.حضرت اقدس فوراً باہر تشریف لائے.انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ آگئے؟ ٹوکری دیکھتے ہی فرمایا کہ آپ ٹھہریں.اندر سے جا کر ایک بڑا سا چا قو لے آئے اور اس ٹوکری کے اوپر جو ٹاٹ سیلا ہوا تھا اس کو چاقو سے ایک طرف سے کاٹ کر اپنے دونوں ہاتھ ٹاٹ کے اندر داخل کر کے باہر نکالتے ہی فرمایا کہ یہ آپ کا حصہ ہے.انہوں نے دیکھا تو وہ بڑے اعلیٰ قسم کے سبزی مائل انگور تھے.انہوں نے جلدی میں وہ انگور اپنے گرتے میں ہی ڈلوالئے.اس کے بعد انہوں نے وہ پونے پانچ روپے (پانچ روپے کی اس وقت بڑی قیمت ہوتی تھی ) حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور یہ بقایار قم ہے.صرف چار آنے خرچ ہوئے ہیں.اس پر حضرت صاحب نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ ”ہم اپنے دوستوں سے حساب نہیں رکھا کرتے“.اتنا فرمایا اور ٹوکری اٹھا کر

Page 165

خطبات مسرور جلد ہشتم 150 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 اندر تشریف لے گئے.( اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ) انگور ان کے گرتے میں اور پونے پانچ روپے ان کے ہاتھ میں (ماخوذ از مسجد د اعظم جلد دوم صفحہ 1275 از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مطبوعہ لاہور ) (ماخوذ از الحکم جلد 42 شمارہ نمبر 15-18 مورخہ 28 مئی تا 7 جون 1939ء ص 23 بقیہ) رہ گئے.“ حکیم عبد الرحمن صاحب آف گوجر انوالہ کی ایک روایت ہے کہ : ان کے بیٹے مکرم عبد القادر صاحب سے روایت ہے کہ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں قادیان گیا اور دو چار روز ٹھہرنے کے بعد اجازت مانگی.حضور نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر و.دو چار روز کے بعد پھر گیا.حضور نے پھر بھی یہی فرمایا کہ ابھی اور ٹھہر و.دو تین دفعہ ایسا ہی فرمایا.یہاں تک کہ دو اڑھائی مہینے گزر گئے.پھر میں نے عرض کیا کہ حضور ! اب مجھے اجازت دیں.فرمایا کہ بہت اچھا.میں نے کتاب ازالہ اوہام کے متعلق حضور کی خدمت میں عرض کیا.حضور نے میر مہدی حسن شاہ صاحب کے نام ایک رقعہ لکھ دیا.میں وہ رقعہ لے کر گیا تو میر صاحب نے کہا لوگ یو نہی تنگ کرتے ہیں اور مفت کتابیں مانگتے ہیں حالانکہ روپیہ نہیں ہے اور ابھی فلاں فلاں کتاب چھپوانی ہے.میں نے کہا.پھر آپ میر ا رقعہ دے دیں.انہوں نے رقعہ واپس دے دیا.میں حضرت صاحب سے واپسی کے لئے اجازت لینے گیا.حضور نے پوچھا کہ کیا کہتا ہیں آپ کو مل گئی ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور ! وہ تو اس طرح فرماتے تھے.یہ سن کر حضرت صاحب ننگے پیر میرے ساتھ چل پڑے.اور میر صاحب کو فرمایا کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں.جس کا یہ کام ہے وہ اس کو ضرور چلائے گا.آپ کو میر ارقعہ دیکھ کر فورا کتابیں دے دینی چاہئے تھیں.آپ ابھی سے گھبر اگئے.یہاں تو بڑی مخلوق آئے گی اور خزانے تقسیم ہوں گے.اس پر انہوں نے کتابیں دے دیں اور میں لے کر واپس آگیا.(رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد 10 صفحہ 122-123 روایات حضرت حکیم عبد الرحمان صاحب) اسی طرح ایک روایت منشی غلام حیدر صاحب سب انسپکٹر اشتمال اراضی گوجرانوالہ کی ہے.یہ دو روایتیں میں نے رجسٹر روایات صحابہ سے لی ہیں.انہوں نے منشی احمد دین صاحب اپیل نویس گوجر انوالہ کی روایت بیان کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا تو عموماً حضور کے سامنے ہو کر نذر پیش نہیں کیا کرتا تھا.ایک دفعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے مجھے نصیحت کی کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے.سامنے ہو کر نذر پیش کرنی چاہئے.کیونکہ بعض اوقات ان لوگوں کی جب نظر پڑ جاتی ہے تو انسان کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے.پھر ایک دفعہ میں نے سامنے ہو کر مالی تنگی کی وجہ سے کم نذرانہ پیش کیا.حضور نے فرمایا! اللہ تعالیٰ برکت دے“.چنانچہ اس واقعہ کے بعد ایک شخص نے مجھے بہت سے روپے دیئے.میں نے بہت انکار کیا.مگر اس نے کہا کہ میں نے ضرور آپ کو یہ رقم دینی ہے.چنانچہ اس رقم سے میری مالی تنگی دور ہو گئی.نظارہ دیکھا.(رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد 10 صفحہ 125 روایات حضرت منشی غلام حیدر صاحب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے انہوں نے مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 4) کا

Page 166

خطبات مسرور جلد هشتم 151 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 مارچ2010 آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کی اشاعت کے لئے جولوگ قربانیاں کرتے ہیں اور اپنی رقمیں پیش کرتے ہیں.اسلام کا درد رکھنے والے جو ہیں اس کے لئے قربانیاں کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں اور قربانیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی ایسے نظارے دکھلاتا ہے.پرانے احمدیوں کی مثالیں تو میں مختلف وقتوں میں بتاتا رہتا ہوں.نئے احمدیوں کے بھی بعض ایمان افروز واقعات ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے.اس کی دو مثالیں میں آج پیش کرتا ہوں.آئیوری کوسٹ کے شہر بستم (Bassam) کے ایک نو مبائع احمدی مکرم یا گو علیڈو (Yago Alido) صاحب کو جماعتی مالی نظام کے تحت چندے کی شرح اور ترتیب بتائی گئی تو اگلے روز وہ خود اپنی تنخواہ کے حساب سے شرح کے مطابق چندہ عام، چندہ وقف جدید اور تحریک جدید ادا کرنے آگئے جو کہ تقریباً 50 پاؤنڈ بن رہا تھا.یہ ان کے لئے بہت بڑی رقم ہے.یہ ان کا احمدیت قبول کرنے کے بعد پہلا چندہ تھا.بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ ابھی ہمارا معلم اس چندے کی رسید کاٹ رہا تھا کہ ان صاحب کو ایک دوست کا فون آیا کہ وہ قرضہ جو میں نے تم سے دو سال قبل لیا تھا.کل آکے مجھ سے وصول کر لو.یا گولیڈ وصاحب حیران ہو کر بتانے لگے کہ یہ شخص قرض لے کر ایسا رویہ اپنائے ہوئے تھا کہ مجھے اس قرض کی وصولی کی امید ہی نہیں تھی.اور یہ صرف اور صرف چندہ دینے کی وجہ سے ہوا ہے.اور صرف یہی نہیں کہ یہ قرض مل گیا بلکہ چند روز کے بعد ان کو حکومت کی طرف سے ایک خط ملا کہ نئے سال سے نہ صرف آپ کی ملازمت میں ایک گریڈ کا اضافہ ہو گیا ہے بلکہ آپ کی تنخواہ میں پچاس فیصد کا اضافہ بھی ہو گیا ہے.چنانچہ جب انہوں نے اپنے نئے اضافے والی تنخواہ وصول کی تو فوراً اپنا چندہ شرح کے مطابق ڈ گنا کر دیا.اور اب نہ صرف وہ اپناماہانہ چندہ ادا کر رہے ہیں بلکہ مسجد کی تزئین خوبصورتی وغیرہ کے لئے بھی اپنی جیب سے کافی خرچ کر رہے ہیں.اور سب کو یہ بر ملا کہتے ہیں کہ یہ سب جو خد اتعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہے اس کی راہ میں مالی قربانی کرنے کے نتیجے میں ہے.دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نئے آنے والوں کو بھی مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 4) كانه صرف نظارہ دکھاتا ہے بلکہ فیضعِفَة لَه أَضْعَافًا كَثِيرَةً (البقرة : 246) كا وعدہ بھی ہے ، نقد نقد پورا فرمارہا ہے.امیر صاحب بین نے ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ ریجن باسیلا کے لوکل مشنری اپنے علاقہ کے گاؤں جا پنگو (Djapengo) میں چندہ تحریک جدید کے بارہ میں بتارہے تھے اور اس کی برکات کا ذکر کر رہے تھے تو وہاں کی ایک غیر احمدی حلیم نامی خاتون نے اس تحریک میں 500 فرانک سیفا چندہ دیا.ایک سال کے گزرنے پر اس نے دوبارہ رابطہ کیا اور گزشتہ سال کی نسبت چار گنا مزید چندہ دیا.اس نے بتایا کہ گزشتہ سال جب میں نے چندہ دیا تو اس

Page 167

152 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے بعد سے میرے کاروبار میں غیر یقینی طور پر برکت پڑگئی ہے.میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اتنی برکت پڑے گی.اس بات نے مجھے اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے.اور آج میں پھر ان کی تحریک میں چندہ دیتی ہوں اور ساتھ ہی کہا کہ میں جماعت میں بھی شامل ہوتی ہوں اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئی.عموماتو ہم غیر احمدیوں سے چندہ نہیں لیتے لیکن افریقہ میں بعض ایسے تعلقات بن جاتے ہیں کہ وہ مجبور کر دیتے ہیں کہ آپ لوگ لیں.کیونکہ وہ دینا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چندے کا صحیح مصرف جماعت احمدیہ کرتی ہے.جب میں وہاں گھانا میں ہو تا تھا.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بعض لوگ جو زمیندار تھے وہ اپنی زکوۃ لے کر آجاتے تھے.اور میرے پوچھنے پر کئی دفعہ بعض لوگوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے مولوی کو دیں گے تو وہ کھاپی جائے گا.آپ لوگ کم از کم صحیح استعمال تو کریں گے.تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کی نیکی کو اس طرح نوازا کہ نہ صرف اس کو مالی کشائش عطا فرمائی بلکہ اس روحانی مائدے سے بھی فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے.حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ ” حافظ نور احمد صاحب سوداگر پشمینہ لدھیانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے اور مخلص خدام میں سے ہیں.ان کو اپنے تجارتی کاروبار میں ایک بار سخت خسارہ ہو گیا اور کاروبار قریباً بند ہی ہو گیا.انہوں نے چاہا کہ وہ کسی طرح کسی دوسری جگہ چلے جاویں اور کوئی اور کاروبار کریں تا کہ اپنی مالی حالت کی اصلاح کے قابل ہو سکیں.وہ اس وقت کے گئے ہوئے گویا اب واپس آسکے ہیں.( کافی عرصے بعد آئے تھے.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زندگی میں برابر خط و کتابت رکھتے تھے.( آپ کی وفات کے بعد وہ آئے تھے.) اور سلسلہ کی مالی خدمت اپنی طاقت اور توفیق سے بڑھ کر کرتے رہے.اور آج کل قادیان میں ہی مقیم ہیں.وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی داد و دہش اور جو دو سخا کے متعلق میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ آپ تھوڑا دینا جانتے ہی نہ تھے.اپنا ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے جب اس سفر کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ روپیہ مانگا.حضور ایک صند و قیچی جس میں روپیہ رکھا کرتے تھے.اٹھا کر لے آئے اور میرے سامنے صند و قیچی رکھ دی کہ جتنا چاہو لے لو اور حضور کو اس سے بہت خوشی تھی.میں نے اپنی ضرورت کے موافق لے لیا.گو حضور یہی فرماتے رہے کہ ساراہی لے لو.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حصہ سوم صفحہ 316-317) پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سَرِيعُ الْحِسَابِ بھی ہے کہ ایک تو یہ کہ بے حساب دیتا ہے، بعض دفعہ حساب لیتا بھی ہے.اور بعض دفعہ آخرت میں جو حساب لینا ہے اس کے علاوہ اس دنیا میں ہی حساب لے لیتا ہے.اسی بارہ میں بعض واقعات ہیں.حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب فرماتے ہیں کہ (حضرت مسیح موعود کے صحابی میاں میراں

Page 168

153 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بخش کے بیٹے کا) " خطبہ نکاح پڑھانے کے بعد میں بارات کے ساتھ گیا.واپسی پر معلوم ہوا کہ اس شادی شدہ لڑکے کے سوامیاں میراں بخش صاحب کے سب لڑکے گونگے اور بہرے ہیں.مجھے خیال آیا کہ یہ ابتلا بلا وجہ نہیں ہو سکتا.(بہت خوف والا واقعہ ہے.) چنانچہ میں نے میاں میراں بخش صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میری سالی کا ایک بچہ گونگا اور بہرہ تھا تو میں نے بطور استہزاء کے اس کو کہنا شروع کیا کہ اگر بچہ جننا تھا تو کوئی بولنے سننے والا بچہ جنتی.یہ کیا بہرا اور گونگا اور ناکارہ بچہ جنا ہے.جب میں تمسخر میں حد سے بڑھ گیا تو میری سالی کہنے لگی ” خدا سے ڈرو، ایسا نہ ہو کہ تمہیں ابتلا آ جائے.اللہ تعالیٰ کی ذات تمسخر کو پسند نہیں کرتی.“ اس پر بھی میں استہزاء سے باز نہ آیا.بلکہ ان کو کہتا کہ دیکھ لینا میرے ہاں تندرست اولاد ہو گی.میری یہ بیا کی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنی اور میرے ہاں گونگے اور بہرے بچے پیدا ہونے لگے.میں نے اس ابتلاء پر بہت استغفار کیا.اور سید نا حضرت مسیح موعود کے حضور بھی بار بار دعا کے لئے عرض کیا.اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی کو قبول فرمایا اور آخری بچہ تندرست پیدا ہوا جس کی شادی اب ہو رہی ہے.“ حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ 300-301 مطبوعہ ربوہ) پس مذاق میں بھی ایسی باتیں ( نہیں کہنی چاہئیں) جن کو بات کرنے والا انسان تو ہلکا پھلکا سمجھ رہا ہو تا ہے.لیکن دوسرے کے دل پر وہ شدید چوٹ لگانے کا باعث بن جاتی ہے اور کبھی ایسی آہ بن جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتی ہے اور اس دنیا میں پھر حساب شروع ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور حقیقی تقویٰ دلوں میں قائم فرمائے.حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہیں:.1938 ء کا واقعہ ہے کہ ہمارے حلقہ انتخاب (حافظ آباد) میں پنجاب لیجسلیٹو کو نسل کی ممبری کے لئے دو امیدوار کھڑے ہوئے.یعنی ایک چوہدری ریاست علی چٹھہ تھے اور دوسرے میاں مراد بخش صاحب بھٹی.یہ دونوں امید وار علاقہ کے احمدیوں سے ووٹ دینے کے لئے درخواست کر رہے تھے.لیکن محترم میاں سر دار خان صاحب رضی اللہ عنہ ان کو یہی جواب دیتے تھے کہ جب تک حضور انور ایدہ اللہ تعالی ( خلیفہ ثانی کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر نہ ہو وہ کسی امیدوار کے حق میں وعدہ نہیں کر سکتے.حضرت مولانا راجیکی صاحب خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد کے ساتھ تشریف لے گئے اور گاؤں کی بھری مجلس میں جس میں علاوہ احمدیوں کے بہت سے غیر احمدی بھی موجود تھے یہ ہدایت سنائی کہ اسمبلی کی نشست کے لئے ووٹ چوہدری ریاست علی صاحب چٹھہ کو دے جائیں.( ان دو میں سے ایک کو).یہ خلافِ توقع فیصلہ سن کر علاوہ احمدیوں کے تمام حاضرین جو چوہدری ریاست علی کے مخالف تھے غصہ سے تلملا اٹھے اور احمدیوں کے خلاف سب و شتم اور مخالفانہ مظاہروں سے اس علاقہ کی فضا کو

Page 169

خطبات مسرور جلد هشتم 154 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 خراب کر دیا.ہم نے اس مخالفت کو صبر و استقلال سے برداشت کیا.اس موقع پر علاقہ کے ایک بھٹی رئیس حاتم علی نامی نے تو مخالفت انتہا کو پہنچادی.اور جوش عفیض میں نہ صرف یہ کہ عام احمدیوں کو گالیاں دیں، بلکہ حضرت مولانا صاحب اور سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بڑی سب و شتم ( بیہودہ دہنی ) کا نشانہ بنایا.اور ان بزرگ ہستیوں کی سخت ہتک اور توہین کا ارتکاب کیا.کہتے ہیں جب اس کی بد زبانی کی انتہا ہو گئی تو حضرت مولانا راجیکی صاحب نے حاضرین مجلس کے سامنے ان کو ( مخالفین کو ان الفاظ میں مخاطب کیا کہ حاتم علی! دیکھ اس قدر ظلم اچھا نہیں.تیرے جیسوں کو خدا تعالیٰ زیادہ مہلت نہیں دیتا.یاد رکھ اگر تو نے توبہ نہ کی تو جلد پکڑ ا جائے گا.حضرت مولوی صاحب مجمع عام میں یہ الفاظ کہہ کر اور احباب جماعت کو صبر کرنے اور اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی دعا پڑھتے رہنے کی تلقین کر کے واپس قادیان تشریف لے گئے.حاکم علی آپ کے جانے کے معابعد بعارضہ سل بیمار ہو گیا اور مقامی طور پر علاج کی کوشش بھی کی اور میوہسپتال کے ماہر ڈاکٹروں سے علاج بھی کروایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور چار ماہ کی تکلیف دہ بیماری کے بعد یہ اپنی تمام تر دولت اور جاہ و جلال کے باوجو د فوت ہو گیا، اس دنیا سے چلا گیا.حضرت مولا ناراجیکی صاحب فرماتے ہیں: (ماخوذ از حیات قدی حصہ پنجم صفحه 637-639 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) ایک واقعہ ضلع سیالکوٹ تحصیل پسرور کے ایک گاؤں کا ہے کہ وہاں پر حکیم مولوی نظام الدین صاحب ایک احمدی رہتے تھے.انہوں نے ملاقات کے وقت مجھے سنایا کہ میرے رشتہ داروں میں سے اسی علاقے کے ایک گاؤں میں ایک مولوی صاحب رہتے تھے جو واعظ بھی تھے.اور حیات صحیح کے عقیدہ کے اس قدر حامی تھے کہ شب و روز ان کی بحث کا آغاز اسی موضوع پر ہوتا تھا کہ عیسی زندہ ہیں.جب ان کی خدمت میں آیت نعیسی رانی مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی پیش کی جاتی تھی.وہ پوری آیت اس طرح ہے.اس کا اگلا حصہ بھی تب ہی سمجھ میں آئے گا جب پوری آیت سامنے ہو.کہ اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ ۚ ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (آل عمران: 56) جب اللہ تعالیٰ نے کہا اے عیسی ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیر ارفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست کرنے والا ہوں.پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے جس کے بعد میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے.

Page 170

155 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اب دیکھیں یہاں اِلی مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ قرآن شریف کی اپنی ترتیب ہے.جب یہ آیت انہیں پیش کی جاتی اور اس سے استدلال کیا جاتا تو محض جوش سے اس فقرہ کو آگے پیچھے کر دیتے اور کہتے تھے کہ مُتَوَفِّيكَ کو وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ کے بعد رکھتے ہیں کہ اصل ترتیب یہ ہے.انہیں کوئی خوف نہیں تھا کہ قرآن کریم کی کسی آیت میں تبدیلی کر رہے ہیں.کچھ عرصہ تو وہ اپنے جذبہ اور جوش میں متوفيك كو زبانی موخر کرتے رہے.بعد میں پھر انہوں نے اسی جذبے کی شدت سے علماء سے یہ مشورہ کرناشروع کر دیا کیوں نہ قرآنِ کریم کے تازہ ایڈیشن میں اس فقرہ کو مؤخر print کر دیا جائے، طبع کر دیا جائے.علماء نے کہا کہ بے شک یہ لفظ ہے تو موخر لیکن اگر اس کو طباعت میں پیچھے کیا گیا تو لوگوں میں شور پڑ جائے گا.اور بہت سخت اعتراض ہو گا.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ کچھ بھی ہو میں یہ کام خود کروں گا.چنانچہ انہوں نے وعظ کر کے بہت سارو پیہ جمع کیا.اور امر تسر پہنچے لیکن وہاں تمام پریس والوں نے اس طرح تحریف کرنے سے قرآنِ کریم کو طبع کرنے سے انکار کر دیا.اس پر وہ ایک سکھ پر یس والے کے پاس گئے اور بہت ساروپیہ اس غرض کے لئے پیش کیا لیکن اس نے بھی مسلمانوں کے ڈر سے جرات نہ کی اور انکار کر دیا.مگر مولوی صاحب مذکور کے سر میں کچھ ایسا جنون سمایا ہوا تھا کہ انہوں نے اس غرض کے لئے پریس کے پتھر وہاں سے خرید لئے اور یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے گاؤں میں طباعت کا کام کر کے تحریف کے ساتھ قرآنِ کریم طبع کروائیں گے.لیکن ان کے گھر پہنچنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عجیب پر ہیبت نشان ظاہر ہوا کہ مولوی صاحب اور ان کے اہل و عیال یکا یک ایک طاعون کی لپیٹ میں آگئے اور ایک ہی رات میں گھر کے سب لوگ جو تھے وہ موت کی نذر ہو گئے.(ماخوذ از حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ 391 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) تو یہ نام نہاد ملاں اور عالم، جو تقویٰ سے بالکل عاری ہیں حضرت مسیح موعود کی دشمنی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں تحریف کرنے سے بھی نہیں ڈرتے.اور الزام ہے احمدیوں پر.بہر حال اللہ تعالیٰ بھی اپنا حساب عجیب طریقے سے لیتا ہے.اور جو قرآنِ کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے اس کو بھی کس طرح پورا کیا.ہلکی سی بھی تحریف کسی ایسے شخص کے ہاتھ سے بھی کرنی گوارا نہیں کی جو بظاہر کلمہ گو کہلا تا تھا اور فوراً اس کو سزا دی.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : ”اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال اور یقین ہو تو ساری سستی اور غفلت جاتی رہے.اس لئے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہئے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہئے.اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے.وہ چشم پوشی کرتا ہے اور درگزر فرماتا ہے.لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے.یہاں تک کہ لا

Page 171

156 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 مارچ 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم يَخَافُ عُقبهَا (الشمس: 16: پھر وہ اس امر کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہو گا.بر خلاف اس کے جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو عزت دیتا ہے اور خود ان کے لئے ایک سپر ہو جاتا ہے“.( ڈھال بن جاتا ہے).( ملفوظات جلد 4 صفحہ 641 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیشہ اپنے غضب سے، اپنی ہلکی سی سزا سے بھی ہمیں محفوظ رکھے ، اور ہمیں اپنے انعامات سے نوازے.ہمیشہ ہمارے وہم و گمان سے بڑھ کر اپنے فضل ورحم کے نظارے دکھائے، اپنی خوف اور اپنی خشیت ہمارے دلوں میں قائم فرمائے.ہم کامل تو گل کرنے والے ہوں.اور اللہ تعالیٰ خود ہر موقع پر ہماری ڈھال بن جائے جیسا کہ اس کا وعدہ ہے.انشاء اللہ تعالیٰ میں سفر پر بھی جارہا ہوں تو امید ہے آئندہ چند جمعے جو ہیں وہ آپ لوگ بھی باقی دنیا کی طرح MTA پر دیکھیں گے.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ سفر بابرکت فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 16 مورخہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 172

خطبات مسرور جلد ہشتم 157 14 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010ء بمطابق 02 شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بشارت.پید رو آباد.سپین تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ سپین کا جلسہ سالانہ اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے.یہ جلسہ سالانہ آج دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں جماعت احمدیہ کا قیام مضبوط بنیادوں پر ہو چکا ہے ، ایک خاص امتیازی شان کا حامل بن چکا ہے.اور بڑے شوق سے مختلف ممالک کی جماعتیں اس کے انعقاد کی تیاری اور اہتمام کرتی ہیں.یہ اہتمام کیوں کیا جاتا ہے ؟ کیا اس لئے کہ دنیاوی میلوں کی طرح ہر سال لوگ جمع ہو کر اپنی دلچسپی کے اور تفریح کے سامان کر لیں.یقیناً نہیں.کیونکہ گزشتہ تقریباً 120 سال کے تسلسل سے ان جلسوں کے انعقاد نے احمدیوں کی اکثریت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہمارا دو یا تین دن کے لئے جمع ہو نا زمانے کے امام کی اس خواہش کے احترام میں ہے کہ میرے ماننے والے ان دنوں میں ایک جگہ جمع ہو کر اللہ اور رسول کی باتیں سنیں.اور نہ صرف باتیں سنیں بلکہ انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہیں.اور پھر اس لئے بھی احمدی اپنے دنیاوی کاموں کا حرج کر کے اس میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد بھی ہوتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 281 جدید ایڈیشن ) یعنی یہ جلسہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کی حالت کے اظہار کے لئے نہیں ہے.آپ کی اس شدید تڑپ کے لئے نہیں ہے کہ لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو کے اللہ اور رسول کی باتیں سنیں.یہ جلسہ صرف اس لئے نہیں منعقد کیا جارہایا کیا جاتا کہ آپ کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ کاش لوگ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان لیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کریں.بلکہ فرمایا کہ اس کی بنیاد خالص تائید حق پر ہے.ویسے تو نبی کی ہر بات ہی اللہ تعالیٰ کی تائید لئے ہوئے ہوتی ہے اور اس پر عمل خدا تعالیٰ کا قرب پانے والا بناتا ہے.ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بناتا ہے.لیکن جس بات کا خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو اس

Page 173

158 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پر عمل اور اس کے لئے کوشش انسان کو عموم سے بہت بڑھ کر خدا تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور انعاموں کو بطور خاص سمیٹنے والا بنا دیتی ہے.جب اللہ تعالیٰ کی تائیدات ساتھ ہوتی ہیں تو ایک معمولی کوشش کئی سو گنا انعاموں کا وارث بنادیتی ہے.بلکہ لا انتہا انعاموں کا وارث بنادیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ تائید افراد کے ساتھ بھی ہے اور من حیث الجماعت، جماعت کے ساتھ بھی ہوتی ہے.پس کتنے خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو خالص ہو کر امام زمان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جلسہ میں اس لئے شامل ہوئے ہیں تا کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں بھی پیدا کریں اور اسلام کے غلبہ کے اس تقدیر کا حصہ بھی بن جائیں جس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور ان دنوں میں اس روحانی ماحول اور روحانی مائدہ جو مختلف تقاریر کی صورت میں پیش کیا جائے گا جس کی بنیاد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام پر ہی ہے اور جو خد اتعالیٰ کی خاص تائیدات لئے ہوئے ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن جائیں.اللہ کرے کہ یہ مقصد ہمیشہ ہر جلسہ میں شامل ہونے والے کے پیش نظر رہے.کیونکہ یہی مقصد ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے جلسہ میں شامل ہونے کا فائدہ ہے.ورنہ آپ کا یہاں آنا، تقریریں سننا اور وقتی جوش دکھاتے ہوئے نعرے لگانا بے فائدہ ہے.پس ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہیں، استغفار کرتے رہیں، درود پڑھتے رہیں تاکہ اپنے اندر انقلاب پیدا کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم پھیلانے اور غالب کرنے میں حصہ دار بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں.ور نہ جیسا کہ میں نے کہا بہت سے جو اپنے دنیاوی کاموں کا حرج کر کے آتے ہیں ان کو کیا فائدہ کہ اپنا حرج بھی کیا اور دین بھی نہ ملا.پس ان دنوں میں اپنے وقت کا صحیح مصرف کریں، جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور جلسے کی برکات اور فیوض سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کریں.اگر اس بات کو ہر شامل ہونے والا جوان، بوڑھا، مرد، عورت سمجھ لے تو اس سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہو گا بلکہ آپ دیکھیں گے کہ کس طرح آہستہ آہستہ نیک فطرت لوگ اپنی دینی و دنیاوی بقا کے لئے اسلام کی آغوش میں آنا شروع ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جس انقلاب نے آنا ہے وہ کسی تلوار یا سیاسی داؤ پیچ سے نہیں آنا بلکہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پید ا کرنے اور دعاؤں سے آنا ہے اور یہی انقلاب ہے جو دائمی انقلاب ہے.یہی انقلاب ہے جو کسی ایسی سازش کا شکار نہیں ہو گا کہ کسی طرح اور کب موقع ملے کہ اسلام کو اس ملک سے نکالا جائے.بلکہ لوگوں کی کوشش ہو گی تو یہ کہ کس طرح اسلامی تعلیم کو ہم اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنی دنیا وعاقبت سنواریں.پس آپ لوگ جو چند سو کی تعداد میں اس وقت یہاں ہیں اور اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ کا نمونہ نیک ہو.آج ہر احمدی کے نمونے نے ہی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ہمارے وقت میں، اس زمانے میں، ترقی کی رفتار متعین کرنی ہے.جس قدر ہم

Page 174

خطبات مسرور جلد هشتم 159 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 اپنے عملی نمونے دکھانے والے ہوں گے اور دعائیں کرنے والے ہوں گے ، اس قدر جلد ہم احمدیت کی ترقی دیکھیں گے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اس ملک میں آنے کے راستے بھی ہمارے لئے کھولے.کہاں وہ زمانہ تھا کہ ایک شخص خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں آیا جب حالات مکمل طور پر مخالف تھے.اسلام کا نام بھی چھپ کر لیا جاتا تھا کجا یہ کہ تبلیغ کی جائے.اس مجاہد احمدیت کو مالی لحاظ سے بھی جماعت کی کوئی مدد حاصل نہیں تھی.خود عطر بیچ بیچ کر اپنا گھر بھی چلایا اور مشن کے اخراجات بھی پورے کئے اور انتظام بھی چلایا.ایک شوق تھا، ایک جذبہ تھا جس کے تحت ہمارے پہلے مبلغ مکرم کرم الہی صاحب ظفر نے کام کیا.ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے، آخر کار اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق وہ زمانہ بھی آیا جب ان پابندیوں کا خاتمہ ہوا.افراد جماعت کو بھی یہاں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور مبلغین کے آنے میں بھی آسانیاں پیدا ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک خوبصورت مسجد بنانے کی بھی توفیق عطا فرمائی.یہاں آنے والے اگر اپنے جائزے لیں تو ان کے دل گواہی دیں گے کہ باوجود یورپ کے باقی ملکوں کی نسبت معاشی لحاظ سے کم ترقی یافتہ ہونے کے ، سپین میں آکر آباد ہونے والوں کی اکثریت کے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں.پاکستان کی نسبت ذہنی سکون یہاں میسر ہے.گو یورپ کے یہ ملک بعض اخلاقی برائیوں میں بڑھے ہوئے ہیں.بعض والدین کو اپنے بچوں کی دینی حالت کے بگڑنے کی یقینا فکر ہے اور یہ جائز فکر ہے.لیکن اس لحاظ سے میں بات نہیں کر رہا.میں یہاں مذہبی آزادی کے لحاظ سے ذہنی سکون کی بات کر رہا ہوں.گو کہ اب یہاں یورپ کے بعض ملکوں میں بھی اس کے بر عکس رجحان شروع ہو چکا ہے.اکثر ملکوں میں تو ابھی تک ایک لحاظ سے یہ مذہبی آزادی قائم ہے لیکن مذہبی پابندیوں کی ابتداء ہو چکی ہے.کہیں میناروں پر پابندی لگانے کی وجہ سے، کہیں حجاب پر پابندی لگانے کی وجہ سے.بہر حال فی الحال عمومی طور پر یہاں آزادی ہے.کسی حکومت یا قانون کی تلوار یہ کہہ کر نہیں لٹک رہی کہ تم اذان دو گے تو قید کر دئے جاؤ گے یا کلمہ پڑھ کر توحید کا اعلان کرو گے تو جیل بھیج دئے جاؤ گے.پس اس آزادی، سکون اور معاشی بہتری پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور شکر گزاری کرتے ہوئے جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جائیں.یہ دنیاوی ترقیات دین کو بھلانے والی نہ بن جائیں.دین سے دور لے جانے والی نہ بن جائیں.یہ نہ سمجھیں کہ ہم پر ہماری کسی خوبی اور صلاحیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اصل میں تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ جن لوگوں کو دنیا والے کشکول پکڑانے کی سوچتے ہیں اللہ تعالیٰ خود اپنی جناب سے ان کے لئے اور ان میں سے اکثر غریبوں کے لئے بھی اور کم کشائش والے لوگوں کے لئے بھی وسعتیں عطا فرماتا ہے.پس ہر وقت یہ خیال دل میں رہنا چاہئے کہ جو خدا ہمیں اس طرح نواز نے پر قدرت رکھتا ہے وہ ہم سے ہمارے کسی ایسے عمل سے جو اسے پسند نہ ہو ہمارے لئے ناراضگی کا

Page 175

160 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اظہار بھی کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی ایسی ہے جس کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کر سکتا.پس ہمیشہ جائزے لیتے رہیں.یہ دنیاوی سہولتیں اور آسائشیں اور کشائش جو ہمیں میسر ہیں وہ کہیں دین سے اور خدا سے دور لے جانے کا ذریعہ تو نہیں بن رہیں ؟ اگر بن رہی ہیں تو یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے.بہت خوف کا مقام ہے.پس دنیاوی لحاظ سے بھی ترقی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم ہمیں دین میں ترقی کی طرف لے جانے والا ہونا چاہئے.جب یہ سوچ ہو گی اور اس کے مطابق ہمارے عمل ہوں گے تو ہمارا اٹھنے والا ہر قدم ہمارے اپنے اندر بھی ایک انقلاب پیدا کر رہا ہو گا اور ہمارے ماحول میں بھی انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا.وہ انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا جس کا گزشتہ تقریباً آٹھ سو سال سے اس ملک کے لئے خاص طور پر ہم انتظار کر رہے ہیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے ایک حدیث کے حوالے سے آنحضرت صلی علی کریم کی ایک فکر کے بارہ میں بتایا تھا.آنحضرت صلیم نے فرمایا تھا کہ مجھے تمہارے لئے یہ فکر نہیں کہ تمہارا غربت و افلاس کس طرح دور ہو گا.مجھے یہ فکر نہیں کہ میری اُمت کو کشائش ملے گی بھی کہ نہیں.یہ چیزیں تو تمہیں ایک وقت میں مل ہی جائیں گی.لیکن اس دنیاوی دولت کے ملنے کی وجہ سے جو اصل فکر مجھے لاحق ہے وہ یہ ہے کہ تم اس دولت میں ڈوب کر ، کشائش میں ڈوب کر، دنیا کی آسانیوں میں پڑ کر دوسری قوموں کی طرح ہلاک نہ ہو جانا.(صحیح مسلم کتاب الزهد والرقاق باب الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر حدیث نمبر 7319 ) اب دیکھیں بعض عرب ملکوں کی تیل کی دولت نے انہیں دین سے دور کر دیا ہے.کہنے کو تو اسلام کے علمبر دار ہیں لیکن ان کے عمل انہیں اس سے دور لے گئے ہیں.اور اسلام سے اس دوری کا اثر ان لوگوں پر بھی پڑتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عرب سے اور خاص طور پر سعودی عرب کے لوگوں سے جو کچھ اسلام سیکھنا ہے وہی اصل اسلام ہے.نائیجیریا میں ایک صاحب نائیجیرین مسلمان جو احمدی نہیں تھے ، حج کر کے آئے لیکن پھر بھی شراب نہ چھوڑی.اس پر ایک احمدی نے انہیں کہا کہ اب آپ حاجی ہو گئے ہیں اب تو خدا کا خوف کریں اور شراب چھوڑ دیں.کہنے لگے تم کونسا اسلام مجھے سکھا رہے ہو.میں نے تو سعودی عرب میں بھی شراب دیکھی ہے اور لوگوں کو مسلمانوں کو پیتے بھی دیکھا ہے.بلکہ مکہ کے ماحول میں بھی میں نے بعض عرب مسلمانوں کو شراب پیتے دیکھا ہے.پس یہ آنحضرت صلی للی علم کی اس فکر کی تصدیق ہے جو ایک لحاظ سے پیشگوئی تھی کہ دولت آنے سے میری اُمت ہلاک نہ ہو جائے.یہ شراب جسے اُتم الخبائث بھی کہتے ہیں، یعنی برائیوں کی ماں، جسے آنحضرت صلی اللہ ہم نے اللہ کے حکم سے جب منع فرمایا تو مدینے کی گلیوں میں یہ پانی کی طرح بہنے لگی کیونکہ صحابہ نے ایک ہی وقت میں ، بغیر کسی چوں چرا کے اپنے تمام شراب کے مٹکے توڑ دئے.(مسلم کتاب الاشر به باب تحريم الخمر و بیان انها تكون من عصير العنب...حدیث نمبر 5024-5025)

Page 176

161 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لیکن آج ایک افریقین حج پر اپنے گناہوں سے پاک ہونے کے لئے جاتا ہے تو ایک گناہ کو کرتے چلے جانے کا اجازت نامہ لے کر آتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ہلاکت ہو گی.دولت کی وجہ سے مسلمانوں کی جو ان برائیوں میں مبتلا ہیں انتہائی مکر وہ حالت ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اتھ گپیڈ کہا ہے.یعنی ایسا بڑا گناہ جو بار بار گناہ کرنے پر ابھارتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے اس میں مبتلا ہونا ان کی ہلاکت کا باعث ہے.پس شراب اور مجوا وغیرہ جو ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے جوئے کو بھی شراب کے ساتھ بیان فرما کر اتھ كَبِيرُ فرمایا ہے.یہ برائیاں مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہیں.بلکہ ہر ایک کی تباہی کی بنیاد ہیں.کیونکہ یہ دین سے دور لے جانے والی ہیں.خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں اور جب انسان خد اتعالیٰ سے دُور چلا گیا تو پھر اپنے اوپر ہلاکت سہیڑ لی.پس ان ملکوں میں جہاں شراب پانی کی طرح پی جاتی ہے.جہاں ہر دکان پر ، ہر ریسٹورنٹ پر، ہر پٹرول سٹیشن پر شراب ملتی ہے اور جوئے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں اور یہ چیزیں پھر ترقی کی نشانی سمجھی جاتی ہیں احمدیوں کو بڑا پھونک پھونک کر چلنے کی ضرورت ہے اور نہ صرف اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچانا ہے بلکہ اپنی نسلوں کی، اپنے بچوں کی خاص طور پر ان کی جو نوجوان ہیں ، نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، حفاظت کرنی ہے.ان چیزوں کی، ان برائیوں کی اہمیت ان پر واضح کرنی ہے.جوئے کی عادت کھیل کھیل میں پڑ جاتی ہے اور پھر یہ ایک ایسا نشہ ہے کہ جو اس میں مزید مبتلا کر تا چلا جاتا ہے.پھر انسان اس برائی میں دھنستا چلا جاتا ہے.اکا دکا احمدیوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں.لیکن غیر احمدیوں میں تو بہت سے ایسے ہیں جو ان برائیوں میں ایسے پڑے ہیں کہ اس کو اب برائی سمجھتے ہی نہیں.اور یورپ کے ماحول میں ڈھل کر اپنے گھروں میں بھی شرابوں کی علیحدہ الماریاں بنائی ہوئی ہیں.شر اہیں ان میں سجا کر رکھتے ہیں.آنحضرت ملی الم نے تو ایسے تمام لوگوں پر لعنت ڈالی ہے جو شراب بناتے ہیں، شراب رکھتے ہیں، شراب پلاتے ہیں یا پیتے ہیں.(سنن ابی داؤد کتاب الاشر به باب العنب يعصر للمر حدیث نمبر 3674) کس قدر خوف کا مقام ہے.پس جب میں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ تم نے کسی ایسی جگہ پر نوکری نہیں کرنی، کام نہیں کرنا جہاں شراب پلانے کا کاروبار بھی ہو تا ہو تو یہ اس لئے ہے کہ یہ چیز ہلاک کرنے والی ہے.ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ غیر مسلموں کے ریسٹورنٹ یا کاروبار اس لئے چل رہے ہیں کہ انہوں نے شراب بھی وہاں رکھی ہوئی ہے یا بعض مسلمان جن کو کسی چیز کی پرواہ نہیں وہ اس لئے اپنے ریسٹورنٹ چلا کر دولت کمارہے ہیں کہ وہاں شرا میں بھی بکتی ہیں اور سور بھی بکتا ہے تو ایسی دولت جو ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہو ان کو مبارک ہو.ہمیں تو ایسا طیب اور پاک رزق چاہئے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو.ان لوگوں کی تو دین کی آنکھ اندھی ہے اور پیشگوئی کے مطابق ان کو دنیاوی آسائشوں کی فراوانی ہوئی تھی اور ہوتی ہے.لیکن ایک حقیقی مسلمان کا تو مطمح نظر دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہو تا ہے اور ہونا چاہئے.اسلام کے علاوہ ہر دین روحانی طور پر مردہ ہو چکا ہے.وہ اگر کوئی ایسا کام کرتے ہیں تو ان کی آج کل کی

Page 177

162 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مروجہ دینی تعلیم کے مطابق کوئی برائی نہیں ہے یا اگر برائی ہے بھی تو ان کو اس بات کی پر واہ نہیں ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں.اگر کسی کے اپنے اعمال نجات کا ذریعہ نہیں بنے تو نیکی اور برائی کے معیار بھی بدل جاتے ہیں.آج اسلام ہی ہے جو زندہ خدا کا تصور پیش کرتا ہے.اسلام ہی ہے جو قیامت تک دائمی نجات کا راستہ دکھانے والا مذہب ہے.اسلام کا خدا ہی ہے جو اسلام کی زوال کی حالت میں بھی تجدید دین کے لئے اپنے فرستادے بھیجنے کا وعدہ فرماتا ہے، تسلی دلاتا ہے اور بھیجتا ہے.آج اسلام کا خدا ہی ہے جس نے ایمان کو ثریا سے زمین پر لانے کے لئے مسیح موعود اور مہدی موعود کو بھیجا ہے اور آج اسلام کا خدا ہی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کی خلافت کے نظام کو جاری فرمایا.وہ نظام جو دائمی نظام ہے اور جو مومنین کی جماعت کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ ہر فرد کی روحانی خوبصورتی نظر آئے.تاکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے ہر وقت راہنمائی کی کوشش ہوتی رہے.پس مسلمانوں کا دین تو زندہ دین ہے.ہمیشہ قائم رہنے والا دین ہے اور اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ بھی فرمایا ہے.یہ وہ زندہ دین ہے جس کے غلبہ کا خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.پس اگر کوئی مسلمان دین سے دور جاتا ہے تو وہ اپنی دنیا و عاقبت خراب کرتا ہے.احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے ترقی کرنی ہے انشاء اللہ اور کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی.پس ہم جو احمدی کہلاتے ہیں، ہم جو آنحضرت علی ایم کے عاشق صادق اور امام الزمان کے ساتھ کئے گئے عہد بیعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کا مقصود دنیا نہیں بلکہ دین ہے اور ہونا چاہئے ور نہ تو اس بیعت کا کوئی فائدہ نہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا اس دین نے ، اسلام نے تو ترقی کرنی ہے.احمدیت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ کے دن دیکھنے ہیں.اسلام تو زندہ دین ہے.اس نے تو کبھی نہیں مرنا.لیکن جیسا کہ آنحضرت علی سلم نے فرمایا جو اس دین کی تعلیم کو بھولے گاوہ ہلاک ہو گا.وہ اپنی بربادی کی طرف جائے گا.آنحضرت صلی لی ہم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ مجھے اسلام کی فکر ہے.بلکہ آپ کو اس آخری دین کی یہ فکر تھی کہ یہ تمہارے عملوں کی وجہ سے دنیا سے نابود نہ ہو جائے.یہ تو الہی وعدہ ہے اور اس پر آپ صلی للی کم کو کامل یقین تھا کہ جو بھی حالات ہوں آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کی ہی ہے.اس لئے آنحضرت صلی کم نے مسلمانوں کو ، امت کے افراد کو یہ تنبیہ فرمائی کہ تم کہیں آسائش اور آرام اور دولت دیکھ کر دین سے دُور ہو کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال دینا.آنحضرت علی ایم کے صحابہ تو دولتمند ہوتے ہوئے بھی دین کو مقدم رکھتے تھے.دنیا کمانے کے باوجود بھی دین مقدم ہو تا تھا.اپنی دولت دین کی راہ میں بے انتہاء خرچ کرتے تھے.انہوں نے انتہائی تنگی اور کسمپرسی کی حالت بھی دیکھی اور ایسی کشائش بھی دیکھی کہ جب فوت ہوتے تھے تو کروڑوں کی جائیدادیں ان کی ہوتی تھیں اور

Page 178

163 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ان کے پاس اتنا مال ہو تا تھا کہ وہ ان کے ورثاء میں بھی کروڑوں میں تقسیم ہو تا تھا.انہوں نے اسلام کی ترقی کے لئے اپنے مالوں کو بے دریغ خرچ کیا.انہوں نے بخل اور کنجوسی کے ساتھ اور پیسے جوڑ کر یہ جائیدادیں نہیں بنائی تھیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے تھے.ان کی تجارتوں میں برکتیں پڑیں.انہوں نے دین کا خوب خوب حق ادا کیا پس ہمیں یہ نمونے اپنے سامنے رکھنے چاہئیں.ہمیں بھی یہ نمونے دکھانے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.تبھی ہم اولین سے ملنے کے انعام کے تسلسل کو قائم رکھ سکتے ہیں، تبھی ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں.سپین میں رہنے والے احمدی یاد رکھیں کہ آپ اس ملک میں رہتے ہیں جہاں ایک زمانے میں مسلمان حکومت بھی تھی اور مسلمانوں کی اکثریت بھی تھی.جہاں آج بھی سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی عظیم الشان عمارات محلات اور مساجد میں لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے الفاظ کندہ نظر آتے ہیں.لیکن یہی وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کے دنیا میں پڑنے اور دین کی اصل بھلا دینے اور اس سے غافل ہو جانے کی وجہ سے قدم قدم پر ان کی داستان عبرت بکھری پڑی ہے.ایک وقت تھا کہ عیسائی بادشاہ اور شہزادے اپنی حکومتوں کے استحکام کے لئے مسلمانوں سے مدد کے خواہاں ہوتے تھے.باوجود مسلمانوں کے لئے دلوں میں بغض اور کینے اور دشمنیاں رکھنے کے اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنی تمام تر عزتوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمان بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہو جاتے تھے.عیسائی مورخین بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں.دنیاوی لحاظ سے بھی مسلمان بادشاہ اس کر و فر سے رہتے تھے کہ عیسائی بادشاہ، شہزادے ان کے تخت و تاج اور جاہ و حشمت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے.لیکن یہ سب کچھ آپس کی لڑائیوں میں بدل گیا جب مقصود صرف اور صرف دولت بن گیا اور اقتدار اور لہو ولعب ہو گیا تو یہ سب کچھ الٹ ہو گیا.اور مسلمان بادشاہ عیسائی بادشاہوں کی پناہ گاہیں تلاش کرنے لگ گئے اور پھر دنیا نے یورپ کے اس مسلمان ملک سے مسلمانوں کا خاتمہ اور ان کی ذلت اور رسوائی بھی دیکھی.لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخری فتح اسلام کی ہے اور اس کام کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی کام آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کے سپر د ہے.یہ احیائے دین کا کام ہی ہے جس نے ہمیں بھی ہمیشہ کی زندگی بخشنی ہے.اگر ہم دنیا کی ہوا و ہوس میں پڑ گئے اور ان ملکوں میں آکر ہمارا کام صرف دنیا ہی رہ گیا تو یہ اس عہد بیعت کے بھی خلاف ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے جو عہد کیا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں ہم سے پوچھے گا.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے وَ اَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل:35) اور اپنے عہد کو پورا کرو کیونکہ ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہو گی.اللہ تعالیٰ کی رحمت بیشک وسیع تر ہے اور اس کے تحت وہ

Page 179

164 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جس سے چاہے رحم کا سلوک فرماتا ہے ، فرماسکتا ہے.لیکن یہ بات ہمیشہ یادر کھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کو کبھی دھو کہ نہیں دیا جاسکتا.اگر وہ چاہے تو ہر ہر عہد کے بارہ میں سوال کرے گا کہ کیوں اسے پورا نہیں کیا گیا.اگر ہم اپنے جائزے لیں تو انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو عہد بیعت باندھا ہے اس کو پورا کرنے والے بھی ہیں؟ اگر شرائط بیعت کو دیکھیں تو ان کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق کی ادائیگی کرنی ہے اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرنی ہے.ہمیشہ یہ باتیں ہمارے پیش نظر رہنی چاہئیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ تم پر درود بھیجنا ہے اور آپ کے غلام صادق کے ساتھ کامل اطاعت کا تعلق رکھنے کی طرف توجہ رکھنی ہے اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.پس اس عہد بیعت کو جس کی دس شرائط ہیں ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.تبھی ہم اپنی روحانی زندگی کے سامان کر سکتے ہیں اور تبھی ہم احیاء دین کے کام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممد و معاون بن سکتے ہیں.بعض دفعہ انسان اپنی ذاتی مصروفیات میں پڑ کر اپنی ترجیحات اور ضروریات کی وجہ سے مستقل مزاجی سے دین کے معاملات کی طرف اس طرح توجہ نہیں دے سکتا جس طرح اس کا حق ہے.اور یہ انسانی فطرت بھی ہے.اس لئے وقتاً فوقتاً اس عہد کی جگالی کرتے رہنا چاہئے.سپین میں رہنے والے احمدیوں کو تو جیسا کہ میں نے کہا قدم قدم پر ایسے نشانات ملتے ہیں جو انہیں ماضی کے در بچوں میں جھانکنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں.اور توجہ دلاتے ہوئے اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ کرتے ہیں.ہر بڑی سڑک پر شہروں کے نام اور یہ شہر اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ جگہیں بھی کبھی اسلامی شان و شوکت کے گہوارے ہوا کرتی تھیں.لیکن مسلمانوں کو دولت کی ہوس، آپس کی سیاست اور دھو کے بازیوں ، لہو و لعب اور عیاشیوں میں پڑنے کی وجہ سے قصہ پارینہ بننا پڑا اور وہ پرانے قصے بن گئے.اور ایک مسلمان ملک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا.آج اس کھوئی ہوئی عزت و عظمت کو جماعت احمدیہ نے قائم کرنا ہے انشاء اللہ.اس کے لئے آنحضرت صلی ال نیم کے حقیقی غلام بن کر دکھانے کی ضرورت ہے.اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے جو محبت، پیار اور بھائی چارے کے سوا کچھ نہیں ہے.جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب اپنے مقصد پیدائش کو سمجھیں گے.ہر احمدی مرد، عورت، بچہ ، بوڑھا اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھے گا.جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: (57) کہ یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اور جب اس مقصد کے حصول کے لئے عبادت کے معیار طے ہونے شروع ہو جائیں گے تو پاک تبدیلیاں بھی پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی.اپنی روحانی زندگی کے بھی سامان ہوں گے اور دوسرے کی روحانی زندگی کے لئے بھی کوشش ہو رہی ہو گی.

Page 180

خطبات مسرور جلد ہشتم 165 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سور ہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالی کی ذمہ واری ان کے لئے نہیں رہتی.فرمایا: وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے.کیا خوبصورت الفاظ میں نصیحت فرمائی ہے کہ اس بات کو سمجھ کر کہ زندگی کا مقصد کیا ہے عبادات میں جو سستیاں ہیں ان کو ترک کر دو اور عبادات کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو.موت کا اعتبار نہیں ہے.تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہارا مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے.اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد وجہد سے کرو.پوری کوشش سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردد نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہو گا.اگر اپنے کاروبار میں اپنے کام میں پوری طرح توجہ نہیں دے رہے تو تب بھی تم پوچھے جاؤ گے.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے.نہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو ، اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو.کیا اللہ تعالیٰ کی رضا اس میں ہو سکتی ہے کہ کوئی غیر شرعی کام کیا جائے؟ سور اور شراب کے کام میں ملوث ہوا جائے ؟ ہر گز نہیں.پس یورپ میں رہنے والے ہر احمدی کو اس بنیادی نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے.فرمایا: اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا.ہر بات میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کو دیکھنا ضروری ہے.(ماخوذ از الحکم جلد 5 نمبر 29 مورخہ 10 اگست 1901ء صفحہ 2) پس آپ سب اس مقصد کے حصول کی ٹریننگ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر اپنی عبادات کی طرف توجہ دیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دیں.جو نصائح اور علمی تقاریر کی جائیں ان سے صرف وقتی طور پر فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہوئے اپنی حالتوں میں انقلاب لانے کی طرف

Page 181

166 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم قدم بڑھائیں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو زندگی کا لازمی حصہ بن جائیں اور جب یہاں سے واپس لوٹیں تو گھروں میں جاکر بھی یہ احساس قائم رہے کہ ہم اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پیدا کر کے لوٹے ہیں.یہ بھی دعا کریں کہ ان ممالک کے جو حالات ہیں جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے ان کی وجہ سے ہمیں کہیں اور ہجرت نہ کرنی پڑے.ہجرت کی ضرورت بھی ہو تو انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وطن میں ہی ہو جہاں آزادی سے ہم اپنے دین پر عمل بھی کر سکیں اور اس کو پھیلا بھی سکیں.اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کو ہر وقت اپنے مقام کو سامنے رکھنا چاہئے.اور جیسا کہ میں نے کہا دعاؤں اور درود کی طرف توجہ دیتے رہیں.جلسہ میں شامل ہونے کے لئے مرا کو سے بھی ایک وفد یہاں آیا ہوا ہے.انہیں بھی یادرکھنا چاہئے کہ اپنے ہم وطنوں کا حق اس صورت میں ادا ہو سکتا ہے جب ہم ان کے سامنے اپنے ایسے نمونے پیش کریں گے جو ان کے لئے کشش کا باعث ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.پاکستان میں ایک ظلم کا واقعہ ہوا ہے.اس وقت اس کے بارہ میں بھی میں کچھ بیان کروں گا.ایک انتہائی افسوسناک خبر ہے.انتہائی ظالمانہ کام ہوا ہے جس کی ابھی کل رات کو اطلاع آئی ہے کہ کل جمعرات کو پاکستانی وقت کے مطابق رات تقریباً دس بجے فیصل آباد کے شیخ اشرف پر ویز صاحب اور شیخ مسعود جاوید صاحب جو شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم کے بیٹے تھے اور آصف مسعود صاحب کو جو شیخ مسعود جاوید صاحب کے بیٹے تھے ان تین احمدی احباب کو شہید کر دیا گیا ہے.ان کی دکان مراد کلاتھ ہاؤس اور مراد جیولرز کے نام سے تھی ریل بازار فیصل آباد میں.یہ رات کو دکان بند کر کے گاڑی میں جارہے تھے کہ فیصل ہسپتال کے قریب جب ایک جگہ پہنچے تو وہاں موجود چار پانچ افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں تینوں افراد شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال جاتے جاتے شہید ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اشرف پرویز صاحب کی عمر 60 سال تھی اور ان کے چھوٹے بھائی مسعود جاوید صاحب کی عمر 57 سال تھی.جبکہ شیخ مسعود جاوید صاحب کے بیٹے آصف مسعود کی عمر 24 سال تھی اور آصف مسعود بھی شادی شدہ تھے ان کی بالکل ایک سال کی عمر کی ایک بیٹی ہے.اشرف پرویز صاحب کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں ہیں جو شادی شدہ ہیں.بیٹوں میں سے ایک بیٹا 27 سال کا وہ بھی شادی شدہ ہے اور دوسر ا چھوٹا بیٹا 22 سال کا ہے جو غیر شادی شدہ ہے.اسی طرح شیخ مسعود جاوید صاحب کے پسماندگان میں ان کی دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور بیٹے بھی شادی شدہ ہیں.ایک بیٹا تو شہید ہو گیا، دوسرے ان سے بڑے بیٹے ہیں وہ بھی شادی شدہ ہیں.شیخ بشیر احمد صاحب جن کے شہداء میں سے دو بیٹے تھے اور ان کے آگے ان کا پوتا ، یہ بہت مخلص احمدی تھے.ان کی والدہ زینب بی بی صاحبہ شیخ

Page 182

167 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم مراد بخش صاحب کی اہلیہ تھیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ قادیان سے ان کا تعلق تھا اور آپ کے کہنے پر ہی وہ گھر میں خواتین کے لئے کپڑے لے کر آیا کرتی تھیں تا کہ ان کو بازار نہ جانا پڑے اور خاندان میں بیعت بھی سب سے پہلے زینب بی بی صاحبہ نے کی تھی.ان کے خاوند مراد بخش صاحب بعد میں احمدی ہوئے تھے اور تقسیم ہند کے بعد ( پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ریل بازار فیصل آباد میں دکان کھولی.1974ء میں ان کو بڑا شدید نقصان ہوا.ان کی دکان جلا دی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر فضل فرمایا اور کپڑے کی دکان کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں نے جیولری کی دکان بھی کھول لی.ان کا ، خاص طور پر شیخ اشرف پرویز صاحب کا بڑا اخلاص کا تعلق تھا اور اپنے والد کی نیکیوں کو جاری رکھنے والے تھے.پاکستان میں تو پتہ نہیں ان کا جنازہ کس وقت ہو گا لیکن بہر حال میں ان کی نماز جنازہ غائب ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ پڑھاؤں گا.فیصل آباد میں خاص طور پر گزشتہ کچھ عرصے سے احمدیوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے.یا اغوا کر کے تاوان لیا جاتا ہے یا شہید کر دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.پاکستان میں درجنوں لوگ تو بلا مقصد مر رہے ہیں اور ان لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ جو اُن کی موتیں ہو رہی ہیں یہ کس ظلم کی پاداش میں ہیں.اسی ظلم کی پاداش میں ہیں جو احمدیوں سے روار کھا جارہا ہے.ان ظالموں کو پتہ ہونا چاہئے کہ احمدی اگر شہید ہورہے ہیں تو وہ کسی مقصد کی خاطر شہید ہو رہے ہیں اور ہر شہادت، شہید کے خاندان کا مقام بڑھانے والی بھی ہے اور جماعت کی ترقی کا باعث بننے والی بھی ہوتی ہے.یہ شہداء ہمیشہ زندگی پانے والے ہیں.دشمن سمجھتا ہے کہ ان کومار دیا حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ ان لوگوں کو تو مقام حاصل ہو گیا اور خدا تعالیٰ کی نظر میں بھی یہ زندگی پانے والے ہو گئے.ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہو گئے.اس خاندان کی شہادتیں بھی انشاء اللہ رائیگاں نہیں جائیں گی اور ہر شہادت رنگ لائے گی.لیکن اس کے ساتھ میں پاکستان کے احمدیوں کو بھی کہتا ہوں خاص طور پر جو معروف احمدی ہیں کہ بعض حساس علاقوں میں جہاں دشمنی زیادہ ہے اپنے علاقے میں اپنے آنے جانے کے اوقات میں بھی احتیاط کریں.اللہ تعالیٰ ان شہداء کے درجات بلند فرماتا رہے اور ان سے بے انتہار حم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے جو پسماندگان ہیں ان کو بھی صبر جمیل دے اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہمیشہ ان کا حامی و ناصر ہو.اللہ تعالیٰ پاکستان میں ہر احمدی کو ہر جگہ اپنی حفاظت میں رکھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 17 مورخہ 23 اپریل تا29اپریل 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 183

خطبات مسرور جلد ہشتم 168 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010ء بمطابق 09 شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بشارت پید رو آباد.سپین تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام احیائے دین ہے.وہ دین جو زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنی عظمت تقریباً کھو چکا تھا.وہ ساکھ جو اس دین کی تھی وہ اس طرح نظر نہیں آتی تھی، جس پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے.مثلاً دنیاوی لحاظ سے اس ملک میں ہی چند صدیوں کے عروج کے بعد ایسا زوال آیا کہ اسلام کا نام ہی اس ملک سے ختم کر دیا گیا اور جو اسلام پر قائم رہنا چاہتے تھے انہیں بھی عیسائی بادشاہوں نے ظلم کا نشانہ بنا کر جبر سے عیسائی بنالیا یا کم از کم ظاہری اقرار کروالیا اور پھر آہستہ آہستہ ان کی نسلوں سے اسلام ختم ہی ہو گیا.روحانی لحاظ سے اسلام کا یہ حال تھا کہ ہر جگہ عیسائی مبلغین اپنا ز بر دست جال بچھا کر مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھانستے چلے جارہے تھے.یا یوں کہہ لیں کہ مسلمان اپنی روحانی کمزوری کی وجہ سے ان کے جال میں پھنستے چلے جارہے تھے.ہندوستان جو مسلمان بزرگوں اور اولیاء کی وجہ سے اسلام کا قلعہ کہلا تا تھا اس میں بھی لاکھوں مسلمان عیسائیت کی آغوش میں جا کر خود روحانی موت کی آغوش میں گر رہے تھے.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے سامان پیدا فرمائے اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر تمام مذاہب کے ماننے والوں پر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا سب مذاہب سے اعلیٰ ہونا ثابت فرمایا.عیسائی پادری جو حضرت عیسی علیہ السلام کو آنحضرت صلی علیم پر فوقیت اور برتری دیتے تھے، اس کی حقیقت کو اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سامنے رکھا کہ عیسائی پادری جو چند سالوں میں پورے ہندوستان میں عیسائیت کے غلبہ کی باتیں کرتے تھے ، اپنے دفاع پر مجبور ہوئے.بلکہ میدان سے ہی بھاگ گئے.(The Mission by Rev.Robert Clark M.A.page 234.London Church Missionary Society (دیباچہ تفسیر القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ 30.ایڈیشن 1934ء ) (1904.Salisbury Sqaure.E.C اور اپنے ماننے والوں کو یہ ہدایت دینے لگ گئے کہ احمدیوں سے کسی قسم کی بحث نہیں کرنی.ورنہ وہ تم پر اسلام کی برتری ثابت کر کے تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر دیں گے.(اور تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 95 جدید ایڈریان مطبوعه ربود)

Page 184

خطبات مسرور جلد ہشتم 169 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109 اپریل 2010 پادریوں نے یہاں تک تسلیم کیا کہ جو اسلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیش کر رہے ہیں.اور جس طرح کی تعلیم آپ پیش کر رہے ہیں اس نئے اسلام کی وجہ سے (جو ان کی نظر میں نیا تھا لیکن حقیقی اسلام تھا) محمد صلى ال علم کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہو رہی ہے.( The Offical Report of the Missionary Conference of the Anglican Comunion, 1894.Page64) (بحوالہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسلم ہندوستان اور انگریز از جمیل احمد بٹ صفحہ 224 طبع اول 2003ء) جیسا کہ میں نے کہا یہ کوئی نیا اسلام نہیں تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق احیائے موتی کے نظارے تھے جو آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر دکھائے.اور اسلام کی برتری عیسائیت اور تمام ادیان پر ثابت فرمائی.پس جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں کہہ چکا ہوں، احیائے موتی کا یہ کام آج ہر احمدی کا بھی ہے.اپنی حالتوں کو بدلنے کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور اپنی عملی کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سپین کی جماعت کے ہر فرد کو بھی اب اس طرف توجہ دینی چاہئے اور سنتیاں دُور کرنی چاہئیں.ان دلائل سے اور علمی اور روحانی خزانے سے کام لیتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیئے ہیں، اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے.لیکن یہ بھی واضح ہو کہ اس زمانہ میں عیسائیوں کی اکثریت عموم امذ ہب سے دور ہے.اس لئے پہلے تو ان کو مذہب کی ضرورت اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین کی طرف لانا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا اس کے لئے عملی نمونے اور علمی اور روحانی ترقی کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے.تقویٰ میں ترقی ضروری ہے.کیونکہ جب تک ہماری روحانی ترقی نہیں ہوتی ہماری تبلیغ میں بھی برکت نہیں پڑ سکتی.یہ تو خدا تعالیٰ کی تقدیروں میں سے تقدیر ہے کہ اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر ہونا ہے.انشاء اللہ.یہ تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ حقیقی اور زندہ دین صرف اور صرف اسلام ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کم کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کے لئے اس کے مطابق اپنے عملوں کو ڈھالنا ہی نجات کا ذریعہ ہے.پس یہی مقصد ہے جس کے لئے کوشش کی اور دعاؤں کی ضرورت ہے.یہی ایک چیز ہے جس کو ہم نے اپنے او پر بھی لاگو کرنا ہے اور دنیا کو بھی نجات دلانے کے لئے یہ پیغام پہنچانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307-306) دینے سے“.

Page 185

خطبات مسرور جلد هشتم 170 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109 اپریل 2010 پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس مقصد کے لئے بھیجے گئے، اس کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری بھی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ اپنی تمام استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کریں.جیسا کہ میں نے کہا ہے آج کل یورپ بلکہ پوری دنیا ہی مذہب کے نام پر شرک میں مبتلا ہے ، یا خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکاری ہے.آپ لوگ چونکہ یورپ میں رہتے ہیں اس لئے یورپ کی بات کر رہا ہوں.اور پھر جیسا کہ میں پہلے بھی اظہار کر چکا ہوں، ایک وقت تو وہ تھا جب اِس ملک میں لا إِلهَ إِلَّا اللهُ اور الله ابر کی آواز ہر طرف گونجا کرتی تھی.مختلف جگہوں پر مساجد اس بات کی آئینہ دار ہیں.مختلف جگہوں پر دیواروں پر جو الفاظ کھدے ہوئے ہیں وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اس ملک کی فضا میں توحید کے اعلان کی خوشبور چی بسی ہوئی تھی.لیکن ہمارے ہی لوگوں کی روحانی گراوٹ نے توحید کی حفاظت نہ کر سکنے کی وجہ سے جہاں اپنی ذلت کے سامان کئے وہاں اس ملک کو تثلیث کی جھولی میں ڈال دیا.اب جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ فیصلہ تو خدا تعالیٰ نے کر لیا ہے کہ دنیا کو توحید پر قائم کرے اور دین واحد کی طرف کھینچے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت ہے اس مقصد کے لئے وہ اپنے فرستادے اور انبیاء بھیجتا ہے.اس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا ہے اور ہمیں اپنے خاص فضل اور رحم سے یہ توفیق دی کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوئے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری بیعت کو ہماری زندگی کا آخری مقصد قرار نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد توحید کا قیام ہے اور دنیا کو دین واحد پر جمع کرنے کے لئے تم میری پیروی کرو تبھی تم اس مقصد کو حاصل کرنے والے کہلا سکتے ہو جو میری بعثت کا مقصد ہے.لیکن نرمی سے اور نرمی بھی اس وقت آتی ہے جب دلائل پاس ہوں.ہمارے مخالفین ہمارے خلاف اسی لئے سخت زبان استعمال کرتے ہیں ، گالیاں نکالتے ہیں یا سختیاں کرتے ہیں اور ہمارے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس دلائل نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا کہ میں نے تو قرآنی دلائل سے تمہیں اس قدر بھر دیا ہے کہ غصہ میں آنے کی ضرورت ہی نہیں.اپنی بحثوں میں ، باتوں میں نرمی اختیار کرو.دنیا پر ثابت کرو کہ اسلام کی تعلیم وہ خو بصورت تعلیم ہے جس کو پھیلنے کے لئے تلوار کی ضرورت نہیں.یہ تو وہ نور ہے جو ہر سعید فطرت کے دل کو روشن کر تا چلا جاتا ہے.یہ تو وہ اعلیٰ تعلیم ہے جو اخلاقی معیاروں کو بڑھاتی چلی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ جہاں حقوق اللہ کی ادائیگی کی تعلیم دیتا ہے، وہاں اسلام کی تعلیم حقوق العباد کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دلاتی ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بنیادی بات کی طرف بھی ہمیں توجہ دلا دی کہ یہ پیروی اس وقت تک حقیقی پیروی نہیں کہلا سکتی، تمہاری کوششیں اور تمہاری کاوشیں اس وقت تک ثمر آور نہیں ہو سکتیں

Page 186

171 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جب تک ان کو دعاؤں سے نہیں سینچو گے.توحید کے قیام اور دین واحد کے پھیلنے کا اصل ذریعہ روحانی ترقی ہے.اور روحانی ترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک تم دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق پیدا نہیں کرتے.وہ کام جو خد اتعالیٰ کی خاطر اس کی طرف بلانے کے لئے ہو رہا ہو ، وہ کام جو خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہو ، اس کو تم کس طرح اس سے زندہ تعلق پیدا کئے بغیر سر انجام دے سکتے ہو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دعاؤں سے کام لو، دعاؤں سے کام لو کہ اس کے بغیر کامیابی یقینی نہیں ہو سکتی، اس کے بغیر مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ ہماری فتح تو ہونی ہی دعاؤں کے ذریعہ سے ہے.لیکن ساتھ ہی تبلیغ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.کوشش کے ساتھ دعا ہو تو پھر پھل لگتے ہیں.اور دعا کے ساتھ اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنی بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے جب تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے تو ساتھ ہی تبلیغ کرنے والوں کو عملی حالت کی درستی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.فرمایا.وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ المُسْلِمِينَ (لحم السجدة: 34).اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے.اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بہترین بات جو تم کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے.باقی تمام کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.جو ذرائع میسر ہیں انہیں کام میں لاؤ اور جب موقع ملے ، ان بہترین لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کر وجو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے اپنے عمل کی طرف بھی توجہ رکھو.وہ نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرو جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.قرآنِ کریم میں سینکڑوں ایسے احکامات ہیں.بعض حکم ہیں جن کے کرنے کا ایک مومن کو حکم ہے.بعض باتیں ہیں جن کو نہ کرنے کا ایک مومن کو حکم ہے.تو جب ایک انسان ان چیزوں کے کرنے سے رکتا ہے جن سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اور ان چیزوں کو بجالانے کی کوشش کرتا ہے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو یہ اعمالِ صالحہ ہیں.اب اگر ہم جائزہ لیں تو بہت سی باتیں نیکی کی ایسی ہیں روز مرہ کے گھر یلو معاملات میں بھی، معاشرے کے معاملات میں بھی ، جماعتی طور پر نظام کی پابندی کرنے کے بارے میں بھی اور عبادات بجالانے میں بھی جو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں.تو ایک داعی الی اللہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی ایک شرط اور بہت اہم شرط اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نیک اعمال بجالانے والا ہو.اپنے نیک عمل ہوں گے تو تب ہی دوسروں کو بھی نیکی کی طرف بلایا جا سکتا ہے.دوسرے کو بھی کہا جاسکتا ہے کہ آؤ میں تمہیں دکھاؤں کہ اللہ تعالیٰ کے ایک فرستادہ نے، ایک شخص نے جو اس زمانے کی اصلاح کے لئے آیا ہے، مجھے ایسے راستے

Page 187

172 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بتائے ہیں جن پر چل کر میں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن گیا ہوں یا اس طرف چل کے میں بہت لحاظ سے ، ایک حد تک اپنے دل میں سکون اور چین پاتا ہوں اور اس طرف میرے ترقی کے قدم بڑھتے چلے جارہے ہیں.اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی طرف میں اس تعلیم کی وجہ سے متوجہ ہوا ہوں.آؤ تم بھی میری باتیں سنو.جس طرح میں فرمانبردار بننے کی کوشش کر رہا ہوں، تم بھی اس دین کی طرف آؤ اور اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کی کوشش کرو.پس ایک داعی الی اللہ کے لئے یہ ضروری ہے اور صرف یہ داعی الی اللہ کو یاد رکھنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ہر احمدی چاہے وہ فعال ہو کر تبلیغ کرتا ہے یا نہیں اگر دنیا کے علم میں ہے کہ فلاں شخص احمدی ہے، اگر ماحول اور معاشرہ جانتا ہے کہ فلاں شخص احمدی ہے تو وہ احمدی یا در کھے کہ اس کے ساتھ احمدی کا لفظ لگتا ہے ، اگر وہ تبلیغ نہیں بھی کر رہا تو تب بھی اس کا احمدی ہونا اسے خاموش داعی الی اللہ بنا دیتا ہے.بعض دفعہ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے مجھے خط آ جاتے ہیں کہ آپ کی جماعت کی نیکی کی تو بڑی شہرت سنی ہے اور آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں سے اچھے ہیں، لیکن فلاں احمدی نے مجھے اس طرح دھو کہ دیا ہے، میر احق اُس سے دلوایا جائے.تو ایک احمدی کا ایک عمل ، ایک فعل، پوری جماعت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ جو انسانی فطرت کی پاتال تک سے واقف ہے جس طرح وہ اپنی مخلوق کو جانتا ہے کوئی اور نہیں جان سکتا ہے ، اسی نے پیدا کیا ہے.اس نے یہ فرمایا کہ دعوت الی اللہ کرنے والے سے کون بہتر ہو سکتا ہے ؟ تو ساتھ ہی.یہ بھی فرمایا کہ دعوت الی اللہ کرنے والے کی کوشش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ اعمالِ صالحہ بجالائے اور یہ اعلان کرے کہ میں کامل فرمانبر دار بنتا ہوں یا بننے کی کوشش کروں گا.مجھ پر مسلمان ہونے کا احمدی ہونے کا صرف Label نہیں لگا ہوا.بلکہ میں خدا تعالیٰ کے احکامات کو کامل فرمانبرداری سے ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہوں اور ایک مسلمان فرمانبردار تبھی بنتا ہے جب حقوق اللہ کی طرف بھی توجہ رہے اور حقوق العباد کی طرف بھی توجہ رہے.یادرکھنا چاہئے کہ مسلمان کے فرمانبر دار ہونے کا عبادت کے ساتھ بہت تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ مسلمان وہی ہے جو دعا اور صدقات کا قائل ہو.(ملفوظات جلد اول صفحہ 195) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جب خانہ کعبہ کی دیواریں کھڑی کرتے ہوئے دعا کی اور ایک عظیم نبی کے برپا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعامانگی کہ وہ نبی جو آیات پڑھ کر سنائے ، کتاب اور حکمت سکھائے اور نفسوں کو پاک کرے تو اس دعا سے پہلے اپنے لئے اور اپنی ذریت کے لئے بھی یہ دعا مانگی کہ ربنا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا ( البقرة : 129) کہ اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک فرمانبردار جماعت بنا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریق بتا.

Page 188

خطبات مسرور جلد ہشتم 173 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109 اپریل 2010 پس عبادت کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے انبیاء آتے ہیں اور جس کے لئے آنحضرت صلی الله علم انسان کامل اور اول المسلمین تشریف لائے.اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور حکمت کی باتوں کی سمجھ اس وقت آتی ہے جب نفس میں پاکیزگی ہو.اور نفس کی پاکیزگی اس وقت آتی ہے جب عبادت کے اسلوب آتے ہوں، جب خداتعالی رہنمائی فرمائے اور اس عبادت کے طریق سکھائے جو اس کے ہاں مقبول ہوتی ہے.الله ہم احمدیوں کی خوش قسمتی ہے کہ ہم اس رسول صلی کم پر ایمان لائے جنہوں نے ہمیں وہ عبادت کے طریق سکھائے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے والے ہیں.اور پھر ہماری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے آنحضرت ملا لی ایم کے عاشق صادق کو ماننے کی توفیق ملی جنہوں نے ہمیں بار بار دعاؤں اور عبادت کی طرف توجہ دلائی اور واضح فرمایا کہ جہاں دعوت الی اللہ کے لئے علم حاصل کرو، وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اپنے اعمال کی سمت بھی درست رکھو.اپنے اعمال کو اس نہج پر بجالاؤ جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں اور عبادات پر زور دو.پس ایک تو ہر احمدی جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال اس لئے درست رکھے کہ اس پر ہر ایک کی نظر ہے.اگر کسی قسم کا ایسا دینی علم نہیں بھی ہے جو اسے فعال داعی الی اللہ بنا سکے تب بھی اس کا ہر فعل اور عمل اور قول دوسروں کی توجہ کھینچنے کا باعث بن سکتا ہے.اگر نیک اعمال ہیں تو لوگ نیکی سے متاثر ہو کر قریب آئیں گے.اگر نیک اعمال توجہ کھینچنے کا باعث نہیں ہیں تو شیطان کے چیلے جو ہیں اسے اپنے مقاصد کے لئے پکڑ لیں گے.اس سے غلط حرکتیں کرائیں گے.آج کل کے زمانے میں تو اس قسم کے لوگ ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ہم کسی کو قابو کریں اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کریں.اور پھر ایک احمد کی جو ہے برائیوں میں پڑ کر ان کے ہاتھوں میں چڑھ کر جماعت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے.دوسری بات جیسا کہ میں پہلے گزشتہ تقریر میں شائد بتا چکا ہوں کہ ہر احمد ی جو پاکستانی ہے عموماً اس کا باہر کے ملک میں آنا اس کے احمدی ہونے کی وجہ سے ہے.اس لئے جہاں دنیا کمانے کی طرف توجہ دیتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے ہفتہ میں کچھ وقت کم از کم ایک دن تو ضرور دعوت الی اللہ کے لئے نکالیں.یہاں جو چند سو احمدی ہیں اگر وہ فعال ہو جائیں تو تبلیغ کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے.جماعتی طور پر بھی تبلیغ کا پروگرام بنے اور ذیلی تنظیموں کی سطح پر بھی تبلیغ کا پروگرام بنے تو ایک بہت بڑے طبقہ میں نہیں تو کم از کم ایک خاصے طبقہ میں جماعتی تعارف ہو جائے گا.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آج کل ان لوگوں کو مذہب سے بھی لا تعلقی ہے اور ایک

Page 189

174 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تعداد ایسی بھی ہے جن کو خدا تعالیٰ کے وجود پر ہی یقین نہیں.اللہ تعالی کی ہستی پر ہی یقین نہیں ہے.پس ہر طبقہ کے لحاظ سے ان کو تبلیغ کی ضرورت ہے.بیشک یہاں کی اکثریت مذہب سے دوری کے باوجود کیتھولک اثر کے تحت اور ایک لمبا عرصہ عیسائیت کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے اور اس ظالمانہ تاریخ کی وجہ سے جو مسلمانوں کو زبر دستی عیسائی بنانے کی ثابت ہے ، اور بعض خاندانوں اور قبیلوں میں یہ ظالمانہ قصے چلتے بھی چلے جارہے ہیں، اب بھی روایتاً چل رہے ہیں، اسلام کے بارہ میں یہ لوگ اس وجہ سے سنا بھی نہیں چاہتے.لا تعلق ہیں یا خوفزدہ ہیں.لیکن اب بعض جگہ اس ملک میں بھی عیسائیت یا مذ ہب کے متعلق بے چینی کا اظہار ہونا شروع ہو گیا ہے.بلکہ ڈاکٹر منصور صاحب نے مجھے بتایا کہ ویلنسیا میں چار سو سالہ کوئی تقریب منائی جارہی ہے اس میں یہ بھی اظہار ہو گا کہ ہم نے مسلمانوں کا جو جینو سائیڈ (Genocide) کیا یا بڑے وسیع پیمانے پر قتل عام کیا ہے ، وہ غلط تھا اور ہمیں اس کی معافی مانگنی چاہئے.تو یہ احساس جو اب ابھر رہا ہے اس کو مزید ابھارنے کے لئے ہمارے پاس ایسا لٹریچر اور تبلیغی کو شش ہونی چاہئے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم تو یہ ہے جو پیار، محبت اور بھائی چارہ سے رہنے اور مذاہب کے عزت واحترام کی تلقین کرتی ہے.جو کچھ ہو اوہ یقیناً ظلم تھا.تو یہ ایک تعارف کا ذریعہ بنے گا.عیسائیت کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے.بڑی حکمت سے اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اسلام کا تعارف ہو.اور پھر یہ بتایا جائے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر اسلام کا یہ صحیح رخ پیش کیا ہے جو دنیا کی نجات کا باعث بننے والا ہے.یہ حالات جب خدا تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں تو اللہ تعالیٰ اب یہ موقع عطا فرمارہا ہے اور جن کے سپر داس زمانہ میں اسلام کی تبلیغ کا کام کیا گیا ہے ان کو یہ موقع دیا جارہا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور اس ملک میں اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کریں.اور یہ اس وقت ہو گا جب یہاں رہنے والوں میں سے ہر ایک احمدی کو یہ احساس ہو گا کہ دعوت الی اللہ ہماری ذمہ داری ہے.صرف اس بات پر نہ بیٹھے رہیں کہ یہ لوگ مذہب سے لا تعلق ہیں یا کیتھولک اثر کی وجہ سے اسلام کا پیغام سننا نہیں چاہتے.کیا چالیس پچاس یا ساٹھ سال پہلے کوئی تصور کر سکتا تھا کہ مسلمانوں کو آزادی سے یہاں تبلیغ کی اجازت مل سکتی ہے یا ہم مسجد بنا سکتے ہیں.کیا یہ تصور ہو سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انہیں مسلمانوں پر ظلموں کی وجہ سے شرمندگی کا احساس ہو گا اور معافی مانگنے کے اظہار کئے جائیں گے.پس یہ کام خدا تعالیٰ کے ہیں، جب چاہتا ہے کہ سعید فطرت لوگوں کو حق پہچانے کی توفیق ملے تو ایسی ہوا چلاتا ہے کہ دل خود مائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں.دلوں کو مائل کر ناخدا تعالیٰ کا کام ہے اور تبلیغ کرنا انبیاء کے ساتھ الہی جماعتوں کے افراد کا کام ہے.پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق یہاں تبلیغ کے نئے نئے راستے تلاش کریں.مربیان کے ہفتہ میں ایک دن یا سال میں چند دنوں کے تبلیغی پروگرام بنانے سے پیغام نہیں پہنچ سکتا.وسیع اور باہمت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے.ٹارگٹ مقرر

Page 190

175 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ایک سال میں آبادی کے کم از کم ایک یادو فیصد تک احمدیت کا تعارف پہنچانا ہے.جن ملکوں میں اس نہج پر کوشش ہو رہی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب نتائج نکل رہے ہیں.اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہے مربیان بھی اور جماعتی نظام بھی اور تمام ذیلی تنظیمیں بھی یہ سارے نظام ساتھ ساتھ چلیں.اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذمہ بھی یہی کام لگایا تھا.یہی کام آنحضرت صلی ایم کے ذمہ بھی لگایا گیا.اور یہی کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذمہ لگایا گیا کہ تمہارا کام پیغام پہنچانا ہے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيفًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ (الشورى : 49) پھر اگر وہ اعراض کریں تو ہم نے تجھے ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا.تجھ پر پیغام پہنچا دینے کے علاوہ کچھ فرض نہیں ہے.پس یہ فرض ہے جو ہر ملک میں احمدی نے ادا کرنا ہے.یہ فرض ہے جو آپ نے اس ملک میں ادا کرنا ہے.بڑی بڑی کتابیں دینے کی ضرورت نہیں ہے.دو ورقہ شائع کریں بلکہ ایک ورقہ ہی جس میں مختصر الفاظ میں احمدیت کا تعارف ہو اور ایم ٹی اے ، ویب سائٹ وغیرہ کا پتہ ہو.دلچسپی لینے والے پھر خود ہی توجہ کرتے ہیں.اسی طرح جہاں جہاں بھی احمدی رہتے ہیں اپنے علاقہ کے بڑے اور مشہور لوگوں سے رابطے کریں.اگر جس طرح مرکز ہدایات دے رہا تھا صحیح طور پر کام ہوا ہو تا، تو مسجد بشارت کو بنے ہوئے اب اٹھائیس سال ہو گئے ہیں اس حوالہ سے ہی آپ کا تعارف مختلف حلقوں میں ہو جاتا.ویلنسیا میں مسجد بنانے میں جو روک پڑ رہی ہے اگر تعلقات صحیح رکھے ہوتے تو وہ روکیں بہت پہلے دور ہو چکی ہو تیں.جب وقت آتا ہے تو اس وقت آپ کوشش کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ لمبی منصوبہ بندی کرنے کے لئے پہلے سے سوچیں اور مستقل تعلقات رکھیں.پس ان سوچوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے..اس مسجد کی تاریخ کے اٹھائیس سال میں اگر سال میں چند وفود یہاں آجاتے ہیں تو یہ کوئی کامیابی نہیں ہے یا کوئی بہت بڑا معرکہ نہیں ہے جو آپ نے مار لیا ہے.لٹریچر کی وافر تعداد بھی آپ کے پاس نہیں ہے.آج کل دنیا کو امن اور معاشی حالات پر بھی کچھ کہنے سنے کا شوق ہے.اسلام کی جہاد کے نام پر جو بدنامی ہو رہی ہے اس بارہ میں بھی کچھ سننے کا شوق ہے.اس کے مطابق لٹریچر مہیا ہونا چاہئے ، اور ہے مہیا، صرف ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے.میں نے کہا تھا کہ بڑے شہروں سے ہٹ کر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں جا کر جلسے اور سیمینار وغیرہ کریں.اس سے پہلے وہاں جا کر تعارف حاصل کریں.وہاں کے مذاہب کے لیڈروں کو دعوت دیں کہ ایک جلسہ منعقد کرتے ہیں جس میں ہر مذہب والا اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور اس کے مختلف عنوان آپ خود مقرر کر سکتے ہیں.اگر سیکر ٹریان دعوت و تبلیغ فقال ہوں، اگر جماعتی نظام فقال ہو تو اس کے لئے کرائے پر ہال لئے جاسکتے ہیں.غرض کہ بے شمار طریقے ہیں.اگر مبلغین اور ذیلی تنظیمیں سب فقال ہو جائیں تو بہت کام ہو سکتا ہے.جو ستیاں ہو رہی ہیں وہ ہر طرف سے ہو رہی ہیں.فی الحال تو ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم نے پیغام پہنچانے کا حق ادا

Page 191

176 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کر دیا.یہاں ٹورسٹ بھی بے انتہا آتے ہیں.ان کے لئے چھوٹا چھوٹا خو بصورت لٹریچر مختلف شکلوں میں بنا کر دیا جا سکتا ہے.ٹھیک ہے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو نہیں بھی لیں گے.کچھ لیں گے لیکن تھوڑے فاصلے پر جاکے پھینک دیں گے.لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہو گی جو پڑھے گی.پس ہمارا کام اپنی ذمہ داری کا ادا کرنا ہے.اگر ہم اس بات پر کہ Responce اچھی نہیں ہوتی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں تو یہ تو خدا تعالیٰ نے کہا ہی نہیں کہ تم تبلیغ کر وضرور تمہیں اچھی توجہ ملے گی.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص: 57).تو جسے پسند کرے ہدایت نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.پس دنیا کی اصلاح کے لئے آنحضرت صلی علیم کی تڑپ اور آپ کی دعاؤں کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہدایت دینا خد اتعالیٰ کا کام ہے.جسے اللہ چاہے گا، جو سعید فطرت ہیں، انہیں ہدایت ملے گی.آپ کا کام تبلیغ کرنا اور دعائیں کرنا ہے ، وہ کرتے رہیں.تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ہر کوشش کو ضرور پھل لگے گا.آپ کا کام اتمام حجت کرنا ہے، وہ کریں اور پھر دعاؤں پر زور دیں.اللہ تعالیٰ ہماری بھی پردہ پوشی فرمائے.ہماری کمزوریوں سے صرف نظر فرمائے اور ہماری کوششوں کو قبول کرے.یہ دعائیں ہیں جو ہمیں کرنی چاہئیں.اگر ہماری کوششیں صحیح رنگ میں ہوں گی تو باقی کام خدا تعالیٰ کا ہے.پس کوشش اور دعا کا جو اُسوہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے قائم فرمایا ہے اسے ہمیں اختیار کرنا ہو گا.یہاں میں اس سلسلہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سپین کے جو واقفین نو بچے ہیں ان میں سے ایک تعداد جو یہاں کے پلے بڑھے ہیں، جن کو سپینش زبان بھی اچھی طرح آتی ہے اور جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، وہ اپنے آپ کو جامعہ میں جانے کے لئے بھی پیش کریں.تاکہ یہاں بھی اور دنیا کی اور مختلف جگہوں میں بھی جہاں سپینش بولی جاتی ہے اس زبان کو جاننے والے مبلغین کی جو کمی ہے اسے پورا کیا جا سکے اور ہم ان تک پیغام پہنچانے کا حق ادا کر سکیں یا کم از کم کوشش کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کر کے دکھانے والے ہوں.علمیت کا زبانی دعوی کسی کام کا نہیں.ایسے ہوں کہ نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں“.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : (ملفوظات جلد 5 صفحہ 682 مطبوعہ ربوہ) ” تبلیغ سلسلہ کے واسطے ایسے آدمیوں دوروں کی ضرورت ہے، مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں.آنحضرت صلی اللہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعت اسلام کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 682 ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

Page 192

خطبات مسرور جلد ہشتم 177 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اپریل 2010 پھر آپ یورپ وغیرہ میں تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان ممالک میں جانا ایسے لوگوں کا کام ہے جو ان کی زبان سے بھی بخوبی واقف ہوں.اور ان کے طرز بیان اور خیالات سے خوب آگاہ ہوں).“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 684 مطبوعہ ربوہ) یہاں رہنے والے جو ہیں وہی اس چیز سے آگاہ ہو سکتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جو وقف نو کی سکیم کے تحت والدین کو اولاد وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اب اس نہج پر بچپن سے ہی ان کی تربیت کرنا بھی والدین کا کام ہے.ایسی تربیت کریں کہ وہ جامعہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.یہاں کی زبان اور طرزِ زندگی سے بھی واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں.جماعت کا تبلیغ کا کام کوئی چند سال کا یا دو چار ، دس سال کا کام نہیں ہے.یہ تو ہمیشہ جاری رہنا ہے.پس جہاں فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر تبلیغ کے پروگرام بنیں.وہاں لمبے عرصہ پر حاوی اور گہری سوچ و بچار کے بعد وسیع پر وگرام بھی بنائیں.تبھی ہم تبلیغ کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے کہلا سکتے ہیں.پس اس کے لئے ہمیں خالص ہو کر کوشش کرنے کی ضرورت ہو گی.اپنی زندگیوں کو تقویٰ سے بھرنا ہو گا.عہد یداروں کو صرف عہدوں سے غرض نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس مقصد کی پہچان کرنی ہو گی جس کے لئے اللہ تعالیٰ ان کو خدمت کا موقع دے رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے“.فرماتے ہیں : ”جو دل ناپاک ہے ، خواہ قول کتنا ہی پاک ہو، وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا.فرمایا : ” پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں، اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جائے.پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے ؟ اور اس کی باطنی حالت ( ملفوظات جلد اول صفحہ 8 مطبوعہ ربوہ) کیسی ہے ؟“ اب یہ جو فرمایا کہ تخم ریزی کی جائے تو تخم ( بیج) تو اسی لئے لگایا جاتا ہے کہ اس کو پھل لگیں.ہر احمدی کو پھل کی دو صورتیں ہیں.ایک اپنی حالتوں کو بدلنے کے لئے ، ایک اپنی نسلوں کو احمدیت پر قائم رکھنے اور تقویٰ پر چلانے کے لئے اور پھر پیغام پہنچا کر دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروانے کے لئے.تو ایک ہی درخت ہے جس کو مختلف قسم کے پھل لگ رہے ہیں.اور ہر احمدی کو اس طرف سوچنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں، ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.ہمیشہ اس کے آگے جھکے رہنے والے ہوں اور اس سے مدد پانے والے ہوں.اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں.اور اس زمانہ کے مامور کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچانے کا جو کام ہمارے سپر د ہوا ہے اس کو احسن رنگ میں ادا کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 18 مورخہ 30 اپریل تا 6 مئی 2010 صفحہ 5تا8)

Page 193

خطبات مسرور جلد ہشتم 178 16 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010ء بمطابق 16 شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام بیت التوحید.سان پیٹرو.اٹلی (Italy) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اٹلی کے اس شہر میں جس کا نام ”سان پیٹرو ہے“ جو ”بولون “ Bologna کے علاقے کا ایک شہر یا قصبہ ہے، سے خطبہ دینے کی توفیق مل رہی ہے اور دنیا میں اس ملک سے پہلی دفعہ لائیو خطبہ بھی نشر ہو رہا ہے.ایک لمبے عرصے تک جماعت کے افراد، کچھ حد تک افراد جماعت کی تعداد ہونے کے باوجود یا جماعت کے قیام کے باوجود یہاں کی جماعت کے پاس کوئی جماعتی جگہ یا سینٹر نہیں تھا.تقریباً دو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ جگہ جماعت کو خریدنے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ اب آپ کو یہاں مسجد بنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور راستے میں جو بعض روکیں ہیں ، وہ دور فرمائے.علاقے کے لوگوں کی طرف سے اسلام مخالف مہم کی وجہ سے یا بعض مسلمانوں ( مسلمان گروپوں) کی ایسی حرکات کی وجہ سے جنہوں نے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہے، جن لوگوں کے دل اسلام کی مخالفت سے بھرے ہوئے ہیں، جو اس تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی موقعہ ملے تو اسلام کو اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کی کوشش کی جائے انہیں اس قسم کے مسلمان گروپوں کی وجہ سے اسلام کے خلاف باتیں کرنے اور ذراسی بات کا بتنگڑ بنا کر اسے ہوا دینے کا موقع مل جاتا ہے.بہر حال دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اب یہ رو کیں دور فرمائے اور نہ صرف یہاں بلکہ روم میں بھی ہمیں مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کی توفیق عطا فرمائے.باوجو د اسلام مخالف مہمات کے یورپ کے مختلف ممالک اور مختلف شہروں میں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ مسلمہ کو مساجد بنانے کی توفیق عطا فرمارہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے کہ وہ راستے کھول دیتا ہے.بعض مشکلات بھی آتی ہیں، بعض جگہ پر جگہ دینے سے انکار بھی ہوئے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ پھر کوئی اور ایسی سبیل نکال دیتا ہے جو ہماری سوچ سے بھی بہتر ہوتی ہے.پس یہ ہوا اللہ تعالیٰ نے چلائی ہے کہ جماعت احمدیہ کے پھیلنے اور حقیقی اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے سامان بہم پہنچارہا ہے.ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں ہے.نہ ہی ہماری کوئی محنت ہے.جیسا کہ میں نے کہا، ہمارے یہاں اس سینٹر میں ہی آنے کی مخالفت بھی کی گئی.پھر جب کو نسلرز کو، علاقے کے لوگوں کو جماعت اور

Page 194

خطبات مسرور جلد ہشتم 179 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروانے کی توفیق ملی تو بہت سے ہمسایوں بلکہ میئر سمیت کئی کو نسلروں نے بھی ہمارے حق میں آواز اٹھائی.پرسوں بھی جو علاقے کے میئر یہاں ریسیپشن میں تشریف لائے ہوئے تھے باتوں میں کہہ رہے تھے کہ یہاں جماعت کا مرکز بننے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے انشاء اللہ.کیونکہ اس جگہ کے ارد گرد ہماری جماعت کے اکثر ہمسایوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ ہمیں امن پسند سمجھتے ہیں.بہر حال یہ سب باتیں یہاں رہنے والے احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتی ہیں.یہاں سے میری مراد اس ملک میں رہنے والے ہر احمدی سے ہے.چاہے وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو.ہر احمدی کو یادرکھنا چاہئے کہ وہ مسیح محمدی کو ماننے والا اور اس کے غلاموں میں شامل ہے.آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں جس کے ایک حصہ میں عیسائیت کی خلافت کا مرکز ہے.چاہے دنیا داری کی طرز ہی باقی رہ گئی ہے لیکن بہر حال انہوں نے ابھی تک پاپائیت کے نظام اور استحکام کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہوئی ہے اور پوپ کا احترام بھی ہے.یورپ میں بہت بڑی اکثریت پوپ کو ماننے والے کیتھولک عیسائیوں کی ہے.بہر حال اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق مسیح محمدی نے تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈ الہرانے اور سعید روحوں کو آنحضرت علی ایم کے قدموں میں لا کر ڈالنے کا کام کرنا ہے اور یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے.فی الحال تو یہاں ہمارے کوئی باقاعدہ مبلغ بھی نہیں ہیں.سوئٹزر لینڈ سے ہمارے مبلغ یہاں آتے ہیں.کوشش ہو رہی ہے ، خدا تعالیٰ کرے کہ یہاں مستقل مبلغ کے آنے کا انتظام بھی جلدی ہو جائے.اس لئے بھی ہر احمدی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی کوششوں اور اپنی حالتوں میں ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ انتظامیہ کو خود بخود ہی یہ احساس ہو کہ جس جماعت کے عام افراد بھی اس طرح اعلیٰ اخلاق اور روحانی معیار کے ہیں اور قانون کے پابند ہیں اس کے مشنری کا بھی یقیناً اعلیٰ معیار ہو گا.اس لئے اجازت ملنے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے.پس ہر احمدی کو احمدیت کا سفیر بننے کی ضرورت ہے تاکہ جماعت کا یہاں مضبوط بنیادوں پر قیام اور استحکام ہو جائے.لیکن یہ بھی واضح ہو کہ مبلغ کے آنے کے بعد آپ کی ذمہ داریاں کم نہیں ہو جائیں گی بلکہ پہلے سے بڑھ کر اپنے روحانی اور اخلاقی معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ صرف ایک دو نہیں بلکہ پورے ملک میں ہمارے مبلغین اور مساجد کا جال بچھ جائے.جو ملک آج مسیح موسوی کی خلافت کا مرکز ہے اس میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کی کثرت ہو جائے.اور یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ بہت بڑا کام ہے.اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے عہد بیعت کا پاس کرنے والے رہیں گے اور خلافتِ احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھیں گے تو آج نہیں تو کل، اور کل نہیں تو پرسوں اس مقصد کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے.آپ نہیں تو آپ کی نسلیں ضرور یہ نظارے دیکھیں گی.انشاء اللہ.عیسائیت تو کئی صدیوں کی سختیوں کے بعد جو موقد عیسائیوں کو برداشت کرنی پڑیں، یہاں پھیلی اور وہ توحید کی بجائے

Page 195

180 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تثلیث کے نظریے کو لے کر پھیلی.لیکن انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے تثلیث کو پھر توحید میں بدل کر توحید کے قیام کے لئے کوشش کرنی ہے اور پھر توحید کے قیام اور آنحضرت صلی علیم کے جھنڈے کو اس ملک میں لہراتے چلے جانے کی کوشش کرتے چلے جانا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں یہ پیغام پہنچانے کے لئے مسیح محمدی کے غلام قربانیاں دیتے چلے جائیں گے اور یہ قربانیاں اسی صورت میں ہو سکتی ہیں جب ہم تقویٰ پر قدم مارنے والے بنیں گے.جب اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے والے بنیں گے.جب اپنی حالتوں پر نظر رکھنے والے بنیں گے.جب دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.جب آپس کے تعلقات محبت، پیار اور بھائی چارے کی مثال بن جائیں گے.جب نظامِ جماعت سے پختہ تعلق جوڑیں گے.جب خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھیں گے.جب مسیح موعود سے کئے گئے عہدِ بیعت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں گے.جب اللہ اور رسول کی حکومت اپنے اوپر قائم کرنے کی کوشش کریں گے.پس جو پاکستانی قومیت رکھنے والے ہیں اور اپنے ملک کے حالات کی وجہ سے اس ملک میں آئے ہیں.یہاں آپ کو مذہبی لحاظ سے ذہنی سکون بھی ہے اور اکثریت کے مالی حالات بھی اللہ تعالیٰ نے بہتر کئے ہیں تو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا ہے تو اپنے خدا کا شکر گزار بندہ بنہیں.اور اس شکر گزاری کا اظہار اس صورت میں ہو گا، جب ان باتوں پر جو ابھی میں نے بیان کی ہیں، نظر رکھتے ہوئے تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے.مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں پاکستانی احمدیوں کے بعد دوسری بڑی تعداد افریقن احمدیوں کی ہے، اور ان میں بھی گھانین احمدیوں کی.اور پھر مراکش اور الجزائر کے رہنے والے احمدی ہیں.آپ لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے بہتر حالت میں کیا ہے.آپ کا بھی فرض ہے کہ اپنے عہد بیعت کو ہمیشہ سامنے رکھیں.افریقن نژاد احمدیوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں خود یا ان کے بڑوں کو تثلیث کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.اب آپ کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس دین میں شامل ہونے کے بعد یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ عیسائیوں کو بہتر رنگ میں توحید کا پیغام پہنچائیں.اور پھر یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مالی لحاظ سے اس ملک میں آپ کو کشائش عطا فرمائی ہے.اور اس طرح سے یہ ذمہ داری ان عرب ممالک کے جزائر اور مراکش کے رہنے والے احمدیوں کی بھی ہے کہ جس انعام کو خدا تعالیٰ نے آپ کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو روحانی مائدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے آپ کو ملا ہے اس سے دوسروں کو بھی فیضیاب کرنے کے سامان کریں.ایک حقیقی مسلمان کا آنحضرت صلی الی کلم کے فرمان کے تحت یہ کام ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرے.( صحیح بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه حدیث نمبر 13) پس اپنے ہم وطنوں، عزیزوں اور رشتے داروں کو آنحضرت صلی علیکم کے عاشق صادق اور غلام صادق کا پہنچائیں.تبھی آپ حقیقی احمدی ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں.

Page 196

خطبات مسرور جلد هشتم 181 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 مراکش اور الجزائر کے احمدی ہونے والے بعض افراد نے دورانِ ملاقات مجھے بتایا ہے کہ انہیں خدا تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شبیہ مبارک دکھا کر یا کسی اور طرح سے خواب میں احمدیت کی صداقت کے بارے میں بتا کر احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فعل یقیناً آپ کی کسی نیکی کی وجہ سے آپ کے حق میں صادر ہوا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس کا بدلہ آپ تمام زندگی بھی کوشش کریں تو نہیں اتار سکتے.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن:61) که احسان کی جزا احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے ؟ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن کی پرورش کی وجہ سے ہمیں یہ حکم ہے کہ یہ احسان جو تمہارے والدین نے تم پر کیا ہے ، ہمیشہ ان کے احسان کو یا د رکھتے ہوئے ان سے حسن سلوک رکھو.بلکہ حدیث میں ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ تم تمام عمر ا تار ہی نہیں سکتے.تو خدا تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر اپنے نیک بندوں پر احسان کرنے والا ہے ، بلکہ اپنے تمام بندوں پر احسان کرنے والا ہے وہ کس قدر حق رکھتا ہے کہ اس کے احسان کا بدلہ اتارا جائے یا اتارنے کی کوشش کی جائے؟ ایک تو اس کی رحمانیت کی وجہ سے اس کا احسانِ عام ہے جو ہر مخلوق پر ہو رہا ہے.اور یہ احسانِ عام ایک نیک فطرت کے لئے اس کی ربوبیت کی شکر گزاری کرتے ہوئے اسے سر اٹھانے کی مہلت نہیں دیتا.لیکن جب اللہ تعالیٰ روحانی طور پر خود رہنمائی فرما رہا ہو اور آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے اپنے خاص فضل سے رہنمائی کر رہا ہو تو یہ خدا تعالیٰ کا کس قدر بڑا احسان ہے ، جس کو انسان چاہے بھی تو نہیں اتار سکتا.پس جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ جزاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ کا معاملہ آئے گا تو یہ یکطرفہ معاملہ ہے.یعنی خدا تعالیٰ کے احسان کو اتار نا ممکن ہی نہیں.اور ایک عبد رحمان کے لئے صرف اور صرف ایک راستہ ہے کہ تاحیات اس کی نعمتوں کا اظہار کرتا رہے اور اس کا شکر گزار بندہ بنار ہے.اور ایک احمدی کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اپنے ماحول میں پھیلانے کی ہر وقت کوشش کرتا رہے.پس یہاں رہنے والے عرب احمدیوں سے یعنی مراکش اور الجزائر وغیرہ کے احمدی جو ہیں ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا بدلہ تو نہیں اتارا جا سکتا.لیکن شکر گزاری کا اظہار خاص طور پر اپنے ہم قوموں اور ہم وطنوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے کرتے چلے جائیں.یہ پیغام اور جو باتیں میں کر رہا ہوں صرف عربی بولنے والوں کے لئے نہیں ہیں یا جو میں نے پاکستانی اور افریقن یا عربوں کا ذکر کیا ہے صرف ان کے لئے نہیں ہیں.یہاں ہمارے بنگالی احمدی بھی ہیں ان کا بھی یہ کام ہے کہ اسی نہج پر کام کرتے چلے جائیں.بلکہ یہ پیغام ہر قوم کے فرد کے لئے ہے.ہماری زندگیاں بھی اس کام میں ختم ہو جائیں تب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احسان کا بدلہ اتار دیا ہے.خالق و مالک اور رب کے احسانوں کا بدلہ کس طرح اتر سکتا

Page 197

خطبات مسرور جلد ہشتم 182 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 ہے ؟ ہاں ہم اس کے احکامات پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں بشر طیکہ ہمارا ہر قول و فعل خالصتاً اس کی رضا کے حصول کے لئے ہو.پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام آنحضرت صلی ایم کے عاشق صادق مسیح موعود و مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ تو فیق عطا فرماتے ہوئے ہمیں اس گروہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو آنحضرت صلی للی کم کی اطاعت کرتے ہوئے آپ کے حکم کو پورا کرنے والا بنا.پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلوں پر احسان کیا تو اب اسی طرح آخرین پر بھی احسان کیا.خدا تعالیٰ ہمیں اپنے اس احسان کو یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَيكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمُ صُدِقِينَ (الحجرات: 18).اللہ تمہیں ایمان کی طرف ہدایت دینے کا تم پر احسان رکھتا ہے.پس ایمان کی قبولیت اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے ہے.اور اس احسان کی شکر گزاری ایمان میں ترقی کی طرف بڑھنے کی کوشش ہے.اور اس کوشش میں ایک حقیقی مسلمان یا حقیقی مومن اس وقت قدم مارنے والا کہلا سکتا ہے جب دل میں تقویٰ پیدا ہو.جب اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مد نظر ہو.جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا مقصد پیدائش سامنے ہو ، جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اس کا اگر کوئی مقصد ہے تو یہی مقصد ہے.ایک عبادت کرنے والا انسان ہی حقیقی عبد رحمان کہلا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر گزار ہو سکتا ہے.پانچ وقت با قاعدہ نمازوں کے علاوہ ذکر الہی بھی عبادت ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی بھی کام کو کرنا عبادت بن جاتا ہے.لیکن نماز تمام عبادات کا مغز ہے.پس سب سے پہلے تو ایک مومن بننے کے لئے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی نمازوں کی حفاظت کریں.انہیں قائم کرنے کی کوشش کریں.یہ جو آپ سینٹر بنارہے ہیں یہاں اور پھر مسجد بنانے کی بھی کوشش ہو گی انشاء اللہ.اسی طرح روم سے آئے ہوئے بھی بعض احمدیوں نے بھی مجھے دعا کے لئے کہا کہ ہم لوگ بھی مسجد بنانے کے قابل ہو جائیں.تو یہ خواہشات اور دعائیں قبول کر وانے کا یا پوری کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ نیک مقصد کے حصول کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ، کسی بھی نیک مقصد کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے آگے ، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانا ہے اور بنانے کی کوشش کرنا ہے.اس کے آگے جھکیں رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے نیک مقاصد کے حصول کے راستے بھی کھولتا چلا جائے گا.انشاء اللہ.اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اگر وہ عبادت جو تمام عبادات کا مغز ہے، اس کی طرف ہی توجہ نہیں، اگر پانچ نمازیں ہی ادا کرنے کی طرف پوری طرح توجہ نہیں، تو اس سینٹر کی عمارت یا مسجد ایمانوں میں جلا پیدا کرنے کا باعث تو نہیں بن سکتی.میں نے تبلیغ کرنے اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کی بات کی ہے.تو اس کا ذریعہ بھی دعائیں ہی بنتی ہیں اور

Page 198

183 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تبلیغ کے نتائج بھی دعاؤں ہی سے نکلنے ہیں.انشاء اللہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہماری فتح دعاؤں ہی سے ہونی ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 57) پس فتح کے حصول کے لئے دعاؤں کے اس ذریعے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اور وہ نماز ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی ابتداء میں ہی سورۃ بقرۃ کی چوتھی آیت میں ایمان بالغیب کے بعد نماز کے قیام کی طرف توجہ دلائی ہے.تقویٰ کے مدارج طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نمازوں کے قیام کی کوشش کی جائے.مجھے ملاقات کے دوران بھی بعض احباب ملے.بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے خاندانوں کے افراد ہیں لیکن نمازوں میں سست ہیں.خود احساس ہے کہ ہم نمازوں میں سست ہیں.اس کے لئے دعا کے لئے بھی کہتے ہیں.لیکن دعائیں بھی اس وقت کام کرتی ہیں، جب آپ خود بھی کوئی عملی قدم اٹھائیں گے.ایک طرف تو آذان کی آواز آرہی ہو اور نماز کی طرف بلایا جارہا ہو اور بجائے اس کے کہ آذان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسجد کی طرف جائیں، خود اپنے کاروبار کے پیچھے چل پڑیں، تو پھر یہ دعاؤں کی درخواست نفس کا دھوکہ ہے.یہ اس شخص کے لئے بھی دھو کہ ہے جسے آپ نیکیوں پر قائم ہونے کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہیں یا دعا کے لئے کہتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی دھو کہ ہے.پس اس دھوکے سے باہر نکلیں.اگر نیت نیک ہے تو عملی قدم اٹھانے کے لئے اپنے نفس کے شیطان کے خلاف بھی جہاد کریں.جب یہ کوشش ہو گی تو پھر آپ دیکھیں گے کہ نماز آپ کی اولین ترجیح بن جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں یا جو کچھ قوتیں عنایت ہوئیں ہیں، اصل مقصود ان سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش اور خدا کی محبت ہے.اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خدا کے اپنی سچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا.بڑا دولتمند ہو کر، بڑا عہدہ پا کر ، بڑا تاجر بن کر، بڑی بادشاہی تک پہنچ کر، بڑا فلاسفر کہلا کر آخر ان دنیوی گر فتاریوں سے بڑی حسرتوں کے ساتھ جاتا ہے.اور ہمیشہ دل اس کا دنیا کے استغراق سے اس کو ملزم کرتارہتا ہے.اور اس کے مکروں اور فریبوں اور ناجائز کاموں میں کبھی اس کا کانشنس اس سے اتفاق نہیں کرتا“.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 415) پس اگر ہر ایک اپنے اندر کے جائزے لے تو خود ضمیر کی آواز اسے بے چین کر دیتی ہے اور ایک احمدی کو جسے خدا تعالیٰ نے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور اس کی کسی نیکی کی وجہ سے جماعت کے ساتھ جڑے رہنے پر قائم رکھا ہوا ہے، اس کا ضمیر تو بار بار اسے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اپنے مقصد پیدائش کو یادر کھو.یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ احمدی بڑی بے چینی سے، بعض لوگ بڑی سنجیدگی سے اور نیک نیتی سے اور بے چینی سے اپنے خطوں میں بھی اس کا اظہار کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ملاقاتوں کے دوران زبانی بھی کہتے ہیں کہ دعا کریں

Page 199

خطبات مسرور جلد هشتم 184 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 کہ ہم نمازوں کے قائم کرنے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے مقصد پیدائش کی حصول کی طرف توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے.عبادات میں ترقی اللہ تعالیٰ کے باقی حقوق اور بندوں کے حقوق اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی طرف توجہ بھی دلاتی رہے گی.اللہ تعالیٰ کے احسانوں کی شکر گزاری کی طرف بھی توجہ رہے گی.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد بھی ہمیں اپنی روحانی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ نہ رہی تو جہاں ہم اپنے عہد سے دور جارہے ہوں گے وہاں ہم اللہ تعالیٰ کے احسانوں کی بھی نفی کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے.وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا (آل عمران : 104) اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے مگر اس نے تمہیں اس سے بچالیا.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں اُس جماعت کے ساتھ منسلک کر دیا ہے جو آنحضرت صلی علیم کے عاشق صادق کی جماعت ہے.آج آپ دیکھیں تو دنیائے اسلام میں یہ بات بڑے شد و مد سے کہی جارہی ہے کہ امتِ مسلمہ کو اگر سنبھالنا ہے تو نظام خلافت ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جس نظام خلافت کو چلایا ہے اسے مسلمانوں کی اکثریت ماننے کو تیار ہی نہیں ہے.یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ خلافت راشدہ کے بعد جو لمبا عرصہ مسلمانوں کی خلافت سے محرومی رہی ہے یہ ان وجوہات اور اعمال کا نتیجہ ہے جو مسلمانوں کے تقویٰ سے دور ہٹنے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے نافرمانی ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَزَقُوا ( آل عمران :104) اور تم سب اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو.پس جب تفرقہ پڑا تو اس کا لازمی نتیجہ نکلنا تھا کہ تقویٰ سے بھی عمومی طور پر دوری پیدا ہو.لیکن خدا تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اس نے اسلام کی آخری فتح کے لئے آخرین کو پہلوں کے ساتھ جوڑ کر اس فتح کے سامان پیدا فرما دیئے ہیں.پس اس مسیح و مہدی کو مانے بغیر جس کی اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آنحضرت صلی الم نے آخری زمانے میں آنے کی خبر دی تھی، اس مسیح موعود سے جڑے بغیر خلافت کی برکات حاصل نہیں ہو سکتی.پس اس حوالے سے آج میں آپ کو بھی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر احسان کرتے ہوئے مسیح موعود کو ماننے اور نظام خلافت کے سائے میں لا کر آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچایا ہے تو تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں.اور اپنے زورِ بازو سے اس رسی کو کوئی نہیں پکڑ سکتا.یا کسی کی اپنے زعم میں نیکیاں صرف اس رسی کو پکڑنے کے کام میں نہیں آسکتیں.اس کے لئے پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کو حاصل کرنے کے لئے اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے.جماعت کی لڑی میں پروئے رہنے اور اس ، فیض پانے ، اسی طرح نظام خلافت کی برکات سے فائدہ اٹھانے کے لئے، اُس نظام سے فائدہ اٹھانے کے لئے

Page 200

185 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جس کے دائمی رہنے کی آنحضرت صلی الی یوم نے پیشگوئی فرمائی تھی تقویٰ پر چلنا بھی شرط ہے.اللہ تعالیٰ نے خلافت سے فیض پانے کے لئے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی شرط کو رکھا ہے.ایمان کی مضبوطی تبھی ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں ہو.اعمالِ صالحہ کی بجا آوری کی طرف توجہ تبھی ہو گی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الم کی کامل اطاعت کا جوا اپنی گردن میں ڈالنے کی ہماری کوشش ہو گی.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.یاتھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ انْتُم مُّسْلِمُونَ (آل عمران: 103) اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو.اور تم پر ایسی حالت میں موت آئے کہ تم پورے فرمانبر دار ہو.پس یہ وہ انتہا ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کی ضرورت ہے.ایک حقیقی مسلمان کی توجہ خاص طور پر اس امر کی طرف کروائی گئی ہے کہ زندگی کے مقصد کا حصول بغیر تقویٰ کے نہیں ہو سکتا.تمہاری عبادتیں کرنے کی تمام کوششیں، تمہارے حقوق العباد ادا کرنے کی تمام کوششیں، تمہارے زمانے کے امام کی بیعت میں آنے کے دعوے، تمہارے خلافت سے وفا کے تعلق کا اعلان اور تمہارا اَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (النساء:60) کا دعویٰ اس وقت حقیقی کہلائے گا جب تمہارے دل میں تقویٰ ہو گا.پس ایک حقیقی مومن جہاں اپنے غیر صالح اعمال کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی پکڑ اور گرفت سے خوفزدہ رہتا ہے ، وہاں اسے یہ امید بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے اس کے آگے میں جھکوں گا، اس سے دعا کروں گا اس کے فضل کو مانگوں گا تو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت میری اس عاجزی کو جذب کرنے والی بن جائے گی اور یہ دونوں صورتیں جو ہیں یہ اس وقت ایک مومن کے سامنے رہتی ہیں جب اسے یہ یقین ہو کہ خدا سب طاقتوں کا مالک ہے.جب خدا تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک سمجھا جائے گا تو پھر ہمارے قدم بھی اس کی طرف بڑھیں گے.اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش ہو گی.تقویٰ کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش ہو گی.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فرمانبردار رہو.کبھی اس کی نافرمانی نہ کرو.ہمیشہ اس کے شکر گزار رہو، کبھی اس کی ناشکر گزاری نہ کرو.ہمیشہ اسے یاد رکھو اور اسے کبھی نہ بھولو.(الدر المنثور فی التفسیر الماثور - جلد 2 صفحہ 267 تفسیر سورۃ آل عمران زیر آیت) پس اگر اس نصیحت پر ہم عمل کریں گے تو ہماری نمازیں بھی قائم رہیں گی.ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بھی بنے رہیں گے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ بھی رہے گی.نظام خلافت سے جڑے رہنے کی برکات کا جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اس سے بھی فیض پاتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ یہ حق ادا کرنے اور یہ فرض ادا کرنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ (آل عمران: 103) اور اس وقت تک

Page 201

186 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم موت نہ آئے جب تک فرمانبردار نہ ہو جاؤ.زندگی موت تو کسی کے اختیار میں نہیں ہے.اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مارتا ہے.اس حصہ کا پھر یہی مطلب بنتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنا چاہئے تاکہ جب ہمیں موت آئے تو ایسی حالت میں آئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنے والے ہوں.پس ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے بنے رہیں.انسان غلطیوں کا پتلا ہے.انسان پر کسی وقت کمزوری کی حالت بھی آسکتی ہے اس لئے جب ہم اللہ تعالیٰ سے ہر وقت مدد مانگتے رہیں گے کہ ہمیں کبھی اطاعت سے باہر ہونے کی حالت میں موت نہ آئے.ہمیں کبھی تقویٰ سے دور ہونے کی حالت میں موت نہ آئے تو خدا تعالیٰ پھر ایسے حالات پیدا فرما دیتا ہے کہ جب بھی موت آئے تو ہمیشہ ایمان اور تقویٰ کی حالت میں موت آئے.اس لئے انجام بخیر ہونے کی دعا بھی بڑی اہم اور ضروری دعا ہے جو حقیقی مومن کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ” موت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکی بات ہے کہ وہ یقینی ہے ، ٹلنے والی نہیں.تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لئے تیار ہے.اسی لئے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے فَلَا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ ( البقرة :133).ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے، بات نہیں بنتی “.فرمایا کہ: ”جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں.ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد.اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ، یا بیٹا.مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے.اور ایک“ (یعنی دوسری قسم وہ ہے جو ) ”عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی “ ہے.فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اسی کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے“.فرماتے ہیں کہ ” بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعانہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہو تا.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 68) پس یہ وہ تعلیم ہے جو حقیقی تقویٰ پر چلانے والی ہے اور اس پر عمل کرنا تقویٰ پر چلنے والوں کے لئے ضروری ہے تاکہ حقوق اللہ کی بجا آوری کی بھی پوری کوشش کی جائے اور حقوق العباد کی بجا آوری کی بھی کوشش کی جائے.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ماننے والوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کا سینہ دشمن کے لئے بھی صاف ہو اور اس کے لئے دعا کی جائے تو ہمیں آپس کے تعلقات میں کس قدر کوشش کر کے یکجان ہونے کی ضرورت ہے.جب کہ خاص طور پر وَلَا تَفَرقُوا کا حکم کہ آپس میں تفرقہ مت ڈالو، مومنوں کو دیا گیا ہے.

Page 202

خطبات مسرور جلد هشتم 187 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2010 تقویٰ کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر فرد جماعت اپنے عہدیدار کے ساتھ مکمل تعاون اور اطاعت کا جذبہ رکھنے والا ہو.اور ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدے دار کا احترام، تعاون اور اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے والا ہو.ذیلی تنظیمیں اپنے دائرے میں بے شک آزاد ہیں اور خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں.لیکن جماعتی نظام کے تحت ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار بھی فردِ جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے اور اس کے لئے اطاعت لازمی ہے.پس اس طرف بھی خاص توجہ دیں.اگر جماعتی ترقی دیکھنی ہے، اگر اپنی تبلیغی کوششوں کے پھل دیکھنے ہیں ؟ اگر اپنے تربیتی معیاروں کو بلند کرنا ہے ؟ تو ہر جگہ یکجان ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے.پس تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے زندگی بسر کریں.اختلافات کی صورت میں بھی دعا سے کام لیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اگر کسی سے بہت بڑا اختلاف کوئی ایسا ہو ا ہے جس سے کسی کی نظر میں جماعت کا نظام متاثر ہو سکتا ہے یا جماعت کے لئے کسی طرح بھی وہ نقصان کا باعث ہے تو میرے علم میں وہ بات لے آئیں لیکن اطاعت میں فرق نہیں آنا چاہئے.ہر لیول پر اطاعت ہو گی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں پر شکر گزاری کا ذریعہ بنے گی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اور خاص طور پر عہدیداران کو اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ نئے آنے والوں کے لئے وہ مثال ہوں نہ کہ کسی قسم کا ٹھو کر کا باعث بنیں.مردوں اور عورتوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور تقویٰ پر چلنے کی طرف توجہ دیں وہاں اپنے بچوں کی بھی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ بڑے ہو کر اسلامی تعلیم کے صحیح نمونے بنیں بلکہ بچپن سے ہی ان سے اسلامی تعلیمات کا اظہار ہوتا ہو.ایک احمدی بیچے اور ایک غیر مسلم یا غیر احمدی بچے میں فرق ظاہر ہو تا ہو.اور پھر یہ بچے، نئی نسل احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے میں بھر پور کوشش کرنے والے بہنیں تا کہ اس ملک میں بھی احمدیت کا پیغام ہمیشہ پھیلتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 19 مورخہ 7 مئی تا 13 مئی 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 203

خطبات مسرور جلد ہشتم 188 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010ء بمطابق 23 شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام سوئٹزرلینڈ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں اکثر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں اور حقیقی شکر گزاری اسی صورت میں ادا ہو سکتی ہے جب ہمارے دل میں تقویٰ ہو ، جب ہم اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اور اس دورے کے دوران جو میں نے یورپ کے مختلف ممالک کا کیا ہے میں نے گزشتہ دو تین خطبات میں خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی تھی.یہ باتیں دوہرانے کی مجھے اس وجہ سے بھی توجہ پیدا ہوئی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں MTA کی سہولت سے نوازا ہوا ہے جس میں میرے خطبات با قاعدہ آتے ہیں اور دوسرے ایسے پروگرام بھی جاری رہتے ہیں جو ہماری روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں پھر بھی سو فیصد افراد جماعت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور ایک خاصی تعداد مردوں، عورتوں اور نوجوانوں میں ایسے افراد کی ہے جو باقاعدگی سے خطبہ بھی نہیں سنتے.یاسن لیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید جس جگہ خطبہ دیا جارہا ہے وہاں کے لوگوں کے لئے ہے.حالانکہ ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو.خاص طور پر جو پرانے احمدی ہیں ان میں یہ بڑی غلط رو پیدا ہو گئی ہے.نئے ہونے والے احمدیوں میں عربوں میں سے بھی لکھتے ہیں ، یا جو نو مبالعین ہیں ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ بعض خطبات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حالات کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں.اب کچھ عرصہ سے رشین میں بھی باقاعدہ خطبہ کا ترجمہ MTA سے نشر کیا جاتا ہے اور روس کے مختلف ممالک سے احمدیوں کے ، جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں، خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے اور بعض اوقات تربیتی خطبات پر یوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دیئے جار ہے ہیں.بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں بھی جکڑا ہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت ساتر بیتی سامان مہیا فرمایا ہے.تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی

Page 204

189 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کوشش کرنی ہے ، اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا ایک تعداد ایسی بھی ہے جو یا تو خطبات کو سنتی نہیں یا اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتی یارسمی طور پر سن لیتی ہے.اس لئے میں بعض معاملات کی طرف ہر ملک میں بار بار اپنے خطبات میں توجہ دلاتا ہوں کیونکہ دورے کی وجہ سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد جمعہ پر حاضر ہو جاتی ہے.ہر احمدی کے اندر ایک نیکی کا بیج تو ہے.خلافت سے ایک تعلق تو ہے جس کی وجہ سے باوجود عمومی کمزوریوں کے جب سنتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہے اور خطبہ ہے ، جلسہ ہے تو ایک خاص شوق اور جذبے سے اس پروگرام میں شامل ہوتے ہیں چاہے خطبہ ہو یا کوئی اور پروگرام ہو.پس آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سوئٹزرلینڈ کے احمدیوں کو بھی بعض امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور سب سے پہلی بات تو یہی ہے جو شروع میں میں نے کہی کہ عبد شکور بنیں، شکر گزار بندے بنیں.خاص طور پر یورپ کے ممالک میں آنے والے احمد کی اور آپ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے سوئٹزرلینڈ میں آکر رہنے اور مالی سکون و کشائش عطا فرمائے ، ان کو بہت زیادہ شکر گزار ہو نا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کے مضمون کو قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : 8 ) اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اظہار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری اور اس کا اظہار کیا ہے ؟ اس کی شکر گزاری کا اظہار اس کی کامل فرمانبرداری ہے.اس کے حکموں کی پابندی ہے.جن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے انہیں پوری توجہ سے سر انجام دینا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان سے کامل فرمانبر داری کا نمونہ دکھاتے ہوئے رُک جانا ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبدِ شکور بن کر گزارے اور عبدِ شکور بننے کے لئے اپنے دل و دماغ میں اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھے.اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھتے ہوئے اس کے ذکر سے تر رکھے.اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نوازا ہے انہیں یاد رکھے اور انہیں یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار ہو.اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری رہے اور صرف زبان پر نہ جاری ہو بلکہ ایک حقیقی مومن کا اظہار اس کے ہر عضو سے ہو تا ہو ، اس کی ہر حرکت و سکون سے ہو تا ہو.اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ بننے کی کوشش ہو.یہ عاجزی اس وقت ہو سکتی ہے جب حقیقت میں تمام نعمتوں کا دینے والا خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھا جائے.اللہ تعالیٰ کا پیار دل میں ہو.جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان کا استعمال اس کی

Page 205

190 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو.صحت مند جسم دیا ہے تو عبادت اور اس کے راستے میں اس کے دین کی خدمت کر کے اس کا شکر ادا کریں.اگر کشائش عطا فرمائی ہے تو کسی قسم کی رعونت، تکبر اور فخر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ کریں.اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور استعدادوں اور مال اور اولاد کے صحیح مصارف خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہیں تو طبعی شکر گزاری بھی ہے اور پھر خدا تعالیٰ جو اپنے بندے پر بہت رحم کرنے والا ہے اور ایک کے بدلے کئی گنا دینے والا ہے.وہ استعدادیں بھی بڑھاتا ہے، صحت بھی دیتا ہے، کشائش بھی دیتا ہے ، ایک عابد بندے کو اپنے قرب سے بھی نوازتا ہے.اس کا جو مقصد پیدائش ہے اس کے حصول کی بھی توفیق دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان اپنے زورِ بازو سے عبادت یعنی مقبول عبادت بھی نہیں کر سکتا.اگر عبادت کرتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ قابل قبول نہیں تو ایسی عبادت بھی بے فائدہ ہے.پس یہ شکر گزاری کا مضمون ہے جو نیکیوں میں بڑھنے کی بھی توفیق دیتا ہے.تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے.کیونکہ ر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ قرار دے کر اس کی طرف جھکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے شکر گزار بندوں کی طرف توجہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللَّهُ ليه بِالْمُتَّقِينَ ( آل عمران: 116) اور جو نیکی بھی وہ کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو انسان اپنے ہر دوام خوب جانتا ہے.پس تقویٰ بھی شکر گزاری سے بڑھتا ہے کیونکہ شکر گزاری بھی ایک نیکی ہے.اور حقیقی نیکیوں کی توفیق بھی اپنے تمام تر وجود، مال، صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرنے سے ملتی ہے اور ایسے نیکیوں میں بڑھنے والے اور شکر گزار مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ خود کس طرح اپنے شکور ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اس کی مزید وضاحت کے لئے اس طرح بیان فرمایا کہ لِيُوَفِّيَهُمْ أَجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۖ إِنَّهُ غَفُورٌ شکور.(فاطر :31) یعنی تا کہ وہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے اجر دے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ بڑھا دے یقیناً وہ بہت بخشنے والا اور بہت قدر دان ہے.وردوو جب اللہ تعالیٰ اپنے لئے شکور کا لفظ استعمال کرتا ہے تو بندوں والی عاجزی اور شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے وہ جب شکور بنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی عاجزی اور شکر گزاری اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کو پسند کیا ہے اور خالص ہو کر اس کی خاطر کی گئی عباد تیں اور تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں.اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غفور کے لفظ کے ساتھ شکور کا لفظ استعمال فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے اور قدردان ہے.انسان جو کمزور ہے جب اس کو احساس ہو جائے کہ میں نے ہر نیکی خدا تعالیٰ کی خاطر بجالانی ہے اور اس کا شکر گزار بندہ بنا ہے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھکنا ہے تو اللہ تعالیٰ جو بہت

Page 206

191 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بخشنے والا ہے، جس کی رحمت بہت وسیع ہے وہ اپنی مغفرت کی چادر میں اپنے بندے کو ڈھانپ لیتا ہے.اس کے گناہوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اپنی طرف بڑھنے والے اپنے بندے کے ہر قدم کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے انعامات میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے.پس یہ ہمارا خدا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے بندے کو نوازتا ہے.اسے دنیا بھی ملتی ہے اور اس کو نیکیوں کے اجر بھی ملتے ہیں.اگر ایسے مہربان اور قدر دان خدا کو چھوڑ کر بندہ اور طرف جائے تو ایسے شخص کو بیوقوف اور بد قسمت کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ پس آپ لوگ جو اس ملک میں آکر آباد ہوئے ہیں، اپنے جائزے لیں.آپ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس پر نظر رکھیں تو آپ میں سے اکثر یہی جواب پائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا ہے.اپنے وطن سے بے وطنی کوئی بلاوجہ اختیار نہیں کرتا.یا تو ظالموں کی طرف سے زبر دستی نکالا جاتا ہے یا ظلموں سے تنگ آکر خود انسان نکلتا ہے ، یا معاش کی تلاش میں نکلتا ہے.اگر احمدی اپنے جائزے لیں تو صاف نظر آئے گا کہ جو صورتیں میں نے بیان کی ہیں ان میں سے اگر پہلی صورت مکمل طور پر نہیں تو دوسری دو صورتیں بہر حال ہیں.ظلموں سے تنگ آکر نکلنا بھی جیسا کہ میں نے کہا ذ ہنی سکون اور معاش کی تلاش کی وجہ سے ہی ہے.اور ان ملکوں کی حکومتوں نے آپ کے حالات کو حقیقی سمجھ کر آپ لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دی ہوئی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ سب فضل ہم پر احمدیت کی وجہ سے کئے ہیں.پس یہ پھر اس طرف توجہ دلانے والی چیز ہے کہ احمدیت کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جو ایک مثال ہو تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری ہو گی.اگر جماعت کی قدر نہیں کریں گے اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے.پس غور کریں، سوچیں کہ اگر یہ دنیا آپ کو دین سے دور لے جارہی ہے تو یہ انعام نہیں ہلاکت ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری ہے.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس کے آنے کی ہر قوم منتظر ہے.جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار کے الفاظ استعمال کئے ہیں.جس کے لئے آنحضرت صلی تعلیم نے سلام بھیجا ہے.(المعجم الاوسط جلد 3 من اسمہ عیسی حدیث نمبر 4898 صفحہ 383-384- دار الفکر ، عمان اردن طبع اول 1999ء) تو کیا ایسے شخص کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی چیز ہے ؟ یقیناً یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ایک احمدی کو ملا ہے.پس اس اعزاز کی قدر کرناہر احمدی کا فرض ہے.یہ قدر پھر ایک حقیقی احمدی کو عبد شکور بنائے گی اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اترتے دیکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب ہونا صرف زبانی اعلان نہیں ہے بلکہ ایک عہد بیعت ہے جو ہم نے آپ سے کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے نام پر خلیفہ وقت سے وہ عہد کیا ہے.اس بیعت کے مضمون کو سمجھنے

Page 207

192 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کی بھی ہر احمدی کو ضرورت ہے.بیعت بیچ دینے کا نام ہے.یعنی اپنی خواہشات، تمام تر خواہشات اور جذبات کو خدا تعالیٰ کے حکموں پر قربان کرنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا ایک عہد ہے.اپنی مرضی کو بالکل ختم کرنے کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیا جاتا ہے اور اگر اس دن پر یقین ہو جو خدا تعالیٰ سے ملنے کا دن ہے، جس دن ہر عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے کن کن باتوں پر ہم سے عہد لیا ہے.ان کو میں مختصر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.ہر ایک اپنے جائزے خود لے کہ کیا اس کی زندگی اس کے مطابق گزر رہی ہے یا گزارنے کی کوشش ہے.اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھ کر کہ وَ اَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: 35) اور اپنے عہد کو پورا کرو، ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہو گی، ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے کہ اس عارضی زندگی کے بعد ایک اخروی اور ہمیشہ کی زندگی کا دور شروع ہونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے کیا عہد لیا ہے ؟ اس کو میں مختصر بیان کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ بچے دل سے ہر قسم کے شرک سے دور رہنے کا عہد کرو.اور شرک کے بارے میں آپ نے بڑی وضاحت سے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ شرک صرف ظاہری بتوں اور پتھروں کا شرک نہیں ہے بلکہ ایک مخفی شرک بھی ہوتا ہے.اپنے کاموں کی خاطر اپنی نمازوں کو قربان کرنا یہ بھی شرک ہے.نمازوں سے بے تو جنگی دوہرا گناہ ہے.ایک تو اپنے مقصد پیدائش سے دوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.دوسرے یہ ہے کہ دنیا کو اُس پر مقدم کرنا ہے.گویا کہ رازق خدا تعالیٰ نہیں بلکہ آپ کی کوششیں ہیں اور آپ کے کاروبار یا ملازمتیں ہیں.بعض دفعہ اولاد بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مقابلے پر کھڑی ہو جاتی ہے.وہ بھی ایک شرک کی قسم ہے.اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کا انکار کر کے اولاد کی بات ماننا بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے.بلکہ بعض اوقات اللہ تعالی کی یاد کو یہ چیزیں بھلا دیتی ہیں.کئی لوگ ہیں جو احمدیت سے دور ہٹے ہیں تو اولاد کی وجہ سے.اولاد کے بے جالاڈ پیار نے اور اولاد کی آزادی نے اولاد کو جب دین سے ہٹایا تو خود ماں باپ بھی دین سے ہٹ گئے.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے.کہ یا تھا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكرِ اللهِ (المنافقون : 10 ) کہ اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور اولادیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں.پس جب بھی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی دوسری چیز اہمیت حاصل کرے گی تو اللہ تعالیٰ کے ذکر ، اس کی یاد، اس کی عبادت سے غافل کرے گی اور یہی مخفی شرک ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر دوسری چیزوں کو ترجیح دی جارہی ہو.یہ غفلت معمولی غفلت نہیں ہے بلکہ ہلاکت کی طرف لے جانے والی غفلت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ ہمارا عہد بیعت کر لینا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت

Page 208

خطبات مسرور جلد ہشتم 193 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 میں شامل ہو جانا کافی ہے بلکہ ہر لمحہ تمہیں خدا تعالیٰ کی یاد سے اپنے دل و دماغ کو تازہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کے شرک سے انتہائی دوری پیدا ہو جائے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ، زنا، بد نظری، لڑائی جھگڑا، ظلم، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے.ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بیچ رہا ہوں ؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں.اپنے کاروبار میں ، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں.ان کے نزدیک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے.زنا ہے، بد نظری وغیرہ ہے.یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہو گئی ہیں.گھروں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پر وگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں.خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے.پھر بعض بد قسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تو یہ جو زنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہو تا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے.ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولادیں برباد ہو گئی ہیں.اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں.بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں.بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں.جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں.اسی طرح انصار اللہ ہے، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں.نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے.اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے.خاص طور پر گھر کے جو نگران ہیں یعنی مرد ان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری ہے کہ اپنی اولادوں کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خدا تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.دنیا خاص طور پر دوسرے مسلمان شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈرشپ ملے جو ان کی رہنمائی کرے.لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر رہنمائی مل رہی ہے.خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر برائی سے بچنے کا عہد کرتے

Page 209

194 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں.نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس پر چلنے کی تلقین کریں اور اس کے لئے کوشش کریں.خدا تعالیٰ کے اس ارشاد اور انذار کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا (الحريم: 7) اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی آگ سے بچاؤ.آج کل تو دنیا کی چمک دمک اور لہو و لعب، مختلف قسم کی برائیاں جو مغربی معاشرے میں برائیاں نہیں کہلا تیں لیکن اسلامی تعلیم میں وہ برائیاں ہیں ، اخلاق سے دور لے جانے والی ہیں، منہ پھاڑے کھڑی ہیں جو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا پہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ برائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں.تو یہ نہ ہی تفریح ہے ، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے، مومنوں کو کھول کر بتادیا کہ یہ آگ ہے، یہ آگ ہے اس سے اپنے آپ کو بھی بچاؤ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاؤ.نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصد نہیں ہے.یہ نہ سمجھو کہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو ولعب میں پڑا جائے ، یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے.ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے.اسی طرح ہر احمدی کو ہر قسم کے ظلم سے بچنے کی ضرورت ہے.آپس میں محبت و پیار اور بھائی چارے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.ہر قسم کے دھوکے سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے.نظام جماعت کی پابندی کی ضرورت ہے.جماعت احمدیہ کی خوبصورتی تو نظام جماعت ہی ہے.اگر اس خوبصورتی سے دور ہٹ گئے تو ہمارے میں اور غیر میں کیا فرق رہ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ تم نمازیں پڑھتے ہو وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں.تم روزے رکھتے ہو دوسرے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں.تم حج پر جاتے ہو دوسرے بھی حج پر جاتے ہیں.یا بعض صدقات بھی دیتے ہیں تو کوئی فرق ہونا چاہئے.ایک بڑا واضح فرق نظامِ جماعت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت سے تو ہمارا وفا کا تعلق ہے لیکن جماعتی نظام سے اختلاف ہے.جماعتی نظام بھی خلافت کا بنایا ہو انظام ہے، اگر کسی عہدیدار سے شکایت ہے تو خلیفہ وقت کو لکھا جاسکتا ہے.اس کی شکایت کی جاسکتی ہے.لیکن نظام جماعت کی اطاعت سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اسی طرح عہدیداروں کا بھی ہے کہ لوگوں کے لئے ابتلا کا سامان نہ بنیں.لوگوں کو ابتلا میں نہ ڈالیں اور سچی ہمدردی اور خیر خواہی سے ہر ایک سے سلوک کریں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ میرے سے منسوب ہونے کے لئے نمازیں شرط ہیں.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ) اس بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں.لیکن اس مضمون کو آپ نے نمازوں کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرو اور اس کے احسانوں کو ہمیشہ یادر کھو.

Page 210

خطبات مسرور جلد ہشتم نہیں دینی.195 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 پھر چوتھی شرط بیعت آپ نے بیان فرمائی کہ نفسانی جوش کے تحت نہ زبان سے نہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف (ماخوذ از مجموعه اشتہارات جلد اول صفحه 159 مطبوعہ ربوہ) پھر آپ نے فرمایا کہ ہر حالت میں، تنگی کے حالات ہوں یا آسائش کے خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہیں کرنی بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں قدم آگے بڑھانا ہے.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ) جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں کشائش جو اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں آنے کی وجہ سے آپ کو عطا فرمائی ہے اس کے حقیقی شکر گزار بندے بنیں.بعض لوگ آج کل کے معاشی حالات کی وجہ سے جو دنیا میں گزشتہ تقریباً دو سال سے عمومی طور پر چل رہے ہیں پریشانی کا شکار بھی ہیں.لیکن اس پریشانی میں بھی خدا تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑنا.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھول کر بیان فرمایا ہے.پھر ایک شرط یہ آپ نے رکھی کہ دنیا کی رسموں اور ہو اوہوس سے اپنے آپ کو بچانا ہے.اور اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنی ہے.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159) اب اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنے کے لئے قرآنِ کریم کو پڑھنے کی ضرورت ہے.اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ قرآنِ کریم میں اس کے جو حکم ہیں ان کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پید اہو.پھر ایک شرط یہ فرمائی کہ ہر قسم کا تکبر چھوڑنا ہو گا اور عاجزی اختیار کرنی ہو گی.(ماخوذ از مجموعه اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ) پھر آٹھویں شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ اور دین اور دین کی عزت اور ہمد ردگی اسلام کو اپنی جان، مال اور عزت اور اولاد اور ہر ایک عزیز سے زیادہ عزیز سمجھ لیں.(ماخوذ از مجموعه اشتہارات جلد اول صفحہ 160 مطبوعہ ربوہ) پس یہ ایک بہت اہم شرط ہے.ہر احمدی کو یا درکھنا چاہیئے کہ وہ احمدی ہونے کے ناطے احمدیت کا نمائندہ ہے.اور اسلام کی حقیقی تصویر بننے کی اس نے کوشش کرنی ہے.غیر احمدی مسلمانوں کی نظریں بھی ہم پر ہیں اور غیر مسلموں کی نظریں بھی ہم پر ہیں.ہم یہ دعویٰ کر کے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی حقیقی تصویر ہیں.جب ہم اسلام کی حقیقی تصویر ہیں تو اسلام کی عزت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی ہمارے سپر د ہے.ہم نے ایک نمونہ بننا ہے.اور جب ہمارے نمونے ہوں گے تو تبھی ہم تبلیغ کے میدان میں بھی ترقی کر سکتے ہیں.دین کی عزت اور اسلام کی ہمدردی ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس عزت کو دنیا میں قائم کریں.آج جب کہ ہر طرف اسلام کے خلاف محاذ کھڑے کئے گئے ہیں آپ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں.اسلام مخالف لوگوں نے یہاں اس ملک میں بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک طریق اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے مینارے نہ بننے دیئے جائیں.اگر یہ مینارے ختم ہو گئے تو مسلمانوں کے جرائم اور ان کی

Page 211

196 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم دنیا میں فساد پیدا کرنے کی جو ساری activities ہیں وہ بقول ان کے ختم ہو جائیں گی.بے شک یہ میناروں کا فیصلہ تو ہو چکا ہے.لیکن اس ایشو کو ہر وقت زندہ رکھیں.وقتا فوقتا اخباروں میں لکھیں، سیمینار کریں یا اور مختلف طریقوں سے اس طرف لوگوں کی توجہ کراتے رہیں.جس طرح توجہ سے انہوں نے ریفرینڈم کروا کر یہ قانون پاس کروایا ہے اسی طرح ریفرینڈم سے قانون ختم بھی ہو سکتا ہے.بے شک میناروں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے.یہ تو بہت بعد میں بننے شروع ہوئے ہیں لیکن یہاں اسلام کی عزت کا سوال ہے کہ اسلام کو میناروں کے نام پر بد نام کیا جارہا ہے.اس لئے مسلسل کوشش ہوتی رہنی چاہئے.جماعت احمدیہ کی مثال دنیا کے سامنے پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 195 ممالک میں جماعت قائم ہے.کسی ایک جگہ بھی مثال دو، یہاں سوئٹزرلینڈ میں ہی مثال دو کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی کوئی قانون شکنی کی گئی ہو یا کسی بھی فساد میں جماعت نے حصہ لیا ہو، یا حکومت کے خلاف کسی بغاوت میں شامل ہوئے ہوں.بلکہ قوانین کی مکمل پابندی کی جاتی ہے.ہم ہیں جو اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے والے ہیں.ذاتی رابطوں سے اپنے تعلقات کو بھی وسیع کریں.اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے ماحول میں نہ بیٹھے رہیں.جن کو زبان آتی ہے، جن کے ارد گرد ماحول میں شرفاء ہیں وہ اس ماحول میں رابطے کریں.تبلیغی میدان کو وسیع کریں.جن کو صحیح طرح زبان نہیں آتی وہ کوئی لٹریچر لے کر تقسیم کرنا شروع کر دیں.بہر حال پوری جماعت کے ہر فرد کو اس بات میں اپنے آپ کو ڈالنا ہو گا.تبھی آپ کی تھوڑی تعداد بھی جو ہے وہ موئثر کر دار ادا کر سکتی ہے.کیونکہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا اور تبلیغ کی مہم میں اسلام کی اور دین کی عزت اور عظمت قائم کرنا ضروری ہے.جب تک ہم ایک مسلسل جدوجہد کے ساتھ اپنی تعداد میں اضافے کی کوشش نہیں کرتے ہم دین کی عزت قائم کرنے اور اسلام کی ہمدردی کا حق ادا نہیں کر سکتے یا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے نہیں کہلا سکتے.اسی طرح آج کل یورپ میں اسلام کو بدنام کرنے کا ایک ایشو پردہ کا بھی اٹھا ہوا ہے.ہماری بچیاں جو ہیں لکھیں.اور عور تیں جو ہیں ان کا کام ہے کہ اس بارے میں ایک مہم کی صورت میں اخباروں میں مضامین اور خطوط انگلستان میں یا جرمنی وغیرہ میں بچیوں نے اس بارے میں بڑا اچھا کام کیا ہے کہ پردہ عورت کی عزت کے لئے ہے اور یہ تصور ہے جو مذہب دیتا ہے ، ہر مذہب نے دیا ہے کہ عورت کی عزت قائم کی جائے.بعضوں نے تو پھر بعد میں اس کی صورت بگاڑ لی.عیسائیت میں تو ماضی میں زیادہ دور کا عرصہ بھی نہیں ہوا جب عورت کے حقوق نہیں ملتے تھے اور اس کو پابند کیا جاتا تھا، بعض پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا.تو بہر حال یہ عورت کی عزت کے لئے ہے.عورت کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی عزت چاہتی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے لیکن عورت کا ایک اپناوقار ہے جس وقار کو وہ قائم رکھنا چاہتی ہے اور رکھنا چاہئے.اور اسلام عورت کی عزت اور احترام اور حقوق کا سب سے بڑا علمبر دار ہے.پس یہ کوئی جبر نہیں ہے کہ عورت کو پردہ پہنایا جاتا ہے یا حجاب کا کہا جاتا ہے.بلکہ عورت کو اس کی انفرادیت قائم کرنے اور مقام دلوانے کے لئے یہ سب کوشش ہے.

Page 212

197 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اس کے ساتھ ہی میں ان احمدی لڑکیوں کو بھی کہتا ہوں جو کسی قسم کے complex میں مبتلا ہیں کہ اگر دنیا کی باتوں سے گھبراکر یا فیشن کی رو میں بہہ کر انہوں نے اپنے حجاب اور پر دے اتار دیئے تو پھر آپ کی عزتوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہو گی.آپ کی عزت دین کی عزت کے ساتھ ہے.میں پہلے بھی ایک مرتبہ ایک واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں.اس طرح کے کئی واقعات ہیں.ایک احمدی بچی کو اس کے باس (Boss) نے نوٹس دیا کہ اگر تم حجاب لے کر دفتر آئی تو تمہیں کام سے فارغ کر دیا جائے گا اور ایک مہینہ کا نوٹس ہے.اس بچی نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تو تیرے حکم کے مطابق یہ کام کر رہی ہوں اور تیرے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ پردہ کر رہی ہوں.کوئی صورت نکال.اور اگر ملازمت میرے لئے اچھی نہیں تو ٹھیک ہے پھر کوئی اور بہتر انتظام کر دے.تو بہر حال ایک مہینہ تک وہ افسر اس بچی کو تنگ کر تا رہا کہ بس اتنے دن رہ گئے ہیں اس کے بعد تمہیں فارغ کر دیا جائے گا.اور یہ بچی دعا کرتی رہی.آخر ایک ماہ کے بعد یہ بچی تو اپنی کام پر قائم رہی لیکن اس افسر کو اس کے بالا افسر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے فارغ کر دیا یا دوسری جگہ بھجوا دیا اور اس طرح اس کی جان چھوٹی.اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرما دیتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو خدا تعالیٰ ایسے طریق سے مدد فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کے الفاظ دل سے نکلتے ہیں.پھر نویں شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خلق اللہ سے ہمدری اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا لکھا ہے.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 مطبوعہ ربوہ) یہ بھی حقیقی رنگ میں اس وقت ہو سکتا ہے جب خالص ہمدردی کے جذبے کے تحت دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کی کوشش کریں اور انہیں کامل اور مکمل دین کے بارے میں بتائیں.اور یہ اس وقت ہو گا جب پیغام پہنچانے والے کے اپنے عمل بھی اس تعلیم کے مطابق ہوں گے.اور پھر ایک درد کے ساتھ ماحول میں پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے.شرائط بیعت کی آخری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھ سے اطاعت اور تعلق سب دنیاوی رشتوں سے زیادہ ہو.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے رشتے، ہماری عزیز داریاں، ہمارے تعلقات، ہماری قرابت داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق میں حائل تو نہیں ہو رہے اور اس کے معیار کا علم ہمیں اس وقت ہو گا جب ہم آپ کی تعلیم (جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے) کا جوا مکمل طور پر اپنے گلے میں ڈالنے والے ہوں گے یا اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں گے.آپ نے اپنے بعد جس قدرتِ ثانیہ کے آنے کی خوشخبری دی تھی جو دائمی ہو گی اس قدرتِ ثانیہ یعنی خلافت کے ساتھ کامل اطاعت اور وفاکانمونہ بھی آپ دکھائیں گے.اگر ہر ایک حقیقی تعلق کو قائم رکھنے کا عہد کرے گا تو وہ حقیقت میں آپ کی جماعت میں شمار ہو گاور نہ احمدیت

Page 213

198 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کا صرف لیبل ہے.یہ نہ ہو کہ بعد میں آنے والے احمدی آگے نکل کر ان برکات سے فیض پالیس اور پرانے احمدی جن کے باپ دادا نے قربانیاں دے کر احمدیت کے چشمے اپنے گھروں میں جاری کئے تھے وہ اس چشمے سے محروم ہو جائیں.پس بہت دعاؤں اور توجہ کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں.پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف.(ملفوظات جلد 4 صفحہ 596) پھر آپ فرماتے ہیں ” جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ (آل عمرن :56) یعنی اور وہ لوگ جنہوں نے تیری پیروی کی انہیں ان لوگوں پر جنہوں نے تیرا انکار کیا قیامت تک غالب رکھوں گا.یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دو تین دفعہ ہوا.قرآنِ کریم کی آیت بھی ہے.اور 1883ء میں شاید اس وقت پہلی دفعہ ہوا جب آپ کی جماعت کی ابھی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں پھر فرماتے ہیں کہ ”وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گالیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہو سکتا.ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقش قدم : رم پر چلے.اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا.“ فرماتے ہیں کہ ”اس سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.“ فرمایا: ” یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کر و اور اسی کو مقدم کر لو اور اپنے لئے آنحضرت صلی علیم کی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھو.ان کے نقش قدم پر چلو“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 596-597) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہمارے سے یہ توقعات ہیں.اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.حقیقی متبع بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.بوڑھوں، عورتوں، نوجوانوں کو اپنے جائزے لینے ہوں گے.والدین کو اپنے گھروں کی نگرانی کرنی ہو گی.بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.پیار سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں.یہ ماؤں کا بھی

Page 214

199 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کام ہے ، باپوں کا بھی کام ہے.ایک احمدی مسلمان اور ایک غیر احمدی مسلمان کے فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا فرق ہے.اگر ہمارے اندر کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا.علاوہ ایک نظام کے ہمارے عمل میں بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے.اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی نظام اور تمام ذیلی تنظیموں کو اپنے دائرے میں فعال تربیتی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے.اگر صرف دولت کمانے اور دنیاوی آسائشوں اور چمک دمک کے حصول میں زندگیاں گزار دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکر گزاری ہے.جن میں سے سب سے بڑی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ حضرت مسیح موعود کو قبول کرنا ہے ، ان کی بیعت میں آنا ہے.رہے.آمین اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لیتا الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 20 مورخہ 14 مئی تا 20 مئی 2010 صفحہ 5تا8)

Page 215

خطبات مسرور جلد ہشتم 200 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبہ جمعہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اپریل 2010ء بمطابق 30 شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتے میں یورپ کے بعض ممالک کے سفر پر رہا ہوں.ان دنوں میں پہلے تو وکالت تبشیر جو گذشتہ چند مہینوں سے پروگرام بنا رہی تھی وہ افریقہ کے بعض ممالک کے دورے کا تھا.اس کے لئے تیاریاں بھی ہو رہی تھیں.جائزے بھی شروع ہو چکے تھے.مغربی افریقہ کے بعض ایسے ممالک جن میں میں پہلے نہیں گیا سیر الیون وغیرہ، ان جماعتوں کا مطالبہ بھی تھا اور میری خواہش بھی تھی.لیکن پھر ان ممالک سے جنوری فروری میں اطلاعیں آنی شروع ہو گئیں کہ سیاسی بھی اور ملکی بھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ دورہ کیا جائے.تو بہر حال اس وجہ سے پھر وہ دورہ ملتوی کر دیا گیا.اللہ تعالیٰ کی اسی میں مرضی تھی.لیکن یہ دورہ ملتوی کرنے کے بعد بھی میرا اکسی ملک کے دورہ کا پروگرام نہیں تھا.پھر سپین کے جلسہ کی اطلاع ملی تو سپین جانے کی دل میں تحریک پیدا ہوئی.پھر اٹلی کے مشن ہاؤس وغیرہ خریدے گئے تھے وہاں جانے کا خیال آیا.جب اٹلی کا پروگرام بنا تو سوئٹزرلینڈ والوں نے کہا کہ اب قریب آگئے ہیں تو وہاں کا بھی دورہ کر لیں، اس کا دورہ کئے بھی کئی سال ہو گئے ہیں.بہر حال بغیر کسی planning کے یہ پروگرام بنتے رہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سفر میں بڑی برکت عطا فرمائی اور یہ سفر جہاں ان متعلقہ جماعتوں کے افراد کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث بنا، میرے لئے بھی بنا اور ہر کام میں خدا تعالیٰ کی حکمتوں کا مزید ادراک پیدا ہوا.سپین کے دورے کا پروگرام بنانے کے بعد بھی میں نے سپین جماعت کو نہیں بتایا تھا کہ جلسہ میں شرکت کر رہا ہوں.انداز ان دنوں کا پروگرام تھا.وہ یہی سمجھتے تھے کہ شاید میر اجماعتی جائزے کا دورہ ہو گا یا شاید کچھ سیر کا دورہ ہو.تو یہاں جانے سے پہلے امیر صاحب سپین کا پیغام آیا کہ ان دنوں میں جلسہ بھی ہے جو پہلے سے مقرر شدہ ہے اور جلسہ سے ایک دو دن پہلے آپ آرہے ہیں.اگر فوری طور پر جلسے میں شمولیت ان دنوں میں مشکل ہو جائے تو جلسے کو ایک ہفتہ آگے کر لیا جائے ؟ تو میں نے انہیں کہا کہ میرے علم میں ہے کہ جلسہ ہے اور اسی لئے میں نے یہ

Page 216

201 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم تاریخیں مقرر کی ہیں جلسہ آگے کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بہر حال بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دورے کا پروگرام پہلے سے کسی معین اور منظور شدہ پروگرام کے بغیر بنا تھا.یہاں تک کہ جیسا کہ میں نے کہا سپین کی جماعت جن کا جلسہ ہو رہا تھا، انہیں بھی پوری طرح یقین نہیں تھا کہ میں جلسہ میں شامل ہوں گا.ہو.اس سفر میں پہلا قیام فرانس کا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مراکش، الجزائر وغیرہ کے لوگوں میں جوان یورپین ممالک میں رہ رہے ہیں ، جماعت کی طرف بڑی توجہ پیدا ہو رہی ہے.اور بڑی بیعتیں ہو رہی ہیں.اسی طرح بعض جزیرے جو فرانس کے زیر اثر ہیں جن میں افریقن آبادی ہے.اسی طرح افریقہ کے فرانسیسی بولنے والے علاقے ہیں ان کے جو افراد فرانس میں آئے ہوئے ہیں ان میں سے بھی بیعتیں ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی تعداد میں ہو رہی ہیں.یہ لوگ بڑے فعال اور فوری طور پر نظام جماعت میں سموئے جانے والے بن رہے ہیں.نیشنل مجلس عاملہ میں بھی ان نو مبائعین میں سے ایک اچھی تعداد شامل ہے.فرانس میں ایک فرنچ اور ایک بیلجیئم اور مراکش کے چند باشندوں نے بیعت بھی کی تھی اور بیعت کے دوران بھی عجیب جذباتی کیفیت ان پر طاری تھی.بہت سے نو مبائعین کی پہلی ملاقات تھی.ان کے بھی عجیب جذبات تھے.کئی ایک ایسے تھے ، جب میں ان سے پوچھتا کہ کوئی بات یا سوال؟ تو یہی کہتے تھے کہ دعا کریں کہ ہمارے ایمان میں ترقی ہو.ہمارے تقویٰ میں ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے اور تقویٰ میں ترقی کرنے کی ایک لگن ان لوگوں میں ہے.خلافت سے وفا کے تعلق کا اظہار بھی وہ کرتے تھے اور ان کی آنکھوں اور حرکات سے بھی وہ نظر آتا تھا اور جو ان کے جذبات تھے اس کا بیان کرنا بہت مشکل ہے.رپورٹیں شائع ہوں گی ان میں آپ پڑھ لیں گے یا اہے پڑھ بھی لی ہوں.لیکن ان نو مبائعین کی حالت کو میرے خیال میں بیان کرنا مشکل ہے.اور صرف فرانس میں ہی نہیں، جن ملکوں کا میں نے دورہ کیا ہے ، وہاں ہر بیعت کرنے والا چاہے وہ عربی بولنے والے ممالک سے تعلق رکھتا ہے یا وہاں کا مقامی ہے اس میں ایسا اخلاص ہے جسے بیان کرنا ممکن نہیں.عربی بولنے والوں میں سے تو ہر ملک کے احمدیوں نے مجھے بتایا کہ ایم.ٹی.اے تھری العربیہ جو ہے، اس کے ذریعے سے ہمیں احمدیت کا پیغام پہنچا.پھر یہ کہ ہم نے یہ پیغام سن کر دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی.بعض ایسے بھی تھے جن کو خدا تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعے خود رہنمائی فرمائی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا کسی خلیفہ کو خود خواب میں دیکھا.ایم ٹی اے العربیہ کا میں نے کہا ہے.وہ لوگ جب بھی اس کا ذکر کرتے تھے تو ایم ٹی اے تھری العربیہ کی ٹیم کے افراد کو نام بنام دعائیں دیتے تھے.خاص طور پر وہ افراد جو سوال وجواب کی الحوار المباشر کی مجلس میں آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام دوستوں کو جزا دے اور ان کے ایمان وایقان اور اخلاص میں اضافہ کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے میں دن رات مصروف ہیں.اسی طرح ایم ٹی اے کے دوسرے ہو و سکتا.

Page 217

202 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم چینلز بھی ہیں.ان کے تمام کارکنان کو بھی اللہ تعالیٰ جزا دے جو سامنے تو نہیں آتے لیکن سکرین کے پیچھے غیر معمولی خدمات سر انجام دے رہے ہیں.بہر حال میں فرانس کی بات کر رہا تھا.فرانس میں مخلصین کے درمیان میرے دو دن پلک جھپکتے میں گزر گئے.پتا نہیں لگا کتنی جلدی گزرے اور سپین کے لئے روانگی ہوئی.دو دن کے سفر کے بعد سپین (پید رو آباد) جہاں ہماری مسجد بشارت ہے ، ہم وہاں پہنچے.وہیں دو دن کے بعد جلسہ بھی شروع ہو نا تھا.احباب جمع ہوئے تھے.پرتگال سے بھی احبابِ جماعت آئے ہوئے تھے.مراکش سے بھی جماعت کے افراد آئے ہوئے تھے.پر تگال ابھی تک سپین کے زیر انتظام ہے.اس لحاظ سے کہ سپین کے مشنری انچارج جو ہیں وہی اب تک پر تگال کی جماعت کو بھی سنبھالتے تھے.میرے جانے سے پہلے مبلغ کے آنے کی کوشش ہو رہی تھی اور اب وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہنچ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس جماعت کو بھی فعال کرے.پرت بر تگال میں بھی مسجد کے لئے رقبہ لینے کی کوشش ہو رہی ہے.تقریباً سودے کے قریب ہے.اللہ کرے پر تگال میں بھی جلد مسجد بن جائے اور جماعت کی ترقی کا باعث بنے.پر تگال میں بھی مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کی ایسی بڑی تعداد ہے جو مذہب میں دلچسپی رکھنے والی ہے اور وہاں خاصی تعداد میں بیعتیں بھی ہوئی ہیں.لیکن سنبھالنے کے لئے اور مزید تبلیغ کے لئے مسجد بہت ضروری ہے.مسجد بننے سے انشاء اللہ تعالی مقامی لوگوں میں بھی امید ہے تبلیغ کا میدان کھلے گا.وہاں جو نئے مبلغ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ وہ صحیح طور پر کام کر سکیں.اسی طرح مراکش کی جماعت کے صدر صاحب بھی بعض افراد کے ساتھ آئے ہوئے تھے.سپین کے قریب ہونے کی وجہ سے شروع میں سپین کے ذریعے ہی وہاں جماعت قائم کی گئی تھی.اب ماشاء اللہ یہ جماعت بھی ترقی کی طرف بڑھنے والی جماعت ہے.اخلاص و وفا میں بھی بڑھ رہی ہے.اسی طرح سپین میں بھی عربی بولنے والے احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے.یہاں بھی چند بیعتیں ہوئیں اور دستی بیعت کا بھی پروگرام بنا.اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان وایقان میں برکت ڈالے.ترقی عطا فرمائے.سپین کا جلسہ ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جو مہمان آئے تھے وہ بھی بڑا اچھا اثر لے کر گئے.بعض نے بعد میں مجھ سے ملاقات کی اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا.میں نے گزشتہ دورہ سپین میں 2005ء میں ویلینسیا میں جماعت کی دوسری مسجد تعمیر کرنے کا اظہار کیا تھا اور جماعت کو تلقین کی تھی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے قریباً ڈیڑھ سال کے عرصہ کے اندر اندر ہی ایک جگہ ایک پلاٹ اور اس پر بنا ہوا ایک گھر جماعت کو خریدنے کی توفیق عطا فرمائی جو مشن ہاؤس اور سینٹر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے.لیکن وہاں کی کو نسل کی طرف سے بعض روکیں کھڑی کی جارہی تھیں جس کی وجہ سے ابھی تک باوجو د مسجد کا

Page 218

203 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم پلان کو نسل میں جمع کروانے کے مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں مل رہی تھی.اب وہاں حالات میں کچھ تبدیلی کی صورت پیدا ہوئی ہے اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ مسجد کی اجازت مل جائے گی.اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا میں وہاں مسجد کی بنیاد بھی رکھ آیا ہوں.دعا کریں جو کاغذی کارروائیاں ہیں ، روکیں ہیں اللہ تعالیٰ وہ بھی اب دور فرما دے.اللہ تعالیٰ جلد ہمیں وہاں مسجد کی تعمیر کی توفیق دے اور وہ مسجد پھر اس علاقے میں احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بن جائے.جہاں مسجد کی جگہ ہے وہ بڑا خو بصورت علاقہ ہے.اچھی جگہ ہے.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بننے کے بعد اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کا موقع ملے گا اور لوگوں کو اسلام اور جماعت کے بارے میں جو غلط تحفظات ہیں وہ بھی دور ہوں گے.ویلنسیا کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی سولہویں صدی تک رہی ہے اور اس علاقے کے مسلمانوں نے بڑی قربانی دے کر تین چار سو سال بعد تک اسلام اپنے اندر قائم رکھا ہے.اللہ کرے کہ یہ علاقہ دوبارہ اسلام کی آغوش میں آجائے.اسی طرح پید رو آباد کے قریب اب جماعتی ضروریات کے تحت مسجد کے ساتھ تعمیر کی ضرورت تھی.جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں.لجنہ بال اور ایک گیسٹ ہاؤس وغیرہ کی تعمیر کی بنیاد بھی رکھی گئی.سپین میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیشنل عاملہ کی میٹنگ میں ان کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی گئی اور دوسرے بعض معاملات کی بھی منصوبہ بندی ہوئی.انہوں نے وعدہ بھی کیا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب اس بارے میں تیزی پیدا کریں گے اور جو ستیاں ہوئی ہیں ان کا مداوا کریں گے.اللہ ان کو بھی توفیق دے.جب دنیا میں اسلام کے خلاف جگہ جگہ محاذ ہے تو یہی وقت تبلیغ کا بھی ہے.یہی میں نے ان کو بھی کہا اور ہر ایک کو کہتا ہوں.لوگوں کی توجہ ہے اور نیک فطرت لوگ جو ہیں جب مخالفت کی باتیں سنتے ہیں تو حقیقت بھی جانا چاہتے ہیں.میرے مختلف جگہوں پر جانے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ بھی پیدا ہوتی تھی تو ہمارے لوگوں کو احمدیت کے تعارف میں کچھ لٹریچر ان لوگوں کو دینے کی توفیق بھی ملتی تھی، موقع مل جاتا تھا.بہر حال سپین کے سفر میں دس بارہ دن مصروفیت میں گزرے.ان کی رپورٹیں بھی جیسا کہ میں نے کہا آپ پڑھ لیں گے.یہاں سے تقریباً تین دن کے سفر کے بعد ہم اٹلی پہنچے ہیں.یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ہر جگہ مشاہدہ کیا ہے.اٹلی ایک ایسا ملک ہے جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے زمانے میں جماعت قائم ہوئی تھی.مبلغین بھی وہاں بھجوائے گئے تھے.لیکن بعض نامساعد حالات کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 1937ء میں ملک محمد شریف صاحب کو روم جانے کا حکم فرمایا تھا اور ان کی تبلیغ سے 1940ء تک کچھ لوگ احمدیت میں داخل بھی ہوئے تھے.پھر جنگ کے حالات کی وجہ سے ملک صاحب کو 1944ء تک جنگ عظیم دوئم کے حالات کی وجہ سے دشمن کے قیدی کیمپ میں رہنا پڑا.اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مکرم محمد

Page 219

204 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ابراہیم خلیل صاحب اور مولوی محمد عثمان صاحب کو اٹلی بھجوایا اور ملک صاحب کو امیر مقرر کیا.ملک صاحب نے ان دونوں کو سسلی بجھوا دیا.سلی بھی اٹلی کا وہ جزیرہ اور علاقہ ہے جہاں تقریباً 260 سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے.یہاں پہلے تو مبلغین کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا.ایک دفعہ تو ان کو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر نکل جانے کا نوٹس بھی ملا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور حکومت نے نکل جانے کا نوٹس کینسل کیا اور کچھ عرصہ وہاں رہے.لیکن بہر حال مشکل حالات ہی تھے ، اٹلی کا مشن بند ہو گیا.اور ان واقعات کی ایک لمبی تفصیل ہے.ان مبلغین کے بڑے ایمان افروز واقعات ہیں.ان کا ذکر بھی ہو سکتا ہے رپورٹ لکھنے والے کچھ نہ کچھ رپورٹ میں دے دیں گے انشاء اللہ.جیسا کہ میں نے کہا جب مشن بند ہوا تو یہ دونوں مبلغین وہاں سے چلے گئے لیکن ملک شریف صاحب اپنے گزارے کا سامان خود پیدا کر کے 1955ء تک اٹلی میں رہے ہیں اور تبلیغ کا کام کیا ہے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 339 تا344 مطبوعہ ربوہ) اس کے بعد باقاعدہ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے جو احمدی وہاں ہوئے تھے (ان کے زمانے میں تیس چالیس کا ذکر تو انہوں نے ایک جگہ پر کیا ہوا ہے) ان کی نسلوں میں آگے شائد احمدیت قائم نہیں رہی.بہر حال اب اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ پاکستانی احمدی بھی اچھی تعداد میں وہاں پہنچے ہیں.نیز گھانین احمدی بھی کافی تعداد میں وہاں ہیں.بلکہ ایک شہر کی جماعت ہی پوری گھانین احمدیوں کی ہے.اور عربوں میں مراکش اور الجزائر وغیرہ کے لوگوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص جماعت بن رہی ہے.ان عربی بولنے والے احمدیوں کی فدائیت کا تو عجیب حال ہے.جیسا کہ پہلے میں ذکر کر چکا ہوں.ان کا یہاں بھی یہی حال ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد جذبات سے مغلوب ہو کر رونے لگ جاتے تھے.اللہ تعالیٰ نے وہاں جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبے میں ذکر کیا ہے کہ جماعت کو مشن ہاؤس اور سینٹر خریدنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.2008ء میں خریدا گیا تھا اور مسجد کے لئے بھی کوشش ہو رہی ہے اور میئر اور مقامی کو نسلر وغیر ہ جو ہیں اس کے لئے بھر پور تعاون کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے اور جلد یہاں بھی مسجد بنانے کی توفیق ہمیں مل جائے.یہاں بھی دو تین احباب و خواتین نے بیعت کی.اور اسی طرح گزشتہ چند ماہ میں جو بیعت کرنے والے ہیں، انہوں نے بھی دستی بیعت کی.الحمد للہ.یہاں ایک ریسپشن کا پروگرام بھی جماعت نے بنایا تھا جس میں ہمارے سینٹر بیت التوحید کے علاقے یعنی اس شہر کے میئر ( اس شہر کا نام کافی لمبا ہے san pietroin casale سان پیاٹر وان کسیلے) اور کونسلر تھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی تھے.پولیس افسران بھی تھے.اس میں ساتھ کے جو شہر ہیں ان کے میئر تھے.ایک شہر کے میئر کے نمائندے آئے ہوئے تھے اور سب نے جماعت کے بارے میں بڑا اچھا اظہارِ خیال کیا.جماعت کی خدمات کو سراہا.تعلیم کو سراہا.آخر میں میں نے بھی قرآنِ کریم کے حوالے سے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند تو

Page 220

خطبات مسرور جلد ہشتم 205 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 کے متعلق بیان کیا اور اس زمانے کے امام اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتایا ہے اس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلام کے نام سے بلاوجہ نفرت کرنے کی بجائے اس خوبصورت تعلیم کی طرف توجہ دینے کی طرف توجہ دلائی.اور پھر یہ بتایا کہ ہمارے اس سینٹر کے حوالے سے چند ماہ پہلے اس علاقے میں ہمارے خلاف بڑا شور اٹھا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس علاقے کے میئر اور ہمسایہ شہر کے میئر اور ہمارے آرکیٹیکٹ جو اٹالین ہی ہیں، اور مشن ہاؤس کی Renovation کا کام کر رہے ہیں.انہوں نے ہمارے حق میں اس علاقے میں بڑا کام کیا.بہر حال میں نے ان کو بتایا کہ اسلام کی تعلیم تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے اس لئے نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے آپس میں محبت اور پیار سے رہنا چاہئے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ریسپشن بھی اچھی رہی.اللہ کرے کہ اس کے بعد ہمارے حق میں مزید زمین ہموار ہو جائے.یہاں کے بعض تاریخی شہر بھی دیکھنے کا موقع ملا.یہاں چار پانچ دن قیام کے بعد سوئٹزرلینڈ روانہ ہوئے.لیکن مجھے لندن سے جانے سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ ٹیورین میں اس کپڑے کی نمائش ہو رہی ہے جسے یہ کفن مسیح کہتے ہیں اور جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب سے اتار کر لپیٹا گیا تھا.صدر جماعت نے پوچھا کہ کیا آپ اس کو دیکھنا پسند کریں گے ؟ یہیں مجھے اطلاع مل گئی تھی.میں نے کہا انشاء اللہ ضرور دیکھیں گے.انہوں نے وہاں چرچ کی انتظامیہ سے بات کی.تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بڑی خوشی ہو گی اگر جماعت احمدیہ کے خلیفہ اسے دیکھنے آئیں اور ہم اس کے لئے خاص انتظام بھی کر دیں گے.چنانچہ سوئٹزرلینڈ جاتے ہوئے شہر ٹیورین راستے میں آتا ہے.ہم دو پہر کے وقت وہاں پہنچے ہیں اور شام پانچ بجے اس چرچ میں گئے ہیں جہاں اس کی نمائش تھی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہوا ہے.میرے ذہن میں نہیں تھا کہ نمائش لگی ہوئی ہے.باوجود اس کے کہ غالباً میر محمود احمد صاحب کی طرف سے اطلاع آئی تھی کہ یہ نمائش لگ رہی ہے اور لندن سے کسی کو بھیج دیں تاکہ دیکھ لے اور آج کل اس زمانے میں بھی ہمارا جماعت احمدیہ کا کوئی عالم اس کا گواہ بن جائے کہ اس نے یہ شراؤڈ (shroud) دیکھا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی عالم کی بجائے مجھے خود ہی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ادنی غلام ہوں اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ خود دیکھ لوں.اٹلی کے پروگرام کے باوجو د جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ ٹیورین جانا ہو گا.جو روٹ بنا اس کے راستے میں ٹیورین بھی آتا ہے.اگر نہ بھی آتا تو جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں اس نمائش کی وجہ سے وہاں میں ضرور جاتا.بہر حال جب ہم وہاں گئے ہیں تو نمائش کے جو ڈائریکٹر ہیں جو ان کی پادریوں کی کونسل کے بڑے پادریوں میں شمار ہوتے ہیں وہ استقبال کے لئے موجود تھے.انہوں نے ایسا انتظام کیا اور ایسے دروازے سے ہمیں لے کر گئے جہاں سے عام پبلک نہیں جاتی.عموماً وہاں کیمروں کی اجازت نہیں ہوتی.میں نے ان سے پوچھا تو انہوں

Page 221

206 خطبه جمعه فرمودہ مور محد 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نے کہا کہ کیمرہ بے شک استعمال کریں.لیکن فلیش استعمال نہ کریں بہر حال ایم ٹی اے کے کارکنوں اور ہمارے فوٹو گرافروں نے وہاں تصویریں لی ہیں.پہلے ہال میں جب ہم داخل ہوئے ہیں تو انہوں نے ہمیں جا کر بڑی سکرین پر شراؤڈ کی تصویریں دکھائیں اور دکھا کر اس کے ساتھ وضاحت کرتے رہے اور ہر عکس کے بارے میں بتاتے رہے کہ کس کس چیز کا ہے یہ چہرہ ہے ، ہاتھ ہے، پاؤں ہیں.کلوزاپ کر کے دکھاتے تھے.لیکن یہ سب دکھانے کے ساتھ ان ڈائریکٹر صاحب نے مختصر تعارف بھی اس کا بیان کیا اور بتایا کہ چودھویں صدی سے اس شراؤڈ کی تاریخ کا پتا ہے کہ کہاں کہاں رہا ہے ؟ لیکن بعض شواہد ایسے ہیں جن سے پانچویں صدی عیسوی میں بھی جہاں جہاں یہ رہا ہے اس کا پتا لگتا ہے بہر حال اسی تسلسل میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ایک کپڑا ہے جس کی لمبائی 4.42 میٹر ہے.چوڑائی 1.13 میٹر ہے.اس پر ایک شخص کا عکس ہے.جو کسی بہت بڑے نیک شخص کا عکس لگتا ہے اور انہوں نے یہ کہا اگر اس کپڑے کی تاریخ وغیرہ پر غور کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ حضرت عیسی کا عکس ہے اور اس کی 1898ء میں ایک شخص نے تصویر لی تھی جس کا نام Secondo Pia تھا.غالباًpronounce اسی طرح ہی کرتے ہیں اور اس تصویر میں اس کپڑے کے عکس کا پوزیٹو (Positive) بنا اور یوں حقیقی شکل بھی سامنے آئی.بہر حال پھر اس کے بعد یہ ہمیں چرچ کے بڑے ہال میں لے گئے.جہاں لوگ گزرتے جارہے تھے اور سامنے سٹیج کی طرح کی ایک جگہ پر بہت بڑے شیشے کے بکس میں اس کی نمائش کی جارہی تھی.اس کے پیچھے روشنی پڑ رہی تھی.ان ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس ڈبے کے اندر بھی بعض گیسز ہیں جو اس لئے اندر رکھ چھوڑی ہیں یا چھوڑی جاتی ہیں تا کہ یہ کپڑ ا خراب نہ ہو.بہر حال ہمیں انہوں نے باقی لوگوں کو وقفہ دے کر آنا بند کر کے اس بکس کے جو قریب ترین گلی تھی وہاں کھڑ ا کر دیا جہاں سے ہم نے کافی دیر تک اس کو دیکھا.تصویریں لینے والوں نے تصویریں بھی لیں.شاید کسی اور کو بھیجتے تو اتنی دیر تک اور اتنے غور سے دیکھنے کا ان کو موقع نہ ملتا.جو وہاں بروشر ہمیں دیا گیا تھا جس پر تفصیلات لکھی ہوئی تھیں تصویریں بنی ہوئی تھیں اس میں بھی لکھا ہوا تھا اور ڈائر یکٹر نے بتایا کہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ ان پولنز (Polens) سے جو شر اوڈ پر لگے ہوئے ہیں یہ کپڑا فلسطین اور مشرقی وسطی کے علاقے سے آیا ہے اور یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم جو اسے کفن مسیح کہتے ہیں یہ صحیح ہے.یہ بھی عجیب بات ہے کہ 1898ء میں یہ تصویر لی گئی تھی اور اس کے بعد سے اس کپڑے کو پہلے تو متبرک سمجھا جاتا تھا پھر اس کو کفن مسیح بھی کہنے لگے.اُس زمانے میں 1899ء میں حضرت مسیح موعود علیہ والسلام نے ” مسیح ہندوستان میں“ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی.چھپی تو 1908ء میں لیکن لکھی اس وقت گئی تھی.گو اس کے علاوہ بھی آپ کی تحریرات اور کتب میں حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے زندہ بچ جانے اور مرہم عیسی وغیرہ کا ذکر بھی آتا ہے.لیکن اس کتاب میں آپ نے تفصیل سے اس پر بحث فرمائی ہے.کفن مسیح کے الصلوة

Page 222

207 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بارے میں اس وقت تک شاید انگریزی لٹریچر میں کوئی بات نہیں آئی تھی تفصیلات نہیں آئی تھیں.گو کہ کہتے ہیں کہ اٹالین اور جرمن میں معلومات تھیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کفن کا ذکر تو نہیں فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے آپ کے وقت میں ہی مزید حقائق ظاہر فرما کر حضرت عیسی کے صلیب سے بچ جانے کے مزید شواہد مہیا فرما دیئے.بہر حال اس نمائش کو دیکھنے کے بعد یہ ڈائریکٹر صاحب ہمیں ساتھ ایک کیتھیڈرل تھا اس کی عمارت میں لے گئے.پہلے نیچے سے دکھایا پھر اوپر والی منزل میں لے گئے کہ لائبریری اوپر ہے اور اوپر جا کر لائبریری دیکھ لیں.میں نے کہا چلیں.لیکن جب ہم اوپر پہنچے ہیں تو ایک اور صاحب وہاں کھڑے تھے جو پروفیسر صاحب تھے.ان کے بارے میں انہوں نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ بھی ملیں گے.یہ پروفیسر اس دینی ادارے کے اسلامی علوم کے ماہر سمجھتے جاتے ہیں.مختلف عرب ممالک میں رہ کر انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے.جیسا کہ میں نے کہا وہ وہاں کھڑے تھے.پھر یہ دونوں ایک میٹنگ ہال میں ہمیں لے گئے کہ پہلے یہاں کچھ دیر بیٹھتے ہیں.بڑے احترام سے انہوں نے وہاں بٹھایا.پھر آپس میں مختلف سوال جواب شروع ہوئے، باتیں شروع ہوئیں.مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ کیوں دیکھنے کا شوق پیدا ہوا؟ کیا جذبات اور تاثرات ہیں ؟.وغیرہ وغیرہ.اس سے پہلے میں ان کا مزید تعارف کرا دوں.میں نے پہلے تعارف تو کر وایا ہے کہ بڑے پادری تھے لیکن یہ ڈائریکٹر جن کا میں نے ذکر کیا ہے کفن مسیح کی حفاظت کے لئے متعین جو کمیٹی ہے اس کے صدر بھی ہیں اور یہ نمائش بھی ان کی نگرانی میں ہو رہی ہے.ان کا نام مونسونیئر لیبرٹی ہے اور جو اسلامی علوم کے ماہر ہیں یہ مستشرق ہیں ان کا نام ڈون تیونیگری ہے.میں نے انہیں بتایا کہ اس شہر میں آنے کا پروگرام تو اتفاقا بن گیا تھا لیکن جب پتالگا کہ کفن مسیح کی نمائش ہو رہی ہے تو دیکھنے کا شوق بھی پیدا ہوا اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جو جماعت احمدیہ سے منسلک ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ کپڑا یقیناً حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا ہو گا.لیکن اس کے لئے یہ جو نتیجہ آپ اخذ کرتے ہیں اس سے ہمارا نظریہ مختلف ہے.ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے.یہودیوں نے جب انہیں صلیب پر مارنا چاہا تو چونکہ یہ موت جو ہے ایک نبی کی شان کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں صلیب سے بچا لیا اور بانی جماعت احمد یہ جنہیں ہم مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مانتے ہیں آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کو ثابت بھی فرمایا ہے اور یہ کپڑا بھی حضرت عیسی علیہ ا والسلام کی موت کا نہیں بلکہ زندگی یعنی صلیب سے بچ جانے کا ثبوت ہے.اس لحاظ سے یہ متبرک ضرور ہے.لیکن ہمارے اور آپ کے نظریات میں اختلاف ہے.وہ مستشرق کہنے لگے کہ آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کشمیر میں فوت ہوئے ؟ میں نے کہا ہاں بالکل یہی بات ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی یہ ثابت فرمایا ہے اور آپ کی اس الصلوة

Page 223

208 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بارے میں ایک کتاب بھی ہے جس کا نام " مسیح ہندوستان میں “ ہے.بہر حال مختلف سوالات ہوتے رہے جماعت احمدیہ کی خلافت کے انتخاب کے طریق کے بارے میں.پھر اور باتیں ہوئیں.ان کو میں نے کہا یہ بھی میری ایک خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس کپڑے کو دیکھنے کا موقع ملا جسے آپ کفن کہتے ہیں.جس کی نمائش عموما ہیں پچیس سال بعد ہوتی ہے.تو پھر انہوں نے بتایا کہ یہ ضروری نہیں.بعض دفعہ کم سالوں بعد بھی ہوئی، مثلاً 1998ء میں ہوئی پھر 2000ء میں.1998ء میں تو تقریباً ہمیں سال کے بعد ہوئی تھی، لیکن 2000ء میں حضرت عیسی کے دو ہزار سال پورے ہونے کی وجہ سے انہوں نے نمائش کی.اور اس سال بھی انہوں نے بتایا کہ پروگرام ایسا نہیں تھا لیکن پوپ نے حکم دیا تھا کہ نمائش کی جائے.اور یہ نمائش 10 مئی تک جاری رہے گی.بہر حال بہت خلقت تھی ہجوم تھا جو اس نمائش کو دیکھنے آتے تھے.دس سال بعد یہ نمائش ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرے سفر اور اس نمائش کو بھی ملا دیا.اور اس طرح ہمیں بھی دیکھنے کا موقع مل گیا.اپریل کے آخر میں 2 مئی کو پوپ نے اس نمائش کو دیکھنے آنا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے دیکھنے کا موقع دیا.پھر انہوں نے اپنی باتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی تکالیف کا ذکر کیا تو میں نے انہیں کہا کہ انبیاء تکالیف اٹھاتے ہیں اور اس زمانے میں جو مسیح موعود ہیں انہوں نے بھی بہت سی تکالیف برداشت کی ہیں.بہر حال پھر جماعت کے بارے میں پوچھا کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ مختلف مذاہب کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور ڈائیلاگ کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ہدایت واضح کر دی ہے جو چاہے اب مانے یا نہ مانے.اور ہدایت دینا ویسے بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے.پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے.لیکن دوسری طرف جو انسانی قدریں ہیں ان کا پاس کرتے ہوئے ہم ہر مذہب کے شخص کی عزت بھی کرتے ہیں اور احترام بھی کرتے ہیں اور بات بھی کرتے ہیں.بہر حال مذاہب، امن بین المذاہب سیمینار زوغیرہ کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں.میں نے انہیں باتوں باتوں میں یہ بھی کہا، انہوں نے اس بارہ میں بھی سوال کیا تھا تو جواب میں مجھے کہنا پڑا کہ آج عیسائی دنیا دنیاوی لحاظ سے جو ترقی کر رہی ہے یہ سب کچھ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی بدولت، ان کے خدا ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی ان تکالیف کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی وجہ سے آپ کو مل رہا ہے اور یہ جو تمہاری اتنی عالی شان عمارت ہے اور یہ سب سامان ہے یہ انہی کا مرہونِ منت ہے اور میری دعا ہے کہ تم لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے والے بنو اور اس کو پھیلاؤ.بہر حال پھر انہوں نے اس کے بعد لائبریری دکھائی اور پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اسلام کے بارے میں بھی اگر کتب رکھی جائیں، قرآنِ کریم بھی ہے کہ نہیں ؟ تو انہوں نے مثبت جواب دیا.تو میں نے انہیں کہا کہ ہماری ایک انگریزی کی کمنٹری ہے فائیو والیم (Five volumes) میں وہ ہم بھجوا دیں گے.اسی طرح کیونکہ وہاں ان کے بعض عربی پڑھنے والے سکالر بھی تیار ہوتے ہیں ، ان کے لئے تفسیر کبیر کا عربی ترجمہ جو

Page 224

209 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مومن طاہر صاحب نے بڑی محنت سے کیا ہے وہ بھی میں نے کہا، ہم بھجوائیں تو رکھیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ بڑی خوشی سے.تو بہر حال اس کا بھی انتظام وہاں ہو گیا.یہ سفر ہمارے لئے جہاں معلوماتی تھا وہاں جماعت اور اسلام کے تعارف کا باعث بھی بن گیا.اللہ کرے کہ عیسائی دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگ جائے کہ کفن مسیح اصل میں کفن نہیں بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب سے زندہ بچ جانے اور لمبی عمر پانے کا ایک معجزاتی نشان کا ثبوت ہے.مکرم سید میر محمود احمد صاحب کی نگرانی میں ربوہ میں مرہم عیسی پر ریسرچ ہوئی ہے اور مزید وہ کر بھی رہے ہیں.اس سے بھی یہ ثابت ہے کہ اس مرہم کی وجہ سے بھی ایک خاص ٹمپر یچر اور حالات میں اس قسم کے کپڑے پر عکس نمودار ہوئے.انہوں نے لڑکے پر تجربہ کیا اور اس کی شبیہ بن گئی.ان کی ریسرچ بھی اب آگے بڑھ رہی ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا تھا کہ بعض کیمیائی عمل بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ عکس بنا.امونیا اور سلفر کی وجہ سے جو کیمیائی عمل ہوئے اور اس علاقے میں دونوں چیزوں کے ذخائر موجود ہیں اور بعید نہیں کہ جب زلزلہ آیا ہو تو اس وقت یہ گیسز نکلی ہوں جس کی وجہ سے وہ عکس جو ان میں ہے اور زیادہ مضبوط ہو گیا اور فکس (Fix) ہو گیا.مکرم میر محمود احمد صاحب کا میں نے ذکر کیا ان کی ٹیم اس نہج پر بھی کام کر رہی ہے.اور ان کی تحقیق کو ایک عیسائی سکالر نارما والر (Noma Waller) نے جو یہیں کی انگلستان کی ہیں بڑا سراہا اور اپنی ایک کتاب میں اس ریسرچ کا ذکر بھی کیا.سنا ہے کہ وہ فوت ہو گئی ہیں.اللہ تعالیٰ اور سکالر پیدا کر دے گا جو اس ریسرچ کو آگے لے جانے والے ہوں گے کیونکہ ابھی تک تو یہی ہوتا آیا ہے کہ اسلام کے حق میں اسلام کی صداقت کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ عیسائیوں سے بھی بعض ایسی باتیں نکلواتا ہے جو ہمارے حق میں جاتی ہیں.بہر حال یہ تحقیق جو ہے یہ دنیا کی مزید تسلی کے لئے کی جارہی ہے.جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اس یقین پر قائم ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے بچ گئے تھے.کشمیر میں محلہ خانیار میں دفن ہیں.لیکن آج کل پھر ایک روچلی ہوئی ہے کفن مسیح کے بارے میں بھی کہ اس کو غلط ثابت کیا جائے کہ یہ اتنے سال پرانا نہیں ہے بلکہ ہزار سال پرانا ہے.کوئی کہتے ہیں معین وقت نہیں ہے.لیکن بہر حال اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے.کیونکہ اس تصویر سے زندگی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور یہ عیسائیت کو برداشت نہیں.بلکہ اب مسلمانوں کی طرف سے کشمیر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر دیکھنے پر بھی پابندی لگ گئی ہے.شاید یہ بھی کسی بڑی سازش اور اس کڑی کا نتیجہ ہو جس کے تحت آج کل کفن مسیح پر بحث ہو رہی ہے.کاش کہ جو چیزیں مسلمانوں کے پاس ہیں اس کے ذریعے وہ اسلام کی برتری ثابت کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مرہم عیسی کے بارے میں اور عیسی علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”رومی زبان میں حضرت مسیح کے زمانہ میں ہی کچھ تھوڑا عرصہ واقعہ صلیب کے بعد ایک

Page 225

210 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد هشتم قرابادین تالیف ہوئی جس میں یہ نسخہ تھا اور جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے یہ نسخہ بنایا گیا تھا.پھر وہ قرابادین کئی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی یہاں تک کے مامون رشید کے زمانہ میں عربی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب نے کیا عیسائی کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے.اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ان کے حواریوں نے تیار کیا تھا اور جن کتابوں میں ادویہ مفردہ کے خواص لکھے ہیں ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ ان چوٹوں کے لئے نہایت مفید ہے جو کسی ضر بہ یاسقطہ سے لگ جاتی ہیں“.یعنی چوٹ، مارنے کی چوٹ ہے یا گہر از خم ہے.اور چوٹوں سے جو خون رواں ہو تا ہے وہ فی الفور اس سے خشک ہو جاتا ہے اور چونکہ اس میں مر بھی داخل ہے اس لئے زخم کیڑا پڑنے سے بھی محفوظ رہتا ہے.اور یہ دوا طاعون کے لئے بھی مفید ہے.اور ہر قسم کے پھوڑے پھنسی کو اس سے فائدہ ہوتا ہے.یہ معلوم نہیں کہ یہ دوا صلیب کے زخموں کے بعد خود ہی حضرت عیسی علیہ السلام نے الہام کے ذریعہ سے تجویز فرمائی تھی یا کسی طبیب کے مشورہ سے تیار کی گئی تھی.اس میں بعض دوائیں اکسیر کی طرح ہیں.خاص کر مر جس کا ذکر توریت میں بھی آیا ہے.بہر حال اس دوا کے استعمال سے حضرت مسیح علیہ السلام کے زخم چند روز میں ہی اچھے ہو گئے.اور اس قدر طاقت آگئی کہ آپ تین روز میں یروشلم سے جلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ پاگئے“.( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 58-57) پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے:.یعنی جب کہ حضرت عیسی علیہ السلام یہود عَلَيْهِمُ اللَّعْنَةُ کے پنجہ میں گرفتار ہو گئے اور یہودیوں نے چاہا کہ حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچ کر قتل کریں تو انہوں نے گرفتار کر کے صلیب پر کھینچنے کی کارروائی شروع کی مگر خدا تعالیٰ نے یہود کے بد ارادہ سے حضرت عیسی کو بچا لیا.کچھ خفیف سے زخم بدن پر لگ گئے.سو وہ اس عجیب و غریب مرہم کے چند روز استعمال کرنے سے بالکل دور ہو گئے.یہاں تک کہ نشان بھی جو دوبارہ گرفتاری کے لئے کھلی کھلی علامتیں تھیں بالکل مٹ گئے.یہ بات انجیلوں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب حضرت مسیح نے صلیب سے نجات پائی کہ جو در حقیقت دوبارہ زندگی کے حکم میں تھی تو وہ اپنے حواریوں کو ملے اور اپنے زندہ سلامت ہونے کی خبر دی.حواریوں نے تعجب سے دیکھا کہ صلیب پر سے کیونکر بچ گئے اور گمان کیا کہ شاید ہمارے سامنے ان کی روح متمثل ہو گئی ہے تو انہوں نے اپنے زخم دکھلائے جو صلیب پر باندھنے کے وقت پڑ گئے تھے تب حواریوں کو یقین آیا کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے ہاتھ سے ان کو نجات دی.“ (ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 301) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ یہ فرماتے ہیں کہ :.”اس کتاب کو میں اس مراد سے لکھتا ہوں کہ تا واقعاتِ صحیحہ اور نہایت کامل اور ثابت شدہ تاریخی

Page 226

خطبات مسرور جلد ہشتم 211 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 شہادتوں اور غیر قوموں کی قدیم تحریروں سے ان غلط اور خطر ناک خیالات کو دور کروں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے اکثر فرقوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پہلی اور آخری زندگی کی نسبت پھیلے ہوئے ہیں“.مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 3) پھر آپ نے فرمایا:.”سو میں اس کتاب میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے بلکہ وہ 120 برس کی عمر پا کر سری نگر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سری نگر محلہ خانیار میں ان کی قبر ہے“.مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 14) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کتاب میں پہلے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیبی موت سے بچنے کے انجیلی دلائل دیئے ہیں.پھر قرآن و حدیث کی شہادتوں کا ذکر فرمایا.جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی صلیبی موت سے بچنے کا پتا چل جاتا ہے.پھر تیسرے باب میں طب کی کتابوں کی شہادتوں کو بیان کیا ہے ، جس سے صلیب سے زندہ بچنے کے بعد مرہم عیسی کے استعمال اور اس سے شفا کا ذکر ہے پھر آخر میں آپ نے تاریخی شہادتوں کا جو کتب تاریخ سے لی گئی ہیں ان کا ذکر فرمایا ہے کہ نصیبین میں، افغانستان میں اور ہندوستان کی طرف ہجرت کی.آپ نے فرمایا کہ :.”جو شخص میری کتاب مسیح ہندوستان میں اول سے آخر تک پڑھے گا گو وہ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی یا آر یہ ممکن نہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد اس بات کا وہ قائل نہ ہو جائے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کا خیال لغو اور جھوٹ اور افتراء ہے“.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 145) بہر حال ٹیورین کے مختصر دورے کے بعد سوئٹزرلینڈ روانگی ہوئی.یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض لوگوں کو بیعت کرنے کی توفیق ملی اور دستی بیعت بھی یہاں ہوئی.یہاں اٹلی کے ایک نوجوان ہیں جو بڑے سلجھے ہوئے ہیں یہیں کام کرتے ہیں اور دینی علم کے حصول کا بھی انہیں بہت شوق ہے.انہوں نے چند سال پہلے انہوں نے بیعت کی تھی.میرے ساتھ ان کی پہلی ملاقات تھی.جماعت کے کچھ لٹریچر کا وہ اٹالین میں ترجمہ بھی کر چکے ہیں.تو میں نے انہیں کہا کہ اس طرف بھی اب توجہ دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے بھی کچھ ترجمے کریں.تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت مسیح ہندوستان میں“ اس کتاب کا ترجمہ کر رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ جلد مکمل ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ان کے علم و معرفت میں بھی ترقی دے ان کے اخلاص اور ایمان میں بھی برکت ڈالے.جمعہ کے بعد سوئٹزرلینڈ سے فرانس کی طرف روانگی ہوئی اور سٹر اس برگ میں قیام ہوا.دنیاوی لحاظ سے تو اس کی مشہوری ہے.یوروپین پارلیمنٹ کا مرکز ہے.لیکن یہاں جماعت کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ یہاں

Page 227

212 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جماعت کی تعداد بڑھ بھی رہی ہے اور دو سو کے قریب یہاں افراد ہیں.اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ستر فیصد غیر پاکستانی افراد جماعت ہیں اور اخلاص میں بڑھنے والے لوگ ہیں.یہاں بھی قیام کے دوران دو نئی بیعتیں ہوئیں اور بعض شخصیات سے ملنے کا موقع ملا.اسلامی تعلیم بتانے کا اور اسلام کی تعلیم کی روشنی میں دنیا میں امن کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے اس بارے میں باتیں ہوئیں.یہاں کے آرچ بشپ کے نمائندہ مسٹر مائیکل ریبر ( Micheal Reebar) آئے تھے اُن سے بھی ملاقات ہوئی.انہوں نے کہا کہ آرچ بشپ نے آنا تھا لیکن وہ نہیں آئے.عالمی امن کے بارے میں ، اسلامی تعلیم کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں.بڑے شریف النفس انسان ہیں.انہوں نے بتایا کہ وہ بعض عرب ممالک میں بھی رہے ہیں.عربی بھی ان کو آتی تھی.ایک بات پر وہ کہنے لگے کہ تینوں مذاہب جو ہیں یعنی یہودی عیسائی اور مسلمان ایک نکتے پر اکٹھے ہیں اور وہ ایک خدا ہے.تو میں نے کہا کہ اگر آپ اس چیز کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا ہے ، بلکہ قرآن شریف میں اہل کتاب سے یہ کہنے کا لکھا ہوا ہے.کہ تَعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ - (آل عمران : 65) تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اہل کتاب کو کہہ دو ایسی بات پر اکٹھے ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے در میان مشترک ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہر انا.مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ یہ ایک خدا کی بات کر رہے ہیں.اور باتوں میں انہوں نے یہ بھی مجھے بتایا کہ میں تو اکثر تمہارے خطبے اور خطابات ایم ٹی اے بھی سنتار ہتا ہوں.بہر حال کافی اچھے ماحول میں کافی دیر تک گفتگو ہوئی.تو یہ سب جیسا کہ میں نے کہا جہاں جماعتی تربیت وغیرہ کا باعث بنتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت اور اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچانے کا بھی باعث بنتے ہیں.سٹر اس برگ میں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ستر فیصد احمدی غیر پاکستانی ہیں.اور ان میں بھی اکثریت عربی بولنے والے ممالک کی ہے.اس سفر کے دوران بعض جگہ نو مبائعین کو خدا تعالیٰ نے خواب کے ذریعے یہ بتادیا کہ اس علاقے سے ہم گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے رابطہ کیا اور ان کے لئے پھر یہ بات ازدیاد ایمان کا باعث بنی اور آخر انہوں نے ملاقات بھی کی.یہاں تھوڑا سا قیام تھا.امیر صاحب فرانس جو اس سفر کی تیاری کے لئے مختلف جگہوں پر گئے انہوں نے بھی بتایا کہ اس سفر کے دوران حیرت انگیز طور پر ہمیں تیں بیعتیں بھی حاصل ہوئیں.اور یہ عجیب واقعہ ہے کہ 29 مارچ کو جب ہم فرانس سے سپین کی طرف گئے ہیں تو وہ (امیر صاحب) ایک بیعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خاکسار جب پیرس واپس پہنچا تو ڈاک کے ذریعے خاکسار کو مراکش کی ایک خاتون کا بیعت فارم موصول ہوا جو فرنج نیشنل ہے.خاکسار نے فون پر اس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ کافی عرصے سے ایم ٹی اے بھی میں دیکھتی ہوں.اور میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھی کہ بہت سی احمدی گاڑیاں ادھر سے گزری ہیں اور میں بھی احمدیوں کی گاڑی میں بیٹھ گئی ہوں.میں نے اس سے پوچھا پر

Page 228

213 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اپریل 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کہ آپ کون سی جگہ رہتی ہیں.(امیر صاحب نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے بتایا کہ وہ Bordeaux کے علاقے میں رہتی ہیں.اور یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے ہم فرانس سے سپین جاتے ہوئے گزرے تھے.اور جس دن گزرے تھے اسی دن انہوں نے بیعت فارم فل (Fill) کیا.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے گو اس سفر کا پروگرام جیسا کہ میں نے کہا اچانک بنالیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بنا.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ بیعتیں بھی ہوئیں.اللہ تعالیٰ نئے شامل ہونے والوں کو ایمان اور ایقان میں بڑھاتا چلا جائے اور ہم جماعت کی ترقی کے نظارے ہمیشہ دیکھتے رہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل اپنے مسیح موعود کی تائید میں اور آپ سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ہیں اور ہمارے ایمانوں کو بھی تقویت بخشتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیشہ ان سے ہمیشہ ان فضلوں سے نواز تار ہے.(الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 21 مورخہ 21 مئی تا27 مئی 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 229

خطبات مسرور جلد ہشتم 214 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبہ جمعہ فرموده 07 مئی 2010ء بمطابق 07 ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ الا هُوَ فَانّى تُؤْفَكُونَ.(فاطر : 4 ) اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر قرآن کریم میں بے شمار جگہ پر کیا ہے.اور مختلف پیرایوں میں ہمیں سمجھایا ہے کہ میں خالق ہوں.تمہیں پیدا کرنے والا ہوں.اس کے باوجود تم میرے صحیح عبد نہیں بنتے.اس حوالے سے بعض آیات بیان کرنے سے پہلے میں اہل لغت نے لفظ خالق کے حوالے سے جو معنی بیان کئے ہیں وہ بتانا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ پر اپنے آپ کو خالق کہا ہے.یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے.مفردات جو لغت کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ اصل میں خلق کے معنی کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانے کے ہیں اور کبھی خَلْق، ابداع کے معنی میں بھی آجاتا ہے.یعنی کسی چیز کو بغیر مادے کے اور بغیر کسی تقلید کے تخلیق کرنا.چنانچہ آیت کریمہ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (النحل:4) یعنی اس نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا، میں خلق ابتدا کے معنوں میں ہی ہے کیونکہ دوسرے مقام پر اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے.بد نبع السمواتِ وَالْأَرْضِ ( البقرہ : 118) وہ آسمان اور زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کرنے والا ہے.پھر لکھتے ہیں کہ ایک چیز کو دوسری شے سے بنانے اور ایجاد کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.جیسے فرمایا خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ( النساء:2) کہ تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے.خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُللَةٍ مِنْ طِينٍ ( المومنون : 13) اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی کے خلاصے سے بنایا.کہتے ہیں کہ خیال رہے کہ خلق بمعنی ابداع یعنی نئی چیز پیدا کر نا ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے.چنانچہ ذاتِ باری تعالیٰ اور دوسروں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا.اَفَمَنْ يَخْلُقُ كَمَنْ لَا يَخْلُقُ أَفَلَا تَذَكَرُونَ (النحل: 18).پس کیا جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہو سکتا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتا.کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے.( مفردات لالفاظ القرآن از علامہ راغب اصفہانی زیر ماده خلق)

Page 230

215 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم از ہری کے نزدیک الْخَالِق اور الخلاق اللہ تعالیٰ کی صفاتِ حسنہ میں سے ہیں اور الف اور لام کے ساتھ یعنی آن کے ساتھ یہ صفت اللہ کے سوا کسی غیر کے لئے استعمال نہیں ہوتی اور اس سے مراد وہ ذات ہے جو تمام اشیاء کو نیست سے پیدا کرتی ہے اور لفظ خلق کا بنیادی معنی اندازہ لگانا ہے.پس اللہ تعالیٰ چیزوں کے وجود کا اندازہ کرنے کے اعتبار سے اور پھر اس اندازے کے مطابق انہیں وجود بخشنے کے اعتبار سے خالق کہلاتا ہے.اہل عرب کے کلام میں خلق سے مراد بغیر کسی سابقہ نمونے کے کسی چیز کو پیدا کرنا اور ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسے بغیر کسی سابقہ نمونے کے شروع کرنے والا ہے.(لسان العرب زیر مادہ: خلق) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے حوالے سے اور نام بھی استعمال ہوئے ہیں جیسے بَارِی ہے ، یعنی ایسا پیدا کرنے والا جس کا پہلے نمونہ نہیں تھا.پیدائش کا آغاز کرنے والا.بدیع کی صفت بھی ہے.اس کا مطلب ہے ایسا صانع جو نمونه یا آله یازمان و مکان کی قید سے بالا ہو کر پیدا کرتا ہے.یعنی کسی چیز کو پیدا کرنے کے لئے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں ہے.پھر ایک لفظ فَاطِز ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہو گا.اس کا مطلب ہے کہ پیدائش کی ابتداء اور اس میں خوبصورتی پیدا کرنے والا.بہر حال یہ بہت سارے الفاظ ملتے جلتے ہیں ان کی وضاحت تو آئندہ اپنے اپنے موقع پر ہو گی.اس وقت صرف الخالق کے حوالے سے قرآنِ کریم کی آیات پیش کروں گا.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو.کیا اللہ کے سوا بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتا ہے.کوئی معبود نہیں مگر وہ.پس تم کہاں الٹے پھر ائے جاتے ہو ؟ پس اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ایک پیغام دیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کی پرورش کے لئے اپنی نعمتیں بھی اتاری ہیں.یہ مت خیال کرو کہ تمہیں جو رزق مہیا ہو رہا ہے یہ اللہ کے سوا کوئی اور مہیا کر رہا ہے.اس رزق کا پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو رب العالمین ہے.زمین جو رزق تمہارے لئے پیدا کر رہی ہے اس رزق کے پیدا کرنے کے لئے بھی آسمان کی مدد کی ضرورت ہے.آسمانی پانی نہ ہو تو زمینی پانی بھی خشک ہو جاتا ہے.پس زمین سے رزق پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اور آسمان سے ان ذرائع کا پیدا کرنے والا بھی خدا ہے جو زمینی رزق پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں.قرآنِ کریم میں ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ اَروَيْتُم اِنْ اَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيَكُمُ بِمَاءٍ معِينٍ (الملک:31).تو کہہ بتاؤ تو سہی کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے پاس خدا کے سوا اور کون لائے گا؟ پس زمین کے چشمے ، پہاڑوں پر برف، بارشیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں.پھر زمینی زندگی کے لئے ، انسانیت کی بقا کے لئے سورج، چاند اور دوسرے سیارے ہیں یہ بھی ایک اہم

Page 231

216 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ سب خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں.اس میں یہ بھی واضح کر دیا کہ جس طرح تمہاری دنیاوی زندگی اور تمام نعمتوں کا خالق خدا ہے اسی طرح تمہاری روحانی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ نے سامان کئے ہیں.اور یہ روحانی اور دنیاوی زندگی کے سامان ایک نیک فطرت انسان سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ایک خدا کی عبادت کی جائے جس نے جسمانی اور روحانی زندگی کے سامان پیدا فرمائے.یہ بھی فرمایا کہ ہمیشہ یادرکھو کہ یہ دنیاوی رزق تو عارضی رزق ہے.اصلی رزق وہ روحانی رزق ہے جو دائمی رہنے والا ہے.جو آخرت میں کام آنے والا ہے.اور یہ اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ کامل موحد نہیں بنتے، جب تک صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نہیں بنتے.پس یہ اصل ہے جس کو سمجھنے کی ہمیں بھی ضرورت ہے اور دنیا کو سمجھانے کی بھی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے روحانی سامانوں کی تخلیق میں انبیاء کا وجود ہوتا ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ اظہار خد اتعالیٰ نے آنحضرت صلا نیلم کو مبعوث فرما کر فرمایا، جو ہر لحاظ سے خدا تعالیٰ کی کامل تخلیق کا ایک نمونہ ہیں، جو انسان کامل کہلائے.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی اظہار چاہے وہ دنیاوی ہیں یا روحانی ہیں آپ کے اسوہ پر چل کر ہی ہو سکتا ہے جس کو ہم نے بھی اپنے سامنے رکھنا ہے اور دنیا کو بھی بتانا ہے.پس یہ چیز ہے جو بہت اہم ہے.خدا کرے کہ ہم اس مقصد کو ادا کرنے والے بھی ہوں اور دنیا اس چیز کو سمجھنے والی بھی ہو اور اللہ کا عبد بنے.پھر ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنْ خَلَقَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ وَ أَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاء فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَابِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا ۖ وَإِلَهُ فَعَ اللَّهِ ۖ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ.(النمل: 61) کہ یہ بتاؤ کہ کون ہے وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا.اور اس کے ذریعہ ہم نے پر رونق باغات اگائے.تمہارے بس میں تو نہ تھا کہ تم ان کے درخت پروان چڑھاتے.پس کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟.( نہیں، نہیں).بلکہ وہ ناانصافی کرنے والے لوگ ہیں.پس ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ زمینی اور آسمانی نظام پر غور کرو.اگر انصاف اور عقل کو استعمال کرو گے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے.اور پھر پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ وَ أَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءُ.کہ تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا ہے تاکہ تمہاری زندگی قائم رہ سکے.پہلے بھی بیان کر کے آیا ہوں کہ اگر تمہارا پانی زمین میں غائب ہو جائے تو کیا کرو گے ؟ کون اسے لا سکتا ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا ثبوت دیا ہے کہ پانی بھیجنا خدا تعالیٰ کا کام ہے.زمین کی زندگی میں پانی کا بڑا اہم کردار ہے.جب زمین میں زندگی نہیں تھی اور زمین میں شدید حرارت تھی.اس وقت کہتے ہیں کہ بعض خاص قسم کے بیکٹیر یا موجود تھے لیکن یہ عمومی زندگی جو اب ہے یہ اس میں پنپ نہیں سکتی تھی.تو اس وقت پانی کے ذریعے سے اس میں

Page 232

217 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم زندگی کے سامان پیدا کئے.مسلسل بارشوں نے زمین کو اس قابل بنایا کہ اس میں موجودہ زندگی پیدا ہو سکے اور یہ سب خدا تعالیٰ کا منصوبہ تھا جس کے تحت اس نے کائنات اور تمام نظاموں کی تخلیق کی.فرمایا کہ یہ پر رونق باغات یہ تمہارے ماحول کی صفائی، صحت اور خوراک مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں.ان کو خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور اس پانی کے ذریعہ پیدا کیا ہے جو آسمان سے اترا اور ایک مسلسل عمل ہے جو زمین سے پانی کو اوپر لے جاتا ہے اور پھر صاف مصفی پانی اور زندگی بخش پانی انسانی زندگی کی بقا کے لئے زمین پر اترتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تمہارے بس میں نہیں تھا کہ زمینی زندگی کے سامان کر سکتے.پس اس بات پر غور کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکو.اس میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اگر خدا تعالیٰ نے جسمانی ضروریات کے سامان مہیا فرمائے ہیں اور اپنی صفت ربوبیت کے تحت ہماری پیدائش کے سامان پیدا فرمارہا ہے تو انسانی پیدائش کا جو یہ مقصد ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنے ، اس کے لئے کیوں انتظام نہ فرماتا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مقصد کی یاد دہانی کے لئے انبیاء کا نظام ہے جو اس طرف توجہ کرواتا ہے.وہ روحانی پانی انبیاء کے ذریعے نازل ہوتا ہے.جس طرح بارش کا پانی نازل ہونے سے، اترنے سے زمین میں روئیدگی پیدا ہوتی ہے فصلیں باغات اپنا جو بن دکھاتے ہیں تو ساتھ ہی ایسی نباتات بھی نکل آتی ہیں.ایسی جڑی بوٹیاں بھی نکل آتی ہیں جو ان فصلوں کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں.زمیندار اس کو جانتے ہیں اور بعض دفعہ بعض فصلوں میں اس قدر جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں کہ تلف کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اصل فصل جو ہے وہ دب جاتی ہے.اب تو ترقی یافتہ ممالک میں دوائیں چھڑک کر ان بوٹیوں کو ختم کیا جاتا ہے لیکن بہر حال دنیا کے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کے زمیندار جو محنت نہیں کرتے ان بارشوں کی وجہ سے جو بوٹیاں اگتی ہیں اس سے ان کا نقصان بھی ہوتا ہے یا بعض دفعہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ختم کر ہی نہیں سکتے.تو وہی بارش جو بارش سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے ایک کو فائدہ دے رہی ہوتی ہے تو دوسرے کو اس بارش سے نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے.روحانی زندگی میں بھی یہی حال ہے.انبیاء کے آنے سے جو روحانی بارش ہوتی ہے اس سے نیک فطرت اور محنتی تو فائدہ اٹھاتے ہیں اور مخالفت میں پڑنے والے اور دین سے لا تعلق محروم رہ جاتے ہیں اور نہ صرف محروم رہ جاتے ہیں بلکہ اپنی عاقبت برباد کرنے والے بن جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ غریب تو اس بارش سے فائدہ اٹھانے والے بنے اور فائدہ اٹھا کر رضی اللہ عنہ کا درجہ پاگئے.لیکن بعض سرداران دنیا میں بھی اپنے بد انجام کو پہنچے اور آخرت میں بھی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عذاب کی خبریں ہی دی ہیں تو اس کا بھی یہی حال ہے.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جو روحانی پانی اتارا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو عاشق صادق ہیں ان سے جنہوں نے فائدہ اٹھایا انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت اور سلوک کے نظارے دیکھے.اپنی زندگیوں میں اپنی خوبصورتی اور اپنی روحانیت کو بڑھتے پھلتے پھولتے دیکھا.جو مخالفین تھے وہ اس آسمانی پانی سے

Page 233

خطبات مسرور جلد ہشتم 218 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 محروم رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں اترا.جڑی بوٹیاں بھی بے شک بڑھیں لیکن پاک فطرتوں کی ایمانی حالت کے باغات ان سے پاک صاف رہ کر ایمان اور ایقان میں ترقی کرتے چلے گئے.آنحضرت صلی الم کے طفیل آپ کے اس غلام صادق کا زمانہ بھی تا قیامت ہے.اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفتوں کی جڑی بوٹیاں بھی سر اٹھاتی رہتی ہیں.پس ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فضل کیا ہے جو آسمان سے اس زمانے میں یہ پانی اتارا ہے جس نے تمہارے دلوں کے باغات کو سیر اب کیا ہے اس سے ہمیشہ صحیح فائدہ اٹھاتے رہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو تمہیں ہدایت ملی ہے اس کی قدر کرو.اپنے تقویٰ اور اعمال کے درختوں کو اس پانی سے سینچتے رہو.قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو رکھو اور لاگو رکھنے کی کوشش کرتے رہو.خدائے واحد کی عبادت کی طرف توجہ کرو.اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو.جس طرح ہو اسے بعض دفعہ خراب کھیتوں کے، جڑی بوٹیوں کے بیچ اچھے کھیتوں میں بھی آجاتے ہیں اور آئندہ نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں تو اچھے زمیندار جب انہیں اپنے کھیتوں میں اگتا دیکھتے ہیں تو فوراً تلف کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح اپنے دلوں کے کھیتوں کی صفائی کرتے رہو کیونکہ دنیاوی باتیں اس دنیا کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے اثر انداز ہوتی رہتی ہیں تبھی تم اپنے حقیقی خالق و مالک کے عبد بننے کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے بس میں نہیں ہے کہ تم اعمالِ صالحہ کے باغوں کو پروان چڑھاؤ.یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے.پس اس بات کی قدر کرو اور اللہ تعالیٰ کو معبودِ حقیقی سمجھو.اس کی عبادت سے کبھی غافل نہ ہو.عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ عَالَهُ مَعَ اللهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (سورۃ النمل:63) پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو کون بے کس اور مصیبت زدہ کی باتوں کو سنتا ہے.پس ایسے لوگوں کا نقشہ اس آیت میں کھینچا گیا ہے جو انتہائی اضطرار کی حالت میں ہیں یا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اور جب اضطرار کی کیفیت ہو یعنی وہ حالت جب کوئی جائے پناہ نظر نہ آتی ہو اور پھر انسان خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور کہے کہ دنیا کے سارے دروازے تو بند ہو گئے اے خدا! تو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے ، روحانی بارش کا نزول بھی تیر ا انعام ہے اور تیرے فرستادے کو قبول کرنا بھی تیرا انعام ہے.لیکن اس قبول کرنے کے بعد ، اس قبولیت کے بعد میرے پر زمین تنگ کی جارہی ہے.یہ ابتلاء جو آرہے ہیں انہیں دور کرنے والا بھی تو ہے.پس میرے سے ابتلاؤں کو دور فرما.ہم دیکھتے ہیں آج کل پھر پاکستان میں احمدیوں کے جو حالات ہیں اور ایک لمبے عرصے سے یہ چل

Page 234

219 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم رہے ہیں ان کو اگر دور کرنا ہے تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو امن کی جگہ اور جائے پناہ سمجھ کر خالص ہو کر اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں جس سے یہ دور ہو سکیں.اب تو بعض اور ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں.مثلاً مصر ہے آج کل وہاں بھی احمدیوں پر تنگی وارد کی جارہی ہے.اس کا ایک ہی حل ہے کہ خدا تعالیٰ کے آگے اضطراری رنگ میں جھکا جائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ایسی اضطراری حالت ہو گی اور ایسی حالت میں دعائیں کی جائیں گی تو میں انہیں قبول کرتا ہوں.انسان کی پیدائش کے بعد خدا تعالیٰ نے اسے چھوڑ نہیں دیا.بلکہ رحمانیت اور رحیمیت کے جلوے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے آگے خالص ہو کر جب جھکا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں نہ صرف تکلیفیں دور کر دیتا ہوں بلکہ اپنے ایسے پیاروں کو زمین کا وارث بنادیتا ہوں.احمدیوں پر سختیاں اور ابتلا اگر ہیں تو اس وجہ سے کہ اللہ کے پیارے کو ہم نے سچا سمجھ کر مانا اور اللہ کے حکم کے مطابق مانا.پس اللہ تعالیٰ یقیناً قدرت رکھتا ہے اور دکھائے گا کہ آج جو زمین کے وارث بنے بیٹھے ہیں ان کی جگہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کے پیاروں کو زمین کا وارث بنادے گا اور دنیا کو بتا دے گا کہ تم دنیا والوں کو معبود سمجھ کر میرے پیاروں پر زمین تنگ کرنے والے بن رہے تھے تو دیکھ لو کہ میرے سوا کوئی اس دنیا کا مالک نہیں.اور میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اپنے نیک اعمال بجالانے والے اور عابد بندوں کی کس طرح مدد کر تاہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : کلام الہی میں لفظ مضطر سے وہ ضر ر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلاء کے طور پر ضر ر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر.لیکن جو لوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ورنہ لازم آتا ہے کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے ان قوموں کو ہلاک کر دیا.( دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 231) پس جہاں جہاں احمدی تکلیف میں ہیں وہ یاد رکھیں کہ صرف احمدی ہیں جو اس وقت ابتلا کی صورت میں ضرر یافتہ ہیں اور انہی کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے.باقی دنیا اگر کسی مشکل میں گرفتار ہے تو وہ ابتلا نہیں ہے وہ سزا ہے.پس ایک اضطرار کی کیفیت اپنی دعاؤں میں طاری کریں.پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح تمام تکالیف کو اپنے فضل سے دور فرما دیتا ہے.پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پر واہ نہیں کرتا“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 455 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی دعاؤں کی توفیق دے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کو جائے پناہ سمجھ کر اس کے حضور کی جائیں.

Page 235

220 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آمَنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَ مَنْ يُرْسِلُ الرِّيحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَى رَحْمَتِهِ وَإِلَهُ فَعَ اللهِ تَعَلَى اللهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ.(النمل: 64) یا پھر وہ کون ہے جو خشکی اور تری کے اندھیروں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے ؟ اور کون ہے وہ جو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری کے طور پر ہوائیں چلاتا ہے.کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے؟ بہت بلند ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں.پس یہاں پھر جہاں ظاہری دنیاوی بارشوں کا ذکر ہے اور مصیبتوں سے نجات کا ذکر ہے وہاں روحانی اندھیروں کا بھی ذکر ہے.اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں کے آنے سے پہلے خدا کو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں جو ہیں وہ خدا سے دور ہوتے ہیں اور اندھیروں میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ جو اپنی مخلوق کی بہتری کے سامان پیدا فرما تارہتا ہے انبیاء کو بھیجتا ہے.آنحضرت صلی علیہ کم کی بعثت بھی اس وقت ہوئی جب دنیا کی ایسی حالت تھی جس کا نقشہ قرآنِ کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :42) یعنی خشکی اور تری میں فساد برپا تھا.وہ قومیں جو خدا پر یقین کرتی تھیں وہ بھی اپنے بگاڑ کے انتہاء کو پہنچی ہوئی تھیں اور جو خدا پر یقین نہیں کرتی تھیں وہ بھی اپنے بگاڑ کے انتہاء کو پہنچی ہوئی تھیں.اس وقت آنحضرت صلی اللہ ہم کو اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا.بعض نیک لوگوں نے اس وقت بھی ٹھنڈی ہواؤں کو محسوس کر لیا جس طرح ایک عیسائی راہب کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کے ظہور کی خبر اس نے دی.(السيرة النبویۃ لابن ہشام.قصہ بیری صفحہ 145 مطبوعہ بیروت ایڈیشن 2001ء) اسی طرح اس زمانے میں آنحضرت صلی علیم کے غلام صادق کے زمانے میں بشمول مسلمان ہر مذہب والے کی ایمانی حالت میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا بلکہ ابھی تک پیدا ہوا ہوا ہے.آپ علیہ السلام کی بعثت سے قبل بعض نیک فطرت کسی مصلح کے آنے کے منتظر تھے اور محسوس کر رہے تھے کہ کوئی آنے والا ہے کیونکہ زمانے کا بگاڑ انتہا تک پہنچ چکا ہے.لیکن ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے ضرورت محسوس کرنے کے باوجو د جب آپ نے اپنی بعثت کا اعلان فرمایا تو آپ کو قبول نہ کیا.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی بعثت کے تعلق میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”اے بندگانِ خدا! آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساک باراں ہو تا ہے اور ایک مدت تک مہینہ نہیں برستا تو اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کنوئیں بھی خشک ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس جس طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے پانیوں میں جوش پیدا کرتا ہے اسی طرح روحانی طور پر جو آسمانی پانی ہے ( یعنی خدا کی وحی) وہی سفلی عقلوں کو تازگی بخشتا ہے.سو یہ زمانہ بھی اس روحانی پانی کا محتاج تھا“.فرمایا: ”میں اپنے دعویٰ کی نسبت اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں عین ضرورت کے وقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں جبکہ اس

Page 236

221 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم زمانہ میں بہتوں نے یہود کا رنگ پکڑا اور نہ صرف تقویٰ اور طہارت کو چھوڑا بلکہ ان یہود کی طرح جو حضرت عیسی کے وقت میں تھے سچائی کے دشمن ہو گئے.تب بالمقابل خدا نے میرا نام مسیح رکھ دیا.نہ صرف یہ ہے کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانے نے مجھے بلایا ہے“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 428) پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آمَنْ يَبْدَوُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَالهُ مَعَ اللهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُم صدِقِينَ.(النمل: 65) کہ یا وہ کون ہے جو تخلیق کا آغاز کرتا ہے.پھر وہ اسے دھراتا ہے اور کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ تو کہہ دے کہ تم اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو.یہ جو ساری آیات ہیں سورۃ نمل کی ہیں اور ان سب میں ہر جگہ ہر بات کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کیا تمہارا اور کوئی معبود ہے؟ اگر ہے تو لاؤ.اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ یہی فرمارہا ہے ، اس تخلیق کے بارے میں جس کا آیت میں ذکر ہے کہ يبدوا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُه - حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک پیدائش اولی سے مراد قوموں کی تمکنت ہے اور یعید ہ سے مراد غالب قوموں کے زوال کے بعد ان میں دوبارہ زندگی کی اور بیداری کی روح پیدا کرنا ہے.یعنی اگر غور کرو تو تمہیں نظر آئے گا کہ اگر کسی قوم نے ترقی کی ہے تو الہی مدد اور تائید سے کی ہے.اور انحطاط کے بعد احیائے ثانیہ بھی، دوسری زندگی بھی ان کو ملی ہے تو الہی تقدیروں کے ماتحت ہوئی ہے.یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوا اور یہی توجہ اب مسلمانوں کو بھی دلائی گئی ہے کہ تمہیں غلبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گا.(ماخوذاز تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 425) پس نہ کسی شدت پسند گروپ کی ضرورت ہے.نہ ہی کسی تلوار کے جہاد کی ضرورت ہے.اگر غلبہ حاصل کرنا ہے تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے.ہو سکتا ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں مسیح موعود کو بھیجا ہے جنہوں نے ہمیں غلبہ کا جو ہتھیار دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ دلائل اور براہین ہیں اور خد اتعالیٰ نے ہمیں یہ کہا ہے کہ یہ سب کچھ دعاؤں سے ہونا ہے.اس لئے خالص ہو کر اس کے آگے جھکنا بھی ضروری ہے.پس اگر مسلمانوں نے اپنی پیدائش نو کے نظارے دیکھنے ہیں تو مسیح موعود کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور خالص ہو کر حاضر ہونے کی ضرورت ہے.نہ کہ تلواریں اٹھانے کی یاد ہشت گردی کرنے کی اور پھر اس آیت میں اس بات کو دہرایا کہ رزق جو آسمان اور زمین سے مل رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی مہیا فرما رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اس سے ہی سب خیر مانگو.احمدیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ اس اصول کو ہمیشہ یادرکھیں.بغیر خدا تعالیٰ کی مدد کے نہ مادی رزق مل

Page 237

222 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم سکتا ہے نہ روحانی رزق مل سکتا ہے.بعض احمدی بھی اس اصل کو بھولتے چلے جارہے ہیں.جیسا کہ میں کئی مرتبہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اور یہ واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں اس لئے میں بیان کرتاہوں کہ اس طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں، پابندی کریں.جب دعا کے لئے بعض لوگ مجھے کہتے ہیں تو بعض کے چہروں سے ہی پتا لگ جاتا ہے کہ رسمی طور پر کہا جارہا ہے.جب ان سے پوچھو کہ تم خود نماز پڑھتے ہو ؟ دعاؤں کی طرف توجہ ہے ؟ تو جواب نفی میں ہوتا ہے تو یہ انتہائی خوفناک صور تحال ہے.ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو نماز کا تارک ہو.بلکہ گذشتہ دنوں ایک واقعہ ہوا.مجھے باپ بیٹا ملنے کے لئے آئے تو باپ نے بیٹے کے سامنے ہی بیٹے کی شکایت کی کہ اس کی نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے اور کاروبار میں بڑا اچھا ہے ، کاروبار کی طرف توجہ ہے.اور بیٹا بھی اپنے کاروبار کے لئے ہی دعا کے لئے کہہ رہا تھا تو اسے میں نے کہا کہ یہ تو خدا تعالیٰ سے مذاق ہے.یہ باتیں بھی تم صرف رسما کر رہے ہو.پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ جو لوگ صرف کاروبار کے لئے ، اپنی دنیا داری کے لئے مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں ان سے مجھے ایک طرح کی کراہت آتی ہے.تو دنیاوی ترقی کے لئے بھی دعا کرنا ضروری ہے اس کے بغیر نہیں ہو سکتی لیکن صرف دنیا مقصود نہ ہو بلکہ سب سے اول خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تمہارا کاروبارا چھا چل گیا تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے.جو خدا اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ اس نے تمہارا کاروبار کامیاب کر دیا تو وہ یقیناً اس بات کی بھی قدرت رکھتا ہے کہ اس میں اس کشائش کو دور کر دے اور اپنے فضلوں کا جو ہاتھ ہے وہ اٹھا لے.اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت ہے اور یہ انسانی تخلیق کا سب سے بڑا مقصد ہے.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے خالق و مالک کا ہم تبھی حق ادا کر سکتے ہیں جب اس کو معبودِ حقیقی سمجھیں اور اس کے سامنے جھکیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمار 220 مورخہ 28 مئی تا 3 جون 2010 صفحہ 5 تا 7)

Page 238

خطبات مسرور جلد ہشتم 20 20 223 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مئی 2010ء بمطابق 14 ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: سبح اسم ربكَ الْأَعْلَى الَّذِى خَلَقَ فَسَوَى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى (الا على : 2-4) یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں.سورۃ اعلیٰ کی پہلی تین آیات ہیں.یعنی بسم اللہ کے علاوہ.اس سورۃ کو جیسا کہ ہمارے ہاں عموماً طریق رائج ہے، جمعہ اور عیدین میں پہلی رکعت میں پڑھا جاتا ہے.کیونکہ حدیث میں روایت ملتی ہے کہ آنحضرت علی علیکم جمعہ اور عیدین پر پہلی رکعت میں سورۃ اعلیٰ پڑھا کرتے تھے.اسی طرح دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ پڑھا کرتے تھے.الله سة (مسلم کتاب الجمعة باب ما يقر أفى صلوة الحجمعة حديث نمبر 1912) پس یہ اس سنت کی پیروی ہے جو آنحضرت صلی علی یم کی سنت ہے جس کی وجہ سے یہ سورتیں پڑھی جاتی ہیں.اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ آنحضرت صلی علی کمر وتروں کی پہلی رکعت میں سورۃ اعلیٰ پڑھا کرتے تھے.اور دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں بعض روایات میں آتا ہے سورۃ الاخلاص اور بعض میں یہ ہے کہ آخری تین سورتیں.آخری دو قل اور سورۃ اخلاص.(ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فى ما يقر آبه فی الوتر حدیث نمبر 463،462) تفسیر سورۃ الاعلیٰ بہر حال اس وقت سورۃ الاعلیٰ کی ان آیات کے حوالے سے کچھ کہوں گا.حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں اس کی بڑی تفصیل سے تفسیر بیان کی ہے اور بحث فرمائی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی تفاسیر جو ہیں وہ بھی ایک عظیم علمی خزانہ ہیں.گو یہ پوری قرآنِ کریم کی تو تفسیر نہیں ہے لیکن جن جن سورتوں کی ہے اُن کو پڑھنے کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے.یہ مختلف دس جلدیں ہیں.سبح اسم ربَّكَ الْأَعْلَى (الاعلیٰ : 2) یعنی تسبیح کر اپنے رب کی جو اعلیٰ ہے.یعنی تیر ارب جور بوبیت کے لحاظ سے سب سے بلند اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اُس کی تسبیح کر.اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ تو اپنے رب کا نام دنیا میں بلند کر.گویا دو ذمہ داریاں ایک مومن کی لگائی گئی ہیں جو اس بات پر

Page 239

224 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم یقین رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی علی کرم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کامل نمونہ بنایا اور آپ پر شریعت کامل ہوئی اور آپ کے طریق پر چلنا ہم پر فرض قرار دیا.پس ہر شخص جو آپ کی طرف حقیقی رنگ میں منسوب ہوتا ہے اور ہو نا چاہتا ہے، اس کا یہ فرض ہے کہ آپ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : 22) - یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک کامل نمونہ ہے جس کی پیروی کرنی چاہئے.اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنے میں آپ کا کیا نمونہ تھا؟ آپ کے صبح شام ، رات دن اللہ تعالیٰ کے ذکر سے پر گزرتے تھے.پھر بھی آپ فرماتے ہیں کہ اے رب! مجھے اپناذ کر کرنے والا اور اپنا شکر کرنے والا بنا.و (سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء باب دعاء رسول الله صلى علم حدیث نمبر 3830) رکوع اور سجدے میں آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید فرماتے تھے.اور آپ کی تسبیح و تحمید اور گریہ وزاری ایک عجیب رنگ رکھتی تھی.رکوع میں جب سُبْحَانَ رَبِّي العَظِیم سے اپنے عظیم رب جو رب العالمین ہے ،اس کی بزرگی اور برتری کا ذکر فرماتے ہیں تو کھڑے ہو کر سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر پھر اللہ تعالیٰ کی بے شمار حمد کی طرف توجہ فرماتے ہیں.آپ کے رکوع اور سجود اور قیام اور نماز کی ہر حرکت کے بارہ میں ایک دفعہ پوچھنے پر حضرت عائشہ نے فرمایا تھا کہ اس کی خوبصورتی اور لمبائی نہ پوچھو.( بخاری کتاب التهجد باب قیام النبی صلی الله ام با الیل فی رمضان و غیرہ حدیث نمبر 1147) آنحضرت علی الم کا جذبہ شکر سجدوں کی لمبائی کے بارہ میں ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی للی یکم ایک دن مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رو ہو کر سجدے میں چلے گئے.بہت لمباسجدہ کیا.اتنا لمبا کہ میں آپ کو دیکھ کر پریشان ہو گیا.بلکہ یہاں تک میری پریشانی بڑھی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کرلی ہے.اس پریشانی کی حالت میں میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ سجدہ سے اٹھ بیٹھے.آپ نے فرمایا کہ کون ہے ؟.میں نے عرض کی یارسول اللہ ! میں عبد الرحمن ہوں.پھر میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا یہ سجدہ اتنازیادہ لمبا ہو گیا تھا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہو گئی.آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے تھے اور یہ خوشخبری دی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجے گا اس پر میں رحمتیں نازل کروں گا.اور جو سلامتی بھیجے گا اس پر میں سلامتی نازل کروں گا.اس بات پر میں سجدہ شکر بجالا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہا تھا.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 512-513 حدیث نمبر : 1664 مسند عبد الرحمن بن عوف مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998ء ) یہی نہیں کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا انعام تھا اس کی وجہ سے شکر بجالا رہے ہیں، بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی اللہ تعالیٰ کی جو نعمت تھی، اس پر بھی آپ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا تسبیح و حمد وشکر گزاری فرمایا کرتے تھے.آپ

Page 240

خطبات مسرور جلد هشتم 225 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 کی خوراک کیا تھی.بعض وقت تو فاقے بھی ہوتے تھے اور روکھی سوکھی روٹی ہوتی تھی.لیکن اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر فرماتے تھے.اور تسبیح سے اپنی زبان کو تر رکھتے تھے.یہاں یہ بھی بتادوں کہ روایت میں آتا ہے کہ سبح اسم ربک الاعلی الا علی :2) کی آیت اترنے سے پہلے آنحضرت علی میری کم خود بھی یہ دعا کرتے اور اپنے صحابہ کو بھی آپ نے فرمایا ہوا تھا کہ سجدے میں یہ دعا پڑھا کرو کہ اللهمَّ لَكَ سَجَدْتُ.لیکن اس آیت کے بعد پھر آپ نے سُبحَانَ رَبِّي الا علی کی دعا سکھائی.اسی طرح فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیم کی آیت جب نازل ہوئی ہے تو پھر آپ نے رکوع میں بھی سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيم کی دعا سکھائی ہے.(ابوداؤ د کتاب الصلوۃ باب ما یقول الرجل فی رکوع و سجودہ حدیث نمبر 871،869 ) آپ نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کے طریق کس طرح سکھائے ؟ کس طرح ہر وقت آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور برتری کا خیال رہتا تھا اور آپ راہنمائی فرماتے تھے ؟ اس بارے میں ایک روایت میں حضرت جویریہ بیان کرتی ہیں کہ صبح کی نماز کے وقت آنحضرت صلی علیکم میرے پاس سے گئے.اس وقت میں مصلے پر بیٹھی تھی اور دن چڑھے جب آپ واپس آئے تو میں اس وقت بھی مصلے پر بیٹھی تھی اور ذکر کر رہی تھی اور تسبیح کر رہی تھی.تو آپ نے پوچھا تم صبح سے اس حال میں یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو ؟ میں نے عرض کی کہ میں تسبیح کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہی ہوں.آپ نے فرمایا اس کے بعد جب سے میں یہاں سے گیا ہوں اور اب آیا ہوں میں نے صرف چار کلمات تین دفعہ دہرائے ہیں.اگر ان کلمات کا موازنہ میں تمہارے اس سارے وقت کے ذکر اور تسبیح سے کروں تو میرے کلے جو ہیں وہ بھاری ہیں.جو یہ ہیں.کہ سُبحَانَ اللهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ رِضَاءَ نَفْسِهِ، سُبْحَانَ اللهِ زِنَةَ عَرْشِهِم، سُبْحَانَ اللهِ مِدَادَ كَلِمَاتِهِ (مسلم کتاب الذکر والدعاء التوبۃ والاستغفار باب التسبیح اول النهار وعند النوم : 6807-6808) اللہ پاک ہے اس قدر جتنی اس کی مخلوق ہے.اللہ پاک ہے جس قدر اس کی ذات یہ بات پسند کرتی ہے.اللہ پاک ہے جس قدر اس کے عرش کا وزن ہے یعنی بے انتہا پاک ہے اور اللہ پاک ہے جس قدر اس کے کلمات کی سیاہی ہے.ایک تو اس سے آنحضرت صلی علی یم کی قوت قدسی سے آپ کی ازواج کی تسبیح و تحمید اور ذکر سے رغبت اور اس کے لئے کوشش کا پتا چلتا ہے کہ کس قدر انہماک سے اور کتنی دیر تک یہ دعائیں اور ذکر فرمایا کرتی تھیں.پھر آنحضرت صلی للی کم کی اس تسبیح کا اندازہ ہوتا ہے.آپ نے جس غور اور جس گہرائی سے یہ تسبیح کی اس کا اندازہ لگائیں کہ ایک لمبے عرصے میں جو کم از کم گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے پر تو محیط ہو گا، اس میں آپ نے صرف تین مرتبہ یہ الفاظ دوہرائے.یہ تو آپ کا ہی مقام تھا.لیکن توجہ دلائی کہ تسبیح ان جامع الفاظ میں کرو اور ساتھ ساتھ غور کرو.اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسبیح کرو.

