Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خليفة المسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز $2009
خطبات مسرور جلد هفتم پیش لفظ پیش لفظ احمد اللہ ، خطبات مسرور کی ساتویں جلد پیش کی جارہی ہے جو حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ 2009ء کے 52 خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبات بیت الفتوح ایک ڈسٹرکٹ، حدیقۃ المہدی آلٹن، لندن، مسجد نور فرینکفرٹ اور منہائم جرمنی میں ارشاد فرمائے.یہ تمام خطبات الفضل انٹر نیشنل لندن سے لئے گئے ہیں البتہ ان کے حوالہ جات میں مزید اضافہ کیا گیا ہے.ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اس کا سراسر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا.ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے در درکھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کوسنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں ، اور ان پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کوسنا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین ودنیا کی بھلائی اور ہمارے علم وعمل میں برکت کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے.یہ لوگ خدا کے بلانے پر اور زمانے کی ضرورت کے مطابق بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں اور الہی تائیدات و نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں :." خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے.اسے اپنی صفات بخشتا ہے.“ ( الفرقان مئی جون 1967 ء صفحہ 37) حضرت _ مصلح موعود کا ایک ارشاد ان خطبات کی خیر و برکت اور اہمیت کو اور واضح کر دیتا ہے آپ نے فرمایا:.خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں ، اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں نا کام ہیں.“ ( خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936ء) خطبات کی اس جلد میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسکی ہستی کے دلائل کا ذکر ہے ، حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کی پاکیزہ سیرت اور اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیمات کا بیان ہے.مغرب میں اسلام دشمن سرگرمیوں کی تردید ہے، عالمی طاقتوں اور مسلم ممالک کے سربراہوں اور سیاستدانوں اور دانشوروں کے لئے اقتصادی اور سیاسی رہنمائی ہے اور یہ تنبیہ بھی ہے کہ اگر عدل وانصاف اور مساوات پر بنی حکومتیں نہیں ہوں گی تو ز بر دست تباہی کے خطرات ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور بچنے کی راہ بھی کہ زمانے کے امام کی کشتی ہے اور احمدی کی دعائیں ہیں جو ان خطرات سے بچا سکتی ہیں.خصوصاً پاکستان جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اس کی بقا کے لئے دعاؤں کی تحریک اور رہنمائی کا تذکرہ، دنیا بھر میں احمدیت کی ترقی اور خدا کے فضلوں کا ذکر ، آپس میں محبت اور
خطبات مسرور جلد ہفتم پیش لفظ پیار اور دعاؤں کی تلقین ، عبادات خصوصاً نماز ، تلاوت اور تہجد اور نوافل اور درودشریف میں التزام و دوام اختیار کرنے کی نصیحت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے اور قربانیاں پیش کرنے والے احمدیوں کے لئے یہ نوید اور نصیحت بھی ہے کہ : ”جو دعائیں ایک خاص حالت میں اور اضطراب سے کی جائیں وہ ایک ایسا رنگ لانے والی دعائیں ہوتی ہیں جو دنیا میں انقلاب برپا کر دیا کرتی ہیں اور جن کو خدا تعالیٰ کے راستہ میں امتحانوں اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑ رہا ہو ان سے زیادہ خدا تعالیٰ کو کون پیارا ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لئے ساری تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ تم صبر اور دعا سے ان ابتلاؤں کو برداشت کرتے چلے جاؤ.ایک دن تم ہی زمین کے وارث کئے جانے والے ہو.پس آجکل کے یہ امتحان جن سے احمدی گزر رہے ہیں ، جیسا کہ میں نے بتایا پاکستان میں خاص طور پر، یہ قربانیاں جو کر رہے ہیں یہ ضائع جانے والی نہیں ہیں.یہ قربانیاں جو احمدی کر رہے ہیں یہ آج نہیں تو کل انشاء اللہ ایک رنگ لانے والی ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شکوہ کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان امتحانوں سے گزرتے چلے جائیں.پس اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس سے جماعتی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں، یا ایمانوں کو کمزور کر رہے ہیں تو یہ دشمن کی بھول ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شعور نہیں رکھتے.جو سطحی نظر سے دیکھنے والے ہیں ان کو اس بات کا فہم ہی نہیں ہے کہ جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کیا ہے وہ مالی اور جانی نقصان سے رکنے والا نہیں.اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آخر کا راسی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہے....پس آج بھی جماعت کی خاطر دی جانے والی ہر شہادت جماعت کے ہر فرد، مرد ، عورت، بچے، بوڑھے میں ایک نئی روح پھونکتی ہے.ہر شہادت کے بعد افراد جماعت کی طرف سے جو میں خط وصول کرتا ہوں ان میں اخلاص و وفا اور قربانیوں کو پیش کرنے کے لئے نئے انداز پیش کئے جاتے ہیں.یہ مخالفتیں بھی ہمیں ترقیات کی طرف لے جانے والی ہیں.یہ مخالفین چند جانوں کو تو ختم کر سکتے ہیں، مالوں کو تو لوٹ سکتے ہیں، ہماری عمارتوں کو تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ہماری مسجدوں کی تعمیر تو رکو اسکتے ہیں لیکن ہمارے ایمانوں کو کبھی کمزور نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ امتحان اور ابتلا اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.[ ص: 467-465] خطبات مسرور کی اس جلد کی ترتیب و تکمیل میں جن جن احباب نے خاکسار کے ساتھ تعاون کیا ان کا شکر گزار ہوں خصوصاً الفضل انٹر نیشنل لندن کا ادارتی عملہ محترم نصیر احمد قمر صاحب ایڈیٹر الفضل ، اور مکرم عبد الحفیظ شاہد صاحب اور مکرم حفیظ کھو کھر صاحب، یہاں دفتر میں خاکسار کے ساتھ عزیزم مکرم ظہور الہی تو قیر صاحب ، عزیزم مکرم عامر سہیل اختر صاحب اور عزیزم مکرم را شد محمود احمد صاحب اللہ تعالیٰ ان سب کو احسن جزاء سے نوازے اور ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور انجام بخیر کرے.آمین فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والآخرة
خطبات مسرور جلد ہفتم i فہرست خطبات نمبر تاریخ خطبه مقام فہرست خطبات فرمودہ 2009ء صفحات خلاصه 1 2 جنوری بیت الفتوح لندن 1 تا 12 قمری اور شمسی سال کا آج پہلا جمعہ ہے، دونوں نظاموں میں پہلے جمعہ کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے بے شمار برکتوں کا موجب بنائے.جمعہ کے دن کی حضرت مسیح موعود کے ساتھ خاص مناسبت ہے.دعاؤں کی قبولیت اور محرم کے حوالے سے اس مہینہ میں دور شریف پڑھنے پر زور دیں.امام حسین اور صحابہ کے مقام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادت.2 9 جنوری بیت الفتوح لندن 13 تا 23 محرم الحرام میں شیعہ سنی اختلافات کو ختم کرنیکی کوشش کرنی چاہئے.فلسطین پر مظالم کا ذکر اور اس حوالے سے امت مسلمہ کی بے حسی کا ذکر.وقف جدید کے نئے سال کا اعلان.چندہ دینے پر کسی قسم کا فخر نہیں ہونا چاہیے.نو مبائعین کی طرف چندوں کے نظام میں شامل کرنے کے لئے کوشش نہیں کی گئی یہ نظام جماعت کی کمزوری ہے.اس میں بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ شامل کریں.3 16 جنوری بیت الفتوح لندن 24 تا 32 صفت الکافی.حدیث کے مطابق سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیتوں کے رات کو پڑھنے پر اُن کے کافی ہونے کے حوالے سے لطیف تشریح.مومن کو ہمیشہ ابتلاؤں سے بچنے کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.ہماری ذاتی اور جماعتی کمزوریوں کی وجہ سے لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقعہ نہ ملے.اہل فلسطین کے لئے دعا اور مدد کی تحریک کہ وہ ظلم کی بڑی خطرناک چکی میں پس رہے ہیں.4 23 جنوری بیت الفتوح لندن 33 تا 46 صفت الکافی.انبیاء کی آمد کا مقصد، بنیادی معیار اور کامیابی کا معیار صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.بہاء اللہ کے ساتھ اللہ کی تائیدات نہ تھیں، اللہ کے پیغام کو ماننے والوں کی صفات اور اُنہیں ملنے والے انعامات کا ذکر قرآن اور اسلام پر غیروں کا حملہ مگر وہ اسلام کو ختم نہ کر سکے.دشمنانِ اسلام کی دھمکیاں نہ پہلے کچھ کر سکیں اور نہ اب کچھ کرسکیں گی.نبی کریم اور حضرت مسیح موعود کے لئے خدا کے کافی ہونے کے نمونے.ننکانہ کے احمدیوں کا ذکر کہ ان پر الزام کہ انہوں نے مولویوں کے اشتہار پھاڑے اور ہائی کورٹ کے ایک حج رانا زاہد محمود کا انوکھا فیصلہ.ایک احمدی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ نبی کریم کی گستاخی کرے.پاکستانی عدلیہ کا حال اور ملک میں لاقانونیت کا ذکر اور پاکستان کو وارننگ.5 30 جنوری بیت الفتوح لندن 47 تا61 صفت الکافی.بعض جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر کہ کیوں ہلاک نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود کے واقعات کی روشنی میں صفت الکافی کا تذکرہ.انگریز کے خود کاشتہ پودا ہونے کے الزام کا جواب.بہائیت کے چند عقائد کا ذکر.وه
خطبات مسرور جلد ہفتم ii فہرست خطبات 6 6 فروری بیت الفتوح لندن 62 ت 74 صفت الہادی.نبی کی تعریف.امام کو پہچاننے والوں کی صفات کا ذکر علماء کا اقرار کہ مسلمانوں میں دین نام کا رہ گیا ہے اور خلافت پر اُن کا زور دینا.اللہ سے دعا کے ذریعہ رہنمائی کے طریق کا بیان.اب کوئی مہدی ومسیح نہیں آئے گا خواہ یہ لوگ اور اُن کی نسلیں در نسلیں ناک رگڑتے رہیں، خدا مسلمانوں کو عقل دے کہ احمدیوں کو ظلم کا نشانہ نہ بنائیں.امام الزمان کی حقیقت کا بیان.مسیح و مہدی کے ساتھ ہی ترقیات وابستہ ہیں جو آچکا ہے.7 13 فروری بیت الفتوح لندن 75 تا 88 صفت الہادی.مسلمانوں کی عزت اور شان کی بحالی کا طریق یہ ہے کہ وہ نبی کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود پر ایمان لائیں.امام کے ڈھال ہونے کی حقیقت.مسلمانوں کے اندر پیر پرستی کا ذکر اور جماعت کو بھی اس سے بچنے کی تلقین.اس حوالے سے دعا کی تحریک کہ دنیا بالکل آگ کے دہانے پر کھڑی ہے.20 فروری بیت الفتوح لندن 89 تا 104 حضرت مسیح موعود کو خدا کی جانب سے جری اللہ کا خطاب ملنا اور اس کا سبب.غیر مذاہب والوں کے اسلام اور آنحضرت پر حملے اور مسلمانوں کی حالت.پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر.غیروں کے تاثرات اور حضرت مصلح موعودؓ کے واقعات وارشادات کی روشنی میں اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر.بعض لوگوں کا بذریعہ خطوط پوچھا کہ ہم یوم مصلح موعود ہی صرف کیوں مناتے ہیں اس کا جواب.کسی ایک ملک کی انصار اللہ کا لکھنا کہ آج کے دن ہم نے کھیلوں کا وسیع پروگرام رکھا ہے اور کچھ علمی پروگرام ہیں جس پر فرمایا انصار اللہ کا کھیل کو د سے کیا کام ہے وہ اپنے عہد پر غور کریں.اس دن کی اہمیت کا ذکر 27 فروری بیت الفتوح لندن 105 120 صفت الہادی.1974ء کی پاکستانی اسمبلی کی کارروائی کو چھپانے کی وجہ کا بیان.آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کے واقعات کی روشنی میں صفت الہادی کا ذکر.پاکستان کے برے حالات کا ذکر اور ان کے لئے بڑے در د دل سے دعا کرنے کی تحریک، پاکستانی لیڈر خود بد دیانت اور دوسرا مولویوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں.10 6 مارچ بیت الفتوح لندن 121 127 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے قیام کی اغراض و مقاصد اور احمدیوں کی ذمہ داریوں کا تذکرہ.پاکستان و ہندوستان میں غیر احمدیوں کا نو مبائعین کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک.پاکستانی حالات کا ذکر کسی بڑے منصوبے پر خدا اُن کا مکر اُن پر الٹا دیتا ہے.مظلوم احمدیوں کو صبر اور خدا کے آگے مزید جھکنے کی نصیحت.آج دنیا میں پاکستان کا تصور ظلم و بربریت کے طور پر ابھر رہا ہے.آج حضرت مسیح موعود کی کشتی اس ملک کو بچاسکتی ہے.اصلاح کی کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب ضد نہ ہو.جماعت کی ترقی پر حسد بھی یونہی بڑھے گا.
iii فہرست خطبات خطبات مسرور جلد ہفتم 11 113 مارچ بیت الفتوح لندن 128 141 | اس اعتراض کا جواب کہ ہم 12 ربیع الاول کیوں جوش و خروش سے نہیں مناتے.مولود النبی کی تاریخ کا ذکر کہ کب سے منانا شروع کیا گیا.سیرت صرف سال میں ایک دن کی بجائے سارا سال مختلف وقتوں میں جلسے کر کے بیان کی جانی چاہیے لیکن اگر ایک معین دن بھی سارے ملک میں کر لئے جائیں تو کوئی حرج نہیں سوائے اس کے کہ بدعات شامل نہ ہوں.ازواج مطہرات کی نسبت امریکہ میں لکھی گئی کتاب کے متعلق ایک عیسائی کا کہنا کہ ایسی بیہودہ کتاب کو تو پڑھا ہی نہیں جا سکتا.نبی کریم کی سیرت کا ذکر.پاکستان، ہندوستان اور بلغاریہ میں احمدیوں پر مظالم کا ذکر.سب سے پہلے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اسوہ رسول کے مطابق ہر احمدی بن جائے.میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ذکر.انصاف اور مساوات کے حوالے سے سیرت النبی کا تذکرہ ، عہدیداروں میں خاص طور پر بے نفسی ہونی چاہیے.12 20 مارچ بیت الفتوح لندن 142 155 23 مارچ 1889 کو قرآن کی پیشگوئی کے مطابق نبی کریم کے فرمان کا پورا ہونا.بیعت کرنے والوں کا بیعت کا حق ادا کرنا.دوسری قدرت انجمن نہیں خلافت ہے.بلغاریہ اور ہندوستان کے نو مبائعین پر ملاں کی وجہ سے ظلم کا ذکر.پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت زوروں پر ہے.آنحضرت کے لئے دینی غیرت جو احمدی دکھا رہے ہیں اس کی کہیں مثال نہیں.پاکستان بنانے میں احمدیوں کی کوششوں کا ذکر اور شریف النفس لوگوں کا تسلیم کرنا اور مولویوں کی مخالفت کا ذکر.خلافت احمد یہ ہی ہے جو امت محمدیہ کے لئے کام کر رہی ہے.پاکستان کی صوبائی اور مرکزی حکومت قائد اعظم کے ارشادات کی روشنی میں حکومت قائم کریں.کسی کے دین کا فیصلہ کرنا اور عقیدہ ٹھونسنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا.13 27 مارچ بیت الفتوح لندن 167156 صفت الستار.اس غلط تصور کا رڈ کہ اگر خدا نے پردہ پوشی ہی کرنی ہے تو جو مرضی گناہ کر لیں.اللہ تعالیٰ کا حیا اس لئے ہے کہ بندے کو شرمندگی سے بچائے.نبی کریم کی دعائیں دراصل ہمیں سکھائی گئی ہیں.رشتوں کے قیام کے لئے پردہ پوشی کی نصیحت.تقویٰ اختیار کرو بلاؤں سے بچائے جاؤ گے.ساری برائیوں کی جز مخفی شرک ہے.دنیا میں برائیاں پھیلانے میں بدظنی کا بہت زیادہ ہاتھ ہے.ٹیلی ویژن اور دوسری الیکٹرانک اشیاء کی وجہ سے دیا میں کمی ہونا.اگر برائی دیکھو اور اصلاح منظر ہوتو متعلقہ عہد یدارکو اطلاع دیں اور بات باہر نہ نکلے.14 103 اپریل بیت الفتوح لندن 168 تا176 صفت الستار.خدا پکڑنے کی بجائے موقعہ عطا کرتا ہے تاکہ مومن اپنی صلاح کی کوشش کرے.قرآنی آیات کی روشنی میں اس صفت کا تذکرہ.گذشتہ خطبہ جمعہ کے حوالے سے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ذکر.پردہ پوشی کرنے کی نصیحت.لباس کے تین معانی کا ذکر.15 10 اپریل Lake District 177 تا 181 ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.مغربی ممالک کے حوالے سے رات اور دن کے ہونے کے فائدہ کا ذکر برطانیہ ادلتے بدلتے موسم اس لئے ہیں تا کہ انسان اللہ کے اس احسان پر اس کی حمد و ثناء کرے.چھوٹے دنوں کی نسبت بڑے دن زیادہ عرصہ کے لئے ہوتے ہیں.ان بڑے دنوں سے انسان کو روحانی روشنی کی طرف توجہ کرنی چاہیے.ہم خوش قسمت کہ روحانی روشنی سے حصہ پارہے ہیں.
خطبات مسرور جلد ہفتم iv فہرست خطبات 16 17 اپریل بیت الفتوح لندن 182 190 صفت اللطیف.حضرت یوست پر خدا کی مہربانیوں اور احسانوں کا ذکر.ایک دوسرے کے لئے دعاؤں سے اصلاح کے راستے کھلتے ہیں.آنحضرت نے قوم کی اصلاح کے لئے بہت دعائیں کی ہیں.آج ہمیں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.غلبہ اللہ اور اس کے بھیجے ہووؤں کا ہی ہوتا ہے.مخالفتیں خدا کے نور کو بجھا نہیں سکتیں.جماعت احمدیہ کو کوئی ختم نہیں کر سکتا.پاکستان سمیت بعض دیگر ممالک میں بسنے والے احمدیوں کے حالات بیان کر کے ان کے لئے دعاؤں کی تحریک کہ خدا ان کے جان و مال کی حفاظت فرمائے اور اپنی صفت لطیف کا فیض انہیں پہنچا تار ہے.17 24 اپریل بیت الفتوح لندن 191 19 صفت النافع.ایک مومن کی پہچان یہی ہے کہ وہ دوسروں کے.فائدہ کا موجب بنے.احادیث کی روشنی میں فائدہ پہنچانے کے چار طریقوں کا ذکر 1.صدقہ کا حکم 2.اگر صدقہ نہیں تو ہاتھ سے کام کر کے اپنے آپ کو اور قوم کو فائدہ پہنچاؤ.مغربی ممالک کے احمدیوں کو نصیحت کہ کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے گورنمنٹ سے الاؤنس نہ لیں اور کیسا بھی کام ملے کریں.لینے والے کی بجائے دینے والا ہاتھ نہیں.3 کسی حاجت مند کی مدد کر و اگر صدقہ نہیں دے سکتے.4.نیکی ہی کریں جس کا بے انتہا اجر ہوگا جیسے شاخ اٹھانے والا جنت میں گیا.صفت نافع کے حوالے سے نبی کریم اللہ کی بعض دعاؤں کا ذکر.دنیا میں نبی کریمہ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں اس لئے آپ کے وسیلے سے دعا مانگتے رہنا چاہیئے.صدقہ تب ہو سکتا ہے جب اس میں قربانی اور ایثار کی روح ہو.18 یکم مئی بیت الفتوح لندن 200 تا 211 | صفت النافع اصل نفع پہنچانے والی ذات خدا ہے لہذا اسی کی عبادت کریں اور اسکے تمام احکامات پر عمل کریں.نبی کریم کے ذریعہ نفع کے واقعات کا بیان.حضرت اقدس کی دعاؤں سے لوگوں کو فائدہ ہونا.بلاؤں اور ظلمتوں کے وقت خدا کا روحانی کشتیاں تیار کرنے والوں کو بھیجنا جو انہیں بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں.آج حضرت مسیح موعود کی کشتی میں سوار وہی شمار ہوں گے جو اس کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.کشتی نوح میں وہ معیار بیان ہیں جن پر عمل کر کے ہم اس کشتی میں سوار ہو سکتے ہیں.آج دنیا میں کئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں.swine flu کا ذکر.روحانی پانی سے وہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کے دل میں زرخیزی ہو..ڈاک میں احمدیوں کے پیغامات ملنا کہ انہیں خدا کی طرف سے ٹھنڈک کے جھونکے پہنچتے ہیں ، خاص طور پر عربوں کا ذکر.مخالفین کے لئے ہدایت کی دعا 19 8 مئی بیت الفتوح لندن 212 220 صفت الواسع.شیطان کے فقر اور بے حیائی سے ڈرانے کا ذکر قرآنی واقعات آئندہ کی پیشگوئیاں ہیں.احمدیوں کی قربانیوں کا ذکر کہ وہ خدا کی خاطر دیتے جاتے ہیں.شیطان کا مومنوں کو قربانیوں سے ڈرانا.مال، جان اور وقت کی قربانیوں کا ذکر.اللہ کی وسیع رحمت کے حوالے سے اس کے بندوں کو بخشنے کے مختلف طریقوں کا ذکر اللہ کی وسیع رحمت کے بالمقابل انسان پر جو مختلف ذمہ داریاں اور تقاضے بنتے ہیں ان کا ذکر.
خطبات مسرور جلد ہفتم V فہرست خطبات 20 15 مئی بیت الفتوح لندن 221 تا 231 صفت الواسع.جو کام اللہ نے سپرد کئے ہیں وہ انسانی استعدادوں سے زیادہ نہیں.اپنی استعدادوں کی حدود قائم کرنا کسی کا کام نہیں.عائلی معاملات کے متعلق قرآنی تعلیم اور احادیث کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کا ذکر.ایک سے زیادہ شادی کے حکم پر غیروں کے اعتراض کا جواب کہ عورت پر ظلم کیا گیا.اگر انصاف قائم نہیں کر سکتے تو پھر ایک اور شادی کر کے پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھینے کی بات ہے.تقویٰ یہ کہتا ہے کہ ظاہری حقوق دونوں بیویوں کے ادا کرنے ضروری ہیں.رشتوں کے معاملات جذبات میں آکر طے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خدا سے مدد لیتے ہوئے دعا کر کے سوچ سمجھ کر جوڑے جائیں.رخصتی سے قبل یا حق مہر کے تقرر سے قبل طلاق ہو جائے تو پھر بھی عورتوں کے حقوق ادا کرو، اس حوالے سے اسلامی تعلیم کا بیان.21 22 مئی بیت الفتوح لندن 232 240 صفت الواسع.بھی یہ دعوی نہ کرو کہ میں پاکباز ہوں؟ حديث إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی تشریح.اللہ جہاں انذار کے ذریعہ ڈراتا ہے وہاں وسیع تر رحمت کا حوالہ دے کر اپنی بخشش کا بھی بتاتا ہے.خدا کی وسیع مغفرت کا ذکر.نیک کام کرنے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم نیک اعمال بجالانے والے ہیں.اترانے کی بجائے ہر نیک عمل تقویٰ میں بڑھانے والا ہو.تقویٰ کی سند دینا خدا کا کام ہے.ہر وہ گناہ جس کا چھوڑنا انسان پر بھاری ہو وہ بڑا گناہ ہے.غصہ کا بے حیائیوں اور بڑے گناہوں کے ساتھ ذکر کرنے کا سبب.غصہ معمولی گناہ نہیں.مغلوب الغضب ہونے سے نفس کی پاکیزگی دور ہو جاتی ہے.تزکیہ چاہتے ہو تو اخلاقیات کی اصلاح کرو، اللہ کے فضل جذب کرنے کے تین طریقے.حضرت اقدس کی کتب اصلاح کا ذریعہ.جرمن خاتون کا ذکر جو قر آنی احکامات کی تلاش میں تھی.مطالعہ کتب کی تلقین.22 29 مئی بیت الفتوح لندن 241 253 صفت الواسع.احکامات کے حوالے سے دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی خوبی.کفارہ کے عقیدہ کا رڈ.اللہ کسی کو اس کی وسعت علمی سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ،ساتھ ہی آنحضرت کوقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا کی دعا سکھائی گئی تاکہ وسعت پیدا ہوتی چلی جائے.آیت لَا يُكَلِّفُ اللهُ کی پُر معارف تشریح، تزکیہ نفس کے لئے دعا ئیں نہایت ضروری ہیں.جمع کے صیغے میں دعا کرنے میں حکمت.23 05 جون بیت الفتوح لندن 254 263 صفت الواسع.آیت الکرسی کی تفسیر.رات کو سورۃ البقرۃ کی دس آیات پڑھ کر سونے والے کے گھر میں شیطان کے نہ آنے سے مراد.لَا اِلهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ کی دعا کا ذکر حضرت مسیح موعود کے غلبہ کا ذکر.یہ غلبہ صرف انہیں ملے گا جو تمام صفات کے جامع خدا پر یقین رکھتے ہوں.شفاعت اور آنحضرت علی کے شفیع ہونے کی حقیقت ارشادات حضرت مسیح موعود کی روشنی میں.حضرت مسیح موعود کی شفاعت سے بیماروں کا شفا پانا.سائنس کی ترقی اور کائنات کی وسعت سے خدا کے لامحدود علم رکھنے کا ثبوت.
خطبات مسرور جلد ہفتم vi فہرست خطبات 24 12 جون بیت الفتوح لندن 264 275 صفت الواسع.حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اسلام کی شان کا دوبارہ ظہور.آپ کی ابتدائی زندگی میں اپنے آقا و مطاع کی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے.آپ کا عبادت اور نبی کریم پر درود کے باعث لوگوں کی حالت پر رونا.قرآن و اسلام کی برتری کی کوششوں میں لگے رہنا.الہام وسع مَكَانَكَ کا متعدد بار ہونا اور اس میں حکمت.قادیان میں اس الہام کے مختلف طرح سے پورا ہونے کا ذکر.اس الہام کی روشنی میں ساری دنیا میں مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے مختلف واقعات کا بیان.25 19 جون بیت الفتوح لندن 287276 صفت الرافع - جماعت کو اعمال صالحہ کی ضرورت ہے نبی کریم پر ایمان اور اعمال صالحہ کے نتیجہ میں ایک جاہل قوم کو خدا کا بلندی عطا کرنا.مسلمانوں کا قرآن کو چھوڑنا اور پستی میں جانا اور ان کا ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونا.اسلامی ممالک کے ملکی معاملات میں امریکہ و یورپ کی مداخلت.غیر احمدیوں کا حضرت مسیح موعود کا انکار کرنا بلکہ مسلمان کی تعریف وہ کرنا جس میں آپ کو گالیاں دی جاتی ہیں.حضرت اقدس کا نبی کریم سے عشق.اس زمانے میں صرف حضرت اقدس کو آنحضرت اللہ کے نور کا ادراک ہے.اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کی تفسیر بیان فرمودہ حضرت اقدس انا براہین احمدیہ کی روشنی میں آنحضرت ﷺ کے نور کا ذکر نماز اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ کی نصیحت.26 26 جون بیت الفتوح لندن 288 29 صفت الرافع.آنحضرت کے نور سے حصہ لینے والے اپنی عبادتوں اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ دیتے ہیں.خلافت ایک نعمت ہے جس سے جماعت کی اصلاح ہوتی ہے اور دوسرے اس سے محروم ہیں.ایک غیر احمدی کا دوران ملاقات سوال کرنا کہ کیا وجہ ہے کہ مسجدیں آجکل زیادہ آباد ہیں لیکن پھر بھی نتائج وہ نہیں جو ہونے چاہئیں.انسان کا یہ کام ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرے تب نیکیوں کے حقیقی اثرات ظاہر ہوں گے.نبی کریم اور قرآن کی محبت جماعت میں حضرت مسیح موعود نے ہی پیدا کی ہے.ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود کے علم کلام کی جگالی کرتا رہے.ارشادات حضرت مسیح موعود کی روشنی میں عبادت کی حقیقت ، مخالفین کی مخالفت پر صبر اور دعا کی تلقین.نماز کی اہمیت کا بیان.عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے طریقوں کا ذکر.کارکنان ، عہدیداران اور واقفین زندگی کو مسجدوں کو آباد کرنے کی طرف توجہ.اگر خدا کا خوف اور خالص ہو کر اس کی عبادت نہیں تو جو جتنا مرضی صائب الرائے اور عالم ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں.27 03 جولائی بیت الفتوح لندن 300 310 صفت الرافع - ارشادات حضرت اقدس کی روشنی میں عرش الہی کی حقیقت.ایک انگریز عیسائی کا کفارہ اور الوہیت مسیح کے عقیدہ کا انکار اور اسلام کی طرف میلان کا اظہار.قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں حضرت عیسی" کے جسمانی رفع کا رد اور وفات کا ثبوت.کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی اہمیت کا ذکر.ہر گھر میں کتب حضرت اقدس رکھنے کی ہدایت.
vii فہرست خطبات خطبات مسرور جلد ہفتم 28 10 جولائی بیت الفتوح، لندن 311 321 صفت الرافع.کیا قرآن میں حضرت عیسی" کے علاوہ کسی اور نبی کے رفع کا بھی ذکر ملتا ہے؟ حضرت ادریس اور حضرت عیسی کے رفع کے متعلق قرآن، حدیث، ارشادات حضرت مسیح موعود اور بائبل کی رو سے بحث.حضرت مسیح موعود کے ارشاد کی روشنی میں ختم نبوت اور نزول مسیح کے حوالے سے آنحضرت کی ارفع شان کا ذکر بعض احمدیوں کا حضرت مسیح موعود کو نبی اور رسول کہنے میں ہچکچانا اور سوچ میں پڑنا.الہام کی روشنی میں حضرت مسیح موعود کے نبی اور رسول ہونے کا ذکر.29 17 جولائی بیت الفتوح لندن 322 333 مہمان نوازی.قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کے ذکر کے ساتھ دو مرتبہ مہمان نوازی کا ذکر.عربوں کا مہمان نواز ہونا اور یہ آنحضرت کا اعلیٰ ترین وصف تھا.آنحضرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں اس وصف کا تفصیلی تذکرہ.30 24 جولائی حدیقۃ المہدی الٹن 334 344 جلسہ میں شامل مہمانوں کو بالخصوص اور میزبانوں کو عمومی ہر احمدی احمدیت کا سفیر ہے.جلسہ کے دوران عبادات کے علاوہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ نظر آئے.مستقل لنگر خانوں کو ہدایت کہ مہمان کے جذبات کا احترام کریں.مہمانوں کوصبر اور حوصلہ کے مظاہرہ کی نصیحت.جلسہ کی کارروائی کے دوران کوئی ٹولیوں کی صورت میں باہر پھرتا نظر نہ آئے.سارا سال بچوں کو توجہ دلائی جائے کہ وہ خاموشی سے پروگرام سنا کریں.بحیثیت جماعت اللہ ہماری حفاظت فرمائے گا.صفائی کا خیال رکھیں.پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش سے آنے والے مہمانوں کوفور ویزہ ختم ہونے پر واپس جانے کی نصیحت.31 31 جولائی بیت الفتوح ، لندن 345 357 جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد پر اظہار تشکر.جلسہ کے دوران اللہ کے فضلوں کے واقعات میں سے چند ایک بیان کیے جاتے ہیں.اللہ کے فضلوں کا ذکر اور شکر.نیند کی کمی کے با وجود نو جوانوں کا مستعدی سے ڈیوٹی دینا.یہ خدا کا خاص فضل کہ احمدی خلیفہ وقت کی اطاعت کرتے ہوئے فوری طور پر عمل کی کوشش کرتے ہیں.اس سال عورتوں کی مار کی کی عمومی رپورٹ یہ ہے کہ عورتوں نے بڑے اچھے طریقے سے جلسہ کی کارروائی سنی.جلسہ کی اصل برکت جلسہ کی کارروائی سننے میں ہے.جلسہ سالانہ کے حوالے سے بعض غیر از جماعت مہمانوں اور احمدیوں کے تبصرے.32 107 اگست بیت الفتوح، لندن 358 370 صفت رافع.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث فرمایا.اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ اور علم کا نبوت کے ساتھ تعلق.حضرت مسیح موعود کی ضرورت زمانہ کی دلیل.آنحضرت کا مسیح کو نبی اور خلیفہ کا مقام عطا فرمانا اور اسے قبول کرنے کا حکم فرمانا.احادیث میں مذکور مسیح موعود کی چند نشانیوں کا ذکر سورج اور چاند گرہن کی حدیث میں لِمَهْدِينَا کے لفظ میں اپنے پیار اور قرب کا اظہار.حضرت مسیح موعود کے غلبہ کے لئے تمام احمدیوں کو کوشش اور دعا کرنی چاہیے.پاکستان میں اسلام کے نام پر ظلم کے باعث اس کا ساری دنیا میں بدنام ہونا.عیسائیوں پر بربریت کا ذکر.پاکستان کے لئے دعا کی نصیحت.جلسہ کے بعد بعض عرب ممالک کی انتظامیہ کا بھی احمدیوں کو تنگ کرنا.
viii خطبات مسرور جلد ہفتم فہرست خطبات 33 14 اگست منہائیم جرمنی 382371 جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کا آغاز - حضرت مسیح موعود کے بیان فرمودہ جلسہ کے مقاصد کا ذکر.ان ایام میں عبادات کی طرف توجہ کی توقع.خدا کی معرفت میں بڑھنے کے لئے عبادات اور ذکر الہی بہت اہم ہے.معرفت الہی بندوں کے حقوق ، آپس میں پیار اور ایک تڑپ کے ساتھ خدا کے پیغام کو پہنچانے کی طرف توجہ دلاتی ہے.کارکنان کو خدمت اور مہمانوں کو شکر کی نصیحت.ہر احمدی دوسرے کے لئے محبت مودت کا اظہار کرنے والا بن جائے.بیعت کی حقیقت کا ذکر.نیکیوں کو پھیلانے اور جماعت کے تقویٰ کو بڑھانے والی چیز اپنا جائزہ ہے.شاملین جلسہ کو جس جگہ بھی احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے ان کے حوالے سے دعا کی نصیحت.34 21 اگست بیت الفتوح لندن 395383 حضور انور کی جرمنی کے جلسہ سے واپسی حضور انور کی دونوں جلسوں کی مصروفیات کا ذکر.جلسوں کا مقصد ہر سال جمع ہو کر اپنی سوچوں اور خیالات کو اس نہج پر چلانے کی تربیت اور پھر سارا سال اس روحانی فیض کی جگالی کرتے رہیں.صرف یوکے اور جرمنی کے جلسوں کے قریب ہونے کی وجہ سے تسلسل کا مزہ نہیں بلکہ اگلے سال کے جلسہ تک تسلسل کو قائم رکھیں.جلسوں کا اجراء ایک ٹرینگ کیمپ ہے.بیلجیئم کی پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے برسلز میں جگہ خریدنے کی ہدایت.یورپ کے ہر ملک میں آئندہ پانچ ، چھ سالوں میں ایک ایک مسجد بنانے کی خواہش.جلسہ کے دوران عملی نمونہ خاموش تبلیغ ہے.بلغاریہ میں احمدیوں پر پابندیوں سے احمدیت کی طرف عیسائیوں کی توجہ.سب سے بڑی دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گنا ہوں سے پاک کرنے کی دعا کرے.رمضان میں پاکستانی احمدیوں اور جہاں بھی مخالفت ہے اُن کے لئے دعا کی نصیحت.35 28 اگست بیت الفتوح لندن 396 تا 411 خدا نے ہر زمانے میں اپنے انبیاء کے ذریعہ سے وہ راستے دکھائے جو خدا کی طرف لے جانے والے ہیں.انسان کے ارتقائی عروج میں کامل شریعت کا نزول.روزے خدا کی قربت کا ایک ذریعہ ہلکی پھلکی بیماری اور چھوٹ کو بہانہ بنا کر روزہ نہ چھوڑ ہیں.ہماری خوش قسمتی کہ ایک اور رمضان سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا.ان دنوں میں اللہ کے فضلوں کی کوئی حد نہیں ہوتی.رمضان میں شیطان کو جکڑ دیے جانے کی حقیقت.صدقہ اور اخلاق حسنہ، تلاوت قرآن کریم کی نصیحت.ہمیں ایسے روزے رکھنے چاہئیں جو ہمارے اس دنیا سے رخصت ہونے تک ہمارے ہر قول و فعل کو خدا کی رضا کا ذریعہ بناتے ہوئے خدا سے ملانے والے ہوں.روزے کی قبولیت کے لئے لوازمات کو پورا کرنا ضروری ہے.رمضان میں برائیاں اور بدیاں کرنے والوں کے لئے جنت کے دروازے نہیں کھولے جاتے ، اس امر کی تشریح.آیت وَإِذَا سَأَلَكَ کی لطیف تشریح.
ix فهرست خطبات خطبات مسرور جلد ہفتم 36 04 ستمبر بیت الفتوح لندن 423412 شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ کے ابتدائی حصہ کی تفسیر.رمضان کے مہینے کو قرآن سے ایک خاص نسبت ہے.روزے اور عبادت ہی کافی نہیں قرآن کی طرف توجہ ہونی چاہیے.سنت کی پیروی میں دو مرتبہ قرآن ختم کرنے کی کوشش کریں.یہ عہد کریں کہ روزانہ اس کی ہم نے تلاوت کرنی ہے اور اسکے احکامات پر عمل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنی ہے.قرآن کو مہجور کی طرح نہ چھوڑو اس کی وضاحت.غیر مسلموں اور مسلمانوں کے لئے قرآن کریم کے حوالے سے احمدی ہونے کے ناطے ہم پر ایک بھاری ذمہ داری.قرآن کریم پڑھنے کے آداب کا ذکر قرآنی آیات کی روشنی میں.تلاوت سننے کے آداب.صرف عبادات پر انحصار نہ ہو بلکہ مغز کو تلاش کرو جو اللہ کی رضا کا حصول ہو.بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ اس کی تلاوت کرنے والے غور کرنے والے اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے والے ہوں.معاشرہ کے امن کے لئے ضروری بات کہ سلامتی کے پیغام کو ایک دوسرے تک پہنچایا جائے.37 11 ستمبر بیت الفتوح لندن 437424 سورۃ بقرۃ کی ایک آیت کی روشنی میں دلوں کی سختی کا ذکر.مسلمان غور کریں کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے.مجموعی طور پر فیصلہ کے وقت یہ لوگ (اہل مغرب ) اپنی مرضی کرتے ہیں.ان کی تیسرے درجہ کی حیثیت ہے.مسلمانوں کا فسق و فجور میں بڑھنا.پاکستان تباہی کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے.اس کی بہت بڑی وجہ زمانے کے امام کو ماننا تو در کنار ایسے قانون لاگو کرنا ہے کہ ماننے والوں پر قانون کی آڑ میں ظلم کیا جاتا ہے.احمدیوں پر بے جا مظالم.الطاف حسین کے احمدیوں کے حق میں بیان پر تبصرہ.ہر محب وطن چاہے گا کہ ملک میں امن ہو اور ملائیت کا خاتمہ ہوا ور فرقہ واریت کا خاتمہ ہو، ہم تو محب وطن ہیں.احمدیت کے حق میں جو سکیم خدا بنا رہا ہے اس کے سامنے سب تدبیریں بیچ ہیں.پاکستان اور تمام اسلامی دنیا میں احمدیت کے حق میں تقدیر پیدا ہو گی.پاکستانی احمدیوں کو ملک کے لئے دعا کرنے کی نصیحت.عرب ممالک کے احمدیوں کو بھی دعا کی تلقی.ڈاکٹر سلام نے جو نظریہ پیش کی وہ قرآن کریم کی صداقت کا ثبوت ہے.احمدی سائنسدانوں کو قرآن پر غور کی نصیحت.38 18 ستمبر بیت الفتوح لندن 438 449 جمعہ کا خاص اہتمام کر کے جمعہ پر آنا ہی حقیقی جمعۃ الوداع ستی کرنے والے عہد کریں کہ آئندہ اس جمعہ کو الوداع کر کے اگلے سال رمضان میں استقبال نہیں کریں گے بلکہ آئندہ ہفتے والے جمعہ کا استقبال کریں گے.اس دن کی خاص حفاظت اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی ہر مسلمان کو کرنی چاہیے اور دعا بھی ، اذان کی آواز فون سیٹوں میں ریکارڈ کریں.جمعہ کی اہمیت کے بارے میں احادیث کا بیان.نبی کریم اور حضرت مسیح موعود کی بعثت کے حوالے سے جمعہ کے روز کی اہمیت کا ذکر.ہر جمعہ کو درود کا اہتمام خاص طور پر کرنا چاہیے.دعاؤں کی قبولیت کا درود کے ساتھ خاص تعلق ہے.یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے.ہے.
خطبات مسرور جلد ہفتم X فهرست خطبات 39 25 ستمبر بیت الفتوح لندن 450 تا 461 رمضان کا مقصد پاک خیالات کا پیدا ہونا ہے.ان آیات میں ذاتی اور معاشرتی ذمہ داریوں اور خدا کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.عبادالرحمان کی 13 خصوصیات کا ذکر.آئندہ نسلوں کی بقاء کے لئے اہم نسخہ.اولاد کی دنیاوی اور دینی ترقی کے لئے اہم دعا.یورپ میں بچوں کی آزادی اور بے باکی کا ذکر.بچپن سے ہی لباس کی طرف توجہ دلائیں.40 102اکتوبر بیت الفتوح ، لندن 462 تا 474 مشکلات کے وقت ان دو خصوصیات ( صبر اور صلوٰۃ ) کا اظہار ہونا چاہیئے.صبر اور صلوۃ کے مختلف معانی کا تذکرہ.ابتلاؤں کے دور میں نماز ، دعا، ذکر او لہی اور درود کی طرف زیادہ توجہ دیں.احمدی مسلمان کا یقین کامل ہو کہ خدا ہی اس کا سہارا ہے، پاکستان ، عرب ممالک اور ہندوستان میں احمدیوں پر سخت حالات پیدا کیے جارہے ہیں.آج پاکستانی احمدیوں کی قربانی ضائع ہونے والی نہیں ، یہ رنگ لانے والی ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم بغیر شکوہ کے امتحانوں سے گزرنے کے لئے اللہ سے دعائیں مانگتے چلے جائیں.اسلام کے آغاز میں صحابہ کا اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنا.شہداء کے ناموں کو زندہ رکھنا جماعت مومنین کی زندگی کی علامت بن جاتی ہے.جس قوم میں قوم کی خاطر مرنے والے ہوں وہ تو میں مرا نہیں کرتیں.41 09اکتوبر بیت الفتوح ، لندن 475 484 صفت القوی.حقیقی مومن کی یہ تعریف ہے کہ اس کو خدا سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہوتی ہے.اللہ کی محبت تب کامل ہو گی جب اس کے رسول سے بھی بے غرض محبت ہوگی اور دوسرے انسانوں سے بھی ہو گی.حضرت اقدس کے ارشاد کی روشنی میں محبت کی حقیقت کا ذکر.جہاد اور دوسری جنگوں میں فرق.آجکل مسلمانوں کا ہر جگہ ذلیل ہونا اس امر کا ثبوت کہ وہ جہاد نہیں کر رہے.جہاد کی حقیقت.مسلمانوں کی پست حالت کا ذکر اور یہ کہ تیل کی دولت والے ممالک کی طرف دوسرے حسد کی نظر سے دیکھ رہے ہیں.اب اسلام کا غلبہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہونا ہے اگر چہ کئی ممالک میں احمدیت مظلومیت کی حالت میں ہے.42 16 اکتوبر بیت الفتوح لندن 485 494 صفت امتین.آنحضرت کا جلالی دور جو جنگوں کا زمانہ تھا اس میں اسی طریقہ سے اللہ نے دشمنوں کو پکڑا.آج بھی اللہ اپنے متین ہونے کے نظارے اور رنگ میں دکھا رہا ہے.آج جو لوگ آنحضرت کے بارہ میں استہزاء اور نازیبا کلمات کہتے ہیں وہ اللہ کی پکڑ سے محفوظ نہیں.آنحضرت جو دنیا میں اللہ کو سب سے پیارے تھے آپ کو بھی عبادت کا حکم دیا گیا تھا اور یہ حکم امت کے لئے بھی ہے لہذا ہر قسم کی قربانیوں کے معیار قائم کرنے کی آج ضرورت ہے.احمدیت کے غلبہ کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام.پاکستان کی سالمیت کے لئے دعا کی تحریک کہ احمدیت کی وجہ سے ہی اللہ بچالے.
خطبات مسرور جلد ہفتم xi فہرست خطبات 43 23 اکتوبر بیت الفتوح لندن 495 505 صفت الولی.اسلام کے ابتدائی مسلمانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں.ہرا بتلا اور امتحان جہاں جماعت کی روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے وہاں مادی اور جسمانی ترقی کا بھی باعث بنا ہے.1974 اور 84 کے حالات کی مثال.نبی کے انکار کرنے والے اس انکار کی وجہ سے مزید ظلمات میں گرتے چلے جاتے ہیں.مسیح موعود کے تجدید کے زمانہ میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ خدا کے فرستادہ کی مدد کریں.ان بزرگان سلف کا ذکر جو اجرائے نبوت کے قائل مثلاً محی الدین ابن عربی ، ملا علی قاری ، امام شعرانی حضرت عائشہ.حضرت مسیح موعود کے اللہ کے ولی ہونے کے متعلق الہامات کا ذکر.حضرت مسیح موعود کے الہام میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘ کے پورا ہونے کا ذکر.44 30 اکتوبر بیت الفتوح لندن 506 514 صفت الولی.سب سے زیادہ حفاظت اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی ہوتی ہے اور ان میں سب سے زیادہ نبی کریم کی.فرشتوں کے علاوہ صحابہ نے بھی نبی کریم کی حفاظت کی.صحابہ کی قربانیوں کا ذکر.اس زمانہ میں اللہ کا جماعت کو طاعون سے بچانا ، امت مسلمہ میں سے جو ظلم و تعدی میں بڑھ رہے ہیں انہیں آج سوچنا چاہئے خاص طور پر پاکستانیوں کو تو بہ واستغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے.امتِ مسلمہ کو مجھ نہیں آرہی کہ جو خیر امت ہے وہ اس انعام سے کیوں محروم ہے.مذہب کے نام پر احمد یوں کو نشانہ بنایا جانا.احمدیوں کی ذمہ داری کہ اپنے جائزے لیتے رہیں کہ خدا ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا رہے.45 06 نومبر بیت الفتوح لندن 515 526 تحریک جدید کے 76 ویں سال کے آغاز کا اعلان قرآن کے محفوظ ہونے کا فخر آج صرف اسلام کو حاصل ہے.مسلمانوں کے خیر امت کہلائے جانے کی وجہ کا ذکر.آج خیر امت ہونے کا اعزاز حضرت مسیح موعود کی جماعت کو حاصل ہے.ایک احمدی پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خیر امت ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے.اب کسی قسم کے فقہی یا فروعی مسائل میں الجھنے کی ضرورت نہیں جو فیصلہ اس زمانہ میں عاشق صادق نے کیا وہی حقیقی دین ہے.46 13 نومبر بیت الفتوح لندن 527 53 صفت الولی.اولیاء اللہ کی حالت اور صفات کا ذکر.حقیقی مومن کے ساتھ اللہ کا سلوک.حدیث کی روشنی میں تین قسم کے اولیاء کا ذکر.کون لوگ اللہ کے ولی ہونے کے حقدار ہیں ، احادیث کی روشنی میں اس کا ذکر.عہدیداروں اور نگرانوں اور عام لوگوں کو ہدایت.احمدیوں کے لئے قابل توجہ امر کہ اگر خدا کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت، پیار اور نظام جماعت کا احترام، اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا بہت ضروری ہے.
xii خطبات مسرور جلد ہفتم فہرست خطبات 47 20 نومبر بیت الفتوح لندن 536 تا 546 صفت الولی.صرف ایمان لانا کافی نہیں بلکہ خدا کو ولی بنانے کی بھی ضرورت ہے.دنیا کی خاطر خدا کو بھلا بیٹھنے والوں کے بدانجام کا ذکر.حکومت کی بقا کی خاطر کئی مسلمان ملکوں کے سربراہوں کا اپنے ملکوں کو گروی رکھنا کیونکہ انہیں خدا پر یقین کامل نہیں تھا، معاشی بحران کے باعث credit crunch کا ذکر ترقی پذیر اور خاص پاکستان میں یہ بیماری انتہاء پر پہنچی ہوئی ہے کہ افسروں سے تعلق کی بنا پر انتظامیہ سے بھی ظلم کروائے جاتے ہیں.خدا کا نام لینے کے باوجود مظالم کی انتہاء.قرآن میں پرانے قصوں کو بیان کرنے کی وجہ.حضرت مسیح موعود کی آمد کا مقصد.خدا کو ڈھال بنانے کی حقیقت.حقیقی ولی وہی ہے جس میں عاجزی اور انکسار ہے.خود ولی بنیں دعائیں کروانے کے لئے کسی کے پاس نہ جائیں.راجیکی صاحب کا دعا کروانے والے کو ہمیشہ کہنا کہ خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق مضبوط کرو، دعا کے لئے کہو اور خود بھی کرو.دنیا وی دولت کا لالچ ہے جس نے آج دنیا کے دو بلاک بنائے ہوئے ہیں.پاکستان وغیرہ پر بڑی طاقتوں کی امن قائم کرنے کی مہربانی یہ کسی ہمدردی کے لئے نہیں بلکہ اپنی طاقت قائم رکھنے اور ہمسایہ ممالک کے وسائل کو استعمال کرنے کے لئے ہے.مومن کو دوسروں کی دولت کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا ہے.48 27 نومبر بیت الفتوح لندن 547 56 صفت الولی.صحابہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ حضرت مسیح موعودؓ کے واقعات کی روشنی میں اس صفت کا تذکرہ.49 4 دسمبر بیت الفتوح لندن 561 %56 صفت النور - لغات سے لفظ نور کے مختلف معانی اللہ کا نور ہرا چیز پر حاوی ہے.اب حقیقی نور صرف آنحضرت کی شریعت اور آپ کے اسوہ حسنہ میں ہے.صحابہ نبی کریم میں آنحضرت کے نور کا پر تو.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کو نور حاصل ہونا.آج اگر کسی کو اللہ اور رسول سے محبت کا دعوی ہے تو مسیح موعود سے تعلق جوڑنا ضروری ہے.سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کے خلاف شور.اس کے پیچھے ایک گہری سازش نظر آتی ہے.50 11 دسمبر بیت الفتوح لندن 570 580 صفت النور الله نور السموات والارض کی لطیف تشریح.نور کی دو اقسام اور ان کی تفصیلات.اسلام ایک معتدل تعلیم پیش کر رہا ہے.آنحضرت سراج منیر ہیں اور اب آپ کے واسطے کے بغیر کوئی نہیں جو اللہ کی روشنی اور نور کو حاصل کر سکے.اس لئے اب قرآن کے بعد کوئی اور شریعت نہیں اترے گی.قرآنی نور کا مسلمانوں پر اثر.یورپ جن علوم کی روشنی کا اظہار کر رہا ہے وہ انہوں نے مسلمانوں سے ہی سیکھے تھے.احمدیوں کا فرض کہ انسان کامل کے عاشق صادق کی قرآنی تفسیر اور تعلیم پر غور کرنا اور اپنے اوپر لاگو کرنا ضروری ہے.علوم و معارف کا خزانہ اب آنحضرت اور قرآن ہے.ارشا د حضرت اقدس کی رو سے آنحضرت کے بلند مقام کا ذکر.
خطبات مسرور جلد ہفتم xiii فہرست خطبات 51 18 دسمبر مسجد نور فرینکفرٹ 581 592 | اس مسجد کی تعمیر کو پچاس سال ہو گئے ہیں.مساجد کی اہمیت اور انکی اہمیت انہیں آباد کرنے کیلئے آنے والے لوگوں سے ہے جو جرمنی اللہ کا تقویٰ رکھتے ہوں اور پانچ وقت ان کی رونق دوبالا کرتے ہوں.سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں کے نہ بنانے کے متعلق ریفرنڈم کا ذکر.جماعت احمدیہ کا اس معاملے میں آواز اٹھانا جبکہ دوسرے مسلمان سوئے ہوئے ہیں.لفظ مینار کی حقیقت.اس اعتراض کا جواب کہ مساجد دہشتگردی کا اڈہ ہیں.لفظ مسجد کی وضاحت.مقامی احمدیوں کا فرض کہ وہ اس مسجد کو پانچ وقت با قاعدہ کھولیں.پریس کے دوران حضور انور کا اس سوال کا جواب دینا کہ ہم مساجد کیوں بنا رہے ہیں؟ اپنے کسی فعل اور حرکت سے احمدیت اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں.مسجد کے اندرونی ہال میں کھانے سے ممانعت.52 25 دسمبر بیت الفتوح لندن 593 ت602 صفت النور.ہدایت دینا خدا کا کام ہے.آنحضرت جونور لائے آپ کی خواہش تھی دنیا اسے قبول کر کے اپنے دلوں کو منور کرے.جہاں جہاں قرآنی نور کی روشنی پڑتی ہے وہاں وہاں ان کو روشن کرتی جاتی ہے.روحانی دنیا میں روشنی انہیں پہنچتی ہے جو اپنے دل و دماغ کو کھول کر رکھتے ہیں.اسلام کے آخری اور کامل دین ہونے کا ذکر قوموں میں بگاڑ کے وقت اللہ کا ان کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجنا.حضرت اقدس کی بعثت سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کے بگڑنے کا ذکر.اللہ صرف انہی کی مدد کرتا ہے جو اعمال صالحہ بجالاتے ہیں.قرآن کی عملی شکل بھی آنحضرت کا اسوہ حسنہ ہے.دلوں کی سختی دور کرنے کے طریق کا ذکر.سوئٹزرلینڈ میں میناروں کے بارے میں ریفرینڈم کا ذکر.حضرت اقدس نے ہی مسلمانوں کو عیسائیوں سے بچایا تھا.قرآن کے ذکر ہونے کی وجہ.مومنین کو ہمیشہ نماز کے قیام کی طرف توجہ رکھنی چاہئے.اس کی اہمیت کل سے قادیان کے جلسہ کا آغاز.دعاؤں سے اس بستی کو ایسا بھر دیں کہ ہر طرف نور ہو.
خطبات مسرور جلد ہفتم 1 (1) خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009 فرمودہ مورخہ 2 جنوری 2009ء بمطابق 2 صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کل ہم محرم کے مہینہ سے گزر رہے ہیں اس کی شاید آج 4 تاریخ ہے اور جنوری 2009 ء کی آج 2 تاریخ ہے.اتفاق سے اسلامی یا قمری سال کی ابتداء کا بھی آج پہلا جمعہ ہے.اور ہجری شمسی سال کا بھی آج پہلا جمعہ ہے.یہ دونوں نظاموں کے کیلنڈرز میں پہلے جمعہ کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے لئے بے شمار برکتوں کا موجب بنائے.اس حوالہ سے میں جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں جیسا کہ جماعت کی کتب میں موجود ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں بھی اور کئی مرتبہ میں خطبوں میں بھی بتا چکا ہوں کہ جمعہ کے دن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے خاص نسبت ہے.ایک تو اس زمانے میں جب دنیا داری آنے کی وجہ سے مسلمانوں میں جمعہ کی اہمیت کا احساس نہیں رہا یا نہیں رہنا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اور خاص طور پر جمعہ کی نماز کے حوالے سے سورۃ جمعہ میں مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ اپنے دنیاوی مسائل میں نہ پڑے رہو بلکہ ہمیشہ یہ ذہن میں رہے کہ تمام فضلوں کا منبع خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس لئے جمعہ کی نماز کی طرف بھی توجہ رہے.پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے دنیاوی کاموں میں بے شک مشغول ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو.اس سورۃ کے شروع میں آخرین میں سے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کے مبعوث ہونے کی بھی خوشخبری دی گئی ہے جس نے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے مقصد کو بھی پورا کرنے کی خاطر آپ ﷺ کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم کو بھی پھیلانا تھا، تزکیہ نفس بھی کرنا تھا اور حکمت کی باتیں بھی سکھانی تھیں تا کہ دنیا اپنے خدا کو پہچان سکے اور مسلمان بھی ایک اُمتِ واحدہ بن جائیں اور دوسری قوموں کے سعید لوگ بھی، جو سعید فطرت لوگ ہیں ایک ہاتھ پر جمع ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھا.آپ فرماتے ہیں کہ اس تکمیل میں دو
2 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009 خوبیاں تھیں ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرت ﷺ کا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپ کا دوسرا زمانہ ہے.جبکہ آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعہ : 4 ) کا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ.اس لئے اللہ تعالیٰ نے تعمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کے زمانوں کو بھی اس طرح پر ملایا ہے اور یہ بھی عظیم الشان جمع ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 50-49 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تکمیل ہدایت کا مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں چاہے وہ دنیا وی ہیں یا روحانی ہیں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہیں اور اس کامل دین کے بعد کسی نئے دین اور کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں رہی.کوئی کہہ سکتا ہے کہ دنیاوی نعمتیں تو نقطہ عروج پر نہیں پہنچیں بلکہ ہر روز نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں تو واضح ہو کہ آنحضرت عیہ ہی ایک کامل نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک تو تمام انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا اور آپ ہی وہ کامل نبی ہیں جن کو قیامت تک کا زمانہ عطا فرمایا گیا ہے.اور آپ پر اترنے والی کتاب قرآن کریم ہی وہ کامل کتاب ہے جو اپنے اندر پرانی تاریخ بھی لئے ہوئے ہے، نئے احکامات بھی لئے ہوئے ہے اور دنیاوی لحاظ سے جونئی ایجادات ہیں ان کی پیش خبری بھی پہلے سے قرآن کریم نے دے دی ہے اور جوں جوں کوئی نئی دریافت ہوتی جاتی ہے اس کی تائید قرآن کریم سے ملتی جاتی ہے.بلکہ مسلمان سائنسدان اگر غور کریں اور غور کر کے اپنی ریسرچ (Research) قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے حوالے سے کریں یا اُس علم کے حوالے سے کریں جو قرآن کریم میں ایک خزانے کی صورت میں موجود ہے تو نئی ریسرچ کی بہت سی راہنمائی قرآن کریم سے ملے گی.پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی قرآن کریم کے علم کی روشنی میں اپنی ریسرچ کی تھی اور جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ ان کے غور کے مطابق قرآن کریم میں سات سو کے قریب ایسی آیات ہیں جو سائنس سے متعلق ہیں، یا ایسی آیات ملتی ہیں جن سے سائنس کے بارے میں راہنمائی ملتی ہے.تو یہ ان کا غور ہے جو انہوں نے کیا.ہوسکتا کہ کوئی اور احمدی مسلمان سائنسدان اس وسیع سمندر میں غوطہ لگائے تو قرآن کریم میں سے اس سے بھی زیادہ علم کے موتی تلاش کر کے لے آئے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوگئی.کوئی علمی، دینی، سائنسی، روحانی بات یا علم نہیں جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے یا آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے ذریعہ سے تکمیل نہ پا گیا ہو.لیکن اس زمانے میں بعض چیزیں پردہ غیب میں تھیں اور سامنے نہیں آئی تھیں.اس لئے گزشتہ لوگوں سے چھپی رہیں.لیکن مسیح موعود کے زمانے میں یہ نئی ایجادات سامنے آ کر تکمیل
خطبات مسرور جلد ہفتم 3 خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 2009 اشاعت ہدایت کا ذریعہ بن رہی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یہ نئی ایجادات جو انسان کے فائدے کے لئے ہیں آنحضرت عے کے لائے ہوئے دین کی اشاعت میں کام آرہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں پریس وغیرہ کی مثالیں دی ہیں.آج ہم دیکھتے ہیں، سیٹلائٹ وغیرہ ہیں اور بہت ساری چیزیں ہیں.پس یہ جو آنحضرت کے عاشق صادق اور مسیح الزمان کا زمانہ ہے اس میں ایسی ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں یا ان کی مدد سے دین کی اشاعت ہو رہی ہے یا قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم ، مقام اور مرتبہ کی کاملیت کے ایسے ایسے اسلوب اور زاویے نظر آتے ہیں جو ایک مومن کے دل اور ایمان کو مزید تقویت دیتے ہیں اور یہ چیزیں پھر ہمیں آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں.اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہجری سال کا بھی یہ پہلا جمعہ ہے اور شمسی کیلنڈر کا بھی یہ پہلا جمعہ ہے یا قمری سال کا بھی پہلا جمعہ ہے اور شی کیلنڈر کا بھی پہلا جمعہ ہے.اور جمعہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی بھی خاص اہمیت ہے.اسلامی اور دنیاوی کیلنڈر کے نئے سال کے پہلے جمعہ کا جمع ہونا ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے.قمری اور شمسی دونوں نظام خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں.میں نے جو یہ کہا کہ اسلامی اور دنیاوی تو یہ اس لئے کہ عموماً شمسی سال کی تاریخ جولیس سیزر کے زمانے سے اور پھر عیسائیوں کے زمانے سے گریگورئین کیلنڈر (Graygorian Calander) کے نام سے جانی جاتی ہے اور قمری مہینہ ہمارے اسلامی سال کے لحاظ سے استعمال ہوتا ہے.ورنہ شمسی اور قمری دونوں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ نظام ہیں.تو جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اس سے دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے.جبکہ یہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کی خلافت کی دوسری صدی کے پہلے سال میں مل رہے ہیں اور اگر ہم اپنی توجہ دعاؤں پر رکھیں گے ، اپنے اعمال اللہ اور رسول ﷺ کے حکموں کے مطابق بجالانے کی کوشش کریں گے تو دینی اور دنیاوی ترقیات جواب آنحضرت علی کے ساتھ مقدر ہیں ، آپ کے غلام صادق کی خلافت راشدہ کے ساتھ جڑی رہنے والی جماعت کے ذریعہ ہی دنیا کونئی شان سے نظر آئیں گی ، انشاء اللہ.پس سورج اور چاند کے مہینوں یا سالوں کا جمعہ کے ایک بابرکت دن میں جمع ہونا بھی مسیح محمدی کے جمع کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور ہو سکتا ہے کئی دفعہ دونوں دن جمع ہو چکے ہوں لیکن اس لحاظ سے، اس حوالے سے یہ اس طرح پہلی دفعہ جمع ہو رہا ہے اور انشاء اللہ جماعت احمدیہ کی ترقی کی نئی منازل کی طرف لے جانے والا یہ ایک سنگ میل ہے.آج جبکہ دنیا لہو ولعب میں ڈوبی ہوئی ہے.لہو ولعب کے بد بودار پانی میں غوطے کھا رہی ہے.ایک احمدی کو اور ہر ملک کی ہر جماعت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم کو اپنے اندر بھی لاگو کرنے کی کوشش پہلے سے
4 خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بڑھ کر کرنی چاہئے.اور اپنے ماحول میں بھی بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس تعلیم سے روشناس کروانے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے اور گند میں ڈوبنے والوں کو صاف پانی سے نہلا دھلا کر ہمیں خیر امت ہونے کا ثبوت دینا چاہئے.ایک احمدی کی یہ آج بہت بڑی ذمہ داری ہے.آج اگر ہم نے اس ذمہ داری کو حقیقی رنگ میں ادا نہ کیا تو نہ ہی ہم خیر امت کہلا سکتے ہیں ، نہ ہی مسیح محمدی کے حقیقی حواری کہلا سکتے ہیں.جنہوں نے نَحْنُ أَنْصَارِ اللہ کا نعرہ لگایا تھا اور یہ نعرہ لگا کر ہر طرح کی مدد کا اعلان کیا تھا.خدا تعالیٰ بعض باتیں دکھلا کر جنہیں دنیا والے تو اتفاقات کہیں گے لیکن اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو بعض اتفاقات اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان اشاروں کی طرف نشان دہی کر کے یہ اعلان فرما رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد یقینا قریب ہے اور فتوحات تمہارے قدم چومنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ صرف آزماتا ہی نہیں بلکہ ہر ابتلاء اور ہر امتحان کے بعد اپنی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے پہلے سے بڑھ کر کھولتا ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ ہر سختی کو صبر سے برداشت کرنے کے بعد ہم اس کے حضور جھکتے چلے جانے والے بن جائیں.اس کے احکامات پر عمل کی پابندی پہلے سے بڑھ کر کریں تا کہ فتوحات کی منزلیں قریب تر ہوتی چلی جائیں.پس آج ایک تو میری محرم اور نئے سال کے پہلے جمعہ کے حوالے سے جماعت احمد یہ عالمگیر کے ہر فرد، بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورت سے یہ درخواست ہے، کہ اپنے اندر ایک نئے جوش اور ایک نئی روح کے ساتھ ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں اور اپنے اعمال میں وہ خوبصورتی پیدا کریں کہ عرش کے خدا کو بے اختیار ہم پہ پیار آ جائے.اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کریں جس سے زمین و آسمان کا خدا ، قادر و توانا خدا، مجیب الدعوات خدا ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے ، آنحضرت ﷺ کا جھنڈا تمام دنیا میں گاڑنے اور ایک انقلاب عظیم پیدا کرنے کا نظارہ ہمیں اپنی زندگی میں دکھا دے.دعاؤں کی قبولیت اور محرم کے حوالے سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں، اس مہینے میں درود شریف پر بہت زیادہ زور دیں کہ قبولیت دعا کے لئے یہ نسخہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے اپنے عملی نمونہ سے درود شریف کی برکات ہمارے سامنے پیش فرما کر ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے.لیکن ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ درود پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو اس معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہوگی جس سے ر و رفائدہ دیتا ہے.اگر آنحضرت ﷺ پر درود بھیج رہے ہیں تو آپ کے مقام کی پہچان بھی ہمیں ہونی چاہئے.احادیث میں درودشریف پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں جوذ کر ملتا ہے، ان میں سے چند ایک یہاں پیش کرتا ہوں.حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت علہ جب صبح کو تشریف لائے تو حضور کے چہرے پر خاص طور پر بشاشت تھی.صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج حضور کے چہرہ انور پر خاص طور
5 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پر خوشی کے آثار ہیں.فرمایا ہاں.اللہ کی طرف سے ایک فرشتے نے آ کر مجھے کہا ہے کہ تمہاری امت میں سے جو شخص تم پر ایک بار عمدگی سے درود بھیجے گا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھے گا ( اور یہاں آپ نے فرمایا کہ عمدگی سے درود بھیجے گا ) اور اس کی دس بدیاں معاف فرمائے گا.اور اُسے دس درجے بلند کرے گا.اور ویسی ہی رحمت اس پر نازل کرے گا جیسی اس نے تمہارے لئے مانگی ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 5 مسند ابی طلحہ انصاری حدیث 16466 عالم الكتب بيروت لبنان 1998ء ) | آنحضرت ﷺ کی خوشی امت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اظہار کی وجہ سے تھی.پس ہمارا کام ہے کہ اس رحمت کو لینے کے لئے آگے بڑھیں.خالص ہو کر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجیں.اپنے گناہوں کی معافیوں کے بھی سامان کریں اور آئندہ نیکیاں کرنے کی توفیق ملنے کی بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے سامان کریں.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت علی فرمایا ہے جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا قیامت کے روز میں اس کی شفاعت کروں گا.نے (جلاء الافہام - صفحہ 70 ادارة الطباعة المنيرية 1375ھ ) پس یہ مقام درود بھیجنے والے کو ملتا ہے.درجے بلند ہو رہے ہیں.گناہ معاف ہورہے ہیں.پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اس کی شفاعت کروں گا.لیکن کیا آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے والے، جس کے لئے آنحضرت له شفاعت کریں گے، اس کے دل میں دوسرے مسلمان کے لئے کوئی بغض اور کینہ ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کی شفاعت ہوگی ؟ اور پھر کیا جب ہم اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کہتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کی آل کے خلاف کوئی کینہ اور بغض دل میں ہو سکتا ہے؟ اور کیا آپ کے صحابہ کے خلاف کوئی کینہ اور بغض کسی کے دل میں ہو سکتا ہے؟ اگر اس بات کو ہر مسلمان سمجھ لے تو آپس کی لڑائیاں، رنجشیں اور فساد خود بخودختم ہو جا ئیں کہ آنحضرت علی کی شفاعت کے لئے اور درجات بلند کر وانے کے لئے درود کا حق ادا کرنا ہوگا اور حق ادا کرنے کے لئے ہمیں آپس کے کینے اور بغض بھی ختم کرنے ہوں گے.کیونکہ ہم امت کے فرد ہیں.کیا آنحضرت ﷺ کی شفاعت ان لوگوں کے لئے ہوگی جو منہ سے تو درود پڑھ رہے ہوں گے اور دل ان کے کٹے پھٹے ہوں گے.آنحضرت علیے تو دلوں کو جوڑنے کے لئے آئے تھے.آپ کے ماننے والوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ( فتح: 30) یعنی آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم اور ملاطفت کے جذبات رکھتے ہیں.لیکن کیا آج مسلمانوں کی ایسی حالت ہے کہ رحم کے جذبات ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہوں.یہ محرم کا مہینہ ہے.ہر سال ہم خبریں سنتے ہیں کہ فلاں جگہ شیعوں کے تعزیہ پر حملہ کیا گیا.فلاں جگہ امام باڑے
خطبات مسرور جلد ہفتم 6 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009 پر حملہ کیا گیا.پاکستان میں بعض مولوی ، وہ لوگ جو دینی علم رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ مسجد کے منبر سے ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت کو پورا کرتے ہوئے اس جگہ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے محبت و پیار کا پیغام دیں لیکن یہ ہوا و ہوس میں ڈوبے ہوئے لوگ منبر رسول علے سے نفرتوں کا پیغام دیتے ہیں.محبتوں کے سفیر بنے کی بجائے نفرتوں کے پیغامبر بنتے ہیں.اور پھر اسی وجہ سے حکومت یہ اعلان کرتی ہے اور یہ اعلان اخباروں میں چھپتے ہیں کہ فلاں مولوی پر فلاں فلاں جگہ جانے پر پابندی ہے.اتنے عرصے کے لئے پابندی لگائی گئی ہے تا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کے بیچ نہ ہوسکیں.پس یہ تو حال ہے آج ان لوگوں کا جو ایک طرف تو قرآن اور سنت کی تعلیم دیتے اور دوسری طرف نفرتوں کے بیج بوتے ہیں اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں.ہر سال یہ پابندیوں کا مستقل عمل ہے جو حکومتوں کو ہرانا پڑتا ہے.پھر کر بلا میں بھی خود کش حملے ہوتے ہیں.شیعہ سنیوں پر حملے کرتے ہیں.سنی شیعوں پر حملے کرتے ہیں.اس کو روکنے کے لئے حکومتوں کو علماء کی کمیٹیاں بنانی پڑتی ہیں تا کہ ملک میں فساد نہ پھیلے.اور اگر محرم کے دن امن سے گزر بھی جائیں تو یہ نفرتوں کی جو باتیں ہیں، جو نفرتوں کے نعرے ہیں ، جو نفرتوں کے لاوے دلوں میں پک رہے ہوتے ہیں، یہ بعد میں پک کے نکلتے ہیں اور سارا سال مختلف جگہوں پر کچھ نہ کچھ فساد ہوتا رہتا ہے اور دونوں بظاہر مسلمان بھی ہیں اور درود پڑھنے والے بھی ہیں تو کیا ایسے لوگوں کے لئے آنحضرت مہ نے سفارشی بنے کا اعلان فرمایا ہے؟ سوچنے کا مقام ہے.ہمیں اس لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہئے اور درود پڑھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے، آنحضرت علی کے حقیقی پیغام کو سمجھنے والے بھی بنیں.درود کی حقیقت کو سمجھیں اور آج جبکہ عالم اسلام خطرے میں ہے تو ایک اکائی کا ثبوت دیں تا کہ دشمن کی میلی آنکھ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.درود شریف میں جب ہم آل رسول پر درود بھیجتے ہیں تو ان روحانی اور جسمانی رشتوں کا بھی خیال آتا ہے جو آنحضرت مے سے تعلق رکھنے والے ہیں.آنحضرت علی لوہے کے وہ خونی رشتے جنہوں نے روحانی رشتہ دار ہونے کا بھی حق ادا کیا ہے اور ایسا حق ادا کیا ہے کہ جس کے معیار بلندیوں کو چھو رہے ہیں، ان کے بارے میں کسی حقیقی مسلمان کے دل میں خیال آہی نہیں سکتا کہ کوئی نازیبا کلمات ان کے بارے میں کہیں.بلکہ درود پڑھتے وقت بھی جب آل رسول پر درود بھیجتے ہیں تو وہ لوگ فوراً سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں.اسی طرح آنحضرت ﷺ کے صحابہ ہیں.وہ صحابہ جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آنحضرت ہی ہے کے جسم مبارک کو نقصان سے بچانے کے لئے ، ہر تکلیف سے بچانے کے لئے اپنے سینے آگے کر دیئے.ان صحابہ میں ایک آنحضرت ﷺ کے غار کے وہ ساتھی بھی ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے فرمایا لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (التوبہ: 40).غم نہ کر یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآن کریم میں درج کر کے
خطبات مسرور جلد ہفتم 7 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009 حضرت ابوبکر صدیق کو ہمیشہ کے لئے آنحضرت ﷺ کا بہترین ساتھی قرار دے دیا اور ان فضلوں کا بھی ساتھی بنا دیا جو اس ہجرت کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علیہ پر فرمائے تھے.پس ایسے بزرگوں کی شان میں کسی قسم کے ایسے الفاظ کہنا جن سے ان کے مقام میں کسی بھی قسم کی کمی نظر آتی ہو ایک مسلمان کا ، ایسے مسلمان کا کام نہیں ہے جو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے والا ہے.آپ کی آل میں وہ خونی رشتے دار، جنہوں نے روحانی رشتے کو بھی نبھایا جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے اور اس کے بلند معیار قائم کئے ، ان کے علاوہ وہ رشتے بھی شامل ہیں جنہوں نے روحانیت کا تعلق جوڑا.پس آج ہمارا کام ہے کہ جب دنیا میں ایک دوسرے کے لئے نفرتوں کی دیوار میں بلند ہو رہی ہیں.مسلمان کہلا کر پھر ایک دوسرے سے نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں تو یہ درود پڑھیں ، دعائیں کریں.ایک ہمدردی کے جذبے سے اُمت محمدیہ کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی حقیقی رنگ میں درود شریف کی پہچان کرنے والا بنائے تا کہ مسلمان رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (فتح: 30) کا حقیقی نظارہ دیکھیں.ان کے لئے دعائیں کرنا ہمارا فرض بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے درود کی برکات اور اہل بیت سے تعلق کا جو ادراک ہمیں عطا فرمایا ہے وہ میں آپ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں.آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ: - ایک مرتبہ الہام ہوا، جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے.اللہ تعالیٰ دین کو دوبارہ زندگی دینا چاہتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُخبى کے تعین ظاہر نہیں ہوئی.اس لئے وہ اختلاف میں ہے لیکن یہ نہیں پتہ لگ رہا کہ کس کے ذریعہ سے یہ زندگی دوبارہ پیدا کی جانی ہے تو اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارے سے اس نے کہا هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُولَ اللهِ يعنى يوه آدمی ہے جو رسول اللہ علیہ سے محبت رکھتا ہے.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے“.یعنی اس عہدے کے لئے جو زندہ کرنے والا ہے سب سے بڑی شرط محبت کی ہے.جس نے مُحیی بنا ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے محبت میں سب سے زیادہ ہونا چاہئے.سو وہ اس شخص میں متحقق ہے.وہ اس شخص میں پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اشارہ کر کے فرشتوں نے کہا.فرماتے ہیں کہ اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے.یہ جس الہام کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے جو پہلے ہوا تھا، یہاں نہیں پڑھا گیا کہ اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ سَيّدِ وُلدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّين - فرمایا کہ اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سر ہے کہ افاضہ انوارالہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیبین طاہرین کی
خطبات مسرور جلد ہفتم 8 خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 2009 وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبت حسن سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے.یہ کشفی حالت طاری ہوئی اور چند لوگوں کے چلنے کی وہ آواز آئی جو جوتی پہننے سے آتی ہے.” پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے.یعنی جناب پیغمبر خدا اللہ حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرار ضِيَ اللهُ عَنْهُمُ أَجْمَعِينَ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یا د پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی.جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے تالیف کیا ہے اور اب علی وہ تفسیر تجھ کودیتا ہے فالحمد للہ علی ذلک.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598-599- حاشیه در حاشیہ نمبر 3) اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کشف تھا.اسے بھی بعض غیر تو ڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نعوذ باللہ حضرت فاطمہ کی ہتک کی ہے تو یہ اصل میں ان اعتراض کرنے والوں کی بدفطرت ہے جو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ فقرہ کہہ کے ہتک کی گئی ہے.فتنہ پیدا کرنے والے جو مولوی ہیں یہ عام لوگوں کو پورا فقرہ نہیں بتاتے ، ( اور عوام جہالت کی وجہ سے یا ان لوگوں نے پڑھا پڑھا کے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ سنا اور دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ اصل چیز کیا ہے.) یہ صرف اتنا فقرہ بتاتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یہ لکھ دیا کہ حضرت فاطمہ نے میرا سر اپنی ران پر رکھ لیا.کیونکہ گند خود اُن کے ذہنوں میں بھرا ہوا ہے اس لئے اس گند سے یہ باہر نکل ہی نہیں سکتے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ نہایت محبت و شفقت سے ما در مهربان کی طرح عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.اب مادر مہربان کا کیا مطلب ہے؟ مہربان ماں ، اس مہربان ماں کے لفظ کے ساتھ کوئی گندہ خیال ابھر سکتا ہے؟ یہ صرف اور صرف اگر ابھر سکتا ہے تو ان گندے اور بدفطرت مولویوں کے ذہنوں میں.یہ ضمناً ذکر آ گیا اس لئے میں نے وضاحت کر دی.تو یہ سارے کشف اور الہام ہیں ایک تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مسیح و مہدی ہونے کے مقام کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ یہ اسی درود کی وجہ سے تھا جو آپ آنحضرت علیہ سے بے پناہ عشق کی وجہ سے آپ ﷺ پر بھیجتے تھے.دوسرا آپ فرماتے ہیں کہ یہ جو الہام ہے.صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ اس میں ایک راز یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے انوار سے فیض حاصل کرنا ہے تو اہل بیت سے محبت کرنا بھی ضروری ہے.اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بننے کے لئے ان پاک اور مطہر لوگوں کی وراثت پانا بھی ضروری ہے.پس یہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا
خطبات مسرور جلد ہفتم 9 خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 2009 مقرب بننے والا ان پاک اور مطہر وجودوں کے نقش قدم پر چلے تو اللہ تعالیٰ اس محبت کی وجہ سے جو آنحضرت مے کے پیاروں سے کسی کو ہے ان محبت کرنے والوں کو اپنے قرب سے نوازتا ہے.پس یہ حقیقی محبت ہے کہ اپنے محبوب کے پیاروں سے بھی محبت ہو اور اگر اس نکتے کو مسلمان سمجھ لیں تو کبھی ایک دوسرے کے لئے نفرتوں کی دیوار میں کھڑی نہ ہوں.یہ ٹھیک ہے کہ نفرتوں کی دیوار میں کھڑی کرنے والے جو علماء یا نام نہاد مولوی ہیں، اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اور اپنی اناؤں کی خاطر یہ دیوار میں کھڑی کرتے ہیں.لیکن ان دیواروں کو کھڑا کرنے میں نام ان بزرگوں کا استعمال کرتے ہیں جو اپنی ساری زندگی رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ کی بہترین مثال بنے رہے.پس یہ عوام الناس کے لئے بھی سوچنے کا یہ مقام ہے کہ آنکھیں بند کر کے کسی کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی عقل کا استعمال کریں.آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ہمیں جو دعا ئیں سکھائی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ان لوگوں کی محبت بھی مانگی ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبت میں بڑھانے کا ذریعہ بنے جیسا کہ ایک دعا میں آپ نے یہ سکھایا کہ اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِی حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنِي حُبَّهُ عِنْدِكَ نرمندی.کتاب الدعوت باب 74/73 حدیث (3491) کہ اے اللہ! عطا کر مجھے اپنی محبت اور اس شخص کی محبت کہ میرے کام آئے اس کی محبت تیرے حضور.اور سب سے زیادہ کام آنے والی محبت آنحضرت علی سے محبت ہے.نفع دینے والی محبت آنحضرت مﷺ سے محبت ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے.اور یقیناً ان لوگوں سے بھی محبت اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے جن سے آنحضرت ملے نے محبت کی.جہاں ہمارا کام یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ہر حکم کی اور ہر کام کی پیروی کریں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جن سے آپ نے محبت کی ان سے ہم بھی محبت کریں.اور بے شمار روایات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت نے جہاں اپنی جسمانی اور روحانی آل سے محبت کی یعنی جسمانی آل سے جن کا روحانی تعلق بھی تھا اور ہے ان سے محبت کی وہاں صرف جو روحانی اولاد تھی، آپ کے ماننے والے تھے، صحابہ تھے، ان سے بھی محبت کی.اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ امت کے جو لوگ درود بھیجیں گے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے گا اور اس پر آپ بے انتہا خوش ہیں.وہی نہیں جو اس وقت کے صحابہ تھے بلکہ تا قیامت آنے والے تمام وہ لوگ جو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کیونکہ ان سے رحمت کا سلوک فرمانا ہے تو اس بات سے آنحضرت کو بے انتہاء خوشی پہنچ رہی ہے اور خوشی تبھی پہنچتی ہے جب حقیقی محبت ہو.اگر اس اصل کو مسلمان سمجھ جائیں تو کبھی کسی قسم کا فساد نہ ہو.کبھی ایک دوسرے کی مسجدوں پر خودکش حملے نہ ہوں.کبھی علماء پر ایک جگہ سے دوسری جگہ خاص طور پر محرم کے مہینہ میں جانے پر پابندیاں عائد نہ ہوں.بہر حال ہمارا کام یہ ہے کہ ان کی بھلائی کے لئے دعائیں کرتے رہیں.مسلمان بھی سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب آپس میں رحم اور ملاطفت کے نظارے نظر آتے تھے اور آج مختلف گروپوں
10 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم سے، مختلف گروہوں سے، مختلف طبقوں سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں.کس کی نظر کھا گئی اس اُمت کو؟ کہاں نا فرمانی ہوگئی جس کی یہ سزامل رہی ہے.سوچیں اور سوچیں تا کہ اسلام کا اصل حسن دنیا کو دکھا سکیں.اپنی کمزوریوں پر نظر کریں.پس پھر میں کہوں گا کہ آج کل ہم احمدیوں کو چاہئے کہ اس مہینے میں درود شریف بھی بہت پڑھیں.امت مسلمہ کو آپس کے لڑائی جھگڑوں، فتنوں اور فسادوں سے محفوظ رہنے کے لئے دعا ئیں بھی بہت کریں اور آنحضرت ﷺ کی آل اور اصحاب اور تمام ان لوگوں سے جن سے ہمارے محبوب آقا نے محبت کی ، ایسی محبت کا اظہار کریں جو بے مثال ہو.آنحضرت ﷺ کی وہ جسمانی اولاد جس نے آپ سے روحانی رشتہ بھی قائم رکھا ہماری محبت کی یقیناً حقدار ہے اور بہت زیادہ حقدار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر استقامت اور زہدا اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے“.مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 654 اشتہار تبلیغ الحق 18اکتوبر 1905ء.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ محبت ہے جو حضرت امام حسین سے ہر احمدی کو کرنی چاہئے.جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے.اسی طرح صحابہ کا مقام بھی ہمارے دل میں قائم ہے.حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمان ، اور حضرت عمرؓ کا مقام بھی ہمارے دلوں میں قائم ہے.یہ نہیں کہ ایک طرف محبت ہوئی اور دوسری طرف سے کم ہو گئی.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والوں سے ہمیں محبت کرنی ہے.صحابہ کا مقام بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ: صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ کی راہ میں وہ صدق دکھلایا کہ انہیں رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمُ وَرَضُوا عَنْهُ (المائده: 120) کی آواز آ گئی.یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جو صحابہ کو حاصل ہوا.یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 465 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
خطبات مسرور جلد ہفتم 11 خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 2009 آپ اسلام کے آدم ثانی اور خیر الانام کے مظہر اول تھے اور گو آپ نبی تو نہ تھے مگر آپ میں نبیوں اور رسولوں کی قوتیں موجود تھیں.سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 336) یعنی آپ آنحضرت عیہ کے مظہر تھے.ان کے خوبو پر چلنے والے تھے.پھر حضرت عمر کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ” ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سائے سے بھاگتا ہے“.ہے.نورالحق حصہ اول روحانی خزائن جلد 8 صفحه (143) دوسری حدیث یہ ہے کہ: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتا“.ترندی کتاب المناقب باب 52 حدیث 3686 تیسری حدیث ہے کہ : ” پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ترندی کتاب المناقب باب 57 حدیث نمبر 3693) پس ہمارے لئے تو آنحضرت ﷺ کے سب پیارے ہی بہت پیارے ہیں.اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی ہر قسم کے تفرقہ کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ آج بیرونی طور پر بھی مخالفت زوروں پر ہے.آج ہمیں ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کی ضرورت ہے.اب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جو لڑائی ہو رہی ہے اس میں بھی صحیح راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے مظلوم فلسطینی نقصان اٹھا رہے ہیں.وہ اپنے آپ کو خود ہی نقصان پہنچوار ہے ہیں اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ راہنمائی فرما دی کہ دین کے نام پر جنگیں نہ کرو.کوئی جنگ جو دین کے نام پہ ہوگی وہ کامیاب نہیں ہوگی اور اس جنگ میں تو ویسے بھی توازن نہیں ہے.عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بات چیت سے مسئلہ ختم کیا جائے تاکہ معصوم جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے.اسرائیل کا حملہ تو معصوموں پر ہے.ٹھیک ہے کہ ان کے کچھ ٹارگٹ بھی مر رہے ہیں.لیکن بہت سی معصوم جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں.یہاں کے اخباروں نے بھی شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ ایک کے بدلے میں تم ڈیڑھ سو آدمیوں کو مار دیتے ہو.اُن لوگوں کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے سلوک کرنا ہے یا اُن کا جو انجام ہونا ہے وہ کسی جنگ.نہیں ہونا بلکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر نے اپنا فیصلہ خود ظاہر کرنا ہے اور کس طرح ہونا ہے وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور یہی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے.پس فلسطینیوں کو اگر اپنا دفاع کرنا ہے اور مسلمانوں نے ان کی کوئی مدد کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کریں.دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مددمانگیں.بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو پکڑتا ہے اور پکڑ.گا.لیکن مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ زمانے کے امام کی آواز کو پہچانیں.میں نے تو یہاں غیروں کے سامنے بھی جب
12 خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کہنے کا موقع ملا تو یہی کہا ہے کہ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرو گے تو اپنے آپ کو جنگ کی ہولنا کیوں میں ڈالتے رہو گے.صرف معصوموں اور مظلوموں پر ظلم کرنے سے بچ نہیں جاؤ گے یا اپنی طاقت کا لوہا نہیں منوالو گے.پس ان کو یہی ہمیشہ کہا گیا کہ اپنی نسلوں کو بھی ان تباہیوں سے بچانے کی کوشش کریں اور انصاف کے تقاضے قائم کریں.اللہ کرے کہ یہ بڑی طاقتیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے والی بھی ہوں.ورنہ یہ ایک دو ملکوں کی جنگ کا سوال نہیں رہے گا.پھر ان جنگوں کی صورت میں جو ہونے والی ہیں اور جو بظاہر نظر آ رہی ہیں بڑی خوفناک عالمگیر تباہی آئے گی.اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو بھی دعائیں کرنے کی توفیق دے.درود پڑھنے کی توفیق دے تا کہ دنیا کو اس تباہی سے بچانے والے بن سکیں.اللہ کرے کہ دنیا بھی اس حقیقت کو پہچانے اور تباہی سے بچے.اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ نیا چڑھنے والا سال جماعت احمدیہ پر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہزاروں رحمتوں اور برکتوں کا سال بن کر چڑھے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں نئی سے نئی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرنے والے ہو.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ سال ہر لحاظ سےمبارک کرے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 4 مورخہ 23 جنوری تا 29 جنوری 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 2 13 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2009 فرمودہ مورخہ 9 جنوری 2009ء بمطابق 9 صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کا مضمون شروع کرنے سے پہلے میں گزشتہ خطبہ جمعہ کے تسلسل میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں.گو کہ کافی تعداد نے بلکہ اکثریت نے میرے گزشتہ خطبہ سے اس بات کو سمجھ لیا ہو گا.جماعتی لڑیچر میں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ درود شریف کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام اور تعلق.بعض لوگوں نے سوال اٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو بدرجہ اولی آنحضرت ﷺ کی آل میں شمار ہوتے ہیں.کیونکہ احادیث میں آنحضرت ﷺ کی طرف سے مسیح و مہدی کے بڑے مقام اور آنحضرت علی کے ساتھ پیار کے انداز کا ذکر بھی ملتا ہے.سوال کرنے والے کی یہ سوچ بالکل ٹھیک ہے بیشک آنحضرت اللہ کے اس روحانی فرزند کے بارہ میں آپ ﷺ کے اپنے الفاظ سے اس کی وضاحت ملتی ہے لیکن کیونکہ میں محرم کے حوالے سے باتیں کر رہا تھا اس لئے شیعہ حضرات اور سنی حضرات کے نظریات تک محدود رہا اور اس لحاظ سے ان کو توجہ دلائی کہ محرم میں اگر یہ دونوں اس بات کو سمجھ لیں کہ ہم امت مسلمہ ہیں اور آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد پیش نظر رہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے تو ایک دوسرے کے خلاف کینے اور بغض اور مار دھاڑ اور قتل و غارت کی بجائے آپس میں پیار و محبت کی فضا جنم لے.ایک دوسرے کے خون کی حفاظت اور مسلمان ہونے کی نشانی کے بارہ میں آنحضرت علیہ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَرَّمَ مَالُهُ وَدَمُهُ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ.فرمایا کہ جس نے اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور انکار کیا ان کا جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے تو اس کے جان اور مال قابل احترام ہو جاتے ہیں.وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ کہہ کر فرمایا کہ باقی اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس سے کیا سلوک کرنا ہے.یہ اسلام میں ایک دوسرے کے لئے خون کی حفاظت ہے اور جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہ دیا چاہے اس نے جان کے خوف سے ہی کہا ، اس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کے بعد تم نے اس کا خون کیا تو تم اس کی جگہ پر ہو گے اور وہ تمہاری جگہ پر ہوگا.( صحیح مسلم کتب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لاالہ...حدیث 176)
14 خطبه جمعه فرموده 9 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس ایک مسلمان کے خون کی یہ حفاظت ہے جو آنحضرت علیہ نے فرمائی اور اگر کلمہ کی اہمیت اور درود شریف کی اہمیت کا تمام مسلمانوں کو احساس ہو جائے تو محرم کے دنوں میں آج کل جو یہ حرکتیں ہوتی ہیں یہ کبھی نہ ہوں.لیکن مسلمانوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس بات کو نہیں سمجھتے اور گزشتہ دنوں کی اخباروں میں جو خبریں آتی رہی ہیں وہ اس بات کی شاہد ہیں کہ جو باتیں میں نے مسلمانوں کے حوالے سے اس محرم کے مہینے کے بارے میں کہی تھیں کہ شیعہ سنی ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں، ان دنوں یعنی محرم میں خاص طور پر صیح ثابت ہوئی ہیں.بہر حال یہ تو ان لوگوں کے فعل ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو نہیں مانا ، آنحضرت ﷺ کے اس روحانی فرزند کو نہیں مانا جس کے بارہ میں آپ مے نے فرمایا تھا کہ جب وہ ظاہر ہو تو خواہ گھٹنوں کے بل برف کی سلوں پر چل کر جانا پڑے تو تب بھی جانا اور اسے میرا سلام کہنا.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ہے اور اسی طرح اور بہت سی احادیث ہیں جن سے آنے والے مسیح سے آنحضرت علی کے خاص پیار کا اظہار ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آنحضرت علی سے قربت کا وہ رشتہ ہے جو سب سے بلند ہے.گزشتہ خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جس رویاء کا میں نے ذکر کیا تھا کہ حضرت فاطمتہ الزہرہ نے آپ کا سر اپنی گود میں ایک ماں کی طرح رکھ لیا تھا جبکہ آنحضرت ﷺ اور آپ کی پیاری بیٹی کا خاندان بھی سارا وہاں موجود تھا تو یہ اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کی آل میں شامل ہو چکے ہیں اور پھر آپ کو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب ایک دفعہ آپ شدید بیمار ہوئے ( دعوی سے پہلے کا ذکر ہے ).تو جود عا سکھائی گئی اور الہام بتائی گئی اس میں درود شامل تھا اور شفاء کے لئے کہا گیا کہ اس کو کرو اور وہ یہ تھا کہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 209-208) اس الہام میں بھی علی کے صلہ کے بغیر آل محمد کا ذکر ہے.یہ ذکر فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام کو آنحضرت ﷺ کے قریب کر دیا.ہمارے نزدیک تو آپ آنحضرت ﷺ کی آل میں سب سے قریب ترین ہیں.کیونکہ حضور نے آپ کو براہ راست شامل فرما دیا.پس چاہے غیر اس کو مانیں یا نہ مانیں لیکن ہمارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام براہ راست اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی آنحضرت ﷺ کی آل میں شامل ہیں ، خود آنحضرت ﷺ نے شامل فرمایا ہے ، جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ مقام اس عشق و محبت کی وجہ سے آپ کو ملا جو آپ کو آنحضرت ﷺ سے تھا.یہ مقام آپ کو اس محبت کے نتیجہ میں ملا جو آنحضرت ﷺ پر درود بھیج کر آپ نے حاصل کیا اور جو آپ کو اس سے محبت تھی.پس اس حوالے سے آج جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ جب مسلمانوں میں بھی آپس میں رنجشیں اور
15 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دوریاں نظر آ رہی ہیں تو درود بھیجیں اور بہت درود بھیجیں.کیونکہ ہم زمانے کے اس امام کو ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست آنحضرت علیہ کی آل میں شامل فرمایا ہے.مسلمانوں کے جو اپنے ذاتی مفاد ہیں ان کا حال تو ہم آج کل دیکھ ہی رہے ہیں.جبکہ فلسطین پر اسرائیل کی ظالمانہ بمباری کے باجود مسلمان ممالک نے احتجاجا بھی پر اثر آواز نہیں اٹھائی.اکا دُکا آواز میں اٹھتی ہیں اور وہ بھی نرم زبان میں، بلکہ ملکی آواز میں.ان کے مقابلہ میں یہاں مغرب میں بعض عیسائی تنظیموں نے بھی اور اشخاص نے بھی زیادہ زور سے اسرائیل کے رد عمل پر اظہار کیا ہے.اسرائیل نے جو بمبارمنٹ کی ہے اور جو مستقل کر رہے ہیں اور جو جنگ جاری ہے ، اس پر ان کا رد عمل مسلمان ملکوں کی نسبت زیادہ پُر زور ہے.پس جب عمومی طور پر یہ مسلمان ممالک بے حس ہو گئے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ درود اور دعاؤں سے مسلمانوں کی مدد کریں.پس میں دوبارہ یہی کہتا ہوں کہ دعاؤں پر بہت زیادہ زور دیں کیونکہ ہم جو مسیح محمد ٹی کے ماننے والے ہیں، ہمارا ہتھیار اور سب سے بڑا ہتھیار دعا ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں فرمایا ہے کہ اسی سے انشاء اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی فتح ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا، آج کا جو دوسرا مضمون ہے اب اس طرف آتا ہوں.سب جانتے ہیں کہ جنوری کے پہلے یا دوسرے جمعہ پر وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے اور گزشتہ سال کی قربانیوں کا مختصر ذکر بھی پیش کیا جاتا ہے.لیکن اس ضمن میں رپورٹ پیش کرنے سے پہلے اس بارہ میں کچھ عرض کروں گا ایک مومن کا کیا کام ہے، کس طرح اس کو قربانیاں کرنی چاہئیں، انفاق فی سبیل اللہ کیا ہے، ہمارے عمل کیا ہونے چاہئیں؟ قرآن کریم میں سورۃ حدید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الْمُصَّدِقِينَ وَالْمُصَّدِقَاتِ وَاقْرِضُوا الله قَرْضًا حَسَنًا يُضْعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ (الحدید : 19) یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے مال میں اللہ کو قرضہ حسنہ دیا ان کا مال ان کے لئے بڑھایا جائے گا اور انہیں عزت والا بدلہ دیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی ایک جگہ وضاحت کی ہے کہ خدا تعالیٰ کو تو تمہارے روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس نے خود ہی اپنے پر فرض کر لیا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس کو قرضہ حسنہ سمجھ کر لوٹائے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے پیار کا اظہار ہے کہ باوجود غنی ہونے کے جس کو کسی انسان کے پیسے کی کوئی احتیاج یا حاجت نہیں ہے لیکن جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مجھ پر قرض ہے اور میں اسے لوٹاؤں گا.ایسے قرض لینے والوں کی طرح نہیں جو قرض تو لے لیتے ہیں اور واپس کرنا بھول جاتے ہیں.اللہ کہتا ہے کہ میں وہ لوٹاؤں گا.پس مالی قربانی چاہے وہ کسی بھی رنگ میں ہو، خدا تعالیٰ اس کی قدر کرتا ہے.جب
16 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دین کی اشاعت کے لئے مالی قربانی کی جارہی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر پذیرائی حاصل کرنے والی ہوتی ہے کہ اس کے بارہ میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا، اس کا احاطہ نہیں کر سکتا بشرطیکہ وہ خالصتنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور اس زمانے میں جب دنیا، دنیاوی اور مادی خواہشات کے پیچھے لگی ہوئی ہے، قربانی کرنے والے یقینا اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کر کے اللہ تعالیٰ سے بہترین شکل میں اس قرض کے بدلے وصول کرنے والے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو صرف پرانے قصے ہیں، یا کہانیاں ہیں یا پرانے قصوں میں واقعات ہوا کرتے تھے یا ہم نے قرآن شریف میں پڑھ لیا ہے، اس کا تجربہ نہیں ہے بلکہ اس زمانے میں بھی ہم میں سے کئی ہیں جو اس بات کو مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور مشاہدہ کر رہے ہیں.پس یہ بھی اُن انعاموں میں سے ایک انعام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد ایک احمدی کو ملا.اور اس بات پر احمدی اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور یہ ایک احمدی کی شکر گزاری ہی ہے کہ باوجود نا مساعد حالات کے ہر سال احمدی کی قربانی کی مثالیں روشن تر ہوتی چلی جا رہی ہیں.اس سال ساری دنیا میں جو اکنا مک کرائسز (Economic Crises) ہوا اس کے با وجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں احمدی پیچھے نہیں ہے.ایک احمدی یہ پرواہ نہیں کرتا کہ میرا گزارا کس طرح ہو گا.فکر ہے تو یہ کہ ہمارے چندے کا وعدہ پورا ہو جائے.جبکہ دوسروں کا کیا حال ہے اس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ حدید میں ہی ایک اور اگلی آیت میں کھینچا ہے اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو یہ بھی وارنگ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کبھی سستی نہ دکھانا.چاہے وہ عبادات ہیں یا مالی قربانیاں ہیں یا دوسرے فرائض ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر فرض کئے گئے ہیں.کیونکہ حقیقی زندگی وہی ہے جو آخرت کی زندگی ہے.جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی زندگی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوٌ وَ زِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا.وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانٌ.وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (الحدید : 21 ) کہ جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کر دے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا یہ زندگی اُس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں کو لبھاتی ہے.پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے اور پھر تو اُس فصل کو سبز ہوتا ہوا دیکھتا ہے.پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب مقدر ہے.نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی ہے جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکہ کا ایک عارضی سامان ہے.پس آج ہم دنیا پر نظر پھیریں تو اسلام کی تعلیم کے مطابق حقیقی رنگ میں اگر کوئی جماعت من الحیث الجماعت خرچ کر رہی ہے تو جماعت احمدیہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتی ہے یا قربانیاں دیتی ہے.
17 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2009 باقی دنیا اگر کچھ کر بھی رہی ہے تو بہت معمولی.اور ہر ایک کھیل کو د اور نفس کی خواہشات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے.بہت ساری بدعات اور رسومات نے مسلمانوں میں راہ پالی ہے.جو دنیا وی رسومات ہیں شادی بیاہ ہیں، ان پر دکھاوے کے لئے بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے.اس بارہ میں میں جماعت کو توجہ دلانی چاہتا ہوں.بعض اوقات احمدیوں کی طرف سے احمدیوں کے بارے میں بھی شکایات آجاتی ہیں.اس زمانہ کے امام کو مان کر اگر ہم بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے ماحول کے پیچھے چلتے رہے اور اس مقصد کو بھول گئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا مقصد ہے تو پھر ہم میں سے وہ لوگ جو یہ مقصد بھول رہے ہیں انہیں لوگوں میں شمار ہوں گے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل کو د اور نفس کی خواہشات پورا کرنے کا ذریعہ ہے.اور یہ ایسا ذریعہ ہے جو انسان کی پیدائش کے اعلیٰ مقصد کو بھلا دے.اور اگر زمانے کے امام کو ماننے کے بعد بھی ہم میں مال اور اولاد اور دنیا داری کا فخر رہے اور عبادتوں اور قربانیوں کو ہم بھول جائیں تو اللہ تعالیٰ نے جو اجرٌ كَرِيمٌ فرمایا ہے ، اس کے حقدار بھی نہیں ٹھہریں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال تو تمہیں میں نے دے دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مال اور دولت جمع کر کے صرف اپنی بڑائی کا اظہار کرتے ہو یا واقعتا اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہو.اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اجر عظیم پاؤ گے، اجر کریم پاؤ گے، ایک معزز اجر پاؤ گے.اگر نہیں تو یہ دنیاوی مال ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے.یہ تو اس فصل کی طرح ہے جو سر سبز ہو، لہلہاتی ہوئی ہو تو بہت اچھی لگتی ہے اور اس فصل کو دیکھ کر اس کا مالک اس پر بہت سی امیدیں رکھتا ہے.مستقبل کی خواہشات پوری کرنے کے منصوبے بنارہا ہوتا ہے لیکن جب وہ پکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے طوفان آئے ، بارش آئے ، آندھی آئے اسے بکھیر دیتا ہے اور مالک کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا.پس اس مثال سے ایک مومن کو بھی سمجھایا کہ تم دنیاوی چیزوں کے پیچھے نہ پڑو جن کا انجام مایوسی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور جو خدا کو یاد نہیں رکھتے ، بالکل بھول گئے ، ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے ذکر کیا ہے.پس مومن کو کہا کہ تمہارا کام خدا تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش ہونا چاہئے اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے.ورنہ یہ دنیا جتنی بھی خوبصورت لگے اس کے سازوسامان ، اس کا مال جتنا بھی دل کو لبھائیں انجام اس کا دھوکہ ہی ہے، ناکامی ہی ہے.پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سَابِقُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنَ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهِ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحدید :22) کہ اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے.جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں.یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اسے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے.
18 خطبہ جمعہ فرموده 9 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی مغفرت کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اس جنت کو حاصل کرنے والے اور اس کے وارث ٹھہرتے ہیں جو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں نظر آتی ہے اور اگلے جہان میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک مومن کے لئے مقدر کی ہے جو خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر کام اور فعل کرتا ہے.مومن ایک ایسی جنت کا وارث بنتا ہے جو زمینی بھی ہے اور آسمانی بھی.اس دنیا میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی خوش ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.مجھے بیسیوں خطوط آتے ہیں جو اپنی مالی قربانی کے ذکر کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قربانی کے بعد سکینت پیدا کی.کس طرح ان کے مال میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی.کس طرح ان کی اولاد کی طرف سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کیں.تو یہ اس دنیا کی جنت ہی ہے جو ایک مومن کو ملتی ہے.جس کے نظارے ایک مومن دیکھتا ہے اور پھر جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے مومن اس دنیا میں دیکھتا ہے تو آخرت کی جنت پر یقین مزید مضبوط ہوتا ہے تبھی تو گزشتہ دنوں مجھے کسی جگہ کے سیکرٹری مال نے لکھا کہ ایک صاحب 2 جنوری کو میرے پاس آئے کہ آج وقف جدید کے اوپر خطبہ آئے گا تو یہ میرا وعدہ ہے گزشتہ سال سے اتنا بڑھا کر پیش کر رہا ہوں اور پہلی رسید تم میری کاٹنا.تو یہ شوق بھی اسی لئے ہے کہ ان کو یقین ہے کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی رضا ملتی ہے.تو یہ جو ایمان ہے، یقین ہے یہ اس سے مضبوط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں جو دے گا اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.یہاں یہ بات کہہ کر کہ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ یہ نکتہ بھی بیان فرما دیا کہ مومن کے لئے جنت کی وسعت زمین و آسمان کی وسعت جتنی ہے.یعنی اس کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے اور جنت کیا ہے.پہلی آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ جنت اگر زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے.پوری کائنات کو ہی اس نے گھیرا ہوا ہے تو پھر دوزخ کہاں ہے؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے.( مسنداحمد بن حنبل جلد 5 حدیث التعوفى عن النبی ہے صفحہ 381 حدیث 15740 عالم الكتب بيروت 1998ء) یعنی جنت اور دوزخ کوئی دو جگہیں نہیں ہیں بلکہ دو حالتیں ہیں.خدا کو بھولنے والوں کو جہاں دوزخ نظر آئے گی وہیں نیک اعمال والے جنت کے نظارے کر رہے ہوں گے.رُخ اور زاویہ بدل جانے سے اس کی حالت مختلف ہو جائے گی.جس طرح آج کل بعض تصویر میں ہوتی ہیں ذرا سا اینگل بدلتے ہیں تو ڈائمینشن چینج ہو جاتی ہے.پس ایک مومن خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول پر نظر رکھتے ہوئے جہاں جنت کا وارث بنتا ہے وہاں غیر مومن اور
خطبات مسرور جلد ہفتم 19 خطبہ جمعہ فرموده 9 جنوری 2009 صرف دنیا پر نظر رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر اپنی عاقبت خراب کر رہا ہوتا ہے.پس جنت اصل میں جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو گئی تو وہی ایک مومن کے لئے جنت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ کے لئے اس کے حصول کی کوشش کی طرف متوجہ رکھے ہماری عبادتیں اور ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ نے جہاں ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ ( الجمعه : 5) کہہ کر ہماری توجہ اس طرف پھیری کہ بے شک جنت ان لوگوں کے لئے ہے جن پر اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرماتا ہے اور وہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جنہوں نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود کو مانا جن کا اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظہور ہوا.تو و ہیں یہ بھی سمجھایا کہ اس فضل کو مستقل رکھنے کے لئے اپنے اعمال پر بھی نظر رکھنا.اسی لئے دوسری جگہ یہ دعا بھی سکھائی کہ ایمان کی مضبوطی کے لئے اور اعمال پر قائم رہنے کے لئے یہ دعا بھی کرتے رہو کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران: 9).اب ایمان اور ہدایت کے بعد اے اللہ تو ہمارے دلوں کوٹیڑھا نہ کرنا.کبھی ہمیں یہ خیال نہ آئے کہ ہم بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں.کبھی دنیا کی چمک دمک ہمیں راستے سے ہٹانے والی نہ بن جائے.کبھی یہ خیال نہ آئے کہ جماعت کے متفرق چندے ہیں، ہمارے پر ایک بوجھ ہے.ہمیشہ یہ سوچ رہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس زمانے میں ہمیں اللہ تعالیٰ پہلوں سے ملاتے ہوئے اپنے دین کی خاطر قربانیوں کی توفیق دے رہا ہے.یہ فضل عظیم جو ہم پر ہوا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ نسلاً بعد نسل قائم رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے.پس ضرور ہے کہ ہزار درہزار آدمی جو بیعت کرتے ہیں ان کو کہا جاوے کہ اپنے نفس پر کچھ مقرر کریں اور اس میں پھر غفلت نہ ہو.(البدر جلد 2 نمبر 26.مورخہ 17 جولائی 1903 ء صفحہ 202) آج گواللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر وہ احمدی جو اچھی طرح نظام جماعت میں پروئے گئے ہیں قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں قائم کرتے ہیں، بعضوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.لیکن دنیا میں اکثر جگہ نئے شامل ہونے والوں میں سے، نو مبائعین کی مالی قربانی کی طرف توجہ نہیں اور ان کو شامل نہیں کیا گیا، کوشش نہیں کی گئی جس طرح کوشش کی جانی چاہئے تھی.اور یہ بھی میرے نزدیک جماعتی نظام کی کمزوری ہے.اگر نظام جماعت شروع دن سے کوشش کرتا تو کچھ نہ کچھ چاہے ٹوکن کے طور پر ہی لیں، قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے تھی.جہاں کوشش ہوئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے نتیجے نکلے ہیں.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے نئے آنے والوں پر ان کی کسی نیکی کی وجہ سے یہ فضل فرمایا کہ
20 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2009 انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان لیا.اب اس فضل کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بناتے ہوئے اور عبادات کے ساتھ اپنے ایمان میں ترقی کی بھی انتہائی ضرورت ہے.اس طرح بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ کوشش کر کے کسی نہ کسی چندے کی تحریک میں ضرور شامل کرنا چاہئے اور اس کے لئے میں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وقف جدید میں بچوں کو زیادہ شامل کریں.اللہ تعالیٰ جماعتوں کو بھی اور والدین کو بھی اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ کوشش اور تعاون کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود مشکل حالات کے جماعت کا قدم ترقی کی طرف ہی ہے.اگر ایک جماعت نے کچھ ستی دکھائی ہے تو دوسری جماعت نے اس کی کمی کو پورا کر دیا.لیکن اگر جماعتیں مزید توجہ کریں تو جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اس میں خاص طور پر شاملین کی تعداد کے لحاظ سے مزید گنجائش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جائے.چاہے وہ معمولی رقم دیں کیونکہ اس سے ہم ایمان میں ترقی کے مقصد کو حاصل کرتے ہیں.اب میں وقف جدید کے حوالے سے کچھ اعداد وشمار پیش کروں گا.گزشتہ سال جو گزرگیا وہ 51 واں سال تھا اور اب 52 واں سال شروع ہو گیا.اس میں تمام دنیا کی جماعتوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر 31 لاکھ 75 ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کی ہے جو کہ گزشتہ سال کی وصولی سے ساڑھے سات لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے.الحمدللہ اور ہمیشہ کی طرح دنیا بھر کی جماعتوں میں پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی پوزیشن پر ہے.وقف جدید کے چندہ دہندگان میں پاکستان نے اس سال 10 ہزار نئے چندہ دینے والوں کا اضافہ کیا ہے.پاکستان کی اکثریت غریب ہے.اور ان پر بھی وہی مثال صادق آتی ہے جس کا ایک حدیث میں ذکر آتا ہے.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا.پوچھا کس طرح؟ فرمایا کہ ایک شخص کے پاس دو درہم تھے اس نے ایک درہم چندہ دے دیا جب تحریک کی گئی اور دوسرے کے پاس لاکھوں درہم تھے اس نے اس میں سے ایک لاکھ در ہم دیا گو کہ اس نے زیادہ رقم دی لیکن قربانی کے لحاظ سے وہ ایک درہم بڑھ گیا.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 مندا بو ہریرۃ صفحہ 396 حدیث نمبر 8916 عالم الكتب بیروت 1998ء) اسی طرح پاکستان میں اکثریت غریب لوگوں کی ہے.اسی طرح افریقہ کے بعض ممالک ہیں تو بہت سارے ایسے ہیں جن کے پاس معمولی رقم ہوتی ہے اس میں سے چندہ دے کر قربانی کر رہے ہوتے ہیں.حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح چندہ دیتے ہیں اور کس طرح پھر گزارا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین اجر عطا فرمائے.امریکہ دوسرے نمبر پر ہے.انہوں نے گو تعداد میں 256 کا اضافہ کیا ہے لیکن ان کی وصولی گزشتہ سال سے
خطبات مسرور جلد ہفتم 21 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2009 بھی تقریباً 80 ہزار کم ہے.شاید ڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے کم ہو گئے ہوں گے.تو اب ان کے شامل ہونے والوں کی کل تعداد 8 ہزار 276 ہے.یورپ اور امریکہ وغیرہ امیر ممالک کے وقف جدید کے یہ چندے انڈیا اور افریقہ کے ممالک میں مساجد مشن ہاؤس اور لٹریچر اور دوسری جماعتی اخراجات پر خرچ ہوتے ہیں.اس لئے ان ملکوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ رقم کے لحاظ سے بھی اضافہ ہو اور تعداد کا جو اضافہ ہے یہ تو بہر حال ضروری ہے ہی.میں نے ناصرات اور اطفال کو توجہ دلائی تھی ، میرے خیال میں یہ 256 کا جو اضافہ ہوا ہے یہ ناصرات اور اطفال کی کوشش ہے ، جماعت کی کوشش نہیں ہے.بہر حال یہ خوش آئند چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ آنے والی نسلوں میں یا چھوٹے بچوں میں مالی قربانی کی روح پیدا ہو رہی ہے.تیسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ ہے.انہوں نے بھی (یعنی آپ نے جو سامنے بیٹھے ہوئے ہیں) اس سال 86 ہزار پاؤنڈ زیادہ ادا ئیگی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہونے والوں کی تعداد میں بھی 1382 کا اضافہ ہوا ہے اور کل چندہ دہندگان کی تعداد 14 ہزار 519 ہوگئی ہے.ماشاء اللہ برطانیہ کی جماعت بھی اب آگے بڑھنے والوں میں شامل ہے اور تیزی سے آگے بڑھنے والوں میں شامل ہے.یہ تعداد ایک تو جرمنی سے آنے والوں کی وجہ سے بڑھی ہے اور کچھ ناصرات اور اطفال کی وجہ سے بڑھی ہوگی.کینیڈا جو ہمیشہ سے پانچویں نمبر پر رہا ہے اب چوتھے نمبر پر آ گیا ہے انہوں نے بھی ایک لاکھ 80 ہزار کی زائد وصولی کی ہے اور 378 نئے شامل کئے ہیں اور 13 ہزار 325 ان کی کل تعداد ہے.ان کا جو دفتر اطفال ہے یعنی بچیاں اور بچے وہ اللہ کے فضل سے زیادہ فعال ہے.جرمنی چوتھے سے پانچویں پوزیشن پر چلا گیا ہے.گو 32 ہزار یورو کا اضافہ ہوا ہے لیکن چندہ دھندگان میں 1387 کی کمی ہے.جو ان کے اور شعبہ مال کے خیال میں اس لئے ہے کہ ان میں سے بہت سارے لوگ جرمنی سے یہاں آگئے ہیں.لیکن میرے خیال میں کچھ کوشش میں بھی کمی ہے.چھٹے نمبر پر ہندوستان کی جماعتیں ہیں.ان کی وصولی بھی اپنے لحاظ سے 17 لاکھ روپے پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے اور شاملین ایک لاکھ 16 ہزار 120 ہیں.ہندوستان کو بھی اب میں کہتا ہوں کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں.اس کے پیش نظر اب ہر جماعت کو خود اپنے آپ کو سنبھالنا چاہئے.ابھی تک تو یورپ اور امریکہ سے مدد کی جاتی تھی ہو سکتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے کہ مدد نہ ہو سکے.اسی طرح افریقن ممالک کو بھی خود اپنے آپ کو سنبھالنا چاہئے.انڈونیشیا کا ساتواں نمبر ہے ان کا بھی 32 ہزار پاؤنڈ کا اضافہ ہے اور 829 افراد کا اضافہ ہے اس طرح پیجیم ، فرانس ، سوئٹزرلینڈ آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن پر ہیں.
خطبات مسرور جلد ہفتم 22 خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2009 چندہ دینے کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں نمبر 1 پر ہے.ان کا چندہ 78.92 پاؤنڈ ہے.پھر فرانس ہے.پھر سوئٹزرلینڈ ہے.پھر برطانیہ ہے.پھر بیلجیئم ہے.افریقہ کی جماعتوں میں نائیجیریا اس سال تحریک جدید میں بھی اول تھا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں بھی اس کی پہلی پوزیشن ہے اور سب سے اچھی بات ان کی یہ ہے کہ گزشتہ سال ان کے چندہ دہندگان 13 ہزار 729 تھے اس سال انہوں نے 10 ہزار اور 69 کا اضافہ کیا ہے اور یہ بڑا اضافہ ہے، ماشاء اللہ ، ان کی 23 ہزار 700 تعداد ہے لیکن یہاں بھی مزید گنجائش ہے.پھر غانا ہے یہاں بھی 3 ہزار 776 نئے شامل ہوئے ہیں.پھر بورکینا فاسو ہے.بینن ہے، سیرالیون ہے.وقف جدید کے مالی نظام میں چندہ دینے والوں کی کل تعداد اللہ کے فضل سے 5لاکھ 37 ہزار سے اوپر چلی گئی ہے اور اس سال 27 ہزار کا اضافہ ہوا ہے.بعض ممالک کی رپورٹس مکمل نہیں ہیں.اس لئے تعداد میں یہ اضافہ آخری نہیں کہا جاسکتا.جیسا کہ میں پہلے بھی ایک دفعہ کہہ چکا ہوں کہ بچوں کو توجہ دلائیں، بچوں میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اگر اس کا نصف بھی ہر جماعت اپنے میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے تو تعداد کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے بچوں کی طرف سے بے شک پچاس پینس ہی ادا کریں لیکن ان کو ایک عادت ہونی چاہئے.اسی طرح نو مبائعین ہیں ان کو بھی ٹوکن کے طور پر دینے کی بھی عادت ڈالیں اور وقف جدید میں ان کو شامل کریں.بعض اور ممالک بھی ہیں جن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے.مڈل ایسٹ کی جماعتیں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں کے میدان میں بہت زیادہ آگے بڑھ رہی ہیں.ان میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو پہلی دس پوزیشنوں پر ہے.انگلستان کی وصولی کے لحاظ سے جو پہلی دس جماعتیں ہیں، ان میں ووسٹر پارک، لندن مسجد ،سٹن، ٹوٹنگ، نیو مالڈن، انر پارک، ویسٹ ہل، بیت الفتوح آٹھویں نمبر پر، ہنسلو نارتھ ، نویں نمبر پر ہیچم دسویں نمبر پر ہے.امریکہ کی جو پہلی پانچ جماعتیں ہیں ان میں نمبر سیلیکان ویلی ، لاس اینجلس ایسٹ، شکا گوویسٹ، ڈیٹرائٹ اور پانچویں نمبر پر لاس اینجلس ویسٹ.پاکستان کے بالغان کا جو چندہ ہے اس میں پہلی تین جماعتیں ہیں لاہور نمبر 1، کراچی نمبر 2 اور ربوہ نمبر 3 اور پھر اضلاع میں پہلی دس جماعتیں ہیں.سیالکوٹ ، راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخو پورہ، نمبر 7 میر پور خاص آٹھویں نمبر پر ملتان 9 سرگودھا اور دس گجرات.وہاں کیونکہ دفتر اطفال کا علیحدہ انتظام رکھا جاتا ہے اس کے لحاظ سے بچوں میں پہلی پوزیشن لاہور کی ہے، دوسری کراچی کی (وہی بالغان والی ترتیب ) اور تیسری ربوہ کی.اور اطفال میں اضلاع کے لحاظ سے نمبر ایک اسلام آباد ہے، نمبر 2 سیالکوٹ نمبر 3 گوجرانوالہ نمبر 4 شیخو پورہ، راولپنڈی، فیصل آباد، میر پور خاص، سرگودھا، نارووال،
خطبات مسرور جلد هفتم 23 خطبہ جمعہ فرموده 9 جنوری 2009 اور گجرات، پاکستان میں بعض اور جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے غیر معمولی قربانی کی ہے لیکن بہر حال ان کی پوزیشن نہیں ہے.جرمنی کی پہلی پانچ جماعتیں ہیں نمبر 1 پہ ہمبرگ ، پھر گروس گراؤ، پھر ویز بادن ، فرید برگ اور فرینکفرٹ.کینیڈا کی جماعتوں میں مجموعی لحاظ سے کیلگری نارتھ ایسٹ نمبر 1 کیلگری نارتھ ویسٹ ، رچمنڈ ہل ، ٹورنٹو سینٹرل، درهم، مار کھم، پیں ویلج ساؤتھ، ایڈمنٹن، پیں ویلج ایسٹ، سکاٹون.انہوں نے کیونکہ اطفال کا بھی علیحدہ کیا ہوا ہے اس لئے اطفال کی پوزیشن یہ ہے.کیلگری نارتھ ایسٹ، درہم ، پیس ویلج ساؤتھ ، ابورڈ آف پیں، کیلگری نارتھ ویسٹ، ٹورنٹو سنٹرل ایڈمنٹن، پیس ویلج ایسٹ، پیں ویلج سنٹرل، وڈ بریج.تو یہ ان کی گزشتہ سال کی مالی قربانیوں کی تمام فہرست ہے.اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور جماعت کی ترقی کی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو بے انتہا پھل عطا فرمائے اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہر احمدی کا مقصد اور شیح نظر ر ہے.اللہ تعالیٰ سب کو دعاؤں کی بھی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 5 مورخہ 30 جنوری تا 5 فروری 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 3 24 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 2009 فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2009ء بمطابق 16 صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ایک مومن جس کو خدا تعالیٰ کی صفات کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ہے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کافی ہے.بعض لوگوں کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک نہیں ہوتا تب بھی ماحول کے زیر اثر بعض الفاظ اور فقرات سن سن کر وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفت گافی بھی ایسی ہی ایک صفت ہے جس کا ذکر ایک مسلمان کسی نہ کسی حوالے سے کرتا رہتا ہے.بہت سے موقعوں پر جب چاہے ظاہری طور پر ہی سہی اپنی قناعت اور شکر گزاری کا اظہار کرنا ہو تو یہ الفاظ اکثر ہمیں سننے میں ملتے ہیں کہ اللہ کافی ہے یا ہمیں اللہ کافی ہے.لیکن ایک حقیقی مومن جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہے وہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی صفت کا اظہار کرتا ہے تو بہر حال اس صفت کی گہرائی کو جانتے ہوئے کرتا ہے.میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت کافی کا ذکر کر رہا تھا.اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی آیات میں مختلف سورتوں میں مختلف مضامین اور حوالوں کے تحت فرمایا ہے.لغات میں بھی اس لفظ کے مختلف معانی لکھے ہیں اور جیسا کہ میں نے طریق رکھا ہوا ہے، بیان کر دیتا ہوں تا کہ اس کے وسیع معانی بھی ہر ایک کے علم میں آجائیں.تو یہ چند ایک مختصر معانی بیان کرتا ہوں.گفی.اس کے معانی ہیں کسی چیز کا کافی ہونا، کسی شے یا کسی ذات پر قناعت کرنا یا تسلی پانا.اور اگر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے زیادہ کون سی ایسی ہستی ہے جو انسان کے لئے کافی ہے، یا تسلی دینے والی ہے یا جس کے انعاموں پر انسان ہر وقت انحصار کر سکتا ہے.لین (Lane) جو ایک انگریزی.عربی ڈکشنری کی کتاب ہے ، لغت ہے اور اس میں بہت ساری لغات کو اکٹھا کیا ہوا ہے یہ معنی میں نے وہاں سے لئے ہیں.پھر آگے ایک جگہ لکھا ہے.كَفَانِي فلان الامر - مطلب ہے کہ کسی خاص معاملے میں فلاں شخص پر میں نے اکتفا کیا یا قناعت کی.یعنی اگر اچھی بات ہے تو اس کے ذریعہ سے حاصل کی اور اگر کوئی بری چیز ہے تو اس کے ذریعہ سے اس برائی سے بچا.
25 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہاں بھی گو محدود پیمانے پر بعض لوگ بعض اشخاص کے کام آ جاتے ہیں لیکن اصل خدا تعالیٰ کی ذات ہے جس کی طرف جانے سے اچھائیوں کا اور برائیوں کا پتہ لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی نشاندہی فرما دی کہ کون کون سی نیکیاں ہیں اور کون کون سی برائیاں ہیں.پھر ایک معنی لکھے ہیں کہ کفی من کا مطلب ہے کسی چیز کو کسی سے دور کر کے اسے بچانا اور محفوظ رکھنا جب یہ کہیں کہ کفی وَ شَرِّ اس کا مطلب ہے اس نے برائی کو اس سے دور کیا جس سے پھر یہ مطلب نکلا کہ اس کا دفاع کیا اور اسے آزاد کروایا.اس لغت کے مطابق یہ خدا اور انسان دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے.لسان العرب میں ایک حدیث کے حوالے سے اس کے معنی بیان کئے گئے ہیں.حدیث بیان کی ہے کہ من قَرَأَ الْأَيتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُوْرَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ أَى أَغْنَتَاهُ عَنْ قِيَامِ اللِيْل - (لسان العرب زیر ماده کفی ) جس نے رات کے وقت سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات پڑھیں تو وہ اس کے لئے کافی ہوں گی یعنی وہ دونوں آیات رات کے قیام سے اسے مستغنی کر دیں گی.بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ دو آیات سب سے کم تعداد ہے جو رات کو قیام کے وقت قراءت کے لئے کافی ہیں.اسی طرح بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ دونوں آیات شرکے مقابلے پر کافی ہیں اور مکروہات سے بچاتی ہیں.اگر ان پر غور کیا جائے اور ان آیات کے معانی ہر ایک پر واضح ہوں تو ان آیات میں بہت ساری باتیں آجاتی ہیں.اس میں دعا ئیں بھی ہیں اور شر سے بچنے کے راستے بھی بتائے گئے ہیں اور ایمان میں پختگی کے راستے بھی بتائے گئے ہیں.اس حدیث کے حوالے سے بعض سوال اٹھ سکتے ہیں کیونکہ اس سے بعض دفعہ یہی معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ پڑھ لیا تو کافی ہو گیا اس لئے اس وقت میں ان آیات کے حوالے سے کچھ وضاحت کروں گا.سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات میں سے پہلی آیت یہ ہے آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ.وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقره: 286) - اور آخری آیت یہ ہے کہ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا.رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَابِهِ.وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلنَا فَانُصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (البقره: 287 ).ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس رسول پر اس کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا.اس پر وہ خود بھی
26 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایمان رکھتا ہے اور مومن بھی ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا حکم سن لیا اور ہم دل سے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کی یہ دعا ہے کہ اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہمیں لوٹنا ہے.اور دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا.جو اس نے اچھا کام کیا وہ اس کے لئے نفع مند ہوگا اور جو اس نے برا کام کیا ہو گا وہ اس پر وبال بن کر پڑے گا.اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول جائیں یا کوئی غلطی کر بیٹھیں تو ہمیں سزا نہ دینا اور اے ہمارے رب! ہم پر اس طرح ذمہ داری نہ ڈال جس طرح تو نے ان لوگوں پر ڈالی تھی جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں.اسی طرح اے ہمارے رب ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں.ہم سے درگزر کر ہمیں بخش دے ہم پر رحم کرے تو ہمارا مولا ہے پس کافروں کے گروہ کے خلاف ہماری مددکر.تو جیسا کہ اس ترجمہ سے واضح ہو گیا کہ کیوں آنحضرت ﷺ نے یہ آیات رات کو پڑھنے کو کافی قرار دیا.پہلی آیت میں تزکیہ نفس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ.اس کے فرشتوں پر ایمان لاؤ.اس کی کتابوں پر ایمان رکھو اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو.کیونکہ یہ ایمان میں کامل ہونے کا ذریعہ ہیں اور یہ ایمان صرف زبانی اقرار نہیں ہے بلکہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اور عمل کے لحاظ سے بھی ضروری ہے اور یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب تقویٰ میں ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہوں.اس کے فرشتوں پر ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ذمہ داریاں متروک نہیں ہو گئیں.بلکہ آج بھی وہ اپنے مفوضہ فرائض ادا کر رہے ہیں.اسی طرح پہلے انبیاء پر جو کتابیں اتریں وہ بھی یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں.لیکن یہ اور بات ہے کہ زمانے نے ان میں بگاڑ پیدا کر دیا.لیکن بہر حال وہ کتابیں ان رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتری ہوئی کتا بیں تھیں.خدا تعالیٰ نے ان کتابوں کی بھی ہر اچھی تعلیم قرآن کریم میں محفوظ کر کے پہلی کتب کی تصدیق بھی کر دی اور قرآن کریم کی حفاظت کی ضمانت دے کر آئندہ کے لئے اس شرعی کتاب کے تاقیامت ہر قسم کی تحریف سے پاک رہنے کا اعلان بھی فرما دیا اور پھر تمام رسولوں پر ایمان کی طرف اس میں توجہ دلائی ہے.یہ اسلام کی خوبی ہے کہ تمام رسولوں کو مانے کا حکم ہے.یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ تمام سابقہ رسولوں کو مانو بلکہ رسولوں پر ایمان ہے اور قرآن کریم اور آنحضرت علی نے مسیح موعود کے آنے کا بتایا اور جو راستہ کھول دیا تو یہ راستہ کھول کر آئندہ آنے والے رسولوں کو ماننے اور ایمان لانے کا بھی اس میں حکم فرما دیا.اب یہ ان نام نہاد مسلمان علماء کی بد قسمتی ہے جنہوں نے نہیں مانا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق مبعوث ہونے والے انبیاء کی بعثت کے طریق کو چھوڑ کر اس طریق پر مسیح موعود کے نازل ہونے کا
27 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 2009 انتظار کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق نہیں ہے.قرآن پر ایمان کا دعوی کرنے کے باوجود قرآن کی اس بات کا رو کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے اور کوئی شخص جو اس دنیا میں آئے کبھی زندہ آسمان پر نہیں جاتا ، بلکہ اس کی روح جاتی ہے.اس دنیا میں آنے والی ہر چیز فانی ہے.اس آیت میں تو تمام رسولوں پر ایمان کی بات ہے.پھر یہ لوگ مسیح موعود کا انکار کر کے تمام رسولوں پر ایمان کی بھی نفی کر رہے ہیں.اور ساتھ ہی عام مسلمانوں کو جن کا علم محدود ہے ان کو اپنے پیچھے لگا کر ان کے ایمان میں بھی رخنہ پیدا کر رہے ہیں.پس اس حقیقت کو ان لوگوں کو سمجھنا چاہئے.حدیثیں بھی پڑھتے ہیں.قرآن بھی پڑھتے ہیں.جہاں واضح طور پر ان باتوں کی طرف اشارہ ہے اور پھر بھی نہیں سمجھتے.تو ان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ جس طرح ہمیشہ انبیاء آئے ہیں اسی طرح مسیح موعود نے بھی آنا تھا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعوی کیا ہے تو اس کی دلیلیں بھی پیش کی ہیں.خدا تعالیٰ کی فعلی تائید بھی ان کے سچا ہونے کی شہادت دے رہی ہے.اب ان لوگوں کو چاہئے کہ عقل کریں اور اس مسیح موعود کو مان کر مومنین کے گروہ میں شامل ہوں.اس گروہ میں شامل ہوں جو سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہنے والے ہیں اور جنہوں نے سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا پر عمل کیا وہی پھر غُفْرَانَكَ رَبَّنَا یعنی اے ہمارے رب ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں، کی اس دعا کے بھی صحیح حقدار بنیں گے اور بنتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے پر اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کرنے والے بھی بنیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.اگلی آیت جو سورۃ البقرہ کی آخری آیت ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے شروع ہی اس بات سے کیا ہے کہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات انسانی وسعت کے اندر ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے احکام دیتا ہی نہیں جو انسانی طاقت سے باہر ہوں.لوگ کہتے ہیں جی فلاں حکم بڑا مشکل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا کوئی حکم ایسا نہیں جو طاقت سے باہر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں ، اخلاق میں ، عبادات میں، آنحضرت ﷺ کی پیروی کریں.پس اگر ہماری فطرت کو وہ قو تیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت علیہ کے تمام کمالات کو ظلی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہرگز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا.طاقت سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں دیتا.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا “.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 156) پس یہ جو فرمایا ہے کہ یہ آخری دو آیات کافی ہیں.یہ صرف پڑھ لینے سے نہیں بلکہ پہلی آیت میں ایمان پر مضبوط ہونے کا حکم ہے اور جب ایمان مضبوط ہو جائے تو وہ اس قسم کی حرکت کر ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ باتوں
28 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کو تو مانے اور کچھ کو نہ مانے اور رڈ کر دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُسوہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا قائم ہو گیا.اس لئے ایمان کی انتہا ئیں حاصل کرنے کے لئے اس اُسوہ پر چلنے کے راستے تلاش کرو اور یہ کبھی خیال نہ آئے کہ بعض احکامات ہماری طاقت سے باہر ہیں.اللہ تعالیٰ نے مختلف حالتوں میں بعض ایسی سہولتیں بھی دے دی ہیں.اسلام میں دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سہولتیں ہیں.یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ بعض احکامات ہماری پہنچ سے باہر ہیں جن پر عمل نہیں ہوسکتا.اگر انسان دین کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ سہل پسند نہ ہو تو کوئی حکم ایسا نہیں جو بو جھ لگ رہا ہو.اگر دنیاوی کاموں کے لئے انسان محنت اور کوشش کرتا ہے تو دین کے معاملے میں کیوں محنت اور کوشش نہیں کر سکتا ؟ پس یہ واضح ہو کہ آخری دو آیات پڑھ لینے سے انسان تمام دوسرے احکامات سے آزاد نہیں ہو جاتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو غور کر کے پڑھے گا پھر وہ اس پر عمل بھی کرے گا.قیام اللیل سے انسان کس طرح مستغنی ہو سکتا ہے؟ جبکہ آنحضرت ﷺ نے اس کا نمونہ ہمارے سامنے پیش فرما دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کا اُسوہ ہمارے لئے قابل تقلید اور پیروی کرنے کے لئے ہے.اگر اس کا کوئی مطلب ہو سکتا ہے تو اتنا کہ ان آیات پر غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایمان میں اتنی ترقی ہوگی کہ عبادتوں کے لئے جاگنا اور توجہ دینا کوئی بوجھ نہیں لگے گا.بخاری میں اس حدیث کے الفاظ صرف اس قدر ہیں کہ مَنْ قَرَأَ بِالْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ گفتاه یعنی جس نے رات کے وقت سورۃ بقرہ کی دو آیات پڑھیں تو وہ دونوں آیات اس کے لئے کافی ہو گئیں.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل سورة البقرة حديث 5009) اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے اور اس کا رحم اور بخشش مانگنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا تو پھر ایمان میں یہ ترقی ہوتی ہے جو کافی ہوتی ہے اور عبادات اور نیک اعمال کی طرف پھر توجہ پیدا ہو گی.ورنہ اگر یہ خیال ہو کہ صرف آیات پڑھ لینا کافی ہے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جاتا پھر یہ کیوں کہا کہ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ.یعنی انسان اگر اچھا کام کرے گا تو اس کا فائدہ اٹھائے گا اور اگر برا کام کرے گا تو نقصان اٹھائے گا.صرف آیت کے یا ان آیات کے الفاظ دوہرا لینے سے تو مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ یہاں توجہ اس طرف کروائی کہ اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھنی پڑے گی اور جب یہ توجہ ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی اپنے بندے پر پڑے گی.اللہ تعالیٰ کے بندے کی ایمان میں ترقی اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کر رہی ہوگی اور اس کی بخشش کا سامان کرے گی نہ کہ پھر جس طرح عیسائی کہتے ہیں اس کو کسی کفارے کی ضرورت ہوگی.پس روزانہ پھر جس طرح یہ آیت پڑھنے سے نیکیوں کے کمانے کی طرف توجہ رہے گی.ایک مومن رات کو جائزہ لے گا کہ کون کون سی نیکیاں میں
29 خطبه جمعه فرمودہ 16 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم نے کی ہیں اور کون کون سی برائیاں کی ہیں.پھر اگر نیکیوں کی زیادہ تو فیق ملی ہوگی ، اگر شام نے یہ گواہی دی ہوگی کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا تو شکر گزاری کے جذبے کے تحت ایک مومن پھر اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکے گا اور ایک مومن کو کیونکہ نفس کے دھو کے کا بھی خیال رہتا ہے اس لئے وہ پھر خدا تعالیٰ سے یہ عرض کرتا ہے کہ اگر میرا جائزہ جو میں نے شام کو لیا ہے نفس کا دھوکہ ہے تو پھر بھی مجھ پر رحم کر اور بخش دے اور مجھے نیکیوں کی توفیق دے اور اگر کھلی برائیاں سارے دن کے اعمال میں نظر آ رہی ہیں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش اور رحم کے لئے ایک مومن جھکتا ہے.آیت کے اگلے الفاظ اسی طرف توجہ دلاتے ہیں اور دعا کی طرف مائل کرتے ہیں.یہ الفاظ بھی تزکیہ نفس کے لئے جامع دعا ہیں.کیونکہ تزکیہ نفس ہی ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور بندہ دعا کے ذریعہ سے پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پاتا ہے اور یہ دعائیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے سکھائی ہیں اس لئے اگر نیک نیتی سے کی ہوں اور دل سے نکلی ہوں تو اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پاتی ہیں.پہلے دعا یہ سکھائی کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا.یعنی اے اللہ ! اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے یا کوئی خطا ہو جائے تو ہمیں سزا نہ دینا.ایک مومن یہ عرض کرتا ہے کہ ہم اپنے ایمان میں ترقی کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے.اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے.تیرے تمام احکامات پر عمل کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے.حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے.لیکن پھر بھی ایک بشر ہونے کے ناطے اگر ہم کبھی غیر ارادی طور پر یا اپنی سنتی کی وجہ سے ان تمام باتوں پر عمل کرنا بھول جائیں یا اگر ہم سے ان کاموں کی ادائیگی کے دوران کوئی غلطی ہو جائے ، نیکی کا کام کرنے کے دوران بھی شیطان پھسلا دے اور وہ نیکی دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بن جائے جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہوا ہے کہ صدقہ و خیرات کرو لیکن ایسا صدقہ یا نیکی جس کے پیچھے تکلیف پہنچانا یا احسان جتانا ہو اس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے.اس دعا کے ساتھ یہ مدد مانگی کہ کبھی ایسی صورت ہو جائے تو ہمارا مواخذہ نہ کرنا بلکہ ہمیں اپنے رحم اور فضل سے سیدھے راستے پر ڈال دینا تا کہ ہمارا کوئی عمل تیری رضا کے حاصل کئے بغیر نہ ہو.پھر فرمایارَبَّنَا وَلَا تَحْمِلُ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا یعنی اے خدا! ہم پر وہ ذمہ داری نہ ڈالنا جو تو نے ان لوگوں پر ڈالی جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں.یعنی ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو تیری رضا کے خلاف ہو.ہم ہمیشہ تیرے احکامات پر عمل کے پابندر ہیں اور ان لوگوں کی طرح نہ بن جائیں جو ہم سے پہلے گزرے اور جنہوں نے تیرے احکامات کو پس پشت ڈال دیا اور تیری ناراضگی کے مورد بن گئے.پس ہمیں تو ہر کام کے کرنے کے لئے تیری مدد کی ضرورت ہے.کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہماری شامت اعمال ہمیں تجھ سے دور لے جائے.کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم تیرے احکامات پر عمل کرنے والے نہ ہوں.یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا بوجھ انسان پر نہیں ڈالتا جو اس کی طاقت اور وسعت سے باہر ہو.پس انسان کی کمزوریاں ہی اسے ان نیکیوں سے دور لے
30 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 2009 جاتی ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ ہم نے جو تیرے سے عہد کئے ہیں وہ ہم کبھی نہ توڑیں.جس طرح پہلے لوگوں نے توڑے اور پھر ان کو سزا کا سامنا کرنا پڑا.اضر کے معنی کئی ہیں جن میں سے ایک عہد اور معاہدہ بھی ہے اس لئے اس حوالے سے میں نے یہ بات کی ہے.اس کے علاوہ اور بھی کئی معنی ہیں مثلاً بہت مشکل قسم کا معاہدہ، بہت بڑی ذمہ داری جس کے نہ کرنے سے پھر سزا ملے، کوئی گناہ یا جرم.اس لحاظ سے ایک مومن دعا مانگتا ہے کہ پہلے لوگ اپنے وعدے پورے نہ کر سکے اور وہ وعدے پورے نہ کر کے، معاہدوں پر عمل نہ کر کے احکامات پر عمل نہ کر کے تیری سزا کے مورد بنے.اے اللہ تعالیٰ ! تو ہمیں ایسے اعمال سے بچانا.پھر فرمایا کہ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ کہ اے اللہ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ بعض دفعہ دنیاوی امتحانوں کے ذریعہ سے بھی بندوں کو آزماتا ہے تو یہاں اس حوالے سے بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کے دنیاوی امتحان اور ابتلاء سے ہمیں بچائے ایسا نہ ہو کہ کوئی بھی امتحان ہماری طاقت سے باہر ہو.اصل میں تو مومن کو ہمیشہ روحانی ابتلاؤں کے ساتھ دنیاوی امتحانوں سے بھی بچنے کی دعا مانگتے رہنا چاہئے.یہ نہیں کہ جب حالات اچھے ہوں تو یاد خدا نہ رہے.لیکن اللہ تعالیٰ بعض اوقات دنیاوی لحاظ سے بھی مومنوں کو آزماتا ہے تو ایک مومن اس دعا کو ہمیشہ سامنے رکھتا ہے کہ میرا امتحان کسی بھی طرح میری طاقت سے بڑھ کر نہ ہو.کیونکہ بعض دفعہ دنیاوی امتحانوں کی وجہ سے روحانی ابتلا بھی آجاتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے کسی قسم کا دنیاوی امتحان لینا بھی ہے تو اتنی طاقت بھی عطا فرمائے کہ میں اسے برداشت کر سکوں.کئی طریق سے اللہ تعالیٰ آزماتا ہے.اولاد کے ذریعہ سے، مال کے ذریعہ سے، اور بہت سارے ذرائع ہیں.تو ہر صورت میں ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی پناہ کی تلاش کرتے رہنا چاہئے اور ہر دو قسم کے ابتلاؤں سے بچنے کے لئے یہ دعا سکھلائی کہ یہ دعا مانگو کہ وَاعْفُ عَنَّا کہ اگر ارادہ یا غیر ارادی طور پر بھی ہم نے وہ کام نہیں کئے جو ہمیں کرنے چاہئے تھے اور اس کے نتیجہ میں ابتلاء آیا ہے تو ہم التجا کرتے ہیں کہ ہماری پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرما اور ہمیں اس کے بداثرات سے بچالے.پھر فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ وَاغْفِرُ لَنَا ہمیں بخش دے.غَفَر کے معنی ڈھانکنے کے بھی ہیں اور اس طرح معاملے کو درست کرنے اور اصلاح کرنے کے بھی ہیں اور مٹادینے کے بھی ہیں.گویا یہ دعا ہے کہ اے اللہ! ہمارے تمام ایسے کام جو تیرے نزدیک غلط ہیں ہماری خطا معاف کرتے ہوئے ان کے بداثرات کو مٹا دے اور انہیں ختم کر دے اور آئندہ ہمیں اپنے معاملے درست رکھنے اور ہمیشہ اصلاح کی طرف مائل رہنے کی توفیق بھی عطا فرما تاکہ ہماری خطائیں کبھی تیری ناراضگی مول لینے والی نہ بنیں.پھر فرمایا یہ دعا کرو وَارْحَمْنَا ہم پر رحم کر.یعنی ہمارے سے نرمی اور مہر بانی کا سلوک رکھ محض اور محض اپنے رحم کی وجہ سے ہماری غلطیوں کو معاف فرما اور نہ صرف معاف فرما بلکہ تیرے رحم کا تقاضا ہے کہ اس معافی کے ساتھ
31 خطبه جمعه فرمودہ 16 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہمیں آئندہ غلطیوں سے بچنے اور اپنی رضا کے حصول کی توفیق بھی عطا فرما، ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جو تیری رضا حاصل کرنے والے ہوں تا کہ ہم ہمیشہ ان لوگوں میں شمار ہوں جن پر تیرے پیار کی نظر پڑتی رہتی ہے اور ان غلطیوں کی وجہ سے ہماری ترقی کی رفتار کبھی کم نہ ہواور نہ کبھی ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہماری ترقی رکے.اَنتَ مَولنا تو ہمارا آقا اور مولا ہے اور تیرے علاوہ کوئی نہیں جو ہمارے سے عفو کا سلوک کرے.مغفرت کا سلوک کرے.رحم کا سلوک کرے.یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو اپنے بندوں سے ایک انتہا تک عفو اور مغفرت اور رحم کو لے جاتی ہے.ہماری ذاتی کمزوریوں سے بھی جماعت پر اثر نہ آئے کیونکہ بعض دفعہ ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے بھی لوگ جماعت پر انگلی اٹھا ر ہے ہوتے ہیں اور جماعتی کمزوریاں بھی بعض دفعہ ہو جاتی ہیں.عہدیداروں کی طرف سے بھی ہو جاتی ہیں تو لوگوں کو جماعت پر انگلی اٹھانے کا کبھی موقع نہ دیں اور جب ہمارا یہ دعوی ہے کہ ہم الہی جماعت ہیں اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے دنیا کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے تو پھر دنیا یہ کہے گی کہ ان لوگوں کے یہ عمل ہیں اور ان کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان کو پکڑ رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم نہ کیا.ہم سے مغفرت کا سلوک نہ کیا اور سزا دی تو دنیا تو پھر یقینا یہی کہے گی کہ ان کے عمل کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان کو پکڑ رہا ہے اور اس دنیا میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اگر یہ ہوگا تو پھر اس سے دنیا میں تیرا پیغام پہنچانے میں روک پیدا ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو جماعت ہے اس کے سپرد یہ تیرا یہ پیغام دنیا میں پہنچانے کا جو بھی کام کیا گیا ہے اس میں پھر روک پیدا ہو گی.پس تجھ سے بھیک مانگتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ ! ہم سے سختی کا سلوک نہ کر.ہماری غلطیوں پر ہماری اصلاح کرتا رہ اور ہمیں سیدھے راستے پر چلاتا رہ اور فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِین کافروں کے خلاف بھی ہمیشہ ہماری مدد کرتارہ اور ان پر ہمیں غلبہ عطا فرما.ہم تو کمزور ہیں یہ غلبہ تیرے فضل اور ہم پر تیری خاص نظر سے ہونا ہے اس لئے ہمیں انفرادی طور پر بھی اور من حیث الجماعت بھی اُن لوگوں میں شامل رکھ جو تیرے خاص انعام اور پیار کے ہمیشہ مورد بنے رہتے ہیں.اپنے فضل سے ایک امتیاز ہم میں اور ہمارے غیر میں پیدا کر دے تا کہ ہمارے مادی معاملات بھی اور ہمارے روحانی معاملات بھی تیرا تقویٰ اور تیرا خوف دل میں لئے ہوئے انجام پانے والے ہوں تا کہ جس مقصد کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود کو قبول کیا ہے وہ مقصد حاصل کرنے والے بن سکیں.جب یہ سوچ لے کر ہم آخری دو آیات کو پڑھیں گے تو ہمارا قبلہ بھی پھر صحیح رخ پر رہے گا اور ہم ان آیات کی برکات سے فیض پانے والے ہوں گے.ورنہ صرف الفاظ کو پڑھ لینا تو کوئی فائدہ نہیں دیتا.نہ ہی یہ کافی ہو سکتا ہے.بے شک قرآنی الفاظ میں برکت ہے لیکن یہ برکت نیک دل کو ملتی ہے.اگر دل میں نیکی نہیں تو جس طرح نمازیں بعض نمازیوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں اسی طرح اس قرآن پڑھنے والے کو جھوٹا کر کے اس کے اوپر الٹا دیا جائے گا.یہ آیات اس لئے کافی ہیں کہ انسان کا ایک مکمل جائزہ اپنے سامنے آجاتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا
32 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم تھا کہ اس میں ایمان بھی ہے، دعائیں بھی ہیں، نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ بھی ہے.تو اصل میں حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک بندہ اس طرح پر اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے تو عملاً یہ اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ میرے لئے سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور پھر ایسے شخص کے لئے آنحضرت ﷺ نے ضمانت دی ہے کہ ان آیات کا نازل کرنے والا اس بندے کے لئے کافی ہو جاتا ہے.اُس کو برائیوں سے بچاتا ہے.نیکیوں کی توفیق دیتا ہے.اس میں قناعت پیدا کرتا ہے.اس کے ہم و غم میں اسے تسلی دیتا ہے.اسے شیطان سے محفوظ رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں ان آیات کو سمجھتے ہوئے ان کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میرا خیال تھا کہ قرآن کریم کی بعض اور آیات بھی اس صفت کے حوالے سے بیان کروں گا.یہ مضمون کافی لمبا ہے باقی آئندہ انشاء اللہ.اس وقت میں ایک دعا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے گزشتہ دو خطبوں میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ فلسطینیوں کے لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.ان کے حالات تو اب خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور وہ ظلم کی بڑی خطرناک چکی میں پس رہے ہیں اور اسرائیلیوں کا ظلم بڑھتا چلا جارہا ہے.اسرائیل کے جو ہمدرد تھے اب تو ان میں سے بھی کئی چیخ اٹھے ہیں.یہ چیخ و پکار اوپری ہے یا واقعی حقیقت میں ان کو احساس ہوا ہے لیکن شور اب بہر حال مچ رہا ہے.پہلے خاموش بیٹھنے والے بھی یہی لوگ تھے.اگر ابتداء سے ہی انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرتے تو یہ حالات نہ ہوتے.ان ملکوں کی جو یہ خاموشی رہی ہے، یہ بھی ظلم کا ساتھ دینے والی بات ہے اور ظلم کو ہوا دینے کے مترادف ہے.بہر حال معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے جس بے دردی سے شہید کئے جارہے ہیں، اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے بھی رحم اور فضل کی دعا مانگیں، اس وقت ہم ان مظلوموں کی صرف یہی مدد کر سکتے ہیں.اور دوسرے UN کی بعض منظور شدہ تنظیمیں ہیں اور خود UN کا ادارہ بھی ہے جو ان مریضوں اور بھوکوں کے لئے وہاں دوائیاں اور خوراک پہنچا رہے ہیں.گو کہ یہ انتظام اتنا معیاری تو نہیں.بعض جگہوں پر سیح طرح پہنچ بھی نہیں رہا لیکن پھر بھی اگر ایک قسم کی مادی مدد کی جاسکتی ہے تو صرف ان ذرائع سے ہی ان کی مدد ہو سکتی ہے.اسی طرح Save The Children ایک تنظیم ہے اور دوسری تنظیمیں ہیں ، یہ تنظیمیں وہاں مدد کر رہی ہیں تو ان تنظیموں کی بھی جوڈو نمیشن مانگتی ہیں ہمیں مدد کرنی چاہئے اور ہیومینیٹی فرسٹ بھی کچھ کر کے ان کے ذریعہ سے بھیجے گی اور جماعتی طور پر بھی انشاء اللہ مدد ہو گی.یہ مد داحمدیوں کو ضرور کرنی چاہئے جن جن کو توفیق ہے.سب سے بڑھ کر یہ جیسا کہ میں نے کہا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان معصوموں پر رحم فرمائے اور ظالم کو پکڑے.الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 6 مورخہ 6 فروری تا 12 فروری 2006ء صفحہ 5 تا صفحہ 8 )
خطبات مسرور جلد ہفتم 4 33 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2009ء بمطابق 23 صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی: فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ.أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ.وَالَّذِى جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بة أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ لَهُم مَّا يَشَاءُ وُنَ عِندَ رَبِّهِمْ.ذلِكَ جَزَازُ الْمُحْسِنِينَ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِى كَانُوا يَعْمَلُونَ.اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ.وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ.وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ، وَمَنْ يَّهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُّضِلَّ أَلَيْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِي انْتِقَامٍ.(الزمر آيات 38-33) یہ آیات جومیں نے تلاوت کی ہیں یہ سورۃ الزمر کی 33 سے 38 نمبر کی آیات ہیں.ترجمہ ان کا پڑھتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچائی کو جھٹلا دے جب وہ اس کے پاس آئے، کیا جہنم میں کافروں کے لئے ٹھکانہ نہیں ہے اور وہ شخص جو سچائی لے کر آئے اور وہ جو سچائی کی تصدیق کرے.یہی وہ لوگ ہیں جو متقی ہیں.ان کے لئے ان کے رب کے حضور وہ کچھ ہو گا.جو وہ چاہیں گے.یہ ہو گی حسن عمل کرنے والوں کی جزا تا کہ جو بدترین اعمال انہوں نے کئے ان کے اثرات اللہ ان سے دور کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کیا کرتے تھے ان کے مطابق انہیں اُن کا اجر عطا کرے.کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں اور وہ تجھے ڈراتے ہیں ، ان سے جو اُس کے سوا ہیں اور جسے اللہ گمراہ قرار دے دے تو اس کے لئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ ہدایت دے دے تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں.کیا اللہ کامل غلبے والا اور انتقام لینے والا نہیں ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بات شروع فرمائی کہ دو قسم کے لوگ ظالم ہوتے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں ، اپنی ہلاکت کے سامان کرتے ہیں.ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا غلط طریق پر دعوی کرتے ہیں.اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو سچائی کو جھٹلاتے ہیں.ایک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو بچے انبیاء کو ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کو جھٹلاتے ہیں جب وہ ان کے پاس آتے ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ اپنا
خطبات مسرور جلد ہفتم 34 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 پیغام دے کر انبیاء کو بھیجتا ہے.جب نبی مبعوث ہوتے ہیں تو ایک گروہ ایسا ہے جو ان کو جھٹلاتا ہے اور انہیں یہ کہتا ہے کہ تم جھوٹے ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو.اس مضمون کو قرآن کریم نے اور جگہ بھی بیان فرمایا ہے.سورۃ العنکبوت کی آیت 69 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ.(العنکبوت : 69) اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرتا ہے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے.یا اُس سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے ) جو حق کو اُس وقت جھٹلاتا ہے جب وہ اُس کے پاس آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ افتراء کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب و خاسر رہتا ہے.قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى (ط : 62).( ملفوظات جلد سوم صفحہ 545 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور آنحضرت ﷺ کو فرمایا کہ اگر تو افتراء کرے تو تیری رگ جان ہم کاٹ ڈالیں گے اور ایسا ہی فرمایا وَمَن أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا (العنکبوت : 69) کہ ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرأت کیونکر کر سکتا ہے؟ یعنی اللہ تعالی آنحضرت علی کو بڑا واضح طور پر فرماتا ہے کہ جو جھوٹ بولنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والے ہیں ہم ان کی جورگ جان ہے وہ کاٹ دیں گے اور ان کو خائب و خاسر کریں گے.جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے گا ذلیل و رسواء ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرأت کیونکر کر سکتا ہے.پھر فرمایا کہ ظاہری گورنمنٹ میں اگر ایک شخص فرضی چپڑاسی بن جائے تو اس کو سزا دی جاتی ہے اور وہ جیل میں بھیجا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کی ہی مقتدر حکومت میں یہ اندھیر ہے کہ کوئی محض جھوٹا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا کرے اور پکڑا نہ جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے.اس طرح تو دہریت پھیلتی ہے.خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ مفتری ہلاک کیا جاتا ہے“.الحکم جلد 8 نمبر 12 مورخہ 10 اپریل 1904ء صفحہ 7 تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 3 صفحہ 624) تو جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام دیتے ہیں ان کا بھی اس بات میں رڈ کیا گیا ہے کہ ایک ظاہری حکومت کی طرف منسوب کر کے اگر کوئی آدمی بات کرتا ہے ، چاہے کسی افسر کا چپڑاسی بن کے کسی کے پاس حکم لے کے چلا جائے اور جھوٹ بولے اور پکڑا جائے تو اس کو بھی سزا ملتی ہے.تو کیا خدا تعالیٰ کی طرف جو باتیں منسوب کی جاتی ہیں یا کوئی شخص جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالی کی طرف سے ہوں اور وہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اتنی بھی طاقت نہیں کہ اس کو پکڑ لے اور سزا دے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء باند ھے.یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے بات کرتے ہیں تو
خطبات مسرور جلد ہفتم 35 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوں یا اللہ تعالیٰ کی طرف جو باتیں وہ منسوب کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ نہ کرے.پس اللہ تعالیٰ کا مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں اس حوالے سے فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بنیا دی اور اصولی بات ہے کہ جو بھی خدا تعالیٰ پر افتراء کرے گا، جھوٹ بولے گا وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا.اور صرف یہی نہیں بلکہ حق اور سچائی کو جھٹلانے والا جو دوسرا گروہ ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کی نافرمانی کرنے والا ہوگا تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا.تو دو قسم کے گروہوں کا یہاں ذکر ہے.ایک وہ جو اللہ تعالیٰ پر غلط افتراء کرے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے.دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کو جھٹلائے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے اور دونوں ہی گروہ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں.پس انبیاء کا انکار کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنی طرف سے باتیں بنالیں اور خدا تعالیٰ نے اس کو قطعاً نبوت کا درجہ دے کر نہیں بھیجاتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افتراء کرے گا ہم اسے پکڑیں گے.جو نشانیاں اور ثبوت نبی کے لئے ظاہر ہوئیں انہیں دیکھ کر انہیں قبول کرنے کی کوشش کرو.نبوت اپنے روشن نشانوں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور ہر نیا دن یہ روشن نشان دکھا تا چلا جاتا ہے.پس منکرین نبوت کو یہ ایسی دلیل دی گئی ہے کہ ان میں عقل ہو تو یقیناً ہوش کریں اور ہوش کرنی چاہئے.یہ الزامات آنحضرت ﷺ سے پہلے انبیاء پر بھی لگے تھے اور پھر آنحضرت ﷺ کی ذات مقدس پر بھی لگے تھے اور یہی الزامات آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر بھی لگ رہے ہیں.سورۃ زمر کی اس آیت سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کو جامع بتا کر یہ اعلان کیا تھا کہ اس جامع تعلیم کے بعد اب کوئی اعتراض کرنے کا جواز نہیں رہتا.قرآن کریم اپنی ذات میں خود بھی بہت بڑا نشان ہے.بلکہ اس کی ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ ایک اعجاز ہے اور اللہ تعالیٰ نے کفار کو اس کو قبول کرنے کی نصیحت فرمائی لیکن اس کے با وجود کفار نے انکار کیا.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سختی اور سزا سے کام لیا اور پھر ان لوگوں نے آنحضرت علی کو قبول کیا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میرے بھیجے ہوؤں کا انکار کرتے ہو تو اس دنیا میں یا اگلے جہان میں میری پکڑ کے نیچے آتے ہو.پس عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس ہٹ دھرمی کو چھوڑ و.اگلی آیت میں بتایا کہ تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف کا دل میں ہونے کا اظہار یہی ہے کہ جو سچائی کے پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوا ہے اس کو قبول کرو.کیونکہ یہی چیز تمہیں کامیابیاں بھی عطا کرے گی اور تقویٰ میں مزید بڑھائے گی.اور یہ بھی ایک نبی کے سچا ہونے کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا میابیاں نصیب کرتا چلا جاتا ہے.