Page 241

226 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پھر جب فتح مکہ ہوئی تو اس تسبیح اور شکر گزاری کا ایک اور انداز دیکھیں کہ اونٹنی پر بیٹھے ہیں.سر جھک کر پالان سے چھور رہا تھا اور سجدہ شکر بجالاتے ہوئے یہ دعا آپ پڑھ رہے تھے کہ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللهُمَّ اغْفِز لنی.کہ اے اللہ ! تو پاک ہے اپنی حمد اور تعریف کے ساتھ.اے اللہ مجھے بخش دے.یہ معیار حاصل کرنے کے بعد جب خدا تعالیٰ نے آپ کی امت کے افراد سے اپنی محبت کو بھی آنحضرت صلی علیکم کی پیروی کے ساتھ مشروط کیا ہے.تو پھر بھی آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کے ساتھ ، شکر گزاری کے ساتھ اپنی مغفرت طلب فرمارہے ہیں.پس یہ آپ کے نمونے ہیں.انفرادی طور پر بھی تسبیح و تحمید کے طریق سکھا رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور تقدیس کا اظہار حقیقی رنگ میں کرنے کا پتہ چلے.آپ کے لئے امت کے درود اور سلامتی بھیجنے پر تسبیح اور تحمید اور شکر گزاری کا وہ اظہار فرمایا کہ جس کی مثال نہیں مل سکتی.ایک شکر گزاری اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر درود بھیجنے کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ یہ امت کے لئے بخشش کا سامان ہو گیا ہے.اور ایک اللہ تعالیٰ کی تسبیح اس لئے کہ کس کس طرح اللہ تعالیٰ میری امت کو بخشنے کے سامان فرمارہا ہے.اور کیا مقام اللہ تعالیٰ مجھے عطا فرما رہا ہے ؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کی صورت میں کامیابی عطا فرمائی تو تسبیح و تحمید اور شکر گزاری کا وہ اعلیٰ نمونہ ہے اور عاجزی کا وہ اعلیٰ نمونہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی.یعنی یہ سب تسبیح کے نمونے دکھا کر اور سکھا کر امت کو اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ تمہاری بقا اور تمہاری کامیابی اور تمہاری ترقی اور تمہاری فتح بھی اسی میں ہے کہ دنیاوی اسباب پر بھروسہ نہ کرو بلکہ رب اعلیٰ کی تسبیح اور تحمید کر وجو رب العالمین ہے.یاد رکھو بے شک اپنے اپنے رنگ میں بعض اور بھی رب ہیں جن سے تمہیں واسطہ پڑتا رہتا ہے.شروع میں، ابتدا میں انسان جب بچہ ہوتا ہے ، بچے کی پرورش میں بھی اس کے ماں باپ حصہ لیتے ہیں.اس لحاظ سے وہ بھی رب کہلاتے ہیں.پھر اس کے بعد بڑا ہوتا ہے اور دنیاوی کاموں میں پڑتا ہے.افسران ہیں، بادشاہ ہیں، ملکی سر براہ ہیں جو ایک طرح سے پرورش میں حصہ لیتے ہیں.لیکن ان سب کی ربوبیت جو ہے وہ نقائص سے پر ہے، کامل نہیں ہے.ماں ہے جو سب سے زیادہ خالص ہو کر بچے کی پرورش کر رہی ہوتی ہے لیکن اس میں بھی کاملیت نہیں ہے ، اس لئے اس کی پرورش میں کمیاں رہ جاتی ہیں.کبھی بچے کو زیادہ کھلا دیا تو وہ بیمار ہو گیا.کبھی خوراک کا خیال نہ رکھا تو کمزور ہو گیا.کبھی کسی اور طرف توجہ ہو گئی تو بچے کی نگہداشت صحیح طرح نہ ہو سکی.کبھی کسی چیز میں کمی رہ جاتی ہے، کبھی کسی چیز میں.اسی طرح تمام دنیاوی افسران ہیں یا ملازمین کے مالک ہیں، وہ سب کمزور ہیں.اور پھر وہ لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے لیکن تعریف وہ کروانا چاہتے ہیں جس پر وہ کبھی پورا نہیں اترتے اور یوں اکثر جھوٹی تعریفیں اور خوشامد میں کرنی پڑتی ہیں.جس سے انسان کی طبیعت میں جھوٹی خوشامدیں کر کے ، تعریفیں کر کے بعض دفعہ منافقت بھی پیدا ہو جاتی ہے.لیکن رب اعلیٰ وہ ہے جو ہر عیب سے پاک ہے.جس کی تعریف حقیقی ہے.جس نے رحمانیت کے

Page 242

227 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جلوے دکھاتے ہوئے بھی پرورش کے انتظام کئے ہیں.اور جو رحیمیت کے جلوے دکھاتے ہوئے بھی اپنے بندوں کے لئے بے انتہا فضل نازل فرماتا ہے.دعاؤں کو سنتا ہے ، وہ مجیب بھی ہے.غرض کہ اس کے بے انتہا اور بھی صفاتی نام ہیں جس کے مطابق وہ اپنے بندوں سے سلوک بھی کرتا رہتا ہے.پس ایک مومن کو چاہئے کہ سَبْحِ اسْمَ رَبِّكَ الأغلى (الا علی :2) پر عمل کرتے ہوئے اس کامل صفات والے اعلیٰ رب کی تسبیح کرتا رہے اور اس کی خیر کی تمام صفات سے حصہ لینے کی کوشش کرے اور اس کی ناراضگی اور پکڑ سے بچنے کی کوشش کرے.ہر خیر کے ساتھ شر بھی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تمام قسم کے شرور سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے اور حقیقی تسبیح کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یقیناً اپنی پناہ میں لے لیتا ہے.نمازوں کی ادائیگی قرآن کریم میں تسبیح کے ذکر میں جو بیان ہوا ہے اس میں نمازوں کو بھی تسبیح کے ساتھ ملایا گیا ہے.یعنی نمازیں بھی ایک قسم کی تسبیح ہیں.پس ان کی پابندی کرنا اور باقاعدگی سے ادا کرنا یہ بھی ضروری ہے.سبح اسم ريك الاعلیٰ کا صحیح ادراک حاصل ہو گا.پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے ربّ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا.اپنے رب کے نام کو دنیا میں بلند کرنا، یہ بھی حکم ہے.اس بارے میں جب سب سے اول آنحضرت صلی علی یم کی ذات کو ہم دیکھتے ہیں تو اس کے بھی اعلیٰ ترین نمونے آپ نے ہی قائم فرمائے.آپ نے دعوت الی اللہ کا حق قائم فرما دیا.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارہ میں فرمایا کہ داعيا إلى اللهِ بِاِذْنِهِ (الاحزاب : 47) کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے.اور جب آپ کو فرمایا کہ یایھا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ (المائدة: 68) کہ اے رسول! تیری طرف تیرے رب کی طرف سے جو کلام اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا تو اس کا بھی آپ نے حق ادا کر دیا.کیونکہ اس کے بعد رب اعلیٰ کے نام کی سربلندی جو پہلے ہی آپ کا مقصود تھی اس میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا.نرمی سے ، حکمت سے، احسان سے ، احسان کرتے ہوئے اور صبر دکھاتے ہوئے آپ نے ہر حالت میں تبلیغ کے کام کے حق کو ادا کرنے کی کوشش فرمائی.ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے اس حق کو ادا کیا.مشکلات بھی آئیں تو تب بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے آپ کے قدم آگے ہی بڑھتے چلے گئے.کوئی خوف، کوئی ڈر آپ کو اس کام سے روک نہیں سکا.آپ کی قوت قدسی نے یہی روح صحابہ میں بھر دی تھی.اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی کے لئے وہ بھی قربانیاں دیتے چلے گئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِي خَلَقَ فَسَوی الا علی :3) یعنی جس نے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا.اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس حالت میں پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر تمام ضروری طاقتیں رکھی ہیں اور ترقی

Page 243

228 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کے مادے اس میں موجود ہیں.عموماً ایک نارمل بچے کی جب پیدائش ہوتی ہے تو اس میں تمام ضروری طاقتیں بھی موجود ہوتی ہیں.اور جوں جوں اس کی نشو و نما ہوتی رہتی ہے اور جس طرح پہلے زمانوں میں بھی ہوتی رہی ان طاقتوں میں اس ماحول کے لحاظ سے نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.بیشک بعض ذہنی اور جسمانی لحاظ سے کمزور بھی ہوتے ہیں لیکن یہ عمومی حالت نہیں ہے.پس انسان کو جب اشرف المخلوقات بنایا تو اس میں ذہنی صلاحیتیں بھی ایسی رکھیں کہ اگر ان کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو تمام مخلوق کو وہ زیر کر لیتا ہے.گویا انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا پر تو بن سکتا ہے.اور جیسا کہ پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں اس کا کامل نمونہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کم ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل تعلیم اتاری اور اس مزاج کے مطابق اتاری جو انسان میں خدا تعالیٰ نے پیدافرمایا ہے یا جس کی نشو و نما اس زمانے میں ہو چکی تھی اور آئندہ بھی انسان کی ذیلی صلاحیتوں کا اور اس کے قویٰ کا نشو و نما اب قیامت تک ہوتے چلے جانا ہے.انسان کی فطرت میں اگر اللہ تعالیٰ نے نرمی اور غصہ رکھا ہے تو یہ بھی عین ضرورت کے مطابق ہے.کبھی نرمی کا اظہار ہو جاتا ہے، کبھی غصہ کا اظہار.اس لئے قرآن کریم میں جو تعلیم آنحضرت علی ہے تم پر اتاری گئی ہے اس میں بھی یہی فرمایا ہے کہ غصے کا اور نرمی کا اظہار اپنے وقت پر کرو تبھی ان انسانوں میں شامل ہو گے جو سوی کے لفظ کے تحت آتے ہیں.یعنی جب ہر عمل جو ہے موقع اور محل کے مطابق ہو.مثلاً اگر اصلاح کی ضرورت ہے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس کے لئے معاف کرنے میں اصلاح کا پہلو نکلتا ہے یا سزا دینے میں.اگر صرف ہر صورت میں معاف ہی کیا جاتا رہے تو معاشرے میں ان لوگوں کے ہاتھوں جو ہر وقت فساد پر تلے رہتے ہیں معاشرے کا امن برباد ہی ہو تا چلا جائے گا.پس ایک عقل مند اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھنے والا انسان ہمیشہ اعتدال سے کام لیتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کو اس طرح پیدا کیا ہے جو ہر لحاظ سے مناسب ہے.عیب سے پاک ہے.پھر عقلمند انسان کا ہر عمل اور فعل، موقع اور محل کے مناسب حال ہوتا ہے.خَلَقَ فسوى ( الا على : 13 کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس میں جب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو اس عیب کو درست کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ سامان پیدافرماتا ہے.بیماریاں ہیں تو ان کا علاج ہے اور یہ علاج کے طریق بھی خدا تعالیٰ ہی سکھاتا ہے.بعض دہر یہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کی دماغی صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں علاج سمجھ آگیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کار فرما ہے.اور یہ باتیں پھر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں.انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذہن عطا فرمایا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے، سہولیات کے لئے ایجادات کرتا چلا جارہا ہے.مثلاً بیماریوں کے خلاف علاج ہے تو اس کے بھی نئے نئے طریق نکال رہا ہے.بہت سی بیماریاں جو پہلے نہیں ہوتی تھیں یا پتہ نہیں تھا، جن کی صلاحیت نہیں تھی جب اللہ تعالیٰ نے صلاحیت پیدا کی، انسان کی نشوو نما کی.اس کی ذہنی اور جسمانی طاقتیں بڑھائیں تو بعض ایسی نئی نئی باتیں بھی اس کے

Page 244

229 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ذہن میں پید اہو گئیں جن کو استعمال کر کے وہ اپنی زندگی کو مزید بہتر بنا سکتا ہے.مثلاً دل ہے انسان کا.پہلے تو کسی کو پتہ ہی نہیں لگتا تھا یا انسانی زندگی اتنی سخت تھی کہ ورزش کی وجہ سے اور اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے اور ایسی خوراک ہونے کی وجہ سے جو دل کو نقصان نہیں پہنچاتی، دل کی بیماریاں نہیں تھیں.لیکن جہاں جہاں اور جوں جوں انسان کی بعض صلاحیتیں بڑھتی چلی گئیں ، بیماریاں بڑھتی چلی گئیں.دل کی بیماریاں بھی ان میں سے ایک ہیں.اس کا علاج کا طریقہ آپریشن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمجھایا.پھر اس میں ترقی ہوئی تو ایک اور طریقہ نجو پلاسٹی کا سمجھایا جو اس سے زیادہ آسان ہے.اور اب مزید سٹیم سیل (Stem Cell) کے ذریعے علاج کی ریسرچ ہو رہی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ انسانی صلاحیتوں کو ساتھ ساتھ اس کی ضروریات کے مطابق اجاگر کرتا چلا جاتا ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے.یہ وہ اعلیٰ رہ ہے جس کی تعریف ایک بندے پر فرض ہے.وہ اگر عیبوں کو ظاہر فرماتا ہے تو اس کے لئے پھر اس کا مداوا اور علاج بھی سمجھا دیتا ہے.ایک موحد جب بھی نئی ریسرچ دیکھتا ہے تو اسے خدا تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب کرتا ہے.آنحضرت علی ایم کی بعثت اور جب اللہ تعالیٰ جسمانی بیماریوں کے علاج کی طرف یوں رہنمائی فرما رہا ہے تو روحانی بیماریوں کے علاج کے سامان بھی کرتا ہے اور کیوں نہیں کرے گا.پس ہر زمانے میں انبیاء روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے آئے اور اپنے اپنے وقت کی بیماریوں کے علاج کرتے رہے.جب انسانی زندگی روحانی بیماریوں کا مجموعہ بن گئی اور نئی نئی بیماریاں پیدا ہو گئیں، ہر زمانے کی بیماری جمع ہو گئی تو آنحضرت صلی یہ کام کو مبعوث فرمایا اور قرآن کریم کی کامل تعلیم اتاری جس نے علاج کیا اور آنحضرت صلی علیہم نے اپنے زمانے میں اس کے اعلیٰ ترین نمونے اپنی قوتِ قدسیہ سے دکھائے.اس تعلیم کی روشنی میں دکھائے جس سے انسانوں کو ، جانوروں کو باخدا انسان بنا دیا.لیکن ایک زمانے کے بعد جب مسلمان بھی اس تعلیم کو سمجھنے سے قاصر ہو گئے اور اس پر عمل کرنا بھول گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو اپنے وعدے کے مطابق بھیجا جنہوں نے پھر اس تعلیم میں سے جو قرآنِ کریم کی صورت میں موجود تھی، علم و عرفان کے موتی نکال کر ہماری بیماریوں کے علاج کئے.اور یہ بتایا کہ امت میں جو بیماریاں پیدا ہوئی ہیں، ان کے علاج یہ ہیں.اور میرے ساتھ جڑو گے تو اس سے اپنے علاجوں میں کامیاب ہو سکتے ہو.ڈاکٹروں کو تو نئی بیماریوں کا علاج ایک ریسرچ اور لمبا عرصہ محنت کرنے سے پتہ لگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے روحانی علاج کے لئے چودہ سو سال پہلے قرآنِ کریم میں کامل شریعت اتار کر یہ علاج رکھ دیا تھا.اور ہر زمانے میں جو اللہ کے بندے تھے اس کو سمجھتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور آخر پر جو مزید نئی بیماریاں پیدا ہوئی تھیں ان کے علاج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر

Page 245

230 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اسی جگہ سے بتادیے.کیونکہ قرآنِ کریم کا فہم اور عرفان اس زمانے کی بیماریوں کے مطابق آپ کو ہی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا.اور پھر جب ہر قسم کی ناسخ و منسوخ کے الزام سے اس کلام قرآنِ کریم کو پاک کر دیا تو پھر ہی پتہ لگ سکتا تھا کہ کیا صحیح علاج ہیں اور یہ کام بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی فرمایا.اور حقیقی مومنوں اور قرآنِ کریم پر غور کرنے والوں کو آپ کی تفسیروں اور وضاحتوں اور تعلیم کی روشنی میں جو قرآنِ کریم سے نکال کر آپ نے ہمارے سامنے رکھی حسب ضرورت یہ علاج میسر آتے رہے.پس جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کی ضرورت نہیں تھی یا اب کسی مصلح کے آنے کی ضرورت نہیں ہے.ان کی بیماریاں جو ہیں وہ ظاہر ہو کر پھر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور بڑھتی چلی جارہی ہیں لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ جو اس زمانے کا امام اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کو قبول کریں.یہ سب دشمنیاں جو ہیں ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.خود کش حملے جو ہیں، قتل و غارت جو ہے، دہشت گر دی جو ہے کیا یہ اسلامی تعلیم ہے ؟ خدا کے نام پر اور مذہب کے نام پر ظلم جو ہے، یہ اسلام کی تعلیم ہے ؟ یقیناً نہیں.صرف ان لوگوں نے نا سمجھی یا ڈھٹائی کی وجہ سے اس تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو حقیقی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیش فرمارہے ہیں.یہ سب چیز میں جو ہیں جس پر آج کل مسلمانوں کے عمل ہو رہے ہیں، یہ تو اپنے عارضی ربوں کو خوش کرنے کے لئے ہیں.جبکہ مسیح موعود واحد و یگانہ خدا کی طرف بلا رہے ہیں اور اس تعلیم پر عمل کروانے کے لئے دعوت دے رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت لیلی لیلیوم پر اتاری اور جو حقیقی اسلامی تعلیم ہے.ایک طرف تو بعض طبقوں کی طرف سے پریشان ہو کر یہ دعوے بھی کئے جارہے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت ہے.مسلمانوں میں خلافت کی ضرورت ہے.اور دوسری طرف اس چیز کو ٹھیک کرنے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے سامان پید افرمائے ہیں اور معالج بھیجا ہے تو اس کو قبول کرنے کے لئے یہ لوگ تیار نہیں ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى ( الا علی : 4).جس نے طاقتوں کا اندازہ کیا اور ہدایت دی.اس کا تعلق بھی پہلی آیت سے ہے.اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ قدر فھدی کے دو معنی ہوں گے.جیسا کہ پچھلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ انسان میں ترقی کی استعداد رکھی گئی تھی اور اسے کامل القویٰ بنایا گیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کی طاقتوں کا اندازہ کر کے اس کے متواتر ترقی کرتے چلے جانے کے ذرائع مہیا کئے ہیں.یعنی پہلے پیدائش کو اس تعلیم اور طاقت کے مطابق کیا پھر تعلیم بھجوائی.یعنی جوں جوں ذہنی اور جسمانی طاقتوں نے ترقی کی اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق ہدایت کے سامان پیدا فرمائے.اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ جب بھی انسان کج ہوا اللہ تعالیٰ نے اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت بھجوادی.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 405-406 مطبوعہ ربوہ) اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ یہ ہدایت کامل طور پر آنحضرت صلی لی ایم کے ذریعہ نازل فرمائی تاکہ

Page 246

231 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق کا بھی صحیح ادراک کر سکے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرے.پس جب یہ ہدایت آگئی تو اس کے مطابق ہی اب ایک مومن کو چلنا ہے.اور اگر سمجھ نہیں آتی تو پھر جو امام اور جو معالج اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی طرف رجوع کرنا ہو گا.اس میں دنیا کی بقا ہے.جس کے لئے پہلی آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے طریق بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی عبادت کی ضرورت ہے اور اس بھیجے ہوئے کو ماننے کی ضرورت ہے.اگر سمجھ نہیں آتی تو پھر اللہ تعالیٰ سے خالص ہو کر مدد مانگی جائے کہ اللہ تعالیٰ صحیح راہنمائی فرمائے تاکہ ہم اس کا حق ادا کر سکیں.اور دوسرے اس تسبیح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا بھی فرض ہے.اور یہی ہر قسم کی کبھی سے پاک ایک مومن کی نشانی ہے.اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم خالص ہو کر اس کے بھیجے ہوئے کے ساتھ جڑ کر اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں اور صحیح رنگ میں تسبیح کرنے والے ہوں، اس کی عبادت کرنے والے ہوں اور اس کے پیغام کو پہنچانے والے ہوں.مصر کے احمدیوں کے لئے بھی میں پھر خاص طور پر دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں.وہاں گزشتہ کچھ عرصے سے جماعت کے خلاف ایک شور اٹھا ہوا ہے اور ہمارے بارہ، تیرہ کے قریب احمدی حراست میں ہیں جن کا ابھی تک پتا نہیں لگ رہا کیا بننا ہے ؟ اس لئے ان کے لئے خاص طور پر دعا کریں اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے بھی سامان پیدا کرے.شاید ان کا خیال ہے کہ اسیر بنا کر وہ ان کو ایمان سے پھیر لیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی جو دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا ہے وہ اپنے ایمان کے لحاظ سے بڑا مضبوط ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ بھی اسی طرح مضبوطی کا اظہار کر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے ، انشاء اللہ.اور یہی مجھے پیغام بھیج رہے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ ہمارے ایمان میں کوئی لغزش نہیں آئے گی.بلکہ گزشتہ دنوں ایک خاتون کو بھی گرفتار کر لیا تھا پھر چھوڑ دیا.اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں.وہاں بھی کافی سخت حالات ہیں.اللہ تعالیٰ دنیا کو مسیح محمدی کے پیغام کو سننے کی اور سمجھنے کی اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہر قسم کی کجیاں دنیا سے دور ہوتی چلی جائیں.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے تو ذرائع مہیا فرما دیئے ہیں اب اس سے فائدہ اٹھانا بندوں کا کام ہے.اگر نہیں اٹھاتے تو پھر اللہ تعالیٰ کس طرح ٹھیک کرتا ہے، کیا سامان پیدا فرماتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو کسی بھی قسم کی آفت اور بلا اور تباہی سے محفوظ رکھے اور اپنی طرف جھکنے والا خالص بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 23 مورخہ 4 جون تا 10 جون 2010ء صفحہ 5 تا 7)

Page 247

خطبات مسرور جلد ہشتم 232 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مئی 2010ء بمطابق 21 ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ وَ كَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَ نَصِيرًا (الفرقان :32) جب دنیا میں انبیاء آتے ہیں تو انبیاء اور ان کی جماعتوں سے ہمیشہ یہ سلوک ہوتا ہے کہ ان کی مخالفت کی جاتی ہے، ان سے جنسی ٹھٹا کیا جاتا ہے.جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں قرآنِ کریم نے اسی بات کا نقشہ کھینچا ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.”اور اسی طرح ہم ہر نبی کے لئے مجرموں میں سے دشمن بنا دیتے ہیں، اور بہت کافی ہے تیر ارب بطور بادی اور بطور مدد گار “.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر نبی کی مخالفت کی گئی اور یہ مخالفت کرنے والے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے لوگ نہیں ہوتے بلکہ مجرموں میں سے ہیں.اور جب خدا کے نام پر خدا کے پیاروں کو تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں تو پھر ان مجرموں کے جرم بھی اور بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں.پس جب آنحضرت صلی للی کم کی مخالفت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی فرمایا کہ یہ مخالفتیں مجرموں کا کام ہے.دشمنانِ دین ہمیشہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ نبی کے پیغام کی مخالفت کریں.اس کے کام میں روکیں ڈالیں.اس کے ماننے والوں کو تکلیفیں پہنچائیں.لیکن یہ مخالفتیں، یہ تکلیفیں، یہ قتل مخالفین کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتے.آخر کار انبیاء ہی جیتا کرتے ہیں اور مخالفین اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنتے ہیں.مکہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم مکہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی، سورۃ الفرقان، جس کی آیت میں نے پڑھی ہے.مخالفین نے وہاں کیا کیا ظلم آنحضرت صلی کیا اور آپ کے ماننے والوں پر نہیں کئے.ہر ظلم جو آپ پر ہو تا تھا اور آپ کے ماننے والوں پر ہو تا اس پر آپ صبر فرماتے اور صبر کرنے کی تلقین فرماتے.اس بارے میں تاریخ میں کئی ایک درد ناک واقعات ہیں.ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے جو عمار ان کے والد یا سر اور والدہ سمیہ کا آتا ہے جن پر بے انتہا ظلم کیا جاتا تھا.ایسے

Page 248

233 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ہی ایک موقع پر جب ان کو جسمانی اذیتیں دی جا رہی تھیں تو آنحضرت علی کم کا وہاں سے گزر ہوا تو آنحضرت صلی ال کلم نے ان کی طرف دیکھا اور بڑے درد مند لہجے میں فرمایا کہ صَبْرًا آلَ يَاسِرَ فَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الجنَّة کہ اے ال یاسر ! صبر کرتے رہو، یقیناً تمہارے اس صبر کی وجہ سے تمہارے لئے جنت تیار کی گئی ہے.یاسر تو اس وقت اس اذیت کے دوران چند لمحوں میں ہی شہید ہو گئے اور بوڑھی سمیہ جن میں کچھ جان تھی ان کو ابو جہل نے ایک ایسا نیزہ مارا جو ان کے پیٹ کے نچلے حصے میں لگا اور وہیں تڑپتے ہوئے انہوں نے جان دے دی.(السیرۃ النبویۃ از احمد بن زینی دحلان، جزء اول ص 202، 201 اور الرحیق المختوم از صفی الرحمن المبارکفوری صفحه 107 مطبوعہ سعودی عرب ایڈیشن 2000ء) تو یہ ظلم تھے جو آنحضرت صلی علیم کے ماننے والوں کے لئے روار کھے گئے تا کہ کوئی آپ کے قریب نہ آئے.لیکن ان ظلموں سے سعید روحوں کو اور توجہ پیدا ہوئی.ان ایمان سے بھرے ہوئے دلوں کو دیکھ کر لوگوں کی آنحضرت صلی اللہ نام کی طرف مزید توجہ پیدا ہوئی.اسلام کا پیغام مکہ سے نکل کر مدینہ تک پہنچا اور وہاں اسلام پھیلنا شروع ہوا.حبشہ میں اسلام کا پیغام پہنچا.پس جب مکہ کے سرداروں اور ان کے چیلوں نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی تو اسلام کے پیغام کو دبانے کی بجائے یہ ظلم و بربریت اس پیغام کے پھیلانے کا باعث بن گئی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مخالفت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ یہی مخالفت بہت سوں کی ہدایت کا باعث بن جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ نصیر بھی ہے ، ہادی بھی ہے.ہدایت دیتا ہے.نصیر بھی ہے، مدد کرتا ہے.وہ یقیناً تمہاری مدد کرے گا اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود غلبہ اس کا ہو گا جسے خدا تعالیٰ نے مامور فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی مدد کے لئے جب چاہتا ہے زمینی اور آسمانی نشان دکھاتا ہے.ایسے مجرموں کی ہلاکت کے لئے اپنی گہری تجلیاں بھی دکھاتا ہے، اور کبھی کوئی طاقتور بادشاہ، کوئی فرعون، کوئی سربراہ، انبیاء کے کاموں کو روک نہیں سکا.بلکہ مخالفتیں ترقی کے راستے دکھاتی ہیں.مخالفت کھاد کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ جس طرح روڑی اور کھاد جو گند بلا ہوتا ہے.یہ فصلوں کی نشوونما کے لئے کام آتا ہے.اسی طرح یہ گندی مخالفتیں بھی الہی جماعتوں کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 631) یہ مخالفت بھی بہت سوں کی ہدایت کا باعث بن جاتی ہے.پس یہ ہمیشہ مجرموں کا طریق ہے کہ اللہ کے پیاروں کی مخالفتیں کرتے ہیں.اور ظاہر ہے جب مسیح موعود نے دعوی کرنا تھا تو اللہ تعالیٰ کی یہ ہمیشہ کی سنت یہاں بھی جاری ہوئی تھی اور ہوئی.آپ کی مخالفت بھی ہوئی، آپ کا استہزاء بھی کیا گیا.آپ کے ماننے والوں کو وقتا فوقتا تکلیفیں بھی دی جاتی رہیں اور دی جاتی ہیں.اور نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر مسلمانوں نے احمدیوں کو تکلیفیں دینا خدمتِ اسلام سمجھا ہے.

Page 249

خطبات مسرور جلد ہشتم 234 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 سورۃ الفرقان کی اس آیت سے پہلے جو آیت ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُ وَاهُذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ( الفرقان : 31).اور رسول نے کہا کہ اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا ہے.اس میں جہاں کفارِ مکہ کے قرآن کو نہ ماننے کا بیان ہے وہاں اس زمانے میں جب مسیح موعود کی بعثت ہوئی تھی اور آپ نے قرآنِ کریم کی حقیقی تعلیم کی طرف بلانا تھا، قرآنِ کریم کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی دعوت دینی تھی، اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت خود تو قرآنِ کریم کی تعلیم کو بھلا بیٹھی ہے اور جب زمانے کا امام بلاتا ہے کہ آؤ میں تمہیں قرآنی تعلیم کے اسرار اور رموز سکھاؤں تاکہ تم اس خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرو اور اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچاؤ، تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے.پس اس آیت کے بعد جو آیت ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، جس کی ابھی تلاوت کی ہے.اس میں مسیح موعود اور آپ کی جماعت کو بھی تسلی کرائی گئی ہے کہ خدا اور قرآن کے نام پر جو تمہاری مخالفتیں کی جارہی ہیں یہ قرآنِ کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں.لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، انبیاء سے یہی سلوک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہادی ہے ، وہ اس سلوک کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ بہت سوں کے ہدایت کے سامان بھی فرمائے گا.وہ تمہارا نصیر اور مددگار بھی ہے.جو مجرم ہیں جو نام نہاد علماء ہیں ، جو لیڈر ہیں، جو عوام الناس کو مخالفتوں پر ابھارتے ہیں، ان کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی.اور یقیناً کامیابیاں مسیح موعود کی جماعت کو ہی ملنی ہیں، انشاء اللہ.مخالفین کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی پس چاہے یہ لوگ مخالفتیں کریں، یا جتنا بھی زور لگانا ہے کسی بھی رنگ میں لگا لیں.ان کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو گی.اور یہ سب مخالفتیں ایک دن ان مخالفین پر ہی کو ٹائی جائیں گی.پس ان مخالفین سے میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی خوفِ خدا ہے ، تو خدا تعالیٰ کی اس لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے اور اس کے عذابوں سے پناہ مانگو.کیونکہ وہ اپنے پیاروں کے لئے بہت غیرت دکھاتا ہے.پس یہ موقع جو اللہ تعالیٰ دے رہا ہے اس سے مخالفین کو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.بجائے نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کے اس شخص کی بات سنیں جو بڑے درد سے یہ بات کہتا ہے.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابلِ رحم حالت اس قوم کی ہو گی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے.پس آج بھی ہم اپنے مخالفین اور ان لوگوں سے جو احمدیوں کو تکلیفیں پہنچانا کارِ ثواب سمجھتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اُس اسوہ پر چلتے ہوئے، جو آپ نے اپنے اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی للی نام سے لیا ہے ، یہ کہتے ہیں کہ تمہاری ہمدردی اور خیر خواہی ہمیں مقدم

Page 250

235 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہے تمہاری قابل رحم حالت ہمیں بے چین کرتی ہے کہ کہیں اس حد تک خدا تعالیٰ کو ناراض نہ کر لو کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے.اس سے پہلے ہی خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی مخالفت اور استہزاء چھوڑ دو.امام وقت کے ماننے والوں کو خدا کے نام پر اذیتوں اور تکلیفوں کا نشانہ نہ بناؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.”اے سونے والو! بیدار ہو جاؤ.اے غافلو! اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا.یہ رونے کا وقت ہے ، نہ سونے کا.اور تضرع کا وقت ہے، نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا.دعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو.اور نیز اس نور کو بھی جو رحمت الہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کے لئے تیار کیا ہے.پچھلی راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے رورو کر ہدایت چاہو.اور ناحق حقانی سلسلہ کے مٹانے کے لئے بد دعائیں مت کرو اور نہ منصوبے سوچو.خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا.وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بے وقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا اور اپنے بندہ کا مددگار ہو گا.اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے“.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 53-54) پاکستان میں کلمہ طیبہ مٹانے کی ناپاک جسارت خدا کرے کہ ہمارے مخالفین کو عقل آجائے اور وہ امام وقت کی مخالفت ترک کریں اور اس دردمندانہ و سمجھیں.پاکستان میں بدنام زمانہ اور ظالمانہ قانون نے احمدیوں پر جو پابندیاں لگائی ہوئی ہیں.اس میں ایک یہ بھی ہے کہ احمدی لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کا کلمہ نہ پڑھ سکیں.نہ کسی جگہ لکھ کر اس کا اظہار کر سکتے ہیں.وقتا فوقتا انتظامیہ جو ہے وہ احمدیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانے کے لئے اس قانون کو استعمال کرتی رہتی ہے.اور مولویوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں.گزشتہ دنوں سر گودھا کے ایک گاؤں چک منگلا میں رات کے وقت پولیس آئی اور احمد یہ مسجد پر سامنے تختی پر لکھا ہوا جو کلمہ آویزاں تھا، اس کو ایک بچہ وہاں کھڑا تھا، اس کو کہا کہ اتار دو اور اتار کر وہ سختی لے گئی.بہر حال جماعت نے راتوں رات ہی دوبارہ کلمہ لکھ دیا.بچہ چھوٹا تھا، احمدی تھا.بچے کو کس طرح ڈرا دھمکا کر انہوں نے یہ کام کروایا؟ اس کی تفصیل تو نہیں آئی، کس طرح اس نے تختی اتاری.مٹایا تو بہر حال نہیں، سختی اتار کر ان کو دی.لیکن یہ بھی نہیں ہو نا چاہئے تھا.میں ہر احمدی بچے کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ ہو تو بچے پولیس کو یہ کہیں کہ تم نے اتارنا ہے تو اتار لو میں تو ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتا.چاہے جتنا بھی ظلم تم کر نا چاہتے ہو ہم پر کر لو.ہر احمدی یادرکھے کہ یہ کلمہ ہے جس کی ہر بڑے، بچے، مرد، عورت نے حفاظت کرنی ہے.اگر قانون

Page 251

236 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم نافذ کرنے والے ادارے ، یا ادارے کے افراد یہ حرکت کرتے ہیں تو کریں، ہم قانون سے نہیں لڑتے.لیکن ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے کبھی کسی بھی صورت میں اس بارے میں ان کا مددگار نہیں بننا.تاکہ قیامت کے دن یہ کلمہ ہمارے حق میں گواہی دے اور انہیں مجرم ٹھہرائے.پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ احمدی کیونکہ ان کی بنائی ہوئی تعریف کے مطابق مسلمان نہیں ہیں اس لئے کلمہ پڑھنے اور لکھنے کی بھی ان کو اجازت نہیں ہے.ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تمہاری تعریف کی ضرورت نہیں ہے.اللہ اور اس کے رسول نے کہہ دیا کہ جو کلمہ پڑھے وہ مسلمان ہے.بلکہ حدیث میں آتا ہے ، آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ سب سے افضل ذکر جو ہے ، اور ایک شخص کو مومن بناتا ہے.وہ صرف لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہنا ہی ہے.ہمارے ایمان اور اسلام کو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا.بلکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء: 95).اور جو تم پر سلام بھیجے ، اسے یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں ہے.احمدی تمام ارکانِ اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالی، اس کے رسول صلی اللہ یکم اور قرآن پر کامل ایمان رکھتے ہیں.اور تمام ارکانِ اسلام اور ارکانِ ایمان پر یقین رکھتے ہیں.اور یہ ایمان رکھتے ہوئے نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ حقیقی مومن ہیں.کیونکہ احمدی ہی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی للی کم کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے زمانے کے امام کو بھی سلام پہنچایا ہے اور ان کی جماعت میں شامل ہیں.یہ کلمہ مٹانے کا واقعہ صرف وہیں ایک گاؤں میں نہیں ہوا.بلکہ پچھلے دن یا ایک دن بعد سر گودھا کے ایک اور گاؤں چک 152 شمالی میں بھی ہوا.وہاں بھی پولیس گئی، لیکن صدر جماعت دروازہ بند کر کے بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ باور دی پولیس نے خود آنا ہے تو آئے، اور کوئی اندر نہیں آسکتا.بوڑھے آدمی تھے اور دل کے مریض بھی تھے.انہوں نے کہا اگر کوئی آئے گا تو میری لاش پر سے گزر کے اندر جائے گا.ان کا نام ملک عطاء محمد صاحب ہے ، اور مسلسل اس دوران یہ کلمہ کا ورد بھی کرتے رہے.پولیس بہر حال واپس چلی گئی کلمہ نہیں مٹایا.لیکن صدر صاحب کے متعلق امیر صاحب ضلع نے لکھا ہے کہ کیونکہ دل کے مریض تھے اس وجہ سے دل کی تکلیف بڑھ گئی.گھر گئے ہیں اور طبیعت زیادہ خراب ہو گئی.اس دوران پورے عرصہ میں کلمہ کا ورد کرتے رہے.گھر جا کر ان کو بڑی شدت سے ہارٹ اٹیک ہوا.اور تھوڑی دیر بعد ان کی وفات ہو گئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.کل میں نے ان کا جنازہ ویسے ایک جنازہ کے ساتھ پڑھا دیا تھا.پاکستان میں آج کل مخالفت زوروں پر ہے.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی باہر کے احمدی دعا کریں.اور پاکستانی احمدیوں کو بھی میں یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کی بقا بھی احمدیوں کی دعاؤں میں ہے.اس

Page 252

237 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لئے بہت زیادہ دعائیں کریں.نام نہاد علماء نے کفر کے فتووں سے اس طرح عوام الناس کی عقلیں چکرا دی ہیں، کہ بالکل ہی ان کی عقل مار دی ہے.ان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے.یہ بعض تو ایسے ہیں لوگ جو مجرم ہیں.قرآن کریم میں ان کا ذکر آتا ہے اور ان علماء کے دست راست ہیں.ان سے کسی نیکی کی امید رکھنا عبث ہے، فضول ہے.لیکن بعض نا سمجھ جنہیں دین کا علم نہیں ہے کم علمی میں مولویوں کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے اور حقیقت کو سمجھیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے نیک فطرت لوگ بھی ہیں جو مولویوں کی ان حرکتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں.ان کو چاہئے کہ اپنے ملک کو بچانے کے لئے اپنی آواز بلند کریں اور بزدلی چھوڑیں.مولوی کو تو اپنی پڑی ہوئی ہے کہ اس کا منبر قائم رہے جس پر کھڑا ہو کر وہ قوم کو بیوقوف بنا تار ہے.یہی حال لیڈروں کا ہے.پاکستان میں معاشی بد حالی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے.ٹی وی پروگراموں میں روز آتا ہے ، اخباروں میں روز آرہا ہے.کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے.دہشت گردی زوروں پر ہے.اس کی بھی کسی کو پر واہ نہیں ہے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے.روزانہ دس پندرہ لوگ مر رہے ہیں یا بعض دفعہ اس سے زیادہ.آسمانی آفات نے گھیر اہوا ہے.اس کے بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں ہے.اب گزشتہ دنوں سے ہنزہ میں جھیل نے ہی اس علاقے میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے.اور پانی کی سطح غیر معمولی بلند ہوتی چلی جارہی ہے اور ایک جھیل نے کئی جھیلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور کچھ پتا نہیں چل رہا کہ پانی کہاں سے آرہا ہے.ان کے سب اندازے جو ہیں غلط ہوتے چلے جارہے ہیں.کئی دیہات جو ہیں کئی گاؤں پانی کی لپیٹ میں آگئے ہیں پہاڑی کی طرف اوپر چڑھتے ہیں تو او پر پانی پہنچ جاتا ہے.کہتے ہیں شاہراہ قراقرم ڈوب گئی ہے.راستے مسدود ہو گئے ہیں.اب تو اتنی شدت ہو گئی ہے پانی کی کہ کشتیوں کے ذریعے جو مدد کر رہے تھے اس کو بھی انہوں نے ختم کر دیا.پہاڑوں کے اوپر چلتے چلے جارہے ہیں لیکن وہاں تک پانی پہنچ رہا ہے، آہستہ آہستہ وہ بھی پیچھا کر رہا ہے.اور اب تو سنا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھی لوگوں کو نکالنا مشکل ہو گیا ہے.تو یہ تو وہاں کے حالات ہیں.یہ غور کریں یہ سب کچھ کیا ہے ؟ اور اب جو پانی کی سطح ہے ، وہ اتنی بلند ہو رہی ہے کہ spillway کی خطرناک حد تک پہنچنے کے بعد جو spillway بنایا گیا تھا، وہاں سے اگر بہے گی تو یہ بھی خطرہ ہے کہ اس کو بھی ساتھ بہا کر نہ لے جائے.اور جتنا پانی بہے گا وہ پھر نچلے علاقوں میں تباہی پھیلائے گا اس کا بھی کہتے ہیں کچھ اندازہ نہیں کیا جاسکتا.لیکن یہ سب باتیں جو ہیں ان کے کانوں پر جوں تک رینگنے کا باعث نہیں بن رہیں.ان کو کوئی توجہ نہیں ، کوئی فکر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.فکر ہے تو ایک ہے کہ احمدیوں کے خلاف گند اگلو اور احمدیوں کی مسجدوں سے کلمے مٹاؤ.ان کو قتل کرو.احمدی کو قتل کرنا تو شہادت کا درجہ رکھتا ہے.کیونکہ خالصتا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی علیم کے نام پر قتل کئے جارہے ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہنے کے باوجود ان کو قتل کیا جاتا ہے.آنحضرت علی ہم نے تو فرمایا تھا کہ تم نے دل چیر کر دیکھا تھا کہ

Page 253

238 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کلمہ دل سے پڑھ رہا ہے یا اوپر سے پڑھ رہا ہے ؟ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب علی ما یقاتل المشرکون حدیث: 2643) آپ کے صحابہ کو تو پتہ نہ چلا کہ کلمہ دل سے پڑھا جا رہا ہے یا اوپر سے پڑھا جا رہا ہے.آنحضرت صلی لنی کیم کو جن کو براہ راست اللہ تعالٰی کی رہنمائی تھی ان کو تو پتہ نہ چلا کہ کلمہ کس جگہ سے پڑھا جارہا ہے.یہ دلی کیفیت ہے یا اوپر سے پڑھا جارہا ہے ؟ ان مولویوں کو دل کی کیفیت کا پتہ چل جاتا ہے کہ کلمہ یہ ظاہر اپڑھتے ہیں.کراچی میں شہادت گزشتہ دنوں دو دن پہلے پھر کراچی میں ایک شہادت ہوئی ہے.مکرم حفیظ احمد شاکر صاحب گلشن اقبال کراچی کے رہنے والے تھے.ان کا میڈیکل سٹور تھا، رات کو ساڑھے بارہ بجے دکان بند کر کے اپنے کاروبار سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں ان کو روک کر کنپٹی پر پستول رکھ کر ان کو شہید کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّ الَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کی عمر 48 سال تھی خادم کی حیثیت سے بھی اور بعد میں انصار اللہ میں جانے کے بعد ناصر کی حیثیت سے بھی یہ بڑے ایکٹو (Active) ممبر تھے.خاص طور پر قرآنِ کریم کی تلاوت کا ان کو بڑا شوق تھا نظم اور تلاوت کے مقابلہ جات میں نمایاں پوزیشن لیتے رہے.نہایت شریف النفس اور فدائی احمدی تھے.ان کی اہلیہ کے علاوہ ان کی والدہ بھی حیات ہیں.دو بیٹیاں قرۃ العین عمر 19 سال اور طوبی عمر 14 سال اور ایک بیٹا ہے فائق احمد عمر 17 سال.اللہ تعالیٰ ان کی والدہ کو اور بچوں کو صبر عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے.تو یہ سب ظلم جیسا کہ میں نے کہا یہ شہادتیں، یہ تکلیفیں، یہ قتل، یہ کلمے مٹانے ، ان مولویوں کے بھڑ کانے کی وجہ سے ہو رہے ہیں.مسلمان اور موسمن کی تعریف جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کی ہے وہ تو میں نے بتادی کہ کیا ہے ؟ اب ان قتل کرنے والوں کے بارے میں قرآنِ کریم کیا کہتا ہے؟ فرماتا ہے وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَةَ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ( النساء:94) اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے.وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والا ہے.اور اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس پر لعنت کی.اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے.معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور پھر احمدی تو ایک طرف رہے، جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک دوسرے کی مخالفت میں جو خود تعریف کرتے ہیں، مسلمان کی جو نام نہاد تعریف ہے، اس تعریف کے مطابق جس کو مسلمان کہتے ہیں ان کو بھی قتل کرتے چلے جارہے ہیں.روزانہ پاکستان میں قتل ہو رہے ہیں.ذرا علماء اس بات پر بھی تو غور کریں.کسی جرم کے لئے ابھارنے والا اور پلانگ (Planning) کرنے والا اسی طرح مجرم ہوتا ہے جس طرح وہ عمل کرنے والا مجرم ہے.بہر حال ہماری طرف سے تو یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے.اور ہم نے ہمیشہ صبر کیا ہے اور صبر کرتے چلے جائیں گے ، انشاء اللہ تعالی.

Page 254

239 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور اللہ تعالیٰ شہیدوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران: 170) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو ہر گز مردہ گمان نہ کرنا بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جارہا ہے.مسیح موعود کی تکذیب ان کا ذریعہ رزق پس شہیدوں کے لئے تو اخروی نعمتوں کا فیضان جاری ہے اس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور ہمیشہ کی زندگی ان کا مقدر بن گئی ہے.لیکن مخالفین کے بارے میں فرماتا ہے کہ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (الواقعة: 83) کہ اپنا حصہ رزق تم نے صرف جھٹلانا بنالیا ہے.تم مولویوں کی روٹی بھی اسی لئے ہے اور سیاستدانوں کی بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی جائے آپ کو جھٹلایا جائے.گویا یہ ان کا ذریعہ رزق بن گیا ہے.ان کا جھٹلانا جو ہے ان کے رزق کا ذریعہ بن گیا ہے اور حقیقی رازق کو وہ بھول چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.پس جھٹلانے اور قتل کرنے کی سزا کا اعلان خود خدا تعالیٰ نے سورۃ نساء کی جو پہلی آیت میں نے پڑھی ہے اس میں بیان کر دیا ہے.پس یہ خوف کا مقام ہے ، ان کو کچھ ہوش کرنی چاہئے.جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا میں مخالفت بھی پھیل رہی ہے.اور یہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے اس قول کے عین مطابق ہے کہ ہر نبی کی مخالفت ہوئی ہے اور ہوتی ہے.پس مسیح موعود کی بھی ہوئی تھی اور آپ کے ماننے والوں کی بھی مخالفت ہر اس جگہ ہونی تھی جہاں احمدیت ہے اور مختلف طریقوں سے یہ ہو رہی ہے.کہیں زیادہ، کہیں کم.مصر میں احمدیت کی مخالفت آج کل جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں مصر میں بھی جماعت کی مخالفت بہت زیادہ ہے.اور اس مخالفت کی وجہ سے حکومت کے بعض ادارے بھی مولویوں کے پیچھے لگ کر اس میں شامل ہو گئے ہیں اور احمدیوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے ، اور ان پر الزامات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نعوذ باللہ احمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو خاتم النبیین مانتے ہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ہمارے نزدیک آنحضرت علی میں کم کا مقام سب سے افضل ہے اور آپ کے بعد نہ کوئی شرعی نبی آسکتا ہے اور نہ قرآنِ کریم کے بعد کوئی اور شرعی کتاب اتر سکتی ہے.پس حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا جو دعویٰ ہے وہ خالصتا آپ کی غلامی میں اور آپ سے فیض پاتے ہوئے دعوی ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا کہ میں اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرت صلی للی و کم کا عاشق صادق ہوں.پس ان پڑھے ہوئے لوگوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ آنکھیں بند کر کے کم علموں کی طرح سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے احمدیت کا پیغام تو پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ تو دیکھیں پھر اگر الزام ثابت ہو تا ہو تو دکھائیں.پہلے ہمارا موقف تو سنیں.احمدیت کا موقف تو سنتے نہیں اور سننے کو تیار

Page 255

240 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بھی نہیں اور یک طرفہ فیصلہ کرتے چلے جارہے ہیں.خدا کا خوف کرنا چاہئے اور خدا کے غضب سے ڈرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اسلام کے لئے خدمات کا مشاہدہ تو کریں.آنحضرت صلی ایام کے لئے احمدیوں کی غیرت اور حمیت کو تو پر کھیں.ورنہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہم ملزم نہیں، آپ لوگ مجرم ہوں گے.وہ لوگ مجرم ہوں گے جو بغیر دیکھے ایک فیصلہ ٹھونستے چلے جارہے ہیں.ان علماء کی حالت کا نقشہ تو ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جن الفاظ میں کھینچا ہے ، وہ میں پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے لے کر آج تک ان نام نہاد علماء کی فطرت اور ان کی حرکتوں میں کوئی فرق نہیں پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اور وہ لوگ جو کہتے ہیں جو ہم علمائے اسلام ہیں اور نبی کے دین کے ایک نر عالم ہیں، سو ہم ان کو ایک سست الوجود اور چارپایوں کی طرح کھانے پینے والے دیکھتے ہیں.وہ اپنی باتوں اور قلموں سے کچھ بھی حق کی مدد نہیں کرتے، بجز اللہ جل شانہ کے اُن خاص بندوں کے جو تھوڑے ہیں.اور اکثر کو تو ایسا پائے گا کہ اہل حق کا کینہ رکھتے ہوں گے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی حق کی بات سن کر ان میں شور و غوغا پیدا نہ ہو.وہ نہیں جانتے کہ حق اور صواب کیا چیز ہے ؟ وہ فتنہ سے باز نہیں آتے اور حق کے ساتھ باطل باتوں کو ملاتے ہیں تا اپنی نکتہ چینی سے جاہلوں کو دھو کہ میں ڈالیں“.ایک جھوٹ اور بہتان اور ان میں سے جو ہم نے ذکر کیا ایک یہی ہے کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت صلی علیم کے بعد نبی مان کر نعوذ باللہ خاتم النبیین سمجھتے ہیں.یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے.اور اسی نے کم علم اور معصوم لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھر کا یا ہوا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” اور وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے اس کو ایک خنّاس سمجھتے ہیں اور مومنوں کو کافر ٹھہراتے ہیں.ان کے قدم بجز درونگوئی کے کسی طرف حرکت نہیں کرتے اور ان کی زبانیں بجز کافر بنانے کے کسی طرف جھکتی نہیں اور نہیں جانتے کہ دین کی خدمت کیا شے ہے.انہوں نے حق کو باطل کے ساتھ ملایا اور دیدہ و دانستہ ہم پر افتراء کیا.پس یہ نبی صلی علی کمر کے دین پر ایک بڑی مصیبت ہے کہ اس زمانہ کے اکثر علماء دیانت اور امانت سے باہر نکل گئے ہیں.اور دینی دشمنوں کی مانند کام کر رہے ہیں اور جھوٹ پر گرے جاتے ہیں تا اس کو حق کے حملہ سے بچالیں“.( جھوٹ کو حق سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں).فرمایا: اور خداوند ذوالجلال کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے اور عناد رکھنے والوں کی طرح کافروں کو مدد دے رہے ہیں.اور اپنے دلوں میں یہ بات بٹھالی ہے کہ وہی حق پر ہیں حالانکہ سراسر ہلاکت کی راہ پر چلتے ہیں.وہ صرف اپنی نفسانی

Page 256

241 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم آرزوؤں کو جانتے ہیں اور معانی کو نہیں ڈھونڈھتے اور نہ غور کرتے ہیں.سچی بات کو سن کر پھر سرکشی کرتے ہیں گویا وہ موت کی طرف بلائے جاتے ہیں.اور دیکھتے ہیں کہ دنیا سخت بے وفا ہے اور زمانہ منہ کے بل گرنے والا ہے پھر دنیا پر عاشقوں کی طرح گرتے ہیں.اور بعض ان کے کام وہ ہیں جو گھر میں کرتے ہیں اور بعض وہ کام ہیں جو دکھلانے کے لئے ہیں”.یعنی گھر میں کچھ اور ہیں باہر کچھ اور ہیں.حضرت مسیح موعود نے گھروں کی ایک مثال دی ہوئی ہے.ایک دفعہ ایک مولوی صاحب بڑے وعظ کر رہے تھے اور اسلام کی خاطر مالی قربانی کی تحریک کر رہے تھے اور ان کی بیوی بھی یہ سن رہی تھی اور اس پر جوش تقریر کو سن کر بڑی متاثر ہوئی اور گھر آکر اپنے سونے کے کڑے اور زیور اتار کر مولوی صاحب کو دیا کہ یہ میری طرف سے اس تحریک کے لئے ہیں.مولوی نے کہا یہ کیا؟ اس نے کہا کہ آپ نے اتنی شدت سے تحریک کی تھی کہ میں بھی جذباتی ہو گئی تھی اور میں یہ پیش کر رہی ہوں.تو مولوی صاحب کا جواب تھا یہ تمہارے لئے تھوڑا تھا یہ تو دوسروں کے لئے تھا.تو یہ ان کے حال ہیں.فرمایا: ”سو ریا کاروں پر واویلا ہے.انہوں نے خوب دیکھ لیا کہ کافروں کا فساد کیسا بڑھ گیا.اور وہ خوب جانتے ہیں کہ دین شریروں کا نشانہ بن گیا.یہ سب جو غیروں کی بھی جرآت بڑھتی جارہی ہے ، یورپ میں بھی اور بعض جگہ جو ویب سائٹس پر اخباروں میں جو آنحضرت صلی للی یکم کے خلاف مواد دیا جاتا ہے، یا اب پاکستان میں facebook بند کر دی گئی ہے.facebook پر آنحضرت صلی اللہ نکم کے خلاف کچھ بیہودہ چیزیں دی گئی ہیں.تو یہ صرف اس لئے ہے کہ ان سب کو پتہ ہے کہ مسلمان ایک نہیں ہیں اور جو چاہے کر لو یہ کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور بڑی جلدی سکنے والے ہیں.اور زمانے کا امام جو مردِ میدان بن کر آیا ہے جو اسلام کے دفاع کے لئے آیا ہے اس کی مدد کرنا نہیں چاہتے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ کافروں کا فساد کیسا بڑھ گیا ہے.یہ خوب دیکھتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ دین شریروں کا نشانہ بن گیا.اور حق بدکاروں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا.پھر غافلوں کی طرح پڑے سوتے ہیں اور دین کی ہمدردی کے لئے کچھ بھی توجہ نہیں کرتے.ہر یک دکھ دینے والی آواز کو سنتے ہیں.پھر کافروں، ناپاکوں کی باتوں کی کچھ بھی پر واہ نہیں رکھتے.اور ایک ذی غیرت انسان کی طرح نہیں اٹھتے بلکہ حمل دار عورتوں کی طرح اپنے تئیں بو جھل بنا لیتے ہیں حالانکہ وہ حمل دار نہیں.اور جب کسی نیکی کی طرف اٹھتے ہیں تو سست اور ڈھیلے اٹھتے ہیں.اور تو محنت کشوں کے لچھن ان میں نہیں پائے گا.اور جب کوئی نفسانی حظ دیکھیں تو تو دیکھے گا کہ اس کی طرف دوڑتے بلکہ اچھلتے چلے جاتے ہیں“.( انسانی خواہشات کی طرف اچھلتے ہیں).فرمایا: ”یہ تو ہمارے بزرگ علماء کا حال ہے.مگر کافر تو اسلام کے مٹانے کے لئے سخت کوشش کر رہے ہیں اور ان کے تمام مشورے اسی مقصد کے لئے ہیں اور باز نہیں آتے“.من الرحمن روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 177 تا 179) علماء کی حالت کا نقشہ کھینچ کر اور اسلام کی حالت کا بیان کر کے یہ درد کا اظہار ہے جو حضرت مسیح موعود

Page 257

خطبات مسرور جلد ہشتم 242 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 علیہ السلام نے کیا ہے اور کیا ان کو کرنا چاہئے ؟ اور کیا ان کے عمل ہیں؟ آپ نے یہ لکھ کر صرف علماء پر اعتراض نہیں کیا.بلکہ جیسا کہ ہم تو جانتے ہیں کہ 80 سے زائد کتابیں اسلام کے دفاع میں لکھیں.علماء کو بھی حق کا راستہ دکھانے کی کوشش کی.ہر مذہب کو مقابلے پر بلایا اور اسلام کی بالا دستی ثابت کی.آنحضرت صلی علیکم کے مقام کو اپنے ماننے والوں کے دلوں میں قائم فرمایا.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام کے لئے اپنی جان ہلکان کی.اپنے پیچھے ایسی جماعت چھوڑی جو اس مشن کو آگے بڑھا رہی ہے.آپ کے کارناموں کا ہر انصاف پسند نے اقرار کیا.مسیح موعود کی وفات پر غیروں کا اظہار خراج تحسین آپ کی وفات پر جو غیروں نے اظہار کیا اس میں سے ایک نمونہ میں پیش کرتا ہوں.مولانا ابوالکلام آزاد ایک مسلمان لیڈر تھے ، احمدی نہیں تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر لکھا کہ ”مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کر دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جد اہو گیا.اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی، خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے “.یہ تو ان کا خیال تھا بہر حال، ان کو یہ نہیں پتہ کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی جماعت تھی اور آپ کا جو خزانہ تھا، جو ہمیں دے گئے ہیں وہ آج تک مخالفین کے منہ بند کرتا چلا جارہا ہے.پھر یہ آگے لکھتے ہیں: ”مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا، قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے، ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نَسيا منسيا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب ووسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے، اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سک رہے تھے“.( مسلمانوں ہی کا کام تھا جو اسلام کی حفاظت کرنا.وہ تو اپنے قصوروں کی وجہ سے صرف سسک رہے تھے.کچھ کر نہیں سکتے تھے کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کے دفاع کا کام کیا.).پھر لکھتے ہیں: ” اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے.یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفانِ حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی“.اسلام کی جو عرفان کی

Page 258

243 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم وشنی تھی اس عیسائی دنیا کو اپنے لیے اپنے راستے میں اپنی ترقی کے راستے میں روک سمجھ کر مٹانے کے درپے تھی.”اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑی تھیں“.ساری عقلیں بھی ان کے ساتھ تھیں ، دولتیں بھی ان عیسائی مشنوں کے ساتھ تھیں.” اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلے پر تیر بھی نہ تھے “.وہ تو تو ہیں لے کر آئے ہوئے تھے.یعنی اپنی دولت اور کتابوں اور دلیلوں کے ساتھ اور مسلمانوں کی حالت یہ تھی اب مسلمانوں کے پاس ایک تیر بھی نہیں تھا ” اور حملہ آور اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا“.نہ حملے کرنے کی طاقت تھی، نہ دفاع کرنے کی طاقت تھی.آگے کہتے ہیں کہ ”مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا“.( تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 560-561) ایک حصہ کیا.یہ سارے کا سارا جو کام ہے، مرزا صاحب کو ہی حاصل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کو ہی حاصل ہوا.مسلمانوں ہی نے نہیں ، جو مسلمان تھے حقیقت پسند مسلمان تھے ، جیسا کہ ایک میں نے بیان کیا ہے ، انہوں نے ہی تعریف نہیں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کی بلکہ غیر مسلم بھی آپ کے کام سے خوفزدہ تھے.آپ اسلام کے ایک عظیم جرنیل تھے.آپ کی تعلیم نے عیسائیت کی ترقی کی راہیں روکیں.اور عیسائیوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ان کی ترقی نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ افریقہ میں بھی جماعت احمدیہ نے جو اسلام کے پیغام کا طریق اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے رک گئی ہے.اس کے دو نمونے پیش کرتا ہوں.امریکی مشن کے پادری مسٹر ویورڈ گار نے لکھا ہے کہ : جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے جو اسلامی کمک یہاں پہنچی ہے (سیر الیون میں) اس نے لکھا ہے اس سے رو کو پر کے نواحی علاقے (رو کو پر ایک سیر الیون کا شہر ہے ) میں اس جماعت کی مضبوط مورچہ بندی ہو گئی ہے اور اب عیسائیت کے مقابلہ میں تمام تر کامیابی اسلام کو نصیب ہو رہی ہے.مثال کے طور پر اس مقابلہ کی صف آرائی کے نتیجہ میں تھوڑا عرصہ ہوا، شہر کا مبیا میں امریکن عیسائی مشن بند کرنا پڑا.اخبار ویسٹ افریقن فروری (1947ء) (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 450 جدید ایڈیشن) پھر ایک اور عیسائی مصنف ہیں ایس جی ولیم سن، غانا یونیورسٹی کے پروفیسر اپنی کتاب کرائسٹ اور محمد میں لکھتے ہیں کہ ”غانا کے شمالی حصے میں رومن کیتھولک کے سواعیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمد کے پیروؤں کے لئے میدان خالی کر دیا ہے.انشا نٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آج کل ترقی کر رہی ہے.لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمد یہ جماعت کو عظیم الشان فتوحات حاصل ہو رہی ہیں.یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرض خطر میں ہے.(خطرے میں آگیا ہے).اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے.کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی

Page 259

خطبات مسرور جلد ہشتم 244 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 طرف کچھی چلی جارہی ہے.اور یقیناً یہ صورت حال عیسائیت کے لئے کھلا چیلنج ہے.تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ ہو گا یا صلیب کا “.( تعارف کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 12) اور انشاء اللہ تعالیٰ ہلال کا ہی غلبہ ہونا ہے میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو آپ (حضرت مسیح موعود ) اپنی حالت کے بارے میں فرماتے ہیں، کیا درد ہے کہ: ”میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگار ہوں، بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اُس (یعنی خدا) کا اور اس کے رسول ( ملی ایم) کا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں.مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پر وا.میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے.ہاں میں اس میں لذت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اس نے مجھ پر ظاہر کیا، وہ میں سب لوگوں پر ظاہر کروں.اور یہ میر افرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ دوسروں کو بھی دوں.اور دعوتِ مولیٰ میں ان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں.میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریباً سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں...اور امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 519-520) کر دے گا“.پس کیا ایسے شخص کے بارے میں یہ بیہودہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ نعوذ باللہ وہ اپنے آپ کو خاتم النبیین سمجھتا ہے.اور اس کا مقام آنحضرت صلی علیہ ہم سے اونچا ہے ؟ ہم ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے حقیقی معنی کو سمجھنے والے ہیں.ہم ہیں جو آنحضرت علی ایم کے مقام ختم نبوت کو سمجھنے والے ہیں.وقتا فوقتا احمدیوں پر الزام تراشی کرتے ہوئے ہمارے خلاف جو نام نہاد علماء مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان حقائق کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو چاہئے کہ دیکھیں اور پر کھیں.جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے، احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے حقیقی معنی سمجھ کر پھر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے.یہ جو کلمے مٹائے جاتے ہیں، یہ جو کلمے کی حفاظت کے نام پر احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے ، جو کلمے کے نام پر احمدیوں کو شہید کیا جاتا ہے یہی کلمہ مرنے کے بعد ہمارے حق میں خدا تعالیٰ کے حضور گواہی دے گا کہ یہی حقیقی کلمہ گو ہیں.اور یہی کلمہ احمدیوں پر ظلم کرنے والوں اور ان کو شہید کرنے والوں کے بارے میں قتل عمد کی گواہی دے گا.پس ہم خوش ہیں کہ جنت کی خوشخبری دے کر اللہ تعالیٰ ہمیں دائمی زندگی سے نواز رہا ہے.پس جہاں شہداء دائگی زندگی کی خوشخبری پارہے ہیں وہاں ہم

Page 260

خطبات مسرور جلد ہشتم 245 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 مئی 2010 سب جو ہیں اور ہم میں سے ہر ایک جو ثبات قدم کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کے پیار کو یقیناً جذب کرنے والا ہے.پس اس روح کو کبھی مرنے نہ دیں.کبھی مرنے نہ دیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج میں اس شہید کا جنازہ بھی ابھی جمعہ کے بعد پڑھوں گا.اور ملک عطاء محمد صاحب کو بھی بیچ میں شامل کر رہے ہیں.اسی طرح ہمارے مصر کے ایک احمدی احمد محمد حاتم علمی شافعی یہ 20 مئی کو گردے فیل ہونے کی وجہ سے جوانی کی عمر میں ہی فوت ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کی 20،22 سال کی عمر تھی.یہ ڈاکٹر محمد حاتم صاحب کے بڑے بیٹے تھے، اور علمی شافعی صاحب مرحوم کے پوتے تھے.علمی شافعی صاحب کو تو سارے جانتے ہیں.یہ لقاء مع العرب میں ان کے کافی پروگرام حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کے ساتھ ریکارڈ ہوئے ہوئے ہیں.یہ بچپن سے معذور تھے.اور wheel chair پر تھے.لیکن اس کے باوجود بڑے صبر سے اپنی بیماری برداشت کرتے رہے اور اپنی والدہ کو بھی کہتے تھے کہ میں صبر سے سب کچھ برداشت کرتا ہوں پریشان نہ ہوں.ان کی والدہ کہتی ہیں کہ میں حیران ہوتی تھی ان کا صبر دیکھ دیکھ کے.اور تسلی جب ان کو دلائی جاتی، جب بیماری ان کی بڑھی ہے ، تو خود ہی اپنی والدہ کو ، اپنے عزیزوں کو بڑی تسلی دیا کرتے تھے.والدہ نے کہا کہ سب بہن بھائیوں سے بڑھ کر یہ ہماری اطاعت کرنے والے تھے.اور ان کے والد ڈاکٹر حاتم شافعی صاحب جو ہیں، میں نے ذکر کیا ہے مصریوں کا، کہ ان کو جیل میں رکھا ہوا ہے.ان میں سے ایک یہ بھی ہیں.اور حاتم صاحب صدر جماعت بھی ہیں.تو وہ جیل میں تھے جب یہ فوت ہوئے ہیں.باوجو د معذوری کے ، معذور تو تھے لیکن بزنس کی ڈگری انہوں نے لی ہے، پڑھتے رہے ہیں.کمپیوٹر کے کورس کئے ہوئے تھے.اور یہ بڑا ارادہ رکھتے تھے کہ اپنے دادا مرحوم کی طرح جماعتی لٹریچر میں ان کی مدد کریں گے.خلافت سے بڑی محبت کا تعلق تھا، میرے اس عرصے میں گزشتہ دودفعہ یہاں جلسہ میں بھی آچکے ہیں.والدہ یہ کہتی ہیں کہ وفات کے وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے.اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَلَّةَ، اور پھر لبيك اللهم لبيك کہا.گردے فیل ہونے کی وجہ سے کچھ عرصے سے ڈائی لیوسز (Dialysis) کے لئے جاتے تھے.والد ان کے اسیر راہِ مولیٰ ہیں اور ابھی جیل میں ہی ہیں ، وہ تو ان کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے.اور والدین کو اور عزیزوں کو صبر جمیل عطا فرمائے.اور اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 24 مورخہ 11 جون تا 17 جون 2010 صفحہ 5 تا 9)

Page 261

خطبات مسرور جلد ہشتم 246 22 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2010ء بمطابق 28 ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: اذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّى خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ - فَإِذَا سَوَيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سجدِينَ - فَسَجَدَ الْمَلَيكَةُ كُلُهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ (ص: 75-72) جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا یقیناً میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں.پس جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑو.اس پر سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں.اس نے استکبار کیا اور وہ تھا ہی کا فروں میں سے.ابتدائے عالم سے ہی شیطان اور انسان کی جنگ شروع ہے اور مذہبی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑنے کے ساتھ ہی شیطان نے جنگ شروع کر دی تھی.شدت سے انسانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا.اور پھر جو بھی انبیاء کا زمانہ آیا ہر زمانے میں یہ تاریخ دہرائی جاتی رہی، اور دوہرائی جارہی ہے.انبیاء جب آتے ہیں تو آکر انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے دکھاتے ہیں اور شیطان ان میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پہلے بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے.مختلف طریقوں، حیلوں بہانوں، لالچوں اور خوف کے ذریعے سے ڈراتا ہے.گمراہی کی طرف لے جاتا ہے.قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ اس بات کا ذکر آیا ہے.انسان اور آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی شیطان نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے.قرآنِ کریم میں سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک شیطان کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے حملوں سے ہوشیار کیا ہے اور بچنے کا حکم دیا ہے اور دعا بھی سکھائی ہے کہ اے اللہ ! ہمیں شیطان لعین کے حملوں سے بچا اور ہمیں ہر دم اپنی پناہ میں رکھ.انبیاء کی بعثت اور مخالفت یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اپنا محبوب اور قریبی ہونے کا اعلان

Page 262

247 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اس کی پیدائش کے اعلان کے ساتھ کیا اور فرشتوں کو اس کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا حکم دیا.تو شیطان نے بڑی رعونت اور تکبر سے کام لیتے ہوئے کہا، میں اس انسان کو سجدہ کروں جو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ؟ جبکہ میں تو اپنے اندر ناری صفات رکھتا ہوں، آگے آیات میں اس کا ذکر ہے.پس اللہ تعالیٰ نے جب بشر پیدا کیا اور اس میں وہ صلاحیتیں رکھیں جن سے وہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو کر قرب خداوندی کے انتہائی مقام تک پہنچ سکتا ہے تو فرشتے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی خدمت پر مامور ہوئے.پس جب اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء بھیجتا ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے الہام، وحی اور روح القدس سے حصہ پانے والے ہوتے ہیں تو تمام فرشتوں کا نظام ان کی تائید میں کھڑا ہو جاتا ہے ، یا اس نبی کی تائید میں کھڑا ہو جاتا ہے.اور وہ نتائج اس کے کام میں پیدا ہوتے ہیں جو اس کے مقصد کو جس مقصد کے لئے وہ آیا ہو تا ہے ترقی کی طرف لے جاتے چلے جاتے ہیں.ایک تقدیر خاص اللہ تعالیٰ کی جاری ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ بشر کہہ کر اور بعض جگہ آدم کے الفاظ استعمال کر کے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے.تو تمام عالم اور دوسری مخلوق جو ہے اس کی خدمت پر لگا دی.جب ایک بشر اللہ تعالیٰ کے مقام قرب کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور نبوت کے مقام پر پہنچ کر اپنے وقت کا آدم بن جاتا ہے تو اس کے ساتھ کس قدر خدا تعالیٰ کی تائیدات ہوتی ہیں اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے.ہم دیکھتے ہیں جب آنحضرت صلی یکم اور مومنین پر ظلم کی انتہا ہوئی اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے مدینہ پر کفار نے حملہ کرنے کی نیت سے فوج کشی کی اور پھر بدر کے میدان میں جنگ کا میدان جما تو کس طرح فرشتوں کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں جنگ کا پانسا پلٹا.جماعتی سطح پر بھی ہر موقع پر یہ نظارے نظر آتے ہیں.قومی سطح پر بھی نظارے نظر آتے ہیں.انفرادی طور پر بھی انبیاء کے ساتھ یہ سلوک دیکھتے ہیں.پھر جنگ حنین میں بھی یہ نظارہ دیکھا تو ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے آپ کی، مومنین کی تائید فرما تا رہا.اور اسلام کی تائید میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی الم کے ساتھ اور مسلمانوں کی ابتدائی حالت میں ہمیشہ فرشتوں کی ایک فوج ساتھ تھی.بے شک مسلمانوں کے جانی نقصان بھی ہوئے ہیں.مالی نقصان بھی ہوئے ہیں لیکن ابلیس کا گر وہ جو ہے وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا.ابلیس اور شیطان کے چیلے اپنا زور لگاتے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے، کسی بھی رنگ میں وسوسے پیدا کر کے اللہ کے بندوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے رہیں.انہیں قتل و غارت کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں.مالی نقصان کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں.چھپ کے حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں.ظاہری حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں.مخالفین کا انبیاء کو نہ مانا اور شیطان کے قبضہ میں جانا ان کے تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے جو ان کو نیکیوں کی

Page 263

248 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم طرف قدم بڑھانے کی توفیق نہیں دیتا.اور ہمیشہ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس نبوت کے دعویدار اور خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو ماننے والے تو غریب لوگ ہیں اور ہم بڑے لوگ ہیں.ہم صاحب علم ہیں.ہمیں دین کا علم زیادہ پتہ ہے اس لئے ہم کس طرح اس جماعت میں شامل ہو جائیں یا اس کی بیعت کر لیں.آج اس زمانے میں بھی جو زمانے کے امام کو نہیں مانتے تو یہ تکبر ہی ہے جو ان کو نہ ماننے پر مجبور کر رہا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا کہ جو بشر میں نے بنایا ہے اس کو سجدہ کرو تو یہ کوئی ظاہری سجدہ نہیں تھا.ظاہری سجدہ تو صرف خدا تعالیٰ کو کیا جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں دین پھیلانے کے لئے میں نے جس شخص کو مبعوث کیا ہے اس کے لئے کامل فرمانبر داری کرتے ہوئے اس کے مشن کو آگے بڑھانے میں اس کی مدد کرو اور شیطانوں کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دو.ان مقاصد کو کبھی شیطان حاصل نہ کر سکے.اور شیطان کے تمام منصوبوں کو ناکام و نامراد کرنے میں نبی کی تائید کرو.اس کا ہاتھ بٹاؤ اور نیک فطرت اور سعید لوگوں کے دلوں میں نبی کے پیغام اور اللہ تعالیٰ کی اس کے ساتھ تائیدات کے سلوک کی پہچان بھی پیدا کرو تا کہ وہ حق کو پہنچانے اور حق کو پہچان کر اس کی جماعت میں شامل ہو جاؤ.پھر ایسے لوگ اپنے اندر بھی نفخ روح کے نظارے دیکھیں گے.خد اتعالیٰ کے سلوک کے نظارے دیکھیں گے.اپنی دنیاو آخرت سنوارنے کا باعث بنتے ہوئے جنتوں کا وارث ٹھہریں گے.نبی کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں، فرشتے انسانوں کو بھی جو حکم دیتے ہیں کہ نبی کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے اس کے مدد گار بن جاؤ تو سعید فطرت لوگوں میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جب تمام فرشتے بھی نبی کی تائید میں فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ کا اعلان کرتے ہیں.یعنی اس چیز کا نظارہ پیش کرتے ہیں کہ سب فرشتوں نے سجدہ کیا.اور خارق عادت اور غیر معمولی برکات نبی کے کام میں پڑ رہی ہوتی ہیں.اور فرشتہ صفت انسانوں کے ذریعے بھی اس سجدہ کے نظارے نظر آتے ہیں جو فرمانبر داری کا سجدہ ہے.جو اطاعت کا سجدہ ہے.جو اپنی تمام تر طاقتیں اور صلاحیتیں نبی کے کام کو آگے بڑھانے کا سجدہ ہے.اور وہ نبی کے سلطان نصیر بن کر اس کے کام کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں.خدا کے فرستادوں کی توہین اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ نیم کے عاشق صادق کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کہہ کر مخاطب کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو خدا کے فرستادہ کی تو ہین خدا کی تو ہین ہے.تمہارا اختیار ہے چاہو تو مجھے گالیاں دو کیونکہ آسمانی سلطنت تمہارے نزدیک حقیر ہے.پس آج بھی جو مقابلہ کر رہے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود یا آپ کی جماعت سے مقابلہ نہیں ہے.پھر ایک تفصیل بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ”حقیقی خلافت میری ہے یعنی میں خلیفہ اللہ ہوں اور پھر اپنے

Page 264

خطبات مسرور جلد ہشتم 249 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 ایک الہام کا ذکر فرمایا کہ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ خَلِيْفَةَ اللهِ السُّلْطَانَ.کہ میں نے چاہا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو آدم کو پیدا کیا جو اللہ کا خلیفہ اور سلطان ہے“.آپ فرماتے ہیں.” ہماری خلافت روحانی ہے.اور آسمانی ہے ، نہ زمینی“.(ماخوذ از مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه 111 اشتہار مورخہ 7 جون 1897) پس یہ آدم کا مقام خد اتعالیٰ نے آنحضرت صلی علیکم کی غلامی کی وجہ سے آپ کو عطا فرمایا.اور جب یہ مقام دیا تو جیسا کہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے ، فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو.اس خاص بشر کو سجدہ کرو جس کو میں نے اپنے دین کو پھیلانے کے لئے چن لیا ہے.تو غیر معمولی تائیدات کا ایک سلسلہ بھی آپ کے ساتھ شروع ہو گیا.وہ ایک آدمی کروڑوں میں بن گیا.آپ کو الہاما یہ تسلی دی گئی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میرے فرشتے بھی تیری مدد کے لئے ہمہ وقت مستعد ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا.” فَانّي مَعَ الرَّسُوْلِ أَقْوَمُ وَيَنْصُرُهُ الْمَلَئِكَةُ بس میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور ملائکہ بھی اس کی مدد کریں گے.(تذکرہ صفحہ 309 ایڈیشن چہارم) اور یہ خدا تعالیٰ کی مدد کوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ اپنے وعدے کے مطابق آج تک خدا تعالیٰ کی مدد کے نظارے ہم دیکھتے ہیں.شیطان بھی اپنا کام کئے چلا جا رہا ہے اور فرشتے بھی.جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعے سینے کھولتا ہے تو اس کی تمام رو کیں دور ہو جاتی ہیں.ایک جگہ ظلم کر کے جماعت کو دبایا جاتا ہے تو دوسری جگہ نئی نئی جماعتیں پیدا ہو جاتی ہیں.گزشتہ دنوں میں عربوں کے متعلق الفضل میں ندیم صاحب جو ایک صفحہ لکھتے ہیں اس میں ایک واقعہ دیکھ رہا تھا اس میں علمی شافعی صاحب کی قبولیتِ احمدیت کا واقعہ تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت کی طرف مائل کیا؟ مصطفی ثابت صاحب جو پہلے احمدی تھے.وہ اور علمی شافعی صاحب صنعاء کے صحراء میں جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے ایک جگہ اکٹھے ہو گئے.تو کہتے ہیں میں دیکھتا تھا ایک نوجوان ہے جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتا ہے.نمازیں بھی باقاعدہ پڑھتا ہے.پہلے مجھے خیال ہوا کہ یہ بہائی ہے یا کوئی اور ہے.پھر دیکھا جو باقاعدہ نمازیں پڑھتا ہے تو خیال ہوا بہائی تو نہیں ہو سکتا.پھر اور بعض فرقوں کی طرف دھیان گیا.پھر میں نے آہستہ آہستہ اس سے تعلق پیدا کر نا شروع کیا تو دیکھا کہ وہ نوجوان یعنی مصطفی ثابت صاحب اسلام کے جو نظریات پیش کرتا تھا اور جو دلیلیں دیتا تھا وہ ایسی ہوتی تھیں کہ میرے پاس جواب ہی نہیں ہو تا تھا.علماء سے بھی میں جواب مانگتا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی.ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے وہاں سے کام چھوڑ کے آنا پڑا اور انہوں نے اپنی کتابوں کا بکس میرے سپر د کر دیا کہ یہ لے جاؤ.تو میں نے کہا کہ اس شرط پہ لے جاؤں گا کہ یہ کتابیں میں پڑھوں.اس میں میں نے قرآنِ کریم کی تفسیر جو فائیو والیم میں ہے وہ اور بعض اور کتب پڑھیں ، اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی.تو کہتے ہیں کہ

Page 265

شخص ہو ہو 250 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ہر کتاب کو پڑھ کے جس طرح غیر از جماعت علماء کی اور پڑھے لکھوں کی بھی عادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اعتراض تلاش کرنا اور آج کل پاکستان میں یہ اعتراض کی صورت بڑی انتہاء پر گئی ہوئی ہے کتابیں نکال نکال کر اس پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض کرنے والا جس طرح کے بودے اعتراض کر رہا ہوتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کم علمی ہے اور فطرت صحیحہ کی بجائے وہ شیطان کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں.بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں بھی اعتراض تلاش کرتا تھا.اور اعتراض نکالنے کے بعد جب میں علماء سے تسلی کر وانے جاتا تھا تو وہاں میری تسلی نہیں ہوتی تھی.پھر کہتے ہیں میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی تو اس نے میرے دل میں ایک ہلچل مچادی.میں نے اپنے والد صاحب کو بھی سنائی تو میں نے کہا یہ کیسا ہے ؟ لکھنے والا کون وسکتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کتاب کا لکھنے والا یقیناً کوئی ولی اللہ ہے.اس پر میں نے کہا اگر یہ مسیح موعود کا دعویٰ کر رہا ہو تو پھر ؟ تو سوچ میں پڑ گئے اور کہا کہ ٹھیک ہے.بہر حال میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ ایسی اعلیٰ پائے کی چیز اللہ تعالیٰ کا کوئی انتہائی مقرب ہی لکھ سکتا ہے.لیکن میں تو اب بوڑھا ہو رہاہوں اس لئے مذہب کے معاملے میں پکا ہو چکا ہوں تو میں تو قبول نہیں کر سکتا.لیکن بہر حال حلمی شافعی صاحب کے دل میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں پیدا ہوئیں.وہ سعید فطرت تھی جس نے اعتراضوں کی تلاش کے باوجود ان کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے بیعت کر لی.(ماخوذ از الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 مئی 2010ء، صفحہ 3-4) تو اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں.آج کل بھی ہوتے ہیں.کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعہ سے دکھاتا ہے.اب خوابوں کے ذریعے سے جو پیغام پہنچتا ہے اس میں تو کسی انسان کا ہاتھ نہیں ہو تا.تو یہ سب اس کی تائید میں ان فرشتوں کی ایک ہلچل ہے جو سارے نظام میں مچی ہوئی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادے کے لئے ظاہر کر رہا ہوتا ہے.اور پھر اس طرح سے جو سعید فطرت ہیں وہ حق کی طرف آتے چلے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف شیطان کے قدموں پر چلنے والے مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.وہ روکیں ڈالتے ہیں اور ان کے پیچھے ان کا وہ تکبر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی تھی جو انہیں ملائکہ کے زمرہ سے نکال کر بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں اور شیطان کے پیچھے چلنے پر مجبور کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے بندے تو خدائی صفات کا پر تو بنتے ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے.روحانی ترقی میں بھی ان کے قدم بڑھتے ہیں.اور اس طرح دنیاوی اور مادی معاملات میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی جو تفسیر ایک جگہ فرمائی ہے یہ میں ابھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی.یاد رکھو! تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے

Page 266

خطبات مسرور جلد هشتم 251 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 کو شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس راہ سے قطعاً دور نہ ہو قبولِ حق و فیضانِ الوہیت ہر گز پا نہیں سکتا“.(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 520 سورۃ الاعراف زیر آیت 13) یعنی اللہ تعالی کا جو حق کا پیغام ہے وہ اس کو کبھی قبول نہیں کرتا.اور اللہ تعالیٰ کے جو فیض ہیں ان سے استفادہ نہیں کر سکتا.اور یہ سب اس مخالفت کا نتیجہ ہے جو انبیاء کی کی جاتی ہے.چاہے جتنی بھی عبادتیں ہوں، جتنے بھی سجدے ہوں وہ کوئی فائدہ نہیں دے رہے ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے :.تم میری مخالفت میں اور مجھے بد دعائیں دینے کے لئے سجدے کرو اور ناکیں رگڑ لو.تمہاری ناکیں جل جائیں گی لیکن تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.(ماخوذ از اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 400) پھر فرماتے ہیں:.کیونکہ یہ تکبر اس کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.پس کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے.علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے.کیونکہ زیادہ تر تکبر انہیں باتوں سے پیدا ہو تا ہے.جب تک انسان اپنے آپ کو ان گھمنڈوں سے پاک وصاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ اللہ جل شانہ کے نزدیک پسندیدہ و برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت الہی جو جذبات نفسانی کے مواد رڈ یہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی.یہ کھو کھلے علم جو ہیں یہ صرف کھو کھلے علم ہی رہتے ہیں ان کو معرفت نہیں مل سکتی.فرمایا:.کیونکہ یہ گھمنڈ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی یہی گھمنڈ کیا اور اپنے آپ کو آدم علیہ السلام سے بڑا سمجھا اور کہہ دیا اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طين (الاعراف:13) ( میں اس سے اچھا ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اس کو مٹی سے) نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ بار گاہِ الہی سے مردود ہو گیا.اس لئے ہر ایک کو اس سے بچنا چاہئے.جبتک انسان کو کامل معرفت الہی حاصل نہ ہو وہ لغزش کھاتا ہے اور اس سے متنبہ نہیں ہو تا مگر معرفت الہی جس کو حاصل ہو جائے اگر چہ اس سے کوئی لغزش ہو بھی جاوے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی محافظت کرتا ہے“.پس یہ جو انبیاء کے مخالفین ہوتے ہیں یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین ہیں.یہ ان کا تکبر ہے اور یہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں رہ سکتے بلکہ شیطان کی گود میں گرتے چلے جاتے ہیں.فرمایا:.” چنانچہ آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش پر اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور سمجھ لیا کہ سوائے فضل الہی کے کچھ نہیں ہو سکتا.اس لئے دعا کر کے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف :24) (اے رب ہمارے! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا.

Page 267

خطبات مسرور جلد ہشتم 252 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 جاویں“.اگر تیری حفاظت ہمیں نہ بچاوے اور تیر ارحم ہماری دستگیری نہ کرے تو ہم ضرور ٹوٹے والوں میں سے ہو (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 520 سورۃ الاعراف زیر آیت 13) کاش کہ یہ بات ان لوگوں کو بھی سمجھ میں آجائے جو اپنے آپ کو امتِ مسلمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جس مسیح موعود کے آنے کی آنحضرت علی ای کم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور جو خدا تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ مبعوث ہوا اس کو ماننے لگ جائیں.بجائے اس کی مخالفت کرنے کے اور باغیانہ خیالات کے لوگوں کے پیچھے چل کر زمانے کے امام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کے وہ اس کو ماننے کی طرف توجہ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار ہا فرمایا ہے کہ اگر یہ خدائی سلسلہ نہ ہو تا تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا.پس مسیح موعود کی مخالفت کے بجائے آدم کی دعا پر غور کریں.آج بھی بہت ساروں نے سن لیا ہو گا، ٹی وی پر بھی آرہا ہے ، اطلاعیں آرہی ہیں، لاہور میں دو مساجد پر ماڈل ٹاؤن میں اور دارالذکر میں بڑا شدید حملہ ہوا ہے.اسی طرح کنری میں بھی جلوس نکالے گئے ہیں اس طرح دنیا میں اور جگہوں پر بھی مولویوں کے پیچھے چل کر مختلف ممالک میں مخالفت ہو رہی ہے.کیا یہ مخالفتیں احمدیت کو ختم کر دیں گی؟ کیا پہلے کبھی مخالفتوں سے احمدیت ختم ہوئی تھی؟ ہر گز نہیں ہوئی اور نہ یہ کر سکتے ہیں.ہاں ان کو ضرور اللہ تعالیٰ کی پکڑ عذاب کا مورد بنا دے گی.ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.”دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہو تو اس وقت سوائے دعا کے کوئی اور حربہ کام نہ آیا.آخر شیطان پر آدم نے فتح بذریعہ دعا پائی“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 171) پھر آپ فرماتے ہیں:.”ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلّط عطا کرے گا، نہ تلوار سے.آدم اول کو ( شیطان پر) فتح دعا ہی سے ہوئی تھی رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الخسِرِينَ (الاعراف: 24)‘ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گے.فرمایا:.” اور آدم ثانی کو بھی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے آدم ثانی فرمایا ہے ) جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے ، اسی طرح دعاہی کے ذریعہ فتح ہو گی“.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 191-190) پس جب یہ دشمنیاں بڑھ رہی ہیں، بلکہ دشمنی میں بعض جگہ معمولی اضافہ نہیں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، اور یہ اضافہ ہو تا چلا جارہا ہے ہمیں دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ

Page 268

253 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم باوجود ساری مخالفتوں کے ، باوجود تمام تر روکوں کے باوجود اس کے کہ شیطان ہر راستے پر بیٹھا ہوا ہے جماعت بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.سعید فطرت لوگوں کے ذریعے ملائکۃ اللہ بھی حرکت میں ہیں اور جو سعید فطرت لوگ ہیں وہ جماعت میں شامل ہوتے چلے جارہے ہیں.سورۃ اعراف میں یہ دعا سکھائی گئی ہے رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا (الاعراف:24) اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے اور زیادہ سے زیادہ برکات کو سمیٹنے اور شیطان کے ہر حملے سے بچنے کے لئے دعاؤں کی طرف اور اپنی اصلاح کی طرف ہمیں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حکمتِ الہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتداء سے ہی اس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دیئے.یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآن شریف میں فرمایا : فَإِذَا سَوَيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سجدِينَ ( الحجر : 30) یعنی جب میں اس کو ٹھیک ٹھاک بنالوں اور میں اپنی روح اس میں پھونک دوں تو اے فرشتو! اسی وقت تم سجدے میں گر جاؤ“.فرمایا:.”کہ مذکورہ بالا آیت سے صاف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطر تأخد اسے تعلق پیدا ہو جاوے.ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود آدم کی ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہو گا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی“.ریویو آف ریلیجنز مئی 1902 جلد اول نمبر 5 صفحہ 178-177) پس یہ تو ہے ہماری ذمہ داری کہ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں اور بڑھیں اور اگر ہمارا یہ تعلق صحیح ہو گا تو یہ جو آدم کی فطرت ہے ، یہ ہماری فطرت کا خاصہ بن جائے گی.اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی.پس اس مشن کو آگے بڑھاتے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے کر آئے تھے.لیکن شیطان کے چیلوں کو تو اللہ تعالیٰ نے جہنم سے بھر نے کا فرمایا ہے.جیسا کہ میں نے کہا مخالفت کی آندھیاں تیز تر ہو رہی ہیں.لاہور میں جو مسجد پر حملہ ہوا ہے اس کے نقصان کی نوعیت ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئی.لیکن کافی زیادہ شہادتیں بھی ہوئی ہیں اور زخمی بھی بہت زیادہ ہیں اور بعضوں کی حالت کافی critical ہے.دارالذکر میں ابھی تک پوری طرح صور تحال واضح نہیں ہوئی.پتا نہیں کس حد تک شہادتیں ہو جاتی ہیں.لوگ جمعہ کے لئے آئے ہوئے تھے.بہر حال تفصیلات آئیں گی تو پتہ لگے گا لیکن کافی تعداد میں شہادتیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور زخمیوں کے لئے دعا کریں

Page 269

254 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 مئی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کہ اللہ تعالیٰ ان کو شفا بخشے.بعض کافی critical حالت میں ہیں.مخالفین نے جو یہ اجتماعی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا بدلہ لینے پر قادر ہے.کس ذریعہ سے اس نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا ہے، کس طرح اس نے ان فساد اور ظلم بجالانے والوں کو پکڑنا ہے ، یہ وہ بہتر جانتا ہے.لیکن یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی غیرت کو بار بار للکار رہے ہیں اور ظلم میں بڑھتے چلے جارہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عبرت کا نشان بنادے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہو گا.جیسا کہ میں نے کہا احمدی اپنی دعاؤں میں مزید درد پیدا کریں.اللہ تعالیٰ ان کے تکبر ، ان کی شیطنت، ان کی بڑائی، ان کی طاقت کے زعم کو اپنی قدرتوں اور طاقتوں کا جلوہ دکھاتے ہوئے خاک میں ملا دے.اللہ تعالیٰ احمدیوں کے ایمان اور ایقان میں ترقی دیتا چلا جائے.اور یہ ابتلا کبھی ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث نہ بنے.تمام دنیا کے احمدی پاکستان کے احمدیوں کے لئے آج کل بہت دعا کریں.بڑے شدید تنگ حالات ہیں.اسی طرح مصر کے اسیر ان کے لئے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ان کی بھی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے.ہندوستان میں بھی گزشتہ دنوں کیرالہ میں دو تین احمدیوں پر غلط الزام لگا کر اسیر بنایا گیا ہے.ان کو بھی دعاؤں میں رکھیں.اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ان اسیروں، زخمیوں اور شہیدوں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور شیطان اور اس کے چیلے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم پر بھی رحم فرمائے اور آئندہ ہر ابتلاء سے ہر ایک کو محفوظ رکھے.یادر الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 25 مورخہ 18 تا 24 جون 2010 صفحہ 5 تا 7)

Page 270

خطبات مسرور جلد ہشتم 255 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جون 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جون 2010ء بمطابق 4 احسان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ اَولِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَ لَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَ لكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ( حم سجده: 31 تا 33) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے.پھر استقامت اختیار کی ، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو.ہم اس دنیاوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی.اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو.یہ بخشنے والے اور بے انتہار حم کرنے والے خدا کی طرف سے بطور مہمانی کے ہو گا.یہ ترجمہ ہے ان آیات کا جو میں نے تلاوت کی ہیں.ہر ہفتہ میں ہزاروں خطوط مجھے آتے ہیں جنہیں میں پڑھتا ہوں، جن میں مختلف قسم کے خطوط ہوتے ہیں.کوئی بیماری کی وجہ سے دعا کے لئے لکھ رہا ہوتا ہے.عزیزوں کے لئے لکھ رہا ہوتا ہے.شادیوں کی خوشیوں میں شامل کر رہا ہوتا ہے.رشتوں کی تلاش میں پریشانی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے.کاروباروں اور ملازمتوں کے بابرکت ہونے اور دوسرے مسائل کا ذکر کر رہا ہوتا ہے.امتحانوں میں کامیابیوں کے لئے طلباء لکھ رہے ہوتے ہیں، ان کے والدین لکھ رہے ہوتے ہیں.غرض کہ اس طرح کے اور اس کے علاوہ بھی مختلف نوع کے خطوط ہوتے ہیں.لیکن گزشتہ ہفتے میں ہزاروں خطوط معمول کے ہزاروں خطوط سے بڑھ کر مجھے ملے اور تمام کا مضمون ایک محور پر مرکوز تھا، جس میں لاہور کے شہداء کی عظیم شہادت پر جذبات کا اظہار کیا گیا تھا، اپنے احساسات کا اظہار لوگوں نے کیا تھا.غم تھا، دکھ تھا، غصہ تھا، لیکن فوراً ہی اگلے فقرہ میں وہ غصہ صبر اور دعا میں ڈھل جاتا تھا.سب لوگ جو تھے وہ

Page 271

256 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اپنے مسائل بھول گئے.یہ خطوط پاکستان سے بھی آرہے ہیں، عرب ممالک سے بھی آرہے ہیں، ہندوستان سے بھی آرہے ہیں، آسٹریلیا اور جزائر سے بھی آرہے ہیں.یورپ سے بھی آرہے ہیں، امریکہ سے بھی آرہے ہیں، افریقہ سے بھی آرہے ہیں، جن میں پاکستانی نژاد احمدیوں کے جذبات ہی نہیں چھلک رہے کہ ان کے ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے.باہر جو پاکستانی احمد کی ہیں، ان کے وہاں عزیزوں یا ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے.بلکہ ہر ملک کا باشندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کی بیعت میں آنے کی توفیق دی، یوں تڑپ کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا یا کر رہا ہے جس طرح اس کا کوئی انتہائی قریبی خونی رشتہ میں پرویا ہو عزیز اس ظلم کا نشانہ بنا ہے.اور پھر جن کے قریبی عزیز اس مقام کو پاگئے ، اس شہادت کو پاگئے ، ان کے خطوط تھے جو مجھے تسلیاں دے رہے تھے اور اپنے اس عزیز، اپنے بیٹے، اپنے باپ، اپنے بھائی، اپنے خاوند کی شہادت پر اپنے رب کے حضور صبر اور استقامت کی ایک عظیم داستان رقم کر رہے تھے.پھر جب میں نے تقریباً ہر گھر میں کیونکہ میں نے تو جہاں تک یہاں ہمیں معلومات دی گئی تھیں، اس کے مطابق ہر گھر میں فون کر کے تعزیت کرنے کی کوشش کی.اگر کوئی رہ گیا ہو تو مجھے بتا دے.جیسا کہ میں نے کہا میں نے ہر گھر میں فون کیا تو بچوں، بیویوں ، بھائیوں ، ماؤں اور باپوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی پایا.خطوط میں تو جذبات چھپ بھی سکتے ہیں، لیکن فون پر ان کی پر عزم آوازوں میں یہ پیغام صاف سنائی دے رہا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے مومنین کے اس رد عمل کا اظہار بغیر کسی تکلف کے کر رہے ہیں کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون.ہم پورے ہوش و حواس اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں.یہ ایک ایک دو دو قربانیاں کیا چیز ہیں ہم تو اپنا سب کچھ اور اپنے خون کا ہر قطرہ صحیح موعود کی جماعت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.اس لئے تیار ہیں کہ آج ہمارے لہو ، آج ہماری قربانیاں ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی علیم کے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے کا اظہار اور اعلان دنیا پر کریں گی.ہم وہ لوگ ہیں جو قرونِ اولیٰ کی مثالیں قائم کریں گے.ہم ہیں جن کے سامنے صحابہ رسول صلی علیہ کا عظیم نمونہ پھیلا ہوا ہے.یہ سب خطوط، یہ سب جذبات پڑھ اور سن کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس یقین پر قائم کر دیا، مزید اس میں مضبوطی پیدا کر دی کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیارے یقیناً ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں جن کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.یہ صبر و استقامت کے وہ عظیم لوگ ہیں، جن کے جانے والے بھی ثبات قدم کے عظیم نمونے دکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِن لَّا تَشْعُرُونَ ( البقرة 155) کے مصداق بن گئے ، اور دنیا کو بھی بتا گئے کہ ہمیں مردہ نہ کہو.بلکہ ہم زندہ ہیں.ہم نے

Page 272

257 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جہاں اپنی دائمی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کو پا لیا ہے وہاں خدا تعالیٰ کے دین کی آبیاری کا باعث بھی بن گئے ہیں.ہمارے خون کے ایک ایک قطرے سے ہزاروں ثمر آور درخت نشو و نما پانے والے ہیں.ہمیں فرشتوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے.ہمیں تو اپنی جان دیتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگا کہ ہمیں کہاں کہاں اور کتنی گولیاں لگی ہیں ؟ ہمیں گرینیڈ سے دیئے گئے زخموں کا بھی پتہ نہیں لگا.یہ صبر ورضا کے پیکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بے چین ، دین کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے، گھنٹوں اپنے زخموں اور ان میں سے بہتے ہوئے خون کو دیکھتے رہے لیکن زبان پر حرف شکایت لانے کی بجائے دعاؤں اور درود سے اپنی اس حالت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے.اگر کسی نے ہائے یا اُف کا کلمہ منہ سے نکالا تو سامنے والے زخمی نے کہا ہمت اور حوصلہ کرو، لوگ تو بغیر کسی عظیم مقصد کے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تم تو اپنے ایک عظیم مقصد کے لئے قربان ہونے جارہے ہو.اور پھر وہ اُف کہنے والا آخر دم تک صرف درود شریف پڑھتارہا.آنحضرت صلی کم پر درود بھیجتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تم کو یہ یقین کرواتا رہا کہ ہم نے جو مسیح محمدی سے عہد کیا تھا اسے پورا کر رہے ہیں.میں نے ایک ایسی دردناک ویڈیو دیکھی، جو زخمیوں نے ہی اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کی تھی.اس کو دیکھ کر دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے.پس یہ وہ لوگ ہیں جن سے بیشک قربانیاں تو خدا تعالیٰ نے لی ہیں لیکن اس کے فرشتوں نے ان پر سکینت نازل کی ہے.اور یہ لوگ گھنٹوں بغیر کراہے صبر ورضا کی تصویر بنے رہے.فون پر لاہور کے ایک لڑکے نے مجھے بتایا کہ میرے 19 سالہ بھائی کو چار پانچ گولیاں لگیں، لیکن زخمی حالت میں گھنٹوں پڑا رہا ہے، اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور دعائیں کرتارہا.اگر پولیس بر وقت آجاتی تو بہت سی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں.لیکن جب پورا نظام ہی فساد میں مبتلا ہو تو ان لوگوں سے کیا توقعات کی جاسکتی ہیں ؟ ایک نوجوان نے دشمن کے ہینڈ گرینیڈ کو اپنے ہاتھ پر روک لیا اس لئے کہ واپس اس طرف لوٹا دوں لیکن اتنی دیر میں وہ گرینیڈ پھٹ گیا اور اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچالی.ایک بزرگ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر نوجوانوں اور بچوں کو بچالیا.حملہ آور کی طرف ایک دم دوڑے اور ساری گولیاں اپنے سینے پر لے لیں.آج پولیس کے آئی جی صاحب بڑے فخر سے یہ بیان دے رہے ہیں کہ ، پولیس نے دو دہشت گردوں کو پکڑ لیا.جب اوپر سے نیچے تک ہر ایک جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنا چھوڑ دے تو پھر ایسے بیان ہی دیئے جاتے ہیں.دو دہشت گرد جو پکڑے گئے ہیں انہیں بھی ہمارے ہی لڑکوں نے پکڑا.اور پکڑنے والا بھی مجھے بتایا گیا، ایک کمزور سالڑ کا تھا یعنی بظاہر جسمانی لحاظ سے بڑے ہلکے جسم کا مالک تھا لیکن ایمان سے بھر اہو اتھا.اس نے ایک ہاتھ سے اس دہشتگرد کی گردن دبوچے رکھی اور دوسرے ہاتھ سے اس کی جیکٹ تک اس کا ہاتھ نہ جانے دیا، اس ہک تک اس کا ہاتھ نہ جانے دیا جسے وہ کھینچ کر اس کو پھاڑنا چاہتا تھا.

Page 273

258 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم یہ بیچارے لوگ جو نوجوان دہشت گرد ہیں، چھوٹی عمر کے اٹھارہ انیس سال کے ، یا بیس بائیس سال کے لڑکے تھے ، یہ بیچارے غریب تو غریبوں کے بچے ہیں.بچپن میں غربت کی وجہ سے ظالم ٹولے کے ہاتھ آجاتے ہیں جو مذہبی تعلیم کے بہانے انہیں دہشت گردی سکھاتے ہیں اور پھر ایسا brain wash کرتے ہیں کہ ان کو جنت کی خوشخبریاں صرف ان خود کش حملوں کی صورت میں دکھاتے ہیں.حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بننے والی موت ہے.لیکن یہ بات سمجھنے سے اب یہ لوگ قاصر ہو چکے ہیں.ان دہشت گردوں کے سرغنوں کو کبھی کسی نے سامنے آتے نہیں دیکھا، کبھی اپنے بچوں کو قربان کرتے ہوئے نہیں دیکھا.اگر قربانیاں دیتے ہیں تو غریبوں کے بچے، جن کے برین واش کئے جاتے ہیں.بہر حال ایسے دود ہشت گرد جو پکڑے گئے ، ہمارے اپنے لڑکوں نے ہی پکڑے.یہ فرشتوں کا اترنا اور تسکین دینا جہاں ان زخمیوں پر ہمیں نظر آتا ہے وہاں پیچھے رہنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے اس خاص فضل کی وجہ سے تسکین پارہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر رکھا ہوا ہے.اس ایمان کی وجہ سے جو زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے ہم میں پیدا ہوا یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ جاؤ اور میرے بندوں کے دلوں کی تسکین کا باعث بنو.ان دعائیں کرنے والوں کے لئے تسلی اور صبر کے سامان کر و.اور جیسا کہ میں نے کہا، ہر گھر میں مجھے یہی نظارے نظر آئے ہیں.ایسے ایسے عجیب نظارے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہوئے ہیں.ہر ایک اِنَّمَا اشْلُوا بَغِي وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (يوسف : 87) کہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ تعالیٰ کے حضور کرتاہوں کی تصویر نظر آتا ہے.اور یہی ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے.مومنوں کو غم کی حالت میں صبر کی یہ تلقین خدا تعالیٰ نے کی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (البقرة:154) اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو.صبر اور صلوۃ کے ساتھ اللہ سے مددمانگو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس ایک بندہ تو خد اتعالیٰ کے آگے ہی اپنا سب کچھ پیش کرتا ہے ، جو اللہ کا حقیقی بندہ ہے ، عبد رحمان ہے، جزع فزع کی بجائے، شور شرابے اور جلوس کی بجائے ، قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے، جب صبر اور دعاؤں میں اپنے جذبات کو ڈھالتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کا حق دار ٹھہرتا ہے.مومنوں کی جماعت کو خد اتعالیٰ نے پہلے ہی آزمائشوں کے متعلق بتا دیا تھا.یہ فرما دیا تھا کہ آزمائشیں آئیں گی.فرماتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّبِرِينَ (البقرة:156) اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے سے آزمائیں گے.اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے.پس صبر اور دعائیں کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے خوشیوں کی خبریں سنائی ہیں.اپنی رضا کی جنت کا

Page 274

259 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم وارث بننے کی خبریں سنائی ہیں.اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو بھی جنت کی بشارت ہے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اس دنیا میں رہنے والوں کے لئے بھی جنت کی بشارت ہے.ایسے لوگوں کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول بن جاتی ہیں.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی انہی خوبیوں کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ ابتلاؤں میں استقامت دکھاتے ہیں فرشتے ان کے لئے تسلی کا سامان کرتے ہیں.جب مومنین ہر طرف سے ابتلاؤں میں ڈالے جاتے ہیں جانوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے.اموال کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.عزتوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.ہر طرف سے بعض دفعہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مدد کے دروازے ہی بند ہو گئے ہیں اس وقت جب مومنین بشر الصابرین کو سمجھتے ہوئے استقامت دکھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاتے ہیں.ایک دم ایسی فتح و ظفر اور نصرت کی خبریں ملتی ہیں، اس کے دروازے کھلتے ہیں کہ جن کا خیال بھی ایک مومن کو نہیں آسکتا.ایسے ایسے عجائب اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے کہ جن کا تصور بھی نہیں ہو سکتا.پس استقامت شرط ہے اور مبارک ہیں لاہور کے احمدی جنہوں نے یہ استقامت دکھائی، جانے والوں نے بھی اور پیچھے رہنے والوں نے بھی.پس یقینا اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اپنے وعدے پورے کرے گا.اور دلوں کی تسکین کے لئے جو وعدے ہیں، جو ہمیں نظر آرہے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے کا ہی نشان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ : ”وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے.ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ( ہو ) اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں.اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ اس استقام سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے.کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہانتک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے.اس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفا داری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں.ذلت پر خوش ہو جائیں، موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے، نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلی کے نہ پانے کے سیدھے

Page 275

260 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کھڑے ہو جائیں اور ہر چہ بادا باد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء و قدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہر گز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے.یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آرہی ہے “.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 420-419) آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی یقینا یہ خوشبو آرہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے.ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے، اسے کبھی نہ چھوڑنا.یقینا اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے.ابتلاء کا لمبا ہونا تمہارے پائے استقلال کو ہلانہ دے.کہیں کوئی ناشکری کا کلمہ تمہارے منہ سے نہ نکل جائے.ان شہداء کے بارے میں تو بعض خواہیں بھی بعض لوگوں نے بڑی اچھی دیکھی ہیں.خوش خوش جنت میں پھر رہے ہیں.بلکہ ان پر تمغے سجائے جار ہے ہیں.دنیاوی تمغے تو لمبی خدمات کے بعد ملتے ہیں یہاں تو نوجوانوں کو بھی نوجوانی میں ہی خدمات پر تمغے مل رہے ہیں.پس ہمارار ونا اور ہمارا غم خدا تعالیٰ کے حضور ہے اور اس میں ہمیں کبھی کمی نہیں ہونے دینی چاہئے.آپ لاہور کے وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ ”لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں“.(تذکرہ صفحہ 328 جدید ایڈیشن) اور ”لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں“.(تذکرہ صفحہ 328) پس یہ آپ لوگوں کا اعزاز ہے جسے آپ لوگوں نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کو صبر اور دعا سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.اور پھر اس تعلق میں بہت سی خوشخبریاں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتائی ہیں.پس خوش قسمت ہیں آپ جن کے شہر کے نام کے ساتھ خوشخبریاں وہاں کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح علیہ السلام کے ذریعہ دی ہیں.دشمن نے تو میرے نزدیک صرف جانی نقصان پہنچانے کے لئے یہ حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی مقصد تھے.ایک تو خوف پیدا کر کے اپنی نظر میں ، اپنے خیال میں کمزور احمدیوں کو احمدیت سے دور کرنا تھا، نوجوانوں میں بے چینی پیدا کرنی تھی.لیکن نہیں جانتے کہ یہ ان ماؤں کے بیٹے ہیں جن کے خون میں، جن کے دودھ میں جان، مال، وقت ، عزت کی قربانی کا عہد گردش کر رہا ہے.جن کے اپنے اندر عہدِ وفا نبھانے کا جوش ہے.دوسرے دشمن کا یہ خیال تھا کہ اس طرح اتنی بڑی قربانی کے نتیجے میں احمدی برداشت نہیں کر سکیں گے اور سڑکوں پر آجائیں گے.توڑ پھوڑ ہو گی، جلوس نکلیں گے اور پھر حکومت اور انتظامیہ اپنی من مانی کرتے ہوئے جو چاہے احمدیوں سے سلوک کرے گی.اور اس رد عمل کو باہر کی دنیا میں اچھال کر پھر احمدیوں کو بدنام کیا جائے گا.اور پھر دنیا کو دکھانے کے لیے ، بیرونی دنیا کو باور کرانے کے لئے یہ لوگ اپنی تمام تر مدد کے وعدے کریں گے.

Page 276

261 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لیکن نہیں جانتے کہ احمدی خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مددمانگنے والے اور اس کی پناہ میں آنے والے لوگ ہیں.خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ ہیں.اور یہ کبھی ایسا رد عمل نہیں دکھا سکتے.جب یہ رد عمل جو مخالفین کی توقع تھی ان لوگوں نے نہیں دیکھا اور پھر بیرونی دنیا نے بھی اس ظالمانہ حرکت پر شور مچایا اور میڈیا نے بھی ان کو ننگا کر دیا تو رات گئے حکومتی اداروں کو بھی خیال آگیا کہ ان کی ہمدردی کی جائے.اور اپنی شرمندگی مٹائی جائے.اور پھر آکے بیان بازی شروع ہو گئی.ہمدردیوں کے بیان آنے لگ گئے.حیرت ہے کہ ابھی تک دنیا کو ، ان لوگوں کو خاص طور پر یہ نہیں پتہ چلا کہ احمدی کیا چیز ہیں؟ گزشتہ ایک سو ہیں سالہ احمدیت کی زندگی کے ہر ہر سیکنڈ کے عمل نے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھولیں.یہ ایک امام کی آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں.یہ اس مسیح موعود کے ماننے والے لوگ ہیں جو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی للی کم کی ایم کو دنیا میں رائج کرنے آیا تھا.جنہوں نے جانور طبع لوگوں کو انسان اور انسانوں کو باخدا انسان بنایا تھا.پس اب جبکہ ہم درندگی کی حالتوں سے نکل کر با خدا انسان بننے کی طرف قدم بڑھانے والے ہیں، ہم کس طرح یہ توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں.جلوس اور قتل و غارت کا رد عمل کس طرح ہم دکھا سکتے تھے.ہم نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوۓ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کہا اور اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا.ہم نے تو اپنا غم اور اپنا دکھ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا ہے اور اس کی رضا پر راضی اور اس کے فیصلے کے انتظار میں ہیں.یہ درندگی اور سفاکی تمہیں مبارک ہو جو خدا کے نام پر خدا کی مخلوق بلکہ خدا کے پیاروں کے خون کی ہولی کھیلنے والے ہو.عوام کو مذہب کے نام پر دوبارہ چودہ پندرہ سو سال پہلے والی بد دوانہ زندگی میں لے جانے والے اور اس میں رہنے والے ہو.یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے.اب کسی مسیح موعود کی آنے کی ضرورت نہیں ہے.اب اس سے بھی انکاری ہوتے جا رہے ہیں.ہمارے لئے قرآن اور شریعت کافی ہے.کیا تمہارے یہ عمل اس شریعت اور قرآن پر ہیں جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کی لائے تھے ؟ یقیناً نہیں.تم میرے آقا، ہاں وہ آقا جو محسن انسانیت تھا اور قیامت تک اس جیسا محسن انسانیت پیدا نہیں ہو سکتا، اس محسن انسانیت کو بد نام کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے ہو.ناموس رسالت کے نام پر میرے پاک رسول صلی للی کم کو بد نام کرنے والے ہو.یقیناً قیامت کے دن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا کلمہ تم میں سے ایک ایک کو پکڑ کر تمہیں تمہارے بد انجام تک پہنچائے گا.ہمارا کام صبر اور دعا سے کام لینا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر احمد ی اس پر کار بند رہے گا.یہ صبر کے نمونے جب دنیا نے دیکھے تو غیر بھی حیران ہو گئے.ظلم اور سفاکی کے ان نمونوں کو دیکھ کر غیروں نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ احمدیت کی طرف مائل بھی ہوئے بلکہ بیعت میں آنے کی خواہش کا

Page 277

خطبات مسرور جلد ہشتم 262 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04جون 2010 اظہار بھی کیا.پس یہ ظلم جو تم نے ہمارے سے روار کھا اس کا بدلہ اس دنیا میں ہمیں انعام کی صورت میں ملنا شروع ہو گیا.میر اخیال تھا کہ کچھ واقعات بیان کروں گا لیکن بعض اتنے درد ناک ہیں کہ ڈرتا ہوں کہ جذبات سے مغلوب نہ ہو جاؤں.اس لئے سارے تو بیان نہیں کر سکتا.چند ایک واقعات جو ہیں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہمارے نائب ناظر اصلاح وارشاد ہیں.انہوں نے لکھا کہ ایک نمازی نے جب وہ جنازے پر آئے تھے، کسی کو مخاطب ہو کر کہا کہ ایک انعام اور ملا کہ شہید باپ کا بیٹا ہوں اور مجھے کہا کہ عزم اور حوصلے بلند ہیں، ماڈل ٹاؤن میں مکرم اعجاز صاحب کے بھائی شہید ہو گئے اور انہیں مسجد میں ہی اطلاع مل گئی اور کہا گیا کہ فلاں ہسپتال پہنچ جائیں.انہوں نے کہا کہ جانے والا خدا کے حضور حاضر ہو چکا، اب شاید میرے خون کی احمدی بھائیوں کو ضرورت پڑ جائے، اس لئے میں تو اب یہیں ٹھہروں گا.ایک ماں نے کہا کہ اپنی گود سے جواں سالہ بیٹا خدا کی گود میں رکھ دیا.جس کی امانت تھی اس کے سپر د کر دی.ہمارے مربی سلسلہ محمود احمد شاد صاحب نے ماڈل ٹاؤن میں اپنے فرض کو خوب نبھایا.خطبہ کے دوران دعاؤں اور استغفار ، صبر اور درود پڑھنے کی تلقین کرتے رہے.بعض قرآنی آیتیں بھی دہرائیں.دعائیں بھی دہرائیں اور درود شریف بھی بلند آواز سے دہرایا اور نعرہ تکبیر بھی بلند کیا اور آپ نے جامِ شہادت بھی نوش کیا.سردار عبد السمیع صاحب نے بتایا کہ فجر کی نماز پر چک سکندر کے واقعات اور شہادتوں کا ذکر فرمارہے تھے کیونکہ یہ اس وقت وہاں متعین تھے.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ باہر سیڑھیوں کے نیچے صحن میں ڈیڑھ دو سو آدمی کھڑے تھے.اس وقت دہشتگر د فائرنگ کرتے ہوئے ہال کے کارنر میں تھے.ایک آدمی بالکل صحن کے کونے تک آگیا.اگر وہ اس وقت باہر آجاتا تو جو ڈیڑھ دو سو آدمی باہر تھے وہ شاید آج موجود نہ ہوتے.لیکن میری آنکھ کے سامنے ایک انصار جن کی عمر لگ بھگ 65 سال یا اوپر ہو گی، انہوں نے pillar کے پیچھے سے نکل کر اس کی طرف دوڑ لگا دی.اور اس کی وجہ سے بالکل ان کی چھاتی میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گئے ، لیکن ان کی بہادری کی وجہ سے دہشت گرد کے باہر آنے میں کچھ وقت لگا.لیکن اس عرصہ میں بہت سے احمدی محفوظ جگہ پر پہنچ گئے اور پھر اس نے گرینیڈ بعد میں پھینکا.اور کہتے ہیں جب ہم باہر آئے ہیں تو ہم نے دیکھا کہ بے شمار لوگ سیڑھیوں پر شہید پڑے تھے.ایک صاحب نے مجھے لکھا، جو جاپان سے وہاں گئے ہوئے تھے اور جنازے میں شامل ہوئے کہ آخرین کی شہادتوں نے نبی اکرم صلی ایام کے دور مبارک کی یادوں کو تازہ کر دیا.ربوہ کے پہاڑ کے دامن میں ان مبارک وجو دوں کو دفناتے ہوئے کئی دفعہ ایسا لگا جیسے اس زمانے میں نہیں.صبر ورضا کے ایسے نمونے تھے جن کو الفاظ میں ڈھالنا ناممکن ہے.انصار اللہ کے لان میں میں نے اپنی دائیں طرف ایک بزرگ سے جو جنازے کے انتظار میں بیٹھے

Page 278

263 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تھے پوچھا کہ چچا جان! آپ کے کون فوت ہوئے ہیں ؟ فرمایا میر ابیٹا شہید ہو گیا ہے.لکھنے والے کہتے ہیں کہ میر ادل دہل رہا تھا اور پر عزم چہرہ دیکھ کر ابھی میں منہ سے کچھ بول نہ پایا تھا کہ انہوں نے پھر فرمایا کہ الحمد للہ ! خدا کو یہی منظور تھا.لکھنے والے کہتے ہیں کہ میرے چاروں طرف پر عزم چہرے تھے اور میں اپنے آپ کو سنبھال رہا تھا کہ ان کوہ و قار ہستیوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کروں کہ خود مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے.کہتے ہیں کہ میں مختلف لوگوں سے ملتا اور ہر بار ایک نئی کیفیت سے گزرتا رہا.خون میں نہائے ایک شہید کے پاس کھڑا تھا کہ آواز آئی میرے شہید کو دیکھ لیں.اس طرح کے بے شمار جذبات احساسات ہیں.ایک خاتون لکھتی ہیں کہ میرے چھوٹے بچے بھی جمعہ پڑھنے گئے تھے اور خدا نے انہیں اپنے فضل سے بچا لیا.جب مسجد میں خون خرابہ ہو رہا تھا تو ہماری ہمسائیاں ٹی وی پر دیکھ کر بھاگی آئیں کہ رو دھو رہی ہو گی.یعنی میرے پاس آئیں کہ رو دھو رہی ہوں گی کیونکہ مسجد کے ساتھ ان کا گھر تھا.لیکن میں نے ان سے کہا کہ ہمارا معاملہ تو خدا کے ساتھ تھا.مجھے بچوں کی کیا فکر ہے ؟ ادھر تو سارے ہی ہمارے اپنے ہیں.اگر میرے بچے شہید ہو گئے تو خدا کے حضور مقرب ہوں گے اور اگر بچ گئے تو غازی ہوں گے.یہ سن کر عورتیں حیران رہ گئیں اور الٹے پاؤں واپس چلی گئیں کہ یہ کیسی باتیں کر رہی ہے؟ اور پھر آگے لکھتی ہیں کہ اس نازک موقع پر ربوہ والوں نے جو خدمت کی اور دکھی دلوں کے ساتھ دن رات کام کیا اس پر ہم سب آپ کے اور ان کے شکر گزار ہیں.ایک ماں کا اٹھارہ سال کا اکلوتا بیٹا تھا.ایک لڑکا تھا باقی لڑکیاں ہیں.میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا.شہید ہو گیا اور انتہائی صبر اور رضا کا ماں باپ نے اظہار کیا اور یہ کہا کہ ہم بھی جماعت کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں.مسلم الدروبی صاحب سیریا کے ہیں وہ بھی ان دنوں میں وہاں گئے ہوئے تھے.اور ان کو بھی ٹانگ پر کچھ زخم آئے ہیں.شام کے احمدی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایسا نظارہ میں نے کبھی نہیں دیکھا.کوئی افراتفری نہیں تھی.کوئی ہر اسانی نہیں تھی.کوئی خوف نہیں تھا.ہر ایک آرام سے اپنے اپنے کام کر رہا تھا اس وقت بھی جب دشمن گولیاں چلا رہا تھا اور انتظامیہ کی طرف سے جو بھی ہدایات دی جارہی تھیں ان کے مطابق عمل ہو رہا تھا.کہتے ہیں کہ میرے لئے تو ایک ایسی انہونی چیز تھی کہ جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا.پس یہ وہ لوگ ہیں، یہ وہ مائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کی ہیں.قربانیوں کی عظیم مثال ہیں.اس بات کی فکر نہیں کہ میرے بچوں کا کیا حال ہے یا میرا بچہ شہید ہو گیا ہے.پوری جماعت کے لئے یہ مائیں درد کے ساتھ دعائیں کر رہی ہیں.پس اے احمد مکی ماؤں ! اس جذبے کو اور ان نیک اور پاک جذبات کو اور ان خیالات کو کبھی مرنے نہ دینا.جب تک یہ جذبات رہیں گے ، جب تک یہ پر عزم سوچیں رہیں گی، کوئی دشمن کبھی جماعت کا بال بھی بریکا نہیں کر سکتا.

Page 279

خطبات مسرور جلد ہشتم 264 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جون 2010 ایک احمدی نے لکھا کہ میں ربوہ سے گیا تھا.ایک نوجوان خادم کے ساتھ مل کر لاشیں اٹھاتا رہا تو سب سے آخر میں اس نے میرے ساتھ مل کر ایک لاش اٹھائی اور ایمبولینس تک پہنچا دی، اور اس کے بعد کہنے لگا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں.اور پھر یہ نہیں کہ اس ایمبولینس کے ساتھ چلا گیا بلکہ واپس مسجد میں چلا گیا اور اپنی ڈیوٹی جو اس کے سپر د تھی اس کام میں مستعد ہو گیا.یہ ہیں مسیح محمدی کے وہ عظیم لوگ جو اپنے جذبات کو صرف اور صرف خد اتعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں.اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں.بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ جمع کر کے لکھے بھی جائیں گے.ایک بات جو سب نے بتائی ہے جو کامن ( Common) ہے، عینی شاہد جو بتاتے ہیں کہ دہشت گرد جب یہ سب کارروائی کر رہے تھے تو کوئی پینک (Panic) نہیں تھا.جیسا کہ الدروبی صاحب نے بھی لکھا ہے.امیر صاحب اور مربی صاحب اور عہدیداران کی ہدایات پر جب تک یہ لوگ عہدیداران زندہ رہے سکون سے عمل کرتے رہے اور اس کے بعد بھی کوئی بھگدڑ نہیں مچی بلکہ بڑے آرگنائزڈ طریقے سے دیواروں کے ساتھ لگ گئے تا کہ گولیوں سے بچ سکیں اور بیٹھ کر دعائیں کرتے رہے.اور ایک بزرگ اس حالت میں مسلسل سجدہ میں رہے ہیں کوئی پرواہ نہیں کی کہ دائیں بائیں گولیاں آرہی ہیں.یہ ہیں ایمان والوں اور حقیقی ایمان والوں کے نظارے.کئی خطوط مجھے اس مضمون کے بھی آرہے ہیں جو سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالُ صَدَقُوا مَا عَاهَدُ واللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ( الاحزاب: 24) کہ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا.پس ان میں سے وہ بھی ہیں جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہا ہے.اور انہوں نے ہر گز اپنے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی.اور وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ لکھ کر یہ لوگ پھر اپنے عہدِ وفا اور قربانی کا یقین دلا رہے ہیں.پس دشمن تو سمجھتا تھا کہ اس عمل سے احمدیوں کو کمزور کر دے گا، جماعت کی طاقت کو توڑ دے گا.شہروں کے رہنے والے شاید اتنا ایمان نہیں رکھتے.لیکن انہیں کیا پتہ ہے کہ یہ شہروں کے رہنے والے وہ لوگ ہیں جن میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایمان کی حرارت بھر دی ہے.جو دین کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں.بے شک دنیا کے دھندوں میں بھی لگے ہوئے ہیں لیکن صرف دنیا کے دھندے مقصود نہیں ہیں.جب بھی دین کے لئے بلایا جاتا ہے تو لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا یہ درندگی کے بجائے انسانیت کے علمبر دار ہیں.آخر یہ احمدی بھی تو اسی قوم میں سے آئے ہیں.وہی قبیلے ہیں ، وہی برادریاں ہیں جہاں سے وہ لوگ آرہے ہیں جو مذہب کے نام پر درندگی اور سفا کی دکھاتے ہیں.لیکن مسیح موعود کے ماننے کے بعد یہی لوگ ہیں جو مذہب کی خاطر قربانیاں تو دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق.

Page 280

خطبات مسرور جلد ہشتم 265 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جون 2010 میں نے ذکر کیا تھا کہ ان واقعات کا پریس نے اور پاکستان پریس نے بھی ذکر کیا.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے اور ہمیشہ حق کہنے کی توفیق دیتا ر ہے.اب اس حق کہنے کے بعد کہیں مولویوں کے رد عمل سے ڈر کر پھر پرانی ڈگر پر نہ چل پڑیں.اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک کے پریس ہیں، حکومتیں ہیں ان کی طرف سے بیان آئے، statements آئیں ، ہمدردی کے پیغام آئے اور مختلف حکومتوں کے نمائندے، یہاں کی حکومت کے نمائندے نے بھی انگلستان کے ممبران پارلیمنٹ نے بھی ہمدردی اور تعزیت کے پیغام بھیجے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.اور تو اور ختم نبوت کی طرف سے بھی اخبار میں خبر آئی تھی کہ بڑا غلط کام ہوا ہے اور یہ درندگی ہے اور یہ نہیں ہونی چاہئے تھی.تو پھر وہ جو بینر ہیں جو پوسٹر ہیں جو دیواروں پر لگے ہوئے ہیں جو سڑکوں پر لگے ہوئے ہیں حتی کے ہائی کورٹ کے جوں کے نیم پلیٹس (Name Plates) کے نیچے لگے ہوئے ہیں، جس میں احمدیوں کے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی ہے انہیں مرتد کہا گیا ہے، انہیں واجب القتل کہا گیا ہے ، وہ کس کے لگائے ہوئے ہیں ؟ تم لوگ ہی تو ہو اس دنیا کو ، ان لوگوں کو ، بے عقلوں کو جوش دلانے والے ، اور اب جب یہ دیکھا کہ دنیا کا رُخ اس طرف آگیا ہے تو ہم بھی ہیں تو سہی اس اس ظلم میں شامل، پھر دنیا کی نظر میں ہم اس ظلم میں شامل ہونے سے بیچ جائیں تو یہ بیان دینے لگ گئے ہیں.تو احمدیوں کے خلاف یہ بغض اور کینہ جو ان نام نہاد علماء کی طرف سے دکھایا جارہا ہے.یہی اصل وجہ ہے جو یہ ساری کارروائی ہوئی ہے.پاکستان کے چیف جسٹس صاحب ہیں.ذراذراسی بات پر خود نوٹس لیتے ہیں.اخباروں میں یہ بات آجاتی ہے.تو یہ جو اتنا بڑا ظلم ہوا ہے اور یہ جو بینر لگے ہوئے ہیں اور جو پوسٹر لگے ہوئے ہیں اس پر ان کو خیال نہیں آیا کہ خود کوئی نوٹس لیں اور یہ علماء جو لو گوں کو اکسا رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں.کیا انصاف قائم کرنے کے معیار صرف اپنی پسند پر منحصر ہیں ؟ جیسا کہ میں نے کہا، ہمارا رونا اور ہمارے دکھ تو خدا تعالیٰ کے سامنے ہیں.ان سے تو ہم نے کچھ نہیں لینا.لیکن صرف ان کے معیاروں کی طرف میں نشاندہی کر رہا ہوں.ہمارا تو ہر ابتلاء کے بعد اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا اور اس کی رضا کے حصول کا ادراک اور بڑھتا ہے.بندے نہ تو ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ کچھ دے سکتے ہیں.بے شک دنیا میں آج کل دہشتگردی بہت زیادہ ہے.پاکستان میں اس کی انتہا ہوئی ہوئی ہے.لیکن احمدیوں کے خلاف دہشتگردی کو قانون کا تحفظ حاصل ہے.اس لئے جو ان کے دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں.مونگ رسول کا واقعہ ہوا، وہاں بھی دہشت گردی ہوئی، وہاں کے جو دہشت گرد تھے پکڑے گئے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ کیا ان کو سزا دی گئی؟ وہ پاکستانی گلیوں میں آج بھی آزادی کے ساتھ پھر رہے ہیں.پس ان سے تو کوئی احمدی کسی قسم کی کوئی توقع نہیں کر سکتا اور نہ کرتا ہے.ہمارا مولیٰ تو ہمارا اللہ ہے اور اس پر ہم تو کل کرتے ہیں.وہی

Page 281

266 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہمارا معین و مددگار ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہمیشہ ہماری مدد کر تا رہے گا اور اپنی حفاظت کے حصار میں ہمیں رکھے گا.ان لوگوں سے آئندہ بھی کسی قسم کی خیر کی کوئی امید نہیں اور نہ کبھی ہم رکھیں گے.اس لئے احمدیوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.اور دعاؤں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے.اللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی دعا بہت پڑھیں.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي کی دعا ضرور پڑھیں.اس کے علاوہ بھی بہت دعائیں کریں.ثبات قدم کے لئے دعائیں کریں.ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائیں، روئیں.ان دو مساجد میں جو ہمارے زخمی ہوئے ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کریں.ان زخمیوں میں سے بھی آج ایک اور ڈاکٹر عمران صاحب تھے ان کی شہادت ہو گئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اللہ تعالیٰ باقی جو زخمی ہیں ان کو شفا عطا فرمائے اور ہر احمدی کو ہر شر سے ہمیشہ بچائے.احمدیوں نے پاکستان کے بنانے میں کردار ادا کیا تھا اور ان لوگوں سے بڑھ کر کیا تھا، جو آج دعویدار ہیں، جو آج پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اس لئے ملک کی بقا کے لئے بھی دعا کرنا ہمارا فرض ہے.اور ان لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے اور ان کے عبرتناک انجام کے لئے بھی دعا کریں جو ملک میں افرا تفری اور فساد پھیلا رہے ہیں ، جنہوں نے ملک کا سکون برباد کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے.یہ شہید.قطب ستارے ایک بات اور کہنا چاہوں گا.ایک احمدی نے بڑے جذباتی انداز میں ایک خط لکھا لیکن اس سوچ پہ مجھے بڑی حیرت ہوئی، کیونکہ پڑھے لکھے بھی ہیں جماعتی خدمات بھی کرنے والے ہیں.ایک فقرہ یہ تھا کہ ”دشمن نے کیسے کیسے ہیرے مٹی میں رول دیئے“.یہ بالکل غلط ہے.یہ ہیرے مٹی میں رولے نہیں گئے.ہاں دشمن نے مٹی میں رولنے کی ایک مذموم کوشش کی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اہمیت پہلے سے بھی بڑھا دی اور ان کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگالیا.ان کو دائمی زندگی سے نوازا.اس ایک ایک ہیرے نے اپنے پیچھے رہنے والے ہیروں کو مزید صیقل کر دیا.ان جانے والے ہیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمانِ اسلام اور احمدیت پر سجا دیا جس نے نئی کہکشائیں ترتیب دے دی ہیں اور ان کہکشاؤں نے ہمارے لئے نئے راستے متعین کر دیئے.ان میں سے ہر ہر ستارہ جب اس سے علیحدہ ہو کے بھی ہمارے لئے قطب ستارہ بن جاتا ہے.پس ہمارا کوئی بھی دشمن کبھی بھی اپنی مذموم اور قبیح کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اور ہر شہادت بڑے بڑے پھل پیدا کرتی ہے، بڑے بڑے مقام حاصل کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے ، اور ہم بھی ہمیشہ استقامت کے ساتھ دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جانے والوں میں سے ہوں.

Page 282

خطبات مسرور جلد ہشتم 267 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04جون 2010 شہداء کا ذکر بھی کرنا چاہتا تھا لیکن یہ تو ایک لمبی بات ہو جائے گی.آئندہ انشاء اللہ مختصر ذکر کروں گا کیونکہ تقریباً 85 شہداء ہیں مختصر تعارف بھی کروایا جائے تو کافی وقت لگتا ہے.جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ان کی نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا.اسی دوران گزشتہ دنوں اس واقعہ کے دو تین دن کے بعد نارووال میں ہمارے ایک احمدی کو شہید کر دیا گیا.ان کا نام نعمت اللہ صاحب تھا اور اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے.صحن میں آکر چھریوں کا وار کر کے ان کو شہید کیا.ان کا بڑا بیٹا بچانے کے لئے آیا تو اس کو بھی زخمی کر دیا.وہ ہسپتال میں ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بھی شفا عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند کرے.ان کی اہلیہ اور تین بیٹیاں ہیں اور تین بیٹے ہیں.ان کے دوسرے عزیزوں میں بھی لاہور میں دو شہید ہوئے ہیں.اور قاتل کا تعلق تحفظ ختم نبوت سے ہے.ایک طرف تحفظ ختم نبوت والے اعلان کر رہے ہیں کہ بہت برا ہوا.دوسری طرف اپنے لوگوں کو اکسا رہے ہیں کہ جاؤ اور احمدیوں کو شہید کرو اور جنت کے وارث بن جاؤ.وہ پکڑا گیا ہے اور اس نے اقرار کیا ہے کہ سانحہ لاہور کے پس منظر میں مجھے بھی کیونکہ ہمارے علماء نے یہی کہا ہے اس لئے میں شہید کرنے کے اس نیک کام کے لئے ثواب حاصل کرنے کے لئے آیا تھا.اور پھر پکڑے جانے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ یہاں ہم کسی بھی احمدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.تو یہ تو ان کے حال ہیں.پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں بدنام کیا جاتا ہے.دنیا میں تو خود تم اپنے آپ کو بد نام کر رہے ہو.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے.بہت دعائیں کریں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ مریضوں کے لئے بھی بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.ނ الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 26 مورخہ 25 جون تاکیم جولائی 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 283

خطبات مسرور جلد ہشتم 268 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جون 2010ء بمطابق 11 احسان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج میں ان شہداء کا ذکر کروں گا جو لاہور میں جمعہ کے دوران دہشت گردوں کے ظلم اور سفاکی کا نشانہ بنے تھے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی وہاں موجود ہر احمدی نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا.نہ ہی دہشت گردوں کے آگے ہاتھ جوڑے ، نہ زندگی کی بھیک مانگی، بلکہ دعاؤں میں مصروف رہے اور ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں مصروف رہے.یہ کوشش تو رہی کہ اپنی جان دے کر دوسرے کو بچائیں لیکن یہ نہیں کہ ادھر اُدھر panic ہو کر دوڑ جائیں.اور ان دعاؤں سے ہی گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والوں کا مقابلہ کیا جو ظالمانہ طریقے پر گولیاں چلا رہے تھے.ان دعائیں کرنے والوں میں کچھ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ عطا فرمایا اور یہ رتبہ پاکر ان کو خدا تعالیٰ نے دائمی زندگی عطا فرما دی اور یہ سب لوگ جو ہیں یہ احمدیت کی تاریخ میں انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.بہر حال شہداء کا ذکر میں کرنا چاہتا ہوں.ان کے ذکر خیر سے پہلے ایک ضروری امر کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں.مجھ سے بعض جماعتوں کی طرف سے بھی پوچھا جارہا ہے کہ شہداء فنڈ میں لوگ کچھ دینا چاہتے ہیں تو یہ رقم کس مد میں دینی ہے ؟ اسی طرح بعض دوست مشورے بھی بھجوا رہے ہیں کہ شہداء کے لئے کوئی فنڈ قائم ہو نا چاہئے.یہ ان کی لاعلمی ہے.شہداء کے لئے فنڈ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت رابعہ سے قائم ہے جو ”سیدنا بلال فنڈ“ کے نام سے ہے اور میں بھی اپنے اس دور میں ایک عید کے موقع پر اور خطبوں میں دو دفعہ بڑی واضح طور پر اس کی تحریک کر چکا ہوں.اس فنڈ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے شہداء کی فیملیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جن جن کو ضرورت ہو ان کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور اگر اس فنڈ میں کوئی گنجائش نہ بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ان کا حق ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہم ان کا خیال رکھتے رہیں گے.تو بہر حال ”سید نابلال فنڈ“ قائم ہے جو لوگ شہداء کی فیملیوں کے لئے کچھ دینا چاہتے ہوں اس میں دے سکتے ہیں.

Page 284

خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم منیر احمد شیخ صاحب 269 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 آج سب سے پہلے میں مکرم منیر احمد شیخ صاحب کا ذکر کروں گاجو دارالذکر میں شہید ہوئے تھے اور امیر ضلع لاہور تھے.ان کے والد صاحب مکرم شیخ تاج دین صاحب سٹیشن ماسٹر تھے اور ان کے والد نے 1927ء میں احمدیت قبول کی تھی.جالندھر کے رہنے والے تھے.ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم سے ان کی دوستی تھی اور یہ دونوں پہلے احمدیت کے بہت زیادہ مخالف تھے.یعنی شیخ صاحب کے والد اور حضرت مفتی ملک سیف الرحمن صاحب.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب دیکھیں اور آنحضور صلی للی نام کے شان میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشعار پڑھے تو پھر ان کو جستجو پیدا ہوئی اور چند کتابیں پڑھنے کے بعد ان دونوں بزرگوں کے دل صاف ہو گئے.بہر حال مکرم شیخ منیر احمد صاحب، شیخ تاج دین صاحب کے بیٹے تھے.ان کی تعلیم ایل ایل بی تھی.تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ سول جج بنے.پھر مختلف جگہوں پر ان کی پوسٹنگ ہوتی رہی، اور پھر سیشن جج سے ترقی ہوئی اور پھر لاہور میں سپیشل حج اینٹی کرپشن پر ان کی تعیناتی ہوئی.پھر پیشل جج کسٹم کے طور پر کام کیا.اور ٹیب (NAB) کے حج کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور 2000ء میں یہ ریٹائر ہوئے.موصوف شیخ صاحب کے انصاف کی ہر جگہ شہرت تھی.جن کا بھی ان سے واسطہ پڑتا تھا ان کو پتہ تھا کہ یہ انصاف پسند آدمی ہیں اور انہیں کبھی کسی قسم کا خوف نہیں ہو تا تھا.راولپنڈی میں ایک کیس کے دوران دونوں پارٹیوں میں سے ایک پارٹی جو لاہوری احمدی ہیں ان کی خواتین تھیں.ان کے وکیل مجیب الرحمن صاحب تھے.اور دوسرا فریق جو تھا، دوسری پارٹی ایک مولویوں کی پارٹی تھی.تو کورٹ میں آکے انہوں نے پہلے ہی بتادیا کہ میں احمدی ہوں اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتائیں.جو دوسر ا گروپ مولویوں کا تھا، ان کا مقدمہ احمدی پیغامیوں کے ساتھ تھا.لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں قبول ہے ہم آپ سے ہی فیصلہ کروانا چاہتے ہیں.جو پیغامی فریق تھا ان کے وکیل مجیب الرحمن صاحب احمدی تھے.تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ خوف ہو تا تھا کہ کہیں آپ اپنی انصاف پسندی کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے خلاف فیصلہ نہ کر دیں.لیکن انہوں نے انصاف کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور انصاف کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا اور ان خواتین کے حق میں کر دیا اور مولویوں کے خلاف ہوا.ان کا علم بھی بڑا وسیع تھا.بڑے دلیر تھے.قوتِ فیصلہ بہت تھی.ملازموں اور غریبوں سے بڑی ہمدردی کیا کرتے تھے.درویش صفت انسان تھے.جب بھی میں ان کو ملا ہوں جہاں تک میں نے دیکھا ہے ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی.فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے.اس کے علاوہ شروع میں ماڈل ٹاؤن حلقہ میں زعیم اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات رہی ہیں.گارڈن ٹاؤن حلقہ کے صدر بھی رہے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ہمارا اور

Page 285

خطبات مسرور جلد ہشتم 270 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 بچوں کا ہمیشہ بہت خیال رکھتے تھے.یہ کہا کرتے تھے کہ میں تو ایک غریب سٹیشن ماسٹر کا بیٹا ہوں اور تم لوگوں کی ضروریات کا ، بچوں کا خیال مجھے اس لئے رکھنا پڑتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو سیشن جج کے بچے سمجھتے ہیں.وصیت کے نظام میں بھی شامل تھے.اور جیسا کہ میں نے کہا دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.شہادت سے ایک دن قبل ان کی بہن نے لجنہ اماء اللہ کو وصایا کے حوالہ سے ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وصیت بھی جنت کے حصول کا ذریعہ ہے اور گھر آکر شیخ صاحب سے جب بات کی کہ کیا میں نے ٹھیک کہا ہے ؟ تو انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے.لیکن اپنی بہن کو کہا کہ آپا! اصل جنت کی ضمانت تو شہادت سے ملتی ہے.اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ شہادت سے قبل شہید مرحوم کا فون آیا کہ میرے سر اور ٹانگ پر چوٹ آئی ہے اور بلند آواز سے کہا کہ میں ٹھیک ہوں.خدام نے ان کو نیچے کی طرف یعنی basement میں جانے کے لئے کہا تو انہوں نے انکار کر دیا.اور جب فائرنگ شروع ہوئی ہے تو کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر لو گوں کو کہا کہ بیٹھ جائیں اور درود شریف پڑھیں اور دعائیں کریں.اپنا فون ان کے پاس نہیں تھا، ایک خادم سے فون لیا گھر بھی فون کیا، پولیس کو بھی فون کیا.پولیس نے جواب دیا کہ ہم آگئے ہیں تو بڑے غصے سے پھر ان کو کہا کہ پھر اندر کیوں نہیں آتے ؟ ایک خادم جس نے فون دیا تھا ان کے مطابق آخری آواز ان کی اس نے یہ سنی تھی کہ أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهَ إِلَّا اللهُ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ نماز جمعہ پر جانے سے پہلے چندہ کی رقم مجھے پکڑائی اور کہا کہ اپنے پاس رکھ لو.کیونکہ آج تک پہلے کبھی ایسا نہیں ہو ا تھا تو میں نے کہا کہ جہاں آپ پہلے رکھتے تھے وہیں رکھ دیں.انہوں نے کہا کہ نہیں آج تم رکھ لو کیونکہ دفتر بند ہو گا اس لئے جمع نہیں کروا سکتا.اسی طرح ایک کیس کے بارے میں مجھے بتایا.اہلیہ سے کہا کہ وہ آگے چلا گیا ہے، اس کی تاریخ آگے پڑ گئی ہے اور یہ کیس کے پیسے ہیں، یہ اپنے پاس رکھ لو اور کیس والے فریق کو دے دینا اور اس کی فائل بھی.اہلیہ کہتی ہیں کہ حالانکہ پہلے میرے سے کبھی آج تک انہوں نے کوئی کیس ڈسکس(Discuss) نہیں کیا.حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دو دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد یا بلکہ پہلے ہی میرا اوقف قبول کریں.حضور نے ان کو یہی فرمایا تھا کہ جہاں آپ کام کر رہے ہیں وہیں کام کریں کیونکہ اس کے ذریعہ سے احمدیت کی تبلیغ زیادہ موثر رنگ میں ہو رہی ہے.لوگوں کو پتہ لگے کہ احمدی افسر کیسے ہوتے ہیں.ان کے ایک بیٹے نے بتایا کہ میں نے ان سے کہا کہ اپنا کوئی سکیورٹی گارڈرکھ لیں.کہنے لگے کیا ہو گا؟ مجھے گولی مار دیں گے تو شہید ہو جاؤں گا.ہمارے سلسلہ کے ایک مبلغ ہیں مبشر مجید صاحب انہوں نے ان کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے.یہ گلبرگ لاہور میں مربی ہوتے تھے کہتے ہیں کہ 97ء یا 98ء کی بات ہے کہ مجھے ایک دن مربی ضلع کا فون آیا کہ

Page 286

271 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم غیر احمدیوں کے ایک بڑے عالم ہیں اور جمعیت علمائے پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدے پر ، بڑے عہدے پر قائم ہیں ان کو ہم نے ملنے جانا ہے.تو کہتے ہیں میں بڑا حیران ہوا کہ کیا ضرورت، مصیبت پڑ گئی ہے ان کو ملنے کی ؟ خیر ، کہتے ہیں میں مربی صاحب ضلع کے ساتھ چلا گیا.سبزہ زار میں جمیعت کا سیکریٹریٹ ہے تو وہاں جب ہم پہنچے ہیں تو ان صاحب سے تعارف ہوا.یہ ہمارے شدید ترین مخالف لوگ ہیں.ان صاحب نے جو جمیعت علماء پاکستان کے سیکرٹری تھے انہوں نے کہا کہ مجھ پر کسٹم والوں نے ایک سراسر غلط مقدمہ بنا دیا ہے.جو جج ہے وہ نہایت عجیب و غریب قسم کا انسان ہے.میں تین پیشیاں بھگت چکا ہوں.جب بھی میں عدالت میں آتا ہوں تو کرسی پر بیٹھتے ہی میز پر ایک زور دار مکا مارتا ہے اور کہتا ہے کہ Listen every body کہ میں احمدی ہوں، اب مقدمہ کی کارروائی شروع کرو.تو یہ صاحب کہتے ہیں کہ میری تو آدھی جان وہیں نکل جاتی ہے جب یہ دھمکی دیتے ہیں.مجھے یہ خیال ہے کہ یہ مجھے پیغام دیتے ہیں کہ بچو ! اب تم میرے قابو میں آئے ہو، اب میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں.تو آپ لوگ خدا کے واسطے میری کوئی مدد کریں اور میری اس سے جان چھڑوائیں.مجھے لگتا ہے کہ مذہبی مخالفت کی بنا پر مجھے سزا دے دے گا.پھر بولے: عجیب قسم کا آدمی ہے.یہ کوئی زمانہ ہے ، یہ حالات ہیں ؟ کہ یہ صاحب آتے ہیں اور میز پر مگامار کے اپنے احمد کی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور میرے پسینے چھوٹ جاتے ہیں.مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ غلطی پر ہیں.آپ نے ان کے پیغام کو نہیں سمجھا.وہ میز پر مکا مار کے یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک سن لو، میں احمدی ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ آپ کو دھمکاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سنو اور غور سے سنو کہ میں احمدی ہوں.نہ میں رشوت لیتا ہوں، نہ ہی میں کسی کی سفارش سنوں گا اور نہ ہی میرے فیصلے کسی تعصب کے زیر اثر ہوتے ہیں.میں صرف خدا سے ڈرتا ہوں.مربی صاحب نے کہا یہ ہے ان کا اصل مطلب.اس لئے ہم پر تو آپ رحم کریں اور ہمیں کسی سفارش پر مجبور نہ کریں اور نہ ہی ہم ایسا کریں گے.تو کہتے ہیں بہر حال وہ صاحب بڑے پریشان تھے کہ اگر اس نے مجھے ٹانگ دیا تو پھر کیا ہو گا؟ تو میں نے کہا آپ کے کہنے کے مطابق اگر آپ بے قصور ہیں تو آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ صرف مذہبی اختلافات کی بنیاد پر آپ کو سزا نہیں دیں گے.اس کے بعد ان کے ہاں سے چلے آئے.پانچ چھ مہینے کے بعد ان کے پی اے (P.A) کا فون آیا اور اطلاع دی کہ وہ باعزت طور پر بری ہو گئے ہیں اور ہمارے وہ عالم صاحب جو لیڈر ہیں جمیعت علمائے اسلام کے آپ لوگوں کا شکریہ ادا کر رہے ہیں.میں نے عرض کیا کہ ان سے کہیں کہ ہمارا شکر یہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے.شکر یہ ادا کریں اس امام مہدی آخر الزمان کا، جس کی تعلیمات اور قوت قدسیہ کے فیض نے ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو ان اخلاق کو زندہ کرنے والی ہے جو آج دنیا سے نا پید ہیں.تو یہ تھا ان کے انصاف کا معیار.اور بڑے دبنگ، جرآت والے انسان تھے.گزشتہ سال جب میں نے ان کو امیر جماعت لاہور مقرر کیا ہے تو انہیں لکھا کہ اگر کوئی مشکل ہو براہِ

Page 287

272 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم راست رہنمائی لینی چاہتے ہوں تو بے شک لے لیا کریں اور بے شک مجھ سے رابطہ رکھیں.ایک دن ان کا فون آیا تو میں نے کہا کہ خیر ہے؟ تو کہنے لگے کہ اس اجازت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو آپ نے دی ہے میں نے کہا فون کر لوں اور اگر کوئی ہدایت ہو تو لے لوں.باقی کام تو صحیح چل رہے ہیں.اور آپ سے سلام بھی کر لوں.تو بڑے منجھے ہوئے شخص تھے.سب جو کارکنان تھے ، ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کو ساتھ لے کر چلنے والے تھے.لجنہ ضلع لاہور کی صدر نے مجھے بتایا کہ جب یہ مقرر ہوئے ہیں تو ہمیں خیال تھا کہ یہ کس شخص کو آپ نے امیر جماعت مقرر کر دیا ہے جس کو زیادہ تر لوگ جانتے بھی نہیں.لیکن ان کے ساتھ کام کرنے سے پتہ چلا کہ یقینا انہوں نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر دیا اور بڑے پیار سے ساروں کو ساتھ لے کر چلے.بے شمار خصوصیات کے حامل تھے.اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں میں ان کو جگہ دے.میجر جنرل ریٹائرڈ ناصر چوہدری صاحب دوسرے شہید میجر جنرل ریٹائرڈ ناصر چوہدری صاحب ابن مکرم چوہدری صفدر علی صاحب ہیں.یہ بہلول پور تحصیل پسر در ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.ان کے والد صاحب انسپکٹر تھے اور 1930ء میں ڈیوٹی کے دوران ہی وہ بھی شہید ہوئے تھے.اس وقت جنرل صاحب شہید کی عمر صرف 10 سال تھی.جنرل صاحب کی دادی جو تھیں وہ حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی رضاعی والدہ بھی تھیں.1942ء میں ان کو کمیشن ملا، بنگلور گئے.اور دوسری جنگ عظیم میں برما کے فرنٹیئر فورس محاذ پر تھے.43ء میں ان کا نکاح ہوا اور سید سرور شاہ صاحب نے ان کا نکاح پڑھا.اور اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میرے نکاح میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہوئے تھے.بہر حال فوج میں ترقی کرتے رہے اور 1971ء میں راجستھان میں اپنی بنائی ہوئی 33- Div کی کمانڈ کرتے رہے.وہیں ان کے گھٹنے میں گولی لگی جو ان کے جسم کے اندر ہی رہی ہے.ڈاکٹر اس کو نکال نہیں سکے.اس حملے کے دوران میں ان کا جو پرسنل سیکرٹری تھا وہ بھی زخمی ہوا.اس کو تو انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سے حیدرآباد بھیجا اور خود ٹرین کے ذریعے حیدر آباد پہنچے.ڈاکٹر کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دوبارہ چلنے لگ جائیں تو معجزہ ہو گا.اس لئے گولی بھی نہیں نکالی کہ خطرہ تھا کہ مزید خرابی پیدا ہو جائے گی.لیکن بہر حال بڑی قوت ارادی کے مالک تھے.ورزش کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی ٹانگ اس قابل ہو گئی کہ چلتے تھے اور اپنی کیٹیگری اے کر والی کیونکہ بی میں نوکر مل جاتا ہے.بیس سال تک یہ سیکرٹری اصلاح وارشاد ضلع لاہور رہے ہیں.1987ء سے لے کر شہادت کے وقت تک بطور صدر حلقہ ماڈل ٹاؤن خدمت سر انجام دیتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 91 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.مسجد ماڈل ٹاؤن میں ان کی شہادت ہوئی ہے.

Page 288

273 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت مخلص اور خلافت سے محبت کرنے والے تھے.نمازی، پر ہیز گار، جماعت کا در درکھنے والے انسان تھے ایک دفعہ ڈرائیور کی مشکل پیش آئی تو میں نے کہا کہ اپنی پلٹن سے ڈرائیور مانگ لیں تو جوابا کہا کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے.خود ہی خرچ کروں گا.ابتدائی دور میں 1943ء میں نظامِ وصیت میں شامل ہوئے.لاہور کے ایک نائب امیر ضلع تھے مکرم میجر لطیف احمد صاحب.وہ بھی فوج سے ریٹائر ہوئے تھے اور میجر تھے ، اور یہ فوج سے ریٹائر ہوئے اور جنرل تھے.وہ ان کو مذاق میں کہا کرتے تھے کہ دیکھو آج جنرل بھی میرے نیچے کام کر رہا ہے.کیونکہ وہ میجر صاحب نائب امیر تھے تو شہید مرحوم ہنس کے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو اطاعت ہے.جب میں احمدی ہوں اور جماعت کی خاطر کام کر رہا ہوں تو پھر میسجری اور جرنیلی کا کوئی سوال نہیں.مسجد نور میں جو ماڈل ٹاؤن کی مسجد ہے، عمو ما بال سے باہر کرسی پر بیٹھا کرتے تھے اور جو سانحہ ہوا ہے اس دن جب فائرنگ شروع ہوئی ہے تو ایک صاحب نے ، احمدی دوست روشن مرزا صاحب نے کہا کہ اندر آجائیں.تو انہوں نے کہا کہ آپ باقی ساتھیوں کو پہلے اندر لے جائیں اور پھر آخر میں خود اندر گئے اور ہال کے آخری حصہ میں لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے.اس کے بعد لوگ تہہ خانے کی طرف جاتے رہے اور ان کو بھی لے جانے کی کوشش کی.لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں، مجھے یہاں ہی رہنے دو.اسی دوران دہشتگرد نے ایک گرینیڈان کی طرف پھینکا جو ان کے قدموں میں پھٹا.گرینیڈ پھٹنے سے ان کے ساتھ والے بزرگ بھی نیچے گرے لیکن اس کے بعد اٹھ کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئے.پھر دہشتگرد نے ان پر فائرنگ کی جس سے گردن میں ایک گولی لگی اور وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کی حالت میں شہید ہوئے.جیسا کہ میں نے کہا ہے بڑی عاجزی سے اور بڑی وفا سے انہوں نے اپنی جماعت کی خدمات بھی ادا کی ہیں اور عہد بیعت کو بھی نبھایا ہے.شہادت کا رتبہ تو ان کو فوج میں بھی بعض ایسے حالات پیدا ہوئے جب مل سکتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کی کوئی نہ کوئی نیک ادا پسند آتی ہے.ان کی یہ ادا پسند آئی کہ شہادت کار تبہ تو دیا لیکن مسیح محمدی کے ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے دیا اور عبادت کرتے ہوئے دیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم اسلم بھروانہ صاحب پھر اسلم بھروانہ صاحب شہید ہیں جو مکرم مہر راجہ خان بھروانہ صاحب کے بیٹے تھے.شہید مرحوم کے والد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں بیعت کی.جھنگ کے رہنے والے تھے.ٹیکسلا یونیورسٹی سے مکینیکل انجنیئر نگ کی اور 1981ء سے پاکستان ریلوے میں ملازمت اختیار کی.مجلس انصار اللہ کے بڑے اچھے رکن

Page 289

274 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تھے ، جمعہ کے روز آپ عام طور پر مسجد میں کھڑے ہو کر اعلانات کیا کرتے تھے.اس وقت بھی خطبہ سے پہلے اعلان کر کے فارغ ہوئے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 59 سال تھی.ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے.نسیم مہدی صاحب اور پروازی صاحب کے یہ برادر نسبتی تھے ، بہنوئی تھے اور مولوی احمد خان صاحب ان کے خسر تھے.پاکستان ریلوے مکینیکل انجنیئرنگ میں چیف انجنیئر تھے اور بیسویں گریڈ کے افسر تھے اور اکیسویں گریڈ کے لئے فائل جمع کروائی ہوئی تھی اور چند روز میں ان کی ترقی ہونے والی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم رتبہ ان کو عطا فرمایا ہے جس کے سامنے ان گریڈوں اور ان ترقیوں کی کوئی حیثیت نہیں.ان کے بارے میں ڈیوٹی پر موجود ایک خادم نے بتایا کہ مکرم اسلم بھر وانہ صاحب کو تہہ خانہ میں بھجوانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہیں رہوں گا.آپ دوسروں کو تہہ خانے میں لے جائیں اور خود ہال سے باہر صحن میں نکلے تا کہ دوسروں کی خبر گیری کر سکیں.جب دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے دہشتگر دنے ان پر فائرنگ کر دی.شہید مرحوم اہم جماعتی عہدوں پر فائز رہے.سابق قائد علاقہ راولپنڈی اور لاہور کے علاوہ سیکرٹری تربیت نو مبائعین، سیکرٹری جائیداد لاہور ، لاہور کا ہانڈو گھر میں قبرستان ہے اس کے نگران ، بہت اخلاص سے دن رات محنت کرنے والے تھے اور بہت بہادر انسان تھے.جب کو ئٹہ میں بسلسلہ ملازمت تعینات تھے تو ضیاء الحق اس وقت صدر پاکستان تھے.ان کی آمد پر ریلوے آفیسر ہونے کی وجہ سے ان کو آگے سیٹ ملی.جب وہاں جو فنکشن تھا اس میں آگے بیٹھے ہوئے تھے ، پہلی لائن پر ، اور وہاں ان دنوں کلمے کی مہم بھی چل رہی تھی.مطلب ہے کہ احمدیوں کو منع کیا تھا، نیا نیا آرڈینس آیا تھا انہوں نے کلمے کا بیج لگایا ہوا تھا اور آکے آگے بیٹھ گئے.تو گورنر نے ان کو پیغام بھیجا کہ آپ یا تو پیچھے چلے جائیں یا گلے کا پیچ اتار دیں.تو انہوں نے جواب دیا کہ نہ تو میں کلمے کا پیج اتار سکتا ہوں اور نہ ڈر کی وجہ سے پیچھے جاسکتا ہوں.آپ اگر چاہیں تو مجھے بے شک گھر بھیج دیں یعنی نوکری سے فارغ کر دیں.بہر حال ڈٹے رہے.اس طرح کے ابتلاء کے دور میں لاہور کے قائد علاقہ رہے ہیں اور حالات کے پیش نظر احمدی نوجوانوں کو ڈیوٹی کے لئے ہمیشہ انہوں نے تیار کیا.خود بھی لمبے عرصے تک گیٹ پر ڈیوٹی دیتے رہے.بہت مدد کرنے والے اور خدمت خلق کرنے والے انسان تھے.شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ خلافت اور جماعت سے عشق تھا.جماعتی کام کو ترجیح دیتے تھے.زندگی وقف کرنے کی بہت خوشی تھی.ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کی تھی اور صحت کا خیال اس لئے رکھتے تھے کہ میں نے وقف کیا ہوا ہے اور جماعت کے کام آسکوں.باجماعت نماز کے پابند اور دیانتدار افسر تھے اس لئے ان کی ہر جگہ بہت عزت کی جاتی تھی.جب یہ تعلیم حاصل کر رہے تھے تو جماعتی طور پر ان کا خرچ اٹھایا جاتا تھا.اس لئے باقاعدگی سے کفالت یتامی میں چندہ ادا کیا کرتے تھے.یتامی کی طرف سے ان کا خرچ اٹھایا جاتا تھا.اس کے علاوہ

Page 290

275 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بھی دیگر چندہ جات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.شہید مرحوم کی ایک عزیزہ نے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ آواز آئی "شہیدوں کو چننے کے لئے تیار ہو جاؤ“.خود میں نے بھی ان کو دیکھا ہے بڑی عاجزی سے کام کرنے والے تھے اور مرکزی کارکنان، جس لیول کا بھی کارکن ہو ، اس کی بڑی عزت کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم اشرف بلال صاحب اشرف بلال صاحب شہید ابن مکرم محمد لطیف صاحب.شہید مرحوم کے سب رشتے دار اللہ کے فضل سے احمدی ہیں ہیں.ان کے نانا مکرم خدا بخش صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.یہ برطانیہ کے شہری تھے.ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے.مالی خدمات میں حصہ لینے والے تھے.انہوں نے شالیمار ٹاؤن کی بیت الذکر تعمیر کروا کر جماعت کو عطیہ کرنے کی سعادت پائی.انجنیئر نگ کے شعبہ سے وابستہ تھے.اپنی ور کشاپ فیکٹری بنائی ہوئی تھی.شہادت کے وقت ان کی عمر 56 سال تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی خدمات، سیکرٹری تحریک جدید وغیرہ کے طور پر بھی انجام دے رہے تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.موصی تھے.ان کے بائیں کندھے کے پیچھے سے گولی لگ کر سامنے دل سے نکل گئی تھی اور مضبوطی سے انہوں نے ہاتھ جسم کے قریب کر کے جیب میں ڈالا اور ڈرائیور کو فون کیا کہ مجھے گولی لگی ہے لیکن کسی کو بتانا نہیں ہے.اسی طرح ایک گولی ان کی گردن پر بھی لگی.ایک بچہ شار احمد نام کا جو بچپن سے ان کے پاس تھا.اس کے بارے میں دیکھنے والوں نے بتایا کہ ان کو گرتے ہوئے اس بچے نے بازوؤں میں لے لیا.لیکن وہ نیم مردہ حالت میں آگئے.نثار نے ان کا سر اٹھا کر جب ان کے دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کی ہے تو دہشتگر دنے ایک اور گولیوں کی بوچھاڑ کی جس سے وہ لڑکا نثار احمد بھی شہید ہو گیا اور وہ بھی شہادت پاتے ہوئے اپنی وفاداری کا ثبوت دے گیا.ہر وقت ذکرِ الہی اور استغفار میں مصروف رہتے تھے.نمازوں میں خوب روتے تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں میں وجہ پوچھتی تھی تو کہتے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں میں تو اس قابل نہ تھا.خدمتِ خلق اور مالی قربانی میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے.ہر ماہ کئی لاکھ روپیہ خدمتِ خلق کے لئے خرچ کر دیتے تھے.ایک فری ڈسپنسری چلا رہے تھے.بہت سے لوگوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے.جو کوئی بھی ان کے پاس مدد کے لئے آتا تو کہتے کہ اب کسی اور کے پاس نہیں جانا، میرے سے لیا کرو.ان کی اہلیہ کہتی ہیں اشرف صاحب کا رویہ دو ماہ سے مختلف ہو رہا تھا.جلدی جلدی تمام کام مکمل کروارہے تھے.یو.کے والے گھر کی دیوار اونچی کروائی اور مجھے نصیحت کی کہ اب تم ایک ملازمہ رکھ لو اور یہاں سے ایک لڑکی کے ویزے کا کام مکمل کروایا کہ اس کو ساتھ لے کر جانا ہے.شہادت سے پندرہ روز قبل مجھے مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے وصیت کی تو میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کر پاؤں گی.تو جو ابا کہا کہ نہیں تم اچھی طرح سنبھال لوگی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.☆ یہ وضاحت روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 19 جنوری 2011ءصفحہ 11 کے مطابق کی گئی ہے.

Page 291

خطبات مسرور جلد ہشتم 276 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 کیپٹن ریٹائر ڈ مرزا نعیم الدین صاحب کیپٹن ریٹائرڈ مرزا نعیم الدین صاحب شہید ابن مکرم مرزا سراج دین صاحب.یہ شہید فتح پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.خاندان میں سب سے پہلے ان کے دادا نے بیعت کی تھی.مرزا محمد عبد اللہ صاحب درویش قادیان آپ کے تایا تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 56 سال تھی اور دارالذکر میں شہید ہوئے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے ان کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جمعہ کے روز بیٹی کے گھر کھانا کھاتے تھے.زخمی حالت میں کوئی دوبجے کے قریب بیٹی کو گھر فون کیا کہ والدہ کا دھیان رکھنا.ان کی اہلیہ نے کہا پھر میں نے فون پکڑا، تو کہا کہ ٹھیک ہو ؟ میں نے کہا کہ ہاں جی ٹھیک ہوں.کہا کہ اللہ حافظ.بیٹے عامر کا پتہ کرواتے رہے.دو افراد کو فوجی نقطہ نظر سے جان بچانے کے طریقے بتائے جس سے بفضلہ تعالیٰ وہ دونوں محفوظ رہے.خود یہ محراب کے قریب دیوار کے ساتھ بیٹھی ہوئی حالت میں شہید ہو گئے.ان کے پیٹ میں گولی لگی تھی.اس سانحے میں ان کا بیٹا عامر نعیم بھی زخمی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اسے شفائے کاملہ عطا فرمائے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ہمارے دونوں خاندانوں میں ہماری ازدواجی زندگی ایک مثال تھی.پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور ہر بیٹی کی پیدائش پر یہ کہتے تھے کہ رحمت آئی اور ہر بیٹی کی پیدائش کے بعد ان کی ترقی ہوئی.یہ ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو بیٹیاں پیدا ہونے پر بعض دفعہ بیویوں کو کوستے ہیں اور یہ شکایات مجھے اکثر آتی رہتی ہیں.سپاہی سے یہ کیپٹن تک پہنچے اور دیانتداری کی وجہ سے لوگ ان کا بڑا احترام کرتے تھے.بڑے بہادر انسان تھے.1971ء کی جنگ اور کارگل کی لڑائی میں حصہ لیا.شہادت کی بڑی تمنا تھی.اللہ تعالیٰ نے یہ تمنا بھی ان کی اس رنگ میں پوری فرمائی.عبادت کرتے ہوئے ان کو شہادت کار تنبہ دیا.مکرم کامران ارشد صاحب کامران ارشد صاحب ابن مکرم محمد ارشد قمر صاحب.ان کے دادا مکرم حافظ محمد عبد اللہ صاحب اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی تھے.انہوں نے 1918ء میں بیعت کی.پارٹیشن کے وقت ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے آئے تھے.بوقت شہادت شہید کی عمر 38 سال تھی اور دارالذکر میں انہوں نے شہادت پائی.شہید مرحوم کی تعلیم بی اے تھی.کمپوزنگ کا کام کرتے تھے اور خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے.بطور سیکرٹری تعلیم جماعت کی خدمات سر انجام دے رہے تھے.اس کے علاوہmta لاہور میں 1994ء سے رضا کارانہ خدمت سر انجام دے رہے تھے.اس سے پہلے دارالذکر میں شعبہ کتب میں بھی خدمت سر انجام دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ فائرنگ شروع ہونے کے وقت بہادری کے ساتھ جان کی پر واہ کئے بغیر MTA کے لئے ریکارڈنگ کرنے کے لئے نکلے مگر اس دوران دہشتگردوں

Page 292

277 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کی فائرنگ کی زد میں آکر شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ بہت حلیم طبع انسان تھے.بچوں کی نماز کی خصوصی نگرانی کرتے اور پچھلے ایک ماہ سے دارالذکر کے کام میں مصروف تھے.شہادت سے تین چار روز قبل خلاف معمول نہایت سنجیدہ اور خاموش رہے.قرآنِ شریف کی تلاوت کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے.ان کے بارے میں جب ان کی والدہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جمعہ کے روز فجر کے بعد خواب میں دیکھا کہ گھر میں شادی کا ماحول ہے.باہر گلی میں احمدی عورتیں بیٹھی ہیں وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور میرے گلے میں ہار ڈالتی ہیں.ایک عورت نے مجھے گلے لگایا اور ایک گولڈن پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو مہندی کرلی ہے.آپ نے کب کرنی ہے ؟ میں نے کہا کہ گھر جا کر کرتے ہیں.یہ والدہ کی خواب تھی.شہید مرحوم کے بھائی نے اپنی خواب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کامران بہت سارے پھولوں میں کھڑا ہے.شہید کی والدہ لمبا عرصہ حلقہ دارالذکر کی صدر رہی ہیں اور والد سیکرٹری مال رہے ہیں.اس حادثے میں شہید کے ماموں مظفر احمد صاحب بھی شہید ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم اعجاز احمد بیگ صاحب اعجاز احمد بیگ صاحب شہید ابن مکرم انور بیگ صاحب.یہ شہید مرحوم قادیان کے قریب لنگر وال گاؤں کے رہنے والے تھے.والدہ کی طرف سے محمدی بیگم کے رشتے دار تھے.تیمور جان صاحب ابن عبد المجید صاحب (نظام جان) کے بہنوئی تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 39 سال تھی.مجلس خدام الاحمدیہ سے وابستہ تھے اور دارالذکر میں شہید ہوئے.اہلیہ ان کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ ان کو یورین انفیکشن تھی اور دو سال سے بیمار تھے.دو مہینے کے بعد پہلی دفعہ جمعہ پڑھنے گئے اور جمعہ سے پہلے خاص طور پر تیاری کی.دو ماہ کے بعد صحت میں بہتری آئی اور ان کو تیار ہوا دیکھ کر کہتی ہیں مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آج پہلے کی طرح اچھے لگ رہے ہیں.لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا.بہت سادہ اور متوکل انسان تھے.کبھی پریشان نہ ہوتے تھے.صابر تھے ، کبھی کسی کے منفی طرز عمل کے جواب میں رد عمل کے طور پر منفی طرز عمل نہیں دکھایا.آپ پرائیویٹ ڈرائیونگ کرتے تھے.ان دنوں جنرل ناصر صاحب شہید کے ڈرائیور کے طور پر کام کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند کرے.مکرم مرزا اکرم بیگ صاحب مرزا اکرم بیگ صاحب شہید ابن مکرم مرزا منور بیگ صاحب.یہ شہید مرحوم مر زا عمر بیگ صاحب کے پوتے تھے اور عمر بیگ صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے دست مبارک پر بیعت کی تھی.پارٹیشن کے وقت قادیان سے ہجرت کر کے آئے تھے.اور ایوب اعظم بیگ صاحب شہید آف واہ کینٹ ان کے حقیقی ماموں تھے.ان کے ماموں کو واہ کینٹ میں میر اخیال ہے 1997-98ء میں شہید کیا گیا.

Page 293

خطبات مسرور جلد هشتم 278 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 بوقتِ شہادت شہید کی عمر 58 سال تھی.مجلس انصار اللہ کے ممبر تھے اور دارالذکر میں ہی شہید ہوئے.موصوف کی شہادت گرینیڈ کے شیل لگنے سے ہوئی تھی.ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اپنے بیٹے کو فون کیا اور کہا کہ میں زخمی ہوں میرے لئے دعا کرنا اور اہلیہ کے ساتھ بات کی کہ میں معمولی سازخمی ہوں میرے لئے دعا کریں.بڑا بیٹا فرحان بھی مسجد میں ساتھ موجود تھا جو ان کو تلاش کر تا رہا لیکن اندازہ ہے کہ جب یہ افواہ مشہور ہوئی کہ دہشتگر دچلے گئے ہیں اور جو کارروائی وہ کر رہے ہیں ختم ہو گئی ہے تو باہر نکلتے ہوئے ان کو گولی لگی جو غلط اعلان تھا.بڑے عبادت گزار تھے پانچ وقت کے نمازی، بہت ہمت والے انسان تھے.ہر سال اعتکاف بیٹھا کرتے تھے.اصول پسند اور وقت کی پابندی کرنے والے تھے.ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ان کی وجہ سے ہمارا گھر گھڑی کی سوئی پر چلتا تھا.بزرگوں کا احترام کرنے والے تھے ، بچوں سے بہت پیار تھا.اپنے داماد سے اکثر ذکر کرتے کہ عبادت میں جو پانا چاہ رہا ہوں وہ ابھی تک نہیں ملا، شاید کچھ کمی ہے.شہید مرحوم نے کچھ عرصہ قبل خود خواب میں دیکھا کہ میں کسی پل پر چل رہا ہوں اور سات آٹھ قدم چلنے کے بعد پل ختم ہو گیا ہے.خود ہی اس کی تعبیر کی کہ زندگی تھوڑی رہ گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند مقام دیا.شہید مرحوم کے بچے بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی کی شہادت ہوتی تو کہا کرتے تھے کہ کبھی ایسا موقع آئے کہ ہم بھی شہید ہوں.اپنے ماموں کی شہادت پر کہا کہ کاش ان کو لگنے والی گولی مجھے لگی ہوتی.موصوف نے شادی سے پہلے خود خواب میں دیکھا کہ گھر میں صحن میں کھڑا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بالائی منزل سے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں حضور علیہ السلام کو دیکھ کر کہتا ہوں یہ تو حضور ہیں.خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت بھی کی.شہادت سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ سفید چاول کھارہاہوں.اکثر معبرین جو ہیں وہ اس کی یہ بھی تعبیر کرتے ہیں کہ کسی کی خواہش کا پورا ہونا اور بلند درجہ ہونا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم منور احمد خان صاحب منور احمد خان صاحب شہید ابن مکرم محمد ایوب خان صاحب.یہ ڈیریاں والا ضلع نارووال کے رہنے والے تھے.عرفان اللہ خان صاحب امیر ضلع نارووال کے کزن تھے اور قالینوں کا ان کا کاروبار تھا شہادت کے وقت ان کی عمر 61 سال تھی.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.اپنے چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے تھے.ان کی تدفین لاہور میں بانڈ و گجر قبرستان میں ہوئی ہے.بچوں کو خاص طور پر تربیتی کلاسز میں حصہ لینے کی تاکید کرتے.نیک انسان تھے، اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا.اہلیہ بتاتی ہیں کہ اس سے قبل جب حالات خراب ہوئے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میرے بچوں کو احمدیت اور خلافت سے منسلک رکھنا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی دعائیں اور خواہشات اپنی اولاد کے حق میں پوری فرمائے.

Page 294

خطبات مسرور جلد ہشتم 279 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 رم عرفان احمد ناصر صاحب عرفان احمد ناصر صاحب شہید ابن مکرم عبد المالک صاحب.شہید مرحوم کے دادا میاں دین محمد صاحب نے 1934ء میں بیعت کی تھی.بدو ملی ضلع نارووال کے رہنے والے تھے.ان کی پڑنانی محترمہ حسین بی بی صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹی صاحبزادی امۃ القیوم کی رضاعی والدہ تھیں.شہید مرحوم کے والد مکرم عبد المالک صاحب کو نمائندہ الفضل، نمائندہ تشحیذ و خالد برائے لاہور اور سیکرٹری تعلیم القرآن اور سیکر ٹری وصایا ضلع لاہور کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی.بوقت شہادت شہید کی عمر 31 سال تھی اور مجلس خدام الاحمدیہ میں بطور منتظم اشاعت خدمات سر انجام دے رہے تھے.موصوف نے دارالذکر میں شہادت پائی.ان کے بھائی بتاتے ہیں کہ ان کی ڈیوٹی عموماً ٹریفک کنٹرول پر ہوتی تھی.اس حوالے سے غالباً امکان یہی ہے کہ یہ سب سے پہلے شہید یا پہلے چند شہیدوں میں سے ہوں گے.نظام وصیت میں شامل تھے.اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا.کبھی کسی کام سے انکار نہیں کیا.نہایت خدمت گزار تھے.علاقے میں سماجی کارکن کے نام سے مشہور تھے.مکرم سجاد اظہر بھر وانہ صاحب مکرم سجاد اظہر بھر وانہ صاحب شہید ابن مکرم مہر اللہ یار بھروانہ صاحب.یہ محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید کے بھانجے تھے اور یہ بھی ضلع جھنگ کے رہنے والے تھے اور ریلوے میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کلرک کی پوسٹ پر ملازمت کر رہے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 30 سال تھی.خدام الاحمدیہ کے بہت ہی فعال اور ذمہ دار رکن تھے.ان کو متعد د تنظیمی عہدوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی.شہید مرحوم نے دارالذکر میں شہادت پائی اور نظام وصیت میں شامل تھے.ہمیشہ خدمت دین کا موقع تلاش کرتے رہے اور ہر آواز پر لبیک کہنے والے تھے.بہت مخلص احمدی تھے.آخری وقت تک فون پر معتمد صاحب ضلع شہباز احمد کو وقوعہ کے بارے میں اطلاع دیتے رہے اور اطلاع دیتے ہوئے شہید ہو گئے.ایک خادم شعیب نعیم صاحب نے بتایا کہ سجاد صاحب آئے اور مجھے کہتے ہیں کہ مجھے آج یہاں ڈیوٹی دینے دیں.میرا یہ دارالذکر میں آخری جمعہ ہے اس کے بعد میں نے گاؤں چلے جانا ہے.چنانچہ میری جگہ انہوں نے ڈیوٹی دی اور اس ڈیوٹی کے دوران شہید ہو گئے.گاؤں تو نہیں گئے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جگہ لے گیا جہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہے.بہت خدمت گزار تھے.اپنی ملازمت کے فوراً بعد جماعتی دفتر میں تشریف لے آتے تھے اور رات گیارہ بارہ بجے تک وہیں کام کرتے تھے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ سجاد زخمی حالت میں گھر آئے ہیں اور کہا ہے کہ میرے پیٹ میں شدید تکلیف ہے.میں نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو خون بہہ رہا تھا.اور شہید مرحوم کے پیٹ میں گولیاں لگی ہوئی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.

Page 295

خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم مسعود احمد اختر باجوہ صاحب 280 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 مسعود احمد اختر باجوہ صاحب شہید ابن مکرم محمد حیات باجوہ صاحب.شہید مرحوم کے والد صاحب R-191/7 ضلع بہاولنگر کے رہنے والے تھے.پیچھے سے یہ سیالکوٹ کے تھے.ان کے والد صاحب اپنے خاندان میں احمدیت کا با شمر پودا لگانے والے تھے.ان کی وجہ سے ان کے خاندان میں احمدیت آئی.انہوں نے حضرت مولوی عبد اللہ باجوہ صاحب آف کھیوہ باجوہ کے ذریعہ احمدیت قبول کی.آپ کے ایک بھائی چک میں صدر جماعت ہیں.آپ نے بہاولنگر سے تعلیم حاصل کی، پھر ربوہ سے پڑھے واپڈا کے ریٹائرڈ افسر تھے.1975ء سے لے کر 2000ء تک ملازمت کے سلسلہ میں کو ئٹہ رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے.2001ء میں لاہور شفٹ ہوئے.مجلس انصار اللہ کے محنتی اور فعال ممبر تھے.زعیم انصار اللہ اور امیر حلقہ دارالذکر تھے.معاون سیکر ٹری اصلاح و ارشاد واشاعت ضلع اور سیکرٹری تعلیم القرآن حلقہ دارالذکر بھی تھے.شہادت کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی.آپ نے دارالذکر میں شہادت پائی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ان کے بیٹے ڈاکٹر حامد صاحب امریکہ میں ہوتے ہیں انہوں نے بتایا کہ میں نے گرین کارڈ کے لئے اپلائی کرنا تھا مگر بوجوہ نہیں کر سکا.تو میرے والد نے مجھے ایک ہزار ڈالر بھجوائے اور کہا کہ فورا گرین کارڈ کے لئے اپلائی کرو جلدی میں پاکستان آنا پڑ سکتا ہے.چنانچہ میں نے اپلائی کر دیا اور پچیس دنوں میں ہی گرین کارڈ مل گیا.عموماً کہتے ہیں کہ چھ ماہ لگتے ہیں.اور اس طرح وہ والد کی شہادت پر پاکستان پہنچ بھی گئے.ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ شہادت سے پہلے جو زخم آنے سے خون بہہ رہا تھا تو ایک پڑوسی میاں محمود احمد صاحب کو کہا کہ میں گیا.میرے بچوں کا خیال رکھنا.انہوں نے کپڑا پھاڑ کر ان کے زخم کو باندھا.لوگوں کو آخر وقت تک سنبھالتے رہے.ایک نوجوان بچے کو سارے عرصے میں پکڑ کر اس کی حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا کہ اس کو نہ گولی لگ جائے.سب کا خیال کرتے رہے اور دعا کی تلقین کرتے رہے.خود بھی درود شریف پڑھتے رہے اور اپنے پڑوسی میاں محمود صاحب کو بھی تلقین کرتے رہے.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ہر بندے سے بے غرض تعلق تھا.جمعہ سے پہلے پڑوسیوں کو جمعہ کے لئے نکالتے اور ہر کسی سے گرمجوشی کے ساتھ ملتے اور طبیعت مزاحیہ بھی تھی ہر ایک کی دلجوئی فرماتے.مسعود صاحب کی آخری خواہش تھی کہ میرا بیٹا مربی بن جائے جو کہ جامعہ احمد یہ ربوہ میں اس سال درجہ خامسہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.قناعت پسند تھے ، چھوٹا سا گھر تھا لیکن بڑے خوش تھے.میرے خطبات جو ہیں بڑے غور سے سنتے تھے اور سنواتے تھے.اسی طرح مرکزی نمائندگان اور بزرگان سلسلہ کے بارے میں ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے گھر آئیں اور ان کو خدمت کا موقع ملے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی تمام دعائیں اور نیک خواہشات جو اپنے بچوں کے لئے اور واقف زندگی بچے کے لئے تھیں، ان کو بھی پورا فرمائے.اور اس واقف زندگی بچے کو وقف کا حق نبھانے کی توفیق بھی عطا فرمائے.

Page 296

خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم محمد آصف فاروق صاحب 281 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 محمد آصف فاروق صاحب شہید ابن مکرم لیاقت علی صاحب.ان کے والد صاحب نے 1994ء میں بیعت کی تھی.1994ء میں ایک آدمی ان کے والد صاحب کو مکرم مولانا مبشر کاہلوں صاحب کے پاس لے گیا.انہوں نے کہا کہ کوئی سوال پوچھیں تو انہوں نے کہا میرا کوئی سوال نہیں بس بیعت کرنا چاہتا ہوں.تو یہ ہے نیک فطر توں کا رد عمل.جب بات سمجھ آجاتی ہے تو کوئی سوال نہیں.جس پر اس کے بعد پھر پوری فیملی نے بیعت کر لی.بوقتِ شہادت موصوف کی عمر 30 سال تھی.انہوں نے بی اے ماس کمیونیکیشن Mass) (Communication میں کیا ہوا تھا.خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے.mta لاہور کے بڑے فعال کار کن تھے.سمعی بصری شعبہ میں خدمت سر انجام دے رہے تھے.موصی تھے.دارالذکر میں انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا.یہ شہید بھی دہشت گردوں کے حملے کے دوران mta کے لئے ریکارڈنگ کرنے کے لئے نکل پڑے اور اسی سلسلے میں اوپر کی منزل سے اتر رہے تھے کہ دہشت گرد کی گولی سے شہید ہو گئے.پچھلے تین سال مسلسل دارالذکر رہ کر کام کیا.شہادت سے ایک دن قبل اپنی ملازمت سے رخصت لی اور جمعہ کے لئے صبح گھر آئے اور کہا کہ میں آج سارے کام ختم کر آیا ہوں.اور کہا کرتے تھے کہ میرا جینا اور مرنا یہیں دارالذکر میں ہے.والد ، والدہ اور بھائی نے کہا کہ شہادت ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے.خدا کرے کہ یہ خون جماعت کی آبیاری کا باعث ہو.یہ ان کے جذبات ہیں.شہید بڑے نیک فطرت اور ہمدرد انسان تھے.ان کے تین ہی ٹھکانے تھے.یا دفتر یا دار الذ کر یا گھر.کبھی غصہ نہیں آتا تھا.ایک دفعہ ان کی والدہ نے پوچھا تمہیں بیٹا غصہ نہیں آتا؟ انہوں نے کہا ہم جیسے کام کرنے والوں کو کبھی غصہ نہیں آتا.والد صاحب نے بتایا کہ چند سال پہلے خواب میں دیکھا کہ کسی نے میرے دل پر گولی چلائی ہے، جس کی تعبیر میں نے اپنے اوپر لاگو کی.لیکن جب میرا بیٹا شہید ہوا تو پتہ لگا کہ اس کی یہ تھی.ان کی شہادت کے چند دن بعد 5 جون کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اہلیہ کو دوسرے بیٹے سے نوازا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو نیک ، صالح اور خادم دین بنائے اور وہ لمبی عمر پانے والے ہوں.مکرم شیخ شمیم احمد صاحب شیخ شمیم احمد صاحب شہید ابن مکرم شیخ نعیم احمد صاحب شہید مرحوم حضرت محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے تھے.اور حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے تھے.شہید مرحوم کے دادا مکرم شیخ محمد حسین صاحب حلقہ سلطان پورہ کے چالیس سال تک صدر رہے.ان کے دور میں ہی وہاں مسجد تعمیر ہوئی.شہید اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے.اور گھر کے واحد کفیل تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 38 سال تھی.بینک الفلاح“ میں

Page 297

282 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ملازمت کرتے تھے.خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے.آڈیٹر حلقہ الطاف پارک کے طور پر خدمت سر انجام دے رہے تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.مالی خدمات میں پیش پیش تھے.اخلاق میں بہت اعلیٰ تھے.ہمیشہ پیار اور محبت کا سلوک کیا کرتے تھے.ہر کام بڑی سمجھداری سے کرتے تھے.ان کے دفتر کے لوگ جو غیر از جماعت تھے، افسوس کرنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ ہر وقت ہنستے رہتے تھے اور ہنساتے رہتے تھے.والدہ بیمار تھیں تو ساری ساری رات جاگ کر خدمت کی.والد بیمار ہوئے تو ساری ساری رات جاگ کر انہیں سنبھالا.انہوں نے گھر کے باہر مین گیٹ کے اوپر کلمہ طیبہ لکھوایا ہوا تھا.مسجد میں جب واقعہ ہوا تھا تو پونے دو بجے اپنے کزن کو فون کیا اور واقعہ کی تفصیل بتائی.لوگوں نے بعد میں بتایا کہ امیر صاحب کے آگے کھڑے رہے.دہشتگر دنے ان سے کہا کہ تیرے پیچھے کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میری بیوی، میرے بچے اور میر اخدا.تو دہشتگر دنے کہا کہ چل پھر اپنے خدا کے پاس اور گولیاں برسادیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی والدہ کہتی ہیں میرا بیٹا بہت پیارا تھا.میرا بڑا خیال رکھتا تھا.ہر خوبی کا مالک تھا، ہر کسی کے کام آتا تھا.اہلیہ نے بتایا کہ میرے خسر بیان کرتے ہیں کہ ان کے بچے فوت ہو جاتے تھے اور ان کو ایک وقت میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہو گیا کہ بچے کیوں نہیں دیتا تو الفضل میں ایک خاتون کی تحریر پڑھی کہ جب اللہ مجھے بچے دے گا تو میں تحریک جدید کا چندہ ادا کروں گی.تو کہتے ہیں یہ پڑھ کر انہوں نے کہا کہ اے اللہ میں آج سے ہی تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ شروع کرتا ہوں تو مجھے بیٹا عطا کر، جس پر میرے خاوند کی پیدائش ہوئی تھی.ان کی اہلیہ کہتی ہیں ان کی زندگی چندوں ہی کی مرہونِ منت ہے.شہید مرحوم نے کچھ عرصہ پہلے خود اپنا ایک خواب سنایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے بچے مجھے دے دو جس پر آپ نے تمام بچوں کو وقف کر دیا جو وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.مکرم محمد شاہد صاحب محمد شاہد صاحب شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب.شہید مرحوم کے دادا مکرم فیروز دین صاحب 1935ء میں احمدی ہوئے.ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کے رہنے والے تھے.بوقتِ شہادت موصوف کی عمر 28 سال تھی.اور خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال ممبر تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ کے وقت محراب کے ساتھ امیر صاحب کے قریب ان کی ڈیوٹی تھی.اپنی ڈیوٹی پر کھڑے تھے.والد صاحب اور دوستوں کو شہادت سے قبل فون کر کے کہا کہ میں ان دہشتگردوں کو پکڑنے کی کوشش کروں گا.چہرے پر ناخن لگنے کے نشان تھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی ہو.شہادت سے چند دن قبل دوستوں سے کہا کہ میرے ساتھ اگر کسی کا لین دین ہو تو مکمل کر لیں.سگریٹ نوشی کی ان کو بری عادت تھی وہ بھی کئی مہینے پہلے چھوڑ دی تھی.اور آخری بات بھائی کے

Page 298

283 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ساتھ ہوئی، بڑی دھیمی آواز میں کہا کہ امی کو نہ بتانا وہ پریشان ہوں گی.نمازوں کے پابند تھے.ہر جمعہ سے قبل صدقہ دینا معمول تھا اور اب بھی جب جمعہ پڑھنے ڈیوٹی پر مسجد میں آئے ہیں تو ان کی جیب میں سے اس تاریخ کی بھی 50 روپے صدقہ کی رسید نکلی.علاقے کے چوکیدار نے رو رو کر بتایا کہ ہمیشہ مجھے جھک کر سلام کیا کرتے تھے.دونوں بھائی اکٹھے ہی ایک دکان کرتے تھے.چھوٹے بھائی نے ان کو کہا کہ آج مجھے جمعہ پر جانے دو.تو انہوں نے کہا نہیں اس دفعہ مجھے جانے دو، اگلی دفعہ تم چلے جانا.ان کی شادی نہیں ہوئی تھی.والدین جب بھی شادی کے لئے کہتے کہتے پہلے چھوٹی بہن کی شادی کر لوں.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں لیٹے.مکرم پروفیسر عبد الودود صاحب پروفیسر عبد الودود صاحب شہید ابن مکرم عبد المجید صاحب.یہ حضرت شیخ عبد الحمید صاحب شملوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے.اور گورنمنٹ کالج باغبان پورہ لاہور میں انگلش کے پروفیسر تھے.جماعتی خدمات میں فعال تھے.ان کی اہلیہ بھی اپنے حلقہ کی صد ر لجنہ اماءاللہ ہیں.خلافت جوبلی کے موقع پر ان کی کوششوں سے حلقہ میں بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا.بڑے حلیم طبع، ملنسار اور نفیس طبیعت کے مالک تھے.کلمہ کیس میں اسیر راہ مولیٰ بھی رہے.سات سال مقدمہ چلتا رہا.شہادت کے وقت ان کی عمر 55 سال تھی.انگلش کے پروفیسر تھے.ایل ایل بی بھی کیا ہوا تھا.موصوف مجلس انصار اللہ کے انتہائی محنتی اور مخلص کارکن تھے.نائب زعیم انصار اللہ لاہور چھاؤنی تھے.خدام الاحمدیہ میں بھی کام کرتے رہے.کچھ عرصہ صدر حلقہ مصطفیٰ آباد بھی خدمت انجام دی.موصی تھے اور دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.شہید موصوف دہشتگردوں کی فائرنگ کے دوران مربی ہاؤس کی طرف جارہے تھے کہ ایک دہشتگرد نے سامنے سے گولی چلائی اور موصوف مربی ہاؤس کے دروازے پر شہید ہو گئے.ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت محبت کرنے والے اور نرم طبیعت کے مالک تھے.کہتی ہیں کہ شادی کے 23 سالوں میں میرے خاوند نے کبھی کوئی ترش لفظ نہیں بولا.بچوں سے دو معاملوں میں سختی کرتے تھے.نماز کے معاملے میں اور گھر میں جاری ترجمۃ القرآن کلاس میں شرکت کے بارے میں.اور ترجمہ قرآن کی کلاس جو لیتے تھے اس میں تقریباً سترہ سپارے پڑھ لئے تھے.کہتی ہیں حدیث کا بھی گھر میں با قاعدہ درس ہو تا تھا.چھوٹی عمر سے ہی بحیثیت عہدیدار کے خدمت کا موقع ملتا رہا.کام کرنے کا جذبہ بہت زیادہ تھا.عملی کام کے قائل تھے.بڑے بھائیوں نے بتایا کہ بھائیوں سے دوستانہ تعلقات تھے.بھائیوں میں ہر کام اتفاق رائے سے وتا.کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو شہید مرحوم کے مشورے سے مستفید ہوتے.چھوٹے بھائی کا مکان بن رہا تھا.سب بھائیوں نے قرض کے طور پر اس کو رقم دینے کا فیصلہ کیا اور مرحوم نے اپنے حصہ کی رقم سب سے پہلے ادا کی.اور شہید مرحوم ہم بھائیوں سے کہا کرتے تھے کہ جہاں بھی کوئی ضرورت مند ہو اس کی مدد کر کے مجھ سے رقم لے لیا کرو.اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے.

Page 299

خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم ولید احمد صاحب 284 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 ولید احمد صاحب شہید ابن مکرم چوہدری محمد منور صاحب.شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری عبد الحمید صاحب سابق صدر جماعت محراب پور سندھ نے 1952ء میں احمدیت قبول کی تھی.10 اپریل 1984ء کو محراب پور میں ہی ان کے دادا نے جامِ شہادت نوش کیا.اسی طرح شہید مرحوم کے نانا مکرم چوہدری عبد الرزاق صاحب سابق امیر جماعت نوابشاہ سندھ کو 7 اپریل 1985ء کو معاندین احمدیت نے شہید کر دیا.ان کے والد صدر عمومی ربوہ کے دفتر میں اعزازی کارکن ہیں.شہادت کے وقت عزیز شہید کی عمر ساڑھے سترہ سال تھی اور میڈیکل کالج کے فرسٹ ائیر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.وقف نو سکیم میں شامل تھا.موصی بھی تھا.اس کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے.اور لاہور کا جو سانحہ ہوا ہے اس میں سب سے کم عمر یہ عزیز بچہ ہے.شہادت والے دن موصوف جمعہ کی ادائیگی کے لئے کالج سے سیدھے اپنے دوسرے احمدی ساتھی طالبعلموں سے پہلے دارالذکر پہنچ گئے.سانحہ کے دوران موبائل پر رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ میری ٹانگ میں گولی لگی ہے اور متعدد شہیدوں کی لاشیں میرے سامنے پڑی نظر آرہی ہیں.دعا کریں خدا تعالیٰ فضل فرمائے.انہوں نے ایف ایس سی ربوہ سے کی تھی.لاہور میں داخلہ ہوا.جب آخری بار ربوہ سے لاہور گئے تو اپنے ساتھی خدام دوستوں سے باری باری گھر جا کر ملے اور سب سے کہا مجھے مل لیں میرا کیا پتہ کہ میں شہید ہو جاؤں.شہید مرحوم پنج وقتہ نمازی تھے.فرمانبر دار تھے، سلجھے ہوئے تھے.راستے میں آتے جاتے آنے والے ساتھیوں کو اپنے دوستوں کو مسجد میں لے کر جایا کرتے تھے.کم گو اور ذہین نوجوان تھے.اپنی تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے.شہادت کے ضمن میں شہید مرحوم کے بچپن کی سیکر ٹری وقف نو نے بتایا کہ عزیزم ولید احمد کے بچپن کا ایک واقعہ ہے جب اس کی عمر گیارہ سال کی تھی تو ایک دن میں نے دورانِ کلاس سب وقف نو بچوں سے فرداً فرداً پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے ؟ جب عزیزم ولید کی باری آئی تو کہنے لگا کہ میں بڑا ہو کر اپنے دادا جان کی طرح شہید بنوں گا.شہید مرحوم کی اپنی تعلیمی ادارے میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہادت کے بعد تدفین والے دن اس کے اساتذہ اور طلباء نے ایک ہی دن میں تین دفعہ تعزیتی تقریب منعقد کی جس میں شامل ہونے والے اکثر غیر از جماعت طالب علم تھے.شہید مرحوم کے استاد نے بذریعہ فون اطلاع دی کہ ہم ٹیچر اور ہمارے طالب علم تدفین میں شامل ہونے کے لئے ربوہ آنے کا پروگرام بنا چکے تھے کہ تمام طالب علم بلک بلک کر زار و قطار رونے لگے اور خدشہ پیدا ہوا کہ یہی حال رہا تور بوہ جا کر ولید کا چہرہ دیکھ کر غم کی شدت سے بالکل بے حال نہ ہو جائیں اس لئے ہم نے مجبوراً یہ پروگرام ملتوی کر دیا اور کسی اور وقت آئیں گے.اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول فرماتے ہوئے ہزاروں لاکھوں ولید جماعت کو عطا فرمائے.

Page 300

خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم محمد انور صاحب 285 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 محمد انور صاحب شہید ابن مکرم محمد خان صاحب.ان کا تعلق شیخو پورہ سے تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورِ خلافت میں انہوں نے بیعت کی.ابتدائی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گئے.دس سال قبل ریٹائر ڈ ہوئے تھے اور ساتھ ہی بیت نور ماڈل ٹاؤن میں بطور سکیورٹی گارڈ خدمت کا آغاز کیا اور تاوقت شہادت اس فریضے کو احسن رنگ میں انجام دیا.شہادت کے وقت ان کی عمر 45 سال تھی.مجلس ماڈل ٹاؤن میں ہی انہوں نے (جیسا کہ وہاں سکیورٹی گارڈ تھے ) شہادت پائی.موصی تھے.اس واقعہ میں ان کا بیٹا عطاء الحئی بھی شدید زخمی ہوا جو ہسپتال میں ہے.شہید مرحوم بحیثیت سیکیورٹی گارڈ بیت نور کے مین گیٹ پر ڈیوٹی کر رہے تھے کہ دہشتگرد کو دور سے آتے دیکھا تو اپنے ساتھ کھڑے ایک خادم کو کہا کہ یہ آدمی مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا.تو خادم نے کہا کہ آپ کو تو یوں ہی ہر ایک پر شک ہو رہا ہوتا ہے.انہوں نے کہا نہیں، میں فوجی ہوں میں اس کی چال ڈھال سے پہچانتا ہوں.بہر حال اسی وقت دہشتگرد قریب آیا اور اس نے فائرنگ شروع کر دی.انہوں نے بھی مقابلہ کیا.ایک خادم نے ان کو کہا کہ گیٹ کے اندر آجائیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں، شیر وں کا کام پیچھے ہٹنا نہیں.اور ساتھ ہی جو ان کے پاس ہتھیار تھا اس سے فائرنگ کی.دہشتگر دزخمی ہو گیا.لیکن پھر دوسرے دہشتگر دنے گولیوں کی ایک بوچھاڑ ماری جس سے وہیں موقع پر شہید ہو گئے.بڑے خدمت دین کرنے والے تھے.کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.مسجد کے غسل خانے خود صاف کرتے، جھاڑو دیتے.اور جب مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی تو چو میں چوبیس گھنٹے مسلسل وہیں رہے ہیں.والدین کی بھی ہر ممکن خدمت کرتے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں تہجد میں پہلے با قاعدگی نہیں تھی.ایک ماہ سے مسلسل تہجد پڑھ رہے تھے.اور بچوں سے پہلا سوال یہی ہو تا تھا کہ نماز کی ادائیگی کی ہے یا نہیں اور قرآنِ کریم پڑھا ہے کہ نہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم ملک انصار الحق صاحب ملک انصار الحق صاحب شہید ابن مکرم ملک انوار الحق صاحب.یہ بھی قادیان کے ساتھ فیض اللہ گاؤں ہے وہاں کے رہنے والے ہیں.اور پاکستانی آرمی کے ایک ڈپو میں سٹور کیپر تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 63 برس تھی.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.ساڑھے آٹھ بجے یہ نیا سوٹ پہن کر کسی کام سے نکلے اور وہیں سے نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے دارالذکر میں چلے گئے.انہوں نے کبھی بھی نماز جمعہ نہیں چھوڑی تھی.سامنے ہی کرسی پر بیٹھے تھے.گرینیڈ پھٹنے سے زخمی ہو گئے اور اس طرح جسم میں مختلف جگہوں پر پانچ گولیاں لگیں.زخمی حالت میں میو ہسپتال لے گئے جہاں پہنچ کر شہید ہو گئے.ان کی بہو بتاتی ہیں کہ میرے ماموں بھی تھے اور خسر بھی.وہ شہادت کے قابل تھے.دل کے صاف تھے ، عاجزی بہت زیادہ تھی.کبھی کسی سے لڑائی نہیں چاہتے تھے، ہمیشہ

Page 301

286 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم صلح میں پہل کرنے والے تھے.ان کی صرف معمولی تنخواہ تھی.جو پنشن ملتی تھی اس سے لوگوں کا راشن وغیرہ لگایا ہوا تھا.جماعت سے انتہائی طور پر وابستہ تھے اور خلافت سے بہت محبت کرتے تھے.ماں باپ کی خدمت کرنے والے تھے.اسی وجہ سے ملازمت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی ریٹائرمنٹ لے لی اور خدمت کے لئے آگئے.ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ عادت کے اتنے اچھے تھے کہ اگر اپنا اور اپنے بچوں کا قصور نہ بھی ہو تا تو رشتے داروں کے ساتھ صلح کے لئے بچوں سے بھی معافی منگواتے تھے.خود بھی معافی مانگ لیتے تھے.شہادت سے دو مہینے قبل اپنے خاندان کو بعض مسائل کے حوالے سے پانچ صفحات کا نصیحت آمیز خط لکھا اور اس میں اپنے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ میں اپنے بچوں سے بھی معافی مانگتا ہوں کہ اس وجہ سے میں تم سے معافی منگواتا تھا اگر چہ مجھے پتہ بھی ہو تا تھا کہ تمہاری غلطی نہیں ہے.شہادت کے بعد کچھ لوگ ملنے آئے تو کہتے ہیں کہ انہوں نے تو ہمارا راشن لگایا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.مکرم ناصر محمود خان ناصر محمود خان صاحب شہید ابن مکرم محمد عارف نیم صاحب.شہید مرحوم کے والد محمد عارف نیم صاحب نے 1968ء میں بیعت کی تھی.ضلع امر تسر کے رہنے والے تھے.پارٹیشن کے بعد یہ رائے ونڈ آگئے.پھر لاہور میں سیٹ ہو گئے.شہید مرحوم خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال کار کن تھے.پر نٹنگ پریس ایجنسی کا کام کرتے تھے.ان کے والد بھی بطور سیکرٹری زراعت اور والدہ بطور جنرل سیکرٹری ضلع لاہور خدمت سر انجام دے رہے ہیں.خود یہ بطور ناظم عمومی اور نائب قائد اول حلقہ فیصل ٹاؤن خدمات سر انجام دے رہے تھے.ناظم عمومی بھی تھے اور نائب قائد اول بھی تھے.نظام وصیت میں شامل تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 39 سال تھی.شہید مرحوم کے بھائی مکرم عامر مشہود صاحب بتاتے ہیں کہ دارالذکر میں جب دہشتگردوں نے حملہ کیا تو میں ہال کے اندر تھا اور بھائی باہر سیڑھیوں کے پاس تھے.دورانِ حملہ میری ان سے فون پر بات ہوئی اور بھائی نے بتایا کہ میں محفوظ ہوں سیڑھیوں کے نیچے کافی لوگ موجود تھے.دہشت گرد نے ان کی طرف گرینیڈ پھینکا تو بھائی نے گرینیڈ اٹھا کر واپس پھینکنا چاہا.یہ وہی نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ پر گرینیڈ لے لیا تا کہ دوسرے زخمی نہ ہوں یا ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے.لیکن اسی دوران گرینیڈ ان کے ہاتھ میں پھٹ گیا اور وہیں ان کی شہادت ہو گئی.دوسروں کو بچاتے ہوئے شہید ہوئے.شہید مرحوم نے گھر میں سب سے پہلے وصیت کی تھی اور گھر کے سارے کام خود سنبھالتے تھے.رابطہ اور تعلق بنانے میں بڑے ماہر تھے.کہتے ہیں ان کی شہادت پر غیر از جماعت دوست بھی بہت زیادہ ملنے آئے.بھائی نے بتایا کہ جب ہم نے کار خریدی تو عید وغیرہ پر جاتے ہوئے پہلے

Page 302

خطبات مسرور جلد ہشتم 287 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 ان لوگوں کو مسجد پہنچاتے تھے جن کے پاس کوئی سواری نہ ہوتی تھی اور دوسرے چکر میں ہم سب گھر والوں کو مسجد لے کر جاتے تھے.شہادت سے ایک ہفتہ قبل خود خواب دیکھا.خواب میں مجھے دیکھا کہ میں نے ان کی کمر پر تھپکی دی اور کہا کہ فکر نہ کر وسب اچھا ہو جائے گا.اللہ کرے کہ یہ قربانیاں جماعت کے لئے مزید فتوحات کا پیش خیمہ ہوں.اللہ تعالیٰ جماعت کو خوشیاں دکھائے.مکرم عمیر احمد ملک صاحب عمیر احمد ملک صاحب شہید ابن ملک عبد الرحیم صاحب.حضرت حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہید مرحوم کے پر دادا تھے.یہ لوگ قادیان کے قریب فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے.ان کے دادا ملک حبیب الرحمن صاحب جامعہ احمدیہ میں انگلش پڑھانے کے علاوہ سکول اور کالج وغیرہ میں بھی پڑھاتے رہے ہیں.ٹی آئی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے.حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ سلسلہ گولڈ کوسٹ، شہید مرحوم کے والد مکرم عبد الرحیم صاحب کے تایا تھے.شہید مرحوم خدام الاحمدیہ کے بہت ہی فعال رکن تھے.سات سال سے ناظم اشاعت ضلع لاہور کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے.اور AACP جو جماعت کی کمپیوٹر پروفیشنلز کی ایسوسی ایشن ہے، اس کے آڈیٹر رہے.تین سال سے یہ لاہور چیپٹر کے صدر بھی تھے.نیز ان کی والدہ بھی بطور صدر لجنہ اماءاللہ حلقہ فیصل ٹاؤن خدمات سر انجام دے رہی ہیں.نظامِ وصیت میں شامل تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 36 سال تھی.مسجد ماڈل ٹاؤن میں گولیاں لگیں، زخمی حالت میں جناح ہسپتال پہنچ کر جامِ شہادت نوش فرمایا.جمعہ کے روز خلافِ معمول نیا سفید جوڑا پہن کر گھر سے نکلے اور والد صاحب نے کہا کہ آج بڑے خوبصورت لگ رہے ہو.دفتر کے ملازم نے بھی یہی کہا.مسجد بیت نور میں خلاف معمول پہلی صف میں بیٹھے.دہشت گرد کی گولی لگنے سے ہال کے اندر دوسری صف میں الٹے لیٹے رہے.فون پر اپنے والد سے باتیں کرتے رہے.وہ بھی وہیں تھے اور کہا کہ اللہ حافظ ، میں جارہا ہوں اور مجھے معاف کر دیں.اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا اور پانی مانگا.ڈائس سے اٹھا کر ایک کارکن نے ان کو پانی دیا.آواز بہت ضعیف اور کمزور ہو گئی تھی.بہر حال ایمبولینس کے ذریعے ان کو ہسپتال لے جایا گیا.بلڈ پریشر بھی نیچے گرتا چلا جارہا تھا.جب ہسپتال پہنچے ہیں تو وہاں والدہ کو آنکھیں کھول کر دیکھا اور والدہ سے پانی مانگا.والدہ جب چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھیں تو ان کی انگلی پر کاٹا صرف یہ بتانے کے لئے کہ میں زندہ ہوں اور پریشان نہ ہوں.اندرونی کوئی انجری (Injury) تھی جس کی وجہ سے بلیڈنگ ہو رہی تھی.اور آپریشن کے دوران ہی ان کو شہادت کا رتبہ ملا.ان کے اچھے تعلقات تھے.واپڈا کے کنٹریکٹر تھے ، کنسٹرکشن کے ٹھیکے لیتے تھے.خدمت خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا شہادت پر آنے

Page 303

288 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم والے لوگوں نے بتایا کہ عمیر کا معیار بہت اچھا تھا اور ان کے سامنے کوئی بھی چیز مسئلہ نہیں ہوتی تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اقبال عابد صاحب مربی سلسلہ عمیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عمیر احمد ابن ملک عبدالرحیم صاحب دہشتگردانہ حملہ میں اللہ کے پاس چلا گیا.جب اس کو گولیاں لگی ہوئی تھیں تو اس عاجز کو فون کیا اور کہا مربی صاحب! خداحافظ ، خداحافظ ، خدا حافظ اور آواز بہت کمزور تھی.پوچھنے پر صرف اتنا بتایا کہ مسجد نور میں حملہ ہوا ہے اور مجھے گولیاں لگی ہوئی ہیں.گویا وہ خدا حافظ کہنے کے بعد ، کہنا چاہتا تھا کہ ہم تو جارہے ہیں لیکن احمدیت کی حفاظت کا بیڑا اب آپ کے سپرد ہے.ہمارے خون کی لاج رکھ لینا.انشاء اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کی قربانی کی لاج پیچھے رہنے والا ہر احمدی رکھے گا اور آنحضرت صلی للی نیم کے نام کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا.مکرم سر دار افتخار الغنی صاحب سر دار افتخار الغنی صاحب شہید ابن مکرم سردار عبد الشکور صاحب.یہ حضرت فیض علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے تھے.حضرت فیض علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ افریقہ میں حضرت رحمت علی صاحب کے ہاتھ پر احمدی ہوئے.افریقہ سے واپسی پر امر تسر کی بجائے قادیان میں ہی سیٹ ہو گئے.شہید نظام وصیت میں شامل تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 43 سال تھی.مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں شہادت پائی.عموما مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جمعہ ادا کرتے تھے.لیکن وقوعہ کے روز نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اپنے دفتر سے ( اپنے کام سے ) مسجد دار الذ کر چلے گئے.شہادت سے قبل سر دار عبد الباسط صاحب (جوان کے ماموں ہیں) سے بھی فون پر بات ہوئی.گھر میں بھی فون کرتے رہے اور يَا حَفِيْظُ يَا حَفِيظٌ کا ورد کرتے رہے.ماموں کو بھی دعا کے لئے کہتے رہے کہ دعا کریں دہشتگردوں نے ہمیں گھیر اڈالا ہوا ہے.اہلیہ محترمہ کو پتہ چلا کہ مسجد پر حملہ ہوا ہے تو آپ کو فون کیا اور کہا کہ آپ جمعہ کے لئے نہ جائیں.لیکن پتہ لگا کہ آپ تو دار الذکر میں موجود ہیں.گھر میں بھی دعا کے لئے کہتے رہے اور ساڑھے تین بجے ایک دوست جو ملٹری میں ہے ان کو فون کر کے کہا کہ اس طرح کے حالات ہیں، پولیس تو کچھ نہیں کر رہی، تم لوگ مسجد میں لوگوں کی مدد کے لئے آؤ.شہید ہونے تک دوسروں کو بچانے کی کوشش کرتے رہے.اور انہوں نے موقع پاتے ہی بھاگ کر ایک دہشتگرد کو پکڑا تو دوسرے دہشتگرد نے فائرنگ کر دی.جس دہشتگرد کو پکڑا تھا اس نے اپنی خود کش جیکٹ بلاسٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پوری طرح نہیں بلاسٹ ہو سکی، دھما کا تھوڑا ہوا لیکن اس دھماکے سے شہید ہو گئے اور دہشتگر دشدید زخمی ہو گیا.لوگ کہتے ہیں کہ یہ آسانی سے بچ سکتے تھے اگر یہ اس وقت ایک طرف ہو جاتے اور دہشتگرد پر نہ جھپٹتے.

Page 304

289 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم شہید مرحوم کو خدمت خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا.جب بھی کسی کو ضرورت پڑتی ، خون کا عطیہ دے دیا کرتے.ہمیشہ اپنی تکلیف کے باوجود دوسروں کی مدد کرتے.رویہ کے بہت اچھے تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں مجھے کبھی کسی دوست کی ضرورت نہیں پڑی.اہلیہ کہتی ہیں مجھے کبھی کوئی محسوس نہیں ہوا کہ مجھے کوئی دوست یا سہیلی بنانی چاہئے.گھر کے سارے کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتے تھے.یہاں تک کہ برتن بھی دھلوا دیتے تھے.بڑی سادہ طبیعت کے مالک تھے.نیکی کو ہمیشہ چھپا کر رکھتے تھے.استغفار اور درود شریف بہت پڑھتے تھے.یوں لگتا تھا کہ انگلیوں میں تسبیح کر رہے ہیں.بے لوث خدمت کرنے والے تھے ، رحم دل تھے.ہر رشتے کے لحاظ سے وہ بہترین تھے اور بطور انسان بھی.بچوں سے بھی دوستانہ تھے.والدہ کے بہت خدمت گزار تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے جو پیچھے رہنے والے لواحقین ہیں ان کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلے سے اس صدمے کو برداشت کرنے کی توفیق دے.نیکیوں پر قائم رکھے.آئندہ انشاء اللہ باقی شہداء کا ذکر کروں گا.کیونکہ یہ بڑا لمباذکر چلے گا.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 27 مورخہ 2 جولائی تا 8 جولائی 2010 صفحہ 1175)

Page 305

خطبات مسرور جلد ہشتم 290 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 2010ء بمطابق 18 احسان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: شہدائے لاہور کا ذکر جاری ہے.اسی سلسلے میں کچھ اور شہداء کا ذکر کرتاہوں.مکرم عبد الرشید ملک صاحب مکرم عبد الرشید ملک صاحب شہید ابن مکرم عبد الحمید ملک صاحب.شہید مرحوم لالہ موسیٰ کے رہنے والے تھے.ان کے دادا حضرت مولوی مہر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے 313 صحابہ میں شامل تھے.شہید کی عمر شہادت کے وقت 64 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.مجلس انصار اللہ کے فعال رکن تھے.وصایا و تعلیم القرآن کے سیکرٹری تھے.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے.عموماً کڑک ہاؤس میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے اور کافی عرصہ بعد دارالذ کر گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ دینا تھا.جمعہ پر جانے سے قبل اہلیہ کو کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ کبھی کبھی بڑی مسجد میں جمعہ پڑھنا چاہئے اس لئے میں آج دارالذکر جارہا ہوں.مین ہال میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے.گھر فون کیا کہ میرے پاؤں میں گولی لگی ہے.اہلیہ کہتی ہیں ان کی بات کے دوران گولیوں کی آوازیں آتی رہیں.اپنا فون تو تھا نہیں، کسی کے فون سے بات کر رہے تھے.بہر حال پھر رابطہ ختم ہو گیا.اہلیہ کا بھی بڑا صبر اور حوصلہ ہے.بیان کرتی ہیں کہ ان کی شہادت پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.اللہ تعالیٰ پوری جماعت کا حامی و ناصر ہو اور بہت ترقیات عطا فرمائے.یہ بھی لجنہ کی کار کن ہیں.کہتی ہیں کہ بطور باپ بہت شفیق انسان تھے.تین بیٹیاں ہیں اور کبھی اظہار نہیں کیا کہ بیٹا نہیں ہے.بیٹیوں پر بہت توجہ دی اور دینی اور دنیاوی تعلیم میں ہمیشہ آگے رکھا اور تینوں بچیوں سے برابری کا سلوک کیا.ایک نو مبائع بچی جو گھر کا کام کرنے کے لئے آتی تھی، کو بھی تبلیغ کرتے رہے.اس کو پالا، اس کی بیعت کروائی اور اس کی شادی کے بھی انتظامات کئے تھے.اور بڑی پیار کرنے والی طبیعت تھی.دعا گو، سادہ، متقی، ملنسار اور اطاعت گزار شخص تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.

Page 306

خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب 291 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب شہید ابن مکرم منیر شاہ ہاشمی صاحب.شہید مکرم شاہ دین ہاشمی صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑ پوتے تھے اور شہید کے والد مکرم محمد منیر شاہ ہاشمی صاحب ایبٹ آباد میں جنرل پوسٹ ماسٹر تھے.1974ء کے فسادات میں آپ کے گھر کو مخالفین نے جلا دیا.ریڈیو پاکستان پشاور سٹوڈیو میں ملازمت کرتے تھے ، خبریں پڑھتے تھے.نوائے وقت اخبار میں کالم نویسی بھی کرتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 78 سال تھی.مجلس انصار اللہ کے بڑے فعال کارکن تھے.16 سال تک صدر حلقہ بھی رہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.اور آپ کی شہادت بھی دارالذکر لاہور میں ہوئی ہے.تین گولیاں آپ کو لگی تھیں.بہت ہی پیار کرنے والے تھے ، جماعت کا درد رکھنے والے تھے.خدمت دین کا شوق رہتا تھا.اور بیوی بچوں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے.صدر شمالی چھاؤنی کو جمعہ کے روز فون کیا کہ میرے پاس جماعت کی ایک امانت ہے.یہ رقم قومی بچت سے پرافٹ ( Profit) ملا تھاوہ آکر لیں جائیں.شہادت کے وقت بھی یہ رقم ان کی جیب میں موجود تھی اور گولی لگنے سے اس رقم میں (پیسوں میں بھی) نوٹوں پر بھی سوراخ ہوئے ہوئے تھے.ہر کام میں وقت کی پابندی کا بہت خیال تھا، لاہور میں وہاں کے ایک صدر صاحب نماز سینٹر بنانا چاہتے تھے لیکن نقشہ کی اجازت نہیں ملتی تھی.انہوں نے راتوں رات خود ہی پنسل سے نقشہ بنایا اور اس کی منظوری لے لی.غیر احمدی بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے.سارے محلے والے تعزیت کے لئے گھر آئے.بہت بہادر تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.اپنے حلقے کو جماعتی طور پر بڑا اونچار کھا ہوا تھا.ان کے بارے میں عطاء القادر طاہر صاحب کا ایک خط مجھے ملا.وہ کہتے ہیں کہ انتہائی مہمان نواز، ملنسار، منکسر المزاج تھے.تلاوت اور نظم پڑھتے تھے.کمزوری صحت کے باعث چلنے پھرنے میں دشواری آتی تھی لیکن صدارت سے معذوری ظاہر کرنے کے باجود جماعتی کاموں کے لئے ہر وقت تیار تھے.خلافت سے آپ کو والہانہ عشق تھا اور ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.مکرم مظفر احمد صاحب مکرم مظفر احمد صاحب شہید ابن مکرم مولانا ابراہیم صاحب قادیانی درویش مرحوم.شہید مرحوم کے خسر حضرت میاں علم دین صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور ان کے والد سابق ناظر اصلاح و ارشاد و اشاعت قادیان کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا.شہید مرحوم اپنے حلقے کے امام الصلوۃ تھے.لمبے عرصے تک مجلس دھرم پورہ کے سیکرٹری مال رہے.شہادت کے وقت آپ کی عمر 73 سال تھی اور ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی.باقاعدہ نمازیں دارالذکر میں ادا کرتے تھے.بارہ بجے جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے گھر سے نکل گئے.بیٹا نماز جمعہ کے لیے مسجد بیت النور ماڈل

Page 307

292 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ٹاؤن گیا.چھ بجے معلوم ہوا کہ مظفر صاحب شہید ہو گئے ہیں.وہاں مردہ خانے میں ان کی نعش ملی.پانچ گولیاں ان کو لگی ہوئی تھیں.زخمی ہونے کی حالت میں ان کو دیکھنے والے جو ان کے قریبی تھی انہوں نے بتایا کہ خود بھی درود شریف پڑھ رہے تھے اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے کہ درود پڑھو اور استغفار کرو.ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ مظفر صاحب بچپن سے ہی نماز تہجد ادا کرنے کے عادی تھے.کبھی تہجد نہیں چھوڑی.بچوں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے.اونچی آواز میں تلاوت کرتے تھے.بلکہ پانچوں وقت نماز کے بعد تلاوت کیا کرتے تھے.کچھ دن قبل روزے بھی رکھے.تھوڑے تھوڑے دنوں بعد روزے رکھتے رہتے تھے.ہر ایک کو یہی کہتے تھے کہ میرے لئے دعا کرو کہ میرا انجام بخیر ہو.گھر کی سب ذمہ داریاں پوری کرتے تھے.نہ کبھی جھوٹ بولا نہ جھوٹ برداشت کر سکتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا رتبہ دیا اور جس چیز کے لئے دعا کے لئے کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کا انجام بھی قابلِ رشک کیا ہے.ان کی ہمشیرہ قادیان میں ہیں جو ناظر صاحب اعلیٰ کی اہلیہ ہیں.انہوں نے بھی لکھا کہ داماد سے دوستوں کی طرح تعلق تھا.بہنوں سے بھی بڑا حسن سلوک کرتے تھے.بڑی بیٹی نے بتایا کہ میرے ماموں کی بیٹی وہاں ربوہ میں بیاہی ہوئی ہیں.اس کے گھر گئے تو دو مر تبہ ایسا ہوا کہ ایم ٹی اے پر خلافت جو بلی والا عہد دہرایا جا رہا تھا تو کھڑے ہو کر بلند آواز سے اس عہد کو دہرانے لگے.جس طرح کمرے میں اور کوئی موجود نہیں ہے اور صرف انہی کو کہا جارہا ہے کہ عہد دہرائیں.1980ء میں ان کو حج کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی.مکرم میاں مبشر احمد صاحب مکرم میاں مبشر احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں برکت علی صاحب.شہید مرحوم کے والد میاں برکت علی صاحب نے 1928ء میں بیعت کی تھی اور پھر تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہوئے.شہید مرحوم حضرت میاں نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ہیں.کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.پھر یہ 2008ء میں لاہور شفٹ ہو گئے.پہلے یہ لوگ وزیر آباد رہتے تھے.ان کا کوکا کولا کا ڈسٹری بیوشن کا کاروبار تھا.1974ء میں کاروبار ختم ہو گیا.لوگوں نے تمام سامان لوٹ لیا.شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا.ان حالات میں ایک دفعہ جماعتی ڈاک مرکز دے کر ربوہ سے واپس وزیر آباد جا رہے تھے تو چنیوٹ پہنچنے پر ان کو گاڑی سے اتارنے کی کوشش کی گئی کہ مرزائی ہے، اسے مارو.لیکن بہر حال ڈرائیور نے گاڑی چلا دی اور وہاں تو کچھ نہیں ہوا.پھر گوجرانوالہ پہنچنے پر بھی جلوس نے آپ پر حملہ کیا.بہر حال اس طرح بچتے بچاتے آدھی رات کو اپنے گھر پہنچے.ان دنوں جو حالات تھے بڑے خوفناک حالات تھے.اور مرکز سے رابطے کے لئے جو لوگ آتے تھے وہ بڑی قربانی دے کر آتے تھے.بہر حال قربانیوں کے لئے تو یہ ہر دم تیار تھے.اور پھر دوبارہ انہوں نے 1998ء میں ڈسٹری بیوشن کا کام شروع کیا.کوکا کولا کے ڈسٹری بیوٹر بنے.جب بوتلوں کا کام کرتے تھے تو کئی پارٹیاں آکر یہ لالچ دیتی تھیں کہ آپ کی ایمانداری کی بہت شہرت ہے.جب آپ بوتلیں

Page 308

293 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم قسیم کرتے ہیں تو آپ کی کوئی بوتل جعلی نہیں ہوتی.بالکل خالص چیز ہوتی ہے.پاکستان میں تو جعلی بوتلوں کا، کسی بھی چیز کا جعلی کاروبار بہت زیادہ ہے.ہر چیز میں ملاوٹ ہوتی ہے.تو انہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کی شہرت تو ہے ہی، آپ اپنے جو کریٹ بیچتے ہیں ان میں دو جعلی بوتلیں ڈال دیا کریں.اس سے آپ کا منافع جو ہے کئی گنا بڑھ جائے گا اور کروڑ پتی ہو جائیں گے.لیکن آپ نے کبھی ان کی بات نہیں مانی اور نہ کبھی ایسے سوچا.جو مشورہ دینے آتے تھے آپ ان لوگوں کی بڑی مہمان نوازی کرتے تھے اور اس وقت بڑے آرام سے کہہ دیا کرتے تھے کہ آپ غلط جگہ پر آگئے ہیں.چھ سال امیر جماعت تحصیل وزیر آباد بھی رہے.آپ کے ایک بیٹے قمر احمد صاحب مربی سلسلہ آج کل بین میں ہیں.شہادت کے وقت ان کی عمر 65 سال تھی.وصیت کی ہوئی تھی اور آپ کی شہادت بھی دارالذکر مسجد میں ہوئی.جب حملہ ہوا ہے تو اپنی جگہ پر لیٹے رہے اور حملہ کے بعد محراب کے پاس گرینیڈ گراتو زخمی ہو گئے.گردن کا بائیں طرف کا حصہ گرینیڈ پھٹنے سے اڑ گیا.اور کافی بلیڈنگ ہوئی اور بھانجے کو فون کیا کہ بیٹا میں کافی زخمی ہو گیا ہوں.پانچ چھ گولیاں میرے جسم میں بھی لگی ہیں.انتہائی نرم دل، غریب پرور اور توکل کرنے والے انسان تھے.ہر ایک سے شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے.دعا گو انسان تھے.کسی کی تکلیف کا پتہ چلتا تو فوری دعا شروع کر دیتے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میری رفاقت ان سے 39 سال رہی.کبھی انہوں نے مجھے اُف نہیں کہا.اور نہ ہی بچوں کو کچھ کہا میں اگر کچھ کہتی تھی تو یہی کہتے تھے کہ دعا کیا کرو، میں بھی ان کے لئے دعا کر تا ہوں.بچوں کے لئے بہت محبت تھی.گھر میں کسی قسم کی غیبت کو نا پسند کرتے اور منع کر دیتے.اور کوئی بات شروع کرتا تو فوراً روک دیتے.گوجرانوالہ میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے.وہاں کی مالکن جو غیر احمدی تھی وہ شہید مرحوم کے بارے میں کہتی تھیں کہ میری یہ سعادت ہے کہ میاں مبشر صاحب میرے کرایہ دار ہیں اور میں یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو بھی ان جیسا انسان بنائے اور بھائی جان آپ بھی میرے بچوں کی تربیت کریں.کاروبار میں جب کھانے کا وقت آتا تھا تو اپنے کام کرنے والے جو ملازمین تھے ، ان کے کھانے وانے کا بڑا خیال رکھتے تھے.تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے.اہلیہ کہتی ہیں کہ اکثر یہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ میں تو نالائق انسان ہوں اللہ تعالیٰ مجھے 33 نمبر دے کر ہی پاس کر دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اپنے فضل سے سو فیصد نمبر دے کر شہادت کار تبہ دے دیا.مکرم فدا حسین صاحب فدا حسین صاحب شہید ابن مکرم بہادر خان صاحب.ان کا تعلق کھاریاں ضلع گجرات سے ہے.وہیں پید اہوئے.قریباً چار سال کی عمر میں ہی والدین ایک ماہ کے وقفہ سے وفات پاگئے.یہ میاں مبشر احمد صاحب جن کا پہلے ذکر آیا ہے ان کے کزن بھی تھے.اور والدین کی بچپن میں وفات کی وجہ سے میاں مبشر احمد صاحب کے زیر کفالت ہی رہے.غیر شادی شدہ تھے.ان کی عمر شہادت کے وقت 69 سال تھی اور انہوں نے دارالذکر میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا.یہ تھوڑے سے معذور تھے، جمعہ کے روز مسجد کے صحن میں معذوری کے پیش نظر

Page 309

خطبات مسرور جلد هشتم 294 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 کرسیوں پر بیٹھتے تھے، لیکن سانحہ کے روز اندر ہال میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگر دنے جب گولیوں کی بوچھاڑ کی تو آپ کو 35 کے قریب گولیاں لگیں اور موقع پر شہید ہو گئے.اللہ درجات بلند فرمائے.مکرم خاور ایوب صاحب خاور ایوب صاحب شہید ابن مکرم محمد ایوب خان صاحب.شہید مرحوم کا خاندان گلگت کا رہنے والا تھا.تاہم ان کی پیدائش بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی.دسویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور آگئے.1978ء میں واپڈا میں ملازمت شروع کر دی.اس وقت اکاؤنٹ اور بجٹ آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے.1984ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.شہادت کے وقت ان کی عمر 50 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.سیکرٹری وقف نو اور محاسب کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے تھے.سابق قائد مجلس انصار اللہ بھی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.ایک عرصے سے دارالذکر میں نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے.سانحہ کے روز بھی ملازمت سے جمعہ پڑھنے کے لئے گئے اور مین ہال میں بیٹھے تھے.دو گولیاں لگیں ایک دل کے قریب، اور دوسری گھٹنے میں.قریباً سوا دو بجے گھر فون کیا کہ دہشت گرد آگئے ہیں، ان کے پاس اسلحہ ہے ، آپ دعا کریں.پھر اہلیہ رابطہ کرتی رہیں.تیسری دفعہ رابطہ ہوا تو یہی کہا کہ بس سب دعا کرو.اس کے بعد پھر شہید ہو گئے.اہلیہ کہتی ہیں بڑے اچھے انسان تھے.باجماعت نماز ادا کرتے تھے.لوگوں نے ان کے متعلق یہی رائے دی ہے کہ بڑے اچھے انسان تھے اور آپ میں بڑی انتظامی صلاحیت تھی.بچوں کی تربیت بھی خوب اچھی طرح کی.حقوق العباد ادا کرنے والے بھی تھے.خلافت کے وفادار اور شیدائی تھے.خاور ایوب صاحب کے بارے میں الیاس خان صاحب نے لکھا ہے کہ 1980ء میں خاور ایوب صاحب کو بی اے کے بعد واپڈا میں ملازمت مل گئی.اور یہ عزیز داری کی بنیاد پر بھیرہ ضلع سرگودھا سے ہمارے گھر رحمان پورہ آگئے.ہمارے گھر کا احمدی ماحول تھا.الیاس خان صاحب کہتے ہیں ہماری تربیت احمدی تعلیمات کے مطابق تھی تو خاور ایوب صاحب بھی ہمارے ماحول کا ایک حصہ بن چکے تھے.مگر احمدی نہیں ہوئے تھے.البتہ احمدیت کی تعلیم سن کے روایتی اعتراضات جو مولوی کرتے ہیں وہ کرتے رہتے تھے.یہاں تک کہ ہم ان کو چھیڑ ا کرتے تھے کہ سوال کرو.کیونکہ شہید مرحوم بہت سوال کیا کرتے تھے.ایک روز ایک ہمارے مبلغ سلسلہ برکت اللہ صاحب مرحوم نے مجلس سوال وجواب کا انعقاد کیا.خاور صاحب سوال کی کثرت کی وجہ سے مشہور تھے اس لئے مربی صاحب نے شہید مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا خاور صاحب سوال کریں.تو انہوں نے کہا اب میرا کوئی سوال نہیں ہے.اور پھر کچھ عرصے بعد بیعت کر لی.ان کے عزیز کہتے ہیں کہ ہم ان کو کہتے تھے کہ سوچ لو.لیکن انہوں نے ہمارا یہ کہہ کر منہ بند کرا دیا کہ اگر تم میری بیعت نہیں کرواؤ گے تو میں حضور کو لکھوں گا کہ یہ میری بیعت نہیں کرواتے.اور پھر بیعت کرنے کے بعد نیکی اور روحانیت میں اللہ کے فضل سے بڑی ترقی کی.

Page 310

خطبات مسرور جلد هشتم 295 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 مکرم شیخ محمد یونس صاحب مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید ابن مکرم شیخ جمیل احمد صاحب.شیخ یونس صاحب مرحوم 1947ء میں امروہہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے تھے.1950ء میں قادیان اور پھر 1955ء میں ربوہ میں آگئے.ان کے والد شیخ جمیل احمد صاحب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے اور درویشان قادیان میں سے تھے.شہید مرحوم نے میٹرک ربوہ سے کیا.اس کے بعد صدر انجمن احمد یہ میں کار کن رہے.2007ء میں ریٹائر منٹ ہو گئی.پھر یہ اپنے بیٹے کے پاس لاہور چلے گئے اور بطور سیکر ٹری اصلاح وارشاد اور دعوت الی اللہ خدمت سر انجام دے رہے تھے.63 سال ان کی عمر تھی.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں ان کی شہادت ہوئی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.اور ان کا معمول یہی تھا کہ جمعہ کے لئے جلدی مسجد میں جاتے تھے اور اس روز بھی جمعہ کے دن کے لئے مسجد بیت النور میں گیارہ بجے پہنچ گئے اور پہلی صف میں بیٹھے تھے.بیٹا بھی ساتھ تھا.لیکن وہ دوسرے ہال میں تھا.پہلی صف میں سب سے پہلے زخمی ہو کر گرتے ہوئے دیکھے گئے.ان کے سر اور سینے میں گولیاں لگی تھیں.گرینیڈ پھٹنے کی وجہ سے پسلیاں بھی زخمی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے شہادت ہوئی.شیخ صاحب نے ایک خواب میں دیکھا کہ ربوہ میں ایک بہت خوبصورت سڑک ہے یا خو بصورت قالین بچھے ہوئے ہیں، بڑی بڑی کرسیوں پر خلفاء تشریف فرما ہیں اور سب سے اونچی کرسی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما ہیں اور کہتے ہیں میں بھی ( یعنی شیخ صاحب خود) ساتھ گھٹنے جوڑ کر بیٹھا ہوا ہوں.اہل خانہ نے بتایا کہ خلافت کے شیدائی تھے.پنجوقتہ نماز کے پابند.دل کے مریض ہونے کے باوجو د شدید گرمیوں اور سردیوں میں نمازیں مسجد میں جا کر ہی ادا کیا کرتے تھے.کسی شکرانہ کے موقع پر جب الحمد للہ ادا کرتے تو ساتھ ہی ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں.خدا پر توکل بہت زیادہ تھا.کہتے تھے کہ بظاہر ناممکن کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن ہو جاتے ہیں.تہجد گزار تھے، ضر ور تمند وں کا خیال رکھتے تھے.جو بھی معمولی آمدنی تھی اس سے دوسروں کا بھی خیال رکھتے تھے.سادہ زندگی بسر کرتے تھے.مختلف علمی مقالہ جات لکھے اور نمایاں پوزیشن حاصل کیں.دعوت الی اللہ میں مستعد تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ڈاور ( یہ ربوہ کے قریب ایک گاؤں ہے) کے قریب ایک گاؤں میں ہم دونوں میاں بیوی مختلف اوقات میں قریباً چھ سات سال تک دعوت الی اللہ کرتے رہے اور قرآنِ مجید کی کلاسیں لیتے رہے.پھر مخالفت شروع ہوئی تو کام روکنا پڑا.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کو پھل بھی عطا فرمائے.مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب شہید ابن مکرم احمد دین صاحب بھٹی.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کھر یپر ضلع قصور کے رہنے والے تھے.ان کے دادا مکرم جمال دین صاحب نے 12-1911ء میں بیعت کی تھی.

Page 311

296 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم 1975ء میں یہ خاندان لاہور شفٹ ہو گیا.اپنے والد کے ساتھ یہ ٹھیکے داری کا کام کرتے تھے.میٹرک تک تعلیم حاصل کی.خدام الاحمدیہ کے بہت دلیر اور جرات مند رکن تھے.دوسرے دو بھائی بھی ان کے کاروبار میں شریک تھے.ان کے ایک بھائی مکرم محمد احمد صاحب صدر جماعت ہڈیارہ ضلع لاہور ہیں.دارالذکر میں انہوں نے شہادت پائی.اور ان کی عمر 33 سال تھی.مسجد دارالذکر میں نماز جمعہ سے قبل سنتیں ادا کر رہے تھے کہ شیلنگ شروع ہو گئی.سلام پھیرنے کے بعد اپنی بنیان اتار کر ایک لڑکے کے زخموں کو باندھا جو ان کے ساتھ ہی زخمی تھا اور اس کو تسلی دی اور اس کے بعد انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دہشتگرد کو پکڑ کر گرانے اور قابو پانے میں کامیاب ہو گئے.اسی دوران دوسرے دہشت گرد نے گولیوں کی بوچھاڑ کی اور ان کو شہید کر دیا.مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب شہید ابن مکرم چوہدری اللہ دتہ ورک صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد قاضی مرال ضلع شیخوپورہ کے رہنے والے تھے.ان کے آباؤ اجداد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بیعت کی تھی.بعد میں یہ خاندان علی پور قصور میں شفٹ ہو گیا.جہاں شہید مرحوم کی پیدائش ہوئی.میٹرک تک ان کی تعلیم تھی.پچاس کی دہائی میں یہ خاندان لاہور شفٹ ہو گیا.محکمہ اوقاف میں ملازم تھے.1966ء میں ریٹائر ہو گئے.کافی عرصہ اپنے حلقے کے زعیم انصار اللہ رہے.شہادت کے وقت سیکرٹری تعلیم اور نائب صدر حلقہ تھے اور ان کی عمر 74 سال تھی.ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے.چوتھی صف میں مسجد میں بیٹھے تھے.جہاں دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے.ان کے والد صاحب نے اپنا پتو کی والا آبائی گھر جماعت کو تحفہ میں پیش کر دیا تھا جو آج کل مربی ہاؤس ہے.ان کے والد صاحب پتو کی جماعت کے کافی عرصہ صدر رہے ہیں.اہل خانہ نے بتایا کہ بہت محنتی تھے.بزرگ ہونے کے باوجود اہل خانہ اور دیگر چھوٹے بچوں کی خدمت کیا کرتے تھے.بڑے صاف گو انسان تھے.مکرم میاں لئیق احمد صاحب مکرم میاں لئیق احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں شفیق احمد صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد انبالہ کے رہنے والے تھے.پڑدادا مکرم بابو عبد الرحمن صاحب انبالہ کے امیر رہے.پارٹیشن کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیا.یہ شہید مرحوم انبالہ میں پیدا ہوئے.بنیادی تعلیم لاہور سے حاصل کی.شہادت کے وقت ان کی عمر 66 سال تھی.ان کو بطور سیکرٹری اشاعت حلقہ کینال پارک خدمت کی توفیق مل رہی تھی.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.مسجد کے مین ہال کی تیسری صف میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگردوں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے.تین گھنٹے تک تو وہاں سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا.اس دوران ان کو بلیڈ نگ اتنی ہو گئی تھی کہ ایمبولینس

Page 312

297 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کے ذریعے ہسپتال لے جارہے تھے کہ راستے میں خالق حقیقی سے جاملے.شہید مرحوم پیشہ کے لحاظ سے الیکٹریشن تھے.نہایت سیدھے سادھے اور خاموش طبیعت کے مالک تھے.کبھی کسی سے کوئی زیادتی نہیں کی.تہجد گزار تھے.گھر میں بچوں سے دوستانہ ماحول تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مرزا شابل منیر صاحب مرزا شابل منیر صاحب شہید ابن مکرم مرزا محمد منیر صاحب.شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت احمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.جبکہ شہید مرحوم کے والد مکرم مرزا محمد منیر صاحب کا ساؤنڈ سسٹم وغیرہ کا بزنس تھا.شہید مرحوم بی کام کے بعد بی بی اے(BBA) کر رہے تھے.اور شہادت کے وقت ان کی عمر 19 سال تھی.خدام الاحمدیہ کے بڑے سر گرم رکن تھے.ہر آواز پر لبیک کہا.اور دارالذکر میں جامِ شہادت نوش کیا.شہید مرحوم کے چھوٹے بھائی شہزاد منعم صاحب کے ہمراہ مین ہال میں محراب کے سامنے سنتیں ادا کرنے کے بعد بیٹھے ہوئے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی.پہلا حملہ محراب پر ہوا.اس موقع پر شہید مرحوم پہلے ہال سے باہر نکل گئے.پھر تھوڑی دیر بعد اندر واپس آئے اور دروازے کے پاس بیٹھ گئے، اور دوسرا بھائی بھی پاس آ گیا.گھر فون پر بات کی اور دوستوں سے بھی بات کی.اتنے میں مینار کی طرف سے ایک دروازے سے ایک دہشت گرداندر داخل ہوا اور فائرنگ کر دی جس سے کافی لوگ شہید ہو گئے.شہید مرحوم اس وقت گولی لگنے سے شدید زخمی تھے.ان کا بھائی کہتا ہے کہ میں نے آواز دی لیکن خاموش رہے.میں نے دیکھا کہ ٹانگ سے کافی خون بہہ رہا ہے اور مجھے کہا کہ میری ٹانگ سیدھی کرو.میں نے اپنی قمیض اتار کر پٹی باندھنے کی کوشش کی، لیکن نہیں باندھ سکا کیونکہ کہتے تھے جہاں میں ہاتھ لگاتا تھا وہیں سے گوشت لٹک جاتا تھا.قریباً آدھا گھنٹہ اسی کیفیت میں رہے.اور اسی عرصے میں پھر تھوڑی دیر بعد شہادت کا رتبہ پایا.بھائی کہتا ہے کہ میں ساتھ بیٹھا تھا انہوں نے بڑی ہمت دکھائی.ایسی حالت میں بھی کوئی چیخ و پکار نہیں تھی.بلکہ آنکھوں سے لگ رہا تھا خوش ہیں کہ چلو میرا بھائی تو بچ گیا اور بالکل سلامت بیٹھا ہے.آپ کے ایک دوست نے، ایک کارکن نے لکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں ایک حزب کے سائق تھے.کچھ ماہ سے نہایت جذبہ اور اخلاص کے ساتھ کام کر رہے تھے.ایک مرتبہ خاکسار رات ساڑھے گیارہ بجے گھر گیا کہ حقیقۃ الوحی کے پرچے پُر کروانے تھے.وہ اسی وقت موٹر سائیکل لے کر نکل کھڑے ہوئے اور گھر وں کا دورہ کیا.ان کے پاس گاڑی ہوتی تو اس کے علاوہ بھی مجلس کے کاموں کے لئے پیش کرتے.غرض نہایت شریف، سادہ اور کبھی نہ نہ کرنے والے وجو د تھے.ان کے ایک دوست نے لکھا کہ مجھے خواب میں شامل منیر ملا میں اس سے کہتا ہوں کہ تم کدھر ہو تو وہ مجھے جواب دیتا ہے ، (شہادت کے بعد کا ذکر ہے) کہ بھائی میں تو ادھر ہوں تم کدھر ہو.پھر وہ ساتھ ہی مجھے کہتا ہے کہ بھائی میں ادھر بہت خوش ہوں تم بھی آجاؤ.

Page 313

298 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم مجھے خود بھی وہ خوش محسوس ہوتا ہے.پھر یہ منظر ختم ہو جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ اس نوجوان کے بھی درجات بلند فرمائے.یہ وہ نوجوان ہیں، جو اپنے پیچھے رہنے والے نوجوانوں کو اپنا عہد پورا کرنے کی یاد دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم تو قربان ہو گئے، تم اپنے عہد سے پیچھے نہ ہٹنا.مکرم ملک مقصود احمد صاحب مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید ابن مکرم ایس اے محمود صاحب.شہید مرحوم کے دادا بٹالہ کے رہنے والے تھے جبکہ ان کے والد صاحب مکرم ایس اے محمود صدر پاکستان ایوب خان کے مشیر بھی رہے.اسی طرح ان کے نانا حضرت ملک علی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ریاست بھوپال کے رہنے والے تھے.بچپن میں ان کی والدہ محترمہ کے سر پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تھا، شہید مرحوم کے نانا، دادا اور والدہ محترمہ صحابی تھے.شہید مرحوم کی پیدائش بھوپال میں ہوئی.نانی محترمہ مختار بی بی صاحبہ کے پاس انہوں نے قادیان میں پرورش پائی.تعلیم الاسلام کالج میں زیر تعلیم رہے.ایف اے کے امتحان سے قبل واپس بھوپال چلے گئے.پھر یہ فیملی لاہور آکر سیٹل (Settle) ہو گئی.شہادت کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور اپنے حلقے میں بطور سیکرٹری تعلیم ، سیکرٹری تعلیم القرآن امین اور آڈیٹر خدمت کی توفیق پارہے تھے.شہید مرحوم ملک طاہر صاحب قائمقام امیر ضلع لاہور کے بہنوئی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.شہید مرحوم کے نواسے نے بتایا کہ وہ مسجد کے مین ہال میں دوسری صف میں بیٹھے تھے.فائرنگ کے وقت مربی صاحب کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صحن کی طرف باہر نکلے تو دیکھا کہ شہید مرحوم کانوں میں انگلیاں ڈال کر لیٹے ہوئے تھے.لیکن مجھے ان کے اندر کوئی حرکت نظر نہیں آرہی تھی.شاید اس وقت شہید ہو چکے ہوئے تھے کیونکہ کافی گولیاں لگی ہوئی تھیں.شہید مرحوم کے اہل خانہ نے بتایا کہ پنجوقتہ نماز اور تہجد کے پابند تھے.باقاعدگی سے چندے ادا کرتے تھے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.جماعتی کتب کا مطالعہ اور خلیفہ وقت کے خطبات باقاعدگی سے سنتے تھے.ایم ٹی اے کے دیگر پروگرام بھی دلچسپی سے دیکھتے اور سنتے تھے.اکاؤنٹس کے ماہر تھے.ایک مرتبہ بتایا کہ بچپن میں قادیان میں مقابلہ ہوا کہ کون سب سے پہلے مسجد آئے گا تو دیکھا کہ آپ صبح اڑھائی بجے مسجد پہنچے ہوئے تھے.حالانکہ اس وقت آپ کی بہت چھوٹی عمر تھی.ان کے ایک بیٹے تقسم مقصود صاحب وکیل ہیں اور زندگی وقف کر کے آج کل ربوہ میں کام کر رہے ہیں.مکرم چوہدری محمد احمد صاحب مکرم چوہدری محمد احمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر نور احمد صاحب.شہید مرحوم کے والد صاحب اور دادا مکرم چوہدری فضل داد صاحب نے 96-1895 میں بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.آبائی تعلیم کھیوہ ضلع فیصل آباد سے حاصل کی.شہید مرحوم کے والد صاحب حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ جو نئیر ڈاکٹر یہ تصحیح روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 8 مارچ 2011ء کے مطابق ہے.

Page 314

299 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے طور پر کام کرتے رہے.ان کے والد صاحب نے شدھی تحریک کے دوران ایک سال سے زائد عرصہ وقف کیا تھا.شہید مرحوم 1928ء میں کھیوہ میں پیدا ہوئے.فیصل آباد سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی.میٹرک کے بعد ائیر فورس جوائن (Join) کر لی.دو سال کی ٹریننگ کے بعد وارنٹ افسر کے طور پر کام کرتے رہے.پھر دورانِ سروس 65ء اور 71ء کی جنگوں میں حصہ لیا.65ء کی جنگ کے دوران ایک موقع پر جب طیارے کا بم لو ڈر خراب ہو گیا تو ساتھیوں کو ہمت دلا کر ہم کندھوں پر لاد کر خود لوڈ کیا کرتے تھے.آج یہ نام نہاد ملک کے ہمدرد احمدیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ ملک کے ہمدرد نہیں.اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کی خاطر بھی قربانیاں دیں اور دینے کے لئے ہر وقت تیار رہے.حکومت کی طرف سے غیر ممالک کے دورے پر بھی ٹرینگ کے لئے جاتے رہے.1971ء میں ریٹائر ڈ ہوئے.ریٹائر منٹ کے بعد سول ڈیفنس کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ہیڈ کے طور پر 1988ء تک کام کرتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 85 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی.یہ اکثر وہیں جمعہ ادا کیا کرتے تھے.جمعرات کو جمعہ کی تیاری کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے.جمعرات کو ہی کپڑے استری کروا کر لٹکوا دیا کرتے تھے اور بارہ بجے مسجد چلے جاتے تھے.عموماً ہال کے اندر بائیں طرف کرسیوں پر بیٹھتے تھے.وقوعہ کے روز ایک نوجوان نے ان کو دوسری اور تیسرے صف کے درمیان خون میں لت پت دیکھا.انہوں نے اس نوجوان کو آواز دی اور کہا کہ مجھے گولیاں لگی ہیں میرے پیٹ پر کپڑا باندھ دو.اس کے بعد انہوں نے دیگر زخمیوں کو پانی پلانے کی ہدایت کی.خود زخمی تھے ، اس کے بعد انہوں نے نوجوان کو کہا کہ زخمیوں کو پانی پلاؤ.ساتھ ساتھ دیگر احباب کو بچاؤ کی ہدایات دیتے رہے کہ یہ اس شعبہ کے ماہر تھے.ایک گولی ان کی ہتھیلی پر بھی لگی ہوئی تھی.زخمی حالت میں ان کو جناح ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں رات آٹھ بجے کے قریب ان کی شہادت ہوئی.شہید کی فیملی میں ایک خاتون نے دو دن قبل خواب میں دیکھا کہ لاہور میں فائرنگ ہو رہی ہے.اس طرح کی خواہیں اکثر احمدیوں کو پاکستان میں بھی اور باہر کے ملکوں میں بھی آئی ہیں جو اس واقعہ کی نشاندہی کرتی تھیں.کسی سے بغض نہیں رکھتے تھے ، صحت اچھی تھی اور بچوں کے ساتھ بہت پیار کا تعلق تھا.نماز باجماعت اور قرآنِ کریم کی تلاوت کے شوقین کبڈی اور فٹبال کے بڑے اچھے کھلاڑی رہے.خلافت سے عشق تھا.ان کے بارے میں ان کی بیٹی نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابا جی ہال میں کرسیوں پر بیٹھے تھے جہاں مربی صاحب خطبہ دے رہے تھے.خطبہ ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ باہر سے گولیوں کی آواز میں آئیں اور پھر یہ آواز میں لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی گئیں.اس دوران مربی صاحب لوگوں کو درود شریف پڑھنے کی ہدایت دیتے رہے اور کہا کہ خطبہ جاری رہے گا.کہتی ہیں کہ میرے اباجی کے ساتھ چوہدری وسیم احمد صاحب صدر کینال ویو اور ان کے بزرگ والد بیٹھے تھے.وہ اپنے عمر رسیدہ والد کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے Basement کی طرف لے گئے.اور میرے والد صاحب سے بھی کہا کہ بزرگواٹھو! لیکن آپ نہ اٹھے.بقول وسیم صاحب کے وہ ایسے بیٹھے تھے جیسے ان کا اندر کا فوجی جاگ

Page 315

300 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم گیا ہو اور وہ حالات کا بغور مطالعہ کر رہے ہوں.اسی بھیڑ چال میں چند اور لوگوں نے بھی ان سے کہا کہ اٹھ جائیں لیکن وہ نہیں اٹھے.اسی دوران اس دہشتگر دنے گولیوں کا رخ کرسیوں کی طرف کر دیا اور فائرنگ کر تا ہوا اباجی کے نزدیک ہو تا گیا.بقول کرنل بشیر احمد باجوہ صاحب (جو کرسیوں کے پیچھے تھے ) ان پر بھی فائر ہوئے لیکن وہ بیچ گئے.وہ کہتے ہیں کہ اس دوران یہ زخمی ہو چکے تھے.وہ دہشتگرد سمجھا کہ میرا کام ختم ہو گیا ہے.فارغ ہو کر مڑا اور شاید اپنی گن لوڈ کرنے لگا.تو کہتی ہیں کہ کرنل صاحب نے بتایا کہ اسی دوران میرے ابا جی نے زخمی ہونے کے باوجود موقع غنیمت جانا اور پیچھے سے ایک دم چھلانگ لگا کر اس کی گردن پکڑ لی.یقینا کوئی خاص طاقت تھی جو ان کی مدد کر رہی تھی کرنل بشیر صاحب نے جو کرسیوں کے پیچھے تھے انہوں نے بھی فوراً چھلانگ لگائی اور دہشتگرد کو قابو کرنے لگے.وسیم صاحب کا بیان ہے کہ ہم سیڑھیوں سے چند step ہی نیچے تھے اور دیکھ رہے تھے.جب دیکھا کہ دہشتگرد قابو میں آرہا ہے تو دوسرے خدام بھی اس دوران میں مدد کے لئے آگئے اور اس ہاتھا پائی کے دوران ان کے بقول ان کو گولیاں لگ چکی تھیں.لیکن اس سے پہلے بھی لگ چکی تھیں.اور ایک ہتھیلی سے بھی پار ہوئی، دوسری بازو میں کلائی کے پاس لگی.اور تیسری پسلیوں میں پیٹ کے ایک طرف.پہلے کم زخمی تھے ، اس ہاتھا پائی میں مزید گولیاں بھی لگیں.بہر حال ان کی اس ابتدائی کوشش کے بعد کرنل بشیر اور باقی نمازی شامل ہوئے اور اس د ہے دہشتگرد کی جیکٹ کو (Defuse) کر دیا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے.دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ عمر کے اس حصے میں بھی گولیاں لگنے کے باوجود آپ کا دماغ صحیح کام کر رہا تھا.اور جیکٹ کو ڈ فیوٹر (Defuse) کرنے کے بارے میں بھی وہی ہدایت دیتے تھے.کیونکہ ان کا یہی کام تھا، بم ڈسپوزل میں کام کرتے رہے ہیں.اور دیکھنے والے مزید کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی حالت دیکھ کر ہماری بری حالت ہو رہی تھی لیکن ایک دفعہ بھی انہوں نے ہائے نہیں کی اور بڑے آرام سے اپنی جان جانِ آفرین کے سپر د کر دی اور شہادت کار تبہ پایا.مکرم الیاس احمد اسلم قریشی صاحب الیاس احمد اسلم قریشی صاحب شہید والد مکرم ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق قادیان سے تھا.پھر گوجر انوالہ شفٹ ہو گئے.آپ کے والد محترم مبلغ سلسلہ تھے.تحریک شدھی کے دوران انہوں نے نمایاں خدمات سر انجام دیں.ان کے بھائی یونس احمد اسلم صاحب 313 درویشان قادیان میں سے تھے.گریجوایشن کے بعد نیشنل بنک جوائن کیا.اور اے وی پی کے اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.شہادت کے وقت ان کی عمر 76 سال تھی.اللہ کے فضل سے وصیت کے نظام میں شامل تھے.اور بطور صد ر جماعت جو ہر ٹاؤن خدمات سر انجام دے رہے تھے.بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی پچھلے ہال میں پہلی صف میں بیٹھے تھے.دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ ہال کا دروازہ بند رکھنے کی کوشش کے دوران حملہ آوروں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے اور زخمی حالت میں کئی گھنٹے پڑے رہے.چار بجے کے قریب یہ شہید ہوئے ہیں.ان

Page 316

301 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بہت سادہ دل، نیک اور ہر حال میں صبر و شکر کرنے والے اور متوکل انسان تھے.دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ تھی.جماعتی کام خوشی سے سر انجام دیتے تھے.آپ کے بچے کہتے ہیں، آپ ایک نہایت شفیق باپ اور ایک ہمدرد انسان تھے.نمازوں اور تہجد کے پابند تھے.کبھی ہم نے انہیں نماز قضاء پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا.اپنی اولاد کو بھی نماز کی طرف توجہ دلاتے رہتے.بڑے ہنس مکھ ، ملنسار انسان تھے.پانچ سال سے حلقہ جو ہر ٹاؤن کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے.کبھی بھی کوئی کار کن یا کوئی جماعتی کام کے لئے خادم یا انصار میں سے کسی بھی وقت آجاتا، دوپہر کو یارات کو تو کبھی برا نہیں مناتے تھے.اور اپنے بچوں سے بھی کہتے تھے کہ اگر کوئی جماعتی کام سے گھر آئے تو بیشک میں سو بھی رہا ہوں تو مجھے اٹھا دیا کرو.اور انہوں نے اسی پر ہمیشہ عمل کیا.اکثر نصیحت کرتے کہ جماعت اور خلافت سے وفا کر نا.مکرم طاہر محمود احمد صاحب (پرنس) مکرم طاہر محمود احمد صاحب (پرنس) شہید ابن مکرم سعید احمد صاحب مرحوم.یہ کوٹ اڈو ضلع مظفر گڑھ کے رہنے والے تھے.1953ء میں آپ کے والد صاحب خاندان میں پہلے احمدی ہوئے.1993ء میں لاہور منتقل ہو گئے.شہید مرحوم نے کوٹ اڈو سے میٹرک کیا.پھر ایک پرائیویٹ ملازمت اختیار کر لی.پھر ملائیشیا چلے گئے.تھوڑے سے ذہنی طور پر پسماندہ بھی تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 53 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ پر آنے سے قبل حلقے کے صدر صاحب کے گھر گئے تو صدر صاحب نے ویسے ہی مذاقا کہہ دیا کہ چلو میں تمہیں جمعہ پڑھا کر لاتا ہوں اس طرح صدر صاحب کے ساتھ پہلی دفعہ مسجد بیت النور گئے تھے.اور وہیں ان کی شہادت ہوئی ورنہ اکثر ٹھو کر نیاز بیگ سنٹر یا کبھی کبھی دارالذکر جا کر نماز جمعہ ادا کرتے تھے.رات شام سات بجے ان کی شہادت کا علم ہوا.چھاتی میں دو گولیاں اور ماتھے پر ایک گولی لگی ہوئی تھی.بڑے دبنگ احمدی تھے.زندگی میں بھی کہتے تھے کہ میں گولیوں سے نہیں ڈرتا، میں نے شہید ہی ہونا ہے.سارے علاقے میں واقفیت تھی.مخلص اور جذباتی احمدی تھے اور ہر راہ چلتے کو السلام علیکم کہا کرتے تھے.مکرم سید ارشاد علی صاحب سید ارشاد علی صاحب شہید ابن مکرم سید سمیع اللہ صاحب.شہید مرحوم کوچه میر حسام الدین (سیالکوٹ) کے رہنے والے تھے.ان کے دادا حضرت سید حصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نانا حضرت سید میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی صحابی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے خاص میں شامل تھے.سیالکوٹ میں قیام کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے گھر قیام کیا.ان کے والد صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے ہیڈ ماسٹر بھی رہ چکے ہیں.انہوں نے اپنا گھر جماعت کو وقف کر دیا تھا.شہید مرحوم بی اے

Page 317

302 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہوئے اور ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے.گارڈن ٹاؤن میں اس وقت سیکرٹری مال کے فرائض سر انجام دے رہے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی.مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جانے سے قبل گھر میں سینے پر ہاتھ باندھے لیٹے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج سکون کرنے کو دل چاہ رہا ہے.جانے کو جی نہیں چاہ رہا.پھر تھوڑی دیر بعد اٹھ کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے چلے گئے اور جاتے ہوئے آواز دی کہ میں جا رہا ہوں.پھر دوسری دفعہ کہا کہ میں جاہی رہا ہوں.داماد کے ساتھ بیت النور میں باہر صحن میں بڑی کرسیوں پر بیٹھے تھے ، شروع کے حملے میں کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو فوری طور پر ہال کے اندر بھجوا دیا گیا.جہاں ان کی شہادت ہوئی.جسم پر تین گولیاں لگی ہوئی تھیں.ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ کافی سال قبل شہید مرحوم نے بتایا کہ ان کو آواز آئی کہ اِنِّي رَافِعُكَ وَ مُتَوَفِّيكَ.شاید سننے والے نے یا بیان کرنے والے نے الٹا لکھ دیا ہو.ہو سکتا ہے اِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ ہو، بہر حال جو بھی ہے، کہتے ہیں مجھے آواز آئی لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس کا کیا مطلب ہے.کہتے ہیں شہادت سے دس پندرہ بیس دن پہلے مجھے یہ آواز آئی کہ We recieve you with open arms with red carpet شہید مرحوم نے شہادت سے چند دن قبل خواب میں ایک گھر دیکھا.اس میں ایک خوبصورت بگھی آکر رکی اور آواز آئی ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ آئے ہیں.گزشتہ ڈیڑھ دوماہ سے کہا کرتے تھے کہ میں اپنے آباؤ اجداد کی طرح دین کی خدمت نہیں کر سکا.اس سے بڑے پریشان ہوتے تھے.حقوق العباد کی ادائیگی ان کا خاص وصف تھا.صلہ رحمی کرنے والے تھے اور بڑے زندہ دل آدمی تھے.مکرم نور الامین صاحب مکرم نور الامین صاحب شہید ابن مکرم نذیر نسیم صاحب.شہید مرحوم راولپنڈی میں پیدا ہوئے.وہیں سے میٹرک کیا.اس کے بعد نیوی میں بطور فوٹو گرافر بھرتی ہو گئے.ان کے دادا حضرت پیر فیض صاحب رضی اللہ عنہ آف اٹک صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.جب کہ ان کے پڑنانا مکرم بابو عبد الغفار صاحب تھے جو امیر ضلع حیدر آباد ر ہے اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے ، مجلس خدام الاحمدیہ کے بڑے ذمے دار اور محنتی رکن تھے.منتظم عمومی حلقہ ماڈل ٹاؤن خدمت سر انجام دے رہے تھے.کلوز سرکٹ سسٹم کی مانیٹرنگ کرتے رہے جو مسجد میں لگایا تھا.کچھ عرصے کے لئے کراچی چلے گئے شہادت کے وقت ان کی عمر 39 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.سانحہ کے دوران ان کا اپنے گھر والوں کو اور دوستوں کو فون آیا کہ میں ایسی جگہ پر ہوں کہ اگر چاہوں تو نکل سکتا ہوں، لیکن میری یہاں ڈیوٹی ہے.یہ دارالذکر کے صحن میں پڑی ڈش انٹینا کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے.وہیں گرینیڈ لگنے سے شہید ہوئے.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بے انتہا خو بیوں کے مالک تھے.