36 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِايْتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ (يونس: 18) پس جو اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا.یقیناً مجرم کا میاب نہیں ہو سکتے.دونوں طرح کے مجرم کا میاب نہیں ہوں گے.نہ وہ کامیاب ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتے ہوئے یہ کہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں.نہ وہ کامیاب ہو سکتے ہیں جو ایک سچے نبی کا انکار کرنے والے ہوں.پس اس سے بھی ظاہر ہے کہ دو قسم کے لوگ ہیں جو سزا سے نہیں بچ سکتے.جیسا کہ میں نے کہا ایک وہ جو غلط دعویٰ کر کے اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کریں اور دوسرے وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے والے کا مقابلہ کریں اور یہ ایسی بات ہے جو ہر عقل رکھنے والا مجھ سکتا ہے.تبھی تو فرعون کی قوم کے ایک آدمی نے کہا تھا که وَإِنْ يَكُ كَاذِبَاً فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقاً يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمُ (المومن: 29) کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا.اگر وہ سچا ہے تو اس کی کی ہوئی بعض انذاری پیشگوئیاں تمہارے متعلق پوری ہو جائیں گی.پس ان مسلمانوں کے لئے بھی جو آنحضرت علی کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح موعود کو نہیں مانتے غور کرنے کا مقام ہے.مسلمانوں کے پاس تو ایک ایسی جامع اور محفوظ کتاب ہے جس کی حفاظت کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور غیر بھی باوجود کوشش کے اس میں کسی قسم کی تحریف تلاش نہیں کر سکے.چودہ سو سال سے وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے.یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جمع کر کے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ یہ قصے کہانیاں نہیں تمہاری حالت بھی پہلی قوموں جیسی نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ (يونس: 18) که مجرم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے تسلی دلا دی ہے کہ بے شک جھوٹے دعویدار ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.اور کامیابی کا معیار کیا ہے؟ یہ ہے کہ اپنی تعلیم اور بعثت کے مقصد کو وہ دنیا میں پھیلا نہیں سکتے جس طرح خدا تعالی کی طرف سے آنے والے پھیلاتے ہیں.بے شک ان کی چھوٹی سی جماعت بھی بن سکتی ہے.ان کے پاس دولت بھی جمع ہو سکتی ہے.یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دعویدار ہو کر آتا ہے وہ ایک روحانی مقصد کو لے کر آتا ہے.انبیاء آئے تو وہ یا نئی شریعت لے کر آئے تا کہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کریں اور انسان کو خدا تعالیٰ کے قریب کریں یا پرانی تعلیم کی تجدید کے لئے آئے تا کہ بھٹکے ہوں کو پھر سے اس تعلیم کے مطابق جو شرعی نبی لائے تھے خدا تعالیٰ کے قریب کریں.پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کا بنیادی معیار ہے.اگر کوئی دعوی کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے لیکن یہ دو مقصد حاصل نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ پر افتراء باندھ رہا ہے.اگر وہ لوگوں میں
خطبات مسرور جلد هفتم 37 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 روحانی انقلاب پیدا نہیں کر رہا اگر وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف راہنمائی نہیں کر رہا، ان میں ایک انقلاب پیدا نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلط ہے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مفتری ہونے کا نعوذ باللہ الزام لگایا جاتا ہے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا آپ نے شریعت میں بدعات پیدا کیں یا اس میں کوئی کمی بیشی کی یا اس کے برخلاف قرآن کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا حکم دیا.آپ کی تحریریں پڑھ لیں.ہر جگہ یہ ملے گا کہ قرآن کی حکومت قائم کرو.کیا نمازوں میں کوئی کمی کی یا کسی اور رکن اسلام میں کوئی کمی کی ؟ یا سنت رسول اللہ ﷺ کی جو باتیں ہم تک تصدیق کے ساتھ پہنچیں، ان میں کوئی کمی یا بیشی کی؟ یا اس کے برخلاف ان تمام چیزوں کو خوبصورت رنگ میں نکھار کر ہمارے سامنے پیش کیا اور اگر جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ہمارے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مزید نکھار کر، چمکا کر پیش کیا.آپ تو قرآن کریم کی شریعت جس کو دنیا بھول چکی تھی نئے سرے سے قائم کرنے کے لئے آئے تھے اور آنحضرت علی کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے تھے.پھر یہ دیکھنے والی بات ہے کہ کیا آپ کی جماعت پھیل رہی ہے یا وہیں کھڑی ہے یا کم ہو رہی ہے یا ایک دفعہ پھیلی اور پھر سکڑ گئی.خاندانوں کے افراد نہیں بلکہ خاندانوں کے خاندان اور ملکوں میں گروہ در گروہ لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں.اس کے مقابلہ پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے جو الزام لگانے والے ہیں، ان میں کتنے ایسے ہیں جو قرآن کریم کی تعلیم میں ہی ناسخ اور منسوخ کے چکر میں پڑے ہیں.فرقہ بندیوں میں بے ہوئے ہیں.چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل میں پڑ کر بعض احکامات سے دُور ہٹ گئے ہیں اور بعض ایسی بدعات پیدا کر لی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں.اب اگر پاکستان ، ہندوستان اور ایسے ملکوں میں چلے جائیں تو وہاں قبروں پر چڑھاوے ہیں، پیروں کے ڈروں پر جا رہے ہیں، وہ پیر جو کبھی نمازیں بھی نہیں پڑھتے تھے.ان سے فریادیں کی جاتی ہیں ، ان سے مانگا جاتا ہے.قبروں سے مانگا جاتا ہے.کیا یہ تمام چیزیں کبھی آنحضرت عے کے زمانے میں تھیں؟ یا آپ نے ان کا حکم دیا؟ تو ان لوگوں نے تو خود اسلام میں بدعات پیدا کر لی ہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دعویدار ، بہاء اللہ اٹھا.اگر اس کا دعویٰ نبوت مانا جائے تو اس کی سچائی اس لئے ثابت نہیں ہو سکتی کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ نہیں تھیں.کسی بھی موقع پر ہمیں نظر نہیں آئیں.اگر غور سے دیکھا جائے تو کوئی روشن نشان پیش نہیں کیا.پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ شریعت اسلامی کو جو آخری شریعت ہے جس نے قیامت تک رہنا ہے، اس کو ناقص ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس وجہ سے بے شک ایک وقت میں کافی تعداد
38 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم میں اس کے ماننے والے بھی اس کے ساتھ ہو گئے.لیکن اس کی مقبولیت، قرآن کریم کی مقبولیت اور شریعت کی مقبولیت کے مقابلے میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی.بلکہ اب تو بہاء اللہ کی شریعت ماننے والے اکا دُکا ادھر اُدھر نظر آتے ہیں.ان لوگوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.اور قرآن کریم آج بھی دنیا کے ایک طبقہ کی طرف سے بڑی سوچی سمجھی سکیم کے باوجود کہ اسے بدنام کیا جائے ، استہزاء کا نشانہ بنایا جائے ، دنیا میں پھیل رہا ہے.جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہی لاکھوں لوگ اس کی تعلیم کے نیچے آ کر اپنی ابدی نجات کے سامان پیدا کر رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو جھوٹے ہیں فلاح نہیں پاسکتے.تو یہ ہے ان کا فلاح پانا.دنیاوی دولت اکٹھی ہو جانا یا ایک گروہ پیدا کر لینا کامیابی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کا اس کے مقابلہ پر لاکھوں گنا پھیلنا اور اس میں ترقی ہوتے چلے جانا، یہ اصل فلاح اور کامیابی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیاء جب اس مقصد کے لئے آتے ہیں تو پھر بڑے روشن نشانات کے ساتھ آتے ہیں.زمین و آسمان کی تائیدات ان کے ساتھ ہوتی ہیں اور یہ لوگ ہوتے ہیں جو پھر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے فلاح کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں.اور یہی دلیل ہے جو آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کی سچائی کی بھی تصدیق کرتی ہے.پس وہ لوگ جو احمدیوں کو بہائیوں کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں، کئی جگہ ذکر چلتا رہتا ہے.ان کو بھی ذرا عقل کے ناخن لینے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق فیصلہ کریں.پھر دیکھیں کہ کیا دونوں ایک چیز ہیں.پھر یہ بتانے کے بعد کہ سچائی لے کے آنے والا جو روشن نشانوں اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ سچائی لے کر آتا ہے ، غلط اور جھوٹ اس کی طرف منسوب نہیں کرتا.اور حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہوتا ہے.ایک ہی مضمون کی یہ تین مختلف آیات جو میں نے پیش کیں تھیں ان میں یہی ہے کہ اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو غلط باتیں منسوب کرے.اور پھر فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو قبول نہیں کرتے.ان میں بتایا کہ جو قبول نہیں کرتے وہ صدق کو جھٹلاتے ہیں.دوسری آیت میں فرمایا کہ وہ حق کو جھٹلاتے ہیں.تیسری آیت میں فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا اپنے پیغام اور قول میں سچا ہوتا ہے کہ یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.وہ جس پیغام کو لے کر آتا ہے وہ حق ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا حقیقی پیغام ہوتا ہے اور خود ظاہر کر رہا ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا پیغام ہے اور وہ پیغام اللہ تعالیٰ کی آیات نشانات اور تائیدات لئے ہوئے ہوتا ہے.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس تائید یافتہ اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو ماننے والے جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں اپنے رب سے ہر وہ چیزیں پائیں گے جو وہ چاہیں
39 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم گے.انہیں اطمینان قلب بھی نصیب ہو گا، اُن کے اندر قناعت بھی پیدا ہو گی ، ان کے اندر نیکیاں کرنے کی خواہشات بھی پیدا ہوں گی.یہاں جو یہ فرمایا کہ وہ جو چاہیں گے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر وقت دنیا کی فانی چیزوں کی خواہش کرتے ہیں اور وہ انہیں ملتی رہیں گی بلکہ پہلے تقویٰ کا ذکر کر کے یہ بتا دیا کہ وہ یہی چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو.پھر اللہ تعالیٰ انہیں انعامات سے نوازے گا.ان کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو جائیں گی اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نَحْنُ اَولِیؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ ( حم السجدہ : 31) کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور آخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالی محسنین کو جزاء دیتا ہے.حسن عمل کرنے والوں کو جزا دیتا ہے.نیک اعمال بجالانے والوں کو جزا دیتا ہے.ان لوگوں کو دنیا و آخرت کی جنت دیتا ہے جو مستقل مزاجی سے نیک اعمال کئے جاتے ہیں اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہیں.ایک وفا کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے.اس کو اگلی آیت میں پھر مزید کھولا کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو ماننے کی وجہ سے، تقویٰ پر چلنے کی کوشش کی وجہ سے، اچھے اعمال بجالانے کی کوشش کی وجہ سے، ایسے اعمال جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ نہیں لیکن انسان سے بشری کمزوریوں کی وجہ سے سرزد ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ پھر ان کے بداثرات دُور فرمائے گا کیونکہ اس سے پہلے کوشش ہو رہی ہوگی ، نیت نیک ہوگی.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کس قدر رحمت اور شفقت کو وسعت دیتا ہے اس کا اندازہ اسی بات سے ہو جاتا ہے.کا ہو پھر فرمایا کہ غلطی اور گناہ کی سزا تو اس کے برابر ہے لیکن نیکی کا اجر دس گنا ہے.پس سوائے اس کے کہ انسان ڈھٹائی سے گناہوں پر جرات پیدا کرتا چلا جائے.نیکیوں کا ثواب اور اجر گناہوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے تمام بداثرات دور فرما دیتا ہے اور حسن عمل کا پھر انہیں اجر عطا فرماتا ہے.وہ اس دنیا میں بھی نیکیوں کی طرف متوجہ رہ کر اپنی دنیا کو جنت بنانے والے بن جاتے ہیں اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کرنے والے ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کو مان کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطمینان قلب پانا اور نیکیوں میں بڑھنا بھی ایک معیار ہے، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی سچائی کا.اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی کثرت سے اس بات کے گواہ ہیں بلکہ جو نئے شامل ہونے والے ہیں ان کے اطمینان قلب میں بھی مزید اضافہ ہوتا ہے.اس مضمون کے کئی خطوط میں روزانہ وصول کرتا ہوں.پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ( الزمر: 37) کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے.مزید تسلی دلائی.پھر الزام لگانے والے الزام لگاتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے.جس ظلم کا وہ اللہ
40 40 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پر الزام لگارہے ہیں اس ظلم کے وہ اُس کو نہ مان کر خود مرتکب ہو رہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ ایسے الزام لگانے والوں اور ظلم کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے.اور جو اس کو قبول کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ان کی برائیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے نیکیوں کا اجر دے گا اور مزید نیکیوں کی توفیق دے گا تا کہ تقویٰ میں بھی بڑھتے چلے جائیں.پس یہاں یہ بات بتا کر کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے ، جھٹلانے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ خدا تعالیٰ اس کا مددگار ہے اور اسی طرح اس کے ماننے والوں کا مددگار ہے.آنحضرت ﷺ کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر آپ کی اور آپ کے ماننے والوں کی مدد اور نصرت فرمائی.آنحضرت ﷺ کی زندگی بھی اور صحابہ کی زندگی بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر لمحہ آپ کی مدد فرمائی، آپ کے صحابہ کی مددفرمائی.بے شک جنگوں میں مسلمان شہید بھی ہوئے لیکن دشمنوں کے مقابلے پر ہمیشہ کم نقصان ہوا.یادشمن وہ مقصد حاصل نہیں کر سکے جو وہ کرنا چاہتے تھے کہ اسلام کو ختم کر دیں.اور آج تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم پر مخالفین اسلام نہایت گھٹیا اور رقیق حملے کرتے اور الزام لگاتے ہیں لیکن اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکے.اور آج بھی مسلمانوں میں ایک گروہ ہے اور بڑی تعداد میں ہے جو آپ کی لائی ہوئی شریعت کو اصل حالت میں اپنی زندگیوں پر لاگو کر رہا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت تک کے لئے بھیجے گئے ہیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت زندہ ہے اور زندہ رہے گی انشاء اللہ.اور دشمنان اسلام کی کوششیں اور دھمکیاں نہ پہلے اسلام کا کچھ بگاڑسکی تھیں نہ اب بگاڑ سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ان کے لئے کافی ہوں.اپنے بندوں کو ان کے شر کے بد انجام سے ہمیشہ بچاؤں گا.اور اس لئے اس زمانہ میں آنحضرت علہ کے عاشق صادق کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا کہ نئے جوش اور ولولے سے دشمنان اسلام کے حملوں کورڈ کریں.کاش کہ مسلمان بھی اس حقیقت کو سمجھیں اور اس جری اللہ کی فوج میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے اس زمرے میں شامل ہو جائیں جن سے اللہ تعالیٰ کی مد کا ہمیشہ وعدہ ہے.یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ الیسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ تو عبد سے کیا مراد ہے.ہم کہہ دیتے ہیں کہ اللہ کا بندہ.ہر انسان جو دنیا میں آیا ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس ناطے بندہ ہے.طاقت اس کی کوئی نہیں لیکن حقیقی عبد سے مراد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی کامل غلامی کا جوا اپنی گردن پر ڈالتا ہے.جو اس کے دین کا مددگار ہے.جو نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانے والوں میں شامل ہے.واللہ تعالیٰ کا عبادت گزار ہے.جو اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ بڑائی بیان کرنے والا ہے.جو اللہ تعالیٰ سے گہرا پیار کا تعلق رکھنے والا ہے.جو اللہ تعالیٰ کے لئے بہت
41 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم غیرت رکھنے والا ہے.یہ لوگ ہیں جو حقیقی عبد ہیں.اس کے یہ معنی نکلتے ہیں اور اس کا اعلیٰ ترین معیار جس سے اوپر کوئی انسان جانہیں سکتا وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے کافی ہونے کے وہ نظارے دکھائے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ہر دشمن سے آپ کو اس طرح بچایا کہ کوئی انسان اس کا سوچ بھی نہیں سکتا اور کوئی انسانی طاقت اس کو اس طرح بچا نہیں سکتی.ہجرت کے وقت اللہ تعالیٰ آپ کے لئے غار میں کافی ہوا.کس طرح بچایا.انعام کے لالچ میں آپ کو پکڑنے کے لئے پیچھا کرنے والے کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کافی ہوا.جنگوں میں خدا تعالیٰ کافی ہوا.جب آپ کہتے تھے اور دشمن کے ہاتھ میں تلوار تھی.اس نے آپ کو سوئے ہوئے جگایا اور پوچھا کہ اب تجھے کون مجھ سے بچائے گا تب اللہ تعالیٰ کافی ہوا.پھر صحابہ نے اپنی زندگیوں میں یہ نظارے دیکھے.تو یہ آنحضرت ﷺ کی سچائی کا ثبوت ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نہ صرف آپ کے لئے بلکہ آپ کے صحابہ کے لئے ، ان بندوں کے لئے بھی کافی ہوا جو حقیقی عبد بننے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کے دل سے بندوں کا خوف بالکل ختم ہو گیا اور وہ لوگ خالص اللہ تعالیٰ کے ہو گئے.ان کو بھی رَضِيَ الله عنہ کی خوشخبری ملی.اور جو بد بخت کفار تھے جن کے مقدر میں گمراہی تھی وہ اپنے انجام کو پہنچے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت وہی پاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.پس ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہئے.ایمان میں ترقی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہئے اور ہدایت پا کر پھر اس پر قائم رہنے کے لئے بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہئے.جو ہدایت پاتے ہیں وہ پھر اس معنی میں حقیقی عبد بن کر دکھاتے ہیں جو معنی میں نے عبد کے بیان کئے اور جانتے ہیں کہ اس میں ہی ان کی ہر قسم کی بقا ہے.وہ جانتے ہیں کہ حقیقی غلبہ اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور ان کی جماعتوں کو نقصان پہنچانے والے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والے اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ نہیں سکتے.اور اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں اور ان کے ماننے والوں کی دشمنی کرنے والوں سے انتقام بھی لیتا ہے.اللہ تعالیٰ کا انتقام ان پر دنیا یا آخرت میں سزا کی صورت میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے کہ اس کے پیاروں سے کوئی دشمنی کی جائے اور اس کے لئے پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے وہ جلوے دکھاتا ہے کہ بعض دفعہ عبرت کا نشان بن جاتے ہیں.پھر ان لوگوں کے لئے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آخرت میں ان سے اچھا سلوک نہ کیا جائے گا.پس یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بھیجے ہوؤں اور ان کے ماننے والوں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے نشان ہے کہ وہ صرف ان کی سچائی ثابت نہیں کرتا بلکہ ان کو دشمن کے ہر حملے سے بچاتا ہے.ان کو تحفظ دیتا ہے اور ان کے لئے ہمیشہ نشانات ظاہر فرماتا رہتا ہے.اور ان کے مخالفین سے ایسے انتقام بھی لیتا ہے جو اگر اس دنیا میں ہوں ا.
42 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم تو جیسا کہ میں نے کہا دنیا کے لئے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں اور آخرت میں اس سے بھی زیادہ سزا ہوگی.اللہ تعالیٰ کے پیارے اور اس کو ماننے والے اس کے احکامات پر عمل کرنے والے فَادْخُلِي فِي عِبادِى (الفجر: 30 ) کی خوشخبری پانے والے بنتے ہیں.تقویٰ پر چلنے اور احسن عمل کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنتے ہیں اور اس مقام کو سب سے زیادہ حاصل کرنے والی آنحضرت ﷺ کی ذات تھی جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا.پس اللہ تعالیٰ آپ کی وجہ سے آپ کے غلاموں کے لئے بھی کافی ہو گیا اور ان کے لئے بھی اپنی قدرت کے نظارے دکھائے اور دکھا رہا ہے.آپ کے غلاموں میں سے اکمل ترین غلام آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام ہیں.جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا یہ حصہ کہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کئی مرتبہ الہام کیا.پہلی مرتبہ تو آپ کے والد صاحب کی وفات پر جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کی اطلاع دی اور آپ کو فکر پیدا ہوئی تو اس وقت فرمایا کہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میرا بندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اور تم جانتے ہو کہ تم میرے بندے ہو اور مجھے تم سے پیار ہے اور میں اس کا اظہار بھی پیار کی شکل میں کرتا رہتا ہوں اور یہ الہام اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ بھی اسی پیار کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ والد کے وفات پانے کے بعد تجھے کسی قسم کے فکر کی ضرورت نہیں ہے.میں تیرے ساتھ ہوں.ہر ضرورت پوری کروں گا اور پھر اللہ تعالی نے آپ کو ہمیشہ ہر قسم کی فکر معاش سے آزاد کر دیا اور نہ صرف آزاد رکھا بلکہ آپ کے ہاتھوں سے ایک دنیا کو کھلایا اور آج تک کھلاتا چلا جارہا ہے.پھر اس کے بعد متعدد مرتبہ یہ الہام ہوا.ایک دفعہ نہیں ہوا بلکہ کئی دفعہ ہوا.وہاں صرف معاش تک بات محدود نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے ہر حملے، ہر کوشش اور ہر تدبیر سے آپ کو بچایا اور آپ کے لئے کافی ہوا بلکہ بعض اوقات فوری انتقام لیتے ہوئے دشمن کو اس سزا کا بھی مورد بنادیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کی تھی.اس لئے عبرت کا نشان بن گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری ہوئی ہے.جس طرح خدا تعالیٰ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمدمصطفی عملے کے لئے کافی ہوتے ہوئے آپ کو ہمیشہ دشمنوں سے بچاتا رہا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کچی غلامی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی دشمنوں نے مقدموں کی صورت میں یا اور مختلف حربے استعمال کر کے جو حملے کئے ان سے ہمیشہ آپ کو بچایا.حکومت کے پاس مخالفین نے شکایات کیں.یہاں تک کہ افسران اور پولیس والے آپ کے گھر کی تلاشی تک لینے آگئے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے کافی ہونے کا ثبوت دیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علی ﷺ کو فرمایا کہ تم اپنے کام کئے جاؤ کفار کو اپنی کوششیں اور
43 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم استہزا کرنے دو ظلم کر رہے ہیں کرنے دو اور فرمایا کہ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ (الحجر: 96 یقینا ہم استهزاء کرنے والوں کے لئے تجھے بہت کافی ہیں.اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح دشمنان اسلام سے اللہ تعالیٰ نے بدلہ لیا اور ان کے مقابلہ میں کافی ہوا.اللہ تعالیٰ نے جو آنحضرت ﷺ کو یہ فرمایا ہے کہ آپ اعلان کریں کہ فَاتَّبِعُونِی يُحْبِبْكُمُ الله ( آل عمران : 32) کہ میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا تو آپ کی پیروی کا سب سے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے تبھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ مقام عطا فرمایا جو تمام دنیا کو اس زمانہ میں دین واحد پر جمع کرنے کے لئے آپ کو ملا اور یہ سب آنحضرت ﷺ کی کامل پیروی اور محبت تھی جس سے خدا تعالیٰ نے بھی آپ سے محبت کی اور اس وجہ سے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض آیات یا ان کے کچھ حصے الہا نا فرمائے.پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں.اِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ (الحجر: 96) بھی آپ کے الہامات میں سے ایک الہام ہے.اللہ تعالیٰ نے بے شمار موقعوں پر آپ کی تائید میں سامان فرما کر دشمن کو ہمیشہ شرمندہ کیا اور دشمنوں کو کئی موقعوں پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب عزت کے معیار بدل جائیں یا ڈھٹائی کی انتہا ہو جائے تو پھر احساس مر جاتے ہیں.پھر آدمی مانتا نہیں کہ مجھے شرمندگی ہوئی.ایسے مواقع بھی آئے کہ ایسے بڑے بڑے جبہ پوش جو اپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتے تھے.بڑا معزز سمجھتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں آئے تو عدالتوں میں انکو بڑی سبکی اٹھانی پڑی.مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک واقعہ ہے کہ جب اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ( عدالت میں) کرسی پر بیٹھے دیکھ کر کرسی کا مطالبہ کیا تو جج نے ڈانٹ دیا.اور پھر وہاں سے نکل کر جب باہر عدالت کے دروازے پر کرسی پر بیٹھنے لگا تو وہاں بھی چپڑاسی نے یا چوکیدار نے کرسی پر بیٹھنے نہیں دیا.اگر انسان کو صرف احساس ہو تو اس طرح کی سیکیوں کے واقعات ہوتے ہیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہوئے.اس وقت تو بیان کرنے کا وقت نہیں ہے.آج بھی مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ مان کر جو اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ تو حاصل کر سکتے ہیں اور نہ کر سکے اور نہ کر سکیں گے انشاء اللہ لیکن ہم آپ کے بچے ہونے اور آنحضرت میلہ کے غلام صادق ہونے کے ثبوت کے نظارے ہر روز دیکھتے ہیں.پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کے ہر موقع پر کافی ہونے کا اظہار، جس کے نظارے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دکھاتا ہے اور اس سے ایمان بڑھتا ہے اور یہ نظارے جو ہم دیکھتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ ہر احمدی کو اس پر غور کرتے ہوئے اپنے ایمان میں ترقی کرنی چاہیئے صرف سرسری طور پر نہیں دیکھنا چاہئے.اور پھر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے اس کے ان بندوں میں شمار ہونے کی دعا کرنی چاہئے جن کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 44 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 کافی ہو جاتا ہے اور یہ صرف اس صورت میں ہوگا جب ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے آنحضرت تم اللہ کی حقیقی پیروی کرنے والے اور آپ کے عاشق صادق کے ساتھ تعلق میں بڑھنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ہر روز ایک نئی شان سے پورا ہوتا دیکھتے ہیں.آج ہم ہی ہیں جو آنحضرت ﷺ سے سچا، حقیقی اور عاشقانہ تعلق رکھنے والے ہیں.پس ہمارے مخالف اور ہمارے دشمن ہم پر جھوٹے الزام لگانے اور استہزاء کرنے اور بدنام کرنے کے لئے جتنا بھی زور لگا لیں.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جس طرح پہلے کافی تھا وہ آج بھی ہمارے لئے کافی اور آئندہ بھی انشاء اللہ کافی ہوگا.یہ علماء سوء اور ان کے پیچھے چلنے والے بلکہ پاکستان میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگ جو آج کل انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کو اپنے زعم میں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یا تضحیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس کا ایک حالیہ واقعہ سن لیں.ہمارے احمدیوں پر کچھ عرصہ ہوا ایک کیس ننکانہ میں بنا تھا اور کیس یہ تھا کہ مولویوں نے کوئی اشتہار لگایا تھا جس کے بارہ میں کہا گیا کہ کسی احمدی نے اس کو دیوار سے پھاڑ دیا یا کچھ احمدیوں نے پھاڑ دیا.حالانکہ قطعاً بے بنیادالزام تھا اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی.ہم تو وہ لوگ ہیں جن کو سامنے بھی گالیاں دی جائیں تب بھی صبر کرتے ہیں.اتنی زیادہ صبر کی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے ہمیں کی گئی ہے اور صبر کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ ہم نے انتقام لینے کی نہ کوشش کی اور نہ بدلہ لینے کی.اگر ان کو عقل ہو تو نظر آئے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مختلف موقعوں پر اپنے مسیح کی جماعت کو تنگ کرنے والوں سے انتقام لیتا ہے.بہر حال اس الزام پر پولیس نے مقدمہ درج کیا.چھوٹی عدالت میں پیش ہوا.وہاں ضمانت نہیں ہوئی.ردّ ہو گیا.پھر ہائیکورٹ میں پیش ہوا.ہائیکورٹ کے جج صاحب رانا زاہد محمود صاحب ہیں.انہوں نے اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لئے جو فیصلہ دیا وہ عجیب ظالمانہ فیصلہ ہے.فرماتے ہیں کہ ایسے ملزم عدالتوں سے دادرسی کا استحاق نہیں رکھتے جو پاک ہستیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں.ہمارے نزدیک جوسب سے مقدس ہستی ہے وہ تو آنحضرت ﷺ کی ذات ہے.اور ایک احمدی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرت میں کی شان میں گستاخی کرے.ہم تو آپ کے حقیقی غلام کے غلام ہیں.اور نہ ہی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کی شان میں کبھی گستاخی کریں.ان حج صاحب کے نزدیک آج کل کے بکا و مولوی اگر مقدس ہستیاں ہیں تو ان کے لئے گو ہم کہتے کچھ نہیں لیکن ان کی شان میں تعریف بھی نہیں کر سکتے ، یہ ان جوں کا جوابن الوقت لوگ ہیں مقام ہے کہ ان کی شان میں تعریفیں کریں.ہم تو ہمیشہ آنحضرت ﷺ اور تمام مقدس لوگوں کی شان کو بڑھانے والے ، تعریف کرنے والے اور ان کا مقام پہچاننے والے ہیں.تو یہ ہے آج کل کی عدلیہ بلکہ آج کل کیا ایک عرصہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 45 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 سے پاکستان کی عدلیہ کا یہ حال ہے.ان سے تو ہمیں کوئی توقع نہیں ہے.ہم تو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک رکھنے والے لوگ ہیں.اسی سے مانگتے ہیں اور اسی کے آگے جھکتے ہیں اور یہی ہمارے لئے کافی ہے.لیکن یہ لوگ ضرور اس پکڑ کے نیچے آئیں گے اور آ بھی رہے ہیں لیکن سمجھتے نہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جواللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کو جھوٹا کہے گا.پاکستان کے ارباب حل و عقد سے میں کہتا ہوں کہ اب بھی عقل کریں اور خدا تعالیٰ کے عذاب کو دعوت نہ دیں جس کے آثار ظا ہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.ابھی بھی وقت ہے اس کو یہیں روک لیں اور اس کا واحد طریقہ صرف یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے معافی مانگ لیں.ہم پر جو الزام دیتے ہیں تو اگر کوئی پیمانہ ہو جو یقینا نہیں ہے، آنحضرت ﷺ نے نفی فرما دی ہے کہ کوئی ایسا پیمانہ نہیں جو دلوں کے حال جانتا ہو تو.بہر حال تم دیکھو کہ ہمارے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی محبت کا وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جس کے تم نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتے.پاکستان کی عوام سے بھی میں کہتا ہوں کہ ان نام نہاد ، خود غرض اور بکاؤ مولویوں کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و عاقبت خراب نہ کریں.خدا کے عذاب کو آواز دینے کی بجائے خدا کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں، ہر احمدی کو ہمیشہ اپنی پناہ اور حفاظت میں رکھے اور ان لوگوں کے شر سے ہمیشہ بچائے.پاکستان میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد جیسا کہ مولوی مختلف اوقات میں بھڑکاتے رہتے ہیں، کسی نہ کسی احمدی کی شہادت ہوتی رہتی ہے اور یہ بھی اس ظالمانہ قانون کی وجہ سے ہے جو پاکستان کی حکومت نے بنایا ہوا ہے اور اسی قانون نے حقیقت میں ملک میں لاقانونیت کو رواج دے دیا ہے اور آج کل کوئی قانون ملک میں نظر نہیں آتا.آج پھر میں ایک افسوسناک خبر سنا رہا ہوں کہ ہمارے ایک احمدی بھائی مکرم سعید احمد صاحب جو مکرم چوہدری غلام قادر صاحب اٹھوال کے بیٹے تھے، کوٹری شہر میں رہتے تھے ان کو وہاں شہید کر دیا گیا.رات کو تقریباً 9 بجے جہاں وہ کام کرتے تھے وہاں سے واپس جارہے تھے کہ گھر کے دروازہ میں داخل ہوتے وقت کسی نے کنپٹی پر گن یا پسٹل رکھ کر فائر کیا جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بڑے خدمت خلق کرنے والے تھے.ان میں خدمت خلق کا نمایاں جذبہ تھا.کسی کی بیماری کا پتہ چلتا تو اس کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے.نہایت سادہ طبیعت رکھنے والے مخلص انسان تھے اور محنتی بھی بڑے تھے.ہر قسم کا کام کر لیتے تھے.کوئی عار کبھی نہیں سمجھا.مہمان نوازی کی صفت بھی بہت نمایاں تھی.صبر اور حلم بھی بہت تھا.کسی کو غصے میں بھی جواب نہیں دیا بلکہ خاموش رہتے تھے.کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی.گوندل فارم سندھ میں ہی آپ کی تدفین ہوئی ہے.2 بیٹیاں اور 2 بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور بیوی بچوں کو صبر اور حوصلہ دے.ابھی نمازوں
خطبات مسرور جلد هفتم 46 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2009 کے بعد میں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.اسی طرح ایک اور جنازہ ہے.جماعت کے ایک دیرینہ خادم مکرم رانا محمد خان صاحب ایڈووکیٹ جو ایک بڑے لمبا عرصہ تک بہاولنگر ضلع کے امیر رہے ہیں.آپ کی 21 جنوری 2009ء کو وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 40 سال سے زائد عرصہ تک انہوں نے جماعت کی خدمت کی ہے.امیر ضلع بہاولنگر ر ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے.مرکز میں جو مختلف کمیٹیاں قائم ہوتی تھیں ان میں ممبر کی حیثیت سے کام کیا.نیک مخلص ، با وفا اور اطاعت شعار تھے.خلافت سے بڑا گہرا اور محبت کا تعلق تھا.اپنوں اور غیروں سبھی پر ان کا نیک اثر قائم تھا.خلافت کی ہجرت کے بعد ، پاکستان سے یہاں آنے کے بعد ہمیشہ ہر سال جلسے پر آیا کرتے تھے.گزشتہ دو سال سے نہیں آ رہے تھے تو بڑے جذباتی انداز میں اپنی بے چینی کا اظہار خطوں میں کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اہلیہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور ان کے ایک بیٹے رانا ندیم احمد خالد صاحب نصرت جہاں سیکنڈری سکول کمپالہ میں بطور پرنسپل خدمات سرانجام دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل انٹرنیشنل مورخہ 23 تا 29 جنوری 2009 صفحه 5 تا 8 جلد 16 شماره 4)
خطبات مسرور جلد ہفتم 5 47 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2009ء بمطابق 30 صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشهد وتعوذ ا ر سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ ہر احمدی پر بڑا واضح اور عیاں ہے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت کافی کے حوالہ سے ذکر کیا تھا کہ عشق و محبت کے اس اعلیٰ مقام کی وجہ سے جو آپ کو آنحضرت ﷺ سے تھا، آپ اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیارے بن گئے اور آپ کے بے شمار الہامات جن میں عربی ، اُردو وغیرہ کے الہامات شامل ہیں ، اس بات کی گواہی دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بعض قرآنی آیات کے حصے جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی بتایا تھا آپ کو الہاما بتائے اور جماعت احمدیہ پر طلوع ہونے والا ہر دن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کے الہامات یقینا بچے اور آپ کا دعوی یقینا سچا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا ، خاص طور پر نبوت کا جھوٹ منسوب کرنے والا کبھی بیچ نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے خود یہ اصول قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے.جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الحاقہ کی آیات میں فرماتا ہے وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيلِ.لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ.فَمَا مِنْكُمُ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حجزِينَ (الحاقة : 45-48) یعنی اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم ضرور اسے داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے.پھر ہم یقینا اس کی رگ جان کاٹ ڈالتے.پھر تم میں سے کوئی ایک بھی (ہمیں ) اس سے روکنے والا نہ ہوتا.پس یہ ایک اصولی معیار ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس معیار کو اپنی سچائی کے طور پر پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” صادق کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک اور نشان بھی قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کوفرمایا کہ اگر تو مجھ پر تقول کرے تو میں تیرا داہنا ہاتھ پکڑ لوں.اللہ تعالیٰ پر تقول کرنے والا مفتری فلاح نہیں پاسکتا بلکہ ہلاک ہو جاتا ہے اور اب پچیس سال کے قریب عرصہ گزرا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وحی کو میں شائع کر رہا ہوں.اگر افتراء تھا تو اس تَقَولَ کی پاداش میں ضروری نہ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرتا ؟ بجائے اس کے کہ وہ مجھے پکڑتا اس نے صدہا
خطبات مسرور جلد هفتم 48 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 نشان میری تائید میں ظاہر کئے اور نصرت پر نصرت مجھے دی.کیا مفتریوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا کرتا ہے؟ اور دجالوں کو ایسی ہی نصرت ملا کرتی ہے؟ کچھ تو سوچو.ایسی نظیر کوئی پیش کرو اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہرگز نہ ملے گی“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 89 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " پیغمبر صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تو ایک افتراء مجھ پر باندھتا تو میں تیری رگ گردن کاٹ دیتا.جیسا کہ آیت وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيلِ.لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِين سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں چوبیس سال سے روزانہ افتراء خدا پر ہو اور خدا تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ کو نہ برتے.بدی کرنے میں اور جھوٹ بولنے میں کبھی مداومت اور استقامت نہیں ہوتی.آخر کار انسان دروغ کو چھوڑ ہی دیتا ہے.لیکن کیا میری ہی فطرت ایسی ہو رہی ہے کہ میں چوبیس سال سے اس جھوٹ پر قائم ہوں اور برابر چل رہا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی بالمقابل خاموش ہے اور بالمقابل ہمیشہ تائیدات پر تائیدات کر رہا ہے.پیشگوئی کرنا یا علم غیب سے حصہ پانا کسی ایک معمولی ولی کا بھی کام نہیں.یہ نعمت اس کو عطا ہوتی ہے جو حضرت احدیت مآب میں خاص عزت اور وجاہت رکھتا ہے.“ الله ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 48-47 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا: "اگر کوئی شخص تَقَولُ عَلَى الله کرے تو وہ ہلاک کر دیا جاوے گا.خبر نہیں کیوں اس میں آنحضرت ﷺ ہی کی خصوصیت رکھی جاتی ہے.کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر تَقَولُ عَلَى الله کریں تو ان کو تو گرفت کی جاوے اور اگر کوئی اور کرے تو اس کی پرواہ نہ کی جاوے.نعوذ باللہ اس طرح سے تو امان اٹھ جاتی ہے.صادق اور مفتری میں ما بہ الامتیاز ہی نہیں رہتا.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 468 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ آیات تو صرف آنحضرت کے لئے تھیں.کسی اور کے لئے نہیں تھیں.تو اس کی وضاحت فرمائی کہ کیا صرف اللہ تعالیٰ نے آنحضرت می کو پکڑنا تھا ؟ اور جو چاہے اللہ تعالیٰ کی طرف جو مرضی جھوٹ منسوب کرتا رہے اس کے لئے کوئی پکڑ نہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا معیار رکھا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا.جو معیار خود اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے.پس اس معیار پر ہر بچے کو پر کھنا چاہئے.اسود عنسی یا مسیلمہ کذاب کا انجام تاریخ اسلام میں محفوظ ہے.کیا پھر بھی مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب پر تلے بیٹھے رہیں گے؟ پس اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہنسی ٹھٹھا کرنے سے کم از کم وہ لوگ تو باز رہیں جو اس قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُن لوگوں سے جو نہ صرف مسلمان ہونے کا دعویٰ کر کے بلکہ اس کلام پہ اپنا عبور حاصل کرنے کا دعویٰ کر کے،
49 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اس کی باریکیوں کو سمجھنے کا دعوی کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے کلام کو نہ خود سمجھنا چاہتے ہیں نہ ہی عوام الناس کو سمجھنے دینا چاہتے ہیں ، اس موقع پر بائبل کے حوالے سے بھی یہ ثابت کرتے ہوئے کہ جھوٹا نبی مارا جاتا ہے، یہ بائبل میں بھی ہے، فرماتے ہیں کہ: اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے.اب اس کے مقابل یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا روشن دین جالندھری نے دعوی کیا یا کسی اور شخص نے دعوی کیا اور وہ ہلاک نہ ہوئے یہ ایک دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے.بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے اور تیس (23) برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعوی ثابت کرنا چاہئے اور وہ الہام پیش کرنا چاہئے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہئیں کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے جس کی نسبت یہ ضروری ہے کہ بعض کلمات پیش کر کے یہ کہا جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ہمارے پر نازل ہوا ہے“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "غرض پہلے تو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ کون سا کلام الہی اس شخص نے پیش کیا ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا.پھر بعد اس کے یہ ثبوت دینا چاہئے کہ جو 23 برس تک کلام الہی اس پر نازل ہوتا رہاوہ کیا ہے.یعنی کل وہ کلام جو کلام الہی کے دعوے پر لوگوں کو سنایا گیا ہے پیش کرنا چاہئے جس سے پتہ لگ سکے کہ تئیس (23) برس تک متفرق وقتوں میں وہ کلام اس غرض سے پیش کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا کلام ہے یا ایک مجموعی کتاب کے طور پر قرآن شریف کی طرح اس دعوی سے شائع کیا گیا تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے.جب تک ایسا ثبوت نہ ہوتب تک بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا اور آیت لَوْ تَقَوَّل کو ہنسی ٹھیٹھے میں اڑانا ان شریر لوگوں کا کام ہے جن کو خدا تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں اور صرف زبان سے کلمہ پڑھتے اور باطن میں اسلام سے بھی منکر ہیں.اربعین نمبر 2 روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحه 477 پس مسلمانوں کو سوچنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ یہ معیار ہے.یہ پر کچھ ہے جو ایک بچے اور جھوٹے کی ہے.اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور دشمنوں کے حملوں کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ کے آپ کے لئے کافی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بڑی شان سے ایک جگہ آپ نے پہلے آنحضرت ﷺ کا اور پھر اس کے بعد ساتھ ہی اپنا ذ کر کیا.آپ فرماتے ہیں : یا در ہے پانچ موقعے آنحضرت میلے کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے
خطبات مسرور جلد ہفتم 50 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 معلوم ہوتا تھا.اگر آنجناب در حقیقت خدا کے بچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.ایک تو وہ موقع تھا جب کفار قریش نے آنحضرت ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھالی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے.(2) دوسرا وہ موقع تھا کہ جب کا فرلوگ اس غار پر مع ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت علیے مع حضرت ابو بکر کے چھپے ہوئے تھے.(3) تیسر اوہ نازک موقع تھا جبکہ احد کی لڑائی میں آنحضرت ﷺ اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلوار میں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی.یہ ایک معجزہ تھا.(4) چوتھا وہ موقع تھا جبکہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اس سے محفوظ رکھا).(5) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقع تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت میلہ کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے.پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ در حقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا.“ چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 263-264 حاشیہ) اس کے آگے وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آپ سے بھی تائیدات کا سلوک فرماتا رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’ یہ عجیب بات ہے کہ میرے لئے بھی پانچ موقعے ایسے پیش آئے تھے جن میں عزت اور جان نہایت خطرہ میں پڑ گئی تھی.(1) اول وہ موقع جبکہ میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلاک نے خون کا مقدمہ کیا تھا.(2) دوسرے وہ موقع جبکہ پولیس نے ایک فوجداری مقدمہ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی کچہری میں میرے پر چلایا تھا.(3) تیسرے وہ فوجداری مقدمہ جو ایک شخص کرم الدین نام نے بمقام جہلم میرے پر کیا تھا.(4) وہ فوجداری مقدمہ جو اسی کرم دین نے گورداسپور میں میرے پر کیا تھا.(5) پانچویں جب لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی لی گئی اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگایا تھا تا میں قاتل قرار دیا جاؤں.مگر وہ تمام مقدمات میں نا مرا در ہے.“ چشمه معرفت - روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 263 - حاشیه در حاشیہ) یہ دیکھیں کہ فرمایا کہ اپنے آقا و مطاع کی غلامی میں جو میرا مسیحیت ، نبوت اور مہدویت کا دعوئی ہے.اس کی تائید اللہ تعالیٰ کئی لحاظ سے فرما رہا ہے اور یہ مشابہت کر کے بھی فرماتا ہے.گو آقا کی شان بہت بلند ہے لیکن اس کی غلامی کے صدقے غلام صادق کے لئے ہے بھی اللہ تعالیٰ اپنے کافی ہونے کا ثبوت دیتا ہے.
51 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اس کے علاوہ بعض اور واقعات بھی ہیں.پچھلی دفعہ میں نے کہا تھا وقت نہیں ہے.اس لئے پیش نہیں کئے تھے.اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے آپ کے سامنے خلاصہ رکھتا ہوں.یہی جو ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ کا ذکر ہوا ہے.یہ جماعت کی تاریخ میں بڑا مشہور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ مقدمہ کیا گیا تھا.جس میں ہندو، عیسائی مسلمان سب آپ کے خلاف ایک ہو گئے تھے.اس کی ایک لمبی تفصیل ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی بریت فرمائی.لیکن اللہ تعالیٰ استہزاء کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے یا جو آپ کے استہزاء کی خواہش رکھتے ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے اس مقدمے میں اس کی ایک مثال میں پیش کرتا ہوں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاند کے ساتھ کیا سلوک فرمایا.آپ فرماتے ہیں کہ در حقیقت وہ خدا بڑا زبر دست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے.دشمن کہتا ہے کہ میں اپنے منصوبوں سے ان کو ہلاک کر دوں اور بداندیش ارادہ کرتا ہے کہ میں ان کو کچل ڈالوں مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان! کیا تو میرے ساتھ لڑے گا؟ اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا؟ در حقیقت زمین پر کچھ نہیں ہوسکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا کیا گیا ہے.(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 19) اسی مقدمہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے مخالف کی استہزاء اور سبکی کا سامان کیا جو آپ کی استہزاء چاہتا تھا.آپ فرماتے ہیں کہ ”جب میں صاحب ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں گیا.(اس مقدمے میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پیش ہوا) تو پہلے سے میرے لئے کرسی بچھائی گئی تھی.جب میں حاضر ہوا تو صاحب ضلع نے بڑے لطف اور مہربانی سے اشارہ کیا کہ تا میں کرسی پر بیٹھ جاؤں.تب محمد حسین بٹالوی اور کئی سو آدمی جو میری گرفتاری اور ذلت کے دیکھنے کے لئے آئے تھے ایک حیرت کی حالت میں رہ گئے کہ یہ دن تو اس شخص کی ذلت اور بے عزتی کا سمجھا گیا تھا مگر یہ تو بڑی شفقت اور مہربانی کے ساتھ کرسی پر بٹھایا گیا.فرماتے ہیں کہ ) میں اس وقت خیال کرتا تھا کہ میرے مخالفوں کو یہ عذاب کچھ تھوڑا نہیں کہ وہ اپنی امیدوں کے مخالف عدالت میں میری عزت دیکھ رہے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ اس سے بھی زیادہ ان کو رسوا کرے.سوالیسا اتفاق ہوا کہ سر گر وہ مخالفوں کا محمد حسین بٹالوی جس نے آج تک میری جان اور آبرو پر حملے کئے ہیں، ڈاکٹر کلارک کی گواہی کے لئے آیا تا عدالت کو یقین دلائے کہ یہ شخص ضرور ایسا ہی ہے جس سے امید ہوسکتی ہے کہ کلارک کے قتل کے لئے عبدالحمید کو بھیجا ہو.اور قبل اس کے کہ وہ شہادت دینے کے لئے عدالت کے سامنے آوے ڈاکٹر کلارک نے بخدمت صاحب ڈپٹی کمشنر اس کے لئے بہت
52 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم سفارش کی کہ یہ غیر مقلد مولویوں میں ایک نامی شخص ہے اس کو کرسی ملنی چاہئے مگر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے اس سفارش کو منظور نہ کیا.غالبا محمد حسین کو اس امر کی خبر نہ تھی کہ اس کی کرسی کے لئے پہلے تذکرہ ہو چکا ہے اور کرسی کی درخواست نامنظور ہو چکی ہے اس لئے جب وہ گواہی کے لئے اندر بلایا گیا تو جیسا کہ خشک ملا جاه طلب اور خود نما ہوتے ہیں.آتے ہی بڑی شوخی سے اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے کرسی طلب کی.صاحب موصوف نے فرمایا کہ تجھے عدالت میں کرسی نہیں ملتی اس لئے ہم کرسی نہیں دے سکتے.پھر اس نے دوبارہ کرسی کی لالچ میں بے خود ہو کر عرض کہ مجھے کرسی ملتی ہے اور میرے باپ رحیم بخش کو بھی کرسی ملتی تھی.صاحب بہادر نے فرمایا کہ تو جھوٹا ہے.نہ تجھے کرسی ملتی ہے، نہ تیرے باپ رحیم بخش کوملتی تھی.ہمارے پاس تمہاری کرسی کے لئے کوئی تحریر نہیں.تب محمد حسین نے کہا کہ میرے پاس چٹھیات ہیں.لاٹ صاحب مجھے کرسی دیتے ہیں.یہ جھوٹی بات سن کر صاحب بہادر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ” بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا.اُس وقت مجھے بھی محمد حسین پر رحم آیا کیونکہ اس کی موت کی سی حالت ہو گئی تھی.اگر بدن کا ٹو تو شاید ایک قطرہ لہو کا نہ ہو اور وہ ذلت پہنچی کہ مجھے تمام عمر میں اس کی نظیر یاد نہیں.پس بیچارہ غریب اور خاموش اور ترسان اور لرزان ہو کر پیچھے ہٹ گیا اور سیدھا کھڑا ہو گیا اور پہلے میز کی طرف جھکا ہوا تھا.تب فی الفور مجھے خدا تعالیٰ کا یہ الہام یاد آیا کہ انسى مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ یعنی میں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت چاہتا ہے.یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں.مبارک وہ جوان پر غور کرتے ہیں.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 29-30) اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور الہام بھی ہے.اِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِنِينَ اس کا بھی خوب نظارہ یہاں نظر آتا ہے.وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہانت کی خواہش رکھتا تھا.وہ جو اس مقدمے کے فیصلے کے بعد آپ کی سبکی دیکھنا چاہتا تھا اور استہزاء کا موقع تلاش کرنا چاہتا تھا، وہ خود اس بات کا نشانہ بن گیا.تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی تائیدات.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایک واقعہ ہے جب آپ نے براہین احمدیہ شائع کی ، اس وقت مختلف لوگوں کو اس کی اعانت کے لئے خطوط لکھے تو نواب صدیق حسن خان صاحب جو بڑے عالم تھے اُن کو بھی لکھا.بھوپال کے رہنے والے تھے اور انہوں نے دین کا علم علماء یمن اور ہندوستان سے حاصل کیا ہوا تھا.پھر ریاست بھوپال کی ملازمت اختیار کر لی اور ترقی کرتے کرتے وزارت اور نیابت تک فائز ہو گئے.پھر ان کا نکاح اور شادی والی ریاست نواب شاہجہاں بیگم سے ہو گئی.پھر پوری ریاست کی باگ ڈور اور حکومت ان کے ہاتھ میں آ گئی.حکومت برطانیہ نے اس زمانہ میں انہیں نواب والا جاہ اور امیر الملک اور معتمد المہام کے خطابات سے نوازا تھا.
53 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان خطابات اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے با وجو د اسلام کی تحریری خدمات سرانجام دیتے تھے.بہر حال ان میں کچھ نہ کچھ دین تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بھی انہیں بہت نیک اور متقی سمجھتے تھے.تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ تصنیف فرمائی.اس کا حصہ اوّل آیا تو آپ نے مختلف لوگوں کو اس کی اعانت کے لئے لکھا تھا کہ کتابیں خریدیں تا کہ دوبارہ چھپ سکیں تو ان کو بھی لکھا.پہلے تو انہوں نے اخلاقاً لکھ دیا کہ ٹھیک ہے ہم کچھ کتابیں خرید لیں گے لیکن خاموش ہو گئے.پھر جب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں یاد دہانی کروائی تو انہوں نے جواب دیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خرید نا یا ان میں مدددینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے.اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک الزام لگاتے ہیں کہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے اور خودان کے علماء اور بڑے مشہور عالم انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر کتاب خرید نہیں رہے، جو اسلام کے دفاع کے لئے لکھی گئی تھی.بہر حال حافظ حامد علی صاحب کہتے ہیں کہ جب ان کو پیکٹ بھجوایا گیا تو نہ صرف انہوں نے کتاب خریدی نہیں بلکہ وہ پیکٹ واپس کر دیا اور واپس بھی اس طرح کیا کہ جب انہوں نے وصول کیا تو اس کتاب کو پھاڑا اور وہی پیکٹ واپس کروا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب کتاب کی یہ حالت دیکھی تو آپ کا چہرہ غصہ سے متغیر ہو گیا اور سرخ ہو گیا.یکا یک آپ کی زبان پر یہ جاری ہوا کہ اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کر لو اور یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کی عزت چاک کر دے.پھر آپ نے فرمایا کہ سو ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے.خدا کرے کہ گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی ہو.(ماخوذ از حیات طیبہ صفحہ 51) اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میر عباس علی صاحب کے نام ایک خط لکھا.اس میں بھی آپ لکھتے ہیں کہ ابتداء میں جب یہ کتاب ( براہین احمدیہ ) چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور امدد کے لئے لکھا گیا تھا بلکہ کتا بیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں.سو اس میں سے صرف نواب ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود خان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونا گڑھ نے کچھ مدد کی تھی.دوسروں نے اول توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اس کا ایفاء نہیں کیا.بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا.آپ ان ریاستوں سے ناامیدرہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ “.مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ 538) تو اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کو کس طرح قبول فرمایا کہ کچھ ہی عرصے کے بعد اس نواب صاحب کی جو انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے عزت چاک ہوئی.اسی گورنمنٹ نے نواب
54 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم صاحب پر مختلف الزامات لگا دئے اور ایک تحقیقاتی کمیشن ان پر بٹھایا جس نے یہ نتیجہ نکالا کہ انہوں نے گورنمنٹ انگریزی کے خلاف بغاوت کی ترغیب دی ہے اور دوسرے بہت سارے الزامات تھے اور پھر ان سے جتنے خطابات تھے وہ سب چھین لئے گئے.یہاں تک کہ مسلمان جو ان کو بڑا عالم سمجھتے تھے اور ان کی بڑی عزت افزائی کیا کرتے تھے انہوں نے بھی انگریزی حکومت کو کہا کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہئے یا کیا جائے.تو یہ ان کی عزت کا حال تھا.پھر آخر میں جب بہت مجبور ہو گئے تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں مختلف ذریعوں سے سفارشیں ہوئیں.حضرت مسیح موعود نے دعا کی تو آپ کو پھر الہام ہوا.سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی.بلکہ لیکھرام نے طنزیہ طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی لکھا تھا کہ آپ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کی دعائیں سنتا ہے اور آپ کے ساتھ ہے اور یہ نواب صدیق حسن خان صاحب مسلمان ہیں جو آج کل بڑی بُری حالت میں ہیں اور ان کی بڑی بے عزتی ہو رہی ہے.اگر آپ کی دعائیں اتنی قبول ہوتی ہیں تو ان کے لئے کیوں دعا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بچالے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اس کا تو ایک اور معاملہ ہے لیکن پھر آپ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے ہی عزت بحال کروائی.پھر ایک منشی الہی بخش صاحب اکا ؤنٹنٹ تھے ، یہ شروع میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت زیادہ عقیدتمندوں میں سے تھے اور یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں دبانے کو بھی اپنی عزت سمجھتے تھے.لیکن پھر بعد میں یہ مخالف ہو گئے اور نہایت نازیبا الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف استعمال کرنے شروع کئے.پھر یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کے الہامات محض جھوٹ ہیں اور منشی صاحب خود اپنے الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں اس لئے شائع نہیں کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے خلاف حکومت میں کوئی مقدمہ نہ کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام نے اس پر ان کو یقین دلایا کہ آپ فکر نہ کریں.آپ میرے بارے میں جو بھی الہامات شائع کرنا چاہتے ہیں شائع کریں.جو بھی کہنا چاہتے ہیں کہیں.میں قطعا آپ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں کروں گا اور فرمایا کہ چونکہ مجھے آسمانی فیصلہ مطلوب ہے یعنی یہ مدعا ہے کہ تا لوگ ایسے شخص کو شناخت کر کے جس کا وجود حقیقت میں ان کے لئے مفید ہے، راہ راست پر مقیم ہو جائیں اور تا لوگ ایسے شخص کو شناخت کرلیں جو در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے امام ہے اور ابھی تک یہ کس کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے.صرف خدا کو معلوم ہے یا ان کو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بصیرت دی گئی ہے.اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.(یعنی یہ کہ بابو صاحب اپنے وہ تمام الہامات جو میری تکذیب سے متعلق ہیں شائع کر دیں).پس اگر منشی صاحب کے الہامات در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو وہ الہام جو اُن کو میری نسبت ہوئے ہیں اپنی سچائی کا کوئی کرشمہ ظاہر کریں گے.( یعنی ضرور ان کے بعد میرے پر کوئی تباہی اور ہلاکت الصلوة
خطبات مسرور جلد ہفتم 55 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 آئے گی ) اور اس طرح پر یہ خلقت جو واجب الرحم ہے وہ مُسرف کذاب سے نجات پالے گی“.(یعنی جبکہ بابو صاحب مجھ کو کذاب خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے دعویٰ مسیح موعود کر کے خدا پر افتراء کیا ہے تو میں ہلاک ہو جاؤں گا اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی ایسا امر ہے جو اس بدظنی کے خلاف ہے تو وہ امر روشن ہو جائے گا (یعنی خدا تعالیٰ کے علم میں درحقیقت میں مسیح موعود ہوں تو خدا تعالیٰ میرے لئے گواہی دے گا ) اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ نعوذ باللہ میری طرف سے نہ کوئی آپ پر نائش ہوگی اور نہ کسی قسم کا بے جا حملہ آپ کی وجاہت اور شان پر ہوگا.صرف خدا تعالیٰ سے عقدہ کشائی چاہوں گا ( یعنی یہ چاہوں گا کہ اگر میں مفتری نہیں ہوں اور میرے پر یہ جھوٹا اور ظالمانہ حملہ ہے تو میری بریت اور بابو صاحب کی تکذیب کے لئے خدا آپ کوئی امر نازل کرے) کیونکہ بریت کی خواہش کرنا سنت انبیاء ہے، جیسا کہ حضرت یوسف نے خواہش کی تھی.اس پہ نشی الہی بخش صاحب اکا ؤنٹنٹ نے ایک کتاب 400 صفحات کی لکھی اور اس میں اپنے الہامات درج کئے.جن میں سے بعض یہ ہیں.کہتے ہیں کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ ”تیرے لئے سلام ہے تم غالب ہو جاؤ گے اور اس پر ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ) غضب نازل ہوگا اور وہ ضرور ہلاک ہو جاوے گا“.پھر یہ ہے کہ ”جیسا کہ ہزاروں مخالفین چاہتے ہیں اسی کے موافق مرزا صاحب ہلاک ہو جائیں گئے.پھر لکھتے ہیں ” طاعون نازل ہوگی اور وہ مع اپنی جماعت کے طاعون میں مبتلا ہو جائے گا اور خدا ان ظالموں پر ہلاکت نازل کرے گا.پھر لکھتے ہیں کہ ” جو خدمت مجھ کو سپر دہوئی ہے جب تک پوری نہ ہو تب تک میں ہرگز نہ مروں گا“.تو یہ تھے ان کے الہامات.بہر حال یہ کتاب عصائے موسیٰ، جو انہوں نے لکھی تھی یہ ایک چیلنج تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہامات درج کر کے بھجوایا.لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کوئی بھی الہام جو انہوں نے کسوٹی مقرر کی تھی اس پر بھی پورا نہ اترا اور وہ خود اپنے ایک دوست کے جنازے میں شریک ہوئے.وہیں سے ان کو طاعون کی بیماری لگی.وہ دوست طاعون سے مرا تھا اور 1907ء میں ان کی وفات ہو گئی.اور پھر اخباروں نے یہ لکھا کہ افسوس مصنف عصائے موسیٰ بھی طاعون سے شہید ہو گئے اور طاعون کے گیارہ سال تک حملے ہوتے رہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت اور آپ کے گھر والے اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ رہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ، حضرت مسیح موعود کی جماعت اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور کروڑوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور ان کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں.پھر آپ کے رشتہ دار ، مرزا امام دین اور مرزا نظام دین صاحب وغیرہ جو چا زاد تھے وہ بھی آپ کی دشمنی میں، اسلام کی دشمنی میں ہندوؤں کے ساتھ مل گئے تھے.آنحضرت ﷺ کے بارہ میں بڑی دریدہ دہنی کرتے تھے بلکہ
خطبات مسرور جلد هفتم 56 56 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 لیکھرام کو بھی بلا کر انہوں نے دو مہینے تک رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تنگ کرنے کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے تھے.حضرت مسیح موعود کو ملنے کے لئے جماعت کے جو احباب آتے تھے ان کو روکنے کے لئے انہوں نے راستہ بند کر دیا.ایک دیوار وہاں بنا دی جس سے مسجد کا راستہ بھی رک گیا.آنے والوں کو تکلیف ہوتی تھی لیکن بہر حال کسی طرح نہ مانتے تھے تو یہ ایک واحد مقدمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے کسی مخالف پر کیا.وہ بھی اس لئے کہ جماعت کے افراد کو تکلیف نہ ہو اور اس کے لئے آپ نے دعا بھی بہت کی تو اللہ تعالیٰ نے عربی میں آپ کو اس کی خبر بھی دی، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ چکی پھرے گی اور قضاء وقد رنازل ہوگی.یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کو رد کر سکے کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے.اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی.یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.سو تمہیں اس مقدمے میں کھلی کھلی فتح ہو گی.مگر اس فیصلے میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھی ہے“.( ترجمه از تذکره صفحه 307) (اربعین نمبر 2 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 384) آخر کا رہا وجود اس کے کہ بظاہر وکلاء بھی شروع میں کیس جیتنے کی امید چھوڑ بیٹھے تھے آخر میں ایک ایسا کاغذ ریکارڈ سے مل گیا جس کے بعد اس مقدمہ کا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں ہو گیا اور دیوار گرا دی گئی.بلکہ جج نے اجازت بھی دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اگر چاہیں تو ان پر مقدمہ کریں اور ہر جانے کا دعوی کریں.کیس کا سارا خرچہ ان سے لیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ نہیں کیا لیکن آپ کے وکیل نے وہ مقدمہ کر دیا اور جس دن عدالت کا نوٹس آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دن قادیان سے باہر تھے.جب نوٹس پہنچا تو مرزا امام دین تو فوت ہو چکے تھے، مرزا نظام دین کے پاس آیا اور اس وقت ان کی حالت بری ہو چکی تھی بالکل جیسا کہ الہام میں تھا.ان کا سب کچھ ختم ہو چکا تھا.جو نوٹس آیا 143 روپے یا کچھ اس طرح کی رقم تھی وہ ادا کرنے کی ان کی ہمت نہیں تھی.اس پر انہوں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ کچھ تو خیال رکھیں.آخر ہم آپ کے رشتہ دار ہیں.آپ نے فرمایا میں نے تو مقدمہ نہیں کیا اور وکیل کو بھی کہہ دیا.کہ کوئی ضرورت نہیں اور لکھ کے دے دیا کہ یہ لوگ گو کہ اپنے زعم میں مجھے بے عزت کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اب جبکہ مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا ہے تو جو مقصد تھا ہمارا وہ ہمیں حاصل ہو گیا ہے.ہمیں جگہ مل گئی.اس لئے اب کسی قسم کا کوئی انتقام ان لوگوں سے نہیں لینا.یہ آپ کا اس کے مقابلہ پر کر دار تھا.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نا مرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ درپردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملے
خطبات مسرور جلد ہفتم 57 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 سے اس کو بچاتا ہے.اگر بد قسمتی نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کے ہر ایک حملے کے وقت خدا نے مجھے کو ان کے شر سے بچایا اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے سے خبر بھی دے دی کہ وہ بچائے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 125) پھر آپ فرماتے ہیں: ”یہ عجیب بات ہے کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کا ذب اور مفتری اور دجال تو میں ٹھہر امگر مباہلے کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں.کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط نہی ہو جاتی ہے.؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے پھر ذلت اور رسوائی بھی“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 238) آپ نے فرمایا کہ ہر چند مولویوں کی طرف سے روکیں ہوئیں اور انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ رجوع خلائق نہ ہو یہاں تک کہ ملکہ تک سے بھی فتوے منگوائے گئے اور قریباً 200 مولویوں نے میرے پر کفر کے فتوے دیئے بلکہ واجب القتل ہونے کے بھی فتوے شائع کئے گئے لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامرادر ہے.اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ تم مخالفت کرتے اور میرے ہلاک کرنے کے لئے اس قدر تکلیف اٹھاتے بلکہ میرے مارنے کے لئے خدا ہی کافی تھا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 262 263 آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر، کفایت پر اس قدر یقین تھا جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو ہوتا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو بھی اس انتہا تک ہو سکتا ہے کہ کہیں بھی آپ کو شائبہ تک بھی نہیں.ذہن میں خیال تک نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری فلاں معاملے میں مدد نہیں کرے گا.ہاں دعا ضروری ہے.دعا کی طرف توجہ ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” ایک عرب کی طرف سے ایک خط آیا کہ اگر آپ ایک ہزار روپے مجھے بھیج کر اپنا وکیل یہاں مقرر کر دیویں تو میں آپ کے مشن کی اشاعت کروں گا.( کہ مجھے پیسے بھیجیں اپنا نمائندہ یہاں مقرر کر دیں مشن کی اشاعت کروں گا ).حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو لکھ دو ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں.ایک ہی ہمارا وکیل ہے جو عرصہ بائیس سال سے اشاعت کر رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی کیا ضرورت ہے اور اس نے کہہ بھی رکھا ہے کہ اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 46 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: ” بعض ہمارے معزز دوستوں نے جو دین کی محبت میں مثل عاشق زار پائے جاتے ہیں.بمقتضائے بشریت کے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جس صورت میں لوگوں کا یہ حال ہے تو اتنی بڑی کتاب تالیف کرنا کہ جس کی چھپوائی پر ہزار ہا روپیہ خرچ آتا ہے بے موقع تھا.سو ان کی خدمت والا میں یہ عرض ہے کہ اگر ہم ان
58 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 صد بہادقائق اور حقائق کو نہ لکھتے کہ جو درحقیقت کتاب کے حجم بڑھ جانے کا موجب ہیں تو پھر خود کتاب کی تالیف ہی غیر مفید ہوتی.رہا یہ کہ اس قدر روپیہ کیوں کر میسر آوے گا.سو اس سے تو ہمارے دوست ہم کو مت ڈراویں اور یقین کر کے سمجھیں جو ہم کو اپنے خدائے قادر مطلق اور مولیٰ کریم پر اس سے زیادہ تر بھروسا ہے کہ جو ممسک اور خسیس لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جن کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے سو وہی قادر تو انا اپنے دین اور اپنی وحدانیت اور اپنے بندہ کی حمایت کے لئے آپ مدد کرے گا.اللَمُ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلى كُلّ شَيْ ءٍ قَدِيرٌ ( البقرة: 107 ).(براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 70) یہ چند ایک واقعات میں نے پیش کئے ہیں آپ کی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں جو ہمیں جماعت کی تاریخ میں آپ کی سیرت میں ملتے ہیں.پھر آپ کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے جب بھی آپ کی جماعت کے خلاف کوئی فتنہ اٹھا جماعت کی مددفرمائی.اس کے بدنتائج سے جماعت کو محفوظ رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ سلسلہ قائم فرمایا تھا یہ دنیا کے ہر ملک میں ترقی کرتا چلا جا رہا ہے.بعض ملکوں میں حکومتوں کی پابندیوں کے اور مخالفت کے باوجود آپ کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی ہے.باوجود کئی وسائل کے ، جس کا آج کے دور میں دنیا دار جب دیکھتا ہے تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان وسائل سے کس طرح ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک تو سب سے پہلے انسان کے لئے بے انتہا وسائل چاہئیں.اگر جماعت کا بجٹ دیکھیں تو ہماری جماعت کا ساری دنیا کا جو گل بجٹ ہے بھی وہ دنیا کے بعض دولت مند افراد کی جو سال کی آمد ہے شاید اس سے بھی کم ہی ہو.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان وسائل میں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائے ہیں اتنی برکت عطا فرمائی ہے، اس قدر بڑھا دیا ہے کہ وہ دنیا کو بہت نظر آتے ہیں.جب بھی کسی دنیا دار سے بات کرو تو ان کا یہی تصور ہوتا ہے کہ جماعت شاید مالی لحاظ سے بہت مستحکم ہے اور بے انتہا جائیداد میں اور روپیہ اس کے پاس ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مستحکم ہے.کیونکہ صحیح رقم صحیح جگہ پر خرچ ہوتی ہے.مجھے یاد ہے کہ گزشتہ دورے میں میں بینن کے صدر صاحب سے ملا.آج کل ان کو انویسٹمنٹ کا بڑا شوق ہے کہ میرے ملک میں انویسٹمنٹ کی جائے تو اس لحاظ سے وہ بھی شاید دنیا داری کی نظر سے ملے تھے.پہلا سوال انہوں نے مجھے یہی کیا کہ کتنے ملین ڈالرز کی جماعت یہاں انویسٹمنٹ کرنے والی ہے.تو یہ تو ان لوگوں کے تصور ہیں.اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو ہمارے ساتھ ہے اور ہر کام اور ہر کوشش میں وہ ہی ہماری ہمیشہ کفایت کرتا ہے اور یہ اس زندہ خدا اور اسلام کے زندہ خدا کا نشان ہے جو ہر وقت ظاہر ہوتا ہے اور جماعت احمدیہ کا ہر فر داس کو محسوس کرتا ہے بلکہ پوری دنیا بھی اس کو محسوس کرتی ہے.یہ زمین و آسمان کا وہ مالک خدا ہے جو اپنے بندوں کو جب
59 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دنیا میں دین کی اشاعت کے لئے بھیجتا ہے تو انہیں ہر قسم کی تسلی دلاتا ہے، ہر معاملے میں یہ اعلان کرتا ہے کہ الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.کہیں بھی مشکل آئے تو میں تمہاری مشکلات کو دور کرنے والا ہوں.میں تمہارے لئے کافی ہوں.ان کے دشمن جو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا استہزا کرنا چاہتے ہیں یا استہزاء کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں.ان کے بارہ میں ان پیاروں کو یہ تسلی دلاتا ہے کہ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِئِینَ.پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی اعلان فرماتا ہے کہ وَاللهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ.وَكَفَى بِاللهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللهِ نَصِيرًا (النساء: 46 ) اور اللہ تمہارے دشمنوں کوسب سے زیادہ جانتا ہے اور اللہ دوست ہونے کے لحاظ سے بھی کافی ہے اور اللہ ہی کافی ہے بطور مددگار کے.پس یہ اللہ تعالی کی ، زندہ خدا کی قدرتیں اور مدد اور تائیدات اور نشانات ہیں جو ہر لمحے اور ہر قدم پر ہمیں نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حقیقت میں اس کا حق ادا کرنے والے رہیں تا کہ ہمیشہ ہمیں یہ تائیدات نظر آتی رہیں.یہاں میں ایک اور بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں گزشتہ خطبہ میں بہاء اللہ کا ذکر ہوا تھا.میں نے یہ کہا تھا کہ ایک نبوت کا دعویدارا ٹھا.اصل میں تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ایک دعویدار اٹھا اگر اس کا نبوت کا دعوی مانا جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ نہیں تھیں.یہ کہنا کہ بہائی لٹریچر میں یا بہائیوں میں یہ تصور نہیں ہے کہ وہ نبی تھا تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کی اولاد میں سے ہی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ نبی تھا یا قطب تھایا ولی اللہ تھا اور خدائی کا دعوی اس نے نہیں کیا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہاء اللہ کی اپنی جو شریعت ہے جو شائع نہیں کی گئی، چھپی ہوئی ہے.اس میں اس کے اپنے خدائی کے دعوئی کی باتیں نظر آتی ہیں.اصل میں اس کا نبوت کا دعویٰ بے شک نہیں تھا لیکن کیونکہ ذکر یہ ہور ہا تھا کہ اگر نبوت کا دعوی بھی مان لیا جائے تب بھی اللہ تعالیٰ نے وہ تائیدات نہیں دکھا ئیں کیونکہ آج کل بعض جگہوں پر احمد یوں کو بھی بہائیوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور پھر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں لوگ جھوٹے ہیں.تو اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں لیکن دوسری طرف بہائیوں کے ساتھ کوئی تائیدات نظر نہیں آتیں.اور پھر یہ جو اس کا اصل لٹریچر ہے (اگر دھوکہ نہ دیا جائے تو ) اس میں جو اس نے کتاب لکھی.اپنی شریعت جو اقدس کے نام سے بنائی اس میں تو اس نے اپنے آپ کو الوہیت کا یا خدائی کا دعویدار ہی بنایا.اس لئے نبوت کی بات تو نہیں ہے لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں اور خود اس کے بعض ماننے والے بھی کہ نبی تھا تو تب بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ ہمیں نظر نہیں آر ہیں.لیکن میں اس کے بارہ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ بعض لا علم لوگ ان کے گھیرے میں آجاتے ہیں.افریقہ میں بھی ، پاکستان میں بھی بعض لوگ ہیں.بعض احمد یوں پر بھی بعض اوقات اثر پڑ جاتا ہے تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ بہاء اللہ کا اپنا دعوئی خدائی کا دعوی تھا نہ کہ نبوت کا.اس کا جولٹریچر سامنے آیا ہے اس سے پتہ لگتا ہے اور جو اس کا خاص بیٹا تھا جس کو اس نے اپنا قائم مقام مقر ر کیا.وہ بھی اس کو خدائی کا دعویدار ہی سمجھتا تھا ( خواہ دوسرے بیٹے نہیں بھی سمجھتے ہوں ).بہر حال ان لوگوں کا ایک طریق کار ہے.ایسے لوگوں کو جو لاعلم ہیں یا زیادہ صلح پسند قسم کے ہیں آہستہ آہستہ اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے
60 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہیں اور بے شک پہلے خدائی کا دعوی نہیں بتاتے لیکن پھر آہستہ آہستہ جب پکے ہو جاتے ہیں اور شامل ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے اوپر وہی شریعت لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بہاء اللہ نے اپنے خدا ہونے کے لحاظ سے اپنے اوپر اتاری یعنی انسان بھی ہے اور خدا بھی ہے.شریعت اتارنے والا بھی وہی ہے اور شریعت وصول کرنے والا بھی خود ہی ہے.کیونکہ ان کے بعض لوگ ایسے ہیں بلکہ ان کے بیٹے کا بھی حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے جو فلسطین میں رہے اس کا ذکر کیا ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ ان کا ایک بیٹا وہاں پانچ نمازیں پڑھنے مسجد میں آجایا کرتا تھا جبکہ ان کے نزدیک با جماعت نماز پڑھنا فرض نہیں ہے.بلکہ پانچ نمازوں کی بھی ضرورت نہیں ہے.دو یا تین نمازیں ہیں.پھر عیسائیوں کی ہمدردی کے لئے جس طرح عیسائی یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسی" خدا کا ظہور تھے اور اس لحاظ سے خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے اسی طرح انہوں نے کہا کہ بہاء اللہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور خود مجسم شکل میں اللہ تعالیٰ آ گیا ہے.پھر ان کی ایک تعلیم یہ بھی ہے.ان کے اپنے الفاظ میں، ان کی حالت خدا ہونے کی حالت دیکھ لیں ، ساتھ خدا ہونے کا دعویٰ بھی ہے.بہاء اللہ کیا لکھتے ہیں، کیا کہتے ہیں کہ میں قید خانے میں ہوں، بڑا لمبا عرصہ جیل میں رہے ہیں ، میں ما لک الاسماء ہوں ، میرے بغیر کوئی خدا نہیں.یہ قید خانے میں بیٹھا خدا اور جو مالک الاسماء بھی ہے.پھر آگے لکھتے ہیں کہ سوائے میرے جو تنہا قیدی ہوں کوئی خدا نہیں.پھر لکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی میں مدد کرتار ہوں گا.وہ خدا جو قید خانے میں بھی ہے جس میں کوئی طاقت بھی نہیں ہے.مر بھی جائے گا اور مدد کرتا رہے گا.ایسا خدا ہے جو اپنے آپ کو بھی قید سے نہیں چھڑا اسکا اور اپنے آپ کو موت سے بچا نہیں سکا اس نے دوسروں کی رہائی کے کیا سامان پیدا کرنے ہیں.کسی کے لئے کیا کافی ہونا ہے اور کیا مددکرنی ہے؟.پھر عبدالیہا ء ، جو ان کے خاص جانشین تھے وہ بہائیوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، بڑا گول مول سا جواب ہے.ہوسکتا ہے کوئی مسیحی بہائی ہو یا یہودی بہائی ہو یا فری میسن بہائی ہو یا مسلمان بہائی ہو.یعنی ہر مذہب میں جا کے بہائی بنا جا سکتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں نفوذ اس طرح کرو کہ آہستہ آہستہ پہلے ان کی تعلیم کے مطابق ، ہر مذہب کی اپنی تعلیم کے مطابق ان کو بہاء اللہ کے قریب لانے کے لئے قائل کرو.جب وہ پکے ہو جائیں تو پھر اس کی الوہیت اور خدا ہونے کا دعویٰ ان تک پہنچاؤ.پھر یہ بھی دیکھیں.عجیب خدائی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب انبیاء کو بھیجتا ہے تو یہ فرماتا ہے کہ یہ میرا پیغام ہے دنیا کو پہنچا دو.جس قوم کے لئے بھیجا گیا ہے اس قوم کو پہنچا دو.آنحضرت کو بھیجا تو فرمایا کہ تمام دنیا تک یہ پیغام پہنچا دو.آپ کے نائب ، عاشق صادق، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تو فرمایا کہ تمام دنیا تک میرا پیغام پہنچا دو.لیکن یہ کہتے ہیں کہ یہ پیغام نہیں پہنچانا چاہئے.بہائیوں نے خود یہ لکھا ہے کہ بہاء اللہ نے ان ممالک میں تبلیغ کرنا حرام قرار دیا ہے.کچھ مدت بکلی خاموشی اختیار کریں.اگر کوئی سوال کرے تو کامل بے خبری کا اظہار کریں.فلسطین وغیرہ میں یہ لوگ بڑی خاموشی سے کام کرتے ہیں.پھر ہر مزاج کے آدمی کے لحاظ سے ان کی تبلیغ ہو رہی ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ مسیحی بہائی ہے،
61 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہودی بہائی ہے، مسلمان بہائی ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے لکھا کہ ایک انگریز عورت جو بہائی ہوگئی تھی اپنی ایرانی دوست کے ساتھ آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ قرآن کریم تو کامل شریعت لے کر آیا ہے.کون سی نئی بات ہے جو تمہیں بہاء اللہ نے بتائی ہے.اس نے کہا کہ شریعت تو کامل نہیں ہے کیونکہ یہ تو فطرت کے خلاف ہے کہ مرد چار شادیاں کر ہے.مغرب میں چار شادیوں پر بڑا اعتراض ہوتا ہے نا.تو بہاء اللہ نے کہا ہے کہ ایک شادی کرو.تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن بہاء اللہ نے خود تو دوشایاں کی ہوئی تھیں.بعض کہتے ہیں تین شادیاں کی تھیں.تو اس نے کہا کہ نہیں وہ تو دعوئی سے پہلے تھی.تو حضرت خلیفہ ثانی نے کہا کہ اچھا خدا ہے جس کو یہ بھی نہیں پتا کہ میں نے دعوی کر کے کیا شریعت بنانی ہے اور پہلے ہی کر لیں.پھر چلو وہ پہلے کر لی تھیں.مگر اپنے بیٹے کی دوشادیاں کروائیں وہ کیوں کروائیں؟ اس نے اپنی ایرانی سہیلی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہاں اس طرح تھا.دوشادیاں ہوئی تھیں.کہتے ہیں میں نے اس سے کہا پھر اب بتاؤ.تو وہ ایرانی کہتی کہ دوسری کو تو اس نے بہن بنالیا تھا.حضرت مصلح موعوددؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے سوال کیا کہ اچھا بہن بنالیا تھا تو پھر اس سے اولاد کیوں پیدا ہوئی؟ کیا بہن سے اولاد پیدا ہوتی ہے؟ اس پر ساری مجلس نے جب اس کی طرف دیکھا تو بیچاری بہت شرمندہ ہوئی.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد سوم صفحه 477 مطبوعه ربوہ) تو یہ تو ان کے دعوے ہوتے ہیں.ہمیشہ یادرکھیں اور بچتے رہیں.یہ بڑی خاموشی سے حملہ کرتے ہیں.اور اپنی شریعت کو تو انہوں نے بتایا ہے کہ یہ شائع کی اور چھپا کے رکھی ہوئی ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ اس کو ظاہر نہیں کرنا.اللہ تعالیٰ نبیوں کے بارے میں تو یہ فرماتا ہے کہ جب وہ جھوٹا دعوی کریں اور میرے پر الزام لگا ئیں کہ میں نے بھیجا ہے، میرا کلام اترا ہے تو میں ان کو پکڑتا ہوں.رگ جان سے پکڑ لیتا ہوں لیکن جو خدائی کا دعوی کرنے والے ہیں ان کے بارہ میں یہ نہیں فرمایا کہ میں ان کو پکڑوں گا اس دنیا میں تباہ کروں گا.فرمایا کہ وَمَنْ يَّقُلُ مِنْهُمْ إِنِّى إِلَة مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِئُ الظَّالِمِينَ (الانبیاء: 30) کہ جو بھی ان میں سے یہ کہے کہ میں خدا کے سوا معبود ہوں تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور ظالموں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے خدائی کا دعوی کرنے والوں کے لئے یہ جز امر نے کے بعد رکھی ہے.پس اللہ تعالیٰ جہاں سچے نبیوں کی تائید و نصرت فرماتا ہے.ان کے لئے نشانات دکھاتا ہے.جھوٹے نبیوں کو یا جھوٹے دعوے کرنے والوں کو پکڑتا ہے.اس دنیا میں جھوٹے دعویداروں کو رسوا کرتا ہے.وہاں مدعیان الوہیت ہیں یا جو خدا کا دعویٰ کرنے والے ہیں.ان کے لئے اس کا فیصلہ مرنے کے بعد ہے.جہنم کی آگ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی موحد ب موحد بننے اور اپنے بھیجے ہوئے فرستادہ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھے اور اپنا قرب حاصل کرنے والا بنا تا چلا جائے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 7 مورخہ 13 فروری تا 19 فروری 2009 صفحہ 5 تا صفحه 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 6 62 خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2009 فرمودہ مورخہ 6 فروری 2009ء بمطابق 6 تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام الْهَادِی“ ہے.عربی کی لغت کی کتاب لِسَانُ الْعَرَب میں یہ معنی بھی لکھے ہیں کہ وہ ذات جو اپنے بندوں کو اپنی معرفت اور پہچان کے طریق دکھائے یہاں تک کہ وہ اس کی ربوبیت کا اقرار کرنے لگیں.یہ طریق اللہ تعالیٰ کس طرح دکھاتا ہے، کیا حالات ہوتے ہیں جب دکھاتا ہے؟ یہ اُس وقت دکھاتا ہے جب بندے خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے انکاری ہوتے ہیں.اس انکار کے بھی مختلف طریقے ہیں.کبھی بندے کو خدا بنالیا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی کو بنایا ہوا ہے.کبھی انسان طاقت کے زور پر خود خدا بن جاتے ہیں.جیسے پرانے انبیاء کے زمانے میں ہوتے رہے.فرعون نے بھی یہی کیا.یا اس زمانے میں بھی کوئی اپنے آپ کو خدا کہتا ہے یا خدا تعالیٰ کا اس دنیا میں جسمانی مظہر قرار دیتا ہے.اپنی قبر کو سجدے کرنے کے لئے کہتا ہے.یا پھر دنیا داری میں بڑی طاقتیں اپنے آپ کو لازوال قوتوں کا مالک سمجھتی ہیں اور اس لحاظ سے رب بنی بیٹھی ہیں.غرض اُس وقت دنیا میں ایک ایسے فساد کی حالت ہوتی ہے جس میں فسادات کا بظاہر نہ ختم ہونے والا ایک لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے.اُس وقت پھر خدا تعالیٰ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے اور دنیا کو بتاتا ہے کہ وہ رب العالمین ہے.اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قول رب العالمین میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین پر ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے.اور اس زمین پر جو ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور خطا کار گر وہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں.کبھی گمراہی ، کفر فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا عالم بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر جاتی ہے اور لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور نہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں.نہ یہ سمجھتے ہیں کہ بندے کی کیا حیثیت ہے.نہ یہ پہچان رہتی ہے کہ ان کے رب کا کیا مقام ہے.فرماتے ہیں کہ ” زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے.فرماتے ہیں کہ تب خدائے رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے تا کہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 63 خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2009 ) وہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے اور یہ دونوں (رحمانی اور شیطانی لشکر برسر پیکار رہتے ہیں اور ان کو وہی دیکھتا ہے جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہوں یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امور باطلہ کی سراب نما دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں.پس وہ امام دشمنوں پر ہمیشہ غالب اور ہدایت یافتہ گروہ کا مددگار رہتا ہے.ترجمہ اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 131 تا 133 تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 92-93) پس یہ ہے ہادی خدا ، جو ہدایت کے راستوں کی طرف لانے کے لئے اپنی صفت ربوبیت کو بھی حرکت میں لاتا ہے.لیکن جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ غلبے کے اثرات دشمنوں پر اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ گروہ کی مدد فرماتا ہے اور جو فساد پیدا کرنے والے لوگ ہیں ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روک دیتا ہے بلکہ ان طاقتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانے میں دیکھ لیں.کہاں عیسائیت کی یلغار تھی کہ عیسائیت دنیا میں ہر جگہ کامیابیوں سے میدان مارتی چلی جارہی تھی.یہاں تک کہ ہندوستان کے جو مسلمان تھے وہ بھی اس کی لپیٹ میں آ کر دھڑادھڑ عیسائیت قبول کر رہے تھے.ہندوستان میں عیسائیت کے غلبے کے خواب عیسائی مشنریز دیکھ رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے نہ صرف وہاں ہندوستان میں ان کے قدم روک دئے بلکہ پسپائی پر مجبور کر دیا.بلکہ افریقہ جو ان دنوں عیسائی مشنریز کے نزدیک ان کی مٹھی میں تھا اس کے متعلق بھی ان کو یہ کہنا پڑا کہ احمدیت نہ صرف یہاں ہماری ترقی کی رفتار روک رہی ہے بلکہ ہمارے قدم اکھاڑ دیئے ہیں.تو اس طرح اللہ تعالیٰ ہدایت کے راستوں پر چلانے کے لئے اپنی ربوبیت کا اظہار فرماتے ہوئے اپنے امام کو بھیجتا ہے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ ان کو وہی دیکھتا ہے جن کو دو آنکھیں عطا کی گئیں.وہی امام کو قبول کرتا ہے جس کی صرف دنیا کی آنکھ نہ ہو.جو صرف دنیاوی چیزوں پر ہی منہ مارنے والا نہ ہو بلکہ دین کا بھی در در کھنے والا ہو، اس کی دین کی آنکھ ہو.بڑے بڑے مسلمان علماء جو دین کا علم رکھنے کا دعوئی رکھتے ہیں ، حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں اندھے ہو کر اس علم کو جو انہوں نے حاصل کیا ہوتا ہے غلط راستے پر لے جاتے ہیں اور پھر اپنے اس علم کی بنا پر مسلم امہ کو بھی گمراہ کر رہے ہوتے ہیں.حالانکہ دوسری طرف اس زمانے کے علماء بھی یہی مانتے ہیں ( جس کی تفصیل میں پرانے خطبوں میں بیان کر چکا ہوں ) کہ اسلام میں، دین میں، مسلمانوں میں بگاڑ کی انتہا ہو چکی ہے.مسلمانوں میں دین نام کا رہ گیا ہے اور خلافت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں.لیکن خلافت کی جو پہلی کڑی ہے اس کے بارہ میں اب انہوں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے اور وہ ہے مسیح و مہدی کا آنا.اس کے بعد ہی پھر خلافت قائم ہو سکتی ہے.لیکن اس کے لئے ابھی تک اس نظریہ پر ہی قائم ہیں کہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور وہ آئیں گے.پھر مہدی کے ساتھ مل کر دین پھیلے گا.حدیثوں کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی سوچ بنائی ہوئی ہے.جو بھی ہو ، جب تک نبوت کو
64 خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم نہیں مانتے خلافت آنہیں سکتی اور پھر نتیجہ وہی حال رہے گا جس کا یہ اکثر شکوہ کرتے رہتے ہیں.وقتاً فوقتاً اخباروں میں بھی آتا رہتا ہے.کالم لکھنے والے بھی لکھتے ہیں.علماء اپنی تقریروں میں بھی کہتے رہتے ہیں کہ اس اُمت میں سے اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بھیجنا ہے اور اس کے لئے دعا بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں سکھائی ہے.اگر پھر بھی نہ مانیں اور دعائیں بھی کرتے چلے جائیں تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے تو ایک راستہ سکھا دیا ہے کہ یہ دعا کرو اور سنجیدگی سے کرو تو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا.اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: نبوت محمد یہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا.اور جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو.اللہ تعالیٰ کا بندے کے ساتھ جو کلام ہے اس کا معیار اتنا اعلیٰ ہو جاتا ہے کہ کوئی گندگی اور کوئی کبھی اس میں باقی نہ رہے.اور کھلے طور پر امور غیبیہ پرمشتمل ہوں اور بالکل ظاہر طور پر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو غیب کی باتیں بھی بتا رہا ہو.فرماتے ہیں کہ تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا جو کلام ہے.بندے کا جو باتیں کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کا جو بندے کو مخاطب کرنا ہے.غیب کی جو باتیں سنانا ہے، یہ جب انتہاء تک پہنچ جائے تو اسی کا نام نبوت ہے.جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.پس یہ مکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران: 111) کہ تم وہ امت ہو کہ جولوگوں میں سے بہترین امت قرار دی گئی ہے ) اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحہ : 6-7 ) ان کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ امت محمد یہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کے طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت ﷺ کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہر تی تھی اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھا تعلیم کیا گیا تھا.اس کا سکھلانا بھی عبث ٹھہرتا تھا.“ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ صفحہ 311-12) ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو.دوسری طرف یہ دعا سکھائی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سیدھے راستے پر چلاتا رہے اور ان لوگوں کے راستے پر جن پر انعام کیا.اور انعامات کیا ہیں؟ نبوت ہے، صدیقیت ہے،شہید ہونا ہے، صالح ہونا ہے.فرمایا
خطبات مسرور جلد ہفتم 65 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 فروری 2009 کہ ایک طرف تو یہ دعائیں سکھائی گئی ہیں.ایک طرف تو یہ کہا گیا ہے کہ تم بہترین امت ہو.اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی امت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جس کو نبوت کا یہ مقام مل سکے.اللہ تعالیٰ غیب کی خبریں اس کو دے اور اس سے باتیں کرے.گویا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی یہ دعا جو ہم پانچ وقت نمازوں میں کئی بار پڑھتے ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی مسلمان رہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے یہ دعا کر رہا ہے لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ اسے قبول نہیں کر رہا.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کئی لوگوں کو کہا کہ یہ دعا پڑھو.اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.اور جن کو اللہ تعالیٰ نے ، یہ کہنے میں تو کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمائے اور پھر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُن کی صحیح راہنمائی فرمائی.پس اپنی ذات سے باہر نکل کر، اپنی سوچوں سے باہر نکل کر اور اپنے او پر جو خول چڑھایا ہوا ہے اس سے باہر نکل کر اپنے ذہنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عناد سے پاک کر کے دعا مانگی جائے گی تو پھر اللہ تعالی را ہنمائی بھی فرمائے گا.یہ تو خدا تعالیٰ کو الزام دینے والی بات ہے کہ ایک طرف وہ کہے کہ میرے سے دعا مانگو میں قبول کروں گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن (61) اور تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو، ہمیں تمہاری دعاسنوں گا.اور پھر دعانہ سنے.ہماری دنیاوی معاملات کی دعا ئیں تو ہم ہر روز کہتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سن لیں ، قبول ہو گئیں.ہمیں یہ مل گیا.ہمیں وہ مل گیا.لیکن انسان کی اپنی روحانی بہتری کے لئے کی جانے والی دعا ئیں جو اللہ تعالیٰ نے خود سکھائی ہیں وہ نہ سنے.ایک طرف تو یہ حکم ہے کہ میرے سے اپنی ہدایت کے لئے دعا مانگو.اور اس حالت میں جبکہ دین کو ایک ہادی کی ضرورت ہے تو انسان پر خاص طور پر دعامانگنے کی اضطراری کیفیت طاری ہوتی ہے (جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں میں نے بتایا ).پس اللہ تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلا کر یہ دعا مانگی جائے کہ تو ایسی حالت میں ہادی بھیجتا ہے اور پھر خود ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی کہہ دے کہ باقی دعائیں تو قبول لیکن یہ دعا قبول نہیں ہوگی.تو یہ اللہ تعالیٰ پر الزام ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پہ الزام ہے.امت مسلمہ کی کسمپرسی کی جو حالت ہے وہ بڑھتی چلی جا رہی ہے.اس میں تو شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ کہے کہ ٹھیک ہے.یہ تو میری وہ امت ہے جو أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، خیر امت ہے لیکن اس کی کسمپرسی کی حالت بھی بہت بڑھ گئی ہے.تو بے شک بڑھتی رہے، بے شک یہ شور اٹھتار ہے کہ نہ دین باقی رہا اور نہ ایمان باقی رہا.لیکن میں تمہاری یہ دعا قبول نہیں کروں گا کہ ہادی بھیجوں جو تمہاری، دین کی راہنمائی فرمائے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کہے کہ بے شک تم اپنی ناکیں رگڑتے رہو میں تو اب تمہاری ہدایت کا کوئی سامان کرنے والا نہیں ہوں.جو میں نے کرنا تھا وہ کر دیا.اب ہدایت کے راستے سب ختم ہو گئے.ہاں یہ ضرور ہے جس کا اعلان بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چاہے دعا کرتے اور اپنی ناکیں رگڑتے
66 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 فروری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ہوئے تمہاری زندگیاں ختم ہو جائیں.تمہاری اولادوں کی زندگیاں ختم ہو جا ئیں اور اولاد در اولاد کی زندگیاں ختم ہو جائیں کہ اب میرے علاوہ کوئی ہادی اور مسیح آ جائے تب بھی اب کوئی مسیح موعود نہیں آئے گا، کوئی مہدی نہیں آئے گا.جو آنے ولا تھا وہ آچکا.اب اس کو مانے بغیر کوئی چارا نہیں ہے.پس مسلمانوں کو اپنی حالتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے.احمدیوں پر ظلم کرنے کی بجائے نیک نیتی سے خدا تعالیٰ سے ہدایت طلب کرنے کی ضرورت ہے.احمدیوں پر ہر روز مختلف جگہوں پر کوئی نہ کوئی نیا ظلم ہوتا رہتا ہے.کوئی نہ کوئی نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں.کسی نہ کسی طریقے سے تکلیف پہنچا کر یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس ذریعہ سے شاید کچھ لوگ احمدیت چھوڑ جائیں.احمدیت ختم تو ہو نہیں سکتی یہ تو وہ دیکھ چکے ہیں.اب انہوں نے ایک نیا حربہ گزشتہ دنوں بچوں کو دہشت زدہ کرنے کا کیا.14 سے 16 سال تک کے لڑکے، سکول کے بچے تھے.ان پر یہ الزام ہے کہ نعوذ باللہ انہوں نے ٹائیلٹ میں یا بعض گندی جگہوں پر محمد کا نام لکھ کر آنحضرت ﷺ کی ہتک کی ہے.یہ لوگ خود تو روحانی بینائی سے محروم ہیں مگر الزام احمد یوں پر دیتے ہیں.ایسی حرکتیں تو یہ لوگ کر سکتے ہیں جن کی روحانی بینائی نہیں ہے.جن کو آنحضرت مہ کے مقام کا علم نہیں ہے.یہ تو 14-15 سال کے بچے ہیں، احمدی چھوٹا بچہ بھی کبھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا.ہمیں تو آنے والے مسیح و مہدی نے عشق رسول عربی میے کے وہ راستے دکھائے ہیں، وہ تعلیم دی ہے جس تک ان لوگوں کی سوچیں بھی نہیں پہنچ سکتیں.بہر حال اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو جو دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے ہیں عقل دے کہ وہ احمدیوں کو ظلم کا نشانہ بنانے سے باز رہیں اور ہدایت کی راہ تلاش کرنے کے لئے عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں.یہاں ایک اور وضاحت بھی میں کرنا چاہتا ہوں.گزشتہ دنوں لجنہ کا ریفریشر کورس تھا، وہاں کسی نے سوال کیا کہ غیر احمدی کہتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کو نبی نہ کہو تو پھر ہم مان لیتے ہیں.پہلی بات تو یہ کہ یہ ایسے بھولے احمدیوں کی جو اُن کی باتوں میں آ جاتے ہیں غلط نہی ہے کہ وہ مان لیں گے، شاید مخالفت تو کم کر دیں لیکن جنہوں نے نہیں ماننا انہیں کبھی بھی جرات پیدا نہیں ہوگی کہ وہ مانیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ نبی کی جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اپنے ایک اقتباس میں کی ہے.اس کی رو سے آپ نبی ہیں اور آپ نے اور مختلف جگہوں پر بھی اپنے آپ کو نبی کہا ہے.اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے سے کثرت سے کلام کرتا ہے ، اس سے مخاطب ہوتا ہے، غیب کی باتیں بتا تا ہے تو اس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نبوت ہے اور یہی باتیں تمام سابقہ انبیاء نے بتائی ہیں.اگر یہ رد کرنے لگیں تو پھر اگلا قدم یہ ہوگا کہ یہ بھی نہ کہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوتا ہے.تو پھر یہ بات بھی ان کی ماننی پڑے گی.پھر کسی اور بات کو ر ڈ کرنے کا ان کا مطالبہ ہوگا.کیونکہ جب ایک دفعہ آر
67 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2009 اصل چیز سے ہٹ جائیں گے اور کمزوری دکھانے لگیں گے تو پھر اپنے ایمان کو بھی کمزور کرتے چلے جائیں گے.تو کیا ہم تعداد بڑھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے اور اللہ اور رسول ﷺ کی پیشگوئیوں کے الٹ کوئی نیا مہدی اور مسیح پیش کرنے کی کوشش کریں گے؟.جس طرح کہ مطالبہ کیا جاتا ہے اور یہ مطالبہ مختلف جگہوں پر یہاں بھی ، پاکستان میں بھی ہو رہا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کام نبوت کا دعویٰ ختم ہو جائے تو مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ بھی ختم ہو جاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ خبردار رہو کہ عیسی بن مریم یعنی مسیح موعود اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں.لمعجم الصغر لطبرانی من اسمه عیسی صفحہ 256 دارالکتب العلمیة بیروت لبنان) پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور مثیل مسیح آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ہی پیدا ہونا ہے تو ظاہر ہے پھر اس حدیث کی رو سے وہ نبی اللہ ہی ہے.یا تو یہ کہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں وہ بعد میں آئیں گے.تو ایک دفعہ جب نبی کا انکار کریں گے تو پھر اگلی بات یہی ہوگی نا کہ پھر عیسی علیہ السلام اپنے وقت پر آئیں گے اور وہ نبی ہوں گے.اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ بات تسلیم کر لیں گے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی زندہ ہیں.جس طرح میں نے کہا کہ ایک بات سے دوسری بات پھر آپ لوگ رو کرتے چلے جائیں گے.بہر حال جو احمدی پورا علم نہیں رکھتے ان پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ اگر ایک بات کا انکار کریں گے تو دوسرے دعوے کا بھی انکار کرنے پڑے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کومسیح موعود کہنے سے بھی رکنا پڑے گا جیسا کہ میں نے کہا.پھر غیر احمدیوں کی طرح اس عقیدہ پر بھی قائم ہونا پڑے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور وہ زمین پر اتریں گے.گو کہ حدیثوں کی رو سے جو وقت ہے وہ بھی اب گزر چکا ہے.اس لئے بغیر خوف کے، بغیر کسی قسم کے احساس کمتری کے وہ بتائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ ہے اور جس کا آنحضرت ﷺ نے اعلان فرمایا ہے.آنحضرت ﷺ نے عیسی بن مریم ، آنے والے مسیح کو نبی کہا ہے کیونکہ احمدیوں کو تو یہ خوشخبری ہے کہ سچائی کے نور سے دوسروں کا منہ بند کریں گے تو پھر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر ایک جگہ سورۃ فاتحہ کی آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: چھٹی آیت اس سورۃ کی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو.تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 284 حاشیہ) اب یہ چھٹا ہزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.ہادی کو وہ طلب بھی کر رہے ہیں لیکن جس کی
خطبات مسرور جلد هفتم 68 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 فروری 2009 پوری شان سے زمین اور آسمان نے تائید کی ہے اسے قبول نہیں کرنا چاہتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس کی رو سے کہ سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سوں کی سلیم فطرت یا سعید فطرت نہیں ہے.جب یہ لوگ سلیم فطرت نہیں ہیں، مانا نہیں چاہتے تو کیا ان کو خوش کرنے کے لئے ، ان کی خاطر، ہم بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانے کی توفیق دی اس دعوی کا انکار کر دیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خطبہ الہامیہ میں ایک جگہ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: خدا کی قسم قرآن شریف میں جو تمام اختلافوں کا فیصلہ کرنے والا ہے، کہیں ذکر نہیں ہے کہ خاتم الخلفاء سلسلہ محمدیہ کا موسوی سلسلے سے آئے گا.اس کی پیروی مت کرو کہ کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ہے بلکہ برخلاف اس کے تم کو دلیل دی گئی ہے.اور کلمات متفرقہ اپنے منہ سے نہ نکالو کہ وہ کلمات اس تیر کی طرح ہیں جو اندھیرے میں چلایا جائے اور یہ وعدہ جو مذکور ہوا سچا وعدہ ہے اور تم کو کوئی دھوکہ نہ دے.اور سورۃ فاتحہ میں دوسری بار اس وعدہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور یہ آیت سورة فاتحہ یعنی صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اپنی نمازوں میں پڑھتے ہو پھر حیلہ و بہانہ اختیار کرتے ہو اور حجت الہی کے رفع دفع کے لئے مشورے کرتے ہو.تمہیں کیا ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے فرمودہ کو اپنے پیروں میں روندتے ہو؟ کیا ایک دن تم نہیں مرو گے یا کوئی تم کو نہیں پوچھے گا؟.“ خطبہ الہامیہ صفحہ 63-64 - روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 109-110) یہ تو بیان غیروں کے لئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کشتی نوح میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی ایک خوبصورت تفسیر کرتے ہوئے یہ ثابت فرماتے ہیں کہ اس آیت میں محمدی سلسلے سے ہی مسیح و مہدی کے آنے کی پیشگوئی ثابت ہوتی ہے.فرماتے ہیں کہ: نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد ہے اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا.کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا.جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ (14)
69 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس یہ ہے اسلام کا اور آنحضرت ﷺ کا سب دینوں اور نبیوں سے افضل ہونا کہ اب قیامت تک آنحضرت ملے کا ہی شرعی اور روحانی فیض جاری رہنا ہے اور مسیح موعود بھی آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ہی آنا ہے اور آیا ہے اور مہدی بھی اسی اُمت میں سے ہے.یہ کوئی الگ الگ دو شخصیتیں نہیں ہیں.ایک حدیث کی رو سے یہ دونوں ایک ہی دوخت ہیں جیسا کہ میں نے کہا.پس آپ کو نبی مانے اور قبول کئے بغیر اب کوئی چارا نہیں ہے.اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ سے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ تم آنے والے امام کو مان لو.گویا اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے.چنانچہ آپ ضرورۃ الامام میں فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف نے جیسا کہ جسمانی تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیر حکم ہو کر چلیں.یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھلاتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ کہ جس طرح ایک دنیا وی نظام ایک لیڈر کو چاہتا ہے، ایک بادشاہ کو چاہتا ہے ، حکومت کو چاہتا ہے، اسی طرح ایک روحانی نظام ہے.اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے.اس روحانی نظام کو چلانے کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - - فرمایا کہ " پس سوچنا چاہئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان بلکہ کوئی حیوان بھی خدا تعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں.مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے.لہذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر نعمت روحانی کی بارش ہوئی ہے، ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تاہم ان کی پیروی کریں.ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 494) یہ جانوروں کے لئے تو نہیں ، نہ کسی اور مخلوق کے لئے یہ دعا ہے.فرماتے ہیں کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اس نعمت کی بارش ہوئی جو اپنے کمال کو پہنچی ، جو اپنی انتہا کو پہنچی ، ان کی راہوں پر چلنے کی ہمیں توفیق بخش.یہ دعا ہمیں یہ سکھاتی ہے تا کہ ہم اس کی پیروی کریں).سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ساتھ ہو جاؤ.یادر ہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی ، رسول، محدث، مجد دسب داخل ہیں مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کے لئے مامور نہیں ہوئے ( یعنی جن کو اللہ تعالیٰ صحیح راستے پر چلانے کے لئے مخلوق کی ہدایت کے لئے خود مامور نہیں کرتا ).اور نہ وہ کمالات ان کو دیئے گئے.وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں ( ولی اللہ ہوں یا بہت نیک ہوں ، تب بھی وہ امام الزمان نہیں کہلا سکتے“.ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 494-495) امام الزمان وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امام الزمان کا خطاب دیا ہے.
70 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 فروری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اس اقتباس میں یہ بات بھی واضح فرما دی کہ ولی ہونا اور ابدال میں شامل ہونا امامت کا درجہ نہیں رکھتا.نیکیوں کی انتہا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے بہت قریب پہنچ جانے سے بھی امامت کا درجہ نہیں مل جاتا جب تک اللہ تعالیٰ خود نہ عطا فرمائے.امام الزمان وہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہو.اور اس زمانہ کے امام تو وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود کر کے بھیجا ہے.اور پھر اس کے ساتھ یہ ہی نہیں کہ کہہ دیا اور دعویٰ کرنے والے نے دعویٰ کر لیا بلکہ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبوں میں بتایا تھا کہ اس کے ساتھ زمینی اور آسمانی تائیدات بھی شامل ہیں.پس یہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا نہ صرف مسلمانوں کے لئے ہدایت ہے بلکہ ہر مذہب والا چاہے وہ عیسائی ہے، یہودی ہے ، ہندو ہے، اگر نیک نیتی سے دعا کرے جیسا کہ میں نے بتایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ میں نے کئی غیر مسلموں کو بھی اس دعا پر غور کرنے کے لئے کہا کہ اس دعا پر غور کرنے میں تو کوئی حرج نہیں.یہ کوئی ایسی دعا تو نہیں ہے کہ جس پر کہا جائے کہ صرف مسلمان کر سکتا ہے.ایک ایسی دعا ہے جس سے ہر شخص راضی ہو سکتا ہے چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو.حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ میں نے یہ کہا اور پھر کئی غیر مسلم نے بھی یہ دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی.انہوں نے خوابیں دیکھیں اور احمدیت قبول کی.پس اگر غیر مسلموں کی راہنمائی اللہ تعالیٰ اس دعا کے ساتھ فرماسکتا ہے تو مسلمانوں کی راہنمائی کیوں نہیں فرما سکتا.ظاہر ہے کہ صرف یہی وجہ ہے کہ نیک نیت نہیں ہیں.بڑے بڑے پڑھے لکھے عالم ہیں.بظاہر نمازوں کے پابند لیکن ہدایت سے محروم.پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل کرنے کے لئے صاف دل ہو کر اس کی طرف قدم بڑھانا بھی ضروری ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.گزشتہ دنوں ایم ٹی اے پر امام صاحب اور مومن صاحب، آصف باسط صاحب وغیرہ پرسی کیوشن (Persecution) پر پروگرام کر رہے تھے.ایک غیر از جماعت عالم جو امریکہ میں رہتے ہیں وہ بھی ان دنوں میں یہاں آئے ہوئے تھے.انہوں نے ایم ٹی اے کو فون کیا کہ میں نے یہ پروگرام سنا ہے.آپ نے بعض احادیث بھی غلط پڑھی ہیں.اور بھی کچھ باتیں ہیں جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں تو ہمارا آدمی یہاں سے گیا.ان کی ساری باتیں جو بھی کہنا چاہتے تھے ریکارڈ کر کے لے آیا.بہر حال احمدیت کی دشمنی میں یہ بہت ساری باتیں ہیں اس کا جو تفصیلی جواب ہے وہ تو اسی پروگرام میں ان کے سوالوں کے حساب سے دوبارہ پیش ہو گا لیکن ایک بات جو انہوں نے کی ہے وہ بات عموماً غیر از جماعت کہتے رہتے ہیں کہ احمدی رفع کے جو معنی کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کا روحانی طور پر رفع
خطبات مسرور جلد ہفتم 71 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 فروری 2009 ہوا، اس کے یہ معنی نہیں ہیں بلکہ جسمانی رفع ہے.خیر یہ تو عام بات ہے.سب غیر احمدی یہی کہتے ہیں.لیکن ایک بات جو میرے لئے تو بہر حال نئی تھی.کہنے لگے کہ آپ لوگ حضرت عیسی کو اس لئے مارنا چاہتے ہیں کہ احمدیت کی زندگی اس میں ہے.انہوں نے اپنی نیت کا کافی اظہار کیا اور جماعت کے لٹریچر کا کچھ حد تک مطالعہ بھی تھا اور ان کا دعویٰ بھی ہے کہ میں نے بہت کیا ہوا ہے یا کچھ حد تک کیا ہوا ہے.لیکن اگر انہوں نے غور سے دیکھا ہو تو احمدیت کی زندگی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تویہ فرمایا ہے کہ عیسی کی موت جو ہے وہ اسلام کی زندگی ہے.دد عیسی کو مرنے دو کہ اسی سے اسلام زندہ ہوتا ہے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 322) کیونکہ عیسائیوں کے پاس یہی حربہ ہے جس سے وہ کمزور مسلمانوں کو حضرت عیسی کے افضل ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں.گو کہ اب بہت سے مسلمان علماء بھی اس مضمون کو چھیڑنے سے بچتے ہیں.لیکن ابھی بھی ایسے علماء ہیں اور مغرب میں رہنے والے پڑھے لکھے علماء بھی ہیں ، جیسا کہ میں نے بتایا ، جو حضرت عیسی کے زندہ آسمان پر موجود ہونے اور کسی وقت میں اترنے کے بھی قائل ہیں.پس ہم تو دلیل سے حضرت عیسی کی وفات ثابت کر کے اسلام کو زندہ مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے مثیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تا کہ اسلام کا زندہ ہونا ثابت ہو.اور یہ کہتے ہیں کہ احمدیت کی زندگی کا دارو مدار عیسی کی وفات پر ہے.بہر حال یہ تو ثابت ہو گیا کہ جس طرح ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضرت عیسی کو اس لئے مارتے ہیں یا یہ ثابت کرتے ہیں کہ وفات پاچکے ہیں کہ اس سے اسلام زندہ ہوتا ہے.تو انہوں نے بھی ثابت کر دیا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی کی وفات سے احمدیت زندہ ہورہی ہے اور احمدیت کا زندہ ہونا اس لحاظ سے پھر اسلام کا زندہ ہونا ہی ہے.کیونکہ ہمارا تو دعوی ہی یہی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اسلام کے لئے کر رہے ہیں اور احمدیت کیا ہے حقیقی اسلام ہے.جو عیسائی احمدیت کی تبلیغ کی وجہ سے اسلام قبول کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے اسلام قبول کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسی کی وفات ثابت ہو جاتی ہے تو ان کو اس کے مانے بغیر چارا نہیں رہتا اور پھر اسلام کی زندگی ان پر کھل جاتی ہے اور اپنے مذہب کی کمزوریاں ان پر ظاہر ہو جاتی ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر یہ صاحب بھی خالی الذہن ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں ، اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا ئیں اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم پر چلنے کے لئے ایک درد پیدا کریں تو بعید نہیں کہ اگر ان کا دل صاف ہو تو اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی فرمائے کیونکہ اگر اسلام سے محبت رکھنے والوں کو اسلام کے غلبہ سے دلچسپی ہے تو یا درکھیں کہ مسیح و مہدی کے ساتھ ہی اب یہ ترقیات وابستہ ہیں جو آ چکا ہے.اب اس کے علاوہ اور کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اس بات کا اعلان فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم گزشتہ 120 سال سے اس کو سچا ہوتا دیکھ رہے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : "تخمینا عرصہ میں سال کا گزرا ہے کہ مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا.اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه (الصف: 10) وہ خدا جس نے
72 خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اپنے رسول کو ہدایت اور نیچے دین کے ساتھ بھیجا تا وہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.اور مجھ کو اس الہام کے یہ معنی سمجھائے گئے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالیٰ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے.اور اس جگہ یادر ہے کہ یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہوگی.سو جس قدر اولیاء اور ابدال مجھ سے پہلے گزر گئے ہیں کسی نے ان میں سے اپنے تئیں اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت مذکورہ بالا کا مجھ کو اپنے حق میں الہام ہوا ہے.لیکن جب میرا وقت آیا تو مجھ کو یہ الہام ہوا اور مجھ کو بتلایا گیا کہ اس آیت کا مصداق تو ہے اور تیرے ہی ہاتھ سے اور تیرے ہی زمانے میں دین اسلام کی فوقیت دوسرے دینوں پر ثابت ہوگی.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 232-231) پھر آپ فرماتے ہیں کہ وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا اس نے دو امر کے ساتھ اسے بھیجا ہے.ایک تو یہ کہ اس کو نعمت ہدایت سے مشرف فرمایا ہے“.(یعنی ہدایت دینے کی نعمت سے مشرف فرمایا ).یعنی اپنی راہ کی شناخت کے لئے روحانی آنکھیں اس کو عطا کی ہیں“.(اس ہدایت کے حاصل کرنے کے لئے تا کہ وہ آگے ہدایت دے سکے اللہ تعالیٰ نے روحانی آنکھ عطا فرمائی ہے.اور علم لدنی سے ممتاز فرمایا ہے.“ ( یعنی ایسا علم بھی دیا ہے جو بغیر کوشش سے ملتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے دیا ہے ).” اور کشف اور الہام سے اس کے دل کو روشن کیا ہے اور اس طرح پر الہی معرفت اور محبت اور عبادت کا جو اس پر حق تھا اس حق کی بجا آوری کے لئے آپ اس کی تائید کی ہے اور اس لئے اس کا نام مہدی رکھا.اللہ تعالیٰ نے اوپر اطاعت میں جو یہ ساری تعریف کی تو اس لئے اس کا نام مہدی رکھا گیا).”دوسرا امر جس کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے وہ دین الحق کے ساتھ روحانی بیماروں کو اچھا کرنا ہے.یعنی شریعت کے صدہا مشکلات اور معضلات حل کر کے دلوں سے شبہات کو دور کرنا ہے.پس اس لحاظ سے اس کا نام عیسی رکھا ہے یعنی بیماروں کو چنگا کرنے والا.غرض اس آیت شریف میں جود و فقرے موجود ہیں ایک بالھدی اور دوسرے دِینِ الحق ان میں سے پہلا فقرہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ مہدی ہے اور خدا کے ہاتھ سے صاف ہوا ہے اور صرف خدا اس کا معلم ہے.اور دوسرا فقرہ یعنی دینِ الْحَقِّ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ عیسی ہے اور بیماروں کو صاف کرنے کے لئے اور ان کو ان کی بیماریوں پر متنبہ کرنے کے لئے علم دیا گیا ہے اور دین الحق عطا کیا گیا ہے تا وہ ہر ایک مذہب کے بیمار کو قائل کر سکے اور پھر اچھا کر سکے اور اسلامی شفاخانہ کی طرف رغبت دے سکے کیونکہ جبکہ اس کو یہ خدمت سپر د ہے کہ وہ اسلام کی خوبی اور فوقیت ہر ایک پہلو سے تمام مذاہب پر ثابت کر دے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ علم محاسن
خطبات مسرور جلد ہفتم 73 خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2009 وعیوب مذاہب اس کو دیا جائے“.( یعنی ایسا علم دیا جائے جس میں دوسرے مذہب کی خوبیوں اور خامیوں کا پوری طرح علم ہو ، ادراک ہو، ہم ہو ).اور اقامت حج اور افہام خصم میں ایک ملکہ خارق عادت اس کو عطا کی ہو.ا قامت بحج یعنی ایسی دلیلیں اور نشانات جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہوں وہ اس کو دیئے جائیں اور افہام خصم میں ایک ملکہ خارق عادت اس کو عطا ہو.یعنی دلیل سے مخالفین کے جو سوال ہیں، جھگڑے ہیں ان کا جواب دیا جائے.یہ ملکہ اس آنے والے کو خاص طور پر ایک نشان کے طور پر.عطا کیا گیا ہے، یہ خارق عادت ہے.پس بتاؤ ) ہر ایک پابند مذہب کو اس کے قبائح پر متنبہ کر سکے.(یعنی ہر ایک مذہب کی برائیوں پر ان کو متنبہ کرے، ان کو اطلاع دے ) ” اور ہر ایک پہلو سے اسلام کی خوبی ثابت کر سکے اور ہر ایک طور سے روحانی بیماروں کا علاج کر سکے.غرض آنے والے مصلح کے لئے جو خَاتَمُ الْمُصْلِحِین ہے دو جو ہر عطا کئے گئے ہیں.ایک علم الھد کی جو مہدی کے اسم کی طرف اشارہ ہے جو مظہر صفت محمدیت ہے یعنی با وجود امیت کے علم دیا جانا ( یعنی لا علم ہونے کے باوجود علم دیا جانا.اللہ تعالیٰ خود سکھاتا ہے.یہ مہدی ہونے کی نشانی ہے اور دوسرے تعلیم دین الحق جو انفاس شفا بخش مسیح کی طرف اشارہ ہے“.( روحانی شفا دینے کی طرف اشارہ ہے).یعنی روحانی بیماریوں کے دور کرنے کے لئے اور اتمام حجت کے لئے ہر ایک پہلو سے طاقت عطا ہونا اور صفت علم الحد کی اس فضل پر دلالت کرتی ہے جو بغیر انسانی واسطے کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا ہو اور صفت علم دین الحق افادہ اور تسکین قلوب اور روحانی علاج پر دلالت کرتی ہے“.اربعین نمبر 2.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 356-357) یعنی پہلے علم دیا.پھر اس کی پوری کوشش کی.اس کو سیکھا سکھایا اور پھر آگے پھیلا یا تا کہ اس کا علاج ہو.پس اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مسیح و مہدی کا یہ مقام ہے جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے اور اسلام کی نئی زندگی کے لئے بھیجا ہے.تا دنیا پر اسلام کی روشن تعلیم واضح اور عیاں ہو.اللہ تعالیٰ دنیا کو اس مسیح و مہدی کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ ، جو ہادی ہے، کے بھیجے ہوئے اس مہدی کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جس راستے پر چلے ہیں اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہیں.کبھی ٹھوکر نہ لگے.اور اس منزل مقصود کی طرف چلتے رہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہے.اس وقت میں چند جنازے بھی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا.ایک ہے محترمہ خاتم النساء درد صاحبہ ہیں جو مکرم مولا نا محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں.78 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ لجنہ کے بھی کام کرتی رہیں.اپنے خاوند جو مربی تھے ،مبلغ تھے ان کے ساتھ میدان عمل میں نہایت سادگی سے اور قناعت سے انہوں نے گزارا کیا.خاموش طبع اور ملنسار تھیں.دعا گو تھیں.آپ کے دو بیٹے ہیں اور دونوں ہی واقف زندگی ہیں.محمد احمد اشرف صاحب، فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اور محمود احمد اشرف صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ کے استاد ہیں.اسی طرح دو بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.
74 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر ایک جنازہ سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب مرحوم کا.ان کی 88 سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے.چند مہینے پہلے ان کے جوان بیٹے مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کو شہید کیا گیا تھا اور بڑے صبر سے انہوں نے ان کا یہ صدمہ برداشت کیا.ان کی 2 فروری کو وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی بیٹی تھیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے معالج تھے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی آخری بیماری میں 24 گھنٹے آپ کے ساتھ ہی رہتے تھے.دین کا اچھا علم رکھنے والی تھیں.بچیوں کو دینی تعلیم دینے والی.میر پور خاص میں بڑا لمبا عرصہ لجنہ کی صدر رہی ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ نے جب ان کے خاوند کو حکم دیا تھا کہ میر پور خاص میں جا کر آباد ہوں تو پورے تعاون کے ساتھ ان کے ساتھ وہاں رہیں اور وہاں جماعت کو آرگنا ئز کیا.ان کے ایک ہی بیٹے تھے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب جو شہید ہو گئے تھے اور کوئی اولاد نہیں تھی.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.تیسرا جنازہ عفیفہ صاحبہ اہلیہ سیوطی عزیز احمد صاحب کا ہے جو انڈونیشیا کے رئیس التبلیغ ہیں 65 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کو پھیپھڑوں کی بیماری تھی.یہ مولانا عبدالواحد سماٹری صاحب کی بیٹی تھیں اور خدا کے فضل سے موصیبہ بھی تھیں.ساری زندگی انہوں نے وہیں گزاری.بڑی دعا گو تھیں.غریب پر ور تھیں اور ہمارے جماعت انڈونیشیا کے امیر عبدالباسط صاحب کی یہ بہن ہیں.انہوں نے دو بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو نیکیوں پر قائم کرے.ان کے درجات بلند فرمائے.چوتھا جنازہ ہے مرزا محمد اکرم صاحب ابن مکرم مرزا محمد اسلم صاحب.یہ نارووال کے ایک گاؤں یا قصبے کے ہیں ان کی وفات ہوئی.نو جوان تو نہیں ابھی انصار اللہ میں قدم رکھا ہی تھا.ان کی دکان پہ ڈکیتی ہوئی اور ان کے جسم پر 23 گولیاں لگیں جو ڈاکوؤں نے فائر کئے.موقع پر انتقال کر گئے.بہر حال اس لحاظ سے یہ بھی شہید ہیں.جماعتی کاموں میں بڑے فعال تھے.بڑے نڈر داعی الی اللہ تھے.بڑے با اخلاق انسان تھے.مالی قربانیوں میں بڑے آگے بڑھے ہوئے تھے.ان کو مختلف جماعتی خدمات کی توفیق ملی.شہادت کے وقت یہ مقامی سیکرٹری تحریک جدید تھے.سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے.انصار اللہ میں نگر ان حلقہ تھے.خدام الاحمدیہ کے لمبا عرصہ قائد رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی.بچے ان کے چھوٹے چھوٹے ہیں.15 سال سے لے کر 7 سال تک.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو صبر اور حوصلہ دے.ان کے درجات بلند فرمائے جیسا کہ میں نے کہا ہے ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ جنازہ غائب ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 8 مورخہ 20 فروری تا 26 فروری 2009 صفحہ 5 تا صفحه 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 75 (7 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 فرمودہ مورخہ 13 فروری 2009ء بمطابق 13 تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پر معارف ارشادات کی روشنی میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس دعا میں مسیح موعود کی بعثت کی پیشگوئی بھی ہے.اس میں محمدی سلسلہ سے ہی مسیح موعود کے پیدا ہونے کی پیشگوئی بھی ہے.اور اس میں امام الزمان کو قبول کرنے کا حکم بھی ہے اور مسلمانوں کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ مسلمانوں کی کمزور حالت کی بہتری اور مسلمان ممالک کے عزت و وقار کے بحال کرنے کے لئے اور قائم کرنے کے لئے یہی ایک واحد حل اور راستہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کو قبول کر لیں.اللہ کرے کہ اس حقیقت کو سمجھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے حوالہ سے ہماری روحانی اور مادی ترقی کے لئے جو ہدایات فرمائی ہیں آج میں اُن میں سے چند ایک آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ اندازہ ہو کہ اس دعا میں کتنی وسعت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں.ہمارا مطمح نظر کیا ہونا چاہئے؟ اپنی حالتوں کی درستی اور ہر لحاظ سے ترقیات کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے ، ہمیں کس طرح دعائیں مانگنی چاہئیں.بہر حال اقتباسات تو میں پیش کروں گا.لیکن اس سے پہلے چند باتیں اس ضمن میں کرنا چاہتا ہوں تا کہ مزید وضاحت ہو جائے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ھدی کے معانی کا خلاصہ جو مختلف لغات سے اخذ کیا ہے اور وہ اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے اس میں تین باتیں بیان فرمائی ہیں کہ راستہ دکھانا، راستے تک پہنچانا اور آگے چل کر منزل مقصود تک پہنچانا.اب راستہ دکھانا اور راستے تک پہنچانا ایک چیز نہیں ہے.بظاہر ایک چیز لگ رہی ہے.راستہ آدمی دُور کھڑے ہو کر دکھا دیتا ہے کہ یہ راستہ فلاں جگہ تک جاتا ہے اور راستے تک پہنچانا یہ ہے کہ اس راستے پر چھوڑ کے آنا جو اس منزل تک لے جاتا ہے اور پھر یہ کہ اس راستے پر ساتھ چل کے اس منزل تک پہنچانا.یہ اس کے معانی ہیں اور قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے مختلف آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا ذکر فرمایا ہے.
76 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا میں ہم اس حوالے سے دعا مانگتے ہیں اور مانگنی چاہئے کہ اے اللہ ! تو ہمیں ایسے راستے پر چلا ، اس طرح ہماری راہنمائی فرما جو اچھا راستہ بھی ہو.نیکی کی طرف لے جانے والا راستہ بھی ہو اور پھر ہم اس پر چل کر نیکی کو حاصل بھی کر لیں.صرف راستے کی نشاندہی نہ ہو جائے بلکہ ہم اس پر چلتے رہیں اور نیکی کو حاصل بھی کر لیں.اور پھر یہ کہ اپنے اس مقصود کو یعنی نیکی کو جلدی حاصل کر لیں اور اس کے بعد پھر مزید اگلے رستوں پر چلنا شروع کر دیں.پس اس دُعا کے ساتھ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا.ایک مومن کبھی تسلی پکڑ کر نہیں بیٹھ سکتا.بلکہ کوشش کرے گا کہ ہمیشہ روحانیت میں بھی آگے بڑھے اور دنیاوی ترقیات میں بھی نئی منزلیں حاصل کرے.دنیاوی ترقیات میں تو ہم عموماً آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑی شدید کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن روحانیت میں اس لحاظ سے کوشش نہیں ہو رہی ہوتی.بہر حال اس دعا میں روحانی بھی اور مادی بھی دونوں طرح کی کوششوں کا ذکر ہے.دوسرے اس دعا میں رہبانیت کا بھی رد ہے.جو کہتے ہیں کہ فقیر بن گئے، علیحدہ ہو گئے ، دنیا سے کٹ گئے اس کا بھی رد ہے.جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے تو پیدا کر کے ساتھ ہی اپنی بے شمار نعمتیں بھی پیدا کی ہیں.اس دعا میں ان کے حصول کی کوشش کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.اس کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جو ساری نعمتیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں جو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے.اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ دنیا سے کٹ جایا جائے.پھر جیسا کہ میں نے کہا دنیاوی میدان کے علم و معرفت میں ترقی کی دعا بھی ہے.روحانی میدان میں آگے بڑھتے چلے جانے کی اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لئے بھی یہ دعا ہے اور ہدایت کیونکہ صرف خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَى ( البقرة: 121) که یقینا اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے.اس لئے یہ دعا بھی سکھائی کہ کسی بھی معاملے میں ہدایت حاصل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ سے مانگو کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہمیں سیدھے راستے پر ہدایت دے.ہر چیز جو مانگی جارہی ہے اس کے لئے جو راستے معین ہیں ان کی طرف ہدایت دے تا کہ ہم ان پر صیح طرح چل بھی سکیں ، ان کو حاصل بھی کر سکیں اور نہ صرف حاصل کر سکیں بلکہ جلد از جلد حاصل کر سکیں.تو یہ دعا ترقی کے حصول کے لئے ابھارتی رہتی ہے.کیونکہ اس دُعا کے ساتھ ایک انسان اللہ تعالیٰ سے یہ کہتا ہے کہ مجھے ایسے راستے پر چلا جہاں میرے تمام کام جائز ذرائع سے ہی ہوں.جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے ایک منزل پر پہنچ جاؤں تو اگلی منزل کی طرف راہنمائی فرما تا کہ بغیر وقت کے ضیاع کے اگلی منزلوں کی طرف بھی رواں دواں ہو جاؤں اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا جاؤں.یہاں ایک بات اور واضح کرنی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اهْدِنَا کی دعا سکھاتی ہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ
77 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم الْمُسْتَقِيمَ کہ ہمیں صحیح راستے پر چلا.بے شک انسان اپنی ذاتی ترقی کے لئے بھی دعامانگتا ہے لیکن جب ایک جماعت میں شامل ہو گئے تو ہماری سوچوں اور دعاؤں کے دھارے جماعت کو سامنے رکھ کر بھی ہونے چاہئیں.اس لئے جب آپ یہ دعا کر رہے ہوں گے تو ذاتی کمزوریاں دور کرنے میں بھی مدد ملے گی.جب یہ تصور کر کے دعا مانگی جائے گی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہمیں سیدھے راستے پر اور کامیابی کے راستے پر اور جلد منزلیں حاصل کرتے چلے جانے والے راستے پر چلا تو اپنا جائزہ بھی انسان لے گا کہ میں بحیثیت فرد جماعت اس میں کیا کردار ادا کر رہا ہوں.میں نے اپنی روحانیت کو کس حد تک بڑھانے کی کوشش کی ہے.حقوق العباد کی ادئیگی کی کس حد تک کوشش کی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ سے ہمیں ہدایت کے راستے دیکھا کی دعا مانگتے ہیں تو پھر ذاتی رنجشیں کیسی ؟ ہم نے تو مل کر ان راستوں پر چلتا ہے جہاں ذاتی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہوں اور جماعت کی ترقی کے لئے بھی اور اس کی مضبوطی کے لئے بھی کوششیں ہو رہی ہوں.ہمیں اپنی روحانی حالتوں کی بہتری کے سامان کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہورہی ہو.اپنی علمی حالتوں کی بہتری کی طرف بھی توجہ پیدا ہورہی ہو اور اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو.اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ترقی اور ہدایت کے راستے کھولتا چلا جاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى (سورۃ محمد : 118) یعنی اور وہ لوگ جو ہدایت پاتے ہیں اللہ ان کو ہدایت میں زیادہ کرتا جاتا ہے.پس نیکیوں پر قائم رہنے، استقامت دکھانے، اللہ تعالیٰ سے مزید ہدایت کی دعا مانگتے رہنے سے ذاتی روحانی ترقی بھی ہے اور جماعتی روحانی ترقی بھی ہے اور دونوں حالتوں میں ہر قسم کی مادی ترقی بھی ہے.پس یہ دعا کوئی معمولی دعا نہیں ہے جو ہم نماز میں تکرار سے پڑھتے ہیں.ہر نماز کی ہر رکعت میں ، بلکہ دل سے نکلی ہوئی یہ دعا ئیں اگر ہوں تو پھر یہی کامیابیوں کے نئے سے نئے راستے کھولتی چلی جاتی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے مختلف مضامین کے حوالے سے بیان فرمایا ہے.آپ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ یہ دعا لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے فرماتے ہیں: و پس خلاصہ یہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا انسان کو ہر بچی سے نجات دیتی ہے اور اس پر دین قویم کو واضح کرتی ہے.اسلام کا یہ دین جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس کو واضح کرتی ہے کہ اس کے کیا کیا راستے ہیں اور اس کو ویران گھر سے نکال کر پھلوں اور خوشبوؤں بھرے باغات میں لے جاتی ہے اور جو شخص بھی اس دعا میں زیادہ آہ وزاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو خیر و برکت میں بڑھاتا ہے.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 136)
78 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہ دعا ضروری نہیں کہ جب نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہو تو صرف ایک دفعہ پڑھ لی بلکہ بار بار اس کو دو ہراؤ تا کہ دماغ میں بار بار اس کے معانی آئیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف مزید جھکنے کی طرف توجہ پیدا ہو.اس دعا کی قبولیت کے لئے شدت دل سے ایک آہ نکل رہی ہو.فرماتے ہیں کہ دعا سے ہی نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت حاصل کی اور اپنے آخری وقت تک ایک لحظہ کے لئے بھی دعا کو نہ چھوڑا اور کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس دعا سے لا پرواہ ہو یا اس مقصد سے منہ پھیر لے.وہ نبی ہو یا رسولوں میں سے کیونکہ رشد اور ہدایت کے مراتب کبھی ختم نہیں ہوتے.(انبیاء کے لئے بھی یہ نہیں کہ ایک مرتبہ پر پہنچ گئے تو منزل پر پہنچ گئے اور منزل حاصل کر لی.بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو ان کی استعداد میں پیدا کی ہیں ان کے لحاظ سے ان کے لئے بھی آگے رستے کھلے ہیں).فرمایا ” رشد اور ہدایت کے مراتب کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ بے انتہا ہیں اور عقل و دانش کی نگاہیں ان تک نہیں پہنچ سکتیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی اور اسے نماز کا مدار ٹھہرایا.( یہ ایک محور ہے.نماز کا ایک بنیادی نکتہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا خاص طور پر کرو.تالوگ اس کی ہدایت سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے ذریعہ تو حید کو مکمل کریں اور ( خدا تعالیٰ کے ) وعدوں کو یاد رکھیں اور مشرکوں کے شرک سے نجات پاویں.اس دعا کے کمالات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے“.( ایک تو رشد اور ہدایت کے یہ مرتے کبھی ختم نہیں ہوتے.ہر منزل پر پہنچ کر نئی منزلیں ملتی جاتی ہیں.دوسرے ہر طبقے کے جو لوگ ہیں وہ اس دعا سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور اٹھا سکتے ہیں.کمزور ایمان بھی ایمان میں ترقی کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھائے گا بلکہ دہریہ اور لامذہب بھی اس سے فائدہ اٹھائے گا تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے.اگر نیک نیتی سے دعا مانگی جائے تو ہر ایک کے مرتبہ کے لحاظ سے یہ دعا اس کو اگلی منزلوں کی طرف لے جاتی ہے اور ہرفرد پر بھی حاوی ہے.وہ ایک غیر محدود دعا ہے جس کی کوئی حد بندی یا انتہا نہیں اور نہ اس کی کوئی غایت یا کنارا ہے ( کوئی اس کی منزل نہیں اس کا کوئی کنارا نہیں ) پس مبارک ہیں وہ لوگ جو خدا کے عارف بندوں کی طرح اس دعا پر مداومت اختیار کرتے ہیں زخمی دلوں کے ساتھ جن سے خون بہتا ہے اور ایسی روحوں کے ساتھ جو زخموں پر صبر کرنے والی ہوں اور نفوس مطمئنہ کے ساتھ“.(ایک درد کے ساتھ یہ دعائیں مانگیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.ایسے درد کے ساتھ جو انتہائی درد ہو جیسے زخموں کا درد ہے اور اس پر بھی انسان صبر کر رہا ہوتا ہے اور مانگتا چلا جاتا ہے، اس کے علاج کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رکھتے ہوئے نفوس مطمئنہ کے ساتھ اپنی آخری منزل تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے.وہ منزل کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا.فرمایا کہ یہ وہ دعا ہے جو ہر خیر ، سلامتی، پختگی اور استقامت مشتمل ہے اور اس دعا میں رب العالمین کی طرف سے بڑی بشارتیں ہیں“.(کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 136-137 - ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 233-234 حاشیہ)
79 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہ بشارتیں کیا ہیں ایک دو مثالیں میں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ يَهْدِ قلبه ( التغابن : 12) اور جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت کے راستوں کی طرف پھیر دیتا ہے، ان پر چلاتا ہے.پھر فرمایا وَانْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ( النور : 54) کہ اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پاؤ جاؤ گے.یہاں اس آیت میں جو مضمون چل رہا ہے، اس سے مراد پہلے آنحضرت ﷺ کی اطاعت ہے.آنحضرت ہ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے.اور ہدایت کیا ہے؟ جیسا کہ شروع میں میں نے بتایا کہ ترقی کی منزلوں پر آگے قدم بڑھانا.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور محبت کو آنحضرت ﷺ کی پیروی اور اطاعت سے مشروط کیا ہے.اس کا بھی قرآن کریم میں ذکر ہے.پس اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ایمان میں مضبوطی ، ہدایت میں آگے بڑھتے چلے جانے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اپنے بندے کو بے شمار انعامات سے نوازتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صراط مستقیم کی قسمیں اور ان پر ہدایت پانے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: در حقیقی نیکی پر قدم مارنا صراط مستقیم ہے“.(صراط مستقیم کیا ہے؟ صحیح اور حقیقی نیکی پر چلنا ) اور اسی کا نام توسط اور اعتدال ہے.( یعنی میانہ روی اور اعتدال ہے کیونکہ تو حید فعلی جو مقصود بالذات ہے وہ اس سے حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالی کی حقیقی تو حید جو انسان کا ایک مقصد ہے اسی سے ثابت ہوتی ہے کہ اعتدال پر انسان رہے اور وہ کس طرح؟) فرمایا اور جو شخص اس نیکی کے حاصل کرنے میں متساہل رہے وہ درجہ تفریط میں ہے اور جو شخص اس سے آگے بڑھے وہ افراط میں پڑتا ہے.(وہ جو نیکی حاصل کرنے میں سنتی دکھاتا ہے.جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں ان میں کمی کر رہا ہے اور جو زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں پڑنے کی زیادتی کر رہا ہوتا ہے.مثلاً بعض مسائل ہیں.مختلف قسم کے مسائل پر آدمی بحث کر رہا ہوتا ہے یا نیکی کا اظہار ہے، نیکی کرنا بڑی اچھی بات ہے.نیکی کو پھیلانا بڑی اچھی بات ہے لیکن بعض مسائل ایسے ہیں یا حکمت ایسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے جماعتی نظام کی طرف سے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس میں گو مداہنت اختیار نہیں کرنی ، کمزوری نہیں دکھائی لیکن بہتری یہی ہے کہ بعض حالات میں خاموش رہا جائے اور امام کی طرف سے ، خلیفہ وقت کی طرف سے یہ ہدایت ہوتی ہے کہ یہاں ذرا خاموشی اختیار کی جائے.لیکن بعض لوگ جوش میں آ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.ضرورت سے زیادہ جوش دکھاتے ہیں اور پھر اُس ماحول میں، اُس معاشرے میں باقی جماعت کے افراد کے لئے مشکل کا باعث بن جاتے ہیں.اسی لئے حدیث میں بھی آیا ہے کہ الْاِمَامُ جُنَّةٌ- امام جو ہے وہ ڈھال ہے.اس کے پیچھے رہ کر اس کے فیصلوں کے مطابق چلنے کی کوشش کرو.اگر زیادہ جوش دکھاؤ گے، زیادہ آگے بڑھو گے ، اپنی مرضی کرو گے ، گو کہ یہ
80 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم نیکیاں ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کو بجالا ولیکن یہ افراط میں شامل ہو جائے گا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر کمزوری دکھاتے ہو تو وہ بھی غلط ہے.اگر ضرورت سے زیادہ موقع محل کے حساب سے غلط کام کرتے ہو.زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہو تو وہ بھی غلط ہے).فرماتے ہیں کہ ہر جگہ رحم کرنا افراط ہے.کیونکہ محل کے ساتھ بے محل کا پیوند کر دینا اصل پر زیادتی ہے“.( اب ہر جگہ رحم کرنا یہ بھی غلط ہے.ایک عادی چور ہے، ایک عادی مجرم ہے اس کو بخش دینا، ہر دفعہ بخش دینا تا کہ وہ جرم کرتا چلا جائے یہ بھی بے محل ہے اور یہ افراط ہے ).فرماتے ہیں اور یہی افراط ہے اور کسی جگہ بھی رحم نہ کرنا یہ تفریط ہے.( اور پھر اتنے ظالم ہو جانا کہ اگر کہیں معاف کرنے سے درگزر کرنے سے عفو کرنے سے اصلاح ہوتی ہو تو وہاں بھی نہ بخشا اور ضرور سزا دینا اور سزا کے لئے سفارش کرنا.یہ بھی غلط ہے ).کیونکہ اس میں محل بھی فوت کر دیا.یہاں بھی اس مناسبت سے سزا دینے کا یا نہ دینے کا جو اصل موقع ہے وہ ختم ہو جاتا ہے.فرماتے ہیں کہ وضع شے کا اپنے محل پر کرنا یہ توسط اور اعتدال ہے کہ جو صراط مستقیم سے موسوم ہے“.( ہر کام کا اپنے موقع اور محل کے حساب سے کرنا یہی اعتدال ہے.یہی میانہ روی ہے اور یہی اختیار کرنی چاہئے اور یہی چیز ہے جس کا نام صراط مستقیم ہے ).جس کی تحصیل کے لئے کوشش کرنا ہر ایک مسلمان پر فرض کیا گیا ہے اور اس کی دعا ہر نماز میں بھی مقرر ہوئی ہے.جو صراط مستقیم کو مانگتا ہے کیونکہ یہ امر اس کو تو حید پر قائم کرنے والا ہے.( کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو افراط اور تفریط سے بچاتی ہیں.زیادتی اور کمی سے بچاتی ہیں.ایک میانہ روی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں.ایک درمیانی راستے پر چلاتی ہیں.یہ چیزیں پھر تو حید کی طرف لے جاتی ہیں ).” کیونکہ صراط مستقیم پر ہونا خدا کی صفت ہے“.( اللہ تعالیٰ جو ہے وہ ہمیشہ سیدھے راستے پر ملتا ہے.اس لئے اگر یہ چیزیں ہوں گی تو انسان تو حید کی طرف چلے گا ).علاوہ اس کے صراط مستقیم کی حقیقت حق اور حکمت ہے.پس اگر وہ حق اور حکمت خدا کے بندوں کے ساتھ بجا لایا جائے تو اس کا نام نیکی ہے“.( فرمایا کہ اس کے علاوہ صراط مستقیم جو ہے وہ حق سچائی اور حکمت ہے.موقع محل کے لحاظ سے عمل کرنا ہے.اگر یہ حق اور حکمت جو ہے خدا کے بندوں کے ساتھ بجالائی جائے تو اسی کو نیکی کہتے ہیں.اور اگر خدا کے ساتھ بجالایا جائے تو اس کا نام اخلاص اور احسان ہے.( اب یہاں احسان سے کوئی غلط نہ سمجھ لے.یہاں احسان کے معنی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری ہیں.اگر صراط مستقیم کا یہ حق استعمال ہورہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص ہے اور اس کی کامل فرمانبرداری ہے.اگر بندوں کے ساتھ کر رہے ہیں تو یہ کامل نیکی ہے ).فرمایا کہ اور اگر اپنے نفس کے ساتھ ہو تو اس کا نام تزکیہ نفس ہے.( اگر صراط مستقیم پر چلانا اپنے نفس کے لئے ہے تو تیسری حالت اپنے آپ کے لئے اپنے نفس کو پاک کرنا ہے).فرمایا کہ ”اور صراط مستقیم ایسا لفظ ہے کہ جس میں حقیقی نیکی اور اخلاص باللہ اور تزکیہ نفس متینوں شامل ہیں“.( حقیقی نیکی بھی اس میں ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خالص تعلق بھی اس میں ہے اور
81 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پنے آپ کو پاک کرنا بھی اس میں ہے ).اب اس جگہ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ صراط مستقیم جو حق اور حکمت پر مبنی ہے تین قسم پر ہے“.( پھر حقیقی نیکی صراط مستقیم ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ خالص تعلق صراط مستقیم ہے.نفس کو پاک کرنا ، تزکیہ نفس کرنا صراط مستقیم ہے.تو فرمایا کہ یہ چیزیں تین قسم پر مبنی ہیں ، ان کا انحصار تین چیزوں پر ہے ).علمی اور عملی اور حالی اور پھر یہ تینوں تین قسم پر ہیں.یہ گو بڑا مشکل حوالہ ہے، پہلے میرا خیال تھا کہ نہ پیش کروں لیکن کیونکہ بہت سارے ایک تو حوالے پڑھتے نہیں.دوسرے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں بہت سے احمدی ہیں جن کو یہ ان کی زبان میں میسر نہیں ہے اور مضمون بڑا ضروری تھا.اس لئے میں نے کہا کہ بیان کر دوں.فرمایا کہ اس کی پھر آگے تین قسمیں ہیں.یعنی علمی ، اور عملی اور حالی چیزوں کی پھر آگے تین قسمیں ہیں.علمی میں حق اللہ اور حق العباد اور حق النفس کا شناخت کرنا ہے.(ان کی پہچان اور عملی میں ان حقوق کو بجالانا“.(علمی چیز کیا ہے؟ یہ جو تین حق ہیں اللہ کا حق ، بندوں کا حق اور اپنے نفس کا حق ، اس کی پہچان یہ علمی چیز ہے.اور عملی صورت یہ ہے کہ ان حقوق پر عمل کرنا ، ان کو بجالانا.ان کو ادا کرنا ).فرمایا کہ مثلاًا حق علمی یہ ہے کہ اس کو ایک سمجھنا.( اللہ تعالیٰ کا جو علمی حق ہے وہ یہ ہے کہ اس کو ایک سمجھا جائے).اور اس کو مبدء تمام فیوض کا اور جامع تمام خوبیوں کا یعنی تمام فیض اسی سے پھوٹتے ہیں.وہی پیدا کرتا ہے اور تمام خوبیاں اسی کے اندر موجود ہیں ) ” مرجع اور مآب ہر ایک چیز کا اسی کی طرف ہر چیز نے واپس لوٹنا ہے ).اور منزہ ہر ایک عیب اور نقصان سے جاننا اور جامع تمام صفات کاملہ ہونا ( جتنی بھی صفات ہیں، تمام صفات کامل کا مظہر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ایک مومن کو یہ اس پہ یقین ہونا چاہئے اور قابل عبودیت ہونا اسی میں محصور رکھنا ( یعنی حقیقی بندگی جو ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات تک ہی ہے.اگر آدمی نے کسی کی بندگی اختیار کرنی ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی بندگی اختیار کی جاسکتی ہے).فرمایا کہ یہ تو حق اللہ میں علمی صراط مستقیم ہے اور عملی صراط مستقیم یہ ہے جو اس کی طاعت اخلاص سے بجالا نا“.(اللہ تعالیٰ کے معاملے میں عملی صراط مستقیم کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی خالص طاعت کرنا، حکموں پر چلنا ” اور طاعت میں اس کا کوئی شریک نہ کرنا اور اپنی بہبودی کے لئے اس سے دعا مانگنا.( جب بھی ضرورت ہو اسی کے آگے جھکنا.اسی سے دعا مانگنا اور اس پر نظر رکھنا اور اسی کی محبت میں کھوئے جانا.یہ عملی صراط مستقیم ہے کیونکہ یہی حق ہے.پھر فرمایا اور حق العباد میں علمی صراط مستقیم یہ جو ان کو اپنا بنی نوع خیال کرنا ( کہ جو بندوں کے حقوق ہیں ان میں عملی صراط مستقیم کیا ہے؟ ان کو بنی نوع خیال کرنا کہ یہ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں اور اس سے بڑھ کر نہیں.اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں.غریب ہیں ، امیر ہیں ، سب برابر ہیں اور اللہ کے بندے ہیں.ان میں کوئی زیادہ بڑی خوبیاں نہیں ہیں ).اور ان کو بندگان خدا سمجھنا اور بالکل پیچ اور نا چیز خیال کرنا.( جہاں تک مخلوق کا سوال ہے وہ اللہ کے بندے ہیں اور کوئی طاقت ان میں نہیں ).کیونکہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جوان کا وجود پیچ اور نا چیز ہے اور سب فانی ہیں“.