Page 318

303 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جمعہ کو جب دو بجے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ خیریت سے ہوں.میں نے کہا کہ آپ وہاں سے نکل آئیں تو انہوں نے کہا یہاں بہت لوگ پھنسے ہوئے ہیں میں ان کو چھوڑ کر نہیں آسکتا.بچوں کی تربیت کے بارے میں خاص طور پر وقف نو بچوں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور جماعتی ڈیوٹیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے.چوہدری محمد مالک صاحب چوہدری محمد مالک صاحب چدھڑ شہید ابن مکرم چوہدری فتح محمد صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد گکھڑ منڈی کے رہنے والے تھے ، وہاں سے گوجر انوالہ اور پھر لاہور شفٹ ہو گئے.ان کی پیدائش سے قبل ہی ان کے والد صاحب وفات پاگئے تھے.میٹرک میں پڑھتے تھے کہ والدہ نے بازو میں پہنی ہوئی سونے کی چوڑی اتار کر ہاتھ میں دے دی کہ جا کر پڑھو.مرے کالج سیالکوٹ سے بی.اے کیا.سپر نٹنڈنٹ جیل کی نوکری مالتی تھی لیکن نہیں کی بلکہ زمیندارہ کرتے رہے.اسی سے بچوں کو تعلیم دلوائی.شہادت کے وقت ان کی عمر 93 سال تھی اور موصی بھی تھے.اب اس عمر میں جانا تو تھا ہی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ رتبہ عطا فرمایا.مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.اہل خانہ بتاتے ہیں کہ ان کو بڑھاپے کی وجہ سے بھولنے کی عادت تھی جس کی وجہ سے تقریباًسات آٹھ جمعے چھوڑے.اور 28 مئی کو جمعہ پر جانے کے لئے بہت ضد کر رہے تھے.ان کی بہو بتاتی ہیں کہ ان کو کہا گیا کہ باہر موسم ٹھیک نہیں ہے ، آندھی چل رہی ہے اس لئے آپ جمعہ پر نہ جائیں.بچوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ جمعہ پر نہ جائیں.لیکن نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے تیار ہو کر گھر سے چلے گئے.عموما مسجد کے صحن میں کرسی پر بیٹھ کر نماز جمعہ ادا کرتے تھے.ہمیشہ کی طرح سانحے کے روز بھی صحن میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور حملے کے شروع میں ہی گولیاں لگنے سے شہادت ہو گئی.بہت امن پسند تھے کبھی کسی سے زیادتی نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب بہت شوق سے پڑھتے تھے اور گھر والوں کو بھی تلقین کرتے تھے.ان کے صاحبزادے داؤد احمد صاحب بتاتے ہیں کہ جب میں نے ایم اے اکنامکس پاس کیا والد صاحب سے ملازمت کی اجازت چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ میری نوکری کر لو.میں نے کہا وہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا تم با قاعدہ دفتر کی طرح تیار ہو کر صبح نو بجے آنا، در میان میں وقفہ بھی ہو گا اور شام پانچ بجے چھٹی ہو جایا کرے گی.اور یہاں میز پر بیٹھ جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھا کرو اور اپنی نوکری سے جتنی تنخواہ ملنے کی تمہیں امید ہے اتنی تنخواہ تمہیں میں دے دیا کروں گا تو کتابیں پڑھوانے کے بعد پھر اس نوکری سے فارغ کیا.تو بچپن سے لے کر شادی تک بچوں کی اس طرح تربیت کی.اذان کے وقت سب بچوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ، اور جب تک انہیں اٹھا نہیں لیتے تھے نہیں چھوڑتے تھے.اور پھر وضو کروا کے گھر میں باجماعت نماز ادا ہوتی تھی.بچوں کی تربیت کے لئے انہیں کبھی بھی نہیں مارا.اور لڑکے کہتے ہیں کہ ہمیں بھی یہی فلسفہ سمجھاتے تھے کہ بچوں کے لئے دعا کرنی چاہئے.یہی ان کی

Page 319

304 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہمدردی ہے.اور مار پیٹ سے تربیت نہیں ہوتی.کہتے ہیں کہ جب بھی رات کو میری آنکھ کھلتی میں نے رو رو کر ان کو اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے.1974ء میں لڑکے کہتے ہیں کہ ہم سیٹلائٹ ٹاؤن گوجر انوالہ میں تھے.حالات خراب ہونے پر کافی احمدی احباب ہمارے گھر جمع ہو گئے.اور ڈیڑھ دو ماہ ان کا کیمپ ہمارے گھر کے پاس تھا.چنانچہ ان سب کی بہت خدمت کی، بہت دیانتدار تھے.جھوٹ تو منہ سے نکلتا ہی نہیں تھا.ہمیشہ سچ بولا اور سچ کا ساتھ دیا اور سارے خاندان کی خود کہہ کر وصیت کروائی.مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب شیخ ساجد نعیم صاحب شہید ابن مکرم شیخ امیر احمد صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق بھیرہ سے تھا.انہوں نے لاہور سے بی.اے کیا.راولپنڈی میں ایم سی بی بینک میں گریڈ تھرڈ کے افسر بھرتی ہوئے.اور 2003ء میں بطور مینیجر ریٹائرمنٹ لی.بچے چونکہ لاہور میں تھے اس لئے لاہور آگئے.مکرم شیخ محمد یوسف قمر صاحب امیر ضلع قصور کے برادر نسبتی تھے.شہید مرحوم مجلس انصار اللہ کے بہت ہی ذمہ دار رکن تھے.اور بطور نائب منتظم تعلیم القرآن خدمت کی توفیق پارہے تھے.بوقت شہادت ان کی عمر 59 سال تھی.نظام وصیت میں شمولیت کے لئے درخواست دی ہوئی تھی.مسل نمبر مل چکا تھا.مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.نماز جمعہ کے لئے وقت سے پہلے ہی گھر سے نکل جاتے اور نماز بہت سنوار کر پڑھتے.عموماً اپنی جگہ بیت النور کے دوسرے ہال میں بیٹھے ہوئے تھے.فائرنگ شروع ہونے کے پندرہ بیس منٹ کے بعد اپنے بیٹے شہزاد نعیم کو فون کیا کہ تم ٹھیک ہو ؟ وہ ٹھیک تھا اور بتایا کہ ہم لوگ مسجد میں ہی ہیں.دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہال کے مین دروازے کو بند کیا اور اس کے آگے کھڑے رہے، کیونکہ اس دروازے کی کنڈی صحیح طرح نہیں لگ رہی تھی.اس وجہ سے ہال میں موجود اکثر لوگ بیسمینٹ میں جانے میں کامیاب ہو گئے.دہشتگرد کے اندھا دھند فائرنگ اور بعد میں گرینیڈ کے پھٹنے کی وجہ سے شہید ہو گئے.ایک بیٹے کی شادی اور ملازمت کی وجہ سے فکر مند تھے.اور اس دن بھی، جمعہ والے دن بیٹے کا انٹر ویو دلوایا.اس سے سوال جواب پوچھے، کیسا ہوا؟ اور خوش تھے کہ انشاء اللہ نوکری مل جائے گی.اور پھر اللہ کے فضل سے یکم جون سے بیٹے کو نوکری مل بھی گئی.بیوی بچوں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے.سسرالی رشتوں اور دیگر رشتے داروں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.نرم طبیعت اور اطاعت گزار تھے.خلافت سے عشق تھا.بچوں کی ہر قسم کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے.ان کے بیٹے نے بتایا کہ محلے کے غیر احمدی یا غیر از جماعت دکاندار نے سانحہ کے بعد اتوار کو خواب میں دیکھا کہ شیخ صاحب کہہ رہے ہیں کہ پتہ نہیں میں یہاں کیسے پہنچا ہوں.لیکن بہت خوش ہوں اور مزے میں ہوں.مکرم سید لئیق احمد صاحب مکرم سید لئیق احمد صاحب شہید ابن مکرم سید محی الدین احمد صاحب.شہید کے والد محترم کا تعلق رانچی

Page 320

305 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ضلع بہار، بھارت سے تھا.علیگڑھ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے، یونیورسٹی میں ایک احمدی سٹوڈنٹ سے ملاقات ہوئی جس نے ان کے والد کو کہا کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں اور امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں.تو شہید کے والد نے محی الدین صاحب نے غصے میں اس احمدی سٹوڈنٹ کا سر پھاڑ دیا.بعد میں شرمندگی بھی ہوئی، پھر کچھ کتابیں پڑھیں تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سے رابطہ کیا.اس نے گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں ان کو بھیج دیں.یہ دیکھ کر ان کو غصہ آیا اور کہا کہ میں نے ان سے مسائل پوچھے ہیں اور یہ گالیاں سکھا رہے ہیں.چنانچہ احمدیت کی طرف مائل ہوئے اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.یہ مُلاں کی عادت جو ہمیشہ سے ہے آج تک بھی یہی قائم ہے.اب پوچھنے پر یہ گالیوں کا لٹریچر نہیں بھیجتے بلکہ ٹی وی پر بیٹھ کے جماعت کے خلاف جو منہ میں آتا ہے بلکتے چلے جاتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بڑی دریدہ دہنی کرتے ہیں.بہر حال اس سے لوگوں کو توجہ بھی پیدا ہوتی ہے، اسی طرح ان کو توجہ پیدا ہوئی.شہید تو پیدائشی احمدی تھے.ان کے والد وکیل تھے ، پھر انجمن کے ممبر بھی تھے.رانچی میں انہوں نے میٹرک کیا اور میٹرک فرسٹ ڈویژن میں کیا تو والد بہت خوش ہوئے.پھر پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا.پارٹیشن کے بعد یہ لاہور آگئے اور 1969ء میں ایم سی بی جوائن کیا.1997ء میں بینک مینیجر کی حیثیت سے ریٹائر ڈ ہوئے.لیکن ریٹائر منٹ کے بعد بھی ایم سی بی بینک میں کام کرتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 72 سال تھی.اور نظام وصیت میں شامل تھے.مسجد میں آتے ہی سنتیں ادا کیں.مربی صاحب سے ایک صف پیچھے بیٹھ گئے.اور ساتھ بیٹھے بزرگ مکرم مبارک احمد صاحب کے ماتھے پر گولی لگی تو ان کو تسلی دیتے رہے.اسی دوران دہشتگرد کی گولیوں کا نشانہ بنے اور زخمی ہو گئے، اٹھنے کی بہت کوشش کی لیکن اٹھ نہیں دہ سکے.سامنے سے گولی نہیں لگی تھی البتہ ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور وہیں شہید ہو گئے.بہت دھیمی طبیعت کے مالک تھے.لیکن اگر کوئی شخص جماعت یا بزرگانِ سلسلہ کے متعلق کوئی بات کر تا تو ان کو ہر گز برداشت نہیں کرتے تھے.کم گو تھے لیکن اگر کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلفائے سلسلہ کا ذکر چھیڑ دیتا تو گھنٹوں ان سے باتیں کرتے رہتے تھے.جماعت سے خاموش لیکن گہری وابستگی تھی اور عشق کی حد تک پیار تھا.سب بچوں کو تکلیف کے باوجود پڑھایا.بچے ڈاکٹر بنے.ایک کو آئی ٹی میں تعلیم دلوائی.اور ایک بیٹی کو فریج میں ایم اے کر وایا.سب بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اپنے اچھے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.ان کے بارے میں اہل خانہ لکھتے ہیں کہ جمعہ کی نماز کا خاص طور پر بڑا خیال رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی جس نے اولاد میں نماز کی محبت پیدا کی.ایک دفعہ ایک بار ان کی اہلیہ بہت بیمار ہو گئیں اور انہیں ہسپتال داخل کروانا پڑا اور جمعہ کا وقت ہو گیا تو یہ سیدھے وہیں سے مسجد چلے گئے.یہ نہ سوچا کہ واپس آؤں گا تو اہلیہ زندہ بھی ہوں گی کہ نہیں.وہ کافی شدید بیمار تھیں.مکرم محمد اشرف بھلر صاحب محمد اشرف بھلر صاحب شہید ابن مکرم محمد عبد اللہ صاحب.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد رکھ شیخ ضلع

Page 321

306 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم لاہور کے رہنے والے تھے.ان کے دادا مکرم چوہدری سکندر احمد صاحب احمدی ہوئے تھے.چوہدری فتح محمد صاحب سابق نائب امیر ضلع لاہور کے تایا تھے آباؤ اجداد کی زرعی زمین تھی، کھیتی باڑی کرتے تھے.لیکن کچھ عرصے بعد رائے ونڈ میں اینٹوں کا بھتہ بنالیا.تعلیم صرف پرائمری تھی.2004ء میں عمرہ کرنے کے لئے بھی گئے اور سب بھائیوں کو جماعتی کام کرنے کی تلقین کرتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 47 سال تھی.گھر کے واحد کفیل تھے.ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ باقاعدگی سے ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز بھی مسجد بیت النور کے ہال میں تھے.ہال کا چھوٹا دروازہ بند کر کے کمر دروازے کے ساتھ لگا کر اس کے آگے کھڑے ہو گئے.دہشت گرد باہر سے زور لگا تا رہا لیکن دروازہ نہیں کھولنے دیا.تو دہشت گرد نے باہر سے ہی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے ان کی کمر چھلنی ہو گئی اور موقع پر شہید ہو گئے.دروازہ توڑنے کے لئے جو گولیوں کی بوچھاڑ کی تو ان کو لگتی رہیں.دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.اپنے علاقے میں اپنی شرافت اور ایمانداری کی وجہ سے بہت مشہور تھے.بعض غیر از جماعت بھی ان کی نماز جنازہ میں شامل ہوئے.اور 30 مئی کو نوائے وقت اخبار میں خبر آئی کہ مولویوں کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ جنہوں نے بھی (غیر احمدیوں نے ) ان کا جنازہ پڑھا ہے ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے.اور یہ خبر ایکسپریس ٹی وی پر بھی چلتی رہی.جنازہ پڑھنا تو بڑی بات ہے یہ مولوی تو جنہوں نے تعزیت کی ہے اور ہمدردی کی ہے ان کے بھی نکاح توڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں.گھر والے کہتے ہیں کہ عمرہ ادا کرنے کے بعد تہجد کی ادائیگی میں بڑے با قاعدہ ہو گئے تھے.قرآن کریم پڑھنے کی بھی روزانہ تلقین کرتے تھے.اپنے بچوں کو بھی کہتے تھے کہ قرآنِ کریم روزانہ پڑھو.چاہے ایک لائن پڑھو اور پھر ترجمہ پڑھو، کیونکہ اس کے بغیر کوئی فائدہ نہیں.مکرم مبارک احمد طاہر صاحب مکرم مبارک احمد طاہر صاحب شہید ابن مکرم عبد المجید صاحب شہید لاہور کے رہنے والے تھے.ان کی دادی محترمہ قادیان کی تھیں.ان کے والد محترم نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بیعت کی.یہ ایک بینک میں ٹائپسٹ کے طور پر بھرتی ہوئے اور اس سروس کے دوران پہلے بی اے کیا.پھر ایم اے کیا.اور بینک کے مختلف کورسز بھی کئے اور بینک میں ہی ترقی کرتے کرتے اس وقت نیشنل بنک میں وائس پریذیڈنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے.اور سینیئر پریذیڈنٹ کی پروموشن بھی ان کی ڈیو(Due) تھی.بینک کے بیسٹ ایمپلائی (Best Employee) ہونے کا ان کو کیش پرائز بھی ملا.یہ مولانا دوست محمد شاہد مرحوم مؤرخ احمدیت کے داماد تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 57 سال تھی.بطور نائب قائد اور ناظم تعلیم حلقہ دارالذکر خدمت سر انجام دے رہے تھے.اللہ کے فضل سے موصی تھے.سانحہ والے روز نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں آئے اور خود مین ہال میں پیچھے بیٹھ گئے اور دونوں بیٹے دوسرے ہال

Page 322

307 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم میں بیٹھ گئے.جب دہشتگرد نے اپنی کارروائی شروع کی اور مربی صاحب نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی.دعا کے دوران ہی ایک گولی ان کے بائیں بازو میں لگی اور دوسری دل کے پاس، جس سے موقع پر ہی ان کی شہادت ہو گئی.بہت ہمدرد انسان تھے.بینک میں اپنے لیول کے آفیسر سے اتنی دوستی نہیں تھی جتنی کہ ان کی اپنے ماتحت ورکر سے دوستی تھی.اپنے گھر میں نماز سینٹر بنایا ہوا تھا.اور پہلی منزل صرف نماز سینٹر کے لئے ہی تعمیر کروائی تھی.خلافت سے بہت عشق تھا.ان کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ جماعتی کام سے واپس آتے ہوئے اگر رات کے تین بج جاتے تو ہمیں کچھ نہیں کہتے تھے.لیکن اگر کسی اور کام سے ہم گھر سے باہر جاتے اور عشاء کی نماز سے لیٹ واپسی ہوتی تو بڑی ڈانٹ پڑا کرتی تھی.سخاوت ان کی زندگی کا ایک بڑا خُلق تھا.لوگوں کو بڑی بڑی چیز میں مفت بھی دے دیا کرتے تھے.مربیان سلسلہ سے بہت لگاؤ ہوتا.ان کی بہت عزت کرتے تھے اور مہمان نوازی کرتے تھے.جہاں بھی گھر لیا حلقے کا مرکز اور سینٹر اپنے گھر کو ہی بنانے کی کوشش کرتے تھے.بہت ملنسار تھے.مکرم انیس احمد صاحب مکرم انیس احمد صاحب شہید ولد مکرم صوبیدار منیر احمد صاحب.شہید مرحوم کا خاندان ضلع فیصل آباد سے تھا جہاں سے بعد میں لاہور شفٹ ہو گئے.میٹرک کی تعلیم کے بعد کمپیوٹر ہارڈویئر کا کام کرتے تھے.گلبرگ میں ان کا آفس تھا.شہادت کے وقت ان کی عمر 35 سال تھی.نظامِ وصیت میں شامل تھے.مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے عموماً ماڈل ٹاؤن جایا کرتے تھے.سانحہ کے روز کسی کام سے نکلے اور نماز جمعہ کے لئے مسجد دارالذ کر چلے گئے.اپنے والد صاحب کے ساتھ محراب کے قریب ہی بیٹھے تھے.فائرنگ شروع ہو گئی تو والد صاحب نے چھپنے کے لئے کہا تو جوابا کہا کہ آپ چھپ جائیں میں ادھر لوگوں کی مدد کر تا ہوں اور اس دوران دہشتگرد کی گولیوں سے شہید ہو گئے.بیوی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے.اسی طرح والد صاحب کی بہت اطاعت کرتے تھے.سسرالی رشتے داروں سے بھی بھائیوں جیسا تعلق تھا.خدمتِ خلق کا بہت شوق تھا.ایک جگہ کسی احمدی دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو اس وقت فوری طور پر خون نہیں مل رہا تھا اپنا خون بھی دیا اور پھر اس نے علاج کے لئے قرض کے طور پر پانچ ہزار یا جتنے بھی پیسے مانگے تو وہ دے دیے اور قرض واپس بھی نہیں لیا.اپنے بیٹے کو با قاعدگی سے قرآن کلاس کے لئے بھجواتے تھے.اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.اس سانحے میں ان کے چھوٹے بھائی مکرم منور احمد صاحب بھی شہید ہو گئے ہیں.مکرم منور احمد صاحب مکرم منور احمد صاحب شہید ابن مکرم صوبیدار منیر احمد صاحب.اپنے بھائی کی طرح ان کا تعلق بھی فیصل آباد سے تھا.پیدائشی احمدی تھے، لیکن کچھ عرصہ شیعہ عقائد کی طرف مائل رہے ، کیونکہ انہوں نے اپنی نانی جو ذاکرہ تھیں، ان کے پاس پرورش پائی تھی.پھر یہ ذاکر اور پیر بن گئے تھے.اور اسی دوران انہوں نے خواب میں

Page 323

308 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم حضرت امام حسین اور حضرت علی کو دیکھا.وہ آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے بارے میں ان کو بتایا تو دوبارہ انہوں نے بیعت کر لی اور بڑے فعال کارکن تھے.فطرت نیک تھی.اللہ تعالیٰ نے خود ان کی رہنمائی فرما دی.احمدیت کا بہت علم تھا، بہت تبلیغ کرتے تھے ، انہوں نے بہت ساری بیعتیں بھی کروائیں.دعوت الی اللہ کے شیدائی تھے.بڑے بڑے مولویوں کو لاجواب کر دیتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 30 سال تھی.بطور نائب ناظم اصلاح وارشاد خدمت کی توفیق ملی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.دارالذکر میں نماز جمعہ کے وقت حملے کے وقت یہ بیرونی گیٹ سے فائرنگ کی آواز آئی.تو یہ نہایت پھرتی سے کر النگ (Crawling) کرتے ہوئے باہر نکلے اور جلدی سے واپس آکر مین ہال کی طرف جانے والے اندرونی گیٹ کو بند کیا اور ہال کے مین گیٹ میں دروازے بند کروائے.حملے کے دوران مسلسل فون سے گھر رابطہ رکھا اور اپنے چچا سے دعا کے لئے کہتے رہے اور کہا کہ میں اوپر جا رہا ہوں میرے لئے دعا کریں.ایک عینی شاہد دوست نے بتایا کہ حملہ کے شروع میں ہی ہال کے اندر آئے اور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اگر کسی کے پاس اسلحہ ہے تو مجھے دو کیونکہ دہشتگر داندر آگئے ہیں.(وہاں لوگ مسجد میں نمازیں پڑھنے آئے تھے ، اسلحہ لے کر تو نہیں آئے تھے ) اس کے بعد جب اندر فائرنگ سے لوگ زخمی ہوئے اور جب دہشتگر دہال سے اوپر گئے تو یہ موقع پا کر بڑی پھرتی سے کر النگ (Crawling) کرتے ہوئے زخمی بزرگان کو پانی پلاتے رہے.پولیس اور انتظامیہ یہی اعتراض کر رہی ہے نہ کہ آپ لوگ کیوں نہیں اسلحہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے.یہ غیر احمدیوں کا مقام ہے کہ وہ لے کر بیٹھ سکتے ہیں لیکن احمدی نہیں.یا پولیس بالکل ہاتھ اٹھالے اور کہہ دے کہ اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں.بہر حال مسلسل موقع کی تلاش میں رہے کہ دہشتگرد کو پکڑیں.بالآخر موقع پا کر نہایت بہادری سے دہشتگرد کو پکڑا جس کی وجہ سے دہشتگرد نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا.دھماکے کی وجہ سے یہ بھی شہید ہو گئے.ان کو شروع میں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کے بھائی مکرم انیس احمد صاحب شہید ہو چکے ہیں.لیکن اس کے باوجود بڑی بہادری سے لوگوں کی مدد کرتے رہے.ان کے گھر بڑے عرصے سے باہر منافرت پھیلانے والے اشتہارات اور پوسٹر چسپاں تھے.اس سے پہلے بھی غیر از جماعت انتشار پسند ایسی کارروائیاں کرتے رہتے تھے بچوں کے ذریعے سے ہی کام کرواتے ہیں.لیکن شہید مرحوم نے پوسٹر لگانے والے بچوں کو بڑے پیار اور اخلاق سے سمجھایا اور بچوں کو اثر بھی ہو گیا ان کو سمجھ بھی آگئی.لیکن پھر وہ بڑوں کے کہنے پر مجبور تھے ، لگا جایا کرتے تھے.ان کے ناظم اصلاح و ارشاد صاحب ضلع منور احمد صاحب نے بتایا کہ سانحہ سے تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ قبل انہوں نے اپنی ایک خواب مجھے بتائی.خواب میں ان کی وفات یافتہ والدہ ملی ہیں.انہوں نے کہا ہے کہ میں نے تمہارا کمرہ تیار کر لیا ہے ، میں تمہیں بلالوں گی.حافظ مظفر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ اپنے عزیزوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا بلکہ پچھلے سال شادی ہوئی ہے تو اپنی بیوی کو بھی پہلے دن ہی کہہ دیا کہ میں نے تو شہید ہو جاتا ہے ، اس لئے میرے شہید ہو جانے کے بعد کوئی واویلانہ کرنا.

Page 324

خطبات مسرور جلد ہشتم 309 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 مکرم سعید احمد طاہر صاحب ایک شہید ہیں مکرم سعید احمد طاہر صاحب ولد مکرم صوفی منیر احمد صاحب.ان کا میں آج جنازہ غائب بھی پڑھوں گا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد ضلع کرنال بھارت کے رہنے والے تھے.ان کے پڑدادا حضرت رمضان صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.ہجرت کے بعد تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں آباد ہوئے.ان کا خاندان لاہور میں مقیم تھا.شہادت کے وقت ان کی عمر 37 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں شہید ہوئے.سانحہ کے روز کام سے سیدھے جمعہ پڑھنے چلے گئے.مسجد بیت النور میں ان کے پہنچنے سے پہلے مسجد میں فائرنگ شروع ہو چکی تھی.دو دہشتگر دجو موٹر سائیکل پر ماڈل ٹاؤن آئے تھے ، اپنی موٹر سائیکل پھینک کر گیٹ پر فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہو گئے تھے.چند سیکنڈ بعد موٹر سائیکل پھٹ گیا.یہ اس کے قریب تھے اس کی وجہ سے ان کو آگ لگ گئی اور جسم جھلس گیا.آٹھ دن یہ ہسپتال میں رہے ہیں لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 5 جون کو جامِ شہادت نوش کیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.شہادت سے ایک دن پہلے انہوں نے اپنی بہن کو گاؤں فون کیا کہ گوشت کی دیگ پکوا کر تقسیم کر دو.انہوں نے خواب دیکھی تھی، بہر حال اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر تھی، اور پھر جمعہ والے دن بچوں کو پیار کیا اور جلدی جلدی تیار ہو کر کام کے لئے نکل گئے اور اس کے بعد پھر جمعہ پڑھنے مسجد نور چلے گئے.مرحوم کی بیوہ نے چند ڈائریاں دکھائی ہیں جن میں کئی مقامات پر یہ لکھا تھا کہ شہادت میری آرزو ہے.انشاء اللہ.ڈائری میں ایک اور جگہ تحریر ہے کہ اے اللہ ! شہادت نصیب فرما.یہ گردن تیری راہ میں کئے.میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے تیری راہ میں ہو ویں.پیارے حبیب کے صدقے میرے مولی میری یہ دعا قبول فرما.آمین.اللہ تعالیٰ نے دعا قبول بھی کر لی.30 نومبر 2000ء کو انہوں نے ڈائری میں یہ الفاظ لکھے تھے.ڈائری میں نمازوں کی ادائیگی، جمعہ کی ادائیگی ، خطبہ جمعہ کا مختصر خلاصہ اور نوٹس، چندہ جات کی باقاعدہ ادا ئیگی کا جابجاذ کر ملتا ہے.اور چونکہ تخت ہزارہ کے رہنے والے تھے ، وہاں کچھ سال پہلے چار پانچ شہید ہوئے تھے ان کے لئے دعا کی تحریک کا بھی ذکر ملتا ہے.والدین اور رشتے داروں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے.غرباء کو صدقہ دیتے تھے.بہت ہنس مکھ تھے ، بہت پیار کرنے والے تھے.ماں باپ، بہن بھائی ، اہلیہ سب کا خیال رکھتے تھے.انہوں نے ایک ڈبہ رکھا ہوا تھا جس میں روزانہ کچھ رقم ڈال دیتے تھے.اور جب گاؤں جاتے تھے تو وہاں مستحقین میں یہ رقم تقسیم کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.تمام شہداء جو ہیں ان کے درجات بلند فرمائے.یہ تمام شہداء قسم قسم کی خوبیوں کے مالک تھے.اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں اور ان کی نیک خواہشات اپنے بیوی بچوں اور نسلوں کے لئے قبول فرمائے.سب ( پسماندگان ) کو صبر اور حوصلہ سے یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اب یہ ذکر خیر تو ابھی آئندہ بھی چلے گا.اس کے علاوہ آج کی جنازہ غائب میں ایک اور جنازہ غائب میں پڑھاؤں گا جو مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب

Page 325

310 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم واقف زندگی کا ہے، جو مکرم محمد صادق صاحب ننگلی درویش قادیان کے بیٹے تھے ، خود بھی درویش تھے ، (مطلہ قادیان میں ہی تھے ) 13 جون 2010ء کو 53 سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 30 سال تک مختلف جماعتی عہدوں پر احسن رنگ میں خدمت انجام دیتے رہے.ابتدا میں نائب ناظم وقف جدید تھے.پھر نائب ناظم بیت المال آمد ، نائب ناظر نشر و اشاعت رہے.1995ء میں ناظر بیت المال خرچ مقرر ہوئے اور تاوفات اسی عہدے پر فائز رہے.اس کے علاوہ آٹھ سال تک ناظر تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمت بجالاتے رہے.چھ سال تک صدر مجلس خدام الاحمد یہ بھارت اور پھر نائب صدر مجلس انصار اللہ انڈیا بھی رہے.1993ء میں افسر جلسہ سالانہ قادیان مقرر ہوئے اور نہایت عمدگی سے یہ فریضہ سر انجام دیا.2005ء میں جب میں قادیان گیا ہوں تو اس وقت بھی یہی افسر جلسہ سالانہ تھے.اور بڑی ہمت اور محنت سے انہوں نے اس سارے نظام کو سنبھالا.باوجود اس کے کہ بلڈ پریشر وغیرہ کی وجہ سے ان کی طبیعت میں لگتا تھا کہ کچھ آثار بیماری کے نظر آرہے ہیں.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے دور میں بھی اور ان کے بعد بھی کئی مرتبہ ان کو قائمقام ناظرِ اعلیٰ خدمت کی توفیق ملی.اور میاں صاحب کی وفات کے بعد تو میں نے ان کو نائب امیر مقامی بھی مقرر کیا تھا.صدر انجمن احمدیہ کے علاوہ انجمن تحریک جدید ، انجمن وقف جدید اور مجلس کار پرداز کے بھی ممبر تھے.صدر فنانس کمیٹی تھے.اسی طرح نور ہسپتال کی کمیٹی کے صدر تھے.مختلف خدمات بجالاتے رہے.انہوں نے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد گرونانک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی.تہجد اور نمازوں کے بڑے پابند ، خلافت سے والہانہ محبت رکھنے والے مخلص اور باوفا انسان تھے.اکثر سچی خوابیں آیا کرتی تھیں.اور انہوں نے اپنی اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ لگتا ہے میر اوقت قریب ہے تو اس لئے تیار رہنا.پہلے ان کے گردوں اور پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو گیا.پہلے گر دے ان کے خراب ہوئے.لمبا عرصہ ڈائیلسز میں رہے.پھر گردہ تبدیل بھی ہو گیا لیکن حالت سنبھل نہیں سکی.لیکن بڑے صبر اور حوصلے سے بڑی لمبی بیماری انہوں نے کائی ہے.آخر میں پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو گیا.میں نے بھی ان کو ہمیشہ جیسا کہ میں نے کہا ہے ہنستے مسکراتے دیکھا ہے.1991ء میں میں نے بھی ان کے ساتھ جلسہ سالانہ پر عام کارکن کی حیثیت سے ڈیوٹی دی ہے.اس وقت بھی میں دیکھتا تھا، بعد میں اپنے وقت میں بھی میں نے دیکھا کہ خلافت کے لئے ان کی آنکھوں سے بھی ایک خاص محبت اور پیار ٹپکتا تھا.بڑی محنت سے ڈیوٹی دیتے تھے.اور افسران کے سامنے ہمیشہ مؤدب رہے اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتے رہے.بلکہ بعض دفعہ 1991ء میں ڈیوٹی کے دوران مجھے احساس ہو تا تھا کہ افسر بعض دفعہ ان سے زیادتی کر جاتے ہیں لیکن کبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں آیا.مسکراتے ہوئے ، کامل اطاعت کے ساتھ افسر کا حکم مانتے تھے.اور غلطی نہ بھی ہوئی تو یہ نہیں کہا کہ نہیں میں نے یہ کام نہیں کیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.5 جون کو لاہور والوں میں سے جو ایک شہید ہوئے ہیں، اُن کا اور ان کا نماز جنازہ غائب جمعہ کے بعد ادا ہو گا.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 289 جولائی تا 15 جولائی 2010 صفحہ 5 تا 11)

Page 326

خطبات مسرور جلد ہشتم 311 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جون 2010ء بمطابق 25 احسان 1389 ہجری شمسی بمقام منہائیم، فرینکفرٹ جرمنی تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ جرمنی کا جلسہ سالانہ میرے اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسہ کو بابرکت فرمائے.یہ جلسہ اپنی تمام تر برکات کے ساتھ ہمارے ایمانوں میں تازگی پیدا کرنے والا اور ایک نئی روح پھونکنے والا ہو.ان مقاصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کا انعقاد فرمایا تھا.اور وہ مقاصد یہ تھے کہ بیعت کی حقیقت کو سمجھ کر ایمان اور یقین میں ترقی کرنا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تمام دنیاوی محبتوں پر حاوی کرنا، نیکیوں میں ترقی کرنا اور قدم آگے بڑھانا، علمی، تربیتی اور روحانی تقاریر سن کر علم و معرفت میں ترقی کرنا، آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کا تعلق قائم کرنا اور پھر ان رشتوں کو بڑھاتے چلے جانا.سال کے دوران ہم سے رخصت ہونے والے بھائی ہیں، بہنیں ہیں ان کے لئے دعائیں کرنا جو اپنا عہد بیعت نبھاتے ہوئے ہم سے جدا ہوئے.پس ان تین دنوں میں ان مقاصد کو پیش نظر رکھیں تبھی ہم اس جلسے کے انعقاد کی برکات سے فیض پاسکتے ہیں.اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے آپ اپنے ان تین دنوں میں خاص طور پر اپنی حالتوں کو بدلنے کی کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں.جہاں اپنے لئے دعا کر رہے ہوں وہاں یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو، دنیا کے کسی بھی کونے میں وہ رہتا ہو ، اپنی حفاظت خاص میں رکھے.خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں.پاکستان میں آج کل جماعت پر حالات تنگ سے تنگ تر کئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے.مخالفین کو کھلی چھٹی دی جارہی ہے.اللہ تعالی پاکستانی احمدیوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے.ان کے ایمان کو مضبوط رکھے ، ان کو ہر شر سے بچائے.ان کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ان کو خارق عادت طور پر نشان دکھائے.آج کے خطبہ کے اصل مضمون کی طرف آنے سے پہلے میں جلسہ سالانہ کے بارے میں کچھ انتظامی باتیں بھی کہنا چاہوں گا.اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.جلسہ کے انتظامات کی سر انجام دہی کے لئے آپ سب جانتے ہیں

Page 327

312 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مختلف شعبہ جات ہوتے ہیں اور ہر شعبے کا ہر افسر اور ہر کارکن مہمانوں کی خدمت کے لئے مقرر ہے.مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جماعت اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً محض اللہ بے نفس ہو کر خدمت سر انجام دیتے ہیں.ان میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں، جو ان بھی ہیں اور بوڑھے بھی ہیں اور بچے بھی ہیں اور ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے فرائض انجام دینے والا ہے.پس شاملین جلسہ ان کارکنان سے مکمل طور پر تعاون کریں.جلسہ کے بہترین انتظامات کے حصول کے لئے بعض اصول و قواعد انتظامات کے لئے بنائے جاتے ہیں اور بنائے گئے ہیں.پس اگر کوئی کارکن کسی مہمان کو اس طرف توجہ دلاتا ہے تو اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ کسی بات پر ناراض ہو جائیں.کارکنان کو تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ وہ خوش اخلاقی سے اپنے فرائض ادا کریں.دوسری اہم بات جو شامل ہونے والوں کو خاص طور پر میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ خاص طور پر اپنے گردو پیش پر نظر رکھیں.اپنے ماحول پر نظر رکھیں.سکیورٹی انتظامات کے باوجود کوئی شریر عنصر شرارت کر سکتا ہے.جبکہ آج کل ہر جگہ مخالفین کے منصوبے جماعت کو نقصان پہنچانے یا کم از کم بے چینی پیدا کرنے کے ہیں.جلسہ میں بھی وہ باوجود تمام تر سکیورٹی کے بعض دفعہ دھوکے سے بھی داخل ہو سکتے ہیں.سکیورٹی کا تو پورا انتظام ہے ، اس لئے سکیورٹی کے انتظام سے خاص طور پر مکمل تعاون کریں.دس مرتبہ بھی آپ کو اپنے آپ کو چیک کرانے کے لئے پیش کرنا پڑے تو پیش کریں.یہ آپ کی ہتک یا کسی قسم کے شک کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ آپ کی حفاظت کے لئے ہے.اسے کسی قسم کا آنا کا مسئلہ نہ بنائیں.کسی کے ساتھ اگر کوئی مہمان بھی آرہا ہے تو اسے اسی صورت میں اجازت ہو گی جب انتظامیہ کی طرف سے اجازت ہو گی اور ان کی تسلی ہو گی.یا جو بھی انتظامیہ نے اس کے لئے طریقہ کار مقرر کیا ہوا ہے اس سے گزرنا پڑے گا.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور جلسہ سے حتی المقدور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں خطبہ کے مضمون کی طرف آتا ہوں اور آج کے خطبہ کا مضمون بھی انہی شہداء کے ذکر خیر پر ہی ہے جنہوں نے اپنی جان کی قربانیاں دے کر ہماری سوچوں کے نئے راستے متعین کر دیئے ہیں.مکرم خلیل احمد صاحب سولنگی آج کی فہرست میں سب سے پہلا نام جو میرے سامنے ہے ، مکرم خلیل احمد صاحب سولنگی شہید ابن مکرم نصیر احمد سولنگی صاحب کا ہے.یہ ترتیب کوئی خاص وجہ سے نہیں ہے، جس طرح کو ائف میرے سامنے آتے ہیں میں وہ بیان کر رہا ہوں.مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید کے آباؤ اجداد کا تعلق قادیان کے ساتھ گاؤں کھارا تھا، وہاں سے ہے.ان کے دادا حضرت ماسٹر محمد بخش سولنگی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 328

خطبات مسرور جلد ہشتم 313 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 کے صحابی تھے.مکرم عبد القادر سوداگر مل صاحب بھی ان کے عزیزوں میں سے تھے.پارٹمیشن کے بعد یہ لوگ گوجر انوالہ شفٹ ہو گئے.شہید نے گورنمنٹ کالج لاہور سے الیکٹریکل انجنیئر نگ کرنے کے بعد پانچ سال واپڈا میں ملازمت کی، پھر اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار شروع کر دیا.والد صاحب کی وفات کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا.1997ء میں یہ لاہور آگئے اور یہاں کاروبار کرتے رہے اور ایک سال پہلے گارمنٹس کے امپورٹ کا امریکہ میں کاروبار شروع کیا اور امریکہ میں رہائش پذیر تھے.اس سے قبل پاکستان میں بھی کافی عرصہ ٹھہر کے کاروبار کرتے رہے ہیں.بطور ناظم اطفال انہوں نے پاکستان میں خدمات سرانجام دیں.قائد ضلع، قائد علاقہ مجلس خدام الاحمدیہ ضلع گوجر انوالہ، مجلس انصار اللہ علاقہ لاہور، مرکزی مشاورتی بورڈ برائے صنعت و تجارت کے صدر اور ممبر کے علاوہ جنرل سیکرٹری ضلع لاہور کی خدمات بھی انجام دیتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 51 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ان کی مسجد دارالذکر میں شہادت ہوئی ہے.شہید ایک ماہ قبل امریکہ سے پاکستان اپنے کاروبار کے سلسلے میں آئے تھے اور نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد دارالذکر پہنچے تھے.حملہ کے دوران کن میں سیڑھیوں کے نیچے باقی احباب کے ساتھ قریباً ایک گھنٹہ رہے.شائد بیسمنٹ میں چلے جاتے لیکن انہوں نے دیکھا کہ ایک زخمی بھائی ہے اس کو بچانے کے لئے سیڑھیوں سے نیچے کھینچنے کی کوشش میں دہشتگرد کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے اور ان کے سینے کی دائیں طرف گولی لگی.کافی دیر تک زخمی حالت میں سیڑھیوں کے نیچے رہے.لیکن اللہ تعالیٰ کو ان کی شہادت منظور تھی، اس لئے مسجد میں ہی شہادت کا رتبہ پایا.جب دارالذکر پر حملہ ہوا تو انہوں نے اپنے بڑے بیٹے شعیب سولنگی کو فون کیا کہ اس طرح حملہ ہوا ہے ، بس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے اور گھر والوں کو بھی دعا کے لئے کہو.انتہائی مخلص مالی جہاد میں پیش پیش تھے ، ان کو چھوٹی عمر سے ہی اعلیٰ جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی سعادت ملی.جماعتی خدمت کا بھر پور جذبہ رکھتے تھے.ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.مالی قربانیوں میں ہمیشہ سبقت لے جانے والے تھے.گوجرانوالہ میں محلہ بھگوان پورہ میں مسجد تعمیر کروائی.دار الضیافت ربوہ کی reception کے لئے انہوں نے خرچ دیا.محنتی اور نیک انسان تھے.اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف بڑی توجہ دیتے رہے.ہر کام شروع کرنے سے پہلے خلیفہ وقت سے اجازت اور رہنمائی لیتے تھے.ان میں خلافت کی اطاعت بے مثال تھی.ان کا بزنس پاکستان میں تھا.ان کے کاروباری اور بعض دوسرے حالات کی وجہ سے میں نے ان کو کہا کہ امریکہ چلے جائیں.تو لاہور سے اسی وقت فوری طور پر وائنڈ آپ کر کے امریکہ چلے گئے.انہوں نے بہت سے احمدی بے روز گار افراد کی ملازمت کے سلسلہ میں مدد کی.ان کی اہلیہ کہتی ہیں ہماری گھریلو زندگی بھی بڑی مثال تھی.مثالی باپ تھے ، مثالی شوہر تھے.ہر طرح سے بچوں کا اور بیوی کا خیال رکھنے والے.دروازے پر کوئی ضرور تمند آجاتا تو کبھی اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹا یا.لوگ آپ کے پاس اپنے مسائل

Page 329

314 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کے حل کے لئے آتے اور بڑا مشورہ اچھا دیا کرتے تھے.اسی لئے مرکزی صنعتی بورڈ کے ممبر بھی بنائے گئے تھے.بڑے ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے.ہر مشکل کام جو بھی ہوتا ان کے سپر د کیا جاتا بڑی خوشی سے لیتے، بلکہ کہہ دیتے تھے انشاء اللہ ہو جائے گا.اور اللہ تعالیٰ نے ان کو صلاحیت دی ہوئی تھی اس کو بخوبی سر انجام دیتے تھے.انہیں دوسروں سے کام لینے کا بھی بڑا فن آتا تھا.بہت نرم گفتار تھے، اخلاق بہت اچھے تھے.مثلاً یہ ضروری نہیں ہے کہ جو اپنے سپر د فرائض ہیں انہی کو صرف انجام دینا ہے.اگر کبھی سیکرٹری وقف جدید نے کہہ دیا کہ چندہ اکٹھا کرنا ہے میرے ساتھ چلیں.گو ان کا کام نہیں تھا لیکن ساتھ نکل پڑتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے مسجد بیت الفتوح کی جب تحریک کی ہے تو فوراً فیکس کے ذریعے اپنا وعدہ کیا اور وعدہ فوری طور پر ادا بھی کر دیا.چوہدری منور علی صاحب سیکرٹری امور عامہ بیان کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ قادیان کے انتظامات میں ان کے پاس ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہو تا تھا اور انتہائی خوبی سے یہ کام کرتے تھے.بسوں، کاروں اور دیگر ٹرانسپورٹ کا کام انتہائی ذمہ داری سے کرتے تھے اور یہ ہے کہ سارا دن کام بھی کر رہے ہیں اور ہنستے رہتے تھے.بڑے خوش مزاج تھے.امریکہ شفٹ ہونے کے باوجود 2009ء کا ( قادیان کا) جو جلسہ ہوا ہے اس میں پاکستان آئے اور اس کام کو بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیا.قادیان جانے والے جو لوگ تھے ان کی مدد کی.ر میرے ساتھ بھی ان کا تعلق کافی پرانا خدام الاحمدیہ کے زمانہ سے ہے.مرکز سے مکمل تعاون اور اطاعت کا نمونہ تھے.جیسے بھی حالات ہوں جس وقت بلاؤ فوراً اپنے کام کی پروانہ کرتے ہوئے حاضر ہو جایا کرتے تھے.عام طور پر بزنس مین اپنے بزنس کو چھوڑا نہیں کرتے.اب بھی جب یہاں سے گئے ہیں، مجھے لندن مل کے گئے ہیں اور گو حالات کی وجہ سے میں نے ان کو کہا بھی تھا کہ احتیاط کریں، بہر حال اللہ تعالیٰ نے شہادت مقرر کی تھی، شہید ہوئے.ان کو یہ بھی فکر تھی کہ جو پرانے بزرگ ہیں، جو پرانے خدمتگار ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے میں پہل کرنے والے ہیں، ان کی بعض اولا دیں جو ہیں وہ خدمت نہیں کر رہیں.تو یہ بھی ان کو ایک بڑا درد تھا اور میرے ساتھ درد سے یہ بات کر کے گئے اور بعض معاملات میرے پوچھنے پر بتائے بھی اور ان کے بارے میں بڑی اچھی اور صاف رائے بھی دی.رائے دینے میں بھی بہت اچھے تھے.سابق امیر صاحب گوجر انوالہ نے لکھا کہ سولنگی صاحب کہا کرتے تھے کہ خلافت کے مقابلے پہ کوئی دوستی اور رشتے داری کسی قسم کی حیثیت نہیں رکھتی.1974ء میں سولنگی صاحب کے خاندان کے بعض افراد نے کمزوری دکھائی.یہ اس وقت بہت کم عمر تھے مگر اپنے خاندان کو اسی حالت میں چھوڑ کر امیر جماعت چوہدری عبد الرحمن صاحب کے گھر چلے گئے جہاں ساری جماعت پناہ گزین تھی اور وہاں ڈیوٹیاں دینی شروع کر دیں.چوہدری صاحب پہ بھی ان کی اس قربانی کا بڑا اثر تھا.جیسا کہ میں نے کہا مالی قربانی کی بھی بڑی توفیق ملی.یہ سابق امیر صاحب لکھتے ہیں کہ کھلے دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والے تھے.ایک دفعہ ایک پلاٹ مل رہا تھا جو بعد

Page 330

315 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد هشتم میں نہیں ملا.لیکن اس کی قیمت پچاس لاکھ روپے تھی.انہوں نے کہا میں ادا کر دوں گا.بہر حال وہ تو نہیں ملا لیکن اس کے مقابلے پر ایک اور کو ٹھی چوالیس لاکھ روپے کی مل گئی، جس کی قیمت انہوں نے ادا کی اور جو جماعت کے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہو رہی ہے.اس سے پہلے مسجد کے لئے بھی کافی بڑی رقم دے چکے تھے لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے میں نے رقم دی ہے.خلافت جوبلی کے موقع پر لاہور کی طرف سے جو قادیان میں گیسٹ ہاؤس بنا ہے ، اس کی تعمیر کے لئے بھی انہوں نے دس لاکھ روپیہ دیا.خدام الاحمدیہ گیسٹ ہاؤس جو ر بوہ میں ہے اس کی رینوویشن (Renovation) کے لئے انہوں نے بڑی رقم دی.غرض کہ مالی قربانیوں میں پیش پیش تھے ، وقت کی قربانی میں بھی پیش پیش تھے.اطاعت اور تعاون اور واقفین زندگی اور کارکنان کی عزت بھی بہت زیادہ کیا کرتے تھے.پیسے کا کوئی زعم نہیں.جتنا جتنا ان کے پاس دولت آتی گئی میں نے ان کو عاجزی دکھاتے ہوئے دیکھا ہے.مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب دوسرے شہید ہیں مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب ابن مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب.یہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے تھے.اور چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب جو سابق امیر ضلع لاہور ہیں ان کے چازاد بھائی تھے.ان کو بھی جماعتی خدمات بجالانے کا موقع ملتا رہا.چار خلفائے احمدیت کے ساتھ کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.ان کے والد مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب سابق امیر ضلع لاہور تھے.ان کی ابتدائی تعلیم قادیان کی تھی.میٹرک اور گریجویشن لاہور سے کی.انہوں نے لائر زان کالج لندن سے بار ایٹ لاء کیا.کچھ عرصہ لندن میں پریکٹس کی.پھر والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر واپس آگئے اور پھر حضور رحمہ اللہ کے ارشاد پر ہی اسلام آباد میں سیٹ ہو گئے اور 1984ء میں ریٹائر ڈ ہوئے.پھر انہوں نے کوئی دنیاوی کام نہیں کیا بلکہ جماعتی کام ہی کرتے رہے.متعد د جماعتی عہدوں پر ان کو خدمت کی توفیق ملی.سابق امیر جماعت اسلام آباد، نائب امیر ضلع لاہور ، ممبر قضاء بورڈ، ممبر فقہ کمیٹی کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے.شہادت کے وقت ان کی عمر 83 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور دار الذکر میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ کے دن تیار ہو کر کمرے سے نکلے تو کمرے سے نکلتے ہی کہا کہ کمزوری بہت ہو گئی ہے.پھر ناشتہ کیا اور بیٹے کو کہا کہ میں نے بارہ بجے چلے جاتا ہے.تو بیٹے نے کہا کہ اتنی جلدی جا کر کیا کرنا ہے.تو جواب دیا کہ میرا دل نہیں چاہتا کہ لوگوں کے اوپر سے پھلانگ کر جاؤں اور پہلی صف میں بیٹھوں.بیٹا اور پوتا ساتھ تھے.بیٹے نے ڈیوٹی پر جانے سے پہلے کہا کہ پوتے کو اپنے ساتھ بٹھا لیں.پہلے یہ ہمیشہ ساتھ بٹھایا کرتے تھے.انہوں نے کہا نہیں اس

Page 331

316 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کو اپنے ساتھ لے کے جاؤ.بیٹے نے کہا کہ میری ڈیوٹی ہے.تو کہا کہ نہیں بالکل نہیں.چنانچہ بیٹے نے اپنے بیٹے کو یعنی ان کے پوتے کو کسی اور کے پاس چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور پوتے دونوں کو محفوظ رکھا.شہید مسجد دارالذکر کے مین ہال میں محراب کے اندر پہلی صف میں کرسی پر بیٹھے تھے.ان کے دائیں طرف سے شدید فائرنگ شروع ہوئی جس سے ان کے پیٹ میں گولیاں لگیں.کسی نے بتایا کہ امیر صاحب ضلع نے ان کو کہا کہ چوہدری صاحب آپ باہر نکل جائیں تو انہوں نے جوابا کہا کہ میں نے تو شہادت کی دعامانگی ہے.چنانچہ امیر صاحب کے اور ان کے دونوں کے جسم ایک ہی جگہ پر پڑے ہوئے ملے.مولوی بشیر الدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے سفید رنگ کی بہت بڑی گاڑی آئی ہے ، اس میں سے آواز آئی کہ میں آپ کو لینے آیا ہوں.رات کو عشاء کی نماز پڑھ کر جلدی سو جاتے تھے.اور رات ایک بجے اٹھ جاتے تھے پھر نماز تہجد اور دعاؤں میں مشغول رہنا ان کا کام تھا.ہر ایک کو دعا کے لئے کہتے کہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرو.خلافت سے محبت انتہا کی تھی.جو جماعت کے خدمت گزار تھے ان کی بھی بڑی تعریف کیا کرتے تھے کہ کتنی پیاری جماعت ہے کہ لوگ اپنا کام ختم کر کے جماعت کے کاموں میں جت جاتے ہیں.لوگوں میں بیٹھتے تو تبلیغ کرتے.مجلس برخاست ہوتی تو کہتے کہ اگر کسی کو بر الگا ہے تو معاف فرمائیں.یکصد یتامی میں مستقل ایک یتیم کا خرچ دیتے تھے.ربوہ سے ایک ملازم آیا، وہ ساتویں جماعت تک پڑھا ہوا تھا گھر میں کہا کہ اسے بھی پڑھاؤ اور جو کچھ پڑھائی کے لئے اپنے بچوں کو چیزیں دیتی ہو وہی اس کو بھی دو.خدا کے فضل سے موصی تھے.ان کے بیٹے کا بیان ہے اور کسی اور نے بھی یہ لکھا ہے کہ بچپن سے ہی ایک خواہش کا اظہار فرماتے تھے کہ خدا زندگی میں وصیت کی ادائیگی کی تو فیق عطا فرمائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے شہادت سے تین سال پہلے ان کو اپنی جائیداد پر وصیت کی ادائیگی کی توفیق عطا فرما دی اور شہادت سے چند روز پہلے اپنے سارے چندے ادا کر دیئے.آپ اسلام آباد میں ملازمت کے دوران مونا پلی کنٹرول اتھارٹی میں رجسٹرار کے طور پر فائز تھے.اس دوران اس وقت کے وزیر اعظم کی سفارش کے ساتھ فائل آئی.بھٹو صاحب وزیر اعظم تھے.جب فائل آئی تو عظ چوہدری صاحب کو کوئی قانونی سقم نظر آیا.انہوں نے انکار کے ساتھ اس فائل کو واپس کر دیا.اب وزیر ا پاکستان کی طرف سے فائل آئی ہے انہوں نے کہا کہ یہ قانونی سقم ہے میں اس کی منظوری نہیں دے سکتا.یہ غلط کام ہے.تو وزیر اعظم صاحب جو اس وقت سیاہ وسفید کے مالک تھے.بہت سیخ پا ہوئے اور دھمکی کے ساتھ نوٹ لکھا کہ یا تو تم کام کرو ورنہ تمہارے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی.تو چوہدری صاحب نے اپنے احمدی ہونے کا بھی نہیں چھپایا تھا اور موقع و محل کے مطابق تبلیغ بھی کرتے تھے.وزیر اعظم صاحب کو بھی یہ پتہ تھا کہ

Page 332

317 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم احمدی ہے.کیونکہ اس نے اس معاملے میں بعض غلط قسم کے الفاظ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں بھی استعمال کئے تھے.بہر حال یہ معاملہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور نے دعا کے ساتھ فرمایا ٹھیک ہے، ہمت کرے اور اگر بزدل ہے تو استعفیٰ دے دے.جب چوہدری صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا یہ پیغام ملا تو انہوں نے کہا جو مرضی ہو جائے میں استعفیٰ نہیں دوں گا اور ایک لمباخط وزیر اعظم صاحب کو لکھا کہ اگر میں استعفیٰ دوں تو ہو سکتا ہے کہ سمجھا جائے کہ میں کچھ چھپانا چاہتا ہوں.مجھے کچھ چھپانا نہیں ہے اس لئے میں نے استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے.اس پر ان کے خلاف کارروائی ہوئی اور ان کو ایک نوٹ ملا کہ تمہاری خدمات سے تم کو فارغ کیا جاتا ہے.اور کوئی وجہ نہیں بتائی گئی.انہوں نے پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت میں معاملہ پیش کیا، اور دعا کے لئے کہا.انہوں نے دعا کی.اگلی صبح کہتے ہیں کہ میں فجر کی نماز کے لئے باہر نکلا تو اس وقت کے امیر جو چوہدری عبد الحق ورک صاحب تھے ، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کے لئے دعا کر رہا تھا تو مجھے آواز آئی کہ چھٹیاں مناؤ، عیش کرو.تو جب بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی اور مارشل لاء والوں نے تمام سرکاری دفاتر کی تلاشی لینی شروع کی تو ان کی فائل بھی سامنے آئی اور ان کے کاغذات مل گئے ، اور جو انکوائری ہوئی پھر بغیر وجہ ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا اس پہ فوراً ایکشن ہوا اور ان کو بحال کر دیا اور ساتھ یہ نوٹ بھی اس پہ لکھا ہوا آ گیا کہ دوسال کا عرصہ جو آپ کو بر طرف کیا گیا ہے، یہ چھٹی کا عرصہ سمجھا جائے گا.تو اس طرح وہ خواب جو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے احمدی بھائی کو دکھائی تھی وہ بھی پوری ہوئی.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عجیب کام ہے کہ اگر ایک مخالف احمدیت نے ان کو بر طرف کیا تو بحالی بھی مخالف احمدیت سے ہی کروائی اور ضیاء الحق نے ان کی بحالی کی.ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ لاہور کی انتظامیہ نے ہمیں کہا کہ حفاظت کے پیش نظر اپنی کار بدل لو تا کہ نمبر پلیٹ تبدیل ہو جائے.اور دارالذکر آنے جانے کے راستے بدل بدل کر آیا کرو.تو اپنے والد صاحب کو جب میں نے کہا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے یہ کر لو، اور ساتھ یہ بھی ہدایت تھی کہ کبھی کبھی جمعہ چھوڑ دیا کرو.جب یہ بات میں نے والد صاحب سے کی تو انہوں نے کہا کہ جمعہ تو نہیں چھوڑوں گا چاہے جو مرضی ہو جائے، دشمن زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے ، ہمیں شہید ہی کر دے گا، اور ہمیں کیا چاہئے.مکرم چوہدری حفیظ احمد کاہلوں صاحب اگلے شہید ہیں مکرم چوہدری حفیظ احمد کاہلوں صاحب ایڈووکیٹ.ان کے والد تھے چوہدری نذیر احمد صاحب سیالکوٹی.ان کا تعلق بھی ضلع سیالکوٹ سے ہے، تعلیم ایل ایل بی تھی.باقاعدہ وکالت کرتے تھے.پہلے سیالکوٹ میں پھر لاہور شفٹ ہو گئے.سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر کام کرتے تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 83 سال تھی اور ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی.جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد بیت النور کے مین

Page 333

خطبات مسرور جلد ہشتم 318 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 ہال میں تھے.حملے کے دوران سینے میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے.سانس بحال کرنے کی کافی کوشش کی گئی لیکن وہیں شہادت ہوئی.جنرل ریٹائرڈ ناصر شہید، مکرم محمد غالب صاحب شہید ، مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب شہید بھی یہ سب حفیظ صاحب کے رشتہ دار تھے.شہید بہت ہی نرم طبیعت کے مالک تھے.کبھی کسی کو ڈانٹا نہیں.گھر میں ملازموں سے بھی حسن سلوک کرتے تھے.نماز کے پابند.اکثر پیدل ہی نماز کے لئے جاتے تھے.ان کے ایک بیٹے ناصر احمد کاہلوں صاحب آسٹریلیا میں ہمارے نائب امیر ہیں.بڑی اچھی طبیعت کے مالک تھے، اللہ تعالیٰ درجات بلند کرے.ان کے بارے میں کسی نے مجھے لکھا کہ غریبوں کے کیس مفت کرتے تھے بلکہ لوگوں کی مالی مدد بھی کرتے تھے.مارشل لاء کے زمانے میں لجنہ کے امتحانی پرچے میں پنجتن پاک کا لفظ لکھنے پر کیس بن گیا.چوہدری صاحب نے اس کیس میں احسن رنگ میں پیروی کرا کر اسے ختم کروا دیا.آپ کی تعزیت کے لئے بہت سے غیر از جماعت دوست بھی آئے.بلکہ کہتے ہیں بعض متعصب لوگوں نے بھی تعزیت کی.ان کا کورٹ میں، دفتر میں جو منشی تھا وہ کہتا ہے ایک سابق حج صاحب کا تعزیت کا فون آیا اور بہت دیر تک افسوس کا اظہار کرتے رہے.منشی نے حج صاحب سے کہہ دیا کہ آپ ان کی مغفرت کے لئے دعا کریں.تو حج صاحب کا جواب تھا ( تعصب کی انتہا آپ دیکھیں) کہ میں افسوس تو کر سکتا ہوں لیکن مغفرت کی دعا نہیں کر سکتا.جمعہ کی نماز با قاعدگی سے بیت النور ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں ادا کرتے تھے اور باوجود نظر کی کمزوری کے مغرب کی نماز پر پیدل چل کر آیا کرتے تھے.اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے.گھنٹوں قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے تھے.آپ کی چھوٹی پوتی کو جب آپ کی شہادت کے بارے میں بتایا گیا، تو اس کی والدہ نے اسے بتایا کہ اس طرح آپ آسمان پر چلے گئے ہیں، شہید ہو گئے ہیں تو اس پر آپ کے قرآنِ کریم پڑھنے کا اتنا اثر تھا، ہر وقت دیکھتی تھی کہتی تھی کہ وہاں بھی بیٹھے قرآن شریف پڑھ رہے ہوں گے.تو یہ ہے وہ اثر جو بچوں پر عملی نمونے دکھا کر ہر احمدی کو قائم کرنا چاہئے.مکرم چوہدری امتیاز احمد صاحب اگلے شہید جن کا ذکر کرنے لگا ہوں مکرم چوہدری امتیاز احمد صاحب شہید ابن مکرم چوہدری نثار احمد صاحب ہیں.شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری محمد بوٹا صاحب آف بھینی محرمہ ضلع گورداسپور میں 1935ء میں بیعت کی تھی.ان کے دادا اکیلے احمدی ہوئے تھے اور سارا گاؤں مخالف تھا.ان کی دادا کی وفات کے وقت مولویوں نے شور مچایا اور ان کی قبر کشائی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی تدفین ان کی زمینوں میں کی گئی.پارٹیشن کے بعد یہ خاندان ساہیوال کے ایک چک میں آگیا.اور 1972ء میں ان کے والد صاحب لاہور آگئے.بوقت شہادت شہید

Page 334

خطبات مسرور جلد ہشتم 319 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 امتیاز احمد کی عمر 34 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے ، معاون قائد ضلع، ناظم تربیت نو مبائعین ضلع، سابق ناظم اطفال اور سیکرٹری اشاعت ڈیفنس خدمت کی توفیق پارہے تھے.ان کی شہادت بھی مسجد دارالذکر میں ہوئی ہے.مسجد دارالذکر کے مین گیٹ پر دائیں جانب ان کی ڈیوٹی تھی.دہشتگردوں نے جب حملہ کیا تو یہ بھاگ کر ان کو پکڑنے کے لئے گئے.اس دوران فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہو گئے.سر اور سینے میں گولیاں لگیں جس کے نتیجہ میں سانحہ کے اولین شہداء میں شامل ہو گئے.بہر حال جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے ، شوری کے نمائندے بھی رہے ، بچپن سے ہی اطفال کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں اپنے حلقہ میں نمایاں خدمت کی توفیق ملی.سکیورٹی کی ڈیوٹی بڑی عمدگی سے ادا کرتے تھے.عموما گیٹ کے باہر ڈیوٹی کرتے تھے.نمازوں کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے.اپنے دونوں بچوں کو وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل کیا ہوا تھا.جماعتی عہدیداران کا بہت احترام کیا کرتے تھے.لیڈر شپ کی کوالیٹیز (Qualities) تھیں.وقف کرنے کی بہت خواہش تھی.اور ڈیوٹی کا کام بھی اپنے آپ کو وقف سمجھ کر کیا کرتے تھے.ان کی ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھا ہو املا ( بعد میں انہوں نے دیکھا) کہ بُزدل بار بار مرتے ہیں اور بہادر کو صرف ایک بار موت آتی ہے.پھر ان کی ایک بہن امریکہ میں رہتی ہیں.پاکستان کچھ عرصہ پہلے آئی ہوئی تھیں، انہوں نے کہا کہ میری ڈائری میں کچھ لکھ دیں.تو اس پر شہید نے یہ شعر لکھا کہ اک مسیحا کی دعا سے آئی یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ شہادت سے پہلے ان کو خواب آئے تھے کہ میرے پاس وقت کم ہے اور اپنی زندگی میں مجھے کہتے تھے کہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاؤ.اور اس کے لئے بزنس بھی تھوڑا سا ان کے لئے establish کر دیا.ہمیشہ تہجد پڑھنے والے اور نماز سینٹر میں فجر کی نماز اپنے والد صاحب کے ساتھ پڑھتے تھے.ایک دن رات کو دارالذکر سے ساڑھے بارہ بجے آئے اور صبح ساڑھے تین بجے پھر اٹھ گئے.میں نے کہا کہ کبھی آرام بھی کر لیا کریں.تو کہنے لگے ، اس دنیا کے آرام کی مجھے کوئی پرواہ نہیں، مجھے آرام کی فکر ہے جو میں نے آگے کرنا ہے.مکرم اعجاز الحق صاحب اگلا ذکر ہے مکرم اعجاز الحق صاحب شہید ابن مکرم رحمت حق صاحب کا.شہید مرحوم کا تعلق حضرت الہی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا.آبائی وطن پٹیالہ ضلع امر تسر تھا، والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے اور لاہور میں ہی مقیم تھے.ہال روڈ پر الیکٹرانکس رپیئر (Repair) کا کام کرتے تھے.ان دنوں لاہور کے ایک پرائیویٹ چینل میں بطور سیٹلائٹ سینیشن کام کر رہے تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 46 سال تھی.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.وقوعہ کے روز ایم ٹی اے پر جو خلافت کا عہد وفا نشر ہو رہا تھا تو سر پر تولیہ رکھ کر کھڑے ہو کر عہد دوہرانا شروع کر دیا.اور اہلیہ نے بھی ان کو دیکھ کر عہد

Page 335

320 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دوہرایا.مسجد دارالذکر میں ہی نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے اور سانحہ کے روز بھی اپنے کام سے سیدھے ہی نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے دارالذکر پہنچ گئے.باہر سیڑھیوں کے نیچے بیٹھے رہے.دہشتگردوں کے آنے پر گھر فون کیا اور بڑے بھائی سے کہا کہ اسلحہ لے کر فوری طور پر دارالذکر پہنچ جاؤ.اور یہ ساتھ ساتھ اپنے ٹی وی کو فون پر رپورٹنگ بھی کر رہے تھے.اسی دوران گولیوں کی بوچھاڑ سے موقع پر ہی شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ ہمدرد اور ملنسار انسان تھے.سب کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے.چندہ جات کی ادائیگی با قاعدہ تھی اور ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.حلقہ کے ناظم اطفال تھے ان کے بارے میں ناظم اطفال نے بتایا کہ میں جب بھی ان کے بچوں کو و قار عمل یا جماعتی ڈیوٹی کے لئے لے کر گیا اور جب واپس چھوڑنے آیا تو انہوں نے خصوصی طور پر میر اشکرایہ ادا کیا کہ آپ نے ہمیں یہ خدمت کا موقع دیا.مکرم شیخ ندیم احمد طارق صاحب اگلا ذکر ہے مکرم شیخ ندیم احمد طارق صاحب شہید ابن مکرم شیخ محمد منشاء صاحب.شہید کے آباؤ اجداد چنیوٹ کے رہنے والے تھے.کاروبار کے سلسلے میں کلکتہ چلے گئے، 1947ء کے بعد ان کے والد صاحب کلکتہ سے ڈھا کہ چلے گئے جہاں سے 1971ء میں لاہور آگئے.شہید مرحوم کی اہلیہ صاحبہ کا تعلق بھی کلکتہ سے ہے.اہلیہ کے داد ا مکرم سیٹھ محمد یوسف صاحب بانی تھے جو مکرم صدیق بانی صاحب کلکتہ کے چھوٹے بھائی تھے.شہید مرحوم نے آئی کام کرنے کے بعد سپیئر پارٹس کا کاروبار شروع کیا.شہادت کے وقت ان کی عمر 40 سال تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی.ہمیشہ دارالذکر میں ہی جمعہ ادا کیا کرتے تھے.اور میرے خطبہ جمعہ تک جو لائیو نشر ہوتا ہے وہیں رہتے تھے اور وہ سن کر آیا کرتے تھے.سانحہ کے وقت یہ امیر صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.دایاں بازو بہت سو جا ہوا تھا.باقی جسم پر کوئی زخم نہیں تھا.غالب خیال یہی ہے کہ بازو میں گولی جو لگی ہے تو خون بہہ جانے کی وجہ سے شہید ہوئے.بہت صلح پسند ، شریف اور بے ضرر اور نرم گفتار انسان تھے.کام پر ہوتے تو بچوں کو فون کر کے نماز کی ادائیگی کا پوچھتے.کام پر بیٹھے ہوئے ہیں، نماز کا وقت ہو گیا تو گھر بچوں کو فون کرتے تھے کہ نماز ادا کرو.یہ ہے ذمہ داری جو ہر باپ کو ادا کرنی چاہئے.اسی سے دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی عادت پڑتی ہے.نماز تہجد کا بہت خیال رکھتے تھے قریباً چار کلو میٹر دور جاکر نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے.یہاں یہ فاصلے اتنے نہیں لگتے کیونکہ سڑکیں بھی ہیں ، سواریاں بھی ہیں.لیکن گو وہاں سواری تو ان کے پاس تھی لیکن حالات ایسے ہیں ٹریفک ایسا ہے کہ مشکل ہو جاتی ہے.مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.حلقے کی مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے میں نمایاں خدمت کی توفیق ملی.جماعتی ضرورت کے لئے اگر کبھی موٹر سائیکل ان سے مانگا جاتا تو پیش کر دیتے اور خود رکشہ پر چلے آتے.خدمت خلق نہایت مستقل مزاجی سے کرتے تھے.یہ خاندان بھی، ان کے باقی افراد بھی حسب توفیق مالی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے.

Page 336

خطبات مسرور جلد هشتم مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب 321 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 اگلا ذکر ہے مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب شہید کا ابن عبد اللطیف پراچہ صاحب.موصوف شہید کے والد ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.اور والد صاحب ضلع سرگودھا کی عاملہ کے فعال رکن تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قریبی تعلق تھا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ جب جابہ تشریف لے جاتے تو راستے میں اکثر اوقات شہید مرحوم کے والد مکرم عبد اللطیف صاحب کے گھر ضرور قیام کرتے تھے.شہید کے والد کے نانا مکرم بابو محمد امین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.شہید نے ابتدائی تعلیم سر گودھا سے حاصل کی اور ایم بی اے لاہور سے کیا.جماعتی چندہ جات اور صدقات با قاعدگی سے دیتے تھے.بزرگان کی خدمت کرتے تھے.سابق امیر ضلع سرگودھا مر زا عبد الحق صاحب کے ساتھ کام کرتے رہے.سانحہ کے دوران بھائی کو فون کیا کہ میرے ارد گرد شہداء کی نعشیں پڑی ہیں.جب آ کے دیکھا گیا تو ان کے چہرے پر گن کے بٹ کے کندے کے نشان بھی تھے.شاید کسی دہشتگر دسے گھتم گتھا ہوئے اور اس وقت اس نے مارا.یا یہ دیکھنے کے لئے کہ شہادت ہوئی ہے کہ نہیں، بعض لوگوں کو ویسے بھی گن سے مار کے دیکھتے رہے ہیں.اسی طرح ایک گرنیڈ بھی ہاتھ پر لگا ہوا تھا.اس کے زخم تھے.دارالذکر میں باہر سیڑھیوں کے نیچے بیٹھے تھے.وہیں پر شہید ہوئے.ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ نہایت دیانت دار اور امانت دار انسان تھے.دیانت داری کی وجہ سے جیولرز ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی جیولری ان کے حوالے کر دیا کرتے تھے.احمدیت کو کبھی نہیں چھپایا.والد صاحب عرصہ دراز بیمار رہے.ان کی وفات تک علالت میں ان کی بہت خدمت کی.اسی طرح والدہ صاحبہ بھی بیمار ہیں.ان کی بے پناہ خدمت کرتے تھے.چندہ جات اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.صدقہ و خیرات عمومی طور پر چھپا کر کرتے.اپنے آبائی علاقے سرگودھا کے بہت سارے مریضوں کو لاہو ر لا کر مفت علاج کرواتے تھے.قربانی کا بہت جذبہ تھا.نماز کے پابند ، قرآن با قاعدگی سے پڑھتے.گھر والوں نے کہا کہ رات اڑھائی تین بجے ، ان کو تہجد پڑھتے اور قرآن پڑھتے دیکھا ہے.شہید مرحوم کی والدہ محترمہ نے بتایا کہ میں شہید مرحوم کے والد صاحب مرحوم کو کچھ عرصہ خواب میں مسلسل دیکھ رہی تھی.شہید کی ایک خادمہ نے بتایا کہ شہادت سے چند دن قبل والدہ کے لئے چار سوٹ لے کر آئے تو والدہ نے کہا کہ میرے پاس تو پہلے ہی بہت سوٹ ہیں.تو انہوں نے کہا کہ ماں پتہ نہیں کب تک میری زندگی ہے آپ میرے لائے ہوئے سوٹ پہن لیں.مکرم مرزا ظفر احمد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہید ابن مکرم مرزا صفدر جنگ ہمایوں صاحب کا.شہید مرحوم اکتوبر 1954ء میں منڈی بہاء الدین میں پیدا ہوئے.خاندان میں احمدیت کا آغاز حضرت مصلح موعود رضی اللہ

Page 337

322 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کے دادا مکرم مرزا نذیر احمد صاحب کے ذریعے سے ہوا.مرزا نذیر احمد صاحب نے خلیفہ المسیح الثانی کی بیعت کی.میٹرک لاہور سے کیا اس کے بعد لائلپور یونیورسٹی سے دو سال تعلیم حاصل کی.ہوسٹل میں بعض مشکلات کی بنا پر یونیورسٹی چھوڑ دی اور کراچی چلے گئے.جہاں سے مکینکس میں تین سالہ ڈپلومہ کیا.بعد ازاں مزید ایک سال کا کورس کیا.اپنے شعبہ سے متعلق ایک ملازمت کراچی میں کی.اس کے بعد جاپان چلے گئے.1981ء سے سولر انرجی میں انجینئر کی حیثیت سے 21 سال جاپان میں مقیم رہ کر کام کیا.وہاں جماعتی خدمات کی توفیق پائی.جاپان میں ٹوکیو مشن بند ہوا تو آپ کا گھر بطور مشن ہاؤس استعمال ہو تا تھا.1983ء میں کوریا میں وقف عارضی کا موقع ملا.1985ء میں جلسہ سالانہ یو کے میں جاپان کی نمائندگی کی توفیق حاصل ہوئی.1993ء میں صدر خدام الاحمدیہ جاپان کی حیثیت سے ایک پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے اور اس پر اذان دینے کی سعادت پائی.1999ء میں بیت الفتوح کے سنگ بنیاد کے موقع پر آپ کو اور ان کی بیگم کو جاپان کی نمائندگی کی توفیق ملی.جاپان میں بطور صدر جماعت ٹوکیو سیکرٹری مال کے علاوہ 2001ء سے 2003ء تک نائب امیر جاپان کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.ایک موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی اطاعت اور تقویٰ کے نمونہ پر اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کرے کہ سب جماعت جاپان ان کے نمونے پر چلنے کی توفیق پائے.جاپان میں اکیس سال قیام کے دوران ملازمت کے علاوہ دیگر تعلیمی کوششیں بھی کرتے رہے.2003ء میں پاکستان شفٹ ہو گئے.لاہور میں کیولری گراؤنڈ میں رہتے تھے ، آپ کا گھر وہاں بھی نماز سینٹر تھا.شہادت کے وقت ان کی عمر 56 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.دارالذکر میں شہادت پائی.ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھتے تھے اور وہاں امام صاحب کے قریب بیٹھے تھے.ان کے سر کے پچھلی طرف گولی لگی اور دایاں ہاتھ گرنیڈ سے زخمی ہوا جس سے شہادت ہو گئی.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے.جب بھی لندن جاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ نماز خلیفہ وقت کے پیچھے ادا کریں.خطبات کو ہمیشہ بڑے غور سے سنتے تھے.یہاں سے جولائیو خطبات جاتے ہیں کسی وجہ سے براہ راست نہ سن سکتے تو جب تک سن نہ لیتے ، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے.کہتی ہیں کہ حقیقی معنوں میں محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“ کے مصداق تھے.سب بچے بوڑھے ہر ایک ان سے عزت سے پیش آتا، سب کے دوست تھے.امانتوں کی حفاظت کرنے والے ، وعدوں کا ایفاء کرنے والے اور اعلیٰ معیار کی قربانی کرنے والے تھے.ہر چیز میں سادگی ان کا شعار تھا.ایک نہایت محبت کرنے والے شوہر تھے.کہتی ہیں میری چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے اور کبھی تھکی ہوتی تو کھانا بھی بنا دیا کرتے.گلے شکوے کی عادت نہیں تھی.جاپان میں ہمارے ایک ملک منیر احمد صاحب ہیں ، انہوں نے لکھا کہ مرزا ظفر احمد صاحب جب جاپان

Page 338

323 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تشریف لائے تو ابھی شادی شدہ نہ تھے.بڑے سادہ طبیعت کے مالک اور بہت کم گو تھے.سعید فطرت اور نیک سیرت انسان تھے.دین کی خدمت کا جذبہ آپ کی سرشت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.آپ اس مقصد کے حصول کے لئے ہر وقت تیار نظر آتے.اطاعت کے بہت بلند معیار پر فائز تھے.جماعت کے چھوٹے چھوٹے عہدیداروں سے لے کر بڑے عہد یدار تک سب سے برابر کا سلوک کرتے اور عزت سے پیش آتے.کسی جماعتی خدمت کا کبھی انکار نہ کرتے.ایک سال جاپان کے مثالی خادم بھی قرار پائے.آپ پر رشک آتا تھا.آپ جب بھی کوئی کام اپنے اوپر لیتے تو اسے بہت ایمانداری اور احسن طریق پر نبھانے کی کوشش کرتے.جاپان سے جانے سے پہلے مستقل طور پر اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا.مغفور احمد منیب صاحب مبلغ ہیں ربوہ میں ہمارے مربی ہیں.یہ بھی جاپان میں رہے ہوئے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ مرزا ظفر احمد صاحب جو لمبا عرصہ جاپان میں مقیم رہے اللہ کے فضل سے جاپان میں موصوف کی دینی خدمات کسی طرح بھی واقفین زندگی سے کم نہیں تھیں.بلکہ ان کی قربانیاں احباب کے لئے قابلِ تقلید تھیں.وقت کی قربانی، مال کی قربانی میں سب سے آگے تھے.آنریری مبلغ تھے ، سیکرٹری مال جاپان تھے ، صدر جماعت ٹوکیو ر ہے.خلافت سے والہانہ عشق تھا.نماز میں توجہ سے دعا کرتے.ان کی آنکھیں نمناک ہو جاتیں.محبت کرنے والے تھے ، ہر ایک کی تکلیف کاسن کے آنکھیں نمناک ہو جاتیں.مکرم مرزا محمود احمد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم مرزا محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم اکبر علی صاحب کا.شہید مرحوم بدو ملی ضلع نارووال کے رہنے والے تھے.ان کے دادا حضرت عنایت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.محکمہ ٹیلیفون سے وابستہ تھے.2008ء میں ریٹائر ہوئے.اور 35 سال سے لاہور میں مقیم تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 58 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جامِ شہادت نوش فرمایا.نماز جمعہ عموماًماڈل ٹاؤن میں ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز مسجد کے عقبی ہال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران ایک گولی ان کے ماتھے پر لگی جس سے موقعہ پر شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ جماعتی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے.وقف عارضی کی متعدد مرتبہ سعادت ملی.بہت نرم دل اور انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے.محنتی انسان تھے.ان کے بیٹے قیصر محمود صاحب اس وقت ڈیوٹی پر موجود تھے جو اس سانحہ میں محفوظ رہے.شہادت سے چار دن قبل ان کی اہلیہ نے خواب دیکھا کہ ایک خوبصورت باغ ہے جس میں ٹھنڈی ہوا اور نہریں چل رہی ہیں خو بصورت محل بناہوا ہے.محمود صاحب مجھے کہتے ہیں کہ تم لوگوں کے لئے میں نے گھر بنا دیا ہے یہ میرا محل ہے اب میں نے یہاں رہنا ہے.پورے محل میں خوشبو ہی خوشبو پھیلی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.

Page 339

خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب 324 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہید ابن مکرم شیخ شمس الدین صاحب.شہید مرحوم کے والد صاحب چنگڑانوالہ ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.طاعون سے جب سب رشتے دار وفات پاگئے تو مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا میں آکر آباد ہوئے.شہید مرحوم کے والد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بعد میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت کرنے یعنی دبانے کا موقع ملا.تاہم بیعت کی سعادت حضرت مصلح موعودؓ کے دورِ خلافت میں ملی.شہید مرحوم کے خسر مکرم خواجہ محمد شریف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.ان کے والد محترم شیخ شمس الدین صاحب کی تبلیغ کی وجہ سے حضرت مرزا عبد الحق صاحب کے خاندان میں احمدیت آئی.مولوی عطاء اللہ خان صاحب درویش قادیان ان کے بھائی تھے اور مکرم منیر احمد منور صاحب مربی سلسلہ جو یہاں (جرمنی میں ) بھی رہے ہوئے ہیں آج کل پولینڈ میں ہیں ، ان کے بھانجے ہیں.بوقتِ شہادت ان کی عمر 66 سال تھی.مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں جامِ شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر کے مین ہال میں کرسیوں پر بیٹھے تھے.بڑھاپے کے باعث سانحے کے دوران سب سے آخر میں اٹھے.لیکن اس دوران دہشتگرد کی گولیاں سر اور پسلیوں میں لگنے سے شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم دو تین ماہ سے کہہ رہے تھے کہ میر اوقت قریب آگیا ہے.کچھ عرصے سے بالکل خاموش رہتے تھے.ان کی بہو نے خواب میں دیکھا کہ ربوہ میں انصار اللہ کا ہال ہے (جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا) تو وہاں سے مجھے تین تحفے ملے ہیں اور وہ لے کر میں لاہور روانہ ہو رہی ہوں.شہداء کے سب کے جنازے بھی انصار اللہ کے بال ہی میں ہوئے تھے.شہید مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.قریبی دیہاتی علاقوں میں جا کر مختلف لوگوں سے گھروں میں رابطہ کر کے تبلیغ کیا کرتے تھے.خاص طور پر الفضل جیب میں ڈال کر لے جاتے.سگریٹ نوشی کے خلاف بڑا جہاد رپرا کیا کرتے تھے اور چلتے چلتے لوگوں کو منع کر دیتے اور کوئی دوسری چیز کھانے کی دے کر کہتے کہ یہ کھالو اور سگریٹ چھوڑ دو.تہجد گزار تھے.نیک عادات کی بنا پر ان کا رشتہ ہوا تھا یعنی عبادت اور تبلیغ کی وجہ سے.بہت دعا گو اور تہجد گزار تھے.خاص طور پر بہت سارے لوگوں کے نام لے کر دعا کیا کرتے تھے.چندوں میں با قاعدہ تھے ، تنخواہ ملنے پر پہلے سیکرٹری صاحب مال کے گھر جاتے اور چندہ ادا کرتے.یہ ہے صحیح طریق چندے کی ادائیگی کا، نہ کہ یہ کہ جب بقایا دار ہوتے ہیں اور پوچھو کہ بقایا دار کیوں ہو گئے تو الٹا یہ شکوہ ہوتا ہے کہ سیکرٹری مال نے ہمیں توجہ نہیں دلائی، نہیں تو ہم بقایا دار نہ ہوتے.یہ تو خود ہر ایک کا اپنا فرض ہے کہ چندہ ادا کرے.خلافت جوبلی کے سال میں مقالہ تحریر کیا جس میں A گریڈ حاصل کیا.

Page 340

خطبات مسرور جلد ہشتم 325 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 مکرم مرزا منصور بیگ صاحب اگلا ذ کر ہے مکرم مرزا منصور بیگ صاحب شہید ابن مکرم مرزاسر ور بیگ صاحب مرحوم کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد پی ضلع امر تسر کے رہنے والے تھے.ان کے تایا مرزا منور بیگ صاحب، ان کی 1953ء سے قبل بیعت تھی ان کو (تایا کو بھی 1985ء میں ایک معاند احمدیت نے شہید کر دیا.ان کی زری کی دکان تھی.بوقت شہادت مرزا منصور بیگ صاحب کی عمر 29 سال تھی.اللہ کے فضل سے موصی تھے.بطور سیکرٹری اشاعت، ناظم تحریک جدید اور عمومی کی ڈیوٹی سکواڈ میں ان کو خدمت کا موقع مل رہا تھا.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.جمعہ کی صبح ان کی مجلس کے قائد صاحب نے ان کو ڈیوٹی پر جانے کے لیے کہا.پھر گیارہ بجے کے قریب دوبارہ یاد دہانی کے لیے قائد نے فون کیا تو انہوں نے جواب دیا ” قائد صاحب فکر نہ کریں اگر ضرورت پڑی تو پہلی گولی اپنے سینے پر کھاؤں گا“.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں چیکنگ پر ڈیوٹی تھی.مین گیٹ کے باہر پہلے بیریئر کے پاس کھڑے تھے.خدام کی نگرانی پر متعین تھے کہ دہشتگر دنے آتے ہی ان پر فائرنگ کر دی.سب سے پہلے ان کو ہی فائر لگا.کئی گولیاں لگنے کی وجہ سے موقع پر ہی شہادت ہوئی.شہید مرحوم نے سانحہ سے قبل صبح کے وقت گھر میں اپنی خواب سنائی کہ ” مجھے کوئی مار رہا ہے اور میرے پیچھے کالے کتے لگے ہوئے ہیں“.شہید مرحوم جماعتی خدمت کرنے والے اور اطاعت کا جذبہ رکھنے والے تھے.نرم مزاج، ہنس مکھ اور پنج وقتہ نماز کے پابند.اہلیہ کی عمر 26 سال ہے.ان کی شادی ہوئی تھی تو ان کے ہاں اولاد متوقع ہے.اللہ تعالیٰ نیک ، صالح، صحتمند اور لمبی عمر پانے والی ان کو اولاد عطا فرمائے.ان کی والدہ اور اہلیہ خوشیاں دیکھیں.مکرم میاں محمد منیر احمد صاحب اگلا ذ کر ہے مکرم میاں محمد منیر احمد صاحب شہید ابن مکرم مولوی عبد السلام صاحب عمر کا.شہید مرحوم حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے.آپ 11 اکتوبر 1940ء کو حیدر آباد دکن میں اپنے ناناحضرت مولوی میر محمد سعید صاحب رضی اللہ عنہ کے گھر میں پیدا ہوئے.آپ کے نانا حضرت میر محمد سعید صاحب رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لینے کی اجازت دی تھی.آپ کے نانا کی وجہ سے حیدر آباد دکن میں کافی لوگ جو آپ کے مرید تھے احمدی ہو گئے.بی اے تک تعلیم حاصل کی اور 1962ء میں لاہور شفٹ ہو گئے.بوقت شہادت ان کی عمر 70 سال تھی.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے ہر جمعہ قریباً 12 بجے گھر سے نکلتے تھے.وقوعہ کے روز ناسازی طبیعت کے باعث قریباً ایک بجے ماڈل ٹاؤن بیت النور میں پہنچے.مسجد کے صحن میں جنرل ناصر صاحب کے ساتھ کرسی پر بیٹھے تھے.حملے کے

Page 341

326 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دوران موصوف ہال کے اندر داخل ہو کر پہلی صف میں بیٹھ گئے.اس دوران دروازہ بند کرنے کی کوشش کے دوران دہشتگرد نے بندوق کی نالی دروازے میں پھنسالی اور فائرنگ کر تارہا.پہلی گولی آپ کے سر میں لگی جس سے موقع پر ہی شہادت ہو گئی.قریباً دس سال قبل آپ نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے ساتھ ایک قبر تیار کی گئی ہے، پوچھنے پر بتایا کہ یہ آپ کی قبر ہے.شہادت کے بعد یہ تعبیر بھی سمجھ میں آئی کہ وہ واقعہ میں آپ کی قبر تھی کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل میں سے تھے اور شہادت بھی دونوں کی قدر مشترک ہے.شہادت کے بعد ان کی بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ والد صاحب شہید خواب میں آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ میر اکمرہ (جو گھر کا کمرہ تھا) سیٹ کر دو تو خادم نے ٹھیک کر دیا.اور کہتی ہیں کہ کچھ دیر بعد کچھ مہمان آئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم نے کمرہ دیکھنا ہے.شہید مرحوم کے بیٹے مکرم نور الامین واصف صاحب بتاتے ہیں کہ جب والد صاحب شہید کے نکاح کا مرحلہ پیش ہوا تو بعض لوگوں نے ان کا تعلق غیر مبائعین سے قائم کرنے کی کوشش کی کہ یہ غیر مبائعین ہیں یعنی خلافت کی بیعت نہیں کی.جس پر معاملہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے پاس پہنچا تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ ان کو تجدید بیعت کی کیا ضرورت ہے یہ تو اس شخص کے پوتے ہیں جس نے سب سے پہلے بیعت کی تھی اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت ہی پیارا تھا.اس پر حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب نے ان کا نکاح پڑھایا.آپ کے ایک عزیز نے آپ کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شہید مرحوم میں حسن سلوک، غریبوں کی مدد کرنا، مہمان نوازی ، بیماروں کی تیمار داری کرنے کی خوبیاں نمایاں تھیں.شہید مرحوم کو سندھ قیام کے دوران متعدد ضرور تمند بچیوں کی شادی کروانے اور ضرور تمند بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی بھی توفیق ملی.مہمان نوازی کی صفت تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.اگر کوئی مہمان آجاتا اپنے گھر سے بغیر کھانا کھلائے اس کو جانے نہیں دیتے تھے.باقاعدہ تہجد گزار تھے.مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب شہید ابن مکرم چوہدری یوسف خان صاحب کا.شہید مرحوم کے والد شکر گڑھ کے رہنے والے تھے اور والد صاحب نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی.اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر زمینوں کی نگرانی کے لئے سندھ چلے گئے.کراچی قیام کیا.شہید مرحوم کی پیدائش کراچی میں ہوئی.تاہم بعد میں یہ خاندان شکر گڑھ آگیا.ابتدائی تعلیم کے بعد شہید مرحوم لاہور آگئے

Page 342

327 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جہاں سے MBBS کے علاوہ میڈیکل کی دیگر تعلیم حاصل کی.15 سال قصور گورنمنٹ ہسپتال میں کام کیا.شہادت کے وقت میو ہسپتال لاہور میں بطور A.M.S کام کر رہے تھے نیز قصور میں کلینک بھی بنایا ہوا تھا.بوقت شہادت ان کی عمر 57 سال تھی اور دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر کے مین ہال میں محراب کے بائیں طرف بیٹھے تھے کہ باہر سے حملہ کے بعد جو پہلا گرنیڈ اندر پھینکا گیا اس میں زخمی ہوئے اور اسی حالت میں ہی شہید ہو گئے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے شہادت سے چند دن قبل خواب میں دیکھا کہ آسمان پر ایک اچھا سا گھر ہے جو فضا میں تیر رہا ہے اور آپ اس میں اڑتے پھر رہے ہیں.دوسری خواب میں دیکھا کہ زلزلہ اور طوفان آیا ہے چیزیں ہل رہی ہیں.اور میں دوڑتی پھر رہی ہوں اور وہ مجھے مل نہیں رہے.ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بہت نفیس آدمی تھے، کبھی کسی سے سخت بات نہیں کی.بچوں سے اور خصوصاً بیٹیوں سے بہت پیار تھا.مریضوں سے حسن سلوک سے پیش آتے.ہر ایک سے ہمدردی کرتے تھے.ان کے غیر از جماعت مالک مکان نے جب اپنے حلقہ احباب میں ان کی شہادت کی خبر سنی تو اسے اتناد کھ ہوا کہ وہ چکر اگئے.کئی سعید فطرت لوگ ایسے ہیں.چھ سال کے عرصہ کے دوران مالک مکان کو کرایہ گھر جا کر ادا کرتے تھے.کبھی موقع ایسا نہیں آیا کہ مالک مکان کو کرایہ لینے کے لئے آنا پڑا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بہت شوق سے پڑھتے تھے.چندہ باقاعدگی سے دیتے.بیوی کو کہا ہوا تھا کہ روزانہ آمدنی میں سے ایک حصہ غریبوں کے لیے نکالنا ہے.میرے خطبات با قاعدگی سے سنتے تھے.بعض اوقات بار بار سنتے تھے.ان کے ایک بیٹے نے بھی MBBS کر لیا ہے اور ہاؤس جاب کر رہا ہے.وہ بھی اس سانحہ میں زخمی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اس زخمی بیٹے کو اور تمام زخمیوں کو بھی صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.مکرم ارشد محمود بٹ صاحب اگلا ذکر ہے مکرم ارشد محمود بٹ صاحب شہید ابن مکرم محمود احمد بٹ صاحب کا.شہید کے پڑدادا مکرم عبد اللہ بٹ صاحب نے احمدیت قبول کی تھی اور پسر ور ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.ان کے پڑنانا حضرت جان محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.ڈسکہ کے رہنے والے تھے.ان کے والد صاحب ائیر فورس میں ملازم تھے.بسلسلہ ملازمت مختلف مقامات پر تعینات رہے.شہید مرحوم لاہور میں پیدا ہوئے.I.COM کیا ہوا تھا.بوقت شہادت ان کی عمر 48 سال تھی.اپنے حلقہ کے نائب زعیم انصار اللہ اور سیکرٹری تحریک جدید کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے.بیت النور میں جام شہادت نوش فرمایا.جمعہ کے روز جلدی تیار ہو گئے.عموماً ان کے بھائی ساتھ لے کر جاتے تھے ، کیونکہ ان کا ایک پاؤں پولیو کی وجہ سے کمزور تھا.اگر بھائی لیٹ ہوتے تو خود ہی وین پر چلے جاتے.سانحہ کے وقت پہلی صف میں بیٹھے ہوئے تھے.شروع میں ہونے

Page 343

328 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم والے حملے میں تین چار گولیاں لگیں جس سے موقع پر ہی شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم پنجوقتہ نماز کے پابند تھے روزانہ اونچی آواز میں تلاوت قرآن کریم کیا کرتے.معذور ی کے باوجود اپنا کام خود کرتے تھے.خلافت سے عشق تھا.اپنی استطاعت سے بڑھ کر چندہ ادا کرتے تھے.سلسلہ کی بہت ساری کتب کا مطالعہ کر چکے تھے.بہت دعا گو انسان تھے.اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے.مکرم محمد حسین علی صاحب اگلا ذکر ہے مکرم محمد حسین علی صاحب شہید ابن مکرم محمد ابراہیم صاحب کا.شہید کا تعلق گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ سے تھا.ان کے والد محترم نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.کچھ عرصہ سندھ میں بھی رہے.34 سال سے لاہور میں مقیم تھے.ان کو جماعتی سکولوں میں بھی پڑھانے کا موقع ملا.بوقت شہادت ان کی عمر 68 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.بانڈ و گجر لاہور میں تدفین ہوئی.سانحہ کے روز ایک بجے کے قریب سائیکل پر گھر سے نکلے اور مسجد بیت النور کے مین ہال میں پہلی صف میں بیٹھے تھے کہ دہشتگردوں کی فائرنگ سے بازو اور پیٹ میں گولیاں لگیں اور شدید زخمی ہو گئے.زخمی حالت میں میو ہسپتال لے جایا گیا جہاں آپریشن تھیٹر میں شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ پنجوقتہ نماز کے پابند تھے ، تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے.ہر نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.پیشہ کے لحاظ سے الیکٹریشن تھے.غریبوں اور ضرور تمندوں کا کام بغیر معاوضہ کے کر دیتے تھے.اپنے حلقہ کی مسجد اپنی نگرانی میں تعمیر کروائی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم مرزا محمد امین صاحب اگلا ذکر ہے مکرم مرزا محمد امین صاحب شہید ابن مکرم حاجی عبد الکریم صاحب کا.شہید مرحوم کے والد جموں کشمیر کے رہنے والے تھے.انہوں نے 1952ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.والد صاحب کے بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد شہید مرحوم نے بھی بیعت کر لی تھی.بوقت شہادت ان کی عمر 70 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.عموماً مسجد دارالذکر میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے.پہلی صف میں بیٹھے ہوئے تھے کہ گرینیڈ اور گولیوں کے حملہ میں شدید زخمی ہو گئے.تین دن ہسپتال میں زیر علاج رہے.31 مئی کو ہسپتال میں ہی شہید ہو گئے.سانحہ سے دو دن قبل رات کو سوئے ہوئے تھے کہ اچانک اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے الله اکبر کہہ کر اٹھ بیٹھے.ہڑ بڑا کر نعرہ لگاتے ہوئے اٹھے.نہایت خوش اخلاق اور ملنسار تھے.جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.مختلف جماعتی مقابلہ جات میں انعامات بھی حاصل کئے.مکرم ملک زبیر احمد صاحب اگلا ذ کر ہے مکرم ملک زبیر احمد صاحب شہید ابن مکرم ملک عبد الرشید کا.شہید مرحوم ضلع فیصل آباد کے

Page 344

329 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم رہنے والے تھے.ان کے دادا مکرم ملک عبدالمجید خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں احمدیت قبول کی تاہم حضور علیہ السلام کی زیارت نہ کر پائے.شہید مرحوم نے فیصل آباد میں محکمہ واپڈا میں ملازمت کی اور ریٹائر منٹ کے بعد سانحہ سے قریباً ایک ماہ قبل لاہور شفٹ ہوئے تھے.فیصل آباد میں مسجد بیت الفضل کی تعمیر میں ان کے والد صاحب کا نام بنیادی لوگوں میں شامل تھا.ابتدا میں دیگر حلقہ جات میں نماز جمعہ ادا کرتے رہے لیکن بیت النور ماڈل ٹاؤن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ یہاں احمدی اکٹھے ہوتے ہیں اور کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور بیٹے کو کہا کہ مجھے یہاں ہی لایا کرو.بوقت شہادت ان کی عمر 61 سال تھی اور مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی.شہید مرحوم مین ہال میں بیٹھے تھے اور بیٹا دوسرے ہال میں تھا.فائرنگ کے دوران بال کے در میان گرل (Grill) کے پاس جاتے ہوئے یہ گرے ہیں یا بیٹھے ہیں بہر حال وہیں بیٹھے تھے.بیٹا ان کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا تو بیٹے کو تو یہ نظر نہیں آئے لیکن انہوں نے بیٹے کو دیکھ لیا اور زور دار آواز میں کہا کدھر بھاگے پھرتے ہو ، اگر کچھ ہو گا تو ہم شہید ہوں گے ، اور یہاں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہی شہید ہوں گے.“ اسی دوران ان کو دل پر گولی لگی، شدید زخمی ہو گئے.اسی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی شہادت ہو گئی.اہل خانہ بتاتے ہیں کہ نمازی اور تہجد گزار تھے.تہجد میں کبھی ناغہ نہیں کیا.اکثر وقت MTA دیکھتے تھے.شہید مر حوم کہا کرتے تھے کہ اگر تھکاوٹ کی وجہ سے کبھی بیدار نہ ہوں تو یوں لگتا ہے کہ کسی نے مجھے زبر دستی اٹھا دیا ہے.تہجد کی اتنی عادت تھی اور وقت پر اٹھ جایا کرتے تھے.بیٹے نے گاڑی لی تو نصیحت کی کہ بیٹا اس میں کسی قسم کا کوئی ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر یا ڈی وی ڈی (جو ہے) نہیں لگانی.اس کے بدلے سبحان اللہ اور درود شریف کا ورد کیا کرو اور خود بھی یہی کیا کرتے تھے.چھوٹے بھائی نے بتایا کہ بچپن میں فٹ پاتھ پر بنے ہوئے چو کٹھوں پر چلتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس چوکٹھے میں درود پڑھو، اس میں فلاں دعا پڑھو، اس میں فلاں دعا پڑھو.بیٹے نے کہا کہ گاڑی کی انشورنس کروانی ہے تو انہوں نے کہا بیشک کر والو لیکن انشورنس والے کمزور ہیں تم ایسا کرو کہ گاڑی کے نام پر ہر ماہ چندہ دیا کرو کیونکہ اللہ تعالی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے.چنانچہ اس ہدایت پر بھی عمل کیا گیا.باکسنگ کے اچھے کھلاڑی تھے.اور انہوں نے کافی انعامات جیتے ہوئے تھے.مکرم چوہدری محمد نواز صاحب اگلا ذ کر ہے مکرم چوہدری محمد نواز صاحب شہید کا جو مکرم چوہدری غلام رسول صاحب حجہ کے بیٹے تھے.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد اونچاجبہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.ان کے پھوپھا حضرت چوہدری غلام احمد مہار صاحب رضی اللہ عنہ اور ان کے والد حضرت چوہدری شاہ محمد مہار صاحب رضی اللہ عنہ چندر کے منگولے ضلع

Page 345

330 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نارووال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.ان کے والد صاحب اور ان کے بڑے بھائی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیعت کی اور اس سے قبل گاؤں میں مناظرہ کروایا جس کے نتیجے میں ان کے خاندان نے بیعت کر لی تھی.بی.اے ، بی.ایڈ کرنے کے بعد محکمہ تعلیم جائن (Join) کیا.1991ء میں بطور ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول کشمیر سے ریٹائر ہوئے اور اکتوبر 1992ء میں لاہور شفٹ ہو گئے.اپنے حلقہ میں بطور محاسب خدمت کی توفیق پائی.بوقت شہادت ان کی عمر 80 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر سے ان کو خاص لگاؤ تھا.کہا کرتے تھے کہ جب لاہور میں زیر تعلیم تھا تو دارالذکر کی تعمیر کے سلسلہ میں وقار عمل میں شامل ہوتا تھا اس لئے دارالذکر سے خاص لگاؤ ہے.وقوعہ کے روز نیا سوٹ اور نیا جوتا پہنا.ایک بجے کے قریب دارالذکر کے مین ہال میں پہنچے ، کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران گرینیڈ پھٹنے سے شہید ہو گئے.چند ماہ پہلے اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ آواز آئی ہے ”مبارک ہو آپ کا خاوند زندہ ہے“.اہل خانہ نے مزید بتایا کہ صاف گو انسان تھے.تندرست اور Active تھے.اپنی عمر سے 20 سال چھوٹے ہے لگتے تھے.تعلیم الاسلام کالج میں روئنگ کی ٹیم کے کیپٹن تھے.مختلف زبانوں پر عبور حاصل تھا.جماعتی لٹریچر کے علاوہ دیگر مذاہب کا لٹریچر بھی زیر مطالعہ رہتا تھا.مکرم شیخ مبشر احمد صاحب اگل ذکر ہے مکرم شیخ مبشر احمد صاحب شہید ابن مکرم شیخ حمید احمد صاحب کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد قادیان کے رہنے والے تھے ، پارٹیشن کے بعد ربوہ آگئے اور 35 سال سے لاہور میں مقیم تھے.پھر ربوہ سے لاہور چلے گئے.ان کے دادا مکرم شیخ عبد الرحمن صاحب نے خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کرنے کی توفیق پائی.حضرت مہر بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، صحابیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی نانی تھیں.بوقت شہادت ان کی عمر 47 سال تھی اور مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.بیت النور کے پچھلے ہال کی تیسری صف میں بیٹھے ہوئے تھے.دہشتگرد کے آنے پر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی مگر ایک گولی ان کے پیٹ میں دائیں طرف لگ کر باہر نکل گئی.بعد میں گرینیڈ پھٹنے سے بھی مزید زخمی ہوئے.اور کان سے بھی کافی دیر تک خون نکلتا رہا.باوجود اس کے بعد میں بھی دو تین گھنٹے یہ زندہ رہے ہیں، پیٹ پر ہاتھ رکھ کر خود چل کر ایمبولینس تک گئے لیکن ایمبولینس میں ہسپتال جاتے ہوئے شہید ہو گئے.سانحہ کے روز بظاہر حالات اس نوعیت کے تھے کہ نماز جمعہ پر جانا مشکل تھا لیکن خدا تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ دینا تھا اس لئے بالآخر بیت النور پہنچ گئے.شہید مرحوم ہر جمعہ کو اپنے بیمار خسر کو نماز کے لئے لے جایا کرتے تھے.اس مرتبہ ان کی طبیعت ناساز تھی اور انہوں نے کہا کہ میں نے اس دفعہ جمعہ پر نہیں جانا.چنانچہ اکیلے خود ہی جمعہ کیلئے نکلے.راستے میں گاڑی خراب ہو گئی گاڑی کو ورکشاپ پہنچایا اس کے بعد اپنے قریبی کام کرنے والی جگہ پر چلے گئے تا کہ بعض امور نمٹا سکیں.وہاں پہنچے ابھی کام شروع کیا ہی تھا تو لائٹ

Page 346

331 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جون 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بند ہو گئی.وہاں سے باہر نکلے تو بھائی سے ملاقات ہو گئی اور اس نے کہا کہ مجھے بھی جمعہ پر جانا ہے، لے جائیں.ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ لائٹ آگئی.لیکن بہر حال جمعہ پر چلے گئے.بجلی آنے پر کام شروع نہیں کیا بلکہ جمعہ کے لئے روانہ ہو گئے.اگر کام میں مصروف ہوتے تو ہو سکتا تھا وقت کا پتہ نہ لگتا.ان کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ میرے خاوند ایک مثالی شوہر تھے.ہماری شادی قریباً میں سال قبل ہوئی تھی.ہمارا جائنٹ فیملی سسٹم تھا.میرے شوہر نے ہر ایک کا خیال رکھا اور کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا.ان کی نسبتی ہمشیرہ نے شہادت سے پہلے خواب میں دیکھا کہ مبشر بھائی سفید رنگ کی گاڑی میں ہیں جو آسمان پر اڑتی جارہی ہے.ان کی شہادت کے دو دن بعد ان کی بیٹی ماریہ مبشر نے خواب میں دیکھا کہ ”ابو دروازے میں کھڑے مسکرا رہے ہیں تو پوچھا کہ آپ زندہ ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں تو ٹھیک ہوں اور آپ کے ساتھ ہوں“.شہید مرحوم نہایت سادہ طبیعت کے مالک، رحم دل، غریبوں کے ہمدرد محبت کرنے والے انسان تھے.چھوٹوں اور بڑوں کی عزت کرنے والے اور سب میں ہر دل عزیز تھے.اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کے درجات بلند فرمائے.ان کے بیوی بچوں کا حافظ و ناصر ہو.جن کے والدین حیات ہیں انہیں بھی ہمت اور حوصلہ سے یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ان کی نسلوں کے ایمانوں کو بھی مضبوط رکھے.آئندہ نسلیں بھی صبر اور استقامت سے یہ سب دین پر قائم رہنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سب کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 29 مورخہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2010 صفحہ 5 تا11)

Page 347

خطبات مسرور جلد ہشتم 332 27 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 02 جولائی 2010ء بمطابق 02 و فا1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج بھی لاہور کی مساجد کے شہداء کا ذکر خیر ہو گا.مکرم عبد الرحمن صاحب پہلا نام آج کی فہرست میں ہے.مکرم عبدالرحمن صاحب شہید ابن مکرم محمد جاوید اسلم صاحب کا.شہید مرحوم نے اپنی والدہ ، خالہ اور چھوٹی بہن کے ہمراہ اگست 2008ء میں احمدیت قبول کی تھی.نومبائع تھے.حکمت کے تحت دیگر خاندان میں فوری طور پر اس کا اظہار نہیں کیا.شہید مرحوم کا خیال تھا کہ MBBS کی تحمیل کے بعد دیگر تمام رشتے داروں کو بتادیں گے.میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے.ننھیال کی طرف سے سوائے نانا کے سب احمدی ہیں.ان کی نانی محترمہ سعیدہ صاحبہ مرحومہ نہایت ہی مخلص احمدی تھیں.بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.نہایت مخالفانہ حالات میں بھی وہ احمدیت سے وابستہ رہیں.شہید مرحوم کی عمر شہادت کے وقت اکیس سال تھی اور دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز شہید مرحوم کالج سے نماز جمعہ کے لئے سیدھے مسجد دارالذکر پہنچے.مسجد کے مین ہال میں بیٹھے تھے تو والدہ کو فون پر بتایا کہ بہت گولیاں چل رہی ہیں، آپ فکر نہ کریں.اور ساتھ ہی خالہ زاد بھائی کو فون کر کے کہا کہ اگر میری شہادت ہو جائے تو میری تدفین ربوہ میں کرنا.ان کا خیال تھا کہ باقی عزیز رشتہ دار شاید ربوہ لے جانے نہ دیں.شہید مرحوم کو تین گولیاں لگیں جس سے شہید ہو گئے.ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی اس سانحہ میں شہید ہوئے جن میں ملک عبد الرشید صاحب، ملک انصار الحق صاحب اور ملک زبیر احمد صاحب شامل ہیں.سانحہ کے بعد جب دیگر خاندان اور اہل محلہ کو علم ہو ا تو ان کی خالہ کو ان کے شوہر نے گھر سے نکال دیا.محلے میں بھی شدید مخالفت شروع ہو گئی.دھمکیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.جنازہ کے لئے ان کے گھر میں بہت شور شرابہ ہوا اور شہید مرحوم کے خالو جو شدید مخالف ہیں، انہوں نے اور دوسرے رشتے داروں نے مل کر کہا کہ جنازہ یہیں پڑھیں گے.اس

Page 348

333 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم وقت شہید کی خالہ کھڑی ہو گئیں اور بڑی سختی سے اور بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا.انہوں نے کہا: نہیں، اس بچے نے فون کیا تھا کہ مجھے ربوہ لے کر جانا.ان کی خواہش کے مطابق ان کو ہم ربوہ ہی لے کر جائیں گے.شہید مرحوم کے والد نے تاحال بیعت نہیں کی.پہلے تو ان کا رویہ سخت تھا مگر اب نسبتا نرم ہے.شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے پہلے خواب میں مجھے دیکھا کہ میں ان کے گھر گیا ہوں.ان کی کزن نے خواب میں دیکھا کہ پانچوں خلفاء کی تصاویر لگی ہیں اور ایک راستہ بنا ہوا ہے جس پر لکھا ہوا ہے This is the right way.جیسا کہ میں نے بتایا شہید ایم بی بی ایس کر رہے تھے اور پہلے سال کے طالب علم تھے.پڑھائی کا بڑا شوق تھا.بزرگوں کی خدمت کا بڑا شوق تھا.ان کی خواہش تھی کہ عملی زندگی میں جب قدم رکھوں تو بے سہارا لوگوں کے لئے اپنی نانی کے نام پر ایک سعیدہ اولڈ ہاؤس بناؤں گا.ابھی بھی جیسا کہ میں نے کہا ان کے خاندان میں اور محلے میں ان لوگوں کی بڑی سخت مخالفت ہے اور والدہ نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں ثبات قدم عطا فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے.اتنی مخالفت ہے کہ جو جماعتی وفد ملنے گیا، جو احمدی لوگ تعزیت کرنے گئے ہیں وہ ان کے گھر بھی نہیں جاسکے تھے.شہید مرحوم نے باوجو د نو مبائع ہونے کے جو استقامت دکھائی ہے یقینا یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تعلق کی وجہ سے تھی کہ انہوں نے جب مسیح موعود کو پہچانا اور ان کو آپ کا سلام پہنچایا تو اس کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.مکرم نثار احمد صاحب دوسر اذکر ہے مکرم شار احمد صاحب شہید ابن مکرم غلام رسول صاحب کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق ضلع نارووال سے تھا.ان کے دادا حضرت مولوی محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امر تسر کے رہنے والے تھے.یہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے.شہید مرحوم سترہ سال کی عمر میں لاہور آگئے اور اشرف بلال صاحب جو اس سانحہ میں شہید ہو گئے ہیں ان کی فیکٹری میں کام شروع کیا، ان کے ساتھ ہی رہے.شہادت کے وقت شہید کی عمر 46 سال تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.مسجد دارالذکر میں اشرف بلال صاحب کو بچاتے ہوئے انہوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا.عموماً نماز جمعہ دارالذکر میں ہی ادا کرتے اور بچوں کو بھی ساتھ لاتے.سانحہ کے روز بھی بچوں کو ساتھ لے کر آئے.نماز جمعہ سے قبل صدقہ دینا ان کا معمول تھا.بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے کہ اس سے ثواب ہوتا ہے.سانحہ کے روز بھی صدقہ دیا.ایک بیٹے نے کہا کہ میری طرف سے بھی صدقہ دیں.انہوں نے کہا کہ بیٹا آپ خود اپنے ہاتھ سے صدقہ دیں.بعد میں پتہ چلا کہ بیٹے کی طرف سے بھی ادا شدہ صدقہ کی رسید ان کی جیب میں موجود تھی.فائرنگ کے دوران اشرف بلال صاحب جو شدید زخمی ہو گئے ، جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، ان کو بچانے کے لئے ان کے اوپر لیٹ گئے.اسی

Page 349

334 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دوران ایک دہشتگر دنے گولیوں کی بوچھاڑ ماری جس سے آپ کی کمر چھلنی ہو گئی اور آپ موقع پر شہید ہو گئے.شہید مرحوم نے سانحہ سے دس دن قبل خواب میں دیکھا تھا کہ والدین مرحومین سے ملاقات ہوئی ہے.والدین کہتے ہیں کہ بیٹا ہمارے پاس ہی آکر بیٹھ جاؤ.اہل خانہ نے بتایا کہ تہجد اور نمازوں میں با قاعدہ تھے.شادی کے پچیس سالہ عرصہ میں کبھی سختی سے بات نہیں کی.دونوں بچوں کو وقف نو کی بابرکت تحریک میں پیش کیا.والدین کی وفات سے قبل بھر پور طریقے سے والدین کی خدمت کا موقع ملا.خدمت خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا.احمدیت کے حوالے سے بہت جذباتی تھے.اپنے آبائی گاؤں میں ان کا اکیلا احمدی گھر تھا.ایک دفعہ مخالفین نے جلسہ کیا اور لاؤڈ سپیکر میں جماعت کے خلاف سخت بد زبانی کی.رات کا وقت تھا، یہ چپکے سے گھر سے نکلے اور وہاں جا کر ان کو سختی سے کہا کہ یہ بد کلامی بند کرو اور اونچی آواز کو بند کرو اور اگر کوئی بات کرنی ہے تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کر لو.جس پر مخالفین نے لاؤڈ سپیکر کی آواز بند کر دی.واپس آنے پر اہلیہ نے کہا آپ اکیلے چلے گئے تھے ، مخالفین اتنے زیادہ تھے اگر وہ آپ کو مار دیتے تو کیا ہوتا.تو جوابا کہا زیادہ سے زیادہ شہید ہو جاتا.اس سے اچھا اور کیا تھا؟ لیکن مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے خلاف بد زبانی سنی نہیں جارہی تھی.مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب کا.شہید مرحوم صاحب کے والد 1903ء میں بٹالہ میں پیدا ہوئے.ان کے دادا حضرت شیخ عبد الرشید خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.ان کے والد اور ان کے نانا حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے معالج کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے.شہید مرحوم 25 اگست 1949 کو لاہور میں پیدا ہوئے.ایف ایس سی کے بعد ایم ایس سی بائیو کیمسٹری میں کیا اور پھر ایم بی بی ایس کی ڈگریاں لیں.بوقتِ شہادت ان کی عمر 60 سال تھی.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں تدفین ہوئی.عموماً نماز جمعہ کڑک ہاؤس میں ادا کیا کرتے تھے.کبھی کبھی دارالذکر بھی چلے جاتے.سانحہ کے روز بیٹے کو کالج چھوڑنے گئے اس کے بعد قریب ہی دار الذ کر چلے گئے.ایک بج کر چالیس منٹ کے قریب یہ مسجد میں داخل ہوئے.اسی دوران گیٹ کے قریب ہی دہشتگردوں کی فائرنگ شروع ہوئی.چھاتی اور ٹانگ میں گولیاں لگیں، تھوڑی دیر تک ہوش میں رہے.ایمبولینس میں اپنا نام وغیر ہ بتایا تاہم ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں شہید ہو گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت کرنے والے تھے.کبھی کسی امیر و غریب میں فرق نہیں کیا.سب سے ایک جیسا ہمدردانہ سلوک کرتے تھے.مریضوں کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا تھا.جب بھی کوئی ضرور تمند آ جاتا آپ خدمت کے لئے تیار ہوتے اور ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی سے پیش

Page 350

335 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم آتے.شہید مرحوم کے ایک عزیز نے سانحہ سے ایک روز قبل خواب میں دیکھا تھا کہ میرے والد ڈاکٹر وسیم صاحب قبر کھود رہے ہیں اور ساتھ روتے ہیں کہ میرے کسی عزیز کی قبر ہے.خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم میاں محمد سعید درد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم میاں محمد سعید درد صاحب شہید ابن مکرم حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد گجرات کے رہنے والے تھے.پھر قادیان شفٹ ہو گئے.ان کے والد حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دادا حضرت ہدایت اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے اور انہوں نے 1900ء میں بیعت کی تھی.شہید مرحوم کے والد صاحب پارٹیشن تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے.اس کے علاوہ نائب امیر ضلع لاہور بھی رہے.شہید مرحوم 1930ء میں گجرات میں پیدا ہوئے.پیدائش کے بعد گھر والے قادیان شفٹ ہو گئے چنانچہ آپ نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی.مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد بی اے کیا اور بعد میں نیشنل بینک میں ملازمت اختیار کی جہاں سے 1970ء میں مینجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.زندگی میں چھ مرتبہ حج اور متعدد بار عمرہ کرنے کی سعادت بھی ملی.شہادت کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.قریباً ایک بجے بیت النور ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے.جنرل ناصر صاحب کے ساتھ ویل چیئر پر بیٹھے تھے.دو گولیاں ٹانگ میں اور ایک بازو میں لگی.شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں اڑھائی گھنٹے آپریشن جاری رہا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور جام شہادت نوش فرمایا.اہل خانہ نے بتایا کہ بہت دعا گو انسان تھے.کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا.ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے.نہایت مہمان نواز تھے.باوجو د بڑھاپے کے ہر ایک سے کھڑے ہو کر ملتے تھے.بچوں کو نصیحت کی کہ اپنا دستر خوان ہر ایک کے لئے کھلا رکھنا.اتنی عمر کے باوجو د سارے روزے رکھتے تھے.1969ء سے ہر سال اعتکاف بیٹھا کرتے تھے.صرف گزشتہ دو سال سے بچوں کے اصرار کی وجہ سے ءسے اعتکاف نہیں بیٹھے.بیت النور ماڈل ٹاؤن کے سنگ بنیاد کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شہید مرحوم کے والد صاحب کو بھی بنیاد میں اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی.اکثر بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اتنی نعمتیں مجھے دی ہیں.شہادت سے چند دن پہلے نائب امیر صاحب ضلع لاہور ان سے ملنے آئے تو ان سے کہا کہ یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے.جب تک نظر ٹھیک رہی بچوں کو قرآنِ کریم پڑھاتے رہے.آخری وقت تک دیگر احباب سے چندہ وصول کرنے کے لئے خود پیدل جاتے اور کہتے کہ میں اگر اس غرض سے ایک قدم بھی چلوں گا تو سو قدم کا ثواب ملے گا.بیت النور میں حصولِ ثواب کی خاطر اکثر پیدل جاتے تھے.ان کی شہادت کے بعد ان کے میز پر دعائیہ خزائن کی کتاب کھلی ملی ہے جو کہ

Page 351

خطبات مسرور جلد هشتم 336 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 الٹی رکھی ہوئی تھی.ان کے اہل خانہ کہتے ہیں عموماً پہلے نہیں ہوتی تھی اور جو صفحہ کھلا ہوا تھا اس پر الوداع کہنے کی دعا اور بلندی پر چڑھنے کی دعا تحریر تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم محمد یحیی خان صاحب اگلا ذکر ہے مکرم محمد یحیی خان صاحب شہید ابن مکرم ملک محمد عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا.شہید مرحوم کے والد حضرت ملک محمد عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دادا حضرت برکت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق ناظر اعلیٰ قادیان (بھارت) ان کے چچا تھے.شہید مرحوم 1933ء میں قادیان میں پیدا ہوئے.ان کی اپنی زندگی بھی ایک معجزہ تھی.ان کے بڑے بھائی اور ان کی عمر میں 18 سال کا فرق تھا کیونکہ درمیان کی ساری اولا د چار سے پانچ سال کی عمر میں فوت ہو گئی اور ان کی صحت بھی چار پانچ سال کی عمر میں خراب ہو گئی.ان کی والدہ صاحبہ ان کو لے کر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئیں.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو لے کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئیں.ان کی والدہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پنجابی میں عرض کیا کہ ” حضور اے وی جاریا ہے کہ حضور یہ بھی جارہا ہے).حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو (اس بچے کو گود میں لے لیا اور آپ کا نام شریف احمد سے بدل کر محمد بیچی رکھ دیا.حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دعاؤں کے طفیل آپ نے نہ صرف لمبی عمر پائی بلکہ شہید ہو کر ابدی حیات پاگئے.پارٹیشن کے بعد فیصل آباد آگئے.ہجرت سے قبل ان کی ڈیوٹی مینارۃ المسیح قادیان پر ہوتی تھی.یہ دور بین لگا کر ارد گرد کے ماحول کی نگرانی کیا کرتے تھے.سول انجینئر نگ کے بعد مختلف جگہوں پر تعینات رہے.1982-1981ء میں بسلسلہ ملازمت عراق چلے گئے جہاں ان کو جماعت کوEstablish کرنے کا موقع بھی ملا.بوقت شہادت ان کی عمر 77 سال تھی.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے دوران مسجد کے مین ہال میں کرسیوں پر پہلی رو میں بیٹھے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہو گئی.کسی دوست نے کہا کہ آپ پیچھے چلے جائیں تو کہا کہ گھبراؤ نہیں اللہ یہیں فضل کرے گا.اس کے بعد عہدیداران کی ہدایت پر دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے.اسی دوران دہشت گرد نے گرنیڈ پھینکے جن میں سے ایک گرنیڈ کے پھٹنے سے ان کے سر کا پچھلا حصہ زخمی ہو گیا جس سے موقع پر ہی شہید ہو گئے.ان کے دو بیٹے دارالذکر میں ڈیوٹی پر تھے جو کہ رات 12 بجے تک ریسکیو کا کام کرتے رہے.حالانکہ ان کو والد صاحب کی شہادت کی اطلاع مل چکی تھی.اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم انتہائی حلیم طبیعت کے مالک تھے.کبھی غصے میں نہیں دیکھا.جماعتی کاموں میں غیرت تھی.بچوں کو جماعتی کاموں اور نمازوں میں کو تاہی کی صورت میں معافی نہیں ملتی تھی.عرصہ دراز تک سیکرٹری تعلیم القرآن رہے.لوگوں کو گھروں میں جا جا کر

Page 352

337 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم قرآن کریم کی تعلیم دی.یہ لوگ آپ کی شہادت پر زارو قطار روتے ہوئے ملے کہ ان کا یہ احسان ہماری نسلیں کبھی نہیں بھلا سکتیں.عزیز و اقارب اور دیگر رشتہ داروں کی ہمیشہ مشکل حالات میں مدد کی اور ان کو سپورٹ کیا.جو بھی آپ کو پنشن ملتی تھی وہ ساری کی ساری غریبوں پر ہی خرچ کر دیتے تھے.نماز ظہر و عصر گھر میں باجماعت ادا کرتے اور باقی تین نمازیں مسجد میں جاکر ادا کرتے تھے.کبھی تہجد نہیں چھوڑی.داماد اور بیٹے میں کبھی فرق نہیں کیا.بہوؤں کو اپنی بیٹی سمجھا.سانحہ سے ایک جمعہ قبل تین نئے سفید سوٹ سلوائے دونوں بیٹوں نے اپنے اپنے سوٹ پہن لئے.جب شہید مرحوم کو کہا گیا کہ تیسر اسوٹ آپ پہن لیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں اگلے جمعہ پہنوں گا.کچھ عرصہ قبل آپ کی بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ کوئی تہہ خانے والی بلڈنگ ہے جس میں میڈل تقسیم کیے جار ہے ہیں.ان میں میرے والد صاحب بھی شامل ہیں.خواب میں ہی کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ میڈل ان کو دیئے جار ہے ہیں جنہوں نے کوئی خاص کارنامہ سر انجام دیا ہے.مطالعہ کا بے حد شوق تھا.ان کی اپنی لائبریری تھی جس میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں.ان کے ایک بیٹے خالد محمود صاحب واقف زندگی ہیں اور تحریک جدید کی سندھ کی زمینوں میں مینجر ہیں.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے.مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر عبد الشکور میاں صاحب کا.شہید مرحوم کے دادا چو ہدری عبد الستار صاحب نے 1921ء یا 22ء میں بیعت کی تھی.ان کے ننھیال گورداسپور جبکہ ددھیال میاں چنوں کے رہنے والے تھے.ان کے والد صاحب کے خالو حضرت مولوی محمد دین صاحب لمبا عرصه صدر، صدر انجمن احمد یہ رہے ہیں.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے ہیں.اسی طرح مولا نار حمت علی صاحب مبلغ انڈو نیشیا اور چوہدری احمد جان صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی ان کے والد کے خالو تھے.حضرت منشی عبد العزیز صاحب او جلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے والد کے نانا تھے.شہید مرحوم جولائی 1979ء میں لاہور میں پیدا ہوئے.ایم ایس سی آنر زمائیکر و بیالوجی کرنے کے بعد سترہ گریڈ کے ویٹرنری آفیسر تعینات ہوئے.بوقت شہادت ان کی عمر اکتیس برس تھی.نظامِ وصیت میں شامل تھے.مسجد دارالذکر میں شدید زخمی ہوئے.ہسپتال میں زیر علاج رہے اور بعد میں شہید ہوئے.سانحہ کے روز ملازمت سے ہی نماز جمعہ ادا کرنے دارالذکر پہنچے.ابھی وضو کر رہے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی.لفٹ کے پاس کھڑے تھے کہ دہشتگرد کی دو تین گولیاں ان کے گردوں کو چھلنی کرتی ہو ئیں نکل گئیں.شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا.جہاں ان کے چار آپریشنز ہوئے.ایک گروہ بالکل ختم ہو چکا تھا اسے نکال دیا گیا.علاج کی پوری کوشش کی گئی.ستر بو تلیں خون کی دی گئیں لیکن جانبر نہ ہو سکے اور مورخہ 4 جون کو جامِ شہادت نوش فرمایا.اہل

Page 353

338 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم بہت کم گو اور ملنسار انسان تھے.کبھی کسی نے بھی ان کے بارے میں شکایت نہیں کی.نماز کے پابند تھے.ہر جمعرات کو اپنے مسجد کے حلقہ کے وقارِ عمل میں حصہ لیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم لعل خان صاحب ناصر اگلا ذکر ہے مکرم لعل خان صاحب ناصر شہید ابن مکرم حاجی احمد صاحب کا.شہید مرحوم اور حماں ضلع سر گودھا کے رہنے والے تھے.ان کے دادا نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے بیعت کی تھی.بچپن میں شہید مرحوم کے والد وفات پاگئے تھے.والدہ بھی 1995ء میں وفات پاگئیں.ابتدائی تعلیم کے بعد ربوہ آگئے تھے.بی.اے تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد بسلسلہ ملازمت کچھ عرصہ کے لئے کراچی چلے گئے.بعد میں تربیلا میں ملازمت مل گئی.اس وقت گریڈ سترہ کے بجٹ اکاؤنٹ آفیسر تھے اور گریڈا ٹھارہ ملنے والا تھا.دورانِ ملازمت ملتان اور وہاڑی میں بھی بھر پور جماعتی خدمات کا موقع ملا.اس کے علاوہ مظفر گڑھ میں پہلے قائد ضلع اور پھر امیر ضلع مظفر گڑھ کی حیثیت سے بھی خدمت سر انجام دیتے رہے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 52 سال تھی اور نظام وصیت میں شامل تھے.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں شہادت کا رتبہ پایا.مسجد بیت النور کے دوسرے ہال میں بیٹھے تھے.دہشتگردوں کے آنے پر آپ نے بھاگ کر دروازہ بند کیا اور احباب جماعت سے کہا کہ آہستہ آہستہ ایک طرف ہو جائیں.اسی دوران دروازے میں سے دہشتگر دنے گن کی نالی اندر کر کے فائر کئے جو آپ کے سینے میں لگے اور موقع پر ہی شہید ہو گئے.ان کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ سانحہ سے ایک روز قبل شہید مرحوم غالباً کوئی خواب دیکھتے ہوئے ایک دم ہڑ بڑا کے اٹھ گئے تھے.میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے ؟ تو خاموش رہے.تاہم اٹھ کر بچوں کو دیکھا لیکن خواب نہیں سنائی.بڑے بیٹے نے بتایا کہ تدفین سے اگلے روز غیر از جماعت لڑکوں کے گالیوں بھرے ایس ایم ایس (SMS) آتے رہے.یہ ان کی اخلاقی حالت کا حال ہے.لڑکے نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کالی سکرین ہے جس پر سفید الفاظ لکھے آ رہے ہیں اور ساتھ ہی ابو شہید کی آواز آتی ہے کہ ignore کر وسب کو ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے قربانی دی.شہید مرحوم کے ایک عزیز نے شہادت کے بعد خواب میں دیکھا کہ ہرے بھرے گراؤنڈ میں ٹہل رہے ہیں.ایک ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ہے اور دوسرے ہاتھ میں سیب ہے جو کھا رہے ہیں.بروز جمعہ شہید مرحوم نے نماز سینٹر جا کر باجماعت تہجد پڑھائی اور رو رو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.پھر اس کے بعد نماز فجر پڑھائی تو آخری سجدہ بہت لمبا کیا.اہل خانہ نے بتایا کہ وقف عارضی کا بہت شوق تھا.وقف نو کی کلاسز بہت دلجمعی سے لیتے تھے.فرداً فردا بچوں کو وقت دے کر جائزہ لیا کرتے تھے.گھر میں ایک عیسائی بچی ملازمہ تھی، اس کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کئے.اس کو

Page 354

339 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جہیز بنا کر دیا اور بعد میں اس کی شادی کی.ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ عینی شاہد نے بتایا کہ لعل خان صاحب دہشتگردی کا واقعہ ہوا تو فوراً اپنے ہی حلقہ کے انصار بھائی کے ساتھ مسجد کی چھت پر چلے گئے.جب اس فائر کرنے والے درندہ صفت کی بندوق کی گولیاں ختم ہو گئیں تو دوبارہ گولیاں بھر نے لگ گیا.تب تھوڑی دیر کے لئے خاموشی ہوئی تو چھت پر جانے والے تمام افراد نے یہ سمجھا کہ حالات قابو میں آگئے ہیں.چنانچہ وہ فورا نیچے آگئے.اتنی دیر میں اس نے اپنی بندوق پھر لوڈ کر لی.خان صاحب اپنے ہاتھ اپنے ساتھیوں سے چھڑا کر بھاگ کر ہال کے پچھلے دروازے کو بند کر کے دروازے کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور باقی نمازیوں سے کہنے لگے کہ آپ درود شریف کاورد کرتے ہوئے جلدی جلدی محفوظ جگہوں پر چلے جائیں.تقریباً پونے دو بجے تک وہ خیریت سے تھے.اور دہشتگر دنے جب دروازہ بند کرتے دیکھا تو فوراً بھاگ کر دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھولنے کے لئے دھکا دینے لگا.انہوں نے مضبوطی سے تھامے رکھا.اور اس دوران جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس نے نالی اندر کی اور فائر کر دیا.اس دوران ان کے دو اور ساتھی بھی شہید ہو گئے.ان تینوں کی شہادت سے اس عرصے میں جو دہشتگرد کے ساتھ زور آزمائی ہو رہی تھی، ہال خالی ہو چکا تھا اور باقی نمازی محفوظ جگہوں پر چلے گئے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میرے میاں ایک فرشتہ صفت انسان تھے، ہر وقت جماعت کی خدمت کی فکر تھی.جوں ہی جماعت کی طرف سے کوئی اطلاع آتی تو فوراً عمل کرتے.اپنے حلقہ پنجاب سوسائٹی کے زعیم انصار الله، سیکر ٹری تربیت نو مبائعین، سیکر ٹری رشتہ ناطہ تھے.وقف عارضی بہت شوق سے کرتے تھے.شہادت سے پندرہ دن پہلے ان کی وقف عارضی مکمل ہوئی تھی.وقف عارضی کے لئے انہوں نے عصر سے لے کر نماز عشاء کا ٹائم وقف کیا ہوا تھا.عصر سے مغرب تک واپڈا ٹاؤن کے بچوں سے قرآن مجید، نماز باترجمہ اور نصاب وقف نو میں سے سورتیں وغیرہ سنتے.اگر کسی بچے کا تلفظ درست نہ ہو تا تو اس کا تلفظ درست کرواتے.اور نماز مغرب کے بعد NESS پارک سوسائٹی میں آجاتے.نماز عشاء تک وہاں کے بچوں کو پڑھاتے.بچوں کے دلوں میں جماعت کی محبت، خلیفہ وقت کی محبت اور اطاعت کا شوق پیدا کرنے والے واقعات سناتے.میرے میاں کی شہادت کے بعد تمام بچے سو گوار تھے اور یہی کہتے کہ انکل تو ہمارے فیورٹ (Favourite) انکل تھے.ہمیں انہوں نے بہت کچھ سکھایا.ہر وقت زبان پر درود شریف اور خلافت جو بلی کی دعائیں ہوتی تھیں.گھر میں ہم سب کو بھی درود شریف اور خلافت جو بلی کی دعائیں پڑھنے کی تلقین کرتے رہتے تھے.اول وقت میں نماز پڑھنے کے عادی تھے اور اہل خانہ کو بھی اس کا عادی بنایا.ان کے ایک اور واقف نے لکھا ہے کہ 1998ء سے 2001ء تک مظفر گڑھ کے امیر ضلع رہے.آپ کو جماعت کے افراد کی تربیت کا بڑا فکر ہو تا تھا.آغاز اپنے گھر سے کرتے تھے.لوگوں کے عائلی معاملات میں صلح و صفائی کی کوشش کرتے.ایک دفعہ شہر سلطان،( یہ وہاں جگہ کا نام ہے) میں عائلی معاملہ پیش تھا.آپ نے فریقین کے حالات و واقعات سنے اور دیگر افراد سے بھی تصدیق چاہی.

Page 355

340 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دونوں خاندانوں کو سمجھایا.اس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور بار بار یہ نصیحت کرتے تھے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے ہیں.آپ کوشش کریں کہ اپنے گلے شکوے دور کر کے پھر اکٹھے ہو جائیں اور ناراضگی جانے دیں.عاجزی اور انکساری کمال کی تھی.کوئی معاملہ در پیش ہو تاتو مجلس عاملہ کے اراکین کے سامنے رکھتے اور ان سے رائے لیتے.آپ میں کمال کی تاری دیکھی.کسی سے کوئی لغزش ہو جاتی تو اس کے لئے دعا بھی کرتے.مرکز کو حالات لکھتے اور حالات سے آگاہ رکھتے اور اگر اصلاح دیکھتے تو اس کی اطلاع بھی مرکز کو کرتے.جب تک یہ امیر ضلع رہے جماعت کے لئے ایک پر شفقت باپ کا کر دار ادا کیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مکرم ظفر اقبال صاحب اگلا ذکر ہے مکرم ظفر اقبال صاحب شہید ابن مکرم محمد صادق صاحب کا.شہید مرحوم عارف والا ضلع لیہ کے رہنے والے تھے.ابتدائی تعلیم عارف والا میں حاصل کرنے کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے.بی اے تک تعلیم لاہور میں حاصل کی.اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے.جہاں قیام کے دوران پانچ بار حج کرنے کی سعادت ملی.پاکستان واپس آنے پر ٹرانسپورٹ لائن اختیار کی اور شہادت تک اسی سے وابستہ رہے.ایک سال قبل مع فیملی بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.بوقتِ شہادت ان کی عمر 59 برس تھی.دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم با قاعدگی سے تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد کام کے سلسلے میں سات بجے گھر سے نکلتے.28 مئی سانحہ کے دن نماز تہجد ادا کرنے کے بعد تلاوت کی اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد ناشتہ کر کے کام کے لئے گھر سے نکلے.کام سے فارغ ہو کر مسجد دارالذکر پہنچے.سانحہ کے دوران مسلسل بیٹے سے فون پر بات ہوتی رہی.کہا کہ ہم چھپے ہوئے ہیں.لیکن کہاں چھپے ہوئے تھے یہ نہیں بتایا اور بتایا کہ فائرنگ بہت ہو رہی ہے، آپ دعا کریں.اللہ خود ہی ہماری مدد کرے گا.پھر بیٹی سے بھی بات کی تو یہی کہا کہ دعا کریں.پھر بار بار فون کرنے سے منع کر دیا.دہشتگردوں کی فائرنگ کے دوران ایک گولی آپ کے کندھے پر لگی.مین گیٹ کے قریب ان کی لاش پڑی ہوئی تھی جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ جب وہ آپریشن مکمل ہونے کی غلط خبر پھیلی تو یہ باہر نکل کر آئے ہیں اور مینار پر موجود دہشتگرد نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں گولی ان کے کندھے میں لگی جو ترچھی ہو کر دل کی طرف چلی گئی.اس کے بعد جب ان کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا گیاتب تک ان کی نبض چل رہی تھی.طبی امداد دینے کی کوشش کی گئی لیکن جانبر نہ ہو سکے اور جام شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے تاثرات لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں.لیکن میرا ایمان اس قدر پختہ ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نیتوں کا حال جانتا ہے اور وہ جو بھی اپنے بندے کے لئے کرتا ہے وہ انسان کی سوچ سے بھی بہت بڑھ کر ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے میرے میاں کو شہید کا جو رتبہ دیا ہے وہ اصل میں اس

Page 356

341 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کے حق دار تھے اور مجھے اس پر فخر ہے.میری ساری اولاد بھی احمدیت کے لئے قربان ہو جائے تو مجھے رتی بھر بھی ملال نہیں ہو گا بلکہ میں خدا کی بے انتہا شکر گزار ہوں گی.شہید مرحوم کے بیٹے نے بتایا کہ ابو کی شہادت سے چند روز قبل میرے ماموں طاہر محمود صاحب نے خواب دیکھا اور جب فجر کی نماز کے لئے بیدار ہوئے تو بتایا کہ مجھے خواب تو یاد نہیں، بس ایک جملہ یا د رہا ہے ” پہاڑوں کے پیچھے چھوڑ آئے “ اور جب ہم ابو شہید کو ربوہ ہمیشہ کے لئے چھوڑنے جارہے تھے تو پہاڑوں میں گھری اس وادی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنا خواب بیان کیا.پہلی دفعہ ربوہ گئے تھے اور پھر ہمیشہ کے لئے وہیں رہ گئے.بیٹے نے مزید بتایا کہ ابو ابتدا میں تو جماعت کے شدید مخالف تھے لیکن پھر خدا تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ سچے دل سے احمدیت قبول کی اور اخلاص، تقویٰ اور ایمانداری میں اس قدر بڑھ گئے کہ بیعت کے صرف ایک سال بعد ہی شہادت کا بلند مرتبہ پایا.ایک سال میں ہی جماعت سے بے پناہ لگاؤ ہو گیا تھا.ڈش انٹینا لگوا کر ایم ٹی اے بڑے شوق سے سنتے تھے.کس طرح بیعت کی؟ یہ بھی ان کی عجیب کہانی ہے.اس کا ذکر آگے آتا ہے.ان کے ملنے والے نے ایک خط میں ذکر کیا ہے کہ سانحہ لاہور میں ایک ایسے وجود نے بھی جامِ شہادت نوش کیا جس کو بیعت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ سال ہی عطا فرمائی تھی لیکن اس تھوڑے سے عرصہ ہی میں ان کو خلافت سے اتنی محبت ہو گئی تھی کہ جب بھی وہ ایم ٹی اے پر میرا کوئی پروگرام دیکھتے تھے ، تو چہرے کو زوم (Zoom) کر کے سکرین پر لے آتے تھے اور جماعت سے اتنا گہرا تعلق ہو گیا تھا کہ ہمیشہ دارالذکر میں ہی جا کر جمعہ پڑھتے تھے.اور باوجود یہ کہ قریب ہی مسجد تھی، کہتے تھے کہ مجھے وہیں جانا ہے.کچھ دن پہلے تلاوت کے کسی مقابلے میں حصہ لیا اور پہلا انعام حاصل کیا اور انعام میں ایک جائے نماز ملی جس پر بہت خوش تھے.یہ ان کی بیوی کے بھائی کا خط ہے.کہتے ہیں کہ خاکسار کے بہت مخلص، سادہ طبیعت اور پیارے بہنوئی کی یہ باتیں خاکسار کی ہمشیرہ نے ان کی شہادت کے بعد بتائیں.میرے بہنوئی اپنے خاندان کے پہلے احمدی تھے.ان کے رشتے داروں کی طرف سے مخالفت تھی.بہت زیادہ ہنس مکھ اور ہر کسی کا خیال رکھنے والے تھے.ہر کسی کے غم یا خوشی میں سب سے آگے ہوتے تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مارچ 2009ء میں بیعت کی تھی.میں پیدائشی احمدی ہوں اور میرے بچوں اور میاں نے اکٹھے بیعت کی تھی.میری شادی کے بعد احمدیت کے بہت بڑے مخالف تھے بلکہ پورا سسرال ہی مخالف تھا لیکن ظفر صاحب تب بھی نماز کے بہت پابند اور بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے.دس سال تک سعودی عرب رہے.ماشاء اللہ پانچ حج اور لاتعداد عمرے کئے.1986ء میں پھر سے پاکستان آگئے.احمدیت میں آنے سے پہلے بھی بحیثیت شوہر کے انتہائی پیار کرنے والے شوہر اور باپ تھے.اپنے بچوں کے علاوہ دوسرے بچوں سے بھی بے حد پیار کرتے تھے.احمدیت میں آنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ نمازوں کی پابندی اور تہجد کی پابندی کرنے لگے.کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا لیکن بیعت کرنے کے بعد سونے سے پہلے اکثر مجھے کہتے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب پڑھ کر سناؤ، یا خود پڑھ کر سوتے تھے.ایک دو ماہ پہلے ہم سب گھر والوں نے نوٹ کیا تھا، احمدیت سے

Page 357

342 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 بہت زیادہ وابستہ ہو گئے تھے.انصار اللہ کی کوئی بھی تقریب ہوتی تو ضرور شرکت کرتے اور ہمیشہ سب سے آگے بیٹھے ہوتے.ان کے بیٹے نے کہا کہ انہوں نے مجھے مسجد سے فون کیا لیکن میں مصروف تھا تو میں نے فون ریسیو نہیں کیا.پھر مجھے پتہ لگا کہ مسجد میں اس طرح فساد ہو رہا ہے.جب میں گھر آیا تو میں نے ان کو فون کیا.انہوں نے مجھے بھی کہا کہ یہاں بہت فائرنگ ہو رہی ہے، آپ ہمارے لئے بہت دعا کریں.میں نے کہا کہ ابو جی اپنا خیال رکھنا.اس وقت بھی انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ کیا خیال رکھوں، خیال تو اللہ میاں نے رکھنا ہے ، آپ بس دعائیں کریں.احمدیت قبول کرنے سے پہلے ، ان کی اہلیہ تو احمدی تھیں، بیٹا کہتا ہے کہ اگر میری ماں کو کبھی جماعت کا لٹریچر پڑھتے دیکھ لیتے تھے تو بہت غصہ آتا اور انہوں نے میری ماں کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ یہاں احمدیوں کی کوئی کتاب نظر نہیں آنی چاہئے.پھر ایک دفعہ احمدی رشتے داروں کے پاس ملتان گئے.کہتے ہیں کہ میری ممانی بتاتی ہیں کہ وہاں انہوں نے گلشن وقف نو کا پروگرام دیکھا جو ایم ٹی اے پر آرہا تھا.تو اگلے دن ان سے ہی جن کے گھر مہمان گئے تھے دوبارہ پوچھا کہ وہ جو کل پروگرام لگا ہو اتھا وہ روز لگتا ہے ؟ ممانی نے کہا: جی روز لگتا ہے.تو بیٹا کہتا ہے کہ ابو نے کہا اچھا پھر اس کو دوبارہ لگائیں.پھر کچھ عرصہ بعد ماموں کے کہنے پر میری ماما نے ابو کو ڈش لگانے کا کہا تو فوراً گئے اور خود ڈش لا کر لگائی اور ایم ٹی اے سیٹ کیا.خطبات نہایت شوق سے سنتے تھے.پھر ابو نے مارچ 2009ء میں بیعت کر لی.یہ بیٹے کا بیان ہے.پھر یہ بیٹا کہتا ہے کہ جب پیارے ابو شہید ہوئے تو اس وقت بھی انہوں نے چندہ دیا ہو ا تھا لیکن اس کی رسید ان کی شہادت کے بعد مربی صاحب نے ہمیں دی.پھر بیٹا لکھتا ہے کہ انا کی شہادت کے بعد ہمارے محلے میں مخالفت شروع ہو گئی ہے اور فتووں کے پوسٹر اور شکر وغیرہ چسپاں ہو رہے ہیں اور پمفلٹ بانٹے جا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.مکرم منصور احمد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم منصور احمد صاحب شہید ابن مکرم عبد الحمید جاوید صاحب کا.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق شاہدرہ لاہور سے ہے.ان کے پڑدادا مکرم غلام احمد صاحب ماسٹر تھے.غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دورِ خلافت میں بیعت کی تھی.1953ء میں ان کے مکانات کو آگ لگا دی گئی جس کے بعد ربوہ چلے گئے.پھر والد صاحب 1970ء کے قریب کراچی چلے گئے.1974ء میں کراچی میں ان کے والد محترم کی دکان کو آگ لگادی گئی جس کے بعد یہ لاہور شفٹ ہو گئے.شہید مرحوم امپورٹ ایکسپورٹ کی ایک فرم میں ملازمت کرتے تھے.باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے.ان کا ایک بھائی مانچسٹر میں تھا.کچھ دنوں سے کہہ رہے تھے کہ میں نے ربوہ سیٹ ہونا ہے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 36 برس تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام وصیت میں بھی شامل تھے.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم کے دفتر والے جو ان کی بہت تعریف بھی کر رہے تھے، بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور

Page 358

343 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم احمدی دوست بھی کام کرتے تھے.ان کو ہر جمعہ پر اپنے ساتھ لے کر جاتے.سانحہ کے روز کہا کہ ہر جمعہ پر آپ مجھے لیٹ کروا دیتے ہیں، آج کسی صورت بھی لیٹ نہیں ہونا.اور باقاعدہ لڑائی کر کے بحث کر کے ، اپنے دوست کو جمعہ کے لئے جلدی لے کر گئے.مسجد پہنچ کر پہلی صف میں سنتیں ادا کیں.حملے کے دوران اپنے دفتر فون کر کے کہا کہ میں بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہوں، خون کافی بہہ گیا ہے، مجھے بچانے کی کوشش کریں.گھر سے والدہ نے فون کیا تو ان کو بھی یہی کہا کہ کسی کو بھیجیں تاکہ ہمیں یہاں سے نکال سکے.اہلیہ سے گفتگو کے دوران بھی گولیاں چلنے کی آوازیں انہوں نے سنیں.پھر ان کی آواز بند ہو گئی.شہید مرحوم کی اہلیہ نے بتایا کہ بہت زیادہ حساس طبیعت کے مالک تھے.شہادت سے ایک ہفتہ قبل مجھ سے کہا کہ آپ بچوں کا خیال رکھا کریں، بچوں کی ذمہ داری آپ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہیں.اب میں شاید بچوں کو زیادہ وقت نہ دے سکوں.بچوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ اٹیچ (Attach) کرو تا کہ یہ مجھے یاد نہ کریں.شہادت کے روز صبح کے وقت کہا کہ بیٹا شانزیب محسن ( جو صحتمند اور خوبصورت ہے) جب تین سال کا ہو جائے گا تو اسے ہم نے ربوہ بھیج دینا ہے اور جماعت کو پیش کرنا ہے.وہ اسے جو چاہیں بنا لیں.کچھ عرصہ قبل ایک پڑوسی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا.وہ موٹر سائیکل چلانے کے قابل نہیں رہے تھے.شہید مرحوم کافی عرصہ مسلسل ان کو گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر واپس لاتے رہے.مذکورہ پڑوسی کی والدہ نے جب شکر یہ ادا کرنے کی کوشش کی تو کہا کہ جب تک میری سانس ہے میں آپ کے بیٹے کو ساتھ لے کر جاتا اور آتار ہوں گا، شکریہ کی کوئی بات نہیں.ایک مربی صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ منصور احمد صاحب شہید سادہ مزاج، نہایت مخلص اور نظام خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق رکھنے والے تھے.موصوف اپنے وقف نو بچوں کو بڑی باقاعدگی کے ساتھ وقف نو کی کلاس میں شامل کرتے تھے.ان کے بچوں کو خلافت کے ساتھ محبت و عقیدت پر مبنی بڑی لمبی لمبی نظمیں یاد ہیں.بڑی بچی جس کی عمر پانچ سال ہے، بہت خوش الحانی اور سوز و گداز کے ساتھ نظم پڑھتی ہے.خاکسار نے ایک دفعہ کلاس کے موقع پر مکرم منصور احمد صاحب شہید سے پوچھا کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو آپ نے اتنی لمبی لمبی نظمیں کیسے یاد کروا دیں ؟ تو کہنے لگے کہ یہ نظمیں میں نے اپنے موبائل فون میں ریکارڈ کی ہوئی ہیں اور بچے ہر وقت.سنتے رہتے ہیں.ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے جلدی سیکھ جائیں اور جماعت میں نام پیدا کر یں.وہ لوگ جو اپنے موبائل میں میوزک اور مختلف چیزیں بھر لیتے ہیں ان کے لئے اس میں ایک سبق ہے.مکرم مبارک علی اعوان صاحب اگلا ذ کر ہے مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید ابن مکرم عبد الرزاق صاحب کا.شہید مرحوم قصور کے رہنے والے تھے.آپ کے دادا مکرم میاں نظام دین صاحب اور پڑدادا نے خاندان میں سب سے پہلے شدید مخالفت کے باوجود بیعت کی تھی.مرحوم کے نانا حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.

Page 359

خطبات مسرور جلد ہشتم 344 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 شہید مرحوم بی اے، بی ایڈ کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور لاہور میں تعینات تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 59 سال تھی.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.روزانہ قصور سے بسلسلہ ملازمت لاہور آتے تھے.نماز جمعہ مسجد دارالذکر میں ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز مین ہال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگر دوں کے حملے کے دوران امیر صاحب ضلع قصور کو بذریعہ فون اطلاع دی کہ مسجد دارالذکر پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا تھوڑی دیر بعد فون کیا کہ مجھے گولیاں لگ گئی ہیں اور میں شدید زخمی ہوں.بعد میں بیٹے سے بھی سوا تین بجے بات ہوئی اور صورتحال سے آگاہ کیا اور دعا کے لئے کہا.اس کے بعد ایک اور دوست نے رابطے کی کوشش کی تو آگے سے اللہ اللہ کی آواز آرہی تھی.زخمی ہونے کی وجہ سے خون زیادہ بہہ جانے اور زخموں کی وجہ سے جام شہادت نوش فرما گئے.اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم مثالی انسان تھے.آپ کے اخلاق کی وجہ سے محلے میں کبھی کسی کو کھل کر مخالفت کرنے کی جرات نہیں ہوئی.جماعت کے ساتھ خصوصی لگاؤ تھا.فراخ دل اور مہمان نواز تھے.غریبوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے.جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو ایک غیر احمدی خاتون روتی ہوئی آئیں اور کہا کہ ان کے بعد میرا اور میرے بوڑھے خاوند کا کون سہارا ہو گا؟ نماز سینٹر قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا.نماز تہجد اور باجماعت نماز کے پابند تھے.جماعتی پروگرامز کا اہتمام خود کرتے.مربی صاحب ضلع قصور نے بتایا کہ سانحہ کے روز سکول سے تعطیلات ہو گئی تھیں.اگر چاہتے تو آرام سے قصور پہنچ کر جمعہ پڑھ سکتے تھے ، لیکن انہوں نے کسی سے ذکر کیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں آخری جمعہ دارالذکر میں ہی پڑھ کر جاؤں کیونکہ اس کے بعد تو چھٹیاں ہو جائیں گی.شہید مرحوم نے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں کسی بہت ہی اچھی جگہ میں جارہا ہوں.بعد میں اہلیہ سے مذاقاً کہا کہ اب تو دل چاہتا ہے کہ جنت میں ہی چلا جاؤں.سال میں دو ایک مرتبہ کھانے کی دیگیں پکوا کر مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے.مربی صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کو قصور میں چار سال تک بطور مربی سلسلہ کام کا موقع ملا.مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید کو احمدیت کی غیرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات یا جماعت احمدیہ پر کسی بھی قسم کے اعتراض کے جواب میں منفر د شخصیت کا مالک پایا.آپ چونکہ ٹیچنگ (Teaching) کے پیشہ سے منسلک تھے اس لئے وہاں پر دوسرے اساتذہ کے ساتھ جماعتی موضوعات پر بحث رہتی تھی.کسی بھی اعتراض یا سوال کے جواب کے لئے مکرم مبارک علی اعوان صاحب اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے تھے جب تک اس کا کافی وشافی جواب حاصل نہ کر لیتے.اور جب ان کو سیر حاصل بحث کے بعد جواب دے دیا جاتا تو ان کے چہرے پر عجیب طمانیت اور بشاشت دیکھنے کو ملتی گویا سمندر طغیانی کے بعد سکون کی حالت میں آگیا ہو.اسی طرح آپ جماعت اور اپنے عزیز رشتے داروں کے متعلق نہایت رقیق القلب اور ہمدرد تھے.غلطی خواہ دوسرے کی ہو، وہ خود جاکر معذرت کرتے اور پھر پہلے سے بڑھ کر اس سے ہمدردی کا سلوک کرتے.

Page 360

خطبات مسرور جلد ہشتم 345 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 مکرم عتیق الرحمن صاحب اگلا ذکر ہے مکرم عتیق الرحمن صاحب ظفر شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب کا.شہید مرحوم سید اں والی غربی ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.1998ء سے مانانوالہ ضلع شیخو پورہ میں مقیم تھے.1988ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.ان کے ایک سال بعد ان کی اہلیہ نے بھی بیعت کر لی.ذاتی کاروبار تھا، کچھ عرصہ دبئی میں بھی رہے.2009ء کے آغاز میں پاکستان واپس آگئے.پچھلے قریباً چھ ماہ سے مکرم امیر صاحب ضلع لاہور کے ساتھ بحیثیت ڈرائیور ڈیوٹی کر رہے تھے.بوقت شہادت ان کی عمر 55 سال تھی مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا.مسجد دارالذکر کے مین ہال میں بیٹھے تھے کہ ان کے قریب ہی گرنیڈ پھٹا.اہل خانہ کو فون کر کے حملہ کی اطلاع دی.اسی دوران ان کو گولیاں لگیں جس سے فون گر گیا اور دوبارہ بات نہ ہو سکی اور ساتھ ہی شہادت ہو گئی.شہید مرحوم کے غیر احمدی بھائیوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی تدفین آبائی گاؤں میں ہو ، جبکہ اہلیہ نے کہا کہ شہید مرحوم چونکہ احمدی ہیں اور شہید کی خواہش چونکہ ربوہ شفٹ ہونے کی تھی لہذار بوہ میں تدفین کی جائے جس پر بھائی مان گئے اور ربوہ میں ہی تدفین ہوئی.شہید مرحوم کی بیعت سے پہلے ان کی بیٹی نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے گھر آئے ہیں اور گلاب کے پودے لگا رہے ہیں اور بعد میں میں اور میرے ابو ان پودوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پانی دیتے ہیں.کچھ عرصہ بعد یہ خاندان احمد کی ہو گیا.بیعت کرنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں عاق کر کے گھر سے نکال دیا.دیگر رشتے دار اور اہل محلہ بھی ان کے ساتھ بد زبانی کرتے ، گالیاں دیتے ، پتھر مارتے.بالآخر انہوں نے ایک احمدی گھرانے میں پناہ لی.اللہ تعالیٰ خاندانوں کے لئے بھی تسلی کے سامان پیدافرماتا ہے، خوابوں کے ذریعے تسلی دیتا ہے.ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ایک روز قبل میں نے خواب دیکھا کہ گھر اور باہر ہر جگہ بہت زیادہ ہجوم ہے.دوسری بیٹی مریم نے ایک روز خواب دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تشریف لائے ہیں اور ہمارے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دے رہے ہیں.پھر تیسری بیٹی نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا کہ ایک جنگل ہے جہاں بہت خطرناک بھینسیں اور جانور ہیں اور میں ڈر کر بھاگ رہی ہوں کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نظر آتے ہیں، میں بھاگ کر ان کے گلے لگ جاتی ہوں.اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم ہمیشہ باوضو رہتے تھے.ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے تھے.بہت محنتی تھے.نماز تہجد پڑھنے کے بعد ڈیوٹی پر چلے جاتے اور پھر رات کو لیٹ واپس آتے.جب پوچھا گیا کہ آپ تھکتے نہیں، تو کہتے کہ میں ہر وقت درود شریف پڑھتارہتا ہوں جس سے تھکاوٹ نہیں ہوتی.کبھی تبلیغ کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.رشتے داروں اور دوستوں میں بیٹھ کر باتوں کا رخ ہمیشہ تبلیغ کی طرف کر دیا کرتے تھے.دبئی میں دو فیملیوں کو بیعت کروا کر جماعت احمدیہ میں شامل کرنے کی سعادت پائی.مکرم محمود احمد صاحب اگل ذکر ہے مکرم محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم مجید احمد صاحب کا.شہید مرحوم کے دادا مکرم عمر دین

Page 361

346 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم صاحب و منیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پڑدادا حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.انہوں نے 1900ء میں بیعت کی تھی.قادیان کے قریب گاؤں بھینیاں کے رہنے والے تھے.قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے شجر ضلع شیخو پورہ میں شفٹ ہو گئے.بعد میں چک 9 متابہ ضلع شیخو پورہ رہائش اختیار کر لی.بوقتِ شہادت ان کی عمر 53 سال تھی.عرصہ 15 سال سے دارالذ کر کے سکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے خدمت کر رہے تھے.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.مسجد کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے.سانحہ کے دوران انہوں نے ایک دہشتگرد کو پکڑنے کی کوشش کی.اس کوشش میں ان پر فائرنگ ہوئی.دو گولیاں سینے میں لگیں جبکہ ایک برسٹ ان کے پیٹ کے نچلے حصہ اور ٹانگ پر لگا جس سے موقع پر ہی ان کی شہادت ہو گئی.اہل خانہ نے بتایا کہ بہت ہی عمدہ شخصیت کے مالک تھے.کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا.سادہ اور صلح پسند انسان تھے.ایک دوست نے بتایا کہ شہید مرحوم ایک روز وردی پہن کر خوب ناز سے چل رہے تھے.انہوں نے کہا کہ اس طرح کیوں چل رہے ہیں ؟ تو جو ابا کہا کہ جو بھی غلط ارادے سے آئے گاوہ میری لاش پر ہی سے گزر کر جائے گا.شہید مرحوم کی خواہش تھی کہ اگر اب میری کوئی اولاد ہو تو میں اسے وقف نو میں پیش کروں گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سنتے ہوئے بڑے بیٹے کی پیدائش کے گیارہ سال بعد بیٹا عطا کیا جو وقف نو میں ہے.اہل خانہ بتاتے ہیں کہ جمعہ والے دن مصروفیت کی وجہ سے کبھی گھر فون نہیں کیا.تاہم شہادت سے ہیں منٹ پہلے فون کر کے بات کی.جب انہوں نے پوچھا کہ آج آپ نے جمعہ والے دن کیسے فون کر لیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا بس میر ادل چاہ رہا تھا لہذا پاس ہی کھڑے خادم سے فون لے کر بات کر رہا ہوں.یہ ذکر شاید زیادہ لمبا ہو جائے اس لئے چھوڑتا ہوں.باقی آئندہ پھر ذکر ہو جائے گا.اس وقت ایک اور ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں اور اُن کی نماز جنازہ غائب بھی جمعہ کے بعد ادا کروں گا.مکرمہ سرور سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا عبد المالک خان صاحب مرحوم.22 جون 2010ء کو ستاسی سال کی عمر میں لمبی بیماری کے بعد ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہو تھیں.ہمیشہ اپنے واقف زندگی خاوند کا بھر پور ساتھ دیا اور وقف کے تقاضے نبھانے کی پوری کوشش کی.آپ کو خود بھی خدا تعالیٰ نے خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی اور لجنہ کراچی اور لجنہ ربوہ میں 48 سال تک بطور صدر لجنہ حلقہ نمایاں کام کیا.ایک موقع پر جب 71ء میں جنگ کے دوران جماعت نے فوجیوں کے لئے صدریاں تیار کروائیں تو آپ نے بھی اس میں حصہ لیا.یا ہو سکتا ہے 65ء میں یہ کی ہوں.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو سند خوشنودی حاصل ہوئی.ان کی بیٹی ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ جو واقف زندگی ہیں اور فضل عمر ہسپتال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت دے، ان کا بیان ہے کہ 1953ء کے فسادات کے دوران ہم بند روڈ کراچی میں احمدیہ لائبریری کے عقب میں ایک ڈبل سٹوری مکان میں مقیم تھے جبکہ اوپر والی منزل پر

Page 362

347 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم غیر احمدی رہائش پذیر تھے.کہتی ہیں کہ ان دنوں میں اتبا جان مولوی عبد المالک خان صاحب گھر پر موجود نہیں تھے.غیر از جماعت نے ہمارے گھر پر تیل چھڑک کر آگ لگانے کا منصوبہ بنایا.اس دوران امی نے بچوں کو اکٹھا کیا اور دعائیں کرتی رہیں کہ اگر خدا کو یہی منظور ہے تو ہم اس پر راضی ہیں.اسی دوران خدا نے یوں فضل فرمایا کہ اوپر والی منزل پر جو غیر احمدی رہائش پذیر تھے وہ نیچے آئے اور آگ لگانے والوں کو کہا کہ ہم بھی اوپر رہائش پذیر ہیں، ہمارا گھر بھی جل جائے گا.اس پر وہ وہاں سے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.انہوں نے اپنے بچوں کے علاوہ بے شمار بچے بچیوں کو قرآن کریم بھی پڑھایا.دینی تربیت بہت اچھی طرح کرتی تھیں.خدمت خلق کا جذبہ تھا.اپنے نفس پر قربانی وارد کر کے بھی دوسروں کا خیال رکھتی تھیں.ہر مشکل میں دعا کا دامن تھامے رکھتیں.چندہ جات میں بڑی با قاعدہ تھیں.ہر تحریک میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتیں.ابتدا میں دین کا علم کم تھا لیکن سیکھنے کا شوق بہت تھا اس لئے اپنے شوہر سے بہت کچھ سیکھنے کی توفیق پائی.اپنے خاوند کے مبلغ سلسلہ ہونے کی حیثیت سے بہت عزت کرتی تھیں.نمازوں کی پابندی کرنے کے علاوہ نوافل بھی ادا کرتی تھیں.قرآنِ شریف بہت شوق سے پڑھتی تھیں.خدا تعالیٰ پر خود بھی تو کل رکھتی تھیں اور بچوں کے دلوں میں بھی بچپن سے اس بات کو راسخ کیا.بہت بااخلاق، ملنسار، منکسر المزاج، مہمان نواز اور ہر دلعزیز خاتون تھیں.خلافت سے بے انتہا وفا کا تعلق تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں.مولوی عبد المالک خان صاحب جماعت کے بڑے پایہ کے عالم تھے اور ناظر اصلاح و ارشاد بھی رہے ہیں، مبلغ سلسلہ بھی رہے ہیں شروع میں جماعت کے حالات بھی ایسے تھے ، ایک دفعہ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ ہم میاں بیوی بڑی تنگدستی سے گزارہ کرتے تھے ، الاؤنس اتنا ملتا تھا کہ مشکل سے گھر کا خرچ چلتا تھا.لیکن خود ہم روکھی سوکھی کھا لیتے تھے لیکن بچوں کو اچھا کھلایا اور اچھا پڑھایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ان کے سارے بچے پڑھے لکھے ہیں.ان کے ایک بیٹے جو ہیں انور خان صاحب امریکہ میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعتی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں.اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ان کی ایک بیٹی واقف زندگی ڈاکٹر ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے پسماندگان میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ گائنا کالوجسٹ فضل عمر ہسپتال ربوہ.شوکت گوہر صاحبہ ، ڈاکٹر لطیف صاحب کی اہلیہ ہیں.اور ایک بیٹی ان کی ڈاکٹر صالح محمد الہ دین صاحب کی اہلیہ ہیں جو انڈیا میں ہیں اور آج کل میں نے ان کو صاحبزادہ مرزا وسیم صاحب کی وفات کے بعد سے صدر ، صدر انجمن احمد یہ قادیان مقرر کیا ہوا ہے.ان کی تقاریر بھی آپ نے سنی ہوں گی اچھے عالم آدمی ہیں.اور ایک ان کے داماد سید حسین احمد مربی سلسلہ ہیں.یہ سید حسین احمد ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے نواسے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب ادا کروں گا.باقی ذکر انشاء اللہ آئندہ.(الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 30 مورخہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 363

خطبات مسرور جلد ہشتم 88 28 348 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جولائی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جولائی 2010ء بمطابق 09وفا 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مکرم احسان احمد خان صاحب شہداء کا جو ذکر خیر چل رہا ہے.اسی سلسلے میں آج سب سے پہلے میں ذکر کروں گا.مکرم احسان احمد خان صاحب شہید ابن مکرم و سیم احمد خان صاحب کا.شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت منشی دیانت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.نارو ضلع کانگڑہ کے رہنے والے تھے.یوسف زئی خاندان سے تعلق تھا.شہید مرحوم کے پڑدادا کے دو بھائی حضرت شہامت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت منشی امانت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1890ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی.اور 313 صحابہ میں شامل ہوئے.مکرم ظہیر احمد خان صاحب مربی سلسلہ جو آجکل یہاں لندن میں ہیں، شہید مرحوم کے چاہیں.جبکہ شہید مرحوم کے دوسرے بھائی ندیم احمد خان صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ میں زیر تعلیم ہیں.شہید مرحوم 1984ء میں پید اہوئے.دو سال سے شیزان انٹر نیشنل میں ملازمت کر رہے تھے.جبکہ جماعت احمد یہ بھاں ضلع لاہور میں بطور سیکرٹری ( یہ پتہ نہیں کون سی جماعت ہے بہر حال ) بطور سیکر ٹری وقف جدید خدمت کی توفیق مل رہی تھی.بوقتِ شہادت ان کی عمر 26 سال تھی.اور مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز صبح غسل کے بعد نماز پڑھی اور تلاوت کی اور ملازمت کے لئے روانہ ہونے سے پہلے اہلیہ کو بتایا کہ میں یہ جمعہ دارالذکر میں پڑھوں گا.اور ساتھ ہی بتایا کہ پچھلا جمعہ میرے سے رہ گیا تھا.بیٹی کو اٹھا کر پیار کیا اور روانہ ہو گئے.قریباً 1:35 پر مسجد دارالذکر سے اپنی والدہ محترمہ کو فون کر کے بتایا کہ یہاں دہشتگرد آگئے ہیں.والدہ محترمہ کو تسلی دی، پھر اس کے بعد دوبارہ رابطہ نہ ہو سکا.اس دوران دہشتگردوں نے جب گرنیڈ پھینکے اس کے دہ شیل لگنے سے زخمی ہوئے.جب غلط افواہ پھیلی کہ دہشتگر دمارے گئے ہیں اور باہر آجائیں تو باہر نکلنے پر دوبارہ گرنیڈ کے ٹکڑے لگنے سے شہید ہو گئے.ربوہ میں تدفین ہوئی ہے.تدفین سے قبل ان کے چچانے اپنے گھر ان کی نماز

Page 364

349 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جنازہ پڑھائی جس میں بہت سے غیر از جماعت لوگوں نے شرکت کی.شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے ایک ماہ قبل خواب میں دیکھا کہ ان کا بیٹا شہید ہو گیا ہے اور اس کی میت کو صحن میں رکھا گیا ہے اور میں بیٹے کے منہ پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوں اور پوچھتی ہوں کہ کیا ہوا؟ اس خواب سے گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں اور صدقہ دیتی ہوں.شہادت کے بعد اسی جگہ پر جنازہ لا کر رکھا گیا جہاں خواب میں دیکھا تھا.شہادت سے چند دن پہلے شہید نے خود بھی ایک خواب دیکھا اور ہر بڑا کر اٹھ گئے.والدہ کو صرف اتنا بتایا کہ بہت بُراخواب ہے.پھر صدقہ بھی دیا.شہید مرحوم بہت ہی ایماندار اور نیک فطرت انسان تھے.دوسروں سے ہمدردی اور محبت سے پیش آتے تھے.والدین کی خدمت بڑی توجہ سے کیا کرتے تھے.ان کے چچانے مجھے بتایا کہ کام سے گھر آتے تھے تو پہلے والدین کو سلام کرتے تھے پھر بیوی بچوں کے پاس اپنے گھر جاتے تھے.اور روزانہ رات کو اپنے والد کے پاؤں دبا کے سویا کرتے تھے.انہوں نے والد والدہ کی کافی خدمت کی خدمت کا حق ادا کیا.ڈیڑھ سال ہوا ان کی شادی کو ، ان کی ایک چار ماہ کی وقف نو کی بچی ہے.اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے.مکرم منور احمد قیصر صاحب اگلا ذکر ہے مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید ابن مکرم میاں عبد الرحمن صاحب کا.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق قادیان سے تھا، قادیان سے پاکستان بننے کے بعد گوجرہ منتقل ہوئے.اس کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے.ان کے خاندان میں سب سے پہلے حضرت عبد العزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آڑھتی تھے انہوں نے بیعت کی تھی.وہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.یہ شہید مرحوم کے دادا مکرم میاں دوست محمد صاحب کے کزن تھے.ان کے دادا اور خاندان کے دیگر لوگوں نے خلافت ثانیہ میں بیعت کی.شہید مرحوم پیشے کے لحاظ سے فوٹو گرافر تھے.پچھلے قریباً بیس سال سے جمعہ کے روز دارالذ کر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے.بوقت شہادت ان کی عمر 57 برس تھی.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی کے دوران کئی دفعہ اس بات کا اظہار کیا کہ اگر کوئی حملہ کرے گا تو میری لاش سے گزر کر ہی آگے جائے گا.سانحہ کے روز قریبا گیارہ بجے ڈیوٹی پر پہنچے فرنٹ لائن پر کھڑے تھے کہ 1:40 پر دہشتگردوں نے آتے ہی فائرنگ شروع کر دی.ایک کو تو انہوں نے مضبوطی سے پکڑ لیا جبکہ دوسرے نے آپ پر فائر کر کے آپ کو شہید کر دیا.اہلیہ محترمہ نے چند دن قبل خواب میں دیکھا کہ ایک تابوت ہے جو عام سائز سے کافی اونچا ہے جس کے قریب ایک بینچ پڑا ہے.ان کے ایک عزیز پیج پر پاؤں رکھ کر تابوت کے اندر لیٹ جاتے ہیں.پوچھنے پر کہ یہ کیوں لیٹے ہیں حالانکہ یہ تو اچھے بھلے ہیں، (یہ واقعہ بیچ میں رہ گیا ہے پورا بیان کرنے سے) اہلیہ نے بتایا کہ جمعہ پر جانے سے پہلے میں نے ان کو گولڈن رنگ کا سوٹ استری کر کے دیا اور ساتھ ہی کہا کہ آج تو آپ دلہوں والا سوٹ پہن رہے ہیں.چنانچہ خوب

Page 365

350 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تیاری کر کے نماز جمعہ کے لئے گئے.بے شمار خوبیوں کے مالک تھے.احساسِ ذمہ داری بہت زیادہ تھا.کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا.نمازوں کے پابند تھے.فوٹوسٹیٹ کا کام بھی کرتے تھے.قریبی کالج سے بچے فوٹوسٹیٹ کروانے آتے تو بغیر گنے ہی پیسے رکھ لیتے.کہتے تھے کہ کبھی کسی کے پاس پورے پیسے نہیں بھی ہوتے اس لئے میں نہیں گنتا.بعض دفعہ مخالفین آپ کی دکان پر آپ کے سامنے ہی مخالفانہ پوسٹر لگا جاتے تھے.آپ ان سے جھگڑا نہ کرتے اور بعد میں اتار دیتے.اپنے بیٹے کو کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو خاموشی سے واپس آ جاؤ.اگر آپ نے جواب دیا تو پھر آپ نے اپنا معاملہ خود ہی ختم کر لیا.اگر اللہ پر چھوڑ دیا تو اللہ ضرور بدلہ لے گا.مکرم حسن خورشید اعوان صاحب اگلا ذکر ہے مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید ابن مکرم خورشید اعوان صاحب کا.شہید مرحوم کا تعلق بندیال ضلع چکوال سے تھا.ان کے والد اور دادا پیدائشی احمدی تھے.تاہم کچھ عرصہ قبل ان کی فیملی کے دیگر افراد نے کمزوری دکھاتے ہوئے ارتداد اختیار کر لیا جبکہ شہید مرحوم بفضلہ تعالیٰ شہادت کے وقت تک جماعت سے وابستہ رہے.ان کے ایک اور بھائی مکرم سعید خورشید اعوان صاحب جو جرمنی میں ہیں، انہوں نے بھی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھی.شہادت کے وقت ان کی عمر 24 سال تھی.غیر شادی شدہ تھے.مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز دارالذکر میں نماز جمعہ ادا کرنے گئے.دہشتگردوں کے آنے پر گھر فون کر کے بتایا کہ مسجد پر حملہ ہو گیا ہے، میں زخمی ہوں ، دعا کریں.اسی دوران دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے.ان کے فیملی کے غیر از جماعت ممبران ان کے احمدی ہونے کے بارے میں اعتراضات کرتے رہے جس پر ان کے والدین ان کے دباؤ میں آگئے اور اطلاع دی کہ اگر احمدی احباب نے نماز جنازہ پڑھی تو علاقے میں فساد پھیل جائے گا.یہاں پر ختم نبوت والے (نام نہاد ختم نبوت والے کہنا چاہئے ) کافی ایکٹو (Active) ہیں.انہی وجوہات کی بنا پر احمدی احباب کو نماز جنازہ ادانہ کرنے دی گئی.غیر از جماعت نے ہی نماز جنازہ پڑھی اور تدفین کی.تاہم علاقے میں عام لوگ مجموعی طور پر اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے رہے.شہید کے والد پہلے تو مخالفت کے باعث کو ائف دینے سے انکار کرتے رہے ، جس پر سمجھایا گیا کہ آپ کے بیٹے نے جان دے کر پیغام دیا ہے کہ دنیاوی لوگوں سے خوف نہ کھائیں، خواہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے.شہید مرحوم کی قربانیوں کو چھپانا شہید کے ساتھ زیادتی ہے.لیکن پھر بھی انہوں نے کوئی کوائف نہیں دیئے.اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کی یہ قربانی ان کے گھر والوں کی بھی آنکھیں کھولنے کا باعث بنے.مکرم ملک حسن خورشید اعوان صاحب کے بارے میں امیر صاحب چکوال نے لکھا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.پچھلے چند سالوں سے آپ کے والد مکرم ملک خورشید احمد صاحب نے

Page 366

351 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جماعت احمدیہ سے علیحدگی اختیار کی تو ملک حسن خورشید صاحب اپنے حقیقی عقیدہ یعنی احمدیت سے منسلک رہے اور تادم آخر اس کے ساتھ رہے.نماز جمعہ گڑھی شاہو دارالذکر میں جا کر ادا کرتے تھے.متعدد بار والدین کے اصرار کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے.مکرم محمود احمد شاد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم و محترم محمود احمد شاد صاحب شہید مربی سلسلہ ابن مکرم چوہدری غلام احمد صاحب کا.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق خونن ضلع گجرات سے تھا.شہید مرحوم کے دادا مکرم فضل داد صاحب نے بیعت کی تھی.شہید مرحوم کے والد بہت متعصب تھے.ایک دفعہ ایک کتاب تبلیغ ہدایت“ فرش پر بکھری پڑی تھی اس کو اکٹھا کرنے لگے اور سوچا کہ اس کو پڑھنا نہیں ہے.لیکن جب ترتیب لگا رہے تھے تو کچھ حصہ پڑھا، دلچپسی پید اہوئی اور ساری کتاب پڑھنے کے بعد کہا کہ میں نے بیعت کرنی ہے.اور 1922ء میں گیارہ سال کی عمر میں بیعت کر لی.شہید مرحوم کے والد صاحب نائب تحصیلدار رہے.آپ نے کبھی کسی سے رشوت نہیں لی تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی سندھ میں زمینوں کے مختار عام تھے اور انتہائی نیک اور متقی انسان تھے.شہید مرحوم 31 مئی 1962ء کو پیدا ہوئے اور پیدائشی وقف تھے.1986ء میں جامعہ پاس کیا.اس کے علاوہ محلے کی سطح پر متعدد جماعتی عہدوں پر خدمت کا موقع ملا.اس کے علاوہ نائب ایڈیٹر ماہنامہ خالد کے طور پر بھی کام کرتے رہے.پاکستان کے مختلف شہروں میں بطورِ مربی سلسلہ تقرری کے علاوہ تنزانیہ میں بھی گیارہ سال مربی سلسلہ کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے.بیت النور ماڈل ٹاؤن میں قریباً تین ماہ قبل تقرری ہوئی تھی.بوقتِ شہادت ان کی عمر قریباً 48 سال تھی اور نظام وصیت میں بھی شامل تھے.مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا.سانحہ کے روز نیا سوٹ پہنا، نیار و مال لیا.اپنی رہائشگاہ میں دور کعت ادا کرنے کے بعد اپنے بیٹے کے ہمراہ نماز جمعہ کے لئے مین ہال میں پہنچ گئے.لوگوں نے بتایا کہ حملے کے دوران آپ مسلسل لوگوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہے تھے.جب حملہ آور مسجد کے اندر آیا تو آپ نے بلند آواز میں نعرہ بھی لگایا اور مسلسل درود شریف کا ورد کرتے رہے.آپ کے سینے میں دو گولیاں لگی تھیں جس کی وجہ سے آپ کی شہادت ہو گئی.اس سانحہ میں آپ کا بیٹا اللہ کے فضل سے محفوظ رہا.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ شہادت سے ایک روز قبل مورخہ 27 مئی کی رات ایم ٹی اے پر عہد نشر ہو رہاتھا.(وہ عہد جو خلافت کا میں نے خلافت جو بلی پر دہرایا تھا) انہوں نے اونچی آواز میں یہ عہد دو ہر ایا اور یہ ارادہ کیا کہ جمعہ کے دن خطبہ کے بعد پوری جماعت کے ساتھ یہ عہد دہرائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.اہلیہ نے مزید بتایا کہ آپ بہت ہی نڈر تھے.جب جماعت کے خلاف آرڈینس آیا تو اس کے

Page 367

352 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کچھ عرصہ بعد اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ سفر پر جارہے تھے قمیص پر کلمہ طیبہ کا بیج لگا ہوا تھا.ان کی ہمشیرہ ڈر رہی تھیں اور احتیاط کے لئے ان سے کہا.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ تمہارا ایمان اتنا کمزور ہے؟ سٹیشن پر اترنے کے بعد وہاں موجود پولیس اہلکار سے جا کر سلام کیا اور اپنی ہمشیرہ سے کہا دیکھو میں تو ان سے سلام کر کے آیا ہوں.آپ کو خدا تعالیٰ پر بہت ہی تو کل تھا.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ تنزانیہ میں بھی خدمت کے دوران ان کی مخالفت ہوئی اور اس دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان بھی دیکھے.1999ء میں معاند احمدیت شیخ سعیدی نے مربی صاحب پر ایک الزام لگایا کہ انہوں نے کچھ غیر قانونی بندوں کو اپنے مشن ہاؤس میں پناہ دے رکھی ہے.پولیس مشن ہاؤس آگئی اور تلاشی کے بعد مربی صاحب کو تھانہ لے گئی.یہ قصہ تنزانیہ کا ہے.مربی صاحب نے وہاں پہنچ کر اپنا اور جماعت کا تعارف کروایا تو پولیس والوں نے معذرت کرتے ہوئے آپ کو چھوڑ دیا.بعد ازاں پولیس سے بہت اچھے تعلقات بن گئے.اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد شیخ سعیدی کو اسی الزام میں حکومت نے سعودی عرب سے ڈی پورٹ (Deport) کر دیا اور یہ خبر اخبارات میں بھی شائع ہوئی.ان کی اہلیہ کہتی ہیں تنزانیہ میں ہی ایک دفعہ جماعتی دورے پر جانے لگے تو مجھے ملیر یا بخار تھا.میں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آپ جارہے ہیں؟ مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں اللہ کا کام کرنے جارہا ہوں اور تمہیں بھی اللہ کے حوالے کر کے جارہا ہوں.شہید کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں تقرری کے کچھ عرصے بعد سے دھمکی آمیز ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہو گیا.جب پہلی کال آئی تو مربی صاحب ایک شادی کے فنکشن میں گئے ہوئے تھے.معلوم ہوا کہ کچھ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے ہیں.تو خدام الاحمدیہ کے کچھ ممبران نے بحفاظت مربی صاحب کو گھر پہنچا دیا.گھر واپس پہنچنے پر مجھے کہتے ہیں کہ دیکھو کیسی عظیم الشان جماعت ہے کہ ان خدام سے ہمارا کوئی دنیاوی رشتہ نہیں ہے لیکن ہر وقت یہ ہماری حفاظت کے لئے تیار رہتے ہیں.مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر تو نے میری قربانی لینی ہے تو میں حاضر ہوں لیکن میری اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھنا.ان حالات میں جب ان کو بہنوں کے فون آتے اور وہ اس خواہش کا اظہار کرتیں کہ چھٹی لے کر ربوہ آجائیں تو آپ کہتے کہ جب باقی احمدی قربانی دے رہے ہیں تو ہم قربانیاں کیوں نہ دیں اور میدان چھوڑ کر کیوں بھاگیں.ان حالات سے بعض دفعہ پریشان ہو کر میں جب روپڑتی تو مجھے کہتے کہ شہداء کی فیملی کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے.شہید مرحوم کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.شہادت سے ایک ماہ قبل ایک غیر از جماعت ڈاکٹر صاحب جو چاہتے تھے کہ ان کو مطمئن کیا جائے ان کی کافی مربیان سے بحث ہوئی لیکن ان کی تسلی نہیں ہو رہی تھی، تو مربی صاحب نے (شاد صاحب نے) دو تین مجلسوں کے دوران کئی کئی گھنٹے ان کو تبلیغ کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور کلام بڑے آبدیدہ ہو کر بڑی جذباتی کیفیت میں ان کو سناتے تھے.یہی ڈاکٹر صاحب جن کو تبلیغ کی جارہی تھی کہتے ہیں کہ آج میرے لئے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں.میں اب مطمئن ہو گیا ہوں.جو شخص

Page 368

353 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم خود آبدیدہ ہو کر مجھے تبلیغ کر رہا ہے ان کی جماعت جھوٹی کیسے ہو سکتی ہے.یہ بھی تبلیغ کرنے کا اپنا اپنا ہر ایک کا انداز ہوتا ہے اور جو دل سے نکلی ہوئی باتیں ہوتی ہیں پھر اثر کرتی ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب نے بیعت کر لی.مربی صاحب کے والدین کے علاوہ باقی تمام رشتے دار غیر از جماعت ہیں.آخری سانس تک ان کو بھی تبلیغ کرتے رہے.ہر غمی اور خوشی کے موقع پر اپنے بچوں کو خاص طور پر غیر از جماعت رشتے داروں کے پاس دکھانے کی غرض سے ساتھ لے جاتے تھے کہ دیکھو ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے ؟ ان لوگوں کے گلوں میں بد رسومات اور بدعات کا طوق ہے اور ہم خلافت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں.ان کے بارے میں ایک صاحب نے مجھے خط میں لکھا کہ 2006ء میں خاکسار کو پنڈی میں اطلاع ملی، (یہ راولپنڈی کے ہیں ) کہ محمود شاد صاحب مربی سلسلہ کو بیت الحمد مری میں تعینات کیا گیا ہے.خاکسار کو امیر صاحب ضلع راولپنڈی نے صدر حلقہ اور بیت الحمد شرقی کے علاوہ بیت الحمد مری روڈ، مربی ہاؤس مری روڈ اور گیسٹ ہاؤس مری روڈ کی نگرانی بھی سونپی تھی.تو امیر صاحب کی ہدایت آئی کہ مربی صاحب کے قیام و طعام کا بندوبست کریں.گیسٹ ہاؤس میں طعام کا ابھی بندوبست نہیں تھا.کھانا جو بھی پیش کیا جاتا مربی صاحب بڑے صبر ورضا کے ساتھ کھالیتے.مربی ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس مری روڈ تین منزلہ ہے.پہلے مربی ہاؤس دوسری منزل پر تھا.جماعت نے فیصلہ کیا کہ اسے تیسری منزل پر شفٹ کر دیا جائے اور پہلی دو منزلیں گیسٹ ہاؤس بنائی جائیں.تیسری منزل پر شدید گرمی ہوتی تھی.مگر مربی صاحب کمال صبر و رضا کے ساتھ وہاں مقیم رہے اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے.خلیفہ وقت کے خطبات جمعہ بڑے اہتمام سے سنتے تھے اور احباب جماعت کو بھی بار بار سننے کی تلقین کرتے تھے.اگر کبھی کسی جماعت میں ڈش خراب ہو گیا تو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک ڈش درست نہ کر والیتے تھے.مربی صاحب نہایت ہی نرم دل اور خوش مزاج انسان تھے.ہر ایک کے ساتھ دوستی اور پیار کا تعلق قائم کرتے.خاندانوں کا بہت علم رکھتے تھے.اس طرح احباب کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بنا لیتے تھے.خطبات جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی تحریرات اور منظوم کلام بھی بکثرت استعمال کرتے.دشمن کے ناکام و نامر ادرہنے اور جماعت کی کامیابی پر کامل یقین تھا اور بڑی تحدی سے اس کا ذکر کرتے تھے.خطبات میں اکثر ان کی آواز بھر آ جاتی تھی.28 مئی سے دویا تین جمعہ پہلے عشرہ تعلیم القرآن کے سلسلے میں ماڈل ٹاؤن میں خطبہ دیا.اور حضرت مسیح موعود کا ایک انذار پڑھ کر سنایا جس میں جماعت کے ان لوگوں کا ذکر ہے جو قرآن کو باقاعدگی سے نہیں پڑھتے.اس پر جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکے اور آواز بھر گئی.خلافت، جماعت اور نظام کے تقدس کے بارے میں ایک ننگی تلوار تھے.اگر خلافت اور جماعت کے بارے میں کوئی معمولی سی بات بھی کر دیتا تو اسی وقت اس کا منہ بند کر دیتے اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک اس کو غلطی کا احساس نہ ہو جاتا.خاکسار کے حلقے میں ( یہ وہی صاحب لکھ رہے ہیں اعظم صدیقی صاحب) کہ خاکسار

Page 369

354 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے حلقے کی مجلس عاملہ کا اجلاس اکثر رات کو نو یا دس بجے شروع ہو تا تھا.رات گئے سخت سردی میں سائیکل پر اجلاس میں شامل ہوتے اور اپنی ہدایت سے نوازتے.صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ جب ان کی لاہور میں تبدیلی ہوئی تو بڑے خوش تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں تبدیلی ہو گئی ہے اور ساتھ جب میں نے بتایا کہ میری بھی سرکاری ملازمت لاہور پوسٹنگ ہو گئی ہے تو مذاق سے مجھے کہنے لگے کہ صدیقی صاحب! لاہور تک ساتھ جانا ہے یا آگے بھی ساتھ جانا ہے؟ ان کے بارہ میں ایک مربی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ شہید ایک ہنس مکھ اور بڑی سے بڑی مصیبت اور دکھ کو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے مسکرانے والے تھے.دلیر اور نڈر تھے.تبلیغ کے شیدائی تھے.خاکسار کی تقرری جب تنزانیہ میں ہوئی تو ان کے ساتھ دارالسلام سے مورو گورو جارہا تھا.راستے میں کچھ مولوی برلب سڑک نظر آئے.محمود شاد صاحب نے گاڑی روکی اور ان کو تبلیغ کرنے لگے جبکہ شام کا وقت ہو چلا تھا اور آگے راستہ بھی خطر ناک تھا.ایک مجمع اکٹھا ہو گیا اور دعوت الی اللہ سے تمام لوگ مستفید ہوئے اور ان مولویوں کو لاجواب کر کے دوڑا دیا.گاڑی میں بیٹھتے ہوئے خاکسار کو کہا کہ ہمیں یہاں مذہبی آزادی ہے ، ڈرنا نہیں کھل کر تبلیغ کریں.پھر ان کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ شہید مرحوم کئی بہنوں کے اکیلے بھائی تھے.اس لئے والدین اور خاص طور پر بیمار والدہ کی خوب خدمت کی.جب آپ کا تقرر بیرونِ ملک ہونے والا تھا تو پریشان تھے کہ بیمار والدہ کو کس کے پاس چھوڑ کر جاؤں گا؟ چنانچہ والدہ کی زندگی میں آپ کو پاکستان میں ہی خدمت کا موقع ملتا رہا.یہ بھی مربی صاحب ہیں، لکھ رہے ہیں کہ جب خاکسار کا تقرر 1999ء میں بطور امیر ، انچارج مبلغ تنزانیہ ہوا تو اس وقت آپ تنزانیہ میں تعینات تھے.بڑے ہی شوق اور لگن سے تبلیغ کیا کرتے تھے.نئی سے نئی جگہوں پر رابطے کر کے ویڈیو آڈیو کیسٹ کے ذریعے اور مجالس لگا کر آپ تبلیغی کیمپس لگایا کرتے تھے جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے کئی جماعتیں بھی عطا کیں.آپ ارنگا (Iringa) تنزانیہ میں تعینات تھے کہ آپ کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے مقامی علماء نے عرب ریاستوں کی طرف سے مذہبی امداد دینے والے ایجنٹوں سے ویسی ہی تبلیغی سہولیات کا مطالبہ کرناشروع کیا جو احمدی مبلغ محمود احمد شاد صاحب کو حاصل تھیں تاکہ وہ احمد یہ نفوذ کو روک سکیں.جب ایک ایک کر کے ان کی تمام تبلیغی ضروریات پوری کر دی گئیں اور کوئی نتیجہ نہ نکلا بلکہ احمدیت مزید تیزی سے صوبے میں پھیلتی رہی تو مقامی علماء سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ تمام تبلیغی سہولیات کے حصول کے بعد بھی آپ کے کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا؟ تو انہوں نے کہا کہ ابھی ہمارے پاس ایک چیز کی کمی ہے؟ وہ یہ کہ جماعت احمدیہ کے پاس پاکستانی مبلغ ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے.اگر ہمیں بھی ایک پاکستانی مبلغ دے دیا جائے تو اس کی رہنمائی میں ہم بھی کامیاب ہوں گے.یہ بھی بیچاروں کی غلط فہمی تھی کیونکہ ان کے جو غیر از جماعت پاکستانی مبلغ آنے تھے انہوں نے ان کو تبلیغ کے بجائے صرف گالیاں سکھانی تھیں.

Page 370

خطبات مسرور جلد ہشتم 355 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 مکرم و سیم احمد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم وسیم احمد صاحب شہید ابن مکرم عبد القدوس صاحب آف پون نگر کا.شہید مرحوم کا تعلق حضرت میاں نظام دین صاحب رضی اللہ عنہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور حضرت بابو قاسم دین صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے ہے.حضرت بابو قاسم دین صاحب رضی اللہ عنہ کافی لمبا عرصہ سیالکوٹ کے امیر مقامی اور امیر ضلع رہے ہیں.یہ خاندان اسی محلے سے تعلق رکھتا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعوی سے قبل دورانِ ملازمت قیام پذیر رہے اور دعویٰ کے بعد اسی جگہ پر آکر قیام فرماتے تھے.سیالکوٹ میں ایف ایس سی کے بعد یونیورسٹی آف پنجاب لاہور میں سپیس (Space) سائنس میں بی ایس سی میں ان کو سیلیکٹ کیا گیا.پھر اسی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس میں کیا.شہادت سے قبل سوفٹ وئیر کی ایک فرم میں بطور مینجر کام کر رہے تھے.بطور ناظم اطفال مجلس علامہ اقبال ٹاؤن خدمت کی توفیق پارہے تھے.بوقتِ شہادت ان کی عمر 38 سال تھی اور نظامِ وصیت میں شامل تھے.مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا.شہید مرحوم ہمیشہ نماز جمعہ مسجد دارالذکر میں ادا کرتے تھے.سانحہ کے روز بھی مال روڈ پر واقع اپنے دفتر سے نماز ادا کرنے کے لئے دارالذکر پہنچے.عموماً مین ہال کی پہلی صف میں بیٹھتے تھے.سانحہ کے روز بھی پہلی صف میں ہی بیٹھے اور دہشتگردوں کے آنے پر امیر صاحب کے حکم پر وہیں بیٹھے رہے.جب باقی دوست ہال کے پچھلے گیٹ سے جان بچانے کے لئے باہر جارہے تھے تو ان کو بھی کہا گیا لیکن انہوں نے کہا کہ پہلے باقی دوست چلے جائیں، پھر میں جاؤں گا.اسی دوران دہشتگرد کی گولیوں سے شہید ہو گئے.شہید مرحوم کی شہادت پر ان کے دفتر والوں نے ان کی یاد میں اپنے دفتر میں دو گھنٹے کا پروگرام بھی رکھا.تمام سٹاف تعزیت کے لئے ان کے گھر بھی آیا اور بہت اچھے الفاظ میں شہید کو یاد کیا.ان کی شہادت پر ان کے دفتر کا سٹاف ہسپتال میں بھی ان کی مدد کے لئے موجود تھا اور تدفین کے لئے ربوہ بھی آئے.ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر کراچی سے تعزیت کے لئے سیالکوٹ بھی آئے اور ربوہ بھی آئے اور بہت دکھ اور رنج کا اظہار کیا.شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ اپنے والدین اور بزرگوں کے نہایت ہی فرمانبر دار تھے.ہر کسی سے عزت و احترام سے پیش آتے تھے.والدین کے ساتھ کبھی بھی اونچی آواز میں بات نہیں کی بلکہ اس چیز کو گناہ سمجھتے تھے.جماعت کے نہایت ہی خدمت کرنے والے ممبر تھے.جماعت لاہور کے چندوں کے حوالے سے سوفٹ وئیر بھی تیار کیا.ناظم اطفال کے طور پر خدمت کرتے رہے اور بچوں سے نہایت ہی شفقت اور محبت کا تعلق تھا.شہادت کے بعد ان کا جنازہ ان کے خاندان والے لاہور سے سیالکوٹ لے گئے جہاں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین کے لئے ربوہ لے آئے.وسیم صاحب کو شہادت کی بہت تمنا تھی.اکثر کہتے تھے کہ اگر کبھی میری زندگی میں ایسا وقت آیا تو میر اسینہ سب سے آگے ہو گا.

Page 371

356 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مکرم عمران ندیم صاحب سیکر ٹری اشاعت مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع لاہور ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ نہایت دھیمی طبیعت تھی، اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا، بڑے آرام سے اور غور سے بات سنتے اور پھر ہدایت پر عمل کرتے.کسی اجلاس یا پروگرام میں بچوں کو شامل کرنے کے لئے اپنی گاڑی پر بڑی ذمہ داری سے لاتے اور گھر واپس چھوڑتے.دوسروں کے بچوں کو گھروں سے اکٹھا کرتے تھے.آخری دم تک یہ جماعتی خدمات سر انجام دیتے رہے.صدر صاحب حلقہ علامہ اقبال ٹاؤن ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بہت ہی مخلص احمدی نوجوان تھے.مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھے.اطفال کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت ہی بہترین رہنما تھے.وسیم صاحب پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے.نہایت ہی لائق ذہین اور محنتی نوجوان تھے.ان کی والدہ محترمہ نے ان کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا.والدین کے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجو د والدین کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرے.چنانچہ اپنی لگن اور علم سے محبت کی بدولت کامیاب ہوئے.ان کی اہلیہ نے مجھے خط لکھا تھا، کہتی ہیں کہ ان کی خوبیاں تو شاید میں گنواہی نہیں سکتی.حضور ! اگر میں.کہوں کہ وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے تو جھوٹ بالکل نہ ہو گا.یہ تو پورے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ وسیم صاحب جیسا دوسرا نہیں.میں تو یہی سوچتی ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعزاز وسیم صاحب کی اعلیٰ اور نمایاں خوبیوں کی وجہ سے ہی دیا ہے اور وسیم نے نہ صرف والدین کا اور میر ابلکہ پورے خاندان کا سر فخر سے بلند کر دیا.پھر لکھتی ہیں کہ جماعت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی.دو سال سے ناظم اطفال علامہ اقبال ٹاؤن لاہور تھے.بچوں سے بہت پیار کرتے تھے.انتہائی دفتری مصروفیات کے باوجود بچوں کے پروگرام کرواتے اور انہیں علمی مقابلہ جات کے لئے تیار کرتے.کمزور بچوں پر توجہ دیتے اور ان کے والدین کو بھی تاکید کرتے کہ بچوں کو آگے لائیں.اکثر ہماری مجلس کے بچے بہت انعامات جیتنے اور پھر وسیم صاحب کو دلی خوشی ہوتی تھی.اپنی گاڑی پر بچوں کو دارالذ کر لے کر جاتے اور واپس گھر وں تک پہنچاتے.غرض ہر کام کو محنت اور لگن سے کرتے تھے.دفتری مصروفیات کے باوجو د اکثر شام کو دارالذکر میں میٹنگ کے لئے جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے.دفتر میں باقاعدگی سے نماز کے وقت نماز ادا کرتے تھے.میں نے اکثر وسیم صاحب کو نماز ادا کرتے ہوئے غور کیا کہ وہ نماز ادا کرتے ہوئے حق ادا کرتے تھے.کبھی نماز میں جمائی لیتے یا کوئی ایسی حرکت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس سے لگے کہ ان کا نماز میں دھیان نہیں ہے.ایسا لگتا تھا جیسے وہ واقعی ہی خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھ کر دعا کر رہے ہیں.پھر لکھتی ہیں: مالی قربانی میں بھی وسیم صاحب ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.ہمیشہ اپنی تنخواہ پر پورے دس حصہ ادا کرتے.اور اس کے علاوہ جو بھی چندہ جات ہوتے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.کبھی بھی اپنی ذات پر فالتو پیسے خرچ نہیں کرتے تھے.کبھی اپنے والدین کے سامنے اونچی آواز سے بات نہیں کی.نہ صرف والدین سے بلکہ کسی سے بھی کبھی اونچی آواز سے بات

Page 372

357 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نہیں کی.انتہائی نرم مزاج تھے.میں نے اپنی پوری شادی شدہ زندگی میں ان کے منہ سے کبھی کوئی سخت بات نہیں سنی.وسیم صاحب کا چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا اور کبھی میں کسی بات پر ناراض ہوتی تو بڑے پیار سے مناتے اور جب تک میری ناراضگی دور نہیں ہو جاتی منانا نہیں چھوڑتے تھے.شہادت کے بعد جب ان کی میت گھر لائی گئی تو ان کے چہرے پر وہی مسکراہٹ اور سکون تھا جو ہر وقت ان کے چہرے پر ہو تا تھا.کوئی بھی مہمان ہو ہر ایک سے بہت عمدہ طریق سے ملتے.ماں باپ کا ، بہن بھائیوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے.عزیز رشتے داروں سے کبھی بھی کوئی ناراضگی نہ رکھتے تھے یہاں تک کہ آفس کے لوگ بھی کہتے کہ وسیم صاحب نے کبھی اپنے جو نیئر ز سے سخت لہجے میں بات نہیں کی.وسیم صاحب نڈر قسم کے انسان تھے.احمدی ہونے پر فخر تھا.گاڑی میں تشخیذ رسالے اکثر پڑے ہوتے تھے.ان کا جو نیئر جو کہ احمدی تھا، انہیں اکثر کہتا تھا کہ وسیم صاحب! کہیں کوئی مولوی فطرت انسان دیکھ کر آپ کو نقصان نہ پہنچائے ؟ تو وسیم صاحب کہتے کہ یار ! شہادت کا رتبہ ہر ایک کی قسمت میں نہیں ہو تا.گھر میں بھی اکثر کہتے تھے کہ تبلیغ سے کبھی نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ ہم جیسے گناہ گاروں کو ایسا اعزاز کہاں ملتا ہے.ان کے جو نیئر تھے اسد ، انہوں نے بتایا کہ وسیم صاحب اور وہ انگلی صف میں بیٹھتے تھے ، جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی تو سب لوگ ہال کے ایک طرف اکٹھے ہو گئے اور کسی دروازے سے باہر نکل رہے تھے.اسد نے وسیم کو آواز دی لیکن وسیم نے کہا کہ پہلے اگلے لوگوں کو نکل جانے دو پھر میں آتا ہوں.اسی دوران وسیم صاحب کو آٹھ گولیاں پیٹ میں لگیں اور ایک گھنٹے کے اندر شہادت ہو گئی.مکرم و سیم احمد صاحب اگلا ذکر ہے مکرم وسیم احمد صاحب شہید ابن مکرم محمد اشرف صاحب چکوال کا.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق ر تو چھہ ضلع چکوال سے تھا شہید مرحوم نے میٹرک تک تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی.پھر فوج میں بطور لانس نائیک ملازمت شروع کر دی.فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد اسلام آباد میں ایک سکیورٹی کمپنی میں ملازمت شروع کی.بعد ازاں 2009ء میں مسجد دارالذکر میں سکیورٹی گارڈ کی ملازمت شروع کر دی.ان کے خسر مکرم عبد الرزاق صاحب نظارت علیاء صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ کے ڈرائیور تھے.شہادت کے وقت وسیم احمد صاحب کی عمر 54 سال تھی.مسجد دارالذکر میں ڈیوٹی دینے کے دوران جام شہادت نوش فرمایا.سانحے کے روز وسیم صاحب مسجد دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے.حملہ آوروں نے دور ہی سے فائرنگ شروع کر دی جس سے سانحے کے آغاز میں ہی ان کی شہادت ہو گئی.شہید مرحوم کی دو شادیاں ہوئی تھیں.1983ء میں پہلی بیوی کی وفات ہو گئی پھر 1990ء میں عبد الرزاق صاحب جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی بیٹی سے شادی ہوئی.ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بہت ہی اچھے انسان تھے.معاشرے میں بہت اچھا مقام تھا.ہر ایک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے.

Page 373

358 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہر رشتے کے لحاظ سے بہت اچھے انسان تھے.خاص طور پر یتیم بچے اور بچیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے.چاہے وہ رشتے دار، غیر رشتے دار غیر از جماعت یا احمدی ہوتا.جماعتی خدمات کا بہت جوش اور جذبہ تھا.اسی لئے جب بھی لاہور سے چھٹی پر گھر آتے تو بتاتے کہ میں ادھر بہت خوش ہوں، مسجد میں آنے والا ہر احمدی چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ہر ایک بہت عزت سے ملتا ہے.شہید مرحوم کے بچوں نے بتایا کہ ہمارے ابو بہت اچھے انسان تھے.ہمارے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا.ہر ایک خواہش کا احترام کرتے تھے.بیٹی نے بتایا کہ خاص طور پر میری ہر خواہش پوری کرتے تھے.بچوں کی تعلیم کے بارہ میں بہت جذبہ اور شوق تھا.بیٹی نے بتایا کہ مجھے کہتے تھے کہ میں تمہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ بھیج دوں گا.ماحول اچھا ہے اور وہیں جماعت کی خدمت کرنا.چاہے مجھے تمہارے ساتھ ربوہ میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے.بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والے باپ تھے.شہید مرحوم کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ شہادت سے کچھ روز قبل فون کر کے مجھے بتایا کہ میں ڈیوٹی پر کھڑا تھا، صدر صاحب حلقہ مسجد میں تشریف لائے.میرے پاس سے گزرے تو میں نے کہا صدر صاحب! میری وردی پرانی ہو گئی ہے اگر مجھے نئی وردی لے دیں تو ہر ایک آنے والے کو اچھا محسوس ہو گا.لہذا صدر صاحب نے نئی وردی لے دی.شہادت والے روز سانحہ سے قبل فون کر کے بتایا کہ میں نے نئی وردی پہنی ہے.اسی وردی میں شہادت کار تبہ پایا.ان کی اہلیہ لکھ رہی ہیں کہ شہادت کی خبر پہلے ٹی وی کے ذریعہ ملی کہ لاہور میں احمدی مساجد پر حملہ ہو گیا ہے.پھر ہم نے لاہور وسیم صاحب کے نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا.وسیم صاحب کے نمبر سے کسی احمدی بھائی نے فون کر کے خبر دی کہ وسیم صاحب شہید ہو گئے ہیں.یہ خبر سن کر بہت دکھ اور تکلیف بھی ہوئی لیکن شہادت جیسا بلند مرتبہ پانے پر بہت خوشی تھی اور سر فخر سے بلند تھا کہ مسجد میں نمازیوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پائی.شہید مرحوم پنجوقتہ نماز کے پابند تھے ، نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.مکرم نذیر احمد صاحب اگلا ذ کر ہے مکرم نذیر احمد صاحب شہید ابن مستری محمد یاسین صاحب کا.شہید مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور اکیلے احمدی ہونے کی وجہ سے پورے خاندان میں مخالفت تھی.شہید مرحوم تجنید اور بجٹ کے لحاظ سے حلقہ کوٹ لکھپت میں شامل تھے.نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں آتے.اس کے علاوہ باقی نمازیں اپنے حلقے میں واقع نماز سینٹر میں ادا کرتے.بوقت شہادت ان کی عمر 72 سال تھی.مسجد ماڈل ٹاؤن بیت النور میں جامِ شہادت نوش فرمایا.ان کی نماز جنازہ اور تدفین ان کے غیر از جماعت رشتے داروں نے ہی ادا کی اور کوٹ لکھ پت قبرستان میں دفن کیا.شہید مرحوم نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن پہنچے ہی تھے.اس دوران دہشتگردوں نے حملہ کر دیا اور گولیاں لگنے سے شہید ہو گئے.ان کا جسد خاکی جناح ہسپتال میں رکھا گیا جہاں سے ان کے بھانجے جو غیر از جماعت ہیں نعش کو جنازہ اور تدفین کے لئے لے گئے.مسجد دارالذکر میں

Page 374

359 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ان کا نماز جنازہ غائب ادا کیا گیا.شہید مرحوم چندہ جات کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے اور نمازی بھی تھے.خاندان میں شدید مخالفت کے باوجود شہادت پانے تک مضبوطی سے احمدیت پر قائم رہے.ان کے بارہ میں صدر صاحب نے مزید لکھا ہے کہ مین بازار میں ان کی اپنی قیمتی جائیداد تھی.ان کی دکانیں تھیں، دکانوں پر بھتیجوں نے زندگی میں ہی قبضہ جمالیا تھا.ایسے حالات میں ساری عمر سادہ زندگی بسر کی.خاندان کی مخالفت بھی برداشت کی لیکن احمدیت سے تعلق نہ توڑا اور نہ کمزور ہونے دیا.شہادت تک باقاعدہ بجٹ کے ممبر تھے گو آمد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی مگر ادائیگی کرتے تھے.پرانی وضع کے آدمی تھے.سادہ لباس اور باقاعدگی سے جمعہ کی ادائیگی کے لئے سائیکل پر بیت النور وقت پر پہنچتے تھے اور پہلی صف میں بیٹھتے تھے.ہر ایک کو بڑی گرمجوشی سے ملتے تھے اور جب مسجد میں آتے تھے تو بڑا وقت گزارتے تھے کہ جتنا زیادہ وقت احمدیوں کے درمیان میں گزرے اتنا اچھا ہے.انہوں نے باوجود مخالفت کے گھر کے اندر اور باہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء کی تصویریں لگائی ہوئی تھیں.عہدیداروں سے عقیدت رکھتے تھے.تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا.جہاں آپ کی رہائش ہے وہاں مخالفین کی سر گرمیاں عروج پر ہیں مگر کسی خوف کے بغیر دعوت الی اللہ جاری رکھتے تھے.مکرم محمد حسین صاحب اگلا ذکر ہے مکرم محمد حسین صاحب شہید ابن مکرم نظام دین صاحب کا.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق ضلع گورداسپور سے تھا.آپ کی پیدائش بھی وہیں ہوئی.کوئی دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی.لیکن قرآن مجید پڑھنا جانتے تھے.مکرم شیخ فضل حق صاحب سابق صدر جماعت سٹی کے ذریعے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.ان کے خاندان میں خود یہ اور ان کی ایک بہن احمدی تھی.مکرم انعام الحق کو ثر صاحب مربی سلسلہ شکاگو امریکہ کے ماموں تھے.کچھ عرصہ ایم ای ایس لیبر سپر وائزر کے طور پر کام کرتے رہے.کارپینٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا.ملازمت کے بعد کو ئٹہ میں فرنیچر کی دکان بھی تھی.فرقان فورس میں خدمت کی توفیق پائی.بوقت شہادت ان کی عمر 80 سال تھی اور مسجد دارالذکر میں جام شہادت نوش فرمایا.جمعہ کے روز صدقہ دینا ان کا معمول تھا.گھر سے گیارہ بجے تیار ہو کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے نکل پڑتے.سانحہ کے روز مسجد دارالذکر کے مین ہال میں موجود تھے.ان کی نعش دیکھی گئی تو ان کے دائیں جانب کا سارا حصہ جل چکا تھا.پیٹ پر بھی کافی زخم تھے.غالباً گرنیڈ پھٹنے سے شہادت ہوئی ہے.شام کو میو ہسپتال سے ان کے غیر از جماعت لواحقین ان کی نعش لے گئے اور جنازہ اور تدفین بھی انہوں نے ہی کی.اہل خانہ کے مطابق شہید مرحوم نماز کے پابند تھے.چندہ جات با قاعدگی سے ادا کرتے تھے.باوجود اس کے کہ مالی حالت زیادہ اچھی نہ تھی اپنی ضروریات سے بچا کر غریب اور ضرورتمندوں کی بلا تفریق مذہب و ملت مدد کرتے تھے.جماعت سے بہت مضبوط تعلق تھا.اہل خانہ نے مزید بتایا کہ عام طور پر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہلی صفوں میں بیٹھتے تھے.بڑھاپے کی وجہ سے یہ یاد نہ رہتا تھا کہ آج

Page 375

360 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کون سا دن ہے؟ کیونکہ گھر والے تمام غیر از جماعت ہیں، تو وہ نہ بتاتے تھے کہ آج جمعہ ہے.شہید مرحوم نے ایک فقیر کے آنے کی نشانی رکھی ہوئی تھی کہ یہ فقیر جمعہ کو آتا ہے، کبھی بھول جاتے تو اس فقیر کو دیکھ کر یاد آجاتا کہ آج جمعہ ہے.ایک دن فقیر نہ آیا لیکن اچانک ایک بیٹی نے یاد دلایا کہ آج جمعہ ہے اور بغیر کھانا کھائے ہی جلدی میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکل گئے.بڑے بیٹے نے بتایا کہ عموماً رات کو بستر پر نہ ہوتے.جب ان کو ڈھونڈھتے تو جائے نماز پر نماز ادا کر رہے ہوتے.بچوں کو کہا کرتے تھے کہ مجھے اہل بیت آنحضرت صلی اللہ کم سے محبت ہے اور تم کو نہیں ہے.میں نے خواب میں اہل بیت سے ملاقات بھی کی ہے.بیٹے نے مزید بتایا کہ عموماً دس محرم کو روزہ رکھا کرتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورہ کوئٹہ کا بہت ذکر کیا کرتے تھے کہ جب حضور کا پارک ہاؤس والی کو ٹھی میں قیام تھا تو انہوں نے وہاں پر دن رات مرمت وغیرہ کا کام کیا.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو فرماتے تھے کس نے کام کروایا ہے.دیواروں سے خلوص ٹپک رہا ہے.اسی قیام کے دوران ایک دن پانی کا پائپ لیک (Leak) کر رہا تھا تو ٹھیک نہ کر سکا، تو حضور نے فرمایا کہ محمد حسین کو ہلاؤ وہ ٹھیک کر دے گا.اور جب انہوں نے ٹھیک کر دیا تو بہت خوش ہوئے.فرمایا دیکھو میں نے کہا تھا ناں کہ محمد حسین ٹھیک کر دے گا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو بھی احمدیت حقیقی اسلام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.یہ واقعات تو ایسے ہیں کہ اگر ان کی تفصیلات میں جایا جائے تو یہ لمبا سلسلہ چلا جائے گا.اس لئے میں نے مختصر بیان کئے ہیں، لیکن ایک شہید کا ذکر جو پہلے ہو چکا ہے وہ بہت ہی مختصر تھا ان کی اہلیہ نے بعد میں کچھ کو ائف بھیجے ہیں ، اس لئے ان کا مختصر ذکر میں دوبارہ کر دیتا ہوں.مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید ہیں.ان کی اہلیہ نے لکھا کہ میرا اور ان کا ساتھ تو صرف ڈیڑھ سال کا ہے لیکن اس عرصے میں مجھے نہایت ہی پیار کرنے والے شفیق، کم گو اور سادہ طبیعت انسان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا.بچپن سے ہی شہادت کا شوق تھا.دوسری اور تیسری کلاس میں تھے کہ میجر عزیز بھٹی کو خط لکھا کہ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں.عزیز بھٹی شہید فوجی تھے پاکستان کے ، ان کا کتاب میں ذکر تھا.اور ایک فرضی خط لکھا کہ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں میں بھی آپ کی طرح شہید ہونا چاہتا ہوں.یہ مختصر خط ان کی والدہ کے پاس محفوظ ہے.شادی کے بعد اکثر شہادت کے موضوع پر بات کرتے رہتے تھے.ایک دن کہنے لگے کہ میں نے بہت ہی غور کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جنت میں جانے کا واحد شارٹ کٹ شہادت ہے.لیکن میری قسمت میں کہاں ؟ انہوں نے دو دفعہ آرمی میں کمیشن کی کوشش کی تھی لیکن دونوں دفعہ آخری سٹیج پر رہ گئے.اس کا انہیں بہت دکھ تھا.وہ خیال کرتے

Page 376

361 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم تھے کہ شہادت کے لئے فوج ہی اچھا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کو بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ ملک کے خلاف ہے.ان میں ملک کی خدمت کا جذبہ اس طرح کوٹ کر بھرا ہوا تھا.کہتی ہیں کہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ دیکھنا جب بھی جماعت کو کوئی ضرورت ہوئی تو عمر پہلی صف میں ہو گا اور سینے پر گولی کھائے گا.اور یہ جو خط لکھا تھا میجر عزیز بھٹی شہید کو اس کے نیچے بھی لکھا تھا میجر عمر شہید “.گھر پر ہوتے تو مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے.نماز مغرب پر مسجد جاتے اور عشاء پڑھنے کے بعد کچھ نہ کچھ جماعتی کام کرنے کے بعد واپس آتے ، یہ ان کا معمول تھا.خدام الاحمدیہ میں نہایت مستعد تھے.سال میں ایک دو دفعہ وقف عارضی پر جاتے تھے.خدمت خلق کا بے انتہا شوق تھا.سال میں دو دفعہ ضرور خون کا عطیہ دیا کرتے تھے.جس دن دارالذکر میں زخمی ہوئے اس دن صبح دفتر جانے کے لئے جلدی میں نکلے یہ کہتے ہوئے کہ مجھے دیر ہو رہی ہے.چونکہ ان کے آفس سے مسجد دارالذکر قریب پڑتی تھی اس لئے وہ جمعہ وہیں پڑھتے تھے.میری چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضرورت کا خیال رکھا.اپنی بیٹی سے جو کہ اب آٹھ ماہ کی ہو گئی ہے بہت پیار کرتے تھے.دفتر سے آکر اس کے ساتھ بہت دیر تک کھیلتے تھے.اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی بے احتیاطی برداشت نہیں کرتے تھے.اہلیہ لکھتی ہیں کہ صرف اپنی بیٹی ہی نہیں بلکہ تمام بچوں سے بہت شفقت کا سلوک کرتے اور کہتے تھے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لئے مجھے پسند ہیں.لکھتی ہیں کہ شہادت سے قریباً دو ماہ قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ عمر کی دوسری شادی ہو رہی ہے اور میں زار و قطار رو رہی ہوں.اس خواب کا ذکر میں نے عمر سے بھی کیا لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا.لکھتی ہیں کہ بہت زیادہ صفائی پسند تھے.اسی طرح دل کے بھی بہت صاف تھے.کبھی کسی کو تکلیف نہ دی.سخت گرمی میں بھی، پاکستان میں گرمی بہت شدید ہوتی ہے ہر ایک جانتا ہے دو پہر کو آفس سے آتے تو ہلکی سی گھنٹی بجاتے تاکہ کوئی ڈسٹرب نہ ہو.اکثر اوقات تو کافی کافی دیر آدھ آدھ گھنٹہ تک باہر ہی خاموش کھڑے رہتے.آفس کے تمام لوگ بے حد تعریف کرتے تھے.یہ گور نمنٹ ریسرچ کے ادارے میں تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہمارا ایک بہت ہی پیارا بچہ ہم سے علیحدہ ہو گیا.آفس کا تمام سٹاف گھر افسوس کرنے کے لئے آیا.جب بھی کوئی پریشانی ہوتی تو فوراً خلیفہ وقت کو خط لکھتے.اور کہتی ہیں مجھے بھی کہتے تھے کہ خط ضرور لکھا کرو.میرے والدین اور تمام عزیز رشتے داروں کی بہت زیادہ عزت کیا کرتے تھے.اپنے دوستوں کی بہت عزت کرتے تھے.ان کے لئے ضرور تھوڑا بہت وقت نکالتے.خلیفہ وقت کی طرف سے جو بھی تحریک ہوتی چاہے وہ دعاؤں کی ہو ، روزہ ہو ، تہجد ہو ، صدقات ہوں فوراً اس پر کمر بستہ ہو جاتے.تمام چندہ جات بر وقت ادا کرتے اور ہمیشہ صحیح آمد پر چندہ بنواتے تھے، بجٹ بنواتے تھے.23 مئی کو انہوں نے چندہ حصہ آمد کی آخری قسط جو کہ ساڑھے نو ہزار روپے تھی ادا کی اور گھر آکر مجھے اور باقی سب گھر والوں کو بڑی خوشی سے بتایا کہ شکر ہے کہ آج چندہ پورا ہو گیا.جب سے سیدنا بلال فنڈ کا اجراء ہوا اس وقت سے اس فنڈ میں باقاعدگی سے چندہ دیتے

Page 377

362 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم تھے.کبھی گھر میں سالگرہ منانے اور تحائف دینے کی بات ہوتی تو سخت ناپسند کرتے اور کہتے کہ آپ کو پتہ نہیں کہ حضور نے منع فرمایا ہے بلکہ کہتے کہ یہ پیسے جماعت کی کسی مد میں دے دو تو زیادہ اچھا ہے.چند دن ہسپتال میں رہے پھر اس کے بعد ان کی شہادت ہوئی ہے.یہ اب شہداء کا ذکر تو ختم ہوا.یہ ذکر جو میں نے شہداء کا کیا ہے اس میں ہمیں ان سب میں بعض اعلیٰ صفات قدر مشترک کے طور پر نظر آتی ہیں.ان کا نمازوں کا اہتمام اور نہ صرف خود نمازوں کا اہتمام بلکہ اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی اس طرف توجہ دلانا.کوئی اپنے کام کی جگہ سے فون کر کے بچوں کو نماز کی یاد دہانی کروارہا ہے تو کوئی مسجد اور نماز سینٹر دور ہونے کی وجہ سے گھر میں ہی نماز باجماعت کا اہتمام کر رہا ہے.کیوں ؟ اس لئے کہ انہیں فکر تھی کہ نمازیں ان کی اور ان کے اہل کی اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی خیر اور بھلائی کی ضمانت ہیں.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے عبادات سے ہی متعین ہوتے ہیں.ان سب میں ہم نماز جمعہ کا خاص اہتمام دیکھتے ہیں.بعض نوجوان گھر سے تو یہ کہہ کر نکلتے تھے کہ شاید کام کی وجہ سے جمعہ پر نہ جاسکیں، لیکن جب جمعہ کا وقت آتا تھا تو سب دنیاوی کاموں کو پس پشت ڈال کر جمعہ کے لئے روانہ ہو جاتے تھے.پھر بہت سے ایسے ہیں جو تہجد کا التزام کرنے والے ہیں.بعض اس کوشش میں رہتے تھے کہ نوافل اور تہجد کی ادائیگی ہو.اکثر نوجوان شہداء میں بھی اور بڑی عمر کے شہداء میں بھی یہ خواہش بڑی شدت سے نظر آتی ہے کہ ہمیں شہادت کا رتبہ ملے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے اخلاق حسنہ کس کثرت سے ان میں نظر آتے ہیں.یہ اخلاق حسنہ جو ہیں، گھریلو زندگی میں بھی ہیں اور گھر سے باہر زندگی میں بھی ہیں.جماعتی کارکنوں اور ساتھیوں کے ساتھ جماعتی خدمات کی بجا آوری کے وقت بھی ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا تھا تو اپنے کام اور کاروبار کی جگہوں پر بھی اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو اپنے اعلیٰ اخلاق سے اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا.مرد کے اعلیٰ اخلاق اس کے اپنے اہل کی اس کے اخلاق کے بارے میں گواہی سے پتہ چلتے ہیں.بعض دفعہ مرد باہر تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں.لیکن گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کر رہے ہوتے.ایک شادی شدہ مرد کی سب سے بڑی گواہ تو اس کی بیوی ہے.اگر بیوی کی گواہی اپنے خاوند کی عبادتوں اور حسن سلوک کے بارے میں خاوند کے حق میں ہو تو یقیناً یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا تھا.پھر ان شہداء کے حسن اخلاق کی گواہی صرف بیوی نہیں دے رہی بلکہ معاشرے میں ہر فرد جس کا ان سے تعلق تھا ان کے حسن اخلاق کا گواہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو حقوق العباد کی ادائیگی نہیں کرتا، بیوی بچوں اور عزیزوں کے حق ادا نہیں کرتا، وہ خدا تعالیٰ کے حق بھی ادا نہیں کرتا.اگر وہ بظاہر نمازیں پڑھنے والا ہے بھی تو حقوق العباد ادانہ کرنے کی وجہ سے اس کی عبادتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں.

Page 378

خطبات مسرور جلد هشتم 363 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جولائی 2010 پس یہ شہداء جو شہادت کے مقام پر پہنچے یقیناً یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف اپنی عبادتوں اور حسن اخلاق پر ہی ان لوگوں نے بس نہیں کی بلکہ اپنی ذمہ داریوں کی جزئیات کو بھی نبھایا.ایک باپ اپنے گھر کا راعی ہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگرانی اس کی ذمہ داری ہے تو ان لوگوں نے اس فریضے کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دی ، اور یہ توجہ ہمیں ہر شہید میں مشترک نظر آتی ہے.اس قرآنی حکم کو انہوں نے اپنے پیش نظر رکھا کہ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ (بنی اسرائیل:32).کہ تم مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو.اپنے کاروباروں میں اس قدر محو نہ ہو جاؤ کہ یہ خیال ہی نہ رہے کہ اولاد کی تربیت بھی ہماری ذمہ داری ہے.یہ لوگ اپنے اس عہد کو بھولے نہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.اور اس عہد کی پاسداری کی خاطر انہوں نے اپنے کاموں کی جگہوں سے فون کر کر کے گھر میں بیوی کو یاد کروایا کہ بچوں کو نماز پڑھوا دو کہ دین کو مقدم کرنے کی ابتد ا تو نمازوں سے ہی ہوتی ہے.ایک بچی نے باپ کی تربیت کا یہ اسلوب بتایا کہ لمبے تفریحی سفر پر ہمارے ابا ہمیں ساتھ لے جاتے تھے اور راستے میں مختلف دعائیں پڑھتے رہتے تھے اور اونچی آواز میں اور بار بار پڑھتے تھے کہ ہمیں بھی دعائیں یاد ہو جائیں، اور ہمیں ان سے یاد ہو گئیں اور پھر صرف دعائیں یاد ہی نہیں کروائیں بلکہ یہ بھی کہ کس موقع پر کون سی دعا کرنی ہے ؟ تو یہ تھے ان جانیں قربان کرنے والوں کے اپنی اولاد کے لئے تربیت کے اسلوب.پھر نوجوان تھے جن کے والدین بفضلہ تعالیٰ حیات ہیں.ان کے حقوق بھی ہمہ وقت ان جو ان شہیدوں نے ادا کئے.والدین بیمار ہیں تو رات دن ان کی خدمت میں ایک کر دیئے.خدا تعالیٰ کے حکم کہ والدین سے حسن سلوک کرو اور ان کی کسی سخت بات پر بھی اُف کا کلمہ منہ سے نہ نکالو اس کا حق ادا کر دیا ان لوگوں نے.پھر بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ شادی شدہ جو ان اگر ماں باپ کا حق ادا کر رہے ہیں تو بیوی کا حق بھول جاتے ہیں، اگر بیوی کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ ہے تو ماں باپ کا حق بھول جاتے ہیں.لیکن ان مومنوں نے تو مومن ہونے کا اس بارے میں بھی حق ادا کر دیا.بیویاں کہہ رہی ہیں کہ والدین کے حق کے ساتھ ہمارا اس قدر خیال رکھا کہ کبھی خیال ہی دل میں پیدا نہیں ہونے دیا کہ ہماری حق تلفی تو کجا ہلکی سی جذباتی تکلیف بھی پہنچائی ہو.اور ماں باپ کہہ رہے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حق ادا کرنے کی کوشش میں کہیں بیوی کے حق کی ادائیگی میں کمی نہ کی ہو.پس یہ اعتماد اور یہ حقوق کی ادائیگی ہے جو حسین معاشرے کے قیام اور اپنی زندگی کو بھی جنت نظیر بنانے کے لئے ان لوگوں نے قائم کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی کتنا بڑا اجر عطا فرمایا کہ دائمی زندگی کی ضمانت دے دی.18،17 سال کا نوجوان ہے تو اس کی طبیعت کے بارے میں بھی ماں باپ اور قریبی تعلق رکھنے والے، بلکہ جس کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ نوجوان کہہ رہے تھے ، ان سب کی رائے یہ ہے کہ یہ عجیب منفر د قسم کا اور منفرد مزاج کا بچہ تھا.پھر ان سب میں ایک ایسی قدرِ مشترک ہے جو

Page 379

364 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نمایاں ہو کر چمک رہی ہے.اور وہ ہے جماعتی غیرت کا بے مثال اظہار.اطاعت نظام کا غیر معمولی نمونہ، جماعت کے لئے وقت قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا اور کرنا، دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے سارے حقوق کی ادائیگی کے باوجود، ساری ذمہ داریوں کے حقوق کی ادائیگی کے باوجود جماعت کے لئے وقت نکالنا.اور صرف ہنگامی حالت میں ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی کئی کئی گھنٹے وقت دینا.اور بعض اوقات کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہنا.اور پھر یہ کہ خلافت سے غیر معمولی تعلق، محبت اور اطاعت کا اظہار.یہ اظہار کیوں تھا؟ اس لئے کہ آنحضرت صلی ا ہم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی موعود کے بعد جو دائمی خلافت کا سلسلہ چلنا ہے اس نے مومنین کے جذبہ وفا اور اطاعت اور خلافت کے لئے دعاؤں سے ہی دائمی ہونا ہے.پس یہ لوگ تھے جنہوں نے عبادات اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے نظام خلافت کو دائمی رکھنے کے لئے آخر دم تک کوشش کی اور اس میں نہ صرف سر خرو ہوئے بلکہ اس کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے.یہ لوگ اپنے اپنے دائرے میں خلافت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں.یہ سلطانِ نصیر تھے خلافت کے لئے جن کے لئے خلیفہ وقت دعا کر تا رہتا ہے کہ مجھے عطا ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرماتار ہے.اپنے پیاروں کے قرب سے ان کو نوازے.یہ شہداء تو اپنا مقام پاگئے، مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے یہ توجہ دلا گئے ہیں کہ اے میرے پیارو! میرے عزیزو! میرے بھائیو! میرے بیٹو! میرے بچو! میری ماؤں! میری بہنو ! اور میری بیٹیو! ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہد بیعت کو نبھایا ہے مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا.بعض مردوں نے اور عورتوں نے مجھے خط بھی لکھے ہیں کہ آپ آج کل شہداء کا ذکر خیر کر رہے ہیں ، ان کے واقعات سن کر رشک بھی آتا ہے کہ کیسی کیسی نیکیاں کرنے والے اور وفا کے دیپ جلانے والے وہ لوگ تھے.اور پھر شرم بھی آتی ہے کہ ہم ان معیاروں پر نہیں پہنچ رہے.ان کے واقعات سن کر افسوس اور غم کی حالت پہلے سے بڑھ جاتی ہے کہ کیسے کیسے ہیرے ہم سے جدا ہو گئے.یہ احساس اور سوچ جو ہے بڑی اچھی بات ہے لیکن آگے بڑھنے والی قومیں صرف احساس پیدا کرنے کو کافی نہیں سمجھتیں بلکہ ان نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے پیچھے رہنے والا ہر فرد جانے والوں کی خواہشات اور قربانیوں کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس ہمارا کام ہے اور فرض ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان قربانیوں کا حق ادا کریں.ان کے بیوی بچوں کے حق بھی ادا کر کے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں.ان کے چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے جہاں نظام جماعت اپنے فرض ادا کرے وہاں ہر فرد جماعت ان کے لئے دعا بھی کرے.اللہ تعالیٰ تمام لواحقین کو اپنی حفظ وامان میں رکھے.ان کی پریشانیوں، دکھوں اور تکلیفوں کو دور فرمائے اور خود ہی ان کا مداوا کرے.انسان کی کوشش جتنی بھی ہو اس میں کمی رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو صحیح تسکین کے سامان پیدا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے تسکین کے

Page 380

365 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم سامان پیدا فرمائے اور ان کے بہتر حالات کے سامان پیدا فرمائے.پس ان شہداء کے ورثاء کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں اور احباب جماعت اپنے لئے بھی دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے.کیونکہ دعاؤں کی آج کل بہت زیادہ ضرورت ہے.پاکستان میں حالات جو ہیں وہ بد تر ہی ہو رہے ہیں.کوئی فرق نہیں پڑا اس سے، مخالفت بڑھتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچائے اور اُن شریروں کے شر اُن پر الٹائے اور ہمیں، ہر احمدی کو ثبات قدم عطا فرمائے.آخر میں ابھی میں نماز جمعہ کے بعد ایک نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا اس کا اعلان کرتا ہوں.یہ مکرم نذیر شفیق المراد نی صاحب سابق امیر جماعت سیر یا کا نماز جنازہ ہے.30 جون 2010ء کو 67 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ آپ ایف اے کرنے کے بعد چھ سال تک شیخ ہاشم کے ہاں شریعت پڑھتے رہے.آپ کا گھر دمشق کے محلہ شاغور میں تھا جہاں مکرم منیر الحصنی صاحب جو امیر شام تھے وہ رہتے تھے.آپ بچپن سے ان کو جانتے تھے.اسی زمانے میں آپ کو ان کی خدمت کا شرف بھی حاصل ہوا.اور نذیر صاحب نے 1963ء میں جماعت کے بعض عقائد سنے اور بیعت کر لی.آپ دمشق میں اربن ٹرانسپورٹ کے انچارج تھے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے 1986ء میں آپ کو شام کا پہلا صدر مجلس انصار اللہ اور 1988ء میں مکرم منیر الحصنی صاحب کی وفات کے بعد بلاد شام کا امیر مقرر فرمایا.1989ء میں سیریا کے نامناسب حالات ہونے کی وجہ سے وہاں امارت ختم کر دی گئی.ان حالات میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت سیریا سے فرمایا کہ اصحاب رقیم بن جائیں.تو آپ نے کتابیں لکھنی شروع کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی آٹھ کتابیں چھپ چکی ہیں.وفات سے قبل بھی آپ ایک کتاب تصنیف کر رہے تھے.آپ کو 1996ء میں جلسہ سالانہ انگلستان میں شمولیت کی توفیق ملی.اور اس جلسہ کے بعد آپ ساری زندگی خلیفہ وقت کی مہمان نوازی اور نوازشوں کا ذکر کرتے رہے.آپ نہایت سادہ مگر مزاحیہ اور شگفتہ طبیعت کے مالک تھے.واقفین کی بہت عزت کرتے تھے.وہاں ہمارے بعض واقف زندگی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور دمشق آنے والے تمام سٹوڈنٹس کا بہت خیال رکھتے تھے.خلافت احمدیہ سے آپ کو ایک عشق کا تعلق تھا جو خلافت کا ذکر آنے پر آپ کی آنکھوں اور آواز سے جھلکتا تھا.صابر ایسے تھے کہ بڑی سے بڑی تکلیف پر بھی دل سے شکر وحمد کے گیت گایا کرتے تھے.باوفا دوست اور ایک مستقل مزاج احمدی تھے.اپنے سسرال سے ایسا اپنائیت اور محبت سلوک تھا.کہ آپ کی نسبتی بہن آپ کو اپنا والد سمجھتی تھی.مکرم محمد مسلم الدروبی صاحب جو آج کل سیریا کے صدر جماعت ہیں بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے شام کا نیشنل صدر مقرر کیا گیا تو آپ نے ایسی اطاعت اور عاجزی اور اخلاص کا اظہار کیا کہ میں حیران رہ گیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 1،32 3 مورخہ 30 جولائی تا 12 اگست 2010 صفحہ 5 تا 9)

Page 381

خطبات مسرور جلد ہشتم 366 29 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جولائی 2010ء بمطابق 16 وفا 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آنحضرت صلی علیہ کم کی بعثت ثانیہ جو آپ صلی للی نیم کے عاشق صادق کی صورت میں ہوئی، جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود اور امتی نبی بنا کر بھیجا.جنہوں نے اپنے ساتھ پاک دل اور سعید فطر توں کو جوڑ کر وہ جماعت قائم فرمائی جو نیکیوں میں بڑھتے چلے گئے ، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے چلے گئے اور اولین کے ساتھ مل گئے.آج میں اس دورِ آخرین کے ان چند اولین کی روایات پیش کروں گا جو براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے فیض یاب ہوئے، آپ کی صحبت میں رہے، آپ کو دیکھا اور آپ کے حسن و احسان سے فیض پایا.ان روایات میں جہاں ان حق کے متلاشیوں کی اپنی سعید فطرت کی جھلک نظر آتی ہے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شفقتوں، محبتوں، قوت قدسی اور مقام کا بھی پتہ چلتا ہے جس سے انسان ایک منفرد قسم کا روحانی حظ اٹھاتا ہے.ان بزرگوں کے لئے دعائیں بھی نکلتی ہیں جنہوں نے اپنی روایات ہم تک پہنچا کر جہاں ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلائی، وہاں اس عاشق صادق کے حسن اور اپنی جماعت کے بارہ میں جو دلی تمنا تھی اس کی تصویر کشی کی ہوتی ہے.ان روایات میں سے پہلی روایت ہے حضرت میاں فیروز الدین صاحب سیالکوٹ کی، جنہوں نے 1892ء میں بیعت کی تھی.یہ کہتے ہیں کہ حضرت اقدس نے لیکچر سیالکوٹ میر حسام الدین صاحب کے مکان کی چھت پر لکھا تھا.باہر دوا تیں چاروں دیواروں پر رکھی ہوئی تھیں.اس میں سیاہی تھی.تقریبا عصر کا وقت تھا.حضور ٹہلتے ٹہلتے لکھتے تھے اور کبھی کبھی سجدے میں بھی گر جاتے تھے.یہ تمام نظارہ ہم نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھا تھا.اور بھی بہت سے لوگ ہمارے مکان پر سے نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تھے.ہمارا مکان اس مکان سے نزدیک تھا اور اونچا بھی تھا.اس سے تمام نظارہ دکھائی دیتا تھا.جس قدر ورق حضور لکھ لیتے تھے، نیچے کاتب کے پاس بھیجتے جاتے تھے.کاتب سراج دین سا ہو والے کا رہنے والا تھا، جب حضور مہمانوں کی سرائے میں

Page 382

367 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم لیکچر دینے کے لئے تشریف لے جانے لگے تو راستے میں دو دروازہ محلہ جنڈ والا کی مسجد میں ایک شخص حافظ سلطان محمد لڑکے پڑھایا کرتا تھا.یہ حافظ صاحب جو لڑکوں کو پڑھاتے تھے ، حافظ تھے قرآن کے ، اور ان کے عمل دیکھیں ذرا.کہتے ہیں کہ اس نے لڑکوں کو چھٹی دے دی اور ان کی جھولیوں میں راکھ بھر دی اور کہا کہ جس وقت مرزا صاحب یہاں سے گزریں تم تمام کے تمام راکھ ان کے اوپر پھینک دینا.مگر حضرت صاحب چونکہ بند گاڑی میں تھے اس لئے صحیح سلامت وہاں سے گزر گئے.کہتے ہیں کہ سرائے کے ارد گرد پیر جماعت علی شاہ کے مریدوں نے چار اکھاڑے لگائے ہوئے تھے اور لوگوں کو اندر جانے سے روکتے تھے.مولوی ابراہیم بھی ان میں شامل تھے.پیر جماعت علی شاہ پرانے ذبح خانے کے پاس کھڑا تھا.اب اس جگہ مستری فتح محمد کا مکان بناہوا ہے.حافظ ظفر، شہباز خان کے اڈے میں کھڑا تھا.یہ شخص پیر جماعت علی شاہ کا دایاں بازو تھا.یہ تمام ملاں بڑے زور شور سے لوگوں کو اشتعال دلا رہے تھے اور اندر جانے سے روکتے تھے.جب لیکچر شروع ہوا، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ دیا.ایک شخص مسمی احمد دین سلہریا تھاوہ جب سرائے میں گیا تو کچھ آدمی دوڑ کر اس کے پیچھے گئے اور اسے اٹھا کر لے آئے کہ وہ لیکچر سنے نہ جائے.چنانچہ جس مقام پر پیر جماعت علی شاہ کھڑا تھا وہاں اسے چھوڑا مگر وہ پھر دوڑ کر چلا گیا.جب حضور واپس تشریف لے گئے تو میں، میرے چچا میراں بخش صاحب، شیخ مولا بخش صاحب بوٹ فروش، ملک حیات محمد صاحب سب انسپکٹر پولیس سکنہ گڑھی اعوان حافظ آباد سید امیر علی صاحب سب انسپکٹر، میراں بخش صاحب عطار وغیرہ وغیرہ وزیر آباد تک گئے تھے.جس وقت حضور کی گاڑی کچہری والے پھاٹک سے گزری تو آگے مخالف لوگ بالکل برہنہ کھڑے تھے اور آوازیں کس رہے تھے اور گاڑی پر پتھر برسارہے تھے.( یہ شرافت کا حال تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی جارہی تھیں اور اپنا یہ حال تھا کہ ننگے ہو کر کھڑے تھے.کہتے ہیں کہ ہم نے واپس آکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اشرار پارٹی نے مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کو زخمی کر دیا ہے.میرے بھائی بابو عزیز دین صاحب کا ہونٹ پتھر لگنے سے پھٹ گیا تھا.شیخ مولا بخش صاحب بوٹ فروش کے مکان کے شیشے توڑ دیئے گئے.ان کے گملے پھول دار پودے برباد کر دیئے گئے.میں جہلم بھی حضور کے ساتھ گیا تھا.اس سفر میں بھی رستے میں بے شمار مخلوق تھی.جب جہلم پہنچے تو دو یورپین لیڈیوں نے (عورتوں نے) پوچھا کہ یہ ہجوم کیوں ہے؟ کسی دوست نے کہا کہ مسیح موعود علیہ السلام ہیں.انہوں نے کہا ذراہٹ جاؤ ہم نے تصویریں لینی ہیں.چنانچہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے فوٹو لے لیا.صبح تاریخ تھی، تمام کچہری میں چھٹی ہو گئی، صرف اسی مجسٹریٹ کی عدالت کھلی رہی جس میں حضور علیہ السلام نے جانا تھا.کچہری کے صحن میں ایک دری بچھی ہوئی تھی، اس پر ایک کرسی بچھی تھی.حضور اس کرسی پر تشریف فرما تھے.مخلوق بیٹھی تھی.میرے ہیں گز کے فاصلے پر مولوی ابراہیم سیالکوٹی نے بھی اڈہ جمایا ہوا تھا.کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ میرے

Page 383

368 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کہنے پر لوگوں نے مجھے مانا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں.اگر میں نے اپنے پاس سے افتراء کیا ہے ، تو اس کی سزا مجھے ملے گی.جن لوگوں نے مانا ہے، ان کو سزا نہیں ملے گی.چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں، جو مانیں گے انہیں ثواب ملے گا.یہ عین قرآنِ کریم کے اسلوب اور حکم کے مطابق ہے کہ وَ اِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه (المومن: 29) که اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا.لیکن وَانْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ (المومن: 29).اگر یہ سچا ہے تو جو انذاری پیشگوئیاں یہ کر رہا ہے ، وہ بلائیں یقیناً تم پر پڑنے والی ہیں.آج ان مسلمانوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے.پھر کہتے ہیں کہ مولوی ابراہیم کے آگے منبر پر ایک کتاب پڑی تھی.اس نے شرارت سے اٹھا کر اوپر کی اور کہا کہ اس طرح مسیح آسمانوں پر چلا گیا ہے.اس مجمع میں ایک فقیر بھی بیٹھا ہوا تھا.اب فقیر کی داستان بھی سنیں.کہتے ہیں وہ فقیر بیٹھا تھا جس کا نام سائیں آزاد تھا.بھورے کا کرتہ اس نے پہنا ہوا تھا.اس نے بڑے زور سے کہا کہ او بابا! کیوں جھوٹ بولتے ہو اور لوگوں کو بہکاتے ہو.قرآنِ مجید میں سے كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ المَوتِ ( آل عمران : 186) کاٹ دو.تین بار اس نے بڑے زور سے یہ کہا جس سے وہ فقیر پسینہ پسینہ ہو گیا.پھر کہا میں مرزا صاحب کا مرید نہیں ہوں مگر میں حق کو نہیں چھپانا چاہتا.یہ اس فقیر کو تو سمجھ آگئی تھی، لیکن علماء کو سمجھ نہیں آتی.کہتے ہیں کہ جس کمرے میں حضور سوئے ہوئے تھے اس کے ساتھ کے کمرے میں میں اور میر ابھائی تاج الدین سوئے ہوئے تھے.چونکہ وہ بیمار تھے اور ساری رات کھانستے رہے اس لئے صبح حضور نے ان سے پوچھا کہ کون بیمار تھا، کھانس رہا تھا؟ کہتے ہیں وہیں ہم حضور کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب نے عرض کیا کہ حضور میر اخون بدن میں سے ٹپک رہا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ یہ کابل میں آبپاشی کا کام کرے گا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 10 (غیر مطبوعہ ) روایت میاں فیروز الدین صاحب صفحہ 129 تا 132) یہ رجسٹر روایات میں سے ایک روایت ہے.پھر ایک روایت ہے حضرت عمر دین حجام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی.یہ گجرات کے رہنے والے تھے اور انہوں نے تحریری بیعت 1899ء میں کی اور دستی بیعت 1900ء میں.کہتے ہیں کہ ”غیر احمدی کہتے تھے کہ تم مرزائی ہو جاؤ گے.لیکن جب میں اس جماعت کی طرف آتا تھا تو یہ لوگ قرآنِ شریف اور نماز وغیرہ پڑھتے تھے.مجھے اس کی سمجھ نہ آتی تھی.مگر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا مانگی کہ اے میرے مولا کریم! اگر یہ تیری طرف سے ہے تو مجھے اس کا دیدار نصیب ہو تا کہ میں اس کو مان لوں اور پیچھے نہ رہ جاؤں.اور اگر یہ نعوذ باللہ سچا نہیں ہے تو تیری اور تیرے رسول کی اور تمام دنیا کی اس پر لعنت ہو کہ کیوں اس نے جھوٹا دعویٰ کیا ہے اور لوگوں کو گمراہ

Page 384

369 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کرتا ہے.اسی رات صبح کاذب کے وقت حضرت مسیح موعود ہاتھ میں چھڑی لئے ہوئے کھڑے دیکھ رہے تھے اور میں نے ان کا اچھی طرح دیدار کر لیا اور انہوں نے نیچی نظر کر لی.حضور کی ریش مبارک کو مہندی لگی ہوئی ہے دل بہت خوش ہوا.( یہ خواب دیکھا تھا، خواب کا قصہ سنارہے ہیں ).دل میں کہتا ہوں کہ یہ تو نبی کریم صلی للہ کم ہیں کہ آج تک میں نے ایسا انسان نہیں دیکھا.آخر معلوم ہوا کہ میں جو رات کو دعامانگ کر سویا تھا یہ اس کا نتیجہ ہے اور میری دعا قبول فرمائی گئی ہے.اس جگہ (یعنی قادیان) میں 1900ء میں آیا تھا اور آکر مسجد اقصیٰ میں بیٹھ کر میں نے دعا کی کہ یا اللہ ! اگر یہ شخص وہی ہے جو میری خواب والا ہوا، کہ جو کہ تو نے مجھ کو خواب میں افریقہ میں دکھایا تھا تو پھر میں اس کی بیعت کرلوں گا.اگر وہ نہ نکلا تو میں اس کی بیعت بھی نہیں کروں گا اور نہ نماز اس کے ساتھ پڑھوں گا، اور نہ ہی کھانا کھاؤں گا اور فوراوا پس چلا جاؤں گا.یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود اس مسجد میں تشریف لے آئے.اور میں نے دیکھ کر کہا کہ یہ تو بالکل وہی شخص ہے جس کو میں نے افریقہ کے ملک میں خواب میں دیکھا تھا.حضور کو شناخت کرنے کے بعد ہفتہ کو بیعت کی اور اجازت لے کر تیار ہو گیا.تو حضور نے فرمایا کہ کم از کم حق کو شناخت کرنے کے لئے پندرہ دن یہاں اور ٹھہر و.میں نے عرض کی کہ حضور میرے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھ کو توفیق بخشے کہ میں ہمیشہ آپ کی زیارت کرنے کے لئے حاضر ہو تار ہوں.پھر حضور نے فرمایا کہ اگر بندے پر کوئی ایسا وقت آجاوے کہ یہاں پہنچنے کی طاقت نہ ہو تو پھر خط ضرور لکھتے رہا کریں.میرے خطوط کا حضور نے جو جواب دیاوہ میرے پاس خط موجود ہے." 66 (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 5 (غیر مطبوعہ ) صفحه 33-32) حضرت صوفی نبی بخش صاحب ولد میاں عبد الصمد صاحب سکنہ شہر راولپنڈی محلہ میاں قطب الدین حال دارالبرکات قادیان.( جن سے روایت نوٹ کی ہے انہوں نے بتایا تھا).ان کی بیعت 27 دسمبر 1891ء کی ہے.اور انہوں نے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شاید 1886ء میں دیکھا تھا.اب یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ”خاکسار کو اکتوبر 1886ء میں پہلے پہل قادیان میں آنے کا اتفاق ہوا.وجہ اس کی یہ ہوئی کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار بدیں مضمون شائع کیا کہ ایک لڑکا انہیں عطا کیا جاوے گا جو بہت سے قوموں کی برکت کا باعث ہو گا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف لیکھرام پشاوری نے بھی ایک اشتہار شائع کیا.اس امر کی تحقیقات کے ضمن میں مجھے بھی قادیان آنانصیب ہوا.اس کے بعد ایک عرصہ گزرنے پر آپ نے فتح اسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام تین رسالے یکے بعد دیگرے شائع کئے جن میں یہ ثابت کیا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ و السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ بذات خود پھر دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے.اور

Page 385

370 خطبات مسرور جلد هشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 حدیث نزول ابنِ مریم اصلی معنوں میں مجھ پر چسپاں ہوتی ہے اور میں ہی اس کا مصداق ہوں.اس مسئلے نے دنیا میں ایک تغیر عظیم پیدا کیا.اور ہر طرف سے مولویوں نے کفر کے فتوے شائع کئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور رسالہ موسوم بہ آسمانی فیصلہ شائع کیا جس میں قریباً 80 یا کچھ کم احباب شامل ہوئے.یہ پہلا جلسہ ہے جو قادیان میں ہوا.حضور کا منشاء یہ تھا کہ آپ کو منہاج نبوۃ پر آزمایا جاوے کہ از روئے قرآن مومن کون ہے اور کافر کون ؟ پھر لکھتے ہیں کہ خاکسار کو بھی اس جلسے میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا گیا.میں اس زمانے میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا مہتمم کتب خانہ تھا اور آنریری طور پر اپنی ملازمت کے اوقات کے علاوہ وہ خدمت جو حمایت اسلام کی تھی دینی خدمت سمجھ کر سر انجام دیتا تھا.کہتے ہیں جب میں قادیان پہنچا تو میرے ساتھ انجمن حمایت کے بہت سے کارکن جن میں سے حاجی شمس الدین سیکرٹری اور معزز احباب بھی شامل تھے.اس جلسے میں آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا.جہاں تک مجھے یاد ہے یہ رسالہ آسمانی فیصلہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے پڑھ کر سنایا.لکھتے ہیں کہ جلسہ بڑی مسجد میں جو آج کل مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہے منعقد ہوا.سب سے اخیر حضرت مسیح موعود تشریف لائے.کہتے ہیں جس وقت حضور مسجد میں تشریف لائے اور میری نظر حضور کے چہرہ مبارک پر پڑی تو میں نے حضور کو پہچان لیا اور فوراً بجلی کی طرح میرے دل میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ یہ وہ مبارک وجو د ہے جس کو میں نے ایام طالبعلمی یعنی ستمبر 1882ء کو خواب میں دیکھا تھا.حضرت صاحب نے اس دن وہ لباس پہنا ہوا تھا جس لباس میں وہ مجھے خواب میں ملے تھے.کہتے ہیں جب جلسہ ختم ہوا تو حضور مسجد اقصیٰ کے دروازے کے قریب کھڑے ہو گئے اور ہر ایک ان سے مصافحہ کرتا اور رخصت ہو تا.سب سے اخیر میں، آخر میں نے مصافحہ کیا کیونکہ میرے دل میں کچھ خاص بات عرض کرنی مقصود تھی.میں نے عرض کیا کہ میں نے پہلے ایک کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے میرے لئے کیا حکم ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ اگر وہ شخص نیک ہے تو آپ کی بیعت نور علی نُور ہو گی.اور اگر وہ نیک نہیں ہے تو اس کی بیعت فسخ ہو جائے گی اور ہماری بیعت رہ جائے گی.میں نے عرض کیا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ ہم خود تمہیں بلالیں گے.اس کے تھوڑی دیر بعد حضور کا خادم حامد علی صاحب مرحوم مجھے بلا کر لے گئے اور میں نے آپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی.فالحمد للہ علی ذالک.بیعت (ماخوذر جسٹر روایات (غیر مطبوعہ ) صحابہ نمبر 5 صفحہ 41 تا 43) ایک روایت ہے حضرت نظام دین ٹیلر ماسٹر صاحب کی، جو جہلم محلہ ملاحاں کے رہنے والے تھے.ان کی 1902ء کی ہے.کہتے ہیں کہ میں حیران ہوں کہ یہ نعمت عظمی یعنی احمدیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے نصیب ہوئی.میں سچ کہتا ہوں کہ جس حالت میں میں تھا، اگر کئی برس بھی اسی حالت میں رہتا تو شاید احمدیت کے نزدیک بھی نہ آتا.مگر میرے پیدا کرنے والے نے مجھ پر اتنا احسان کیا کہ وہ راستہ جو برسوں میں مجھ سے طے نہ

Page 386

371 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہو تا اس نے اپنے فضل سے ایک رات میں احسان کر کے مجھ کو طے کر دیا.اور وہ اس طرح کہ اپنے مولویوں کے مطابق میں ہمیشہ احمدیوں سے جب گفتگو کرتا تو مجھے ہمیشہ یقین ہو تا کہ ہمارے مولوی دین کے ستون ہیں اور ہمیں شرک ، بدعت سے بچانے کے لئے محض اللہ پوری کوشش کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ ہم اہلحدیث اپنے آپ کو متقی اور ہر ایک حرام اور جھوٹ سے پر ہیز کرنے والا خیال کرتے تھے.ایک دفعہ مارچ کا مہینہ تھا، غالب 1902ء کا ذکر ہے ، ہم چند اہلحدیث جہلم سے لاہور بدیں غرض روانہ ہوئے کہ چل کر انجمن حمایت اسلام لاہور کا جلسہ دیکھیں جو سال کے سال ہوا کرتا تھا.ہم لاہور پہنچ کر جلسہ گاہ جارہے تھے کہ پنڈال کے باہر دیوار کے ساتھ ایک مولوی صاحب کھڑے ہوئے وعظ فرما رہے تھے.ایک ہاتھ میں قرآنِ مجید تھا، دوسرے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات بانٹ رہے تھے.اور منہ سے یہ کہتے جاتے تھے کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہو گیا ہے اس لئے کہ نبیوں کی ہتک کر تا تھا اور خود کو عیسیٰ کہتا تھا اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہی الفاظ مذکورہ بالا دہر ا تا جاتا تھا.ہم سن کر حیران ہو گئے اور اپنے دل میں کبھی وہم بھی نہ گزرا تھا کہ کوئی شخص اس قدر بھی جرآت کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جھوٹ بولتا ہے اور قرآنِ مجید اٹھا کر جھوٹ بولتا ہے.(وہ مولوی جو اس وقت بولتا تھا وہ آج بھی بولتا ہے، ایک ہی قسم ہے ان کی.بہر حال کہتے ہیں تین آدمی تھے ، میں نے اس سے اشتہار لے لیا اور پڑھنے لگے.اس پر بھی یہی مضمون تھا کہ نعوذ باللہ مرزا کوڑھی ہو گیا ہے ، نبیوں کی ہتک عزت کرتا تھا وغیرہ وغیرہ.میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ چلو قادیان چلیں اور مرزا صاحب کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے شہر کے مرزائیوں کو کہیں گے جو ہر روز ہمارے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں اور جو اعتراض ہمارے علماء کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ تمہارے چودھویں صدی کے علماء جھوٹ بولتے ہیں.ہمارا بیان تو چشمدیدہ ہو گا، ہم ان کو ( یعنی احمدیوں کو خوب جھوٹا کریں گے.پہلے تو انہوں نے انکار کیا مگر میرے اصرار پر تیار ہو گئے.ہم تینوں لاہور سے سوار ہو کر بٹالہ اترے.بٹالہ سے ایک روپیہ کو یگہ لیا اور شام اور عصر کے درمیان قادیان مہمان خانے میں پہنچ گئے.شام کا وقت تھا، یعنی مغرب کی نماز کا وقت قریب ہی تھا.میں نے کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب جہاں نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ ہم کو بتاؤ کہ ہم ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو دیکھنا چاہتے ہیں.ایک شخص شاید وہی تھا جس سے ہم نے پوچھا تھا، میرے ساتھ ہو لیا اور وہ جگہ بتائی جہاں حضور کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے تھے.چونکہ وقت قریب ہی تھا میں وہیں بیٹھ گیا جہاں حضور نے میرے ساتھ داہنے ہاتھ آکر کھڑا ہونا تھا.باقی دونوں دوست میرے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھ گئے.یہ مسجد حضور کے گھر کے ساتھ ہی تھی جس کو اب مسجد مبارک کہتے ہیں.یہ اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ بمشکل اس میں چھ یا سات صفیں لمبائی میں کھڑی ہو سکتی ہوں گی.اور ایک صف میں قریباً چھ آدمیوں سے زیادہ نہیں کھڑے ہو سکتے ہوں گے.چند منٹ کے بعد مغرب کی اذان ہوئی تو شاید دو تین منٹ کے بعد حضرت

Page 387

372 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اقدس تشریف لے آئے.ہمارے قریب ہی دروازہ تھا، اس میں سے حضور نکل کر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے.جناب مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم آگے کھڑے ہو گئے.موذن نے تکبیر شروع کر دی.تکبیر کے ختم ہونے تک میں نے حضور کے پاؤں سے لے کر سر تک سب اعضاء کو دیکھا حتی کے سر مبارک کے بالوں اور ریش مبارک کے بالوں پر بھی جب میری نگاہ پڑی تو میرے دل کی کیفیت اور ہو گئی.میں نے دل میں کہا کہ الہی اس شکل اور صورت کا انسان میں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا.بال کیا تھے جیسے سونے کی تاریں تھیں.اور آنکھیں خوابیدہ، گویا ایک مکمل حیا کا نمونہ پیش کر رہی تھیں.ہاتھ اور پیروں کی خوبصورتی دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی.اسی عالم میں محو تھا کہ الہی ! یہ وہی انسان ہے کہ جس کو ہمارے مولوی جھوٹا اور نبیوں کی ہتک کرنے والا بتاتے ہیں ؟ میں اسی خیال میں غرق تھا کہ امام نے اللہ اکبر کہا اور نماز شروع ہو گئی.گو میں نماز میں تھا مگر جب تک سلام پھیر امیں اس حیرانی میں رہا کہ الہی وہ ہمارا مولوی جس کی داڑھی بڑھی ہوئی اور شرعی طور پر لبیں تراشی ہوئیں قرآنِ مجید کو ہاتھ میں لئے ہوئے قسمیں کھا رہا ہے اور سخت توہین آمیز الفاظ میں حضور کا نام لے لے کر کہہ رہا ہے کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہو گیا.اسی خیال نے میرے دل پر شبہ اور شکوک کا دریا پیدا کر دیا.کبھی تو دل کہتا کہ قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسم کھا کر بیان کرنے والا بھلا کبھی جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ یعنی مولوی جھوٹا نہیں ہو سکتا.شاید یہ شخص جو نماز میں کھڑا کیا ہے مرزا نہ ہو کوئی اور ہو، نئے آدمیوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے.اور پھر حضور کی صاف اور سادہ نورانی شکل سامنے آتی تو دل کہتا کہ کہیں وہ قسم اٹھانے والا دشمنی کی وجہ سے جھوٹ نہ بول رہا ہو ؟ کہ لوگ سن کر قادیان کی طرف نہ جائیں.خیر نماز ہو گئی، حضور شاہ نشین پر بیٹھ گئے.اول تو آواز دی کہ مفتی صاحب ہیں تو آگے آجاویں.جب مفتی صاحب آگئے تو پھر حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں ؟ میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب، حضرت خلیفتہ المسیح الاول نور الدین صاحب، سب سے آخری صف میں سے اٹھ کر تشریف لائے.حضور نے باتیں شروع کر دیں جو طاعون کے بارے میں تھیں.فرمایا ہم نے پہلے ہی لوگوں کو بتادیا تھا کہ میں نے فرشتوں کو پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگاتے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو آئندہ موسم میں پنجاب میں ظاہر ہونے والی ہے.مگر لوگوں نے اس پر تمسخر کیا اور کہا کہ طاعون ہمیشہ سمندر کے کناروں تک رہتی ہے.اندر ملک میں وہ کبھی نہیں آئی.مگر اب دیکھو کہ وہ پنجاب کے بعض شہروں میں پھوٹ پڑی ہے.غرض عشاء تک حضور باتیں کرتے رہے.عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے.ہم بھی آکر سورہے.آپس میں باتیں کرتے رہے کہ یہ کیا بھید ہے ؟ ہمارا مولوی قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسمیں کھا کر کہتا تھا اور یہاں معاملہ برعکس نکلا.خیر صبح ہم لوگ اٹھے اور ارادہ یہ ہوا کہ مولوی نور الدین صاحب سچ بولیں گے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں یا کوئی اور ؟ جب ان کے مطب میں گئے تو

Page 388

373 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ایک مولوی صاحب نے خلیفہ اول کے سامنے اعتراض پیش کیا کہ مولوی صاحب! پہلے جتنے نبی ولی گزرے ہیں وہ تو کئی کئی فاقوں کے بعد بالکل سادہ غذا کھاتے تھے اور مرزا صاحب سنا ہے کہ پلاؤ اور زردہ بھی کھاتے ہیں؟ مولوی صاحب نے ان کو جوابا کہا کہ مولوی صاحب! میں نے قرآن مجید میں زردہ اور پلاؤ حلال ہی پڑھا ہے.اگر آپ نے کہیں دیکھا ہے کہ حرام ہے تو بتا ئیں.اور اس مولوی نے تھوڑی دیر سکوت جو کیا تو میں نے جھٹ وہ اشتہار نکال کر مولوی نورالدین صاحب کے آگے رکھا کہ ایک ہمارا مولوی قسم بھی قرآن اٹھا کر کھاتا تھا کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہوئے ہیں اور ہم کو جو بتایا گیا ہے کہ یہی مرزا صاحب ہیں ، وہ تو تندرست ہیں.آپ بتائیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں جن کو ہم نے نماز میں دیکھا ہے یا کوئی اور.مولوی صاحب نے جھٹ جیب میں ہاتھ ڈال کر وہی اشتہار نکال کر بتلایا کہ دیکھو ہم کو تمہارے مولویوں نے یہ اشتہار روانہ کیا ہے.اب یہ مرزا ہے اور وہ تمہارے مولوی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بولا.جس کو چاہو سچا مان لو.تو مولویوں کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے.لیکن آج کل پاکستان میں مولویوں کے ساتھ میڈیا بھی شامل ہو گیا ہے.اور اس کے بعض پروگراموں کے اینکر جو ہیں وہ بھی مولویوں کے رول ادا کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں.جھوٹ اور سچ کی کوئی پہچان نہیں رہی اس ملک میں.بہر حال کہتے ہیں بس پھر کیا تھا میرے آنسو نکل گئے.میں نے دل میں کہا کہ کمبخت اب بھی تو بیعت نہ کرے گا؟ واقعی یہ مولوی زمانے کے دجال ہیں.ہم تینوں نے ظہر کے وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم کو بیعت میں لے لیں.حضور نے کہا جلدی مت کرو، کچھ دن ٹھہر و.ایسا نہ ہو کہ پھر مولوی تم کو پھسلاویں.اور تم زیادہ گنہگار ہو جاؤ.میں نے رورو کر عرض کی کہ حضور! میں تو اب کبھی پھسلنے کا نہیں.خیر دوسرے روز ہم تینوں نے بیعت کر لی.اور گھر واپس آگئے.پھر لکھتے ہیں کہ افسوس آگے مخالفت کی وجہ سے ہمارا جو حال ہوا اگر جگہ ہوتی تو اور بھی لکھتا مگر جگہ نہیں اس لئے بند کر تا ہوں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) نمبر 5 صفحہ 45 تا 49) تو یہ کہتے ہیں میرے پر احسان اس مولوی صاحب نے کیا جو قرآن اٹھا کر جھوٹی قسمیں کھا رہا تھا.اس کی وجہ سے مجھے شوق پید ا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنے کا، اور حقیقت معلوم کرنے کا اور یہ میری احمدیت کی وجہ بنی.تحصیل ایک روایت ہے حضرت میاں عبدالعزیز صاحب ولد میاں امام دین صاحب سکنہ اوجلہ گورداسپور کی.انہوں نے 1893ء میں بیعت کی.لکھتے ہیں کہ جب 1891ء میں میری تبدیلی حلقہ سیکھواں پر ہوئی اور میاں جمال دین صاحب اور میاں امام دین صاحب اور میاں خیر دین صاحب سے واقفیت ہوئی تو انہوں نے

Page 389

374 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کا ذکر کیا.تو چونکہ میرے دل میں حضور کی نسبت کوئی بغض اور عداوت نہ تھی، میں نے ان کے کہنے کو برا نہ منایا.صرف یہ خیال آیا کہ مولوی لوگ کیوں ایسا کہتے ہیں ؟ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ خاکسار کے آباؤ اجداد اکثر مولوی لوگوں سے بوجہ اپنے دیندار ہونے کے محبت رکھا کرتے تھے.اور یہی وجہ خاکسار کی بھی مولویوں سے محبت کی تھی.کہتے ہیں انہوں نے مجھ کو جب کتاب البریہ ، ازالہ اوہام دیکھنے کو دی تو میں نے کتاب دیکھنے سے پہلے دعا کی کہ خداوندا میں بالکل نادان اور بے علم ہوں میرے علم میں جو حق ہے اس پر میرے دل کو قائم کر دے.یہ دعا ایسی جلد قبول ہوئی کہ جب میں نے ازالہ اوہام کو پڑھنا شروع کیا تو اس قدر دل کو اطمینان اور تسلی شروع ہوئی کہ حضور کی صداقت میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا اور زیادہ سے زیادہ ایمان بڑھتا گیا.اور جب پھر میں پہلی بار قادیان میں حضور کی زیارت کو میاں خیر دین صاحب کے ساتھ آیا اور حضور کی زیارت کی تو میرے دل نے ایسی اطمینان اور تسلی بخش شہادت دی کہ یہ شکل جھوٹ بولنے والی اور فریب والی نظر نہیں آتی.چنانچہ اس وقت میں نے میاں خیر دین صاحب کو کہا کہ اول تو میں نے حضور کی نسبت کوئی لفظ بے ادبی اور گستاخی کا کبھی نہیں کہا.اور اگر خدانخواستہ کبھی ایسا ہو گیا ہو تو میں تو بہ کرتاہوں.یہ شکل جھوٹ بولنے والی نہیں.مجھے یقین ہے کہ میاں خیر دین صاحب کو یاد ہو گا اور اس وقت بھی شہادت دے سکتے ہیں.پھر لکھتے ہیں کہ پھر مہر ساون صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اب بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں وہ سیکھواں کے رہنے والے معزز زمیندار تھے.ان کی میرے ساتھ محبت ہو گئی اور میرے عقیدہ کے ساتھ ان کو بھی اتفاق ہو گیا.اگر چہ وہ پہلے میاں جمال دین امام دین صاحبان سے بوجہ ان کے دو خیال ہونے کے اختلاف رکھا کرتے تھے ، پھر ان کا عقیدہ اور خیال ہمارے ساتھ ہی ہو گیا.اور 1892ء میں خاکسار اور مہر صاحب موصوف نے ایک ہی وقت میں بیعت کی ( یہاں 92ء لکھا ہے اور یہ میر اخیال ہے 93ء کا قصہ ہے.) اور ہم ہنسا کرتے تھے کہ میں اور مہر صاحب جوڑے ہیں.(میری اور مہر صاحب موصوف کی روحانی پیدائش ایک ہی وقت کی ہے.کہتے ہیں کہ چونکہ میر اپہلا نام بوجہ اس کے کہ میں اپنے نھیال میں پیدا ہوا تھا اور صاحب علم خاندان نہ تھا میر امشرکانہ نام رکھ دیا یعنی میراں بخش.اس کی تبدیلی کی بہت کوشش کرتے رہتے اور مدت تک تبدیل بھی رہا لیکن پورے طرح نام بدلانہ گیا.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نام تبدیل کر کے عبد العزیز رکھا تو میں نے دعا کی کہ خداوند کریم اب تو تیرے مسیح موعود نے نام تبدیل کیا ہے اس کو مستقل طور پر قائم کر دے اور پہلے نام کو ایسا مٹادے کہ وہ کسی کو یاد ہی نہ رہے.چنانچہ دعا قبول ہوئی اور سرکاری کاغذات پٹواری میں اور عام مشہور یہی نام ہے.پہلے نام کو کوئی نہیں جانتا.اس وقت تک جب تک نام تبدیل نہیں ہوا باوجو د جلسوں وغیرہ میں شامل رہنے کے سلسلہ کے کسی کاغذ میں پہلا نام نہیں آیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) نمبر 5 صفحہ 70-69)

Page 390

375 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم حضرت شیخ اللہ بخش صاحب سکنہ بنوں صوبہ سرحد، بیعت 1905ء کی ہے.لکھتے ہیں کہ بچپن میں مجھے کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی گئی اور چھوٹی عمر میں ہی سکول میں داخل کر دیا گیا تھا لیکن جب اینز، میس میں پہنچا اور اس وقت میں عمر کے ستارویں (17 ویں) سال میں تھا تو قدر تأمیرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ اپنے مذہب کے متعلق واقفیت حاصل کروں.چنانچہ میں نے ایک گلاں سے قرآن شریف پڑھنے کے بعد خود بخود مترجم قرآن شریف کا مطالعہ شروع کیا.اسی دوران میں نامعلوم کس طرح کسی عیسائی کی ایک کتاب جس میں کسی مصری مولوی کے ساتھ مباحثہ کی صورت میں اعتراضات و جوابات درج تھے وہ میری نظر سے گزرے جس کے پڑھنے سے مجھے سخت دکھ ہوا کیونکہ اس میں ہر لحاظ مجھے حضرت عیسی کا درجہ رسول کریم صلی ا ہم سے افضل نظر آنے لگا اور دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہوئے.مگر کچھ شرم اور کچھ اپنی بیو قوفی کے باعث اس کا ذکر نہ ہی اپنے والد صاحب کے ساتھ کر سکا اور نہ ہی کسی مولوی کے ساتھ اور اس خلش کو دل ہی دل میں لئے رہا.یہاں تک کہ 1905ء کے آخری مہینوں میں جب میں وانوں میں ملازم تھا مجھے ڈاکٹر علم الدین صاحب گجراتی سے بدر اخبار کے کچھ پرچے دیکھنے اور حضرت مسیح کی وفات کے دلائل سننے کا اتفاق ہوا اور جوں ہی مسیح کی وفات مجھ پر ثابت ہو گئی میں نے خدا کا شکر کیا اور بغیر کسی مزید توقف کے فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.اس کا علم ہونے پر والد صاحب نے کچھ ناراضگی اور افسوس کا خط لکھا جس پر ان کو ان کی وہ دعا یاد کرائی گئی جو انہوں نے میری پیدائش سے پہلے کی تھی اور جس کا ذکر میرے والد صاحب چند بار گھر میں اس طرح کر چکے تھے کہ جب پہلے بچہ کی یدائش کے بعد بارہ سال تک ہمارے ہاں کوئی بچہ نہ ہو ا تو ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور بڑی خشوع و خضوع کے ساتھ ان الفاظ میں دعا کی کہ ”اے ارحم الراحمین اور وہاب خدا جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بڑھاپے میں آواز سنی اور اس کو اولاد دی میری فریاد بھی سن اور اولاد نرینہ عطا فرما.یہ ان کے والد صاحب نے دعا کی.کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب کو ان کی یہ دعا یاد کرواتے ہوئے لکھا کہ آپ کی دعا کی حقیقی قبولیت اب ہوئی ہے جبکہ خدا نے اپنے فضل سے مجھے ہلاکت کے گڑھے سے نجات بخش کر اپنے مامور کی غلامی کا شرف بخشا ہے.لکھتے ہیں کہ غالباً 1906ء کے اپریل میں میری تبدیلی اس جگہ سے اپنے وطن مالوف بنوں میں ہوئی اور اپنی نوکری پر حاضر ہونے سے قبل میں نے قادیان شریف میں حاضر ہو کر مسجد مبارک میں حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.بیعت کے وقت کا نقشہ اور اپنے دل کی کیفیت مختصر الفاظ میں اس طرح پیش کرتاہوں کہ ایک آزاد خیال اور لا مذہب نوجوان اپنے نفس امارہ کی تمام امنگوں اور سرکشیوں کے خلاف جنگ پر آمادہ ہو کر مامور وقت کے دروازہ پر استمداد کے واسطے حاضر ہے اور اس کے انتظار میں اس کی آنکھیں بے قرار ایک چھوٹی سی کھٹر کی پر پیوست ہیں.(وہ کھڑی جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لایا کرتے تھے.) مسجد میں بہت تھوڑے آدمی ہیں

Page 391

376 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اور سب مؤدب اسی پاک ہستی کی انتظار میں خاموش ہیں کہ اتنے میں اسی کھڑکی میں سے ایک مقدس، وجیہ اور پر شکوہ و جلال پیر مرد مسجد میں داخل ہوتا ہے.اور ادھر اس نوجوان پر لرزہ طاری ہو کر آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی جاری ہو جاتی ہے.لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیوں؟ صرف اس قدر ہوش ہے کہ حضور کا اس کھڑ کی سے ورود بعینہ ایسا معلوم ہو تا تھا کہ بدر کامل اندھیری رات میں نمودار ہو گیا جس سے سب تاریکی دور ہو گئی اور حاضرین کے چہروں پر انبساط کی لہریں دوڑنے لگیں.اس موقع پر اکبر شاہ خان نے اپنے کچھ شعر بھی حضور کی تعریف میں سنائے جن کو حضور نے پسند فرمایا تھا.بیعت کے بعد دوسرے دن میں واپس ہو گیا کیونکہ حاضری کے تھوڑے دن تھے.پھر 1907ء کے موسم میں یعنی موسم گرما میں جب والد صاحب امر تسر آئے اور بیمار تھے تو ان کو قادیان لایا اور حضور کے ساتھ تعارف کروا کر ان کی صحت کے واسطے عرض کی گئی.یہ بھی کوشش تھی کہ وہ بیعت کر لیں گے لیکن افسوس کہ والد صاحب بزگوار اس نعمت سے محروم رہے.حضور نے دعا فرمائی اور مولوی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح اول سے نسخہ لینے کی بھی ہدایت فرمائی.چنانچہ نسخہ لینے کے بعد ہم واپس امر تسر چلے گئے.حضرت خلیفہ المسیح اول نے بھی والد صاحب کو تسلی دینے کی غرض سے اپنے بچوں کی فوتیدگی کے حالات سنائے لیکن چونکہ والد صاحب کا دل اپنی لمبی بیماریوں کے باعث بہت ہی کمزور ہو چکا تھا ان کے آنسو جاری رہے.ان کو میرے پہلے بچہ کی مرگ کا سخت صدمہ تھا.( اس کی وجہ سے افسوس کرتے رہتے تھے.) لکھتے ہیں کہ افسوس کہ مجھے حضرت جری اللہ کا دیکھنا پھر نصیب نہ ہوا.اور مجھ پر وہ دن سخت تلخ تھا جبکہ حضور کے وصال کی خبر بدر اخبار کے ذریعہ مجھے بنوں میں ہوئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات (غیر مطبوعہ ) نمبر 5 صفحہ 9694 حضرت محمد حسین خان ٹیلر ابن مکرم خدا بخش صاحب سکنہ گوجرانوالہ ، بیعت 1897ء.یہ لکھتے ہیں کہ مجھے بچپن میں کشتی دیکھنے کا بہت شوق تھا.ایک دن میں کشتی دیکھ کر آیا تو خواجے وہاں کوئی رہتے تھے.وہاں کسی خواجے کے گھر کوئی مہمان لاڑکانہ سے آیا تھا.اس سے وہ دریافت کر رہے تھے کہ لاڑکانہ کے حالات سناؤ.تو اس نے کہا کہ میں نے ایک نئی بات سنی ہے کہ ہمارے لاڑکانہ میں ایک مولوی نے تقریر کی ہے.تقریر میں اسی مولوی نے کہا زیادہ تعلیم پڑھنے سے بھی آدمی کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور اس نے کہا کہ قادیان میں ایک مرزا ہے جو فرماتا ہے کہ میں خدا ہوں.میں نے کہا کہ مولوی صاحب نے کسی کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے یا یو نہی زبانی کہا ہے.تو اس نے کہا کہ براہین احمدیہ کا حوالہ دیتا تھا کہ اس میں لکھا ہے.تو میں نے وہاں سکھر میں ایک احمدی تلاش کیا اس کا نام محمد حیات تھا.وہ چنیوٹ کا رہنے والا تھا.اس سے میں نے جا کر دریافت کیا کہ تمہارے پاس براہین احمدیہ ہے ؟ تو اس نے کہا کہ ہے.تو میں نے اسے کہا کہ ذرا کھول کر دکھائیں کہ جہاں حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں خدا ہوں.

Page 392

377 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم یہ احمدی نہیں ہوئے تھے اس وقت تک.جب انہوں نے کتاب کھول کر دیکھی تو اس میں لکھا ہوا تھا.خدا میرے میں ہے اور میں خدا میں ہوں.میں نے یہ بات کتاب میں سے جا کر شیخ صاحب کو دکھائی اور زبانی میں نے کہا کہ یہ بات تو معمولی سی ہے.جو آدمی شیطانی خیالات کا ہوتا ہے اسے تو ہمارے ملک میں مجسم شیطان بھی کہہ دیا کرتے ہیں.تو جو ر حمانی خیالات کا انسان ہے تو اس آدمی میں اگر رحمانی خیالات کی باتیں پائیں جائیں تو یہ کیا بڑی بات ہے ؟ تو وہ مجھے جواب میں کہتا ہے کہ لو بھائی یہ بھی مرزائی ہو گیا ہے.تو میں نے ان کو جواب میں کہا کہ شیخ صاحب مرزائی تو بہت اچھی چیز ہے.کہتے ہیں کہ مرزائی تو ہمارے ہاں روئی دار واسکٹ کو کہتے ہیں.اگر کسی کو نمونیہ ہو جائے تو اس کے گلے میں ڈال دینے سے آرام آجاتا ہے.بہر حال وہ سب میرے پہ ہنستے رہے اور کہنے لگے لو بھائی یہ مرزائی ہو گیا.اسی طرح آج کل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں سے توڑ مروڑ کر حوالے پیش کئے جاتے ہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے، جیسا کہ میں نے کہا اس میں جہاں نام نہاد علماء کا ہاتھ ہے، وہاں ٹی وی چینلز کا اور میڈیا کا بھی ہاتھ ہے.پڑھنے ہی نہیں دیتے اصل کتابیں.اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں اپنی دوکان پر چلا گیا.اس دن کے بعد رات کو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ امام مہدی آخر الزمان جو آنے والا تھا وہ آگیا ہے.تو میں نے پوچھا کہ کس جگہ میں.اس آدمی نے کہا کہ یہاں سے 25 کوس کے فاصلے پر ہیں.اپنا خواب کا قصہ سنارہے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کس جگہ پر مہدی آیا ہے؟ اس آدمی نے کہا کہ یہاں سے 25 کوس کے فاصلے پر ہیں ، جنوب کی طرف.تو میں اس آدمی کے کہنے پر جنوب کی طرف خواب میں روانہ ہو گیا.تو آگے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت امام مہدی گھوڑے پر سوار ہیں اور ان کے ساتھ دوسو سوار اور ہیں اور وہ آرہے ہیں.تو میں نے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لو.تو میں نے حضور کی بیعت کر لی اور حضور کے ساتھ روانہ ہو گیا اور حضور لاہور جاکر ٹھہرے اور میں نے عرض کیا کہ حضور آپ مجھے رکھ لیں.حضور نے فرمایا کہ جو دین سے قطع تعلق کر دیتا ہے اسے دین سے کچھ نہیں ملتا.دنیا میں رہ کر انسان کو دین حاصل کرنا چاہئے.تو میں نے کہا یہاں نزدیک ہی شہر گوجر انوالہ ہے.میں وہاں جا کر اپنی والدہ کو مل آؤں.مجھے حضور نے اجازت دیدی.پھر میں گوجرانوالہ گیا تو گوجرانوالہ میں اپنے مکان کی سیڑھی میں میں کہہ رہا ہوں کہ آخر الزمان امام مہدی آگیا ہے.جس نے بیعت کرنی ہو یا زیارت کرنی ہو لاہور میں تشریف لے جائے.پھر اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.کیا دیکھتا ہوں کہ سکھر میں ہوں.سکھر میں خواب دیکھی تھی.دوسرے دن پھر خواب میں دیکھا کہ سکھر میں اپنی دوکان میں ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آسمان کی طرف کسی بلندی پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور ایک آدمی کو فرمایا کہ یہاں ہمارا ایک غلام رہتا ہے اس کا سر لے آؤ.جب اس آدمی نے مجھے آکر کہا تو میں نے اسے اپنا سر دونوں کانوں سے پکڑ کر دے دیا.تھوڑی دیر کے بعد حضور نے فرما یاسر اس کے

Page 393

378 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ساتھ لگا دو اور یہ میرے خزانے سے بھی اس کو دے دو.اس نے آکر سر لگا دیا.میں کلمہ پڑھ کر اٹھ کھڑا ہوا.اور میں نے کہا کہ جو کچھ حضور نے مجھے دیا ہے دے دو.اس نے دینے سے انکار کر دیا.( یہ خواب کا ہی قصہ سنارہے ہیں.اسی اثناء میں تمام رات گزر گئی.صبح ہو گئی اور میں اٹھ بیٹھا.پھر تیسرے دن رات دس گیارہ بجے کے قریب مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میر ابدن کسی چیز سے دبایا گیا ہے اور مجھے یہ نہیں معلوم ہو تا کہ میں سویا ہوا ہوں کہ میں جاگتا ہوں.اتنے میں حضرت امام مہدی علیہ السلام میرے پاس آگئے اور فرمایا کہ کیا ہوا اگر اس نے نہیں دیا.ہمارے پاس بہت ہے.آپ ہاتھ باہر نکالیں.میں نے ہاتھ باہر نکالا تو حضور نے میرے ہاتھ پر رکھ دیا.میں نے منہ میں ڈال لیا.( کوئی چیز جو بھی تھی.گویا کہ میں نے حضور کی بیعت اس طرح پر کی ہے.پھر اس کے بعد میں ایک دفعہ قادیان آیا تو راستہ میں بٹالہ میں رات کے گیارہ بجے اترا تو وہاں کوئی جگہ نہیں تھی ٹھہر نے کی.میں حیرانگی سے مسافر خانے کے بر آمدے میں کھڑا ہو گیا کہ یا اللہ میں اب کہاں جاؤں.لوگ جو گاڑی سے اترے تھے وہ اپنی اپنی جگہ چلے گئے.پھر اس کے بعد ایک آدمی نکلا تو اس نے کہا کہ آپ نے کہاں جانا ہے ؟ ( اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کا انتظام کس طرح کرتا تھا؟ انہوں نے آگے یہ قصہ بیان کیا ہے.) کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں نے جانا تو سکھر تھا لیکن اب میرا یہ ارادہ ہوا ہے کہ میں حضرت امام مہدی آخر الزمان کی زیارت کر کے جاؤں.تو اس نے کہا کہ سکھر میں ایک آدمی بنام حسین بخش ہے آپ اس کو جانتے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ میں اس کو جانتا ہوں.اس نے کہا کہ چلو اس کے مکان پر ٹھہریں صبح آپ چلے جانا.میں اس کے ساتھ چلا گیا تو حسین بخش کے دروازے پر دستک دی تو وہ باہر آیا اور بہت خوشی سے ملا.رات میں اس کے مکان پر ٹھہرا.صبح جب میں وہاں سے اٹھ کر قادیان روانہ ہونے لگا تو اس نے کہا کہ میں آپ کو نہ جانے دوں گا جب تک آپ میرے مکان پر کھانا نہ کھالیں.پھر بازار گیا اور سبزی وغیر ہ لا کر اور پکا کر مجھے روٹی وغیرہ کھلائی.پھر مجھے وہ یکے پر بٹھانے کے واسطے آیا تو تیلی دروازہ کے باہر ایک ٹیکہ کھڑ ا تھا، قادیان جانے کی سواریاں تھیں اس میں بیٹھ گیا.پہلے دو سواریاں اس میں بیٹھی ہوئی تھیں، تیسرا میں بیٹھ گیا.یکے والے نے گھوڑا چلا دیا اس میں سے ایک آدمی تھا جس کی بہت لمبی داڑھی تھی مہندی لگائی ہوئی تھی.اس نے مجھے پوچھا کہ آپ نے کس جگہ جانا ہے.میں نے کہا کہ حضرت امام مہدی کی زیارت کرنے جانا ہے.وہ کہنے لگا پتہ نہیں لوگ یہاں کیوں آتے ہیں.لوگوں کے دماغوں کو کیا ہو گیا ہے.وہ بٹالہ سے قادیان تک یہی باتیں کرتا آیا.میں استغفار اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتا آیا تو قادیان جب اڈے خانہ پر اترے، آگے آگے وہ چلا پیچھے پیچھے میں چل پڑا.مسجد مبارک کے نیچے جہاں لیٹر بکس لگا ہے وہ تو مر زا گل کے احاطہ کی طرف ہو گیا اور ایک آدمی مجھے ملا اور اس نے کہا کہ آپ نے کہاں جانا ہے تو میں نے کہا کہ میں نے حضرت نور الدین صاحب کو ملنا ہے.تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ یہ میرے آگے آگے کون شخص تھا.وہ کہتا ہے کہ یہ مرزا امام دین ہے (جو گالیاں نکال رہے تھے.

Page 394

379 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو).پھر میں حضرت مولوی صاحب کے پاس چلا گیا.ایک ڈاکٹر حسن علی کا رقعہ ہمراہ لایا تھا ( جو پہلے احمدی تھے) وہ دیا.مولوی صاحب نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہاں بیٹھ جائیں.میں وہاں بیٹھ گیا.تھوڑی دیر بعد میرے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ حضرت صاحب مسجد میں آگئے ہیں.تو مسجد مبارک میں داخل ہوئے تو ایک محراب تھا جو کہ چھوٹی سی کو ٹھڑی کی طرح تھا.ایک طرف حضرت امام مہدی بیٹھے تھے اور دوسری طرف حضرت نور الدین صاحب بیٹھ گئے.میرے متعلق حضور سے کہا کہ حضور یہ ڈاکٹر حسن علی کا پھوپھی زاد بھائی ہے اور بیعت کے واسطے آیا ہے.پھر میں نے حضور کی بیعت کی اور میں حضور کو اپنے بچپن کے حالات سناتا رہا اور حضور سنتے رہے.ایک تو میں نے عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی ہے اس کے واسطے دعا کریں کہ وہ احمدی ہو جائیں.میں نے اس کے واسطے اخبار بدر بھی جاری کر دیا ہے.اور جو حضور کی کتب بھی ملتی ہیں وہ بھی اسے دیتا ہوں اور وہ اس کو ہاتھ نہیں لگانا پسند کرتا.کہتا ہے کہ اس میں جادو بھرا ہوا ہے اور جو پڑھتا ہے وہ مرزائی ہو جاتا ہے.حضور دعا فرما دیں کہ وہ سلسلہ حقہ میں داخل ہو جائے.حضور نے فرمایا آپ کے ارادے نیک ہیں.خدا آپ کو بڑی کامیابی دے گا.پھر حضور نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو میری ایک آنکھ خراب تھی اور سرخ ہوئی تھی.حضور نے فرمایا کہ آپ کی یہ آنکھ کب سے خراب ہے.تو میں نے عرض کیا کہ یہ بچپن سے میری آنکھ خراب ہے.ایک دفعہ کوہ مری پہاڑ پر گیا تھا تو مجھے آرام آگیا تھا بعد میں پھر ویسی حالت ہو گئی.حضور نے کہا کہ آپ کا کام کوہ مری میں اچھا چل سکتا ہے.آپ کوہ مری میں کام کیا کریں.میں نے عرض کیا کہ حضور میں اب سکھر میں کام کرتا ہوں.محنتی آدمی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت مشکل ہو جاتا ہے.کیونکہ سکھر اور کوہ مری کا چھ سو یا سات سو میل کا فاصلہ ہے.حضور نے فرمایا کہ آپ کو اللہ شفا دے گا.تو معا مجھے (میری) آنکھ کو بالکل آرام ہو گیا.اس کے بعد جب میں مسجد کے نیچے گیا تو تب مولوی صاحب کے پاس جا بیٹھا تو حضور (مولوی صاحب) نے مجھے اشارہ کہا کہ دوائی ڈلوالیں.تو میں نے عرض کیا کہ اب تو مجھے بالکل آرام آگیا ہے.پھر اس کے کچھ مدت بعد حضور لاہور تشریف لے گئے.اگلی روایت یہ بیان کرتے ہیں.ایک دن حضور کی ملاقات کے لئے ڈپٹی کمشنر اور پولیس کپتان آئے اور انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ملاقات کے واسطے آئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ مجھے زیادہ فرصت نہیں ہے.ایک دومنٹ کے واسطے مل سکتا ہوں.سیڑھی میں کھڑے ہو کر حضور نے ان کی ملاقات کی تو ان افسروں نے کہا کہ رات ہمیں رپورٹ پہنچی ہے کہ رات اینٹیں پڑی ہیں (یعنی کہ کسی نے اینٹیں پھینکی ہیں ) اگر آپ چاہیں تو پولیس کا انتظام کر دیں.حضور نے فرمایا کہ ہماری حفاظت خدا کر رہا ہے.آپ جس طرح مناسب سمجھیں اپنا فرض ادا کریں.اس کے بعد وہ چلے گئے.

Page 395

380 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پھر کہتے ہیں کہ ایک دن حضور دن کے دس بجے آئے گھڑی کا ٹائم ٹھیک کرنے کے واسطے.گھڑی رومال میں بندھی ہوئی تھی.نکال کر وقت ٹھیک کیا پھر اوپر چلے گئے.کہتے ہیں ایک دفعہ پھر میں قادیان آیا، حضور کو ایک آدمی خط سنار ہا تھا.سیالکوٹ سے کسی احمدی کی طرف سے آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ حضور میرے گڑم ( سمدھی جو ہوتے ہیں، بیٹی یا بیٹے کے سسرال والے) کہتے ہیں کہ بارات کے ساتھ باجا بھی لاؤ اور آتشبازی بھی لاؤ.حضور نے فرمایا کہ باجا تو بطور اعلان کے ہے اس کا تو کوئی گناہ نہیں.اور آتش بازی ایک مکر وہ چیز ہے.اس واسطے حضور نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ با جاہم لے آئیں گے اور آتش بازی کے خیال کو آپ چھوڑ دیں.پھر ایک دفعہ بابو محمد رشید کا کچھ مدت بعد احمدیت کی طرف رجحان ہو گیا.کچھ میرے ساتھ تبادلہ خیالات ہوا.اس کے بعد چار آدمی میرے ساتھ بیعت کے واسطے قادیان آنے کو تیار ہو گئے.بابو محمد رشید، مولوی محبوب عالم اور مستری علم دین، چوتھے کا مجھے نام یاد نہیں.میں نے ان چاروں شخصوں کو قادیان لا کر بیعت کر وادی.ایک اور عجیب واقعہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب آیا تو کھڑکی کے راستے حضور جب مسجد میں تشریف لائے تو لوگ استقبال کے واسطے اٹھے.تو ایک پٹھان تھا جو درد نقرس سے بیمار تھا اور دوسوٹوں سے چلتا تھا.اس کے کھڑا ہونے میں کچھ دیر ہو گئی تو حضور جب باہر نکلے تو حضور کا پاؤں اس کے پاؤں پر آیا.تو اس طرف کی اس کی تمام در دیں اچھی ہو گئیں.کچھ دیر کے بعد جب حضور اندر جانے لگے تو اس نے کہا کہ حضور اس پاؤں پر بھی پاؤں رکھ دیں تو حضور اس کے پاؤں پر پاؤں رکھ کر چلے گئے.بعد میں اس نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ سے قریباً چھ ماہ ہو گئے علاج کروا رہا ہوں کچھ اچھی طرح سے آرام نہیں آیا تھا.آج یہ واقعہ ہوا ہے کہ جب حضور براستہ کھڑ کی مسجد میں تشریف لائے تو میرے پاؤں پر پاؤں آگیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس طرف کی تمام دردیں دور ہو گئی ہیں.خلیفہ اول نے جو ابا فرمایا کہ بھائی وہ تو خدا تعالیٰ کے رسول ہیں.میں تو معمولی حکیم ہوں.میں نے دوا دار وہی دینا ہے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے تو کوئی کسی ضروری حاجت کے واسطے اندر تشریف لے گئے تو پاس ہی حضور کی صدری پڑی تھی.اس کو اپنے کندھے پر رکھ لیاتو اندر چلے گئے.دو تین منٹ کے بعد پھر واپس آگئے تو صدری لا کر پھر وہاں رکھ دی.تو سید فضل شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضور یہاں تو کوئی اوپر ا آدمی نہ بیٹھا ہوا تھا.حضور دومنٹ کے واسطے اندر گئے ہیں اور پھر واپس آگئے ہیں تو حضور نے صدری اپنے کندھے پر رکھ لی.حضور نے فرمایا کہ کسی کو گناہ کرنے کا موقعہ نہیں دینا چاہئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) نمبر 5 صفحہ 97 تا103) تو یہ ان لوگوں سے تو خدشہ نہیں تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک تربیت کا انداز تھا کہ بجائے اس کے کہ کسی کو موقع دو یا شکوک میں مبتلا ہو اگر کوئی چیز تمہاری ہے تو ساتھ ہی اٹھا لو.روایات کافی ہیں، وقت کم ہو رہا ہے.آخر میں صرف ایک دو اور بیان کر دیتا ہوں.

Page 396

381 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم حضرت شیخ محمد اسماعیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو سر ساوا ضلع سہارنپور کے تھے.1894ء میں انہوں نے بیعت کی ہے.لکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس زمانہ کے مولویوں اور صوفیوں پر بھی افسوس کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حق سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو راستی سے ہٹانے میں پہلوں سے بھی زیادہ زور لگایا تا اللہ تعالیٰ کے بندے راستی کو قبول نہ کریں.اگر اللہ تعالیٰ مجھے یہ تسلی نہ دیتا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پھیلاؤں گا اور تجھے نامراد نہیں ہونے دوں گا.تو یہ جو مولویوں کی بک بک ہے پتہ نہیں کیا تکلیف دیتی؟ فرمایا کہ اگر یہ لوگ میری آہ و بکاہ کو سن لیں کہ میں کس طرح ان لوگوں کی بہتری اور ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور روتا ہوں کہ اے میرے مالک، میرے محسن تو آپ ان پر رحم فرما اور ان کے دیڈروں کو دور کر دے اور ان کو صراط مستقیم پر چلا اور ان کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالے.میں بار بار الہی آستانہ پر ان کے لئے گرتاہوں کہ الہی یہ بے خبر ہیں کہ میں ان کے لئے تیرے سے کیا کیا مانگتا ہوں.اللہ اللہ جب حضور نے یہ الفاظ منہ سے فرمائے تو ہم تصویر ہی بنے ہوئے تھے کہ یہ پاک وجود اللہ تعالیٰ کے بندوں کا ایسا خیر خواہ ہے ؟ یہ بالکل صحیح ہے اللہ تعالیٰ جن پاک وجودوں کو اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے وہ اس کے بندوں کے لئے دردمند اور سچے خیر خواہ ہوتے ہیں.اس کے بندوں کے لئے اس قدر بے تاب ہوتے ہیں کہ ماں باپ بھی ایسے خیر خواہ نہیں ہو سکتے.لکھتے ہیں کہ کیونکہ میں نے آپ کے کرب کی آواز میں سنی ہوئی ہیں.( تو مجھے تو اندازہ ہے کہ کس طرح بے تابی ہوتی تھی).(ماخوز از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد 6 صفحہ 98-97) حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالی عنہ ابن شیخ مسیتا صاحب سکنہ سر ساوا ضلع سہارن پور کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوستوں میں اپنی قوت قدسیہ سے یہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کار ساز یقین کرتے تھے اور کسی سے ڈر کر جھوٹ جیسی نجاست کو اختیار نہیں کرتے تھے اور حق کہنے سے رکتے نہیں تھے اور اخلاق رذیلہ سے بچتے تھے اور اخلاق فاضلہ کے ایسے خوگر ہو گئے تھے کہ وہ ہر وقت اپنے خدا پر ناز کرتے تھے کہ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ یقین ہی تھا کہ آپ کے دوستوں کے دشمن ذلیل وخوار ہو جاتے تھے اور آپ کے دوست ہر وقت خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہی رہتے تھے اور خدائے تعالیٰ کی معیت ان کے ساتھ ہی رہتی تھی اور آپ کے دوستوں میں غنا تھا اور خدائے تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھتے تھے اور حق کہنے سے نہ رکھتے تھے اور کسی کا خوف نہ کرتے تھے.اعمال صالحہ کا یہ حال تھا کہ ان کے دل محبت الہی سے ابلتے رہتے تھے اور جو بھی کام کرتے تھے خالص للہی سے ہی کرتے تھے.ریا جیسی ناپاکی سے متنفر رہتے تھے کیونکہ ریا کاری کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خطر ناک بد اخلاقی فرمایا کرتے تھے کہ اس میں انسان منافق بن جاتا ہے.میں نے اپنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھوں کے پر دے کبھی اوپر اٹھے ہوئے نہیں دیکھے تھے.ہمیشہ آپ کی آنکھوں کے پر دے آپ کی آنکھوں کو ڈھکے ہی رکھتے تھے.اتنی حیا آپ کی آنکھوں میں تھی.مگر جب کبھی اللہ تعالیٰ کے کسی دشمن کا ذکر یا آنحضرت صلی یکم کا ذکر آپ کرتے تو آپ کی آنکھوں کے

Page 397

382 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پر دے بالکل اوپر اٹھ جاتے تھے ورنہ آپ کی آنکھوں کو پر دے چھپائے ہی رکھتے تھے.اتنی حیادار تھیں آپ کی آنکھیں.کہتے ہیں کہ رسول خداصلی تعلیم سے آپ کو اتنی محبت تھی کہ جب کبھی آپ آنحضرت رسول مقبول صلی علیکم کا ذکر خیر فرماتے تو آپ فرماتے اگر یہ پاک رسول دنیا میں نہ آتا تو دنیا میں ہدایت ہی باقی نہ رہتی ، گمراہی گمراہی ہوتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت کو اخلاق رذیلہ سے بچنے کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ تم اللہ تعالیٰ کے مظہر بنو اور اخلاق فاضلہ اختیار کرو تا اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنالے.فرماتے ہم نے تو اپنے خدا کو ماں سے زیادہ محبت کرنے والا دیکھا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق ہی ایسے تھے کہ جس نے غور سے آپ کے اخلاق کو دیکھا وہی سر خم تسلیم ہو جاتا تھا اور آپ کی محبت میں چور ہو جاتا تھا اور آپ کی جدائی کو پسند ہی نہ کرتا تھا اور دھونی رما کر آپ کے ہی قدموں میں گر جاتا تھا اور گیند کی طرح ٹھوکریں کھا کر بھی آپ کی جدائی کو پسند نہ کرتا تھا.یہ تھے میرے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق حسنہ.کہتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بد ظنی سے بچنے کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے بد ظنی کرنے والا کبھی بھی نورِ ایمان سے منور نہیں ہو سکتا کیونکہ بدظنی خطرناک بد اخلاقی ہے.یہ خدا تعالیٰ سے بھی نا امید کر دیتی ہے.پس ہماری جماعت کو چاہیے بد ظنی سے بہت بچے.بدظنی کرنے والا خدا کی پاک جماعت میں شامل نہیں رہ سکتا.یہی الہی سلسلہ کی پہچان ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اپنی جماعت کو یہی نصیحت فرمائی ہے کہ ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم ہی کو معرفت الہی کا ذریعہ یقین کریں اور اس کے بتائے ہوئے ہی اعمالِ صالحہ ہو سکتے ہیں.کیونکہ قرآن کریم نے انہی اعمال کا ذکر کیا ہے جو کہ انسان کو دنیا کی اور آخرت کی بھلائی تک پہنچاتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں یہی وہ آخری کتاب ہے جس کی برکات کا ذکر تمام دنیا کے راستبازوں کی زبان نے تصدیق فرمائی تھی.پس ہماری جماعت اس پاک کتاب کو اپنا دستور العمل بنائے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) نمبر 6 صفحہ 66 تا 68) اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے بھی درجات بلند فرمائے جو یہ واقعات اور حالات ہم تک پہنچا کر ہمارے ایمانوں کو مزید بڑھانے کا باعث بنے.اور ہمیں بھی توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو جو اسلام کے احیائے نو کا مشن ہے آگے بڑھانے کے لئے ، ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہیں.اپنی حالتوں کو حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.یہی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہے اور جو نمونے صحابہ نے ہمارے سامنے پیش فرمائے ہیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 31،32 مورخہ 30 جولائی تا 12 اگست 2010 صفحہ 13 تا 17)

Page 398

خطبات مسرور جلد ہشتم 383 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010ء بمطابق 23 و فا1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ سے جماعت احمد یہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.سب سے پہلی بات تو اس حوالے سے میں آج یہ کہنا چاہوں گا کہ جلسے کے کامیاب انعقاد اور ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے جماعت کے افراد عموماً اور جماعت برطانیہ کے افراد خصوصاً بہت زیادہ دعاؤں اور صدقات پر زور دیں.اللہ تعالیٰ دشمن کے ہر شر اور شرارت سے جماعت کو محفو ظ ر کھے اور جلسہ بے انتہا بر کتوں کے ساتھ شروع بھی ہو اور اختتام پذیر بھی ہو.دوسرے اس جمعہ کے خطبہ میں جو عموماً جلسہ سے ایک ہفتہ پہلے ہوتا ہے، میں ڈیوٹیاں دینے والے مردوں، عورتوں، بچوں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس سلسلے میں آج بھی چند باتیں کہوں گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کی ڈیوٹیوں میں اب ڈیوٹیاں دینے والے تمام مرد و زن کارکنان اور کار کنات کافی تربیت یافتہ اور پختہ ہو چکے ہیں.جہاں تک ہر شعبے کے کارکنان کا اپنے اپنے شعبہ کے بارہ میں علم اور ذمہ داریوں کے جانے کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ میں سے اکثریت اس سے بخوبی واقف ہے.لیکن کاموں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے، ذمہ داری کے احساس کو مزید اجاگر کرنے کے لئے یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قرآنی حکم بھی ہے کہ نصیحت اور یاد دہانی یقیناً مومنوں کو فائدہ دیتی ہے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، فَإِنَّ الذِكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاريت: 56).پس یاد دلانامومنوں کو نفع بخشتا ہے.نئے بچے جو ان ڈیوٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں اسی طرح بعض نوجوان بھی جن کو پہلی مرتبہ موقع مل رہا ہے، یا اپنی ڈیوٹی کی اہمیت کا ان کو پوری طرح احساس نہیں ہے ان کے سامنے بھی ڈیوٹیوں کی اہمیت بیان کرناضروری ہے.یہ ڈیوٹی جو جلسے کے کاموں کی بجا آوری کے لئے لگائی جاتی ہے، کوئی معمولی ڈیوٹی نہیں ہے.جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے بڑے اور بچے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور جلسہ کے مہمان وہ مہمان ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی روحانی سیری کے لئے جلسہ میں شامل ہوتے ہیں.شاید

Page 399

خطبات مسرور جلد ہشتم 384 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 کچھ لوگ غیر سنجیدہ بھی ہوں اور وقت گزارنے کے لئے آتے ہوں لیکن اس بات کو ہم عموم پر محمول کر کے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے.ان آنے والے مہمانوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں.ایک تو وہ مہمان ہیں جو UK کے رہنے والے ہیں اور جلسہ کے دنوں میں اپنے ٹینٹوں میں، خیموں میں یا جماعتی انتظام کے تحت رہائش رکھتے ہیں اور تین دنوں میں جلسہ کے تمام شعبہ جات سے ان کا واسطہ پڑتارہتا ہے یا اکثر شعبہ جات سے واسطہ پڑتا ہے.اس لئے ہر شعبہ کے کارکن کو ان سے اپنے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دکھانا ہے.یہ نہیں کہ یہ UK کے رہنے والے ہیں یا کسی کے ساتھ کسی ڈیوٹی والے کارکن کی پہلے سے کوئی ناراضگی یا بد مزگی ہے تو اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہ کیا جائے.اگر اس طرح کی حالت کسی میں پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنی ڈیوٹی سے خیانت کر رہا ہو گا.تو پہلی بات تو یہ کہ اپنی تمام تر رنجشوں کو بھول کر اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا سب سے مقدم سمجھیں.اگر پھر بھی کسی کار کن کو کسی خاص شخص کے بارہ میں دل میں کوئی انقباض ہے جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کر سکتا تو پھر اپنے ساتھ والے کار کن سے کہہ کر اس مہمان کی ضروریات کا خیال رکھوائیں.پھر دوسری قسم UK کے رہنے والے مہمانوں کی ہی ہے، جو روزانہ جلسہ سننے کے لئے آتے ہیں اور ایک یا دو دفعہ کھانا بھی جلسہ میں کھاتے ہیں.اسی نظام کے تحت، نظامت مہمان نوازی کے تحت، حديقة المہدی میں یا اسلام آباد میں کھانا کھا رہے ہوتے ہیں.ان کا خیال رکھنا اور انہیں کھانا مہیا کرنا اس شعبہ کی ذمہ داری ہے.گذشتہ سالوں میں بعض جگہوں سے شکایات آتی رہی ہیں کہ نہ صرف یہ کہ کھانا نہیں مہیا کیا گیا، بلکہ کارکن کا رویہ بھی اچھا نہیں تھا.گو اس میں بعد تحقیق یہی ظاہر ہوا کہ کارکن کی اتنی غلطی نہیں تھی کیونکہ ان جگہوں پر جہاں وہ مطالبہ کیا جارہا تھا کھانے کا انتظام ہی نہیں تھا.لیکن بہر حال اگر کسی وجہ سے انتظام نہیں ہے، تو بڑے آرام سے ، پیار سے مہمان کو سمجھا دیں.اسی طرح پارکنگ والے اور ٹریفک کنٹرول والے ہیں اور سکیورٹی والے کارکنان ہیں.ان کو بھی مہمانوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہو گا.یہ جو میں نے شکایت کی بات کی ہے ، یہ کوئی عموم نہیں ہے، ایک آدھ واقعہ میں ایسا ہوتا ہے لیکن پورے نظام کے لئے بعض دفعہ تکلیف دہ بن جاتا ہے.عمومی طور پر تو بڑے حوصلہ سے اور تحمل سے کارکنان بعض لوگوں کی زیادتیاں بھی برداشت کر جاتے ہیں.پھر تیسری قسم ہے ان مہمانوں کی جو یورپ کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہیں یا آئیں گے.بعض تو جماعتی نظام کے تحت اجتماعی قیام گاہوں میں ٹھہرتے ہیں.بعض کے اپنے رہائش کے انتظام ہیں.لیکن UK سے باہر ہونے کی وجہ سے ان کی توقعات کچھ زیادہ ہوتی ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ چند ایک ان میں سے غلط مطالبات بھی کر جاتے ہیں.لیکن کارکنان اپنی پوری کوشش کریں کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے.

Page 400

خطبات مسرور جلد ہشتم 385 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 پھر ایک قسم ان مہمانوں کی ہے جو پاکستان، ہندوستان اور افریقہ وغیرہ کے ممالک سے آئے ہیں.افریقن ممالک کے احمدی مہمانوں اور اسی طرح بعض امریکہ کے مہمانوں کو بھی تبشیر کا شعبہ مہمان نوازی کافی حد تک سنبھال لیتا ہے.لیکن پھر بھی عام شعبہ جات سے ان کا واسطہ پڑتارہتا ہے.اس لئے ان کے احساسات کا بھی مکمل خیال رکھنے کی ضرورت ہے.جہاں تک پاکستان اور ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ کے مہمان ہیں یہ لوگ اپنی غربت کے باوجود خلافت سے ڈوری کی پیاس بجھانے کے لئے آتے ہیں اور پاکستان کے احمدی تو خاص طور پر آج کل مظلومیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں.اس قسم کے مہمانوں کے ساتھ بھی بہت زیادہ حسن سلوک کی ضرورت ہے.بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کو زبان کا بھی مسئلہ ہو تا ہے اس لئے جہاں بھی ان کو مدد کی ضرورت ہو ، کار کنات اور کارکنان ، ان کی خدمت پر کمربستہ رہیں.اگر کسی کارکن سے کوئی بھی مہمان کسی بات کی درخواست کریں اور وہ شخص جس سے مدد کی درخواست کی جارہی ہے اگر اس کا وہ شعبہ نہیں بھی ہے ، تب بھی مہمان کو روکھا جواب دینے کی بجائے ان کی رہنمائی کر دیں.عموما تو پاکستانی احمدیوں کے کوئی نہ کوئی عزیز یہاں ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں، لیکن جن کے نہیں ہیں وہ بعض اوقات پریشان ہو جاتے ہیں.گو کہ گزشتہ دو تین سال سے یہ لوگ جو جلسہ کے دنوں کے علاوہ بھی یہاں رہتے ہیں کیونکہ دور سے آئے ہوتے ہیں اس لئے تین دن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مہمان نوازی چل رہی ہوتی ہے ، ان کی رہائش اور مہمان نوازی کا اچھا انتظام ہوتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا یاد دہانی بھی ضروری ہے.اور اسی ضمن میں میں ان لوگوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جن کے عزیز پاکستان سے ان کے ہاں مہمان آئے ہوئے ہیں.کہ یہ صرف جلسہ کے انتظام ہی کا کام نہیں ہے کہ مہمانوں کو سنبھالیں بلکہ آپ لوگوں کا بھی کام ہے کہ اپنے عزیزوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کریں.پھر ایک قسم ان غیر از جماعت غیر مسلم اور مسلمان مہمانوں کی ہے جو جماعتی انتظام کے تحت آتے ہیں.جہاں تک ان مہمانوں کی مہمان نوازی کا تعلق ہے ایک خاص انتظام کے تحت یہ مہمان نوازی ہوتی ہے.لیکن.لوگ عمومی طور پر ہمارے کارکنوں کو کام کرتے ہوئے بھی بڑے غور سے دیکھتے ہیں.ان کے رویہ کو بھی نوٹ کر رہے ہوتے ہیں.ان کے کام کے طریق اور اخلاق کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں.عموماً ہر سال یہ لوگ کارکن اور کار کنات کے اخلاق کو دیکھ کر بہت متاثر ہو جاتے ہیں.اب تو جرمنی میں بھی غیر ملکی مہمانوں کی کافی تعداد آنے لگ گئی ہے اور وہ بھی کارکنوں کے اخلاق سے متاثر ہوتے ہیں اور اس سال اکثر مہمانوں نے جو غیر تھے وہاں میرے سامنے اس بات کا اظہار کیا.بہر حال یہ جو جماعت احمدیہ کے کارکنان کا ہر جگہ مزاج بن چکا ہے کہ اعلیٰ اخلاق دکھانے ہیں، اگر کسی مہمان کا نہ بھی کسی سے براہِ راست واسطہ ہو ، تب بھی جیسا کہ میں نے کہا ان کے کام کے

Page 401

386 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم طریق، محنت، شوق اور اخلاق مہمانوں کو متاثر کرتے ہیں.گویا کہ یہ کارکنان علاوہ اپنی ڈیوٹیوں کے ایک خاموش مبلغ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور دوہرا ثواب کما رہے ہوتے ہیں.ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر کے اور دوسرے غیروں پر احمدیت اور حقیقی اسلام کی تصویر پیش کر کے ، جس سے کئی نیک فطرت جو ہیں وہ حق کو شناخت کر لیتے ہیں اور اپنی دنیاو آخرت سنوارتے ہیں.پس یہ جلسہ کی ڈیوٹیاں ہر کار کن اور کار کنہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فرائض احسن رنگ میں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.اس سال سکیورٹی کے ضمن میں بھی میں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں.گزشتہ سال سے خاص طور پر اس شعبے میں بہت بہتری پیدا ہوئی ہے اور وسعت بھی پیدا ہوئی ہے.لیکن اس سال خاص طور پر اس میں معمولی سے سقم اور کمی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.اور جو بھی انتظام ہے، ان کو اپنی باریکی میں جاکر اس کا خیال رکھنا چاہئے.جماعت کی طرف سے جو کارڈ ایشو ہوئے ہیں ان کی مکمل تسلی کرنی چاہئے.ہر ایک کو چاہے وہ واقف ہی ہو ، جو بھی سکین وغیرہ کرنے کا، چیک کرنے کا طریقہ کار ہے اس پر پورا عمل ہونا چاہئے.کسی کی چند لمحوں کی معمولی ناراضگی برداشت کر لیں لیکن فرائض میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے.اس تعلق میں اس سال میں جرمنی کی مثال دے رہا ہوں.جرمنی کے جلسہ سالانہ پر بہت اچھا انتظام تھا اور کافی تعداد میں گیٹ ہونے کی وجہ سے کوئی دقت بھی پیش نہیں آئی.ہر ایک کارڈ کی معلومات، جب سکین ہو تا تھا بمعہ تصویر اور اس کے ذیلی تنظیم سے تعلق ، عمر وغیرہ وہ سب سامنے آجاتا تھا.بہر حال اس سال مجموعی طور پر جلسہ جرمنی کے اعلیٰ انتظامات کے علاوہ ان کا سکیورٹی کا انتظام اور چیکنگ کا انتظام بھی بہت قابلِ تعریف تھا.اللہ تعالیٰ ان تمام احمدی نوجوانوں کو جزا دے اور ان کے ذہنوں کو مزید جلا بخشے جنہوں نے بڑی محنت سے یہ سسٹم ترتیب دیا تھا.عموما میں جرمنی کے جلسہ کے بعد ان کے کارکنان کی خدمات اور خوبیوں کا ذکر کر دیا کرتا ہوں.اس سال کیونکہ موقع نہیں پید اہو سکا تو آج میں نے سوچا کہ مختصر ذکر کر دوں.بہر حال جلسہ کے دنوں میں گیٹس پر چیکنگ اور سکیورٹی کے نظام کے شعبے کو یہاں بھی جلسہ گاہ میں بھی اور اور جگہوں میں بھی، قیام گاہوں میں بھی بہت زیادہ ہوشیار ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے.اور ہر جگہ صرف نو عمر لڑکے ہی مقرر نہ کر دیئے جائیں بلکہ ان کے ساتھ ان کے پختہ ذہن کے جو افسران ہیں، یا نائبین ہیں وہ بھی ہونے چاہئیں.لیکن سب سے بڑھ کر یہ بات یاد رکھیں، جیسا کہ میں نے شروع میں ہی کہہ دیا ہے کہ ہمارا اصل انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے.اس لئے کوئی بھی لمحہ دعاؤں سے خالی نہ جانے دیں.ڈیوٹی کے دوران بھی دعائیں کرتے رہیں.

Page 402

387 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم سکیورٹی کے ضمن میں یہ بات بھی یادرکھیں کہ عارضی قیام گاہیں جو اجتماعی طور پر حدیقہ المہدی میں یا اسلام آباد میں مارکیوں میں بنائی جاتی ہیں، یا مستقل.( مستقل سے مراد ہے جو مسجد بیت الفتوح میں یا اور جگہ کہیں بھی).اسی طرح انفرادی خیموں کی قیام گاہیں ہیں جو لوگ خود بھی لگاتے ہیں.خاص طور پر جو حدیقۃ المہدی اور اسلام آباد میں ہیں ان میں بعض دفعہ چوری کے اتحاد کا واقعات ہو جاتے ہیں.اس لئے حفاظت کے انتظام کو خاص طور پر اس انتظام پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اگر کوئی چوری کے لئے اندر آسکتا ہے تو اور نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، اس کو ہمیشہ یادر کھیں.اس لئے قطع نظر اس کے کہ لوگوں کو آپ نے کہہ دیا کہ اپنا قیمتی سامان ساتھ لے جاؤ اور لوگ لے جاتے ہیں لیکن پھر بھی آپ نے حفاظت اور پہرے کے کام کو پوری طرح اور ذمہ داری سے اسی طرح بجا لانا ہے اور گہری نظر رکھتے ہوئے یہ کام کرنا ہے.کسی بھی قسم کی ستی یالا پرواہی سے کام نہیں لینا ہے.صرف چوری ہی نہیں بلکہ اور وجوہات کی وجہ سے بھی توجہ اور Vigilance کی ضرورت ہے اور پھر سکیورٹی والوں کو ہمیشہ پر اعتماد رہنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے.کبھی کسی صورت میں بھی panic ہونے کی ضرورت نہیں.اسی طرح دوسری ڈیوٹی والے ہیں.بعض دفعہ کھانے کے اوقات میں کھانے کی کمی اور مہمانوں کا رش ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ایسا نہیں ہوتا ہے.لیکن کیونکہ کھانا اور جگہ پک رہا ہو تا ہے اور جلسہ کے دنوں میں کھلایا اور جگہ جاتا ہے.اس لئے اگر دیر ہو جائے تو تحمل سے مہمانوں کی تسلی کروایا کریں.اسی طرح ٹرانسپورٹ ہے ، جلسہ کے آنے اور جانے کے اوقات میں بسوں اور ٹرینوں پر رش ہو جاتا ہے.کارکنان متحمل سے رہتے ہوئے اپنے فرائض بھی ادا کریں اور مہمانوں کو بھی صبر اور حوصلہ دلائیں.یہ وقتی رفت ہے، مشکل کا سامنا ہونا چاہئے.مہمانوں کو حوصلہ دلائیں.ان کو تلقین کریں.غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے.پھر اسی طرح اور شعبہ جات ہیں.پانی کا شعبہ ہے، اس میں کمی بیشی ہو جاتی ہے.گرمی آج کل زیادہ ہے ، پانی کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے.اگر موسم اچھا ہو تو ضرورت نہیں ہوتی لیکن اب تو یہاں بھی گرمی ہونے لگ گئی ہے اس لئے یہ بھی بڑا اہم شعبہ ہو گیا ہے.علاوہ پینے کے پانی کے ٹائیلٹس وغیرہ میں غسل خانوں میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے.تو یہ سب شعبے ایسے ہیں جہاں باوجود کارکنان کے تجربہ کار ہونے کے مہمانوں کی بے حوصلگی کی وجہ سے بعض دفعہ افرا تفری کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے جہاں کارکنان کو اپنی حالت کو صحیح رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مہمانوں کو بھی تحمل کے ساتھ صحیح رہنمائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ احسن رنگ میں سب کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.مہمان نوازی ایک تو ویسے بھی ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے.اور جو مہمان خالص دینی غرض سے آرہے ہوں اور جن کو زمانہ کے امام نے اپنا مہمان کہا ہو، ان کی مہمان نوازی تو خاص طور پر بہت برکتیں لئے ہوئے ہے اور

Page 403

388 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اس وجہ سے خاص توجہ چاہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان جیسا کہ میں نے کہا دینی غرض کے لئے آتے ہیں.اور دینی غرض کیا ہے؟ کہ آنحضرت صلی علیہ ظلم پر نازل ہوئے ہوئے دین کا زیادہ سے زیادہ علم الله حاصل کر کے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور خد اتعالیٰ کا مقرب بننے کی کوشش کریں.آنحضرت صلی ال ام اس غرض کے لئے آئے ہوئے مہمانوں کی مہمان نوازی کس طرح فرمایا کرتے تھے ؟ اس کی بے شمار مثالیں ہیں.کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ مہمان آگیا تو آنحضرت صلی یہ کام اپنے گھر میں پیغام بھیجتے ہیں ، اپنی ہر بیوی کے گھر پیغامبر کو بھجواتے ہیں کہ آج میر امہمان آگیا ہے، اس کے کھانے کا بند وبست کرو.لیکن ہر بیوی کے گھر سے جواب ملتا ہے کہ آج تو ہمارا صرف پانی پر گزارا ہے، کھانے کی کوئی چیز نہیں.اب دیکھیں یہاں، آپ کی بیویوں کے بھی صبر اور شکر کے انتہائی مقام کا پتہ چلتا ہے.آپ مالی علیه یم کی قوت قدسی کی وجہ سے کوئی واویلا نہیں.کوئی ہلکا سا احساس بھی نہیں دلایا جارہا کہ آپ کے گھر والے بھوکے ہیں.گویا اس حالت کا بھی پتہ چلتا ہے تو مہمان کے آنے کی وجہ سے پتہ چل رہا ہے.تو بہر حال اس مہمان کو پھر ایک صحابی رسول صلی الیہ کی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، اور وہ بھی کوئی امیر آدمی نہیں ہیں.ان کے گھر میں بھی صرف بچوں کے لئے خوراک ہے.وہ بچوں کو تو کسی طرح سلا دیتے ہیں، اور کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیتے ہیں.اور خود چراغ بجھا کر اندھیرے میں اس طرح ظاہر کرتے ہیں، منہ چلا رہے ہیں، تاکہ مہمان کو بھی پتہ نہ چلے کہ وہ گھر والے بھی ساتھ کھانا کھا رہے ہیں کہ نہیں ؟ اس کو احساس نہ ہو کہ گھر والے میرے ساتھ کیوں شامل نہیں ہو رہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی دیکھیں اپنے بندوں کے اس فعل پر کس طرح پڑتی ہے؟ کہ اس کی خبر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسول صلی علیہ کم کو دیتا ہے کہ اس مومن مرد اور مومن عورت کے عمل نے رات مجھے ہنسا دیا اور جس مومن کے فعل سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے اس کو تو دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں.اس کے لئے ایک وقت کے کھانے کی قربانی کی کیا حیثیت ہے.( بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول الله و یوکثرون علی انفسهم و لو کان بهم خصاصة، حدیث نمبر 3798 ) کبھی ہم آنحضرت صلیالی کم کی مہمان نوازی کا یہ انداز بھی دیکھتے ہیں کہ ایک یہودی جو بستر گندا کر کے چلا جاتا ہے ، تو آپ خود اس کی صفائی کر رہے ہیں اور صحابہ کے کہنے پر کہ اے ہمارے پیارے! ہمارے ماں باپ آپ پر فراہوں ہمیں یہ کام کرنے دیں، تو آپ کہتے ہیں: نہیں ، وہ مہمان میر انتھا اس لئے میں یہ کام خود کر رہا ہوں.پس مجھے یہ کام کرنے دو.پھر حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ایک مومن جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے ، اس کی تین نشانیاں بتائی ہیں.پہلی بات یہ کہ عمدہ اخلاق کے حامل بن کر ہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالو.کسی کے لئے کسی قسم کی دل آزاری کی بات تمہارے منہ سے نہ نکلے.کیونکہ بد اخلاقی ہمارے ایمان کو بھی ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 370،371)

Page 404

389 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد هشتم داغدار کر دیتی ہے.پس یا تو تم اچھی بات کہو یا خاموش رہو.اس سے جہاں تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے بنو گے اور ایمان کی مضبوطی حاصل کرنے والے بنو گے وہاں معاشرے کے امن کی ضمانت بھی بن جاؤ گے.دوسری بات اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے پڑوس کی عزت کرو.اور پڑوسی کے حق کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑے واضح حکم دیئے ہیں، اور آنحضرت صلی الیم نے مومنین کو بھی یہی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کثرت سے پڑوسی سے حسن سلوک کرنے اور تعلق رکھنے اور اس کا حق ادا کرنے کا فرمایا ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی وراثت میں بھی حق دار نہ بن جائے اور اس کو حصہ دار نہ بنادیا جائے.تو اللہ تعالیٰ نے پڑوسی صرف مستقل پڑوسی، گھروں کے ہمسایوں کو نہیں کہا بلکہ عارضی پڑوسیوں کا بھی ذکر ہے ، اس کا بھی حق ادا کرنے کا ذکر ہے.کچھ وقت کے لئے جو ساتھ بیٹھ گیا ہے وہ بھی ہمسائے کے زمرے میں آتا ہے اور اس کا بھی حق ادا کرنے کا ذکر ہے اور یہاں تو ہم اپنے دینی بھائیوں کا حق ادا کر رہے ہیں.ان کا حق ہم نے ادا کرنا ہے ، جو ان چند دنوں کی ہمسائیگی کے علاوہ بھی اپنا حق رکھتے ہیں.پھر ایک مومن کی آنحضرت صلی علیم نے تیسری نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرتا ہے.پس مهمان نوازی بھی ایمان میں مضبوطی اور اس کے اظہار کے لئے ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کا ذریعہ ہے.( صحیح مسلم ، کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار...حدیث نمبر 78) جیسا کہ میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مومنہ اور مومن کے عمل کو کس قدر خوشی سے دیکھا تھا.کتنا خوشی کا اظہار کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللی علم کو بھی اس خوشی میں شامل فرمایا.انہوں نے اپنی بھوک تو ایک طرف رہی، بچوں کی بھوک کو بھی مہمان کی مہمان نوازی پر ترجیح دی.یہ نہیں کہا گیا کہ تم بچوں کیلئے کچھ رکھ لیتے ، بلکہ اپنے آپ کو اور بچوں کو تکلیف میں ڈال کر مہمان نوازی کرنے پر اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کی ایک سند عطا فرما دی کہ یہی حقیقی مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں.ہم نے تو یہاں صرف وقت اور جذبات کی تھوڑی سی قربانی دینی ہے، جو بھی ہم ان کی تھوڑی بہت خدمت کرتے ہیں.یہی اصول آنحضرت صلی لیلی کام کے غلام صادق اور عاشق صادق نے آپ کی محبت اور پیروی میں اپنایا تھا کہ خدا تعالیٰ کی محبت کو سب سے بڑھ کر حاصل کرنے والے بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کوئی عارضی اور وقتی اور چند دنوں کی مہمان نوازی نہیں تھی بلکہ کثرت سے اور مستقل مہمان نوازی تھی.اور آپ اس کا ہمیشہ حق ادا فرماتے تھے.لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بارہ میں فرمایا کہ وَلَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللهِ وَلَا تَسْتَمْ مِّنَ النَّاس.اور جو لوگ تیرے پاس آئیں گے تجھے چاہئے کہ ان سے بد خلقی نہ کر اور ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جانا.( تذکرہ، صفحہ 197 ایڈیشن چہارم) باوجود اس کے کہ آپ مہمان نوازی کی انتہا کرتے تھے اور ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے

Page 405

390 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم آنے کی خبر دے دی تھی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہام کر کے مختلف موقعوں پر بار بار جو اس طرف توجہ دلائی ہے اس کا ذکر ہے.وہ اس لئے بھی ہے کہ یہ کثرت تو اب بڑھتی جاتی ہے.اس لئے آپ کے بعد خلافت کے نظام نے خلیفہ وقت نے اور نظام جماعت نے بھی اس اصل کو سامنے رکھنا ہے، اس تعلیم کو سامنے رکھنا ہے اور مہمان نوازی کے اس اہم کام کو بھولنا نہیں ہے.پس یہ اہم کام جو ہمارے ذمہ ہے اور یہ اہم وصف ہے جو ہم میں سے خاص طور پر ہر اس شخص نے اپنانا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دی ہے یا جو اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کو صحابہ نے کس طرح دیکھا اور ہم تک پہنچایا.کس طرز پر آپ مہمان نوازی فرمایا کرتے تھے.آپ کی مہمان نوازی کے طریق کیا تھے ؟ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنی ایک کتاب میں اس بارہ میں کچھ لکھا ہے.جو کچھ باتیں انہوں نے نوٹ کیں، محسوس کیں اور ہم تک پہنچائیں ،وہ اپنے الفاظ میں بیان کر تا ہوں.ایک تو یہ بتایا کہ آپ مہمانوں کے آنے پر بہت خوش ہوتے تھے.اور کارکنان لنگر خانہ کو ہدایت تھی کہ ان کے آرام کی ہر ممکن کوشش کی جائے.مہمانوں کی آمد سے، ان کے آنے پر آپ کو اطلاع دی جائے.ان مہمانوں کے علاقوں کے لحاظ سے ان کی خوراک کا بھی خیال رکھا جائے.اور اس کا خوراک کا خیال رکھنے کا مقصد کیا تھا.فرمایا کرتے تھے کہ اگر ان کی صحت ہی ٹھیک نہ رہے تو وہ لوگ دین کیا سیکھیں گے ؟ مہمان کے لئے آپ چاہتے تھے کہ مہمان اگر غیر ہے تو اس کو زیادہ دن روک کر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا جائے.پھر یہ کہ مہمان سے تکلف کا برتاؤ نہیں ہو تا تھا.فرمایا کرتے تھے کہ مہمان بھی بے تکلفی سے اپنی ضروریات کا اظہار کر دیا کرے.اور بے تکلفی میں بھی مہمان کی عزت اور تکریم کا پورا خیال رکھا جاتا تھا اور خدام کو یہ ہدایت فرماتے تھے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود جلد اول ص: 141-142 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ) پھر آپ کی ایک خصوصیت تھی کہ مہمانوں کے آرام کے لئے ہر قسم کی قربانی فرماتے تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے، جون کا مہینہ تھا اور جون کا مہینہ پنجاب میں بڑا سخت گرمی کا مہینہ ہوتا ہے.اس وقت ایک مکان یا مکان کا ایک حصہ نیا نیا بنا تھا تو مولوی صاحب کہتے ہیں وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی.اس میں موسم بھی ، نسبتاً ذرا بہتر ہوتا ہے کیونکہ پانی وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے، نئی اینٹوں کی وجہ سے اس میں کچھ نہ کچھ ٹھنڈک ہوتی ہے.جن لوگوں کو یہ سہولتیں یہاں میسر ہیں اور موسم بھی اچھا ہے ان کو وہ اندازہ نہیں ہو سکتا.لیکن وہاں کے رہنے والے جو ہیں، پرانے لوگ جو آئے ہوئے ہیں، وہ صحیح اندازہ کر سکتے ہیں کہ گرمیوں میں نیا بنا ہو امکان کتنا آرام دہ لگتا ہے.تو بہر حال مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی میں بھی اس پر لیٹ گیا.اس وقت حضرت مسیح

Page 406

خطبات مسرور جلد ہشتم 391 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 موعود علیہ الصلوۃ والسلام ٹہل رہے تھے.تو مولوی صاحب کہتے ہیں کہ لیٹنے کے تھوڑی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی.جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا.آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ آپ کیوں اس طرح اٹھ بیٹھے ہیں ؟ تو میں نے عرض کی کہ حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اوپر چار پائی پر سو جاؤں.تو آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا کہ لڑکے شور کرتے تھے ، انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ ہو.تو یہ محبت ہے جو مہمان نوازی سے بہت بڑھ کر ہے.جو صرف ماں باپ میں ہی شاید دیکھی جاتی ہے.بلکہ نہیں، یہ تو ماں باپ سے بڑھ کر محبت ہے.اور یہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی کا ہی حصہ ہو سکتا ہے.لیکن ہم جو اس کام پر مامور کئے گئے ہیں، ہمیں یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ مہمانوں کی خدمت کرو.انہیں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تو بہر حال اپنانا چاہئے.لینا چاہئے، نمونہ دکھانا چاہئے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود جلد اول ص 155-156 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ) پھر آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ مہمان کے مقام اور مرتبہ کا خیال فرمایا کرتے تھے لیکن عمومی مہمان نوازی ہر ایک کی ایک طرح ہی ہوتی تھی.یہاں بھی ہمارے غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمان آتے ہیں.بعض ملکوں کی حکومتوں کے نمائندے ہوتے ہیں یا اپنی قوم کے لیڈر ہوتے ہیں، جیسے افریقہ کے چیف وغیرہ تو ان کی مہمان نوازی اور خیال رکھنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے اور دی جاتی ہے.اور اس پر کوئی اعتراض کی بھی وجہ نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی علیہ علم کا بھی یہی ارشاد ہے کہ قوم کے سرداروں کو مناسب مقام اور مرتبے کے لحاظ سے اعزاز دو.لیکن اس میں اعتدال اس لحاظ سے ہونا چاہئے کہ جلسہ کی انتظامیہ اس حوالے سے جو بلا وجہ کئی قسم کی کیٹیگریز بنا لیتی ہے اور اخراجات کو بڑھالیا جاتا ہے اس پر کنٹرول ہونا چاہئے.بعض دفعہ بعض خاص مارکیز اور جگہوں پر کوئی بھی نہیں ہوتا اور وہاں صرف کارکن ہی بیٹھے ہوتے ہیں.پھر بعض دفعہ مجھے اطلاعیں ملتی ہیں تو VIP کے نام کا بھی بعض اوقات غلط استعمال شروع ہو گیا ہے یا ہو جاتا ہے.تو اس طرف بھی انتظامیہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے.بہر حال بے شک خاص مہمانوں کے لئے خاص انتظام کریں لیکن جگہ ایک ہی بنانی چاہئے اور اس میں بھی اعتدال ہو.پھر یہ کہ آپ کے دو ہی مقصد ہوتے تھے بلکہ تین کہنے چاہئیں، مہمانوں کی خدمت کے لئے ، مہمانوں کو وصول کر کے ان کی مہمان نوازی کے.ایک تو یہ کہ مہمان نوازی کا حق تو ادا کرنا ہی ہے وہ تو ایک مومن پر فرض ہے.لیکن اس کے علاوہ آپ کے دو مقاصد تھے کہ ایک مہمانوں کی تربیت کریں اور دوسرے تبلیغ.پس جلسہ میں متعلقہ شعبہ جات کو اس طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے.جلسہ کے اوقات میں ڈیوٹی والے جو بھی کارکنان ہیں وہ شامل ہونے والوں کو پیار سے جلسہ کا پروگرام سننے کی طرف توجہ دلائیں.جو ادھر ادھر پھر رہے ہوں ان کو نرمی سے سمجھائیں کہ آپ جلسہ گاہ میں چلے جائیں.اسی طرح شعبہ تبلیغ کو اپنا کر دار ادا کرنا چاہئے.

Page 407

خطبات مسرور جلد ہشتم 392 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دوست دشمن کی مہمان نوازی میں بھی فرق نہیں فرماتے تھے.کئی مخالفین بھی آتے تھے، لیکن اگر مہمان بن کر آئے ہیں تو خدام کو فرمایا کرتے تھے کہ ان کی مہمان نوازی کرو اور یہ کیونکہ مخالفین میں سے ہیں ہو سکتا ہے کہ بعض ایسی باتیں کر جائیں جو تمہاری دل شکنی کا باعث ہوں، لیکن تم لوگوں نے خاموش رہنا ہے ، ان کو جواب نہیں دینا.ایسے کئی واقعات ہیں.مثلاً ایک مولوی عبد الحکیم نصیر آبادی بڑا مخالف تھا اس کی مہمان نوازی کا آپ نے حکم دیا.وہاں اپنے لنگر میں یا اس علاقہ میں تو نہیں ٹھہرایا ، باہر نواب.صاحب نے ایک نیا مکان بنوایا تھا، اس کو وہاں اس کے کمرے میں ٹھہرایا تا کہ احتیاط کے تقاضے بھی پورے ہوں لیکن خدام کو مہمان نوازی کا حق بھی ادا کرنے کی تلقین فرمائی.اور یہ بھی فرمایا کہ کسی قسم کی بات نہیں کرنی.وہ کسی مباحثہ کے سلسلے میں آیا تھا.لیکن پھر وہ اس کے بغیر ہی چلا گیا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود جلد اول ص : 160-161 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ) پھر اسی طرح ایک بغدادی مولوی کے نام سے مشہور تھا اس کا قصہ ہے.وہ گالیاں نکالنے میں بھی شیر تھا کیونکہ یہ مولوی جو ہیں اس کام میں بہت شیر ہوتے ہیں.بہر حال وہ خاص طور پر وہابیوں کے بڑا خلاف تھا.حضور علیہ السلام نے اس کی مہمان نوازی فرمائی یعنی اس کا حکم دیا.کسی نے اس بغدادی مولوی کو کہا کہ جن کی مہمان نوازی سے تم لطف اٹھا رہے ہو اور جن کے سامنے بیٹھ کر وہابیوں کو گالیاں دے رہے ہو ، یہ بھی وہابی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ گالیاں تو بہت زیادہ دیتا تھا لیکن میں نے اسے کبھی احساس نہیں ہونے دیا اور کہنے والے کا حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ کہنا کہ یہ بھی وہابی ہیں، فرمایا کہ ایک لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ میں بھی قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرناضروری سمجھتا ہوں.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود جلد اول ص: 161-162 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب) بہر حال ایسے کئی واقعات ہیں جن کی تفصیلات ہمارے لٹریچر میں ، کتب میں موجود ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عمل کو جو آپ علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی الی یلم کے اسوہ کو دیکھ کر اپنایا ہم بھی اپنا کر عمل کرنے والے بنیں.مہمانوں کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں.لیکن ساتھ ہی ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا، اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر گر دو پیش کا جائزہ بھی لیتے رہیں کیونکہ آج کل جماعت کی مخالفت اور دشمنی نے شرارتی عنصر کو ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے عاری کر دیا ہے.اور نہ صرف اخلاقی، بلکہ کسی بھی قسم کی شرارت کی ان سے توقع کی جاسکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے.نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ صوفی نذیر احمد صاحب کا ہے، جو 14 جولائی 2010ء کو مختصر علالت کے بعد وفات پا گئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کی عمر

Page 408

393 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نواسی (89) سال تھی، آج کل جرمنی میں تھیں.آپ بہت دعا گو اور صابر شاکر ، صاحب رؤ یا بزرگ خاتون تھیں.خلافت کی بڑی سچی وفا دار عاشق تھیں.اپنی مرض الموت جو چند دن کی بیماری تھی اس میں بھی میرے متعلق یہی پوچھتی رہتی تھیں کہ ان کا کیا حال ہے؟ اپنی بیماری کی فکر نہیں تھی.ہر ایک کے لئے نفع رساں وجود تھیں.کسی کو دکھ نہیں دیا بلکہ دوسروں کے دکھوں کو اپنا لیا.طبیعت میں قربانی اور ایثار کا بڑا مادہ تھا.ایک دفعہ ان کو دعا کے لئے کہہ دیا جائے تو ہمیشہ دعائیں کرتی رہتی تھیں.ہمیشہ ہر ایک کی معمولی نیکی کی بھی قدر کی.قناعت ان میں بہت زیادہ تھی.ایک زیور بنوایا تھا تو وہ مریم شادی فنڈ میں دے دیا.پھر وفات سے پہلے ان کے پاس کچھ رقم جمع تھی تو فرمایا کہ یہ بھی بلال فنڈ میں دے دینا.مرحومہ نے اپنے دو بھائیوں کی بیویوں کے وفات پا جانے کے بعد اپنے محدود وسائل کے باوجود ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی.ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں.دو بیٹے واقف زندگی ہیں.ایک تو مکرم ڈاکٹر جلال شمس صاحب ہیں جو آج کل ٹرکش ڈیسک کے انچارج ہیں.اور دوسرے منیر جاوید پرائیویٹ سیکرٹری ہیں.ان کے یہ دو بیٹے واقف زندگی ہیں.اور ان کی ایک بیٹی مکرم حنیف محمود صاحب واقف زندگی جو ربوہ میں نائب ناظر اصلاح وارشاد ہیں، ان کی اہلیہ ہیں.تو اس لحاظ سے ان کے تین بچے واقفین زندگی ہی سمجھے جائیں.دو تو ابھی بھی واقف زندگی ہی ہیں.واقف زندگی کی بیوی بھی واقف زندگی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے، اور جیسا کہ میں نے کہا نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 33 مورخہ 13 اگست تا 19 اگست 2010 صفحه 5 تا 8)

Page 409

خطبات مسرور جلد ہشتم 394 31 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010ء بمطابق 30 و فا1389 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی.آلٹن.(برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: التَّابِبُونَ الْعَبدُونَ الْحَمِدُونَ السَّابِحُونَ الكِعُونَ السَّجِدُونَ الأمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَفِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (التوبة: 112) اس آیت میں ان لوگوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں اور اپنے ایمان کی اس حالت کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے بشارت پانے والے ہیں.گویا یہ خصوصیات رکھنے والے حقیقی مومن کہلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.التائبون: توبہ کرنے والے، ایسی توبہ ، جو تو بہ کا حق ہے.العبدُونَ : عبادت کرنے والے.ایسی عبادت جو عبادت کا حق ہے.الحمدون : حمد کرنے والے جو حمد کرنے کا حق ہے.السَّائِحُونَ : اللہ کی راہ میں خالص ہو کر سفر کرنے والے، یعنی ایسا سفر جو دین کی غرض سے اور دین سیکھنے کے لئے ہو.الٹر کعُون: مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والے ، اور عاجزی اور بے نفسی کا مکمل اظہار کرنے والے.الشجدُون: انتہائی انکسار، عاجزی اور کامل فرمانبرداری سے خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتے ہوئے ماتھا ٹیکنے والے.الْأَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَر : یعنی خدا تعالیٰ کے پیغام کے داعی بن کر نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں.موٹی برائیوں اور باریک تر برائیوں سے بھی روکنے والے ہیں.اور موٹی موٹی نیکیوں کی طرف توجہ دلانے والے بھی اور باریک تر نیکیوں کی تلقین کرنے والے بھی ہیں.اور ظاہر ہے یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا ہو جائے کہ خود برائیوں سے بچنے والے ہوں اور نیک اعمال بجالانے والے ہوں.اور جس میں یہ پہلی چھ خصوصیات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں پیدا ہو جائیں، یعنی تو بہ کی طرف توجہ ، عبادت کی طرف توجہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ ، دین سیکھنے کی خاطر سفر کرنا، اور رکوع و سجود کی طرف توجہ جو رکوع و سجود کا حق ہے تو ان میں یقینا یہ خوبی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ برائیوں سے دور بھاگنے والے ہوتے ہیں اور ان کے ہر قول و فعل سے نیکی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے.اور یہی لوگ ہیں جو اس مرتبے پر پہنچتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر) ذکر فرمایا ہے کہ

Page 410

395 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 الْحَفِظُونَ لِحُدُودِ الله : اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں.اس گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالی کی حدود کی حفاظت کرنے والا ہے.اور اللہ تعالیٰ انہیں نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا ہے.اس وقت آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں میری دعا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان خصوصیات کے حامل بننے کی کوشش کرتے ہوئے اس گروہ میں شامل ہونے کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں.آپ میں سے ایک بڑی تعداد ان مسافروں کی ہے جنہوں نے تکلیف اٹھا کر یہ سفر اختیار کیا.اور آج جو جلسہ شروع ہو رہا ہے اس میں شامل ہونے کے لئے تشریف لائے ہیں.آج صبح ہی جب میں نماز فجر پڑھا کر جارہا تھا تو میں نے دیکھا ایک خاندان بلکہ اور بھی کئی ہوں گے ، جو ساری رات یورپ سے ایک لمبا سفر کر کے یہاں پہنچے تھے.بچے بھی تھے، عور تیں بھی تھیں.یہ تکلیف اٹھا کر سفر کرنے والے لوگ ہیں تا کہ جو جلسہ شروع ہو رہا ہے اس میں شامل ہو سکیں.بلکہ یہاں حدیقۃ المہدی میں آپ میں سے ہر ایک نے آنے کے لئے کچھ نہ کچھ سفر اختیار کیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مومنین کی جماعت کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے کہ وہ دین کی خاطر اور دین سیکھنے کے لئے سفر اختیار کرتے ہیں.تبھی تو خدا تعالیٰ نے تو بہ کرنے والوں، عبادت کے معیار قائم کرنے والوں، اللہ تعالیٰ کی حمد سے اپنی زبانوں کو تر رکھنے والوں، عاجزی اور انکسار سے اللہ تعالیٰ کے حضور رکوع و سجود کرنے والوں میں ان للّہی سفر اختیار کرنے والوں کو شامل فرمایا تا کہ وہ اپنی نیکی اور تقویٰ کی حالت کو مزید صیقل کرنے والے بنیں.پس آج جو لوگ ایک نیک مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان بن کر یہاں آئے ہیں، دنیاوی اعزاز اور دنیاوی خدمت کی بجائے ان اعلیٰ مقاصد میں مزید ترقی کو اپنے پیش نظر رکھیں جو بیان ہوئے ہیں.بے شک نظام جماعت کے تحت اس پاک اور بامقصد سفر کرنے والے مسافروں اور مہمانوں کے لئے خدمت کا نظام موجود ہے، لیکن جو للہی سفر اختیار کرنے والے ہوتے ہیں ان کی ان دنیاوی ضروریات اور آراموں کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے اور اس اکٹھ اور جمع ہونے کی روح اور بنیادی مقصد سے فیض پانے کی زیادہ کوشش ہوتی ہے.پس آپ اپنے آپ کو کبھی دنیاوی مسافروں اور مہمانوں کے زمرہ میں لانے کی کوشش نہ کریں.اگر اس بات کو آپ سمجھ جائیں گے تو میز بانوں کی کمزوریوں اور کمیوں سے بھی آپ صرف نظر کرتے رہیں گے.ورنہ بعض دفعہ یہ دیکھنے میں آیا ہے ، یہ شکوہ ہو جاتا ہے کہ فلاں جگہ کے لوگوں کا بہتر انتظام ہے.ان کو فلاں جگہ بہتر انتظام کے تحت رکھا گیا ہے اور ہماری طرف توجہ نہیں دی گئی حالانکہ انتظامیہ کی اس طرف پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہر مہمان کو آرام پہنچایا جائے.ہاں بعض غیر از جماعت مہمان ہوتے ہیں، یا بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنی قوم کے لیڈر ہیں ان کے لئے علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے اور یہ جائز ہے.انتظامیہ تو حتی الوسع مہمانوں کے آرام اور سہولت کو پیش نظر رکھتی ہے.پس میں شامل ہونے والے مہمانوں سے کہوں گا کہ اگر وہ اپنے سفر کے

Page 411

396 خطبه جمعه فرمودہ مور محد 30 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مقصد کو پیش نظر رکھیں گے اور جلسے کے دنوں میں نیکیوں کو مزید نکھارنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً بشارت پانے والے مومنین کے زمرہ میں شامل ہونے والے بنیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی بیعت میں آنے والے مہمانوں کی بہت عزت و تکریم فرماتے تھے.ان سے یہ بھی فرما دیا کرتے تھے کہ اپنی ضروریات بے تکلفی سے بیان کر دیا کرو.لیکن جلسے کے جو مہمان تھے ان کے لئے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہی انتظام ہو.ہر مہمان کی اسی طرح مہمان نوازی کی جائے جو ایک انتظام کے تحت ہے.لیکن ساتھ ہی اس تکریم کے باوجو د عام حالات میں بھی بڑے زور سے ہر مہمان کے دل میں یہ بات راسخ فرماتے تھے کہ تمہاری یہاں آنے کی اصل غرض دین سیکھنا ہے اور اپنے دل و دماغ کو پاک کرنا اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی منازل کو طے کرنا ہے.پس یہی غرض ہے جس کے حصول کے لئے ہر سال آپ لوگ مہمان بن کر یہاں آتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں.اور اسی غرض کے لئے جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنا چاہئے.مہمانوں کے لئے چند عمومی باتیں بھی میں سامنے رکھنا چاہوں گا.ایک مومن کے لئے اپنے وقت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے.جب ایسے اجتماعی موقعوں پر سب جمع ہوتے ہیں تو دور دور سے آئے ہوئے عزیزوں اور واقف کاروں کی ایک دوسرے سے ملاقاتوں اور مل بیٹھنے کی خواہش بھی ہوتی ہے.اب جبکہ صرف ایک ملک کے رہنے والے واقف کار اور عزیز نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے واقف کاروں اور عزیزوں سے بھی ملاقات کے سامان ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جماعت پیدا فرمائی ہے جس نے ملکوں اور قوموں کی سرحدوں اور فرقوں کو بھی ختم کر دیا اور ایک عظیم بھائی چارے کی بنیاد پڑچکی ہے.اور آپ نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں.ان میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے.ہم ایک قوم بن جائیں.اور اس کے لئے ظاہر ہے ، مل بیٹھنے کی ضرورت بھی ہو گی.ایک دوسرے سے واقفیت اور تعلق بڑھانے کی ضرورت بھی ہو گی.لیکن سارادن جلسہ کا جو پروگرام ہو رہا ہوتا ہے ، اس کو جلسہ سننے میں گزارنا چاہئے.اور اس کے بعد ہی اس کے لئے موقعہ میسر آتا ہے.لیکن بعض دفعہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ مل بیٹھنا اتنا لمبا ہو جاتا ہے کہ خوش گپیوں میں ساری ساری رات ضائع ہو جاتی ہے.یا کھانے کی مار کی میں باتوں میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ نمازوں کے اوقات میں انتظامیہ کو یاد دہانی کروانی پڑتی ہے.اسی طرح جو گھروں میں اپنے عزیزوں یا واقف کاروں کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ بھی لمبی مجلسوں کی وجہ سے وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور جلسے پر آنے کی اصل غرض کو بھول جاتے ہیں.پس ہر کام میں اعتدال ہونا چاہئے اور یہی ایک مومن کی شان ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مومنوں کو آنحضرت صلی کم کی طرف سے کھانے کی

Page 412

397 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دعوتوں اور اس میں شامل ہونے کے طریق اور دعوت ختم ہونے کے بعد کیا طریق ہونا چاہئے ؟ اور آپ کے وقت کو ضائع کرنے سے بچانے کی نصیحت فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ خاص حکم جہاں آنحضرت صلی علیکم کے مقام و مر تبہ اور آپ کے وقت کی قدر و قیمت کو مد نظر رکھ کر فرمایا ہے وہاں مومنین کو بھی وقت کے حوالے سے یہ عمومی نصیحت ہے کہ لَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ (الاحزاب :54) کہ بیٹھے باتوں میں وقت نہ ضائع کیا کرو.بے شک تعارف حاصل کروں.بیٹھو، تعارف کو بڑھاؤ.پہلے جو تعلقات ہیں انہیں مزید مستحکم کرو، لیکن اپنے وقت کا بھی کچھ پاس اور خیال کرو.اور جس کے گھر میں اور جس انتظام کے تحت بیٹھ کر ان خوش گپیوں میں مصروف ہو ان کا بھی کچھ خیال رکھا کرو.خاص طور پر جو یہاں کام کرنے والے ہیں ان لوگوں کی مصروف زندگی ہے ، ان کو بھی باہر سے آنے والے جو مہمان ہیں بعض اوقات مجبور کرتے ہیں کہ ہماری ان مجلسوں میں بیٹھو، اور اگر کوئی نہ بیٹھے تو عزیز رشتے دار، تعلق والے پھر شکوہ کرتے ہیں.یہ غلط طریق ہے.اس کی بھی احتیاط ہونی چاہئے.اسی طرح صرف یورپ سے باہر کے لوگ نہیں بلکہ یورپ کے لوگ بھی، چونکہ خود فارغ ہو کے آئے ہوتے ہیں، اس لئے یہ سمجھتے ہیں کہ باقی لوگ بھی فارغ ہو چکے ہیں.آپ کی تو چھٹیاں ہیں، ہر ایک کی چھٹیاں نہیں ہو تیں.پھر اسی طرح جب بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں تو بعض دفعہ بد مزگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.کبھی انتظامیہ سے شکوے کی وجہ سے کسی کارکن کو برا بھلا کہہ دیا.کارکنان نے بھی آگے سے جواب دے دیا تو پھر مزید بات آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس طرح رنجشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.اگر تو شکوے کرنے والے یا کوئی غلط بات کہنے والے یہاں کے رہنے والے ہیں تو پھر یہ سلسلہ بہت ہی لمبا ہو جاتا ہے.ایک حقیقی مومن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ (آل عمران : 135) کہ وہ غصہ کو دبانے والے ہوتے ہیں.پس زیادتی کرنے والے اور جس پر زیادتی ہو رہی ہے، دونوں کو میں کہتا ہوں کہ جلسے کے ماحول کے تقدس کو سامنے رکھیں اور مہمان بھی صرف نظر سے کام لیں اور عفو و در گزر کریں.اگر زیادتی ہو بھی جائے تب بھی صبر اور حوصلہ دکھائیں.اور کار کن بھی اپنے غصہ کو مہمان کی زیادتی ہونے کے باوجو د دبا جائیں.اس سال خاص طور پر کارڈز کی چیکنگ اور سکیورٹی کے مختلف مرحلوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے کسی کو تکلیف ہو اور دیر لگ جائے.اس وقت بھی مجھے عورتوں کی یہی رپورٹ ملی ہے کہ جہاں سے ان کے داخلے کے گیٹ ہیں، وہاں ان کے بہت زیادہ بیگ ہونے کی وجہ سے دیر لگ رہی ہے.بیگ تو ان کی مجبوری ہے ،لانے پڑتے ہیں کیونکہ بیچ میں بچوں کی چیزیں بھی ہوتی ہیں لیکن خواتین کو بھی چاہئے کہ آئندہ دنوں میں کم سے کم بیگ لائیں.بعضوں نے دو دو تین تین اٹھائے ہوتے ہیں.اس کی وجہ سے وقت ضائع ہو رہا ہے.اور اسی وجہ سے میں کچھ دیر رک کر آیا ہوں.لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ رش اتنا ہے کہ ابھی عورتوں کا اندر داخل ہونے پر مزید کافی وقت لگ جائے گا.جبکہ

Page 413

398 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مردوں کا داخلہ بڑاsmooth چل رہا تھا.تو بہر حال یہ دیر ہو رہی ہے.بعضوں کو دھوپ میں بھی کھڑا ہونا پڑے گا، اسی وجہ سے بے چینی پیدا ہوتی ہے، یا اپنے کسی عزیز کی وجہ سے جو کچھ معذور ہیں یا جو پوری طرح صحت مند نہ ہو ، ان کی چیکنگ ہونے کی وجہ سے ان کو لانے والے کو بھی رکنا پڑتا ہے.گو یہ انتظام ہے کہ disable لوگوں کے لئے انہوں نے علیحدہ راستہ بنایا ہے اور جلدی فارغ کرنے کی کوشش ہوتی ہے.لیکن ان کو لانے والے جو دوسرے اٹنڈنٹ (Attendent) ہیں اُن کو بعض دفعہ چیکنگ میں وقت لگ جاتا ہے.تو پھر اس وجہ سے اس معذور کو بھی تکلیف ہوتی ہے.جس کی وجہ سے بعض زودرنج جو ہیں بڑبڑانا شروع کر دیتے ہیں.تو یہ چیز میں پھر ماحول میں بدمزگی کا باعث بنتی ہیں.پس صبر اور حوصلہ دکھانا بھی ایک مومن کی شان ہے.آنحضرت صلی الم نے فرمایا ہے کہ بڑی فضیلت یہ ہے کہ تم قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھو.جو تمہیں نہیں دیتا اسے بھی دو.یہ نہیں کہ جو ضرورت کے وقت تمہارے کام نہیں آیا تو اس کو ضرورت پڑنے پر بدلہ لیتے ہوئے تم بھی اس کی مدد نہ کرو.اور فرمایا کہ جو تمہیں برا بھلا کہتا ہے اس سے در گزر کرو.پس یہاں تو برا بھلا کہنے کا سوال نہیں ہے.یہاں تو ایک فرض کی ادائیگی ہے جو کارکنان کے ذمہ لگائی گئی ہے.پس یہاں اگر انجانے میں کسی کارکن سے کوئی غلطی ہو جائے یا چیکنگ کے دوران دیر لگ جائے یا کسی کے کارڈ پر کوئی اعتراض پیدا ہو جائے تو بر امنانے کی بجائے حوصلہ دکھانا چاہئے.اب یہ تینوں باتیں جو آنحضرت صلی کم نے فرمائی ہیں یہ وسعتِ حوصلہ کی طرف رہنمائی کرتی ہیں.اگر وسعت حوصلہ پیدا ہو جائے تو تمام بد مزگیاں اور جھگڑے ختم ہو جائیں.پس میں مہمانوں اور ڈیوٹی دینے والوں، دونوں کو کہتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ وسعت حوصلہ دکھائیں.یہاں میں ایک بات چیکنگ کرنے والے کارکنان جو گیٹس پر ڈیوٹی والے ہیں ، ان کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض نوجوان اور لڑکپن کی عمر کے ہیں، گو کہ مجھے امید ہے کہ جلسے کے دوران ان دنوں میں تو ایسا واقعہ نہیں ہو گا.لیکن بعض جگہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ غلط رویہ دکھایا گیا ہے.اور یہ نظام چونکہ نیا شروع ہوا ہے اس لئے باوجود میرے کہنے کے اور اس کوشش کے کہ یہاں ان جگہوں پر سنجیدہ طبع لوگوں کی ڈیوٹی لگائی جائے، بعض غیر سنجیدہ یا ایسے لوگ جو موقع محل نہیں دیکھتے انہیں ہر وقت مذاق کی عادت ہوتی ہے ان کی بھی ڈیوٹی لگ گئی ہے.مذاق میں کسی واقف کار کو ضرورت سے زیادہ وقت لگا کر چیک کرتے ہیں.جس سے بعض اوقات وہ مذاق جو ہے وہ سنجیدگی میں بدل جاتا ہے.اس لئے گیٹ پر چیکنگ کے وقت انتظامیہ کو چاہئے کہ سنجیدہ لوگ موجود ہوں اور نائبین جو افسران ہیں وہ بھی ضرور موجود رہیں.دوسرے اس مذاق میں جو وقت ضائع ہو تا ہے تو اس سے جو دوسرے آنے والے ہیں ان کا بھی وقت لگ جاتا ہے ان کو بھی تکلیف ہوتی ہے، ان کو انتظار کرنا پڑتا ہے.میرے پاس ایک آدھ شکایت اس قسم کی بھی آئی ہے اس لئے یہ صورتِ حال بیان کر رہا ہوں.بہر حال تمام مہمان یہاں ایک

Page 414

399 خطبات مسرور جلد هشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 نیک مقصد کے لئے آئے ہیں.اس لئے اس مقصد کے حصول کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق باہم محبت و اخوت کی مثال بن جائیں.اللہ تعالیٰ نے جو مومنین کا نقشہ کھینچا ہے کہ رُحَمَاء بَيْنَهُمُ (الفتح: 30) کہ آپس میں ایک دوسرے سے بہت پیار اور محبت اور نرمی اور ملاطفت کا سلوک کرتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کا فضل حاصل کرنے والے بن سکیں اور اس فضل کے حصول کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے کی بجائے وہ رکوع و سجود اور عبادتوں سے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پس ہر مہمان جو یہاں آیا ہے اپنے سفر کو خالصتا اللہ بنانے کی کوشش کرے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں میز بانوں کو کہا تھا کہ باہر سے آنے والے مہمان، کارکنوں کے کام کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح یہ کام کر رہے ہیں ؟ اور اس کام کو دیکھ کر بڑے متاثر ہوتے ہیں.اور ہر کارکن ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے.اسی طرح جلسہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی بھی احمدیت کی خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے اور احمدیت کا سفیر ہے.ہر سال مجھے یہاں بھی اور جرمنی وغیرہ میں بھی اور بعض دوسرے ملکوں سے بھی رپورٹیں آتی ہیں وہاں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ پہلی دفعہ آنے والے غیر از جماعت مہمان یہی کہتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ اتنا بڑا مجمع اور بغیر کسی شور و فساد کے ہر کام بڑے آرام سے چل رہا ہوتا ہے.اور اس بات کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ رخ تو ہم نے پہلی دفعہ دیکھا ہے.دیکھنا کیا تھا ان کی اکثروں کی باتیں سنی سنائی ہوتی ہیں.بہر حال یہ ایک خاموش تبلیغ ہے جو ہر احمدی جلسے کے دنوں میں کر رہا ہو تا ہے.پس یہاں جلسہ میں شامل ہونے والے جلسہ میں شامل ہو کر صرف اپنی اصلاح نہیں کر رہے ہوتے ، بلکہ بہت سوں کو سیدھی راہ دکھانے کا باعث بھی بنتے ہیں.پس اس عمل سے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پہلے سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان مہمانوں پر پڑتی ہے جو بعض حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے صبر اور حوصلے اور ہمت اور برداشت کا مادہ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں اور اسلام کے اعلیٰ اخلاق کا اسلامی نمونہ ہیں وہ دکھا رہے ہوتے ہیں.اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان دعاؤں کے وارث بن رہے ہوتے ہیں جو جلسے میں شامل ہونے والوں کے حق میں آپ نے فرمائیں.ایک بات میں مہمانوں کو ہر سال یاد کرواتا ہوں، لیکن ایک طبقہ بات سن کر یوں اڑا دیتا ہے جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں اور وہ یہ کہ جماعتی مہمان داری کے انتظام کے تحت یورپ کے یا امریکہ وغیرہ کے ترقی یافتہ ملکوں کے علاوہ جو دوسرے غریب ممالک پاکستان ، ہندوستان، بنگلہ دیش و غیره، اسی طرح افریقہ کے ممالک سے آرہے ہیں وہ دو یا تین ہفتے سے زیادہ نہ ٹھہر کریں.اس سے جلسے کی انتظامیہ جو ہے اس کو بھی دقت ہوتی ہے.اور جماعت کا جو مستقل نظام ہے اس کو بھی دقت ہوتی ہے.کیونکہ رہائش کی باقاعدہ جگہیں تو اس قدر یہاں نہیں ہیں کہ تمام نظام اور رہائش کا انتظام آسانی سے چل سکے.عارضی رہائشگاہیں بنائی جاتی ہیں چاہے وہ کسی جماعتی جگہ پر ہوں یا کسی سے

Page 415

خطبات مسرور جلد ہشتم 400 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 گھر لیا ہو یا مسجد میں ہوں.گھروں کی تو خیر محدود ر ہائش ہے اس سے زیادہ گھروں کا استعمال نہیں کیا جاسکتا لیکن جو جماعتی جگہیں ہیں یا مسجد ہے اس میں تو ایک محدود وقت تک مہمان ٹھہرانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن اس کے بعد پھر حکومتی ادارے نگرانی شروع کر دیتے ہیں اور جماعت کا یہاں کی مقامی انتظامیہ پر ایک اچھا اثر ہے کہ یہ لوگ قاعدہ اور قانون کی پابندی کرنے والے ہیں.تو اگر اس قواعد کی پابندی نہ ہو رہی ہو تو اس سے برا اثر پڑتا ہے.پس اس بات کا بھی خاص خیال رکھیں کہ اگر زیادہ دیر ٹھہرنا ہے تو اپنے واقفوں اور عزیزوں کے پاس ٹھہریں اگر وہ ٹھہرانے پر راضی ہوں.زبر دستی تو وہاں بھی نہیں ہو سکتی.آنحضرت صلی اللہ کریم نے اس بات سے سختی سے منع فرمایا ہے اور اس کو جائز قرار نہیں دیا کہ مہمان اتنا لمبا عرصہ مہمان نوازی کروائے کہ میز بان کو تکلیف میں ڈال دے.پس ایک نیک مقصد کے لئے آئے ہوئے مومن کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے.زبر دستی کسی جگہ پر رہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کے گھر ڈاکہ ڈالنا اور ایک مؤسسن سے تو کبھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ تو یہاں تک فرماتا ہے کہ سلام کر کے لوگوں کے گھروں میں داخل ہو.فرمایا لَا تَدخُلُوا بيوتا ( النور : 28): کہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو حَتی تَسْتَأنِسوا( النور : 28) جب تک کہ اجازت نہ لے لو.اب لوگ اجازت لے کر مہمان بن کر تو آجاتے ہیں لیکن پھر اتنا لمبا عرصہ مہمان بنتے ہیں کہ انتظامیہ ہو یا گھر والے ہوں ان کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں.اس لئے گھر والوں کی یا انتظامیہ کی اس فکر کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنے والے مہمانوں کو مزید نصیحت فرمائی ہے کہ تُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ( النور : 28) کہ گھر والوں کو سلامتی کا پیغام دو.انہیں بتا دو کہ میں تو ایک مومن کی طرح تمہارے لئے سلامتی کے سوا کچھ نہیں لایا.میں ان مہمانوں میں سے نہیں ہوں جو میز بان کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں.میں تو ایک نیک مقصد کے لئے آیا ہوں.اور اس مقصد کے پورا ہونے کے بعد، کیونکہ دور سے آنے کی وجہ سے کچھ دیر تو ٹھہر نا پڑتا ہے، اس مجبوری کی وجہ سے کچھ عرصہ ٹھہر کر واپس چلا جاؤں گا.اور پھر میری مہمان نوازی کی وجہ سے بھی تمہیں کسی تکلف اور تکلیف کی ضرورت نہیں ہے.کوئی شکوہ نہیں ہو گا کہ میری مہمان نوازی صحیح طرح نہیں کی گئی یا میری مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کیا گیا.مومن تو سلام کو رواج دے کر محبت اور پیار کو بڑھانے والے ہیں.پس جب میر اسفر ، ایک مومن کا سفر دینی غرض کے لئے ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اپنے میز بانوں کے لئے دکھ کا باعث بنوں.ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سلامتی کا پیغام گھر والوں کو اور اپنے میز بانوں کو دو.فرمایا کہ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبْرَكَةً طَيِّبَةً ( النور :62) کہ یہ اصل سلامتی کا پیغام ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہے.پس جب میزبان اور مہمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں تو جہاں وہ کسی قسم کے خوف اور فکر سے آزاد ہوتے ہیں وہاں ایک ایسی دعا سے وہ ایک دوسرے کو فیض یاب کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی

Page 416

خطبات مسرور جلد ہشتم 401 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 طرف سے بڑی پاکیزہ اور برکت والی دعا ہے.اور جو خدا تعالیٰ کے نزدیک پاکیزگی اور برکت لانے والی دعا ہو اور پیغام ہو ، وہ آنے والے اور رہنے والے دونوں کی پاکیزگی اور برکت کا ذریعہ بن جاتا ہے.پس یہ وہ پیارا ماحول ہے، یہ وہ خوبصورت ماحول ہے جو خدا تعالیٰ ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے.لیکن اگر ہم اپنی چالاکیوں اور نفسانی اغراض کی وجہ سے اسے ضائع کر دیں تو یہ بد قسمتی ہے اور کوئی مومن اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی برکات سے محروم ہو جائے.ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی للی علم کی صحبت میں رہنے والوں کے رہن سہن اور آپس کے تعلقات میں ایسی بے تکلفی تھی اور آپ ایسے انداز میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے جو ہر ایک کو اخلاق کی بلندیوں پر لے جانے والا ہو تا تھا.جھوٹی اناؤں اور جھوٹی عزتوں اور جھوٹی غیر توں کی تمام دیواروں کو گراتے ہوئے آپ تربیت کے نئے راستے کھولتے تھے.اور یہی اخلاق کا وہ اعلیٰ معیار تھا جو آپ نے اپنی اس طبیعت کی وجہ سے ، قوتِ قدسی کی وجہ سے صحابہ میں پیدا کر دیا اور انہیں ہمارے لئے بھی ایک نمونہ بنادیا.ایک حدیث میں ہمیں اس پاک تربیت کا ایک نمونہ اس طرح ملتا ہے.حضرت ابو مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جسے ابو شعیب کہا جاتا تھا، اپنے قصائی غلام کی طرف گیا اور اسے کہا کہ میرے لئے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دو.میں نے رسول اللہ صلی علیکم کے چہرے پر بھوک کے آثار دیکھے ہیں.اس نے کھانا تیار کیا اور نبی کریم صلی یکم اور آپ کے ساتھیوں کو جو آپ کے پاس بیٹھے تھے بلا بھیجا.جب آنحضرت صلی للی کم چلے تو ایک در شخص بھی آپ کے پیچھے ہو لیا جو دعوت کے لئے بلانے کے وقت موجود نہیں تھا.جب رسول اللہ صل اللہ میں اس کے دروازے پر پہنچے تو آپ نے گھر والے سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ ایک ایسا شخص بھی آگیا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھا جب تم نے ہمیں دعوت دی تھی.اگر تم اجازت دو تو وہ بھی آ جائے.اس نے عرض کی کہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ وہ بھی ساتھ آجائے.اور رض ( ترمذی کتاب النکاح.باب ما جاء فيمن يحبى الى الوليمة من غير دعوة حديث 1099) یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو آپ اپنے صحابہ میں پیدا فرمانا چاہتے تھے اور آپ کی قوت قدسی نے بلا استثناء ہر ایک میں جو آپ سے فیضیاب ہو اوہ اخلاق پیدا کر دیئے.آپ اگر چاہتے تو اس شخص کو پہلے ہی فرما سکتے تھے کہ ہماری دعوت ہے.کیونکہ تمہیں نہیں بلایا گیا اس لئے ہمارے ساتھ نہ آؤ.لیکن نہیں، آپ وہ عظیم مدرس تھے جو اپنے صحابہ کو عملی درس سے بھی نوازتے تھے.اس لئے آپ نے اس شخص کو ساتھ آنے دیا اور یقینا آپ کو یہ بھی تسلی تھی کہ جو شخص میری محبت میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ میرے چہرے کے آثار کو دیکھتا ہے، میرے پوچھنے پر بھلا یہ انکار کر سکتا ہے.لیکن جو شخص ساتھ تھا اس کو بھی سبق دے دیا کہ ایسی صورتِ حال میں اگر گھر والا انکار

Page 417

خطبات مسرور جلد هشتم 402 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 کرے تو بغیر بر امنائے واپس چلے جانا.کیونکہ یہ تمہارا حق نہیں ہے گھر والے کا احسان ہے.اس لئے کبھی کسی قسم کی جھوٹی آنا اور جھوٹی غیرت میں نہ پڑنا.صحابہ نے تو آنحضرت صلی الی کم کی تربیت اور قوت قدسی سے وہ معیار حاصل کئے تھے کہ ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ آپ اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ میں اس حکم کو بھی پورا کرنے والا بن جاؤں کہ اگر تمہیں گھر والا کہے کہ واپس چلے جاؤ تو بغیر بر امنائے واپس آ جاؤں.لیکن وہاں تو تمام صحابہ ہی آنحضرت صلی الم کے تربیت یافتہ تھے.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ کوئی مہمان نوازی کا حق ادانہ کرتا اور گھر آئے ہوئے مہمان کو واپس لوٹا دیتا.اس لئے ان صحابی کی یہ خواہش باوجود کوشش کے کبھی پوری نہیں ہوئی.لیکن اس سے اس وسعت حوصلہ اور ہر حکم پر عمل کرنے کی خواہش اور تڑپ کا بہر حال واضح اظہار ہوتا ہے جو ان صحابہ کے دل میں ہوتی تھی.پس یہ وہ وسعتِ حوصلہ ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دل میں پیدا کرنی چاہئے اور اس کا عملی اظہار بھی ہماری زندگیوں میں ہونا چاہئے.اس ماحول میں جب آپ جلسہ کے لئے آئے ہوئے ہیں تو واقف کاروں کو ملنے اور سلام کرنے کے بہت نظارے نظر آتے ہیں لیکن اصل اسلامی معاشرہ کی خوبی یہی ہے اور آنحضرت صلی یم نے بھی یہ ارشاد فرمایا کہ جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے ہر ایک کو سلام کہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں اور باہر سے آئے ہوئے نو مبائعین جو ہیں اس سے بڑے متاثر ہوتے ہیں.پس فرمایا کہ تم جانتے ہو یا نہیں جانتے اسے سلام کہو.پس ان دنوں میں سلام کو بھی رواج دیں تا کہ یہ عادت پھر مستقل آپ کو پڑ جائے.آنحضرت صلی علیم نے فرمایا کہ سلام کو رواج دینا اسلام کی ایک بہترین قسم ہے.بشر طیکہ سلام کے رواج کی، سلام کا جو پیغام ہے اس کی روح کو سمجھا جائے.سلام ایک سلامتی کا پیغام ہے.ایک محبت کا اظہار ہے تاکہ محبت اور بھائی چارہ قائم ہو.کتنا اچھا ہو اگر آج بعض وہ لوگ جو ایک دوسرے سے ناراض ہیں وہ بھی دل کی گہرائی سے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے سلامتی کا پیغام پہنچائیں اور گلے لگ جائیں.مومن ایک ہو کر اپنے لہی سفر کی برکات حاصل کرنے والے بن جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا عمل بھی ایک مہمان ہونے کی حیثیت سے ایک سبق دیتا ہے.یہ بھی ایک ایسی بات ہے جو ہر مومن کو اپنے مد نظر رکھنی چاہئے.ہر مہمان کو جو مہمان بن کر کہیں بھی جاتا ہے اس کو اپنے سامنے رکھنی چاہئے.نبی کا تو ہر سفر للہی ہوتا ہے بلکہ اس کا تو ہر لمحہ خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی میں اور خد اتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے واقعات میں سے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جو آپ کے مہمان ہونے کے ایک اعلیٰ ترین معیار کا پتہ دیتا ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے جو روایت کی

Page 418

403 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 جولائی 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہے کہ جنگ مقدس کی تقریب میں ( جنگ مقدس ایک عظیم مباحثہ کا نام ہے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے در میان امرتسر میں 1893ء میں ہوا تھا جو تقریباً 15 دن تک جاری رہا) اسلام کی نمائندگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی اور بڑے واضح نشانات کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور براہین کے ساتھ اسلام کی برتری ثابت فرمائی.بہر حال یہ روحانی خزائن میں کتابی شکل میں موجود ہے.جب آپ اس مباحثے کے لئے امر تسر میں ٹھہرے ہوئے تھے تو ایک دن مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے منتظمین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے کھانا رکھنا یا پیش کرنا بھول گئے اور رات کا ایک بہت سا حصہ گزر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے انتظار کے بعد جب کھانے کے بارہ میں پوچھا تو سب جو انتظام کرنے والے تھے ان کے تو ہاتھ پیر پھول گئے کہ کھانار کھا ہوا نہیں ہے اور بازار بھی اب بند ہو چکے ہیں کہ بازار سے ہی کھانا منگوالیا جائے.بہر حال جب یہ صورتحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم میں آئی، آپ کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس قدر گھبراہٹ اور تکلف کی ضرورت نہیں ہے.دستر خوان میں دیکھو کچھ بچا ہوا ہو گا.وہی کافی ہے.دستر خوان کو دیکھا گیا تو وہاں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے.آپ نے فرمایا کہ ہمارے لئے یہی کافی ہیں اور آپ نے وہی کھا لئے.تو یہ ہے آنحضرت صلی اللہ نام کے عاشق صادق اور اس زمانے کے امام کا نمونہ.پس ہم جو اپنے آپ کو آپ کی جماعت میں شامل کرتے ہیں اور شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں یہ صبر اور حوصلہ اور شکر گزاری کے جذبات دکھانے کی ضرورت ہے.ان تین دنوں میں کسی کی مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اس سے در گزر کریں.انتظامیہ کو تو بے شک آپ توجہ دلا دیں لیکن بڑے پیار سے.کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مہمان کی بے تکلفی بھی ضروری ہے.اگر بعض کمیوں کی طرف توجہ نہ دلائی جائے تو پتہ نہیں لگتا کہ کس طرح خامیاں پوری ہوں گی.اللہ تعالیٰ جلسہ کی برکات سے سب کو فیض اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں میں پھر سکیورٹی کے حوالے سے یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ یہ صرف ڈیوٹی کے کارکنان کا ہی کام نہیں ہے بلکہ یہ ہر شامل ہونے والے احمدی کا کام ہے کہ اپنی اور جلسے میں شامل ہونے والے ہر مہمان کی حفاظت کے لئے اپنے ماحول پر نظر رکھے.اور کسی بھی قسم کے شک کی صورت میں فوراً انتظامیہ کو اطلاع دے.اسی طرح جلسے کے ماحول اور صفائی وغیرہ کے لئے یا دوسرے معاملات کے لئے پروگرام میں جو تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں ان کو پڑھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اور دعاؤں میں اپنا وقت گزاریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 340 مورخہ 20 اگست تا 26 اگست 2010 صفحه 5 تا 8)

Page 419

خطبات مسرور جلد ہشتم 404 32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 اگست 2010ء بمطابق 06 ظهور 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: الحمد للہ گذشتہ اتوار جماعت احمد یہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے اختتام کو پہنچا تھا.سب سے پہلے تو ہمارے سر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور جھکنے چاہئیں.اور حقیقی مومن کا یہی رویہ ہونا چاہئے کہ محض اور محض اس کے فضل سے تمام کام بخیر و خوبی انجام کو پہنچے.اللہ کرے کہ ہم اس اہم بات کو ہمیشہ سمجھتے رہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ابتدا ہی اس بات سے کی ہے کہ ایک حقیقی مومن اپنے تمام کام اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہے تاکہ اس کی ابتداء سے انتہاء تک اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہے اور خد اتعالیٰ ہر لمحے یاد آتار ہے.قرآن کریم کی پہلی آیت ہی بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے جو کہ اس بات کا اعلان ہے کہ میں اپنے خدا کے نام کے ساتھ اس عظیم کتاب کو پڑھتا ہوں جس نے میری دین ودنی کی بقا کیلئے اسے اپنے نبی صلی علیہ تم پر نازل فرمایا.ہر کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرو پس ایک مومن کو یہی نصیحت ہے کہ اپنے ہر کام کی ابتدا بسمِ اللہ سے کرو.اور پھر اللہ کے نام کے ساتھ.بسم اللہ کے بعد جن صفات کا استعمال کیا گیا ہے وہ دو ہیں.گو اللہ جو تمام صفات کا جامع ہے.ایک الرحمن اور دوسرے الرّحِیم ہے.الر حمن وہ ہے جو بے انتہا کرم کرنے والا ہے.بار بار رحم کرنے والا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ہی ہے جو بے انتہاء رحم کرتے ہوئے اپنا کرم فرماتی ہے.جو کسی کام کو کرنے کے لئے ایسے حالات پیدا کرتی ہے، ایسے انتظامات کرتی ہے جو کسی انسان کی کوشش سے نہیں ہو تا.اللہ تعالیٰ اپنی بہت سی صفات اپنے بندوں کے لئے صفت رحمانیت کا نظارہ دکھاتے ہوئے بروئے کار لا رہا ہوتا ہے.اور پھر صفت رحیمیت ہے جو صفت رحمانیت کے عموم سے ہٹ کر عباد الرحمن کے لئے خاص طور پر اپنا جلوہ دکھاتی ہے.ایک مومن جب اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لئے اس کے حضور جھکتا ہے ، تمام امور کے با احسن انجام پانے کے لئے اس کی مدد اور رحمت کا امیدوار ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت کے جلوے دکھاتا ہے اور یہ تائید و نصرت کے

Page 420

405 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جلوے ہم نے اس جلسہ کے دوران بھی دیکھے.اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے بھی نظارے ہم نے دیکھے.اور اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے نظارے بھی ہم نے دیکھے.اور ان کو دیکھ کر ہم میں شکر گزاری کی کیفیت بھی پیدا ہوتی رہی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس شکر گزاری اور اللہ تعالیٰ کا عبد شکور بننے کی وجہ سے ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے بھی فیض پاتے رہے کہ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : 8 ) اگر تم شکر گزار بنے تو میں اور بھی زیادہ دوں گا.پس جلسے کے دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے افضال کو دیکھ کر اُس کے شکر گزار رہے، اس کے آگے جھکتے رہے اور ہمارے بعض خدشات اور تحفظات کو خد اتعالیٰ نے اپنے فضل سے دور فرمایا اور بے شمار برکتوں کے ساتھ جلسہ کا اختتام ہوا.پس ان افضال، اللہ تعالیٰ کے رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے جو ہم نے دیکھے ان کے جاری رکھنے کے لئے یہ کیفیت ہمیشہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش اور جستجو کے لئے کوشش کرتے رہیں، اس سے فضل مانگتے رہیں.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیا کا ہو یاد ین کا انجام کو نہیں پہنچ سکتا.فرمایا کہ ”اور اگر غور کر کے دیکھو تو ظاہر ہو گا کہ دنیا کی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں.خدا کی رحمانیت اس وقت سے ظاہر ہورہی ہے کہ جب انسان ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا.سو وہ رحمانیت انسان کے لئے ایسے ایسے اسباب بہم پہنچاتی ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہیں اور جن کو وہ کسی حیلہ یا تدبیر سے ہر گز حاصل نہیں کر سکتا“.فرمایا ” اسی طرح خدا کی رحیمیت تب ظہور کرتی ہے کہ جب انسان سب تو فیقوں کو پا کر خداداد قوتوں کو کسی فعل کے انجام کے لئے حرکت دیتا ہے اور جہاں تک اپنا زور اور طاقت اور قوت ہے خرچ کرتا ہے تو اُس وقت عادتِ الہیہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ ان کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے.پس یہ اس کی سراسر رحیمیت ہے کہ جو انسان کی مردہ محنتوں میں جان ڈالتی ہے “.(براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 422-421- حاشیہ نمبر 11) شکر گزاری پس جلسہ کے کاموں کی منصوبہ بندی، کارکنان کی محنت، انتظامات جس کے نتیجہ میں بہتری اور کامیابی ایک مومن کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کی طرف متوجہ کرتی ہے.اور وہ بجائے تمام امور کے عمدگی سے طے پا جانے کو اپنی طرف منسوب کرنے کے اسے خدا تعالیٰ کا فضل قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتا ہے.اور حقیقی عبدِ شکور بننا یہی خدا تعالیٰ کی شکر گزاری ہے یا خدا تعالیٰ کی شکر گزاری جو ہے وہی انسان کو عبد شکور بناتی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.اسی طرح اور بھی بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس شکر کے مضمون پر توجہ دلائی ہے کہ مومنین کی

Page 421

406 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نشانی شکر گزاری ہی ہے.لیکن غیر مومن شکر گزار نہیں ہوتے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے انسان کے ناشکرے پن کا ذکر یوں فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ لَن وَ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَشْكُرُونَ (البقرة:244) کہ اللہ لوگوں پر یقینا بڑا فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے.اتنے فضلوں اور احسانوں کے بعد جو شکر گزاری کا حق ہے اُسے ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ انسان کی روحانی ترقی کے بھی سامان فرماتا ہے اور دنیاوی اور ظاہری ترقی کے بھی سامان فرماتا ہے.پس ایک مومن جب یہ دونوں طرح کے فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے برستے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں پہلے سے بڑھتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا سب سے بہترین طریق اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کرنا ہے جسے ہر وقت ہر مومن کو ہمیشہ یادر کھنا چاہئے.اس کے آگے جھکنا ہے اور اپنے ہر کام کے نیک نتائج کو خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کرنا ہے، اس کے فضل کی طرف منسوب کرنا ہے.اور یہی حقیقی مومن کہلاتے ہیں جو اس سوچ کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں.یہی اللہ کے نام کے ساتھ ہر کام کے شروع کرنے کا ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں.اور یہی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور رحیمیت کو اپنے کاموں کے انجام تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں.اور جب ایک مومن کو اس بات کا ادراک حاصل ہو جاتا ہے تو اس بات کے علاوہ اس کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہوتا کہ اس شکر گزاری کا اظہار اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کرے.اور حمد کے لئے بھی قرآن کریم نے ہی ہمیں صحیح طریق بتایا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں ایک مومن کو واضح فرما دیا کہ جب تم میرے نام کے ساتھ کام شروع کرتے ہو اور میرے فضلوں کے نظارے دیکھتے ہو تو پھر یہ اعلان کرو.اپنی عبادتوں میں طاق ہو جاؤ اور وہاں سے یہ اعلان کرو پانچوں وقت کی نمازوں میں، اور نمازوں کی ہر رکعت میں اور نوافل میں اور دعاؤں میں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحه : 2) کہ سب تعریف اور حمد اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے میرے لئے یہ تمام سامان مہیا فرمائے.پس ایک مومن کو ، ایک حقیقی شکر گزار کو اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے انعامات افضال جو خدا تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے نتیجہ میں ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں اسے خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بناتے ہیں.حقیقی حمد کا ادراک اس میں پیدا ہوتا ہے.اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ثنا اور شکر کی بجائے حمد کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیا ہے نہ کہ شکر اور مدح سے.کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے.مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد ہے“.(کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7- صفحه 107- (ترجمه از عربی عبارت) تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 76) پس جب ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں تو یہ صرف سادہ شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اس بات کا اقرار ہے کہ

Page 422

407 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ایک تو اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سامان بہم پہنچائے پھر ہماری محنت یا کوشش جو بھی ہم نے کی اور جس حد تک کی اس کو نوازتے ہوئے ہماری دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اس کے پھل عطا فرمائے اور پھر صرف یہی نہیں کہ اس حد تک انعامات اور فضلوں سے نوازا جس قدر ہماری محنت اور دعا تھی بلکہ جہاں جہاں ہماری کوششوں میں کمیاں رہ گئیں ، ہماری دعاؤں میں کمی رہ گئی ، اس کی اصلاح کرتے ہوئے اس کے بہترین اور خوبصورت اور احسن ترین نتائج بھی پیدا فرمائے.پس اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری معمولی انسانوں کی شکر گزاری کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کی حمد کرتے ہوئے کہ ہماری پردہ پوشی فرمائی ہے کمیوں کو دور کیا اور نہ صرف یہ کہ پردہ پوشی فرمائی بلکہ خود ہی ان کی اصلاح کرتے ہوئے ان کوششوں کے معیار بھی بہتر کر دیئے اور اتنے بہتر کر دیئے کہ انسانی کوششوں سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے.پس جب ہم اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خوشخبری دیتا ہے کہ تم میری حمد اور شکر گزاری کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے، میرے شکر گزار بنتے ہوئے، جو اچھے نتائج تم نے حاصل کئے ہیں انہیں میری طرف منسوب کرتے ہوئے جب اپنی سوچوں کے دائرے اس طرح چلاتے ہو تو پھر ایسے لوگوں کو میں نوازتا ہوں.پس یہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا مضمون اللہ تعالیٰ کی قدرتوں، طاقتوں اور تمام صفات کا ادراک پیدا کرنے والا ہے جسے ہمیں سمجھنے کی اور ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے بعد، اس کی حمد کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کا شکر گزار بننے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور یہ شکر گزاری بندوں کا حق ہے.ہر شخص جس نے ہمارے لئے کچھ بھی کیا ہو اس کا حق ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بنیں اور یہی عبادالرحمن کا شیوہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کے، حقوق اللہ کی ادائیگی کا بھی حق ادا نہیں ہو سکتا.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 216) آنحضرت صلی یکم جو شکر اور احسان کے بدلے اتارنے کے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تھے.جہاں تک کوئی انسان پہنچ نہیں سکتا، آپ فرماتے ہیں کہ ”جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا“.(سنن الترمذی.کتاب البر والصلة باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک.حدیث نمبر 1954) آپ صلی ہم تو جو کوئی معمولی سا بھی کام آپ کا کر تا تھا آپ کی خدمت کرتا تھا، بے انتہا شکر ادا کیا کرتے تھے.یہ آپ کا جذ بہ شکر گزاری ہی تھا جس کے تحت آپ نے انصار مدینہ کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ میں رہنے کا فیصلہ فرمایا اور مدینہ کو اپنا وطن ثانی قرار دیا اور روز مرہ کی زندگی میں آپ کے ان گنت واقعات ہیں جو آپ کی شکر گزاری کے جذبات کے تحت دوسروں کو نوازتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں.پس یہ شکر گزاری کے جذبات کا اظہار بھی آپ صلی للی کم کا ایک عظیم اُسوہ ہے.اس کی ایک حقیقی مومن کو پیروی کرنی بہت

Page 423

408 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ضروری ہے.ہر وقت اس کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کے تمام کام بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچے اس کے لئے ہم جہاں سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہیں وہاں ان سب کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے تمام کاموں اور امور کی انجام دہی کے لئے دن رات ایک کی ہے.کئی کارکنان ہیں جنہوں نے جلسہ سے کئی دن پہلے تک، کئی کئی گھنٹے و قارِ عمل کیا اور حدیقہ المہدی میں ایک عارضی شہر قائم کر دیا اور اب تک یہ وقار عمل چل رہے ہیں جب وہاں سے سب کچھ اٹھانا بھی ہے ، سمیٹنا بھی ہے ، صفائی بھی کرنی ہے.بے شک یہ مارکیز جو لگائی جاتی ہیں کمپنی والے خود ہی اپنی چیزیں اتار رہے ہیں.لیکن پھر بھی وائینڈ آپ کا بہت زیادہ کام ہوتا ہے جو کافی دن تک چلتارہتا ہے.بہر حال یہ سب لوگ شکریہ کے مستحق ہیں.جلسہ میں شامل ہونے والے مہمانوں کو بھی، ان کارکنان کا بھی اور باقی تمام شعبوں کے کارکنوں کا بھی شکر گزار اور احسان مند ہو نا چاہئے.جہاں تک غیر از جماعت مہمانوں کا تعلق ہے جو مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے وہ خاص طور پر مجھے شکریہ ادا کر کے گئے ہیں کہ ان کا بے حد خیال رکھا گیا.کھانا، پینا، رہائش، ٹرانسپورٹ غرض جو جو شعبہ بھی ان کی خدمت پر مامور تھا ان سب نے بلا استثناء تمام خدمت کرنے والوں کی بے انتہا تعریفیں کی ہیں.اور اس بات نے ہمیشہ کی طرح انہیں متاثر بھی کیا ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ کس طرح ہمہ وقت معمولی معمولی خدمت بھی انتہائی خوش دلی سے اور خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے تھے.جلسہ کی خوش کن بات اس سال جلسہ کی خوش کن بات یہ بھی ہے کہ بعض لوگ جو تنقید کے بڑے ماہر ہوتے ہیں اور کوئی نہ کوئی سقم یا کمی نکال لیتے ہیں.کیونکہ ہر کام میں مکمل طور پر پر فیکشن (Perfection) تو بہر حال نہیں ہو سکتی.بہر حال یہ اچھی بات ہے شعبہ جات کو اپنے کاموں میں بہتری کی طرف راہنمائی مل جاتی ہے.میں ان کی عادت یا نقائص کی نشاندہی پر اعتراض نہیں کر رہا جیسا کہ میں نے کہا کہ اچھی بات ہے راہنمائی ہو جاتی ہے اور عادت کا بھی جو لفظ میں نے استعمال کیا ہے اس لئے بھی کیا ہے کہ بعض لوگ عادتاً بھی اعتراض کر رہے ہوتے ہیں کہ چھٹا پھینک دیتے ہیں.جیسے فضل کا چھٹا پھینکا جاتا ہے ، یہ بھی چھٹا پھینک دیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی اعتراض تو ٹھیک ہو جائے گا.تو ان کی عادت بھی انتظامیہ کو فائدہ دیتی ہے.بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس سال میرے پاس ابھی تک نقائص کی نشاندہی کرنے والوں کے جو خطوط آئے ہیں انہوں نے بھی انتظامات کی تعریف کی ہے.اور یہی لکھا ہے کہ ہر شعبہ میں جس حد تک بہتری پیدا کرنے کی کوشش ہو سکتی تھی یہ کوشش نظر آئی ہے بلکہ بعض جو لوگوں کے ادھر اُدھر پھرنے اور گپیوں میں وقت گزارنے کا شکوہ کیا کرتے تھے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ اس دفعہ شاملین جلسہ کی جلسہ کے پروگراموں میں شمولیت اور سنجیدگی میں بہت بہتری نظر آئی اور بہت توجہ نظر آئی.اسی طرح عبادت ، دعاؤں

Page 424

409 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اور ذکر الہی کی طرف بھی توجہ نظر آئی ہے.اس لئے شاملین جلسہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بھی اس جلسہ میں اپنے اس مقصد کو بھی جس کے لئے وہ آئے تھے پورا کرنے کی کوشش کی ہے.اور یہی جلسہ کا مقصد ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے اور ان کو کرنا چاہئے تھا.اللہ کرے یہ جو تبد یلی لوگوں میں نظر آئی ہے دائمی تبدیلی ہو.پھر جماعت احمد یہ عالمگیر کے مختلف ممالک میں بسنے والے احمدی جو عموماً UK کے جلسہ کے انتظار میں بھی ہوتے ہیں اور بڑے غور سے اسے دیکھتے اور سنتے بھی ہیں اور احمدیوں کو جو خاص طور پر UK اور جرمنی کے جلسے کا انتظار بھی ہوتا ہے.یہ جلسے کا دیکھنا اور سننا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعے سے آسان ہوا ہے ور نہ پاکستان کی جماعتوں میں تو جلسہ نہ ہونے کی وجہ سے محرومی کا احساس بہت بڑھ گیا تھا.بہر حال جب ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا جلسے کی کارروائی کو دیکھتی ہے اور سنتی ہے تو ایم ٹی اے کو شکریہ اور تعریف کے بے شمار خطوط اور ای میلز وغیرہ آتے ہیں.ایم ٹی اے کی انتظامیہ نے بتایا کہ اس سال میں اتنی زیادہ تعداد میں آئے ہیں اور ویسے تو ہر سال ہی آتے ہیں لیکن اس سال تعداد بڑھی ہے کہ جواب دینا ممکن نہیں.بہر حال ان سب کا شکریہ جنہوں نے ایم ٹی اے کے کارکنوں کی کوششوں کو سراہا ہے.ایم ٹی اے کو براہ راست پیغامات کے علاوہ مجھے بھی بہت سے لوگ مبارکباد اور شکریہ کے خط لکھتے ہیں جن میں خاص طور پر ایم ٹی اے کے کارکنان کا ذکر بھی ہوتا ہے کہ ہمارا ان تک سلام بھی اور شکریہ کا پیغام بھی پہنچا دینا.ماشاء اللہ یہ کارکنان جو کام کرنے والے ہیں ایم ٹی اے میں جن کی اکثریت volunteers کے طور پر کام کرتے ہیں.اور سال ہا سال سے مستقل مزاجی سے کام کرتے چلے جارہے ہیں.یہ سب شکریہ کے مستحق ہیں.میں جماعت کی طرف سے بھی اور اپنی طرف سے بھی ان سب کا شکریہ ادا کر تا ہوں.یہاں UK میں ایم ٹی اے انٹر نیشنل میں کام کرنے والے ہیں ان کے علاوہ بھی دنیا کے بڑے ممالک میں ایم ٹی اے کے volunteers کام کر رہے ہیں، ان کا بھی شکریہ ادا کر تاہوں.اس کے علاوہ جماعت کی ویب سائٹ ہے alislam.org کے نام سے جانی جاتی ہے.یہ بھی جلسہ کے پروگراموں کو دکھانے میں بہت کردار ادا کر رہی ہے.اس میں بھی بے شمار volunteers کام کر رہے ہیں.اور کئی کئی گھنٹے وقت دیتے ہیں.امریکہ سے اس کا انتظام ہوتا ہے.ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب اس کے انچارج ہیں.انہوں نے بتایا کہ اس سال اتنازیادہ لوگوں نے اس کو استعمال کیا کہ اس کی سروس متاثر ہو رہی تھی اور رک رک کر لوگ دیکھ رہے تھے اور بہت زیادہ شکوے کے پیغام آئے کہ اس کی مزید بہتری کی طرف توجہ دیں.بہر حال یہ تو ایک محدود تعداد کے لئے ہوتا ہے لیکن اس سال بہت کثیر تعداد میں اس کو استعمال کیا ہے.alislam.org کی جو ٹیم ہے اس کو بھی اب سوچنا چاہئے کہ کس طرح اس کا معیار مزید بہتر کیا جاسکے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جب وزٹ کرتے ہیں تو فائدہ اٹھائیں.

Page 425

خطبات مسرور جلد ہشتم 410 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 اس سال سکیورٹی کے حوالے سے بھی بعض فکریں تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے ڈور فرمایا اور صرف خیالی فکریں نہیں تھیں یا پاکستان کے واقعہ کی وجہ سے ڈر اور خوف نہیں تھا بلکہ حقیقی فکر تھی.ایک واقعہ ایسا ہوا بھی کہ شواہد بتاتے ہیں کہ جو بھی تھے نیت بد تھی.لیکن سکیورٹی کے کارکنان کے چوکس رہنے اور بر وقت انتظام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شر سے محفوظ رکھا.اس لحاظ سے تمام سکیورٹی کے انتظامات اور یہ شعبہ جو اس سال تقسیم کار کے لحاظ سے بھی مزید وسیع کیا گیا تھا یہ سب لوگ جو ہیں شکریہ کے مستحق ہیں.بعض کارکنان نے تو شاید مشکل سے دو تین گھنٹے ہی آرام کیا ہو گا اور باقی وقت اپنی ڈیوٹیوں پر رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے حفاظت اور خدمت خلق کے شعبے کی عمومی رنگ میں بہترین کار کردگی رہی ہے.لیکن ایک دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں حفاظت اور خدمتِ خلق کے کارکنان سے غلط فہمی کی وجہ سے بعض لوگوں کو تکلیف بھی پہنچی.جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے جس کے لئے ایک دو فیملیوں کو جن کو تکلیف پہنچی ہے ان سے معذرت ہے.لیکن جس پریشر کے تحت، جس دباؤ کے تحت یہ کارکنان کام کر رہے تھے اور بعض کو جیسا کہ میں نے کہا آرام کا وقت ہی نہیں ملا تھا.ان حالات میں ایسے معمولی واقعات ہو جاتے ہیں اس لئے میری درخواست ہے کہ جن سے یہ زیادتی ہوئی ہے وہ ان کارکنان کو معاف کر دیں اور دل میں کوئی رنجش نہ لائیں.بہر حال عمومی طور پر ڈیوٹی دینے والے غیر معمولی چوکس رہے ہیں اور بڑی گہری نظر سے ہر طرف نظر رکھ کر کام کیا ہے اور میری توقعات سے بڑھ کر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے.جو خدام یہاں UK کے جلسہ پر ڈیوٹیاں دیتے ہیں، ان میں مستقل ڈیوٹیاں دینے والے بھی ہیں.یہ جلسہ کے صرف چند نہیں بلکہ گزشتہ چھبیس سال سے ڈیوٹیاں دیتے چلے جارہے ہیں.اس حوالے سے بھی میں ان کا شکر یہ ادا کر نا چاہتا ہوں.خاص طور پر مسجد فضل میں مستقل ایک جذبے سے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے والے ہیں اپنے کام کا حرج کر کے وقت دے رہے ہیں خاص طور پر مسجد فضل کے حلقے کے لوگ.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے.اس دفعہ حفاظت کے حوالے سے بھی ذمہ داری کے عجیب عجیب نظارے دیکھنے میں آئے ہیں.ایک لجنہ کی عہدیدار نے مجھے لکھا کہ وہ اپنی ساتھیوں کے ساتھ مارکیٹ کی طرف گئیں کیونکہ بیچ میں سے گئیں تھیں باہر سے نہیں گزر رہیں تھیں اس لئے چیکنگ کا خیال نہیں تھا انہوں نے ویسے بھی بیج لگایا ہوا تھا، لیکن وہاں سے نکلتے ہوئے ایک خادم نے کہا کہ آپ اپنے بیگ چیک کروائیں.لجنہ کی عہدیداران کہتی ہیں ہم نے انہیں بہت کہا کہ ہمارے بیچ لگا ہوا ہے کہ ہم ڈیوٹی پر ہیں، اندر سے آرہی ہیں اور اندر دوبارہ واپس جارہی ہیں، باہر نہیں نکلیں.لیکن اس نے کہا کہ بیگ وغیرہ چیک کئے بغیر میں تو آپ کو نہیں جانے دوں گا.کہتی ہیں ہم نے پوچھا آپ کو یہ چیکنگ کے لئے کس نے کہا ہے ؟ مقصد یہ تھا کہ کوئی علیحدہ سے خاص ہدایت آئی ہے.اس نے سادہ سا جواب دیا، اس نے میرا حوالہ دیا

Page 426

411 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کہ خطبہ میں حضور نے کہا کہ سکیورٹی والے بھی اگر باہر نکلتے ہیں تو ان کو بھی چیک کرنا ہے.اس لئے میرے لئے تو یہی ہدایت کافی ہے.اس لئے میں تو آپ کو چیک کئے بغیر نہیں جانے دوں گا.چاہے افسر میرا کہتا ہے یا نہیں کہتا.تو یہ ڈیوٹی والوں کا جذبہ تھا.اس سے مجھے وہ واقعہ بھی یاد آگیا.ایک دفعہ قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح الثائی کے وقت کی بات ہے احرار نے جب شرارت کرنے کا ارادہ کیا اور کافی زیادہ خطرہ بھی تھا تو بہشتی مقبرہ کے لئے حفاظت کے لئے آپ نے خاص طور پر ڈیوٹیاں لگائیں.ہر ایک کو خاص کو ڈ بتایا کہ اس کے بغیر تم نے کسی کو اندر نہیں داخل ہونے دینا.چیک کرنے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایک دفعہ رات کو خود گئے تو ڈیوٹی والوں نے روک لیا، انہوں نے اپنا نام لیا.اس نے کہا حضور! میں نے آپ کو پہچان تو لیا ہے لیکن مجھے آپ کا حکم ہے کہ کوڈ کے بغیر جانے نہیں دینا.اس لئے آپ نہیں جاسکتے.تو حضرت خلیفہ ثانی نے اس کی بڑی تعریف کی.یہ بڑا لمباواقعہ ہے.بہر حال اگر خلیفہ وقت کی ہدایت پر خلیفہ وقت کو خو د روکا جاسکتا ہے تو عہدیداران کارو کنا کوئی ایسی بات نہیں.بعض نئے انتظامات ہوں تو اندازے صحیح نہیں ہوتے اور اندازے میں کمیاں بھی رہ جاتی ہیں.اس دفعہ بھی جلسہ گاہ میں داخلے کے گیٹ سکینر کی وجہ سے محدود تھے اس لئے خاص طور پر عورتوں کو لمبے عرصہ کے لئے انتظار کرنا پڑا جس کا ذکر میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کیا تھا.بعض ڈیوٹی والی خواتین نے مجھے لکھا کہ رش اور لمبے انتظار کی وجہ سے عورتوں اور چھوٹے بچوں کو دواڑھائی گھنٹے تک اور سایہ دار جگہ کی کمی ہونے کی وجہ سے دھوپ میں کھڑا ہونا پڑا.لیکن عور تیں اپنے بچوں کے ساتھ بڑے صبر اور تحمل سے اتنالمبا عرصہ اپنی باری کا انتظار کرتی رہیں.اور کیو (que) میں (لائن میں ) لگی رہیں.ذرا بھی بے صبری اور ناراضگی کا اظہار نہیں کیا.بچے بھی بڑی تکلیف میں تھے لیکن بڑے حوصلے سے انہیں بہلاتی رہیں.ایک کارکنہ لکھتی ہیں کہ ان ماؤں اور بچوں کی حالت دیکھ کر مجھے رونا آرہا تھا.اس لئے بھی کہ یہ بچوں سمیت تکلیف میں ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ وہ احمدی مائیں ہیں اور یہ بچے ہیں جو جلسہ سننے کے لئے آئے ہیں.اور صرف اس لئے اتنے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ یہ عور تیں کر رہی ہیں کہ ان کا یہاں آنا دینی غرض سے ہے.بہر حال بعض کارکنات ان کی یہ حالت دیکھ کر روتی تو ر ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھیں کیونکہ اپنے فرائض کی ادائیگی بھی ضروری تھی.گو بعد میں انتظام بہتر کر دیا گیا اور پہلے دن والا واقعہ دوبارہ نہیں ہوا.جمعہ کی وقتی تکلیف ہوئی تھی.انتظامیہ خاص طور پر چھوٹے بچوں والی ماؤں سے معذرت بھی کر رہی ہے اور ان کی شکر گزار بھی ہے.اس بات نے ان احمدی عورتوں کے صبر اور حوصلے کا اظہار بھی کروا دیا اور بتا دیا کہ آج تک یہ صبر ہم میں قائم ہے کیونکہ اگر ان عورتوں کی وجہ سے ذرا بھی بے صبری کا اظہار ہو تا تو وہ داخلے کا جو نظام تھا، تمام درہم برہم ہو جانا تھا.اس کی کامیابی یقیناً شامل ہونے والوں کے تعاون کی وجہ سے ہے.اس کے لئے پھر وہی خدا تعالیٰ کی حمد کا مضمون چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی دلوں میں اس بات کو قائم رکھتا ہے کہ جماعت کے لئے تم نے قربانی نظام در

Page 427

خطبات مسرور جلد ہشتم 412 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 دینی ہے.غیر از جماعت مہمانوں نے بھی خاص طور پر اس بات کو نوٹ کیا ہے کہ ایسا پُر سکون que لگاہوا تھا جو عجیب نظارہ پیش کرتا تھا.اسی طرح باقی شعبہ جات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے نظارے دیکھے.ٹرانسپورٹ کا شعبہ گزشتہ سال بھی اچھا انتظام تھا لیکن اس سال پہلے سے بہتر ہوا.لنگر خانے کا شعبہ ہے.کھاناکھلانے کا شعبہ ، کھانا پکانے اور کھلانے کے بہترین انتظامات تھے.دوسرے تمام شعبہ جات بھی، گویا تمام شعبے جو ہیں شکریہ کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ایمان اور اخلاص میں مزید بڑھائے.( آمین) پولیس نے بھی جلسہ کے بعد ہماری انتظامیہ سے یہی کہا ہے کہ غیر معمولی سکون کے ساتھ تمام کام ہوئے ہیں جو ہمارے لئے بھی نمونہ ہیں.اسی طرح حکومت کے محکمہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی نے گزشتہ سال اپنے قواعد کی وجہ سے کچھ پابندیاں لگائیں تھیں اس سال نہ صرف یہ کہ گزشتہ کمیاں دور ہوئی ہیں بلکہ محکمہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی نے انتظامیہ کو کہا کہ آپ کا کام اتنا مثالی تھا کہ ہم اپنے محکمہ کی جو مجموعی رپورٹ چھپتی ہے اس میں اس کی مثال دوسروں کے لئے بھی پیش کریں گے.پس یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں ورنہ یہ ہماری کوششیں نہیں جو تمام متعلقہ لوگوں کے رُخ بھی ہماری طرف کر دیں.پس ہماری نظر تو ہمیشہ کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف ہی ہے اور ہونی چاہئے اور اس کی ہم حمد کرتے ہیں جو اپنے فضلوں سے ہمارے کاموں کی پردہ پوشی بھی فرماتا ہے اور بہتر نتائج بھی پیدا فرماتا ہے.اور دشمن کے منصوبوں کو بھی خاک میں ملاتا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اپنا خاص ہاتھ رکھتے ہوئے اور نصرت فرماتے ہوئے تمام شعبہ جات کے کارکنان کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ شاملین نے بھی اور ایم ٹی اے کے ذریعہ دیکھنے والوں نے بھی جلسے پر اللہ تعالیٰ کے افضال کی بارش ہوتے دیکھی جس کا اظہار خطوط میں ہو رہا ہے.اللہ ہم پر اپنے فضلوں کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے.(آمین) اور حضرت مسیح موعود علیہ ا والسلام نے ہم پر جو حسن ظن فرمایا ہے اس پر ہم پورا اترنے کی کوشش کرنے والے ہمیشہ بنے رہیں.(آمین) آپ فرماتے ہیں کہ : ”جو کچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے وہ زمانے بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں “.پس ترقی اور تبدیلی میں ہم نے قدم آگے بڑھانا ہے انشاء اللہ اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی حمد کرنے والا بنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ ہم پر پہلے سے بڑھ کر نازل ہوتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.آج ایک افسوسناک خبر بھی ہے.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب جو ہمارے مصری احمدی تھے کل ان کا انتقال ہو گیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.ان کی نماز جنازہ تو انشاء اللہ غالباً سوموار کے دن پڑھائی جائے گی.لیکن ان الصلوة

Page 428

413 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے بعض کو ائف پیش کرتا ہوں.ان کی فروری 1936ء میں مصر میں پیدائش ہوئی.اس لحاظ سے تقریباً 74 سال عمر بنتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.1971ء سے کینیڈا میں تھے.1955ء میں ان کی بیعت ہوئی تھی.بیعت کی کافی لمبی تفصیلات ہیں.الفضل میں طاہر ندیم صاحب جو عرب احمدیوں کا تعارف کروا رہے ہیں اس میں ان کے بارہ میں بھی لکھا ہے.ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں.پہلی اہلیہ ان کی وفات پاگئیں تھیں پھر انہوں نے دوسری شادی کی ہے.یہ مختلف آئل کمپنیوں میں کام کرتے رہے ہیں.ان کے پاس جماعتی عہدے بھی تھے.کینیڈا میں نیشنل سیکرٹری تبلیغ رہے ہیں اور 85ء میں یہاں پر انٹر نیشنل کمیٹی کے چیئر مین بھی رہے.یہ جماعتی خدمات کا ایک خاص جوش اور ولولہ رکھتے تھے.عربوں کے لئے آڈیو کیسٹ تیار کرتے رہے.ایم ٹی اے کے لئے بہت سارا مواد انہوں نے تیار کیا ہوا ہے.ان کے کئی پروگرام آچکے ہیں.مالی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہے.انہوں نے اپنی بہت ساری بڑی بڑی رقمیں جماعت کے لئے پیش کیں.ان کے بارہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے یہ فرمایا تھا کہ میں نے ایک دفعہ حساب کیا یہ اپنی آمد کا ستر (70) فیصد چندوں میں ادا کر دیا کرتے تھے.بہت زیادہ مالی قربانی کرنے والے تھے.پرنٹنگ پریس لگانے کے لئے انہوں نے مرکز میں خرچ کیا اور مصر میں دار التبلیغ میں بھی اور کئی کتب انہوں نے تصنیف کی ہیں.محکمۃ الفکر عربی کی کتاب ہے.اجوبة عن الايمان الاسلام الدين الحى ، معجزه الفلكية، السيرة المطهرة، دلائل صدق الانبیاء اور اسی طرح حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب کی ایک کتاب ہے حضرت خلیفہ الاول نور دین.اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی کتاب & Revelation, Rationality, Knowledge" "Truth کا ترجمہ کیا.انہوں نے Five Volume کی کمنٹری کی پہلی جلد کا بھی ترجمہ کیا 2003ء میں مجھے یاد ہے مسودہ میرے پاس لے کر آئے اور اس وقت کافی بیمار تھے اور کہا کہ مجھے اتنی توفیق مل جائے کہ یہ مکمل ہو جائے اور اس کی اشاعت ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو توفیق دی اور غالباً چار یا پانچ ماہ ہوئے کہ یہ شائع بھی ہو گئی ہے.اسی طرح دیباچہ تفسیر القرآن کا ترجمہ انہوں نے کیا، گو دوسرے ساتھی بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے.جلسوں پر اچھی تقریریں کیا کرتے تھے.ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.میں نے ان کو پہلی دفعہ 1984ء میں غالباً گھانا میں دیکھا.یہ 84ء میں خلیفہ المسیح الرابع کے کہنے پر گھانا گئے تھے.گھانا میں اس وقت بعض غیر احمدیوں کا خیال تھا کہ عرب مسلمان جو ہیں وہ احمدی نہیں ہوتے تو اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے ان کو بھجوایا تھا کہ جائیں اور وہاں ان مسلمانوں میں جہاں عربوں کا زیادہ رسوخ ہے احمدیت کی تبلیغ کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو وہاں کافی موقع ملا اور اس کے بعد 84ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ہجرت کی تو یہ بھی یہاں آگئے تھے تو انہوں نے اشاعت تصنیف کا کام بہت کیا اور کچھ تھوڑا سا ابتلا میں سے بھی گزرنا پڑا لیکن خدا تعالیٰ

Page 429

414 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے فضل سے انتہائی اخلاص و وفا انہوں نے دکھایا.اللہ تعالیٰ نے ان کو پھر بہت اجر عطا فرمایا.اب جب گزشتہ سات آٹھ مہینے سے زیادہ بیمار ہوئے تو مجھے لکھتے رہے کہ میں یہاں آنا چاہتا ہوں.جتنا وقت ہے وہ یہاں آپ کے قریب گزارنا چاہتا ہوں تو میں نے کہا یہیں آجائیں تو یہاں تشریف لے آئے.گیسٹ ہاؤس میں جس دن آئے ہیں کافی بیمار تھے مجھے پتہ لگا تو میں نے کہا کہ جا کے میں پتہ کرتا ہوں لیکن ان کو کسی طرح پتہ چل گیا کہ میں آرہا ہوں تو بڑی تیزی سے یہ اپنے کمرے سے نکلے ہیں اور میرے دفتر پہنچ گئے.میں نے ان سے پوچھا بھی کہ میں خود آرہا تھا.تو انہوں نے کہا نہیں، یہ نہیں ہو سکتا.میں آیا ہوں، میں نے خود ملنے آنا تھا.اب وہ یہیں تھے.چند دن پہلے زیادہ بیمار ہوئے ہیں تو ہسپتال داخل ہوئے ہیں اور پھر بیماری بڑھتی چلی گئی جو جان لیوا ثابت ہوئی.عربی کے جو پروگرام تھے ”الحوار المباشر “ اس میں ان کا بڑا کر دار رہا ہے اور کسر صلیب کے لئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہونے کا حقیقی حق ادا کیا ہے.بائبل کا گہرا علم رکھتے تھے اس وجہ سے بڑے بڑے پادری بھی ان کا احترام کرتے تھے.کینسر کی بیماری تھی جو بڑے صبر سے انہوں نے گزاری ہے اور جب تک انتہا نہیں ہو گئی اس وقت تک خدمت کرتے رہے ہیں اور اپنے ساتھیوں پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ بیماری کتنی شدید ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.آمین.انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے کہا غالب خیال یہی ہے کہ سوموار کو ان کا جنازہ ہو گا.ان کے بیچوں بیٹے اور بیٹی نے آنا ہے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 35 مورخہ 27 اگست تا2 ستمبر 2010 صفحه 5 تا 8)

Page 430

خطبات مسرور جلد ہشتم 415 33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010ء بمطابق 13 ظہور 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (سورة البقرة : 187) b یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں.جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں.“ روزے ایک مجاہدہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مبنی یہ آیت روزوں کے حکم اور ان کی تفصیلات کے ساتھ بیان کی گئی ہے.یعنی خدا تعالیٰ کا عبد بننا اور دعاؤں کی قبولیت کا نظارہ دیکھنا یہ ایک مجاہدہ کو چاہتا ہے.اور رمضان کے روزے بھی ایک مجاہدہ ہیں جو اس کا ادراک حاصل کرتے ہوئے ایک مومن کو رکھنے چاہئیں.یہ سمجھتے ہوئے رکھنے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں نہ کہ صرف فاقہ.اور یہ کہ اس کے لوازمات کیا ہیں ؟ ان کا بھی پوری طرح علم ہونا چاہیئے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا روزے ایک مجاہدہ ہیں.خدا تعالیٰ کو نہ کسی کے فاقہ زدہ رہنے سے غرض ہے نہ ظاہری عبادتوں سے غرض ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جیسا کہ ہم نے دیکھا پکارنے والے کی پکار کا جواب دینے کو مشروط کیا ہے.یہ نہیں کہا کہ جو بھی مجھے پکارے، میں فوراً اس کا جواب دینے کے لئے بیٹھا ہوں میں جواب دوں گا چاہے جیسا بھی اس کا عمل ہو ، جیسی بھی اس کی حالت ہو.ایسا نہیں ہے.بلکہ فرمایا فَلْيَسْتَجِيبُوانی.پس اگر یہ میرے بندے دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہیں تو پہلے اُن کا فرض ہے کہ میری بات کو سن کر اس پر لبیک کہیں اور دوسری بات یہ کہ وَلْيُؤْمِنُوا ہی مجھ پر ایمان لائیں.یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے پر ایمان لائیں.اپنے ایمان کو پختہ کریں اپنے ایمان میں ترقی پیدا کریں.کیونکہ ایمان صرف ایک دفعہ کا خالی خولی

Page 431

416 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اقرار نہیں ہے بلکہ اس میں ترقی کی طرف قدم بڑھنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین میں ترقی ہوتی رہنی چاہئے.اور جب ایسی حالت ہو گی تبھی کوئی شخص ہدایت پانے والا بھی کہلائے گا اور وہ مقام بھی حاصل ہو گاجو ایک حقیقی مومن کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا ہے کہ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی نیکی اور ہدایت کی طرف قدم بڑھتے چلے جائیں اور ہدایت میں کاملیت کی تلاش رہے.اللہ تعالیٰ کی وہ باتیں جن پر لبیک کہنا ہے اور جن سے خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان میں بڑھنا ہے ان کا پتہ کہاں سے ملے گا؟ اس کا پتہ دینے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ کریم دی ہے جو تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے.جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع میں فرما دیا کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ( البقره آيت: 3) یہی کامل کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے.جو لوگ ہدایت کے متلاشی ہیں، جو لوگ خد اتعالیٰ پر اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہیں ، جو لوگ نیکیوں کی انتہا کو چھونا چاہتے ہیں، جو لوگ ان دعاؤں کی قبولیت کو چاہتے ہیں جو وہ کر رہے ہیں، ان کے لئے کوئی راستہ نہیں مگر یہ کامل کتاب جو کامل رسول صلی علی کم پر اتری ہے.پس اللہ تعالیٰ کا خالص عبد بننے کے لئے ، دعاؤں کی قبولیت سے حصہ لینے کے لئے اور اپنی دنیا وعاقبت سنوارنے کے لئے اب اور کوئی راستہ نہیں ہے مگر یہ کہ خدا تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں.جس کے راستے ہمیں قرآن کریم پڑھنے سے ہی ملیں گے اور جس کے نمونے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس پاک رسول صلی این کلم کے اسوہ میں ہی ملیں گے.اصل میں تو قرآن کریم کی عملی تصویر ہی آنحضرت صلی اللی علم کی ذات ہے جس کی طرف ہدایت فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو فرمایا ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا ( الاحزاب : 22) - یقیناً تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ اور اُسوہ حسنہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کے ملنے کی امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے.پس یوم آخرت پر ایمان اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر اس وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہے جب اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسول صلی علیکم کا اسوہ اپنانے کی کوشش کی جائے.اور یہ اُسوہ اپنانا بھی اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل ہے جو میں نے پہلے آیت تلاوت کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارہ میں سوال کریں، اگر وہ میرے بندے ہیں ، مومن ہیں تو یقیناً وہ تجھ سے ہی اے رسول میرے بارہ میں سوال کریں گے.کیونکہ سوال اس سے کیا جاتا ہے جو اس راہ کا جاننے والا ہو جس کا پتہ پوچھا جا رہا ہے.جو اس میدان کا کھلاڑی ہو.اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے، جانے کی خواہش رکھنے والے ہی اس سے پوچھنے کی کوشش کریں گے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص رسول اور پیارا

Page 432

خطبات مسرور جلد هشتم 417 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 فرمایا ہے.جس کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے بھی اس کی پیروی کرنی ضروری ہے.ایک مسلمان، ایک مومن تو اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کسی اور سے راستہ پوچھے یا کسی اور کو اپنے لئے اُسوہ سمجھے.اگر اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسول صلی ا یکم کے علاوہ مومنین کے لئے ، ہمارے لئے ، ہم جو اس زمانے میں رہنے والے ہیں، ان کے لئے اگر آنحضرت صلی علیم کے بعد کوئی اسوہ ہو سکتا ہے.تو آپ کے اصحاب ہیں جنہوں نے آپ کی کامل پیروی کی.اور یا پھر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کا عاشق صادق ہے جس نے ہمیں قرآن کریم کے احکامات سمجھنے اور عشق رسول صلی اللی علم میں فنا ہونے کے نئے اسلوب سکھائے ہیں.پس جو آنحضرت صلی کم کے علاوہ اُسوہ قائم کرنے والے ہیں ان سب کا مرکز اور سو تا آنحضرت صلی علیکم کی ذات ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عبدِ کامل ہیں اور قیامت تک کوئی ایسا عبد کامل پیدا نہیں ہو سکتا جو آنحضرت صلی علیم کے معیار کا ہو.پس اللہ تعالیٰ اِس عبد کامل کو فرماتا ہے کہ جو بندے میرا قرب حاصل کرنے کے لئے ، اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے تیرے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں اور میرے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں ؟ تو انہیں بتا دے کرانی قریب کہ میں قریب ہوں.لیکن اس قرب کو پانے کے لئے بھی معرفت کی نظر چاہئے.نظر میں وہ تیزی چاہئے جس سے میں نظر آؤں.اور یہ معرفت اور نظر کی تیزی حاصل کرنے کے لئے بھی میرے پیارے کے اُسوہ کی طرف دیکھو.کیونکہ وہی ہے جو کامل طور پر میری تعلیم پر عمل کرنے والا ہے.جنہوں نے اس رسول صلی الم کے اسوہ کو دیکھ کر اس پر عمل کیا، جنہوں نے سچا عشق رسول دکھا یا وہ باخدا بن کر حقیقی عبد بن گئے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھے.انہوں نے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کا مزا چکھا.انہوں نے اپنی دعاؤں کے جواب سنے.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھے.پس آج بھی سوال کرنے والوں کے لئے وہی جواب ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا.آج بھی محمد رسول اللہ صلی الی یکم کا خدا اسی طرح زندہ ہے جس طرح ہمیشہ سے زندہ تھا اور ہمیشہ رہے گا.پس اگر ضرورت ہے تو ان احکامات کو سمجھنے کی ضرورت ہے.اگر ضرورت ہے تو اس کے رسول کے اُسوہ اور تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.پس اس اُسوہ کی ہمیں وقتا فوقتا جگالی کرتے رہنا چاہئے ، دیکھتے رہنا چاہئے تا کہ ہمارے نیکیوں کے معیار بڑھیں، تاکہ ہم اپنی خامیوں پر نظر رکھ سکیں، تا کہ ہمارا خد اتعالیٰ پر ایمان پختہ ہو، تاکہ ہم دعاؤں کے فلسفے کو سمجھ سکیں.آنحضرت صلی علیہم نے جہاں اپنے عمل اور اُسوہ سے ہماری تربیت اور رہنمائی فرمائی ہے وہاں مومنین کو نصائح بھی فرمائی ہیں.الله دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ رمضان اللہ تعالیٰ کا قرب پانے ، عبادات کو بجالانے، فسق و فجور سے بچنے اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کا مہینہ تو ہے ہی اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ تو یہ ہے ہی.اس میں تو آنحضرت صلی علیہ نظم کا عمل کئی سو گنا بڑھ جایا کرتا تھا.مثلاً صدقہ و خیرات کے ادا کرنے میں آپ بے انتہا سخی تھے.عام حالات میں بھی

Page 433

خطبات مسرور جلد ہشتم 418 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 تھے جس کا کوئی عام انسان مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن احادیث میں آتا ہے کہ رمضان میں آپ کی سخاوت تیز ہو اسے بھی بڑھ جاتی تھی.(بخاری کتاب الصوم باب اجو دما کان النبی صل الله لم یکون فی رمضان حدیث نمبر 1902) اسی طرح عبادات اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکامات پر عمل کا حال ہے.یہ جو میں نے کہا اور اکثر کہا جاتا ہے کہ آپ کے عمل تک عام انسان نہیں پہنچ سکتا لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپ کے اسوہ کی پیروی کرو.اس سے قطعا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ جب اس مقام تک پہنچنا نہیں تو عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے.پھر اسوہ کیسا؟ یہ مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا کھول کر بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی استعدادیں رکھی ہیں.جس کی جس قدر استعداد ہے اسے اس کو استعمال میں لانے کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ جو ہر ایک کی طاقت اور استعداد کو جانتا ہے ، جو انسان کی استعداد سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتا اس نے یہ فرمایا ہے کہ یہ اُسوہ تمہارے سامنے ہے تم نے اس کی پیروی کرنی ہے.اس پیروی کی وجہ سے تمہاری استعدادوں کے مطابق تمہیں اس کا اجر ملے گا.اور یہ بات یادر کھنی چاہئے کہ استعدادوں کی تعیین کرنا انسان کا کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس انسان میں کتنی استعداد ہے.انسان کا کام ہے کہ اپنی کوشش کی انتہا کر دے اور پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے.انسان کا کام، ایک مومن کا کام جہاد کرنا ہے اور جہاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ کوشش کرنا کسی کام میں پورے شوق اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہوئے جت جانا.اس حد تک کوشش کرنا کہ انسان تھک کر چور ہو جائے.یہی جہاد کے معنی ہیں.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف آنے کے طریق بتائیں گے.پس اللہ تعالیٰ نے جَاهَدُوا کا لفظ استعمال فرما کر ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک انسان کو جو ایمان میں بڑھنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے جہاد کی ضرورت ہے.ایسی کوشش کی ضرورت ہے جو مسلسل ہو اور اسے تھکا کر چور کر دے.جب ایسی کوشش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بڑھ کر ایسے انسان کو گلے لگالیتا ہے.حکم تو یہ فرمایا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت کریمی یہ ہے کہ بے شک یہ حکم تو دیا ہے کہ مجھ تک پہنچنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرو لیکن اپنے رسول صلی می نم کو بتادیا کہ ان مومنوں کو بتادے کہ جب وہ ایک قدم میری طرف بڑھتے ہیں تو میں دو قدم بڑھتا ہوں.جب وہ چل کر آتے ہیں تو میں دوڑ کر آتا ہوں.(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب فی حسن الظن باللہ عز و جل حدیث:3603) پس انسان کی کوششیں تو نام کی کوششیں ہیں.ہمارا پیارا خدا تو ایسا دیالو خدا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ میرے بندے نے فَلْيَسْتَجِيبُوانی یعنی میری بات پر لبیک کہنے پر عمل کرتے ہوئے قرب پانے کے

Page 434

419 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لئے پہلا ہی قدم اٹھایا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یہ فاصلے کم کرتا چلا جاتا ہے اور ایک کمزور انسان اور عبد رحمان بننے کے خواہش مند کو سینے سے لگا لیتا ہے.آنحضرت صلی علیہم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی طرف آنے والے بندے کو پا کر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو ایک ماں کو اپنے گمشدہ بچے کے ملنے سے ہوتی ہے.( صحیح بخاری.کتاب الادب.باب رحمۃ الولد و تقبيله ومعانقته حدیث نمبر 5999) پس یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے ہیں ورنہ ایک عاجز انسان کی کیا کوشش ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہی ہے جو اسے اپنے قریب لے آتی ہے.بہر حال میں واپس اپنی بات کی طرف آتا ہوں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آنحضرت صلی للی کم کا اسوہ جو خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کی ایک کامل تصویر تھے رمضان میں تو اس کے غیر معمولی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن عام حالات میں بھی آپ کی عبادتوں، اخلاق فاضلہ اور حقوق کی ادائیگی کی وہ مثالیں نظر آتی ہیں جو کسی انسان میں نہیں ہو سکتیں.آپ کی عبادت کے معیار اور دوسری باتوں کی چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں.ایک روایت ہے.ایک دفعہ گھوڑے سے گر جانے کی وجہ سے آپ صلی ال یکم کے جسم کا ایک حصہ شدید زخمی ہو گیا.کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اس لئے آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی لیکن اس حالت میں بھی نماز باجماعت کا ناغہ نہیں کیا.( صحیح بخاری کتاب المرضى باب اذ اعاد مريضاً فحضرت الصلاة فصلى بهم جماعة حديث نمبر 5658) پھر غزوہ احد میں جب لوہے کی کڑیاں آپ کے رخسارِ مبارک میں ٹوٹنے کی وجہ سے آپ انتہائی زخمی تھے اور تکلیف کی حالت میں تھے تو اس دن بھی جب اذان کی آواز سنی تو اسی طرح نماز کے لئے تشریف لائے جس طرح عام دنوں میں تشریف لایا کرتے تھے.(ماخوذ از شروح الحرب ترجمہ اردو فتوح العرب از محمد بن عمر واقدی مترجم مولوی ممتاز بیگ صفحہ 387 تا 390 مکتبہ رحمانیہ لاہور) پھر حضرت عائشہ نے آپ کی نمازوں کا، نوافل کا نقشہ کھینچا ہے کہ نماز کی ہر حالت کی لمبائی اور خوبصورتی بیان سے باہر ہے.( صحیح بخاری کتاب التهجد باب قیام النبی صلی العلم بالليل في رمضان و غیر و حدیث نمبر 1147) پس یہ عبد کامل تھا جس نے عبادت کا ایک حسین اُسوہ قائم فرمایا.جس نے صحابہ کی عبادتوں میں بھی حسن پیدا کر دیا.پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری بات پر لبیک کہیں، تبھی میں اپنے قرب کا پتہ دے سکتا ہوں تو اس کا سب سے پہلا اور اہم اور بنیادی مرحلہ جس سے گزرنا ضروری ہے وہ اپنی عبادت میں طاق ہونا ہے.اور یہ عبادت صرف آج کل ہم نے رمضان کی وجہ سے ہی ایک خاص ذوق اور شوق سے نہیں بجالانی بلکہ جیسا کہ ہم آنحضرت ملا علم کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ عام دنوں میں بھی ، عام حالات میں بھی، بلکہ بیماری اور جنگ کی وجہ سے زخمی حالت میں بھی آپ صلی علیہ کی حق بندگی ادا کرتے ہوئے اپنی باجماعت نمازوں کو نہیں بھولے.جب اللہ تعالیٰ نے

Page 435

420 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 خطبات مسرور جلد هشتم حکم فرمایا ہے کہ مومن کی نشانی یہ ہے کہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ (البقرة:04) کہ وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں.نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے نماز کے اوقات میں جمع ہوتے ہیں.تو وہ کامل انسان جس سے خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کر وایا تھا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ( الانعام: 163) اے نبی! تو اعلان کر دے کہ میری نماز میں اور میری قربانی اور میر ازندہ رہنا اور میر امرنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے تو وہ اس بات کو کس طرح برداشت کر سکتا تھا کہ کسی بھی حالت میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے سر موز و گردانی کی جائے یا اسے ٹالا جائے.بلکہ آپ تو اپنی آخری بیماری میں بھی جب کمزوری کی انتہا تھی اور چلا نہیں جاتا تھا تو سہارے سے مسجد میں تشریف لائے تھے.( صحیح بخاری کتاب الاذان باب حد المريض ان يشهد الجماعۃ حدیث نمبر 664) پس یہ سب کچھ آپ صلی اللہ کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے کی وجہ سے تھا.پس ایمان میں بڑھنے کی اور عمل کی معراج بھی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب محبت کی بھی انتہا ہو.پس ہمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محبت کی انتہا کا نمونہ تمہارے سامنے ہے.تم جو سوال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ کو اس محبوب کے عمل میں دیکھو.میرے حقیقی عبد بنے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرو پھر مجھے اپنے قرب میں دیکھو گے.اگر صرف رمضان میں ہی اپنی مسجدیں آباد کیں اور پھر مجھے بھول گئے یا آج جو مشکل کے دن تم پر آئے ہوئے ہیں تو اس میں مسجد میں آنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہو.اور حالات ٹھیک ہونے پر مجھے بھول گئے یا وقت گزرنے پر مجھے بھول گئے تو یہ میری بات پر لبیک کہنا نہیں ہے.یہ تو اپنی غرض کو پورا کرنا ہے.میری بات پر لبیک کہنا تو تب ہو گا جب یہ حالات، یہ جذباتی کیفیت، یہ مشکل وقت ، رمضان کا یہ عمومی روحانی ماحول ختم بھی ہو جائے گا تو تب بھی میرے رسول صلی علیہ ظلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی عبادتوں اور اپنے عمل کو میرے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مستقل طور پر بجالانے کی کوشش کرو گے.جیسا کہ میں نے کہا حالات کی وجہ سے عبادت کی طرف توجہ ہے.آج کل پاکستان میں احمدیوں کے جو حالات ہیں اس نے پوری دنیائے احمدیت کو عبادت کے معیار بہتر بنانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کی طرف مائل کیا ہے.کئی لوگوں کو دعاؤں اور خدا تعالیٰ کے قرب کی وجہ سے تسلی بھی دلائی گئی ہے.گویا کہ انہوں نے اِنّى قَرِيبُ کا مشاہدہ کر لیا.پاکستان میں احمدیوں پر سخت حالات اور اس کے بعد جو جلسوں نے اس کیفیت کو ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے.اور پھر اب رمضان آگیا ہے.یہ دعاؤں کا، دعاؤں کی قبولیت کا، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک مہینہ ہے.اس میں جہاں یہ کوشش اپنی انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے وہاں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ یہ حالت اب ہم میں ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے.رمضان ختم ہونے اور وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ کہیں ہم پھر اپنی کمزوری کی طرف نہ چلے جائیں.احمدیوں کو یہ احساس بھی ہے کہ جلسوں نے جو کیفیت جاری رکھی ہے اب رمضان آنے سے اس میں مزید جلا پیدا ہو گی اور اس کے لئے دعا کے لئے لکھتے بھی ہیں.لیکن یہ کوشش بھی

Page 436

421 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کرنی چاہئے کہ یہ عارضی تبدیلی نہ ہو بلکہ مستقل نوعیت کی تبدیلی ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنتے ہوئے اپنی عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچے کرتے چلے جائیں.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی دعاؤں، عبادتوں اور نیک اعمال سے اللہ تعالیٰ کا وہ قرب حاصل کریں جس کا تسلسل کبھی ختم نہ ہو.ہماری عبادتوں کے معیار اونچے ہوتے چلے جائیں.ہمارے تقویٰ کے معیار اونچے ہوتے چلے جائیں.اس کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ جو طریق بتایا ہے وہ یہ ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : یادرکھو کہ سب سے اول اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے.ساری دعاؤں کا اصل اور تجز یہی دعا ہے.کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں“.فرمایا کہ ”بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 617) وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے“.آپ فرماتے ہیں کہ یہ دعا بہت مشکل دعا ہے اور اس کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے.لیکن اصل دعا یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنے کی دعا کرے.پس یہ دعا ہے جو اصل ہے.جب انسان اپنے آپ کو ہر قسم کے گناہوں سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تبھی وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ میری بات پر لبیک کہو.جیسا کہ میں نے کہا قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بھر اپڑا ہے.ان پر عمل ہو گا تو تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والے بن سکیں گے.تبھی ہم اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنے کی کوشش کرنے والے بنیں گے.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات ہیں.تمام کا بیان تو ایک مجلس میں ہو نہیں سکتا.رمضان کے مہینے میں جب تلاوت کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوتی ہے، قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہے ہوتے ہیں، درس وغیرہ سننے کی طرف توجہ ہوتی ہے تو ان میں ان احکامات پر غور کرنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس وقت میں آنحضرت صلی علیکم کے اُسوہ میں سے چند باتوں کا ذکر کروں گا.آپ کی عبادت کے بارہ میں تو ایک ہلکی سی جھلک میں نے دکھائی کہ کیا معیار تھا؟.اب آپ کے اُسوہ کے چند اور نمونے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَ اَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل :35) اور اپنے عہد پورے کرو، یقیناً عہد کے بارہ میں جواب طلبی ہو گی.اب اس میں کس حد تک آپ پابندی فرماتے تھے.ایک روایت میں حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر کی جنگ میں شامل ہونے میں یہی روک ہوئی کہ میں اور میر اسا تھی ابو سہل گھر سے نکلے.راستے میں کفار قریش نے ہمیں پکڑ لیا اور پوچھا تم محمد کے پاس جا رہے ہو ؟ ہم نے کہا.ہم مدینہ جارہے ہیں.انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم رسول اللہ صلی الی یوم کے ساتھ لڑائی میں

Page 437

خطبات مسرور جلد ہشتم 422 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 شامل نہیں ہوں گے.ہم جب رسول اللہ صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ سارا واقعہ بیان کیا.آپ صلی الی ٹیم نے فرمایا جاؤ اور اپنا عہد پورا کر و.ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے.( صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعهد حدیث نمبر 4639) فرمایا کہ تم جاؤ اپنا عہد پورا کرو.گو ہمیں ضرورت تو ہے لیکن ہم اب دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے.پس یہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کا اعلیٰ معیار ہے.بدر کی جنگ میں ایک ایک فرد کی مدد کی ضرورت تھی.کفار کا لاؤ لشکر جو ہر طرح سے لیس تھا، اس کے مقابلہ پر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی حیثیت نہتوں جیسی تھی.لیکن آپ نے فرمایا کہ تم عہد کر چکے ہو پس یہ عہد پورا کرو.میں دعا سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہوں گا.اور پھر دنیا نے یہ نظارہ دیکھا اور تاریخ نے اسے محفوظ کر لیا اور دشمن بھی آپ کے اس عہد کے معترف ہیں، لیکن اس عبد کامل کو جس کو پہلے بھی اپنے خدا پر بھروسہ تھا اور وہ خدا جو اس عبد کامل کے ہر وقت قریب رہتا تھا اس نے کس طرح اپنی قربت کا نشان دکھایا کہ آپ مصلی تنظیم کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے نہتوں اور کمزوروں کو طاقت وروں اور لاؤ لشکر سے لیس فوج پر نہ صرف غلبہ عطا کر دیا بلکہ ایسا غلبہ عطا فرمایا جو واضح غلبہ تھا.جس یقین سے آپ نے فرمایا تھا کہ میں دعا سے خدا تعالیٰ کی مدد چاہوں گا اس یقین کو سچے وعدوں والے خدا نے پورا فرمایا اور صحابہ کے ایمان کو مزید مضبوط کیا اور دشمن پر ہیبت طاری فرمائی.ایک عورت نے فتح مکہ کے موقع پر دشمن کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تو آنحضرت صلی علیم نے فرمایا: اے اتم ہانی! جسے تو نے پناہ دی، اسے ہم نے پناہ دی.( صحیح بخاری کتاب الصلاة باب الصلاة في الثوب الواحد ملتحفاً به حدیث نمبر (357) پس ایک مومنہ کے زبان دینے کا آپ نے اس قدر پاس کیا کہ باوجود اس کے کہ حضرت علی جیسے لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی، آپ نے جو اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے آئے تھے فرمایا کہ اپنے وعدے کا پاس کرو.اور کیونکہ تم نے وعدہ کر لیا ہے اس لئے ہم بھی تمہارے وعدے کا پاس کرتے ہیں.آج ہم دیکھتے ہیں، آج کل کے معاشرے میں، ذرا ذرا سی بات پر عہد شکنیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور معاشرے کا امن برباد ہو رہا ہوتا ہے.غیروں میں تو خیر بہت زیادہ ہے لیکن جماعت میں بھی ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اور اس پر مستزاد یہ کہ بعض اوقات جھوٹ کا بھی سہارا لیا جاتا ہے.جب مقد مے بازیاں ہو رہی ہوتی ہیں یا معاملات پیش کئے جاتے ہیں، تو ایک عہد شکنی ہو رہی ہوتی ہے اور دوسرے جھوٹ بھی بولا جارہا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبدیت سے ویسے ہی نکال دیتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے جھوٹ اور شرک کو جمع کر کے یہ واضح فرما دیا کہ جھوٹ اور شرک برابر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَولَ النُّورِ ( الج: 31) پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو.

Page 438

خطبات مسرور جلد ہشتم 423 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ (الحج: 31) - فرمایا: ”دیکھو! یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ، ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے.جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہو تا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 266 جدید ایڈیشن ربوہ) پس جب انسان اپنے معاملات میں جھوٹ شامل کر لیتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ ایسے شخص کو شرک کرنے والے کے برابر ٹھہراتا ہے.اور شرک کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی عبدیت کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا.پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چھوٹی موٹی غلط بیانی جو ہے وہ جھوٹ نہیں ہو تا.یہ جھوٹ کے زمرہ میں نہیں آتا، حالانکہ یہ بھی جھوٹ ہے.آنحضرت صلی علیم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات دوسروں کو بتاتا پھرے.( صحیح مسلم مقدمہ باب النھی عن الحديث بكل ما سمع حدیث:7) پس اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے یہ باریکیاں ہیں جن کو اختیار کرنے کا حکم ہے.یہ باتیں ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ہم سے لبیک کہلوانا چاہتا ہے.اور یہی چیز ہے جو ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا عبد بناتی ہے.روزہ کے حوالے سے بھی آنحضرت صلی یم نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے.حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑ تا اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے.( صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم حدیث نمبر 1903) پھر ایک روایت ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ وہ اس ڈھال کو جھوٹ اور غیبت کے ذریعے نہیں پھاڑتا.الجامع الصغير للسيوطى حرف الصاد حدیث نمبر 5197 جزء اول و دوم صفحه 320 دار الکتب العلمیة بیروت ایڈیشن 2004ء) کیونکہ روزہ تو ایک مومن رکھتا ہے.جب جھوٹ آگیا تو ایمان تو ختم ہو گیا.خدا تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھا جاتا ہے.جب جھوٹ آگیا تو خدا تعالیٰ تو بیچ میں سے نکل گیا.تب تو شرک پید اہو گیا.اس لئے روزہ بھی ختم ہو گیا.یہ تو خاص روزے کے حالات کے لئے ہے.لیکن عام حالات میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے.پس اس رمضان میں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی بعض کمزوریوں کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں تبھی ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن سکتے ہیں.ایمان میں مضبوطی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبیک کہنے والے بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی انی قریب کی آواز کو سن سکتے ہیں.

Page 439

خطبات مسرور جلد ہشتم 424 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اگست 2010 قرآنِ کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے معاشرے کے حقوق کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا اور آنحضرت صلی اللہ علم کی زندگی میں بھی ہمیں اس کی بہت تفصیل نظر آتی ہے، اس کی باریکیاں نظر آتی ہیں.مثلاً ایک حق ہے صلہ رحمی کا.یہ حق بعض لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں.مثلا رحمی رشتوں کی ادائیگی کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور ہر نکاح پر ایک آیت پڑھی جاتی ہے.لیکن اس کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ کم ہوتی ہے.حالانکہ رحمی رشتے جو آپس میں قائم ہوتے ہیں وہ تو دونوں طرف کے رشتے ہیں.لڑکے کی طرف کے بھی، لڑکی کی طرف کے بھی.اگر ان کا حق ادا کیا جائے تو بہت سارے مسائل جو رشتوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ پیدا نہ ہوں جن کی تعداد اب بڑھتی چلی جارہی ہے.آج کل بعض رشتوں میں دراڑوں کی بہت بڑی وجہ یہی ہے.آنحضرت صلی الی یکم تو نہ صرف رحمی رشتوں کا پاس فرمایا کرتے تھے بلکہ رضاعی رشتوں کا بھی بڑا احترام کیا کرتے تھے.پس یہ اُسوہ آج کل کے فساد کو ختم کرنے کے لئے بڑا ضروری ہے.گھروں کے ٹوٹنے میں آج کل بہت بڑی وجہ بنی ہوئی ہے.میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک دوسرے کے رشتوں کی قدر نہ کرنا بھی خاوند بیوی کے تعلقات میں دراڑیں ڈالتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ بنے کا فیض اٹھانا ہے تو عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہوں گے اور اعلیٰ اخلاق کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا.میرے بندوں کے بھی حق ادا کرنے ہوں گے جس کا اسوہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی للی کم کی ذات میں قائم فرمایا اور جس کی نصائح آپ نے ہمیں فرمائیں.اور جب ہماری یہ حالت ہو گی تو ہم ان لوگوں میں شمار ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہیں.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو قریب ہوں، تم دُور ہو.پس اپنے اعمال درست کرتے ہوئے میرے قریب آؤ تو مجھے اپنے قریب پاؤ گے“.یہ دوطرفہ معاملہ ہے اور اس میں بھی پہل بہر حال بندے نے ہی کرنی ہے.اللہ کرے کہ ہم اس اصل کو سمجھنے والے ہوں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اپنے گناہوں سے بچنے کے لئے دعائیں مانگنے والے ہوں تا کہ اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے بننے والے کہلا سکیں.رمضان کے دنوں میں ایک یہ دعا بھی کریں، جماعت اسے پہلے بھی کر ہی رہی ہے، یاد دہانی کرواتا ہوں کہ پاکستان کے بارہ میں خاص طور پر دعا کریں.پاکستان کے احمدیوں کے بارے میں خاص طور پر دعا کریں.یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت اپنی رحمت کی چادر میں لیٹے رکھے.دشمن کے تمام منصوبے خاک میں ملائے.جماعت کو اپنی خاص حفاظت میں رکھے.اپنی خارق عادت قدرت کا جلوہ دکھائے.اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں جو شر الناس ہیں ان کا خاتمہ فرمائے.پاکستان کی جو حالت ہے یہ لوگ جو وہاں کے ارباب حل و عقد ہیں ، جو لیڈر شپ ہے سمجھ نہیں رہے کہ کس طرف جا رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے.اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے اور اسلام اور احمدیت کی ترقی ہمیں پہلے سے بڑھ کر دکھائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 36 مورخہ 3 ستمبر تا 9 ستمبر 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 440

خطبات مسرور جلد ہشتم 425 34 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010ء بمطابق 20 ظهور 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ ވ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أَخَرَ - يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتَكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَ بِكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقره: 186) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر اتارا گیا جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہو گا.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گفتی کو پورا کر و.اور اس ہدایت کی بناء پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو.رمضان کا بابرکت مہینہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رمضان کے مہینے کی قرآن کریم سے خاص نسبت کا بیان فرمایا ہے.یعنی یہ مہینہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم اتارا گیا.قرآنِ کریم کے نازل ہونے کی ابتدا بھی اس مہینے میں ہوئی اور اس بابرکت مہینے میں جبرئیل علیہ السلام ہر سال اس وقت تک نازل شدہ قرآنِ کریم کی دہرائی آنحضرت صلی ال کام کو کر وایا کرتے تھے.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن على النبي صلى اللعلم حدیث نمبر 4998) پس یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو خاص طور پر پڑھنے اور سمجھنے کا مہینہ ہے.گویا یہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا مہینہ ہے.صرف روزے رکھنے اور اس فرض کو پورا کرنے کی حد تک نہیں جس کی کچھ تفصیل پہلی

Page 441

426 خطبه جمعه فرموده مورخه 20 اگست) 2010- خطبات مسرور جلد ہشتم آیات میں بیان ہوئی ہے اور کچھ تفصیل اس آیت میں اور بعد کی آیت میں بیان ہوئی ہے.بلکہ اس کی اہمیت اس لئے بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ اس مبارک مہینے میں قرآنِ کریم جیسی عظیم الشان کتاب خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی جو کامل اور مکمل شریعت کی کتاب ہے جو انسانِ کامل پر نازل ہوئی، وہ نبی جو تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوا جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یااَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159) کہ اے نبی کہہ دے میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کارسول بن کر آیا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ دماً اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةَ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبا:29) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر مگر اکثر لوگ نہیں جانتے.آنحضرت مصلیالم اور قرآن کریم آخری بہر حال آنحضرت صلی الیکم کے بارہ میں قرآن کریم مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں بیان فرماتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے رسول ہیں جو تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور اب تا قیامت کوئی اور شرعی کتاب والا نبی نہیں آسکتا، شریعت لے کر نہیں آسکتا.پس قرآنِ کریم کا پیغام ایک عالمگیر پیغام ہے اور آپ صلی علیہ یکم تمام انسانوں کے لئے تا قیامت نبی ہیں.اپنے آخری ہونے اور تمام انسانیت کے لئے ہونے کا دعویٰ قرآنِ کریم نے کیا ہے.یہ اعزاز قرآن کریم کو حاصل ہے.اس لئے اس کی عظمت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے اور بڑھ جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ اور كَافَةً لِلنَّاسِ کے لئے رسول ہو کر آیا.جس کی کتاب کا خدا محافظ اور جس کے حقائق معارف سب سے بڑھ کر ہیں.(الحکم جلد 6 نمبر 36 مورخہ 10 اکتوبر 1902ء صفحہ 11 کالم نمبر 1) اسلام کی رحمت کی تعلیم قرآنِ کریم میں آپ صلی یہ تم کو رَحْمَةً لِلْعَلَمین بھی کہا گیا ہے ، پس یہ وہ عظیم نبی ہے جس سے اب انسانیت کے لئے رحمت کے چشمے پھوٹنے ہیں اور پھوٹتے ہیں.اور آپ پر اتری ہوئی کتاب ہی ہے جس کی تعلیم پر حقیقی عمل کرنے والے اپنے عظیم رسول صلی للی کم کی سنت پر چلتے ہوئے دنیا کے لئے رحمت ہیں.کاش کہ آج کے شدت پسند ملاؤں اور اپنے زعم میں عالم کہلانے والوں کو بھی یہ پتہ لگ جائے.ان لوگوں کو بھی پتہ لگ جائے جو مذہبی جبہ پوش ہیں کہ قرآنِ کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی علی کم تو دنیامیں رحمتوں کی تقسیم کے لئے آئے تھے ، نہ کہ امن پسند شہریوں کے امن چھیننے کی تعلیم دینے کے لئے ، نہ کہ معصوموں کی جانوں سے بے رحمانہ طور پر کھیلنے کے لئے.بہر حال اس آیت کے اس حصہ میں جس میں قرآن کریم کے حوالے کے طور پر بات ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ

Page 442

427 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد هشتم فرماتا ہے کہ اس قرآن میں تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہدایت ہے.اس میں کھلے کھلے نشانات بیان کئے گئے ہیں.اس میں حق و باطل میں فرق کرنے والے امور بیان کئے گئے ہیں.پس مومنین کا فرض ہے کہ اس روشن تعلیم اور ہدایت سے پر جامع کتاب قرآن کو جو حق و باطل میں فرق کرتی ہے اس مہینے میں جو رمضان کا مہینہ کہلاتا ہے ، جو روحانیت میں ترقی کا مہینہ کہلاتا ہے، جس میں روزے رکھ کر انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.جس میں ایک موسسن اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں قرآنِ کریم کو اپنے سامنے رکھو کہ یہ تمہارا ر ہنما ہے.اس مہینے میں اس پر غور کرو.اس کی تلاوت پر جہاں زور دووہاں اس کے احکامات پر غور کرتے ہوئے اپنی ہدایت کے سامان پیدا کرو.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِینَ کہ یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے.پہلے فرمایا تمام انسانیت کے لئے ہدایت ہے.ہدایتوں کے معیار مختلف ہیں.متقیوں کے لئے بھی اس میں ہدایت ہے.صرف ایک دفعہ ایمان لا کر یا تقویٰ پر قائم ہو کر ہدایت ختم نہیں ہو جاتی.بلکہ ہدایت کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے.یعنی وہ لوگ جو متقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خشیت پر ہر قسم کے خوف، خشیت اور محبت کو حاوی سمجھتے ہیں.اگر ان دعویٰ کرنے والوں کا یہ دعویٰ سچا ہے تو پھر اس تعلیم کی تمام باریکیوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ورنہ آنحضرت صلی للی نیم نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو غور نہیں کرتے، تقویٰ پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے ایسے لوگوں کا رات کا جاگنا بھی صرف جاگنا ہے.اور ان لوگوں کے روزے بھی صرف بھوک اور پیاس ہیں.(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء في الغيبة والرفث للصائم حديث نمبر 1690) ابن ماجہ ماجاء في پس روزے کی اہمیت اس وقت ہے جب قرآن کی اہمیت ہو.اس کی تعلیم کی اہمیت ہو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش ہو.پس اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں تزکیہ نفس پر زور دینے کو اہمیت دی ہے جس کا پتہ بھی ہمیں قرآنِ کریم سے چلتا ہے.جب یہ حالت ایک مومن کی ہو گی تب وہ اس خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے.تب ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ جس طرف تم جارہے ہو یہ بہت خطرناک راستہ ہے.یہ تباہی کا راستہ ہے.یہ تمہاری دنیا و آخرت کی بربادی کا راستہ ہے.اگر تم دنیا و آخرت کی بقا چاہتے ہو تو آؤ ہم تمہیں ہدایت کے راستے بتاتے ہیں.قرآنِ کریم کا صرف دعویٰ نہیں ہے کہ هُدًى لِّلنَّاس.بلکہ اگر تم اس تعلیم پر عمل کرو تو اس دنیا میں ہدایت کے اثرات نظر آتے ہیں.یعنی جیسا کہ میں نے کہا، سب سے پہلے تو ایک مسلمان کے عمل ہمارے سامنے ہونے چاہئیں، دنیا کے سامنے ہونے چاہئیں، جسے دنیا دیکھ سکے.یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ آج مسلمانوں کے عمل ہی ہیں جو مخالفین اسلام کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم پر اعتراض کریں، اس کی تعلیم پر اعتراض کریں.ہے

Page 443

خطبات مسرور جلد هشتم 428 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش آج کل قرآنِ کریم اور اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش امریکہ کے ایک چرچ کی طرف سے ہو رہی ہے.انہوں نے اپنا جو پروگرام بنایا ہے اس میں ایک ظالمانہ کام 11 ستمبر کو قرآنِ کریم کو جلانے کا بھی ہے جسے میڈیا نے ہر جگہ بیان کیا ہے.اس چرچ نے جو اعتراضات کئے ہیں وہ دس اعتراضات ہیں جو انتہائی لغو اور بودے اعتراضات ہیں.اعتراض کرنے ہوں تو ہم بائبل پر بہت سارے اعتراض کر سکتے ہیں لیکن ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ فساد پیدا کریں.ہاں علمی بحث ہے اور اعتراض کا حق ہر ایک کو حاصل ہے.علمی بحث ہم کرتے ہیں.لیکن کسی مسلمان کا یہ حق نہیں کہ ان باتوں کی وجہ سے کہ بائبل بعض باتیں کرتی ہے ، بلکہ بعض جگہ توحید کی منکر ہے ، تو اس بائبل کو جلانا شروع کر دیں؟ قرآنِ کریم تو شروع سے آخر تک توحید کی تعلیم دیتا ہے اور یہی کام ہم نے کرنا ہے.اور تمام انبیاء اسی مقصد کے لئے آئے ہیں.سب سے بڑھ کر قرآنِ کریم ہی ہے جس نے توحید کی تعلیم دی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ توحید ہی ہے جس کے بغیر کسی مذہب کی بنیاد ہی نہیں ہو سکتی.اور اس زمانہ میں جس جری اللہ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے اس نے اس تعلیم کو اس عظمت سے ظاہر فرمایا کہ جو بندے کو خدا بنانے والے تھے ، انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کے ماننے والوں سے مذہبی بحث نہ کرو.آج کل کی عیسائیت کی تو بنیاد ہی تثلیث پر ہے.توحید سے تو اس کی بنیادیں ہی ہل جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو بائبل سے ہی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے اقوال سے ثابت فرمایا کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں اور کوئی خدا کا بیٹا نہیں بن سکتا.اس چرچ کو جو قرآن کے خلاف مہم چلا رہا ہے سب سے بڑا اعتراض ہی یہی ہے.پہلا اعتراض ہی انہوں نے یہ لکھا ہوا ہے اور دوسرے میں اسی اعتراض کو پھر آگے پھیلایا کہ قرآنِ کریم حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا.اور اس وجہ سے کہتا ہے کہ نجات انسان کے عمل سے ہے نہ کہ کسی کے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے.ان عقل کے اندھوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس بات پر حضرت عیسی علیہ السلام خود بھی یقین کرتے تھے لیکن ان کے نام پر ان کی تعلیم کو بعد میں بگاڑ دیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے مقابل پر ایک عاجز انسان کو لا کر کھڑا کر دیا گیا.پس جب انسان شکست خوردہ ہو جائے، اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ شدت پسندی پہ اتر آئے.اور یہ چرچ جس کا نام Dove world outreach centre church ہے ، یہی کر رہا ہے.بائبل میں تو ایک جگہ بلکہ ایک جگہ کیا کئی جگہ حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام مرقس میں جسے انگریزی میں Mark کہتے ہیں، ایک جگہ فرماتے ہیں، اس کا باب 12 آیت 30-29 ہے کہ: ”اول یہ ہے اے اسرائیل سن خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے.اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ “.(مرقس باب 12 آیت 29,30)

Page 444

429 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اس کے علاوہ اور بہت سی جگہوں پر مسیح کی الوہیت کی تردید بائبل میں موجود ہے.خود بائبل تردید کرتی ہے.دلائل سے پر اس بحث اور قرآنِ کریم کی حقیقت بیانی اور برتری کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ثابت فرمایا اور عیسائیوں کی ہر دلیل کو ر ڈ کیا تھا اور آج تک جماعت احمد یہ کرتی چلی آرہی ہے.قرآنِ کریم کی تو یہ خوبصورت تعلیم ہے کہ حق کی تبلیغ کرو.دنیا کو بتا دو کہ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (بقرہ:257) کہ یقیناً ہدایت اور گمراہی کا فرق ظاہر ہو چکا.لیکن یہ فرق بیان کرنے اور منوانے کے لئے کسی جبر کی ضرورت نہیں ہے.جس کی مرضی ہے مانے ، جس کی مرضی ہے نہ مانے.فرمایا : اے نبی ! تیراکام صرف اس کلام کو ، اس پیغام کو جو قرآنِ کریم کی صورت میں تجھ پر اترا ہے لوگوں تک پہنچا دینا ہے، ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.پس اس خوبصورت تعلیم کو یہ مذموم کوشش کر کے جلانا چاہتے ہیں.اس تعلیم کی روشنی میں شدت پسندی اور بدامنی کی تعلیم یہ چرچ دے رہا ہے یا مسلمان؟ یہ چرچ تو اپنی تعلیم پر بھی عمل نہیں کر رہا، جو بائبل میں ان کی اپنی تعلیم ہے.بائبل تو کہتی ہے کہ اگر تمہارے ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو.(متی باب 5 آیت 39 ) دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے یہ تو بائبل نے نہیں کہا کہ تم مذہبی نفرتوں کو ہوا دو.بہت سے عیسائی چر چوں نے بھی اس چرچ کی اس ظالمانہ سوچ اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی مذمت کی ہے اور سختی سے تردید کی ہے کہ ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے.اور ہر عقل مند اور امن پسند انسان کا یہی رد عمل ہونا چاہئے.جماعت احمد یہ بھی میڈیا کے ذریعے اور مختلف طریقوں سے اس Dove Church کو اپنی اس مذموم حرکت سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے.(Dove عیسائیت میں روح القدس کا نشان بھی ہے کہ یہی کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی پر فاختہ کی صورت میں روح القدس اتری).بہر حال امریکہ کی جماعت کو بھی میں نے کہا تھا کہ ایک مہم کی صورت میں اس پر کام کریں اور دنیا کی باقی جماعتوں کو بھی اسی طرح کرنا چاہئے کہ یہ جو طریقہ اپنا رہے ہیں یہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کا طریقہ ہے.اس سے بجائے محبتوں کے کینوں اور بعضوں کی دیواریں کھڑی ہوں گی.قرآنِ کریم میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام جو ظاہر کیا ہے وہ ان لوگوں کو نظر نہیں آتا.قرآن کریم تو ہر نبی کی عزت کرتا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ان کی یہ حرکت نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرے گی.وہ مسلمان جو بد قسمتی سے اس زمانہ کے امام کو نہ مان کر بے لگام ہیں، یا ان کی لگا میں بد قسمتی سے ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہیں جو اپنے مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان مسلمانوں سے غلط ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے.دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے ، محبت کی ضرورت ہے ، بھائی چارہ کی ضرورت ہے، جنگوں کی تباہی سے بچنے کی ضرورت ہے، خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تباہ ہونے سے بچ سکیں.اس کے حصول کے لئے عیسائیوں کو بھی اپنے قبلہ کو درست کرنے کی ضرورت ہے.اور مسلمانوں کو بھی صحیح رد عمل دکھانے کی ضرورت ہے.دلائل کی بحثیں کریں، علمی بحثیں کریں.

Page 445

430 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لیکن ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہئے.آج مسلمان بھی اگر حقیقت میں حب پیغمبری اور حُبّ قرآن کا دعویٰ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو سمجھتے ہوئے اپنی رہنمائی کے لئے اس رہنما کو تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ارشاد کے تابع اور پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث ہوا.یہ رمضان کا مہینہ جس میں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآنِ کریم نازل ہوا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے تو ہدایت کے وہ راستے متعین کریں جو قرآنِ کریم نے متعین کئے ہیں.ہدایت کے معیار وہ بنائیں جو قرآنِ کریم نے بنائے ہیں.ہدایت دینے والے کو پانے کے لئے بھی خالص ہو کر دعا کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سکھائی ہے.اگر خالص ہو کر یہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضروررہنمائی فرماتا ہے.اس دعا کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کی بھی رہنمائی فرما دیتا ہے ، مسلمانوں کی تو ضرور کرے گا.کاش کہ ہمارے مسلمان بھائی ہمارے اس دردمندانہ پیغام اور جذبات کو سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اور اپنی دنیاو آخرت سنوار لیں.قرآن حقیقی برکات کا سر چشمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں.لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خد اتعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خد اتعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور خنک ہے“.( صاف اور میٹھا اور ٹھنڈا پانی ہے ) اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے.اُسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیر اب ہو کر اُس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا مگر باوجو د علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.خاتمہ خبر.اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آکر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے.مگر نہیں، اس کی پر واہ بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص“ (یعنی اپنے آپ کے بارہ میں کہہ رہے ہیں کہ ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اُسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابلِ رحم حالت اس قوم کی ہو گی“.(ملفوظات جلد 4 صفحہ 140 جدید ایڈیشن ربوہ)

Page 446

431 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد هشتم آج بھی یہی حقیقت ہے کہ قرآنِ کریم پر غور کرنا تو ایک طرف اکثریت قرآنِ کریم پڑھنے کی طرف بھی توجہ نہیں دیتی.اور نام نہاد علماء کے اس بات پر ورغلانے سے ان کے پیچھے چل پڑے ہیں کہ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ آنحضرت ملا لی ہم خاتم النبیین ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.کاش کہ یہ غور کریں اور ہم سے پوچھیں کہ کیا دعویٰ ہے ؟ حق کو پہچاننے کی جستجو کریں.ان کے پاس دلیل نہیں ہے اس لئے علماء نے جماعت پر پاکستان میں خاص طور پر اور باقی مسلم ملکوں میں بھی ہر جگہ پابندی لگائی ہے.مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی بات سننا بھی کفر ہے بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ ان سے سلام کرنا بھی کفر ہے.وہی شدت پسندی اگر عیسائی دکھا رہے ہیں تو یہاں احمدیوں کے بارہ میں مسلمان بھی دکھا رہے ہیں.بلکہ عمومی طور پر ایک بہت بڑا گروہ، ایک طبقہ ایسا ہے جو شدت پسندی کا اظہار کر رہا ہے تو عیسائیوں کو بھی جرآت پید ا ہوئی ہے.پس یہ تو ان لوگوں کی حالت ہے.مسلمانوں کو اپنے آپ پہ اتنا بھی یقین نہیں ہے کہ اگر احمدی غلط ہیں تو ان کی بات کو رڈ کر دیں.کیا یہ اتنے خوفزدہ ہیں ، اپنے ایمانوں کو اتنا کمزور دیکھتے ہیں کہ احمدی سے بات کریں گے تو ان کے ایمان کمزور ہو جائیں گے اور اسلام چھوڑ دیں گے.بہر حال یہ تو ان کے علماء کی باتیں ہیں جن کے پیچھے چل کر عامتہ المسلمین جو ہیں وہ بھی اپنی دنیا و عاقبت خراب کر رہے ہیں.اسی طرح ہم جو احمدی ہیں ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنا حق ادا کریں.ہمارا بھی فرض ہے کہ ان ہدایات کے راستوں کا عملی نمونہ بنیں جو قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہیں.پس رمضان کا یہ مہینہ جو اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی حالتوں کی بہتری اور قرآنِ کریم پر عمل اور غور کرنے کے لئے ہمیں پھر میسر فرمایا ہے اس سے ہمیں بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے اور پوری کوشش کرنی چاہئے.اور بھر پور فائدہ تبھی اٹھایا جاسکتا ہے جب ہم اس کی روزانہ باقاعدگی سے تلاوت بھی کرنے والے ہوں.اس کے احکامات پر غور کرنے والے ہوں.ان پر عمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.اس کے لئے کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے بعض حکم دیئے ہیں کہ ان کو بجالاؤ، بعض نیکیاں ہیں ان کو کرنے کا حکم دیا ہے جن سے ہدایت کے راستے ملتے ہیں.بعض برائیاں ہیں ان سے کہا ہے کہ بچو تو ان راستوں پر چل سکو گے جو منزلِ مقصود تک لے جانے والے راستے ہیں.اور ایک مومن کی منزلِ مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے ؟ ہدایت کے راستوں کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا قدم جور کھا ہے وہ ایمان بالغیب ہے ، اور یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے.یہ ایمان بالغیب ہی ہے جو ایمان میں ترقی کا باعث بنتا ہے.اور یہ ایمان میں ترقی ہدایت کے ان راستوں کی طرف لے جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے پانے کے راستے ہیں.خدا تعالیٰ کی تعلیم کو سمجھنے کے راستے ہیں.خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بڑھنے کے راستے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ :

Page 447

432 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم و متقی کی حالت میں چونکہ رویت باری تعالیٰ اور مکالمات و مکاشفات کے مراتب حاصل نہیں ہوتے اس لئے اس کو اول ایمان بالغیب ہی کی ضرورت ہوتی ہے.اور وہ تکلف کے طور پر ایمانی درجہ ہوتا ہے کیونکہ قرائن قویہ کو دیکھ کر اللہ تعالی کی ہستی پر ایمان لاتا ہے جو بین اشک والیقین ہو تا ہے“(کہ شک اور یقین کے درمیان یہ چیزیں ہوتی ہیں).فرمایا کہ ” منتقی اللہ تعالیٰ کو مان لیتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُؤْمِنُونَ بالغیب“.فرمایا کہ ”یہ مت سمجھو کہ یہ ادنی درجہ ہے یا اس کا مرتبہ کم ہے “.پھر فرماتے ہیں ” یہ ایمان بالغیب متقی کے پہلے درجہ کی حالت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی وقعت رکھتی ہے.حدیث صحیح میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی نیلم نے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو سب سے بڑھ کر ایمان کس کا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی کہ حضور آپ کا ہی ہے.آپ نے فرمایا کہ میرا کس طرح ہو سکتا ہے، میں تو ہر روز جبریل کو دیکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے نشانات کو ہر وقت دیکھتا ہوں.پھر صحابہ نے عرض کی کہ کیا ہمارا ایمان؟ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان کس طرح تم بھی تو نشانات دیکھتے ہو.آخر خود رسول کریم صلی الی یکم نے فرمایا کہ جو لوگ صد ہا سال کے میرے بعد آئیں گے ان کا ایمان عجیب ہے کیونکہ وہ کوئی بھی ایسا نشان نہیں دیکھتے جیسے تم دیکھتے ہو مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ متقی کو اگر وہ اسی ابتدائی درجہ میں مر جاوے ، تو اسی زمرہ میں داخل کر لیتا ہے“.فرماتے ہیں کہ ”اس لذت اور نعمت سے ابھی اس نے کچھ بھی نہیں پایا“.(جو نشانات دیکھ کر ملتی ہے).لیکن پھر بھی وہ ایسی قوت دکھاتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی رکھتا ہے بلکہ اس ایمان کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرتا ہے.یعنی يُقِيمُونَ الصلوۃ.“ عمل یہ ہے کہ نمازوں پر قائم ہو جاتے ہیں.فرمایا کہ ” تقویٰ کی اس حالت میں نمازوں میں بھی وسوسے ہوتے ہیں اور قسم قسم کے وہم اور شکوک پید اہو کر خیالات کو پراگندہ کرتے ہیں.باوجو د اس کے بھی وہ نماز نہیں چھوڑتے اور نہیں تھکتے اور ہارتے.بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ چند روز نماز پڑھی اور ظنونِ فاسدہ اور خیالات پراگندہ دل میں گزرنے لگے “.بدظنیاں پید ا ہو نے لگ گئیں.گندے خیالات آنے لگ گئے.”نماز چھوڑ دی اور ہار کر بیٹھ رہے.مگر منتقی اپنی ہمت نہیں ہارتا.وہ نماز کو کھڑی کرتا، نماز گری پڑتی ہے ، وہ بار بار اسے کھڑی کرتا ہے.تقویٰ کی حالت میں دو زمانے متقی پر آتے ہیں.ایک ابتلا کا زمانہ دوسرا اصطفا کا زمانہ.ابتلا کا زمانہ اس لئے آتا ہے کہ تا تمہیں اپنی قدر و منزلت اور قابلیت کا پتہ مل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر راستبازوں کی طرح ایمان لاتا ہے.اس لئے کبھی اس کو وہم اور شکوک آکر پریشان دل کرتے ہیں.کبھی کبھی خدا تعالیٰ ہی کی ذات پر اعتراض اور و ہم پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.صادق مومن کو اس مقام پر ڈرنا اور گھبر انانہ چاہیے بلکہ آگے ہی قدم رکھے“.فرمایا کہ ”شیطان پلید کا کام ہے کہ وہ راضی نہیں ہو تا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے منکر نہ کرالے

Page 448

433 خطبہ جمعہ فرموده مورخه 20 اگست) 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور رسول اللہ صلی علی کیم کی رسالت سے روگردان نہ کر لے.وہ وساوس پر وساوس ڈالتا رہتا ہے.لاکھوں کروڑوں انسان انہیں وسوسوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کر لیں پھر دیکھا جائے گا.باوجود اس کے کہ انسان کو اس بات کا علم نہیں کہ ایک سانس کے بعد دوسر ا سانس آئے گا بھی یا نہیں؟ “ (مطلب یہ کہ دل میں جو وسوسہ پید ا ہوا ہے یا غلط خیال پیدا ہوا ہے وہ کر لو دیکھا جائے گا.پھر بعد میں اصلاح ہو جائے گی).فرمایا کہ ”لیکن شیطان ایساد لیر کرتا ہے کہ وہ بڑی بڑی جھوٹی امیدیں دیتا اور سبز باغ دکھاتا ہے.شیطان کا یہ پہلا سبق ہوتا ہے، مگر متقی بہادر ہوتا ہے اس کو ایک جرآت دی جاتی ہے کہ وہ ہر وسوسہ کا مقابلہ کرتا ہے.اس لئے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ فرمایا، یعنی اس درجہ میں وہ ہارتے اور تھکتے نہیں اور ابتدا میں اُنس اور ذوق اور شوق کا نہ ہونا ان کو بے دل نہیں کرتا.وہ اسی بے ذوقی اور بے لطفی میں بھی نماز پڑھتے رہتے ہیں.یہاں تک کہ سب وساوس اور اوہام دور ہو جاتے ہیں.شیطان کو شکست ملتی اور مومن کامیاب ہو جاتا ہے.غرض منتقی کا یہ زمانہ ستی کا زمانہ نہیں ہو تا بلکہ میدان میں کھڑے رہنے کا زمانہ ہو تا ہے.وساوس کا پوری مردانگی سے مقابلہ کرے“.(الحکم جلد 5 نمبر 6 مورخہ 17 فروری 1901ء صفحہ 1 تا2) نمازوں کی طرف توجہ پس ان دنوں میں جب ہر ایک کو نمازوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدیں بھی بھری ہوئی ہیں.شیطان کے ساتھ مقابلے میں پوری طاقت صرف کر دینی چاہئے.جب یہ صورت پیدا ہو گی کہ شیطان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہ رہے ہوں گے.خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کی طرف قدم بھی اٹھ رہے ہوں گے.جب خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق بھی بڑھیں گے.جب یہ کوشش ہو گی تب ان ہدایت کے راستوں کی طرف بھی رہنمائی ملے گی جو خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمائے ہیں.ہدایت کے وہ راستے نظر آئیں گے جو اپنے ساتھ روشن نشان رکھتے ہیں.یہاں یہ بات بھی یادر ہے کہ ایمان بالغیب کا تقاضا ہے کہ ان تمام پیشگوئیوں پر بھی یقین رکھا جائے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمائی ہیں.اور جب نمازوں میں توجہ ہو گی.ایمان بالغیب کے ساتھ عملی صورت کا اظہار ہو گا جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے.یعنی نمازوں کا قیام اور اس میں شیطان کے حملوں سے بچنے کی دعائیں، تو پھر یہ دعا بھی ہو رہی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان بالغیب کی حالت کو نشانات کے ساتھ مزید مضبوط بھی کر دے.اللہ تعالیٰ پر ایمان یہ تقاضا کرتا ہے اور ایک مومن اس کے لئے دعا کرتا ہے کہ جس طرح تیرے فرستادے پہلے زمانے کی اصلاح اور ہدایت کے لئے تیری طرف سے مبعوث ہوتے تھے اب بھی ہوں.کیونکہ زمانے کی حالت یہ تقاضا کر رہی ہے کہ کسی فرستادے کی ضرورت ہے.قرآنِ کریم نے ہی یہ پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا

Page 449

434 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بهم (الجمعه (4) اور ایک دوسری قوم میں سے بھی وہ اسے بھیجے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے.پس یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ آنحضرت صلی علی کرم نے فرمایا ہے کہ جو نشانات نہیں دیکھیں گے ان کے ایمان قابل تعریف ہیں بلکہ یہ اس عرصے کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہی اندھیرے زمانے کا عرصہ تھا جب مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر روحانیت کو آگے بڑھانے کے لئے ، مسلمانوں کی تربیت کے لئے کوئی بڑا وسیع نظام نہیں تھا.ہاں چھوٹی چھوٹی جگہوں پر مسجد دین تھے جو اپنے کام کر رہے تھے یا وہ لوگ ہیں جن تک بعد میں بھی اللہ تعالی کے آئے ہوئے فرستادے کا پیغام نہیں پہنچا.ان کی اگر ایمانی حالت پھر بھی قائم رہتی ہے تو یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے ایمان بالغیب کی صحیح حفاظت کی ہے.اور جو ایمان بالغیب کی صحیح حفاظت کرنے والے ہیں وہ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے کو اس کی نشانیاں دیکھ کر پہچانتے بھی ہیں اور قبول بھی کرتے ہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی علی نام پر جو ایمان لائے تھے انہوں نے کوئی نشانات نہیں مانگے تھے.بہت سارے ایسے تھے جو ایمان بالغیب پر ہی یقین رکھتے تھے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 644) صرف آپ کی ظاہری حالت دیکھ کر ان کو یقین تھا کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے وہ سچ ہے.اور پھر مسیح و مہدی کے آنے کے ساتھ یہ نشانات کا دور شروع ہو گیا.یہ بھی پیشگوئی تھی کہ نشانات کا دور شروع ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ یہ نشانات دیکھ رہی ہے.اور ایمان بالغیب کی وجہ سے اس یقین پر بھی قائم ہے کہ جو عدے اور پیشگوئیاں ہیں جو اب تک ہمیں نظر نہیں آر ہیں وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہوں گی.ہم شیطان کے حملوں اور وسوسوں کو اپنی نمازوں کی خوبصورتی سے ادا ئیگی اور دوام اختیار کرتے ہوئے دور کرتے چلے جائیں گے.اور شیطان کے وسوسے کبھی ہمارے پائے ثبات کو ہلا نہیں سکتے.شیطان کے چیلوں کا تمام زور اس زمانے میں احمدیوں کو اپنے ایمان میں کمزور کرنے پر صرف ہو رہا ہے.لیکن ہم تو اب اس حالت میں آچکے ہیں کہ جب نشانات بھی سامنے نظر آرہے ہیں اور اگر کوئی ابتلاؤں کا دور ہے تو یہ بھی پہلے سے ہی قرآنِ کریم کی پیشگوئیاں ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہوا ہے.الہی جماعتوں کے لئے یہ ابتلاء آتے ہیں اور زمانے کے امام نے ہمیں اس کے لئے تیار کیا ہوا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ رمضان کی برکتوں سے فیض اٹھائیں.اس میں دعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی نمازوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا قرب پانے اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی کی دعائیں بھی کرنی چاہئیں.اور اللہ تعالیٰ سے اس کے وعدے پورے ہونے کے لئے دعاؤں سے مدد مانگنی چاہئے.یہ مہینہ جو دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ بھی ہے اس میں جب ہم خدا تعالیٰ سے قرآنِ کریم کی حکومت اور اس کی عظمت اور تمام دنیا میں اس کی حکومت کے قیام کی دعا مانگ رہے ہوں گے تو یقینا خدا تعالیٰ اپنے زور آور حملوں سے نشانات

Page 450

435 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کا ایک نیا سلسلہ اور دور شروع فرمائے گا.اور قرآنِ کریم کی تعلیم اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ حق کے قیام اور باطل کے فرار کے نظارے ہمیں دکھائے گی.لوگ زمانے کے امام آنحضرت صلی اللی کمر کے عاشق صادق اور خدا تعالیٰ کے فرستادے کی آواز سننے کی طرف توجہ دیں گے.جو عین قرآنی تعلیم کے مطابق دنیا کو ہدایت اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہے.آج اگر کوئی حفاظت قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہے تو وہ یہی مسیح موعود ہے.اور آج اگر کوئی جماعت یہ کام احسن رنگ میں سر انجام دے سکتی ہے اور دے رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے.جس کے لئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے.جس کے لئے ہمیں اپنی دعاؤں میں شدت پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ورنہ ہم اپنے فرائض سے کوتاہی کر رہے ہوں گے یا کوتاہی کرنے والے بن رہے ہوں گے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کے لئے اپنی استعدادوں کے لحاظ سے بھی بھر پور کر شش کرے.حفاظت قرآن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ فتنوں اور خطرات کے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کرے گا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ ( الحجر :10).سو خدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنی کلام کی کی.اول: حافظوں کے ذریعہ سے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں.ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پو چھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں اور اس طرح پر قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا.دوسرے: ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے.جنہوں نے قرآنِ شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.تیسرے: متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر ( عقل کے مطابق کر کے یا عقلی دلیلوں کے ساتھ ) خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.چوتھے: روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے“.فرماتے ہیں کہ ”سو یہ پیشگوئی کسی نہ کسی پہلو کی وجہ سے ہر ایک زمانہ میں پوری ہوتی رہی ہے“( قرآنِ

Page 451

436 خطبه جمعه فرموده مورخه 20 اگست) 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کریم کی پیشگوئی کہ میں نے یہ کتاب اتاری اور میں اس کی حفاظت کروں گا.) فرمایا ” اور جس زمانہ میں کسی پہلو پر مخالفوں کی طرف سے زیادہ زور دیا گیا تھا اسی کے مطابق خدا تعالیٰ کی غیرت اور حمیت نے مدافعت کرنے والا پیدا کیا ہے لیکن یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ ایک ایسا زمانہ تھا جس میں مخالفوں نے ہر چہار پہلو کے رو سے حملہ کیا تھا اور یہ ایک سخت طوفان کے دن تھے کہ جب سے قرآن شریف کی دنیا میں اشاعت ہوئی ایسے خطر ناک دن اسلام نے کبھی نہیں دیکھے.بد بخت اندھوں نے قرآن شریف کی لفظی صحت پر بھی حملہ کیا اور غلط ترجمے اور تفسیر میں شائع کیں.بہتیرے عیسائیوں اور بعض نیچریوں اور کم فہم مسلمانوں نے تفسیروں اور ترجموں کے بہانہ سے تحریف معنوی کا ارادہ کیا اور بہتوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن اکثر جگہ میں علوم عقلیہ اور مسائل مسلّمہ مثبتہ طبعی اور ہلیت کے مخالف ہے”.( بعض ایسے ثابت شدہ مسائل جو طبیعات اور ہیئت دانوں کے ہیں اس کے مخالف ہیں).فرمایا “اور نیز یہ کہ بہت سے دعاوی اس کے عقلی تحقیقاتوں کے بر عکس ہیں اور نیز یہ کہ اس کی تعلیم جبر اور ظلم اور بے اعتدالی اور نا انصافی کے طریقوں کو سکھلاتی ہے.اور نیز یہ کہ بہت سی باتیں اس کی صفات الہیہ کے مخالف اور قانونِ قدرت اور صحیفہ فطرت کے منافی ہیں اور بہتوں نے پادریوں اور آریوں میں سے ہمارے نبی صلی الی یکم کے معجزات اور قرآنِ کریم کے نشانوں اور پیش گوئیوں سے نہایت درجہ کے اصرار سے انکار کیا اور خدا تعالیٰ کی پاک کلام اور دین اسلام اور ہمارے نبی علی ایم کی ایک ایسی صورت کھینچ کر دکھلائی اور اس قدر افتراء سے کام لیا جس سے ہر ایک حق کا طالب خواہ نخواہ نفرت کرے.لہذا اب یہ زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ جو طبعاً چاہتا تھا کہ جیسا کہ مخالفوں کے فتنہ کا سیلاب بڑے زور سے چاروں پہلوؤں پر حملہ کرنے کے لئے اٹھا ہے ایسا ہی مدافعت بھی چاروں پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اس عرصہ میں چودھویں صدی کا آغاز بھی ہو گیا.اس لئے خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے وعدہ کے موافق جو انا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ ہے اس فتنہ کی اصلاح کے لئے ایک مجدد بھیجا.مگر چونکہ ہر ایک مجدد کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص نام ہے اور جیسا کہ ایک شخص جب ایک کتاب تالیف کرتا ہے تو اس کے مضامین کے مناسب حال اس کتاب کا نام رکھ دیتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس مجد د کا نام خدمات مفوضہ کے مناسب حال مسیح رکھا کیونکہ یہ بات مقرر ہو چکی تھی کہ آخر الزمان کے صلیبی فتنوں کی مسیح اصلاح کرے گا.پس جس شخص کو یہ اصلاح سپر دہوئی ضرور تھا کہ اس کا نام مسیح موعود رکھا جائے.پس سوچو کہ يَكْسِرُ الصلیب کی خدمت کس کو سپر د ہے؟ اور کیا اب یہ وہی زمانہ ہے یا کوئی اور ہے.سوچو خدا تمہیں تھام لے“.چرچ کے اعتراض ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 288-290) جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا آج چرچ نے جو اعتراض کئے ہیں یہ پرانے اعتراض ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس اقتباس میں سو سال پہلے ہی بیان کر دیا تھا.وہ اعتراض تقریباً اس سے ملتے

Page 452

خطبات مسرور جلد ہشتم 437 خطبہ جمعہ فرموده مورخه 20 اگست) 2010 جلتے ہیں جو اس چرچ نے کئے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل پر کوئی نہیں ٹھہر سکا.افسوس کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عظیم کام کو دیکھتے ہوئے جس کی بعض مسلمان لیڈروں نے تعریفیں بھی کی ہیں، بجائے اس کے کہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہوتے ، جبکہ آنحضرت علی علیکم نے بھی یہ حکم فرمایا تھا کہ مسیح موعود کے آنے پر میر اسلام اسے پہنچانا.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 182 مسند أبي هريرة حدیث نمبر 7957 مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998) اکثریت آپ کی مخالفت میں لگ گئی.یہ سب بھی ایمان بالغیب کی نفی ہے.اور یہ مخالفت شدت پسندوں اور نا انصاف حکومتوں کی وجہ سے اپنی شدت کا رنگ اختیار کرتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے اور وہ اس عاشق رسول اور عاشق قرآن اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم کی حفاظت پر مامور کے پیغام کو سن کر اس کے مددگار بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم بھی اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ اس جری اللہ کے سلطان نصیر بنیں اور قرآنِ کریم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا باعث بنیں.احمدیوں پر مظالم کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی گرفت میں نے دشمنوں کا ذکر کیا ہے تو آج پھر ان ظالموں کے ظلموں کی دو افسوس ناک خبریں ہیں.اس ہفتہ میں صوبہ سندھ میں دو شہادتیں ہوئی ہیں.ایک کراچی میں اور دوسری سانگھڑ میں.یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ظلموں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تقدیر کیا دکھلا رہی ہے.خود تسلیم کر رہے ہیں اور اخباروں میں لکھ رہے ہیں.کالم آرہے ہیں کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا عذاب ہم پر آرہا ہے.لیکن ان غلطیوں کی نشاندہی غلط طریقوں پر کر رہے ہیں، ان کی آنکھوں پر اس قدر پر دے پڑگئے ہیں کہ مجھے کسی نے بتایا کہ ایک جگہ کچھ بد فطرت مُلاں یہ وعظ کر رہے تھے کہ ہم نے قادیانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے پوری طرح کوشش نہیں کی اس لئے یہ عذاب ہم پر آیا.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ احمدی تو انشاء اللہ تعالٰی اس امتحان سے گزر جائیں گے لیکن اے بد فطرت ملاؤ! تم جو ظلموں کی تعلیم خدا اور رسول کے نام پر دے رہے ہو ، تم جو قرآنِ کریم کی تعلیم کا مذاق اڑا رہے ہو تو تم ضرور خد اتعالیٰ کی پکڑ میں آؤ گے.بعض لوگ مجھے یہ بھی لکھ دیتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ میری باتیں جب میں بعض دفعہ ملاؤں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں تو وہ ان کو اور بھڑکاتی ہیں اور مجھے نہیں کرنی چاہئیں.ہمارے بعض معصوموں کی یہ غلط فہمی ہے.اس لئے میں تو اپنوں کو بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو منصوبے انہوں نے بنائے ہوئے ہیں ان کا میرے کہنے یا نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.ان کے خوفناک منصوبے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف پاکستان میں کیا کچھ کرنا ہے اور باہر بھی کوششیں کرتے ہیں ، کر رہے ہیں.میں تو اس لئے بھی کہتا ہوں کہ شاید میری باتیں کسی شریف النفس کو

Page 453

438 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم شَر الناس سے قوم کو ہوشیار کرنے کے کام آجائیں.بہر حال ہمارا کام تو صبر ، استقامت اور دعا سے اپنی منزل کی طرف سے رواں دواں رہنا ہے اور یہ ہم انشاء اللہ کرتے چلے جائیں گے.اور ان دنوں میں احمد کی خاص طور پر خدا تعالیٰ کے آستانے پر اس طرح جھکیں کہ بس اسی کے ہو جائیں.اللہ تعالیٰ دشمنوں کے ہر شر ان پر الٹائے اور ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے.اور ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں.جن دو شہادتوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں ایک کراچی کے ڈاکٹر نجم الحسن صاحب شہید ہیں.آپ 16 اگست کو رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اپنے کلینک واقعہ اورنگی ٹاؤن سے واپس جانے کے لئے جب گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو کسی نامعلوم شخص نے فائرنگ کر دی.آپ کو قریبی ہسپتال میں لے جایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لا کر شہادت پاگئے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.سنا ہے کہ ان کے سینے پر تیرہ گولیاں لگی تھیں.ڈاکٹر نجم الحسن شہید کا آبائی تعلق بہار کے ایک شہر بھاگلپور سے تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں بھاگلپور سے مکرم محمود عالم صاحب قادیان تشریف لے گئے اور وہاں بیعت کا شرف حاصل کیا.انہی کے ذریعے بھاگلپور میں احمدیت کا نفوذ ہوا.ڈاکٹر صاحب کے دادا مخدوم الحسن صاحب اور مکرم مولوی عبد الماجد صاحب بھاگل پوری خلافت ثانیہ کے دور میں احمدیت میں داخل ہوئے.1956ء میں ان کا خاندان بھاگلپور سے ہجرت کر کے ڈھا کہ آگیا.1971ء میں جب بنگلہ دیش بنا تو ڈاکٹر صاحب شہید کے والدین ہجرت کر کے چند سال انڈیا اور نیپال میں رہے.پھر 1975ء میں کراچی منتقل ہو گئے.ڈاکٹر نجم الحسن صاحب کی پیدائش 1971ء میں ڈھاکہ میں ہوئی تھی.آپ سات بھائی اور ایک بہن ہیں.اپنے بہن بھائیوں میں ڈاکٹر صاحب دوسرے نمبر پر تھے.اپنی تمام تعلیم پرائمری سے لے کر چائلڈ سپیشلسٹ بنے تک کراچی میں ہی حاصل کی.سندھ میڈیکل کالج سے M.B.B.S کیا.F.C.P.S کیا.اپنی پریکٹس بھی کر رہے تھے اور ڈاؤ یونیورسٹی میں بچوں کے شعبے کے ہیلتھ سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر بھی تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.روز مرہ کے معمول کے مطابق ہی یہ اپنی کلینک سے باہر نکلے ہیں اور گاڑی سٹارٹ کی ہے تو نامعلوم افراد نے آکر ان پر فائرنگ کر دی.قریب ہی ان کے بھائی کی میڈیکل سٹور کی دکان تھی ، وہ جب باہر آئے ہیں تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب خون میں لت پت تھے.ڈاکٹر صاحب کی عمر ساڑھے انتالیس سال تھی.ایک نڈر اور بے خوف شخصیت کے مالک تھے.کئی دفعہ آپ کے خسر نے انہیں کہا بھی کہ یہاں سے کلینک تبدیل کر لیں.لیکن ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ اسی علاقہ میں پلا بڑھا ہوں.اس علاقے کے لوگوں کا مجھ پر حق ہے.اس لئے میں ان کی خدمت کے لئے یہیں پریکٹس کروں گا.خدام الاحمدیہ کے کیمپس میں بھی وقت دیا کرتے تھے.لیکن لوگ حق ادا کرنا نہیں چاہتے ہیں.جو نافع الناس لوگ ہوتے ہیں ان کو بھی ظالمانہ طریق پر ختم کر دینے سے یہ نہیں چوکتے.آپ نے کبھی کہیں اپنی احمدیت کو نہیں چھپایا.

Page 454

439 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم موصی تو میں نے بتایا کہ تھے ہی لیکن نمازیں بڑے خشوع و خضوع سے پڑھنے والے تھے.چندوں میں بڑے با قاعدہ اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.پسماندگان میں اہلیہ ہیں اور بیٹی شافیہ حسن عمر پانچ سال اور بیٹا محمد حسن عمر دو سال اور ایک بیٹی ملیحہ حسن اڑھائی ماہ.اور تینوں بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں.دوسری شہادت مکرم حبیب الرحمن صاحب سانگھڑ کی ہے.حبیب الرحمان صاحب کا آبائی تعلق ضلع گجرات سے ہے.آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا کے بھائی حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے ہوا.ان کے بعد آپ کے دادا حضرت پیر برکت علی صاحب بھی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے.آپ کے دادا کے بھائی پہلے احمدی ہوئے تھے پھر آپ کے دادا احمدی ہوئے.بعد ازاں انہی کے دو بھائی حضرت پیر افتخار علی صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی بیعت کر کے 1901ء میں احمدیت میں داخل ہو گئے.1912ء میں آپ کے خاندان کے بڑوں نے کچھ زمین سندھ میں خریدی جس کی وجہ سے سندھ میں شفٹ ہو گئے.حبیب الرحمن صاحب کی پیدائش 1950ء میں سانگھڑ میں ہوئی.اور تعلیم انہوں نے ربوہ میں حاصل کی.ربوہ میں جب یہ تعلیم حاصل کر رہے تھے تو میرے ساتھ ہی پڑھتے تھے.بڑے ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے اور اچھی لیکن پاکیزہ مجلس لگانے والے.حبیب الرحمن صاحب شہید 19 اگست 2010ء کو صبح ساڑھے دس بجے گھر سے اپنی زرعی زمینوں کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں ایک موڑ پر جب کار کی رفتار آہستہ ہوئی تو دو نا معلوم نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے موقع پا کر آپ پر فائرنگ کر دی.جس سے گولی آپ کی کنپٹی پر لگی اور موقع پر جام شہادت نوش فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.جیسا کہ میں نے بتایا آپ کی پیدائش 1950ء کی تھی.ساٹھ سال آپ کی عمر تھی.1990ء میں بچوں سمیت امریکہ شفٹ ہو گئے تھے.امریکہ جانے سے پہلے آپ قائد مجلس خدام الاحمدیہ سانگھڑ اور قائد ضلع سانگھڑ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے.جماعتی طور پر سیکرٹری مال کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی.امریکہ میں آپ کو alislam.org جو جماعت کی ویب سائٹ ہے ، اس میں بڑی نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے.اور ابتدائی کارکنان میں سے تھے اور بڑے اچھے ور کر تھے.اور اسی طرح ور کر اور کام کرنے والے تلاش کرنے میں بھی آپ نے بڑا کام کیا ہے.2006ء میں آپ کے بھائی ڈاکٹر مجیب الرحمن صاحب کو شہید کر دیا گیا تھا تو آپ بوڑھے والد کی خدمت کرنے کے لئے امریکہ سے سانگھڑ شفٹ ہو گئے تھے.اور یہاں شفٹ ہونے کے کچھ عرصے بعد جب ان کو تحریک کی گئی تو پھر اپنے شہید بھائی کی جو بیوہ تھی ان سے ان کی شادی ہو گئی.کیونکہ ان کی بیوی پہلے فوت ہو چکی تھی.نمازوں کے پابند ، چندہ جات کی ادائیگی کے بڑے پابند ، خلافت سے بڑا

Page 455

440 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد هشتم تعلق رکھنے والے.غریبوں کا دکھ بانٹنے والے مخلص وجو د تھے.ان کے والد مکرم پیر فضل الرحمن صاحب زندہ ہیں، حیات ہیں.ان کی عمر 91 سال ہے.چار بہنیں اور دو بھائی ہیں.اور پہلی بیوی تو میں نے بتایا فوت ہو گئی تھیں.اولاد میں سے انیس الرحمن ہیں 32 سال ان کی عمر ہے.حمیر اصاحبہ 23 سال، عائشہ صاحبہ 28 سال.سب بچے امریکہ میں ہیں اور دوسری اہلیہ جو ان کے بھائی مجیب الرحمن صاحب شہید کی بیوہ ہیں.ان کے اپنے بچے اعزاز الر حمن 13 سال، معاذالرحمن 11 سال، اور مشعل عمر 7 سال، یہ پسماندگان میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر اور حوصلہ دے.ایک اور مخلص دوست کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں جو موسیٰ رستمی صاحب ہیں، ان کا جنازہ تو میر اخیال ہے میں نے مصطفیٰ ثابت صاحب کے جنازے کے ساتھ ہی پڑھ دیا تھا.لیکن ایک انتہائی مخلص دوست تھے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان کا ذکر بھی یہاں ہو جائے.5 اگست 2010ء کو ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَانَّا لَيْهِ راجِعُونَ.کوسووو کے جلسے میں اس سال آپ کی تقریر تھی، اس میں انہوں نے بتایا کہ 1985ء میں ان کے بھائی UK آئے اور انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے ملاقات کی.جب ان کے بھائی واپس گئے اور اپنی یادوں کا ذکر کیا کہ حضور انور سے کیسے ملاقات ہوئی تو موسیٰ صاحب پر اس کا بہت اثر ہوا.اس کے علاوہ اپنے بھائی میں غیر معمولی انقلاب دیکھ کر بھی ان پر گہرا اثر ہوا.ہائی سکول اور ملٹری سروس مکمل کرنے کے بعد آپ سوئٹزر لینڈ چلے گئے.وہاں تقریباً چار سال رہے.انہوں نے خود بتایا کہ وہاں کے احمدیوں سے مل کر ہمیں بہت خوشی ہوئی.بعد ازاں آپ کچھ عرصہ ہالینڈ رہے، ہالینڈ جاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی جماعت کی خدمت کے لئے وقف کریں گے.بیعت تو وہ اپنے بھائی کے اثر کو دیکھ کر پہلے ہی کر چکے تھے.ہالینڈ میں ہی حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات ہوئی اور اس پہلی ملاقات میں انہوں نے اپنی زندگی وقف کرنے کا ذکر کیا تو حضور رحمہ اللہ نے انہیں البانیہ چلے جانے کا کہا.بہر حال چند وجوہات کی وجہ سے نہیں جاسکے.سن 2000ء میں امیر صاحب جرمنی ہالینڈ تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ کسی کو تلاش کریں جو کو سو دو جاسکے تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی وہاں نہیں جانا چاہے گا لیکن میں اس کے لئے تیار ہوں.چنانچہ مئی 2000ء میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع" کی اجازت سے وہ کو سوود چلے گئے.کو سو دو میں سب سے پہلے جولان (Gjilan) میں اپنے بھائی کے گھر ٹھہرے جہاں ان کی بہن بھی اپنی فیملی کے ساتھ رہتی تھیں.بعد میں ان کی بہن بھی احمدی ہو گئیں.اس طرح پہلا جمعہ ان کے گھر میں ہی ادا کیا گیا.اس کے بعد پرشتنا (Prishtna) چلے گئے.دس سال تک جماعت کو سودو کے صدر رہے.جماعت کی ترقی اور اس کے مفاد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.کسی نہ کسی رنگ میں پیغام حق پہنچاتے رہتے تھے.بڑی دلجمعی سے جماعت کے کام کرتے تھے.جماعتی رقوم کو بڑی احتیاط سے خرچ کیا

Page 456

441 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کرتے تھے.پہلے مشن ہاؤس کی تکمیل کے ہر مرحلے پر اخراجات کا خود جائزہ لیتے رہے.بہت ساحصہ و قارِ عمل کے ذریعہ مکمل کروایا.ایک دفعہ انہیں پتہ چلا کہ ان کی تنخواہ مبلغ سے کچھ زیادہ ہے تو پوچھے اور بتائے بغیر ہی اپنی تنخواہ کو کم کر لیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میری تنخواہ ایک مبلغ سے زیادہ ہو.ان کے پاس کار نہیں ہوتی تھی، بائیسکل پر ہی سارے کام کیا کرتے تھے.کو سودو میں جماعت کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے اور نو مبائعین کی تربیت کی ہر لمحے فکر رہتی تھی.اور ایک فیملی کی طرح انہوں نے نو مبائعین کو سنبھالا ہے اور ان کی تربیت کی ہے.ان کی تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کو سودو جماعت کی اکثریت موصی ہے اور انتہائی پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے.بڑے خوش مزاج، نیک، نمازوں میں باقاعدہ اور بڑے خشوع و خضوع سے نمازیں ادا کرنے والے، خلافت سے بڑا وفا کا تعلق رکھنے والے تھے.ان کی آنکھوں سے بڑا عشق ٹپکتا تھا.ہر دفعہ جرمنی کے جلسے میں مجھے ملا کرتے تھے.انہوں نے پچھلے سال ایک دفعہ مجھے کہا کہ ہمارے بارہ میں وکے جو مسلمان علماء ہیں، انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال دیا ہے کہ احمدی جو ہیں یہ حج نہیں کرتے بلکہ یہ جلسے پر جاتے ہیں.تو اس وجہ سے بعض لوگ ہماری باتیں نہیں سنتے.تو ان کو میں نے کہا تھا کہ اس سال آپ حج کریں.اللہ کے فضل سے پچھلے سال انہوں نے حج بھی کیا تھا اور اس کے بعد اب ملے تو میں نے پوچھا کہ یہ شکوہ تو اب دور ہو گیا ہو گا.تو بڑے خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حج کی توفیق دی اور حاجی کہلاتے تھے.بہر حال عمر اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن کسی اچانک بیماری کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.اور ان کے پسماندگان کو بھی صبر دے.اور احمدیت پر قائم رکھے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے بہتر اور ان جیسے کام کرنے والے کو سود و جماعت میں مزید افراد عطا فرمائے بلکہ ہر ملک میں جماعت کو ایسے افراد عطا فرمائے جو اخلاص اور وفا میں بڑھے ہوئے اور بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کرنے والے ہوں.( نماز جمعہ کے بعد حضور ایدہ اللہ نے ہر دو شہداء کی نماز جنازہ غائب پڑھائی) الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 37 مورخہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2010 صفحہ 5تا8)

Page 457

خطبات مسرور جلد ہشتم 442 35 خطبه جمعه فرموده مورخه 27 اگست 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 اگست 2010ء بمطابق 27 ظهور 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائیں: إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ـ وَمَا أَدْرَكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ - لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ - تَنَزَّلُ الْمَلَبِكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ - سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورة القدر) سورۃ قدر جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: یقیناً ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے.اور تجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے.قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے.بکثرت نازل ہوتے ہیں اس میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے.ہر معاملہ میں سلام ہے.یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے.لیلۃ القدر کی غیر معمولی برکت اور اہمیت انشاء اللہ تعالیٰ چند دن تک ہم رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوں گے جس کے بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ اس میں ایک رات ایسی آتی ہے جو لیلتہ القدر کہلاتی ہے.یعنی ایسی رات جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص نظر اپنے مخلص بندوں پر پڑتی ہے.جب ان کی خاص روحانی کیفیت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور قرب کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں.اس وجہ سے مسلمان رمضان کے آخری عشرہ کو عام طور پر بڑی اہمیت دیتے ہیں.عموماً نمازوں، تراویح اور باقی نیکی کے کاموں میں بھی بہت سے ایسے لوگ جو رمضان کے پہلے اور دوسرے عشرہ میں زیادہ توجہ نہیں دیتے، آخری عشرہ میں نسبتا بہتر حالت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جماعت میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو یہ رجحان رکھتے ہیں اور اس عشرہ میں تہجد اور نوافل کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دیتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ اس عشرہ میں ایک رات ہے جو لیلتہ القدر کہلاتی ہے، ایسی رات جو بڑی اہمیت کی حامل رات ہے.لیکن اگر صرف ہم اس آخری عشرے کے لئے ہی کوشش کریں اور باقی سارا سال کوئی ایسی کوشش نہ ہو تو کیا یہ چیز ایک انسان کو حقیقی مومن اور عابد بنا سکتی ہے ؟

Page 458

443 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبه جمعه فرموده مورخه 27 اگست 2010 دیکھو خد اتعالیٰ تو دوسری جگہ پر کہتا ہے کہ جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا مقصد اس کی عبادت کرنا ہے.یہ بات کہ صرف ایک رات میں عبادت کر لو یا ایک رات کی تلاش میں دس دن عبادت کر لو تو تمہاری ساری زندگی کی عبادتیں پوری ہو جائیں گی، ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے دور لے جائے گی کہ تمہارا مقصد پیدائش عبادت کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا ہے.ایک روایت میں آتا ہے.زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ کے بھائی ابنِ مسعود کہتے ہیں کہ جو سارا سال عبادت کرے، وہ لیلتہ القدر کو پائے گا.انہوں نے کہا اللہ ان پر رحم کرے.ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ صرف اسی ایک رات پر تکیہ نہ کر لیں ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ رات رمضان میں آتی ہے اور یہ کہ آخری عشرہ میں آتی ہے.(مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلتہ القدر...حدیث نمبر 2666) صحابہ تو اس بات کی گہرائی سے واقف تھے کہ صرف آخری عشرہ کی عبادتیں لیلتہ القدر دیکھنے کا باعث نہیں بن جاتیں بلکہ انسان کو اپنے مقصد پیدائش کو سامنے رکھتے ہوئے جب اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے بندوں کی تسلی کے لئے ان کو اپنے خاص فضل سے نوازتے ہوئے ان سے اپنے قرب کا اظہار کرنے کے لئے وہ کیفیت پیدا کر دیتا ہے ، وہ حالت پیدا کر دیتا ہے جس میں ایک عابد بندے کو یہ خاص رات میسر آجاتی ہے.اور ایک عجیب روحانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ایک مومن سے اس کے ایمانی عہد اور بندگی کے عہد کو پورا کرنے پر جس میں ہر لمحہ ایک مومن کے عمل میں ترقی نظر آتی ہے اور آنی چاہئے.اور رمضان کے روزے اور قرآنِ کریم کی تلاوت اور اسے سمجھنا، اور عبادتوں کے معیار اس لئے بلند کرنے کی کوشش کرنا کہ رمضان میرے معیار عبودیت اور بندگی کو مزید بڑھائے گا ایک خاص رات رکھی ہے.ایک کوشش اور شوق کے ساتھ بلند معیار حاصل کرنے کے لئے مومن جب جت جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے پر بے انتہا مہربان ہے ، جو اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا ہے ، جب وہ دیکھتا ہے کہ بندہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے میرے ان الفاظ کو سامنے رکھ کر کہ أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، میں نہ صرف اس کی دعا سنتا ہوں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ میں جو میں نے اپنے بندوں کے لئے ایک لیلتہ القدر کے پانے کا کہا ہے وہ بھی عطا کرتا ہوں.آسمان سے اتر کر بندوں کے قریب تر آجاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ آج کی رات تم مانگو میں تمہیں عطا کروں گا.پس جب بندہ اپنا عہد پورا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قبولیت دعا بلکہ روحانی مقام میں اضافے کے وعدے کو پورا فرماتا ہے.ہمارا خدا یقینا سچے وعدوں والا خدا ہے.اگر کبھی کہیں کمی ہے تو

Page 459

444 خطبات مسرور جلد هشتم خطبه جمعه فرموده مورخه 27 اگست 2010 ہمارے عملوں میں ، ہماری کوششوں میں ہے.اللہ تعالیٰ تو ہر سال رمضان کا مہینہ اور اس مہینے میں یہ دس دن رکھ کر جن میں ایک رات لیلۃ القدر ہے جو بندے کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کی انتہا ہے ، بھیجتا ہے تو پھر بندے کو اس ایک رات کی تیاری کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئیے ؟ جس کو یہ ایک رات میسر آجائے اس کو خدا تعالیٰ کی نظر میں جو مقام ملتا ہے وہ تمام زندگی کی عبادتوں کے برابر ہے.یعنی یہ ایک رات اس کی کایا پلٹ دیتی ہے.اس کی شخصیت وہ نہیں رہتی جو پہلے تھی اور یہی حالت ہونی چاہئے.ورنہ تو اس ایک رات کا حق ادا نہیں ہو گا.ایک مومن کی توشان ہی یہ ہے کہ اس کی روحانی حالت بہتری کی طرف ہمیشہ جاری رہے.اگر کسی کو یہ خیال آجائے کہ مجھے لیلتہ القدر میسر آگئی جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اس لئے اب مجھے عبادت کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹا ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت کی چاٹ ایک مومن کو پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا عابد اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والا بناتی ہے.پس جب یہ صورت پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا ایک جاری فیض شروع ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ پھر کہتا ہے کہ میں تمہاری دعائیں سنا کروں گا.تم نے میرا قرب پانے کی کوشش کی ہے، قدم اٹھایا ہے اور جد وجہد کی ہے ، تم نے اپنے عہد کا پاس کیا ہے ، اس کی نگہداشت کی ہے ، اب اگر تم یہ عمل جاری رکھو تو میں بھی تمہیں نو از تارہوں گا.یعنی بندہ جب رمضان میں روحانی معیار بلند کرنے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ لیلۃ القدر کے نظارے دکھا کر اپنے قریب کرتا چلا جائے گا.ایک مومن کی اپنی ذات کے لئے لیلتہ القدر کا صحیح ادراک پیدا کرنے کے لئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفی ہے ( ملفوظات جلد اول صفحہ 536 مطبوعہ ربوہ ) یعنی جب وہ بالکل پاک صاف ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہو جائے.پس یہ حالت پیدا کرنے کی کوشش ہی لیلتہ القدر کا فیض پانے والا بناتی ہے.اور رمضان کا مہینہ یہی روحانی انقلاب پیدا کرنے کے لئے آتا ہے.اگر ہم اس کی قدر کریں گے تو لیلتہ القدر پالیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے.جیسا کہ میں نے ایک روایت بیان کی ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو.اس بارہ میں بعض اور احادیث میں نے لی ہیں.میں وہ بیان کرتا ہوں جس سے اس آخری عشرہ کی اہمیت اور آنحضرت صلی علیکم کے خاص اہتمام کے بارہ میں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح آپ اہتمام فرمایا کرتے تھے.رمضان کی عبادت میں اہل خانہ کی شمولیت حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو تا تو نبی صلی الم اپنی کمر کس لیتے اور رات بھر جاگتے رہتے.(بخاری کتاب فضل لیلتہ القدر باب العمل في العشر الاواخر من رمضان حدیث نمبر 2024)

Page 460

445 خطبه جمعه فرموده مورخه 27 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم (یعنی نیند بہت کم ہوتی.سوتے تو تھے لیکن بہت کم نیند ہوتی ).اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے.پس اس حدیث میں یہ واضح ہے کہ آخری عشرہ میں آنحضرت صلی للی کم نہ صرف خود اپنی عبادت میں پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتے تھے.جبکہ آنحضرت صلی للی کم کی عام دنوں کی عبادتوں کی لمبائی اور خوبصورتی کا تو ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے.(مسند احمد بن حنبل مسند عائشہ جلد 8 صفحہ 106 حدیث نمبر 24950 مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998) یہ بھی حضرت عائشہ نے ایک دفعہ جواب دیا تھا، تو اس عشرہ میں کیا حالت ہوتی ہو گی.یہ تصور سے بھی باہر ہے.اور پھر جو انعامات کی اور فضلوں کی بارش خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو رہی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش اس عشرہ میں ہوتی ہے جس کا سب سے زیادہ فہم و ادراک آنحضرت صلی علیہ تم کو ہی تھا.تو آپ یہ کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہ میرے اہل خانہ اس سے محروم رہیں.اس لئے آپ ان کو بھی اٹھاتے اور پھر جو روحانی حالت اور کیفیت ہوتی ہو گی اس کا انداز بھی یقیناً عجیب ہو تا ہو گا.پس یہ نمونہ آپ نے ہمارے لئے قائم فرمایا.اللہ تعالی ہمیں بھی توفیق دے کہ یہ حالت اپنے اور اپنے گھروں میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے بنیں.یہی کیفیت ہے جسے ہم جب اپنے پر طاری کریں گے تو ہماری مغفرت کے سامان بھی ہو رہے ہوں گے اور حقیقی مومن بھی کہلا سکیں گے.چند اور روایات میں اس حوالے سے پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی الی یکم سے روایت کی.آپ نے فرمایا کہ : جو بجذبہ ایمان رضائے الہی کی غرض سے ماہ رمضان میں روزے رکھے ، تو اس کے جو گناہ پہلے ہو چکے ہوں ان کی مغفرت کی جائے گی.اور جو لیلتہ القدر میں جوش ایمان میں رضائے الہی کی غرض سے رات کو اٹھے تو اس کے جو گناہ پہلے ہو چکے ہیں ان کی مغفرت کی جائے گی.( صحیح بخاری کتاب فضل لیلتہ القدر باب فضل لیلتہ القدر حدیث نمبر 2014) پس رمضان کے روزے بھی ایمان میں مضبوطی اور اللہ تعالی کی رضا سے مشروط ہیں ورنہ بھوکا رہنے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں ہے اور لیلۃ القدر بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول سے مشروط ہے.خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہے.صرف دنیاوی اغراض سے کہ لیلۃ القدر مجھے مل جائے تو میں یہ دعا کروں گا کہ میرے دنیاوی مقاصد پورے ہو جائیں.تو یہ غرض نہیں.نیکیوں کے حصول کی کوشش ہونی چاہئے.بلکہ سب سے مقدم دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو.اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پھر ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے اس طرح توجہ دلائی ہے.عقبہ جو تحریث کے بیٹے ہیں سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا.وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو ( آپ کی مراد لیلتہ القدر سے

Page 461

خطبات مسرور جلد ہشتم 446 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 اگست 2010 تھی) اگر تم میں سے کوئی کمزور ہو جائے یا عاجز رہ جائے.تو وہ آخری سات راتوں میں ہر گز مغلوب نہ ہو جائے.( صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلتہ القدر...حدیث نمبر 2654) پس دیکھیں، یہ کس قدر تاکید ہے کہ اگر کسی وجہ سے رمضان سے فیض نہیں بھی اٹھا سکے اور یہ خواہش رکھتے ہو کہ حقیقی مومن بنو تو اس عشرہ یا سات دن میں ہر عذر کو دور پھینکو اور اپنی راتوں کو خدا تعالیٰ کی عبادت میں اس طرح گزار وجو عبادت کا حق ہے.جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ ہم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.یہی کوشش ہے جو تمہاری روحانی ترقیات کا باعث بنے گی.اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی.پھر ایک روایت میں آتا ہے.سالم بن عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ان کے والد جو صحابی تھے ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی المی کم کو لیلتہ القدر کے متعلق فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے بعض کو وہ (آخری عشرہ کی پہلی سات راتوں میں دکھائی گئی ہے اور تم میں سے بعض کو آخری سات راتوں میں دکھائی گئی ہے.( صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلتہ القدر...حدیث نمبر 2653) پس اس حدیث سے پہلی حدیث کی وضاحت ہو گئی کہ صرف آخری سات راتیں نہیں بلکہ عشرہ ہے کیونکہ کوئی معین دن نہیں ہے.ہو سکتا ہے بعض صحابہ نے پہلی سات راتوں میں دیکھی ہو اور بعض صحابہ نے آخری سات دنوں میں.لیکن یہ بھی روایت میں ملتا ہے کہ طاق راتوں میں تلاش کرو.( صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلتہ القدر...حدیث نمبر 2652) بہر حال جو بھی دیکھتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے.لیلۃ القدر سے گزرنے کے بعد جیسا کہ میں نے کہا اس کی قدر کرنا بھی ضروری ہے اور وہ اسی طرح ہو گی کہ پھر انسان میں ایک ایسی تبدیلی آئے جو روحانی ترقی کی طرف ہر آن لے جاتی رہے اور بڑھاتی رہے.یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں، یہ لیلتہ القدر کا ایک پہلو ہے جس میں حدیثوں کی رو سے رمضان کے آخری عشرے کے طاق دنوں میں خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے اترنے کی ایک رات کا ذکر ہے.جس کے بارہ میں قرآنِ کریم فرماتا ہے ، جیسا کہ میں نے سورۃ قدر تلاوت کی کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اور ہزار مہینے تقریباً 83 سال سے اوپر بنتے ہیں.یعنی اگر یہ رات میسر آجائے تو انسان کی زندگی بھر کی دعائیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کی بہتری کے لئے ہیں وہ قبول ہو جاتی ہیں.انسان بہت ساری دعائیں کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بہتر نہیں ہو تیں.اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہوں تو مومن جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر مومن کا فائدہ دیکھتے ہوئے اس کے لئے وہ دعائیں قبول فرماتا ہے.یا مومن کو وہ معیار حاصل ہو جاتا ہے جو اس کے روحانی معیار کو بلند کرتا ہے.ملائکہ کا نزول ایک مومن کے تعلق باللہ میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے.اور ایک رات کی عبادت ساری زندگی کی عبادتوں کے برابر ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے مقصد پیدائش کو پالیتا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا جب ایک دفعہ پالیاتو پھر اسے پاتے چلے جانے کی جستجو اور کوشش میں ایک مومن لگارہتا ہے.پس یہ رات ہے جس کی ایک مومن کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے.