82 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ہر انسان جو دنیا میں آیا وہ فانی ہے اس نے اس دنیا سے جانا ہے.بعض لوگ بعض لوگوں کو اتنا اٹھا لیتے ہیں کہ اس کی وفات کے بعد پھر ان کو کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا ہوتا.بعض لوگ خدا تعالیٰ کے در کو بھی اس غم میں چھوڑ دیتے ہیں.اولاد ہے یا بعض اور دوسرے پیارے ہیں.تو فرمایا کہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جو اُن کا وجود بیچ اور ناچیز ہے اور سب فانی ہے.لیکن یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ بندہ خدا نہیں بن سکتا جیسا کہ آپ نے فرمایا.ہر ایک چیز بیچ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ہر ایک کے حفظ مراتب رکھے ہیں ان کا خیال بہر حال رکھنا ہے.سارے بنی نوع انسان ہیں لیکن یہ کہنا کہ سب برابر ہیں اور افسر اور ماتحت کا فرق ختم ہو جائے ، بڑے یا چھوٹے کا فرق ختم ہو جائے.یہ نہیں.یہ تو بہر حال قائم رہنا ہے.لیکن جہاں تک انسان ہونے کا سوال ہے سب ایک ہیں اور برابر ہیں ).پھر فرمایا یہ توحید علمی ہے.( بندوں کے حقوق جب اس طرح ادا ہور ہے ہوں گے تو یہ بھی علمی توحید ہے ).کیونکہ اس سے عظمت ایک ذات کی نکلتی ہے“.(حقوق بندوں کے ادا ہور ہے ہیں.ان کی طرف توجہ ہے لیکن اب تو حید کی طرف توجہ پھیر دی کہ جب تم یہ کرو گے تو اس سے بھی تو حید بھر کر سامنے آرہی ہے کیونکہ یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے ہر چیز فانی ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی حیثیت سے سب برابر ہیں.پھر یہ توجہ دلائی ہے کہ ایک خدا ہے جس کی تمام مخلوق ہے اور پھر اس سے تو حید کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.فرمایا ” کیونکہ اس سے عظمت ایک ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی نقصان نہیں اور اپنی ذات میں کامل ہے“.(اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا پتہ لگتا ہے کہ یہی ایک ذات ہے جو اپنی ذات میں کامل ہے).پھر فرمایا اور عملی صراط مستقیم یہ ہے (کہ) حقیقی نیکی بجالانا یعنی وہ امر جو حقیقت میں اُن کے حق میں اصلح اور راست ہے بجالانا یہ توحید عملی ہے.(عملی صراط مستقیم کیا ہوگی؟ یہ کہ ایسی نیکی بجالانا کہ عمل حقیقت میں اس کے حق میں اصلح اور راست ہو یعنی جو کام صحیح اور درست ہے اس کو کرنا.ہر ایسا کام جس میں کسی قسم کی غلطی کا یا نا جائز ہونے کا شائبہ بھی ہو اس کو ادانہ کرنا ، یہ صراط مستقیم ہے اور یہ توحید عملی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بندے کے بھروسے کا اس بات پر عملی اظہار ہے کہ میں نے کوئی نا جائز ، غلط کام نہیں کرنا اور جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ ہوگا تو کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا اور یہ پھر اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے پر توجہ پھیرتا ہے ).” کیونکہ موحد کی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا کے اخلاق میں فانی ہوں اور حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے.کیونکہ یہ جو ایک خدا کی عبادت کرنے والا ہے.اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوگی کہ اس کے اخلاق وہی ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جو اللہ تعالیٰ بندوں سے ایکسپیکٹ (Expect) کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی اپنی صفات ہیں.فرمایا که حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ جو جو نفس میں آفات پیدا ہوتے ہیں ( یعنی نفس کے حق میں علم صراط مستقیم کیا ہے؟ یہ کہ نفس میں جو ایسی آفتیں نازل ہوتی ہیں ہمشکلوں میں پڑتا ہے یا غلط قسم کے کاموں میں
83 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پڑتا ہے ” جیسے عجب “ ( یعنی غرور ہے ) ، اور ریا اور تکبر اور حقد ( یعنی کینہ ہے ) اور حسد ہے غرور اور حرص ہے اور بخل اور غفلت اور ظلم ان سب سے مطلع ہونا.اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ انسان کو ان سب کا پتہ ہو کہ یہ ساری چیزیں برائیاں ہیں اور انسان کو تباہ کرتی ہیں.ان سب سے مطلع ہونا.ان کا علم ہونا یہ نفس کے بارے میں علمی صراط مستقیم ہے).فرمایا کہ " اور جیسے وہ حقیقت میں اخلاق رذیلہ ہیں ویسا ہی ان کو اخلاق رذیلہ جاننا.یہ علمی صراط مستقیم ہے“.( یہ سب باتیں جو ہیں جس طرح یہ برائیاں ہیں گھٹیا چیزیں ہیں کہ ان کو حقیقت میں اس طرح ہی جانا، یہ علی صراط مستقیم ہوگا).پھر فرمایا اور یہ تو حید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے“.(نفس کا جوان برائیوں کا علم ہے اس کو اس سے پتہ لگے گا ).پھر فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف اپنے نفس کے حالات کی وجہ سے بھی توجہ پھرے گی اور ان برائیوں کو جاننے کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف توجہ پیدا ہوگی.فرمایا کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے.جس میں کوئی عیب نہیں ہے.انسانوں میں سب برائیاں پیدا ہوسکتی ہیں.ان سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہوئے بچنا ہے.اس سے پھر تو حید کا اظہار پیدا ہوگا.فرمایا کہ عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے“.(وہی ایک ذات اللہ تعالیٰ کی ہے جو پاک ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے.باقی ہر مخلوق میں عیب ہیں اور انسان میں جو یہ عیب گنوائے گئے اس کے علاوہ بھی بہت سارے عیوب ہیں.انسان ان کی پاکیزگی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے.پھر تو حید کا بیان آگیا ).فرمایا کہ " اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے جو نفس سے ان اخلاق رذیلہ کا قلع قمع کرنا اور صفت سختی عن رذائل اور محتی بالفصائل سے متصف ہونا.( انسان کا جو نفس ہے اس کی عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ یہ جو سارے گھٹیا اور ذلیل قسم کے اخلاق بتائے گئے ہیں ان کو ختم کرنا.یہ عملی صورت ہوگی.ان کے لئے عملی قدم انسان اٹھائے گا اور صفت تختی عن رذائل اور تحتی بالفضائل ، یعنی جو اپنی گھٹیا اور ذلیل حرکتیں ہیں ان سے اپنے آپ کو خالی کرنا اور جو نیکیاں ہیں ان کو اپنے اندر لاگو کرنا.اس زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا جو اللہ تعالیٰ نے فضائل بتائے ہیں.جو نیکیاں بتائی ہیں ان سے اپنے آپ کو سجانا ، ان سے متصف ہونا.اپنے نفس کے لئے یہ چیز ہے.یہ عملی صراط مستقیم ہے اور فرمایا کہ یہ عملی صراط مستقیم ہے.یہ توحید حالی ہے ( یہ جونفس کے لئے عملی صراط مستقیم جونفس کے لئے ہے اس سے انسان کا حال ظاہر ہو جاتا ہے اور پھر یہ اللہ تعالیٰ کی توحید حالی کا اظہار کر رہی ہوتی ہے ).” کیونکہ موحد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تا اپنے دل کو غیر اللہ کے دخل سے خالی کرے اور تا اس کو فنافی تقدس اللہ کا درجہ حاصل ہو.( اور جو بھی اللہ تعالیٰ کے غیر ہیں، دوسری دنیاوی چیزیں ہیں ان سے اپنے دل کو خالی کرنا اور اس کو فنافی تقدس کا درجہ دینا.یعنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تقدس کے مقام کا جو درجہ ہے وہ حاصل کرنا ).اور اس میں اور حق العباد میں جو عملی صراط مستقیم ہے ایک باریک فرق ہے
خطبات مسرور جلد ہفتم 84 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 اور وہ یہ ہے جو عملی صراط مستقیم حق النفس کا وہ صرف ایک ملکہ ہے جو بذریعہ ورزش کے انسان حاصل کرتا ہے“.(عملی صراط مستقیم جو حق النفس کا ہے وہ صرف ایک خاص ملکہ ہے، ایک خاص چیز ہے جو انسان ورزش سے حاصل کرتا ہے.ورزش کا مطلب ہے روحانی ورزش، عبادت، اللہ تعالیٰ کے لئے خاص طور پر ایک مجاہدہ کرنا اور ایک بالمعنی شرف ہے خواہ خارج میں کبھی ظہور میں آوے یا نہ آوے“.( یہ ایک ایسا حقیقی بزرگی کا مقام ہے جو بظا ہر نظر آتا ہو یا نہ نظر آتا ہو لیکن اس کوشش کی وجہ سے جو انسان اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدے کر رہا ہوتا ہے اس سے اس کو حاصل ہوتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ یہ آپ کو یا ہر ایک کو نظر آئے ).لیکن حق العباد جو عملی صراط مستقیم ہے وہ ایک خدمت ہے اور تبھی متفق ہوتی ہے ( ظاہر ہوتی ہے، واضح ہوتی ہے ) کہ جب افراد کثیرہ بنی آدم کو خارج میں اس کا اثر پہنچے.(جب دنیا کی مخلوق کی جو اکثریت ہے وہ ان کو نظر آرہی ہو اور اس کا اثر پہنچ رہا ہو.یعنی بندہ اللہ تعالیٰ کے اور ایک انسان دوسرے بندوں کے حقوق ادا کر رہا ہو).فرمایا کہ اور شر ط خدمت کی ادا ہو جائے.غرض تحقق عملی صراط مستقیم حق العباد کا ادائے خدمت میں ہے ( کہ ایک صحیح اور ثابت شدہ چیز ہے وہ تبھی ثابت ہوگی جب بندہ دوسرے بندوں کی خدمت کا حقیقی طور پر حق ادا کر رہا ہو.ایسی صورت جب ہو گی تبھی عملی صراط مستقیم ہوگی.فرمایا کہ اور عملی صراط مستقیم حق النفس کا صرف تزکیہ نفس پر مدار ہے اور جو صراط مستقیم ہے جس کے لئے آدمی دعا کرتا ہے، اپنے نفس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم ، اس کا حقیقی نتیجہ تب ہی نکلے گا جبکہ انسان اپنے نفس کی پاکیزگی کی طرف کوشش کر رہا ہو.کسی خدمت کا ادا ہونا ضروری نہیں“.(اپنے نفس کی ادائیگی کے لئے ضروری نہیں ہے کہ دوسروں کی خدمت بھی کی جارہی ہو ).فرمایا کہ یہ تزکیہ نفس ایک جنگل میں اکیلے رہ کر بھی ادا ہو سکتا ہے.لیکن حق العباد بجز بنی آدم کے ادا نہیں ہو سکتا.اس لئے فرمایا گیا جور ہبانیت اسلام میں نہیں“.الحکم 24 جلد 9 نمبر 33 ستمبر 1905 ء صفحہ 4-3) اب نفس کا تزکیہا کیلا انسان جنگل میں رہ کے بھی کر سکتا ہے.لیکن ایک معاشرے میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں.وہ دوسرے بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے اور بھی وہ صراط مستقیم پر چلنے والا انسان کہلائے گا جب اپنے ساتھیوں کے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے، اپنے معاشرے کے، اپنے ہمسائے کے حق ادا کر رہا ہو.تو یہ ایک ایسی وضاحت ہے جو اگر سمجھ آجائے تو یہ راستے دکھاتی ہے، راستے تک پہنچاتی ہے اور پھر انسان منزل تک پہنچتا ہے.اس کے گہرے مطلب سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد چاہئے.اس لئے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اس اقتباس میں تمام نیکیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کی توحید کے قیام پر مرکوز کر دیا گیا ہے اور یہی حقیقی ہدایت ہے جس کے لئے ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے.اس ضمن میں ایک جگہ نفوس کو شرک کی باریک راہوں
خطبات مسرور جلد ہفتم 85 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 سے پاک کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دعا کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ : پھر جان لو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی آیت میں نفوس کو شرک کی باریک راہوں سے پاک کرنے اور ان راہوں کے اسباب کو مٹانے کی طرف عظیم اشارہ ( پایا جاتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس آیت میں نبیوں کے کمالات کے حاصل کرنے اور ان ( کمالات کے دروازوں کو کھولے جانے کی استدعا کی ترغیب دی ہے کیونکہ زیادہ تر شرک نبیوں اور ولیوں کے متعلق غلو کرنے کی وجہ سے دنیا میں آیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے نبی کو ایسا یکتا اور منفرد اور ایسا وحدہ لاشریک گمان کیا جیسے ذات رب العزت ہے ان کا مال کار یہ ہوا کہ انہوں نے کچھ مدت کے بعد اُسی نبی کو خدا تعالیٰ کے مقابلے پہ لائے اور معبود بنالیا.(آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ اس نبی کو معبود بنالیا.اسی طرح ( حضرت عیسی کی تعریف میں ) مبالغہ آرائی کرنے اور حد سے بڑھنے کی وجہ سے عیسائیوں کے دل بگڑ گئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی فساد اور گمراہی کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور اس طرف بھی اشارہ فرماتا ہے کہ ( اللہ تعالیٰ سے ) انعام پانے والے لوگ یعنی رسول ، نبی اور محدث اس لئے مبعوث کئے جاتے ہیں کہ لوگ ان بزرگ ہستیوں کے رنگ میں رنگین ہوں ، نہ اس لئے کہ وہ ان کی عبادت کرنے لگیں اور انہیں بتوں کی طرح معبود بنالیں.پس ان با اخلاق پاکیزہ صفات والی ہستیوں کو دنیا میں بھیجنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ( ان کا ہر متبع ان صفات سے متصف ہو نہ یہ کہ انہیں کو پتھر کا بت بنا کر اس پر ماتھا رگڑنے والا ہو.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 89 - ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 271 - حاشیہ) اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ولی بنو، ولی پرست نہ بنو اور پیر بنو پیر پرست نہ بنو.ہمارے ہاں بھی پیر پرستی کا بعض جگہوں پر بڑا رواج ہو گیا ہے اور بعض لوگوں نے کاروبار بھی بنا لیا ہے.جس طرح مسلمانوں کے بعض چینل 24 گھنٹے چل رہے ہوتے ہیں کہ کتاب کھولی اچھا کیا استخارہ کرانا ہے اور وہیں دو چار لفظ پڑھے اور کہہ دیا کہ اس کا رشتہ کامیاب ہوگا یا نہیں کامیاب ہوگا.مجھے بھی بعض شکایات آتی ہیں.بعض جگہوں پر بعض عورتیں اور مرد پانچ گھنٹے، چھ گھنٹے میں استخارہ کر کے جواب دے دیتے ہیں.اپنی مرضی کے رشتے کروا دیتے ہیں اور اس کے بعد جب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تمہارا قصور ہے ہمارا استخارہ ٹھیک تھا.یہ صرف اس لئے ہے کہ خود دعا ئیں نہیں کرتے.خود توجہ نہیں.خود نمازوں کی پابندی نہیں اور ایسے لوگوں پر اندھا اعتقاد ہے جنہوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے.احمدیوں کو اس قسم کی چیزوں سے خاص طور پر بچنا چاہئے.فرماتے ہیں کہ ”پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں سمجھ بوجھ اور عقل رکھنے والوں کو اشارہ فرمایا ہے کہ نبیوں کے کمالات پروردگار عالم کے کمالات کی طرح نہیں ہوتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ، بے نیاز اور یگانہ ہے.اس کی ذات اور صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں.لیکن نبی ایسے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالی ان کے بچے متبعین میں
86 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم سے ان کے وارث بناتا ہے.پس ان کی امت ان کی وارث ہوتی ہے.وہ سب کچھ پاتے ہیں جو ان کے نبیوں کو ملا ہو بشر طیکہ وہ ان کے پورے پورے متبع بنیں اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : 32) میں اشارہ فرمایا ہے.(کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 89- ترجمه از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 271-272 - حاشیہ) پس یہ دعا توحید کی طرف لے جاتی ہے.پھر آپ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اسلام کا نام استقامت ہے فرماتے ہیں کہ: قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے (یعنی اسلام کا نام استقامت رکھا ہے.جیسا کہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر.ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے.واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے".(یعنی ہر چیز کی جو استقامت کی حالت ہے وہ اس کی جو بنیادی غرض ہے اس پر نظر رکھ کے سمجھی جاتی ہے ) اور انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے ( انسان کے پیدا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان خدا کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے اور جب وہ اپنے تمام قومی سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہوگا.جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑ کی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آ جاتی ہیں..فرمایا کہ اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے.اس کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا ) بنی اسرائیل : 73) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا ہے اور خدا کو دیکھنے کا اس کو نور نہ ملاوہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا“.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 344) پس یہ اندرونی غلاظتیں ایک دفعہ میں اور بغیر کسی کوشش کے نہیں دھل جاتیں جیسا کہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے.دعا کی ضرورت ہے اور تب ہی پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ظاہر ہوتا ہے اور پھر وہ اچانک انسان کو اپنے نور میں لپیٹ لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ”انسان کا اسم اعظم استقامت ہے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں“.
87 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.جب انسان انسانیت میں ترقی کرے تو اس کو فر مایا کہ یہ استقامت ہے اور یہی اسم اعظم ہے کہ انسان انسانیت میں ترقی کرتا چلا جائے.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمُ میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 37 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس انسانیت میں جو لا محدود کمالات ہیں.ہر انسان کو ، ہر مومن کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی وسعت ہے اور اس کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے.پھر ہماری اس دعا کرنے کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کس طرح اس دعا کو وسیع کرنا چاہیئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” دعا کے بارہ میں یہ یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں دعا سکھلائی ہے یعنی اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اس میں تین لحاظ ر کھنے چاہئیں.(1) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھئے“.(پوری دنیا کا جو انسان ہے اس کو اپنی دعا میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں شریک رکھے.) (2) تمام مسلمانوں کو اپنی دعا میں شریک رکھو.اللہ تعالیٰ ان کو بھی صراط مستقیم پر چلائے.) " تیسرے ان حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں.پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشاء خدا تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس سے پہلے اسی سورۃ میں اس نے اپنا نام رب العالمین رکھا ہے جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے جس میں حیوانات بھی داخل ہیں.پھر اپنا نام رحمان رکھا ہے اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مومنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ رحیم کا لفظ مومنوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام ملِكِ يَوْمِ الدين رکھا ہے اور بیہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ يَومُ الدِّين وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی.سو اس تفصیل کے لحاظ سے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ہے.پس اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام بنی نوع انسان کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو“.(احکم جلد 2 شمارہ 33 مورخہ 29 را کتوبر 1898 ء صفحہ 4 کالم 2-1) پس ساری باتیں جو آپ نے سنیں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم دنیا کی ہدایت کے لئے دعا کریں.مسلمانوں کی ہدایت کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ انسانیت کو بھی تباہ ہونے سے بچائے.آج کل جس نہج پر خدا تعالیٰ کو بھول کر انسانیت چل رہی ہے ، ایک ملک دوسرے ملک سے جس طرح ( ظاہر انہیں بھی) تو اندر ہی اندر پر خاش رکھے
خطبات مسرور جلد ہفتم 88 خطبه جمعه فرموده 13 فروری 2009 ہوئے ہے، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بڑی تیزی سے اس طرف جا رہے ہیں جہاں جنگ عظیم کا بڑا واضح امکان نظر آ رہا ہے.اس سے پھر انسانیت کی تباہی ہونی ہے.اس لئے ہمیں یہ دعا خاص طور پر کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جہاں جنگ کے شر سے اور جنگ کی آفات سے سب احمدیوں کو محفوظ رکھے وہاں مسلم امہ کو بھی محفوظ رکھے اور تمام انسانیت کو بھی محفوظ رکھے.اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا بالکل آگ کے کنارے پر کھڑی ہے اور کسی وقت بھی یہ کنارا گرے گا اور ایک خوفناک تباہی اور آفت آنے والی ہے.اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.اس طرف خاص توجہ دیں.اگر آج دنیا میں کوئی بچا سکتے ہیں تو احمدی دعاؤں سے بچا سکتے ہیں کیونکہ یہی لوگ ہیں جو حقیقی مومن بھی ہیں اور اس جماعت میں شامل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہے.پس خاص کوشش سے اپنے اندر بھی تبدیلیاں پید کرتے ہوئے اور دنیا کی تباہی کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 10 مورخہ 6 مارچ تا 12 مارچ 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9
خطبات مسرور جلد ہفتم 8 89 خطبہ جمعہ فرموده 20 فروری 2009 فرمودہ مورخہ 20 رفروری 2009ء بمطابق 20 تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے وہ پہلوان ہیں جن کو خود خدا تعالیٰ نے جری اللہ کہہ کر مخاطب فرمایا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ خطاب آپ کو کیوں عطا فرمایا؟ اس لئے کہ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ ، آنحضرت ﷺ اور اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی اور آپ اسلام کے دفاع کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.ہر مذہب کے بارہ میں آپ کا گہرا مطالعہ اور علم تھا اور ہر مذہب کے مقابل پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے آپ ہمہ وقت مصروف رہتے تھے.جب ہندوستان میں عیسائی مشنریز کا زور ہوا اور اسلام اور بانی اسلام لے کے خلاف سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں.اس زمانہ میں لا تعداد پمفلٹ اور اشتہارات تقسیم ہوئے جس نے مسلمانوں کو عیسائیت کی جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا اور جو عیسائیت میں شامل نہیں ہوئے ان میں سے لاتعداد مسلمان ایسے تھے جن کے ذہنوں میں اسلام کی تعلیم کے خلاف شبہات پیدا ہونے لگے.اور پھر عیسائیت کے اس حملے کے ساتھ ہی آریہ سماج اور برہمو سماج اٹھے.یہ تحریکیں بھی پورے زور سے شروع ہوئیں اور مسلمانوں کا اس وقت یہ حال تھا کہ بجائے اس کے کہ دوسرے مذاہب کا مقابلہ کریں آپس میں دست وگریباں تھے ایک دوسرے پر تکفیر کے فتوے لگا رہے تھے.اس وقت اسلام کی اس نازک حالت پر اگر کوئی حقیقت میں فکر مند تھا اور اسلام کا دفاع کرنا چاہتا تھا تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تھے.اس وقت اسلام پر جو حملے ہورہے تھے آپ نے ان سب کے توڑ کے لئے ایک کتاب لکھی جس کا نام براہین احمدیہ رکھا جس میں آپ نے قرآن کریم کو کلام الہی اور ہر لحاظ سے مکمل کتاب کے طور پر پیش کیا اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کی نبوت اور آپ کا افضل ہونا ثابت کیا اور نا قابل تردید دلائل سے ثابت کیا.جس نے تمام مذاہب جو اسلام کے مقابلہ پر تھے اُن کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ اسلام کے خلاف ہر قسم کے اوچھے اور گھٹیا حملے کرنے میں اور زیادہ تیز ہو گئے.آپ کے اس نئے انداز نے جو آپ نے براہین احمدیہ میں پیش فرمایا اور آپ کا اسلام کے دفاع کا ، اسلام کی تعلیم کی خوبصورتی بیان کرنے کا جو طریق تھا.اس کو بہت سے مسلمان علماء نے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا.لیکن جب آپ نے اشتہاروں وغیرہ کے ذریعہ سے
خطبات مسرور جلد ہفتم 90 خطبہ جمعہ فرموده 20 فروری 2009 اسلام کے پیغام کو مزید وسعت دی تو مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ آپ کے خلاف ہو گیا اور غیروں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی.آپ نے اُس زمانہ میں اسلام کا پیغام جس جوش سے دنیا تک پہنچایا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے اور آپ کے ایک صحابی حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب کے حوالہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ بیان کیا ہے کہ اُس وقت آپ نے 20 ہزار کی تعداد میں اشتہار چھپوایا اور دنیا کے مختلف حصوں میں جہاں بھی اس زمانہ میں ڈاک جاسکتی تھی تمام بادشاہوں اور ارباب حکومت کو ، وزیروں کو، مدبرین کو مصنفین کو ، علماء کو،نوابوں وغیرہ کو وہ اشتہار بھجوایا.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب آپ کا دعوی مسیحیت نہیں تھا بلکہ مجدد کے طور پر آپ نے پیغام دیا تھا اور اسلام کی خوبیاں بیان کی تھیں.بہر حال اس پیغام سے جب یہ دنیا میں مختلف جگہوں پر گیا تھا.تو دنیا کے لوگوں میں ایسی خاص کوئی ہل جل پیدا نہیں ہوئی لیکن ہندوستان کے اندر جو دوسرے مذاہب تھے جن کا اندازہ تھا کہ اب ہم نے مسلمانوں کو اپنے اندر سمیٹا ہی سمیٹا ، ان پر ایک زلزلہ آ گیا.جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اسلام کے دفاع میں ایک کتاب لکھی گئی ہے اور اب براہ راست مقابلہ کے لئے اور اسلام کی عظمت بیان کرنے کے لئے اشتہارات بھی تقسیم کئے جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ غیر مسلم جو بھی حربہ اسلام کے خلاف استعمال کر سکتے تھے انہوں کیا.جیسا کہ میں نے کہا بعض مسلمان بھی اپنی کینہ پروری کی وجہ سے ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور آپ کے خلاف ہو گئے.بہر حال اس صورت حال میں آپ نے بڑے درد سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ میں تیرے آخری اور کامل دین اور حضرت خاتم الانبیا ہے جو تیرے بہت زیادہ پیارے ہیں ان کے دفاع کے لئے سب کچھ کر رہا ہوں اس لئے اے اللہ تو میری مدد کر.اور اس سوچ کے ساتھ آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ایک چلہ کشی کریں.یعنی چالیس دن تک علیحدہ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ سے خاص دعائیں کریں تا کہ خدا تعالیٰ سے اسلام کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کا خاص تائیدی نشان مانگیں.اس کے لئے پہلے آپ نے استخارہ کیا کہ کس جگہ پر چلہ کشی کی جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بتایا گیا کہ یہ چلہ کشی کا مقام ہوشیار پور ہوگا.چنانچہ آپ نے اس مقصد کے لئے ہوشیار پور کا سفر اختیار کیا.آپ کے ساتھ اس وقت تین ساتھی تھے جن میں ایک تو مولوی عبداللہ سنوری صاحب تھے، حافظ حامد علی صاحب تھے اور فتح خان صاحب تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک دوست شیخ مہر علی صاحب کو جو ہوشیار پور کے تھے خط لکھا کہ میں وہاں دوماہ کے لئے آ رہا ہوں.میرے لئے ایک علیحدہ گھر کا انتظام کر دیں تاکہ علیحدگی میں صحیح طرح خدا تعالیٰ کی عبادت ہو سکے.آپ نے اپنے ساتھیوں کو بھی کہہ دیا کہ اس عرصہ میں کوئی مجھے نہ ملے اور کسی قسم کی ملاقاتیں نہیں ہوں گی.بہر حال شیخ صاحب نے اپنا ایک مکان جو شہر سے باہر تھا اس میں آپ کا انتظام کروا دیا.آپ وہاں چلہ کشی کے لئے 22 جنوری 1886ء کو پہنچے اور دوسری منزل میں جا کر اپنے ٹھہر نے کا فیصلہ فرمایا اور اپنے ساتھیوں کو ہدایت کر دی.( جیسا کہ بعد میں انہوں نے بتایا کہ نہ کوئی مجھے ملے
91 خطبہ جمعہ فرموده 20 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اور نہ تم لوگوں نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہے حتی کہ کھانے وغیرہ کے لئے جب کھانا لے کر آؤ تو میرے کمرے میں رکھ دینا.جب میں نے کھانا ہوگا کھالوں گا.بہر حال اس چلہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ پر بہت سے انکشافات فرمائے.چنانچہ 20 فروری 1886ء کو آپ نے وہیں سے ایک اشتہار شائع فرمایا اور اسے مختلف علاقوں میں بھجوایا.اس میں بہت ساری پیشگوئیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان سے آپ کی زندگی میں پوری کیس اور بعد میں بھی پوری کرتا گیا.جماعت میں 20 فروری کے حوالہ سے ہر سال ایک جلسہ منعقد کیا جاتا ہے.اس لئے میں اس اس کی اہمیت اور کس شان سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی یعنی پیشگوئی حضرت مصلح موعود.اس کا کچھ ذکر کروں گا.آج بھی اتفاق سے 20 فروری ہے.یہ جو پیشگوئی تھی یہ آپ نے اپنے ایک بیٹے کی پیدائش اور اس کی خصوصیات کے بارے میں کی تھی اور جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ موعود بیٹے کی پیدائش کی پیشگوئی آپ نے انہی دعاؤں کے دوران اللہ تعالیٰ سے علم پا کر کی تھی جب آپ اللہ تعالیٰ سے اسلام اور بانی اسلامیہ کی صداقت کا نشان دشمنان اسلام کا منہ بند کرنے کے لئے مانگ رہے تھے.پس یہ پیشگوئی کوئی معمولی پیشگوئی نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی بھی اور اس پیشگوئی کا مصداق بھی اس زمانے میں اسلام کی عظمت ثابت کرنے کا ایک نشان ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک تقدیر ہے کہ 1889ء میں جس سال حضرت مسیح موعود کو بیعت لینے کا اذن ہوا اسی سال میں اس پیشگوئی کا مصداق موعود بیٹا پیدا ہوا.بہر حال اس پیشگوئی کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں.آپ نے جو اشتہار دیا اس میں فرمایا کہ: پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر کے متعلق ہے آج 20 فروری 1886ء میں جو مطابق 15 جمادی الاوّل ہے برعایت ایجاز واختصار کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں درج ہوگی.انشاء اللہ تعالی.فرمایا ” پہلی پیشگوئی بِالهَامِ اللَّهِ تَعَالَى وَإِعْلَامِهِ عَزَّ وَجَل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے ( جَلَّ شَأْنُهُ وَعَزَّ اسْمُهُ ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں.اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سوئیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپائی قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر! تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں وہ موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوا اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام خوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا
92 خطبه جمعه فرمود و 20 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی عملے کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک ذکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عَنْمَوَائِیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا“ لکھا ہے (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه - فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الاَوَّلِ وَالْآخِرِ.مَظْهَرُ الْحَقِ وَالْعَلَاءِ كَااَنَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور.جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گاوَ كَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا 66 (اشتہار 20 رفروری 1886ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 100-103 مطبوعہ ربوہ ) یہ پیشگوئی کے الفاظ ہیں اور اگر اس کی جزئیات میں جائیں تو یہ تقریباً 52 پوائنٹس بنتے ہیں اور پیشگوئی کے بارے میں جو بعض دوسرے الہامات تھے ان کو اگر شامل کریں تو حضرت مصلح موعودؓ نے خود ہی ایک جگہ 59 پوائنٹس بھی لکھے ہیں.تو یہ ہے وہ عظیم پیشگوئی جس کے پورا ہونے کے لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ بتایا کہ 9 سال کے عرصہ میں یہ لڑکا پیدا ہو گا اور ان خصوصیات کا حامل ہو گا جو میں نے بیان کی ہیں.تفصیل بیان کی تو وقت زیادہ ہو جائے گا اس لئے مختصراً یہ بیان کر رہا ہوں.اس پیشگوئی کے کچھ عرصہ بعد جب آپ نے اشتہار شائع کر دیا اور اعلان ہوا تو آپ کے ہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی جس کا نام عصمت تھا.اس پر مخالفین نے بہت شور مچایا کہ آپ کی پیشگوئی غلط ثابت ہوگئی.آپ نے فرمایا کہ میں نے تو معین عرصہ دیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ فوری طور پر پیدائش ہوگی.بہر حال پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اس کا نام بشیر رکھا گیا اور یہ بشیر اقول کہلاتے ہیں.لیکن کچھ عرصہ بعد بچپن میں ہی ان کی بھی وفات ہوگئی تو مخالفین نے اس پر بڑا شور مچایا بلکہ ان دونوں بچوں کی پیدائش سے پہلے جب آپ نے پیشگوئی کی تھی تو پنڈت لیکھرام
خطبات مسرور جلد ہفتم 93 خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 نے بڑے گھٹیا الفاظ میں آپ کی پیشگوئی کے ہر فقرے کے مقابلہ پر آپ کی اس پیشگوئی کے رد کے فقرے کہے تھے.مثلاً ایک فقرہ پیشگوئی کا یہ ہے کہ ایک ذکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل سے ہوگا.اس کے مقابلے پر لیکھر ام نے لکھا کہ مجھے بھی خدا نے بتایا ہے کہ آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی.غایت درجہ زیادہ سے زیادہ) تین سال تک شہرت رہے گی نیز اگر کوئی لڑکا پیدا ہوگا تو وہ رحمت کا نشان نہیں زحمت کا نشان ( نعوذ باللہ ) ہوگا.اور بہت سی خرافات تھیں.مصلح موعود کی پیشگوئی پورا ہونے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو یہ وعدہ فرمایا تھا کہ اب تیری نسل تجھ سے ہی دنیا میں پھیلے گی تو آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جسمانی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں پھیلایا ہوا ہے.اور لیکھرام کی اولاد کا تو پتہ نہیں کہ وہ کہیں ہے بھی کہ نہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو روحانی اولاد ہے وہ دنیا میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے.ہر ملک میں یہ ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں.بہر حال بشیر اول کے فوت ہونے پر دشمن نے اور بھی تالیاں بجا ئیں بڑے خوش ہوئے اور لیکھرام کے جو چیلے تھے مزید اچھلنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو عرصہ بتایا ہے اس کا انتظار کرو.اگر کہو کہ یہ لمبا عرصہ ہے تو کون یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ اتنی زندگی ہو بھی سکتی ہے کہ نہیں کجا یہ کہ بیٹے کی پیشگوئی ہو.پھر بیٹے کے بارہ میں بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہ دیا، تگا لگا دیا.لوگوں کے بھی بیٹے ہوتے ہیں.بیٹیاں بھی ہوتی ہیں.اپنی زندگی کے بارہ میں فرمایا کہ اس وقت تک زندگی بھی رہے گی.یا پھر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے بات ہی کرنی ہے.جس طرح لیکھرام نے اپنی طرف سے الہام بنا کر پیش کر دیا ہے آپ نے بھی کر دیا.لیکن آپ نے فرمایا کہ بیٹے کے ساتھ نشانات بھی ہیں.جب وہ نشانات پورے ہوں گے تو دنیا خود جان لے گی کہ اعلان کرنے والا یقیناً خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اعلان کرنے والا ہے جو حق ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گونو برس سے بھی دو چند ہوتی اس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آ سکتا.بلکہ صریح دلی انصاف ہر یک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے ، انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے.خبر بالاتر ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه 101 مطبوعہ ربوہ ) یعنی صرف لڑکے کی خبر نہیں دی بلکہ ایک ایسے لڑکے کی خبر دی ہے جو اس عرصہ میں پیدا ہو گا، عمر پائے گا، اسلام کی خدمت کرے گا.آنحضرت علی کے نام کو پھیلائے گا اور پھر زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.بہر حال دشمنان اسلام کی طرف سے مختلف اعتراضات ہوتے رہے.9 سال کی مدت پر بھی جیسا کہ میں نے کہا اعتراض ہوا اور بشیر اول کی وفات پر دشمن بڑا خوش تھا.بشیر اول کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دوسری نکتہ چینی مخالفوں کی یہ ہے کہ لڑکا جس کے بارے میں پیشگوئی 8 را پریل 1886ء کے اشتہار میں کی
94 خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم تھی وہ پیدا ہو کر صغرسنی (چھوٹی عمر میں فوت ہو گیا.اس کا مفصل جواب اسی تقریر میں مذکور ہے اور خلاصہ جواب یہ ہے کہ آج تک ہم نے کسی اشتہار میں نہیں لکھا کہ یہ ڑ کا عمر پانے والا ہوگا اور نہ یہ کہا کہ یہی مصلح موعود ہے“.یعنی جو لڑکا پیدا ہوا تھا بشیر اول وہی عمر پانے والے یا مصلح موعود ہیں.” بلکہ ہمارے اشتہار 20 فروری 1886ء میں بعض ہمارے لڑکوں کی نسبت یہ پیشگوئی موجود تھی کہ وہ کم عمری میں فوت ہوں گے.پس سوچنا چاہئے کہ اس لڑکے کی وفات سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا جھوٹی نکلی.بلکہ جس قدر ہم نے لوگوں میں الہامات شائع کئے اکثر ان کے اس لڑکے کی وفات پر دلالت کرتے تھے.چنانچہ 20 فروری 1886ء کے اشتہار کی یہ عبارت کہ ایک خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.یہ جو پیشگوئی میں نے پڑھی اس کے یہ الفاظ تھے.فرماتے ہیں یہ مہمان کا لفظ در حقیقت اسی لڑکے کا نام رکھا گیا تھا اور یہ اس کی کم عمری اور جلد فوت ہونے پر دلالت کرتا ہے.کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہو جاوے اور جو قائم مقام ہو اور دوسروں کو رخصت کرے اس کا نام اور کا مہمان نہیں ہوسکتا اور اشتہار مذکور کی یہ عبارت کہ وہ رجس سے ( یعنی گناہ سے ) بکنی پاک ہے.یہ بھی اس کی صغرسنی کی وفات پر دلالت کرتی ہے“.(چھوٹی عمر میں وفات پر دلالت کرتی ہے اور یہ دھوکہ کھانا نہیں چاہئے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے.کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا ( پہلے جو تین چار لائنوں کے الفاظ ہیں وہ بشیر اول کے بارہ میں ہیں.مصلح موعود کی جو پیشگوئی ہے وہ اس لفظ سے شروع ہوتی ہے.الفاظ اس کے یہی ہیں.فرمایا کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التواء میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے، پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت الہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اول جو فوت ہو گیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ا رہاص تھا.اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا.سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد نمبر 2 صفحہ 466-467 - حاشیہ ) بہر حال 12 جنوری 1889ء کو پیشگوئی کے تین سال کے بعد یہ لڑکا پیدا ہوا جن کا نام مرزا بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب سر الخلافہ میں (یہ کتاب 1894ء میں لکھی گئی تھی ) تحریر فرماتے ہیں کہ: ”میرا ایک چھوٹا بیٹا جس کا نام بشیر تھا (بشیر اول مراد ہے ) اللہ تعالیٰ نے اسے شیر خواری میں ہی وفات
خطبات مسرور جلد ہفتم 95 خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 دے دی.تب مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ ہم اسے از راہ احسان تمہارے پاس واپس بھیج دیں گے.ایسا ہی اس بچے کی والدہ نے رویا میں دیکھا کہ بشیر آگیا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ سے نہایت محبت کے ساتھ ملوں گا اور جلد جدا نہ ہوں گا اور اس الہام اور رؤیا کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسرا فرزند عطا فرمایا.تب میں نے جان لیا کہ یہ وہی بشیر ( موعود ) ہے اور خدا تعالیٰ اپنے وعدہ میں سچا ہے.چنانچہ میں نے اس بچے کا نام بشیر ہی رکھا اور مجھے اس کے جسم میں بشیر اول کا حلیہ دکھائی دیتا ہے“.( ترجمه از عربی عبارت سر الخلافۃ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 381) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عظیم فرزند کی ذات میں ، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی ذات میں جو بیٹی ثانی ہیں، پیشگوئی مصلح موعود بڑی شان سے پوری ہوئی.جس کا اظہار ایک دنیا نے کیا.آپ حضرت خلیفہ مسیح الاول کی وفات کے بعد خلیفہ بنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے 52 سال آپ کی خلافت رہی اور آپ کے زمانہ میں جماعت نے جس طرح ہندوستان سے باہر نکل کر ترقی کی ہے یہ بھی اس پیشگوئی کی سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے.آپ کے دور کا احاطہ کریں تو ایک وقت میں اس بارہ میں کچھ کہنا مشکل کیا ناممکن ہے.لیکن اس وقت میں پیشگوئی کے پورا ہونے کے جو خاص نشانات ہیں اور اس سلسلہ میں بعض واقعات حضرت مصلح موعود کی اپنی زبان میں اور جو غیروں نے بیان کئے وہ بیان کروں گا.یہاں یہ بھی بتا دوں کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جو مصلح موعود تھے اس وقت تک اپنے بارے میں اعلان نہیں فرمایا کہ میں مصلح موعود ہوں جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا نہیں دیا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر 1944ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ سے اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور تو حید دنیا میں قائم ہوگی.پہلے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی بعض شہادتیں جو غیروں کی ہیں وہ پیش کر دیتا ہوں.ایک معزز غیر احمدی عالم مولوی سمیع اللہ خاں صاحب فاروقی نے قیام پاکستان سے پہلے اظہار حق“ کے نام سے ایک ٹریکٹ میں لکھا کہ آپ کو ( یعنی مسیح موعود کو اطلاع ملتی ہے کہ میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وجی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے.اس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو اور پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے اور مرزا صاحب کی جانب سے انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیت بھی نہ کی گئی تھی بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تھا.چنانچہ اس وقت اکثریت نے ( حضرت ) حکیم نورالدین صاحب ( رضی اللہ عنہ ) کو خلیفہ تسلیم کر لیا.جس پر مخالفین نے محولہ صدر پیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے اور
96 خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانے میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے.خود مرزا صاحب کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی.خلیفہ نورالدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں مرزائیت قریباً دنیا کے ہر خطے تک پہنچ گئی اور حالات یہ بتلاتے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد 1931ء کی نسبت دگنی سے بھی زیادہ ہوگی.بحالیکہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئیں ہیں پہلے کبھی نہیں ہوتی تھیں“.یہ ایک غیر از جماعت کے تاثرات ہیں کچھ نہ کچھ حق تو لکھنا جانتے تھے.آج کل کے علماء کی طرح بالکل ہی اندھے نہیں تھے.).الغرض آپ کی ذریت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی.جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی من وعن پوری ہوئی.“ اظہار الحق صفحہ 16.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 286-287 مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک غیر مسلم صحافی ارجن سنگھ جو رنگین اخبار امرتسر کے ایڈیٹر تھے، لکھتے ہیں کہ " مرزا صاحب نے 1901ء میں جبکہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب موجودہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی.( انہوں نے 1901ء میں لیا ہے.اس لئے انہوں نے درمین کے شعر دیئے ہیں ).بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا کہتے ہیں یہ پیشگوئی بے شک حیرت پیدا کرنے والی ہے.1901ء میں نہ میرزا بشیر الدین محمود احمد کوئی بڑے عالم و فاضل تھے اور نہ آپ کی سیاسی قابلیت کے جو ہر کھلے تھے.اس وقت یہ کہنا کہ تیرا ایک بیٹا ایسا اور ایسا ہو گا، ضرور روحانی قوت کی دلیل ہے.یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ مرزا صاحب نے ایک دعوی کر کے گڑی کی بنیا درکھ دی تھی اس لئے آپ کو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ میرے بعد میری جانشینی کا سہرا میرے لڑکے کے سر پر رہے گا لیکن یہ خیال باطل ہے اس لئے کہ میرزا صاحب نے خلافت کی یہ شرط نہیں رکھی کہ وہ ضرور میرزا صاحب کے خاندان سے اور آپ کی اولاد سے ہی ہو.چنانچہ خلیفہ اول ایک ایسے صاحب ہوئے جن کا مرزا صاحب کے خاندان سے کوئی واسطہ نہ تھا.پھر بہت ممکن تھا کہ مولوی حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اول کے بعد بھی کوئی اور صاحب خلیفہ ہو جاتے چنانچہ اس موقع پر بھی مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور خلافت کے لئے امیدوار تھے لیکن اکثریت نے میرزا بشیر الدین صاحب کا ساتھ دیا اور اس طرح آپ خلیفہ مقرر ہو گئے.اب سوال یہ ہے ( خود لکھتے ہیں یہ ارجن سنگھ صاحب) کہ اگر بڑے میرزا صاحب کے اندر کوئی روحانی قوت
خطبات مسرور جلد ہفتم 97 خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 کام نہ کر رہی تھی تو پھر آخر آپ یہ کس طرح جان گئے کہ میرا ایک بیٹا ایسا ہو گا.جس وقت میرزا صاحب نے مندرجہ بالا اعلان کیا ہے اس وقت آپ کے تین بیٹے تھے.آپ تینوں کے لئے دعائیں بھی کرتے تھے لیکن پیشگوئی صرف ایک کے متعلق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک فی الواقعہ ایسا ثابت ہوا ہے کہ اس نے ایک عالم میں تغیر پیدا کر دیا ہے“.(رسالہ ” خلیفہ قادیان طبع اول صفحہ 7-8 - از ارجن سنگھ ایڈیٹر رنگین امرتسر.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 287-288 مطبوعہ ربوہ ) پھر پسر موعود کے بارے میں اس پیشگوئی میں ایک یہ بات بھی تھی کہ " تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.اس میں بھی غیروں کی شہادت دیکھیں کیا ہے.زمیندار اخبار میں مولوی ظفر علی خاں صاحب نے لکھا ہے.یہ مشہور مصنف مسلم لیڈر تھے اور بڑے زبر دست مقرر تھے.کہتے ہیں.کان کھول کر سن لو.تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے.تمہارے پاس کیا دھرا ہے.تم نے بھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا.مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے اشارہ پر اس کے پاؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے.مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں.مختلف علوم کے ماہر ہیں.دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے.“ ( ایک خوفناک سازش“.صفحہ 196.مظہر علی اظہر.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 288 مطبوعہ ربوہ ) پھر اولوالعزم ہونے اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کئے جانے کے بارہ میں غیروں کی شہادت ہے.خواجہ حسن نظامی دہلوی ایک مشہور صحافی ہیں ان کی شہادت ہے.انہوں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ اکثر بیمار رہتے ہیں.حضرت مصلح موعوددؓ بچپن سے ہی بیمار تھے خود انہوں نے لکھا ہے کہ میں بچپن سے ہی بہت کمزور تھا آنکھوں کی بیماری تھی.پڑھ نہیں سکتا تھا.آنکھیں اتنا اہل جاتی تھیں کہ نظر ہی کچھ نہیں آتا تھا.استاد میری شکایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کرتے تھے بلکہ ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب نے شکایت کی کہ اس کو حساب نہیں آتا ، یا اس کو پڑھنا نہیں آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نفس کے ٹال دیا کرتے تھے کہ ہم نے اس سے کوئی کاروبار نہیں کروانا اور نوکری نہیں کروانی.اور حضرت خلیفہ اول سے پوچھا کرتے تھے کہ کیوں آپ کیا کہتے ہیں؟ وہ کہتے تھے نہیں بالکل ٹھیک ہے.بہر حال جو ظاہری دنیاوی تعلیم تھی وہ کسی قسم کی آپ نے نہیں کی بلکہ دینی تعلیم بھی حضرت خلیفہ اول کی مطب میں بیٹھ کر صرف لیکچر میں سنا کرتے تھے.تو یہ ہے علوم ظاہر و باطنی سے پر کیا جائے گا.اس بارہ میں خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں.کہ اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں.انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کر کے اپنی مغلئی جوانمردی کو ثابت کر دیا اور یہ بھی کہ مغل ذات کا رفرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے.سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل وفہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں“.(اخبار عادل‘ دہلی.24 اپریل 1933 ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 288 مطبوعه ربوہ )
98 خطبہ جمعہ فرموده 20 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر پیشگوئی میں الفاظ تھے کہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.یہ پیشگوئی بھی کس شان سے پوری ہوئی ہے.آج تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ جہاد کے خلاف ہیں اور کشمیریوں کے خلاف ہیں لیکن جو کوششیں حضرت مصلح موعود نے کی تھیں میں ان کے بارہ میں کچھ بتا تا ہوں.تحریک آزادی کشمیر آپ نے شروع کی تھی کیونکہ آل انڈ یا کشمیر کمیٹی جو بنائی تھی اس کا سہرا آپ کے سر پر ہے.اس میں بہت بڑے بڑے مسلم لیڈر سرذوالفقارعلی خان، ڈاکٹر اقبال، خواجہ حسن نظامی، سید حبیب مدیر اخبار سیاست وغیرہ شامل ہوئے اور ان سب کے مشورہ سے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو اس کمیٹی کا صدر چنا گیا.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کشمیری مسلمان جو مدتوں سے انسانیت کے ادنی حقوق سے بھی محروم تھے ان کو آزادی دلوائی گئی.مسلم پریس نے حضرت مصلح موعودؓ کے ان شاندار کارناموں کا اقرار کیا اور آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہاں تک لکھا.کہ جس زمانے میں کشمیر کی حالت نازک تھی اور اس زمانے میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا.انہوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا.اس وقت اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی اور امت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا.اخبار سیاست 18 مئی 1933ء.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289 مطبوعہ ربوہ ) عبدالمجید سالک صاحب تحریک آزادی کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شیخ محم عبد اللہ ( شیر کشمیر ) اور دوسرے کارکنان کشمیر مرزا محمود احمد صاحب اور ان کے بعض کار پردازوں کے ساتھ...اعلانیہ روابط رکھتے تھے اور ان روابط....کی بنا محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیر الوسائل ہونے کی وجہ سے تحریک کشمیر کی امداد کئی پہلوؤں سے کر رہے تھے.( وسائل تو اتنے نہیں تھے لیکن وسائل کا صحیح استعمال تھا) اور کارکنان کشمیر طبعاً ان کے ممنون تھے“.ذکر اقبال صفحہ 188.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289 مطبوعہ ربوہ ) سید حبیب صاحب جو ایک معروف صحافی تھے اور اخبار ”سیاست“ لاہور کے ایڈیٹر تھے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبر بھی تھے جب حضرت مصلح موعود نے کمیٹی سے استعفیٰ دیا تو انہوں نے اپنے اخبار میں 18 مئی 1933ء کی اشاعت میں لکھا کہ میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باوجود ڈاکٹر اقبال اور مولوی برکت علی صاحب دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے اور یوں دنیا پر واضح ہو جائے گا کہ جس زمانے میں کشمیر کی حالت نازک تھی اس زمانے میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا، انہوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا.اس وقت اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے (حضرت) مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو یہ تحریک بالکل ناکام رہتی اور امت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا.میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے.مختصر یہ کہ ہمارے انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہو جائے گی“.( الفضل 28 رمئی 1933ء.بحوالہ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون جولائی 2008 صفحہ 323-324)
خطبات مسرور جلد ہفتم 99 خطبه جمعه فرمود ه 20 فروری 2009 اب پتہ لگ جائے گا کہ کتنا کام کرتی ہے کشمیر کمیٹی اور دنیا نے پھر دیکھ لیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” نہایت قلیل عرصے کی جنگ کے بعد اس طرح کا ایک نظام قائم کر دیایا اس کمیٹی نے عوام کی تحریک میں اتناز ور پیدا کر دیا کہ حکومت انگریزی نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور کشمیر کا صدیوں کا غلام آنکھیں کھول کر آزادی کی ہوا کھانے لگا اور اہل کشمیر کو اسمبلی ملی.پریس کی آزادی ملی.مسلمانوں کو ملازمتوں میں برابری کے حقوق ملے.فصلوں پر قبضہ ملا.تعلیم کی سہولتیں ملی.جو بات نہیں ملی اس کے ملنے کا رستہ کھل گیا.اہل کشمیر نے پبلک جلسوں میں امام جماعت احمد یہ زندہ باد اور صدر کشمیر کمیٹی زندہ باد کے نعرے لگائے.“ (ماخوذ از سلسلہ احمدیہ مطبوعہ 1939 ء صفحہ (409) جب ان کو آزادی ملی تو غیروں نے بھی یہ نعرے لگائے.کشمیر والوں کا جن کی رستگاری کا موجب ہوئے اس وقت حال یہ تھا کہ اس طرح غلام بنائے گئے تھے کہ خود حضرت مصلح موعود اس کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم کشمیر میں گئے ہوئے تھے.ہمارے پاس کافی سامان تھا تو میں نے ایک سرکاری افسر صاحب کو کہا کہ ہمیں مزدور کا انتظام کر دو.تو سڑک پر ایک آدمی چلا جا رہا تھا.اس نے کہا ادھر آؤ اور اسے سامان اٹھوا دیا.تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص بڑا ہائے وائے کرنے لگ گیا.تو میں نے اسے کہا کہ کشمیری تو بہت مضبوط ہوتے ہیں.تم سے سامان نہیں اٹھایا جا رہا.اس نے کہا میں تو اپنے علاقے کا بڑا زمیندار ہوں اور اس وقت میری شادی ہو رہی ہے بلکہ آج دولہا بھی ہوں.میں تو سڑک پر جارہا تھا تو اس نے پکڑ کے مجھے آپ کا سامان پکڑا دیا.کیونکہ ان کی حکومت ہے اس لئے میں ان کے سامنے چوں چرا نہیں کر سکتا.تو یہ ان کا حال تھا کہ اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ایک عام چھوٹے سے سرکاری افسر کے سامنے بول نہیں سکتے تھے.پھر علوم ظاہری و باطنی جو قرآن کریم کا دینی علم ہے اس کے بارہ میں غیروں کا کیا کہنا ہے.علامہ نیاز فتح پوری صاحب مدیر ماہنامہ نگار لکھتے ہیں کہ تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تبحر علمی ، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکر وفر است، آپ کا حسن استدلال، اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا.کل سورۃ ھود کی تفسیر میں حضرت لوط علیہ السلام پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا.آپ نے ھؤلاء بَنَاتِی کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں.خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے.(الفضل 17 نومبر 1963ء.صفحہ 3.بحوالہ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون ، جولائی 2008 صفحہ 324-325)
خطبات مسرور جلد ہفتم 100 خطبہ جمعہ فرموده 20 فروری 2009 دوسرے مفسرین تو نعوذ باللہ حضرت لوط علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لوگوں کو کہا کہ میری بیٹیوں کو لے جاؤ اور میرے مہمانوں کو تنگ نہ کرو.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے بالکل نئے انداز میں اس کی تفسیر پیش کی ہوئی ہے.بہر حال یہ ایک الگ مضمون ہے.پھر قرآن کریم کے بارے میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں کہ: قرآن اور علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی ، اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں، ان کا اللہ تعالیٰ ) انہیں صلہ دے.علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح و تبیین و تر جمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند وممتاز مرتبہ ہے.“ ( بحوالہ ماہنامہ خالد سید نا مصلح موعود نمبر جون، جولائی 2008ء صفحہ 325) علوم ظاہری سے پُر کئے جانے کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود لکھا ہے کہ اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علوم ظاہری سیکھے گا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ) کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” یہاں علوم ظاہری سے مراد حساب اور سائنس وغیرہ علوم نہیں ہو سکتے.کیونکہ یہاں پر کیا جائے گا کے الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے حساب اور سائنس اور جغرافیہ وغیرہ علوم نہیں سکھائے جاتے بلکہ دین اور قرآن سکھایا جاتا ہے.پس پیشگوئی کے ان الفاظ کا کہ ” وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا یہ مفہوم ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور ( خدا تعالیٰ ) خود اس کا معلم ہوگا“.الموعود.انوار العلوم - جلد 17 صفحہ 565 اس ضمن میں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مجھے سکھایا آپ ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ آسمان پر سے مجھے ایسی آواز آئی جیسے گھنٹی بجتی ہے یا جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اسے ٹھکوریں تو اس میں سے بار یک سی ٹن ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے.پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی یہاں تک کہ تمام جو میں پھیل گئی ، ( تمام آسمان میں پھیل گئی ).اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ آواز متشکل ہو کر تصویر کا چوکٹھا بن گئی.پھر اس چوکٹھے میں حرکت پیدا ہونی شروع ہوئی اور اس میں ایک نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی تصویر نظر آنے لگی.تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر بلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اس میں سے گود کر ایک وجود میرے سامنے آ گیا اور کہنے لگا میں خدا کا فرشتہ ہوں.مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں.میں نے کہا سکھاؤ وہ سکھاتا گیا،سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا یہاں تک کہ جب وہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک پہنچا تو کہنے لگا کہ
101 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 آج تک جس قدر مفسرین گزرے ہیں ان سب نے یہیں تک تفسیر کی ہے لیکن میں تمہیں آگے بھی سکھانا چاہتا ہوں.میں نے کہا سکھاؤ.چنانچہ وہ سکھاتا چلا گیا.یہاں تک کہ ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر اس نے مجھے سکھا دی.الموعود انوار العلوم - جلد 17 صفحہ 570) پھر آپ فرماتے ہیں کہ دوسری خبر اس پیشگوئی میں یہ دی گئی تھی کہ وہ باطنی علوم سے پر کیا جائے گا.باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص ہیں جیسے علم غیب ہے.جسے وہ اپنے ایسے بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپرد کرتا ہے تا کہ خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق ظاہر ہو اور وہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان تازہ کرسکیں“.الموعود.انوارالعلوم.جلد 17 صفحہ 579) آپ کی بے شمار رویا ہیں.اس ضمن میں اپنی ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک اور خبر جو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس جنگ کے متعلق بتائی اور نہایت ہی عجیب رنگ میں پوری ہوئی ( یہ جنگ عظیم کی بات ہے ) وہ یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں انگلستان گیا ہوں اور انگریزی گورنمنٹ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ ہمارے ملک کی حفاظت کریں.میں نے اس سے کہا کہ پہلے مجھے اپنے ذخائر کا جائزہ لینے دو تمہارا جو ذخیرہ ہے اس کا جائزہ لینے دو ) پھر میں بتا سکوں گا کہ میں تمہارے ملک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتا ہوں یا نہیں.اس پر حکومت نے مجھے اپنے تمام جنگی محکمے دکھائے اور میں ان کو دیکھتا چلا گیا.آخر میں میں نے کہا کہ صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے.اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں تو میں انگلستان کی حفاظت کا کام کر سکتا ہوں.جب میں نے یہ کہا تو معا میں نے دیکھا کہ امریکہ کی طرف سے ایک تار آیا ہے.جس کے الفاظ یہ ہیں کہ The American government has.delivered 2,800 aeroplanes, to British government یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سو ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو بھجوا دیئے ہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.کہتے ہیں کہ میں نے یہ خواب چوہدری ظفر اللہ صاحب کو بھی سنادی تھی.چند دنوں کے بعد جب میں مسجد میں تھا تو مجھے فون آیا.میں فون سننے گیا تو پتہ چلا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا فون ہے.انہوں نے کہا کہ آپ نے اخبار میں خبر نہیں دیکھی.میں نے کہا نہیں.کیا خبر ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ کی خواب پوری ہوگئی.ابھی ابھی ایک سرکلر آیا ہے.پہلے محکمے میں آیا تھا.اب اخبار میں بھی خبر آ گئی ہے کہ امریکی حکومت نے برطانوی حکومت کو 2800 جنگی جہاز دیئے ہیں.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 604-603) اسی طرح بیلجیئم کے بادشاہ کے متعلق کہتے ہیں کہ 1940ء کو ہزاروں لوگوں کے مجمع میں میں نے اپنے کشف کا ذکر کیا تھا جو تین دن کے اندر اندر پورا ہو گیا.( یہ بھی غیب کی خبر تھی اور وہ یہ تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک
102 خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم میدان ہے جس میں اندھیرا سا ہے اور اس میں ایک شخص سیاہی مائل سبز سی وردی پہنے کھڑا ہے جس کے متعلق مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بادشاہ ہے.پھر الہام ہوا Abdicated.میں نے اپنے اس کشف کا ذکر 26 مئی کو کیا تھا جب لوگ حکومت برطانیہ کی کامیابی کے متعلق دعا کرنے کے لئے جمع تھے اور میں نے اس کی تعبیر یہ کی تھی کہ کوئی بادشاہ اسی جنگ میں معزول کیا جائے گا.یا کسی معزول شدہ بادشاہ کے ذریعہ کوئی تغیر واقع ہو گا.چنانچہ اس الہام پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے تحکیم کے بادشاہ لیوپولڈ کو نا گہانی طور پر معزول کر دیا.Abdicated کا مطلب یہی ہے کہ Denouncement or Default.مطلب ہے کہ کسی اعلان کے ذریعہ سے یا عملاً اپنے فرائض منصبی کے ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کو فارغ کر دیا جائے.گویا یا تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں بادشاہت سے الگ ہوتا ہوں یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ وہ بادشاہت کے فرائض ادا نہ کر سکے.کہتے ہیں کہ بعینہ ایسے ہوا اور حکیم گورنمنٹ نے یہ الفاظ استعمال کئے اور اس نے کہا کہ ہمارا بادشاہ جرمن قوم کے ہاتھ میں ہے اور اب وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتا.پس اب تحکیم کی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ بادشاہ.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 605-606 ) اس طرح کے بہت سارے واقعات ہیں.پھر اپنے بارے میں کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.فرمایا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح نشان پورے کئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ میرا حافظ و ناصر ہوتا رہا اور دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھا.آپ فرماتے ہیں کہ اب دیکھو! اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس الہام کی صداقت میں متواتر میری حفاظت اور نصرت کی ہے.مجھے اس وقت تک کوئی ایسا الہام نہیں ہوا جس کی بناء پر میں یہ کہ سکوں کہ میں انسانی ہاتھوں سے نہیں مروں گا.لیکن بہر حال میں اس یقین پر قائم ہوں کہ جب تک میرا کام باقی ہے اس وقت تک کوئی نص مجھے مار نہیں سکتا.میرے ساتھ متواتر ایسے واقعات گزرے ہیں کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنا چاہا.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ان کے حملوں سے مجھے محفوظ رکھا.فرمایا کہ ایک دفعہ میں جلسے پر تقریر کر رہا تھا اور تقریر کرتے کرتے میری عادت ہے کہ میں گرم گرم چائے کے ایک دو گھونٹ پی لیا کرتا ہوں تا کہ گلا درست رہے کہ اسی دوران میں جلسہ گاہ میں سے کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی اور کہا کہ یہ جلدی سے حضرت صاحب تک پہنچا دیں کیونکہ حضور کو تقریر کرتے کرتے ضعف ہو رہا ہے.چنانچہ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو پیالی ہاتھوں ہاتھ پہنچانی شروع کر دی.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے سٹیج پر پہنچ گئی.سٹیج پر چانک کسی شخص کو خیال آ گیا اور اس نے احتیاط کے طور پر ذراسی ملائی چکھی تو اس کی زبان کٹ گئی.تب معلوم ہوا کہ اس میں زہر ملی ہوئی ہے.اب اگر وہ ملائی مجھ تک پہنچ جاتی اور میں خدا نخواستہ اسے چکھ بھی لیتا تو کچھ نہ کچھ اس کا اثر ضرور ہو جاتا اور تقریر رک جاتی.(ماخوذ از الموعود - انوار العلوم جلد 17 صفحہ 628) پھر اسی طرح فرمایا کہ ایک دفعہ ایک پٹھان لڑکا آیا مچھر الے کے اور میں اس کو ملنے کے لئے نکل ہی رہا تھا کہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 103 خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2009 عبدالاحد خاں صاحب نے اس کی حرکتوں سے اسے پہچان لیا کہ ہتھیار اس کے پاس ہے اور پکڑ لیا.پھر اسی طرح کے اور بعض واقعات ہیں.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 629-630 ) پھر اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے فرماتے ہیں.کشمیر کا واقعہ ہے جو اس پیشگوئی کی صداقت کا زبر دست ثبوت ہے اور ہر شخص ان واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے کشمیریوں کی رستگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی.فرمایا کہ کشمیر کی قوم اس طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی کہ گورنمنٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ زمین ان کی نہیں بلکہ راجہ صاحب کی ہے گویا سارا ملک ایک مزارع کی حیثیت رکھتا تھا اور راجہ صاحب کا اختیار تھا کہ جب جی چاہا ان کو نکال دیا.انہیں نہ درخت کاٹنے کی اجازت تھی اور نہ زمین سے کسی اور رنگ میں فائدہ اٹھانے کی.(ماخوذ از الموعود.انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 615) ایک بات اس میں یہ تھی کہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں بڑی شان سے پوری ہوئی اور دنیا میں بہت سارے مشن کھلے.بلکہ بعض مشن بعد میں بند بھی ہوئے.آپ کے زمانے میں سیلون ، ماریشس، سماٹرا، سٹیر میں سیٹلمنٹس (Straits Settlements) ، چین، ، جاپان، بخارا، روس، ایران ، عراق، شام، فلسطین، مصر، سوڈان، ابی سینیا، مراکو، چیکوسلواکیہ، پولینڈ، رومانیہ، یونائیٹڈ سٹیٹس ، ارجنٹائن ، یوگوسلاویہ.تقریباً کوئی 34-35 ممالک میں مشن کھلےاور تبلیغ اسلام پھیلی اور فرمایا کہ ہزاروں مسیحی میرے ذریعہ سے اسلام میں داخل ہوئے.اس طرح میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی جو تبلیغ ہے وہ ساری دنیا پر حاوی ہو جاتی ہے.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 611) پس اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی چند باتیں میں نے بیان کی ہیں.اس پیشگوئی کی عظمت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: آ نکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے.جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف رحیم محمد مصطفی صلی اللہ کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلی واولی واکمل وافضل واتم ہے.کیونکہ مردے کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے.اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانه و برکت حضرت خاتم الانبیا کے خدا وند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سو اگر چہ بظاہر یہ نشان احیائے موتی کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ بی نشان مردوں کے زندہ کرنے سے صدہا
خطبات مسرور جلد ہفتم 104 خطبہ جمعہ فرموده 20 فروری 2009 وہ درجہ بہتر ہے.مردے کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے.مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے.جولوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں آنحضرت ﷺ کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا.(اشتہار واجب الاظہار 22 مارچ 1886ء مجموعہ اشتہارات - جلد اول صفحہ صفحہ 100-99 مطبوعہ ربوہ ) یہ پس منظر اور اہمیت اس پیشگوئی کی ہے جو مختصرا میں نے بیان کی ہے اور اس پیشگوئی کی شان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس آخری اقتباس میں ہم نے دیکھی اور سنی.اس لئے مجھے امید ہے کہ اب بعض لاعلم احمدی جو مختلف جگہوں سے خطوں میں لکھ دیتے ہیں، یہاں بھی سوال کر دیتے ہیں کہ ہم یوم مصلح موعود کیوں مناتے ہیں، باقی خلفاء کے دن کیوں نہیں مناتے ان پر واضح ہو گیا ہو گا کہ مصلح موعود کی پیشگوئی کا دن ہم ایمانوں کو تازہ کرنے اور اس عہد کو یاد کرنے کے لئے مناتے ہیں کہ ہمارا اصل مقصد اسلام کی سچائی اور آنحضرت یہ کی صداقت کو دنیا پر قائم کرنا ہے.یہ کوئی آپ کی پیدائش یا وفات کا دن نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذریت میں سے ایک شخص کو پیدا کرنے کا نشان دکھلایا تھا جو خاص خصوصیات کا حامل تھا اور جس نے اسلام کی حقانیت دنیا پر ثابت کرنی تھی.اور اس کے ذریعہ نظام جماعت کے لئے کئی اور ایسے راستے متعین کر دیئے گئے کہ جن پہ چلتے ہوئے بعد میں آنے والے بھی ترقی کی منازل طے کرتے چلے جائیں گے.پس یہ دن ہمیں ہمیشہ اپنے ذمہ داری کا احساس کرواتے ہوئے اسلام کی ترقی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانے والا ہونا چاہئے نہ کہ صرف ایک نشان کے پورا ہونے پر علمی اور ذوقی مزہ لے لیا.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.ایک بات اور واضح کرنا چاہتا ہوں کل ہی میں نے ڈاک میں دیکھا کہ کسی ملک کی انصار اللہ کی تنظیم کا ایک پر وگرام تھا کہ ہم نے یوم مصلح موعود پر بڑا وسیع کھیلوں کا پروگرام رکھا ہے اور تھوڑ اسا علمی موضوع پر بھی پروگرام ہو گا ، اجلاس ہو گا.انصار اللہ کا کھیل کود سے کیا کام ہے؟ انصار کو تو چاہئے تھا کہ اپنے عہد کی طرف توجہ کرتے اور ان راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے جن پر چلانے کے لئے مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے راہنمائی فرمائی ہے اور انصار اللہ کی تنظیم قائم فرمائی ہے تا کہ ہم آنحضرت ﷺ کے پیغام کو جلد سے جلد دنیا میں پھیلانے والے بن سکیں اور مجھے امید ہے کہ انصار اللہ جس نے یہ پروگرام بنایا ہے ہمیں نام نہیں لینا چاہتا ، وہ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں گے اور آئندہ بھی لوگ اس کی احتیاط کریں گے.الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شماره 11 مورخہ 13 مارچ تا 19 مارچ 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 9 105 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 فرموده مورخہ 27 فروری 2009ء بمطابق 27 تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: يَهْدِى بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (المائده : 17) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے.یہ اسلام کا خدا ہے جس نے 1500 سال پہلے آنحضرت ہی اللہ کو انتہائی تاریکی کے زمانہ میں بھیجا اور آپ کے ذریعہ سے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ جب پھر تاریکی کا دور آئے گا تو آخرین میں سے بھی تیرا ایک غلام صادق کھڑا کروں گا جو قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور اس کے ذریعہ سے پھر دنیا اسلام کی حقیقی تعلیم کو جانے گی.اسلام کا خدا زندہ خدا ہے جو دنیا کی سلامتی اور ہدایت کے لئے ہر زمانہ میں اپنے خاص بندوں کو بھیجتا ہے تا کہ دنیا کوسیدھے راستے کی طرف چلا ئیں.لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سعید فطرتوں کو ہدایت دیتا ہے.جو اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو ہدایت دیتا ہے.جو ہدایت کی تلاش میں ہوتے ہیں انہیں ہدایت دیتا ہے.اس وقت میں آنحضرت ﷺ کے زمانے کے اور پھر آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے جو اس زمانہ کے بعض واقعات پیش کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح کوشش کرنے والوں کی ان کی کسی نیکی کی وجہ سے ہدایت کی طرف راہنمائی فرماتا ہے.آنحضرت ام اللہ کے وقت میں طفیل بن عمرو ایک معزز انسان اور ایک عقلمند شاعر تھے جب وہ ایک دفعہ ایک مشاعرے کے سلسلہ میں مکہ آئے ( کاروبار کے لئے بھی آیا کرتے تھے تو بہر حال ایک سفر میں مکہ آئے ) تو قریش کے بعض لوگوں نے انہیں کہا کہ اے طفیل ! آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس شخص ( یعنی آنحضرت ﷺ کا نام لے کے کہا) نے (نعوذ باللہ ) ایک عجیب فتنہ برپا کر رکھا ہے اور اس نے ہماری جمیعت کو منتشر کر دیا ہے.بھائی کو
106 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 صل الله خطبات مسرور جلد ہفتم بھائی سے لڑا دیا ، باپ کو بیٹے سے لڑا دیا ، ماں بچوں کو علیحدہ کر دیا.بہر حال انہوں نے کہا کہ وہ بڑے جادو بیان ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان کی باتوں میں آجاتے ہیں.آپ قوم کے سردار بھی ہیں اس لئے ان سے بیچ کے رہیں اور ان کی کوئی بات نہ سنیں.جس طرح آج کل کے مولویوں کا بھی یہ حال ہے کہتے ہیں کہ احمدیوں کی کوئی بات نہ سنو.ان سے بیچ کے رہو.کسی بھی قسم کی مذہبی گفتگو ان سے نہ کرو نہیں تو یہ تمہیں اپنے جادو میں پھنسا لیں گے.اور اسی وجہ سے اب تک 1974ء کی اسمبلی میں جو کارروائی ہوئی تھی اس کو انہوں نے چھپا کے رکھا ہوا ہے کہ اس کارروائی سے پاکستان کے لوگوں پر، قوم پر واضح ہو جائے گا کہ حق کیا ہے اور صداقت کیا ہے؟ بہر حال طفیل کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے اتنی تاکید کی کہ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ میں آنحضرت میے کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا اور اس وجہ سے کہ کہیں غیر ارادی طور پر ان کی آواز میرے کان میں نہ پڑ جائے میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی.کہتے ہیں کہ جب میں خانہ کعبہ میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺے کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں.غیر ارادی طور پر یا ارادہ بہر حال کہتے ہیں کہ میں قریب جا کے کھڑا ہو گیا اور آپ کی تلاوت کے چند الفاظ باوجود اس روئی ٹھونسنے کے میرے کان میں پڑ گئے اور مجھے یہ کلام بڑا اچھا لگا.تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرا برا ہو کہ میں ایک عقلمند شاعر ہوں اور برے بھلے کو اچھی طرح جانتا ہوں.آخر اس شخص کی بات سنے میں کیا حرج ہے؟ اگر اچھی بات ہوگی تو میں اسے قبول کرلوں گا اور بری ہوگی تو چھوڑ دوں گا.اللہ تعالیٰ نے آخر مجھے عقل دی اللہ تعالیٰ تو نیک فطرتوں کی اس طرح راہنمائی فرماتا ہے.بہر حال کہتے ہیں کچھ دیر میں نے انتظار کیا؟ آنحضرت عبادت سے فارغ ہوئے اور اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا.آنحضرت ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تو میں نے کہا اے محمد اعلﷺ.آپ کی قوم نے مجھے آپ کے بارے میں یہ یہ کہا ہے کہ بڑے جادو بیان ہیں.گھروں میں آپس میں پھوٹ ڈال دی ہے.قوم میں لڑائی اور فتنہ وفساد برپا کر دیا ہے اور اتنا ڈرایا ہے کہ میں نے اس وجہ سے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے کہ کہیں آپ کی کوئی آواز میرے کان میں نہ پڑ جائے.لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی مجھے آپ کا کلام سنوا دیا اور جو میں نے سنا ہے وہ بڑا عمدہ کلام ہے.مجھے اور کچھ بتائیں.طفیل کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اسلام کے بارے میں مزید کچھ بتایا اور قرآن شریف پڑھ کے سنایا.کہتے ہیں کہ خدا کی قسم !میں نے اس سے خوبصورت کلام اور اس سے زیادہ صاف اور سیدھی بات کوئی نہیں دیکھی.تو یہ سننے کے بعد پھر میں نے اسلام قبول کر لیا اور کلمہ پڑھ لیا.پھر میں نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں قوم کا سردار ہوں اور امید ہے میری قوم میری بات مانے گی.میں واپس جاکے اپنی قوم کو اسلام کی تبلیغ کروں گا.آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامیابی عطا فرمائے اور اس کے مقابلے میں مجھے کوئی تائیدی نشان بھی بتا ئیں.تو آنحضرت ﷺ نے ایک دعا کی اور میں اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا.روایت میں ہے کہ جب میں جار ہا تھا تو ایک گھائی پہ پہنچا جہاں آبادی کا آغاز ہوتا ہے.میں نے جیسے روشنی سی محسوس
107 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کی ، دیکھا کہ میرے ماتھے پر آنکھ کے درمیان کوئی چیز چمک رہی ہے.تو میں نے دعا کی کہ اے اللہ! یہ نشان میرے چہرے کے علاوہ کہیں دکھا دے کیونکہ اس سے تو میری قوم والے کہیں گے کہ تمہارا چہرہ بگڑ گیا ہے.تو کہتے ہیں وہی روشنی کا نشان میری جوسوئی تھی یا چابک تھی اس کے سرے پر ظاہر ہوا اور جب میں سواری سے اتر رہا تھا تو لوگوں نے اس نشان کو دیکھا.بہر حال اپنے قبیلے میں پہنچے.انہوں نے کہا اگلے دن میرے والد مجھے ملنے آئے تو میں نے کہا کہ میرا اور آپ کا تعلق آج سے ختم ہے، انہوں نے کہا وجہ؟ میں نے کہا میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور آنحضرت کی بیعت میں آ گیا ہوں.تو والد نے کہا کہ مجھے بھی بتاؤ کیا ہے؟ میں نے انہیں کہا کہ جائیں پہلے غسل کریں.غسل کر کے، نہا دھو کے آئے.میں نے انہیں اسلام کی تعلیم کے بارہ میں بتایا.انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا.پھر میری بیوی میرے پاس آئی.اس کو بھی میں نے یہی کہا کہ تمہارا میرے سے تعلق ختم ہو گیا ہے اور میں نے اسلام قبول کر لیا ہے.اس نے بھی یہی بات کی.اس کو بھی میں نے کہا کہ تم پہلے صاف ستھری ہو کے آؤ تا کہ تمہیں اسلام کی تعلیم دوں.خیر وہ بھی اسی طرح آئی اور اسلام قبول کر لیا.کچھ عرصے بعد پھر انہوں نے اپنی قوم کو بھی تبلیغ شروع کر دی.یہ دوس قبیلہ کے تھے.لیکن بڑی سخت مخالفت ہوئی.یہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور عرض کی کہ قبیلہ تو میری بڑی مخالفت کر رہا ہے.آپ میرے قبیلے کے لوگوں کے خلاف بددعا کریں.تو آنحضرت ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ ! دوس کے قبیلے کو ہدایت عطا فرما.پھر آپ کو فرمایا کہ واپس جائیں اور بڑی نرمی سے اور پیار سے اپنے قبیلے کو تبلیغ کریں.بہر حال کہتے ہیں میں تبلیغ کرتا رہا.(السيرة النبويه لابن هشام قصة اسلام الطفيل بن عمر الدوسي صفحه 277 278 دار الكتب العلمية بيروت (2001ء اس عرصہ میں آنحضرت مکہ مکہ سے ہجرت کر گئے اور وہاں جا کے بھی کفار مکہ نے اسلام کے خلاف بڑی شدت سے حملے شروع کر دیئے تو کہتے ہیں کہ جب جنگ احزاب ہوئی تو اس کے بعد میرے قبیلے کے کافی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور بڑی تعداد اسلام میں داخل ہوگئی.طفیل بن عمرو، جو طفیل بن عمرو دوسی کہلاتے ہیں اس کے بعد پھر یہ 70 خاندانوں کے ساتھ مدینے میں ہجرت کر گئے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے.الطبقات الكبرى لابن سعد الطبقة الثانية من المهاجرين جزء 4 صفحه 440-439 دار احياء التراث العربي بيروت (1996 پس ہدایت کی جو دعا آنحضرت ﷺ نے کی اس کا ایک وقت اللہ تعالیٰ نے رکھا ہوا تھا.کئی سالوں کے بعد جا کر اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمایا اور قبیلہ مسلمان ہو گیا.اس طرح آنحضرت ﷺ نے کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیا.طائف کے سفر پر گئے تھے وہاں بھی جب فرشتوں نے پہاڑ گرانے کے لئے کہا تو آنحضرت ﷺ نے ہدایت کی دعا ہی مانگی تھی کہ اس قوم میں سے لوگ ہدایت پائیں گے.تو یہ تھا آپ کا طریقہ.اسی لئے آپ نے یہ دعا بھی ہمیں سکھائی ہے.اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُون - ( الشفاء لقاضی عیاض جلد اول صفحہ 73- الباب الثاني في تحميل الحاسن - الفصل : واما الحلم - دارالکتب العلمية بيروت 2002 ء ) یہ دعا اس زمانے کے لئے بھی ہے.پڑھتے رہنی چاہئے.جب آپ نے دعوی کیا تو اس زمانہ میں حضرت مسیح
108 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت بڑھی ہوئی تھی اور جیسا کہ پیشگوئیوں میں تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں طاعون کا نشان بھی دکھایا.لیکن جب یہ نشان ظاہر ہوا تو اس وقت باوجود اس کے کہ یہ نشان آپ کی تائید میں ظاہر ہوا تھا آپ کی طبیعت میں ایک بے چینی اور اضطراب تھا اور لوگوں کی ہمدردی کے جذبہ سے بعض دفعہ آپ کی حالت غیر ہو جاتی تھی.آپ کی دعاؤں کا نقشہ ، جس طرح آپ قوم کے لئے تڑپ کر دعا کرتے تھے ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے.کہتے ہیں کہ ان دنوں میں بیت الدعا کے اوپر حجرے میں تھا اور اس جگہ کو میں خاص طور پر بیت الدعا کے لئے استعمال کیا کرتا تھا اور وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حالت دعا میں گریہ وزاری کو سنا کرتا تھا.آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا اور آپ اس طرح آستانہ الہی پر گریہ وزاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردزہ سے بے قرار ہو.وہ فرماتے تھے کہ میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق الہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا کرتے تھے.کہ الہی !اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا؟ سیرت حضرت مسیح موعود کے شمائل و عادات اور اخلاق کا تذکرہ حصہ سوم صفحہ 428 ) یہ خلاصہ اور مفہوم ہے اس روایت کا جو مولوی عبدالکریم صاحب نے بیان کی کہ باوجود یکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب اور انکار کے باعث ہی آیا تھا مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اس قدر بے چین اور حریص تھے کہ اس عذاب کے اٹھائے جانے کے لئے گہری سنسان رات میں تاریکی میں، رور وکر دعائیں کر رہے ہیں جبکہ باقی دنیا آرام سے سورہی تھی.تو یہ تھا آپ کا شفقت علی خلق اللہ کا رنگ اور بے نظیر نمونہ.بہر حال طاعون کا جو یہ نشان تھا ، یہ بھی بہت سوں کے لئے ہدایت کا باعث بنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اپنے بیان میں کس طرح بے چینی کا اظہار کرتے ہیں.فرماتے ہیں کہ: ہے.اکثر دلوں پر چُپ دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے.خدا اس گرد کو اٹھاوے.خدا اس ظلمت کو دور کرے.دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے.مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے انہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اٹھائے ہیں، ویسا ہی ان کو مرہم عطا فرمادے اور ان کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کونو سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز ان لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے جنہوں نے حضرت احدیت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی غنیمت نہیں سمجھا اور اس کا شکر ادا نہیں کیا.بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے.سو اگر اس عاجز کی فریاد میں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدی اس زمانے کے اندھیروں پر ظاہر ہو اور الہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلائیں.( مکتوبات ام جلداول صفحہ 513-512 مکتوب نمبر 5جدیدایڈیشن مطبوعہ ربوہ (سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 551)
109 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بہر حال آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فریادوں کو قبول فرمایا اور آپ کی تائید میں جو نشانات دکھائے اس کے نتیجے بھی ظاہر ہورہے ہیں اور کس طرح قبولیت احمدیت کے نظارے دکھا رہا ہے.لوگوں کے دلوں کو کس طرح مائل کرتا ہے اس کے بھی بعض واقعات ہیں.ملک صلاح الدین صاحب ایم اے، مولوی رحیم اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.یہ اس زمانے کی بات ہے کہ مولوی رحیم اللہ صاحب اعلیٰ درجہ کے موحد تھے.آپ کو اکثر فقراء اور سجادہ نشینوں کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا مگر سب کو شرک کے کسی نہ کسی رنگ میں ملوث پایا اور آپ کا دل کسی کی بیعت کے لئے آمادہ نہ ہوا.حتی کہ اخوند صاحب سوات کا بھی شہرہ سن کر اتنا لمبا سفر طے کر کے وہاں پہنچے اور بیعت کے لئے عرض کی.اخوند صاحب نے مولوی صاحب کو اپنی صورت کا تصور دل میں رکھنے کی تلقین کی.اس پر آپ چشم پر آب ہو گئے اور کہا افسوس میرا اتنا دور دراز کا سفر اختیار کرنا رائیگاں گیا.اخوند صاحب بھی شرک کی ہی تلقین کرتے ہیں اور پھر بغیر بیعت کئے واپس لوٹے.مولوی صاحب صوفی منش اور سادہ طبیعت کے تھے.طبیعت میں بڑا انکسار تھا.خلوت پسند تھے.عاشق قرآن اور حدیث تھے.باخدا بزرگ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص مناسبت اور عشق تھا.بہر حال بعد میں جب حضرت مسیح موعود کی بیعت میں آئے تو ان کا یہ حال تھا ( جو روایت کرنے والے ہیں، کہتے ہیں ) کہ کئی بار نماز پڑھاتے ہوئے عالم بیداری میں آپ کو کشفی حالت طاری ہوئی اور نیز آپ کو حضرت رسول کریم ﷺ ار کی اور انبیاء کی زیارت بار بار و یا وکشوف میں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت آپ پر نہایت عجیب اور بین الہام رویاء اور کشف سے واضح ہوئی تھی.چنانچہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت کے دعا وی کے متعلق استخارہ کیا تو جواب میں ایک ڈولا ( یعنی پالکی سی تھی ) کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا اور میرے دل میں القاء ہوا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر آئے ہیں.جب پالکی کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو اس کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پایا.تب میں نے بیعت کر لی.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد اول صفحه 65-66 مطبوعہ ربوہ ) پھر خلافت ثانیہ میں نجی کا ایک واقعہ ہے.جزائر فجی میں احمدیت کے چرچے اور احمد یہ مشن کے قیام سے پہلے وہاں عیسائیت کا بڑا زور تھا اور حضرت عیسی کی آسمان سے آمد کے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح منتظر تھے.بشیر خان صاحب لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے میرے دل میں خیال گھر کرنے لگا کہ عیسائیت کچی ہے اور عیسائی ہو جانے میں کوئی حرج نہیں.تاہم اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.میں ابھی عیسائی نہیں ہوا تھا بلکہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نہایت بزرگ انسان ملے.انہوں نے بڑے جلال سے مجھے فرمایا "محمد بشیر ہوش کرو جس شخص کی تمہیں تلاش ہے وہ عیسی یا مسیح ناصری نہیں ہے بلکہ وہ کوئی اور ہے اور دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے.اس وقت جزائر نجی کے پہلے مبلغ جناب شیخ عبد الواحد صاحب بھی میں آچکے تھے
110 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اور یہ لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم مولوی محمد قاسم صاحب بھی بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو چکے تھے لیکن میرا اس طرف رجحان نہیں ہوتا تھا.تاہم اس خواب کے بعد میرا رجحان اس طرف (جماعت کی طرف ) ہوا اور میں نے اپنے والد صاحب کی طرح شرح صدر سے بیعت کر لی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لینے کے بعد مجھے اسلام سے ایسی محبت اور لگاؤ پیدا ہو گیا اور ایسا فہم وفراست اللہ تعالیٰ نے عطا فر مایا کہ میں عیسائیوں کے سامنے نہایت جرات اور یقین سے اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے بطلان ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہو جایا کرتا تھا.( روح پرور یا دیں.صفحہ 142) پھر خلافت ثانیہ کے زمانے کا ہی ایک اور واقعہ ہے.سیرالیون کے ابتدائی احمدی دوست پاسا نفاتولا Sanfatula) پر عجیب رنگ میں اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ سے احمدیت کی صداقت کا انکشاف فرمایا.کہتے ہیں کہ ” 1939 ء کے دوران ایک موقع پر جبکہ میں ٹو نیاں باؤ کا ہون ریاست کے ایک گاؤں میں رہائش رکھتا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ مالکیہ مسجد کے ارد گرد سے گھاس صاف کر رہا ہوں (افریقہ میں عموماً ما لکی فرقہ کے لوگ زیادہ ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نمازیں پڑھتے ہیں.) کہتے ہیں ”جب میں نے کچھ دیر کام کر کے تھکان محسوس کی تو مسجد کے قریب ہی ایک پام کے درخت کے نیچے ذرا ستانے کے لئے کھڑا ہو گیا.اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں ( یہ سارا خواب کا ذکر چل رہا ہے ) کہ میرے سامنے کی جانب سے سفید رنگ کے ایک اجنبی دوست ہاتھ میں قرآن کریم اور بائبل پکڑے میری طرف آ رہے ہیں.میرے قریب پہنچ کے انہوں نے السلام علیکم کہا اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ اس مسجد کے امام کون ہیں.میں انہیں ملنا چاہتا ہوں.اس پر میں ان سے رخصت لے کر امام مسجد کو بلانے چلا گیا جن کا نام الفا (Alpha) تھا.ہم واپس آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مسجد میں ایک سایہ دار کھڑ کی سی تیار ہو چکی ہے اور وہ اجنبی شخص ہماری مسجد میں خود امام کی جگہ پر محراب میں کھڑے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ اس سایہ دار جگہ میں بیٹھ کر ہم انہیں قرآن سنائیں.ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ اجنبی شخص مسجد سے نکل کر ہمارے پاس آئے اور ہمارے امام سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں تمہیں نماز کا صحیح طریق سکھانے کے لئے آیا ہوں.اس پر میری آنکھ کھل گئی.بیدار ہو گیا اور صبح ہوتے ہی اس کا ذکر میں نے اپنے مسلمان دوستوں سے کر دیا.پھر بیان کرتے ہیں کہ اس خواب کے قریباً ایک ہفتہ بعد صبح کے وقت میں نے اپنی کدال لی اور اپنی اسی مالکیہ مسجد کے صحن میں گھاس صاف کرنے لگا.قریباً نصف گھنٹے کے کام کے بعد میں نے کچھ تھکان سی محسوس کی اور قریب ہی ایک پام کے درخت کے سائے کے نیچے آرام سے کھڑا ہو گیا.ابھی چند منٹ گزرے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب تشریف لا رہے ہیں.آپ نے قریب آ کے مجھے السلام علیکم کہا اور رہائش کے لئے جگہ وغیرہ دریافت کی.کہتے ہیں کہ یہ بات اس لئے تعجب انگیز تھی کہ جو خواب میں نے ابھی چند یوم پہلے دیکھا تھا بعینہ وہ آج اسی طرح پوری ہو رہی تھی.( یعنی مولوی الحاج نذیر احمد علی صاحب ہی وہ بزرگ تھے جو خواب
111 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 میں مجھے دکھائے گئے تھے.اور لباس بھی تقریباً وہی تھا جو انہوں نے خواب میں پہنا ہوا تھا).سو میرے لئے ایسے مہمان کی خدمت ایک خوش قسمتی تھی لہذا میں آپ کو کسی اور جگہ ٹھہرانے کی بجائے اپنے گھر لے گیا اور خالی کر کے گھر پیش کر دیا.اس کے بعد اپنے مسلمان دوستوں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ جو میں نے خواب دیکھا تھا اور تمہیں سنایا تھا وہ پورا ہو گیا ہے وہ بزرگ تشریف لے آئے ہیں اور میرے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد میں تو احمدی ہوگیا.اس کے بعد ان کی تبلیغ سے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور گاؤں کے اکثر مسلمان جو تھے وہ احمدی ہو گئے.(ماخوذ از روح پرور یا دیں.صفحہ 214-215) یہ تو میں نے 60,50,40 سال پہلے کی باتیں بتائی ہیں.اس زمانہ میں بھی دلوں کو اللہ تعالیٰ صاف کرتا ہے، پاک کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے.اب میں گزشتہ تین چار سال کے بعض واقعات بتاتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کا سامان فرمایا، کس طرح تائیدات عطا فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں نشانوں کی ابھی بھی کمی نہیں ہے.شرط صرف یہ ہے کہ انسان پاک دل ہو اور نیک نیتی کے ساتھ ہدایت تلاش کرنے والا ہو.مکرم حداد عبد القادر صاحب (یہ الجزائر کے ہیں) کہتے ہیں کہ 2004ء میں رمضان المبارک میں خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے مجھے کہا : آؤ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لئے لے چلتا ہوں.میں نے دیکھا کہ تقریباً ایک میٹر اونچی دیوار کے پیچھے حضرت محمد مصطفی امیے کھڑے ہیں.آپ مجھے دیکھ کر مسکرائے.پھر دیکھا حضور ﷺ اور دیوار کے مابین ایک گندمی رنگ کا شخص کھڑا ہے جس کی سیاہ گھنی داڑھی ہے.آنحضور ریلے نے اس آدمی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.هذَا رَسُولُ الله ، یہ اللہ کا رسول ہے.پھر آپ مشرقی جانب ایک نور کی طرف چلے جاتے ہیں جبکہ یہ شخص اسی جگہ کھڑا رہتا ہے.کہتے ہیں چار سال بعد 2008ء میں اتفاقاً آپ کا چینل دیکھا تو اس پر مجھے اس شخص کی تصویر نظر آئی جس کو میں نے خواب میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ دیکھا تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر تھی.چنانچہ انہوں نے اسی وقت بیعت کر لی.اسی طرح مصر کی ایک خاتون ہیں ہالہ محمد الجو ہری صاحبہ.یہ کہتی ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امام مہدی اور آپ کی جماعت پانی کے اوپر چل رہے ہیں.تو میں نے درخواست کی کہ مجھے بھی شرف مصاحبت بخشیں.انہوں نے کہا کہ واپسی پر ہم آپ کو ساتھ لے چلیں گے.(یعنی مجھے بھی ساتھ شامل کر لیں تو انہوں نے کہا واپسی پر لے چلیں گے ).اس رویاء کے بعد میں نے صوفی ازم میں حق کی تلاش شروع کی لیکن اطمینان نہ ہوا.تو میں نے کہا میرے خواب سے مراد صوفی فرقہ نہیں ہوسکتا.باوجود اس کے کہ ان لوگوں کا اصرار تھا کہ میں نے انہی کو خواب میں دیکھا ہے.کہتی ہیں گھر آکے میں ٹی وی چینل دیکھنے لگی.یہاں تک کہ ایم ٹی اے العربیہ نظر آ گیا تو میری حیرت کی انتہا نہ
112 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم رہی کہ میں نے اس چینل پر وہی شخص دیکھا جس کو خواب میں دیکھا تھا کہ وہ امام مہدی ہے اور پانی پر چل رہا ہے.پھر عراق کے عبدالرحیم صاحب فنجان کہتے ہیں کہ میں نے کچھ عرصہ قبل خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے کہتے ہیں کہ تم ہمارے آدمی ہو.لہذا تمہیں بیعت کر لینی چاہئے.سوئیں اب بیعت کر رہا ہوں.یہ واقعات چند سال کے، دو تین سال کے اور مختلف علاقوں کے بتارہا ہوں.اسی طرح ماریشس ایک دور دراز جزیرہ ہے وہاں سے ہمارے مبلغ نے لکھا کہ ماریشس کے ساتھ ایک چھوٹا سا جزیرہ روڈ رگ ہے.اس جزیرے کی 36 ہزار کی آبادی ہے اور سارا جزیرہ ہی کیتھولک ہے.کہتے ہیں کہ روڈ رگ کے دورہ کے دوران ایک دن صبح جب میں تبلیغ کے لئے نکلا تو ایک زیر تبلیغ عیسائی لڑکے کو بھی لے لیا اور جزیرے کی دوسری جانب اس لڑکے کی والدہ اور نانی کے پاس بغیر کسی اطلاع کے پہنچے.گھر میں داخل ہونے پر ہم نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور تبلیغ شروع کر دی.لڑکے کی نانی کہنے لگیں کہ آپ جو پیغام لائے ہیں وہ بالکل سچ ہے اور میں اسے قبول کرتی ہوں کیونکہ گھر میں سب موجود لوگ میرے گواہ ہیں اور میں نے یہ خواب انہیں آپ کے آنے سے قبل سنادی تھی کہ اجنبی لوگ آئے ہیں اور میں ان کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہی ہوں کہ یہ رشتہ مجھے منظور ہے.کہنے لگیں کہ جب آپ میرے گھر کی طرف آرہے تھے تو میں اپنے کمرے سے آپ کو دیکھ کر کہ رہی تھی کہ یہ تو بالکل وہی لوگ ہیں جو میں نے خواب میں دیکھے تھے.پھر کہتے ہیں کہ دو دنوں بعد ہم دوسری مرتبہ گئے اور قرآن کریم اور رسائل اور تصاویر کا تحفہ پیش کیا.پھر تیسری مرتبہ گئے اور بیعت فارم لے کر گھر گئے اور شرائط بیعت پڑھ کر سنا ئیں تو اس عورت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہنے لگیں کہ مجھے اس فارم کے پُر کرنے میں ذرا بھی تردد نہیں.کیونکہ کل رات میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے سامنے دو کا غذ لائے گئے ہیں اور بعینہ اسی طرح جیسے آج اس وقت آپ کے ہاتھ میں لمبائی کے رخ پر فولڈ ہیں میں نے خواب میں انہیں دیکھا.اور یہ لوگ جو آپ کے سامنے بیٹھے ہیں میری خواب کے گواہ ہیں جوکل میں سنا چکی ہوں.اپنے گھر والوں کو انہوں نے سنادی تھی.چنانچہ انہوں نے بیعت کی.یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے.میں بھی یہاں گیا ہوا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب یہاں جماعت کی دو مسجد میں ہیں اور لوگ آہستہ آہستہ عیسائیت سے احمدیت میں داخل ہورہے ہیں.امریکہ سے ایک واقعہ ہے.ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ میکسیکن نژاد (Mexican) پانچ افراد پر مشتمل فیملی نے احمدیت قبول کی.اس فیملی میں جو خاتون ہیں ان کا نام Jauredi Marielov ہے.ان کو مری نام سے بلاتے ہیں.انہوں نے اپنا خواب اس طرح سنایا کہ اگر چہ ان کا تمام خاندان کی تھولک ہے لیکن اس نے عیسائیت پر کبھی عمل نہیں کیا.جب ان کی عمر 27 سال کی ہوئی تو انہیں ایک تکلیف ہوئی اور یہ ہسپتال گئیں.انہوں نے بتایا کہ میں نے دعائیں مانگنی شروع کیں اور میں ہمیشہ ایک خدا سے ہی دعائیں مانگتی تھی.ایک دن خواب میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر ایک شیشے پر دیکھی اور اپنے ہاتھ اس پر لگائے کہ مجھے صحت یابی نصیب ہو تو اس دن سے آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہوں.وہ تصویر ایک شیشے کی مانند تھی اور میں آج تک اسے
113 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بھلا نہیں سکی.وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات میکسیکن نژاد احمدی خاتون سے ہوئی.انہوں مجھے کتب پڑھنے کے لئے دیں اور احمدیت کا تعارف کرایا.ان کتابوں میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھی اور تصویر دیکھ کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی.میرے آنسو بہ پڑے اور میں تصویر دیکھ کر روتی رہی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حق شناخت کرنے کی توفیق دی ہے اور پھر انہوں نے اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی.یہ پڑھی لکھی خاتون ہیں.پھر اسی طرح ہمارے بلغاریہ کے مبلغ لکھتے ہیں.(آپ دیکھیں کہ دنیا میں ہر جگہ پر کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہدایت کے سامان پیدا فرما رہا ہے ) کہ ایک دوست اولیک (Olek) صاحب کافی عرصہ پہلے زیر تبلیغ تھے.عیسائی تھے.ان کی بیوی پہلے احمدی ہو چکی ہیں لیکن یہ احمدی نہیں ہوتے تھے.اس کی وجہ ان کا خاندان بھی تھا جو عیسائی ہے اور چرچ کی دیکھ بھال کا کام ان کے سپرد ہے.2005 ء کے جلسہ سالانہ جرمنی میں ان کو شمولیت کی دعوت دی اس پر یہ مع اہلیہ کے شریک ہوئے (اس وقت انہوں نے مجھ سے ملاقات بھی کی تھی.واپسی پہ بہت متاثر تھے لیکن بیعت نہیں کر رہے تھے.ایک دن ہمارے سنٹر آئے اور کہنے لگے کہ میں نے بیعت کرنی ہے اور میں احمدی ہونا چاہتا ہوں.میں نے پوچھا کہ اب کیا وجہ ہے اتنی جلدی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آج دوسری رات ہے کہ لگا تار خلیفہ اسیح ( میرا بتایا ) خواب میں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اولیک ! اگر تم میرے پاس نہیں آتے تو میں خود تمہارے پاس آ جاتا ہوں.اس طرح میرے گھر تشریف لاتے ہیں.مجھے شرمندگی ہوتی ہے.میں نے ارادہ کیا ہے اور آج میں احمدیت میں داخل ہو گیا ہوں.اس طرح بھی اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے.کویت کے عبدالعزیز صلاح صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں کہ عید کی رات خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو دیکھا.منظر یوں تھا کہ گویا خاکسار امتحان دے رہا ہے.حضرت مسیح موعود نے آکر مجھ سے امتحان کا پرچہ پکڑ لیا جبکہ وہاں امتحان دینے والے اور بہت سارے لوگ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے پرچے پر ٹک کا نشان لگا دیا.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک مسجد میں (میرے متعلق کہا کہ خلیفہ اسیح الخامس کے ساتھ ہوں.میری طرف دیکھ رہے ہیں اور مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے.فرش پر بیٹھا ہوں اور لوگ بیعت کر رہے ہیں.تو میں نے بھی قریب جا کے کمر پر ہاتھ رکھ کے بیعت کر لی.ماسکو سے ہمارے مبلغ نے لکھا کہ عزت اللہ صاحب 27 مئی کو مشن ہاؤس آئے اور بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، کہا کہ آج میری بیعت ضرور لے لیں.کیونکہ رات میری خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں اور اس کے بعد مزید دیر نہیں کرنا چاہتا.انہوں نے کافی جذباتی رنگ میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک غیر ہموار راستے پر ایک بس میں سوار سفر کر رہا ہوں اور میں بس کے پچھلے حصے میں کھڑا ہوں.یکدم بس کی رفتار تیز ہوگئی اور وہ راستے سے لڑھک گئی اور پچھلا حصہ نیچے کھائی کی طرف ہو گیا تو میں
114 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اوپر جانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن او پر پہنچ نہیں سکتا.اچانک میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شبیہ کو دیکھا کہ وہ آئے اور اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھایا اور فرمایا کہ میرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لو تم ہلاک نہیں ہو گے.کہتے ہیں کہ میں کیسے پکڑوں؟ مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے.پھر حضرت مسیح موعود نے خود ہی اپنا ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر کھینچ لیا.کہتے ہیں کہ پھر میں ہموار رستے پر چلنا شروع کر دیتا ہوں.اسی طرح بورکینا فاسو کے سانو اسحاق صاحب ہیں جو بیان کرتے ہیں کہ ہمارے محلے کی مسجد میں غیر از جماعت امام نے احمدیت کے خلاف خطبہ دیا اور ریڈیو احمد یہ سننے سے بڑی سختی سے منع کیا.( مولویوں کے پاس اور کوئی دلیل کا ہتھیار نہیں ہے.) صرف یہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کی باتیں نہ سنو جس طرح کہ میں نے پہلے بتایا مکہ کے لوگوں کا حال تھا.کہتے ہیں کہ میں نے امام سے کہا کہ اگر ہم یہ ریڈیو سنیں گے نہیں تو ہمیں حقیقت کا کیا علم ہو گا.امام صاحب کہنے لگا کہ نہیں بالکل نہیں سننا.یہ کوئی طریقہ نہیں ہے.بہر حال کہتے ہیں کہ میں نے کہا اچھا ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں.اس پر تمہیں اتفاق ہونا چاہئے کہ وہاں بورکینا فاسو میں بو بو جلا سوشہر جو ہے اس میں جتنے بھی مسلمانوں کے فرقے ہیں ان کے نام پر چیوں پہ لکھ کے کسی بچے سے قرعہ اٹھواتے ہیں اور جس کا بھی قرعہ بچے نے اٹھایا اور پرچی پر نکل آیا تو ہم سمجھیں گے کہ وہ جماعت کچی ہے.کہتے ہیں، خیر ہم نے جتنے بھی فرقے تھے ساروں کے نام لکھے.بچے کو بلایا اس سے پر چی اٹھوائی تو اس پر لکھا ہوا تھا جماعت احمد یہ.پھر امام صاحب کو تسلی نہیں ہوئی.انہوں نے کہا: نہیں ایک دفعہ اور کرو.دوسری دفعہ اٹھایا پھر نام نکلا جماعت احمد یہ.پھر تسلی نہیں ہوئی.پھر تیسری دفعہ اٹھایا.آخر امام صاحب بڑے پریشان ہوئے مگر ان کے لئے ہدایت کا سامان ہو گیا.اسی طرح ناروے کا ایک واقعہ ہے.کہتے ہیں ایک صاحب نے امیر صاحب کو کہا کہ 7 مئی 2004 ء کا میرا خطبہ جوٹی وی پر آرہا تھا تو ایک غیر از جماعت دوست نے فون کیا اور ملنے کی خواہش کی اور ملاقات پر انہوں نے بتایا کہ خطبہ جمعہ سن کر ان میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے.اس لئے وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں.تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ ہدایت کے سامان فرما دیتا ہے.اسی طرح بوسنیا سے ایک زیر تبلیغ نوجوان نے خواب کے ذریعے بیعت کی ہے اس نوجوان نے خود اپنی خواب بیان کی.کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ میں ایک بڑے شہر میں چل رہا ہوں جہاں افرا تفری مچی ہوئی ہے.وہاں میں نے بہت سے یہودی عیسائی اور مسلمان دیکھے جو حیران اور گند سے بھری ہوئی گلیوں میں ادھر ادھر پھر رہے ہیں جیسے گم گئے ہیں.اچانک میری نظر اپنے دائیں طرف پڑتی ہے تو میں ایک خوبصورت درخت دیکھتا ہوں جس کے نیچےلوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ بیٹھا ہوتا ہے.انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور پگڑیاں باندھی ہوئی ہیں.اس افراتفری کے دوران وہ مکمل سکون سے اور ایک حلقے کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے چہروں پر مہ ر مسکراہٹ
115 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہے.میں خواب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ ضرور احمدی ہیں.میں ان کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور ان میں شمولیت اختیار کر لیتا ہوں.اس کے بعد پھر انہوں نے بیعت کر لی.پھر ہمارے مبلغ نجی لکھتے ہیں کہ 16 سال کا ایک ہندو تھا اس کی مسلمان لڑکی سے شادی ہوئی تھی اور خود ہندو ہی تھا.ایک روز ہم اس کے گھر ملنے کے لئے گئے تو اس نے روتے ہوئے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ اور ان کا لباس اور ٹوپی بالکل یہی تھی جو آپ نے پہن رکھی ہے اس پر اس نے بیعت کر لی.پھر ایک کرد مسلمان، قاسم دال صاحب جرمنی میں ہیں وہ اپنی جرمن بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ جماعت کے تبلیغی سٹال پر تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر سے بات شروع ہوئی اور خوب غصہ سے بولے کہ حضرت رسول کریم ﷺ کے بعد کون آ سکتا ہے.پندرہ منٹ کی بحث کے بعد آخر ہمارے سیکرٹری تبلیغ نے ان کا فون نمبر لے لیا، چلے گئے.اگلے دن انہوں نے کھانے پر بلایا.تبلیغی نشست ہوئی.انہوں نے کتابیں بھی دیں.دو دن کے بعد ان کا فون آیا کہ میں نے کتابیں نہیں پڑھیں اور میں نے وہ کتابیں جلا دی ہیں کیونکہ مجھے مولویوں نے یہی کہا ہے کہ ان کی کسی قسم کی چیز پڑھنی بھی نہیں ہے.خیر انہوں نے ان کو کہا کہ ٹھیک ہے ، نہ مانیں.آپ جمعرات کو دوبارہ تشریف لائیں.دوستی تو ختم نہیں ہو سکتی.تو خیر اس دن وہ آئے اور اس دن روزہ رکھ کے آئے ہوئے تھے کہ احمدی کے گھر سے کھانا بھی نہیں کھانا.خیر باتیں کرتے رہے.باتیں لمبی ہوتی چلی گئیں اور روزہ کی افطاری کا وقت ہو گیا اور مجبوراً ان کو وہاں روزہ افطار کرنا پڑا.کھانا تو کھانا پڑ گیا.ہمارے سیکرٹری تبلیغ نے ان کو کہا کہ آپ مولوی کی باتیں چھوڑیں اور چالیس روز صاف دل ہو کے اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کے بارے میں درد دل سے دعا کریں اور اس عرصہ میں کوئی تعصب نہ ہو.تو کہتے ہیں کہ تیسرے دن ان کا ٹیلیفون آیا اور اپنی کام کی جگہ سے آیا کہ تمہارے پاس حضرت خلیفتہ اسیح الخامس کی فوٹو ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہے تو جواب دیا کہ میں ابھی کام چھوڑ کے آ رہا ہوں.انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہوئی ہے.کہتے ہیں کہ مجھے غائبانہ آواز آئی ہے کہ ثبوت کیا مانگتے ہو ثبوت تو ہم تمہیں دکھا چکے ہیں اور ساتھ ہی ان کو وہ خواب یاد دلائی گئی جس میں انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھا تھا کہ کسی فوج کی کمان کر رہا ہوں اور فرشتے ساتھ ہیں.بہر حال اس کے بعد انہوں نے پھر بیعت کر لی.تو یہ چند واقعات ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں، مختلف ملکوں کے بے شمار ایسے واقعات ہیں.کچھ تو جلسوں پر بیان کئے جاتے ہیں لیکن اتنا وقت نہیں ہوتا کہ سارے بیان کئے جاسکیں.میرا خیال تھا کہ قادیان کے جلسے پہ بیان کروں گا لیکن وہاں بھی نہیں ہو سکا.بہر حال چند ایک واقعات اتفاق سے اس مضمون کے ضمن میں آگئے تو میں نے بیان کر دیئے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح ہدایت کے سامان فرماتا ہے اور اس طرح آج تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة
خطبات مسرور جلد هفتم 116 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 والسلام کی تائید فرمارہا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاتا چلا جائے اور ہمیں بھی ہدایت پہ ہمیشہ قائم رکھے.صل الله آنحضرت ﷺ نے ہدایت پر قائم رہنے کے لئے بھی بہت ساری دعائیں سکھائی ہیں.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تو کہہ کہ اے اللہ ! مجھے ہدایت دے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھ اور ہدایت کے ساتھ اپنے سیدھے راستے کو بھی یا درکھ اور سیدھار کھنے سے مراد تیر کی طرح سیدھا (مسلم کتاب الذكر والدعاء باب التعوذ من شر ما عمل...حدیث نمبر 6805) ہونا ہے.سیدھے راستے کی ہدایت کے بارے میں پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں بتا چکا ہوں کہ تین باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں کہ حقوق اللہ کی ادائیگی ، حقوق العباد کی ادائیگی اور اپنے نفس کے حق کی ادا ئیگی لیکن ان سب کا بنیادی مقصد جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور خدا تعالیٰ کی طرف لے کے جانا ہے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یا درکھنا چاہئے.اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے.ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو اخوص کو عبد اللہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریم کی دعا کیا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت، پاکبازی اور غنٹی مانگتا ہوں.( ترمذی کتاب الدعوات باب 72/72 حدیث نمبر (3489) پھر ایک دعا سکھائی.ابو مالک سے روایت ہے جو انہوں نے اپنے والد سے کی ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو رسول اللہ ﷺ ان الفاظ میں دعا سکھایا کرتے تھے کہ اللّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَ ارْزُقْنِي کہ اے اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت عطا کر اور مجھے رزق عطا کر.(مسلم كتاب الذكر والدعاء باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء حديث نمبر (6743 جیسا کہ میں نے پہلے کہا جس کو اللہ ہدایت دیتا ہے پھر ہمیشہ اس میں اُسے بڑھاتا بھی ہے.یہ کہیں رکنے والی چیز نہیں ہے.ہدایت تو ہمیشہ آگے لے جاتی ہے.جوں جوں انسان ہدایت یافتہ ہوتا ہے اس کا مقام بڑھتا چلا جاتا ہے.اور یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں سکھائی ہے.اور اس کی پہلے بھی میں کئی دفعہ جماعت کو تحریک کر چکا ہوں.جو بلی کی دعاؤں میں بھی شامل تھی.اب بعض لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ جو بلی کی جو دعا ئیں تھیں ، اب سال ختم ہو گیا ہے تو کیا اب وہ دعا ئیں بند کر دیں؟ دعا ئیں تو پہلے سے بڑھ کر انسان کو کرنی چاہئیں.یہ دعا ئیں تو صرف ایک عادت ڈالنے کے لئے تھیں تا کہ آئندہ صدی میں مزید بڑھ کر دعاؤں کی توفیق ملے.اس لئے بند کرنے کا سوال نہیں.اب تو ہر احمدی کا کام اس سے بھی بڑھ کر دعائیں کرنے کا ہے.
117 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم قرآن کریم کی جو دعا ہے وہ یہ ہے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ( آل عمران: 9) کہ اے ہمارے خدا! ہمارے دلوں کو لغزش سے بچا اور بعد اس کے کہ جو تو نے ہدایت دی ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر کیونکہ ہر ایک رحمت تو ہی بخشا ہے.تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے.اور دعائیں بھی کرنی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " اے خدا وند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش که تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفی ﷺ اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں تا کہ ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو بچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبی میں حاصل ہو سکتی ہے بلکہ بچے راست باز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 28.اشتہار نمبر 14 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) آنحضرت ﷺ کی دعاؤں میں سے ایک دعا خاص طور پر میں کہنا چاہتا ہوں جس طرح شروع میں میں نے ذکر بھی کیا تھا کہ اَللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُون.جب غزوہ احد کے وقت آنحضرت ﷺ کا دانت مبارک شہید ہوا، بلکہ دندان شہید ہوئے اور آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا تو یہ صحابہ کرام کے لئے بڑی تکلیف دہ بات تھی.انہوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کے خلاف بد دعا کریں.آپ نے فرمایا ” مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا بلکہ میں خدا کی طرف دعوت دینے والا باعث رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں“.پھر آپ نے یوں دعا کی اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِی فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُون کہ اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے.(الشفاء لقاضی عیاض - جلد اول صفحہ 73-72- الباب الثانی فی سبیل اللہ تعلی لہ الحاسن الفضل والحلم...دار الكتب العلمية بيروت 2002)......یہی دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی سکھائی گئی ہے اور آپ کی جماعت کو بھی کرنی چاہئے.آج کل پاکستان کے جو حالات ہیں ان میں پاکستانیوں کو خاص طور پر یہ دعا کرنی چاہئے.یہ مخالفت میں تو بڑھے ہوئے ہیں لیکن اس وجہ سے یہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو بھی بھول چکے ہیں اور یقیناً بھولنا تھا.اسی وجہ سے مشکل میں بھی گرفتار ہوئے ہوئے ہیں.نہیں سمجھتے کہ کیا حالات ہورہے ہیں؟ کیا ان کے ساتھ ہورہا ہے اور کیا ان کے ساتھ آئندہ ہونے والا ہے اور جب تک یہ ہدایت کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے یہ حالات چلتے چلے جائیں گے.اس لئے اللہ تعالیٰ اس ملک پر بھی اور اس قوم پر بھی رحم کرے.ان کے لئے روزانہ بڑے درد دل سے دعا کریں کہ
118 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 خطبات مسرور جلد هفتم احمدیوں کی مخالفت میں آج کل وہاں بڑھ چڑھ کر کوئی نہ کوئی کارروائی ہورہی ہوتی ہے.گو زندگی کی اس ملک میں کوئی قیمت نہیں ہے.مگر احمدی کو صرف اس لئے قتل کیا جاتا ہے، مارا جاتا ہے ، شہید کیا جاتا ہے کہ وہ اس زمانہ کے امام کو ماننے والا ہے.روزانہ کوئی نہ کوئی شہادت کی خبر آ رہی ہوتی ہے یا تکلیفوں سے گزرنے کی خبریں آرہی ہوتی ہیں.دو دن پہلے ہی ہمارے ایک مربی صاحب یوم مصلح موعودؓ کے جلسہ سے واپس آ رہے تھے اور بس کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک دم دو موٹر سائیکل سوار آئے اور انہوں نے فائرنگ شروع کر دی.بھگڈر مچ گئی.لوگ تو دوڑ گئے.ان لوگوں میں کچھ خوف تھا.فائر کرنے والے خود بھی چلے گئے لیکن دوبارہ انہوں نے نشانہ لے کر مربی صاحب پر فائرنگ کی.بہر حال اللہ نے فضل کیا ٹانگوں میں گولیاں لگی ہیں.ہسپتال میں داخل ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحت دے اور اس قوم کو بھی عقل دے کہ جس طرف یہ لیڈ راب لے جا رہے ہیں اُن لیڈروں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی.ایک تو خودان کے اندر بد دیانتی ہے دوسرے مولوی کے ہاتھ میں چڑھ کے مزید بد دیانتی پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اور ملک کو انہوں نے داؤ پر لگایا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.اس وقت میں چند جنازے بھی پڑھاؤں گا.ان کے بارہ میں مختصر بتا دیتا ہوں.ایک تو مبشر احمد صاحب ابن مکرم محمود احمد صاحب کراچی کا ہے.ان کی عمر 42 سال تھی اور 22 فروری کو ان کو بھی بعض نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.کچھ عرصہ سے آپ کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور اس علاقہ کا جو SHO ہے، پولیس انسپکٹر.اس نے کہا ہے کہ وہاں ایک مدرسہ تھا جہاں سے دو آدمی نکلے ہیں اور ان پر فائرنگ کر دی.بہر حال جہاں یہ کام کرتے تھے جب رات دیر تک گھر نہیں آئے تو گھر والوں نے وہاں سے پتہ کیا تو اطلاع ملی کہ ان کو نامعلوم افراد نے شہید کر دیا ہے.بڑے مخلص اور نمازوں کے پابند اور دعوت الی اللہ کا جوش رکھنے والے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں.اہلیہ نے خود بیعت کی اور احمدیت میں شامل ہوئی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کی بھی حفاظت فرمائے اور خود ان کا کفیل ہو.دوسرا جنازہ ہمارے بہت بزرگ دوست احمدی بھائی منیر حامد صاحب کا ہے جو الیفر و امریکن تھے وہ 21 فروری کو 70 سال کی عمر میں وفات پاگئے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 1957ء میں انہوں نے 15 سال کی عمر میں خود بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی اور نہایت مخلص وفا شعار فدائی احمدی تھے.ہمیشہ جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے.ان کو امریکہ کے پہلے نیشنل قائد خدام الاحمدیہ ہونے کا بھی اعزاز ملا ہے.30 سال سے زیادہ عرصہ صدر جماعت فلاڈلفیا(Philadelphia) رہے.1997ء سے وفات تک یہ جماعت امریکہ کے نائب امیر کے طور پر کام کر رہے تھے.آپ کے والدین مسلمان نہیں تھے اور والد کو تو مذہب سے بھی دلچسپی نہیں تھی لیکن والدہ جو تھیں وہ نہ صرف چرچ جاتی تھیں بلکہ وہ ان کو چرچ کے مشنری کے طور پر کام کی ترغیب دلایا کرتی تھیں.10 بہن
خطبات مسرور جلد ہفتم 119 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 بھائیوں میں سے صرف آپ کو مذہب سے لگاؤ تھا اور آپ کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.دیگر بہن بھائیوں نے اس وجہ سے پھر آپ کی مخالفت بھی کی.ایک دفعہ آپ کی والدہ بیمار ہوگئیں تو اس بیماری کے دوران بہن بھائیوں نے ان کا (منیر حامد صاحب کا ) نام اس لئے بہن بھائیوں کی فہرست سے نکال دیا کہ یہ مسلمان ہیں اور مسلمان والا نام اگر فہرست میں آ گیا تو ان کو خفت اٹھانی پڑے گی.بہر حال چھوٹی عمر میں احمدیت قبول کی بلکہ جب یہ احمدیت قبول کرنا چاہتے تھے اس وقت جماعت نے یہ اصول رکھا ہوا تھا کہ والدین کے یا والد یا والدہ کے یا کسی بڑے کے بھی دستخط ہوں کہ اپنی مرضی سے ، دوسرے مذہب ، عقیدہ میں جا رہا ہوں.تو جب انہوں نے بیعت کا فارم فل (Fill) کیا اور تصدیق کے لئے والدہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے انکار کر دیا اور پھر ان کو سمجھایا کہ تم کس طرف جا رہے ہو.لیکن ان کی والدہ کا ہمیشہ خیال رہا کہ تم سب بچوں میں سے روحانی طور پر آگے ہو.یہ کہتے ہیں کہ میں اسلامی اصول کی فلاسفی " پڑھ کر احمدی ہوا تھا.صداقت واضح ہوئی اور پھر انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک خط لکھا.کہتے ہیں کہ اس کا جواب جب آیا تو اس خط نے میری کایا ہی پلٹ دی.میرے ایمان میں بہت ترقی ہوئی.بڑے بے تکلف تھے.سادہ طبیعت تھی.انکسار تھا طبیعت میں.بڑے نیک انسان تھے.مجھے بھی کئی دفعہ ملے ہیں.عموماً خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے.جماعتی جلسوں میں بڑے مؤثر انداز میں تقریر کیا کرتے تھے.رسول کریم ﷺ سے عشق تھا.آنحضرت می ﷺ کے نام کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑے محبت اور پیار کا تعلق تھا.خلفاء سے اور خلافت سے بڑا گہرا محبت و عقیدت کا تعلق تھا.یہ دو تین سال پہلے بنگلہ دیش کے جلسہ پہ جاتے ہوئے پہلی دفعہ یہاں لندن میں مجھے ملے ہیں ور جب جلسہ سے واپس آئے ہیں پھر دوبارہ ملاقات کی.اور کہتے تھے کہ بنگلہ دیش کا جلسہ اور آپ سے ملاقات کے بعد میں نئے سرے سے چارج ہو گیا ہوں.جب بھی مجھے ملتے بڑے جذباتی ہو جایا کرتے تھے.گزشتہ سال جب جلسہ پر امریکہ گیا ہوں تو یہ اپنی بیماری کی وجہ سے جلسہ میں شامل نہیں ہوئے.میں سمجھا تھا کہ معمولی بیماری ہے لیکن بہر حال پتہ نہیں تھا اور میرا خیال ہے کہ گھر والوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ بیماری میں کتنی شدت ہے.اگر مجھے پتہ لگ جاتا تو کسی نہ کسی طرح وقت نکال کے جاکے ان کے گھر ملاقات کر آتا.بہر حال اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ ہیں اور ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ منیر حامد صاحب کی نیکیوں کو ہمیشہ جاری رکھیں.یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی طرف خاص را ہنمائی فرماتا ہے کہ 10 بچوں میں سے صرف ایک کو ہی ہدایت کی توفیق ملی.تیسرا جنازہ ہے مکرم محمود احمد صاحب درویش قادیان کا.25 فروری کو 84 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پاکی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ بھی نہایت نیک متقی نمازوں کے پابند ، صابر شاکر انسان تھے درویشان
خطبات مسرور جلد هفتم 120 خطبه جمعه فرموده 27 فروری 2009 تقریبا سارے ہی صابر شاکر ہیں.نوجوانی میں شیخو پورہ سے قادیان ہجرت کر گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور زندگی وقف کرنے کی توفیق پائی.پھر حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے ارشاد پر فوج میں بھرتی ہوئے اور پھر آپ کے حکم سے ہی فوج چھوڑی اور جماعت کی خدمت پر آگئے.آپ نے ناظر بیت المال آمد و خرچ اور بعد میں نائب ناظم وقف جدید بیرون کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.ان کی تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں.آپ کے ایک بیٹے نصیر احمد عارف صاحب کو نظارت امور عامہ قادیان میں اس وقت خدمت کی توفیق مل رہی ہے.پھر اگلا جنازہ سیدہ منیره یوسف صاحبہ کا ہے.یہ مکرم کمال یوسف صاحب کی اہلیہ ہیں.ان کو کینسر کی تکلیف تھی.ایک لمبی علالت کے بعد 25 فروری کو ان کی وفات ہوئی ہے.آپ حضرت سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کی پوتی تھیں.کمال یوسف صاحب سیکنڈے نیوین ممالک میں مبلغ کے طور پر بڑا کام کرتے رہے ہیں، یہ ان کے ساتھ رہی ہیں.مہمان نواز تھیں.مشن ہاؤس وغیرہ کا خیال رکھتی رہیں اور جماعت سے بڑا تعلق ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء کے ساتھ بڑا تعلق تھا اور ان کے لئے غیرت رکھتی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں.ان کے خاوند کمال یوسف صاحب اللہ کے فضل سے حیات ہیں.پھر امتہ الحئی صاحبہ ہیں جو بشیر احمد صاحب سیالکوٹی ربوہ کی اہلیہ اور اسی طرح بشیر احمد صاحب سیالکوٹی ہیں.ان کی بھی اہلیہ کے چند دنوں کے بعد وفات ہوگئی.یہ دونوں ہمارے مربی اور اس وقت PS لندن میں کام کرنے والے ہمارے کارکن ظہور احمد صاحب کے والد اور والدہ ہیں.ان کی والدہ 27 جنوری کو فوت ہوئی تھیں اور والد 25 فروری کو فوت ہوئے.دونوں بڑے نیک اور دعا گو بزرگ تھے اور اللہ کے فضل سے ان ابتدائی لوگوں میں شامل تھے جور بوہ میں آکے آباد ہوئے اور جنہوں نے یہاں اپنا کاروبار وغیرہ کیا.ان کے پیچھے ان کی ایک بیٹی اور پانچ بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درجات بلند فرمائے اور ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے.نمازوں کے بعد اب ان کی نماز جنازہ بھی ہوگی.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 نمبر 12 مورخہ 20 مارچ تا 26 مارچ 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 121 (10 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مارچ 2009 فرمودہ مورخہ 06 / مارچ 2009 ء بمطابق 06 / امان 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف مواقع پر جماعت کو جو نصائح فرمائیں، جن میں جماعت کے قیام کی غرض کے بارہ میں بھی بتایا اور افراد جماعت کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور پھر ان ذمہ داریوں کے پورا کرنے اور اس غرض کے حصول کی کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا ہے اور من حیث الجماعت بھی اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو کہاں تک پہنچانا ہے اس بارہ میں بھی آپ نے بتایا.اس حوالہ سے میں اس وقت چند باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا تا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس رہے اور اس کی جگالی کرتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے بھی بن سکیں اور ان فضلوں کے وارث بن سکیں جو جماعت سے وابستہ رہ کر ہمیں ملیں گے.سلسلہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے.شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے.شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہورہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خدا تعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا ہے“.آپ فرماتے ہیں: ”مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 16 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 16 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس سلسلہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.ہم میں سے بعض کو ان کے بزرگوں کی نیکیوں کی وجہ سے اس سلسلہ کو شناخت کرنے کی توفیق عطا ہوئی اور ہم احمدی خاندانوں میں پیدا ہوئے اور بعض کو خود اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ وہ بیعت کر کے سلسلے میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا تا کہ ہم اس گروہ خاص میں شامل ہو جائیں جس نے شیطان کے خلاف اسلام کی آخری جنگ لڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بننا ہے.اس وجہ سے ہم میں سے بعض کو بعض ممالک میں سختیوں اور ابتلاؤں سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اس زمانہ کے امام کو مانا ہے.لیکن ایک عظیم مقصد اور
122 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم غرض کے حصول کے لئے ہماری قربانیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو بے شمار تحریرات میں ہمیں ہمیشہ ان امتحانوں اور ابتلاؤں سے آگاہ فرماتے رہے جو آج بھی موجود ہیں کہ ابتلاء آ ئیں گے، تمہیں آزمایا جائے گا اور پھر اس کے نتیجہ میں خوشخبریاں بھی دیں.آپ فرماتے ہیں کہ : ” اس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے.وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہونا پڑے گا.اس کے دنیاوی کاروبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائے گی.اس کو گالیاں سننی پڑیں گی لعنتیں سنے گا.مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالی کے ہاں ملے گا.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 16.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) آج اس زمانہ میں بھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کو جو آپ نے فرمائے بعض ملکوں میں بعینہ اسی طرح پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.اور آج بھی جو احمدی قربانیاں کر رہے ہیں وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا اجر پانے والے ہیں.ان دنوں میں پاکستان میں اور پاکستان کے بعد ہندوستان میں بھی خاص طور پر غیر احمدیوں نے نو مبائعین کے ساتھ انتہائی ظلم کا سلوک روا رکھا ہوا ہے.پاکستان میں بھی نئی حکومت کے بعد احمد یوں پر ہر قسم کی ظلم و زیادتی کو کار ثواب سمجھا جاتا ہے.مولویوں کو حکومت نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور ان لوگوں کے عزائم اور منصوبے انتہائی خوفناک اور خطرناک ہیں.ایک تو ملک میں ویسے بھی قانون نہیں ہے.آج کل لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور پھر احمدیوں کے لئے تو رہا سہا قانون بھی کسی قسم کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جب بھی یہ لوگ جماعت کے خلاف کوئی بڑا منصوبہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے مکر ان پر الٹا دیتا ہے اور ان کو اپنی پڑ جاتی ہے.گزشتہ چند سالوں سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں اور ان دنوں میں بھی بظاہر یہی نظر آتا تھا کہ ایک منصوبہ جماعت کے خلاف بنانے کی کوشش کی جاری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ملک میں ایسی افراتفری پیدا کر دی کہ ان کو اپنی پڑ گئی.پس جہاں جہاں بھی احمدی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں وہ یا درکھیں کہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ اس فوج میں داخل ہوئے ہیں جو اس زمانے کے امام نے بنائی.اس لئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت مانگتے ہوئے ہمیشہ اور ہر وقت صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کریں.اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکیں.آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ہی ہے.جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ان شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو شکست دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا ہے.لیکن ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کے لئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہوگا.کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہوئی بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے.
خطبات مسرور جلد هفتم 123 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مارچ 2009 اس بارہ میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اغراض نفسانی شرک ہوتے ہیں.وہ قلب پر حجاب لاتے ہیں.اگر انسان نے بیعت بھی کی ہوئی ہو تو پھر بھی اس کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوتے ہیں.یعنی نفسانی غرضیں جو ہیں وہ شرک ہیں اور باوجود اس کے کہ بیعت کی ہوئی ہے دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں.انسان سوچ سمجھ کے بیعت کرتا ہے.بعض پرانے احمدی ہیں لیکن پھر بھی بعض ایسی باتیں ہو جاتی ہیں جو ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں.فرمایا ”ہمارا سلسلہ تو یہ ہے کہ انسان نفسانیت کو ترک کر کے خالص توحید پر قدم مارے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 286 حاشیہ.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ایک احمدی کا فرض ہے کہ تمام قسم کی نفسانی اغراض سے اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام میں لگ جائے.آپ نے فرمایا کہ بیعت کرنے کے باوجود بعض لوگ ٹھو کر کھا جاتے ہیں صرف اس لئے کہ اس غرض کو نہیں سمجھتے جس کے لئے وہ بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور وہ غرض یہی ہے کہ مکمل طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپر د کر دینا اور اپنے دل کو ہر قسم کے شرک سے پاک کرنا.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے اس غرض کے لئے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشاء ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 83 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس آج کل جبکہ دنیا کی بے حیائیاں عروج پر ہیں.نہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے اور نہ ہی حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے.فتنہ و فساد ہر جگہ پھیلا ہوا ہے.مسلمان، مسلمان کی گردن خدا کے نام پر کاٹ رہا ہے ، مذہب کے نام پر کاٹ رہا ہے.ایک طرف سے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام کے نام پر جو مملکت ہم نے حاصل کی ہے وہاں خدا تعالیٰ کے دین کی حکومت قائم کی جائے گی اور دوسری طرف مذہب کے نام پر، اپنی ذاتی اغراض کی خاطر، کلمہ گوؤں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے.اور آج دنیا میں پاکستان کا تصور ظلم و بربریت کے ایک خوفناک نمونہ کے طور پر ابھر رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر بھی رحم کرے جس کی خاطر جماعت نے بہت قربانیاں دی ہوئی ہیں.اس بات کو ہر پاکستانی احمدی کو یاد رکھنا چاہئے.پس آج اگر اس ملک کو کوئی بچا سکتا ہے تو اس فسق و فجور اور فساد اور ظلم کے سمندر میں صرف ایک کشتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تیار کی ہے اور جس پر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سوار ہیں.پس ایک خاص کوشش کے ساتھ اپنے آپ کو بھی ہمیں اس کا اہل بنانے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے ہم قوموں کے لئے خاص دعا کی ضرورت ہے کہ وہ عقل سے کام لیں اور اپنے نام نہاد راہنماؤں کے پیچھے چل کر اپنی زندگیوں اور ملک کی زندگیوں کو داؤ پر نہ لگائیں.
124 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بہر حال یہ دو بڑی اور اہم ذمہ داریاں ہیں جو ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں اور خاص طور پر پاکستانی احمدی پر کیونکہ وہاں کے حالات خراب ہیں.اور دنیا میں جہاں جہاں بھی حالات خراب ہیں، عموماً اب تو یہی نظر آتا ہے، احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے.وہ احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے آسودہ حال بنایا ہوا ہے بعض اوقات اپنے احمدی ہونے کے مقصد کو بھول جاتے ہیں.دنیاوی کاموں میں ضرورت سے زیادہ پڑ جاتے ہیں.کئی شکایات آتی ہیں.جماعتی روایات اور اسلامی تعلیمات کا خیال نہیں رکھا جاتا.توحید کے قیام کے لئے جو سب سے اہم کام ہے اور جو انسان کا مقصد پیدائش ہے یعنی عبادت کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا اس کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی.پس بڑا خوف کا مقام ہے کہ ہمارے میں سے کسی ایک کی بھی کمزوری اسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مصداق نہ بنادے کہ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ (هود:47 ) کہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے.إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ (ھود : 47 ) کہ یقیناً اس کے عمل غیر صالح ہیں.اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، کبھی کسی بیعت میں شامل ہونے والے کا مقام خدا تعالیٰ کی نظر میں ایسا ہو.اس بات سے خوف سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جانے چائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی نظر میں صالح ہوں.ہم اپنے زعم میں اپنے آپ کو ، اپنے خود ساختہ نیکیوں کے معیار پر پر کھنے والے نہ ہوں.بلکہ وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اس زمانہ کے امام نے اپنی جماعت سے توقع رکھتے ہوئے ہمیں بتائے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : ” جب تک ہماری جماعت تقویٰ اختیار نہ کرے نجات نہیں پاسکتی“.فرمایا کہ ”خدا تعالیٰ اپنی حفاظت میں نہ لے گا“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 330 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں ”خدا تعالیٰ نے اگر چہ جماعت کو وعدہ دیا ہے کہ وہ اسے اس بلا ( یہ طاعون کا ذکر ہے ) سے محفوظ ر کھے گا.مگر اس میں بھی شرط لگی ہوئی ہے کہ لَم يَلْبِسُوا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ (الانعام: 83 ) کہ جولوگ اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملاویں گے وہ امن میں رہیں گے.اس زمانے میں بھی بہت سی بلا ئیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں.قدم قدم پر کھڑی ہیں، ان سے بچنے کے لئے بھی یہی اصول ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.فرمایا " پھر دار کی نسبت وعدہ دیا تو اس میں بھی شرط رکھ دی کہ اِلَّا الَّذِينَ عَلَوْا مِنْ اِسْتِكْبَارٍ.اس میں عَلَوا کے لفظ سے مراد یہ ہے کہ جس قسم کی اطاعت انکساری کے ساتھ چاہئے وہ بجانہ لاوے.جب تک انسان حسن نیتی جس کو حقیقی سجدہ کہتے ہیں، بجانہ لاوے تب تک وہ دار میں نہیں ہے اور مومن ہونے کا دعویٰ بے فائدہ ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 453.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس فرمایا کہ حقیقی اطاعت اور انکساری جو ہے جب تک وہ نہیں بجالاؤ گے، یہ سب دعوے جو ہیں غلط ہیں کہ ہم مومن ہیں ، ہم نے بیعت کی ہے.
125 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس یہ معیار ہیں جن کی ہم سے توقع رکھی جارہی ہے.پس تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی کوشش اور اطاعت اور انکساری کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش ہے جو ایک احمدی کو کرنی چاہئے اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی کی اُس راستہ کی طرف راہنمائی کرے گی جو ان منزلوں کی طرف لے جاتا ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب سے پر مقدم رکھے.بہت سی ریا کاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 458.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) جو دکھاوے کی باتیں ہیں، فضول باتیں ہیں، بیہودہ باتیں ہیں، وہ انسان کو تباہ کر دیتی ہیں.پس ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور پھر ہمارے سامنے جو جائزے آئیں ، جو اپنی حالت نظر آئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں.ہر ایک کا اپنا نفس اس کو اصلاح کی طرف مائل کرنے والا ہونا چاہئے.خود اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اصلاح کی کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب کسی قسم کی ضد نہ ہو.جب یہ احساس ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر میری زندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ اپنی زندگی کا پاک نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرنا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے احکامات پر عمل کرنا ہے.اور یہی بات اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ دوسروں کو احمد بیت اور حقیقی اسلام سے متعارف کروانے اور ان کی راہنمائی کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اور بنتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ” ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق، عادات، استقامت، پابندی احکام الہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں.اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھوکر کھاتا ہے.پس ان باتوں کو یا درکھو.پھر آپ نے ایک موقع پر فرمایا: ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 518 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) خدا تعالیٰ اس وقت صادقوں کی جماعت تیار کر رہا ہے.پس ہمیں صدق کے نمونے دکھانے کی ضرورت ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 402 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور صدق کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: جب عام طور پر انسان راستی اور راستبازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو شعار بنا لیتا ہے تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا دیتی ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 243.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
126 خطبه جمعه فرمودہ 6 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اور جب انسان خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتا ہے تو اس کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت بھی نصیب ہو جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی معرفت ملتی ہے تو پھر اس کی کامل اطاعت کی طرف ہمیشہ نظر رہتی ہے.اللہ تعالیٰ سے محبت کا حقیقی عرفان ملتا ہے.ہر قسم کے شرک سے نفرت پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ ہونے کا صحیح علم حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر و حو صلے سے ہر قسم کے ابتلاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ پر تو کل پیدا ہوتا ہے.تمام قسم کے اعلیٰ اخلاق بجالانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.غرض کہ صدق کے اعلیٰ نمونے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہر وقت، ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد سے راہنمائی کرتے ہیں.پس یہ خلاصہ اس جماعت کی غرض اور مقصد ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ صادقوں کی جماعت تیار کر رہا ہے.اگر ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لیں تو ایک خوف کی صورت نظر آتی ہے.پس ایسی صورت میں پھر ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف لوٹتے ہوئے اس کے حضور جھکنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ ان راستوں پہ چلنا بھی اس کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شامل حال نہ ہو تو جتنی بھی ہم کوشش کر لیں کچھ نہیں ہو سکتا.اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ان افراد میں شامل ہو جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس فسق و فجور کی آگ سے ایک جماعت کو بچائے اور مخلص اور متقی گروہ میں شامل کرے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 538.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور یہ متقی گروہ کون سا ہے؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : "جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 320 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) بیعت کے موافق کا مطلب یہ ہے کہ بیعت کی جو شرائط ہیں ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اُس منتقی گروہ میں شامل ہو جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی اس حقیقت کو سمجھنے والا ہو جس کا آپ نے اظہار فرمایا ہے.اللہ کرے کہ ہم کبھی اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور اناؤں کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات سے صرف نظر کرنے والے نہ ہوں.دوسروں کے لئے ایک نمونہ ہوں تا کہ ہماری نسلیں بھی ان راستوں پر چلتے ہوئے ہمارے لئے دعائیں کرنے والی ہوں.اور جو ہمارے ذریعہ سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کریں وہ بھی اپنے ان محسنوں کے لئے دعا ئیں کرنے والے ہوں جنہوں نے انہیں احمدیت سے متعارف کروایا اور جن کی وجہ سے وہ احمدیت میں شامل ہوئے.
127 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 6 مارچ 2009 جماعت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنا ہے اور پھلنا ہے.ہم گزشتہ 100 سال سے زائد عرصہ سے یہی دیکھتے آرہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت پر اپنی رحمت کا ہاتھ رکھا ہوا ہے اور جماعت میں ہر سال لاکھوں سعید روحوں کو شامل کرتا چلا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نئے شامل ہونے والوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے اور احسان مند اور شکر گزار بنائے.جوں جوں جماعت کی تعداد اور مضبوطی بڑھ رہی ہے، حسد کی آگ بھی اسی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے.اس کا میں پہلے بھی کئی دفعہ کئی موقعوں پر اظہار کر چکا ہوں.مخالفین ہمیشہ جماعت کے بارہ میں یہی سوچ رکھتے ہیں اور ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ جماعت تباہ ہو.اور یہی سوچ سکتے تھے اور انتظار میں ہوتے تھے کہ دیکھیں جماعت اب تباہ ہوئی کہ اب تباہ ہوئی.اور وہ یہی شور ہمیشہ مچاتے رہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ بڑھتے چلے گئے.اللہ تعالیٰ اب بھی ہماری پردہ پوشی فرماتے ہوئے اپنا فضل فرما رہا ہے اور ہمیشہ فرماتا رہے اور دشمن کا ہر وار نا کام و نامراد ہوتا رہے.جماعت کی یہ سب کا میابیاں جو ہمیں نظر آتی ہیں اور دشمن کو بھی اب نظر آ رہی ہیں یہ اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے اور اس وعدہ کی وجہ سے آپ نے ہمیشہ جماعت کو تسلی دلائی ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ہمارے متبعین پر ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ عروج ہی عروج ہو گا لیکن یہ خبر نہیں کہ ہمارے دور میں ہو یا ہمارے بعد ہو.خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سو یہ بات ابھی پوری ہونے والی ہے“.فرمایا ” یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ اول گروہ غرباء کو اپنے لئے منتخب کیا کرتا ہے اور پھر انہیں کامیابی اور عروج حاصل ہوا کرتا ہے.ہمیں اس امر سے ہر گز تعجب نہیں کہ ہمارے متبعین امیر نہ ہوں گے.امیر تو یہ ضرور ہوں گے لیکن افسوس تو اس بات سے آتا ہے کہ اگر یہ دولت مند ہو گئے تو پھر انہی لوگوں کے ہمرنگ ہو کر دنیا سے غافل ہو جاویں اور دنیا کو مقدم کرلیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 489.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہیں اصل فقرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے.عروج تو جماعت کو حاصل ہونا ہے انشاء اللہ تعالیٰ لیکن اس عروج کی حالت میں پھر دنیا کو کہیں دین پر مقدم نہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت سے متعلق جو خواہشات اور توقعات ہیں ان پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس برائی سے بچا کر رکھے جس کے بارہ میں آپ نے فکر کا اظہار کیا ہے اور اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ آپ کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 13 مورخہ 27 مارچ تا2 ، اپریل 2009 ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)
خطبات مسرور جلد ہفتم 128 (11) خطبه جمعه فرموده 13 مارچ 2009 فرمودہ مورخہ 13 / مارچ 2009ء بمطابق 13 رامان 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دو تین دن پہلے 12 ربیع الاول تھی جو آنحضرت ﷺ کی پیدائش کا دن ہے اور یہ دن مسلمانوں کا ایک حصہ بڑے جوش وخروش سے مناتا ہے.پاکستان میں بلکہ برصغیر میں بھی بعض بڑا اہتمام کرتے ہیں.بعض لوگ جو ہمارے معترضین ہیں، مخالفین ہیں، ان کا ایک یہ اعتراض بھی ہوتا ہے.مجھے بھی لکھتے ہیں ، احمدیوں سے بھی پوچھتے ہیں کہ احمدی کیوں یہ دن اہتمام سے نہیں مناتے ؟ تو اس بارہ میں آج میں کچھ کہوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارہ میں کیا ارشادت فرمائے؟ ( وہ بیان کروں گا ) جن سے واضح ہوگا کہ اصل میں احمدی ہی ہیں جو اس دن کی قدر کرنا جانتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس سے پہلے میں یہ بھی بتا دوں کہ مولود النبی جو ہے ، یہ کب سے منانا شروع کیا گیا.اس کی تاریخ کیا ہے؟ مسلمانوں میں بھی بعض فرقے میلادالنبی کے قائل نہیں ہیں.اسلام کی پہلی تین صدیاں جو بہترین صدیاں کہلاتی ہیں ان صدیوں کے لوگوں میں نبی کر یم ہے سے جو محبت پائی جاتی تھی وہ انتہائی درجہ کی تھی اور وہ سب لوگ سنت کا بہترین علم رکھنے والے تھے اور سب سے زیادہ اس بات کے حریص تھے کہ آنحضرت ﷺ کی شریعت اور سنت کی پیروی کی جائے.لیکن اس کے باوجود تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کسی صحابی یا تا بھی جو صحابہ کے بعد آئے ، جنہوں نے صحابہ کو دیکھا ہوا تھا، کے زمانے میں عید میلادالنبی کا ذکر نہیں ملتا.وہ شخص جس نے اس کا آغاز کیا، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عبداللہ بن محمد بن عبد اللہ قداح تھا.جس کے پیروکار فاطمی کہلاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہیں.اور اس کا تعلق باطنی مذہب کے بانیوں میں سے تھا.باطنی مذہب یہ ہے کہ شریعت کے بعض پہلو ظاہر ہوتے ہیں، بعض چھپے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی یہ اپنی تشریح کرتے ہیں.ان میں دھو کے سے مخالفین کو قتل کرنا، مارنا بھی جائز ہے اور بہت ساری چیزیں ہیں اور بے انتہا بدعات ہیں جو انہوں نے اسلام میں داخل کی ہیں اور ان ہی کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں.
129 خطبہ جمعہ فرمود : 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس سب سے پہلے جن لوگوں نے میلاد النبی ﷺ کی تقریب شروع کی وہ باطنی مذہب کے تھے اور جس طرح انہوں نے شروع کی وہ یقیناً ایک بدعت تھی.مصر میں ان کی حکومت کا زمانہ 2 36 ہجری بتایا جاتا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے دن منائے جاتے تھے.یوم عاشورہ ہے.میلادالنبی تو خیر ہے ہی.میلاد حضرت علی ہے.میلاد حضرت حسنؓ ہے.میلاد حضرت حسینؓ ہے.میلاد حضرت فاطمۃ الزہرا ہے.رجب کے مہینے کی پہلی رات کو مناتے ہیں.درمیانی رات کو مناتے ہیں.شعبان کے مہینے کی پہلی رات مناتے ہیں.پھر ختم کی رات ہے.رمضان کے حوالے سے مختلف تقریبات ہیں اور بے تحاشا اور بھی دن ہیں جو مناتے ہیں اور انہوں نے اسلام میں بدعات پیدا کیں.جیسا کہ میں نے کہا مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بالکل اس کو نہیں مناتے اور عید میلادالنبی کو بدعت قرار دیتے ہیں.یہ دوسرا گروہ ہے جس نے اتنا غلو سے کام لیا کہ انتہا کر دی.بہر حال ہم دیکھیں گے کہ اس زمانے کے امام نے جن کو اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل کر کے بھیجا ہے انہوں نے اس بارے میں کیا ارشاد فرمایا.ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مولود خوانی پر سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ: آنحضرت ﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خدا نے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے.لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں.خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو.آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں.اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے.آنحضرت ﷺ کی بعثت ، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے.ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنالیویں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 159-160.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) آنحضرت ﷺ کی سیرت اگر بیان کرنی ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے.لیکن آج کل ہوتا کیا ہے؟ خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں ان جلسوں کو سیرت سے زیادہ سیاسی بنالیا جاتا ہے، یا ایک دوسرے مذہب پہ یا ایک دوسرے فرقے پر گندا چھالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.پاکستان میں جو کوئی جلسہ یہ لوگ کرتے ہیں، اس میں یہ نہیں ہوا کہ سیرت کے پہلو بیان کر کے صرف وہیں تک بس کر دیا جائے بلکہ ہر جگہ پر جماعت احمدیہ کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر بے انتہا بیہودہ اور لغو قسم کی باتیں کی جاتی ہیں اور آپ کی ذات کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے.گزشتہ دنوں ربوہ میں ہی مولویوں نے بڑا جلسہ کیا ، جلوس نکالا.اور وہاں کی جور پورٹس ہیں اس میں صرف
خطبات مسرور جلد ہفتم 130 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مارچ 2009 یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جلسہ سیاسی مقصد کے لئے اور احمدیوں کے خلاف اپنے بغض و عناد کے اظہار کے لئے منعقد کیا گیا تھا.تو اس قسم کے جو جلسے ہیں ان کا تو کوئی فائدہ نہیں.آنحضرت ﷺ کی ذات تو وہ بابرکت ذات ہے کہ جب آپ آئے تو رحمتہ للعالمین بن کے آئے.آپ تو دشمنوں کے لئے بھی رو رو کر دعائیں کرتے رہے.ایک صحابی سے روایت ہے کہ ایک رات مجھے آنحضرت ﷺ کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع ملا تو اس میں آپ یہی دعا مستقل کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو بخش دے اور عقل دے.( سنن النسائی کتاب الافتتاح باب تردید الآیۃ حدیث نمبر (1010) لیکن آج کل کے مُلاں اس اسوہ پر عمل کرنے کی بجائے کیا کر رہے ہیں؟ قادیانیوں کے خلاف ( جوان کی زبان میں قادیانی کہلاتے ہیں ) یعنی ہم احمدیوں کے خلاف جو گندی زبان استعمال کی جاسکتی ہے کی جاتی ہے اور الزامات لگائے جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ کا اسوہ تو یہ تھا کہ ایک صحابی کے جنگ کے دوران دشمن پر غلبہ پاکے اُسے قتل کر دینے پر جبکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا، آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے دل چیر کر دیکھا تھا ؟ اور اتنا شدت سے اظہار کیا کہ انہوں نے خواہش کی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا.(سنن ابی داؤد کتاب الجہا د باب على ما يقاتل المشركون حدیث نمبر 2643) لیکن ان کے عمل کیا ہیں؟ بالکل اس کے الٹ.بہر حال یہ تو ان کے عمل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے تسلسل میں کیا فرماتے ہیں ہمیں آگے پیش کرتا ہوں.فرمایا کہ محض تذکرہ آنحضرت ﷺ کا عمدہ چیز ہے.اس سے محبت بڑھتی ہے اور آپ کی اتباع کے لئے تحریک ہوتی اور جوش پیدا ہوتا ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 159 حاشیہ.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) قرآن شریف میں بھی اس لئے بعض تذکرے موجود ہیں جیسے فرمایا وَ اذْكُرْ فِي الْكِتَبِ إِبْرَاهِيمَ (مریم:42 ).( ملفوظات جلد سوم صفحہ 159 حاشیہ.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) لیکن ان تذکروں کے بیان میں بعض بدعات ملا دی جائیں تو وہ حرام ہو جاتے ہیں.فرمایا کہ یہ یاد رکھو کہ اصل مقصد اسلام کا توحید ہے.مولود کی محفلیں کرنے والوں میں آج کل دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی بدعات ملا لی گئی ہیں.جس میں ایک جائز اور موجب رحمت فعل کو خراب کر دیا ہے.آنحضرت ﷺ کا تذکرہ موجب رحمت ہے مگر غیر
131 خطبه جمعه فرموده 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم مشروع امور و بدعات منشاء الہی کے خلاف ہیں.ہم خود اس امر کے مجاز نہیں ہیں کہ آپ کسی نئی شریعت کی بنیاد رکھیں اور آج کل یہی ہورہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کے موافق شریعت کو بنانا چاہتا ہے گویا خودشریعت بناتا ہے.اس مسئلہ میں بھی افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہے.بعض لوگ اپنی جہالت سے کہتے ہیں کہ آنحضرت مے کا تذکرہ ہی حرام ہے.(نعوذ باللہ ).یہ ان کی حماقت ہے.آنحضرت ﷺ کے تذکرہ کو حرام کہنا بڑی بیبا کی ہے.جبکہ آنحضرت ﷺ کی سچی اتباع خدا تعالیٰ کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور اصل باعث ہے اور اتباع کا جوش تذکرہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی تحریک ہوتی ہے.جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے اس کا تذکرہ کرتا ہے.“ ہاں جو لوگ مولود کے وقت کھڑے ہوتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت اللہ ہی خود تشریف لے آئے ہیں“.( یہ بھی ان کا ایک طریق کار ہے.جلسہ ہوتا ہے مولود کی محفل ہو رہی ہے، اس میں کھڑے ہو جاتے ہیں.مجلس بیٹھی ہوئی ہے تقریر کرنے والا مقرر کچھ بول رہا ہے، کہتا ہے آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور سارے بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے ) فرمایا کہ یہ جو خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے ہیں.یہ اُن کی جرات ہے.ایسی مجلسیں جو کی جاتی ہیں ان میں بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوۃ ہیں“.(لوگ تو ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جو نماز بھی پانچ وقت نہیں پڑھ رہے ہوتے بلکہ بعض تو نمازیں بھی نہیں پڑھنے والے ہوتے ، عید پڑھنے والے ہوتے ہیں صرف یا صرف محفلوں میں شامل ہو جاتے ہیں ).فرمایا کہ " کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوۃ سود خور اور شرابی ہوتے ہیں.آنحضرت نے کو ایسی مجلسوں سے کیا تعلق؟ اور یہ لوگ محض ایک تماشہ کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں، پس اس قسم کے خیال بیہودہ ہیں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 159-160 حاشیہ.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) جو شخص خشک وہابی بنتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی عظمت کو دل میں جگہ نہیں دیتا وہ بے دین آدمی ہے.انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے.خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے.دنیا کے لئے اس میں برکات ہوتے ہیں.اپنے جیسا سمجھ لینا ظلم ہے.اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے.حدیث میں آیا ہے آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بہشت میں ایک ایسا مقام ہوگا جس میں صرف میں ہوں گا.ایک صحابی جس کو آپ سے بہت ہی محبت تھی یہ سن کر رو پڑا اور کہا حضور مجھے آپ سے بہت محبت ہے.آپ نے فرمایا تو میرے ساتھ ہوگا.خیال ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں ہوں گا تو شاید یہ صحابی وہاں نہ پہنچ سکیں فرمایا کہ اگر تجھے مجھ سے محبت ہے تو میرے ساتھ ہوگا.(الدرالمنثور في التفسير في الماثور جلد 2 صفحہ 550 تفسیر سورۃ النساء زیر آیت 90 مطبوعہ بیروت 2001ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دوسرا گروہ جنہوں نے مشرکانہ طریق اختیار کئے ہیں روحانیت ان میں بھی نہیں ہے.قبر پرستی کے سوا کچھ نہیں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 161 حاشیہ.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
132 خطبہ جمعہ فرمود : 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا تذکرہ میرے نزدیک جیسا کہ وہابی کہتے ہیں حرام نہیں بلکہ یہ اتباع کی تحریک کے لئے مناسب ہے.جو لوگ مشرکانہ رنگ میں بعض بدعتیں پیدا کرتے ہیں وہ حرام ہے.اسی طرح ایک شخص نے سوال کیا تو اس کو آپ نے خط لکھوایا اور فرمایا کہ میرے نزدیک اگر بدعات نہ ہوں اور جلسہ ہو اس میں تقریر ہو، اس میں آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کی جاتی ہو، آنحضرت اللہ کی مدح میں کچھ نظمیں خوش الحانی سے پڑھ کے سنائی جائیں وہاں تو ایسی مجلسیں بڑی اچھی ہیں اور ہونی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس طرح اپنی اس عشق و محبت کی جو محفلیں ہیں ان کو سجانا چاہتے ہیں یا اس بارہ میں ذکر کرنا چاہتے ہیں، فرماتے ہیں: ” خدا فرماتا ہے اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي ( آل عمران : 32 کہ اگر اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو.یہ قرآن کریم کی آیت ہے.فرمایا کہ " کیا آنحضرت ﷺ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا؟ آج کل کے یہ مولوی مجلسیں کرتے ہیں.محفلیں کرتے ہیں تو اس قسم کی بدعات کرتے ہیں کہ اس کے بعد روٹیاں تقسیم ہوتی ہیں.قرآن پڑھا گیا تو یہ مولود کی روٹی ہے.بڑی بابرکت روٹی ہوگئی.تو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ سے محبت کرنی ہے تو آنحضرت علی کی پیروی کرو اور آنحضرت مے کی اگر پیروی کرنی ہے تو کیا کہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا؟) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے.ہاں آنحضرت ﷺ نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے.جب یہ آیت وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (النساء :42 ) ( اور ہم تجھے ان لوگوں کے متعلق بطور گواہ لائیں گے.قرآن سنا ضرور کرتے تھے اور اس پر آپ جب یہ آیت آئی کہ آپ گواہ ہوں گے تو آپ اس پر رو پڑے.یہ رونا اصل میں آپ کی عاجزی کا انتہائی مقام اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح یہ مقام آپ کو عطا فرمایا.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اس سے آپ روئے اور فرمایا بس کر میں اس سے آگے نہیں سن سکتا.آپ کو اپنے گواہ گزرنے پر خیال گزرا ہوگا“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 162 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ہمیں خود خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں“.یہ ہے اتباع آنحضرت ﷺ کی.پھر لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہئے.سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرت ﷺ نے کیا ہے کہ نہیں ؟ اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں ؟ حضرت ابراہیم آپ کے جدا مجد تھے اور قابل تعظیم تھے.کیا وجہ کہ آپ نے ان کا مولود نہ کر وایا ؟ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 162 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد ہفتم 133 خطبه جمعه فرمود : 13 مارچ 2009 آنحضرت نے ان کی پیدائش کا دن نہیں منایا.بہر حال خلاصہ یہ کہ مولود کے دن جلسہ کرنا، کوئی تقریب منعقد کرنا منع نہیں ہے بشرطیکہ اس میں کسی بھی قسم کی بدعات نہ ہوں.آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کی جائے.اور اس قسم کا ( پروگرام) صرف یہی نہیں کہ سال میں ایک دن ہو.محبوب کی سیرت جب بیان کرنی ہے تو پھر سارا سال ہی مختلف وقتوں میں جلسے ہو سکتے ہیں اور کرنے چاہئیں اور یہی جماعت احمدیہ کا تعامل رہا ہے ، اور یہی جماعت کرتی ہے.اس لئے یہ کسی خاص دن کی مناسبت سے نہیں، لیکن اگر کوئی خاص دن مقرر کر بھی لیا جائے اور اس پہ جلسے کئے جائیں اور آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کی جائے بلکہ ہمیشہ سیرت بیان کی جاتی ہے.اگر اس طرح پورے ملک میں اور پوری دنیا میں ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ بدعات شامل نہیں ہونی چاہئیں.کسی قسم کے ایسے خیالات نہیں آنے چاہئیں کہ اس مجلس سے ہم نے جو برکتیں پالی ہیں ان کے بعد ہمیں کوئی اور نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ بعضوں کے خیال ہوتے ہیں.تو نہ افراط ہو نہ تفریط ہو.پس آج میں بقیہ وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی روشنی میں آنحضرت مے کی سیرت کے بعض پہلو بیان کروں گا تا کہ ہم بھی ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں تبھی ہم جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، آنحضرت ﷺ کی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کی محبت کو پاسکتے ہیں اور تبھی ہمارے گناہ بخشے جائیں گے تبھی ہماری دعائیں بھی قبولیت کا درجہ پائیں گی.بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آنحضرت ﷺ کو وسیلہ بنا کر دعا کی جاسکتی ہے؟ آپ کی سنت کی پیروی اور آپ سے محبت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رضا آپ کو حاصل کرنے کا وسیلہ ہی ہے.اذان کے بعد کی دعا میں بھی یہی دعا سکھائی گئی ہے.جو آیت میں نے پڑھی ہے اس کا کچھ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے درج فرمایا تھا.پوری آیت اس طرح ہے.قُل اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمُ (آل عمران : 32 ) تو کہہ دے کہ اگرتم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو وہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.پس ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے کیا سنت قائم فرمائی؟ جن کی ہم نے پیروی کرنی ہے.آپ کے کیا کچھ عمل تھے جو آپ نے اپنے صحابہ کے سامنے کئے اور آگے روایات میں ہم تک پہنچے.آپ ﷺ پر دنیا والے یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے دنیاوی جاہ و حشمت کے لئے حملے کئے اور ایک علاقے کوزبر کر کے اپنی حکومت میں لے آئے.پھر آپ کی ازواج مطہرات کے حوالے سے قسم قسم کی باتیں آج کل کی جاتی ہیں.ایسی کتابیں لکھی جاتی ہیں باتیں کہ جن کوکوئی شریف النفس پڑھ بھی نہیں سکتا.بلکہ امریکہ میں ہی جوئی کتاب لکھی گئی ہے، اس پر کسی عیسائی نے ہی یہ تبصرہ کیا تھا کہ ایسی بیہودہ کتاب ہے کہ اس کو تو پڑھا ہی نہیں جاسکتا.تو
134 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہ سب الزامات جو آپ ﷺ کی ذات پر لگائے جاتے ہیں کوئی نئی بات نہیں ہے.ہمیشہ سے آپ کی ذات بابرکات پر یہ الزام لگائے گئے.جب آپ نے دعوی کیا اس وقت بھی کفار کا یہ خیال تھا کہ شاید کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے اور آپ کے چچا کے ذریعہ سے آپ کو یہ پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے مذہب کے بارہ میں، ہمارے بتوں کے بارے میں کچھ کہنا چھوڑ دیں اور اپنے دین کی تبلیغ بھی نہ کریں اور ہم اس کے بدلے میں آپ کی سرداری بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں.اپنی دنیا کی جاہ و حشمت جو ہمارے پاس ہے وہ بھی آپ کو دینے کو تیار ہیں.اپنی دولت بھی دینے کو تیار ہیں.عرب کی خوبصورت ترین عورت بھی دینے کو تیار ہیں تو آپ کا جواب یہ تھا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تو تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں آؤں گا.میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ ان کی خرابیاں ان کو بتاؤں اور ان کو سیدھے راستے پر چلاؤں.اگر اس کے لئے مجھے مرنا ہی ہے تو پھر میں بخوشی اس موت کو قبول کرتا ہوں.میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور موت کا ڈر مجھے اس کام سے روک نہیں سکتا اور نہ ہی کسی قسم کا لالچ مجھے اس سے روک سکتا ہے.پس دنیا داروں نے تو ہمیشہ سے آپ کے اس کام کو جو آپ خدا تعالیٰ کی خاطر کر رہے تھے اور خدا تعالیٰ کے حکم سے کر رہے تھے دنیا وی اور ظاہری چیز سمجھا اور کفار نے آپ کو اس کے لئے پیشکش بھی کی اور آپ نے اس وجہ سے کفار کی ہرقسم کی پیشکش کو رد کر کے یہ واضح کر دیا کہ میں اس دنیا کی جاہ و حشمت اور دولت کا امید وار نہیں ہوں بلکہ میں تو زمین و آسمان کے خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.وہ آخری نبی ہوں جس نے تمام دنیا پر خدائے قادر و توانا اور واحد ویگانہ کا جھنڈا لہرانا ہے.اور آپ کی اس بات کا اعلان اللہ تعالیٰ نے بھی آپ پر یہ آیت نازل کر کے کر دیا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الانعام: 163) ان سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.پس یہ تھا آپ کا مقام جو سرتا پا خدا کی محبت میں ڈوب کر آپ کو ملا تھا.آپ کو دنیاوی جاہ و حشمت نہیں چاہئے تھی.آپ کو تو خدائے واحد کی حکومت تمام دنیا پر چاہئے تھی اور اس کے لئے آپ نے ہر دکھ اٹھایا.آپ نے دنیا کو بتایا کہ اگر تم ہمیشہ کی زندگی چاہتے ہو تو میری پیروی کرو اور نمازوں کے وہ حق ادا کرنے کی اور وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو جس کے نمونے میں نے قائم کئے ہیں.عبادتوں میں ڈوبنا ہی زندگی کی ضمانت ہے.اور قربانیوں کے ذریعہ حقیقی موت سے پہلے وہ موت اپنے اوپر وار د کرو جس کے اعلیٰ ترین معیار میں نے قائم کئے ہیں اور اس وجہ سے جو موت آئے گی تو پھر ایک ابدی زندگی شروع ہوگی.جو انسان کو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے گی.پس نمازوں اور قربانیوں کی وہ معراج آپ نے حاصل کی جس نے زندگی اور موت کے نئے زاویے آپ کی ذات میں قائم فرما دیئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروا دیا کہ مجھے کسی لالچ کی کیا ترغیب دیتے ہو اور مجھے کسی ظلم کا
135 خطبه جمعه فرموده 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم نشانہ بنانے سے کیا ڈراتے ہو، میرا تو ہر فعل میرے خدا کے لئے ہے اور جس کا سب کچھ خدا کا ہو جائے اس کے لئے نہ دنیاوی زندگی کی کوئی حیثیت ہے، نہ موت کی کوئی حیثیت ہے اور جیسا کہ میں نے کہا، آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان کر کے ہمیں یہ بھی تعلیم دی کہ میرے نمونے تو یہ ہیں.تم بھی فَاتَّبِعُونِی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان راستوں پر قدم مارنے کی کوشش کرو.آج آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کو بھی ان خوفوں سے ڈرانے کی دنیا کے کئی ممالک میں کوشش کی جاتی ہے.پاکستان میں تو ہر جگہ ہی، ہر روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے.اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلم اکثریت کے علاقوں میں احمدیوں پر ظلم کئے جا رہے ہیں، خاص طور پر نو مبائعین کو خوب ڈرایا جاتا ہے.اور حتی کہ اب تو یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ یورپ کے ممالک میں بھی ، بلغاریہ سے پچھلے دنوں جور پورٹ آئی کہ وہاں کے مفتی کے کہنے پر احمدیوں کو ہراساں کیا گیا.اب بلغاریہ بھی نیا نیا یورپی یونین میں شامل ہوا ہے اس علاقہ میں بھی مسلمانوں کی تعداد کافی ہے تو وہاں کے مفتی کے کہنے پر پولیس نے 7، 8 احمدیوں کو پکڑ لیا اور ان سے کافی سختی کی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ سب ایمان پر قائم ہیں تو ہمیشہ ہر احمدی کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ کیا کیا سختیاں ہیں یا تھیں جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ پر نہیں کی گئیں.ہم پر تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا جاتا.اگر اس اصل کو ہم سمجھ لیں کہ اپنی عبادتوں اور قربانیوں کو خالص اللہ کے لئے کر لیں اور اس بات پر قائم ہو جائیں کہ ہمارا جینا اور مرنا ہمارے خدا کے لئے ہے.تو جہاں انفرادی طور پر ہم اپنی ابدی زندگی کے وارث ہوں گے وہاں ہر احمدی اس دنیا میں بھی ہزاروں مردہ روحوں کو زندگی بخشنے کے سامان کرنے والا ہوگا.پس سب سے پہلے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اسوہ رسول ﷺ کے مطابق دنیا کی زندگی کے سامان کرنے والا ہر احمدی کو بننا چاہئے.اگر ہمارے عمل صحیح ہوں گے ہم اس اسوہ پر چلنے والے ہوں گے تبھی ہم اپنی زندگی کے سامان کے ساتھ ساتھ دنیا والوں کی زندگی کے بھی سامان کر رہے ہوں گے.اس اسوہ پر چلتے ہوئے جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے لئے چھوڑا ہمیں اپنی عبادتوں کے بھی معیار قائم کرنے ہوں گے.آپ نے عبادتوں کے کیا معیار قائم فرمائے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے، حضرت عائشہ کے حوالے سے یہ بتا دوں کہ میں نے ایک کتاب کا جو ذکر کیا اس میں بھی حضرت عائشہ کی ذات کے حوالے سے آنحضرت ﷺ پر گند اچھالنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے.بہر حال حضرت عائشہ کی روایت ہے کہتی ہیں کہ عورت ذات ہونے کی وجہ سے ٹھیک ہے کہ آپ کو ایک محبت اور پیار تھا لیکن آپ کا اصل محبوب کون تھا، حقیقی محبوب کون تھا.یہ بتاتے ہوئے حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میرے ہاں حضور ﷺ کی باری تھی اور یہ باری نویں دن آیا کرتی تھی.بہر حال کہتی ہیں کہ میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ آپ بستر پر نہیں ہیں.میں گھبرا کر باہر صحن میں نکلی تو
136 خطبہ جمعہ فرموده 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دیکھا کہ حضور تسجدے میں پڑے ہوئے ہیں اور کہہ رہے تھے کہ اے میرے پروردگار ! میری روح اور میرا دل تیرے حضور سجدہ ریز ہیں.( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد كتاب الصلاة باب ما يقول في ركوعه و سجوده جلد 2 صفحہ 259 دار الكتب العلمیة بیروت) تو یہ ہے حقیقی محبوب کے سامنے اظہار اور یہ ہے جواب ان لوگوں کے لئے جو آپ کی ذات پر بیہودہ الزام لگاتے ہیں.پھر آپ اپنی سونے کی حالت میں بھی خدا تعالیٰ کی یاد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری دونوں آنکھیں تو بے شک سوتی ہیں لیکن دل بیدار ہوتا ہے.( صحیح بخاری کتاب التهجد باب قیام النبي باللیل فی رمضان حدیث نمبر (1147) اور اس دل کی بیداری میں کیا ہوتا تھا؟ ذکر خدا ہوتا تھا.ہر کروٹ آپ کو خدا کی یاد دلاتی تھی.آپ ﷺ نے مختلف مواقع اور مختلف حالتوں کی جو دعائیں ہمیں اپنے عملی نمونے سے سکھائی ہیں وہ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کا اوڑھنا بچھونا خدا تعالیٰ کا ذکر اور عبادت تھی.پس یہ تصور ہے جو آپ نے ہمیں دیا کہ مومن کا ہر فعل اور حرکت و سکون عبادت بن سکتا ہے اگر خدا تعالیٰ کی خاطر ہو اور خدا تعالیٰ کی یاد دلانے والا ہو.اس نیت سے ہو کہ یہ فعل خدا کا قرب دلانے والا بنے گا.مثلاً ایک دفعہ آپ ایک صحابی کے گھر گئے انہوں نے وہاں نیا گھر بنایا تھا.دیکھا کہ ایک کھڑ کی رکھی ہوئی ہے.ظاہر ہے آپ کو معلوم تو تھا کھڑ کی کیوں رکھی جاتی ہے.آپ نے تربیت کے لئے اس سے پوچھا کہ بتاؤ یہ کھڑ کی کس لئے رکھی ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ہوا اور روشنی کے لئے.آپ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس لئے رکھ دیتے ، یہ بھی نیت ساتھ ملا لیتے کہ اذان کی آواز بھی اس سے آئے گی تا کہ میں نمازوں پہ جاسکوں تو تم نے پہلے جو یہ دونوں مقصد بیان کئے ہیں وہ تو حاصل ہو ہی جاتے اور ساتھ ہی اس کا ثواب بھی مل جاتا.(مرقاة المفاتيح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4 صفحہ 167 کتاب الجنائز باب دفن الميت شرح حدیث نمبر 1710 بیروت 2001 ء ) پھر ایک روایت میں آپ نے فرمایا ، حدیث میں آتا ہے کہ خاوند کو چاہئے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اگر ڈالتا ہے تو اس کا بھی ثواب ہے.( بخاری کتاب النفقات باب النفقة علی الاصل حدیث 5354) اب اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ صرف لقمہ ڈالنا بلکہ بیوی بچوں کی پرورش ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے.ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھائے.لیکن اگر یہی فرض وہ اس نیت سے ادا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اور خدا کی خاطر میں نے اپنی بیوی ، جو اپنا گھر چھوڑ کے میرے گھر آئی ہے، اس کا حق ادا کرنا ہے، اپنے بچوں کا حق ادا کرنا ہے تو وہی فرض ثواب بھی بن جاتا ہے.یہ بھی عبادت ہے.اگر یہ خیالات ہوں ہر احمدی کے تو آج کل کے جو عائلی جھگڑے ہیں، تو تکار اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگیاں ہیں ان سے بھی انسان بچ جاتا ہے.بیوی اپنی ذمہ داریاں سمجھے گی کہ میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ میں خاوند کی خدمت کروں،
137 خطبه جمعه فرموده 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اس کا حق ادا کروں اور اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر میں یہ کر رہی ہوں گی تو اس کا ثواب ہے.تو آنحضرت ﷺ نے دونوں فریقوں کو یہ بتایا کہ اگر تم اس طرح کرو تو تمہارا یہ فعل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے عبادت بن جائے گا.اس کا ثواب ملے گا.تو یہ چیزیں ہیں جو انسان کو سوچنی چاہئیں اور یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بعض گھروں کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں.آنحضرت کی عبادت کے بارہ میں حضرت عائشہ سے ہی ایک روایت ہے، کہتی ہیں ایک رات میں نے دیکھا کہ آپ تہجد کی نماز میں سجدے میں پڑے ہیں اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اللہ تیرے لئے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں.میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے.اے میرے رب یہ دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے.اے عظیم ! جس سے ہر عظیم بات کی امید کی جاتی ہے.میرے گناہوں، میرے عظیم گناہوں کو بخش دے.حضرت عائشہ کہتی ہیں.اس کے بعد جب نماز سے، دعا سے، فارغ ہوئے پھر آپ نے مجھے فرمایا کہ جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا ہے اور تم بھی یہ پڑھا کرو.مجمع الزوائد جلد 2 کتاب الصلاۃ باب ما يقول في رکوع وسجودہ.حدیث نمبر 2775 - دار الکتب العلمیة بیروت طبع اول 2001ء) اب دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے جس کا مل بندے سے اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ پہلے یہ اعلان کروایا تھا کہ دنیا کو بتا دو کہ میری نماز ، میری قربانی ، میری زندگی ، میری موت سب خدا تعالیٰ کے لئے ہے.کوئی کام نہیں جو میں اپنے لئے کروں یا اپنی مرضی سے کر رہا ہوں.یا اپنی کسی ذاتی خواہش کی وجہ سے کر رہا ہوں.بلکہ میرا ہر عمل اور ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کامل بندہ کس طرح اپنی بندگی کے کامل ہونے کا اظہار کر رہا ہے.بڑی عاجزی اور خشیت سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، میرے گناہوں کو بخش دے.دراصل یہ نمونے ہمارے لئے قائم کئے گئے ہیں کہ کسی بھی قسم کی نیکی پرکسی بھی قسم کا تفاخر نہ کر و فخرتم میں پیدا نہیں ہونا چاہئے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے بنتے ہوئے اس کے آگے جھکے رہو اور اس کی رحمت طلب کرتے رہو.پھر آپ کی سیرت کا ایک اور پہلو ہے وہ میں اس وقت لیتا ہوں.جو انصاف اور مساوات سے متعلق ہے.آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ جب بڑے آدمی سے جب کوئی قصور ہوتا تھا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب کمزور کسی جرم کا مرتکب ہوتا تو اسے سزادی جاتی تھی.تو یہ میری امت میں نہیں ہونا چاہئے.لیکن آج کل اگر ہم دیکھیں تو کثرت سے یہ نظر آتا ہے، بے انصافیاں ،مسلمانوں میں پیدا ہو چکی ہیں.ایک قبیلہ کی مشہور عورت جوا اچھے خاندان کی اچھی پوزیشن کی عورت تھی اس نے چوری کی ، اس کا نام فاطمہ تھا اور اس پر آنحضرت مے نے چوری کی سزالا گو کی.صحابہ نے اس کے لئے جان بچانے کے لئے کوشش کی.آخر کسی کو جرات نہ ہوئی تو حضرت اسامہ کو سفارش کے لئے بھیجا.جب انہوں نے سفارش کی تو آپ کا چہرہ ایک دم متغیر ہوگیا اور فرمایا کہ تم اس کی بات
138 خطبہ جمعہ فرمود : 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کرتے ہو؟ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو میں اس پر بھی سزا لاگو کرتا.تو یہ انصاف کا معیار تھا جو آپ نے قائم فرمایا.( صحیح بخاری کتاب الحدود - باب اقامتہ الحدود على الشريف باب کراھیة فی الحد - حدیث نمبر 6788-6787) ایک مرتبہ ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے دولڑکوں کو لے جا کر یہ سفارش کی کہ ان کا بھی یہ خیال ہے اور مجھے بھی یہی خیال ہے کہ زکوۃ کی وصولی پر ان کو لگایا جائے.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوذر جسے عہدہ کی خواہش ہو ہم اسے عہدہ نہیں دیتے.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب النھی عن طلب الامارۃ حدیث : 4717) جب خدا دیتا ہے تو پھر توفیق دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کی مددبھی کرتا ہے.اس خواہش کے بغیر کوئی شخص کسی بھی خدمت پر معمور کیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالی توفیق دیتا ہے کہ اس کی مدد بھی کرے اور اس میں برکت بھی ڈالے.فرمایا کہ جب مانگ کر لیا جائے تو پھر کام جو ہے وہ حاوی کر دیا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٹھیک ہے تم نے مانگ کے کام لیا، ہم سمجھتے ہو میں اس کا اہل ہوں ، تمہاری آگے آنے کی بڑی خواہش تھی تو پھر یہ ساری ذمہ داریاں نبھاؤ.میں دیکھوں تم کس حد تک نبھاتے ہو؟ پس عہدے کی خواہش جو ہے اس میں نفس پسندی کا دخل ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات بالکل پسند نہیں کہ انسان اپنے نفس کا زیادہ سے زیادہ اظہار کرے.آج بھی بعض دفعہ جماعت میں جن جگہوں پر جن جماعتوں میں تربیت کی کمی ہے ، جن لوگوں میں تربیت کی کمی ہے وہ اب عہدے کی خواہش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ علم نہ ہونے کی وجہ سے بعض جگہوں پہ جب جماعتی انتخابات ہوتے ہیں اپنے آپ کو ووٹ بھی دے لیتے ہیں.تو بہر حال اب تو اللہ کے فضل سے کافی حد تک جماعت کے افراد کو سوائے ایک آدھ کے جو نیا ہو ان باتوں کا، قواعد کا علم ہو چکا ہے.اپنے آپ کو ووٹ دینے کی پابندی اس لئے جماعت میں ہے کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عہدے کی خواہش نہ کرو.اپنے آپ کو ووٹ دینے کا مطلب ہے کہ میں اس عہدے کا اہل ہوں اور میرے سے زیادہ کوئی اہل نہیں ہے اس لئے مجھے بنایا جائے.اسی طرح بعض لوگ انتخابات جب ہوتے ہیں تو اگر اپنے آپ کو ووٹ نہیں بھی دیتے اس مجبوری کی وجہ سے کہ جماعت کے قواعد اجازت نہیں دیتے تو پھر وہ اپنا ووٹ استعمال بھی نہیں کرتے.اپنے ووٹ کو استعمال نہ کرنا بھی اس بات پر محمول کیا جاتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ میں اس بات کا اہل ہوں.گو کہ قواعد کی رو سے میں ووٹ تو نہیں دے سکتا لیکن کوئی دوسرا شخص میرے سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں ہے اس لئے میں ووٹ استعمال نہیں کرتا.تو اس بات سے بھی بچنا چاہئے یہ بھی تربیت کے لئے بہت ضروری چیزیں ہیں.اگر کسی میں کسی بھی قسم کی صلاحیت ہے تو اس صلاحیت کا اظہار چاہے وہ پیشہ وارانہ ہو یا اور علمی نوعیت کی ہو یا کسی بھی قسم کی ہو تو اس صلاحیت کا اظہار عہد یدار ان کی یا دوسرے کی مدد کر کے کیا جا سکتا ہے.بغیر عہدے کے بھی خدمت کی جاسکتی ہے.اگر تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خدمت کرنی ہے تو پھر عہدے کی خواہش تو کوئی چیز نہیں ہے پس اس بات کو ہر احمدی کو نئے آنے والوں کو بھی نو جوانوں کو بھی اور پرانوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض پرانے احمدی بھی بعض دفعہ اس زعم میں کہ ہم زیادہ تجربہ کار ہیں زیادتی کر جاتے ہیں ایسے عہدیداروں کو بھی خیال رکھنا چاہئے ، عہد یداروں
خطبات مسرور جلد هفتم 139 خطبه جمعه فرموده 13 مارچ 2009 میں خاص طور پر بے نفسی ہونی چاہئے.نام کی بے نفسی نہیں بلکہ حقیقی بے نفسی.عہدیداران کو آنحضرت ﷺ الفاظ ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ عہد یدار قوم کا خادم ہے.پھر ایک موقع پر حضرت ابو موسیٰ اشعری کو مخاطب کر کے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عہدہ ایک امانت ہے اور انسان بہر حال کمزور ہے.یہ امانت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اور انسان کمزور ہے اگر امانت کا حق ادا نہیں کرو گے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پوچھے جاؤ گے.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب کرامتہ الامارة بغير ضرورة حدیث : 4719) پس اس امانت کا حق ادا کرنے کے لئے انتہائی عاجزی سے اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اس خدمت کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پہلی بات تو یہ فرمائی کہ عہد یدار قوم کا خادم ہوتا ہے.خدمت کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ، ہر معاملے میں ، ہر قدم پر، ہرلمحہ پر دعا مانگے کہ اللہ تعالیٰ میری راہنمائی فرماتا رہے.تبھی عہدیدار اپنا خدمت کا حق، عہدے کا حق صحیح ادا کر سکیں گے.بعض دفعہ میرے پاس بھی لوگ آتے ہیں.پوچھوں کہ کوئی کام ہے؟ تو جماعتی خدمات کا بتاتے ہیں.جب بھی پوچھو تو کہتے ہیں کہ میرے پاس آج کل یہ عہدہ ہے تو نو جوانوں کی تو میں یہ اصلاح کر دیا کرتا ہوں.اکثر میں ان کو یہ کہتا ہوں کہ یہ تمہارے پاس عہدہ نہیں یہ تمہارے پاس خدمت ہے.خدمت کا تصور پیدا کرو گے تو سبھی صحیح طور پر خدمت کر سکو گے.یہ نمونے تھے جو میں نے بیان کئے ہیں.آپ نے خدمت کے بارے میں، انصاف کے بارے میں، مساوات کے بارے میں ، سادگی کے بارے میں جو احکام دئے آپ کی زندگی میں ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں.اگر کہیں سفر پہ جارہے ہیں، سواریاں کم ہیں تو آپ کا جو غلام ہے، بعض دفعہ غلام تو نہیں تھے لیکن بہر حال صحابہ میں سے جو بھی کم عمر تھے، سواریاں اگر دود کو بانٹی گئی ہیں تو آپ کے حصہ میں جو سواری آئی آپ نے جس طرح کچھ وقت کے لئے سواری کا اپنا حق استعمال کیا اسی طرح اپنے ساتھی کو بھی دیا اور خود پیدل چلے تو یہ انصاف اور مساوات آپ نے ہمیشہ قائم فرمائی.پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کا جو یہ فرمان ہے کہ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى (المائدة: 9) یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کریں کہ تم انصاف نہ کرو.تم انصاف کرو کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے.آپ نے اس بارہ میں کیسا عظیم نمونہ دکھایا اس بارے میں ایک مثال میں دیتا ہوں.یہودیوں کا مشہور قلعہ خیبر جب فتح ہوا تو اس کی زمین مجاہدین جو جنگ میں شامل ہوئے تھے میں تقسیم کر دی گئی.جب وہ زمین تقسیم ہوئی ، وہ زرخیز علاقہ تھا.وہاں کھجوروں کے باغ تھے.تو جب کھجوروں کی فصل ہوئی اور اس کی بٹائی کا وقت آیا ، جب بانٹنے کا وقت آیا تو حضرت حضرت عبداللہ بن سہیل اپنے چچا زاد بھائی محیصہ کے ساتھ کھجوروں کی بٹائی کے لئے وہاں زمین پر گئے تو تھوڑی دیر کے لئے دونوں وہاں سے الگ ہوئے.اس عرصہ میں جب وہ الگ ہوئے تو حضرت عبداللہ کو کسی نے اکیلا سمجھ کے وہاں قتل کر دیا اور ان کی لاش گڑھے میں پھینک دی.کیونکہ یہودیوں سے زمین لی گئی ہے وہاں
خطبات مسرور جلد هفتم 140 خطبه جمعه فرموده 13 مارچ 2009 موجود بھی ہیں اس لئے ہو سکتا ہے انہی میں سے کسی نے قتل کیا ہو.مسلمان نے تو قتل نہیں کرنا تھا، کوئی دشمنی نہیں تھی.جیسا کہ میں نے کہا بڑے واضح ایسے امکانات تھے کہ یہودیوں پر الزام آتا تھا اور الزام لگایا گیا.بہر حال آنحضرت ﷺ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو آنحضور ﷺ نے محیصہ سے پوچھا کہ کیا تم قسم کھا سکتے ہو کہ ان کو یہودی نے قتل کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا اور جب میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تو میں قسم نہیں کھا سکتا.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر یہودیوں سے حلف لیا جائے گا.کیا انہوں نے قتل کیا ہے؟ یہ اس بات کی صفائی دیں کہ انہوں نے قتل نہیں کیا قتل کرن کو تو کوئی نہیں تسلیم کرے گا.صفائی دینی تھی کر قتل نہیں کیا.تو محیصہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ ان یہودیوں کا کیا اعتبار ہے.یہ سو دفعہ جھوٹی قسمیں کھا لیں گے لیکن چونکہ انصاف کا تقاضا تھا.آپ نے کہا ٹھیک ہے تم کھالیں گے تو ان کی بچت ہو جائے گی.انہوں نے قسم کھالی.آپ نے یہودیوں کو کچھ نہیں کہا اور بیت المال سے پھر عبداللہ کا خون بہادلوا دیا.( اقضیة رسول الله الله جلد اول صفحہ 143-134 کتاب الحدود باب حکم رسول الله بالقسامة فيمن لم يعرف قاتلہ - دار السلام الریاض 2003 ء ) تو یہ انصاف ہے.یہ اُسوہ ہے جو آپ نے قائم فرمایا.زندگی کے کسی بھی پہلو کو آپ نے نہیں چھوڑا.کسی بھی پہلو کو لے لیں اس میں آپ کا اُسوہ ہمیں نظر آتا ہے.میں نے انصاف کی جو یہ مثال دی ہے تو آج کل آپ دیکھیں ، بڑے بڑے جبہ پوش جو بڑی بڑی محفلیں مجلسیں ، مجلس میلاد منعقد کرتے ہیں لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان میں سوائے احمدیوں کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہوتا.ختم نبوت کے نام پر بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں اور اس کی تان پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دریدہ دہنی پر آ کے ٹوٹتی ہے.پھر دیکھیں کہ صحابہ کی تربیت کیا تھی؟ با وجود اس کے کہ واقعات اس بات کے گواہ تھے ، یہ شہادت موجود تھی ، حالات کی شہادت موجود تھی لیکن پھر بھی کیونکہ دیکھا نہیں تھا اس لئے جھوٹی قسم نہیں کھائی.لیکن آج کل یہ بڑے بڑے جو جبہ پوش ہیں، جو اسلام کے علمبردار ہیں یا جو ہونے کا دعوی کرتے ہیں، اسلام کے علمبر دار تو نہیں ، ہونے کا دعوی کرتے ہیں ، اپنے حلفیہ بیان دے کر احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنواتے ہیں.پولیس سٹیشن میں جاتے ہیں اور اپنی طرف سے ایف آئی آر (F.IR) درج کراتے ہیں.احمدیوں پر نہایت بیہودہ اور گھٹیا الزامات لگا کر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور اس پر گواہ بن رہے ہوتے ہیں.کوئی خوف خدا نہیں ان لوگوں کو.اگر تو یہ اُسوہ رسول پر چلنے والے ہوتے تو یقیناً خدا کا خوف ہوتا.محیصہ نے جو جھوٹے حلف کے بارے میں یہودیوں کے متعلق کہا تھا کہ ان کا کیا ہے وہ تو سوجھوٹی قسمیں کھا لیں گے.آج دیکھیں یہ بات کس پر صادق آتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ان معصوم مسلمانوں پر بھی رحم کرے جو ان نام نہاد علماء کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور ان کی باتوں میں آ کے غلط قسم کی باتوں میں ملوث ہیں اور اسی وجہ سے ان کو سمجھ نہیں آرہی.کئی گھر اجڑ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے تو بڑی سختی سے اس
141 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بات سے منع کیا ہے کہ مسلمان کے ہاتھ سے مسلمان کا خون نہیں ہونا چاہئے.اس دنیا میں بھی سزا اگلے جہان میں بھی عذاب اور آج کل ایک دوسرے کا خون اس سے بھی زیادہ ارزاں اور سستا ہے جتنا ایک جانور کا خون ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو آخری نصیحت فرمائی تھی اس میں فرمایا تھا کہ تمہارے لئے اپنے خونوں اور اپنے اموال کی حفاظت کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح تم اس دن اور اس مہینے کی حرمت کرتے ہو.ایک دوسرے پر خون کی اور مالوں کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی تھی.( بخاری کتاب المغازی باب حجۃ الوداع حدیث 4406 ) آج دیکھ لیں پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟ ایک دوسرے کو لوٹا جا رہا ہے.احمدیوں کو خدا کے نام پر لوٹا جارہا ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ نے ہر کلمہ گو کو فرمایا کہ وہ مسلمان ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے مسلمانوں کی حالت پر بھی اور انہیں توفیق دے کہ اس رحمتہ للعالمین کے حقیقی اسوہ پر چلنے ولے بنیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے وارث ٹھہر سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 14 مورخہ 13 اپریل تا 9 اپریل 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9
خطبات مسرور جلد ہفتم 142 (12) خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 فرمودہ مورخہ 20 / مارچ 2009ء بمطابق 20 رامان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں آج سے 120 سال پہلے اس مہینے میں، 23 مارچ کو قرآن کریم کی وہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ہی ہے کو بڑی خوشخبری کی صورت میں عطا فرمائی تھی.مسلم امہ کے ایک ہزار سال کے مسلسل اندھیروں میں ڈوبتے چلے جانے اور مسلمانوں کی اکثریت میں دین اسلام کا فقط نام رہ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ چاند روشن کرنے کے بارے میں اطلاع دی تھی جس نے سراج منیر سے روشنی پانی تھی.جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ تا قیامت پھر وہ روشنی پھیلاتا چلا جائے گا اور اس کا سلسلہ بھی دائمی ہوگا اور اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی عملے کی لائی ہوئی شریعت کے حُسن اور ضیاء سے اس کے تربیت یافتہ بھی ہمیشہ دنیا کے دلوں کو خوبصورتی اور روشنی بخشتے رہیں گے.پس آنحضرت ﷺ کے اس عظیم فرزند کی قائم کردہ جماعت کا ایک دور 23 مارچ 1889ء کو شروع ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام فرمایا کہ إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوقَ أَيْدِيهِمْ ( تذکرہ صفحہ 134 ایڈیشن چہارم.2004ء) آپ نے ازالہ اوہام میں اس کا ترجمہ یوں فرمایا کہ ” جب تو نے اس خدمت کے لئے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسہ کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے روبرو اور ہماری وحی سے بنا.جولوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھے سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ ہو گا جو ان کے ہاتھ پر ہو گا.“ (ازالہ اوهام، روحانی خزائن جلد 3 صفحه (565) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ”اس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفان ضلالت بر پا ہے.تو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی تیار کر.جو شخص اس کشتی میں سوار ہوگا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا اور جو انکار میں رہے گا اس کے لئے موت در پیش ہے.(فتح اسلام صفحہ 42-43- روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 24-25)
143 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بہر حال آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق 23 مارچ 1889ء کو بیعت لی اور سینکڑوں خوش قسمت اس روز اس کشتی میں سوار ہوئے اور یہ تعداد بڑھتے بڑھتے آپ کی زندگی میں ہی لاکھوں تک پہنچ گئی اور ان بیعت کرنے والوں نے اپنی بیعت کے حق بھی ادا کئے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اپنا ہاتھ ان پر رکھا اور وہ لوگ روحانی منازل طے کرتے چلے گئے.اُن پر بھی مخالفت کی خوفناک اور اندھیری آندھیاں چلیں.اپنوں اور غیروں کی دشمنی کا انہیں سامنا کرنا پڑا.یہاں تک کہ آپ کی بیعت میں آنے کے جرم میں بعض کو شہید بھی کیا گیا.جن میں سب سے بڑے شہید ، جن کو اذیت دے کے شہید کیا گیا، وہ صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید ہیں.جنہیں مولویوں کے فتوے پر بادشاہ کے حکم سے ظالمانہ طور پر پہلے زمین میں گاڑا گیا اور پھر سنگسار کر کے شہید کیا گیا اور ان واقعات نے قرونِ اولیٰ کے ان ظلموں کی یاد تازہ کر دی جو آنحضرت ﷺ کے صحابہ پر روار کھے گئے تھے.لیکن تمام تر مخالفتوں اور ظلموں اور حکومت کو آپ کے خلاف بھڑ کانے کی سازشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ سلسلہ ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا اور آپ کے سپر د جو کام تھے ان کی تکمیل کرتے ہوئے آخر 26 مئی 1908 ء کو آپ الہی تقدیر کے تحت اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.اور پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی کے الفاظ میں فرمایا تھا کہ آپ کی جماعت کا دوسرا دور قدرت ثانیہ کی صورت میں شروع ہوگا.جس کے بارے میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: غرض ( اللہ تعالیٰ) دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں.اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزے کو دیکھتا ہے“.(رسالہ الوصیت صفحہ 4-5 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304 پس جب یہ دوسرا دور شروع ہوا تو جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا بعض بدقسمت شبہات میں بھی پڑ گئے اور اپنی اناؤں کے چکر میں بھی پڑ گئے.جنہیں حضرت خلیفہ مسیح الاول نے بڑے واضح الفاظ میں سمجھا کر اصلاح کی طرف مائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ان کی بدقسمتی کہ خلافت ثانیہ کے انتخاب خلافت کے موقع پر ان میں سے بعض مرتد بھی ہو گئے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ گرتی ہوئی جماعت کو اللہ تعالٰى يَدُ اللهِ فَوقَ أَيْدِيهِمْ کا نظارہ دکھاتے ہوئے سنبھالتا ہے.انہوں نے باوجود عقلیں رکھنے کے یہ نہ سوچا کہ کشتی میں سوار ہو کر غرق ہونے سے وہی نجات پائے گا جو دوسری قدرت کے ساتھ جڑا ر ہے گا اور وہ دوسری قدرت کوئی انجمن نہیں بلکہ خلافت ہے.پس آج
144 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہم خوش قسمت ہیں جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے اس کشتی میں سوار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بنائی اور غرقابی سے بیچ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمارے اوپر ہے.دنیا قعر مذلت میں گرتی چلی جارہی ہے اور احمدی اپنے قادر و توانا خدا کے فضلوں کے نظارے دیکھ رہے ہیں.1908ء سے لے کر آج تک نئے سے نئے حربوں کے ساتھ دشمن جماعت کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر بڑے ابتلاء کے بدنتائج اور دشمن کی مذموم کوششوں سے جماعت کو محفوظ رکھتا چلا جا رہا ہے اور جوں جوں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جماعت دنیا میں پھیل رہی ہے ، حسد اور مخالفت کی آگ بھی اسی تیزی سے پھیل رہی ہے.مخالفتیں بڑھ رہی ہیں اور جہاں جہاں نام نہاد، خود غرض علماء کہلانے والوں کا بس چلتا ہے وہ خدا کے نام پر ان ظالموں کے کرنے سے نہیں چوکتے جو احمد یوں پر کئے جاتے ہیں.لیکن ہر مخالفت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے بتایا ہوا ہے کہ مومنوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف سے صاف پایا جاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ابتلاء آویں جیسے فرمایا أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت: 3) یعنی کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف آمَنَّا کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے اور وہ فتنوں میں نہ پڑیں گے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 298 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا: ” غرض امتحان ضروری شے ہے اس سلسلے میں جو داخل ہوتا ہے وہ ابتلاء سے خالی نہیں رہ سکتا.ہمارے بہت سے دوست ایسے ہیں کہ وہ ایک طرف ہیں اور باپ الگ.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 258 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یعنی احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے ماں باپ سے بھی علیحدہ ہیں.اور پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ” جب سخت ابتلاء آ ئیں اور انسان خدا کے لئے صبر کرے تو پھر وہ ابتلاء فرشتوں سے جاملاتے ہیں.اور فرمایا کہ نبیوں پر جو ابتلاء آتے ہیں اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے ملائے جاتے ہیں.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 305 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ بغیر امتحان ترقی محال ہے.پس یہ ایمان میں پختگی کے لئے وہ نصائح ہیں جن کو آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں نے پکڑا ہوا ہے اور ہر احمدی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہماری مخالفتیں ، ہماری ترقی کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں.
خطبات مسرور جلد ہفتم 145 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 گزشتہ خطبہ میں میں نے بلغاریہ کے نو مبائعین کا ذکر کیا تھا.یعنی کچھ تو ان میں نئے احمدی ہیں ، کچھ چند سال پہلے احمدی ہوئے.انہیں وہاں کے مسلمان مفتی کے کہنے پر جس کا حکومت میں بڑا عمل دخل ہے پولیس نے ہراساں کیا اور پولیس احمدیوں کو پکڑ کرسٹیشن بھی لے گئی تھی.ان لوگوں کو جب میں نے سلام بھجوایا اور حال وغیرہ پوچھا تو مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ہر ایک سے انفرادی رابطہ کیا اور جب پیغام دیا تو ہر ایک کا یہ جواب تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ایمان میں مضبوط ہیں.یہ تکالیف تو کوئی چیز نہیں ہیں اور بعض تو جذباتی ہو کر رونے لگے اور میرے لئے پیغام بھجوایا کہ آپ فکر نہ کریں.ہم جماعت کی خاطر انشاء اللہ تعالیٰ ہر تکلیف برداشت کریں گے.ہمارے لئے صرف دعائیں کرتے رہیں.لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا انقلاب برپا کیا؟ یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے کہ قربانی کی روح کو قرآن کریم کی تعلیم کو احمدیت قبول کرنے کے بعد حقیقی رنگ میں سمجھنے لگ گئے ہیں.وہ فہم وادراک پیدا کر دیا ہے جس نے انہیں اس حقیقت سے آشنا کر دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے تو امتحانوں میں سے بھی گزرنا پڑتا ہے.یورپ میں رہنے والے کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور پھر وہ لوگ جو بڑا عرصہ کمیونزم کے زیراثر رہے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافت سے ان کا ایک خاص تعلق پیدا ہو گیا ہے.جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فضل آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے احمدیوں پر فرما رہا ہے.اسی طرح آج کل ہندوستان کی نو مبائع جماعتوں پر بھی بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے اور یہ ظلم بھی وہاں حسب روایت نام نہاد ملاں کر رہے ہیں اور مُلاں کے کہنے اور اکسانے پر وہاں کے مسلمان کر رہے ہیں اور حکومت اس لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے کہ عنقریب وہاں انتخابات ہونے والے ہیں اور مسلمانوں کے ووٹ انہیں چاہئیں جبکہ احمدیوں کی کوئی ایسی طاقت نہیں ہے.لیکن ان ظلم کرنے والوں کو بھی اور اس ظلم ہونے پر آنکھیں بند کرنے والوں کو بھی یہ یادرکھنا چاہئے کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ دنیاوی طاقت تو ہے شک نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے.وہ ہمارا مولیٰ ہے اور جب وہ مددکو آتا ہے تو ہر چیز کو حس راہ کی طرح اڑا کر رکھ دیتا ہے.جب اس کی تقدیر چلتی ہے تو پھر کوئی چیز اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی.پس ہندوستان کے احمدی بھی صبر اور حو صلے سے کام لیں.دعاؤں میں زیادہ شدت پیدا کریں اور اپنے رب کے ساتھ تعلق کو پہلے سے بڑھ کر بڑھا ئیں.اسی طرح آج کل پاکستان میں بھی احمدیوں کی مخالفت عروج پر ہے.حکومت اور ملاں کی حرکتوں اور کوششوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ برصغیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد سے مولویوں کی طرف
146 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم سے جو مخالفت شروع ہوئی، اس میں مولویوں نے اپنے طور پر بھی نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں اور غیروں کو بھی جماعت کے خلاف بھڑ کایا اور ابھارا اور ان کی مدد کی کہ کسی طرح جماعت ختم ہو جائے یا اسے نقصان پہنچایا جائے.لیکن ان کی ہر کوشش کے بعد جماعت کے قدم ترقی کی طرف پہلے سے آگے ہی بڑھے ہیں.لیکن یہ سب دیکھ کر بھی ان کو احساس نہیں ہوا کہ یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ جماعت کسی انسان کی قائم کردہ نہیں بلکہ خدا کی قائم کردہ جماعت ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کہ ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان خوشخبری کے پورا ہونے کا کھلا کھلا نشان ہے.اس لئے ان کو میں کہتا ہوں کہ عقل سے کام لیں اور خدا تعالیٰ سے مقابلے سے باز رہیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے تو بہ اور استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے مددگار بن جائیں.لیکن ان لوگوں کی آنکھوں اور عقل دونوں پر پردہ پڑا ہوا ہے، پٹیاں بندھی ہوئی ہیں جو ان سے خدا کے نام پر اور اسلام کے نام پر خدا کے بندے پر ظلم کروارہی ہیں.لیکن بھول جاتے ہیں کہ جب ظلم و زیادتی انتہاء پر پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بندے مَتی نَصْرُ الله (البقرة: 215 کی صدا بلند کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی؟ تو پھر اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ ( البقرة: 215) یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے.پس یہ ظلم جو احمد یوں پر روار کھے جارہے ہیں، احمدیوں کو ہر جگہ خدا تعالیٰ کا قرب دلا رہے ہیں.برصغیر کی تقسیم کے بعد ان شرپسند نام نہاد علماء کی اکثریت پاکستان میں آگئی تھی اور یہاں جیسا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف بھی اور عموماً بھی ہم ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ سنتے ہیں انہوں نے ملک میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے.احمدیوں کے خلاف جو سلوک کر رہے ہیں وہ تو ہے ہی، ملک کی بدنامی کا بھی باعث بنتے چلے جارہے ہیں.یہ لوگ جو آج ملک کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں اور احمدیوں کو یہ کہتے ہیں کہ تمہارے پاس اب صرف یہ آپشنز (Options) ہیں.یہ راستے ہیں کہ یا تو احمدیت چھوڑ دو یا ملک چھوڑ دویا پھر اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لئے تیار ہو جاؤ.اور ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر اور رحمتہ للعالمین کے نام پر کیا جا رہا ہے.اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم سب کچھ آنحضرت ﷺ کے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے کے مقام کو قائم رکھنے کے لئے کر رہے ہیں.ہم یہ سب کچھ دینی غیرت سے کر رہے ہیں.اور جو ملک بقول ان کے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو وہاں ان کے نزدیک سب سے زیادہ دینی غیرت دکھانے کی ضرورت ہے اور دینی غیرت یہی ہے کہ خدا کے نام پر خدا کے بندوں کو قتل کرو.پہلی بات تو یہ کہ آنحضرت ﷺ کے لئے دینی غیرت جو تمام دنیا میں احمدی دکھا رہے ہیں، یہ لوگ تو ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے.اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے لئے جو قربانیاں احمدی کر رہے ہیں اس کا لاکھواں اور کروڑواں حصہ بھی یہ لوگ نہیں کر رہے.باوجود اس کے کئی مسلمان ممالک جو تیل کی دولت رکھنے والے ہیں وہ ان ملاؤں کی مدد کر رہے ہیں.لیکن یہ اس مدد کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے تو استعمال کر رہے ہیں ، اپنے خزانے تو
147 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اس سے بھر رہے ہیں یا دہشت گردی اور ظلم و بربریت کے لئے تو وہ دولت استعمال کر رہے ہیں لیکن اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کی کوشش کچھ بھی نہیں ہے.یہ مولوی جو آج پاکستان پر بھی سب سے زیادہ حق جتانے والے بنے ہوئے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اسلام کے اس قلعہ میں ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ قادیانی اپنے عقیدے کے ساتھ رہ سکیں ان پر واضح ہو کہ پاکستان بنانے میں احمدیوں نے جو کوششیں کی ہیں اور جس کو اس وقت جب یہ سب کو ششیں ہو رہی تھیں تمام شریف النفس غیروں نے بھی مانا ہے.تم لوگ جو آج پاکستان کے سب سے بڑے ہمدرد بنے ہوئے ہو اور مالک بنے کی کوشش کر رہے ہو اس وقت تو پاکستان کے نظریہ کی بھی مخالفت کر رہے تھے.جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کے حقوق کے لئے کیا کوششیں کیں اس بارے میں ان کے اپنوں کے بعض بیان پڑھ دیتا ہوں کیونکہ 23 مارچ کا دن یوم پاکستان کے طور پر بھی منایا جاتا ہے.تو اس حوالے سے اتفاق سے یہ چیز بھی آج سامنے آ گئی.تا کہ شریف النفس لیکن علم نہ رکھنے والوں کو پتہ چلے کہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ لوگ مولویوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے پاکستان کی تاریخ کو بھی نہیں جانتے.ایک ممتاز ادبی اور صحافی شخصیت مولانا محمد علی جو ہر صاحب تھے.اپنے اخبار ہمدرد 26 ستمبر 1927ء میں انہوں نے لکھا کہ : " ناشکری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمت اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیج دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا.( اخبار ہمدرد مورخہ 26 ستمبر 1927ء بحوالہ تعمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحه 7 از پروفیسر محمدنصر اللہ راجا ) یعنی جو اعلان وہ کرتے پھرتے ہیں ظاہر میں تو بڑے بلند بانگ دعوے ہیں لیکن اصل میں بالکل معمولی بیچ چیزیں ہیں.ان لوگوں کے لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی جماعت ایک مشعل راہ ثابت ہوگی.پھر انقلاب اخبار کے مولانا عبدالمجید سالک صاحب ،مسلمانوں کے بہت مشہور لیڈ ررہے ہیں.لکھتے ہیں کہ: جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اس تبصرے کے ذریعہ سے ( جو ایک تبصرہ اس وقت مسلمانوں کی حالت پہ تھا اس تبصرے کے ذریعہ سے ) مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے جو بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا وہ مرزا صاحب نے انجام دیا.(انقلاب 16 نومبر 1930ء بحوالہ تعمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحه 7 از پروفیسر محد نصر اللہ راجا ) پھر ہر ایک جانتا ہے کہ پاکستان بنانے کے لئے قائد اعظم کا ہی اصل میں ہاتھ ہے ان پر ایک وقت ایسا آیا کہ
148 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد هفتم وہ مایوس ہو کر ہندوستان چھوڑ کر یہاں انگلستان میں آگئے تھے.انہوں نے خود لکھا ہے کہ " مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں.آخر میں نے لنڈن ہی میں بود و باش کا فیصلہ کر لیا.( قائد اعظم اور ان کا عہد از رئیس احمد جعفری صفحہ 192 بحوالہ تمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحه از پروفیسرمحمدنصرالله راجا) یہ جو صورتحال تھی اس سے ہند کے جو مسلمان تھے ان کو بڑا سخت دھچکالگا اور سب سے زیادہ ہمدردی تو جماعت احمدیہ کوتھی اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کو تھی.تو آپ نے اس کے لئے بڑی کوشش کی اور یہاں لندن میں اس وقت مولانا عبدالرحیم درد صاحب امام تھے، ان کے ذریعہ سے قائد اعظم پر زور ڈالا کہ وہ دوبارہ ہندوستانی سیاست میں آئیں اور بڑی کوششوں سے درد صاحب نے ان کو قائل کیا.آخر قائد اعظم نے خود کہا کہ امام صاحب کی بڑی ترغیب تھی اور ان کی بہت زیادہ زور اور تلقین نے میرے لئے کوئی جائے فرار باقی نہ چھوڑی.بلکہ ایک غیر از جماعت مورخ اور صحافی م ش صاحب ہیں، انہوں نے بھی لکھا کہ ” مسٹر لیاقت علی خان اور مولا نا عبد الرحیم در دامام لنڈن ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں.اس کے نتیجہ میں مسٹر جناح 1934 ء میں ہندوستان واپس آگئے اور مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے“.(پاکستان ٹائمنز 1 ستمبر 1981 سپلیمیٹ 11 الم نمبر 1 حوالہ تعمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صحه 8 از پروفیسرمحمدنصرالله راجا ) جسٹس منیر جو 1953ء کے عدالتی کمیشن کے صدر تھے انہوں نے لکھا ہے کہ "احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائد اعظم نے اس مشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے.لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا، (جسٹس منیر اس کمیشن کے ممبر بھی تھے ) اس بہادرانہ جدو جہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چو ہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی.یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن حکام کے کاغذات میں ظاہر وباہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کے لئے نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں.ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے“.( رپورٹ تحقیقاتی عدالت المعروف منیر انکوائری رپورٹ صفحہ 305 ، شائع کردہ نیاز مانہ پبلیکیشنز ) چوہدری ظفر اللہ خان نے تو جو خدمات کی ہیں اور اس کے مقابلے میں اس عدالت کے سامنے غیر احمدیوں نے جس طرح بیان دیا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 149 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 یہ الگ مملکت جس کا نام پاکستان رکھا گیا اس کے لئے حضرت خلیفہ اسی الثانی اور آپ کی ہدایت پر جماعت کے افراد نے جو کوششیں کیں ان کی ایک دو مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں.تاریخ ہمیشہ اس بات پر گواہی دے گی کہ خلافت احمدیہ ہی ہے جو جماعت کے افراد کی روحانی مادی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے لئے بھی بوقت ضرورت اپنا کردار ادا کر رہی ہے.چاہے وہ کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہو یا فلسطین کی آزادی کا معاملہ ہے یا برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے حقوق کا معاملہ ہے.تاریخ جو جماعت احمدیہ کی تاریخ ہے اس بات پر گواہ ہے کہ ہمیشہ جماعت احمد یہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے صف اول میں رہی ہے.اس کے مقابلے پر مولویوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ کہتے ہیں پاکستان ہمارا ہے.ہماری وجہ سے معرض وجود میں آیا.ان کے ذرا بیان پڑھ لیں.یہ بھی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ہے اس میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے حوالے سے جو احراری لیڈر تھے لکھا ہے کہ اب تک کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے.“ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 398.شائع کردہ نیاز مانہ پبلیکیشنز ) پھر اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فسادات کے دوران احراری لیڈ رامیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے لاہور میں جو تقریر میں کیں ان میں سے ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 398 - شائع کردہ نیا زمانہ پبلیکیشنز پھر لکھتے ہیں، خودشاہ صاحب کا اپنا بیان ہے کہ ”جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے وہ سو رہیں اور سو رکھانے والے ہیں.بیان عطاء اللہ شاہ بخاری بحوالہ چمنستان از مولانا ظفر علی خان صفحه 165 مطبوعہ 1944 حوالہ تعمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار از پروفیسر نصر اللہ راجہ صفحہ 11) پھر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مجلس احرار کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس 3 مارچ 1940ء کو دہلی میں منعقد ہوا.اس اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں پاکستان کی تجویز کو نا پسندیدہ قرار دیا گیا اور بعد میں بعض لیڈروں نے اپنی تقریروں میں پاکستان کو پلیدستان بھی کہا.( رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 28 - شائع کردہ نیا زمانہ پبلیکیشنز ) پھر اسی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ”جماعت یعنی جماعت اسلامی مسلم لیگ کے تصور پاکستان کی علی الاعلان مخالف تھی اور جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، جس کو نا پاکستان کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، یہ جماعت موجودہ نظام حکومت اور اس کے چلانے والوں کی مخالفت کر رہی ہے ہمارے سامنے جماعت کی جو تحریریں پیش کی گئی ہیں ان
150 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم میں سے ایک بھی نہیں جس میں مطالبہ پاکستان کی حمایت کا بعید سا اشارہ بھی موجود ہو.اس کے برعکس یہ تحریریں جن میں کئی ممکن مفروضے بھی شامل ہیں، تمام کی تمام اس شکل کی مخالف ہیں جس میں پاکستان وجود میں آیا اور جس میں اب تک موجود ہے.“ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 378 - شائع کردہ نیا زمانہ پبلیکیشنز ) مودودی صاحب کا اپنا ایک بیان ہے کہ جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت والے علاقے ہندو اکثریت سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومت الہی قائم ہو جائے گی.ان کا گمان غلط ہے.دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہو گا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہو گی.اس کا نام حکومت الہی رکھنا اس پاک نام کو ذلیل کرنا ہے.( سیاسی کشمکش حصہ سوم طبع اول صفحہ 117.بحوالہ جماعت اسلامی کا ماضی اور حال صفحہ 29 تا 32 اب اسی کا فرانہ حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لئے جو کوششیں ہورہی ہیں ہر ایک کے سامنے ہیں.ان بیانات اور جسٹس منیر کے تبصرے سے صاف عیاں ہے کہ پاکستان کے لئے ان لوگوں کے کیا نظریات تھے جو آج اپنے آپ کو پاکستان کا کرتا دھرتا سمجھتے ہیں.جو بھی سیاسی حکومت آتی ہے وہ ان ملاؤں کو طاقت سمجھ کر ان سے گٹھ جوڑ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ملاں کے ایجنڈے پر سب سے پہلے یہ بات ہوتی ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو کچھ ہو سکتا ہے کرو.1953ء میں بھی فسادات ہوئے.اُس وقت کچھ نہ کچھ انصاف پسند لوگ تھے اس لئے جو وہ کرنا چاہتے تھے اس وقت مولویوں کی خواہش پوری نہ ہو سکی.لیکن 1974ء میں جو اس وقت کی حکومت تھی اس نے اسلام کے نام پر مولویوں کے ساتھ مل کر احمدیوں پر جو ظلم کی داستانیں رقم کی ہیں اور جو ظلم و بربریت کے نمونے دکھائے گئے ہیں آئندہ جب انصاف پسند مؤرخ آئے گا اور پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو ایک تاریک سیاہ باب کی صورت میں یہ لکھا جائے گا.اور پھر 1984ء میں ایک آمر نے اس قانون میں، جو 1974ء میں بنایا گیا تھا اور اسمبلی نے پاس کیا تھا، مزید ترامیم کر کے سختی پیدا کی تا کہ احمدیت کو ختم کر دے اور بڑے طمطراق سے یہ دعوی کیا کہ میں احمدیت کے اس کینسر کو ختم کر دوں گا.نتیجہ کیا نکلا؟ کہ احمدیت تو ترقی پر ترقی کرتی چلی جارہی ہے اور ان لوگوں کا یا تو پتہ نہیں کہاں گئے یا پھر خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی چکی میں آج کل پس رہے ہیں.ان تمام ظلموں کے باوجود جو جماعت احمدیہ پر روا ر کھے گئے خلافت احمدیہ کی برکت سے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مددفرماتے ہوئے جماعت کو ان ابتلاؤں سے نکالا.جماعت نے جو صبر کے نمونے ان حالات میں دکھائے اور آج تک دکھا رہی ہے یہ خلافت سے وابستگی کی وجہ ہے.اور اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت باندھنے والوں نے اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں.
151 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم آج کل کی حکومتیں جو پاکستان میں مرکزی اور صوبائی سطح پر قائم ہیں.ان کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ان لوگوں کو پاکستان کی بقا عزیز ہے جس کے لئے ہر احمدی اور ہر شریف النفس شہری ہمیشہ کوشش بھی کرتا ہے اور دعا بھی کرتا ہے تو اس پاکستان کو قائم کریں جو حضرت قائد اعظم قائم کرنا چاہتے تھے.نہ یہ کہ مذہبی بنیادوں پر نفرتوں کی دیوار میں کھڑی کی جائیں.مذہب کی بنیاد پر دوسروں کے خون سے ہولی کھیلی جائے.قائد اعظم کیا فرماتے ہیں؟ 1947ء کے صدارتی خطبہ میں، اسمبلی میں جو دستور ساز اسمبلی تھی ، اس میں قائد اعظم کا یہ ارشاد دیکھیں اور پاکستان کی 1974ء کی اسمبلی نے جو فیصلہ کیا تھا وہ بھی دیکھیں.قائد اعظم نے تو یہ فرمایا تھا کہ: اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہئے.خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب.اگر آپ نے تعاون اور اشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصے میں اکثریت اور اقلیت، صوبہ پرستی اور فرقہ بندی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی.فرمایا کہ ” ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہورہی ہے.یہاں ایک فرقے یا دوسرے فرقے میں کوئی تمیز نہ ہوگی.یہاں ذات یا عقیدوں میں کوئی تمیز نہ ہوگی.ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں.آپ آزاد ہیں، آپ اس لئے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا پاکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادت گاہ میں جائیں.آپ کا تعلق کسی مذہب، کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کا مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں.میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہئے.یہ قائد اعظم فرمارہے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہئے اور آپ یہ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہ رہے گا اور مسلمان مسلمان نہ رہے گا.مذہبی مفہوم میں نہیں کیونکہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے“.(افکار قائد اعظم صفحہ 358 مرتبه محمود عاصم.ناشر مکتبہ عالیہ ایک روڈ لاہور ) اب یہ تصور قائد اعظم نے پیش کیا ہے اور 1974ء کی اسمبلی اس سے بالکل الٹ کام کر رہی ہے.پس بانی پاکستان کا اسمبلیوں کے کام اور حکومتی معاملات چلانے کے لئے یہ تصور تھا.جیسا کہ میں نے کہا کہ اسمبلیوں کا کام نہیں ہے کہ کسی کے مذہب اور عقیدے اور عبادت کے طریقوں کا فیصلہ کرتی پھرے کہ کس نے کس طریقے سے عبادت کرنی ہے.جس دن حکومت پاکستان میں اس اصل کو سمجھ کر اس اصول پر کام کرنا شروع کیا گیا جس کی راہنمائی
152 خطبہ جمعہ فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم قائد اعظم نے فرمائی ہے وہ دن پھر انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان کی ترقی کی نئی راہیں متعین کرنے والا دن ہوگا.فرقہ پرستی اور قومیت کی دیواریں گریں گی تو تبھی قائد اعظم کے خوشحال پاکستان کو پاکستانی دیکھ سکیں گے.پس اب بھی جو سیاستدان ہیں ان کو اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے.کسی کے دین کی جزئیات کا فیصلہ کرنا یا دین کے بارے میں فیصلہ کرنا اور اپنے عقیدے ٹھونسنا نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اس عظیم شخصیت نے جس نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ مملکت بنا کر دی ہے اس بارہ میں اجازت دی تھی.ایک شہری کی حیثیت سے پاکستان کے ہر شہری کو اس کے حقوق دینے چاہئیں.ووٹ کا حق ہے، ملازمتوں کا حق ہے ، مذہب اور عقیدے کا حق ہے.یہ اس کا حق ہے اس کو ملے.جہاں تک قانون کے لاگو ہونے کا سوال ہے، قانون ہر ایک کے لئے ایک ہو.جو بھی قانون بنتے ہیں وہ کیا جائے.یہ برابری کے حق ملیں گے تو ملک میں سکون کی فضا قائم ہوگی.ان حکومتوں کو چاہئے کہ اس بات سے سبق سیکھیں کہ 1974ء کے جو فیصلے ہوئے اور پھر 1984ء میں اس میں مزید ترمیم کر کے احمدیوں کے خلاف جو کارروائیاں کی گئیں اور جو پابندیاں لگائی گئیں اس کے بعد سے ملک تنزل کی طرف جارہا ہے.کوئی ترقی نظر نہیں آتی ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو تین قدم پیچھے چلا جاتا ہے.احمدیوں نے تو تمام تر ظالموں کے باوجود ملک کی بہتری کے لئے کوشش بھی کرنی ہے اور دعا بھی کرنی ہے اور وہ کریں گے.لیکن احمدیوں کو نقصان پہنچانے والے یہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر تیم سے ایک دن ضرور بدلہ لے گی.آئے دن قانون اور اسلام کی آڑ میں احمدیوں کو جو شہید کیا جاتا ہے یہ خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہمیشہ یا درکھو.فرمایا کہ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء: 94) اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے اور وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے.پس اللہ کے عذاب سے ڈرو.ایمان کے بارے میں تو حدیث میں آتا ہے کہ سب سے افضل ایمان کا حصہ لَا اِلهَ إِلَّا الله کہنا ہے.( ترندی کتاب الدعوات باب ان دعوة المسلم حدیث: 3383) پورا کلمہ بھی نہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے افضل حصہ صرف لا اله الا اللہ کہہ دینا ہے.اور پھر وہ واقعہ جب ایک صحابی نے جنگ کی حالت میں دشمن کو زیر کر لیا اور اس نے کلمہ پڑھ لیا اور پھر بھی انہوں نے اس کو قتل کر دیا اور آنحضرت ﷺ تک جب یہ بات پہنچی تو آپ نے اس شدت سے اسے کہا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے ڈر کے مارے کلمہ پڑھا ہے یا اس نے دل سے کلمہ پڑھا ہے.وہ صحابی کہتے ہیں اس وقت جو غصے کا اظہار آ نحضرت ﷺ نے فرمایا تو میں یہ چاہتا تھا کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا.اس کے باوجود یہ اپنی تعریفیں کر کے کلمہ گوؤں کو قتل کرتے چلے جارہے ہیں، شہید کرتے چلے جارہے ہیں.( بخاری کتاب المغازی باب بعث النبی ﷺ اسمت...حدیث: 4269) : عروسة
153 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم گزشتہ دنوں پھر انتہائی ظالمانہ طور پر ایک نوجوان جوڑے میاں بیوی کو ملتان میں شہید کر دیا گیا اور ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے زمانہ کے امام کو مانا.دونوں ڈاکٹر تھے اور بڑے ہر دلعزیز ڈاکٹر تھے.ایک کا نام ڈاکٹر شیراز ہے ان کی 37 سال عمر تھی اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر نورین شیر از 28 سال کی تھیں.میرا خیال ہے کہ شاید یہ شہداء میں عورتوں میں سب سے کم عمر شہید ہیں.ان لوگوں کو اتنا بھی انسانیت کا پاس نہیں ہے کہ جو نافع الناس وجود ہیں، انسانیت کی خدمت کرنے والے ہیں ، خدمت خلق کرنے والے ہیں اور تمہارے مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں، ان کو بہیمانہ طریقے سے شہید کر دیا.یہ مخالفین یا درکھیں کہ احمدی جو ہیں وہ تو کسی مقصد کے لئے شہید ہورہے ہیں لیکن جو آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کے آنے سے جو حق ظاہر ہوا، اس کے انکار کی وجہ سے ملک میں جو بدامنی پھیل رہی ہے اور اس وجہ سے درجنوں معصوم بلا مقصد قتل کئے جارہے ہیں، یہ بھی قدرت کا ایک انتقام ہے جو لیا جارہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تو وہ مسلمان بھی نہیں رہتے جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں.اور پھر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے جیسا کہ میں نے آیت پڑھی ہے وہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ پھر ان سے کیا سلوک ہوگا.ان لوگوں کو کچھ خوف خدا نہیں.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.گزشتہ دنوں میں پہلے حکومت کے ساتھ فوج کے ساتھ لڑائیاں ہوتی رہیں اس کے بعد پھر حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے اور سوات میں ایک شرعی نظام جاری کر دیا گیا اور جب شرعی نظام قائم ہو گیا اور عدالتیں بھی قائم ہو گئیں تو اس کے بعد وہاں کے جو بھی کرتا دھرتا ملاں تھے انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت کے جو جج ہیں یہاں آنے کی کوشش نہ کریں.حکومت کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ سلسلہ جواب شروع ہوا ہے یہ یہاں رکنے والا نہیں ہے.یہ پورے ملک کو مزید بدامنی کی لپیٹ میں لے گا.دنیا کی جو صورتحال ہے، دنیا میں پاکستان کی جو صورتحال ہے، اب پورے ملک کو دہشت گرد کا نام دیا جارہا ہے.یہاں کے وزیر خارجہ نے بھی پچھلے دنوں بیان دیا کہ اگر حکومتوں نے اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو مکمل طور پر یہ ملک دہشت گرد قرار دے دیا جائے گا.وہ مُلاں جو پاکستان کو پلیدستان کہتا تھا اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے.اور بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ اب ان کی کوششیں یہی ہیں کہ اگر ملک ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے کہ پاکستان کے نام کو بھی یہ قائم رہنے دیں گے کہ نہیں.خلفاء احمدیت ہمیشہ حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ ان سے بچنا، ان ملاؤں سے بچنا.اگر ایک دفعہ بھی ان کو کندھے پر سوار کر لیا تو پھر یہ لوگ پیر تسمہ پابن جائیں گے.لیکن انہیں سمجھ نہیں آ رہی.ایک طرف یہ لوگ جو سیاستدان ہیں اپنے آپ کو ملک کا ہمدرد اور بڑا منجھا ہوا سیاستدان سمجھتے ہیں اور اس کے دعوے کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس خوفناک حقیقت کو نہیں سمجھ رہے کہ ملاں پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اس لئے ان سے کسی بھی قسم کا جو اشتراک ہے وہ حکومتوں کو بھی اور ملک کو بھی نقصان پہنچائے گا.
154 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ہم تو دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے.جہاں تک ملاں کی کوشش یا ارادے کا تعلق ہے کہ ان شہادتوں سے وہ احمدیت کی ترقی کو روک سکتے ہیں تو یہ ان کا خام خیال ہے.جیسا کہ میں نے بتایا احمدیت تو ہر قدم پر دشمنی کے بعد ترقی کرتی چلی گئی ہے.جو کشتی خدا تعالیٰ نے خود بنوائی ہے اس کی حفاظت بھی وہ خود کرے گا اور اس کا سفر انشاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا.ہاں جہاں تک اِکا دُکا شہادتوں کا یا نقصان کا سوال ہے وہ تو ابتلا آتے رہتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا اور جو شہادت پانے والے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اپنی دائمی زندگی پا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بن رہے ہیں.بہر حال احمدی بھی، خاص طور پر پاکستانی احمدی دعاؤں پر بہت زور دیں.کیونکہ یہ ملک جس آگ کے کنارے پر کھڑا ہے وہاں سے احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اس کو اس میں گرنے سے بچا سکتی ہیں.اس ملک کی تعمیر میں بھی جماعت احمدیہ نے بہت کردار ادا کیا ہے اور اس کے بچانے میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی دعائیں ہی کام آئیں گی.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.جن شہید ڈاکٹر ز کا میں نے ذکر کیا تھا اب ان کے کچھ کو ائف بھی بتا دوں.واقعہ اس طرح ہوا کہ 14 مارچ کو ڈیوٹی سے فارغ ہو کر یہ لوگ سوا تین بجے اپنے گھر پہنچے تو لگتا ہے کوئی پہلے سے وہاں چھپا ہوا تھا ، جس نے ان دونوں کو بڑی بے دردی سے شہید کیا.دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.ڈاکٹر شیر از باجوہ صاحب کی میت ان کے بیڈروم میں تھی.ہاتھ پیچھے باندھے ہوئے تھے.آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی.منہ میں روئی ٹھونسی ہوئی تھی اور گردن میں رسی کا نشان تھا یعنی پھندا ڈالا تھا.اور کئی رسیاں بھی سرہانے پڑی تھیں.ان کی ملازمہ جب شام کو آئی ہے تو اس نے ان کو دیکھا.کہتی ہے پہلے ان کی جو لاش تھی وہ پنکھے سے لٹک رہی تھی اور اسی طرح جو ان کی اہلیہ ہیں ان کو ڈرائنگ میں اسی طرح باندھ کے چھوڑا ہوا تھا.منہ میں کپڑا تھا.دونوں، ڈاکٹر شیر از صاحب واپڈا ہسپتال ملتان میں آنکھوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر تھے اور ڈاکٹر نورین جو تھیں چلڈرن ہسپتال میں تھیں.یہ دونوں ، احمدی غیر احمدی دونوں طبقوں میں بڑے ہر دلعزیز ڈاکٹر تھے.بڑا دھیما مزاج اور ہمدردانہ رویہ رکھنے والے تھے.یہ ان کی خاص پہچان تھی.کچھ عرصہ انہوں نے فضل عمر ہسپتال میں بھی کام کیا ہے اور یہ کالونی ایسی ہے کہ یہاں ہر طرف سے چار دیواری تھی.دیواروں کے اوپر باڑ لگی ہوئی تھی.گیٹ ہے.سیکیورٹی ہے.اس کے باوجود اندر جا کے حملہ کرنے کا مطلب ہے کہ لازماً کوئی سازش کی گئی ہے.کیونکہ بغیر سیکیورٹی چیک اس کالونی کے اندر کوئی جاہی نہیں سکتا تھا.تو اس میں یہ سب شامل لگتے ہیں.دونوں اچھے قابل لائق ڈاکٹر تھے.1998ء میں مضمون نویسی کا کوئی مقابلہ ہوا تھا جس میں ان کی اہلیہ کو ایک بڑا اعزاز بھی ملا تھا.کچھ عرصہ ہوا تھا کہ ان کی شادی ہوئی تھی اور ابھی ان کے بچے کوئی نہیں تھے.بالکل نوجوان تھے جیسا کہ بتایا کہ 37 سال اور 28 سال عمر تھی.ابھی میں انشاء اللہ تعالی نماز کے بعد ان کا جنازہ غائب بھی پڑھوں گا.اس جنازہ غائب کے ساتھ کچھ اور جنازے بھی ہیں.
155 خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایک ڈاکٹر اسلم جہانگیری صاحب ہیں جو ہمارے امیر ضلع ہری پور ہزارہ تھے.ان کی 15 مارچ کو وفات ہوئی ہے.انہوں نے کچھ عرصہ نصرت جہاں کے تحت سیرالیون میں خدمات سرانجام دی ہیں.پھر یہ بڑا لمبا عرصہ امیر رہے.ان پر بھی چند مہینے پہلے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا اور قاتل یہی کہتا تھا تم قادیانی ہو، تمہیں مارنے آیا ہوں.خیر وہ بچ گئے کیونکہ لوگ اکٹھے ہو گئے اور وہ زخمی حالت میں تھے.لیکن بہر حال وفات کے وقت ان کی عمر 74 سال تھی.بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان زخموں کی وجہ سے بھی ان میں کمزوری بڑھتی چلی گئی اور پھر بیمار بھی تھے.دل کا حملہ ہوا اور ان کی وفات ہوئی.موصی تھے.ان کی تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی ہے.ای طرح ایک جناز سید ناصرہ بیگم صاحبہ امیہ میاں شریف احمد صاحب کا ہے.یہ سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی بیٹی تھیں اور سیدہ مہر آپا صاحبہ کی بہن تھیں.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کی ماموں زاد بہن اور مخلص خاتون تھیں.ابھی جنازہ غائب میں ان کا بھی جنازہ شامل ہوگا.اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنے قرب سے نوازے اور ان کی نیکیاں ان کے پیچھے جو ورثاء ہیں ان کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 15 مورخہ 10 اپریل تا 16 ، اپریل 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 156 (13) خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2009ء بمطابق 27 رامان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ایک نام ستار ہے.مفردات میں لکھا ہے کہ ستار کے معنے ہیں وہ ذات جو پردے میں ہے یا چھپی ہوئی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہا جاتا ہے.وَاللَّهُ سَتَّارُ الْعُيُوبِ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو غلطیوں اور کمزوریوں کو چھپانے والی ہے اور نہ صرف اللہ تعالیٰ انسانوں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو چھپاتا ہے بلکہ احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ستر پسند ہے، پردہ پوشی پسند ہے.مسند احمد کی ایک حدیث ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا انَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسِّتْرَ - ( مسند احمد جلد 6 صفحہ 163.مسند یعلی بن امیہ - حدیث 18131 مطبوعہ بیروت.1998ء) یہ حضرت يَعْلَى مِنْ اُمیہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ یقینا اللہ تعالیٰ حیا اور ستر کو پسند فرماتا ہے.اور پھر کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ستر اور پردہ پوشی فرماتا ہے.اس بارہ میں بھی ایک روایت الله ہے.صفوان بن مُحْرِذ بیان کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت ابن عمر سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺے سے راز و نیاز کے متعلق کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے رب کے قریب ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنا سا یہ رحمت اس پر ڈالے گا.پھر فرمائے گا تم نے فلاں فلاں کام کیا تھا.وہ کہے گا ہاں میرے رب.پھر کہے گا فلاں فلاں کام بھی کیا تھا.وہ کہے گا ہاں.اللہ پھر اس سے اقرار کروا کر کہے گا.میں نے اُس دنیا میں تیری پردہ پوشی کی تھی ، یہ مادی دنیا مراد ہے ).آج ( قیامت کے دن ) بھی پردہ پوشی کرتا ہوں اور وہ ( غلط ) کام جو تو نے کئے تھے میں تمہیں معاف کرتا ہوں.( بخاری کتاب الادب.باب ستر المومن علی نفسه - حدیث نمبر 6070 تو یہ وہ پیارا خدا ہے جو اپنے بندوں سے اس طرح پردہ پوشی اور مغفرت کا سلوک فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی کا یہ تصور پیش ہی نہیں کر سکتے.اگر پردہ پوشی کا یہ تصور ہوتا تو مثلاً عیسائیوں میں کفارے کا مسئلہ نہ ہوتا.اور اسی طرح آریوں
خطبات مسرور جلد ہفتم 157 خطبہ جمعہ فرمود ه 27 مارچ 2009 میں جونوں کا تصور نہ ہوتا کہ سزا جزا کے لئے اس دنیا میں اوراور شکلوں میں آنا ضروری ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 127-126 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اسلام ہی اللہ تعالیٰ کی ستاری کا یہ تصور پیش کرتا ہے جس کا اظہار اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی.لیکن اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں لے لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ پردہ پوشی کو پسند فرمایا ہے اور بندے کو یہ کہہ کر بخش دیا کہ تمہاری میں نے اس دنیا میں بھی پردہ پوشی فرمائی تھی یہاں بھی پردہ پوشی کرتے ہوئے بخش دیتا ہوں تو اس بات سے ہم بے لگام ہو جائیں کہ بُرے اور بھلے کی تمیز نہ رہے کیونکہ بخشے تو جانا ہی ہے، کیا فرق پڑتا ہے.برائیاں بھی کر لیں اور گناہ بھی کر لیں.جو چاہے کرتے پھریں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ مومنوں پر اللہ تعالیٰ کے پر دے اس قدر ہیں کہ وہ شمار سے باہر ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو ، مومن کو اس کی پردہ پوشی فرمانے کے لئے پردوں میں لپیٹا ہوا ہے.ایک مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے پردے ایک ایک کر کے پھٹتے جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر وہ مستقل گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو لکھا ہے کہ کوئی پردہ بھی باقی نہیں رہتا.پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو چھپاؤ تو وہ اپنے پروں سے اسے گھیر لیتے ہیں.یہ دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح ستاری فرما رہا ہے.لیکن اگر انسان اللہ تعالیٰ کے سلوک پر اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش نہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ کیا سلوک فرماتا ہے.یہ ایک لمبی حدیث ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ فرشتوں کے اس بندے کو چھپانے کے بعد اگر وہ شخص توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور اس کے پردوں کو جو اٹھ گئے تھے واپس لوٹا دیتا ہے بلکہ ہر پردے کے عوض مزید نو (9) پر دے عطا فرما دیتا ہے تا کہ اس کی بخشش کے سامان ہوتے رہیں.اس کی پردہ پوشی ہوتی رہے.لیکن اگر بندہ توبہ نہ کرے اور گناہوں میں ہی پڑا ر ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم کس طرح اسے ڈھا نہیں یہ تو اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ تو ہمیں بھی گندہ کر رہا ہے.تب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کہے گا کہ اسے الگ چھوڑ دو اور پھر اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے.لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کے ہر عیب اور گناہ کو جو اس نے اندھیروں میں بھی کیا ہو ظاہر کر دیتا ہے.(کنز العمال کتاب الاخلاق قسم الاقوال تتبع العورات من الا کمال جلد 3 صفحہ 184 دارالکتب العلمیة بیروت 2004ء) یعنی خدا تعالی کی پردہ پوشی نہیں رہتی.پس ہر مومن کو ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تو بہ کرنے والا بنائے تا کہ ہمیشہ اس کی ستاری سے حصہ پاتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی ستاری کا بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: مالک یوم الدین کا تقاضا یہ ہے کہ با مراد کر دے.جیسے ایک شخص امتحان کے لئے بہت محنت اور تیاری کرتا ہے مگر امتحان میں دو چار نمبروں کی کمی رہ جاتی ہے تو دنیاوی نظام اور سلسلہ میں تو اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اس کو گرا
خطبات مسرور جلد ہفتم 158 خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 دیتے ہیں، مگر خدا تعالیٰ کی رحیمیت اس کی پردہ پوشی فرماتی ہے اور اس کو پاس کرا دیتی ہے.رحیمیت میں ایک قسم کی پردہ پوشی بھی ہوتی ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 126 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا کہ: ”اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے جو جمیع محامد کا سزاوار ہے اس لئے معطی حقیقی ہے.وہ رحمن ہے بڑوں عمل عامل کے اپنا فضل کرتا ہے ( یعنی اسلام نے خدا کا وہ تصور پیش کیا ہے جو ہر قسم کی تعریف کے لائق ہے تمام تعریفیں اس میں جمع ہیں.وہی ایک ذات ہے جس میں یہ ساری صفات جمع ہوسکتی ہیں اور وہ ایسا عطا کرنے والا ہے جو حقیقی رنگ میں عطا کرنے والا ہے اور رحمانیت کے جلوے دکھاتے ہوئے عطا فرماتا ہے کہ اگر کسی نے کوئی عمل نہیں بھی کیا یا تھوڑا بہت عمل کیا ہے تب بھی وہ بیشمار نواز دیتا ہے یہ اس کی مالکیت ہے.وہ معطی ہے ، رحمان ہے، مالکیت اس کی بعض دفعہ وہ نظارے دکھاتی ہے کہ اس کی رحمانیت کے جلوے ہمیں نظر آتے ہیں اور بلا کسی عمل کے بھی نو از تا چلا جاتا ہے اور غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ پوشی بھی فرما تا چلا جاتا ہے ).اور فرمایا: ” پھر مالکیت یوم الدین جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے بامراد کرتی ہے.دنیا کی گورنمنٹ کبھی اس امر کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی کہ ہر ایک بی اے پاس کرنے والے کو ضرور نوکری دے گی.مگر خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ ، کامل گورنمنٹ اور لا انتہا خزائن کی مالک ہے.اس کے حضور کوئی کمی نہیں.کوئی عمل کرنے والا ہو وہ سب کو فائز المرام کرتا ہے.( کامیابی عطا فرماتا ہے ) اور نیکیوں اور حسنات کے مقابلے میں بعض ضعفوں اور سقموں کی پردہ پوشی بھی فرماتا ہے“.( جو کمزوریاں رہ جاتی ہیں ان کی پردہ پوشی فرماتا ہے ).وہ تو اب بھی ہے.مُسْتَخیسی بھی ہے.اللہ تعالیٰ کو ہزار ہا عیب اپنے بندوں کے معلوم ہوتے ہیں، مگر ظاہر نہیں کرتا“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 126 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یا اپنے بندے کی ایسی حیار کھتا ہے کہ ایک حدیث میں آیا کہ اللہ تعالیٰ حیا کو پسند کرتا ہے ( مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 163 مند یعلی بن امیہ حدیث 18131 مطبوعہ عالم الكتب بيروت 1998ء ) | اور یہ حیا اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بات کو کہنے میں شرماتا ہے.بلکہ اس لئے کہ بندے کو شرمندگی سے بچائے.فرمایا : ”ہاں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ بیباک ہو کر انسان اپنے عیبوں میں ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حیا اور پردہ پوشی سے نفع نہیں اٹھاتا.بلکہ دہریت کی رگ اس میں زور پکڑتی جاتی ہے.تب اللہ تعالیٰ کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ اس بیباک کو چھوڑا جائے.اس لئے وہ ذلیل کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں کہ : " غرض میرا مطلب تو صرف یہ تھا ( ایک بیان چل رہا تھا پیچھے " کہ رحیمیت میں ایک خاصہ پردہ پوشی کا بھی ہے مگر اس پردہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہو اور اس عمل کے متعلق اگر کوئی کمی یا نقص رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 126-127 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
159 خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اور بعض دفعہ رحمانیت کے جلوے دکھا رہا ہوتا ہے.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رحیمیت سے بھی پردہ پوشی فرما دیتا ہے اور انسان کچھ نہ کچھ جو عمل کر رہا ہے اس پر جزا بھی دے رہا ہوتا ہے اور اگر انسان میں برائی پر شرمندگی کا احساس ہو، تو بہ کی طرف توجہ ہوتو اللہ تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرنے سے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنی برائیوں میں بڑھتا چلا جائے اور اپنی کوتاہیوں میں بڑھتا چلا جائے.اس طرح پھر برائیوں میں بڑھنے کا جواز پیدا ہوتا چلا جائے گا.ایسا انسان جو اس بات پر قائم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش ہی دینا ہے اس لئے عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ معاشرے کو مزید خراب کرنے والا ہوگا.اس لئے حدیث میں بھی اس کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسے جو ڈھیٹ لوگ ہوں ،ضد کرنے والے ہوں ان کی پھر اللہ تعالیٰ حیا نہیں رکھتا.بلکہ ان کے اندھیروں میں کئے گئے گناہوں کو بھی ظاہر فرما دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی صفت ستار کے حوالے سے اس سے مستقل یہ دعا مانگتے رہنا چاہئے کہ ہمیں اپنی ستاری کی چادر میں ڈھانپ لے.آنحضرت ﷺ نے جو دعائیں سکھائیں ان کے بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت جُبَيْر مِن مُطْعَم روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ یہ ان دعاؤں کو کبھی ترک نہیں کرتے تھے.جو یہ ہیں کہ اے اللہ میرے ننگ کو ڈھانپ دے اور میرے اندیشوں کو امن میں بدل دے.اے اللہ میری حفاظت فرما ( ان خطرات سے ) جو میرے آگے ہیں اور جو میرے پیچھے ہیں.جو میرے دائیں ہیں اور جو میرے بائیں ہیں اور جو میرے اوپر ہیں اور میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں ( ان خطرات سے ) جو مجھے نیچے سے اچک لیں.(ابوداؤد.کتاب الادب باب ماذا يقول اذا اصبح.حدیث نمبر (5074) یہ اللہ تعالیٰ کی مکمل ستاری اور مغفرت کی دعائیں ہیں.آنحضرت مے سے تو آپ کی ہر قسم کی حفاظت کے ، ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کے اللہ تعالیٰ کے وعدے تھے.بلکہ آپ نے فرمایا کہ میرا تو شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے.(صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین واحكامهم باب تحریش الشيطان....حدیث :7110) یہ دعا ئیں تو اصل میں ہمیں سکھائی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس روح کو سمجھتے ہوئے ان دعاؤں کو پڑھنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.پھر اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے جو ہمیں دعا ئیں سکھائی ہیں.اس بارے میں ان کے بھی ایک دو نمونے پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”اے میرے محسن اور اے خدا ! میں تیرا ناکارہ بندہ پر معصیت اور پُر غفلت ہوں.تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر
160 خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بیشمار نعمتوں سے مجھے تمتع کیا.سواب بھی مجھ نالائق اور پر گناہ پر رحم کر اور میری بیبا کی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں.آمین ثم آمین.( مکتوبات احمد جلد نمبر 2 صفحہ 10 مکتوب نمبر 2 بنام حضرت مولانا حکیم نا ورالدین صاحب جدید ایڈیشن مطبوعه ر بوه) پھر ایک اور جگہ ایک اور دعا اس طرح آپ نے بتائی کہ اے رب العالمین تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت ہی رحیم وکریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.( ملفوظات جلد اول صفحہ 153 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ دعائیں ہیں جو ہمارا خاصہ ہونا چاہئیں.تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں بھی رہیں اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور گناہوں پر نظر بھی رکھتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش بھی کرتے اللہ تعالیٰ کی صفت ستار سے فیض پانے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے ایک مومن پر کیا ذمہ داری ڈالی ہے؟ اس بارہ میں میں چند ایک احادیث پیش کرتا ہوں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی مومن عورت کی حرمت کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ آگ سے اسے محفوظ رکھے گا“.(مجمع الزوائد جلد 6 صفحہ 268 - کتاب الحدود والدیات باب الستر علی المسلمین.حدیث نمبر 10477 دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء) یہ حدیث خاص طور پر ان لوگوں کے لئے میں نے چنی ہے کہ جب میاں بیوی کے تعلقات باہم ایک دوسرے کے ساتھ خراب ہوں تو ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے گھر والے بھی اور خاص طور پر جب لڑکے کے گھر والے لڑکی پہ یا لڑکی کے گھر والے لڑکے پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں تو بعض دفعہ بلا وجہ الزام لگ رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پردہ پوشی کرو.بعض جائز باتیں بتائی جارہی ہوتی ہیں.بعض سراسر تہمتیں لگائی جارہی ہوتی ہیں.بعض دفعہ لڑکا یا اس کے گھر والے قضاء میں یا عدالت میں لڑکی پر ایسے ایسے الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ اُن کو سُن کر شرم آتی ہے.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن عورت کی حرمت کی پردہ پوشی کرو تو اللہ تعالیٰ آگ سے محفوظ رکھے گا.بعض دفعہ علیحد گیاں بھی ہو جاتی ہیں ، جو بھی وجوہات ہوں علیحدہ ہونا ہے تو بیشک ہوں لیکن ایسے الزامات جو پیش کئے جاتے ہیں ان کے بغیر بھی وہ مدعا حاصل کیا جا سکتا ہے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 161 خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 پس ایک احمدی کو ان باتوں سے بچنا چاہئے.چاہے کوئی بھی فریق ہو.یہاں عورت کی حرمت کی مثال دی گئی ہے.لیکن اگلی حدیث میں اس کو عمومی کیا گیا ہے.حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ ” جو مومن اپنے بھائی کے عیب کو دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دے گا.(مجمع الزوائد جلد 6 صفحہ 268 - کتاب الحدود والدیات باب الستر علی المسلمین.حدیث نمبر 10476 دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) یعنی عیب تلاش کرنے کی بجائے چھپائے جائیں.اس سے دونوں طرف کے رشتہ داروں کو تنبیہ کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی خوشخبری بھی دے دی گئی ہے کہ تو نے اپنے مسائل حل کرنے ہیں تو جائز طریقے سے کرو.ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے نہیں.اور اگر تم لوگ جائز طریقے سے کرو گے، ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرو گے ( بہت سے اب جو نئے رشتے قائم ہوتے ہیں تو راز کی باتیں بھی پی لگتی ہیں ) تو اگر تعلقات خراب ہونے کی صورت میں پردہ پوشی کرو گے تو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا.پہلی حدیث میں تو سزا سے بچنے کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ تعالی پردہ پوشی کرنے کی وجہ سے آگ سے محفوظ رکھے گا.یہاں فرمایا کہ جنت میں داخل کر دے گا.نہ صرف سزا سے بچائے گا بلکہ انعامات سے بھی نوازے گا.تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے دینے کے طریقے.پھر ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے.حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کے نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی مدد کے وقت اسے اکیلا چھوڑتا ہے.اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالٰی اس کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے.اور جس نے کسی مسلمان سے اس کی تکلیف دُور کی تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف میں سے تکالیف دور کر دے گا.اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے روز پردہ پوشی فرمائے گا.( صحیح بخاری کتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ.حدیث نمبر 2442) تو یہ ہیں وہ معیار جوحقیقی مسلمان کے ہونے چاہئیں، ایک احمدی کے ہونے چاہئیں.بلکہ ہم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر جمع ہو کر بیعت کر کے ان سب برائیوں سے بچنے کا عہد بھی کیا ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کیا فرماتے ہیں.آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ: میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں با ہم نزاعیں بھی ہو جاتی ہیں“.(آپس میں جھگڑے ہو جاتے ہیں جماعت میں ) اور معمولی نزاع سے ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتا ہے چھوٹے چھوٹے جھگڑے ہوتے ہیں لیکن ان چھوٹے جھگڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت پر بھی حملہ کرنے لگ جاتے
162 خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہیں اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے.یہ بہت ہی نا مناسب حرکت ہے.یہ نہیں ہونا چاہئے.بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو کیا حرج ہے.بعض آدمی ذراذراسی بات پر دوسرے کی ذلت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے.ان باتوں سے پر ہیز کر نالا زم ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستا رہے.پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیتا.چاہئے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے.فرماتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کرتا تھا.(پرانی روایتیں حکایتیں ہوتی ہیں ایک ملاں نے کہا کہ یہ آیت غلط لکھی ہے.بادشاہ نے اُس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ (ٹھیک ہے بعد میں اس کو دیکھ لوں گا ) اس کو کاٹ دیا جائے گا.جب وہ چلا گیا تو اس دائرہ کو کاٹ دیا.جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا ( بجائے لفظ کاٹنے کے آپ نے دائرہ کاٹ دیا.) تو اس نے کہا کہ دراصل وہ (ملاں ) غلطی پر تھا مگر میں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اس کی دلجوئی ہو جاوے“.( با وجود اختیارات ہونے کے اس نے یہ عاجزی دکھائی.برداشت کا حوصلہ دکھایا کہ تم با وجو د میری رعیت ہونے کے میرے سامنے کس طرح بول سکتے ہو.پھر بھی اس کی ستاری کر لی ، اسے اپنے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالیا کہ ٹھیک ہے تم کہتے ہو تو میں اس پر دائرہ لگادیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ معیار ہونا چاہئے.) فرمایا " یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے.ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.غرض یہ سب امور تقوی میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی سرکشی باقی نہیں رہ جاتی “.فرشتوں کا کام تو اطاعت ہے.تقویٰ کا یہ معیار ہو گا تو فرشتوں میں داخل ہو جائے گا.اس میں کوئی کسی قسم کی سرکشی باقی نہیں رہتی.” تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں.متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے.( آج کل ہر کسی پر بیشمار بلائیں مصیبتیں ، ابتلائیں آتی رہتی ہیں.فرمایا تقوی اختیار کرو تو بلاؤں سے بچائے جاؤ گے.خدا ان کا پردہ پوش ہو جاتا ہے.جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں.ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.فائدہ ہو بھی تو کس طرح جبکہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا.(اگر پردہ پوشی نہیں.فرمایا: یہ بھی ایک ظلم ہے باقی جو نیکیاں کر بھی لیں.بیعت بھی کر لی تو یہ ظلم اگر اندر دل میں رہا تو فائدہ نہیں ہو سکتا ).فرمایا کہ اگر وہی جوش، رعونت، تکبر، معجب ، ریا کاری ، سریع الغضب ہونا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے؟“.( تکبر بھی پیدا ہورہا ہے.بناوٹ اور تصنع بھی ہے فوری طور پر غصے میں آ جانا بھی ہے تو فرق کیا ہوا ) فرمایا سعید ( نیک فطرت ) اگر ایک ہی ہو اور وہ سارے گاؤں میں ایک ہی ہو تو لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے.نیک انسان جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربانی رعب ہوتا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے
163 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کہ یہ باخدا ہے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے خدا تعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصہ دیتا ہے اور یہی طریق نیک بختی کا ہے.پس یا درکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں ہے.آنحضرت اللہ جمیع اخلاق کے متمم ہیں.( آپ میں سب اخلاق جمع ہوئے ہوئے ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپ کے اخلاق کا قائم کیا ہے.اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے“.(اب آخرین کے ساتھ مل کے جو پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اس سے فائدہ اٹھاؤ.فرمایا کہ ” پس دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسروں پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے اگر وہ عیب اس میں نہیں.لیکن اگر وہ عیب سچ سچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ سے ہے.بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے بھائیوں پر معاً نا پاک الزام لگا دیتے ہیں.( ذراسی بات ہوئی فوری طور پر الزام لگا دیا اور بڑا گندہ قسم کا الزام لگا دیا.ان باتوں سے پر ہیز کرو.بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی، ہمسایوں سے نیک سلوک کرو اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 571 تا 573 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ ساری برائیاں جو پیدا ہوتی ہیں.اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مخفی شرک ہوتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو اور علم ہو کہ وہ دیکھ رہا ہے اور میری ہر بات کا اس کو علم ہے تو کبھی اس قسم کی حرکت انسان کر ہی نہیں سکتا جو اس کو برائیوں کی طرف لے جارہی ہو.اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے اور پردہ دری نہ کرنے کے بارے میں کتنا کچھ ارشاد فرمایا ہے.ایک آیت میں آتا ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِ.إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ.وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ الله تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات: 13) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہوٹن سے بکثرت اجتناب کیا کرو.یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے.کیا تم میں کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے.پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقینا اللہ تعالیٰ بہت تو بہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس آیت میں جس فطن کا ذکر کیا گیا ہے وہ بدظنی پر بنیا درکھتا ہے.دنیا میں برائیاں پھیلانے میں بدظنی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے.بدظنی کی وجہ سے ایک دوسرے کے عیب تلاش کئے جاتے ہیں تا کہ اس طرح اسے نیچا دکھایا جائے ، اسے بدنام کیا جائے.اس لئے فرمایا کہ آپس کے تعلقات کے جو معاملات ہیں لوگوں کے ذاتی معاملات ہیں، ان
164 خطبہ جمعہ فرمود ه 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کے معاملہ میں تجسس نہ کرو.یہ تجس خدا تعالیٰ کو نا پسند ہے.اس تجس کے بعد پھر اگلا سٹیپ (Step) کیا ہوگا ، اگلا قدم کیا ہوگا کہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر پھر ہجو کرو گے ، دوسرے کی چغلیاں کرو گے.وہ باتیں جو دوسرے کے بارہ میں معلوم ہوتی ہیں اور جود وسرے شخص کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں.یہ غیبت ہیں.اور اللہ تعالیٰ تو پردہ پوشی کرنے والا ہے.اور جن باتوں کی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی کی ہوئی ہے تم نے تجسس کر کے ان کو باہر نکالا اور پھر اس کا ذکر شروع کر دیا.یہ اللہ تعالی کو انتہائی سخت نا پسند ہے.جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہو اس کے بارہ میں کسی انسان کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی پردہ دری کرے.اس لئے جو حدیث میں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو دوسرے کی پردہ پوشی نہیں کرتا اسے میں سزا دوں گا.کیونکہ یہ پردہ پوشی نہ کرنا جہاں دوسرے کو بدنام کرنے اور اسے دنیا کے سامنے ننگا کرنے کا باعث بنے گی وہاں معاشرے میں فساد پھیلے گا.جب کسی کے بارہ میں راز کی باتیں بتائی جائیں گی.اس کی راز کی باتیں تلاش کر کے لوگوں کو بتائی جائیں گی.اس کا رد عمل سختی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے جس سے پھر دشمنیاں بڑھتی چلی جائیں گی.جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپس میں پیار اور محبت کے نمونے قائم کرو.رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ کے نظارے تم میں نظر آنے چاہئیں.دوسرے، ان رازوں کے فاش ہونے سے جن لوگوں کے بارہ میں باتیں کی گئیں، جن کے راز فاش کئے گئے ان کی باتوں کی بناء پر آپس میں تعلقات خراب ہو سکتے ہیں.پہلی بات، جب ایک فریق کی پردہ دری کرو گے تو دوسرا فریق بھی غصہ میں آئے گا فساد اور لڑائیاں پیدا ہوں گی.دوسری بات، جو باتیں کی گئیں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کسی میں پھوٹ ڈالنے والی ہوتی ہیں ان کے تعلقات خراب ہوں گے.دو دلوں میں پھوٹ ڈالنے والے بنو گے.مثلاً یہ کہہ دیا کہ تمہارا فلاں رشتہ دار فلاں دوست یا فلاں شخص فلاں موقع پر اس نے تمہارے متعلق یہ بات کی تھی مجھے اب پتہ لگی ہے.تو اگر اس شخص نے حقیقت میں یہ چغلی فلاں وقت میں کسی کے خلاف کی بھی تھی تو سننے والے نے اسی وقت اس کو کیوں نصیحت نہیں کر دی اور اس معاملے کو کو دبا دیا سمجھا دیا.اور اگر سمجھانے کی طاقت نہیں تھی تو کیوں نہ اس کے بارہ میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کرے.لیکن اب وہ بات کر کے وہی شخص ( یہ بات پھیلانے والا جو ہے ) وہ چغلی کر رہا ہے.یہ چغلی کرنے والا شخص ایک تو چغلی کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے.پردہ پوشی نہ کرنے کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے اور دوسرے فساد کا پیدا کرنے والا بن رہا ہے اور فساد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فتنہ جو ہے یہ تو قتل سے بھی زیادہ شدید ہے.اور پھر ایک بات یہ کہ اس طرح چغلی کرنے والا معاشرے میں فحشاء کو پھیلانے کا باعث بن رہا ہے، برائیوں کے پھیلانے کا باعث بن رہا ہے.کیونکہ وہ بات جس کا ذکر کیا جارہا ہے اگر بری ہے، گناہ ہے تو کمزوروں کے لئے کمزور ایمانوں کے لئے بعض دفعہ نو جوانوں کے لئے ترغیب بن جاتی ہے کہ چلو اس نے بھی اس طرح کیا تھا تو ہم بھی کر دیکھیں.ایک برائی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ
165 خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد هفتم أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (النور : 20) یقیناً جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بدی پھیل جائے ان کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بڑا دردناک عذاب ہے.اب دیکھیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ حیا پسند کرتا ہے پردہ پوشی پسند کرتا ہے اپنے بندوں کو بخشا پسند کرتا ہے.لیکن ایسے لوگوں کے لئے جو پردہ دری کرنا چاہتے ہیں جو اس وجہ سے دنیا میں بے حیائی کو فروغ دینا چاہتے ہیں.جو مومنوں میں ایک بدی کے اظہار سے بدی پھیلانا چاہتے ہیں.اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو باتیں کر کے پھیلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو سر عام کرنے والے ہیں.تو ان کے متعلق فرمایا کہ ان کو دنیا اور آخرت میں عذاب کی خبر ہے.کیونکہ جب معاشرے میں سر عام برائیاں پھیلیں گی.ان کے چرچے ہونے لگ جائیں گے اور ایک دوسرے کے ننگ ظاہر کرنے شروع کر دیے جائیں گے تو پھر حیا کے معیار ختم ہو جاتے ہیں.اس معاشرہ میں جو یہ مغربی معاشرہ ہے اس میں جو سر عام بعض حرکتیں ہوتی ہیں وہ اس لئے ہیں کہ حیا نہیں رہی اور اب تو ٹیلی ویژن اور دوسرے میڈیا نے ساری دنیا کو اسی طرح بے حیا کر دیا ہے اور اسے آزادی کا نام دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تنگ اور بے حیائی جو ہے وہ اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی چلی جارہی ہے.اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض دفعہ بعض جگہ بعض احمدی بھی اس میں شامل ہوتے ہیں.اسی لئے اسلام نے پردہ اور حیا پر بہت زور دیا ہے اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی کہہ دیا ہے کہ تم ان کے عیب تلاش کرنے کی جستجو نہ کرو اور پھر اس کو پھیلاؤ نہ.اگر کسی کا کوئی عیب علم میں آجاتا ہے اور یہ اتنا بے حیا ہے کہ سامنے بھی کر رہا اور بار بار اس کو پھیلاتا بھی چلا جارہا ہے.تو جماعتی نظام ہے، متعلقہ عہدیدار ہے، یا نظام کو اس کی اطلاع کر دو اور خاموش رہو.تم نے اپنا فرض پورا کر دیا اور اس کے لئے دعا کرو.اگر تم باتیں کر کے ، باتوں کے مزے لے کے اس جرم کو پھیلانے کا موجب بن رہے ہو تو پھر تقوی سے دور جارہے ہو اور اگر بالفرض کسی کے بارے میں کوئی برائی اتفاق سے علم میں آجائے اور اس کے بعد اس شخص نے اس برائی سے تو یہ بھی کرلی ہو لیکن پھر بھی کسی مخالفت کی وجہ سے کسی موقع کے ہاتھ آجانے پر، اس برائی کا علم کسی شخص کو ہو جاتا ہے اور وہ اس کی تشہیر کرتا ہے تو وہ نہ صرف پردہ دری کا مرتکب ہورہا ہے بلکہ فرمایا کہ چغلی کر کے تم وہ حرکت کر رہے ہو جیسے کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو.پس معاشرے کو ہر قسم کے فساد سے بچانے کے لئے اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے پردہ پوشی انتہائی ضروری ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اگر اصلاح کی غرض ہے تو دعا کے ساتھ متعلقہ عہد یدار کو اطلاع دینا ضروری ہے کہ برائی دیکھو جو ختم نہیں ہورہی اور پھر اس عہدیدار کا فرض بن جاتا ہے کہ بصیغہ راز تمام معاملہ رکھ کے اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور اگر پھر کسی نے برائی پر ضد نہیں پکڑی تو حتی الوسع کوشش کرے ( یہ عہدیداران کا بھی کام ہے ) کہ بات باہر نہ نکلے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں.لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور
166 خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اس کو بیان کر کے ڈور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں.کونسا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہو سکتا اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے.“ فرمایا کہ آنحضرت ے سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے بُرا لگے یہ غیبت ہے.اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمُ اَنْ يَّأْكُلَ لَحْمَ أخِيهِ مَيْتًا (الحجرات: 13) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے.( یہ اس وقت کا ذکر ہے لیکن اب 120 سال گزرنے کے بعد بھی ، بعض دفعہ جب زمانہ نبی سے دور چلا جاتا ہے تو پھر وہ برائیاں دوبارہ عود کرتی ہیں، پیدا ہو جاتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوں جوں جماعت کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، مختلف قسم کے لوگ آتے جارہے ہیں.بعض اپنی برائیوں کو بعض دفعہ صحیح طرح صاف نہیں کر سکتے.بعض پرانے احمدی صحیح طرح دین پر قائم نہیں، تقویٰ کی روح کو نہیں سمجھنے والے ، وہ برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں.اس لئے پھر وہ دور جو ہے بڑا خطرناک دور ہے.اس میں پھر ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس بات کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی بڑی توجہ سے یاد کر کے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.فرمایا کہ بعض کمزور ہیں ( جماعت میں ) جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے.بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے.پس چاہئے کہ جسے کمزور پادے اسے خفیہ نصیحت کرے.اگر انسان کو حقیقی ہمدردی ہے جماعت سے اور اصلاح کرنا چاہتا ہے تو جس اپنے بھائی کو کمزور دیکھو بجائے اس کے کہ اس کی پردہ دری کرو، اس کے رازوں کو فاش کرو، اس کی برائیوں کو اچھالو، اسے نصیحت کرو.خاموشی سے، خفیہ طور پر سمجھاؤ.ہمدردی اور دوستی کے رنگ میں.اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرو اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا و قدر کا معاملہ سمجھے.جب خدا تعالیٰ نے اس کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سر دست جوش نہ دکھلایا جاوے.ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے“.( جیسا کہ پہلے میں نے بتایا کہ اب جماعتی نظام بھی فعال ہو چکا ہے.یہاں زیادہ سے زیادہ بتایا جا سکتا ہے اور پھر جماعتی نظام کا کام ہے کہ وہ بھی انتہائی راز ہی رکھتے ہوئے ایسے معاملات کو ڈیل (Deal) کریں نہ کہ دنیا کو پتہ لگتا رہے.فرمایا کہ بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے.جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے.کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے.ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے.قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو.بلکہ وہ فرماتا ہے کہ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد: 18)
167 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مارچ 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مَرحَمَہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم 40 دن اس کے لئے روروکر دعا کی ہو.فرمایا ”تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللهِ بنو.ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے.شیخ سعدی کے دوشاگرد تھے ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کرتا تھا دوسرا جلا بھنا کرتا تھا.آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے.شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے تو راہ دوزخ کی اختیار کی کہ تمہارے سے ) حسد کیا اور تو نے (اس کی) غیبت کی.اس کا راز مجھے بتایا کہ یہ غیبت تھی، یہ برائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا ستاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 60-61- جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) یہ چیزیں ہمیں جماعت میں پیدا کرنی چاہئیں اور جوں جوں جماعت بڑھ رہی ہے اس کے لئے خاص کوشش بھی کرنی چاہئے ، نہ یہ کہ جھگڑوں کو زیادہ بڑھایا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف جگہ پر بار بار جماعت کو دعا اور ستاری کے بارہ میں نصیحت فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی صفت ستاری سے ہمیشہ حصہ لیتے رہنے والے بنے رہیں.اللہ تعالیٰ فضل فرماتے ہوئے ہمارے دلوں میں تمام برائیوں سے نفرت پیدا کر دے اور ہمیشہ ہم نیکیوں کی طرف قدم مارنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا جو مقصد ہے اس کو پورا کرنے والے بنیں.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 16 مورخہ 17 اپریل تا 23 ، اپریل 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 168 (14) خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 فرمودہ مورخہ 3 0 /اپریل 2009ء بمطابق 03 رشہادت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح بلندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں متعدد جگہ پر اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی غلطیوں کو معاف فرماتا ہے، ان سے صرف نظر فرماتا ہے اور صرف نظر فرماتے ہوئے ستاری کا سلوک فرماتا ہے.ستاری کیا ہے؟ سَتَرَ کے معنی ہیں کسی چیز کو ڈھانپنے اور اس کی حفاظت کرنے کے.پس ہمارا خدا وہ پیارا خدا ہے جو ہماری بے شمار خطاؤں کو اور غلطیوں کو ڈھانپتا ہے، اُن سے صرف نظر فرماتا ہے.فوری طور پر کسی غلطی پر پکڑتا نہیں بلکہ موقع عطا فرماتا ہے کہ انسان ، ایک حقیقی مومن ، اللہ تعالیٰ کے اس سلوک سے فائدہ اٹھائے اور جو اس نے غلطیاں اور کوتا ہیاں کی ہوں ان کا احساس کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرے.نہ کہ اُن کا اعادہ کرتے ہوئے ان پر دلیر ہو جائے.پس جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو ڈھانپتا ہے تو بندے کا بھی کام ہے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اس کی حفاظت کے حصار میں آجائے ، جہاں پر وہ اللہ تعالیٰ کی ستاری کے نئے سے نئے جلوے دیکھے گا.اس وقت میں چند آیات آپ کے سامنے رکھوں گا جن میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعض امور کی طرف توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ عنکبوت میں فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمُ سَيَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمُ اَحْسَنَ الَّذِى كَانُوا يَعْمَلُونَ (العنکبوت: 8) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ہم لازما ان کی بدیاں ان سے دور کر دیں گے اور ضرور انہیں ان کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے.یہاں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی بدیاں دور کر دیں گے لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ - لغات میں كَفَرَ کا مطلب لکھا ہے کہ پردے میں کر دینا، کسی چیز کو ڈھانک دینا اور مکمل طور پر ختم کر دینا.یعنی ایسے لوگ جو بُرائی کرتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جس طرح کہ انہوں نے کوئی برائی کی نہ ہو.پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے.بندہ برائی کرتا ہے تو فورانہ تو اسے پکڑتا ہے ، نہ ہی اس کی
خطبات مسرور جلد هفتم 169 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 پردہ دری کرتا ہے کہ انسان اپنے معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے.کئی قسم کی برائیاں انسان سے سرزد ہو جاتی ہیں.کئی قسم کی غلطیوں کا انسان مرتکب ہو جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت ستارا سے ڈھانکے رکھتی ہے.اور پھر جو لوگ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس رکھتے ہوئے اصلاح کی طرف مائل ہوتے ہیں، اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرتے ہیں، نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس بدی اور اُس کے اثرات تک کو اس طرح اس بندے سے دور کر دیتا ہے گویا کہ وہ برائی اس نے کی ہی نہیں تھی.نہ تو اس گناہ کی سزا دیتا ہے اور نہ ہی اُس کی شہرت ہوتی ہے.اگر معاشرے میں کہیں بات نکل بھی جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے پر توجہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس بات کو پھیلنے سے بھی روک دیتا ہے جس سے اس شخص کی بدنامی ہورہی ہو.اور پھر یہ خدا جو ستار بھی ہے، مالک بھی ہے، جو بندے کے توجہ کرنے پر نہ صرف یکسر اس کی برائیوں کو ڈھانپ دیتا ہے بلکہ ان کو نیک کاموں کی بہترین جزا دیتا ہے.جب برائیوں کے بعد نیک کام کرتے ہیں تو اس کی جزا بھی بہترین ہوتی ہے.نیکیوں کی جزا کئی گنا کر کے دیتا ہے اور برائیوں کے دور میں بھی جو چھوٹی چھوٹی نیکیاں ایک انسان نے کی ہوتی ہیں ان کی جزا بھی جمع کر کے دے دیتا ہے اور اس طرح نیکیوں کی تعداد اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ برائیاں کہیں نظر ہی نہیں آتیں.پس حقیقی مومن وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے اس کی ستاری طلب کرے.اپنی برائیوں کا احساس ہونے کے بعد ان سے دور ہٹنے کی کوشش کرے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے.غلطیوں کی صورت میں تو بہ واستغفار کی طرف متوجہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وہ اس کی رضا حاصل کرنے والا بنتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کے صدہا احکام کا اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے پس اس کی فطرت میں یہ داخل ہے ( یعنی انسان کی فطرت میں یہ داخل ہے ) کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام کے ادا کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے اور کبھی نفس امارہ کی بعض خواہشیں اس پر غالب آ جاتی ہیں پس وہ اپنی کمز ور فطرت کی رو سے حق رکھتا ہے کہ کسی لغزش کے وقت اگر وہ تو بہ استغفار کرے تو خدا کی رحمت اس کو ہلاک ہونے سے بچائے“.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 189-190) یہ ہے وہ حقیقی فہم وادراک اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمایا اور آپ نے پھر ہمیں بتایا.ورنہ آج دیکھیں دین کے بعض ٹھیکیدار جو ہیں ، بڑے بڑے علماء، جبہ پوش انہوں نے تو خدا تعالیٰ کے تصور کو اس طرح بنا دیا ہے، ایسا خوفناک سختی کرنے والا اور سزا دینے والا خدا پیش کرتے ہیں کہ جس طرح اس میں کوئی نرمی ہے ہی نہیں اور اسی وجہ سے عیسائیوں اور لاند ہیوں کو بھی جہاں موقع ملتا ہے وہ اسلام کے خلاف غلط تصور پیش کرتے ہیں.حالانکہ اسلام کا خدا استار اور رحیم خدا ہے اور نہ صرف خود بلکہ خدا تعالیٰ نے مومنوں کو بھی یہ
170 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کہا ہے کہ میری صفات اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنانے کی کوشش کرو اور جب یہ ہوگا تو پھر کس قدرستاری اور درگزر اور رحم کے نظارے معاشرے میں نظر آئیں گے.جب اس کا تصور کیا جائے تو بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور پھر آنحضرت ﷺ پر درود بھی ایک مومن بھیجتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے کامل دین کو آپ سے پر اتار کر ایک احسان عظیم ہم پر فرمایا ہے.ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: قرآن شریف میں خدا نے جو یہ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے بندو! مجھ سے نا امید مت ہو.میں رَحِیم كَرِیم اور ستار اور غَفَّار ہوں اور سب سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہوں اور اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرے گا جو میں کرتا ہوں.اپنے باپوں سے زیادہ میرے ساتھ محبت کرو کہ در حقیقت میں محبت میں ان سے زیادہ ہوں.اگر تم میری طرف آؤ تو میں سارے گناہ بخش دوں گا.اور اگر تم تو بہ کرو تو میں قبول کروں گا اور اگر تم میری طرف آہستہ قدم سے بھی آؤ تو میں دوڑ کر آؤں گا.جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے گا وہ بھی میرے دروازہ کو کھلا پائے گا.میں تو بہ کرنے والے کے گناہ بخشتا ہوں خواہ پہاڑوں سے زیادہ گناہ ہوں.میر ارحم تم پر بہت زیادہ ہے اور غضب کم ہے کیونکہ تم میری مخلوق ہو.میں نے تمہیں پیدا کیا اس لئے میر ارحم تم سب پر محیط ہے“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 56) پس اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہی وہ راستے سکھائے ہیں کہ جن سے اس کی طرف بڑھا جا سکتا ہے.ایمان میں کامل بننے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو.بندوں کے حقوق ادا کرو.اعمال صالحہ بجالاؤ اور ان اعمال صالحہ کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر بھی فرما دیا کہ کون کون سے اعمال ہیں جو تمہیں بجالانے چاہئیں.کون سے ایسے اعمال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے.کون سے اعمال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرماتا ہے.پس ان تمام اوامر کے کرنے اور نواہی سے بچنے کی مومن کو کوشش کرنی چاہئے جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے تا کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ستاری اور رحم سے حصہ لینے والے بنتے رہیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے میاں بیوی کے تعلقات کا بھی مختصر اذکر کیا تھا کہ بعض حالات میں کس طرح آپس کے اختلافات کی صورت میں ایک دوسرے پر گندا چھالنے سے بھی دونوں فریق باز نہیں رہتے اور یہ بات خدا تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے.اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی ، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے.فرماتا ہے هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ( البقرة : 188) یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کالباس ہو.یعنی آپس کے تعلقات کی پردہ پوشی جو ہے وہ دونوں کی ذمہ داری ہے.قرآن کریم میں ہی خدا تعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس جنگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے.
171 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ مردوں کو بھڑ کہنا چاہئے اور نہ ہی عورتوں کو.بلکہ ایسے تعلقات ایک احمدی جوڑے میں ہونے چاہئیں جو اس جوڑے کی خوبصورتی کو دو چند کرنے والے ہوں.ایسی زینت ہر احمدی جوڑے میں نظر آئے کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.بعض دفعہ جولڑکیوں کی طرف سے یا لڑکوں کی طرف سے ایسے سوال اٹھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے دل نہیں ملے.اگر تحقیق کی جائے تو صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے تعلق کو سنجیدگی سے سمجھا ہی نہیں.اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے شادی کرنے کا حکم دیا ہے.بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ شادی صرف ایک کھیل کے لئے کی گئی تھی.برداشت بالکل نہیں ہوتی.ذرا ذرا سی بات پر رائی کا پہاڑ بن رہا ہوتا ہے اور عجیب تکلیف دہ صورتحال سامنے آتی ہے.پس بجائے ضد وں اور اناؤں کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو اگر سامنے رکھیں تو کبھی مسائل کھڑے نہیں ہو سکتے.اگر یہ عہد کریں کہ ہر حال میں ہم خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے لئے تسکین کا باعث بنتے رہیں گے تو کبھی خرابیاں پیدا نہ ہوں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ یہ سب پر دے اس وقت چاک ہوتے ہیں جب جوش اور غیظ و غضب میں انسان بڑھ جاتا ہے.اس لئے اسے دبانے کی ضرورت ہے.غصہ کو دبانا وہ عمل ہے جو خدا تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے اور اسے نہ کرنے کا حکم دیا ہے.پس ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے یہ عہد باندھا ہے کہ میں اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیدا کروں گا، اپنے گھر یلو تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کروں گا تو اُس کو اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مجھے جب ایسے جھگڑوں کا پتہ لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے اظہار کر کے گھروں کے ٹوٹنے کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں.تو ہمیشہ ایک بچی کا واقعہ یاد آ جاتا ہے.جس نے ایک جوڑے کو بڑا اچھا سبق دیا تھا.اُس کے سامنے ایک جوڑا لڑائی کرنے لگا یا بحث کرنے لگے یا غصہ میں اونچی بولنے لگے تو وہ بچی حیرت سے ان کو دیکھتی چلی جارہی تھی.خیر اُن کو احساس ہوا ، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے اماں ابا کبھی نہیں لڑے؟ ان کو غصہ کبھی نہیں آتا؟ اس نے کہا ہاں ان کو غصہ تو آتا ہے لیکن جب امی کو غصہ آتا ہے تو ابا خاموش ہو جاتے ہیں اور جب میرے باپ کو غصہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے.تو یہ برداشت جو ہے اسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے.بعض دفعہ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتداء میں ہی گھر ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں.چند دن شادی کو ہوئے ہوتے ہیں اور فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل نہیں مل سکتے.
172 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حالانکہ رشتے کئی کئی سال قائم ہوتے ہیں اس کے بعد شادی ہوئی ہوتی ہے.اور پھر اصل بات یہ ہے کہ یہ جب ایک دوسرے کے راز نہیں رکھتے ، باتیں جب باہر نکالی جاتی ہیں تو باہر کے لوگ بھی جو ہیں مشورہ دینے والے بھی جو ہیں وہ اپنے مزے لینے کے لئے یا ان کو عادتاً غلط مشورے دینے کی عادت ہوتی ہے وہ پھر ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جن سے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں.اس لئے مشورہ بھی ایک امانت ہے.جب ایسے لوگ ، ایسے جوڑے، مرد ہوں یا عورت بڑ کا ہو یا لڑ کی کسی کے پاس آئیں تو ایک احمدی کا فرض ہے کہ ان کو ایسے مشورے دیں جن سے ان کے گھر جڑیں ، نہ کہ ٹوٹیں.پس مرد اور عورت کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ پردہ پوشی بھی اس وقت ہوتی ہے جب غصہ پر قابو ہوا اور یہ اس وقت ہو گا جب خدا تعالیٰ کا خوف ہو گا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لباس تقوی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ اعراف میں کہ یبَنِي آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِى سَوُا تِكُمْ وَرِيْشًا.وَلِبَاسُ | التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ.ذَلِكَ مِنْ ایتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الاعراف (27) کہ اے بنی آدم یقینا ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تا کہ وہ نصیحت پکڑیں.یہاں پھر اس بات کا ذکر ہے جو میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں لباس دیا ہے.تمہارا ننگ ڈھانپنے کے لئے اور تمہاری خوبصورتی کے سامان کے لئے.یہ تو ظاہری سامان ہے جو ایک تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا.انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے کے لئے ایک لباس دیا ہے جس سے اس کی زینت بھی ظاہر ہوا اور اس کا ننگ بھی ڈھانپے.لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اصل لباس، لباس تقویٰ ہے.یہاں میں ایک اور بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ ایک مومن کے اور ایک غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی شریف آدمی کے لباس کا ، جو زینت کا معیار ہے وہ مختلف ہے.آج کل مغرب میں اور مشرق میں بھی فیشن ایبل (Fashionable) اور دنیا دار طبقے میں لباس کی زینت اُس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ مغرب میں تو ہر طبقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں لباس میں سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو اور جسم کی نمائش ہو رہی ہو.مرد کے لئے تو کہتے ہیں کہ ڈھکا ہوا لباس زینت ہے.لیکن مرد ہی یہ بھی خواہش رکھ رہے ہوتے ہیں کہ عورت کا لباس ڈھکا ہوا نہ ہو.اور عورت جو ہے، اکثر جگہ عورت بھی یہی چاہتی ہے.وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا ، اس کے پاس لباس تقویٰ نہیں ہے.اور ایسے مرد بھی یہی چاہتے ہیں.ایک طبقہ جو ہے مردوں کا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورت جدید لباس سے آراستہ ہو بلکہ اپنی بیویوں کے لئے بھی وہی پسند کرتے ہیں تاکہ سوسائٹی میں ان کو اعلیٰ اور فیشن ایبل سمجھا جائے.چاہے اس لباس سے ننگ ڈھک رہا ہو یا نہ ڈھک رہا ہو.لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہے.چاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خدا کی رضا کے حصول کا
173 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہو گا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہوگی.جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہو گا اور جب تقویٰ کے ساتھ میاں بیوی کا جو ایک دوسرے کا لباس ہیں اس کا بھی خیال رکھا جائے گا اور اسی طرح معاشرے میں ایک دوسرے کی عیب پوشی کرنے کے لئے آپس کے تعلقات میں بھی کسی اونچ نیچ کی صورت میں تقویٰ کو مد نظر رکھا جائے گا.اسی طرح معاشرے میں رہنے والے کی زندگی میں ، ایک دوسرے کے تعلقات میں کئی نشیب وفراز آتے ہیں.رنجشیں بھی ہوتی ہیں، دوستیاں بھی ہوتی ہیں لیکن ایک مومن رنجشوں کی صورت میں اچھے وقتوں کی دوستیوں کے دور کی باتوں کو جو دوسرے دوست کی راز کی صورت میں معلوم ہوں دنیا کے سامنے بتاتا نہیں پھرتا.اور نہ ہی میاں بیوی، جن کے دلوں میں تقویٰ ہو ایک دوسرے کے راز کو بتاتے پھرتے ہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہمیشہ پردہ پوشی کرتا ہے.پس یہ تقویٰ کا لباس ہے جو ظاہری لباس کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور اس کا حصول اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر نہیں ہوسکتا.کیونکہ شیطان ہر وقت تاک میں ہوتا ہے کہ کس طرح موقع ملے اور میں بندوں سے اس تقویٰ کے لباس کوا تا ر دوں.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے بلکہ جو میں نے آیت پڑھی اس کی انگلی آیت میں کہ يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمُ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوَاتِهِمَا.إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ | وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيطِيْنَ اَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (الاعراف: 28) کہ اے بنی آدم! شیطان ہرگز تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا تھا.اس نے ان سے اُن کے لباس چھین لئے تھے تا کہ اُن کی برائیاں ان کو دکھائے یقیناً وہ اور اس کے غول تمہیں دیکھ رہے ہیں.جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے.یقیناً ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے.پس جو ظاہری لباس کے جنگ کی میں نے بات کی ہے.ایک مومن کبھی ایسا لباس نہیں پہن سکتا جو خود زینت بنے کی بجائے جسم کی نمائش کر رہا ہو.یہاں بھی اور پاکستان میں بھی بعض رپورٹس آتی ہیں کہ دنیا کی دیکھا دیکھی بعض احمدی بچیاں بھی نہ صرف پردہ اتارتی ہیں بلکہ لباس بھی نا مناسب ہوتے ہیں اور یہ حرکت صرف وہی کر سکتا ہے جو تقومی کے لباس سے عاری ہو.پس ہر احمدی عورت اور مرد سے میں یہ کہتا ہوں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.بہترین لباس وہ ہے جو تقویٰ کا لباس ہے.اُسے پہننے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی بیماری ہمیشہ ہمیش ڈھانکے رکھے اور شیطان جو پردے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے جو انسان کو بنگا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مومن نہیں ہے شیطان ان کا دوست ہے.اگر تو ایمان ہے اور زمانہ کے امام کو بھی مانا ہے تو پھر ہمیں ایک خاص کوشش سے شیطان سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی اور اپنے آپ کو ہمیشہ اس لباس سے ڈھانکنا ہو گا جو تقویٰ کا لباس ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.
174 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے بعد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی حالتوں کے بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور زمانے کے بہاؤ میں بہنے والے نہ بنیں.بلکہ ہر روز ہمارا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے اور ہمیشہ لباس تقوی کی حقیقت کو ہم سمجھنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ممکن ہے گزشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کہا ئر رکھتا ہو.( یعنی کوئی بھی انسان چھوٹے بڑے گناہ کرتا ہو ) لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ گل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا.نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں.یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگزر کرتا اور عفو فرماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا.اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے.پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بد قسمتی اور شامت ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 596 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے.اگر انسان برائیوں اور بدیوں پر دلیری اختیار نہ کرے اور اُن سے بچنے کی کوشش کرتا رہے اور لباس تقوی کی تلاش میں رہے تو اللہ تعالیٰ اپنی ستاری کی چادر میں ایسا لپیٹتا ہے کہ گناہوں کی یادیں اور نام و نشان مٹ جاتے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس کو بھی شرمندہ نہیں کرتا نہ اس دنیا میں نہ آخرت میں.اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے راضی ہوتا ہے تو شرمندہ ہونے کا سوال کیا ہے اپنے بے انتہا انعامات سے نوازتا ہے.اس بارے میں خدا تعالیٰ سورۃ نساء میں فرماتا ہے کہ اِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَائِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلا كَرِيمًا (النساء: 32) اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تم سے تمہاری بدیاں دُور کر دیں گے اور تمہیں ایک بڑی عزت کے مقام میں داخل کریں گے.اب یہاں فرمایا کہ بڑے گناہوں سے بچتے رہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑے گناہوں کی تلاش کی جائے، یا یہ دیکھا جائے کہ کون کون سے بڑے گناہ ہیں جن سے بچنا ہے.ایک حقیقی مومن وہ ہے جو ہر قسم کے گنا ہوں سے بچتا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ستاری تو ہر قسم کے گناہوں کے لئے ہے.اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بڑے گناہوں سے بچا جائے اور چھوٹے چھوٹے گناہ اگر کر بھی لئے تو کوئی حرج نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ بڑے گنا ہوں سے بچو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہوں سے بچو کیونکہ قرآن کریم میں بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کی کوئی فہرست نہیں ہے، کوئی تخصیص نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر وہ چیز جس کے نہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سختی سے پابند کیا ہے کہ ایک مومن نہ کرے، اس کو کرنا گناہ ہے.پس ہر وہ غلط کام جس کے
175 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم نہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کو چھوڑنے میں اگر کسی کو کوئی دقت پیش آ رہی ہے چاہے وہ چھوٹی سی بات ہے یا بڑی بات ہے تو وہ اس شخص کے لئے بڑا گناہ ہے.پس جب ایک مشکل چیز کو کر لو گے، اس پر قابو پا لو گے تو ایسی برائیاں جن کو چھوڑ نا نسبتاً آسان ہے وہ بھی خود بخود چھٹ جائیں گی.بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی بھی گناہ کی انتہا جو ہے وہ کبیرہ میں شمار ہوتی ہے.پس اگر اس انتہاء پر پہنچنے سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ نے جو اب تک پردہ پوشی فرمائی ہے وہ پردہ پوشی فرمائے گا.اس کی شکر گزاری کرتے ہوئے نیکیوں کی طرف توجہ کر لو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ہے.پھر وہ برائیاں ظاہر نہیں ہوں گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے پھر جو صغائر یا کبائر ہیں ان کا ذکر بھی نہیں فرماتا.ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کبائر کو بعض دوسرے گناہوں سے ملا کر یہ بھی کھول دیا کہ ہر گناہ جو ہے وہ کبیرہ بن سکتا ہے جیسا کہ سورۃ شوری میں فرماتا ہے وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوری: 38) اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں.یعنی مومنوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے.تو یہاں مومنوں کے ذکر میں فرمایا کہ وہ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں.اب یہاں دونوں چیزیں اکٹھی ہیں.اور غصے سے بچتے ہیں، بلکہ تینوں چیزیں اکٹھی ہیں.یہاں ایک بات غور کرنے والی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.حیا بھی ایمان کا حصہ ہے.ان لوگوں کے لئے بڑے غور اور فکر کا مقام ہے جو فیشن اور دنیاری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اپنے لباسوں کو اتنا بے حیا کرلیا ہے کہ تنگ نظر آتا ہے اور حیا کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ تو ستاری اور بخشش کرنا چاہتا ہے اور جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس پڑھا ، وہ تو بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے اگر بندہ اس کی طرف جائے.لیکن بندہ اس سے پھر بھی فائدہ نہ اٹھائے تو کتنی بد قسمتی ہے.پھر اس آیت میں جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ، غضبناک ہونے اور غصے اور طیش میں آنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے گنا ہوں اور بے حیائی کی باتوں کے ساتھ جوڑا ہے.کیونکہ غضبناک ہونا بھی ایمان کو کمزور کرتا ہے اور بہت سے گناہ غصہ کی پیداوار ہیں.معاشرے کا امن وسکون غصہ کی وجہ سے برباد ہوتا ہے.انسان اگر سوچے کہ انسان کتنے گناہ اور زیادتیاں اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف عمل کر کے کر جاتا ہے اور ان کا خیال بھی نہیں آتا.لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی انسان کی پردہ پوشی فرماتا رہتا ہے.باوجود سزادینے کی طاقت کے ، ذُو انْتِقَام ہونے کے معاف کر دیتا ہے لیکن بندہ ذرا ذراسی بات پر غیظ و غضب سے بھر کر فساد کا ذریعہ بن جاتا ہے.پس حقیقی مومن بننے کے لئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اپنے غصہ کو بھی قابو میں رکھو کیونکہ اس سے پھر پردہ پوشی بھی ہوگی.غصہ کی حالت میں بہت ساری ایسی باتیں نکلتی ہیں جو دوسرے کی پردہ دری کر رہی ہوتی ہیں.
خطبات مسرور جلد هفتم 176 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”ہماری جماعت کو سر سبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں.جس کو پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے.میں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی اگر کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے.حالانکہ چاہئے تو یہ کہ اُس کے لئے دعا کرے، محبت کرے اور اسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے.مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہوتا ہے.اگر عفونہ کیا جائے ، ہمدردی نہ کی جاوے اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہیں.جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے، پردہ پوشی کی جاوے.جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 264-265 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اس طرح ایک دوسرے کا اعضاء بن جانا چاہئے.پس ہم جو اس زمانہ میں آنحضرت مے کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہیں.ہم جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ کے منادی کو بھی قبول کیا ہے.ہم جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس غلام صادق اور امام الزمان کو مانے بغیر اب ایمان کے اعلیٰ معیار حاصل نہیں ہو سکتے.ہم جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے کہ اس مسیح و مہدی پر ایمان لایا جائے.ہم جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کو اب مسیح محمدی کے ذریعہ سے دنیا میں رائج ہونا ہے تو پھر ہمیں اپنی عبادتوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی ، اپنے اعمال پر بھی نظر رکھنی ہوگی ، ان تمام گناہوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی جن کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی ہے.اپنی حیاؤں کے معیار بھی بلند کرنے ہوں گے.اپنے غیظ و غضب کو بھی گھٹانا ہوگا تا کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی ستاری سے حصہ لینے والے بنیں وہاں دنیا کے لئے بھی ایک نمونہ بن جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس قرآنی دعا کا وارث بنائے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( آل عمران : 194) کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش اور ہم سے برائیاں دور کر دے.ہماری ساری برائیوں کو اس طرح ڈھانپ دے جیسا ہم نے کبھی کی ہی نہیں تھیں.وَتَوَفَّنَا مَعَ الابرار اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ موت دے.ہمیں ان میں شمار کر جن پر تیرے پیار کی نظر پڑتی ہے اور ہم تیرا پیار حاصل کرنے والے بنیں اور ہم ہمیشہ تیری ستاری سے حصہ پاتے چلے جانے والے ہوں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 17 مورخہ 24، اپریل تا30 ، اپریل 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
خطبات مسرور جلد ہفتم 177 (15) خطبہ جمعہ فرموده 10 اپریل 2009 فرمودہ مورخہ 10 راپریل 2009ء بمطابق 10 شہادت 1388 ہجری شمسی بمقام Lake District(برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَواتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا.سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.( آل عمران : 192-191) یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ ہے کہ یقینا آسمان اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں عقل والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں اور الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ.وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہر گز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا.پاک ہے تو.پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ توجہ دلائی ہے کہ ایک بات واضح ہو مخلوق پر ، انسانوں پر ، کہ ہر قسم کی پیدائش خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس پیدائش میں زمین و آسمان کی ہر چیز شامل ہے.انسان بھی اس پیدائش کا حصہ ہے.انسان کے لئے اس کی بہتری کے لئے ، اس کے کام میں آسانی کے لئے اور اس کے آرام کے لئے دن اور رات رکھے.ایک جگہ فرمایا کہ اگر صرف دن ہی ہوتا اور رات کبھی نہ پڑتی تو تمہارا حال کیا ہوتا ؟ اور اگر صرف رات ہی ہمیشہ کے لئے ہوتی تو پھر انسان کا کیا حال ہوتا؟ ان ملکوں میں، مغربی ممالک میں جائزہ لیں، دیکھیں تو سردیوں کے موسم میں دن بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں اور راتیں لمبی ہوتی ہیں اور ان دنوں میں عموماً دیکھا ہوگا کہ ڈپریشن کے مریض بہت زیادہ ہو جاتے ہیں.تو یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی احسان ہے کہ اس نے دن بھی بنایا، رات بھی بنائی.دو مختلف اوقات بنائے اور جب اس میں ذراسی تبدیلی آتی ہے تو باوجود اس بات کے کہ ان لوگوں کو جو یہاں رہتے ہیں اس موسم کی عادت ہے جب چھوٹے دن آئیں، روشنی کم ہو جائے تو ڈ پریشن شروع ہو جاتا ہے.تو یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر بہت بڑا احسان ہے کہ یہ جو دن اور رات ہیں، یہ مختلف موسموں میں بھی ادلتے بدلتے رہتے ہیں.راتیں چھوٹی ہو
178 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 10 اپریل 2009 جاتی ہیں، دن لمبے ہو جاتے ہیں.دن چھوٹے ہوتے ہیں راتیں لمبی ہو جاتی ہیں یا بعض دفعہ برابر ہو جاتے ہیں.یہ جو انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ادلتے بدلتے موسم بنائے ہیں ، یہ اس لئے ہیں کہ وہ ایک تو اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد و شنا کرے کہ کتنا بڑا احسان ہے، ایک ہی طرح کی چیز نہیں بنائی جس میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ جو فطرت نے اس کی طبیعت میں تبدیلی رکھی ہے اس کا اظہار ہوتا رہے اور انسان کہیں ڈپریشن کا مریض نہ ہو جائے اسے مختلف موسم دئے ، پھر یہ کہ روشنی کے جو دن ہیں اگر ہم جائزہ لیں تو روشنی عموماً زیادہ دنوں پر پھیلی ہوئی ہے.چھوٹے دن کم عرصے کے لئے ہوتے ہیں اور بڑے دن زیادہ عرصہ کے لئے ہوتے ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عقلمند وہی لوگ ہیں جو ان ادلتے بدلتے موسموں کو ، دنوں کو دیکھیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے احسان مند ہوں ، شکر گزار ہوں کہ اس نے جس طرح انسان کی فطرت بنائی اس کے مطابق موسموں کو بھی ڈھال دیا اور اس لحاظ سے یہاں فرمایا کہ یہ جو بدلتے ہوئے دن ہیں اور راتیں ہیں انسان کو ان روشنی کے دنوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور روحانی فائدہ بھی اٹھانا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے نور کو، اس روشنی کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے، وہ روحانی روشنی جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے دنیا میں بھیجتا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان بھیجے ہوؤں کو تلاش کرنا چاہئے اور جو پیغام وہ لاتے ہیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکتے ہوئے اس کی صداقت کو تسلیم کرنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے نہ کہ انکار کرنے کی طرف.تو یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کو توجہ دلاتی ہیں.اس کی عبادت کی طرف توجہ دلاتی ہیں.اس کا شکر گزار اور احسان مند بناتی ہیں.ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانی کو پہچان کر اُس روشنی سے حصہ پا رہے ہیں جو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی ترقی کے لئے بھیجی.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حصہ پانے اور فیض اٹھانے کے لئے صرف پہچاننا اور مان لینا کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ضروری ہے ، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا کہ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ کہ وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی.وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَواتِ وَالْاَرْضِ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا.سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ بے ساختہ یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہرگز یہ چیزیں یوں ہی پیدا نہیں کیں.بے مقصد پیدا نہیں کیں بلکہ ہر پیدائش کا ایک مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی جتنی مخلوق اس زمین پر بھی پائی جاتی ہے چاہے وہ زہر یلے جانور ہی ہوں ، ان کا بھی ایک مقصد ہے.اور پاک ہے تو.پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.ہم کہیں تیری اس بات کا انکار کر کے تیری خدائی کا انکار کر کے آگ کے عذاب میں نہ پڑنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے مبعوث کئے ہوئے کو ماننے کے بعد پھر اور بھی زیادہ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے
179 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 10 اپریل 2009 ذکر کی طرف توجہ پیدا ہو اور ہر وقت ہر سوچ کے ساتھ اور ہر چیز جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اس کو دیکھ کر ایک احسان مندی اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوں.اور جب ذکر ہوگا تو عبادت کی طرف توجہ ہوگی اور جب عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان کی پابندی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.تو یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس کے اندر آ کر انسان پھر نیکیوں پر عمل کرتا ہے.نیکیوں کو کرنے کی توفیق پاتا ہے اور شکر گزاری کے جذبات سے سرشار رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی زمین و آسمان میں پیدا کی ہے اس پر غور کر کے اللہ تعالیٰ پر ایک بندے کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کرنے کی کوشش کرنے والا ہو.اس علاقے میں بھی ہم دیکھتے ہیں اونچے پہاڑ ہیں.گہری کھائیاں ہیں.آبشار میں ہیں.ندی نالے ہیں.جھیلیں ہیں ، لیک ڈسٹرک کا علاقہ کہلاتا ہے، بہت ساری جھیلیں ہیں.تو یہ سب جو ہیں خدا کا تصور پیش کرتی ہیں.ان چیزوں کی تصویر کشی کرتی ہیں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کیں اور ہمارے فائدے کے لئے پیدا کیں.اگر ہم کائنات کا نقشہ دیکھیں تو جو بھی اپنی دور بینوں سے سائنسدانوں نے تصویر لی ہے کا ئنات کے اس پورے یو نیورس (Universe) کی تو ہماری زمین جو ہے ان ستاروں کے جھرمٹ میں ایک چھوٹا سا ایسا نقطہ نظر آتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ لکھا جاتا ہے کہ ہماری زمین یہیں کہیں ہوگی.اس زمین میں ہی بے شمار چیز یں اللہ تعالی نے ایسی پیدا کر دی ہیں جو انسان جب دیکھے تو نئی سے نئی لگتی ہیں.کسی بھی رستے پر چلے جائیں، کسی بھی جنگل میں چلے جائیں، کسی بھی دریا کے کنارے کھڑے ہو جائیں، ریگستانوں میں کھڑے ہو جائیں تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی قدرت ایک نئے رنگ سے نظر آئے گی.قدرت کے جلوے ایک نئی شان سے ظاہر ہورہے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی خدائی پر بے اختیار یقین قائم کرتے ہیں.یہ بھی ایک احمدی کی شان ہے کہ اس زمانہ کے امام کو پہچان کر ان چیزوں کی طرف مزید توجہ پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ کی صناعی کی طرف ، قدرت کی طرف، اس کی پیدائش کی طرف ایک توجہ پیدا ہوئی.ورنہ علامہ اقبال ایک مشہور شاعر تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے ایک مشکوہ کی نظم لکھی جس کا نام شکوہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے شکل مجاز میں نظر آ.مسلمان بھی تھے ، عالم بھی تھے، بہت پڑھے ہوئے بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی پیدائش کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی پہچان ان کو نہ ہو سکی.لیکن ایک احمدی خاتون جو زمانے کے امام کی پیاری بیٹی تھی انہوں نے ان کی گود میں تربیت پائی تھی، انہوں نے اس کا جواب لکھا کہ مجھے پہاڑوں کی بلندیوں میں دیکھو، مجھے گہری کھائیوں میں بھی دیکھو، مع مجھے دیکھ رفعت کوہ میں، مجھے دیکھ پستی کاہ میں در عدن صفحه 71 نشان حقیقت کی آرزو - مطوعہ ربوہ ) اور ہر چیز اور خدا تعالیٰ کی جو ہر پیدائش ہے، اس میں میں شکل مجاز میں نظر آؤں گا اور تمہیں ہر چیز کو دیکھ کر میری صناعی کو دیکھ کر میری یاد آنی چاہئے.تو یہ ہے ایک احمدی کا طرہ امتیاز جس کو اللہ تعالیٰ کی پہچان ہر چیز کو دیکھ کر پہلے سے زیادہ ہوتی ہے اور ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے.
180 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 10 اپریل 2009 اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آسمان وزمین کی پیدائش میں بھی اگر غور کرو تو ایک نئی شان ہے.دوسرے سیاروں کو تو ابھی ہم نے دُور سے ہی دیکھا ہے اور سائنسدانوں نے کچھ اپنے علم کے مطابق کچھ اندازے لگا کر، کچھ دھندلی سی تصویریں دیکھ کر ہمیں ان کے بارہ میں بتایا لیکن ان کی گہرائی کا ہمیں پتا نہیں لیکن یہ زمین جو ہے، جس میں خدا تعالیٰ نے ہمیں آباد کیا اس زمین میں ہی عجیب عجیب نظارے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کے نظر آتے ہیں.پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی شان اور پھر اس پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیات جو اُس زمانے میں آج سے 15،14 سو سال پہلے عرب کے صحرا میں ایک ایسے انسان پر اتریں جس کو دنیا کا علم نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے اپنی کتاب اتار کر، اپنا کلام اتار کر اسے کامل انسان بنا دیا تھا.اس نے پھر ہمیں بتایا اور پھر یہ بات بے اختیار اسلام کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی سچائی پر ایک یقین قائم کرتی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اُس زمانے میں جب سائنس کو ترقی نہیں تھی، اُس وقت زمین اور آسمان کی پیدائش کے بارے میں بڑے گہرے گہرے راز بتائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان چیزوں کو دیکھ کر جو ایک مؤمن انسان ہے پھر یہ بے اختیار کہتا ہے کہ مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا.سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.اے اللہ تعالیٰ تو نے ساری چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جو جھوٹ نہیں ہیں.پس ہمیں کبھی ایسا نہ بنا جو اس کو جھوٹ سمجھنے والے ہوں ، غلط سمجھنے والے ہوں.اور پھر ہم اس کی وجہ سے تیری عبادت سے بے اعتنائی کرنے والے ہوں.تیری عبادت نہ کرنے والے ہوں اور نیچے پھر تیرے عذاب کے مورد بنیں.پس قرآن شریف جو ہم پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی سائنس کے بارے میں یہ چیز میں اور اپنی پیدائش کے بارہ میں جب ان آیات پر غور کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور مضبوط ہوتا ہے اور اسلام کی سچائی اور زیادہ ہم پر واضح ہوتی ہے.پس ہر احمدی کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی پیدائش کی ہے وہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے وجود کا ایک ثبوت ہے.جولوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے اگر وہ دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی زمین پر ہی بے شمار مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو عقل سے کام لیتے ہیں اولوالالباب فرمایا ہے.پھر اس کے آگے فرماتا ہے الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِم اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اولوالالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جل شانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں.یہ گمان نہ کرنا چاہئے کہ عقل و دانش ایسی چیز ہیں جو یونہی حاصل ہو سکتی ہیں.نہیں بلکہ سچی فراست اور کچی دانش اللہ تعالی کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی، حقیقی معقل اسی کو ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اس سے مدد مانگتا ہے اور اس کی صناعی پر ، اس کی مخلوق پر ، اس کی پیدائش پر غور کرتا ہے.فرمایا کہ اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو.مومن جو ہے وہ بڑا فراست والا ہوتا ہے.کیونکہ وہ الہی نور سے
181 خطبہ جمعہ فرموده 10 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دیکھتا ہے صحیح فراست اور حقیقی دانش جیسا میں نے ابھی کہا کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو.اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو.فکر کرو، سوچو.تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکید میں موجود ہیں.کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پار ساطع ہو جاؤ.جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تمہارے دل سے نکلے گا.اس وقت جب یہ چیزیں ہوں گی کہ تقویٰ کی راہوں پہ قدم مارو.عقل سے کام لو، خدا تعالیٰ کی طرف جھکو.قرآن کریم پر غور و فکر کرو تو تب حقیقت میں رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا کا مطلب سمجھ آئے گا اور پھر دل سے یہ دعا نکلے گی سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ - النار اے اللہ تو پاک ہے.ہماری غلطیوں کو معاف کر ، ہمارے گناہوں کو معاف کر.ہمیں ہمیشہ ان راہوں پر چلا جو تیری رضا کی راہیں ہیں تا کہ ہم آگ کے عذاب سے بچتے رہیں.فرمایا تمہارے دل سے بھی یہ آواز نکلے گی اُس وقت سمجھ آ جائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے.یہ ہے صحیح حقیقت.جب انسان ان باتوں کو سمجھتا ہے تب اللہ تعالیٰ جو صانع حقیقی ہے.جو ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ثبوت تمہارے سامنے آ جائے گا.فرمایا اس وقت سمجھ میں آ جائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تا کہ طرح طرح کے علوم وفنون جو دین کو مدددیتے ہیں ظاہر ہوں“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 41,42 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ جو علوم ہیں یہ بھی دین کی مدد کے لئے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل دی ہے اس کی وجہ سے انسان حاصل کرتا ہے.آج سائنس میں بڑی ترقی ہے.یہ ترقی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے بیان کر دی تھی کہ ایک وقت میں ہوگی اور انسان دنیا میں بھی ہر علم میں ترقی کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.سائنسدانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی جب غور کرتے ہیں تو ان پر بھی ایک دفعہ ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو الہامی کیفیت ہوتی ہے، چاہے وہ اس وقت خدا سے مانگ رہے ہوں یا نہ مانگ رہے ہوں.محنت، توجہ اور شوق ہوتا ہے پھر ایک چیز کی لگن ہوتی ہے اور اس کے لئے پھر لاشعوری طور پر اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگ رہے ہوتے ہیں.اس وقت پھر اللہ تعالیٰ ان کے لئے راستے کھولتا ہے اور ان کو نئے راستے دکھاتا ہے.اللہ کرے کہ ہم صحیح رنگ میں اس کے عبادت گزار بھی بنیں اور اس کی پیدائش کو دیکھ کر اس پر غور کرتے ہوئے اس کے وجود پر ایمان مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 18 مورخہ 1 مئی تا 7 مئی 2009 صفحہ 5 تا صفحه 6)
خطبات مسرور جلد ہفتم 182 (16) خطبہ جمعہ فرموده 17 اپریل 2009 فرموده مورخه 17 اپریل 2009ء بمطابق 17 شہادت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے مختلف آیات میں بعض مضامین بیان فرما کر جن میں مختلف رنگوں میں خدا تعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہر بانیوں کا ذکر ہے اس کو اپنی صفت لطیف کے ساتھ باندھا ہے.ان متفرق آیات اور مضامین کا میں اس وقت کچھ ذکر کروں گا لیکن اس سے پہلے لفظ لطیف کے معنوں کی وضاحت بھی کر دوں.جو بعض لغات میں ہیں یا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں مفسرین نے بیان کی ہیں.اقرب یہ لغت کی کتاب ہے.اس میں اللطیف کا معنے لکھا ہے کہ لطف و مہربانی کرنے والا.یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے بھی ہے اور تب اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اپنے بندوں سے حسن سلوک کرنے والا.اپنی مخلوق کو ان کے منافع.نرمی اور مہربانی سے عطا کر کے ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرنے والا.بار یک در باریک اور مخفی در مخفی امور کو جاننے والا.علامہ قرطبی نے اس لفظ کے معنے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف کرنے سے مراد نہیں اعمال حسنہ کی توفیق بخشا اور گناہوں سے بچائے رکھنا ہے.ملاطفت یعنی حسن سلوک بھی اسی سے نکلا ہے.پھر جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللطيف وہ ہے کہ جس نے ہدایت کے نور سے تیرے دل کو منور کیا اور غذا کے ذریعہ تیرے بدن کی پرورش کی اور آزمائش کے وقت میں تیرے لئے اپنی ولایت رکھی ہے.جب تو شعلوں میں پڑتا ہے تو وہ تیری حفاظت کرتا ہے اور اپنی پناہ کی جنت میں تجھے داخل کرتا ہے.الكُرظی کہتے ہیں کہ لَطِيفٌ بِعِبَادِہ کا مطلب ہے کہ حکم دینے اور محاسبہ کرنے میں بندوں سے بہت نرمی کرنے والا.بعض نے کہا ہے کہ اللطیف سے مراد وہ ہے جو اپنے بندوں کی خوبیاں تو شائع کرتا ہے لیکن ان کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرتا ہے.اور یہی مضمون آنحضرت ﷺ کے اس قول میں بیان ہوا ہے.کہ يَا مَنْ أَظْهَرَ الْجَمِيْلَ وَ سَتَرَ الْقَبِيحَ یعنی اے وہ خدا جو اچھی باتوں کو ظاہر کرنے والا اور نا پسندیدہ چیزوں کی پردہ پوشی کرنے والا ہے.