Page 462

خطبات مسرور جلد ہشتم 447 خطبه جمعه فرموده مورخه 27 اگست 2010 لیلۃ القدر کے وسیع تر معانی لیکن اس کے اور بھی بڑے وسیع معنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں جیسا کہ میں نے کہا اس سورۃ سے ظاہر ہے اس سورۃ میں لکھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ القدر کہ ہم نے اسے قدر والی رات میں اتارا ہے.کس چیز کو قدر والی رات میں اتارا ہے ؟ وہ یہ مکمل اور کامل شریعت ہے جو قرآنِ کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.یہ ایک تو رمضان میں قرآنِ کریم کے نازل ہونے کی طرف اشارہ ہے.جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ القران (البقرة:186) کہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم اتارا ہے اور اس رمضان میں وہ لیلتہ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.پس مختصر یہ کہ رمضان کے مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا اور جیسا کہ روایات سے پتہ چلتا ہے، اس مہینے میں جبرئیل علیہ السلام اس کی آنحضرت صلی اللہ تم کو دہرائی بھی کروایا کرتے تھے.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن علی النبی صل العلم حدیث نمبر 4997) پھر اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ زمانے کی ضرورت اس بات کی متقاضی تھی کہ کوئی کامل ہدایت اترے کیونکہ وہ ایک اندھیر ازمانہ تھا جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :42) کم خشکی اور تری میں فساد برپا تھا.پس وہ زمانہ جس میں یہ فساد برپا تھا تقاضا کر رہا تھا کہ ہدایت آئے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی اس اہمیت کی وجہ سے جو خشکی اور تری میں فساد برپا تھا جس کی نظیر نہ پہلے زمانوں میں ہوتی تھی نہ بعد کے زمانے میں ملتی ہے.اس لئے کامل ہدایت کی ضرورت تھی.پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل کتاب نازل فرمائی جس کا قرآنِ کریم میں دوسری جگہ اس طرح ذکر ملتا ہے.سورۃ دخان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کہ حم وَ الْكِتَبِ الْمُبِينِ إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ - أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ - رَحْمَةً مِنْ رَّبِّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الدخان: 6-2) صاحب حمد اور صاحب مجد - حم کا مطلب ہے صاحب حمد اور صاحب مجد.قسم ہے اس کتاب کی جو کھلی اور واضح ہے.یقینا ہم نے اسے ایک بڑی مبارک رات میں اتارا ہے.ہم بہر صورت انذار کرنے والے تھے.اس (رات) میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے.ایک ایسے امر کے طور پر جو ہماری طرف سے ہے.یقیناً ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں.رحمت کے طور پر تیرے رب کی طرف سے.بے شک وہی بہت سننے والا ( اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.پس یہ مبارک زمانہ اور مبارک رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر رحم فرماتے ہوئے کھلی، واضح،

Page 463

خطبات مسرور جلد ہشتم 448 خطبه جمعه فرموده مورخه 27 اگست 0 2010- روشن اور ہدایت سے پر کتاب اس انسانِ کامل پر اتاری جو انسانیت کی ہدایت کے لئے بے چین تھا.جو چاہتا تھا کہ بندہ اپنے پیدا کرنے والے کے آگے جھکے بجائے اس کے کہ بتوں کی پوجا کرے.جو چاہتا تھا کہ بندہ اللہ تعالیٰ جو واحد د یگانہ ہے اسے تمام طاقتوں کا مالک اور بخشنہار سمجھے بجائے اس کے کہ ایک عاجز انسان کو خدا کا بیٹا بنا کر اس کی موت کو اپنی نجات کا ذریعہ بنالے.وہ کامل رسول چاہتا تھا کہ انسان ظلموں سے بچے اور جہاں خدا تعالیٰ کے حق ادا ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بھی حق ادا ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے اس انسانِ کامل کی دعاؤں کو سنا اور انسانِ کامل پر قرآن کریم کی کامل شریعت اتاری.وہ کامل کتاب اتاری جو نہ صرف چودہ سو سال پہلے کے اندھیرے زمانے میں ہدایت کا موجب بنی بلکہ تا قیامت اب اس کامل کتاب نے ہر اندھیرے کو دور کرنے کا باعث بننا ہے.اور اس رسول نے اب تا قیامت خاتم الانبیاء اور آخری شرعی نبی رہنا ہے.اور جب بھی خدا تعالیٰ کے بے چین اور پریشان بندے زمانے کی تاریخ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں گے اور چلائیں گے تو اللہ تعالیٰ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (کہ بے شک وہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے) کے قول کو پورا کرتے ہوئے بندوں کی تسلی کے لئے سامان پیدا فرماتا ہے.فرمائے گا.اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ نیم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے عاشق صادق کو آپ کی غلامی میں بھیجا ہے.اس غلام صادق اور مسیح و مہدی نے ایک جگہ لیلۃ القدر کی جو تفسیر فرمائی ہے وہ بیان کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : ایک نہایت لطیف نکتہ جو سورۃ القدر کے معانی پر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیا ہے کہ جس وقت کوئی آسمانی مصلح زمین پر آتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے آسمان سے اتر کر مستعد لوگوں کو حق کی طرف کھینچتے ہیں.پس ان آیات کے مفہوم سے یہ جدید فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسانوں کے قویٰ میں خود بخود مذہب کی تفتیش کی طرف حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہو گی کہ کوئی آسمانی صلح پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیدا ہونا ممکن نہیں.اور وہ حرکت حسب استعداد و طبائع دو قسم کی ہوتی ہے.حرکت تامہ اور حرکت ناقصہ.حرکت تامہ وہ حرکت ہے جو روح میں صفائی اور سادگی بخش کر اور عقل اور فہم کو کافی طور پر تیز کر کے رُو بحق کر دیتی ہے.اور حرکت ناقصہ وہ ہے جو روح القدس کی تحریک سے عقل اور فہم تو کسی قدر تیز ہو جاتا ہے.مگر بباعث عدم سلامت استعداد کے وہ رُو بحق نہیں ہو سکتا.بلکہ مصداق اس آیت کا ہو جاتا ہے کہ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا( البقرة: 11) یعنی عقل اور فہم کے جنبش میں آنے سے پچھلی حالت اس شخص کی پہلی حالت سے بد تر ہو جاتی ہے.جیسا کہ تمام نبیوں کے وقت میں یہی ہو تا رہا کہ جب ان کے نزول کے ساتھ ملائک کا نزول ہوا تو ملائک کی اندرونی تحریک سے ہر یک طبیعت عام طور پر

Page 464

449 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 اگست 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جنبش میں آگئی.تب جو لوگ راستی کے فرزند تھے وہ ان راستبازوں کی طرف کھنچے چلے آئے اور جو شرارت اور شیطان کی ذریت تھے وہ اس تحریک سے خواب غفلت سے جاگ تو اٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہو گئے لیکن باعث نقصان استعداد حق کی طرف رخ نہ کر سکے.سوفعل ملائک کا جور بانی مصلح کے ساتھ اترتے ہیں، ہر یک انسان پر ہوتا ہے.لیکن اس فعل کا نیکوں پر نیک اثر اور بدوں پر بد اثر پڑتا ہے.اور جیسا کہ ہم ابھی اوپر بیان کر چکے ہیں یہ آیت کریمہ في قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا ( البقرة: 11).اسی مختلف طور کے اثر کی طرف اشارہ کرتی ہے“.فرمایا ” یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ ہر نبی کے نزول کے وقت ایک لیلتہ القدر ہوتی ہے جس میں وہ نبی اور وہ کتاب جو اس کو دی گئی ہے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور فرشتے آسمان سے اترتے ہیں.لیکن سب سے بڑی لیلتہ القدر وہ ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ تم کو عطا کی گئی ہے.در حقیقت اس لیلتہ القدر کا دامن آنحضرت صلی اللیلم کے زمانہ سے قیامت تک پھیلا ہوا ہے.اور جو کچھ انسانوں میں دلی اور دماغی قویٰ کی جنبش آنحضرت صلی الم کے زمانے سے آج تک ہو رہی ہے وہ لیلتہ القدر کی تاثیریں ہیں.صرف اتنا فرق ہے کہ سعیدوں کے عقلی قویٰ میں کامل اور مستقیم طور پر وہ جنبشیں ہوتی ہیں اور اشقیاء کے عقلی قویٰ ایک کج اور غیر مستقیم طور سے جنبش میں آتے ہیں.اور جس زمانہ میں آنحضرت ملا لی ایم کا کوئی نائب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو یہ تحریکیں ایک بڑی تیزی سے اپنا کام کرتی ہیں.بلکہ اسی زمانہ سے کہ وہ نائب رحم مادر میں آوے، پوشیدہ طور پر انسانی قومی کچھ کچھ جنبش شروع کرتے ہیں اور حسب استعداد اُن میں ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے.اور اس نائب کو نیابت کے اختیارات ملنے کے وقت تو وہ جنبش نہایت تیز ہو جاتی ہے.پس نائب رسول اللہ صلی می ریم کے نزول کے وقت جو لیلتہ القدر مقرر کی گئی ہے وہ در حقیقت اس لیلتہ القدر کی ایک شاخ ہے یا یوں کہو کہ اس کا ایک ظل ہے جو آنحضرت صلی علی یم کو ملی ہے.خدائے تعالیٰ نے اس لیلتہ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے جیسا کہ اس کے حق میں یہ آیت کریمہ ہے کہ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (الدخان:5) یعنی اس لیلتہ القدر کے زمانے میں جو قیامت تک ممتد ہے ، ہر یک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کر دی جائیں گی اور انواع و اقسام کے علوم غریبہ و فنونِ نادرہ و صناعات عجیبہ صفحہ عالم میں پھیلا دیئے جائیں گے.اور انسانی قوی میں موافق ان کی مختلف استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیاقتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصئہ ظہور لایا جائے گا.لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پر زور تحریکوں سے ہو تا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول اللہ صلیالی کم دنیا میں پیدا ہو گا.در حقیقت اسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے سورۃ القدر نازل کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنت اللہ اسی

Page 465

450 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 اگست 2010 طرح پر جاری ہے کہ خدائے تعالیٰ کا کلام لیلتہ القدر میں ہی نازل ہوتا ہے اور اس کا نبی لیلتہ القدر میں ہی دنیا میں نزول فرماتا ہے.اور لیلتہ القدر میں ہی وہ فرشتے اترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پر ظلمت رات سے شروع کر کے طلوع صبح صداقت تک اسی کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتے رہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 155 تا160) پس یہ ہے وہ خوبصورت وضاحت جس کا ذکر جیسا کہ میں نے کہا آپ نے مختلف رنگ میں مختلف جگہوں پر کیا ہے ، مختلف کتابوں میں کیا ہے.یہ ایک نمونہ ہے.اگر دنیا کو ، خاص طور پر مسلمانوں کو یہ بات سمجھ آجائے، تو اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کی مخالفت کے بجائے اس کے مددگار بن جائیں.یہ دلیل جو آپ نے دی ہے بڑی زبر دست دلیل ہے.اس کو ان لوگوں کی توجہ کھینچنے والا ہونا چاہئے جو اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں امن اور سکون چاہئے.اور زمانے کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی تلاش میں ہیں.یا مسیح و مہدی کے زمانے کی احادیث میں بیان کی گئی نشانیوں کے مطابق مسیح و مہدی کی آمد کے منتظر ہیں.ایسے لوگوں کو آپ کے ان الفاظ پر غور کرنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں.جو میں نے پڑھا ہے اس میں ایک فقرہ یہ ہے کہ ”اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں یک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسانوں کے قومی میں خود بخود مذہب کی تفتیش کی طرف حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہوگی کہ کوئی آسمانی مصلح پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیدا ہونا ممکن نہیں“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 155-156) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اس وقت کے علماء اور نیک لوگوں کی تحریر میں اگر پڑھیں اور اقوال دیکھیں تو سب اس بات کے گواہ ہیں کہ مسیح اور مہدی کے آنے کا وقت ہے.وہ کسی کی آمد کے انتظار میں تھے کہ کوئی مسیحا آئے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی فرما یا تو انہی میں سے ایک طبقہ مخالفت میں بڑھ گیا.اور بہت سوں نے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے بجائے بگاڑ لی.اور بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کا سامان کر لیا.اور آج تک یہ بے چینی لوگوں میں ہے.مختلف وقتوں میں سوال اٹھتے رہتے ہیں اور وقتا فوقتا اخباروں میں یہ بیان آتے رہتے ہیں کہ کسی مسیحا کی ضرورت ہے، کوئی کہتا ہے کہ مسلم ائمہ کو سنبھالنے کے لئے خلافت کی ضرورت ہے.لیکن جب تک مسیح موعود نہیں آئے گا خلافت کس طرح جاری رہ سکتی ہے.یہ جو سب باتیں ہیں، یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یا بیان جاری ہوتے ہیں یالوگوں کے احساسات ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا آگیا ہے.یہی دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے.تبھی دلوں میں یہ سارا ارتعاش پیدا ہوا ہے.آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالی کا فرستادہ آتا ہے تو دو طرح کی

Page 466

451 خطبہ جمعہ فرموده مورخه 27 اگست 0 2010- خطبات مسرور جلد ہشتم حرکت ہوتی ہے.حرکت تامہ اور حرکت ناقصہ.ایک صحیح اور مکمل حرکت اور ایک کمزور اور نقص والی حرکت.حرکت تامہ سے جو صحیح حرکت ہے اس سے روح کی صفائی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ سے ہدایت کی تلاش ہوتی ہے تو اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے.انسان عقل و فہم سے کام لے کر حق کو پہچان لیتا ہے.بعض نشانات ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے اشارے سمجھ کر حق کو پہچان لیتا ہے.بعض سعید روحوں کو اللہ تعالی ویسے بھی رہنمائی فرما دیتا ہے.آنحضرت صلی علیکم کے زمانے میں ایسے سعید فطرت لوگ تو آپ کو پہچان گئے جن کے دلوں میں نیکی تھی، جنہوں نے اپنے دل، جذبات کو صحیح راستے پر چلایا.لیکن ابو جہل جیسے لوگ جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے تھے وہ محروم رہ گئے اور ہلاک ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفتہ المسیح الاول کی مثال لے لیں.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کی مثال لے لیں.ان جیسے لوگ باوجو د فاصلے کی دوری کے ساری دوریوں کو سمیٹتے ہوئے، سارے فاصلوں کو سمیٹتے ہوئے آپ کے قدموں میں آگئے اور قبول کر لیا.اور مولوی محمد حسین بٹالوی جیسے لوگ جو قریب رہنے والے تھے جو بچپن کے دوست تھے وہ دشمنی کی وجہ سے محروم رہ گئے.یہ محروم رہنے والے جو ہیں ان کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ بباعث عدم سلامت استعداد کے رو بحق نہیں ہو سکتا.پس ان کی استعدادیں نیکی اور سلامتی قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں.ان کے دل ٹیڑھے ہوتے ہیں.دلوں میں تکبر ہوتا ہے.اور خود پسندی ہوتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ بھی ان کی مدد نہیں کرتا.ان کی رہنمائی نہیں کرتا.بلکہ ان کا مرض جو ہے بڑھتا چلا جاتا ہے.فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا.فرمایا کہ ایسے لوگوں کی عقل و فہم میں حرکت بجائے مثبت طرف چلنے کے منفی ہو جاتی ہے.اور اس منفی سوچ کی وجہ سے ان کی جو روحانی حالت ہے وہ پہلی حالت سے بھی بدتر ہو جاتی ہے.پس آج بھی یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے منکرین کا ہے.اپنے زعم میں نیکی کی باتیں بھی کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی نیکی کی باتوں کا اثر نہیں ہو رہا ہو تا.کیوں نہیں ہو رہا ہو تا؟ اس مخالفت کی وجہ سے جو وہ حضرت مسیح موعود کی کر رہے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی اس کا منطقی نتیجہ پیدا کر رہی ہوتی ہے.جب اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی مخالفت کی جائے تو زبان میں نیکی کی باتوں کا اثر بھی نہیں رہتا.برائی کی باتوں کا بے شک رہ جائے.ان کی باتوں میں روحانیت نہیں ہوتی.ہر بات بے دلیل ہوتی ہے.الفضل انٹر نیشنل میں طاہر ندیم صاحب عربوں کے حالات سے متعلق مضمون لکھتے ہیں.اس دفعہ بھی الفضل میں طاہر بانی صاحب جو ہمارے عرب ہیں اور ایک واقف زندگی بھی ہیں اور محنت سے عربی ڈیسک کا کام کر رہے ہیں.ان کے قبول احمدیت کی کہانی ان کی زبانی بیان ہو رہی تھی.احمدیت قبول کرنے سے پہلے بانی صاحب کہتے ہیں کہ میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ احمدیت کے رد اور مخالفت میں میں ہر طرح کی مدد حاصل کروں، حربہ استعمال کروں لیکن جب انہوں نے بعض کتابیں پڑھیں تو دلیل کے لئے ایک عالم کے پاس گئے.وہ ان کے خیال میں ایسے صاحب علم تھے کہ وہ منٹوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو یہ سب دعاوی تھے یا جماعت جو

Page 467

452 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبه جمعه فرموده مورخه 27 اگست 2010 دلیلیں پیش کرتی ہے ان کو رڈ کر سکتے تھے.یا ان میں صلاحیت تھی کہ وہ رڈ کر سکیں.بہر حال وہ کہتے ہیں کئی دن میں جاتا رہا.ان کو پڑھنے کے لئے کتابیں بھی دیں.وہ عالم صاحب ہر بات کے پڑھنے کے بعد اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے کہ دیکھو اس کتاب میں کیسی بھی پھنسی بات لکھی ہوئی ہے.یہ کیا فضول بات لکھی ہوئی ہے.بجائے اس کے کہ اس کی کوئی عقل سے کوئی قرآن سے کوئی حدیث سے دلیل دیتے یا اس کارڈ کرتے.اسی طرح انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مصطفی ثابت صاحب کے ساتھ میں نے ان کا مناظرہ کروا دیا تو وہاں بھی سوائے ساری رات وقت کا ضیاع ہوا اور کچھ بھی انہوں نے نہیں کیا.آخر انہوں نے اس نام نہاد عالم کو جن کو وہ بہت بڑا عالم سمجھتے تھے چھوڑ دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی حق کی طرف رہنمائی فرمائی.(الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27اگست تا2 ستمبر 2010 صفحہ 3-4) تو باوجو د دینی علم ہونے کے اللہ تعالیٰ کے فرستادے کے زمانے میں ان سب دینی عالموں کی روحانیت اور مذہب کے معاملے میں دلائل ختم ہو جاتے ہیں.اور مخالفت کی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا روحانیت ختم ہو جاتی ہے.جب روحانیت ختم ہو جائے تو دینی فہم اور ادراک بھی نہیں رہتا، نہ رہ سکتا ہے.کیونکہ یہ تقویٰ سے آتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق سے آتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت شروع ہو جائے تو تقویٰ بھی ختم ہو جاتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو لوگ راستی کے فرزند تھے وہ راستبازوں کی طرف کھنچے چلے آئے اور جو شرارت اور شیطان کی ذریت تھے وہ اس تحریک سے خواب غفلت سے جاگ تو اٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہو گئے لیکن باعث نقصان استعداد حق کی طرف رخ نہ کر سکے.پس آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی رغبت کا دعویٰ تو ہے لیکن روحانی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے دین کے نام پر شیطانی عمل ہیں.آج اگر جائزہ لیں تو ایسے ہی لوگ مذہب کے نام پر خون کرنے والے ہیں.اس اقتباس میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا میں نے پڑھا، لیلتہ القدر کے حوالے سے ایک بہت اہم بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اصل لیلتہ القدر آنحضرت صلی انم کو عطا ہوئی اور اس لیلتہ القدر کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.اور اس کا نتیجہ ہے کہ نیک لوگ سیدھے راستے کی طرف آرہے ہیں.آج بھی اس لیلتہ القدر کا وہی فیض ہے جو نیکی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بن رہا ہے.لیکن جو بد بخت ہیں، بد قسمت ہیں وہ راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور ہٹتے چلے جارہے ہیں.ذریت شیطان بن رہے ہیں.تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے جارہے ہیں.آنحضرت صلی علی کم کا لیلتہ القدر کا زمانہ آپ کے نائب اور مسیح موعود کے ذریعے دوبارہ ظلی طور پر قائم ہوا ہے.پس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس زمانے کی لیلتہ القدر کی قدر اور پہچان کر کے ہم لیلتہ القدر کو پاسکتے ہیں.پس لوگوں کی حالتوں، دین پر صحیح ہونا اور سعید فطرت بنتے ہوئے فیض اٹھانا یا اپنے زعم میں دین کے ٹھیکے دار بن کر دین کے نام پر ظلم و بربریت پھیلانا اور خون کرنا اسی طرح مختلف طریقوں سے ایجادات کا پھیلاؤ ، ان میں بعض ایجادات جو استعمال ہو رہی ہیں وہ انسانی قدروں اور اخلاق کی پامالی کا ذریعہ بن رہی ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جو مومنوں کے فائدے کے لئے ہیں.کلام الہی اور علم و فضل کے پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہیں.تو یہ

Page 468

خطبات مسرور جلد هشتم 453 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 اگست 2010 جو سب مثبت اور منفی باتیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی آمد اور لیلتہ القدر ہونے کا ثبوت ہیں.یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرشتوں کے اترنے کا سلسلہ مطلع الفجر تک رہتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علم کا زمانہ لیلتہ القدر کا وہ خاص زمانہ تھا جس میں فرشتے سلامتی لے کر اترتے رہے، یہاں تک کہ آپ کا اس دنیا سے واپسی کا وقت آگیا.آپ نے کامیابیاں دیکھیں، فتوحات دیکھیں.اسلام کا غلبہ ہو گیا.یہ مطلع الفجر تھا، وہ زمانہ تو لوٹ کر نہیں آسکتا.جب دین کامل ہوا، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پوری ہوئیں، کامل اور مکمل شریعت قرآنِ کریم کی صورت میں نازل ہوئی تو وہ ایک دور تھا جو گزر گیا.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نائب رسول کے زمانے میں ظلی طور پر یہ ظہور میں رہتا ہے.تو آنحضرت صلی یکم کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں یہ روشن صبح جو تھی وہ تیس سال تک رہی، اور پھر آہستہ آہستہ روحانی اندھیرے پھیلنے شروع ہوئے اور مکمل اندھیر ازمانہ بھی آگیا جو آپ کی پیشگوئی کے عین مطابق تھا.پھر آپ کے ظل کی بعثت کے ساتھ ظلی طور پر لیلتہ القدر کا ایک نیا زمانہ شروع ہو گیا.اب ہم جس زمانے سے گزر رہے ہیں یہ مطلع الفجر کے بعد کا زمانہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ایک لحاظ سے وہ دور بھی ختم ہو ا.یہ دن جو طلوع ہوا ہے تو اس سے فیض پانے کے لئے اس زمانے میں اسلام اور احمدیت کے لئے جو فتوحات مقدر ہیں ان کو دنیاوی جاہ و حشمت سے بچانے کے لئے اور روحانیت کے معیار اونچے کرتے رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیں ہر سال بار بار رمضان میں لیلتہ القدر کی یاد دہانی کرواتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آنحضرت مصلی نمیدونم کا زمانہ لیلتہ القدر کا زمانہ تھا اور وہ تا قیامت قائم رہے گا.یعنی ایک لحاظ سے تو آپ کے وصال اور قرآنِ کریم کے اترنے کے ساتھ یہ ختم ہو گیا اور طلوع فجر ہوا لیکن ایک لحاظ سے جاری رہے گا کہ قرآن اور رمضان کے حق ادا کرو.تو امت کو بھی اس میں پیغام ہے کہ اُمت بھی رمضان میں ایک رات جو لیلتہ القدر کی رات کہلاتی ہے اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے بار بار کے روحانی ماحول کو پیدا کر کے مؤمنوں پر احسان کیا ہے.پس اگر اس احسان کا احساس کرتے ہوئے ہم اپنے فرائض ادا کرتے رہیں گے تو آنحضرت صلی علی کرم کے جاری شدہ فیض سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے انعامات سے ہمیشہ نوازتا رہے.ہمارے دشمن جو اپنے زعم میں ہم پر دن رات تنگیاں وارد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمیں اندھیروں میں دیکھنا چاہتے ہیں، ہماری تباہی چاہتے ہیں اور اپنے زعم میں ہمیں برباد کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ الہی جماعتیں تو کبھی ضائع نہیں ہو تیں نہ برباد ہو سکتی ہیں.اللہ کرے کہ یہ تنگیاں جو آج کل ہمارے اوپر خاص طور پر پاکستان میں پیدا کی جارہی ہیں، یہ لیلۃ القدر کے سامان لے کر آئیں اور پھر ہم مطلع الفجر کاوہ نظارہ دیکھیں جو ہمیشہ کی سلامتی اور فتوحات کی صورت میں ظاہر ہو، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 38 مورخہ 17 ستمبر تا23 ستمبر 2010 صفحہ 5تا8)

Page 469

خطبات مسرور جلد ہشتم 454 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010ء بمطابق 03 تبوک 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَ إِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت : 70) اور وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے اور یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے.دعاؤں کی قبولیت کا خاص مہینہ یہ آیت سورۃ عنکبوت کی ہے.آج کل ہم رمضان کے آخری عشرہ سے گزر رہے ہیں.یہ مہینہ جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے دعاؤں کی قبولیت کا خاص مہینہ ہے.اور یہ عشرہ اس قبولیت کی معراج حاصل کرنے کا خاص عشرہ ہے، جس میں لیلۃ القدر آتی ہے.جس کا میں نے گزشتہ خطبہ میں تفصیل سے ذکر بھی کیا تھا.آج کا دن بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک بابرکت دن ہے یعنی جمعہ کا دن، جو اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ ہر ساتویں دن آتا ہے، جس میں ایک خاص گھڑی قبولیتِ دعا کی بھی آتی ہے.پس یہ تمام برکتیں ان دنوں میں جمع ہوئی ہیں.اور خدا تعالیٰ کے اپنے بندوں پر احسانوں کی طرف توجہ دلا رہی ہیں.یہ توجہ عارضی توجہ نہیں ہونی چاہئے بلکہ مستقل مزاجی سے اس امر کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے جس کا اس آیت میں ذکر ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے.یعنی خدا کی تلاش کے لئے جد وجہد.اگر یہ جد وجہد کامیاب ہو جائے تو ایک بندے کو خدا تعالیٰ کا قرب دلا کر اس کی کایا پلٹ دیتی ہے.جد وجہد کامیاب کس طرح ہو گی جس سے خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے کے راستے دکھائے گا؟ جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم سے ملنے کی کوشش کرتے رہو.ایک مستقل مزاجی سے کوشش ہونی چاہئے اور جب اللہ سے ملنے کی کوشش ہو گی تو ظاہر ہے ان باتوں کا بھی خیال رکھنا ہو گا جو خدا تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کے قریب کرتی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایسا ماحول پیدا کر دیتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی خاص توجہ ہوتی ہے.اور آج کل رمضان کا مہینہ ہمیں اس کوشش اور جد وجہد کا موقع

Page 470

455 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم میسر کر رہا ہے.رمضان کے روزے اور اس کی عبادتیں بھی ایک خاص مجاہدہ ہیں اگر انسان سمجھ کر کرے.اس کو سمجھے ، اس کی روح کو سمجھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس روحانی ماحول میں ہمیں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے بات کروں گا کہ کیا کیا باتیں اور طریق ہیں جن کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور جن کو اختیار کر کے ، جن پر توجہ دے کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکتے ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کو محسنین کا گروہ بنا کر اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری دی ہے کہ میں محسنین کے ساتھ ہوں.یعنی میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو نیک اعمال بجالانے والے ہیں.نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں.میرے راستوں کی تلاش کرنے والے ہیں.اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے ہم دیکھیں گے کہ اب کس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے راستوں کو پا کر ہمیشہ اس گروہ میں شامل رہ سکتے ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ ہمیشہ رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو قرآنِ کریم کی مختلف آیات سے اور ان کی آیات کی روشنی میں وضاحت فرمائی ہے.لیکن اس وقت جیسا کہ میں نے کہا اس خاص آیت کے حوالے سے بات کروں گا جس کی آپ نے مختلف جگہوں پر تفصیل بیان فرمائی ہے.ہر انسان کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں.اس کی سوچیں بھی مختلف ہوتی ہیں.جہاں تک استعدادوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی استعدادیں اور طاقتیں معیار کے حساب سے مختلف رکھی ہیں جیسا کہ میں نے کہا لیکن حکم یہ ہے کہ جو بھی استعدادیں ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تلاش اور جستجو کرو.اگر یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف آنے کے راستے دکھائے گا.لیکن اگر انسانی سوچ ان استعدادوں کے انتہائی استعمال میں روک بن جائے، نفس مختلف بہانے تلاش کرنے لگے ، تھوڑی سی کوشش کو جہد کا نام دے دیا جائے تو اس سے انسان اللہ تعالیٰ کو حاصل نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جو شخص نہایت لاپر واہی سے سستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈھتا ہے“.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 566 حاشیہ نمبر (11) پس خالص ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ کی تلاش کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کو پاسکتے ہیں.یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے مختلف درجے ہیں جو ایک جہد مسلسل سے اللہ تعالیٰ کی توجہ کو جذب کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کوشش کرنے کی

Page 471

456 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان بالغیب اور اس کی طاقتوں اور صفات پر کامل ایمان اس مسلسل کوشش کی طرف انسان کو مائل کرتا ہے.اگر صرف عقل کے ترازو سے اللہ تعالیٰ کی پہچان کی کوشش ہو گی تو اللہ تعالیٰ نظر نہیں آسکتا.وہ اپنی طرف آنے کے راستے نہیں دکھائے گا.اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اس کے راستوں کی تلاش کے لئے پہلی کوشش بندے نے کرنی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس پہچان کے لئے بھی بندے کو اندھیرے میں نہیں رکھا کہ کس طرح راستے تلاش کرنے ہیں ؟ سب سے اول اس زمانہ کے لئے بلکہ آنحضرت صلی اللہ کم کی بعثت سے لے کے قیامت تک کے زمانے کے لئے آنحضرت مصلی یہ نام اور قرآن کریم کو ہمارے سامنے رکھا ہے.اس میں سے راستے تلاش کرو.یم اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعہ انسان کو راستوں کی نشاندہی کرتارہا ہے.اور پھر انبیاء کے ذریعے سے نشانات اور عجائبات دکھا کر اپنی ہستی کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے تا کہ ان چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے راستوں کی پہچان ہو سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ.سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مد نظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں.ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے“.اخلاص اور فا کا تعلق رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ 38,39 مطبوعہ انوار احمد یہ پر لیس قادیان) پس یہ دعا جو سورۃ فاتحہ میں ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں اس پر غور کریں اور نہایت درد سے اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی ہدایت چاہیں تو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے.اپنی طرف آنے کے راستے دکھاتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادے نشانات کے ساتھ آتے ہیں تا کہ انسانوں کو توجہ دلائیں کہ اللہ تعالیٰ کے راستوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکو.اور ظاہر ہے ایک عقلمند انسان جب کسی کام کو کسی کے توجہ دلانے پر کرتا ہے اور اس سے فائدہ بھی اٹھالیتا ہے.تو لا محالہ اس توجہ دلانے والے کا بھی شکر گزار ہو کر اس سے بھی تعلق پیدا کرتا ہے اور کرنا چاہئے.یہی عقل کا تقاضا ہے کہ مزید فائدے اٹھائے.پس اس نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے.جو سمجھتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے اللہ تعالیٰ کے راستوں کی طرف نشاندہی کرتے ہیں تو وہ اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ایک عقل مند انسان ان کے ساتھ جڑ کر اخلاص اور وفا کا تعلق پیدا کرے.اس زمانے کے لئے جبکہ آنحضرت صلی الم نے مسیح و مہدی کے آنے

Page 472

457 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کی خبر بھی دی ہے تو جس نے پھر خدا تعالیٰ سے بندے کے تعلق کو قائم کروانا تھا اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور دعا بھی مسلمانوں کے سامنے موجود ہے اور اکثر پڑھتے بھی ہیں.تو کس قدر ضروری ہے کہ اس سے تعلق جوڑ کر اللہ تعالیٰ کے راستوں کو پانے کا تجربہ تو کریں.بجائے اس کے کہ بغیر سوچے سمجھے انکار کرتے چلے جائیں.حضرت مصلح موعودؓ نے تو ایک جگہ لکھا ہے کہ کئی دفعہ میں تو غیر مسلموں کو بھی کہہ چکا ہوں کہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ہمیں سکھائی گئی ہے، تم یہ پڑھو.یہ تو تم نہیں پڑھ سکتے لیکن خالی الذہن ہو کر یہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے تو اللہ تعالی رہنمائی فرمائے گا.اور آپ نے فرمایا کہ کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس سے ان پر اسلام کی سچائی کھل گئی.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد اول صفحه 35) یہ اور بات ہے کہ بعض غیر مسلم خوفزدہ ہو کر یا اپنے مفاد کی وجہ سے انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا.لیکن سچائی بہر حال ظاہر ہو جاتی ہے.مسلمانوں کو تو خاص طور پر اس نسخہ کو آزمانا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی بجائے اس کی نہ صرف رضا حاصل کرنے والے بنیں بلکہ نئے سے نئے راستوں کو بھی پائیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہیں.اور یہی چیز ہمارے لئے بھی ضروری ہے.ہم جو احمدی ہیں، ہم جنہوں نے اس زمانے کے امام کو قبول کیا ہے کہ صرف بیعت کر کے بیٹھ نہ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تلاش اور قرب کے لئے جہدِ مسلسل کرتے چلے جائیں اور خاص طور پر ان چند دنوں میں بہت توجہ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 450 جدید ایڈ یشن ربوہ) کے واسطے غفور ہے“.پس اگر ہم خالص ہو کر اس کی بخشش طلب کرتے ہوئے اس کے حضور جھکیں گے تو وہ اپنے وعدے کو پورا کرے گا.اور اپنے وعدے کے مطابق اپنی طرف آنے کے مزید روشن راستے دکھائے گا.مزید درجے بلند ہوں گے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف آنے کی کوشش کرنے والوں سے راستے دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے اسی طرح جو اللہ تعالیٰ سے دُور ہٹتے ہیں پھر ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اندھیروں میں گرتے چلے جاتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآنِ کریم میں فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الفسِقِينَ (سورۃ الصف: 6).پس جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا.اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : جس طرح ہماری دنیاوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری

Page 473

458 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدائے تعالیٰ کا فعل ہے ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے جیسا کہ خدائے تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتا ہے.الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمُ (الصف: 6).یعنی جو لوگ اس فعل کو بجالائے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل کے لئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہو گا کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیں گے.اور جن لوگوں نے کبھی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنانہ چاہا تو ہمارا فعل اس کی نسبت یہ ہو گا کہ ہم ان کے دلوں کو سچ کر دیں گے “( ٹیڑھا کر دیں گے).(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 389).پس یہ بندے کی بد قسمتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خد ا سے دور کرتا ہے.چند دن ہوئے مجھے ہمارے ایک غیر از جماعت جو پاکستان سے آئے تھے، کہنے لگے کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے کیا وجہ ہے ؟ کب ٹھیک ہو گا؟ کس طرح ہو گا؟ تو میں نے انہیں کہا کہ دو ہی باتیں ہیں جو ہمیں سامنے رکھنی چاہئیں.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری طرف آؤ، کوشش کرو، جد وجہد کرو.( اس آیت کا حوالہ دیا ہے کہ میری رضا حاصل کرنے کے تمام راستوں کو تلاش کرنے کی جان لڑا کر کوشش کرو، تو میں راستے دکھاتا ہوں).پھر ان سے پوچھا کہ آپ ہی بتائیں کیا یہ صورت آپ کو نظر آرہی ہے؟.تو کہنے لگے کہ نہیں، بلکہ الٹا حساب ہے.تو میں نے کہا پھر جب الٹا حساب ہے تو اللہ تعالیٰ کا پھر دوسرا فعل ظاہر ہوتا ہے.پس مین حیث القوم بھی ہمیں اپنی سوچوں کے دھارے اور سمتیں ٹھیک کرنی ہوں گی.اگر ہم نیک نیتی سے ملک کی ترقی چاہتے ہیں تو پاکستانی قوم کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.تمام میڈیا آج کل پاکستان کا شور مچارہا ہے.باہر بھی اور پاکستان میں بھی اور یہ لوگ بہت کچھ کہہ رہے ہیں جو مجھے یہاں کہنے کی ضرورت نہیں.انہوں نے تو بعض الفاظ کہہ کے ، باتیں کہہ کے انتہا کر دی ہے.لیکن ظلم و بربریت کے جو نمونے ہر طرف نظر آرہے ہیں اس کو روکنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کر رہا.اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے.اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ سعید فطر توں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کس طرح سلوک کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : انسان کے دل پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں.آخر خدا تعالیٰ سعید روحوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرماتا ہے.( یعنی خود پھر اپنی طرف سے عطا کرتا ہے).پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکر وہ ہو جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں.( یعنی اس انسان کی نظر میں.جب اللہ تعالیٰ اس کو یہ عطا فرما دیتا ہے پاکیزگی اور نیکی.اس کی اس کوشش کی وجہ سے جو کچھ تھوڑی سی وہ کر رہا ہو تا ہے اس میں برکت ڈال دیتا ہے ، اور دروازے کھول دیتا ہے ).تو فرمایا: اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں.تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں.اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے

Page 474

459 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بعد کسل نہیں.اور ایسی تقویٰ دی جاتی ہے کہ جس کے بعد معصیت نہیں.اور رب کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد خطا نہیں.مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے.اوّل اوّل انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گر جاتا ہے مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقت بالا کھینچ لیتی ہے.( یعنی ایک مسلسل کوشش ہے کہ انسان گرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے در پر آتا ہے پھر دور بہتا ہے دنیا اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے.پھر وہ دنیا سے پرے ہٹ کے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے.اور یہ مسلسل کوشش ہے جو جاری رہتی ہے.آخر جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ یہ کوشش کرتا چلا جارہا ہے.ایک جہدِ مسلسل ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی جو طاقت ہے وہ طاقت بالا اس کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے).فرمایا کہ: اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا.( پس یہ مستقل اور لمبی کوشش ہے جس کی آپ نے تشریح کی ہے عربی میں ) فرمایا کہ ” یعنی وورم نُثَبِّتُهُمْ عَلَى التَّقْوَى وَالْإِيْمَانِ وَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَ الْمَحَبَّةِ وَالْعِرْفَانِ وَسَنُيَسِّرُهُمْ لِفِعْلِ الْخَيْرَاتِ وَ تَرْكِ الْعِصْيَان (ماخوذ از مکتوبات احمدیہ جلد دوم صفحه 50 مکتوب نمبر 32 بنام حضرت خلیفہ اول) پس یہ مستقل اور لمبی کوشش ہے جس سے تقویٰ اور ایمان میں دوام حاصل ہوتا ہے.پھر آدمی اس پر ثابت قدم ہوتا ہے اس پر اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور عرفان کے راستے اس کو ملتے ہیں.نیکیوں کے کرنے اور گناہوں کو چھوڑنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ پھر اس کی مدد فرماتا ہے اور فرمائے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.پھر ایک جگہ اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ”سارا مدار مجاہدہ پر ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:70) جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے اپنی تمام راہیں کھول دیتے ہیں.مجاہدہ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا.جو لوگ کہتے ہیں کہ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نظر میں چور کو قطب بنا دیا دھو کے میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسی ہی باتوں نے لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کسی کی جھاڑ پھونک سے کوئی بزرگ بن جاتا ہے“.( مسلمانوں میں بڑا رواج ہے.قبروں پر جاتے ہیں.پیروں کے پاس جاتے ہیں.تعویز گنڈے لیتے ہیں دعائیں قبول کروانے کے لئے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے یا ان کے خیال میں چاہے نمازیں پڑھیں یانہ پڑھیں اسی طرح ان کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں).فرمایا کہ : ”جو لوگ خدا کے ساتھ جلدی کرتے ہیں وہ ہلاک ہو جاتے ہیں.دنیا میں ہر چیز کی ترقی تدریجی ہے.روحانی ترقی بھی اسی طرح ہوتی ہے اور بدوں مجاہدہ کے کچھ بھی نہیں ہو تا.اور مجاہدہ بھی وہ ہو جو خدا تعالیٰ میں ہو.یہ نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف خود ہی بے فائدہ ریاضتیں اور مجاہدہ جوگیوں کی طرح تجویز کر بیٹھے.یہی کام ہے جس کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے تاکہ میں دنیا کو دکھلا دوں کہ کس طرح پر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.یہ قانونِ قدرت ہے ، نہ سب محروم رہتے ہیں اور نہ سب ہدایت پاتے ہیں“.( ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر 338,339 جدید ایڈیشن ربوہ)

Page 475

460 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم لوگوں نے بعض ذکر کی محفلیں یا مجلسیں بنائی ہوئی ہیں.بعض دفعہ بعض جگہوں پر چند ایک احمدیوں کی شکایت آتی ہیں کہ اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو سنت سے ہٹ کر کام کرو گے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں دلا سکتا.یا صرف اللہ ھو کر کے اور اس طرح کے دوسرے ذکر کر کے یا بعض دفعہ صرف مختلف قسم کے ذکر اذکار کی لمبی لمبی مجلسیں لگا کر یہ سمجھنا کہ ہمارے فرائض ادا ہو گئے اور نمازوں سے بھی چھٹی مل گئی اور باقی باتوں سے بھی چھٹی مل گئی ، یہ نہیں ہو سکتا.آپ نے فرمایا کہ : ” جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:70) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے.اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اس کے لئے آنحضرت صلی للی یکم کا نمونہ اور اسوہ حسنہ ہے.بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ نام کے اُسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں.اور پھر سبز پوش یا گیر وے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ پھونک مار کر کچھ بنادیں.یہ بیہودہ بات ہے.ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطر ناک گناہ کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ مشت خاک ہو کر خود ہدایت دینے کے مدعی ہوتے ہیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 240 جدید ایڈیشن ربوہ) یہ پیر فقیر جو ہیں وہ بھی بجائے خدا تعالیٰ کے اپنے آپ کو ہدایت دینے والا سمجھتے ہیں کہ کوئی تعویز دے دیا گنڈا دے دیا اور کہہ دیا کہ بس، تمہارے مسائل حل ہو گئے اور یہ یہ چیزیں بھی تمہاری ہوں گی اور تم نیکیوں پر قائم رہو گے.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت و معرفت کی راہیں کھول دیتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سبلنا.اپنے جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.ہم میں ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بنا پر خدا جوئی اپنا مقصد رکھ کر.لیکن اگر کوئی استہزاء اور ٹھیٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے ، وہ بد نصیب محروم رہ جاتا ہے.پس اسی پاک اصول کی بنا پر اگر تم سچے دل سے کوشش کرو اور دعا کرتے رہو تو وہ غفور الرحیم ہے.لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی پرواہ نہیں کرتاوہ بے نیاز ہے“.(الحکم جلد 8 نمبر 18 مورخہ 31 مئی 1904ء صفحہ 2 کالم نمبر 3) ہر حوالے میں کچھ نہ کچھ زائد باتیں ہیں اس لئے میں نے یہ لئے ہیں.پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ کسی کو ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور ہمیشہ ہدایت اللہ تعالیٰ سے ہی ملتی ہے.اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 476

461 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم سے ہونے کا دعویٰ کرے اس کی حقیقت جاننے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی ضرورت ہے.اگر کسی کو شک و شبہ ہے، کسی قسم کے نشانات پر تسلی نہیں ہو رہی.لیکن اگر اسے ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بنایا جائے تو پھر انسان ہدایت سے محروم رہ جاتا ہے اور نہ صرف محروم رہ جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کا مورد بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”خد اتعالیٰ تو ہر ایک انسان کو اپنی معرفت کے رنگ سے رنگین کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کو خدا نے اپنی ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 23 جدید ایڈیشن ربوہ) صورت پر پیدا کیا ہے.“ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَهُ عبدون ( البقرة:139) کہ اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے ؟ اور ہم اس کی عبادت کرنے والے ہیں“.پس اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش ہے جو ہر مومن کو کرنی چاہئے.جس سے انسان خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے طے کرتا ہے، قرب پانے کے راستے اس کو نظر آتے ہیں.صبغۃ اللہ کا مطلب ہے کہ صفات الہیہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.اور اللہ تعالیٰ جب یہ فرماتا ہے تو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ صفات الہیہ کا رنگ اختیار کر سکتا ہے.آنحضرت علی ایم نے بھی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے.( بخاری کتاب الاستیذان باب بدء السلام حدیث نمبر 6227) اور صورت سے یہی مراد ہے کہ آدم خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنائے ہوئے ہے.یہاں آدم سے مراد ابنِ آدم اور انسان ہیں، ہر انسان ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ ستار ہے تو انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے حصہ لیتے ہوئے ستاری اور پردہ پوشی کی صفت اختیار کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ شکور ہے ، انسان کو بھی شکور بننا چاہئے.جب اللہ تعالیٰ کے بارے میں شکور آتا ہے تو گو اس کے معنی اور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام طاقتوں کا مالک ہے لیکن بندہ شکر گزار بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ قدر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت، بڑی وسیع تر صفت ربّ العلمين (الفاتحہ : 2) ہے.اس کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مومن بھی اپنے اپنے دائرہ میں رب ہے.والدین بچوں کی پرورش کرتے ہیں.ایک محدود دائرے میں ان کا بھی اس لحاظ سے رب ہونے کا ایک حلقہ ہے.اسی طرح دوسری صفات ہیں.پس یہ صفاتِ حسنہ جو ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے جب انسان کو شش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور پھر جیسا کہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب انسان کو شش کرتا ہے تو پھر اس کی کوششوں میں برکت ہوتی ہے.

Page 477

خطبات مسرور جلد ہشتم 462 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا میں ہو کر خدا تلاش کرو تو خدا ملتا ہے.خدا میں ہو کر خدا تلاش کرو.خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنے کی کوشش کرو گے تو خدا ملے گا.اور خدا میں ہو کر خد ا تلاش کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کی صفات اپناؤ.اب اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے اور اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر اس کے نام پر ظلم و بربریت پھیلانے والے کس طرح اللہ تعالی کی راہ کو پا سکتے ہیں.آج بھی ایک افسوسناک ہمیں اطلاع ملی.جمعہ کے دوران مردان میں ہماری مسجد پر دہشت گردوں نے حملہ کیا لیکن ڈیوٹی پر موجود خدام کی بروقت کارروائی سے ان کو زیادہ کامیابی نہیں ہوئی.زیادہ کیا ؟ ہوئی ہی نہیں.اندر نہیں آسکے.انہوں نے گرنیڈ وغیرہ پھینکے اور ایک خود کش حملہ آور زخمی ہو گیا.زخمی حالت میں پھر اس نے اپنے آپ کو اڑا لیا جس کی وجہ سے مسجد کا گیٹ اور دیواریں وغیرہ گر گئیں.وہاں خدام ڈیوٹی پر تھے چند ایک زخمی ہوئے اور ایک خادم شہید بھی ہوئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ اللہ تعالیٰ اس شہید کے بھی درجات بلند کرے اور زخمیوں کو بھی شفاء دے.باقی حملہ آور جو تھے وہ فرار ہو گئے.تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کون سے لوگ ہیں جو اسلام کے نام پر ، خدا کے نام پر یہ کام کرنے والے ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنانے والے ہیں.یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اللہ کی عبادت کرنے والوں پر حملہ کرنے والے ہیں یہ تو کسی طرح بھی خدا والے نہیں کہلا سکتے.پھر دو دن پہلے ہم نے دیکھا کہ ایک شیعوں کا جلوس تھا اس پر حملہ کیا.وہاں بلا وجہ معصوم جانیں ضائع ہوئیں.بہت سے زخمی بھی ہوئے.تو یہ لوگ تو ایسے ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اتنا ٹیڑھا کر دیا ہے کہ اب بظاہر لگتا ہے ان لوگوں کے لئے کوئی واپسی کا راستہ نہیں رہا.اور جو لوگ ان کو مدد کرنے والے ہیں، مدد گار ہیں یا جن کے ہاتھ میں طاقت ہے اور پوری طرح ہاتھ نہیں ڈالتے وہ لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں.اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں سے ملک کو نجات دے بلکہ دنیا کو نجات دے کیونکہ اب تو دنیا میں بھی یہ لوگ پھیل گئے ہیں.ایک جگہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کی حالت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مثال دی ہے.فرمایا کہ: ”جو لوگ کوشش کرتے ہیں ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں.جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کو شش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے.اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا ہماری مدد کر تو فضل الہی وارد نہیں ہو گا.اور بغیر امداد الہی کے تبدیلی ناممکن ہے.“ (الحکم جلد 8 نمبر 38,39 مورخہ 10,17 نومبر 1904ء صفحہ 6 کالم نمبر 3)

Page 478

خطبات مسرور جلد هشتم 463 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 پس دانہ جب پودہ بنتا ہے تو فرمایا کہ وہ پودہ بننے کے لئے خود فنا ہو کر پورہ بنتا ہے.تم بھی اگر شمر آور درخت بننا چاہتے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو فنا کرو.اسی سے اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو گی اور آئندہ نسلوں میں بھی یہ روح قائم رہے گی جو دین پر چلنے والے ہوں گے.تو یہ عارضی کوششیں نہیں ہیں بلکہ مسلسل کوشش ہے جو ایک مومن کا فرض ہے کرتا چلا جائے.اس دانے کی طرح فنا ہونے کی ضرورت ہے جس سے پھل دار پودہ بنتا ہے.اور فرمایا کہ یہ اس صورت میں ہو گا جب اس اقرار اس عہد کو سامنے رکھو گے جو تم نے اس زمانے میں اس امام سے کیا ہے.اور خدا تعالیٰ سے کیا ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو سامنے رکھو گے کہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں، ان کو راستہ دکھاتے ہیں جو مسلسل کوشش کرتے ہیں تو پھر ہی کامیاب ہو گے.اگر نہیں رکھو گے تو پھر کامیابی نہیں.پھر ایک جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: بموجب تعلیم قرآن شریف ہمیں یہ امر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم، رحم، لطف اور مہر بانیوں کے صفات بیان کرتا ہے اور رحمان ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرماتا ہے کہ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعی (النجم :40) اور وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:70) فرما کر اپنے فیض کو سعی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے.نیز اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اُسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے.صحابہ کی زندگی میں غور کر کے دیکھو بھلا انہوں نے محض معمولی نمازوں سے ہی وہ مدارج حاصل کر لئے تھے ؟ نہیں! بلکہ انہوں نے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پر واہ نہیں کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو گئے.جب جاکر کہیں ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا تھا.اکثر لوگ ہم نے ایسے دیکھے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مار کر ان کو وہ درجات دلا دیئے جاویں اور عرش تک ان کی رسائی ہو جاوے“.فرمایا کہ ”ہمارے رسول اکرم صلی اللہ نام سے بڑھ کر کون ہو گا.وہ افضل البشر ، افضل الرسل والانبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اور کون ہے جو ایسا کر سکے.دیکھو آپ نے غارِ حرا میں کیسے کیسے ریاضات کئے.خدا جانے کتنی مدت تک تضرعات اور گریہ وزاری کیا کئے.تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے.جب جا کر کہیں خدا کی طرف سے فیضان نازل ہوا.اصل بات یہی ہے کہ انسان خدا کی راہ میں جب تک اپنے اوپر ایک موت اور حالت فناوار دنہ کر لے تب تک ادھر سے کوئی پرواہ نہیں کی جاتی.البتہ جب خدا د یکھتا ہے کہ انسان نے اپنی طرف سے کمال کوشش کی ہے اور میرے پانے کے واسطے اپنے اوپر موت وارد کرلی ہے تو پھر وہ انسان پر خود ظاہر ہوتا ہے اور اس کو نو از تا اور قدرت نمائی سے بلند کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 507 جدید ایڈ یشن ربوہ )

Page 479

خطبات مسرور جلد ہشتم 464 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 ی پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا.اس کا سچا وعدہ ہے کہ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا نَهُمْ سُبُلَنَا.خدائے تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو بجو یا ہو اوہ آخر منزلِ مقصود پر پہنچا.دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے ، راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا؟ ہر گز نہیں، ہر گز نہیں.اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا“.رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 162-161 مطبوعہ انوار احمد یہ پریس قادیان) پھر ایمانی حالت کے حصول اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول میں جو باریک فرق ہے اس کی علمی بحث کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : روح القدس کی تائید جو مومن کے شامل حال ہوتی ہے وہ محض خدا تعالیٰ کا انعام ہو تا ہے جو ان کو ملتا ہے جو سچے دل سے آنحضرت صلی علیہ کم اور قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں.وہ کسی مجاہدہ سے نہیں مانتا محض ایمان سے ملتا ہے اور مفت ملتا ہے.صرف یہ شرط ہے کہ ایسا شخص ایمان میں صادق ہو اور قدم میں استوار اور امتحان کے وقت صابر ہو.لیکن خدائے عزوجل کی لدنی ہدایت جو اس آیت میں مذکور ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا (العنکبوت : 70).وہ بجز مجاہدہ کے نہیں ملتی.( ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہے یہ چیز اور ایک خاص مجاہدہ سے ملتی ہے.) ”مجاہدہ کرنے والا ابھی مثل اندھے کے ہوتا ہے“.( عام ایمانی حالت تو مل جاتی ہے اس سے بغیر زیادہ مجاہدے کے ، لیکن ابھی اس کی حالت اندھے کی سی ہے.اس میں مزید ترقی کے درجے پانے کی ضرورت ہے.فرمایا کہ اس کی حالت ابھی مثل اندھے کی ہے ) اور اس میں اور بینا ہونے میں ابھی بہت فاصلہ ہو تا ہے.مگر روح القدس کی تائید اس کو نیک ظن کر دیتی ہے اور اس کو قوت دیتی ہے جو وہ مجاہدہ کی طرف راغب ہو“.( توجب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف کوشش کر رہا ہوتا ہے تو پھر اس کو روح القدس سے قوت مل رہی ہوتی ہے کہ مجاہدہ کرتا چلا جائے ) اور مجاہدہ کے بعد انسان کو ایک اور روح ملتی ہے جو پہلی روح سے بہت قوی اور زبر دست ہوتی ہے.مگر یہ نہیں کہ دو روحیں ہیں، روح القدس ایک ہی ہے صرف فرق مراتب قوت کا ہے کہ ایک روح ہے ایک میں زیادہ قوت ہے ایک میں کم.پہلے درجے میں کم قوت تھی، جب دوسرا درجہ حاصل کیا تو زیادہ قوت پید اہو گئی.اور اللہ تعالیٰ کی عرفان اور پہچان زیادہ ہو گئی.اس کی طرف بڑھنے کے نئے نئے راستوں کی طرف رہنمائی مل گئی.) جیسا کہ دو خدا نہیں ہیں صرف ایک خدا ہے.مگر وہی خدا جن خاص تجلیات کے ساتھ ان لوگوں کا ناصر اور مربی ہو تا اور ان کے لئے خارق عادت عجائبات دکھاتا ہے وہ دوسروں کو ایسے عجائبات قدرت ہر گز نہیں دکھلاتا“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 425,426)

Page 480

465 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم پھر آپ فرماتے ہیں: ”جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا.ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کو تاہی نہ کرے.پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نکتہ پر پہنچے گی تو وہ خدا کے نور کو دیکھ لے گا.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجالائے.یہ نہ کرے کہ اگر پانی (ہمیں ) ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے.ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے.پھر اس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیۂ نفس سے کام لے گا تو سب وعدے قرآنِ شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے.ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے.اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں.پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے.لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے.جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو اُدھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 223,224 جدید ایڈیشن ربوہ ) پس اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ مسلسل کوشش جاری رکھنا ایک مومن کا کام ہے.فرمایا کہ ” اسلام اور دوسرے مذاہب میں جو امتیاز ہے وہ یہی ہے کہ اسلام حقیقی معرفت عطا کرتا ہے جس سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت آجاتی ہے اور پھر اُسے ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے جو بہشتی زندگی ہوتی ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ جبکہ یہ مابہ الامتیاز ہے تو کیوں ہر شخص نہیں دیکھ لیتا.اس کا جواب یہ ہے کہ سنت اللہ اسی پر واقع ہوئی ہے کہ یہ بات بجز مجاہدہ، تو بہ اور تنبل نام کے نہیں ملتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت : 70) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے انہی کو یہ راہ ملے گی.پس جو لوگ خدا تعالیٰ کے وصایا اور احکام پر عمل نہ کریں بلکہ ان سے اعراض کریں ان پر یہ دروازہ کس طرح کھل جائے.یہ نہیں ہو سکتا“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 344 جدید ایڈ یشن ربوہ) فرماتے ہیں: ” پھر وہ لوگ روح القدس کی طاقت سے بہرہ ور ہو کر ان مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آجائیں“ ( پھر وہ لوگ یعنی صحابہ روح القدس کی طاقت سے بہرہ ور ہو کر ان مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آجائیں) تب انہوں نے خدا کے راضی کرنے کے لئے ان مجاہدات کو اختیار کیا کہ جن سے بڑھ کر انسان کے لئے متصور نہیں.انہوں نے خدا کی راہ میں اپنی جانوں کا خس و خاشاک کی طرح بھی قدر نہ کیا.آخر وہ قبول کئے گئے اور خدا نے ان کے دلوں کو گناہ سے بکلی بیزار کر دیا اور

Page 481

خطبات مسرور جلد ہشتم 466 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 نیکی کی محبت ڈال دی.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70).یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیا کرتے ہیں“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 425) اسی مجاہدہ کی وجہ سے صحابہ کو وہ مقام ملا جس کے بارہ میں حدیث میں آتا ہے حضرت عمر سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ ہم سے سنا.حضور نے فرمایا کہ میں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی کہ اے محمد (صلی لیکر تیرے صحابہ کا میرے نزدیک ایسا مر تبہ ہے جیسے آسمان میں ستارے ہیں.بعض بعض سے روشن تر ہیں.لیکن نور ہر ایک میں موجود ہے.پس جس نے تیرے کسی صحابی کی پیروی کی میرے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہو گا.حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے یہ بھی کہا کہ حضور (صلی ) نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے.(مشکوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابه الفصل الثالث حدیث نمبر 6018 دار الكتب العلمیة بیروت ایڈیشن 2003) تو یہ مقام تھا مسلسل کوشش اور جہاد کا، جو صحابہ نے اپنے نفسوں کو پاک کرنے کے لئے کیا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ اجر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ذوق و شوق پید ا ہو اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں.جو شخص اس غرض کو ملحوظ نہیں رکھتا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی کرنے کے لئے مجاہدہ اور کوشش نہیں کرتا، جو کوشش کا حق ہے اور پھر اس قدر دعا نہیں کرتا جو دعا کرنے کا حق ہے تو وہ اس اقرار کی جو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جاتا ہے سخت بے حرمتی کرتا ہے.اور وہ سب سے زیادہ گنہگار اور قابل سزا ٹھہرتا ہے.پس یہ ہر گز نہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ بیعت کا اقرار ہی ہمارے لئے کافی ہے اور ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہئے.مثل مشہور ہے جو ئندہ یا بندہ.جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اس کے لئے کھولا جاتا ہے.اور قرآنِ شریف میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:70) یعنی جو لوگ ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے لئے مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کے واسطے اپنی راہ کھول دیتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر چلا دیتے ہیں.لیکن جو شخص کو شش ہی نہیں کرتا وہ کس طرح اس راہ کو پاسکتا ہے خدایابی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا بھی یہی گر اور اصول ہے.انسان کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں.نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ نمبر 181,182 مطبوعہ ربوہ)

Page 482

467 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اللہ کرے ہم میں سے ہر ایک اس روح کو سمجھنے والا ہو اور ہماری کوششیں ہر آن آگے بڑھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنا عہد پورا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی طرف لے جارہی ہوں.اپنے عہدوں میں کمزوری دکھا کر اور اپنی کوششوں میں کمی کر کے ہم کبھی اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ نہ ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا عہد نبھانے اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی توفیق دیتا چلا جائے.اور یہ باقی دن ہم خاص طور پر دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر گزارنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ خود ہماری ڈھال بن جائے اور ہمارے دشمنوں کی پکڑ کے سامان فرمائے.جس شہید کا میں نے ذکر کیا تھا پہلے تو میر اخیال تھا کہ شاید کوائف نہیں آئے، جنازہ اگلے جمعہ ہو گا.لیکن کو ائف آگئے ہیں تو ان کا ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ہم جنازہ غائب بھی پڑھیں گے.جو شہید ہوئے ہیں ان کا نام شیخ عامر رضا صاحب ولد مکرم مشتاق احمد صاحب ہے.ان کی عمر چالیس سال تھی.اس وقت بطور سیکر ٹری وقف جدید خدمت کی توفیق پارہے تھے.علاوہ ازیں شہید جو تھے قائد مجلس اور قائد ضلع کے طور پر خدمت کی توفیق پاچکے ہیں.ان کا اپنا الیکٹرونکس کا بزنس تھا.مسجد کے اندر تھے ، وہاں جو دھما کہ ہوا ہے وہ اتنا شدید تھا کہ اندر ان کے آ کے دیواریں گری ہیں اور دروازہ اندر آ کے گرا ہے اس کی وجہ سے شدید زخمی بھی ہو گئے.ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں شہید ہو گئے تھے.نہایت مخلص اور محنتی احمدی تھے.ان کے لواحقین میں ان کی اہلیہ لبنی عامر صاحبہ اور ایک بیٹا اسامہ عامر ، عمر 9 سال اور ایک بچی ڈیڑھ سالہ ہے.ان کا جنازہ انشاء اللہ تد فین کے لئے ربوہ لے جایا جائے گا.جیسا کہ میں نے کہا ابھی جمعہ کے بعد ہم جنازہ غائب ادا کریں گے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 39 مورخہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 483

خطبات مسرور جلد ہشتم 468 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010ء بمطابق 10 تبوک 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج رمضان کا آخری جمعہ ہے اور یہ آخری روزہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس رمضان کو ذاتی زندگی میں بھی اپنے فضلوں کی بہار لانے والا بنادے اور جماعتی ترقیات کے لئے بھی ایک نیاسنگ میل ثابت ہو.اللہ تعالیٰ ان تمام دعاؤں کو قبول فرما کر ان کے بہترین نتائج پیدا فرمائے جو ہم نے اپنی ذات، اپنے بیوی بچوں، اپنے خاندان کے لئے کی ہیں.اور ان دعاؤں کو بھی قبول فرمائے جو ہم نے جماعت کی ترقی کے لئے کی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کی جماعت کی ترقی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہوا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ترقیات مقدر ہیں.ہماری دعائیں تو ان ترقیات کے لئے حقیر کو شش کر کے ان کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لئے ہیں اور اس ثواب میں حصہ دار بننے کے لئے جو ثواب اللہ تعالیٰ نے اس کی کامیابی اور ترقی کے لئے کوشش کرنے والوں کے لئے رکھا ہوا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے فیصلے کا اعلان کیا ہوا ہے کہ میں اور میرارسول ہی غالب آئیں گے.اگر اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں ہمیں یہ کامیابیاں دکھا کر حصہ دار بنالے گا تو یہ اس کا احسان ہے ورنہ اسے ہماری دعاؤں کی کیا ضرورت ہے ؟ نہ اسے ہماری کوششوں کی ضرورت ہے.پس ہمیں ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہمیشہ اپنے فضل اور رحم کی نظر ڈالے رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں، اس کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جائیں.مختلف دعاؤں کا انتخاب آج کے خطبہ میں میں نے مختلف دعائیں قرآن کریم میں سے، احادیث نبویہ میں سے ، اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور ارشادات میں سے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے لی ہیں.حضرت مسیح موعود نے بعض قرآنی دعاؤں کی جہاں کہیں وضاحت بیان فرمائی ہے ، اس وضاحت کو آپ کے الفاظ میں بیان کروں گا ورنہ عمومی طور پر یہ دعائیں ہی پڑھوں گا.آپ میرے ساتھ دہراتے بھی جائیں اور آمین بھی کہتے

Page 484

469 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جائیں.جمعہ کے بعد بھی اس آخری روزے اور اس آخری برکت کے دن بقایا چند گھنٹوں کو دعاؤں سے بھرنے کی کوشش کریں.ان دعاؤں میں جو میں نے لی ہیں ذاتی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کی بھی دعائیں ہیں اور زیادہ تر جماعتی ترقی اور کامیابی اور دشمن کے شر سے بچنے کے لئے دعائیں ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَى وَ عَلَى وَالِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ وَ أَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَ إِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (الاحقاف: 16) اے میرے رب! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی، اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے.یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلا شبہ میں فرمانبر داروں میں سے ہوں.داخل کر.یہ دعا ایک دوسری سورت، سورۃ نمل میں بھی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں یا متبادل ہیں کہ : وَادْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ (النمل: 20) اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے.یہ اس وجہ سے کہ مشکل سے اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اس کو رکھا اور مشکل ہی سے اس کو جنا اور یہ مشکلات اس دور دراز مدت تک رہتی ہیں کہ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ کا چھوٹنا تیس مہینے میں جا کر تمام ہوتا ہے.یہاں تک کہ جب ایک نیک انسان اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو اس بات کی توفیق دے کہ تو نے جو مجھ پر اور میرے ماں باپ پر احسانات کئے ہیں تیرے ان احسانات کا شکریہ ادا کرتا رہوں اور مجھے اس بات کی بھی توفیق دے کہ میں کوئی ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو جائے اور میرے پر یہ بھی احسان کر کہ میری اولاد نیک بخت ہو اور میرے لئے خوشی کا موجب ہو اور میں اولاد پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ہر یک حاجت کے وقت تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں ان میں سے ہوں جو تیرے آگے اپنی گردن رکھ دیتے ہیں نہ کسی اور کے آگے“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 209 حاشیہ ) پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( الفرقان: (75) کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے.

Page 485

470 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا ترجمہ اپنے الفاظ میں اس طرح فرمایا ہے کہ : ” مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزند نیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش روہوں“.( یعنی نمونہ قائم کرنے والے ہوں).(آریہ دھرم روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 23) پس یہ چیز ہے جس سے گھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنتے ہیں اور افراد بھی جماعت کا فعال حصہ بن کر نسلاً بعد نسل جماعتی ترقی میں حصہ دار بنتے چلے جاتے ہیں.پھر ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھائی کہ : ربنا اتنا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: 202) اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کے نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہو تا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو.جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات.اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر “.فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة:202).اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے، لیکن کس دنیا کو ؟ حَسَنَةُ الدُّنْیا کو جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے“.ایسی دنیا کو مقدم کیا ہے جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے.”اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حَسَنَاتُ الْآخِرة کا خیال رکھنا چاہئے.اور ساتھ ہی حَسَنَةُ الدُّنْیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصولِ دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصولِ دنیا کے لئے اختیار کرنے چاہئیں.دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو.نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو نہ ہم جنسوں میں کسی عارو شرم کا باعث ہو).(الحکم جلد 4 نمبر 29 مورخہ 16 اگست 1900ء.صفحہ 4-3) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 364,365 جدید ایڈیشن ربوہ )

Page 486

خطبات مسرور جلد ہشتم 471 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 پس آخرت کی بھی ہمیشہ ایسی حسنات تلاش کریں.دنیا کی حسنات وہ ہوں جو آخرت کی حسنات کا وارث بنائیں جس میں حقوق اللہ بھی ادا ہوتے ہوں اور حقوق العباد بھی ادا ہوتے ہوں.پھر اگلی دعا ہمیں یہ سکھائی: رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَ اَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ (الاعراف:152) اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تُور حمت کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.فرمایا: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (آل عمـ ) (آل عمران 148) اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی بھی، اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر.پھر یہ دعا ہمیں سکھائی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : انتَ وَلِيْنَا فَاغْفِرُ لَنَا وَارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَيْرُ الْغَفِرِينَ (الاعراف: 156) تُو ہی ہمار اولی ہے.پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے.واكتُبُ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدُنَا إِلَيْكَ (الاعراف: 157) اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنۃ لکھ دے اور آخرت میں بھی، یقینا ہم تیری طرف ( تو بہ کرتے ہوئے) آگئے ہیں.قبول کر.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاء (ابراهيم : 41) اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی اے ہمارے رب!.اور میری دعا رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (ابراهيم : 41) اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی، جس دن حساب بر پا ہو گا.رَبَّنَا اصْرِفُ عَنَا عَذَابَ جَهَنَّمَ ، إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ( الفرقان: 66 ) اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے.یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے.إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَ مُقَامًا (الفرقان: 67 ) یقین وہ عارضی ٹھکانے کے طور پر بھی بہت بُری ہے اور مستقل ٹھکانے کے طور پر بھی.

Page 487

خطبات مسرور جلد ہشتم 472 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 پھر یہ دعا ہے رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَ اَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ (المومنون: 119) اے میرے رب ! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.ربَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرُ لَنَا وَارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ (المومنون: 110) اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے.پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر.اور تُور حم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.رَبِّ نَجْنِي وَ أَهْلِى مِمَّا يَعْمَلُونَ (الشعراء: 170) اے میرے رب ! مجھے اور میرے اہل کو اس سے نجات بخش جو وہ کرتے ہیں.رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْنَا فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (التحريم: 12) اے میرے رب! میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے، اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ : قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں.ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے“.( یعنی فرعون سے).”یہ ان مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جذبات کے آگے گر گر جاتے ہیں“.(ان کے جو نفسانی جذبات ہیں وہ فرعون کی طرح نیکیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں).”اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں ، (پھر) پچھتاتے ہیں، تو بہ کرتے ہیں، خدا سے پناہ مانگتے ہیں.ان کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح ان کو تنگ کرتا رہتا ہے.وہ لوگ نفس لوامہ رکھتے ہیں.بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں.وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کو حاصل کرتے ہیں.ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سے دی ہے.اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ روحِنا (التحریم : 13).ہر ایک مومن جو تقویٰ و طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے.اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے جو کہ ابنِ مریم بن جاتی ہے“.ایسے فرعونوں سے ہمیں نجات بخشے ( ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر 522,523 جدید ایڈیشن ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں وہ مومن بنائے جو نیکیوں کو حاصل کرنے والے ہوں اور اس رمضان میں جو نیکیاں ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ان میں دوام حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں اور تقویٰ اور طہارت میں

Page 488

خطبات مسرور جلد ہشتم 473 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 ہمارے قدم ہر آن آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.نیز اللہ تعالیٰ ظالم گروہوں اور ظالم حکمرانوں سے بھی ہمیں نجات بخشے.ایسے فرعونوں سے ہمیں نجات بخشے جو طاقت کے نشے میں آج احمدیوں پر ظلم روار کھے ہوئے ہیں اور ان کی خود پکڑ فرمائے.پھر سورۃ قمر کی ایک آیت میں یہ دعا ہے.إِنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ ( سورة القمر :11) کہ میں یقیناً مغلوب ہوں.پس میری مدد کر.رَبِّ نَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (القصص:22) اے میرے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات بخش.رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ (الشعراء:118).اے میرے ربّ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے.فافتح بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتَحَا وَ نَجِنِي وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (سورة الشعراء: 119) پس میرے درمیان اور ان کے درمیان واضح فیصلہ کر دے اور مجھے نجات بخش اور ان کو بھی جو مومنوں میں سے میرے ساتھ ہیں.انبیاء اور ان کی جماعتوں کا اصل ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس زمانے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح فرما دیا ہے کہ ہماری کامیابی، ہماری فتوحات دعا کے ذریعے سے ہوئی ہیں.نہ کہ کسی ہتھیار سے ، نہ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر 6 3 جدید ایڈیشن ربوہ) کسی احتجاج سے.نہ کسی اور ذریعے سے.پس دعاؤں کو مستقل مزاجی سے کرتے چلے جانا یہی ہمارا فرض ہے اور یہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے.پھر یہ دعا سکھائی.فرمایا کہ ربّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَتِ الشَّيطِيْنِ (المومنون: 98) اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں.وَ اَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ (المومنون:99).اور اس بات سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب! کہ وہ میرے قریب پھٹکیں.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (الاعراف: 127).اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آجائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جانا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نور اتارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوتِ ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں“.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 420,421)

Page 489

474 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم پھر یہ دعا ہے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف:24) اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے ذریعہ زیر کیا تھا.اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گانہ تلوار سے“.( پس ہمارا ہتھیار ( الحکم جلد 7 نمبر 12 مورخہ 31 مارچ 1903ء صفحہ 8 کالم 3) تلوار نہیں بلکہ دعا ہے ).شیطان پر ) آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا.(الاعراف:24) اور آدم ثانی ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ نمبر 190,191 جدید ایڈیشن ربوہ) پھر ایک دعا سکھائی.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران : 9) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے، بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا توہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.پھر یہ دعا ہے کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلُنَا فَانْصُرْنَا (البقرة:287) عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اے ہمارے رب! ہمارا مواخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے.اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ( ان گناہوں کے نتیجہ میں ) ہم سے پہلے لوگوں پر تُو نے ڈالا.اور اے ہمارے رب ! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو.اور ہم سے در گزر کر ، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم کر.تو ہی ہمارا والی ہے ، پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا اس طرح ترجمہ فرمایا ہے کہ : ” یعنی اے ہمارے خدا! نیک باتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں مت پکڑ جن کو ہم بھول گئے اور بوجہ نسیان ادانہ کر سکے “.( ایسی باتیں جن کو ہم بھول کر ادا نہ کر سکے ان کی وجہ سے پکڑ نہ کر ).” اور نہ ان بد کاموں پر ہم سے مواخذہ کر جن کا ارتکاب ہم نے عمد ا نہیں کیا.( ایسے ادھورے کام جن کا ارتکاب ہم نے جان بوجھ کر

Page 490

خطبات مسرور جلد ہشتم 475 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 نہیں کیا، ان پر ہمیں نہ پکڑ ) ”بلکہ سمجھ کی غلطی واقع ہو گئی.اور ہم سے وہ بوجھ مت اٹھوا جس کو ہم اٹھا نہیں سکتے.اور ہمیں معاف کر اور ہمارے گناہ بخش اور ہم پر رحم فرما.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 25) پھر ایک دعا ہے ربَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة 251) اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہمارا خد ا گناہ بخشنے والا نہ ہو تا کہ ہمیں معاف فرما سکے تو پھر وہ ایسی دعا بھی ہر گز نہ سکھلاتا.(ماخوذ از چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 25) پھر ایک دعا ہے.رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (الاعراف:48) اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں میں سے نہ بنا.رَبَّنَا مَنَا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشُّهدِينَ ( المائدہ آیت (84).اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے.پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کرلے.پھر آنحضرت صلی اسلم کی بعض دعائیں احادیث سے ملتی ہیں جو میں نے لی ہیں.فرمایا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، گناہوں، چھٹی اور فتنہ قبر اور عذاب قبر ، آگ کے فتنہ اور آگ کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں.تو مجھے دولت کے فتنے کے شر سے اپنی پناہ میں لے لے.میں تجھ سے غربت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں.اور مسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں.اے اللہ تو میری خطائیں برف اور اولوں کے پانی سے دھو دے.اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑے کو تو میل سے صاف کر دیتا ہے.اور تو میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اس طرح دوری فرمادے جس طرح تو نے مشرق و مغرب میں دوری پیدافرمائی ہے.( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من الماأثم والمغرم حدیث نمبر 6368) پھر ایک دعا ہے.اے اللہ ! میرے گناہ مجھے بخش دے اور میرے گھر کو میرے لئے وسیع کر دے اور میرے لئے میرے رزق میں برکت ڈال دے.السنن الکبری لنسائی کتاب عمل الیوم والیلتہ باب ما یقول اذا توضأ حدیث نمبر 9908) پھر ہے : ”اے اللہ ! میں بے بسی، سستی، بزدلی اور تھکا دینے والے بڑھاپے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں.اور اے خدا! میں تجھ سے زندگی اور موت کے فتنے سے بچنے کے لئے پناہ مانگتا ہوں.“ ( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من فتنة المحياوالمات.حدیث نمبر 6367)

Page 491

خطبات مسرور جلد ہشتم 476 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنْ قَلْبٍ لَّا يَخْشَعُ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ.اے اللہ ! میں تجھ سے ایسے دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں عاجزی اور انکساری نہیں، اور ایسی دعاسے پناہ مانگتا ہوں جو مقبول نہ ہو.اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے.میں ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں.(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 68/ 68 حدیث نمبر (3482) اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلُمَّا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْلِيْ مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغُفُورُ الرَّحِیم.اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کئے ہیں.تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں.تو اپنی جناب سے مجھے مغفرت عطا فرما دے اور مجھ پر رحم فرما.اور اے خدا یقینا تو ہی بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء فی الصلاۃ حدیث نمبر 6326) اے اللہ ! مجھے میری خطائیں معاف فرمادے اور میرے سب معاملات میں میری لا علمی ( جہالت) اور میری زیادتی کے شر سے مجھے بچالے.اور ہر اس ( نقصان اور شر) سے بچالے جسے تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے.اے اللہ ! میری خطائیں بخش دے ، میری دانستہ ، نا دانستہ اور ازراہ مذاق کی ہوئی ساری خطائیں مجھے بخش دے کہ یہ سب میرے اندر موجود ہیں.جو خطائیں مجھ سے سرزد ہو چکیں اور جو ابھی نہیں ہوئیں اور جو مخفی طور پر مجھ سے سر زد ہوئیں اور جو کھلم کھلا میں نے کیں وہ سب مجھے بخش دے.تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے ہٹا دینے والا ہے اور تو ہی ہر چیز پر قادر ہے.( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول البنى على الم اللهم اغفرى..حدیث نمبر 6398) اے اللہ ! میں اپنا آپ تیرے سپر د کر تا ہوں، تجھ پر توکل کرتا ہوں اور تجھ پر ایمان لاتا ہوں.تیری طرف جھکتا ہوں اور تیری مدد کے ساتھ مڈ مقابل سے بحث کرتا ہوں اور تیرے ہی حضور اپنا مقدمہ پیش کرتا ہوں.تو مجھے میرے اگلے پچھلے، اعلانیہ ، پوشیدہ سب گناہ بخش دے.تو ہی مقدم اور مؤخر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں.( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبه من الیل حدیث نمبر 6317) اللهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي بَصَرِى نُورًا وَ فِى سَمْعِي نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِى نُوْرًا وَعَنْ يَسَارِيْ نُورًا وَفَوْقِيَ نُوْرًا وَ تَحْتِى نُورًا وَامَ مِنْ نُوْرًا وَخَلْفِيْ نُورًا وَاجْعَلْ لِيْ نُورًا.اے اللہ ! تو میرے دل میں نور پیدا فرما دے، میری آنکھوں میں نور پیدا فرما دے، میرے کانوں میں نور پیدا فرما دے، میرے دائیں میرے بائیں، اوپر اور نیچے اور آگے اور پیچھے نور پیدا فرما دے.اور مجھے نورِ مجسم بنا ( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبه من الیل حدیث نمبر 6316)

Page 492

خطبات مسرور جلد ہشتم 477 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَ حُبِّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ اَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے.اے اللہ میرے دل میں اپنی اتنی محبت ڈال دے جو میری اپنی ذات ، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو.(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 73/000 حدیث نمبر 3490) يَا مُصْرِفَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلى طَاعَتِكَ.اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنی اطاعت پر قائم رکھ.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 499 مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر 9410 عالم الكتب بيروت طبع اول 1998) اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں سے جو میں نے کی ہیں استفادہ کرنے کی ہمیشہ توفیق دیتا چلا جائے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچھ دعائیں پیش کرتا ہوں.یہ بعض الہامی دعائیں ہیں.پہلی دعا ہے رَبِّ كُلَّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِيْ اے میرے رب ہر ایک چیز تیری خادم ہے.اے میرے رب پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 224) پھر آپ نے ایک دعا لکھی ہے کہ ”اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے رہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا.اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ، یا بغض، یا دنیا کی حرص و ہوا“.( پیغام صلح روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 439) میں گناہگار ہوں اور کمزور ہوں.تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا.تو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر.کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا اور کوئی نہیں ہے جو مجھے پاک کرے.(بدر جلد نمبر 3 صفحہ نمبر (41) يَا أَحَبَّ مِنْ كُلِّ مَحْبُوبِ اِغْفِرْلِي ذُنُوبِي وَأَدْخِلْنِي فِي عِبَادِكَ الْمُخْلَصِيْنَ اے محبوبوں سے محبوب ذات ! میرے گناہ مجھے بخش دے اور مجھے اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما.(مکتوبات احمد جلد دوم مکتوب نمبر 120 ملفوف بنام منشی رستم علی صاحب صفحہ 539 ضیاء الاسلام پر یس ربوہ) کسی سوال کرنے والے نے آپ سے یہ سوال کیا کہ نماز میں حصولِ حضور کا کیا طریقہ ہے ؟ کس طرح توجہ پوری طرح پیدا کی جاسکتی ہے ؟ تو آپ نے یہ دعا اسے لکھ کر بھجوائی کہ : اے خدائے تعالیٰ قادر و ذوالجلال میں گناہگار ہوں اور اس قدر گناہ کی زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضورِ نماز حاصل نہیں ہو سکتا.تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش.اور

Page 493

478 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم میری تقصیرات معاف کر.اور میرے دل کو نرم کر دے.اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے.تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میں میسر آوے.(فتاوی حضرت مسیح موعود صفحہ نمبر 37) رَبِّ ارْحَمْنِيْ إِنَّ فَضْلَكَ وَرَحْمَتَكَ يُنْجِی مِنَ الْعَذَابِ.اے میرے رب! مجھ پر رحم فرما.یقینا تیر افضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں.( تذکرہ صفحہ نمبر 621 ایڈیشن چہارم ربوہ) رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِنَ السَّمَآءِ.اے میرے رب ! تُو مجھے دکھا کہ تو مردہ کیونکر زندہ کرتا ہے اور آسمان سے اپنی بخشش اور رحمت نازل فرما.براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 266 بقیہ حاشیه در حاشیہ نمبر 1) رَبِّ فَرِّقُ بَيْنَ صَادِقٍ وَ كَاذِب.اے میرے خدا! صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا.تو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے ؟ ( تذکرہ صفحہ نمبر 532 ایڈیشن چہارم ربوہ) رَبِّ أَرِنِي أَنْوَارَكَ الكُلِّيَّةَ.اے میرے رب! مجھے اپنے تمام انوار دکھلا.(تذکرہ صفحہ نمبر 534 ایڈیشن چہارم ربوہ ) رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِيْنَ دَيَّارًا.اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی باشندہ نہ چھوڑ.(تذکرہ صفحہ نمبر 576 ایڈیشن چہارم ربوہ ) رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ فَإِنَّ الْقَوْمَ يَتَّخِذُونَنِي سُخْرَةً - اے میرے رب! میری حفاظت کر.کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے ہنسی کی جگہ ٹھہر الیا.( تذکرہ صفحہ نمبر 578 جدید ایڈیشن ربوہ) رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمُ مِنَ السَّمَاءِ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَاَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِيْنَ.رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ - رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ.اے میرے رب! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ.اور تو خیر الوارثین ہے.اے میرے رب! امت محمدیہ کی اصلاح کر.اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے.اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحه 266 حاشیه در حاشیہ نمبر 1) وَاجْعَلْ أَفْئِدَةً كَثِيرَة مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى اِلَی.یعنی انسانوں کے بہت سے دلوں کو میری طرف جھکا دے.یہ ایک الہام تھا.آپ نے فرمایا کہ یہ ایک بشارت ہے سلسلہ کی ترقی کے متعلق.(تذکرہ صفحہ نمبر 660 ایڈیشن چہارم ربوہ ) رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَصَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ وَحَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ الِهِ وَسَلّمْ وَتَوَفَّنَا فِي أُمَّتِهِ وَابْعَثْنَا فِي أُمَّتِهِ وَاتِنَا مَا وَعَدَتْ لِأُمِّتِهِ رَبَّنَا إِنَّنَا أَمَنَّا فَاكْتُبْنَا فِي عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِيْنَ

Page 494

479 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان مومن بھائیوں کو بخش دے جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے ، اور اپنے نبی اور حبیب محمد صلی للی کم اور آپ کی آل پر رحمتیں بھیج اور ہمیں آپ کے امتی ہونے کی حالت میں موت دے اور ہمیں آپ کی اُمت میں ہی اٹھانا اور تو نے ان امت سے جو وعدہ کیا ہے وہ ہمیں عطا فرما.اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے.پس ہمیں اپنے مومن بندوں میں لکھ لے.(مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ نمبر 627 مکتوب نمبر 56 بنام میر عباس علی شاہ صاحب) رَبِّ سَلِّطْنِى عَلَى النَّارِ.اے میرے خدا! مجھے آگ پر مسلط کر دے.(تذکرہ صفحہ نمبر 518 ایڈ یشن چہارم ربوہ) ہم تیرے گناہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے، تو ہم کو معاف فرما اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا.( بدر جلد 2 نمبر 3) اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیر اغضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین پھر آپ کا ایک الہام ہے:.الحکم- 20 فروری 1898ء جلد نمبر 2 نمبر 1 ) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 103) رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِینَ.اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش ، ہم خطا پر تھے.(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 104) ایک جگہ آپ تحریر فرماتے ہیں: اے ہمارے رب العزت ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری بلاؤں کو دور فرما اور تکالیف کو بھی دور فرما، اور ہمارے دلوں کو ہر قسم کے غموں سے نجات بخش اور کفیل ہو ہماری مصیبتوں کا.اور ہمارے ساتھ ہو جہاں پر بھی ہم ہوں.اے ہمارے محبوب اور ڈھانپ دے ہمارے ننگ کو اور امن میں رکھ ہمارے خطرات کو.اور ہم نے تو کل کیا تجھ پر اور ہم نے تیرے سپرد کیا اپنا معاملہ، تو ہی ہمارا آقا ہے.دنیا میں اور آخرت میں اور تُو ارحم الراحمین ہے قبول فرما.اے رب العالمین.(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 182) پھر ایک جگہ فرمایا : ”اے خداوند قادر مطلق اگر چہ قدیم سے تیری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ تو بچوں اور اُمیوں کو سمجھ

Page 495

480 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم عطا کرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پر دے تاریکی کے ڈال دیتا ہے.مگر میں تیری جناب میں عجز اور تضرع سے عرض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا جیسے تو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرما تا وہ دیکھیں اور سنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو تو نے اپنے وقت پر نازل کی ہے قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہو جائیں.اگر تو چاہے تو تو ایسا کر سکتا ہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے انہونی نہیں“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 120) آئینہ کمالات اسلام میں یہ لکھا ہے.فرماتے ہیں کہ : ”اے میرے رب! اپنے بندہ کی نصرت فرما.اور اپنے دشمنوں کو ذلیل اور رسوا کر.اے میرے ربّ! میری دعاسن.اور اسے قبول فرما.کب تک تجھ سے اور تیرے رسول سے تمسخر کیا جاتارہے گا.اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بد کلامی کرتے رہیں گے.اے ازلی ابدی خدا! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں.(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 569) فرمایا کہ: (آج) ”میں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا کہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں.فَسَحِفهُم تَسْحِنقد “ پس پیس ڈال ان کو خوب پیس ڈالنا.فرمایا کہ : ”میرے دل میں (خیال آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے.اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے.اور وہ دعا یہ ہے.يَا رَبِّ فَاسْمَعْ دُعَائِي وَمَزِّقُ أَعْدَانَكَ وَاعْدَائِي وَانْجِزُ وَعْدَكَ وَانْصُرُ عَبْدَكَ وَآرِنَا أَيَّامَكَ وَشَهِرْ لَنَا حُسَامَكَ وَلَا تَذَرْمِنَ الْكَافِرِيْنَ شَرِيْرًا.“ اے میرے رب تو میری دعاسن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو پیس ڈال.ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنے وعدہ کو پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما اور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے.اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے.“ اللہ تعالیٰ آج بھی ہمیں خارق عادت نشان دکھائے.(تذکرہ صفحہ نمبر 426,427 ایڈیشن چہارم ربوہ) یہ بھی الہامی دعا ہے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ.پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ.پاک ہے اللہ جو بہت عظیم ہے.اے اللہ رحمتیں بھیج ، آپ صلی علیہ یکم (تذکرہ صفحہ نمبر 25 ایڈیشن چہارم ربوہ) اور آپ کی آل پر.

Page 496

خطبات مسرور جلد ہشتم کرتا ہوں کہ : 481 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک دعا تھی اس سے استفادہ کرتے ہوئے میں یہ دعا آخر میں پیش اے میرے مالک میرے قادر میرے پیارے میرے مولیٰ میرے رہنما اے زمین و آسمان کے خالق اور اس میں موجود ہر چیز پر تصرف رکھنے والے.اے خدا جس نے لاکھوں انبیاء اور کروڑوں رہنماؤں کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا.اے وہ علی و گپیر خدا جس نے آنحضرت صلی علی کی جیسا عظیم الشان نبی دنیا میں مبعوث عَلِيٌّ وَ فرمایا، اے وہ رحمان خدا جس نے مسیح جیسار ہنما آنحضرت صلی للی کم کی غلامی میں آپ کی امت میں امت کی رہنمائی کے لئے پیدا فرمایا.اے نور کے پیدا کرنے والے اور ظلمت کے مٹانے والے! ہم تیرے عاجز بندے تجھ سے تیرے وعدوں کا واسطہ دے کر جو تو نے اپنے محبوب اور سب سے پیارے رسول اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی ای کم سے کئے ہیں.نیز ان وعدوں کا واسطہ دے کر جو تُو نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللی یکم کے غلام صادق اور عاشق صادق سے کئے ہیں.تیرے حضور عاجزی سے جھکتے ہوئے یہ فریاد کرتے ہیں کہ ان وعدوں کے پورا ہونے کے عظیم الشان نشان ہمیں دکھا.ہم اس بات پر علی وجہ البصیرت یقین رکھتے ہیں کہ تو سچے وعدوں والا ہے.تو یقیناً اپنے وعدے پورے کرے گا.لیکن ہمیں یہ خوف بھی دامنگیر ہے کہ ہماری نالائقیوں اور ناسپاسیوں کی وجہ سے یہ وعدے پورے ہونے کا وقت آگے نہ چلا جائے.تیری رحمانیت اور تیری رحیمیت کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ عرض کرتے ہیں.ہمارے عملوں سے چشم پوشی فرماتے ہوئے ہمارے گناہوں اور ظلموں کے باوجود ہمیں اپنے انعاموں اور احسانوں سے اس طرح نوازتا چلا جا جس طرح تو نے ہمیشہ سے ہم سے سلوک رکھا ہے.باوجود اس کے کہ ہم نے اپنا حق اس طرح ادا نہ کیا جو حق ادا کرنے کا حق ہے.مگر تو ہمیشہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہم پر برساتا رہا.اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط تر کر تا رہا.میں آج پھر عاجزانہ طور پر تیرے سامنے پھر یہ عرض کرتا ہوں کہ اے رحمان خدا! اے وہاب خدا! اے ستار العیوب خدا! اے غفور الرحیم خدا! اپنی رحمانیت اور وہابیت کے دروازے کبھی ہم پر بند نہ کرنا.ہمارے عیبوں اور ہماری کمزوریوں سے ہمیشہ پردہ پوشی فرمانا.ہم پر بخشش اور رحم کی نظر رکھنا.اور جس سلوک سے ہمیں اب تک نواز تارہا ہے اس کو کبھی بند نہ کرنا.ہم تجھ سے ہر اس خیر کے طالب ہیں جو تو نے کسی کے لئے بھی مقدر کی ہے.بلکہ ہر وہ خیر جس کا تو مالک ہے محض اور محض اپنے فضل سے عطا فرما.اے میرے خدا! میں تیری تمام صفات کا واسطہ دے کر تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ ان کی خیر سے ہمیں متمتع فرما.اے ہمارے پیارے خدا! ہم نہایت دردِ دل کے ساتھ اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور جھکتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہماری دعاؤں کو رحم فرماتے ہوئے اپنے وعدے کے مطابق کہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ہماری دعاؤں کو سن.ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جو تیری عبادت سے بیزار ہیں، بعد المشرقین پیدا کر -

Page 497

482 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم دے.ہمیں اپنے خالص عبد رحمان بنادے.ہمارے سینے اپنی محبت میں سرشار کر دے.ہمارے اعمال و اقوال عمدہ اور صاف کر دے.جو تیرے چہرے اور تیرے حکم پر قربان ہونے والے ہوں.ہم تیرے پیارے رسول صلی الیکم پر فدا ہونے والے بن جائیں.آپ صلی اللہ ظلم پر تیرے حکم کے مطابق درود بھیجنے والے بن جائیں.میرے مسیح موعود کو جن کو تُو نے اس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق بھیجا ہے، آپ کے ساتھ کامل اطاعت کا نمونہ دکھانے والے بن جائیں.آپ کو حکم اور عدل مانتے ہوئے آپ کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے ہوں.اے خدا! ہم پھر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے سینے اپنی محبت اور اپنے پیاروں کی محبت سے بھر دے.ہماری کمزوریوں کو دور فرما.شیطان کے تسلط سے ہمیں ہمیشہ بچا.ہم وہ قوم بن جائیں جو تیرے پیار کو ہمیشہ جذب کرنے والے ہیں.ہمیں تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا.اور تمام مصیبتوں سے ہمیں محفوظ رکھ.اے ہمارے خدا! یہ ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ دنیا کے سینے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے قبول کرنے کے لئے کھول دے.اور تمام مسلمانوں کو امتِ واحد بنا دے.تمام فتنے اور فساد جنہوں نے مسلمانوں کو گھیر اہوا ہے ان سے مسلمانوں کو نکال.ان کی آنکھیں کھول تا وہ تیرے مسیح موعود اور مہدی موعود کو پہچان لیں.اے اللہ ! دنیا کو عقل دے کہ وہ زمانے کے امام کو پہچان کر آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچ جائیں.آمین یارب العالمین.آج پھر ایک افسوسناک خبر ہے.مکرم نصیر احمد بٹ صاحب جو مکرم اللہ رکھا بٹ صاحب کے بیٹے تھے اور فیصل آباد میں رہتے تھے ، ان کو پرسوں 8 ستمبر کو شہید کر دیا گیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.نصیر احمد بٹ صاحب کے دادا غلام محمد صاحب قادیان کے قریب موضع ڈلہ کے رہنے والے تھے اور آپ کے خاندان میں آپ کے دادا کے ذریعے سے احمدیت آئی تھی.ان کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے دور میں بیعت کی سعادت ملی تھی.نصیر صاحب کی تعلیم تھوڑی تھی.ان کی اپنی دکان تھی.یہ پھل بیچنے کا کام کیا کرتے تھے.8 ستمبر کو ساڑھے گیارہ بجے دن کے قریب یہ اپنی دکان پر بیٹھے تھے اور ایک موٹر سائیکل سوار آیا جس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور اس نے پستول نکال کر دو تین فٹ کے فاصلے سے فائر کئے.پانچ گولیاں شہید کے سینے میں لگیں اور ایک گولی چہرے پر لگی جس سے موقع پر شہید ہو گئے.اس وقت دکان پر ملازم بھی موجود تھا اور بہت سارے گاہک بھی موجود تھے.بڑی دکان تھی اور وہ جگہ بھی ایسی ہے کہ جہاں بازار میں کافی رش ہوتا ہے.لیکن ملزم بڑی آسانی سے وہاں سے فائر کرنے کے بعد چلا گیا.شہادت کے وقت آپ کی عمر 51 سال تھی.نہایت مخلص اور ایماندار ، نظام خلافت سے عشق رکھنے والے تھے.مربیان سے بھی غیر معمولی تعلق کا اظہار کرتے تھے.ان کی اہلیہ نے لکھا ہے کہ اگر کبھی خطبہ براہِ راست نہ سن سکتے اور miss ہو جاتا تو آ کے پھر پوچھتے تھے کہ کیا خطبہ آیا تھا اور اس کے پھر خاص خاص پوائنٹ

Page 498

483 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم یاد رکھا کرتے تھے.اپنے کاروباری حلقے میں بھی اور محلے میں بھی بڑے مشہور تھے اور بڑے پسند کئے جاتے تھے.ہر دلعزیز تھے.بڑے صلح بجو تھے.اپنوں غیروں سبھی کا خیال رکھتے تھے اور صابر شاکر انسان تھے.ان کے جنازے پر وہاں غیر از جماعت کا روباری حضرات جو ہیں ان کی بھی کثیر تعداد شامل ہوئی.اسی طرح ان کے جو بہت سارے مستقل گاہک تھے گاہک وہ بھی ان کے جنازے میں شامل ہوئے.خاص صفت ان کی مہمان نوازی کی تھی.بڑے شوق سے مہمان نوازی کیا کرتے تھے.ان کی اہلیہ بھی لجنہ کی صدر رہی ہیں.مرحوم کے بوڑھے والدین زندہ ہیں اور پانچ بھائی اور چار بہنوں کے علاوہ اہلیہ ہے ، اور ایک بیٹا ہے جس کی تنیس سال عمر ہے.عائشہ نصیر اٹھارہ سال کی بیٹی ہیں اور ایک گیارہ سالہ بچی شجیلہ نصیر ہیں.اللہ تعالیٰ ان لواحقین کو ، عزیزوں کو ، پیاروں کو صبر جمیل عطا فرمائے.اور شہید مرحوم کے درجات بلند کرتا چلا جائے.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 40 مورخہ یکم اکتوبر تا 107اکتوبر 2010 صفحه 5 تا9)

Page 499

خطبات مسرور جلد ہشتم 484 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010ء بمطابق 17 تبوک 1389 ہجری شمسی بمقام گالوے (Galway) آئرلینڈ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَابُ الرَّحِيمُ (البقرة: 129-128) اور جب ابرہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی (یہ دعا کرتے ہوئے کہ) اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے، یقینا تو ہی بہت سنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دو فرمانبر دار بندے بنادے، اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبر دار اُمت پیدا کر دے.اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا، اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا، یقینا تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.آئر لینڈ کا پہلا کامیاب تبلیغی دورہ یہ آئر لینڈ کا میرا پہلا سفر ہے اور اس سفر کا مقصد اس ملک میں جماعتِ احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنا ہے.بڑے عرصہ سے آپ لوگ جو یہاں کی جماعت کے رہنے والے ہیں، اس مخمصہ میں پڑے ہوئے تھے کہ مسجد Dublin میں بنائیں یا Galway میں بنائیں؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے کہنے پر جس کی بعض وجوہات بھی تھیں تقریباً تمام احباب نے اس بات کو خوشی سے مان لیا کہ ٹھیک ہے پہلی مسجد Galway میں تعمیر کی جائے.اگر دیکھا جائے تو Galway بھی ایک لحاظ سے دنیا کا کنارہ بنتا ہے.سمندر کے کنارے واقع ہے.Atlantic Ocean ( یا بحیرہ اوقیانوس) یہاں سے شروع ہو جاتا ہے، اس کے بعد سیدھی لائن میں تو یورپ کے اور کوئی جزیرے نہیں ہیں، یہاں سلسلہ ختم ہو جاتا ہے.اور اگر لائن کھینچیں تو سمندر کے بعد کینیڈا، امریکہ وغیرہ کے علاقے پھر شروع ہو جاتے ہیں.تو اس لحاظ سے یہ بھی ایک کنارہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 500

485 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے ماننے والوں کو ایک مسجد بنانے کی انشاء اللہ تعالیٰ توفیق مل رہی ہے تا کہ وحدانیت کا اعلان اس علاقہ سے بھی دنیا کو پہنچے.اور مساجد بنانے کا یہی ہمارا مقصد ہے کہ جہاں ہم اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے اپنے آپ کو خد اتعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بناتے ہوئے، مساجد میں پانچ وقت جمع ہو کر اس کے آگے جھکیں اور اس کی عبادت کریں وہاں توحید کا پیغام بھی اس ذریعہ سے بھی دنیا کو پہنچائیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی صدا بلند کرتے ہوئے یہ پیغام دنیا کو پہنچائیں.اور دنیا کے ہر کونے سے جب یہ صدا بلند ہو کر عرش پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں میں ہمارا بھی شمار ہو.اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے.پہلے انبیاء نے اور آنحضرت صلی علیکم نے اپنے بعد عاشق صادق کے آنے کی جو خبر دی تھی تو اس کا یہی کام اور مقصد تھا کہ وہ اللہ اکبر کا نعرہ دنیا میں لگائے اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا پیغام دنیا کو دے کر انہیں ایک ہاتھ پر جمع کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنا دے.اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کریم کی غلامی میں لا ڈالے.اس کے علاوہ تو اور کوئی پیغام نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے.اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو الہاماً یہ خوشخبری دے کر وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا تو اس سے مراد اسی پیغام کی تبلیغ تھی جو اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری رسول خاتم الانبیاء فخر الرسل حضرت محمد مصطفی صلی ا م لے کر آئے تھے.جس نے شریعت کو کامل کیا تھا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی انتہا سے دنیا کو ، اس دنیا کو جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تلاش میں تھی، اس سے فیضیاب کیا تھا.پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا تو اس سے مراد یہ پیغام ہے جس کے دنیا میں پھیلانے کے لئے آپ کو اس قدر فکر اور تردد تھا کہ آپ علیہ السلام نے اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان ہلکان کی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس دین نے دنیا میں غالب آنا ہے ، وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللی کم کالایا ہوا دین ہے.اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے اور اے مسیح محمدی! تجھے میں نے اس دین کے غلبہ کے لئے ایک ذریعہ بنا کر کھڑا کیا ہے.پس اب یہ میر اوعدہ ہے اور یہی تقدیر ہے کہ اسلام نے ہی دنیا میں آخری فتح دیکھنی ہے.تو پھر تو اپنی کمزوری، اپنے وسائل کی کمی اور راستے کی بے شمار روکوں کی وجہ سے پریشان نہ ہو.اے مسیح محمدی ! میں نے جو کام تیرے سپر د کیا ہے یہ صرف تیرا کام ہی نہیں ہے بلکہ یہ تقدیر الہی ہے ، اور جب یہ تقدیر الہی ہے تو پھر میری تائید و نصرت بھی تیرے ساتھ ہے.پس ان تمام وسائل کی کمیوں، بشری کمزوریوں اور راستے کی بے شمار روکوں کے باوجو د میں تیرے مشن کو جو دراصل میرے اور میرے رسول صلی علی ظلم کے جھنڈے تلے لانے کا مشن ہے، میں اپنی تمام تر قدرتوں کے ساتھ پورا کروں گا.اور جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہم دیکھتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے رہے ہیں.ایم ٹی اے کا ہی ذریعہ لے لیں کس طرح اس ذریعہ سے دنیا میں

Page 501

486 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے.اور جہاں خلیفہ وقت دورہ پر جائے، پھر وہاں سے ہی دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ کی آواز اس ذریعہ سے پہنچ رہی ہے.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا، پہلے بھی میں نجی میں اور بعض اور جگہوں پر اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ ان کناروں سے مسیح محمدی کا پیغام آپ کے خلیفہ کے ذریعے دنیا کے کناروں تک پہنچ رہا ہے.گویاد نیا کے کناروں سے دنیا کے مرکز اور خشکی اور تری اور پھر تمام کناروں تک یہ پیغام پہنچ رہا ہے.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کی کتنی بڑی دلیل ہے اور آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے وعدے پورے ہونے کی دلیل ہے اگر کوئی دیکھنے والی نظر ہو تو دیکھے.آج یہاں سے نشر ہونے والا خطبہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے کیونکہ میرے نزدیک جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی دنیا کا ایک کنارہ ہے.پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے سپرد کیا ہے وہی کام آپ کے ماننے والوں کے سپر د بھی ہے.اور ہمیں ہمیشہ اور ہر وقت اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فکر تھی، بار بار تسلی بھرے الفاظ سے تسلی دلانے کے باوجود، نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کوشش میں کمی کی، نہ ہی آپ نے اپنی دعاؤں میں کمی کی، نہ ہی آپ کی فکر میں کمی ہوئی کہ کہیں ان تمام چیزوں میں کمی کی وجہ سے خدائی وعدے ٹل نہ جائیں.کہیں کوئی کمزوری خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن جائے.اور یہ سب کچھ آپ نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی علی نام سے سیکھا تھا.جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں اور کئی بار پڑھ چکے ہیں اور سن چکے ہیں کہ جنگ بدر میں خدا تعالیٰ کے تمام تر وعدوں کے باوجود آنحضرت صلی علیہ نیم بے چین ہو ہو جاتے تھے.دعاؤں اور رقت کی حالت میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی الم کا جسم اس قدر جھٹکے لیتا تھا کہ آپ کے کندھے پر پڑی چادر گر گر جاتی تھی.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار تسلی دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے آپ کے ساتھ ہیں کیا ہوا اگر ہم مٹھی بھر ہیں اور کمزور ہیں تو کیا ہوا، ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی ہے ، آج بھی کرے گا.آپ صلی یکم سے زیادہ اور کون اس بات کو جان سکتا تھا کہ یقیناً خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے بچے ہیں اور یقینا فتح ہماری ہے لیکن آپ صلی ایم نے حضرت ابو بکر صدیق کی باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری جاری رکھی.اسی میں مگن رہے اور دعاؤں میں شدت پیدا کرتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے آپ یہ دعامانگ رہے تھے کہ کہیں ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ٹل نہ جائیں.پس جہاں اللہ تعالیٰ کے پیارے اس یقین پر قائم ہوتے ہیں اور اس سے پُر ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ضرور بالضرور پورے ہوں گے وہاں ان کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے ، ہماری طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ٹالنے کا باعث بن جائے.پس یہی رہنما ہے اور یہی اصل ہے جس کو حقیقی متبعین پکڑتے ہیں اور پکڑنا چاہئے.وہ نہ ہی اپنی

Page 502

487 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کوششوں میں کمی کرتے ہیں ، نہ ہی اپنی دعاؤں میں کمی کرتے ہیں، نہ ہی اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں پر انحصار کرتے ہیں بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں قائم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش میں رہتے ہیں.اور کبھی یہ خیال دل میں نہیں لاتے کہ جو کچھ انعامات ہمیں مل رہے ہیں، یہ ہماری کسی کوشش کا نتیجہ ہیں.یہی سبق ہمیں ان آیات میں ملتا ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے.ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مثال دے کر ، ان کا واقعہ بیان کر کے خدا تعالیٰ نے ہمیں اسی طرف توجہ دلائی ہے.ان پر غور کریں تو یہی سبق ہے.جب یہ دونوں باپ بیٹا خدا تعالیٰ کے سب سے پہلے گھر کی دیواریں اور بنیادیں نئے سرے سے کھڑی کر رہے تھے تو کمال عاجزی اور انکسار سے یہی دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ ہماری اس قربانی کو قبول فرما جو ہم تیرے حکم کے مطابق کر رہے ہیں.یہ بھی کمال عاجزی ہے کہ ایک کام جس کے بارہ میں تو ان کو خود نہیں پتہ تھا.خانہ کعبہ کی بنیادوں کا علم تو اللہ تعالیٰ کی نشاندہی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوا تھا.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا تھا کہ یہ سب سے قدیم گھر ہے.اور یہ وہ گھر ہے جس نے اب رہتی دنیا تک وحدانیت کا نشان اور symbol بن کر قائم رہنا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس عمارت کو اپنی توحید کا نشان بنانا ہے.لیکن پھر بھی یہ دعا ہے کہ اے اللہ ! ہم جو تیرے حکم سے اس کی تعمیر کر رہے ہیں، تو اس تعمیر کے ساتھ ہماری قربانیوں کو بھی وابستہ کر دے.ہمیں یہ خوف نہیں ہے کہ اس تعمیر کے بعد اگر ہم اپنی قربانیوں کو اس سے وابستہ کر کے قبولیت کی دعا کریں گے تو ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس ویران جگہ کی آبادی بھی کرنی پڑے گی.ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ہماری دعاؤں کو قبول کر کے جن فضلوں کا تو وارث بنائے گا ان کے مقابلے پر یہ قربانی بالکل حقیر قربانی ہے.اور پھر یہ بھی کہ قربانی کا قبول کرنا بھی تیرے فضل پر ہی منحصر ہے.ہم اگر سمجھ بھی رہے ہیں کہ ہم قربانی کر رہے ہیں تو ہمیں کیا پتہ کہ حقیقت کیا ہے ؟ یہ قربانی ہے بھی کہ نہیں.پس تو جو دعاؤں کا سننے والا ہے، تیرے سے ہم عاجزانہ طور پر یہ دعا کرتے ہیں کہ تیر اگھر جو تیرے حکم سے تعمیر ہو رہا ہے اس کی تعمیر میں جو کچھ بھی ہم نے پیش کیا ہے تو محض اور محض اپنے فضل سے قبول فرمالے.اور قبول فرمانے کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہو کہ ہمارا نام بھی اس سے وابستہ ہو جائے.جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع کا حوالہ دے کر دعا کی قبولیت کی بھیک مانگ رہے تھے وہاں اللہ تعالیٰ کی صفت علیم کا حوالہ دے کر یہ بھی دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ ! تو علیم ہے، جانتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے ؟ ہمارے دل کی حالت تیرے سے تو مخفی نہیں ہے.تو یقیناً جانتا ہے کہ ہم خالص ہو کر تیرے سامنے جھکے ہیں اور جھکنا چاہتے ہیں.پس ہمیں قبول فرما اور اس عمارت سے وابستہ انعامات کا ہمیشہ ہمیں وارث بنادے.اور جب تک یہ دنیا قائم ہے اور جب تک تیری توحید کا نام یہاں سے بلند ہونا ہے ، ہمارا نام بھی اس سے منسلک رکھ.

Page 503

488 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم یہ دعا کرتے تھے کہ اس گھر میں آکر دعائیں کرنے والے بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.اور جو جو بھی ان سے وابستہ ہیں وہ بھی دعاؤں میں یادرکھیں.ان باپ بیٹے نے وہ قربانیاں دی تھیں کہ آج تک ہم یادرکھتے ہیں.مسلمان جب ہر نماز میں درود پڑھتے ہیں اور ہر نفل کی آخری رکعت میں جب ہم آنحضرت صلیم پر درود بھیجتے ہیں تو ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی اور آپ کی آل پر بھی اس حوالہ سے درود بھیجتے ہیں.یہ اعزاز حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو ملا، آپ کی وفا اور کامل طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لئے تیار ہونے کی وجہ سے ملا.اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ وَ إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وفی (النجم : 38) اور ابراہیم جس نے وفا کی اور عہد پورا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ یوں فرماتے ہیں کہ : ”جب تک انسان صدق وصفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہو گاتب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے.ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی کہ وَ ابْراهِيمَ الَّذِي وَفَّى (النجم : 38) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الہی سے بھرنا، خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو.کوئی فرق نہ ہو.یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں“.(البدر جلد 2 نمبر 43 مورخہ 16 نومبر 1903 صفحہ 334) پھر آپ فرماتے ہیں: نامر د، بزدل، بے وفاجو خدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ دغاد ینے والا ہے وہ کس کام کا ہے.اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں ہے.ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملاوہ کس بنا پر ملا؟ قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے وَ إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى (النجم : 38) (کہ) ابراہیم وہ ہے جس نے ہمارے ساتھ وفاداری کی.آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کافروں کو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھا کروں کی پوجا کرتا ہوں“.(الحکم جلد 8 نمبر 4 مورخہ 31 جنوری 1904 صفحہ 1،2) یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ کسی اور کی عبادت سے انکار کر دیا.یہ کامل وفا تھی.پس ہم عموماً اپنی مساجد کی بنیادوں اور افتتاحوں کی تقریبوں میں جو ان آیات کی تلاوت کرتے ہیں تو یہ روح ہے جو ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہئے ہم یہ تعمیر اور اس تعمیر کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی اگر کر بھی رہے ہیں تو ہمیں نہیں پتہ کہ وہ دکھاوا ہے یا حقیقی قربانی ہے.یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.اس لئے ہمیں ہمیشہ ان قربانی کرنے والوں میں شامل کر جو حقیقی قربانی کرنے والے ہیں.مساجد کی تعمیر، قربیانیاں اور ہماری ذمہ داریاں آپ یہ مسجد بنائیں گے اور ظاہر ہے ہماری مساجد افراد جماعت کی مالی قربانیوں کے ذریعہ ہی تعمیر ہوتی ہیں

Page 504

خطبات مسرور جلد ہشتم 489 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 تو ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور اس دعا کے ساتھ یہ قربانیاں دینی ہوں گی کہ اے خدا! ہماری اس قربانی کو اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ بنادے.کبھی ہمارے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ یہ کوئی بہت بڑی قربانی ہے جو ہم نے دی ہے یا ہم دے رہے ہیں.یہاں تو آپ میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اچھا کمانے والے ہیں.پاکستان میں اور افریقہ وغیرہ کے ممالک میں اور دوسرے غریب ممالک میں تو احمدی اللہ تعالیٰ کے گھروں کی تعمیر کے لئے اپنے پیٹ کاٹ کر قربانیاں کر کے دے رہے ہیں اور دیتے ہیں.لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کی پھر بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اور توفیق دے تو اور دیں.افریقہ میں ایسے بہت سے افریقن احمدیوں کو میں جانتا ہوں جن کے حالات پہلے تو اچھے نہیں تھے ، لیکن اس کے باوجود وہ قربانیاں دیتے رہے.تو پھر خدا تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے دن پھیرے.آمدنیوں کے ذریعے بڑھ گئے.کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنی قربانیوں کے معیار اور بڑھا دیئے.زائد آمد سے اپنے آرام و سکون کا خیال نہیں رکھا بلکہ مساجد کی تعمیر کے لئے بے انتہا دیا.ایسے بھی ہیں جنہوں نے اکیلے ہی ایک ایک مسجد خود تعمیر کی اور بڑی بڑی اچھی خوبصورت مساجد تعمیر کی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے عجیب عجیب قربانیاں کرنے والے دل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں.اور انہیں پھر کبھی یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم نے کوئی قربانی کی ہے.میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ اکثریت نے خوشدلی سے اس فیصلہ کو قبول کر لیا لیکن شاید چند ایک ایسے بھی ہوں جو Dublin میں مسجد کی تعمیر پہلے چاہتے ہوں.ایک دو نے تو مجھے خط بھی لکھے تھے جماعت کی تعد اد وہاں زیادہ ہے اس لئے ان کی خواہش بھی جائز ہے.لیکن بعض اور وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے یہاں تعمیر کا پہلے فیصلہ کیا گیا.اس لئے اب وہ لوگ بھی جن کی مرضی کے خلاف یہ تعمیر ہورہی ہے ان کو اس کی تعمیر میں کھلے دل سے حصہ لینا چاہئے اور یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ ہم Dublin میں رہتے ہیں اس لئے وہاں کی مسجد کی پہلے تعمیر ہو یا جب بھی وہاں مسجد تعمیر ہو گی تو ہم اس میں حصہ لیں گے.یہ ایک مرکزی پراجیکٹ ہے، منصوبہ ہے، اس لئے یہاں بھی سب کو حصہ لینا چاہئے اور جب Dublin میں انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بنے گی تو وہاں بھی سب حصہ لیں گے.یہ تو ایک راستہ ہے جو کھولا جارہا ہے.یہ مسجد بننے کے بعد مساجد کی تعمیر بند تو نہیں ہو جائے گی.یہی چیز ہے جو حقیقی وفا کی نشاندہی کرتی ہے.وفاد کھانے کا یہ مطلب بھی ہے کہ عہد کو پورا کرنا.پس ہر احمدی نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں اپنی جان مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.تو وفا اور عہد کو پورا کرنے کا معیار تبھی قائم ہو گا جب بے نفس ہو کر حتی الوسع اس مسجد کی تعمیر کے لئے ہر احمدی حصہ لے گا.آج جو مطالبہ آپ سے ہو رہا ہے وہ یہ ہو رہا ہے.مختلف وقتوں میں مختلف مطالبے ہوتے ہیں.پس اس بات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب وفاؤں کے معیار قائم کرنے اور عہدوں کو پورا کرنے سے ملتا ہے.اور جو عمارت بن ہی خدا کے گھر کے طور پر خد ا والوں کی عبادت کے لئے رہی

Page 505

490 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہو اس سے زیادہ اور کون سی چیز اس بات کی حق دار ہے کہ اس کی خاطر اپنے مال میں سے کچھ قربان کیا جائے.اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے تو اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدوں کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے پیش کر دیا.اور خدا تعالیٰ نے ان کی اس قربانی کو قبول فرما کر ان کی نسل میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا سب سے پیارا نبی پیدا فرما یا وہاں ان دونوں کے نام بھی تا قیامت اپنے اس پیارے کے ساتھ جوڑ دیئے.پس یہ ایسی قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی مقبول ہوئی.اور آج ہمیں بھی حکم ہے کہ تم اس قربانی کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کرو.اور ان کا رخ بھی اللہ تعالیٰ کے اس قدیم گھر کی طرف رکھو تا کہ جہاں تمہاری توجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف رہے وہاں ان فرستادوں کی قربانیاں بھی یاد رہیں.ان کی وفاؤں کے نمونے سامنے رکھ کر ہمیں بھی اپنی وفاؤں کے پر کھنے کی طرف توجہ رہے.ہمیشہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور سنی جاتی رہیں.پس یہ روح ہے جو مسجد میں تعمیر کرنے والوں کو ہر وقت قائم رکھنی چاہئے.اور اس روح کو قائم رکھنے کے لئے اگلی آیت میں مزید کھول کر بتایا ہے.( یہ دو آیات تھیں) کہ اس وفا کو قائم رکھنے اور قربانیوں کی روح کو دوام بخشنے کے لئے بعض اعمال بھی ہیں جو ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنے چاہئیں.بعض دعائیں بھی ہیں جو ہمیں کرتے رہنا چاہئیں.یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے پیارے اسی طرح دعا کرتے تھے کہ ربَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ یعنی ہمیں بھی اپنے دو فرمانبر دار بندے بنادے.پس عبادت گاہ بنانے والوں کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کامل فرمانبر دار ہوں.یہاں پھر وفا کی طرف مضمون پھیر ا گیا ہے کہ کامل وفا کے ساتھ ہی کامل فرمانبرداری ہوتی ہے.یا کامل فرمانبرداری کا اظہار وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کہ وفاؤں کے معیار قائم کرنے والے ہوں.جب انسان کامل فرمانبر دار ہو تو تبھی یہ معیار بھی قائم ہوتے ہیں.ایک بندہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل فرمانبرداری کا عہد کرے یا دعامانگے تو اس کا مطلب ہے کہ اس بات کی حتی المقدور کوشش کرے گا کہ اطاعت کے اعلیٰ ترین نمونے دکھانے کی طرف توجہ رہے.اور اطاعت کا اعلیٰ ترین نمونہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ عمل کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنا ہے.اور ان حکموں میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ہے وہاں بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.جہاں عبادت کے معیار بلند کرنے کی کوشش ہے وہاں نظام جماعت کی کامل اطاعت کے لئے پوری کوشش کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی پوری کوشش کی ضرورت ہے.اور جب یہ نمونے انسان خود قائم کرتا ہے، اور اس کے لئے دعا بھی کرتا ہے تو پھر یہ خیال آتا ہے کہ میری نیکیاں کہیں میرے تک ہی نہ ختم ہو جائیں، اور میرے بعد یہ نیکیاں آگے نہ چلیں.اس لئے خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ یہ دعا بھی سکھا دی کہ ہماری اولاد میں سے بھی ایک پاک اور فرمانبر دار جماعت پیدا کر جو تیری عبادت کی طرف توجہ دینے والے ہوں.نظام جماعت سے بھی جڑے رہنے والے ہوں، اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں.

Page 506

خطبات مسرور جلد هشتم 491 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 اولاد اور آئندہ نسلوں کی تربیت کی اہمیت بہت سے لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کی بیعت کی، (سرحد کے علاقے میں تو ابھی بھی بہت ہیں) لیکن اپنی بیویوں کی اور اپنی اولادوں کی اس نہج پر تربیت نہیں کر سکے اور ان کو جماعت سے جوڑ نہیں سکے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اگلی نسلیں علیحدہ ہو گئیں، ان کا پتہ ہی نہیں لگا.تو جہاں یہ دعا انسان کرتا ہے کہ میں بھی کامل فرمانبردار رہوں ، میں بھی خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والا رہوں اور جس کا ہاتھ پکڑا ہے اس کا ہاتھ پکڑے رکھوں، وہاں اپنی نسل کے لئے بھی دعا کرتا ہے اور اس کے لئے کوشش بھی کرتا ہے، تو تبھی کامیابیاں ملتی ہیں.پس یہ ایک ایسا سلسلہ دعا ہے جس کو ہمیشہ جاری رہنا چاہئے ، اور اس دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے مقصد کے حصول کی کوشش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے ، اور جو اگر حاصل ہو جائے تو انسان کی دنیاو آخرت سنور جاتی ہے.حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی دعا کو تو خدا تعالیٰ نے ایسا قبول فرمایا کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ وہ جگہ تمام دنیا کی مساجد کا محور بن گئی اور اس کو اللہ تعالیٰ نے بنانا تھا.اور ان دونوں کی ذریت سے وہ عظیم رسول صلی للی کم پید اہوئے جنہوں نے فرمانبرداری اور اطاعت اور عبادت کے بھی نئے اور عظیم معیار قائم کر دیئے.اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے بڑھ کر آنحضرت صلی علیکم کی ذات میں دعاؤں اور عبادتوں کے معیار قائم کروا دیئے اور پھر ہمیں حکم دیا کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب: 22)- يقيناً تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں اُسوہ حسنہ ہے.اور اُس اُسوہ حسنہ میں ہم نے کیا دیکھا؟ آج مسجد کے حوالے سے میں بات کرتا ہوں تو عبادتوں کے جو نئے سے نئے معیار قائم ہو رہے ہیں.یہ نہ صرف خود قائم کئے بلکہ صحابہ میں وہ روح پھونک دی کہ جنہوں نے عبادتوں کے نئے سے نئے معیار قائم کئے.ایک جگہ جمع ہو کر نماز پڑھنے کے لئے مدینہ میں پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد کی بنیاد رکھی تاکہ اُمت کے افراد خدائے واحد کی عبادت کرنے کی طرف متوجہ رہیں.ایک جگہ جمع ہو کر سب عبادت کر سکیں.پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ مسجد نبوی دن رات خد اتعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی آماجگاہ بن گئی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے.پس اللہ کے گھر کی تعمیر کے ساتھ اپنی نسلوں کو خد اتعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش اور دعا بھی ہونی چاہئے، تبھی مسجد کی تعمیر کے مقصد کو پورا کیا جا سکتا ہے.ورنہ اینٹ، سیمنٹ، لکڑی کے ڈھانچے جو ہیں یہ کھڑے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم کچھ مالی قربانی کر کے مسجد کی تعمیر کر دیں گے تو ہماری ذمہ داری ختم ہو جائے گی.مسجد کی تعمیر کی جو بنیادی اینٹ ہے اس سے لے کر چھت تک پہنچنے والی ہر اینٹ جب رکھی جارہی ہو تو اسے پہنچانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ اس کی آبادی کے لئے بھی دعا کرتے رہیں تا کہ ہمارے دل بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خالص ہو کر مائل رہیں اور ہماری اولاد کے دل بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف مائل رہیں، ان کو توجہ پیدا

Page 507

492 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ہوتی رہے.ایسی مسجدیں بھی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مثال دی کہ ان کی بنیاد ہی فساد پر تھی.لیکن ہم نے تو وہ مسجد اٹھانی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر اٹھائی گئی تھی.پس مسجد کی بنیاد کی اصل خوشی یہ ہے کہ یہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنادے.اور جب اس کی تعمیر مکمل ہو تو عبادت کے لئے بے چین دلوں سے یہ بھر جائے.پھر اس آیت میں یہ بھی دعا ہے کہ ہمیں اپنی ایسی عبادتوں کے طریق سکھا، ہمیں ایسی قربانیوں کے طریق سکھا جو تیرے حضور مقبول ہونے والی ہیں.ہماری عبادتوں کے معیار بھی پہلے سے بڑھتے چلے جائیں.اور ہماری قربانیوں کے معیار بھی پہلے سے بڑھتے چلے جائیں.پس یہ مسجد ، یہاں رہنے والوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالنے جارہی ہے ، اگر اس اصل کو پکڑلیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے فضل سے مقبول ہو جائیں گے.آخر میں پھر اس آیت میں یہ دعا کی گئی ہے کہ تُب عَلَینا.ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا.یعنی چاہے جتنی بھی ہم کوشش کریں، اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دیں، حقوق العباد کی طرف توجہ دیں، اپنی اولاد کی اصلاح کی طرف توجہ دیں، تیرے پیغام کو پہنچانے کی طرف توجہ دیں، تو پھر بھی ہمارے کاموں میں خامیاں رہ جائیں گی.یہ بشری تقاضے ہیں.کمیاں بھی رہ جائیں گی.ایسا نہ ہو کہ ہماری ستیوں کی وجہ سے یہ کام جو ہمارے سپر د ہیں یہ آگے ٹل جائیں.پس ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ ! اپنے فضل سے ہماری طرف توجہ رکھنا اور ہمیں معاف کر دیا کرنا.اگر یہ ستیاں اور خامیاں رہ جائیں تو ہم سے در گزر کرنا.تو بہت زیادہ تو بہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس تو بہ اس کی قبول ہوتی ہے جو جان بوجھ کر غلطیوں میں نہ پڑے اور بار بار رحم بھی اس پر ہوتا ہے جو بار بار رحم مانگتا ہے.پس دعاؤں کا اور نیک اعمال بجالانے کا، اور برائیوں سے بچتے رہنے کا.اور اس کے لئے کوشش کرتے چلے جانے کا یہ تسلسل ہے.اگر یہ ایک تسلسل قائم رہے تو خد اتعالیٰ بھی فضل اور رحم فرما دیتا ہے.اور مسجد کی تعمیر اور خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ اس کو جوڑ کر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ہمیں اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.تبلیغ اور اس میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت آج اس مسجد کی بنیاد رکھنے کی تقریب کے ساتھ پریس اور میڈیا کے لوگوں کو بھی توجہ پیدا ہو گی.بہت سے احمدی جن کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا یا جماعت کا تعارف اس طرح نہیں تھا، شاید اس تقریب کے بعد لوگوں کی توجہ پیدا ہو.بلکہ مختلف ممالک کے تجربے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی توجہ پیدا ہوتی ہے.جوں جوں عمارت بلند ہوتی جائے گی یہ عمارت مزید توجہ کھینچے گی اور جب توجہ کھینچے گی تو ہر وہ احمدی جو یہاں رہتا ہے اس کی اہمیت بھی بڑھے گی.تو اس کو یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ میری اہمیت بڑھ رہی ہے.آپ لوگ یہاں مقامی لوگوں کی نظر میں آئیں گے.تو اس سے مجھے امید ہے کہ جہاں تبلیغ کے راستے کھلیں گے اور تبلیغ میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہو

Page 508

خطبات مسرور جلد ہشتم 493 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 ستمبر 2010 گی وہاں آپ کو مختلف طریقوں سے لوگوں تک پیغام حق پہنچانے کی بھی پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی ہو گی.جیسا کہ میں اکثر بیان کیا کر تاہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر اسلام کا تعارف کروانا ہے اور پیغام حق پہنچانا ہے تو جس علاقے میں یہ مقصد حاصل کرنا ہے وہاں مسجد بنا دو.تو مجھے امید ہے کہ مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ بھی مجبور کئے جائیں گے کہ تبلیغ میں وسعت پیدا کریں.اگر اپنے عہدوں کو پورا کرنا ہے ، اگر اپنی وفا کا ثبوت دینا ہے.تو نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو وسعت پیدا کرنی پڑے گی.لیکن اس کے ساتھ ہی ہر احمدی کو جو یہاں رہتا ہے، مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، اپنے نمونے بھی قائم کرنے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ اور استغفار بھی کرتے رہنے کی ضرورت ہوگی تاکہ اللہ تعالیٰ طاقت بخشے کہ نیک اعمال بجالانے کی توفیق ملتی رہے.دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام تو خانہ کعبہ کی بنیادیں کھڑی کرتے وقت صرف دو افراد تھے ، لیکن جب تعمیر شروع کی تو اس یقین پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ جو اتنا اہم کام کروارہا ہے تو آئندہ ہماری نسل میں بھی وسعت پیدا کرے گا.اس لئے ان کے لئے بھی ساتھ ہی دعا کی کہ جو بھی ذریت آنے والی ہے وہ بھی اس اہم مقصد کو پیش نظر رکھے.لیکن ہم جو آنحضرت صلی للی کم کی امت ہیں.اور پھر آپ صلی الی نام کے عاشق صادق کے ساتھ وابستہ ہیں ہم تو اس بڑھتی ہوئی ذریت اور اُمت کو دیکھ بھی رہے ہیں.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ابراہیم کے الہامی نام سے پکارا ہے.پس اس ابراہیم کی دعائیں بھی قبول ہوئیں اور ہو رہی ہیں.ہم نے مشاہدہ کی ہیں اور کرتے ہیں، کر رہے ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک عربی الہام میں اس طرح فرمایا تھا کہ ” رِيحُكَ وَلَا أَجِيْحُكَ وَأَخْرِجُ مِنْكَ قَوْمًا کہ میں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا“.آپ فرماتے ہیں کہ ”اس کے ساتھ ہی دل میں ایک تفہیم ہوئی جس کا یہ مطلب تھا جیسا کہ میں نے ابراہیم کو قوم بنایا “.( تذکرہ صفحہ 530 ایڈیشن چہارم) پس آنحضرت صلی علیہ نام کے غلام صادق کے ذریعے جو قوم بن رہی ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت کے ذریعہ بن رہی ہے.اور اس قوم کی عبادت کے سامان کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مساجد بھی بنانے کی توفیق عطا فرما تا چلا جارہا ہے.لیکن اس تعمیر کی برکات سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں تو بہ واستغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط تعلق میں ہر دم بڑھتے چلے جانے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی اس کے پھل ہمیشہ کھاتی چلی جائیں.ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائیں.ہماری عبادتوں کے معیار بلند ہوتے رہیں اور ہم اپنی نسلوں میں بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے ساتھ مضبوط تعلق کی روح قائم کرتے چلے جانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے." الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 41 مورخہ 8 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2010 صفحہ 5تا8)

Page 509

خطبات مسرور جلد ہشتم 494 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010ء بمطابق 24 تبوک 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ستمبر، اکتوبر کے مہینے اکثر ہماری ذیلی تنظیموں ، یعنی اکثر ممالک کی ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات کے مہینے ہوتے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے اور اسی طرح اگلے جمعہ انصار اور لجنہ کے اجتماعات بھی شروع ہونے ہیں.ربوہ میں ہونے والے ذیلی تنظیموں کے اجتماعات گزشتہ تقریباً 27،28 سال سے UK کے اجتماعات میں خلیفہ وقت کی شمولیت اجتماعات کا حصہ بن چکی ہے.ربوہ سے ، پاکستان سے خلیفہ وقت کی ہجرت سے پہلے تمام ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں خلیفہ وقت کی شمولیت ہوتی تھی اور پاکستان سے تمام متعلقہ ذیلی تنظیموں کے نمائندے اجتماعات میں شرکت کیا کرتے تھے جس سے ربوہ کی رونقیں بھی دوبالا ہو جایا کرتی تھیں.خاص طور پر خدام اور اطفال کو اس زمانہ میں ایک خاص شوق اور لگن ہوتی تھی اور اجتماع کا انتظار رہتا تھا.خیموں میں رہائش ہوتی تھی.ہر مجلس اپنی اپنی چادریں لا کر عارضی خیمے بنایا کرتی تھی.باقاعدہ اس طرح کے ٹینٹ، خیمے نہیں تھے جیسے یہاں مل جایا کرتے ہیں بلکہ بستروں کی چادروں سے ہی خیمے بنائے جاتے تھے اور ان خیموں میں رہائش ہوتی تھی.ہر مجلس یا خیمے میں رہنے والا ہر گروپ جو ہے وہ اپنی اپنی چادر میں لاتا تھا اور یوں رنگ برنگے اور پھول دار اور قسما قسم کے خیمے وہاں رہائش گاہ میں بنے ہوتے تھے.اکتوبر کے مہینے میں پاکستان میں عموماً موسم اچھارہتا ہے.بارشیں نہیں ہو تیں.اس لئے گزارہ ہو جاتا تھا.اگر یہاں کا موسم ہو تو شاید گزارہ نہ ہو سکے بلکہ شاید کا کیا سوال ہے گزارہ ہو ہی نہیں سکتا.بہر حال UK کے خدام الاحمدیہ کے اجتماع نے مجھے بچپن اور جوانی کے اجتماعات کی یادیں دلا دی تھیں اور ساتھ ہی ان مظلوموں کی یاد بھی جو ظالموں کے ظالمانہ قوانین کا شکار ہو کر اپنے اس حق سے بھی محروم کر دیئے گئے ہیں کہ اپنی اصلاح، تربیت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر کے لئے جمع ہو کر اس مجلس اور اجتماع کا انعقاد کر سکیں.بہر حال میں بھی اور آپ بھی اس یقین پر

Page 510

خطبات مسرور جلد ہشتم 495 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 قائم ہیں کہ یہ حالات ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن یہ ظلم بھی اور ظالم بھی صفحہ ہستی سے مٹادیئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں صبر ، استقامت اور دعا سے کام لیتے چلے جانے کی توفیق عطا فرما تار ہے.اجتماع کے حوالہ سے یہ باتیں جو ہیں مجھے ان کا ذکر اصل میں تو اجتماع کے موقع پر کرنا چاہئے تھا.اور ہر سال میں اجتماع کی مناسبت سے متعلقہ ذیلی تنظیموں کو ان کے حوالہ سے مخاطب بھی ہو تا ہوں.لیکن مجھے اس دفعہ خیال آیا کہ جمعہ پر اس حوالے سے بھی ذکر کر دوں.کیونکہ ایک تو پاکستان کے مرکزی اجتماع میں افتتاحی اور اختتامی خطابات خلیفہ وقت کے ہوتے تھے.دوسرے اجتماع کے موقع پر جو میری اختتامی تقریر ہوتی ہے، وہ عموماً براہِ راست ایم.ٹی.اے سے نشر نہیں ہوتی بلکہ کچھ دنوں کے بعد ہفتہ دس دن بعد نشر ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کو ایک بڑی تعداد نہ سن سکتی ہو.تیسرے جہاں جہاں بھی اجتماعات ہو رہے ہیں وہ اس خطبہ کو اپنے لئے بھی پیغام سمجھتے ہوئے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور پاکستان کے مظلوم احمدیوں کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.اور چوتھے جہاں جہاں نئی جماعتیں یا ذیلی تنظیمیں اور مجالس قائم ہو رہی ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے براہِ راست باتیں سن کر ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں.بہر حال اب میں اس حوالہ سے خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور ہر فرد جماعت کو عموماً چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.نوجوانوں کے حوالہ سے قرآن میں ذکر قرآن کریم میں دین کی خدمت، اصلاح اور توحید کے قیام کے لئے نوجوانوں کے حوالہ سے سورۃ کہف میں دو جگہ ذکر آیا ہے.یہ وہ نوجوان تھے جو مسیح موسوی کے ماننے والے تھے جو تقریباً تین سو سال تک سختیاں اور ظلم سہتے رہے.اس قدر سختیاں ان پر ہوئیں کہ لمبا عرصہ ان کو غاروں میں چھپ کر رہنا پڑا.غاروں میں بھی حکومتِ وقت کے کارندے ان کا پیچھا کر کے قتل و غارت کرتے رہے.لیکن دین اور توحید کی خاطر وہ لوگ یہ ظلم برداشت کرتے رہے.جب حالات کچھ بہتر ہوتے تھے تو باہر بھی آجاتے تھے.لیکن ظلم کی جو حالت تھی یا حالات تھے ، ان سے انہیں وقتا فوقتا گزرنا پڑتا تھا.بہر حال توحید کے قیام اور دین کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی کوشش اس قابل تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآن کریم میں بھی محفوظ فرمالیا.اس حوالہ سے جن دو آیتوں کا میں نے ذکر کیا ہے وہ میں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے : اِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَ هَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ( الكهف : 11) جب چند نوجوانوں نے ایک غار میں پناہ لی تو انہوں نے کہا ”اے ہمارے رب ! ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر اور ہمارے معاملے میں ہمیں ہدایت عطا کر “.پھر دوسری جگہ دو آیتیں چھوڑ کے ذکر ہے کہ : نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةُ آمَنُوا

Page 511

خطبات مسرور جلد ہشتم 496 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 بِرَبِّهِمْ وَ زِدُنْهُمْ هُدًى ( الكهف : 14) ہم تیرے سامنے ان کی خبر سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں.یقیناً وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں ہدایت میں ترقی دی.اور پھر اس کی وضاحت میں انگلی آیت بھی ہے وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوا مِنْ دُونِةِ الهَا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا (الكيف : 15) اور ہم نے ان کے دلوں کو تقویت بخشی جب وہ کھڑے ہوئے.پھر انہوں نے کہا ہمارا رب تو آسمانوں اور زمین کا رب ہے.ہم ہر گز اس کے سوا کسی کو معبود نہیں پکاریں گے.اگر ایسا ہو تو ہم یقینا اعتدال سے ہٹی ہوئی بات کہنے والے ہوں گے.پس توحید کے قیام کے لئے انہوں نے کوشش کی.ظلم سہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے وحدانیت پر قائم رکھے اور ہدایت کے راستے پر ہم چلتے رہیں.اس سے پہلے قرآنِ کریم میں جو آیات ہیں ان سے پہلی آیت میں یہ ذکر ہے کہ آج کل کے عیسائی وحدانیت کو چھوڑ کر ایک شخص کو خدا کا بیٹا بنائے بیٹھے ہیں جو سراسر جھوٹے نظریات اور جھوٹی تعلیم ہے اور جس کا عیسائیت کی اصل تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں.یہ ایسی خطرناک بات ہے جو یقیناً انہیں سزا کا مورد بنائے گی.حقیقی تعلیم جس کے لئے عیسائیوں نے قربانی دی، تثلیث کی تعلیم نہیں تھی بلکہ وحدانیت کی تعلیم تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے مختلف ادوار اور حالات کا نقشہ کھینچنے کے بعد بیان فرمایا کہ ان کے اس ایمان لانے اور ایک خدا پر یقین کرنے کی وجہ سے ہم نے انہیں ہدایت پر قائم رکھا اور ان کے دلوں کو مضبوط کیا.اور وہ ایک خدا کی پرستش کرنے کا اعلان کرتے رہے اور اس کی عبادت کرتے رہے.انہوں نے اس بات سے سخت بیزاری کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہے.لیکن پھر زمانہ کے اثر کے تحت، حکومتوں کے اثر کے تحت عیسائیت نے آہستہ آہستہ تثلیث کی صورت اختیار کر لی، اس میں بگاڑ پیدا ہو گیا.غلط لوگوں کے ہاتھ میں جب عیسائیت کی باگ ڈور چلی گئی تو پھر تثلیث کا نظریہ پیدا ہوا اور دنیا داری نے ان کے دین پر قبضہ کر لیا.ان شرک کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے آگ میں ڈالے جانے کا اندار فرمایا ہے.عیسائیت کی حفاظت کرنے والے نوجوان تھے بہر حال ان آیات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عیسائیت جب تک اپنی اصلی حالت پر قائم رہی اس کی حفاظت کرنے والے نوجوان تھے اور انہوں نے ایمان کی حفاظت کی.اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ایمان کی وجہ سے ، ان کے ظالم حکمرانوں کے سامنے اپنے دین کی حفاظت کی وجہ سے ، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو معبودِ حقیقی ماننے کی وجہ سے ان کو ہدایت یافتہ رکھا.انہوں نے کسی دنیاوی انعام کی پر واہ نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ چند نوجوان جو تھے ان کے ساتھ ہم نے ان کے ایمان کی وجہ سے کیا سلوک کیا؟ فرمایا

Page 512

497 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم وَ زِد نهُم هُدًی ہم نے انہیں ہدایت میں ترقی دی.وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ اور ہم نے ان کے دلوں کو تقویت بخشی اور اس ہدایت میں ترقی اور دلوں کی تقویت کی وجہ سے انہوں نے اپنے وقت کے تمام جابر سلطانوں کے سامنے جرآت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ کن نَدْعُوا مِن دُونِةِ الهَا کہ ہم ہرگز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود نہیں پکاریں گے.ہم اپنی جان تو دے سکتے ہیں، ہم اپنے حقوق کو تو قربان کر سکتے ہیں، ہم اپنے پیاروں اور جان و مال کی قربانی تو دے سکتے ہیں لیکن توحید سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے.پس ہمارے سامنے ان ایمان لانے والوں کا یہ نمونہ ہے، جن کے سامنے اُسوہ کا وہ معیار نہیں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے سامنے اپنے پیارے نبی صلی للی کم اور آپ کے صحابہ کے ذریعہ رکھا ہے.پس ہمارے سامنے اس اُسوہ کا اعلیٰ ترین معیار یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم توحید کے قیام اور استحکام اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے عہد کو ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے پورا کرتے چلے جائیں.کوئی ابتلا، کوئی دنیاوی لالچ ہمیں اپنے عہد کو نبھانے اور پورا کرنے میں روک نہ بن سکے.پاکستان کے احمدی اصحاب کہف سی زندگی گزار رہے ہیں جب الہی جماعتوں کی ابتلا سے گزرنے کی مثالیں سامنے آتی ہیں تو توجہ فوراً پاکستان کے احمدیوں کی طرف خاص طور پر پھر جاتی ہے.اور پھر چند دوسرے ممالک بھی ہیں جہاں احمدیوں پر سختیاں روار کھی جارہی ہیں.آج پاکستان کے احمدی ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرنے کے ساتھ ساتھ جان اور مال کی قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں.اسی طرح عرب ممالک میں احمدی ہیں جن کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کل روزانہ کی ڈاک میں بیعتوں کے خطوط آتے ہیں.ان عرب ملکوں میں بھی احمدی ہونے کی وجہ سے مشکلات ہیں.اور ان ملکوں کے احمدی بھی اصحابِ کہف کی سی زندگی گزار رہے ہیں.پاکستان کی تو پرانی جماعت ہے اور بلا خوف اپنے ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں.کسی احمدی کی احمدیت چھپی ہوئی نہیں ہے، پتہ لگ ہی جاتا ہے.لیکن نئے شامل ہونے والوں کے لئے یہ اظہار بہت مشکل ہو جاتا ہے.اکثریت ان شامل ہونے والوں کی پُر جوش بھی ہے اور ایمان میں ترقی کرنے والوں کی بھی ہے لیکن بعض کمزور بھی ہوتے ہیں.وسیع طور پر ایک جگہ جمع ہونے یا با جماعت نماز کی ادائیگی یا جمعہ پڑھنے سے روکا جاتا ہے.اور پھر جماعت کے استحکام کے لئے بعض دفعہ ضروری بھی ہوتا ہے اور بعض انتظامی اقدامات احمدیوں کی حفاظت کے لئے کرنے پڑتے ہیں.یہ بعض دفعہ عرب ملکوں سے بڑے بے چین ہو کر مجھے لکھتے ہیں کہ کب تک ہم اسی طرح گزارہ کریں گے.تو میں ان کو اصحاب کہف کی مثال دے کر ہمیشہ صبر کی تلقین کیا کرتا ہوں.یہ دن انشاء اللہ تعالیٰ بدلنے ہیں اور انبیاء کی تاریخ بتاتی ہے کہ بدلتے ہیں اور بدلیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.پس ان مسلمان ملکوں کے احمدی جو بعض اوقات اس وجہ سے پریشان ہو جاتے ہیں کہ کب تک ہم چھپ کر اپنے پروگرام کریں گے ، حتی کے جیسے میں نے کہا کہ نماز اور جمعہ بھی چھپ کر پڑھیں گے تو ان سے میں کہتا ہوں کہ آپ کو تو ابھی اس مزے کا احساس نہیں ہے جو براہِ راست خلافت کے

Page 513

498 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم زیر سایہ اجتماعوں اور جلسوں کا پاکستانی احمدیوں کو ملا ہے.لیکن اس کے باوجود گزشتہ اٹھائیس سالوں سے مسیح محمدی کے یہ غلام اپنے ایمانوں اور اپنے عہدوں کی حفاظت ہر طرح قربانی کر کے کرتے چلے جارہے ہیں.اتنے عرصے کی بندش اور مستقل اذیت کوئی معمولی بات نہیں ہے.لیکن صبر و استقامت کے یہ پیکر مرد، عورت، بوڑھے، بچے یہ قربانیاں دیتے چلے جارہے ہیں.لیکن یہ ہمیشہ کی قربانیاں نہیں ہیں.یہ تین سو سال سے زائد عرصہ تک رہنے والی قربانیاں نہیں ہیں.یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ ہمیں کامیابیوں اور فتوحات کے قریب تر لے جاتی چلی جارہی ہیں.جماعت احمدیہ کے سپر د توحید کا قیام جماعت احمدیہ کے قیام کے مقصد کے حصول کی کوشش چند ملکوں میں جماعت پر سختیوں سے بند نہیں ہو گئی.جماعت احمدیہ کے سپرد آنحضرت صلی علیہم کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانا اور توحید کے قیام کا کام ہے.ان مخالفتوں، دشمنیوں اور پابندیوں سے یہ کام ختم نہیں ہو گیا.جماعت احمد یہ ہر دن ایک نئی شان سے اپنی ترقی کو طلوع ہو تاد دیکھتی ہے.آئرلینڈ میں مسجد کی تعمیر گزشتہ دنوں آئر لینڈ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا.یہ ملک بھی یورپ میں عیسائیت کا اس لحاظ سے گڑھ ہے کہ یہاں ابھی تک لوگوں کی عیسائیت کے ساتھ بہت زیادہ وابستگی ہے.اکثریت کیتھولک ہیں اور چرچوں وغیرہ میں آنا اور چرچ سے تعلق بہت زیادہ ہے.جبکہ یورپ کے اکثر ممالک کے عیسائی مذہب سے لا تعلق ہو گئے ہیں.بہر حال یہ ملک جو زمین کا کنارہ بھی ہے جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں تفصیل سے بیان بھی کیا تھا، یہاں سنگ بنیاد اورreceptionجو ہوٹل میں ہوئی جس میں ایک سو کے قریب پڑھے لکھے لوگ تھے.جن میں پارلیمنٹ کے ممبر بھی تھے، سرکاری افسران بھی تھے، پر وفیسر اور ٹیچر بھی تھے.مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی تھے.وہاں Galway شہر کے میئر بھی تھے.وہاں کے بڑے پادری بھی تھے.سب کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی جس کو نیشنل ٹی وی اور اخباروں نے بڑی اچھی کوریج دی.جس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا یہ پیغام لاکھوں لوگوں تک پہنچا.پس اگر ایک طرف جماعت احمدیہ کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف تبلیغ کے راستے بھی خدا تعالیٰ کھول رہا ہے.آئر لینڈ میں تعداد کے لحاظ سے گو چھوٹی سی جماعت ہے.اکثریت جوانوں کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ایکٹو (Active) جماعت ہے.ایکٹو (Active) ہونے کی وجہ سے ان کے رابطے جو ہیں وہ بھی کافی اچھے ہیں اور اب اس فنکشن کی وجہ سے ان کے رابطے اور تبلیغ کی کوشش مزید وسیع ہو گی اور نئے راستے اس کے لئے

Page 514

499 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم متعین ہوں گے ، انشاء اللہ.اگر انہوں نے اس جذبہ کو جاری رکھا اور جو وسیع تعارف ہو گیا ہے اس سے فائدہ اٹھایا تو انشاء اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کے یہ چند غلام مسیح موسوی کے وحدانیت سے دور ہٹے ہوئے لوگوں کو ایک دن خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنادیں گے ، انشاء اللہ.پس جہاں ایک طرف بعض ملکوں میں اصحاب کہف والی صورت حال فکر میں ڈالتی ہے تو دوسری طرف كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ أَنَا وَ رُسُلى ( المجادلہ:22).( اللہ تعالیٰ نے فرض کر چھوڑا ہے کہ میں اور میر ارسول غالب آئیں گے.) کی جو نوید ہے یہ تسلی دلاتی ہے.مسیح موسوی کے اصحاب کہف کے دور کے بعد جو عیسائیت پھیلی تو شرک کے پھیلانے کا باعث بن گئی.لیکن مسیح محمدی کے ماننے والوں کو تین سو سال گزرنے سے بہت پہلے انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ ملے گا.اور یہ غلبہ بھی شرک کو جڑ سے اکھاڑ کر توحید کے قیام کا باعث ہو گا.انشاء اللہ.پس ہمیں کوئی مایوسی نہیں ہے.دنیائے احمدیت میں وسعت آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیائے احمدیت میں بہت وسعت آچکی ہے.اگر چند ملکوں میں احمدیوں کے حقوق اور آزادی کو سلب کیا گیا ہے تو آسٹریلیا، افریقہ ، امریکہ ، اور جزائر کے رہنے والے احمدی آزادی کی زندگی بھی گزار رہے ہیں.ان کے لئے صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کے راستے کھلے ہیں.تبلیغ کے میدان بھی کھلے ہیں.پس ان ممالک کے رہنے والے احمدیوں سے میں کہتا ہوں کہ اس سہولت، کشائش اور آزادی اور آزاد زندگی کو اپنے مقصود کے حصول کا ذریعہ بنالیں.اللہ تعالیٰ نے وَ زِدْ نَهُم هُدًى کے الفاظ صرف اصحاب کہف کے لئے استعمال نہیں کئے بلکہ یہ اصول بیان کیا ہے کہ جو بھی اپنے ایمان کی حفاظت کرے گا، دین پر قائم رہنے کی کوشش کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ہدایت میں بڑھاتا چلا جائے گا.ان کے ایمان میں ترقی دیتا چلا جائے گا.اس بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں یوں بھی بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ أَيْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (الانفال:3) مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں.پھر فرمایا کہ : الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے ہی جو ہم نے ان کو عطا کیا ہے وہ خرچ کرتے ہیں.پھر آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَتْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كريم (الانفال: 5) کہ یہی ہیں جو کھرے اور سچے مومن ہیں.ان کے لئے ان کے رب کے حضور بڑے درجات ہیں اور مغفرت ہے اور بہت عزت والا رزق بھی.

Page 515

500 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک حقیقی مومن کی نشانیاں بیان فرمائی ہیں.جو ایمان کا دعوی کرتا ہے وہ صرف زبانی دعویٰ سے مومن نہیں بن جاتا.اس کی کچھ خصوصیات بھی ہوتی ہیں.وہ ابتلاؤں میں بھی اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے اور کشائش میں بھی اپنی ایمانی حالت کی حفاظت کرتا ہے.اور جب یہ ہو تو وہ ان وعدوں سے حصہ لینے والا بن جاتا ہے ، اُن وعدوں کا حق دار ٹھہرتا ہے جو ایک حقیقی مومن سے خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں.اگر یہ دعویٰ ایک شخص کا، ایک مومن کا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو اس کا ہر قول و فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ کا نام صرف منہ پر یا زبان پر ہی نہ ہو بلکہ دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت ہو.فرمایا کہ ایمان کی نشانی یہ ہے کہ اذا ذکر اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ایک مومن کے لئے وہ محبوب ہستی ہے جس کی رضا ہر وقت اس کے پیش نظر رہتی ہے اور رہنی چاہئے.اور رضا کس طرح حاصل ہوتی ہے ؟ اس کے احکامات پر عمل کر کے.پس ایمان صرف زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے جو مسلسل جاری رہنا چاہئے.پھر یہ نشانی ہے کہ آیات اسے ایمان میں بڑھاتی ہیں.یہ بہانے نہیں ہوتے کہ یہ باتیں مشکل ہیں اور ان عمل مشکل ہے یا یہ عمل تو میں کر لوں اور یہ نہ کروں ، یا کر نہیں سکوں گا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر کان دھر نا اور ان پر عمل کرنا، ان کو سننا، یہی ایک اصل مومن کی نشانی ہے.اس بات کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ اِذَا ذُكِّرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِذُوا عَلَيْهَا صُئًا وَ عُميَانًا (الفرقان :74) کہ جن کا ایمان حقیقی ہوتا ہے جب ان کے رب کی آیات انہیں یاد دلائی جاتی ہیں تو ان سے بہروں اور اندھوں کا معاملہ نہیں کرتے.پس زبانی دعویٰ کہ میں توحید پر یقین رکھتا ہوں، ایمان میں زیادتی کا باعث نہیں بنتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہ ہو.پس توحید کے قیام کی کوشش اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسان اپنے نفس کو قربان کرتا ہے اور جب ہر معاملہ میں کامل تو کل اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے.نمازوں کا قیام پھر یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن کی ایک نشانی نمازوں کا قیام ہے.اب اجتماعات میں اور ان کے بعد بھی ہر خادم کو ، ہر احمدی کو، اس کا خاص اہتمام کرناضروری ہے.اجتماعوں میں تو خاص طور پر کہ نمازیں باجماعت ادا ہوں اور اس کے بعد بھی عام طور پر نمازوں کا قیام اور باجماعت ادا کرنا اور وقت پر ادا کرنا یہ بھی ضروری ہے.اسی طرح کچھ خدام جو ڈیوٹی والے یا اجتماعات میں شامل ہونے والے ہوتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ بھی اپنی نمازوں کا اہتمام کریں.ڈیوٹی کے بہانہ سے نمازیں ضائع نہ ہوں.اور پھر جیسا کہ میں نے

Page 516

خطبات مسرور جلد هشتم 501 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 کہا صرف اجتماع کے دنوں میں نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی.جب ہماری ترقی اور فتوحات دعاؤں سے ہی وابستہ ہیں جس کے لئے بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے تو پھر دعاؤں کا جو بہترین ذریعہ قیام نماز ہے ، اس کی طرف توجہ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے.توحید کے قیام کی کوشش اور اللہ تعالیٰ کو ہی معبودِ حقیقی سمجھنا ایک مسلمان کا یہی مقصد ہے.اور توحید کا قیام اور اللہ تعالیٰ کو معبودِ حقیقی سمجھنا بغیر نمازوں کی ادائیگی کے اور اس کے قیام کے ممکن ہو ہی نہیں سکتا.پانچ وقت کی نمازیں ہی ہیں جو ایک مومن کے بہت سے متوقع بتوں کو توڑنے کا باعث بنتی ہیں.اور خاص طور پر اس مادی دنیا میں تو یہ پانچ وقت کی نمازیں ہی ہیں جو توحید کے قیام کا باعث بنتی ہیں.ہمارے نفس کے اندر کے بتوں کو بھی توڑتی ہیں.اور ہمارے ظاہری اسباب کے بتوں کو بھی توڑتی ہیں.پس تو حید کو قائم کرنے اور پھیلانے کے لئے یہ ایک بنیادی نسخہ ہے جسے ہمیشہ ہمیں یادر کھنا چاہئے.پھر فرمایا وَمِنَا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.اور جو کچھ انہیں ہم نے دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں.دین کی اشاعت اور توحید کے قیام کے لئے خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ایمان میں بڑھاتا ہے.پس مالی قربانیوں کی جو جماعت میں تحریک کی جاتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت ہی ہے.پھر آخری آیت جو میں نے پڑھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلی دو آیات میں بیان کردہ خصوصیات کا جو حامل ہے وہی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مومن ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مومن ٹھہر جائے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے انعامات کا وارث بنتا ہے اور وہ انعامات یہ ہیں کہ دَرَجتُ عِنْدَ رَبِّهِمْ کہ ان کے رب کے پاس ان کے لئے بڑے بڑے درجے ہیں.مَغْفِرَةٌ، اس کے گناہوں کی بخشش ہے اور رزقی گریھ ، اور معزز رزق ہے.یہ رزق اس دنیا کا بھی ہے اور آخرت کا بھی.پس ایمان میں زیادتی، ہدایت میں زیادتی اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بناتی ہے.اور ایک مومن کا کام ہے کہ ایمان اور ہدایت میں زیادتی کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں ہر وقت لگا رہے.اور یہی حقیقی تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا حاصل کرتا ہے.یعنی تقویٰ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے سے تقویٰ میں ترقی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ : وَالَّذِينَ اهْتَدَوا زَادَهُمْ هُدًى وَانهُم تَقُوهُمْ (محمد : 18) اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ان کو اس نے ہدایت میں بڑھادیا اور ان کو ان کا تقومی عطا کیا.پس اتهُم تَقُوبُهُمْ ان کو ان کا تقویٰ عطا کیا یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے معیار بڑھنے کے ساتھ ساتھ تقویٰ بھی بڑھتا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو اس کی طرف بڑھتے اور اس کی رضا کے طالب اور اس کے لئے کوشاں ہوتے ہیں انہیں نئے نئے راستے سکھاتا ہے جس کے حاصل کرنے سے ان کے تقویٰ کے معیار بڑھتے چلے جاتے ہیں.اور پھر یہ بھی کہ اللہ اپنی رضا اور فضلوں کی چادر میں ایسے مومنوں کو لپیٹتا جاتا ہے.وہ پہلے سے زیادہ

Page 517

502 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم فضلوں کا وارث بنتے چلے جاتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے چلے جاتے ہیں.ان کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پاتی ہیں.دشمنوں کی خوفزدہ کرنے کی کوشش مومنوں کو بجائے خوفزدہ کرنے کے اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہیں.نَحْنُ اَولیولم في الحيوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ (حم السجدۃ:32) کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہیں.اس پر یقین بڑھتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر یہ یقین ہی تھا جس نے مسیح موسوی کے ماننے والوں کو قربانیوں پر آمادہ کیا.ہمارے ساتھ تو خدا تعالیٰ کے ان سے بڑھ کر وعدے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ سے کبھی بھی بے وفائی کا اظہار کریں یا یہ سوچیں کہ اس کی عبادتوں سے کبھی غافل ہوں، توحید کے قیام کے لئے کوشش سے کبھی غافل ہوں.احمدی نوجوانوں کا جذبہ جیسا کہ میں نے کہا پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کا ایک گروہ تو صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم استقامت اور رُشد و ہدایت مانگ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان اور ایقان میں اور ہدایت میں ترقی بھی کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس گروہ کی دعاؤں کو سن بھی رہا ہے.ان کے ایمانوں کی مضبوطی اور شیطانی حملوں کا مقابلہ اور بے خوفی اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنتے ہوئے ان کے دلوں کو تقویت بخشی ہے.وہ نوجوان بھی جو ابھی نوجوانی میں قدم رکھنے والے ہیں اور بڑی عمر کے جوان بھی، یہ تمام خدام بڑے جذبے اور شوق سے اور بغیر کسی خوف کے پاکستان میں اپنی جماعتی طور پر جو بھی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں یا جو فرائض دیئے جاتے ہیں ان کو ادا کر رہے ہیں.بعض بزرگ مجھے لکھتے ہیں کہ ان نوجوانوں کے جذبے کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.آج کل پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مساجد خاص طور پر انتظامیہ کی طرف سے اور پولیس کی طرف سے بڑی خطرناک جگہیں قرار دی گئی ہیں.لیکن وہاں ہمارے نوجوان ڈیوٹیوں پر جاتے ہیں تو لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے ایک خادم ڈیوٹی پر نہ آسکے تو یہ نہیں کہ وہاں نوجوانوں کی کمی ہو جاتی ہے ، دو دو تین تین اس کی جگہ تیار ہوتے ہیں اور کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ جو متبادل لینا ہے وہ ہمیں لیا جائے.گھر سے یہ کہہ کر جاتے ہیں کہ اگر ہم واپس آگئے تو ٹھیک ہے الحمد للہ اور اگر نہ آ سکے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے ہمارے حق میں پورے فرمائے.یہ ایمان ہے جو ان کے دلوں میں قائم ہو رہا ہے.ایک عجیب جذبہ ہے جو مسیح محمدی کے یہ غلام دکھا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے جذبوں کو جہاں ہمیشہ زندہ رکھے وہاں اپنے خاص فضل سے ان کی حفاظت بھی فرما تار ہے.آج مسیح محمدی کے ماننے والے نوجوان بھی ایک عجیب تاریخ رقم کر رہے ہیں.یہ بھی وہ نوجوان ہیں جو اپنے عہدوں کی پابندی اور توحید کے قیام کے لئے کسی سے پیچھے نہیں.حقیقت میں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں.یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے

Page 518

خطبات مسرور جلد هشتم 503 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 ہیں.پس تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اور عبادتوں کے معیار بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو پہلے سے بڑھ کر حاصل کرتے چلے جائیں.آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہے تو آپ لوگ جو میرے سامنے یہاں بیٹھے ہیں یا اجتماع گاہ میں بیٹھے ہیں اور میرے براہ راست مخاطب ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اجتماعات کرنے کی بھی آزادی ہے اور اپنی مرضی سے جو پروگرام بھی ترتیب دینا چاہیں اس پر عمل کرنے کی بھی آزادی ہے.جن کو تربیتی پروگرام بنانے کی آزادی بھی ہے اور جن کو تبلیغ کے پروگرام بنانے کی آزادی بھی ہے.آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.صرف اجتماع کے یہ تین دن ہی آپ میں عارضی تبدیلی کا باعث نہ بنیں بلکہ ایک مستقل تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں.تقویٰ کے معیار بڑھائیں.عبادتوں کے معیار بڑھائیں.مغرب کی بیہودہ کشش آپ کو اپنی طرف راغب کرنے والی نہ بن جائے.اپنے ان بھائیوں کی قربانیوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے ہوئے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے ہر کوشش کر رہے ہیں.اپنی وفاؤں اور اپنے عہد وں کو پورا کرنے کے لئے ہر قربانی دے رہے ہیں.احمدی نوجوانوں کا کردار پس آپ اس آزادی کے شکرانے کے طور پر جہاں اپنی عبادتوں اور تقویٰ کے معیار کو بلند کریں وہاں احمدیت کا پیغام ہر جگہ پہنچانے کے لئے بھر پور کردار بھی ادا کریں.ہر ذریعہ تبلیغ کو استعمال کرنے کی کوشش کریں.جدید ذرائع کا استعمال نوجوان زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں.آج کل احمدی نوجوانوں نے دو طرفہ محاذوں پر اپنا کر دار ادا کرنا ہے، یعنی بیر ونی محاذ جو ہے اس کی دو قسمیں ہیں.نفس کی اصلاح جو اندرونی محاذ ہے وہ تو ہے ہی، اس کے علاوہ بیرونی محاذ بھی دو طرح کے ہیں.ایک طرف تو اسلام کے خلاف مہم میں حصہ لے کر اسلام کا دفاع کرنا ہے اور دوسرے احمدیت کے خلاف جو حملے ہیں ان میں دفاع کرنا ہے.مختلف ویب سائٹس ہیں ان میں مختلف قسم کے بیہودہ قسم کے اعتراضات آتے ہیں، ان کو سچائی کے پیغام سے بھر دیں.ایک ایسا منظم لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ ان سب ویب سائٹس کو اپنی سچائی کے پیغام سے بھر دیں.اگر علم میں کمی ہے تو اپنے بڑوں اور مبلغین سے مدد لیں.آج دنیا میں رہنے والے ہر خادم کو ان مہمات کا حصہ بننے کی ضرورت ہے.تبھی توحید کے قیام میں حقیقی کردار ادا کر سکیں گے.مسیح موسوی کے نوجوان تو محدود علاقوں میں اپنا کر دار ادا کرتے رہے.مسیح محمدی کے خدام تو نئے ذرائع کے ذریعے سے تمام دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.پس اس بات پر خاص توجہ دیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.

Page 519

504 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 ستمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ”اے میری جماعت! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو ، وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کے لئے ایساطتیار کرے جیسا کہ آنحضرت صل الی ظلم کے اصحاب طیار کئے گئے تھے.خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے.لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بد قسمت ہے وہ جس کا تمام ہم و غم دنیا کے لئے ہے.ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی.اے سعادتمند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے.تم خدا کو واحد لا شریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو.نہ آسمان میں سے ، نہ زمین میں سے.خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں.سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور عضوں سے الگ ہو جاؤ.انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے.اگر تکبر نہ ہو تا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا.سو تم دل کے مسکین بن جاؤ.عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو.جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو.سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو.خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجالاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے.نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے ، ہر ایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دور ہوتی ہے.اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانے پر گر جائیں.اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63) تمہیں مقدم ہو جائیں“.اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 42 مورخہ 15 اکتوبر تا21اکتوبر 2010 صفحہ 5 تا 8)

Page 520

خطبات مسرور جلد ہشتم 40 40 505 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010ء بمطابق یکم اخاء1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دو اہم ذیلی تنظیمی آج مجالس انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ یوں کے کے اجتماعات شروع ہو رہے ہیں.اسی طرح بعض اور ممالک میں بھی اجتماعات ہو رہے ہیں.یہ دونوں تنظیمیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے بڑی اہم تنظیمیں ہیں اور جماعتی ترقی اور تعلیم و تربیت اور انگلی نسل کو سنبھالنے میں عورت اور مر د خاص طور پر وہ جو چالیس سال سے اوپر کی عمر کے ہیں بڑا اہم کر دار ادا کرتے ہیں.اگر اپنی اس ذمہ داری کو ہماری عورتیں اور مرد حقیقی رنگ میں محسوس کر لیں اور جو ذمہ داریاں مرد اور عورت پر ہیں ان پر بھر پور طور پر توجہ دیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کریں تو اگلی نسل کے جماعت سے جڑے رہنے اور ان کے اخلاص و وفا میں بڑھتے چلے جانے کی ضمانت مل سکتی ہے.جہاں تک جماعتی ترقی کا سوال ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اس بات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اسی طرح وعدہ ہے جیسا کہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اینم کو بھی اللہ تعالیٰ نے تسلی دلائی تھی کہ آخری زمانے میں آپ کے غلام صادق کے مبعوث ہونے کے بعد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ایک اور دور شروع ہو گا، اس میں اسلام کا آخری غلبہ ہو گا.پس یہ ترقی تو جماعت کا مقدر ہے، انشاء اللہ.راستے کی مشکلات بھی ہوتی ہیں جیسا کہ دوسری الہی جماعتوں کو ہوئیں.امتحانوں کا سامنا کرنا پڑا.جماعت احمدیہ کو بھی وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں پر ان مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے.آگیں بھڑکائی جاتی ہیں لیکن یہ آگیں اللہ تعالیٰ ٹھنڈی کر دیتا ہے.اور نہ صرف ٹھنڈی کر دیتا ہے بلکہ مومن ان تکالیف اور مشکلات میں سے جب گزرتا ہے تو اس سونے کی مانند ہوتا ہے جو آگ میں پڑ کر کندن بن کر نکلتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو خود بھی قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہے کہ میں آزمائشیں بھی کرتا ہوں، امتحان بھی لیتا ہوں.فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يفتنون ( العنکبوت : 3) کیا اس زمانے کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہو گا اور وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟

Page 521

خطبات مسرور جلد هشتم 506 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 پھر فرماتا ہے وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكَذِبِينَ (العنكبوت: 4) جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کو بھی ہم نے آزمایا تھا اور اب بھی وہ ایسا ہی کرے گا.سو اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا ان کو بھی جنہوں نے سچ بولا اور ان کو بھی جنہوں نے جھوٹ بولا.پس یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنے کے لئے آزماتا ہے.کبھی کسی قسم کے امتحان سے گزارتا ہے اور کبھی کسی اور قسم کے امتحان سے گزارتا ہے.یہ امتحان ایمان میں جو مضبو ط لوگ ہیں ان کے تعلق میں اضافہ کرتا ہے.ان کا مضبوط ایمان بڑھا دیتا ہے اور جو کمزور اور معترض ہیں جو کہ کسی نہ کسی رنگ میں اعتراض میں مصروف رہتے ہیں، وہ لوگ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ ہوتے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض ہوتے ہیں.چھوٹے عہدے داروں پر اعتراض ہوتے ہیں.بڑے عہدے داروں پر اعتراض ہوتے ہیں اور پھر یہ اعتراض جو شروع ہوتے ہیں تو بڑھتے بڑھتے ان لوگوں کے ایمان کے لئے بھی خطرہ اور ابتلا بن جاتے ہیں اگر اللہ کا خاص فضل نہ ہو تو پھر بعضوں پر ایک صورت ایسی بھی آجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کی صداقت پر ہی شک کرنے لگ جاتے ہیں.اسی طرح مخالفین کی طرف سے تکالیف اور دشمنیاں کمزور ایمان والوں کو ابتلاؤں میں ڈال دیتی ہیں.پس مومن کا امتحان اس کو مزید صیقل کرنے کے لئے ہے.اس کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے ہے اور من حیث الجماعت، جماعت کے لئے کامیابی کے نئے راستے کھولنے کے لئے ہے ، نہ کہ مغلوب کرنے کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”جو لوگ خدائی امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں پھر ان کے واسطے ہر طرح کے آرام و آسائش رحمت اور فضل کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں“.(ملفوظات جلد 5 صفحہ 460) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : " آنحضرت صلی علی کرم ہی کی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہو گیا.ابتلاء فتوحات کے دروازے کھولنے کے لئے ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 299) پس یہ ابتلاء انبیاء اور انبیاء کی جماعتوں کے لئے فتوحات کے دروازے کھولنے کے لئے ہیں.اگر ہم اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے جو بھی ابتلاء اور امتحان آئیں گے ، ان میں سے کامیابی سے گزرنے کی کوشش کرتے رہے تو رحمت اور فضل کے دروازے ہم پر بھی کھلتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ.جب اللہ تعالیٰ نے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ أَنَا ورسیلی (المجادلہ : 22) فرمایا تو ساتھ ہی فرمایا کہ یہ یقینی غلبہ اس لئے ہے کہ إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ (المجادلہ:22) کہ یعنی اللہ تعالیٰ قوی ہے ، مضبوط ہے اور تمام طاقتوں والا ہے.وہ عزیز ہے.وہی ہے جو اپنی تمام صفات کی وجہ سے قابل تعریف ہے.وہ نا قابل شکست ہے اور ہر چیز پر غالب ہے.

Page 522

خطبات مسرور جلد هشتم 507 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 پس یہ ہمیشہ ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ کی قائم کردہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق غالب تو انشاء اللہ تعالی آنا ہے.راستے کی مشکلات ناکامی کی نہیں بلکہ کامیابی کی علامت ہیں.اگر ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اور اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف نظر رکھیں گے ، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس نظام کا حصہ بنائے رکھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا تو ہم بھی اس رحمت اور فضل کے حاصل کرنے والے بن جائیں گے جو خدا تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں.اور ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات دیکھیں گی.اگر ہم میں سے کوئی عمر کے اس حصے میں پہنچا ہوا ہے جہاں بظاہر زندگی کا کچھ حصہ نظر آرہا ہے ، بڑی عمر ہے ، ویسے تو کسی کا نہیں پتہ کہ کب قضا آ جائے، لیکن بہر حال بڑی عمر کے لوگوں کو زیادہ فکر ہوتی ہے.جو اس میں بھی پہنچا ہوا ہے تو جس طرح بچوں کی دنیاوی بہتری کے لئے بڑی عمر کے لوگوں کو فکر ہوتی ہے ، بڑا تر ڈ دہوتا ہے ،اسی طرح اسے دینی حالت کی بہتری اور جماعت سے اپنی نسلوں کو جوڑے رکھنے کے لئے بھی فکر ہونی چاہیے.دنیاوی بہتری کے سامان کرنے کے لئے، بچوں کے لئے جائیداد، مکان بہتر تعلیم یا کام کی ان کو فکر ہوتی ہے.بڑے لوگ دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں.تو اسی طرح ان کی بچوں کی روحانی اور اخلاقی حالت کی بہتری کے لئے بھی فکر ہونی چاہئے.یہی تقویٰ ہے اور یہی اس عہد کا حق ادا کرنے کی کوشش ہے جو ہم اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں دہراتے ہیں.جماعت سے جڑے رہنے میں بقا ہے پس یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی ترقی ہمارے اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے.جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.اس خدا کی تقدیر ہے جو تمام طاقتوں کا مالک خدا ہے اور وہ نا قابل شکست اور غالب ہے.اگر کوئی ہم میں سے راستے کی مشکلات دیکھ کر کمزوری دکھاتا ہے، اگر ہماری اولادیں ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں، اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دور لے جاتی ہے، اگر کوئی ابتلا ہمیں یا ہماری اولادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کا باعث بن جاتا ہے تو اس سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا.ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ دوسروں کو سامنے لے آتا ہے، اور لوگوں کو سامنے لے آتا ہے، نئی قومیں کھڑی کر دیتا ہے.پس اس اہم بات کو ، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے.سب سے اہم بات اس سلسلے میں ہمارے اپنے پاک نمونے ہیں.انصار اللہ ذمہ داریاں انصار اللہ کی عمر چالیس سال سے شروع ہوتی ہے.گویا انصار اللہ کی عمر میں انسان اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ

Page 523

508 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جاتا ہے اور سوچ میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے.اور جب یہ صورت ہو تو اس عمر میں پھر آخرت کی فکر بھی ہونی چاہئے اور یہی ایک ایسے شخص کا، ایک ایسے مومن کا رویہ ہونا چاہئے جس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو، یقین ہو اور تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے اس کی کوشش ہو تو پھر اس کی یہ سوچ ہونی چاہئے کیونکہ ایک احمدی نے اپنے عہد میں، عہدِ بیعت میں اس بات کا اقرار کیا ہوا ہے کہ اس نے تقویٰ میں ترقی کرنی ہے ، تمام اعلیٰ اخلاق اپنانے ہیں، اس لئے اس کو تو عمومی طور پر اور اس پختہ عمر میں خاص طور پر یہ سوچ اپنے اندر بہت زیادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ انصار اللہ ہیں.ایک ایسی عمر ہے جو نَحْنُ انصار الله (آل عمران : 53) کا اعلان کرتے ہیں.ان کو تو ہر وقت یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے.عہد بیعت کا خلاصہ عہد بیعت کا خلاصہ کیا ہے ؟ شرک سے اجتناب کرنا، جھوٹ سے بچنا، لڑائی جھگڑوں اور ظلم سے بچنا، خیانت سے بچنا، فساد اور بغاوت سے بچنا، نفسانی جوش کو دبانا، پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی کرنا، تہجد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا، استغفار دعاؤں اور درود کی طرف توجہ دینا، تسبیح و تحمید کرنا، تنگی اور آسائش ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے وفا کرنا، قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرنا، تکبر نخوت سے پر ہیز کرنا، عاجزی اور خوش خلقی کا اظہار کرنا، ہمدری خلق کا جذبہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے اندر پیدا کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کامل اطاعت کا جوا اپنی گردن پر ڈالنا.یہ ہے خلاصہ شرائط بیعت کا.پس اگر غور کریں تو یہ باتیں ایک انسان میں تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتی ہیں.اور یہ کم از کم معیار ہے جس کی ایک احمدی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توقع فرمائی ہے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ ایک انسان میں یہ چیزیں پیدا کی جائیں اور انسان آپ کی بیعت میں آکر تقویٰ میں ترقی کرے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے مامور کیا ہے کہ تقویٰ پیدا ہو اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے پید اہو.خدا تعالیٰ تاوان نہیں چاہتا بلکہ سچا تقویٰ چاہتا ہے“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 100 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس یہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.تقویٰ وہ ہے جو دل کی آواز ہو ، جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دل سے اٹھنے والی آواز ہو.یہ عبادتیں، شرک سے پر ہیز یا ان باتوں پر عمل جو انسان کے اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہیں یہ سب کسی قسم کی چٹی، جرمانہ یا تاوان سمجھ کر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ سے پیار کے تعلق کی وجہ سے ہو.ایمان کا وہ مقام ہو جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرة : 166) اور جو لوگ ایمان لانے والے ہیں ان کی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ہی ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ سے محبت میں ترقی

Page 524

509 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان میں ترقی کرتے ہیں اور ایمان میں ترقی تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتی ہے.پس ہمارے انصار اللہ کی بھی اور ہماری لجنہ اماء اللہ کی بھی یہ ایک ذمہ داری ہے کہ تقویٰ میں ترقی کر کے ہم آئندہ نسلوں کے لئے وہ پاک نمونہ قائم کرنے والے بن جائیں جو ہماری نسلوں کی روحانی زندگی اور روحانی ترقی کی ضمانت بن جائے.عورت اور مر دہر ایک پر اپنے اپنے دائرے میں بعض فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جن کا پورا کرنا دونوں کا فرض ہے اور اس کے لئے لائحہ عمل، اس کے لئے ایک گائیڈ لائن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شرائط بیعت کی صورت میں ہمارے سامنے رکھ دی ہے، اس پر ہر وقت غور ہونا چاہئے.اس کا خلاصہ میں نے بیان کر دیا ہے.نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ کیوں لگایا گیا تھا.قرآنِ کریم میں ہمیں دو جگہ اس کا ذکر ملتا ہے ، ایک سورۃ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَمَّا اَحَتَ عِيسَى مِنْهُمُ الْكَفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ انْصَارُ اللَّهِ أَمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدُ بِأَنَا مُسْلِمُونَ ( آل عمران: 53) پس جب عیسی نے ان میں انکار کارجحان محسوس کیا تو کہا کہ کون اللہ کی طرف بلانے میں میرے انصار ہوں گے تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے انصار ہیں.ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور تو گواہ بن جا کہ ہم فرمانبر دار ہیں.جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ انکار اور کفر میں یہ لوگ بڑھتے چلے جارہے ہیں تو پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کے دین کے لئے پکار رہا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں.تمہاری بقا اسی میں ہے کہ مجھے قبول کرو اور اللہ کی پہچان کرو اور اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرو.آگے بڑھو اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دین کو اختیار کرو.اور پھر ان میں سے جو چند حواری تھے وہ آگے آئے اور انہوں نے جب نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کہا تو یہ دعا بھی کی کہ رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ (آل عمران:54) کہ اے ہمارے رب! جو کچھ تو نے اتارا ہے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم اس رسول کے متبع ہو گئے ہیں.پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے.رسول کی اتباع کیا ہے ؟ اس سے کئے گئے عہد کو پورا کرنا، اس کی لائی ہو ئی تعلیم پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کرنا، اس تعلیم کی سچائی پر کامل ایمان ہونا.اور پھر ہم دیکھتے ہیں اس کا دوسرا ذکر سورۃ الصف میں ملتا ہے.یہاں فرمایا کہ : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا b كُونُوا اَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِثُونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَا مَنتُ طَائِفَةٌ مِّنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ وَ كَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَاَيَّدُنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظهرين ( الصف: 15) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کے انصار بن جاؤ ، جیسا کہ عیسی بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف رہنمائی کرنے میں میرے انصار ہوں.حواریوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہیں.

Page 525

510 خطبه جمعه فرموده مورخہ یکم اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انکار کر دیا.پس ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آگئے.پس غلبہ ایمان لانے والوں کا ہوا اور یہی ان کا مقدر ہوتا ہے اور یہی الہی جماعتوں کا مقدر ہے.جو ایمان لاتے ہیں وہی غلبہ حاصل کرتے ہیں.یہاں حضرت عیسی کے حواریوں کی مثال دے کر ہمیں یہ توجہ دلائی ہے کہ اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے انصار بن جاؤ.جب مسیح موعود کا دعویٰ ہو تو تم بھی ایمان لانے والے گروہ میں شامل ہو جانا، انکار کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہونا.پس اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ آج ہمیں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والے گروہ میں شامل فرمایا ہے.تو پھر اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی آنحضرت سلام کے اس عاشق صادق کی مکمل پیروی کریں تا کہ آنحضرت صلی علی کم کا لایا ہوا دین دنیا میں پھیلا سکیں.اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں اور اپنی نسلوں میں وہ ایمان پیدا کریں اور کرنے کی کوشش کریں جن سے آگے پھر انصار اللہ کی جاگ لگتی چلی جائے.ایک کے بعد دوسرامد دگار پیدا ہو تا چلا جائے.اور اس کی جاگ تبھی لگ سکتی ہے جب ہم اپنے عہد بیعت کو سامنے رکھیں اور اس کی ہر شق کے نمونے اپنی اولادوں کے سامنے پیش کرنے والے بن جائیں.تبھی یہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ جاری رہے گا.حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے کچھ عرصہ یا نسلوں بعد تو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور تعلیم کی پیروی ختم ہو گئی تھی، جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا.اس کا ذکر ہو چکا ہے کہ بادشاہوں کے عیسائی ہونے کے ساتھ ہی وہ آزادی تو مل گئی لیکن کچھ عرصے بعد موحدین کی جو تعداد تھی وہ کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو گئی.اللہ تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی ذات تو پیچھے چلی گئی اور اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ اور اللہ تعالیٰ کا رسول ظالمانہ طور پر خدا تعالیٰ کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر دیا گیا.لیکن مسیح محمدی کے ماننے والوں نے توحید کے قیام اور اس کو اپنی نسلوں میں جاری رکھنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے اور وہ روحانی غلبہ حاصل کرنا ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.یعنی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنانا ہے.خدا تعالیٰ کے پیغام کو جو آنحضرت صلی این نام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے دنیا میں پھیلانے کا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اہتمام فرمایا ہے ، اس پیغام کو مسیح اور مہدی کے انصار بن کر دنیا میں پھیلانا ہے.اور پھر اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ اپنی اولاد کے دل میں بھی اس دین کی عظمت کو اس طرح قائم کرنا ہے کہ ان میں سے نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانے والے پیدا ہوتے چلے جائیں اور یہ تعداد پھر بڑھتی چلی جائے یہاں تک کہ دنیا پر اسلام کا ایک نئی شان کے ساتھ غلبہ ہم دیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو پہلی چیز اپنی شرائط بیعت میں ہمارے سامنے رکھی ہے وہ شرک سے اجتناب ہے.(ماخوذ از مجموعه اشتہارات جلد اول صفحہ 159 - اشتہار " "تعمیل تبلیغ " 12 جنوری 1889ء.ضیاء الاسلام پریس ربوہ )

Page 526

خطبات مسرور جلد ہشتم 511 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 مسیح موسوی کے حواریوں کا جو اثر تھا اس معیار تک قائم نہیں رہا جہاں نسلاً بعد نسل وہ موحدین پیدا کرتے چلے جاتے، اس لئے کچھ عرصے کے بعد ان کی نسلیں شرک کے پھیلانے کا باعث بن گئیں.اس لئے کہ انہوں نے تعلیم پر عمل نہیں کیا اور ان کے ایمانوں میں کمزوری پیدا ہوتی چلی گئی.اس لئے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق آہستہ آہستہ کم ہو گیا اور دنیا داری ان کا مقصود اور مطلوب ہو گئی.پس مسیح محمدی کے غلاموں نے خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کو نہ اپنی ذات میں کم ہونے دینا ہے نہ اپنی نسلوں میں کم ہونے دینا ہے ، ورنہ پہلے حواریوں کی طرح یا ان کی نسلوں کی طرح ایمانی کمزوری پیدا ہوتے ہوتے شرک کی حالت پیدا ہو جائے گی.اور اب دیکھ لیں جو دوسرے مسلمان ہیں ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو مسلمان کہلانے کے باوجود قبروں اور پیروں اور اس قسم کے شرکوں میں مبتلا ہوئے ہوئے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں حقیقی اسلامی تعلیم بتا کر اس قسم کے شرکوں سے محفوظ رکھا.پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں اعلیٰ اخلاق اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں ہر احمدی کو اور جماعت میں شامل ہونے والے کو یہ فرمایا کہ اگر میری بیعت میں آنا چاہتے ہو تو شرک سے بچنے کے بعد یہ عہد کرو کہ بلاناغہ پنج وقت نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتے رہو گے.پس ہمیں دیکھنا ہے کہ خدا نے نمازوں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے.سورۃ فاتحہ میں فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دعا سکھائی کہ تیرے حکم کے مطابق تیری عبادت کرنے کے لئے تیری مدد کی ضرورت ہے.اس کے بغیر ہم کچھ نہیں.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ، تجھ سے مدد بھی مانگتے ہیں.پس جب ایک عاجزی کے ساتھ عبادت کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کی طرف توجہ رہے گی تو پھر نماز کا يُقِيمُونَ الصَّلوةَ (البقرة:4) کا حکم بھی سامنے آجائے گا اور پھر نمازوں کے قیام کے نمونے قائم ہوں گے.یعنی پانچ وقت نمازوں کے اوقات میں نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو گی.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.حفظوا عَلَی الصَّلَواتِ وَالصَّلَوَةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قنتين ( البقرة: 239) کہ نمازوں اور خصوصاً در میانی نماز کا خیال رکھو.پس نمازوں کا خیال رکھنا اور اس کی نگرانی کرنا ایک مومن پر فرض ہے.اور خاص طور پر وہ نماز جو ہمارے کاموں کے دوران، ہماری مصروفیات کے دوران، ہماری تھکاوٹ اور نیند کے اوقات میں آتی ہے.اس کا خیال رکھنا خاص طور پر ضروری ہے.اب اس ایک حکم میں ہی تمام نمازوں کی حفاظت کا حکم آگیا ہے.ہر شخص کے لئے اس کی صلوۃ الوسطی کی حفاظت اسے عمومی طور پر نمازوں کی طرف متوجہ رکھے گی.اور پھر نمازوں کی یہ حفاظت نہ صرف ایک مومن کے لئے اس کے ایمان میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ نمازوں کا حق ادا کرتے ہوئے نمازوں کی ادائیگی اس کی نسل کے

Page 527

512 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 لئے پاک نمونہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اولاد کو بھی دعاؤں کا وارث بناتے ہوئے ان کے نیک مستقبل کی حفاظت کا سامان بھی کرتی چلی جائے گی.نمازوں کا حق ادا کرنا کیا ہے ؟ بہت سے لوگ جو خاص طور پر انصار اللہ کی تنظیم میں پہنچے ہوئے ہیں نمازیں تو پڑھنے والے ہیں لیکن ان کی اولادیں ان سے نالاں ہیں.اپنی نمازوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی نمازوں کی نگرانی بھی ماں باپ کا فرض ہے.لیکن اس فرض کے ادا کرنے کے لئے بچوں کی بچپن سے تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہے.بچپن میں جب اہمیت کا نہ بتایا جائے تو بچہ جب جوانی کی عمر میں قدم رکھتا ہے خاص طور پر لڑکے تو پھر ان پر بعض والدین ضرورت سے زیادہ سختی کرتے ہیں.کئی بچے مزید بگڑ جاتے ہیں.پھر ماں باپ کو شکوہ ہو تا ہے کہ بچے بگڑ رہے ہیں.پھر بعض دفعہ ایسی صورت ہوتی ہے کہ نمازوں کی ادائیگی میں تو بظاہر باپ بڑا اچھا ہوتا ہے لیکن بیوی اور بچوں کے ساتھ اس کے سلوک کی وجہ سے بچے نہ صرف باپ سے دور ہٹ جاتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ کو اس کی نمازوں نے اتنا خشک مزاج اور سخت طبیعت کا کر دیا ہے اور وہ نمازیں پڑھنے سے انکاری ہو جاتے ہیں.یا اگر انکاری نہیں ہوتے تو نہ پڑھنے کے سو بہانے تلاش کرتے ہیں.پس نمازوں کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا یہ بھی ہے کہ ایسی نمازیں ادا ہوں جو ہر قسم کے اخلاق کو مزید صیقل کرنے والی ہوں.بیویوں کے بھی حقوق ادا ہو رہے ہوں اور بچوں کے بھی حقوق ادا ہو رہے ہوں.چالیس سال کی عمر جیسا کہ میں نے کہا بڑی پختگی کی عمر ہے لیکن اس عمر میں اگر ہم جائزے لیں تو بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں گے جو اپنی نمازوں کی بھی حفاظت نہیں کرتے.اپنے فرائض کو ادا نہیں کر رہے ہوتے.تو پھر اپنے بچوں سے کس طرح امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ نیکیوں پر قائم ہوں.یا ان کی کیا ضمانت ہے کہ وہ احمدیت کے ساتھ جڑے رہیں گے.ہم اپنے شہداء کا ذکر سنتے ہیں.ایک چیز خصوصیت سے ان میں نظر آتی ہے.عبادت اور ذکر الہی کی طرف توجہ.جس طبقہ کے لوگ بھی تھے ان کی اس طرف توجہ تھی.اور اپنے بچوں سے انتہائی پیار کا تعلق اور ان کو دین سے جوڑے رکھنا.اور بچوں پر بھی ان کی باتوں کا ایک نیک اثر تھا.پس یہ وہ لوگ ہیں جو انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے والے ہیں.پس میں پھر انصار اللہ سے کہتا ہوں کہ اگر وہ انصار اللہ کا حق ادا کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی نہ صرف خود حفاظت کریں بلکہ اس کا حق اپنی نسلوں میں عبادت کرنے والے پیدا کر کے ادا کریں.پھر آپ نے اپنی شرائط بیعت میں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ فرائض نمازوں کے ساتھ تہجد اور نوافل کی طرف بھی توجہ دو.پینسٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ کر تو شاید ایک تعداد تہجد پڑھتی بھی ہو اور ان کو خیال بھی آ جاتا ہو.لیکن انصار کی جو ابتدائی عمر ہے اس میں بھی تہجد کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یقیناً ایک تعداد ہے جو تہجد کا التزام کرنے والی ہے.بلکہ خدام میں بھی ہیں.لیکن انصار میں یہ تعداد

Page 528

513 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اکثریت میں ہونی چاہئے.انصار اللہ کا نام جو چالیس سال سے اوپر کی مردوں کی تنظیم کو دیا گیا ہے اور جو پیغام نَحْنُ انْصَارُ الله کے اعلان میں ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر غیر معمولی قربانی پیش کرنے کے لئے بھی تیار ہیں.اور دین کے قیام کے لئے ہم اپنی ہر کوشش اور ہر صلاحیت اور ہر ذریعہ بروئے کارلانے کے لئے تیار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا ہے کہ دین کا پھیلا ؤ تو دعاؤں کے ذریعے سے ہونا ہے.تبلیغ کے ساتھ ساتھ دعاؤں نے ایک بہت بڑا کر دار ادا کرنا ہے.پس دعاؤں کی طرف ایک خاص جوش کے ساتھ ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے.انصار اللہ کی عمر ایک تو پختہ عمر ہے اس میں عارضی اور جذباتی کوششوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے مستقل جائزے لیتے ہوئے اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کا ادا کرنا ہم پر فرض ہے.دعاؤں کا حق ، نمازوں اور نوافل کے ذریعے ہی حیح طور پر ادا ہو سکتا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ ایک احمدی قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا.قرآنِ حکیم کی حکومت قبول کرنے کے لئے اس سے ایک خاص تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کے اس کلام کو روزانہ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے.پس انصار اللہ کی تنظیم میں شامل ہر شخص اس بات کی پابندی کرے کہ میں نے قرآنِ کریم کی تلاوت ہر صورت میں روزانہ کرنی ہے.اسی طرح لجنہ ہے ، خواتین ہیں، ان کا بھی فرض ہے.یہ حکم صرف انصار اللہ کے لئے نہیں ہے.جماعت کے ہر فرد کے لئے ہے اور خاص طور پر وہ لوگ، عور تیں اور مرد جنہوں نے اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے ان پر خاص فرض ہے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور روزانہ تلاوت کریں.پھر اس کا ترجمہ بھی سمجھنا ہے.تو جہاں ہم میں سے ہر ایک اس وجہ سے اپنے علم میں اضافے اور برکات سے فیض یاب ہونے کے سامان کر رہا ہو گا وہاں یہ پاک نمونہ اپنے بچوں کے سامنے پیش کر کے انہیں بھی خدا تعالیٰ کے اس کلام سے تعلق جوڑنے کا سامان کر رہا ہو گا.یہ شرائط بیعت کا خلاصہ جو میں نے بیان کیا ہے، جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں یہ ایک احمدی کا کم از کم معیار ہے اور انصار اللہ کو تو ان باتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.عورتوں کی ذمہ داری اسی طرح ہماری عورتیں ہیں وہ گھر کی نگرانی کی حیثیت سے اسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کی ذمہ دار ہیں جیسے مرد بلکہ مردوں سے بھی زیادہ.کیونکہ بچے کی ابتدائی عمر جو ہے ماں کے قرب میں اور اس کی گود میں گزرتی ہے.سکول جانے والا بچہ ہے.وہ بھی گھر میں آکر ماں کے پاس ہی اکثر وقت رہتا ہے.تو ماؤں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر ماؤں کی اپنی دینی تربیت ہے.ان کو خود دین کا علم ہے تو بچے ایسے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں جہاں

Page 529

514 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 انگا ؤنگا استثناء کے علاوہ عموماً بچوں کو دین سے گہر الگاؤ ہوتا ہے.ایسی ہی عورتوں کے متعلق ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ” میں نے دیکھا ہے کہ بعض عورتیں بسبب اپنی قوتِ ایمانی کے مردوں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں.فضیلت کے متعلق مردوں کا ٹھیکہ نہیں.جس میں ایمان زیادہ ہو اوہ بڑھ گیا.خواہ مرد ہو ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 268 مطبوعہ ربوہ) خواہ عورت.“ تو ہماری تو ہر عورت کو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.مرد اور عورت میں ایک دوڑ ہو.دونوں طرف سے نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کی ایک کوشش ہو.جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ نئی نسل کس طرح خدا تعالیٰ کے قریب ہوتی چلی جائے گی.یہ شرائط بیعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے بیان فرمائی ہیں ان میں یہ تخصیص کوئی نہیں ہے کہ یہ مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں کے لئے نہیں.بلکہ ہر دو اور ہر طبقے کے لئے ہیں.پس جو بھی ان نیکیوں پر قدم مارنے والا ہو گا وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بن کر اپنی دنیا و عاقبت سنوار لے گا اور اپنے بچوں اور اپنی نسلوں کی حفاظت اور تقویٰ پر چلنے کے سامان کر لے گا.پس عورتوں کو بھی ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بچوں کی تربیت میں مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے دعا کرتے ہوئے اگلی نسل کی تربیت میں بھر پور کوشش کرنی چاہئے.مرد یا عورت جو بھی اپنے فرض کو ادا نہیں کرے گا وہ اپنے عہد کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے پوچھا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس زمانے کے امام کے ساتھ سچا اور حقیقی وفا اور اطاعت کا تعلق پیدا ہو اور ہم آپ کی توقعات اور تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں.اور ہماری ایک کے بعد دوسری نسل توحید کے قیام اور عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی بھر پور کوشش کرتی وو چلی جائے.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: یہ بھی یاد رکھو کہ اگر تم مداہنہ سے دوسری قوموں کو ملو“ یعنی کمزوری دکھاتے ہوئے اپنے مذہب چھپاتے ہوئے کسی قسم کے احساس کمتری کی وجہ سے اگر تم ملو تو فرمایا کہ ”لو کامیاب نہیں ہو سکتے“.یعنی کبھی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے نہ اپنا دین چھپانا چاہئے نہ اپنی دینی تعلیم پر کسی قسم کی شرمساری ہونی چاہئے.بلکہ تبلیغ کے میدانوں میں تبلیغ بھی کھل کر کرنی چاہئے.کیونکہ اسی سے کامیابی ملنی ہے.فرمایا ”خدا ہی ہے جو کامیاب کرتا ہے.اگر وہ راضی ہے تو ساری دنیا ناراض ہو تو پرواہ نہ کرو.ہر ایک جو اس وقت سنتا ہے یاد رکھے کہ تمہارا ہتھیار دُعا ہے اس لئے چاہئے کہ دعا میں لگے رہو.یہ یاد رکھو کہ معصیت اور فسق کو نہ واعظ دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اور حیلہ“.گناہ اور برائیاں جو ہیں،

Page 530

515 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بد عملیاں جو ہیں ان کو نصیحتیں دور نہیں کر سکتیں.خود انسان کے اندر ایک احساس پید اہو اور پھر دعا ہو تو اس سے دور ہو جاتی ہیں.اور اپنی نسلوں کے لئے بھی آپ دعا کر رہے ہوں گے تو اس سے بھی ان کی اصلاح ہو جاتی ہے.”اس کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ دُعا ہے.خدا تعالیٰ نے یہی ہمیں فرمایا ہے.اس زمانہ میں نیکی کی طرف خیال آنا اور بدی کو چھوڑنا چھوٹی سی بات نہیں ہے.یہ انقلاب چاہتی ہے اور یہ انقلاب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور یہ دُعاؤں سے ہو گا.ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں.اس کا وعدہ ہے ادعُونِي أَسْتَجِبْ لکھ (المومن : 61).عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دُعا ہے.وہ دنیا کے کیڑے ہیں.اس لئے اس سے پرے نہیں جاسکتے.اصل دُعا دین ہی کی دُعا ہے“.اور ایک دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ اور اصل دین دعا میں ہے.فرمایا لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گناہگار ہیں یہ دعا کیا ہو گی اور ہماری تبدیلی کیسے ہو سکے گی.یہ غلطی ہے“.اس بارے میں ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ گناہ اس میل کی طرح ہے جو کپڑوں پر ہوتی ہے اور دھونے سے دور کی جاتی ہے.پس گناہ کوئی مستقل چیز نہیں ہے.گناہ کو دھویا جا سکتا ہے.اگر ارادہ ہو اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو تو صاف کیا جاسکتا ہے.فرمایا ” بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آسکتا ہے“.گناہوں پر انسان غالب آجاتا ہے اس لئے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے.”دیکھو پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لئے کہ فطر تأ برودت اس میں ہے“.ٹھنڈے کرنے کی جو اس کی خصوصیت ہے وہ اس پانی کی ہے.”ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے.وہ پاکیزگی کہیں نہیں گئی.اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہوں رو کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دور کر دے گا.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 132-133 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سربلندی کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اسلام کے پیغام کو ہم جرات کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج بھی پیدا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 43 مورخہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2010 صفحہ 5تا8)

Page 531

خطبات مسرور جلد ہشتم 516 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 اکتوبر 2010ء بمطابق 08 اخاء 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: تلكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص: 84) وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوا فَانْظُرُ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (النمل: 15) یہ دو آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، ایک سورۃ قصص کی چوراسیویں آیت ہے اور دوسری سورۃ نمل کی پندرھویں آیت.پہلی آیت سورۃ قصص کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : یہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو زمین میں نہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد ، اور انجام تو متقیوں کا ہی ہے.(دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے ) اور انہوں نے ظلم اور سرکشی کرتے ہوئے ان کا انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل ان پر یقین لاچکے تھے ، پس دیکھ فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہو تا ہے.نیکی اور بدی، عاجزی اور بڑائی، امن و محبت اور فتنہ و فساد، اطاعت اور بغاوت اور اس طرح کی بہت سی باتیں نیکی میں بھی اور برائیوں میں بھی ہمیں نظر آتی ہیں.ان میں ایک حصہ رحمان خدا کا پتہ دے کر اس سے تعلق جوڑنے والوں کی نشانی ہے تو دوسری شیطان کی گود میں گرنے والوں کا پتہ دیتی ہے.گویا یہ دو مخالف سمتیں ہیں.اللہ تعالیٰ جن نیکیوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے شیطان ان سے روکتا ہے.اور جن برائیوں سے خدا تعالیٰ روکتا ہے شیطان ان کے کرنے کا حکم دیتا ہے.یہ نافرمانی شیطان کی سرشت میں ہے جس کو ایک جگہ خدا تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا ( مریم : 45) کہ شیطان یقینا خدائے رحمان کا نا فرمان ہے.اور شیطان کے پیچھے چلنے والے یقیناً خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آتے ہیں.یہ دو آیات جن کا ترجمہ میں نے بیان کیا ہے.آپ نے تلاوت بھی سنی.ان میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے.ایک وہ جو بڑائی اور فساد سے بچتے ہیں.یہ رحمان کے بندے ہیں.اور دوسرے وہ جو ظلم اور فساد کرنے والے

Page 532

خطبات مسرور جلد هشتم 517 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 ہیں اور متکبر لوگ ہیں.یہ شیطان کے بندے ہیں.اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اپنے بد انجام کو پہنچنے والے ہیں.پاکستان اور مذہبی شدت پسندی بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں (چونکہ بہت سارے پاکستانی اس وقت میرے سامنے ہیں دنیا میں اکثر جگہ پاکستانی غور سے خطبہ سنتے ہیں ) اکثریت مسلمانوں کی ہے.مسلمان اکثریت کا ملک ہے.یہ ملک آج ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں یر غمال بن چکا ہے جنہیں خدا تعالیٰ کے ان احکامات سے دُور کا بھی واسطہ نہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اور جن باتوں کو کرنے سے روکا ہے وہ وہاں عام ہو رہی ہیں.وہ طبقہ آج سیاستدانوں کے سروں پر بھی سوار ہے.اور اس نے انتظامیہ کے کندھوں پر بیٹھ کر ان کی گردن کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے.اور اس کا نتیجہ ہمیں ہر روز کی آگوں اور فسادوں اور قتل و غارت کی صورت میں نظر آرہا ہے.بلکہ کہنا چاہئے کہ پورا نظام ہی چاہے سیاستدان ہیں، انتظامیہ ہے یا کوئی اور ہے ان فسادیوں کے رنگ میں رنگین ہو چکا ہے.پاکستان بننے سے لے کر آج تک خلفائے احمدیت سیاستدانوں اور عوام کو اس طرف توجہ دلاتے رہے کہ ہمیشہ اس طبقہ سے ہوشیار رہو جو کسی بھی صورت میں مذہبی شدت پسندی کی طرف ملک کو لے جانا چاہتا ہے.عوام تو اپنی کم علمی اور معصومیت اور اسلام سے محبت کی وجہ سے ان شدت پسندوں کے دھوکوں میں آتے گئے.پھر غربت اور افلاس نے وہاں کے جو اکثر غریب لوگ ہیں ان کو سوچنے کا موقع نہیں دیا.اور سیاستدان اپنے مفادات کی خاطر مذہبی جبہ پوشوں سے معاہدے کرتے رہے یا ان کو اس حد تک آزادی دے دی کہ اب سیاستدانوں کے خیال میں بغیر ان کے ان کی سیاست چمک نہیں سکتی، وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.ہر پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ کسی نہ کسی مذہبی جبہ پوش کی حمایت کے بغیر اس کی بقا نہیں ہے.جانتے بوجھتے ہوئے نام نہاد اسلام کے ٹھیکے داروں کو غیر ضروری اہمیت دے کر پاکستان میں لاقانونیت کے حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں جو روز بروز بڑھتے چلے جارہے ہیں.سول (Civil) انتظامیہ ہے تو وہ مجبور ہے بلکہ اب تو ایسے خطر ناک حالات ہیں کہ رینجر ز جو کسی زمانے میں امن قائم کرنے کے لئے بڑی اہم سمجھی جاتی تھی اور فوج جو ہے ان کی بھی ان دہشت گرد اور شدت پسند تنظیموں کے سامنے جدید ہتھیاروں کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں.ان حالات میں ایک احمدی ہے جس کا دل بے چین ہو تا ہے کہ وہ ملک جسے ہم نے ہزاروں جانوں کی قربانی سے حاصل کیا تھا اس کا ان مفاد پرستوں اور خود غرضوں اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و تعدی میں بڑھنے والوں نے یہ حال کر دیا ہے.گو ظاہری لحاظ سے باوجود کوشش کے احمدی اس ملک کو ظالموں سے نجات دلانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا.لیکن وطن کی محبت، ہر پاکستانی احمدی کی وطن کی محبت اس سے یہ ضرور تقاضا کرتی ہے اور یہ ہر پاکستانی احمدی کا فرض بھی ہے کہ ہم ملک کے لئے دعا کریں، کوشش کریں.چاہے جتنا بھی اہل وطن یا کم از کم اپنے آپ کو سب سے زیادہ ملک کا وفادار سمجھنے والے نام نہاد لوگ جتنا بھی ہم پر وطن دشمنی کا الزام لگالیں ، ہم پر ہر قسم کا ظلم بھی روار کھیں، ہم نے وطن کی محبت کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے ملک کے لئے دعا

Page 533

518 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کرتے رہنا ہے.اس ملک کو اب اس خوفناک صورتحال سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں.بیرونی دنیا کا محاذ بھی پاکستان کے خلاف سخت سے سخت تر ہوتا چلا جارہا ہے اور اندرونی طور پر بھی فتنہ وفساد، دہشت گردی اور قومی املاک اور وسائل کو آگئیں لگا کر تباہ کر کے ملک کو کمزور تر کیا جارہا ہے.یہ کون سی حب الوطنی ہے جس کو ہم ان شدت پسند تنظیموں کے رویے سے دیکھ رہے ہیں، ان کے عمل سے دیکھ رہے ہیں ؟ احمدی.پاکستان کے مظلوم ترین شہری بے شک اس وقت ہم یعنی احمدی پاکستان کے مظلوم ترین شہری ہیں جن کے ہر قسم کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.سیاست اور حکومت سے تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، کوئی واسطہ نہیں.یہ تو ان دنیا داروں کی کم عقلی ہے اور وہم ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ کیونکہ ایک منظم تنظیم ہے اس لئے شاید حکومت پر ایک وقت میں قبضہ کرنا چاہے گی.ہمیں نہ تو پاکستان کے حکومتی معاملات سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی دنیا کی کسی بھی ملک کی حکومت سے.ہاں کسی ملک کا شہری ہونے کی حیثیت سے ہم ملک سے وفا اور محبت کا تعلق بھی رکھتے ہیں.اور ہر ملک کے احمدی کو اپنے ملک کو دنیا کے ملکوں میں نمایاں طور پر دیکھنے کی خواہش بھی ہے.اور اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتا ہے اور دعا بھی کرتا ہے اور کرنی چاہئے.اور ایک احمدی اپنی ذاتی حیثیت سے کسی بھی ملک کی سیاست میں یا کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ جڑ کر سیاست میں حصہ بھی لیتا ہے.دنیا کے کئی ملک ہیں جہاں احمدی اگر حکومتی پارٹی میں شامل ہو کر ملک کی بہتری کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں تو غیر حکومتی یا حزب مخالف پارٹی جو ہے اس میں بھی شامل ہو کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں.پس ہر احمدی کی ملک کے شہری کی حیثیت سے تو ملک کے سیاسی معاملات میں دلچسپی ہے ، ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے.لیکن جماعت احمدیہ کو بحیثیت جماعت یا خلافت احمدیہ کو کسی حکومت کسی ملک کی حکومت پر قبضہ کرنے میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ یہ ہمارا مقصد ہے.کیونکہ ہمیں آنحضرت صلی علیم کے عاشق صادق نے جو راہ دکھلائی ہے وہ مادی ملکوں کے حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ روحانی بادشاہت کے حصول کے لئے ہے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا تاج ہے جس کا حصول ہمارا مقصود ہے.ہاں جب بھی کسی بھی حکومتِ وقت کو ملک کی تعمیر و ترقی اور بقاء کے لئے مشوروں کی اور قربانیوں کی ضرورت ہوئی تو جماعت احمدیہ نے حصہ لیا اور حصہ لیتی ہے.پس ہم احمدی تو وہ ہیں جو پاکستان میں انفرادی طور پر بھی اور من حیث الجماعت بھی تمام قسم کے ظلم سہنے کے باوجود اپنے ہم وطنوں اور اپنے ملک کو پریشانی اور مشکل کی حالت میں دیکھتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں.ہماری بے چینی حکومتوں کے لئے نہیں، ہماری بے چینی ملک کی بقا کے لئے ہے.ہماری بے چینی ملک کے عوام کے لئے ہے.اور ہم یہ کوشش کرتے ہیں بلکہ جہاں تک وسائل اجازت دیتے ہیں دنیا میں پھر کر بھی ملک کو کسی بھی قسم کی مشکل سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.اور یہ عمل ہماری اس تعلیم کی وجہ سے ہیں جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی الی تم نے ہمیں دی ہے.یہ عمل ہمارے اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کی

Page 534

519 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم وجہ سے ہیں جو ہمارے آقا صلی علی میم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.اور جس کی خد اتعالیٰ نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ یہی وہ میرا پیارا رسول صلی علیہ کم ہے جس کے اُسوہ پر چلنا خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے فرض قرار دے دیا ہے.اور جو اُسوہ اس محسن انسانیت اور رحمتہ للعالمین نے پیش کیا وہ یہ ہے کہ اپنے دکھوں کو بھول کر انسانیت کی خدمت کرو.کسی اجر کے لئے نہیں بلکہ احسان کے جذبات کے تحت، پیار کے جذبات کے تحت، ایتاء ذِي الْقُرْبی کے جذبات کے تحت کہ تمہارے ہم وطن بھی تمہارے قرابت دار ہیں.دکھ تو اگر غیروں کو بھی پہنچے تو جو نیک فطرت لوگ ہیں ان کو تکلیف ہوتی ہے، بے چین ہو جاتے ہیں.تو یہ تو ہمارے اپنے ہیں اور جو ہمارے اپنوں کو دکھ اور مصیبت اور تکلیف پہنچے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں بے چین نہ کرے.پس ہمیں علو اور فساد سے کوئی تعلق نہیں ہے.ہم تو عاجزی اور پیار اور محبت کو پھیلانے والے ہیں.ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو دنیا کو خدا سے دور دیکھ کر بے چین ہو جاتا تھا کہ یہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے سزاوار نہ ٹھہر جائیں.جو اپنی راتیں اس غم میں ہلکان کرتا تھا کہ لوگ خدا کو بھول کر تباہی کے گڑھے میں گر رہے ہیں.جس کے اس درد کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے بھی آپ صلی للی کم کو وہ فرمایا تھا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:4) شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لے گا کہ کیوں ایمان نہیں لاتے.پس ہمیں اپنے آقا و مولیٰ کی اُمت سے منسوب ہونے والوں سے ہمدردی ہے.اس بات کا درد ہے اور اس کے لئے ہماری کوشش ہے کہ یہ لوگ آپ کے پیغام کو سمجھ کر آپ کے مسیح و مہدی کو مان لیں تاکہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی آفات اور عذاب سے بچ جائیں اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائیں.گزشتہ کئی سالوں سے میں مختلف وقتوں میں خطبات میں بھی، تقریروں میں بھی بتارہا ہوں کہ زلازل اور طوفان اور آفات گزشتہ ایک سو سال سے شدت اختیار کر گئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی تائید کا ثبوت ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ یہ زلازل اور آفات اور طوفان میری تائید میں آئیں گے.آپ کی زندگی میں بھی آئے اور آج تک یہ الہی تائیدات کا دور چلتا چلا جارہا ہے.باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ان آفات سے جو نقصان ہو رہا ہے وہ ظاہر وباہر ہے.بلکہ اقوام متحدہ کے صدر جو دورے پر وہاں گئے تھے ان کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب کی تباہی کئی سونامیوں سے بڑھ کر ہے.ہر احمدی جانتا ہے کہ یہ آسمانی اور زمینی آفات جو دنیا میں آرہی ہیں اور ہو رہی ہیں مسیح موعود کی تائید میں ہیں.کاش کہ دنیا اس کو سمجھ جائے.یہ عذاب جو دنیا میں آتے ہیں یہ ہمیں بے چین بھی کر دیتے ہیں کہ اگر دنیا نے خدا تعالیٰ کے اشاروں کو نہ سمجھ تو بڑی تباہی بھی آسکتی ہے.اور اس بے چینی میں پھر ہمارا رخ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف ہوتا ہے.اپنے اللہ کی طرف ہوتا ہے جو دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے پیاروں کو مبعوث فرماتا ہے.دنیا کو بچانے کے لئے اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے.

Page 535

خطبات مسرور جلد هشتم 520 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 پاکستانی اخباروں اور میڈیا میں بھی یہ شور ہے کہ یہ خدائی عذاب ہے یا کیا ہے ؟ ان کے دینی رہنما کہتے ہیں کہ یہ عذاب نہیں ہو سکتا کیونکہ عذاب خدا تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ آتا ہے.مگر خدا کے لئے ہماری بات بھی سنو.مسیح موعود کی بات بھی سنو.خدا تعالیٰ کے مسیح کا پیغام گزشتہ سوسال سے تمہیں ہوشیار کر رہا ہے.ہر آفت جو دنیا میں آتی ہے ہمیں بے چین کرتی ہے کہ یہ آئندہ کسی بڑی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو.جماعت احمد یہ اور وطن کی خدمت جہاں تک آفات میں جماعت احمدیہ کا اہل وطن کی خدمت کا سوال ہے، جیسا کہ میں نے کہا ہم ہر طرح مدد کرتے ہیں، ان حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں میں بھی جماعت احمدیہ نے مختلف ممالک میں پاکستانی سفارتکاروں کے ذریعہ سے انفرادی بھی اور جماعتی طور پر بھی رقمیں اکٹھی کر کے بھیجی ہیں.ملک کے اندر بھی، پاکستان میں بھی مخیر حضرات نے ، احباب جماعت نے رقم کے ذریعہ بھی، سامان کے ذریعے بھی مدد کی ہے.اور ہمارےvolunteers نے بھی لوگوں کو نکالنے میں، محفوظ مقامات پر پہنچانے میں، خوراک مہیا کرنے میں کام کیا ہے.بلکہ ایک موقع پر ہماری ٹیموں کا ایدھی صاحب جو وہاں کا بہت بڑا ٹرسٹ چلاتے ہیں، ان سے سامنا ہو گیا.ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ قادیانی مدد کے لئے سب سے پہلے پہنچتے ہیں.اگر ہماری ٹیموں نے احمدیوں کو سیلاب میں گھرے ہوئے علاقوں سے نکالا ہے تو غیر از جماعت کی بھی بلا تفریق مذہب، عقیدہ، فرقہ خدمت کی ہے.پھر Humanity First کے ذریعے سے بھی خدمت کی ہے اور ہو رہی ہے.اور اب Humanity First نے ان سیلاب زدہ علاقوں کے لئے ایک ملین ڈالر مزید امداد کے لئے ارادہ کیا ہے.وہاں بحالی کے جو کام ہیں اس میں مدد دے گی.اور بلا تخصیص مذہب ہم یہ خدمت کر رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں.اور پھر ہم یہ بھی نہیں بتاتے کہ ہم احمدی ہیں.خاموشی سے خدمت کر رہے ہیں اس لئے کہ کہیں کوئی فتنہ پرداز فتنہ نہ کھڑا کر دے اور اس فتنہ کی وجہ سے غریبوں کو مدد لینے سے محروم کر دے.لیکن ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکے داروں کا رویہ کیا ہے؟ جو اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہیں ان کا رویہ کیا ہے؟ ایک جگہ جب پتہ چلا کہ وہاں دریا کے علاقہ کے کچھ خاندان جو ڈیرہ غازی خان کے ریموٹ علاقہ میں رہتے تھے.وہ وہاں سے جو دریا کے قریب ہو گا اٹھ کے آئے.بہر حال جب سیلاب آیا تو احمدی بھی متاثر ہوئے تو جو خاندان وہاں سے اٹھ کے آئے ان لوگوں کو جب یہ پتہ لگا تو ان احمدی خاندانوں کو انہوں نے خوراک وغیرہ تو کیا دینی تھی، وہ تو ہم نے خود ہی انتظام کر دیا تھا، جو سکول میں shelter ملا ہوا تھا وہاں سے بھی ان لوگوں کو نکال دیا گیا کہ یہ قادیانی ہیں یہاں نہیں رہ سکتے.جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے سنبھالا ہے اور جماعت ان

Page 536

521 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کوبے سہارا نہیں چھوڑتی بلکہ خدا تعالیٰ احمدی کو بے سہارا نہیں چھوڑتا.ان کا انتظام تو ہو گیا لیکن ان لوگوں کی بد فطرتی کا پتہ چل گیا جو اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ کہتے ہیں کہ خدا اور نبی صلی علیم کے نام پر ان لوگوں نے کس بد فطرتی کا ثبوت دیا ہے اور دیتے ہیں.یہ طوفان اور سیلاب لاہور میں ہماری مساجد کے واقعہ کے بعد آئے جہاں ظلم و بربریت کی ہولی کھیلی گئی.اس تناظر میں اگر دیکھیں تو جماعت احمدیہ کا بلند کردار مزید نکھر کر سامنے آتا ہے کہ باوجود یہ سب ظلم سہنے کے جماعت اپنے ہم وطنوں کو پریشان دیکھ کر فورآمدد کے لئے آگے آئی.جماعت کے افراد کی قربانی کی قدر اور بھی بڑھتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مسجدوں میں ہمارے شہید ہونے والوں کے گھروں میں اس وقت جب ابھی ان کے گھروں سے جنازے بھی نہیں اٹھے تھے محلے والوں کی طرف سے بعض جگہ مٹھائی پہنچی کہ لو اپنے شہیدوں کی خوشی میں مٹھائی کھاؤ.اس سے بڑا مذ ہبی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا اور کیا اظہار ہو سکتا ہے یا ہو گا جو قوم کے بعض لوگوں کا مولوی نے کر دیا ہے.بالکل دیوالیہ کر دیا ہے.اور پھر محلے کے بچے بعض جگہ احمدی بچوں کو کہتے ہیں کہ انہیں گٹروں میں پھینکنا ہے کیونکہ یہی ان کا مقام ہے ، یہی ان کی جگہ ہے.جس کی وجہ سے بعض گھرانوں کو اپنے گھر بھی تبدیل کرنے پڑے.لیکن احمدی کا بلند کردار پہلے سے بھی بڑھ کر ان حالات میں اپنی شان اور چمک دکھاتا ہے.جب خوراک اور مختلف اشیاء بلکہ دوائیوں اور تعمیراتی کاموں کے لئے جماعت خدمات پیش کرتی ہے تو بغیر یہ دیکھے کہ کون کس وقت کس قسم کی دشمنی کرتا رہا ہے ، بلا تخصیص ہر ایک کی مدد کے لئے گئی ہے اور مدد پہنچائی ہے.پس یہ ہے وہ حقیقی اسلام کی تصویر جو آج جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے.یہ اسوہ رسول پر چلنے کا اظہار ہے.پس جماعت احمد یہ تو گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو“ کے حکم پر عمل کرنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ کرتی چلی جائے گی.یہ مخالفانہ حالات صرف پاکستان میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جب احمدیوں پر ظلم ہوتا ہے تو جماعت وہاں بھی جب وقت پڑے تو اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہے.گزشتہ دنوں انڈو نیشیامیں پھر ایک جگہ جماعت کی مسجد کو اور احمدیوں کے پانچ چھ گھروں اور کاروں وغیرہ کو، ایک دو کاریں تھیں یا موٹر سائیکل تھے ، ان کو آگ لگائی گئی.لیکن جماعت نے وہاں بھی جب طوفان کی صورت میں ان کو ضرورت پڑی، ان کی مدد کی.انڈونیشیا میں کم از کم بہت سارے غیر از جماعت پڑھے لکھے لوگوں میں یہ شرافت ہے اور جرات بھی ہے کہ مسجدوں اور گھروں کو جلانے والوں کی کافی سیاستدانوں نے اور بڑے لیڈروں نے مذمت کی ہے بلکہ عبد الواحد جو سابق صدر مملکت تھے ، ان کی بیگم افسوس کے لئے جماعت کے گھروں میں بھی گئی.ان لوگوں کے پاس گئی جن کا نقصان ہوا تھا.کاش کہ ہمارے پاکستانی لیڈروں کی آنکھیں بھی کھلیں اور سیاسی قدروں اور اخلاق کو وہ جاننے والے بنیں.بہر حال احمدی تو ہر حال میں دنیا کو ہلاکت سے بچانے کے لئے کوشش کرتا ہے

Page 537

522 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور اس نے کوشش کرنی ہے.زمانہ کے امام کا پیغام پہنچا کر بھی اور دعاؤں میں خاص توجہ دے کر بھی ہم نے اپنی کوشش کو جاری رکھنا ہے.اور ہمارے ان اخلاق کو کوئی ظالم اور کسی بھی قسم کا ظلم ہم سے چھین نہیں سکتا.ہماری دعائیں انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن رنگ لائیں گی جب ظالم اور ظلم صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے.ہمیں ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر شخص کو اور ہر ملک کو ظالم اور ظلم سے پاک کر دے.ہمارا یہ کام نہیں کہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کر کے اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑیں.ہمارے پر ظلم دین کی وجہ سے ہو رہے ہیں اس کے علاوہ تو اور کوئی وجہ نہیں.اور دین کی خاطر لڑائیوں سے ہمیں اب زمانے کے امام نے روک دیا ہے.دعا ایک ہتھیار ہے اور بہت بڑا ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح انشاء اللہ تعالیٰ ہونی ہے اور ہو گی.ہمارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے.جس کے لئے نیکیاں تو بجالائی جاتی ہیں لیکن فتنہ و فساد اور غلو سے کام نہیں لیا جاتا.اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا (القصص:84) یعنی یہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو نہ تو زمین میں اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور نہ ہی فساد کرتے ہیں.پس جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے آخرت پر یقین رکھنے والوں میں شامل کیا ہے تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی بھی قسم کے علوم اور فساد سے ہم کام لیں، قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں.انسانیت کی خدمت سے انکار کر دیں.دوسروں کو ذلیل کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے اور تقویٰ ہی ایک مومن کا مقصود ہے اور ہونا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص:84) یعنی آخری انجام متقیوں کا ہی ہے.فساد کرنے والوں کا نہیں.ہر مذہب کے ماننے والے مخالفین کے حملوں اور زیادتیوں اور ظلموں کی وجہ سے یہی سمجھتے رہے.بعض دفعہ ایسے حالات آئے کہ سمجھنے لگے کہ ہم اب ختم ہوئے کہ اب ختم ہوئے.اور بعض دفعہ جب امتحان اور ابتلا لمباہو جائے تو بعض سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں بھی دنیا داری کے داؤ پیچ استعمال کرنے چاہئیں لیکن الہی جماعتیں ایسا نہیں کرتیں.بعض لوگ مجھے خط بھی لکھ دیتے ہیں کہ اب اتنا صبر اچھا نہیں ہے ہمیں بھی کچھ کرنا چاہیے.پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے جیسے کہہ دیا کہ جنگ اور فساد ہمارا مقصد ہی نہیں ہے.ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا.جب مان لیا تو وہ جو کہتا ہے اس پر حرف بحرف چلنا ہے.اور پھر یہ کہ نیک فطرتوں کو اس قسم کے فتنہ و فساد کے داؤ پیچ آہی نہیں سکتے.کیونکہ اگر ہم کوشش بھی کر لیں تو ہم نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہماری فطرت کے خلاف ہے.ہمارے ربوہ کے ارد گرد جو علاقہ ہے جس میں وہاں کے مقامی باشندے آباد ہیں.ربوہ چونکہ partition کے بعد آباد ہوا تو وہاں آنے والوں کو ربوہ کے شہریوں کو ارد گرد کے مقامی لوگ مہاجر کہتے ہیں.لغو کام، بیہودہ کام ، چوریاں چکاریاں، ڈاکے وغیرہ اس میں یہ لوگ بڑے

Page 538

523 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم مشہور ہیں.شروع میں ان لوگوں سے ربوہ کو بھی بڑا محفوظ کرنا پڑا تھا.میں بتارہا تھا کہ ایک دفعہ باتوں میں ان کا ایک آدمی پنجابی میں کہنے لگا کہ یہ جو ہمارے لغو قسم کے کام ہیں ، جو برائیاں ہیں ، پنجابی میں کہتا ہے کہ ان کاموں میں جتھے تہاڑے سیانے دی عقل ختم ہوندی اے ساڈے کملے دی شروع ہوندی اے“ یعنی یہ برائیوں والے کام ایسے ہیں کہ تم لوگ جو مہاجر ہو جہاں تمہارے عقلمند کی عقل ختم ہو گی وہاں سے ہمارے بیوقوف کی عقل شروع ہوتی ہے.اتنے ماہر ہیں ہم.ہمارا تو ان سے مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا.ہم تو اس مقابلہ میں اس فتنہ و فساد میں ان کے بیوقوفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ان میں سے بھی جو لوگ احمدی ہو رہے ہیں اب لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی وجہ سے ان میں بھی ایک پاک تبدیلی ہو رہی ہے اور وہی کملے جو ان کاموں میں شیر تھے وہ احمدی ہونے کے بعد کافی بہتر ہو رہے ہیں.دوسرے ہمارا خدا تعالیٰ پر یقین ہے جس کا وعدہ ہے کہ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ کہ انجام متقیوں کا ہی ہے.اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے وہاں داؤ پیچ، فتنہ و فساد کے نمبر نہیں ملیں گے.ہاں اگر پوچھا جائے گا تو تقویٰ کے بارہ میں پوچھا جائے گا کیونکہ یہ تقویٰ ہی ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج:38).اسے تمہارا تقویٰ ہی پہنچے گا اور تقویٰ میں بڑھنے سے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخشش کے سامان ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں بڑھائے.دوسرے الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِین کا واضح مطلب یہ بھی ہے کہ الہی جماعتوں کی کامیابی اور فتوحات داؤ پیچ ، فتنہ و فساد، بڑائی اور علو سے حاصل نہیں ہونے.بلکہ عاجزی اور انکساری دکھانے والے اور ہر حال میں اللہ کی رضا چاہنے والے جو لوگ ہیں یہی انشاء اللہ تعالیٰ فتح کے نظارے دیکھیں گے.پس یہ ظلم، یہ فساد، یہ سر کشیاں عارضی ہیں اور تیزی سے اپنے انجام کو پہنچ رہی ہیں.دنیا میں بڑے بڑے فرعون پیدا ہوئے، بڑے بڑے ظالم اور جابر پیدا ہوئے، بڑے بڑے طاقتور پیدا ہوئے لیکن سب ختم کر دیئے گئے.وہ گر وہ جو الہبی جماعتوں کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے، وہ کھڑ ا ہی اس لئے ہوتا ہے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں ایک وقت میں ہماری بالا دستی ختم کر دیں گے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کیونکہ یہ لوگ دنیا دار ہوتے ہیں اس لئے ان کی سوچ اس بات سے آگے جاتی ہی نہیں اور نہ جاسکتی ہے کہ اگر احمدی پھیلتے چلے گئے تو ہماری حکومت پر قبضہ ہو جائے گا.حالانکہ الہی جماعتوں کا مقصد بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے.اور یہی مقصد لے کر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے.یہ فرعون صفت لوگ جنہوں نے اپنی حکومت کو اور اپنی طاقت کو ہی خدا بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا ہوتا ہے ان کو خطرہ ہوتا ہے کہ اگر یہ بندے خد اوالے بن گئے تو ہماری جو مزعومہ خدائی ہے وہ تو ختم ہو جائے گی.

Page 539

524 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اور جو نشانات اللہ تعالیٰ نبی اور اس کی جماعت کی تائید میں دکھاتا ہے ، جو ظاہر ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں، ان کو دیکھ کر یہ یقین بھی ان لوگوں کے دل میں بیٹھ جاتا ہے کہ ان لوگوں نے غالب آہی جاتا ہے.اس لئے دشمنی اور ظلم میں بڑھتے چلے جاتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح انہیں ختم کر دیں.کبھی جادو گر کہہ کر روکیں ڈالی جاتی ہیں، کبھی کچھ کہہ کر روکیں ڈالی جاتی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے زمانے میں یا اس کی جماعت کی ترقی کے زمانہ میں جو مذہبی جبہ پوش ہیں یہ بھی تائیدات اور نشانات دیکھ کر گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے تو منبروں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے اس لئے ظاہری طور پر بھی بھر پور مخالفت کی کوشش کرتے ہیں اور ظلم اور تعدی میں حد سے بڑھتے چلے جاتے ہیں.جھوٹ اور فریب میں اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے سچ اور جھوٹ کا فرق ختم ہو جاتا ہے.اور مذہب کے نام پر خون کر کے اپنے منبروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں.پس یہ مخالفت ان کے دلوں کے خوف کی وجہ سے ہوتی ہے.اور اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ان کو نظر آرہا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اب غالب آنا ہی آنا ہے.ایسے لوگوں کو چاہے وہ حکومتیں ہوں یا منبروں کے نام نہاد مالک، جب اپنی کرسیاں اور منبر نیچے سے نکلتے نظر آئیں تو وہ الہی جماعتوں کی مخالفت میں اور زیادہ تیزی پیدا کر دیتے ہیں اور ہر قسم کے اخلاق اور قانون کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں.اگر ان کو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی کامیابی اور نشان پر یقین نہ ہو تو ان کو اتنی منظم مخالفت کرنے کی کیا ضرورت ہے.پس یہ منظم مخالفت جب بھی ہو تو یہ مخالفین کے اس یقین کا اظہار کر رہی ہوتی ہے کہ ہم تو اب گئے کہ تب گئے.یہ تو کئی لوگ اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر تسلیم بھی کرتے ہیں کہ خدا تعالی کی فعلی شہادت بظاہر احمدیوں کے ساتھ لگتی ہے.بظاہر نہیں، بلکہ حقیقت میں ہے.اب پاکستان میں یا اور ملکوں میں جہاں مذہبی رہنما اور حکومت مل کر جماعت کے خلاف منظم کوشش کر رہے ہیں ان کے متعلق بعض جگہوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح یہ جماعت ترقی کر رہی ہے اور جو باتیں یہ بتاتے ہیں وہ باتیں تو سچی ہیں لیکن اگر یہ باتیں ہم نے عوام میں آسانی سے جانے دیں اور ان کا عوام میں نفوذ ہو گیا تو پھر یا درکھو کہ ہماری کرسیاں بھی جائیں گی اور نام نہاد اماموں کی اما متیں بھی جائیں گی.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہو تا ہے ؟ انبیاء کے مخالفین کے انجام کی طرف نشاندہی فرما دی ہے کہ جس طرح ان کے فتنہ اور فساد اور علو اور ظلم اور دولت اور طاقت ان کو نہیں بچا سکی تھی آئندہ بھی کسی حد سے بڑھے ہوئے کو اور الہی جماعتوں کے مخالفین کو یہ چیزیں نہیں بچاسکتیں.پس آج میں پھر کہتا ہوں کہ جو بظاہر آفات اور مصائب سے محفوظ ہیں یا اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ اِسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّبِي وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّتَى إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَتَ الْأَوَّلِينَ ، فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِیلا (فاطر : 44) کہ ان کے زمین میں تکبر کرنے اور برے مکر کرنے کی وجہ سے.اور بُری تدبیر b

Page 540

525 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نہیں گھیر تی مگر خود صاحب تدبیر کو.( یعنی کہ بری تدبیریں ان تدبیر کرنے والوں کو ہی گھیر تی ہیں).پس کیا وہ پہلے لوگوں پر جاری ہونے والی اللہ تعالیٰ کی سنت کے سوا کوئی اور انتظار کر رہے ہیں.پس تو ہر گز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تو ہر گز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا.پس کیا یہ تکبر ، بڑائی، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے خلاف مکر ، کامیاب ہو گا؟ نہیں ہو گا، ہر گز نہیں ہو گا.اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے.یہ پرانے انبیاء کے قصے ہمیں قرآنِ کریم میں صرف قصے کہانیوں کے لئے نہیں سنائے جار ہے بلکہ اس لئے کہ عبرت حاصل کرو اور اپنے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرو.اور خدا کے بھیجے ہوئے سے ٹکر لے کر اس کے ماننے والوں پر ظلم اور سفاکی کی داستانیں رقم کرنے والوں کا حصہ نہ بنو اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا (فاطر :44) پس تو ہر گز اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تو ہر گز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا، پر غور کرو.کاش کہ یہ لوگ سمجھ جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق بھی دے اور دنیا کے حق میں ہماری دعائیں قبول بھی فرمائے کہ یہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے اور تباہ ہونے سے بچ جائیں.اپنے لئے بھی دعا کرتے رہیں کہ ہم صبر اور حوصلے سے ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں اور وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ کے حقیقی مصداق بن کر فتح اور نصرت کے نظارے دیکھنے والے ہوں.آخر پر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کروں گا.آپ فرماتے ہیں : یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا.وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا“.جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے.انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افترا ہو تا تو کب کا ضائع ہو جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایساد ضمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں.وہ بیوقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرآت کسی کذاب میں ہو سکتی ہے.وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو.اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کا مقابلہ کرنے کیلئے طیار ہو جائے.یقیناً منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن روسیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے.کون ہے دوست ؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزار ہانشان دیکھ لئے ہیں.سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی.اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے

Page 541

526 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم غمخوار ہوئے اور ناشناسا ہو کر بھی آشناؤں کا سا ادب بجالائے.خدا تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو.اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا“.( یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اس کی عزت کیا ” مجھے در حقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی.تب اسی قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہو گئے.میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اور اپنے نفس کے ترک اور اخذ کیلئے مجھے حکم بناتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے.مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اور عزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پاسکتے جو ان راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا اور جو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہوا بندہ تھا اس کی خوشبو ان کو آگئی.انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ و جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کرے.باکمال وہ آدمی ہے جو گداؤں کے پیرایہ میں اس کو پاوے اور شناخت کر لیوے.مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیر کی کسی کو دوں.ایک ہی ہے جو دیتا ہے.وہ جس کو عزیز رکھتا ہے ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے.انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کبھی ہے زیادہ تر کچھی کا موجب ہو جاتی ہیں“.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 349-350 مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتا چلا جائے اور دنیا کی آنکھیں کھولے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 44 مورخہ 29 اکتوبر تا 4 نومبر 2010 صفحہ 5 تا 7)

Page 542

خطبات مسرور جلد ہشتم 527 42 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010ء بمطابق 15 اخاء 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَالْمُرْسَلَتِ عُرُفًا فَالْحُصِفْتِ عَصْفًا وَ النُّشِرَاتِ نَشْرًا - فَالْفُرِقْتِ فَرْقًا - فَالْمُلْقِيتِ ذِكْرًا - عُدْرًا اَوْ نُذرًا - إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِع - فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ وَإِذَا الْجِبَالُ نُسُفَتْ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقْتَتْ - المرسلت: 2 تا 12) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ قسم ہے پے بہ پے بھیجی جانے والیوں کی.پھر بہت تیز رفتار ہو جانے والیوں کی.اور پیغام کو اچھی طرح نشر کرنے والیوں کی.پھر واضح فرق کرنے والیوں کی.پھر انتباہ کرتے ہوئے صحیفے پھینکنے والیوں کی.حجت یا تنبیہ کے طور پر.یقیناً جس سے تم ڈرائے جارہے ہو لازم ہو کر رہنے والا ہے.پس جب ستارے ماند پڑ جائیں گے.اور جب آسمان میں طرح طرح کے سوراخ کر دیئے جائیں گے.اور جب پہاڑ جڑوں سے اکھیٹر دیئے جائیں گے.اور جب رسول مقررہ وقت پر لائے جائیں گے.ان آیات میں جہاں آنحضرت علی علیم کے زمانہ میں اور آپ کے صحابہ کے ذریعے اسلام کے پھیلنے کی خبر ہے جو اپنے نقطہ عروج کو پہنچ کر ان پیشگوئیوں کو روزِ روشن کی طرح واضح کر گئیں وہاں ان آیات میں آنحضرت ی ایم کے عاشق صادق کے زمانہ اور آپ کی آمد کی پیشگوئی بھی ہے.جب صحابہ والا تقویٰ مفقود ہونے کے بعد اسلام کی کشتی کو سنبھالنے کے لئے مسیح موعود اور مہدی موعود نے مبعوث ہو کر پھر اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کر کے اسلام کو ، اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا کام سر انجام دے کر اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا.جماعت کی ترقی پس آج یہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور آپ کی قائم کردہ جماعت کی ترقی کی نشاندہی کر رہی ہیں.ان آیات میں بیان کردہ کچھ پیشگوئیاں بھی ہیں جو ہم اس زمانہ میں پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں

Page 543

528 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اور دیکھ چکے ہیں اور باقی انشاء اللہ پوری ہونے والی ہیں وہ بھی دیکھیں گے.یہ اُس خدا کا کلام ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جو سب سچوں سے سچا ہے.پس ہمارا خداوہ خدا ہے جو قادر و توانا ہے.جو اپنی عظیم تر قدرت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مقدر انقلابات کو بھی سچا کر کے دکھا رہا ہے اور دکھائے گا.اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم اُس انقلاب کا حصہ بننے کے لئے ، ان نعمتوں سے حصہ لینے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے لئے مقدر کی ہیں اپنی کوششوں کو بھی حرکت میں لائیں.پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا حصہ بننے کے لئے ہمیں اپنے اندر بھی انقلاب پیدا کرنا ہو گا، جس سے ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کا حصہ بن کر ان انعامات کو حاصل کرنے والا بن جائے جو آپ علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مقدر کر دیئے ہیں.الہی تائیدات کے نشانات پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنی تائیدات کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں جو نشانات دکھائے ہیں، دکھا رہا ہے اور دکھائے گا انشاء اللہ تعالیٰ، ان کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے وَالْمُرْسَلَتِ عُرُفًا فرمایا کہ فرشتوں کے ذریعہ جو تائیدات ہو رہی ہیں، ان کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں شروع ہوا.یہ پیغام جو نیکی، پاکیزگی، اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کے پھیلانے اور قائم کرنے کا پیغام تھا.یہ پیغام ان نشانات اور تائیدات کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے ذریعہ بھی پھیلا.وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو وہ نہ صرف یہ کہ قابل پذیرائی نہ تھا.اس کو پوچھا نہیں گیا بلکہ مخالفت کے شدید دور سے یہ پیغام گزرا.مخالفتوں کے طوفان کھڑے کئے گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے پے در پے نشانات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل اور براہین جو خود خدا تعالیٰ کے نشان کا درجہ رکھتے تھے اور آپ کے ماننے والوں کی تبلیغ، یہ سب ایسی چیزیں تھیں جنہوں نے تمام مخالفتوں کے باوجود آہستہ آہستہ نیک فطرتوں کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل کرنا شروع کر دیا.اور آپ کی زندگی میں جماعت لاکھوں کی تعداد تک پہنچ گئی.پس خدا تعالیٰ جب اپنے انبیاء بھیجتا ہے تو ان کے پیغام کو پہلے آہستہ آہستہ پھیلا تا ہے اور پھر وہ بڑی تیزی سے ضرب کھاتے چلے جاتے ہیں.پہلے پیغام پہنچانے کے وسائل اور ذرائع کم ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ جس تقدیر کو کرنے کا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ ان وسائل اور ذرائع میں بھی اضافہ اور تیزی فرما دیتا ہے.پس ایک تو نشانات میں اضافہ ہوتا ہے.جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں دیکھتے رہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جو بات بھی الہام یار و یا صادقہ کی صورت میں بتاتارہا ان میں بھی آپ کے ابتدائی دور میں اور ہر آنے والے وقت میں اضافہ ہو تا رہا جس کے اپنے اور غیر کثرت سے گواہ ہیں.مثلاً آپ نے اپنی زندگی میں طاعون کی مثال دی ہے کہ شروع شروع میں یہ نشان کے طور پر ظاہر ہوا.بہت معمولی نش ان تھا، تھوڑے تھوڑے علاقوں میں ظاہر ہوا.اور پھر یہ پھیلتا چلا گیا اور پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے

Page 544

529 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لیا.لیکن جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ بعض باتیں میرے اس دنیا سے جانے کے ساتھ مقدر ہیں یعنی اس کے بعد ہوں گی جو جماعت کی تائید میں ہوں گی، جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے.اور قدرتِ ثانیہ جو خلافت کا دور ہے، ان میں تم ان باتوں کو پورا ہوتا دیکھو گے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو یہ وعدہ فرمایا تھا کہ یہ باتیں جو اب کی جارہی ہیں بعض ان میں سے بعد میں پوری ہوں گی.ان کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وسائل اور ذرائع کو اس زمانہ کے مطابق مہیا فرما دیا اور فرما رہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ بعض کام اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی زندگیوں میں پورے فرماتا ہے اور بعض ان کے جانے کے بعد پورے فرماتا ہے.لیکن انبیاء سے جو وعدہ ہو تا ہے ، جو الہی تقدیر کا حصہ ہوتا ہے وہ ضرور پورا ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ ہم کو بھی فرمایا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَأَمَا نَذْهَبَنَ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ (الزخرف:42) پس اگر ہم تجھے لے بھی جائیں تو ان سے ہم بہر حال انتقام لینے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ جب نبی کے مخالفین کے بارہ میں کچھ بتاتا ہے تو وہ ضرور پورا ہو تا ہے.اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں، اگر ان کے لئے سزا مقدر ہو ، اگر اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لینا ہو تو وہ ضرور لیا جاتا ہے، چاہے نبی کی زندگی میں پورا ہو یا بعد میں.اسی طرح اگر کسی کے بارہ میں خوشخبری ہے، فتوحات کی خبریں ہیں، اگر اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ دیتا ہے یا اپنے نبی سے الفاظ کہلواتا ہے تو وہ بھی کچھ زندگی میں اور کچھ بعد میں پوری ہوتی ہیں.چنانچہ جب آنحضرت صلی الم نے سراقہ کو کسری کے سونے کے کنگن کی خوشخبری دی تھی تو اصل میں اس میں ایران کے اسلام کے جھنڈے تلے آنے کی خبر تھی جو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پوری ہوئی اور سراقہ کو کنگن پہنائے گئے.پس نیکی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق پہلے آہستہ آہستہ پھیلتی ہے اور پھر دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے.نبی کی فتوحات آہستہ آہستہ شروع ہوتی ہیں اور پھر دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے.اور جب دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی ان کو پورا کرنے کے لئے پہلے سے تیز اور بہتر حالات پیدا کر دیتی ہے.اور ذرائع اور وسائل مہیا ہو کر پھر ان میں تیزی آتی جاتی ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالی کوئی محدود طاقتوں والا نہیں ہے.اگر وہ چاہے کہ نبی کے زمانے میں بھی نبی سے کئے گئے تمام وعدے اور فتوحات کو اس زمانہ میں اور اس کی زندگی میں پورا کر دے تو کر سکتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بعد میں آنے والے بھی ان فتوحات اور انعامات سے حصہ لینے والے بن جائیں.پس اس زمانہ کے تیز وسائل ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ان کا صحیح استعمال کریں.انہیں کام میں لائیں اور صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہو.ن ہوئے زمانہ کے امام کے معین و مددگار بن جائیں.اور مددگار بن کر اس کے مشن کو پورا کرنے والے ہوں.تیز رفتار وسائل اس طرف توجہ مبذول کروارہے ہیں کہ ہم اس تیز رفتاری کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھتے ہوئے اس کے دین کے لئے استعمال کریں.