183 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اپریل 2009 اللطیف کے ایک معنے یہ کئے گئے ہیں کہ جو تھوڑی سی دی ہوئی قربانی کو قبول کرتا ہے مگر بدلہ عظیم الشان دیتا ہے.ایک معنی یہ کئے گئے ہیں کہ لطیف وہ ہے جو اس شخص کے کام سنوارے جس کے سب کام ٹوٹ اور بکھر گئے ہوں اور جو تنگ دست کو خوشحالی عطا کرتا ہے.پھر اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ لطیف وہ ہے جو نا فرمانی کرنے والے کی گرفت کرنے میں جلدی نہیں کرتا اور جو کوئی اس سے امید رکھتا ہے وہ اسے نامراد نہیں رکھتا.بعض نے لطیف کے یہ معنے کئے ہیں کہ وہ جو عارفوں کے اندرونوں میں اپنی ذات کے مشاہدے کے ذریعہ ایک چراغ جلا دیتا ہے اور صراط مستقیم کو ان کا منہاج بنا دیتا ہے اور اپنے نیک سلوک کے موسلا دھار برستے ہوئے بادلوں سے انہیں وسیع انعام عطا کرتا ہے.تفسیر قرطبی نے لکھا ہے کہ خطابی کہتے ہیں کہ لطیف بندوں سے حسن سلوک کرنے والے اس وجود کو کہتے ہیں جوان کے ساتھ ایسے پہلوؤں سے جن کو وہ بندے جانتے ہیں لطف و احسان کا معاملہ کرتا ہے اور ان کے لئے ان کی خیر خواہی کے اسباب ایسی ایسی جگہوں سے پیدا کرتا ہے جس کا وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.بعض علماء کے نزدیک اللطيف وہ ہے جو معاملات کی باریکیوں کو بھی خوب جانتا ہے.اس کے ایک معنی بڑے واضح ہیں کہ باریک بینی سے دیکھنے والا.ان ساری باتوں کا جو خلاصہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ اپنی اس صفت کے تحت ہدایت کے نور سے خود منور کرتا ہے.پھر نمبر 2 یہ کہ وہ اپنی صفت لطیف کے تحت ہماری جسمانی اور روحانی نشو و نما اور پرورش کے سامان کرتا ہے.پھر یہ کہ وہ اپنی صفت کے تحت ہماری آزمائش کے وقت ہما را دوست اور ولی ہوتا ہے.پھر یہ کہ وہ جہنم سے بچاؤ کے طریق ہمیں سکھاتا ہے.نمبر 5 یہ کہ وہ تکالیف کے وقت ہماری حفاظت فرماتا ہے.پھر یہ کہ وہ اپنی صفت لطیف کے تحت ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے.پھر وہ اپنی اس صفت کے تحت ہماری تھوڑی سی قربانیوں کا بہت بڑا اور عظیم اجر دیتا ہے.اور پھر اپنی صفت لطیف کی وجہ سے انسان کو سزا دینے اور پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا.اور اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ اس صفت کے تحت بڑی باریک بینی اور گہرائی سے ہر معاملے پر نظر رکھنے والا ہے.اور یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے صفت لطیف کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے.قرآن کریم میں سورہ انعام کی آیت 104 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَيُدْرِكُ | الابْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ کہ آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے اور وہ بہت باریک بین اور ہمیشہ باخبر رہنے والا ہے.
خطبات مسرور جلد هفتم 184 خطبہ جمعہ فرموده 17 اپریل 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” بصارتیں اور بصیر تیں اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتیں“.(شحنه حق ، روحانی خزائن جلد نمبر 2 صفحہ 398 تمہاری نظریں، تمہارا عقل و شعور اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا.یعنی خدا تعالیٰ کی تلاش میں اگر یہ کوشش ہو کہ وہ ہمیں نظر آ جائے تو یہ ناممکن ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لطیف ہے.وہ ایک ایسا نور ہے جو نظر نہیں آسکتا.ہاں جن پر پڑتا ہے ان کو ایسا روشن کر دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نشانات کا اظہار کرنے والے وجود بن جاتے ہیں اور یہ نو ر سب سے زیادہ انبیاء کو ملتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ کو یہ نور ملا.لیکن جو آنکھوں کے اندھے تھے، جن کی بصارتیں بھی کمزور تھیں، جن کی بصیر تیں بھی کمزور تھیں انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آیا اور وہ آپ کے فیض سے محروم رہے.جو بڑے بڑے عقلمند سمجھے جاتے تھے اور سرداران قوم تھے ان کو تو خدا تعالیٰ کا نور نظر نہ آیا لیکن غریب لوگ جن کی لگن اور کوشش بچی تھی، جو چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا نور ان تک پہنچے انہیں آنحضرت مے میں خدا تعالیٰ کے نور کا پر تو نظر آ گیا.پس خدا تعالیٰ کے نور کے نظر آنے میں کسی دنیاوی عقل کسی دنیاوی تعلیم کسی دنیاوی وجاہت، بادشاہت یا رتبے کی ضرورت نہیں ہے.بلکہ خدا تعالیٰ جو بڑی باریک بینی سے اپنی صفت لطیف کے تحت ہر دل پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس بات سے باخبر ہے کہ نور کی تلاش کرنے والوں کے دل میں اس تلاش کی جو چاہت ہے وہ کچی چاہت ہے تو وہ خود ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ نور اور روشنی جو انبیاء لاتے ہیں اسے نظر آ جاتی ہے اور اس کے لئے روحانیت کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں.چاہے دنیاوی لحاظ سے وہ شخص کچھ بھی حیثیت نہ رکھنے والا ہو.پس اگر خواہش کچی ہو تو اللہ تعالیٰ خود اپنی صفات کے اظہار سے بندے کی ہدایت کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ اپنے نور کا اظہار اپنے انبیاء کے ذریعہ کرتا ہے جو اس کی توحید کے قیام کے لئے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا نور لے کر یہ توحید کی روشنی چاروں طرف پھیلاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہ روشنی آنحضرت ملالہ کے ذریعہ دنیا میں پہنچی کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات کا سب سے زیادہ ادراک انسان کامل کو ہی ہوا اور آپ اس کامل ادراک کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے رنگ میں مکمل طور پر رنگین ہوئے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے پر تو بن گئے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اپنے شعری کلام میں فرمایا.کہ نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے“ اور اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو آپ کی غلامی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس نور سے منور کیا.جیسا کہ آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 185 خطبہ جمعہ فرموده 17 اپریل 2009 آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے جب ذات نور ملا نور پیمبر سے ہمیں سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے پس آج خدا تعالیٰ کا کلام کہ وَ هُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَار انہیں پر پورا ہوتا ہے جو اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کو پانا چاہتے ہیں اور وہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آئے ہوئے زمانے کے امام کو قبول کرتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ اپنے وجود کے ہر روز نئے رنگ میں جلوے دکھاتا ہے اور انہیں دیکھ کر پھر حقیقی تو حید کی پہچان بندے کو ہوتی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آنحضرت نے کی غلامی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے آپ کا وجو دل گیا اور جب وجو دمل گیا تو آپ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ بن گئے اور آنحضرت مے کی غلامی کی وجہ سے آپ بھی کچی تو حید کی پہچان کروانے والے بن گئے.اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں : ” خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراء الوراء ہے.“ ( بہت چھپی ہوئی.بہت دور ہے ).اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ - یعنی بصارتیں اور بصیر تیں اس کو پا نہیں سکتیں اور وہ ان کے انتہا کو جانتا ہے اور ان پر غالب ہے.پس اس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے.کیونکہ تو حید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی بتوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پر ہیز کرے.یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور ان کے ذریعہ سے عجب کی بلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہو سکتی.اور جو شخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحد کہلا سکتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحه 147-148) پس یہ ہے اللہ تعالی کی روشنی حاصل کرنے اور خالص تو حید قائم کرنے کے لئے ایک بندے کی کوشش کہ پہلے اپنے اندر کے جھوٹے معبودوں کو باہر نکالے.کسی کو یہ زعم ہو کہ میں دولت رکھتا ہوں، میں قوم کا لیڈر ہوں اور مسلمان بھی ہوں اس لئے خدا تعالیٰ کو پا لیا، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں تو یہ غلط ہے.اگر کسی کو یہ زعم ہے کہ میں دینی علم رکھنے والا ہوں ، روحانیت میں میں بڑا پہنچا ہوا ہوں اور ایک قوم میرے پیچھے ہے اور اس وجہ سے مجھے خدا تعالیٰ کا فہم و ادراک حاصل ہو گیا ہے تو یہ بھی غلط ہے.کیونکہ ان سب باتوں کے پیچھے ایک چھپا ہوا تکبر ہے جس کی وجہ سے کوئی
186 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 17 اپریل 2009 بھی کام جو ہے وہ نیک نیتی سے نہیں کیا جاتا، چاہے خدا تعالیٰ کے نام پر نظام عدل قائم کرنے کی کوشش کی جائے یا دین کو پھیلانے کی کوشش کی جائے یا دین کو پھیلانے کا دعوی کیا جائے یا شریعت قائم کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ دلوں کے تکبر دور نہیں ہوئے.اپنے اندر باطل معبودوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے اور اس وجہ سے زمانے کے امام کا بھی انکار ہے.اس لئے راستے میں حائل پردے خدا تعالیٰ کے نور کے پہنچنے میں روک بنے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے.جہاں وہ ایسا نور ہے جو پاک دلوں میں داخل ہوتا ہے وہاں وہ باریک بینی سے دلوں کے اندرونے دیکھ کر ہر وقت با خبر بھی رہتا ہے کہ کس کے دل میں کیا ہے.اور جس کا دل باطل معبودوں سے بھرا ہوا ہو، جن آنکھوں میں دنیاوی ہوا و ہوس ہو وہاں خدا تعالیٰ کا نور نہیں پہنچتا.پس اگر حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان وَ هُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ یعنی وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے، سے فیض پانا ہے تو اپنے دلوں کو پاک کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق دیتا ر ہے.پھر ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمُ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِى إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لَّمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (يوسف: 101) یعنی اور اس نے (حضرت یوسف کا ذکر ہے ) اپنے والدین کو عزت کے ساتھ اپنے تخت پر بٹھایا اور وہ سب اس کی خاطر سجدہ ریز ہو گئے اور اس نے کہا اے میرے باپ ! یہ تعبیر تھی میری پہلے سے دیکھی ہوئی رؤیا کی.میرے رب نے اسے یقینا سچ کر دکھایا اور مجھے پہ بہت احسان کیا جب اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تمہیں صحراء سے لے آیا ، بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان رخنہ ڈال دیا تھا.یقیناً میرا رب جس کے لئے چاہے بہت لطف و احسان کرنے والا ہے.بے شک وہی دائمی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے.یہ سورہ یوسف کی آیت 101 ہے.اس آیت میں حضرت یوسف اللہ تعالیٰ کی صفت لطیف کے تحت مہربانیوں اور احسانوں کا ذکر کر رہے ہیں.آپ کے پاک دل کی وجہ سے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ نے آپ کو رویاء صادقہ دکھا ئیں اور آج جب یہ تمام خاندان اکٹھا ہوا تو بچپن کی رؤیا جو آج پوری ہو رہی تھی آپ کو یاد آ گئی.باوجود بھائیوں کے ظلموں کے اللہ تعالیٰ آزمائش اور امتحان کے دور میں آپ کا ولی اور دوست رہا.ہمیشہ آپ کی حفاظت کی اور آج دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے پر بھی ان کی تھوڑی بہت جو قربانی تھی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت لطیف کے تحت اس کا بے انتہا اجر دیا.اور پھر نہ صرف حضرت یوسف کی قربانی کا پھل ان کو ملا بلکہ حضرت یعقوب کی قربانی کا پھل بھی ان کو ملا اور آپ کو اللہ تعالیٰ
187 خطبہ جمعہ فرموده 17 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم نے اتنا عرصہ زندہ رکھا اور بیٹے کا وہ دنیا وی مرتبہ بھی دکھایا.اور پھر یہ مضمون اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ان معنوں کی طرف بھی پھرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر آزمائش کے وقت ولی ہوتا ہے.باپ بیٹے دونوں کا ولی رہا اور تکالیف سے نکالتا رہا.صبر اور ہمت اور حوصلے کی توفیق دیتا رہا.پھر اللہ کے ان دو مقرب باپ بیٹے کی وجہ سے باقی بیٹوں کی اصلاح کے سامان پیدا کر دیئے.اس سے یہ مضمون بھی کھلتا ہے کہ ایک دوسرے کے لئے دعاؤں سے اصلاح کے راستے کھلتے ہیں.جتنا قریبی تعلق ہوگا یا تعلق کا اظہار ہو گا دع زیادہ ہوگی.اس لئے آنحضرت ﷺ نے اپنی قوم کی اصلاح کے لئے بہت دعائیں کیں.جب بھی آپ کو کبھی کسی دوسرے قبیلے کے متعلق شکایت ہوتی تھی کہ مخالفت بہت کرتے ہیں، ان کے لئے بد دعا کریں تو آپ ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے اور امت کو بھی تلقین کی کہ ہدایت کے لئے دعا کیا کرو.پس آج امت مسلمہ کے لئے ہمیں بھی دعاؤں کی ضرورت ہے.دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو بھی صاف کرے اور وہ حقیقت پہنچانے کی کوشش کریں تا کہ خدا تعالیٰ کا نور ان کی بصارتوں تک بھی پہنچے.پھر ایک آیت سورۃ حج کی 64 ویں آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ - ( الج:64 ).کیا تو نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو زمین اس سے سرسبز ہو جاتی ہے.یقینا اللہ بہت باریک بین اور ہمیشہ باخبر رہنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس صفت کے تحت ایک مضمون یہ بیان فرمایا کہ زمینی اور روحانی زندگی دونوں سے متعلق جو چیز یا درکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی پانی سے ملتی ہے اور روحانی زندگی پانے کے لئے تمام قوتوں کے مالک خدا تعالیٰ کی توحید کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.آسمان سے پانی اتارنے کی یہ مثال اس لئے دی کہ جس طرح یہ بارش کا پانی آسمان سے اترتا ہے اور زمین کو سرسبز کر دیتا ہے اسی طرح روحانی پانی بھی ہے.جس طرح جسمانی پانی زمین پر پڑتا ہے اور اُسے سرسبز کرتا ہے اسی طرح روحانی پانی بھی جب زمین پر اترتا ہے تو لوگوں کے لئے روحانیت پیدا کرنے کا سامان پیدا کرتا ہے.آسمان سے بادل کا پانی جب زمین پر گرتا ہے تو چٹانوں اور پتھروں اور ریگستانوں میں تو اس طرح سرسبزی نہیں آتی.اسی طرح جو روحانی پانی جو ہے وہ بھی انہیں کو سر سبز کرتا ہے ، انہی صاف دلوں کو زرخیز کرتا ہے جن میں نیکی کی کچھ مق ہوتی ہے.تو یہاں ایک بات کی اور وضاحت ہوگئی کہ پانی جو زندگی کی علامت ہے، جب یہ گرتا ہے تو جہاں زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے وہاں چرند پرند حتی کہ تمام کیڑے مکوڑے ( حشرات الارض) جو ہیں وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.ان کی زندگی بھی اسی پر منحصر ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا چٹانوں اور ریگستانوں میں اس طرح زندگی پیدا نہیں ہوتی.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے علیحدہ زندگی کا نظام رکھا ہوا
188 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 17 اپریل 2009 ہے.گو وہ بھی اس پانی سے تھوڑا بہت فائدہ اٹھاتے ہیں.لیکن وہ ہریالی اور سرسبزی پیدا نہیں ہوتی جو زرخیز زمینوں میں ہوتی ہے.لیکن جو زندگی وہاں موجود ہے اس کے لئے بہر حال اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے جب درخت پھوٹتا ہے تو اس میں سے نئی پوٹ نکلتی ہے تو اس پوٹ سے پھر نئے پتے پیدا ہوتے ہیں، پھول پیدا ہوتے ہیں.اس کا ثمر آگے بنتا ہے ، پھل پیدا ہوتا ہے.اسی طرح روحانی پانی کے آنے سے جو نیک دل ہیں وہ اس طرح شمر آور ہوتے ہیں.جو مخالفین ہیں وہ بھی اپنی مخالفت کی وجہ سے اس روحانی پانی سے دنیاوی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں.ایک طرف سے سبزی جہاں انسان کو فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہے وہاں دوسرے جانوروں اور حشرات کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے.اسی طرح جہاں روحانی سرسبزی زرخیز زمینوں کو فائدہ پہنچارہی ہوتی ہے وہاں جو بعض پتھر دل لوگ ہیں ان کو بھی اس روحانی پانی آنے کی وجہ سے فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے لیکن وہ فائدہ دنیاوی فائدہ ہوتا ہے.اگر ہم جائزہ لیں تو جہاں جہاں ہماری جماعتیں پنپ رہی ہیں وہاں مخالفین بھی سرگرم ہیں.سیاسی فائدے بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور مالی فائدے بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں گویا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے ان کے لئے روٹی کے سامان بھی پیدا ہو گئے ہیں، ان کو دنیاوی فائدے پہنچنے شروع ہو گئے ہیں.بہر حال یہ ایک فائدہ ہے جو ہر جگہ پہنچ رہا ہوتا ہے.اس کا اظہار بھی بعض دفعہ بعض لوگ کر دیتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ تو جب انسانوں میں مُردنی کے آثار دیکھتا ہے تو آسمانی پانی اتارتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ”میں وہ پانی ہوں جو آسمان سے آیا وقت پر.پس جب خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :42) کہ ہر طرف خشکی اور تری میں فساد برپا ہے تو نبیوں کے ذریعہ سے روحانی پانی بھیجتا ہے اور انتہائی تاریک زمانے میں آنحضرت ﷺ کو بھیج کر آپ کے ذریعہ سے وہ کامل دین اور شریعت اتاری جس نے ان لوگوں کی روحوں کو تازہ کیا اور سیراب کیا جنہوں نے فائدہ اٹھانا تھا.اور پھر آنحضرت مے کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہزار سال کے تاریک زمانے کے بعد جب دنیا میں دوبارہ فساد کی حالت پیدا ہوئی تو آپ کے غلام صادق کو بھیجا تا کہ جس طرح پہلے يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الروم 51) کا نظارہ دکھایا تھا اب پھر دکھائے اور ان دلوں کو تقویت پہنچائے جو اپنے دلوں میں نور حاصل کرنے کی کچی چاہت اور تڑپ رکھتے ہیں.یہاں لطیف اور خبیر کے لفظ استعمال کر کے یہ بھی بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی باریک بین نظر جانتی ہے کہ کن لوگوں کو سچی تلاش ہے جن کے لئے روحانی پانی سے فیض اٹھانا مقدر ہے.پھر اللہ تعالیٰ سورہ شوری کی آیت میں فرماتا ہے.کہ اللهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ.(الشوری: 20) کہ اللہ اپنے بندوں کے حق میں نرمی کا سلوک کرنے والا ہے اور جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے اور وہی بہت طاقتور اور کامل غلبے والا ہے.
189 خطبہ جمعہ فرموده 17 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ، اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت میں فرمایا تھا کہ خود نظروں تک پہنچتا ہے اور پھر سورہ حج کی آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا تا کہ زمین سرسبز ہو.یعنی روحانی پانی.اس جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اور انہیں ہر طرح کے رزق دیتا ہے لیکن فائدے میں وہی ہیں جو صرف دنیاوی رزق کی بجائے خدا تعالیٰ کے روحانی رزق کی بھی تلاش کریں.جو روحانی رزق کی تلاش میں ہوں گے ان کو مادی رزق تو ملے گا ہی.اس نے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ان کو ملنا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے وَيَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ :(الطلاق: 4 ) اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اس کو خیال بھی نہیں ہو گا.تو مومن سے تو یہ وعدہ ہے.پس جو روحانی رزق کی تلاش میں رہیں انہیں مادی رزق تو ملتا ہی رہے گا.لیکن اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کرتے ہوئے ، نرمی کا سلوک کرتے ہوئے ، غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرتے ہوئے اپنے نور کی پہچان کرنے کی بھی اسے توفیق دے گا جو اس کے روحانی پانی کی تلاش میں ہوگا.آخر میں اس آیت میں قوی اور عزیز کہہ کر اس بات کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ اگر با وجود اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے اُس کی طرف توجہ نہ کی تو یا د رکھو کہ وہ قوی ہے.طاقتور ہے اور تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہے.اس کی پکڑ بھی بہت سخت ہوتی ہے اور غلبہ اللہ تعالیٰ کا اور اس کے بھیجے ہوؤں کا ہی ہونا ہے.اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء سے یہ وعدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی یہ وعدہ ہے.مخالفتیں کبھی بھی اس نو کو بجھا نہیں سکتیں.جو جماعت اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نے قائم فرمائی ہے اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا کہ یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے اور اہل تقدیر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی غالب رہیں گے.پس دنیا والوں کی بقا اسی میں ہے کہ اس کی صفت لطیف سے فیض پانے کے لئے کوشش کریں اور قومی اور لطیف خدا کے شیر کی جماعت کی مخالفت میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم نہ کریں.آج کل پاکستان میں ایک تو عمومی حالات خراب ہیں اس لئے ان کے لئے بھی دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں کہ پورے ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں اور دنیا کی نظر بھی اب اس طرح اس طرف پڑ رہی ہے کہ جس طرح سب سے زیادہ دہشت گر دی اس وقت پاکستان میں ہی ہے.لیکن بہر حال جو خبریں آتی ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ شدید فساد کی حالت سارے ملک میں طاری ہے اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے.نہ احمدی اور نہ غیر احمدی.لیکن احمد یوں کے لئے خاص طور پر اس لئے ( دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں ) کہ ایک تو عمومی ملکی حالات کی وجہ سے ایک پاکستانی ہونے کی وجہ سے احمدی متاثر ہو رہے ہیں.دوسرے احمدی بحیثیت احمدی بھی آج کل بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں.مخالفین کی آجکل احمدیوں پر بہت زیادہ نظر ہے، نیا ابال آیا ہوا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے اور جب موقع ملتا ہے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، کوئی دقیقہ بھی نہیں چھوڑا جاتا.
190 خطبه جمعه فرموده 17 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم گزشتہ دنوں جیسا کہ سب کو پتہ ہے ، چار چھوٹی عمر کے 14-15 سال کی عمر کے بچے ایک بھیانک قسم کے الزام میں پکڑ لئے گئے اور ابھی تک ان کی ضمانت کی کوئی کوشش بھی بار آور نہیں ہو رہی.اسی طرح اور بہت سارے اسیران ہیں.غلط قسم کے گھناؤنے الزام لگا کر، ہتک رسول کے نعوذ باللہ الزام لگا کر احمدیوں کو پکڑا جاتا ہے اور پھر اور بھی بعض خطر ناک سازشیں جماعت کے خلاف ہو رہی ہیں اور اس میں بعض جگہ حکومت بھی شامل ہے.گزشتہ دنوں بادشاہی مسجد میں ختم نبوت کانفرنس ہوئی.اس میں اوقاف کے وفاقی وزیر بھی شامل ہوئے مولانا فضل الرحمن اور بعض اور لوگ بھی تھے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے اور جماعت کے خلاف اور بہت ساری بیہودہ گوئیاں کی گئیں.تو اب حکومت بھی مولویوں کے ساتھ مل کر سازشیں کر رہی ہے اور جو شدت پسند ہیں وہ تو کر ہی رہے ہیں.بہر حال پاکستان میں احمدیوں کے حالات آج کل بہت زیادہ خطرناک صورت حال اختیار کر رہے ہیں اس لئے بہت دعا ئیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کی جان اور مال کو محفوظ رکھے اور ہر شر اور فتنہ سے ہر ایک کو بچائے.پاکستان کے احمدی پہلے بھی اپنے حالات دیکھ کر دعاؤں کی طرف توجہ کرتے ہیں لیکن اب پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ کریں اور دنیا کے احمدی بھی اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو ہر لحاظ سے اپنی حفاظت میں رکھے.اسی طرح ہندوستان میں بھی بعض جگہوں پر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ابال اٹھتا رہتا ہے.پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں.انڈونیشیا میں بھی اسی طرح کی صورت حال کبھی نہ کبھی پیدا ہوتی رہتی ہے.ان دونوں ملکوں میں آج کل ملکی انتخابات بھی ہو رہے ہیں تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں انصاف کرنے والی اور اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی حکومتیں لے کر آئے.اسی طرح کرغیزستان اور قازقستان وغیرہ میں بھی جو پہلے رشین سٹینٹس تھیں وہاں کے بعض حکومتی ادارے سرکاری مولویوں کی انگیخت پر احمدیوں کو تنگ کر رہے ہیں.باقاعدہ ایک مہم چلائی جا رہی ہے.ان کے لئے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ تمام دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو اپنے فضل سے نوازتا رہے اور اس کی صفت لطیف کا ہر فیض انہیں پہنچتا ہے یا پہنچا تا ر ہے اور احمدی بھی خاص طور پر دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں.اللہ کرے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو محفوظ رکھے.الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 19 مورخہ 8 مئی تا 14 مئی 2009ء صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد ہفتم 191 (17) خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اپریل 2009 فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2009ء بمطابق 24 / شہادت 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایک لفظ متعدد بار بعض اوقات سنتے ہیں اور استعمال بھی کرتے ہیں اور وہ لفظ ہے ” نفع“.کاروباری لوگوں کے کاروبار کا مدار ہی اس لفظ پر ہوتا ہے.چاہے وہ ایک چھوٹا سا چھا بڑی لگا کر اپنا سامان بیچنے والا شخص ہو یا ملٹی ملینٹر (Multi Millionaire) ہو جس کے کاروبار دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.ہمیشہ یہ لوگ ایسی سوچ میں رہتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے.اس کے لئے وہ جائز ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں اور اکثر اوقات آج کل کی دنیا میں نا جائز ذرائع بھی استعمال ہو رہے ہوتے ہیں.اور اسی طرح ایک عام آدمی ہے جس کا کاروبار سے تو کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن وہ بھی اپنے مفاد کی سوچ رہا ہوتا ہے کہ کس طرح وہ کسی بھی چیز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے اور یہی چیز اس کے لئے نفع حاصل کرنا ہے.یہ تو دنیاوی معاملات میں اس لفظ کا استعمال ہے لیکن دینی اور روحانی دنیا میں بھی اس کا بہت استعمال ہوتا ہے.اس تعلق میں احادیث اور قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کچھ بیان کروں گا.یہ لفظ عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے.اس لئے اس کے لغوی معنی پہلے بیان کرتا ہوں.نَفَع کا مطلب ہے کسی چیز کا انسان کو فائدہ پہنچانا کسی چیز کا انسان کو میسر آنا کسی چیز کا قابل استعمال یا قابل فائدہ ہونا.لین (Lane) ایک لغت کی کتاب ہے.یہ اس میں لکھا ہے.پھر لین (Lane) میں ہی نَفْعَهُ - (ف کی شد کے ساتھ ) لکھا گیا ہے.اس کا مطلب ہے کسی شخص کا کسی کے لئے فائدہ کا سبب بنا اور بعض احادیث کے مطابق ایک مومن کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے فائدے کا موجب بنتا ہے.پھر مفردات میں لکھا ہے کہ النفعُ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے.یا وسیلہ بنایا جائے.پس نفع خیر کا نام ہے.پھر لین (Lane) میں ہی اس کا یہ مطلب بھی لکھا ہے کہ کسی شخص کے مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ.اور لسان العرب ایک لغت کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ النَّافِع اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہے.اس کا
خطبات مسرور جلد هفتم 192 خطبہ جمعہ فرمود ه 24 اپریل 2009 مطلب ہے وہ ذات جو اپنی مخلوق میں سے جس تک چاہتی ہے فائدہ کو پہنچاتی ہے.کیونکہ وہ ہر نفع اور نقصان اور ہر خیر اور شر کا پیدا کرنے والا ہے.اس لغوی وضاحت کے بعد اب میں احادیث کی روشنی میں یہ بیان کروں گا کہ ایک مومن پر اس لفظ کو کس طرح اطلاق پانا چاہئے.ایک مومن ایک دنیا دار کی طرح صرف اپنے فائدہ کی نہیں سوچتا بلکہ دوسروں کا فائدہ بھی سوچتا ہے اور اس کو سوچنا چاہئے.قرآن کریم میں بھی ہمیں یہی تعلیم ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات جواحادیث سے ہمیں ملے ہیں وہ بھی یہی بیان کرتے ہیں.اور اس فائدہ پہنچانے کے مختلف طریقے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں بتائے ہیں.اس بارہ میں بعض احادیث پیش کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچانے کے بارے میں آنحضرت علیہ کے کیا ارشادات ہیں.سعید بن ابی بُردہ نے اپنے باپ سے، ان کے باپ نے ان کے دادا سے ( حضرت ابو موسیٰ اشعری ان کے دادا تھے ) انہوں نے نبی کریم اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے.لوگوں نے کہا: یا نبی اللہ ! جوشخص طاقت نہ رکھے؟ آپ نے فرمایا وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے.خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی دے.انہوں نے کہا اگر یہ بھی نہ ہو سکے؟ آپ نے فرمایا حاجتمند ، مصیبت زدہ کی مدد کرے.انہوں نے کہا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ؟ آپ نے فرمایا: چاہئے کہ اچھی بات پر عمل کرے اور بدی سے باز ر ہے.یہی اس کے لئے صدقہ ہے.( صحیح بخاری کتاب الادب.باب کل معروف صدقۃ حدیث (6022 پھر اسی طرح ایک حدیث ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے راستے میں درخت کی ایک شاخ پڑی دیکھی تو اس نے کہا اللہ کی قسم ہمیں اس کو ضرور ہٹا دوں گا تا کہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچے.اس پر اسے جنت میں داخل کر دیا گیا.صحیح مسلم.کتاب البر والصلۃ باب فضل از التۃ الاذى عن الطریق.حدیث نمبر 6565 ) پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جس نے ایسے علم کو چھپایا جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں کے معاملات اور دین کے امور میں نفع پہنچا سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے روز آگ کی لگام پہنائے گا.(سنن ابن ماجہ.باب من سئل عن علم فکتمہ حدیث نمبر 265) پس ایک مومن کے لئے اپنا مال بڑھانے اور مالی مفاد حاصل کرنے میں ہی نفع نہیں ہے بلکہ اصل منافع وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے سے ملتا ہے.جو دائمی ہے اور جس کے کھاتے اگلے جہان میں کھلتے ہیں.ان
193 خطبہ جمعہ فرمود ه 24 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم احادیث میں اس منافع کے حصول کے لئے جو سب سے پہلی چیز آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی وہ صدقہ ہے.جو ضرورت مندوں، غریبوں ، مفلسوں، ناداروں کے بھوک اور نگ کو ختم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ ایک بکری ذبح کی اور اس کا گوشت غرباء میں اور عزیزوں میں تقسیم کر دیا اور کچھ گھر کے لئے بھی رکھ لیا.تو آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ بکری ذبح کی تھی.اس کا کس قدرت گوشت بیچ گیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ میں نے تمام گوشت تو تقسیم کر دیا، صرف ایک دستی بچی ہے.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سوائے اس دستی کے گوشت کے تمام گوشت بچ گیا.ترندی ابواب صفۃ القیامۃ باب 98/33 حدیث (2470 کیونکہ اس کا ثواب ہے.جولوگوں کے فائدے کے لئے خرچ کیا.اسی پر اصل منافع ملنا ہے اور جو منافع ہے وہی بچت ہے.پس یہ تو اس انسان کامل کا نمونہ تھا جس کو دنیاوی چیزوں سے ذرا بھی رغبت نہیں تھی اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کا اصل مقصد تھا.ہر انسان اس مقام تک تو نہیں پہنچ سکتا.لیکن یہ اسوہ قائم کر کے ہمیں یہ سبق دیا کہ ہمیشہ غریبوں کا خیال بھی تمہارے پیش نظر رہنا چاہئے.کیونکہ حقیقی منافع وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے اور اس بات کی اتنی اہمیت آپ نے بیان فرمائی کہ جب صحابہ نے پوچھا کہ اگر صدقے کی توفیق نہ ہو تو کیا کریں.تو فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرو اور کماؤ.جس سے تمہیں بھی فائدہ ہو، قوم کو بھی فائدہ ہو.قوم پر بوجھ نہ بنو.تم اگر کماؤ گے تو ایک تو قوم پر بوجھ نہیں بنو گے.دوسرے تم لینے والا ہاتھ نہیں بنو گے بلکہ دینے والا ہاتھ بنو گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے.یہاں مغربی ممالک میں جو حکومت سے سوشل الاؤنس لیتے ہیں انہیں بھی اس بات پر سوچنا چاہئے کہ جس حد تک کام کر کے چاہے کسی بھی قسم کا کام ہو ( بعض دفعہ اپنی تعلیم کے مطابق کام نہیں مانتا تو جو بھی کام ملے وہ کام کر کے ) کوئی جتنا بھی کما سکتا ہو اس کو کمانا چاہئے اور حکومت کے اخراجات کے بوجھ کو کم کرنا چاہئے.اور ایک احمدی کے لئے تو یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے حکومت سے کسی بھی قسم کا الا ونس وصول کرے.اس قسم کی رقم کا حاصل کرنا نفع کا سودا نہیں ہے بلکہ سراسر نقصان کا سودا ہے.اسی طرح پاکستان ، ہندوستان اور دوسرے غریب ممالک ہیں ان میں بھی ایک احمدی کو حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ لینے والا ہاتھ نہ بنے بلکہ دینے والا ہاتھ بنے.پھر صحابہ نے جب پوچھا کہ اگر ایسی کوئی صورت ہی نہ بنتی ہو جس سے کوئی کمائی کر سکیں.کسی بھی قسم کا کام نہیں ملتا اور اگر کچھ ملا تو مشکل سے اپنا گزارا ہوا اور صدقہ دینے کا تو سوال ہی نہیں تو پھر ایسی صورت میں کیا کریں؟.اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوسروں کی مدد کے مختلف ذرائع ہیں وہ اختیار کروان ذرائع کو استعمال کرو اور کسی حاجتمند کی ، ضرورت مند کی کسی بھی طرح مدد کر دو، کوئی خدمت کر دو.
194 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اس طرح کی مدد کی بھی ایک اعلیٰ ترین مثال آنحضرت ﷺ نے قائم فرمائی.ایک بڑھیا جسے آپ کے خلاف خوب بھڑ کایا گیا تھا جب نئی نئی شہر میں آئی تھی تو اس کا سامان اٹھا کر اسے منزل مقصود تک آپ نے پہنچایا.وہ آپ کو جانتی نہیں تھی کہ آپ کون ہیں؟ اس نے انجانے میں آپ کو بہت کچھ کہا.آپ سنتے رہے لیکن آپ نے اظہار نہیں کیا.اور منزل پر پہنچ کر جب بتایا کہ وہ میں ہی ہوں جس سے بچنے کا تمہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ اس جادوگر سے بچ کے رہنا تو بے اختیار اس بڑھیا کے منہ سے نکلا کہ پھر مجھ پر تو تمہارا جادو چل گیا.تو کسی بھی رنگ میں کسی کی تکلیف دور کر کے اسے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا یہ بھی صدقہ جتنا ہی ثواب دیتا ہے اور پھر جب صحابہ نے کہا کہ اگر یہ بھی نہ ہو سکے، کوئی بالکل ہی معذور ہو تو فرمایا کہ بے شمار نیکیاں ہیں جن کا خدا تعالیٰ نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بجالاؤ ، ان پر عمل کرو.یہی تمہارے لئے نفع رساں ہے.اور پھر جو برائیاں ہیں ان سے بچو تو یہ تو ہر غریب سے غریب شخص بھی کر سکتا ہے کہ نیکیوں کو بجالائے اور برائیوں سے بچے.اس کے لئے تو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا.اس کے لئے تو جسمانی طاقت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے.اب دیکھیں کہ ہمارے پیارے خدا نے چھوٹی سی نیکی کا کتنا اجر رکھا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے اس کی اطلاع ہمیں دی.اس بارہ میں بھی ایک حدیث میں ہم نے سن لیا کہ مومنوں کے راستے کی تکلیف دور کرنے کے لئے ، راستے سے درخت کی شاخ ہٹانے کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جنت میں داخل کر دیا.(سنن ابن ماجہ کتاب الادب.باب اماطة الاذى من الطریق حدیث 3682) پس یہ کس قدر منافع بخش سودے ہیں کہ نیکیاں کرنے کے اجر میں اللہ تعالیٰ بے انتہا دیتا ہے.انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کس حد تک اللہ تعالیٰ اسے نوازتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں، بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک ترک شر دوسرا افاضہ خیر.ایک شر کو چھوڑ نا دوسرے خیر سے فائدہ اٹھانا.ترک شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا جب تک اس کے ساتھ افاضہ خیر نہ ہو.یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر ایمان ہو اور ان کا علم ہو.جب تک یہ بات نہ ہو انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا.فرمایا کہ دوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے.بادشاہوں کے رُعب اور تعزیرات ہند سے بھی تو ایک حد تک ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے.پھر کیوں احکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے“.یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم ہو تو اس کے احکامات پر عمل ہوگا.دوسروں کو نفع پہنچانا تو دور کی بات ہے بعض لوگ
195 خطبہ جمعہ فرمود ه 24 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایسے ہیں، اتنے دلیر ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو اوامر و نواہی مقرر کئے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں دیتے اور بڑی دلیری سے اُن باتوں کو کرتے ہیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے.جبکہ ایک دنیا وی حکومت جو ہے اس سے ڈرتے ہیں.تو فرمایا کہ ” بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے پھر کیوں احکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟ بجز اس کے کہ اس پر ایمان نہیں ہے؟ یہی ایک باعث ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 466 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر دوسروں کو اپنے علم سے فائدہ پہنچانے کا بھی حکم ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر علم ہے چاہے وہ دنیا وی علم ہے یا دینی علم ہے، اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچاؤ گے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے ایک نفع مند اور فائدہ بخش سودا کر رہے ہو گے.اور جو علم خدا تعالیٰ نے دیا ہے اگر اسے چھپائے رکھو گے کہ اگر یہ بات میں نے کہیں دوسرے کو بتادی تو اس کے علم میں بھی اضافہ نہ ہو جائے تو آنحضرت ﷺ نے ایسے شخص کو بڑا انذار فرمایا ہے اور اپنی امت کو نصیحت فرمائی کہ اس بات سے ہمیشہ بچو بلکہ ان سے بچنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے بعض دعا ئیں بھی ہمیں سکھا ئیں.آپ جو انسان کامل تھے جن کا ایک ایک لمحہ اور سانس دوسروں کے فائدہ کے لئے وقف تھا.آپ جب صحابہ کے سامنے یہ دعائیں کرتے تھے تو اصل میں انہیں سکھاتے تھے کہ ہمیشہ یہ دعائیں مانگو اور امت میں ان کو رائج کرو اور کرتے چلے جاؤ کہ اصل منافع اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.ان دعاؤں میں سے دو دعا ئیں میں اس وقت پیش کرتا ہوں.حضرت عبداللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں اُس دل سے جو نہ ڈرے اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے اور اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس علم سے جو فائدہ نہ دے.میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں.(سنن الترمذی.کتاب الدعوات.باب 68/68 - حدیث نمبر 3482) پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم نے جب صبح کی نماز ادا کرتے تو سلام پھیرنے کے بعد یہ دعا کرتے کہ اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَيِّبًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلا کہ اے اللہ میں تجھ سے ایسا علم مانگتا ہوں جو نفع رساں ہو.ایسا رزق جو طیب ہو اور ایسا عمل جو قبولیت کے لائق ہو.( سنن ابن ماجہ کتاب الصلوۃ والستة - باب ما یقال بعد تسلیم - حدیث نمبر (925) پس اپنے آپ کو نافع وجود بنانے کے لئے ، نیک اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے.پھر خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو شیطان کے بہکاوے میں آنے سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اس وقت
196 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد هفتم شامل حال ہوتی ہے جب اس کے محبوب ترین بندے کے وسیلے سے اس سے دعائیں مانگی جائیں اور یہ اس وقت ہو گا جب ہم آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہوں گے اور جب یہ ہو گا تو پھر ہی ہمارا عمل منافع بخش عمل کہلائے گا.ایک دعا جو آنحضرت ﷺ نے سکھائی وہ یہ ہے.حضرت عبداللہ بن یزید الا انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی دعا میں یہ الفاظ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس شخص کی محبت عطا کر جس کی محبت مجھے تیرے حضور نفع دے.اے میرے اللہ ! میری پسندیدہ چیزوں میں سے جو تو نے مجھے عطا کی ہیں ان میں سے جو تجھے پسند ہیں ان کو میری قوت کا ذریعہ بنا.اے میرے اللہ ! میری پسندیدہ چیزوں میں سے جو تو نے مجھ سے دور رکھی ہیں تو ان سے مجھے فراغت عطا کر اور وہ چیزیں میری محبوب بنا جو تجھے پسند ہیں.(سنن الترمذی.ابواب الدعوات.باب 73/74 حدیث نمبر 3491) خدا تعالیٰ کو دنیا میں آنحضرت ﷺ سے زیادہ تو کوئی محبوب نہیں.اس لئے ہمیشہ آپ کے وسیلے سے جیسا کہ میں نے کہا، دعامانگنی چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے وہ ہمارا محبوب بن جائے اور اس ذریعہ سے ہمیں بھی وہ فیض حاصل ہوتے رہیں جس کے قائم کرنے کے لئے ، جس کے پھیلانے کے لئے آنحضرت ملی ہے اس دنیا میں تشریف لائے تھے.انسان کے نفع رساں ہونے کے لئے قرآن کریم کے اس ارشاد کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( آل عمران : 93) کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے.اسی واسطے علم تعبیر الرویا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے.یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: 193) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوق خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے.یعنی اپنے ہم قوم ، اپنے ہم وطن انسانوں کی اور مخلوق خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے.جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا.جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت میں لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون ( آل عمران : 93) میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.فرمایا کہ پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے.محك كا مطلب کسوٹی یا معیار ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 367-368 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
197 خطبہ جمعہ فرمود ه 24 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم جیسا کہ احادیث میں بھی دوسروں کو نفع پہنچانے کے لئے صدقہ کا حکم ہے اس پر اسی وقت عمل ہو سکتا ہے جب قربانی اور ایثار کی روح بھی انسان کے اندر ہو اور وہ حقیقی رنگ میں اس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ملے سے محبت ہو اور اسی کے حصول کے لئے یہ دعا جو میں نے اس سے پہلے پڑھی ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے راہنمائی فرمائی ہے کہ میری محبت تلاش کرو.نفع کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ النَّافِع اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور وہی ہے جو اپنی مخلوق میں سے جسے جس حد تک چاہتا ہے فائدہ اور نفع پہنچاتا ہے.وہی ہے جو نفع اور خیر کا پیدا کرنے والا ہے.پس انسان بھی اس وقت تک نفع حاصل کرنے والا اور نفع پہنچانے والا بن سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مرضی بھی شامل حال ہو.اس لئے جب آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو یہ تلقین فرمائی کہ تم نفع رساں وجود بنو تو ساتھ ہی اپنے عمل سے بھی اور نصیحت فرماتے ہوئے بھی یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ہی مدد چاہتے ہوئے نافع وجود بننے کی کوشش کرو کیونکہ حقیقی ذات، نافع ذات جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس کا رنگ اس کے بندے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اپنے پر چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی اصول بیان فرمایا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ حقیقی مومن کو حقیقی نفع میری ذات سے ہی مل سکتا ہے.اس لئے میرے آگے جھکو اور ہرلمحہ مجھے یا درکھو اور مجھے پکارو.قرآن کریم میں متعد دجگہ پر یہ مضمون بیان ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَالَ اَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا (الانبیاء :67) اس نے کہا کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں ذرا بھر فائدہ پہنچا سکتا ہے وَلَا يَضُرُّكُمُ (الانبیاء :67) او نہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فائدہ دینے والی ہے.بعض شرک تو ظاہری ہوتے ہیں لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں ، شرک کرتے ہیں.جو مشرکین تھے وہ اُس زمانے میں بھی کیا کرتے تھے.آج کل بھی بتوں کی پوجا کرنے والے ہیں جو خود انہوں نے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں، جو نہ ہی کسی قسم کا نفع دے سکتے ہیں ، نہ کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں.اور یہ شرک جو ظاہری شرک ہے، یہ ہر ایک کو نظر آ رہا ہوتا ہے.بعض مخفی شرک بھی ہوتے ہیں.کسی مشکل وقت میں دنیا وی وسائل کی طرف نظر رکھنا.دنیاوی اسباب کو ضرورت سے زیادہ توجہ دینا اور تلاش کرنا.افسروں کی بے جا خوشامد کرنا حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو دنیاوی اسباب جو ہیں یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے.ایک شخص نے کسی کا واقعہ بیان کیا کہ اس کو ملازمت نہیں مل رہی تھی.آخر ایک دن اس کے کسی عزیز رشتہ دار کو پستہ لگا کہ ملازمت کی تلاش میں ہے.تعلیم مکمل کر لی ہے.بڑا پڑھا لکھا ہے تو اس نے کہا ٹھیک ہے میرا ایک بہت بڑا افسر دوست واقف ہے.تم صبح میرے پاس آ جانا اس کے گھر چلیں گے.خیر اس کو ملنے گئے.اس نے کہا ٹھیک ہے کل تم صبح میرے دفتر آ جانا، تو میں تمہارا کام کر دوں گا.ایک جگہ خالی ہے وہاں تمہیں نوکری مل جائے گی.وہ کہتا
198 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمود ه 24 اپریل 2009 ہے کہ میں صبح سائیکل پر دفتر میں گیا تو گیٹ بند تھا.چوکیدار نے کہا کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا فلاں صاحب نے مجھے کہا ہے اس لئے میں ان کو ملنے کے لئے آیا ہوں اور بڑے رعب سے اور فخر سے چوکیدار سے بات کی.اس نے کہا گیٹ کھول دو تو چوکیدار نے بتایا کہ ان صاحب کو تو صبح دفتر آنے سے پہلے ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ فوت ہو چکے ہیں.یہ جو خدا کے علاوہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے یہ زعم توڑ دیتا ہے.تو وہ کہتا ہے کہ میں سخت مایوس ہو کے واپس آیا.پس جب بھی انسانوں کو خدا بنایا جاتا ہے تو یہ حال ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر حقیقت میں میری طرف رجوع کرو تو میں ہی ہوں جو تمہیں نفع پہنچانے والا ہوں.تمہارے فائدے کے کام کرنے والا ہوں.تمہیں ہر چیز میسر کروانے والا ہوں.ہر چیز دینے والا ہوں.ایک جگہ مزید کھول کر فرمایا کہ یہ دنیا تو عارضی ہے تمہیں ہمیشہ اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے.آخرت کی زندگی کی پرواہ کرنی چاہئے کیونکہ تمام نفع اور نقصان آخرت میں ظاہر ہو کر سامنے آنے والا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (الشعراء: 89-90) کہ جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے مگر وہی ( فائدہ میں رہے گا ) جو اللہ تعالیٰ کے حضور ( قلب سلیم)، اطاعت شعار دل کے ساتھ حاضر ہوگا.پس فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں اور جو اس نے نیکیاں بتائی ہیں، ان پر عمل نہیں تو مال اور اولاد پر خوش نہ ہو یہ کسی کام نہیں آئیں گے.خدا تعالیٰ یہ نہیں پوچھے گا کہ کتنا مال چھوڑا کر آئے ہو؟ نہ ہی یہ پوچھے گا کہ کتنی اولا د چھوڑی ہے.کام آئیں گی تو اپنی نیکیاں اور جیسا کہ حدیث میں بھی بیان ہوا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک درخت کی شاخ راستے سے ہٹانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا اور جنت میں داخل کر دیا.ہاں اگر اولا د کام آ سکتی ہے تو وہ اولاد جو نیکیوں پر قائم ہو.جوان نیکیوں کو جاری رکھنے والی ہو جو ماں باپ نے کی تھیں ان بچوں کی جو نیکیاں ہیں وہ آخرت میں والدین کولمحہ بہ لحہ نفع دیتی رہتی ہیں.ان کو فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک اطاعت شعار دل لے کر حاضر ہو گے تو یہی تمہارا اصل منافع ہے.وہ دل لے کر حاضر ہو گے جو دنیا میں تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیتا رہا تو یہی انسان کی پیدائش کا حقیقی مقصد ہے.ایسا دل لے کر جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گے.اگر ایسا دل لے کر جاؤ گے جو حقوق العباد ادا کرتا رہا تو تبھی اس نافع ذات کی صفت نافع سے فیض پاؤ گے.لغت کے مطابق قلب سلیم وہ دل ہے جو مکمل طور پر غیر اللہ کی ہر قسم کی ملونی سے پاک ہو.پھر اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایمان کی کمزوری سے بالکل پاک ہو.پھر ہر قسم کے دھوکے سے پاک ہو.کسی کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے بھی پاک ہو.اخلاقی بے راہ روی سے بھی پاک ہو، یہ قلب سلیم ہے.اور بعض کے نزدیک قلب سلیم
199 خطبہ جمعہ فرمود ه 24 اپریل 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایسا دل ہے جو دوسروں کے لئے در در کھنے والا دل ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عبادت کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو پھر میری رضا کی جنتوں میں داخل ہوں گے اور ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے دل عطا فرمائے جو نیک عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس میں پیش کرتا ہوں جس سے جماعت کے افراد کے لئے آپ کی دلی خواہش اور کیفیت اور دعا کا پتہ چلتا ہے.آپ فرماتے ہیں: ” جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پا تا ہوں وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کرلوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے لئے ، خدا کے رسول کے لئے خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے.ایسے شخص کو جو درد و الم پہنچے وہ در حقیقت مجھے پہنچتا ہے.پھر فرمایا: ” ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دلوں میں خدمت دین کی نیت باندھ لیں جس طرز اور جس رنگ کی خدمت جس سے بن پڑے کرے.پھر فرمایا : ”میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی قدر و منزلت ہے جو دین کا خادم ہے اور نافع الناس ہے.ورنہ وہ کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کتوں اور بھیٹروں کی موت مر جائیں“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 215-216 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کی سنت کی روشنی میں ، اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتے تھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 20 مورخہ 15 مئی تا21 مئی 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8)
خطبات مسرور جلد ہفتم 18 200 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 فرمودہ مورخہ یکم مئی 2009 ء بمطابق یکم ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے اللہ تعالیٰ کی صفت النافع کے حوالے سے بتایا تھا اصل نفع پہنچانے والی ذات، خدا تعالیٰ ہی ہے اسی لئے اسی کی عبادت کرو.یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری عبادت کرو.اس دنیا میں بھی اس کے فضلوں کے وارث بنو گے اور مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی اس کے فضلوں کے وارث بنو گے.اور پھر فرمایا کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اُن تمام احکامات پر عمل کرو جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف یہی نہیں کہا کہ کیونکہ تمام قسم کا نفع میری ذات سے وابستہ ہے اس لئے میری عبادت کرو اور شکر گزار بنو بلکہ فرمایا کہ کائنات اور اس کے اندر کی ہر چیز میری پیدا کردہ ہے اور میرے اذن سے ہی یہ نفع رساں بھی ہے یا نقصان پہنچانے والی بن سکتی ہے.اللہ فرماتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جن پر تمہاری زندگی کا انحصار ہے ان کا پیدا کرنے والا میں ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں رَبُّ الْعَالَمِین ہوں اور جب رَبُّ الْعَالَمِین میں ہی ہوں تو پھر کہیں اور سے نفع ملنے کا یا نفع حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: خدا تعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مخلوق تک پہنچانا تمام عالموں میں جاری وساری ہے“.ایام الصلح روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 248) تو یہ ہے خدا تعالیٰ کی ربوبیت کہ صرف پیدا نہیں کیا بلکہ مخلوق کے لئے جس انتہاء تک اسے پہنچانا ضروری ہو وہاں تک پہنچاتا ہے اور یہ کارخانہ قدرت اپنی پیدائش کے بعد ہر روز اپنی ایک شان ظاہر کر رہا ہے.انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے تجسس رکھا ہے تحقیق رکھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ انسان پر ان تمام پر عالموں پر تحقیق کے نتیجہ میں نئے سے نئے اظہار فرماتا ہے.ان عالموں میں آسمانی عالم بھی ہیں جن میں مختلف قسم کے ستارے اور سیارے شامل ہیں.ان میں زمینی عالم بھی شامل ہے.جس میں زمین کے اندر کے مختلف خزانے ہیں.زمین کے اندر بھی ایک عالم بسا ہوا ہے، ایک دنیا ہے.زمین کی صرف ظاہری شکل نہیں ہے جس پر سائنسدان تحقیق کر کے قدرت کے عجیب جلووں سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں.
201 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پھر عالم نباتات ہے بوٹیوں ، پودوں، پھولوں، پھلوں وغیرہ کی بھی ایک دنیا ہے.اتنی قسمیں ہیں جن کا شمار نہیں.پھر ہر قسم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک شان نظر آتی ہے.خوراک کے علاوہ بے شمار بوٹیاں ایسی ہیں اور کئی پودے ایسے ہیں جو کئی بیماریوں کا علاج ہیں.بعض ان میں سے تحقیق کے بعد انسان کے علم میں آگئی ہیں.بعض ہو سکتا ہے کہ بہت سی ایسی ہوں جن کی ابھی تحقیق کی ضرورت ہے.حشرات الارض ہیں، کیڑے مکوڑے ہیں، ان کا ایک اپنا عالم ہے.غرض کہ بہت سی چیزیں ہیں اس کا ئنات میں جنہیں خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہر پیدائش کی ایک غرض اور ایک مقصد ہے جسے وہ پورا کرتا ہے اور جس کو حسب ضرورت کو قائم رکھنے کے بھی خدا تعالیٰ نے سامان پیدا فرمائے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پس ربوبیت الہی بوجہ اس کے کہ وہ تمام ارواح واجسام و حیوانات و نباتات و جمادات وغیرہ پر مشتمل ہے.فیضان اعم سے موسوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت جو ہے تمام روحوں کی ہے تمام جسموں کی ہے ، تمام جانوروں میں ہے، تمام قسم کی نباتات جڑی بوٹیوں میں ہے اور بے جان چیزوں میں بھی ہے.یہ فیضان عام کہتے ہیں اس کو.یعنی ایسا فیض جو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے عام کیا ہوا ہے.” کیونکہ ہر ایک موجود اسی سے فیض پاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ہر ایک چیز وجود پذیر ہے ( جو بھی دنیا میں چیز موجود ہے اس سے فیض پا رہی ہے اور اس کا وجود ہر چیز جو ہے وہ اس سے پیدا ہورہی ہے فیض پاتی ہے).فرمایا کہ ”ہاں البتہ ربوبیت الہی اگر چہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے“.(ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 248) کیونکہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا رب العالمین ہے.تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یہ یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہور میں لاسکتا ہے.پس خدا تعالیٰ جو رب العالمین تو ہے ہی ، ہر چیز جو دنیا میں موجود ہے چاہے اس کا علم ہمیں ہے یا نہیں وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور پھر انسان پر اس رب العالمین کا یہ احسان ہے کہ جو چیزیں بھی خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اس کو اشرف المخلوقات کے لئے فائدہ مند بنایا تا کہ وہ ان سے فائدہ اٹھا سکے.اور جوں جوں دنیا تحقیق کے ذریعہ خدا تعالی کی مختلف قسم کی پیدائش کے بارہ میں علم حاصل کر رہی ہے اس میں انسانی فوائد واضح طور پر نظر آتے چلے جا رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی ان تمام پیدا کی ہوئی چیزوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ یہ
202 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 چیزیں انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئیں کہ جس خدا نے انسان پر اس قدر شفقت فرماتے ہوئے بے شمار چیزیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور پھر انہیں انسان کے زیر بھی کیا ہے تا کہ وہ ان سے فائدہ حاصل کر سکے تو پھر اُس خدا میں یہ طاقت بھی ہے کہ اپنے بندوں کے فائدہ کے لئے آئندہ بھی مزید ایسی چیزیں پیدا کر سکے جو اس کے لئے نفع رساں ہوں یا موجود چیزوں کے چھپے ہوئے خواص ظاہر کر کے انہیں انسانوں کے لئے فائدہ مند بنا دے.پس جب اس قدر مہربانی ہے انسانوں پر اس رب العالمین کی تو کس قدر انسان کو اس کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اس کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور شرک سے اپنے آپ کو کلیۂ پاک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر یہ ذکر فرمایا کہ تمہارے فائدے اور نفع کے لئے میں نے بے شمار چیزیں پیدا کی ہیں.جب بھی ان چیزوں سے فیض اٹھانے کی کوشش کرو تو ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ ان چیزوں کے پیدا کرنے والی صرف میری ذات ہے اور نہ صرف پیدا کرنے والی ہے بلکہ دنیا کی ہر چیز کا قائم رکھنا اور اس کا کنٹرول بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اور جب یہ سب کچھ اس بالا ہستی کے ہاتھ میں ہے جو رب العالمین ہے ، جو رحمان ہے، اپنی رحمانیت سے لوگوں کو فیضیاب کرتا ہے اور پھر ربوبیت کے تحت جو محنت کرنے والے ہیں وہ اس سے بھی بڑھ کر اس کی پیدائش سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تو ایسے خدا کے علاوہ کسی اور خدا کی طرف دیکھنا انتہائی بے وقوفی ہو گی.پس ایسا خدا ہی عبادت کے لائق خدا ہے جو رب بھی ہے ، رحمان بھی ہے ، رحیم بھی ہے اور بے شمار دوسری صفات کا مالک ہے.قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَابِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلَّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لايتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرة: 165).کہ یقینا آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے نے اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں اُس سامان کے ساتھ چلتی ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اس پانی میں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتارا ہے پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کر دیا اور اس میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جاندار پھیلائے اور اسی طرح ہواؤں کا رخ بدل بدل کر چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل کرنے والی قوم کے لئے نشانات ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے چند احسانوں کا ذکر کر کے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں عقل ہو تو کبھی ادھر ادھر نہ بھٹکتے پھرو بلکہ خدا تعالیٰ کی ہر پیدائش جس سے تم فائدہ حاصل کر رہے ہو، خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والا بنانے والی ہو.
203 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اس آیت سے پہلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَالهُكُمُ اِلهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ | الرَّحِيمُ (البقرة : 164).پس تمہارا معبود اپنی ذات میں ایک معبود ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں.بے انتہاء رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.وہ بن مانگے رحم کرتے ہوئے اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور جب انسان شکر گزار ہوتے ہوئے اُن نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے.تو پھر ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنتا چلا جاتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے بعض جلووں کا اظہار کیا ہے.جو پہلی آیت میں نے پڑھی تھی.فرمایا کہ آسمان اور زمین کی پیدائش میں جو آسمان اور زمین کی جو پیدائش ہے وہ بھی میرے انعاموں میں سے ایک انعام ہے.اور یہ یونہی بے فائدہ ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے آسمان اور زمین بنا دیا بلکہ ہماری زمین اور اس سے متعلقہ سیارے چاند ، سورج وغیرہ اور ان میں موجود گیسز جو ہیں فضا میں ، ہوا ہے یہ سب کچھ جو ہیں انسان کے فائدہ کے لئے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں میں نے بتایا تھا زمین پر بھی بے شمار عالم موجود ہیں.کئی قسم کی مخلوق ہے یعنی ان تمام چیزوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہے.یہ سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے ہیں.پھر رات اور دن کا ادلنا بدلنا ہے.چوبیس گھنٹے میں رات اور دن کے مختلف اوقات ہیں.انسانی زندگی کی یکسانیت کو دُور کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں.اور آرام اور کام کے مواقع پیدا کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں.پھر سمندر ہیں جن کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس میں کشتیاں چلتی ہیں جو سواریوں کو بھی اور سامانوں کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جاتی ہیں.آج بھی اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ زیادہ تر تجارتی سامان انہی کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ سے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے.پھر ان سمندروں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے پانی کو خدا تعالیٰ بادلوں کی شکل میں لا کر پھر انسان کی زندگی کے سامان پیدا فرماتا ہے.تو انسانوں اور حیوانوں کی خوراک کا انحصار بھی اس پانی پر ہے.اگر یہ پانی نہ ہو تو زراعت کا سوال ہی نہیں.ذراسی بارشوں میں کمی ہو جائے تو شور پڑ جاتا ہے اور اگر لمبا عرصہ بارشیں نہ ہوں تو قحط سالی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ اس صورت حال کو پانی کی اہمیت کو سورۃ الملک میں یوں بیان فرماتا ہے کہ قُلْ اَرَتَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ - مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيَكُمُ بِمَاءٍ مَّعِينٍ (الملک: 31).تو کہہ دے کہ مجھے بتاؤ کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے لئے خدا کے سوا کون لائے گا.پس زمین کا پانی اس وقت زندگی بخشتا ہے.جب خدا تعالی کا پانی آسمان سے اترتا ہے.پھر ہواؤں کے اثرات بھی انسانی زندگی پر پڑتے ہیں.نباتات پر پڑتے ہیں.ہمارے زمیندار جو ہیں وہ جانتے ہیں اور اکثر ان میں باتیں مشہور ہوتی ہیں.یہاں پاکستان ، ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں بھی جو اتنے ترقی یافتہ نہیں کہ ہوا کے رخ جو ہیں وہ فصلوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں.اس طرف سے
204 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہوا چلے تو فصل کو یہ فائدہ ہوگا.ٹھنڈی ہوائیں اس وقت میں اگر فلاں فصل کو فائدہ پہنچارہی ہوتی ہیں تو دوسرے وقت میں وہی نقصان پہنچار ہی ہوتی ہیں.تو یہ سب کچھ جو خدا تعالیٰ نے بنایا ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ میری ہستی کا ثبوت ہیں.اس لئے کائنات پر اور زمین و آسمان کی بناوٹ پر اور رات دن کے ادلنے بدلنے پر اور موسموں کے تغیر پر غور کر کے انسان کو یقینا خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے یہ سب بیان کر کے اعلان فرمایا کہ نہ صرف میں نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں بلکہ ان کا نگران بھی ہوں اور جہاں رحمانیت کے جلوے دکھاتے ہوئے عمومی طور پر اپنی پیدائش سے دنیا کو فائدہ پہنچاتا ہوں وہاں رحیمیت کے تحت غیر معمولی نشان بھی دکھلاتا ہوں.ایک دفعہ مکہ میں سات سال تک قحط کا سماں رہا.بہت لمبا عرصہ قحط پڑا رہا اور یہاں تک حالت آگئی کہ لوگ چمڑے اور ہڈیاں تک کھانے پر مجبور ہو گئے.تو اس وقت آنحضرت علی کی خدمت میں جب سردار مکہ نے حاضر ہو کر بد داور دعا کی درخواست کی تو آپ نے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے سب سے بڑے پر تو تھے دعا کی تو تب جا کے یہ حجاز کی خشک سالی جو تھی دور ہوئی اور ان کو کھانے کو ملا.اور پھر ایک مرتبہ مدینہ کے لوگوں نے بارش کے لئے عا کی درخواست کی.آپ نے دعا کی تو اچانک بادل نمودار ہوئے اور بارش برسنی شروع ہوگئی اور برستی چلی گئی.یہاں تک کہ صحابہ نے پھر ایک ہفتہ کے بعد آ کر آپ کی خدمت میں بارش کے روکنے کی دعا کی درخواست کی.پھر آپ نے دعا کی کہ اے اللہ تعالیٰ ہمارے اردگرد بارش برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا کیونکہ مکان گرنے شروع ہو گئے ہیں.جہاں فائدہ مند ہے وہاں برسا.تو پھر اُس قادر خدا نے اس دعا کو اپنے فضل سے قبول فرمایا.(سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوة والسنتة فيها باب ماجاء فی الدعاء فى الاستسقاء حديث 1269) پھر آپ ﷺ کی امت میں ایسے نفع رساں وجود بھی خدا تعالیٰ نے پیدا کئے جن کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اپنی خدائی کا ثبوت دیتے ہوئے لوگوں کے فائدے کے سامان پیدا فرمائے.اور اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے.جہاں آپ کی دعاؤں سے لوگوں فائدہ ہوا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں میں نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے یعنی تمہاری خدمت پر لگایا ہوا ہے.اس کو دیکھ کر تمہارے ایمانوں میں ترقی ہونی چاہئے.اور پھر اللہ تعالی نے اس ظاہری یا دنیاوی مثال اور مادی مثال کو روحانی نظام پر بھی منطبق فرمایا ہے.بلکہ روحانی نظام تو اس سے بھی زیادہ وسیع تر ہے.کیونکہ اس دنیا کے فائدے اور نفع یہیں رہ جانے ہیں.لیکن روحانیت کے کمائے ہوئے فائدے اخروی زندگی میں کام آنے والے ہیں.پس ایک مومن آسمان اور زمین کی پیدائش سے صرف اس دنیا کے فوائد کے حصول کا ذریعہ نہیں سمجھتا بلکہ ان پر غور کر کے خدا تعالیٰ کی واحدانیت اور اس پر یقین اور آخرت پر ایمان اور بھی مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے.پھر جس طرح رات اور دن کے انسانی زندگی پر اور ضروریات پر ظاہری اثرات اور فوائد ہیں اسی طرح رات اور دن کی مثال دے کر
205 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روحانی طور پر بھی اندھیرے کے بعد روشنی کے سامان میں پیدا کرتا ہوں جس سے روحانی ظلمتیں ختم ہو جاتی ہیں اور اپنے فرشتوں اور انبیاء اور مامورین کے ذریعے ان ظلمتوں کو دُور کرنے کے لئے سامان مہیا کرتا ہوں اور کسی زمانہ میں بھی اس نو ر اور روشنی کو ظاہر کرنے سے خدا تعالیٰ نے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا، لا تعلق نہیں رہا.بلکہ ہر زمانہ میں وہ اپنا نور اور روشنی دیتا رہا ہے.اس زمانہ میں بھی اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا، جنہوں نے پھر نئے سرے سے ہمیں اسلام کے نور سے روشناس کرایا.پھر اللہ تعالیٰ نے جس طرح مادی دنیا میں انسان کی بہتری کے لئے کشتیوں کے ذریعہ سے محفوظ طریقے پر نقل و حمل کے ذرائع پیدا فرمائے ہیں.اسی طرح روحانی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھیجتا ہے جو روحانی کشتیاں تیار کرتے ہیں.جو بلاؤں اور آفات کے سمندر میں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور ان کے ماننے والوں کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں اور وہ منزل مقصود ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور دنیا و آخرت کی بھلائی.ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان کبھی بھی اور کسی زمانہ میں بھی اپنے بندوں پر ختم نہیں ہوا.جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا ہے.جب بھی خدا تعالى ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : 42) کی حالت دیکھتا ہے.اس دنیا میں فتنہ وفساد کے حالات دیکھتا ہے اور جب یہ حد سے بڑھنے لگتے ہیں تو اپنے بندوں کو، انسانوں کو ، اپنی مخلوق کو اس سے بچانے کے لئے اپنے چنیدہ بندے بھیجتا ہے جو ایک کشتی تیار کرتے ہیں، جو ان کے ماننے والوں کو محفوظ طور پر طوفان سے نکال کے لے جاتی ہے.اور آج یہ کشتی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بنائی ہوئی کشتی ہے اور اس میں سوار وہی لوگ شمار ہوں گے جو اس کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.یا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے.اور اس کے حق کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ، کہ کس طرح حق ادا کرتا ہے ایک کتاب تحریر فرمائی تھی کشتی نوح“ کے نام سے.جس میں آپ کے زمانہ میں جب طاعون کی وبا پھوٹی تو اس سے بچنے کا روحانی علاج بتایا.آپ اس کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اور اگر یہ سوال ہو کہ وہ تعلیم کیا ہے کہ جس کی پوری پابندی طاعون کے حملے سے بچا سکتی ہے تو میں بطور مختصر چند سطریں نیچے لکھ دیتا ہوں“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 10) اور پھر آپ نے تعلیم کے نام سے ایک تفصیل بیان فرمائی اس کتاب میں.جس میں آپ نے ہمیں ہوشیار کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا عمل نہ ہو“.( یعنی پورے پکے دل کے ارادے سے اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو ).اور یہ کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے
خطبات مسرور جلد ہفتم 206 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 گا.پھر آپ فرماتے ہیں تم خدا کی آخری جماعت ہو.سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18 بہر حال یہ خلاصہ میں نے چند باتیں بیان کی ہیں.اس کتاب میں آپ نے وہ معیار بتائے ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کر کے ایک انسان، ایک مومن ، ایک احمدی، اس کشتی میں اپنے آپ کو محفوظ کر سکتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنائی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیاں اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فر ماتا چلا جائے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام الزمان کی باتوں سے ان کی تعلیم سے فیض اٹھانے والے ہوں.آج بھی دنیا آفات میں گھری ہوئی ہے.نئی سے نئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں.ابھی پچھلے دنوں میں آج کل ہی ایک نئی و با اٹھی ہے جسے Swine Flue کہتے ہیں.تو یہ سب باتیں ، دنیا میں آفات اور بلائیں.یہ ہمیں دعوت فکر دے رہی ہیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ ہم اپنی حالتوں کے جائزے لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے بھیجے ہوئے زمانہ کے امام کے حکموں اور تعلیم پر عمل کرنے والے بنے اور کوشش کرنے والے ہوں.اور جب ہم ایک توجہ سے یہ کوشش کریں گے تو پھر ہر اس روحانی پانی سے فیض پائیں گے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَأَحْيَابِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (البقرة : 165) کہ اس کے ذریعہ سے ہم نے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کر دیا.جس طرح مادی دنیا میں بارشوں سے زمین میں اپنی روئیدگی ظاہر کرتی ہیں.اسی طرح روحانی بارشوں سے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور ماموروں کے ذریعہ بھیجتا ہے ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے.لیکن اس پانی سے وہی لوگ فیض پاتے ہیں یا فیض پاسکتے ہیں جن میں اچھی زمین کی طرح اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہو.اللہ تعالیٰ نے تو روحانی روئیدگی اور زندگی کے لئے فیض عام کے تحت پانی اتارا ہے.لیکن اس کو جذب کر کے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے دلوں کی زرخیزی ضروری ہے.آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے ایک حدیث میں ایک مثال بیان فرمائی ہے.فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں.کچھ ایسے جن کی مثال اچھی زمین کی طرح ہے جو نرم ہو اور اپنے اندر پانی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو.اور پھر ایسی زمین سے جو پانی اپنے اندر جذب کرتی ہے یا اس سے فائدہ اٹھاتی ہے اچھی کھیتی بھی اس سے اگتی ہے.پانی کو جذب کرتی ہے پھر اچھی کھیتی اگانے کے لئے اس پانی کو استعمال کرتی ہے.تو ایسی زمین پر جب بارش پرتی ہے، اس کو جذب کر کے اپنی نموء بڑھائی ہے اور اس سے فصل بھی اچھی ہوتی ہے.جس سے دوسروں کو خوراک مہیا کر کے ان کو فائدہ پہنچاتی ہے.دوسری قسم کی زمین آپ نے فرمایا وہ ہے جو سخت ہوتی ہے.پانی کو جذب تو نہیں کر سکتی لیکن پانی اپنے اندر جمع
207 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کر لیتی ہے.جیسے تالاب وغیرہ ہیں.اس پانی سے براہ راست تو اس زمین کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کوئی چیز اس سے پیدا نہیں ہو رہی ہوتی.لیکن اس پانی سے جو وہاں جمع ہو جاتا ہے جانور پینے کے لئے فائدہ اٹھاتے ہیں، انسان بھی پینے کے لئے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پینے کے علاوہ کھیتی باڑی کے لئے بھی یہ پانی استعمال ہورہا ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ تیسری قسم کی زمین وہ ہے جو سخت پتھریلی ہوتی ہے.مسطح ہوتی ہے.ہموار ہوتی ہے یا ایسی ڈھلوان ہوتی ہے کہ جس سے پانی بہہ جائے کوئی اس میں گڑھا نہیں ہوتا.وہ پانی کو نہ اپنے اندر جذب کرتی ہے نہ اس میں پانی کھڑا ہوتا ہے.تو ایسی زمین جو ہے وہ پانی سے نہ خود فیض پاتی ہے نہ اپنے اندر روک کر دوسروں کو اس سے فیض پہنچ رہا ہوتا ہے.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پہلی طرح کی جو زمین ہے اس کی مثال جو پانی جذب کر کے پھر اپنی فصلیں پیدا کر کے فائدہ پہنچاتی ہے اس عالم کی طرح، اس شخص کی طرح ہے جو نہ صرف خود دین حاصل کرتا ہے علم حاصل کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس علم اور دین سے جو اس نے حاصل کیا ہو.فائدہ اور فیض پہنچاتا ہے.اور فرمایا کہ تیسری قسم کا آدمی اس پتھریلی زمین کی طرح ہے.جس پر نہ پانی ٹھہرتا ہے اور نہ جس میں جذب ہوتا ہے.روحانی بارش نہ اس کو کچھ فیض پہنچاتی ہے نہ دوسرے اس سے کوئی فائدہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں.( بخاری کتاب العلم باب فضل من علم و علم حدیث (79) اور دوسری قسم کی زمین کی مثال آپ نے بیان نہیں فرمائی لیکن اس کی پانی کی پہلی مثال دے کر اس سے ظاہر ہے کہ یہی مطلب ہے اس کا جو اس کی وضاحت میں پہلے بیان فرمایا کہ ایسے تالاب جو خود تو فائدہ نہیں اٹھا ر ہے ہوتے ان علوم سے لیکن دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں کہ ایسا شخص جو دین اور علم تو سیکھتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا لیکن دوسروں کو جو علم اور دین اس نے سیکھا ہے سکھاتا ہے اور اس کے سکھانے سے بعض نیک فطرت اس پر عمل کرنے لگ جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ جب اپنے مامور بھیجتا ہے تو ان کے روحانی پانی سے یہی تین قسم کے گروہ ہیں جو سامنے آتے ہیں.پس ایک حقیقی مومن کو کوشش کرنی چاہئے کہ پہلی قسم میں شامل ہونے کی کوشش کرے.خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف توجہ دے.اپنی نسلوں میں بھی ، اپنے ماحول میں بھی ، ایسی فصلیں لگا ئیں جو انسانیت کو فیض پہنچانے والی ہوں تبھی النافع خدا کے فضلوں سے حقیقی رنگ میں ہم فائدہ اٹھانے والے ہوں گے ،فیض حاصل کرنے والے بن سکیں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ اور ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جانور پھیلائے یہ بھی تمہارے لئے نفع.پھر جانوروں کا پھیلانا بھی اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے ایک احسان ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں میں ذکر فرمایا ہے.جیسے فرماتا ہے کہ والا نُعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأكُلُونَ.وَلَكُمْ فِيْهَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيحُونَ وَحِيْنَ تَسْرَحُونَ ( انحل 6-7) کہ مویشیوں کو بھی اس
208 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 نے پیدا کیا تمہارے لئے ان میں گرمی حاصل کرنے کے سامان ہیں اور بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو اور تمہارے لئے ان میں خوبصورتی ہے جب تم ان کو شام کو چرا کر لاتے ہوا اور جب تم انہیں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے ہو.پھر ان کے ذریعہ سے، انسان ان جانوروں کے ذریعے سے فائدہ اٹھاتا ہے.ان کا گوشت استعمال کر کے، اُن کی اُون استعمال کر کے ان کی کھال استعمال کر کے بلکہ ان کی ہڈیاں تک استعمال ہو جاتی ہیں جانوروں کی بعض دفعہ.پھر یہ دولت کمانے کا ذریعہ بھی ہیں.جانور پالے جاتے ہیں.لوگ تجارت کرتے ہیں.پہلی آیت سورۃ البقرہ کی جو میں نے پہلے پڑھی تھی.اس کی وضاحت میں کر رہا ہوں.اس میں دابة کا لفظ ہے اور یہاں انعام کا لفظ ہے.انعام کہتے ہیں چارپایوں کو.لیکن قرآن کریم میں ہی دآبَّہ چار پایوں کے لئے ہر قسم کے جانوروں کے لئے استعمال ہوتا ہے.پس دآبۃ سے مراد ہر قسم کے جانور ہیں.ایک جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ (احل 62) کہ اگر اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہوتی کہ لوگوں کو ان کے ارتکاب جرم پر فوراً پکڑ لیتا اور تو بہ کے لئے مہلت نہ دیتا تو زمین میں کسی جاندار کوزندہ نہ چھوڑتا.پس اللہ تعالیٰ چونکہ فوری سزا نہیں دینا چاہتا یہ اس کا طریق نہیں کہ فوری سزادے اس لئے اس نے اس کے نفع کے لئے یہ تمام قسم کے جانور جو ہیں زمین میں چھوڑے ہیں.جن میں چھوٹے چھوٹے حشرات بھی اور بڑے جانور بھی ہیں.تو اللہ تعالیٰ زمین کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کر کے اس میں ہر قسم کے جانور پھیلانے کی مثال دے کر فرماتا ہے کہ اس زندگی میں جو زمین میں ہے جانوروں کا بہت بڑا کردار ہے.کیونکہ فرمایا کہ اگر زندگی ختم کرنی ہو تو صرف یہاں کے جو باقی حیوان ہیں ان کو ختم کر دوں تو زندگی ختم ہو جائے گی انسان کی.پس اسی طرح فرمایا کہ روحانی دنیا میں بھی دآبۃ ہیں اور وہ ایسے مومن ہیں جو روحانی پانی سے فیض یاب ہو کر پھر زمین کی رونق قائم کرتے ہیں اور کثرت سے دنیا میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں.پس یہ ایک اہم ذمہ داری لگا دی گئی ہے مامورین کی جماعت کی کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلا کر اس دنیا کی زندگی اور رونق کے سامان پیدا کریں.پھر ہواؤں کے بارے میں فرمایا کہ ہواؤں کو مومنوں کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے.چنانچہ روحانی دنیا میں بھی اسی طرح ہوتا ہے تا کہ روحانی ہواؤں سے دنیا کو فیض پہنچ سکے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل کی ہوائیں ساری دنیا میں چلاتا ہے اور اپنے مامورین کی اور ان کی جماعت کی مدد بھی ان سے فرماتا ہے.اگر مخالفت کی آندھیاں آتی ہیں تو ان کے نقصان سے اللہ تعالیٰ بچا لیتا ہے ، مومنین کے حق میں مسخر کر دیتا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہی دیکھ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے مخالف ہواؤں کے رخ بدل رہا ہے.اور نہ صرف رخ بدلتا ہے بلکہ ایسی ہوائیں چلاتا ہے جو سعید دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
209 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کی سچائی کی طرف مائل کرتی ہیں.میں اکثر ذکر کرتا ہوں کہ روزانہ کہ ڈاک میں کئی دفعہ ایسے خط ہوتے ہیں جن میں ایسا ذکر ہوتا ہے جو ان لوگوں کو احمدیت کے پیغام ٹھنڈے جھونکے خود خدا تعالیٰ کی طرف سے پہنچتی ہیں اور عربوں میں خاص طور پر.عربوں پر تو ویسے بھی عربی زبان کی فصاحت کی وجہ سے اور دوسرے اپنے مزاج کی وجہ سے جو شاید زبان کی وجہ سے ہی ہو.ان کا بیان ایسا ہوتا ہے اپنی باتوں کا جب ذکر کر رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کی تو ٹھنڈی ہواؤں کی مثالیں دیتے ہیں.تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے کام کہ بارشیں اور ہوائیں مومنوں کی تائید میں بھیجتا ہے.پس یہ ہے ہمارا النافع خدا جو ہر آن ہمیں نفع پہنچاتا چلا جارہا ہے اور آج اس خدا کی جو رب العالمین ہے جس نے اس زمانہ میں اپنے روحانی فیض جاری رکھنے کے لئے اپنا مامور بھیجا ہے اس کی جماعت میں ہم شامل ہیں.ہمارے مخالفین پہلے تو سختی سے ہمارے راستے روکنے اور دشمنیاں اپنی انتہاء تک پہنچانے کی کوشش کرتے تھے.جس کے جواب میں ہم فیض رساں بنتے ہوئے ان کو وہ روحانی پھل اور فصلیں بھیجنے کی کوشش کرتے تھے جن سے فائدہ اٹھا سکیں اور آج بھی کر رہے ہیں.اور ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کی یہ دعا پہلے بھی کرتے تھے آج بھی کرتے ہیں کہ اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (الشفاء القاضی عیاض جلد اول صفحہ 73 الاب الثانی فی تحمل اللہ تعالی له الحافل والا الحلم دار الكتب العلمیة بیروت 2002 ء ) تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایات کے سامان پیدا فرمائے.لیکن ان لوگوں نے اب ایک اور طریق بھی اختیار کیا ہے کہ پہلے کم تھا اب زیادہ ہو گیا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ احمد یو! احمدی تو نہیں کہتے ، قادیانیوں مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار کر کے ہمارے پاس آ جاؤ تو ہم تمہیں گلے لگائیں گے.گویا النافع خدا کے مامور کی جماعت کو چھوڑ کر ہم میں شامل ہو جاؤ جہاں سوائے فتنہ اور فساد کے اور کچھ نہیں.ایک طرف اُمت میں ہونے کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف اُمتیوں کی گردنیں کاٹی جارہی ہیں.بہر حال ہمیں تو خدا تعالیٰ نے نہ صرف ہدایت دی ہے بلکہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو جواب دو کہ اصل ہدایت وہی ہے جو ہمارے پاس ہے نہ کہ تمہارے پاس.اس لئے تم بھی اگر فتنہ و فساد سے بچنا چاہتے ہو تو اس مہدی کی پیروی کرو جسے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُلْ آنَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَأُمِرُنَا لِمُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام :72 ) کہ تُو پوچھ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو پکاریں جو نہ ہمیں فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور کیا بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دے دی ہے ہم ایک ایسے شخص کی طرف اپنی ایڑیوں کے بل پھر ادیئے جائیں جسے شیطان نے حواس باختہ کر کے زمین میں حیران وسرگرداں چھوڑ دیا ہوا ہے.اس کے ایسے دوست ہیں جو اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہوئے پکاریں کہ ہمارے پاس آ.تو کہہ دے کہ یقینا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے فرمانبردار ہو جائیں.
210 خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس حصہ آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الهدی ” ان کو کہہ دے کہ تمہارے خیالات کیا چیزیں ہیں.ہدایت وہی ہے جو خدا تعالی براہ راست آپ دیتا ہے.ور نہ انسان اپنے غلط اجتہادات سے کتاب اللہ کے معنی بگاڑ دیتا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے.وہ خدا ہی ہے جو غلط نہیں کھاتا لہذا ہدایت اسی کی ہدایت ہے اپنے خیالی معنے بھروسے کے لائق نہیں “ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 88-87) اور یہی حقیقی ہدایت اور اسلام کی تعلیم ہے.یہ ہے وہ چیز جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے.اب اس ہدایت کو چھوڑ کر ہم ان لوگوں کے پیچھے چلے جائیں.جو آج تک قرآن کریم کی آیات کے ناسخ اور منسوخ کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں.یا پہلے تو چودھویں صدی کا انتظار کرتے رہے کہ مسیح اور مہدی آئے گا اور صدی لمبی ہوگی اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے انکار پر مصر ہیں.یا جو ایک دوسرے پر ایک ہی کتاب اور ایک ہی رسول کے ماننے والے ہونے کے باوجود کفر کے فتوے دے رہے ہیں.پس ہم نے تو اس اللہ تعالیٰ کا فہم اس مسیح و مہدی سے پایا ہے جس نے آنحضرت ﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر بھیجا ہے.ہم اُس اللہ تعالیٰ کا فہم رکھتے ہیں جس نے آنحضرت ﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر بھیجا ہے اور جس نے آپ پر قرآن کریم جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو تمام ہدایتوں کا سرچشمہ ہے اور یہ فہم ہمیں اللہ تعالیٰ کا اس زمانے کے امام مسیح اور مہدی نے عطا کیا ہے.پس اس زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانی فرمائی ہے.ہماری ہدایت کے لئے ہمیں نفع پہنچانے کے لئے ہمارے فائدہ کے لئے تو پھر میں کیا ضرورت ہے کہ اس خدا کو چھوڑ کر ہم اس کے علاوہ کسی اور خدا کو ماننے والے بنیں.اگر آج ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے بارے میں شک میں پڑیں تو پھر ہم ان تائیدات ارضی اور سماوی کو کیا کہیں گے جو خدا تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے حق میں پوری فرما ئیں اور آج تک اپنے وعدہ کے موافق پوری فرماتا چلا جا رہا ہے.اپنے وعدہ کے موافق نشانات دکھلاتا چلا جارہا ہے.اگر یہ کسی بندے کا کام ہوتا تو گزشتہ ایک سو بیس سال سے جو ممکنہ انسانی کوششیں ہو سکتی تھیں دشمنان احمدیت نے کیں ، احمدیت کو ختم کرنے کی لیکن ہمارا خدا ہمیں ہمیشہ ترقیات کی نئی منزلیں دکھاتا چلا گیا اور اپنے مخالفین کو ہم نے ہمیشہ حواس باختہ ہی دیکھا ہے اور ان کی حالتیں دیکھ کر ہمارے ایمان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مامور اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق پر اور بھی پختہ ہوا ہے.پس ہمیں دعوت دینے کی بجائے ہم تم لوگوں کی دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اور اس مسیح و مہدی کی جماعت میں داخل ہو جاؤ اسی میں تمہاری بقا ہے اور اسی میں تمام دنیا کی بقا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو تو فیق عطا فرمائے.آمین.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی مجلس میں فیضی ساکن بھیں کا تذکرہ ہورہا تھا جس نے اعجاز مسیح کا جواب لکھنا چاہا تھا اور اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا.بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھا لیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مجلس میں فرمایا.
211 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده یکم مئی 2009 یہ کس قدر ز بر دست نشان ہے خدا کی طرف سے ہماری تصدیق اور تائید میں.کیونکہ قرآن کریم میں آیا ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِی الْأَرْضِ (الرعد:18) کہ جو انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے.فرمایا کہ ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جیسے کہ ہمارے مخالف مشہور کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا تو چاہئے تھا کہ فیضی نے جو لوگوں کی نفع رسائی کا کام شروع کر دیا تھا اس میں اس کی تائید کی جاتی.لیکن اس طرح پر اس کا جو انا مرگ ہو جانا صاف ثابت کرتا ہے“.جوانی میں فوت ہو گیا.صاف ثابت کرتا ہے کہ اس سلسلے کی مخالفت کے لئے قلم اٹھانا لوگوں کی نفع رسانی کا کام نہ تھا کم از کم ہمارے مخالفوں کو بھی اتنا تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی نیت نیک ب تھی ورنہ کیا وجہ کہ خدا تعالیٰ نے اس کی تائید نہ کی اور اس کو مہلت نہ ملی کہ اس کو تمام کر لیتا یعنی کام کو پورا کر لیتا.فرمایا ”میرے اپنے الہام میں بھی یہی ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ (الرعد: 18) - تمیں برس سے زیادہ عرصہ ہوا کہ جب میں آپ سے سخت بیمار ہوا اس قدر شدید مجھے آپ چڑھی ہوئی تھی ( بخار چڑھا ہوا تھا) کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے اس اثناء میں یہ الہام ہوا.وَإِمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ يہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ بعض مخالف اسلام میں لمبی عصر حاصل کرتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے.دیکھوا بوجہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا اصل بات یہ ہے کہ اگر مخالف اعتراض نہ کرتے تو قرآن شریف کے تمہیں سپارے کہاں سے آتے.اعتراض ہوتے رہے اور اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اعتراضوں کی وجہ سے بھی بھیجتارہا احکامات جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے مفید فرمایا کہ "جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں اور مخالفت کرتے ہیں.ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطا کرتا ہے“.( یعنی مخالفت بڑھتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے حقائق اور معارف عطا کرتا ہے ) اب فرمایا ” اب اگر مہر علی شاہ اتنا شور نہ مچا تا تو نزول مسیح کیسے لکھا جاتا.( جونزول مسیح کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھی ہے ).پھر فرمایا اس طرح پر جو دوسرے مذاہب باقی ہیں ان کے بقا کا بھی یہی باعث ہے تا کہ اسلام کے اصولوں کی خوبی اور حسن ظاہر ہو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 232-233 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) دنیا میں دوسرے مذاہب باقی ہیں وہ باقی رہیں گے تو پھر اصل موازانہ ہوگا مذاہب کا اور پھر اسلام کی خوبیاں ظاہر ہونی شروع ہوں گی.نظر آئیں گی اگر غور سے دیکھا جائے اور پر کھا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صفت النافع سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور نافع بنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو روحانی انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ مقدر ہے اس میں ہم بھی حصہ دار بنے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شماره 21 موخہ 22 مئی تا 28 مئی 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 19 212 خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 فرمودہ مورخہ 08 رمئی 2009ء بمطابق 08 / ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک نام الواسع بھی ہے.اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جس کا رزق اس کی ساری مخلوق پر حاوی ہے اور جس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.اور وہ ذات جس کا غنی ہونا ہر احتیاج پر حاوی ہے.ایک معنی اس کے یہ بھی کئے جاتے ہیں کہ وہ ذات جو بہت زیادہ عطا کرنے والی ہے.وہ ذات جس سے جب سوال کیا جاتا ہے تو وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جو ہر ایک چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے، ہر ایک چیز کا علم رکھتی ہے.یہ تمام معنی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے حوالے سے مل جاتے ہیں.اس وقت میں قرآن کریم کی بعض آیات پیش کروں گا جن میں خدا تعالیٰ نے بعض باتوں کی طرف مومنین کو توجہ دلاتے ہوئے انہیں اپنی صفت واسع کے ساتھ بیان فرمایا ہے.سورۃ البقرہ میں شیطان کے بندوں کو ورغلانے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ آیت 269 میں فرماتا ہے کہ الشَّیطن يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمُ بِالْفَحْشَاءِ.وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلا.وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة: 269) شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے، تمہیں فحشاء کا حکم دیتا ہے.جبکہ اللہ تمہارے ساتھ اپنی جناب سے بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ وسعتیں حاصل کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں جو شیطان اللہ تعالیٰ سے بندوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے.ایک فقر یعنی غربت کا خوف پیدا کرنا اور دوسرے فَحْشَاء کا حکم دینا.یہ جو فقر سے ڈرانا ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں.شیطان نے خدا تعالیٰ سے یہ کہا تھا کہ میں ہر راستے پر بیٹھ کر انسانوں کو سیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کروں گا تو اس نے اس بات کو پورا کرنے کے لئے کبھی بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا جہاں وہ نہ بیٹھا ہو.ہر راستے پر اس کا یہ بیٹھنا اس کی اپنی طاقت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ نے اس کو اجازت دی تھی کہ ٹھیک ہے تم یہ کرنا چاہتے ہو تو کرو لیکن میں تمہارے پیچھے چلنے والوں کو جہنم سے بھر دوں گا اور یہ بات خدا تعالیٰ نے کھول کر ہمیں
213 خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم قرآن کریم میں بھی بتادی کہ ہوشیار ہو جاؤ.اگر تم میرے بندے بننا چاہتے ہو تو شیطان سے بچ کے رہنا.شیطان کے ورغلانے کے طریقے بظاہر تمہیں بہت اچھے نظر آئیں گے لیکن اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا.اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار جگہ مختلف حوالوں سے شیطان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے.اس کے نقصانات بیان فرمائے ہیں.ایک جگہ فرمایا کہ وَيُرِيدُ الشَّيْطَنُ اَنْ يُضِلَّهُمُ ضَلَالًا بَعِيدًا (النساء: 61 ) یعنی اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خطر ناک گمراہی میں ڈال دے.پھر فرمایا شیطان تمہیں بہت بڑے خسارے میں ڈالے گا اور تمہارا دوست بن کر تمہیں خسارے میں ڈالے گا.پھر ایک جگہ فرمایا إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ (الاعراف: 23) یعنی یقیناً شیطان جو ہے وہ تم دونوں کا کھلا کھلا دشمن ہے.آدم اور حوا کے حوالے سے یہ بات بیان کی گئی ہے لیکن یہ بات آدم اور حو پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ مرد اور عورتوں دونوں کو ہوشیار کیا گیا ہے کہ شیطان تم دونوں کا کھلا کھلا دشمن ہے.اس لئے اس کے بہکاوے میں آنے سے ہوشیار رہنا.نیک اعمال بجالاؤ.عبادات کی طرف توجہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم نے جو واقعات اور قصے بیان فرمائے ہیں یہ پرانی باتیں صرف ہمارے علم کے لئے ہی نہیں دوہرائی گئیں بلکہ آئندہ کے لئے پیشگوئیاں ہیں کہ آئندہ اس اس طرح ہوگا.(ماخوذ از چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 156 ) اس لئے اگر مومن ہو اور حقیقی مومن ہو تو ان باتوں سے ہوشیار رہو کہ یہ اب بھی پیدا ہو سکتی ہیں.زمانہ بدلنے کے ساتھ شیطان کے حملے کے طریقے بھی بدلتے رہے ہیں.ہر نئی ایجاد اور ترقی کی طرف اٹھنے والا انسان کا جو قدم ہے جہاں اپنی خوبی سے ہمیں فائدہ پہنچا رہا ہے وہاں شیطان بھی اس کو استعمال کر رہا ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان تمہیں نقصان پہنچائے گا اور اس کے پیچھے چلو گے تو گمراہی کے گڑھے میں گرتے چلے جاؤ گے.سورۃ بقرہ کی جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں فرمایا کہ شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے.فقر کا معنی غربت کے بھی ہیں اور فقر کے معنی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے بھی ہیں.اللہ فرماتا ہے کہ شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے کہ اگر یہ کام کرو گے تو تم کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہو گے.یہ کام کرنے سے یا فلاں کام کرنے سے تم پر غربت حاوی ہو جائے گی اور اس دنیا میں جو دنیاوی ترقی کی دنیا ہے تم بہت پیچھے رہ جاؤ گے اور اگر قربانیاں کرو گے تو کبھی اپنا مقام پیدا نہیں کر سکو گے.پس شیطان کا قربانیوں کے حوالے سے اس طریقے پر ڈرانا بھی مختلف طور پر ہے.کبھی وہ اس بات سے ڈرائے گا کہ یہ کام کا وقت ہے اور یہ وقت تمہیں اپنی عبادت کے لئے قربان نہیں کرنا چاہئے.کبھی مالی قربانی سے روکنے کے لئے فقر سے ڈرائے گا کہ تمہارا کام اور پیسہ اگر اس وقت نکلا تو تمہارے کاروبار میں نقصان ہوگا.کبھی اس بات سے ڈرائے گا کہ اگر یہ رقم آج یہاں خرچ کر لی تو تمہارے بچے بھوکے رہ جائیں گے.لیکن جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں وہ اس کے ڈراوے میں نہیں آتے.
214 خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم گزشتہ دنوں میں الفضل میں ایک مضمون دیکھ رہا تھا.مالی قربانی پر کسی لکھنے والے نے لکھا.ربوہ میں کسی احمدی کا واقعہ تھا کہ وہ صاحب گوشت کی دکان پر کھڑے گوشت خرید رہے تھے.وہاں سے سیکرٹری مال کا سائیکل پر گزرہوا تو اس شخص کو دیکھ کر جوسود خرید رہا تھا، سیکرٹری مال صاحب وہاں رک گئے اور صرف یاد دہانی کے لئے بتایا کہ آپ کا فلاں چندہ بقایا ہے.تو اس شخص نے پوچھا کہ کتنا بقایا ہے؟ جب سیکرٹری مال نے بتایا تو وہ کافی رقم تھی.تو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے وہ سیکرٹری مال کو ادا کر دی اور رسید لے لی.اور قصائی سے جو گوشت خریدا تھاوہ اس کو واپس کر دیا کہ آج ہم گوشت نہیں کھا سکتے.سادہ کھانا کھائیں گے.تو یہ ایسے بندے ہیں جو شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے جب وہ کہتا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو، تمہارے بچے ہیں ان کا آج گوشت کھانے کو دل چاہ رہا ہے اور تم اس سے اُن کو محروم رکھ رہے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسے لوگوں کی یہ ایک نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں جو صرف گوشت ہی نہیں چھوڑتے بلکہ بعض دفعہ مالی قربانی کی خاطر فاقے بھی کر لیتے ہیں لیکن مالی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتے.پھر جان کی قربانی ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ ان قربانیوں سے بھی بھری پڑی ہے.پاکستان میں تو آج کل عام آدمی کی بھی سینکڑوں موتیں ہوتی ہیں اور کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون اچانک گولی کا نشانہ بن جائے.لیکن احمدی جو قربانیاں دیتے ہیں انہیں علم ہوتا ہے کہ اس فعل سے، یہ کام کرنے سے ، اس علاقہ میں رہنے سے یا ان رستوں پر گزرنے سے قوی امکانات ہیں کہ کسی وقت بھی موت واقعہ ہو جائے اور احمدی ہونے کی وجہ سے ہو جائے لیکن خدا کی خاطر یہ قربانیاں دیتے چلے جاتے ہیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں سید الشہداء حضرت سید عبداللطیف شہید کی قربانی ہے، مولوی عبد الرحمن کی قربانی ہے جو کابل میں ہوئی اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تھی.ان قربانیوں نے دنیا کو دکھایا کہ یہ عبدالرحمن ہوتے ہیں جو ایک مقصد کی خاطر خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اس قسم کی قربانیوں کے بھی احمدیوں کی زندگیوں میں درجنوں واقعات ہیں کہ اچانک حملوں کے نتیجہ میں انہوں نے قربانیاں نہیں کیں اور شہادتیں حاصل نہیں کیں بلکہ سینہ تان کر اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے ان قربانیوں کے نظارے پیش کئے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے.بہر حال شیطان کے بارہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمہیں قربانی کرنے سے ڈراتا ہے.کبھی یہ کہہ کر کہ غربت کا کا شکار ہو جاؤ گے.کبھی یہ کہہ کر کہ تمہاری اس قربانی سے تمہاری اولا دیں بھی کسی قابل نہیں رہیں گی.جب جان کی قربانی سے ڈراتا ہے تو پیچھے اولادوں کا خوف دلاتا ہے کہ ان کا کیا حال ہو گا ؟ آج اس زمانہ میں معیشت کو بھی ریڑھ کی ہڈی کا نام دیا جاتا ہے.تو قربانی کرنے والوں کو جو جان، مال اور وقت کی قربانی کرتے ہیں، اپنے اور اپنے
215 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 بچوں کے معاش کے ختم ہونے سے ڈرایا جاتا ہے لیکن وہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں.وہ کبھی اس بہکاوے میں نہیں آتے.اسی طرح اور کئی قسم کی قربانیاں ہیں جو انسان کی زندگی میں آتی ہیں جن سے شیطان ڈراتا ہے.پھر وقت کی قربانی کی مثال ہے.یہ تو ہر احمدی جانتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو احمدی بھی نظام جماعت سے منسلک ہیں وہ کچھ نہ کچھ وقت جماعت کے لئے دیتے ہیں اور کچھ نہیں تو اجلاسوں پر، اجتماعوں پہ اور جلسوں پر ہی کچھ وقت دے رہے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے بہت بڑی اکثریت ہے جو اپنے وقت کی قربانی کر کے جمعہ پڑھنے آتی ہے اور شیطان جو روکتا ہے اس کے وسوسوں کی پرواہ نہیں کرتی.لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو جمعوں میں اور بعض اوقات عیدوں پر بھی نہیں آرہے ہوتے اور اپنے کاروبار پر یہ عبادتیں قربان کر رہے ہوتے ہیں اور جو نمازوں کی حالت ہے وہ تو قابل فکر حالت ہے، احمدیوں میں بھی بہت بڑی تعداد ہے جو وقت کی اس قربانی کی طرف توجہ نہیں دیتی.عبادت کی سستی کی وجوہات ہیں اور اس میں سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اپنے کاموں میں، اپنے کاروباروں میں مشغول ہیں اور اس دوران میں نمازیں پڑھنے کے لئے وقت قربان نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم قربانیاں کر رہے ہوتے ہو تو شیطان تمہیں مختلف طریقوں سے ڈراتا ہے.کبھی غربت سے ڈرا کر نماز کے لئے وقت کو قربان کرنے سے روکتا ہے.کبھی کسی طریقے سے قربانی سے روکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک حقیقی مومن ہونے کی حیثیت سے اس سے ہوشیار رہو.بہر حال اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے کے لئے شیطان کے مختلف طریقے ہیں جو وہ بندوں پر استعمال کرتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف تو غربت کا خوف دلا کر تمہیں ان قربانیوں سے شیطان روکتا ہے لیکن دوسری طرف فحشاء کی ترغیب دے کر وقت اور مال وغیرہ کو خرچ بھی کر والیتا ہے.جو دنیا دار ہیں اس کے بہکاوے میں آکران چیزوں پر مال خرچ کر رہے ہوتے ہیں.ایک غیر مومن جو ہے ، ایک دنیا دار جو ہے اس کو شیطان دنیا وی لہو و لعب میں خرچ کرنے کے لئے ابھارتا رہتا ہے.جوئے پر ،شراب پر، اور دوسری اس قسم کی بیہودگیوں پر شیطان کے ، چلنے والے جو ہیں بے تحاشا خرچ کرتے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہوتا کیونکہ شیطان اس بات کی طرف جو عارضی مزے اور لذت ہے ایسے ایسے طریقے سے توجہ دلا رہا ہوتا ہے کہ انسان بھول جاتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہا ہے اور شیطان کے پیچھے چل رہا ہوتا ہے.پس مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا که وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطن کہ شیطان کے قدموں پر مت چلو.کیونکہ وہ پوری کوشش میں ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ سے دور کر دے.اس سے کبھی خیر کی امید نہ رکھو.بلکہ یہ سوچنا بھی انتہائی جہالت ہے کہ شیطان سے کوئی خیر مل سکتی ہے.کیونکہ اس کا کام تو ہے ہی یہ کہ فحشاء اور نا پسندیدہ باتوں کی طرف بندے کو لے کر جائے.اگر ہم ایک دنیا دار آدمی سے یہ پوچھیں کہ تمہارے ذہن میں شیطان کا کیا تصور ہے؟ تو وہ یہی کہے گا کہ اللہ اس سے بچا کر رکھے.لیکن اس کے باوجود جو
216 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 قربانیوں سے دور جا کر اور فَحْشَاء سے قریب ہو کر اس کے پیچھے دنیا دار چل رہا ہوتا ہے اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ وہ کیا کر رہا ہے.شیطان ایسے بندوں کو اپنے پیچھے چلا کر اپنی اس بات کو پورا کر رہا ہے کہ میں انسانوں کی اکثریت کو خدا تعالیٰ سے دور کر دوں گا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان کے اس مکارانہ فعل سے ہوشیار رہو.وہ بڑی مکاری سے تمہیں ورغلاتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی طرف آؤ کہ یہی تمہاری زندگی کا مقصود ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ تو بہ کرتے ہوئے اس کی طرف جھکو تو اللہ تعالیٰ تم سے بخشش کا وعدہ کرتا ہے.تمہارے پچھلے گنا ہوں اور غلطیوں کو معاف کرے گا اور آئندہ تمہیں نیکیوں اور قربانیوں کی توفیق دیتے ہوئے تمہارے لئے بخشش اور فضل کے سامان فرمائے گا.اللہ تعالیٰ نے یہاں يَعِدُكُمُ کے الفاظ استعمال کر کے یہ تسلی دلائی ہے کہ اگر حقیقی تو بہ ہوگی تو بخشش یقینی ہے.اور صرف بخشش ہی نہیں بلکہ اس کے فضل کے بھی ایسے دروازے کھلیں گے کہ انسان کی سوچ سے بھی باہر ہوں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کے جس پہلے عمل کی طرف توجہ دلائی ہے وہ جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں فقر سے ڈرانا ہے.یعنی قربانیوں کے نتیجے میں ، غربت اور نہ صرف غربت بلکہ اس حد تک تباہ حالت کہ جس طرح ریڑھ کی ہڈی کے بغیر انسان کھڑا نہیں ہوسکتا تو شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ان قربانیوں کی وجہ سے تم کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہو گے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان جھوٹ بولتا ہے.قیامت کے دن اس نے تو اپنی ان باتوں سے مگر جانا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہارے سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ تمہاری بخشش کے سامان کرے گا.اس کے نتیجہ میں جہاں اس دنیا میں اپنے انعامات سے نوازے گا وہاں اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے گا.پھر شیطان جو ہے وہ فحشاء کا حکم دیتا ہے جس کے کرنے سے اس دنیا میں بھی انسان کئی قسم کی مشکلات میں گرفتار ہو جاتا ہے.بعض قسم کے گند اور بیہودگیاں جن سے انسان بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.کئی قسم کے نقصانات اس کو اٹھانے پڑتے ہیں جو دنیاوی نقصانات بھی ہیں اور آخری زندگی میں عذاب کی صورت میں اس کو ملتے ہیں.لیکن ایک مومن سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس پر اپنے فضلوں کو بڑھائے گا اور بڑھاتا چلا جائے گا اور برکتوں کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے.جو دنیا اور آخرت میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہوئے اس کے درجات میں ترقی کا باعث بنیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وعدہ اس خدا کا وعدہ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے وہ واسع ہے.اس کے پاس فضلوں کے نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں.آج ایک احمدی جو کسی بھی قسم کی قربانی کرنے والا ہے یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قربانی کے نتیجہ میں ایسے فضل فرماتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ کس کس طریقے سے اس کی اللہ تعالی مددفرما رہا ہے.مالی قربانی کرنے والوں کے مالوں میں اتنی وسعت دیتا ہے کہ بعض اوقات ان کے
217 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا.کئی لوگ خط لکھ کر اس کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کے رزق میں اتنی برکت پڑی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے.جان قربان کرنے والوں کو اموال و نفوس میں اتنی برکت دیتا ہے کہ ان کی اولادوں کی سوچ سے بھی باہر ہے.کئی احمدی خاندان ہیں جن کے افراد نے احمدیت کی خاطر شہادت کا رتبہ حاصل کیا اور ان کی اولادیں اور ان کے عزیز اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ شہادتیں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ان پر بے انتہا برکات اور فضل نازل کرنے کی وجہ بنیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بے انتہا نظارے دیکھے.اس خدا کے جو وَاسِعُ ہے اور علیم بھی ہے.علیم کہ کر تو یہاں اس طرف بھی توجہ دلائی کہ تمہاری قربانیاں تمہارے اعمال اس کے علم میں ہیں.آئندہ بھی جو عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوگا تو واسخ خدا اپنے وسیع تر فضلوں سے تمہاری تو قعات سے بڑھ کر تمہیں حصہ دیتا رہے گا.پس یہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مزید احسان کس طرح کرتا ہے یہ دیکھیں کہ اپنی تو بہ اور استغفار اور نیک اعمال اور قربانیاں جو ہیں وہی اس کی بخشش کے سامان نہیں کر رہی ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وسیع تر رحمت سے فرشتوں کو بھی اس کام پر لگایا ہوا ہے کہ جو بندے ایمان لانے والے ہیں اور توبہ کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہیں اس کی خاطر قربانیاں دینے والے ہیں ان کے لئے بخشش طلب کرو.جیسے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ مومن میں فرماتا ہے کہ الَّذِيْنَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْ ءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ـ (المومن : 8) کہ وہ جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے گرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بخشش طلب کرتے ہیں جو ایمان لائے.اے ہمارے رب تو ہر چیز پر رحمت اور علم کے ساتھ محیط ہے.پس وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی ان کو بخش دے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا.یہاں عرش کو اٹھائے ہوئے سے مراد فرشتے ہیں.سورۃ الحاقہ میں واضح طور پر فرشتوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ قیامت کے دن وہاں آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے.بہر حال یہاں عرش اٹھانے والوں سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں یا وہ صفات ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرشتے مامور کئے گئے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں یعنی رب ہے رحمن ہے رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے.جو اس دنیا میں انسان کے کام آتی ہیں.بنیادی صفات پر جو ایمان لانے والے ہیں اور ایمان لانے کے بعد تو بہ کی طرف توجہ کرنے والے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور نیک اعمال بجالانے والے ہیں ان کے لئے فرشتے بھی دعا کرتے ہیں خاص طور پر وہ فرشتے جن کے
218 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 ذمہ خدا تعالیٰ نے ان صفات کو انسانوں پر جاری کرنے کے لئے لگایا ہے.ہر فرشتہ جس کے ذمہ متعلقہ صفت ہے خدا تعالیٰ سے اس صفت کے حوالے سے دعا کرتا ہے.ان لوگوں کے لئے بخشش طلب کرتا ہے جو ایمان لانے کے بعد پھر اس کوشش میں ہیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں اور ہمیشہ تو بہ کرتے ہوئے اور نیک اعمال بجالاتے ہوئے اس قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور شیطان کے حملوں سے بچے رہیں.اسی طرح جوان فرشتوں کے ماتحت فرشتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کا جو نظام ہے اس میں ماتحت فرشتے بھی ہیں ان صفات کو جو فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ان کے نیچے جو کام کر رہے ہیں وہ بھی ان بندوں کے لئے بخشش طلب کر رہے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں گویا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اعمال کو زیادہ سے زیادہ اجر دینے کے لئے اپنے فرشتوں کے نظام کو بھی متحرک کیا ہوا ہے کہ میرے ان بندوں کے لئے بخشش طلب کرتے رہو جس سے جہاں ان کے اجر بڑھتے رہیں گے وہاں ان کو ان فرشتوں کی بخشش مانگنے کی وجہ سے ہمیشہ نیک اعمال اور توبہ کی توفیق بھی ملتی رہے گی.بندہ جو ہے لغزشوں اور غلطیوں سے پُر ہے.اگر لغزشیں ہوتی رہیں اور کہیں غلطی سے عارضی ٹھوکر لگ جائے ، جان بوجھ کر انسان غلطیاں نہ کرتا چلا جائے تو یہ فرشتے اللہ تعالی کو اس کی رحمت کا واسطہ دے کر کہتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے علم کا واسطہ دے کر کہتے ہیں جو بے کنارہے ، جس کی کوئی حدیں نہیں ہیں کہ انہیں بخش دے اور آئندہ بھی یہ لوگ تیری پیروی کرتے ہوئے تیری بخشش سے حصہ لیتے رہیں.یہاں رحمت کا ذکر پہلے کر کے بخشش کی دعا کی ہے کہ بخشش تو تیری رحمت سے ہوتی ہے.پس اپنی وسیع رحمت کو جاری کرتے ہوئے بخشش کے سامان کرتا رہ.بے شک تیرا علم وسیع ہے جو انسان کے، ان لوگوں کے دلوں میں ہے، وہ بھی تجھے علم ہے.اور آج اس نیک کام کے بعد آئندہ جو عمل ہونے ہیں ان کے بارے میں بھی فرشتے کہتے ہیں اے خدا ان کا تجھے بھی علم ہے.تو ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہوسکتا ہے کہ تیرے علم میں ہو کہ یہ بگڑ جانے والے ہیں اور جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں لیکن اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے ان کے نیک اعمال کو دائگی کر دے تا کہ یہ ہمیشہ نیکیوں کی طرف ہی مائل رہیں اور جہنم کی آگ سے بچے رہیں اور اگر تیری رحمت ہوگی تو ان کو یہ توفیق بھی ملتی رہے گی.پس یہ ہے ہمارا رحمن خدا اور غفور و رحیم خدا جو انسان کی بخشش کے سامان کرنے اور اسے نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے.ایک گناہ ہو تو اس گناہ کی اس کو اتنی سزا ملتی ہے لیکن ایک انسان اگر نیکی کرتا ہے تو دس گنا اجر ملتا ہے.قربانیوں کا معاملہ آیا تو فرمایا کہ اس قربانی کا سات سو گنا اجر ہے.پھر فرمایا کہ اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتا ہے.کیونکہ واسع خدا ہے اس کے اجر کی کوئی انتہا نہیں.لیکن پھر بھی انسان کتنا نا شکرا ہے کہ اس رحمن اور رحیم خدا کو چھوڑ کر جس کے اجر کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں شیطان کے بہکاوے میں آ کر جو عارضی لذت ہے اس کی طرف پکتا ہے.
219 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 پھر حضرت موسی کی ایک دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ذکر فرمایا ہے.اس کا سورۃ اعراف میں ذکر ہے کہ وَاكْتُبُ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ.قَالَ عَذَابِى أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُمُ بِايْتِنَا يُؤْمِنُونَ (الاعراف: 157) اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنہ لکھ دے اور آخرت میں بھی.( یہ پچھلی آیت میں بھی دعا چل رہی ہے، کچھ حصہ اس آیت میں ہے ).یقینا پھر ہم تیری طرف تو بہ کرتے ہوئے آگئے ہیں.اس نے کہا ، اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا عذاب وہ ہے جس پر میں چاہوں اس کو وارد کر دیتا ہوں اور میری رحمت وہ ہے کہ ہر چیز پر حاوی ہے.پس میں اس رحمت کو ان لوگوں کے لئے واجب کر دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن میں جو انبیاء کے قصے بیان کئے گئے ہیں وہ آئندہ کے لئے پیشگوئیوں کی صورت بھی رکھتے ہیں.پھر جب ان دعاؤں کی قبولیت کا ذکر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ذکر کرتا ہے تو یہ رحمت آج بھی اسی طرح پھیلی ہوئی ہے جس طرح پہلے تھی.بشرطیکہ انسان جو ہے ان شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کرے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی بے انتہا اور بے کنار رحمت کے ذکر میں فرماتا ہے کہ یہ ہر چیز پر حاوی ہے.لیکن ساتھ ہی انسانوں کو ان کے مقصد پیدائش کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ ٹھیک ہے میری رحمت تو ہر چیز پر حاوی ہے لیکن تمہارے ذمہ بھی بعض ذمہ داریاں لگائی گئی ہیں ان کو بھی ادا کرو اور شیطان کے پیچھے نہ چلو اور ذمہ داری یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو ، میری عبادت کرو، میرے سے سب رشتوں سے بڑھ کر محبت کرو، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے مالی قربانیاں بھی کرو اور میری آیات پر ایمان لاؤ.اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں اور ماموروں کا دنیا میں آنا بھی خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانوں میں سے ایک ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نشانات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آنحضرت مے کے عاشق صادق ہیں ان کی آمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نشانات کا ایک سلسلہ شروع کیا جو چاند، سورج گرہن کی صورت میں بھی ہمیں نظر آتا ہے.کبھی زلزلوں کی صورت میں یہ ظاہر ہوا.کبھی طاعون کی صورت میں یہ ظاہر ہوا.پھر اس زمانہ کی ایجادات ہیں ان کے بارہ میں پیشگوئیاں تھیں یہ بھی نشانیاں تھیں جو پوری ہو رہی ہیں اور یہ نشانات اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد دکھا رہا ہے.خود یہ لوگ تسلیم کرتے ہیں زلزلے آئے ہیں بیماریاں بڑھ گئی ہیں.پہلے بھی تھیں لیکن یہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اتنی شدت پہلے نہیں تھی اور پھر جب دعوی کرنے والے نے یہ اعلان کر دیا کہ یہ ہو گا اور میری تائید میں ہو گا تو پھر یہ خاص نشان بن جاتا ہے.
220 خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نشانوں کو دیکھو، ان پر ایمان لاؤ اور میرے بھیجے ہوئے کی تضحیک نہ کرو تو تم پر میری رحمت کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہوگی.رحمت پھیلتی چلی جائے گی اور ان پر یہ ضرور واضح ہو جائے گی جو نیک اعمال بجالا رہے ہوں گے.باقی اللہ تعالی مالک ہے.اس نے خود فرمایا جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس کو چاہے گا بخش دے گالیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی صفت کو ہر چیز پر حاوی کیا ہوا ہے اس لئے بندے کو یہی امید رکھنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھتے ہوئے اس کے احکامات پر چلنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے.ایک مومن کا تو خاص طور پر یہ کام ہے.اس کا یہ کام نہیں کہ جو بات اللہ تعالیٰ نے اپنے پر واجب کی ہے اسے چھوڑ کر اس بات کو پکڑے کہ خدا کی رحمت وسیع ہے اس لئے ، جو مرضی کرتے رہو بخشا جاؤں گا.یہ بیوقوفوں کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو نہ سمجھنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں کہ : ” اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی (صفت) عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے.یعنی یہ صفت قانون الہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے.(جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 207) کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بے شک وسیع ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی صفت عدل کے تحت غضب بھی رکھتا ہے.جب وہ فیصلہ کرنے لگتا ہے تو انصاف کرتا ہے.جب انسان قانون الہی جو ہے اس کو توڑتا ہے، اپنی حدوں سے بڑھتا ہے تو اس وقت یہ جو عدل کی صفت ہے اپنا حق پیدا کر دیتی ہے اور اس وقت اس کی خصوصیت پیدا ہو جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے جو قانون قدرت رکھا ہے اس کے تحت حد سے زیادہ بڑھنے والوں کو سزا بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے.اس لئے اس نے گناہگاروں کے بارہ میں رحمت حاوی کرنے کا نہیں فرمایا بلکہ تقویٰ پر چلنے والوں، زکوۃ دینے والوں اور جو خدا تعالیٰ کے نشانوں پر ایمان لانے والے ہیں ان کے بارہ میں فرمایا کہ ان پر میری رحمت واجب ہے.پس ایک مومن کا کام ہے کہ اس رحمت کے حصول کی کوشش کرتا رہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمتوں کی امید رکھے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 22 مورخہ 29 مئی تا 4 جون 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 7)
خطبات مسرور جلد ہفتم 221 (20) خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 فرمودہ مورخہ 15 رمئی 2009ء بمطابق 15 ہجرت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں ، میں نے خدا تعالیٰ کے واسِعُ ہونے کے حوالہ سے قرآن کریم میں بعض امور اور جو احکامات بیان ہوئے ہیں ، ان کا ذکر کیا تھا.آج بھی یہی سلسلہ آگے چلے گا اور اس تسلسل میں بعض آیات کی روشنی میں جن میں متنوع اور مختلف قسم کے مضامین بیان کئے گئے ہیں، جن کا تعلق ہماری روزمرہ کی زندگی سے بھی ہے اور ہماری اخلاقی اور روحانی حالتوں سے بھی ہے ان کا ذکر کروں گا.اللہ تعالیٰ جو اپنے وسیع تر علم کی وجہ سے ہمارے ہر عمل کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس نے یہ امور اور احکامات بیان فرما کر ہماری ان راستوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جن پر چل کر ہم اللہ تعالیٰ کے وسیع تر فضلوں کے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق حصہ دار بن سکتے ہیں ، ان کو سمیٹنے والے بن سکتے ہیں، ان سے فیض پانے والے بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس حوالہ سے ہمارے عائلی معاملات کے بارہ میں بھی رہنمائی فرمائی ہے.ہمارے معاشرتی معاملات کے بارہ میں بھی رہنمائی فرمائی ہے.ہماری دینی حالتوں کو صحیح نہج پر چلانے کے لئے بھی راہنمائی فرمائی ہے.ہماری روحانی اور اخلاقی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی طرف بھی راہنمائی فرمائی ہے.غرض ہر پہلو جو بھی انسانی زندگی کا ہے اس بارہ میں خدا تعالیٰ مکمل احاطہ کئے ہوئے ہے، اس بارہ میں ہماری راہنمائی فرماتا ہے.کیونکہ انسان کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنی صفات کو اپنانے کا حکم فرمایا ہے اس لئے اس صفت کے حوالہ سے اسے بھی اپنے روحانی اور اخلاقی مرتبوں کے حصول کے لئے اپنی کوششوں اور عملوں میں وسعت پیدا کرنے کا حکم دیا ہے تا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا بن سکے.لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ مجھے کیونکہ تمہاری استعدادوں کا علم ہے اس لئے جو کام میں نے تمہارے سپرد کئے ہیں وہ تمہاری استعدادوں سے بڑھ کر نہیں ہیں.تو پھر ان استعدادوں کی وسعت بھی ہر انسان کی برابر نہیں ہوتی.اور جب استعدادیں برابر نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ جب حکم دیتا ہے تو اتناہی دیتا ہے جتنا کسی کی طاقت ہے.لیکن اپنی استعدادوں کی حدود مقررکرنا انسان کا کام نہیں ہے.یہ
222 خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم خدا تعالیٰ ہی ہے جو ہر ایک کی صلاحیتوں اور استعدادوں کو جانتا ہے اس لئے جو بھی اللہ تعالیٰ نے احکامات نازل فرمائے اس بارہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہماری استعدادوں سے باہر ہیں.چھپی ہوئی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ودیعت فرمائی ہیں.ان کو نکالنا، ابھارنا صیقل کرنا یہ ہر انسان کا کام ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ کا ذکر فرما کر جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہیں تو اس انسان کامل کے اُسوہ حسنہ پر ہمیں چلنے کے لئے بھی تلقین فرمائی.انسان کامل تو ایک ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا جس کی صلاحیتوں اور استعدادوں کی وسعتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں.آپ کی زندگی کے کسی بھی پہلو پر ہم غور کریں تو ایک عظیم معیار ہمیں نظر آتا ہے.لیکن ہمیں حکم یہ ہے کہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے اور اس پر چلنا تمہارا فرض ہے.کوشش کر و حتی المقدور کوشش کرو کہ اس پر چل سکو.میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جن باتوں میں راہنمائی فرمائی ان میں عائلی معاملات بھی ہیں.قرآن کریم کی بعض آیات ہیں جو میں اس ضمن میں پیش کروں گا.لیکن ان کو پیش کرنے سے پہلے آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کا ذکر کروں گا جو اس ضمن میں ہمارے سامنے ہے کہ آپ کا اپنے اہل کے ساتھ کیا سلوک تھا ؟ اور اس سلوک میں آپ نے کیسا اعلیٰ معیار قائم فرمایا.آپ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں.ترندی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی الله ، حدیث نمبر 3895) پھر آپ نے ہمیں نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ تمہیں اگر ایک دوسرے میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا دوسرے کی عادت یا حرکت نا پسند ہے تو کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگتی ہوں گی.مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء- حدیث نمبر 3645) تو ان اچھی باتوں کو سامنے رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرنا چاہئے اور موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے.یہ دونوں کے لئے حکم ہے.مرد کے لئے بھی اور عورت کے بھی اور آپ کی تمام بیویاں اس بات کی گواہ ہیں کہ آپ نے ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا.سفر پر جاتے تو بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے تھے جس کا نام آتا اسے ساتھ لے کر جاتے.( بخاری کتاب المغازی باب حدیث افک حدیث نمبر 4141) بیویوں کی بیماری کی حالت میں تیمارداری فرماتے.( بخاری کتاب المغازی باب حدیث افک حدیث نمبر 4141) ان کے جذبات کا خیال رکھتے.لیکن اس کے باوجود یہ دعا آپ فرماتے ہیں کہ اے اللہ! تو جانتا اور دیکھتا ہے
223 خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کہ انسانی کوشش کی حد تک جو برابری اور منصفانہ تقسیم ہوتی ہے وہ میں کرتا ہوں.میرے مولا! دل پر تو میرا اختیار نہیں ہے اگر دل کا میلان کسی خوبی اور کسی کی صلاحیتوں اور قابلیت کی وجہ سے کسی کی طرف ہے تو مجھے معاف فرمانا.(ابوداؤ د کتاب النکاح باب فی القسم بين النساء حدیث نمبر 2134) حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جو تعلق تھا اس کے بارہ میں حضرت عائشہ کو یہ جواب دیا کہ خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا.وہ اس وقت میری مددگار بنی جب میں بے یارومددگار تھا.اس نے اپنا مال بے دریغ مجھ پر فدا کیا.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد بھی دی.انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب دنیا نے مجھے جھٹلایا.( مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 204 مسند عائشۃ حدیث نمبر 25376 عالم الكتب بيروت 2008ء) اور آپ کی یہ قدرشناسی آپ کے وسیع تر قدر شناس دل میں ہمیشہ رہی.باوجود اس کے کہ آپ کی زندہ اور جوان بیویاں موجود تھیں اور آپ کی محبوب بیوی موجود تھی جو اس وجہ سے محبوب تھی کہ خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ وحی اس کے حجرے میں ہوئی.(ترمذی کتاب المناقب باب فضل عائشہ حدیث نمبر (3879) اس نے جب عرض کیا کہ آپ کے پاس زندہ بیویاں موجود ہیں کیونکہ ہر وقت اس بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں تو بڑے پیار سے اسے سمجھایا کہ تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرو.وسعت حوصلہ پیدا کرو.یہ یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میں اپنی پہلی بیوی کا ذکر کرتا ہوں اور یاد کرتا ہوں.( مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 204 مسند عائشہ حدیث نمبر 25376 ایڈیشن 1998 مطبوعہ بیروت) آج جو مستشرقین اور آنحضرت ملے پر الزام لگانے والے بیہودہ گوئیوں کی انتہا کئے ہوئے ہیں کیا انہیں میرے آقا کا یہ اُسوہ حسنہ نظر نہیں آتا کہ کس طرح انہوں نے اپنے عائلی حقوق ادا کئے کہ زندہ بیویوں کے ساتھ بھی برابری کا سلوک ہے باوجود اس کے کہ دل پر کسی کا اختیار نہیں.پھر بھی جو ظا ہری سلوک ہے وہ ایک جیسا رکھا اور جس بیوی نے ابتدا میں ہی سب کچھ قربان کر دیا قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ، زندہ بیویوں کو بھی بتا دیا.کہ میں تو قدر شناس ہوں، اگر میں یہ قدرشناسی نہ کروں تو اس خدا کا شکر گزار نہیں کہلا سکوں گا جس نے مجھے کبھی تہی دامن نہیں چھوڑا اور اپنی وسیع تر نعمتوں سے مجھے حصہ دیتا چلا گیا.آنحضرت ﷺ کا اپنی بیویوں سے حسن سلوک اس وجہ سے تھا کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرو اور جب آپ نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس پر عمل کرو تو خود اس کے اعلیٰ ترین نمونے قائم فرمائے.
224 خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم قرآن کریم میں اگر اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادی کا حکم دیا ہے تو بعض شرائط بھی عائد فرما ئیں.یہ بھی اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دے کر عورت پر ظلم کیا گیا ہے.یا صرف مرد کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے صرف.اس بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے، کھلا حکم نہیں ہے.فرمایا وَاِن خِفْتُمُ الَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتمى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمُ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنى وَثُلث وَرُبَعَ.فَإِنْ خِفْتُمُ إِلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً اَوْمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمُ.ذَلِكَ أَدْنَى اَلَّا تَعُولُوا ( النساء:4) اور اگر تم ڈرو کہ تم بتامی کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو.دو دو اور تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک کافی ہے یا وہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یہ طریق قریب تر ہے کہ تم نا انصافی سے بچو.اس آیت میں ایک تو یتیم لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے کہ تیموں سے بھی شادی جب کرو تو ظلم کی وجہ سے نہ ہو بلکہ ان کے پورے حقوق ادا کر کے شادی کرو اور پھر شادی کے بعد ان کے جذبات کا خیال رکھو اور یہ خیال نہ کرو، یہ کبھی ذہن میں نہ آئے کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں.تو جس طرح چاہے ان سے سلوک کر لیا جائے.اور اگر اپنی طبیعت کے بارہ میں یہ خوف ہے، یہ شک ہے کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو آزاد عورتوں سے نکاح کرو ، دو، تین یا چار کی اجازت ہے لیکن انصاف کے تقاضوں کے ساتھ.اگر یہ انصاف نہیں کر سکتے تو ایک سے زیادہ نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ : یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں.لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور ا قارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے.ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشر طیکہ اعتدال کرو.اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو.گو ضرورت پیش آوے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 337) گوضرورت پیش آوئے.یہ بڑا با معنی فقرہ ہے.اب دیکھیں اس زمانہ کے حکم اور عدل نے یہ کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ تمہاری ضرورت جس کے بہانے بنا کر تم شادی کرنا چاہتے ہو، تمہاری ضرورت جو ہے وہ اصل اہمیت نہیں رکھتی بلکہ معاشرے کا امن اور سکون اور انصاف اصل چیز ہے.آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں، اولاد ہے لیکن خاوند مختلف بہانے بنا کر شادی کرنا چاہتا ہے.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ فرمایا اگر انصاف نہیں کر سکتے تو شادی نہ کرو اور انصاف میں ہر قسم کے حقوق کی
خطبات مسرور جلد ہفتم 225 خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 ادائیگی ہے.اگر آمد ہی اتنی نہیں کہ گھر چلا سکو تو پھر ایک اور شادی کا بوجھ اٹھا کر پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھینے والی بات ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کرنی ہی پڑے تو پھر اس صورت میں پہلی بیوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھو.(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 430 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) لیکن عملاً جو آج کل ہمیں معاشرے میں نظر آتا ہے پہلی بیوی اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف سے آہستہ آہستہ بالکل آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کر رہے ہوتے ہیں.پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ مالی کشائش اور دوسرے حقوق کی ادائیگی میں بے انصافی تو نہیں ہوگی ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے.دوسری شادی کر کے.احکام جلد 2 نمبر 2 مؤرخہ 6 مارچ 1898 صفحہ 2) پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انہیں ادانہ کر کے انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے یا پڑ سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتا ہے.میں نے آنحضرت ﷺ کی ایک دعا کا ذکر کیا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا عرض کرتے تھے کہ میں ظاہری طور پر تو ہر ایک کے حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کسی بیوی کی کسی خوبی کی وجہ سے بعض باتوں کا اظہار ہو جائے جو میرے اختیار میں نہیں تو ایسی صورت میں مجھے معاف فرما.اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور خدا تعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی، جو بندے کے دل کا حال بھی جانتا ہے جس کی پاتال تک سے وہ واقف ہے ، غیب کا علم رکھتا ہے.اس نے اس بارہ میں قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے تم کسی طرف زیادہ جھکاؤ کر جاؤ.تو ایسی صورت میں یہ بہر حال ضروری ہے کہ جو اس کے ظاہری حقوق ہیں، وہ مکمل طور پر ادا کر و.جیسا کہ سورۃ نساء میں فرماتا ہے کہ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمُ فَلا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا.( النساء: 130) اور اب تم یہ توفیق نہیں پا سکو گے کہ عورتوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چا ہو.اس لئے یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف کلیہ نہ جھک جاؤ کہ اس دوسری کو گویا لٹکتا ہوا چھوڑ دو.اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.
226 خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم تو ایسے معاملات جن میں انسان کو اختیار نہ ہو اس میں کامل عدل تو ممکن نہیں لیکن جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں انصاف بہر حال ضروری ہے.اور ظاہری انصاف جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ کھانا، پینا، کپڑے، رہائش اور وقت وغیرہ سب شامل ہیں.اگر صرف خرچ دیا اور وقت نہ دیا تو یہ بھی درست نہیں اور صرف رہائش کا انتظام کر دیا اور گھریلو اخراجات کے لئے چھوڑ دیا کہ عورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرے تو یہ بھی درست نہیں ہے.پس ظاہری لحاظ سے مکمل ذمہ داری مرد کا فرض ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس کا جھکاؤ صرف ایک طرف ہوا اور دوسری کو نظر انداز کرتا ہو تو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک حصہ جسم کا کٹا ہوا یا علیحدہ ہوگا.( سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب میل الرجل حدیث نمبر 3942) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہری حقوق دونوں کے ادا کرو اور کسی بیوی کو بھی اس طرح نہ چھوڑ و کہ وہ بیوی ہونے کے باوجود ہر حق سے محروم ہو.نہ اسے علیحدہ کر رہے ہو اور نہ اس کا حق صحیح طرح ادا کیا جا رہا ہو.ایک مومن کا وطیرہ یہ نہیں ہونا چاہئے.پس مومن کا فرض ہے کہ ان کاموں سے بچے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اپنی اصلاح کرے.بعض ایسی شکایات آتی ہیں کہ ایک بیوی کی طرف زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور دوسری بیوی کو چھوڑا گیا ہے اور پھر بعض دفعہ کسی بیوی کی بعض باتوں کا بہانہ بنا کر یہ کہا جاتا ہے بلکہ دونہ بھی ہوں تو ایک شادی کی صورت میں بعض عائلی جھگڑے ایسے بھی آتے ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ نہ میں تمہیں چھوڑوں گا یا طلاق دوں گا اور نہ ہی تمہیں بساؤں گا.اگر قضاء میں یا عدالت میں مقدمات ہیں تو بلاوجہ مقدمہ کو لمبالٹکایا جاتا ہے.ایسے حیلے اور بہانے تلاش کئے جاتے ہیں کہ معاملہ لکھتا چلا جائے.بعض کو اس لئے طلاق نہیں دی جاتی، پہلے میں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں، کہ یہ خود خلع لے تا کہ حق مہر سے بچت ہو جائے ، حق مہر ادا نہ کرنا پڑے.تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو تقویٰ سے دور لے جانے والی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اصلاح کرو، اگر تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم اور بخشش کے طلب گار ہو تو خود بھی رحم کا مظاہرہ کرو اور بیوی کو اس کا حق دے کر گھر میں بساؤ.اگر اللہ تعالیٰ کے وسیع رحم سے حصہ لینا چاہتے ہو تو اپنے رحم کو بھی وسیع کرو.جو میں نے آیت پڑھی تھی اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللهُ كُلَّا مِنْ سَعَتِهِ.وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا ( النساء:131) اور اگروہ دونوں الگ ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اس کی تو فیق کے مطابق غنی کر دے گا اور اللہ بہت وسعتیں دینے والا اور حکمت والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
227 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 اصلاح کی اگر کوئی بھی صورت نہیں تو گالمُعلقة یعنی لٹکتا ہوا نہ چھوڑ دو.پھر اس کا حق دے کر احسن طریق پر اسے رخصت کرو.اگر یہ گالمُعَلَّقہ چھوڑا ہے کسی مرد نے تو اس صورت میں بیوی کو بھی اختیار ہے کہ قاضی کے ذریعہ سے خلع لے لے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن مرد اور ایک مومن عورت تبھی تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے جو محبت پیار سے رہنے کی کوششیں کریں گے اور اگر یہ تمام کوششیں ناکام ہو جائیں تو ایک دوسرے سے شرافت سے علیحدہ ہو جائیں.اور مرد بھی احسن طور پر عورت کے حقوق ادا کر کے اسے علیحدہ کر دے تو یہی مرد پر فرض ہے اور عورت کا حق ہے.اور کیونکہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اکٹھے رہنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اس لئے علیحدگی ہو رہی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنی وسیع تر رحمتوں اور فضلوں سے دونوں مرد اور عورت کے لئے بہترین سامان پیدا فرما دے گا اور انہیں اپنی جناب سے غنی اور بے احتیاج کر دے گا.گو ایک حدیث کے مطابق مرد اور عورت کا علیحدہ ہونا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں انتہائی نا پسندیدہ فعل ہے.(ابوداؤ د کتاب الطلاق باب کراھیة الطلاق؛ حدیث نمبر ( 2178) لیکن کیونکہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اس رشتے کو قائم رکھنے کی تمام تر کوششیں جو تھیں وہ نا کام ہو چکی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے جب اس کی طرف جھکتے ہوئے یہ فیصلے کرنے پڑیں کہ بحالت مجبوری علیحدگی لینی پڑے، تو وہ اپنے واسع ہونے کی وجہ سے دونوں کے لئے پھر وسیع انتظام فرماتا ہے.کیونکہ وہ حکیم بھی ہے اس لئے جو فیصلے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے کئے جائیں وہ پر حکمت بھی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رہنمائی لئے ہوئے ہوتے ہیں.اس آیت میں ایک اصولی بات یہ بھی بیان ہو گئی ہے کہ رشتوں کے فیصلے جذبات میں آکر نہیں کرنے چاہئیں.نہ ماں باپ کی طرف سے نہ لڑکے لڑکی کی طرف سے کسی جذباتی پن کا اظہار ہو جائے یا جذباتی پن کا اظہار کرتے ہوئے رشتے طے کر دیئے جائیں بلکہ خدا تعالیٰ جو ہر بات کا جاننے والا اور احاطہ کئے ہوئے ہے اس سے مدد لیتے ہوئے دعا کر کے سوچ سمجھ کر رشتے جوڑنے چاہئیں اور جب ایسے رشتے جڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان میں اللہ پھر اپنے فضل سے وسعتیں بھی پیدا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں غنی کر دیتا ہے، ان کے مال میں بھی اللہ تعالی کشائش پیدا کر دیتا ہے.ان کے تعلقات میں بھی کشادگی پیدا کر دیتا ہے.میں نے طلاق کا ذکر کیا تھا کہ بعض مرد طلاق کے معاملات کو لٹکاتے ہیں اور لمبا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں.تو ایک تو جب شادی ہو جائے کچھ عرصہ مرد اور عورت اکٹھے بھی رہتے ہیں اور اولاد بھی بسا اوقات ہو جاتی ہے.پھر طلاق کی نوبت آتی ہے.اس کے حقوق تو واضح ہیں جو دینے ہیں مرد کے فرائض ہیں، بچوں کے خرچ بھی ہیں، حق مہر وغیرہ بھی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں جب ابھی
خطبات مسرور جلد هفتم 228 خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 رخصتی نہیں ہوئی ہوتی یا حق مہر مقرر نہیں ہوا ہوتا تب بھی عورت کے حقوق ادا کرو.سورۃ بقرہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوا | لَهُنَّ فَرِيضَةً ومَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِع قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ.مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ.(البقرة: 237) تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورت کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یا ابھی تم نے ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ.صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال یہ معروف کے مطابق اس متاع کو احسان کرنے والوں پر تو یہ فرض ہے.اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مرد کی طرف سے رشتہ نہ نبھانے کا سوال اٹھے، اس کی جو بھی وجوہات ہوں ، مرد کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں کو ختم کرتے وقت عورت سے احسان کا سلوک کرے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کو ادائیگی کرے.اگر اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے تو مرد کو حکم ہے کہ اس وسعت کا اظہار کرو.جس خدا نے وسعت دی ہے اگر اس کا اظہار نہیں کرو گے تو وہ اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہے کشائش دی ہے اگر حق ادا نہیں کرو گے، احسان نہیں کرو گے تو وہ کشائش کو تنگی میں بدلنے پر بھی قادر ہے.اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لینا ہے تو اپنے پر اُس وسعت کا اظہار عورت سے احسان کا سلوک کرتے ہوئے کرو اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت اور وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس لئے فرمایا کہ اگر غریب زیادہ دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی طاقت کے مطابق جو حق بھی ادا کر سکتا ہے کرے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نیکی کرنے والے اور تقویٰ سے کام لینے والے ہو تو پھر تم پر فرض ہے کہ یہ احسان کرو.آنحضرت ﷺ نے اس کی کس حد تک پابندی فرمائی، اس کا اظہار ایک حدیث سے ہوتا ہے.ایک دفعہ ایک انصاری نے شادی کی اور پھر اس عورت کو چھونے سے پہلے طلاق دے دی اور اس کا مہر بھی مقرر نہیں کیا گیا تھا.یہ معاملہ جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ تو کیا تم نے احسان کے طور پر اُسے کچھ دیا ہے؟ تو اس صحابی نے عرض کیا یا حضور ! یا رسول اللہ! میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ میں اسے کچھ دے سکوں.تو آپ نے فرمایا کہ اگر کچھ نہیں ہے تو تمہارے سر پر جوٹو پی پڑی ہوئی ہے وہی دے دو.(روح المعانی جلد نمبر 1 صفحہ 745,746 تفسیر سورة البقرة زير آيت : 237) تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس قدر عورت کے حقوق کا آنحضور ﷺ نے اظہار فرمایا اور خیال رکھا.یہ جو صورتحال بیان ہوئی ہے کہ اگر حق مہر مقرر نہیں بھی ہوا تو کچھ نہ کچھ دو تو اسی صورتحال میں اگر حق مہر پہلے مقرر ہو چکا ہے اس صورت میں کیا کرنا ہے؟ اس کا بھی اگلی آیات میں بڑا واضح حکم ہے کہ ایسی صورت میں پھر جب حق مہر مقرر ہو چکا ہو تو اس کا نصف ادا کرو.
229 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 اس طرح سے قرآن کریم نے عورتوں کے مردوں پر اور ان کے خاندانوں پر حقوق قائم فرمائے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ مردوں کے کیا فرائض ہیں.ان کے رشتوں کے بارہ میں یا بچوں کی رضاعت کے بارہ میں بڑے واضح احکامات بیان فرمائے ہیں.اسی طرح عورتوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں جو بڑے واضح طور پر بیان فرمائی گئی ہیں.جو اولا د اور خاوندوں کے بارہ میں ہیں ان کو ادا کرنا عورتوں پر فرض ہے.اور یہ تمام حقوق اور ذمہ داریاں جو مرد اور عورت کے ایک دوسرے پر ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تمام ذمہ داریاں ہم نے تمہاری طاقتوں اور استعدادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے مطابق تم پر ڈالی ہیں اس لئے انہیں ادا کرو.ان کی ایک تفصیل ہے جو میں اس وقت بیان نہیں کروں گا.اس وقت دو باتیں جو میں نے بیان کی ہیں وہ کافی ہیں.اس تعلق میں بیان کرنا چاہتا تھا کہ ایک تو یہ کہ بیویوں کے حقوق کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر ان حقوق کی ادائیگی کے اعلیٰ ترین معیار کس طرح آپ نے قائم فرمائے اور دوسری کہ اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر احمدی مسلمان کو ان حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا کس قدر ضروری ہے.خاص طور پر وہ فرائض جو اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ذمہ ڈالے ہیں.اب میں ایک اور امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں جو جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام تو نہیں ہے لیکن اس کی آواز بھی کہیں کہیں احمدی معاشرے میں سنی جانے لگی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ الانعام میں فرماتا ہے کہ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَإِذَ اقْلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللَّهِ اَوْفُوا ذَلِكُمْ وَضَكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ.(الانعام : 153 ) اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ.یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو.ہم کسی جان پر اس کی وسعت سے بڑھ کہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور جب بھی تم کوئی بات کرو تو عدل سے کام لو.خواہ کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو.یہ وہ امر ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً پانچ باتیں ہیں جو کرنے کے لئے ہمیں کہا ہے.پہلی بات تو اس کے علاوہ یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ ہم کسی پر کوئی ذمہ داری اس کی وسعت سے بڑھ کر نہیں ڈالتے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وسیع تر علم کی وجہ سے جانتا ہے کہ بندے کی استعداد میں کیا ہیں اور کس حد تک یہ استعداد میں ہیں.پس جو احکامات بھی خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں وہ ہماری طاقت کے اندر ہیں جنہیں ہم بجالا سکتے ہیں.اس آیت میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے سب سے پہلے تو یہ حکم ہے کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ سوائے احسن طریق کے.اور یتیموں کا مال جن کے پاس آتا ہے.وہ اس کے امین ہیں.اس لئے انہیں ان
خطبات مسرور جلد هفتم 230 خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 تیموں کی بہتری کے لئے استعمال کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے.اس سے پہلے فرمایا کہ کوشش تو یہ ہو تمہاری اس آیت سے پہلی ایک دو آیتوں میں کہ تیموں کا مال محفوظ رہے اور ان کی تعلیم اور تربیت اپنے طور پر کر ولیکن اگر کوئی صاحب حیثیت نہیں اور خرچ برداشت نہیں کر سکتا تو وہ احتیاط سے ان کے مال میں سے ان پر خرچ کرے نہ کہ ان کے بڑے ہونے تک تمام مال ہی لٹا دے.(النساء : 7) پس صحیح ایماندار وہی ہے جو قیموں کے بڑے ہونے تک ان کی دولت اور جائیداد کے امین ہونے کا صحیح حق ادا کرتا ہے اور صحیح حق اس وقت ادا ہوتا ہے کہ جس طرح اپنے سرمائے کا درد ہو کسی کو اور سوچ سمجھ کر اسے وہ کاروبار میں لگاتا ہے.تجارت پر لگاتا ہے، منافع پر لگاتا ہے.یا منافع بخش کاروبار پر لگاتا ہے.صرف منافع پر تو کوئی کاروبار نہیں ہوتا.کیونکہ صرف منافع پر ہی لگایا جائے تو وہ سود کی صورت بن جاتی ہے.تو بہر حال جس طرح اپنے مال کا درد ہے اس طرح یتیموں کے مال کا بھی درد ہونا چاہئے.حکم ہے کہ تیموں کے مال کو بھی اسی طرح انویسٹ (Invest) کرو تا کہ اس کا روبار میں برکت پڑنے کی وجہ سے ان کو منافع حاصل ہو جب یا ان کی جائیداد بڑھے.اس کا روبار میں برکت کی وجہ سے اور جب وہ بڑے ہوں تو ان کو اپنے کاروبار کی وسعت نظر آتی ہو.تو اس سے وہ باوجود یتیم ہونے کے معاشرے کا ایک باوقار اور باعزت حصہ بن جائیں گے.لیکن بعض دفعہ بعض شکایات آتی ہیں جن میں رشتہ داروں، یتیموں کے مالوں کی حفاظت میں دیانتداری سے کام نہیں لیا گیا ہوتا.کسی رشتہ دار کے پاس اس کے یتیم بھتیجے بھانجے ہیں تو ان کے مال سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے.تو ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ ایسا مال کھانے سے ان کے مال میں ان کی جائیدادوں میں کبھی وسعت پیدا نہیں ہوسکتی اور اگر وہ اس دنیا میں کوئی مالی منفعت حاصل کر بھی لیں تو وہ اس طریقے سے پھر اللہ تعالیٰ کے اس انذار کے نیچے آنے والے ہوں گے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تیموں کا مال کھانے والے جو ہیں ان کے بارہ میں فرمایا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا - ( النساء: 11) کہ وہ صرف اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور جوان ظلم کرنے والوں کے مددگار بنتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے باہر نہیں نکل رہے ہوتے.جس کا آگے ذکر آیا ہے اس آیت میں کہ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى (الانعام : 153) که عدل سے کام لو خواہ کوئی قریبی ہو.پس یہ بہت خوف کا مقام ہے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت بھی کی جائے اور غلط طریقے سے اگر کوئی اس کو استعمال کر رہا ہے تو ان کے کبھی مددگار نہ بنا جائے.پھر قیموں کے مالوں کی حفاظت اور ان کے بالغ ہونے پر ان کے سپردان کا مال کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کر ولیعنی کاروبار میں دھوکہ نہ کرو.کیونکہ قوموں پر آنے والی تباہیوں میں یہ کاروباری دھو کے جو ہیں ایک وجہ بن جاتے ہیں.تو صحابہ کا طریق جو تھا کہ بعض دفعہ ایسے موقعے پیدا ہوتے تھے اگر بظاہر گاہک کو نقص نہ بھی نظر آ رہا ہو مال میں تب بھی اپنے مال کے بارہ
231 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 2009 میں وہ خود بتاتے تھے کہ اس میں یہ یہ نقص ہے تا کہ کسی بھی قسم کا دھوکہ نہ ہو.تو آخر پر پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا عدل کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.آخر پہ یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے اپنے عہد کو پورا کرو.پہلی باتیں تو ہیں معاشرے کی بہتری کے لئے اور ان کے حقوق قائم کرنے کے لئے لیکن ان پر عمل بھی تبھی ہو سکتا ہے جب یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس کا علم وسیع تر ہے وہ جانتا ہے کہ کون کس حد تک عہد نبھا رہا ہے.جب اپنے عہدوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات کو سامنے رکھتے ہوئے پورا کرو گے تبھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا صحیح حق ادا کر سکو گے اور جب یہ باتیں تمہیں سمجھ آجائیں گی تو تبھی سمجھا جائے گا کہ تم نے نصیحت پکڑی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر ختی سے عمل کرنے پر کار بند ہونے کی کوشش کی ہے اور یہ دل میں خیال نہیں لائے کہ یہ کام میری استعدادوں اور صلاحیتوں سے بالا تر ہے بلکہ ہمیشہ یہ کوشش کرو کہ جو بھی احکامات اللہ تعالیٰ کے ہیں ہماری صلاحیتوں کے اندر ہیں اور ہم نے ان کو بجالانا ہے.جب ہماری یہ سوچ ہوگی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہوگی تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس خوشخبری سے محض اور محض اس کے فضل سے حصہ پانے والے ہوں گے.جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.أُولَئِكَ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمُ فِيْهَا خَلِدُونَ (الاعراف: 43) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ہم ان میں سے کسی جان پر وسعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتے اور یہی وہ لوگ ہیں جو جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں.اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اُس خدا کے آگے جھکنے والے اور اُس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں جس نے ہماری استعدادوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے ہمیں اعمال بجالانے کا حکم دیا ہے.جس نے ہم پر ہماری محدود وسعت کے مطابق اعمال کا بوجھ ڈالا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی بے کنار اور بے انتہا اور وسیع تر نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بخشش کی چادر میں لپیٹنے کی خوشخبری بھی دی ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ اس کی وسیع تر رحمت اور شفقت کی وجہ سے ایمان میں بڑھنے اور نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 23 مورخہ 5 جون تا 11 جون 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 232 (21) خطبه جمعه فرموده 22 مئی 2009 فرمودہ مورخہ 22 رمئی 2009ء بمطابق 22 ہجرت 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ اَنْشَاكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ اَنْتُمْ آجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ.فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتقى.(النجم: 33) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : دو کبھی یہ دعوی نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَلا تُزَكُوا انْفُسَكُمُ کہ تم اپنے آپ کو مُزَشی مت کہو.وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 96 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس پاک ہونا، مری ہونا ، تقویٰ سے مشروط ہے.اور تقویٰ کیا ہے؟ ہر قسم کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بچنا.ہر اس عمل کو بجالانا جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ہر اس بات سے بچنا جس کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا.اس لئے خدا تعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں فرمایا ہے، میں تمہارے نفسوں کو پاک کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کس کے دل میں حقیقی تقویٰ بھرا ہوا ہے اور کس حد تک کسی کا تزکیہ ہوا ہے.اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اسے وہ بھی پتہ ہے جو ہم ظاہر کرتے ہیں اور اس کے علم میں وہ بھی ہے جو ہم چھپاتے ہیں.اللہ تعالی کو بھی بھی اور کسی رنگ میں بھی دھوکہ نہیں دیا جاسکتا.حدیث میں آتا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.خدا تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ بندے کے عمل کرنے کی نیت کا علم رکھتا ہے.بظاہر نیکیاں کرنے والے ، عبادتیں کرنے والے، روزے رکھنے والے حتی کہ کئی کئی حج کرنے والے بھی ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی نیتوں میں فتور ہے تو اس فتور کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں.یہ تمام عبادتیں اور نیکیاں نہ صرف رد کر دی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں جس کا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے.لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ جہاں انذار کے ذریعہ سے ہمیں ڈراتا ہے، توجہ دلاتا ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ وہاں اپنی وسیع تر رحمت کا حوالہ دے کر بخشش
233 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 2009 کی امید بھی دلاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ڈرانا ہماری بھلائی اور ہمیں سیدھے راستے پر چلانے کے لئے ہی ہے.اللہ تعالیٰ تو جیسا کہ میں نے کہا دلوں کا حال جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہماری استعدادوں اور صلاحیتوں کی وسعت کا بھی علم ہے.اس لئے اُس نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ اگر تم تقوی دل میں رکھو نیتیں صاف رکھو اور اپنے عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجالانے کی کوشش کرو تو جو جو کوتاہیاں اور لغزشیں ہوتی ہیں انہیں وہ اپنی وسیع تر مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لیتا ہے.جیسا کہ وہ اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرماتا ہے.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ اچھے عمل والے وہ لوگ ہیں جو سوائے سرسری لغزش کے بڑے گنا ہوں اور فواحش سے بچتے ہیں.یقیناً تیرا رب وسیع بخشش والا ہے وہ تمہیں سب سے زیادہ جانتا تھا جب اس نے زمین سے تمہاری نشو و نما کی اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں محض جنین تھے.پس اپنے آپ کو یونہی پاک نہ ٹھہرایا کرو، وہی ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے کہ متقی کون ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے گناہوں اور فواحش سے بچنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور ساتھ ہی معمولی لغزشوں ،غلطیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر فرماتے ہوئے اپنی وسیع تر مغفرت کی وجہ سے بخشش کی بھی نوید دی ہے.لیکن ساتھ ہی آگے یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اندرونے سے واقف ہے.اور کہاں تک واقف ہے؟ ہمیں سمجھانے کے لئے اس انتہا کا بھی ذکر کیا کہ جب اس زمین میں زندگی کے آثار پیدا کئے.انسان کی پیدائش سے اربوں سال پہلے وہ ضروری لوازمات پیدا کئے جو انسان کی بقا کے لئے ضروری تھے.اُس وقت سے وہ تمہیں جانتا ہے.پھر کس فطرت میں انسان کو پیدا کرنا ہے، کیا کیا صلاحیتیں اور استعداد میں عطا کرنی ہیں، یہ ایک گہرا مضمون ہے جس کی طرف بعض دوسری آیات را ہنمائی فرماتی ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارا اتنا گہرا علم رکھتا ہے جتنا تم خود بھی نہیں رکھتے اور اس پیدائش اور نشو و نما کے عمل کا تم میں سے جو اکثریت ہے وہ علم بھی نہیں رکھتی.اس کا احاطہ کرنا تو دور کی بات ہے علم بھی نہیں ہے.اب اس زمانہ میں سائنسی تحقیق سے اس نظام کی تخلیق کے بارے میں بعض باتیں پتہ لگ رہی ہیں اور وہ بھی ایک خاص طبقے اور اس علم کا ادراک رکھنے والے لوگوں کو ہی اس کی سمجھ آتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے اُس وقت سے علم ہے کہ تمہاری صلاحیتیں کیا ہیں اور تمہارے عمل کیا ہونے ہیں اور تمہاری نیتیں کیا ہیں پھر اس سے ذرا نیچے آؤ.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنو جب تم ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی صورت میں تھے ، ابھی تمہارے اعضاء کی نشو ونما ہو رہی تھی ، اس وقت کا بھی میں علم رکھتا ہوں.آج کل ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بلکہ بعض ترقی پذیر ملکوں میں بھی طب کے میدان میں اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں حمل کے دوران بننے والی مختلف شکلیں الٹرا ساؤنڈ کے ذریعہ سے پتہ لگ جاتی ہیں اس لئے لوگ اکثر جانتے ہیں اور پتہ بھی کر لیتے ہیں کہ لڑکا پیدا ہونا ہے یا لڑکی پیدا ہونی ہے.عموماً ایک اندازے سے ڈاکٹر بتاتے ہیں سو فیصد تو وہ بھی نہیں بتا سکتے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس حالت سے گزرنے کے دور سے ہی یہ علم رکھتا ہے کہ تم کن
234 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 2009 صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پیدا ہو گے اور کن ڈوروں سے پیدا ہونے کے بعد گزرتے ہوئے اپنی زندگی کی منزلیں طے کرو گے.لیکن عالم الغیب ہونے کے باوجود اس نے بندوں کے سامنے نیک اور بداعمال کا ماحول میسر فرما دیا.جو نیک اعمال کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنے گا.جو بد اعمال کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آ سکتا ہے.اور نیک اعمال کیا ہیں؟ یہ وہ اعمال ہیں جو خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجالانے کی کوشش کی جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ جب تم نیک کام کرتے ہو تو اس وقت بھی بعض دفعہ دل میں خود پسندی پیدا ہو سکتی ہے.اس لئے کام کرنے کے باوجود بھی یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام نہیں ہے کہ ہم نیک اعمال بجالانے والے ہیں.بلکہ نیک اعمال بجالا نا کس نیت سے ہے.اگر نیک نیت سے ہے تو وہ نیک نیت اصل میں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی.یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس نیت سے نیک اعمال بجالائے جا رہے ہیں.اس لئے اللہ فرماتا ہے کہ کسی نیکی پر اترانے کی بجائے ہر نیک عمل عاجزی اور تقویٰ میں اور بھی زیادہ بڑھانے والا ہونا چاہئے.اور فرمایا کہ تقویٰ پر قائم ہو جانے کی سند نہ تو انسان خود اپنے آپ کو دے سکتا ہے نہ کسی بندے کا کام ہے کہ کسی دوسرے کو تقویٰ کی سند عطا کرے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.اللہ ہی ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے کہ متقی کون ہے.یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے شروع میں ہی جو یہ فرمایا کہ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَيْرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَم کہ وہ لوگ جو بڑے گنا ہوں اور فواحش سے سوائے سرسری لغزش کے بچتے ہیں.لَمم کا مطلب کیا ہے؟ اس کو بھی یہاں واضح کرنے کی ضرورت ہے.یہاں بعض لوگ میں نے دیکھے ہیں کہ اپنی غرض کا مطلب نکال لیتے ہیں.اس کا کوئی یہ مطلب نہ سمجھے کہ بڑے گناہ اور فواحش اگر تھوڑے بہت ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کیونکہ کمزور ہے بعض حالات میں لاشعوری طور پر بعض گناہ سرزد ہو جاتے ہیں.اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے تو پھر حقیقی پچھتاوا ہونا چاہئے اور اس کے لئے بہت زیادہ استغفار کی ضرورت ہے.لَمَم کا مطلب ہے کہ برائی کی طرف جھکنے کا موقع ملایا عارضی اور معمولی لغزش یعنی اگر غلطی ہوگئی ہے تو یہ معمولی نوعیت کی ہو اور اس پر دوام نہ ہو بلکہ یہ عارضی ہو.اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ شیطانی خیال اگر دماغ میں اچانک اُبھر بھی آئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان اس سے بچ جائے اور اُس کے ذہن پر اس شیطانی خیال کا کوئی اثر قائم نہ رہے.تو یہ حکم انسانی فطرت کے مطابق ہے کیونکہ اچھائی یا برائی کو قبول کرنے کی انسان کو آزادی دی گئی ہے اور معاشرے میں یہ برائیاں اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش بھی کر رہی ہیں.ہر طرف آزادی نظر آتی ہے.بے حیائی نظر آتی ہے.بداخلاقیاں پھیلی ہوئی ہیں.اس وجہ سے اگر کبھی کسی برائی کی طرف توجہ ہو بھی جائے تو فوری طور پر استغفار سے انسان اپنے آپ کو ان گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ کی جو وسیع بخشش ہے، اللہ
235 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 2009 تعالیٰ جو وسیع بخشش والا ہے، بخشنے والا ہے اور تو بہ قبول کرنے والا ہے، وہ توبہ قبول کرتا ہے.پس یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو حقیقی تقوی کی طرف لے جاتی ہے.ورنہ انسان تو ذراسی نیکی پر ہی فخر کر کے اپنے آپ کو پاک صاف سمجھنے لگتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم کبھی یہ دعوی نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں.پاک ہونا اور تقویٰ پر چلنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے.پس اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے.اس مضمون کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو یہ فرمایا ہے کہ فَلا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم تو اس آیت کا صحیح مطلب جانے کے لئے تمہیں تزکیہ نفس اور اظہار نعمت کے درمیان واضح فرق معلوم ہونا چاہئے.اگر چہ یہ دونوں صورت کے لحاظ سے مشابہ ہیں.پس جب تم کمال کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرو اور تم سمجھو کہ گویا تم بھی کوئی حیثیت رکھتے ہو اور تم اپنے اس خالق کو بھول جاؤ جس نے تم پر احسان کیا تو تمہارا یہ فعل تزکیہ نفس قرار پائے گا.لیکن اگر تم اپنے کمال کو اپنے رب کی طرف منسوب کرو اور تم یہ سمجھو کہ ہر نعمت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے اور اپنے کمال کو دیکھتے وقت تم اپنے نفس کو نہ دیکھو بلکہ تم ہر طرف اللہ تعالیٰ کی قوت، اس کی طاقت، اس کا احسان اور اس کا فضل دیکھو اور اپنے آپ کو غستال کے ہاتھ میں محض ایک مُردہ کی طرح پاؤ اور اپنے نفس کی طرف کوئی کمال منسوب نہ کرو تو یہ اظہار نعمت ہے“.( ترجمه عربی عبارت از حمامة البشرکی.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 321-322 یہ اقتباس حضرت مسیح موعود کی عربی کی ایک کتاب ہے حمامتہ البشریٰ اس میں سے لیا گیا ہے، اس کا ترجمہ ہے.تو یہ ایک باریک فرق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ظاہر فرمایا.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ (الفاطر: 19) یعنی جو بھی پاک ہوتا ہے وہ اپنے نفس کے لئے پاک ہوتا ہے.پھر ایک جگہ فرمایا سورۃ اعلیٰ میں جو ہم ہر جمع کو نماز میں پڑھتے ہیں کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى ( الاعلیٰ : 15) یعنی جو پاک بنے گاوہ کامیاب ہو گیا.پھر ایک جگہ فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس: 10) که یقینا وہ کامیاب ہو گیا جس نے اسے پاک کیا یعنی اپنے نفس کو پاک کیا.- اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہاری کامیابی تمہارے تزکیہ نفس میں ہے.ان آیات میں اور سورہ نجم کی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے.ان آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہے.بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک باریک فرق ہے جس کو ہمیشہ یاد رکھو کہ تزکیہ نفس کا حکم تو ہے اس کے لئے کوشش کرو لیکن یہ کوشش کر کے تم دعوی نہیں کر سکتے کہ میں پاک ہو گیا یا میرے عمل ایسے ہیں کہ جن کے کرنے کے بعد اب میں پاک ٹھہرایا جا سکتا ہوں.