Page 545

خطبات مسرور جلد ہشتم 530 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 اللہ تعالیٰ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ والنشراتِ نَشْرًا اور پیغام کو اچھی طرح نشر کرنے والوں کو بھی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے تو یہ پیغام وہ ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صل الم کو مبعوث فرمایا.اور وہ کامل اور مکمل دین جو تاقیامت قائم رہنے والا ہے اس دین کے احیائے نو کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.یہ زمانہ کتابیں پھیلانے کا پس خدا تعالیٰ نے اس نشر کے اس زمانہ میں جدید طریقے مہیا فرما دیئے ہیں.آنحضرت صلی ال نیم کے صحابہ کے پاس آج کل کے وسائل اور جدید طریقے موجود نہیں تھے.اس کے باوجود انہوں نے تبلیغ اسلام کا حق ادا کر دیا.آج کل ہمارے پاس یہ طریقے موجود ہیں اور آنحضرت صلی علیہ یکم کے غلام صادق کے زمانہ میں یہ مقدر تھے.اللہ تعالیٰ نے اس کی پیشگوئی بھی فرما دی تھی.یہ آیت جو ہے یہ پیشگوئی ہے جس کا دوسری جگہ اس طرح ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا الصُّحُفُ نُشرت (التکویر : 11) یعنی جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی.پس ایک تو یہ زمانہ کتابیں پھیلانے کا ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روحانی خزائن کا ایک بے بہا سمندر ہمارے لئے چھوڑا ہے اور اس کی اشاعت آپ کے زمانے میں ہوئی.آپ کے صحابہ نے بھی اس کو پھیلانے میں خوب کردار ادا کیا.ہم صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں کہ کسی نہ کسی صحابی نے کوئی کتاب ے شخص کو دی، اس نے پڑھی، اس کے دل پر اثر ہوا اور اس طرح آہستہ آہستہ لوگ احمدیت میں شامل ہوتے چلے گئے.اور ایک قربانی کے ساتھ ان لوگوں نے یہ کام کیا جیسا کہ اسلام کے دور اول میں صحابہ نے کیا تھا.اور پھر یہ لوگ، یہ صحابہ جن کی قسم کھائی گئی ہے، جن کو شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بن گئے.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے بھی آنحضرت صلی الم کے صحابہ والا کر دار ادا کیا.جس سے یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن گئے.آج خدا تعالیٰ نے ان کتابوں کو نشر کرنے کے اور اسلام کے مخالفین کے جواب دینے کے پہلے سے بڑھ کر ذرائع مہیا فرما دیئے ہیں جو تیز تر ہیں.کتابیں پہنچنے میں وقت لگتا تھا اب تو یہاں پیغام نشر ہوا اور وہاں پہنچ گیا.یہاں کتاب پر نٹ ہوئی اور دوسرےend سے نکال لی گئی.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب، قرآنِ کریم اور دوسرا اسلامی لٹریچر انٹرنیٹ کے ذریعہ ، ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے.جو تیزی میڈیا میں آج کل ہے آج سے چند دہائیاں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا.پس یہ مواقع ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ اور دفاع میں ان کو کام میں لاؤ.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ جدید ایجادات اس زمانہ میں ہمارے لئے اس نے مہیا فرمائی ہیں.ہمارے لئے یہ مہیا کر کے تبلیغ کے کام میں سہولت پیدا فرما دی ہے.اور

Page 546

531 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ہماری کوشش اس میں یہ ہونی چاہئے کہ بجائے لغویات میں وقت گزارنے کے ، ان سہولتوں سے غلط قسم کے فائدے اٹھانے کے ان سہولتوں کا صحیح فائدہ اٹھائیں، ان کو کام میں لائیں.اور اگر اُس گروہ کا ہم حصہ بن جائیں جو مسیح محمدی کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے تو ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے.MTA اور اس کے کارکنان MTA کی تقریب پر میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ آج MTA کا ہر کارکن چاہے وہ جہاں بھی دنیا میں کام کر رہا ہے، یا کسی بھی کونے میں جہاں کام کر رہا ہے ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کا کام کر رہا ہے.یہ کام تو خدا تعالیٰ نے کرنا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود آپ سے فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ذرائع بھی پیدا فرمائے ہیں کہ آپ کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچے.پس یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے اور یہ تمام ایجادات اس کی شہادت دے رہی ہیں.لیکن ہم اس سوچ کے ساتھ اگر یہ کام کریں کہ ہم اس تبلیغ کا حصہ بن کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بھی بن جائیں.اور یہ اپنے آپ کو دیکھیں کہ آیا ہم بن رہے ہیں کہ نہیں تو تبھی اس کا صحیح حق ادا ہو گا.ایسے کارکنوں کو تبھی ان کے حقیقی مقام کا احساس ہو گا جب وہ یہ جائزہ بھی لے رہے ہوں گے.اور جب مقام کا احساس ہو گا تو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی جو ذمہ داریاں ہیں اس طرف بھی توجہ پیدا ہو گی.صرف ٹیکنیکل مدد یا کیمرے کے پیچھے کھڑے ہو جانا یا پروگرام بنالینا یا اسی طرح کے دوسرے کام کر دینا کافی نہیں ہو گا بلکہ پھر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے عبادتوں کی طرف بھی توجہ ہو گی.ہر کام کے بہتر انجام کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکاؤ ہو گا اور وَالنُّشِراتِ نَشْرًا کو سامنے رکھتے ہوئے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی.یعنی عبادتوں کے معیار کے ساتھ عملی کوششیں کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے مسیح کی مدد کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی.اس پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشش ہو گی.اور یہ بات صرف MTA تک محدود نہیں ہے یا بعض ویب سائٹس پر جواب دینے کے لئے کچھ لوگوں کی ٹیم بنادی جاتی ہے ، ان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر فرد جماعت کو اس میں کردار ادا کرنا چاہئے.صحابہ نے جو حق ادا کیا اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر ہم نے اب تک وقت ضائع کیا ہے یا ہماری توجہ پیدا نہیں ہوئی یا احساس نہیں ہوا تو اب اپنے اندر احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے.گو کہ اتمام حجت تو ہو چکی ہے لیکن پھر بھی جس حد تک ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں.اگر اس طرح ہر احمدی اپنا کر دار ادا کرنے کی کوشش کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی ہم ایک انقلاب دیکھیں گے کیونکہ زمانہ اب تیزی سے اس طرف آرہا ہے.

Page 547

532 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فالفرقتِ فَرْقًا.پھر فرق کر کے دکھلانے والوں کی شہادت ہے.یہ تبلیغ اور ذرائع کا جو استعمال ہے یہ فرق کر کے دکھا رہا ہے.ہر احمدی جو کسی بھی صورت میں تبلیغی مہم میں حصہ لے رہا ہے، فُرِقَاتِ فَرقا کا حصہ ہے.انٹرنیٹ کے ذریعے سے، لٹریچر کے ذریعے سے یا MTA کے کارکنان جو براہِ راست اگر نہیں تو اس مشینری کا حصہ ہیں جو یہ کام سر انجام دے رہی ہے.اس نظام کا حصہ ہیں جو دنیا میں یہ صحیفے اور کتب نشر کر رہا ہے.آج دنیا میں اس نئی ایجاد کی وجہ سے کھیل کو د اور لغویات کی تشہیر بھی ہو رہی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا.لیکن دوسری طرف اللہ والوں کا ایک گروہ ہے جو نیکی کی باتیں پھیلا رہے ہیں.مسیح محمدی کے غلاموں کا ایک گروہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشاں ہے.گو بعض دوسرے چینل بھی اسلام کی تعلیم پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک محدود وقت کے لئے اور پھر اس میں زمانہ کے حکم اور عدل کو چھوڑنے کی وجہ سے ایسی ایسی تشریحات اور بدعات بھی ہیں جو بعض دفعہ تعلیم کی روح کو بگاڑ دیتی ہیں.اب مثلاً یہی سوال جواب کے پروگرام آتے ہیں.کسی نے مجھے لکھا کہ فلاں مولوی صاحب یہ تشریح پیش کر رہے تھے کہ عورتوں کے لئے اب پر دہ ضروری نہیں ہے کیونکہ قرآنِ شریف میں صرف سینے پر اوڑھنیوں کو لپیٹنے کا حکم ہے.کہیں سر ڈھانکنے کا حکم نہیں ہے.حالانکہ بڑا واضح لکھا ہے اور پھر کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو آنحضرت علی ایم کی ازواج کے لئے تھا.حالانکہ اسی آیت میں مومنات کے لئے بھی حکم ہے.تو بہر حال یہ غلط قسم کی توجیہات پیدا کی جاتی ہیں.پھر بدعات پیدا کی جاتی ہیں.بہانے بنائے جاتے ہیں کہ کس طرح اسلامی حکموں کو ٹالیں.اس طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے ، اسلام کی تعلیم ہے اس کی روح کو بگاڑ دیتے ہیں.پس اصل تعلیم وہی ہے جو اس غلام صادق کے ذریعے پھیل رہی ہے جو زمانے کا حکم عدل ہے.اور یہی تعلیم ہے جو حق اور باطل اور صحیح اور غلط اور خالص دینی اور بدعات کی ملونی میں فرق کر کے دکھلانے والی ہے.پس مسیح موعود کا کام بطور حکم عدل کے فَالْفُرقتِ فَرْقًا کی حقیقی تشریح کرنا ہے.پس ہمیں اس ماحول سے نکل کر جو آج کل دنیا داری کا ماحول ہے اس حقیقی ماحول کو اپنانے کی ضرورت ہے ، اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے پیش فرمایا ہے.ورنہ ہم میں اور دوسروں میں تو کوئی فرق نہیں ہے.فرق تبھی واضح ہو گا جب ہماری تبلیغ کے ساتھ ، جب ہمارے پروگراموں کے ساتھ ہمارے اپنے اندر بھی وہی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہوں گی.ہم اپنے نفس کے بھی جائزے لے رہے ہوں گے.جو تعلیم دے رہے ہوں گے ، جس تعلیم کو سمجھ رہے ہوں گے اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہوں گے.اس کے نمونے بھی دکھارہے ہوں گے.پس اسلام کی جس خوبصورت تصویر کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے اور جو فرق کر کے دکھایا ہے جو اصل میں وہ تصویر ہے جو آنحضرت صلی الی یکم نے پیش فرمائی ہے.اسی کی آج دنیا کو ضرورت ہے.اسی کی آج ہمیں ضرورت ہے.

Page 548

خطبات مسرور جلد ہشتم 533 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 تبلیغ کے ضمن میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ لیف لیٹس (Leaflets) تقسیم کرنے کی ایک سکیم بنائی گئی تھی.یہاں UK میں بھی اس پر عمل ہوا ہے، دنیا کے اور ملکوں میں بھی ہوا ہے اور دنیا میں اس کا بڑا اثر ہے.جماعت کا مختصر تعارف جیسے پیش کیا گیا اور جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیار اور محبت کی تعلیم پیش کی گئی اس نے دنیا میں بڑا اثر دکھایا.امریکہ میں بھی مہم ہوئی ہے.وہاں تو یہ کہتے تھے کہ شاید ہم کامیاب نہ ہو سکیں لیکن جب انہوں نے Leaflets بانٹنا شروع کئے تو لوگوں نے بڑی خوشی سے اس پیغام کو وصول کیا کہ اسلام کا یہ پیغام تو ہم نے پہلی دفعہ دیکھا اور سنا ہے.اور اس بنیاد پر اخبار کے کالم لکھنے والوں نے بھی اس میں حصہ لیا.انہوں نے کہا کہ یہ پیغام جو تم پہنچارہے ہو اس پیغام کو ہم بھی تمہارے ساتھ تقسیم کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ کئی کالم نویسوں نے، بڑے بڑے اونچے درجہ کے کالم نویس جو بڑے نیشنل اخباروں کے ٹاپ کے لکھنے والے تھے انہوں نے اس میں حصہ لیا اور پھر اپنے کالم لکھے اور وہ اخبارات لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں.وہاں کے لوگ پڑھتے ہیں، Leaflets تو چند ہزار یا سینکڑوں میں تقسیم ہوئے تھے لیکن اخبار کے ذریعہ پھر جماعت کا پیغام لاکھوں کروڑوں میں پہنچ گیا.تو یہ ذریعہ بڑا کامیاب ہوا ہے.جیسا کہ میں نے کہا بعض انکار بھی کرتے تھے لیکن جب بتایا کہ ہمارا پیغام وہ پیغام نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ یہ محبت، پیار اور بھائی چارے کا پیغام ہے تو پھر لیتے ہیں.تو ہمارے پیغام میں اور دوسروں کے پیغام میں یہ فرق ہے جو زمانہ کے امام نے ہمیں سکھایا ہے کہ اس طرح تبلیغ کر و.بلکہ ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ ایک عورت کو انہوں نے پمفلٹ دیا تو اس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا کہ ہیں، یہ کیا مجھے بتارہے ہو ؟ جو نائن الیون کا واقعہ ہوا.تم نائن الیون والے ہو ؟ اس نے کہا نہیں.ہمارا یہ پیغام نہیں.ہم مختلف ہیں.خیر اس نے لے لیا اور اس کے بعد پھر تعریف کی.پس اس پیغام نے نیکی اور برائی کو بھی واضح کر دیا.جہاں احمدیت کا اصل پیغام پہنچا ہے ، اسلام کا اصل پیغام پہنچا ہے، وہاں نیکی اور برائی کا فرق بھی ظاہر ہو گیا.اصل اسلام اور بگڑی ہوئی تعلیم کو بھی واضح کر دیا.دنیا کو پتہ لگ گیا کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے ؟ اور اس سے پھر نوجوانوں میں بھی جرآت پیدا ہوئی.امریکہ میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر بعض نوجوان جھجک رہے تھے.لیکن جب اجتماع پر انہوں نے سکیم بنائی اور یہ پیش کیا جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض اخباری کالم لکھنے والوں نے بھی شامل ہونے کے لئے کہا.جب وہ شامل ہوئے تو لڑکوں میں نوجوانوں میں ایک اعتماد پیدا ہوا اور پھر انہوں نے با قاعدہ سکیم بنا کر اس میں حصہ لینا شروع کر دیا.تو اس طرح جو تھوڑا سا احساس کمتری تھا وہ بھی دور ہو گیا.کیونکہ نوجوانوں میں اسلام کے نام پر جو دوسروں سے غلط باتیں سنتے ہیں ان میں ہمارے نوجوان بھی ایسے ہیں جن کو اسلام کا پوری طرح علم نہیں، جانتے نہیں، تو ان میں احساسِ کمتری پیدا ہو جاتا ہے.بہر حال غیروں کے منہ سے تعریف سن کر پھر ان میں اعتماد یدا ہوا.یہ ایک ابتدا ہے جو ہوئی ہے.اس سے مزید راستے انشاء اللہ تعالیٰ کھلیں گے.اس لئے میں اس میں

Page 549

534 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم نہیں کہتا کہ یہاں بند ہو گیا.اب اگلا قدم اٹھایا جائے گا.تو اس طرح انشاء اللہ تعالیٰ چلتا جائے گا.جن کے پاس ایک دفعہ یہ پیغام پہنچ گیا اب ان کے لئے سوچنا چاہئے کہ اگلا پیغام کیا دینا ہے ؟ ان کو اگلا پیغام کیا پہنچاتا ہے ؟.ایک صاحب نے مجھے کہا کہ کینیڈا میں بھی لیف لیٹ تقسیم ہو رہے ہیں.بہتر یہ ہے کہ انڈیا کی کسی جگہ سے ٹیکسٹ میسجز (Text Messages) بھیجے جائیں تو اس سے زیادہ اثر ہو گا.سوال یہ ہے کہ وہاں بیٹھ کر کون سی ٹیم بھیجے گی.اور پھر کن کن ملکوں میں بھیجے گی؟ وہاں کے نمبروں کا ڈائریکٹریوں سے اگر پستہ بھی کر لیں گے ، ایڈریس لے لیں گے تو پھر بعض قانونی روکیں ہوتی ہیں.بہر حال قانونا یہ غلط ہے کہ کسی کو اگر وہ کوئی پیغام لینا نہیں چاہتا تو وہ پیغام بھیجا جائے.گو کہ ان کی نیت نیک ہی ہو گی لیکن یہ پیغام بہر حال اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکتا جس طرح خود دینے سے، کیونکہ جب خود آپ دے رہے ہوں گے تو اپنی ایک کوشش بھی بیچ میں شامل ہوتی ہے.ایک ذاتی تعلق بھی بنتا ہے.پھر جب وہ شخص آپ کو دیکھتا ہے ، آپ کا حلیہ دیکھتا ہے آپ کا انداز دیکھتا ہے آپ کی بات چیت کا انداز دیکھتا ہے تو پھر ایک ظاہری شکل سے بھی وہ اندازہ لگالیتا ہے کہ کس قسم کا شخص ہے ؟ اور پر سنل تعلق جب بنتے ہیں تو پھر ان سے رابطے بڑھتے ہیں اور یہی پھر تبلیغ کے ذریعے پیدا کرتے ہیں.لٹریچر دینا یا پمفلٹ دینا یالیف لیٹ دینا تو ٹھیک ہے.لیکن صرف فونوں پر ٹیکسٹ میسج دینا ٹھیک نہیں.پھر یہ ہے کہ مشن کا پتہ دیں گے تو کوئی آئے کہ نہ آئے.ٹیکسٹ میسج دینے سے کمپنیوں کے اشتہار تو دیئے جا سکتے ہیں لیکن جب تک ذاتی تعلق سے اور ذاتی کوشش ، تبلیغ نہ کی جائے یا یہ لٹریچر تقسیم نہ کیا جائے تو پھر میرے خیال میں اس طرح تبلیغ نہیں ہو سکتی.کیونکہ رابطے مستحکم ہوں گے تو تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھیں گے.پھر یہ بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اور بعض مسلمان ممالک میں اگر قانونی روکیں ہیں، تو باہر دوسرے ممالک میں جہاں آزادی ہے وہاں وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف کروانے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ جو ہو رہا ہے ہر ملک نے ہزاروں میں یا چند لاکھ میں شائع کئے ہیں اس پر اکتفا نہ کر لیں.اس کام کو اب آگے بڑھانا چاہئے.ہر سال یہ تعارف لاکھوں میں پہنچنا چاہئے اور جن کو پہنچ گیا ان کو اگلا حصہ پہنچنا چاہئے.گویا کہ سارے نظام کو اس میں پوری طرح involve ہونا پڑے گا.پھر ان لیف لیٹس کے ذریعے جیسا کہ میں نے کہا صرف امریکہ میں نہیں اور جگہوں پر بھی اخباروں نے خبریں دی ہیں جہاں کئی ملین لوگوں میں احمدیت کا پیغام پہنچا ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچا ہے.پس اس مہم کو پہلے سے بڑھ کر جاری رکھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انتباہ کرنا بھی انبیاء کے کاموں میں سے ایک کام ہے.اور پھر انبیاء کے جو ماننے والے ہیں اُن کو بھی ان کے کام کو آگے بڑھانا چاہئے.اس لئے دنیا کو آگاہ کرنا، دنیا کو انتباہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے انذار سے ڈرانا بھی بعض دفعہ ضروری ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَالْمُلْقِیتِ ذِکرا کہ اللہ کا پیغام سنانے والوں کو انتباہ کرنے

Page 550

535 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم والوں کے زمرہ میں شامل ہونا بھی نبی کے سچے پیروکاروں کا کام ہے.پس ایک پیغام کے بعد دوسرا پیغام اس لئے بھی ہونا ضروری ہے کہ نبی کے سچے پیروکاروں کا یہ کام ہے تاکہ دنیا جو غلط رستے پر چلی ہوئی ہے وہ ان غلط راستوں سے بیچ جائے.اور یہی الہبی جماعتوں کا کام ہے کہ دنیا کو آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچائیں.اس کے لئے ہمیشہ کوشش ہوتی رہنی چاہئے.پیغام کے دو حصے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں.عُذرا او نذرا.حجت کے طور پر یا تنبیہ اور ہوشیار کرنے کے لئے.پس اگر نہ مانیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی آسکتی ہے.اس آیت اور اس سے پہلی آیت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ نبی کے نشان مومن اور کافر کے درمیان فرق کر دیتے ہیں.فرمایا کہ اس وقت لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ حق کس امر میں ہے.آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں؟ یہ سمجھ آنا بعض کے لئے صرف حجت کا موجب ہو گا.عُذراً یعنی مرتے مرتے ان کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے نزدیک نُخرا یعنی ڈرانے کا موجب ہو گا کہ وہ تو بہ کر کے بدیوں سے بعض آویں.پس نبی کی سچائی تو بعض لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے لیکن بعض دفعہ ڈھٹائی اور ضد اور آنا آڑے آجاتی ہے.کچھ تو اللہ تعالیٰ کے حضور حساب دیں گے.اللہ پوچھے گا کہ کیوں نہیں مانا؟ اور کچھ کو تو بہ کی توفیق مل جائے گی اور مل جاتی ہے.لیکن بعض دفعہ اگر اللہ تعالیٰ رستی دراز کرتا ہے اور وہ تو بہ نہیں کرتے اور اپنی حرکتوں سے بعض نہیں آتے تو پھر ان لوگوں کے انجام کے بارہ میں بھی متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِنَّمَا تُوعَدُونَ لَواقِع کہ تم جس بات کا وعدہ دیئے جا رہے ہو یقیناً وہ ہونے والی ہے.یعنی یہ انذار کی خبر اگر نہ مانو گے تو انذار ہے.اور انذار کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ (نشان) ظاہر فرماتا ہے اور اگلے جہان میں بھی سزا کی خبر دیتا ہے.اور نبی اور اس کی جماعت کے لئے یہ وعدہ ہے کہ آخری فتح اور غلبہ ان کا ہے.یعنی تُوعَدُونَ لَواقِع میں دو پیغام ہیں.مخالفین کے لئے بھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہو گے ، اس دنیا میں عذاب کی صورت میں یا مرنے کے بعد.اور نبی اور ان کی جماعت سے جو غلبہ کا وعدہ ہے اس کے متعلق بھی فرمایا کہ وہ بھی انشاء اللہ پورا ہو گا.پس اللہ تعالیٰ نہ ماننے والوں کو فرماتا ہے کہ اگر تم یہ کہو گے ، اللہ کے پاس حاضر ہو کر یہ عرض کرو گے کہ ہمیں پتہ نہیں چلا ، ہم سمجھ نہیں سکے، ہمیں واپس بھیج دے تو ہم اس نبی کو مان لیں گے، تیرے فرستادے کو مان لیں گے تو اللہ فرمائے گا اب نہیں.ایک دفعہ مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں لوٹتا.اس کے لئے جو انذار تمہیں دیا گیا تھا اب وہی ہے.پس یہ ان لوگوں کے لئے بڑا خوف کا مقام ہے جو بلا سوچے سمجھے مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ زمانہ جس میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ فَإِذَا النُّجُومُ طمست کہ جب ستارے ماند پڑ جائیں گے.یعنی نام نہاد علماء علم سے بے بہرہ ہو جائیں گے.زمانہ کے امام کا انکار کرنے کی وجہ سے اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی اس روشنی سے محروم کر دیں گے.طلیست کا مطلب

Page 551

536 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہے مٹادیئے جائیں گے.پس ان کی روشنی تو ہو گی ہی نہیں.اور جس کے پاس روشنی نہ ہو اس نے کیا ر ہنمائی کرنی ہے ؟ یہ لوگ تو خوب دنیا داری میں پڑ گئے ہوئے ہیں.اگر دیکھیں تو صرف ایک کام ان کا رہ گیا ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دو.کل سے ربوہ میں بھی پھر ایک ختم نبوت کانفرنس ہو رہی ہے.نام نہاد ختم نبوت کا نفرنس.جس میں تمام بڑے بڑے مولوی، جماعت اسلامی کے امیر بھی اور دوسرے علماء بھی شامل ہوئے ہیں، اور جو اب تک کی رپورٹیں ہیں، سب تقریروں میں جماعت کے خلاف مغلظات ہی بک رہے ہیں.اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں.پس یہ ستاروں کا ماند پڑ جانا عربی محاورہ ہے، جس کا یہی مطلب ہے کہ علماء دین سے بے بہرہ ہو جائیں گے یا لغات میں لکھا ہے کہ جب آفات ان پر پڑتی تھیں تو اس وقت کہا کرتے تھے کہ ستارے ماند پڑ گئے.پس یہاں اس کا یہ مطلب ہے کہ علماء تو بے دین ہو کر روشنی کے بجائے اندھیرا پھیلانے والے بن گئے اور لوگوں کو گمراہ کر دیا اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے بندہ کے ذریعہ سے جو اتمام حجت اور انذار کیا جائے.اور اس پر بھی جب انہوں نے توجہ نہیں دی تو پھر اللہ تعالیٰ کی اپنی تقدیر بھی چلتی ہے ، قدرتی آفات بھی آتی ہیں.رات کے اندھیروں میں تاروں کی چمک اور روشنی جو تھوڑی بہت آتی ہے وہ بھی غائب ہو جاتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ زمانہ ہے وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ کہ جب آسمان میں شگاف پڑ جائیں گے.ایک تو اس کا سائنسی دنیا سے تعلق ہے.اس زمانہ میں نئی نئی وسعتوں کا بھی پتہ لگ رہا ہے ، نئی کائناتوں کا پتہ لگ رہا ہے ، نئے سیاروں کا پتہ لگ رہا ہے.پھر آج کل اوزون Ozone) کی layer میں سوراخوں کا شور ہے.حکومتیں بھی پارہ پارہ کر دی جائیں گی بہر حال ان سے تو موسمی تغیرات پید اہو رہے ہیں لیکن روحانی دنیا میں بھی اس سے مراد مسیح موعود کے آنے کی خبر ہے.کیونکہ علماء کے جب ستارے ماند پڑ جاتے ہیں اور ایسی حالت میں جب اندھیرے پھیل جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادہ کے ذریعے سے روشنی بھیجتا ہے.اور اس روشنی کو پانے کے بعد اس فرستادہ کے ذریعہ جماعت قائم ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو بھی اور بعض ان کے ماننے والوں کو بھی الہامات اور رؤیا صادقہ کا اظہار شروع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ جب ہمارے فرستادہ کے آنے سے روحانی سلسلہ شروع ہو گا تو علماء روک بن جائیں گے.یہ سلسلہ تو شروع ہو گا ہو جائے گا.پھر آگے فرمایا یہ علماء روک نہیں بن سکیں گے.ان سب کی بقاء اسی میں ہے کہ اس روحانی سلسلہ کو تسلیم کر لیں.ان علماء کی اور ان کے پیچھے چلنے والوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بڑے بڑے جبال ہیں، جو اپنے آپ کو پہاڑوں کی طرح مضبوط سمجھنے والے ہیں اور حکومتیں بھی ہیں وہ اگر اس فرستادہ کے سامنے کھڑی ہوں گی، اللہ کے پیاروں کے سامنے کھڑی ہوں گی تو پارہ پارہ کر دی جائیں گی.فرمایا کہ وَ اذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ پہاڑ جڑوں سے اکھیڑ دیئے جائیں گے.کوئی یہ نہ سمجھے کہ میری

Page 552

537 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جڑیں عوام میں بڑی گہری ہیں.یا مجھے فلاں عرب ملک کی بادشاہت کی پشت پناہی حاصل ہے جو اسلام کے محافظ ہیں.یا فلاں مغربی ملک کی حکومت کی ہمیں اشیر باد حاصل ہے.جب کوئی خدا تعالیٰ کے فرستادے اور اس کی جماعت کے مقابلے پر آئے گاتو نہ عوام کی حمایت کام آئے گی، نہ کسی کی دولت اور مددکام آئے گی، نہ اپنے قبیلے کام آئیں گے.یہ سب لوگ جو اپنے زعم میں پہاڑوں کی طرح مضبوط جڑوں پر قائم ہیں ہوا میں بکھیر دیئے جائیں گے.بلکہ جن کی حمایت پر زعم ہے وہ بھی بکھر جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی ہے اور ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تاریخ میں ایسے پہاڑوں کو بکھر تا ہوا دیکھ چکے ہیں.پھر اس سورۃ میں سے یہ جو آخری آیت میں نے لی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا الرُّسُلُ اقتت جب رسول وقت مقررہ پر لائے جائیں گے ، یہ پھر مسیح و مہدی کی آمد کی پیشگوئی ہے کہ تمام رسول لائے جائیں گے.یعنی ایک شخص کھڑا ہو گا جو تمام رسولوں کی نمائندگی کرے گا.جس کے آنے کی پیشگوئی ہر پہلے رسول نے کی ہے.اپنے اپنے وقت میں انہوں نے کی تھی اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات میں پوری ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بھی فرمایا کہ جرِى الله فِی حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ یعنی اللہ کا پہلوان تمام انبیاء کے پیرائے میں.( براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 601 حاشیه در حاشیه ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میری نسبت براہینِ احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرمایا ہے.جرى الله في حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ- یعنی رسولِ خدا تمام گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے پیرایوں میں.اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں.خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ، ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے.اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی اور اس میں یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے جانی دشمن اور سخت مخالف جو عناد میں حد سے بڑھ گئے تھے جن کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا گیا اس زمانے کے اکثر لوگ بھی ان سے مشابہ ہیں اگر وہ تو بہ نہ کریں“.( ان سے مشابہتیں ہیں.پس اگر ان کو ہلاک کیا گیا تو وہ سزائیں اب بھی آسکتی ہیں.یہ انذار جو ہے وہ اب بھی قائم ہے.) غرض اس وحی الہی میں یہ جتلانا منظور ہے کہ یہ زمانہ جامع کمالات اخیار و کمالات اشرار ہے.اور اگر خدا تعالیٰ رحم نہ کرے تو اس زمانے کے شریر تمام گزشتہ عذابوں کے مستحق ہیں.یعنی اس زمانے میں تمام گزشتہ عذاب جمع ہو سکتے ہیں اور جیسا کہ پہلی امتوں میں کوئی قوم طاعون سے مری، کوئی قوم صاعقہ سے ، اور کوئی قوم زلزلہ سے اور کوئی قوم پانی کے طوفان سے اور کوئی قوم آندھی کے طوفان سے اور کوئی قوم خسف سے.اسی طرح اس زمانے کے لوگوں کو ایسے

Page 553

538 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم عذابوں سے ڈرنا چاہئے اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ تمام مواد موجود ہیں.محض حلم الہی نے مہلت دے رکھی ہے.اور یہ فقره که جَرِى الله فِي حَلَلِ الْأَنْبِيَاءِ بہت تفصیل کے لائق ہے“.فرمایا کہ ”جو کچھ خدا تعالیٰ نے گزشتہ نبیوں کے ساتھ رنگارنگ طریقوں میں نصرت اور تائید کے معاملات کئے ہیں ان معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی“.پس یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا.مستقل چل رہا ہے.مستقبل کی بھی خبریں ہیں اور کی جائیں گی.پھر فرمایا کیونکہ زمانہ اپنے اندر ایک گردش دوری رکھتا ہے اور نیک ہوں یا بد ہوں بار بار دنیا میں ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں.اور اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گزر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں سو وہ میں ہوں.اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہر ہوئے، فرعون ہو یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا یا ابو جہل ہو سب کی مثالیں اس وقت موجود ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یا جوج ماجوج کے ذکر کے وقت اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے.“ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 116 تا 118) آپ تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اے سونے والو بیدار ہو جاؤ، اے غافلو! اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا.یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا، اور تضرع کا وقت ہے نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا.دعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے.تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو.اور نیز اس نور کو بھی جو رحمتِ الہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کے لئے تیار کیا ہے.پچھلی راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو.اور ناحق حقانی سلسلے کے مٹانے کے لئے بد دعائیں مت کرو.اور نہ منصوبے سوچو.خد اتعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا.وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بے وقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا.اور اپنے بندہ کا مددگار ہو گا.اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے.پھر وہ جو داناو بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودے کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کر رہا ہے.جب کہ تم انسان ہو کر ایسا کام کرنا نہیں چاہتے.پھر وہ جو عالم الغیب ہے جو ہر ایک دل کی تہہ تک پہنچا ہوا ہے کیوں ایسا کام کرے گا.پس تم خوب یاد رکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلواریں مار رہے ہو.سو تم نا حق آگ میں ہاتھ مت ڈالو.ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑ کے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے.یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہو تا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہو جاتے“.فرمایا: ”کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گزرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افتراء کر کے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہے پھر اس مدت مدید کے سلامتی کو پا لیا ہو.افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآنِ

Page 554

539 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کریم کی ان آیتوں کو یاد نہیں کرتے جو خود نبی کریم کی نسبت اللہ جل شانہ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افتراء کرتا تو میں تیری رگِ جان کاٹ دیتا.پس نبی کریم سے زیادہ ترکون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افتراء کر کے اب تک بچار ہے.بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو.سو بھائیو! نفسانیت سے باز آؤ اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے خاص ہیں ان میں حد سے بڑھ کر ضد مت کرو.اور عادت کے سلسلہ کو توڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو.تا تم پر رحم ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے.سو ڈرو اور باز آ جاؤ.کیا تم میں ایک بھی رشید نہیں وَانْ لَمْ تَنْتَهُوا فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِنُصْرَةٍ مِّنْ عِنْدِهِ وَيَنْصُرُ عَبْدَهُ وَيُمَزِّقُ أَعْدَانَهُ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 53 تا55) اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اپنی جناب سے مدد دے گا اور اپنے بندے کی مدد کرے گا اور اس کے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکو گے.اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور اس پیغام کو سمجھنے والے ہوں اور ہمیں بھی توفیق دے کہ اس پیغام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور دنیا کے بچانے کے لئے جس حد تک کوشش کر سکتے ہیں کرنے والے بنیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 45 مورخہ 5 نومبر تا 11 نومبر 2010 صفحہ 5تا8)

Page 555

خطبات مسرور جلد ہشتم 540 43 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010ء بمطابق 22 اخاء 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: b وَ لَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران: 105) وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَةً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَهُوا فِي الدِّينِ وَ لِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبه : 122) یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں.پہلی آیت سورۃ آل عمران کی ہے.اس کا ترجمہ ہے کہ ”چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور نیکی کی تعلیم دیں اور بدیوں سے روکیں اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں“.وقف زندگی کا نظام دوسری آیت سورۃ توبہ کی ہے.اس کا ترجمہ ہے کہ ”مومنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں.پس ایسا کیوں نہیں ہو تا کہ ان کے ہر فرقے میں سے ایک گروہ نکل کھڑ ا ہو تا کہ وہ دین کا فہم حاصل کریں اور اپنی قوم کو خبر دار کریں جب ان کی طرف واپس لوٹیں تاکہ شاید وہ ہلاکت سے بچ جائیں“.ان آیات میں جیسا کہ ابھی دیکھا اللہ تعالیٰ نے ایسے گروہ کا ذکر فرمایا ہے جو دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں تاکہ نیکیوں کو قائم کریں، برائیوں سے روکیں اور تبلیغ اسلام میں اپنی زندگی گزار ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کا نظام کسی نہ کسی شکل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی قائم ہے اور خلافت ثانیہ میں اس میں ایک باقاعدگی پید اہوئی.باقاعدہ زندگی وقف کرنے کے بانڈ (Bond) یا فارم پر کئے جانے لگے.دینی تعلیم کے لئے جامعہ احمدیہ کے نظام کو مزید منظم کیا گیا.مبلغین بیرونِ ملک بھیجے جانے لگے جنہوں نے تبلیغی میدانوں میں بڑے کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے.اور اللہ

Page 556

541 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی اور تربیتی سر گرمیوں میں اپنی پہچان کروائی اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک جاری ہے اور مبلغین مختلف ممالک میں اس کام میں مصروف ہیں.ان مبلغین اور مربیان اور معلمین میں پاکستان، ہندوستان کے علاوہ اب مختلف قوموں کے افراد شامل ہو چکے ہیں.خاص طور پر افریقن ممالک کے، اسی طرح انڈو نیشیا کے مبلغین اور معلمین کافی تعداد میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ وفا کے ساتھ ان سب کو خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.واقفین زندگی کے نظام میں ایک دوسرا گروہ بھی ہے.صرف مبلغین نہیں، ڈاکٹر زاور ٹیچر ز اور دوسرے لوگ ہیں، وہ بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں.بہر حال جوں جوں جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں، تبلیغی میدان میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے اور خدمات کے دوسرے میدانوں میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے جہاں واقفین زندگی اور مبلغین کی ضرورت ہوتی ہے.جس جس طرح یہ وسعت پیدا ہو رہی ہے، کام بڑھ رہے ہیں، احمدیت کا پیغام پھیل رہا ہے.دنیا احمدیت کی آغوش میں بھی آرہی ہے.اس کے ساتھ ساتھ واقفین زندگی اور دینی علم رکھنے والوں کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے جو تبلیغ اور تربیت کا فریضہ سر انجام دے سکیں.جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کا ہمہ وقت تبلیغی اور تربیتی کاموں میں مصروف رہنا ممکن نہیں.اس لئے ایک گروہ ہو جو خاص طور پر یہ کام سر انجام دے.باوجود اس کے کہ ایک دوسری جگہ امت کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ نیکیوں کے پھیلانے، برائیوں سے روکنے اور دعوت الی اللہ کا فرض ادا کرے.لیکن پھر بھی یہ فرمایا ہے کہ کیونکہ یہ جو نظام دنیا ہے اس کو چلانا بھی ضروری ہے، اس لئے جو اس میں مصروف ہوں گے وہ بھی ہمہ وقت، وقت نہیں دے سکتے.پھر ہر ایک کا مزاج بھی ایسا نہیں ہو تا کہ وہ تبلیغی اور تربیتی کام احسن رنگ میں سر انجام دے سکے.پھر تمام کے تمام امت کے افراد دین کا وہ فہم اور ادراک بھی حاصل نہیں کر سکتے جو ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری ہے.اور پھر یہ بھی کہ تمام لوگوں کو خاص توجہ کے ساتھ ٹرینگ بھی نہیں دی جا سکتی.اس لئے ایک گروہ ہونا چاہئے جو پوری توجہ سے دین سیکھے.اللہ تعالیٰ کے احکامات، اوامر و نواہی سے واقفیت حاصل کرے.ان کی گہری حکمت سیکھے اور پھر پھیلائے.ماشاء اللہ جماعت میں ایسے بھی بہت سے افراد ہیں جو اپنے ذوق اور شوق کی وجہ سے دنیاوی تعلیم کے علاوہ بھی دینی علم کا کافی درک رکھتے ہیں.لیکن بعض دفعہ ، بلکہ اکثر دفعہ ان کی دوسری مصروفیات ایسی ہو جاتی ہیں جو مستقل طور پر وقت دینے میں آڑے آتی ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے کام کے لئے واقف زندگی کا ایک گروہ ہونا چاہئے اور پھر کیونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے ہر فرقے میں سے یعنی ہر گروہ میں سے ، ہر طبقے میں سے ، لوگوں کے ہر حصے

Page 557

542 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم میں سے متفرق قسم کے لوگوں میں سے یہ ایک گروہ ہونا چاہئے.اور پھر مزید وسعت پیدا کریں تو فرمایا کہ ہر قوم میں سے ایسے لوگ ہوں جو دین سیکھیں اور آگے سکھائیں.ہر قوم اور ہر گروہ اور ہر طبقے کے مزاج، نفسیات اور طریق مختلف ہوتے ہیں.اس کے مطابق تبلیغ کا طریق اختیار کیا جائے.اس طرح تبلیغ کرنی بھی آسان رہے گی اور تربیت بھی آسان رہے گی.بہر حال یہ رہنمائی اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ مومنوں کا ایک گروہ ہو جو تبلیغی اور تربیتی کام سر انجام دے اور پھر یہ کہ ہر قوم اور ہر طبقے کے لوگوں میں سے ہوتا کہ اس کام میں سہولت پیدا ہو سکے.پس جماعت احمدیہ میں اس اصول کے تحت دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کا نظام قائم ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا مختلف قوموں اور طبقوں کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی ضروریات بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافے کی بھی ضرورت ہے اور یہ ضرورت آئندہ بڑھتی بھی چلی جائے گی.فی الحال صرف موجودہ وقت میں ضرورت نہیں ہے بلکہ آئندہ اس ضرورت نے مزید بڑھنا ہے.واقفین نو کی سکیم حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو بھانپتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاکر واقفین نو کی سکیم شروع فرمائی تھی.اور اس کی بنیادی اینٹ ہی تقویٰ پر رکھتے ہوئے والدین کو یہ تحریک فرمائی تھی کہ بجائے اس کے کہ بچے بڑے ہو کر اپنی زندگیاں وقف کریں اور اپنے آپ کو پیش کریں، والدین دین کا در درکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے دین کی راہ میں وقف کرنے کے لئے پیش کریں.اور حضرت مریم کی والدہ کی طرح یہ اعلان کریں کہ رَبّ اِنّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي (آل عمران :36) کہ اے میرے رب ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اسے میں نے تیری نذر کرتے ہوئے آزاد کر دیا.یعنی دین کے کام کے لئے پیش کر دیا اور دنیاوی دھندوں سے آزاد کر دیا، پس مجھ سے یہ قبول کر لے.پس جب خاص طور پر مائیں اس دعا کے ساتھ اپنے بچے جماعت کو پیش کرتی ہیں، خلیفہ وقت کے سامنے پیش کرتی ہیں اور کریں گی، تو ان کی بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ پھر ان بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں اس وقف کا حق ادا کرتے ہوئے گزارنے کے لئے پیش کریں.پورا عرصہ حمل ان کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو دین کا خادم بنائے.دنیاوی آلائشوں سے پاک رکھے.دنیا کی طرف رغبت نہ ہو بلکہ یہ لوگ دین کے لئے خالص ہو جائیں.پھر پیدائش کے بعد بچے کی تعلیم و تربیت اس نہج پر ہو کہ اس بچے کو ہر وقت یہ پیش نظر رہے اور اس کو یہ باور بھی کروایا جائے کہ میں واقف زندگی ہوں اور میں نے دنیاوی جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں زندگی گزارنی ہے.جب اس طرح ابتدا سے ہی تربیت ہو گی تو نوجوانی میں قدم رکھ کر بچہ خود اپنے

Page 558

543 خطبات مسرور جلد هشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 آپ کو پیش کرے گا اور خالص ہو کر دین کی خدمت کے لئے پیش کرنے کی کوشش کرے گا.پس والدین کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے کو وقف کے لئے تیار کرنا، اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا والدین کا کام ہے تا کہ ایک خوبصورت اور ثمر آور پودا بنا کر جماعت اور خلیفہ وقت کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے پیش کیا جائے.یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارا بچہ وقف نو ہے اس لئے ابتدا سے اس کو جماعت سنبھالے، یہ بالکل غلط سوچ ہے.جماعت تعلیم و تربیت کے لئے رہنمائی تو ضرور کرتی ہے اور کرنی چاہئے.اس کے لئے ربوہ میں مرکز میں وکالت وقف نو بھی قائم ہے.قادیان میں نظارت تعلیم کے تحت وقف نو کا شعبہ قائم ہے.یہاں لندن میں مرکزی طور پر بر اور است خلیفہ وقف کی نگرانی میں اس شعبہ کا کام ہو رہا ہے.جماعتوں میں سیکر ٹریان وقف نو کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت ، کونسلنگ اور گائیڈنس وغیرہ کریں اور ان کو ایک جماعت کا فعال حصہ بنانے کی کوشش کریں اور اس میں اپنا بھی فعال کردار ادا کریں.لیکن ان سب کے باوجود والدین کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر وقف نو کی سکیم کا اجراء ہوا تھا.اور یہ ایک انتہائی اہم اور آئندہ جماعتی ضروریات کو پوری کرنے والی سکیم ہے جس میں علاوہ مختلف مربیان و مبلغین کے مستقبل میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے واقفین زندگی کی ضرورت ہو گی.پس والدین اور وقف نو کے شعبہ کو اس ذمہ داری میں اپنا کر دار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیئے.اکثر جگہ دیکھا گیا ہے کہ سیکر ٹریانِ وقف نو اس طرح فعال نہیں جس طرح ان کو ہونا چاہئے.پس وہ فعال ہوں تاکہ یہ بچے جب میدانِ عمل میں آئیں تو میدان میں آکر قوموں کو اپنے لوگوں کو ، تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا اہم کردار ادا کر سکیں.اور فلاح پانے والے گروہ میں خود بھی شامل ہوں اور نہ صرف خود فلاح پانے والے بنیں بلکہ دنیا کی فلاح اور بقا کا باعث بنیں.بے شک والدین کا بھی یہ کام ہے کہ اپنے ہر بچے کی تربیت کریں اور کوئی احمدی بچہ بھی ضائع ہو نا جماعت برداشت نہیں کر سکتی.یہ سب جماعت اور قوم کی امانت ہیں.لیکن واقفین نو بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی یہ ڈالا جائے کہ تمہیں ہم نے خدا تعالیٰ کے راستے میں وقف کیا ہے.صرف وقف نو کا ٹائٹل مل جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ تمہاری تربیت ، تمہاری تعلیم، تمہارا اٹھنا بیٹھنا، تمہارا بات چیت کرنا، تمہارا لوگوں سے ملنا جلنا، تمہیں دوسروں سے ممتاز کرے گا.یہ عادتیں پھر عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوں اور کوئی انگلی کبھی تمہاری کردار کشی کرتے ہوئے نہ اٹھے.پھر واقفین نو کا سلیبس ہے جو جماعت نے ، مرکز نے بنایا ہوا ہے.اس سے آگاہ کرنا، اسے پڑھانا ماں باپ اور نظام دونوں کا کام ہے تاکہ تفقہ فی الدین میں بچپن سے ہی رجحان ہو اور اس میں ہر آنے والے دن میں بہتری آتی رہے.تبھی ہم آئندہ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.تبھی ہم دنیا کی دین کو سمجھنے کی ضرورت کو

Page 559

544 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بر وقت پورا کر سکتے ہیں.اور پھر یہ بھی یادر کھنا چاہئے کہ بچے میں خود دین سیکھنے کی لگن ہو.اگر یہ ہو گا تو پھر ہی صحیح فہم و ادراک بھی حاصل کرنے کی طرف توجہ ہو گی.ورنہ مجبوری کا سیکھنا اور مجبوری کا وقف یہ فائدہ مند اور کارآمد نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو تَفَقُهُ فِي الدِّين کریں.یعنی آنحضرت صلی لی ہم نے جو دین سکھایا ہے اس میں تفقہ کر سکیں.(ماخوذاز تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ 649 زیر آیت تو بہ :122) پس ہمارے واقف زندگی اور خاص طور پر وہ جو دین سیکھ کر اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں.یا واقفین نوجو د نیا کے مختلف جامعات میں پڑھ رہے ہیں ، انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی ہم نے جو دین سکھایا ہے وہ سیکھنا ہے.اور آپ نے کیا دین سکھایا؟ آپ نے ہمارے سامنے جو دین پیش کیا اور جس کا نمونہ قائم فرمایا اس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ بیان ہمارے لئے راہ عمل ہے کہ كَانَ خُلُقُهُ انقذان کہ آپ کا خُلق قرآن تھا.(مسند احمد بن حنبل جلد 8 مسند عائشہ صفحہ نمبر 144-145 حدیث نمبر 25108) آپ کا دین قرآن کریم کے ہر حکم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور اسے پھیلا نا تھا.پس آپ کے اسوہ پر چلنے کا تو ہر مومن کو حکم ہے لیکن وہ لوگ جو تفقہ فی الدین کرنے والے ہیں، جو دین کو سمجھنے اور سیکھنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں ، جو عام مومنین سے بڑھ کر خیر کی طرف بلانے والے ہیں، جن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت بہت زیادہ نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں ان کو کس قدر اس اُسوہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.پس جو واقفین زندگی ہیں ان کو اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے.اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن ایک مکمل شرعی کتاب ہے تو پھر تفقہ فی الدین کرنے والے اس بات کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں کہ اپنی في زندگیوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کر سکیں.اپنے نمونے قائم کر کے خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہوں.احسن رنگ میں تبلیغ اور تربیت کا فریضہ سر انجام دینے والے ہوں.کس قسم کے واقفین زندگی ہونے چاہئیں اب میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش رکھتا ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ کس قسم کے واقفین زندگی ہونے چاہئیں.آپ فرماتے ہیں:.ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کر کے دکھانے والے ہوں.علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 682) پس یہاں میں تمام مبلغین اور جو دنیا کے مختلف جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں، ان پڑھنے والوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.ہمیشہ اپنے

Page 560

خطبات مسرور جلد ہشتم 545 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 جائزے لیتے رہیں کہ ہمارے علم اور عمل میں مطابقت ہے یا نہیں.وعظ تو ہم کر رہے ہوں کہ نمازوں میں ستی گناہ ہے اور خود نمازوں میں سستی ہو.خاص طور پر طلباء جامعہ احمد یہ جو ہیں ان کو یا درکھنا چاہئے.بعض عملی میدان میں آئے ہوئے بھی ستی کر جاتے ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے.دوسروں کو تو ہم یہ کہہ رہے ہوں کہ بد رسومات جو مختلف جگہوں پر ہوتی ہیں ، مثلاً شادی بیاہ میں ہوتی ہیں یہ بدعات ہیں اور خلیفہ وقت اور نظام جماعت ان کی اجازت نہیں دیتا.دین ان کی اجازت نہیں دیتا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سختی سے ان کو رڈ فرمایا ہے.اللہ اور رسول ان کو رڈ کرتے ہیں.لیکن اپنے بچوں یا اپنے عزیزوں کی شادیوں میں ان باتوں کا خیال نہ رہے یا ایسی شادیوں میں شامل ہو جائیں جن میں یہ بدر سومات کی جارہی ہوں اور وہاں بیٹھے رہیں اور نہ ان کو سمجھائیں اور نہ اٹھ کر آئیں تو یہ چیز میں غلط ہیں.پس اگر دین کا علم سیکھا ہے تو اس لئے کہ عالم با عمل بنیں اور بننے کی کوشش کریں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ واقف زندگی ایسے ہونے چاہئیں گی کہ ”نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 682) اب ہر واقف زندگی جائزہ لے جو میدانِ عمل میں ہیں یا مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں اور وہ بھی جو جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جب ہمیں جائزے لینے کی یہ عادت پڑے تو پھر ایک تبدیلی بھی پیدا ہو گی انشاء اللہ تعالی.اس سال کینیڈا کے جامعہ احمدیہ سے بھی واقفین نو کی اور مربیان کی، مبلغین کی پہلی کھیپ نکل رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ باقی جگہوں سے بھی واقفین نو میں سے نکلنی شروع ہو جائے گی بلکہ پاکستان میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ واقفین نو مربیان بن بھی چکے ہوں.تو ہمیشہ یہ یادرکھیں کہ عاجزی اور انکساری ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہئے لیکن و قار قائم رکھنا بھی ضروری ہے.پھر آپ نے واقفین زندگی کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ” ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 682) پس یہ نہیں فرمایا کہ پہنچائیں.اتنا مطالعہ کریں کہ علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ جامعہ میں پڑھنے کے دوران بھی اور میدانِ عمل میں بھی انتہائی ضروری ہے.کیونکہ یہی اس زمانے میں صحیح اسلامی تعلیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ قناعت شعار ہونا بھی ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری ہے.اور اس قناعت شعاری کے بارے میں جو معیار آپ نے مقرر فرمایا وہ یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر ہماری منشاء کے مطابق قناعت شعار نہ ہوں، تب تک پورے اختیار بھی نہیں دے سکتے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 682) یعنی جو قناعت شعار ہو گا اسی کو اس تبلیغ کا ، وقف زندگی کے کاموں کا اختیار دیا جا سکتا ہے.اور منشاء کیا

Page 561

خطبات مسرور جلد ہشتم 546 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 ہے؟ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ نام کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزر کر لیتے تھے“.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 658) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا اور خواہش کو پورا فرماتے ہوئے ایسے بزرگ مبلغین اپنے فضل سے عطا فرمائے ہیں جن کی قناعت قابلِ رشک تھی.آج مبلغین کو سہولتیں بھی ہیں لیکن ایک وقت ایسا تھا جب سہولتیں نہیں تھیں.جماعت کے مالی حالات بھی اب اچھے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ممکن خیال رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.گو بعض جگہ اب بھی تنگی اور مشکلات کا سامنا ہے لیکن جب دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تو پھر ان مشکلات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہونی چاہئے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ اور قادیان کے علاوہ دنیا کے بعض مغربی ممالک میں بھی مثلاً UK میں، جرمنی میں، کینیڈا میں جامعات قائم ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ کینیڈا کے جامعہ سے اس سال مربیان کی پہلی کھیپ فارغ ہو رہی ہے جو میدانِ عمل میں آئیں گے.اسی طرح انڈو نیشیا اور افریقہ کے بعض ممالک میں بھی جامعہ احمدیہ قائم ہیں.جہاں تک افریقہ اور انڈو نیشیا وغیرہ کے جامعات کا تعلق ہے وہ تو وہیں کے رہنے والے طلباء ہیں جو عموماً وہیں تعینات بھی ہوتے ہیں.اپنے ملکوں کے حالات میں گزارہ کرنے والے ہیں.لیکن مغربی ممالک میں جو طلباء اب میدانِ عمل میں آرہے ہیں اور انشاء اللہ آئیں گے انہیں یا درکھنا چاہئے کہ بحیثیت واقف زندگی انہیں جہاں بھی بھیجا جائے انہوں نے تعمیل کرنی ہے اور جانا چاہئے.یہی وقف کی روح ہے.اور ضروری نہیں ہے کہ ان کو یورپ میں لگایا جائے.ہو سکتا ہے کہ یہاں رہنے والے اُدھر افریقہ میں بھیجے جائیں تو افریقہ کے سخت موسم سے پریشان ہو جائیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیا تو پھر سختی کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا اب سہولتیں بھی ہیں اور شروع میں جو مبلغین میدانِ عمل میں باہر گئے تھے ان کو بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا.ان مبلغین کے بعض واقعات میں نے لئے ہیں تاکہ آپ کو احساس ہو کہ کس طرح وہ قربانی دیتے رہے اور کن حالات میں وہ گزارا کرتے رہے ہیں.ہمارے ایک مبلغ تھے حضرت سید شاہ محمد صاحب.انہوں نے اپنا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ میں متواتر اٹھارہ سال انڈو نیشیا میں کام کرتارہا اور اللہ کے فضل سے میں نے کبھی کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کیا.اپنا پورا وقار رکھا.بہت معمولی الاؤنس پر گزارہ ہو تا تھا.مشکل سے شاید دو وقت کی روٹی چلتی ہو.اپنی ہر حاجت کے لئے اپنے رب کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا اور وہ میری حاجت روائی کرتا رہا.کہتے ہیں جب اٹھارہ سال بعد میری واپسی ہوئی تو میں بڑا خوش تھا.بحری جہاز کے ذریعے سے پاکستان کے لئے روانہ ہوا.اور کہتے ہیں میرے پاس ایک پرانی اچکن تھی اور دو ایک شلوار قمیص کے دھلے ہوئے جوڑے تھے.اور کچھ نہیں تھا.کہتے ہیں میں بحری جہاز پر سفر کر رہا

Page 562

547 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تھا.ہوائی جہاز کا تو اس وقت تصور ہی نہیں تھا.راستے میں مجھے خیال آیا کہ میں اتنے عرصے کے بعد ملک واپس جارہا ہوں اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں جنہیں پہن کر میں ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر اتروں گا.اس وقت مبلغین کراچی آیا کرتے تھے پھر وہاں سے ٹرین پر ربوہ پہنچتے تھے.تو کہتے ہیں کہ میں انہی خیالات میں تھا اور دعاؤں میں لگا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دل میں بھی اس قسم کی خواہش نہیں کرنی چاہئے تھی.یہ وقف کی روح کے خلاف ہے.کہتے ہیں میں نے اس پر بڑی تو بہ استغفار کی.اور پھر چند دن بعد جہاز سنگا پور میں پورٹ پر رکا.کہتے ہیں میں جہاز کے عرشے پہ کھڑا ، ڈیک پر کھڑ انظارہ کر رہا تھا کہ میں نے ایک شخص کو ایک گٹھڑی اٹھائے ہوئے جہاز پر چڑھتے دیکھا.وہ سیدھا جہاز کے کپتان کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھنے لگا.کپتان نے اسے میرے پاس بھیج دیا.وہ مجھ سے گلے ملا.بغل گیر ہو گیا اور کہا کہ وہ احمد ی ہے اور درزی کا کام کرتا ہے.اس نے بتایا کہ جب الفضل میں میں نے پڑھا کہ آپ آرہے ہیں اور رستے میں سنگا پور رکیں گے تو مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ میں آپ کے لئے کوئی تحفہ پیش کروں.اور آپ کی تصویریں میں نے دیکھی ہوئی تھیں.قد کاٹھ کا اندازہ تھا.میں نے آپ کے لئے کپڑوں کے دو جوڑے سے ہیں اور ایک اچکن اور ایک پگڑی تیار کی ہے.درزی ہوں اور یہی کچھ پیش کر سکتا ہوں.آپ اسے قبول کریں.تو حضرت شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ کس طرح میرے خدا نے میری خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک احمدی کے دل میں تحریک کی جسے میں نہیں جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا.وہ مبلغین کو ، مربیان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مبلغ صرف آستانہ الہی پر جھکا رہے اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے.اور اللہ تعالیٰ واقفین زندگی سے، صرف مبلغین نہیں، ہر واقف زندگی سے یہ سلوک کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میدانِ عمل میں آج بھی یہ نظارے دیکھتے ہیں.پھر مولانا غلام احمد صاحب فرخ کے بارہ میں ان کے ایک بیٹے نے لکھا کہ یہ بھی جماعت کی طرف سے بڑا عرصہ باہر مبلغ رہے ہیں.جب واپس آئے تو حیدرآباد میں ان کی تعیناتی ہوئی.وہاں جماعت کی طرف سے ایک چھوٹا سا مکان مل گیا اور اس کی بھی کافی خستہ حالت تھی.کیونکہ یہ لمبا عرصہ باہر رہے تھے اس لئے ہم اس بات پر خوش تھے کہ ہمارے والد اب ہمارے ساتھ تو رہیں گے.لیکن مکان کی حالت کو دیکھ کر ایک دن ان کے چھوٹے بھائی نے حضرت مولانا غلام احمد صاحب فرخ کو اپنی سمجھ کے مطابق کہہ دیا کہ اباجان جماعت کو درخواست کریں کہ مکان کی مرمت کروا دیں.حضرت مولانا فرخ صاحب تو صرف اپنے وقف کو نبھانا جانتے تھے.ان کو تو ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں تھی.انہوں نے بڑی محبت سے سارے بہن بھائیوں کو پاس بٹھایا اور بڑے طریقے سے ، بڑی سے ، بڑی دانائی سے واقفین کے گزر اوقات میں سادگی اور بودوباش میں عاجزی اور انکساری کو پیش کیا.

Page 563

548 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 انہوں نے یہ فرمایا کہ ہر خواہش کو دبانا اور ہر مطالبے سے اجتناب برتنا بھی وقف زندگی کا نصب العین ہے.اور میری دلی تمنا ہے کہ تم سب میر اسہارا بنو.قدم قدم پر زندگی کی تلخیوں کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو خوش کرو.بچوں کو یہ نصیحت کی.پھر مولانا غلام احمد فرخ صاحب کے یہ بیٹے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے پاس آئے.اس وقت یہ فوج میں میجر تھے جب ریٹائر ڈ ہوئے تھے.بچے اچھی جگہ پر کاموں پر لگے ہوئے تھے.تو ہماری بچوں کی یہ خواہش تھی کہ ہم آپ کی کچھ خدمت کریں اور آپ ریٹائر منٹ لے لیں.ہم نے اپنے والد کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہیں کل جواب دوں گا.اور ہم سب اس جواب سے بڑے خوش ہوئے.اور اطمینان ہوا کہ شاید مان جائیں گے.کل یہی جواب ہو گا کہ اچھا ٹھیک ہے میں تم لوگوں کے پاس آجاتا ہوں.لیکن کہتے ہیں ہماری خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی.آپ نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا کہ میں ایک انتہائی عاجز انسان ہوں.تم لوگوں نے جو بات کل مجھے کہی تھی اس نے کل کا میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے.خدا کے لئے دوبارہ مجھے یہ بات کبھی نہ کہنا.میں نے اپنے اللہ سے حلف یہ عہد کیا ہوا ہے کہ وقف زندگی کا ہر سانس بحیثیت واقف زندگی بسر کروں گا.یہاں تک کہ اللہ مجھے اس دنیا سے واپس بلا لے.ڈرتا ہوں کہ تمہاری ان باتوں سے میں تجدید عہد میں لغزش نہ کھا جاؤں.اس لئے دوبارہ تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ آج کے بعد مجھ سے کبھی اس طرح نہ کہنا.یہ کہہ کر آپ کھڑے ہو گئے اور کہا ہمیشہ دعا کرتے رہنا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور کئے ہوئے اپنے عہد پر پورا اتروں.پس یہ لوگ تھے جنہوں نے وقف زندگی کا اور قناعت کا حق ادا کیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقف زندگی کے لئے فرماتے ہیں کہ ”سفر کے شدائد اٹھا ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 684 جدید ایڈیشن ) سکیں".سفر کی جو مشکلیں اور صعوبتیں اور شد تیں ہیں ان کو برداشت کر سکیں.گاؤں گاؤں پھر کر لو گوں کو ہماری بعثت کی اطلاع دیں.شروع میں ہمارے جو مبلغین افریقہ گئے ہیں اور ہندوستان میں بھی جو مبلغین تبلیغ کرتے تھے وہ سفر کی شدت برداشت کیا کرتے تھے.سفر کی سہولتیں تو تھیں نہیں اور زادِ راہ بھی اتنا نہیں ہو تا تھا کہ جو سہولتیں میسر ہیں ان کا استعمال کر سکیں.اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے.اور پھر نہ صرف یہ کہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے تھے بلکہ مخالفتوں کا بھی ہندوستان میں بھی، باہر بھی اور افریقہ وغیرہ میں بھی سامنا کرنا پڑتا تھا.مولانا نذیر احمد علی صاحب کے کئی ایسے واقعات ہیں جب انہیں گاؤں والوں نے دھتکار دیا اور انہوں نے راتیں باہر جنگل میں گزاریں.ساری ساری رات مچھروں میں بیٹھے رہے.وہاں افریقہ میں مچھر بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج افریقہ میں جماعت کی جو نیک نامی ہے اور بڑی ترقی ہے وہ انہی بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے.ان کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.

Page 564

خطبات مسرور جلد هشتم 549 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 مولانا محمد صدیق صاحب امر تسری جو خود بھی ایک دفعہ مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ساتھ تھے، بیان کرتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے دوران 1940ء میں ایک روز حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب اور خاکسار (مولوی صدیق صاحب) نے سیر الیون کے قاصری نامی ایک تجارتی قصبے میں تبلیغ کے لئے پروگرام بنایا.وہ فری ٹاؤن سے چالیس میل دور تھا اور دریا کے دوسرے کنارے پر تھا اور کشتی کے ذریعے وہاں جانا پڑتا تھا.حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب پہلے بھی وہاں اسلام کا پیغام پہنچا چکے تھے.اور اس تبلیغ کی وجہ سے مخالفت بڑھ گئی تھی.کہتے ہیں ہمارا یہ دوسرا دورہ تھا.اکثر وہاں کے لوگ فولانی قبیلے کے ہیں جنہیں اپنے اسلام پر بڑا ناز ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور صحیح مسلمان ہیں.اپنا تعلق نسل کے لحاظ سے عرب لوگوں سے ظاہر کرتے ہیں.بہر حال یہ لوگ وہاں گئے.ان فولانیوں نے اور مسلمانوں نے جھوٹی، من گھڑت باتیں لوگوں میں پھیلا دی تھیں اس کی وجہ سے وہاں لوگوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اگر ہم دوبارہ آئے تو ہمیں وہاں ٹھہرنے کے لئے جگہ نہیں دیں گے.اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف تبلیغ اسلام تھا.احمدیت کا پیغام پہنچانا، اسلام کا پیغام پہنچانا تھا اور اس کی حقیقی روح سے آگاہ کرنا تھا.غیر مسلموں اور عیسائیوں کو باقاعدہ تبلیغ کرنا تھا.اس لئے ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ وہاں جا کر چند دن رہ کر اپنے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں ان کو دُور کرنے کی کوشش کریں.بہر حال وہ کہتے ہیں کہ ہم بذریعہ کشتی روانہ ہوئے اور مغرب کے وقت وہاں قاصری گاؤں میں پہنچ گئے.چند دن ٹھہرنے کا پروگرام تھا اور لیکچروں کا انتظام کرنا تھا.کہتے ہیں جب ہم کشتی سے اترے تو سیدھے چیف کے بنگلے میں گئے، کیونکہ چیف کو اس زمانے میں حکومت کی طرف سے مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے کے لئے ایک گرانٹ ملا کرتی تھی.لیکن بہر حال ہمیں غلط طور پر بتایا گیا یا حقیقت تھی کہ چیف اپنے فارم پر گیا ہوا ہے اور وہ ابھی تک وہاں سے واپس نہیں آیا اور جو باقی ذمہ دار لوگ تھے وہ سب بڑی بے رخی اور مخالفت کا اظہار کر رہے تھے.بعض جو ان کے ہمدرد تھے وہ بھی دوسروں کی مخالفت سے مرعوب ہو گئے تھے.اور کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں تھا.ہمارے ساتھ چند افریقین احمدی طالب علم تھے.ان کو تو افریقن ہونے کی وجہ سے کہیں جگہ مل گئی اور وہ چلے گئے اور ہمارا سامان بھی ساتھ لے گئے.اور ہم وہیں گاؤں کے باہر جنگل میں پھر رہے تھے.بعض لبنانی تاجروں کے ساتھ رابطہ ہوا جن کی دکانیں وہیں دریا کے کنارے پر تھیں.بہر حال ایک لبنانی مسلمان جو تھا اس سے ہم نے کچھ عربی میں باتیں کیں، ہماری عربی سے متاثر ہوا اور اپنے ساتھ لے گیا اور وہاں تبلیغ شروع ہو گئی.اور اس نے پھر زور دے کے ہمیں رات کا کھانا بھی کھلایا.لیکن رات کو ہم دس بجے لٹریچر وغیرہ کا ان سے وعدہ کر کے وہاں سے اٹھ کر آگئے.نہ اس نے پوچھا، نہ ہم نے بتایا کہ ہمارے پاس تو رات کو ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں.رات ہم پھر دریا کے کنارے آکر بیٹھ گئے اور وہ سارا علاقہ زہریلے سانپوں اور جنگلی جانوروں سے بھرا پڑا ہے.دریا کے کنارے مگر مچھ ہیں وہ بھی حملے کرتے رہتے تھے.اکثر وارداتیں ان کی

Page 565

550 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہوتی رہتی تھیں.لیکن اللہ نے اپنا فضل کیا.ان کو ہر جانور کے حملے سے محفوظ رکھا.ایسی حالت میں اب نیند تو آ نہیں سکتی تھی تو یہ لوگ گاؤں کے باہر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہلتے رہے.پھر کہتے ہیں کہ آدھی رات کو دریا کے کنارے ہم ریت پر بیٹھ گئے.قرآن کریم کے جو حصے ہمیں یاد تھے ایک دوسرے کو سنانے لگ گئے.پھر آیات کی تفسیر میں باتیں ہوتی رہیں.بہر حال یہ دینی باتیں ہوتی رہیں.پھر کچھ رات گزری تو حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب نے ایک لمبی پر سوز دعا کرائی کہ اللہ تعالیٰ اس گاؤں والوں کو ہدایت دے اور اسلام کی اور احمدیت کی ترقی اور اپنے نیک مقاصد کے لئے دعائیں کیں.پھر اس کے بعد ٹہلنا شروع کیا.پھر یہ کہتے ہیں کہ تین بجے کے قریب ہم لوگ اٹھے اور گاؤں میں گئے کہ مسجد میں جا کر تہجد کی نماز پڑھیں.جب مسجد میں داخل ہوئے ہیں تو مسلمان کہلانے والوں کی مسجد کا یہ حال تھا کہ ایک دم اندھیرے میں عجیب قسم کی آوازیں آنا شروع ہوئیں اور تھوڑی دیر بعد وہاں مسجد سے بکریوں کا ریوڑ باہر نکلا.مسجد میں گند ڈالا ہوا تھا.کہتے ہیں ہم نے مسجد صاف کی اور پھر صفیں بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی.فجر کی نماز کا وقت ہوا.پھر ہم دونوں نے باری باری اذان دی.اور اذان دینے سے لوگ ہماری طرف آنا شروع ہوئے، غیر مسلم بھی آنا شروع ہوئے.ان کے جو بڑے مسلمان لیڈر تھے وہ اس لئے آگئے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ رات کو کسی نے جگہ دے دی ہو اور انہوں نے ہماری مسجد پر قبضہ کر لیا ہو.خیر اس کے بعد ہم نے نماز پڑھی.وہ ہمیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے رہے اور انہوں نے کہا فرق تو کوئی نہیں ہے.یہ تو غلط مشہور ہوا ہے کہ ان کی اذان کا فرق ہے اور یا نماز میں فرق ہے.سوائے نماز کے اس فرق کے کہ احمدی نماز ہاتھ باندھ کر پڑھ رہے تھے اور ان میں سے اکثریت کیونکہ وہاں مالکیوں کی ہے وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو صرف یہ فرق ہے.بہر حال اتنا سا تعارف ہوا اور گاؤں والوں نے کوئی پذیرائی نہیں کی.مخالفت تو کم نہیں ہوئی.یہ شکر ہے کہ انہوں نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا نہیں اور نماز پڑھ کے پھر یہ لوگ واپس آگئے.(ماخوذاز روح پر دور یادیں از مولانامحمد صدیق صاحب صفحہ 2301226) تو ایسے حالات سے بھی گزرے.لیکن بعد میں پھر اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا وہاں نفوذ کیا اور احمدیت ان علاقوں میں پھیلی.تو یہ تفقہ فی الدین کا حقیقی اور عملی اظہار ہے جو ہمارے مبلغین نے کیا.پس ایک واقف زندگی کو اپنی خواہشات کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے.شدائد سے بھی گزرنا پڑتا ہے.مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا آج بھی بعض جگہ یہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں اور دیکھے ہیں.لیکن ہمارے نئے شامل ہونے والے مربیان بھی، مبلغین بھی اور واقفین نو کو بھی ان باتوں کو سامنے رکھ کر اپنے میدان میں بھی اور تعلیم کے دوران بھی اس طرح کام کرنا چاہئے اور اس سوچ کے ساتھ اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے کہ یہ جذبہ ہے جو ہم نے لے کر میدانِ عمل میں جانا ہے.میرے سامنے جامعہ کے بہت سارے طلباء بیٹھے ہوئے ہیں.ابھی سے ہی یہ سوچنا شروع کر دیں کہ اس کے بغیر ہم دین کو پھیلا نہیں سکتے.اور اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر

Page 566

551 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم میدانِ عمل میں سوائے گھبر اجانے کے اور کچھ نہیں ہو گا.اور بعض تو بد قسمتی سے یہ سن کر ہی کہ بعض دفعہ ان کی ٹرانسفر کی گئی تو وقف ختم کر دیا اور وقف سے پیچھے ہٹ گئے.اس لئے ابھی سے اپنے آپ کو تیار کریں کہ ہمیں یہ سب قسم کی سختیاں برداشت کرنی ہیں.اور جامعہ میں پڑھنے والوں سے میں خاص طور پر یہ کہہ رہا ہوں کہ ابھی سے ان سختیوں کے بارے میں سوچ لیں.آج کل واقفین کو میں سے ایک بڑی تعداد (تعداد کے لحاظ سے تو ایک اچھی تعداد ہے لیکن واقفین نو کی نسبت کے لحاظ سے نہیں) جو مختلف ملکوں کے جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہی ہے انہیں ہمیشہ پہلے اپنے والدین کے عہد کو ، پھر اپنے عہد کو اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات کو سامنے رکھنا چاہئے، اور ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا ہے.کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے.یہ وفا کا مظاہرہ ہے جو ہر واقف زندگی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.یہ بھی یادر کھیں کہ مربی اور مبلغ کا ایک وقار ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا، اس لئے عاجزی دکھائیں.بیشک عاجزی تو مبلغ کے لئے ضروری ہے لیکن وقار کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے.اپنی ضرورت، اپنی خواہش کا اظہار کسی کے سامنے نہ کریں.جیسا کہ حضرت مولوی صاحب نے بھی نصیحت کی ہے کہ اپنی ضروریات کو ہمیشہ خدا کے سامنے پیش کرو.اور یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضروریات پوری کرتا ہے.گھانا میں میدان میں رہا ہوں.بڑے مشکل حالات تھے.جو مانگنا ہے خدا تعالیٰ سے مانگیں.تنگی ترشی بر داشت کر لیں، لیکن اپنے وقار کو کبھی نہ گرائیں.اور یہ باتیں صرف نئے آنے والوں کو نہیں کہہ رہا بلکہ پرانوں کو بھی جو میدانِ عمل میں ہیں انہیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.بعض دفعہ بھول جاتے ہیں یا بعض دفعہ دنیاداروں کو دیکھ کر خواہشات بڑھ جاتی ہیں.ہر مربی جماعت کی نظر میں، مرکز کی نظر میں، افرادِ جماعت کی نظر میں خلیفہ وقت کا نمائندہ ہے.پس کوئی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہئے جس سے اس نمائندگی پر حرف آتا ہو.بعض دفعہ بیوی بچوں کی وجہ سے مجبور ہو کر بعض ضروریات کا اظہار ہو جاتا ہے.جماعت اپنے وسائل کے لحاظ سے حتی الامکان واقف زندگی کو سہولت دینے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے.لیکن جس طرح دنیا میں معاشی بد حالی بڑھ رہی ہے، غریب ممالک میں خاص طور پر براحال ہو جاتا ہے.باوجود کوشش کے مہنگائی کا مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے.لیکن ایک مربی کا ایک واقف زندگی کا وقار اسی میں ہے کہ کسی کے سامنے اپنی مشکلات کا ذکر نہ کرے.جو رونا ہے خدا تعالیٰ کے آگے روئیں، اس سے مانگیں.میں نے پہلے بزرگوں کی جو مثالیں دی ہیں، آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی قربانیاں موجود ہیں.لیکن بعض بے صبرے بھی ہوتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا وقف بھی توڑ جاتے ہیں.دوسروں کو دیکھ کر جب اپنی خواہشات کو پھیلایا جائے تو پھر یہ حال ہو جاتا ہے.اس سے مشکلات مزید بڑھتی ہیں.جب آپ اپنے ہاتھ ، خواہشات کو دوسروں پر نظر رکھتے ہوئے پھیلاتے ہیں تو یا وقف توڑ دیں گے یا پھر مقروض ہو جائیں گے.پس اپنی

Page 567

خطبات مسرور جلد ہشتم 552 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 چادر میں رہناہی ایک واقف زندگی کا کام ہے.اور اس حوالے سے میں واقفین زندگی کی بیویوں کو بھی یہ کہوں گا کہ وہ بھی اپنے اندر قناعت پیدا کریں اور اپنے خاوندوں سے کوئی ایسا مطالبہ نہ کریں جو پورا نہ ہو اور واقف زندگی کو ابتلا میں ڈال دے.پس جس عظیم کام کے لئے اور جس عظیم مجاہدے کے لئے واقفین زندگی خاص طور پر مبلغین اور مربیان نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے ، ان کی بیویوں کا بھی کام ہے کہ اس کام میں ، اس مجاہدے میں ان کی معاون بنیں.ایک مبلغ اور مربی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.مدرسہ احمدیہ کے اجراء کے وقت آپ نے فرمایا کہ ”یہ مدرسہ اشاعتِ اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نوکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمت دین کو اختیار کریں، جو عربی اور دینیات میں توغل رکھتے ہوں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 618 جدید ایڈیشن ) یعنی علوم حاصل کرنے اور سمجھنے کی ان میں ایک لگن ہو.اللہ تعالیٰ ہمارے مربیان مبلغین کو ان باتوں کو سامنے رکھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.واقفین ٹو کے سلسلہ میں بعض انتظامی باتیں بھی ہیں جو کہنا چاہتا ہوں.واقفین نو کی ایک بڑی تعد اد ایسے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے جو دینی علم حاصل کرنے کے لئے جامعہ میں داخل نہیں ہوتے اور مختلف میدانوں میں جاتے ہیں.یہ بہت بڑی تعداد ہے.جماعت کو ایسے واقفین کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف فیلڈز میں جائیں اور جماعت کی خدمت کریں.اس لئے پڑھائی کی ہر سٹیج پر واقفین نو کو مرکز سے مشورہ کرنا چاہیئے کہ اب یہاں پہنچ گئے ہیں ہم آگے کیا کریں..اب ہمارا یہ یہ ارادہ ہے.کیا کرنا چاہیے ؟ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساڑھے چودہ ہزار واقفین نو بچے بچیاں ہیں جو پندرہ سال سے اوپر ہو چکے ہیں.کل تعداد تو چالیس ہزار ہے.ایک تو اس عمر میں ان کو خود اپنے وقف کے فارم پر کرنے چاہئیں کہ وہ وقف قائم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں.یہ ہوش کی عمر ہے.سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کریں کہ وقف کو قائم رکھنا ہے یا پھر وقف نہیں کرنا.پہلے ماں باپ نے وقف کیا تھا اب واقف زندگی بچے نے ، وقف تو بچے نے خود کرنا ہے.اگر وقف قائم رکھنا ہے تو مرکز کو اطلاع ہونی ضروری ہے اور پھر رہنمائی بھی لیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ہم جامعہ میں تو نہیں جارہے ، یہ یہ ہمارے شوق ہیں.تعلیم میں ہمیں یہ دلچسپی ہے تو آپ ہماری رہنمائی کریں کہ ہم کونسی تعلیم حاصل کریں.جیسا کہ میں نے کہا بے شک اپنے شوق بتائیں، اپنی دلچپسی بتائیں لیکن اطلاع کرناضروری ہے.اور مختلف وقتوں میں پھر ان کی رہنمائی ہوتی رہے گی.جیسا کہ میں نے کہا کہ سیکر ٹریان وقف کو کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے.اور اگر یہ فعال ہوں گے تو پھر متعلقہ جماعتوں کے اپنے واقفین نو بچوں سے معلومات لے کر مر کز کو اطلاع بھی کریں گے اور پھر مرکز یہ

Page 568

553 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بتائے گا کہ کیا کام کرنا ہے ، کیا نہیں کرنا.یا کیا آگے پڑھنا ہے یا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مرکز میں اپنی خدمات پیش کرنی ہیں.خود ہی فیصلہ کرناواقف نو کا کام نہیں ہے ، نہ ان کے والدین کا.اگر خود فیصلہ کرنا ہے تو پھر بھی بتادیں کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اب میں وقف تو میں رہنا نہیں چاہتا تا کہ اس کو وقف نو کی فہرست سے خارج کر دیا جائے.گو کہ اب تک یہی ہدایت ہے کہ پندرہ سال کے بعد جب اپنا وقف کا فارم فل (Fill) کر دیا تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے.لیکن اب میں یہ راستہ بھی کھول دیتا ہوں.تعلیم مکمل کر کے دوبارہ لکھیں اور یہ لکھوانا بھی سیکر ٹریان وقف نو کا کام ہے.اور اس کی مرکز میں با قاعدہ اطلاع ہونی چاہئے کہ ہم نے یہ تعلیم مکمل کر لی ہے اور اب ہم اپنا وقف جاری رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں رکھنا چاہتے.پندرہ سال سے اوپر کی جو تعداد ہے اس کا تقریباً دس فیصد یعنی چودہ سو چھبیس کے قریب مختلف ممالک کے جامعہ احمدیہ میں واقفین کو پڑھ رہے ہیں.یعنی نوے فیصد اپنی دوسری تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں یا پڑھائیاں چھوڑ بیٹھے ہیں یا کوئی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.اس بارہ میں بھی باقاعدہ رپورٹ تیار ہونی چاہئے.میرا نہیں خیال کہ توے فیصد کے بارہ میں مرکز کو با قاعدہ آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ واقفین نو بچے کیا کر رہے ہیں.ان کی رپورٹ تیار ہو.سیکر ٹریان وقف نو سے میں کہہ رہا ہوں اور یہ رپورٹ مرکز میں بھجوائیں.اسی طرح واقفین نو کے لئے، چاہے وہ جامعہ میں پڑھ رہے ہیں یا نہیں پڑھ رہے اور کوئی دنیاوی حاصل کر رہے ہیں، دینی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہے.اور ان کے لئے سلیبس بنایا گیا ہے.پہلے پندرہ سال کے بچوں تک کے لئے تھا.اب انیس سال تک کے لئے بنایا گیا ہے.اس کو پڑھنا اور اس کا امتحان دینا بھی ضروری ہے.اور یہ انیس سال والا نہیں سال تک بھی extend کیا جا سکتا ہے.تو اس میں شامل ہونا اور اس میں واقعہ واقفین نو کے سیکرٹریان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ سو فیصد شمولیت ہو، یہ بھی ضروری ہے.اور پھر ان کے نتائج مرکز میں بھجوائے جائیں.شعبہ وقف نو کی ہدایات مختلف اوقات میں یہاں مرکز سے بھی شعبہ وقف نو سے ہدایات جاتی رہتی ہیں.ان کے بارہ میں بعض جماعتیں بلکہ اکثر جماعتیں جواب ہی نہیں دیتیں.ان کی یاد دہانی کے لئے گو کہ بعض باتیں پہلے بھی آگئی ہیں لیکن جو ر کلر جاتے ہیں وہ میں دوبارہ آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں.مثلاً ایک ہدایت یہ ہے کہ وقف کو میں شمولیت کے لئے لازمی ہے کہ ولادت سے قبل والدین خود تحریری طور پر خلیفہ وقت کو درخواست دیں اور بعض دفعہ بعض لوگ بعد میں، پیدائش کے بعد درخواستیں بھیجتے ہیں کہ ہمیں بھول گیا تھا یا فلاں مجبوری ہو گئی تھی.تو یہ ٹھیک

Page 569

554 خطبات مسرور جلد هشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 نہیں.شروع میں درخواست دینی ضروری ہے.اور انہی کا وقف قبول کیا جاتا ہے جو پہلے درخواست دیتے ہیں.اور یہی پہلے دن سے وقف نو کے شعبے کا اصول رہا ہے.یہاں صرف ایک بات کی میں وضاحت کر دوں کہ لوگ خط لکھتے ہیں.وقف نو میں درخواست دیتے ہیں، اس میں اپنے بعض دوسرے مسائل بھی لکھ دیتے ہیں اور کیونکہ یہ شعبے جنہوں نے جواب دینے ہیں مختلف ہیں.وقف نو کا جواب وقف نو کا شعبہ دے گا.خط کے باقی حصے کا جواب دوسرے حصے نے دینا ہوتا ہے.اس لئے وہ عورتیں اور مرد جو اپنے بچوں کے لئے وقف نو کے لئے لکھتے ہیں ، اگر انہوں نے اپنے خطوط میں دوسرے مسائل لکھنے ہوں تو وہ دوسرے خط میں علیحدہ لکھا کریں.پھر یہ ہے کہ وقف نو بچے بچی کے جو والدین ہیں وہ خود درخواست کریں.ان کے رشتے داروں کی درخواستیں جو ہیں وہ منظور نہیں ہوں گی.دعا تو آپ نے اپنے بچوں کو وقف کرنے کے لئے کرنی ہے، اس لئے درخواست بھی خود دینی ہو گی.کیونکہ تربیت اور تعلیم اور دعاسب آپ کی ذمہ داری ہے.اور پھر یہ ہے کہ بعض علاقوں میں افریقہ وغیرہ میں جہاں بعض دفعہ پوری طرح ہدایات پر عمل نہیں ہو تا.اول تو ان کا اپنے رجسٹروں میں ویسے نام لکھ لیا جاتا ہے کہ جی بچہ پیدا ہوا اس نے کہا وقف نو میں شامل کر لو، وقف نو ہو گیا.جب تک مرکز کی طرف سے کسی کو وقف نو میں شامل ہونے کی کلیئرنس نہیں ملتی، کوئی بچہ وقف نو میں شامل نہیں ہو سکتا.اور پیدائش کے بعد تو سوال ہی نہیں.اور اسی طرح جو گود میں لینے والے بچے ہیں، اگر وہ اپنے عزیز رشتے داروں کے ہیں تو اس کی بھی ولادت کے وقت سے پہلے اطلاع ہونی چاہئے کہ بچہ وقف نو میں شامل کرنا ہے.اور بے شک گود آپ نے لیا ہو کسی بھی زید یا بکر نے.لیکن ولدیت میں اسی کا نام لکھا جائے گا جس کا وہ حقیقی بچہ ہے.پھر پیدائش کے بعد یہ بھی لازمی ہے کہ والدین مرکزی ریکارڈ میں بچے کا اندراج کروائیں اور حوالہ نمبر درج کریں.والدین بعض دفعہ لمبا عرصہ اندراج نہیں کرواتے اور اس کے بعد پھر یاد دہانی کے باوجود اندراج نہیں کرواتے اور پھر کئی سالوں کے بعد یہ شکایتیں لے کر آجاتے ہیں کہ ہمارے بچے کا ریکارڈ نہیں ہے.تو یہ ذمہ داری بھی والدین کی ہے.اسی طرح جب بچے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو مقامی اور نیشنل سیکر ٹریان وقف نوان کے وقف کی تجدید کروائیں.پہلے بھی میں بتا چکا ہوں، بلکہ اب میں نے کہا ہے کہ جو یونیورسٹیوں ، کالجوں میں پڑھ رہے ہیں وہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بھی تجدید کریں.کیونکہ اب اس ریکارڈ کو بہت زیادہ آپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو با قاعدہ رکھنے کی ضرورت ہے.اس کے بغیر ہم آگے اپنی جو بھی سکیم ہے جماعت کی ضروریات ہیں ان کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے.اور نہ ہی ہمیں ان کا یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ ہمیں کس کس شعبے میں کتنے لوگوں کی اب

Page 570

555 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 اکتوبر 2010 ضرورت ہے.بعض دفعہ والدین کے لئے ایک بڑے صدمے والی بات ہوتی ہے کہ بچہ معذور پیدا ہوا ہے.ایسی صورت میں بھی وقف نو میں تو شامل نہیں ہو تا گو یہ والدین کے لئے دہر اصدمہ ہے.اللہ تعالیٰ کوئی اور بہتر صورت کرے یا ایسے والدین کو نعم البدل اولاد عطا کرے.پھر اسی طرح ایسے والدین جن کو کسی وجہ سے اخراج از جماعت کی تعزیر ہو جاتی ہے ( عموما یہی ہوتا ہے کہ جماعت کی بات نہیں مانی یا کسی فیصلہ یا جماعتی روایات پر عمل نہیں کیا تو ان کے بچوں کا نام بھی اس لئے فہرست میں سے خارج کر دیا جاتا ہے کہ جو والدین خود اپنے آپ کو اس معیار پر نہیں رکھنے والے کہ جہاں جماعت کی پوری اطاعت اور نظام جماعت کا احترام ہو تو وہ اپنے بچوں کی کیا تربیت کریں گے.اس لئے سیکر ٹریانِ وقف نو بھی یہ نوٹ کر لیں کہ اگر ایسی کوئی بات ہو ، کسی کے بارے میں کوئی تعزیر ہو تو ایسے لوگوں کی بھی فورامر کز میں اطلاع کریں.یہ سیکر ٹریانِ وقف نو کا کام ہے.اور اسی طرح یہ تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہیں تو بتادیں اور پہلے اجازت لے لیں.اور جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر چکے ہوں اور اپنا وقف میں رہنا بھی confirm کیا ہوا ہو تو ان کے لئے بھی لازمی ہے کہ وقتا فوقتاً جماعت سے رابطہ رکھیں کہ اب ہم کام کر رہے ہیں.کام کرنے کا عرصہ اتناہو گیا ہے.فی الحال اکثریت کو اجازت دی جاتی ہے کہ اپنے کام جاری رکھو.جب جماعت کو ضرورت ہو گی بلالے گی.لیکن ان کا کام یہ ہے کہ ہر سال اس کی اطلاع دیتے رہیں.اسی طرح جو دوسرے پیشے کے لوگ ہیں جو اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کر سکے لیکن دوسرے پیشوں میں، مختلف قسم کے سکلز (Skills) ہیں پروفیشنر (Prifessions) ہیں، ان میں چلے گئے ہیں تو ان کو بھی اپنی ٹرینگ یاڈپلومہ وغیرہ مکمل کرنے کے بعد اطلاع کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان سب واقفینِ نو اور تمام واقفاتِ نو کو جماعت کے لئے بھی مفید وجود بنائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان لوگوں کی جو جماعت کی امانت ہیں، جو قوم کی امانت ہیں، احسن رنگ میں تربیت بھی کر سکیں اور جماعت کے لئے ایک مفید وجود بنانے میں ان کی مدد بھی کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 46 مورخہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 571

خطبات مسرور جلد ہشتم 556 44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010ء بمطابق 29 اخاء 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا ( النساء: 49) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یقیناً اللہ معاف نہیں کرے گا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہر ایا جائے اور اس کے علاوہ سب کچھ معاف کر دے گا جس کے لئے وہ چاہے.اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ افتراء کیا ہے.جوں جوں انسان ایجادات کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب ہو رہا ہے.ایک ملک کی ایجاد سے دوسرے ملک کے باشندے جو ہزاروں میل دُور رہتے ہیں وہ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں.آپس کے رابطوں نے جہاں ترقی کے راستے کھولے ہیں وہاں ایک دوسرے کی برائیاں بھی تیزی سے اپنائی جارہی ہیں.برائیوں میں یا لہو ولعب میں کیونکہ جاذبیت زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ اپنی طرف زیادہ کھینچتی ہیں انسان انہیں اپنانے میں بڑی تیزی اور شدت دکھاتا ہے.یعنی اختیار کرنے میں جلدی بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ جوش بھی پیدا ہو جاتا ہے.اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے؟ کن روایات کا حامل ہے ؟ کس معاشرے میں اس کی اٹھان ہوئی ہے ؟ کس مذہب سے اس کا تعلق ہے ؟ خدا تعالیٰ کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں پسند ؟ اگر مسلمان ہے تو خدا تعالیٰ نے اس کا مقصد پیدائش کیا بتایا ہے ؟ غرض کہ بہت سی غلط باتیں ہیں جو دنیا داری میں پڑنے اور ماڈرن بننے کے شوق میں ایک اچھے بھلے مذہبی رجحان رکھنے والے سے بھی سرزد ہو جاتی ہیں.حتی کہ بعض احمدی بھی بعض باتیں معمولی سمجھ کر ان کو کرنے لگ جاتے ہیں جس کے انتہائی بد نتائج نکل سکتے ہیں.شرک کی برائی ان برائیوں میں سے جو غیر محسوس طریقے سے انسان کو اپنے دام میں گرفتار کر لیتی ہیں ایک شرک ہے

Page 572

557 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 اور وہ ایسی برائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف برائی ہی نہیں بلکہ بہت بڑا نا قابل معافی گناہ ہے.جیسا کہ ہم نے، یہ آیت جو میں نے تلاوت کی، اس میں دیکھا.اللہ تعالیٰ کی توحید کے مقابل پر کسی بھی قسم کا چاہے وہ معمولی سا بھی اظہار ہے جس سے خدا تعالیٰ کی توحید پر حرف آتا ہو، اللہ تعالیٰ کو قابل قبول نہیں ہے.پس ایک مسلمان جو توحید پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، جو لا الهَ اِلَّا اللهُ پڑھتا ہے، اسے توحید کی باریکی کو سمجھتے ہوئے، شرک کی باریکی کو سمجھتے ہوئے اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں خدا تعالیٰ کی توحید کا ذرہ برابر خیال نہیں رکھا جاتا، بڑا بیچ بچ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے.اور خاص طور پر ہم احمدی مسلمانوں کو تو یہ ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم نے تو زمانے کے امام کی بیعت ہی اس شرط پر کی ہے، اور اس شرط کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے پہلی شرط کے طور پر رکھا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ” بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو ، شرک سے مجتنب رہے گا “.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 اشتہار مورخہ 12 جنوری 1889) پس یہ احمدیت میں داخل ہونے کے لئے، حقیقی اسلام میں داخل ہونے کے لئے پہلا عہد ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسلمان تو پہلے ہی کلمہ لَا اِلهَ اِلَّا اللہ پڑھتے ہیں.گو وہ یہ کلمہ پڑھتے ہیں لیکن احمدیت نے جہاں مسلمانوں کو حقیقی اسلام کی طرف لانا ہے وہاں غیر مسلموں کو ، دوسرے مذاہب والوں کو بھی، لا مذ ہبوں کو بھی حقیقی اسلام کی طرف لے کر آنا ہے.اس لئے شرک کی جو شرط ہے وہ پہلی شرط ہے کہ شرک کبھی نہیں کرے گا.لا الهَ إِلَّا اللہ کا کلمہ جو ایک مسلمان پڑھتا ہے، گو بڑی شدت سے اور بڑے زور سے شرک کی نفی کرتا ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجو د مسلمانوں میں اس شرک کا جو شرک خفی کہلاتا ہے ، اتنالحاظ نہیں رکھا جاتا.کہنے کو تو یہ بڑی آسان بات ہے کہ مسلمانوں میں سے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں کے لئے یہ کوئی بڑی شرط نہیں ہے.لیکن اگر غور کریں تو جیسا کہ میں نے کہا کہ مسلمانوں میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو ظاہری شرک نہ سہی لیکن شرک خفی میں مبتلا ہیں.قبروں کی پوجا اگر ایک طبقہ ماتھا ٹیک کر کرتا ہے، قبروں پر جا کر سجدے کرتے ہیں تو دوسر اجو اگرچہ سجدہ تو نہیں کرتا لیکن چڑھاوے چڑھا کر دل میں خفی شرک لئے ہوئے ہو تا ہے.تیسرا اگر قبروں پر دعا کر رہا ہے تو دعا کرتے ہوئے بجائے خدا کے اس پیر فقیر سے جس کی قبر پر وہ دعا مانگ رہا ہوتا ہے ، اُس سے مانگ رہا ہوتا ہے.اور ایسے تو کئی واقعات ہیں کہ عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ سے مانگا کہ ہمیں بیٹا دے تو بیٹا پیدا نہیں ہوا.لیکن جب داتا دربار میں جاکر داتا صاحب سے مانگا تو بیٹا پید اہو گیا.اور عور تیں کیونکہ اکثر ایمان میں بھی کمزور ہوتی ہیں اور عموماً مسلمانوں میں نمازوں اور عبادتوں کی طرف بھی رجحان نہیں رہا اس لئے عور تیں خاص طور پر اور مرد بھی عموماً ایسے واقعات ہونے پر خدا تعالیٰ پر ایمان میں کمزوری دکھاتے ہیں.بعض دفعہ (ایمان) بالکل ہی

Page 573

558 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ختم ہو جاتا ہے.لیکن حضرت داتا گنج بخش یا اور کسی پیر فقیر پر ان لوگوں کا خدا سے بڑھ کر ایمان پیدا ہو جاتا ہے.عور تیں اور مرد تقریباً یکساں اس میں شامل ہیں.پانچ نمازیں تو ہر ایک کو ایک بوجھ لگتی ہیں.اور آسان راستہ ان کے لئے یہی ہے کہ قبروں پر دعائیں کرنے اور منتیں مانگنے سے اپنے مسائل حل کروالیں.اور کیونکہ یہ سلسلہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں چل رہا ہے اس لئے خدا تعالیٰ پر ایمان آہستہ آہستہ ختم ہو تا جارہا ہے.پچھلے دنوں میں ایک ہندو کی ایک نظم نظر سے گزری.اس کو مسلمانوں میں انہی بدعات کو دیکھتے ہوئے یہ جرات پیدا ہوئی کہ اس نے ایک نظم لکھ دی کہ ہم ہند و جو ہیں دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں تو مسلمان بھی قبروں پر جاتے ہیں اور پیروں فقیروں کو سجدے کرتے ہیں، ان کے پجاری ہیں.اس نے تو نعوذ باللہ یہاں تک کہہ دیا کہ تم آنحضرت صلی کم کو خدا بنا دیتے ہو.جو بہر حال ایک الزام ہے اور ایک حقیقی مومن پر انتہائی مکروہ الزام ہے.آنحضرت صلی الی یکم سے بڑھ کر نہ تو کوئی توحید کا علم بردار تھا، نہ ہو سکتا ہے.آپ صلی میں کم سے بڑھ کر نہ تو توحید کی تعلیم دینے والا کوئی تھا اور نہ ہو سکتا ہے.آپ صلی علیہ کم سے بڑھ کر توحید کا فہم وادراک حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ پر اس توحید کو لاگو کرنے والا کوئی تھا، نہ ہو سکتا ہے.توحید کی حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر فوقیت دینے والا ہو.اور آپ صلی ایم سے زیادہ کون اللہ تعالیٰ کو فوقیت دینے اور آپ کو حاصل کرنے میں بے چین ہو سکتا تھا.ان کی نبوت کے زمانہ سے پہلے کی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ گھنٹوں اور دنوں علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے.آپ کی ایک دعا ہے.یہ دعا ہی خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے دلی خواہش اور بے چینی کا پتہ دیتی ہے.آپ اپنے مولیٰ کے حضور بڑے بے چین ہو کر یہ عرض کرتے ہیں کہ : الله اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ وَحُبّ مَنْ يَنْفَعُنِى حُبُّهُ عِنْدَكَ اللَّهُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةً لِي فِيْمَا تُحِبُّ اللَّهُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْهُ فَرَا ا لِي فِيْمَا تُحِبُّ ( ترمذی کتاب الدعوات باب 73 / 74 حدیث: 3491) کہ اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ دے.اے اللہ ! جو میری پسندیدہ چیزیں ہیں مجھے عطا کر.انہیں میرے لئے تقویت کا ذریعہ بنادے، اپنی محبت میں بڑھنے کا ذریعہ بنادے، ایمان میں ترقی کا ذریعہ بنادے.اور جو میری پیاری چیزیں مجھ سے علیحدہ کرے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا کر.پس اگر آپ علی علیکم اللہ تعالی سے کسی چیز کی محبت مانگتے ہیں تو اُس چیز کی جو خد اتعالیٰ کو پسند ہے اور دنیا کی ہر پسندیدہ چیز کی محبت آپ صلی علی کم اس دعا اور عرض کے ساتھ مانگتے ہیں کہ یہ مجھے دین میں بھی بڑھائے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی بڑھائے.پس بعض لوگ جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم پیروں فقیروں کی قبروں پر اس لئے جاتے

Page 574

559 خطبات مسرور جلد هشتم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 ہیں کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے پیارے تھے ، اس کے بارہ میں بھی قرآن شریف میں آیا ہوا ہے ، ان لوگوں کو تم استعمال کرتے ہو.بعض جو بتوں کی پوجا کرتے ہیں ان کے بھی یہی بہانے ہوتے ہیں کہ یہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے ہم اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں.یہ بالکل غلط نظریات ہیں.یہ دعا اگر وہ پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کرتے ہیں، اگر وہ شرک سے پاک ہیں، اگر وہ حقیقت میں نیک تھے تو ان پیروں فقیروں کی زندگی پر غور کرتے ہوئے دعا کرنے والے کو یہ دعائیں خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنانے والی ہونی چاہئیں.نہ یہ کہ وہ انہیں خدا تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے یہ کہنے لگ جائیں کہ اس فقیر نے ہمیں اولاد دی تھی.اور اس وجہ سے پھر غیر مسلموں کو بھی اسلام پر اعتراض کرنے کا موقع ملے ، آنحضرت صلی للی نیم کی ذات پر اعتراض کرنے کا موقع ملے.آنحضرت علی ایم کو صحابہ کی تربیت کا اس قدر خیال تھا، قیام توحید کا اس قدر خیال فرماتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ معمولی ریاء بھی شرک ہے.عبادت میں بھی اگر تم ریاء کرتے ہو ، نمازیں پڑھتے ہوئے بھی ریاء کرتے ہو تو یہ بھی شرک ہے.آپ نے فرمایا کہ شرک سے بچو.شرک تم میں چیونٹی کی آہٹ سے بھی زیادہ مخفی ہے.یعنی چیونٹی کے پاؤں سے زمین پر جو نشان پڑ جاتے ہیں ، اس سے بھی زیادہ باریک ہے.صحابہ نے اس پر عرض کیا کہ کس طرح بچیں؟ آپ صلی یکم نے یہ دعا پڑھ کر کہا کہ یہ دعا پڑھا کرو کہ اللهُمَّ إِنَّا نَعُوْذِبَكَ مِنْ أَنْ نُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا نَعْلَمُهُ وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لا نَعْلَمُ کہ اے اللہ ! ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ہم تیرے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے شریک ٹھہرائیں.اور لاعلمی میں ایسا کرنے سے ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں.(مسند احمد بن حنبل، مسند ابو موسیٰ الاشعری جلد 6 صفحہ 615-614.حدیث نمبر 19835.) پس آپ نے تو ایک مسلمان کو شرک سے بچنے کی ہمیشہ تلقین فرمائی ہے اور اس کے لئے یہی کہا اور ہمیشہ کہا کہ میں تو انسان ہوں.ایک عاجز انسان ہوں.کوئی آپ سے خوفزدہ ہو رہا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ میں تو ایک ابن ماجہ کتاب الاطعمه باب القديد حدیث : 3312) معمولی عورت کا بیٹا ہوں.خدا تعالیٰ نے بھی آپ سے یہی اعلان کروایا کہ انا بشر مثلكم (الکہف:111) کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں.اس لئے یہ بات تو بہر حال اس ہندو نے غلط لکھی کہ تم نے نعوذ باللہ آنحضرت علی ایم کو خدا بنا لیا.اگر ہم نے اپنے دیوی دیوتاؤں کو خدا بنایا ہوا ہے.یا کرشن وغیرہ کو انہوں نے خدا کا بڑا مقام دیا ہے تو کیا ہوا.لیکن یہ بات اس کی صحیح ہے کہ قبروں کو تم نے خدا کا مقام دے دیا ہے.پس مسلمانوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ توحید کے علمبر داروں پر شرک کا الزام لگ رہا ہے.اس الزام کو عام مسلمان تو دور نہیں کر سکتے لیکن ایک احمدی مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی حالتوں میں اور اپنے عملوں

Page 575

تعلیم پر 560 خطبات مسرور جلد ہشتم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 میں تبدیلی پیدا کریں.اپنی عبادتوں کو ایسا بنائیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہماری عبادتوں میں نظر آنے لگے ، ہمارے عملوں میں بھی نظر آنے لگے.دنیا کو بتائیں کہ قیام توحید کے لئے آنحضرت صلی علی کم مبعوث ہوئے تھے.آپ کی پر عمل کرنے سے ہی اب یہ قیام توحید ہو سکتا ہے.اور مسلمانوں کی بھی کیونکہ حالت بگڑ گئی ہے اس لئے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آنحضرت صلی علیکم کے عاشق صادق اور غلام صادق ہیں، کی جماعت میں ہی شامل ہو کر توحید کے قیام کا حقیقی رنگ میں حق ادا ہو سکتا ہے.پس جب یہ احمدی کی ذمہ داری ہے اور شرائط بیعت کی پہلی شرط بھی یہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بھی یہی ہے کہ اپنے آقا کی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے توحید کے قیام کی کوشش کریں تو پھر ہمیں کس قدر احتیاط سے ہر قسم کے بار یک شرک سے بھی بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے رسالہ الوصیت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دُعاؤں پر زور (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307-306) دینے سے “.پس یہ ایک احمدی کے فرائض میں داخل ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس منشاء کو سمجھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سمجھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو سمجھنے والے ہوں.زمانے کے امام کا معین و مددگار بنیں.اپنے ہر قول و فعل سے توحید کے قیام کی کوشش کریں.صرف مسلمانوں کو نہیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی توحید کے پیغام کے ذریعہ دین واحد پر جمع کرنے کی کوشش کریں.اس کے لئے جو طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ تمہاری باتوں میں نرمی بھی ہو اور اخلاق کا عمدہ مظاہرہ بھی ہو.خود لوگ تمہارے اخلاق دیکھیں اور توجہ کریں.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں پر زور دو.بدعات اصل تعلیم سے دور لے جاتی ہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض بدعات جب رائج ہو جائیں تو اصل تعلیم سے دور لے جاتی ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اصل تعلیم انسان بھول جاتا ہے اور یہ بدعات پھر بعض دفعہ ، بعض دفعہ کیا اکثر دین کو بگاڑتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ پر کھڑا کر دیتی ہیں.تمام سابقہ دین اپنی اصلی حالت کو اس لئے کھو بیٹھے کہ ان میں نئی نئی

Page 576

561 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم بدعات زمانے کے ساتھ ساتھ راہ پائی گئیں اور پھر ان کو دور کرنے کے لئے کوئی نہ آیا اور آنا بھی نہیں تھا.کیونکہ اسلام نے ہی تا قیامت اپنی اصل حالت میں قائم رہنا تھا.اور جس نے آنا تھا وہ آخری نبی صلی المی کم تھے جنہوں نے تمام قسم کی بدعات کو اور دین میں جو غلط رسم و رواج راہ پاگئے تھے ان کو حقیقی تعلیم کے ذریعہ سے دور فرمانا تھا.گو جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ بدعات بھی بعض مسلمانوں میں غلط طور پر راہ پاگئی ہیں اور بعض بدعات ایسی ہیں اور غلط طرزِ عمل ایسے ہیں جن کی وجہ سے شرک بھی داخل ہو گیا ہے.نہ صرف مخفی شرک بلکہ ظاہری شرک بھی بعض جگہ ہمیں نظر آتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اس زمانہ کے امام کو بھیج کر اس شرک اور بدعت سے اسلام کو محفوظ کرنے کے سامان بہم پہنچا دیئے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ محفوظ رہے گا.یہی بدعات جو اسلام میں راہ پاگئی ہیں، مسلمانوں میں راہ پاگئی ہیں اور جو غلط طریقے جو ہیں ان کی طرف نشاند ہی کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہمارا طریق بعینہ وہی ہے جو آنحضرت صلی للی یکم اور صحابہ کرام کا تھا.آج کل فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں.یہ چلے اور ورد وظائف جو انہوں نے رائج کر لئے ہیں ہمیں نا پسند ہیں.اصل طریق اسلام قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائیں توجہ اور انابت الی اللہ سے کرتے رہنا.بس نماز ہی ایسی چیز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دیتی ہے.یہ ہے تو سب کچھ ہے“.( یعنی نماز ہے تو سب کچھ ہے ).( ملفوظات جلد 5 صفحہ 432) پس عام بدعات تو ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو بعض وظائف وغیرہ کرنے اور ان وظائف پر زور دینے والوں کے عمل کو بھی بدعات کرنے والا قرار دیا ہے.کیونکہ اس سے اصل چیز جو ہے وہ بھول جاتے ہیں.نماز جو اصل عبادت ہے وہ بھول جاتی ہے.وہ نماز بھول جاتے ہیں اور در دو وظائف پر زور شروع ہو جاتا ہے.اور پھر یہ بھی شیطانی عملوں میں سے ایک عمل بن جاتا ہے.ایک بزرگ کا قصہ آتا ہے کہ ان کی ہمشیرہ جو بہت نیک تھیں، نمازیں پڑھنے والی، تہجد گزار ، دوسرے نوافل پر زور دینے والی.انہوں نے بعض مجلسوں میں جا کر یا لوگوں سے متاثر ہو کر ورد اور ذکر اور وظائف کی طرف زیادہ توجہ دینی شروع کر دی.اس طرف زیادہ مائل ہو گئیں.اور پھر آہستہ آہستہ جو دن کے نوافل تھے وہ چھوڑ دیئے.ان بزرگ کو شک پڑا تو انہوں نے پوچھا.انہوں نے کہا کہ جی میں زیادہ اب ورد اور وظائف کر لیتی ہوں.انہوں نے سمجھایا کہ یہ غلط طریق ہے.لیکن بہر حال نہیں سمجھیں.انہوں نے کہا کہ میں ٹھیک کرتی ہوں.آہستہ آہستہ تہجد کی نماز پڑھنی بھی چھوڑ دی.اس کی جگہ بھی ذکر شروع ہو گیا.انہوں نے کہا کہ دیکھو جو ذکر تم کر رہی ہو تمہیں شیطان ور غلا رہا ہے.اس لئے بچو.یہ کوئی خدا کا حکم نہیں ہے.اگر تم نے اس سے بچنا ہے تو تم لا حول پڑھا کرو، بچ جاؤ گی.کچھ عرصے بعد اس بزرگ خاتون نے دیکھا کہ فرض نمازوں کی طرف بھی میری بے رغبتی ہو رہی

Page 577

562 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ہے تو پھر خودان کو احساس پیدا ہوا.پھر انہوں نے شیطان سے بچنے کے لئے لَا حَوْل پڑھنا شروع کیا.لَا حَوْلَ وَلَا قوة الا بالله.پھر آہستہ آہستہ ان کی نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور وہ انہماک پید اہوا.پھر تہجد کی طرف توجہ پید اہوئی.پھر نوافل کی طرف توجہ پیدا ہوئی.تو بعض دفعہ انسان کو بعض باتوں کا پوری طرح علم نہیں ہو تا.وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں بعض نیکیاں میں کر رہا ہوں ان کو کرنے کا بڑا فائدہ ہے.اور ذکر کرنے سے یاور د وظائف کرنے سے بڑا مقام حاصل ہو سکتا ہے.گو یہ بڑی اچھی بات ہے ، ذکر کرنا چاہئے.ذکر الہی سے زبان تر رکھنی چاہئے.لیکن جو اللہ تعالیٰ نے فرائض بتائے ہیں وہ پورے کر کے اور آنحضرت صلی یی کم نے ہمارے سامنے نوافل اور تہجد کی جو سنت قائم فرمائی اس کو کر کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں ہوں تب ٹھیک ہے.لیکن صرف ایک چیز پر زور دینا اور اصل فرائض کو چھوڑ دینا، سنت کو چھوڑ دینا، یہ غلط طریق کار ہے.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ ہمو کی مجلسیں، ذکر اذکار کی مجلسیں بے شک بڑی پاکیزہ مجلسیں ہیں لیکن یہ جب ایک حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو پھر شیطان کی طرف لے جاتی ہیں.پس اصل نیکی وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جو توحید کے قیام کے لئے اہم ہے.پس بظاہر نیکی کرنے کی طرف توجہ دلانے والی باتیں جب بعض اوقات بدعات بن جاتی ہیں تو دوسری بدعات تو بہت زیادہ اثر ڈالتی ہیں.عام بدعات جو معاشرے پر اثر ڈالتی ہیں وہ تو ڈالتی ہی ہیں.لیکن یہ بظاہر نیکی کی طرف لے جانے والی جو بدعات ہیں یہ بھی انسان کو اصل فرائض سے محروم کر دیتی ہیں.اس لئے ایک احمدی کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے.اپنے فرائض، نوافل، تہجد ضروری چیز میں ہیں جن کی آنحضرت علی علیم نے تلقین فرمائی ہے اور جن کی سنت ہمارے سامنے پیش فرمائی.اور پھر دعائیں اور ذکر اذکار ہیں.تب ایک انسان حقیقی مومن بننے کی طرف قدم بڑھاتا ہے.اس معاشرے میں ان بدعات سے بچنے کے لئے ایک احمدی کو جہاد کے رنگ میں کوشش کرنی چاہئے.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ جدید ترقیات نے بعض برائیوں کو بھی پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے.اور بغیر سوچے سمجھے بعض لوگ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی ان باتوں میں ڈال دیتے ہیں جن کا علم ہی نہیں ہو تا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے ؟ بس دیکھا دیکھی معاشرے کے پیچھے چل کر وہ کام کرنے شروع کر دیتے ہیں.اگر اُس دعا کی طرف توجہ ہو جو آنحضرت ملا لی ہم نے ہمیں سکھائی ہے کہ بعض باتیں جو لا علمی میں ہو جاتی ہیں ان کے کرنے پر بھی اے اللہ ہمیں تیری بخشش چاہئے تو جب دعا نیک نیتی سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہوتی ہے تو پھر آئندہ انسان بعض برائیوں سے محفوظ بھی ہو جاتا ہے.Halloween کی رسم بہر حال اس برائی کا جو آج کل مغرب میں ان دنوں میں بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اور آئندہ چند دنوں میں منائی جانے والی ہے ، اُس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں.یہ halloween کی ایک رسم ہے.جیسا کہ میں

Page 578

563 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نے کہا تھا کہ احمدی بھی بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ اگر اس کو گہرائی میں جاکر دیکھیں تو یہ عیسائیت میں آئی ہوئی ایک ایسی بدعت ہے جو شرک کے قریب کر دیتی ہے.چڑیلیں اور جن اور شیطانی عمل ، ان کو تو بائبل نے بھی روکا ہوا ہے.لیکن عیسائیت میں یہ راہ پاگئی ہیں کیونکہ عمل نہیں رہا.عموماً اس کو fun سمجھا جاتا ہے کہ بس جی بچوں کا شوق ہے پورا کر لیا.تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہی سمجھا جائے جس کی بنیاد شرک یا کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں ہو اس سے احمدیوں کو بچنا چاہئے.مجھے اس بات پر توجہ پیدا ہوئی جب ہماری ریسرچ ٹیم کی ایک انچارج نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے ان سے کہا کہ halloween پر وہ اور تو کچھ نہیں کرے گی لیکن اتنی اجازت دے دیں کہ وہ لباس وغیرہ پہن کر، خاص costume پہن کے ذرا پھر لے.چھوٹی بچی ہے.انہوں نے اسے منع کر دیا.اور پھر جب ریسرچ کی اور اس کے بارہ میں مزید تحقیق کی تو بعض عجیب قسم کے حقائق سامنے آئے.تو میں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی کچھ (حوالے) دے دیں.چنانچہ جو میں نے دیکھے اس کا خلاصہ میں بیان کرتا ہوں.کیونکہ اکثر بچے بچیاں مجھے سوال کرتے رہتے ہیں.خطوط میں پوچھتے رہتے ہیں کہ halloween میں شامل ہونے کا کیا نقصان ہے ؟ ہمارے ماں باپ ہمیں شامل نہیں ہونے دیتے.جبکہ بعض دوسرے احمدی خاندانوں کے بچے اپنے والدین کی اجازت سے اس میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں.تو بہر حال ان کو جو کچھ میرے علم میں تھا اس کے مطابق میں جواب تو یہی دیتارہتا تھا کہ یہ ایک غلط اور مگر وہ قسم کا کام ہے اور میں انہیں روک دیتا تھا.لیکن اب جو اس کی تاریخ سامنے آئی ہے تو ضروری ہے کہ احمدی بچے اس سے بچیں.عیسائیت میں یا کہہ لیں مغرب میں، یہ رسم یا یہ بدعت ایک آئرش ازم کی وجہ سے آئی ہے.پرانے زمانے کے جو pagan تھے ان میں پرانی بد مذہبی کے زمانے کی رائج ہے.اس کی بنیاد شیطانی اور چڑیلوں کے نظریات پر ہے.اور مذہب اور گھروں کے تقدس کو یہ سارا نظریہ جو ہے یہ پامال کرتا ہے.چاہے جتنا بھی کہیں کہ یہ Fun ہے لیکن بنیاد اس کی غلط ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ اس میں شرک بھی شامل ہے.کیونکہ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمیان جو حدود ہیں وہ 31 اکتوبر کو ختم ہو جاتی ہیں.اور مردے زندوں کے لئے اس دن باہر نکل کے خطر ناک ہو جاتے ہیں.اور زندوں کے لئے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں.بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسی طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں مشہور ہیں.اور پھر اس سے بچنے کے لئے جو ان کے نام نہاد جادوگر ہوتے ہیں ان جادو گروں کو بلایا جاتا ہے جو جانوروں اور فصلوں کی ان سے لے کر ایک خاص طریقے سے قربانی کرتے ہیں.bonfire بھی اسی نظریہ میں شامل ہے تا کہ ان مردہ روحوں کو ان حرکتوں سے باز رکھا جائے.ان مردوں کو خوفزدہ کر کے یا بعض قربانیاں دے کر ان کو خوش کر کے باز رکھا جائے.اور پھر یہ ہے کہ پھر اگر ڈرانا ہے تو اس کے لئے costume اور خاص قسم کے لباس وغیرہ بنائے گئے ہیں، ماسک وغیرہ پہنے جاتے ہیں.بہر حال بعد

Page 579

خطبات مسرور جلد ہشتم 564 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 میں جیسا کہ میں نے کہا، جب عیسائیت پھیلی تو انہوں نے بھی اس رسم کو اپنالیا.اور یہ بھی ان کے تہوار کے طور پر اس میں شامل کر لی گئی.کیتھولکس خاص طور پر ( یہ رسم ) زیادہ کرتے ہیں.اب یہ رسم عیسائیت کی وجہ سے اور پھر میڈیا کی وجہ سے، آپس کے تعلقات کی وجہ سے تقریباً تمام دنیا میں خاص طور پر مغرب میں، امریکہ میں، کینیڈا میں، یہاں UK میں، جاپان میں، نیوزی لینڈ میں، آسٹریلیا وغیرہ میں، یورپ کے بعض ملکوں میں پھیل چکی ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا یہ چھپی ہوئی برائی ہے.جسے مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی اختیار کر رہے ہیں.بچے مختلف لباس پہن کر گھر گھر جاتے ہیں.گھر والوں سے کچھ وصول کیا جاتا ہے تاکہ روحوں کو سکون پہنچایا جائے.گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دیں تو مطلب یہ ہے کہ اب مردے اس گھر کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے.یہ ایک شرک ہے.بے شک آپ یہی کہیں کہ fun ہے، ایک تفریح ہے لیکن جو پیچھے نظریات ہیں وہ مشرکانہ ہیں.اور پھر یہ کہ ویسے بھی یہ ایک احمدی بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجیب و غریب قسم کا حلیہ بنایا جائے.اور پھر گھروں میں فقیروں کی طرح مانگتے پھریں.چاہے وہ یہی کہیں کہ ہم مانگنے جارہے تھے یا چاکلیٹ لینے جارہے تھے لیکن یہ مانگنا بھی غلط ہے.احمدی کا ایک وقار ہو نا چاہئے اور اس و قار کو ہمیں بچپن سے ہی ذہنوں میں قائم کرنا چاہئے.اور پھر یہ چیزیں جو ہیں مذہب سے بھی دور لے جاتی ہیں.بہر حال جب یہ منایا جاتا ہے تو پیغام اس میں یہ ہے کہ چڑیلوں کا وجود، بدروحوں کا وجود، شیطان کی پوجا، مافوق الفطرت چیزوں پر عارضی طور پر جو یقین ہے وہ fun کے لئے کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے.یہ انتہائی غلط نظریہ ہے.پس یہ سب شیطانی چیزیں ہیں.اس سے ہمارے بچوں کو نہ صرف پر ہیز کرنا چاہئے بلکہ سختی سے بچنا چاہئے.ماضی قریب تک دیہاتوں کے رہنے والے جو لوگ تھے وہ بچوں کو جو اس طرح ان کے دروازے پر مانگنے جایا کرتے تھے اس خیال سے بھی کچھ دے دیتے تھے کہ مردہ روحیں ہمیں نقصان نہ پہنچائیں.بہر حال چونکہ بچے اور ان کے بعض بڑے بھی بچوں کی طرف سے پوچھتے رہتے ہیں.اس لئے میں بتارہا ہوں کہ یہ ایک بد رسم ہے اور ایسی رسم ہے جو شرک کی طرف لے جانے والی ہے.پھر اس کی وجہ سے بچوں میں fun کے نام پر ، تفریح کے نام پر غلط حرکتیں کرنے کی جرات پیدا ہوتی ہے.ماں باپ ہمسایوں سے بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں.ماں باپ سے بھی اور ہمسایوں سے بھی اور اپنے ماحول سے بھی، اپنے بڑوں سے بھی بد اخلاقی سے پیش آنے کا رجحان بھی اس وجہ سے بڑھتا چلا جارہا ہے.یہ بھی ایک سروے ہے.حتی کہ دوسرے جرائم بھی اس لئے بڑھ رہے ہیں.اس قسم کی حرکتوں سے ان میں جرآت پیدا ہوتی جارہی ہے.مغرب میں ہر برائی کو بچوں کے حقوق اور fun کے نام پر تحفظات مل جاتے ہیں، اجازت مل جاتی ہے اور مل رہی ہے لیکن اب خود ہی یہ لوگ اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھانے لگ گئے ہیں.کیونکہ اس سے اخلاق بر باد ہو رہے ہیں.پھر halloween کے خلاف کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے بچوں میں تفریح کے نام پر دوسروں

Page 580

565 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی برائی جیسا کہ میں نے بتایا کہ بڑھ رہی ہے اور جرائم بھی اس وجہ سے بڑھ رہے ہیں.ایک تو فلموں نے غلط تربیت کی ہے.پھر اگر عملی طور پر ایسی حرکتیں کرنے لگ جائیں اور ان کو تفریح کے نام پر بڑے encourage کرنا شروع کر دیں تو پورے معاشرے میں پھر بگاڑ ہی پیدا ہو گا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ اور پھر ہمارے لئے سب سے بڑی بات جیسا کہ میں نے کہا مر دوں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر کے ان کے کسی بھی غلط عمل سے محفوظ کرنے کا شیطانی طریق اختیار کیا گیا ہے.گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے ایک شرک قائم کیا جا رہا ہے یا بچوں کو تحفے تحائف دے کے ان کی روحوں کو خوش کیا جارہا ہے.یا جادو گروں کے ذریعہ سے جادو کر کے ڈرایا جا رہا ہے.بہر حال یہ نہایت لغو اور بیہودہ تصور ہے.ایک مصنف ہیں ڈاکٹر گریس کیٹر مین، ایم ڈی، وہ اپنی کتاب You and your child's problems میں لکھتے ہیں کہ : "A tragic, by-product of fear in the lives of children as early as preadolescence is the interest and involvement in super natural occult phenomena." یعنی بچوں کی زندگی میں جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے ، اس عمر سے پہلے یا اس دوران میں خوف کی انتہائی مایوس کن حالت جولا شعوری طور پر پید اہور ہی ہے وہ مافوق الفطرت چیزوں میں دلچپسی اور ملوث ہونے کی وجہ سے ہے.اب halloween کی وجہ سے جو بعض باتیں پیدا ہو رہی ہیں ان میں یہ باتیں صرف یہاں تک نہیں رکتیں کہ costume پہنے اور گھروں میں مانگنے چلے گئے بلکہ بعض بڑے بچے پھر زبر دستی گھر والوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں.اور دوسری باتوں میں، جرموں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں.اور نتیجةً پھر جہاں وہ معاشرے کو ، ماحول کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچارہے ہوتے ہیں وہاں ماں باپ کے لئے بھی دردِ سر بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کر لیتے ہیں.اس لئے میں پھر احمدیوں سے کہتا ہوں کہ ان باتوں سے بہت زیادہ بیچنے کی ضرورت ہے.احمدی بچوں اور بڑوں کا کام ہے کہ خد اتعالیٰ سے تعلق بڑھائیں.جو ہمارا مقصد ہے اس کو پہچانیں.وہ باتیں کریں جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.مغربی معاشرے کا اثر اتنا اپنے اوپر نہ طاری کریں کہ بُرے بھلے کی تمیز ختم ہو جائے.خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی ذات کی بڑائی کو بھی بھول جائیں.اور مخفی شرک میں مبتلا ہو جائیں اور اس کی وجہ سے پھر ظاہری شرک بھی ہونے لگ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے؟ یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پر ستار الہی کہلا سکتے ہیں ؟ بلکہ پرستش اس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجو د درمیان سے اٹھ جائے.اول خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو

Page 581

566 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 اکتوبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو.اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اسی کی ذات سے وابستہ ہو.اور اسی کی درد میں لذت ہو.اور اسی کی خلوت میں راحت ہو.اور اس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے.مگر یہ حالت بجز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو.اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ : 5).یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو.خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں.مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا.اس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے.خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اسی پر توکل کرے اور اسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اسی کو اختیار کرے.اور اپنی زندگی کا مقصد اسی کی یاد کو سمجھے.اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کے لئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجالائے اور رضا جوئی اپنے آقائے کریم میں اس حد تک کوشش کرے کہ اس کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے.یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے.تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے اور اس شربت کو پیتے ہیں.زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہنر نہیں مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور سچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مر تبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا.یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اور جو شخص یہ عبادت بجالاتا ہے تب تو اس کے اس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة 7-6).یعنی اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ہے اور اپنی خاص عنایات سے مخصوص فرمایا ہے.حضرت احدیت میں یہ قاعدہ ہے کہ جب خدمت مقبول ہو جاتی ہے تو اس پر ضرور کوئی انعام مترتب ہوتا ہے.چنانچہ خوارق اور نشان جن کی دوسرے لوگ نظیر پیش نہیں کر سکتے یہ بھی خدا تعالیٰ کے انعام ہیں جو خاص بندوں پر ہوتے ہیں“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 55-54) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان کردہ ان توقعات پر جو انہوں نے ہم سے رکھی ہیں پورا اترنے والے ہوں، اس پر کوشش کرنے والے ہوں، اپنی سی کوشش کرتے رہیں اور ہم کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ فضل ہی فرمائے گا.اللہ کرے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 47 مورخہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2010 صفحہ 5تا8)

Page 582

خطبات مسرور جلد ہشتم 567 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010ء بمطابق 05 نبوت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ثُمَّ لَا يُتَّبِعُونَ مَا اَنْفَقُوا مَنَّا وَ لَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: 263) لا الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ولا هم يحزنون (البقره: 275) اور وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.پھر جو وہ خرچ کرتے ہیں اس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے.انفاق فی سبیل اللہ پھر فرمایا.وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی، تو ان لوگوں کے لئے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شروع سے آخر تک متعدد جگہ مومنین کو انفاق فی سبیل اللہ کی طرف توجہ دلائی اور مختلف مثالوں اور مختلف طریقوں سے بتایا کہ ایک مومن اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے کیا کیا فوائد حاصل کر سکتا ہے ؟ لیکن شرط یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں یہ قربانی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو ، نہ کہ کوئی اور مقصد ہو.جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے.وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ ( البقرة: 272) اور تم اللہ کی رضا کے حصول کے علاوہ کبھی خرچ نہیں کرتے.پس اگر خرچ کرنے والا حقیقی مومن ہے تو وہ خرچ کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی مرضی دیکھتا ہے اور ان چیزوں پر خرچ نہیں کرتا جن پر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہ ہو.پس اگر ہم اس نقطے کو سمجھ

Page 583

568 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جائیں تو علاوہ جماعتی ترقی کے اپنی روحانی ترقی کے بھی سامان کر رہے ہوں گے.گھروں میں جو میاں بیوی کے مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں یا بیوی کی طرف سے یہ شکوے ہو رہے ہوتے ہیں کہ اس نے میری فلاں خواہش کو پورانہ کرتے ہوئے مجھے فلاں چیز لے کر نہیں دی.اور میاں کی طرف سے یہ اعتراض ہو رہا ہوتا ہے کہ میری بیوی اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے والی ہے ، اس نے مجھے مقروض کر دیا ہے.اور اس وجہ سے گھروں میں جو روز روز کی چیخ چیخ ہوتی ہے ، لڑائیاں ہوتی ہیں اس نے جہاں گھروں کا سکون برباد کیا ہے وہاں بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے.پھر یہ اعتراض صرف عورتوں پر ہی نہیں ہے.کئی معاملات میں نے دیکھے ہیں جس میں عورتوں کو اعتراض ہے کہ مردجو کماتے ہیں، باہر دوستوں میں فضول خرچیاں کر کے آجاتے ہیں یا صرف اپنی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور گھروں کے اخراجات میں تنگی کرتے ہیں.اور یہ بات پھر گھروں کی بے سکونی کا باعث بن جاتی ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے خرچ کیا جائے تو اس سے جہاں گھروں کے سکون قائم ہوں گے ، بچوں کی تربیت بہتر رنگ میں ہو گی، وہاں آمد میں بھی برکت پڑے گی اور اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی.جماعت کے لئے قربانی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی.اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے مال پر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا اور اگر کوئی اور کسی کے زیر کفالت ہے تو ان کا بھی حق ہے.لیکن اگر اعتدال ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا سامنے ہو تو اپنے گھروں کے حقوق بھی ادا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ بھی رہتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اوسط یا کم آمدنی والا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو اس اصل کو پکڑے ہوئے ہے.اس پر عمل کرتا ہے کہ اپنے گھروں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ بھی کرنا ہے.لیکن بعض لوگ جو بہت زیادہ کشائش رکھنے والے ہیں ، ان میں ایک حصہ ایسا بھی ہے جو اپنے حقوق تو ادا کرتا ہے، ان حقوق کے ادا کرنے کی فکر تور ہتی ہے لیکن ان کا قربانی کا معیار بہر حال کم آمدنی والوں کے معیار قربانی سے کم ہو تا ہے یا نسبتی لحاظ سے ان کے برابر نہیں پہنچتا.لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ زیادہ آمدنی والا ہر کوئی شخص ایسا ہے.ہر احمد ی جو ہے وہ ایسا نہیں.بعض کی مثال میں نے دی ہے.میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں اور پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی کمائی میں سے اپنے لئے بہت کم حصہ رکھتے ہیں.اور کروڑوں روپے یا ہنر اروں ڈالر یا پاؤنڈ جماعتی تحریکات میں دے دیتے ہیں.بلکہ پیچھے پڑ کر کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی رقم دینی ہے جو ہم نے اس سال میں سے اس مقصد کے لئے بچت کی ہے ، بتائیں کہ وہ کہاں دیں.تو پھر ان کو سوچ کر بتانا پڑتا ہے کہ اس سال فلاں جگہ دے دی جائے.اس سال فلاں جگہ دے دی جائے یہاں ضرورت ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وعدے اور چندے اور تحریکات میں حصہ لینے کے بعد زائد رقوم ادا کرتے ہیں.تو ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں.اور پھر بھی فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں ہم نے قربانی کا حق ادا کیا کہ نہیں.ان کے شکریہ کے خطوط آتے ہیں کہ

Page 584

569 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم آپ نے ہماری حقیر قربانی کو قبول کر لیا.حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا بڑی بڑی خطیر رقمیں ہیں جو بعض لوگ دیتے ہیں.اور صرف یہ نہیں کہ ایک آدھ دفعہ بلکہ اپنی زندگی کا مستقل طریق انہوں نے بنالیا ہے کہ تمام جاری تحریکات میں رقم دینے کے بعد پھر بڑی بڑی رقوم پیش کرتے ہیں کہ جہاں بھی خرچ کرنا چاہیں ، خرچ کر دیں.تو جیسا کہ میں نے کہا، جن جگہوں پر ضرورت ہوتی ہے وہاں خرچ کیا جاتا ہے.مساجد بنانے کے لئے، مشن ہاؤسز بنانے کے لئے یا دوسری ضروریات کے لئے یہ رقوم خرچ ہوتی ہیں.اور یہ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے صرف پاکستانی یاہندوستانی ہی نہیں ہیں، جن کی ایک لمبے عرصے کی تربیت ہے، بزرگوں کی اولاد ہیں اور تربیت کا حصہ چل رہا ہے.بلکہ افریقہ میں رہنے والے بھی کئی ایسے ہیں جو بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.انہوں نے بڑی بڑی خوبصورت مساجد بنا کر پیش کی ہیں.اور جماعت کے جو دوسرے متفرق پر اجیکٹس ہیں یا منصوبے ہیں، ان کے لئے خرچ دیتے ہیں.اور یہ قربانی کرنے والے جس عاجزی اور خوشی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں وہ صاف بتارہاہو تا ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرنے کے لئے بے چین ہیں.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے پھر کبھی یہ اظہار بھی نہیں کرتے کہ ہم نے جماعت کو اتنے کروڑوں روپے دیئے ہیں یا ہم نے کوئی احسان کر دیا ہے.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا، انتہائی عاجزی سے پیش کر رہے ہوتے ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں حق ادا بھی کیا ہے کہ نہیں.خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ احسان سمجھتے ہیں کہ اس نے اس قربانی کی توفیق انہیں دی.یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جماعت کی اکثریت تو کم آمدنی والوں کی ہے.اور اوسط درجہ کے کمانے والوں پر مشتمل ہے.وہ بھی جیسا کہ میں نے کہا غیر معمولی قربانیاں دینے والے ہیں اور کبھی اس بات کا اظہار نہیں کرتے کہ جماعت نے اتنی تحریکات شروع کی ہوئی ہیں ہماری آمدنی محدود ہے ، کہاں سے دیں؟ بلکہ ایک دلی جوش اور جذبے سے یہ قربانیاں دیتے ہیں.اور پھر کبھی اس بات کا اظہار نہیں کرتے کہ ہم نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر یہ قربانیاں دی ہیں.یا کبھی یہ خیال نہیں آیا یا کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ کیونکہ ہماری یہ یہ قربانیاں ہیں اور اب ہمیں ضرورت ہے ، فلاں مقصد کے لئے ہمیں ضرورت ہے تو جماعت بھی ہمیں دے.کسی قسم کا احسان نہیں ہو تا.بلکہ اگر ضرورت بھی ہو تو انتہائی جھینپ اور عاجزی کے ساتھ خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی قرضے کی صورت میں.بعض لوگوں نے تو چندے دینے کے اپنے طریق اختیار کئے ہوئے ہیں تا کہ آسانیاں رہیں.آمدنی کیونکہ محدود ہوتی ہے.ایک وقت میں چندوں کی ادائیگی ہو نہیں سکتی تو بعض ایک ڈبہ بنا لیتے ہیں اور اس میں ہر روز کچھ نہ کچھ ڈالتے رہتے ہیں.اس سوچ کے ساتھ کہ تحریک جدید یا وقف جدید یا فلاں تحریک کا چندہ ادا کرنا ہے تو دے دیں گے.کئی مثالیں ایسی ہیں.مثلاً ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ میں ڈبے میں سارا سال رقم جمع کرتا جا رہا تھا

Page 585

570 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کہ اگر سال تحریک جدید کا اعلان ہو گا تو اس میں ادا کروں گا.اور میری یہ کوشش تھی کہ گزشتہ سال کا جو چندہ تحریک جدید تھا اس کے برابر یہ رقم ہو جائے.اب قریب آکر جب انہوں نے ڈبے کو کھولا تو وہ رقم بہت کم تھی.ابھی اس سوچ میں تھے کہ یہ کس طرح پوری ہو گی کہ کہتے ہیں کہ سیکر ٹری تحریک جدید میرے پاس پہنچ گئے کہ ہمارے اس سال کے ٹارگٹ میں اتنی کمی ہے.ہم نے آپ کے ذمہ اتنی رقم لگائی ہے.تو انہوں نے کہا میری محدود آمدنی ہے میں اتنی بڑی رقم تو ادا نہیں کر سکتا.کہاں سے ادا کروں گا؟ بہر حال اب آپ آئے ہیں تو آپ کو کچھ نہ کچھ رقم میں دے دیتا ہوں، ورنہ جو میں نے جمع کیا ہوا ہے یا جو میں دیتا ہوں وہ تو سارا سال جمع کر کر کے دیتا ہوں اور میں نے اگلے سال کے لئے جمع کیا ہوا ہے کہ تحریک جدید کا اعلان ہو گا تو اس کے بعد ادائیگی کروں گا.کہتے ہیں پھر مجھے خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو اس سال یا اگلے سال کا کیا سوال ہے ؟ دے دو کیونکہ ر تم تو بہر حال ابھی بھی پوری نہیں ہوئی.چنانچہ وہ مطلوبہ رقم انہوں نے سیکرٹری تحریک جدید کو دے دی.اور کہتے ہیں گھر آکر بیٹھا ہی تھا کہ ایک جگہ سے ایک لفافہ آیا.کسی کا خط تھا اور اس میں چیک تھا اور عین اس رقم کے برابر چیک تھا جو میں نے دی تھی.اور اس شخص نے لکھا تھا کہ فلاں وقت میں نے آپ سے قرض لیا تھا میں بھول گیا اور ان کو بھی بھول گیا تھا.آج مجھے یاد آیا تو میں وہ قرض واپس کر رہا ہوں.اور معذرت کے ساتھ واپس کرتا ہوں.پھر اسی طرح ایک اور جگہ سے فوری طور پر رقم آگئی.گو یا اللہ تعالیٰ نے فوری حساب نہ صرف برابر کر دیا بلکہ بڑھا کر دے دیا.خدا تعالیٰ اس طرح قربانی کرنے والوں کو اجر دیتا ہے کہ چند گھنٹوں کے لئے بھی اس خوف میں نہیں رکھا کہ اگلے سال کے چندے کا انتظام کس طرح ہو گا.پس ایک یہ بھی مطلب ہے وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ یحزنون کا کہ ان پر کوئی خوف اور غم نہیں ہوتا.دنیا میں بھی ایسے اجر ملنے شروع ہو جاتے ہیں کہ ان کے ہر خوف اور غم خوشی میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں.لیکن شرط یہ ہے کہ خالص ہو کر خد اتعالیٰ کی خاطر قربانی ہو اور قربانی کے بعد کبھی یہ احساس نہ ہو کہ ہم نے جماعت پر کوئی احسان کیا ہے.سادہ زندگی جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تحریک جدید شروع فرمائی تو سادہ زندگی کا مطالبہ کیا تھا.اس زمانے میں آپ نے کھانوں، کپڑوں وغیر ہ اور دوسرے اخراجات میں کمی کر کے چندہ تحریک جدید دینے کا مطالبہ فرمایا تھا.اس وقت افراد جماعت کے حالات بھی ایسے نہیں تھے جیسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کل ہیں.لیکن مردوں، عور توں بچوں نے قربانیاں دیں اور خوشی سے دیں.آج بھی بعض غریب گھروں میں ایسے نظارے نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی احسان نہیں ہے.فکر ہوتی ہے تو یہ کہ ہمارے پاس اور ہو تو ہم اور دیں.اور ان قربانی کرنے والوں کی اولادوں کو پھر اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے اور نواز رہا ہے.پس ایک مومن تو جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھتا

Page 586

571 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ہے تو اس کی قربانی کے معیار بڑھتے چلے جاتے ہیں.وہ قربانیاں کرنے کے بعد احسان جتانا تو ایک طرف رہا وہ تو چھپ چھپ کر قربانیاں کرتے ہیں کہ پتہ نہ چلے.اور صرف اور صرف یہ مد نظر ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو جائے.اور یہ نظارے آج ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اکثر نظر آتے ہیں.جو لوگ غیر ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت کے پاس اربوں روپے ہیں.پتہ نہیں کہاں سے ان کے پاس یہ پیسے آتے ہیں؟ اس کی وجہ سے جماعت اپنے منصوبوں پر اتنی آسانی سے عملدرآمد کر لیتی ہے.انہیں پتہ نہیں ایک تو اللہ تعالیٰ جماعت کے تھوڑے سے پیسے میں بھی اتنی برکت عطا فرماتا ہے جو کہ دنیا داروں کی سوچ سے باہر ہے.اور پھر یہ بھی کہ یہ اربوں روپے نہیں ہیں جو جماعت کے پاس ہیں بلکہ اخلاص و وفا اور خدا تعالیٰ کی رضا چاہنے کا وہ لا متناہی خزانہ ہے جو ان قربانی کرنے والے احمدیوں کے سینوں سے وقت پر ابل ابل کر نکلتا ہے.ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے پاس اور ہو تو وہ اور دیں.ایک جذبہ ہوتا ہے، ایک جوش ہوتا ہے، ایک شوق ہوتا ہے.اور جماعت میں اور ہر قوم میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں.دوسرے لوگ تو کسی مسجد کے لئے پانچ روپے چندہ دے کر پھر اس کا سو دفعہ اعلان کرواتے ہیں اور احمدی اپنی ضروریات کو کم کر کے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں.لیکن اکثر یسرا، چھپ کر.ہاں بعض قربانیوں کا اعلان بھی ہوتا ہے لیکن وہ اعلان جماعت کی طرف سے ہوتا ہے.ان لوگوں کی خواہش نہیں ہوتی کہ اعلان ہو.یا بعض تحریکات میں چندہ دینے والوں کی فہرستیں بنتی ہیں جو خلیفہ وقت کو پیش کی جاتی ہیں صرف اس غرض کے لئے کہ ان کے لئے دعا کی تحریک پید اہو.پس یہاں بھی جو مقصد ہے وہ نیک ہے.دکھاوا نہیں ہے بلکہ خلیفہ وقت کو اس قربانی کی اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ ان قربانی کرنے والوں کے لئے دعا کرے.اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے تا کہ قربانیوں کے معیار آئندہ پھر بڑھتے چلے جائیں.پھر اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيِّرتِ (البقر1495) کہ نیکیوں کے حصول میں آگے بڑھنے کی کوشش کی طرف توجہ پید اہو.آج تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے انشاء اللہ.میں ابھی آپ کے سامنے وہ سارے کوائف رکھوں گا کہ کس طرح جماعتیں مالی قربانیوں کو پیش کرنے کی وجہ سے مالی قربانی کی نیکی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں.جب کو ائف سامنے آتے ہیں تو ہر سال دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے.اور جماعت کی قربانی افرادِ جماعت کی قربانی کی وجہ سے ہے.پس اگر مالی قربانی کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ تحریک کرنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم فَاسْتَبِقُوا الْخَيِّرات (البقرة:149) کو بھی سامنے رکھو.آج بحیثیت جماعت تمام دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے افراد يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ کے حقیقی مصداق بن رہے ہیں.یعنی عملی طور پر دن اور رات قربانی ہو رہی ہے.چوبیس گھنٹے یہ قربانی کا سلسلہ جاری ہے.جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر خطے میں پھیلی ہوئی ہے.ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے.کہیں دن ہے کہیں رات ہے.اس وقت بھی میں جو خطبہ دے رہا ہوں تو کسی ملک میں صبح سویرے کا وقت

Page 587

572 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہے اور کہیں رات ہو گئی ہے، کہیں آدھی رات ہے.اور تحریک جدید کے اعلان کے ساتھ ہی وعدوں اور وصولی کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے.تو صرف افراد ہی نہیں بلکہ جماعت من حیث الجماعت بھی ایک وقت میں رات اور دن کو جمع کر کے اپنی قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہے.یہ رات اور دن کی قربانی کرنے والوں کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تو یہ بات اس عالمگیریت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو مسیح محمدی نے آکر امت واحدہ کی صورت میں پیدا کرنی تھی.پس یہ وہ قربانیوں کا خوبصورت سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں پھیلانے کے لئے رات اور دن کے ہر حصہ میں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے تا کہ دنیا کے ہر حصہ میں ہر وقت مسیح محمدی کے بعثت کے مقصد کو جو تعمیل اشاعت ہدایت ہے پورا کرنے کے لئے قربانیاں پیش ہوتی چلی جائیں.اشاعت ہدایت کی تکمیل یا اس کو تمام دنیا میں پھیلانا کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ کام مسیح محمدی کے ماننے والوں کے ذمے لگایا گیا ہے.آنحضرت صلی یکم جو تعلیم اور ہدایت لائے وہ آپ کے وقت میں کامل ہوئی اور اس کامل ہدایت کو دنیا میں پھیلانا اور اس کی تکمیل آپ کی بعثت ثانیہ میں ہونی تھی.پس اب یہ ہماری ذمہ داری ہے جنہوں نے مسیح محمدی کو مانا ہے.گو دنیا کے مقابلے میں ہمارے وسائل بہت کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں.لیکن جس کام کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ ڈالی ہے یا لگائی ہے، اس کے لئے جب ہم رات دن قربانیوں میں مصروف رہیں گے تو برکت دینا پھر اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس کا وعدہ ہے وہ دیتا ہے اور دے گا انشاء اللہ.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کہ نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ لوگ جو قربانیاں کرنے والے ہیں غم میں مبتلا ہوں گے.بیشک دنیا کے وسائل بہت ہیں، بیشک دنیا کے پاس طاقت بہت ہے، بیشک اس وقت تعداد کے لحاظ سے غیروں کی کثرت ہے اور ہم چھوٹی سی جماعت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رات دن کی قربانیاں جو صاف اور پاک دل ہو کر کی جاتی ہیں، جو نام و نمود سے بالکل پاک ہیں، مبرا ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہیں.اس لئے تمہیں کسی قسم کا خوف اور غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دنیا ہمارے ساتھ کیا کرے گی یا ہماری ترقی کس طرح ہو گی، یا ہماری یہ قربانیاں نتیجہ خیز بھی ہوں گی کہ نہیں.اللہ فرماتا ہے کہ جب تک تم پاک سوچ کے ساتھ یہ قربانیاں کرتے چلے جاؤ گے ، یہ قربانیاں نتیجہ پیدا کرتی چلی جائیں گی انشاء اللہ.کیونکہ آخری نتیجہ تو خدا تعالیٰ نے پیدا کرنا ہے.اور خد اتعالیٰ کہتا ہے کہ میں قربانیوں کو سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ پھل لگاتا ہوں.جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوتے ہیں ان کی قربانیوں کو بڑھاتا چلا جاتا ہوں.جو لوگ اس کا عباد الرحمن بنتے ہوئے یہ قربانیاں پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم جتنی قربانیاں پیش کرتے چلے جاؤ گے ان کو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر بڑھاتا چلا جائے گا، جلد ی کی ضرورت نہیں.نتیجہ تم خدا پر چھوڑ دو.اپنی قربانیوں کو پیش کرتے ہوئے مسیح محمدی کے انصار میں شامل ہوتے چلے جاؤ اور حتی المقدور

Page 588

573 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم تکمیل اشاعت ہدایت میں اپنا حصہ ڈالتے چلے جاؤ تو بعید نہیں کہ اپنی زندگیوں میں ان نتائج کو بھی دیکھ لو جن کے آثار اللہ تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں.جماعت کے افراد کی جانی اور مالی قربانیاں انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن ہماری قلیل تعداد کو کثرت میں بدل دیں گی.ہمارا کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کام کرتے چلے جانا ہے.اور اس کے حصول کے لئے ہم نے دل میں ایک جوش قائم کرتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کرنا ہے کہ کبھی نہیں تھکنا اور کبھی نہیں تھکنا.اب میں تحریک جدید کے ختم ہونے والے سال کے کوائف پیش کرتا ہوں جس میں چند اوپر کی جو جماعتیں ہیں ان کا موازنہ بھی پیش ہو گا.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ تحریک جدید کا چھہتر واں (76 واں) سال تھا جو 31 اکتوبر کو ختم ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بے شمار برکات لیتے ہوئے گزرا اور برکات سمیٹتے ہوئے اور ان برکات کو ہم پر ظاہر کرتے ہوئے اور ان برکات کے بہترین نتائج ظاہر کرتے ہوئے ہم نے اس کو الوداع کہا.آج میں تحریک جدید کے ستہترویں (77 ویں) سال کے آغاز کا اعلان کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ سال بھی پہلے سالوں کی طرح، پہلے سے بڑھ کر برکتوں والا سال ثابت ہو.رپورٹس کے مطابق اس سال کے دوران جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر نے تحریک جدید میں گل 54 لاکھ 68 ہزار 500 پاؤنڈ کی قربانی پیش کی ہے.چھوٹے ممالک کی رپورٹس تو ابھی نہیں آئیں اور اسی طرح بعض چھوٹے ممالک میں جو لو کل جماعتیں ہیں ان کے بھی وہاں پوری طرح رابطے کیونکہ نہیں ہوتے اس لئے ہو سکتا ہے ابھی بہت ساری رقوم راستے میں ہوں.بہر حال جو موجودہ آمدہ پورٹس ہیں ان کے مطابق یہ قربانی ہے اور یہ قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال سے پانچ لاکھ بائیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے الحمد للہ.اور اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان نے صف اول میں، سب سے اوپر رہنے کا اپنا اعزاز برقرار رکھا ہوا ہے.اور سب سے بڑی خوشی کی بات آپ کے لئے ہے کہ غیر متوقع طور پر تو نہیں کہنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک خاص اظہار ہے جو آپ کی کوششوں میں برکت ڈالی ہے، دوسرے نمبر پر برطانیہ آگیا ہے.اس نے امریکہ اور جرمنی کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے.اور یہ جو جمپ (Jump) لیا ہے ، اضافہ ہوا ہے یہ اتنا غیر معمولی ہے کہ میرا خیال ہے آپ کی جو انتظامیہ ہے شاید اس کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ کس طرح ہو گیا ؟ دو سال پہلے جرمنی اور برطانیہ کا بڑا تھوڑا فرق تھا اور افراد جماعت بڑا افسوس کرتے تھے.کئی لوگوں نے مجھے کہا بھی اور کچھ کے پیغام مجھ تک پہنچے کہ اتنی معمولی رقم تھی اگر ہمیں پتہ ہو تاتو ہم اپنی جیب سے پورا ادا کر دیتے اور UK اوپر آجاتا.لیکن بہر حال جب انہوں نے یا آپ نے محنت اور دعا سے کام کیا ہے تو امریکہ کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں.ماشاء اللہ یہ بہت بڑی ترقی ہے.پاکستان سے باہر کی جماعتوں میں چند سال پہلے تک برطانیہ یا UK آٹھویں دسویں نمبر پر تھا.اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے اب پاکستان کے بعد پہلے نمبر پر آگیا ہے.

Page 589

خطبات مسرور جلد هشتم 574 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 یہاں میں ایک بات کی یاد دہانی کروا دوں کہ میں پر انار یکارڈ دیکھ رہا تھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ 1988ء میں برطانیہ کے وعدے اور وصولی پاکستان کے علاوہ دنیا کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر تھی اور پھر آہستہ آہستہ آہستہ پیچھے چلتے چلے گئے.اب یہ اعزاز جو آپ نے پہلے نمبر کا حاصل کیا ہے اس کو گزشتہ روایت کے مطابق دوبارہ ہاتھ سے جانے نہ دیں.یہ قائم رہنا چاہئے انشاء اللہ تعالی.یہاں برطانیہ میں بھی احمدی ہونے کی وجہ سے جو دشمنی بڑھ رہی ہے، غیر احمدیوں سے بعض عورتوں نے بھی مار کھائی ہے ، ہو سکتا ہے مردوں نے بھی کھائی ہو، اس کے یہ اچھے نتیجے نکل رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی سی جسمانی قربانی کے بدلے میں مالی قربانی کو بھی آگے بڑھا دیا.بعضوں کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں.غیر احمدیوں نے بعض علاقوں میں جہاں یہ لوگ زیادہ تھے شور مچایا کہ ان سے کوئی چیز نہ خریدی جائے.بعضوں کو ملازمتوں سے نکالا جو غیر احمدیوں کے ملازم تھے.لیکن اس کے باوجود یہ جو دشمنی تھی یہ راس آئی ہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے خلاف جو دشمنی ہے وہ کھاد کاکام کرتی ہے.برطانیہ کے چندے کے اضافے میں اس وقت لجنہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے.ان کا جو ٹارگٹ تھا میں نے ایک دفعہ ان کو کہا کہ اس کو بڑھایا جاسکتا ہے.سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ برطانیہ نے گزشتہ سال کی نسبت اس سال تقریباً کوئی پینتالیس ہزار پاؤنڈ کا اضافہ کیا ہے.اور گل رقم میں میراخیال ہے 1/3 حصہ یا اس سے زیادہ لجنہ کا ہے.تیسرے نمبر پر امریکہ ہے.پھر جرمنی ہے.جرمنی اب اتنا پیچھے رہ گیا ہے کہ اگر آپ یہ maintain رکھیں تو ان کا ساتھ ملنا مشکل ہی ہو گا لیکن بہر حال اگر ان کو بھی غیرت آگئی تو بعید نہیں کہ وہ بھی آگے نکل سکیں.کیونکہ جرمنی والوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ ہم اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ اب برطانیہ کا جمپ لے کر ہم سے ملنا بڑا مشکل ہو گا.لیکن اس دفعہ یہ غیر معمولی جمپ ہوا ہے.پھر کینیڈا ہے پانچویں نمبر پر، پھر انڈیا ہے، پھر انڈونیشیا ہے، آسٹریلیا ہے، پھر عرب ملک ہے جس کا نام مصلحتاً میں نہیں لے رہا.پھر سوئٹزرلینڈ ہے اور اس کے ساتھ ہی تقریباً جڑا ہوا سیتھیئم ہے، ذرا سا معمولی سا فرق ہے.پاکستان کے حالات جیسا کہ ہم جانتے ہیں گزشتہ کئی سالوں سے بہت نامساعد حالات ہیں.معاشی لحاظ سے بھی اور احمدیوں کے تو خاص طور پر بہت زیادہ.اور اس سال تو سیلاب کی وجہ سے معاشی حالات میں اور بھی زیادہ شدت آگئی تھی.خاص طور پر ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ وغیرہ کے جو علاقے ہیں وہاں کے زمیندار بہت بُری طرح متاثر ہوئے ہیں لیکن ایک عجیب حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے کہ ان علاقوں کی جماعتوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ٹارگٹ پورے کئے ہیں جو مرکز سے ان کو دیئے گئے تھے.گاؤں کے گاؤں ان کے بہہ گئے.فصلیں بہہ ہہ گئیں ، تباہ ہو گئیں.بے سرو سامانی کی حالت میں وہاں سے اٹھ کے آئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا

Page 590

خطبات مسرور جلد ہشتم 575 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 مجموعی طور پر جو ملک کے حالات ہیں اس کا تو احمدیوں پر اثر ہے ہی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیاوی نقصان سے ایمانوں میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ اپنے ٹارگٹس پورے کئے ہیں.لاہور کی جماعت ہے.امسال پاکستان کا جو مکمل جائزہ ہے، سامنے آئے گا.اس میں لاہور صف اوّل پر ہے.اس سے پہلے میں مقامی کرنسی میں گزشتہ سال کے مقابلے پر زیادہ وصولی کے لحاظ سے جو جماعتیں ہیں وہ بتا دوں.ایک تو وہی عرب ملک ہے جس کا میں نے کہا میں ذکر نہیں کر رہا.دوسرے نمبر پر انڈیا ہے.انہوں نے اپنی مقامی کرنسی کے لحاظ سے چوالیس فیصد سے زیادہ وصولی کی ہے.اور انڈیا میں بھی بعض علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے دشمنی کے حالات شدت اختیار کر رہے ہیں.بہت زیادہ احمدیوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس سے مالی قربانی میں تیزی پیدا ہوئی ہے.پھر آسٹریلیا ہے تیسرے نمبر پر.پھر UK ہے.پھر پاکستان ہے.پھر کینیڈا.پھر سوئٹزر لینڈ، امریکہ اور بیلجیئم.فی کس ادائیگی میں امریکہ سب سے آگے ہے.پھر نمبر دو پر ایک عرب ملک ہے.پھر سوئٹزر لینڈ ہے نمبر تین پر.پھر دبئی ہے باسٹھ پاؤنڈ فی کس.پھر کہا بیر ساٹھ پاؤنڈ فی کس.پھر جاپان، برطانیہ ، بحرین، آئر لینڈ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا ہیں.گزشتہ کچھ عرصے سے بلکہ کئی سالوں سے اس بات پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد کو بڑھایا جائے.خاص طور پر جو نو مبائعین ہیں اور بچے ہیں خواہ وہ معمولی رقم ہی کیوں نہ دیں تحریک جدید میں ضرور شامل ہوں.چنانچہ جماعتوں کی طرف سے اس طرف بھی توجہ پیدا ہوئی ہے اور ہر سال شاملین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب شامل ہونے والوں کی یہ تعداد چھ لاکھ بائیس ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے.پچھلے سال پانچ لاکھ کچھ ہزار تھی.اس سال تیس ہزار کا اضافہ ہوا ہے.اس میں ابھی بھی گنجائش ہے.خاص طور پر افریقن ممالک کوشش کریں.نو مبائعین چاہے چند پینس (Pence) ہی کیوں نہ دیں لیکن چندے کی عادت ڈالنی چاہئے.اس سے بھی کافی اضافہ ہو سکتا ہے.مبلغین کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دلوایا کریں.مالی قربانی ہو گی تو جماعتی تعلق میں بھی مضبوطی پیدا ہو گی.اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی بڑھے گا.اس کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ قرآنِ کریم میں فرمایا ہے.تعداد اور وصولی کے بارہ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے دفتر پنجم کے اجراء کے وقت کہا تھا کہ نئے پیدا ہونے والے بچے یانئے شامل ہونے والے چندہ دہند یا نو مبائعین وغیرہ 2005ء کے بعد تحریک جدید میں شامل ہوتے ہیں تو ان کو دفتر پنجم میں شامل کرنا ہے.پاکستان میں اس بات کا خیال رکھا جارہا ہے.باہر کے ممالک میں بھی 2005ء کے بعد جتنے نئے تحریک جدید کے چندے میں شامل ہو رہے ہیں ان کے سامنے دفتر پنجم “لکھا کریں

Page 591

خطبات مسرور جلد هشتم 576 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 اور اس کی اطلاع دیں اور یہ ریکارڈ رکھنا کوئی مشکل نہیں ہے ، سیکرٹریانِ تحریک جدید کو صرف تھوڑی سی محنت کرنا پڑے گی.افریقن ممالک میں نائیجیریا کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی وصولی کے لحاظ سے افریقہ میں سر فہرست ہے.انہوں نے گزشتہ سالوں میں تحریک جدید کی مالی قربانی میں غیر معمولی ترقی کی ہے.اللہ تعالیٰ اس ترقی کو بڑھاتا رہے.اس کے علاوہ گزشتہ سال کے مقابلے پر مجموعی وصولی کے اعتبار سے گیمبیا اور گھانا کی جماعتوں نے بھی نمایاں کام کیا ہے.گیمبیا کا اضافہ چھیالیس فیصد ہے اور گھانا کا اکتیس فیصد ہے.الحمد للہ.لیکن میرے خیال میں گھانا میں مزید گنجائش ہے اور یہ پہلے نمبر پر آسکتا ہے.اس بارے میں گھانا کو خاص طور پر تعداد اور وصولی دونوں میں کوشش کرنی چاہئے.شاملین میں اضافے کے اعتبار سے سیر الیون بین، برکینا فاسو، کینیا، یوگنڈا، آئیوری کوسٹ اور نائیجر کی جماعتیں قابل ذکر ہیں.وکالت مال اول کے ریکارڈ کے مطابق مجاہدین دفتر اول کی کل تعداد جو سب سے پہلے شروع میں چھہتر سال پہلے شامل ہوئے تھے ، 5,927 ہے جس میں سے تین سو اکیاسی (381) مجاہدین خدا تعالیٰ کے فضل سے ابھی تک حیات ہیں اور اپنے چندے خود ادا کر رہے ہیں.بقیہ پانچ ہزار پانچ سو چھیالیس (5,546) مرحومین میں سے تین ہزار تین سو بائیس (3,322) مرحومین دفتر اول کی طرف سے ان کے حقیقی ورثاء نے ادائیگی کر کے ان کے کھاتے جاری کر دیئے ہیں.اور دو ہزار دو سو چوبیس (2,224) مرحومین کے کھاتے مخلصین جماعت نے جاری کروائے ہیں جو اُن کے حقیقی ورثاء نہیں ہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دفتر اول کے تمام کے تمام کھاتے زندہ ہیں.اس خواہش کا اظہار حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے بھی کیا تھا اور تحریک فرمائی تھی.اس کے بعد میں نے بھی تحریک کی تھی.اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دو تین سالوں سے یہ تمام کھاتے جاری ہو گئے ہیں.پاکستان میں تین بڑی جماعتیں ہیں.اول ، لاہور.دوئم ، ربوہ.سوئم ، کراچی.اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے زیادہ مالی قربانی کرنے والی جماعتیں راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، بہاولپور، میر پور خاص ، نوابشاہ، ڈیرہ غازی خان، جہلم ، خانیوال اور منڈی بہاؤالدین ہیں.لاہور کے بارہ میں میں نے بتایا تھا کہ لاہور کی جماعت جہاں جانی قربانی میں بھی صف اول میں آگئی ہے وہاں انہوں نے تحریکات میں بھی، مالی قربانیوں میں بھی اپنا اعزاز قائم رکھا ہے.اور تحریک جدید کی مالی قربانی میں بھی جیسا کہ میں نے بتایا اول نمبر لاہور کا ہے.لاہور کی جماعت کے شہداء کے جو غم تھے اس غم نے انہیں مایوس نہیں کیا، پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی میں مزید تیزی پید اہوئی ہے.جان مال وقت کی قربانی کا جو

Page 592

577 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم انہوں نے عہد کیا تھا اس کو نبھا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب نبھا رہے ہیں.اسی طرح پاکستان کی دوسری جماعتیں بھی.لیکن ان کے ساتھ عملی طور پر بہت بڑا حادثہ ہوا ہے اس لئے یہاں ان کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے.مئی کے واقعہ کے بعد سے مستقل طور پر نوجوان بھی اور صحت مند انصار بھی اپنے وقت جماعت کو دے رہے ہیں اور جو وقت کی قربانی کا عہد کیا تھا اس کو پورا کر رہے ہیں.اور پھر یہ کہ ایسی جگہوں پر ڈیوٹیاں دینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں جہاں ہر وقت جان کا بھی خطرہ ہے.پاکستان میں تو ویسے ہی ہر پاکستانی کی زندگی خطرے میں ہے.لیکن ایک احمدی کی زندگی جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اس کو دہر اخطرہ ہے.ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اور دوسرے احمدی ہونے کی حیثیت سے.اللہ تعالیٰ جلد ان خطرات کو ہمارے سر پر سے ٹالے اور دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچائے.تحریک جدید کے بارے میں وکالت مال کا بعض ممالک کے بارہ میں یہ تاثر ہے کہ وہ بھر پور کوشش نہیں کرتے.خاص طور پر وہ جن کے ہاں دوسرے جماعتی پروجیکٹس یا مساجد وغیرہ کے منصوبے شروع ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جو مساجد وغیرہ کے اپنے منصوبے ہیں اگر انہوں نے تحریک جدید کی طرف زور دیا یا دوسری مرکزی تحریکات کی طرف زور دیا تو یہ منصوبے متاثر ہوں گے.میں تو سمجھتا ہوں کہ ان ملکوں کی جو انتظامیہ ہے وہ افراد جماعت پر بھی بدظنی کر رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ پر بد ظنی کر رہے ہیں.یہ ہمیشہ یادرکھیں کہ اگر ان تحریکات کی رقم مرکز میں آتی ہے تو اس مرکزی رقم کا بہت بڑا حصہ افریقہ اور انڈیا وغیرہ اور دوسرے غریب ممالک کے منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے.اگر دوسروں کی، غریب ملکوں کی مدد کے لئے دل کھولیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی آپ کے مال میں برکت فرمائے گا اور منصوبوں میں برکت فرمائے گا.جب آپ کی طرف سے ( پیسے) جائیں گے تو غریب ملکوں کے جو منصوبے ہیں ان پر عملد رآمد ہو گا.جب ان کی مساجد بنیں گی جو بہت ضروری ہیں تو آپ بھی ان کی دعاؤں سے حصے دار بنیں گے.اگر تو خدا تعالیٰ کی خاطر یہ قربانی کر رہے ہیں اور ایک احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی قربانی کرتا ہے.اگر کہیں کمی ہوتی ہے، کمزوری ہوتی ہے تو عہدے داران کی طرف سے ہوتی ہے.اگر وہ بد ظنی نہیں تو کم از کم ایک احمدی کو under estimate کر رہے ہوتے ہیں.اگر آپ تو کل میں بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا.یہ جو ضروریات ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی.ہمیشہ اللہ تعالیٰ ان کو پورا فرما تارہا ہے.لیکن اگر آپ لوگ حصے دار بن جائیں گے تو ان برکات میں سے آپ کو بھی ثواب مل جائے گا.آپ بھی ثواب کے حامل ہو جائیں گے اور برکات میں حصے دار بن جائیں گے.پاکستان کی جماعتوں کی اول دوم سوم کی پوزیشن میں بتا چکا ہوں.پھر ضلعی سطح پر جو دس اضلاع ہیں، ان میں سیالکوٹ، سرگودھا، گوجرانوالہ ، نارووال، عمر کوٹ، بہاولنگر ،

Page 593

خطبات مسرور جلد ہشتم 578 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 حیدرآباد، اوکاڑہ، حافظ آباد، بدین، میر پور آزاد کشمیر ہیں.اور جو نمایاں کار کردگی والی جماعتیں ہیں وہ واہ کینٹ، کھوکھر غربی، حیات آباد، کنری، سانگھڑ، موسے والا ،لودھراں، میانوالی، بھکر اور گوجر خان.UK کی جو پہلی بڑی دس جماعتیں ہیں جنہوں نے قربانی دی ہے اس میں حلقہ مسجد فضل پہلے نمبر پر ہے، پھر نیو مالڈن ہے ، ووسٹر پارک ہے ، سر بٹن ہے ، ویسٹ بل ہے، مسجد ویسٹ یہ نئی جماعت بنی ہے جو انر پارک اور مسجد فضل کو تقسیم کر کے بنائی گئی ہے.چیم اور مانچسٹر ساؤتھ ، رینز پارک اور اور چھوٹی جماعتوں میں سکنتھورپ، کیمبرج، بورن متھ ، وولور ہیمپٹن، براملے، لیوشم، لیمنگٹن سپا، بار ٹلے پول، برسٹل اور نارتھ ویلز شامل ہیں.اس کے علاوہ مجموعی وصولی کے لحاظ سے چار ریجنز.لنڈن، نارتھ ایسٹ، مڈلینڈ اور ساؤتھ ریجن ہیں.مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں، سیلیکون ویلی، ان لینڈ ایمپائر ، شکاگو، ڈیٹرائٹ اور لاس اینجلس ایسٹ ہیں.جرمنی میں جو غیر معمولی قربانی کرنے والی لوکل امارات ہیں، ان میں ہمبرگ، گر اس گراؤ،مائینز ویز بادن (Mains Wiesbaden)، ڈامسٹڈ اور دائیبرگ (Dieburg).جو چھوٹی جماعتیں ہیں وہ نیوس (Neuss)، آئس برگ (Augusburg)، ماربرگ (Marburg) اور مہدی آباد ہیں.کینیڈا کی قابلِ ذکر جماعتیں پیس و پیج ایسٹ، ایڈمنٹن، پیس ویج سینٹر ، پیس ویچ ویسٹ، کیلگری نار تھ ویسٹ + پیس و پیج ساؤتھ یہ اکٹھے ہیں.انڈیا کے جو پہلی دس پوزیشن والے صوبے ہیں وہ کیرالہ ہے.نمبر 2.آندرا پر دیش، نمبر 3.جموں و کشمیر ، نمبر 4.تامل ناڈو، 5.کرناٹک ،6.بنگال، 7.اڑیسہ، 8.پنجاب،9.یوپی، 10.لکش دویپ.اور جو پہلی دس جماعتیں ہیں وہ حیدرآباد ( آندرا پر دیش)، کالی کٹ ( کیر اللہ)، قادیان ( پنجاب)، کلکتہ ، کنانور ٹاؤن ، پچنائی، کیرولائی، کوئمبٹور، بنگلور اور آسنور ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام چندہ دینے والوں کے اموال اور نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے جو تکمیل اشاعتِ ہدایت میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کو اپنی قربانیوں میں بڑھاتا چلا جائے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے.بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے.ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا.

Page 594

579 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پیغمبر خداصلی اینم نے فرمایا کہ حسب مقدور کچھ دینا چاہئے اور آپ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے.ابو بکر نے سارا مال لا کر سامنے رکھدیا.اور حضرت عمرؓ نے نصف مال.آپ نے فرمایا کہ یہی فرق تمہارے مدارج میں ہے.فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکید اور اشارہ ہے.یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نباہنا چاہیئے.اس کے بر خلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے.فرمایا: ”..ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا.جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی ہے.بڑی بڑی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیر ہ لگا کر وصول کرتے ہیں.اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں.چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور خلوص کا کام ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 358 تا 361 جدید ایڈیشن) سلطنتیں بھی فرمایا کہ: ”تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے.اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کیلئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دیگا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی.اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے “.فرمایا: ” وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کرینگے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے.اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی.وہ آخر فتحیاب ہونگے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے“.انشاء اللہ تعالیٰ.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309-308) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی توقعات کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو فتوحات اس نے مقدر کی ہیں ان کو بھی ہم دیکھنے والے ہوں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: کیونکہ وقت بدل گیا ہے.عصر کا پہلا وقت بھی شروع ہو جائے گا اس لئے نماز عصر بھی ساتھ ہی جمع ہو گی.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 48 مورخہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2010 صفحہ 5 تا 9)

Page 595

خطبات مسرور جلد ہشتم 580 46 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010ء بمطابق 12 نبوت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ ( البقرة: 154) اے وہ لو گو ! جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد مانگتے رہو.یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.الہی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قرآنِ کریم نے جو حکم فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف مستقل مزاجی سے ہر وقت جھکے رہنا ہے.یہ صبر اور دعا ہے جو مومنین کو کامیابیاں بخشتی ہے.یہ اصول اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب نے دیا تھا،، تمام انبیاء نے بھی بتایا تھا اور آنحضرت صلی اللہ کریم نے بھی یہی سبق ہمیں دیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تعلیم دی جس کو آپ نے پھیلایا.ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ تمہاری کامیابیاں صبر اور دعاسے ہی حاصل ہونی ہیں.اس کے بغیر ، اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں جس سے تم اپنے مقصد کا حصول کر سکو.قرآنِ کریم میں مختلف آیات میں صبر کے حوالے سے جو توجہ دلائی گئی ہے یا تلقین کی گئی ہے، اس کے مطابق صبر کی تعریف یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جو تکالیف آئیں یا جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑے تو کسی قسم کا شکوہ زبان پر نہ لاؤ.تاریخ انبیاء سے ثابت ہے کہ خود انبیاء اور ان کے ماننے والوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور کرنا پڑتا ہے.آنحضرت صلی اللہ کم سے زیادہ اور کون خدا تعالیٰ کا پیارا ہو سکتا ہے.لیکن آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو جن تکالیف سے گزرنا پڑا وہ ظاہر وباہر ہیں.لیکن آپ نے اپنے صحابہ کی ایسے رنگ میں تربیت فرمائی تھی کہ شکوہ تو دور کی بات ہے اُن پر جب کبھی تکالیف آئیں یا جنگیں ٹھونسی گئیں یا کسی بھی قسم کے ظلم کئے گئے تو صبر اور دعا کے ہتھیار ہوتے تھے جو انہوں نے استعمال کئے.یہ قدرتی بات ہے کہ جب لمبا عرصہ تکلیفوں اور سختیوں کی زندگی سے گزرنا پڑے تو ایک انسان ہونے کی وجہ سے اس تکلیف کے دور سے جب انسان گزرتا ہے تو وہ پریشان بھی ہوتا ہے کہ کب وہ زمانہ آئے گا جب ہمیں ان تکلیفوں اور سختیوں سے نجات ملے گی.کب ہم فتحیاب ہوں گے.کب ہمارا دشمن

Page 596

581 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا؟ اللہ تعالیٰ مومنوں کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ یاد رکھو خدا تعالیٰ تم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کو قائم رکھنے کے لئے صبر اور دعائیں کرو.اللہ تعالیٰ کا ساتھ تو ایسا ساتھ ہے جو نہ صرف اس دنیا کا ساتھ ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ساتھ ہے.ایک مومن مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنتا ہے.دنیا اور آخرت کے اس ساتھ کے لئے تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے، مستقل مزاجی سے اس سے تعلق جوڑتے ہوئے اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مددمانگتے چلے جاؤ.اللہ تعالیٰ سے مددمانگنا اور مانگنا کس طریقے سے ؟ یہ ہمارا کام ہے.تکالیف آئیں تو ان کو برداشت کرو.ان سے پریشان نہ ہو.ان کی وجہ سے کسی قسم کا ابہام یا شبہ تمہارے دلوں میں پیدا نہ ہو.مستقل مزاجی کے ساتھ اور لگا تار اس سے تعلق جوڑے رکھو.یہ نہیں کہ آج دعاؤں پر زیادہ زور دے دیا.آج نمازیں پڑھ لیں.اگلے دن نمازوں کی طرف توجہ نہ ہوئی.بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ ایک مومن کے دل میں رہنی چاہئے.پس جب یہ چیز ہوگی، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو گا اور مومن دعاؤں سے اس سے مانگ رہا ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل بھی فرماتا ہے.صبر کے یہ معنی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ عمل کرنے کی مستقل کو شش کرتے چلے جانا.اور جیسے بھی حالات ہوں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے چلے جانا.پس جس شخص کو اس کی بھوک، اس کا ننگ ، اس کی تکالیف اور کسی بھی قسم کا لالچ جو اسے دیا جاتا ہے ، اس بات پر مجبور نہ کرے کہ وہ اللہ تعالی کی رضا سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو یہ اعلیٰ درجے کا صبر ہے.اور پھر ہر قسم کے حالات میں نیکیاں بجالانے کی کوشش کرنا، نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنا، اس کے لئے تکالیف میں سے گزرنا پڑے تو گزرنا، یہ بھی صبر کی ایک قسم ہے.پس جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی مشکلات سے گزر کر اور کسی بھی قسم کالالچ دلانے کے باوجود گناہوں سے بچا اور نیکیوں پر قائم رہاوہ حقیقی صابر ہے.اور پھر یہ کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ مشکلات اور تکلیفوں کے لمبے دور سے گزرنے کے باوجو د خدا تعالیٰ پر کوئی شکوہ نہیں، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پر کوئی شکوہ نہیں.جو ایسے عمل کرنے والے ہیں، اس طرح اظہار کرنے والے ہیں وہ پھر حقیقی صابر کہلاتے ہیں.ابتلاؤں کا سلسلہ اور الہی نصرت آج کل بعض لوگوں نے احمدیوں کو اپنے ایمان سے ہٹانے کی یہ کوشش بھی شروع کی ہوئی ہے جس کا پہلے بھی میں ایک دفعہ مختصر اذکر کر چکا ہوں کہ وہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت یا جماعت تم میں یہ خوش فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صبر کرو، صبر کرو اور تکالیف کا دور گزر جائے گا.بعض جگہوں پر بعض پمفلٹ بھی تقسیم ہوئے ہیں یا اور ذریعوں سے بہکایا جاتا ہے.یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ سو سال سے زائد کا عرصہ تو گزر گیا ہے ، یہ تکلیف کا دور تو ابھی ختم نہیں ہوا اور چلتا چلا جارہا ہے ، کب گزرے گا یہ دور ؟ گویا کہ احمدیوں کے جذبات کو انگیخت کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے.ان کے خیال میں احمدی بہت کمزور ایمان ہیں اس طرح شاید ہمارے دام

Page 597

582 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم میں آجائیں.ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر ان کو ورغلایا جائے.مثالیں بھی دیتے ہیں کہ کون سا نبی ہے جس کو اتنا لمبا عرصہ تکلیفوں میں سے گزرنا پڑا یا جس کی جماعت کو اتنا لمبا عرصہ تکلیفوں میں سے گزرنا پڑا.مثالیں تو ہر نبی کی موجود ہیں.اگر انہوں نے قرآنِ کریم پڑھا ہو، تاریخ کا کچھ علم ہو تو یہ مثالیں مل جاتی ہیں.حضرت عیسی کے ماننے والوں کی مثال لے لیں.تین سو سال سے زائد عرصے تک ان کو اپنی زندگیاں بعض علاقوں میں غاروں میں چھپ کر ہی گزارنی پڑیں.بہر حال یہ مخالفین کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر قسم کے شیطانی حربے سے مومنوں کو ان کے ایمان سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے.ایسے لوگ اکا ؤ کاور غلا بھی لیتے ہیں لیکن مومنین کی اکثریت اپنے ایمان پر قائم رہتی ہے.کسی قسم کا لالچ، کسی قسم کی تکلیف انہیں ایمان سے نہیں ہٹا سکتی اور پھر یہی نہیں بلکہ ان تکالیف پر انہیں نہ ہی نبی سے ، نہ خدا سے کوئی شکوہ ہوتا ہے.کیونکہ وہ صبر کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے مومنین ہیں.وہ صبر و استقامت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہیں.بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا انسان ہے ، بشر ہے ، اس کے ناطے پریشانی ہوتی ہے ، اور ہر زمانے میں ہر نبی کے ماننے والے بعض دفعہ اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں.منہ کی زندگی میں ہجرت سے پہلے باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی الم کے صحابہ نے اپنی جان کی قربانیاں بھی پیش کیں.ہر قسم کی سزائیں لیں.تکالیف برداشت کیں.اور ان کو برداشت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.لیکن پھر بھی آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں سوال کر دیا.اس لئے نہیں کہ ان کے ایمان کمزور تھے.ایمان کے وہ لوگ بڑے مضبوط تھے.اپنی پریشانی اور تکلیف کا اظہار آنحضرت صلی لی یکم کی خدمت میں کیا کہ ہم کب تک یہ برداشت کریں گے ؟ اور یہ بھی بعید نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ نام کی تکلیف کو دیکھ کر یہ کہا ہو کہ کب تک آپ یہ تکلیفیں برداشت کرتے جائیں گے ؟ جب آپ سے سوال کیا گیا تو حضرت خباب بن الأرت بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی الم سے اپنی تکالیف کا ذکر کیا.آپ کعبہ کے سائے میں چادر کو سرہانہ بنائے لیٹے ہوئے تھے.ہم نے عرض کی کہ کیا آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد نہیں مانگتے اور دعا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ سختی کے یہ دن ختم کر دے.اس پر آپ نے فرمایا: تم سے پہلے ایسا انسان بھی گزرا ہے جس کے لئے مذہبی دشمنی کی وجہ سے گڑھا کھودا جاتا اور اس میں اسے گاڑ دیا جاتا.پھر آرا لا یا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اسے دو ٹکڑے کر دیا جاتا.لیکن وہ اپنے دین اور عقیدے سے نہ پھر تا.اور بعض اوقات لوہے کی کنگھی سے مومن کا گوشت نوچ لیا جاتا.ہڈیاں اور پیٹھے ننگے کر دیئے جاتے.لیکن یہ ظلم اس کو اپنے دین سے نہ ہٹا تا.( صحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام حدیث نمبر 3612) یہ مثال آنحضرت صلی می کنم نے اپنے صحابہ کے سامنے بیان فرمائی.پس آپ نے ایک اصولی بات الہی جماعتوں کے متعلق ان ابتدائی صحابہ کو بھی سمجھادی کہ یہ تکالیف آتی ہیں اور آئیں گی.مخالفین کی طرف سے ظلموں کی انتہا بھی ہوتی ہے.لیکن یہ ظلموں کی انتہا ان کو ان کے دین سے نہیں پھیر تی.

Page 598

خطبات مسرور جلد ہشتم 583 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 صبر کی اہمیت اور ضرورت بلکہ صبر سے وہ ہر چیز برداشت کرتے چلے جاتے ہیں.پس اگر صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مددمانگتے رہو گے تو تم نہ صرف اپنے پر ہونے والے ظلموں سے نجات پاؤ گے بلکہ ان پر فتح بھی حاصل کرو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی ایک شخص نے دعا کی درخواست کی اور بڑی پریشانی کا اظہار کیا کہ ایک مولوی جو ان کے گاؤں میں ایک سکول میں مدرس ہے اسے بڑی تکلیف دیتا ہے.دعا کریں کہ اس کا وہاں سے تبادلہ ہو جائے.اس پر یہ بات سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسکرائے اور پھر فرمایا کہ: ” اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اُس کی تعلیم پر عمل کرو.اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو.پیغمبر خدا صلی اللہ تم نے مکہ میں تیرہ (13) برس تک دکھ اٹھائے.تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں.مگر آپ نے صحابہ کو صبر ہی کی تعلیم دی“.فرمایا کہ ”آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے.ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے “.اور فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے.اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چپ ہو جائیں گے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ اُن کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے.تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے.جو شخص دکھ دیتا ہے یا تو تو بہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے.کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب تو بہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں“.فرمایا کہ ”مبر بھی ایک عبادت ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے.یعنی اُن پر بے حساب انعام ہوں گے.یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے.دوسری عبادت کے واسطے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے.جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے.اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالی کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہو جاتا ہے.صبر جیسی کوئی شیئے نہیں ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 544-543.جدید ایڈیشن) اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1902ء میں اس شخص کے سوال پر فرمائی.اور اتفاق سے جب میں حوالے تلاش کر رہا تھا، تو وہ مہینہ بھی نومبر 1902ء کا مہینہ تھا.ایک سو آٹھ سال پہلے آپ نے یہ بات فرمائی.بہر حال اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی سچائی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر کامل یقین کا اظہار کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں

Page 599

584 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم یقیناً خدا تعالیٰ کا فرستادہ ہوں اور اس کی مدد آئے گی اور یقیناً آئے گی.اللہ تعالیٰ کی تمام تر تسلیوں اور پیش خبریوں کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اس وثوق اور یقین سے یہ بات فرمائی.گویا یہ بھی ایک پیشگوئی تھی.اور آج ہم یہ امر روز روشن کی طرح ظاہر ہوتا دیکھ رہے ہیں جو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جماعت دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.یہ لوگ ایک کوشش کرتے ہیں.احمدیوں پر زیادتیاں کرنے والے ، ظلم کرنے والے تکلیفیں دینے کی کوشش کرتے ہیں، ظلم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مثلاً پاکستان میں سکولوں اور کالجوں میں ہمارے احمدی بچوں کو ، بچیوں کو تنگ کیا جاتا ہے.وہاں سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے.کاروبار کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.جان سے مارنے کی کوشش ہوتی ہے.اور اس کے نتیجے میں کئی احمدی جو ہیں وہ شہید ہوئے.لیکن ان سب کو ششوں کے باوجود جماعت دنیا میں پھیل رہی ہے.نہ صرف یہ مثلاً اگر طلباء کے ساتھ پاکستان میں ظلم ہو رہا ہے تو پاکستان سے باہر آکر بہت سے طلباء نے حاصل کرنے کی کوشش کی اور نہ صرف اس میں کامیابیاں حاصل کیں بلکہ جماعت کی تعلیم کے پھیلانے کا ذریعہ بھی بنے.کاروبار والوں سے زیادتی کی تو یہ احمدی اپنے کاروبار باہر کی دنیا میں پھیلانے لگ گئے.اور نہ صرف ان کے کاروبار پھیلے بلکہ احمدیت بھی متعارف ہوئی.پھر شہادتیں ہیں، شہادتوں کی وجہ سے بعض احمدیوں کو ہجرت کرنا پڑی.ان کے خاندانوں کو ہجرت کرنا پڑی.اور اس کی وجہ سے بھی جماعت دنیا میں پھیل رہی ہے.بلکہ جماعت کا پھیلنا تو الہی تقدیر ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے.احمدیوں پر مظالم کی وجہ سے جماعت زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیل رہی ہے.اور یہ مظالم جو ہیں جماعت کے پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں.جماعت دنیا میں اس طرح متعارف ہو رہی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.باہر کی دنیا میں، یعنی پاکستان سے باہر کی دنیا میں بیعتوں کی تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے.پس جب یہ عمل شروع ہے اور جماعت پھیل رہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی اور خدا تعالیٰ کے وعدے بڑی شان سے پورے ہو رہے ہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہو جائے گی کہ جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ خود ہی چپ ہو جائیں گے.یہ بھی آپ کے الفاظ کے ساتھ ہے.پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ قلت کو کثرت میں بدلنے کے لئے بھر پور کوشش کریں.ہماری کوشش کیا ہونی ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں ثواب میں حصہ دار بنانے کے لئے یہ فرماتا ہے کہ تبلیغ کرو، پیغام پہنچاؤ.ورنہ جس طرح جماعت کے پھیلنے کی رفتار ہے اور جو نتائج ظاہر ہو رہے ہیں وہ کسی انسان کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہو سکتے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خط آتے ہیں کہ ہم تو بہ کرتے ہیں اور جماعت میں شامل ہوتے ہیں.وہی مخالفین جو پہلے دشمنیاں کرتے تھے اب خط لکھنے لگ گئے ہیں کہ ہم تو بہ کر کے جماعت میں شامل ہوتے ہیں.اسی طرح آج تک یہ سلسلہ قائم ہے بلکہ مخالف علماء اور پادریوں تک میں یہ حرکت

Page 600

585 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پیدا ہو رہی ہے کہ احمدیت کی سچائی ان کے دلوں میں گھر کر رہی ہے.اور انہوں نے ، پادریوں تک نے بیعت کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے.پس یہ انقلاب اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا کر رہا ہے.پس اگر ہم صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے رہے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم یہ انقلاب دیکھیں گے کہ جو قلت ہے وہ کثرت میں بدل جائے گی.یہ اعتراض کرنے والے اگر زندہ ہوئے تو یہ بھی دیکھیں گے ورنہ ان کے بچے دیکھیں گے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم دیکھو گے.پس وہ زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے.اُس وقت تو یہ شریر خود بخود مٹ جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ فتوحات ان کو دیتا ہے جن کے ایمانوں میں پختگی ہو.جن کے صبر کا معیار اعلیٰ ہو.جن کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین کامل ہو.یہ دُکھ اور عارضی تکلیفیں ایمانوں میں جلا پیدا کر رہی ہوں.ان کو پتہ ہو کہ یہ تو ہمارے لئے کھاد کا کام دینے کے لئے ہیں.پس ہمارا کام ہے کہ عارضی ابتلاؤں اور مشکلات سے صبر و استقامت دکھاتے ہوئے گزرتے چلے جائیں.اپنی دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر توجہ کریں.ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کون لوگ ہیں جو صبر اور دعا سے کام لیتے ہیں.فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ (البقرة : 46) اور صبر اور نماز کے ساتھ مددمانگو.اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے.یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق میں وہی لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں، صبر انہی لوگوں میں پیدا ہو تا ہے جو عاجزی دکھاتے ہیں.کبھی متکبر آدمی صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتا.کبھی متکبر آدمی اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح نہیں جھکتا جو اس کے حضور جھکنے کا حق ہے.اور جب یہ نہیں ہو تا تو اللہ تعالیٰ کی حمایت سے بھی محروم رہ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں.تو وہیں یہ اعلان تھا کہ جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کو کھڑا کرنے لگا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ کا میابیاں آپ کے قدم چومیں گی.اللہ تعالیٰ جو کام آپ سے لینے لگا ہے اس میں اللہ تعالیٰ اس قدر برکت ڈالنے والا ہے کہ تمام تر مخالفتوں اور دشمنیوں کے باوجود انجامکار آپ کے مشن نے کامیاب ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہا ہے.پس ہم احمدیوں کو تو ذرہ بھر بھی اس میں شک نہیں کہ احمدیت کی مخالفت احمدیت کے راستے میں روک نہیں ڈال سکتی ہے.اللہ تعالی کی حمایت کے مختلف جگہوں پر قرآنِ کریم میں اعلانات ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف جگہوں پر یہ بتایا ہے کہ میں اپنے بندوں کی، اپنی جماعت کی جس کو میں کھڑا کروں اُس کی حمایت کرتا ہوں.اور یہ باتیں ہمیں اس بات پر پختہ کرتی چلی جاتی ہیں کہ احمدیت کا غلبہ انشاء اللہ ہو گا.ایک مومن کی زندگی بھی خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہے.اور مرنے کے بعد کی بھی جو زندگی ہے اُس کو بھی یہی یقین قائم کرتا ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی خاطر جو تکالیف اور مشکلات ہیں یہ ہنستے

Page 601

586 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کھیلتے برداشت کر لو گے تو آخری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن جاؤ گے.یقیناً یہ مشکلات اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ملانے کا باعث بنیں گی.اللہ تعالیٰ عاجزی کرنے والوں کے بارے میں مزید تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَ أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة:47) یعنی کہ عاجزی دکھانے والے اور صبر اور استقامت دکھانے والے اور دعا کرنے والے یہ وہ لوگ ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.گویا اس آیت اور پہلی آیت کا مضمون یہ بنا کہ صبر اور استقامت دکھانے والے اور خدا تعالیٰ سے اپنے معاملات میں مددمانگنے والے ، خوشی اور غمی میں اس واحد و یگانہ کی طرف جھکنے والے وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ عاجزی دکھاتے ہیں.اور اس عاجزی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث ٹھہرتے ہیں.کسی قسم کے تکبر کی بُو ان میں نہیں آتی.اس دنیا کی زندگی میں بھی اُخروی زندگی کے حصول کے لئے وہ کوشش کرتے رہتے ہیں.یعنی ایک مومن دنیا داروں کی طرف سے کھڑے کئے ہوئے مصائب اور مشکلات سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی سے جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلب گار ہو تا ہے.اس کا صبر ، اس کی دعائیں انہیں پھر عاجزی میں مزید بڑھاتی ہیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بنتا چلا جائے.ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آتی.اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس زمانے میں دین کے لئے جنگ منع ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر یہ اعلان فرمایا تو اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں لیکن اپنے صبر و استقلال اور خدا تعالیٰ سے تعلق پر حرف نہیں آنے دیتے.کیونکہ ان کو یہ یقین ہو تا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے.اس لئے اس کے احکام پر عمل ضروری ہے.اللہ کی جو خواہش ہے اور اس کے بھیجے ہوئے فرستادے نے جو ہمیں بتایا ہے اُس پر عمل کرناضروری ہے.ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن اُن حکموں سے سر موہٹ نہیں سکتے.پس یہاں اُن نام نہاد جہادی تنظیموں اور شدت پسندوں کو بھی پیغام ہے جو اپنے زعم میں اسلام کا نظام رائج کرنے کے لئے دہشت گردی اور خودکش حملے کر کے دنیا کا سکون برباد کر رہے ہیں، معصوموں کو قتل کر رہے ہیں کہ تمہارے یہ عمل اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں ہیں.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا دعویٰ ہے تو معصوم جانوں کو ختم کرنے کے بعد فخر سے یہ اعلان نہ کرو کہ ہمارا کام ہے جو ہم نے کیا ہے.بلکہ کوشش یہ ہو کہ ہم نے عاجزی اختیار کرتے رہنا ہے اور صبر اور دعا کا دامن ہاتھ میں پکڑنا ہے.اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے ملکی قانون کو اپنے تابع نہیں کرنا یا اس کے لئے کوشش نہیں کرنی.یہ تو متکبر لوگوں کی نشانی ہے اور متکبروں کی اللہ تعالیٰ کبھی اعانت اور مدد نہیں فرماتا.آج یہ اعزاز، یہ سوچ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی کی ہے اور ایک احمدی کو ہی حاصل ہے کہ عاجز بنتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مدد کی تلاش میں رہتا ہے.عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے.عاجزانہ راہیں اختیار کرتے ہوئے نیکیوں میں قدم آگے بڑھاتا ہے.اور بشر الصابرين (البقرة:156)

Page 602

587 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ ( البقرة : 154) کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی مشکلات میں سے گزرتا چلا جاتا ہے.بلکہ جان تک کا نذرانہ پیش کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا.انہیں لوگوں کو خدا تعالیٰ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة:158) کہ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں.پس ہمیں کوئی جو چاہے کہے یا کہتا چلا جائے کہ اتنے لمبے عرصے کے جو ابتلا ہیں یہ تمہیں جھوٹا ثابت کر رہے ہیں.ہمیں اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.خدا تعالیٰ ہمارے ان ابتلاؤں پر صبر کی وجہ سے ہم پر برکتیں نازل فرمارہا ہے جن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ہم ہی ہیں جنہیں ہدایت یافتہ ہونے کی سند بھی اللہ تعالیٰ عطا فرمارہا ہے.پس ہمارا کام ہے کہ جو بھی ہم پر گزر جائے کبھی صبر اور دعا کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا، کبھی اس کو نہیں چھوڑنا تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہم وارث بنتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد اب میں ایک شہید کا ذکر خیر کروں گا جن کو گزشتہ دنوں میں مردان میں شہید کر دیا گیا.یہ مکرم شیخ محمود احمد صاحب ابن مکرم نذیر احمد صاحب ہیں.آٹھ نومبر سوموار کے دن تقریبا رات کو پونے آٹھ بجے یہ اور ان کا بیٹا عارف محمود اپنی دکان سے گھر واپس آرہے تھے.گھر کے قریب پہنچے ہیں تو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر دی.بیٹا موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور شیخ صاحب پیچھے بیٹھے تھے.فائرنگ کرنے والوں نے پیچھے سے فائر کیا تھا.اس کے بعد فرار ہو گئے.تین فائر شیخ محمود احمد صاحب کو لگے اور ایک فائر ان کے بیٹے عارف محمود کو لگا.فائرنگ کے نتیجے میں شیخ صاحب موقع پر وفات پاگئے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.بیٹا زخمی ہے ہسپتال میں داخل ہے.اٹھائیس سال اس کی عمر ہے.اللہ تعالیٰ اس کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.بیٹے نے بھی بڑی جرآت کا مظاہرہ کیا ہے.اس سے جب ربوہ سے بات کی گئی تو اس نے کہا فکر نہ کریں.یہ گولیاں اور یہ زخمی کرنا ہمارے ایمانوں کو نہیں ہلا سکتا.اس کی مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ زخمی ہوا ہوں.انشاء اللہ تعالیٰ ہم اسی طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور کوئی فکر کی بات نہیں.شہید مرحوم کے دادا نے 1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.اس طرح ان کو صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.ان کے والد نے 1932ء میں خلیفہ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.یہ لوگ کوئٹہ میں رہتے تھے.پھر 1935ء میں مردان آگئے.اور دو مہینے پہلے مسجد مردان پر جو حملہ ہوا تھا، اس میں ان کے بھتیجے شیخ حامد رضا شہید ہوئے تھے.یہ تجارت پیشہ خاندان ہے.اللہ کے فضل سے کاروبار ان کا اچھا چل رہا ہے.اس کی وجہ سے مخالفین و معاندین کی نظر میں تھے.شیخ صاحب اور ان کے بھائیوں کو مختلف وقتوں میں اسیر راہ مولی رہنے کی بھی توفیق ملی.ان لوگوں پر ہیں(20) جماعتی مقدمات ہیں.اور

Page 603

588 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ان پر ہمیشہ ظلم ہوتے چلے آرہے ہیں.1974ء میں بھی ان کے ایک بھائی شیخ مشتاق صاحب کو ضلع بدر کر دیا گیا تھا.1974ء کی کارروائی میں مولانا دوست محمد صاحب شاہد جب مدد کیا کرتے تھے تو ان کو حوالوں کے لئے دو کتب کی ضرورت پڑی.شیخ صاحب اُن دنوں میں اسلام آباد ہوتے تھے.ان سے ذکر کیا تو انہوں نے وہاں جاکر دو دفعہ وہ کتاب لا کر دی جو حوالے کے لئے چاہئے تھی اور اسمبلی کی کارروائی میں حوالہ دینے کے کام آئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوجوانی میں ہی یہ جماعت کے بڑے خدمت گزار تھے.ان کو 2008ء میں اغوا بھی کر لیا گیا تھا اور پھر تاوان دے کر ان کو رہائی ملی.پہلے تو اغوا کرنے والے ان پر بڑی سختی کرتے رہتے تھے.لیکن جب دیکھا کہ یہ تو نمازیں پڑھنے والا اور ذکر الہی کرنے والا ، تہجد پڑھنے والا ہے تو پھر آہستہ آہستہ ان کا دل نرم ہو گیا.اور دل نرم ہونے کے بعد یہ اثر ہوا کہ اس گرمی میں ٹھنڈے پانی اور پنکھے کی سہولت میسر کر دی.اور پھر یہ بھی اغوا کرنے والوں کے دل کی نرمی ہے کہ جتنے پیسے وہ مانگ رہے تھے ، اس سے کم پر ان کو رہا کر دیا.یہ تو ان کا حال ہے.کچھ عرصہ پہلے ان کی دکان کے قریب بم رکھ کر اس کو اڑانے کی کوشش کی گئی تھی اس سے بھی کچھ نقصان ہو ا تھا.بہر حال ہمیشہ سے یہ مردان میں ہیں.یہ خود بھی اور ان کا خاندان بھی بڑی سختیاں جھیلتا چلا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ ان شہید کے درجات بلند کرے اور باقی خاندان کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے بلکہ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے جو مردان میں یا پاکستان کے کسی بھی شہر میں ہے.کیونکہ دشمنوں کے ارادے بد سے بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں.نمازوں کے بڑے پابند تھے اور خطبات بڑے غور سے سنتے تھے اور اپنے سارے خاندان کو سنوایا کرتے تھے.مختلف جگہوں پر خدمتِ خلق کا کام، رفاہِ عامہ کا کام بھی کیا کرتے تھے.مردان شہر میں مختلف جگہوں پر ٹھنڈے پانی کی سہولت کے لئے بجلی کے واٹر کولر لگوا کر دیئے ہوئے تھے.اہلیہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.ایک بڑے بیٹے زخمی ہیں.بچوں کی عمر اٹھائیس سال سے لے کر بیس سال تک ہے..اللہ تعالیٰ ان سب لواحقین کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ دے.حفاظت میں رکھے.ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ ان کا نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.اس کے علاوہ ہمارے سلسلے کے ایک پرانے بزرگ مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب ہیں جو خلافت لائبریری کے انچارج ہوتے تھے.ان کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.واقف زندگی تھے اور 1915ء میں پیدا ہوئے.1906ء میں ان کے والد نے بیعت کی تھی.ان کی والدہ کی تو اس سے پہلے کی بیعت تھی.1935ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا اور تیسری پوزیشن لی.اس کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا.اور 1938ء میں وہاں سے فارغ ہو کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں وقف کی درخواست دی.پھر 1960ء میں انہوں نے پرائیویٹ بی.اے کیا اور لائبریری سائنس کا ڈپلومہ کیا.خلافت

Page 604

589 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لائبریری کے لائبریرین تھے.پڑھنے کا شوق تھا.1964ء میں تعلیم الاسلام کالج میں عربی کی کلاسیں شروع ہوئی ہیں تو پھر ایم.اے عربی کی اور وہاں طلباء کا پہلا بیچ (Batch) تھا اس میں یہ شامل تھے.اور عربی میں پوری یونیورسٹی میں اس سال انہوں نے پہلی پوزیشن لی.1931ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو احمد یہ کور قائم کی اس کے بھی آپ ممبر تھے.اور 1934ء میں نیشنل لیگ کے قیام پر آپ بھی اس میں شامل تھے.1938ء میں خدام الاحمدیہ کے ابتدائی ممبران میں شامل ہوئے اور معتمد خدام الاحمدیہ مرکزیہ، ایڈیٹر خالد اور قائمقام صدر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.اس وقت حضرت مصلح موعود خود صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھے.1947ء میں ہجرت کے موقع پر حضرت اماں جان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقی اولاد کے ساتھ ہی یہ قافلے کو لے کر آئے.1948ء میں فرقان بٹالین میں شرکت کی.اور 1948ء میں ربوہ کی سر زمین پر جو خیمے گاڑھے گئے تھے ان کا انتظام بھی آپ کے ذمے تھا اور پہلی رات آپ کو ربوہ میں بسر کرنے کی توفیق ملی.حضرت مصلح موعودؓ نے آنا تھا تو ان کو پہلے بھیجا گیا تا کہ خیمے وغیر ہ گاڑیں.یہ جب ربوہ آبادی کے لئے گئے ہیں تو یہ اور عبد السلام اختر صاحب خیمے اور چھولداریاں سائبان وغیرہ لے کر گئے.سیلاب کی وجہ سے راستے کٹے ہوئے تھے ایک لمبے راستے سے ان کو آنا پڑا.اس زمانے میں تعلیم الاسلام سکول عارضی طور پر چنیوٹ میں ہوتا تھا.اور اس کے ہیڈ ماسٹر سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے.ان کو انہوں نے کہا کہ ہم نے رات وہاں رہنا ہے تو لڑکوں کے ہاتھ کچھ لالٹین بھجوا دیں تا کہ روشنی ہوتی رہے.جب ربوہ پہنچے ہیں تو اس وقت سورج ڈوب رہا تھا.انہوں نے اندازہ لگایا کہ ربوہ کی جو زمین ہے اس کا وسط کہاں ہے؟ در میان کہاں ہے؟ اور پھر وہاں انہوں نے خیمے لگائے.بنجر اور بیابان جگہ تھی، جو چند لوکل، مقامی را بگیر وہاں سے گزرا کرتے تھے ، وہ بڑے حیران کہ اس جگہ یہ دو آدمی بیٹھ کے کیا کر رہے ہیں ؟ بہر حال جو سامان لانے والے ٹرک تھے ان کو انہوں نے رخصت کیا.اور خاموشی سے یہ دونوں وہاں بیٹھ گئے ، دعائیں کرنے لگے.نظمیں سنانے لگے.اختر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر بلند آواز سے سنانے لگے.کہتے ہیں کہ اس وقت کیونکہ آبادی تھی نہیں اور ارد گر د سب پہاڑ تھے تو پہاڑوں سے ٹکرا کر ان کی نظموں کی آواز جو تھی، وہ اور زیادہ گونج پیدا کر رہی تھی.پھر انہوں نے دیکھا کہ دور سے ایک ہلکی سی روشنی نظر آرہی ہے.یہ شاہ صاحب کو جو کہہ کے آئے تھے ناکہ سکول کے بچوں کے ہاتھ لالٹینیں بھجوا دیں تو دیکھا کہ چھ میل کے فاصلے سے وہ بچے ان کے لئے لالٹین لے کے آرہے تھے ، جن میں سے دو بچے بنگالی تھے اور ایک سیلون کا تھا.بہر حال یہ بچے بھی کافی دیر سے پہنچے.اس کے بعد رات کو احمد نگر وہاں قریبی گاؤں ہے ، وہاں سے ان کو کھانا آیا تو اس طرح انہوں نے یہ پہلی رات ربوہ میں بسر کی.اسی طرح ان کے بہت سے تاریخی کام ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے 1940ء میں بھی علماء کی کمی پوری کرنے کے لئے نوجوانوں کو تیار کرنے کی خاطر مختلف مضامین میں غیر از جماعت جید علماء سے تدریس کا

Page 605

590 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پروگرام بنایا تو اس میں بھی یہ شامل تھے.بہر حال ان کی خدمات کا ایک لمبا عرصہ ہے.اور بعد میں لائبریرین کے طور پر یہ ریٹائر ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.تحریک جدید کے ممبر تھے.صدر انجمن احمدیہ کے ابتدائی ممبروں میں سے تھے.پاکستان آنے کے بعد جو انجمن بنی ہے اس کے بھی ممبروں میں سے تھے.ربوہ کے صدر عمومی رہے ہیں.بڑا عرصہ لمبا انہوں نے خدمات انجام دی ہیں.اور میں نے دیکھا ہے کہ مرتبے کے بزرگ تھے، عمر بڑی تھی.بہت فرق ہے میرا اور ان کی عمر کا.لیکن میں نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہائی عاجزی سے ہر ایک کو ملنے والے اور وفادار کار کن تھے.جہاں سختی اور دھڑلے کی ضرورت ہوتی تھی وہاں اس سے بھی کام لیتے تھے.لیکن بہر حال اچھی انتظامی صلاحیت تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اس کے علاوہ ایک اور جنازہ ہے.ان کا بھی جنازہ غائب ابھی ادا ہو گا.تیسر اجنازہ غائب مکرم مسعود احمد خورشید سنوری صاحب کا ہے.ان کی وفات کو دو مہینے گزر گئے ہیں.یہ بھی مختلف حیثیتوں سے خاص طور پر کراچی میں جماعت کی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور امریکہ میں بھی.ان کی بچیاں بھی جماعت کی یہاں خدمات انجام دے رہی ہیں اور ان کی آگے اولا دیں بھی.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے.جیسا کہ میں نے کہا ان سب کی نماز جنازہ غائب انشاء اللہ ابھی ادا ہو گی.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 49 مورخہ 3 دسمبر تا9دسمبر 2010 صفحہ 5تا8)

Page 606

خطبات مسرور جلد ہشتم 591 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010ء بمطابق 19 نبوت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَنُبَوَنَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا نِعْمَ اجرُ الْعَمِلِينَ الَّذِيْنَ صَبَرُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (العنكبوت: 60-59) آنحضرت علی ایم کی قوت قدسیہ کی بدولت نیک انقلاب آنحضرت صلی ا ہم نے مومنین کی وہ قوم پیدا کی جو ایمان میں بڑھے ہوئے تھے.وہ اس ایمان اور یقین پر قائم تھے کہ آنحضرت صلی الله علم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں.ان پر دین اپنے کمال پر پہنچا اور یہی دین ہے جس کی تعلیم پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاسکتی ہے.پس جب صحابہ اپنے ایمان کی معراج کو چھونے لگے تو ان کا ہر حرکت و سکون اور ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو گیا.اور جو عمل اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے یا چاہنے کے لئے ہو ، وہی عمل صالح کہلاتا ہے.پس ان آیات میں آنحضرت صلی علیہ کم کی قوت قدسی سے اپنے اندر ایک عظیم انقلاب لانے والے لوگوں کا ہی ذکر ہے.جو اپنی تمام پرانی بد عادات کو چھوڑ کر اپنے ایمان میں اس قدر مضبوط ہوئے کہ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ایمان میں مضبوطی اور اعمالِ صالحہ بجالانے کے لئے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں گے.اگر خاموشی سے سختیاں برداشت کرنی پڑیں تو وہ کریں گے کیونکہ ایک وقت میں جب سختی کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں تھی تو اس وقت ایمان میں مضبوطی کا تقاضا یہی تھا کہ خاموشی سے سختیاں جھیلو.اس وقت عمل صالح یہی تھا کہ سختی کا جواب سختی سے نہیں دینا.جب یہ حکم ہوا کہ وطن چھوڑ کر ہجرت کر جاؤ تو ایمان کی مضبوطی اور عمل صالح یہی تھا کہ بغیر کسی تردد کے وطن چھوڑ دیں.جب دشمن کو سزا دینے کے لئے جنگ کا حکم تھا تو ایمان کا تقاضا اور عمل صالح یہی تھا کہ ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر دشمن کو سزا دو.یہ نہ دیکھو کہ میرے پاس ہتھیار ہیں یا نہیں.دشمن کی طاقت اور میری طاقت میں کوئی نسبت ہے یا نہیں.غرضیکہ ایمان لانے کے بعد کوئی بھی عمل اور کوئی بھی نیکی جب خدا تعالیٰ کی رضا کی تابع ہو جائے.اپنی جان کو انسان خدا تعالیٰ کی امانت سمجھنے لگے جس کا حق صحابہ رسول صلی علی میم نے ادا کیا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو میں ضرور جنت میں داخل

Page 607

592 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کروں گا اور جنت میں بھی ایسے بالا خانے ملیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.اور یہ جنتیں دائمی انعامات اور دائمی زندگی کی علامت ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بہترین اجر ہے جو ہم ایمان میں کامل اور اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر عمل کرنے والے کو دیتے ہیں.اور یہ لوگ جو بہترین اور دائمی جنتوں کا اجر پانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی صبر سے قربانیاں دیں اور اپنے ایمانوں کو سلامت رکھا.اپنے رب پر کامل تو کل رکھتے ہوئے وہ اس یقین پر قائم تھے کہ اگر ہم نے صبر کے نمونے دکھاتے ہوئے اپنے ایمان کی حفاظت کی اور ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجا لاتے رہے تو اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے، ضرور اجر سے نوازے گا.پس یہ ایمان میں مضبوطی اور اعمالِ صالحہ بجالانے کی طرف توجہ جیسا کہ میں نے کہا اُن صحابہ میں آنحضرت صلی ال نیم کی تربیت اور قوتِ قدسی کی وجہ سے پید اہوئی.صبر اور آنحضرت صلی الم کا مبارک اسوہ آج میں صبر کے حوالے سے چند احادیث پیش کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ مومنین میں اس خُلق کے پیدا کرنے کے لئے آنحضرت صلی ا ولم نے ہمیں کیا اسلوب اور طریقے سکھائے.اور پھر صحابہ نے جو ایمان میں ہر دن ترقی کرتے چلے گئے یا ترقی کرتے چلے جانے والے تھے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کس طرح صبر و استقامت کے اعلی معیار قائم کئے.آنحضرت صلی عوام نے عام روز مرہ کے معاملات سے لے کر دشمنوں کے مقابلہ تک میں صبر دکھانے کے قرینے سکھائے اور یہ سکھاتے ہوئے ہمیں نصائح فرمائیں کہ کس وقت ہمیں کیا کرنا ہے ؟ آج میں سب سے پہلے جو حدیث پیش کروں گا اس کا تعلق دشمنوں کے ساتھ نہیں بلکہ عائلی زندگی کے صبر کے ساتھ ہے کہ خاوند اور بیوی کو عائلی زندگی کس طرح گزارنی چاہئے.کئی عورتوں کے بھی خطوط آتے ہیں اور اگر ملاقات کا موقع مل جائے تو اس میں بھی شکایات کرتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں ہیں مثلاً اور بیٹا کوئی بھی نہیں جس کی وجہ سے خاوند اور سسرال مستقل طعنہ دیتے رہتے ہیں.گھریلو زندگی اجیرن ہوئی ہوئی ہے.یا بیٹیاں خود بھی لکھ دیتی ہیں کہ ہمارے باپ کا ہمارے ساتھ بیٹی ہونے کی وجہ سے نیک سلوک نہیں ہے اور ہماری زندگی مستقل اذیت میں ہے.اس بارے میں آنحضرت صلی للی کم کی ایک حدیث ایسی ہے جو لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.کیونکہ بہت سارے ایسے ہیں جو دینی علم بھی رکھتے ہیں، جماعتی کام بھی کرنے والے ہیں لیکن پھر بھی گھروں میں ان کے سلوک اچھے نہیں ہوتے.اس حدیث کے سننے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان جس میں ہلکی سی بھی ایمان کی رمق ہو، اپنی بیٹیوں کو بیوی یا بیٹیوں کے لئے طعنہ کا ذریعہ نہیں بنائے گا.الله سة حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ا یکم نے فرمایا کہ جو صرف بیٹیوں کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں اس کے اور آگ کے درمیان روک ہوں گی.(سنن ترمذی.کتاب البر والصلة باب ما جاء فى النفقة على البنات والاخوات حدیث: 1913)

Page 608

593 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دنیا میں کون شخص ہے جس سے چھوٹی موٹی غلطیاں اور گناہ سر زد نہ ہوتے ہوں.کون شخص ہے جو اللہ تعالی کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا.یقیناً ہر ایک اس پناہ کی خواہش رکھتا ہے.تو بیٹیوں والوں کو یہ خوشخبری ہے کہ مومن بیٹیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائے گا.بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو حل کرنا اور اس معاشرے میں بھی ہمیں بیٹیوں کی وجہ سے بہت سارے مسائل نظر آتے ہیں ان کو برداشت کرنا اور کسی بھی طرح بیٹیوں پر یہ اظہار نہ ہونے دینا یا ماؤں کو بیٹیوں کی وجہ سے نشانہ نہ بنانا، یہ ایک مومن کی نشانی ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر یہ باتیں جو ہیں اس کے اور آگ کے درمیان روک بن جاتی ہیں.پھر ایک حدیث میں ان لوگوں کے لئے نصیحت ہے جو بڑے زود رنج ہوتے ہیں.ذرا ذراسی بات پر ان میں ناراضگی ہو جاتی ہے.اور اسی وجہ سے پھر اپنے اس معاشرے میں گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے.یحیی بن و قاب نبی کریم صلی الکلم کے اصحاب میں سے ایک بزرگ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ی ای ایم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو لوگوں سے ملتا جلتا رہتا ہے اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے ، اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ تو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے.(سنن ترمدی - کتاب صفة القيامة والرقائق والورع باب 120/55 حدیث : 2507 پس اس میل ملاپ سے ہو سکتا ہے کسی کے اچھے اخلاق اور صبر سے دوسرے متاثر ہو جائیں، نصیحت حاصل کر جائیں، معاشرے میں بہتری پیدا ہو جائے.لوگ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور پھر اس طرح ملنے جلنے سے کوئی کسی دوسرے کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے.پھر انسان کے اپنے اندر صبر کی وجہ سے جو وسعت حوصلہ پیدا ہوتی ہے وہ اسے مزید نیکیوں کی طرف لے جاتی ہے، مزید نیکیوں کا باعث بنتی ہے.اور پھر یہ ایک نصیحت بھی اس میں آگئی کہ صبر جو ہے اس کی عادت انسان کو ڈالنی چاہئے.ذرا ذراسی باتوں پر آپس کے جھگڑے جو بے صبری کی وجہ سے ہوتے ہیں اُن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اسی وسعتِ حوصلہ کا ذکر فرماتے ہوئے ایک جگہ آنحضرت صلی علی کریم نے یوں نصیحت فرمائی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ طاقتور پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے.اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے.شخص ( صحیح بخاری کتاب الادب.باب الحذر من الغضب حدیث : 6114) پس خدا اور رسول صلی الم کے نزدیک پہلوان وہ ہے جو غصے پر قابو پانے والا ہے.اور یہی عمل صالح ہے جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کا قرب دلاتا ہے، اس کے قریب کرتا ہے.آنحضرت صلی علیکم کا اپنا عظیم اُسوہ اس صبر کے اظہار میں کیسا تھا؟ اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہیں مارا.نہ کسی عورت کو نہ کسی خادم کو،

Page 609

خطبات مسرور جلد هشتم 594 سوائے اس کے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے کسی کو مارا ہو.آپ کو جب کبھی کسی نے تکلیف پہنچائی تو بھی آپ نے کبھی اس سے انتقام نہیں لیا.ہاں جب اللہ تعالیٰ کے کسی قابل احترام مقام کی ہتک اور بے حرمتی کی جاتی تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام لیتے تھے.(صحیح مسلم کتاب الفضائل.باب مباعدته على الفيلم الاثام واختياره..حديث : 5944) پس یہ وہ عظیم اسوہ ہے جو صبر کے مضمون کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ ابو کبشہ انماری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین باتوں کے متعلق تاکید کہتا ہوں اور میں تمہیں ایک بات بتا تا ہوں.پس تم اسے خوب یاد رکھو.آپ نے فرمایا: کسی بندے کا مال صدقے سے کم نہیں ہوتا اور وہ بندہ جس پر کوئی ظلم کیا گیا ہو اور اس نے اس پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.اور وہ بندہ جس نے کسی سوال کا دروازہ کھولا تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر کا دروازہ ( سنن الترمذی.کتاب الزھد.باب ما جاء مثل الدنيا مثل اربعة نفر حديث: 2325) کھول دیتا ہے.ظلم پر صبر کی اہمیت پس یہاں صبر کے حوالے سے میں یہ بات کرنی چاہتا ہوں.ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ظلم پر خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا مقبول ہے کہ اس کی عزت اللہ تعالیٰ خود قائم فرما دیتا ہے.ہمارے معاشرے میں روز مرہ معاملات میں اگر لوگ اس اصل کو سمجھ لیں تو ایک پر امن معاشرہ قائم ہو جائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.عمر بن سعد اپنے والد سعد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی ا ہم نے فرمایا: مسلمان پر مجھے تعجب آتا ہے اس لئے کہ جب اسے کوئی خیر پہنچتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر بجالا تا ہے اور جب اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر اجر کی امید رکھتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے.مسلمان کو ہر حال میں اجر ملتا ہے یہاں تک کہ اُس لقے میں بھی جو وہ اپنے منہ میں ڈالتا ہے.(مسند احمد بن حنبل " مسند سعد بن ابی وقاص.جلد اول صفحہ 479.حدیث نمبر 1531) ایک دوسری روایت میں اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے.حضرت صہیب مبین سنان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے.اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں.یہ فضل صرف مومن کے لئے مختص ہے.اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت و فراخی نصیب ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے.اور اس کی شکر گزاری اس کے لئے مزید خیر وبرکت کا موجب بنتی ہے.اور اگر اُس کو کوئی دُکھ اور رنج، تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے.اور اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے.کیونکہ وہ صبر کر کے ثواب حاصل کرتا ہے.(مسلم کتاب الزھد.باب المومن أمره کله خیر حدیث : 7394) پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا : کسی

Page 610

خطبات مسرور جلد هشتم 595 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 مسلمان کو کوئی مصیبت، کوئی دکھ ، کوئی رنج و غم، کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں پہنچتی یہاں تک کہ کانٹا بھی نہیں چبھتا مگر اللہ تعالیٰ اُس کی تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے.(مسلم.کتاب البر والصلة - باب ثواب المومن فيما يصيبه من مرض او حزن...حدیث: 6463) ایک لمبی روایت ہے.اس میں خدا تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگوں کا ذکر ہے.وہ پیش کرتا ہوں.مُطَرف بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک حضرت ابو ذر کی ایک روایت پہنچی اور میں خواہش رکھتا تھا کہ ان سے ملاقات ہو جائے.پھر جب میں ان سے ملا تو عرض کی کہ اے ابوذر! مجھ تک آپ کی ایک روایت پہنچی ہے.میں خواہش رکھتا تھا کہ آپ سے ملاقات ہو اور اس کے بارے میں آپ سے پوچھوں.حضرت ابوذر نے کہا.اب مل لیا ہے تو پوچھو.میں نے کہا مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ای تیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ عز و جل پسند کرتا تھا اور تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ عزو جل نا پسند کرتا ہے.حضرت ابو ذر نے کہا کہ ہاں اور مجھے خیال بھی نہیں آسکتا کہ میں اپنے خلیل کی یہ تم پر جھوٹ بولوں.یہ بات انہوں نے تین مرتبہ کہی.تو میں نے پوچھا کہ وہ تین شخص کون سے ہیں جنہیں اللہ عز و جل پسند کرتا ہے تو آپ نے فرمایا.وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جنگ کے لئے نکلا اور اس کا مجاہد ہوتے ہوئے، اُس کا اجر خدا کے ہاں قرار دیتے ہوئے دشمن سے لڑائی کی یہاں تک کہ قتل ہو گیا.اور تم اللہ عزوجل کی کتاب میں پاتے ہو کہ اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف باندھ کر لڑتے ہیں.اور وہ شخص جس کا ہمسایہ اسے تکلیف دیتا ہو اور وہ اس کی تکلیف پر صبر کرے اور اپنے آپ کو روکے رکھے یہاں تک کہ اللہ تعالی موت یا زندگی کے ذریعے اس کے لئے کافی ہو جائے.اور ایسا شخص جو قوم کے ساتھ سفر پر ہو یہاں تک کہ نیند اور اونگھ انہیں بو جھل کر دے اور وہ رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کریں اور وہ شخص اپنا وضو کرے اور نماز کے لئے کھڑا ہو جائے.میں نے عرض کی کہ وہ کون سے تین شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ فخر و مباہات کرنے والا، تکبر کرنے والا اور تم اللہ عزوجل کی کتاب میں پاتے ہو اللہ یقیناً ہر شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا.“ اور وہ بخیل جو احسان کو جتانے والا ہو اور ایسا تاجر جو قسمیں کھا کھا کر بیچنے والا ہو.ہو (مسند احمد بن حنبل مسند ابوذر غفاری.جلد 7 صفحہ 217.حدیث نمبر 21863) اس میں جو تین پسندیدہ لوگ ہیں ان میں صبر کرنے والے کا بھی ذکر ہے.جو صبر کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کو بہت پسندیدہ ہیں.حضرت علی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ایمان میں صبر کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ جسم میں سر کی.جب صبر نہ رہا تو ایمان بھی نہ رہا.(کنز العمال الكتاب الثالث فی الاخلاق قسم الافعال.باب الصبر وفضلہ حدیث:8627) ایک مومن کو ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ ہمیں کس طرح اپنی تکلیفوں اور دکھوں میں اپنے جذبات کا

Page 611

خطبات مسرور جلد هشتم 596 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 اظہار کرنا چاہئے ؟ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہئے.کس طرح دعا کرنی چاہئے؟ یہ سب باتیں ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم نے بتائی ہیں.اس بارہ میں ایک حدیث میں آتا ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ای کم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ فرماتے ہیں: جس بندے کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَاخْلَفَ لِي خَيْرًا مِنْهَا.ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور اے میرے اللہ ! مجھے مصیبت میں اجر دے اور میرے لئے اس کے بعد اس سے بہتر عطا کر.تو اللہ تعالیٰ ضرور اُس کی مصیبت کے بدلے میں اس کو اجر دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو اس سے بہتر عطا فرماتا ہے.( الجامع لشعب الایمان.جلد 12 - صفحہ 182 السبعون من شعب الایمان.باب فى الصبر على المصائب.حدیث 9247) اور یہ جو مصیبتیں یا تکالیف ہیں وہ ذاتی زندگی میں بھی ہیں ، جماعتی زندگی میں بھی ہیں، قومی زندگی میں بھی ہیں.ہر جگہ یہی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے، ان تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے، صبر اور حوصلہ دکھاتے ہوئے ، اس کی پناہ میں آتے ہوئے اس سے اجر مانگا جائے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی کسی بھی قسم کے ابتلا اور مصیبت سے گزرنے والوں کے بارے میں یہی فرماتا ہے.فرمایا: الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوكَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة : 158-159) ان پر جب بھی کوئی مصیبت آئے تو گھبراتے نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.پس یہ قرآنِ کریم کا بھی حکم ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا صبر اب میں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اُن ہدایت یافتہ لوگوں کے کچھ واقعات پیش کروں گا جو آنحضرت صلی اللی علم کا قرب پانے والے تھے اور آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے والے تھے اور آپ کی تربیت سے انہوں نے فائدہ اٹھایا اور صبر کے اعلیٰ نمونے دکھائے.ایک واقعہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمان آزمائش میں ڈالے گئے تو حضرت ابو بکر بھی مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکل پڑے.جب آپ بَرْكُ الْغِمَاد کے مقام پر پہنچے تو آپ کو قارہ قبیلے کا سر دار ابن الدغنہ ملا.اس نے پوچھا کہ اے ابو بکر ! آپ کا کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس پر ابو بکر نے کہا کہ میری قوم

Page 612

597 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم نے مجھے نکال دیا ہے.اس لئے اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ کی زمین میں کہیں نکل جاؤں اور آزاد ہو کر اپنے رب کی عبادت کروں.ابن الد غنہ نے کہا کہ تمہارے جیسے شخص کو نہ تو خود مکہ سے نکلنا چاہئے اور نہ لو گوں کو چاہئے کہ وہ نکالیں.تم بھولی ہوئی نیکیوں پر عمل کرنے والے ہو اور رحمی رشتے داروں سے حسن سلوک کرتے ہو اور بے بسوں کے بوجھ اٹھاتے ہو اور مہمان نوازی کرتے ہو اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہو.پس میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں.واپس لوٹ جاؤ اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو.حضرت ابو بکر واپس آگئے.ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ ہی ہو لیا.رات کے وقت قریش کے رؤوساء کے پاس جا کر ابن الدغنہ نے کہا.ابو بکر جیسے لوگ نہ تو خود نکلتے ہیں اور نہ ہی انہیں نکالا جاتا ہے.کیا تم ایسی اعلیٰ اور نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو ؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کا انکار نہ کیا.انہوں نے اسے کہا کہ ابو بکر کو کہہ دو کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کر لیا کرے اور وہاں نماز ادا کر لیا کرے اور جو چاہے پڑھ لیا کرے لیکن اس کے ذریعہ سے ہمیں تکلیف نہ پہنچائے اور نہ اس کا اظہار اونچی آواز سے کرے.کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو فتنے میں نہ ڈال دے.ابن الدغنہ نے یہ سب باتیں حضرت ابو بکر کو بتائیں تو آپ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے.اور نماز کے وقت آواز اونچی نہ رکھتے اور اپنے گھر کے سوا کہیں اور قرآن نہ پڑھتے.پھر آپ کے ذہن میں ایک خیال آیا اور آپ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد تعمیر کی جہاں آپ نماز ادا کرتے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے تھے.اس وقت مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے جھانکتے اور حضرت ابو بکر کو دیکھتے تو بہت زیادہ متاثر ہوتے.حضرت ابو بکر بہت زیادہ رونے والے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے وقت اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھتے تھے.ان کے آنسو بہنے شروع ہو جاتے تھے.قریش کے رؤوساء اس بات سے بہت زیادہ گھبر اگئے.تو انہوں نے اپنا ایک پیغامبر ابن الدغنہ کی طرف بھیجا.جب وہ آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس شرط پر ابو بکر کو تمہاری پناہ میں رہنے دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرے گا.لیکن اس نے اس سے تجاوز کیا ہے اور اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد تعمیر کر لی ہے اور بلند آواز سے وہاں نماز ادا کرتے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں.اور ہمیں اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو آزمائش میں نہ ڈال دے.پس تو ان سے پوچھ کہ وہ کیا تمہاری پناہ سے انکار کرتا ہے.کیونکہ ہم نے تو اس بات کو نا پسند کیا کہ ہم تجھ سے بد عہدی کریں اور نہ ہی ہم ابو بکر کو علی الاعلان عبادت کی اجازت دے سکتے ہیں.(حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ) ابن الدغنہ حضرت ابو بکر کے پاس آیا (اور کہا) جس بات کا میں نے آپ سے معاہدہ کیا تھا یا اس پر قائم رہو یا میری ذمہ داری مجھے سونپ دو.کیونکہ یہ مجھے گوارا نہیں کہ عرب کے لوگ یہ بات سنیں کہ میرے ساتھ اس شخص کی وجہ سے بد عہدی کی گئی ہے جس کے ساتھ میں نے معاہدہ کیا ہو ا تھا.حضرت ابو بکر نے کہا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں اور اللہ بزرگ و برتر کی امان کو پسند کر تا ہوں.(تلخیص از بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبي واصحابه الى المدينة..الخ حديث: 3905)

Page 613

خطبات مسرور جلد ہشتم 598 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 اس کے بعد قریش نے حضرت ابو بکر کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں مگر وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہے.روایت میں آتا ہے کہ کفار نے حضرت ابو بکر کو بہت مارا پیٹا.آپ کے سر اور داڑھی سے پکڑ کر اس قدر آپ کو کھینچا جاتا تھا کہ آپ کے اکثر بال گر گئے.تو یہ ظلم روار کھا گیا لیکن آپ نے صبر کیا“.( السيرة الحلبية - جلد 1 باب استخفاءه واصحابه فی دار الارقم بن ابی الار تم صفحہ 417) مجھے یاد آیا کہ یہی حال پاکستان میں ہے.وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ نمازیں نہیں پڑھ سکتے.ہمارے کمزور لوگوں کو نمازیں پڑھ کے ور غلالو گے ، بہ کا لو گے کہ تم لوگ بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کی طرح ظاہر کر رہے ہو.اسی لئے یہ قانون پاس ہوا ہے.اور تو اور ، کل ایک جگہ بلکہ دو جگہ سے یہ خبر بھی آئی ہے، پاکستان میں اخبار میں بھی چھپ گئی ہے کہ غیر احمدی مولویوں نے یہ رپورٹ پولیس میں درج کروادی کہ احمدی قربانی کی عید پہ قربانی کرتے ہیں اور یہ تو اسلامی شعار میں داخل ہے اس لئے ان کو اس سے روکا جائے ، ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں.تو یہاں تک یہ پہنچ گئے ہیں.پولیس کا بھی یہ حال ہے کہ پولیس نے احمدیوں کو بلایا اور ان کو وارننگ دی کہ اگر قربانی کرنی ہے تو چار دیواری کے اندر ہو گی.باہر ذرا سا بھی کوئی اظہار نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ تمہیں یہ قربانی کرنے کا کوئی حق نہیں اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا بھی تمہیں حق نہیں.حالانکہ جب پتہ کیا گیا تو پتہ لگا کہ وہ احمدی تو پہلے ہی قربانیاں اپنے گھر میں کرتے ہیں بلکہ سوائے کسی اپنے بہت قریبیوں کے اظہار بھی نہیں کرتے کہ ہم نے قربانی کی ہے.لیکن بہر حال انہوں نے ایک فساد پھیلانا تھا اور پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بہانہ ان کے ہاتھ آتار ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.اب یہ ایک عورت کا بھی صبر اور استقامت کا عجیب واقعہ ہے.حضرت ام شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اسلام قبول کیا تو قریش کی عورتوں کو مخفی طور پر اسلام کی تبلیغ کرنے لگیں.قریش کو جب اس کا علم ہو ا تو انہوں نے کہا کہ ہم تجھے تیرے قبیلے کے پاس لے جائیں گے.پھر انہوں نے حضرت اتم شریک کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کیا اور کہتی ہیں تین دن تک نہ مجھے پانی پینے کو دیا اور نہ ہی کھانے کو دیا تو آپ کی یہ حالت ہو گئی کہ حواس بر قرار نہ رہے.پھر وہ لوگ ایک جگہ اترے.خود تو وہ لوگ سائے دار جگہ میں بیٹھے اور اُن کو دھوپ میں باندھ دیا.حضرت ام شریک فرماتی ہیں کہ اسی حالت میں میں نے ایک پانی کا بر تن دیکھا.میں اس میں سے تھوڑا سا پانی پیتی تو وہ مجھ سے دور ہو جاتا.پھر میں اس کو پکڑ کر کچھ پیتی پھر وہ مجھ سے دور ہو جاتا اور یہ کافی دفعہ ہو تا رہا یہاں تک کہ میں سیر ہو گئی.اچھی طرح پانی پی کے تسلی ہو گئی.حضرت ام شریک نے باقی ماندہ پانی اپنے جسم پر اور کپڑوں پر پھینک لیا.جب وہ لوگ اٹھے اور انہوں نے پانی کے آثار اور آپ کی اچھی حالت دیکھی تو انہوں نے یہ کہا کہ تو نے رسیاں وغیرہ کھول کر ہمارے پانی میں سے پیا ہے.حضرت ام شریک نے جو ابا انہیں کہا کہ

Page 614

599 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم نہیں اللہ کی قسم! میں نے ایسا ہر گز نہیں کیا.آپ نے سارا واقعہ ان لوگوں کو سنایا تو اس پر انہوں نے کہا کہ اگر تو ایسا ہے جیسا تو بیان کرتی ہے تو تمہارا دین سچا ہے.اس کے بعد انہوں نے اپنے پانی کے مشکیزوں میں دیکھا تو وہاں اتنا پانی تھا جتنا انہوں نے چھوڑا تھا.اسی بات پر وہ لوگ اسلام بھی لے آئے.(الاصابة في تمييز الصحابة - جلد 8 - كتاب النساء فيمن عرف الكنية من النساء حرف الشین ام شریک “صفحہ 418-417) تو یہ بھی ایک عجیب نظارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبر کا اجر اسی وقت دیا.تین دن کی بھوک پیاس کو اپنے اس پیار کے انداز میں مٹایا اور خود انتظام فرما دیا.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو فگیہ، یہ بنو عبد الدار کے غلام تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو وہ لوگ آپ کو تکلیفیں دیتے تھے تاکہ اسلام سے پھر جائیں.مگر آپ انکار کر دیا کرتے تھے.بنو عبدالدار سخت گرمی میں دو پہر کے وقت آپ کے کپڑے اتار کر اور لوہے میں جکڑ کر کھڑا کر دیتے تھے.پھر ایک چٹان لا کر آپ کی پشت پر رکھ دیتے تھے.اس اذیت کی وجہ سے آپ کے حواس گم ہو جاتے تھے.لیکن یہ نہیں ہوا کہ اپنے صبر واستقامت میں انہوں نے لغزش آنے دی ہو.الاستیعاب جلد 4 کتاب الکنی.باب الفاء "ابو کلیہ - صفحہ 293.دار لكتب العلمية- بيروت 2002ء) حضرت بلال کا واقعہ ہم سنتے رہتے ہیں.امیہ بن خلف کے حبشی غلام تھے.امیہ ان کو سخت گرمی میں دو پہر کے وقت باہر لے جاتا اور زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے پتھر ان کے سینے پر رکھ کر کہتا.لات اور عربی کی پرستش کر اور محمد کا انکار کر.ورنہ اسی طرح عذاب دے کر مار دوں گا.بلال کہتے احد احد کہ اللہ ایک ہے ، اللہ ایک ہے.ایک روز حضرت ابو بکر نے ان پر یہ جو روستم دیکھا تو امیہ بن خلف کو ایک غلام دے کر اس کے بدلے میں حضرت بلال کو خرید کر آزاد کر دیا.السيرة النبوية لابن ہشام.ذكر عدوان المشركين على المستضعفين ممن اسلم.صفحه 235ء) پھر روایات میں ایک مثال حضرت خباب کی بھی آتی ہے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت خباب ان کی مجلس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حضرت خباب کو بلا کر اپنی خاص مسند پر بٹھایا اور فرمایا کہ خباب ! آپ اس لائق ہیں کہ میرے ساتھ اس مسند پر بیٹھیں.میں نے نہیں دیکھا کہ آپ سے بڑھ کر اس جگہ میرے ساتھ بیٹھنے کا کوئی مستحق ہو سوائے بلال کے.انہوں نے کہا اے امیر المومنین ! بے شک بلال بھی حقدار ہیں لیکن بلال کو مشرکین کے ظلم سے بچانے والے موجود تھے.لیکن میرا تو کوئی بھی نہیں تھا جو مجھے ان کے ظلم سے بچاتا.ایک دن مجھ پر ایسا بھی آیا کہ مجھے کافروں نے پکڑ لیا اور آگ جلا کر مجھے اس میں جھونک دیا.پھر ان میں سے ایک نے میرے سینے پر پاؤں رکھ دیا.پھر آپ نے کپڑا اٹھایا.حضرت عمرؓ کو اپنی پشت دکھائی تو وہاں جلد پر جلنے کی وجہ سے (کھال جلنے کی وجہ سے اور چربی جلنے کی وجہ سے ) سفید لکیروں کے نشانات تھے.( الطبقات الکبری لابن سعد - جزء 3 - صفحہ 88 - الطبقة الاولى على السابقة فى الاسلام خباب بن الارت)

Page 615

خطبات مسرور جلد هشتم 600 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 سة حضرت خباب بن ارت لوہار تھے اور تلواریں بنایا کرتے تھے.رسول اللہ صلی ا یکم ان کی تالیف قلب کے لئے ان کے پاس آیا کرتے تھے.اس بات کا پتہ ان کی مالکن اتم انمار کو لگ گیا.وہ ایک لوہا گرم کر کے آپ کے سر پر رکھ دیا کرتی تھی.حضرت خباب نے نبی کریم صلی یکم کی خدمت میں اس کا ذکر کیا.آپ نے دعا کی: اللَّهُمَّ انْصُرُ خَبَابا.اے اللہ ! خباب کی مدد فرما.اس کے نتیجے میں آپ کی مالکہ اتم انمار کو سر میں ایک تکلیف لاحق ہو گئی جس سے وہ کتوں کی طرح چھینے لگتی تھی.اور اس کا علاج وہاں کے جو حکیم تھے انہوں نے یہ بتایا کہ لوہا گرم کر کے اس کے سر پر رکھو.حضرت خباب کہتے ہیں کہ میں پھر اس کے سر کو گرم لوہے سے داغا کر تا تھا.(اسد الغابۃ.جلد اول.خباب بن الارت باب الخاء والباء صفحہ 675.دارالفکر بیروت.2003ء) اللہ تعالیٰ نے اس طرح بھی بدلہ لیا اور صبر کا اس طرح انتقام لیا.حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب رسول اللہ صلی املی کام کے اصحاب کو آزمائش میں دیکھا جبکہ وہ ولید بن مغیرہ کی پناہ میں صبح وشام امن میں رہتے تھے.تو انہوں نے سوچا کہ اللہ کی قسم ایک مشرک شخص کی پناہ میں میر اصبح و شام بسر کرنا یقینا میرے نفس کی کسی بڑی خرابی کی وجہ سے ہے.کیونکہ میرے ساتھی اور دینی بھائی تو اللہ تعالیٰ کی خاطر مصائب اور تکالیف کو برداشت کر رہے ہیں.اس پر آپ ولید بن مغیرہ کی طرف نکلے اور اسے کہا کہ اے ابو عبد الشمس ! تمہاری پناہ پوری ہو گئی.میں تمہاری پناہ واپس کر تا ہوں.اس نے پوچھا اے میرے بھائی کے بیٹے ! کیوں؟ کیا میری قوم میں سے کسی نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے ؟ آپ نے کہا نہیں.لیکن میں اللہ کی پناہ کو پسند کرتا ہوں.اور میں اس کے علاوہ کسی اور کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا.ولید نے کہا کہ تم مسجد میں میرے ساتھ چلو یعنی کعبہ میں اور جس طرح میں نے تمہیں اعلانیہ طور پر پناہ دی تھی اسی طرح تم بھی اعلانیہ طور پر میری پناہ مجھے واپس لوٹا دو.حضرت عثمان بن مظعون کہتے ہیں کہ ہم مسجد پہنچے اور ولید نے کہا کہ یہ عثمان ہے اور میری امان مجھے لوٹانے آیا ہے.حضرت عثمان نے کہا.اس نے سچ کہا ہے.میں نے اسے امان کو پورا کرنے والا اور معزز پایا ہے.لیکن میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی پناہ میں آنا نہیں چاہتا.اس لئے میں نے اس کی امان اسے لوٹا دی ہے.پھر حضرت عثمان چلے گئے.لبید بن ربیعہ ایک مجلس میں قریش کے لوگوں کو اپنے اشعار سنارہا تھا.حضرت عثمان بن مظعون بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے ، جب لبید نے یہ کہا کہ أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے.جس پر حضرت عثمان بن مظعون نے کہا تم نے سچ کہا.پھر لبید نے کہا وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلُ اور ہر نعمت لا محالہ ختم ہونے والی ہے.اس پر حضرت عثمان بن مظعون نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے

Page 616

601 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہو.جنت کی نعمت کبھی زائل نہیں ہو گی.لبید بن ربیعہ نے کہا کہ اے قریش کے گروہ ! تم میں سے کوئی بھی کبھی مجھے تکلیف نہیں دیتا تھا.یہ طریق تم میں کب سے شروع ہو گیا ہے.ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ یہ شخص اپنے ساتھیوں سمیت ایک بیوقوف ہے جس نے ہمارے دین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے.اس لئے تو اس کی بات سے شخص اپنے دل میں کوئی برا نہ محسوس کر.حضرت عثمان نے اس کا جواب دیا یہاں تک کہ معاملہ بڑھ گیا اور ایک کھڑا ہوا اور آپ کی آنکھ پر مگامارا اس کی وجہ سے آپ کی آنکھ باہر نکل آئی.ولید بن مغیرہ پاس بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا.اس نے کہا اللہ کی قسم ! اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تو ایک روک والی امان میں ہو تا تو تیری آنکھ کو جو صدمہ پہنچا ہے اس سے وہ صحیح سلامت رہتی.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میری درست آنکھ بھی اسی سلوک کی محتاج ہے جو اس کی ساتھی کے ساتھ ہوا ہے.اور اے ابو عبد الشمس! یقیناً میں اس ذات کی پناہ میں ہوں جو تم سے زیادہ معزز ہے اور زیادہ قادر ہے.ولید بن مغیرہ نے اسے کہا کہ آؤ میرے بھائی کے بیٹے اگر تم چاہو تو میری پناہ میں واپس آسکتے ہو.لیکن حضرت عثمان نے انکار کر دیا.(السيرة النبوية لابن ہشام - قصة عثمان بن مظعون فی رو جوار الولید - صفحہ 269.مطبوعہ بیروت.ایڈیشن 2001ء) آنحضرت صلی ا ہم نے عشق و محبت اور صبر کے نئے زاویے صحابہ کو دیئے.واقعہ رجیع میں جن صحابہ کو قید کیا گیا تھا ان میں سے ایک حضرت زید بن دشنہ بھی تھے.صفوان بن امیہ نے ان کو خریدا تھا تا کہ اپنے باپ کے بدلے ان کو قتل کر سکے.جب حضرت زید کو قتل کرنے کے لئے تنعیم لے جایا گیا تو وہاں ابو سفیان نے کہا اے زید ! میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تو یہ پسند نہیں کرے گا کہ محمد (صلی لین تیری جگہ یہاں قتل کئے جائیں اور تو اپنے گھر والوں میں ہو.حضرت زید نے جواب دیا اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمدعلی ای کمی کو اس جگہ جہاں پر وہ اس وقت ہیں کوئی کانٹا چھے اور میں اپنے گھر والوں میں بیٹھا ہو اہوں.ابو سفیان نے کہا جس طرح محمد علی کری) کے اصحاب محمد (صلی الل) سے محبت کرتے ہیں ایسی محبت میں نے کسی کو کسی شخص سے کرتے ہوئے نہیں دیکھا.(اسد الغابة - جلد 2 صفحہ 147 زید بن الدنية - دار الفکر بیروت 2003ء) الله سة پھر اس زمانے کی جو مائیں تھیں وہ کس طرح اپنے بچوں کو صبر کی اور حوصلہ کی تلقین کیا کرتی تھیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ جس دن حضرت عبد اللہ بن زبیر شہید کئے گئے اُس روز وہ اپنی والدہ کے پاس تشریف لائے.والدہ نے حضرت زبیر سے کہا کہ اے میرے بیٹے ! قتل کے خوف سے ہر گز کوئی ایسی شرط قبول نہ کر لینا جس میں تمہیں ذلت برداشت کرنی پڑے.اللہ کی قسم! عزت کے ساتھ تلوار کھا کر مر جانا اس سے بہتر ہے کہ ذلت کے ساتھ کوڑے کی مار بر داشت کر لی جائے.(اسد الغابة- جلد 3.صفحہ 139 - عبد اللہ بن زبیر “.دار الفکر بیروت 2003ء) اس روایت سے ماں کے عزم اور غیرت ایمانی کا بھی پتہ چلتا ہے جنہوں نے اپنے بیٹے کو یہ تلقین کی کہ

Page 617

602 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کبھی ایمان میں کمزوری نہ دکھانا.قربانیوں اور صبر کے یہ عجیب نمونے ہیں جو ہمیں اسلام کی تاریخ میں عورتوں اور مر دوں، نوجوانوں اور بوڑھوں ہر جگہ میں نظر آتے ہیں.ان نمونوں کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ہمارے نبی صلی عوام نے اپنے زمانے میں خود سبقت کر کے ہر گز تلوار نہیں اٹھائی.بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اٹھایا.اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دکھ اٹھاؤ اور صبر کرو.ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا.وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا.ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے.وہ آگ اور پانی کے ذریعے سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شر کے مقابلے سے ایسے باز رہے کہ گویاوہ شیر خوار بچے ہیں.کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی امتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجو د قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنالیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گر وہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردمی اور مردانگی کے پھر خون خوار دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سید و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانے میں بھی آپ کے جانثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے.اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی.ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے.اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو تیار ہو گئے تھے.بے شک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی امت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاقِ فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سنتے ہیں تو فی الفور دل میں گزرتا ہے کہ قرائن اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب در اصل بزدلی اور عدم قدرت انتقام ہو.مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو در حقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو.اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے.یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے.اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلاؤں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدت تک لمبا تھا در حقیقت بے نظیر ہے.اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گزشتہ راستبازوں میں سے اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے ؟“.

Page 618

خطبات مسرور جلد هشتم 603 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 نومبر 2010 فرمایا: ” اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پر کیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی یم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی ان کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم - غرض ہمیشہ آنحضرت ملا نم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکم مقابلہ آگیا.اب اس قسم کے ہے.صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسی کے حواریوں میں سے دستیاب کر کے ہمیں بتلاؤ“.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 11-10) اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمیشہ صبر اور استقامت دکھانے کی توفیق دیتا چلا جائے.خاص طور پر ان جگہوں پر ، ان ممالک میں ، پاکستان میں اور بعض اور جگہوں پر جہاں احمدیوں پر بڑی سختیاں کی جارہی ہیں، ان کا جینا دو بھر کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور استقامت عطا فرمائے اور ان کے دشمنوں کی بھی اپنی خاص قدرت دکھاتے ہوئے پکڑ کے سامان پیدا فرمائے.ہمارا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو جذب کرنے والا ہو اور ہم اس کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 50 مورخہ 10 دسمبر تا16 دسمبر 2010 صفحہ 5 تا8)

Page 619

خطبات مسرور جلد ہشتم 604 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010ء بمطابق 26 نبوت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: گزشتہ خطبہ میں میں نے صبر کے عظیم خُلق کے بارہ میں آنحضرت صلی للی کم کی تعلیم ، آپ صلی علیہ کم کا اسوہ حسنہ اور صحابہ علیہم السلام کی چند مثالیں نمونے کے طور پر پیش کی تھیں.یہ اعلیٰ خُلق جس کے اپنانے کی آنحضرت مصلی کم نے اپنے ماننے والوں کو تلقین فرمائی اور سب سے بڑھ کر اپنا اسوہ پیش کیا، اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة : 46) پر عمل کیا جائے.اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہوئے اور دعاؤں کے ذریعے وہی لوگ چاہ سکتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہو، اُس پر تو گل ہو.اس یقین پر قائم ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے صبر اور خالص ہو کر اس کے آگے جھکنے کی وجہ سے ضرور ہماری مدد فرمائے گا.پس آنحضرت صلی اللظلم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے جو اس بات کا ادراک اور ایمان رکھتا ہو ، یقین رکھتا ہو.اور پھر آپ کی قوتِ قدسی سے صحابہ کو یہ ادراک اور ایمان حاصل ہوا.پس انہوں نے اپنے اس عمل کی وجہ سے مختلف موقعوں پر یہ نظارے دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کس طرح ان کے شامل حال رہی.اس زمانے میں آنحضرت صلی ال نیم کے عاشق صادق سے بڑھ کر اور کون اس بات کا فہم اور ادراک رکھ سکتا ہے کہ اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة کی روح کیا ہے ؟ اور یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اصحاب میں پیدا کرنے کی کوشش فرمائی اور پیدا کی.مختلف ارشادات اور تحریرات کے ذریعے اپنی جماعت کی تربیت کے لئے اُن کو اس خُلق پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی.صبر اور حضرت مسیح موعود کا نمونہ پس آج آنحضرت صلی ا ظلم کے عاشق صادق کی یہ جماعت ہے جو اس تربیت کی وجہ سے صبر و استقامت کے نمونے دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے صرف اور صرف اسی کے حضور اپنے دل کی حالت پیش کرتی ہے.اور یہ سب عملی رنگ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کر کے دکھایا اور اس تربیت کا یہی اثر اب تک جماعت میں چلتا چلا آ رہا ہے کہ جماعت اس اُسوہ کو، اس اہم خُلق کو قائم

Page 620

605 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم رکھے ہوئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے دعویٰ کے بعد ہر قسم کی سختیوں سے گزرنا پڑا لیکن آپ نے نہ صرف خود ہمیشہ حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے اصحاب کو بھی یہی کہا کہ اگر میرے ساتھ منسلک ہوئے ہو تو پھر وہ نمونے قائم کرنے ہوں گے جن کا اُسوہ آنحضرت صلی علی کرم نے قائم فرمایا تھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کی تھی.اس وقت میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے بعض واقعات پیش کروں گا کہ کس طرح آپ علیہ السلام نے مختلف مواقع پر چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑی باتوں تک صبر کا نمونہ دکھایا.اپنے ماننے والوں کو بھی اس کی نصیحت کی اور بڑی سختی سے اس بارہ میں عمل کرنے کے لئے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو براہِ راست بھی مختلف وقتوں میں الہاما اس اہم امر کی طرف توجہ دلائی کہ صبر اور اعلیٰ اخلاق کا دامن ہمیشہ پکڑے رہنا اور چاہے جو بھی حالات ہو جائیں، دشمن چاہے جیسی بھی ذلیل اور گھٹیا حرکتیں کرے، نقصان پہنچانے کے چاہے جتنے بھی حیلے اور وسیلے تلاش کئے جائیں اور عملاً نقصان پہنچائے، تمہارا صبر اور استقامت کا دامن کبھی نہیں چھوٹنا چاہئے.دعاؤں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے چلے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے انتظار میں رہو.اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ابتلا اور آزمائشیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے وہ بندے اُن کو اللہ کی خاطر برداشت کرتے ہیں.چنانچہ براہین احمدیہ میں آپ علیہ السلام نے اس بارہ میں اپنے ایک الہام کا ذکر فرمایا ہے.اُس کے الفاظ یوں ہیں کہ الْفِتْنَةُ هُهُنَا فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ أَلَا إِنَّهَا فِتْنَةٌ مِّنَ اللهِ لِيُحِبّ حُبَّاجَمَّا حُبًّا مِّنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْأَكْرَمِ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذِ.اس جگہ فتنہ ہے.پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا ہے.خبر دار ہو.یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے.اُس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے.وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں.(یعنی کبھی وہ ختم نہیں ہوتی).(براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 610-609 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) پس نبوت کے دعوے سے بھی پہلے، بیعت لینے سے بھی پہلے بلکہ ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کے اعلیٰ خُلق کی جو تلقین فرمائی تھی اس کا اظہار اور اس پر عمل آپ کی زندگی کے آخری لمحہ تک جاری رہا.جس کی بعض مثالیں جیسا کہ میں نے کہا میں پیش کروں گا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھر اہوار سالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور بھیجا.اپنی رپورٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ میں نے 27 جولائی 1898ء کے الحکم میں اس کیفیت کو درج کر دیا ہے.کہتے ہیں کہ آج قریباً تیس سال ہوئے جب اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوصلہ، ضبط نفس اور توجہ الی اللہ پر غور کرتے ہوئے پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام از مولانا یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 463-462)

Page 621

خطبات مسرور جلد ہشتم 606 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 بے تحاشا گالیوں سے بھرا ہوا جور سالہ تھا آپ نے اُس کے جواب میں پورے حلم اور حوصلہ اور صبر و تحمل کا اظہار کیا.آپ کے سکونِ خاطر اور کوہ و قاری کو کوئی چیز جنبش نہ دے سکتی تھی.بڑی پر سکون طبیعت تھی.بڑی باوقار طبیعت تھی.یعنی اس طرح کہ جس طرح پہاڑ ہو.گویا کہ وہ ایک عظیم شخصیت تھے.وقار کا ایک پہاڑ تھے اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کسی قسم کی گالیوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہو تا تھا.یعنی کبھی یہ نہیں ہوا کہ بے و قاری دکھاتے ہوئے گالیوں کے جواب میں ، گالیوں کا جواب آپ کی طرف سے جائے.فرماتے ہیں کہ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ خدا تعالیٰ کی وحی جو آپ پر ان الفاظ میں نازل ہوئی تھی کہ فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (احقاف: 36) فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اُسی خدا نے وہ خارق عادت اور فوق الفطرت صبر اور حوصلہ آپ کو عطا فرمایا تھا جو اولوا العزم رسولوں کو دیا جاتا ہے.قبل از وقت خدا تعالیٰ نے متعدد فتنوں کی آپ کو اطلاع دی تھی اور وہ فتنے اپنے اپنے وقت پر پوری شدت اور قوت کے ساتھ ظاہر ہوئے.مگر کسی موقعہ اور مرحلہ پر آپ کے پائے ثبات کو جنبش نہ ہوئی.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 464-463) پھر ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مزید لکھتے ہیں کہ محبوب رائیوں والے مکان کا واقعہ ہے.ایک جلسہ میں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک برہمو لیڈر ( غالباً انباش موزم دار بابو تھے) حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے (ایک ہندو لیڈر استفسار کر رہے تھے ، سوال پوچھ رہے تھے ).حضرت جواب دیتے تھے.اسی اثناء میں ایک بد زبان مخالف آیا اور اس نے حضرت مسیح موعود کے بالمقابل نہایت دل آزار اور گندے حملے آپ پر کئے.کہتے ہیں وہ نظارہ اس وقت بھی میرے سامنے ہے.آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ، جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا کہ پگڑی کے شملے کا ایک حصہ منہ پر رکھ لیا کرتے تھے.پگڑی کا حصہ منہ پر رکھ دیا کرتے تھے.یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے.خاموش بیٹھے رہے ، اس کی گالیاں سنتے رہے اور وہ شورہ پشت بکتا رہا.فسادی طبیعت کا آدمی بولتا رہا.آپ اسی طرح پر مست اور مگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہو ہی نہیں رہا یا کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے.اس ہندو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہامگر اس نے پر واہ نہ کی.حضرت نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں، کہنے دیجئے.آخر وہ خود ہی بکواس کر کے تھک گیا اور اٹھ کر چلا گیا.برہمولیڈ ر بے حد متکثر ہوا.اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے.اس وقت حضور اسے چپ کر اسکتے تھے.اپنے مکان سے نکلوا سکتے تھے ( یعنی آیا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جگہ پر تھا.) اور بکو اس کرنے پر آپ کے ایک ادنی اشارہ سے اُس کی زبان کائی جاسکتی تھی.مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبط نفس کا عملی ثبوت دیا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 444-443)

Page 622

607 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ جالندھر کے مقام پر وہ یعنی میر عباس علی صاحب! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور بیٹھے ہوئے اعتراضات کر رہے تھے.حضرت مخدوم الملت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس مجلس میں موجود تھے اور مجھے خود انہوں نے ہی یہ واقعہ سنایا.کہتے ہیں کہ مولانا نے فرمایا کہ میں دیکھتا تھا کہ میر عباس علی صاحب ایک اعتراض کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت شفقت اور رافت اور نرمی سے اس کا جواب دیتے تھے.اور جوں جوں حضرت صاحب اپنے جواب اور طریق خطاب میں نرمی اور محبت کا پہلو اختیار کرتے ، میر صاحب کا جواب بڑھتا جاتا.یہاں تک کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی اور بے ادبی پر اتر آیا اور تمام تعلقات دیرینہ اور شرافت کے پہلوؤں کو ترک کر کے تو تو، میں میں پر آ گیا.میں دیکھتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس حالت میں اسے یہی فرماتے: جناب میر صاحب! آپ میرے ساتھ چلیں.میرے پاس رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کوئی نشان ظاہر کر دے گا اور آپ کو رہنمائی کرے گا وغیرہ وغیرہ.مگر میر صاحب کا غصہ اور بیا کی بہت بڑھتی گئی.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں حضرت کے حلم اور ضبط نفس کو دیکھتے ہوئے میر عباس علی صاحب کی اس سبک سری کو برداشت نہ کر سکا.جو زیادتی ہو رہی تھی، اس کو برداشت نہیں کر سکا کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا بڑا صبر اور حلم دکھا رہے تھے اور (مولوی عبد الکریم صاحب) کہتے ہیں، میں جو دیر سے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم سمجھ رہا تھا کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ اس طرح حملہ کر رہا ہے اور میں خاموش بیٹھا ہوں، مجھ سے نہ رہا گیا اور میں باوجود اپنی معذوری کے اس پر لپکا اور للکارا اور ایک تیز آوازہ اس پر گسا.( اونچی آواز میں اس کو للکارا) جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اُٹھ کر بھاگ گیا.حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ضبط نفس اور حلم کا جو نمونہ دکھایا، میں اسے دیکھتا تھا اور اپنی حرکت پر منفعل ہو تا تھا.اور مجھے خوشی بھی تھی کہ میں نے اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم نہیں بنایا کہ وہ میرے سامنے حضرت کی شان میں نا گفتنی باتیں کہے اور میں سنتار ہوں.کہتے ہیں گو بعد کی معرفت سے مجھ پر کھلا کہ حضرت کا ادب میرے اس جوش پر غالب آنا چاہئے تھا.(ماخوذاز سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 445-444) یعنی ادب کا یہ تقاضا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بیٹھا تھا تو خاموش رہتا.گو بے شک جوش میرے دل میں تھا.بلکہ کئی ایسے موقعوں پر ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب میں سے کسی نے اٹھ کے کسی پر زیادتی کی یا جوش دکھایا تو آپ نے اس پر ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا کہ غیروں کے ساتھ اس طرح نہیں کرنا چاہئے.

Page 623

خطبات مسرور جلد هشتم 608 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تئیں جہاں گرد اور سرد و گرم زمانہ دیدہ و چشیدہ ظاہر کرتا تھا ( اپنے آپ کو یہ سمجھتا تھا کہ میں دنیا میں بہت پھرا ہوا ہوں اور بڑا زمانہ دیکھا ہوا ہے اور ہر چیز کا مجھے علم ہے.ہماری مسجد میں آیا اور حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے باب کلام وا کیا.تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا.آپ اپنے دعویٰ میں کا ذب ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ پر کہتا تھا کہ آپ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور میں نے ایسے مکار بہت دیکھے ہیں.( نعوذ باللہ).اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں.غرض ایسے ہی بیباکانہ الفاظ کہے.مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا.بڑے سکون سے سنا کئے، اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا.کسی کا کلام کیسا ہی بیہودہ اور بے موقع ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم میں یانثر میں کیسا ہی بے ربط اور غیر موزوں ہو ، آپ نے سننے کے وقت یا بعد خلوت میں کبھی نفرت و ملامت کا اظہار نہیں کیا.( نہ سننے کے وقت ، نہ بعد میں.کبھی علیحد گی میں اس شخص کے بارہ میں نفرت یا ملامت کا اظہار نہیں کیا).کہتے ہیں بسا اوقات بعض سامعین اس دل خراش لغو کلام سے گھبرا اٹھے اور آپس میں نفرین کے طور پر کانا پھوسی کی ہے.اور مجلس کے برخاست ہونے کے بعد تو ہر ایک نے اپنے اپنے حوصلے اور ارمان بھی نکالے ہیں کہ یہ کیا بیہودگی ہو رہی تھی.(جو بھی غصہ آپس میں باتیں کر کے نکال سکتے تھے نکالتے رہے.مگر مظہر خدا کے حلیم اور شاکر ذات نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشارہ بھی کبھی بات نہیں کی کہ کون مجھے کیا کہہ گیا تھا؟ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.صفحہ 44) صبر کرنا چاہیے گالیوں سے کیا ہوتا ہے پھر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ہی بیان فرماتے ہیں کہ 29 جنوری 1904ء کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حضور ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا کہ فلاں اخبار جو ہے بڑی گالیاں دیتا ہے.آپ نے فرمایا صبر کرنا چاہئے.ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ ایسا ہی آنحضرت صلی ال نیم کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذ تم کہا کرتے تھے.تو آپ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ میں ان کی مذمت کو کیا کروں.میر انام تو اللہ تعالیٰ نے محمد رکھا ہوا ہے (میلی لی ).فرمایا کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے ، يَحْمَدُكَ الله مِنْ عَرْش یعنی اللہ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے، تعریف کرتا ہے اور یہ وحی براہین احمدیہ میں موجود ہے.( ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 450) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی پھر لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بالمشافہ زبانی گندے حملے ہی نہ ہوتے تھے (یعنی کہ آمنے سامنے سے ہی گندے حملے نہیں ہوتے تھے) اور آپ کی جان پر

Page 624

609 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اس طرح کے بازاری حملوں پر ہی اکتفا نہ کیا جاتا تھا.آپ کے قتل کے فتووں اور منصوبوں پر پھر اس کے لئے کوششوں کو ہی کافی نہیں سمجھا جاتا تھا.قتل کے لئے فتوے بھی موجود تھے.اس کے لئے منصوبے بھی بنائے گئے.کوششیں بھی کی گئیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اخبارات اور خطوط میں بھی گالیوں کی بوچھاڑ کی جاتی تھی.اور پھر اسی پر بس نہیں.ایسے خطوط عموما بے رنگ آپ کو بھیج دیئے جاتے تھے ، یعنی جس پر ٹکٹ نہیں لگایا جاتا تھا.ڈاک کے ذریعے سے خط بھیجے جاتے تھے اور ٹکٹ نہیں لگایا جاتا تھا.اگر ٹکٹ نہ لگا ہوا خط آئے تو جو خط وصول کرتا ہے وہ اس ٹکٹ کی جو postal stamp ہے اس کے پیسے ادا کرتا ہے.سولوگ اس طرح بغیر ٹکٹ لگائے خط بھیج دیا کرتے تھے اور اس کے پیسے بھی پھر اپنے پاس سے وصول کرنے والے کو دینے پڑتے تھے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی ادائیگی کرتے تھے.کہتے ہیں کہ خدا کا بر گزیدہ ان خطوط کو ڈاک کا محصول اپنی گرہ سے ادا کر کے لیتا تھا (جیسا کہ میں نے بتایا) اور جب کھولتا تھا تو ان میں اول سے لے کر آخر تک گندی اور فحش گالیوں کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا.آپ ان پر سے گزر جاتے اور ان شریروں اور شوخ چشموں کے لئے دعا کر کے ان کے خطوط ایک تھیلے میں ڈال دیتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان ایام میں اپنی مخالفت میں حد سے بڑھے ہوئے تھے.اور اس نے اپنی گالیوں پر اکتفانہ کر کے سعد اللہ لدھیانوی، جعفر زٹلی اور بعض دوسرے بے باک آدمیوں کو اپنارفیق اور معاون بنار کھا تھا.وہ ہر قسم کی اہانت کرتے مگر خدا کے برگزیدہ کو اس کا شیریں کلام اِنِّي مُهِينٌ مَنْ آزاد اهانتك تسلی دیتا اور کامل صبر سے ان گندی تحریروں پر سے گزر جاتے.ایک مر تبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور بھیجا.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے 27 جولائی 1898ء کے احکم میں اس کو درج کر دیا.کہتے ہیں کہ آج بھی میں تیس سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوصلہ اور ضبط نفس اور توجہ الی اللہ پر غور کرتے ہوئے پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں.انہوں نے آگے شعر لکھا ہے کہ.دل میں اک درد اُٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے کیا جانئے ہمیں کیا یاد آیا پرانے واقعات یاد کر کے کہتے ہیں اب بھی مجھے رونا آجاتا ہے.لکھتے ہیں کہ 25 جولائی 1898ء کا واقعہ ہے جبکہ ایک شخص محمد ولد چو غصّہ قوم اعوان ساکن ہمو گھگڑ ضلع سیالکوٹ نے مولوی صاحب کا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کیا جسے مولوی محمد حسین صاحب نے بھیجا تھا.آپ نے وہ رسالہ لانے والے قاصد کو اس پر ایک فقرہ لکھ کر واپس کر دیا اور وہی اس کا جواب تھا.(مولوی محمد حسین کا جو رسالہ لے کر ان کی طرف سے آیا تھا اس پر ایک فقرہ لکھا اور واپس کر دیا کہ لے جاؤ ان کو دے دو) اور جواب مذکور مولانا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضرین کو پڑھ کے سنایا، (جو جواب لکھا تھا وہ پھر مجلس میں پڑھ کے سنایا گیا ) اور سب نے آمین کہی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا

Page 625

610 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جواب یہ تھا کہ رَبّ اِنْ كَانَ هَذَا الرَّجُلُ صَادِقًا فِي قَوْلِهِ فَاكْرِمْهُ وَإِن كَانَ كَاذِبًا فَخُذُهُ أَمِيْن.وہ خط جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مضمون لکھ کر بھیجا، اس پر آپ نے یہ جواب لکھ کر بھیج دیا کہ اے میرے رب ! اگر یہ شخص اپنے اس قول میں جو اس نے کتاب میں لکھا ہے سچا ہے تو تو اس کو معزز اور مکرم بنادے.اور اگر جھوٹا ہے تو پھر آپ ہی اس سے مواخذہ کر اور اس جھوٹ کی وجہ سے پکڑ.آمین.اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کی.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 463-462) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے چوہدری حاکم علی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا.اور ایسا شر وع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا.مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے.اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکہ بوٹی اُڑ جاتی.مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے.آخر جب اس فحش زبانی کی حد ہو گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا.دو آدمی اسے نرمی سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں.اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپر د کر دیں.(ماخوذ از سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 257 روایت نمبر 286 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) نارة المسیح کی تعمیر اور لوگوں کے اعتراض کا جواب ا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حافظ روشن علی صاحب نے بتایا کہ جب منارۃ المسیح کے بننے کی تیاری ہوئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکایتیں کیں کہ اس منارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہو گی.(بے پردگی ہو گی) چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرے میں ملا.اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کرنے والے تھے ، وہ بھی اس کے ساتھ تھے.حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اسی کے ن گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڑھائل بیٹھا ہے ( ایک ہندو تھا اس کا نام تھا بڑھا کل) آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کوئی موقع ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو ، ( یعنی وہ شخص جو ہندو تھا کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے اس کو فائدہ پہنچانے کا موقع ملا ہو اور پھر میں نے اس میں کوئی کمی کی ہو بلکہ ہمیشہ اسے فائدہ پہنچایا ہے) اور پھر فرمایا کہ اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو.( یعنی وہ جب بھی اس کو موقع ملا اس نے ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں جب بھی موقع ملا اسے فائدہ پہنچایا.) حافظ صاحب نے بیان

Page 626

خطبات مسرور جلد ہشتم 611 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 کیا کہ میں اُس وقت بڑھائل کی طرف دیکھ رہا تھا ( وہ شخص وہیں سامنے بیٹھا ہوا تھا).اُس نے شرم کے مارے اپناسر نیچے اپنی رانوں میں دیا ہوا تھا.اپنے گھٹنوں میں سر دیا ہوا تھا.اور اس کے چہرے کا رنگ سفید پڑ گیا تھا.وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکا.(ماخوذ از سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 139-138 روایت نمبر 148 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) سچائی کے سامنے اگر اس طرح آمنے سامنے ہو جائیں تو کسی میں شرافت کی ہلکی سی بھی رمق ہو ، بے شک نقصان پہنچانے والا دشمن ہی ہو.تو وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا.( آج کل کے جو دشمن ہیں ان کے اخلاق تو بالکل ہی تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں.ان میں ذراسی بھی شرافت کی رمق نہیں.) ایک بغدادی ڈاکٹر اور حضور کا متحمل حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیان فرماتے ہیں کہ 13 فروری 1903 کو ایک ڈاکٹر صاحب لکھنو سے تشریف لائے.بقول ان کے وہ بغدادی الاصل تھے.اور عرصے سے لکھنو میں مقیم تھے.انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ چند احباب نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بغرض دریافت حال بھیجا ہے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پھر سوال وجواب کا سلسلہ شروع کیا.اُن کے بیان میں شوخی، استہزاء اور بیا کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور ان کی باتوں کا جواب دیتے تھے.سلسلہ کلام میں ایک موقع پر انہوں نے سوال کیا کہ عربی میں آپ کا دعوی ہے کہ مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا.( سوال کرنے والے نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ فصیح عربی کوئی نہیں لکھ سکتا).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ ہاں.میرا دعویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے عربی زبان سکھائی ہے..کوئی نہیں لکھ سکتا.اس پر نووارد نے نہایت ہی شوخی سے مستہزیانہ طریق پر ( استہزاء کرتے ہوئے) کہا کہ بے ادبی معاف.آپ کی زبان سے توق ( قاف) بھی نہیں نکل سکتا.( اس نے آگے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جواب دیا کہ آپ کہتے ہیں کہ میں بڑی اچھی عربی لکھ سکتا ہوں، میرے سے زیادہ کوئی نہیں لکھ سکتا.لیکن آپ کی زبان سے تو عربی میں ق ( قاف) بھی ادا نہیں ہوتا).شیخ صاحب کہتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا.اس کا طریق بیان بہت کچھ دُکھ وہ تھا.ایسا تکلیف دہ تھا کہ ہم اسے برداشت نہ کر سکتے تھے.مگر حضرت کے حلم کی وجہ سے خاموش تھے.لیکن حضرت صاحبزادہ مولانا عبد اللطیف صاحب شہید مر حوم ضبط نہ کر سکے.وہ بھی وہاں مجلس میں بیٹھے تھے.وہ اس کی طرف لپک کر بولے کہ یہ حضرت اقدس ہی کا حوصلہ ہے.سلسلہ کلام کسی قدر بڑھ گیا (یعنی مولوی عبد اللطیف صاحب شہید اور اس شخص کے درمیان تلخی زیادہ بڑھ گئی ) اور یہ کہتے ہیں کہ قریب تھا دونوں گھتم گتھا ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مخلص اور جانثار غیور فدائی کو روک دیا.اس پر نو وارد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے کہا کہ استہزاء اور گالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم تو ناراض نہیں ہوتے.

Page 627

خطبات مسرور جلد ہشتم 612 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 یہاں تو خاکساری ہے ( یعنی میری طرف سے تو خاکساری ہے ، میں تو اس بات پر ناراض نہیں ہوا.اگر مولوی صاحب نے کچھ کیا تو انہوں نے اپنے دل کا جوش نکالا اور میں نے ان کو روک دیا).وہ آگے لکھتے ہیں کہ جب اس نے ق (قاف) ادانہ کرنے کا حملہ کیا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ لکھنو کا رہنے والا تو نہیں ہوں کہ میر الہجہ لکھنوی ہو.میں تو پنجابی ہوں.فرمایا کہ حضرت موسیٰ پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ لا يَكَادُ يُبين (الزخرف: 53) اور احادیث میں مہدی کی نسبت بھی آیا ہے کہ اس کی زبان میں لکنت ہو گی.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب سے جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضرت نے اپنی جماعت موجودہ کو ( جو لوگ وہاں بیٹھے تھے ان کو خطاب کر کے فرمایا کہ میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سب و شتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے ( یعنی گالیوں تک بھی نوبت جاوے) تو اس کو گوارا کرناچاہئے کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے.ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مُریدوں سے چاہتے ہیں.یہ بھی ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں.فرمایا کہ پیغمبر خدا صلی علیم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے یعنی کہ نرمی دکھائیں.کلمہ تو ہمارا ایک ہے.جب تک یہ نہ سمجھیں.جو کہیں اُن کا حق ہے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 451تا453) گالیوں سے بھرے ہوئے خط حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور جاکر ٹھہرے تو میں ان دنوں خواجہ صاحب کا، (خواجہ کمال الدین صاحب کا ملازم تھا اور حضرت صاحب کی ڈاک لا کر حضور کو پہنچایا کر تا تھا.اور ڈاک میں دو تین خط بے رنگ ہوا کرتے تھے.( جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے.بے رنگ خط جو ہوتے تھے ان میں عموما گالیاں ہوا کرتی تھیں اور اپنے پاس سے پیسے دے کر اُن خطوں کو وصول کرنا پڑتا تھا.) کہتے ہیں دو تین خط بے رنگ ہوا کرتے تھے جو میں وصول کر لیا کرتا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیا کرتا تھا.( وہ خط میں ڈاکخانہ سے وصول کر تا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیا کرتا تھا) اور حضرت صاحب مجھے ان کے پیسے دے دیا کرتے تھے.ایک دن میں نے خواجہ صاحب کے سامنے بے رنگ خط وصول کئے تو خواجہ صاحب نے مجھے روکا کہ بے رنگ خط مت لو.میں نے کہا میں تو ہر روز وصول کرتا ہوں اور حضرت صاحب کو پہنچاتا ہوں اور حضرت نے مجھے کبھی نہیں روکا.مگر اس پر بھی مجھے خواجہ صاحب نے سختی کے ساتھ روک دیا کہ یہ بے رنگ خط وصول نہیں کرنے.جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ڈاک پہنچانے گیا تو میں نے عرض کی کہ حضور! آج مجھے خواجہ صاحب نے بے رنگ خط وصول کرنے سے

Page 628

613 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم سختی سے روک دیا ہے.حضور فرمائیں تو اب بھی بھاگ کر ڈاکخانے سے لے آؤں ؟ حضرت صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے کہ ان بے رنگ خطوں میں سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ہو تا.اور یہ خط گمنام ہوتے ہیں.(نام بھی نہیں لکھا ہوتا.اگر یہ لوگ اپنا پتہ لکھ دیں تو ہم انہیں سمجھا سکیں مگر شاید یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں.حالانکہ ہمارا کام مقدمہ کرنا نہیں ہے.کہتے ہیں اس دن کے بعد سے پھر میں نے بے رنگ خط وصول کرنے چھوڑ دیئے.(ماخوذ از سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر 455 صفحہ 434 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ رسول بی بی صاحبہ بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کر دیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دے.( اُن کے چا زاد تھے جو اسلام سے بھی برگشتہ تھے.وہ کسی کو مقرر کر دیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دو.) چنانچہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ساری رات وہ شخص گالیاں نکالتا رہتا تھا.(جس کو مقرر کیا گیا ہے ، وہ آپ کے گھر کے سامنے کھڑا ہے، ساری رات اونچی اونچی گالیاں نکالتا چلا جا رہا ہے).اور جب سحری کا وقت ہو تا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو کہ یہ ساری رات گالیاں نکال نکال کے تھک گیا ہو گا.اس کا گلا خشک ہو گیا ہو گا.وہ کہتی ہیں کہ میں حضرت صاحب کو کہتی کہ ایسے کمبخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے تو آپ فرماتے ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے.(ماخوذ از سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم.روایت نمبر 1130 صفحہ نمبر 102-103 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) آپ کے دل میں کوئی جلانے والی آگ نہیں مولوی عبد الکریم صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجلس میں آپ کسی دشمن کا ذکر نہیں کرتے اور جو کسی کی تحریک سے ذکر آجائے تو بُرے نام سے یاد نہیں کرتے.(اوّل تو مجلس میں کسی دشمن کا ذکر ہی نہیں کرتے اور اگر ذکر آبھی جائے تو کبھی یہ نہیں ہوا کہ اس کو کسی بڑے نام سے پکارا ہو).یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں کوئی جلانے والی آگ نہیں.ورنہ جس طرح کی ایذا قوم نے دی ہے اور جو سلوک مولویوں نے کیا ہے اگر آپ اسے واقعی دنیا دار کی طرح محسوس کرتے تو رات دن گڑھتے رہتے.اور ہیر پھیر کر انہی کا مذکور در میان میں لاتے.اور یوں جو اس پریشان ہو جاتے اور کاروبار میں خلل آجاتا.زٹلی جیسا گالیاں دینے والا عرب کے مشرک بھی حضور سید سرور عالم صلی ا یکم کے مقابل نہ لا سکے.مگر میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ناپاک پرچہ اوقات گرامی میں کوئی بھی خلل کبھی بھی ڈال نہیں سکا.تحریر میں ان موذیوں کا بر محل ذکر کوئی دیکھے تو یہ شاید خیال کرے کہ رات

Page 629

614 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دن انہی مفسدین کا آپ ذکر کرتے ہوں گے.(اگر کبھی تحریر میں کسی بات میں ان لوگوں کا ذکر کر دیا تو شاید خیال آئے کہ رات دن شاید انہی لوگوں کا آپ کے دل میں خیال ہوتا ہو گا، تب یہ کتابوں میں ذکر ہو گیا.کہتے ہیں، نہیں اس طرح کبھی نہیں ہوا) بلکہ یک مجسٹریٹ کی طرح جو ایک مفوضہ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر پھر کسی کی ڈگری یا dismiss یا سزا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.وہ تو اس طرح کرتے تھے کہ جس طرح ایک مجسٹریٹ کرتا ہے، کوئی سرکاری افسر کرتا ہے کہ جو بھی اس کے فرائض میں شامل ہے وہ فیصلہ کر دیا تو پھر اس کے بعد اس کا کوئی تعلق نہیں ہو تا.(یہی حال آپ کا تھا.کتاب میں لکھنا تھا، لکھنے کی ضرورت محسوس کی، لکھ دیا.لیکن یہ نہیں ہے کہ پھر مجلسوں میں اور محفلوں میں اس کا ہی ذکر چلتا رہا ہے).کہتے ہیں کہ اور نہ اسے (جس طرح مجسٹریٹ کو ) در حقیقت کسی سے ذاتی لگاؤ یا اشتعال ہوتا ہے اسی طرح حضرت صاحب بھی تحریر میں ابطال باطل اور احقاق حق کے لئے لوجہ اللہ لکھتے تھے.(یعنی کہ حق کو ظاہر کرنے کے لئے اور جھوٹ کو جھٹلانے کے لئے ، اس کی حقیقت بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاطر لکھتے تھے.اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا).آپ کے نفس کا اس میں کوئی دخل نہیں ہو تا تھا.ایک روز فرمایا، میں اپنے نفس پر اتنا قابورکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتار ہے، آخر وہی شر مندہ ہو گا.اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی صفحہ 52-51.پبلشرز ابوالفضل محمود قادیان) حضرت میاں بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر پرانے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں مرزا امام الدین صاحب اور مرزا نظام الدین صاحب کو جانتے ہیں.یہ دونوں اپنی بے دینی اور دنیا داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت ترین مخالف تھے.بلکہ حقیقتا وہ اسلام کے ہی دشمن تھے.ایک دفعہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کے لئے حضور کے گھر کے سامنے مسجد مبارک کے قریب دیوار کھینچ کر راستہ بند کر دیا.یہ مشہور واقعہ ہے.اس کی وجہ سے نمازیوں کو دقت ہوتی تھی.ملاقاتیوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے جو آتے تھے آنے جانے میں دقت ہوتی تھی.اور تھوڑی سی جماعت جو تھی وہ سخت مشکل میں گرفتار تھے بلکہ سخت مصیبت میں گرفتار تھے گویا کہ قید ہو گئے تھے.اس وجہ سے وکلاء کے مشورے سے قانونی چارہ جوئی کرنا پڑی اور لمبا عرصہ یہ مقدمہ چلتا رہا.پھر آخر اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس مقدمے سے فتح ہوئی اور دیوار گرائی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے حضور سے اجازت لینے ، بلکہ اطلاع تک دینے کے بغیر مرزا امام دین صاحب اور نظام دین صاحب کے خلاف خرچے کی ڈگری کر دی اور اس کی وجہ سے ان کی جو جائیداد تھی اس کی قرقی کا حکم جاری ہو گیا.اور ( ان کے پاس) مرزا صاحبان کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا جو دیتے.انہوں نے باوجو د ساری دشمنی کے جب فیصلہ حضرت مسیح

Page 630

خطبات مسرور جلد ہشتم 615 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 موعود کے حق میں ہو گیا تو پھر لجاجت سے یہ خط لکھا کہ بھائی ہو کر اس قرقی کے ذریعے ہمیں کیوں ذلیل کرتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ وکیل پر سخت ناراض ہوئے کہ میں نے کب کہا تھا کہ یہ مقدمہ کرو؟ فوراً یہ واپس لیا جائے اور ان کو جواب بھیجا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں.کوئی قرقی وغیرہ نہیں ہو گی.یہ ساری کارروائی میرے علم کے بغیر ہوئی ہے.(ماخوذ از سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ 60-59- مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اس روایت کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو عشاء کے وقت اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام یا خواب یہ اطلاع دی تھی کہ یہ بار ان پر بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے مخالف رشتہ دار بہت تکلیف میں ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اطلاع دی کہ عدالت کا فرقی کا، جائیداد بیچنے کا جو حکم ہوا یہ ان پر بہت زیادہ بار ہے اور اس کی وجہ سے رشتے دار تکلیف میں ہیں).حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی.اسی وجہ سے فوراً آدمی بھیجا کہ جو ان کو جا کر بتادے کہ تمہیں سارا خرچ معاف ہے کوئی قرقی وغیرہ نہیں ہوگی.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 81.مطبوعہ ربوہ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانے میں خصوصاً ابتدائی ایام میں قادیان کے لوگوں کی طرف سے جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی.مرزا امام دین صاحب ( جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) اور مرزا نظام دین صاحب وغیرہ کی انگیخت سے قادیان کی پبلک خصوصاً سکھ ایذاء رسانی پر تلے ہوئے تھے.وہ لوگ ان لوگوں کو ، سکھوں کو بھڑکاتے تھے اور وہ خاص طور پر احمدیوں کو یا جو بھی شخص حضرت مسیح موعود سے ملنے آتا تھا اُسے بہت تکلیفیں دیا کرتے تھے.اور صرف باتوں تک ایذاء رسانی محدود نہیں تھی بلکہ دنگا فساد کرنے اور زدو کوب تک نوبت پہنچ جاتی تھی.مار پیٹ تک ہو جاتی تھی.اگر کوئی احمدی مہاجر بھولے سے کسی زمیندار کے کھیت میں رفع حاجت کے واسطے چلا جاتا( ہمارے دیہاتوں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ وہاں تو باقاعدہ انتظام نہیں ہوتا) تو وہ سکھ جو تھے انہیں مجبور کرتے تھے کہ اپنے ہاتھ سے اپنا گند اٹھائیں اور کئی دفعہ معزز احمدی اُن کے ہاتھوں سے مار بھی کھاتے تھے ، پٹ جاتے تھے.اور اگر کوئی احمدی ڈھاب میں سے کچھ مٹی لینے لگتا تو یہ لوگ مزدوروں سے ٹوکریاں اور کرالیں چھین کر لے جاتے اور اُن کو وہاں سے نکال دیتے.اور اگر کوئی سامنے سے کچھ بولتا تو گندی اور فخش قسم کی گالیوں کے علاوہ اسے مارنے کے واسطے تیار ہو جاتے.کہتے ہیں آئے دن شکایتیں حضرت صاحب کے پاس پہنچتی رہتی تھیں، مگر آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ صبر کرو.لوگوں کو ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ گالیاں سنو.بے شک ماریں کھاؤ.بس صبر کرو.بعض جو شیلے احمدی حضرت صاحب کے پاس آتے اور عرض کرتے کہ حضور ہم کو صرف ان کے مقابلہ کی اجازت دے دیں اور بس پھر ہم ان کو خود سیدھا کر لیں گے.حضور فرماتے: نہیں، صبر کرو.ایک دفعہ سید احمد نور مہاجر کابلی نے اپنی تکلیف کا اظہار کیا.(کابل کے رہنے والے تھے ، پٹھان تھے ) اور مقابلے کی اجازت چاہی.غصے کی طبیعت تھی.حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو

Page 631

616 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اگر امن اور صبر کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو یہاں رہو اور اگر لڑنا ہے اور صبر نہیں کر سکتے تو کابل چلے جاؤ.چنانچہ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے معزز احمدی جو کسی دوسرے کی ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ ذلیل و حقیر لوگوں کے ہاتھ سے تکلیف اور ذلت اٹھاتے تھے اور دم نہ مارتے تھے.مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب احمدی نے اپنے مکان کے واسطے ڈھاب سے کچھ بھرتی اٹھائی ( مکان کے لئے اس نے کچھ مٹی اُٹھائی.) تو سکھ وغیرہ ایک بڑا جتھہ بنا کر اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر اُن کے مکان پر حملہ آور ہو گئے.پہلے تو احمدی بچتے رہے لیکن جب انہوں نے بے گناہ آدمیوں کو مار ناشروع کیا اور مکان کو بھی نقصان پہنچانے لگے تو بعض احمدیوں نے بھی مقابلہ کیا جس پر طرفین کے آدمی زخمی ہوئے اور بالآخر حملہ آوروں کو بھا گنا پڑا.چنانچہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ قادیان کے غیر احمدیوں کو عملاً پتہ لگا کہ احمدیوں کا ڈر اُن سے نہیں بلکہ اپنے امام سے ہے.اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کی اور چونکہ احمدی سراسر مظلوم تھے اور غیر احمدی جتھہ بنا کر ایک احمدی کے مکان پر جارحانہ پر لاٹھیوں سے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے تھے اس لئے پولیس با وجود مخالف ہونے کے اُن کا چالان کرنے پر مجبور تھی.جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب ہتھکڑی لگتی ہے تو اُن کے آدمی حضرت صاحب کے پاس دوڑے آئے طور پر لا کہ ہم سے قصور ہو گیا ہے.حضور ہمیں معاف کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معاف کر دیا.(ماخوذ از سیرت المهدی جلد اول حصہ اول روایت نمبر 140.صفحہ 129 تا 131 مطبوعہ ربوہ) حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ میرٹھ سے احمد حسین شوکت نے ایک اخبار شحنہ ہند جاری کیا ہو اتھا.یہ شخص اپنے آپ کو مجدد السنۃ المشرقیہ کہا کرتا تھا.(یعنی کہ مشرقی زبانوں کا مجدد).حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا.اور اس طرح پر جماعت کی دل آزاری کرتا.میرٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی.کیونکہ وہاں سے ہی وہ گندہ پرچہ نکلتا تھا.2 اکتوبر 1902ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب شیخ عبد الرشید صاحب جو ایک معزز زمیندار اور تاجر ہیں تشریف فرما تھے.حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنہ کہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کر دوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے.یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں.اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں.(کیونکہ ایسا گندہ لٹریچر تھا کہ جو لوگ گندگی کے لحاظ سے اُس لٹریچر سے واقف ہیں، وہ کہیں گے کہ اس پر ضرور مقدمہ ہو نا چاہئے تھا).(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 114-113) پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مسیح موعود کی ایک نصیحت جو آپ نے اپنی جماعت کو کی لکھتے ہیں.مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الہ دین صاحب عرف فلاسفر نے جن کی زبان

Page 632

617 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کچھ آزاد واقع ہوئی ہے ، مولوی عبد الکریم صاحب کی کچھ گستاخی کی جس پر مولوی صاحب کو غصہ آگیا.انہوں نے فلاسفر صاحب کو تھپڑ مار دیا.اس پر فلاسفر اور تیز ہو گیا اور بُرا بھلا کہنے لگا.جس پر بعض لوگوں نے اس فلاسفر کو خوب اچھی طرح مارا پیٹا.اس پر اس نے چوک میں کھڑے ہو کر رونا چلانا شروع کر دیا.اتنی آواز بلند ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کانوں تک آواز پہنچ گئی.آپ نماز مغرب سے قبل مسجد میں تشریف لائے تو آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے اور آپ مسجد میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگے.اس وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی موجود تھے.آپ نے فرمایا کہ اس طرح کسی کو مارنا بہت ناپسندیدہ فعل ہے اور یہ بہت بُری حرکت کی گئی ہے.مولوی صاحب نے فلاسفر کا گستاخانہ رویہ اور اپنی بریت کے متعلق کچھ عرض کیا.آپ نے بڑے غصے میں فرمایا بہر حال یہ ناواجب بات ہوئی ہے.جب خدا کا رسول آپ لوگوں کے اندر موجود ہے تو آپ کو خود بخود اپنی رائے سے کوئی فعل نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ مجھ سے پوچھنا چاہئے تھا.کہتے ہیں کہ ان باتوں پر مولوی صاحب رو پڑے اور حضرت صاحب سے معافی مانگی اور اس کے بعد مارنے والے ساروں نے ، اس فلاسفر سے جس کو مارا تھا جا کر معافی مانگی اور اس کو راضی کیا بلکہ لکھا ہے کہ اُس کو دودھ وغیرہ بھی پلایا.(ماخوذاز سیرت المہدی حصہ دوم جلد اول روایت نمبر 437.صفحہ 395-394 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اے تمام لوگو! سُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائیگی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان ؟ کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ( ليس:31) پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے.مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا“.( یہ غیر احمدیوں کا نظریہ ہے نا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اتریں گے.فرمایا کہ اس طرح اگر کوئی اترے گا تو اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا؟“ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولا د مرے

Page 633

618 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 نومبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے “.( تذکرۃ الشہاد تین روحانی خزائن جلد 20 صفحه 67-66) اب جو یہ احمدیوں کو کہتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں اور بعض کمزور طبع ان غیروں کی باتوں میں آجاتے ہیں کہ تم لوگ کب تک صبر کرتے رہوگے.میں نے پچھلے (خطبہ) میں بھی ذکر کیا تھا.پتہ نہیں یہ جو ہمارے نام نہاد ہمدردی کرنے والے ہیں ان کو ہماری اتنی فکر کیوں ہے ؟ اپنے آپ کو سنبھالیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں کہ اپنی عاقبت خراب نہ ہو رہی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ مشکلات اور مخالفتیں تھوڑے عرصے میں دور ہو جائیں گی اور احمدیت کی اکثریت دنیا میں تیس سال یا چالیس سال یا سو سال میں ہو جائے گی بلکہ فرمایا کہ ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی (اور یہ حوالہ جو آپ نے لکھا ہے یہ تذکرۃ الشہاد تین کا ہے جو 1903ء میں لکھی گئی تھی.یعنی ایک سو سات سال پہلے ).اور آج جماعت احمد یہ تمام مخالفتوں سے صبر اور دعا کے ساتھ گزرتی ہوئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 198 ممالک میں پہنچ چکی ہے ، اور روز بروز یہ جماعت ترقی کر رہی ہے اور آج ہم دنیا کے ہر خطہ میں جماعت احمدیہ کو دیکھ رہے ہیں.اور اس ترقی نے ہی دشمن کو بوکھلا دیا ہے.یہ جو تیں بڑھ رہی ہیں، دشمنیاں بڑھ رہی ہیں ، جماعت کے خلاف منصوبہ بندیاں بڑھ رہی ہیں، یہ صرف اس لئے ہیں کہ جماعت ان کو پھیلتی نظر آ رہی ہے.پس یہ تخم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بویا تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا وہ تو پھل پھول رہا ہے.ہاں قانونِ قدرت ہے کہ سر سبز اور پھلنے والے جو درخت ہوتے ہیں اُن میں بھی بعض دفعہ اگاؤ کا خشک ٹہنیاں نظر آنے لگ جاتی ہیں تو درخت کا جو مالک ہے وہ ایسی ٹہنیوں کو کاٹ کر پھینک دیتا ہے اور اس سے درخت کے پھل پھول لانے میں کوئی فرق نہیں پڑتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لگایا ہوا یہ سر سبز درخت جو ہے یہ تو صبر اور دعا کے پانی سے سینچا جارہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ پھلتا پھولتا رہے گا.جو شاخ بھی اس پانی سے فیض حاصل نہیں کرے گی، اُس کی حالت سوکھی ٹہنی کی طرح ہو گی اور وہ کٹ جائے گی ، کاٹ دی جائے گی.پس ان حالات میں جبکہ احمدیت کی مخالفت میں جیسا کہ میں نے کہا تیزی آئی ہے اور مزید مخالفت بڑھ رہی ہے بلکہ بعض جگہ جہاں افریقن ممالک میں کم ہو گئی تھی، وہاں دوبارہ شروع ہوئی ہے.تو صبر اور دعا کے ساتھ ہر احمدی اللہ تعالیٰ سے پہلے سے بڑھ کر مددمانگے اور اس سر سبز اور بڑھنے اور پھلنے اور پھولنے والے درخت کا حصہ بنار ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 51 مورخہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2010 صفحہ 5 تا9)

Page 634

خطبات مسرور جلد ہشتم 619 49 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 دسمبر 2010ء بمطابق 03 فتح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دشمن جب اپنی دشمنی کی انتہا کو پہنچتا ہے ، اللہ والوں کو ختم کرنے کے لئے ہر قسم کے خیلے اور حربے استعمال کرتا ہے، مختلف طریقے سے نقصان پہنچانے کے لئے منصوبہ بندیاں کرتا ہے، جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے لئے جو بھی اس سے بن پڑتا ہے کرتا ہے.ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد کو ہر وقت ذہنی اذیتیں پہنچانے کے لئے اور ان کا ذہنی سکون برباد کرنے کے لئے گھٹیا ترین اور انسانیت سے گرے ہوئے کام کرتا ہے.حتی کہ نہ بچے کالحاظ، نہ بوڑھے کا لحاظ ، نہ عورت کا لحاظ رہتا ہے.ظالمانہ اور بہیمانہ روشیں اپنا لیتا ہے تاکہ ان اللہ والوں کو اللہ کی رضا کے حصول سے دور ہٹانے کی کوشش کرے.تو اس وقت صبر و استقامت دکھانے والے مؤمنین اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مددمانگتے ہیں.دشمن کی اس انتہا اور اس کے نتیجے میں مومنین کی اس کیفیت کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں یوں کھینچا ہے.فرمایا.عد وجب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں (الحکم 10 دسمبر 1901 جلد 5 نمبر 45 صفحہ 3 کالم 2) پس یہ وہ نقشہ ہے جو مجبور و مظلوم مؤمنین کا اُن کی مجبوری اور مظلومیت کی حالت اور اُس کے رد عمل کے طور پر ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.اور آج یہ کیفیت اس روئے زمین پر دنیا کے بعض مسلمان ممالک میں سوائے احمدیوں کے کہیں اور ہمیں نظر نہیں آتی اور پاکستان میں اس کی انتہا آئے دن ہمیں دیکھنے میں آتی ہے.ہم اس عظیم نبی صلی ا کرم کے ماننے والے ہیں اس شعر میں جہاں ایک طرف دشمن کی انتہائی حالت کا ذکر ہے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے اور صبر و استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکتے چلے جانے والوں کا ذکر ہے.دشمن پر واضح کیا گیا ہے کہ تم نے تو یہ شورشیں، یہ زیادتیاں، یہ ظلم، یہ بربریت ہم پر اس لئے روار کھی کہ ہم تمہاری

Page 635

620 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بات مان کر تمہارے پیچھے چل پڑیں گے.تمہارے آگے ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگیں گے.تمہارے پاؤں پڑ کر تم سے زندگی کی فریاد کریں گے لیکن یہ سب تمہاری بھول ہے.ہم تو اس عظیم نبی صلی ایام کے ماننے والے ہیں جس نے خود بھی صبر اور عالی ہمتی کا عظیم نمونہ دکھایا اور اپنے صحابہ میں بھی قوتِ قدسی سے وہ جذ بہ پیدا کیا جس نے صبر و استقامت کے وہ عظیم معیار قائم کر دیئے جن کا ذکر میں نے گزشتہ خطبات میں کیا تھا.ظلم و تعدی نے اُن سے آحد احد کا نعرہ تو لگوایا لیکن کسی بت کے بڑا ہونے کا نعرہ نہیں لگوایا.ظلم بڑھے تو ان کی سجدہ گاہیں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے ہوئے تو تر ہوئیں، کسی بت یا بت کے پجاری کے آگے ماتھا ٹیک کر گڑ گڑاتے ہوئے نہیں.پس جب ہمیں حکم ہے کہ ان نمونوں کو پکڑو تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اس اصل کو بھول کر ان دشمنوں کے پیچھے چل پڑیں، ان مخالفین احمدیت کے پیچھے چل پڑیں.ہمیں ہمارے ایمان سے ہٹانے کی ہر کوشش انہی پر الٹ جائے گی.ان کے تمام منصوبے اکارت جائیں گے.ان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوں گی، اس لئے کہ ہم نے اپنے سچے وعدوں والے خدا کو پہچان لیا ہے.ہم نے آنحضرت صلی ا کرم کے غلام صادق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادتوں کو پورا ہوتے دیکھ لیا ہے.ہم نے آنحضرت صلی علیکم کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ لیا ہے تو پھر ہم ان ڈرانے والوں اور ان کے ظلموں کی وجہ سے اپنے خدا کو کس طرح چھوڑ دیں جس نے جماعت کو ہر آزمائش میں اور ہر ابتلاء سے دلوں کی تسکین پیدا کرتے ہوئے گزارا ہے.ہمیں آنحضرت صلی للہ ہم اور آپ کے غلام صادق پر ایمان اور یقین میں مزید پختہ کیا ہے.پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے خدا کو چھوڑ کر ان جیسوں کو جن کی ہمارے نزدیک ایک کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ہے ، خدا بنالیں.اپنے ایمانوں کو ضائع کر دیں.اللہ تعالیٰ کے دنیا و آخرت میں پیار سے محروم ہو جائیں.اگر یہ ان لوگوں کی سوچ ہے تو ان جیسا شائد ہی دنیا میں اور روئے زمین پر کوئی پاگل ہو.اگر اس سوچ کے ساتھ یہ احمدیوں پر سختیاں اور تنگیاں وارد کر رہے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے.یہ مشکلات اور تکلیفیں تو ہمیں خدا تعالیٰ سے دور ہٹانے کی بجائے اس کے قریب تر کر دیتی ہیں.ہم تو اُن ایمان کا عرفان رکھنے والوں میں شامل ہیں اور شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران : 174) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دشمنوں نے کہا تھا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہو گئے ہیں اس لئے تم اُن سے ڈرو.اس بات نے ان کے ایمان کو اور بھی بڑھا دیا.اُن کو ایمان میں اور بھی مضبوط کر دیا اور انہوں نے کہا ہمارے لئے اللہ کی ذات ہی کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کار ساز ہے.پس دشمن کا جتھہ ، اُس کا ایک ہونا ہمیں ایمان میں بڑھاتا ہے.اس بات سے تو ہم آنحضرت صلی یم کی پیشگوئی پوری ہوتی دیکھتے ہیں.اس پر مزید یقین قائم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ جماعت کے مقابلے میں تمام دوسرے گروہ اور فرقے ایک ہو جائیں گے اور وہ

Page 636

621 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہو گئے.اور جب یہ ایک ہوں گے جس طرح ماضی میں انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ ایک ہوتے رہے تو اللہ والے اُس یار میں ڈوب جاتے ہیں.اس کی پناہ میں جا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ حسبنا اللہ.اللہ ہمیں کافی ہے.ہمیں اور کسی پناہ گاہ کی ضرورت نہیں.ہم صرف اور صرف اپنے خدا کی پناہ میں آتے ہیں جو حسیب ہے جو ہمارے دشمنوں کو سزا دینے کے لئے کافی ہے.جو دشمنوں سے بدلہ لینے کے لئے کافی ہے اور نہ صرف یہ کہ دشمن سے بدلہ لیتا ہے بلکہ اُن ظلموں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کی وجہ سے مومنین کو انعامات سے بھی نوازتا ہے.پس یہاں اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے معانی ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.اور کیوں اللہ تعالیٰ مؤمنین کے لئے ہر لحاظ سے کافی نہ ہو ؟ وہ بہترین کار ساز ہے.اس سے زیادہ اور کون ہے جو اپنے بندوں کے معاملات کو سمجھ سکتا ہے.جب بندہ مکمل طور پر اُس کے آگے جھکتے ہوئے اُس کے سامنے اپنے تمام معاملات رکھ کر اُس پر انحصار کرتا ہے تو پھر جہاں وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے دشمنوں کی پکڑ کرتا ہے وہاں اپنے انعامات کا اعلان کرتے ہوئے کبرِ الصُّبِرِينَ (البقرة:156) کی خوشخبری بھی دیتا ہے.اس کی وضاحت بھی میں گزشتہ خطبات میں کر چکا ہوں.اور پھر یار میں نہاں ہونے والے جو ان سب تکلیفوں کو جو خدا تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے انہیں دی جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر انہیں برداشت کرتے ہیں اُن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُولبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ و أوليك هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة : 158).یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.پس جو تمام تر تکالیف میں، تمام تر مشکلات میں، ہر قسم کی ذہنی اذیتوں سے گزرنے کے باوجود خدا تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑتے بلکہ پہلے سے بڑھ کر اس میں نہاں ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے چھٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن لوگوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں روحانی بلندیاں بھی ملیں گی اور مادی اور دنیاوی انعامات بھی ملیں گے.اور ان لوگوں کو یہ سند بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ تمہی ہدایت پر ہو.اب مخالفین احمدیت لاکھ کہیں کہ دیکھو تمہارے بارہ میں ہم سب ایک ہیں اور تمہیں اسلام سے خارج کرنے کا ایک فیصلہ کیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم حق پر ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابتلاؤں اور آزمائشوں میں جب مومن میری طرف جھکتے ہیں اور میری خاطر تکالیف برداشت کرتے ہیں، جتھوں کے مقابلے پر اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں اور انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر ہر تکلیف پر ، ہر مصیبت پر ، ہر ابتلا پر خاموش ہو جاتے ہیں تو یہی ہدایت یافتہ ہیں.مخالفین کا ایک ہونا انہیں ہدایت یافتہ ثابت نہیں کرتا بلکہ جیسا کہ آنحضرت صلی الی یکم نے حدیث میں فرمایا تھا کہ مسیح موعود کے زمانے میں تمام فرقے ایک ہو جائیں گے.اور ایک ہی فرقہ ہو گا جو ہدایت پر قائم ہو گا.(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم حدیث: 3993) پس یہ دلیل تو ان کے خلاف جاتی ہے.ان کا ایک ہو نا جیسا کہ میں نے کہا اُن کو ہدایت یافتہ نہیں بنا تابلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس

Page 637

622 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے آگے جھکنا، غموں اور دکھوں میں بجائے بدلے لینے کے صبر اور استقامت دکھاتے ہوئے انہیں برداشت کرنا اور برداشت کرتے چلے جانا اور اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکتے چلے جانا، یہی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کا وارث بناتی ہیں.اور یہی گروہ ہے جو آج بے شک اقلیت میں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ ہدایت یافتہ ہے اور دنیا کی ہدایت کا باعث بننے والا ہے انشاء اللہ.پس اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے، رحمتوں اور برکتوں کے حصول کے لئے ، ہدایت یافتہ کہلانے کا حق دار بننے کے لئے ، اپنے خدا کی رحمتوں اور برکتوں کی تلاش میں ڈوبنا ضروری ہے اور پہلا قدم بندے نے اٹھانا ہے.پھر بندہ خدا تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنتا ہے.جب انسان اپنے پیارے خدا میں جو اپنے آگے جھکنے والوں کو اپنے راستے دکھاتا ہے جو گو بظاہر ایک دنیادار کو نظر نہیں آتا لیکن ہر جگہ موجود ہے.ایک مومن کی آنکھ تو اسے دیکھ رہی ہوتی ہے اور پھر ان پر اپنی جلوہ گری بھی کرتا ہے.وہ اپنے انعامات سے پہچانا جاتا ہے.دعاؤں کی قبولیت سے پہچانا جاتا ہے.جب اس کے بندے دنیا والوں کی تکالیف سے پریشان ہو کر اس کے حضور جھکتے ہیں تو وہ دوڑ کر آتا ہے اور اپنے بندوں کو اپنے حصارِ عافیت میں لے لیتا ہے.دشمنوں سے خود بدلے لیتا ہے اور اپنے بندے کو انعامات سے نوازتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس تمام قدرتوں والے اور برکتیں عطا کرنے والے ، رحم کرنے والے ، دعاؤں کو سننے والے خدا میں ڈوب جاؤ.اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو.اور یہی نسخہ ہے جو مومنین کے ہمیشہ کام آتا ہے.پس دنیا جب بھی ان اللہ والوں کی طرف اپنے زعم میں ہر بُری چیز پھینک رہی ہوتی ہے.ہر قسم کی تکلیف انہیں پہنچانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے یار میں نہاں ہونے والوں کے اوپر ہر رحمت اور برکت برسا رہے ہوتے ہیں.اور اللہ بھی اور فرشتے بھی یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اے دنیا والو! تم جتنے چاہو ان پر فتوے لگا کر اُن پر ظلم و تعدی کے بازار گرم کرو لیکن یاد رکھو کہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے وارث ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہدایت یافتہ ہیں اور اب دنیا کی ہدایت بھی انہی لوگوں سے وابستہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے میری باتوں پر ایمان لاتے ہوئے زمانے کے امام کو مانا.پس میں ان تمام احمدیوں سے کہتا ہوں جو آج کل مختلف قسم کی تکالیف کے دور سے گزر رہے ہیں.جو مجھے خط لکھتے ہیں اور مخالفین کی کمینی حرکات سے بچنے کے لئے دعا کے لئے کہتے ہیں کہ اپنی دعاؤں میں وہ بھی مزید توجہ پیدا کریں.جو لوگ براہِ راست تکلیفوں میں گرفتار نہیں ہیں وہ بھی اپنے بھائی ، اپنی بہنوں اور اپنے بچوں کی تکالیف کا خیال کرتے ہوئے ان کے لئے دعائیں کریں.صرف اپنے نفس کو ہی سامنے نہ رکھیں، صرف اپنی مشکلات جو دنیاوی مشکلات ہیں انہیں ہی سامنے رکھتے ہوئے پریشان نہ ہو جایا کریں بلکہ ظلم کی چکی میں پسنے والے اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں اور بچوں کو سامنے رکھیں.ہمدردی کے جذبے سے کی گئی یہ دعائیں آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی

Page 638

623 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم رحمتوں اور برکتوں کا وارث بنائیں گی.حقیقی ہدایت یافتہ تو وہی ہے جو حقیقی مومن ہے اور حقیقی مومن وہ ہے جو اپنے مؤمن بھائی کے درد کو بھی، اس کی تکلیف کو بھی اپنے درد اور اپنی تکلیف کی طرح محسوس کرتا ہے.جس طرح جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے اس طرح ایک مومن دوسرے مومن کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے.پس ان حالات میں دنیا بھر کی جماعتوں کے تمام افراد کو میں خاص طور پر اپنے مظلوم اور تکلیف اور مشکلات میں گرفتار بھائیوں کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.ہر احمدی کم از کم دو نفل روزانہ صرف ان لوگوں کے لئے ادا کرے جو احمدیت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہیں.جو ظالمانہ قوانین کی وجہ سے اپنی شہری اور مذہبی آزادیوں سے محروم کر دیئے گئے ہیں.اسی طرح جماعتی ترقی کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کریں.پس اگر ہر احمدی اپنے دل کی بے چینی کو خدا تعالیٰ کے حضور پہلے سے بڑھ کر پیش کرے گا تو وہ خود مشاہدہ کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر اس پر کس طرح پڑ رہی ہے.پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حصار میں لے لے گا.پاکستان میں احمدی طلباء کی مشکلات بعض طلباء بھی مجھے خط لکھتے ہیں، طالبات بھی لکھتی ہیں کہ ہمارے کالجوں، سکولوں، یونیورسٹیوں میں ہمارے ساتھی غیر از جماعت طلباء و طالبات ہمیں تنگ کرتے ہیں، مختلف قسم کے طعنے دیتے ہیں.پڑھائی میں اثر انداز ہوتے ہیں.حتی کہ جو ٹیچر ز اور پروفیسر ہیں وہ بھی اتنی گھٹیا سوچ کے ہو گئے ہیں کہ اپنے پیشے کی اخلاقیات کو بھی بھول گئے ہیں.ایک زمانہ تھا کہ استاد ایک خاص عزت کا مقام رکھتا تھا، اس کی ایک پہچان تھی.قطع نظر مذہب کے ہر طالب علم کا ہمدرد بن کر اس کے علم کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا تھا اور یہ ایک استاد کے فرائض تھے.لیکن آج اخلاقیات کے دعویدار اور اپنے آپ کو سب سے اچھا مسلمان کہنے والے اپنے معزز پیشے کی بھی دھجیاں اڑار ہے ہیں اور اس پر پھر دعویٰ بھی ہے کہ یہ مذہبی غیرت ہے جس کا اظہار ہم کر رہے ہیں.یہ مذہبی غیرت نہیں، جہالتوں کی انتہا ہے.جو شخص اپنے پیشے سے انصاف نہیں کر سکتا اس نے اسلام کی بنیادی تعلیم ہی نہیں سمجھی.جو شخص اپنے کینے اور بغض کی وجہ سے انصاف کو قائم نہیں رکھ سکتا وہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے بھی روگردانی کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى اَلَا تَعْدِلُوا ( المائدہ:9) کہ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس کام پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے کام نہ لو.پس یہ لوگ پڑھے لکھے جاہل ہیں جو جاہل ملاؤں کے پیچھے چل کر نہ صرف یہ کہ اپنے پیشے سے بے انصافی کر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی بھی نافرمانی کر رہے ہیں.اور پھر دعویٰ یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.پس ایک مومن کے لئے ان تمام ظلموں اور زیادتیوں کا ایک ہی حل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائیں.یارِ نہاں میں نہاں ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں، اس میں

Page 639

624 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ڈوب جائیں.اب یہ زیادتیاں اور یہ ظلم جو ہیں یہ صرف پاکستان تک نہیں ہیں بلکہ بعض مسلمان امیر ممالک ہیں جو اپنے تیل کی دولت کے بل بوتے پر غریب ملکوں میں بھی نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں.دلیل سے مقابلہ تو یہ لوگ کر نہیں سکتے.اگر اس سے کریں تو یہ اُن کا حق ہے کہ کریں.لیکن ان کے پاس دلیل ہے کوئی نہیں، اس لئے سوائے بغض اور کینہ اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے کے ان کا کوئی کام نہیں رہا.جن غریب ملکوں کو اور خاص طور پر افریقہ کے بعض ممالک کو مدد دیتے ہیں ، ایڈ مہیا کرتے ہیں تو وہاں اپنی دولت کے بل بوتے پر احمدیوں بعض پابندیاں لگوانے کی کوشش کی جاتی ہے.لیکن احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مضبوط ایمان کے ہیں، ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.پھر یہ دعویٰ بھی یہ لوگ کرتے ہیں کہ ہم اہل عرب ہیں.ہم سے زیادہ قرآن کو کون جانتا ہے؟ لیکن اس ایک حکم کو جس کی میں نے بات کی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں بے انصافی پر مجبور نہ کرے، اس کو تو یہ سمجھنا نہیں چاہتے اور نہ سمجھتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں.قرآن جانا ایک علیحدہ چیز ہے ، بے شک جانتے ہوں گے لیکن قرآنی احکامات کو بھول گئے ہیں.اسی لئے اس زمانے میں مسیح و مہدی کی ضرورت تھی جو ان کو راہ راست پر لائے جس کو یہ لوگ اب قبول کرنا نہیں چاہتے.یہی لوگ ہیں جنہوں نے بجائے اسلام کی خدمت کرنے کے اسلام کو بد نام کیا ہوا ہے.آج اسلام کے خلاف دنیا میں جو مختلف محاذ کھڑے ہو رہے ہیں اور ہوئے ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں جو اپنے زعم میں اسلام کے علمبر دار بنے ہوئے ہیں.بلکہ اس قسم کی حرکات کر کے یہ مخالفین اسلام کے بھی مدد گار بن رہے ہیں.اور کوئی بعید نہیں کہ مخالفین اسلام کی شہ پر ہی یہ اس قسم کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہوں.اور ان کی عقل پے پردے پڑ گئے ہیں کہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں.اسلام کو بد نام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اسلام کو یہ تو ختم نہیں کر سکتے.یہ دین تو اس لئے آیا تھا کہ اس نے پھیلنا ہے اور پھلنا ہے اور بڑھنا ہے اور انشاء اللہ بڑھے گا اور اسی لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا جو جری اللہ بن کر آئے اور اب آپ کی جماعت کا یہ کام ہے کہ اس دین کے پھیلانے کے لئے اور آنحضرت علی علیکم کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے اپنی سر توڑ کوشش کرے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہم کرتے رہیں گے.ہماری فتح کا ہتھیار دعا پس پھر میں اپنی پہلی بات کی طرف آتا ہوں کہ دشمن کے تمام حربوں، حیلوں کا مقابلہ چاہے وہ پاکستان میں ہیں، ہندوستان کے بعض علاقوں میں ہیں، بعض افریقن ممالک میں ہیں جیسا کہ میں نے بتایا.انڈونیشیا میں گزشتہ دنوں احمدیوں کے خلاف ایک جگہ پر ایک جزیرے میں فساد اٹھایا گیا.وہ احمدی جن کے خلاف چند سال پہلے ظلم روار کھا گیا تھا اور ان کے گھروں کو جلایا گیا تھا، توڑ پھوڑ کی گئی تھی، ان کو گھروں سے نکالا گیا تھا، وہ ایک عرصے

Page 640

625 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کے بعد جب دوبارہ حکومت کے کہنے پر ہی اپنے گھر میں آباد ہونے کے لئے آئے تو پھر انہی شدت پسند ملاؤں نے جن کو بعض حکومتیں پیسے دے رہی ہیں اُن کے گھروں کو دوبارہ جلایا اور ان کو مارا پیٹا اور پھر آخر حکومت نے اُن کو کہا کہ تم واپس انہی جگہوں پر چلے جاؤ جہاں پر پہلے تھے اور اپنے گھر بار ان کو چھوڑنے پڑے، اپنی جائیدادیں چھوڑنی پڑیں.پس جب یہ ظلم روا ر کھے جاتے ہیں اور رکھے جارہے ہیں تو مومنین جو ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جاتے ہیں اور جھکتے چلے جائیں گے اور یہی ہتھیار ہیں جو ہماری فتح کے ہتھیار ہیں.آج یہ ظلم کرنے والے اپنے زعم میں اپنے آپ کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھ رہے ہیں لیکن وقت آئے گا کہ یہی لوگ ان مومنین کے ، ظلم سہنے والوں کے زیر نگیں کئے جائیں گے.ہماری فتح کا ہتھیار تو یہ دعائیں ہی ہیں اور یہی ہتھیار ہے جو دشمن کے شر ان پر الٹائے گا.اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں.جس شدت اور تڑپ کے ساتھ ہم اس ہتھیار کو استعمال کریں گے اسی قدر جلد ہم احمدیت کی فتح کے نظارے دیکھیں گے.انشاء اللہ تعالی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہو سکیں گے.دعا میں بڑی قوتیں ہیں“.فرمایا ”خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ ہو گا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ اسے ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے“.فرمایا ” اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک ملا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا.اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان بھی مہیا ہو جاتے.جب ہماری دعائیں ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے“.فرمایا ” ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں.سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 36 جدید ایڈیشن) پس یہ ہتھیار ہے جس کو ہم نے استعمال کرنا ہے، یہ ہتھیار ہے جس کے استعمال کی انتہا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہم یارِ نہاں میں نہاں ہونے کا حق تبھی ادا کر سکتے ہیں جب اپنے فرائض کے ساتھ ہم اپنے نوافل کی ادائیگی اور دعاؤں کو اس کے نکتہ عروج پر پہنچانے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.دعا کی اہمیت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض مزید ارشادات پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 30 جدید ایڈیشن)

Page 641

626 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم ( اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے، گناہوں سے نجات حاصل ہو جائے تو پھر مومن کی باقی دعائیں بھی جلدی جلدی قبولیت پاتی چلی جاتی ہیں ).پھر فرمایا ” ہمارا تو سارا دارو مدار ہی دعا پر ہے.دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے“.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 39.جدید ایڈیشن) (اللہ تعالیٰ تو اس بات کے انتظار میں رہتا ہے کہ کب مؤمن مجھ سے مانگے اور میں اسے دوں، بشر طیکہ دعا کا حق ادا کرتے ہوئے دعا کی جائے) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”دعا کی مثال ایک چشمہ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے.وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے.جس طرح ایک مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت و سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بد معاشی میں میسر آسکتا ہے، بیچ ہے.بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الہی ہے.دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا ہے اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے.جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے تو خدا کو بھی اس پر رحم آجاتا ہے اور (خدا) اس کا متولی ہو جاتا ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 46-45.جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں : ”یقیناً سمجھو کہ دعابڑی دولت ہے.جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی.وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 148.جدید ایڈیشن) لپس اس زمانے میں دعا کا ہتھیار ہی اہم ہتھیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا ہے اور یہ دعا ہی کا ہتھیار ہے جس سے لیکھرام بھی اپنے انجام کو پہنچا تھا ، جس سے ڈوئی کا بد انجام بھی دنیا نے دیکھا تھا.جس سے ہر مخالف جو آپ کی مخالفت میں انتہا کو پہنچا ذلت ورسوائی کا مورد بنا تھا.قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقابلہ بھی دعاؤں سے ہی کیا گیا تھا اور پھر ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے.احمدیت کے ہاتھوں میں کشکول پکڑوانے والوں اور احمدیت کو کینسر کہہ کر ختم کرنے والوں کا مقابلہ بھی دعاؤں سے ہی ہوا تھا اور ان کے نام و نشان مٹ گئے.آج بھی انشاء اللہ تعالیٰ مخالفتوں کی آندھیاں ان دعاؤں کی وجہ سے ہی مخالفین پر الٹیں گی.اور دنیا دیکھے گی کہ کس طرح احمدیت فتوحات کی نئی منزلیں طے کرتی ہے.پس آج بھی ہمارا کام ہے کہ دعاؤں کی طرف ایک خاص توجہ اور رغبت پیدا کریں.

Page 642

627 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دعاؤں کا ٹھیک محل نماز ہے.ہم اپنی نمازوں میں خوبصورتی پیدا کریں.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا خاص طور پر کم از کم دو نفل جماعت کی ترقی اور مظلوم احمدیوں کے لئے ادا کریں.ہر احمدی یہ اپنے اوپر فرض کرے.ایک وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کہا تھا کہ کم از کم دو نفل اپنے اوپر ضرور فرض کرو.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 148) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو ہمیشہ یاد رکھیں اور یاد رکھنا چاہئے کہ ”جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے“ ( پوری توجہ پیدا ہو جاتی ہے ، ہر سوچ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتی ہے ، یار میں جب انسان نہاں ہو جاتا ہے ) " تو خدا تعالیٰ کو بھی اس پر رحم آجاتا ہے پس یہ اخلاص اور انقطاع پیدا کرنے کی اگر ہر احمدی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو پہلے سے بڑھ کر قریب تر پائے گا.یہ اخلاص اور انقطاع پیدا کرنے کے لئے یارِ نہاں میں نہاں ہونے کی ضرورت ہے، اُس یار میں ڈوبنے کی ضرورت ہے.اور جب ہماری یہ حالت ہو جائے گی تو دنیا والوں کے ہر شر سے ہم محفوظ ہو جائیں گے.انشاء اللہ.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہو جائیں گے جس کے ارد گرد مسلح سپاہیوں کا پہرہ ہے.اللہ ہمیں اس اہم نکتے کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.” یا در کھو کوئی آدمی کبھی دُعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے.(جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے) اور استقلال کے ساتھ دُعاؤں میں نہ لگار ہے.اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی اور بد گمانی نہ کرے.اُس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کا مالک تصور کرے، یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دُعاؤں میں لگار ہے.وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دُعاؤں کو سُن لے گا اور اسے جواب دے گا.جو لوگ اس نسخہ کو استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بد نصیب اور محروم نہیں ہو سکتے بلکہ یقینا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی قدر تیں اور طاقتیں بے شمار ہیں.اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قانون رکھا ہے.پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اس قانون کو اس کے لئے بدل دے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی کرتا اور بے ادبی کی جرآت کرتا ہے.پھر یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مداری کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کام ہو جائیں.میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خد اتعالیٰ کا کیا بگاڑے گا.اپنا ہی نقصا ن کرے گا.بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہاں جائے گا“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 151.جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنے آگے صبر و استقامت دکھاتے ہوئے، صبر واستقامت دکھاتے ہوئے جھکائے رکھے اور دعائیں کرنے میں نہ ہم کبھی تھکیں، نہ ماندہ ہوں.کبھی صبر کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے.صبر کا

Page 643

628 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم مطلب ہی یہی ہے کہ استقلال سے دعائیں کرتے چلے جانا اور جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان سے کبھی پیچھے نہ ہٹنا.اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کریں کہ وہ ہماری دعاؤں میں، ہماری عبادتوں میں ترقی عطا فرمائے.ہماری عبادتوں میں اپنی محبت ڈال دے.جب یہ معیار ہم حاصل کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ مخالفین کی عارضی خوشیاں جلد حسرتوں میں بدل جائیں گی، انشاء اللہ.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو انشاء اللہ ضرور پورا ہو گا.آخر میں ایک قرآنی دعا پڑھتا ہوں: ربَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ ( البقرة 251).اے ہمارے رب ! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات قدم بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر.الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شماره 52 مورخہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2010 صفحہ 5 تا 7)

Page 644

خطبات مسرور جلد ہشتم 50 50 629 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010ء بمطابق 10 فتح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ کا ایک شعر ہے کہ.وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو اسلامی تاریخ کا ایک دردناک واقعہ (کلام محمود نظم نمبر 94 صفحہ 28) یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی نظم کا شعر ہے جس میں جماعت کو صبر اور حوصلہ اور استقامت کی تلقین کی گئی ہے.یہ نظم آپ نے 1935 میں کہی تھی جب جماعت پر شورشوں کا زور تھا.بہر حال اس وقت میں اس نظم کے حوالے سے تو مضمون نہیں بیان کر رہا.اس شعر کے حوالے سے بات کروں گا.اس شعر سے اسلام کی تاریخ کا ایک دردناک اور ظلم کی انتہا کا واقعہ ہر مسلمان کی نظر میں آتا ہے.لیکن اس اندوہناک اور درد ناک واقعہ کی حقیقت کا صحیح اور اک وہی کر سکتا ہے جو ظلموں کی چکی میں پیسا جارہا ہو.اس واقعہ پر ہمدردی اور غم اور افسوس کا اظہار تو بے شک ہر مسلمان کرتا ہے اور شیعہ صاحبان ہر سال محرم کے مہینے میں اس کا اظہار بھی اپنے طریقے کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور گو اس میں ہمارے نزدیک غلو کی حد تک بھی چلے جاتے ہیں لیکن بہر حال ان کا ایک اپنا اظہار ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس ظلم کی حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو ظلموں میں سے گزر رہا ہو اور آج اس زمانہ میں جماعت احمدیہ سے زیادہ کون واقعہ کربلا کا احاطہ اور تصور کر سکتا ہے.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں.یہ دونوں فریق کون تھے ؟ یہ دونوں کلمہ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھنے والے تھے یا پڑھنے کا دعویٰ کرنے والے تھے.لیکن ایک کلمہ کی حقیقت کو جانتے ہوئے مظلوم بنا اور دوسراکلمہ کا پاس نہ کرتے ہوئے ظالم بنا.واقعہ کر بلا بھی جس میں حضرت

Page 645

630 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم امام حسین رضی اللہ عنہ ، آپ کے خاندان کے افراد اور چند ساتھیوں کو ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا، اصل میں حضرت عثمان کی شہادت کے واقعے کا ہی ایک تسلسل ہے.جب تقویٰ میں کمی ہونی شروع ہو جائے، ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر حاوی ہو نا شروع ہو جائیں، دنیا دین پر مقدم ہو جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے کہ ظلم و بربریت کی انتہا کی جاتی ہے.اللہ والوں کا اللہ کے نام پر ہی خون بہایا جاتا ہے.یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ کلمہ گو ہی کلمہ گوؤں کو ظلم و تعدی کا نشانہ بنارہے ہوں، زیادتیوں اور دکھوں کا نشانہ بنارہے ہوں حتی کہ معصوموں کا خون، بچوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہ کیا جارہا ہو.خدا کے اور رسول کے نام پر خدا اور رسول پر جان، مال اور عزت قربان کرنے والوں کو دکھوں، تکلیفوں اور مصائب کا نشانہ بنایا جارہا ہو.اس سے بڑھ کر ان لوگوں کی کیا بد نصیبی ہو سکتی ہے ؟ جو خدا اور رسول کے نام پر ظلموں کا بازار گرم کرتے ہوئے یہ ظلم کر رہے ہوتے ہیں یا ظلموں کا یہ بازار گرم کرتے ہیں، قرآنِ کریم ایسے لوگوں کی بد حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيهَا وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ( النساء: 94) اور جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہو گی وہ اس میں لمبے عرصے تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ کا غضب اس پر نازل ہو گا اور اُسے اپنی جناب سے اللہ دور کر دے گا، اپنے سے دور ہٹا دے گا.یعنی لعنت بر سائے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا.مناقب حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے لئے ناراضگی کی انتہا کے الفاظ استعمال کئے ہیں.پھر یہ نہیں کہ جہنم میں ڈالا جائے گا بلکہ لمبے عرصے تک جہنم اس کا ٹھکانہ ہے اور پھر اللہ کا غضب اس پر برستار ہے گا اور اللہ کی لعنت کا مورد بنتا رہے گا.یہ جہنم، یہ اللہ کا غضب، یہ اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بہت بڑا عذاب ہے.یہ عذاب عظیم ہے.اس سے زیادہ بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کلمہ گو ہونے کے باوجود ایک شخص جہنم کی آگ میں پڑ کر مسلسل اللہ تعالیٰ کے غضب اور لعنت اور بہت بڑے عذاب میں گرفتار ہو.پس جو اپنے مفادات اور دنیاوی ہو اوہوس کے لئے ایسے ظالمانہ فعل کرتے ہیں وہ خدا تعالی کی انتہائی ناراضگی کا موجب بن رہے ہوتے ہیں.اور مظلوم اس قتل کے نتیجے میں اختیار عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران : 170 ) کا اعزاز پاتے ہیں.وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے.یہ سلوک اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے.پس جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہے اور اپنے رب سے جنتوں کا رزق پا رہا ہو ، اس کے لئے اس سے بڑا اور کیا انعام ہو سکتا ہے.اور حضرت امام حسن اور امام حسین جو تھے ان کے بارہ میں تو آنحضرت صلی لی ہم نے فرمایا کہ وہ جنت کے جوانوں کے سردار ہوں گے “.المستدرک للحاکم کتاب معرفة الصحابه و من مناقب الحسن والحسین ابنی بنت رسول الله صلى ال مل جلد 3 صفحہ 377 حدیث:4840)

Page 646

631 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور ان دونوں کے لئے تو آنحضرت صلی للی کم یہ دعا بھی اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر.(سنن الترمذی کتاب المناقب باب 104/000 حدیث : 3782) پس جو اس حد تک آنحضرت صلی علی کم کی دعاؤں سے فیض پانے والا ہو اور پھر اُس پر یہ کہ شہادت کا رتبہ بھی پا جائے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جنت کے اعلیٰ رزقوں کا وارث بنتا ہے اور بنا.اور آپ کے قاتل یقینا اللہ تعالی کا غضب پانے والے ہوئے.یہ مہینہ یعنی محترم کا مہینہ جس کے پہلے عشرے سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں آج سے چودہ سو سال پہلے دس تاریخ کو ظالموں نے آنحضرت صلی ا ولم کے اس پیارے کو شہید کیا تھا جس کی داستان سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ان ظالموں کو یہ خیال نہ آیا کہ کس ہستی پر ہم تلوار اٹھانے جارہے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جب ایمان مفقود ہو جائے تو پھر سب جذبات اور احساسات مٹ جاتے ہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہی ختم ہو جاتا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ کا خوف ختم ہو جائے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی بندے کا خدا تعالیٰ کی نظر میں یا اس کے رسول صلی علیکم کی نظر میں کیا مقام ہے ؟ حضرت امام حسین کی شہادت کس طرح ہوئی اور اس کے بعد آپ کی نعش مبارک سے کیا سلوک کیا گیا؟ یہ واقعہ سُن کر انسان اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے کہ شاید ظاہر میں تو وہ لوگ کلمہ پڑھتے ہوں لیکن حقیقت میں انہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں تھا.آنحضرت صلی علیکم انسانی قدروں کو قائم فرمانے آئے تھے.آپ صلی الی یکم نے جنگوں کے بھی کچھ اصول و ضوابط بتائے تھے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دشمنوں کے لئے انصاف اور حد اعتدال میں رہنے کی تلقین فرمائی.اور دشمن بھی ایسے دشمن جو اسلام اور آنحضرت صلی علیہ ظلم کو ختم کرنے کے درپے تھے.ان سے بھی جنگ کی صورت میں ان کے قتل ہو جانے پر عربوں کے رواج کے مطابق جو مثلہ اور لاشوں کی بے حرمتی کا رواج تھا، اس سے منع فرمایا.(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسير باب تأمیر الامام الا مراء على البعوث...حدیث نمبر 4413) آپ صلی یکم تو ان تمام بد عادات اور روایات کو ختم کرنے آئے تھے جن سے انسانی قدریں پامال ہوتی ہیں.آپ نے تو کفار سے بھی عفو اور نرمی کا سلوک فرمایا.لیکن اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسول کے پیارے نواسے جس کے لئے آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کرنا.پھر آپ نے فرمایا کہ جو میرے ان نواسوں سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے جنت میں جائے گا اور اسی طرح ناپسندیدگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے گا.(ماخوذ از المستدرک للحاکم کتاب معرفة الصحابه و من مناقب الحسن والحسین اپنی بنت رسول اللہ صلی الی مل جلد 3 صفحہ 376 حدیث : 4838)

Page 647

632 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم جن کو کسی سے صحیح عشق اور محبت ہو ، وہ اس کے پیاروں کو بھی پیارا رکھتے ہیں.یہ نہیں کہ ایک طرف تو عشق کا دعویٰ ہو اور جو اُس معشوق کے محبوب، اُن کی اولادیں ہوں، اُن سے نفرت ہو.یا کسی سے عشق کا دعویٰ کر کے اُس کی زندگی میں تو اس کے پیاروں کو پیارا ر کھا جائے لیکن آنکھیں بند ہوتے ہی پیاروں سے پیار کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں ، سب کچھ ختم ہو جائے.یہ دنیا داروں کا طریق تو ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والوں کا نہیں.روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق اپنی خلافت کے زمانے میں کہیں جارہے تھے تو راستے میں انہوں نے آنحضرت صلی تعلیم کے پیارے نواسے کو بچوں میں کھیلتے دیکھ کر کندھے پر بٹھا لیا.( بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی الله نام باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما حدیث:3750) سة اور پیار فرماتے ہوئے فرمایا: میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی للی کمر کو یہ بہت پیارا تھا.اس لئے میں اس کو پیار کر رہا ہوں.تو یہ ہیں وفاؤں اور پیار کے قرینے اور سلیقے.لیکن کربلا میں آپ سے کیا سلوک ہوا؟ جس تعلیم کو آنحضرت صلی ال نیم لے کر آئے تھے اس کی پامالی کس طرح ہوئی ؟ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے لشکر پر دشمنوں نے غلبہ پالیا تو آپ نے (حضرت امام حسین نے) اپنے گھوڑے کا رُخ فرات کی طرف ( دریا کی طرف) کیا.ایک شخص نے کہا کہ ندی اور ان کے درمیان حائل ہو جاؤ.چنانچہ لوگوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور دریا تک نہ جانے دیا.اس شخص نے آپ کو ایک تیر مارا جو آپ کی ٹھوڑی کے نیچے پیوست ہو گیا.راوی آپ کی جنگ کی حالت کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ عمامہ باندھے ، وسمہ لگائے ہوئے پیدل اس طرح قتال کر رہے تھے ، جنگ کر رہے تھے جیسے کوئی غضب کا شہسوار تیروں سے بچتے ہوئے حملہ کرتا ہے.میں نے شہادت سے قبل آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم! میرے بعد بندگانِ خدا میں سے تم کسی بھی ایسے بندے کو قتل نہیں کروگے جس کے قتل پر میرے قتل سے زیادہ خدا تم سے ناراض ہو.واللہ مجھے تو یہ امید ہے کہ اللہ تمہیں ذلیل کر کے مجھ پر کرم کرے گا.پھر میرا انتظام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران ہو جاؤ گے.اللہ کی قسم ! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان جنگ کے سامان پیدا کر دے گا اور تمہارا خون بہایا جائے گا اور اللہ اس پر بھی راضی نہیں ہو گا یہاں تک کہ تمہارے لئے عذاب الیم کو کئی گنا بڑھادے.یہ میں بیان کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو شہید کرنے کے بعد کس طرح سلوک کیا؟ کوفیوں نے خیموں کو لوٹنا شروع کر دیا حتی کہ عورتوں کے سروں سے چادریں تک اتار ناشروع کر دیں.عمرو بن سعد نے منادی کی کہ کون کون اپنے گھوڑوں سے حضرت امام حسین کو پامال کرے گا؟ یہ سن کر دس سوار نکلے جنہوں نے اپنے گھوڑوں سے آپ کی نعش کو پامال کیا یہاں تک کہ آپ کے سینے اور پشت کو چور چور کر دیا.اس لڑائی میں حضرت امام حسین کے جسم پر تیروں کے 45 زخم تھے.ایک دوسری روایت کے مطابق تینتیس زخم نیزے کے اور تینتالیس زخم تلوار کے

Page 648

633 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے.اور پھر ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ حضرت امام حسین کا سر کاٹ کر ، جسم سے علیحدہ کر کے اگلے روز عبید اللہ بن زیاد گورنر کوفہ کے پاس بھیجا گیا اور گورنر نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر کوفہ میں نصب کر دیا.اس کے بعد زہر بن قیس کے ہاتھ یزید کے پاس سر بھیج دیا گیا.(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 6 صفحہ 243 تا250- ذكر الخبر عما كان فيها من الاحداث.دارالفکر بیروت 2002ء) (ماخوذ از تاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی حصہ دوم صفحہ 51 تا 78.نفیس اکیڈیمی کراچی ایڈیشن 1998ء) تو یہ سلوک تھا جو آپ کے شہید کرنے کے بعد آپ کی نعش سے کیا گیا.اس سے ظالمانہ سلوک اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ کی لاش کو کچلا گیا.سر تن سے جدا کیا گیا.اس طرح لاش کی بے حرمتی شائد ہی کوئی خبیث ترین دشمن کسی دوسرے دشمن کی کر سکتا ہو، نہ کہ ایک کلمہ پڑھنے والا، اپنے آپ کو اس رسول سے منسوب کرنے والا جس نے انسانی قدروں کے قائم رکھنے کی اپنے ماننے والوں کو بڑی سختی سے تلقین فرمائی ہے.پس یقینا اس عمل سے ایسا فعل کرنے والوں کی ہوس باطنی کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ لوگ دنیا دار تھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تمام حدیں پھلانگ سکتے تھے اور انہوں نے پھلانگیں.دین سے اُن کا ذرہ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا.ان کی دنیاداری کو ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس کر کے یزید کی بیعت سے انکار کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”حضرت امام حسین نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 580 مطبوعہ ربوہ) پھر فرمایا: "یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا مگر امام حسین نے اور ان کی جماعت نے اس اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے “.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 178 خط بنام مولوی عبد الجبار مطبوعہ ربوہ ) لیکن بیعت نہ کرنے کے باوجود حضرت امام حسین نے صلح کی کوشش کی تھی اور جب آپ نے دیکھا کہ مسلمانوں کا خون بہنے کا خطرہ ہے تو اپنے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا.انہوں نے کہا تم جو جا سکتے ہو مجھے چھوڑ کر جاؤ.اب یہ اور حالات ہیں.جو چند ایک آپ کے ساتھ رہنے پر مصر تھے وہ تقریباً تیس چالیس کے قریب تھے یا آپ کے خاندان کے افراد تھے جو ساتھ رہے.پھر آپ نے یزید کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ میں جنگ نہیں چاہتا.مجھے واپس جانے دو تاکہ میں جا کر اللہ کی عبادت کروں.یا کسی سرحد کی طرف جانے دو تاکہ میں اسلام کی خاطر لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں.یا پھر مجھے اسی طرح یزید کے پاس لے جاؤ تا کہ میں اسے سمجھا سکوں کہ کیا حقیقت ہے.لیکن نمائندوں نے کوئی بات نہ مانی.(ماخوذ از تاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی.جلد 2 صفحہ 68 نفیس اکیڈیمی کراچی ایڈیشن 1998ء)

Page 649

634 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم آخر جب جنگ ٹھونسی گئی تو پھر اس کے سوا آپ کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں تھا کہ مرد میدان کی طرح مقابلہ کرتے.بہر حال یہ لوگ معمولی تعداد میں تھے جیسا کہ میں نے کہا، کل ستر بہتر افراد تھے اور ان کے مقابلے پر ایک بہت بڑی فوج تھی.یہ کس طرح ان کا مقابلہ کر سکتے تھے ؟ بہر حال انہوں نے ایک صحیح مقصد کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے، اپنی جانیں قربان کر دیں اور ایک ایک کر کے شہید ہوتے گئے.یزید پلید سے خدا کا انتقام اللہ تعالیٰ کے بدلے لینے کے بھی اپنے طریقے ہیں جیسا کہ حضرت امام حسین نے فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ میرا انتقام لے گا، اللہ تعالیٰ نے لیا.یزید کو عارضی کا میابی بظاہر حاصل ہوئی لیکن کیا آج کوئی یزید کو اس کی نیک نامی کی وجہ سے یاد رکھتا ہے ؟ اگر نیک نامی کی وجہ سے جانا جاتا تو مسلمان اپنے نام بھی اس کے نام پر رکھتے لیکن آج کل کوئی اپنے بچے کا نام یزید نہیں رکھتا.وہ اگر جانا جاتا ہے تو اس نام سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال فرمایا کہ یزید پلید “.حضرت امام حسین کا ایک مقصد تھا.آپ حکومت نہیں چاہتے تھے.آپ حق کو قائم کرنا چاہتے تھے اور وہ آپ نے کر دیا.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بڑی اعلی تشریح فرمائی ہے کہ وہ اصول جس کی تائید میں حضرت امام حسین کھڑے ہوئے تھے یعنی انتخاب خلافت کا حق اہل ملک کو ہے ، جماعت کو ہے.کوئی بیٹا اپنے باپ کے بعد بطور وراثت اس حق پر قابض نہیں ہو سکتا.فرمایا کہ یہ اصول آج بھی ویسا ہی مقدس ہے جیسا کہ پہلے تھا بلکہ حضرت امام حسین کی شہادت نے اس حق کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے.پس کامیاب حضرت امام حسین ہوئے نہ کہ یزید.(ماخوذ از ” کامیابی“ انوار العلوم جلد 10 صفحہ 589 ) اور پھر قدرت کا ایک اور طریقے سے انتقام دیکھیں کہ کیسا بھیانک انتقام ہے.اس کے بارے میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی کتاب ” خلافتِ راشدہ میں ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا، جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لو گوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا.پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھ پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اس وقت سے لے کر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اس کے سپر د کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں مگر باوجو د غور کرنے کے مجھے تم میں سے کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا.اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سُن لو کہ میں اس منصب کا اہل نہیں ہوں اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میراباپ اور میر ادادا بھی

Page 650

635 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اس منصب کے اہل نہیں تھے.میرا باپ حسین سے درجہ میں بہت کم تھا اور اس کا باپ حسن حسین کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا.علی اپنے وقت میں خلافت کا زیادہ حق دار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے.اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہو تا ہوں.(ماخوذ از خلافت را شده، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 557-558) اب دیکھیں، کس طرح بیٹے نے یہ باتیں کہہ کر اپنے باپ دادا کے منہ پر طمانچہ مارا ہے.اس لئے کہ خوفِ خدا تھا.اس لئے کہ اس میں تقویٰ کی کچھ رمق تھی.دنیا داروں کے ہاں بھی نیک اولاد اور حقیقت پسند اولاد، انصاف سے کام لینے والی اولا د پیدا ہوتی ہے.بہر حال پھر یہ کہا کہ اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کر لو.اس کی ماں پر دے کے پیچھے اس کی تقریر سن رہی تھی.جب اس نے اپنے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو بڑے غصے سے کہنے لگی کہ کمبخت تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے.وہ کہنے لگا جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے، اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں.چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر گیا.گھر میں ہی بیٹھا رہا.وہاں سے باہر نہیں نکلا اور چند دن گزرنے کے بعد ہی اس کی وفات ہو گئی.تو یہ اس بات کی کتنی زبر دست شہادت ہے کہ یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی، خود اس کا اپنا بیٹا بھی متفق نہ تھا.یہ نہیں کہ بیٹے نے کسی لالچ کی وجہ سے ایسا کیا ہو.یہ بھی نہیں کہ اس نے کسی مخالفت کے ڈر سے ایسا کیا ہو.بلکہ اُس نے اپنے دل میں سنجیدگی کے ساتھ غور اور فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میرے دادا سے علی کا حق زیادہ تھا اور میرے باپ سے حسن اور حسین کا حق زیادہ تھا اور میں اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوں.پس معاویہ کا یزید کو مقرر کرنا کوئی انتخاب نہیں کہلا سکتا.کسی کی ذلت کا اس سے بڑا اور کیا سامان ہو سکتا ہے کہ اولاد خود اپنے باپ کی حقیقت ظاہر کر کے اسے کمتر ثابت کر رہی ہو.پس حضرت امام حسین کی قربانی ہمیں بہت سے سبق دیتی ہے.آپ نے حق کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا میں حق پھیلا دیا.اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے حق کو قائم فرما دیا.ہمیں بھی دعاؤں کے ذریعے سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مددمانگتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں ہمیشہ صراط مستقیم پر چلائے رکھے.ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ حضرت مسیح کو امام حسین سے تشبیہ دی گئی ہے اور استعارہ در استعارہ کے الفاظ استعمال کئے.اس تشبیہ سے ظاہر ہے کہ آنے والا مسیح بھی یعنی یہ مسیح موعود بھی اس تشبیہ سے حصہ لے گا.اس پر بھی ایک لحاظ سے امام حسینؓ کی تشبیہ صادق آتی ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ انشاء اللہ ان باتوں کو نہیں دہرائے گا.خلافت کا تسلسل (ماخوذ از ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 136-137 مطبوعہ ربوہ) یہ الہی تقدیر ہے کہ وہ باتیں اب نہیں دہرائی جائیں گی جن سے اسلام کو ضعف پہنچا تھا.لیکن ہمیں دعاؤں کی طرف بہر حال توجہ دیتے رہنا چاہئے تاکہ ہم ان باتوں سے بچے رہیں جو ایمان میں ٹھو کر کا باعث بنتی ہیں.

Page 651

636 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو جو پہلے ہو چکی ہیں مسیح موعود کے زمانے میں نہیں دہرائے گا، ان میں ایک خلافت کا تسلسل بھی ہے.ایک طریقہ کار کے مطابق انتخاب خلافت بھی ہے اور اس کی آنحضرت صلی للی نکم نے پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ مسیح و مہدی کے بعد یہ تسلسل بھی قائم رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ کس طرح یہ باتیں نہیں دہرائی جائیں گی ؟ مثلاً یہ کہ اگر پہلا آدم جنت سے نکالا گیا تھا تو حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میرا نام اللہ تعالیٰ نے آدم رکھا ہے تا کہ اولادِ آدم کے جنت میں جانے کا ایک نئے سرے سے انتظام ہو.پھر فرمایا کہ پہلے مسیح کو یہودیوں نے صلیب دی تھی تو میرا نام مسیح رکھ کر اللہ تعالیٰ نے صلیب کو توڑنے کا سامان مہیا فرمایا.پس اللہ تعالیٰ پہلی دفعہ کی ناکامی کو دوسری دفعہ کامیابی سے بدلے گا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 498-499 مطبوعہ ربوہ) اگر پہلے حسین کو یزید نے حق گوئی کی وجہ سے شہید کیا تھا تو دوسرے حسین کی وجہ سے خدا تعالیٰ یزید کے لشکر کو شکست دے گا، انشاء اللہ.پس ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں.پس اگر محرم کا مہینہ ہمیں کوئی سبق دیتا ہے تو یہ ہے کہ ہم آنحضرت صلی یہ تم پر اور آپ کی آل پر ہمیشہ درود بھیجتے رہیں.زمانے کے امام کے مقاصد کے حصول میں درود، دعاؤں اور اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہیں.اور یزیدی صفت لوگوں کے سامنے استقامت دکھاتے ہوئے ہمیشہ ڈٹے رہیں.یقیناً اس مر تبہ یزید کامیاب نہیں ہو گا، بلکہ حسینی ہی کامیاب ہوں گے.استقامت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ملتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا اور صبر کا ارشاد فرمایا ہے.صبر صرف ظلم کو برداشت کرنا ہی نہیں ہے.جو ہو جائے اس پر خاموش بیٹھے رہنا نہیں ہے.بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ نیک کام کو جاری رکھنا اور کسی بھی خوف اور خطرے سے بے پرواہ ہو کر حق کا اظہار کرتے چلے جانا، یہ بھی صبر ہے.پس حضرت امام حسین نے جو حق کے اظہار کے نمونے ہمارے سامنے قائم فرمائے ہیں اسے ہمیں ہر وقت پکڑے رہنا چاہئے.اور اگر ہم اس پر قائم رہے تو ہم اس فتح اور کامیابی کا حصہ بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مقدر ہے.انشاء اللہ.درود شریف کی اہمیت اور برکت دعاؤں کی قبولیت کے لئے درود شریف بہت اہم چیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے.احادیث میں بھی اس کا بہت ذکر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھی درود کی طرف توجہ دلائی ہے.اس لئے ہمیں عموماً درود کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور اس مہینے میں خاص طور پر اس طرف توجہ رکھنی چاہئے.جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے بھی اس کی خاص تحریک فرمائی تھی تو میں بھی اس کا اعادہ کرتے ہوئے یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس مہینے میں درود بہت پڑھیں.یہ جذبات

Page 652

637 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کاسب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہو سکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنے کے لئے ہو سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ تم پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے.ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں.آنحضرت صلی علی یلم کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے.اور اس زمانے میں آپ کے عاشق صادق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقاصد کی تکمیل میں بھی یہ درود بے انتہا برکتوں کے سامان لے کر آئے گا.انشاء اللہ تعالی.اللہ تعالیٰ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر درود پڑھنے کی ، زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے.اور پھر یہ درود جو ہے ہماری ذات کے لئے بھی برکتوں کا موجب بننے والا ہو گا.آخر میں میں حضرت امام حسین کے بارہ میں، ان کے مقام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھوں گا جس کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو کیا مقام دیا ہے؟ حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں حضرت امام حسین کا مقام کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی تھی کہ حضرت امام حسین کے مقام اور رتبے کے بارہ میں کسی احمدی نے غلط بات کی ہے.تو اس پر آپ نے فرمایا کہ : ” مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اُس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی ، باغی تھا اور یزید حق پر تھا.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے مُنہ پر ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں“.فرمایا ”بہر حال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے.مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكن قولوا أَسْلَمْنَا ( الحجرات: 15) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خذا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تیں دُور ترلے جاتے ہیں.لیکن بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں.دُنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر ، استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم

Page 653

638 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوب صورت انسان کا نقش.یہ لوگ دُنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں.دُنیا کی آنکھ وہ شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دُنیا سے بہت دُور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزید وں اور پیاروں کا دشمن ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 453-454 اشتہار نمبر 270 مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت صلی علی کم اور آپ کی آل کی محبت کی ہمیشہ توفیق عطا فرماتا رہے.ہمیشہ درود بھیجنے کی توفیق عطا فرما تار ہے.اور یہ بھی دعا کریں کہ پاکستان اور دنیا کے وہ ممالک جہاں اللہ اور رسول کے نام پر ظلم کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ختم فرمائے.اور اس مہینے میں خاص طور پر پاکستان میں بھی اور بعض اور جگہوں پر شیعوں اور سنیوں اور دوسرے فرقوں کے جو فساد ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل و غارت کیا جاتا ہے ، جا ،، جلوسوں پر دہشت گردی کے حملے کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے بھی محفوظ رکھے.اور یہ مہینہ تمام مسلمان ملکوں اور تمام مسلمانوں کے لئے امن کا، خیریت کا مہینہ ثابت ہو.اور حضرت امام حسین کی شہادت کا جو مقصد تھا اُس کو یہ لوگ سمجھنے والے ہوں اور اس زمانے کے امام کو ماننے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی بنیں.آج میں دو افریقن بھائیوں اور ایک بنگالی خاتون کا نمازوں کے بعد جنازہ بھی پڑھاؤں گا.جن کا تعارف یہ ہے.زمبابوے کے ایک ہمارے افریقن دوست تھے مہدی ٹپانی صاحب.نیشنل سیکرٹری تبلیغ تھے.15 نومبر کو ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ایک لمبے عرصے سے نیشنل سیکرٹری تبلیغ تھے.1990ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی توفیق پائی اور اس کے بعد سے ہمیشہ جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے.انہوں نے وہاں مسجد کی زمین خرید نے اور آفس بلاک کی تعمیر میں مدد کی.ان کی اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکے اور دولڑکیاں ہیں.اور اللہ کے فضل سے سب شادی شدہ ہیں.اور اللہ کے فضل سے سب احمدی ہیں.بچے بھی ساتھ ہی احمدی ہیں.ان کے ایک بیٹے حسین ٹپانی صاحب زمبابوے کے صدر خدام الاحمدیہ ہیں اور جنرل سیکرٹری بھی ہیں.ان کی بہو وہاں صدر لجنہ اماءاللہ ہیں.انہتر سال مرحوم کی عمر تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.

Page 654

خطبات مسرور جلد ہشتم 639 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 دوسرا جنازہ ڈاکٹر الحاج ابو بکر گائی (BABUCARR GAYE) صاحب کا ہے.یہ گیمبیا کے منسٹر آف ہیلتھ رہے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ڈاکٹر الحاج ابو بکر گائی صاحب ہیلتھ اینڈ سوشل ورک کے منسٹر رہے.دود سمبر کو ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.1940ء میں گیمبیا میں، بانجل میں پیدا ہوئے.73ء میں ماسکو سے جنرل میڈیسن کی ڈگری حاصل کی.ملک کے مختلف ہسپتالوں میں خدمات انجام دیتے رہے.1999ء سے 2004ء تک نصرت جہاں سکیم کے تحت ہمارے احمد یہ مسلم ہسپتال تالنڈنگ میں بطور ڈاکٹر خدمات سر انجام دیں.اس وقت یہ احمدی نہیں تھے.2004ء میں انہوں نے بیعت کی توفیق پائی.بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے.بیعت کے فوراًبعد چندے کے نظام میں شامل ہوئے اور باقاعدگی سے بڑی بڑی رقمیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیں.پرائیویٹ کلینک سے بہت سی خواتین اور بچوں کا مفت علاج کیا کرتے تھے.بہت ایکٹو (Active) داعی الی اللہ تھے.بطور زعیم انصار اللہ بھی خدمات کی توفیق پائی.تلاوت قرآنِ کریم اور تہجد کی ادائیگی میں بڑے با قاعدہ تھے اور اس بات کا ہمیشہ اور بر ملا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی ہونے کے بعد معجزانہ طور پر روحانی تبدیلی ان کے اندر پید اہوئی ہے.نظام خلافت سے بہت گہرا اور مثالی تعلق تھا.اور خلفاء کے ساتھ بڑی عقیدت اور احترام تھا.ان کی تصاویر بھی رکھی ہوئی تھیں.2009ء میں آپ کا تقرر بطور منسٹر ہوا.آپ کی وفات پر پارلیمنٹ کا اجلاس بھی ہوا جس میں تمام سرکاری افسران اور سپیکر نے ان کی سچائی اور وفاداری اور اخلاص اور قوم کا خادم ہونے اور محنتی ہونے اور سچے مسلمان ہونے کا ذکر کیا.وائس پریذیڈنٹ نے امیر صاحب گیمبیا کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں خطاب کے لئے بلایا اور اُن کو دس منٹ کا وقت دیا کہ وہ بھی کچھ کہیں.جماعت کے کسی بھی امیر کو پارلیمنٹ میں خطاب کا یہ پہلا موقع تھا.آپ کی وفات پر آپ کی باڈی ہاؤس آف پارلیمنٹ رکھی گئی جہاں وائس پریذیڈنٹ، سپیکر آف دی ہاؤس نے اور وزراء نے اور ممبران پارلیمنٹ اور دوستوں نے آخری دیدار کیا اور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کی تدفین ہوئی.ملک کے ٹی وی پر ان کی وفات کا اعلان نشر ہوا.مرحوم کے خاندان کے ایک ممبر نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنے ایڈریس میں بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ مرحوم نہایت سچے اور مخلص احمدی مسلمان تھے جو ایک خدا اپر اور اسلام کے پانچ ارکان پر ایمان رکھتے تھے اور حقیقی مسلمان تھے.اور غرباء کا نہ صرف مفت علاج کرتے تھے بلکہ رقوم کے ذریعہ بھی مدد کرتے تھے.گیمبیا میں وقتاً فوقتاً جماعت کے خلاف کچھ نہ کچھ وبال اُٹھتارہتا بہ حکومت میں تھے تو اس لحاظ سے بہر حال کچھ نہ کچھ فائدہ بھی رہتا ہے.اللہ کرے وہاں ان کے اللہ تعالیٰ اور نعم ہے.یہ البدل پیدا فرمائے جو سرکاری حلقوں میں بھی اثر رسوخ رکھنے والے ہوں اور نیک ، صالح اور خادم سلسلہ بھی ہوں.تیسر اجنازہ مکرمہ عزت النساء صاحبہ اہلیہ مکرم ابو احمد بھوئیاں صاحب مرحوم بنگلہ دیش کا ہو گا جو ہمارے مربی سلسلہ، مبلغ سلسلہ اور بنگلہ ڈیسک کے انچارج مکرم فیروز عالم صاحب کی والدہ تھیں.17 نومبر کو تقریباً

Page 655

640 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم 85 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے..اِنَّا لِلهِ وَانَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انہوں نے 1975ء میں احمدیت قبول کی اور پنجوقتہ نمازوں کی پابند، تہجد گزار اور دین العجائز رکھنے والی نیک مخلص خاتون تھیں.عبادات کے سلسلے میں انہیں پاکیزگی کا اتنا خیال تھا کہ ہر نماز سے پہلے کپڑے بدل کر نماز ادا کیا کرتی تھیں.ان کے گاؤں میں اکثر لوگ ناخواندہ ہیں.گاؤں میں رہنے والی تھیں لیکن انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا.ایسی غریب پرور تھیں کہ اپنی غربت کے باوجو د اپنے خاندان کے دوسرے غریبوں کا بہت خیال رکھتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافتِ احمدیہ سے والہانہ محبت رکھتی تھیں.مخالفین جب بھی ان کے سامنے جماعت کے خلاف بات کرتے تو وہ اُن کو یہی جواب دیتیں کہ تمہیں نہیں معلوم کہ تم کس نعمت کا انکار کر رہے ہو؟ مرحومہ موصیہ تھیں.تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ان کی یاد گار ہیں.جیسا کہ میں نے کہا، فیروز عالم صاحب ان کے ایک بیٹے ہیں جو یہیں لندن میں ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور سب کے پسماندگان کو صبر کی توفیق عطا فرمائے.( نماز جمعہ و عصر کے بعد حضور ایدہ اللہ نے ان مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی).الفضل انٹر نیشنل جلد 17 شمارہ 53 مورخہ 31 دسمبر 2010 تا 6 جنوری 2011 صفحہ 5تا8)

Page 656

خطبات مسرور جلد ہشتم 641 51 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010ء بمطابق 17 فتح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرہ: 166).اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے جو درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے پیار اور محبت کی طرف مائل کرتی ہے.اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح اُس دلدار کو راضی کریں.حدیث میں بھی آتا ہے کہ جس روز خدا تعالیٰ کے سایہ عاطفت کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہو گا، اُس روز جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ عاطفت میں لے گا اُن میں وہ دو لوگ بھی شامل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں.( بخاری کتاب الاذان باب من جلس في المسجد منتظر الصلوة حديث نمبر (660) یہ اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنی شدید محبت کا اظہار ہو.پس جب عام مومن کو ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے تو جو اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور نبی ہوتے ہیں اُن سے محبت کو خدا تعالیٰ کس طرح نوازے گا، اس کا تو اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا.یہ عشق و محبت کے عجیب نظارے ہیں جس کا آخری سرا اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتا ہے.کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے عشق و وفا کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادوں کا زمانہ پاتے ہیں.یہ نمونے دکھانے کا موقع ہم میں سے بعض کے باپ دادا کو بھی ملا، آباؤ اجداد کو بھی ملا، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وقت پایا اور اپنی محبت اور پیار اور عقیدت اور احترام کا اظہار براہ راست آپ سے کیا.اور پھر آپ علیہ السلام کے پیار اور شفقت سے بھی حصہ لینے والے بنے.صحابہ حضرت مسیح موعود کا پاکیزہ تذکرہ اور سیرت حضرت مسیح موعود اس وقت میں ایسے ہی چند بزرگوں کی روایات اور واقعات کا ذکر کروں گا.وہ کیا ہی بابرکت وجود تھے جنہوں نے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں کو چھوا، آپ سے براہ راست فیض پایا.

Page 657

642 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم میں نے جو بعض روایات لی ہیں ان میں سے پہلی روایت حضرت ولی داد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو راجپوت قوم کے تھے.ملک خان صاحب کے بیٹے ساکن مراڑا تحصیل نارووال ، کہتے ہیں کہ میں نے دسمبر 1907ء میں جلسہ سالانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی تھی اور تاریخ جلسہ سے ایک دن پہلے رات کو قادیان پہنچا تھا.صبح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گھر سے باہر تشریف لانا تھا تو میں نے دیکھا کہ مسجد مبارک کے پاس بہت بڑا ہجوم ہے.آدمی ایک دوسرے پر گر رہے تھے.میں چونکہ نووارد تھا، میں دوسری گلی پر کھڑا ہو کر دعا مانگ رہا تھا کہ اے مولا کریم! اگر حضور اس گلی سے تشریف لے آویں تو سب سے پہلے میں مصافحہ کر لوں.اُسی وقت کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اسی راستے سے تشریف لے آئے ہیں“.کہتے ہیں کہ یکلخت مجھے ایسا معلوم ہو ا جس طرح سورج بادل سے نکلتا ہے اور روشنی ہو جاتی ہے.میں نے دوڑ کر سب سے پہلے مصافحہ کیا.حضور آریہ بازار کے راستے باہر تشریف لے گئے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب کے باغ کا جو شمالی کنارہ ہے وہاں سے حضور واپس مڑے.غالباً مسجد نور یا مدرسہ احمدیہ کی مغربی حد ہے ، وہاں حضور بیٹھ گئے.صحابہ کرام ارد گرد جمع تھے اور میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی نے کچھ نظمیں اپنی بنائی ہوئیں سنائیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 84 روایت حضرت ولی داد خان صاحب.غیر مطبوعہ ) پھر حضرت مدد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ انسپکٹر بیت المال قادیان جو کہ راجہ فتح محمد خان صاحب کے بیٹے تھے ، یاڑی پورہ ریاست کشمیر کے رہنے والے تھے.1896ء میں انہوں نے بیعت کی اور 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اپنے وطن میں رمضان المبارک کے مہینے میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دفعہ قادیان میں جا کر روزے رکھوں اور عید وہیں پڑھ کر پھر اپنی ملازمت پر جاؤں.اُن دنوں میں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہو اتھا.(میر اخیال ہے آج کل تو یہ عہدہ نہیں لیکن junior comissioned officer ہوتے تھے ) تو کہتے ہیں کہ میری اُس وقت ہر چند یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے میں قادیان جاؤں تا حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار حاصل کر سکوں اور دوبارہ آپ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں، کیونکہ میری پہلی بیعت 1895ء یا 96ء کی تھی جو ڈاک کے ذریعے (خط کے ذریعے) ہوئی تھی.کہتے ہیں میرا ان دنوں قادیان میں آنے کا پہلا ہی موقع تھا.نیز اس لئے بھی میرے دل میں غالب خواہش پید اہوئی کہ ہو نہ ہو ضرور اس موقع پر حضور کا دیدار کیا جاوے.شاید اگر ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضور کو دیکھنے کا موقع ملے یا نہ ملے.لہذا یہی ارادہ کیا کہ پہلے قادیان چلا جاؤں اور حضور کو دیکھ آؤں اور پھر وہاں سے واپس آکر اپنی ملازمت پر چلا جاؤں.کہتے ہیں میں قادیان کو اس سوچ کے ساتھ آیا تھا لیکن جو نہی

Page 658

643 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم یہاں آکر میں نے حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار کیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہر گز نہ جاؤں.یہ محض آپ کی کشش تھی جو مجھے واپس نہ جانے پر مجبور کر رہی تھی.میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہو گیا.یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا.میرے دل میں بس یہی ایک خیال پیدا ہو گیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار بھی ہو گی تو کیا ہو گا.لیکن تیرے باہر چلے جانے پر پھر تجھ کو یہ نورانی مبارک چہرہ ہر گز نظر نہیں آئے گا.میں نے اس خیال پر اپنے وطن کو جانا ترک کر دیا اور یہی خیال کیا کہ اگر آج یا کل تیری موت آجائے تو حضور ضرور ہی تیر اجنازہ پڑھائیں گے جس سے تیرا بیڑا بھی پار ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائے گا.اور قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کر لیا.میرا یہاں پر ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ ہر روز ایک لفافہ دعا کے لئے حضور کی خدمت میں آپ کے در پر جا کر کسی کے ہاتھ بھجوا دیا کر تا لیکن دل میں یہی خطرہ رہتا کہ کہیں حضور میرے اس عمل سے ناراض نہ ہو جائیں اور دل میں یہ محسوس نہ کریں کہ ہر وقت تنگ کرتارہتا ہے.لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا وہ اس لئے کہ ایک روز حضور نے مجھے تحریر جواب میں فرمایا کہ آپ نے یہ بہت اچھا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ مجھے یاد کرواتے رہتے ہو.جس پر میں بھی آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتارہتا ہوں اور انشاء اللہ پھر بھی کرتار ہوں گا.اللہ تعالیٰ آپ کو خود ہی دین و دنیا میں کامیابی دے گا.اور خدا آپ پر راضی ہو جائے گا.اور آپ کی شادی بھی خدا ضرور ہی کرا دے گا.آپ مجھے یاد دہانی کراتے رہا کرو.میں آپ پر بہت خوش ہوں.کہتے ہیں کہ خاکسار نے حضور کی اس تحریر کو شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم کو دکھایا اور کہا کہ حضور نے خاکسار کو آج یہ تحریر فرمایا ہے اور پھر کہا یہ کیا بات ہے کہ میں نے تو کبھی کسی موقع پر بھی حضور کو اپنی شادی کرنے یا کرانے کے بارے میں اشارہ تک نہیں کیا.اس پر شیخ صاحب ہنس کر کہنے لگے کہ اب تو تمہاری شادی بہت جلد ہونے والی ہے.کیونکہ حضور کا فرمانا خالی نہیں جایا کرتا.آپ تیار ہی رہیں.لکھتے ہیں کہ خدا شاہد ہے کہ حضور کے اس فرمانے کے قریباً دو ماہ کے اندر اندر ہی میری شادی ہو گئی.اس سے پہلے میری کوئی بھی کسی جگہ شادی نہیں ہوئی تھی.میری دوشادیاں حضور نے ہی کرائی تھیں.ورنہ مجھ جیسے پر دیسی کو کون پوچھتا تھا.یہ محض حضور کی خاص مہربانی اور نظر کرم تھی کہ آپ کے طفیل میری شادیاں ہوئیں.کہاں میں اور کہاں یہ عمل.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 95 تا 97 روایت حضرت مد دخان صاحب.غیر مطبوعہ ) حضرت ماسٹر محمد پریل صاحب ساکن کمال ڈیرہ سندھ لکھتے ہیں کہ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ.یہ عاجز اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جولائی 1905ء میں حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء پر دست بیعت ہوا تھا.اُس زمانے میں مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی.چار پانچ

Page 659

644 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم آدمی صف میں بیٹھتے تو جگہ بھر جاتی تھی.اُس ماہ میں بہت گرمی تھی یعنی جولائی میں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب مسجد میں تشریف آور ہوتے تو میں پنکھا چلاتا تھا ، ( ہاتھ کا پنکھا جھلا جاتا تھا).مولوی محمد علی صاحب کا دفتر مسجد مبارک کے اوپر تھا.ایک دن مولوی محمد علی صاحب کو کچھ حضور کے آگے گزارش کرنی تھی، (اُن کا خیال تھا کہ بیٹھ کر گزارش کروں) مگر بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی.کہتے ہیں یہ عاجز حضرت اقدس کے زانوئے مبارک سے اپنے زانو کو ملا کر پنکھا چلاتا تھا.مولوی محمد علی نے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ اس کو پیچھے ہٹنے کے لئے اشارہ کرو.کہتے ہیں میں اشارے پر پیچھے ہٹنے لگا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا: مت ہٹو، بیٹھے رہو اسی طرح.یہ عاجز پھر پنکھا چلانے لگا.اور مولوی محمد علی صاحب نے کھڑے ہو کر اپنی گذارش کی.حضرت اقدس نے ان کو مناسب جواب دیا.مولوی صاحب تحریر کر کے (لکھ کے ) چلے گئے.لکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں تو اس بات کا خیال نہیں رہا.اب اس بات سے بہت سرور اور لذت آتی ہے کیونکہ میں ایک ادنی آدمی اور بے سمجھ اردو بھی پوری طرح نہیں آتی تھی اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور عالم تھے مگر نبی اللہ کی نظر میں ادنیٰ اور اعلیٰ ایک ہی ہوتا ہے.یہ عاجز پندرہ دن صحبت میں رہا اور ہر ایک دن میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا نورانی چہرہ روشن دیکھنے میں آتا تھا.اس عاجز کو یہ ہی معلوم ہو تا تھا کہ اب حمام خانہ سے غسل کر کے آگئے ہیں اور سر مبارک کے بالوں (جو کندھے کے برابر تھے) سے گویا موتیوں کے قطرے گر رہے ہیں.اس عاجز نے پندرہ روز میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ مبارک میں غم نہیں دیکھا.جب بھی مجلس میں آتے خوش خندہ پیشانی ہوتے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 92 روایت حضرت ماسٹر محمد پریل صاحب غیر مطبوعہ ) پھر حضرت چوہدری عبد الحکیم صاحب ولد چوہدری شرف الدین صاحب ساکن گھا کر چیماں تحصیل وزیر آباد ضلع گوجر انوالہ لکھتے ہیں کہ 1902ء کی گرمیوں کا موسم تھا.میں ان دنوں ملتان چھاؤنی ریلوے سٹیشن پر بطور سگنلر (signaler) ملازم تھا.میرے خیالات اہلحدیث کے تھے اور میں مولوی عبد الجبار اور عبد الغفار اہلحدیث جو دونوں بھائی تھے اور ملتان شہر کے قلعے کے پاس ان کی کتابوں کی دکان تھی اُن سے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا کرتا تھا کہ اتفاقاًمیری ملاقات مولوی بدرالدین احمدی سے ہوئی جو شہر کے اندر ایک پرائیویٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.انہوں نے مجھے اخبار الحکم پڑھنے کو دیا.مجھے یاد ہے کہ اخبار الحکم کے پہلے صفحے پر لکھا ہوا تھا کہ خد اتعالیٰ کی تازہ وحی اور کلمات طیبات امام الزمان.میں ان کو پڑھتا تھا اور میرے دل کو ایک ایسی کشش اور محبت ہوتی تھی کہ فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں پہنچوں.کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور باوجود اہلحدیث کے مولویوں کے بہکانے اور ورغلانے کے میں نے تھوڑے ہی عرصے میں احمدیت کو قبول کر

Page 660

645 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم لیا.مولوی بدرالدین صاحب نے مجھے قادیان فوراً جانے کا مشورہ دیا.اور میرے ساتھ ایک اور اہلحدیث مولوی بھی تیار ہو گئے.وہ مولوی سلطان محمود صاحب اہلحدیث کے شاگرد خاص تھے.کہتے ہیں غربت کی حالت تھی.پندرہ روپے میری تنخواہ تھی.میں نے رخصت لی اور ریلوے پاس کا حق نہیں تھا.میں نے بمعہ دوسرے دوست کے امر تسر کا ٹکٹ لیا.کیونکہ ہمارے پاس قادیان کا کرایہ پورا نہ تھا.امر تسر پہنچ کر ہمارا ٹکٹ ختم ہو گیا.اور ہم نے بٹالے والی گاڑی میں سوار ہونا تھا مگر ہمارے پاس صرف آٹھ آنے کے پیسے تھے.اس لئے ہم نے دو دو آنے کا ویر کہ کا ٹکٹ لے لیا اور گاڑی میں سوار ہو گئے.کہتے ہیں کہ یہ بھی وہاں سوار ہونے کے بعد پھر ہمیں خیال آیا کہ بٹالے جانا ہے اور ٹکٹ بھی اتنا نہیں ہے.خیر ہم بیٹھے رہے.اس دوران میں ٹکٹ چیکر آگیا.اس نے ٹکٹ ہمارا چیک کیا.لیکن ٹکٹ اچھی طرح چیک کرنے کے باوجود ہمیں ٹکٹ چیک کر کے واپس کر دیا کہ ٹھیک ہے.اور اسی طرح سٹیشن سے باہر نکلتے ہوئے ٹکٹ چیک کرنے والے نے ٹکٹ چیک کیا اور ہمیں کچھ نہیں کہا.ہم یہی دعا کرتے رہے کہ ایک نیک مقصد کے لئے ہم جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی بے عزتی سے بچالے.تو کہتے ہیں کہ اس ٹکٹ نے ہمیں آخر تک پہنچا دیا.ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے ایک پہلا معجزہ جو ہم نے دیکھا وہ یہی تھا.لیکن بہر حال نیت نیک تھی.مجبوری تھی اس کی وجہ سے انہوں نے ٹکٹ لیا نہ کہ ارادہ دھو کہ دینے کے لئے.تو بہر حال لکھتے ہیں کہ بٹالے سے پھر پیدل قادیان چلے گئے.قادیان جب ہم مسجد مبارک میں داخل ہوئے اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے.میرے ساتھ جو دوست تھا وہ ایک اہلحدیث عالم تھا.اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملتے ہی ایک سوال کیا کہ جب قرآن اور حدیث ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے تو آپ کی بیعت کی کیا ضرورت ہے ؟ حضور اُسی وقت وہیں کھڑے ہو گئے اور تقریر شروع فرمائی.ابھی حضور کی تقریر ختم نہ ہوئی تھی کہ معترض ساتھی نے عرض کیا کہ حضور میری تسلی ہو گئی ہے.میں بیعت کرتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ ابھی ٹھہرو اور پوری تسلی کر لو.شاید آپ کو دھو کہ نہ لگ جائے.پھر نماز ظہر پڑھا کر گھر تشریف لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریر کے خاتمے پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ اخباروں میں سب کچھ لکھا جا چکا ہے.(یعنی یہ سوال جواب پہلے ہو چکے ہوئے ہیں جو اس نے کیا تھا کہ کیا ضرورت ہے قرآن اور حدیث کی موجودگی میں کسی اور کی بیعت کرنے کی؟).مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پھر باہر سے آنے والے لوگ حضور کی خدمت میں سوال کر کے تکلیف دیتے ہیں اور اخبار کو نہیں پڑھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! تقریر تو میں کرتا ہوں اور تکلیف آپ کو ہوتی ہے.حضور ہر سوال کرنے والے کا بڑی خندہ پیشانی سے جواب فرمایا کرتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 121 تا 123 روایت حضرت چوہدری عبد الحکیم صاحب.غیر مطبوعہ )

Page 661

خطبات مسرور جلد ہشتم 646 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 حضرت چوہدری عبدالحکیم صاحب ولد چوہدری شرف الدین صاحب گھا کر چیماں تحصیل وزیر آباد ضلع گوجر انوالہ لکھتے ہیں کہ جس شام کو میں نے بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تشریف لے جانے کے بعد میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو ا جو مسجد مبارک کے چھت کے پاس ہی کو ٹھڑی میں رہتے تھے“.پہلی روایت بھی ان کی ہے.انہوں نے ایک چھوٹی سی چارپائی چھت پر بچھائی ہوئی تھی.میں اُن کی خدمت میں دیر تک بیٹھارہا اور بہت سے مسئلے پوچھتا رہا.مگر سوائے ایک بات کے اور کوئی مجھے یاد نہیں رہی اور وہ یہ کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے فرمایا کہ مخالف لوگ کہتے ہیں کہ نورالدین دنیا کمانے کے لئے قادیان آیا ہے.مگر مجھے تو وہ چار پائی ملی ہے ( چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے) جس پر میرا آدھا جسم نیچے ہوتا ہے.میں تو صرف خدا کے لئے یہاں آیا ہوں اور میں نے وہ حضرت اقدس کی بیعت میں پالیا.جس خدا کے لئے میں یہاں آیا ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے میں نے پالیا.(ماخوذرجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 125 روایت حضرت چوہدری عبد الحکیم صاحب غیر مطبوعہ ) یہی اعزاز تھا جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شعر میں حضرت خلیفہ اول کی تعریف اس طرح کی ہے کہ چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نورِ دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے در ثمین فارسی صفحه 117 مطبوعه ربوه) کہ کیا ہی خوشی کی بات ہو اگر ہر ایک دل میں نور الدین کی طرح کا جذبہ ہو.اور یہ اسی وقت ہو تا ہے جب ہر دل میں ایک یقین بھر اہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے بارے میں حق الیقین پر قائم ہوں تو تبھی وہ رتبہ ملتا ہے جو حضرت مولانا نورالدین صاحب کو ملا.رض حضرت حامد حسین خان صاحب جو محمد حسین خان صاحب مراد آباد کے بیٹے تھے.کہتے ہیں کہ میں 1902ء میں علی گڑھ سے آکر میرٹھ میں ملازم ہوا تھا.میری ملازمت کے کچھ عرصے بعد مکرمی خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب بسبیل تبادلہ بعہدہ انسپکٹر آبکاری میرٹھ میں تشریف لے آئے.آپ چونکہ احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود کی بیعت کر چکے تھے ، لہذا آپ کے گھر پر دینی ذکر و اذکار ہونے لگے.اور شیخ عبد الرشید صاحب زمیندار ساکن محله رنگ ساز صدر بازار میر ٹھ کیمپ پر مولوی عبد الرحیم صاحب وغیر ہ خان صاحب موصوف کے گھر پر آنے جانے لگے.خان صاحب موصوف سے چونکہ مجھے بوجہ علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے محبت تھی.اس لئے میری نشست و برخاست بھی خان صاحب کے گھر پر ہونے لگی.میں نے کتابیں دیکھنے کا شوق ظاہر کیا تو حضرت اقدس مسیح موعود کی چھوٹی چھوٹی تصانیف خان صاحب نے مجھے دیں جن میں غالباً برکات الدعا پہلے پڑھی

Page 662

647 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اور اس طرح اور کتا بیں تھیں.کہتے ہیں وہ میں نے دیکھنی شروع کیں.مولوی محمد احسن صاحب امر وہی خان صاحب کے ہاں تشریف لائے اور میرٹھ میں مناظرے کے طور پر گئے.اُس وقت صرف ایک ہی مسئلہ زیر بحث تھا.اور وہ وفات مسیح کا مسئلہ تھا.مناظرہ وغیرہ تو میرٹھ کے شریر اور فسادی لوگوں کے باعث نہ ہوا.لیکن مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کی تقریر ضرور میں نے وفات مسیح کے متعلق سنی.کہتے ہیں کہ میرٹھ کی پبلک سے جو جھگڑا مناظرے کے متعلق ہوا اس کے علیحدہ ایک رسالہ میں واقعات آگئے ہیں.بہر حال اس کے بعد کہتے ہیں کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے کا شوق پیدا ہوا.میں نے خان صاحب موصوف سے عرض کیا کہ اگر حضرت اقدس کہیں میرٹھ کے قریب قریب تشریف لائیں تو مجھے ضرور اطلاع دیں.میں ایسے عظیم الشان شخص کو دیکھنا چاہتا ہوں.اگر نہ دیکھوں تو بڑی بدنصیبی ہو گی.وہ کہتے ہیں اس وقت مجھے بیعت کا خیال تو نہیں تھا.اس کے بعد 1904ء میں ایک بہت بڑاز لزلہ آیا جس کے متعلق یہ کہا گیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آیا ہے.اس کے بعد ایک دن خانصاحب موصوف نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لارہے ہیں.آپ بھی زیارت کے لئے چلیں.کہتے ہیں میں نے آمادگی ظاہر کر دی اور پھر ہم دہلی چلے گئے.دہلی میں حضرت اقدس کا قیام الف خان والی حویلی میں جو محلہ چنلی قبر میں واقع ہے وہاں تھا.میں اور خانصاحب موصوف بذریعہ ریل دہلی پہنچے.غالباً بارہ، ایک بجے کا وقت تھا.حضرت اقدس مسیح موعود مکان کے اوپر کے حصہ میں تشریف رکھتے تھے اور نیچے دوسرے دوست ٹھہرے ہوئے تھے.مکان میں داخل ہوتے ہوئے میری نظر مولوی محمد احسن صاحب پر پڑی.چونکہ ان سے تعارف میرٹھ کے قیام کے وقت سے ہو چکا تھا تو میں ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا.تھوڑی دیر میں غالباً خان صاحب نے جو اس بر آمدہ میں بیٹھے تھے جس کے اوپر کے حصہ میں حضرت اقدس کا قیام تھا مجھ کو اپنے پاس بلا لیا.میں ایک چار پائی پر پائینتی کی طرف بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا.جہاں میں بیٹھا تھا ان کے قریب ہی زینہ تھا، سیڑھیاں تھیں گھر کے اوپر والے حصے میں جانے کی، تو کہتے ہیں کہ حضرت اقدس اوپر سے تشریف لے آئے.سیڑھیوں کی طرف میری پشت تھی.اور میں نے آتے ہوئے دیکھا نہیں.حضور علیہ السلام نیچے تشریف لائے اور آہستگی سے آکر میرے برابر پلنگ کی پائینتی پر بیٹھ گئے.میرے ساتھ ہی بڑی بے تکلفی سے بیٹھ گئے.کہتے ہیں میں تو پہچانتا نہیں تھا.جب حضور بیٹھ گئے تو اس وقت پہچاننے والا اور کوئی تھا نہیں.تو کسی نے مجھے بتلایا کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے.اس وقت میں گھبر اکر وہاں سے اٹھنا چاہتا تھا کہ حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا کہ یہیں بیٹھے رہیں.یہ یاد نہیں کہ حضور نے مجھ کو بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا یا صرف زبان سے ارشاد فرمایا.حضرت صاحب کے تشریف لانے کے بعد تمام دوستوں کو جو مکان کے مختلف حصوں میں قیام پذیر تھے اطلاع ہو گئی اور مکان میں ایک ہلچل مچ گئی.اس قدر یاد ہے کہ غالباً خانصاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ میر ٹھ سے آئے ہیں.اور اتنے میں اور باتیں ہونے لگیں.پھر

Page 663

648 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم آگے کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد ظہر اور عصر کی نمازیں وہاں ادا کی گئیں اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو دوست بیعت کرنا چاہتے ہوں وہ آگے آجائیں.اس پر کسی اور دوست نے بھی اونچی آواز میں اعلان کیا.چنانچہ بہت سے دوست آگے ہوئے اور میں سب سے پیچھے رہ گیا.حضور نے بیعت شروع کرنے سے قبل ارشاد فرمایا کہ جو دوست مجھ تک نہیں پہنچ سکتے وہ بیعت کرنے والوں کی کمر پر ہاتھ رکھ کر جو میں کہوں وہ الفاظ دہراتے جائیں.کہتے ہیں کہ میں اس وقت بھی خاموش الگ سب سے پیچھے بیٹھا رہا کیونکہ ارادہ نہیں تھا بیعت کرنے کا، اور ہاتھ بیعت کرنے والوں کی کمر پر نہیں رکھا.جب حضرت صاحب نے بیعت شروع کی تو میر ا ہاتھ بغیر میرے ارادے کے آگے بڑھا اور جو صاحب میرے آگے بیٹھے ہوئے تھے ، میں نے ہاتھ اُن کی کمر پر رکھ دیا اور اُس کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرانے لگا.اور پھر دوبارہ لکھتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرا ہاتھ میرے ارادے سے آگے نہیں بڑھا بلکہ خود بخود آگے بڑھ گیا.جب حضرت اقدس نے رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِنی کی دعا کا ارشاد فرمایا.سب نے اس کو دہرایا.میں نے بھی دہرایا.لیکن جب حضرت صاحب نے اس کے معنے اُردو میں فرمانے شروع کئے اور بیعت کنندوں کو دہرانے کا ارشاد فرمایا تو میں نے جس وقت وہ الفاظ دہرائے تو اپنے گناہوں کو یاد کر کے سخت رقت طاری ہو گئی.اور یہاں تک کہ اس قدر زور سے میں چیخ کر رونے لگا کہ سب لوگ حیران ہو گئے اور میں روتے روتے بیہوش ہو گیا.مجھ کو خبر ہی نہیں رہی کہ کیا ہو رہا ہے.جب دیر ہو گئی تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ پانی لاؤ.وہ لایا گیا اور حضور نے اس پر کچھ پڑھ کر میرے اوپر چھڑ کا.یہ مجھ کو خانصاحب سے معلوم ہوا.انہوں نے بعد میں بتایا.ہاں اس قدر یاد ہے کہ حالت بیہوشی میں میں نے دیکھا کہ مختلف رنگوں کے نور کے ستون آسمان سے زمین تک ہیں.اس کے بعد مجھ کو کسی دوست نے زمین سے اٹھایا.میں بیٹھ گیا مگر میرے آنسو نہ تھمتے تھے.اس قدر حالت متغیر ہو گئی کہ میرٹھ آکر بھی بار بار روتا تھا.پھر خانصاحب موصوف نے میرے نام ”بدر “ و ریویو “ جاری کر دیا.اور بد ر میں حضرت اقدس کی وحی مقدس شائع ہوتی تھی.اس سے بہت محبت ہو گئی.اور ہر وقت یہ جی چاہتا تھا کہ تازہ وحی سب سے پہلے مجھ کو معلوم ہو جائے.پھر جلسہ پر دارالامان جانے لگا اور برابر جاتا رہا.حضرت اقدس کو دعاؤں کے لئے خط لکھتا رہا.اور ایک خط کا جواب حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے دیا تھا.وہ میرے پاس اب تک موجود تھا.لیکن بعد میں کہیں گم گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 63 تا 67.روایت حضرت حامد حسین خان صاحب غیر مطبوعہ ) حضرت مستری اللہ دتہ ولد صدر دین صاحب رضی اللہ عنہ سکنہ بھانبڑی ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ 1894ء میں انہوں نے بیعت کی تھی اور 1894ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی.کہتے ہیں کہ ”میرے استاد کا نام مہر اللہ تھا.میں نے اُن سے قرآن شریف سادہ پڑھا تھا.وہ کہا کرتے تھے کہ امام مہدی ظاہر ہونے والا ہے اس کی بیعت کر لینا.جب خبر سنائی دی کہ قادیان میں حضرت امام مہدی ظاہر ہو گئے تو میں نے

Page 664

خطبات مسرور جلد ہشتم 649 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 66 اپنے استاد مہر اللہ صاحب کے کہنے پر بیعت کر لی.میں نے اور میرے بھائی رحمت اللہ صاحب نے قادیان میں آکر بیعت دستی کر لی تھی.اور بھانبڑی سے ہمیشہ جمعہ قادیان میں آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دوست اگر تمہارے پاس آیا کریں تو ان کی خاطر تواضع کیا کرو.ماسٹر عبد الرحمان صاحب بی اے بھانبڑی بھی ہمارے پاس جایا کرتے تھے اور مفتی فضل الرحمان صاحب بھی کبھی کبھی جایا کرتے تھے.کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبانی اکثر دفعہ سنا ہے کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا سلسلہ سچا ہے.اس کو انشاء اللہ زوال نہ ہو گا.جھوٹ تھوڑے دن رہتا ہے اور سیچ سدا رہتا ہے.کچھ زمیندار مہمان قادیان میں آگئے تھے.گرمیوں کے دن تھے.اس وقت صبح آٹھ بجے کا وقت ہو گا.حضرت صاحب نے باورچی سے پوچھا.کچھ کھانا ان کو کھلایا جائے.باورچی نے کہا کہ حضور رات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ہیں.حضور نے فرمایا.کچھ حرج نہیں ہے لے آؤ.چنانچہ باسی روٹیاں لائی گئیں.حضور نے بھی کھائیں اور سب مہمانوں نے بھی کھالیں.غالباً وہ مہمان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اٹھوال کو جانے والے تھے.حضور نے فرمایا کہ باسی کھالینا سنت ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایت صحابہ نمبر 4 صفحہ 106 روایت حضرت مستری اللہ دتہ صاحب غیر مطبوعہ ) حضرت میراں بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں شرف الدین صاحب درزی گوجرانوالہ آبادی چاہ روڈا محلہ احمد پورہ لکھتے ہیں کہ ”خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت قریباً 1897ء یا 98ء میں کی.مگر اپنے والد صاحب سے کچھ عرصہ تک اس امر کا اظہار نہ کیا.آخر کب تک پوشیدہ رہ سکتا تھا.بھید کھل گیا تو والد صاحب نے خاکسار کو صاف جواب دے کر گھر سے نکال دیا.تو خاکسار نے خدارازق پر توکل کر کے ایک الگ دوکان کرایہ پر لے لی.تنگدستی تو تھی ہی مگر دل میں شوق تھا کہ جس طرح بھی ہو سکے بموجب حیثیت حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے ایک پوشاک بنا کر اور اپنے ہاتھ سے سی کر حضور کی خدمت میں پیش کی جائے.اسی خیال سے میں نے ایک کر نہ ململ کا اور ایک سلوار لٹھے کی اور ایک کوٹ صرف سیاہ رنگ کا اور ایک دستار ململ کی خرید کر اور اپنے ہاتھ سے سی کر پوشاک تیار کرلی اور قادیان شریف کا کرایہ ادھر ادھر سے پکڑ پکڑا کر قادیان شریف پہنچ گیا.دوسرے روز جمعہ کا دن تھا.اس لئے خیال تھا کہ اگر ہو سکے تو یہ ناچیز اور غریبانہ تحفہ آج ہی حضور کی خدمت بابرکت میں پہنچ جائے تو شاید حضور جمعہ کی نماز سے پہلے ہی اس کو پہن کر اس غریب کے دل کو خوش کر دیں.غرض اسی سوچ بچار میں قاضی ضیاء الدین صاحب کی دوکان پر پہنچ گیا اور ان کے آگے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا.وہ سنتے ہی کہنے لگے کہ چل میاں، میں تم کو حضور کی خدمت میں پہنچادیتاہوں.چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ کر مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لے گئے.اس وقت حضور علیہ السلام ایک تخت پوش پر بیٹھے ہوئے

Page 665

650 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم کچھ لکھ رہے تھے.اور خواجہ صاحب کمال الدین تخت پوش کے سامنے ایک چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے.ہم دونوں بھی وہاں خواجہ صاحب کے پاس بیٹھ گئے.خواجہ صاحب نے دریافت کیا کہ اس وقت کیسے آئے.قاضی صاحب نے میری خواہش کا اظہار کر دیا.خواجہ صاحب تھوڑی دیر خاموش رہ کر میری طرف مخاطب ہوئے اور کہا کیوں میاں ! میں ہی تمہاری وکالت کر دوں.میں نے کہا یہ تو آپ کی بہت مہربانی ہو گی.اس پر خواجہ صاحب نے مجھ سے وہ کپڑے لے کر حضور علیہ السلام کو پیش کر دیئے.اور ساتھ ہی یہ عرض بھی کر دی کہ حضور اس لڑکے کی خواہش ہے کہ حضور ان کپڑوں کو پہن کر جمعہ کی نماز پڑھیں.خواجہ صاحب کی یہ بات سن کر حضور نے کپڑے اٹھا کر پہننے شروع کر دیئے.(مطلب یہ کہ فوری تو نہیں پہنے ہوں گے لیکن دیکھنے شروع کر دیئے) لیکن جب کوٹ پہنا تو وہ تنگ تھا.تو میں نے عرض کی کہ حضور کوٹ بہت تنگ ہے.اگر اس کو اتار دیں تو میں اس کو کچھ کھول دوں.حضور نے کوٹ اتار کر مجھے دے دیا.میں جلدی سے اٹھ کر بازار میں آیا اور ایک درزی کی دوکان پر بیٹھ کر تھوڑا سا کوٹ کو کھولا اور خدمت میں پیش کیا.حضور نے کوٹ پہن لیا مگر ابھی بھی بٹن بند نہیں ہوتے تھے.مگر حضور نے کھینچ تان کر بٹن لگالئے اور کچھ بھی خیال نہ کیا کہ یہ کپڑے حضور کے پہنے کے لائق بھی ہیں یا نہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 12 تا 14.روایت حضرت میاں میراں بخش صاحب.غیر مطبوعہ ) حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب چھبر جو ریاست جموں کے مولوی نیک عالم صاحب کے بیٹے تھے ، لکھتے ہیں کہ 1929ء میں یہ پینشن حاصل کی اور قادیان آگیا.1907ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تو تمام مسجد پر ہو گئی اور کوئی جگہ باقی نہ تھی.حضور کے ساتھ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے.ان کی بغل میں جائے نماز تھی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم دیا کہ جو تیاں لوگوں کی ہٹا کر جائے نماز بچھادی جاوے جس پر شمال کی طرف ڈاکٹر صاحب مذکور اور ان کے بائیں طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے بائیں طرف عاجز راقم نے نماز پڑھی.الحمد للہ الحمد للہ.اُس دن حضرت صاحب جری اللہ مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر سب تقریروں کے بعد تھی.یعنی کم از کم پانچ گھنٹے بعد حضور کی تقریر ہوئی تھی.پہلے مقررین کی تقریروں میں سے راقم نے کچھ نہیں سنا اور حضرت جری اللہ مسیح موعود الصلوۃ والسلام کی پاک صورت اور مبارک چہرے پر میری نظر تھی اور میں زار زار رورہا تھا.غالباً اس کی وجہ اب مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں نے زندگی میں اس کے بعد حضور انور کو نہیں دیکھنا تھا.اس لئے اس روز را تم نے پانچ گھنٹہ حضور کے رُوئے مبارک کو ٹکٹکی باندھے دیکھا اور بخدا مجھے کسی کی تقریر کا کوئی حصہ یاد نہیں ہے اور اس عرصہ میں زار قطار رویا اور پرجوش محبت سے گریہ و بکا کیا.الحمد للہ.پھر اپنے وقت پر حضرت اقدس سٹیج پر تشریف لے گئے اور سورہ الحمد شریف کی نہایت ہی لطیف اور لذیذ و پر تاثیر تفسیر بیان فرمائی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 125-126 روایت حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب غیر مطبوعہ )

Page 666

651 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ( آج برف پڑنے کی وجہ سے ٹریفک زیادہ تھا، اس لئے لیٹ ہو گیا، حالانکہ نکلا بھی پہلے تھا لیکن جمعہ شروع ہونے کے بعد اب دھوپ نکل آئی ہے.چلیں تھوڑی دیر آپ لوگ صبر سے انتظار کر لیں.وقت تو میں اگر پورا نہیں تو کم از کم زائد ضر ور لوں گا.) حضرت غلام رسول صاحب رضی اللہ عنہ چانگریاں تحصیل پسر ور ، ڈاکخانہ پھلورہ ضلع سیالکوٹ لکھتے ہیں کہ خاکسار خدا کے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں داخل ہے.میں نے 1901ء میں یا 1902ء میں بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کی تھی.اس وقت حضور کی خدمت میں ایک ہفتہ رہا.اور ہم آپ کو جب آپ مسجد میں عموماً مغرب کی نماز کے بعد بیٹھتے تھے دباتے تھے.یعنی ٹانگیں وغیرہ دبایا کرتے تھے.اور آپ ہم کو منع نہیں کرتے تھے.اور آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا کہ وہ شبہات جو مولوی ڈالتے تھے آپ کا چہرہ دیکھنے سے دور ہو جاتے تھے.چنانچہ میں نے سنا ہوا تھا کہ مہدی معہود کا چہرہ ستارے کی طرح چمکتا ہو گا اور میں نے ایسا ہی پایا.اور میرے سارے اعتراضات آپ کے چہرہ دیکھتے ہی حل ہو گئے.اور جب آپ پر کرم دین نے دعویٰ کیا تھا اور مجسٹریٹ چند ولال کی عدالت میں دعویٰ تھا اور بہت شور تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور جیل میں جائیں گے اور حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ لوگ یہ افواہ اٹھا رہے ہیں کہ میں جیل میں جاؤں گا.ہمارا خد ا کہتا ہے تمہیں ایسی فتح دوں گا جیسے صحابہ کو جنگ بدر میں دی تھی اور وہ الفاظ آپ کے اب تک کانوں میں گونجتے ہیں“.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 111 روایت حضرت غلام رسول صاحب.غیر مطبوعہ ) حضرت رحمت اللہ صاحب احمدی پنشنرز.سنگرور ریاست جیند لکھتے ہیں کہ ”میر انام رحمت اللہ خلف مولوی محمد امیر شاہ قریشی سکنہ موضع بیر می ضلع لدھیانہ ہے.کہتے ہیں خدا نے اپنے فضل و رحم سے مجھے چن لیا.اور غلامی حضور سے سر فراز فرمایا ورنہ من آنم کہ من دانم.تفصیل اس کی یہ ہے: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چند ماہ لدھیانہ میں قیام فرمایا.میری عمر اس وقت قریباً سترہ اٹھارہ برس کی ہو گی.اور طالب علمی کا زمانہ تھا.میں حضور کی خدمت اقدس میں گاہے بگا ہے حاضر ہوتا.مجھے وہ نور جو حضور کے چہرہ مبارک پر ٹپک رہا تھا نظر آیا.جس کے سبب سے میر ا قلب مجھے مجبور کرتا کہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں ہے.مگر گر دونواح کے مولوی لوگ مجھے شک میں ڈالتے.اسی اثناء میں حضور کا مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے لدھیانہ میں ہوا جس میں میں شامل تھا.اس کے بعد خدا نے میری ہدایت کے لئے ازالہ اوہام کے ہر دو حصے بھیجے.وہ سراسر نور و ہدایت سے لبریز تھا.خدا جانتا ہے کہ میں اکثر اوقات تمام رات نہیں سویا.اگر کتاب پر سر رکھ کر غنودگی ہو گئی تو ہو گئی اور نہ کتاب پڑھتا رہا اور روتا رہا کہ خدا یہ کیا معاملہ ہے.مولوی لوگ کیوں قرآن شریف کو چھوڑتے ہیں ؟ خدا جانتا ہے کہ میرے

Page 667

652 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دل میں شعلہ عشق بڑھتا گیا.میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھا کہ حضرت مرزا صاحب عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تمیں آیات سے ثابت کرتے ہیں.آپ براہ مہربانی حیات کے متعلق جو آیات و احادیث ہیں تحریر فرما دیں.اور ساتھ جو تھیں آیات قرآنی جو حضرت مرزا صاحب لکھتے ہیں تردید فرما کر میرے پاس بھجوا دیں.میں شائع کرادوں گا.جواب آیا کہ آپ عیسی کی حیات و ممات کے متعلق حضرت مرزا صاحب یا اُس کے مریدوں سے بحث مت کرو.کیونکہ اکثر آیات وفات ملتی ہیں.( قرآن کریم میں اگر دیکھنا ہے تو پھر وہاں تو وفات کی آیات ہی ملتی ہیں) یہ مسئلہ اختلافی ہے.لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے.اُن غیر احمدی مولوی صاحب نے لکھا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے اس امر پر بحث کرو کہ مرزا صاحب کس طرح مسیح موعود ہیں ؟ جواب میں عرض ہوا کہ اگر حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں تو حضرت مرزا صاحب صادق ہیں.جواب ملا کہ آپ پر مرزا صاحب کا اثر ہو گیا ہے.میں دعا کروں گا.جواب میں کہتے ہیں.میں نے عرض کیا کہ آپ اپنے لئے دعا کریں.آخر میں آستانہ الوہیت پر گرا اور میرا قلب پانی ہو کر بہہ نکلا.گویا میں نے عرش کے پائے کو ہلا دیا.عرض کی خدایا مجھے تیری خوشنودی درکار ہے.میں تیرے لئے ہر ایک عزت کو نثار کرنے کو تیار ہوں اور ہر ایک ذلت کو قبول کروں گا.تو مجھ پر رحم فرما.تھوڑے ہی عرصہ میں میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ بوقت صبح قریباً چار بجے 25 دسمبر 1893ء بروز سوموار جناب سید نا حضرت محمد مصطفی علی ایم کی زیارت نصیب ہوئی.تفصیل اس خواب کی یہ ہے کہ خاکسار موضع بیر می میں نماز عصر کا وضو کر رہا تھا کہ کسی نے مجھے آکر کہا کہ رسول عربی آئے ہوئے ہیں اور اسی ملک میں رہیں گے.میں نے کہا کہاں ؟ اس نے کہا یہ خیمہ جات حضور کے ہیں.میں جلد نماز ادا کر کے گیا.حضور چند اصحاب میں تشریف فرما تھے.بعد سلام علیکم مجھے مصافحہ کا شرف بخشا گیا.میں بہ ادب بیٹھ گیا.حضور عربی میں تقریر فرمارہے تھے.خاکسار اپنی طاقت کے موافق سمجھتا تھا.اور پھر اردو بولتے تھے.فرمایا میں صادق ہوں.میری تکذیب نہ کرو.وغیرہ وغیرہ.لکھتے ہیں کہ میں نے کہا آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا يَا رَسُولَ اللهِ.تمام گاؤں مسلمانوں کا تھا.میں حیران تھا کہ خدایا! یہ کیا ماجرا ہے؟ آج مسلمانوں کے قربان ہونے کا دن تھا.گویا حضور کا ابتدائی زمانہ تھا.گو مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ حضور اسی ملک میں تشریف رکھیں گے مگر حضور نے کوچ کا حکم دیا.میں نے رو کر عرض کی حضور جاتے ہیں.میں کس طرح مل سکتا ہوں.میرے شانہ پر حضور نے (آنحضرت صلی ہم نے ) اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ہم خود تم کو ملیں گے.کہتے ہیں اس کی تفہیم مجھے یہ ہوئی کہ حضرت مرزا صاحب رسولِ عربی ہیں.مجھے فعلی رنگ میں سمجھایا گیا.کہتے ہیں میں نے بیعت کا خط لکھ دیا.مگر بتاریخ27 دسمبر 1898ء قادیان حاضر ہو کر بعد نماز مغرب بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا اور خدا کے فضل نے مجھے وہ استقامت عطا فرمائی کہ کوئی مصائب مجھے تزلزل میں نہیں ڈال سکے.مگر یہ سب حضور کی صحبت کا طفیل تھا جو بار بار

Page 668

653 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم حاصل ہوئی.اور ان ہاتھوں کو حضور کی مٹھیاں بھرنے کا فخر ہے ( یعنی کہ دبانے کا بھی فخر ہے).گو مجھے اعلان ہونے پر رنگارنگ کے مصائب پہنچے مگر خدا نے مجھے محفوظ ہی نہیں رکھا بلکہ اس نقصان سے بڑھ کر انعام عنایت کیا.اور میرے والد اور میرے بھائی اور قریبی رشتہ دار احمدی ہو گئے.اَلْحَمْدُ لِلّه.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 58-59 روایت حضرت رحمت اللہ صاحب.غیر مطبوعہ ) حضرت مولوی فتح علی صاحب احمدی منشی فاضل دوالمیال ضلع جہلم کہتے ہیں کہ میں نے 1904ء میں بمعہ بال بچہ آکر حضور مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضور کی حیاتِ مقدس میں ہر سال بمعہ بال بچہ ہی حضور کی خدمت اقدس میں یہاں پہونچتا رہا اور جب کبھی حضور باہر نماز کے لئے تشریف لاتے اور مسجد میں بیٹھتے تو ہم دوالمیال کی جماعت جو پانچ سات کس تھے پاس بیٹھتے.اور حضور کی زبان مقدس کے الفاظ سے فیض اٹھاتے اور چند دفعہ دعا کے لئے بھی عرض کی گئی تھی.اس وقت وہ چھوٹی سی مسجد جس میں پانچ چھ آدمی بصد مشکل کھڑے ہو سکتے تھے.پھر مسجد مبارک وسیع کی گئی.ایک دفعہ ہماری جماعت کے امام مسجد مولوی کرم داد صاحب نے عرض کی کہ حضور ہماری مسجد میں قدیم سے ایک امام سید جعفر شاہ صاحب ہیں.وہ حضور کے معتقد ہیں.وہ آپ کو مانتے ہیں لیکن غیروں کی بھی گاہ بگاہ جنازوں میں یا نمازوں میں اقتداء کرتے ہیں ( مانتے تو ہیں لیکن غیروں کے پیچھے ، مولویوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں).تو میں نے عرض کی کہ وہ شخص یہاں تک معتقد ہے کہ ایک دفعہ مجھ سے اس نے خط لکھوایا اور یہ لفظ لکھوائے کہ میں حضور کے کتوں کا بھی غلام ہوں.اگر کسی وقت جہالت یا نادانی سے کمی بیشی ہو گئی ہو تو حضور فی سبیل اللہ معاف فرما دیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جب وہ اب تک دنیا کی لالچ یا خوف سے غیروں کے پیچھے نماز یا جنازہ پڑھتا ہے (جو تکفیر کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُن کے پیچھے نماز پڑھتا ہے ) تو کب اس نے ہم کو مانا.آپ اس کے پیچھے نمازیں مت پڑھیں.درزی تھے، کہتے ہیں: میں نے اسی وقت حضرت ام المومنین کے حکم سے اندر سے سلائی مشین منگوائی اور حضرت صاحبزادہ شریف احمد کا جو اس وقت آٹھ دس سال کے ہوں گے گرم کوٹ تیار کر رہا تھا اور اس طرح انہوں نے تیار کیا اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کھیوڑہ سے آیا کرتے تھے تو ہماری عورتوں نے کہا کہ دس گیارہ میل ہمیں پیدل پہاڑی سفر کرنا پڑتا ہے ، اس لئے ہم بستر نہیں لا سکتے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حامد علی (حامد علی صاحب جو آپ کے خدمت گار تھے ) دوالمیال والوں کو رضائیاں اور بستر دے دیا کرو.حضور کی برداشت کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تھی تو ہم حضور سے دوائیاں وغیرہ بھی منگوالیتے تھے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرا لڑکا عبد العزیز مرحوم جو سات آٹھ سال کا تھا جو میرے ساتھ بھی آتا رہا اور حضور کی درثمین کے اشعار نہایت خوش الحانی، خوش آوازی سے پڑھتا تھا ( خوش الحانی سے پڑھا کرتا تھا).جلسوں میں بھی اور حضور کے اندر بھی آکر سناتا تھا.حضور اس سے بہت پیار کرتے تھے.دوالمیال والوں کی

Page 669

654 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم درخواستیں بھی یہی اندر میں حضور کو پہنچاتا تھا.ایک دفعہ محمد علی ولد نعمت نے ایک عرضی کسی خاص دعا کے لئے لکھ کر عبد العزیز کو دی کہ حضور کو دے آؤ اور گھر جانے کی اجازت لے آؤ.چونکہ ابھی سویر اہی تھا اور حضور نماز فجر کے بعد رضائی اوڑھ کر بمعہ بچوں کے لیٹے ہوئے تھے.یہ بھی بچہ تھا.اس قدر ادب اور احترام کو نہیں سمجھتا تھا کہ حضور آرام کر رہے ہیں.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض دفعہ ، بلکہ اکثر نماز فجر کے بعد آرام کیا کرتے تھے) یہ بچہ اندر گیا اور فوراً حضور کے چہرہ مبارک سے رضائی اٹھالی اور وہ رقعہ دیا اور ساتھ اجازت جانے کی بھی مانگی.لکھتے ہیں قربان ہوں میرے ماں باپ کہ ذرا بھی حضور کے چہرہ مبارک پر ملال نہ آیا کہ ارے بیوقوف! ہم کو بے آرام کر دیا بلکہ پیار سے کہا کہ اچھا اجازت ہے.یہ تھے حضور کے اخلاق فاضلہ جس نے تمام مخلوقات کو اپنا گرویدہ بنالیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 72-73 روایت حضرت مولوی فتح علی صاحب.غیر مطبوعہ ) حضرت بہاول شاہ صاحب ولد شیر محمد صاحب جو انبالہ کے تھے ، لکھتے ہیں کہ اس عاجز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح و مہدی سے کیونکر ملایا اور مل کر ان سے کیا فیض حاصل ہوا، اس کے متعلق خاص حالات ہیں.میں اپنے وَحْدَهُ لا شَرِيك خدا کو حاضر ناظر جان کر جس کے آگے جھوٹ بولنا کفر و ضلالت اور جہنم حاصل کرنا ہے، بیان کرتا ہوں کہ مجھے خدا کے فضل سے دین کے ساتھ بچپن سے ہی محبت تھی.تقریباً 30 سال کی عمر میں ایک سنت نبوی پر عمل کرنے اور اس میں کچھ کج روی پیدا ہونے کے باعث ایک فوجداری مقدمہ تین سال تک رہا جس میں تنگی و تکلیف کی کوئی حد نہ تھی.میرے سے زیادہ گاؤں والوں کو تکلیف تھی کیونکہ اس سج روی کا وہی باعث تھے.بچپن ہی سے مجھے کسی سچے رہبر و راہنما کی دل میں خواہش تھی.کئی بزرگوں کی طرف نظر تھی دل کو اطمینان نہ تھا.آخر میاں جی امام الدین صاحب چک لوہٹوی کی معرفت جو میرے استاد اور مولوی عبدالحق صاحب کے جو اس وقت زندہ، لیکن مسیح موعود سے منحرف ہیں کے والد تھے ( جو اس وقت زندہ ہیں لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا، ان کے والد تھے ) یعنی عبد الحق کے والد تھے.جو میرے احمدی ہونے کے بعد احمدی ہو کر فوت ہوئے.یعنی بیٹا احمدی نہیں ہوا.والد احمدی ہوئے لیکن ان کے بعد.ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے.کہتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی نسبت باتیں سننے میں آتیں اور فرمایا کرتے کہ زمانہ امام کو چاہتا ہے اور واقعی مرزا صاحب سچے امام ہیں.لوگ ان کو برا کہتے ہیں.میری طرف اور مولوی عبد الحق صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرماتے کہ دیکھنا تم ان کو کبھی برانہ کہنا.جب مولوی محمد حسین دہلی میں مولوی نذیر حسین صاحب کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کفر کا فتویٰ لگانے کے لئے گئے تھے.اس وقت میں اور مولوی عبدالحق، مولوی نذیر حسین کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے دہلی ہی میں تھے.میں تو چھ ، سات ماہ

Page 670

655 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم کے بعد واپس اپنے استاد کی خدمت میں چک لوہٹ حاضر ہو گیا لیکن مولوی عبد الحق صاحب دہلی میں پڑھتے رہے.مولوی محمد حسین نے دہلی سے واپس آکر ہمارے ارد گرد کے گاؤں میں حضرت صاحب کو لوگوں سے کافر کہلوانے کی خاطر دورہ شروع کیا.میاں جی امام الدین صاحب کے پاس بھی پہنچے لیکن انہوں نے ہر گز بر انہ کہا اور یہ جواب دیا کہ آپ نے جو کفر کا محل تیار کیا ہے اس میں میرے لئے اینٹ لگانے کو کونسی جگہ خالی ہے.آپ عالم ہیں.آپ ہی کو مبارک ہو.آخر محمد حسین نا امید ہو کر چلا گیا.مجھے منشی عبد اللہ صاحب سنوری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے خادم تھے اور ان کا ذکر خیر اکثر مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں نہایت خوبی سے کیا ہے ، اُن سے محبت تھی.جب مقدمہ نے زیادہ طول پکڑا تو مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور مولوی عبد الحق صاحب نے حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کروانے کے لئے بھیجا.جب میں بٹالہ سے چلا اور لوگوں سے مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت حالات دریافت کرنے شروع کئے تو جو بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ وہاں مت جاؤ.وہ ایسے ہیں ویسے ہیں.مولوی برا کہتے ہیں تم بھی برے یعنی کا فر ہو جاؤ گے.مگر میں ان کو کہتا کہ اب تو میں آگیا ہوں جو بھی خدا کرے.اگر سچ ہوا پھر تو میں خدا کے فضل سے مولویوں سے ہر گز نہیں ڈرتا.آخر میں 11 ستمبر 1898ء کو دارالامان پہنچا.تھوڑا سادن باقی تھا.حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک کے اوپر تشریف فرما تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مفتی صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اور بھی چند اصحاب خدمت میں حاضر تھے.ایک مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی سیڑھیوں کے قریب مسجد مبارک کے اوپر کھڑے تھے.یہ مولوی عبد الحق صاحب کے صرف و نحو کے استاد تھے اور مجھ سے بھی واقف تھے.وہ بڑی خوشی اور تپاک سے مجھ سے ملے اور مجھے انہیں دیکھ کر بڑی خوشی حاصل ہوئی.انہوں نے فرمایا کہ تم بیعت کرنے کے لئے آئے ہو.میں نے کہا.دعا کر وانے کے لئے آیا ہوں.پھر فرمایا کہ تم مولویوں سے ڈرتے ہو.میں نے کہا نہیں.مولویوں سے تو نہیں ڈرتا.حضور کی سچائی تو مجھے حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھنے سے ہی ظاہر ہوگئی کہ یہ منہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہے.اتنے میں سورج غروب ہونے کے قریب چلا گیا.ایک اور شخص کئی روز سے حضور کی خدمت میں بیعت کے لئے آیا ہوا تھا.اس نے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لیں.میں نے گھر کو واپس جانا ہے.حضور نے جواب فرمایا کہ ٹھہر و، خوب تسلی کرنی چاہئے.پھر اور باتوں میں مشغول ہو گئے.مولوی عبد القادر صاحب نے میری نسبت حضور کی خدمت میں خود ہی عرض کیا کہ یہ شخص بیعت کرنا چاہتا ہے.حضور اسی وقت جو کسی قدر اونچے بیٹھے تھے ، نیچے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آؤ جس نے بیعت کرنی ہے ( وہ شخص تو پہلے ہی پاس بیٹھا تھا جو پہلے بیعت کرنا چاہتا تھا).میں سیڑھیوں پر سے کھڑا حضور کی طرف چلا.دو تین ہاتھ کے فاصلہ پر رہا تو میرے دل پر ایسی کشش ہوئی جیسے کوئی رشتہ پا کر اپنی طرف کھینچتا ہے.میری چھینیں نکل گئیں اور بے

Page 671

خطبات مسرور جلد ہشتم 656 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 اختیار ہو کر حضور کے پاس بیٹھا.اور خوشی سے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے اور ہم دونوں شخصوں نے بیعت کی اور بعد میں حضور سے مقدمہ کے بارہ میں دعا کے لئے عرض کی.حضور نے دعا فرمائی اور میں اس کے بعد دس دن وہاں ٹھہرا.کہتے ہیں کہ حضور سے اور قادیان سے ایسی محبت ہو گئی کہ واپس گھر جانے کو جی نہ چاہتا تھا.قادیان بالکل بہشت کا نمونہ دکھائی دیتا تھا.یہاں ہر وقت سوائے خدا کے ذکر کے دنیا کے ذکر و فکر کی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی.ہر طرف سے سلاماً سلاما کی آواز آتی تھی.میرے سارے غم واند وہ دور ہو گئے.اس وقت حضور علیہ السلام پر قتل کا جھوٹا مقدمہ جو پادریوں کی سازش سے ایک لڑکے کے ذریعہ تھا چل رہا تھا یا چل چکا تھا.اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں اجازت لے کر پھر آگیا لیکن کہتے ہیں کہ بیعت کرنے پر میری حالت بالکل تبدیل ہو گئی.خدا کے ساتھ ایسی محبت اور عشق پیدا ہو گیا کہ رات دن سوائے اُس کے ذکر کے سونے کو بھی دل نہ چاہتا تھا.اگر سوتا تھا تو دھڑ دھڑا کر ( یعنی گھبر اکر) اٹھتا تھا جیسے کوئی اپنے پیارے سے علیحدہ ہو گیا ہوتا ہے.میرے دل کی عجیب حالت تھی.گاہ گاہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی دل کو پکڑ کر دھوتا ہے.خشوع خضوع ہر روز بڑھتا جاتا تھا.یہ حضور کی توجہ کا اثر تھا.ایک دن خشوع کی حالت میں ایسا معلوم ہوا کہ میرا دل چیر ا گیا اور اس کو دعا کر کے دھو دیا گیا اور ایک نئی روح اس میں داخل ہو گئی ہے.جسے روح القدس کہتے ہیں.میری حالت حاملہ عورت کی طرح ہو گئی.مجھے اپنے پیٹ میں بچہ سامعلوم ہو تا تھا.میر اوجود ایک لذت سے بھر گیا اور نورانی ہو گیا اور نور سینے میں دوڑ تا معلوم ہو تا تھا.ذکر کے وقت زبان میں ایسی لذت پیدا ہوتی تھی جو کسی چیز میں وہ لذت نہیں.میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو بھی نمازوں میں بہت لذت آتی تھی.اور خوش ہو کر کہتے تھے کہ کیسی اچھی نماز پڑھائی ہے.یہ حالت اصل میں میری حالت نہ تھی بلکہ مسیح موعود کی حالت کا نقشہ تھا.مقدمہ تو خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے میرے دارالامان ہوتے ہی جاتا رہا.لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچانے کا یہ سبب بنایا تھا جس کے ذریعہ اپنے ناچیز بندے کو آسمانوں کی سیر کرائی اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا.میں مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کو لے کر اکیلا مسجد میں بیٹھتا اور خوب غور سے سب کا مطالعہ کر تا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کو قرآن شریف کی آیتوں کے مطابق پاتا.ایک دن میں ایک مخالف کی کتاب دیکھ رہا تھا اور دل میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ کیسے عالم ہیں جو ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں.یہ خیال آتے ہی نیند آگئی اور سو گیا اور الہام ہوا.بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ قَوْمٌ مُنْذِرُ یہ الہام میرے دل پر ایسا داخل ہوا جیسے کوئی چیز نالی کے راستے داخل ہوتی ہے.دل پر آتے ہی زبان پر جاری ہو گیا.اور اس الہام کے یہ معنی سمجھائے گئے کہ یہ عالم (یہ مولوی لوگ جو ہیں) ایک ایسی قوم ہیں جب ان کے پاس ڈرانے والی قوم آئی.یعنی نبی ، تو یہ تعجب ہی کرتے رہے ہیں.میں اپنے الہاموں اور خوابوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھتارہتا تھا.جب کوئی کسی قسم

Page 672

خطبات مسرور جلد ہشتم 657 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 کا اعتراض مسیح موعود علیہ السلام پر کرتا، اس کے جواب کے لئے جھٹ قرآنِ شریف کی آیت میرے سامنے آ جاتی اور میں قرآن شریف سے اس کا جواب دیتا.ایک دفعہ ایک مولوی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ عیسی علیہ السلام کی موت قرآن شریف سے دکھاؤ.جہاں موت کا لفظ آیا ہو.میں نے کہا.دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَانْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ( النساء: 160).یعنی اب کوئی بھی اہل کتاب قرآن شریف کے اس فیصلہ کو پڑھ کر کہ عیسی علیہ السلام سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرے ہیں.طبعی موت پر ایمان لانے سے پہلے ایسی بات پر ایمان لائیں گے کہ سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے.بہ کی ضمیر وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوہ کی طرف ہے.موتہ سے عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت مراد ہے جس کی عیسی علیہ السلام قیامت کو گواہی دیں گے کہ میں سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرابلکہ قرآن شریف کے فیصلہ کے مطابق طبعی موت سے مرا ہوں.وہ مولوی اس بات کو سن کر جھٹ بھاگ گیا.اور اس وجہ سے وہاں کے گاؤں کی اکثریت احمدی ہو گئی تھی لیکن بعد میں پھر مولویوں کے ورغلانے پر اور ڈرانے پر کچھ لوگ پھر بھی گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 107 تا 112 روایت حضرت بہاول شاہ صاحب غیر مطبوعہ ) حضرت مدد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انسپکٹر بیت المال قادیان بھی تھے ، کشمیر کے رہنے والے تھے.1896ء میں بیعت، 1904ء میں زیارت.کہتے ہیں کہ اے میرے پیارے خدا! کہ میں تیرے پاک نبی کے حالات لکھنے لگا ہوں تو اس میں برکت ڈال.اس میں کوئی بناوٹی بات نہ لکھی جائے.اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ 1904ء میں جبکہ کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا گورداسپور میں چند و لعل کی عدالت میں اپنی طرف سے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب تھے.اور کرم دین کی طرف سے مول راج و نبی بخش وکیل تھے قادیان سے خاکسار، سید احمد نور صاحب اور حافظ حامد علی صاحب گڑے پر کتابیں لے کر گورداسپور پہنچے.تو دیکھا کہ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کڑیانی والے بہت ہی بگڑے ہوئے ہیں.میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو اتنی گھبراہٹ کیوں ہے؟ فرما یا بھائی صاحب ! مجھ کو اس واسطے گھبراہٹ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ یہاں پر یہ مشورہ کیا گیا ہے کہ حضور کو ضرور ہی حوالات میں دیا جائے چاہے پانچ منٹ کے واسطے ہی کیوں نہ ہو.مگر ضرور ہی آپ کو حوالات میں دیا جائے.چند ولعل نے یہ پختہ ارادہ کر لیا ہوا ہے.مجھ کو یہ خبر ایک بڑے افسر نے دی ہے.میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں.کیا کرنا چاہئے.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کوئی ثواب کا کام کرے حضور کو یہ پیغام پہنچا دے کہ آپ گورداسپور نہ آئیں.بیماری کا سرٹیفیکیٹ لے لیں.اگر سو روپیہ بھی خر چنا پڑے تو خرچ کر دیں.میں خود ادا کر دوں گا.میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ کیا حضور جھوٹا سرٹیفیکیٹ لیں ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا بھائی صاحب ! اگر کسی نے ثواب لینا ہے تو لے.میں نے کہا کہ کیا اسی وقت کوئی جائے ؟ کہا ہاں.اس کے بعد میں

Page 673

خطبات مسرور جلد هشتم 658 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 نے کہا آپ مجھ کو لالٹین لے دیں.میں ابھی رات رات ہی چلا جاتا ہوں.ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت مجھے لالٹین دی.میں گورداسپور سے قادیان کو روانہ ہوا اور رستے میں مجھے دو آدمی بھی مل گئے.شیخ حامد علی صاحب اور منشی عبد الغنی صاحب.دو بجے ہم مسجد مبارک پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر تشریف لائے جب ہم نے آواز دی.تو السلام علیکم بعد میں نے عرض کیا.ڈاکٹر اسماعیل صاحب کی بہت ہی بری حالت ہے انہوں نے یہ پیغام دے کر مجھے واپس بھیجا ہے.تو حضور نے فرمایا کہ چکروں کی بیماری تو مجھے پہلے ہی ہے اور سرٹیفیکیٹ لینے کا ارادہ تو میر اپہلے ہی تھا مگر ( اب جو پیغام دیا اور روکا ہے ) اب تو میں گورداسپور ہی جاکر سرٹیفیکیٹ حاصل کروں گا.اب یہاں نہیں رکوں گا.خوف والی کوئی بات نہیں.آپ نے اندر سے میرے واسطے رضائی بھجوائی.میں سو گیا.تھکا ہوا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورداسپور روانہ ہو گئے.وہاں قادیان میں رُکے نہیں.خیر ایک لمبی کہانی ہے.کہتے ہیں میں سویا رہا.اس کے بعد مجھے لوگوں نے روکا بھی کہ اب تم نہ جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روانہ ہو چکے ہیں بلکہ پہنچ بھی گئے ہوں گے.لیکن جب میری آنکھ کھلی اس کے بعد میں تیار ہو کے دوبارہ پیدل چل پڑا.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اب یہ پیدل نہ آئے بلکہ ٹانگے پر بھیجنا.بہر حال کہتے ہیں رستے میں میری بہت بری حالت ہو گئی.مجھے بخار بھی چڑھ گیا اور لوگوں نے مجھے صحیح روکا تھا کہ نہ جاؤ.یہ تمہارا تیسر ا چکر ہے.تھکے ہوئے ہو گے اور تمہیں سختی کی عادت بھی نہیں ہے.لیکن بہر حال کہتے ہیں میں وہاں پہنچ گیا.شام کے وقت اس مکان میں پہنچا جہاں حضور ٹھہرے ہوئے تھے تو دروازے کے اندرا بھی داخل ہی ہو ا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی کہ کیا مددخان کو بھی یگہ پر بٹھا کر لے آئے تھے یا نہیں.تو یہ آواز میرے کان میں آ.جیسے کوئی سویا ہوا جاگ اٹھتا ہے اسی طرح میں بھی یہ آواز سن کر جاگ اٹھا.جب میں صحن میں پہنچا تو کسی دوست نے آواز دی کہ حضور مددخان آگیا ہے.میں نے بھی جا کر حضور کو السلام علیکم عرض کیا.حضور نے جھٹ اپنا دست مبارک آگے کیا.میرے ہاتھ کو پکڑ کر فرمانے لگے.جزاک اللہ.یہ بہت ہی بڑے بہادر ہیں یہ ان کا تیسرا چکر ہے.(یعنی قادیان اور گورداسپور کے درمیان) حضور نے میر اہاتھ اپنے ہاتھ مبارک میں یہاں تک پکڑا تھا.مجھے محسوس ہوا کہ گویا کہ میں گورداسپور سے کبھی قادیان گیا ہی نہیں.یا تو میری حالت نیند و تھکان سے سخت مضطرب ہو رہی تھی کہ کسی کے ساتھ بولنے کو بھی دل نہیں کرتا تھا اور بدن میں بخار ہورہا تھا.مگر خدائی نشان خدا کے مرسل نے اس خاکسار کا ہاتھ نہ چھوڑا جب تک کہ میں نے محسوس کیا کہ میری تھکان بالکل اتر گئی ہے.چند منٹ پہلے میں مردہ تھا.حضور کا دستِ مبارک میرے ہاتھ کو لگتے ہی میری کوفت اتر گئی.تھکان دور ہوئی.بدن ہلکا پھلکا ہو گیا.اور کوئی بھی تکلیف باقی نہ رہی.یہ کیا بات ہے ! یہ تو حضور ہی کی کوئی کرامت ہے.مجھ کو اس وقت یہ خیال ہوا کہ مان لیا بھوک اور پیاس کسی خوشی سے دور ہو سکتی ہے.مگر یہ کوفت، تھکان، نیند کا غلبہ حضور کے دستِ

Page 674

659 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم مبارک کے چھونے سے دور ہو گئے.یہ حضور کی ہی کرامت نہیں تو اور کیا ہے.مجھ مردہ میں گویا روح آگئی.حضور نے میر ہاتھ نہیں چھوڑ ا جب تک کہ ہر قسم کی تکلیف خاکسار کی دور نہ ہو گئی.اس سے پیشتر میر اجسم پتھر تھا.ہلنا دشوار تھا.میرے خیال میں مردہ کو زندہ کرنا اسی کو کہتے ہیں.میں نے محسوس کیا کہ گویا میں گورداسپور گیا ہی نہیں تھا.حضور نے حکم دیا کہ کھانا لاؤ.خاکسار کو بھی حضور نے ساتھ ہی بٹھا لیا.میں نے حضور کے ساتھ کھانا کھایا.یہ حضور کی مہربانی اور خاص شفقت تھی.میری کوشش ہوتی تھی کہ میرا نام کسی طرح حضور کے منہ پر چڑھ جائے اور حضور میر انام لیں.اور یہ مختلف مواقع بیان کئے ہیں کہ اس طرح موقعے پیدا ہوتے رہے حضور میرا نام لیتے رہے اور ذاتی طور پر مجھے جانتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 82 تا 87 روایت حضرت مد دخان صاحب غیر مطبوعہ ) تو یہ ان بزرگوں کے واقعات ہیں جو میں پہلے بھی ایک دو دفعہ سنا چکا ہوں.وقتاً فوقتاً بیان کرتا ہوں کہ خاص طور پر اُن خاندانوں کو جن کے بزرگ ہیں، یہ یاد رہے کہ اُن بزرگوں کے کس قدر ہم پر احسان ہیں.ورنہ شاید آج بہت سوں میں اتنی جرات نہ ہوتی کہ حق کو اس طرح قبول کر لیتے جس جرات سے اُن بزرگوں نے قبول کیا.پس ان بزرگوں کی نسلوں کو بہت زیادہ اپنے بزرگوں کے لئے دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور پھر ساتھ ہی اپنے ایمان کی ترقی اور استقامت کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.نیز ان بزرگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو تعلق تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے، اُن کے نمونوں پر ، ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے.وہ لوگ ایسے تھے جن میں سے بعض میں علم کی کمی بھی تھی لیکن علمی اور روحانی پیاس بجھانے کے لئے وہ لوگ ایک تڑپ رکھتے تھے جو انہوں نے بجھائی اور ایک سچے عاشق ثابت ہوئے.اور اسی طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق پیدا کیا، جیسا کہ بعض واقعات میں ابھی سنا.پس یہ وہ محبت اور وفا کے نمونے ہیں جو آگے نسلوں کو بھی قائم رکھنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت اور وفا کے ان نمونوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 18 شماره 1 مورخہ 7 جنوری تا 13 جنوری 2011 صفحہ 5 تا10)

Page 675

خطبات مسرور جلد ہشتم 660 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010ء بمطابق 24 فتح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبُ - أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي (البقرة :187) b لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ انشاء اللہ تعالیٰ دو دن بعد 26 دسمبر کو قادیان میں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.بر صغیر کی تقسیم کے بعد قادیان کے جلسہ سالانہ میں اتنا پھیلاؤ اور وسعت کچھ سال تک نہیں رہی جو 47ء سے پہلے ہوتی تھی لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے یہ جلسہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت وسیع ہو چکا ہے.1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا دورہ ہوا.کافی تعداد میں لوگ آئے، اُس کے بعد پھر زیادہ تعداد میں لوگوں کا آنا شروع ہو گیا.پھر 2005ء میں جب میں گیا ہوں اُس وقت بھی بہت بڑی تعداد آئی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضر ی بڑھ رہی ہے، گو اتنی تو نہیں ہوتی جتنی 2005ء میں تھی لیکن بہر حال اضافہ ہو تا رہتا ہے.ربوہ پاکستان میں ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ گزشتہ چند دنوں سے جلسے کے انتظامات کے بارے میں قادیان سے رپورٹس وغیرہ آ رہی تھیں اُن رپورٹس کو دیکھنے سے ربوہ کے جلسوں کا تصور بھی سامنے آگیا.یہ دن آج سے 27 سال پہلے ربوہ اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے عجیب روح پرور ماحول کے دن ہوتے تھے.جب ربوہ میں ہر طرف جلسے کے انتظامات کے لئے تیاریاں ہو رہی ہوتی تھیں.ہر طرف ایک شوق، جذبہ اور گہما گہمی نظر آتی تھی.ربوہ میں جو جماعت کے سکول تھے ان سکولوں میں افسر جلسہ سالانہ کے دفتر کی طرف سے ہر احمدی طالب علم کو ڈیوٹی فارم آتے تھے جو وہ پر کرتا تھا کہ وہ کہاں ڈیوٹی دینا چاہتا ہے.اگر جلسے کی انتظامیہ کو کسی جگہ لگانے کی اپنی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی تھی، تو عموماً بچوں اور نوجوانوں کی اُن کی صوابدید پر ہی ڈیوٹیاں لگائی جاتی تھیں.ڈیوٹی چاہے اپنی مرضی کی ملے یا جلسے کی انتظامیہ اپنی ضرورت کے مطابق تفویض کرے، نوجوانوں میں خدمت اور ڈیوٹی دینے کا ایک عجیب جذبہ ہو تا تھا.ستائیس

Page 676

661 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم سال میں ایک نسل جو پیدا ہوئی اب بھر پور جوانی میں ہے ، اور وہ جو نوجوان تھے ، وہ انصار اللہ میں شامل ہو گئے ، بلکہ بچپن سال سے اوپر کے انصار اللہ کی صف اول میں چلے گئے ہوں گے.جو بچے جوان ہوئے انہیں شاید ڈیوٹیوں کا تجربہ نہ ہو یا احساس نہ ہو اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ وہاں جلسے نہیں ہو رہے سوائے ان گھروں کے جن میں جلسے کا ذکر چلتا رہتا ہے بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ ربوہ کے جو پرانے گھر ہیں، پرانے رہنے والے ہیں اُن میں جلسے کا یہ ذکر چلتارہتا ہو گا.اگر نہیں تو ذکر ہونا چاہئے تاکہ آنے والے بچے بھی اور نسل بھی اس ماحول اور اُس جذبے کو تازہ دم رکھیں.اس لئے نہیں کہ نئی نسل حسرت کرے بلکہ اس لئے کہ نئی نسل اپنے اندر ایک عزم پیدا کرے.مایوس نہ ہو بلکہ ایک عزم ہو کہ عارضی پابندیاں ہماری روح کو مردہ نہیں کر سکتیں، ہمیں مایوس نہیں کر سکتیں، ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اس سے مانگتے چلے جانے میں روک نہیں بن سکتیں.ہمارے ایمان اور یقین کو ڈگمگا نہیں سکتیں کہ پتہ نہیں اب وہ دن دوبارہ دیکھنے نصیب بھی ہوں گے یا نہیں جب ہر بچہ بوڑھا اور جو ان ایک جوش اور ایک ولولے سے اُس زمانے میں جلسے کی تیاریوں اور ڈیوٹیوں میں حصہ لیتا تھا.جب ہر جلسہ سننے والا اپنی روح کی سیرابی کے سامان کر تا تھا.یہ باتیں نئی نسل کو بھی علم ہونی چاہئیں.جو بعد میں پیدا ہونے والے بچے ہیں اُن کو بھی علم ہونی چاہئیں.بلکہ گزشتہ پندرہ سولہ سال میں جو بچے پیدا ہوئے وہ بھی اب جوان ہو گئے ہیں، اُن کو بھی پتہ ہونا چاہئے کہ جلسے کے دن کیسے ہوتے تھے ؟ ربوہ جب ایک غریب دلہن کی طرح سجا کر تا تھا.بازار سجتے تھے.عارضی بازار بنتے تھے تاکہ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے مہمانوں کی ضروریات زندگی اُن کی پسند کے مطابق مہیا کی جا سکیں.سپیشل ٹرینیں اور بسیں آیا کرتی تھیں.ہر گھر اپنی بساط اور توفیق کے مطابق اپنے گھر کو مہمانوں کی آمد کے لئے صاف کرتا تھا.آرام دہ بنانے کی کوشش کرتا تھا، سجاتا تھا.گھروں کے صحنوں میں زائد رہائش کے لئے خیمے نصب کئے جاتے تھے کیونکہ اکثر گھر اتنے چھوٹے تھے کہ مہمانوں اور میز بانوں کی رہائش کا انتظام بغیر خیموں کے ممکن نہ تھا.بعض گھروں والے اپنے گھر کے سارے کمرے مہمانوں کے سپر د کر دیتے تھے اور خود باہر صحنوں میں خیموں کے اندر چلے جاتے تھے.غرضیکہ قربانی کے عجیب نظارے ہوتے تھے جو اہل ربوہ دکھا رہے ہوتے تھے.ہر چہرے پر خوشی ہوتی تھی کہ ہم مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں.یہ رونقیں دوبارہ قائم ہوں گی پس جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ باتیں ہمیشہ کے لئے خواب و خیال نہیں بن گئیں.یہ ہمیں مایوس کرنے والی نہیں ہیں بلکہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ رونقیں دوبارہ قائم ہوں گی اور ضرور ہوں گی.ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں.اُس سے مانگتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں.ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کے حوالے سے قرآنِ کریم میں ذکر فرمایا ہے کہ مَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبَّةٍ إِلَّا الضَّالُونَ ) الحجر : (57) اور گمراہوں کے سوا اپنی رب کی رحمت سے کون مایوس ہوتا

Page 677

خطبات مسرور جلد ہشتم 662 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 ہے ؟ ہمیں یہ مایوسی تو نہیں کہ وہ دن لوٹ کر نہیں آئیں گے یا کس طرح آئیں گے ؟ وہ دن تو جیسا کہ میں نے کہا انشاء اللہ لوٹ کر آئیں گے.کیونکہ ہمیں اُس خدا کی قدرتوں پر یقین ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو اس صورت میں اُس کا یہی قانونِ قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں کی خبر لیتا ہے“.(براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 664-665) پس اگر ہم عاجزی دکھاتے ہوئے اُس سے مانگتے رہیں گے تو وہ ضرور مدد کو آتا ہے اور آئے گا.جب سب حیلے ختم ہو جاتے ہیں تو تب بھی حضرتِ تواب کا حیلہ قائم رہتا ہے.جب خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَ يَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ (الشوری: 29) اور وہی ہے جو مایوسی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے.وہی کار ساز اور سب تعریفوں کا مالک ہے.تو یہ خدا تعالیٰ کا روحانی زندگی میں بھی، جسمانی زندگی میں بھی عموم ہے.جب خدا تعالیٰ عمومی طور پر مایوس لوگوں کو رحمت سے نوازتا ہے تو جو مومن ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا کہ اللہ تعالیٰ اُن کا ولی ہے جو ایمان لانے والے ہیں.جو سچے مومن ہیں اُن کو مایوسیوں میں نہیں ڈالتا بلکہ ایسے مومنوں کو جو اس کے آگے جھکنے والے ہیں ، جو عاجزی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اُن کی ضرور خبر لیتا ہے، اُن کی مدد کے لئے ضرور آتا ہے.اپنی رحمت کو ان کے لئے وسیع تر کر دیتا ہے.جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ وَ يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصلِحَتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ) الشورى: (27) اور مومنوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے بہت بڑھا کر انہیں دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے نواز نے کے طریقے اور معیار انسانی سوچوں سے بہت بالا ہیں.پس جب ایسے خدا پر ہم ایمان لانے والے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات اور پرانی یادیں ہمیں مایوس کریں.ہاں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی نہیں ہے.یعنی ایسی صورت جو انسانوں کے دائرہ اختیار میں ہو تب لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ کی آواز آتی ہے.اور وَيَنْشُرُ رَحمتہ کا نظارہ ایک عاجز انسان دیکھتا ہے.جلسه سالانه قادیان اور ہماری ذمہ داریاں پس یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے دن اور رات دعاؤں میں صرف کریں.خاص طور پر ان جلسہ کے دنوں میں جلسے پر آئے ہوئے جو لوگ ہیں ، جو شامل ہو رہے ہیں وہ اپنے قادیان میں قیام کے ہر لمحے کو دعاؤں میں ڈھال دیں.خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوئے احمدی یاد رکھیں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی رحمت سے

Page 678

663 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم گمراہوں کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا.پس یہ مایوسی غیروں کا کام ہے.ہم تو گمراہوں میں شامل نہیں.ہم تو مہدی آخر الزمان کے ماننے والے ہیں.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اس مسیح و مہدی کے ذریعے سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا ہے.ہمیں تو گمراہی میں بھٹکنے کے بجائے صراط مستقیم پر چلنا سکھایا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی اس حقیقت کو جانتے ہیں تبھی تو ایمان کی مضبوطی کے ساتھ تکالیف بھی برداشت کر لیتے ہیں.تبھی تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان تکالیف کو جو انہیں مخالفین احمدیت پہنچاتے ہیں اُن کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے.تبھی تو اپنے شہداء کو بغیر جزع فزع کے باوقار طریقے سے دفنانے کے بعد ، اُن کی تدفین کرنے کے بعد ، دعائیں کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں.اور پھر اپنے آنسو صرف اور صرف خدا کے آگے بہاتے ہیں.لیکن بعض اکا دُکا، کوئی کوئی، پریشان بھی ہو جاتے ہیں جو اچھا بھلا دین کا علم رکھنے والے بھی ہیں اور بعض جماعت کے کام کرنے والے بھی ہیں.کہہ دیتے ہیں اور بعض مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ یہ سختیوں کے دن لمبے ہوتے جارہے ہیں.کل یا پرسوں کی باتیں ہوتی تھیں ، یہ کل یا پرسوں تو ختم ہی نہیں ہو رہی.ہمیشہ یاد رکھیں کہ قوموں کی زندگی میں دنوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی.قوموں کی عمر میں چند سال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی.ترقی کرنے والی قو میں صرف ایک محاذ کو نہیں دیکھتیں ، ایک ہی طرف اُن کی نظر نہیں ہوتی ، اُن کی نظر قوم کی مجموعی ترقی پر ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے سخت حالات کے بعد جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنابڑھ چکی ہے بلکہ پاکستان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی پہلے سے بڑھ کر ہے.ہاں بعض سختیاں بھی ہیں.بعض پابندیاں ہیں.جانی اور مالی نقصانات ہیں.خلیفہ وقت کو جماعت سے براہ راست اور جماعت کو خلیفہ وقت سے بغیر کسی واسطے کے ملنے کی تڑپ بھی دونوں طرف سے ہے.وہ بیشک اپنی جگہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس کے لئے بھی نصف ملاقات کا ایک راستہ بھی ہمارے لئے کھول دیا ہے جو ایم.ٹی.اے کے ذریعے سے انتظام فرمایا ہے.اگر پاکستان میں جلسے اور اجتماعات پر پابندیاں ہیں تو ایم.ٹی.اے کے ذریعے سے ہی کئی جلسوں اور اجتماعات میں دنیا کا ہر احمدی بشمول پاکستانی احمدی شریک ہوتے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے باوجود پابندیوں کے روحانی مائدہ کو بند نہیں ہونے دیا.پس جب اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات ہیں تو کبھی بھی کسی وقت بھی کسی کے دل میں بھی مایوسی کے خیالات نہیں آنے چاہئیں.بلکہ ان دنوں میں اہل ربوہ کو بھی اور اہل پاکستان کو بھی اپنی بے چینیوں کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے دعاؤں میں بدل لینا چاہئے ، دعاؤں میں ڈھال لینا چاہئے.میں اپنے تصور میں ربوہ کے جلسہ کے پر رونق ماحول اور پاک ماحول کو لا کر غور کرتاہوں.خدا تعالیٰ کی تقدیر کو جو احمدیت کی فتح کی تقدیر ہے اُس پر غور کرتا ہوں اور یہی ہر احمدی کا کام ہے.وہ تقدیر جو آنحضرت صلی علیکم کو ، آنحضرت علی علیکم کے دین کو دنیا پر غالب کرنے کی تقدیر ہے.جو دنیا کی اکثریت کو مسیح محمدی کی جماعت میں شامل کرنے کی تقدیر ہے.جو دوسری قوموں کی طرح

Page 679

664 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پاکستانیوں پر بھی مسیح موعود کی صداقت خارق عادت طور پر ظاہر ہونے کی تقدیر ہے.پس ہمیں اپنی دعاؤں میں ایک خاص رنگ پیدا کرتے ہوئے اس الہی تقدیر کو اپنی زندگی میں دیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے عاجزی کی انتہا کرتے ہوئے مانگتے چلے جانا چاہئے.ربوہ کی رونق اور پاک ماحول سے میرے تصور میں ربوہ کی سڑکوں پر جلسہ گاہ جاتے اور آتے ہوئے لوگوں کا رش بھی آتا ہے.لیکن مجال نہیں کہ اُس رش میں کہیں دھکم پیل ہو رہی ہو.مردوں، عورتوں کو خود بھی احساس ہو تا تھا.اور اگر کہیں ذراسی کوئی بات ہو بھی گئی تو اطفال اور خدام جو ڈیوٹی پر ہوتے تھے ، جو راستے کی ڈیوٹی پر رہنمائی کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے وہ اُن کو توجہ دلا دیتے تھے اور توجہ دلانے پر فوراً اپنے اپنے راستے پر ہر کوئی چلتا تھا.لوگوں کا ایک مسلسل دھارا چل رہا ہو تا تھا.جس طرح پانی کا ایک بہاؤ ہوتا ہے ، پانی کی ایک ندی بہہ رہی ہوتی ہے اس طرح لوگ جلسہ گاہ کی طرف جارہے ہوتے تھے اور اسی طرح جلسہ ختم ہونے پر واپس آرہے ہوتے تھے.سڑک کے ایک طرف مرد ہوتے تھے تو دوسری طرف عورتیں ہوتی تھیں.ہر مرد کو عورت کے تقدس کا خیال ہو تا تھا اور ہر عورت کو اپنی حیا کا پاس ہو تا تھا.سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا راستہ کاٹ رہے ہوں یا کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو جائے.پردے کی پابندی اور غض بصر ہر طرف نظر آتا تھا.یہ نظارہ انسان کو مدینہ کی گلیوں میں بھی لے جاتا ہے جب آنحضرت صلی نیلم نے فرمایا کہ عور تیں اور مرد علیحدہ علیحدہ راستے اختیار کریں.عورتیں ایک طرف دیوار کے ساتھ ہو کر چلا کریں.تو اس کی اس قدر پابندی ہوتی تھی کہ روایت میں آتا ہے کہ بعض عورتیں اس قدر دیواروں کے قریب ہو کر چلتی تھیں کہ اُن کی چادریں بعض دفعہ دیواروں کے پتھروں میں الجھ کر اٹک جایا کرتی تھیں.(سنن ابی داؤد ابواب النوم باب في مشى النساء مع الرجال فی الطریق حدیث نمبر (5272) تو یہ سب اس لئے تھا کہ اطاعت کا ایک اعلیٰ نمونہ دکھائیں اور اپنی حیا اور تقدس کو قائم رکھیں.تو یہ نظارے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں ربوہ میں بھی جلسہ کے دنوں میں دیکھنے میں آتے تھے.اسلامی روایات کا نمونہ ربوہ میں آنے والے عموماً اور عام دنوں میں بھی اور جلسے کے دنوں میں خصوصاً دیکھتے تھے.قادیان میں بھی چھوٹی سڑکیں اور گلیاں ہیں.اس حوالے سے میں قادیان میں جلسے میں شامل ہونے والے لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ کیونکہ بہت سے پہلی دفعہ شامل ہو رہے ہوں گے.مختلف ممالک اور ماحول سے آئے ہوئے ہیں، بعض دفعہ اتنا خیال نہیں رہتا کہ اپنے اپنے راستے پر چلیں.بجائے اس کے کہ آپ کو ڈیوٹی والے کارکنان توجہ دلائیں، عور تیں اور مرد اپنے اپنے علیحدہ راستوں پر چلیں.قادیان کے بارے میں تو غیروں نے بھی آج سے اسی نوے یا سو سال پہلے یہ لکھا ہوا ہے کہ وہاں اسلامی تعلیم کا یا اسلامی قدروں کا یا اسلام کا ٹھیٹھ نمونہ نظر آتا ہے.تو یہ ٹھیٹھ نمونہ قادیان میں آج بھی قائم رہنا چاہئے جبکہ دور دور سے غیر بھی جلسے پر آئے ہوں گے.

Page 680

خطبات مسرور جلد ہشتم 665 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 پس حیا اور تقدس کے اظہار اور حفاظت کے ساتھ ساتھ جلسے میں شامل ہونے والے اپنی نمازوں کی بھی خاص طور پر حفاظت کریں.اذان کی آواز پر ہر ایک کارُخ مسجدوں کی طرف ہونا چاہئے.اسی طرح جلسے کی کارروائی کے دوران بھی جلسے کو سننے کی بھر پور کوشش اور توجہ ہونی چاہئے.جلسہ کوئی میلہ نہیں ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.وہاں اس وقت کی اطلاع کے مطابق چھ سات ہزار مہمان تو باہر سے آچکے ہیں، اور بھی آئیں گے انشاء اللہ.تو ہر ایک جلسے کے تقدس کا بھی خیال رکھے.بلکہ پاکستان سے آئے ہوئے بہت سارے لوگ ہیں کہ اُن کو اللہ تعالیٰ نے براور است بھی جلسے میں شامل ہو کر روحانی فائدہ اٹھانے کا موقع عطا فرمایا ہے.پس ایک حقیقی مومن کی طرح بھر پور فائدہ اٹھانے کی ہر ایک کو وہاں کو شش کرنی چاہئے.نصیحت اور ہدایت کی بات شروع ہوئی ہے تو اس طرف بھی توجہ دلا دوں کہ جلسہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کے دل میں اور عمل میں قربانی کا بھی بھر پور اظہار نظر آنا چاہئے.نہ قیام گاہوں میں بد نظمی ہو.نہ کھانے کے اوقات میں بد نظمی ہو.نہ جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے وقت بد نظمی ہو.عموماً بد نظمی خود غرضی کی وجہ سے ، اپنا حق پہلے لینے کی کوشش کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے.پس اگر چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر بڑی باتوں تک قربانی دکھائیں گے تو کبھی بد نظمی نہیں ہو سکتی.اور بعض دفعہ بعض مفاد پرست یا حاسدین جو حسد کی وجہ سے خواہش رکھتے ہیں اور بعض دفعہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ کسی طرح کسی انتظام میں بد نظمی پیدا کی جائے تاکہ اُن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا موقع مل جائے تو ہمیشہ یادرکھیں کہ کسی احمدی کو کبھی اُن لوگوں کی خواہش کے مطابق اس قسم کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے جس سے جماعت کی بدنامی اور سبکی ہو یا کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو.قادیان میں ہندو بھی رہتے ہیں، سکھ بھی رہتے ہیں، عیسائی بھی رہتے ہیں.ہر احمدی کا فرض ہے کہ ہر ایک کی عزت اور احترام کرے.عموماً وہاں کے رہنے والے لوگ بڑے اچھے ہیں.لیکن اگر کسی سے کوئی غلط بات ہو بھی جائے تو اپنے جذبات پر کنٹرول رکھیں.قادیان کے رہنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.بعض دفعہ کسی مہمان کی غیرت کی وجہ سے میزبان یا وہاں کے رہنے والے جذبات میں آجاتے ہیں، یا کوئی بات سن کر جذبات میں آجاتے ہیں.تو کسی بھی قسم کا ایسا جذباتی اظہار نہیں ہونا چاہئے جس سے کسی بھی قسم کے فساد یا فتنے کا خطرہ پیدا ہو سکے.اسی طرح وہاں رہنے والے آپس میں سلام کو رواج دیں.چلتے پھرتے ایک دوسرے کو جانتے ہیں یا نہیں جانتے سلام کریں تاکہ محبت اور بھائی چارے کی فضا پید اہو اور مزید بڑھے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسے کے دن جہاں پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کے لئے خاص دن ہیں.انہیں دعاؤں میں گزاریں.جلسے پر پاکستان سے جو قادیان میں آئے ہوئے لوگ ہیں وہ بھی اور دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ بھی اور ہندوستان والے جو ہیں وہ بھی سب خاص طور پر ان دنوں کو دعاؤں میں

Page 681

666 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم گزاریں.شاملین جلسہ تو خاص طور پر اپنے ہر لمحے کو دعاؤں میں گزاریں اور گزار سکتے ہیں کیونکہ ان کا شامل ہونے کا تو اور کوئی مقصد نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اور کام ہے سوائے اس کے کہ روحانی فیض حاصل کریں، اپنی تربیت کے سامان کریں.اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کی بستی میں ایک روحانی ماحول کے تحت اتنی تعداد میں جمع کر کے ایک موقع پیدا کیا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے کا موقع مل رہا ہے.اس سے اس کا فضل ما نگیں.اس کے احسان کا شکر ادا کریں.پاکستان سے شامل ہونے والے خاص طور پر پاکستان میں احمدیوں کے حالات اور ملک کے حالات کے بارے میں بھی دعائیں کریں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہمیں یہ تسلی دلاتا ہے کہ ادعُونِ اسْتَجِبْ لَكُمْ.مجھے پکارو میں تمہاری دعاؤں کو سنوں گا.اور جب ماحول میسر آجائے تو اس سے بہتر اور کون سا ایسا موقع ہے جب ایک عاجز بندہ اللہ تعالیٰ سے مانگے.آج کل سب سے زیادہ اضطرار کی کیفیت پاکستان کے احمدیوں کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مضطر کی دعا سنتا ہوں.پس ان دنوں میں اپنے اضطرار کو اللہ تعالیٰ کے حضور آنکھ کے پانی کے ذریعے بہائیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے حصہ پانے والے بنیں.اللہ فرماتا ہے کہ آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَإِلَهُ مَعَ اللهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَرُونَ (النمل: 63) یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہی؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے.جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں.پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اُس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں.یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہئے کہ دعا کرے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 618.مطبوعہ ربوہ) پس اپنی دعاؤں کے اثرات کو زمین پر دیکھنے کے لئے پہلے آسمان کے کنگرے ہلانے ہوں گے.آپ چند ہزار جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محرومیاں دور کرنے اور ایک خاص ماحول سے فیض اٹھانے کے لئے جلسہ میں شمولیت کا موقع عطا فرمایا ہے اپنے اس اضطرار کو صحیح رخ دے کر اپنی ماڈی اور روحانی زندگی کے سامان کرنے کی کوشش کریں.ڈیوٹی دینے والے بھی وہاں گئے ہوئے ہیں وہ صرف یہ نہ سمجھیں کہ اُن کا مقصد صرف ڈیوٹی دینا ہے.بے شک یہ خدمت کریں لیکن چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اپنی زبانوں کو ذکر الہی سے تر رکھیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے.

Page 682

667 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم اس موقع سے جیسا کہ میں نے کہا، جلسے میں شامل ہونے والے صرف پاکستانیوں کا ہی فرض نہیں بلکہ ہر ایک کو بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے جو وہاں شامل ہو رہے ہیں.ماحول بھی میسر ہے تو اس ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور جیسا کہ میں نے کہا پاکستانی خاص طور پر اپنے حالات کی وجہ سے جو ان میں اضطراری کیفیت ہے اُس کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں.اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں مضطر کی دعا سنتا ہوں.پھر ایسے مضطر جو صرف اپنے لئے دعا نہیں کر رہے ہوتے بلکہ جماعت کے لئے دعا کر رہے ہیں اور دنیا میں حضرت محمد مصطفی صلی علی نام کے دین کے قیام کے لئے دعا کر رہے ہوں ایسے مضطروں کی دعا تو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے.اور پھر یہی نہیں بلکہ دنیا کی ہمدردی میں کسی بھی دین سے منسلک جو لوگ ہیں ان کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعا کر رہے ہوں تو ایسے لوگوں کی دعا تو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے جن کو ہمدردی مخلوق بھی ہے ، ہمدردی انسانیت بھی ہے اور ہمد ردی دین بھی ہے.پھر اللہ تعالیٰ صرف یہی نہیں فرما رہا کہ میں تمہاری اضطراری کیفیت کی دعائیں قبول کر کے تمہاری تکلیفیں دور کر دوں گا.تمہاری ذاتی اور جماعتی تکالیف کو ختم کر دیا جائے گا.تمہیں تکلیفیں پہنچانے والوں کے ہاتھوں کو روک دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ تکلیف کا علاج صرف تکلیف دور کرنے سے نہیں فرما رہا بلکہ فرمایا کہ وَيَجْعَلُكُم خُلفاء الْأَرْضِ کہ تمہیں زمین کا وارث بنادے گا.پہلے بھی بناتا آیا ہے اور آئندہ بھی اس کی یہی تقدیر ہے.پس یہ تقدیر الہی ہے تو مایوسیوں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نہ صرف تکالیف دور ہو رہی ہیں بلکہ تمہیں تکلیفیں دور کرنے کے بعد زمین کا وارث بنایا جارہا ہے.پس اپنی بیچارگی کے رونے نہ روؤ.یہ کل پر سوں کب آئے گی، اس کی باتیں نہ کرو.اگر تمہاری عاجزی اور اضطرار سے کی گئی دعائیں جاری رہیں تو یہ کل پر سوں تو تمہاری تکلیفیں دور کرتے ہوئے آہی جائے گی اور نہ صرف تکلیفیں دور کرتے ہوئے آئے گی بلکہ مخالفین کو تمہارا زیر نگین کرتے ہوئے آئے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.پس اُس معبودِ حقیقی کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.ہر قسم کی مایوسیوں اور شرک ، چاہے وہ شرک خفی ہی کیوں نہ ہو ، اس سے اپنے آپ کو بچائیں ، اپنی نسلوں کو بچائیں پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ فیض پاتے چلے جائیں گے.پس کیا ہی پیارا ہمارا خدا ہے جو کہتا ہے کہ اگر تم صرف میری خالص عبادت کرنے والے ہو تو میں تمہاری اضطرار سے کی گئی دعاؤں کو تمہاری مانگنے سے زیادہ پھل لگاتا ہوں.اس وہم میں بھی نہ رہو کہ پتہ نہیں ہمارا اضطرار اللہ تعالیٰ تک پہنچتا بھی ہے کہ نہیں؟ اللہ فرماتا ہے میں تو تمہارے بہت قریب ہوں.جو میں نے آیت تلاوت کی اس میں یہی فرما رہا ہے.اتنا قریب کہ جو خالص ہو کر ایک بندہ دعا کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کا جواب بھی دیتا ہوں.لیکن ایک شرط ہے کہ جو تم نے اضطرار سے دعائیں شروع کی ہیں اُن میں مستقل مزاجی رکھنا اور میرے احکامات پر عمل کرنا، میں جو باتیں کہتا ہوں ان پر لبیک کہنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” دعا اور اس کی قبولیت کے زمانے کے درمیانی

Page 683

668 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آجاتے ہیں کہ کمر توڑ دیتے ہیں.مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے“.اب دیکھیں آپ فرماتے ہیں کہ خوشبو سونگھتا ہے.ہم تو من حیث الجماعت ان مخالفتوں اور تکلیفوں کے باوجود صرف خوشبو نہیں سونگھ رہے بلکہ اس کے پھل کھا رہے ہیں.بے شک ہم اپنی ہر جانی قربانی اور شہادت پر افسوس کرتے ہیں، غمزدہ بھی ہوتے ہیں ، دکھ بھی ہوتا ہے، تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن یہ شہادتیں، یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو کر جماعت کو پھلوں سے لا د ر ہی ہیں.آپ نے فرمایا کہ: ”ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سر یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اُسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی.اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں.پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بد ظن نہیں ہونا چاہئے.یہ کبھی بھی خیال کرنانہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہو گی یا نہیں ہوتی.ایسا وہم اللہ تعالی کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 708-707) یعنی اگر یہ ہو گا کہ میری دعائیں قبول نہیں ہو تیں تو اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت سے آپ انکار کر رہے ہیں کہ وہ دعائیں قبول فرماتا ہے.پس آج پاکستان کے احمدیوں سے زیادہ اس بات کو کون جان جاسکتا ہے یا ہند وستان کے بعض علاقوں کے وہ احمدی جن پر ظلم اور سختیاں ہو رہی ہیں یا دنیا کے بعض دوسرے ممالک کے احمدی جو سختیوں اور تکلیفوں سے گزر رہے ہیں، اُن سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ اضطرار یا اضطراب کیا ہوتا ہے ؟ پس جب اضطرار پیدا ہو جائے تو دعاؤں کی قبولیت کا وقت بھی قریب ہوتا ہے.اس حوالے سے آج میں جلسے میں شامل ہونے والے تمام شاملین اور پاکستانی احمدیوں سے کہتا ہوں جن کو مسیح محمدی کی بستی میں جلسے میں شمولیت کا موقع مل رہا ہے کہ اپنے اضطرار اور اضطراب کو دعاؤں اور آنسوؤں میں ڈھالنے کی انتہا کر دیں اور پھر پہلے سے بڑھ کر اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنا لیں تا کہ ایک حقیقی انقلاب لانے والے بن جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.”دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی.یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے“.(بندے اور خدا میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے).اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا

Page 684

669 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے.جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتا ہے تو وہ اور ہی انسان ہو جاتا ہے.اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے.اور ہر قسم کے تعصب اور ریاکاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیدا ہوں برداشت کر لیتا ہے.خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتا ہے تب خدا تعالیٰ جو رحمان رحیم خدا ہے اور سر اسر رحمت ہے اُس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور میں بدل دیتا ہے“.(ملفوظات جلد اول صفحہ 492 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی دعائیں کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو قبولیت بھی عطا فرمائے.ہماری کلفتوں کو دور فرمائے اور جلد اس کو سرور میں بدل دے.ہمارا شمار ہمیشہ ان بندوں میں رکھے جن پر ہر وقت اس کے پیار کی نظر پڑتی رہتی ہے.آج بھی ایک افسوس ناک خبر ہے.مردان میں ہمارے ایک نوجوان مکرم شیخ عمر جاوید صاحب کو کل شہید کر دیا گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.شہید مرحوم اپنے والد مکرم شیخ جاوید احمد صاحب اور اپنے چازاد بھائی شیخ یاسر محمود صاحب ابن مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید کے ہمراہ کار میں اپنی دکان سے شام کو پونے سات بجے کے قریب گھر واپس آرہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے تعاقب کر کے فائرنگ کر دی.شہید مرحوم عمر جاوید صاحب پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے.اُن کے سر اور کمر میں گولیاں لگی ہیں جس سے ان کی موقع پر شہادت ہو گئی.جبکہ اگلی سیٹ پر موجود شہید مرحوم کے والد اور شیخ جاوید احمد صاحب کے بازو پر گولی لگی جس سے وہ زخمی ہو گئے.ڈرائیو کرنے والے شیخ یاسر محمود کو شیشے کے ٹکڑے ہاتھ پر لگنے سے زخم آئے.دونوں زخمی جو تھے ان کو تو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا.اللہ کے فضل سے ٹھیک ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو پیچیدگیوں بھی بچائے اور جلد شفائے کاملہ عطا فرمائے.گاڑی پر گل تقریباً کوئی سترہ اٹھارہ گولیاں لگی ہوئی تھیں جو نشانات ملے ہیں.بہر حال ملزمان جو تھے ، جو مجرم تھے وہ تو اس کے بعد فرار ہو گئے لیکن وہاں سرحد میں ابھی تک یہ شرافت ہے کہ وزیر اعلیٰ کے والد صاحب محمد اعظم خان ہوتی زخمیوں کی عیادت کے لئے بھی آئے اور پھر ان کے ہسپتال کے سٹاف کو ہدایات بھی دیں کہ ان کا صحیح علاج کیا جائے.اور شہید مرحوم کے گھر تعزیت کرنے بھی گئے.یہ خاندان جو ہے اس کے شیخ نیاز دین صاحب نے 1907ء میں بیعت کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.شیخ شہید مرحوم کے دادا شیخ نذیر احمد صاحب تھے جنہوں نے بعد میں 1932ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے زمانے میں بیعت کی ہے.اور ان کے بارہ میں پہلے بھی میں بتا چکا ہوں کہ شہید مرحوم کے چا اور سسر شیخ محمود احمد صاحب سات بھائی تھے.اس خاندان میں پہلے بھی شہید ہو چکے ہیں.مردان کی مسجد پر

Page 685

670 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم جو خود کش حملہ ہوا تھا، اُس میں شہید مرحوم کے چا زاد بھائی شیخ عامر رضا ابن مکرم شیخ مشتاق احمد صاحب شہید ہوئے تھے.اور بعد میں ان کے چچا شیخ محمود احمد صاحب کو 8 نومبر 2010ء کو معاندین نے شہید کیا تھا.اس وقت جو فائرنگ ہوئی تھی اس میں ان کا ایک بیٹا زخمی ہوا تھا.1974ء میں بھی ان کے خاندان کا ایک فرد جن کا رشتہ سسرالی رشتہ تھاوہ شہید کئے گئے تھے تو اس خاندان میں 1974ء سے شہادتوں کا سلسلہ چل رہا ہے لیکن پھر بھی یہ تمام مشکلات اور مصائب کا سامنا کر رہے ہیں اور پورا خاندان بڑی بہادری کے ساتھ یہ مقابلہ کر رہا ہے.چھلی شہادت پر میر اخیال ہے کہ میری ان سے بھی بات ہوئی تھی کیونکہ سارے افراد سے ہوئی تھی تو ان سے بھی ہوئی ہو گی اور بڑے ہمت اور حوصلے سے تمام اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے.مرحوم کے چچا اور سسر مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید اور ان کے سب بھائی مختلف اوقات میں ہیں سے زائد مختلف جماعتی مقدمات کے حوالے سے اسیر راہ مولیٰ بھی رہ چکے ہیں.شہید مرحوم کے دو چچاؤں کو ایک جماعتی مقدمے میں عدالت نے پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ اس جرم کی سزا ہی زیادہ سے زیادہ تین سال ہے.بہر حال ہائی کورٹ نے بعد میں ان کو بری کر دیا تھا.اسی طرح میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ان کے خاندان میں اغوا بھی ہوتے رہے ہیں.ان کی دکان پہ جو کاروبار ہے وہاں ایک بم بلاسٹ بھی ہوا تھا.اپنے چچا کے ساتھ ہی کاروبار میں شریک تھے.ناظم خدمتِ خلق ضلع مردان تھے.محاسب تھے.بہر حال احتیاط تو یہ عموما کیا کرتے تھے.میں نے ان کو کہا بھی تھا کہ سر شام ہی اپنا کاروبار بند کر کے آجایا کریں لیکن بہر حال اس دن یہ آرہے تھے ، اپنے گھر کے قریب پہنچے اور گھر سے قریباً تین چار سو گز کے فاصلے پر تھے تو ان پر فائرنگ کی گئی اور یہ شہید ہو گئے.سال، دو سال پہلے ان کی شادی ہوئی تھی.ان کی اہلیہ ہیں ان کے ہاں بچے کی پیدائش بھی ہونے والی ہے.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صحت سے رکھے اور ہر قسم کی پیچیدگیوں سے بچائے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر اور حوصلہ و ہمت عطا فرمائے.ابھی نماز کے بعد انشاء اللہ ان کا نماز جنازہ غائب ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد 18 شماره 02 مورخہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2011 صفحہ 5 تا 8)

Page 686

خطبات مسرور جلد ہشتم 671 53 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010ء بمطابق 31 فتح 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: آج اس سال کا آخری دن ہے، یعنی گریگورین کیلنڈر کے حساب سے جو آج کل دنیا میں رائج ہے یہ آخری دن ہے.گو کہ اسلامی سال کے پہلے مہینے کا آخری عشرہ بھی شروع ہو چکا ہے لیکن چونکہ دنیا میں اس وقت رائج کیلنڈر یہی ہے جس کو مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں اور یہی تمام دنیا میں اب رواج پا چکا ہے.اس لئے عموماً نئے سال کے شروع ہونے کی مبارکبادیں بھی اس کیلنڈر کے حساب سے دی جاتی ہیں.اور رواں سال کے آخری دن کو بھی اسی حساب سے الوداع کہا جاتا ہے.عموماً الوداع کہنے کا رواج تو کم ہے لیکن نئے سال کے پہلے دن کا استقبال بڑے ذوق اور شوق اور شور و غل اور ہنگامے سے کیا جاتا ہے.اور اس استقبال میں دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کا باشندہ اپنی اپنی بساط اور رواج کے مطابق حصہ لیتا ہے تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا، آج کے دن کا ذکر اس لئے ہے کہ آج یہ اس سال کا ، 2010ء کا آخری دن ہے.جمعہ کا بابرکت دن ہر سال آخری دن آتا ہے اور گزر جاتا ہے ، کوئی اہمیت نہیں ہے ، لیکن اس سال ہمارے لئے سال کا یہ آخری دن بھی مبارک ہے.اس لئے کہ اس سال کا اختتام آج جمعہ کے بابرکت دن سے ہو رہا ہے.یہ 2010ء کا سال جس کا آغاز بھی جمعہ سے ہوا تھا، جو بابرکت دن تھا اور جس کا اختتام بھی جمعہ سے ہو رہا ہے جو جیسا کہ میں نے کہا ایک بابرکت دن ہے.کہنے والے کہہ سکتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ اچھا بابرکت دن ہے.بعض فتنہ پرداز، بعض مخالفین بھی احمدیوں کے جذبات کو انگیخت کرنے کے لئے کہ تمہارے لئے اچھا سال ہے جس میں جماعت احمدیہ کو تقریباً سو افراد کی جان کی قربانی دینی پڑی، سو گھر اپنے باپوں، خاوندوں اور بچوں کے لئے رورہا ہے.اگر بعض غیر از جماعت لوگوں نے ہماری شہادتوں پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے تو ایسے بھی ظالم ہیں اور کافی تعداد میں ہیں جو سخت دل ہیں، جنہوں نے ان شہادتوں کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں.بلکہ مسلسل

Page 687

672 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم دھمکیاں بھی ہیں کہ ہم ابھی بہت کچھ تم سے کریں گے.یہ لوگ انسانیت سے عاری ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ خدا تعالیٰ کے سلوک کو نہیں دیکھا کہ خدا تعالیٰ اُن سے کیا کر رہا ہے.جن آفات نے انہیں گھیر اہے اُس سے عبرت حاصل نہیں کی بلکہ اس کا بھی الٹا اثر ہو رہا ہے.اور اُن کی حالت قرآنِ کریم میں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ، قَسَتْ قُلُوبُهُمْ (الانعام : 44) والی ہے.اُن کے دل ان چیزوں کو دیکھ کر اور بھی سخت ہو گئے ہیں اور شیطنت میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام : 44) اور شیطان نے جو وہ کرتے تھے انہیں اور بھی خوبصورت کر کے دکھایا، یہ لوگ اس چیز کا مصداق بن رہے ہیں.پس یہ لوگ اس بات پر خوش نہ ہوں کہ احمدیوں کی جانیں ہم نے لے لی ہیں اور ہم مزید تنگ کریں گے ، مزید ان پر تنگیاں وارد کرنے کی کوشش کریں گے.جو کچھ ان کو شیطان نے خوبصورت کر کے دکھایا ہے اس کا ذکر تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی قرآن شریف میں فرما دیا ہے کہ ایسے لوگ یہی کچھ کیا کرتے ہیں اور اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے ایک بہت سخت انذار بھی کیا ہے.شہداء کے گھرانوں کے نیک اور ایمان افروز جذبات جہاں تک ہمارے شہیدوں کے گھروں کا تعلق ہے.انہوں نے تو ان شہادتوں پر کسی بھی قسم کا جزع فزع کرنے کی بجائے اپنے جذبات کو خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح پیش کیا کہ ان کی سوچوں کے دھارے ہی بدل گئے ہیں.مختلف ممالک سے میں نے شہداء کے لواحقین سے ملنے کے لئے وہاں کے مقامی احمدیوں کو بھجوایا تھا.اور یہ وفود جب شہداء کی فیملیوں سے مل کر آتے ہیں تو اپنے ایمانوں میں بھی ترقی پاتے ہیں.گزشتہ دنوں افریقہ کے بعض ممالک سے وفود بھجوائے تھے.ان میں ایک وفد غانا کا تھا.اُس میں غانا کے امیر اور مشنری انچارج وہاب آدم صاحب بھی تھے اور ایک اور احمدی دوست تھے ، طاہر ھامنڈ (Homond) صاحب جو گھانین احمدی ہیں اور گھانا کی پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں.یہ لوگ واپسی پر مجھ سے مل کر گئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ان شہداء کے عزیزوں، والدین، بیوی بچوں سے مل کر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا.جو رویے ہم نے وہاں دیکھے ہیں ہم سوچ ہی نہیں سکتے تھے.ہم انہیں تسلی دیتے تھے تو وہ آگے سے ہمیں ایمان کی مضبوطی کا اظہار کرتے ہوئے تسلی دیتے تھے.یہ دوست کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں میں جذبات سے مغلوب ہو کر آنسو آتے تھے تو وہ کہتے تھے ہمیں تو ہمارے جانے والے تمغے لگا گئے ہیں.تو اُن شہداء کے خاندانوں کا یہ رویہ تھا اور ہے.ایک احمدی طالب علم جو تھوڑا عرصہ ہوا یہاں یو.کے میں تعلیم کے لئے آئے ہیں، کل ہی مجھے ملنے آئے تھے.اُس نے مجھے بتایا کہ آج میں آپ سے اپنی ماں کی ہمت کی ایک بات کرنا چاہتا ہوں.اس طالب علم لڑکے کو مسجد میں دو گولیاں لگی تھیں.کہتا ہے میں جو زخمی ہوا ہوں تو ماں کو فون کر کے بتایا کہ اس طرح گولیاں لگی ہیں اور خون بہہ رہا ہے تو ماں نے جواب دیا کہ بیٹا میں نے

Page 688

673 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم تمہیں خدا کے سپر د کیا.اگر شہادت مقدر ہے، خبریں آرہی ہیں، لوگ شہید ہوئے ہیں تو جرآت سے جان اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا.کسی قسم کی بزدلی نہ دکھانا.بہر حال اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ کیا.آپریشن سے گولی نکال دی گئی.تو جس قوم کی ایسی مائیں ہوں جو اپنے بیٹوں کو شہادت کے لئے تیار کر رہی ہوں ، ایسے لواحقین جن شہداء کے ہوں جو افسوس پر آنے والوں کو تسلی دلا رہے ہوں تو ایسا جان دینا جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی یا سزا کے طور پر نہیں ہوا کرتا.دلوں کی تسلی اور تسکین کے لئے یہ سامان خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے ہوتے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میں تو جب بھی شہداء کے لواحقین سے بات کرتا ہوں تو پر عزم آواز میں ہی سننے میں ملتی ہیں.پس غیر ممالک سے افسوس کے لئے جانے والوں کے ایمان میں اضافہ ، ماؤں کا اپنے بیٹوں کو شہادت کے لئے تیار کرنا اور پر عزم جذبات کا اظہار، یہ خدا تعالیٰ کا فضل نہیں تو اور کیا چیز ہے؟ پس ہم تو وہ قوم ہیں جو دشمن سے ڈر کر کبھی اپنے خدا کا دامن نہیں چھوڑتے.ہم تو وہ قوم ہیں جو خوف اور بھوک اور مال اور جان کی قربانی کرنے سے ڈر کر خدا تعالیٰ کا دامن چھوڑنے والے نہیں.اپنے پیارے خدا سے بے وفائی کرنے والے نہیں.بلکہ إِنَّا لِلَّهِ وَانَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر پھر اپنے خدا کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اپنے پیارے خدا کی رضا حاصل کر کے خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو جائیں.جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت حاصل کرنے والے ہیں اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں.بہت سے ایسے ہیں جو مجھے خط لکھتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں ہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَمِنْهُم مَّنْ يَنْتَظِرُ ( الاحزاب : 24) اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو انتظار کر رہے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اُن سے قربانی لینا ہی مقدر ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ اس میدان میں ثابت قدم رہیں گے.پس کسی کا یہ اعتراض کہ کس طرح تم سال کے ابتداء اور سال کے اختتام کے بابرکت ہونے اور سال کے بابرکت ہونے کی بات کرتے ہو ، ان پر عزم اور خدا کی رضا حاصل کرنے والے لوگوں کے جواب سے باطل ہو جاتا ہے.کثرت سے دنیا بھر میں احمدیت کا پیغام پہنچنا اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے اس سال احمدیت کے خوبصورت پیغام کو دنیا کے امیر ملکوں میں بھی اور دنیا کے غریب ملکوں میں بھی متعارف کروانے کا سامان پیدا فرمایا ہے یہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کا ہی نظارہ ہے.اس سال میں ان شہداء کی قربانیوں نے جس طرح ہمیں اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے اسلام کے خوبصورت اور پر امن پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع دیا ہے، اس کثرت سے جماعت کا تعارف اور اسلام کا پیغام پہلے کبھی نہیں پہنچا.مختلف ذرائع ، مختلف میڈیا، چاہے وہ یورپ میں ہے ، امریکہ میں ہے ، افریقہ میں ہے، ایشیا میں ہے یہ سب دوسرے ذرائع اور میڈیا استعمال ہوئے.قومیں اپنے مقاصد میں قربانیاں دے کر ہی کامیاب ہوتی ہیں.یہ قربانیاں جو شہدائے پاکستان نے دی ہیں، دیتے رہے ہیں، جس کی انتہا 2010ء کے سال میں

Page 689

674 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم بھی ہوئی، یہ قربانیاں انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ نہیں جار ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدیت کا پیغام اور تعارف اسلام کی امن پسند تعلیم کا پیغام دنیا کے ہر کونے میں کثرت سے پہنچنا، یہ ان قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے اور یہ سلسلہ چلتا چلا جارہا ہے.یقیناً یہ بات ان قربانیوں کی قبولیت کا ایک حصہ ہے، ایک جزو ہے اور آئندہ دنیا کے افق پر احمدیت کی جو فتوحات اُبھر رہی ہیں ، وہ اس سے بہت بڑھ کر انشاء اللہ تعالیٰ اس چمک کا نظارہ دکھانے والی ہیں.پس ہمارا کام یہ ہے کہ جس طرح ہمارے قربانیاں کرنے والوں کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اُن لوگوں کے زمرہ میں شامل فرمایا ہے، جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران: 170).جو لوگ اپنے ربّ کے حضور مارے گئے تم انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے.پس وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دائگی رزق کو پانے والے ہیں جو ہر لمحہ اُن کے درجات بلند کر رہا ہے.یہاں اموات کے لفظ کے ساتھ اس آیت کا یہ مطلب بھی ہو گا کہ جس کا خون رائیگاں نہیں جاتا.اور دوسرے یہ کہ جو اپنے پیچھے اپنے نقش قدم پر چلنے والے چھوڑ جاتے ہیں.پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ہم نیکیوں میں بڑھنے کے لئے اپنے قربانیاں کرنے والوں کی نیکیوں کو بھی زندہ رکھیں.اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی قربانیوں کی وجہ سے جو کامیابیاں ملی ہیں ان سے بھی انہیں آگاہ کرتے رہتے ہیں.جس پر وہ اپنی زندگیاں قربان کرنے کے بعد بھی خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر لی اور ان کی قربانیاں بھی انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوئیں.اس کا نقشہ سورۃ آلِ عمران میں اس طرح کھینچا گیا ہے کہ فَرِحِينَ بِمَا الهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ يَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (ال عمران (171) بہت خوش ہیں اس بات پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی اُن سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہو گا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے.پس ان شہداء کی قربانیاں ہمارے ایمانوں میں بھی اضافے کا باعث بن رہی ہیں.اللہ تعالیٰ کی اس خوشخبری کو سن کر کہ وہ خوشخبریاں پار ہے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کے بارہ میں خوشخبریاں پارہے ہیں، اس بارہ میں بہت سے خطوط خط لکھنے والے شہداء کے ورثاء مجھے لکھتے ہیں کہ ہم خواب میں فلاں شہید کو ملے ، اپنے شہید کو ملے، بھائی کو ملے ، باپ کو ملے ، بیٹے کو ملے.اُس نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں.یہاں عجیب نر الا سلوک مجھ سے ہو رہا ہے.تم لوگ تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.جب ہم اُن سے اُن کی خوشی کے اظہار سن کر اس یقین پر پختہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو خاص رزق دے رہا ہے ، اُن کے لئے خوشی کے سامان بہم پہنچارہا ہے تو اس بات پر بھی ہمارا یقین بڑھتا ہے کہ اللہ تعالی پیچھے رہ جانے والوں کی کامیابیوں کے بارہ میں جو انہیں خوشخبریاں دے رہا ہے وہ بھی

Page 690

675 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم انشاء اللہ تعالیٰ ضرور سچ ثابت ہوں گی اور ہو رہی ہیں.جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر ایک فیصلہ کر کے چلتی ہے تو پھر تدریجی نتائج پیدا کرتے ہوئے وہ اپنے عروج پر پہنچتی ہے.بندے کو بظاہر پتہ نہیں چل رہا ہو تا لیکن جب آخری نتیجہ نکلتا ہے تو پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کتنے سچے ہیں.وہ کتنے سچے وعدوں والا خدا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے زیادہ سے زیادہ اور جلدی فیض پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر چھٹنے کی ضرورت ہے.ہم اپنی قربانیاں کرنے والوں کے نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں، اُن کی نیکیوں کا ذکر کرتے ہیں، مختلف خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت جماعت کو جو کامیابیاں ملنی ہیں، جن کی خبریں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے دیتا ہے ، ہم بھی اُن کامیابیوں کا حصہ بن جائیں.اس بابرکت دن جمعہ “ کا میں نے ذکر کیا ہے تو اس سال اللہ تعالیٰ نے عموم سے ہٹ کر جو کبھی کبھی واقع ہوتا ہے ایک خصوصیت ہمیں دی ہے.اس سال میں اس خصوصیت سے گزارا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ابتداء بھی جمعہ سے اور انتہا بھی جمعہ سے.اور اس طرح عمو ما سال کے باون جمعہ ہوتے ہیں، اس سال ترتین جمعہ ہمیں ملے.اور حدیث کے مطابق جمعہ وہ دن ہے جس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندے کی دعا خاص طور پر قبول فرماتا ہے.(ماخوذ از بخاری کتاب الطلاق باب في الاشارة في الطلاق والامور حدیث نمبر 5294) جمعہ کی اہمیت میں امید کرتا ہوں اور پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ ہم نے اپنی کوشش کے مطابق اپنے جمعے دعاؤں میں گزارنے کی کوشش کی ہو گی.ہمارے شہداء جو لاہور میں شہید ہوئے یا چند ایک جو مردان میں بھی مثلاً ایک شہید ہوئے، انہوں نے بھی جمعے کے دن دعائیں کرتے ہوئے اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی ہیں.یقیناً اُن دعاؤں نے جنت میں ان کے لئے جہاں بہترین رزق کے سامان پیدا کئے ہوں گے وہاں یہ دعائیں پیچھے رہنے والوں اور جماعت کی ترقی کی انہیں خوشخبریاں بھی پہنچانے کا باعث بن رہی ہوں گی.آج پھر اس آخری دن کے جمعہ کو ہمیں اپنی خاص دعاؤں میں گزارنا چاہئے.جمعہ کا دن جہاں بابرکت ہے وہاں ابنِ آدم کے لئے اس دن میں خوف کا پہلو بھی ہے.کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی الیکم نے فرمایا کہ جمعہ کا دن دنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظیم ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی بڑھ کر ہے.اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت آدم کو پیدا کیا، اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر اتارا.اُس دن اللہ تعالیٰ نے

Page 691

676 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم حضرت آدم کو وفات دی اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ حرام چیز کے علاوہ جو بھی اللہ سے مانگے تو وہ اسے عطا کرتا ہے اور اسی دن قیامت برپا ہو گی.مقرب فرشتے، آسمان اور زمین اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمند ر اس دن سے خوف کھاتے ہیں.(سنن ابن ماجہ - کتاب اقامة الصلوۃ والسنۃ فیہا باب في فضل الجمعة حديث نمبر 1084) پس اس دن کا فیض پانے کے لئے اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزارنے کی ضرورت ہے.اس دن جہاں نیک اعمال کرنے والوں کے جنت میں جانے کے سامان ہیں تو شیطان کے بھرے میں آ کر غلط کام کر کے ، غلط عمل کر کے جنت سے نکلنے کی بھی خبر ہے.اور پھر ہم جو اس زمانے کے آدم کے ماننے والے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے آدم کہہ کر مخاطب فرمایا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ اور سلطان بنایا ہے.پس اس آدم کے ذریعہ اب دنیا میں بھی جنت قائم ہوئی ہے جس نے اخروی جنت کے بھی سامان کرنے ہیں.جب آپ کے ذریعہ نئی زمین اور نیا آسمان بننا ہے تو وہ کوئی ماڈی زمین اور ماڈی آسمان تو نہیں بننا بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی الیوم کے اس غلام صادق کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے پیداہوں گے جو خدا کی رضا کے حصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں گے.دنیا میں روحانی نظام کے قیام کے لئے نئی زمین اور نئے آسمان بنانے کی کوشش کریں گے.قربانیوں کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوں گے.اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہوں گے اور اعمالِ صالحہ میں اضافہ کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کے پیش نظر ہو گا.پس اگر تو ہم نے اس زمانے کے امام کے ساتھ کئے گئے خدا تعالیٰ کے وعدوں سے فیض پانا ہے اور دونوں جہان کی نعمتوں سے حصہ لینا ہے تو ایسے اعمال کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر ہر بڑے حکم پر اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس ترقی کا حصہ بن جائیں جو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمائی ہے.اُن خوشخبریوں کا حصہ بن جائیں جو ہمارے قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے.پس ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ قربانیوں کو ضائع نہیں کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں تجھے فتوحات دوں گا، یہ تو ہو گا اور انشاء اللہ تعالیٰ یقینا ہو گا لیکن ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ امَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَسُنُونِ (حم السجدة: 9).یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور اس کے مطابق نیک عمل بھی کئے اُن کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے.پس ایمان لا کر پھر نیک اعمال بھی ضروری ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”میں اپنی جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی ، خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جاسکتی ہے تو وہ یہی اعمالِ صالحہ ہیں“.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 14 - مطبوعہ ربوہ)

Page 692

677 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم پس ایمان لانے کے بعد عمل صالح انتہائی ضروری ہے.اور عمل صالح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا.پھر جو اجر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نہ ختم ہونے والے اجر ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اعمالِ صالحہ کی اہمیت ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی ہے کہ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصلحتِ اَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ أَتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة:26) اور خوشخبری دے دے ان لوگوں کو ، جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے کہ اُن کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.جب وہ ان باغات میں سے کوئی پھل بطور رزق دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا جا چکا ہے.حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس محض اس سے ملتا جلتا رزق لایا گیا تھا اور ان کے لئے ان باغات میں پاک بنائے ہوئے جوڑے ہوں گے اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اس آیت میں ایمان کو اعمالِ صالحہ کے مقابل پر رکھا ہے.جنات اور انہار.یعنی ایمان کا نتیجہ تو جنت ہے اور اعمالِ صالحہ کا نتیجہ انہار ہیں“.( نہریں ہیں ).” پس جس طرح باغ بغیر نہر اور پانی کے جلدی برباد ہو جانے والی چیز ہے اور دیر پا نہیں.اسی طرح ایمان بے عمل صالح بھی کسی کام کا نہیں.پھر ایک دوسری جگہ پر ایمان کو اشجار ( درختوں) سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ ایمان جس کی طرف مسلمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ اشجار ہیں اور اعمالِ صالحہ ان اشجار کی آبپاشی کرتے ہیں.غرض اس معاملہ میں جتنا جتنا تدبر کیا جاوے اُسی قدر معارف سمجھ میں آویں گے.جس طرح سے ایک کسان کاشتکار کے واسطے ضروری ہے کہ وہ تخم ریزی کرے.اسی طرح روحانی منازل کے کاشتکار کے واسطے ایمان جو کہ روحانیات کی تخم ریزی ہے ضروری اور لازمی ہے.اور پھر جس طرح کاشتکار کھیت یا باغ وغیرہ کی آبپاشی کرتا ہے اسی طرح سے روحانی باغ ایمان کی آبپاشی کے واسطے اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے.یادر کھو کہ ایمان بغیر اعمالِ صالحہ کے ایسا ہی بیکار ہے جیسا کہ ایک عمدہ باغ بغیر نہر یا کسی دوسرے ذریعہ آبپاشی کے نکما ہے“.فرمایا ” درخت خواہ کیسے ہی عمدہ قسم کے ہوں اور اعلیٰ قسم کے پھل لانے والے ہوں مگر جب مالک آبپاشی کی طرف سے لا پروائی کرے گا تو اس کا جو نتیجہ ہو گا وہ سب جانتے ہیں.یہی حال روحانی زندگی میں شجر ایمان کا ہے.ایمان ایک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے اعمالِ صالحہ روحانی رنگ میں اس کی آبپاشی کے واسطے نہریں بن کر آبپاشی کا کام کرتے ہیں.پھر جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخم ریزی اور آبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے ، اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی فیوض و برکات کے ثمراتِ حسنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں“.(ملفوظات جلد پنجم.صفحہ 649-648)

Page 693

678 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد ہشتم پس اگر نہ ختم ہونے والے اجر لینے ہیں برکات سے فائدہ اٹھانا ہے ، دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے.خوشخبری ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو نیک اعمال سے سجایا.جنہوں نے اگر یہ اعلان کیا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللی کم کی پیشگوئی کو پورے ہوتے دیکھ کر زمانے کے امام پر ایمان لائے ہیں تو اپنی حالتوں اور اپنے عملوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے.پس آج بھی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیاں اس طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کا حقدار بنانے والی ہو.ہماری عبادتیں اور ہمارا ہر عمل جو ہے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو.اور آج رات اس سال کو الوداع کرنے کے لئے اور نئے سال کے استقبال کے لئے یہ دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے خاص یہ توفیق چاہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اپنی کمزوریوں کی وجہ سے گزرنے والے سال میں جو ہم نیک اعمال نہیں بجالا سکے ، نئے سال میں ہم ان کو بجالانے والے ہوں.ایمان کے بیج کو اعمالِ صالحہ کی بروقت آبپاشی کے ذریعے پروان چڑھانے والے ہوں.ہمارا اٹھنا ہمارا بیٹھنا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو.ایک طرف تو ہم اس بات پر خوش ہیں کہ جماعت کے ایک طبقہ نے قربانیاں دے کر جماعت کی تبلیغ کے نئے راستے کھول دیئے ہیں.لیکن دوسری طرف میں ایک یہ بات بھی افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس بعض غیر از جماعت کے ایسے خطوط بھی آتے ہیں کہ فلاں شخص آپ کی جماعت کا ہے، اس نے میرے ساتھ کاروبار کیا تھا، کاروباری شراکت تھی، یا قرض لیا تھا اور اب اس میں دھو کے کامرتکب ہو رہا ہے.تو ایسے لوگ جو اس طرح جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں وہ ایسے لوگ ہی ہیں جن کا زبانی دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن یہ جو دعویٰ ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا.ایسے لوگ تو جماعت کی ترقی میں شامل ہونے کی بجائے جماعت کی بدنامی کرنے والوں میں شامل ہیں.پھر آپس کے تعلقات ہیں.آپس کے جو تعلقات ایک احمدی کے دوسرے احمدی کے ساتھ ہونے چاہئیں، ایک رشتے کے دوسرے رشتے کے ساتھ ہونے چاہئیں اگر ان حقوق کا پاس نہیں تو پھر ان جگہوں کی برکات سے انسان فیض نہیں پاسکتا.نہ دعاؤں سے کوئی فیض حاصل کیا جاسکتا ہے.اعمالِ صالحہ میں تمام حقوق بھی آتے ہیں.پس ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے جائزے لے اور دیکھے کہ گزرنے والے سال میں ہم نے اپنے اندر سے کتنی برائیوں کو دور کیا ہے ؟ ہمارے قربانی کرنے والوں نے ہماری اپنی طبیعتوں میں ، ہمارے اپنے رویوں میں کیا انقلاب پیدا کیا ہے ؟ تو یقیناً انفرادی طور پر بھی یہ سال جس کا آغاز اور اختتام بھی جمعہ کو ہوا اور ہو رہا ہے ہمارے لئے برکتوں کا سال ہے.لیکن اگر ہم دنیا داری میں بڑھتے رہے، اسی میں پڑے رہے اور ایک دوسرے کے حقوق

Page 694

679 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 خطبات مسرور جلد هشتم غصب کرتے رہے.میاں بیوی، نند ، بھا بھی، ساس، کاروباری شراکت دار ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے، ایک دوسرے کے ساتھ طعن و تشنیع کرتے رہے، اپنے رویوں میں، اپنی بول چال میں غلط الفاظ استعمال کرتے رہے تو پھر ہم برکتیں تو نہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہیں.ہمارے جو قربانی کرنے والے ہیں ان کی زبانی یاد کا دعویٰ کرنے والے تو ہم بنے ہیں، اُن کو اپنے لئے نمونہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہم نہیں بنے.اگر ہمارے اپنے رویے نہیں بدلے تو ہم نے ان قربانی کرنے والوں کی تسکین کا سامان نہیں کیا.چاہئے تو یہ تھا کہ اگر دشمنانِ احمدیت کی طرف سے ہمارے لئے تکلیفیں پہنچانے کی انتہا کی گئی تو ہم اپنے ایمان کو اپنے اعمال سے سجاتے، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے.ہمارے خلاف اگر آگ بھڑ کائی گئی تو ہمیں اس آگ میں سے اس سونے کی طرح نکلنا چاہئے تھا جو آگ میں سے کندن بن کر نکلتا ہے.ہمارے آنسو اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوں نکلتے جو ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی انقلاب پیدا کر دیتے.پس ہم میں سے جن کا یہ گزرنے والا سال اس طرح گزرا اور انہوں نے اپنے ایمان کی اپنے اعمال سے آبیاری کی وہ خوش قسمت ہیں.آئندہ آنے والے سال میں پہلے سے بڑھ کر اس تعلق کو مضبوط کرنے کی خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.اور جو لوگ اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دے سکے وہ آج رات کی دعاؤں میں، اس وقت جمعہ کی دعاؤں میں بھی اس پہلو کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نیک اعمال بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور آئندہ سال میں اپنی اصلاح کے پہلو کو ہر وقت سامنے رکھیں.اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے نیک اعمال بجالانے کی کوشش کریں.اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں.اللہ کرے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے عملوں کو ڈھالنے والے ہوں.آج رات جب خاص طور پر مغربی دنیا میں اکثریت شرابوں اور ناچ گانوں اور شور شرابوں میں مصروف ہو گی اس وقت ہم اپنے جذبات کو خدا تعالیٰ کے حضور اس عہد کے ساتھ بہائیں کہ آئندہ سال اور ہمیشہ ہمارے جذبات اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اُس کے حضور بہتے چلے جائیں گے.ہم اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کرنے والے ہوں گے.اپنی ہر حالت اور ہر عمل کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ڈھالنے والے بنیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے.آئندہ سال جو آ رہا ہے وہ سب احمدیوں کے لئے ، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بے انتہا مبارک سال ہو.میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بات کرنا چاہتا تھا.اس میں اللہ تعالیٰ نے اس سال ہمیں یہ بھی ایک فضل عطا فرمایا جس کا میں اپنے جلسہ کے جو دوسرے دن کی رپورٹس ہوتی ہیں اس میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ رشین ڈیسک کے ذریعہ سے ایم.ٹی.اے پر رشین پروگرام بھی اب جاری ہیں، خطبات کا ترجمہ بھی اور ویب سائٹ بھی شروع ہو گئی ہے.پہلے کہیں اکاڈ کا مجھے رشین احمدیوں کے خطوط آیا کرتے تھے اور وہ تھے بھی چند ایک.لیکن اب

Page 695

خطبات مسرور جلد ہشتم 680 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کی تعداد سینکڑوں میں ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام بھی ہے کہ روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدیت کو پھیلتے دیکھا.(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 691.چوتھا ایڈ یشن.مطبوعہ ربوہ) اللہ کرے کہ یہ پیغام ان تک تیزی سے پہنچتا چلا جائے اور ہم اپنی زندگیوں میں اس الہام کے پورا ہونے کے بھی نظارے دیکھنے والے ہوں.ایک اور بات جس کا میں آج اظہار کرنا چاہتا ہوں.میں نے یہ بات قادیان کے جلسے کے اختتام پر بتانی کہ alislam جو ہماری ویب سائٹ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک نیا اضافہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی خزائن کے نام سے جو کتب ہیں اُن سب کو ایک ایسے سرچ انجن (Search Engine) میں ڈالا ہے جس میں اگر آپ نے تلاش کرنا ہے تو آپ کوئی بھی لفظ، مثلاً اللہ کا نام ہے، یسوع مسیح کا نام ہے ، محمد کا نام ہے اس میں ڈالیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ، ان کتب میں جو روحانی خزائن کی جلدوں میں ہیں جہاں بھی وہ نام استعمال ہوا ہے ، وہ نام اور اقتباس سامنے آجائیں گے.اور پھر اسے آپ سرچ کر کے جو انٹر نیٹ سے دلچسپی رکھنے والے یا alislam دیکھنے والے ہیں وہ مزید صفحہ بھی دیکھ سکتے ہیں جو اصل کتاب کا صفحہ ہے.تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور یہ بہت مشکل کام تھا.اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوانوں کی ٹیم نے یہ کیا ہے.جس میں سے دو تو واقفین کو لڑکے ہیں، ایک نعمان احمد لاہور کے اور ایک کراچی کے ہیں مبارک احمد.اس کے علاوہ انڈیا کے لڑکے ہیں.اس لئے میں قادیان کے جلسہ سالانہ کے آخری دن اعلان کرنا چاہتا تھا کہ اس میں سے تین کے علاوہ جو باقی لڑکے ہیں وہ سارے انڈیا کے ہیں.فضل الرحمن یہ چنائی کے ہیں.اسی طرح مقصود احمد بنگلور کے ، شاہد پر ویز بنگلور کے ، عبد السلام بنگلور کے اور پھر عائشہ مقصود صاحبہ ہیں بنگلور کی.پھر الطاف احمد بنگلور کے ہیں اور ریاض احمد مینگلور (Mangalore) اور اسی طرح ایک ہیں خرم نصیر، یہ پاکستان کے ہیں اور کلیم الدین شیخ یہ چنائی کے ہیں.تو یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا ہے.دیکھنے والے تو اتنا محسوس نہیں کرتے.ہر کتاب کو پڑھنا، ہر کتاب میں سے ہر لفظ کو تلاش کرنا اور پھر اس کا انڈیکس بنانا، پھر اس انڈیکس کے اقتباسات ، پھر اس کے صفحے کا پروگرام بنانا ایک کافی بڑا کام تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان نوجوانوں نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور دنیا اس سے فائدہ اٹھانے والی ہو.معترضین تو آج کل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پر اعتراض کرتے رہتے ہیں لیکن اگر دیکھیں تو یہی ایک خزانہ ہے جو دنیا کی اصلاح کا باعث بن سکتا ہے.لیکن جن پر اثر نہیں ہونا وہ لوگ تو قرآنِ کریم کی آیات کا بھی استہزاء اڑاتے تھے ، اُن پر اثر نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل اور سمجھ دے.