236 خطبہ جمعہ فرموده 22 مئی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم سورۃ فاطر کی آیت جس کے ایک حصے کا میں نے ذکر کیا ہے کہ وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِه که جو بھی پاکیزگی اختیار کرے تو وہ اپنے نفس کی خاطر پاکیزگی اختیار کرتا ہے.یہ پوری مکمل آیت یوں ہے کہ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخرى.وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلُ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَاقُرُبَي إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمُ بِالْغَيْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلوةَ.وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ.وَإِلَى اللهِ الْمَصِيرُ (الفاطر: 19) اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا.خواہ وہ قریبی ہی کیوں نہ ہو.یہ آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے.آگے جو مضمون اس آیت سے متعلقہ ہے وہ یہ ہے کہ تو صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتا ہے جو اپنے رب سے اس کے غیب میں ہونے کے باوجود ترساں رہتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے وہ اپنے نفس کی خاطر پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ کی طرف ہی آخری ٹھکانہ ہے.یہاں یہ واضح ہو گیا کہ نفس کی پاکیزگی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ (الانبياء : 50 ) یعنی جو اپنے رب سے غیب میں ہونے کے باوجود ڈرتے ہیں.پس جب یہ حالت ہوتی ہے تو ان کی نمازیں بھی اور دوسری عبادتیں بھی اور دوسرے نیک اعمال بھی دل میں خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اس کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں اور جب یہ حالت ہو، جب اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں ہو تو وہ انسان خود اپنے نفس کو پھر کبھی پاک نہیں ٹھہراسکتا بلکہ ہر نیکی کو جو وہ بجالاتا ہے اور ہر اس موقع کو جو نیکی بجالانے کا اس کو میسر آتا ہے خدا تعالیٰ کے فضل پر محمول کرتا ہے.پس جو اس حالت میں اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے اُسے پاک کرنے کی کوشش کرے اور پاک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تقویٰ پر چلتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کی نظر میں مُرشحی ہے اور فلاح پایا ہوا ہے.اگر نیکیوں کو اپنی کسی خوبی کی طرف منسوب کرے گا تو وہ تزکیہ نفس نہیں ہے.پس ایک مومن ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف لئے ہوئے ان نیکیوں کی تلاش میں رہتا ہے تا کہ انہیں کر کے ، انہیں بجالا کر، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے.بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو گے تو خدا تعالیٰ خود تمہاری بدیاں دور کر دے گا اور تمہیں عزت والے مقام میں داخل کرے گا.جیسا کہ فرماتا ہے اِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلا كَرِيمًا ( النساء:32) اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تمہارے سے تمہاری بدیاں دُور کر دیں گے اور نہ صرف بدیاں دُور کر دیں گے بلکہ تمہیں عزت کے مقام میں داخل کریں گے.میں پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں بڑے گناہ کے الفاظ تو آئے ہیں.لیکن بڑے اور چھوٹے گناہوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے.ہر وہ گناہ جس کو چھوڑ نا انسان پر بھاری ہو اس کے لئے بڑا گناہ ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ کی تو واضح طور پر نشاندہی کر دی کہ یہ گناہ ہیں.لیکن اس کے علاوہ بھی ہر گناہ جس کو انسان معمولی سمجھتا ہو اگر اس کو چھوڑ نا انسان پر بھاری ہے تو وہ بڑے گناہ کے زمرے میں شمار ہو گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
237 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہے کہ غیب میں اللہ کا خوف رکھتے ہوئے اپنے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کرو.پس جب اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا تو پھر ہی گناہوں سے نفرت بھی پیدا ہوگی اور تب ہی خدا تعالیٰ کی نظر میں انسان پاک ٹھہرتا ہے پھر جب ایسی حالت پیدا ہوتی ہے ( اور یہ بھی خدا تعالیٰ کے علم میں ہے ) اور جب اللہ تعالیٰ کی نظر میں انسان پاک ٹھہرتا ہے تو اصل عزت کا مقام جو ہے، وہی ہے جس میں خدا تعالیٰ انسان کو پاک ٹھہرا کر داخل کرتا ہے نہ کہ وہ عزت اصل عزت ہے جہاں انسان خود اپنی خود پسندی اور بڑائی کے اظہار کر کے اپنی نیکیاں جتاتے ہوئے اپنے آپ کو پاک ٹھہرائے.ایک جگہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ مومن کی یہ نشانی ہے کہ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبْئِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمُ يَغْفِرُونَ (الشوری: 38) اور جو بڑے گنا ہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں.اب یہاں پھر تمام گناہوں اور اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کیا ہے اور ان سے بچنے کی تلقین کی ہے.لیکن ان گنا ہوں اور بے حیائیوں اور اخلاقی برائیوں کو غصے کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے.پس غصے کو جو لوگ معمولی خیال کرتے ہیں ان کے لئے بھی نصیحت ہے کہ یہ بڑھتے بڑھتے بڑے گناہوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے.یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ غصہ کوئی معمولی گناہ نہیں ہے.اس کو اگر کنٹرول نہیں کیا جاتا اور اس کا اگر نا جائز استعمال ہو رہا ہے تو یہ بڑے گناہوں کے زمرے میں ہے.بعض دفعہ غصہ آتا ہے لیکن انسان پھر مغلوب الغضب ہو کے کام نہیں کرتا بلکہ اس کا استعمال جائز طریقے سے ہوتا ہے تا کہ ایک دوسرے کی اصلاح ہو سکے.اگر انسان مغلوب الغضب ہو جائے تو پھر نفس کی پاکیزگی بھی دُور ہو جاتی ہے.اس لئے یہ نہ سمجھو کہ میں کیونکہ دوسری نیکیاں بجالا رہا ہوں اس لئے جو غصہ کا گناہ ہے اس کو میری دوسری نیکیاں ختم کر دیں گی.اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا کہ یہ زعم اپنے دل سے نکال دو.اگر حقیقی تزکیہ چاہتے ہو تو اپنی اخلاقی حالتیں بھی درست کرو.آئے دن یہ شکایات بھی آتی رہتی ہیں کہ غصہ کی حالت میں گھروں میں لڑائیاں ہو رہی ہیں، میاں بیوی کی لڑائیاں ہو رہی ہیں.کبھی بیوی کو کنٹرول نہیں کبھی میاں کو کنٹرول نہیں.معاشرے میں لڑائیاں ہو رہی ہیں.ذرا ذرا سی بات پر لڑائیاں ہو رہی ہیں.کھیل کے میدانوں میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں یا اگر لڑائیاں نہیں بھی ہوتیں تو ایک دوسرے کے خلاف بعض باتوں پہ غصہ دل میں پل رہا ہوتا ہے اور پھر اس سے کینے پیدا ہور ہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے اور تمہارے نفس کو پاک کرنے کے راستے میں روک ہے اور جب یہ روک راستے میں کھڑی ہو جائے تو پھر کامیابی کی منزلیں بھی طے نہیں ہوتیں اور پھر ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت کا مقام بھی نہیں پاتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو واضح فرما دیا ہے کہ میں گناہوں اور فحشاء سے بچنے والوں کو عزت دوں گا.پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر بخشش سے حصہ لیتے ہوئے اس کی رضا کی جنتوں میں ہم داخل ہوسکیں.
خطبات مسرور جلد هفتم 238 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دنیا یا درکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فرمایا ہے قَدْ اَ فَلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس: 10) ہر شخص اپنا فرض سمجھ لے کہ وہ اپنی حالت میں تبدیلی کرئے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 182 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور حالت میں تبدیلی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے اور اس کا فضل حاصل کرنے کے لئے مستقل اس کے آگے جھکے رہنے کی ضرورت ہے.اس سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے.اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ میرا رحم ہر چیز پر حاوی ہے اور وسیع تر ہے اور پھر فرمایا میری بخشش بھی بہت وسیع ہے.پس نیک اعمال بجالانے کی کوشش کے ساتھ جب ہم اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کی کوشش کریں گے ، اس سے اس کی وسیع تر بخشش کے طالب ہوں گے، تو تبھی ہم کامیاب ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تزکیہ نفس کے حصول کے طریقہ اور جن سے حقیقی تقویٰ حاصل ہوتا ہے ان راستوں کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں.لمبا اقتباس ہے لیکن ہر ایک کے لئے سننا بہت ضروری ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: اب ایک اور مشکل ہے کہ انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اول تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑ نا اسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گو سخت تپ ہے ( یعنی ٹائیفائیڈ ) مگر اس کا علاج کھلا کھلا ہوسکتا ہے.لیکن تپ دق (ٹی بی) جو اندر ہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت مشکل ہے.اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں.یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرا ذراسی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض ، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے.چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے.اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے، کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے.علماء علم کے رنگ میں اسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں.غرض کسی نہ کسی طرح عیب چینی کر کے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں.اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں جن کا دُور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے.ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جو متعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور
239 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 2009 خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں.ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے ( یعنی ان برائیوں سے ) اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کرے تزکیہ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تز کیہ نفس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پالی ہے.لیکن جب بھی موقعہ آپڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے اور پھر وہ گند اُن سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.اُس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میسر نہیں.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی تین پہلو ہیں.اول مجاہدہ اور تدبیر.دوم دعا ، سوم صحبت صادقین“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 210-211 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اس زمانہ کے امام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے صحیح راستے پر چلانے کے لئے بھیجا.اس زمانہ میں آپ کی کتب ہیں جو اصلاح کے لئے ایک بہت وسیع لٹریچر ہے اور یہ پاک ہونے کا ذریعہ ہے.اس کو پڑھنا چاہئے کیونکہ یہ قرآن کریم کی تشریح ہے ، وضاحتیں ہیں.اب چند دن ہوئے مجھے جرمنی سے ایک خاتون نے لکھا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں وہ ان کی تلاش میں تھیں اور انہوں نے بڑی محنت سے جمع کئے ہیں.لیکن جو بات انہوں نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ ان احکامات کو تلاش کرنے کے بعد جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں قرآن کریم کی تفسیر پڑھ رہی ہوں اور جب کتب پڑھنے کے بعد قرآن کریم پڑھتی ہوں تو تب مجھے پتہ لگتا ہے کہ اصل احکامات کی اہمیت کیا ہے اور ان کی گہرائی کیا ہے.کیونکہ اس کے بغیر یہ مجھ نہیں آتے.تو صحبت صادقین کے تعلق میں اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو ہمیں مہیا ہیں یہ بہت بڑی نعمت ہے، اس کو بھی جماعت کو بہت پڑھنا چاہئے.پھر آپ نے فرمایا کہ: در حقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بداخلاقی، کبر، ریا وغیر ہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور یہ مواد رویہ جل نہیں سکتے جب تک معرفت کی آگ ان کو نہ جلائے.جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا.وہ اس نور اور روشنی کو جو انوار معرفت سے اسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اسے خدا تعالیٰ ہی کا فضل اور رحم یقین کرتا ہے.(آگے تفصیل میں فرمایا کہ سب سے زیادہ انبیاء میں یہ بات ہوتی ہے اور اس کے بعد ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق فرمایا کہ ایسے لوگ ہیں جو دودن نماز پڑھ کر تکبر کرنے ).
240 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 22 مئی 2009 لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے“.فرمایا 'یا درکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے جب تک انسان اس سے دُور نہ ہو.یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے.نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اُس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہوسکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد ر ڈ یہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہ دیا اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (الاعراف: 13) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور سے مردود ہو گیا اور آدم لغزش پر چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی ) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا.وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا.اس لئے دعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف:24)‘‘.ناروخ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 211-212 جدید ایڈیشن) پس حقیقی تزکیہ نفس کے حصول کا یہ نکتہ ہے اور اس سے حقیقی مومن اور شیطان کے پیچھے چلنے والوں میں فرق ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان نے تکبر کرتے ہوئے ان خیر کا نعرہ لگایا ، اپنی بڑائی کی بات کی لیکن آدم نے اس معرفت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی تھی اس نکتہ کو سمجھا اور نہایت عاجزی سے یہ دعا کی کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرُلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف : 24) اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور رحم نہ فرمائے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.پس یہ دعا ہے جو آج بھی اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت کو جذب کرنے والی ہے.برائیوں سے بچانے والی اور غلطیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کرنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے رہیں.ہر نیک عمل کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے والے ہوں.تمام قسم کی برائیوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے والے ہوں اور اس کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر بخشش کے طالب رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 24، مورخہ 12 جون تا 18 جون 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 241 (22) خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 فرمودہ مورخہ 29 رمئی 2009ء بمطابق 29 ہجرت 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا.رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ.وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (البقره: 287) جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اُس کے لئے ہے جو اُس نے کمایا اور اس کا وبال بھی اُسی پر ہے جو اُس نے بدی کا اکتساب کیا.اے ہمارے رب ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ان کے گناہوں کے نتیجہ میں ان پر ڈالا اور اے ہمارے رب ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر.تو ہی ہمارا والی ہے.پس ہمیں کا فرقوم کے مقابلے پر نصرت عطا فرما.اس آیت کے شروع میں ہی خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا که الله تعالى کسی جان پر اس کی صلاحیتوں اور اس کی استعدادوں سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.پس وسعت کا لفظ جب انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کی محدود صلاحیتوں اور استعدادوں کو سامنے رکھتے ہوئے بولا جاتا ہے.جیسا کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا سے ظاہر ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے لئے جیسا کہ میں گزشتہ خطبوں میں بتا چکا ہوں واسع کا لفظ استعمال ہوتا ہے یہ خدا کی صفت اور نام ہے.جس کا مطلب ہے کہ صلاحیتوں کی اور استعدادوں کی کوئی قید نہیں ہو سکتی.بلکہ اللہ تعالیٰ جہاں جامع الصفات ہے اور تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے وہاں اس کی طاقتوں اور قدرتوں اور علم کی اتنی وسعت ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں.اس لئے اُن کے احاطہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تو بہر حال اس آیت کے حوالے سے میں چند باتیں کہوں گا.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کی روشنی میں ہیں کہ انسان کو مختلف حالات میں اس کی وسعت کے لحاظ سے، اس کی طاقتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے مکلف بنایا گیا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جس کو انسان بجالا نہ سکے یا اُس کی طاقت اور
242 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 قدرت سے بالا ہو.پس یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور جب یہ کوشش ہو گی تبھی ایک مومن اللہ تعالیٰ کے اُن انعامات کو پانے والا ٹھہر سکتا ہے جس کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.پس یہ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ احکامات جو انسان کی طاقت کے اور استعدادوں کے مطابق ہیں دے کر ہر ایک کو اپنے اعمال کے مطابق جزا سزا کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے.اور خلاف عقل یہ نظریہ پیش نہیں کرتا کہ ایک معصوم نبی کو عنتی موت مار کر قیامت تک آنے والوں کے لئے جو لوگ غلطیاں کرتے رہیں، گناہ کرتے رہیں، خدا تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہیں ، تب بھی کوئی فکر کی بات نہیں ہے کیونکہ ایک معصوم نبی اور اللہ تعالیٰ کا فرستادہ اُن کے ان گناہوں کے لئے لعنتی موت قبول کر چکا ہے.لیکن قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کا کیا فطرت کے مطابق اور حکیمانہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہر ایک کی کمزوریوں اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق ہیں اور پھر یہ کہ انسان کا نیک اعمال بجالانا اور ان کو بجالانے کے لئے کوشش کرنا اسے تمام گناہوں سے کلیۂ پاک نہیں کر دیتا کیونکہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی رگوں میں شیطان خون کی طرح دوڑ رہا ہے.( بخاری کتاب الاعتکاف باب زيارة المرأة زوجهافی اعتکافه حدیث :8 203) اس لئے کئی ایسے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں کہ انسان بعض غلطیاں اور گناہ غیر ارادی طور پر کر لے تو اُس کا کام ہے کہ استغفار کرتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرے اور نیکیوں کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے.اُن اعمال کو بجا لانے کی کوشش کرے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے ایک جد و جہد کرے تو خدا تعالیٰ جو وسیع تر رحمت والا ہے اور وسیع تر بخشش والا ہے اپنے بندے کی طرف بخشش اور رحم کی نظر سے متوجہ ہوتا ہے.پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو قرآن کریم نے ہمیں دی ہے.جس کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے اس کا کیا مطلب ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کا اور یہ کس طرح اور کن کن باتوں پر حاوی ہوتا ہے.وہ کون کون سی حالتیں ہیں جہاں انسان اپنے اعمال کا مکلف نہیں اور کہاں وہ قابل مواخذہ ہوگا.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت علمی سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا.گو یہاں یہ تو پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی وسعت علمی سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا لیکن ساتھ ہی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( ط :115) اب یہ دعا جو آنحضرت ﷺ کو سکھائی گئی جن کو ایسا علم دیا گیا تھا جو قیامت تک کے علوم پر حاوی ہے اور جو قرآن کریم نازل ہور ہا تھا خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ کیا کیا علم و عرفان کے خزانے آپ پر نازل ہونے ہیں.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآن کریم کے نازل ہونے کے بارہ میں جلدی سے کام نہ کرو، کام نہ لو بلکہ یہ دعا کئے جا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ علم میں ترقی دیتا ہے تا کہ علم و عرفان کا جو سمندر اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے میں پیدا فرمایا تھا ، جو موجزن تھا اس میں وسعت پیدا ہوتی چلی جائے.اور جب قرآن کریم نازل ہو گیا تب بھی آپ ﷺ کی یہ دعا تھی کہ آپ کے ماننے
243 خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم والوں کو اس دعا کی کس قد رضرورت ہے اور اپنے علم کو وسعت دینے کی کس قدر ضرورت ہے.اس کے لئے آپ نے اپنی امت کو نصیحت بھی کی ہے کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین تک جانا پڑے.“ ( کنز العمال كتاب العلم من قسم الاقوال باب اول فی الترغیب فیہ جلد 5 جزء خامس صفحہ 60 حدیث نمبر 28693 ایڈیشن 2004 ء بیروت) یعنی علم کے حصول کے لئے محنت کرو.اور اپنے علم میں اضافہ کی طرف تا زندگی توجہ دیتے رہو.بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ کسی نفس کو تکلیف میں نہیں ڈالتا وہ یعنی کسی شخص کو اُس وقت اس کا مکلف نہیں کرتا اس کی جواب دہی نہیں کرتا جب تک کسی معاملہ میں اس کی وسعت اور صلاحیت اور استعداد نہ پیدا ہو جائے اس کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ حقیقی مومن کو علم کے حصول کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور یہ صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں اور حتی الوسع اپنے علم کو بڑھانے کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے.پس ایک تو وہ علم ہے جو کہ انبیاء کو خدا تعالیٰ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت اللہ کوعطا فرمایا لیکن ساتھ ہی یہ دعا بھی سکھائی کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا.اور دوسرے وہ علم ہے جو روحانی اور دنیاوی دونوں طرح پر ہے.جس کے لئے محنت کرنی چاہیئے اور ساتھ ہی دعا بھی کرنی چاہیئے ایک مومن کو بھی.اگر علم کے حصول کے لئے محنت کی ضرورت نہیں تھی تو پھر آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا بے معنی ہے کہ حاصل کرو خواہ صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں.اور اس کے لئے سفر کرنے پڑیں.لیکن علم کے حصول کے لئے بھی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتیں.اس لئے دعا بھی سکھائی کہ صرف اپنے پر بھروسہ نہ کرو بلکہ علم کے حصول کے لئے دعاؤں سے بھی خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کرو اور پھر جب یہ کوشش ہوگی ، ہر ایک اپنی اپنی استعدادوں اور وسائل کے لحاظ سے علم حاصل کرے گا تمہاری صلاحیتوں کو خدا تعالیٰ نے ہر ایک کی مختلف رکھی ہیں.بچپن کی تربیت، اٹھان اور معاشرے کا بھی انسان پر اثر ہوتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بھی درجے مقرر فرمائے ہیں کہ ہر ایک اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے علم حاصل کرے اور اس کے لئے کوشش کرے تو تب ہی تمہارے اندر وسعت پیدا ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اس کے درجے مقرر فرما دیئے ہیں.یہ نہیں کہ کم ذہنی صلاحیتوں جو علم کی کمی کی وجہ سے یا قدرتی طور پر کسی میں ہیں یا ماحول کے اثر کی وجہ سے علم میں کمی ہے اُسے بھی اسی طرح مکلف کرے جتنا اعلیٰ ذہنی اور علمی صلاحیتوں والے کو اور جسے دینی اور دنیاوی علم حاصل کر کے حاصل کرنے کے تمام تر مواقع میسر آئے ہوں.یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی وسعت علمی کی وجہ سے تمام حالات کو جانتا ہے.اس لئے جب وہ مکلف کرتا ہے کسی کو تو وہ ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے جوکسی بھی انسان کے بارہ میں اس کے علم میں ہیں.اگر انسان اپنی صلاحیتوں کو جو خداداد ہیں اُس علم کے حصول کے لئے استعمال میں نہیں لاتا جس کے حاصل کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا تو ایسا شخص پھر جوابدہ ہے یہاں لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا کا مطلب یہی ہے کہ اپنے نفس کو تم نے اس طرح استعمال نہیں کیا جو اس کا حق بنتا تھا اور ایک مسلمان کہلانے والے کے لئے سب سے بڑھ کر دینی علم میں ترقی ہے جو اس کو کوشش کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 244 خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ طالب حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہر گز نہیں ٹھہرنا چاہئے.ور نہ شیطان لعین اور طرف لگادے گا اور جیسے بند پانی میں عفونیت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لئے سعی نہ کرے تو وہ گر جاتا ہے.پس سعادت مند کا فرض ہے وہ طلب دین میں لگا ر ہے.ہمارے نبی کریم کے سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرا.لیکن آپ کو بھی رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی.پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه 141-142 مطبوعہ ربوہ ) پس یہاں لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا سے مطلب ہے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ علم کے حصول کی کوشش کرو.اگر تم یہ کوشش کرتے رہو گے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے رہو گے کیونکہ وسعت علمی کی وجہ سے یعنی اُس علم کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ کی پہچان کی طرف مائل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادراک بڑھتا ہے.اور اس ادراک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنتا ہے ایک انسان جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: 29) کہ یقیناً حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اس سے ڈرتے ہیں.پس علم میں اضافہ دل میں خشیت پیدا کرتا ہے.یہاں اُن علماء کا ذکر نہیں ہورہا جو نام نہاد اور سطحی علماء ہیں.سطحی علم حاصل کر کے اپنے علم سے دوسروں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو جوں جوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے علم میں اضافہ ہوتا دیکھتے ہیں توں توں وسعت علمی اور خدا کی ذات کا ادراک انہیں ہوتا جاتا ہے اور جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا کا حقیقی مفہوم انہیں سمجھ آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے نا کہ ع و جس طرف دیکھیں وہی ہے تیرے دیدار کا ره سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحه (52) یہ حقیقی مفہوم ہے جو ایک عالم کو مجھ آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور تب پتہ چلتا ہے کہ علمی لحاظ سے لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کا حقیقی مطلب کیا ہے.دوسری بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس سے میں نے اخذ کی ، جو بیان فرمائی آپ نے کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہ کر اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر واضح فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی عقیدے پیش کرتا ہے جن کا سمجھنا انسان کی حد استعداد میں داخل ہے.تا کہ اس کے حکم تکلیف مالا يطاق میں داخل نہ ہوں.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 432) یعنی طاقت سے بڑھ کر نہ ہوں.اس آیت سے پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کے بارے میں یہ بھی فرمایا ،
245 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایمان کی حالت کے بارے میں عقیدہ کے بارہ میں کہ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ (البقرة: 286) یعنی اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اس کے فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں، اس کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں.اس بارہ میں ایک حدیث بھی ہے جو حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے حضور بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا جس کے کپڑے بہت سفید تھے اس نے آکے مختلف سوال کئے اور آنحضرت لیے کے ساتھ آیا اور گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور پھر سوال کئے اور عرض کیا کہ اے محمد ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور یوم آخرت کو مانے اور خیر اور شر کی تقدیر پر یقین رکھے.( صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان والاسلام والاحسان...حدیث نمبر 8) اب یہ باتیں ایسی ہیں کہ جن کے ماننے میں کوئی تکلیف مالا يطاق نہیں.اگر فطرت نیک ہو، اللہ تعالیٰ کی تلاش ہو، تو کائنات کیا زمین پر ہی اللہ تعالیٰ کی پیدائش کے مختلف نظارے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین پیدا کرتے ہیں.اور پھر اس کارخانہ قدرت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے ملا ئکتہ اللہ پر انسان غور کرتا ہے.تمام نظام کائنات کو دیکھتا ہے اور غور کرتا ہے تو فرشتوں کی حقیقت بھی اپنی اپنی استعداد ذہنی اور علمی کے مطابق ہر انسان پر پھلتی چلی جاتی ہے.پھر خدا کے انبیاء پر جو کتابیں اتریں ان پر مُبر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں قرآن کریم نے ثبت کی.اُن کی غلطیوں اور خامیوں اور تحریفوں کی نشاندہی کی.ان کی بعض تعلیمات کی تصدیق کی بعض کی تردید کی.اور قرآن کریم کی تصدیق اور اس کی حفاظت کا اعلان کر کے اور آج تک یہ ثابت کر کے کہ اس میں کوئی تحریف اور تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے اس پر ایمان میں پختگی پیدا کرنے کا اعلان فرمایا.اور جو تعلیم اس میں دی ، قرآن کریم میں ، اس کے متعلق یہ اعلان فرما دیا کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر عمل انسانی استعداد سے بالا ہو.کیونکہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک کروڑ ہا مسلمانوں نے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اس پر عمل کر کے دکھایا.پھر رسولوں پر ایمان ہے.اگر یہ انکار کیا گیا رسولوں کا تو ان قوموں کی بد قسمتی تھی لیکن اُن کی تعلیم اور اُن کے دعوے کبھی ایسے نہیں ہوئے جو کسی انسان کو تکلیف میں ڈالیں.ہر نبی نے یہی کہا کہ میں تمہیں خدا سے ملانے اور تمہارے فائدے کی تعلیم دینے کے لئے آیا ہوں.اس طرح پر ، اور اس کے لئے میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.میرا اجر خدا کے پاس ہے.میرا مقصد تمہیں تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ تمہاری بھلائی ہے اور اس لئے کہ تم یوم آخرت پر یقین کرو اور جزا سزا کی تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے خدا تعالیٰ کی جناب سے نیک اعمال کر کے جزا حاصل کرو.اس کی رضا
246 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 کی جنتوں میں جاؤ اور نیک جزا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کس حد تک ہے؟ فرمایا کہ کسی بھی گناہ کا بدلہ اسی قدر ہے جتنا گناہ ہے اور نیکی کا بدلہ دس گنا اور اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ فرماتا چلا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ جو تعلیم بھی انبیاء کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ان کی استعدادوں کے مطابق ہے.اگر پہلی قوموں کی ذہنی صلاحیتیں کم تھیں تو ان کے سامنے ان کی تعلیم بھی اس کے مطابق رکھی.اسی حوالے سے جو میں نے بتایا.ایمان کا جہاں ذکر ہوا، اسی مجلس میں فرشتہ نے ، جبریل آئے تھے ، ارکان اسلام کا بھی ذکر کیا کہ پوچھا کہ کیا ہے اسلام کیا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کلمہ طیبہ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله - پھر نماز کے بارہ میں پوچھا آپ نے فرمایا نماز ہے.پھر روزہ ہے، پھر زکوۃ ہے، پھر حج ہے.( صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان والا سلام والاحسان.....حدیث نمبر 8 یہ نماز جو عبادت ہے، روزہ جو عبادت ہے، اس کے لئے بھی کسی کو مکلف نہیں کیا.بلکہ اگر کوئی بیمار ہے تو اس کو بیٹھ کر یا لیٹ کر بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے.اگر سفر میں ہے تو جمع کرنے اور قصر کرنے کی اجازت ہے.اور روزہ ہے اس طرح ہی.سفر میں نہ رکھنے کی اجازت ہے ، نہ رکھو، فرض روزے نہیں ہیں.بیماری میں نہ رکھنے کی اجازت ہے.زکوۃ ہے وہ صرف اُسی پر فرض ہے جو صاحب نصاب ہے.حج ہے تو اُسی پر فرض ہے جو رستے کے وسائل بھی رکھتا ہو اور امن بھی ہو صحت بھی ہو.تو ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے جو فرمائیں وہ انسان کی طاقت کے اندر رہتے ہوئے اس کا حکم ہے اس کے لئے اور جیسا کہ میں نے کہا ہر طبقہ نے ان باتوں پر عمل بھی کر کے دکھایا.قطع نظر ان کے جو مسلمان عمل نہیں کرتے کروڑہا مسلمان ایسے گزرے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں عمل کر کے دکھا رہے ہیں.تیسری بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی اس حوالے سے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا عمل اور نمونہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : 22) یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں اُسوہ حسنہ ہے.فرمایا کہ ہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں ، اخلاق میں ، عبادات میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کریں.پس اگر ہماری فطرت کو وہ قو تیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت ﷺ کے تمام کمالات کو ظلمی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہرگز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا 66 (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 156 ) پس یہاں یہ فرمایا کہ تم اس نبی کی پیروی کرو.جس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لفظ سے کی کہ ظلمی طور پر.یعنی وہ معیار جو تم حاصل نہیں کر سکتے لیکن اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان پر عمل کرنے اور ان کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے کوشش کرو اور یہ ہر مومن پر فرض ہے.کیونکہ یہ صلاحیت ایک مومن
247 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے کہ ان نیکیوں کو بجالائے ، جن کا اُسوہ آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا ہے.صرف یہ کہنا کہ کیونکہ وہ معیار میں حاصل نہیں کر سکتا، اس لئے کوشش کی بھی ضرورت نہیں ہے یہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض سے آزاد نہیں کر دیتی یہ بات ایک مومن کو اور امت میں میں نے جیسا کہ کہا ہے کہ کروڑوں لوگوں نے یہ نمونے قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور کر کے دکھایا ہے.ایک عام مومن بھی اس اسوہ حسنہ کو رسول کریم ﷺ نے جو قائم فرمایا اپنی استعدادوں کے مطابق قائم کر سکتا ہے بجالا سکتا ہے.اس پر عمل کر سکتا ہے.پھر چوتھی بات اس حوالہ سے یہ ہے کہ گو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تمام انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور وہ جو تعلیم لائے اسے قبول کرنے کا ہر ایک کو حکم ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس رسول ملے پر ایمان لانا ہی نجات کا بھی باعث ہے.لیکن اگر کسی پر اتمام حجت نہیں ہوا اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت.بڑھ کر کسی بات کا مکلف نہیں بناتا اس لئے وہ شخص قابل مواخذہ نہیں ہوگا جس پرا تمام حجت نہیں ہوا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک...اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہو گا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا وہ مکذب اور منکر ہے.تو گوشریعت نے ( جس کی بناء ظاہر پر ہے ) اس کا نام بھی کا فر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا قابل مواخذہ نہیں ہو گا.ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اس کی نسبت نجات کا حکم دیں.اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں.یہاں یہ بھی یادر ہے کہ ان الفاظ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک با وجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا.ہمیں کسی کے باطن کا علم نہیں ہے اور چونکہ ہر ایک پہلو کے دلائل پیش کرنے اور نشانوں کے دکھلانے سے خدا تعالیٰ کے ہر ایک رسول کا یہی ارادہ رہا ہے کہ وہ اپنی حجت لوگوں پر پوری کرے اور اس بارے میں خدا بھی اس کا مؤید رہا ہے.اس لئے جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھ پر حجت پوری نہیں ہوئی وہ اپنے انکار کا ذمہ وار آپ ہے اور اس بات کا بار ثبوت اسی کی گردن پر ہے اور وہی اس بات کا جوابدہ ہوگا کہ باوجود دلائل عن عقلیہ اور نقلیہ ور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں اور ہر ایک قسم کی رہنمائی کے کیوں اس پر حجت پوری نہیں ہوئی.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 186) پس گو بغیر اتمام حجت کے خدا تعالیٰ نے کسی کو مکلف نہیں بنایا لیکن مخالفین اسلام اور احمدیت کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ان کے نفس کے دھو کے انہیں یہ بات کہنے پر مجبور تو نہیں کر رہے؟ کہ ہمیں اتمام حجت نہیں ہوئی.دنیا میں ہر طرف فساد اور آفات وہ نشانات تو نہیں ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت کے طور پر ہیں جبکہ زمانہ کے امام کا دعویٰ بھی موجود ہے.
248 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 پھر پانچویں بات اس ضمن میں یہ ہے اس کی وضاحت کہ اللہ تعالیٰ خلاف عقل باتوں کو مانے پر کس کو مجبور نہیں کرتا اور اس وجہ سے اسے مکلف نہیں ٹھہراتا کہ کیوں یہ باتیں نہیں مانیں.قرآن کریم میں بے شمار جگہ حکیم کا لفظ آیا ہے.ہر بات جو ہے حکمت سے پُر ہے اس کی حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتا ہے بجا لانے کا.جو بھی حکم اتارا ہے تمام تر حکمتوں کے بیان سے اتارا ہے.بلکہ آنحضرت ﷺ کو جب مبعوث فرمایا اور جن کاموں کو آپ کے لئے خاص کیا.ان میں حکمت پھیلانا بھی ایک کام تھا.بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو آئندہ آنے والے کے مقام کے بارہ میں دعا سکھائی گئی.اُس میں بھی حکمت کو خاص طور پر پیش نظر رکھا گیا.حکمت کیا ہے.عدل و انصاف کو جاری کرنا ہے.اس کا مطلب علم کو کامل کرنا ہے.اس کا مطلب ہر بات کی دلیل پیش کرنا ہے یعنی جب کوئی حکم دیا تو اس کے کرنے یا نہ کرنے کی وجوہات بتا ئیں اور یہی عقل کا تقاضا ہے.مثلا شراب اور جوئے سے اگر روکا ہے تو روکنے کے حکم کے ساتھ فرمایا کہ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ.قُلْ فِيْهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرة : 220 ) کہ وہ تجھے سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ ان کاموں میں بڑا گناہ ہے اور نقصان ہے اور اس میں لوگوں کے لئے بعض منفعتیں بھی ہیں اور ان کا گناہ اور نقصان ان کے نفع سے بہت بڑا ہے.اب شراب پینے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ جہاں وہ انسان کو نشہ کی حالت میں لا کر عبادتوں سے روکتا ہے وہاں معاشرے کے امن کو بھی خراب کرتا ہے.اور پھر یہ بھی اب ثابت شدہ حقیقت ہے کہ شراب پینے والے کے جب وہ شراب کا ایک جام چڑھاتا ہے تو دماغ کے ہزاروں خلیے متاثر ہوتے ہیں.اس لئے شراب پینے سے اس دلیل کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور یہی حال جو اکھیلنے والوں کا ہے جو اکھیلنے والا اتنا زیادہ ایڈ کٹ (adict) ہو جاتا ہے کہ عبادت سے محروم ہو جاتا ہے اور کسی چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی.ناجائز ذرائع سے پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.وقت کا ضیاع کرتا ہے.گھریلو ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتا ہے.عقل کے استعمال کی بجائے شراب اور جوئے کی برائیوں میں پڑے ہوئے لوگ جو ہیں جوش اور غصہ دکھانے والے زیادہ ہوتے ہیں.لیکن الکوحل جو ہے اگر بالکل معمولی مقدار میں انسانی فائدے کے لئے دوائیوں میں استعمال کیا جائے.انسانی جان بچانے کے لئے دوائیوں میں استعمال کیا جائے تو وہاں یہ کی بھی جاتی ہے.ہو میو پیتھی دوائیوں میں بھی استعمال ہوتی ہے اور دوسری دوائیوں میں بھی.اتنی معمولی مقدار ہے کہ اس میں نشہ نہیں ہوتا.لیکن خالص شراب جو ہے وہ پینے والے چاہیں تھوڑی پئیں وہ اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ یہ عادت بڑھتی چلی جاتی ہے اور تھوڑی پینے کی عادت جو ہے وہ زیادتی میں بدلتی چلی جاتی ہے.اس لئے تھوڑی پینے کی ممانعت ہے.اسی طرح اگر اسلام میں روزہ کا حکم ہے تو اس کی حکمت بھی بیان کی گئی ہے اگر انسان سوچے تو نماز یا روزہ کا جو
249 خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حکم ہے خدا تعالیٰ کے احکامات جو ہیں جو انسانی فائدے کے لئے ہیں اس کی صحت اور اس میں ڈسپلن پیدا کرنے کے لئے ہیں علاوہ عبادت کے.جن کے نہ کرنے کا حکم ہے وہ بھی فائدے کی چیزیں ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے وہ بھی بڑی حکمت لئے ہوئے ہیں اور انسان کی بقا کے لئے ضروری ہیں.تو غرض اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت ہے اور بغیر حکمت بیان کئے اللہ تعالیٰ کسی کو یہ نہیں کہتا کہ تم اس کام کو کر دیا نہ کرو.چھٹی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قومی کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی کسی کو.مثلاً فرمایا کہ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ.فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ | بَاغِ وَّلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( البقرة:174 ) کہ اُس نے تم پر صرف مردار ، خون ، سور کے گوشت کو اور ان چیزوں کو جن کو اللہ کے سوا کسی اور سے نامزد کر دیا گیا ہو، حرام کیا ہے ، مگر جو شخص ان اشیاء کے استعمال پر مجبور ہو جائے اور نہ تو وہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حدود سے آگے نکلنے والا ہو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے.اللہ یقینا بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اب یہ حکم ہے جو عقل کے مطابق ہے، حکمت لئے ہوئے ہے اور انسانی قومی کی برداشت کے لحاظ سے بھی انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے کہ اگر جان کا خطرہ ہے تو ان حرام چیزوں کا استعمال کر تو سکتے ہو مگر صرف جسم کی بقا کے لئے صرف سانس کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے.لیکن کوشش کرو کہ حتی الوسع ان سے بچو اور جہاں تک ہو سکے حرام اور حلال کے فرق کو قائم رکھو.پھر ساتویں بات یہ یا در کھنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام انسانی طاقت کے اندر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اس آیت سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ایسے نہیں جن کی بجا آوری کوئی کر ہی نہ سکے اور نہ شرائع و احکام خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کیسے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے، یعنی بتائے کہ میرے میں سب طاقتیں ہیں اور کوئی اس قسم کا معمہ پیش کرے جس کو کوئی حل نہ کر سکتا ہو اور پھر بڑے فخر سے کہے کہ دیکھو میری بات تم سمجھ نہیں سکے.یہ نہیں ہے.فرمایا کہ نہ شرائع و احکام خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کیسے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے اور یوں پہلے ہی سے اپنی جگہ ٹھان رکھا تھا کہ کہاں بیہودہ ضعیف انسان اور کہاں کا ان حکموں پر عملدرآمد ؟ تو اللہ تعالیٰ نے کسی مشکل میں ڈالنے کے لئے حکم نہیں دیئے تھے.دیکھے کہ کس طرح میں آزماؤں اپنے بندوں کو کہ یہ بیہودہ انسان اور کمزور انسان کس طرح میرے حکم پر عمل کر سکتا ہے.فرمایا کہ خدا تعالیٰ اس سے برتر و پاک ہے کہ ایسا الغوفعل کرے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 39 مطبوعہ ربوہ ) پھر آٹھویں بات جو ہے اس تعلق میں یہ ہے کہ جو شرائط احکام کی بجا آوری کے لئے خدا تعالیٰ نے لگائی ہیں وہ
250 خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہر ایک کی ذہنی، جسمانی علمی، معاشی، روحانی وسعت کے لحاظ سے ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے مرتبہ علمی اور عقلی اور جسمانی اور معاشی اور روحانی کے لحاظ سے احکام بجالانے کا پابند اور قابل مواخذہ ہے.لیکن جو فرائض اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں انہیں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بجالانا بہر حال ہر مومن پر فرض ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دیہاتی شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام کے بارہ میں پوچھا آپ نے فرمایا دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا.اس پر اس نے پوچھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی نماز فرض ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں، ہاں اگر نفل پڑھنا چاہو تو پڑھ سکتے ہو.پھر آنحضور ﷺ نے فرمایا ایک ماہ رمضان کے روزے رکھنا.اس نے پوچھا اس کے علاوہ بھی روزے فرض ہیں آپ نے فرمایا نہیں.ہاں نفلی روزے رکھنا چاہو تو رکھ سکتے ہو.اسی طرح آنحضرت ﷺ نے زکوۃ کا بھی ذکر فرمایا اس نے اس پر پوچھا عرض کیا کہ اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی زکوۃ ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں.ہاں ثواب کی خاطر تم نفلی صدقہ دینا چاہو تو دے سکتے ہو.اس پر وہ شخص یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ خدا کی قسم نہ اس سے زیادہ کروں گا نہ کم.تو آپ ﷺ نے فرمایا وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کہ اگر یہ بیچ کہتا ہے تو اسے کامیاب وکامران سمجھو.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الصلوات التی تھی احدار کان الاسلام حدیث نمبر (9) تو جو جو استعدادیں ہیں ہر ایک کی اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے.کچھ تو آپ نوافل کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے.پھر نویں بات یہ کہ قرآن کریم کے تمام احکامات قابل عمل ہیں.اس کا مختصر ذکر پہلے بھی آچکا ہے اور رنگ میں.کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو انسان پر بوجھ ہو.جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر عمل کرنے کے ضمن میں میں نے بتایا کہ ذکر ہوا ہے کہ حقیقی مومن اُن پر چلتا ہے اور چلنے کی کوشش کرتا ہے.اور حضرت عائشہ نے جیسا کہ فرمایا کہ آ نحضرت ﷺ کے اخلاق اور زندگی قرآن کریم کے احکامات کی عملی تصویر ہیں.“ ( مسند احمد بن حنبل مسند عائشہ جلد نمبر 8 صفحہ 305 حدیث نمبر 25816 عالم الكتب بیروت ایڈیشن 1998ء) پس اپنی اپنی حیثیت اور استعدادوں کے مطابق ہر ایک کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا دعوی ہے کہ کیونکہ وہ کسی مومن کو بھی بلا وجہ تکلیف میں نہیں ڈالتا.اس لئے جو بھی احکامات ہیں ہر انسان کی عمل کرنے کی طاقت کے اندر ہیں.پھر دسویں بات یہ کہ اللہ تعالیٰ چی خوا میں بھی ہر انسان کو اس لئے دکھاتا ہے تا کہ اُسے انبیاء کی وحی والہام کا کچھ حد تک ادراک ہو سکے.اگر کبھی سچی خواب ہی نہ آئی ہوتو وہ انبیاء کے دعوے کو بھی محض جھوٹ سمجھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی والہام کے سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے اور وہ ودیعت خواب ہے.اگر کسی کو کوئی خواب سچی
خطبات مسرور جلد ہفتم 251 خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیونکر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اِس لئے یہ مادہ اُس نے سب میں رکھ دیا ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 280-281 مطبوعہ ربوہ ) چوروں ، ڈاکوؤں، زانیوں کو بھی سچی خوا ہیں آتی ہیں.گیارہویں بات یہ کہ بچپن کا زمانہ اور جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے کا زمانہ بے خبری کا زمانہ ہے.اسی طرح جو کم عقل ہیں یا ذہنی معذور ہیں وہ بھی.ان کا احکامات پر عمل نہ کرنا یا اس طرح پابندی نہ کرنا قابل مواخذہ نہیں ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہ کرے گا جیسا کہ خود اس نے فرما یا لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 199 مطبوعہ ربوہ ) بارہویں بات یہ کہ اگر جوانی اور پوری ہوشیاری اور عقل اور تمام قویٰ کی صحت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ ہو.تو پھر یہ بات قابل مواخذہ ٹھہرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ ایک ہی زمانہ ہے.یعنی شباب کا زمانہ جوانی کا زمانہ ”جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشو ونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے.یہی زمانہ ہے جومؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لئے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں.لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بنادے گا.ہاں اگر عمدگی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 199 مطبوعہ ربوہ ) پس با وجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا.جو احکام دئے ہیں اور جن کے نہ کرنے کا حکم دیا ہے اگر ایک انسان ان کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتا با وجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وسیع تر رحمت اور بخش کی خوشخبری دی ہے اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور خود انسان اپنی وسعتوں اور طاقتوں کا فیصلہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حکم سے روگردانی کرتا ہے.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جہنم میں لے جانے کا باعث بنتی ہے یہ بات اللہ تعالیٰ نے خود بھی لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہنے کے بعد آگے فرمایا ہے کہ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ کہ اس نے جواچھا کام کیا وہ بھی اس کے لئے نفع مند ہے اور جو اس نے بُرا کام کیا وہ بھی اس پر وبال ہو کر پڑے گا.نیکی کے لئے کسب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.جو
252 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 2009 آسانی سے ہو سکتا ہے اگر ارادہ ہو.کیونکہ نیکی فطرت کے مطابق ہے لیکن بعض اوقات انسان اپنی بدقسمتی سے فطرت کے مطابق عمل کرنے کی بجائے اکتساب کا راستہ اختیار کرتا ہے جو غیر فطری بات ہے.اخلاقی قوتوں کے صحیح مواقع پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اس راستے پر انسان چلتا ہے اور سمجھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ آسان راستہ ہے.لیکن جب گناہوں اور برائیوں میں دھنستا چلا جاتا ہے.پھر احساس ہوتا ہے کہ ایک تکلیف دہ راستے کی طرف چل پڑا ہوں میں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اکتساب کا ایک یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ بدیوں میں سے صرف اُس بدی کی سزا ملے گی جس میں اکتساب کا رنگ پایا جائے گا یعنی قصداً اور ارادہ اس کا ارتکاب کیا جائے گا.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 657 مطبوعه ربوہ ) اس کو چھوڑے نہ بلکہ جان بوجھ کر اس کو کرتا چلا جائے.پس اللہ تعالیٰ تو نہ کسی جان کو تکلیف میں اس کی طاقت سے بڑھ کر ڈالتا ہے اور نہ کوئی ایسے احکامات دیتا ہے جو اس کو تکلیف میں ڈالنے والے ہوں بلکہ عفو اور درگز راور بخشش سے کام لیتا ہے.لیکن اگر کسی بدی کے ارتکاب پر انسان کو جرات پیدا ہو اور وہ کرتا ہی چلا جائے تو اس کی سزا ہے پھر اس لئے ہمارے پیارے اور مہربان خدا نے اس آیت کے اگلے حصے میں ہمیں یہ دعا بھی سکھا دی کہ نیک کاموں کی طرف توجہ رہے جو ہر حال میں فطرت کے مطابق ہیں اور ان پر عمل کرنا انسان کی پہنچ کے اندر بھی ہے.جیسا کہ فرمایا رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأَنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلُ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَابِهِ.وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ کہ اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمیں سزا نہ دینا.اے ہمارے رب ! اور تو ہم پر اس طرح ذمہ داری نہ ڈالنا جس طرح تو نے ان لوگوں جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ڈالی اور اے ہمارے رب ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں.ہم سے درگزر کر ہمیں بخش دے اور ہم پر تو ہمارا آتا ہے اور کافروں کے خلاف ہماری مددکر.پس تزکیہ نفس کے لئے یہ دعائیں انتہائی ضروری ہیں.کیونکہ جب تزکیہ نفس ہوگا تو لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کا صحیح ادراک بھی ہوگا.انتہائی عاجزی سے انسان یہ دعا کرتا ہے کہ اے ہمارے خدا ان نیک باتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں نہ پکڑ جن کو ہم بھول گئے.ان لوگوں کا ہمیں انجام نہ دینا جن پر تیری گرفت ہوئی تھی.اب یہ ان کا انجام نہ دینا اس لئے نہیں تھا کہ ہم بغاوت کرنے والے یا حد سے بڑھنے والے تھے یا تیرے حکموں کی پرواہ نہ کرنے والے تھے.بلکہ بوجہ نسیان یا بھول چوک جو انسانی فطرت کا حصہ ہے ہم اسے نہ کر سکے.اس لئے ہمارے سے اگر کوئی بھول چوک ہوئی ہے تو ہمیں کہیں ان لوگوں میں شمار نہ کر لینا جو عادتاً یہ کرنے والے لوگ تھے.اور پھر
253 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 29 مئی 2009 انتہائی عاجزی سے ایک مومن یہ دعا بھی کرتا ہے کہ اے خدا ہم سے اُن باتوں کا مواخذہ نہ کر جو ہم نے عمداً اور جان بوجھ کر نہیں کئے.بلکہ سمجھ کی غلطی سے ہم سے وہ عمل سرزد ہو گئے اور ہم سے جو عہد لئے ہیں جو بوجھ ہم پر ڈالے ہیں ان کا حال بھی پہلی قوموں جیسا نہ ہو بلکہ ہمیں ہمارے عہدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.ورنہ ہم بھی ان لوگوں کے زمروں میں شامل ہو سکتے ہیں جو قابل مواخذہ ٹھہرے تھے.اور پھر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا لیکن ایک حقیقی مومن اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے کا یہ کام ہے کہ اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو اس کے اس قول کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعا کرے کہ کہیں میری شامت اعمال مجھے طاقت سے بڑھ کر کسی ابتلا اور بوجھ میں نہ ڈال دے.اس لئے مجھ سے ہمیشہ درگزر کا سلوک فرما.مجھے ہمیشہ اپنی بخشش کی چادر میں لپیٹ لے اور میں ہمیشہ تیرے رحم سے حصہ لیتا رہوں اور جس امام کو قبول کرنے کی مجھے تو فیق عطا فرمائی ہے اس پر ہمیشہ قائم رہوں اور بڑھتا چلا جاؤں.اور میری کمزوریاں میرے دشمن کو کبھی یہ موقع نہ دیں کہ وہ میرے ایمان کو ضائع کر سکے، یا میری وجہ سے میرے دین یا جماعت کو نقصان پہنچ سکے.بعض دفعہ ایک فرد کی غلطی جماعت کو ابتلا میں ڈال سکتی ہے اس لئے ہم" کہہ کر تمام مومنوں کو من حیث الجماعت ایک دوسرے کے لئے دعا کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ دعاؤں کا مجموعی اثر ہو اور ہر فرد کو بھی اپنے آپ کو پاک کرنے اور ذمہ داری کو سمجھنے کی طرف توجہ پیدا ہو اور جماعت بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتے ہوئے دشمن کے ہر شر سے محفوظ رہنے والی ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں تمام احکامات پر ہماری تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو بجا لانے کا حکم یقینا اللہ تعالیٰ نے ہماری صلاحیتوں اور استعدادوں کو دیکھتے ہوئے دیا ہے اور نہ صرف ہم ایک جگہ کھڑے رہنے والے ہوں بلکہ ہر قسم کی وسعتوں میں خدا تعالیٰ اضافہ فرماتا چلا جائے اور من حیث الجماعت بھی ہم ترقی کی شاہراہوں پر تیزی سے منزلیں بھی طے کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہماری دعا قبول فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 25 مورخہ 19 جون تا 25 جون 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 254 (23) خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 فرمودہ مورخہ 05 جون 2009ء بمطابق 05 راحسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آیت الکرسی کی تلاوت فرمائی: اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ.لَهُ مَا فِى السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ وَلَا يَؤُدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة: 256) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ ، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے.اسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند.اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ.وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جوان کے پیچھے ہے.اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے.اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے.اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں.اور وہ بہت بلندشان اور بڑی عظمت والا ہے.یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس کا نام آیت الکرسی ہے، یہ آیت الکرسی کہلاتی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ سورۃ البقرہ ہے اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیات کی سردار ہے.اور وہ آیت الکرسی ہے.( سنن الترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء في فضل سورة البقرة وآية الكرسى حديث نمبر 2878) اسی طرح یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورۃ البقرۃ کی دس آیات پڑھ کر سوئے صبح تک اس کے گھر میں شیطان نہیں آتا.ان آیات میں سے ایک آیت ، آیت الکرسی ہے.( سنن الدار می کتاب فضائل القرآن باب فضل اول سورة البقرة وآية الكرسی حدیث نمبر (3383) آنحضرت ﷺ کا یہ فرما نا صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ پڑھ لی اور سو گئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کو اور ان آیات کو غور سے پڑھا جائے.ان پر غور کیا جائے.ان کے معانی پر غور کیا جائے.پھر انسان اپنا جائزہ لے اور دیکھے کہ کس حد تک ان پر عمل کرتا ہے ، کس حد تک اس میں پاک تبدیلیاں ہیں اور جائزہ لینے کے بعد جو بھی صورت
255 خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حال سامنے آئے ، یہ عہد کرے کہ آئندہ سے یہ پاک تبدیلیاں میں اپنے اندر پیدا کروں گا.پھر یہ چیز ہے جو شیطان سے دُور کرتی ہے.جن دس آیتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے چار آیات جو ہیں وہ سورۃ البقرہ کی پہلی چار آیات ہیں.جن میں ایک مومن کی پاکیزہ عملی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ایک آیت ، آیت الکرسی ہے اور اس کے ساتھ کی دو آیات ہیں جن میں صفات باری کا نقشہ کھینچا گیا ہے.پھر سورۃ البقرہ کی آخری تین آیات ہیں جن میں سے آخری آیت کی وضاحت میں نے گزشتہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں کی تھی.گو اس وقت مضمون تو آیت الکرسی کا ہی بیان ہو گا لیکن اس سے پہلے سورۃ بقرہ کی پہلی چار آیات میں سے الم.ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تفسیر بیان فرمائی ہے اس کا ایک اقتباس میں پڑھوں گا.جو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کریم کی وسعتوں کی طرف ، اس کو سمجھنے کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے.اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن کریم کو مجھنا آسان بھی ہے اور انسان صحیح طرح سمجھ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” جب تک کسی کتاب کے علل اربعہ کامل نہ ہوں.وہ کامل کتاب نہیں کہلا سکتی، علل اربعہ کا مطلب ہے کہ چار بنیادی خصوصیات.اگر یہ چار بنیادی صفات کامل ہوں تب ہی وہ کتاب کامل کہلا سکتی ہے.آپ فرماتے ہیں : ” اس لئے خدا تعالیٰ نے ان آیات میں قرآن شریف کے عمل اربعہ کا ذکر فرما دیا ہے اور وہ چار ہیں.(1) علت فاعلی ، (2) علت مادی ، (3) علت صوری اور (4) علت غائی“.فرمایا کہ ” ہر چہار کامل درجہ پر ہیں.پس الم علت فاعلی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے معنی ہیں کہ انا اللهُ أَعْلَمُ.یعنی کہ میں جو خدائے عالم الغیب ہوں میں نے اس کتاب کو اتارا ہے.پس چونکہ خدا اس کتاب کی علت فاعلی ہے اس لئے اس کتاب کا فاعل ہر ایک فائل سے زبر دست اور کامل ہے“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 136 - حاشیہ) پس قرآن کریم کے کامل کتاب ہونے کی سند اور غیروں کو چیلنج ابتدا میں ہی ان تین حروف میں خدا تعالیٰ نے دے دیا.اس پر ایمان لانے والوں کو کسی بھی قسم کا خوف اور احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے.کسی قسم کے خوف اور احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ اس خدا کا کلام ہے جس کے کاموں کی کنہ تک بھی انسان نہیں پہنچ سکتا اور کھلا چیلنج ہے کہ قرآن کریم کی ایک سورۃ جیسی سورۃ لے کے آؤ اور اپنے ساتھ تمام مددگاروں کو ملا لو تو بھی تمام مددگاروں سمیت نہیں لا سکتے.بہر حال اس بات کی تفصیل میں تو میں نہیں جا رہا.مختصر یہ کہ قرآن کریم کامل کتاب اس لئے ہے کہ اس کو اتارنے والا کامل اور سب قدرتوں اور طاقتوں کا مالک اور عالم الغیب خدا ہے.
256 خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دوسری بات یہ فرمائی کہ: ” علت مادی کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ کہ ذلِكَ الْكِتبُ یعنی یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا کے علم سے خلعت وجود پہنا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا علم تمام علوم سے کامل تر ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میرے علم کی وسعتوں کی انتہا نہیں ہے.انسان اس کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اور وسیع علم سے کچھ حصہ اپنے پیارے نبی ﷺ کے ذریعہ اس کتاب میں ہمیں بتایا.اور پھر تیسری چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ، فرمایا: ” اور علت صوری کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ لا ريب فيه - یعنی یہ کتاب ہر ایک غلطی اور شک و شبہ سے پاک ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ جو کتاب خدا تعالیٰ کے علم سے نکلی ہے وہ اپنی صحت اور ہر ایک عیب سے مبرا ہونے میں بے مثل و مانند ہے اور لا ریب ہونے میں اکمل اور اتم ہے“.پھر آپ نے فرمایا اور علت غائی یعنی اس کی جو بنیادی وجہ ہے " علت غائی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقره که هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.یعنی یہ کتاب ہدایت کامل متقین کے لئے ہے اور جہاں تک انسانی سرشت کے لئے زیادہ سے زیادہ ہدایت ہو سکے وہ اس کتاب کے ذریعہ سے ہوتی ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 136-137 - حاشیہ) ہدایت اور عرفان الہی کے بھی مدارج ہیں.پس قرآن کریم کی تعلیم پر غور اور عمل ، ہدایت اور عرفان الہی کی نئی سے نئی راہیں کھولتا ہے.یہ چار باتیں قرآن پڑھتے وقت اگر ہمارے سامنے ہوں اور ان پر ایمان اور یقین ہو تو قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کا صحیح ادراک حاصل کرنے کی طرف راہنمائی ملتی ہے.اب میں آیت الکرسی کی کچھ وضاحت کروں گا.اس آیت میں بھی خدا تعالیٰ کے جامع الصفات اور وسیع تر ہونے کا مضمون ہے.اس آیت کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ کے نام سے ہوتی ہے.اللہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کا مجمع ہے“.فرمایا ” کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں.لیکن جس کو وہ اللہ یا د ہی نہ ہو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 63 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس جب ایک انسان مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا سر چشمہ یقین کرنا چاہئے اور اسے تمام صفات کا اس حد تک احاطہ کئے ہوئے سمجھنے پر ایمان ہونا چاہئے ، جہاں تک انسان کے فہم و ادراک کی رسائی نہیں ہو سکتی.جو بے کنار ہے اور جب یہ ایمان ہوگا تو سبھی ہر موقع پر خدا تعالیٰ یا در ہے گا.بہت سی برائیوں میں انسان اس لئے مبتلا ہو جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کے بجالانے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں
257 خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ستی اس لئے ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کو یاد نہیں رہتا.انسان بھول جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہر لمحہ اور ہر آن مجھ پر نظر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : " خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) تو یہ کم از کم کوشش ہے جو ہمیں اپنے اللہ پر ایمان لانے اور پھر ترقی کی طرف قدم بڑھانے کے لئے کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.اس آیت میں جواللہ تعالیٰ نے اس طرح شروع کیا کہ الله لا إلهَ إِلَّا هُوَ - یعنی صرف اللہ کو دیکھو کہ وہی تمہارا معبود ہے اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے.یہ واضح فرما دیا کہ اللہ ہی تمام صفات کا جامع اور تمام قدرتوں کا مالک ہے اور اس ناطے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور تمام جھوٹے خداؤں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے، بچتے ہوئے ،صرف اسی واحد خدا کے سامنے جھکا جائے.فرمایا کہ اس واحد خدا کے سامنے جھکو گے تو پھر ہی دنیا و آخرت کے انعامات سے فیض پاسکتے ہو.دنیا میں ہر چیز کا بدل مل سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کا کوئی بدل نہیں ہے.جب اس کا بدل نہیں ہے تو پھر بیوقوفی ہے کہ اسے چھوڑ کر کہیں اور جایا جائے.یا عارضی طور پر ہی اپنی ترجیحات کو بدل دیا جائے.ایک دہر یہ تو یہ کہ سکتا ہے کہ میں کیونکہ خدا کو نہیں مانتا اس لئے میں کیوں اس کے در پر حاضر ہو جاؤں.لیکن ایک مسلمان جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لَا إِلهَ إِلَّا الله اور پھر دنیاوی ذریعوں کو خدا سے زیادہ اہمیت دیتا ہے تو یہ یقینا اس کی بدقسمتی ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ خدا جو لا شریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آ جائے.اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی“.(اللہ تعالیٰ کا مقام اور اس کی قدرتیں خطرے میں پڑ جائیں گی.اور یہ جو فر مایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کاملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو وہ سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہوسکتا، وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کرنا ظلم ہے“.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه (372) پس ایک مومن کے دل میں خوف خدا پیدا ہوتا ہے جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کرنا ظلم ہے ، اپنے نفس کا جائزہ لیتا
258 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 ہے.کئی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں، ہمارے سے روزانہ ہو جاتی ہیں جس میں ہم لاشعوری طور پر بہت سی چیزوں کو خدا تعالیٰ کا شریک بنا کر اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اور اس کی ربوبیت زمین و آسمان پر پھیلی ہوئی ہے.اللہ ہماری ایسی حالتوں کو اپنی مغفرت اور رحم کی صفات سے ڈھانپ ل - لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الأنبياء: 88) کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، میں یقیناً ظالموں میں سے ہوں.پس اللهُ لَا إِلهَ إِلَّا هُو کی طرف جانے کے لئے یا صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِینَ کی دعا بھی بڑی اہم دعا ہے جو پڑھتے رہنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ اللہ ہی تمہارا معبود ہے اور حقیقی معبود ہے.فرمایا الحَيُّ الْقَيُّوم یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اپنی ذات میں قائم ہے.اور ان حتی ہونے کی وجہ سے صرف خود ہی ہمیشہ زندہ نہیں رہتا بلکہ تمام جانداروں کو زندگی بخشنے والا ہے.اور القیوم ہے، صرف خود ہی قائم نہیں ہے بلکہ کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں : اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ زندہ خدا وہی خدا ہے اور قائم بالذات وہی خدا ہے.پس جبکہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوازندہ نظر آتا ہے وہ اُسی کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جوز مین یا آسمان میں قائم ہے وہ اسی کی ذات سے قائم ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 120) پس اپنے زندہ اور قائم ہونے اور زندہ اور قائم رکھنے کا حوالہ دے کر مومنوں کو یہ تسلی دلا دی کہ تم دنیاوی دباؤ اور دنیاوی لالچوں کے زیر اثر کبھی نہ آنا اور جو وعدے میں نے مومنوں سے کئے ہیں ان پر پوری طرح یقین رکھنا تمہاری نسلوں کی زندگی اور بقا بھی میرے ساتھ جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور جماعتی زندگی اور بقا بھی میرے ساتھ جڑے رہنے سے وابستہ ہے.حالات کی وجہ سے دنیاوی ذرائع پر انحصار کرنے کا نہ سوچنے لگ جانا.میری عبادت کرتے رہو.میری طرف جھکے رہو تو اسی میں تمہاری زندگی ہے اور اسی میں تمہاری بقا ہے.ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ (الفرقان : 59) اور تو اس پر تو کل رکھ جو زندہ ہے اور سب کو زندہ رکھتا ہے کبھی نہیں مرتا اور اس کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح کر.پس ایک مومن حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی صفت کے بارہ میں شک میں نہیں پڑتا بلکہ مشکلات اسے تی و قیوم اور قادر اور مجیب خدا کے سامنے اور زیادہ جھکنے والا بناتی ہیں.پھر خدا تعالیٰ نے لَا تَأخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْم کہہ کر یہ بھی واضح فرما دیا کہ کبھی کسی مومن کے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ اللہ تعالی نبیند یا اونگھ کی حالت میں زندہ رکھنے اور قائم رکھنے سے غافل ہوسکتا ہے.یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی صفات نہ محدود ہیں ، نہ ہی اسے کسی قسم کی کمزوری ان صفات سے عدم تو جنگی کی طرف لے جاتی ہے.اس کو کسی آرام
259 خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کی ضرورت نہیں.اس کی استعداد میں انسانی استعدادوں کی طرح نہیں ہیں جنہیں ایک وقت میں آرام اور نیند کی ضرورت ہوتی ہے.بلکہ وہ تو تمام قدرتوں کا مالک خدا ہے.اس لئے نہ ہی اسے نیند کی ضرورت ہے نہ ہی تھکاوٹ کی وجہ سے اسے اونگھ آتی ہے.اس لئے سوال ہی نہیں کہ وہ اپنے بندوں کی زندگی اور بقا سے کبھی غافل ہو.ہاں قانون قدرت کے تحت اور اس کی دوسری صفات کے تحت وہ اپنے بندوں کو امتحانوں اور آزمائشوں میں ڈالتا ہے.لیکن یہ بھی اس کا اعلان ہے کہ حقیقی زندگی اس کے بندوں کی ہی ہے.اُس کے راستے میں مرنے والے بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور جب اس نے یہ اعلان فرمایا کہ میرے نبی کی جماعت ہی زندہ اور غالب رہنے والی ہے تو اس بات کو بھی پورا کر کے دکھایا کہ وہ زندہ رہتی ہے اور غالب رہتی ہے.پھر فرمایا لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.اس بات پر بھی کسی کو شبہ اور شک نہیں ہونا چاہئے کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے کہا تو یہی ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.لیکن یہ کس طرح ہوگا ، کیونکہ اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے اور وسائل کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ غلبہ مشکل نظر آتا ہے یا بڑی دُور کی بات نظر آتی ہے.لیکن جب آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي (المجادلة : 22) تو با وجود نا مساعد حالات کے اسے سچ کر دکھایا.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے تو اب بھی سچ کر دکھائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دکھا بھی رہا ہے.گو انسان سوچتا ہے کہ کس طرح اور کیونکر بظاہر اسباب اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے غلبہ ہوگا.یا ہوگا بھی تو بہت دور کی بات ہے.اور مکمل کامیابی بہت دور کی چیز نظر آتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ کے تصرف اور قبضے میں ہے.یہ زمین اور آسمان بغیر مالک کے نہیں ہیں دنیا میں رہنے والی ساری مخلوق اُسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہ لامحدود اور وسیع تر طاقتوں کا مالک ہے اور وہ ہمیشہ دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہے.زندگی اور موت، فنا اور بقا، اسی کے ہاتھ میں ہے.زمین کے تمام خزانے ، ظاہری اور مخفی خزانے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں.پس جب اس طاقت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میرے رسول کی جماعت غالب آئے گی تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی.چاہے وہ بڑی طاقتیں ہوں یا دنیاوی حکومتیں ہوں یا نام نہاد دین کے علمبر دار ہوں.خدا تعالیٰ کے فیصلہ نے یقینا اور لاز مالا گو ہونا ہے.لیکن مومنوں کو شروع میں ہی یہ واضح کر دیا کہ یہ غلبہ اور یہ دائمی زندگی اور بقا یقینا ان لوگوں کو ملے گی جو تمام صفات کے جامع خدا پر یقین رکھتے ہوں اور اس کی عبادت کرنے والے ہوں.پس آج ہر ایک احمدی کی یہ ذمہ داری ہے جسے سمجھنا ہر ایک احمدی کے لئے انتہائی ضروری ہے.پھر فرمایا کہ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ.کون ہے جو اس کے حضور سفارش کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ.پس اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی مگر صرف اسے جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا یا اذن دے گا.اور احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا اذن ہو گا تو آپ سفارش کریں گے.
260 خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم الله آپ ﷺ کے شفیع ہونے سے کیا مراد ہے.اس بارہ میں مختلف حوالوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے وضاحت فرمائی ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ” ہاں سچا شفیع اور کامل شفیع آنحضرت ملے ہیں.جنہوں نے قوم کو بت پرستی اور ہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنا دیا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس جب حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ مکہ شفاعت فرمائیں گے تو اس وقت ان لوگوں کی شفاعت ہوگی جو شرک سے پاک ہوں گے.ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں گے.فسق و فجور سے بچنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے.اور اگر چھوٹی چھوٹی کمزوریوں سے جو سرزد ہو بھی جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالی بھی آپ کی شفاعت سے صرف نظر فرمائے گا.معجم الاوسط جلد 6 صفحہ 90 باب من اسمه موسی - دار الفکر عمان اردن 1999ء) اس بات کو مزید کھول کر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے کہ: یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہئے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں.ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر یہ نص صریح ہے.وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلونَكَ سَكَن لَّهُمُ (التوبة : 103) یہ شفاعت کا فلسفہ ہے یعنی جو گنا ہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جاوے.شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہ کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جوشوں اور جذبات میں ایک برودت آ جاتی ہے جس سے گناہوں کا صدور بند ہو کر ان کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں“.( یعنی نفسانی جوشوں میں اور جذبات میں کمی آجاتی ہے، ان میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے جس سے گناہوں کا صادر ہونا یا عمل ہونا کم ہو جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں ) پس شفاعت کے مسئلے نے اعمال کو بریکار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے“.آپ فرماتے ہیں پس شفاعت کے مسئلے نے اعمال کو بریکار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 701-702 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس آنحضرت ﷺ کی شفاعت اس دنیا میں ہی شروع ہو گئی تھی اور یہ نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے، نہ کسی کفارہ سے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.کفارہ کے فلسفے میں گناہوں میں دلیری پیدا ہوتی ہے اور شفاعت کے فلسفے میں نیک اعمال کی طرف اور خدا کو ماننے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اس زمانہ میں دعا کے ذریعہ سے شفاعت کا اذن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو عطا فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض میں مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پاگئے ہیں.(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 236)
261 خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم لیکن اس شفاعت کے بیان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جوان کے پیچھے ہے.پس ہمارا خدا عالم الغیب ہے.اس لئے ایسے لوگ جو کھلے گناہوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے بارہ میں نہ تو یہاں شفاعت کا اذن ہوتا ہے اور نہ اگلے جہان میں ہوگا.یہی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اپنے علم کی وسعتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاء.اس میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے علم کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا.حتی کہ آنحضرت سے بھی جو خدا تعالیٰ کے محبوب ترین ہیں اور آپ کے بارہ میں مومنوں کو حکم ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو میرے محبوب ﷺ کی پیروی کرو جن کو تمام علموں سے اللہ تعالیٰ نے بھر دیا تھا.آئندہ زمانوں کی جو بھی خبر میں قرآن کریم نے دیں وہ آپ کے ذریعہ سے آئیں اور ان کا ادراک بھی آنحضرت ﷺ کو اس وقت عطا فرمایا.بعض باتیں ایسی ہیں جو اس زمانے میں صحابہ سمجھ نہیں سکتے تھے لیکن آنحضرت یہ ان کا بھی ادراک رکھتے تھے.لیکن فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مکمل علم نہیں ہے.بلکہ میرے علم کی وسعتوں کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا.اس طرح اللہ تعالی تلاش کرنے والوں کو چاہے روحانی مدارج اور علوم کی تلاش میں کوئی ہو یا دنیاوی علوم کی تلاش میں کوئی ہو ، نئے راستے دکھاتا ہے، نئی منزلیں دکھاتا ہے.اور جب انسان وہاں پہنچتا ہے تو پھر مزید راستے نظر آتے ہیں.سائنس کی ترقی بھی اس بات کی دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ نئے سے نئے راستے ان جستجو کرنے والوں کو دکھاتا ہے اور کائنات کی وسعتوں کا تو شمار ہی نہیں ہے.اسی طرح روحانی مدارج ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا علم لامحدود ہے جس کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.نہ صرف خدا تعالیٰ کی ہستی کا احاطہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کائنات کی پیدائش کا بھی احاطہ نہیں کیا جاسکتا.خدا ہی ہے جب چاہتا ہے کچھ راز انسانوں پر ظاہر فرما دیتا ہے یا کچھ علم دے دیتا ہے اور یہ بات پھر انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر نے والا بنانے والی ہونی چاہئے جو تمام صفات کا جامع اور لامحدود ہے.پھر فرمایا وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَالارْضِ کیونکہ اس کی بادشاہت زمین پر پھیلی ہوئی ہے اور آسمان پر پھیلی ہوئی ہے.وہ تمام کائنات کی اور جتنی بھی کائناتیں ہیں ان میں موجود ہر چیز کو زندگی دینے والا اور قائم رکھنے والا ہے.تمہارا علم محدود ہے.وہی تمہیں علم دیتا ہے.جس حد تک استعدادوں نے ترقی کی ہے یا کوشش کی ہے اس حد تک علم دیتا ہے.لیکن یہ علم بھی صرف اس حد تک ہے جس حد تک خدا تعالیٰ چاہتا ہے.اس لئے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے آگے جھکو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو.اسی کی حکومت زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے بلکہ اس نے اس کی حفاظت بھی اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس سے وہ تھکتا بھی نہیں.ہر چیز پر اس کی نظر ہے اور یہ ایسا وسیع اور جامع نظام ہے کہ اس کا احاطہ انسان کے لئے ممکن نہیں ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نظر دوڑاؤ کہ شاید اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں کوئی نقص تلاش کر سکو لیکن ناکام ہو گے.تمہاری نظر واپس آ جائے گی.پھر نظر دوڑاؤ پھر وہ تھکی
262 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 ہوئی واپس آ جائے گی.لیکن خدا تعالیٰ وہ ذات ہے جو اس نظام کو چلا رہا ہے اور ازل سے چلا رہا ہے اور بغیر کسی اونگھ اور نیند کے اور بغیر کسی تھکاوٹ کے اسے چلا رہا ہے.پس کیا یہ باتیں تمہیں اس طرف توجہ نہیں دلا نہیں کہ اس وسعتوں والے خدا کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دو اور سرکشی میں نہ بڑھو.اور آخر میں فرمایا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ کہ وہ بلندشان والا اور عظمت والا ہے.اس سارے نظام کو چلانے کے لئے اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں ہے.پس یہ خدا ہے جو اسلام کا خدا ہے.تمام صفات کا مالک اور جامع ہے اور یقینا وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ فہم و ادراک عطا فرمائے جس سے ہم اپنے اللہ کی پہچان کرتے ہوئے ہمیشہ اس کے سامنے جھکے رہنے والے، اس کی عبادت کرنے والے بنے رہیں اور اسے تمام صفات کا جامع سمجھتے ہوئے اس کی صفات کے کمال سے فیض اٹھانے والے بنے رہیں.میں جمعہ کے بعد جنازے بھی پڑھاؤں گا، کچھ افسوسناک خبریں ہیں.پہلا جنازہ جو ہوگا وہ تو مکرم میاں لئیق احمد طارق صاحب ابن مکرم یعقوب احمد صاحب فیصل آباد کا ہے جن کو 28 مئی کو شر پسندوں نے اپنی دکان سے گھر آتے ہوئے شہید کر دیا تھا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے ماتھے اور پیٹ پر گولیاں لگیں.رات کو ہسپتال میں لے کر گئے لیکن بہر حال جانبر نہیں ہو سکے اور شہادت کا رتبہ پایا.ان کی عمر 54 سال تھی.یہ اپنے گھر کے سامنے ہی آرہے تھے.ان کا بیٹا پہلے ہی موٹر سائیکل پر گھر میں آ گیا تھا.اس نے دیکھا کہ دو تین آدمی گھر کے سامنے کھڑے ہیں.ان کو دیکھ کے بیٹے نے فون کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیچھے کار میں آ رہے تھے.جلدی پہنچ گئے اور ایک جگہ سپیڈ بریکر پر جب کار ہلکی کی تو وہیں ان بد بختوں نے فائر کیا.ان کے ماتھے پر گولی گی اور پھر قریب جاکے اور فائر کئے.بہر حال اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے.آپ موصی تھے اور آپ کے والد کے پڑدادا بھی حضرت فضل الہی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابی تھے.جماعت کی خدمات کرتے ہوئے مختلف عہدوں پر خدمات کا موقع ملا.بڑے محبت کرنے والے تھے.آپ کے پسماندگان میں آپ کی والدہ ہیں، 78 سال کی بوڑھی ہیں اور اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.آپ کے ایک بھائی یہاں رہتے ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی وفات کا سن کے جب انہوں نے والدہ کو فون کیا تو یہ تو اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں رکھ رہے تھے لیکن والدہ نے ان کو تسلی دلائی کہ تم کو جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے.مجھے تو بڑا فخر ہے کہ میں شہید کی ماں بن گئی ہوں.تو یہ مائیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر جن کے وہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں جو قرون اولیٰ میں نظر آتے تھے.دوسرا جنازہ غلام مصطفیٰ صاحب اسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس (.A.S.L) کا ہے جن کی عمر 49 سال تھی.پچھلے دنوں لاہور میں جس بلڈنگ میں بم دھما کہ ہوا ہے اس میں وہاں ان کی بھی شہادت ہوئی.
263 خطبه جمعه فرموده 5 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر ایک جنازہ ہے ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم شار احمد صاحب آف چنائی انڈیا کا.یہ بیمار ہوئیں اور 30 مئی کو وفات پاگئی تھیں.ان کی ایک 8 سالہ چھوٹی بچی ہے.یہاں جماعت کی مخالفت بڑے زوروں پر ہے.ہندوستان میں اس جگہ سینٹ تھامس ماؤنٹ میں مسلمانوں کا ایک قبرستان ہے.گزشتہ 30 سال سے احمدی وہاں جنازوں کی تدفین کر رہے تھے.جب مرحومہ کی تدفین کے لئے وہاں گئے تو اچانک اردگرد سے مسلمان مولوی اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کا قبرستان ہے.یہاں ہم اس کی تدفین نہیں کرنے دیں گے.خیران کی تدفین تو ہو گئی.احمدی واپس آگئے تو کچھ دیر کے بعد مزید لوگ اکٹھے ہو کے وہاں گئے اور انہوں نے قبر کھود کر نعش کو باہر نکال کر رکھ دیا.پولیس وہاں موجود رہی لیکن کہا کہ ہم تو مولویوں کے آگے کچھ کر نہیں سکتے تھے.ان مولویوں نے ، جو دین کے علمبر دار بنے پھرتے ہیں ہر جگہ اسلام کے نام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.یہ صف اول کے ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارہ میں علماء سوء کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.بہر حال پھر پولیس نے دوبارہ ان کو دوسرے قبرستان میں دفتا دیا.ان کا بھی جنازہ پڑھاؤں گا.پھر ایک جنازہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم کھاریاں کا ہے.یہ ہمارے مبلغ چوہدری منیر احمد صاحب جو امریکہ میں ہیں، ایم ٹی اے کا ارتھ سٹیشن چلاتے ہیں ان کی والدہ ہیں.ان کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے.ان کے خاوند مرچنٹ نیوی میں تھے اور نیوی کے ساتھ سفر کرتے تھے.نیوی میں جہاز میں جہاں بھی جاتے تھے احمدیت کی تبلیغ بہت شوق سے کیا کرتے تھے بلکہ بے تحاشا جماعت کا لٹریچر رکھا ہوتا تھا اور انہوں نے کئی جگہ جماعتیں بھی قائم کیں.یہ ان کی اہلیہ تھیں.چوتھا جنازہ جعفر احمد خان کا ہے جو نواب عباس احمد خان صاحب مرحوم کے بیٹے تھے.یہ جسمانی لحاظ سے تو معذور تھے لیکن دماغی لحاظ سے بڑے ایکٹو (Active) تھے.موصی بھی تھے اور میرے پھوپھی زاد تھے.حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے پوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے نواسے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان سب مرحومین سے بھی.ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے.ابھی نماز جمعہ کے بعد نماز جنازہ غائب ادا کی جائے گی.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 26 مورخہ 26 جون تا 2 جولائی 2009 ، صفحہ 5 تا صفحہ 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 264 (24) خطبہ جمعہ فرمود ه 12 جون 2009 فرمودہ مورخہ 12 جون 2009 ء بمطابق 12 / احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا اپنے برگزیدوں اور انبیاء سے عجیب سلوک ہوتا ہے.وہ چھپتے ہیں اور خدا کی عبادت میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ انہیں حکم دے کر باہر نکالتا ہے اور اس کا کامل اور اعلیٰ ترین نمونہ آنحضرت ﷺ کی ذات تھی.آپ گوشئہ خلوت میں کئی کئی دن غار حرا میں اپنے مولا کی یاد میں محصور ہتے تھے.دنیاوی معاملات سے کوئی رغبت نہیں تھی.گو کہ دنیاوی اور گھریلو ذمہ داریاں نبھانے میں بھی آپ کے برابر کوئی نہیں تھا اور نہ کوئی ہوسکتا ہے.لیکن آپ کا اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا، اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار رہنا اور عبادت میں مصروف رہنا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ غار سے باہر نکلو اور دنیا کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلاؤ تو آپ نے داعی الی اللہ ہونے کا بھی ایسا نمونہ قائم فرمایا جس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی.اور اللہ تعالیٰ کا یہ پیارا جو دعوت الی اللہ کی وجہ سے معتوب قوم بھی ٹھہرا اور جس کو بے انتہا ظلموں کا نشانہ بنایا گیا.اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشارا اور مخلوق خدا کی ہمدردی سے بھرا ہوا کسی بھی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہرلمحہ ایک نئی شان سے اپنے کام میں مگن نظر آرہا تھا اور ایک ایک دو دو کر کے ہر روز آپ ﷺ کی دعوت کے ذریعہ سے آپ کی جماعت میں وسعت پیدا ہو رہی تھی اور آپ کی زندگی میں ہی اسلام کا پیغام عرب سے باہر بھی پھیل گیا.اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایشیا، افریقہ اور یورپ تک مسلمان حکومتیں قائم ہو گئیں.پھر آنحضرت مے کی پیشگوئی کے مطابق ہی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق مسلمانوں کی روحانی حالت میں بے انتہاز وال آیا اور اس روحانی زوال سے بعض جگہ مسلمانوں کی دنیا وی حکومتیں بھی متاثر ہوئیں اور ہاتھ سے جاتی رہیں.لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے، اسلام ہی وہ دین ہے جو کامل ہے اور تمام انسانیت کے لئے ہے.اس لئے اس حالت نے جو اس وقت تھی پھر سنبھالا لینا تھا اور یہ سنبھالا آنحضرت ﷺ کے غلام صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے ہونا تھا تا کہ اسلام ایک نئی شان سے تمام دنیا کے ادیان پر غالب آئے اور دنیا کے وہ کنارے جہاں اسلام کا پیغام نہیں پہنچا تھا وہاں بھی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت میلہ کے اس مشن کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے آخری دین کی تکمیل اشاعت کے لئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو سیح و مہدی اور آنحضرت علی کی کامل پیروی اور اتباع میں غیر شرعی نبی
265 خطبہ جمعہ فرمود : 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کا اعزاز دے کر دنیا میں بھیجا.آپ کی ابتدائی زندگی کا ہم جائزہ لیں تو ہمیں آپ کی زندگی میں بھی اپنے آقا و مطاع کی زندگی کے ابتدائی دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور اس کے بعد بھی ہرلمحہ یہی جھلکیاں نظر آتی ہیں.دنیا سے آپ کو کوئی سرور کار نہیں تھا.اگر کوئی خواہش اور آرزو اور عمل تھا تو یہ کہ خدائے واحد کی عبادت میں مشغول رہوں.اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی میں اللہ کے عشق و محبت میں مخمور رہتے ہوئے آپ پر درود و سلام بھیجتار ہوں اور اس عبادت اور آنحضرت ﷺ سے عشق کا نتیجہ تھا کہ آپ کو مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی حالت زار بے چین کر دیتی تھی جس کے لئے آپ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے تھے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کا جوش اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ یہ عشق و محبت ہی تھا جس کی وجہ سے آپ اسلام کے دفاع کے لئے جہاں قرآن کریم کا گہرا مطالعہ فرماتے تھے وہاں دوسرے مذاہب کی کتب کا بھی مطالعہ کر کے قرآن کریم کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور جہاں بھی آپ کو موقع ملتا تھا اسلام کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے.اور کوئی نام ونمود اور دنیا دکھا وا آپ کی جوانی کے دور میں بھی ہمیں نظر نہیں آتا.اس کے غیر بھی گواہ ہیں اور اپنے بھی گواہ ہیں.اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب والشہادۃ ہے اس کو تو آپ کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ عشق و وفا اور دین اسلام کے لئے دلی درد کی کیفیت کا بخوبی علم تھا.اس نے آپ کو کہا کہ گوشہ تنہائی سے باہر نکلو اور صرف انکار کا لوگوں سے اسلام کی برتری کی باتیں نہ کرو.صرف اپنے حلقے میں مسلمانوں کی حالت زار بدلنے کی کوشش نہ کرو.صرف تحریر سے ہی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا.بلکہ دنیا میں یہ اعلان کر دو کہ آنے والا مسیح و مہدی آچکا اوراللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر میں تمہیں بتا تا ہوں کہ وہ مسیح و مہدی میں ہوں.آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ آپ کی مخالفت کا وہ طوفان برپا ہوا جس نے ایک وقت میں قادیان میں آپ کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ آپ قادیان سے ہجرت کا سوچنے لگے.آپ کے مریدوں میں سے بعض مخلصین نے اپنے اپنے علاقوں میں آپ کو رہنے کی دعوت دی اور آپ کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نوبت نہیں آئی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے 1882ء میں جب آپ اسلام کے دفاع کے لئے براہین احمدیہ لکھ رہے تھے تو یہ تسلی دلا دی تھی کہ حالات جو ہیں وہ آپ کے حق میں ہوں گے.عربی الہام کی ایک لمبی عبارت ہے اس کو آپ نے براہین احمدیہ میں درج بھی فرمایا ہے.اس کا کچھ حصہ جو آپ نے اپنی کتاب سراج منیر میں درج فرمایا ہے وہ میں پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”یہ پیشگوئی براہین کے صفحہ 242 میں مرقوم ہے ” إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ وَالْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةٌ مِّنِي وَبَشِّرِ الَّذِينَ امَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ.وَاتْلُ عَلَيْهِمْ مَّا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ ربِّكَ وَلَا تُصَعِرِ لِخَلْقِ اللهِ وَلَا تَسْتَمُ مِّنَ النَّاسِ - (سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73)
266 خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ترجمہ : میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور میں اپنی طرف سے محبت تیرے پر ڈالوں گا “.( یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود نے خود فرمایا ہے ( یعنی بعد اس کے کہ لوگ دشمنی اور بغض کریں گے یک دفعہ محبت کی طرف لوٹائے جائیں گے جیسا کہ یہ مہدی موعود کے نشانوں میں سے ہے اور پھر فرمایا کہ جولوگ تیرے پر ایمان لائیں گے ان کو خوشخبری دے کہ وہ اپنے رب کے نزدیک قدم صدق رکھتے ہیں اور جو میں تیرے پر وحی نازل کرتا ہوں تو اُن کو سنا.خلق اللہ سے منہ مت پھیر اور ان کی ملاقات سے مت تھک.اور اس کے بعد الہام ہوا.وَ وَسِعُ مَكَانَكَ یعنی اپنے مکان کو وسیع کر لے.اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا بہت ہجوم ہو جائے گا.یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہو جائے گا.پس تو اُس وقت ملال ظاہر نہ کرنا اور لوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا.سبحان اللہ یہ کس شان کی پیشگوئی ہے اور...اس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی.سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73) یہ وَسِعُ مَكَانَكَ کا الہام اور لوگوں کے آنے کی خوشخبری آپ کو اس وقت دی جارہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ کبھی کبھار دو تین آدمی میری مجلس میں آیا کرتے تھے.لیکن آپ کی زندگی پر اس سے چند سال پہلے، چار پانچ سال پہلے ہم نظر دوڑا کر دیکھیں تو دنیاوی لحاظ سے آپ کی زندگی میں کچھ بھی نہ تھا.یہاں تک کہ گزارہ بھی والد صاحب کے ذمہ تھا اور آپ کے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ کچھ کام کیا کرو.کام نہیں کرو گے تو کھاؤ گے کہاں سے.شادی ہوگئی تو بیوی بچوں کو کہاں سے کھلاؤ گے.لیکن آپ نہایت ادب سے والد صاحب کو یہی جواب دیا کرتے تھے کہ جو آپ کہتے ہیں میں کر لیتا ہوں لیکن میں تو احکم الحاکمین کا نوکر ہو چکا ہوں.دنیا داری میں تو میرا دل نہیں لگتا.والد صاحب آپ کی بات سن کر خاموش ہو جایا کرتے تھے.لیکن آپ کے لئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے.انہیں کیا معلوم تھا کہ اس بیٹے کی تمام تر ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول سے عشق و محبت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اپنے سپر د کر لی ہوئی ہے.یہاں اپنے کھانے یا اپنے بیوی بچوں کے کھلانے کا سوال نہیں ہے.وقت آنے پر دنیا وہ نظارہ دیکھے گی کہ جب آپ کے دستر خوان سے ہزاروں لوگ کھانا کھا رہے ہوں گے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد کی وفات ہوئی ہے تو وفات ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے وفات کی اطلاع آپ کو دی.تو بشری تقاضے کے تحت آپ کو بھی اپنے معاش کی فکر ہوئی جو آپ کے والد صاحب سے وابستہ تھا.لیکن جو نہی یہ خیال آیا اللہ تعالیٰ نے فوراً الہام کیا کہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ الہام ہوتے ہی وہ خیال یوں اُڑ گیا جیسا کہ روشنی کے نکلنے سے تاریکی اڑ جاتی ہے.جیسے روشنی آنے سے اندھیر غائب ہو جاتا ہے.اور آپ نے پھر اس الہام کی انگوٹھی بھی تیار کر والی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا نے ان کی وفات کے بعد ( یعنی والد صاحب کی
267 خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم وفات کے بعد لاکھوں انسانوں میں مجھے عزت کے ساتھ شہرت دی اور میں والد صاحب کے زمانے میں اپنے اقتدار اور اختیار سے کوئی مالی قدرت نہیں رکھتا تھا اور خدا تعالیٰ نے ان کے انتقال کے بعد اس سلسلہ کی تائید کے لئے اس قدر میری مدد کی اور کر رہا ہے کہ جماعت کے درویشوں اور غریبوں اور مہمانوں اور حق کے طالبوں کی خوراک کے لئے جو ہر ایک طرف سے صد ہا بندگان خدا آ رہے ہیں اور نیز تالیف کے کام کے لئے ہزار ہاروپیہ بہم پہنچایا اور ہمیشہ پہنچاتا ہے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 198-199) پس اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے اس الہام کے تحت کہ الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبُدَهُ اپنے کافی ہونے کا ثبوت دیا، اس وعدے کو پورا فرمایا بلکہ وسعُ مَكَانَكَ کا حکم فرما کر خود ہی ہر لحاظ سے اس کی وسعت کے تمام لوازمات اور انتظامات بھی پورے فرمائے اور اس الہام کو آج بھی ہم ایک نئی شان سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں.اور یہ الہام آپ کو صرف ایک مرتبہ نہیں ہوا بلکہ کئی مرتبہ ہوا اور ہر مرتبہ جب آپ کو یہ الہام ہوا تو اس کی وسعتوں کی شان بھی بڑھتی چلی گئی اور یہی آپ نے فرمایا ہے کہ متعدد مرتبہ ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ وسعتوں کی شان بڑھتی چلی جائے گی.اس لئے آپ بھی ہر لحاظ سے اس وسعت کے لئے ظاہری طور پر کوشش کرتے چلے جائیں اور پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑیں اور آپ یہی کرتے تھے.یہ سچے وعدوں والا خدا ہے.اپنے وعدے پورے کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب یہ الہام ہوا تو یہ دعویٰ مسیحیت سے پہلے کا واقعہ ہے، آپ کے پاس بظاہر دنیاوی لحاظ سے کچھ بھی نہیں تھا.لیکن خدائی حکم تھا اس لئے پورا کرنا بھی آپ نے ضروری سمجھا اور آپ نے اُسے کس طرح پورا فرمایا؟ اس بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت درج فرمائی ہے.پیش کرتا ہوں.کہتے ہیں کہ : ”میاں عبداللہ سنوری صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور کو جب وَسِعُ مَكَانَكَ ( یعنی اپنے مکان وسیع کر ) کا الہام ہوا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مکانات بنوانے کے لئے تو ہمارے پاس روپیہ ہے نہیں.اس حکم الہی کی اس طرح تعمیل کر دیتے ہیں کہ دو تین چھپر ( گھاس پھوس کے ) بنوا لیتے ہیں.چنانچہ حضوڑ نے مجھے اس کام کے واسطے امرتسر، حکیم محمد شریف صاحب کے پاس بھیجا جو حضور کے پرانے دوست تھے اور جن کے پاس حضور اکثر امرتسر میں ٹھہرا کرتے تھے تا کہ میں ان کی معرفت چھپر باندھنے والے اور چھپر کا سامان لے آؤں.چھپر باندھنے کے لئے کوئی خاص آدمی ہوتے تھے چنانچہ میں جا کر حکیم صاحب کی معرفت امرتسر سے آدمی اور چھپر کا سامان لے آیا اور حضرت صاحب نے اپنے مکان میں تین چھپر تیار کر وائے.یہ چھپر کئی سال تک رہے پھر ٹوٹ پھوٹ گئے“.
خطبات مسرور جلد ہفتم 268 خطبه جمعه فرمود 120 جون 2009 حضرت میاں بشیر احمد صاحب اس کے آگے لکھتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ توسیع مکان سے مراد کثرت مہمانان اور ترقی قادیان بھی ہے اور یہ بیچ ہے.(سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 131 روایت نمبر 141 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تو یہ حالات تھے کہ مکانوں کی وسعت کے لئے رقم نہیں تھی.صرف طاقت تھی، توفیق تھی تو چھپر ڈالنے تک کی.یہ تو آپ کو یقین تھا کہ خدا تعالیٰ نے جب الہام کیا ہے تو سامان بھی پیدا فرمائے گا.لیکن اپنی طاقت کے مطابق اس الہام کے بعد فوری عمل بھی ضروری تھا.اس لئے جو موجود تھا اس سے ظاہری سامان آپ نے فوراً کر دیا.لیکن یہ الہام کیونکہ آپ کو بار باراور مختلف جگہ پر ہوا ہے اور مختلف مواقع پر ہوا ہے اس لئے ہر مرتبہ یہ الہام ہونے پر آپ اس یقین سے بھر جاتے تھے کہ اب ایک نئی شان سے اس الہام کے پورا ہونے کے سامان ہوں گے اور اس کا اظہار آپ نے اپنے ایک اشتہار میں یوں فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ایک عرصہ ہوا مجھے الہام ہوا تھا کہ وَسِعُ مَكَانَكَ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ یعنی اپنے مکان کو وسیع کر کہ لوگ دُور دُور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے.سو پشاور سے مدراس تک تو میں نے اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا مگر اس کے بعد دوبارہ پھر یہی الہام ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیشگوئی پھر زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری ہوگی.وَاللهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاء لَا مَانِعَ لِمَا أَرَادَ ( تذکرہ صفحہ 246.ایڈیشن چہارم 2004 مطبوعہ ربوہ ) اور پھر 1907ء میں ایک جگہ الہامات کا ذکر فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں، 1907ء کی بات ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے فرمایا: "لَكُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا - خیر و نصرت و فتح انشاء اللہ تعالیٰ.وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ.إِنِّي مَعَكَ ذَكَرْتُكَ فَاذْكُرُنِي.وَسِعُ مَكَانَكَ.حَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُرْفَعَ بَيْنَ النَّاسِ إِنِّي مَعَكَ يَا إِبْرَاهِيمُ.إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ أَهْلِكَ إِنَّكَ مَعِى وَاهْلُكَ إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ فَانْتَظِرُ.قُلْ يَأْخُذُكَ الله يعنى تمہارے لئے دنیا اور آخرت میں بشارت ہے.تیرا انجام نیک ہے.خیر ہے اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالی.ہم تیرا بوجھ اتار دیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی اور تیرے ذکر کو اونچا کر دیں گے.میں تیرے ساتھ ہوں.میں نے تجھے یاد کیا ہے.سو تو مجھے بھی یاد کر اور اپنے مکان کو وسیع کر دے.وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جاوے گا اور لوگوں میں تیرا نام عزت اور بلندی سے لیا جائے گا.میں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم ! میں تیرے ساتھ ہوں اور ایسا ہی تیرے اہل کے ساتھ.اور تو میرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل میں رحمن ہوں میری مدد کا منتظر رہ.اور اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا.( تذکرہ صفحہ 624 ایڈیشن چہارم 2004 مطبوعہ ربوہ )
269 خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یعنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے بھی آپ کو آپ کی کامیابی اور جماعت کی ترقی کی خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے وَسِعُ مَكَانَكَ کا حکم فرمایا اور جیسا کہ میں نے کہا جب اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو خوشخبری دیتا ہے اور حکم دیتا ہے تو اس کو پورا کرنے کے سامان بھی مہیا فرماتا ہے.اور آپ کے الہامات کی صداقت اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے نظارے ہم آج تک دیکھ رہے ہیں.کہاں تو آپ صرف چھپروں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی بات کو ظاہری رنگ میں پورا فرما رہے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب آپ نے اپنی زندگی میں ہی دارا مسیح میں بھی اور قادیان میں بھی مکانیت میں وسعت پیدا کی.قادیان میں آنے والے مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان کی رہائش اور کھانے پینے کے انتظامات بھی آپ فرماتے رہے.اس میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی.پھر خلافت اولی اور ثانیہ میں مکانیت میں بھی اور مساجد میں بھی وسعت ہوئی.پھر پارٹیشن کے بعد قادیان میں احمدیوں کے لئے حالات کچھ تھوڑے سے خراب ہوئے لیکن دار مسیح اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت کی جو پرانی جگہیں تھیں وہ بہر حال جماعت کے پاس ہی رہیں.اور 1991ء میں جب حضرت خلیفہ اسی الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دورہ کیا تو اس دورہ کے بعد وَسِعُ مَكَانَكَ کا پھر ایک نیا دور شروع ہوا.جہاں احمدیوں کے مکانوں میں بھی اور جماعتی عمارات میں بھی خوب اضافہ ہوتا چلا گیا.پھر 2005 ء میں میرے دورے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید توفیق عطا فرمائی کہ قادیان میں جماعتی عمارات میں وسعت پیدا ہوئی اور جماعتی مرکزی عمارات کے علاوہ آسٹریلیا، امریکہ، انڈونیشیا، ماریشس وغیرہ نے وہاں اپنے بڑے وسیع گیسٹ ہاؤسز بنائے.جماعتی طور پر ایم ٹی اے کی خوبصورت بلڈنگ اور دفتر نشر واشاعت بن گیا.کتب کے سٹور بھی اس میں مہیا کئے گئے ہیں.بڑے بڑے ہال بنائے گئے ہیں.دو منزلہ نمائش ہال بنایا گیا.ایک بڑی وسیع تین منزلہ لائبریری بنائی گئی ہے.فضل عمر پریس کی تعمیر ہوئی.لجنہ ہال بنا.ایک تین منزلہ گیسٹ ہاؤس مرکزی طور پر بنایا گیا.لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مزید توسیع ہوئی اور نئے بلاک بنے اور اس طرح بے شمار نئی تعمیر اور توسیع ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسجد اقصیٰ میں توسیع کی گئی ہے.جس میں صحن سے پیچھے ہٹ کے تقریبا تین منزلہ جگہ مہیا کی گئی ہے اور اس میں جونئی جگہ بنی ہے اس میں تقریباً پانچ ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.اس طرح قادیان میں کئی دوسری مساجد کی تعمیر ہوئی اور سب کی تفصیل کا تو بیان نہیں ہوسکتا اور نہ بغیر دیکھے اس وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو ان نئی تعمیرات کی وجہ سے وہاں قادیان میں ہو رہی ہے.یہ چند تعمیرات جن کا میں نے ذکر کیا ہے یہ گزشتہ تین چار سال کے عرصہ میں ہوئی ہیں تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا کرنا کہ ہر روز ہم اس الہام کی شان دیکھ رہے ہیں اور نہ صرف قادیان میں بلکہ دنیا میں ہر جگہ حتی کہ پاکستان میں بھی نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے.ہمارے مخالفین سے کس طرح اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کرنا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.لیکن جہاں تک اس کے وَسِعُ مَكَانَكَ کا سوال ہے اللہ تعالیٰ ہر روز ہمیں ایک شان سے اسے پورا ہوتا دکھارہا ہے.
270 خطبہ جمعہ فرمود : 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اور پھر پاکستان اور ہندوستان کی بات نہیں ہے.قادیان سے اٹھنے والی وہ آواز جس کو اپنے وسائل سے چند کوس تک چند میل تک پہنچنا مشکل نظر آ رہا تھا اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور وعدوں کے مطابق تمام دنیا میں پھیل گئی ہے اور نہ صرف آواز پھیل گئی بلکہ دنیا میں وَسِعُ مَكَانَكَ کے نظارے بھی ہم ہر روز دیکھتے ہیں.ہمیں ہر جگہ نظر آ رہے ہیں.یہ مسجد جو بیت الفتوح ہے.یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے.کہاں چھوٹی سی مسجد فضل تھی جس میں زیادہ نمازی جمع ہو جاتے تھے تو مار کی لگانی پڑتی تھی اور اب یہاں سب کھپت ہو جاتی ہے ، سارے اسی میں سموئے جاتے ہیں.اسی طرح UK میں اور مساجد بن رہی ہیں.تو یہ سب وَسِعُ مَكَانَكَ کے نظارے ہیں.اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس وقت آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو نوازتے ہوئے وَسِعُ مَكَانَكَ کی پیشگوئی کو ہر جگہ ہمیں پورا ہوتے دکھا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ یہ ہیں کہ زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری فرما رہا ہے.یہی الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے تھے کہ جوں جوں نیا الہام ہوتا ہے یا دوبارہ اللہ تعالیٰ یہ الہام کرتا ہے تو وہ زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ اس کو پورا بھی فرماتا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُنیا میں جماعت احمدیہ کی مساجد اور مراکز کی تعداد 14 ہزار 715 ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.جب ہم اپنی کوشش دیکھتے ہیں تو یہ اضافہ ناممکن نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ وَسِعُ مَكَانَكَ کا حکم دیا تو خودہی اس کے سامان بھی پیدا فرما تا چلا جارہا ہے.کن حالات میں بعض جگہ مساجد اور دوسری تعمیرات ہوئیں.اس کے چند واقعات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہندوستان کا ہی پہلے ذکر کروں گا.وہاں بجھن ضلع کانگڑہ میں ایک جگہ ہے.جب یہ رپورٹ آئی ہے اس سے تھوڑا عرصہ پہلے وہاں جماعت قائم ہوئی ہے.مسلمانوں کی طرف سے مسجد کی تعمیر کی بہت مخالفت ہوئی کہ جماعت یہاں تعمیر نہیں کرے گی.بعد میں ہندو بھی ان کے ساتھ مل گئے اور جماعت کے مخالف ہو گئے.اس علاقے کا پولیس افسر، ایس ڈی ایم کہتے ہیں وہ ہندو تھا لیکن شریف النفس تھا.اس نے احمدیوں کو کہا کہ دن کو کام نہ کریں.رات کو کام کریں اور میں اپنے آدمی بھجواؤں گا.آپ اپنے آدمی ساتھ لگائیں اور مسجد بنالیں.چنانچہ اس طرح راتوں کو کام کر کے مسجد تعمیر ہوئی اور ایک ہال نما کمرہ بنا لیا گیا.بعد میں ایک رات میں مسجد کے مینار بھی بنالئے گئے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک غیر مسلم کی مدد سے مسجد کی تعمیر کا کام مکمل کروایا اور مسلمانوں کی اس تعمیر میں روک ڈالنے کی کوئی حیثیت نہیں رہی.سو اس طرح بھی خدا تعالیٰ اپنی تائید دکھاتا رہا ہے.پھر ضلع فتح آبادصو بہ ہریانہ میں مسجد تعمیر ہوئی.یہاں بھی نئی جماعت قائم ہوئی ہے.جب مقامی جماعت نے مسجد کی تعمیر کی کوشش کی تو یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے مسجد کی تعمیر کی سخت مخالفت کی اور ہندوؤں نے بھی ساتھ دیا.اس علاقہ میں خدام نے جلسہ کیا.بلڈ ڈونیشن (Blood Donation) کیمپ لگایا.ہندوؤں پر اس کا بہت اثر ہوا اور انہوں نے مخالفت چھوڑ دی اور جماعت کے حق میں کھڑے ہو گئے.لیکن مسلمانوں نے مخالفت نہیں چھوڑی اور
271 خطبہ جمعہ فرمود ه 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم عام مسلمانوں کے خلاف پھر ہندوؤں نے جماعت کی مدد کی اور مسجد تعمیر کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مسجد بھی بن گئی اور مشن ہاؤس بھی بن گیا.پھر چنائی میں اس سال مسجد ہادی کی تعمیر ہوئی.یہاں بھی دو منزلہ مسجد ہے اور ساتھ اس کے رہائشی حصہ بھی ہے اور اس مسجد کی تعمیر پر تقریباً پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے.اور اب جب میں انڈیا کے دورہ پر گیا ہوں تو چنائی بھی گیا تھا.یہاں اس مسجد کا افتتاح کیا اور اس وجہ سے وہاں ملاں بہت زیادہ بوکھلائے ہوئے ہیں.میرے دورہ کے بعد سے مخالفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.پیچھے ایک خاتون کی قبر کشائی کا جو واقعہ ہوا ہے ہمیں نے پچھلے جمعہ جنازہ پڑھایا تھا ، وہ بھی اسی وجہ سے ہوا ہے کہ مولوی سمجھ رہے ہیں کہ یہ تو اب ہر جگہ قبضہ کر لیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے تبلیغ کے راستے بھی کھول دیئے ہیں.یہ جو قبر سے لاش باہر نکالنے کا واقعہ ہوا ہے اس کی وجہ سے مسلمانوں میں سے بھی شرفاء کی ایک بڑی تعداد جماعت کا ساتھ دے رہی ہے.اسی طرح ایک لوکل ٹی وی چینل نے ، غیر احمدی مولویوں کو بلایا اور ہمارے لوگوں کو بھی بلایا اور تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کا ایک پروگرام ریکارڈ کیا گیا اور مناظرے کی طرح کی صورت پیدا ہوئی.تو یہ پروگرام بھی ابھی انہوں نے ریکارڈ کیا ہے.کہتے ہیں ہم ٹی وی پر دکھائیں گے.اس سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ اور وسیع راستے کھلیں گے.تو اللہ تعالیٰ مخالفت میں بھی رستے کھول رہا ہے.پھر بینن کا ایک واقعہ بتا دیتا ہوں.میں نے پیچھے وہاں دورہ کیا تھا.امیر صاحب بین کہتے ہیں کہ ایک علاقہ میں مسجد بنانی شروع کی تو اس کے بعد اس علاقے کے مُلاں مخالفت میں خوب سرگرم ہو گئے تھے، اکٹھے ہو کر اس گاؤں میں آنے لگے.افریقن ملکوں میں یا ہندوستان وغیرہ میں جہاں جہاں بھی میں نے دورے کئے ہیں اس کی وجہ سے اس سال مخالفت بہت بڑھی ہے اور اس کی وجہ سے تبلیغ کے رستے بھی مزید کھلے ہیں.تو کہتے ہیں مخالفت میں خوب سر گرم ہو گئے اور اکٹھے ہو کر اس گاؤں میں آنے لگے.نو مبائعین کو ڈرانے اور دھمکانے لگے اور احمدیت چھوڑنے کو کہا.کئی مرتبہ صدر صاحب جماعت سے کہا کہ تم احمدیت سے انکار کر دو اور مسجد نہ بننے دو.ہم سے جتنے بھی پیسے لینے ہیں لے لو اور ہم تمہیں مسجد بنا دیتے ہیں.مگر ہر مرتبہ اس مخلص احمدی نو مبائع نے ان مخالفین کو جواب دے دیا کہ جو کرنا ہے کرو.ہم تو مسجد بنائیں گے اور یہ جواب دیتے رہے کہ یہاں جماعت ہی کی مسجد بنے گی اور یہاں اگر کوئی دین پھیلے گا ، اگر اسلام کی تبلیغ ہوگی تو جماعت احمدیہ کی طرف سے ہوگی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تمام مخالفتوں کے باوجود یہ مسجد بن گئی.پھر اللہ تعالیٰ غیروں کو احمدیت کی طرف وَسِعُ مَكَانَكَ کے ذریعہ سے کس طرح مائل کرتا ہے.نائیجیریا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایگو آئیوو یونیورسٹی کے ایک لیکچرر نے ایم ٹی اے کے ذریعہ مسجد مبارک فرانس کے اختتامی پروگرام کو دیکھا اور ہمارے بکسٹال کے وزٹ کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر سرزمین انگلستان اور فرانس میں اس طرح اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہو رہا ہے تو یہ بعید نہیں کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ایک دن میروشلم اور امریکہ سے ہزاروں دفعہ اللہ کا نام بلند ہوا کرے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے.
272 خطبه جمعه فرموده 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پھر آئیوری کوسٹ سے ایک واقعہ یہ لکھتے ہیں.آ بنگر و شہر میں مسجد کی تعمیر کے بعد لوگوں کی احمدیت کی طرف خاص توجہ ہوئی ہے.ایک ہفتہ قبل کالج کے پروفیسر ویرا ابو بکر مشن ہاؤس آئے اور کچھ لٹر پچر خرید کر لے گئے.مطالعہ کے بعد آئے کہ لٹریچر کے مطالعہ سے پہلے میں نے مسلسل استخارہ کیا کہ اسلام میں بہت سارے فرقے ہیں.خدا سے سیدھی راہ کی راہنمائی کے لئے دعا کی تو مجھے خواب میں جماعت احمدیہ کے بارے میں بتایا گیا کہ اس جماعت کو دیکھو.میں نے آپ لوگوں کے کام کا جائزہ لیا ہے.مطالعہ کیا ہے.للہ تعالیٰ نے میری راہنمائی فرمائی ہے اور پھر انہوں نے احمدیت قبول کر لی.تو جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام وَسِعُ مَكَانَكَ جماعت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ قادیان کی حدود سے نکل کر دنیا میں بھی اپنی صداقت کا نشان دکھا رہا ہے اور جوں جوں اللہ تعالی تبلیغ میں وسعت پیدا کر رہا ہے، توں توں مکانیت میں بھی ہر جگہ وسعت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے.مکانیت بھی وسعت پذیر ہے.بے شمار ایسی مثالیں ہیں، یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں.تبلیغ کے لحاظ سے ایم ٹی اے نے وسعت کے نئے دروازے کھولے ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ میں نے پہلے بتایا مخالفت بھی بڑھ رہی ہے.لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورے کرنے کا ایک انداز ہے کہ جہاں افراد جماعت کو انفرادی طور پر یا جماعت کو مالی یا دنیاوی طور پر نقصان پہنچایا گیا یا پہنچائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے.وہاں خدا تعالیٰ افراد جماعت کو بھی پہلے سے بڑھ کر عطا فرماتا ہے اور جماعت کی ترقی کی بھی نئی سے نئی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں.کسی کے مکان کو جلایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑا اور بہتر مکان دے دیا.کسی کی دکان کو جلایا گیا تو ایک کی جگہ دودود کا نیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیں.کاروبار کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کے لئے ، جنہوں نے صبر اور حو صلے سے کام لیا پہلے سے بڑھ کر کاروبار مہیا کر دیئے.اگر پاکستان میں ایک مسجد سیل (Seal) کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جگہ دس ہیں مسجد میں عطا فرما دیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے جو ہر جگہ ہمیں نظر آ رہا ہے.لیکن ساتھ ہی ہماری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ اس خدا کے آگے جھکنے والے ہوں اور اس کے حقیقی بندے بہنیں جو اپنی نعمتوں سے ہمیں نواز رہا ہے اور ہر دم نو ا ز تا چلا جا رہا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ إِنَّكَ مَعِى وَاهْلُكَ یعنی اور تو میرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل بھی.( تذکرہ صفحہ 624 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) تو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اہل بننے کے لئے اپنے اعمال کو ان نمونوں پر قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائے.ور نہ تو اللہ تعالیٰ نے خون کا رشتہ ہونے کے باوجود بھی حضرت نوح کے بیٹے کو ان کے اہل سے نکال دیا تھا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنے آگے جھکا رہنے والا بنائے رکھے.
273 خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم آج کہا بیر کی جماعت کا جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے اور فلسطین اور دوسرے ممالک کے احباب بھی اس میں شامل ہورہے ہیں.کہا بیر کے امیر صاحب کی خواہش تھی کہ اس جلسہ کی مناسبت سے ان کا بھی خطبہ میں ذکر کروں یا کچھ مختصر پیغام دوں.تو بہر حال مختصر ذکر کروں گا اور ان کے لئے پیغام دوں گا.وَسِعُ مَكَانَكَ کا ذکر چل رہا ہے تو کہا بیر کی جماعت کا بھی اس ضمن میں ذکر کر دوں کہ یہاں ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی تھی اور یہ بہت پرانی مسجد ہے اور بہت خوبصورت جگہ پر واقع ہے اور ہر سیاح کو ، آنے والے کو یہ اپنی طرف کھینچتی ہے.اس کی تصویریں جو میں نے دیکھی ہیں بڑی خوبصورت مسجد نظر آتی ہے اور یہی دیکھنے والے لوگ بتاتے بھی ہیں اور اس ذریعہ سے تبلیغ کے راستے بھی کھل رہے ہیں.خلافت جوبلی کے سال میں وہاں کی جماعت نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس مسجد کی جو جگہ خالی ہے اس میں ایک وسیع ہال اور دوسری تعمیرات کی جائیں جن کی ضرورت ہے.میں نے ان کو اس کی اجازت تو دے دی تھی لیکن جو منصوبہ انہوں نے بنایا وہ بہت بڑا بنا لیا.جو بظاہر لگتا تھا کہ ان کے وسائل سے بہت زیادہ ہے.لیکن یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا اور امیر صاحب نے مجھے بتایا کہ معجزانہ طور پر منصو بہ اپنی تکمیل کے مراحل پر پہنچ رہا ہے.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فضل ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے آگے مزید شکرگزاری کے جذبات سے بھرتے ہوئے جھکنے والا بنانے والا ہو.اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ دنیائے عرب میں تبلیغ کو بھی بہت زیادہ وسعت دی ہے اور اس میں بھی کہا بیر کی جماعت کے افراد کا بہت ہاتھ ہے.مختلف طریقوں سے ان کے نوجوان مدد کرتے رہتے ہیں.اسی طرح بعض دوسرے عرب ممالک کے احمدی بھی اس میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.لیکن ہمیشہ ہر احمدی کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ آپ کی یہ کوشش اور کامیابیاں آپ کی کسی ذاتی صلاحیت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی آخری زمانے کے امام کے حق میں دعاؤں اور پیشگوئیوں کے پورے ہونے کی وجہ سے ہیں.اس لئے تمام وہ احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو مانے کی توفیق عطا فرمائی ہے، تمام وہ عرب احمدی جنہوں نے اپنے عرب ہونے کو بڑائی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ امام الزمان کی آواز کوسن کر سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا نمونہ دکھایا ہے یا درکھیں کہ ایک احمدی اور حقیقی مسلمان کا ہر نیا دن اس کے ایمان اور تقویٰ میں ترقی کا دن ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہر دن اگر تمہارے اندر ترقی نہیں ہو رہی تو توجہ کرو اور غور کرو اور جائزے لو اور اس ترقی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کو ہمیشہ یادرکھیں کہ ہم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا اور تقویٰ سے رات بسر کی.اور یہ تقویٰ میں ترقی ہی ہے جو ان جلسوں کا مقصد ہے.
274 خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس اس عہد کے ساتھ یہاں سے واپس جائیں کہ ہم نے پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں ان کو زندگیوں کا حصہ بنانا ہے اور تقویٰ میں ترقی کرنی ہے.اور اس کے حصول کے لئے جلسے کے یہ جو دن ہیں یہاں گزاریں.ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ ہماری ترقی تبلیغ کے ساتھ دعاؤں سے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی وابستہ ہے.پس دعاؤں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں.دعاؤں پر زور دیں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں.تو آپ کی دعائیں آسمانوں میں ارتعاش پیدا کر کے وہ انقلاب لائیں گی جو اسلام اور مسلمانوں کے ہر مخالف کو حضرت محمد رسول اللہ لے کے قدموں میں لا ڈالے گی.ہمیشہ یادرکھیں کہ مسیح و مہدی کا زمانہ تیر و تفنگ کا زمانہ نہیں ہے.بلکہ دعاؤں سے انقلاب لانے کا زمانہ ہے اور یہی آنحضرت ﷺ کے الفاظ يَضَعُ الْحَرْبَ ( صحیح بخاری جلد اول صفحہ 490 کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم.مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) سے ہم پر ثابت ہے.اللہ تعالیٰ نے عربوں کو تبلیغ اور تقریر کا خاص ملکہ عطا فر مایا ہوا ہے اگر اپنے پاک نمونوں اور دعاؤں سے اسے سجاتے ہوئے استعمال میں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے وسیع تر فضلوں کی بارش اپنے پر برستی دیکھیں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو عرب دنیا میں پھلتا پھولتا دیکھیں گے.پس آج یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عیسائیوں کی بھی حقیقی نجات کا باعث بنیں اور یہودیوں کو بھی ان کی تاریخ اور تعلیم کے حوالے سے صحیح راستے دکھانے کی کوشش کریں.ان کو آنحضرت ﷺ کے قدموں میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی بھلائی کے سامان کریں اور دوسرے مذاہب والوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے راستے دکھائیں اور خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کی کوشش کریں.یہ بہت بڑا کام ہے جو دنیا کی اصلاح کے لئے مسیح محمدی کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیا ہے.پس اے کہا بیر! اور فلسطین کے رہنے والے احمد یو! اس وقت عرب دنیا میں تم سب سے منتظم جماعت ہو.اٹھو اور اس زمانے کے امام کے مددگار بنتے ہوئے نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کے پیغام کو ہر طبقہ تک پہنچانے کے لئے کمر بستہ ہو جاؤ.آج مسلمانوں کی بھی نجات اسی میں ہے کہ امام الزمان کو مان لیں.اگر آج عرب دنیا کے احمدیوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیا تو سمجھ لو کہ جس طرح قرون اولیٰ کے عربوں نے اسلام کے پیغام کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام صادق کا پیغام پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر کے تم بھی اُن آخرین میں شامل ہو جاؤ گے جو اؤ لین سے ملائے گئے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس ذمہ داری کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام دعاؤں کا وارث بنائے اور یہ جلسہ بے انتہا برکات سمیٹنے والا ثابت ہو اور ہم جلد تمام دنیا پر حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے جھنڈے کو لہراتا ہوا دیکھیں.آمین
خطبات مسرور جلد ہفتم 275 خطبہ جمعہ فرمود ه 12 جون 2009 نماز جمعہ کے بعد میں بعض جنازے بھی پڑھاؤں گا.حضوا نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا.جن جنازوں کا میں نے ذکر کیا ہے، ایک تو ہے مکرم چوہدری فضل احمد صاحب کا جو صدر انجمن احمد یہ ربوہ پاکستان کے افسر خزانہ تھے.7 جون کو دل کی تکلیف سے ظاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں 65 سال کی عمر میں بقضائے الہی وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کو دل کی پرانی تکلیف تھی.لیکن اس کے باوجود بڑی مستعدی سے اور بشاشت سے ہمیشہ اپنے کام میں مصروف رہتے تھے.وقت پہ دفتر آنا اور پورا وقت گزارنا.وفات سے ایک دن پہلے بھی اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کو دل کی تکلیف ہوئی اور وہاں سے جب ہسپتال گئے تو ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹر نے وہیں روک لیا اور وہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.یہ 25 سال سے افسر خزانہ تھے.اس سے پہلے جب انہوں نے زندگی وقف کی تو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں کام کیا.مجلس کار پرداز میں بھی کام کیا.نائب ناظر بیت المال خرچ بھی رہے.بڑی خوش مزاج ، مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے، کسی کو نہ دکھ دینا.کسی کو تکلیف نہیں دینی اور مخلص اور فدائی تھے.خلافت سے بڑا تعلق تھا.پچھلے سال یہاں جلسے پر بھی آئے تھے.بار بار جذباتی ہو جایا کرتے تھے بلکہ ان کی طبیعت کے لحاظ سے ان کا جذباتی ہونا مجھے عجیب لگتا تھا.شاید پتہ ہو کہ آئندہ ملاقات نہیں ہوگی.بہر حال اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی ایک بیٹی ہیں طاہرہ مریم صاحبہ جو جرمنی میں رہتی ہیں سلیم اللہ صاحب کی اہلیہ ہیں.دوسرا جنازہ ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ساہیوال کا ہے.ان کی وفات 5 جون کو 95 سال کی عمر میں ہوئی.انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مختلف جگہوں پہ جماعتی خدمات ادا کرتے رہے.ساہیوال شہر کے بڑے لمبا عرصہ امیر شہر بھی رہے اور ضلع بھی اور بحیثیت ڈاکٹر بھی بڑے نافع الناس وجود تھے.اپنے گاؤں میں ایک فلاحی ہسپتال بھی قائم کیا ہوا تھا.اور 2003ء میں اسی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آپ کو Man of the Year کا ایوارڈ بھی دیا تھا.تبلیغ کا بھی شوق تھا.حکمت سے اپنا یہ فریضہ بھی انجام دیتے تھے.ساہیوال کے جو کیس تھے جن میں ہمارے چار احباب کو سزائے موت سنائی گئی یا عمر قید سنائی گئی ان میں بھی یہ بڑی حکمت سے اپنا کر دار ادا کرتے رہے.نہایت معاملہ فہم اور زیرک تھے.علاقہ میں اچھا اثر و رسوخ بھی تھا.مخلص تھے.دعا گو تھے.خلافت کے ساتھ گہرا تعلق تھا.ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.ان کے ایک بیٹے وہاں ہیں باقی تو باہر کینیڈا وغیرہ میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 27 مورخہ 3 جولائی تا 9 جولائی 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 276 (25) خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 فرمودہ مورخہ 19 جون 2009ء بمطابق 19 احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک نام رافِع ہے.یعنی وہ ذات جو مومن کو بلند مقام عطا فرماتی ہے اور بلند مقام کس طرح ملتا ہے؟ یہ ایک مومن کو اس کے نیک اعمال بجالانے اور اس کے لئے کوشش اور جد و جہد کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے.اور بعض اوقات اللہ محض اور محض اپنے فضل سے انسان کو بلند مقام عطا فرما دیتا ہے اور اس طرح فضل فرماتا ہے کہ جس کے بارے میں انسان بعض دفعہ تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو اس کے اولیاء اور خاص بندے ہوتے ہیں ان کو مزید اپنے قریب کر کے ایک خاص قرب کا مقام دے کر مزید بلندیاں عطا فرماتا ہے اور بعض کو انبیاء کا درجہ دے کر اپنی خاص تعلیم کے ذریعہ سے بلند مقام عطا فرماتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر: 11) اسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے.اس آیت کے جس کا میں نے تھوڑا سا حصہ ہی پڑھا ہے لیکن اس کے بھی اس حصہ کا کہ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ اس ضمن میں لین ایک لغت کی کتاب ہے جس نے بہت سی لغات سے مطالب اکٹھے کئے ہوئے ہیں.اس میں لکھا ہے کہ نیک اعمال کو وہ قبول کرے گا.یا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ نیک عمل تعریف کا موجب بنتے ہیں.یا نیک عمل ہی اعلیٰ مقام کے حصول کا ذریعہ ہے اور نیک عمل کے بغیر انسان کی بات قبول نہیں کی جائے گی.پس اللہ تعالیٰ رافع ہے لیکن ساتھ ہی قادر بھی ہے وہ جس طرح چاہے کسی کو بلند مقام عطا فرما سکتا ہے.یا انعام سے نواز سکتا ہے.لیکن اس نے یہ عمومی طور پر یہ اصول مقرر فرما دیا کہ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ اور نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ اعمال صالحہ کی طاقت سے ان کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 334)
277 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم جو اعمال بجالانے والے لوگ ہیں ، نیک لوگ ہیں ، مومن لوگ ہیں، ان کا اعمال صالحہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور انبیاء کا اس میں بہت بڑا مقام ہے پھر آپ نے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمال صالحہ کی.خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جاسکتی ہے تو وہ یہی اعمال صالحہ ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 114 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اعمال صالحہ کی ضرورت ہے اور اگلے جہاں میں بھی ایک انسان کی اگر اس کے ایمان میں پختگی ہے یہی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے معیاروں کو حاصل کرے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی اصول مقرر فرمایا ہے کہ اعمال صالحہ بجالا ؤ.پس اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس طرح عرب کے جہالت اور برائیوں میں پڑے ہوئے لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے زیر اثر آ کر نہ صرف تم اپنی برائیاں دور کرو گے بلکہ نیکی، تقویٰ، عزت اور وقار کے اعلیٰ ترین معیار حاصل کرو گے.اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جو قو میں آج تمہیں تخفیف کی نظر سے دیکھتی ہیں تمہیں جاہل اور بدو سمجھتی ہیں، وہ ایک وقت میں تمہارے سامنے جھکنے والی ہو جائیں گی.لیکن یہ سب عزت اور بڑائی ان لوگوں کے خالص ایمان کی وجہ سے ہو گی ، اعلیٰ اخلاقی قدروں کے نتیجہ میں ہوگی اور نیک اعمال بجالانے کے نتیجہ میں ہوگی.پس اس چیز کے حصول کے لئے کوشش کرو اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک دنیا انہی جاہلوں یا جاہل کہلانے والوں کے زیر نگیں اللہ تعالیٰ نے کر دی اور یہ بات قرآن کریم میں محفوظ فرما کر اللہ تعالیٰ نے آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لئے بھی راستے متعین کر دیئے کہ اس اصول کو اپناؤ گے تو اپنا مقام حاصل کرو گے.لیکن بدقسمتی سے یہ نیکیاں اپنانے کی بجائے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حکم دیا.ہے دنیا کی ہوا و ہوس کے پیچھے مسلمان پڑگئے ہیں.اور نتیجہ اسلاف کی جو میراث تھی وہ کھو بیٹھے ہیں.خدا کے نام پر مسلمان ، مسلمان کے خون کا پیاسا ہورہا ہے.یہی وجہ ہے کہ آج جو غیر ہیں، غیر مسلم ہیں وہ مسلمانوں پر حکمران بنے ہوئے ہیں.اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مسلمان حکومتیں مغرب کی طرف دیکھتی ہیں، غیروں کی طرف دیکھتی ہیں.کسی مسلمان ملک کے اندرونی معاملات ہیں اور وہاں بدامنی اور بے چینی ہے قتل وغارت ہو رہی ہے.تو بجائے مسلمان ملکوں کے کہ انہیں سمجھا ئیں امریکہ اور یورپ ان معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں ان کے ٹھیک کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے بلکہ زبردستی کرتے ہیں.اور پھر کیونکہ یہ غیر مسلم حکومتیں ہیں اس لئے انتہائی ہتک آمیز سلوک پھر ان کے کارندے مسلمانوں سے کرتے ہیں.پھر مسلمانوں کی طرف سے ایک شور اٹھتا ہے.غرض اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بلندیوں میں جانے کی بجائے پستیوں کی طرف مسلمان آج کل گر رہے ہیں.
278 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم تو اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بتایا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی میں اعلیٰ اعمال ہی تمہارے لئے اونچے مقام دلانے والے ہو سکتے ہیں پس سو چو اور غور کرو اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو لیکن سوچنے اور غور کرنے کے بعد بھی مسلمان علماء اور مسلمانوں کے لیڈر یہ تو کہتے ہیں کہ ہمارے عمل غیر صالح ہونے کی وجہ سے ہماری حرکات کی وجہ سے ہمیں بلندیوں کی بجائے ذلت کا سامنا ہے.لیکن یہ مانے کو تیار نہیں کہ عمل صالح بجالانے کے جو طریقے خدا تعالیٰ نے بتائے ہیں، اس زمانہ میں خاص طور پر ، ان پر کس طرح عمل کرنا ہے.آنحضرت ﷺ کا وہ عاشق صادق جو خدا کے بعد ہر وقت آپ کے عشق میں مخمور رہتا تھا اور اس عشق رسول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے زمانے کا امام اور مہدی اور سیح بنا کر بھیجا تھا اور اپنے نور سے منور کیا ہے.اس عاشق رسول کا انکار تم کر رہے ہو اور نہ صرف انکار کر رہے ہو بلکہ آج مسلمان ہونے کی تعریف یہی ہے کہ جو اس عاشق صادق کو گالیاں دے ہر تحریر میں گندے اور بے ہودہ الفاظ استعمال کرے وہی سچا مسلمان کہلاتا ہے.اس عاشق رسول نے تو یہ اعلان کیا تھا اور اعلان کرتا ہے کہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے جب ذات اور پھر فرمایا: پر تیرا بے حد ہو سلام اس نور لیا بار خدایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225 اور یہ ظالم کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا فر ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کے مقام کی ہتک کرتے ہیں.پس وہ نور جو آنحضرت میلہ کا نور ہے، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کا صحیح اور اک اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ نہ کسی کو ہے اور نہ کسی کو ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ ہی وہ عاشق صادق ہیں جن کو آپ کے مقام کا اور نور کا ادراک ہے.اس ٹور کی خوبصورتی کو جس انداز میں آپ نے پیش فرمایا ہے وہ آپ کا ہی حصہ ہے.پس آج عمل صالح کر کے بلند مقام پانے والے وہی لوگ ہوں گے جو اس عاشق صادق سے حقیقی رنگ میں جڑ جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کے مقام اور نورمحمدی کی سورۃ نور کی ایک آیت کی روشنی میں جو تفسیر فرمائی ہے وہ میں پیش کرتا ہوں.یہ سورۃ نور کی آیت 36 ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِى ءُ وَلَوْ
279 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٌ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَّشَاءُ.وَيَضْرِبُ الله الامثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ - (النور: 36) کہ اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہے وہ چراغ شیشہ کے شمع دان میں ہو، وہ شیشہ ایسا ہو گویا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے.وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی.اس کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کر روشن ہو جائے.خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو یہ نور علی نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے.پہلے اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالاَرضِ کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے روحوں میں ہو، خواہ اجسام میں ، خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی، یعنی خواہ کسی کی ذاتی خوبی کی وجہ سے اس میں نظر آ رہا ہے وہ نور یا کسی سے مانگ کے لیا ہے اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ پہنی ہے، خواہ خارجی.اُسی کے فیض کا عطیہ ہے.“ یہ تمام قسم کے نور جو ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے فیض کا عطیہ ہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اسی سے تمام فیض پھوٹتے ہیں اور تمام انوار کا علت العلل اسی کی وجہ سے تمام ( یعنی وہی وجہ بنتا ہے تمام نوروں کا ) اور تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے.اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم تمام کائنات کو قائم رکھنے والی اور تمام زیر وزبر کی پناہ ہی وہی ہے جو بھی الٹ پلٹ ہے، تباہی ہے، بر بادی ہے تعمیر ہے، تخریب ہے، ہر چیز کی پناہ وہی ہے.”جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا.یعنی کچھ چیز نہیں تھی پہلے جو ایک کائنات بھی بند تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا اور اس کو وجود بخشا.فرمایا یہ تو عام فیضان ہے یہ ایک ایسا فیضان ہے جس سے ہر ایک فائدہ اٹھا رہا ہے.” جس کا بیان آیت اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ میں ظاہر فرمایا گیا.یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے دنیا کی ہر مخلوق جو ہے وہ چاہے مومن ہے غیر مومن ہے، پتھر ہیں.پہاڑ ہیں ، پانی ہے، جانور ہیں ہر چیز پر اللہ تعالیٰ نے احاطہ کر رکھا ہے.” جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں.لیکن ہم مقابلہ اس کے ایک خالص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے.“ ایک ایسا فیض ہے جو خالص ہے اس کی بعض شرطیں ہیں اور انہیں افراد خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے اور یہ جو خاص فیضان ہے یہ انہی لوگوں کے لئے ہے جن میں وہ استعدادیں بھی موجود ہوں جو اس کو قبول کر سکتی ہیں.یعنی نفوس کا ملہ انبیاء علیہم السلام پر جن میں سے افضل و اعلیٰ ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفی سے ہے اور یہ جو قابلیت اور استعدادیں رکھنے والے لوگ ہیں وہ سب سے زیادہ انبیاء علیہم السلام ہیں اور انبیاء میں بھی سب سے زیادہ استعداد میں اور قابلیت
280 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 رکھنے والی آنحضرت ﷺ کی ذات ہے جو تمام قسم کی برکات کا مجموعہ ہے.دوسروں پر ہرگز نہیں ہوتا اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت بار یک صداقت ہے ایک ایسی سچائی ہے.جو بہت غور کرنے سے نظر آتی ہے.جو فیض ہے یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فیض اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے.“ اور حکمت کی جو باریکیاں ہیں ان میں سے ایک بڑا باریک مسئلہ ہے یہ.یہ ہر ایک کو نظر نہیں آسکتا.اس لئے خداوند تعالیٰ نے اول فیضانِ عام کو جو ظاہر میں ظاہر ہو رہا ہے بیان کر کے یعنی اللہ تعالیٰ تمام زمین و آسمان کا نور ہے اس کو بیان کر کے پھر فرمایا ہے، پھر اس فیضانِ خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ ایک مثال میں بیان فرمایا ہے.پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا نور بیان فرمایا کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں.وہی ہر چیز کی پیدائش ہے اور وہی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے.پھر اس خاص نور کی طرف اشارہ فرمایا اور اس کی مثال ایک دی جو خاص نور کی انتہاء ہے وہ آ نحضر نہ کی ذات میں ہے ”جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے.آیت کے اس حصہ سے کہ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاح “ یعنی ” اس نور کی مثال ( فرد کامل میں جو پیغمبر ہے ) یہ ہے جیسے ایک طاق یعنی ایک خانہ بنا ہوتا ہے جو دیوار پر.ایسی جگہ جو دیوار میں خاص روشنی کے لئے یا چیزیں رکھنے کے لئے بنائی جاتی ہے.عموما روشنی کے لئے بنائی جائے اس کو طاق کہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ وہ طاق آنحضرت ﷺ کا وسیع تر سینہ ہے اور اس طاق میں، یہ ایک مثال بیان ہو رہی ہے ، اور طاق میں ایک چراغ ایک روشنی کا لیمپ ہے اور یہ چراغ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے اور یہ جوفرمایا کہ وہ چراغ شیشے کے شمع دان میں ہے تو شمع دان میں جب چراغ رکھا ہو اس کی ایک مثال اس لئے دی ہے ، شیشے کے چراغ میں کہ جب شمع دان میں چراغ رکھا ہو تو آندھیوں وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے.جب ایک گلوب میں روشنی ہوتی ہے کوئی بھی شعلہ تو ایک تو محفوظ رہتی ہے وہ باہر کی ہواؤں سے موسمی اثرات سے دوسرے روشنی بڑھ جاتی ہے اس کی.جیسا کہ عام آدمی بھی جانتے ہیں ہمارے تیسری دنیا میں تو ہر جگہ مٹی کے تیل کی لالٹینیں استعمال کی جاتی ہیں، غریب ملکوں میں.تو اس شیشہ کے گلوب کی وجہ سے، وہی شعلہ اگر ویسے ہوا میں رکھا جائے تو بجھ جائے اسی کو لائین میں جب استعمال کر کے اور اس کے اوپر چھنی چڑھا دی جاتی ہے یا گلوب چڑھا دیا جاتا ہے تو شعلہ محفوظ ہو جاتا ہے اور آندھیوں میں بھی لوگ لے کے پھر رہے ہوتے ہیں ، جہاں جدید قسم کی ٹارچھیں وغیرہ نہیں ہوتیں اور جہاں لیمپ یا ٹارچ کا سوال پیدا ہو وہاں بھی جب اس کے اوپر شیشہ چڑھایا جائے ، گلوب چڑھایا جائے، فلیکٹر (Reflecter) چڑھایا جائے تو روشنی مزید پھیلتی ہے.تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفی ہے ( یعنی نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت والے کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیعہ سفید اور اور صافی کی طرح ہر یک طور کی کثافت اور کدورت سے منزہ اور مطہر ہے ہر چیز سے ہر گند سے پاک ہے آنحضرت ﷺ کا
خطبات مسرور جلد ہفتم 281 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 دل.” اور تعلقات ماسوا اللہ سے بکلی پاک ہے یعنی آپ کا دل ہر چیز سے پاک ہے اور وہی ایسا ہے جو اتنا صاف اور پاک ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں یوں ڈوبا ہوا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کی محبت کے اس میں سے کچھ نظر ہی نہیں آتا اور یہی اس بات کا حقدار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اس دل میں اترتی اور جب وحی الہی اس روشن اور صاف دل میں اتری تو اس کی روشنی اور چمک یوں دنیا کو روشن کرنے والی بنی جیسے چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو د یکھنے والے تھے جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا تھا ان کو وہ روشنی نظر آئی.پھر اللہ تعالیٰ نے مثال بیان فرمائی کہ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے ( یعنی زیتون کے روغن سے ) تو آپ فرماتے ہیں کہ ” ( شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجود مبارک محمدی ہے ، آنحضرت ﷺ کا مبارک وجود ہے اس درخت سے مراد کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع و اقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے وہ مختلف قسم کی برکتوں کا مجموعہ ہے.اس لئے کہ وہ تمام کمالات کا جامع ہے.ہر قسم کا کمال اس میں جمع ہوا ہوا ہے.جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں.کسی خاص طرف اس کا فیض نہیں جا رہا.کسی خاص جگہ پر اس کا فیض نہیں ہے کسی خاص زمانے کے لئے اس کا فیض نہیں ہے.بلکہ تمام جگہوں پر، تمام طرفوں میں، تمام مکانوں میں اور تمام زمانوں کے لئے تا قیامت یہ فیض جاری رہے گا.بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علی سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا.‘، پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس راستے پر چلا جائے جہاں سے یہ فیض جاری فیض ، جو ہے ہمیشہ ملتا ہے اور وہ راستہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی ہے اور احکامات کی تعمیل ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ جو فرمایا کہ اس شجرہ مبارکہ کے روغن سے چراغ وحی 66 روشن کیا گیا ہے سو روغن یعنی تیل جو ہے، اس سے مراد عقل لطیف نورانی محمدی مع جمیع اخلاق فاضلہ فطرتیہ ہے.یہ تیل جو ہے وہ آنحضرت میلہ کا وہ اعلیٰ مقام ہے اس عقل کا جو نور سے بھرا ہوا ہے.جس میں تمام اخلاق فاضلہ ہیں اور وہ فطرت میں رکھے گئے ہیں آپ کے ذہن اور دماغ میں.جو اُس عقل کامل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں.پس آپ ﷺ کی ذہنی صلاحیتیں اور آپ کے اخلاق فاضلہ اس بات کے حقدار ٹھہرے کہ اس تیل کا کردار ادا کریں جو چراغ کو جلانے کے لئے کام آتا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ شجرہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی تو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں کہ " ( یعنی طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط ایسی طبیعت ہے آپ کی ، ایسی فطرت ہے اس میں نہ افراط ہے نہ تفریط ہے.بلکہ نہایت توسط و اعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے.ایک انتہائی اعلیٰ شکل کی بناوٹ ہے اس کی.آنحضرت ﷺ کی فطرت تو پہلے ہی نیک تھی اور بیلنس (Balance) تھی اور آپ کی وحی کے ہونے سے پہلے کی جو تاریخ ہے ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح آپ ہمیشہ انصاف پر چلنے والے اور صحیح
282 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم فیصلے کرنے والے تھے اور کفار اس زمانے کے آپ سے فیصلے کروایا کرتے تھے اور حق کی طرف جھکی ہوئی تھی آپ کی طبیعت.اس لئے اللہ تعالیٰ کی وحی بھی اس فطرت کے مطابق نازل ہوئی.یا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس فطرت کے ساتھ پیدا فرمایا جس میں نہ افراط ہو اور نہ تفریط ہو.تا کہ وہ وحی الہی جو آپ پر اترنی ہے.جس نے دین کو ہر لحاظ سے کامل کرنا ہے اس کے آپ صحیح پر تو بن سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا تو ریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کی فطرت میں، حضرت عیسی علیہ السلام کی فطرت میں حلم اور نرمی تھی سوانجیل کی تعلیم بھی علم اور نرمی پر مشتمل ہے.مگر آنحضرت ﷺ کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقع تھا.نہ ہر جگہ حلم پسند تھا، نرمی پسند تھی اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا.بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقع کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی.یعنی موقع اور محل کے لحاظ سے آپ فیصلہ فرمایا کرتے تھے.سو جہاں تختی کی ضرورت ہے وہاں تختی جہاں نرمی کی ضرورت ہے.وہاں نرمی.سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزوں و معتدل پر نازل ہوا اور یہی تعلیم پھر قرآن کریم لے کر آیا کہ جامع شدت و رحمت و هیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے.قرآن کریم کی تعلیم میں شدت بھی ہے ، رحمت بھی ہے ، جہاں ڈرانے کی ضرورت ہے ہیبت ، خوف بھی دلایا گیا ہے.جہاں شفقت و نرمی کی ضرورت ہے وہاں شفقت و نرمی بھی موجود ہے جہاں نرمی کی ضرورت ہے وہاں نرمی موجود ہے.جہاں ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہے وہاں درشتی موجود ہے.سواس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغ وہی فرقان اس شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے.“ تو آنحضرت ﷺ کی جو فطرت تھی اس کے مطابق پھر جو اللہ تعالیٰ کی وحی تھی قرآن کریم کی ، اس سے یہ شجرہ مبارک جو ہے آنحضرت ﷺ کا وجود جو ہے وہ روشن کیا گیا کہ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے اور یہی قرآن کریم کی تعلیم کا ایک منفر داور بلند مقام ہے جس کو کوئی بھی سابقہ تعلیم نہیں پہنچ سکتی.اور یہی مقام آنحضرت ﷺ کا بھی ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ( القلم : 5 ) یعنی تو اے نبی ! ایک خلق عظیم پر مخلوق ومفطور ہے.یعنی اسی پر پیدا کیا گیا ہے اور تیری فطرت میں یہ رکھا گیا ہے.یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا تم مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں“ کیونکہ جو انسانی سوچ جاسکتی تھی اعلیٰ اخلاق کی اور ہر قسم کی خصوصیات کی وہ انسان کامل میں، آنحضرت میﷺ کی ذات میں موجود ہے اور اس سے زیادہ تصور ہی نہیں کی جاسکتی.” کیونکہ لفظ عظیم محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.عظیم جو ہے وہ ایسی صفت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی کسی چیز کی استعدادیں ہیں انتہائی کسی ،،
283 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم بھی نوع کی تمام انسانوں میں جو اللہ تعالیٰ نے استعدادیں رکھی ہیں ان کا جو بھی کمال ہے وہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی ذات میں پورا فرمایا یہ عظیم کا لفظ استعمال کر کے.پھر آپ اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ تیل ایسا لطیف“ ہے ایسا ہلکا ہے اور بھڑک ہونے والا ہے کہ بن آگ کے ہی روشن ہو سکتا ہے کہ بن آگ ہی روشن ہونے پر آمادہ ہے.اس کو آگ نہ بھی دکھاؤ تب بھی وہ روشن ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ( یعنی عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقع کہ الہام سے پہلے ہی خود بخو دروشن ہونے پر مستعد تھے.وحی الہی جب نہیں آئی ، تب بھی وہ اخلاق ایسے اعلیٰ پایہ کے تھے، اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت بنائی تھی کہ لوگ جو تھے اس زمانے کے تب بھی آپ سے روشنی حاصل کرتے تھے.نُورٌ عَلی نُورٍ ( یعنی جبکہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء علی ہے میں کئی نور جمع تھے، سوان ٹوروں پر پہلے ہی کئی نور جمع تھے.سوان ٹوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود با جو خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا.پھر نوروں کا ایک مجموعہ بن گیا.پس اس میں یہ اشارہ ہے آپ فرماتے ہیں کہ "پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے.تاریکی پر وارد نہیں ہوتا.کیونکہ فیضان کے لئے مناسب شرط ہے اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں.بلکہ نور کونور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کہ جس کا ہر کام حکمت پر منحصر ہے وہ بغیر کسی مناسبت کے کوئی کام نہیں کرتا.بغیر حکمت کے کوئی کام نہیں کرتا.اور فرماتے ہیں کہ ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے.جنہوں نے نور سے فیض پانا ہے.عام آدمی جو ہیں ان کے لئے بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اسی کو اور ٹور بھی دیا جاتا ہے.جو فطرت نیک ہوگی اسی کو پھر اللہ تعالی صحیح راہنمائی فرمائے گا.اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے.جس کی آنکھیں ہیں وہی سورج کو دیکھ سکتا ہے.اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے.اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسر انور بھی زیادہ ہی ملتا ہے.“ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اول صفحه 191 تا 196 حاشیہ نمبر 11) اللہ تعالیٰ نے فطرت میں استعدادوں کے مطابق نور رکھا ہے.نیک فطرت زیادہ جذب کرتا ہے نیکیوں کو جس میں کمی ہے وہ کم جذب کرتا ہے اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہر کوئی اس نور سے فائدہ اٹھاتا ہے.پس یہ آنحضرت ﷺ کا کامل نور تھا جو اللہ تعالیٰ کے نور کا پر تو تھا اور اب تا قیامت یہی نور ہے جس نے دنیا کو فیض پہنچانا ہے لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس زمانہ میں اس نور سے سب سے زیادہ حصہ آنحضرت لے کے
284 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 عاشق صادق نے لیا جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا ہے میں نے ، تاکہ دنیا میں اس نور کو پھیلائے.وہ آخری وحی جس کی روشنی تمام دنیا کے تمام کناروں تک پھیلنی ہے اسے اونچے سے اونچے میناروں پر رکھتا چلا جائے تاکہ دنیا اس کی روشنی سے فیضیاب ہو اور اس کام کو جاری رکھنے کی وجہ سے آپ کو ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو، خاتم الخلفاء کہا گیا ہے.کہ آپ سے پہلے جو بھی اولیاء اور مجددین آئے ان کے ذریعہ مخصوص لوگوں اور مخصوص علاقوں میں اس تعلیم کو پھیلانے کا کام ہوتا رہا جو آنحضرت سے لے کر آئے تھے.اب مسیح محمدی کے ذریعہ سے اونچے ترین طاقوں پر رکھ کر اس چراغ کو دنیا کے تمام کناروں تک یکدفعہ پہنچانے کا جو کام ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے.اور آج ہم دیکھیں تو یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کے ذریعہ سے ہی ہو رہا ہے.جو اسلام کی حقیقی تعلیم کو آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق پھیلانے کے کام انجام دے رہے ہیں اور اونچے ترین میناروں سے تمام دنیا میں یکدفعہ اس کو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں.آپ کے اُسوہ ، آپ کے اخلاق کو اور آپ کی تعلیم کو اور اس خاتم الخلفاء کے بعد نظام خلافت ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ان طاقوں سے اور میناروں کو اونچا کرنے کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مفوضہ فرائض کو پورا کرنا ہے.اور پھر اس آیت کی جو اگلی آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ( النور :37) کہ ایسے گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے اذن دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے ، ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں.یعنی یہ نور مسلمانوں کے گھروں میں ہے.ان گھروں میں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرنے والے ہیں.اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہیں.عبادات بجالانے والے ہیں.عمل صالح کی طرف ہر وقت توجہ رکھنے والے ہیں اور اسوہ رسول مہ کی پیروی کرنے والے ہیں.اور ایسے گھروں کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے گا ، ان کا رفع کیا جائے گا.اور ایسے گھر جن کو بلند کیا جائے یہ نشانی ان کی بتائی گئی کہ وہ گھر ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس میں صبح شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے.یعنی نمازوں کی پابندی ہوتی ہے.پس اس نور سے حصہ لینے کے لئے اور دین کا مددگار بننے کے لئے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور عبادتوں کی طرف توجہ دی جائے.صبح کی نماز بھی اور شام کی نماز بھی.صبح وشام کی عبادتوں کا ذکر ہے.پس جس نور سے حصہ لینا ہے اور اس کے فیض یافتہ لوگوں میں شمار ہونا ہے تو اس کے لئے پھر نبی کریم ﷺ کی اس بات کو بھی یا درکھنا ہو گا کہ ” میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.“ ( سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث نمبر 3940)
285 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اور یہ نماز ہی ہے جو ہر ایک کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی.عام طور پر ظہر عصر کی نمازیں جمع کرنے کا بڑا رواج ہو جاتا ہے جو سوائے مجبوری کے نہیں ہونا چاہئے.بعض دفعہ مجبوری میں ہوتا ہے لیکن ایک عادت نہیں بن جانی چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے ، مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے ، ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ظہر کی نماز سے قبل چار رکعتیں ادا کیا کرتے تھے.کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے نماز سے پہلے ان چار رکعات پر دوام کیوں اختیار کیا ہے.بڑی با قاعدگی رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے.میں نے آپ سے پوچھا تو آپ یعنی کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ ایک ایسی گھڑی ہے جس میں آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اس لئے میں پسند کرتا ہوں کہ اس گھڑی میں میرا کوئی نیک عمل بلند ہو.( مسند احمد بن حنبل مسند ابوایوب الانصاری جلد 7 صفحہ 777 حدیث 23947 ایڈیشن 1998ء مطبوعہ بیروت) پس یہ تھے وہ لوگ جو اس ٹور سے براہ راست فیض پاتے ہوئے اپنے ہر نیک عمل کو اپنی بلندی درجات کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے تھے اور ان کے ہی گھر تھے جو اُس بلند مقام تک پہنچے.یہی وہ لوگ تھے جو اس بلند مقام تک پہنچے.جب وہ رضی اللہ عنہم بنے اور بعد میں آنے والوں کے لئے پھر ایک نمونہ ٹھہرے.آج مسیح محمدی کے غلاموں کا بھی یہی کام ہے اور ان کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے اعمال کی بلندی کے لئے جس حد تک بھی نیک عمل بجالانے کی کوشش کی جائے کوشش ہو سکتی ہو کی جائے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ٹور سے وہی فیض پائے گا جس کے پاس کچھ ٹور ہو.(براہین احمدی روحانی خزان جلد اصلح 195 حاشیہ نمر 1 ) اور اس کے حصول کے لئے اعمال شرط ہے اور ہر موقع سے جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ضرورت ہے.پھر ایک اگلی آیت میں اس کی مزید وضاحت فرمائی کہ صبح شام ذکر کس طرح کرنا ہے جس سے گھروں کو بلند کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ کو ر میں ہی کہ رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزَّكوةِ.يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ (النور: 38) ایسے عظیم مرد نہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید وفروخت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا ز کوۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے.وہ اُس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل خوف سے الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے اور آنکھیں بھی.پس اس کے بعد بھی اس کے بھی مقام جو ہیں جو صحابہ نے اس نور سے حصہ پا کر حاصل کئے.باوجود تمام گھریلو ذمہ داریوں کے.با وجود تمام معاشرتی ذمہ داریوں کے.باوجود تمام کاروباری ذمہ داریوں کے.انہیں حقوق اللہ کی ادائیگی سے کوئی چیز غافل نہیں کر سکی وہ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے تھے وہ اپنی نمازوں کو وقت پر اور باجماعت ادا کرنے
286 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم والے تھے جیسا کہ میں نے حدیث سے بتایا تھا.کہ ظہر کی چار سنتیں اس لئے با قاعدگی سے پڑھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں، اپنا رفع کرنے والے بنیں.اسی طرح یہاں یہ بھی بیان ہوا کہ وہ زکوۃ دے کر دین کی ضرورتیں پوری کرنے والے تھے اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے بھی تھے.پس یہ نمونے اس مجسم ٹور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے تھے جو آج تک ہمارے لئے مثال ہیں.آج بھی ان نمونوں کو قائم کرنے کی ضرورت ہے.جس طرح اولین نے یہ قائم کئے تھے آج کل تجارت اور بیع کی طرف اس زمانہ میں کچھ زیادہ ہے اس لئے عبادتوں کی طرف کوشش بھی زیادہ کرنی چاہئے اور توجہ زیادہ دینی چاہئے.تجارت اور بیع کا فرق کیا ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ تجارت تو خرید فروخت ہے.لینا اور دینا.خریدنا اور بیچنا.لیکن بیچ صرف فروخت ہے (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 333) اور آج کل کے زمانے میں اگر دیکھیں تو یہ سروسز جو ہیں یہ صرف بیج میں شمار ہوتی ہیں اور اس ملک میں یہ سب سے زیادہ ہیں یہ بھی نمازوں کی ادائیگی سے روکتی ہیں.وہ اپنے کام کو وقت پر ختم کرنے کی کوشش میں اپنے فرائض کو اور جو اصل ذمہ داری ہے اس کو لوگ بھول جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو حقیقی مومن ہیں ان کو دنیا میں مصروف رہنے کے باوجود آخرت کا خوف رہتا ہے اور ان کی تجارتیں اور ان کے دوسرے کام انہیں خدا تعالیٰ کی عبادت اور حقوق العباد کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتے.بلکہ ہر وقت ان کے سامنے وہ نظارہ رہتا ہے کہ جہاں مرنے کے بعد جواب دینا ہو گا.وہ فرض عبادتوں کی ادائیگی کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اس طرف ان کی توجہ ہوتی ہے اور نوافل کی ادائیگی کی طرف بھی ان کی توجہ ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آخر میں لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمُ مِنْ فَضْلِهِ ، وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ (النور: 39) تاکہ اللہ انہیں ان کے بہتر اعمال کے مطابق جزا دے جو وہ کرتے رہے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی دے اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے.پس وہ نور جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی ذات میں پیدا فرمایا اور جو کامل تعلیم آپ پر اُتاری وہ مومنوں کے گھروں کو بھی بلند کرنے کا باعث بنی.اور یہ ایک ایسا جاری سلسلہ ہے جو ہمیشہ اس پر عمل کرنے سے جاری رہے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا اس آیت میں بھی اور بعض دوسری آیات میں بھی وعدہ ہے.فرماتا ہے کہ ان اعمال صالحہ کو اپنے گھروں میں رائج کرنے سے، اپنے دلوں میں بٹھاتے ہوئے ان پر عمل کرنے سے تم ان کی بہترین جزا پاؤ گے.بلکہ صرف اتناہی نہیں اللہ تعالیٰ دیتا جتنا عمل کیا گیا ہے فرمایا کہ اپنے فضل سے مزید دے گا تمہیں.تم ایک قدم اوپر
خطبات مسرور جلد ہفتم 287 خطبه جمعه فرموده 19 جون 2009 چڑھنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل سے کئی قدم اوپر چڑھا دے گا اور پھر اللہ تعالیٰ مالک ہے اس طرح نوازتا ہے کہ جس کا کوئی حساب اور شمار نہیں ہے درجات بڑھتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس نور کو جو آنحضرت مے کے ذریعہ میں ملا اپنے گھروں میں اور اپنے دلوں میں رائج کرنے کی اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے بڑھتے ہوئے فضلوں اور رحمتوں سے ہمیشہ نوازتا چلا جائے.ہمیشہ ہم نیک اعمال بجالانے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 28 مورخہ 10 جولائی تا 16 جولائی 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8)
خطبات مسرور جلد ہفتم 288 (26) خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009 فرمودہ مورخہ 26 جون 2009ء بمطابق 26 /احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے خطبہ کے آخر میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں یہ ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے گھروں کو بلندی عطا فرماتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے نور سے حصہ پاتے ہیں اور اس ٹور سے حصہ پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرتے ہیں.اپنی عبادتوں اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ کرتے ہیں.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں ان کا کچھ ذکر آج میں کروں گا.اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد ہی عبادت فرمایا ہے.لیکن عبادت کس طرح ہو؟ اور کس طرح کی ہو؟ اس زمانہ کے امام نے جو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے نور سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کا سب سے زیادہ فہم و ادراک رکھنے والا تھا.اس بارے میں ہماری راہنمائی اُس قرآنی تعلیم کی روشنی میں فرمائی ہے جس کا ادراک آپ کو عطا فر مایا گیا.اس کی روشنی میں میں آج بیان کروں گا.آج ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ان پر خدا تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ زمانہ کے امام کو قبول کر کے ہمیں ہر وقت اور ہر معاملہ میں راہنمائی ملتی ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کے جاری نظام اور مرکزیت کی وجہ سے توجہ دلائی جاتی رہتی ہے.اور خلافت اور جماعت کے ایک خاص رشتے اور تعلق کی وجہ سے جو کہ عہد بیعت کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہتا ہے.بغیر کسی انقباض کے اصلاح کی طرف توجہ دلانے پر توجہ ہو جاتی ہے.جبکہ دوسرے مسلمان جو ہیں اس نعمت سے محروم ہیں.گزشتہ دنوں مجلس خدام الاحمدیہ UK کی عاملہ اور ان کے قائدین کے ساتھ ایک میری میٹنگ تھی کسی بات پر میں نے انہیں کہہ دیا کہ تم لوگ میری باتوں پر عمل نہیں کرتے.اس کے بعد صدر صاحب خدام الاحمدیہ میرے پاس آئے ، جذبات سے بڑے مغلوب تھے تحریری طور پر بھی معذرت کی کہ آئندہ ہم ہر بات پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسی طرح عاملہ کے اراکین جو تھے انہوں نے بھی معذرت کے خط لکھے.تو یہ تعلق ہے خلیفہ اور جماعت کا.اس کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مادی دور میں ،اس مادی ملک میں ، وہ
289 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم لوگ جو دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہیں اور دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں لیکن دین کے لئے اور خلافت سے تعلق کے لئے مکمل اخلاص و وفا دکھانے والے ہیں.اور یہ سب اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے تعلق کے طریق ہمیں سکھائے.ہماری عبادتیں بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں.جو ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں.لیکن دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں.گزشتہ دنوں ایک غیر از جماعت دوست ملنے کے لئے آئے.بڑے پڑھے لکھے طبقہ کے ہیں اور میڈیا میں بھی معروف مقام رکھتے ہیں.کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر مساجد آج کل اس طرح آباد ہیں جو گزشتہ 62 سال میں دیکھنے میں نہیں آئیں.حج پر جانے والے ہمیں اتنی تعداد میں نظر آتے ہیں جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آتے.پھر اور کئی نیکیاں انہوں نے گنوا ئیں.پھر کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود وہ اثرات اور وہ نتائج نظر نہیں آتے جو ہونے چاہئیں.پھر خود ہی انہوں نے کہا کہ مسجد کے باہر کے معاملات اصل میں صاف نہیں ہیں اور یہ اس لئے کہ دل صاف نہیں ہیں.مسجد سے باہر نکلتے ہی معاملات میں ایک قسم کی کدورت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.میں نے انہیں کہا کہ ایک بات تو یہ ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری عبادتیں ، ہماری نماز میں ، ہماری دوسری نیکیاں تبھی فائدہ مند ہو سکتی ہیں جب ہمارے جائزے بھی ہوں اپنے خود کے.اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم عبادت کر رہے ہیں یا ہم اپنے آپ پر اسلامی رنگ کا اظہار کر رہے ہیں.ہمارے حلیے سے ہماری حالتوں سے اسلامی رنگ کا اظہار ہوتا ہے تو یہ تو کوئی نیکی نہیں ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک فقرہ مجھے یاد آیا میں نے انہیں بتایا کہ یہ لوگوں کا کام بے شک ہے کہ تمہارے اعمال کو وہ دیکھیں.لیکن تمہارا یہ کام ہے کہ ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرو.پس اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بڑا نمازی ہے بڑا روزہ دار ہے ، بڑا حاجی ہے، اس سے نیکیاں پیدا نہیں ہو جاتیں ان چیزوں سے.نیکی کی اصل روح تب پیدا ہوتی ہے جب یہ احساس ہو کہ کیا یہ سب کام میں نے خدا کی خاطر کئے ہیں؟ اور اس کے لئے اپنے دل کے جائزہ کی ضرورت ہے اور جب یہ جائزے ہوں گے تو ان نیکیوں کے حقیقی اثرات جو ہیں وہ ظاہر ہورہے ہوں گے.دوسری بات میں نے انہیں یہ کہی کہ آپ لوگ نہیں مانیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس زمانہ کے امام کو مانے بغیران نیکیوں کی جو آپ گنوار ہے ہیں صحیح سمت نہیں رہ سکتی.صحیح رخ نہیں رہ سکتے.شیطان کا اثر ہر نیکی کو بھی بدنتائج پر منتج کر دیتا ہے.تو میں نے انہیں بتایا کہ معاملات صاف نہ ہونے یا دل صاف نہ ہونے یا فتنہ وفساد کی یہ وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانے بغیر اور آپ کے بعد خلافت کو مانے بغیر قبلے درست نہیں ہو سکتے.تو حقیقت یہی ہے کہ عبادتوں کے اسلوب بھی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی سکھائے.قرآن وہی
290 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009 ہے ، شریعت وہی ہے، لیکن اس کا حقیقی فہم و ادراک اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو عطا فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف اور خشیت اور آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت ہمارے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے پیدا فرمائی ہے اور اسے اجاگر کیا ہے.پس اس کی جس انتہا تک قدر ہم کریں گے اور اس کے نتیجہ میں اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہیں گے ہماری عبادتیں ہمیں فائدہ دیتی رہیں گی.پس یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام کی جگالی بھی کرتا رہے.جو پڑھ سکتے ہیں وہ پڑھیں.جو سن سکتے ہیں وہ سنیں اور اس کے مطابق پھر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیسیوں جگہ اس بات کی راہنمائی فرمائی ہے کہ عبادت کی حقیقت کیا ہے؟ اور قرآن کریم میں ابتداء میں ہی سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ایساكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتح: 5) - اس کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ ہم روزانہ نماز میں پڑھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اس کو پڑھ کر.لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر سے دیکھیں تو حقیقت ظاہر ہوتی ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ ايَّاكَ نَعْبُدُ میں ایک اور اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت میں انتہائی ہمت اور کوشش خرچ کریں اور اطاعت گزاروں کی طرح ہر وقت لبیک لبیک کہتے ہوئے اس کے حضور کھڑے رہیں.گویا کہ یہ بندے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم مجاہدات کرنے ، تیرے احکام کے بجالانے اور تیری خوشنودی چاہنے میں کوئی کوتا ہی نہیں کر رہے، لیکن تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور عجب اور ریاء میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں.ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو صرف دکھانے کے لئے ہو اور ہم تجھ سے ہی ایسی توفیق طلب کرتے ہیں جو ہدایت اور تیری خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو اور ہم تیری اطاعت اور تیری عبادت پر ثابت قدم ہیں.پس تو ہمیں اپنے اطاعت گزار بندوں میں لکھ لے.فرمایا اور یہاں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بندہ کہتا ہے کہ اے میرے رب ہم نے تجھے معبودیت کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے اور تیرے سوا جو کچھ بھی ہے اس پر تجھے ترجیح دی ہے.پس ہم تیری ذات کے سوا اور کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور ہم تجھے واحد اور یگانہ ماننے والوں میں سے ہیں.فرمایا.” یہ دعا تمام بھائیوں کے لئے ہے نہ صرف دعا کرنے والے کی اپنی ذات کے لئے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو باہمی مصالحت، اتحاد اور دوستی کی ترغیب دی ہے اور یہ کہ دعا کرنے والا اپنے آپ کو ، اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے.اور اس کی (یعنی اپنے بھائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا ہی اہتمام کرے اور بے چین ہو جیسے اپنے لئے بے چین اور مضطرب ہوتا ہے اور وہ اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان کوئی فرق نہ کرے اور پورے دل سے اس کا خیر خواہ بن
291 خطبه جمعه فرموده 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم جائے.گو یا اللہ تعالیٰ تاکیدی حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! بھائیوں اور محبتوں کے (ایک دوسرے کو ) تحائف دینے کی طرح دعا کا تحفہ دیا کرو اور (انہیں شامل کرنے کے لئے ) اپنی دعاؤں کا دائرہ وسیع کرو اور اپنی نیتوں میں وسعت پیدا کرو.اپنے نیک ارادوں میں (اپنے بھائیوں کے لئے بھی گنجائش پیدا کرو اور باہم محبت کرنے میں بھائیوں ، باپوں اور بیٹوں کی طرح بن جاؤ.“ ( ترجمه عربی عبارت کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 122-121) یہ ایک عربی کتاب ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کرامات الصادقین اس میں سے کچھ حصے کا ترجمہ وا کا ہے.پس یہ ہے عبادات کے نیک نتائج اور اثرات پیدا کرنے کا طریق.نیتوں میں وسعتوں کی ضرورت ہے.اگر صرف اپنے ذاتی مفادات پیش نظر ہوں گے تو عبادتیں وہ معیار حاصل نہیں کر سکتیں.ان کے نیک نتائج برآمد نہیں ہو سکتے.اگر عبادتوں کے بعد ایک دوسرے کے لئے محبت کے سوتے نہیں پھوٹتے تو عبادتیں محل نظر ہیں.اگر دوسرے مسلمانوں کی مساجد میں چلے جائیں تو اکثر جگہ سے آج کل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے خلاف مغلظات ہی سننے میں آتی ہیں.جب مسجدوں میں اس طرح دریدہ دینی ہو رہی ہو تو ان مقتدیوں پر کیا اثر ان عبادات کا پڑنا ہے جوان بیہودہ گوئیاں کرنے والوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں.اور پھر باہر آ کر کیا ایسے لوگوں نے معاملات صاف کرنے ہیں.اور جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا تعلیم دی ہے ایسی باتیں سننے کے بعد فرمایا ”صبر بڑا جو ہر ہے...جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے“.بعض جگہ بعض دفعہ ایسی ایسی باتیں سن کے، جلسے سن کے یا گالیاں سن کے لوگ بے صبری دکھاتے ہیں.گزشتہ دنوں ہندوستان میں بھی واقعات ہوئے ہیں، وہاں بھی لوگوں نے بڑے بے صبری کے خط لکھے یا اکا دکا کوئی احمدی دکھا بھی دیتا ہے تو فرمایا کہ " جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی تختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض میں گالی نہ دے....اللہ تعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے.میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پر حملہ کریں یا اخلاق کے برخلاف کوئی کام کریں.فرمایا ” خدا تعالیٰ کے الہامات کی تفہیم بھی یہی ہے کہ بردباری کریں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 517 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا کہ ہمارا مذ ہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں.فرمایا ” ہم ان سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی سختیوں پر صبر کرتے ہیں.تم ان کی بدسلوکیوں کو خدا پر چھوڑ دو.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 130 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) جب خدا پر چھوڑو گے تو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو گی.عبادت کرو گے اور پھر خدا تعالیٰ انشاء اللہ ہدکو آئے گا.اور پھر آپ نے ہمیں دشمن کے لئے بھی دعا کرنے اور سینہ صاف رکھنے کا حکم دیا ہے.تو یہ چیزیں ہیں جو
292 خطبہ جمعہ فرموده 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم عبادتوں کے معیار قائم کرتے ہوئے.اس کے اثرات اور نیک نتائج پیدا کرتی ہیں اور معاشرے کی ان خطوط کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہے.پس یہ چیز ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ورنہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کرنا آپ کو مسیح موعود مان لینا تو کوئی فائدہ نہیں دے گا.بلندیوں کا حصول اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے ہوگا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہے.اس میں تو کوئی شک نہیں اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے اور نماز کو ایک بنیادی رکن سمجھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی بار بار تاکید فرمائی ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی بلکہ ایک دفعہ ایک قوم مسلمان ہوئی اور اپنی کا روباری مصروفیات کی وجہ سے کام کا عذر کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ ہمیں نماز معاف کر دی جائے.تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا درکھو کہ جس مذہب میں خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں وہ مذہب ہی نہیں.اللهم ( کشف الغمه عن جميع الامة جزء ثانی صفحہ 240 دار الكتب العلمیة بیروت طبع اولی 1998) ( السيرة النبوية لابن ہشام باب امر وفد ثقیف و اسلامها صفحہ 829 دارالکتب العلمیة بیروت 2001) تو یہ اہمیت تو ہے نماز کی.ایک عام مسلمان بھی جانتا ہے، چاہے وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا.لیکن مسلمانوں کو اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نماز پڑھنی کس طرح ہے؟ جیسا کہ میں نے ایک غیر از جماعت دوست کی بات کا حوالہ دیا تھا کہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اس کے باوجود ہمیں نہیں پتہ کہ معاملات کیوں صاف نہیں ہیں؟ کیونکہ ایک بہت بڑا طبقہ ان میں بھی ایسا ہے جو با وجود عبادت کو ایک اہم دینی فریضہ سمجھنے کے بدقسمتی سے اس کے جو اثرات ہیں وہ نہیں اس پر پڑتے اس لئے کہ حقیقی رنگ میں عبادت ادا نہیں کی جاتی.بہت سے جو ہیں وہ صرف دکھاوے کے لئے ادا کر رہے ہوتے ہیں.بعض ایسے ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ تو جہ سے نماز ادا کریں لیکن وہ بھی نمازوں کی روح اور اس کی گہرائی کو نہیں سمجھتے.کیونکہ جس روحانی چشمہ کو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ فہم و ادراک عطا کرنے کے لئے جاری فرمایا تھا، اس کے فیض سے ان کے نام نہاد علماء نے انتہائی خوفزدہ کر کے دور رکھا ہوا ہے.اور آج ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانہ کے اس روحانی چشمہ سے فیض اٹھا ر ہے ہیں.جس کا منبع آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ملے ہیں اور اب دنیا کی روحانی حالت کی تبدیلی اور اللہ تعالیٰ کی آخری شریعت کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہی چنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے کس طرح راہنمائی فرمائی ہے؟ اور ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ وہ چند باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.” بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکان اسلام بھی بجالاتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کی نصرت اور مردان کے شامل حال نہیں ہوتی اور ان کے اخلاق اور
293 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمود ه 26 جون 2009 عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں.....کیونکہ احکام الہی کا بجالانا تو ایک بیج کی طرح ہوتا ہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے.ایک شخص جو کھیت کی آب پاشی کرتا ہے اور بڑی محنت سے اس میں بیج ہوتا ہے.اگر ایک دو ماہ تک اس میں انگوری نہ نکلے (یعنی اس کی سبزی نہ نکلے تو ماننا پڑتا ہے کہ بیج خراب ہے.یہی حال عبادات کا ہے.اگر ایک شخص خدا کو وحدہ لاشریک سمجھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، اور بظاہر نظر احکام الہی کو حتی الوسع بجالاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص مدد اس کے شامل حال نہیں ہوتی تو ماننا پڑتا ہے کہ جو بیج وہ بور ہا ہے وہی خراب ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 387-386 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے کہ عبادتوں سے اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے اور عبادتوں کے اثرات معاشرے کے تعلقات میں بھی نظر آئیں.بعض لوگ صرف ذاتی مقاصد کے لئے دعائیں کر کے کہتے ہیں کہ بہت دعائیں کیں، قبول نہیں ہوئیں.انہوں نے اپنی ذاتی دعاؤں کی قبولیت ہی صرف اللہ تعالیٰ سے تعلق کا معیار بنایا ہوتا ہے.جبکہ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جب دعائیں کرو.تو یہ بھی فرمایا کہ میں جان مال، اولاد کے نقصان سے تمہیں آزماؤں گا.پس ہماری عبادتیں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور دلی اطمینان کے لئے ہونی چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میری عبادت کرو.میرا ذکر کرو.میں تمہیں اطمینان بخشوں گا اور اگر اس میں بہتری کی طرف قدم اٹھ رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اگر معاشرے میں ہم امن وسلامتی کے لئے کوشاں ہیں تو یہ بھی عبادتوں کے نیک اثرات ہیں.چاہے ہماری ذاتی دعائیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں ہوتیں لیکن ایک تعلق خدا تعالیٰ سے بڑھ رہا ہوتا ہے اور یہی چیز پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور مخلوق کی ہمدردی دلوں میں پیدا ہو اور یہی عبادتوں کا مقصد ہے.پس اس کے حصول کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک نمازوں کی کیا حالت ہونی چاہئے اس کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ یا درکھو یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی “.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403-402 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
294 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس یہ چند باتیں ہیں ان بے شمار نصائح کے خزانے میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمائی ہیں تا کہ ہم اپنے دین اور دنیا کو سنوارنے والے بن سکیں.آج جب ہم دنیا کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ پیش کرتے ہیں اور معاشرے کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم سے پوچھو کہ کیوں مساجد نمازیوں سے بھرے ہونے کے باوجود معاشرے میں ہر طرف بدامنی اور فساد ہے تو اس کے ساتھ ہی ہماری نظر اپنے گریبان پر بھی پڑنی چاہئے.ہمیں اپنے اندر بھی جھانکنا چاہئے.ہمیں اپنی فکر کبھی ہونی چاہئے کہ کہیں ہم اس مقصد کو بھول نہ جائیں جو خدا تعالیٰ نے ہماری پیدائش کا بیان فرمایا ہے.اور جس کے حصول کے لئے ہم نے اس زمانہ کے امام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کو نبھائیں گے.پس جہاں میں عمومی طور پر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں خاص طور پر کارکنان ، عہد یداران اور واقفین زندگی جو ہیں ان کو سب سے زیادہ اس کے حصول کی طرف توجہ دینی چاہئے.اگر کارکنان عہدیداران اور واقفین زندگی اس طرف ایک فکر سے توجہ کریں گے تو جہاں ہماری مسجدوں کی آبادی بڑھ رہی ہوگی وہاں جماعت کی عمومی روحانی حالت میں بھی ترقی ہوگی.معاشرہ میں، احمدی معاشرہ میں ، خاص طور پر امن، پیارا اور حقوق کی ادائیگی کا ایک خاص رنگ پیدا ہورہا ہو گا.عہدیداران کے نمونوں سے افراد جماعت بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایک سے دوسرے کو جاگ لگتی ہے اور اگر کسی کے نمونے سے دوسرے میں پاک تبدیلی پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی اتناہی ثواب دیتا ہے جتنا اس شخص کو مل رہا ہے جس نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے.پس اس طرف خاص طور پر توجہ دیں.کسی کا علم کسی کا صائب الرائے ہونا، کسی کی انتظامی صلاحیت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا، نہ اس کو بحیثیت احمدی کوئی فائدہ دے سکتا ہے، نہ جماعت کو ایسے شخص کے علم، عقل اور دوسری صلاحیتوں سے کوئی دیر پا فائدہ پہنچ سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا خوف اور خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو یہ سب چیزیں فضول ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقام کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی توقعات ہم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہیں.اب میں ایک ذکر خیر بھی کرنا چاہتا ہوں جو کہ حضرت صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ کا ہے.جن کی دو تین دن پہلے وفات ہوئی ہے اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹیوں میں سے دوسرے نمبر کی بیٹی تھیں اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی اہلیہ تھیں.آپ حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ جو حضرت خلیفتہ مسیح الاول کی بیٹی تھیں، کے بطن سے 19 ستمبر 1916ء کو پیدا ہوئیں اور قادیان میں ہی اماں جان کے کمرے میں جو بیت الفکر اور مسجد مبارک کے قریب تھا.آپ کی پیدائش ہوئی ، آپ نے مولوی فاضل کی تعلیم حاصل کی پھر ایف اے پاس کیا اور ان کی لجنہ کی جو خدمات ہیں دو مختلف وقتوں میں چار سال تک لجنہ واشنگٹن کی صدر رہیں.
295 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لجنہ امریکہ کی مشاورتی کمیٹی کا خاص نمائندہ مقر رفرمایا تھا اور تاحیات آپ اس پہ قائم رہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر تک آپ کا ذہن بالکل صاف رہا.تقریباً 92 سال کی عمر تھی.لیکن ذہنی طور پر بالکل ایکٹو (active) تھیں.حضرت مصلح موعود کے پرانے واقعات اور باتیں سناتی رہا کرتی تھیں.بہت غریب پرور تھیں، چھپ کر بھی غریبوں کی مدد کرنا.اعلامیہ بھی مددکرنا کئی بیواؤں اور تیموں کو مستقل مدد کرتی رہتی تھیں.اور پھر جماعت سے باہر بھی اور ملکی اور بین الاقوامی چیریٹیز (Charities) جو ہیں ان میں بھی صدقات دیا کرتی تھیں.نمازوں میں بڑا خشوع و خضوع ہوتا تھا.جو ظاہری نمازیں ہیں.نوافل تو چھپ کے انسان پڑھتا ہے دوسری نماز میں نظر آ جاتی ہیں، کئی دفعہ مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا، بڑے جذب اور خشوع سے نمازیں پڑھ رہی ہوتی تھیں.اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا ان کا.فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ (المومنون : 3 ) کی مثال تھیں.اور پھر لغویات سے بھی بچنے کی کوشش کرتی تھیں.اس پر بھی عمل کرتی تھیں.عاجزی انکساری بہت تھی ان میں باوجود اس کے کہ مرزا مظفر احمد صاحب پاکستان میں بڑے اچھے عہدوں پر رہے، ورلڈ بینک میں بھی رہے.لیکن آپ کے ہاں جانے والے، ملنے والے ان کو جس طرح وہ خود ملتے تھے مرزا مظفر احمد صاحب بھی اور آپ بھی بڑی عاجزی سے ان سے ملا کرتے تھے.کئی عورتوں نے مجھ سے اس کا ذکر بھی کیا ہے اور افسوس کے جو خط آ رہے ہیں ان میں بھی کئیوں نے اس کا اظہار کیا ہے کہ بہت عاجزی اور انکساری سے ملا کرتی تھیں اور دین کی بھی بڑی غیرت رکھتی تھیں.جماعت اور خلافت کی بڑی غیرت تھی ان کو.پردہ کی بھی بڑی پابند تھیں.پردہ میں تو بعض دفعہ اس حد تک چلی جاتی تھیں کہ اگر کسی کا چھوٹا عزیز جو ہے جس سے اگر پردہ نہیں بھی ہے اگر اسے پہچان نہیں رہیں اور وہ گھر میں بھی آ گیا تو تب بھی پردہ کر لیتی تھیں جب تک پہچان نہ ہو جاتی.ان کی اپنی اولاد تو کوئی نہیں تھی ، اپنی بہن صاحبزادی امتہ الجمیل بیگم صاحبہ جو چو ہدری فتح محمد صاحب سیال کی بہو تھیں ان کے بیٹے کو انہوں نے گود لیا تھا.بڑا پیار دیا اسے لیکن اس کی تربیت کی بھی کوشش کرتی رہیں ہمیشہ.خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے کی ہمیشہ تلقین کرتی رہیں.اس نے مجھے لکھا کہ بچپن سے ہی ہمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں آنحضرت مے کے حوالے سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے سناتی تھیں اور اس طرح اس کے بچوں کو بھی سناتی رہیں.ایک بات جو مجھے عزیزم ظاہر احمد نے لکھی ہے ان کے بارہ میں.یہ ان کے بھانجے اور لے پالک ہیں.انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم کو بڑے غورسے پڑھا کرتی تھیں اور صفحوں کے صفحے نوٹس لکھے ہوئے ہیں قرآن کریم پر.خلافت سے بھی ان کا ایک خاص محبت کا تعلق تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا دور تو میں نے دیکھا ہے ان کے ساتھ تعلق میں، بڑے بھائی بھی تھے لیکن خلافت سے جو ایک خاص تعلق ہوتا ہے وہ بہت زیادہ تھا.پھر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ چھوٹے بھائی تھے لیکن اس کے بعد خلافت کے بعد انتہائی ادب اور احترام کا تعلق ہوا.
296 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایک کسی نے مجھے لکھا کہ جب پہلا جلسہ ہوا اسلام آباد میں.اس میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا، یہ جلسہ میں میٹھی ہوئی تھیں جلسہ کے بعد وہیں پیغام ملا.جو ان کے ساتھ ڈیوٹی پر خاتون تھیں ان کو کہ ان کو لے کر حضرت خلیفہ مسیح الرابع بلا رہے ہیں فوراً آؤ.تو کہتی ہیں انہوں نے سن لیا اور ان کے تیار ہونے سے پہلے ہی اٹھ کے چل پڑیں اور بڑی تیزی سے اتنا چلیں کہ جو ڈیوٹی والی خاتون تھیں ان کو ساتھ دوڑنا پڑ رہا تھا اور یہ کہتیں جلدی کر حضور کا پیغام آیا ہے مجھے بلا رہے ہیں.تو یہ بھی ایک تربیت تھی ، اپنے باپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بھی اور اپنے نانا کی وہ مثال بھی سامنے تھی جس طرح وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بلاوے پر فور دوڑ پڑے تھے بغیر کچھ لئے.پھر میرے سے ایک تعلق تھا ان کا.یہ تعلق بھانجے سے زیادہ اس وقت شروع ہوا، میری خالہ تھیں.جب حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرر کیا پاکستان میں، ربوہ میں، تو پہلی مرتبہ جب یہ امریکہ سے آئی ہیں تو میں حیران رہ گیا ان کے تعلق کو دیکھ کر اور شرمندہ بھی ہوتا تھا، ایک احترام جماعتی عہدیدار کا اور عزت ایسی تھی جو بالکل مختلف تھی ہر قسم کے رشتوں سے.بالکل مختلف رویہ تھا ان کا اور یہ ان کی سیرت کا پہلو مجھ پر اس وقت کھلا کہ یہ کس طرح احترام کرتی ہیں عہدیداران کا.خلافت کے بعد تو پھر یہ تعلق اور بھی بڑھا.جب میں غور کرتا ہوں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے زمانہ میں بھی دیکھا ہے میں نے ان کے ساتھ تعلق ان کا اور اپنے ساتھ جب دیکھتا ہوں، کوئی فرق مجھے نظر نہیں آتا.وہی عزت وہی احترام.معمولی سا بھی فرق کہیں نظر نہیں آیا.اتنا ادب اور احترام کہ بعض دفعہ شرمندگی ہوتی تھی.امریکہ گیا ہوں تو جماعتی پروگرام کی وجہ سے بعض مجبوریاں تھیں اس لئے مشن ہاؤس میں ٹھہر نا پڑا.مسجد کے ساتھ.پہلے اس بات پر زور دیا تھا انہوں نے جانے سے پہلے کہ ان کے ہاں ٹھہروں.لیکن بہر حال مجبوری تھی اس کی وجہ سے معذرت کرنی پڑی.پھر جب ان کو ملنے گیا ان کے گھر تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی اور آپ کے اس تعلق کی وجہ سے ہی آپ کے اس لے پالک بیٹے اور بھانجے اور بہو کا اور بچوں کا خلافت سے بھی ایک خاص تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا بھی بڑا وسیع مطالعہ تھا.کسی نے مجھے بتایا کہ 7 مرتبہ انہوں نے ہر کتاب پڑھی تھی لیکن ظاہر احمد نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے کہا کہ میں 9 مرتبہ یہ کتابیں پڑھ چکی ہوں.بیماری میں بھی ،گزشتہ ایک ماہ سے بیمار تھیں ان دنوں میں بھی ایک دو دفعہ فون پر بات ہوئی ہے تو ظاہر نے بتایا کہ ایک دفعہ فون پر بات کرنے سے پہلے وہ کوشش کر رہے تھے کچھ کھانا کھا لیں.لیکن کھا نہیں رہی تھیں.فون پر بات کرنے کے بعد اس نے کہا کہ اب تو آپ کی بات ہو گئی ہے، میرا حوالہ دیا ان کوتو کھانا کھا لیں.خیر کہتا ہے میں دوسرے کاموں میں مصروف ہو گیا.تھوڑی دیر بعد دیکھا تو کھانا جو پلیٹ میں رکھا ہوا تھا ختم تھا اور صرف اس لئے کہ اس نے حوالہ یہ دیا تھا کہ آپ کی بات ہوگئی ہے میرا اس سے لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اس نے کہا ہوگا کہ انہوں نے کہا ہے، ذرا اونچا سنتی تھیں اس لئے فون پر سیج سمجھ نہیں آئی ہوگی.ظاہر کی بات سے انہوں نے یہی سمجھا کہ انہوں نے
خطبات مسرور جلد ہفتم 297 خطبہ جمعہ فرموده 26 جون 2009 کہا ہے کہ کھانا کھالیں.کیونکہ فورا اطاعت گزاری تھی اس لئے نہ طبیعت چاہنے کے باوجود بھی آخری بیماری میں بھی فوری طور پر کھانا کھالیا.تو اس حد تک ، باریکیوں کی حد تک اطاعت تھی ان میں.بیماری کے دنوں میں انہوں نے اپنے اس بھانجے اور بیٹوں اور اس کے بچوں کو بہو کو بلایا اور اس نے لکھا ہے کہ تین گھنٹے تک مختلف قسم کی نصیحتیں کرتی رہیں اور پھر یہ ہے کہ ہمارا شکر یہ ادا کیا کہ تم لوگ میری بہت خدمت کر رہے ہو.حالانکہ جو خدمت انہوں نے ان بچوں پر کی تھی وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ان بچوں کی ہوگی.بہر حال یہ ان کی بڑائی اور شکر گزاری کا احساس تھا.بڑی باریکی کی حد تک انہوں نے اس کا خیال رکھا.اللہ تعالیٰ اس بچے کو بھی اور اس کے بچوں کو بھی، اس کی بیوی کو بھی ان کی نیکیاں جو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی اور صاحبزادی امتہ القیوم کی ہیں ان کی تربیت کے زیر اثر جاری رکھنے کی توفیق دے اور ان کی دعاؤں سے ہمیشہ یہ لوگ حصہ لیتے رہیں اور عاجزی اور انکساری جوان میں تھی وہ ان بچوں میں بھی ہمیشہ قائم رہے.کچھ واقعات ہیں، جو انہوں نے خود ایک دفعہ لکھے ہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو آپ سے بڑا تعلق تھا، ہر بچے سے تھا، لیکن ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا اظہار تھا.یہ کہتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو لکھا کہ میں نے اپنی اس بچی کو 14 سال تک ہتھیلی کے چھالے کی طرح رکھا ہے.اگر کوئی اس کی طرف دیکھتا تھا تو میری نظر فوراً اٹھتی تھی کہ اس آنکھ میں پیار کے سوا کچھ اور تو نہیں.اب میں اسے تمہارے سپر د کرتا ہوں.یادرکھنا اگر اسے کوئی تکلیف ہوئی تو میں برداشت نہیں کر سکوں گا.مطلب یہ نہیں تھا کہ لڑائی کروں گا.مطلب یہ تھا کہ مجھے دلی صدمہ پہنچے گا.(سیرت و سوانح حضرت سید ہ امتہ الحی بیگم صاحبہ صفحہ 111-110 لجنہ اماءاللہ لاہور ) آپ اپنی اس زندگی میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی.تو یہ نمونے ہیں جو ہمارے ہر گھر میں جہاں اس قسم کے جھگڑے ہوتے ہیں ان کو بھی دیکھنے چاہئیں.کہ جب کسی کی بچی کو لے کے آتے ہیں.تو شادی کرنے والے کو بھی اور سسرال کو بھی ،لڑکے کو بھی اور لڑکی کے سسرال کو بھی بچوں کے جذبات واحساسات کا خیال رکھنا چاہئے.کہ وہ بھی کسی کی بچیاں ہیں اور لاڈلی بچیاں ہیں.اسی طرح جب ملتان کہتی ہیں میں گئی ہوں.روزانہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا تار یا خط آیا کرتا تھا.اچھا ایک دفعہ انہوں نے واقعہ کا ذکر کیا ہے اپنی ایک خواب کا کہ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے یعنی صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ اپنی خواب کا ذکر کر رہی ہیں.کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے کہ میں تمہاری ماں کو لینے آیا ہوں.میں رورو کر اس کی منتیں کرتی ہوں کہ نہیں لے جانا.وہ کہتا ہے کہ اچھا اگر یہ نہیں تو تمہارے ابا کو لے جاتا ہوں.تو میں نے گھبرا کر کہا نہیں بالکل نہیں.وہ کہتا ہے کہ تمہاری ایک بات مانی جاسکتی ہے.ماں کو لے جانے دو یا باپ کو.اس نے جب مجھ کو بہت مجبور کیا دونوں میں سے ایک کو رکھ سکتی ہو، دونوں کو رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو میں ماں کو دینے پر راضی ہوگئی اور پھر کہتی ہیں اس خواب کا اثر تھا کہ پھر اپنی امی سے بہت چھٹنے لگ گئیں.یہ دس سال کی تھیں جب ان کی والدہ فوت ہوگئی
298 خطبہ جمعہ فرموده 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد هفتم تھیں.حضرت اماں جان کو یہ پتہ نہیں تھا، وہ پہلے کہا کرتی تھیں ان کو کہ تم ماں سے چھٹی رہتی ہو ، باپ سے بھی چھٹا کرو.تو ایک دن اماں جان نے ان کو زور سے کہا اماں جان نے خود ہی بیان فرمایا.کہ میں نے جب کہا تو تم ڈر گئیں اور تم نے اس کا جواب دیا چھٹوں گی چھٹوں گی اور ساری عمر چھٹی رہوں گی.یہ واقعہ بیان کر کے حضرت اماں جان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے.سیرت و سوانح حضرت سید المتہ الحئی بیگم صاحبه صفحه 112) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو سفر تھا دہلی کا اور جہاں سیر روحانی کا بعد میں تقاریر کا سلسلہ آپ نے شروع فرمایا تھا وہاں جو نظارہ آپ نے دیکھا تھا اور جو آپ نے اس وقت اونچی آواز میں کہا میں نے پا لیا ہمیں نے پا لیا.تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں اس وقت میرے پیچھے میری بیٹی امتہ القیوم بیگم چلی آرہی تھی ، اس نے کہا ابا جان آپ نے کیا پا لیا.تو میں نے کہا میں نے بہت کچھ پا لیا، مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا.میں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا جلسہ سالانہ پر بتا دوں گا کہ میں نے کیا پایا.اس وقت تم بھی سن لینا.(سیر روحانی صفحہ 5-4 رقیم پر لیس یو.کے) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک تو آمین پر بچوں کی نظم لکھی اور ایک ان کی شادی پر بھی لکھی تھی.اس کے دوشعر ہیں جو میں سناتا ہوں آپ کو.که الفت اس کی کم اس کا ٹوٹے چھٹ خواه کوئی دامن اس کا چھوٹے کلام محمود صفحہ 224.شائع کردہ لجنہ اماءاللہ کراچی) یہ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق کی طرف توجہ دلائی تھی ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور اس تعلق کو انہوں نے شادی کے بعد بھی قائم رکھا جیسا کہ میں نے بتایا کہ بڑی دعا گو اور نیکیوں کو جاری رکھنے والی خاتون تھیں.بلکہ مجھے امریکہ سے مسعود خورشید صاحب نے لکھا کہ ان کی اہلیہ نے 25 سال پہلے ایک خواب دیکھی تھی ان کو آواز آئی کوئی کہ رہا ہے.بی بی امتہ القیوم ولی اللہ ہیں.تو اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ان کی نیکیاں تو ایسی تھیں یقینا جو اللہ والوں کے لئے نیکیاں ہوتی ہیں اور یہ صرف اس لئے تھا کہ اپنے عظیم باپ کی نصیحت پر ہمیشہ انہوں نے عمل کیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ابھی میں نماز جمعہ کے بعد ان کی جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا اور اس کے ساتھ ایک دو اور جنازے بھی ہیں.ایک میجر افضال احمد صاحب ابن مکرم اقبال احمد صاحب مرحوم کا ہے جو 19 جون کو جنوبی وزیرستان میں جو ریت پسند یا طالبان جو ہیں ان کے خلاف جو حکومت کا آپریشن ہے اس میں شہادت پا گئے.32 سال ان کی عمر
299 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم تھی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے کرنل صاحب نے بتایا کہ آپریشن میں شامل تھے اور پاؤں میں ان کے گولی لگی لیکن ان کو روکا گیا کہ اب اس زخم کو پہلے کر لیں.لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا نہیں اور بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.آپ کے پڑدادا حضرت چوہدری عبد العزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے، پڑنا نا حضرت ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابی تھے.راولپنڈی جماعت کے مخلص رکن تھے، آپ موصی بھی تھے ان کے پسماندگان میں ایک اہلیہ اور ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے.بیٹی کی عمر 4 سال ہے دانیہ افضال اور بیٹا محمد آصف ایک سال کا ہے.ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی ہے اور فوجی اعزاز کے ساتھ.فوج کے وہاں افسران بھی آئے اور دستہ بھی آیا جنہوں نے وہاں ان کی تدفین کی.یہ کہتے ہیں کہ احمدی ملک کے دشمن ہیں جہاں بھی قربانیاں دی جاتی ہیں احمدی پیش پیش ہوتے ہیں ان قربانیوں میں اور وزیراعظم اور صدر صاحب کی طرف سے بھی پھولوں کی چادر ان کے چڑھائی گئی.تو اگر یہ ملک دشمن ہیں تو پھر اپنے وزیر اعظم اور صدر کو پکڑو پہلے اور پھر فوج کو پکڑ وجو وہاں آئے اور انہوں نے پورے اعزاز سے ان کی تدفین کی.پھر ایک اور جنازہ ہے عزیزم احمد جمال کا جو محمدمحسن صاحب مرحوم کے بیٹے تھے یہ بھی 19 مئی کو ربوہ نہر پر پنک پر گئے، ربوہ کے پاس وہاں ڈاکوؤں نے انہیں لوٹا اور ان پر فائر کیا، سر میں دو گولیاں لگیں و ہیں شہید ہو گئے.مرحوم کی 19 سال عمر تھی اور وقف نو کی تحریک میں شامل تھا اور موصی تھا.اللہ تعالیٰ اس کے بھی درجات بلند فرمائے.بڑا خدام الاحمدیہ کا سرگرم رکن.اسی طرح کل ایک اطلاع ہے جس کی تفصیلات تو نہیں ہیں لیکن بہر حال دو شہداء ہیں جو کوئٹہ میں شہید ہوئے.خالد رشید صاحب ابن مکرم رشید احمد صاحب اور ظفراقبال صاحب ابن مکرم لعل دین صاحب.یہ ظفر اقبال صاحب ان کے پاس ملازم تھے تو یہ شام کو اس ملازم کو چھوڑ نے گھر گئے ہیں تو کار سے نکلتے ہوئے ، نکلتے ہی ان پر فائر کر دیا گیا اور دونوں موقع پر شہید ہو گئے.ان کے بھائی جو گھر کے دروازے کے باہر نکلے، ان پر بھی فائز کیا لیکن بہر حال وہ تو نہیں لگا لیکن اس کے بعد یہ چلے گئے.غالب امکان یہی ہے کہ یا یہ احمدیت کی وجہ سے ٹارگٹ شوٹنگ ہے یا آج کل پنجابی اور بلوچی کا بڑا وہاں چل رہا ہے.ان کو تھریٹ (Threat) بھی ہیں احمدیت کی وجہ سے بھی تھریٹس (Threats) تھیں.اس وجہ سے بہر حال یہ بھی کل دو شہید ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے مغفرت کا سلوک فرمائے.ان سب کے جنازے بھی پڑھاؤں گا میں.الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 29 مورخہ 17 جولائی تا23 جولائی 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد ہفتم 300 (27) خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 فرمودہ مورخہ 03/ جولائی 2009 ء بمطابق 03 روفا1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: رفع ایک لفظ ہے، گزشتہ دو تین خطبوں سے یہ ہی بیان کر رہا ہوں اس کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں.یہ مادی چیزوں کی بلندی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ناموری اور شہرت کا ذکر بلند کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور جیسا کہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو اکرافِع ہے جو ہر قسم کی بلندیوں کو عطا کرتی ہے.اس بات کا ، اس صفت کا ہمیں گزشتہ خطبوں میں ذکر بھی کر چکا ہوں.اللہ تعالیٰ جہاں رافع ہے جو بلندیاں عطا فرماتا ہے وہاں وہ خود بھی اُن بلندیوں پر ہے جن کا احاطہ انسانی عقل نہیں کر سکتی.وہ باجود قریب ہونے کے دُور ہے اور باوجود ہر جگہ موجود ہونے کے بہت بلند ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے رَفِيعُ الدَّرَجَات کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ کا قدر و مرتبت اور ہر لحاظ سے بہت بلندشان ہونا.اللہ تعالیٰ کے درجات کی بلندی سب صفات کا وہ اعلیٰ ترین مقام ہے جن کا نہ صرف یہ کہ انسانی سوچ احاطہ نہیں کر سکتی بلکہ اس سے اور بلند مقام کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور اس وجہ سے وہ ربّ العرش بھی ہے.ایک انتہائی بلند مقام پر بیٹھا ہوا ہے لیکن صرف عرش پر بیٹھ کر معاملات حل نہیں کر رہا.بلکہ ہر جگہ موجود بھی ہے جیسا کہ میں نے کہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عرش الہی ایک وراء الوری مخلوق ہے.( یعنی بہت دُور اور بلندی پہ چیز ہے جہاں تک نظر نہیں پہنچ سکتی.جو زمین سے اور آسمان سے بلکہ تمام جہات سے برابر ہے.یہ نہیں کہ نعوذ باللہ عرش الہی آسمان سے قریب ہے اور زمین سے دور ہے.( فرمایا ) لعنتی ہے وہ شخص جو ایسا اعتقا در کھتا ہے ( کہ ایسا عرش ہے جو آسمان سے بھی قریب ہے اور زمین سے بھی قریب ہے.فرمایا کہ عرش مقام تنزیہیہ ہے.(یعنی ہر ایک سے پاک چیز ہے ) اور اسی لئے خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے.جیسا کہ فرماتا ہے هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُم (الحدید : 5 ) ) کہ تم جہاں بھی جاؤ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے ) اور ( پھر فرماتا ہے ) مَا يَكُونُ مِنْ نَّجْوَى ثَلَثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمُ (المجادلہ: 8 ) ( کوئی تین آدمی علیحدہ مشورہ کرنے والے نہیں ہوتے جبکہ ان میں وہ چوتھا ہوتا ہے.) اور (پھر) فرماتا ہے کہ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق: 17) اور ہم اس سے یعنی انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں.رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں.) ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 491 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
301 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے جس کا بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس اقتباس میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ باوجود دُور ہونے کے انسان کے ہر وقت ساتھ ہے باوجود عرش پر بیٹھنے کے انتہائی قریب ہے.کوئی جگہ نہیں جہاں خدا موجود نہ ہو.بلکہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو انسان کے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور جو اس کے مقرب ہیں ان میں اس کی صفات زیادہ روشن نظر آتی ہیں اور ان میں ترقی ہوتی رہتی ہے.وہ ان کو اپنی قربت کا احساس دلاتا رہتا ہے.اپنی قربت کا پتہ دیتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں ہر دشمنوں سے بھی بچاتا ہے اور ان کے درجات بھی بلند فرماتا ہے.لیکن اس کے باوجود جیسا کہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا عرش بہت بلند ہے جس تک کسی انسان کی پہنچ نہیں.اس مضمون کو ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الرعد: 3) - تمہارا خداوه خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا.اس آیت کے ظاہری معنی کی رو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء لوری ہونے کی ایک حالت ہے جو اس کی صفت ہے پس جبکہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور ظلمی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارے کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لئے ایک تشبیہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہ سے پاک ہے اس لئے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تنزہ کا ذکر کر دیا، یعنی کہ بہت بلندی اور ہر عیب سے پاک ہونے کا ذکر کر دیا.خلاصہ یہ فرمایا ” خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں بلکہ سب سے الگ اور وراء الورای مقام پر ہے.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 277 ) وہ مخلوق کی طرح نہیں ہے وہ باوجود اس کے کہ اس نے صفات بھی دی ہے.پیدا بھی کیا انسان کو بہت اپنی صفات سے رنگین کیا بلکہ حکم دیا کہ اللہ کی صفات کا رنگ اختیار کرو.لیکن اس کے باوجود وہ بہت بلند مقام پر ہے.بلند شان والا ہے.پس یہ ہے ہمارا خدا جو تمام صفات کا حامل ہے، رفیع الدرجات ہے.عرش کا مالک ہے اور اس کے اس مقام کے باوجود اس کے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے فرماتا ہے میں شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور با وجود شہ رگ سے زیادہ قریب ہونے کے انسان کی نظر اس تک نہیں پہنچ سکتی.بلکہ وہ خود اپنا جلوہ دکھاتا ہے اپنے مقربین کو.جیسا وہ فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارُ (انعام: 104 ) یعنی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں
302 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 اور وہ انسان کی نظر تک پہنچتا ہے.انسان نہ ہی اپنے علم کے زور سے اور نہ ہی اپنے رتبے اور مقام کی وجہ سے اس کو دیکھ سکتا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ خود اپنا اظہار فرماتا ہے.پس خدا وہ ہے جو پردہ غیب میں ہے اور کبھی بھی کسی رنگ میں بھی اس کے مادی وجود کا تصور قائم نہیں ہو سکتا.جبکہ عیسائیوں نے اپنے غلط عقیدے کی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کو جو خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے خدائی کا مقام دے دیا.خدا تعالیٰ کا مقام تو بہت بلند اور ہر عیب سے پاک ہے.اس کو کسی کی حاجت نہیں جبکہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ اور ان کی والدہ کھانا کھایا کرتے تھے.جہاں اس بات سے ان دونوں کے فوت ہونے کا پتہ چلتا ہے، وفات کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس کو کھانے کی حاجت ہو، اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے وہ خدا کس طرح ہو سکتا ہے.دوسروں کی حاجات کس طرح پوری کر سکتا ہے اور اس طرح بے شمار با تیں ہیں اور دلیلیں ہیں جو ان کو ایک انسان ثابت کرتی ہیں.احمدیوں کے علاوہ یعنی احمدیوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعدا د لاعلمی کی وجہ سے یا اپنے علماء کے پیچھے چل کر جن کو قرآن کریم کا صحیح فہم و ادراک نہیں قرآن کریم میں حضرت عیسی کے بارے میں جو الفاظ آئے ہیں رَافِعُكَ إِلَيَّ ( آل عمران : 56) يَارَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ( النساء: 159) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف ان کا رفع کر لیا.اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ گویا حضرت عیسی اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے یا خدا تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا اسی جسم کے ساتھ اور کسی وقت پھر دنیا کی اصلاح کے لئے اتریں گے وہ.پہلے چودھویں صدی میں آنا تھا.اب وہ گزرگئی تو قیامت کے قریب آنے کا کہا جاتا ہے یا اور بہت ساری کہانیاں بیان کی جاتی ہیں.تو بہر حال مسلمان نہیں جانتے کہ غیر ارادی طور پر اس غلط استنباط سے وہ عیسائیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں.کیونکہ اس بات کو لے کر عیسائی جو ہیں وہ حضرت عیسی کی فوقیت آنحضرت ﷺ پر ثابت کرتے ہیں.گو کہ اب بعض علماء اور بعض پڑھا لکھا طبقہ جو ہے بعض ملکوں میں، مسلمان ملکوں میں اس غلط مطلب کی اصلاح کرتے ہوئے یہ مانتے ہیں کہ ان آیات میں جو نئے الفاظ استعمال ہوئے ہیں سے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے.گزشتہ دنوں ایران کے صدر صاحب نے بھی ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے عیسائیوں کو مخاطب کر کے جو بیان تھا اس سے یہی لگتا تھا کہ ان کے ذہن میں یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے ہیں.یا کم از کم وہ یہ سمجھتے ہیں.اس بیان میں انہوں نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی برائی نہیں بیان کی تھی بلکہ ان کی تعلیم کے حوالے سے عیسائیوں کو نصیحت کی تھی.قطع نظر اس کے کہ یہ صدر صاحب خود کس حد تک راہ ہدایت پر قائم ہیں ، ہمیں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے فوت ہونے کا تصور ہے جو ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے.اسی طرح ترکی میں ہمارے جو مبلغ ہیں جلال شمس صاحب، یہیں رہتے ہیں انہوں نے بتایا خر کی میں جو قرآن کریم کے نئے تراجم شائع ہورہے ہیں ان میں سے کئی قرآن کریم کے تراجم میں اب انہوں نے ان آیات کا ترجمہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 303 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 حضرت عیسی کی وفات بیان کیا ہے.لیکن ابھی بھی اُمت مسلمہ میں رَفَعَ اِلَی کے جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر جانے سے تعبیر کیا جاتا ہے.گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا تھا.یعنی مغربی ممالک سے کہ ایک زیر تبلیغ دوست ہیں وہ کہتے ہیں باقی تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن رفع کے مسئلے پر ابھی تسلی نہیں ہوئی یہ جو تم لوگ دلیلیں دیتے ہو مجھے سمجھ نہیں آتیں.برصغیر اور اکثر مسلمان ممالک جو ہیں ان کا ایک بہت بڑا طبقہ جس کو مذہب سے دلچسپی ہے بشمول بعض عرب ممالک کے وہ مسلمان جو عربی بھی جانتے ہیں، عربی کے الفاظ کا فہم بھی زیادہ ہے.ان میں سے بہت سی اکثریت یہی کہتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام زندہ آسمان پر موجود ہیں.کچھ عرصہ ہوا پاکستان سے ہمارے ایک دوست یہاں آئے تھے ، غیر از جماعت.اکثر مختلف غیر از جماعت دوست ملنے آتے رہتے ہیں جن کے کچھ تعلقات ہیں، تعلق ہے یا کسی ذریعہ سے رابطہ ہوتا ہے.تو انہوں نے یہ کہا کہ قرآن کریم سے حضرت عیسی کی وفات ثابت نہیں ہوتی.تو بہر حال جب میں نے ان کو آیات کا حوالہ دیا تو پھر وقت بھی تھوڑا تھا.یہ کہ کر اٹھ کر چلے گئے کہ انشاء اللہ پھر آؤں گا تو بات کریں گے.لیکن بہر حال کئی ماہ گزر چکے ہیں ابھی تک تو وہ نہیں آئے.تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لوگوں میں، مسلمانوں میں علماء نے یا غلط مفسرین نے اتنا زیادہ گھوٹ کر یہ پلا دیا ہے اور دلوں میں ڈال دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے بعد زیادہ شدت سے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام آسمان پر زندہ ہیں اور انہی کی بعثت ثانی ان کے اپنے وجود میں ہونی ہے.لیکن جو سعید فطرت ہیں وہ کسی مذہب کے بھی ہوں اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی فرماتا ہے.چند دن ہوئے ایک انگریز عیسائی دوست جو پی.ایچ.ڈی کر رہے ہیں یا کر لی ہے، سائنس کے مضمون کے سٹوڈنٹ ہیں ، وہ ملنے آئے تھے.احمدیت سے بہت قریب ہیں، دلچسپی ہے ان کو احمدیت میں.انہوں نے یہ بتایا کہ وہ حضرت عیسی کے خدا ہونے اور کفارہ والے جو نظریات ہیں ان کو نہیں مانتے اور اسی وجہ سے وہ اسلام کے قریب ہوئے ہیں.تو عیسائی جو نیک فطرت ہیں.وہ تو اس نظریہ کو، اپنے نظریہ کو غلط کرتے ہوئے اسلام کے قریب ہورہے ہیں اور جن لوگوں کو اسلام کا دفاع کرنا چاہئے وہ مخالفین کے دلائل کو مضبوط کر رہے ہیں.تو اسی طرح جو بے شمار عیسائی ہیں اسلام میں احمدیت کے ذریعہ داخل ہوتے ہیں وہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک انسان اور ایک نبی مانتے ہیں.جو اپنے وقت میں آیا اور اپنی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوا.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا مسلمان اپنے اس عقیدہ کی بنیا د قرآن کریم کی آیات پر رکھتے ہیں.یہ دو آیات میں پیش کرتا ہوں.لیکن اس کے بعد پھر ان کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے اس میں سے کچھ تھوڑ اسا حصہ بیان کروں گا.
304 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِذْ قَالَ اللهُ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (آل عمران : 56 ) اس کا ترجمہ ہے کہ جب اللہ نے کہا اے عیسی یقینا میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست کرنے والا ہوں.فوقیت دینے والا ہوں.پھر میری طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے.اس کے بعد میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے.یہ آل عمران کی آیت ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا وَ قَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ | وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ.وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء : 158-159) اور ان کے قول کے سبب سے کہ یقیناً مسیح عیسی بن مریم کو جواللہ کا رسول تھا قتل کر دیا ہے اور یقیناً اسے قتل نہیں کر سکے اور نہ اسے صلیب دے کر مار سکے بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا اور یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے اس کے متعلق شک میں مبتلا ہیں.ان کے پاس اس کا کوئی علم نہیں، سوائے ظن کی پیروی کرنے کے اور وہ یقینی طور پر اسے قتل نہ کر سکے بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کر لیا اور یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہرا کر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں.( یعنی خدا تعالیٰ نے یہ کام کرنے والا ٹھہرایا ہے اور وہ کام کیا گئے ہیں.وہ کون سے فعل تھے ؟ ) فرماتا ہے ”اے عیسی ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں (پہلی بات یہ کہ میں وفات دینے والا ہوں، دوسری بات ) اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ، ( تیسرے ) اور کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور ( چوتھی بات ) تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دینے والا ہوں.(یہ بھی بعد میں کسی وقت وضاحت کروں گا.بعضوں کے ذہنوں میں اس کا بھی سوال اٹھتا ہے اور ظاہر ہے ).فرماتے ہیں کہ: اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں.( جو ایک ترتیب ان کی ہونی چاہئے تھی اسی طرح بیان ہوئے ہیں ).” کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف بلایا جاوے اور ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ کی خبر اس کو پہنچ جائے پہلے اس کا وفات پایا جانا ضروری ہے پھر بموجب آیت کریمہ ارجعی إلى ربك اور حدیث صحیح کہ اس کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور وفات کے بعد مومن کی روح کا خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد ہفتم 305 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 کی طرف رفع لازمی ہے ( خدا تعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے) جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں.(ان کی تصدیق کرتی ہیں بہت ساری).ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 606) یہ پہلے میں بیان کر دوں یہ جو حضرت مسیح موعود نے مثال بیان فرمائی قرآن کریم کی ایک اور آیت ارْجِعِتی اِلى رَبِّكِ کی یہ پوری آیت اس طرح سے ہے کہ اِرْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ ( الفجر : 29) اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس سے راضی رہتے ہوئے اپنے رب کی طرف لوٹ آ.اس سے راضی رہتے ہوئے اور اس کی رضا پاتے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دوسری جگہ اس کا مطلب بیان فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مسیح کو موت دے کر پھر اپنی طرف اٹھا لیا.جیسا کہ عام محاورہ ہے کہ نیک بندوں کی نسبت جب وہ مر جاتے ہیں یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے.جیسا کہ آیت ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے.خدا تعالیٰ تو ہر جگہ موجود اور حاضر ناظر ہے اور جسم اور جسمانی نہیں اور کوئی جہت نہیں رکھتا پھر کیونکر کہا جائے کہ جوشخص خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا ضرور اس کا جسم آسمان میں پہنچ گیا ہوگا.یہ بات کس قد رصداقت سے بعید ہے؟ راست باز لوگ روح اور روحانیت کی رو سے خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے جا سکتے ہیں نہ یہ کہ ان کا گوشت اور پوست اور ان کی ہڈیاں خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتی ہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 247-246) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمیں علم کلام دیا ہے اسے مختلف ذریعوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے.قرآن کریم کی آیات کی جو تفسیر فرمائی ہے وہ ایسی ہے کہ جب تک پاک دل ہو کر اس کو سمجھا نہ جائے غیروں کو سمجھ آ ہی نہیں سکتی.بہر حال جس نے سمجھنا نہ ہو اور جس کو اللہ تعالیٰ بصیرت نہ عطا فرمائے اس کو وہ بہر حال سمجھ نہیں آئے گی.جیسا کہ اس نے لکھا ہے سمجھ نہیں آ رہی مجھے.اسی اقتباس کو جو پڑھ رہا تھا جاری رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر فرماتے ہیں کہ پھر بعد اس کے جو خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو فرمایا جو میں تجھے کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہود چاہتے تھے کہ حضرت عیسی کو مصلوب کر کے اُس الزام کے نیچے داخل کریں جو توریت باب استثناء میں لکھا ہے جو مصلوب لعنتی اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے بے نصیب ہے جو عزت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا نہیں جاتا.سوخدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو اس آیت میں بشارت دی کہ تو اپنی موت طبعی سے فوت ہوگا اور پھر عزت کے ساتھ میری طرف اٹھایا جائے گا اور جو تیرے مصلوب کرنے کے لئے ( تجھے صلیب دینے کے لئے ) تیرے دشمن کوشش کر رہے ہیں ان کوششوں میں وہ
306 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 ناکام رہیں گے.اور جن الزاموں کے قائم کرنے کے لئے وہ فکر میں ہیں ان تمام الزاموں سے میں تجھے پاک اور منز ارکھوں گا.یعنی مصلوبیت اور اس کے بدنتائج سے صلیب دینے کا یہودیوں کا جو نظر یہ تھا اس کے بدنتائج سے ) جو لعنتی ہونا اور نبوت سے محروم ہونا اور رفع سے بے نصیب ہونا ہے ( یعنی اپنے درجات بلند ہونا اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے اور اس جگہ توفی کے لفظ میں بھی مصلوبیت سے بچانے کے لئے ایک بار یک اشارہ ہے کیونکہ توفی کے معنے پر غالب یہی بات ہے کہ موت طبعی سے وفات دی جائے.یعنی ایسی موت سے جو محض بیماری کی وجہ سے ہو نہ کسی ضرب سقطہ سے.اسی وجہ سے مفسرین صاحب کشوف وغیرہ انِي مُتَوَفِّيكَ کی یہ تفسیر لکھتے ہیں کہ اِنِّي مُمِيتُكَ حَتْفَ أَنْفِكَ کسی چوٹ سے یا گرنے سے یا کسی وجہ سے جو وفات ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ وفات اس کے توفی کا لفظ نہیں آتا.بلکہ جو وفات طبعی موت سے وفات دی ہو وہی موت ہے جہاں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.فرمایا ہاں یہ اشارہ آیت کے تیسرے فقرہ میں کہ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ہے اور بھی زیادہ ہے.غرض فقرہ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا جیسا کہ تیرے مرتبہ پر بیان کیا گیا ہے ایسا ہی ترتیب طبعی کے لحاظ سے بھی تیسری مرتبہ پر ہے.( یعنی میں تجھے پاک کروں گا.بچاؤں گا ان لوگوں سے )." کیونکہ جب کہ حضرت عیسی کا موت طبعی کے بعد نبیوں اور مقدسوں کے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہو گیا تو بلاشبہ وہ کفار کے منصوبوں اور الزاموں سے بچائے گئے اور چوتھا فقرہ وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ جیسا کہ ترتیا چوتھی جگہ قرآن کریم میں واقع ہے ایسا ہی طبعاً بھی چوتھی جگہ ہے کیونکہ حضرت عیسی کے متبعین کا غلبہ ان سب امور کے بعد ہوا ہے سو یہ چار فقرے آیت موصوفہ بالا میں ترتیب طبعی سے واقع ہیں.( یہ قدرتی ترتیب ہے اور یہی قرآن کریم کی شان بلاغت سے مناسب حال ہے.کیونکہ امور قابل بیان کا ترتیب طبعی سے بیان کرنا کمال بلاغت میں داخل ہے اور عین حکمت ہے“.( قرآن کریم کی یہی شان ہے اور یہی اس کی بلاغت ہے اور یہی اس کا حکیم ہوتا ہے یہ حکمت کی باتیں کرنا ہے کہ اس میں ترتیب پائی جاتی ہے ہر چیز میں ).اسی وجہ سے ترتیب طبعی کا التزام تمام قرآن کریم میں پایا جاتا ہے.سورۃ فاتحہ میں ہی دیکھو کہ کیونکر پہلے ربّ العالمین کا ذکر کیا پھر رحمن ، پھر رحیم پھر مالِكِ يَوْمِ الدِّين اور کیونکر فیض کے سلسلے کو ترتیب وار عام فیض سے لے کر اخص فیض تک پہنچایا.( ایک عام فیض ہے جو ہر ایک کے لئے ہے اور ایک خاص فیض ہے جو خاص لوگوں کے لئے ہے).فرمایا " غرض موافق عام طریق کامل البلاغه قرآن کریم کی آیت موصوفہ بالا میں ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں.( قرآن کریم جو ہے جو ایسی کامل کتاب ہے ، فصاحت و بلاغت کا منبع ہے وہ اس کا جو عام طریق ہے اس کے مطابق ہی یہ ترتیب بھی بیان ہوئی ہے).فرمایا کہ آیت موصوفہ بالا میں ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں لیکن حال کے متعصب ملا جن کو یہودیوں کی طرز پر يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِه ( یعنی الفاظ کو اپنی جگہ سے ادل بدل دیتے ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) کی عادت ہے اور جو سیح ابن مریم کی حیات ثابت کرنے کے لئے بے طرح ہاتھ پیر مار
307 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 رہے ہیں اور کلام الہی کی تحریف و تبدیل پر کمر باندھ لی ہے وہ نہایت تکلف سے خدائے تعالیٰ کی ان چار تر تیب وار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیب طبیعی سے منکر ہو کر بیٹھے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ اگر چہ فقرہ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اور فقره وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ بترتيب طبعی واقعہ ہیں لیکن فقر وإِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور فقرِهِ رَافِعُكَ إِلَيَّ ترتیب طبیعی پر واقعہ نہیں“.( پہلے دو فقرے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمُطَهَرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اور پھر فرمایا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْق جو آخر میں فرمایا.یہ تو فقرے کہتے ہیں ترتیب کے لحاظ سے ٹھیک ہیں.لیکن مُتَوَفِّيكَ اور رَافِعُكَ إِلَيَّ یہ تو ترتیب صحیح نہیں ہے.بلکہ در اصل فقر وإِنِّي مُتَوَفِّيكَ موخر اور فقره رَافِعُكَ إِلَيَّ مقدم ہے.یعنی متوفیک بعد میں آنا چاہئے تھا یا ہے ان کے خیال میں اور رَافِعُكَ إِلَيَّ وہ پہلے ہونا چاہئے تھا اور ہے).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ افسوس کہ ان لوگوں نے باوجود اس کے کہ کلام بلاغت نظام حضرت ذات اَحْسَنُ الْمُتَكَلِّمِين جل شانہ کو اپنی اصل وضع اور صورت اور ترتیب سے بدلا کر ( یعنی یہ جو کلام ہے بلاغت بلیغ کلام جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو سب کلام کرنے والوں سے زیادہ خوبصورت کلام کرتا ہے اور جو بڑی شان والا ہے.اس کے بارہ میں فرماتے ہیں ) کہ اس کو اپنی اصل وضع اور صورت اور ترتیب سے بدلا کر مسخ کر دیا.ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو تو مسخ کر دیا) اور چار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیب طبعی کو مسلم رکھا اور دو فقروں کو دائرہ بلاغت اور فصاحت سے ( خارج کر دیا.دو کے بارہ میں تو کہہ دیا کہ بڑی ٹھیک ٹھاک ہے ترتیب ان کی.اور جہاں چونکہ اپنی دلیل نہیں بنتی تھی اس لئے ان کی ترتیب بدل دی.) خارج سمجھ کر اپنی طرف سے ان کی اصلاح کی.یعنی مقدم کو موخر کیا اور موخر کو مقدم کیا.( جو پہلے تھا اس کو بعد میں کر دیا اور جو بعد میں تھا اس کو پہلے کر دیا ) د مگر با وجود اس قدر یہودیانہ تحریف کے پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اگر فرض کیا جائے کہ فقرہ اِنِّی رَافِعُكَ إِلَيَّ فقر واني مُتَوَقِيكَ پر مقدم سمجھنا چاہئے.تو پھر بھی اس سے محرفین کا مطلب نہیں نکلتا.کیونکہ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گا کہ اے عیسی میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور وفات دینے والا ہوں اور یہ معنی سرا سر غلط ہیں.کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت عیسی کی آسمان پر ہی وفات ہو.وجہ یہ ہے کہ جب رفع کے بعد وفات دینے کا ذکر ہے اور نزول کا درمیان میں کہیں ذکر نہیں.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آسمان پر ہی حضرت عیسی وفات پائیں گے ہاں اگر ایک تیسرا فقرہ اپنی طرف سے گھڑا جائے اور ان دونوں فقروں کے بیچ میں رکھا جائے اور یوں کہا جائے کہ يَا عِیسَی إِنِّي رَافِعُكَ وَمُنَزِّلُكَ وَمُتَوَفِّيكَ تو پھر معنی درست ہو جائیں گے.مگر ان تمام تحریفات کے بعد فقرات مذکورہ بالا خدائے تعالیٰ کا کلام نہیں رہیں گے بلکہ باعث دخل انسان ( جو انسان نے اس میں دخل دیا ہے اس کی وجہ سے ) اور صریح تغیر و تبدیل و تحریف کے اسی محرف کا کلام متصور ہوں گے جس نے بے حیائی اور شوخی کی راہ سے ایسی تحریف کی ہے اور کچھ شبہ نہیں کہ ایسی کارروائی سراسر الحاد اور صریح بے ایمانی میں داخل ہوگی“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 609-606)
308 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر آپ ابن عباس کی تفسیر کو سامنے رکھ کر دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تفسیر معالم کے صفحہ 162 میں زیر تغییر آیت يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ لکھا ہے کہ علی بن طلحہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ انسی مُمتیک یعنی میں تجھ کو مارنے والا ہوں.اس پر دوسرے اقوال اللہ تعالیٰ کے دلالت کرتے ہیں.( یعنی یہ جو بات ہے اس کی تشریح اللہ تعالیٰ کے اپنے جو قبول ہیں قرآن میں بیان ہوئے وہ ان پر دلیل ہیں ) جیسا کہ فرما یاقُلْ يَتَوَفَّكُمُ مَلَكُ الْمَوْتِ (السجد 120 ) ( یعنی تو کہہ دے کہ موت کا جو فرشتہ تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہیں وفات دے گا.) اور پھر فرمایا الَّذِينَ تَتَوَفَهُمُ الْمَلَئِكَةُ طَيِّبِينَ (انحل: 33) یعنی ( وہ لوگ جن کو فرشتے اس حالت میں وفات دیتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں.اور پھر فرمایا الَّذِينَ تَتَوَفَّهُمُ الْمَلِئِكَةُ ظَالِمِي أنفُسِهِمْ (النحل: 29 ) ( جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.غرض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں اور ناظرین پر واضح ہو گا کہ حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں.آپ فرماتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہ ناظرین پر واضح ہوگا کہ حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارہ میں ان کے حق میں آنحضرت اللہ کی ایک دعا بھی ہے (ان کی تفسیر قرآن کے بارے میں.) (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225-224) یہ صرف تین آیات نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ تَوَفّی کا لفظ آیا ہے ان تمام مقامات پر توفی کے معنی موت ہی لئے گئے ہیں.پھر ایک جگہ آپ بڑے زور دار الفاظ میں حضرت عیسی کی وفات کا قرآن شریف سے ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عیسی حقیقت میں موت کے بعد پھر جسم کے ساتھ اٹھائے گئے تھے تو قرآن شریف میں عبارت یوں ہونی چاہئے تھی کہ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَقِيكَ ثُمَّ مُحْيِيكَ ثُمَّ رَافِعُكَ مَع جَسَدِكَ إِلَى السَّمَاءِ یعنی اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا پھر زندہ کروں گا، پھر تجھے تیرے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھا لوں گا.لیکن اب بجز مجر در افعال کے جو مُتَوَفِّيكَ کے بعد ہے کوئی دوسرا لفظ رَافِعُكَ کا تمام قرآن مجید میں نظر نہیں آتا.جو ثُمَّ مُحْيِيكَ کے بعد ہو.اگر کسی جگہ ہے تو وہ دکھلانا چاہئے.فرمایا میں بدعوئی کہتا ہوں کہ اس ثبوت کے بعد کہ حضرت عیسی فی الحقیقت فوت ہو گئے تھے یقینی طور پر یہی مانا پڑے گا کہ جہاں جہاں رافِعُكَ يَابَلُ رَفَعَهُ الله الیہ ہے اس سے مراد ان کی روح کا اٹھایا جانا ہے.جو ہر یک مومن کے لئے ضروری ہے.ضروری کو چھوڑ کر غیر ضروری کا خیال دل میں لانا سراسر جہل ہے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 235)
خطبات مسرور جلد هفتم 309 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسا کہ میں نے کہا فرمایا کہ قرآن کریم اول سے آخر تک اسی بات سے بھرا پڑا ہے.تمیس (23) آیات درج فرمائی ہیں.جہاں تو فی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں وفات ہی مراد لی گئی ہے.پھر ازالہ اوہام میں ہی ایک جگہ آپ نے 30 آیات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے ہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 438-423) غرض کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک وسیع لٹریچر چھوڑا ہے جس میں قرآن و حدیث سے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ثابت کی ہے.سو یہ مسلمانوں کے لئے بڑے کھلے کھلے اور واضح ثبوت ہیں.دلیل کے ساتھ.اور عیسائیوں کے لئے ان کی کتاب سے حضرت عیسی کا انسان ثابت کر کے اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ ہونے کی حیثیت سے ان کے رفع روحانی کو ثابت کیا ہے، نہ کہ خدایا خدا کا بیٹا ہونا.جس نے عیسائیت کو شرک میں مبتلا کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے کہ حضرت عیسی کے زندہ آسمان پر ہونے اور کسی وقت نازل ہونے کا ان کا جو باطل اور جھوٹا نظریہ ہے اس سے توبہ کر کے ، مسیح محمدی جو عین اپنے وقت پر مبعوث ہوا اس کی پیروی کریں اور آنحضرت ﷺ کی بات کو پورا کرتے ہوئے اس تک آپ کا سلام پہنچائیں اور اس کی وجہ سے پھر وہ اپنی دنیا و عاقبت سنوار نے والے بنیں گے.احمدی بھی یا درکھیں کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب ہی ہیں جو حق و باطل کے معر کے میں دلائل و براہین سے دشمن کا منہ بند کرنے والی ہیں.یہ اقتباسات جو میں نے پڑھے ہیں اس معاملے میں چند ایک ہیں.بے شمار ہیں، کئی گھنٹے لگ جائیں گے اگر ان کو پڑھنا شروع کیا جائے تو.اس میں حضرت عیسی کی وفات اور روحانی رفع کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے علاوہ اور مضامین کے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ہوتا ہے.یہاں جو اٹھان اٹھی ہوئی ہے اس ماحول میں زیادہ رچ بس گئے ہیں کہ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب بہت مشکل ہیں اس لئے اس کی بجائے اپنے طور پر اپنے لوگوں کے لئے جو یہاں پڑھے لکھے لوگ ہیں ان کے لئے لٹریچر بنانا چاہئے.بے شک اپنا لٹریچر پیدا کرنا چاہئے لیکن اس کی بنیاد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب واقوال پر ہی ہو گی اور کلام پر ہی ہو گی.لیکن یہ کہنا کہ یہ مشکل ہے اس لئے براہ راست یہاں ان ملکوں کے لوگ جو ہیں یا بچے جو ہیں یا نوجوان جو ہیں وہ لٹریچر یا کتب پڑھ نہیں سکتے یہ صرف پاکستان یا ہندوستان کے لئے کتب لکھی گئی تھیں.یہ غلط سوچ ہے.نوجوانوں اور بچوں کو بھی اس کے پڑھنے کی ترغیب دی جانی چاہیئے اور یہ بڑوں کا کام
خطبات مسرور جلد هفتم 310 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 2009 ہے کہ دیں.اور اسی طرح ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظاموں کا بھی کام ہے کہ اس طرف توجہ دلائیں یہ بات غلط ہے کہ کیونکہ یہ مشکل ہے اس لئے ہم نہ پڑھیں.آہستہ آہستہ پھر بالکل دور ہٹتے چلے جائیں گے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں جو عظمت و شوکت ہے وہ ان کا خلاصہ بیان کر کے یا اس میں سے اخذ کر کے نہیں پیدا کی جاسکتی.مختلف عناوین کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو کتب ہیں ان کے اقتباسات انگلش میں بھی ٹرانسلیشن ہو گئے ہیں.Essence of Islam کے نام سے پانچ والیومز (Volumes) میں اور مزید ہو بھی رہے ہیں ان کو انگریزی دان طبقے کو پڑھنا چاہئے.گو کہ جو اصل الفاظ میں اور ترجمہ میں بھی بڑا فرق ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی اصل الفاظ کے قریب ترین رہتا ہے ترجمہ اور جن کتب کے مکمل ترجمے ہو چکے ہیں وہ بھی ہر احمدی گھر میں ہونی چاہئیں وہ کتب اور انشاء اللہ تعالیٰ مجھے امید ہے کہ جلد ہی براہین احمدیہ کا بھی ترجمہ ہو کے آ جائے گا.تو جو انگریزی میں پڑھنے والے ہیں وہ لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو خرید میں اور پڑھیں اور ان سے دلیلیں لیں اور اپنے مخالفین کو دلائل سے قائل کریں اور اُردو پڑھنے والے جتنے ہیں ان کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مکمل کتب کا سیٹ رکھنا چاہئے.اب نئی کتب چھپ رہی ہیں جونئی کمپوز ہو رہی ہیں کمپیوٹر پہ تو انشاء اللہ جلسہ تک کچھ جلدیں آ بھی جائیں گی تو ان کو بھی احمدیوں کو جن کے گھروں میں کتب نہیں ہیں وہ خریدنا چاہئے.میں نے گزشتہ ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ ایک خاتون نے لکھا مجھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کر یا بعض صفات پر آپ کے بیان کردہ جو تفسیریں تھیں ان پر غور کر کے اب مجھے قرآن کریم کی سمجھ آنی شروع ہوئی ہے.تو قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 31-30 مورخہ 24 جولائی تا 6 اگست 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 311 (28) خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2009 ء بمطابق 10 روفا1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے حضرت عیسی کے حوالے سے لفظ رفع اور اس کے معانی کا ذکر کیا تھا اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ان آیات کی تفسیر فرمائی ہے جن میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلق میں رَافِعُكَ إِلَيَّ يَابَلُ رَفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ کا ذکر آتا ہے اس کا خدا تعالیٰ کی قدوسیت کو قائم رکھتے ہوئے حقیقی مطلب کیا ہے؟ اس مضمون کو آگے چلاتے ہوئے میں آج یہ بیان کروں گا کہ کیا حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ بھی قرآن کریم میں کسی نبی کے بارہ میں اس قسم کے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کا ذکر ملتا ہے.جس سے اس نبی کے بارہ میں بھی مع جسد عصری آسمان پر جانے کے واقعہ کو منطبق کیا جاسکتا ہو.اس سلسلہ میں قرآن کریم کی ایک آیت ہے جو حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.یہ سورۃ مریم کی آیات 57-58 ہیں کہ وَاذْكُرُ فِي الْكِتَبِ إِدْرِيسَ.إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا.وَرَفَعُنهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( مریم :57-58) اور اس کتاب میں ادریس کا ذکر بھی کر.یقینا وہ بہت سچا (اور ) نبی تھا اور ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا تھا.اب دیکھیں ان آیات میں حضرت ادریس کو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ مقام دیا گیا ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں تو لکھا ہے کہ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کہ خدا تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا.لیکن حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں لکھا ہے کہ وَرَفَعُنهُ مَكَانًا عَلِيًّا کہ ہم نے اسے ایک بلند مقام پر اٹھا لیا.پس مسلمانوں کو تو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اب جبکہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور امام الزمان نے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ تمام معاملہ جو ہے، آسمان پر جانے کا وہ روز روشن کی طرح کھول دیا ہے کہ تمام انبیاء کا رفع ہوتا ہے اور روحانی ہوتا ہے.اسی طرح حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی رفع ہوا اور وہ روحانی رفع تھا.اور یہ جو قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے رفع کا دو آیات میں ذکر کیا گیا ہے یہ خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا اور اس سیاق و سباق کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگایا تھا کہ جو صلیب پر چڑھتا ہے وہ لعنتی موت مرتا ہے.نعوذ باللہ.اس الزام سے حضرت عیسی علیہ
312 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم الصلوۃ والسلام کو بری کرنے کے لئے قرآن کریم میں یہ فرمایا کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ اللہ تعالیٰ نے قدرتی موت دی اور اس کی طرف رفع ہوا.عیسائیوں کے پاس تو اس کی کوئی دلیل نہیں تھی اور ویسے بھی عیسائیت میں بعد میں بہت کچھ متن میں تحریف ہوئی اور ردوبدل ہوئی اور تثلیث کا نظریہ پیش کیا گیا اور انہوں نے اس چیز کے زیر اثر حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے لعنتی موت مرنے کو صلیب پر مرنے کو، کفارہ کا نام دے دیا اور پھر یہ نظریہ قائم کیا کہ پھر آپ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گئے اور مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ بیٹھ کر آسمان پر خدائی امور سرانجام دے رہے ہیں اور آخری زمانہ میں دنیا میں عدالت لگانے کے لئے آئیں گیاور جو بھی اس وقت تین خداؤں پر یقین نہیں رکھے گا وہ پکڑا جائے گا.بہر حال یہ آج کل کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام آسمان پر خدائی امور کو انجام دینے کے لئے بیٹھے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ مسلمانوں میں بھی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا رفع جسمانی سمجھ کر آخری زمانہ میں ان کے اترنے اور خونی مہدی کے ساتھ مل کر دنیا کو مسلمان کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور یہ نظریہ قائم ہے.اس ضمن میں میں بتا دوں کہ گزشتہ خطبہ میں میں نے ایران کے صدر کا ذکر کیا تھا کہ ان کا بھی یہ نظریہ ہے.وہ ایک اردو اخبار کی خبر تھی جس سے یہ غلط تاثر ملا تھا.گو کہ انہوں نے کہا یہی تھا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام اپنی زندگی میں یہ تعلیم نہیں دیتے رہے لیکن میں نے انگریزی خبر کا جو اصل حوالہ نکالا ہے جس کا اخبار والوں نے اردو میں ترجمہ کیا تھا اس میں آگے جا کے پھر یہی لکھا ہے کہ جب وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور مہدی کے ساتھ مل کر کام کریں گے تو پھر اصلاح ہوگی.بہر حال مسلمانوں کا جو بھی نظریہ ہے وہ انہوں نے پیش کیا ہے.اور مسلمان جو ہیں ان میں سے اکثریت یہی نظریہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام آخری زمانہ میں آئیں گے اور خونی مہدی کے ساتھ مل کر دنیا کو مسلمان بنا ئیں گے اور جو مسلمان نہیں ہوگا اس کو قتل کیا جائے گا.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانہ کے امام اور مسیح الزمان کو مان کر اس ظالمانہ خونی انقلاب کا حصہ بننے سے بچے ہوئے ہیں.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کروں گا.لیکن اس سے پہلے حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت عیسی کے متعلق بائبل کیا کہتی ہے وہ بھی پیش کر دوں تا کہ اس حوالے سے بھی ادریس اور عیسی کا موزانہ ہو جائے.بائبل حضرت عیسی کے بارہ میں تو کہتی ہے کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے.لیکن حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں بھی پیدائش باب 5 آیت 24 میں لکھا ہے کہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ غائب ہو گیا.کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا.یہ بائبل کے الفاظ کا اردو تر جمہ ہے اور انگریزی بائبل میں بھی اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ ہیں کہ ”For God took him“.پس اگر بائبل میں مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بارہ میں لوقا باب 24 آیت 51 میں لکھا ہے.تو ادریس علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں بھی جنہیں بائیل حنوک کہتی ہے ، اوپر اٹھائے جانے کا ذکر ہے.اگر اوپر اٹھایا جانا خدا
313 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بننے کا معیار ہے تو حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس معیار پر پورا اترتے ہیں اور اگر ادریس وہ مقام حاصل نہیں کر سکے تو پھر عیسی کی الوہیت بھی ثابت نہیں ہوتی.جہاں تک قرآن کریم کا سوال ہے تو قرآن کریم کی جو آیت میں نے ابھی پڑھی ہے اس میں حضرت اور لیس علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر ہے اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت زیادہ شاندار رفع کی طرف نشاندہی کرتی ہے.پس بائبل اور قرآن دونوں میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ بھی کسی نبی کے اس طرح اٹھائے جانے کا ذکر ہے اور یہ بات اس چیز کا رڈ کرتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کوئی غیر معمولی ہستی یا شخصیت تھے یا ان کا کوئی غیر معمولی مقام تھا.عیسائی اب نہیں مانتے اور عیسائیت کی تعلیم اتنی تو ڑی مروڑی جا چکی ہے کہ انہوں نے تو نہیں مانالیکن جو مسلمان ہیں ان کو تو اس آیت سے راہنمائی لینی چاہئے.خدا تعالیٰ کا تو یہ وعدہ ہے اور ایک سچا وعدہ ہے اور قیامت تک سچار ہے گا کہ قرآن کریم کی تعلیم میں کبھی بھی تحریف نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت کے سامان فرماتا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے راہنمائی کے لئے اپنے ایک برگزیدہ کو بھیج دیا تو اس وقت پھر کوئی بھی تو جواز نہیں رہتا کہ غلط قسم کی تفسیر میں اور تشریح کی جائے.یہاں میں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ یہودی لٹریچر میں حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام جن کو یہ حنوک کہتے ہیں ان کے بارہ میں کافی تفصیل موجود ہے اور واضح لکھا ہے کہ انہیں دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا لیکن جب دنیا گناہوں سے بھر گئی تو خدا تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا.بہر حال یہ تو یہودیوں کا نظریہ ہے.جہاں تک ہمارا سوال ہے ہم تو انہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا خدا تعالیٰ کا سچا نبی سمجھتے ہیں.جنہیں خدا تعالیٰ نے ایک بلند مقام عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ ہر نبی کو جب اس دنیا میں بھیجتا ہے تو اس دنیا میں بھی بلند مقام عطا فرماتا ہے جو اس کی روحانی بلندی کی طرف نشاندہی کرتا ہے.تا کہ دنیا کی اصلاح کر سکے اور جن لوگوں میں بھیجا گیا ہے ان کی اصلاح کر سکے.اور اگلے جہان میں بھی انبیاء کو ایک ارفع واعلیٰ مقام ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَرَفَعُنهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( یہ سورۃ مریم کی 58 ویں آیت ہے.یعنی ہم نے اس کو یعنی اس نبی کو عالی مرتبہ کی جگہ پر اٹھا لیا.اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ جو لوگ بعد موت خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ان کے لئے کئی مراتب ہوتے ہیں.سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس نبی کو بعد اٹھانے کے یعنی وفات دینے کے اُس جگہ عالی مرتبہ دیا.نواب صدیق حسن خان اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھتے ہیں کہ اس جگہ رفع سے مرا در فع روحانی ہے جو موت کے بعد ہوتا ہے.ورنہ یہ محذور لازم آتا ہے کہ وہ نبی مرنے کے لئے زمین پر آوے“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 385.حاشیہ )
314 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” افسوس ان لوگوں کو آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ الی میں یہ معنی بھول جاتے ہیں.حالانکہ اس آیت میں پہلے مُتَوَفِّيكَ کا لفظ موجود ہے اور بعد اس کے رَافِعُكَ.پس جبکہ صرف لفظ رافِعُكَ میں معنی موت لئے جا سکتے ہیں تو مُتَوَفِّيكَ اور رَافِعُكَ کے معنی کیوں موت نہیں ہیں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 385 حاشیہ) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسده العنصری آسمان پر نہیں گئے.بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں.بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحی" اور حضرت آدم اور حضرت ادریس اور حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف" وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں ؟ اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیونکر معراج کی رات میں آنحضرت علیہ نے ان سب کو آسمانوں میں دیکھا.اور اگر اٹھائے گئے تھے تو پھر نا حق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اور طور پر معنے کئے جاتے ہیں.تعجب کہ توفی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جابجا ان کے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے.کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جا ملے جوان سے پہلے اٹھائے گئے تھے.اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو میں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیونکر پہنچ گئے.آخر اٹھائے گئے تبھی تو آسمان میں پہنچے.کیا تم قرآن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَرَفَعُنهُ مَكَانًا عَلِيًّا.کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو سیح کے بارہ میں آیا ہے؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنی نہیں ہیں؟ فَاتَّی تُصْرَفُونَ (یونس: 33) “.(ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 438) پس یہ نہ صرف عقلی دلائل ہیں بلکہ قرآن کے صحیح فہم وادراک سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ثابت فرمائے ہیں.ایک صاحب جو اپنے آپ کو بڑا عالم دین کہتے ہیں ان کا پہلے بھی میں ایم ٹی اے کے حوالہ سے ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں جو یہ مانے کو تیار نہیں کہ رفع جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے.ہمارے ایک احمدی نوجوان جو اُن سے انٹرویو لینے گئے تھے ان سے انہوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ میں تمہارے علماء سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں اور مرزا صاحب کی کتابیں بھی میں نے بہت پڑھی ہیں.اور خلاصہ یہ تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی تحریریں مجھے اس بارہ میں قائل نہیں کر سکیں.ہدایت دینا تو خدا تعالیٰ کا کام ہے.ابوجہل اور بہت سے سرداران مکہ جو تھے اگر وہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں نور نہیں دیکھ سکے یا قرآن کریم کی تعلیم کو ایک شاعرانہ کلام کہتے رہے تو وہ ان کی عقل کا قصور ہے.ان کی بد قسمتی تھی.آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی شان میں تو اس سے کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ جن کو
خطبات مسرور جلد هفتم 315 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 اللہ تعالیٰ نے نور فراست عطا فرمایا ، جن کی فطرت سعید تھی ، انہوں نے قبول کیا.پس اگر آپ کے غلام کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو یہ بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: قرآن شریف میں ہر ایک جگہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے.بعض نادان کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے کہ وَرَفَعُنهُ مَكَانًا عَلِيًّا“.ایک تو مثال دی تھی نواب صدیق حسن خان کی کہ انہوں نے اس کو رفع روحانی قرار دیا.لیکن مسلمانوں میں بھی بعض ایسے لوگ اُس زمانے میں تھے اور اب بھی شاید بعض ہوں جو یہ کہتے ہیں وَرَفَعُنهُ مَكَانًا عَلِيًّا جو ہے اس سے مراد روحانی رفع ہے.فرمایا کہ اس پر خود تراشیدہ قصہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص اور لیس تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے مع جسم آسمان پر اٹھا لیا تھا.اب یہ یہودی نظریہ تو ہے جو میں نے بیان کیا لیکن اگر کسی مسلمان کا یہ نظریہ ہے تو پھر اس کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کس کی پیروی کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں لیکن یادر ہے کہ یہ قصہ بھی حضرت عیسی کے قصے کی طرح ہمارے کم فہم علماء کی غلطی ہے اور اصل حال یہ ہے کہ اس جگہ بھی رفع روحانی ہی مراد ہے.تمام مومنوں اور رسولوں اور نبیوں کا مرنے کے بعد رفع روحانی ہوتا ہے.اور کافر کارفع روحانی نہیں ہوتا.چنانچہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمُ اَبْوَابُ السَّمَاءِ “ (سورۃ اعراف 41 ویں آیت میں ہے یعنی ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے).کا اسی کی طرف اشارہ ہے.اور اگر حضرت اور لیس معہ جسم عنصری آسمان پر گئے ہوتے تو بموجب نص صریح آیت فِيْهَا تَحْيَوْنَ “ ( کہ اس میں جیو گے.یہ قصہ آدم کے بارہ میں بیان ہو رہا ہے.کہ یہیں جیو گے ، یہیں زمین میں مرنا ہو گا.یہ سورۃ اعراف کی آیت 26 ہے.فرمایا کہ ” جیسا کہ حضرت مسیح کا آسمانوں پر سکونت اختیار کر لینا ممتنع تھا.ایسا ہی ان کا بھی آسمان پر ٹھہر نامتنع ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ اس آیت میں قطعی فیصلہ دے چکا ہے کہ کوئی شخص آسمان پر زندگی بسر نہیں کرسکتا.بلکہ تمام انسانوں کے لئے زندہ رہنے کی جگہ زمین ہے.علاوہ اس کے اس آیت کے دوسرے فقرہ میں جو فِيهَا تَمُوتُونَ ہے یعنی زمین پر ہی مرو گے، صاف فرمایا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کی موت زمین پر ہوگی.پس اس سے ہمارے مخالفوں کو یہ عقیدہ رکھنا بھی لازم آیا کہ کسی وقت حضرت ادریس بھی آسمان پر سے نازل ہوں گے.اگر یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت ادریس آسمان پر زندہ ہیں تو پھر ان کو بھی حضرت عیسی کی طرح نیچے اترنا ہو گا.فرمایا کہ حالانکہ دنیا میں یہ کسی کا عقیدہ نہیں ( یعنی یہ عقیدہ نہیں کہ حضرت ادریس دوبارہ اتریں گے ) فرمایا کہ طرفہ یہ کہ زمین پر حضرت ادریس کی قبر بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسی کی قبر موجود ہے“.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 237-238 - حاشیہ)
خطبات مسرور جلد هفتم 316 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 پس خلاصہ یہ کہ اگر حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح حضرت ادریس کے رفع کو رفع جسمانی سمجھتے ہو تو پھر حضرت ادریس کے اترنے کا عقیدہ کیوں نہیں رکھتے ؟ ان کے اترنے کا بھی عقیدہ ہونا چاہئے.پس اگر دلائل سے دیکھا جائے تو کوئی نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام اور دلائل اور براہین کا مقابلہ کر سکے.مسلمانوں پر حیرت ہے کہ ایک طرف تو ختم نبوت کے غلط معنی کرتے ہوئے یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں سے کوئی نبی آسکتا ہے اور باوجود قرآن کریم کی اس خبر کے کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ( الجمعة : 4 ) یعنی اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی مبعوث کرے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے.اس کو پڑھتے ہیں پھر بھی مانتے نہیں اور آنحضرت ﷺ کے الفاظ کہ اِمَامُكُمْ مِنْكُم پر غور نہیں کرتے.اور پھر ساتھ ہی آنحضرت ﷺ سے محبت کا دعوی بھی ہے.یہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیحیت اور مہدویت کا دعویٰ کر کے اور اپنے آپ کو نبی اور رسول کہ کر نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی توہین کی ہے اور ان کے مقام کو گرایا گیا ہے.حالانکہ یہی آنحضرت ﷺ کی عظمت اور شان ہے کہ آپ کی امت میں سے، آپ سے عشق و محبت کی وجہ سے، خدا تعالیٰ ایک شخص مبعوث فرمائے جس کا مقام نبوت کا مقام ہو اور وہ نبوت کا مقام صرف خدا تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے نہ ہو جیسا کہ سابقہ انبیاء کا تھا.ان کو یہ درجہ ملتا رہا اور اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے یہ درجہ ملتا رہا اس تعلق کی وجہ سے، جن میں سے بعض نبی صاحب شریعت تھے اور بعض غیر تشریعی نبی تھے جو اپنے سے پہلے نبیوں کی شریعت پر کار بند تھے اور اُسی تعلیم کو انہوں نے جاری رکھا.بلکہ آنے والے مسیح کا مقام اور رتبہ اور اس کا رفیع الشان ہونا صرف آنحضرت ﷺ کی پیروی کی وجہ سے تھا اور آپ کی اُمت میں سے ہونے کی وجہ سے تھا اور آپ کے ساتھ عشق و محبت کی وجہ سے تھا اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تھا کہ آخرین میں مسیح موعود مبعوث ہوگا.الله پس مسلمانوں کو چاہئے کہ عیسی کو زندہ آسمان پر بیٹھا سمجھنے کی بجائے جو عیسائیوں کا نظریہ ہے آنحضرت مو کی غلامی میں آپ کی اُمت میں سے آنے والے کو ہی مانیں کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے اور آنحضرت ﷺ کی ہیں شان بلند ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یہ کہا کہ عیسی کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 694 حاشیہ) اصل میں مرزا صاحب کو یہ کہنے میں اسلام کے زندہ ہونے سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ اپنے دعوی کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں میں اور عیسائیوں میں بھی رفع کا جو رائج نظریہ ہے اس کے خلاف ہیں اور دوبارہ اترنے کے قائل نہیں بلکہ عیسی کو فوت شدہ سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کو معقل د ہم احمدی تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب سے ارفع و اعلیٰ مقام آنحضرت ﷺ کاہے اور اللہ تعالی کے سب ے.
317 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 سے پیارے نبی آنحضرت ﷺ ہی ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت میں یہ ممکن ہوتا کہ کوئی انسان جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر جا سکتا تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہی تھی اور اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا.آنحضرت ﷺ نے معراج کے واقعہ میں جہاں انبیاء کو دیکھا، ان سب انبیاء کو جن کو ہر ایک فوت شدہ تسلیم کرتا ہے انہی میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی دیکھا اور حضرت ادریس کو بھی دیکھا.اور حضرت عیسی کو جہاں دوسرے آسمان پر دیکھا وہاں وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا کے مطابق ان سے دو درجے او پر ادریس علیہ الصلوۃ والسلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا.اور یہی حدیثوں سے ملتا ہے.اور آپ خود جو تھے وہ سِدْرَةُ الْمُنتَهی تک چلے گئے.کیونکہ آپ کا مقام سب سے بلند تھا.بلکہ معراج کا واقعہ جو بیان کیا جاتا ہے اس میں جب آنحضرت ﷺ کو چھٹے آسمان سے اوپر لے جایا گیا جہاں حضرت موسی ملے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ رَبِّ لَمْ أَظُنَّ ان يُرْفَعَ عَلَيَّ اَحَدٌ.اس کا ترجمہ یہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہے کہ اے میرے خداوند مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ کوئی نبی مجھ سے بھی اوپر اٹھایا جائے گا اور اپنے رفع میں مجھے سے آگے بڑھ جائے گا“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اب دیکھو کہ رفع کا لفظ محض تحقیق درجات کے لئے استعمال کیا گیا ہے“.یعنی درجات کو ثابت کرنے کے لئے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 276) پس یہاں آپ سورۃ بقرہ کی آیت 254 جو ہے اس کا ذکر فرما رہے ہیں جس میں ذکر ہے کہ وَرَفَعَ بَعْضَهُمُ دَرَجت (البقرة:254) یعنی بعض کو بعض دوسروں پر درجات میں بلند کیا ، رفع دیا گیا.فرمایا کہ آیت (اور ) احادیث نبویہ کی رو سے یہ معنی کھلے کہ ہر یک نبی اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصہ لیتا ہے.(ازالہ اوھام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 276) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت اللہ کے مقام اور سب سے افضل ہونے کے بارہ میں جو قرآن کریم میں فرمایا کہ آپ خاتم النبین ہیں.اس کی غلط تشریح کر کے دوسرے مسلمان جہاں آپ ﷺ کے مقام کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں وہاں دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ختم نبوت کا مقام نہیں سمجھتے (نعوذ باللہ ) انہوں نے اس مقام کو اونچا کرنے کے لئے اس کی کیا خوبصورت تشریح فرمائی ہے.اور یہی تشریح اور تفسیر جو ہے وہ ہر احمدی کے ایمان کا حصہ ہے اور اس سے آنحضرت علیہ کی بلند اور ارفع شان کا ایک شان کے ساتھ اظہار بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” پس اس بات کو خوب غور سے یا درکھو کہ جب آنحضرت
خطبات مسرور جلد هفتم 318 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 ہ خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت عیسی کو نبوت کا شرف پہلے سے حاصل ہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پھر آئیں اور اپنی نبوت کھو دیں.پہلی بات تو یہ کہ جب آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام جن کو پہلے نبوت مل چکی تھی اللہ تعالیٰ ان کا پہلا اعزاز چھین کر آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ان کو دوبارہ اس دنیا میں بھیجے اور وہ اپنی پہلی نبوت کو چھوڑ کر آنحضرت ﷺے جن کی مہر کے نیچے کسی اور کو نبوت مل سکتی ہے ، کی نبوت کے آخر میں پھر آئیں.تو فرمایا کہ اگر وہ دوبارہ آئیں گے تو اپنی نبوت کھو دیں گے.جو پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کو اعزاز دیا تھا وہ ضائع ہو جائے گا.کیونکہ اب ان کو بہر حال آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی اور یہ ممکن نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ قانون نہیں ہے.فرمایا کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ کے بعد مستقل نبی کو روکتی ہے.البتہ یہ امر آنحضرت ﷺ کی شان کو بڑھانے والا ہے کہ ایک شخص آپ ہی کی امت سے آپ ہی کے فیض سے وہ درجہ حاصل کرتا ہے جو ایک وقت مستقل نبی کو حاصل ہو سکتا تھا.لیکن اگر وہ خود ہی آئیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پھر اس خاتم الانبیاء والی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے اور خاتم الانبیاء حضرت مسیح ٹھہریں گے اور آنحضرت ﷺ کا آنا بالکل غیر مستقل ٹھہر جاوے گا کیونکہ آپ پہلے بھی آئے اور ایک عرصہ کے بعد آپ رخصت ہو گئے اور حضرت مسیح آپ سے پہلے بھی رہے اور آخر پر بھی وہی رہے.(اگر یہ مانا جائے کہ حضرت عیسی نے آتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے خاتم النبین ہونے کو یہ بات جھلاتی ہے.کیونکہ آنحضرت ﷺ تو آئے، دنیا میں اپنا مشن پورا کیا اور وفات پاگئے.جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام پہلے بھی آئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو جسم کے ساتھ اٹھالیا اور پھر دوبارہ نبوت کے ساتھ بھیجے گا ).غرض اس عقیدے کے ماننے سے کہ خود ہی حضرت مسیح آنے والے ہیں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے جو کفر ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 96 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ رسولکر یم ہی ہے کے الفاظ مقدسہ ایسے صاف تھے کہ خود اس مطلب کی طرف رہبری کرتے تھے کہ ہر گز اس پیشگوئی میں نبی اسرائیلی کا دوبارہ دنیا میں آنا مراد نہیں ہے اور آنحضرت ﷺ نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت کریمہ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب : 41) سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہو چکی ہے.پھر کیونکر ممکن تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کے رو سے آنحضرت مہ کے بعد تشریف لاوے.اس سے تو تمام تار و پودا اسلام درہم برہم
319 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہو جاتا تھا اور یہ کہنا کہ ” حضرت عیسی نبوت سے معطل ہو کر آئے گا“ نہایت بے حیائی اور گستاخی کا کلمہ ہے.کیا خدا تعالیٰ کے مقبول اور مقرب نبی حضرت عیسی جیسے اپنی نبوت سے معطل ہو سکتے ہیں.( یہ اگر کہا جائے کہ وہ نبوت سے معطل ہو کر آئیں گے تو یہ بھی نہایت گستاخی کی بات ہے کیونکہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک رتبہ دیا اور نبوت کا مقام دے کر اور قرآن کریم میں ذکر کر کے اور ہر طرح کے الزامات سے بری کر کے ان کے رفع کے بارہ میں فرمایا اور پھر اللہ تعالیٰ کہہ دے کہ نہیں اب نبوت تمہاری ختم ہوگئی.) فرمایا ” پھر کون سا راہ اور طریق تھا کہ خود حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں آتے.غرض قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کا نام خاتم النبین رکھ کر اور حدیث میں خود آنحضرت ﷺ نے لا نبی بعدی فرما کر اس امر کا فیصلہ کر دیا تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے آنحضرت کو کے بعد نہیں آسکتا اور پھر اس بات کو زیادہ واضح کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ آنے والا مسیح موعود اس اُمت میں سے ہوگا.چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث اِمَامُكُمُ مِنكُمُ اور صحیح مسلم کی حدیث فَامَّكُمُ مِنكُمُ جو عین مقام ذکر مسیح موعود میں ہے صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ وہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا“.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 217-218 - حاشیہ) یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اس زمانے میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ مسیح موعود اسی امت میں سے آئے گا اور یہ بلند مقام اس کو خدا تعالیٰ نے دیا اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اس بلند مقام کے بعد جو آپ کو آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ہونے کی وجہ سے ملا ، آپ سے عشق و محبت کی وجہ سے ملا.آپ کو نبی بھی کہا گیا اور رسول بھی.بعض احمدی بھی ہیں جن کا صحیح مطالعہ نہیں ، یا جماعت کے ساتھ پورے طور پر منسلک نہیں.خطبات اور پروگرام وغیرہ نہیں دیکھتے اور سنتے یا نئے شامل ہونے والے ہیں جن کو تربیت کی کمی ہے یا مداہنت وجہ ہے یا کسی اور وجہ سے پوری طرح حق کا اظہار نہیں کر سکتے.وہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی کہنے پر سوچ میں پڑ جاتے ہیں یا پوری طرح دوسروں کے سامنے اظہار نہیں کرتے.یا یہ کہ اگر نبی مان لیا تو پھر یہ کہہ دیا کہ رسول نہیں ہے.یہ جو چیز ہے اور جو ایسی باتیں ہیں وہ جماعتی تعلیم کے خلاف ہیں حضرت مسیح موعود کے دعوئی کے خلاف ہیں.بعض شکایات مجھے پہنچی ہیں، ان ہی ملکوں میں سے بعض جگہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کر دیتے ہیں.اپنی تبلیغ کرتے ہوئے بھی بعض باتیں کر دیتے ہیں.یا آپس میں جب غیروں کے ساتھ مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو اس طرح کی باتیں ہو جاتی ہیں.تو اس بارہ میں واضح ہو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ آنے والے مسیح و مہدی کو آنحضرت ﷺ کی پیروی میں نبوت کا مقام بھی ملنا تھا اور رسول ہونے کا بھی اور یہ دونوں چیزیں نبی ہونا اور رسول ہونا ایک ہی بات ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک الہام قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي |
320 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 يُحببكُمُ الله کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ مقام ہماری جماعت کے لئے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس میں خداوند قدیر فرماتا ہے کہ خدا کی محبت اسی سے وابستہ ہے کہ تم کامل طور پر پیر و ہو جاؤ اور تم میں ایک ذرہ مخالفت باقی نہ رہے اور اس جگہ جو میری نسبت کلام الہی میں رسول اور نبی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ رسول اور نبی اللہ ہے یہ اطلاق مجاز اور استعارہ کے طور پر ہے کیونکہ جو شخص خدا سے براہ راست وحی پاتا ہے اور یقینی طور پر خدا اس سے مکالمہ کرتا ہے جیسا کہ نبیوں سے کیا، اُس پر رسول یا نبی کا لفظ بولنا غیر موزون نہیں ہے.بلکہ یہ نہایت فصیح استعارہ ہے.اسی وجہ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور انجیل اور دانی ایل اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں بھی جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے.وہاں میری نسبت نبی کا لفظ بولا گیا“.اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 413.حاشیہ ) اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرے اور کہیں بھی ہم کسی قسم کی کمزوری دکھانے والے نہ ہوں.رفع کے معنی کے سلسلہ میں ایک اور بات بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ دَفَعَ صرف انبیاء کے ساتھ ہی مشروط نہیں ہے بلکہ مومنوں کا بھی رفع ہوتا ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” جب کہ ایک مومن سب باتوں پر خدا تعالیٰ کو مقدم کر لیتا ہے تب اس کا خدا کی طرف رفع ہوتا ہے.وہ اسی زندگی میں خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور ایک خاص نور سے منور کیا جاتا ہے.اس رَفَعَ میں وہ شیطان کی زد سے ایسا بلند ہو جاتا ہے کہ پھر شیطان کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچ سکتا.ہر ایک چیز کا خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی ایک نمونہ رکھا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان جب آسمان کی طرف چڑھنے لگتا ہے تو ایک شہاب ثاقب اس کے پیچھے پڑتا ہے.جو اس کو نیچے گرا دیتا ہے.ثاقب روشن ستارے کو کہتے ہیں اس چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو سوراخ کر دیتی ہے اور اس چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو بہت اونچی چلی جاتی ہو.اس میں حالت انسانی کے واسطے ایک مثال بیان کی گئی ہے.جو اپنے اندر ایک نہ صرف ظاہری بلکہ ایک مخفی حقیقت بھی رکھتی ہے.جب ایک انسان کو خدا تعالیٰ پر پکا ایمان حاصل ہو جاتا ہے تو اس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہو جاتا ہے اور اس کو ایک خاص قوت اور طاقت اور روشنی عطا کی جاتی ہے.جس کے ذریعہ سے وہ شیطان کو نیچے گرا دیتا ہے.ثاقب مارنے والے کو بھی کہتے ہیں.ہر ایک مومن کے واسطے لازم ہے کہ وہ اپنے شیطان کو مارنے کی کوشش کرے اور اسے ہلاک کر ڈالے.جولوگ روحانیت کی سائنس سے ناواقف ہیں وہ ایسی باتوں پر جنسی کرتے ہیں مگر دراصل وہ خود ہنسی کے لائق ہیں.ایک قانون قدرت ظاہری ہے.ایسا ہی ایک قانون قدرت باطنی بھی ہے.ظاہری قانون باطنی کے واسطے بطور ایک نشان کے ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اپنی وحی میں فرمایا ہے کہ انتَ مِنِى بِمَنْزِلَةِ النَّجْمِ النَّاقِب یعنی تو مجھ سے بمنزلہ نجم ثاقب ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ میں نے تجھے شیطان کے مارنے کے واسطے پیدا کیا ہے.تیرے ہاتھ سے شیطان ہلاک ہو جائے
321 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 2009 گا.شیطان بلند نہیں جاسکتا.اگر مومن بلندی پر چڑھ جائے تو شیطان پھر اس پر غالب نہیں آسکتا.مومن کو چاہئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ اس کو ایک ایسی طاقت مل جائے جس سے وہ شیطان کو ہلاک کر سکے.جتنے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں ان سب کا دور کرنا شیطان کو ہلاک کرنے پر منحصر ہے.مومن کو چاہئے کہ استقلال سے کام لے.ہمت نہ ہارے.شیطان کو مارنے کے پیچھے پڑا رہے آخر وہ ایک دن کامیاب ہو جائے گا.خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے جو لوگ اس کی راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ آخران کو کامیابی کا مونہ دکھا دیتا ہے.بڑا درجہ انسان کا اسی میں ہے کہ وہ اپنے شیطان کو ہلاک کرئے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 420-421 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں رفع کے حقیقی معنی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور رفع کی صرف علمی بحث میں پڑے رہنے والے نہ ہوں بلکہ اپنے اعمال کی درستی اور خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھانے والے ہوں تا کہ اس تعلق اور قرب کی وجہ سے ہمیشہ شیطان کو ہلاک کرنے والوں میں شامل رہیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 31-30 مورخہ 24 جولائی تا 6 اگست 2009 صفحہ 15 تا صفحه 18
خطبات مسرور جلد ہفتم 322 (29) خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2009 ء بمطابق 17 روفا 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مہمان نوازی ایک ایسا خلق ہے جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں دو جگہ آپ کی مہمان نوازی کا ذکر ہوا ہے اور اس ذکر میں پہلی بات تو یہ کہی گئی کہ جب آنے والے مہمان نے سلام کیا تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی سلام کا جواب دیا.گو اس کے سادہ معنی یہی ہیں کہ آنے والے نے بھی سلامتی بھیجی اور جواب میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی سلامتی بھیجی.لیکن مفردات میں جو لغت کی کتاب ہے اس میں ایک فرق ظاہر کیا گیا ہے.لکھتے ہیں کہ آنے والے نے سلاما کہا لیکن حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب میں سلام کہا اور اس میں رفع یا پیش کا جو استعمال کیا گیا ہے یہ زیادہ بلیغ ہے.گویا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس ادب کو محوظ رکھا جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ وَإِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِاَحْسَنَ مِنْهَا (النساء: 87) اور جب تمہیں کوئی دعا دے تو اُسے بہتر دعا سے جواب دو.اور اس سلام کہنے سے یہ دعا بنتی ہے کہ تم پر ہمیشہ سلامتی رہے.پس یہ نبی کے اخلاق اور دعا کا اعلیٰ معیار ہے جس کا آنے والے مہمان جو گوا جنبی تھے ان کو نہیں جانتے تھے ان پر فوری طور پر اس کا اظہار ہوا.اور یہ مثال دے کر ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم لوگ جو آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ہو تمہارے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور دعا دینے کے معیار ہمیشہ اس حکم کے تحت ہونے چاہئیں کہ ہمیشہ دوسرے سے بڑھ کر دعا دو.وَإِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِاَحْسَنَ مِنْهَا تمہاری دعا اس سے بہتر دعا ہو جو تمہیں دی گئی ہے تا کہ مہمان کو یہ احساس ہو کہ میرے آنے سے میزبان کو خوشی ہوئی ہے.اور دوسری بات یہ کہ کس طرح انہوں نے فوری طور پر مہمانوں کی مہمان نوازی کی تیاری شروع کر دی.جس کا اللہ تعالیٰ نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ فَرَاغَ إِلى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجُلٍ سَمِينِ (الذریت : 27) وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لے آیا، یعنی پکا کر.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بِعِجُلٍ حَنِید (هود: 70 ) کہ ایک بھنا ہوا کچھڑا.پس مہمان کی فوری خاطر مدارات کرنا اور اپنے وسائل کے لحاظ سے بہترین خاطر تواضع کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے تبھی تو تعریفی رنگ میں یہاں ذکر کیا گیا ہے.حالانکہ یہ مضمون جو ان آیات میں اس سے
323 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 پہلے اور بعد میں بیان ہورہا ہے اس کا براہ راست اس مہمان نوازی سے کوئی تعلق نہیں ہے.لوظ کی طرف جانے والے لوگ تھے جو اس قوم کے غلط کاموں کی وجہ سے انہیں عذاب کے آنے کے وقت کی خبر دینے کے لئے جارہے تھے اور راستے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس رکے.ان کو بھی لوط کی قوم پر آنے والے عذاب کی اطلاع دی اور ساتھ ہی ایک اولاد کی خوشخبری بھی سنائی.پس یہاں اس مہمان نوازی کا ذکر کر کے ایک اعلیٰ وصف کو بیان کیا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ان لوگوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام واقف نہیں تھے ، جان پہچان والے نہیں تھے لیکن کیونکہ ظاہر بات ہے کہ اس وقت اس جنگل میں سفر کرنے والے تھے ، مسافر تھے ، اور ان کو یہ احساس ہوا کہ بشری تقاضے کے تحت بھوک بھی محسوس کر رہے ہوں گے اس لئے آپ نے فورا اس خیال سے کہ ان کو بھوک لگی ہوگی بغیر کسی سوال کے کہ کھائیں گے یا نہیں کھائیں گے، ضرورت ہے یا نہیں ہے ان کے لئے مہمان نوازی کرنے میں مصروف ہو گئے.پس یہ وصف ایسا ہے جو خدا کو پسند ہے اور اسلام کا بھی یہ خاصہ ہے.آنحضرت عیہ تو نبوت سے پہلے ہی اس خوبی سے اتنے زیادہ متصف تھے کہ یہ آپ کا امتیازی نشان تھا.عربوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں اور یہ بیج بات بھی ہے اور اُس زمانہ میں اور اب بھی عرب مہمان نواز ہیں.لیکن آنحضرت مے کا تو یوں لگتا ہے کہ یہ مہمان نوازی کرنا ایک خاص شان رکھتا تھا.تبھی تو جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی ہے تو آپ بڑی گھبراہٹ میں اپنے گھر تشریف لائے.اور جب حضرت خدیجہ کے سامنے اس وحی کے نازل ہونے کا ذکر کیا تو اس وقت بھی آپ پر بڑی گھبراہٹ طاری تھی.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو جو تسلی کے الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ للہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ رشتہ داری کے تعلقات کا پاس رکھتے ہیں.لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں اور وہ اخلاق حمیدہ جو دنیا سے ختم ہو چکے ہیں ان کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں.مصیبت زدوں کی مدداور حمایت کرتے ہیں.تو ان اوصاف کے مالک کو خدا کس طرح ضائع کر سکتا ہے.( صحیح بخاری باب بدء الوحی باب نمبر 3 حدیث نمبر 3) اب ان تمام اعلیٰ اوصاف کے ساتھ مہمان نوازی کا ذکر کرنا یقیناً اس بات کی تصدیق ہے کہ آپ کا مہمان نوازی کا معیار اس قدر بلند تھا کہ جو دوسروں کے مقابلے میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا اور نبوت کے دعوے کے بعد تو یہ مہمان نوازی ایک ایسی اعلیٰ شان رکھتی تھی کہ جس کی مثال ہی کوئی نہیں ہے.اس بارہ میں آپ کے اُسوہ حسنہ کو دیکھیں تو صرف وہاں یہ نہیں ہے کہ سلامتی بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ کھانے پینے کی مہمان نوازی کے علاوہ بھی یا استقبال کرنے کے علاوہ بھی ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں جن کے معیار اعلیٰ ترین بلندیوں کو چھورہے ہیں.
324 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم میں آپ کے اس اسوہ حسنہ کی چند مثالیں پیش کروں گا.آپ نے مہمان کو کھانے کا انتظام کے احسن رنگ میں کرنے سے ہی صرف عزت نہیں بخشی بلکہ مہمان کے جذبات کا خیال بھی رکھا.اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال بھی رکھا اور اس کے لئے قربانی کرتے ہوئے بہتر سہولیات اور کھانے کا انتظام بھی کیا.اس کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ سے خدمت بھی کی اور اس کی تلقین بھی اپنے ماننے والوں کو کی کہ یہ اعلیٰ معیار ہیں جو میں نے قائم کئے ہیں.یہ میرا اسوہ اس تعلیم کے مطابق ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر اتاری ہے.تم اگر مجھ سے تعلق رکھتے ہو تو تمہارا یہ عمل ہونا چاہئے.تمہیں اگر مجھ سے محبت کا دعوی ہے تو اس تعلق کی وجہ سے، اس محبت کی وجہ سے، میری پیروی کرو.اور یہ مہمان نوازی اور خدمت بغیر کسی تکلف کسی بدل اور کسی تعریف کے ہو اور خالصتاً اس لئے ہو کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلیٰ اخلاق اپنانے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہمارا مقصود اور مطلوب ہونا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پہلے دن تم مہمان کی خوب خاطر کرو ، اچھی طرح مہمان نوازی کرو اور تین دن تک عام مہمان نوازی بھی ہونی چاہئے کیونکہ یہ مہمان کا حق ہے اور فرمایا کہ اگر تمہیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہے تو پھر مہمان کی عزت و تکریم کرو.( سنن ابی داؤ د کتاب الاطعمه باب ما جاء فی الضیافتہ حدیث 3748) پس مہمان نوازی بھی ایک اعلیٰ خلق ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی دیتا ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی جو تم کرتے ہو اس کا اجر پاؤ گے.لیکن یہ نیکی ایسی ہے کہ جب خوش دلی سے کی جائے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو کھینچنے والی بنتی ہے اور ایمان میں مضبوطی کا باعث بنتی ہے.آنحضرت ﷺ کی مہمان نوازی ایک تو مہمان نوازی کے جذبہ سے ہوتی تھی لیکن ایک یہ بھی مقصد ہوتا تھا کہ اگر کوئی کا فرمہمان یا دوسرے کسی مذہب کا مہمان ہے تو وہ آپ کے اعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی دیکھ کر یہ سوچے کہ جس تعلیم کے یہ علمبردار ہیں، جس تعلیم کے یہ پھیلانے والے ہیں یہ اسی تعلیم کا اثر ہو گا کہ اتنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا ہے.اور یوں اس مہمان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اور آپ یہ مہمان نوازی کرتے بھی اس لئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہوتا کہ اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت سنور جائے.پس آپ کی مہمان نوازی صرف ظاہری خوراک کے لئے نہیں ہوتی تھی جس سے مہمان کی ظاہری بھوک مٹے بلکہ روحانی خوراک مہیا کرنے کے لئے بھی ہوتی تھی تاکہ اس کی آخرت کی زندگی کے بھی سامان ہوں اور یہی تعلیم آپ نے اپنے ماننے والوں کو دی کہ تمہارے ہر کام کے پیچھے خدا تعالیٰ کی رضا ہونی چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے ، جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا حضرت رسول کریم علیہ کے ہاں مہمان بنا.آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لانے کے
325 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم لئے فرمایا جسے وہ کا فر پی گیا.پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا.(اور آپ کے اس اسوہ کو دیکھ کر، اس حسن سلوک کو دیکھ کر کہ بغیر کسی چوں چراں کے، بغیر کسی احسان جتانے کے، بغیر کسی قسم کے اشارہ کے آپ نے جتنی مجھے بھوک تھی ، جتنا میں پینا چاہتا تھا یا آزمانا چاہتا تھا بہر حال مجھے اتنا دودھ اور خوراک مہیا کی.اس کو دیکھ کر اگلی صبح اس نے اسلام قبول کر لیا.تو آنحضرت ﷺ نے اگلے دن پھر اس کے لئے بکری کے دودھ کا انتظام کیا تو ایک بکری کا دودھ وہ پی گیا اور دوسری بکری کا دودھ لانے کے لئے فرمایا تو پوراختم نہیں کر سکا.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھانا کھاتا ہے جبکہ کا فرسات آنتوں میں بھرتا ہے.( مسند احمد بن مقبل مسند ابی ہریرہ جلد 3 صفحہ 385 حدیث 8866 عالم الكتب بيروت 1998ء) اور اسلام قبول کرنے سے پہلے اسے آپ نے کچھ نہیں کہا اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے یہ نہیں کہا کہ یہی حکم ہے کہ تم بھوک چھوڑ کر کھاؤ.جہاں تک مہمان ہونے کے ناطے اس کا حق تھا اسے پوری خوراک جو گزشتہ رات دیکھ کر دی تھی اس کا انتظام کیا ، اسے پیش کی لیکن اس نے خود ہی انکار کر دیا.تب آپ نے یہ بات فرمائی کہ مومن ایک آنت سے پیتا ہے اور کا فرسات آنتوں سے.اس کے اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مقام کا احساس بھی اسے دلا دیا کہ انسان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے.جب حبشہ کے مہاجرین واپس آئے تو ان کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کا بھیجا ہوا ایک وفد بھی تھا تو آنحضرت میل اللہ خود ان کی مہمان نوازی فرماتے رہے.جب صحابہ نے عرض کی کہ حضور! جب ہم خدمت کرنے کے لئے موجود ہیں تو ( آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں.تو ہمارے آقا ﷺ نے کیا خوبصورت جواب دیا جو علاوہ مہمان نوازی کے اعلیٰ اصول کے اپنے مظلوم صحابہ کی عزت افزائی کا اظہار بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم احسان کا بدلہ احسان ہی ہے، اس پر عمل کی بھی ایک شاندار مثال ہے اور شکر گزاری کے جذبے کا بھی ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے.) آپ نے فرمایا ان لوگوں نے ہمارے صحابہ کو عزت دی تھی اس لئے میں پسند کرتا ہوں کہ ان کی مہمان نوازی اور خدمت میں خود اپنے ہاتھوں سے کروں تا کہ ان کے احسانوں کا کچھ بدلہ ہو.حبشہ کے قافلہ کے لوگ بھی آپ کے اس طرح مستعدی سے مہمان نوازی کرنے کو دیکھ کر حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ کیسا بادشاہ ہے جو اپنے ہاتھ سے ایک عام آدمی کی مہمان نوازی کر رہا ہے اور یہ مہمان نوازی کر کے انسانی شرف کے بھی عجیب و غریب معیار قائم کر رہا ہے جو نہ پہلے کبھی دیکھنے کو ملے نہ سننے کو.(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 72 غزوۃ خیبر.دار الکتب العلمية بيروت طبع اول 2002 ء ) پھر ایک یہودی جب رات اپنے پیٹ کی خرابی کی وجہ سے بستر گندا کر کے صبح صبح شرم کے مارے اٹھ کر چلا گیا تو آنحضرت ﷺ نے بغیر کسی کو مدد کے لئے بلانے کے خود ہی اس کا بستر دھونا شروع کر دیا اور جب کسی وجہ سے راستے
326 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم میں اس کو یاد آیا کہ میں اپنی فلاں چیز بھول آیا ہوں وہ واپس آیا تو آپ کو بستر دھوتے دیکھ کر بڑا شرمسار ہوا.( مثنوی مولانا رومی مترجم دفتر 5 صفحه 23 تا 25 ترجمه قاضی سجاد حسین.الفیصل ناشران 2006ء ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے یا یہ وہی واقعہ ہے یا دوسرا کوئی واقعہ ہے لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ آپ کے اس عمل کو دیکھ کر وہ مسلمان ہو گیا.تو یہ بے نفسی کی انتہا ہے.بخاری کی ایک روایت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی قوت قدسی سے جو عظیم انقلاب آپ کے صحابہ میں پیدا ہوا وہ بھی سنہری حروف سے لکھا جانے والا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور ﷺ کے پاس آیا.آپ نے اپنے گھر میں کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ.جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں ہے.اس پر حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا.ایک انصاری نے عرض کیا حضور میں انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارت کا انتظام کرو.بیوی نے جواب دیا آج گھر میں صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے.انصاری نے کہا اچھا کھانا تیار کرو.پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو بہلا پھسلا کر تھپتھپا کر سلا دو.چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا اور چراغ جلایا اور بچوں کو بھوکا ہی سلا دیا.پھر جب مہمان کھانے کے لئے آیا تو چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا.پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھ کر بظاہر کھانے کی آوازیں نکالتے رہے اور مہمان بھی یہ سمجھتا رہا کہ میرے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں.اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سو گئے.صبح جب انصاری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہنس کر فر مایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا ہے.اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ | وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر : 10) یعنی یہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص لوگ جو ہیں اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورت مند اور بھوکے ہوتے ہیں اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں.( بخاری کتاب مناقب الانصار باب یو ثرون على انفسهم ولو کان بهم خصاصة حديث 3798) پھر آنحضرت ﷺ کے پاس ایک گروپ ایسے مہمانوں کا تھا جو مستقل آپ کے در پر پڑے رہتے تھے.صرف اس لئے کہ آنحضرت مے کی کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے اور یہ ان کا امت پر بھی احسان ہے ، ہم پر بھی احسان ہے کہ اس حالت میں رہ کر ہم تک روایات اور احادیث پہنچائی ہیں.مالک بن ابی عامر سے ایک لمبی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص طلحہ بن عبید اللہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے ابومحمد تم اس یمانی شخص یعنی ابو ہریرہ
327 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کو نہیں دیکھتے کہ یہ تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو جاننے والا ہے.ہمیں اس سے ایسی ایسی احادیث سنے کو ملتی ہیں جو ہم تم سے نہیں سنتے.اس پر انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں.انہوں نے رسول الله الا اللہ سے وہ باتیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین تھے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان بن کر پڑے رہتے تھے.ان کا ہاتھ رسول اللہ اللہ کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا تھا.ہم لوگ کئی کئی گھروں والے اور امیر لوگ تھے اور ہم رسول اللہ ہے کے پاس دن میں کبھی صبح کبھی شام آیا کرتے تھے.( ترمذی کتاب المناقب.مناقب ابی ہریرہ حدیث 3837 تو یہ تھا ان لوگوں کا طریقہ جنہوں نے ہم تک روایات پہنچائیں.اب کوئی اس سے یہ خیال نہ کرے کہ یہ لوگ آپ کے اقوال سننے کے بہانے پڑے رہتے تھے ویسے لکھے تھے، فارغ روٹیاں تو ڑتے رہتے تھے.ایسا نہیں بلکہ ان لوگوں پر بھی ایسے دن آئے جب ان کو فاقے برداشت کرنے پڑے اور ان پر فاقے اس لئے نہیں آتے تھے کہ آنحضرت یہ پوچھتے نہیں تھے.یا ان سے تنگ آ جاتے تھے جیسا کہ پہلے ابھی روایت میں بیان ہوا ہے ، جب آپ نے گھر پیغام بھیجا کھانے کا تو پیغام آیا کہ ہمارے پاس تو سوائے پانی کے کچھ نہیں ہے تو آنحضرت ﷺ کے گھر میں بھی کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا.اسی تعلق میں حضرت ابو ہریرہ کی ایک دلچسپ روایت ہے.ایک دفعہ جب ایسی نوبت آئی.کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ ابتدائی ایام میں بھوک کی وجہ سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا یا زمین سے لگا تا تا کہ کچھ سہارا ملے.ایک دن میں ایسی جگہ پر بیٹھ گیا جہاں سے لوگ گزرتے تھے.میرے پاس سے حضرت ابوبکر گزرے ہمیں نے ان سے ایک آیت کا مطلب پوچھا.میری غرض ی تھی کہ مجھے کھانا کھلا ئیں گے لیکن وہ آیت کا مطلب بیان کر کے گزر گئے.پھر حضرت عمرؓ کا گزر ہوا میں نے ان سے بھی اس آیت کا مطلب پوچھا.ان سے بھی غرض یہی تھی کہ کھانا کھلائیں گے.وہ بھی آیت کا مطلب بتا کے گزر گئے.پھر میرے پاس آنحضرت ہوتی ہیں گزرے تو آپ نے میری حالت دیکھ کر اور میرے دل کی کیفیت دیکھ کر بڑے مشفقانہ انداز میں فرمایا ابوہریرہ ! میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! حاضر ہوں آپ نے فرمایا میرے ساتھ آؤ.آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا جب آ.گھر پہنچے اور اندر جانے لگے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی.میں آپ کی اجازت سے اندر آ گیا.آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا.آپ نے گھر والوں سے پوچھا کہ وہ دودھ کہاں سے آیا ہے.گھر والوں نے بتایا کہ فلاں شخص یا فلاں عورت یہ دودھ کا پیالہ دے گئی ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا.ابو ہریرہ !میں نے کہا یا رسول اللہ حاضر ہوں.آپ نے فرمایا سب صفہ میں رہنے والوں کو بلالا ؤ.یہ لوگ اسلام کے مہمان تھے اور ان کا نہ کوئی گھر بار تھا نہ کاروبار.جب حضور ﷺ کے پاس صدقے کا مال آتا تو ان کے پاس بھیج دیتے اور خود کچھ نہ کھاتے اور اگر کہیں سے
328 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم تحفہ آتا تو آپ صفہ والوں کے پاس پہلے بھیجتے اور خود بھی کھاتے.بہر حال حضور اللہ کا فرمان کہ میں ان کو بلا لاؤں مجھے بڑا نا گوار گزرا کہ ایک پیالہ دودھ ہے اور یہ اہل صفہ میں کس کس کے کام آئے گا.میں اس کا زیادہ ضرورت مند تھا تا کہ پی کر کچھ تقویت حاصل کروں ، طاقت حاصل کروں.پھر یہ بھی خیال آیا جب اہل صفہ آجا ئیں اور مجھے ہی حضور ریلی ان کو پلانے کے لئے فرما ئیں تو یہ اور بھی بُرا ہوگا پھر تو بالکل ختم ہو جائے گا کچھ بھی نہیں ملے گا.بہر حال اللہ تعالیٰ کے رسول کا فرمان تھا اس لئے آپ گئے اور ان کو بلا لائے.اور جب سب آگئے اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے.تو ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ان کو باری باری پیالہ پکڑاتے جاؤ.اور میں نے دل میں یہ خیال کیا کہ مجھے تو اب یہ نہیں ملتا.بہر حال میں پیالہ لے کر ہر آدمی کو پکڑا تا گیا اور وہ پیتے گئے.اور جب دوسرے تیسرے کے پاس پہنچا یہاں تک کہ آخر تک پہنچا میں نے پیالہ آنحضرت ﷺ کو دیا کہ سب اچھی طرح پی چکے ہیں.آپ نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا ابو ہریرہ ! میں نے کہا یا رسول اللہ فرمائیے.آپ نے ارشاد فرمایا اب تو صرف ہم دونوں رہ گئے ہیں.میں نے عرض کی حضور ٹھیک ہے.اس پر آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور خوب پیو.جب میں نے بس کیا تو فرمایا ابو ہریرہ اور پیو.میں پھر پینے لگا چنانچہ جب میں پیالے سے منہ ہٹا تا آپ فرماتے ابو ہریرہ اور پیو.اور جب میں اچھی طرح سیر ہو گیا تو عرض کیا جس ذات نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اس کی قسم اب تو بالکل گنجائش نہیں.چنانچہ میں نے پیالہ آپ کو دے دیا اور آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر بسم اللہ پڑھ کر دودھ نوش فرمایا.( ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق باب 101/36 حدیث 2477) ان اصحاب صفہ کو آپ مہمان سمجھتے تھے اس لئے ان سب کو پہلے پلایا.اگر آپ خود ہی پہلے پی لیتے تو یہ برکت تو پھر بھی قائم رہنی تھی.لیکن مہمان نوازی کے تقاضے کے تحت آپ نے پہلے ان مہمانوں اور غریبوں کو پلایا.ان لوگوں کا صلى الله اس طرح حضور کی مجلس میں انتظار میں بیٹھنا آنحضرت ﷺ پسند فرماتے تھے.اس لئے ایک موقع پر آنحضرت یی نے حضرت ابو ہریرہ کے بھائی کو کہا کہ یہ لوگ سیکھنے کے لئے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.تم ان کے گھروں اور کاروبار کی نگرانی کیا کرو اور انتظام سنبھالا کرو.پھر فتح مکہ کے بعد جب باہر سے وفود کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ ان کی بڑی عزت فرماتے تھے.حضرت بلال جو آپ کے ذاتی امور اور خرچ وغیرہ کا حساب رکھتے تھے انہیں فرماتے تھے کہ ان کی خوب مہمان نوازی کرو اور ان کے لئے تحفوں وغیرہ کا انتظام کرو.الطبقات الكبرى لابن سعد جلد اول صفحہ 156 "وفد تجیب“ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء) اسی طرح ایک وفد بحرین سے آیا.یہ ربیعہ قبلے کا وفد تھا اور یہ قبیلہ آنحضرت ﷺ کے جد امجد کے بھائی سے
329 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 منسوب ہوتا تھا اور یہ لوگ بہت عرصہ پہلے آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ہجرت کر کے بحرین چلے گئے تھے.ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ بہت خوش ہوئے کہ دو بچھڑے بھائیوں کی نسلیں آپس میں مل رہی ہیں.بڑے تپاک سے ان کا استقبال کیا.ان کے سردار کو اپنے قریب بٹھایا اور بڑی محبت و شفقت سے اس سے پیش آئے اور انصار کو فر مایا کہ ان کی خوب مہمان نوازی کرنا کیونکہ انہیں تم سے ایک نسبت ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ بھی تمہاری طرح از خود مسلمان ہو کر آئے ہیں.اگلے دن پھر اس وفد کے ارکان جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائیوں نے تمہاری مہمان نوازی اچھی طرح کی ہے.ٹھیک طرح کی ہے.انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ہمارے بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے ہمارے لئے بہترین کھانے اور بہترین بستر کا انتظام کیا اور صبح ہوتے ہی ہمیں قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کی باتیں بتا ئیں.( مسند احمد بن حنبل جلد 5 بقیہ حدیث وفد عبدالقیس “ حدیث نمبر 15644 عالم الكتب بيروت 1998ء) پس یہ نمونے تھے جو آپ کے صحابہ کے تھے.انصار نے تو ہجرت کے وقت مہاجرین کے ساتھ بھی اخوت کا ایک مثالی نمونہ قائم کیا تھا اور اب تو آنحضرت مہ کی قوت قدسی نے ان کے اس عمل کو اور بھی صیقل کر دیا تھا.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو اس کی حیثیت کے مطابق اس کی عزت اور تکریم کرو.(ابن ماجہ.ابواب الادب باب اذا ا تا کم کریم قوم فاکر موہ حدیث 3712) بے شک سرداروں کی اور معزز آدمیوں کی عزت و تکریم کا آپ نے حکم دیا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے ہر مہمان چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم آپ اس کی عزت فرمایا کرتے تھے اور یہی حکم مسلمانوں کو دیا تھا.بلکہ ایک دفعہ مصر قبیلے کے لوگ برے حالوں میں بغیر لباس کے نگے تلوار میں ٹانگی ہوئی تھیں آپ کے پاس پہنچے آپ ان کی حالت دیکھ کر بے چین ہو گئے اور فورآمدینہ کے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں ان کے لئے کھانے اور خوراک ولباس کا انتظام کرنے کو کہا اور جب تک آپ کو تسلی نہیں ہو گئی کہ یہ سارا انتظام ہو گیا ہے.آپ بے چین رہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ آپ کا چہرہ اس طرح چمک رہا تھا کہ جس طرح سونے کی ڈلی چمک رہی ہوتی ہے.( صحیح مسلم کتاب الزکاة باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة حديث 2240) تو یہی حال اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کا تھا.اخبار البدر 24 جولائی 1904 ء کی ایک رپورٹ میں لکھا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورداسپور کے ایک سفر پر تھے وہاں بھی جو دوست ملنے کے لئے آتے آپ ان کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے.لکھتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان نوازی کا رسول اللہ ﷺ کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں.جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو ( خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو یا نہ داخل ہو ) ذراسی بھی تکلیف
خطبات مسرور جلد ہفتم 330 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 حضور کو بے چین کر دیتی ہے.مخلصین احباب کے لئے تو اور بھی آپ کی روح میں جوش شفقت ہوتا ہے.اس امر کے اظہار کے لئے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کرتے ہیں: میاں ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے.آج انہوں نے رخصت چاہی جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ جا کر کیا کریں گے.یہاں ہی رہے ، اکٹھے چلیں گے.آپ کا یہاں رہنا باعث برکت ہے.اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلا دو.اس کا انتظام کر دیا جاوے گا.پھر اس کے بعد آپ نے عام طور پر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم ( اہل عملہ کو ) نہ ہو.( جو کام کرنے والے ہیں ان کو نہ ہو ) اس لئے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ جس شئے کی اس کو ضرورت ہو وہ بلا تکلف کہہ دے.اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو وہ گنہ گار ہے ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے.(میاں ہدایت اللہ صاحب جن کا ذکر ہے ان کو خاص طور پر حضرت مسیح موعود نے بعد میں سید سرور شاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا کریں.) ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 78-79 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ کو مہمان کا کس قدر خیال رہتا تھا اس کا اظہار آپ کے ان فقرات سے ہوتا ہے کہ اپنی تکلیف کا احساس نہ کرتے ہوئے مہمان کے جذبات کے خیال سے، آپ ان سے ملاقات کے لئے باہر تشریف لاتے تھے.ایک دفعہ سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا.مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 163 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت اقدس نے ایک موقع پر منشی عبد الحق صاحب کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان آرام وہی پاسکتا ہے جو بے تکلف ہو.پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں.پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.یہ کہ کر آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 80 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ”مہمان کا دل شیشے کی طرح ہوتا ہے ذرا سی ٹھوکر لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.اس لئے بہت خیال رکھا کرو.“ (ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 292 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد ہفتم 331 خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 آپ نے ایک موقع پر فرمایا اگر کوئی مہمان آوے اور سب و شتم تک بھی نوبت پہنچ جائے ( گالی گلوچ بھی تمہیں کرے) تو تم کو چاہئے کہ چپ کر رہو.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودا ز شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 161-160) ایک دفعہ فرمایا کہ لنگر خانہ کے مہتم کو تاکید کر دی جاوے کہ وہ ہر ایک کی احتیاج کو مدنظر رکھے.مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اسے خیال نہ رہتا ہو، اس لئے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے.کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دست کش نہ ہونا چاہئے.کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مد نظر رکھیں.بعض وقت کسی کو بیت الخلاء کا ہی پتہ نہیں ہوتا.تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے“.فرمایا ”میں تو اکثر بیمار رہتا ہوں اس لئے معذور ہوں.مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 170 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ( الحکم جلد 8 نمبر 40 مورخہ 24 نومبر 1904 ء صفحہ 2-1) پس یہ چھوٹی چھوٹی ضروریات جو ہیں ان کا بھی آپ خیال فرمایا کرتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے سیرت المہدی میں ایک روایت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کے حوالے سے لکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیت الفکر میں مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے) لیٹے ہوئے تھے اور میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرے کی کھڑکی پر لالہ شرمیت یا شاید ملا وامل نے دستک دی.میں اٹھ کر کھڑ کی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے.(سیرت حضرت مسیح موعود.جلد اول صفحہ 160 - مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے.جون کا مہینہ تھا ، اور اندر مکان نی نیا بنا تھا.میں دو پہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی اس پر لیٹ گیا حضرت صاحب ٹہل رہے تھے میں ایک دفعہ جا گا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا.آپ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے ہیں.میں نے عرض کیا آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سورہوں.مسکرا کر فرمایا میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا کہ لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے.) سیرت حضرت مسیح موعود - مؤلفہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب صفحہ 40.ناشر ابوالفضل محمود قادیان) مولوی حسن علی صاحب مرحوم نے اپنے واقعہ کا خود اپنے قلم سے ذکر کیا جو ان کی کتاب تائید حق میں چھپا ہے.لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا.ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے
332 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں.مجھ کو پان کھانے کی بری عادت تھی.امرتسر میں تو مجھے پان ملا لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا.ناچارالا بچی وغیرہ کھا کر صبر کیا.میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نا معلوم کس وقت میری اس بری عادت کا تذکرہ کر دیا.جناب مرزا صاحب نے گورداسپورا ایک آدمی کو روانہ کیا.دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان کو موجود پایا.سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا.سیرت حضرت مسیح موعود.جلد اول صفحہ 135-136 - مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) دیکھیں کس طرح غیروں کے لئے بھی اور اپنوں کے لئے بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کا آپ خیال فرمایا کرتے تھے.حیرت ہوتی ہے اس قدر مصروفیت کے باوجود آپ ان ساری باتوں کا خیال رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کئی مرتبہ الہام فرمایا کہ يَاتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کہ اس قدر لوگ تیری طرف آئیں گے جن راستوں پر وہ چلیں گے وہ راستے عمیق ہو جائیں گے اور فرمایا کہ وَلَا تَسْنَم مِنَ النَّاسِ اور لوگوں کی کثرت ملاقات سے تھک نہ جانا.حضرت مسیح موعود کی زندگی کے جو بہت سے واقعات ہیں.جب کثرت سے لوگ آتے تھے اور آپ ان کی مہمان نوازی کا حق بھی ادا کرتے تھے اور ان کو بڑی بشاشت سے ملتے بھی تھے ، اور یہ کیوں نہ ہوتا کہ یہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت تھی.آپ کے محبوب کی سنت تھی اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی اس بات کی تصدیق فرمائی تھی.آج یہ ہمارا کام ہے کہ اس نیک صفت کو ہمیشہ اپنے اوپر جاری رکھیں لوگوں کے ذاتی مہمان آتے ہیں جن میں خونی رشتے ہوتے ہیں رحمی تعلق ہوتے ہیں، قرابت داریاں ہوتی ہیں دوستیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.لیکن آج کل ، ان دنوں میں ہمارے پاس وہ مہمان آ رہے ہیں جو آئندہ جمعہ کو شروع ہونے والے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آ رہے ہیں.اور یہ جلسہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر خالصتاً دینی اغراض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع فرمایا تھا.اور اس میں شامل ہونے والوں کو بھی خاص دعاؤں سے بھی نوازا تھا.پس اس لحاظ سے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاص مہمان ہیں جو خالصتاً دینی غرض سے آ رہے ہیں اور ہم یہی امید رکھتے ہیں کہ اس لئے آتے ہوں گے اور آ رہے ہیں.ان کی مہمان نوازی ہم نے کرنی ہے اور خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنی ہے اور دینی بھائیوں کے رشتے کی وجہ سے کرنی ہے.پس ہمارا فرض ہے ، جن کے سپر دجلسہ کی ڈیوٹیاں کی گئی ہیں کہ پوری محنت ، اعلیٰ اخلاق ،صبر ، حو صلے اور دعا کے ساتھ ان کے سپر د جو کام کئے گئے ہیں ان کو سرانجام دیں.ہر مہمان کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بھی خیال رکھیں.ان کی ہر تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں اور جلسہ کا نظام جو ہے وہ ہر شامل ہونے والے سے ایسا حسن سلوک کرے جس طرح وہ اس کا خاص مہمان ہے.اللہ تعالیٰ سب ڈیوٹی دینے والوں کو اپنے فرائض احسن رنگ میں سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.