Page 696

خطبات مسرور جلد هشتم 681 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 دسمبر 2010 تیسری بات میں آج یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ میرے نام سے آج کل انٹر نیٹ وغیرہ پر فیس بک (Face Book) ہے.فیس بک کا ایک اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے جس کا میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں.نہ کبھی میں نے کھولانہ مجھے کوئی دلچسپی ہے بلکہ میں نے تو جماعت کو کچھ عرصہ ہوا اس بارہ میں تنبیہ کی تھی کہ اس فیس بک سے بچیں.اس میں بہت ساری قباحتیں ہیں.پتہ نہیں کسی نے بے وقوفی سے کیا ہے.کسی مخالف نے کیا ہے یا کسی احمدی نے کسی نیکی کی وجہ سے کیا ہے لیکن جس وجہ سے بھی کیا ہے ، بہر حال وہ تو بند کر وانے کی کوشش ہو رہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ بند ہو جائے گا.کیونکہ اس میں قباحتیں زیادہ ہیں اور فائدے کم ہیں.اور بلکہ انفرادی طور پر بھی میں لوگوں کو کہتارہتا ہوں کہ یہ جو فیس بک ہے اس سے غلط قسم کی بعض باتیں نکلتی ہیں اور پھر اس شخص کے لئے بھی پریشانی کا موجب بن جاتی ہیں.خاص طور پر لڑکیوں کو تو بہت احتیاط کرنی چاہیے.لیکن بہر حال میں یہ اعلان کر دینا چاہتا تھا کہ یہ جو فیس بک ہے اور اس میں وہ لوگ جن کے اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ ہیں، وہ آ بھی رہے ہیں، پڑھ بھی رہے ہیں، اپنے کمنٹس (Comments) بھی دے رہے ہیں جو بالکل غلط طریقہ کار ہے اس لئے اس سے بچیں اور کوئی اس میں شامل نہ ہو.اگر ایسی کوئی صورت کبھی پیدا ہوئی جس میں جماعتی طور پر کسی قسم کی فیس بک کی طرز کی کوئی چیز جاری کرنی ہوئی تو اس کو محفوظ طریقے سے جاری کیا جائے گا جس میں ہر ایک کی accessنہ ہو اور صرف جماعتی موقف اس میں سامنے آئے اور اس میں جس کا دل چاہے آجائے.کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض مخالفین نے بھی اپنے کمنٹ (Comment) اس پر دیئے ہوئے ہیں.اب ایک تو ویسے ہی غیر اخلاقی بات ہے کہ کسی شخص کے نام پر کوئی دوسرا شخص چاہے وہ نیک نیتی سے ہی کر رہا ہو بغیر اس کو بتائے کام شروع کر دے.اس لئے جس نے بھی کیا ہے اگر تو وہ نیک نیت تھا تو وہ فوراً اس کو بند کر دے اور استغفار کرے اور اگر شرارتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے خود نپٹے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور جماعت کو ترقی کی راہوں پر چلاتا چلا جائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 18 شمارہ 3 مورخہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2011 صفحہ 5 تا 8)

Page 697

انڈیکس خطبات مسرور (جلد ہشتم) (مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز) متفرق مضامین اسماء مقامات کتابیات 2 41 60 74

Page 698

خطبات مسرور جلد ہشتم الف الله اللہ.اسم اعظم جان بوجھ کر اللہ کو آزمانا نہیں چاہیے 68 86 2 مضامین صفات الہیہ انڈیکس مضامین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہو جاؤ...اور سب سے بڑھ کر آنحضرت کی ذات سے اس کا اظہار ہوتا ہے.صفت حسیب : 146 134 123.115.99.98-90 اللہ تعالیٰ کا جسمانی بیماریوں کے علاج کی طرف رہنمائی اور جو اس پر توکل کرتے ہیں ان کے لئے وہ کافی ہو جاتا ہے اس 229 کے عملی نظارے طریق علاج میں ترقی ہمارا رونا اور ہمارا غم خدا تعالیٰ کے حضور ہے اور اس میں کبھی اللہ تعالیٰ کی صفت خلق / خالق کمی نہیں ہونے دینی چاہیے 260 آتش بازی 144 214 اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو آنحضرت کے اسوہ بارات کے ساتھ باجا اور آتشبازی کی اجازت طلب کرنا اور 33 فرمانا کہ باجالے جاؤ آتش بازی مکروہ ہے 380 پر آپ کی تعلیم پر پابندی کرنالازمی ہے زمانے کے امام کو پہچاننے کی توفیق ملمنا یہ خدا کا احسان ہے اور آداب 182-181 احسان کا بدلہ اللہ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا677 ہمارا اصل انحصار خدا ہی کی ذات پر ہے کوئی بھی لمحہ دعاؤں سے کھانا کھانے یاد عوتوں کی مجالس کے آداب، وقت کا ضیاع نہ ہو 397 آزادی اور روشن خیال کے نام پر بھیانک نقصانات اور ان سے بچنے کے نصیحت خالی نہ جانے دیں.ڈیوٹی کے دوران بھی دعائیں کریں 386 آفات اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے طریق.حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں 455 جو کام اللہ نے مسیح محمدی کے سپر د کیا ہے وہی آپ کے ماننے والوں کے سپرد 486 اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش 461 462 194 گزشتہ ایک سو سال سے زلازل، طوفان او رآفات کا آنا حضرت مسیح موعود کی تائید کے لئے ہے 519 یہ زلزلے، طوفان اور تباہیاں یہ اللہ کی تقدیر کا ایک چکر ہے غلبہ اسلام کا ہو گا.دنیا بھر میں آفات وزلازل کی پیشگوئی......118 121 خدا میں ہو کر خدا کو تلاش کرو تو خد املتا ہے خدا تعالیٰ سے کسی صورت بھی بے وفائی نہیں کرنی 195 محفوظ ہیں.وہ بھی محفوظ نہیں آج میں پھر کہتا ہوں کہ جو بظاہر آفات اور مصائب سے 524 خدا ہے“ ایک دہریہ کا یہ سوال اور ایک مبلغ کا اسے آفات میں غریب لوگوں کے مارے جانے کا سبب 118 24 دنیا بھر میں آنے والی آفات حضرت مسیح موعود کی تائید میں سمجھانا اور اس کا مسلمان ہو جانا خدا تعالیٰ زمین کی متفرق آبادیوں کو دین واحد پر جمع کرنا ہیں اور خدائی تقدیر کا ایک چکر ہے...کاش مسلمان بھی چاہتا ہے.169 مخالفت ترک کر کے...118

Page 699

خطبات مسرور جلد ہشتم آفتیں کیوں آیا کرتی ہیں 3 119 انڈیکس مضامین ولنبلونكم بشيء من (156)256،586،621 برف پگھلنے سے زمین کے ڈوبنے کی سائنسدانوں کی پیشگوئی اولئك عليهم صلوات...(158)587،621 ایک علیحدہ آفت ہے....اور دیگر آفات آگ 120 الذين اذا اصابتهم...(158،159) والذين امنوا اشد حباً...(166) 596 641.508 425.447 660.415 آگ سے مراد صرف قیامت والے دن کی آگ نہیں بلکہ شهر رمضان الذي...(186) طرح طرح کے عذاب، خوف حزن فقر و فاقہ امراض واذا سألك عبادي...(187) ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، رشتہ داروں کے ساتھ ومنهم من يقول ربنا اتنا في الدنيا (202،203) معاملات میں الجھن وغیرہ جماعت پر بھڑ کائی جانے والی آگئیں اللہ تعالیٰ ٹھنڈی کر دیتا | اولئك لهم نصيب...(203) 11 ہے اور مومن سونے کی مانند کندن بن کر نکلتا ہے 505 زين للذين كفروا...(213) آیات قرآنیہ سورۃ الفاتحہ اياك نعبد...(5تا7) سورة البقرة ذلك الكتاب لا ريب فيه...(3) 9.10.139 140.470 142 يسئلونك عن الخمر...(220) وان تخالطوهم...(221) حفظوا علي الصلوات...(239) 129 69 105 106 511 566 416 من ذا الذي يقرض الله...(246) 12،19،20،151 قد تبين الرشد (257) الذين ينفقون اموالهم...(263) الذين يؤمنون بالغيب...(4) 420،499،511 وما تنفقون الا ابتغاء...(273) في قلوبهم مرض......(11) وبشر الذين آمنوا......(26) 448.449 677 429 567 567 الذين ينفقون أموالهم باليل...(275) 567 لله ما في السموت وما في الارض (285) 134 واستعينوا بالصبر والصلوة...(46) 585،604 ربنا لا تؤاخذنا...(287) الذين يظنون...(47) بديع السموت الارض...(118) 586 214 سورة آل عمران ربنا لا تزغ قلوبنا...(9) واذ يرفع ابراهيم القواعد...انت التواب رب اني نذرت لك...(36) الرحيم(128،129) 484.172 نحن انصار الله...(53) فلا تموتن الا و انتم مسلمون...(133) 186 ربنا امنا بما انزلت...(54) صبغة الله...(139) فاستبقوا الخيرات...(149) 461 571 474 474 542 508.509 509 يعيسي اني متوفيك(56) 154،198 اذ قال الله تعالوا الي كلمة...(65) 212 28.579 الله حق تقته(103) 185 يايها الذين امنوا استعينوا بالصبر والصلوة...(154) لن تنالوا البر...(93) پایها الذين امنوا اتقوا واعتصموا بحبل الله...(104) ولا تقولوا لمن يقتل...(155) 258.587.580 256 184

Page 700

خطبات مسرور جلد ہشتم وكنتم علي شفا حفرة...ولتكن منكم امة...(105) 184 (104) 540 190 وما يفعلوا من خير...(116) ربنا اغفر لنا ذنوبنا...(148) 471 4 (121)....وذروا ظاهر الاثم....قل ان صلاتي ونسكي...(163) سورۃ الاعراف انا خير منه...(13) ولا تحسبن الذين قتلوا (170) 630،674،239 ربنا ظلمنا انفسنا...(24) فرحين بما أتهم الله...(171) 674 انڈیکس مضامین 66 420 251 251.252.474 قل انما حرم ربي الفواحش...(34) 67،68 الذين استجابوا لله و الرسول...(173) 110 ربنا لا تجعلنا...(48) الذين قال لهم الناس...(174)111،620 475 473 سورة النساء خلقكم من نفس واحدة...(2) و اتوا اليتامي اموالهم...(3) 214 104 ربنا افرغ علينا...(127) رب اغفرلي ولا خي...(152)471 انت ولينا فاغفر لنا...(156) واكتب لنا في هذه الدنيا...(157) 471 471 يا ايها الناس اني رسول الله اليكم (159) 426 سورة الانفال وابتلوا اليتامي...(7) اس آیت میں سات بنیادی يا مرهم بالمعروف...(158)39 باتوں کا بیان.ولیخش الذين...(10) خلق الانسان ضعيفاً...(29)141 92.102 105 ان الله لا يغفر ان يشرك به...(49) 556 يايها الذين امنوا اطیعوا الله او اطیعوا الرسول(60) 185 واذا حييتم بتحية...(87) 90 انما المومنون الذين اذا ذكر الله...(3) 499 اولئك هم المومنون...(5) سورة التوبه ومن يقتل مؤمناً متعمداً...(94) 630،238 التائبون العابدون...(112) ولا تقولوا لمن القي اليكم السلم (95) 236 وما كان المومنون...(122) لقد جاءكم رسول...(128) وان من اهل الكتاب...(160)657 سورة المائدة تعاونوا علي البر...(3) اليوم اكملت لكم دينكم...(4) ولا يجرمنکم شنان قوم...(9) قد جاءكم من ا نور...(16) الله يايها الرسول بلغ ما انزل...(68) ربنا امنا فاكتبنا...(84) انما الخمر والميسر...(91-93) سورۃ الانعام قست قلوبكم......(44) 71 31 623 3 227 475 70 672 فان تولوا فقل حسبي الله...(129) سورة يوسف انما اشكوا بثي...(87) سورة الرعد 499 394 540 95.96 96 258 الا بذكر الله تطمئن القلوب...(29) 49 وان ما نرينك...(41-42) لا معقب لحكمه...(42) انا ناتي الارض...(42) سورۃ ابراہیم واذ تاذن ربكم...(8) 189.405 115 117 119

Page 701

خطبات مسرور جلد ہشتم وقال الشيطن لما قضي...(23) 45 رب اجعلني مقيم الصلوة...(41-42)142،471 سورة الحجر انا نحن نزلنا الذكر...(10) 435 فاذا سويته...(30) من يقنط من رحمة ربه...(57) سورة النحل خلق السموت والارض بالحق...(4) افمن يخلق كمن لا يخلق...(18) سورۃ بنی اسرائیل وکل انسان الزمنه (1514) وما كنا معذبين...(16) 253 661 214 214 136.138 79.122 5 انڈیکس مضامین ربنا امنا فاغفر لنا...(110) 472 472 رب اغفر و ارحم...(119) سورة النور لا تدخلوا بيوتاً...(28) نور علي نور...(36) عند الله تحية من 400 41 400 (62)..سورة الفرقان وقال الرسول يا رب...(31) وكذالك جعلنا لكل نبي...(32) 234 232 ربنا اصرف عنا عذاب جهنم (66-67) 471 ومن يفعل ذلك يلق اثاماً...(69) اذا ذكروا بايت ربهم...(74) 500 رب ارحمهما كما ربيني صغيراً...(25) 141 ربنا هب لنا من ازواجنا...(75) ولا تقربوا مال اليتيم (35)103،163،192،421 سورة الشعراء 70 469 ذلك مما اوحي...(40) سورة الكهف اذاوي الفتية...(11) نحن نقص عليك...(14-15) 77 495 495 قل انما انا بشر مثلكم...(111) 88،559 سورة مريم لعلك باخع نفسك...(4) رب ان قومي كذبون...(118-119) رب نجني و اهلي...(170) سورۃ النمل وجحدوا بها...(15) وادخلني برحمتك...(20) ان الشيطن كان للرحمن عصياً...(45)516 امن خلق السموت والارض...(61) سورة الانبياء بل متعنا هؤلاء...(45) 519 473 472 516 469 216 امن يجيب المضطر...(63) 218، 666 ونضع الموازين...(48) فاجتنبو االرجس...(31) 117 135 امن يهديكم في ظلمت...(64) امن يبدؤ الخلق...(65) سورة القصص 220 221 ولكن يناله التقوي منكم...(38) 422-423 523 رب نجمي من القوم الظلمين...(22) 473 انك لا تهدي من احببت...(57) سورة المومنون تلك الدار الاخرة...(84) 176 516-522 خلقنا الانسان من سلالة...(13) سورة العنكبوت 214 احسب الناس ان يتركوا...(3-4) 505 رب اعوذ بك من همزات الشياطين(98) 473

Page 702

خطبات مسرور جلد ہشتم ان الصلوة تنهي...(46) 68 6 انڈیکس مضامین ان الذين قالوا ربنا الله (31-33) 255،502 ومن احسن قولا...(34) والذين امنوا و عملوا الصلحت (59-60)591 والذين جاهدوا فينا...(70) 418، 454، سورة الشورى 466.465.464 463 460.459.458 سورة الروم ويسجيب الذين...(27) وهو الذي ينزل الغيث......(29) فان اعرضوا فما ارسلنك...(49) 171 662 662 175 ظهر الفساد في البر والبحر...(42)220،447 سورة الزخرف سورۃ الاحزاب فاما نذهبن بك...(42) لقد كان لكم في رسول الله...(22) 224،416،491 لا يكاد يبين من المؤمنين رجال...(24) داعياء الي الله...(47) لا مستأنسين لحديث...(54) يايها النبي قل لأزواجك...(60) سورۃ سبا وما ارسلنك الا كافة...(29) سورة فاطر يايها الناس اذكروا...(4) ولا تزر وازرة...(19) ليوفيهم اجورهم...(31) استكباراً في الارض...(44) سورۃ لیس يحسرة علي العباد...(31) سورة ص اذ قال ربك للملئكة...(72-75) سورة الزمر 673.264 227 397 78 426 214 8 190 524 617 246 (53)....529 612 سورة الدخان حم والكتاب المبين...(2-6) فيما يفرق كل امر حکیم...(5) 447 449 سورۃ الاحقاف رب اوز عني ان...(16) فاصبر كما صبر اولوا العزم...(36) 467 606 سورة محمد والذين اهتدوا...(18) 501 سورة الفتح رحماء بينهم ترهم ركعاً...(30) 44،399 سورة الحجرات يايها الذين امنوا اجتنبوا كثيراً...(13) 73 قالت الاعراب آمنا......(15) بل الله.يمن عليكم...(18) 637 182 سورة الذاريت فان الذكر تنفع المؤمنين...(56) 383 قل يعباد الذين امنوا...(11)130 سورة المؤمن وان يك كاذباً...(29) ادعوني استجب لكم...(61) سورة حم السجدة 368 515 ان الذين آمنوا وعملوا الصالحات...(9) 676 وما خلقت الجن والانس (57) 31، 182، 164، 165 سورة النجم وابراهيم الذي وفي...(38) 488 463 ان ليس للانسان...(40) سورة القمر اني مغلوب فانتصر...(11) 473

Page 703

انڈیکس مضامین 7 سورة التكوير واذا الصحف نشرت...(11) 530 سورة الانشقاق فاما من اوتي كتبه...(8-9) سورة الاعلى سبح اسم ربك الا علي...(2-4) تفسير سورة الا علي سبح 137 223 223 اسم ربك الاعلي...کے نزول کے بعد آنحضرت کا سجدہ میں دعا پڑھنا "اللهم لك 225 107 156 19.20 125 107 سجدت سورة الفجر كلا بل لا تكرمون اليتيم...(18) سورة الشمس لا يخاف عقبها...(16) سورة القدر انا انزلنه في ليلة القدر...(2)442 سورۃ الزلزال من يعمل مثقال ذرة...(8) وما ادرك ما الحطمة...(6) سورة الماعون فذالك الذي يدع اليتيم...(3) ابتلاء 181 1 499.506 457-458 خطبات مسرور جلد ہشتم سورة الرحمن ولمن خاف مقام ربه...(47) 5 هل جزاء الاحسان...(61) سورة الحديد يايها الذين امنوا اتقوا الله...(29) سورۃ المجادله كتب الله لأغلبن...(22) سورة الصف فلما زاغوا ازاغ الله...(6) يايها الذين امنوا كونوا انصار الله...(15) 509 33.434 30 33 124 سورة الجمعة واخرين منهم...(4) سورة التغابن فامنوا بالله ورسوله...(9) يومن بالله و يعمل صالحاً...(10) سورۃ الطلاق ومن يتق الله...(3) ويرزقه من حيث لا يحتسب (4)124، 130،150،151 سورة الهمزة رسولاً يتلوا عليكم...(12) سورة التحريم قوا انفسكم...(7) ربنا اتمم لنا نورنا...(9) رب ابن لي عندك...(12) احصنت فرجها...(13) سورۃ الملک 32 194 65 472 472 ابتلاؤں اور امتحان کی حکمت ، اللہ تعالیٰ کھوٹے اور کھرے میں فرق کرنے کے لئے آزماتا ہے 506 یہ فتوحات کے دروازے کھولنے کے لئے آتے ہیں 506 581 ابتلاء کا لمبا سلسلہ اور الہی نصرت...الہی جماعتوں کے لئے ابتلاء آیا کرتے ہیں اور زمانے کے امام نے ہمیں اس کے لئے تیار کیا ہوا ہے 434 ابتلا اور امتحان لمبا ہونے پر الہی جماعتوں کارد عمل جنگ اور فساد ہمارا مقصد ہی نہیں ہے 522 215 107 527 قل ارأيتم ان اصبح...(31) سورۃ الدہر ويطعمون الطعام...(9) سورة المرسلات والمرسلات عرفاً...(2-12)

Page 704

خطبات مسرور جلد ہشتم اجتماعات 8 انڈیکس مضامین احمدیوں کے خلاف گندی زبان پر مبنی ، واجب القتل کے ربوہ میں ہونے والے ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کا کچھ پوسٹر اور بینر ز پاکستان میں لگائے جانا جوں کی نیم پلیٹس پر ، تذکرہ جو آج کل پاکستان میں پابندی کا شکار ہیں 494 پاکستان کے چیف جسٹس جو ذرا ذرا سی بات پر خود نوٹس لیتے ربوہ کے اجتماعات میں خیمہ جات بنانا 494 ہیں یہاں ایسا نہیں کیا.کیا انصاف قائم کرنے کے معیار احسان صرف اپنی پسند پر منحصر ہیں 265 زمانے کے امام کو پہنچانے کی توفیق ملنا یہ خدا کا احسان ہے اور احمدیوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت اور دعاؤں کی بھی بہت احسان کا بدلہ 182-181 زیادہ ضرورت 265 احیائے دین کا کام ہے جس نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشنی احمدیوں نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا تھا اور ان لوگوں سے بڑھ کر کیا تھا جو آج دعویدار اور پاکستان کے ٹھیکیدار ہے 163 احیائے موتی کا یہ کام (جو مسیح موعود نے کہا) آج پر احمدی کا بھی ہے احمدیت 169 بنے ہوئے تھے 266 احمدیوں پر ظلم اور قتل کر...ہماری طرف سے یہ معاملہ اللہ کے سپر د ہے اور ہم نے ہمیشہ صبر کیا ہے اور صبر کرتے چلے جائیں گے 238 احمدیت کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے احمدیت کے مخالف مولوی اور سیاستدان، جن کی روٹی مسیح نظارے دیکھتے ہیں 485 موعود کی تکذیب ان کو تنبیہہ 239 احمدی ہونا ایک اعزاز اور اسکی قدر کرنا ہر احمدی کا احمدی کے عقائد اور دوسروں کے غلط الزامات 239 احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لا الہ الا فرض 191 خوش قسمت ہیں ہم جو آنحضرت کی امت میں سے ہیں 2 اللہ کے معنی سمجھ کر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے 244 بیعت کرنے والوں کو آنحضرت پر درود بھیجنے کا تاکیدی حکم 4 جماعت احمدیہ پر تکالیف اور مخالفت...233 235 236 ایک احمدی کے فرائض.اپنے لئے اہل و عیال، احمدیت یعنی ہر احمدی بچے کو نصیحت کہ کہ...حقیقی اسلام کے لئے ، جماعت کی ترقی، ماحول اور معاشرے احمدی تمام ارکانِ اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور ملک کے لئے دعائیں کریں خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ انہیں پتہ ہم احمدی اس زمانہ کے آدم کے ماننے والے ہیں جو جنت سے ہی نہیں چلا کہ احمدی کیا چیز ہیں.یہ ایک امام کی آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں 261 نکلنے کے لئے نہیں آیا....احمد یوں خاص طور پر نوجوانوں کو نصیحت کہ آج کل ٹی وی احمدیوں کا رد عمل ایسے ابتلاؤں اور شہادتوں پر اپنا معاملہ پر جو پروگرام آرہے ہیں ان کے حوالوں سے متاثر نہ ہو جایا خدا پر چھوڑ دیا اپنا غم خدا کے حضور پیش کر دیا...اس کے کریں تقویٰ سے عاری علماء ہوتے ہیں.78 فیصلے کے انتظار میں ہیں برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں کوئی احمدی ایک لمحہ کے لئے بھی سوچ نہیں سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود کا مقام آنحضرت سے بڑھ کر ہے 54 38 ور نہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ہر احمدی کو صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کرنا ہو گا 36 261 ہر احمدی کو احمدیت کا سفیر بننے کی ضرورت ہے 179 ہر احمدی نوجوان کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آج کل کی ایک احمدی کی خوش قسمتی.آنحضرت اور مسیح موعود کی احمدیت کی مخالفت اس کی سچائی کی دلیل ہے 113 بعثت پر ایمان لانے کی توفیق ملنا 173

Page 705

خطبات مسرور جلد ہشتم 9 انڈیکس مضامین بیرون ملک جو پاکستانی آتا ہے اس کا آنا احمدی ہونے کی وجہ خدا اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا...جماعت سے ہے دنیا کمانے کے ساتھ اللہ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے احمدیہ کا روشن مستقبل دعوت الی اللہ کے لئے وقت نکالیں...173 617 احمدیوں سے سوال کہ کب تک صبر کرو گے...ہماری اتنی سپین کے احمدی، قدم قدم پر نشانات اسلام کے خوبصورت فکر کیوں ہے اپنے آپ کو سنبھالیں اور اپنی عاقبت کی فکر ماضی، عبر تناک انجام اور یہ کہ آج اس کھوئی ہوئی عظمت کو کریں...احمدیت نے قائم کرنا ہے 164 احمدی پاکستان کے مظلوم ترین شہری 618 518 احمدیت نے ترقی کرنی ہے کوئی طاقت روک نہیں سکتی 162 ہمیں نہ تو پاکستان کے حکومتی معاملات سے کوئی دلچسپی ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہو گاو گرنہ بیعت کا کوئی فائدہ نہیں 162 اور نہ دنیا کے کسی بھی ملک کی حکومت سے احمدیوں میں ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر ہر احمدی ملک سے وفا اور محبت کا تعلق رکھتا ہے...518 بھرا ہوا ہے اور اس کی مثال ہر احمد مکی احمدیت کا سفیر ہے 361 399 518 جماعت احمدیہ کا کردار حقیقی اسلام پیش کر رہی ہے 521 پاکستان اور دوسرے ممالک میں احمدیت کی مخالفت اور اس 524 آج بحیثیت جماعت تمام دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی کا پس منظر ہے جس کے افراد ينفقون اموالهم بالليل والنهار جماعت احمدیہ کی ترقی کی بابت قرآنی پیشگوئیاں 527 وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف کروانے کی کوشش کرنا 571 534 کے حقیقی مصداق ہیں جماعت احمدیہ کے سپرد آنحضرت صلی اللی امام کے پیغام کو دنیا چاہیے کے کناروں تک پہنچانا اور توحید کے قیام کا کام ہے...498 ہر احمدی احمدیت کا نمائندہ ہے.اسلام کی حقیقی تصویر ہے.احمدیت کی مخالفت اور خدا تعالیٰ کا تبلیغ کے راستے کھولتے اسلام کی عزت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ہمارے سپر د ہے، چلے جانا 498 ایک نمونہ بننا ہے احمدیت کی مخالفت.ہمیں اللہ کے فضل سے کوئی مایوسی جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت نہیں...499 195 196 مبارک ہیں لاہور کے احمدی جنہوں نے استقامت دکھائی، آج دنیائے احمدیت میں بہت وسعت آچکی ہے 499 جانے والوں نے بھی اور پیچھے رہنے والوں نے بھی 529 دنیا کے احمدیوں کو اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی نصیحت احمدی کا عزم و ہمت کردار.ہم اپنے خدا سے بے وفائی 499 کرنے والے نہیں 673 673 تا کہ اللہ تعالی ہدایت میں بڑھاتا چلا جائے احمدیت کی مخالفت راستے میں روک نہیں ڈال سکتی 585 اس سال میں کثرت سے احمدیت کا پیغام دنیا میں پہنچا جماعت احمدیہ پر پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کا پابندی لگانا جماعت پر بے انتہا فضلوں اور برکتوں کا سال دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پاس دلیل نہیں 431 کردار میں نیک تبدیلی کرے کاروباری شراکت، قرض، آپس کا احمدیوں پر مظالم کی وجہ سے مخالفین پر خدا کی گرفت 437 کے تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی نصیحت 678 احمدی کی مجبوری اور مظلومیت اور پاکستان میں اس کی انتہاء 619 | احمدیت کی فتح مقدر ہے احمدیت کے ہاتھوں میں کشکول پکڑوانے اور احمدیت کو جو کام اللہ نے مسیح محمدی کے سپر د کیا ہے وہی آپ کے ماننے کینسر کہنے والے ان کے نام و نشان مٹ گئے.626 والوں کے سپرد 663 486

Page 706

خطبات مسرور جلد ہشتم جنگ اور فساد ہمارا مقصد ہی نہیں ہے اخلاص 522 10 انڈیکس مضامین اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے جو محبت اور پیار اور بھائی چارے کے سوا کچھ نہیں 164 خدا کے فرستادوں کے ساتھ اخلاص اور وفا کا تعلق پیدا کرنا اسلام کی تعلیم خوبصورت تعلیم ہے اس کو پھیلنے کے لئے بہت ضروری ہے ازواج 456 تلوار کی ضرورت نہیں 170 اسلام پر غلط الزام کہ ظلم کرتا ہے یا زیادتی کرتا ہے 72 ازواج مطہرات کا تسبیح و تحمید اور ذکر الہی سے رغبت 225 تمام غلط اور شیطانی کاموں سے اسلام منع کرتا ہے 67 کسی مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ قرآن میں پردے کا حکم نہیں وہ تو اسلام اور حضرت مسیح موعود کے ماننے والوں کے لئے صرف ازواج مطہرات کے لئے تھا اور اس کی تردید 532 خوشخبری کہ اسلام نے پھیلنا ہے دنیا کے بڑے بڑے ممالک ایک استاد کے فرائض اور پاکستان کے سکول و کالجز میں احمدیوں کے بارہ میں استادوں کا رویہ جو اسلام کی بنیادی تعلیم کے بھی خلاف ہے.یہ لوگ پڑھے لکھے جاہل ہیں.استغفار استغفار کرنے کی اہمیت استقاء 623 128 118 اور اسمبلیوں کی کوئی حیثیت نہیں مسلمانوں کے باہمی نفاق کو دیکھتے ہوئے مخالفین اسلام طاقتوں کا فائدہ اٹھانا اور اسلام دشمن سر گرمیاں 241 اسلام کی حالت اور علماء کا مذموم کردار اسلام دین کے طور پر ایک مکمل دین...241 31 آج ہمارے شہداء کی خاک سے یقینا خوشبو آرہی ہے.ان احمدیت اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلائے جانے کے الہی کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت سامان....اور اٹلی 178 اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے اسے بھی نہ چھوڑنا 260 دنیا میں اسلام کا جھنڈ الہرانے کا کام ہر احمدی کی ذمہ داری 179 اسلامی ممالک کی بے شمار دولت اور ان کی بے بسی اور 260-259 استقامت کی برکات اور اہمیت تمسخر اور استہزاء کی سزا، خدائی غیرت کا عبرتناک واقعہ کمزوری...گونگے بہرے بچوں کا پیدا ہونا اسلام احمدی تمام ارکانِ اسلام پر یقین رکھتے ہیں 153 236 129 اسلام پر کمزوری اور ضعف کا زمانہ، عیسائیت کا فروغ...اور مسیح موعود کی بعثت 168 خدا تعالی زمین کی متفرق آبادیوں کو دین واحد پر جمع کرنا مغرب میں اسلام کو بدنام کرنے کی مخالفانہ مہم اور احمدی کا چاہتا ہے.کام اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا 195 غلبہ انشاء اللہ اسلام کا ہی ہونا ہے.ہم احمدیوں کو یقین ہے 94 کے 169 یہ خیال غلط ہے کہ اسلام سعودی عرب سے ہی سیکھنا ہے 160 اسلام کی خوبصورت تعلیم کہ دشمن کی زیادتی اور دشمنی بھی اسلام کی خوبی اور امتیازی مقام تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے 71 رقسمتی ہے کہ آج مسلمانوں کے اعمال ایسے ہیں کہ اسلام کے مخالفین کو قرآن اور اس کی تعلیم کو اعتراض کا موقعہ دے رہے ہیں 427 162 اللہ کا وعدہ ہے کہ آخری فتح اسلام کی ہے اور اس کی تکمیل کے لئے مسیح موعود کی بعثت اور ہماری ذمہ داریاں 163 اسلام کے غلبہ کے لئے نہ کسی شدت پسند گروپ کی ضرورت ہے نہ کسی تلوار کے جہاد کی...دعاؤں کے ساتھ 221 اسلام زندہ دین ہے کبھی نہیں مرے گا جو اس کی تعلیم کو اسلام کی تاریخ میں عورتوں، مردوں، نوجوانوں اور بھولے گا وہ ہلاک ہو گا 162 بوڑھوں کے نمونے....602

Page 707

خطبات مسرور جلد ہشتم 11 انڈیکس مضامین اسلام کے خلاف مہم میں اسلام کا دفاع کرنے کے لئے الحوار المباشر عربی پروگرام میں ایک نمایاں نام مصطفیٰ نوجوانوں کا خصوصی کردار ادا کرنے کی نصیحت اور ایک ثابت صاحب کا...سر صلیب کے لئے حضرت مسیح موعود کے غلام ہونے کا حق ادا کر دیا 503 اسلام کا غلبہ اور جماعت احمدیہ کی ترقی اس کا مقدر ہے 505 الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام منظم لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت اسلام نے دنیا میں آخری فتح دیکھنی ہے اسلامی عبادت کا فخر اور منفرد مقام 485 68 اسم اعظم سے مراد...جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں 68 اردت ان استخلف اريحك ولا اجيحك اني مع الرسول اقوم..اني مهين من اراد اهانتك اسوہ: ہمارے لئے آنحضرت صلی ال کی مکمل اسوہ ہیں 417 بشري يا احمد اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو آنحضرت کے اسوہ | جري الله في حلل الانبياء پر آپ کی تعلیم پر پابندی کرنالازمی ہے 33 خلق آدم فاکرمه زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے اصحاب کہف دین اور توحید کی خاطر مسیح موسوی کے ماننے والوں کا ظلم برداشت سبحان الله وبحمده......کرنا اور خدا تعالیٰ کا ان قربانیوں کو واقعہ کو محفوظ فرمانا 495 الفتنة ههنا فاصبر كل بركة من محمد اطاعت مسیح موعود کی اطاعت میں گھر رشتہ داری اور قرابت اور نصرت بالرعب تعلقات روک نہ بنیں 197 وجاعل الذين اتبعوك 414 249 493 249 609 5 537.5 5 480 64 605 52 52 82 198 389 608 ہر فرد جماعت اپنے عہدیدار کے ساتھ مکمل تعاون اور ولا تصعر لخلق الله اطاعت کا جذبہ رکھنے والا ہو ذیلی تنظیمیں اپنے دائرے میں يحمدك الله من عرشه بے شک آزاد ہیں اور خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں.لیکن امام جماعتی نظام کے تحت ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار بھی فرد زمانے کے امام کو پہچانے کی توفیق ما ناخدا کا احسان 181–182 جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے اور اس کے زمانے کی امام کی بیعت جس کو آنحضرت نے سلام بھیجا...اس نعمت کی قدر کرنا ایک اعزاز ہے.لئے اطاعت لازمی ہے 187 191 اعتدال: ہر کام میں اعتدال کی ضرورت اور اہمیت 228 اس زمانے کے امام کو نہ ماننے والوں میں نہ خلافت قائم ہو سکتی ہے اور نہ اس کی برکات اعتراض 78 اعتراض کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو خدا کہتا ہے.376 آج بھی زمانے کے امام کو نہ مانا تکبر کی وجہ سے 248 اعتراض کہ اولیاء تو سادہ غذا کھاتے تھے مرزا صاحب پلاؤ اور زردہ کھاتے ہیں.373.یہ کہنا کہ کل یا پرسوں کی باتیں ہوتی تھیں.ان کو جواب 663 امت: خوش قسمت ہیں ہم جو آنحضرت کی امت میں سے ہیں 2 امن جماعت احمدیہ ایک امن پسند جماعت 196

Page 708

خطبات مسرور جلد ہشتم دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے.....429 12 انڈیکس مضامین ایک احمدی کا مالی قربانی کا جذبہ ، اگر کمی ہوتی ہے تو عہدیدار ان لوگوں سے خیر کی کوئی امید نہیں اور نہ ہم کبھی رکھیں گے 266 کی طرف سے..انٹرنیٹ 577 خدا کی راہ میں غریب اور کم آمدنی والوں کا بھی مالی قربانیوں انٹر نیٹ اور دیگر الیکٹرانکس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ 532 میں حصہ لینا 569 خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والوں کو اجر...570 انٹرنیٹ ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ قرآن کریم، اسلامی لٹریچر اور حضرت مسیح موعود کی کتب.....اور ذرائع کو بروئے جماعت میں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے جوش و جذبہ 571 530 بہت سے مالدار اور دولتمند احمدی جو ایک بڑا حصہ خدا کی راہ کار لاتے ہوئے اسلام کی تبلیغ اور دفاع ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ اور میڈیا وغیرہ کے ذریعہ برائیوں ہندوستان نہیں بلکہ افریقہ سے بھی کا پھیلنا، اولاد کا بگڑنا میڈیا پر نظر رکھیں جماعتی نظام کی ذمہ افریقہ کے ممالک میں مالی قربانی کی روح جماعت میں مالی قربانی کی ایک لگن میں خرچ کرتے ہیں...جماعتی تحریکات صرف پاکستان داری 193 انٹر نیٹ ، ٹی وی، جس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی انقلاب ہے 37 انجمن حمایت اسلام 371 اس کے کارکنان کا جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت 370 انصار الله انصار اللہ کی ذمہ داریاں اور اہمیت 507 568 21 16 اے سونے والو بیدار ہو جاؤ کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا....538 مسیح محمدی کے خدام تمام دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں 503 اولاد کی تربیت کے لئے ٹی وی انٹرنیت کے استعمال پر نظر رکھیں...193 125 انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی اہمیت اور ذمہ داریاں 505 اسی طرح انصار اللہ ہے ، یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ایٹم کی خوفناک تباہیوں کا قرآن میں ذکر ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں.193 نئی نئی ایجادات اور مادی ترقی کے تصور کے بھیانک انجام 30 ایکسپریس ٹی وی چینل انعامات تمام تر تکالیف اور مشکلات کے باوجود خدا تعالیٰ کا دامن نہ ایمان چھوڑنے والوں کو ملنے والے انعامات.....انفاق فی سبیل اللہ انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور افادیت 621 567 306 510 غلبہ ایمان لانے والوں کا ہی مقدر ہونا ہے برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ور نہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ایم ٹی اے خدا کی راہ میں خرچ کا ایک پہلو کہ گھروں میں میاں بیوی 38 کے بہت سے جھگڑے اور مسائل کا جنم نہیں...568 ایم ٹی اے کی برکات، اہمیت اور افادیت اواس کے شکریہ اور تعریف کے خطوط کا ذکر 409 آج بحیثیت جماعت تمام دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے افراد ينفقون اموالهم بالليل والنهار دنیا بھر میں MTA کے کارکنان کی خدمات اور ان کی ذمہ کے حقیقی مصداق ہیں 571 داریاں 531 احمدیوں کی مالی قربانیاں (اس زمانہ میں) اور اس کی چند ایم ٹی اے پر الحوار المباشر پروگرام کا نفوذ اور ان کے لئے ایمان افروز مثالیں 151 دعا دیگر کارکنان 201

Page 709

خطبات مسرور جلد ہشتم 13 ایم ٹی اے (تھری العربیہ) کے ذریعہ عربوں میں احمدیت ایک علیحدہ آفت ہے..اور دیگر آفات بعثت رسل اور آنحضرت...کا نفوذ 201 216 انڈیکس مضامین 120 ایم ٹی اے سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت باقاعدگی سے خطبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں ایک بار ڈیوٹی والوں کا حضرت خلیفہ سنیں.....188 ثانی کو روکنا 411 ایم ٹی اے کے ذریعہ عالمگیر اثرات اور تبلیغی مساعی 132-133 بیت الدعا پر لکھی ہوئی ایک دعا یارب فاسمع دعائی 480 بیٹی ہونے کی وجہ سے طعنہ دینا...663 592 ایم ٹی اے کی افادیت رشین ڈیسک کے ذریعہ ایم ٹی اے پر رشین پروگرام اور بیٹی کی پیدائش پر بیوی کو کوسنے والوں کے لئے ایک سبق 276 ویب سائٹ کا آغاز و قیام AACP جماعت کی کمپیوٹر ایسوسی ایشن ب، پ، ت،ٹ،ث 679 287 بینرز: احمدیوں کے خلاف گندی زبان پر مبنی ، واجب القتل کے پوسٹر اور بینرز پاکستان میں لگائے جانا جوں کی نیم پلیٹس پر ، پاکستان کے چیف جسٹس جو ذرا ذرا سی بات پر خود بارات کے ساتھ باجا اور آتشبازی کی اجازت طلب کرنا اور نوٹس لیتے ہیں یہاں ایسا نہیں کیا.کیا انصاف قائم کرنے 217 کے معیار صرف اپنی پسند پر منحصر ہیں 265 بیعت بیعت کی غرض 466 فرمانا کہ باجالے جاؤ آتش بازی مکروہ ہے 380 روحانی اور زمینی بارش کا باہم اشتراک بچوں کی بچپن سے تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہے 512 بچوں کی اصلاح اور نظام کا حصہ بنائے رکھنے کی افادیت.بیعت کی اہمیت اور عہد بیعت کو پورا کرنے کی اہمیت اور شرائط بیعت کی تفصیل جماعت سے جڑے میں ہی بقا ہے 507 192 شرائط بیعت کا خلاصہ اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی 164 بچوں پر عملی نمونے چھوڑنے کی ایک مثال....جو ہر احمدی کو قائم کرنی چاہیے 318 513-508 عہد بیعت اور اس کا خلاصہ بیعت کرنے والے کا کہنا میں نے پہلے ایک ہاتھ پر بیعت کی بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ ایک احمدی اور ایک ہے.....غیر مسلم اور غیر احمدی بچے میں فرق ظاہر ہو.187 اولاد کی تربیت کے لئے ٹی وی انٹرنیت کے استعمال پر نظر رکھیں..بد ظنی مجس اور بدظنی کے نقصانات 193 74-73 370 زمانے کی امام کی بیعت جس کو آنحضرت نے سلام بھیجا....اس نعمت کی قدر کرنا ایک اعزاز ہے.191 عہد بیعت کے تقاضے، خدا اس عہد کے بارے میں ہم سے پوچھے گا بد ظنی کرنے والا کبھی بھی نورِ ایمان سے منور نہیں ہو سکتا عہد بیعت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ بدظنی خطرناک بد اخلاقی ہے.یہ خدا تعالیٰ سے بھی نا امید کر دیتی ہے.382 بدعات کی برائی 560 اپنے ہر کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرو برف 404 163 164 655 بیعت کا عہد اس اس پر عمل کرنے کی ذمہ داری احمدی پر ہے 37 بیعت کے وقت عجیب کیفیت...بیعت کے بعد تبد یلی خدا سے عشق پیدا ہو گیا 655 نقرس کا بیمار حضرت حضور کے پاؤں پر پاؤں آنے سے تمام درد جاتا رہا.380 پارلیمنٹ: پارلیمنٹ آف گیمبیا سے جماعت کے کسی بھی امیر برف پگھلنے سے زمین کے ڈوبنے کی سائنسدانوں کی پیشگوئی کو خطاب کا پہلا موقعہ 639

Page 710

خطبات مسرور جلد ہشتم پرده 14 انڈیکس مضامین تبلیغ کرنے کے مختلف ذرائع ان میں سے ایک Leaflets ان احمدی بچیوں کو نصیحت جو کسی Complex میں آکر تقسیم کرنا ارواس کی افادیت حجاب اتار دیتی ہیں.....197 ایک احمدی بچی کو پردہ نہ اتارنے پر ملازمت سے فراغت کا نوٹس بچی کی دعا اور افسر کی فراغت ہو جانا 197 533 ہمارا کام ہے کہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق تبلیغ کے نئے نئے راستے تلاش کریں....وسیع اور باہمت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے نبی اور اس کی جماعت کا اصل کام تبلیغ 174 116 کسی کا یہ شوشہ کہ قرآن میں عورتوں کو پردے کا حکم نہیں.کسی کا تجویز دینا کہ تبلیغ کے لئے Text Messages اور اس کی تردید 78 بھیجے جائیں...اور اس پر تبصرہ 534 کسی مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ قرآن میں پردے کا حکم نہیں احمدیت کی مخالفت اور خدا تعالیٰ کا تبلیغ کے راستے کھولتے اور وہ ازواج مطہرات کے لئے تھا اور اس کی تردید 532 چلے جانا پمفلٹ تثلیث 498 بعض لوگوں کاحمدیوں کو ایمان سے ہٹانے کی کوشش، پمفلٹ پروفیسر آرنلڈ کا کہنا کہ یہ ایشیائی دماغ میں نہیں آسکتا اور خلیفہ اول کا جواب تقسیم کہ خلیفہ وقت خوش فہمی پیدا کر رہا ہے کہ صبر کرو 581 تجرد 78 پنجتن پاک “ لفظ پر احمدیوں پر ایک مقدمہ 318 عبادت کی خاطر تجرد کی زندگی گزارنے کے اظہار پر پوسٹر : احمدیوں کے خلاف گندی زبان پر مبنی ، واجب القتل آنحضرت کا ارشاد کہ میں نے شادیاں بھی کی ہیں...34 کے پوسٹر اور بینرز پاکستان میں لگائے جانا جوں کی نیم تجسس اور بدظنی کے نقصانات پلیٹس پر ، پاکستان کے چیف جسٹس جو ذرا ذرا سی بات پر خود تحریک نوٹس لیتے ہیں یہاں ایسا نہیں کیا.کیا انصاف قائم کرنے کے معیار صرف اپنی پسند پر منحصر ہیں پیر فقیر اور تعویذ گنڈے 265 460 74-73 جماعت کی مالی تحریکات اور ان کی رقم کا غریب ممالک پر خرچ ہونا 577 پیر پرستی اور غلط قسم کی رسوم سے احتراز کرنے کی تلقین 39 مظلوم اور مشکلات میں گرفتار بھائیوں کے لئے دنیا بھر کے احمدیوں کو تبلیغ تبلیغ اور اس میں وسعت کی ضرورت 492 تبلیغ کی ضرورت اور اس کے لئے عملی حالت کی درستی 171 183-182 503 دو نفل روزانہ پڑھنے کی تحریک 623.627 جماعت میں مالی قربانیوں کی تحریکات خدائی احکامات کے تحت ہی ہوتی ہے تحریک جدید 501 15 تحریک جدید کے ختم ہونے والے سال کے کوائف اور نئے تبلیغ اور دعاؤں کی ضرورت و اہمیت ہر ذریعہ تبلیغ استعمال کرنے کی کوشش کریں انٹرنیٹ اور دیگر الیکٹرانکس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ 532 تحریک جدید میں شامل ہونے والوں میں اضافہ کرنے پر انٹرنیٹ ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ قرآن کریم، اسلامی لٹریچر اور حضرت مسیح موعود کی کتب...اور ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کی تبلیغ اور دفاع 530 سال کا اعلان زور نومبا لعین اور بچوں کو شامل کریں 575 66 573 تحریک جدید دفتر پنجم “ لکھنے اور اس میں نئے شامل ہونے والوں کو شامل کرنے کا ارشاد 575

Page 711

خطبات مسرور جلد ہشتم تحریک جدید کے ممبر تربیت 590 507 15 زندگی کے ہر کام میں تقوی....کی اہمیت انڈیکس مضامین 67 اپنے اندر صبر ، قناعت، زہد اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں 37 جہالت اور تقویٰ کبھی جمع نہیں ہو سکتے 8 127 508 اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے اپنی بیویوں اولاد اور آئندہ نسلوں کی تربیت کی اہمیت 491 متقی اور اس کی اولاد کی حفاظت بچوں کی بچپن سے تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہے 512 خدا تعالی تاوان نہیں چاہتا تقویٰ چاہتا ہے بچوں کی اصلاح اور نظام کا حصہ بنائے رکھنے کی افادیت.تکبر : تکبر کے نقصانات اور مذمت آج بھی زمانے کے امام کو نہ ماننا تکبر کی وجہ سے 248 507 جماعت سے جڑے میں ہی بقا ہے بچوں پر عملی نمونے چھوڑنے کی ایک مثال...جوہر احمدی کو قائم کرنی چاہیے 318 250 تلاوت : روزانہ با قاعدگی سے تلاوت کرنے کی نصیحت 431 تلوار بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ ایک احمدی اور ایک غیر مسلم اور غیر احمدی بچے میں فرق ظاہر ہو.187 اسلام کی تعلیم خوبصورت تعلیم ہے اس کو پھیلنے کے لئے اولاد کی تربیت کے لئے ٹی وی انٹرنیت کے استعمال پر نظر تلوار کی ضرورت نہیں رکھیں.ترقی 193 170 اسلام کے غلبہ کے لئے نہ کسی شدت پسند گروپ کی ضرورت ہے نہ کسی تلوار کے جہاد کی....دعاؤں کے ساتھ 221 جماعت کی ترقی.جس نے دشمن کو بوکھلا دیا 618 تنظیم: احمدیت نے ترقی کرنی ہے کوئی طاقت روک نہیں سکتی 162 ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کی اہمیت اور حضور انور کی ہماری ترقی اور فتوحات دعاؤں سے ہی وابستہ ہیں 501 ہدایات و راہنمائی 494 ہماری ترقی اور فتوحات دعاؤں سے ہی وابستہ ہیں 501 تبلیغ کا پروگرام جماعتی اور ذیلی تنظیموں کی سطح پر بنے 174 شہادتوں اور احمدیت پر مظالم اور اس کی برکات اور احمدیت 584 کی حیرت انگیز ترقی مخالفت میں ترقی کے راستے دکھاتی ہیں اور کھاد کا کام دیتی ہیں 233 تعاون: نیکی اور تقویٰ کے کاموں مین ہمیشہ تعاون رہے 71 ہر فردِ جماعت اپنے عہدیدار کے ساتھ مکمل تعاون اور اطاعت کا جذبہ رکھنے والا ہو ذیلی تنظیمیں اپنے دائرے میں بے شک آزاد ہیں اور خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں.لیکن تعمیر مسجد کی اہمیت اسلام کا تعارف کروانا ہے تو مسجد بنادو 493 جماعتی نظام کے تحت ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار بھی فردِ جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے اور اس کے تعویذ پیر فقیر اور تعویذ گنڈے 460 لئے اطاعت لازمی ہے 187 پیر پرستی اور غلط قسم کی رسوم سے احتراز کرنے کی تلقین 39 ٹی وی اور انٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں.بعض ماں باپ زیادہ تقدیر : یہ الہی تقدیر ہے کہ وہ باتیں اب نہیں دہرائی جائیں پڑھے لکھے نہیں ہیں.جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس گی جن سے اسلام کو ضعف پہنچا.ہمیں دعاؤں کی طرف بارے میں آگاہ کریں.اسی طرح انصار اللہ ہے، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی بہر حال توجہ دینی چاہیے تقوی 635 ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں.نوجوان لڑکوں تقویٰ باریک سے باریک نیکیوں کو بجالانے، ان کا خیال لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں رکھنے کا نام ہے 128 کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے

Page 712

خطبات مسرور جلد ہشتم 16 انڈیکس مضامین اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تہجد کی عادت ڈالیں خصوصاً انصار..تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے.اگر ماں باپ کسی ٹرکش ڈیسک قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان انچارج ٹرکش ڈیسک 193 ٹی وی / میڈیا 512 393 کر رہے ہوں گے تمام ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کے سپر د روحانی خزائن انٹرنیٹ، ٹی وی، حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے 37 سے فیض اٹھانے کے پروگرام بنانے کی تلقین 134 ٹی وی یا انٹرنیٹ کے ذریعہ بیہودہ فلمیں روشن خیالی کے نام نام نہاد جہادی تنظیمیں اور شدت پسند ان کے خود کش حملے پر دیکھنا اس کا بھیانک انجام، دماغ اور آنکھ کا زنا ہے 193 جو دنیا کا سکون برباد کر رہے ہیں یہ اعمال خدا کی نگاہ میں خاص طور پر نوجوانوں کو نصیحت ٹی وی پر جو پروگرام آرہے مقبول نہیں توبه 586 تو بہ انسان کے واسطے زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے 10 اصل عید اور خوشی کا دن اور مبارک دن وہ ہوتا ہے جو انسان کی توبہ کا دن ہوتا ہے توحید 1 78 ہیں ان کے حوالوں سے متاثر نہ ہو جایا کریں برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں 38 ور نہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ اور میڈیا وغیرہ کے ذریعہ برائیوں کا پھیلنا، میڈیا پر نظر رکھیں جماعتی نظام کی ذمہ داری 193 انٹرنیٹ اور دیگر الیکٹرانکس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ 532 انٹرنیٹ ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ قرآن کریم، اسلامی لٹریچر اور حضرت مسیح موعود کی کتب اور ذرائع کو بروئے توحید کے قیام کی کوششیں اور اس کے تقاضے 500 توحید کے قیام کا فیصلہ ہو چکا اور یہی مسیح موعود کی بعثت کا مقصد 170 توحید کے قیام کا اصل ذریعہ روحانی ترقی ہے دعاؤں سے کام ایکسپریس ٹی وی چینل لینا 171 سب سے بڑھ کر قرآن ہے جس نے توحید کی تعلیم دی 428 کار لاتے ہوئے اسلام کی تبلیغ اور دفاع توحید کا قیام اور آنحضرت کا مبعوث ہونا اور احمدیت کے جامعہ ذریعہ اس کا قیام 560 جامعہ احمدیہ کا نظام ج، چ، ح، خ 530 306 540 546 ہر احمدی اپنے قول و فعل سے توحید کے قیام کی کوشش کرے 560 جامعات دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کے سپرد آنحضرت صلی للی کام کے پیغام کو دنیا تمام مبلغین اور جامعہ احمدیہ میں پڑھنے والوں کو ایک کے کناروں تک پہنچانا اور توحید کے قیام کا کام ہے.498 نصیحت کہ حضرت مسیح موعود کے ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر تو بین: خدا کے فرستادہ کی تو ہین خدا کی توہین ہے 248 رکھیں..تہجد : فرائض نوافل اور تہجد ضروری چیز ہیں الله نبی اکرم صلی ال نیم کی نماز تہجد کی دعا 562 47 طلبائے جامعہ کو نصائح....حجز: 544 550 شہد اولا ہور ، ان میں سے اکثر تہجد گزار...362 احمدیوں کے خلاف گندی زبان پر مبنی پوسٹر اور بینر ز پاکستان عہد بیعت کا خلاصہ...تہجد کی ادائیگی اور...508 میں لگائے جانا جوں کی نیم پلیٹس پر 265

Page 713

خطبات مسرور جلد هشتم جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ کی اہمیت اور مقصد، یہ دنیاوی میلوں کی طرح نہیں 157 جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے ضروری نصائح 158 جلسہ سالانہ کے مقاصد جلسہ کوئی میلہ نہیں 311 665 17 جمعہ جمعہ ایک بہت مبارک دن انڈیکس مضامین 1 454.675 جمعہ کی برکات اور اہمیت جمعہ کے دن اکی اہمیت کے بارہ میں آنحضرت کے ارشادات 2 جمعہ کے دن کی ایک اہمیت: دنوں میں سے بہترین دن، آدم جلسہ سالانہ کے لئے للہی سفر کرنے والے لوگ 395 اس دن پیدا ہوئے اُس دن جنت میں لے جائے گئے 4 دنیا کے پیشتر ممالک میں اس جلسے کا اہتمام اور انعقاد 157 اس سال کا پہلا دن جمعہ کا دن تھا جلسہ پر آنے والے مہمان دو یا تین ہفتہ سے زیادہ نہ ٹھہرا اس سال کا اختتام اور آغاز جمعہ کے ساتھ....کریں 399 2 671 جمعہ.ابن آدم کے لئے ایک خوف کا پہلو بھی رکھتا ہے 675 جلسہ میں شامل ہونے والے اپنے آپ کو کبھی دنیاوی مسافروں جنت: اور مہمانوں کے زمرہ میں لانے کی کوشش نہ کریں 395 و جنتیں : اس دنیا میں بہشتی زندگی ، مرنے کے بعد رو عبادات کی طرف توجہ ، تقاریر سے فائدہ اٹھائیں، دعاؤں اور درود 165 جاودانی بہشت جلسہ سالانہ برطانیہ کے شعبہ جات میں نصرت الہی کے نظارے 412 5 ہم احمد کی اس زمانہ کے آدم کے ماننے والے ہیں جو جنت سے جلسہ سالانہ برطانیہ، حفاظت الہی کے عجیب نظارے جو نکلنے کے لئے نہیں آیا....دیکھنے میں آئے 410 جلسہ سالانہ برطانیہ کے حوالے سے سیکیورٹی کے بعض خدشات اور خدا کا فضل 410 408 جنگ جنگ احد مسلمانوں کی جوانمردی اور شجاعت اور آنحضرت 111 جنگ بدر کے موقعہ پر باوجود وعدوں کے آنحضرت کی جلسہ سالانہ برطانیہ کے کارکنان، ڈیوٹی دینے والے تمام کا زخمی ہو جانا...مہمانوں اور دوستوں کا شکریہ اور دعا جلسہ برطانیہ میں شامل ہونے والے غیر از جماعت مہمانوں رقت آمیز دعائیں کے تاثرات اور ان کا شکریہ ادا کرنا 408 486 522 403 جنگ اور فساد ہمارا مقصد ہی نہیں ہے جلسہ کا اختتام جذبات تشکر کا اظہار اور تاثرات 404 جنگ مقدس.مباحثہ امر تسر جلسہ سالانہ برطانیہ کے بارہ میں ہدایات اور رہنمائی 383 65ء کی جنگ کے ایک احمدی فوجی.طیارے کا بم لو ڈر خراب ہوا جلسہ سالانہ جرمنی کچھ انتظامی امور کی بابت ہدایات ورہنمائی 311 جلسہ سالانہ جرمنی کا افتتاح حضور انور کے جمعہ کے خطبہ سے 311 جلسہ سالانہ پر تنقید کرنے والے احباب...جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے والوں کے لئے ہدایات اور نصائح 408 660 تو اپنے کندھوں پر رکھ کر بم لوڈ کرنے والے ملک کے محافظ 299 جہاد جہاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ کوشش کرنا اور...اللہ کے قرب کے لئے 418 اسلام کے غلبہ کے لئے نہ کسی شدت پسند گروپ کی ضرورت پر اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں اور حیا کا تقدس قائم ہے نہ کسی تلوار کے جہاد کی دعاؤں کے ساتھ جلسه پرا رکھیں 664 221 نام نہاد جہادی تنظیمیں اور شدت پسند...ان کے خود کش حملے ربوہ میں جلسہ سالانہ پر پابندی: یہ عارضی پابندیاں ہمیں مایوس جو دنیا کا سکون برباد کر رہے ہیں یہ اعمال خدا کی نگاہ میں نہیں کر سکتیں یہ رونقیں دوبارہ قائم ہوں گی 661 مقبول نہیں 586

Page 714

خطبات مسرور جلد ہشتم جہالت اور تقویٰ کبھی جمع نہیں ہو سکتے جھنڈا 8 18 انڈیکس مضامین ایک مصری احمدی مصطفیٰ ثابت صاحب کا اپنی آمد کا ستر فیصد چندوں میں دینا 413 14 دنیا میں اسلام کا جھنڈ الہرانے کا کام ہر احمدی کی ذمہ داری 179 چندہ عام کی شرح 1/16 اور اس کی حکمت جھوٹ کی مذمت، شرک کے برابر قرار دیا جانا 422 لازمی چندے.زکوۃ ، وصیت، چندہ عام، جلسہ سالانہ 13 وسیع پیمانے پر کیا جانے والا قتل عام 174 جینو سائیڈ : مسلمانوں کا جینو سائیڈ (Genocide بڑے چیف جسٹس : احمدیوں کے خلاف گندی زبان پر مبنی ، واجب القتل کے پوسٹر اور بینر ز پاکستان میں لگائے جانا جھوں کی نیم پلیٹس پر ، پاکستان کے چیف جسٹس جو ذرا ذراسی بات چرچ قرآن کو جلانے کا مذموم ارادہ کرنے والا چرچ 428 پر خود نوٹس لیتے ہیں یہاں ایسا نہیں کیا.265 جماعت احمدیہ کا چرچ کو قرآن پاک جلانے سے روکنے کی حفاظت قرآن کا وعدہ اور احمد یہ جماعت مساعی چرچ کے مختلف اعتراضات اسلامی تعلیم پر چنده چندے کی ابتداء نبیوں کے زمانہ میں 429 436 578.12 435 حفاظت قرآن کے لئے آج اگر کوئی کھڑا ہے تو مسیح موعود اور جماعت احمدیہ اعلیٰ اخلاق اور حقوق العباد کی ادائیگی 435 511 حدیث: اس جلد میں مذکو را حادیث مبارکہ نبویہ صلی الی یوم چندہ عام، حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک سے ابتداء اور الحياء شعبة من الايمان اس کے التزام کی بابت آپ کا ارشاد چندہ دینے کا صحیح اور ایک قابل تقلید طریق ہر ایک کا اپنا فرض ہے کہ چندہ ادا کرے 14 324 324 چندہ دینے سے ایمان میں ترقی یہ محبت و اخلاص کا کام 579.124 38 559 135 اللهم انا نعوذ بك من ان نشرك انما الاعمال بالنيات خيرو يوم.طلعت عليه الشمس يوم الجمعه 4 سبحان الله عدد خلقه صبراً آل یاسر کلمتان خفيفتان 225 233 63 چندہ دینے کے لئے مختلف طریق اختیار کرنا آسانی کے لئے آنحضرت صلی ا لم تجد کی نماز میں یہ دعا فرماتے 47 آنحضرت صلی الم سے جب بھی کچھ مانگا گیا عطا فرمایا...147 ڈبہ بنالینا وغیرہ 569 چندہ دینے والے نے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ خدا سے اپنا آنحضرت مصلی تین کم کا فرمانا کہ سب سے پہلے جو چیز اللہ نے پیدا 17 42 مال بڑھانے کا سودا کیا ہے..کی وہ میر انور ہے چندوں کی ادائیگی کے وقت انقباض نہیں ہونا چاہیے 17 بکری ذبح کروانا پوچھنا کہ کچھ اس میں سے بچا...دستی کے دنیاوی حکومتوں کے ٹیکس اور چندہ جات میں بنیادی فرق 16 سوا سب کچھ بیچ گیا پیدائش سے قبل ہی بچے کے لئے چندہ تحریک جدید اور قیامت کے دن میں اپنی امت کو ان کے نور کی وجہ سے وقف جديد....282 پہچان لوں گا 18 44 آئیوری کوسٹ کے ایک نو مبائع کا چندہ ادا کرنا اور نماز کے بعد یہ دعا فرمانا..یہ دعا ہمیں کس قدر کرنی غیر معمولی برکت...151 چاہیے؟ 49

Page 715

19 خطبات مسرور جلد ہشتم انڈیکس مضامین میرے اور میرے مہدی کے درمیان کوئی نبی نہیں 54 اپنی دنیا و آخرت کی حسنات کے لئے یہ دعا مانگا کرو 139 اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میں خرچ جمعہ : اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں دعا قبول کر دیا.146 ہوتی ہے 675 غزوہ حنین میں لوگوں کو سینکڑوں اونٹ عطا فرمانا 147 اللہ کی شرم جو دل میں رکھتا ہے وہ اپنے خیالات ، اور خوراک مجھے امت کی غربت وافلاس کا ڈر نہیں بلکہ یہ کہ آسائش کی حفاظت کرے اور...38 ملنے پر دوسری قوموں کی طرح ہلاک نہ ہو جانا 160 اللہ کو اپنی طرف آنے والے بندے کو پا کر اس سے زیادہ 161 419 461 خوشی ہوتی ہے جو...شراب بنانے ، رکھنے، پینے پلانے پر لعنت...آنحضرت صلی العلم عیدین اور جمعہ پر پہلی رکعت میں سورۃ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ( آدم سے مراد ابن آدم یعنی انسان ہے) الا علیٰ اور دوسری میں الغاشیہ کی تلاوت فرماتے 223 آنحضرت صلی اللہ علم کا ایک بار لمبا سجدہ کرنا کہ 224 اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں کو اپنے سایہ عاطفت میں رکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ ظلم کا فرمانا کہ اے رب مجھے اپنا ذکر کرنے والا اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں 641 حضرت امام حسن اور حسین کے لئے آپ کا دعا کرنا اے اللہ 224 اور اپنا شکر کرنے والا بنا آنحضرت صلی اللہ کا فرمانا کہ کیا تم نے دل چیر کر دیکھا تھا کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر 631 ام ہانی کا فتح مکہ کے موقعہ پر دشمن کو پناہ دینا آنحضرت یہ کلمہ دل سے پڑھ رہا ہے آنحضرت صلی اللہ ظلم کا گھوڑے سے گر کر زخمی ہونا لیکن نماز صلی ایم کا فرمانا جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی...42 امت کو فتنوں اور فساد سے بچنے اور معاشرے کو خوبصورت با جماعت کا اہتمام......237 419 آنحضرت صلی الی آخری بیماری میں بھی چلا نہیں بنانے اور اپنی نسلوں کو نور سے منور کرنے کی دعا...47 (امام مہدی کے بارے)حارث...دولت تقسیم کرے گا جاتا سہارے سے مسجد میں تشریف لاتے 420 کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے آنحضرت کا فرمانا کہ میں ایک معمولی عورت کا بیٹا ہوں 559 آنحضرت صلی الم کے پاس ایک شخص بغیر سلام کے داخل اندھیرے میں مسجد کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی بشارت دے دے 91 134 44 148 ہوا فرمایا جاؤ پہلے سلام کر کے آؤ آنحضرت صلی این کیم کے رکوع و سجود اور نماز کی بابت حضرت عائشہ بحرین سے ڈھیروں مال آنا اور آپ صلی کلم کا فرمانا کہ میں کا فرمانا کہ اس کی خوبصورتی اور لمبائی نہ پوچھو 224، 419 ،445 تمہارے بارے غربت سے نہیں ڈرتا.آنحضرت صلی ال نیم کے ساتھ دعوت میں ایک شخص کا ساتھ بعض صحابہ کا تجرد کی زندگی گزارنے کے اظہار پر فرمایا میں آنا میزبان سے فرمانا کہ اگر اجازت ہو تو آجائے 401 نے شادیاں کی ، روزے بھی رکھتا ہوں اور عبادات...34 آنحضرت صلی الم کی دعا کہ اے اللہ میرے دل میں اور بے حیائی ہر مر تکب کو بد نما بنا دیتی ہے اور شرم وحیا حسن میرے دیگر اعضاء میں نور رکھ دے 40 وسیرت بخشتا ہے.38 آنحضرت صلی الم کا فرمانا کہ (میرا) شیطان مسلمان ہو گیا تین شخص ایسے نہیں جنہیں اللہ پسند کرتاہے اللہ کی راہ میں 48 593 جہاد کرنے والا ، ہمسایہ کی تکلیف پر صبر کرنے والا، اور سفر الحضرت صلی ا ہم نے کبھی کسی کو نہیں مارا ابن آدم کہتا ہے کہ میر امال، میر اما....تو نے کھایا اور ختم میں رات کو نوافل پڑھنے والا اور تین ناپسند فخر کرنے، بخیل اور تاجر جو قسمیں کھا کر بیچے کردیا.17 595

Page 716

خطبات مسرور جلد ہشتم 20 انڈیکس مضامین تم سے پہلے ایسے بھی گزرے کہ آرے سے اس کو دو رمضان میں آپ کی یکم کی سخاوت تیز ہو اسے بھی بڑھ 582 جاتی..418 ٹکڑے کر دیا جاتا جبریل اس مہینہ رمضان میں قرآن کی دوہرائی کروایا رمضان میں قرآن کا نزول اور اس ماہ جبریل کا دوہرائی کروانا 447 / روزہ جس میں جھوٹ ترک نہ کیا جائے....کرتے 425 423 جس نے سورۃ کہف کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت روزہ ڈھال ہے جب تک اس ڈھال کو جھو ٹاور غیبت کے کی...اس کے لئے نور بن جائیں گی جمعہ کے دن ایسی گھڑی جو دعا کرے وہ قبول کی جاتی ہے 2 زمانے کے امام (مہدی) کی نسبت آنحضرت صلی علیم کے 46 675 جمعہ کے دن پانچ خصوصیات جنت کے جوانوں کے سردار حسن اور حسین 630 جو اپنے لئے پسند وہ بھائی کے لئے.180 ذریعہ نہیں پھاڑتا پیار بھرے الفاظ اور سلام بھیجنا 423 191 سبحان الله وبحمده مده....کی حدیث میں اہمیت 63 سلام کو رواج دو 91 جو بیٹیوں کے ذریعہ سے آزمایا گیا تو وہ بیٹیاں اس کے اور شرک سے بچو، شرک چونٹی کی آہٹ سے بھی زیادہ مخفی ہے 559 592 صبح و شام کی دعا 46 595 آگ کے در میان روک ہوں گی جو تقویٰ پر چلنے کی کوشش نہیں کرتا ایسے لوگوں کا راتوں کو صبر کی حیثیت ایسی جیسے جسم میں سر کی جاگنا اور روزے صرف بھوک پیاس......صفوان بن امیہ کو آنحضرت صلی میں تکلم کا عطا فرمانا اور اس کا کہنا جو جھوٹ نہیں چھوڑتا اس کو ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا کہ میری نظر میں آنحضرت صلی الی کی سب سے زیادہ...لیکن چھوڑ دے 427 423 پھر سب سے زیادہ محبوب اور پیارے ہو گئے 147 جور مضان میں روزے رکھے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ 445 پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابور کھتا ہے 593 عورتیں مدینہ کی گلیوں میں یوں چلتیں کہ دیواروں کے جو لوگوں سے ملتا جلتا اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کے ہے.بر کرتا 593 ساتھ...664 جو میرے ان نواسوں سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت غزوہ احد میں آپ صلی ا لم زخمی ہونے کے باوجود اذان سن کرے گا اور 631 کر نماز کے لئے تشریف لاتے رہے غم اور تکلیف کے وقت یہ دعا پڑھے...419 48 حضرت ابن مسعودؓ کا فرمانا کہ جو سارا سال عبادت کرے گا فرشوں کو حکم اگر بندہ برا کام کرنے کا سوچے تو گناہ نہیں وہ لیلۃ القدر پائے گا خدا کے فرمانبردار رہو، شکر گزار رہو 185 443 لکھنا.136 قیامت کے روز آنحضرت صلی علیم کی شفاعت....45 دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے سورۃ کہف کی پہلی اور قیامت کے روز جس کا حساب لیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا 123 کسی بندے کا مال صدقہ سے کم نہیں ہوتا.594 46 آخری آیات پڑھنے کی تلقین دنوں میں سے بہترین جمعہ کا دن اور اس دن مجھ پر بہت کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ سنی سنائی بات 3 423 زیادہ درود بھیجا کرو دوسروں کو بتاتا پھرے...راستے کے حقوق...اور آنے جانے والے کو سلام کرو 1 9 کسی مسلمان کو کوئی رنج نہیں پہنچتا..کانٹا بھی نہیں چھتا 91 رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آنحضرت کمر کس لیتے 444 کہ خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے 595

Page 717

خطبات مسرور جلد ہشتم کسی مصیبت پر جو کہے انا لله و انا اليه....گن گن کر خرچ نہ کیا کر و...لاش کا مثلہ کرنے سے ممانعت لیلۃ القدر آخری عشرہ کی راتوں میں لیلۃ القدر طاق راتوں میں 596 148 631 446 446 443 445 21 انڈیکس مضامین معاشرے کے حقوق اور دیگر رشتوں کے متعلق توجہ 424 ہمارا یہ کام نہیں کہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کر کے اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑیں 522 میاں بیوی، ساس نند اور دوسرے حقوق کا خیال رکھنے کی نصیحت حکمت کیا ہے؟ 679 77 لیلة القدر رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو آخری عشرہ میں تلاش کرو حکومت: حکومتیں بھی اگر اللہ کے پیاروں کے سامنے کھڑی مسلمان کو ہر حال میں اجر ملتا ہے یہاں تک کہ اس لقمہ کا ہوں گی تو پارہ پارہ کر دی جائیں گی 594 حواری 536 بھی جو وہ اپنے منہ میں ڈالتا ہے مسیح محمدی کی مدد کرنے اس کو سلام پہنچانے کی نصیحت 437131 مسیح موسوی کے حواریوں کی نسلوں میں ایمان کی مسیح موعود کے زمانے میں تمام فرقے ایک ہو جائیں گے اور کمزوری لیکن مسیح محمدی کے غلاموں نے ایسا نہیں ہونے ایک ہی فرقہ ہدایت پر ہو گا معمولی ریا بھی شرک ہے مومن کی تین نشانیاں.621 559 388 دینا نہ اپنے ایمانوں میں نہ اپنی نسلوں میں...حيا: حیا ایمان کا ایک حصہ ہے 511 38 37 مومن جب ایک قدم بڑھتا ہے تو میں دو قدم 418 حیا کے معیار بلند کرنے والے بنیں مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے سارے کام برکت انٹرنیٹ، ٹی وی، حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے 37 ہی برکت ہوتے ہیں 594 28 خاتمہ : اپنے اپنے حسن خاتمہ کی فکر کریں مومنوں کا حساب، حساب نہیں، بہت آسان ہو گا 137 خانہ کعبہ کی تعمیر اور حضرت ابراہیم کی عاجزانہ دعائیں 487 میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں یتیم کو کھانے میں باقاعدہ شامل کرنا اور...466 108 ختم نبوت ختم نبوت کی طرف سے سانحہ لاہور کی مذمت تو پھر جو یتیم کے مال سے صرف اسی قدر کماؤ کہ اسراف نہ ہو...102 پوسٹر اور بینر....گندی زبان اور واجب القتل کے ہیں وہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے پر ہر بال کے عوض نیکیاں 106 یتیم کی پرورش کرنے والے کو جنت کی خوشخبری 108 کن کے لگائے ہوئے ہیں تم لوگ ہی تو ہو.265 یتیم کی کفالت کرنے والا قائم باليل صائم النهار 108 حساب ختم نبوت کے حوالہ سے مخالف علماء کے غلط اور جھوٹے بہتان.....احمدیوں پر 240 ہم ہیں جو آنحضرت کے مقام ختم نبوت کو سمجھنے والے ہیں 244 اللہ تعالیٰ کا غیرت دکھاتے ہوئے حساب لینے کے بعض کوئی احمدی ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود کا مقام آنحضرت صلی ا ظلم سے واقعات کا ذکر حقوق 144 بڑھ کر ہے.یہ الزام ہے جماعت پر 54 حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت 9 یہ الزام ہے کہ نعوذ باللہ احمدی حضرت مرزا غلام احمد ایک مومن کے لئے سب سے بڑی نعمت.دین پر قائم رہنا، قادیانی کو خاتم النبيين مانتے ہیں إِنَّا لِله وَإِنَّا إِلَيْهِ اعمال صالحہ بجالان، عبادات اور حقوق کی ادا ئیکی 47

Page 718

خطبات مسرور جلد ہشتم 22 انڈیکس مضامین راجِعُونَ ہمارے نزدیک آنحضرت صلی علیکم کا مقام سب خلافت احمدیہ کو کسی حکومت، کسی ملک کی حکومت پر قبضہ سے افضل ہے اور آپ کے بعد نہ کوئی شرعی نبی آسکتا ہے کرنے میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ یہ ہمارا مقصد 518 اور نہ قرآنِ کریم کے بعد کوئی اور شرعی کتاب اتر سکتی ہے.اخباروں میں آنا کہ مسیحا کی آمد اور مسلم امہ کو سنبھلانے احمدیت کا موقف تو سنتے نہیں اور سننے کو تیار بھی نہیں اور یک طرفہ فیصلہ کرتے چلے جارہے ہیں.خدا کا خوف کرنا چاہئے اور خدا کے غضب سے ڈرنا چاہئے 239-240 دنیائے اسلام کا نظام خلافت کی ضرورت پر زور دینا.اور کے لئے خلافت کی ضرورت ہے خلافت کا انکار...450 184 خدام نیز دیکھیں زیر لفظ نوجوان خدام الاحمدیہ کا اجتماع یو کے اور حضور انور کی نصائح 503 مسلمانوں کے ایک طبقہ کا کہنا کہ مصلح کی اور خلافت کی دین کی خدمت، اصلاح اور توحید کے قیام کے لئے ضرورت ہے نوجوانوں کے حوالہ سے قرآن میں ذکر...495 خلافت احمد یہ اور اس کا تسلسل 230 636 خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ انہیں پتہ ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں خطبہ 193 ہی نہیں چلا کہ احمدی کیا چیز ہیں.یہ ایک امام کی آواز پر 261 ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہو تا ہے چاہے وہ کہیں بھی رہتا ہو 188 اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں خطبات کی اہمیت اور افادیت اور نیک تربیتی اثرات 188 اس زمانے کے امام کو نہ ماننے والوں میں نہ خلافت قائم ہو ایم ٹی اے سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت با قاعدگی سے خطبہ سکتی ہے اور نہ اس کی برکات خواب سنیں..خلافت 188 78 لوگوں کو خواب کے ذریعہ احمدیت کا پیغام ملنا 250 خوابوں کے ذریعہ احمدیت قبول کرنا 250 ”ہماری خلافت روحانی ہے اور آسمانی ہے نہ زمینی“ 249 ایک دائمی نظام جو مسیح موعود کی جماعت میں رائج ہو 162 خواب میں مسیح موعود کی شبیہ مبارک دیکھ کر احمدی ہونے خلافت کی برکات ا 193 والے افراد....( مراکش اور الجزائر کے) 181 حضرت مصلح موعودؓ کے حق میں ایک خواب فتنہ مستریاں خلافت کے ساتھ کامل اطاعت اور وفا کا تعلق دکھائیں 197 کے وقت خلافت اور جماعت کی قدر کرنے کی نصیحت نہیں تو 191 | خواب کی بناء پر بچوں کو وقف کرنا 62 282 خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہ دھرنے کا عبرتناک انجام 191 خواب میں آنحضرت کی شبیہ مبارک پر حضرت اقدس کو خلیفہ وقت کی آواز سننے اور عمل کرنے کی ضرورت اور افادیت 189 یہ کہا جانا کہ قرآن سے خلافت کی ضرورت ثابت نہیں ہوتی 78 369 دکھایا جانا....اور قبول احمدیت خواب که امام مهدی آخر الزمان آگیا ہے...قادیان جانا اور بیعت تفصیلات 377 نظام خلافت کی برکات سے فیض حاصل کرنے کی ضرورت ایک دوست ( منور احمد شہید) کا شیعہ عقائد کی طرف مائل اور کوشش اور...184 ہونا اور حضرت امام حسین اور حضرت علی کا خواب میں آکر حضرت مسیح موعود کی صداقت کا بتانا 308

Page 719

خطبات مسرور جلد ہشتم 23 انڈیکس مضامین دعا کرنا کہ حضرت مسیح موعود بچے ہیں کہ نہیں تو خواب میں بیعت کرنے والوں کو آنحضرت پر درود بھیجنے کا تاکیدی حکم 4 آنحضرت صلی ایم کی زیارت....اور شہداء کے متعلق مختلف احباب کی خوابوں کا ذکر 652 <287-295-282-281-279-277-275-278 316-309-308-307-304-302.299.297 330-327-326-325-324 323.321.317 345-349-338-337-335-334.333.331 344-360-361.361 درود حضرت ابراہیم کی وفا کی وجہ سے ملنے والا اعزا ز 488 حضرت مصلح موعودؓ کا نوجوانوں کو تحریک کرنا کہ نماز کے بعد بارہ دفعہ سبحان اللہ و بحمدہ...اور بارہ دفعہ درود شریف پڑھیں.شمن 63 دشمن کا دشمنی کی انتہا تک پہنچنا اور مومن کارد عمل 619 شہداء کے بارہ میں خوابیں جنت میں پھر رہے اور تمغے مل اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اپنے بندے کی مدد کرے رہے ہیں...260 خواہش ہر خواہش کو دبانا اور مطالبے سے اجتناب وقف 548 گا اور اس کے دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا 539 ہمارا اصل انحصار خدا ہی کی ذات پر ہے کوئی بھی لمحہ دعاؤں سے زندگی کا نصب العین خودکش بخود کش حملے اور دہشت گردی یہ اسلامی تعلیم خالی نہ جانے دیں.ڈیوٹی کے دوران بھی دعائیں کریں 386 230 دعا کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات و تعلیمات 625-627 نہیں ظلم ہے.ان کے خود کش حملے جو دنیا کا سکون برباد کر رہے ہیں یہ ہمارا ہتھیار تلوار نہیں دعا ہے اعمال خدا کی نگاہ میں مقبول نہیں 586 474 انبیاء اور ان کی جماعتوں کا صل ہتھیار دعا ہے 473 دعا ایک ہتھیار ہے اور بہت بڑا ہتھیار جس سے ہماری فتح ان لوگوں سے خیر کی کوئی امید نہیں اور نہ ہم کبھی انشاء اللہ ہونی ہے اور ہو گی 522 ہماری ترقی اور فتوحات دعاؤں سے ہی وابستہ ہیں 501 رکھیں گے 266 خیر سگالی : بھائی چارے اور محبت اور خیر سگالی کے جذبات دعا کا ہتھیار جس نے دشمن کے نام و نشان مٹادیئے...626 کو فروغ دینے کی ضرورت اور اہمیت خیمہ ربوہ کے اجتماعات میں خیمہ جات بنانا د، د، ذ، ر، ز 95-94 دعاؤں کا ٹھیک محل نماز ہے 494 دعا اور صبر کا تعلق 627 627 یہ الہی تقدیر ہے کہ وہ باتیں اب نہیں دہرائی جائیں گی جن دجال: دجال کا فتنہ اللہ اور توحید کے انکار کا فتنہ ہے 46 سے اسلام کو ضعف پہنچا.ہمیں دعاؤں کی طرف بہر حال درود شریف درود شریف کی برکت اور اہمیت 636.3 توجہ دینی چاہیے 635 میں ان تمام احمدیوں سے کہتا ہوں جو آج کل مختلف قسم کی تکالیف کے دور سے گزرے رہے ہیں.انہی دعاؤں میں واقعہ کربلا پر جذبات کا سب سے بہترین اظہار کثرت سے درود شریف پڑھنا 637.636 مزید توجہ پیدا کریں...629 ہماری جماعت کو چاہیے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں...515 محرم کے مہینہ میں درود شریف پڑھنے کی خلیفہ رابع کی تحریک اور اس کا دوبارہ اعادہ....636 یہ دعا جاری رہنی چاہیے.دل کی پاکیزگی اور خدا کی محبت حاصل کرنے کے لئے بہت ضرورت سبحان اللہ و بحمد 640

Page 720

خطبات مسرور جلد ہشتم 24 انڈیکس مضامین مسلمانوں کو آنحضرت کی ایک دعا کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے 50 حضرت مسیح موعود کی بعض بیان فرمودہ دعائیں 477 ایک جامع دعا جو آنحضرت اکثر مانگا کرتے تھے ربنا اتنافی بیت الدعا پر لکھی ہوئی ایک دعا یارب فاسمع دعائی 480 ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر شخص کو الدنيا حسنة......9 پاکستانی احمدیوں کے لئے خصوصی دعا کی تحریک 311 اور ہر ملک کو ظالم کے ظلم سے بچائے 522 ہمیں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے 252 اس جلد میں دیگر مذکور دعائیں: دعاؤں اور عبادات پر زور دو 173 رب ارني انوارك الكلية 478 478 478 478 478 478 جہاں جہاں احمدی تکلیف میں ہیں وہ یاد رکھیں کہ صرف | رب لا تذر علي الارض احمدی ہیں جو اس وقت ابتلا کی صورت میں ضرر یافتہ ہیں اور رب فرق بین صادق و کاذب رب فاحفظني.......انہی کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے 219 السماء رب اغفر وارحم من | دعاؤں میں صیغہ واحد / جمع کی حکمت اور 143 ہوشیار رہنے اور دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت 265 اپنے لئے اہل و عیال، احمدیت اسلام ، جماعت کی ترقی، الهامي دعاء ربنا اغفر لنا رب سلطني علي النار ماحول اور معاشرے اور ملک کے لئے دعائیں کریں 5 قرآنی دعا: ربنا افرغ علينا...البقرة:251 628 جو صرف دنیا داری کے لئے دعا کے لئے کہتا ہے حضرت اقدس کا اس بات سے کراہت فرمانا 222 واجعل افئدة.ربنا اغفر لنا ان كن خاطئين رب اوزعني دعا کرتے ہوئے جب حسنات مانگیں تو تقویٰ کی طرف فوراً وا دخلني برحمتك...توجہ ہونی چاہیے ربنا هب لنا من أزواجنا.ایک احمدی بچی کو پردہ نہ اتارنے پر ملازمت سے فراغت کا ربنا أتنا في الدنيا حسنة نوٹس بچی کی دعا اور افسر کی فراغت ہو جانا 197 احمدیوں کی دعاؤں سے ہی دنیا کی بقا ہے اہل ربوہ کو دعاؤں کی نصیحت دعا کی اہمیت 5 663 668 رب اغفرلي ولا خي.ربنا اغفر لنا ذنوبنا انت ولينا فاغفر لنا واكتب لنا في هذه الدنيا دعاؤں اور عبادت سے نئے سال کا استقبال 2 رب اجعلني مقيم الصلوة 5 478 479 479 467 469 469 470 471 471 471 471 471 471 نئے سال کا آغاز ایک مومن اور غیر مومن کا اپنا اپنا طریق 2 ربنا اغفر لي ولوالدي نیا سال اور اس دن کے لئے کچھ دعائیں اسلام کے غلبہ کے لئے نہ کسی شدت پسند گروپ کی ضرورت رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين 472 221 ربنا اصرف عنا عذاب جهنم ربنا أمنا فاغفرلنا ہے نہ کسی تلوار کے جہاد کی دعاؤں کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ کی بیان فرمودہ ایک لمبی دعا...481 رب نجني واهلي حضور انور کا مختلف دعاؤں کا انتخاب جماعت کے سامنے پیش فرماتے ہوئے فرمایا کہ میرے ساتھ پڑھتے جائیں اور آمین کہتے جائیں 482-468 عندك رب ابن لي.اني مغلوب فانتصر 471 472 472 472 473

Page 721

خطبات مسرور جلد ہشتم رب نجني من القوم الظالمين رب ان قومي كذبون رب اعوذ بك من همزات الشيطن ربنا افرغ علينا صبرا ربنا ظلمنا انفسنا ربنا لا تزغ قلوبنا ربنا لا تواخذنا ان..ربنا لا تجعلنا مع القوم الظالمين ربنا أمنا فاكتبنا مع الشاهدين اللهم اني اعوذبك من قلب اللهم اني ظلمت نفسي ظلما اللهم اجعل في قلبي نورا...اللهم اني اسئلك حبك یا مصرف القلوب رب كل شيء خادمك یا احب من كل محبوب رب ارحمني ان فضلك رب ارني كيف تحيي الموتي انڈیکس مضامین دنیا کی تقدیر اب اسلام سے وابستہ ہے لیکن کس طرح ؟130 دنیاوی نعمتوں اور آسائشوں اور سکون میسر ہے تو جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ یہ خدا سے دور لے جانے والا نہ ہو...160 دہشت گردی 25 دنیا: 473 473 473 473 474 474 474 475 475 476 476 476 477 477 477 477 478 478 اسلام کے غلبہ کے لئے نہ کسی شدت پسند گروپ کی ضرورت ہے نہ کسی تلوار کے جہاد کی دعاؤں کے ساتھ 221 دہشت گرد غریب لوگوں کو Brain wash کر کے ، جنت کی خوشخبری دے کر خود کش حملوں کے لئے تیار کرنا یہ اللہ کی ناراضگی کا بعث بننے والے ہوتے ہیں.ان کے سرغنہ خود 258 یا اپنے بچوں کو قربان نہیں کرتے خود کش حملے ، دہشت گردی یہ اسلامی تعلیم نہیں ظلم ہے 230 دہشت گردی مذہب کے نام پر خون کی ہولی محسن 261 انسانیت صلی ا علم کو بد نام کرنے والے لوگ یقیناً قیامت کے دن لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا کلمہ تم میں سے ایک ایک کو پکڑ کر تمہارے بد انجام تک پہنچائے گا 261 دہشت گرد در ندگی اور سفاکی دکھا رہے ہیں احمدی انسانیت کے علمبر دار ہیں 264 اللهم انا نجعلك في نحورهم ـ رب كل شيء 266 پاکستان میں اس کی انتہا لیکن احمدیوں کے خلاف دہشتگردی الہامی دعا: سبحان الله وبحمده دعوت: 480 کو قانون کا تحفظ حاصل ہے دین 265 کھانا کھانے یاد عوتوں کی مجالس کے آداب، وقت کا ضیاع نہ ہو 397 دین کو دنیا پر مقدم رکھنا عہد بیعت کو نباہتے ہوئے 149 دہریہ: ”خدا ہے“ ایک دہریہ کا یہ سوال اور ایک مبلغ کا دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں کا نقشہ جو قرآن نے بیان کیا 394 احیائے دین کا کام جس نے ہمیشہ کی زندگی بخشنی ہے 163 اسے سمجھانا اور اس کا مسلمان ہو جانا دعوت الی اللہ : نیز دیکھیں تبلیغ 24 خدا تعالیٰ زمین کی متفرق آبادیوں کو دین واحد پر جمع کرنا 169 داعی الی اللہ کے لئے راہنما ہدایات اور نصائح 171،172 چاہتا ہے.بیرون ملک جو پاکستانی آتا ہے اس کا آنا احمدی ہونے کی وجہ دیوار: مخالفین (رشتہ داروں) کا دیوار کھڑی کرنا مقدمہ کرنے سے ہے دنیا کمانے کے ساتھ اللہ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے پر حضرت مسیح موعود کا ان کو معاف کرنا اور 615-616 ڈاکٹرز اور ٹیچر ز : واقف زندگی جو خدمت کر رہے ہیں اور دعوت الی اللہ کے لئے وقت نکالیں...173 دفتر اول تحریک جدید کے کھاتوں کے احیاء کی تحریک ان میں مزید وسعت اب تمام کھاتے جاری ہو گئے 576 541

Page 722

خطبات مسرور جلد ہشتم ڈائری 26 رسم خد اتعالیٰ کے نزدیک روز کی ڈائری بن رہی ہے اپنا ہر روز رسومات گھر والوں پر بوجھ بنی ہوئی ہیں محاسبہ کرنا چاہے..ایک شہید کی ڈائری کے اوراق 137 319 انڈیکس مضامین 36 مہندی کی رسم اور بے جا فضول امور لندن میں ایک گھرانے کا حضور کا یہ خطبہ سن کر مہندی کی دعوت کینسل کر دینا 34 کمشنر : منارۃ المسیح کی تعمیر پر لوگوں کا اعتراض اور ایک پیر پرستی اور غلط قسم کی رسوم سے احتراز کرنے کی تلقین 39 ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا.اس کے بعد بھی ہم دنیا داری ڈپٹی کمشنر کا قادیان آنا.ڈیوٹی 610 ڈیوٹی دینے والے (جلسہ پر) کارکنان کو ہدایات 383 میں پڑکر رسم ورواج یا لغویات کے طوق اپنی گردنوں میں ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو ہدایات، مذاق وغیرہ کی عادت ڈالے رہیں گے تو ہم عبادتوں کا حق ادا نہیں کر سکتے 39 رشتہ: گھروں کے ٹوٹنے کی ایک وجہ ایک دوسرے کے 398 424 اور وقت ضائع کرنے پر کنٹرول ہمارا اصل انحصار خدا ہی کی ذات پر ہے کوئی بھی لمحہ دعاؤں سے رشتوں کی قدر نہ کرنا.خالی نہ جانے دیں.ڈیوٹی کے دوران بھی دعائیں کر الرین 386 آگ سے مراد صرف قیامت والے دن کی آگ نہیں بلکہ ایک شہید کے دو بیٹے ڈیوٹی پر کام کرتے رہے جبکہ انہیں علم طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن، فقر و فاقہ امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، رشتہ داروں کے ساتھ تھا کہ ان کا باپ بھی شہید ہو چکا ہے جلسہ پر ڈیوٹی دینے والوں کا جذبہ 336 660 معاملات میں الجھن وغیرہ 11 نمازوں کا قیام اجتماعات اور ڈیوٹی کے دوران بھی خاص مسیح موعود کی اطاعت میں گھر رشتہ داری اور قرابت اور اہتمام کرنے کی نصیحت 500 تعلقات روک نہ بنیں 197 ذکر : ذکر کی مجالس کا بیان کہ سنت سے ہٹ کر کام خدا کا رشوت رشوت اور بعض دوسری کمائیاں جو حلال نہیں 460 قرب نہیں دلا سکتا ذمہ داری: احمدی کے نمونے نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہیں...اور پاکستان میں یہ عام 158 رشین ڈیسک 38 رشین ڈیسک کے ذریعہ ایم ٹی اے پر رشین پروگرام اور کی ترقی کی رفتار متعین کرنی ہے رب: جھوٹ ، چوری اور فریب کو اپنا رب بنانے والے اور یہ کہ اس کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق نہیں 10 ویب سائٹ کا آغاز و قیام رحمت: اسلام کی رحمت کی تعلیم رزق 426 رمضان 679 اللہ کا قرب پانے، عبادات کو بجالانے ، فسق و فجور سے بچنے رزق کا وسیع تر مفہوم اور آنحضرت اور امام مہدی کے اور حقوق العباد اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے 417 رمضان کے بابرکت مہینہ کی اہمیت 133 ذریعہ اس کی تقسیم اصل رازق خدا تعالیٰ ہے جو اس پر بھرسہ کرتا ہے 146 124 کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا متقی کو رزق دیا جانا اور رزق کا وسیع تر مفہوم دنیاوی رزق تو عارضی ہے اصل روحانی رزق 216 425 رمضان کا مہینہ اپنی روحانی حالتیں بہتر بنانے کے لئے 431 بھر پور کوشش کریں رمضان کے آخری عشرہ کی برکات اور اہمیت کے بارہ میں احادیث 444

Page 723

خطبات مسرور جلد ہشتم 27 انڈیکس مضامین رمضان کا آخری عشرہ اس کی برکات اور اہمیت 454 اللہ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا 677 رمضان دعاؤں کی قبولیت کا خاص مہینہ 454 رمضان کے روزے عبادتیں ایک خاص مجاہدہ ہیں 455 سال روزے ایک مجاہدہ ہیں روزہ اور قرآن کا آپس میں تعلق 415 427 زکوۃ: زکوۃ ایک لازمی چندہ اور اسلام کا بنیادی رکن 13 حضور انور جب گھانا میں تھے تو بعض غیر احمدیوں کا زکوۃ لے 152 س، ش، ص، ض سال نو کی مبارک اور ایک مومن کے لئے سال اور دن اس صورت میں مبارک ہوتے ہیں جب وہ اس کی توبہ کی قبولیت کا باعث بن رہے ہوں 1 دعاؤں اور عبادت سے نئے سال کا استقبال...2 کر آجانا کہ مولوی تو کھا جائیں گے جن پر زکوۃ واجب ہے ان کے لئے اس کی ادائیگی نئے سال کا آغاز ایک مومن اور غیر مومن کا اپنا اپنا طریق2 113 نیا سال اور اس دن کے لئے کچھ دعائیں 5 بھی ضروری ہے زلزلے : دنیا میں آنے والے زلزلے اور حضرت مسیح نیا سال عبادات اور تہجد کی نماز سے شروع کرنا 6 دنیا کو سمجھانے کی ضرورت کہ نئے سال کا استقبال نشے میں 120 7 موعود کی صداقت زلزلے حضرت مسیح موعود کی صداقت کے طور پر 79 دھت ہو کر نہیں کیا جاتا بلکہ اللہ کے حضور پاک دل لے کر گزشتہ ایک سو سال سے زلازل، طوفان اور آفات کا آنا حاضر ہونے سے کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کی تائید کے لئے ہے یہ زلزلے، طوفان اور تباہیاں یہ اللہ کی تقدیر کا ایک چکر جماعت پر بے انتہا فضلوں اور برکتوں کا سال 673 ہے غلبہ اسلام کا ہو گا.دنیا بھر میں آفات و زلازل کی پیشگوئی زمین 519 118 121 برف پگھلنے سے زمین کے ڈوبنے کی سائنسدانوں کی پیشگوئی ایک علیحدہ آفت ہے...اور دیگر آفات زنا 120 اس سال میں کثرت سے احمدیت کا پیغام دنیا میں پہنچا نئے سال کی رات جب دوسرے لوگ ناچ گانوں میں مشغول ہوں ہم اپنے جذبات خدا کے حضور اس عہد کے ساتھ کہ سانحہ لاہور نیز دیکھیں شہید 679 یہ صبر کے نمونے دنیا نے دیکھے تو غیر بھی حیران ہوئے اور احمدیت کی طرف مائل ہوئے...ٹی وی یا انٹرنیٹ کے ذریعہ بیہودہ فلمیں روشن خیالی کے نام سانحہ لاہور کے کچھ واقعات پر دیکھنا اس کا بھیانک انجام، دماغ اور آنکھ کا زنا ہے 193 زندگی انسانی زندگی کا مقصد مادی ترقی اور انسانی زندگی کا مقصد زو در نج لوگوں کے لئے ایک نصیحت 30 31 593 261 262 پرلیس اور پاکستان پریس کا دنیا بھر کی حکومتیں، پارلیمنٹس کا شکریہ جنہوں نے ہمدردی کا اظہار کیا 265 زخمیوں کو پانی پلانے کا بہادرانہ کام اور دہشتگرد کو پکڑتے ہوئے شہید......308 زخمی لڑکے کا اپنی ماں کو فون کرنا اور ماں کا کہنا تمہیں خدا کے سپرد کیا جس قوم کی مائیں ایسی ہوں.673 زہر اپنے اندر صبر ، قناعت، زہد اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں 37 سائنسدان حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا تحریک جدید شروع کرنے پر سادہ برف پگھلنے سے زمین کے ڈوبنے کی سائنسدانوں کی پیشگوئی زندگی کا مطالبہ.570 ایک علیحدہ آفت ہے...اور دیگر آفات 120

Page 724

سزا خطبات مسرور جلد ہشتم سزا کا مقصد اصلاح 116 28 انڈیکس مضامین غیروں میں شادیاں کرنے کے تباہ کن نقصانات اور احمدیوں کو احتیاط کی نصیحت خلیفہ وقت کی طرف سے...اگر کسی کو سزا ہو بھی تو میرے شراب 80 دل میں اس کے خلاف نفرت کبھی پیدا نہیں ہوئی بلکہ دکھ ام الخبائث، جسے مدینے کی گلیوں میں صحابہ نے بہا دیا 160 ایک نائجیرین مسلمان کا حج کرنے کے بعد شراب پینا اور یہ کہنا کہ...میں نے تو سعودی عرب میں بھی شراب پیتے مسلمانوں کو دیکھا ہے ہوتا ہے کہ....75 سستی: آنحضرت عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے.نہ بنو 140 سر سفر : سفر کی شرائط اور ایک واقف زندگی مبلغ کا نمونہ 548 سکھ: قادیان کے سکھوں کا احمدی احباب کو تکلیف پہنچانا 615 سلام سلام کو رواج دینے کی تلقین سلام کو رواج محبت اور پیار بڑھانے کا ذریعہ 402 400 160 شراب اور جوئے کی حرمت اور اس تباہ کن نقصانات 69-70 شراب اور سور فروخت ہونے والے ہوٹلوں پر احمدیوں کو کام نہ کرنے کی نصیحت اور اس کی حکمت شراب اور جوئے کی حرمت اور گناہ کبیرہ نقصانات احمد یوں کو بچ کر چلنا ہو گا اور ان برائیوں کی اہمیت نوجوانوں پر واضح کرنا ہو گی 161 161 محبت بھائی چارے، تعلقات میں بہتری کا بہترین نسخہ 90-91 شرائط: شرائط بیعت کا خلاصہ : اللہ اور بندوں کے حقوق کی صحابہ کا سلام کرنے میں بڑھ کر کوشش کرنا 91 ادائیگی سیاستدان: احمدیت کے مخالف مولوی اور سیاستدان ، جن کی شرک روٹی مسیح موعود کی تکذیب ان کو تنبیہہ سیکر ٹریان وقف نو کی ذمہ داری 239 543 164 شرک اور اس کے نقصانات اور اس کی مختلف اقسام 192 شرک کی مختلف صورتیں اپنے کاموں کی خاطر نمازوں سیکر ٹریان وقف نو کو بھی فعال ہونے کی ضرورت 552 کو قربان کرنا.اولاد...سیکیورٹی سکیورٹی کے پیش نظر ہدایات 312 192 شرک نفس کے بہانوں کے بے شمار بت جو عبادات اور نمازوں میں روک بنتے ہیں سکیورٹی کے ضمن میں خاص طور پر ہدایات اور توجہ 386 شرک کے نقصانات اور ناقابل معافی گناہ سکیورٹی کے پہلو سے ہدایات سکیورٹی کے حوالہ سے ہدایات 397 403 شرک اور جھوٹ 71 556 423-422 اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو مایوسیوں اور شرک خفی سے سور : مہاراجہ کشمیر کا سوال کرنا کہ سور کھانے کی وجہ سے بچائیں بے جا حملہ کرنے کا جواز...انگریز بھی تو شادی 88 667 شریر: وہ زمانہ قریب ہے کہ شریر لوگ نظر نہ آئیں گے “ 585 شعر: شادی وغیرہ کے موقعہ پر فضول خرچی اور رسومات کی وہ تم کو حسین بناتے ہیں 34 629 646 چه خوش بود...حضرت مسیح موعود کی دعا سے دکھتی آنکھ کو شفا 379 ممانعت...مهندی و غیره حضور انور کا شادی بیاہ پر فضول رسومات سے اجتناب کا خطبہ شفا: اور احمد می گھرانوں کا خوبصورت رد عمل 35

Page 725

خطبات مسرور جلد ہشتم شکایت / شکوه: 29 انڈیکس مضامین شہیدوں کے بارہ میں قرآن کا ارشاد کہ یہ زندہ ہیں...اور انتظامیہ سے کارکنان سے شکوہ کرنے کی بجائے عفو، صبر اور اخروی نعمتوں کا فیضان جاری ہے حوصلہ سے کام لیں گلہ شکوہ کرنا....چھوٹے چھوٹے شکوے کرنا...شکایت کرنے کے آداب اور تقاضے شکر گزاری کی اہمیت اور اس کا طریق اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا طریق شکر گزاری 397 75 71 74 188 407 مومن کی ایک نشانی کہ وہ شکر گزار ہوتا ہے 405 بندوں کی شکر گزاری بھی عباد الرحمن کا شیوہ 407 239 شہید ان اسیروں ، زخمیوں اور شہیدوں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی 254 اللہ کی رضا میں شہید ہونے والوں اور اس دنیا میں رہنے 259 والوں کے لئے جنت کی بشارت شہداء کے بارہ میں خواہیں جنت میں پھر رہے اور تمغے مل رہے ہیں......260 احمد نی اگر شہید ہو رہے ہیں تو کسی مقصد کی خاطر ، ہر شہادت شہید کے خاندان کے مقام کو بڑھانے والی بھی ہے اور جماعت کی ترقی کا باعث بننے والی بھی ہے 167 نواجوان شہید کا گویا کہنا: ” ہم تو جارہے ہیں لیکن احمدیت کی فتح مکہ کے موقعہ پر آنحضرت کے شکر کا انداز 226 بیرون ملک جو پاکستانی آتا ہے اس کا آنا احمدی ہونے کی وجہ حفاظت کا بیڑا اب آپ کے سپر د ہے ہمارے خون کی لاج سے ہے دنیا کمانے کے ساتھ اللہ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے دعوت الی اللہ کے لئے وقت نکالیں...173 سانحہ لاہور پر پریس اور پاکستان پریس کا دنیا بھر کی حکومتیں، 288 رکھ لینا...شہداء لاہور میں بعض اعلیٰ صفات قدر مشترک نمازوں کا اہتمام ، بچوں اور گھر والوں کو توجہ سے نماز کی طرف نوافل اور تہجد، اور دیگر اخلاق حسنہ حقوق العباد کی ادائیگی، خلافت پارلیمنٹس کا شکریہ جنہوں نے ہمدردی کا اظہار کیا 265 کے لئے سلطان نصیر 364-362 آج ہمارے شہداء کی خاک سے یقینا خو شبو آرہی ہے....ان شہداء / شہادت / لاہور کے شہداء ہر شہادت بڑے بڑے پھل پیدا کرتی ہے بڑے بڑے مقام کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت 266 66 اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے اسے بھی نہ چھوڑنا 260 حاصل کرتی ہے شہداء کے لئے قائم کیا جانے والا فنڈ سید نابلال فنڈ 268 انصار اللہ بال ربوہ کے ہال میں شہداء کے جنازے 324 حمدیوں کا رد عمل ایسے ابتلاؤں اور شہادتوں پر اپنا معاملہ بھائی کی شہادت کی خبر کے باوجو د بہادری سے لوگوں کی مدد خدا پر چھوڑ دیا اپنا عم خدا کے حضور پیش کر دیا.اس کے کرتے رہے 261 308 فیصلے کے انتظار میں ہیں یہ تمام شہداء جو قسم قسم کی خوبیوں کے مالک ہیں 309 شہد اولا ہور.یہ ہیرے مٹی میں رولے نہیں گئے ان ہیروں ہمارے شہیدوں کی ایک اور خصوصیت کہ عبادت اور ذکر کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمان انہی کی طرف توجہ اور اپنے بچوں سے پیار کا تعلق اور ان اسلام اور احمدیت پر سجا دیا.266 بچوں پر نیک اثر تھا 512 ایک ناصر کا دہشت گرد کی طرف جانا اور گھر گولی کھا کر شہادتوں اور احمدیت پر مظالم اور اس کی برکات اور احمدیت شہید ہو جانا اور اس وجہ سے سینکڑوں جانوں کا بچ جانا 262 کی حیرت انگیز ترقی دشمن کا سمجھنا کہ اس طرح احمدیوں کو کمزور کر دیا جائے گا اس سال میں ہونے والی شہادتیں اور ان کے گھرانوں کے لیکن انہیں نہیں کیا پتہ 264 ایمان افروز جذبات 584 672

Page 726

خطبات مسرور جلد ہشتم ایک انعام اور ملا کہ شہید باپ کا بیٹا ہوں 30 262 ایک ماں نے کہا کہ اپنی گود سے جواں سالہ بیٹا خدا کی گود میں رکھ دیا 262 شہداء کے ورثاء کے عظیم حوصلوں کی بلندی 263 ”میرے شہید کو دیکھ لیں“ ایک خاتون کا حوصلہ...........263 263 ایک ماں کا اٹھارہ سالہ لڑکا شہید ہونا اور اس ماں کا حوصلہ 263 انڈیکس مضامین ہمارا کام صبر اور دعا سے کام لینا ہے ہر احمد کی اس پر کار بند رہے گا صبر اور دعاجو مومن کو کامیابی بخشتی ہے صبر اور دعا کی اہمیت و ضرورت 261 580 583 صبر اور استقامت اور دعا سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہیں 438 اپنے اندر صبر ، قناعت، زہد اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں 37 ایک نوجوان کا لاشیں ایمبولینس میں رکھنا اور ایک لاش صبر اور آنحضرت اور آپ کے صحابہ کا اسوہ رکھتے ہوئے کہنا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں.لیکن اس کے باوجو د وہ مسجد میں ڈیوٹی کر تا رہا...264 شہداء کے یہ واقعات جمع کر کے لکھے جائیں گے 264 شہدائے پاکستان کی قربانیاں...یہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں صبر کا اجر.ایک معجزہ 592 599-598 صبر اور متحمل حضرت مسیح موعود کا نمونہ اور ارشادات 604-617 آج ہمارے شہداء کی خاک سے یقیناً خوشبو آرہی ہے....ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے اسے کبھی نہ چھوڑنا 260 شہداء کا خواب میں ملنا اور بتاتا کہ عجیب نرالا سلوک ہم سے بعض لوگوں کا حمدیوں کو ایمان سے ہٹانے کی کوشش، پمفلٹ گی ہو رہا....شہداء کے متعلق مختلف احباب کی خوابوں کا ذکر 674-673 674 302 299 295 297 287 279 281 <278 تقسیم کہ خلیفہ وقت خوش فہمی پیدا کر رہا ہے کہ صبر کرو 581 احمدیوں پر ظلم ، ہماری طرف سے یہ معاملہ اللہ کے سپر د ہے 304، 308، 309، 316، 321، 323 324 325 ، ہم نے ہمیشہ صبر کیا ہے اور صبر کرتے چلے جائیں گے 238 326 330 333 334 335 337 338، احمدی بیعت کے نتیجہ میں اپنی حیا کے معیار بلند کر رہے ہیں صبر اور قناعت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر 361.345.349 شہادت امام حسین در اصل حضرت عثمان کی شہادت کا رہے ہیں تسلسل ہے 630 37 پس احمدیوں کو ہمیشہ صبر اور برداشت سے بغیر کسی خوف اسلامی تاریخ کا ایک دردناک واقعہ - شہادت امام حسین 629 کے ان تکلیفوں کو برداشت کرتے چلے جانا چاہئے 114 آنحضرت صلی ال نیم کا صبر اور صبر کی تلقین 232 شیطان 246 شیطان اور آدم کی جنگ تاریخ مذہب شیطان کا زور احمدیوں کو ان میں ایمانوں کو کمزور کرنے میں خوشیوں کی خبریں سنائی ہیں 258 پس صبر اور دعائیں کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے صحابة صرف ہو رہا ہے اور ایک احمدی کا فرض...434 شیعہ :شیعہ عقائد رکھنے والے کو بذریعہ خواب حضرت علی صحابہ رسول کا عظیم مقام نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کا بتلایا صبر بھی ایک عبادت ہے مبر : 308 115 466 صحابہ رسول جو دولتمند ہونے کے باوجو د دین کو مقدم رکھتے اور دین کی راہ میں بے انتہا خرچ کرتے کروڑہا کی جائیدادوں کا وارث ہونا 162

Page 727

خطبات مسرور جلد ہشتم 31 انڈیکس مضامین صحابہ کی زندگی میں انقلاب، ان پڑھ جاہل کہلانے والے احمد یہ جماعت پر ظلم پاکستان سے نکل کر بعض دوسرے باخدا انسانوں کی عظیم مثالیں بن گئے صحابہ کا یتیموں کی پرورش کے لئے جذبہ صحابہ کا خدا کی راہ میں تکلالیف اٹھانا اور صبر صحابہ کی زندگیوں میں آنے والا انقلاب 148 106 580 591 ممالک میں 624 مکہ کے مسلمانوں پر ابتدائے اسلام میں مظالم کی داستان 130 ایک دن یہ ظلم بھی اور ظالم بھی صفحہ ہستی سے مٹا دئے جائیں گے..495......ایک صحابی کا اس تلاش میں رہنا کہ مجھے کوئی گھر والا کہے کہ علم پر صبر خدا کے ہاں ایسا مقبول ہے کہ خدا خود اس کی واپس چلے جاؤ تو بغیر بر امنا کے واپس آجاؤں آنحضرت کے صحابہ کا صبر 402 596 عزت قائم فرما دیتا ہے 594 ہماری دعائیں انشاء اللہ رنگ لائیں گی جب ظالم اور ظلم صفحہ آنحضرت کے صحابہ کا علم و معرفت کے خزانوں سے مالا مال ہستی سے مٹ جائیں گے دھونی رمائے بیٹھنا 126 601 مظلوم " 522 72 630 ہونے کے لئے بھوک کی تکلیف سے بے نیاز ہو کر در پر عراق اور دیگر ملکوں پر ہونے والے مظالم قتل ہونے والا احیاء عند ربہم کا اعزاز پاتے ہیں 630 آنحضرت کے صحابہ نے اسلام کی تبلیغ کا حق ادا کر دیا 530 خدا اور اس کے رسول کے نام پر ظلم کرنے والوں کی صحابہ کی ماؤں کا عزم اور غیرت ایمانی...مذمت اور سخت عذاب کی وعید صحابہ کی زندگی بھی ہمارے لئے نمونہ اور اسوہ ہے 463 ظن: حسن ظن اور اس کی افادیت اور برکات 73 صحابہ حضرت اقدس کا مقام اور ان کے لئے دعا 382 شک اور ظن...فساد کی ابتداء کا باعث صحابہ حضرت مسیح موعود کا یقین اور توکل بدظنی سے بچنے کی حضور بہت تاکید فرماتے صحابہ حضرت مسیح موعود کے روحانی معیار اور مقام کی بابت عالم آخرت کی تفسیر و توضیح کچھ واقعات 77 64-61 دور اولین و آخرین کے اصحاب کی سیرت کے واقعات 366 صحابہ اور ان بزرگوں کے احسان کہ حق کو قبول کیا اور...ان کے خاندان والوں کی ذمہ داری 659 75 382 138 عائلی زندگی: خاوند اور بیوی کو عائلی زندگی کس طرح گزارنی چاہیے آنحضرت کی راہنمائی عبادت 592 صحابہ حضرت مسیح موعود کی خوش قسمتی اور ان کی پاکیزہ جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف عبادت 443 سیرت 641 عبادات اور مساجد میں حاضری صرف رمضان میں ہی نہ ہو 420 صدر انجمن احمدیہ کے ابتدائی ممبران میں سے 590 ہر احمدی اپنی عبادتوں کو ایسا بنائیں کہ توحید ہماری لمبی راتوں صدقہ مسلمان وہی ہے جو صدقات اور دعا کا قائل ہو 172 میں نظر آنے لگے صفات الہیہ : دیکھیں زیر لفظ ”اللہ“ مرکزی صنعتی بورڈ ط، ظ، ع، غ 314 560 کیا صرف رمضان کے آخری عشرہ میں ہی عبادت کرنا اور باقی سارا سال کوئی ایسی کوشش نہ کرنا حقیقی مومن بنا سکتی ہے؟ 442 عرب: دلیل سے مقابلہ کرنے سے عاجز آجانا اور...624 طاعون کا عذاب مسیح موعود کی صداقت کے طور پر 79 عذاب ظلم: آگ کے عذاب میں دکھ ، حسرتیں، مصیبتیں اور جنگیں ظلم کرنے والے کو انتباہ کہ....129 سب شامل ہیں 9

Page 728

خطبات مسرور جلد ہشتم 32 آگ کے عذاب کی مختلف شکلیں، پاکستان، کراچی، عہد بیعت اور اس کا خلاصہ افغانستان اور دوسرے ممالک......عہدیداران انڈیکس مضامین 513-508 187 آگ سے مراد صرف قیامت والے دن کی آگ نہیں بلکہ عہدیداران، نظام جماعت اور ذیلی تنظیموں کے فرائض اور طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن، فقر و فاقہ امراض دائرة عمل ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، رشتہ داروں کے ساتھ عہدیداران پر اعتراضات: چھوٹی چھوٹی باتوں پر معاملات میں الجھن وغیرہ اعتراضات اور ان کا نقصان 11 علاج : روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے خدا کے پیدا کردہ عیسائیت سامان اور انبیاء کی بعثت 229 506 عیسائیت جس کی بنیاد توحید کی بجائے تثلیث پر 428 اللہ تعالیٰ کا جسمانی بیماریوں کے علاج کی طرف رہنمائی اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو نصیحت کہ دلائل اور علمی بحث طریق علاج میں ترقی علماء آجکل کے علماء تقویٰ سے عاری 229 78 کریں اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا خیال کریں 430 آج کل کے عیسائی خطرناک عقائد اور سزا کا مورد بننے والے 496 عیسائی عقائد ، ابتداء توحید پر مبنی ہے نہ کہ تثلیث پر 496 فرستادے کے زمانے میں مخالفین علماء کی دینی اور روحانی عیسائیت جب تک اصلی حالت میں قائم رہی اس کی حفاظت کرنے والے نوجوان تھے اور خدا تعالیٰ کا کا ان پر اظہار 452 241 خوشنودی 496 حالت ختم ہو جانی ہے اسلام کی حالت اور علماء کا مذموم کردار عوام میں گہری جڑھیں رکھنے والے یا عرب ملکوں کی پشت ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ عیسی صلیب سے بچ گئے تھے اور کشمیر، محلہ خانیار میں دفن ہیں...مسیح کی صلیب سے زندہ بچ جانے کے بارہ میں حضرت مسیح پناہی یا مغربی ممالک کی اشیر باد...کوئی کام نہیں آئے گی 537 عورت موعود کی تحریرات 209 210-209 عورت کے اسلام میں حقوق.عورت کی عزت اور احترام عیسائیت کے خلاف حضرت مسیح موعود کا کامیاب جہاد اور 196 168 اور حقوق کا سب سے بڑا علمبر دار اسلام ہے عیسائی پادریوں کا اعترافِ شکست...عورتوں کی ذمہ داریاں: گھر کی نگرانی، بچوں کی تربیت...اسلام پر کمزوری اور ضعف کا زمانہ ، عیسائیت کا فروغ اور مردوں سے بھی زیادہ....عہد 513 عہد اور وعدوں کی پاسداری کی اہمیت اور آنحضرت کا اسوہ 421 جان مال وقت کی قربانی کا عہد اور لاہور کی جماعت 577 مسیح موعود کی بعثت 168 غریبوں کی حقارت اور نفرت سے بچنے کی تعلیم 72 غم : ہمارا رونا اور ہمارا غم خدا تعالیٰ کے حضور ہے اور اس میں کبھی کمی نہیں ہونے دینی چاہیے 260 عہد شکنی معاشرے کا امن برباد کرنے کا باعث 422 اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا اپنا غم خدا کے حضور پیش کر عہد بیعت کے تقاضے، خدا اس عہد کے بارے میں ہم سے دیا.اس کے فیصلے کے انتظار میں ہیں پوچھے گا 163 عہد بیعت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے وار جگالی کرتے رہنا چاہیے 164 غیبت کے نقصانات ف،ق، ک،گ 261 74 فتنہ مستریاں کے وقت حضور کے لئے کسی کا دعا کرنا اور 62

Page 729

خطبات مسرور جلد ہشتم 33 انڈیکس مضامین فرائض: ایک استاد کے فرائض اور پاکستان کے سکول و کالجز میں حضرت مسیح موعود کی دشمنی میں قرآن میں تحریف کا دعویٰ احمدیوں کے بارہ میں استادوں کا رویہ جو اسلام کی بنیادی تعلیم کے اور خدا کا اس پر سزا دینا.623 155 قرآن ایک روحانی مائدہ جس کی کوئی مثال نہیں.آنحضرت 125 بھی خلاف ہے.یہ لوگ پڑھے لکھے جاہل ہیں...فرعون یہ ظلم یہ فسادیہ سرکشیاں عارضی ہیں بڑے بڑے کو دیا جانے والا علمی اور روحانی خزانہ فرعون پہلے ہوئے لیکن سب ختم کر دئے گئے 523 قرآن کریم روزانہ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے 513 ایسے فرعونوں سے ہمیں نجات بخشے جو طاقت کے نشے میں قرآن حق کی تبلیغ کا حکم دیتا ہے اور کسی جبر کی تعلیم نہیں 429 احمدیوں پر ظلم روا ر کھے ہوئے ہیں جنگ اور فساد ہمارا مقصد ہی نہیں ہے فضل عمر فاؤنڈیشن 473-472 522 269 قرآن حقیقی برکات کا سر چشمہ قرآن کریم کی بعض دعائیں 430 قربانی (مالی قربانی کے لئے دیکھیں انفاق فی سبیل اللہ ) 139 قربانیوں کی عظیم مثالیں.جو قائم کرنے والے لوگ اور ٹی وی یا انٹرنیٹ کے ذریعہ بیہودہ فلمیں روشن خیالی کے نام مائیں.اے احمدی ماؤں! اس جذبے کو اور ان نیک پاک پر دیکھنا اس کا بھیانک انجام، دماغ اور آنکھ کا زنا ہے 193 جذبات کو کبھی مرنے نہ دینا...فیس بک 263 ہر پیچھے رہنے والا احمدی ان قربانی کرنے والوں کی قربانی کی فیس بک کی قباحتیں جس کی وجہ سے احمدیوں کو اس کے لاج رکھے اور آنحضرت کے نام کی عظمت کو دنیا میں قائم استعمال سے روکا گیا تھا.681 288 کرنے کی ہر ممکن کو شش کرے گا.جماعتی طور پر فیس بک جاری کرنے کے بارہ میں زیر تجویز 681 احمدیوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں احمدیت کی ترقی 131 حضور کے نام پر کسی کا فیس بک بنانا آپ کا اس سے لا تعلقی قرض: خدا تعالیٰ کا قرض لینا اور اس کی حکمت اور برکات 18-19 اور لاعلمی کا اظہار اور اسے بند کرنے کا ارشاد قبروں پر دعائیں مانگنا وغیرہ شرک 681 558-557 کردار میں نیک تبدیلی کرے کاروباری شراکت، قرض، آپس کے تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی نصیحت قتل: کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا جہنم 238 قناعت احمدیوں کو قتل کرنے پر اکسانا...238.265 678 اپنے اندر صبر ، قناعت، زہد اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں 37 مسلمانوں کا جینو سائیڈ (Genocide) بڑے وسیع پیمانے قناعت شعار ہونا ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری 545 پر کیا جانے والا قتل عام قرآن قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے 174 31 کتب کتب حضرت اقدس کی عظیم الشان احمدیت.تمام ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کے سپر د روحانی خزائن سے فیض قرآن کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین 49 اٹھانے کے پروگرام بنانے کی تلقین 134 ایک غیر احمدی مولوی (نظام الدین) کا آیت انی موفیک...کتب مسیح موعود کا مطالعہ ایک واقف زندگی کے لئے جامعہ میں تقدیم و تاخیر کے مطابق علماء کے مشورے سے قرآن کے دوران اور بعد میں بھی انتہائی ضروری ہے 545 طبع کروانے کا منصوبہ اور پریس والوں کے انکار پر خود یہ زمانہ کتابیں پھیلانے کا زمانہ ہے، حضرت مسیح موعود نے روحانی پریس پر لیس لگا کر ایسا قرآن شائع کرنے کا منصوبہ اور طاعون کا خزائن کا ایک بے بہا سمندر ہمارے لئے چھوڑا ہے شکار 155 530

Page 730

خطبات مسرور جلد هشتم 34 انڈیکس مضامین کتب حضرت مسیح موعود ایک خزانہ ہے اور اصلاح کا باعث 680 گالیاں: ایک اخبار کا گالیاں دینے کی شکایت کرنے پر انٹرنیٹ ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ قرآن کریم، اسلامی حضرت مسیح موعود کا فرمان صبر کرنا چاہیے ان گالیوں سے کیا لٹریچر اور حضرت مسیح موعود کی کتب اور ذرائع کو بروئے ہوتا ہے کار لاتے ہوئے اسلام کی تبلیغ اور دفاع کربلا 530 608 گرنیڈ: ایک نوجوان کا اپنے ہاتھ پر گرنیڈ لے لینا کہ باقی نہ زخمی ہوں 286 واقعہ کربلا پر جذبات کا سب سے بہترین اظہار کثرت سے گناہ: ”بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ درود شریف پڑھنا کشکول 637.636 گناہوں سے پاک ہو جاوے“ 421 لاٹری: لاٹری اور اس کے ٹکٹ خریدنا یہ بھی حرام ہے احمدیت کے ہاتھوں میں کشکول پکڑوانے اور احمدیت کو اور شیطانی کام کینسر کہنے والے....ان کے نام و نشان مٹ گئے...626 لجنہ اماء الله کفارہ.ایک لعنتی موت کفن مسیح کی زیارت کفن مسیح اور اسکی تاریخ کفن مسیح کو غلط ثابت کرنے کی ایک رو کلمه طیبه 7 205 209 211-205 مسلمان جو کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھے وہ مسلمان ہے 236 احمدیوں کو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے کے باوجود قتل کرنا..237 71 انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی اہمیت اور ذمہ داریاں 505 574 وہ لجنہ برطانیہ کا تحریک جدید میں نمایاں حصہ لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں.193 لڑائی: دین کی خاطر لڑائیوں سے ہمارے امام نے ہمیں روک دیا ہے ليلة القدر 522 احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لا الہ الا لیلتہ القدر کی غیر معمولی برکت اور اہمیت 442-450 اللہ کے معنی سمجھ کر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے 244 لیلتہ القدر صرف آخری عشرہ کی عبادت ہی کافی نہیں 443 لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفی ہے “444 کلمہ کی خاطر پاکستان میں احمدیوں پر مظالم اور جیل اور شہادت 244 235 لیلتہ القدر کی قدر کنا اور اس کا طریق کہ ایسی تبدیلی آئے 446 لیلۃ القدر کے ایک دوسرے وسیع معانی مصلح کی بعثت کا 447 ہر احمدی یاد رکھے یہ کلمہ ہے جس کی بڑے، بچے، مرد، زمانہ عورت نے حفاظت کرنی ہے کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے دو گروہ یزیدی مایوسی غیروں کا کام ہے.ہم تو مہدی آخر الزمان کو ماننے اور دوسرا مظلوم کمپیوٹر AACP جماعت کی کمپیوٹر ایسوسی ایشن کینر 629 287 مایوسی والے ہیں...663 اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو مایوسیوں اور شرک خفی سے بچائیں 667 متلقین / معلمین جو دنیا بھر میں کام کر رہے ہو 541 احمدیت کے ہاتھوں میں کشکول پکڑوانے اور احمدیت کو بعض مبلغین کی قربانیوں کا قابل رشک قناعت اور نمونہ کینسر کہنے والے ان کے نام و نشان مٹ گئے.626 اور تذکرہ 546

Page 731

خطبات مسرور جلد ہشتم 35 انڈیکس مضامین 239 مجالس: اللہ ہو کی مجالس اور اذکار کی مجالس بے شک پاکیزہ موعود کی تکذیب...ان کو تنبیہ ہیں لیکن جب حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو پھر شیطان کی اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اپنے بندے کی مدد کرے گا اور اس کے دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا539 562 طرف لے جاتی ہیں مجذوب : بعض مجذوب اور دیوانوں کا مسیح موعود ہونے کا دعوی مردد : کمزور بھائی کی مدد کرنے کی تعلیم کرنا اور ان کی پشت پناہی کرنے والے منافقین کا گروہ 62 محاسبه: روز مرہ خود اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت 143 72 مدرسہ احمدیہ کا اجراء اور حضرت مسیح موعود کی خواہش 552 مذہب کے نام پر خون بہانے والے اور اس کا سبب زمانے کے امام کا انکار 452 خدا تعالیٰ کے نزدیک روز کی ڈائری بن رہی ہے اپنا ہر روز مذاق میں بھی ایسی بات نہ کریں جو کسی کے دل پر چوٹ محاسبہ کرنا چا ہے....محرم 137 لگاوے مربي محرم کے مہینہ میں درود شریف پڑھنے کی خلیفہ رابع کی ہر مربی خلیفہ وقت کا نمائندہ ہے 636 153 551 مرہم عیسی کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا ذکر 209-210 تحریک اور اس کا دوبارہ اعادہ مخالفت / مخالفین مخالفین کی عارضی خوشیاں جلد حسرتوں میں بدل جائیں مستقل مزاجی: اپنے مقاصد کے حصول کے لئے الہی جماعتوں کو 628 ایک خاتون کا مریم شادی فنڈ میں زیور دینا گی.یہ اللہ کا وعدہ ہے ضرور پورا ہو گا آج بھی انشاء اللہ مخالفتوں کی آندھیاں دعاؤں کی وجہ سے مساجد ہی مخالفین پر الٹیں گی...مخالفین احمدیت سے ہمدردی کا جذ بہ..626 235 مستقل مزاجی سے ہر ہر وقت جھکے رہنے کا حکم مساجد کی تعمیر کا مقصد...خدا کی عبادت تعمیر مساجد کی غرض اور دعائیں 393 580 485 588 کیا یہ مخالفین احمدیت کو ختم کر دیں گے؟ ہر گز نہیں اور مساجد کی تعمیر اور ہماری ذمہ داریاں اور افراد جماعت کی مالی نہ یہ کر سکتے ہیں ہاں ان کو ضرور اللہ کی پکڑ عذاب کا مورد بنا قربانیاں...دے گی 252 488 افریقہ میں تربیتی، تبلیغی اور مساجد کی تعمیر کے واقعات 21 یہ لوگ مخالفتیں کریں، یا جتنا بھی زور لگانا ہے کسی بھی رنگ میں افریقہ کے بعض مخیر دوستوں کا اپنے اموال سے بڑی 569 لگائیں.یہ سب مخالفیتیں ایک دن ان مخالفین پر ہی لوٹائی جائیں خوبصورت مساجد بنا کر جماعت کو پیش کرنا امریکہ اور برطانیہ میں تعمیر مساجد کی طرف توجہ 25 مسلمان 234 گی...خدا کی اس لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے مخالفتیں ترقی کے راستے دکھاتی ہیں اور کھاد کا کام دیتی ہیں 233 احمدیت کی مخالفت اور خدا تعالیٰ کا تبلیغ کے راستے کھولتے مسلمان بھی اپنی رہنمائی کے لئے اس رہنما کو تلاش کریں جو چلے جانا.498 مبعوث ہو چکا حضور کا دردمندانہ پیغام 430 احمدیت کی مخالفت.ہمیں اللہ کے فضل سے کوئی مایوسی مسلمان جو زمانے کے امام کو نہ ماننے کی صورت میں بے لگام نہیں...499 ہو رہے ہیں 429 احمدیت کے مخالف مولوی اور سیاستدان، جن کی روٹی مسیح مسلمانوں کا احمدیت کی مخالفت اور ان کی ہدایت کی دعا437

Page 732

36 خطبات مسرور جلد ہشتم انڈیکس مضامین مسلمانوں کو زبر دستی عیسائی بنانے کی ایک تاریخ 174 مردان کی ایک مخلص فیملی جن پر 20 جماعتی مقدمات 587 مسیح محمدی کی جماعت کو خوف دلانے کی کوشش اور ہمارے مخالفین (رشتہ داروں) کا دیوار کھڑی کرنا مقدمہ کرنے پر حضرت مسیح موعود کا ان کو معاف کرنا اور 616615 ملک کی بقا کے لئے دعا کرنا ہمارا فرض ہے جواب اور رد عمل مسیح موعود: نیز دیکھیں مہدی 113 266 اللہ کی طرف سے حضرت مسیح موعود سلامتی اور امن کی ضمانت بن منارہ المسیح کی تعمیر اور بعض لوگوں کے اعتراض پر حضرت اقدس 91-90 کا فرمانا کہ..610 کر آئے اور آپ کی طرف سے اس کا اظہار کاش یہ لوگ ہم سے پوچھیں کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ کیا مینار: بے شک میناروں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں لیکن یہاں اب ہے ؟ علماء کا عوام کو دور غلانا...431 اسلام کی عزت کا سوال ہے.196 اللہ کا وعدہ ہے کہ آخری فتح اسلام کی ہے اور اس کی تکمیل مسجدوں کے مینار نہ بنانے کے خلاف ایک بھر پور مہم کی ضرورت کے لئے مسیح موعود کی بعثت اور ہماری ذمہ داریاں 163 اور رہنمائی مسیح موعود کی اطاعت میں گھر رشتہ داری اور قرابت اور مناظرہ: آج بھی مخالفین کوٹی وی پر مناظرے کا کہا جاتا ہے تو وہ تعلقات روک نہ بنیں 197 بھاگ جاتے ہیں پا 82 196 حضرت مسیح موعود سے ایک کا دعا کی درخواست کہ ایک مولوی موبائل فون میں میوزک بھرنے والوں کے لئے ایک مدرس بڑی تکلیف دیتا ہے دعا کریں کہ اس کا تبادلہ ہو جائے اور سبق کہ نظمیں بھریں آپ کا جواب 583 مولوی 343 اعتراض کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو خدا کہتا ہے.376 ایک مولوی کا قرآن ہاتھ میں لے کر وعظ کرنا کہ مرزا کوڑھی ہو اعتراض کہ اولیاء تو سادہ غذا کھاتے تھے مرزا صاحب پلاؤ گیا.قادیان جا کر دیکھنا اور احمدیت قبول کر لینا 370-372 مولویوں کا جھوٹ بولنے کی فطرت اور زردہ کھاتے ہیں......373 مسیح موعود کی تصدیق بذریعہ خواب 371 مولویوں کا جھوٹ بولنے کا شیوہ آج کل پاکستان میں میڈیا ایک دوست ( منور احمد شہید کا شیعہ عقائد کی طرف مائل بھی ان کے ساتھ شامل......اے بد فطرت ملاؤ! تم جو..373 373 437 ہونا اور حضرت امام حسین اور حضرت علی کا خواب میں آکر مولوی اس زمانے کے دجال...حضرت مسیح موعود کی صداقت کا بتانا 308 خواب میں آنحضرت کی شبیہ مبارک پر حضرت اقدس کو بعض لوگوں کا کہنا کہ ملاؤں کو مخاطب کر کے کہنے کاسے وہ ا 369 زیادہ بھڑکتے ہیں اور جور کا جواب 437 دکھایا جانا اور قبول احمدیت خواب که امام مهدی آخر الزمان آگیا ہے.قادیان جانا اور ایک مومن تبھی حقیقی مومن نبھی کہلا سکتا ہے جب جس تفصیلات 377 ملک میں رہ رہا ہے جس کا شہری ہے اس کے لئے بھی دعا کر دعا کرنا کہ حضرت مسیح موعود سچے ہیں کہ نہیں تو خواب میں رہا ہو.آنحضرت صلی علم کی زیارت.....اور 652 پختن پاک لفظ پر احمدیوں پر ایک مقدمہ 318 مقدمات میں جھوٹ اور عہد شکنی کرنے کی برائی 422 5 ایک مومن کی زندگی مسلسل جدوجہد ، تقویٰ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ....مہاراجہ کشمیر مہدی نیز دیکھیں مسیح موعود 7 88 کلمہ کیس، سات سال تک مقدمہ چلتا رہا 283 امام مهدی 305

Page 733

خطبات مسرور جلد هشتم 37 انڈیکس مضامین امام مہدی کا خزانے تقسیم کرنا اور مسلمان اس کی طرف ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا...اس کے بعد بھی ہم دنیا داری 133 توجہ نہ کریں گے تو محروم ہو جائیں گے امام مہدی علی طور پر آنحضرت سے مشابہ ہو گا اور اس کی میں پڑکر رسم و رواج یا لغویات کے طوق اپنی گردنوں میں 52 جماعت صحابہ کی جماعت سے مشابہ ہے امام مہدی.مسیح موعود آنحضرت کے عاشق صادق ڈالے رہیں گے تو ہم عبادتوں کا حق ادا نہیں کر سکتے 39 اے سعادت مند لو گو تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل کی آمد 33 امام مہدی کو ماننے والے کے لئے خوشخبری اور فکر بھی 33 ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے مہمان / مہمان نوازی جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت...ایک مہمان یہودی کا بستر گندا کرنا اور...384 388 نظم: 504 ایک ہندو کا نظم لکھنا کہ مسلمان بھی قبروں پر جاتے ہیں 558 نظام / نظام جماعت ایک صحابی کا کھانا مہمان کو دے دینا اور خود چراغ بجھا کر...388 نظام جماعت سے مضبوط تعلق اپنے فائدہ کے لئے ہے 18 جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو فعال پر اگرام بنانے کی بغدادی شدید معاند اور حضرت کو گالیاں دینے والا...اور ضرورت ، تربیت کے سلسلہ میں مہمان نوازی ہدایات 392 396 396 199 نظام جماعت کی پابندی ضروری ہے، جماعت احمدیہ کی خوبصورتی مہمان نوازی کے طریق اور آداب و اطوار تو نظام جماعت ہے یہ بھی خلافت کا بنایا ہوا ہے 194 مہمان جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے نصائح اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ اور میڈیا وغیرہ کے ذریعہ برائیوں کا پھیلنا، میڈیا پر نظر رکھیں جماعتی نظام کی ذمہ داری 193 مہمان کو میزبان کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہیے 400 بچوں کی اصلاح اور نظام کا حصہ بنائے رکھنے کی افادیت.میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سب و جماعت سے جڑنے میں ہی بقا ہے شتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے...نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام، اپنی تنظیموں کے مہمانوں کے ساتھ حضور کا باسی روٹھیاں کھا لینا اور فرمانا کہ ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی باسی کھالینا سنت ہے نبی 612 649 تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے 507 193 نبی اور اس کے ماننے والوں کی مخالفت اور اس کا تاریخی نظام وصیت: حقیقی آمد سے چندہ ادا کرنے کی توقع 13 مذہبی پس منظر 232 انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی مخالفت اور انجام 110 انبیاء کی مخالفت کرنے والوں کا انجام انبیاء کی بعثت اور مخالفت 217 246 انبیاء اور ان کی جماعتوں کا مقصد کیا ہوا کرتا ہے؟ 115 ایک موصی اور اس سے توقعات نعمت 14-13 زمانے کی امام کی بیعت جس کو آنحضرت نے سلام بھیجا...اس نعمت کی قدر کرنا ایک اعزاز ہے.191 نفل: کم از کم دو نفل جماعت کی ترقی اور مظلوم احمدیوں کے کبھی کوئی طاقتور بادشاہ، کوئی فرعون، کوئی سر براہ انبیاء کے لئے ادا کرنے کی تحریک 623، 627 حضرت مسیح موعود کا ایک وقت کم از کم دو نفل اپنے اوپر کاموں کو روک نہیں سکا 233 فرض کرنے کی تحریک فرمانا 627

Page 734

خطبات مسرور جلد ہشتم 38 انڈیکس مضامین نقرس کا بیمار حضرت حضور کے پاؤں پر پاؤں آنے سے تمام احمدی نوجوانوں نے دو طرفہ محاذوں پر اپنا کر دار ادا کرنا ہے.نفس کی اصلاح اور اسلام کے خلاف مہم میں حصہ درد جاتا رہا.نماز نمازوں کے قیام کی اہمیت نماز کی اہمیت اور افادیت نماز....اس سے دنیا اور دین سنور جاتا ہے 380 194 68 69 227 627 لے کر اسلام کا دفاع 503 آج مسیح محمدی کے ماننے والے نوجوان بھی ایک عجیب تاریخ رقم کر رہے ہیں..502 نواجوان شہید کا گویا کہا: ”ہم تو جارہے ہیں لیکن احمدیت کی حفاظت کا بیڑا اب آپ کے سپر د ہے ہمارے خون کی لاج رکھ لینا...288 نمازوں کی پابندی اور باقاعدگی کی اہمیت دعاؤں کا ٹھیک محل نماز ہے فجر اور عشاء کی نماز پڑھنے مسجد میں آنے والے کو نور کی بشارت 44 نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح ہر احمدی کو نمازوں کو قیام کی نصیحت اور خصوصاً عہدیداران جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے 193 143 کو کہ وہ نمونہ قائم کریں نماز اور عبادات کے قیام کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت 182 مسیح محمدی کے خدام تمام دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں 503 نور اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دعاء راتوں کی نمازیں پڑھنے اور دوسری نیکیاں کرنے کے باوجود حالات نہ بدلنا....اور اس کی وجہ اور علاج 128 عبادات اور فرض نمازیں...46 مرد اور عورت میں نیکیوں کے معیار حاصل کرنے کی ایک اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور پابندی کریں 222 نمازوں کا قیام اور طلباء جامعہ احمدیہ و مربیان کے لئے خاص طور پر توجہ 545 دوڑ ہونی چاہیے.514 والدین: والدین کی ذمہ داری اپنے گھروں اور بچوں کی نمازوں کا قیام اجتماعات اور ڈیوٹی کے دوران بھی خاص نگرانی کریں پیار سے حضرت مسیح موعود کی تعلیمات اہتمام کرنے کی نصیحت بلاناغہ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کا التزام نمازوں کی طرف توجہ بر قرار رکھنے نصیحت اپنی نمازوں میں خوبصورتی پیدا کریں 500 511 433 627 سے آگاہ کریں.....واقفین نو کا سلیبس والدین کی ذمہ داری 198 543 والدین کی ذمہ داری کہ وہ تربیت کریں اور پیدائش سے پہلے بھی دعائیں کریں 542 اپنے کاموں کی خاطر نمازوں کو قربان کرنا بھی ایک قسم کا ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور شرک 192 تعاون کرنا چاہئے.اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں تسبیح کے ذکر کے ساتھ نماز کورکھنا اور اس میں حکمت 227 گے تواپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے 193 وصیت / موصی قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے 13 نمونہ : نیز دیکھیں ” اسوہ “ ہر احمدی آنحضرت کا نمونہ پکڑتا ہے صبر کا نمونہ...620 وطن نوجوان فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ میں قیام اور اس کو اپنا وطن ثانی اسلام کے خلاف مہم میں اسلام کا دفاع کرنے کے لئے قرار دینا 407 نوجوانوں کا خصوصی کردار ادا کرنے کی نصیحت اور ایک احمدیوں میں ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر منظم لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت 503 بھرا ہوا ہے اور اس کی مثال 361

Page 735

خطبات مسرور جلد ہشتم 39 انڈیکس مضامین ہمیں نہ تو پاکستان کے حکومتی معاملات سے کوئی دلچسپی ہے وقف زندگی اور نہ دنیا کے کسی بھی ملک کی حکومت سے وظائف 518 واقفین زندگی کی بیویوں کو نصیحت قناعت پیدا کریں 552 546 ہر احمدی ملک سے وفا اور محبت کا تعلق رکھتا ہے.518 بحیثیت واقف زندگی جہاں بھیجا جائے تعمیل کرنی ہے اور یہی 65ء کی جنگ کے ایک احمدی فوجی.طیارے کا ہم لوڈر خراب ہوا وقف کی روح ہے تو اپنے کندھوں پر رکھ کر بم لوڈ کرنے والے ملک کے محافظ 299 حضرت مسیح موعود کس قسم کے واقفین زندگی چاہتے تھے 544 واقف زندگی کی بیوی بھی واقف زندگی ہوتی ہے 393 وقف زندگی کا نظام اس کی ذمہ داریاں اور تقاضے 540-555 ہر خواہش کو دبانا اور مطالبے سے اجتناب وقف زندگی کا نصب العین وظائف اور ان پر زور دینا بھی بدعت بن جاتا ہے 561 ایک بزرگ کا قصہ جن کی ہمشیرہ بہت عبادت گزار تھیں لیکن ورد اور وظائف پر توجہ دینا شروع کر دیا اور اس کا نقصان بہت ضروری ہے 561 456 548 وفا کا مظاہرہ جو ہر واقف زندگی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے 551 وقف نو خدا تعالیٰ سے کسی صورت بھی بے وفائی نہیں کرنی 195 واقفین نو کے سلسلہ میں بعض انتظامی ہدایات.جامعہ کے علاوہ خدا کے فرستادوں کے ساتھ اخلاص اور وفا کا تعلق پیدا کرنا مختلف فیلڈز میں جائیں.مرکز سے مشورہ کرتے رہیں.پندرہ سال کے بعد فارم خود پر کریں.تعلیم مکمل کر کے پھر دوبارہ لکھیں کہ ہر احمدی ملک سے وفا اور محبت کا تعلق رکھتا ہے...518 وقف جاری رکھنا ہے.رپورٹ مرکز بھیجیں.سلیبس کو پڑھنا اور وفات مسیح: وفات و حیات مسیح پر مولوی رشید احمد گنگوہی امتحان، ہدایات، الگ درخواست کے مرید سے بحث اور اس کا گفتگو ترک کر دینا 83 پندرہ سال کے بعد فارم خود پر کریں کہ وقف قائم رکھنا ہے حضرت اقدس کا وفات مسیح وغیرہ کا دعوئی اور مولویوں کی یا نہیں اور اب میں یہ راستہ بھی کھول دیتا ہوں کہ تعلیم مکمل طرف سے کفر کے فتوے...370 کر کے دوبارہ لکھیں...وفات مسیح پر مرزا صاحب یا ان کے مریدوں سے بحث وقف نو کے لئے علیحدہ خط لکھا کریں...652 551 واقفین نو کی کل تعداد چالیس ہزار واقفین نو کا سلیبس والدین کی ذمہ داری کرنے سے منع کرنا و قار : مربی اور مبلغ کا ایک وقار ہے عاجزی، انکساری اور وقار ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہیے 545 وقف نو کا مرکزی دفتر لندن وقت 552 553 554 552 543 543 نظارت تعلیم قادیان کے تحت وقف نو کا شعبہ 543 کھانا کھانے یاد عوتوں کی مجالس کے آداب، وقت کا ضیاع نہ ہو 397 وکالت وقف نور بوہ وقف جدید 543 والدین کی ذمہ داری کہ وہ تربیت کریں اور پیدائش سے 542 پس منظر ، اور اس کی عالمگیر وسعت اور ترقیات 15 پہلے بھی دعائیں کریں وقف جدید کے چندوں اور کاموں میں وسعت 20 واقفین نو کی سکیم اور اس کے تقاضے اور ہدایات 542-544 وقف جدید چندوں کی ادائیگی کا گوشوارہ ولیمہ ضروری نہیں کہ وسیع پیمانے پر دعوت ہو 36 وقف جدید میں چندہ ادا کرنے والوں کی کل تعداد...راد...27 وہابی حضرت اقدس کو وہابی کہنا اور آپ کا فرمانا 392 25

Page 736

خطبات مسرور جلد هشتم ویب سائٹ 40 ہیومینٹی فرسٹ انڈیکس مضامین Alislam.org جماعت کی ویب سائٹ کے لئے والنٹیئرز Humanity First کی پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ اور اس میں کام کرنے والے ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب لوگوں کی خدمت اس کے انچارج اس میں مزید بہتری کی طرف توجہ 409 یا جوج ماجوج کا ذکر اور اس سے مراد...اس میں نمایاں خدمت کرنے والے حبیب الرحمن صاحب 439 یتیم اسلام کے خلاف مختلف ویب سائٹس کا جوابات دینے کے یتیم کی پرورش کی اہمیت لے نوجوانوں کو خصوصی کردار ادا کرنے کی نصیحت 503 قیموں کے حقوق اور حسن سلوک 520 538 102 99 ویب سائٹس پر جوابات دینے کے لئے ٹیموں کا کام اور ان یتیم کے پالنے کو وسائل نہ ہوں تو نظام جماعت سے رجوع 531 106 کی ذمہ داری..کرنے کی ہدایت Alislam.org ویب سائٹ پر روحانی خزائن سرچ انجن 680 جماعت احمدیہ میں عالمگیر پیمانے پر یتیموں کی پرورش کا نظام 108 رشین ڈیسک کے ذریعہ ایم ٹی اے پر رشین پروگرام اور ویب سائٹ کا آغاز و قیام 679 ہتھیار : اللہ کے حضور جھکتے چلے جائیں.یہی ہتھیار ہیں جو ہماری فتح کے ہتھیار ہیں ہماری فتح کا ہتھیار دعائیں ہی ہیں 625 625 166 131 431 ہجرت ہجرت کے فوائد اور برکات ہدایت کے راستوں کے لئے رہنمائی ہمدردی پریس اور پاکستان پریس کا دنیا بھر کی حکومتیں، پارلیمنٹس کا شکریہ جنہوں نے ہمدردی کا اظہار کیا خالفین احمدیت سے ہمدردی کا جذ بہ...265 235 ایک ہندو کا کہنا کہ ”مہاراج مرزا تو کوئی دیوی کا روپ ہے“ 56 بالووین Halloween کی رسم اور اس کے برے اثرات یہ ایک بدعت ہے جو شرک کے قریب کر دیتی ہے اس کا تاریخی پس منظر.ضروری ہے کہ احمدی بچے بھی اس سے بچیں 562 Halloween رسم کا دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل جانا 564

Page 737

خطبات مسرور جلد ہشتم 41 انڈیکس اسماء آنحضرت صلى العالم آنحضرت کا نور ہونا اور اس کی اہمیت 3 اسماء آنحضرت کا پیغام اور اسوہ ہمارے لئے یہ ہے کہ اپنے دکھوں کو بھول کر انسانیت کی خدمت کرو 519 انسان کامل ایک ہی تھا جو صرف اور صرف آنحضرت کی آنحضرت کا تسبیح و تحمید کرنا اور اس کے طریق سکھلانا225 54 آنحضرت کا جذبہ شکر ذات ہے آنحضرت صلی علیم اور آپ کے صحابہ میں بے آنحضرت اور آپ کے جذبات تشکر و شکر تکلفی 401 آنحضرت کا مہمان نوازی کا خلق آنحضرت اور آپ کے صحابہ پر ظلم و ستم و 407 232 224 388 آنحضرت صلی علم کو لوگوں کامذ مم کہنا اور آپ کا فرمانا کہ میرا نام تو اللہ نے محمد رکھا ہے 608 آنحضرت اور آپ کے صحابہ پر ظلم و ستم اور کفار کے ساتھ کوئی احمدی ایک لمحہ کے لئے بھی سوچ نہیں سکتا کہ نعوذ باللہ جنگیں.ہمیشہ فرشتوں کی ایک فوج ساتھ تھی 247 حضرت مسیح موعود کا مقام آنحضرت سے بڑھ کر ہے 54 آنحضرت اور آپ کے صحابہ کے ذریعہ اسلام کے پھیلنے کی آنحضرت کی ایک صحابی کے رزق میں برکت کی دعا اور ایسی قرآنی پیشگوئی اور مسیح موعود کی آمد کی پیش گوئی 527 برکت پڑنا کہ مٹی کو ہاتھ لگاتے تو سونا بن جانا 126 آنحضرت کی بیاں فرمودہ بعض دعائیں 475،477 آنحضرت اور دعوت الی اللہ آنحضرت توحید کے عظیم علمبر دار 227 558 آنحضرت کی زندگی میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں آنحضرت جو ایک نور کامل اور صحابہ کی زندگیوں میں وہ نور اسلام کی ترقی اور اشاعت بھر دیا 32 2 46-45 382 آنحضرت جو سراپا نور تھے آنحضرت صلی الله خاتم الانبیاء کا اعلیٰ وارفع مقام.ہزاروں درود و سلام اس پیارے نبی پر جن کے ساتھ جڑنے سے دنیا بھی سنورتی ہے اور عاقبت بھی سنورتی ہے آنحضرت سے حضرت اقدس کی محبت آنحضرت صدقہ و خیرات کے ادا کرنے میں آپ بے انتہا سخی تھے آنحضرت قیامت تک کے انسانوں کے لئے نبی ہیں.اب تا قیامت کوئی شرعی کتاب والا نبی نہیں 426 417 117 آنحضرت کی قوت قدسیہ کی بدولت ایک نیک انقلاب 591 آنحضرت صلی اسلام کے خد و خال اور حلیہ مبارک کے بارہ میں احادیث 43 596 آنحضرت کے صحابہ کا صبر آنحضرت کے صحابہ کا علم و معرفت کے خزانوں سے مالا مال ہونے کے لئے بھوک کی تکلیف سے بے نیاز ہو کر در پر دھونی رمائے بیٹھنا 126 آنحضرت کے صحابہ نے اسلام کی تبلیغ کا حق ادا کر دیا 530 آنحضرت کے مجاہدات اور عبادات غارِ حرا میں ریاضتیں 463 ہم آنحضرت جیسے عظیم رسول کو ماننے والے.ہم اپنے خدا کو چھوڑ کر.مخالفین کی حیثیت کوڑی کی بھی نہیں 620 آنحضرت کا ارفع و اعلیٰ مقام اور کمالِ نور حضرت اقدس مسیح آنحضرت جو کامل تھے اور ہدایت لائے اس کو تمام دنیا میں موعود کے ارشادات کی روشنی میں پر معارف اور لطیف تشریح 41 پھیلانا اب جماعت احمدیہ کے سپرد آنحضرت رحمت عالمین آنحضرت کے صحابہ کا علم و معرفت کے خزانوں سے مالا مال 572 426 ہونے کے لئے بھوک پیاس کی تکلیف سے بے نیاز ہو کر در پر آنحضرت کا اپنی والدہ کے رویا کا ذکر کرنا کہ میرے اندر سے دھونی مارے بیٹھنا 126 ایک نور نکلا ہے 42

Page 738

خطبات مسرور جلد ہشتم 42 انڈیکس اسماء آنحضرت صلیلی کیم کار مضان کی عبادت میں اہل خانہ کو شامل قریش کا حضرت ابو بکر کو مارنا اور تکلیفیں پہنچانا 598 فرمانا 444،445 ابو بکر حضرت کا سارا مال لے آنا 579 632 آنحضرت کی دعا / حديث اللهم ارزقني حبك 558 آپ کا آنحضرت کے نواسوں کو پیار کرنا آنحضرت کی عبادت کے معیار اور اخلاق فاضلہ اور حقوق ابو بکر گائی، ڈاکٹر الحاج.گیمبیا کے منسٹر آف ہیلتھ ان کی العباد کی سیرت ہمارے لئے آنحضرت صلی العلیم مکمل اسوہ ہیں 417 سة 419 وفات اور ذکر خیر ابو جہل اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو آنحضرت کے اسوہ ابو درداء.حضرت پر آپ کی تعلیم پر پابندی کرنالازمی ہے 33 ابوذر حضرت خوش قسمت ہیں ہم جو آنحضرت کی امت میں سے ہیں 2 ابو سفیان 639 538.233.116 595.44 44 116.112 ایک عیسائی راہب کا آنحضرت کے ظہور کی خبر دینا 220 ابو سفیان کا کہنا جس طرح محمد کے اصحاب محمد سے محبت کرتے ہیں آدم: ہم احمدی اس زمانہ کے آدم کے ماننے والے ہیں جو میں نے کسی کو کسی سے کرتے ہوئے نہیں دیکھا 5 ابو شعیب جنت سے نکلنے کے لئے نہیں آیا....آدم اس دن پید ا ہوئے اُس دن جنت میں لے جائے گئے 4 ابو عبیدہ بن الجراح.حضرت 246.45.6 آدم.حضرت علیہ السلام ابو العطاء صاحب آدم کو بشر کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ انسان اشرف ابوالفضل محمود.قادیان 247 601 401 148 326 614 المخلوقات ہے...آرنلڈ : پروفیسر آرنلڈ کا کہنا کہ یہ ایشیائی دماغ میں نہیں آسکتا ابوالکلام آزاد، کا حضرت مسیح موعود کو خراج عقیدت 242 ابوکیه حضرت...اسلام قبول کرنے پر سختی لیکن ان کا صبر 599 اور خلیفہ اول کا جواب 78 487،193،491،172،45 ابو کبشہ انماری ابراہیم حضرت علیہ السلام 45، 172، 491، 487،193 ابو مسعود.حضرت 594 401 ابراہیم ابراہیم.حضرت مسیح موعود کا الہامی نام ابراہیم خلیل.ملک ابراہیم سیالکوٹی.مولوی ابراہیم قادیانی.مولوی.درویش قادیان ابن شہاب زہری ابن الدغنہ ابن عباس.حضرت ابن مسعودؓ.حضرت ابو احمد بھوئیاں ابو امامہ ، حضرت 61 493 204 367 291 147 596 49.47.43 443 639 105 486 ابو بکر صدیق.حضرت قوم کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کا ارادہ 596،597 ابو مسلم اصفہانی 84 ابوہریرۃ، حضرت 594،593،445،388،146،43،2،4، ابی بن کعب حضرت احسان احمد شہید صاحب کا ذکر خیر 443 348 احمد جان صاحب.چوہدری.امیر ضلع راولپنڈی 337 احمد حسین شوکت احمد خان صاحب نسیم.مولانا احمد ، حاجی احمد دین بھٹی احمد دین سلہریا احمد دین صاحب.حضرت احمد دین.منشی.اپیل نویس احمد ، سید 616 274 338 295 367 297 150 84

Page 739

خطبات مسرور جلد ہشتم احمد محمد حاتم علمی شافعی.ذکر خیر احمد نور ، سید 245 657 43 اقبال احمد اقبال عابد صاحب انڈیکس اسماء 146 288 احمد نور سید مہاجر کابلی کا قادیان میں تکلیفوں پر مقابلہ کرنے اکبر شاہ خان نجیب آبادی 85.88 کی اجازت چاہنا اور حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ امن اور صبر اکبر شاہ خان صاحب کا حضرت مسیح موعود کی شان میں اشعار کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو ر ہو ارشاد علی شہید.سید کا ذکر خیر ارشد محمود بٹ شہید کا ذکر خیر از هری اسامہ عامر اسد اسد اللہ خان صاحب.چوہدری اسلام اللہ مستری.مرزا اسلم بھروانہ صاحب شہید کا ذکر خیر 615 301 327 215 467 357 315 145 273 پڑھنا اور حضور کا پسند فرمانا اکبر علی اکبر علی اکرم بیگ شہید.مرزا کا ذکر خیر الطاف احمد 376 88-87 323 277 680 اللہ بخش صاحب، حضرت شیخ، سکنہ بنوں کا قبولیت احمدیت کی روداد اللہ دتہ ورک.چوہدری 375 296 اللہ دتہ مستری ولد صدر دین صاحب 648،649 اسماء بنت ابو بکر حضرت کو نصیحت کہ گن گن کر خرچ نہ کیا اللہ رکھا بٹ کرو.148 اللہ یار بھروانہ، مہر 482 279 اسماعیل.حضرت علیہ السلام 491،493،487،172 الہ دین میاں فلاسفر کو کسی صحابی نے مارا تو حضرت مسیح موعود اشرف بلال شہید صاحب کا ذکر خیر اشرف پرویز.شیخ اصغر یعقوب شہید.ڈاکٹر کا ذکر خیر 333.275 166 334 166 440 کی ناراض ہونا الہی بخش صاحب.حضرت الیاس احمد اسلم قریشی شہید کا ذکر خیر الیاس خان 617-616 319 300 294 آصف مسعود اعتزاز الرحمن ام انمار حضرت خباب بن ارت کی مالکن کا ان پر گرم لوبا اعجاز احمد بیگ شہید صاحب کا ذکر خیر.محمدی بیگم کے رشتہ رکھنا بعد میں اس کو سر کی بیماری جس کا علاج گرم لوہا600 دار 277 319 ام سلمہ.حضرت 596 ام شریک حضرت کا اسلام قبول کرنا اور عورتوں میں تبلیغ.اعجاز الحق شہید کا ذکر خیر اعجاز نصر اللہ شہید.چوہدری کا ذکر خیر 318،315 اس پر قریش کا ان پر ظلم و ستم اور ان کا صبر واستقامت....اور تعزیت ایک حج کی طرف سے.لیکن دعائے مغفرت سے ایک معجزہ دیکھ کر مخالفین کا اسلام قبول کرنا 598 انکار.تعصب کی انتہا 318 اعجاز نصر اللہ صاحب : وزیر اعظم پاکستان بھٹو کے کہنے کے باوجود کا فرمانا جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی...42 دیانتدارانہ رائے رکھتے ہوئے کام کرنے سے انکار 316 امام دین 28 ،655،654،615،614،373،378 ام بانی کا فتح مکہ کے موقعہ پر دشمن کو پناہ دینا آنحضرت صلی ا یم اعظم صدیقی افتخار الغنی شہید.سردار کا ذکر خیر افتخار علی صاحب.حضرت پیر 353 288 439 امانت خان صاحب.حضرت منشی ام المومنین حضرت (حضرت اماں جان) 348 653 589.336

Page 740

خطبات مسرور جلد ہشتم امتیاز احمد شہید صاحب.چوہدری کا ذکر خیر امۃ القیوم صاحبہ.صاحبزادی امیر احمد امیر احمد.شیخ امیر علی.سید سب انسپکٹر 318 279 87 304 367.59 44 رض بريدة.حضرت بشارت احمد.ڈاکٹر بشارت احمد بشیر بشیر احمد شیخ بشیر احمد باجوہ.کرنل انڈیکس اسماء 44 149.55.56 80 166 300 انباش مموزم دار بابو ایک برہمولیڈ ر جو حضرت مسیح موعود کے بشیر احمد صاحب.حضرت مرزا53،55، 87، 272، صبر و عمل سے متاثر ہوا انصار الحق شہید.ملک انعام الحق کوثر.مبلغ شکاگو امریکہ انور خان.امریکہ 606 332.285 359 347 616.615-614-613.612.610 بشیر الدین صاحب.مولوی 316 بشیر الدین محمود احمد حضرت مرزا 15،16، 54،60، انیس احمد شہید کا ذکر خیر انیس الرحمن 290 291 279 277 275 223.273 167 351 330 324.326 321 306 <302 <295 642-634-629.615.588-482-360 308.307 440 اوس.حضرت 3 حضرت مصلح موعودؓ کا غیر مسلموں کو بھی اھدنا الصراط ایدھی صاحب کا کہنا کہ قادیانی مدد کے لئے سب سے پہلے المستقیم دعا پڑھنے کا ارشاد.اس کا نتیجہ 457 پہنچتے ہیں.520 حضرت مصلح موعودؓ کا نوجوانوں کو تحریک کرنا کہ نماز کے بعد ایس.اے.محمود.سابق صدر ایوب خان کے مشیر اور ملک بارہ دفعہ سبحان اللہ وبحمدہ...اور بارہ دفعہ درود شریف مقصود احمد شہید لاہور کے والد محترم 298 پڑھیں.63 ایس جی ولیم سن.غانا یونیورسٹی کے پرو فیسر کی کتاب حضرت مصلح موعودؓ کے عہد خلافت میں احمدیت اسلام کی کرائسٹ اور محمد “ ایوب اعظم بیگ شہید آف واہ کینٹ بابر عزیز دین بابو عبد الرحمن بابو قاسم دین صاحب.حضرت بابو محمد امین بابو محمد رشید بدر الدین، مولوی برکت علی برکت علی صاحب.حضرت چوہدری برکت علی صاحب.حضرت پیر برکت علی صاحب.حضرت برکت علی، میاں 243 277 367 296 355 321 380 645.644 62 56 336 439 292 ، ترقی اور اٹھنے والے فتنے 62 مصلح موعودؓ کی تفاسیر ایک عظیم علمی خزانہ ہیں 223 حضرت مصلح موعودؓ کا ایک بیمار اور مرتے ہوئے بچے کا نام شریف احمد سے تبدیل کر کے محمد یکی رکھنا بقا پوری.مولانا بگا صاحب، میاں 336 80 59 بلال حضرت پر ظلم و ستم اور صبر و استقامت 599 بڑھا مل.آپ کا فرمانا کہ اس سے پوچھو میں آج تک کیا کبھی ایسے ہوا کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے موقع ملا اور میں نے 610 بھٹو.وزیر اعظم پاکستان بہادر خان صاحب 316 293 بہاول شاہ صاحب، حضرت ولد شیر محمد صاحب 654 برہان الدین صاحب جہلمی.مولوی.کو مخالفین کا (سفر پروازی صاحب سیالکوٹ) میں زخمی کرنا 367 تاج الدین 274 368

Page 741

خطبات مسرور جلد ہشتم تاج دین صاحب.شیخ 269 45 انڈیکس اسماء حامد شاہ صاحب.سیالکوٹی.حضرت سید میر 642،301 تارورے تمو گو ایک 85 سالہ بوڑھے افریقن کی بیعت کرنا 24 حامد علی خادم حضور اقدس تبسم مقصود.وکیل.واقف زندگی ثناء اللہ امرتسری.مولوی جابر بن سمرہ.حضرت جان محمد جان محمد صاحب.مولوی جاوید احمد صاحب، شیخ جبرئیل سعید جعفر زٹلی زٹلی.حضرت اقدس کو گالیاں دینے والا 298 305 43 61 59 669 23.21 609 613 حامد علی صاحب حافظ حامد علی، شیخ 653.370 657.59 658 حبیب الرحمن.سانگھڑ کی شہادت اور ذکر خیر 439،440 287 حبیب الرحمن.ملک حذیفہ بن یمان حضرت ، ان کا بدر کی جنگ میں شامل نہ ہونے کی وجہ کہ کفار نے پکڑ لیا او عہد لیا کہ لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے 421 حسام الدین حکیم حسن بن علی حضرت 56.301 635.43 جعفر شاہ، سید حضور کا معتقد لیکن غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے حضرت امام حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سر دار 630 پر حضور کا فرمانا کہ کب اس نے ہم کو مانا جلال سٹمس.ڈاکٹر.ٹرکش ڈیسک انچارج 653 393 ایک دوست ( منور احمد شہید ) کا شیعہ عقائد کی طرف مائل ہونا اور حضرت امام حسین اور حضرت علی کا خواب میں آکر جماعت علی شاہ پیر کے مرید جو لیکچر (سیالکوٹ) کے سننے حضرت مسیح موعود کی صداقت کا بتانا 308 سے لوگوں کو روک رہے تھے جمال دین صاحب جمال دین صاحب میاں 367 295 374 373 169 295 225 657.651 350 حسن خورشید اعوان شہید کا ذکر خیر ان کی نماز جنازہ احمدیوں کو نہیں پڑھنے دی گئی اور والد.....نے کوائف دینے سے انکار کر دیا 350 حسین، حضرت امام 636،635634،633،632،630، جمال دین، میاں جمیل احمد بٹ جمیل احمد.شیخ جویریہ.حضرت چند ولال، مجسٹریٹ چوغطہ حامد رضا.شیخ حاتم شافعی 609 587 245 +638.637 حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے مناقب 630 ایک دوست ( منور احمد شہید) کا شیعہ عقائد کی طرف مائل ہونا اور حضرت امام حسین اور حضرت علی کا خواب میں آکر حضرت مسیح موعود کی صداقت کا بتانا 308 عمرو بن سعد......بدبخت اور خبیث جس نے حضرت امام حسین کے لاش مبارک کو پامال کرنے کا اعلان کیا 632 حاتم علی: ایک شخص (حاتم علی ) کا حضرت مسیح موعود اور حضرت امام حسین پر کربلا میں ہونے والے مظالم 632-633 خلیفہ ثانی کے خلاف سب وشتم کرنا اور عبرتناک موت کا امام حسین ، حضرت کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نشان بن جانا.حاکم علی حضرت چوہدری حامد صاحب.ڈاکٹر.امریکہ حامد حسین خان صاحب حضرت 154 610 280 646 کے ارشادات 637 اگر پہلے حسین کو یزید نے حق گوئی کی وجہ سے شہید کیا تھا تو دوسرے حسین کی وجہ سے خدا تعالیٰ یزید کے لشکر کو شکست دے گا 636

Page 742

خطبات مسرور جلد ہشتم حسین ٹپانی.صد ر خدام الاحمدیہ زمبابوے حسن علی.ڈاکٹر 638 379 46 خلیل الرحمن چھبر ، حضرت ماسٹر خورشید اعوان حسین احمد.سید.حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے نواسے 347 خیر دین میاں حسین بخش 378 داتا گنج بخش.حضرت حسین بی بی: صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ کی رضاعی والدہ 279 داؤ د احمد حفیظ احمد شاکر کی شہادت حفیظ احمد کاہلوں شہید.چوہدری کا ذکر خیر حلمی شافعی حلمی شافعی صاحب کی قبولِ احمدیت کا واقعہ 238 317 245 249 داؤد.حضرت دوست محمد.میاں دوست محمد شاہد.مولانا دیانت خان صاحب.حضرت منشی حلیم نامی غیر احمدی خاتون (بین) کا تحریک جدید میں چندہ دینا جس دین محمد ، میاں پر غیر معمولی مالی برکت پڑنے پر احمدیت قبول کرنا 151،152 ذوالفقار علی خان گوہر.حضرت مولانا حمید احمد شیخ حمید نصر اللہ خان.چوہدری.امیر ضلع لاہور حمیرا حنیف احمد محمود حنیف محمود.نائب ناظر اصلاح وارشاد حیات محمد.ملک خادم علی صاحب.حکیم خالد محمود خان ذوالفقار علی خان خاور ایوب شہید کا ذکر خیر خباب بن الأرت.حضرت 330 315 440 84 393 367 144 337 646 294 582 راجہ خان بھروانہ مہر صاحب راغب اصفہانی.علامہ رحمت اللہ رحمت اللہ باغانوالہ.میاں رحمت اللہ صاحب.شیخ رحمت اللہ صاحب، حضرت رحمت حق رحمت علی صاحب.حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب.مولانا.مبلغ انڈونیشیا رحمت علی صاحب.حضرت رحیم بخش صاحب.حضرت میاں انڈیکس اسماء 650 350 373.374 558 303 127 349 588.306 348 279 346 273 214 649 56 60 651 319 439 337 288 55 613 خباب حضرت پر ہونے والے ظلم و ستم اور آپ کا صبر 599،600 رسول بی بی.بیوہ حافظ حامد علی خدا بخش خرم نصیر خر دخان خصیات علی شاہ، سید 376-275 680 62 301 رشید احمد گنگوہی مولوی کا اپنے مرید کو کہنا کہ مرزائی سے 83 بحث یا گفتگو نہ کرو رشید احمد گنگوہی سے وفات مسیح کی تردید اور حیات مسیح کے دلائل مانگنے پر جواب کہ مرزا صاحب یا اس کے مریدوں خلیفہ رشید الدین صاحب.حضرت حافظ ڈاکٹر 82،83 سے وفات مسیح پر بحث مت کرو ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کا نواب رامپور کے آگے رمضان صاحب، حضرت نظیم کے لئے نہ جھکا اور...حضرت مسیح موعود کی دعا سے روشن علی صاحب.حضرت حافظ نواب کی عبرتناک تنزلی خلیل احمد سولنگی شہید کا ذکر خیر 84 312 652 309 610.439 روشن علی صاحب.حضرت حافظ.کا درس کے دوران کشفا کھانا کھانا 86

Page 743

خطبات مسرور جلد ہشتم ریاست علی چٹھہ.چوہدری ریاض احمد مینگلور زبیر احمد شہید.ملک زر بن جهيش زویمر پادری کا قادیان آنا 153 680 332.328 443 82 47 سعید خورشید اعوان سعیدہ صاحبہ انڈیکس اسماء 350 332 سعیدی، شیخ...معاند احمدیت تنزانیہ کا ایک جھوٹا الزام اور رسوائی سکندر احمد چوہدری 352 306 زید بن دشنہ کا آنحضرت سے عشق و محبت کا ایک والہانہ اظہار 601 سلطان عالم.چوہدری زینب بی بی ساجد نعیم شہید.شیخ کا ذکر خیر سالم بن عبد اللہ بن عمر 166 304 446 سلطان محمود صاحب مولوی 79 645 سلمان محمد.حافظ (جس بد باطن نے سیالکوٹ میں لڑکے اکٹھے کئے کہ جب حضرت مسیح موعود گذریں تو راکھ اوپر ساوا دو گو آدم.افریقی شخص کار سالے پر حضرت مسیح موعود پھینک دینا) 367 کی تصویر دیکھ کر احمدی ہو جانا کہ یہ بزرگ مجھے کئی بار خواب سلیمان منابی.اور دیگر افریقن مخیر دوست کی مالی قربانی 22 میں مل چکے ہیں ساون صاحب، مهر سجاد اظہر بھر وانہ شہید کا ذکر خیر سراج الحق نعمانی.پیر سراج الدین.مرزا 25 374 279 83 276 سمیع اللہ صاحب کی شہادت سمیع اللہ صاحب.سید رض سمیہ.آپکی در دناک شہادت سوہنے خان صاحب سهل بن معاذ سراقہ کو سونے کے کنگن پہنانے کی پیشگوئی دراصل ایران کی سیف الرحمن.ملک فتح کی پیشگوئی جو حضرت عمرؓ کے زمانے میں پوری ہوئی.529 | شابل منیر شہید.مرزا کا ذکر خیر سر دار خان.میاں سرور بیگ.مرزا 153 325 شافیہ حسن شانزیب محسن سرور سلطانہ.اہلیہ مولانا عبد المالک خان صاحب.ذکر خیر شاہ دین ہاشمی اور اوصاف حمیدہ سرور شاہ صاحب.حضرت سید 346.347 272 شاہ محمد مہار صاحب.حضرت چوہدری شحمله نصیر آپ کا مخالفین کے ساتھ ایک مناظرہ جس میں مخالف علماء شرف الدین صاحب چوہدری بھاگ گئے اور آپ ان کے پیچھے سعد اللہ لدھیانوی سعدی شیرازی شیخ سعید احمد سعید احمد طاہر شہید کا ذکر خیر 81 609 54 301 309 شریف الدین صاحب درزی، میاں شریف احمد صاحب.حضرت مرزا 75 301 233.232 62 46 269 297 438 343 291 329 483 646-644 649 653.272 شریف احمد صاحب.حضرت مرزا آپ کا انگلستان آنا اور غیبی امداد کی ایک مثال شعیب سوسی سولنگی سعید احمد طاہر شہادت سے قبل ایک بار ڈائری میں لکھا کہ شعیب نعیم شہادت نصیب ہو سعید بن المسيب 309 147 شفیع احمد محقق دہلوی میر 87 313 279 612 300

Page 744

خطبات مسرور جلد هشتم شفیق احمد.میاں 48 48 انڈیکس اسماء شمس الدین صاحب.میاں شمس الدین.شیخ شیم احمد شیخ شہید کا ذکر خیر 296 61 324 542.440 خلیفہ رابع کا لندن ہجرت کا بعد وقف جدید کو عالمگیر وسعت دے دینے کا اعلان 20 شمس الدین.حاجی.سیکر ٹری انجمن حمایت اسلام 370 طاہر صاحب.ملک.قائمقام امیر ضلع لاہور 298 شوکانی امام شوکت گوہر شہامت خان صاحب، حضرت شہباز احمد.معتمد ضلع 281 85 347 348 279 367 297 304 116 654 طاہر محمود طاہر محمود احمد پرنس شہید کا ذکر خیر 341 301 طاہر ندیم صاحب.الفضل انٹر نیشنل میں عربوں کے حالات 451 مضمون طاہر ندیم.الفضل میں عرب احمدیوں کے تعارف پر مشتمل 413 مضمون شہباز خان شہزاد منعم شہزاد نعیم شیر محمد طاہر ہانی.ایک عرب مخلص احمدی، واقف زندگی، عریبک ڈیسک کا کام کرتے ہیں، ان کی قبولیت احمدیت کی داستان 451 طاہر ہامنڈ ، گھانا کے ممبر پارلیمنٹ احمدی طوبی صالح محمد الہ دین صاحب.ڈاکٹر.صدر صدر انجمن احمدیه طیطوس رومی قادیان صباح الدین صاحب صدیق بانی صفدر جنگ ہمایوں.مرزا صفدر علی.چوہدری ظفر احمد شہید.مرزا کا ذکر خیر ظفر احمد صاحب.حضرت منشی 672 238 119 321 86.83 347 87 320 321 272 ظفر احمد.صدر خدام الاحمدیہ جاپان کی حیثیت سے جاپان کی ایک پہاڑ کی چوٹی سر کرنے اور اس پر اذان دینے کی سعادت پانے والے 322 صفوان.کا اسلام قبول کرنا.بہت بڑے ریوڑ کے عطا کئے ظفر احمد مرزا.ان کے تقویٰ اور اطاعت پر خوشنودی فرمانا.جانے پر صفوان بن امیه صلاح الدین.ملک مہیب بن سنان ضیاء الحق 147 601.147.91 80 594 317 نائب امیر جماعت.خلیفہ رابع کا فرمانا کہ اللہ کرے سب جماعت قادیان ان کے نمونے پر چلنے کی توفیق پائے.322 ظفر اقبال شہید کا ذکر خیر 340 ظفر اللہ خان صاحب.چوہدری 413،315،317،272 ظفر - حافظ ضیاء الحق.جنرل.کے سامنے کلمہ کا بیج لگا کر بڑی جرات سے ظہیر احمد خان.لندن 367 348 بیٹھنا اور...ضیاءالدین قاضی طاؤس (راوی) طارق بشیر شہید.ڈاکٹر کا ذکر خیر 274 649 47 326 عائشہ.حضرت 123، 444،419-596،592،593،445 عائشہ عائشہ مقصود عائشہ نصیر 440 680 483 طاہر احمد حضرت مرزا 270،345،365،413،209، عارف محمود.مردان کے ایک زخمی کی ایمانی جرآت 587

Page 745

خطبات مسرور جلد ہشتم عامر رضا، شیخ 49 انڈیکس اسماء 670 عبد الرزاق عامر رضا.شیخ.مردان میں ہونے والے شہید خادم 467 عبد الرزاق.چوہدری عامر لطیف پراچہ شہید کا ذکرِ خیر عامر مشهود عامر نعیم عبد الرشید خان صاحب.حضرت شیخ عبد الرشید شہید.ملک عبد الرشید صاحب، شیخ کا عباس علی صاحب میر کا حضرت مسیح موعود سے گستاخانہ رویہ عبد الستار.چوہدری اور آپ کا محل 321 286 276 357 284 334 عبد الباسط سردار عبد الجبار مولوی عبد الحق عبد الحق.مرزا عبد الحق ورک.چوہدری 607 288 644 655.654 324.321 317 عبد السلام عبد السلام اختر عبد السلام عمر.مولوی عبدالسمیع - سردار عبدالشکور.سردار عبد الشکور میاں.ڈاکٹر عبدا اور آپ کا مہمان نوازی عبد الحمید جاوید عبد الحمید شملوی.شیخ عبد الحمید ملک عبد الحمید.چوہدری.محراب پور سندھ عبد الرحمن.حکیم عبد الرحمن.شیخ عبد الرحمن.میاں عبد الرحمن بن جبیر عبد الرحمن بن عوف.حضرت عبد الرحمن جٹ صاحب.حضرت مولانا عبد الرحمن شہید کا ذکر خیر عبدالحکیم صاحب حضرت چوہدری 646،645،644 عبد الصمد میاں الحکیم نصیر آبادی.مولوی.بڑا مخالف.حضرت صاحب عبد العزیز 392 342 283 290 284 150 330 349 44 224 336 333-332 عبد العزیز صاحب او جلوی.حضرت منشی عبد العزیز صاحب.حضرت 328-332-290 646 337 680 589 325 262 288 337 369 654.653 337 349 عبد العزیز صاحب.حضرت میاں.ساکن اوجلہ کی قبول احمدیت عبد الغفار عبدالغنی، منشی عبد القادر عبد القادر سوداگر مل عبد القادر لدھیانوی، مولوی عبد القدوس 373 644 658 150 313.78.87 655 355 عبد الکریم سیالکوٹی صاحب.حضرت مولوی 150، 367، 655.645.617.614-613-609-608-607.390.372 عبد الرحمن.چوہدری.امیر جماعت (گوجرانوالہ) 314 عبد الکریم.حاجی عبد الرحمن جٹ مولوی عبد الرحمن صاحب ماسٹر عبد الرحیم ملک عبد الرحیم صاحب مولوی عبد الرزاق 613 649 287 646 343 عبد اللطیف پراچہ عبد اللطیف شہید.حضرت سید 328 321 451 عبد اللطیف صاحب.صاحبزادہ.کا سفر جہلم کے موقعہ پر عرض کرنا کہ میرا خون بدن سے ٹپک رہا ہے.یہ کابل میں آب پاشی کا کام کرے گا 368

Page 746

خطبات مسرور جلد ہشتم 50 عبد اللطیف صاحب.حضرت صاحبزادہ 611،612 عبد اللہ باجوہ.مولوی 280 عطا محمد صاحب.ملک عقبہ بن حریث عبد اللہ بن زبیر کی ماں کا اپنے بچے کو صبر اور حوصلے کی تلقین 601 عقبہ بن عامر جہنی.حضرت عبد اللہ بن سلام کا آنحضرت کا چہرہ دیکھ کر کہنا کہ یہ چہرہ عکرمہ کسی جھوٹے کا نہیں ہو سکتا عبد اللہ بن عباس.حضرت عبد اللہ بن مسعود.حضرت عبد اللہ بٹ عبد اللہ سنوری، منشی 43 108 48.47 327 655 438 علاء بن الحضرمی.حضرت علم الدین گجراتی.ڈاکٹر علم دین صاحب.حضرت میاں علی.حضرت علی بخش صاحب.حضرت ملک انڈیکس اسماء 245 445 45 116 148 375 291 635.595.422 298 عبد الماجد بھاگلپوری علی محمد.میاں.( محمد حسین بٹالوی کا بھائی) کا ناسخ منسوخ کی عبد المالک صاحب.نمائندہ الفضل و خالد و تشخيذ 279 بابت خلیفہ اول سے استفسار عبدالمجید عبدالمجيد عبد المجید خان صاحب.ڈاکٹر عبد المجید خان.ملک عبد الودود شہید.پروفیسر کا ذکر خیر عتیق الرحمن شہید کا ذکر خیر عثمان، حضرت 283 306 59 329 283 116 345 630 علی محمد صاحب.حضرت چوہدری عمار.حضرت عمار بن خزیمه رم عمر فاروق.حضرت 84 57 232 140 326.599 حضرت عمرؓ کا ایک بوڑھے شخص کو درخت لگانے کا حکم اور خود اس کے ساتھ مل کر درخت لگانا 140 عمر حضرت کا نصف مال خدا کی راہ میں لے آنا 579 عمر احمد شہید.ڈاکٹر کا ذکر عمر بیگ صاحب.مرزا 360.337 594 277 عثمان بن مظعون حضرت پر ظلم و ستم...لبید کے اشعار پر عمر بن سعد ان کا تبصرہ 600 عرفان احمد ناصر شہید کا ذکر خیر.لاہور دارالذکر کے سب عمر دین حجام ، حضرت.دعا کرنا اور خواب میں حضرت اقدس سے پہلے شہید (غالباً) عرفان اللہ صاحب 279 278 کو نبی اکرم کی شبیہ مبارک پر دکھایا جانا.قادیان آکر دیکھا تو وہی تھے 368-369 346 عزت النساء اہلیہ ابو احمد بھوئیں مرحوم بنگلہ دیش کا ذکر خیر 639 عمر دین صاحب و مینیس.حضرت عزیز بھٹی، میجر.ایک شہید (ڈاکٹر عمر ) کا میجر عزیز بھٹی کو عمر جاوید صاحب، شیخ.مردان کی شہادت 669 فرضی خط لکھنا جب یہ تیسری کلاس میں تھے.360 عمران صاحب ڈاکٹر.کی شہادت عطا محمد صوفی 145 عمران ندیم 266 356 عطا محمد صاحب.ملک.سرگودھا چک 152 شمالی کے...عمرو بن سعد بد بخت اور خبیث جس نے حضرت امام حسین کے لاش مبارک کو پامال کرنے کا اعلان کیا 632 کلمہ طیبہ کی غیرت اور محبت عطاء القادر طاہر عطاء اللہ خان.مولوی.درویش قادیان 236 291 324 عمرو بن شعیب عمرو بن عوف انصاری.حضرت 102 148

Page 747

خطبات مسرور جلد هشتم عمیر احمد ملک شہید کا ذکر خیر عنایت اللہ صاحب.حضرت 51 287.288 323 59 انڈیکس اسماء حضور انور کا چہرہ.یہ جھوٹوں کا مونہہ نہیں 655،651 آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر.اس شکل اور صورت کا انسان عنایت علی صاحب.حضرت سید میر میں نے آج تک نہیں دیکھا.عیسی.حضرت 618،375،305،119،205،45 آپ کا ظاہری حسن اور حلیہ 372 64.52 آپ کا لوگوں کو ہدایت کے لئے پکارنا اور حواریوں کا نحن مسجد مبارک کھڑکی سے داخل ہونا....بدر کامل اندھیری انصار الله کہنا 509 آپ کے ماننے والوں پر ابتلاء کا ایک لمبا سلسلہ 582 آپ کی تعلیم کا بعد میں بگاڑ 428 حضرت عیسیٰ کا کشمیر میں فوت ہو جانا 207 رات میں نمودار ہو گیا 376 حضرت مسیح موعود کا ایک وقت کم از کم دو نفل اپنے اوپر فرض کرنے کی تحریک فرمانا 627 آپ کبھی دشمن کو بھی برے نام سے یاد نہیں کرتے 613 حضرت مسیح موعود کا صحیح کا صلیب سے زندہ بچ جانے کے بارہ آپ کا فرمانا ” یہاں تو بڑی مخلوق آئے گی اور خزانے تقسیم میں تحریر کرنا اور مرہم عیسی کا ذکر فرمانا بائبل میں مسیح کی الوہیت کی تردید حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام 206 429-428 حضرت مسیح موعود کا نام "مسیح" رکھنے کی وجہ 221 آپ کو مقام آنحضرت کی غلامی میں ملا249 ہوں گے “ آپ کا کام احیائے دین ہے اور آپ کا متحمل 150 168 آپ کا مسجد میں لیکچر اور ایک سکھ کا کھڑے ہو کر گالیاں دینا 610 آپ کو بے رنگ خط جن میں گالیاں بھری ہوتی 609 آپ کو گالیاں دیا جانا، قتل کے فتوے اور منصوبہ بندیاں اور کو آپ کو ملنے والا مقام آنحضرت سے سچے عشق اور درود کی تشد وجہ سے ہی تھا 4 609 آپ کی ایک احمدی سے توقعات.جھوٹ.زنا، بد نظری، یہ آدم جو اس زمانہ میں آیا یہ نور محمدی سے پر ہے 6 جھگڑا، ظلم ، خیانت، فساد، بغاوت...ان سے بچنا 193 485 آپ کی کتب کے ذریعہ لوگوں کا احمدیت قبول کرنا530 حضرت مسیح موعود کی بعثت اور ضرورت زمانہ 229 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض کہ خدا اور مخلوق کے آپ کے حق میں الہی تائیدات اور نشانات جو دکھائے ، اور رشتہ میں جو کدورت واقع ہوئی اسے دور کرے 98 دکھا رہا ہے اور دکھائے گا 528 آپ کے زمانہ میں ہر مذہب میں بگاڑ آپ کی بعثت 220 حضور اقدس کا چہرہ مبارک...دیکھتے ہی سارے شبہات دور آپ کی عطا اور فرمانا کہ ” ہم اپنے دوستوں سے حساب نہیں 651 رکھا کرتے“ 149 ہو جاتے چمکتا ہوا چہرا آپ کے حسن، نور اور شمائل کا تذکر ہ 64،52 دی کہ جتنا چاہو لے لو حضرت اقدس کا نورانی چہرہ اور خوبصورت سراپا...644 آپ تھوڑا دینا جانتے ہی نہ تھے.صند و قیچی کھول کر آگے رکھ 152 حضور کو دیکھ کر سب کچھ گھر بار چھوڑ کر قادیان کے ہو رہنے کا اسلام کی اصل تعلیم اس غلام صادق کے ذریعہ پھیل رہی ہے جو زمانے کا حکم و عدل ہے 643 532 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ مبارک کی نورانیت اور اس زمانہ کا امام اسلام کے دفاع کے لئے آیا ہے.یہ مسلمان کشش.ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو آپ کو چھوڑ کر اس کی مدد نہیں کرنا چاہتے قادیان سے باہر ہر گز نہ جاؤں 643 241 حضرت مسیح موعود اور مہمان نوازی 403 402

Page 748

خطبات مسرور جلد ہشتم آپ کی سیرت مہمان نوازی 389 380 52 انڈیکس اسماء حضور کا اپنی گھڑی رومال میں بندھی کو وقت ٹھیک کرنا 380 آپ کے زمانہ کے علماء اور صلحاء کی تحریریں کہ صحیح اور مہدی 450 آپ کا تربیت کا انداز.آپ کا اپنے مریدوں کو اپنے ساتھ چار پائی پر بٹھانا 58 کے آنے کا وقت ہے اور وہ اس کے انتظار میں تھے.اور جب آپ کی دعا ” مجھے قسم کی حاجت نہ رہے اور اس کی برکت 146 وہ آگئے تو...آپ کی برکت کی دعا بر کت کہ مالی تنگی دور ہو جانا 150 آپ کے صحابہ کا کر دار اسلام کے دور اول کے صحابہ جیسا 530 آپ کا رویا.فرشتے پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگاتے حضرت مسیح موعود یا خلفاء کو خواب میں دیکھ کر یورپ میں دیکھا...یہ طاعون کے درخت ہیں لوگوں کا احمدیت قبول کرنا 372 201 آپ کا زمانہ آنحضرت گا زمانہ قیامت تک رہے گا 453 آپ کا فرمانا میری روزانہ زندگی کا آرام اس میں ہے کہ میں اس کام میں لگار ہوں...میرے لئے بس ہے کہ وہ راضی آپ کا صحابہ کے صبر کا بیان 602 244 ہو جس نے مجھے بھیجا ہے..آپ کالوگوں کی ہدایت کے لئے کرب اور آہ وبکا 381 آپ کا مفت کتاب دلانے کے لئے ننگے پاؤں ساتھ 150 آپ نے میراں بخش“ نام بدل کر عبد العزیز رکھا 374 آپ کا مولویوں اور صوفیاء پر اظہار افسوس کہ اللہ کے بندوں ہر نیادن حضرت مسیح موعود کی صداقت کو ظاہر کرتے ہوئے طلوع ہوتا ہے کو راستی سے ہٹایا 381 117 حضرت مسیح موعود کا حضرت امام حسین کی بابت ارشادات آپ کا مہمان کو آنے پر جانے کی اجازت نہ دینا یہاں تک کہ اڑھائی ماہ گزر گئے آپ کی ایک دعا اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے 150 39 اور فضائل 635-633 حضور کے لئے پوشاک اور لباس تیار کر کے پیش کیا جانا اور تحفہ قبول فرمانا اور تنگ کوٹ بھی کھینچ کھانچ کر پہن لیا...649 آپ کی حیاء...کبھی آنکھیں اوپر نہ اٹھاتے 381 حضرت مسیح موعود کا فرمانا " ہمارا سلسلہ سچا ہے اس کو انشاء اللہ آپکی خدمت میں نذر پیش کرنے کا ادب اور طریق 150 زوال نہ ہو گا“ خط لکھتے رہنے کی تاکید آپ کی قوت قدسیہ کا صحابہ پر نیک انقلاب اثر 369 381 649 حضرت اقدس کا بیعت لینے کا طریق اور صحابہ کی کیفیت رفت سوز و گداز آپ کے ذریعہ قرآنی عظمت کا اظہار کہ آپ کے ماننے و حضرت اقدس کا قیام دہلی الوں سے بحث نہ کرنے کا عیسائیوں کا اعلان آپ کی کتب پڑھانے کا ایک انداز آپ کی کتب سے توڑ مروڑ کر حوالے پیش کرنا 428 303 377 648 647 644 حضرت مسیح موعود کو ہاتھ کا پنکھا جھلا جاتا حضور سوال کرنے والے کا خندہ پیشانی سے جواب دیتے 645 حضرت اقدس کی خدمت میں ہر روز خط لکھتے رہنے کی طر ز کو آپ کی ملاقات کے لئے ڈپٹی کمشنر اور پولیس کپتان کی آنا پسند فرمانا.379 حضرت صاحب کو دبانے کا فخر پانے والا 643 653 صرف دو منٹ کے واسطے ملنے کا فرمانا حضرت مسیح موعود کی وفات پر غیروں کا خراج تحسین اور 242 حضور کا دست مبارک چھونے سے بخار اور تکان کا دور ہو جانا658 آپ کی ہم سے توقعات.اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے آپ حضرت صاحب کو کافر کہلوانے کے ئے مولوی محمد حسین کا کو ڈھالیں آپ کے اخلاق حسنہ اور کشش کرتے ہوئے ایک عظیم بھائی چارے کی بنیاد 382 382 دیہاتوں میں دورہ حضور کا عمل اور برداشت 655 653 آپ کے ذریعہ ملکوں، قوموں کی سرحدوں اور فرقوں کو ختم حضرت مسیح موعود کا الہام روس میں ریت کے ذروں کی 396 طرح احمدیت 680

Page 749

خطبات مسرور جلد ہشتم 53 انڈیکس اسماء حضور کا اپنے خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا 659 فتح محمد.چوہدری حضرت مسیح موعود کے ساتھ بعض مشابہتیں لیکن یہ کہ وہ فخر الدین صاحب.مولوی باتیں دوبارہ نہیں دہرائی جائیں گی فدا حسین شہید کا ذکر خیر 636 حضرت مسیح کو امام حسین سے تشبیہ.لیکن حضرت مسیح فرحان موعود کا زمانہ انشاء اللہ ان باتوں کو نہیں دہرائے گا 635 فرعون احمدیت کے مخالف مولوی اور سیاستدان، جن کی روٹی مسیح فرعون کی عورت کی مثال کی پر حکمت تفسیر موعود کی تکذیب ان کو تنبیہہ غلام احمد غلام احمد فرخ.مولانا غلام احمد صاحب نو مسلم غلام احمد مہار.حضرت چوہدری غلام احمد.میاں غلام حسین صاحب.سید غلام حسین.مولوی غلام حیدر منشی غلام رسول غلام رسول ججہ.چوہدری 239 342 547 643 329 64 149 58 150 333 329 نل احمد بٹالوی صاحب.حضرت شیخ فضل احمد صاحب پٹواری.حضرت فضل الرحمن پیر فضل الرحمن.حکیم فضل الرحمن.چنائی فضل الرحمن ، مفتی فضل الہی صاحب.مولوی فضل حق.شیخ فضل داد فضل داد.چوہدری فضل شاہ صاحب.سید 303 57 293 278 538.120.119 472 87 57 440 287 680 649 60 359 351 298 380 غلام رسول را جیکی حضرت مولانا 54 ، 61،63، 64 ، فیروز الدین صاحب.حضرت میاں 368،59،366 153.154.145.152.79 فیروزدین غلام رسول را جیکی مولانا کا ایک رؤیا جس میں آنحضرت اور فیروز عالم.انچارج بنگلہ ڈیسک مسیح موعود کو دیکھا غلام رسول صاحب، حضرت غلام غوث احمدی غلام محمد غلام محمد صاحب.چوہدری غلام محمد صاحب.حضرت میاں فائق احمد فتح علی فتح علی صاحب، حضرت مولوی فتح محمد مستری فتح محمد.چوہدری.نائب امیر ضلع لاہور فتح محمد خان، راجہ 54 651 62 482 351.144 60 238 62 654.653 367 306 642 ن صاحب.حضرت پیر فیض علی صاحب.حضرت قدرت اللہ خان صاحب قراة العین قطب الدین دہلوی قمر احمد صاحب.مربی سلسلہ.بین قیصر محمود 282 640.639 302 288 59 238 145 293 323 276 559 کامران ارشد صاحب شہید کا ذکر خیر کرشن کرم الہی ظفر صاحب.سپین میں مجاہدانہ سرگرمیاں اور مساعی کرم داد 159 653

Page 750

انڈیکس اسماء 210 54 مامون رشید 57 خطبات مسرور جلد هشتم کرم دین مولوی کرم دین کا مقدمہ.چندہ لعل کے ارادے کے حضور کو جیل مبارک احمد میں ڈالا جائے مزید تفصیلات 657 مبارک احمد طاہر شہید کا ذکر خیر 305 306 کرم دین کا مقدمہ اور آپ کا فرمانا ہمارا خدا کہتا ہے کہ تمہیں مبارک احمد صاحب.حضرت صاحبزادہ مرزا 58 ایسی فتح کا جیسے صحابہ کو جنگ بدر میں کریم بخش صاحب.حضرت کلدہ بن حنبل، حضرت کلیم الدین کمال الدین خواجہ 651 346-281 91 680 657.650 مبارک احمد.کراچی مبارک علی اعوان شہید کا ذکر خیر 680 343 مبارکہ بیگم.والدہ منیر احمد جاوید صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازه مبشر احمد شہید.میاں.کا ذکر خیر کمال الدین.خواجہ حضرت مسیح موعود کو بے رنگ خط مبشر احمد شہید.شیخ کا ذکر خیر گالیوں سے بھرے.اور خواجہ صاحب کا وصول کرنے سے مبشر احمد کاہلوں صاحب.مولانا روک دینا 612 392 292 330 281 مبشر احمد میاں کو کا کولا کے ڈسٹری بیوٹر.ایمانداری کی گریس کیٹر مین، ایم ڈی ڈاکٹر کا اپنی کتاب You and your شہرت.جعلی بوتلیں فروخت کرنے سے انکار 292،293 child's problems میں لکھنا کہ بچوں میں خوف کی مایوس مبشر مجید صاحب کن حالت مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپی کی وجہ 565 مجیب الرحمن.ڈاکٹر گل.مرزا گلاب دین صاحب.میاں گوکل چند لیق احمد شہید.سید کا ذکر خیر لئیق احمد شہید.میاں کا ذکر خیر 378 59 81 304 296 مجیب الرحمن شہید مجیب الرحمن صاحب مجید احمد محبوب عالم.مولوی محمدصلی 270 439 440 269 345 380 حضرت محمد صلی الم ، دیکھیئے سب سے پہلا نام "آنحضرت“ 328 لبید بن ربیعہ کے اشعار اور حضرت عثمان بن مظعون کا تبصرہ 601، 600 محمد ابراہیم لطیف احمد صاحب.میجر نائب امیر ضلع لاہور 273 محمد ابراہیم صاحب.حضرت ڈاکٹر.معالج حضرت خلیفہ ثانی 334 لطیف صاحب.ڈاکٹر لعل خان ناصر شہید کا ذکر خیر لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے لیاقت علی لیکھرام لیکھرام پشاوری مالک بن حارث 347 338 122 281 626 369 108 محمد احمد شہید.چوہدری کا ذکر خیر 298 65 ء کی جنگ میں طیارے کا بم لوڈر خراب ہوا تو اپنے کندھوں پر رکھ کر یم لوڈ کرنے والے یہ ملک کے محافظ 299 محمد احمد.صدر جماعت ہڈیارہ محمد احسن امروہی، مولوی محمد ارشد قمر محمد اسحاق صاحب.مولانا 296 647 276 343 279 381 56 مائیکل ریبر آرچ بشپ کے نمائندہ کا حضور انور سے ملاقات محمد اسلم بھروانہ کے لئے آنا اور کہنا کہ وہ ایم ٹی اے پر حضور کے خطبے محمد اسماعیل صاحب حضرت شیخ خطابات سنتے ہیں 212 محمد اسماعیل.ڈاکٹر

Page 751

خطبات مسرور جلد ہشتم 55 انڈیکس اسماء محمد اسماعیل.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ڈاکٹر کٹریانی والے محمد اشرف 53،298 | محمد حیات باجوہ 657.658 357 280 محمد دین صاحب.حضرت مولوی.صدر صدر انجمن احمد یہ 337 محمد رشید با شمی شهید کا ذکر خیر 291 335 محمد اشرف بھلر شہید کا ذکر خیر.ان کی نماز جنازہ میں غیر محمد سعید درد شہید.میاں کا ذکر خیر احمدیوں کا شریک ہونا اور مولویوں کا اعلان کہ ان لوگوں کے محمد سعید صاحب.مولوی.میر جنہیں حضرت مسیح موعود نکاح ٹوٹ گئے محمد آصف فاروقی شہید کا ذکر خیر 306 281 نے بیعت لینے کی اجازت دی تھی 325 محمد شاہ صاحب.سید.مبلغ انڈونیشیا کی قربانیاں 546 محمد اعظم خان ہوتی..وزیر اعلیٰ سرحد کا ایک احمدی زخمی کی محمد شاہد شہید کا ذکر خیر عیادت کرنا...282 محمد اکرم اطہر شہید.شیخ کا ذکر خیر محمد اکرم شہید.حاجی کا ذکر خیر محمد امیر شاہ، مولوی محمد امین شہید.مرزا کا ذکر خیر محمد انور شہید کا ذکر خیر محمد ایوب خان محمد ایوب خان محمد بخش سولنگی.ماسٹر محمد بوٹا.چوہدری محمد پریل صاحب، حضرت ماسٹر محمد جاوید اسلم محمد حسن 669 324 296 651 328 285 278 294 312 318 644.643 332 439 محمد شریف.ملک محمد شریف خواجہ محمد شفیع محمد شفیع محمد صاحب.حضرت مولوی محمد صادق مفتی محمد صادق محمد صادق صاحب مفتی محمد صادق ننگلی.درویش قادیان محمد صدیق امر تسری.مولانا محمد صدیق صاحب.حضرت 203-204 324 282 345 333 655.616 340 372 310 549 57 محمد صدیق صاحب.چوہدری.انچارج خلافت لائبریری کا ذکر خیر اور خدمات سلسلہ 588.589 286 محمد حسین بٹالوی.مولوی 654،451،84،85 | محمد عارف نسیم محمد حسین بٹالوی مولوی کا گالیوں سے بھرا ہوا خط حضرت محمد عارف، ڈاکٹر درویش قادیان افسر جلسہ سالانہ قادیان کا مسیح موعود کو لکھنا...اور آپ کا صبر اور حوصلہ 605 نماز جنازہ اور ذکر خیر محمد حسین بٹالوی مولوی کا گالیوں سے بھرا ہوا رسالہ اور محمد عبد اللہ حضرت مسیح موعود کا جواب 609.610 محمد عبد اللہ.مرزا.درویش قادیان محمد حسین بٹالوی کے مباحثہ لدھیانہ میں شامل.....651 محمد عبد اللہ حافظ محمد حسین خان ٹیلر ماسٹر.حضرت کا قبولیت احمدیت 376 محمد عبد اللہ صاحب ملک 310-309 305 276 276 336 محمد حسین شہید کا ذکر خیر محمد حسین صاحب.حضرت محمد حسین خان صاحب.مراد آباد محمد حسین ملی شہید کا ذکر خیر 359 281 646 328 محمد علی خان صاحب نواب.حضرت 642،392،145 محمد علی ولد نعمت محمد علی صاحب مولوی آپ کا دفتر محمد غالب شہید 654 644 318

Page 752

خطبات مسرور جلد ہشتم محمد لطیف محمد مالک شہید.چوہدری.کا ذکر خیر محمد مسلم الدروبی.صدر جماعت سیر یا محمد منشاء.شیخ محمد منور چوہدری 275 303 365 320 284 56 محمود احمد ، میاں انڈیکس اسماء 280 محمود احمد.شیخ.آف مردان کی شہادت اور ذکر خیر 587 محمود اللہ شاہ صاحب.سید 589 محمود عالم صاحب.جو حضرت مسیح موعود کے عہد میں قادیان تشریف لائے اور بیعت کی محمد منیر شہید.میاں کا ذکر خیر.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے محی الدین.سید ہوتے محمد منیر.مرزا محمد نواز شہید.چوہدری کا ذکر خیر محمد ولد چو عظه 325 297 329 609 58 438 304 87 298 438 مختار احمد ہاشمی صاحب مختار بی بی صاحبہ مخدوم الحسن مدد خان صاحب، حضرت 659،658،657،642 مراد بخش شیخ محمد یار عارف صاحب.مولوی محمد بیٹی خان شہید کا ذکر خیر.”اے وی جاریا ہے“ حضرت مصلح مراد بخش بھٹی.میاں موعود کا آپ کا نام ”شریف احمد “ سے بدل کر یحیحی...336 محمد یعقوب خان.ڈاکٹر محمد یوسف بانی.سیٹھ......334 320 مریم مریم کی والدہ مریم.حضرت.سے مثال دینے کی حکمت مسعود احمد اختر باجوہ شہید کا ذکر خیر محمد یوسف صاحب.حضرت میاں.پرائیویٹ سیکرٹری مستری عالم دین حضرت خلیفہ ثانی 335 محمد یوسف صاحب، پر وفیسر رچنا ٹاؤن لاہور کی شہادت 28 محمد یوسف قمر.شیخ.امیر ضلع قصور محمد یونس شہید.شیخ کا ذکر خیر 304 295 مستری محمد یاسین مسعو د احمد بھٹی شہید کا ذکر خیر مسعود احمد خورشید سنوری.جنازہ مسعود جاوید.شیخ 167 153 345 542 472 380 358 280 295 590 166 محمدی بیگم کے ایک رشتہ دار جولاہور میں شہید ہوئے 277 مسلم الدروبی.شام.جو سانحہ لاہور کے وقت وہیں موجود محمود احمد بٹ 327 351 تھے ان کا اس عالم میں بھی احمدیوں کے نظم و ضبط کی تعریف کرنا.میرے لئے تو ایک انہونی چیز تھی کہ جس کو میں نے محمود احمد شاد.مربی سلسلہ.شہید کا ذکر خیر محمود احمد شاد.مربی سلسلہ شہید.ماڈل ٹاؤن.ہمارے مربی کبھی نہیں دیکھا صاحب نے اپنے فرض کو خوب نبھایا.صبر اور درود اور مستا، شیخ دعاؤں کی تلقین محمود احمد شہید.مرزا کا ذکر خیر محمود احمد شہید کا ذکر خیر 262 323 345 مسیح، حضرت مشتاق احمد مشتاق احمد.شیخ مشعل عمر مصطفی ثابت 263 381 538.79 467 670.588 محمود احمد صاحب سید میر کی نگرانی میں ربوہ میں مرہم عیسی اور کفن مسیح پر ریسرچ کا ذکر محمود احمد صاحب میر محمود احمد، شیخ 209 205 670.669 440 440.249 مصطفیٰ مثابت.ایک مصری احمدی مصنف اور عالم کی خدمات اور ذکر خیر و نماز جنازہ 412

Page 753

خطبات مسرور جلد ہشتم 57 انڈیکس اسماء الحوار المباشر عربی پروگرام میں ایک نمایاں نام مصطفیٰ منیر احمد شیخ شہید لاہور کا ذکر خیر.امیر ضلع لاہور 272، 269 ثابت صاحب کا کسر صلیب کے لئے حضرت مسیح منیر احمد منور.موعود کے غلام ہونے کا حق ادا کر دیا اپنی آمد کا ستر فیصد چندوں میں دینا 413 مطرف.حضرت مطرف بن عبد اللہ مظفر احمد شہید مظفر احمد شہید کا ذکر خیر معاذ الرحمن معاویه معاویہ بن یزید مغفور احمد منیب مقصود احمد ، بنگلور مقصود احمد شہید.ملک کا ذکر خیر ملا واصل لاله ملک خان صاحب ملیحه حسن ممتاز احمد منصور احمد شہید کا ذکر خیر منصور بیگ شہید.مرزا کا ذکر خیر منصور بیگ.مرزا منصور صاحب.ڈاکٹر منور احمد خان شہید کا ذکر خیر 414 17 595 277 291 440 635 634 323 680 298 59 642 439 75 342 325 277 174 278 307 324 309 322 365 393 291 612.119.45 120 146 منیر احمد.صوفی منیر احمد.ملک.جاپان منیر الحصنی.امیر شام منیر جاوید.پرائیویٹ سیکر ٹری حضور انور منیر شاه ماشمی موسی.حضرت موسیٰ موسیٰ بن انس.حضرت موسی رستمی.کا ذکر خیر.صدر کو سودد 440 موسیٰ رستمی.صدر کو سووو.جب پتا چلا کہ ان کی تنخواہ مبلغ سے زیادہ ہے تو کم کر دی کہ مبلغ سے زیادہ نہیں 441 مولا بخش.شیخ مول راج (وکیل از طرف کرم دین) مومن طاہر صاحب مونسونیر لیبر ٹی 367 657 209 207 مہدی ٹپانی.زمبابوے کے ایک احمدی بھائی کی وفات اور منور احمد شہید کا ذکر خیر ذکر خیر الله 638 649.648 مہر اللہ نامی ایک استاد کا کہنا کہ امام مہدی ظاہر ہونے والا ہے....648 مہر بی بی صاحبہ.حضرت مهر دین صاحب.حضرت مولوی مہدی حسن ، میر 330 290 150 367 367 153 ایک دوست ( منور احمد شہید) کا شیعہ عقائد کی طرف مائل میراں بخش ہونا اور حضرت امام حسین اور حضرت علی کا خواب میں آکر میراں بخش عطار حضرت مسیح موعود کی صداقت کا بتانا 308 منور احمد قیصر شہید کا ذکر خیر منور بیگ.مرزا 349 325 میراں بخش.میاں میراں بخش صاحب، حضرت 650.649 ناصر احمد.حضرت مرزا 346،326،317،321،315،285 منور علی.چوہدری.سیکرٹری امور عامہ (لاہور) 314 ناصر احمد کاہلوں.نائب امیر آسٹریلیا منہاج الدین.مولوی منیر احمد.صوبیدار 81.82 307 318 ناصر چوہدری میجر جنرل (ر) شہید کا ذکر خیر 272، 273، 335-325-318.277

Page 754

خطبات مسرور جلد ہشتم 58 انڈیکس اسماء ناصر محمود خان شہید کا ذکر خیر نبی بخش صاحب.حافظ 286 287 نظام الدین.مولوی.حکیم 154 ایک غیر احمدی مولوی ( نظام الدین) کا آیت انی موفیک...نی بخش حضرت صوفی کا قبول احمدیت.لیکھرام پشاوری میں تقدیم و تاخیر کے مطابق علماء کے مشورے سے قرآن کے اشتہار کی تصدیق کے لئے قادیان آنا اور....369 طبع کروانے کا منصوبہ اور پر لیس والوں کے انکار پر خود پریس نبی بخش ثار احمد شار احمد.چوہدری 657 275 318 لگا کر ایسا قرآن شائع کرنے کا منصوبہ اور طاعون کا شکار 155 نظام دین ٹیلر ماسٹر.حضرت.قبولِ احمدیت کی تفصیل 370 نظام دین نجم الحسن.ڈاکٹر.کراچی کی شہادت اور نماز جنازہ 438 نظام دین مرزا ندیم احمد خان.جامعہ احمد یہ ربوہ ندیم احمد طارق شہید.شیخ کا ذکر خیر 348 320 ندیم صاحب عربوں کے متعلق الفضل میں لکھنے والے249 نذیر احمد نذیر احمد نذیر احمد شہید کا ذکر خیر نذیر احمد علی صاحب.مولانا نذیر احمد.چوہدری نذیر احمد، شیخ نذیر احمد.صوفی 587 322 358 548.549.550 317 669 392 654 359 615 نظام دین مرزا اور مرزا امام دین اسلام کے دشمن اور حضرت مسیح موعود کو نقصان پہنچانے کے لئے دیوار کھڑی کر دینا مقدمہ میں ہار جانا اور ان کا لجاجت کرنا نظام دین.میاں نعمان احمد لاہور نعیم احمد شیخ نعیم الدین کیپٹن ریٹائر ڈ مر زا شہید کا ذکر خیر نواب نوح.حضرت 614 343 680 281 276 331 45 نذیر حسین، مولوی نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا 122 نذیر شفیق المردانی.سابق امیر جماعت سیر یا.ذکر خیر اور نماز نوح کے بیٹے کے غرق ہونے کا سبب جنازه پذیر نیم نسیم مهدی صاحب 365 302 274 نور احمد.ڈاکٹر نور الامین شہید کا ذکر خیر نور الامین واصف 127 298 302 326 نصرت جہاں.ڈاکٹر فضل عمر ہسپتال میں بہت نمایاں خدمات نور الدین.حضرت مولانا حکیم 55، 61، 321، 325، سر انجام دینے والی واقف زندگی ڈاکٹر نصیر احمد بٹ.فیصل آباد کی شہادت نصیر احمد سولنگی نظام الدین صاحب.حضرت میاں نظام الدین صاحب.حضرت.پوسٹ ماسٹر 346 482 312 355 58 655-451-646-378-376-372-342 حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے تو کل کی سیرت 144 خلیفہ اول سے دربار میں حکمت کی تعریف کے بارے میں پوچھا جانا 77 نظام الدین.مرزا کا کسی کو مقرر کر دینا کہ وہ ساری رات خلیفہ اول کا فرمانا کہ خدا ہمیشہ میرا خزانچی رہا ہے.آپ کے اونچی آواز میں حضرت مسیح موعود کو گالیاں دیتا رہے.آپ کا فرمانا کہ اب اس کو کچھ کھانے کو دو.613 تو کل کی سیرت 85 خلیفہ اول کا ناسخ منسوخ پر اظہار خیال اور بحث 84

Page 755

خطبات مسرور جلد ہشتم 59 انڈیکس اسماء خلیفہ اول کی خدمت علامہ اقبال کا پوچھنا کہ تثلیث کا مسئلہ 78 یحیی بن و ثاب نور الدین دنیا کمانے (نہیں آیا صرف خدا کے لئے یہاں آیا یزید ، پلید ہوں اور میں نے حضرت اقدس کی بیعت میں پالیا...646 یزید پلید سے خدا کا انتقام نور الدین، میاں نور ماویلر 593 635.634.633 634 یعقوب علی عرفانی صاحب.حضرت شیخ 391،390،152، 611 610 608 607 606 <605.402 <392 292 Norma Waller نار ما والر انگلستان کی عیسائی سکالر کار بوہ 616،612 میں ہونے والی ریسرچ کو سراہنا...نیک عالم ، مولوی و سیم احمد خان و سیم احمد صاحب.صاحبزادہ وسیم احمد چوہدری صدر کینال پور و سیم احمد شہید کا ذکر خیر 209 650 348 347 299 355 یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر مرزا یوسف خان چوہدری یونس احمد اسلم.درویش قادیان 650 326 300 Norma Waller نار ماوالر انگلستان کی عیسائی سکالر کار بوہ 209 میں ہونے والی ریسرچ کو سراہنا...Secondo Pia کفن مسیح کی پہلی بار تصویر لینے والا شخص 206 و سیم احمد صاحب شهید ابن محمد اشرف صاحب کا ذکر خیر 357 ایس جی ولیم سن.غانا یونیورسٹی کے پرو فیسر کی کتاب و سیم صاحب.ڈاکٹر ولی داد صاحب، حضرت 335 642 ولید احمد شہید کا ذکر خیر.سب سے کم عمر شہید سانحہ لاہور کے 284 ولید احمد.گیارہ سال کا واقف نو بچہ بڑے ہو کر کیا بنو گے.میں اپنے دادا جان کی طرح شہید بنوں گا“ ولید بن مغیره 284 600.601 وہاب آدم صاحب...کا پاکستان میں احمدی شہیدوں کے لواحقین سے ملنا اور...ویورڈ گار.مسٹر امریکن مشن پادری 672 243 ڈاکٹر محمد اقبال سے آرنلڈ صاحب کا ایک سوال اور ان کا حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے استفسار کرنا کرائسٹ اور محمد “ 243 ڈوئی باشم شیخ ہدایت اللہ صاحب.حضرت ہند بن ہالہ.حضرت یاسر.حضرت یاسر محمود، شیخ 78 626 365 335 43 232 669

Page 756

خطبات مسرور جلد ہشتم 60 60 مقامات انڈیکس مقامات اٹلی (بیت التوحید) میں حضرت ایدہ اللہ کا دورہ اور جماعتی آٹوا آچم Akyim(غانا) آریہ بازار قادیان آزاد کشمیر 27 23 642 578 578 575.574.564.499.26 23 578 578 آسنور آسٹریلیا آگو یا یم (Akuafim) غانا آگس برگ آند را پر دیش خدمات اور احمدیت کا بھر پور تعارف اٹھوال احمد نگر ادر حماں ضلع سرگودھا ارنگا.تنزانیہ اڑیسہ اسلام آباد.لندن 204 649 589 338 354 578 384 اسلام آباد 588-316-387-357.27 آئر لینڈ.گالوے میں خلیفہ وقت کا اسلام کی خوبصورت اشانٹی.غانا 243 تعلیم وہاں کے سرکردہ افراد کے سامنے پیش کرنا مسیح افریقہ 499،399،369،358،288،108،20،16، 498 672-624-577.548.546 موعود کا الہام اور پر لیس میں کوریج آئر لینڈ زمین کا ایک کنارہ ہے جہاں احمدیہ مسجد کی تعمیر افریقن احمدیوں کی مالی قربانیاں ہوئی آئرلینڈ میں مسجد کی تعمیر اور اس کی تفصیلات آئرلینڈ 498 498 575 489 افریقن ممالک میں عرب ملکوں سے پیسہ لیکر احندیت کی مخالفت 23 افریقہ غیر احمدیوں کا اس واسطے احمد یہ جماعت کو چندہ دینا آئر لینڈ حضورانور کا اس جگہ کا پہلا سفر ایک مسجد کا سنگ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چندے کا صحیح مصرف جماعت احمد یہ بنیاد 484 کرتی ہے 152 آئیوری کوسٹ کے شہر بسم Bassam کے نومبائع مکرم افریقہ کے بعض ممالک کا در وہ وہاں کے سیاسی حالات کے یا گو علیڈو...کا چندہ ادا کرنے کی برکت سے اموال میں پیش نظر ملتوی ہونا برکت.....آئیوری کوسٹ اٹک اٹلی 151 576 302 204.200.178 200 افریقہ میں تحریک جدید کی وصولی کے اعتبار سے نائیجیریا کا سر فہرست ہونا 576 افریقہ میں غیر احمدی سے چندہ لینا، جبکہ عموماً غیر احمدیوں سے چندہ نہیں لیا جاتا 152 احمدیت اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلائے جانے کے الہی افریقہ کے مختلف ممالک میں تربیتی، تبلیغی اور مساجد کی 178 تعمیر کے واقعات 21 سامان....اور اٹلی اٹلی میں احمدیت کے نفوذ کی دعا اور احمدیوں کو کوشش افریقہ کے بعض مخیر دوستوں کا اپنے اموال سے بڑی کرنے کی نصیحت اٹلی میں جماعت کی تاریخ...179 203.....خوبصورت مساجد بنا کر جماعت کو پیش کرنا افغانستان 569 211

Page 757

انڈیکس مقامات 440 642 575.148 61 البانيه باڑی پورہ بحرین 22 645-403-376-333-288-286 295 خطبات مسرور جلد هشتم امبالے ( یوگنڈا) امر تر امروہہ.انڈیا امریکہ 20، 24، 25، 27، 82، 121، 280، 313، بدر کی جنگ میں سرداران کفار کا وہیں قتل ہونا جہاں <499 484 440 439.399.385 319.314 590.578-575-574-573-564.534 آنحضرت صلی الہ وسلم نے نشان لگائے 116 بدر کے میدان میں آئندہ سال پر مسلمانوں کا جانا...112 امریکہ کے ایک چرچ کی طرف سے قرآن کو جلانے کی بد و ملی ضلع نارووال مذموم سازش...اور جماعت کی مذمت بدین براملی برسٹل 323.279 578 578 578 ان لینڈ ایمپائر انبالہ انر پارک 428 578 654.396 578.27 انگلستان ” نیز دیکھیں برطانیہ.یو کے “ 365،196،87 برطانیہ.U.K نیز دیکھیں "انگلستان"24، 25، 27، 578-575-574-573-275 انڈونیشیا.ایک جزیرے سے احمدیوں کو نکالا گیا حکومت برطانیہ (برطانیہ) پولیس اور دیگر محکموں کا جلسہ سالانہ کے کہنے پر واپس آنا اور شدت پسند ملاؤں نے دوبارہ ان برطانیہ کی تعریف کرنا کے گھروں کو جلایا تو حکومت نے پھر چلے جانے کو کہا 624 برطانیہ میں بھی احمدیت کے خلاف دشمنی کا بڑھنا574 انڈونیشیا 574-546-541.26 برک الغماد برما انڈونیشیا میں احمدیہ مسجد اور کچھ گھروں کا نذر آتش کر دینا اور اس پر وہاں کے سیاستدانوں کا مذمت کرنا اور سابق صدر اور بریمپٹن سپرنگ ڈیل( کینیڈا) ان کی اہلیہ کا افسوس کے لئے جماعت کے گھروں میں جانا.بندیال ضلع چکوال پاکستانی لیڈر بھی سیاسی اور اخلاقی قدریں اپنائیں 521 بنگال انڈیا 680،578،577،575،574،347،534،26 اوجلہ.تحصیل گورداسپور اوکاڑہ اونچاجہ ضلع سیالکوٹ اوور سیز (غانا) علاقہ میں احمدیت کی مساعی ایبٹ آباد ایران ایشیا ایڈمنٹن باسیلا (بین) باغبان پورہ لاہور ما نجل.....گیمبیا 373 578 329 23 291 130 169.121 578 151 283 639 بنگلور بنگلہ دیش بنگلہ بنوں صوبہ سرحد بو بو جلا سو برکینا فاسو 412 596 272 27 350 578 680.578 639.399.385 56 376.375 25 26.576 بورکینا فاسو میں تبلیغی مساعی ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ 24 بورن متھ 57 655-645-378-371-334.149.145.56 J بھاگلپور بھانبڑی ضلع گورداسپور بھکر 119 649.648 578

Page 758

خطبات مسرور جلد ہشتم بھگوان پورہ گو جرانوالہ بھاں.ضلع لاہور بھوپال بھیرہ ضلع سرگودھا بھینی محرمه ضلع گورداسپور بھینیاں بہاولنگر بہلول پور تحصیل پسر در ضلع سیالکوٹ 313 348 85 304.294 318 346 577.27 272 62 انڈیکس مقامات پاکستان اور دنیا کے وہ ممالک جہاں اللہ اور رسول کے نام پر ظلم ہو رہے ہیں ان ظلموں کے خاتمہ کے لئے دعا کی تحریک 638 پاکستان اور دوسرے ممالک میں احمدیوں کا صبر اور دعائیں مانگنا اور خدا تعالیٰ کا ان دعاؤں کا سننا 502 پاکستان اور ربوہ سے رسومات کی بابت بعض ملنے والی رپورٹس 35 پاکستان اور عرب کے احمدی اصحاب کہف کی سی زندگی گزار رہے ہیں.یہ دن انشاء اللہ بدلنے ہیں.497 پاکستان اور مصر وغیرہ ممالک میں احمدیت کی مخالفت...219218 بیت التوحید - سان پیٹر واٹلی.اس ملک میں پہلی بار لائیو پاکستان اور ہندوستان کے احمدیوں پر ہونے والے مظالم اور دعا کی تحریک خطبہ بیت الحمد مری بیت الفضل.مسجد 178 353 27 668 پاکستان اور دیگر ممالک ہندوستان، بنگلہ دیش ، شام، مصر، عرب ممالک اور بلغاریہ وغیرہ میں احمدیت کی مخالفت....113 پاکستان جو جماعت کی قربانیوں کے ساتھ حاصل کیا گیا اب بیت النور ماڈل ٹاؤن لاہور جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے رکھا 335 مفاد پرستوں نے کیا حال کر دیا ہے 517 پاکستان خلفائے احمدیت سیاستدانوں اور عوام کو ہمیشہ بیت النور ماڈل ٹاؤن.مسجد 285،287،273، 288 مذہبی شدت پسندی کی طرف لے جانے والے طبقہ سے بیر می ضلع لدھیانہ بری ( کینیڈا) يجيم ببین 652.651 27 575.574.26 576-293-151-26 ہوشیار کر تا رہا 517 پاکستان سے آنیوالے ایک غیر از جماعت کا سوال کہ ملک کے حالات کب ٹھیک ہوں گے...458 بین میں مساجد کی تعمیر اور احمدیت کی ترقی کی مساعی 22 پاکستان سے آنے والے جلسہ سالانہ پر مہمانوں کا اخلاص اور مظلومیت اور بہت زیادہ حسن سلوک کی نصیحت 358 پئی.ضلع امر تسر ( پٹی یا پئی)؟ 325 پاکستان سے شامل ہونے والے جلسہ قادیان والوں کو پاکستان 167،159،27،24،16،15، 241، 280،275، دعاؤں کی خصوصی تحریک 354-361-351 349 345 340 319.314 313 574.573.546.545.541.534.410.399.385 680-665-624-584.577.575 پاکستان کا قانون احمدیوں کے بارہ میں...662 236 پاکستان کو خوفناک صورتحال سے اگر بچا سکتی ہے تو وہ احمدیوں کی دعائیں ہیں 518 احمدیوں نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا تھا اور ان پاکستان کی اسوقت بقا بھی احمدیوں کی دعاؤں میں ہے 236 لوگوں سے بڑھ کر کیا تھا جو آج دعویدار اور پاکستان کے پاکستان کے ابتر حالات...آفات ، دہشتگردی اور مولویوں ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے 266 اور لیڈروں کی حالت 237 پاکستان (سرگودھا کے گاؤں چک منگلا ) میں کلمہ طیبہ پاکستان کے احمدی خاص طور پر احتیاط کریں کہ کوئی فضول 235 پاکستان کے احمدیوں کو آنے جانے میں احتیاط کرنے کی مثانے کی ایک ناپاک جسارت پاکستان (فیصل آباد) میں احمدیوں کی شہادت کا ظالمانہ نصیحت اور سفاکانہ فعل 166 167 پاکستان کے احمدیوں کے لئے ایک دعا کی خاص تحریک 424

Page 759

خطبات مسرور جلد ہشتم 63 انڈیکس مقامات پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک اور سخت حالت لیکن احمدیوں کی مالی قربانی...کا بہترین معیار 574 پاکستان میں آنے والا حالیہ سیلاب کئی سونامیوں سے بڑھ حالات.231 پاکستان کے بگڑتے ہوئے اور ابتر حالات جو لیڈر شپ کر.صدرا قوام متحدہ 424 519 پاکستان میں ایک احمدی کی زندگی کو دہر اخطرہ ہے 577 ہے سمجھ نہیں کہ کس طرف جارہا ہے پاکستان کے سکول و کالجز میں احمدی طلباء کی مشکلات...548،623 پاکستان میں بگڑتے ہوئے حالات.اللہ تعالیٰ ان شریروں پاکستان کے سیاستدانوں کا اپنی سیاسی مفادات کی خاطر کے شر ان پر الٹائے...مذہبی جبہ پوشوں سے معاہدے کرتے رہنا 517 365 پاکستان میں حضرت مسیح موعود کی کتب میں سے پاکستان کے مظلوم احمدیوں کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں 495 اعتراضات کی صورت کی انتہا 250 پاکستان کے نام نہاد علماء اور مولویوں اور لیڈروں کا برا پاکستان میں دہشتگردی یہ کون سی حب الوطنی ہے 518 حال....237 پاکستان میں رشوت کا عام ہونا 38 پاکستان میں آئے دن قتل...وہاں کے علماء کے لئے لمحہ فکریہ 238 پاکستان میں شادی کے موقعہ پر کھانا کھلانے پر پابندی اور پاکستان میں احمدیت پر زمین تنگ کرنا اور اس کی وسیع اس پیر عمل کرنے کی تلقین تر برکات اور جماعت کی ترقی.131 پاکستان میں احمدیوں پر پابندیاں.یہ حالات ہمیشہ کے پاکستان میں فساد اور جھوٹ پر مبنی نظام 36 257 پاکستان میں مخالفت زور پر ، پاکستان کے احمدیوں کو دعا کی لئے نہیں ہیں.ظالم صفحہ ہستی سے مٹادئے جائیں گے 495 اور باہر کے احمدیوں کو بھی ان کے لئے دعا کی تحریک 236 پاکستان میں احمدیوں کو قربانی کی عید پر قربانی کرنے سے روکنے کے لئے پولیس میں رپورٹ...598 پاکستان میں مخالفت کے بعد جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی ہے پاکستان میں احمدیوں کے بارے میں یہ پابندیاں کہ تم لوگ پاکستان میں مخالفین احمدیت کے منصوبے نماز نہیں پڑھ سکتے 598 663 437 پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور اس کے بھیانک نتائج 517 ربوہ میں ہونے والے ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کا کچھ پاکستان میں یکصد یتامی کمیٹی کا قیام اس کے کاموں کی تذکرہ جو آج کل پاکستان میں پابندی کا شکار ہیں 494 تفصیل اور دنیا بھر کے تمام پاکستانی احمدیوں میں اس میں پاکستان میں احمدیوں کے حالات نے عبادات کے معیار بہتر مالی امداد کی تحریک بنانے کی طرف مائل کیا ہے 424 109.108 پاکستان وطن کی محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ملک کے لئے دعا پاکستان میں احمدیوں کے خلاف سخت اور مشکل حالات اور ان میں احمدی نوجوانوں کا ڈیوٹی دینے کا حیرت انگیز جذبه.....502 کریں 517 پاکستان، عرب، هند وستان، آسٹریلیا، جزائر ، یورپ، امریکہ، افریقہ سے حضور انور کی خدمت میں مخطوط کی کثرت جن ، پاکستان میں آنیوالا سیلاب اور جماعت احمدی کی خدمات اور غیر میں لاہور کے شہداء کی عظیم شہادت پر جذبات کا اظہار کیا گیا ہے احمدیوں کا احمدیوں کے ساتھ امتیازی نارواسلوک.....520 پاکستان میں آنے والا سیلاب کا طوفان کو لاہور میں احمدی پتوکی مساجد پر ظلم و بربریت کے بعد آیا پھر بھی احمد یہ جماعت کا پٹیالہ ضلع امرتسر مدد کے لئے آگے آنا...521 256-255 296 319 پرتگال: مسجد اور مشن ہاؤس کی کوشش اور دعا کی تحریک 202 پاکستان میں آنے والے سیلاب وغیرہ سے بری معاشی پرشتنا Prishtna کو سووو 440

Page 760

خطبات مسرور جلد ہشتم پسرور پیشاور پنجاب یونیورسٹی پنجاب (انڈیا) پنجاب پنڈوری پوبے منگاؤ( Pobe Mengao) پولینڈ پون نگر پھگواڑہ پھلورہ ضلع سیالکوٹ پھیر و چیچی پیرس پیس ویلچ ایسٹ میں ویلچ ساؤتھ پیس ویلچ سینٹر چیس ویچ ویسٹ تالنڈ گ...احمد یہ مسلم ہسپتال تامل ناڈو تخت ہزارہ ضلع سرگودھا تربیلا تعلیم الاسلام اسکول.چنیوٹ تعلیم الاسلام کالج ٹھوکر نیاز بیگ جایان جاپان ایٹم بم کی تباہ کن بر بادی جامعہ احمد یہ چنیوٹ جامعہ احمد یہ ربوہ جامعہ احمدیہ کینیڈا جانا انڈیکس مقامات 301 301.280 545 208 <393.409-440-350-324-27-196.26*7.578.574.573.546 64 327.154 61 588 578 372.121.79 62 25 324 355 56 651 60 212 578 578 578 578 639 578 309 338 589 589.298 301 321 575-564-323-322 125 جرمنی جلسہ پر سیکیورٹی اور دیگر امور کے بہتر نظام کی تعریف اور مثال الجزائر جلیل جموں و کشمیر جموں جناح ہسپتال جنوبی امریکہ جولان Gjilan جو ہر ٹاؤن جھنگ جہلم 386 499-204-201.181.180 211 578.328 650.144 358 121 440 301 279-273 371 جہلم حضرت اقدس کے سفر جہلم کی تفصیلات 367 جہلم محلہ ملاحاں جيلهم 370 578 چانگریاں تحصیل پسرور 651 چاه راڈا محلہ احمد پورہ گوجر انوالہ چک سکندر چک لوہٹ چک نمبر 98 شمالی چک نمبر 99 شمالی سرگودھا 649 2 655.654 58 57 جاپان سے جانے والے ایک صاحب کا لکھنا کہ شہادتوں نے چک نمبر 9 متابہ ضلع شیخوپورہ الله سة نبی اکرم صلی نیلم کے دور مبارک کی یاد کو تازہ کر دیا 262 جا پنگو (بین) چکوال 346 357 چلی اور بیٹی میں آنے والے زلزلے یہ سب حضرت مسیح جالند هر جامعہ احمدیہ 151 276-269 588-287 موعود کی تائید میں ہیں چنائی 120 680.578

Page 761

خطبات مسرور جلد ہشتم چندر کے منگولے ضلع نارووال چنگڑانوالہ ضلع سرگودھا چنیوٹ 330 324 65 دوالمیال ضلع جہلم دھرم پوره دہلی میں حضرت اقدس کا قیام اور دیگر...انڈیکس مقامات 653 291 حافظ آباد حبشہ حديقة المهدی 589-320-301.292 578 578.153 233 395.387.384 رائے ونڈ را جیکی (موضع) را مپور رانچی ضلع بہار.بھارت 647 306.286 64.54 85.83 305 حضور انور کا سانحہ لاہور کے لواحقین میں سے ہر گھر میں راولپنڈی 302،274،272،269،144،27، 369،353 فون کر کے تعزیت فرمانا اور اہل خانہ کا قابل رشک صبر ورضا کے نمونے اور اظہار حمراء الاسد حیات آباد حیدرآباد ( آند را پر دیش) حیدرآباد حیدرآباد دکن خلافت لائبریری کے انچارج خونن ضلع گجرات دائیبرگ (Dieburg) 256 111 578 578 578.547.272 325 588 351 578 369 دار البرکات قادیان دارالذکر ، مسجد ، گڑھی شاہو 252، 274،270،269،253، <284-283-282-281-280-279-278 277 276 275 298-297-296-294-293-291-290-288-286-285 319 317 316 313 308 307 306 302-301 333332330 328 327 324 322.321.320 346 345 344 342 341 340 337 336 334 361-359-358-357-356-355-351-350-349-348 دار السلام تنزانیہ دار الفضل قادیان داسا (Dasa) بین ویی دنیر ا(مقام) دو دروازہ محلہ جنڈ والہ (سیالکوٹ) 354 57 22 575 87 367 330-324-298-295-292-284-27-2800% 346 345 343 342 338.341 <333 <332 589-587-547-546-543.467.355.439 ربوہ پاکستان میں جلسوں پر پابندی اور پہلے ہونے والے جلسوں کی رونقوں کا ذکر ربوہ کے ارد گر دلوگوں کا ماحول 660 522 ربوہ کے پہاڑوں میں شہداء کو دفن کرتے ہوئے ایسا لگا جیسے اس زمانے میں نہیں 262 ربوہ گھروں میں سالانہ جلسوں کا ذکر ہوتے رہنا چاہیے، حسرت کے طور نہیں عزم پیدا کرنے کے لئے 661 ربوہ میں پہلی رات بسر کرنے والے اور اس کی کیفیت 589 ربوہ میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں خلیفہ وقت کی شرکت...ربوہ میں ہونے والے ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کا کچھ تذکرہ جو آج کل پاکستان میں پابندی کا شکار ہیں 494 494 ربوہ میں صدر عمومی کی ذمہ داری کہ شادی بیاہ پر بے جا اسراف......نہ ہو 35 ربوہ میں ہونیوالی ختم نبوت کانفرنس اور اس میں شامل ہونے والے علماء کا عملی کردار ربوہ میں ہونے والے جلسوں کی کیفیت 536 664 ربوہ والوں کا شکریہ ادا کرنا اس موقعہ پر جو خدمت کی 263 ر تو چھہ ضلع چکوال رچنا ٹاؤن.لاہور 357 28

Page 762

خطبات مسرور جلد ہشتم رسم شادی پر یا فضول خرچی نہ ہو.رکھ شیخ لاہور روم میں مسجد بنانے کی دعا کی تحریک روم ریاست بھوپال زمبابوے ساؤتھ ایسٹ لندن ساؤتھ ریجین 35 305 178 203 298 638 27 578 66 66 انڈیکس مقامات سرحد کے وزیر اعلیٰ کا احمدی زخمی کی عیادت 669 سر ساوا ضلع سہارنپور سرگودھا 381 577.321.27 سرگودھا.چک نمبر 152 شمالی میں پولیس کا کلمہ مٹانے کی کوشش اور معمر صدر جماعت کی جرات سری نگر.محلہ خانیار مسیح کی قبر سسلی سعودی عرب 236 211 204 352.341.340 سان پیاٹر وان کسیلے san pietroin casale (اٹلی) 204 یہ خیال غلط ہے کہ اسلام سعودی عرب سے ہی سیکھنا ہے 160 سان فرانسسکو سانگھڑ سا ہو والا ساہیوال سبزہ زار (جگہ) سبی سپین 121 578.439 366 318 271 359 سفر جہلم کے دوران دو یورپین خواتین کا حضرت اقدسع کا فوٹولینا 367 سفر جہلم مولوی ابراہیم سیالکوٹی کا وعظ اور مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر ایک فقیر، سائیں آزاد کا حضرت مرزا صاحب کی تائید میں مولوی کو کہنا کہ کیوں جھوٹ بولتے ہو اور لوگوں کو بھکاتے ہو سکن تھورپ 368 578 82 378.377.376 281 337-328-327-326 213.202.200.168.159 سپین ( پید روآباد) میں مزید تعمیرات 203 سپین (جماعت احمدیہ ) کے جلسہ کا افتتاح اس خطبہ جمعہ کے ساتھ سپین کے احمدیوں کو نصائح 157 169 سکندرپور سلطان پورہ لاہور سندھ سپین کے واقف نو بچوں کو نصیحت کہ اپنے آپ کو جامعہ سندھ میڈیکل کالج 176 سنگاپور 438 547 میں جانے کے لئے پیش کریں سپین میں اسلام کا تابناک ماضی مسلمانوں کی عبرت کی سوئٹزر لینڈ 205،200،196،188،189،179،26، داستان 163 575.574.440.211 سپین کے احمدی، قدم قدم پر نشانات اسلام کے سندھ میں احمدیت کی ترقی اور بعض احمدیوں کے کمزور خوبصورت ماضی، عبر تناک انجام اور یہ کہ آج اس کھوئی ہو جانے کی وجہ کہ قبول اسلام کے بعد غیر مسلم اقرب ہوئی عظمت کو احمدیت نے قائم کرنا ہے سپین میں دعوت الی اللہ کرنے کے بارہ میں تفصیلی ہدایات سندھ میں تبلیغی مشن اور احمدی مبلغین کی شاندار اور نصائح 164 174 سے رشتہ ناطہ جاری رکھا...مساعی...سپین میں مبلغین اور مجاہدین کی خدمات اور مساعی ، انتہائی سنگر ور ریاست جیند 80 80 651 نامساعد حالات سر بٹن 159 578.27 سوئٹزر لینڈ ایک مخلص سلجھے نوجوان نومبائع جو کتب حضرت مسیح موعود کا اٹالین ترجمہ کر رہے ہیں ان کے لئے

Page 763

خطبات مسرور جلد ہشتم امام وقت کی دعا سٹر اس برگ (فرانس) 211 211 سٹر اس برگ میں احمدیت کا نفوظ اور مخلص جماعت 212 رگ میں احمد : 67 عارف والا ضلع لیہ انڈیکس مقامات 340 عرب (ایک) عرب ملک.تحریک جدید میں نمایاں پوزیشن لینے والا 575.574 عرب ملک تیل کی دولت نے دین سے دور کر دیا 160 سٹن سٹھیانہ.ہوشیار پور سہار نبور 27 62 381 سیالکوٹ 280،154،59،56،27، 327،317،301، 577-380-366-355 سیالکوٹ حضرت اقدس جب گذرتے تو مخالفین کا گالیں دینا اور برہنہ ہو کر راستے میں کھڑے ہو جانا سیداں والی غربی ضلع سیالکوٹ سیر الیون.روکو پر سیر الیون.ناصری (قصبہ) سیرالیون 367 345 243 549 576.200 علامہ اقبال ٹاؤن 355 علی پور قصور علی گڑھ عمر کوٹ غانا 296 646 577 672 غانا میں احمدیت کی ترقی اور فتوحات اور عیسائیت کا میدان خالی کر دیا 243 23 غانا میں تبلیغ اور تربیت کی مساعی غانا میں حضور انور مقیم تھے تو غیر احمدی زمیندار اپنی زکوۃ کی رقم لے کر آئے اور کہتے ہیں کہ اپنے مولوی کو گے تو وہ کھا جائے گا آپ لوگ صحیح استعمال کریں گے...1152 سیر الیون میں مسجد کی تعمیر اور دیگر مساعی کا ذکر 21 فار موسا سیکھواں سیلیکون ویلی سیٹیلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ شاغور.دمشق شالیمار ٹاؤن (لاہور) شام 374.373 578.27 304 365 275 42 شام کے پہلے صدر مجلس انصار اللہ نذیر شفیق المردانی 365.......121 276 فتح پور ضلع گجرات مجی دنیا کے کناروں کے خلیفہ وقت کے دورہ کے نتیجہ میں مسیح محمدی کا پیغام پہنچنا فرات، دریا فرانس فرمی ٹاؤنا فرینکفرٹ شام (جماعت سیر یا) کو خلیفہ الرابع کا فرمانا کہ اصحاب رقیم فضل عمر ہسپتال ربوه بن جائیں شاہدرہ لاہور شکا گو.امریکہ شکر گڑھ شہداد پور ضلع سانگھڑ شهر سلطان (جگہ) شیخوپوره صنعاء (جگہ) الطاف پارک 365 342.28 578.359 326 76.75 339 285.27 249 282 فلسطین فیصل آباد 486 632 575 213 212.26 549 27 347-346 206 482-336-329-328.307.27 فیصل آباد کے تین شہداء کی نماز جنازہ غائب (پاکستان میں تو پتہ نہیں ان کا جنازہ کس وقت ہو گا لیکن بہر حال میں ان کی نماز جنازہ غائب ابھی پڑھاؤں گا 167 فیصل آباد میں جماعت احمدیہ کے خلاف مظالم کا سلسلہ 167 فیصل ٹاؤن فیض اللہ ( گاؤں ).قادیان 287.286 285-287

Page 764

خطبات مسرور جلد ہشتم قادیان 55 56 57 ، 60، 61، 63، 82، 149، 150، <298.295-292 291.276-288.167.154.152 336-335-330-324-315-312-310-306-300 376 375 374 372 371 370 369 349 346 543 482 480 438 417 411 380 378 649.645.643-642-615.614-610-546-578 680-658-657-656-655-652 68 انڈیکس مقامات 657-643-642-330.207.144.77 کشمیر میں قبر مسیح کو دیکھنے کی پابندی شاید یہ بھی ایک سازش کی کڑی ہو 209 قادیان کا پہلا جلسہ سالانہ 370 کلکتہ کمال ڈیرہ.سندھ کمولی ( یوگنڈا) کنانور ٹاؤن قادیان میں احمدیوں پر ظلم پر مقابلہ اور ظالموں کو بالآخر کنری حضرت مسیح موعود کا معاف فرمانا...616 کنشاسا قادیان میں احمدیوں کی مختلف تکالیف کا سامنا کرنا اور آپ کنیال پارک.لاہور 615 کو تمبٹور کا سختی سے صبر کی تلقین کرنا.قادیان میں حضرت خلیفہ ثانی کو ایک بار ڈیوٹی والوں کا کوئٹہ روکنا...411 582 578.320 643 22 578 578 24 296 578 587 360-359-280-274 301 322 440 کوچہ میر حسام الدین.سیالکوٹ کوریا قادیان میں لاہور کی طرف سے تعمیر کردہ گیسٹ ہاؤس 315 قادیان.بہشت کا نمونہ ذکر الہی اور سلاماً سلاما کی آواز ہر کوسووو وقت آتی تھی لوگوں کا قادیان جانے سے روکنا...قاضی مرال ضلع شیخو پوره قصور کابل کار گل کالی کٹ (کیرالہ ) کامبیا ( سیرالیون) کانگڑہ کپور تھلہ کجر ضلع شیخو پوره 656 655 296 344-343-327.304 615 276 578 243 119 83 346 کو سو و و احمدیت کی تبلیغ اور پہلا جمعہ جو وہاں ادا ہوا 440 کوسووو کی جماعت کی اکثریت کا موصی ہونا اور انتہائی پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہونا کوسوووم 441 کو سو دو مسلمان علماء کا یہ غلط خیال ڈال دنیا کہ احمدی حج نہیں کرتے بلکہ جلسہ پر جاتے ہیں اس پر وہاں کے صدر جماعت کا خود حج کرنا.کو کوا ( KUKUA) 441 24 کو نگو برازویل میں احمدیت کی ترقی اور تعمیر مساجد...24،23 کوٹ اڈو.ضلع مظفر گڑھ کوٹ لکھپت ( لاہور) کوٹ نجیب اللہ کراچی 27، 322، 338، 342، 346، 355، 438، کوٹلی آزاد کشمیر 680.590.547 کراچی میں ایک شہادت کربلا کرنال.بھارت کرناٹک 238 629.632 309 578 کوچه میر حسام الدین کوه مری کڑک ہاؤس کھارا.قادیان کھاریاں ضلع گجرات 301 358 81 282 301 379 334.290 312 293.292

Page 765

خطبات مسرور جلد ہشتم کھر پیڑ ضلع قصور کھوکھر غربی کھیوڑہ کھیوہ.ضلع فیصل آباد کھیوہ باجوہ کیرالہ کیرولائی کیلگری ساؤتھ ویسٹ کیلگری نارتھ کیمبرج کینیا 295 578 653 299.298 280 578 578 27 578 578 576 69 62 گٹھیالیاں ضلع سیالکوٹ گڑھ شکر انڈیکس مقامات 328 56 367 گڑھی اعوان.حافظ آباد گڑھی شاہو 324 644.646 576.551.413.26.21 گھا کر چیاں تحصیل وزیر آباد گھانا گھانا میں مساجد کی تعمیر اورط نو مبائعین کی تربیت وغیرہ کی رپورٹ گھو گیاٹ گیمبیا گیمبیا کے وزیر ہیلتھ وفات 21 57 576 639 کینیڈا 26، 27، 76، 413، 484، 534، 546، 564، پارلیمنٹ آف گیمبیا سے جماعت کے کسی بھی امیر کو خطاب 578.575.574 کیولری گراؤنڈ.لاہور گارڈن ٹاؤن لاہور 322 302.269 کا پہلا موقعہ لائلپور یونیورسٹی لاس اینجلس لاس اینجلس ایسٹ گالوے.آئر لینڈ دنیا کے ایک کنارہ جہاں احمدیہ مسجد کی لاس اینجلس ایسٹ ان لینڈ ایمپائر تعمیر ہوئی گجرات گر اس گراؤ لکڑ منڈی گلبرگ (لاہور) گوجر خان 484 439-368-79-335.27 578.27 303 307.270 294 578 لاس اینجلس ویسٹ لالہ موسیٰ لاڑکانہ 639 322 578 27 27 27 290 376.81 <280 292 <276 274 84 <78 27.56.60 309 306 304-303-299-301 296 298.294 326-324-323-322-321.319 318 317.313 354.344.342-340-334-330-329-328-327 680-612-379-377-371-356-355 گوجرانوالہ 27، 150، 292، 293،300، 313،303، 577-377-314.376 گوجره گورداس ننگل گورنمنٹ کالج لاہور گولڈ کوسٹ (غانا) 349 57 آپ لاہور کے وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود کو یہ الہام ہوا تھا لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں“ 260 9966 گورداسپور 659،658،657،359،337،86،60،57 لاہور اور مردان میں ہونے والے شہید جنت میں 313 287.243 بہترین رزق پانے والے اور جماعت کی ترقی کا باعث 675 لاہور ایک بزرگ ان گولیوں کی بوچھاڑ میں مسلسل سجدہ گوٹریالہ تحصیل کھاریاں میں حضرت مسیح موعود کی میں رہے صداقت کے طور پر طاعون کا نازل ہونا 79 264 لاہور کا تحریک جدید کی مالی قربانی میں بھی صف اول پر رہنا 575،576

Page 766

خطبات مسرور جلد ہشتم 70 انڈیکس مقامات لاہور کی دو احمد یہ مساجد پر حملہ اور شہادتوں کی بڑی تعداد مار برگ ماڈل ٹاؤن.دار الذکر 252 مار کھم ( کینیڈا) لاہور کے سانحہ کے بارے میں قبل از وقت اور شہادتوں ماریشس کے بعد شہداء کے حوالہ سے خوا ہیں 299 ماسکو مانچسٹر لاہور کے سانحہ میں زخمی اور شہید ہونے والوں کا نمونہ مانانوالہ ضلع شیخوپورہ درود شریف کا ورد کرتے رہنا اور حوصلہ دکھانا 257 لاہور میں احمدی افراد کا شہید ہونا اور مخالفین کی طرف 521 مانچسٹر ساؤتھ ماڈن ٹاؤن لاہور 578 27 26 639 345 342 578 269-272 سے اس موقعہ پر مٹھائی تقسیم کرنا.لاہور میں دہشت گردی کے حملے میں احمدیوں کی جرات ماڈل ٹاؤن.اعجاز احمد ان کے بھائی کی شہادت کی خبر ملی کہ اور صبر واستقامت لاہور میں شہید ہونے والوں کا ذکر خیر 268 3650268 فلاں ہسپتال پہنچ جائیں تو ان کا جواب کہ وہ تو خدا کے حضور حاضر ہو گئے اب شائد میرے خون کی احمدی لاہور میں ہونے والی شہادتیں، اللہ تعالیٰ یقینا اس کا بدلہ بھائیوں کو ضرورت پڑ جائے میں یہیں رکوں گا 262 ہے لینے پر قادر مجمد 254.253 مبارک ہیں لاہور کے احمدی جنہوں نے استقامت سانحہ لاہور دشمن کے مقاصد صرف شہادت ہی نہ تھا بلکہ دکھائی، جانے والوں اور پیچھے رہنے والوں نے بھی 529 260 محراب پورہ.سندھ اور بھی مقصد تھے.سانحہ لاہور دلیری اور جرات کے واقعات دہشت گردوں محلہ رنگ ساز صدر بازار میر ٹھ کو بھی احمدی نوجوانوں نے پکڑا اور پولیس افسر جھوٹ محلہ میاں قطب الدین 257 بولتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پکڑا سانحہ لاہور پولیس کا بروقت نہ آنا...جس کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا لدھیانہ لکش دویپ لکھنو 257 390.152.59 578 85 مدرسہ احمدیہ مدینہ مراد آباد مراکش 284 646 369 642 233.111.85 646.84 204 201 181.180 مراکش اخلاص و وفا میں ترقی کرنے والی جماعت 202 مراکش سے ایک خاتون کا بیعت کا خط ایم ٹی اے دیکھتی لکھنو سے ایک بغدادی ڈاکٹر کا آنا اور حضرت مسیح موعود تھیں اور خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کرنا سے شوخی اور استہزاء...آپ کا متحمل 612،611 مر اڈا تحصیل نارووال 212 642 669.588.587 578-543-322-315.314.205.27 لندن لنگر وال قادیان لنگر ضلع گجرات لودھراں لینگٹن سپا لیوشم مردان 277 64 578 578 578 مردان مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ اور ان کی ناکامی.ایک خادم کا شہید ہونا مرے کالج.سیالکوٹ مسجد اقصیٰ مسجد اقصیٰ قادیان مائنز ویز یادن(Mains Wiesbaden) 578،27 مسجد اقصیٰ جو ”بڑی مسجد “ کہلاتی تھی 462 303 369 650 370

Page 767

خطبات مسرور جلد ہشتم مسجد بشارت.پید رو آباد سپین مسجد بیت الفتوح فضل می 71 202.168.157 387-314-322.27 578 میاں چنوں میر پور میر ٹھ مسجد فضل لندن کے حصہ کے لوگ جو جلسہ کے حوالے مينارة المسيح قاديان سے ڈیوٹی دیتے رہے ان کا خصوصی شکر بہ 410 میوہسپتال لاہور انڈیکس مقامات 337 578 647.646.616 336 359.328.327 مسجد مبارک 56، 57، 63، 149، 371، 375، 378، میں نو مبالعین اور ان کے خلافت سے وفا اور ایمان کے 658-655-643-610.379 مسجد مبارک.قادیان مسجد نور قادیان پر جوش اظہار (فرانس) نائیجر نائیجیریا نائیجیریا میں تبلیغی مساعی نار تھ ایسٹ لندن 201 576 160.26 646.645.642 642 578 مسجد ویسٹ (یوکے کی ایک نئی جماعت) مصر 413.245.119 مصر میں احدیت کی مخالفت کی رو اور...239 مصر کے نارتھ ویلز احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک، زیر حراست احمدی 231 نار و ضلع کانگڑہ مصطفی آباد (حلقه) مظفر گڑھ مله 283 338 602-597.582.233.232.111 نارووال 24 578.27 578 348 577-333-27 نارووال میں تحفظ ختم نبوت کے ایک کارندے کا ایک احمدی نعمت اللہ صاحب کو شہید کرنا رض مکہ میں آنحضرت صلی ال نیلم کے صحابہ پر سزاؤں اور تکالیف ناگاساکی کا سلسلہ....مینی(Makini) سیرالیون ملائشیا ملتان ملتان چھاؤنی منڈی بہاؤالدین منہا تہیم.فرینکفرٹ، جرمنی مورد گورو.تنزانیہ موسے والا 582 21 301 338 644 321 311 354 578 الصيبين نوابشاہ.سندھ نیو مالڈن نیوزی لینڈ نیوس واپڈا ٹاؤن والے والے(Walewale ) غانا وانوں واہ کینٹ 267 125 211 284 578.27 564 578 339 23 375 578.277 25 مونگ رسول میں دہشتگردی کا واقعہ احمدیوں کے خلاف وایو گیا.ریجن میں تبلیغی مساعی دہشت گرد پکڑے گئے اور پھر آزاد کر دئے گئے 265 وزیر آباد 466،644،367،293،292،145 مڈلینڈ (لندن) مڈھ رانجھا مهدی آباد میانوالی 578.27 324 578 578 ووسٹر پارک وولور ہیمپٹن وہاڑی ویر که 578.27 578 338 645

Page 768

خطبات مسرور جلد ہشتم ویسٹ ہل ویسٹن آئی لنگٹن ویسٹن ساؤتھ ویسٹن نارتھ ایسٹ ويلينسيا ویلنسیا مسجد کا سنگ بنیاد ٹورانٹو سنٹرل ٹوکیو ٹوٹنگ ٹھوکر نیاز بیگ ٹیکسلا ٹیورین انڈیکس مقامات 81 609 ہندوستان نیز دیکھیں ”انڈیا 16، 211،168،82،20، ہندوستان ، یورپ اور روس کی ریاستوں کا ٹوٹ کر نئے ممالک کا وجود اور امریکہ کے ساتھ بھی یہی تقدیر دہرائی 72 ہری پور ہمو و گھر، ضلع سیالکوٹ 578.27 27 27 548 541.399.385 27 174 203.202 جائے گی 27 322 ترقی رک جانا اور غیر کا اعتراف 27 301 پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا 273 211 118 ہندوستان اور افریقہ میں احمدیت کی وجہ سے عیسائیت کی 243 ہندوستان میں طاعون کی بابت حضرت مسیح موعود کی 528 ہنزہ میں جھیل میں بڑھتے ہوئے پانی سے خوف وہر اس 237 ٹیورین کی لائبریری میں قرآن کریم اور تفسیر کبیر رکھوایا ہڈیارہ ضلع لاہور ٹیورین (اٹلی) میں کفن مسیح کی نمائش اور حضرت امام ہیمبرگ جماعت کا وزٹ حضرت مسیح موعود کے جانشین کا کفن کو یروشلم 296 578.27 211 دیکھنا ڈاؤ یونیورسٹی.سندھ ڈا مسٹر ڈاور.ربوہ ڈسکہ ڈلہ.( قادیان کے قریب گاؤں) ڈلہوزی ڈھاکہ ڈیرہ غازی خاں 205 438 578.27 295 327 482 87 438-320 520 یویی 578 یورپ، ایشیاء جزائر میں آفات و مصائب آنے کی پیشگوئی 122 یورپ 79،20، 121، 399،397،395،384،169، 564.484 یورپ کے اکثر ممالک کا عیسائیت سے لا تعلق ہو جانا498 یورپ کے دورہ کے ایمان افروز تاثرات اور تفصیلات 200 یورپ میں اسلام کو بد نام کرنے کی کوشش اور ہر احمدی مر دو عورت اس کے خلاف مہم میں شریک ہو...196 یورپ میں آکر رہنے والے احمدیوں کو نصائح اور شکر کی 189 ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ حالیہ سیلاب وغیرہ سے بری تلقین طرح متاثر ہونا لیکن تحریک جدید کا ٹارگٹ پھر بھی پورا یورپ میں بھی مذہبی پابندیوں کی فضاء کا آغاز جیسے حجاب، مینار بنانا وغیرہ لیکن یہ پابندیاں تو یہ نہیں کہ ازان دو گے تو کرنا ڈیریاں والا ضلع نارووال ڈیٹرائیٹ ہالینڈ ہانڈو گجر لاہور ہاٹلے پول 574 278 578.27 440 328.278.274 578 جیل جاؤ گے 159 یورپ میں تبلیغ کے لئے حضرت مسیح موعود کا ایک ارشاد 177 یورپ میں رہنے والے ہر احمدی کو نصیحت کہ اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا، کوئی غیر شرعی کام نہ کرنا 165 یورپ میں شراب اور وئے کی برائی کا عام ہونے اور احمدی

Page 769

انڈیکس مقامات 73 خطبات مسرور جلد هشتم نوجوانوں کو بچنے کی نصیحت 161 یورپ میں شرک کی بھر مار جبکہ ایک مرتبہ اسلام کی آقاز یہاں آچکی ہے...170 یورپ میں ویب سائٹس اور اخبارات میں آنحضرت صلی للی علم کے خلاف مواد اور اس کا پس منظر کہ مسلمانوں کا باہمی اتحاد و اتفاق نہیں ہے 241 یورپ والوں کو دنیاوی آسائشوں کی فراوانی ہونے کی وجہ 161 یوگنڈا 576 یو گنڈا میں مساجد کی تعمیر یونیورسٹی آف پنجاب لاہور Bordeaux Dublin 22 355 213 489.484 Igangba میں احمدیت کی مخالفت لیکن مقامی لوگوں کا جماعت کے حق میں تعاون اور مسجد کی تعمیر...کی پیشکش 23 KIOSSI Ness پارک سوسائٹی R-191/7 ضلع بہاولنگر 23 339 280 U.K دیکھیں زیر لفظ ”برطانیہ / انگلستان “ 322، 384، 23 564-546-532-409 Yendi(غانا)

Page 770

خطبات مسرور جلد ہشتم 74 انڈیکس کتب آریہ دھرم آسمانی فیصلہ 470 370 ر ساله آسمانی فیصلہ “ جو مولوی عبد الکریم نے پڑھ کر سنایا 370 آئینہ کمالات اسلام ابن ماجه 539.526 480.235.8 بخاری 13، 40، 48، 63، 91، 116، 135، 139، <422 <420 419 418.388.180.148.146 <476.475.461 447 445 444 <425 <423 675.641.597.593.582 676.621.559427.224.108 ابوداؤد 3، 44، 46، 47، 54، 91، 131، 134، 664-237.225.161 " اجوبۃ الایمان "کتاب اخبار ویسٹ افریقن اربعین 413 243 251.94 بدر اخبار البدر 648-477-379-376.375 <488.143 براہین احمدیہ ،41، 376 ، 405 ، 455، 478، 537، 662.608.605 براہین احمدیہ حصہ پنجم بركات الدعاء 538.221.6 646 39 615.243.168 633 ازالہ اوہام 635،480،450،369،244،150،134 "پیغام صلح" ازالہ اوہام.ہدایت کا باعث 651 تاریخ احمدیت ازالہ اوہام حضرت اقدس کا یہ کتاب دینا اور پڑھتے ہی دل تاریخ اسلام از اکبر شاہ خان کو اطمینان اسد الغابہ 374 601.600 اسلامی اصول کی فلاسفی 114، 138، 183، 260، 473.458 اسلامی اصول کی فلاسفی " اس کتاب کا لکھنے والا کوئی ولی اللہ ہے" اصحاب احمد الاستيعاب تاریخ الطبری 633 تبلیغ ہدایت "کتاب کے بارہ تنبیہ کہ اس کو پڑھنا نہیں...کچھ صفحات پڑھے تو بیعت کرلی تحفہ گولڑویہ 351 479 480.479.478 389-260-249.82.64 249 680.493 88.86-82-83.81.57 599 413 631-594.593.592.558 <477 599 436.52 618.504 تذكرة الشہادتین ترمندی 18، 38، 43، 50، 223، 401، 418، 476، تریاق القلوب 211 الاسلام الدین الحی الاصابة في تمييز الصحابه ايام الصلح بائیل 414 بائبل پر بھی ہم بہت سے اعتراضات کر سکتے ہیں لیکن 428 بائبل نے بھی چڑیلیں ، جن اور شیطانی عمل سے روکا ہوا بائبل میں مسیح کی الوہیت کی تردید 563 " تفسیر حضرت مسیح موعود"125، 140،142، 251، 544.406-252 تفسیر کبیر توریت " توضیح مرام" 457-230-221.83.60.16 211 369 429-428

Page 771

انڈیکس کتب 45 475 75 سنن الدارمی السنن الكبرى النسائي 596 423 خطبات مسرور جلد ہشتم الجامع شعب الایمان الجامع الصغير "حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسلم ہندوستان اور انگریز "169 السيرة النبویہ - احمد بن زینی دحلان حقیقة الوحی 6، 119، 122، 146، 154،153، 155، السيرة النبویہ لابن ہشام 566.479.279 السيرة الحلبية الحلم 51، 460،433،426،150،149،140،127، السيرة المطهرة 619.644.488.479.474.462-470 حیات بشیر حیات قدسی حیات نور خطبات محمود خطبات وقف جدید خطبہ الہامیہ خلافت راشده چشمه معرفت دافع البلاء در تمین فارسی الدر المنثور دلائل صدق الانبیاء 87 79.64.63.61.55 145.144.86.79.77 636 16.15 52 635-634 475.469-466-464 219 646 185 413 233 601.599.220.112 598.147.112.13 413 سیرت المہدی 617،616،613،611،610،53 سیرت حضرت مرزا شریف احمد 87 سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبد الکریم سیالکوٹی 614،608 سیرت حضرت مسیح موعود از عرفانی صاحب 152، 390، 616.612-610-608-607-606-605-392.391 سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 615 سیرت و سوانح حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب 84 شحنہ ہند میرٹھ سے نکلنے والا ایک اخبار اور حضرت مسیح موعود کا پھر بھی صبر اور برداشت سے کام لیں...616 شروح الحرب اردو ترجمہ فتوح العرب " از محمد بن عمر واقدی الشفا.از قاضی عیاض 419 126 43 599.112 478 $369.28 324.282 452-250 دیباچه تفسیر القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی 168 شمائل النبي صلى الل يوم " دیباچہ تفسیر القرآن " کا عربی ترجمہ کرنا رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء 413 464.456.125 رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ )55، 57، 59، 60، الطبقات الكبرى لابن سعد رض "فتاوی حضرت مسیح موعود " فتح اسلام الفضل الفضل انٹر نیشنل قرآن کریم قرآن کریم کی عملی تصویر آنحضرت کی ذات ہے 416 قرآن.رمضان اور قرآن...یہ مہینہ اس پاک کلام کو سمجھنے اور پڑھنے کا مہینہ ہے 425 قرآن کا پیغام عالمگیر ، اور قیامت تک اور کوئی شریعت 426 نہیں 380-374-373-370-369-368-150-62.61 <648-646-645 644 643 642.382.381 659-657-654-653-651-650-649 550 648.253.25 127 211 55 روح پر دریا دیں ریویو آف ریلیجنز زبور ست بچن سراج الاسرار سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 244،3

Page 772

خطبات مسرور جلد ہشتم حفاظت قرآن کا وعدہ اور احمد یہ جماعت 76 435 حفاظت قرآن کے لئے آج اگر کوئی کھڑا ہے تو مسیح موعود اور جماعت احمدیہ 435 انڈیکس کتب ‹160‹148‹147<137<136-123-17.9.4 <446-445-443 423 422 389 <225 <223 631.595.594 مسند احمد 42 44 46، 48، 102، 106، 108، 595-594.559.477.445 <437.224 قرآن میں حضرت مریم اور حضرت عیسی کے مقام کا ذکر 429 انٹرنیٹ ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ قرآن کریم، المستدرک للحاكم اسلامی لٹریچر اور حضرت مسیح موعود کی کتب.....اور ذرائع مسیح ہندوستان میں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کی تبلیغ اور دفاع 530 قرابادین.جس میں مرحم عیسی کا نسخہ کامیابی“.انوار العلوم كتاب البريد کرامات الصادقین 210 634 374 406 مشكوة 631-630 211 210.208.206 466 413 191.131 214 معجزة الفلكية المعجم الاوسط مفردات القرآن از امام راغب مکتوبات احمد 479.477.459 ملفوظات 11، 20، 31، 35، 42، 65، 68، 69، 73، کرائسٹ اور محمد “ غانا یونیورسٹی کے پروفیسر ایس جی ولیم سن.کی کتاب کنز العمال گورنمنٹ انگریزی اور جہاد لسان العرب لیکچر لاہور 243 595 603 215 98.89.5 156.146 143 127 120.115.96.75 252.233.219.198.186.177.176.172 $460.459.457.444 434 421 <407.388 <506 479 473 472 466 465 <463 <461 552-548-546.545.544.515.574.508 +668.633 627 626.625.583 <561 676.677 لیکچر سیالکوٹ “ حضرت اقدس نے میر حسام الدین کے منن الرحمن مکان کی چھت پر لکھی..مزید تفصیلات 366 موطا امام مالک لیکچر سیالکوٹ “ کا کاتب سراج الدین ساہو والے کا 366 نزول المسیح لیکچر سیالکوٹ کے نہ سننے کے لئے ، مولویوں کی بد تمیزیاں نوائے وقت اخبار اور کوششیں ماہنامہ خالد متی مجد داعظم مجمع الزوائد 367 589.351 429 150.149.56.55 241.92.2 53 306.291 "نورالدین "سر ظفر اللہ خاں کی کتاب کا عربی میں ترجمہ 413 579.560.169 ,Rationality ,knowledge and Truth" ہونا الوصیت خلیفہ رابع گا عربی ترجمه Revelelation 413 "The Official Report Of The Missionary 108..." 169..Five Volume Commentry کی پہلی جلد کا عربی مجموعہ اشتہارات 35، 249،197،195،194،157، 638.557.510 "محكمة الفكر " عربی کتاب مرقاة المفاتيح مرقاة اليقين 413 42 88.85.77 ترجمہ کرنا 413 168 The Mission By R.Robert Clark

Page 772