333 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 2009 اس وقت ابھی جمعہ کے بعد میں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا.ایک افسوسناک اطلاع یہ ہے کہ چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ جو ہمارے بڑے پرانے مربی سلسلہ تھے ، 14 جولائی کو ہسپتال میں 81 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ نے 1939ء میں قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا1949ء میں جامعہ احمد یہ احمد نگر سے مولوی فاضل کیا اور پھر جامعۃ المبشرین سے شاہد کا امتحان پاس کیا.آپ کی بیرون ملک پہلی تقرری سیرالیون مغربی افریقہ میں ہوئی.پھر وہاں سے واپسی پر مرکز سلسلہ میں مختلف ادارہ جات میں خدمات سرانجام دیتے رہے.پھر جرمنی اور انڈونیشیا میں بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پائی.انڈونیشیا میں آپ کی خدمت کا دور بہت لمبا ہے جو 33 سال کے عرصے پر محیط ہے.وہاں اس دوران آپ کو مربی انچارج کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا.1996ء میں با قاعدہ سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ پھر انڈونیشیا میں جماعتی خدمات بجالاتے رہے.کچھ عرصہ جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے پرنسپل بھی رہے اور 2002ء میں مستقل طور پر ربوہ واپس چلے گئے اور وفات تک وہیں مقیم تھے.آپ کو 1966ء میں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی.بڑے نیک مخلص، باوفا اور خدمت دین کا جذبہ رکھنے والے فدائی واقف زندگی تھے.ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی.خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق تھا.اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے.ان کی بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو صبر دے اور ان کے نمونے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرا جنازہ مکرمہ صاحبزادی امتہ المؤمن صاحبہ کا ہے جو صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب کی اہلیہ تھیں.ان کی وفات 14 جولائی کو 68 سال کی عمر میں ہوئی ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی پوتی اور صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی نواسی تھیں اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب و محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں.آپ 1939ء میں پیدا ہوئی تھیں اور مرزا نعیم احمد صاحب سے آپ کی شادی ہوئی.اس طرح آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بہو بنیں.بہت صبر کرنے والی حوصلہ مند اور بڑی حلیم الطبع مخلص خاتون تھیں.والدین فوت ہوئے ، خاوند فوت ہوئے بڑے حوصلہ اور صبر سے یہ سارے صدمے برداشت کئے.کبھی ان کی زبان پر شکوہ نہیں ہوتا تھا.میں نے دیکھا ہے ہمیشہ مسکراتی رہتیں.بشاشت سے ملتیں اور انہوں نے بڑی لمبی بیماری کاٹی ہے.بڑی تکلیف دہ بیماری کائی ہے.لیکن ہمیشہ صبر اور تحمل سے یہی کہتی رہتی تھیں کہ ٹھیک ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں حالانکہ وہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک انتہائی تکلیف دہ بیماری تھی.کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ مجھے اتنی تکلیف ہے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو ہمیشہ نیکیوں پر قائم رکھے.ان کے تین بیٹے یادگار ہیں.اب جمعہ کے بعد جیسا کہ میں نے کہا ان دونوں کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ نمبر 32 مورخہ 7 اگست تا 13 اگست 2009 ، صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد ہفتم 334 30 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2009 ء بمطابق 24 روفا 1388 ہجری شمسی بمقام حدیقہ المہدی آلٹن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ UK کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.UK جماعت گزشتہ 25 سال سے اب اُن جلسوں کے انعقاد کا انتظام کرتی ہے جو ایک لحاظ سے بین الاقوامی جلسے ہیں.کیونکہ خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے مختلف ممالک سے احمدی مہمان تو حسب توفیق زیادہ سے زیادہ یہاں آنے کی کوشش کرتے ہی ہیں لیکن غیر از جماعت احباب بھی جو جماعت احمدیہ کو دنیا کی باقی اسلامی جماعتوں سے یا کسی بھی قسم کی دینی جماعتوں سے مختلف سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ یہ جماعت دوسروں سے مختلف ہے اور اسی وجہ سے اپنی نیک خواہشات کا اظہار بھی کرتے ہیں.یہاں آ کے پیغام بھی پڑھتے ہیں.ان کی بھی ایک تعداد ہے جو افریقہ کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے بھی آتی ہے اور ایک خاص اثر لے کر جاتی ہے.ان کے تاثرات جیسا کہ میں جلسے کے بعد کے خطبے میں ہر سال بیان کیا کرتا ہوں وہ تو اُس وقت ہی بیان ہوں گے.اس وقت میں احمدی احباب کو جن میں میزبان بھی اور مہمان بھی شامل ہیں، چند باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا.زیادہ تر مہمانوں کو توجہ دلاؤں گا.جہاں تک میز بانوں اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان کا تعلق ہے، انہیں تو میں گزشتہ خطبے میں عمومی طور پر مہمان نوازی کے اسلوب ، اسوہ رسول ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے حوالے سے بتا چکا ہوں.آج بعض اور باتیں ہیں جن میں سے چند ایک میزبانوں کے لئے اور باقی مہمانوں کے لئے ہیں وہ بیان کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا ایک لحاظ سے یہ جلسہ بین الاقوامی جلسہ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس میں وہ غیر از جماعت بھی شامل ہوتے ہیں جو جماعت کے بارے میں نیک جذبات رکھتے ہیں اور مختلف پروگراموں میں اپنے اپنے وقت کے مطابق تینوں دن شامل ہوتے رہتے ہیں.اور پھر ہمارے ہمسائے ہیں جن میں سے بعض ابھی تک ہمیں ان مسلمانوں کے زمرہ میں شامل کرتے ہیں جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ شدت پسند ہیں جس کی وجہ سے ان کے خیال میں دنیا میں فساد برپا ہے.میں عموماً غیروں کی مجالس میں جب بھی مجھے موقع ملے ان کی یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ اسلام کی تعلیم شدت پسندی کی تعلیم نہیں ہے.اسلام کی تعلیم تو پیار اور لح کی تعلیم ہے اور اس تعلیم کو خوب
335 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 نکھار کر اس زمانے میں ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھا ہے.اس حوالے سے جو میں نے پہلے کہا کہ میں بعض انتظامی باتیں کروں گا.تو پہلے میں اس حوالے سے غیروں کے لئے جو اسلامی تعلیم کے بارہ میں غلط تاثر رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ان کے سامنے اس تعلیم کو پیش کرتا ہوں جس میں اسلام کی حسن و خوبی واضح ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو ددینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے.خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ بادلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی.اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا.یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا.اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آ گئی ہیں، عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے.“ مددد (تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259) پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” اسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا.اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا.اور تمام دنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے جس نے دنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (آل عمران : 85 ) یعنی تم اسے مسلمانو ! یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں یہ تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو ر ڈ کر دیں.“ پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 459) پس جب دوسروں کے بزرگوں کی اور بڑوں کی اور انبیاء کی عزت کی جائے تو پیار اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں اور مبعوث ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا جن کے ماننے والے ان کو خدا کا برگزیدہ سمجھتے ہیں اور ایک جماعت ان کے پیچھے چلنے والی ہے.ان کی عزت کریں.پس اس تعلیم کے ہوتے ہوئے اسلام کو شدت پسند اور دہشت گرد مذہب کہنا اور اس بنا پر ان لوگوں پر بدظنی بھی کرنا اور پھر بلا وجہ کے اعتراض بھی تلاش کرنا نہ صرف انصاف کے خلاف ہے بلکہ ظلم ہے.اس لئے میں اپنے ایسے ہمسایوں سے کہوں گا کیونکہ جمعہ کے وقت بھی بعض دفعہ بعض آئے ہوتے ہیں یا نمائندے آئے ہوتے ہیں، اس ذریعہ سے ان تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ ہمارے متعلق ہر قسم کی بدظنیوں کو نکال کر اپنے دل صاف کریں.جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں تو یہ حکم ہے کہ اپنے دشمن سے بھی اپنا سینہ صاف رکھو اور اس کے
خطبات مسرور جلد ہفتم 336 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 لئے دعا کرو.بلکہ ہمارے دین اسلام میں تو ہمسائے کے اس قدر حقوق ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے ایک وقت میں یہ گمان کیا کہ کہیں ہمسائے ہماری جائیدادوں کے بھی وارث نہ ٹھہرائے جائیں.( بخاری کتاب الادب باب الوصاءة بالجار حدیث 6014) پس جن کے دلوں میں کچھ تحفظات ہیں وہ بے فکر رہیں.ہم تو اس زمین میں جس کا نام حدیقۃ المہدی رکھا گیا ہے ہدایت کے باغ لگانے آئے ہیں.پیار و محبت اور حقوق العباد کی فصلیں کاشت کرنے آئے ہیں.اس کے ساتھ ہی بہت ساری اکثریت ان غیروں کی بھی ہے جو ہمارے سے ہمدردی کا سلوک رکھتے ہیں.ہمارے لئے ہر طرح کی مدد کے لئے ہر وقت تیار و کمر بستہ ہیں.گزشتہ سالوں میں جلسہ کے دنوں میں بعض وقتیں پیش آئی تھیں جن میں بہتوں نے ہماری مدد کی اور اس سال بھی جلسے کے انعقاد کے لئے ہمارے حق میں رائے دی ہمیں ان سب کا بھی شکر گزار ہوں.اور سب احمدیوں کو بھی ان کا شکر گزار ہونا چاہئے.دوسرے میں اپنے دوستوں اور ہمدردوں اور ان لوگوں کو بھی جن کو ہمارے بارہ میں کچھ تحفظات ہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا اسلام کی تعلیم تو تمام مذہب کے بانیان کو عزت کی نظر سے دیکھنے کی تعلیم ہے اور ہم اپنے ایمان کی وجہ سے سب انبیاء کی عزت کرتے بھی ہیں.لیکن جب ہمارے نبی ، ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی امیے کے متعلق مغرب میں بیہودہ لٹریچر شائع ہوتا ہے.ان کو ، قرآن کریم کو، آپ کی ازواج کو صحابہ کو جب تحقیر اور توہین کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر مسلمان اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں.اور جو پر مسلمان جماعت احمدیہ میں شامل نہیں اور خلافت کی نعمت سے محروم ہیں ان کے رد عمل راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے پھر ایسے ہوتے ہیں جس سے شدت پسندی کا اظہار ہوتا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا سوال ہے جماعت احمدیہ بھی رد عمل ظاہر کرتی ہے لیکن ہمارا رد عمل اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو دنیا پر ظاہر کرنے کا ہوتا ہے.بہر حال مسلمانوں کے اس غلط رد عمل کی وجہ سے مغرب کے نام نہاد لکھنے والے اور سکالرز لغو کتابیں لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرتے ہیں.اور جب بھی میں نے یہ بات یہاں کے مختلف طبقوں میں کی ، انہوں نے ہمیشہ مجھ سے اتفاق کیا کہ امن قائم رکھنے اور محبت و پیار بڑھانے کے لئے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے.پس ہمارے وہ ہمسائے جن کے ذہنوں میں غلط تاثر ہے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کریں.جیسا کہ میں نے کہا ہم تو یہاں آئے ہی پیارو محبت کی فصلیں کاشت کرنے ہیں.پیار اور محبت سے دل جیتنے کے لئے آئے ہیں اور مخالفت میں جو بھی اور جیسا بھی لوگ ہمارے ساتھ سلوک کر رہے ہیں ہماری طرف سے ان کے لئے نیک جذبات کا اظہار ہی ہوتا ہے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 337 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 احمدیوں سے میں کہتا ہوں کہ یہ غیروں کو مخاطب کر کے جو میں نے ایک لمبی بات کی ہے، اس لئے کر دی ہے کہ آپ لوگ بھی دل میں یہ احساس رکھیں کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں.علاوہ مہمان ہونے کی ذمہ داری کے جس کا میں ذکر کروں گا ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ ڈیوٹی دینے والا بھی ہو.اور یہ اس کی ایک ذمہ واری بھی ہے.پس ہر احمدی جو بھی اس جلسے میں شامل ہے ، مرد ہے یا عورت ہے، جوان ہے یا بوڑھا ہے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھے کہ ہر سال کسی نہ کسی ہمسائے کو کسی شکایت کا موقع مل جاتا ہے.گوا کثریت اس حقیقت کو جانتی ہے اور مجھتی ہے کہ اتنے بڑے مجمع میں ہر کام میں 100 فیصد پر فیکشن (Perfection) پیدا نہیں ہو سکتی اور وہ کمزوریوں اور کمیوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں.لیکن ہماری طرف سے ایسی کوشش ہونی چاہئے کہ اس وقت نہ ہمدردوں کو اور نہ ہی جو ہمارے غیر ہمدرد ہیں یا جو کمیوں کو تلاش کرنے کی فکر میں رہتے ہیں ان کو موقع مہیا کریں کہ جلسہ کی وجہ سے یہاں کی آبادی کو کسی بھی قسم کی وقت کا سامنا کرنا پڑے.بعض لوگ اعتراض کرنے کے لئے عادتا بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں.لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے کہ کبھی ایسے بہانے تلاش کرنے والوں کوکوئی موقع نہ ملے.جلسہ سالانہ کی انتظامیہ نے ٹریفک کے اصول وضوابط بنائے ہیں ان کی پابندی کریں.بلکہ یہاں ملکی قانون کے مطابق ٹریفک کے قواعد وضوابط جو ہیں ان کی پابندی کرنا ہر ایک پر فرض ہے.یہ نہ سمجھیں کہ یہ چھوٹی سڑک ہے تو جہاں چاہے گاڑی کھڑی کر دیں.بعض یورپ سے آنے والے بھی بے احتیاطی کر جاتے ہیں اور بعض انگلستان کے رہنے والے بھی بے احتیاطی کرتے ہیں.اگر ہر کوئی سڑک پر گاڑی کھڑی کرنے لگ جائے تو سڑکیں تو بالکل بلاک (Block) ہو جائیں گی.پھر ہمارے دونوں طرف جو آبادیاں ہیں.ایک طرف آلٹن کا شہر ہے اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا گاؤں یا قصبہ ہے ان کی سڑکوں پر گھروں کے سامنے کبھی گاڑیاں کھڑی نہ کریں.دو سال پہلے بھی گھر والوں کو یہ شکایت ہوئی تھی.خاص طور پر بارش کے دنوں میں جب ٹریفک زیادہ ہو گئی تھی.اب تو ٹریفک کا انتظام کیا گیا ہے.لیکن آج بھی ہو سکتا ہے کہ بارش کی وجہ سے تھوڑی سی اندر آنے میں دقت پیدا ہو تو ایسی صورت میں گاڑیاں باہر بالکل کھڑی نہیں کرنی.جو دو سال پہلے شکایت پیدا ہوئی تھی اس کی وجہ سے بہت زیادہ ہمسائے ایسی صورت میں ہمارے متعلق باتیں کرنے لگ گئے تھے.گو اس بارے میں انتظامیہ نے اب کافی توجہ دی ہے اور اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ایسا واقعہ نہ ہو لیکن کسی بھی احمدی کو ایسی حرکت ہی نہیں کرنی چاہئے کہ انتظامیہ کو انہیں توجہ دلانے کی ضرورت پڑے.ہر احمدی کو خود اس ذمہ واری کا احساس ہونا چاہئے ، چاہے وہ کہیں سے بھی آیا ہوا ہے.خود احتیاط کریں اور جیسا کہ میں نے کہا اسلام نے تو ہمسائے کے بہت حقوق رکھے ہیں اور حدیقہ المہدی کے دائیں بائیں رہنے والے تمام لوگ جماعت کے ہر فرد کے جو یہاں جلسے میں شامل ہونے آتا ہے اس کے ہمسائے ہیں.جہاں تک پارکنگ کا سوال ہے.گاڑی لانے والوں کے لئے بارش کی صورت میں بھی انتظامیہ نے پارکنگ کا انتظام
338 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کیا ہوا ہے.لیکن جیسا کہ گزشتہ سال تجربہ کیا گیا تھا اور اس سال کے دوران میں ایک عرصے سے جماعتوں کو بتایا جا رہا ہے اور مناسب بھی یہی ہے کہ اپنی گاڑیاں لانے کی بجائے لندن سے آلٹن تک جو ٹرین کا انتظام کیا گیا ہے اور یہ بڑا ستا انتظام ہے اس کو استعمال کریں.سٹیشن تک لانے لے جانے کے لئے لندن مسجد میں بھی اور بیت الفتوح سے بھی بس کی مشٹل سروس کا انتظام کیا گیا ہے اور آلٹن سے حدیقہ المہدی لانے کے لئے بھی بسوں کا انتظام ہے.جب اللہ تعالیٰ کی خاطر جلسے میں شامل ہونے کا ارادہ کیا ہے تو بعض چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور دقتوں کو نظر انداز کرنا چاہئے.بعض لوگ یہ باتیں بھی کر دیتے ہیں کہ جب چھوٹی سڑک تھی اور ٹریفک کی ہوتیں تھیں بارش کا خطرہ تھا تو یہ جگہ کیوں لی؟ تو آپ جلسے کے لئے جہاں بھی جگہ لیں گے اس وقت کا تو سامنا کرنا پڑے گا.اس دقت کا سامنا اسلام آباد میں بھی کرنا پڑتا تھا حالانکہ وہاں جلسے میں شامل ہونے والوں کی تعداد اس وقت بہت تھوڑی تھی.لیکن آہستہ آہستہ وہاں کی آبادی کو بھی اور احمدیوں کو بھی اس کی عادت پڑ گئی.وہاں بھی ٹریفک کی وجہ سے ہمسایوں کو شروع میں جو اعتراض ہوتے تھے آہستہ آہستہ وہ ان کے عادی ہو گئے اور وہ اعتراضات دور ہو گئے تو یہاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ وہ دور ہو جائیں گے.لیکن ایک احمدی کا کام ہے کہ کسی بھی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنیں.بلکہ ہر احمدی اپنا ایسا نمونہ دکھائے کہ اگر کسی کے دل میں احمدیوں کے بارے میں کوئی منفی سوچ ہے بھی تو وہ آپ کا رویہ دیکھ کر دل میں شرمندہ ہو اور احمدیوں کے متعلق اپنی منفی سوچ بدل کر مثبت سوچ پیدا کرے.بلکہ دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور ہمارے سے تعلق کو اپنے لئے عزت سمجھے.ہراحمدی احمدیت کا سفیر ہے.یہ ہر وقت ہر ایک کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ آپ احمدیت کے سفیر ہیں.اس بات کی توقع کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ہمارے مرید ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کریں.(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 184 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) مرید ہو کر پھر کون بدنام کر سکتا ہے.اس کا مطلب یہی ہے کہ تمہارے اخلاق ایسے اعلیٰ ہوں ، تم وہ پاک نمونہ دکھلانے والے ہو کہ ہر احمدی پر اٹھنے والی انگلی جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نیک نامی کا باعث بننے والی ہو.جلسہ سالانہ کا اصل مقصد تو پاک تبدیلیاں پیدا کرنا تھا.پس یہ پاک تبدیلیاں ہیں جو ایک احمدی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں.ان دنوں میں جہاں آپ کی طرف سے عبادتوں سے اس کے اظہار ہور ہے ہوں.وہاں اپنوں اور غیروں سے اعلیٰ اخلاق سے پیش آنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے.بے شک میں نے کارکنان کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ہر وقت مہمان نوازی پر مستعد رہیں اور کبھی کسی مہمان کو شکوے کا موقع نہ دیں.لیکن مہمان کا بھی فرض ہے کہ وہ ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے، اپنے اندر صبر و حوصلہ پیدا کرے.اگر کبھی کسی کارکن سے اونچ نیچ ہو جائے تو یاد رکھیں کہ وہ بھی انسان ہیں.ان سے بھول چوک ہو سکتی ہے.بعض کارکنان کئی کئی دنوں سے کام کر رہے ہیں.بعض کو
339 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 24 گھنٹوں میں صرف 2 گھنٹے سونے کا موقع ملتا ہے اور بشری تقاضے کے تحت اگر ایسی حالت میں کوئی کسی بات پر کسی مہمان کو تسلی بخش جواب نہ دے یا اس کے خیال میں اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہ ہورہا ہو تو مہمان کو بھی صرف نظر کرنا چاہئے اور کارکن کو معاف کرنا چاہئے.اکثریت تو UK کے رہنے والے مہمانوں کی ہے جو مختلف شہروں سے آئے ہیں اور یہاں جیسا کہ میں نے کہا ساری دنیا سے مہمان آرہے ہوتے ہیں.احمدی بھی اور غیر از جماعت بھی.اگر کوئی کارکن مقامی مہمان کو چھوڑ کر باہر سے آنے والے مہمان کی طرف زیادہ توجہ دے دے، جو دینی چاہئے، تو پھر مقامی مہمانوں کو برانہیں منانا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہونے کا نمونہ بھی یعنی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان بنے تو آپ نے کیا نمونہ پیش کیا وہ بھی ہمارے سامنے ہے اور یہ نمونے آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مرتبہ کسی سفر پر تھے، کام میں مصروف تھے اور اس وجہ سے آپ نے رات کا کھانا نہیں کھایا.رات گئے بھوک کا احساس ہوا تو آپ نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو سب کام کرنے والے پریشان تھے کہ کھانا تو جتنے وہاں لوگ آئے ہوئے تھے کام کرنے والے تھے سب کھا چکے ہیں اور کچھ بھی نہیں بچا.رات بازار بھی بند تھے کہ کسی ہوٹل سے کھانا منگوالیا جاتا.حضور علیہ السلام کے علم میں جب یہ بات آئی کہ کھانا ختم ہو گیا ہے اور سب انتظام کرنے والے پریشان ہیں کہ کھانا فوری طور پر جلدی جلدی پکانے کا انتظام کیا جائے.آپ نے فرمایا پر یشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے.دیکھو دستر خوان پر روٹی کے کچھ بچے ہوئے ٹکڑے ہوں گے وہی لے آؤ.چنانچہ آپ نے ان ٹکڑوں میں سے ہی تھوڑا سا کھا لیا اور انتظام کرنے والوں کو تسلی کروائی.لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اگر حضور علیہ السلام اُس وقت کھانا پکانے کا حکم دیتے تو ہمارے لئے یہ باعث عزت ہوتا اور ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے اور اسی میں برکت تھی.لیکن آپ نے ہماری تکلیف کا احساس کرتے ہوئے روک دیا کہ کوئی ضرورت نہیں.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه (333) پس یہ نمونے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کو بھی دکھانے چاہئیں.مجھے جلسے کے دنوں میں بھی اور ویسے بھی بعض لنگر خانوں کی شکایات ملتی رہتی ہیں اور جب تحقیق کرو تو اتنی لا پرواہی مہمان کے بارہ میں نہیں برتی گئی ہوتی جتنا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے.ٹھیک ہے مہمان کے جذبات ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا چاہئے.لیکن مہمانوں کو بھی اصل حقائق بیان کرنے چاہئیں.ربوہ میں تو اب جلسے نہیں ہوتے جب جلسے ہوا کرتے تھے تو اس وقت وہاں بھی شکایات پیدا ہوتی تھیں.اب ربوہ میں دارالضیافت جو لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے وہاں ابھی بھی با قاعدہ پلنگر چلتا ہے.اگر کبھی انتظامیہ سے غلطی ہو جائے تو احمدی مہمان وہاں بھی بہت زیادہ زود رنجی کا اظہار کرتے ہیں.باوجود اس کے کہ اکثر انتظامیہ ان لوگوں سے
340 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم معذرت بھی کر لیتی ہے.اسی طرح مجھے قادیان کے لنگر خانے کی بھی شکایات آ جاتی ہیں اور یہاں خلیفہ وقت کی موجودگی کی وجہ سے مستقل لنگر چلتا ہے اس لئے یہاں بھی شکایات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور خاص طور پر جلسے کے دنوں میں شکایات پیدا ہوتی ہیں.باقی دنیا میں عام دنوں میں تو لنگر نہیں چل رہا ہوتا کیونکہ وہاں ابھی لنگر کا اتنا وسیع انتظام نہیں ہے اور نہ لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے.لیکن جلسے کے دنوں میں لنگر چلتا ہے.وہاں بھی شکایات پیدا ہوتی ہیں.تو بہر حال کارکنان کی طرف سے یہ کوتاہیاں جو ہیں وہ ہوتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں.کارکنان کا فرض ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر میں آئے اس کی پوری عزت کی جائے اسے احترام دیا جائے.جہاں جہاں مستقل لنگر چلتے ہیں وہاں کے کارکنان کو میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہاں کوئی بھی مہمان آئے چاہے وہ وہاں مقامی رہنے والا ہو، ربوہ کا یا قادیان کا ، یہاں کے بھی آتے ہیں، ان کے جذبات کا احترام کریں اور کبھی کوئی چھتی ہوئی بات نہ کریں.بہر حال مہمان نوازی کی وجہ سے یہ باتیں میں نے عام لنگر خانوں کے بارہ میں بھی ضمنا کہہ دیں.لیکن مہمانوں کی طرف دوبارہ لوٹتے ہوئے میں پھر یہی کہوں گا کہ انہیں بھی صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے.جلسے کے ان دنوں میں کیونکہ سب والنٹیئر زہیں، مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، یونیورسٹیوں، کالجوں کے طلباء ہیں.اس ماحول میں رہنے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں.ان کی کمزوریوں سے صرف نظر کریں اور ان کے جذبے کی قدر کریں جس کے تحت انہوں نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے.جہاں تک غیر از جماعت مہمانوں کا سوال ہے ان کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے تا کہ ان کی مہمان نوازی زیادہ بہتر رنگ میں کرنے کی کوشش کی جاسکے.آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں کہ ” جب تمہارے پاس کسی قوم کا کوئی معز شخص آئے تو اس کا بہت زیادہ احترام و اکرام کرو.“ (ابن ماجہ ابواب الادب باب اذا ا تا کم کریم قوم فاکر موہ حدیث 3712) یہاں جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان کا مقصد جلسہ سننا اور اس سے روحانی فائدہ اٹھانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو واضح فرمایا ہے کہ یہ جلسہ کوئی دنیاوی میلوں کی طرح نہیں ہے.“ ( شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه 395) دنیاوی میلوں کی جو حالت ہوتی ہے اُس میں تو سارا دن لوگ پھرتے رہتے ہیں ، تماشے دیکھتے رہتے ہیں لغو محفلیں بجتی رہتی ہیں، کھانا پینا اور شور شرابے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا.یہاں تو تین دن اگر انسان جسمانی غذا کی بجائے روحانی غذا کی طرف توجہ دے تو تبھی اپنے عہد بیعت کا حق ادا کرنے والا سچا احمدی کہلا سکتا ہے.پس اس بات کو لازمی بنائیں کہ جلسے کی کارروائی کے جو بھی پروگرام ہیں
341 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 اس میں مرد بھی اور عورتیں بھی نو جوان بھی اور بوڑھے بھی سنجیدگی سے شامل ہوں اور جو بات سنیں ، جو تقریر میں سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنا ئیں.کوئی عورت کوئی مرد، کوئی نوجوان کوئی بچہ ان دنوں میں جلسے کی کارروائی کے دوران باہر پھرتا، ٹولیوں میں بیٹھا اور کھیلتا ہوا نظر نہ آئے.عورتوں کے لئے چھوٹے بچوں کی مار کی علیحدہ ہے اس لئے کہ بچے روتے اور شور مچاتے ہیں اور دوسری بڑی عورتیں جو بغیر بچوں کے ہیں یا جن کے بچے بڑے ہو چکے ہیں وہ ڈسٹرب ہوتی ہیں.لیکن ایسے بچے جو چھوٹے نہیں اور جنہوں نے رونے دھونے کی عمر گزار دی ہے.سات آٹھ سال کی عمر کے ہیں.تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں.ان کو والدین کو سمجھا کر اپنے ساتھ لانا چاہئے کہ جلسہ پر ہم جا ر ہے ہیں اور وہاں دو تین گھنٹے کا جو ایک سیشن ہوتا ہے اس میں تم نے آرام سے بیٹھنا ہے.کئی بچے ہیں جنہیں مائیں سمجھا کے لاتی ہیں اور وہ بچے بڑے آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں.ان مجالس کا احترام بچپن سے ہی بچوں میں پیدا کریں اور اس کی ٹریننگ سارا سال گھروں میں دیں اور یہ دینی بھی چاہئے.مجھے بعض دفعہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ سارا سال اطفال کے اور ناصرات کے جو اجلاس ہوتے ہیں ان میں بچوں کو خاموش بیٹھ کر پروگرام سننے کی طرف توجہ نہیں دلائی جاتی.ناصرات میں تو کم ہے لیکن اطفال میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ( یہ شرارتی طبیعت زیادہ ہوتی ہے لڑکوں میں ) یہ باتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں.اگر سارا سال ماں باپ بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی بچوں کی اس نہج سے تربیت کریں تو جلسوں میں ایسی شکایات نہ ہوں.چھوٹے بچوں کی ایک خاصی تعداد یہاں اللہ کے فضل سے ڈیوٹی بھی دے رہی ہوتی ہے اور بڑے پیارے انداز میں ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں.لیکن ایک خاصی تعداد ایسی بھی ہے جو ڈیوٹی نہیں دیتی.دوسرے شہروں سے آئے ہیں اور دوسرے ملکوں سے آئے ہیں.وہ ضرور کھیل کودا اور شور شرابے کی وجہ سے جلسہ سننے والوں کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہیں.تو اس لحاظ سے بھی جلسے میں شامل ہونے والوں کا فرض ہے کہ پیار سے اپنے بچوں کی تربیت کریں اور یہ بھی ممکن ہو گا جب بچوں کو یہ احساس ہو کہ ہمارے بڑے بھی جلسے کے پروگرام غور سے سن رہے ہیں اور جلسے کے تقدس کا ان کو خیال ہے.ہماری یہ دینی مجالس تو ایسی ہونی چاہئیں کہ بجائے اس کے کہ کارکنات ( مردوں کے جلسے میں تو نہیں ہوتا لیکن عورتوں کی مارکی میں ہوتا ہے ) یہ نوٹس لے کر کھڑی ہوں کہ خاموشی سے جلسے کی کارروائی سنیں.آپ خود یہ.اہتمام کر رہی ہوں کہ کسی بھی قسم کی توجہ دلانے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور خود ہی خاموشی سے کارروائی سنیں.پھر ایک اہم بات جس کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ ہے اپنے ماحول اور اردگرد پر نظر رکھنا.جماعت کی حفاظت تو خدا تعالیٰ نے کرنی ہے اور ہمیشہ سے کرتا آ رہا ہے.یہی ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے.اگر ہم اس سے مدد مانگتے ہوئے اس کی طرف جھکے رہیں تو جماعت سے تعلق بھی مضبوط ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حفاظت کے حصار میں بھی رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ”میں تیرے ساتھ اور تیرے
342 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 پیاروں کے ساتھ ہوں ( تذکرہ صفحہ 630 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ ) اور یہ بھی کہ آخری غلبہ آپ کا ہے.اور یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو بحیثیت جماعت ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے گا انشاء اللہ.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جماعت نے ترقی کرنی ہے.لیکن مخالف اور دشمن ہمیشہ اس تاک میں رہتا ہے کہ کسی طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے اور انفرادی طور پر بعض دفعہ قربانیاں بھی دینی بھی پڑتی ہیں.بعض دفعہ ہماری بے احتیاطیوں کی وجہ سے بھی مخالفین فائدہ اٹھاتے ہیں اور آج کل دنیا کے جو حالات ہیں اس میں جو ظاہری احتیاطیں ہیں وہ کرنی اور بڑی پابندی کے ساتھ کرنی عقل کا تقاضا بھی ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم بھی ہے.اس لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ انتظامیہ نے اس دفعہ یہ انتظام بھی کیا ہے کہ سکینز لگائے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات جلسہ گاہ تک پہنچنے میں کچھ زائد وقت بھی لگ جائے.ایک تو صبر اور حوصلے کے ساتھ نئے طریق کے مطابق اپنی چیکنگ کروانے میں انتظامیہ سے پورا تعاون کریں.بلکہ جو چیکنگ کرنے والے ہیں وہ کارکنان کو بھی یا جس کو جانتے ہیں ان کو بھی اگر وہ ایک دفعہ باہر جا کر دوبارہ اندر آتا ہے تو سکینر میں سے گزاریں.دوسرے ہر شامل ہونے والا خود بھی اپنے ماحول پر نظر رکھے.کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ ہر مخلص احمدی ہر وقت جماعت کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانے کی فکر میں رہتا ہے.اس لئے اس کا بھی تقاضا ہے کہ اپنے ماحول پر بھی نظر رکھے.اور اس لحاظ سے ان دنوں میں انتظامیہ کی اس طرح بھی مدد کریں کہ اگر کسی کے بارے میں بھی شک ہو کہ یہ مشکوک ہے یا کسی بھی قسم کی ایسی حرکت ہے تو انتظامیہ کو اس کی اطلاع دیں.خاص طور پر خواتین کو اس بارہ میں ہوشیار رہنا چاہئے.لجنہ کی طرف کوئی بھی عورت مکمل طور پر چہرہ ڈھانپ کر پھرنے والی اور وہاں بیٹھنے والی نہ ہو.کئی سال پہلے یہاں ایک واقعہ ہو چکا ہے کہ عورت کے بھیس میں ایک مرد کو پکڑا گیا تھا.تو یہ نہ سمجھیں کہ اب ہم ہوشیار ہو چکے ہیں کہ چیکنگ بھی اچھی طرح ہورہی ہے اس لئے بے فکر ہو جائیں.ریلیکس (Relax) ہو جائیں.بے فکری کی حالت میں ہی بعض نقصانات اٹھانے پڑ جاتے ہیں اس لئے ہمیشہ ایک مومن کو چوکس رہنا چاہئے.پھر صفائی ہے.اس کا بھی خاص خیال رکھیں.جلسے کے ماحول میں کبھی گند زمین پر نہ پھینکیں.یہ نہ سمجھیں کارکنان موجود ہیں وہ بعد میں اٹھالیں گے.خود ہی معین جگہیں جہاں بنائی گئی ہیں جہاں ڈسٹ بن رکھے گئے ہیں وہاں جا کر اپنا گند پھینکیں چاہے وہ ڈسپوزایبل گلاس ہے کاغذ ہے، کوئی بھی چیز ہے.اگر وہاں جا کے گند پھینکیں گے تو تھوڑی سی تکلیف ہوگی مگر ماحول صاف رہے گا.اور پھر اس طرح غسل خانے ہیں، ٹائلیٹس ہیں وہاں بھی مہمان یہ کوشش کریں کہ استعمال کے بعد انہیں اچھی طرح صاف کر دیں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے کسی کا مقام گرتا ہو.جو کارکن اور کارکنات صفائی پر مقرر ہیں وہ بھی اکثر صاحب حیثیت اور اچھے خاندان والے ہوتے ہیں.صفائی کرنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ عزت بڑھتی ہے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے.جہاز پر بھی جب آپ سفر کر رہے ہوں تو وہاں بھی ٹائیلٹس میں لکھا ہوتا ہے کہ اگلے مسافر کی سہولت کے لئے غسلخانے کو صاف کر کے جائیں.کارکنان کی
خطبات مسرور جلد ہفتم سپیکش 343 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 ن (Inspection) جس دن ہوئی ہے ان کو ایک مثال دی تھی ایک خاتون کی کہ وہ بڑی چاہت سے عورتوں میں صفائی پر ڈیوٹی لگوایا کرتی تھیں اور جب بھی کوئی غسالخانہ استعمال کرتا فوری طور پر جا کے اس کو صاف کرتی تھیں اور ان کو دیکھ کر کسی کو خیال آیا کہ یہ گتی تو بڑی رکھ رکھاؤ والی خاتون ہیں پتہ کروں کہ کون ہے تو انہوں نے جب اس بارہ میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ آپا مجیدہ شاہنواز مرحومہ ہیں.ایک سرکاری افسر کی بیٹی تھیں.ایک بڑے کاروباری شخص کی بیوی تھیں.لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے جذبے سے یہ کام کیا اور کرتی رہیں.جماعت کے لئے بے انتہا مالی قربانیاں کرنے والی تھیں.لیکن اس مالی قربانی کو کافی نہیں سمجھا اور خدمت کے جذبے سے سرشار رہتی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو بھی جماعت سے مضبوط تعلق قائم کرنے کی توفیق دے.بہر حال صفائی تو آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق ایمان کا حصہ ہے.(مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء حدیث 422 ) پس مومنوں کا کام ہے کہ ہر اس چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی اختیار کریں.جس کے بارہ میں اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے اور صفائی تو مومن ہونے کی نشانی بتائی گئی ہے.ایمان کا حصہ بتایا گیا ہے.اس لئے ہر مہمان اور جلسہ میں شامل ہونے والا اس طرف توجہ دے اور یہ خیال نہ کرے کہ میں تو جاتا ہوں اور پیچھے سے شعبہ صفائی والے اپنا کام کرتے رہیں گے.اور آج خاص طور پر جبکہ بارش ہو رہی ہے ذرا سا بھی گند جو ہے وہ زیادہ نظر آتا ہے.کیچڑ والے بوٹ لے کے جب آپ غلسخانوں میں جائیں گے تو گند ہوگا.کوشش کریں، ایک تو وہاں انتظامیہ کوشش کرے کہ کوئی ٹاٹ یا ایسی چیزیں رکھے دیں کہ جوتے صاف کر کے لوگ اندر جائیں کیونکہ آج بارش کی پیشگوئی ہے اور ہو سکتا ہے سارا دن ہوتی رہے.پھر آج کل سوائن فلو پھیلا ہوا ہے.حکومت کی طرف سے بھی اس کی احتیاط کے بارے میں ہوشیار کیا جارہا ہے اور ایم ٹی اے پر بھی اعلان ہورہا ہے.اس کے لئے بھی ایک تو جو ظاہری تدبیر ہے اس کے مطابق انتظامیہ نے یہ انتظام کیا ہے کہ ہر آنے والے کو ہومیو پیتھک دوائی دینی ہے.مجھے نہیں پتا کہ آج دی گئی ہے کہ نہیں.لیکن نہیں دی گئی تو دوبارہ جب باہر جائیں اور اس سکینر میں سے گزریں تو وہ دوائی دی جانی چاہئے.اس بارہ میں ہر مہمان کو ، ہر آنے والے کو تعاون کرنا چاہئے.دوسرے اگر کسی کو کسی بھی قسم کا فلو کا شک ہو تو دوسرے کا خیال کرتے ہوئے جلسہ پر آنے سے پہلے اپنے متعلقہ ڈاکٹر سے مشورہ لیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس بیماری سے محفوظ رکھے.ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھے اور جلسہ میں شامل ہونے والے جلسے کی برکات کو سمیٹتے ہوئے گھروں کو جائیں.پھر جو دوسرے ممالک سے مہمان آئے ہوئے ہیں خاص طور پر پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان وغیرہ سے اور اسی طرح افریقین ممالک سے انہیں میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے سے بہت پہلے واپس جانے کی کوشش کریں.کیونکہ اس مرتبہ خاص طور پر مختلف ملکوں میں یو کے ایمبیسی کے ویزا دینے والے جو شعبے ہیں انہوں نے بعض جگہ احمدیوں کو حالانکہ وہ اکثر یہاں آنے والے تھے اعتراض کر کے ان کے ویزے واپس کر دیئے
344 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہیں کہ احمدی جلسہ کے نام پر جاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے.گو یہ بات بالکل غلط ہے اور گزشتہ چھ سات سال سے تو مجھے علم ہے کہ جو بھی لوگ یہاں آتے ہیں واپس جاتے ہیں اور جو اگر یہاں رہے ہوں گے تو ان کی تعداد 4، 5 سے زیادہ نہ ہوگی اور انکو بھی سزا ملتی ہے جب وہ یہاں جلسہ کے ویزے پر آکر رہ جاتے ہیں.لیکن بہر حال اگر نہ ہونے کے برابر بھی یہاں لوگ رہتے ہیں تو یہ بھی ایک غلط حرکت ہے اور جماعت کی بدنامی کا باعث بنتی ہے.کیونکہ اس سے دوسروں کے جلسے کی نیت سے یہاں جلسے پر آنے کے راستے بھی بند ہوتے ہیں اور یہ بات ایسی ہے جو کسی طرح بھی ایک احمدی کے شایان شایان نہیں.پھر جلسہ کے انتظام کے تحت رہائش کا انتظام ہے، مہمان نوازی کا بھی انتظام ہے.یہ عموماً دو ہفتے کے لئے ہوتا ہے.اس کے بعد بغیر میز بان کی اجازت کے رہنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے.یہ بن بلائے مہمان بنے والی بات ہے جو اسلام میں انتہائی نا پسندیدہ ہے.اور اسی طرح جو لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو بھی ان کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے انہیں اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور بلاوجہ کا بو جھان پر نہیں ڈالنا چاہئے.بعد میں بعض لوگ میرے پاس بھی آتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ اتنے دن کے لئے آئے تھے لیکن جس عزیز کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اس کا رویہ اب ایسا ہے کہ ہم اب جماعتی انتظام کے تحت ٹھہرنا چاہتے ہیں.نہ بھی ٹھہرنے کا کہیں تو شکوہ کرتے ہیں.تو مہمانوں کو پہلے ہی اتنے عرصے کے لئے آنا چاہئے جو دوسروں پر بوجھ نہ ہو اور شکوے کبھی پیدا ہی نہ ہوں.جلسہ کا مقصد تو محبت بڑھانا ہے.اگر آپس کی محبت بڑھنے کی بجائے کم ہوتی ہے تو پھر جلسہ میں شامل ہونے کا مقصد پورا نہیں ہورہا.پس جہاں گھر والوں کو میز بانوں کو حوصلہ دکھانا چاہئے وہاں مہمانوں کو بھی خیال رکھنا چاہئے.ہمیشہ یادرکھیں کہ آپ کا یہ سفر خدا تعالیٰ کی خاطر ہے.اس لئے اس سفر کود نیاوی فائدے کا ذریعہ بھی نہ بنائیں.الله خالصہ اللہ یہ آپ کا سفر ہو اور اس سفر کو ہی سفر بنانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ آپ کا پروگرام جو شائع ہوا ہوا ہے اس میں بعض ہدایات لکھی ہوئی ہیں ان کو ضرور پڑھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.آج تو محکمہ موسمیات کی وجہ سے بارش کی پیشگوئی تھی.یہ بھی دعا کریں کہ اب اس کے بعد بارش بھی رک جائے.اللہ تعالیٰ موسم بھی صاف کر دے اور باقی دن جو ہیں ان میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے آرام سے جلسہ کی کارروائی سن سکیں کیونکہ بارش کی صورت میں جو مار کی پر پڑتی ہے تو آواز اتنی ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بعض کو صاف الفاظ بھی سمجھ نہ آ رہے ہوں.اس لئے وقت ہوتی ہے.پھر چلنے پھرنے میں وقت ہوگی.بچوں عورتوں کو وقت ہوگی.تو یہ دعا کریں اللہ تعالیٰ موسم کو بھی ہمارے حق میں کر دے.آمین الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ نمبر 33 مورخہ 14 اگست تا 20 اگست 2009 صفحه 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد ہفتم 31 345 خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2009 ء بمطابق 31 روفا 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ یو کے اپنی تمام تر برکتوں سے نہ صرف یہاں شامل ہونے والوں بلکہ دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی احمدیوں نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس میں شمولیت کی ان کو سیراب کرتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا تھا.اس بات پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت ہائے احمدیہ کو ایک امت واحدہ بنایا ہوا ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور ایک اہم کام تھا.اگر آج اس نکتے کو مسلمان سمجھ لیں اور جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے مسیح محمدی کی بیعت میں آجائیں تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے حقیقی غلام بن جائیں گے اور مسلمانوں کی طرف اٹھنے والی ہر دشمن آنکھ اور بدارادے سے بڑھنے والا ہاتھ اس عافیت کے حصار سے ٹکرا کر نہ صرف بے ضرر ہو جائے گا بلکہ خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آجائے گا.ہم تو اللہ تعالی کے فضل سے 120 سال سے بلکہ اس سے بھی زائد عرصہ سے یہ نظارے دیکھ رہے ہیں.اگر یہ انسانی سلسلہ ہوتا تو ان دشمنوں اور مخالفین جو تمام تر ظاہری طاقتیں بھی رکھتے ہیں ان کے حملوں سے کب کا ختم ہو جاتا.ہر سال میں جلسہ پر ان فضلوں کا ذکر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے دوران سال جماعت پر کئے ہوتے ہیں.ان واقعات میں سے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہوئے ہوتے ہیں چند ایک لیتا ہوں اور وقت کی کمی کی وجہ سے ان میں سے دس فیصد بھی بیان نہیں کر سکتا.بہر حال یہ تو مختلف موقعوں پر یا تحریر میں جماعت کے سامنے وقتا فوقتا آتے رہیں گے.اس وقت میں حسب روایت جلسہ کے حوالہ سے شکر کا ذکر کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے لیکن یہ شکر تو ہم ان باتوں کا کر سکتے ہیں جو ظاہری ہیں اور جن کا ہمیں پتہ چل جاتا ہے.اکثریت کو ان کا احساس ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل جلسے کے دنوں میں ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمیں پتہ ہی نہیں چل رہا ہوتا.یا اکثریت کو پتہ نہیں چل رہا ہوتا.اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی ایک آیت میں فرماتا ہے وَاِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَّحِیم (النحل : 19 ) اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو اسے احاطے میں نہ لا سکو گے.یقینا اللہ تعالیٰ بہت
346 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس یہ بات ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہماری زبانیں اللہ تعالی کے شکر کا اظہار ہمیشہ کرتی چلی جائیں.اُن باتوں پر بھی شکر گزاری جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم نے دیکھا اور اُن باتوں پر بھی شکر گزاری جن کا ہمیں علم نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے جلسے کے دنوں میں پہلے دن بارش برسائی تو یہ بھی ہمارے فائدے کے لئے تھی ، بارش رو کی تو وہ بھی ہم پر فضل فرماتے ہوئے.ہر قسم کے شر سے ہمیں محفوظ رکھا جن کا ہمیں علم بھی نہیں تھا.پھر آج کل اِن ملکوں میں بلکہ پوری دنیا میں جو سوائن فلو (Swine Flu) پھیلا ہوا ہے، انفلوائنزا ہے، بڑی فکر تھی اور خیال تھا کہ جلسے کی وجہ سے جب مختلف جگہوں سے لوگ جمع ہوں گے تو یہ بھی علم نہیں کہ کس کس نے کس کس قسم کے جراثیم اٹھائے ہوئے ہیں اور عام حالات میں بھی جبکہ وبائی یا خطر ناک بیماریاں نہ بھی پھیلی ہوں تب بھی ایک دوسرے سے بیماریاں لگ جاتی ہیں.بہر حال یہ خیال تھا کہ کیونکہ اس طرح فلو پھیلا ہوا ہے تو جلسے کے دنوں میں چند فیصد لوگوں کو یہ ضرور متاثر کرے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور سوائے چند ایک کیسز کے یعنی تین چار جو میرے علم میں آئے ہیں یہ بیماری کسی کو نہیں لگی.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے.پس سب سے پہلے تو ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کے فضل کو مانگتے ہیں تا کہ اس کے فضل ہم پر بڑھتے رہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (البقرة : 159) پس یقینا اللہ تعالیٰ بہت قدر دان اور جاننے والا ہے.جب اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ شاکر استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اگر ہمارے شکر ہمارے دل کی گہرائیوں سے ادا ہورہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پھر ان کی بڑی قدر کرتا ہے اور فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ (ابراہیم : 8 ) اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.پس یہ حقیقی شکر گزاری تب ہوگی جب مستقل مزاجی سے ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے رہیں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ شاکر علیم ہے.وہ قدردان ہے اور علم بھی رکھتا ہے.اُسے علم ہے کہ کون حقیقی شکر ادا کر رہا ہے.اسے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.پس ہم میں سے ہر ایک کو حقیقی شکر گزار بنا چاہئے اور بنے کی کوشش کرنی چاہئے.اب اس مختصر ذکر کے بعد میں کارکنان اور کارکنات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور تمام شامل ہونے والوں کو بلکہ دنیا میں کسی جگہ بھی بیٹھ کر جلسہ کی کارروائی سننے والوں کو جو یہاں شامل ہوئے ہیں ان کو بھی اور جو دنیا میں سُن رہے تھے ان کو بھی ان کارکنان اور کارکنات کا شکر گزار ہونا چاہئے.کیونکہ والنٹیئر کا ایک حصہ ایسا ہے جو دنیا میں جلسہ کے تمام پروگرام دکھانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے اور انسانوں کی شکر گزاری کا ہمیں حکم بھی ہے.کیونکہ یہ شکر گزاری پھر خدا تعالیٰ کی حقیقی شکر گزاری کی طرف لے جاتی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا که وَمَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللہ کہ جولوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا.یا شکر ادا نہیں کرسکتا.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 بقية حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر 19565 عالم الكتب بيروت 1998ء)
347 خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اس دفعہ مجھے اکثر ملنے والوں نے یہی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتظامات گزشتہ سالوں کی نسبت بہت اچھے تھے.تمام کارکنان اور کارکنات پہلے سالوں کی نسبت زیادہ مستعد اور اچھے اخلاق سے پیش آنے والے تھے.ہر شعبے نے اپنے فرائض کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق احسن رنگ میں ادا کرنے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے اپنی تمام تر طاقتیں صرف کرنے کی کوشش کی.اس پر مہمانوں کو بھی بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے.میں جلسہ گاہ میں آتے جاتے بعض نوجوانوں اور لڑکوں کے چہرے دیکھا کرتا تھا تو صاف ظاہر ہورہا ہوتا تھا کہ نیند کی کمی ہے اور تھکاوٹ کی شدت ہے.لیکن پھر بھی بڑی مستعدی سے اپنے کام پر کھڑے تھے.بلکہ میرے علم میں آیا کہ جلسے کے دنوں میں ایک شعبے کے ناظم اور ناظمہ جو بہن بھائی تھے، وہ بے آرامی کی وجہ سے مستقل ڈیوٹی کی وجہ سے اور پھر انہوں نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا، کھانا نہیں کھایا یا رات کو کم کھانا کھایا تھا، بہر حال اس کی وجہ سے بیہوش ہو گئے.لگتا ہے یہ بہن بھائی ارادہ کر کے آئے تھے کہ کس حد تک ہم اپنے آپ کو مشقت میں ڈال سکتے ہیں تا کہ ایک لمحہ بھی خدمت کا ضائع نہ ہو.لیکن یہ غلط چیز ہے.اس مشقت کی وجہ سے بیہوش ہوئے اور ڈاکٹری حکم کے مطابق ان کو پھر اس خدمت سے محروم ہونا پڑا اور آخری دن وہ ڈیوٹی نہیں دے سکے.تو اس لحاظ سے بھی اپنا خیال رکھنا چاہئے اور انتظامیہ کو بھی جو ان کے ناظمین یا افسران ہوتے ہیں خیال رکھنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ آرام کا وقت بھی دیا کریں اور ان کے کھانے پینے کا بھی خیال رکھا کریں.یہ بے لوث خدمت کے جذبوں کی بہت سی مثالیں ہیں جو ہمیں ڈیوٹی کے حوالے سے جلسہ کے دنوں میں نظر آتی ہیں.عجیب عجیب روحیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائی ہیں.ان ڈیوٹی دینے والوں میں ایشین بھی تھے، یہاں کے مقامی انگریز لوگ بھی تھے، یہاں بسنے والے افریقن ممالک سے آئے ہوئے لوگ بھی تھے.گویا جس طرح جلسہ سننے والے ملٹی نیشنل تھے ، ڈیوٹیاں دینے والے بھی مختلف قومیتیوں کے تھے.پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر فضل.بچے ہیں تو انہوں نے اپنی ذمہ داری کو جو اُن کے سپرد کی گئی تھی ، پانی پلانے کی یا کھانا کھلانے کی یا کسی بھی کام کرنے کی ، بڑے احسن رنگ میں ادا کیا.بڑے ہیں تو انہوں نے احسن رنگ میں ادا کیا.نوجوان ہیں، لڑکیاں ہیں عورتیں ہیں سب نے اپنے اپنے فرائض کو بڑی خوبی سے ادا کیا.اس سال حکومتی ادارے کی طرف سے ہیلتھ اینڈ سیفٹی (Health & safety) کی طرف خاص توجہ دینے کے لئے کہا گیا تھا.اس کے لئے بھی ایک نیا شعبہ قائم کیا گیا اور مختلف مواقع پر اس شعبے کو اس سے متعلقہ حکومتی نمائندے چیک بھی کرتے رہے.اسپیشن (Inspection) کے لئے آتے رہے.کیونکہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی جلسہ سالانہ کے ہر شعبہ سے بھی تعلق رکھتی ہے اور جلسہ گاہ سے بھی تعلق رکھتی ہے.مہمانوں سے متعلق معاملات بھی ہیں اور کارکنوں سے متعلق بھی.اس لئے فکر تھی کہ کہیں کوئی کمی نظر آئی تو ان کو بہانہ مل جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ کے انتظامات ان کے معیار کے مطابق تھے.
348 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 پھر پہلے دن خطبہ میں میں نے صفائی کی طرف توجہ دلائی تھی تو مجھے مہمانوں میں سے بعض کے خط آئے کہ آپ نے خطبے میں دروازوں پر پائیدان یا ٹاٹ رکھنے کی طرف توجہ دلائی تھی تا کہ بارش کی وجہ سے جو گندا اور کیچڑ وغیرہ ہے اندر نہ جائے.جمعہ کے بعد جب میں غسل خانے میں گیا ہوں تو وہ بچھے ہوئے تھے اور پھر جہاں کارکنوں نے غسل خانوں میں صفائی کا خیال رکھا ہے مہمانوں نے بھی میرے کہنے کے مطابق اس پر عمل کیا اور غسلخانوں کو استعمال کرنے کے بعد اکثر نے صاف کرنے کی کوشش کی.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے کہ خلیفہ وقت کی آواز پر احمد یوں کو اطاعت کرنے کی توفیق ملتی ہے اور فوری طور پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا سوائن فلو کی وبا پھیلی ہوئی ہے.اس کے بچاؤ کے لئے میں نے ہومیو پیتھی دوائی استعمال کرنے کا کہا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر پوری طرح عمل ہوا.کارکنان نے جو ہو میو پیتھی کے شعبہ کے متعلقہ کارکنان تھے، انہوں نے اسے مہیا کرنے کی پوری کوشش کی اور روزانہ 15-20 کلو دوائی استعمال ہوتی تھی.اتنی زیادہ مقدار میں دوائی کو مکس (Mix) کرنا بھی بہت مشکل کام ہے.مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ وہ صیح طرح مکس (Mix) کرتے رہے اور پھر دیتے رہے کیونکہ لیکوئڈ (Liquid) گولیوں پر ڈال کے پھر دوائی بنائی جاتی ہے یا صرف میٹھی گولیاں ہی کھلاتے رہے.لیکن بہر حال یہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ ان میٹھی گولیوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے شفا رکھ دی.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.لجنہ کی طرف سے ایک دفعہ رپورٹ ملی کہ ایک خاتون نے دوائی کھانے سے انکار کیا، شاید اس لئے انکار کیا ہو کہ اس نے میرا خطبہ نہیں سنا تھا یا ہدایات نہیں سنی تھیں.تو ڈیوٹی پر مقرر کا رکنہ جو تھی اس نے کہا ٹھیک ہے اگر تم خلیفہ وقت کی بات نہیں مانتی تو تمہاری اپنی ذمہ داری ہے.اس پر فوراً اس نے ہاتھ بڑھا دیا کہ مجھے دوائی دے دو.تو یہ نظارے ہیں اطاعت کے جو احمدیوں میں نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے یہ بھی چھوٹے چھوٹے انعامات ہیں جو بظاہر چھوٹے لگتے ہیں لیکن بے انتہا انعامات ہیں جن کو ہم گن نہیں سکتے.اس سال عورتوں کی مارکی میں بھی عمومی رپورٹ یہی ہے کہ عورتوں نے جلسے کی کارروائی بڑی اچھی طرح سنی.کار کنات کو بہت کم خاموش کروانے کے لئے لکھے ہوئے بورڈ سامنے رکھنے پڑے.لیکن بہر حال ایک امریکہ سے آئی ہوئی خاتون نے مجھے کہا کہ عورتیں خاموش نہیں تھیں اور جلسہ پوری طرح سنا نہیں گیا.شاید کہیں ایک آدھ جگہ تھوڑے وقت کے لئے یہ صورت پیدا ہوئی ہو تو ہوئی ہو.لیکن عمومی طور پر یہی رپورٹ ہے کہ بڑی خاموشی سے سنا گیا اور بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ ان میں اچھائیاں تلاش کرنے کی بجائے کچھ برائیاں تلاش کرنے کی بھی عادت ہوتی ہے.تو یہ خاتون بھی شاید انہی میں سے تھیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ میری تسلی کروانی تھی اتفاق سے فورا ہی امریکہ کی ایک بچی ، کالج کی سٹوڈنٹ ، جو پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہے وہ ملنے کے لئے آ گئی.اس سے میں نے
349 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 پوچھا کہ پہلی دفعہ آئی ہو کیسا لگا جلسہ؟ سنا ہے لجنہ کی مارکی میں شور تھا.تو اس نے فوراً کہا بالکل نہیں میں مختلف جگہوں پہ جا کے بیٹھتی رہی ہوں اور بڑی توجہ سے تمام عورتوں نے ، بچیوں نے جلسہ سنا ہے اور خاص طور پر میری تقاریر کے دوران بڑی خاموشی رہی ہے.شور کا تو سوال ہی نہیں بلکہ میں تو اتنی متاثر ہوئی ہوں کہ بیان نہیں کر سکتی.تو جو اعتراض امریکہ سے آیا تھا اس کا توڑ بھی امریکہ سے آ گیا.بہر حال عورتیں بھی اور مرد بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسہ کی اصل برکات جلسے کی کارروائی سننے میں ہی ہیں.جلسہ کے انتظامات میں جو کمزوری رہی، یہ نہیں میں کہتا کہ ان کا ذکر نہیں کرنا چاہئے ان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور کرنا چاہئے تا کہ آئندہ خیال رہے.لیکن جو کمزوریاں رہتی ہیں اس میں بھی بعض جگہ میں نے دیکھا ہے مہمانوں کا زیادہ قصور ہوتا ہے.جرمنی کا جلسہ بھی آرہا ہے جس میں کسی حد تک UK کے جلسے کا رنگ ہوتا ہے پھر دنیا میں باقی جگہ بھی جلسے منعقد ہوتے ہیں تو جب میں ہدایات دیتا ہوں تو باقی دنیا کو بھی اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مجھے اس دوران ایک رپورٹ ملی کہ اسلام آباد میں بعض رہائشی خیموں میں جب لوگ جلسے کے لئے گئے ہوئے تھے تو کچھ چوریاں ہوئی ہیں.خیموں میں رہنے والے مہمانوں کو خود یہ خیال رکھنا چاہئے تھا کہ قیمتی چیزیں چھوڑ کر نہ جائیں اور اس طرح نہ ہی انتظامیہ کو ابتلاء میں ڈالیں اور نہ اپنے آپ کو.یہ ان مہمانوں کا قصور ہے جو باوجود بار بار کے اعلان کے کہ قیمتی چیزوں کو امانات کے دفتر میں رکھوائیں.پھر بھی اپنے خیموں میں چھوڑ کے گئے کھلی جگہ چھوڑ کر جانا ویسے ہی لا پرواہی ہے.بے شک اگر ہر جگہ اچھا ماحول بھی ہو غالط قسم کے لوگ بھی آجاتے ہیں اور آتے ہیں.اور جبکہ خیمے بھی کھلی جگہ پر ہوں اور ان کے اندر جانا بھی آسان ہو تو سامنے چیزیں پڑی ہوں تو دعوت دینے والی بات ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف ان کی لاپرواہی ہے بلکہ بے وقوفی ہے جو بے احتیاطی کر کے اپنی قیمتی چیزیں چھوڑ کر چلے گئے.یا تو ساتھ لے کر جانی چاہئے تھیں یا جیسا کہ میں نے کہا دفتر میں متعلقہ کارکنان کے سپر دکر کے جانی چاہئے تھیں.لیکن انتظامیہ کو بھی اپنے انتظام بہتر کرنے چاہئیں.یہ افسر جلسہ سالانہ کا کام ہے کہ متعلقہ شعبہ کی طرف سے خیموں میں بھی بار بار اعلان ہوا اور دوسرے یہ کہ آپ جہاں بھی خیمہ بستیاں بناتے ہیں ، آبادی کرتے ہیں، جہاں ٹینٹ لگاتے ہیں وہاں اس جگہ کو مکمل طور پر فینس (Fence) کرنا چاہئے اور صرف ایک یا دو گیس (Gates) ہوں اور وہاں پر بھی ڈیوٹی پر کارکنان موجود ہوں.جرمنی میں بھی اس طرح خیمے لگتے ہیں ان کو بھی خیال رکھنا چاہئے.ان کا جلسہ بھی قریب آ رہا ہے کیونکہ ایک دوسرے سے جیسا کہ میں نے کہا سبق بھی لینا چاہئے اور گیٹوں پہ علاوہ راؤنڈ کے سیکیورٹی کا انتظام بھی ہو.تو بہر حال یہ ایک زیادہ شکایت تھی جس کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ باقی جگہوں پر بھی ہو سکتی ہے.
350 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 عمومی سیکیورٹی اور ٹریفک وغیرہ کے انتظامات اللہ کے فضل سے بہت اچھے تھے اور آج کل جو دنیا کے حالات ہیں ، ہر ملک میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.گزشتہ سال سے پولیس کو بلکہ دو سال پہلے جو شکایات اٹھی تھیں وہ گزشتہ سال سے دور ہونی شروع ہو گئی تھیں.لیکن اس سال تو پولیس انسپکٹر نے لکھ کر دے دیا ہے اور کہا ہے کہ چاہے آپ اخبارات میں شائع کروا دیں کہ ٹریفک کی بہترین پابندی کی گئی اور بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کیا گیا جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نظر نہیں آتا.ایک غیر از جماعت مہمان نے یہ اظہار کیا کہ گو یہاں مین روڈ پر پولیس والے کھڑے تھے لیکن وہ بھی ٹریفک کنٹرول کرنے کے لئے باہر ہی کھڑے تھے جلسہ کے اندر یعنی حدیقۃ المہدی کے اندر نہیں آئے.گو اس کی بھی ضرورت نہیں تھی.انہوں نے کہا کہ ایسے مجمع میں تو بے انتہا پولیس کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر بھی کنٹرول نہیں ہوتا.آلٹن کے میئر نے بھی یہی کہا ہے کہ جو میرے تحفظات تھے کہ شاید دوسری اسلامی تنظیموں کی طرح نہ ہوں سب دُور ہو گئے ہیں اور اب میں کھل کر یہ کہتا ہوں کہ آپ سے کوئی خطرہ نہیں ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو انتظامات کئے گئے ان میں جہاں کارکنوں نے بھر پور جذبے سے کام کیا وہاں مہمانوں نے بھی تعاون کیا.خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں، اس سال ٹرین کا بھر پور استعمال ہوا اور یہ پسند بھی کیا گیا اور تقریباً سب نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ہمیں جلسہ گاہ پہنچنے میں بڑی سہولت رہی اور اپنی کار میں آنے سے جو ذہنی تناؤ اور کوفت ہوتی ہے اس سے بھی ہم بچے رہے اور ٹریفک جام وغیرہ سے بھی جان چھوٹ گئی.ایک بات جس کا اس مرتبہ مہمانوں نے میرے پاس اظہار کیا اور یہ بڑی اچھی بات ہے کہ امیر صاحب اور جلسے کی انتظامیہ کا شکر یہ ادا کرنا چاہئے.انہوں نے کہا کہ رہائش گاہوں پر بار بار آ کر ہماری ضرورتوں کے بارے میں امیر صاحب بھی پوچھتے رہے اور انتظامیہ بھی پوچھتی رہی اور یہی نمونہ ہے جو ہمیشہ قائم بھی رہنا چاہئے اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی انتظامیہ کو دکھانا چاہئے.باہر کی دنیا میں بسنے والے احمدی یا بیمار اور مجبور احمدی جو جلسہ میں شامل نہیں ہو سکے ان کے بھی شکریہ کے بے شمار خطوط اور فیکسز آ رہی ہیں کہ ایم ٹی اے کا شکر یہ ادا کر دیں جنہوں نے ہمارے لئے یہ تمام پروگرام اور عالمی بیعت دیکھنے اور سننے اور شامل ہونے ممکن بنائے.عربوں کی طرف سے بھی بے شمار پیغامات آئے ہیں کہ 24 گھنٹے جلسے کی کارروائی رہی اور ہمارے ایمانوں میں ایک عجیب روحانی تازگی پیدا ہوتی رہی.تمام دنیا ایم ٹی اے کے تمام کارکنان اور کارکنات کا شکر یہ ادا کر رہی ہے.بہر حال میں اپنی طرف سے بھی تمام کارکنان کام کرنے والے اور کام کرنے والیاں جو ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کسی بھی رنگ میں جلسے کے مہمانوں کی خدمت کی اور جلسے کے مہمانوں کا بھی شکریہ کہ انہوں نے بعض کمیوں اور کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے بھی صرف نظر کیا.
351 خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مخلوقات کو اٹھائے گا تو اپنے ایک بندے سے پوچھے گا کہ میرے ایک بندے نے تجھ پر احسان کیا.کیا تو نے اس کا شکریہ ادا کیا؟ تو وہ جوابا کہے گا کہ اے میرے رب مجھے معلوم تھا کہ یہ تیری طرف سے احسان ہے اس لئے میں نے تیرا شکر ادا کیا.اس پر اللہ کہے گا کہ تو نے میرا شکریہ ادا نہیں کیا کیونکہ تو نے اس کا شکر یہ ادا نہیں کیا جس کے ہاتھ سے میں نے تجھ پر احسان کیا.(کنز العمال جلد 3 صفحہ 297 کتاب الاخلاق حدیث نمبر 8621 ، دارالکتب العلمیة بیروت طبع دوم 2004 ء) تو یہ ہے رویہ جو مومنوں کا ایک دوسرے کے لئے ہونا چاہئے اور یہی رویے ہیں جو ایک لڑی میں پروئے جانے کے نظارے پیش کرتے ہیں.اب میں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کرنا چاہتا ہوں جو جماعت میں شامل نہیں لیکن جلسے میں شامل ہوئے ہمارے تعلقات کی وجہ سے ان کو موقع ملا.اور انتظامات سے بھی بے حد متاثر ہوئے اور جلسے کے ماحول نے بھی ان پر ایک روحانی اثر ڈالا.اسی طرح بعض احمدی جو پہلی دفعہ آئے اور جلسے نے ان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کیا ان کے بھی کچھ تاثرات ہیں.پہلے تو سویڈن کی کال مارک کاؤنٹی کے صدر ہیں یورپی یونین سے نمائندگی کر رہے ہیں، راجر کیلف.انہوں نے وہاں جلسے پر کچھ بیان بھی کیا تھا لکھ کر بھی دیا کہ میں نے اپنے ملک میں اپنی پارٹی کے لئے دنیا کے بہت سے ملکوں میں کانفرنسوں میں شرکت کی ہے اور آر گنا ئز بھی کی ہیں اور جلسے بھی اٹینڈ (Attend) کئے ہیں مگر جو پیار اور محبت کی فضاہر رنگ نسل اور ملک اور مختلف لباس پہنے ہوئے احباب کے درمیان دیکھی ہے ، مجھے اس کی مثال کہیں نظر نہیں آئی.اور خاص طور پر لمبے لمبے اجلاس اٹینڈ کرنے کے بعد پنڈال سے باہر آ کر تھکاوٹ کا بالکل احساس نہیں ہوا کیونکہ ہر طرف سے احباب اتنے پیار اور محبت سے ملتے تھے کہ تھکاوٹ کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا.افریقہ سے آئے ہوئے بادشاہ اور یورپ سے آئے ہوئے پارلیمنٹ کے ممبران اور دوسرے سیاسی لیڈران کو بھی ملنے کا جماعت احمدیہ نے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے.جو اپنی مثال آپ ہے.پھر سویڈن کے ہی ایک بڑے بوڑھے سیاستدان ہیں 74-75 سال ان کی عمر ہے ، کہتے ہیں کہ پیار محبت اور ڈسپلن کا جو مظاہرہ میں نے ان تین دنوں میں اس جلسہ گاہ میں دیکھا ہے وہ بے مثال تھا، ایک ہی آواز پر سب کھڑے ہو جاتے تھے اور ایک ہی آواز پر سب بیٹھ جاتے تھے اور یہ سب صرف ایک شخص کی محبت کی وجہ سے تھا.یہ میری زندگی کا پہلا اور واحد اور عجیب تجربہ تھا جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.میں نے اپنی 74 سالہ زندگی میں جس مسرت اور لذت کا تجربہ یہاں کیا وہ منفرد ہے جو میرے لئے بیان کرنا ممکن نہیں.
352 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 پھر قازقستان کے ایک پروفیسر گنگس گرا کمتولی صاحب ہیں ورلڈ ہسٹری کے پروفیسر ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کا یہ اجتماع جماعت احمدیہ کی تعلیمات کی خوبصورتی اور اس کے حسین نظریات کی کامیابی کی گواہی ہے.پھر کہتے ہیں کہ جماعت کے نظریات دوسرے مذاہب کا احترام سکھاتے ہیں.نیز ایک پر امن خوشیوں بھری زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں.انجام کار یہ نظریات ہی کامیاب ہوں گے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ مسلم جماعت احمدیہ کو تمام نیک مقاصد میں کامیاب کرے.ہم پہلی دفعہ یہاں آئے ہیں.ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح عزت اور احترام کے ساتھ ہمارا استقبال ہوگا.جو ہم نے یہاں ان دنوں میں دیکھا ہے اس کی ہم کو توقع نہیں تھی.پھر قازقستان کے ہی ایک پروفیسر سرگئی مانا کوف صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات سے متعارف ہونے کی طرف پہلا قدم ہے لیکن یہ معلوم ہو چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات انسانی ہمدردی ، امن ، آشتی اور تمام انبیاء اور مذاہب کے احترام پر مبنی ہیں.ایسے لوگوں کے درمیان ہونا ایک اعزاز کی بات ہے کہ جنہوں نے حق کو تلاش کر لیا ہے اور اب ساری دنیا تک پہنچانے کے لئے اس حق کو اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں.جلسہ سالانہ میں شمولیت سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ جماعت احمدیہ کے لئے سب سے قیمتی اور قابل قدر چیز اللہ کی مخلوق اور اس کی بھلائی ہے.یہ بات یہاں آنے والے مختلف ممالک کے نمائندگان سے بات چیت کرنے سے معلوم ہوئی ہے.جماعت احمد یہ دنیا بھر میں ضرورتمندوں اور محتاجوں کی خدمت کے لئے سکولز ، ہسپتال ، لائبریریاں تعمیر کرتی ہے اور یہ بڑی ضروری چیز ہے.میں نے دیکھا ہے کہ حسن خلق میں جماعت احمدیہ کا ایک امتیازی نشان ہے، جلسہ سالانہ میں مختلف ممالک سے شامل ہونے والے مذہبی و غیر مذہبی لوگ عام ٹورسٹس نہیں ہیں.بلکہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تعلیمات کی حقیقت سمجھنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہیں.ہمیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ جلسے میں شامل ہونے والے ہزاروں مہمانوں کی مہمان نوازی اور ان کی دیکھ بھال ایک بہت مشکل کام ہے.ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بدلے کے طور پر آپ سب اور آپ کے اہل و عیال صرف اور صرف خدا کی رضا اور اس کے فضل کے امیدوار ہیں.پس یہی ہے جو ہمارے کارکنان کا طرہ امتیاز ہے اور اس کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہم مہمان نوازی اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے.پھر قازقستان ہی کی ایک عورت نے اپنے جذبات کا اس طرح اظہار کیا کہ: ”اپنے ساتھ سب کے حسن سلوک کو ہم نے ایسے محسوس کیا کہ جیسے ہم وہ مہمان ہوں جن کا دیر سے انتظار تھا اور ہمارے سب کاموں کا بہت خیال رکھا گیا.ہم دل کی گہرائیوں سے عالمگیر جماعت احمدیہ کے حق میں اس امر کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی پر ترقی دیتا چلا جائے اور جماعت کی سچی تعلیمات کا نور دنیا کے ہر ملک ،شہر اور انسانی روح کومنور کر دے.“
353 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 پھر جو بین سے آئے ہوئے تھے ڈاکٹر جان الیگزانڈروزیرمملکت برائے سیاسی امور اور مشیر خاص صدر مملکت کے.یہ جب میں دورے پر گیا ہوں تو مجھے وہاں بارڈر پر ریسیو (Recieve) کرنے آئے تھے اس وقت سے ان کی دوستی کا ہاتھ بڑھا ہوا ہے اور بڑے وفا سے نبھا رہے ہیں حالانکہ عیسائی ہیں.یہ لکھتے ہیں کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور دنیا میں اسلام کا مستقبل صرف احمدیت ہی ہو سکتی ہے اور احمدیت نے ہمیں اسلام کا ایک نیا چہرہ دکھایا ہے جو اس سے قبل ہم نے کسی مسلمان میں نہیں دیکھا اور یہ دراصل محبت، بھائی چارے، خلوص اور انسانیت کی خدمت کا چہرہ ہے.روحانیت کی اعلیٰ اقدار کا حامل چہرہ ہے.علم اور روحانیت کا زبردست امتزاج ہے.محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا ماٹو ہی ہے جس کی عملی تصویر جماعت احمدیہ ہے جو ایک الہی مذہب کا مقصد ہوتا ہے اور اسی سے آج ساری دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہئے.کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ 30 ہزار لوگ شامل ہوتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ بات ماننے والی نہیں تھی.یہاں آ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سارے انتظامات پر امن اور پرسکون ماحول ہمحبت و خلوص اور ایک دوسرے کے احترام سے پر ہے.کہتے ہیں یوں لگتا ہے کہ یہ کوئی اور ہی مخلوق ہو جس کو دنیا کی خود غرضی اور مسائل سے کوئی تعلق نہ ہو.یہ تو لوگ نہیں فرشتے ہیں جنہوں نے آسمان سے زمین پر آ کے رہنا شروع کر دیا ہے.انتظامات میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی اس طرح تربیت ہوئی ہے گویا ماؤں کے رحموں سے تربیت پا کر آئے ہیں.کاش ہمارے ملک بینن میں بھی ہم ایسے ہو جائیں.ہر ایک نے بڑی عزت اور محبت سے ہمارا خیال رکھا ہے.ہماری زندگی میں اس کی یاد ہمیشہ رہے گی.تو یہ تربیت ہے جو یقیناً احمدی بچوں کی مائیں کرتی ہیں اور اس کو جاری بھی رکھنا چاہئے.یہی چیز ہے جو احمدیت کا طرہ امتیاز ہے.پھر کہتے ہیں: ایسا بھائی چارے کا ماحول ملا ہے جو بین میں کبھی نہیں ملا.آج بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو امن بھائی چارہ چاہتے ہیں کاش دوسرے سب مسلمان احمدیت کو سمجھ لیں.پھر کہتے ہیں کہ عالمی بیعت اور آخری روز کا جو میرا خطاب تھا اس نے تو ہماری دنیا بدل دی.(حالانکہ ابھی عیسائی ہیں ).اللہ کرے کہ یہ اسلام ہم سب کا مقدر بن جائے اور ہماری ہدایت کا موجب بن جائے.عالمی بیعت اور بعد ازاں زار و قطار آنسوؤں سے اپنے دلوں کوصاف کرتے اور دھوتے ہوئے لوگوں کو پایا.ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ اس وقت کوئی خاص آسمانی نزول ہو رہا تھا.جس میں ہم لوگ بھی شامل تھے.پھر کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا ہی انتظار ہے کہ ہم اپنے ملک جائیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ احمدیت ہی ہے جس کے سائے تلے ہم زندگی گزار سکتے ہیں.ایسی زندگی کہ بلا خوف ہو اور دوسری طرف خدا سے ملانے والی ہو.پھر کہتے ہیں کہ جب اللہ کے بندے کسی بھی سچائی کو لے کر چلتے ہیں تو مخالفین اس کی راہ میں روک پیدا کرتے ہیں لیکن
354 خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم میں اپنے ملک میں جہاں تک ہو سکا کوشش کروں گا کہ جماعت کو کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو.پھر بہت ساری باتیں میرے سے کرتے رہے آخر پر مجھے کہنے لگے کہ آپ سمجھیں کہ بیٹن میں آپ کا ایک بچہ موجود ہے.پھر سیرالیون کے ایک جسٹس Abdulai Sheikh Fofanah ہیں انہوں نے لکھا کہ جلسہ بہت شاندار تھا اور میرے لئے ہمیشہ ایک مقدس یادگار کے طور پر رہے گا.دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگ بھائیوں کی طرح پیار سے رہتے ہیں اکٹھے نمازیں پڑھتے ہیں اور اسلام کی ترقی کے لئے دعائیں کرتے ہیں.پھر برکینا فاسو کے گورنر تھے بَامُبَارَا ایلوا.انہوں نے لکھا کہ خاکسار برکینا فاسو کی نمائندگی میں یہاں آیا ہے اور دلی جذبات جماعت احمدیہ کے سربراہ کی خدمت میں پیش کرتا ہے.اس جلسے میں میں نے دیکھا کہ بلاشبہ دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل موجود ہے لیکن یک رنگ اور سب ہی انسانیت کے علمبردار نظر آتے ہیں.آج کا جلسہ کسی بھی قسم کے رنگ ونسل کے فرق سے بالا تر ہو کر ہو رہا ہے.یہ جماعت احمدیہ کے ماٹو ” محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“ کی واضح عکاسی کرتا ہے اور اسی ماٹو سے ساری دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہئے.جماعت احمد یہ میرے ملک میں تمام تر عزت و وقار کی نظر سے دیکھی جاتی ہے.جماعت احمدیہ نے صرف 20 سال میں ہی برکینا فاسو کے دور دراز کے علاقوں کے دل جیت لئے ہیں.ہم اس بات کو بہت جلد پہچان گئے ہیں کہ یہ جماعت ہی ہے جس میں انسانیت کی خدمت بلا تمیز رنگ و نسل ، مذہب ملت ہے اور صرف روحانی مائدہ ہی نہیں بلکہ جسمانی خدمات بھی پہنچانے میں آپ صف اول میں ہیں.کہتے ہیں کہ جماعت ہمارے ملک میں تعلیم ، پانی ،بجلی کی فراہمی کا کام سرانجام دے رہی ہے.صدر مملکت نے فیصلہ کیا کہ جماعت کو اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ملک کا اہم اعزاز تمغہ امتیاز دیا جائے جو گزشتہ ستمبر جشن آزادی کی تقریب میں جماعت احمدیہ کو دیا گیا تھا.پس ہم تو ان سے کسی قسم کا انعام نہیں چاہتے.خدمت کرتے ہیں تو خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور یہی جذ بہ ہے جو ہر کارکن کا ہے اور ہر احمدی کا ہے.پھر ابْرَاهِيم حِيَامًا گر با صاحبہ، خاتون ہیں.یہ نیامی کی میئر ہیں.یہ کہتی ہیں کہ آپ کے ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں“ نے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور میں نے یہاں اس کا عملی نظارہ دیکھا ہے.ساری دنیا سے مختلف مذاہب اور رنگ ونسل کے لوگ آئے ہوئے تھے.آپ میں سے ہر چھوٹے بڑے مرد عورت نے ہمیں محبت ہی دی ہے اور جس طرح ہمارا خیال رکھا گیا ہے یہ دن ہم ہر گز نہیں بھول سکتے.پھر امریکہ کے ایک احمدی ہیں احمد نورالدین صاحب.کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ یہاں آ کر جو کچھ میں نے دیکھا میرے آنسو بہنے لگے اور میں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے رونے لگا.یقینا وہ وقت قریب ہے میں محسوس کرتا
355 خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہوں کہ میں اپنے اس خوشگوار تجربے پر ایک کتاب لکھ سکتا ہوں.میرے جذبات ہیں ان کو بیان کرنے کی طاقت نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور مہربانیوں کو گنا ایک مشکل امر ہے.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں روحانی طور پر سیراب ہو کر گھر فلاڈیلفیا امریکہ لوٹ رہا ہوں.میں اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں اور ان کو چھوڑتا ہوں اور نبی کریم ہے اور آپ کے عظیم خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو تمام ان لوگوں کو جن تک میں پہنچ سکوں گا پہنچاؤں گا.محترمہ صَوَّاد رَزُوق صاحبہ، بیلجیئم کی مسلمان ممبر پارلیمنٹ ہیں.بنیادی طور پر یہ مراکو سے تعلق رکھتی ہیں.لیکن عرصے سے یہاں آباد ہیں، ہمبر پارلیمنٹ بھی ہیں.انہوں نے وہاں تقریر بھی کی تھی جلسے پر پیغام دیا تھا.انہوں نے لکھا کہ جلسے میں شامل ہونا میرے لئے یہ پہلا عظیم تجربہ تھا جو میں پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی.پھر جب دعوت تھی اس میں گئی ہیں تو وہاں میری اہلیہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں تو انہوں نے ان کو تبلیغ کی تبلیغ اس طرح کی کہ آنحضرت ﷺ کا مقام حضرت عیسی کا مقام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد ، بعثت، احمدی کیا سمجھتے ہیں ، ان باتوں پر آدھا گھنٹہ ان سے گفتگو ہوتی رہی.اس کے بعد انہوں نے ہمارے جو مشنری ہیں ان کو ان کا حوالہ دے کر کہا کہ میں اُن کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور انہوں نے مجھے اس طرح سمجھایا ہے کہ میرا ذہن اب بالکل تبدیل ہو چکا ہے اور وہاں اس کے بعد کہتی ہیں کہ میں مزید جو معلومات ہیں امام مہدی کے بارے میں وہ حاصل کرنا چاہتی ہوں اور رات ڈھائی بجے تک وہ بیٹھی معلومات لیتی رہی ہیں.اور انہوں نے میری اہلیہ کا حوالہ دے کر کہا کہ انہوں نے مجھے کچھ ایسا سمجھا دیا کہ اب چین نہیں آ سکتا جب تک میں پوری معلومات نہ لے لوں.اور پھر کہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے عقائد ونظریات سے مجھے دوبارہ روحانی زندگی عطا ہوئی ہے اور اب امام مہدی کی آمد کے بعد جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے.میں جماعت احمدیہ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں احمدیت قبول کروں تو صرف میں اکیلی احمدیت قبول نہیں کروں گی بلکہ میرے ساتھ میرے عزیز واقارب اور دوست اور کئی تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوں گے.اور میرے آخری خطاب کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آخری حصے میں عرب سے تعلق رکھنے والے احمدیوں سے خطاب کرتے ہوئے جو آپ نے کہا کہ لوگ جا گئیں، یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں اور مکہ میں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں.اس دوران کہتی ہیں میں بہت روئی اور میری آنکھوں سے آنسو امڈ آئے کیونکہ میں عرب قوم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہوں اور ایک دن قبل ہی بیگم صاحبہ نے مجھے ضرورت امام مہدی اور صداقت مسیح موعود کے بارہ میں بتایا.مجھے اس لمحے محسوس ہوا ( پھر میرا حوالہ دیا ) کہ جیسے وہ مجھے خود مخاطب ہیں.تو کہتی ہیں کہ میرے دل میں اس
356 خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد هفتم وقت یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ آپ لوگوں پر دنیا کے کئی ممالک میں بے حد ظلم جاری ہے جو سراسر نا انصافی ہے.کہتی ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سال میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ UK میں اکیلی نہیں ہوں گی بلکہ میرے ساتھ پارلیمنٹ کے مزید مبر بھی شامل ہوں گے.تو یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں.جلسہ کے موقع پر ایک خاموش تبلیغ ہورہی ہوتی ہے.لوگ خود بھی ماحول سے اثر لے رہے ہوتے ہیں.ایک دوسرے سے مل کر بھی اثر لے رہے ہوتے ہیں اور انفرادی طور پر بھی تبلیغ ہورہی ہوتی ہے.ہمارے ڈیوٹی والے خدام بھی ان مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں.مجھے پتہ لگا کہ ایک بس کا ڈرائیور ایرانی تھا.اس کو ایک خادم نے وفات عیسیٰ اور حضرت مسیح موعود کی آمد کے بارہ میں بتایا.تو جلسہ کے موقع پر یہ موقعے بھی ساتھ ساتھ مل رہے ہوتے ہیں اور یہ بھی ایسے اللہ کے فضل ہیں جن کے بعد میں بہترین نتیجے نکلتے ہیں.پھر ایک احمدی خاتون ہیں مکرمہ ریم شَرِيقِی اَخلَف صاحبہ، یہ کہتی ہیں پہلی دفعہ میں نے شرکت کی اور جو جذبات تھے انہیں دنیا کی کوئی زبان بیان نہیں کرسکتی.اس جلسے کی عظمت اور حسن اور تنظیم اور رضا کارانہ ڈیوٹی دینے والوں کا جذ بہ دیکھ کر فوراً یہ سوال دل میں اٹھتا تھا کہ دنیا میں کون اتنی منظم شکل میں یہ کام کر سکتا ہے.اتنی بڑی تعداد کی ضیافت کون کر سکتا ہے.ایک دل پر اتنے ہزاروں ہزار لوگوں کو کون جمع کر سکتا ہے.تو اس کا ایک ہی جواب ملتا کہ خدا کا ہاتھ آپ کے اوپر ہے اور وہی دلوں میں محبت اور الفت پیدا کرتا ہے اور وہی کام آسان کرتا ہے.کہتی ہیں پہلے میں عالمی بیعت ٹی وی پر دیکھتی تھی.خود حاضر ہو کر بیعت کرنا تو ایک خواب تھا جو امسال خدا تعالیٰ نے پورا کیا.انہوں نے بھی کچھ عرصہ پہلے ہی بیعت کی ہے ) جلسہ گاہ میں بیٹھ کر بیعت کرتے وقت لگا کہ گویا میں ایک نئی دنیا میں ہوں.شدت جذبات سے دل کی اور ہی حالت ہو رہی تھی.بدن پر لرزہ طاری تھا.آنکھوں سے آنسو رواں تھے.خدا کی رحمت و عفو پر نظر تھی اور دل میں خوشی کی لہر سجدہ شکر میں تو گویا میں نے خدا تعالیٰ کو اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر محسوس کیا.خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں اور تقصیروں کی معافی مانگی.ایسے لگا کہ یوم قیامت ہے اور دنیا بہت چھوٹی ہو گئی ہے.پھر ایک اور خاتون ہیں مکرمہ عبیر رَضًا حِلْمِی صاحبہ، کہتی ہیں کہ جلسہ کے آخری لمحات میں شدید جذبات غالب رہے اور میں کہہ رہی تھی کہ جب میں واپس مصر پہنچوں گی تو اہل وطن کو چیخ چیخ کر کہوں گی کہ اے رسول اللہ نے کی اُمت ! اپنی نیند سے اٹھو.تمہارا مہدی آ گیا ہے اور نشان ظاہر ہو گیا ہے.پس اس کی تصدیق کے لئے دل سے کوشش کرو.پھر ایک خاتون ہیں عزیز آمانی عودہ صاحبہ کہتی ہیں کہ میں اس دفعہ پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں.، دفعہ یہ دیکھ کر کہ اتنے زیادہ لوگوں کی مہمان نوازی ایک ہی وقت میں اتنے اچھے انتظام کے ساتھ ہو رہی ہے بڑی حیرت ہوتی ہے.
357 خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ربیع مصلح عودہ کہتے ہیں جلسے کی کوریج کے لحاظ سے بہت بہتری تھی.میں مہمان نوازی اور حسن سلوک سے بہت متاثر ہوں.اور پورے سال اور جلسے کے دوران دل میں اٹھنے والے سوالات کا کافی وشافی جواب جلسے میں مجھے مل گیا.یعنی کارروائیوں پروگراموں میں.مکرم عبد الرؤوف ابراہیم قزق صاحب کہتے ہیں کہ میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ جلسہ عربوں کے لئے مخصوص تھا.انشاء اللہ دشمنوں کی ڈالی ہوئی تمام روکیں زائل ہو جائیں گی.اور انشاء اللہ عرب فوج در فوج جماعت میں داخل ہوں گے.گویا کہ ایک بند ٹوٹ گیا ہے.مخالفین کا تکبر ٹوٹ جائے گا اور عنقریب حضرت امام مہدی علیہ السلام کا جھنڈا پورے بلاد عر بیہ پر لہرانے لگے گا اور عنقریب يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صُلَحَاءُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ ( تذكره صفحه 129 ایڈیشن چہارم 2004 مطبوعہ ربوہ ) کا الہام بڑی شان سے پورا ہوگا.دنیا کے بہت سے ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک سے ایسے پیغامات جلسہ کے بعد ملے جن سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضلوں کی بارش برسائی ہے.جہاں دنیا ہوا و ہوس میں مبتلا ہے مسیح محمدی کے غلام اپنی روحانیت میں ترقی کے لئے کوشش میں مصروف ہیں اور ایک نئے جذبے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں.دنیا کے ہر ملک سے یہ پیغامات آرہے ہیں اور کثرت سے آ رہے ہیں اور جذبات کا اظہار اس شدت سے ہے کہ جسے بیان کرنا ممکن نہیں کم از کم مشکل ضرور ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایسی محبت دلوں میں ڈالی ہے جس کی مثال آج دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور آپ کے ناطے پھر یہ خلافت سے محبت ہے.اللہ تعالیٰ اخلاص اور وفا اور محبت میں ہر احمدی کو بڑھاتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات پر ہمارے جذبات تشکر پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہوں اور ہماری تمام محبتوں کا مرکز خدا تعالیٰ کی ذات بن جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ نمبر 4 3 مورخہ 21 اگست تا 27 اگست 2009 صفحه 5 تا صفحه 8 )
خطبات مسرور جلد ہفتم 358 (32) خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 فرموده مورخه 07 اگست 2009 ء بمطابق 07 ظہور 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: رَفِيعُ الدَّرَجَتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِى الرُّوحَ مِنْ اَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التلاق.(المؤمن : 16) اللہ تعالیٰ جو رَفِيعُ الدَّرَجت ہے، بہت بلندشان والا ہے.تمام صفات کا مالک ہے.وہ یہ اعلان فرماتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس پر چاہتا ہے روح اتارتا ہے.یعنی وہ پیغام دے کر بھیجتا ہے جو روحانی لحاظ سے زندگی بخش پیغام ہوتا ہے.جو روحانی مردوں کو زندہ کرتا ہے.ان کو اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے اور باقی رہنے والی زندگی اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے.اس لئے اس دنیا میں جو کہ آزمائشوں اور امتحانوں کا گھر ہے ایسے اعمال بجالا و جو خدا تعالیٰ کو پسندیدہ ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر زمانہ میں اپنے پیغمبر بھیجے ہیں اور اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ سے عشق و محبت کی وجہ سے مسیح موعود و مہدی معہود کو بھیجا.اس شخص کو بھیجا جس کے متعلق پہلے سے ہی یہ اعلان آنحضرت ﷺ نے کر دیا تھا کہ وہ مہدی ہوگا.اللہ تعالیٰ سے ہدایت یافتہ ہو گا اور اسلام کی بگڑی ہوئی حالت کو سنوارنے کے لئے مبعوث ہو گا.پس یہ روح جو اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے کرتا ہے.یہی روحانی زندگی کا سامان بنتا ہے اور لوگوں کو سید ھے راستے کی طرف چلنے کی راہنمائی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام بھی ہوا تھا کہ يُلْقِي الرُّوْحَ عَلَى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ ( تذکرہ صفحہ 533 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے.یعنی منصب نبوت اس کو بخشتا ہے.پھر آپ کا ایک اور الہام ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا انتَ مِنِی بِمَنْزِلَةِ رُوحِی تُو مجھ سے بمنزلہ میری روح کے ہے.(تذکرہ صفحہ 629 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ اپنے خاص بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے یہ روح ڈال کر ان کے مقام کا
359 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 رفع کرتا ہے.جس کا قرآن کریم میں ایک جگہ یوں ذکر آیا ہے کہ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ علیم (الانعام: 84 ) کہ ہم جس کو چاہتے ہیں درجات میں بلند کر دیتے ہیں یقینا تیرا رب بہت حکمت والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.پس یہ خدا تعالیٰ ہے جو درجات کو بلند کرتا ہے.اس دنیا میں اپنے روحانی نظام کو چلانے کے لئے اپنے انبیاء، اولیاء اور مقربین کو بھیجتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور علم اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کس وقت میں، اور کن میں سے ، اور کس کو اپنے خاص پیغام کے ساتھ دنیا کی اصلاح اور انہیں ہوشیار کرنے کے لئے بھیجنا ہے اور اس زمانے میں اس حکیم اور علیم خدا نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو مسیح و مہدی بنا کر بھیجا ہے.آخرین میں آپ کے مبعوث ہونے کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے.اور آنحضرت ﷺ نے اس مسیح و مہدی کے مقام و مرتبہ اور ایک خاص نشانی بتا کر امت مسلمہ کو اسے قبول کرنے کی تلقین فرمائی ہے.مسلمان اگر آنحضرت اللہ کے اس پیغام کو غور سے اور صاف دل ہو کر پڑھیں اور سنیں تو کبھی آنحضرت ﷺ کے اس عاشق صادق کی مخالفت نہ کریں بلکہ اسے قبول کرنے کی طرف توجہ کریں.آنحضرت ﷺ نے مسیح کو نبی اور اپنے خلیفہ کا مقام عطا فرمایا ہے اور فرمایا کہ جو بھی اس کا زمانہ پائے اسے میرا سلام پہنچائے.( یہ حدیث مختصر بھی اور تفصیلی بھی مختلف کتابوں میں ہے المعجم الكبير للطبرانی میں بھی ہے.پھر ابو داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے ).(مسند احمد بن حنبل جلد 3 مسند ابی ہریرہ حدیث نمبر 7957 عالم الكتب بيروت 1998ء) پھر آپ نے اپنے مہدی کے متعلق جو مسیح بھی ہے یہ نشانی بتائی جو سنن دار قطنی میں ہے کہ حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے ( جو حضرت امام حسین کے پوتے امام علی زین العابدین کے صاحبزادے اور امام حسین کے پوتے تھے ) کہتے ہیں کہ ہمارے مہدی کی سچائی کے دونشان ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں وہ کسی کی سچائی کے لئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے.یعنی چاند کو اس کے گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ کو گرہن ہوگا اور سورج کو گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخوں کو گرہن ہوگا.اور فرمایا کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ان دونوں کو اس سے پہلے بطور نشان کبھی گرہن نہیں ہوا.سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صفة صلاة الخسوف والكسوف و هيئتهما حديث (1777) پس یہاں اس مقام کو بتانے کے لئے آنحضرت ﷺ نے ایک غیر معمولی آسمانی نشانی کی طرف توجہ دلائی ہے جو اپنی شان کے ساتھ 1894ء میں پورا بھی ہوا.وہاں لِمَهْدِيّنَا کہ ”ہمارے مہدی کے لئے“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں.فرمایا إِنَّ لِمَهْدِيَّنَا ايَتَيْنِ کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور یہ لفظ ہمارے مہدی کا استعمال کر کے اپنے پیارا اور قرب کا اظہار فرمایا ہے.اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو بھی مسیح و مہدی آنے والا تھا اس کا ایک مقام تھا اور آنے کی نشانیاں بتائی گئی تھیں اور یہ نشانیاں ہمیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلواۃ والسلام کی تائید میں نظر آتی ہیں اور ان کو دیکھ کر
360 خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ایک سعید فطرت جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے.آپ کا یہ جو مقام تھا اس میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح آپ کی تائیدات کا وعدہ کیا اور کس طرح آپ کو یہ ارفع مقام دینے کا آپ سے وعدہ فرمایا.یہ وعدہ اس زمانہ میں پورا ہوا جب آپ نے دعوئی فرمایا اور آج تک یہ وعدہ اللہ تعالیٰ پورا فرما تا چلا جا رہا ہے.انبیاء کی مخالفت ہوتی ہے آپ کی بھی ہوئی اور ہورہی ہے.جماعت احمدیہ کی بھی مخالفت ہو رہی ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کے مقام کو اس وقت بھی بلندیوں سے سرفراز فرمایا جب آپ نے دعوئی فرمایا اور آج تک بھی فرماتا چلا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ اللہ فرماتا ہے يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ إِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا يَرْفَعُ اللَّهُ ذِكْرَكَ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ کہ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی.تو میری آنکھوں کے سامنے ہے.خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا و آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا.( تذکرہ صفحہ 39.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک الہام ہوا کہ حَمَاكَ اللهُ.نَصَرَكَ اللهُ.رَفَعَ اللهُ حُجَّةَ الْإِسْلَامِ.جَمَالٌ.هُوَ الَّذِى أَمْشَاكُمْ فِي كُلِّ حَالٍ لَا تُحَاطُ اَسْرَارُ الْاَوْلِيَاء - خدا تیری حمایت کرے گا، خدا تجھ کو مد دے گا ، خدا حجت اسلام کو بلند کرے گا.جمال الہی ہے.جس نے ہر حال میں تمہارا تحقیہ کیا ہے.( تجھے پاک صاف کیا ہے).خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہیں وہ احاطہ سے باہر ہیں کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے.“ تذکرہ صفحہ 74.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پس آج خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ہے اس کا حسن دیکھنا ہے تو آنحضرت موہ کے اس عاشق اور مسیح و مہدی کے ساتھ جا کر ہی نظر آ سکتا ہے.کیا خدا تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کر کے کوئی اپنی شان بڑھا سکتا ہے؟ اب تک تو خدا تعالیٰ کو اس طرح جھوٹ منسوب کرنے والے کو ذلیل ورسوا کر دینا چاہئے تھا.لیکن نہیں ، وہ خدا جو اپنے بندے پر اپنا کلام اتارتا ہے یہ اس خدا تعالیٰ کے بچے اور بھیجے ہوئے کا کلام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور اس نے ہمیں بتایا.اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام ہر روز ایک نئی شان سے اوپر ہی اوپر بڑھ رہا ہے.خدا تعالیٰ نے آپ سے پھر یہ بھی وعدہ فرمایا تھا کہ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ.ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اتار دیا ہے اور تیرے ذکر کو اونچا کر دیا ہے.“ تذکرہ صفحہ 74.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ' آج حضرت خداوند کریم کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ یا عَبْدَ الرَّافِعِ إِنِّي رَافِعُكَ إِلَى إِنِّي مُعِزُّكَ لَا مَانِعَ لِمَا أُعْطِي کہ اے رفعت بخشنے والے خدا کے بندے!
خطبات مسرور جلد ہفتم 361 خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 میں تجھے اپنی جناب میں رفعت بخشوں گا.میں تجھے عزت اور غلبہ دوں گا، جو کچھ میں دوں اسے کوئی بند نہیں کر سکتا.تذکرہ صفحہ 97.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پس لوگوں کی کوششوں سے وہ فضل جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فر مایا اور آپ کی جماعت پر بھی جاری ہے.اس کو کوئی دنیاوی طاقت بند نہیں کرسکتی.پھر ایک الہام ہے کہ إِنِّي مَعَكَ يَا إِمَامُ رَفِيعُ الْقَدْرِ.اے عالی قدر امام !میں تیرے ساتھ ہوں“.( تذکرہ صفحہ 430.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) یہ چند الہامات بیان کرنے کا مقصد میرا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہامات کے ذریعہ تسلی دی تو آپ کے حق میں زمینی و آسمانی تائیدات کے نشانات بھی دکھائے.آپ کی جماعت میں شامل ہونے والا ہر شخص چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں بستا ہو اس بات کا گواہ بن جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے دل میں آپ کے ارفع مقام کی پہچان کو ڈالا.اور جو بھی نیک نیت اور سعید فطرت ہے خدا تعالیٰ اس کی ہدایت کے سامان پیدا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں آپ کے مقام کی پہچان کروانے کے لئے بے شمار نشانات دکھائے جن کا بیان تو ممکن نہیں.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ان چند باتوں کا ذکر کروں گا جو آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں درج فرمائی ہیں اور جنہیں آپ نے اُن خاص حالات کے حوالے سے اپنے مقام ومرتبہ اور عزت کا باعث ٹھہرایا ہے.انجام آتھم جو کتاب ہے یہ آپ نے عبداللہ آتھم کی وفات پر لکھی تھی.اور عبد اللہ آتھم وہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی سے ایک عبرت کا نشان بنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور آنحضرت ﷺ کی سچائی اور شان کو دنیا پر ظاہر فرمایا.بہر حال عبد اللہ ہ تم ایک پادری تھا.اس کی وفات کو بعض علماء اور سجادہ نشینوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی میں کوئی نشان تسلیم نہ کیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب کو دعوت مباہلہ دی اور عربی زبان میں ایک مکتوب لکھا.یہ مکتوب کیا، دو سو صفحے سے اوپر کی ایک پوری کتاب ہے، اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اپنے حق میں تائیدات کا ذکر فرمایا اور اس کے آخر میں آپ نے اُردو زبان میں ایک ضمیمہ لکھا اس میں مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ایک بے بنیاد اعتراض پر جو مولوی عبداللہ غزنوی کے حوالے سے انہوں نے کیا تھا، کتاب کے حاشیہ میں اپنی تائید اور اللہ تعالیٰ کے آپ کو عزت کا مقام دیئے جانے کا ذکر فرمایا ہے.تو اس میں سے میں کچھ حصہ پیش کروں گا.آپ فرماتے ہیں کہ : ” سو جاننا چاہئے کہ وہ امور بہ تفصیل ذیل ہیں جو بحکم الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ہماری عزت کے موجب ہوئے.فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آتھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ اپنے واقعی معنوں کے رو سے پوری ہوگئی اور اس دن سے وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو...براہین حمدیہ میں لکھی گئی تھی.آنتم اصل منشاء الہام
362 خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کے مطابق مر گیا اور تمام مخالفوں کا منہ کالا ہوا.اور ان کی تمام جھوٹی خوشیاں خاک میں مل گئیں.اس پیشگوئی کے واقعات پر اطلاع پا کر صد بادلوں کا کفر ٹوٹا اور ہزاروں خط اس کی تصدیق کے لئے پہنچے اور مخالفوں اور مکذبوں پر وہ لعنت پڑی جواب دم نہیں مار سکتے“.پھر فرمایا کہ ” وہ امر جو مباہلے کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ ان عربی رسالوں کا مجموعہ ہے جو مخالف مولویوں اور پادریوں کے ذلیل کرنے کے لئے لکھا گیا تھا اور انہیں میں سے یہ عربی مکتوب ہے جو اب نکلا.“ ( جو آپ نے انجام آتھم میں لکھا تھا ”کیا اس کے دوسرے بھائی ان رسائل کے مقابل پر مر گئے ؟ اور کچھ بھی لکھ نہ سکے ؟ ( یہ عبدالحق کے حوالے سے بات ہو رہی ہے اور دنیا نے یہ فیصلہ کر دیا کہ عربی دانی کی عزت اسی شخص یعنی اس راقم کے لئے مسلم ہے.(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ) " جس کو کا فر ٹھہرایا گیا ہے اور یہ سب مولوی جاہل ہیں.“ فرماتے ہیں کہ اسی وقت میں خدا نے شیخ محمد حسین بٹالوی کا وہ الزام کہ اس شخص کو عربی میں ایک صیغہ نہیں آتا میرے سر پر سے اتارا.اور محمد حسین اور دوسرے مخالفین کی جہالت کو ظاہر کیا.الحمد للہ علی ذالک.“ پھر فرماتے ہیں کہ ” تیسرا وہ امر جو میری عزت کا موجب ہوا وہ قبولیت ہے جو مباہلے کے بعد دنیا میں کھل گئی.مباہلے سے پہلے میرے ساتھ شاید تین چار سو آدمی ہوں گے اور اب آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ میں جان فشاں ہیں.( یہ 1893ء کی بات ہے اور جس طرح اچھی زمین کی کھیتی جلد جلد نشو ونما پکڑتی اور بڑھتی جاتی ہے ایسا ہی فوق العادت طور پر اس جماعت کی ایک ترقی ہو رہی ہے.نیک روحیں اس طرف دوڑتی چلی آتی ہیں اور خدا از مین کو ہماری طرف کھینچتا چلا آتا ہے ( اور یہ اللہ تعالیٰ کا جو نشان ہے اس کو ہم آج بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.جس کا میں نے کچھ ذکر اپنے جلسے کی رپورٹ میں بھی کیا تھا).فرماتے ہیں کہ مباہلہ کے بعد ہی ایک ایسی عجیب قبولیت پھیلی ہے کہ اس کو دیکھ کر ایک رفت پیدا ہوتی ہے.ایک دوا مینٹ سے اب ایک محل تیار ہو گیا ہے اور ایک دو قطرے سے اب ایک نہر معلوم ہوتی ہے ( اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھیں کہ نہریں بھی بڑے بڑے دریاؤں کی اور تیز اور تند دریاؤں کی شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہیں اور باوجود تمام تر مخالفتوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں لوگ شامل ہورہے ہیں.فرمایا کہ "فرشتے کام کر رہے ہیں اور دلوں میں نور ڈال رہے ہیں سود یکھو کیسی عزت ہم کو ملی.سچ کہو کیا یہ خدا کا فعل ہے یا انسان کا“.پھر فرمایا ” وہ امر جو مباہلے کے بعد میری عزت کا موجب ہوا، رمضان میں خسوف و کسوف ہے.کتب حدیث میں صدہا برسوں سے یہ لکھا ہوا چلا آتا تھا کہ مہدی کی تصدیق کے لئے رمضان میں خسوف و کسوف ہوگا اور آج تک کسی نے نہیں لکھا کہ پہلے اس سے کوئی ایسا مہدویت کا مدعی ظاہر ہوا تھا جس کو خدا نے یہ عزت دی ہو کہ اس کے لئے رمضان میں خسوف کسوف ہو گیا ہو.سوخدا نے مباہلہ کے بعد یہ عزت بھی میرے نصیب کی.“
363 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 فرماتے ہیں کہ ” اے اندھو! اب سوچو کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت کس کو ملی؟ عبد الحق تو میری ذلت کے لئے دعائیں کرتا تھا.یہ کیا واقعہ پیش آیا کہ آسمان بھی مجھے عزت دینے کے لئے جھکا.کیا تم میں ایک بھی سوچنے والا نہیں جو اس بات کو سوچے.کیا تم میں ایک بھی دل نہیں جو اس بات کو سمجھے.زمین نے عزت دی، آسمان نے عزت دی اور قبولیت پھیل گئی.“ پھر فرمایا 'پانچواں وہ امر جو مباہلے کے بعد میرے لئے عزت کا موجب ہوا علم قرآن میں اتمام حجت ہے.میں نے یہ علم پا کر تمام مخالفوں کو کیا عبدالحق کا گروہ اور کیا بطالوی کا گروہ، غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کر سکے.سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا اور اپنی جہالت پر جو تمام ذلتوں کی جڑ ہے انہوں نے مہر لگادی.فرماتے ہیں اور اسی زمانے میں کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی.اس کرامت کے مقابل پر کوئی شخص ایک حرف بھی نہ لکھ سکا.پھر فرماتے ہیں اور کیا اب تک یہ ثابت نہ ہوا کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت خدا نے مجھے دی“.”چھٹا امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور عبدالحق کی ذلت کا موجب ہوا یہ ہے کہ عبدالحق نے مباہلے کے بعد اشتہار دیا تھا کہ ایک فرزند اس کے گھر میں پیدا ہوگا اور میں نے بھی خدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ اشتہار انوار الاسلام میں شائع کیا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے لڑکا عطا کرے گا.سوخدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرے گھر میں تو لڑکا پیدا ہو گیا جس کا نام شریف احمد ہے ( حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی پیدائش کا بیان ہے اور قریباً پونے دو برس کی عمر رکھتا ہے.اب عبدالحق کو ضرور پوچھنا چاہئے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کا لڑکا کہاں گیا.فرماتے ہیں ” کیا اس کے سوا کسی اور چیز کا نام ذلت ہے کہ جو کچھ اس نے کہا وہ پورا نہ ہوا اور جو کچھ میں نے خدا کے الہام سے کہا خدا نے اس کو پورا کر دیا.پھر فرماتے ہیں ساتواں امر جو مباہلے کے بعد میری عزت اور قبولیت کا باعث ہوا خدا کے راستباز بندوں کا وہ مخلصانہ جوش ہے جو انہوں نے میری خدمت کے لئے دکھلایا.مجھے کبھی یہ طاقت نہ ہوگی کہ میں خدا کے ان احسانات کا شکر ادا کر سکوں جو روحانی اور جسمانی طور پر مباہلہ کے بعد میرے وارد حال ہو گئے.روحانی انعامات کا نمونہ میں لکھ چکا ہوں یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے وہ علم قرآن اور علم زبان محض اعجاز کے طور پر بخشا کہ اس کے مقابل پر صرف عبدالحق کیا بلکہ گل مخالفوں کی ذلت ہوئی.ہر ایک خاص و عام کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ صرف نام کے مولوی ہیں.فرماتے ہیں اور جسمانی نعمتیں جو مباہلہ کے بعد میرے پر وارد ہوئیں وہ مالی فتوحات ہیں جو اس درویش خانہ کے لئے خدا تعالیٰ نے کھول دیں.مباہلہ کے روز سے آج تک پندرہ ہزار کے قریب فتوح غیب کا روپیہ آیا جو اس سلسلہ
364 خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کے ربانی مصارف میں خرچ ہوا.فرماتے ہیں ”خدا نے ایسے مخلص اور جان فشان ارادتمند ہماری خدمت میں لگا دیئے کہ جو اپنے مال کو اس راہ میں خرچ کرنا اپنی سعادت دیکھتے ہیں.پھر آگے آپ نے اپنے چند مخلصین کا نام لے کے ذکر بھی فرمایا ہے جنہوں نے ہزاروں رو پیدا اسلام کی خاطر احمدیت کی ترقی کی خاطر دیا اور ماہوار بھی دیتے چلے گئے.اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تائید کا یہ نشان کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت روز افزوں ترقی کر رہی ہے.مالی لحاظ سے بھی اور تعداد کے لحاظ سے بھی.اور روحانی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے ترقی سب سے اہم چیز ہے جو ہونی چاہئے.پھر آٹھواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت زیادہ کرنے کے لئے ظہور میں آیا کتاب ست بچن کی تالیف ہے.اس کتاب کی تالیف کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے وہ سامان عطا کئے جو تین سو برس سے کسی کے خیال میں بھی نہیں آئے تھے“.( یہ چولہ بابا نانک کے بارے میں ہے کہ وہ اتنا عرصہ محفوظ رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے یہ ظاہر ہوا کہ بابا نانک جو تھے وہ مسلمان ہوئے ).آپ فرماتے ہیں میں اس کتاب میں باوانا تک صاحب کی نسبت ثابت کر چکا ہوں کہ باوا صاحب درحقیقت مسلمان تھے اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ آپ کا وردتھا.آپ بڑے صالح آدمی تھے.آپ نے دو مرتبہ حج بھی کیا.اور اسی چولہ کو ایک زمانے میں غائب کر دیا گیا تھا لیکن اب پھر یہ ایک خاندان کے پاس محفوظ ہے.ہمارے جلسے پر ایک سکھ مہمان بیدی صاحب آئے تھے.انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ ان کے خاندان کے پاس محفوظ ہے.پھر ایک نشانی یہ ہے کہ نواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کے زیادہ ہونے کا موجب ہوا یہ ہے کہ اس عرصہ میں آٹھ ہزار کے قریب لوگوں نے میرے ہاتھ میں بیعت کی اور بعض قادیان پہنچ کر اور بعض نے بذریعہ خط تو بہ کا اقرار کیا.پس میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کی تو بہ کا ذریعہجو مجھ کو ٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جو خدا کی رضامندی کے بعد حاصل ہوتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقوی ترقی پذیر ہے".اور یہی چیز ہے جیسا کہ میں نے کہا صلاحیت اور تقویٰ کی ترقی جو ہے جماعت کو اس میں بڑھتے چلے جانا چاہئے.صرف تعداد بڑھنا کافی نہیں ہے اس لئے ہمیں احمدیوں کو اپنی روحانی حالتوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ہر وقت ضرورت ہے.فرماتے ہیں.میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدے میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.نا پاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں“.پس یہ معیار ہیں جو آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سوں میں قائم بھی ہیں اور ہمیں قائم رکھنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے.
365 خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پھر فرماتے ہیں ”اب ہمارے مخالفین کو سوچنا چاہئے کہ اس باغ کی ترقی اور سرسبزی عبدالحق کے مباہلہ کے بعد کس قدر ہوئی ہے.یہ خدا کی قدرت نے کیا ہے.جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے.ہماری امرتسر کی مخلص جماعت.ہماری لاہور کی مخلص جماعت.ہماری سیالکوٹ کی مخلص جماعت ہے.ہماری کپورتھلہ کی مخلص جماعت ہے.ہماری ہندوستان کے شہروں کی مخلص جماعتیں وہ نو را خلاص اور محبت اپنے اندر رکھتی ہیں کہ اگر ایک با فراست آدمی ، ایک مجمع میں ان کے منہ دیکھے تو یقینا سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دیے.ان کے چہروں پر ان کی محبت کے نور چمک رہے ہیں.وہ ایک پہلی جماعت ہے جس کو خدا صدق کا نمونہ دکھلانے کے لئے تیار کر رہا ہے.یہاں اس حوالے سے میں اس جگہ سے منسوب ہونے والے ، ان شہروں سے منسوب ہونے والے، ہندوستان سے منسوب ہونے والے لوگوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے آباء واجداد کی ان قربانیوں اور اخلاص کو ہمیشہ یادرکھیں اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں کہ یہی چیز جو ہے وہ جماعتی ترقی کا بھی موجب بننے والی ہے اور حقیقی رنگ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جوڑ کر ان تمام فیضوں سے فیضیاب کرنے والی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے اور آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان سے باہر نکل کر بھی دنیا کی جماعتوں میں یہ اخلاص پیدا ہو رہا ہے.کیا یورپ کیا ایشیا کیا افریقہ.پس ہر جماعت کو اپنے روحانی معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ترقی کرتے چلے جانا چاہئے.پھر فرمایا ” دسواں امر جو عبدالحق کے مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا جلسہ مذاہب لا ہور ہے.اس جلسہ کے بارہ میں مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.جس رنگ اور نورانیت کی قبولیت میرے مضمون کے پڑھنے میں پیدا ہوئی اور جس طرح دلی جوش سے لوگوں نے مجھے اور میرے مضمون کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا کچھ ضرورت نہیں کہ میں اس کی تفصیل کروں.بہت سی گواہیاں اس بات پر سن چکے ہو کہ اس مضمون کا جلسہ مذاہب پر ایسا فوق العادت اثر ہوا تھا کہ گویا ملائک آسمان سے نور کے طبق لے کر حاضر ہو گئے تھے.ہر ایک دل اس کی طرف ایسا کھینچا گیا تھا کہ گویا ایک دست غیب اس کو کشاں کشاں عالم وجد کی طرف لے جارہا ہے.جب لوگ بے اختیار بول اٹھے تھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج باعث محمد حسین وغیرہ کے اسلام کو سبکی اٹھانی پڑتی.ہر ایک پکارتا تھا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی.مگر سوچو کہ کیا یہ فتح ایک دجال کے مضمون سے ہوئی ؟ پھر میں کہتا ہوں کیا ایک کافر کے بیان میں یہ حلاوت اور یہ برکت اور بی تا ثیر ڈال دی گئی.وہ جو مومن کہلاتے تھے اور آٹھ ہزار مسلمانوں کو کافر کہتے تھے جیسے محمد حسین بٹالوی.خدا نے اس جلسہ میں کیوں ان کو ذلیل کیا.کیا یہ وہی الہام نہیں کہ میں تیری اہانت کرنے والوں کی اہانت کروں گا.اس جلسہ اعظم میں ایسے شخص کو کیوں عزت دی گئی جو مولویوں کی نظر میں کافر مرتد ہے.کیا کوئی مولوی اس کا جواب
366 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 دے سکتا ہے.پھر علاوہ اس عزت کے جو مضمون کی خوبی کی وجہ سے عطا ہوئی اسی روز وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو اس مضمون کے بارے میں پہلے سے شائع کی گئی تھی.یعنی یہ کہ یہی مضمون سب مضمونوں پر غالب آئے گا اور وہ اشتہار تمام مخالفوں کی طرف جلسے سے پہلے روانہ کئے گئے تھے.سو اس روز وہ الہام بھی پورا ہوا اور شہر لاہور میں دھوم مچ گئی کہ نہ صرف مضمون اس شان کا نکلا جس سے اسلام کی فتح ہوئی بلکہ ایک الہامی پیشگوئی بھی پوری ہو گئی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا یہ مضمون پڑھا تھا..فرماتے ہیں کہ سو یہ عزتیں اور قبولیتیں ہم کو تو مباہلہ کے بعد ملیں.اب کوئی مولوی ہمیں سمجھا وے کہ عبد الحق نے مباہلہ کے بعد کون سی عزت دنیا میں پائی.کون سی قبولیت اس کی لوگوں میں پھیلی.کون سے مالی فتوحات کے دروازے اس پر کھلے.کون سی علمی فضیلت کی پگڑی اس کو پہنائی گئی“.فرماتے ہیں یہ دس برکتیں مباہلے کی ہیں جو میں نے لکھی ہیں.پھر کیسے خبیث وہ لوگ ہیں جو اس مباہلے کو بے اثر سمجھتے ہیں.فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَتَدَبَّرُوا وَ يُفَكِّرُوا فِي هَذِهِ الْعَشَرَةِ الْكَامِلَةِ“.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 309 تا 317 حاشیہ) پس اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپ کو نشان دکھائے ہیں.ایک جگہ اللہ تعالیٰ کے اپنے حق میں نشانات کا ذکر کرتے ہوئے اور اس ارفع شان کا ذکر کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی اور ساتھ ہی یہ کہ دشمن کس طرح نامراد ہوئے.آپ فرماتے ہیں کہ میں بموجب آیت کریمہ وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے.میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ اگر میں ان کو فرداً فردا شمار کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں.( یہ 1906 ء کی بات ہے ) اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اس کو ثبوت دے سکتا ہوں.بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں ہر محل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اس نے پوری کیں.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں اس نے ہمو جب اپنے وعدہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ کے، میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل ورسوا کیا اور اس بات کے نمونے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں.کئی جگہوں پر نظر آتے ہیں.الہام کے پورا ہونے کے کئی واقعات ہیں اور مختلف ملکوں میں یہ واقعات رونما ہور ہے ہیں ).پھر فرماتے ہیں کہ بعض نشان اس قسم کے ہیں جو مجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں پر اس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری مدت بعث سے پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ جب سے دنیا پیدا
367 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 ہوئی یہ مدت دراز کسی کا ذب کو نصیب نہیں ہوئی.اور بعض نشان اس زمانے کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں“.(اور یہی حالت آج کل بھی اور امام کی ضرورت کا تقاضا کرتی ہے.جب ہر جگہ ظهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : 42) کا نظارہ ہمیں نظر آتا ہے اور خاص طور پر مسلمان کہلانے والے جو ممالک ہیں ان میں سب سے زیادہ بے سکونی بڑھ رہی ہے اور فساد پیدا ہو رہا ہے.فرماتے ہیں اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جس میں دوستوں کے حق میں میری دعا ئیں منظور ہوئیں.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو شر یہ دشمنوں پر میری بددعا کا اثر ہوا.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں میری دعا سے بعض خطر ناک بیماروں نے شفا پائی اور ان کی شفا سے پہلے مجھے خبر دی گئی.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوا ہیں آئیں اور آنحضرت مہ کو خواب میں دیکھا.جیسے سجادہ نشین صَاحِبُ العَلَمُ سندھ جن کے مرید ایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں ان کو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے“.(اور یہ نظارے ہم آج بھی دیکھتے ہیں ) اور بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت علیہ کوخواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کا آخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لے کر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی.جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ ساکن جمال پور ضلع لدھیانہ.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70-71) پھر آپ فرماتے ہیں ایک جگہ کہ ”جب میں 1904ء میں کرم دین کے فوجداری مقدمے کی وجہ سے جہلم میں جارہا تھا تو راہ میں مجھے الہام ہوا رِيكَ بَرَكَاتٍ مِنْ كُلّ طَرَفِ یعنی ہر ایک پہلو سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا.اور یہ الہام اسی وقت تمام جماعت کو سنا دیا گیا بلکہ اخبار الحکم میں درج کر کے شائع کیا گیا اور یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی.کہ جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمینا دس ہزار سے زیادہ آدمی ہو گا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کی کچہری کے اردگر داس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے.گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دوسو کے عورت بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئی.اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دیئے اور تحفے پیش کئے اور اس طرح ہم ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پوری کی.
368 خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر آپ فرماتے ہیں براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے.سُبحَانَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ مَجُدَكَ يَنْقَطِعُ ابَاءُ كَ وَيُبْدَءُ مِنكَ - ( دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 490 ) ( ترجمہ ) خدا ہر ایک عیب سے پاک اور بہت برکتوں والا ہے وہ تیری بزرگی زیادہ کرے گا.تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور خدا اس خاندان کی بزرگی کی تجھ سے بنیاد ڈالے گا.یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے کہ جب کسی قسم کی عظمت میری طرف منسوب نہیں ہوتی تھی اور میں ایسے گمنام کی طرح تھا جو گو یا دنیا میں نہیں تھا.اور وہ زمانہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اس پر اب قریباً 30 برس گزر گئے.اب دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی کس صفائی سے پوری ہوئی جو اس وقت ہزار ہا آدمی میری جماعت کے حلقہ میں داخل ہیں.اور اس سے پہلے کون جانتا تھا کہ اس قدر میری عظمت دنیا میں پھیلے گی.پس افسوس ان پر جو خدا کے نشانوں پر غور نہیں کرتے.پھر اس پیشگوئی میں جس کثرت نسل کا وعدہ تھا اس کی بنیاد بھی ڈالی گئی.کیونکہ اس پیشگوئی کے بعد چار فرزند نرینہ اور ایک پوتا اور دولڑکیاں میرے گھر میں پیدا ہوئیں.جو اس وقت موجود نہ تھیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 263 تا 265) آج جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جسمانی اولاد بھی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور روحانی اولاد بھی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر دن اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.ہم ہر روز ہر قوم اور ہر ملک میں ایک نیا نشان دیکھ رہے ہیں.غلام احمد کی جے“ کا نعرہ لگ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ جو بچے وعدوں والا ہے حضرت مسیح موعود کی شان کو بلند فرما تا چلا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بلندشان عطا فرمائی اور ہر موقع پر آپ کی تائید اور نصرت کے لئے نشانات ہمیں دکھائے وہ جسے چاہتا ہے عزت عطا فرماتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا وہ جھوٹے وعدوں والا خدا نہیں ہے.آج تک وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے پورے کرتا چلا جارہا ہے.اس کا یہ وعدہ بھی یقینا پورا ہو گا کہ وہ قیامت تک آپ کے ماننے والوں کو دوسروں پر غلبہ عطا فرمائے گا.پس ہر احمدی کو اُس غلبہ کا حصہ بننے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام دعاوی پر کامل یقین رکھتے ہوئے ، اس پر مضبوطی سے قائم ہوتے ہوئے یہ کوشش کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس سے چمٹائے رکھے.ان انعامات سے فیض پانے کے لئے جن کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا ہے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنے کی ضرورت ہے.مخالفین احمدیت وقتا فوقتا اپنے دل کے بغض اور کینے ظاہر کرتے رہتے ہیں.پاکستان میں تو عمومی طور پر بھی یہ حالت ہے کہ اسلام کے نام پر اور اللہ اور رسول کے نام پر اسلام کی تعلیم کے خلاف جس کے اوپر کسی بھی مولوی کو اپنے پسند کا نہ ہو کوئی شخص اس کو پکڑا دیتے ہیں کینے ظاہر کرتے ہیں اور ظلم کرتے چلے جاتے ہیں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے.اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج پورا ملک ساری دنیا میں بدنام ہے جہاں انہوں نے احمدیوں پر ظلم کرتے ہوئے
369 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 انہیں عبادتوں سے روکا تھا.ان کو کلمے سے روکا تھا.وہ احمدیوں کے کلمے تو چھین نہیں سکے احمدیوں کو عبادتوں سے تو روک نہیں سکے.لیکن اپنی ان کی یہ حالت ہے کہ آپس میں لڑائیاں فتنہ فساد، مسجد میں بند ہوئی ہیں اور ان کی حکومت کے ذریعہ سے ان کی مسجد میں گرائی جاتی ہیں.وہاں سے اسلحہ نکل رہا ہوتا ہے.یہ تو ایک عمومی حالت ہے.لیکن اسلام کے نام پر اب وہاں ظلم کی انتہا اتنی بڑھ گئی ہے کہ پچھلے دنوں میں عیسائیوں پر جو غیر مسلم اقلیت ہے ، بربریت کا ایک انتہائی بھیا نک نمونہ دکھایا گیا ہے.ملاں جس کو چاہے اسلام کے نام پر کسی بھی کام کو غیر اسلامی فعل قرار دے کر اس پر ظلم کروالیتا ہے.عمومی حالت ملک میں لاقانونیت ہے.لاقانونیت کا دور دورہ ہے.نعرہ تو یہ لگاتے ہیں کہ قانون کی بالا دستی ہے.عدلیہ بحال ہوگئی فلاں یہ ہو گیا لیکن عملاً یہ بالا دستی صرف سیاسی مفادات کے لئے ہے اور جہاں کسی غریب شہری کے حقوق دلوانے کا سوال آتا ہے وہاں ان کے یہ سب قانون ختم ہو جاتے ہیں.تو اس لحاظ سے بھی احمدیوں کا فرض بنتا ہے کہ دعا کریں اپنے ملک کے لئے جو پاکستان کے احمدی ہیں خاص طور پر.پاکستان میں تو خاص طور پر جیسا کہ میں نے کہا احمدیوں پر ظلموں کی انتہا ہوتی رہتی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے.جب سے انہوں نے یہ قانون پاس کیا 1974ء میں اور پھر 1984ء میں.جو چاہے اپنے خود ساختہ اسلام کے نام پر جس کو مرضی ظلم کا نشانہ بنالے اور قانون جو ہے سیاستدان جو ہیں وہ اپنی مصلحتوں کے تحت اپنی سیاسی بقا کے لئے مولویوں کے ہاتھوں میں ہیں اور مولوی کے خوف سے کوئی بھی ایسا نہیں جو انصاف کے تقاضے پورے کر سکے.پس احمدی ان دنوں میں خاص طور پر جبکہ پاکستان کی بہت زیادہ بھیانک صورتحال ہوتی چلی جا رہی ہے دعا کریں، خاص طور پر پاکستان کے احمدی اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں ، اس کی پناہ طلب کریں، اپنے اعمال کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کریں، صدقات پر زور دیں اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے ہیں.جماعت احمدیہ نے ترقی کرنی ہے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور جماعت کو پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی اپنی خاص حفاظت میں رکھے.UK کا جو جلسہ ہوا ہے.اس جلسہ کے بعد سے بعض عرب ممالک میں بھی وہاں کی انتظامیہ نے احمدیوں کو تنگ کرنا شروع کیا ہے.وہ حرکت میں آئی ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے کہ وہ مخالفت کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کو مانیں اور آنحضرت ﷺ کے سلام کا پیغام سیح و مہدی تک پہنچائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرے.آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے.ملتان میں ہمارے ایک نوجوان مکرم رانا عطاء الکریم نون صاحب تھے.ان کو کل تین مسلح نو جوانوں نے گھر میں گھس کے شہید کر دیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کی عمر 36 سال تھی.موصی تھے اور جماعت سے بڑا اخلاص و وفا کا تعلق تھا.کچھ عرصہ سے ان کو شک تھا کیونکہ بعض مشکوک افراد ان کے گھر کے
370 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 7 اگست 2009 اردگرد پھر رہے تھے اس وجہ سے دو بھائی جو تھے وہ باری باری رات کو بھی گھر کا پہرہ دیا کرتے تھے.ان کی شہادت اس طرح ہوئی ہے کہ یہ اپنے گھر سے دس پندرہ منٹ کے لئے نکلے ہیں.کسی دکان پر گئے ہیں ، دھوبی کی.وہاں چند منٹ لگے ہیں لیکن غلطی سے کمرے کے باہر کا جو دروازہ تھا، اس کا جوسٹنگ روم تھا، وہ کھلا چھوڑ گئے اور تین مسلح افراد جو تھے وہ گھر کے اندر آگئے.گھر والوں کو انہوں نے کمرے میں بند کر دیا اور وہیں چھپ گئے.جب یہ گھر میں داخل ہوئے ہیں تو ان پر فائر کئے اور ان کو تین گولیاں لگیں.موقع پر ہی شہید ہو گئے.پڑھے لکھے تھے کاروباری آدمی تھے.انہوں نے ایگریکلچر میں ماسٹر کی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی.ان کے پسماندگان میں والدین ہیں ، اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں ہیں اور تین بہنیں اور چار بھائی ہیں.اس وقت میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.ایک جنازہ اس وقت حاضر بھی ہے جو کہ چوہدری عنایت اللہ صاحب طارق کا ہے جو انسپکٹر رہے ہیں خدام الاحمدیہ میں.یہ 4 راگست کو فوت ہوئے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ بھی واقف زندگی تھے اور پچاس سال سے زائد عرصہ انہوں نے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی.نیک انسان تھے ، سلسلہ کا در در کھنے والے، با وفا ،خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق تھا، ان کے ایک بیٹے حبیب اللہ طارق جرمنی میں سیکرٹری صنعت و تجارت ہیں اور ایک اور بیٹے ہمارے مبلغ ہیں فضل اللہ طارق صاحب جو آج کل فجی کے امیر اور مشنری انچارج ہیں.مرزا عبدالرشید صاحب جو یہاں ہیں نائب صدر انصار اللہ ان کے یہ سسر تھے.ان کا جنازہ حاضر ہے.تو ان کے ساتھ یہ جنازہ بھی پڑھاؤں گا.اور اس کے علاوہ بھی پہلے شاید اعلان ہو چکا ہے بعض غائب جنازے ہیں.وہ بھی ساتھ ہی ادا ہوں گے.ایک مکرم محمد حسین صاحب لاس اینجلس امریکہ کا.دوسرا ہے چوہدری خادم حسین صاحب اسد.یہ نا صر آباد سندھ کے مینجر رہے ہیں، سندھ میں تھے کنری میں رہتے تھے.ہمارے ڈاکٹر طارق باجوہ صاحب جو یہاں ہیں ان کے یہ والد تھے.اور مکرم لو کی نحوی صاحب، یہ سیریا کے ہیں.سجاد احمد صاحب مربی ہیں ان کو بھی کسی نے وہاں ربوہ میں ہی شہید کر دیا تھا.امتہ البصیر مہرین صاحبہ ہیں لاہور کی اور حنا حمید صاحبہ ہیں یہ بھی لاہور کی ہیں.ان سب کے جنازے ابھی جنازہ حاضر کے ساتھ ہی ادا کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے ، ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ دے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 35 مورخہ 28 اگست تا 3 ستمبر 2009 صفحه 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 371 (33) خطبه جمعه فرمود 140 اگست 2009 فرموده مورخه 14 اگست 2009ء بمطابق 14 ظہور 1388 ہجری شمسی بمقام مئی مارکیٹ.منہائیم (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الحمد للہ آج جماعت احمد یہ جرمنی کا جلسہ سالانہ میرے اس خطبہ کے ساتھ شروع ہورہا ہے.یہ جلسے بھی ایک خاص مقصد لئے ہوئے ہوتے ہیں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تحریرات اور اشتہارات میں ذکر فرمایا ہے اور وہ باتیں یا مقاصد جن کے لئے آپ نے جلسے کا اہتمام فرمایا ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے.خدا تعالیٰ کی معرفت محض اس کے فضل سے بڑھے اور بڑھانے کی توفیق ملے.تیسرے یہ کہ آپس میں محبت، پیار، اخوت اور بھائی چارہ بڑھے اور چوتھے یہ کہ تبلیغی سرگرمیوں کی طرف توجہ پیدا ہو.پس آپ میں سے ہر ایک ان مقاصد کو سامنے رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل جو روحانی ماحول میسر آیا ہے اور اس ماحول کو پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.یہاں کے پروگرام ایسے بنائے جاتے ہیں کہ ماحول پیدا ہو.پروگراموں میں عبادات کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے.فرض نمازوں کے ساتھ تہجد کا بھی انتظام ہے تا کہ وہ جن کے لئے انفرادی طور پر تہجد پڑھنا مشکل ہے، اٹھنا مشکل ہے، اجتماعی تہجد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تین دنوں میں اس میں شامل ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے عین ممکن ہے کہ وہ ان دنوں میں سنجیدگی سے دعائیں کریں تو بہت سوں کو پھر تجد مستقل پڑھنے کی عادت بھی پڑ جائے.نوافل کی طرف توجہ پیدا ہو.ذکر الہی کی طرف توجہ پیدا ہو.کیونکہ ایک احمدی سے اس ماحول میں جو جلسے کا ماحول ہے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان دنوں میں جہاں وہ دینی باتیں سن کر دینی علم بہتر کرنے کی کوشش کرے، اپنی دینی اور روحانی حالت کو سنوارتے ہوئے خدا تعالیٰ کی معرفت میں بڑھنے کی کوشش کرے.اور خدا تعالیٰ کی معرفت میں بڑھنے کے لئے عبادات اور ذکر الہی بہت اہم ہیں.جب یہ ایک کوشش سے کی جائے تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے معرفت الہی میں ترقی کا باعث ہوتی ہے.پس یہ معرفت الہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے آپس میں محبت و پیار کی فضا بھی پیدا کرتی ہے.اس طرف توجہ دلاتی ہے اور ایک تڑپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور انسانیت کو اس سے فیضیاب کرنے کے لئے دعاؤں کی طرف بھی مائل کرتی ہے.یہ سب کچھ بیشک خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے لیکن اس کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کوشش کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں پہل کرتے ہوئے تمہاری
خطبات مسرور جلد هفتم 372 خطبه جمعه فرمود 14 اگست 2009 حالتوں کو سنواروں گا بلکہ آنحضرت مے کے ذریعہ ہمیں خدا تعالیٰ کا یہی پیغام ملا ہے اور قرآن کریم میں بھی کہ تم ایک قدم آؤ میں دو قدم بڑھوں گا.تم چل کر آؤ میں دوڑ کر آؤں گا.( صحیح مسلم کتاب الذكر والدعاء والتوبة باب فضل الذكر والدعاء والتقریب الی اللہ حدیث 6725) پس یہ قدم بڑھانے اور چل کر خدا تعالیٰ کی طرف جانے کے عمل ہمیں پہلے کرنے ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ اپنی وسیع تر رحمت کی وجہ سے ہمارے اٹھنے والے قدموں کی گفتی کو کئی گنا بڑھا دے گا اور ہمارے چلنے کے فاصلوں کو جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے اور اس کا فضل چاہنے کے لئے طے کئے جارہے ہیں اس طرح کم کر دے گا کہ اس ڈوری اور بعد کا احساس ہی ختم ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ نے یہی بات آپ کو قرآن کریم میں بھی فرمائی ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کی اپنے راستوں کی طرف راہنمائی کریں گے.پس یہ ہے خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے پیا را انداز.ایک تو اس کے اپنے بندوں پر عمومی انعامات اور احسانات ہیں رب ہونے کے ناطے اور رحمن ہونے کے ناطے.اور ایک وہ سلوک ہے جو خاص بندوں سے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اور جب اس سلوک سے حصہ پانے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں تو وہ انہیں اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جاتا ہے اور اپنے انعامات کی بارش ان پر برساتا چلا جاتا ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب ہم یہاں اپنے دنیاوی دھندے چھوڑ کر جمع ہوتے ہیں، کاروباروں کو چھوڑ کر جمع ہوتے ہیں، ملازمتوں سے رخصتیں لے کر جمع ہوتے ہیں تو پھر خالص ہو کر اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے والے بن جائیں ورنہ ہمارا اس جلسے میں آنا محض دنیاوی اغراض کے لئے ہوگا اور اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سخت کراہت فرمائی ہے اور نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے اورجیسا کہ میں نے بتایا آپ کا مقصد تو ہمیں معرفت الہی میں ترقی دلوانا تھا.اپنی جماعت کے افراد کو ان معیاروں کی طرف راہنمائی کرنا اور لے جانا تھا جن کے نمونے آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے ہمارے سامنے قائم فرمائے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” بموجب تعلیم قرآن شریف ہمیں یہ امر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم، رحم، لطف اور مہربانیوں کے صفات بیان کرتا ہے اور رحمن ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرما تا ہے کہ ان ليسَ لِإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (انجم:40) اور وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (الكبوت :70) فرما کر اپنے فیض کو سعی اور مجاہدے پر منحصر فرماتا ہے.نیز اس میں صحابہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ (المائده: 120) کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 507 جدید ایڈیشن مطبوعه ر بوه ) پھر آپ فرماتے ہیں ”اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو.نماز میں دعائیں مانگو.صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِینَا میں شامل ہو جاؤ.جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا ، دوائی
373 خطبه جمعه فرمود 140 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کھاتا، مسہل لیتا ، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کوشش کرو.صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدے کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجالاؤ.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه : 507-506 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) آپ فرماتے ہیں : ”توبہ استغفار، وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے....پوری کوشش سے اس کی راہ میں لگے رہو منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے“.پس ہراحمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ منزل مقصود تک پہنچنا ہی ہمار اطمح نظر ہونا چاہئے اور ایک مومن کی منزل مقصود دنیا وی بڑائی اور مقام حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنا ہے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کرنا ہے اور انہیں ادا بھی کرنا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو ماننے کی توفیق دے کر معرفت الہی حاصل کرنے کے لئے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی.ان راستوں کی طرف راہنمائی فرمائی جن پر چل کر آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے خدا تعالیٰ کا قرب پایا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصود بنایا.اب یہ ہمارا کام ہے کہ جس کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماتے ہوئے ہمیں یا ہمارے باپ دادا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی آگے بڑھ کر ان راستوں پر چلنے کی بھی کوشش کریں اور یہی حقیقی شکر گزاری ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مزید وارث بناتی چلی جائے گی.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70 ) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنی محبت کا ایک عجیب اظہار فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ کی حدیث بھی اسی کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی طرف چل کر آنے پر دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے.لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ لفظ استعمال فرمایا ہے کہ جَاهَدُوا فِينَا.یہ الفاظ جو ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ پہلی کوشش بہر حال بندے نے کرنی ہے اور معمولی کوشش نہیں بلکہ بھر پور کوشش.لفظ جہد کا مطلب ہے کہ نیکی کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ مستقل مزاجی سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر کوشش کرتے چلے جانا ہے.مقصد کو حاصل کرنے کے لئے استقلال دکھانا اور برائی کے خلاف اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیزاری کا اظہار کرنا اور عملی قدم اٹھانا.اب یہ باتیں کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں.انسان کہے کہ میں نے صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا کوئی راستہ نہیں دکھایا.ہدایت کے راستے کے لئے برائیوں سے بیزاری شرط ہے.ہر طرح کی کوشش شرط ہے اور مستقل مزاجی شرط ہے.جب یہ شرطیں پوری ہوں گی تو خدا تعالیٰ جس نے انسان کو برے اور بھلے کی تمیز بھی عطا فرمائی ہے.اس کی آزادی بھی دی ہے اور شیطان کو بھی انسان کو ورغلانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا.
374 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرمود : 14 اگست 2009 فرماتا ہے کہ برائی اور دنیا داری میں بظاہر زیادہ آسائش اور چمک دمک نظر آنے اور شیطان کے اس کو خوبصورت کر کے دکھانے کے باوجود جب میرا بندہ میری طرف آنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے اور کرے گا تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں اس کو پھر آگ کے کنویں میں گرنے دوں.یقینا پھر میں اس کو آگ کے کنویں میں گرنے سے بچاؤں گا اور جب انسان یہ کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر ایک پیار کرنے والی ماں کی طرح دوڑتا ہوا آتا ہے اور اپنے بندے کو ایک بچے کی طرح اپنے سینے سے لگالیتا ہے.پس اگر کبھی اس تعلق میں کمی آتی ہے جو خدا اور بندے کا ہے تو بندے کی کوتاہی کی وجہ سے کمی آتی ہے.اس ناخلف بچے کی وجہ سے آتی ہے جو اپنے ماں باپ کو ان کا مقام نہیں دیتا.ورنہ ماں تو اپنے بچے کی ہر پکار پر بے چین ہو کر اس کی طرف دوڑتی ہے.پس یہ انسان کا کام ہے کہ نا خلف بچے کی طرح نہ بنے.اپنے آپ کو ہمیشہ کمزور اور ناتواں سمجھے اور کبھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی مدد سے مستغنی نہ سمجھے.اصل غنی تو خدا تعالیٰ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے.تمام جہانوں کا رب ہے لیکن اس کے باوجود بندے کی پکار کی انتظار میں رہتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھے پکارے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں.پس یہ ماحول جو ہمیں ملا ہے جس میں ہم آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ تین دن گزاریں گے اس میں ہر مرد، عورت، جوان اور بوڑھا اپنے جائزے لیتے ہوئے خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگے اور کوشش کرے کہ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایک کوشش کے ساتھ اپنے راستوں پر چلتے رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے.جب تمام دعا ئیں ایک مقصد کے لئے یکجا ہو کر آسمان کو پہنچتی ہیں اور مقصد بھی وہ جس کے حصول کے لئے خود خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو توجہ دلائی ہے تو پھر یقینا یہ دعا ئیں اور کوششیں بارگاہ الہی میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں.پس جیسا کہ جہد کے معنی میں میں نے بتایا تھا کہ تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ نیکیوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے انتہائی کوشش کے ساتھ ان برائیوں کو ترک کرتے ہوئے جب ہم دعا کریں گے تو انشاء اللہ تعالی ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے.پس ہم میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ صرف احمدیت قبول کر لینا ہی ہمارے لئے کافی نہیں بلکہ قرب الہی کے راستوں کی تلاش بھی ہم ہمیشہ جاری رکھیں اور ہمارے پیش نظر ہو.اللہ تعالیٰ کی سچی محبت اور تڑپ ہمارے عملوں سے نظر آتی ہو.ہمیشہ ہم اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنے والے ہوں.ہمارا ہر نیک عمل دوسرے نیک عمل کی طرف لے جانے والا ہو.اگر ہم نیک نیتی سے صدقہ دینے والے ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والے ہوں گے.روزے کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے لوگوں سے ہمدردی کرنے والے بھی ہوں گے.لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے والے بھی ہوں گے.اپنے رشتوں کے حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے.بیوی خاوند کے اور خاوند بیوی کے جذبات کا احترام کرنے والا بھی ہوگا.امانتوں کے حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے.نہ کہ دھوکے سے ایک دوسرے کا مال کھانے والے.پس ایک نیکی کی کوشش جب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ نیکی پھر آگے بچے دیتی چلی جاتی ہے، جو
375 خطبه جمعه فرموده 14 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم خدا تعالیٰ کی خاطر روزے میں بھوکا رہتا ہے تا کہ اس کی رضا حاصل کرے.اس سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرض عبادات اور نمازیں وغیرہ جو ہیں ان کو ادا نہیں کرے گا؟ اور اس کی تمام شرائط کے ساتھ نمازوں کو ادا کرنے کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوگی.جو اپنا مال خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کرتا ہے.یہ بھی ہو نہیں سکتا کہ وہ دھو کے سے دوسروں کا مال کھائے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جاری کردہ نظام وصیت میں کوئی شامل ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے شامل ہے تو ایسا شخص پھر مسلسل اس کوشش میں رہے گا اور رہنا چاہئے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے تمام حق جو ہیں وہ فرائض اور نوافل کی صورت میں ادا کرے اور بندوں کے تمام حقوق بھی فرائض اور نوافل کی صورت میں ادا کرے.پس یہ وہ اصل جہاد ہے جو جب مستقل مزاجی سے کیا جائے، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے تو ایک کے بعد دوسری نیکی کی طرف متوجہ کرتا چلا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں خدا تعالیٰ پھر خود اپنی طرف آنے کے لئے راستے اسے دکھاتا چلا جاتا ہے اور ایک منزل کے بعد دوسری منزل کی طرف جانے کی طرف اللہ تعالیٰ پھر راہنمائی فرماتا رہتا ہے.لیکن اس کے لئے عبادات بھی ضروری ہیں، استغفار بھی ضروری ہے ، ذکر الہی بھی ضروری ہے.کمزوریوں کو ڈھانپے جانے کے لئے مستقل دعاؤں کی ضرورت ہے.مستقل اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ توبہ استغفار وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کو پانے کا ذریعہ ہے.ان دنوں میں اس طرف بھی خاص توجہ دیں.استغفار کی حقیقت اور اہمیت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقے کے اندر لے لے.یہ لفظ غَفَرَ سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُسْتَغفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنی اور بھی وسیع کئے گئے ہیں.اور یہ بھی مراد کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہوڈھانک لے لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مُسْتَغفِر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے.کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قومی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے.یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے.پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا.اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قبولیت کے ذریعے بگڑنے سے بچاوے.پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے.
خطبات مسرور جلد هفتم 376 خطبه جمعه فرمود 14 اگست 2009 فرمایا ” جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے.اس لئے دائگی استغفار کی ضرورت پیش آئی.ریویو آف ریلیجنز اردو، شمارہ نمبر 1 جلد 5 مئی 1902 صفحہ 188-187) پس یہ ہے استغفار کی وہ گہری حکمت جس کو پیش نظر رکھ کر ہمیں استغفار کرنی چاہئے.انسان کمزور ہے اپنی طاقت سے برائیوں سے بچ نہیں سکتا اور نفس امارہ بعض دفعہ انسان پر غالب آجاتا ہے.امارہ کہتے ہیں جو بدی کی طرف رغبت دلانے والا ہو.سرکشی اور بغاوت پر آمادہ کرنے والا ہو.انسان کے نفس کے اندر یہ شیطان اٹھتا رہتا ہے.پس اس سرکشی سے اس بغاوت اور برائی سے تبھی بیچا جا سکتا ہے جب بار بارخدا تعالیٰ کو انسان پکارے.شیطان نے خدا تعالیٰ کو کہا تھا کہ میں ہر راستے سے تیرے بندوں کو ورغلانے اور انہیں برائیوں کی طرف مائل کرنے کے لئے آؤں گا.اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ جو میرے خالص بندے ہیں وہ کبھی بھی تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے.پس شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے انسان کو بڑی کوشش کرنی چاہئے.شیطان نے انسان کو بڑی بڑی امیدیں دلا کر ورغلانے کی کوششیں کی ہیں اور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے استغفار کا ذریعہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو کوشش کریں گے ان کو میں ہدایت کے راستے دکھاؤں گا اور جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں یہ مستقل مزاجی سے کوشش ہے.اگر شیطان ہر راستے پر ورغلانے کے لئے بیٹھا ہے تو خدا تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ جو ایک کوشش سے میری طرف آئیں گے.لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ہم انہیں اپنے راستے کی طرف ہدایت دیں گے.پس استغفار بھی جو خالص ہو کر مستقل مزاجی سے کی جائے اللہ تعالیٰ سے برائیوں کے خلاف طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے.خوش قسمت ہیں وہ جو اس اصل کو سمجھیں اور اس روحانی ماحول میں فائدہ اٹھاتے ہوئے اس روحانی ماحول سے اپنے نفسوں کے جائزے لیتے ہوئے اپنی تمام روحانی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور ان کے دل میں ایک درد ہو، ایک تڑپ ہو اور کوشش کے ساتھ خدا تعالیٰ سے اس کی طاقت چاہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی یہ بھی خوبصورتی ہے کہ ہر ہر لفظ اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہوتا ہے.مثلاً فرمایا کہ خدا تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو.اب انسان تو کمزور ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اس میں بشری کمزوری نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے اگر کوئی انسان کامل پیدا کیا ہے تو ایک ہی انسان کامل تھا جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت رسول اللہ تے تھے.بشری کمزوریاں بیشک انسان میں رہتی ہیں لیکن استغفار کا فائدہ یہ ہے کہ وہ ظاہر نہ ہوں.کبھی ایسی حالت نہ آئے جو ان کو ظاہر کرنے والی ہو.اگر کبھی ایسی حالت آتی ہے تو فورا استغفار کی وجہ سے خدا تعالیٰ وہ طاقت عطا فرمائے کہ اس کا اظہار نہ ہو سکے.مثلاً غصہ ہے جب بہت سارے لوگ اکٹھے
377 خطبه جمعه فرمود 140 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ہوتے ہیں بعض واقعات ایسے ہو جاتے ہیں.انسان کے اندر اس کا مادہ بھی ہے اور جب کوئی ایسی حالت جو کسی شخص کے لئے ناپسندیدہ ہو تو غصہ کی صورت میں اس کا اظہار ہوتا ہے لیکن جب استغفار کی ڈھال کے اندر ایک انسان رہ رہا ہو تو بے محل غصہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر انسان کو جائز غصہ آئے گا بھی تو وہ مغلوب الغضب ہو کر نہیں آئے گا بلکہ اصلاح کے لئے آئے گا.پھر اور بھی بہت سی بشری کمزوریاں ہیں جو ہر ایک کی طبیعت کے لحاظ سے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہیں.لیکن اگر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش ہوگی اور اس کے لئے کوشش ہوگی تو اللہ تعالیٰ برائیوں کو دور کرنے اور ان کے بدنتائج سے پھر انسان کو محفوظ رکھتا ہے.جو اصل انسانی فطرت ہے وہ نیکی کی طرف لے جانے والی ہے.نیک فطرت ہے اور یہ فطرت وہ ہے جس کے بارے میں حدیث میں آتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ نیک فطرت پیدا ہوتا ہے اور بڑے ہونے تک وہ جس ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے اس کا ماحول اسے وہ بناتا ہے جو نظر آرہا ہوتا ہے.پس استغفار اس نیک فطرت کو بھی ابھارتی ہے اور بدی کو اس طرح دبا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تو فیق اور طاقت سے اس کا اظہار نہیں ہوتا اور پھر اس کو یعنی نیکیوں کو مستقلاً اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے بھی استغفار کی ضرورت ہے.پس ان دنوں میں جیسا کہ میں نے کہا اپنے جائزے لیں اور بہت دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کہ جب اس نے ہمیں زمانے کے امام کو مانے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو ان معیاروں کے حصول کی بھی توفیق عطا فرمائے جو آپ اپنی جماعت سے چاہتے ہیں.صرف دنیا داری اور دنیاوی چیزوں میں آگے بڑھنا ہمارا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا اور نیکیوں میں سبقت لے جانا ہمارا مقصود ہو.کسی کی دولت دیکھ کر زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش نہ ہو.اگر دولت کمانے کی خواہش ہو تو وہ بھی اس لئے کہ دین کی خاطر اسے خرچ کروں اور کسی کو اگر کوئی خواہش ہو دلی درد کے ساتھ تو کسی کو نیکیوں میں آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی خواہش ہوا اور تڑپ ہوا اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد اور طاقت مانگنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ان دنوں کے نیک اثرات ہر ایک میں پیدا فرمائے.کارکنان ہیں تو وہ بھی چلتے پھرتے ، کام کرتے ، ذکر الہی اور استغفار کرتے رہیں اور اس بات پر خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی ہے جن سے حسن سلوک اور حسن خلق سے پیش آنا ان کا فرض ہے.اور یہ اس لئے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے مسیح و مہدی کو فرمایا تھا اور آج یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب فرمایا تھا کہ یا تُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ - ( تذکرہ صفحہ 39.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) کہ کثرت سے لوگ آئیں گے اور ایسے راستوں سے آئیں گے جو ان کے چلنے سے گہرے ہو جائیں گے.تو آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی فرمایا ہے کہ لوگوں کی کثرت دیکھ کر پریشان نہ ہو جانا اور اللہ تعالیٰ
378 خطبه جمعه فرمود 14 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم نے آپ کو خوش خلقی کی تلقین فرمائی.پس جو کارکنان ہیں، ہمارے میں سے کام کرنے والے ہیں، ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ان دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی انتہائی خوش خلقی کے ساتھ خدمت کریں.اور پھر کارکنوں کے لئے دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ وہ روحانی ماحول بھی انہیں میسر ہے جو اپنے نفسوں کو پاک کرنے کا ذریعہ بنتا ہے.اور جو آنے والے مہمان ہیں وہ اگر سوچیں تو ان کے لئے بھی دوہری خوشی ہے.اس کے لئے پھر انہیں خدا تعالیٰ کے آگے شکر کے جذبات سے سر جھکانے والا بننا چاہئے.ایک خوشی تو یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوئے جو اس الہام کو پورا کرنے والے ہے کہ يَا تِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ اور دوسرے دور دراز کے سفر کر کے آنے کی وجہ سے اور اس جلسے میں شامل ہونے کی وجہ سے ان دعاؤں سے فیض پانے والے بھی بنے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شامین جلسہ کے لئے کی ہیں.پس جن لوگوں کے آنے کا الہام میں ذکر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے آپ کے پاس آتے تھے یا آئے تھے.اگر یہ بات ہر ایک اپنے ذہن میں رکھے تو ہر احمدی دوسرے کے لئے محبت اور مودت کا اظہار کرنے والا بن جائے اور عبادت گزار بنے کی کوشش کرنے والا بن جائے.عبادتوں کی طرف رغبت پیدا ہو.عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو.اور پھر جب استغفار کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ اس کو قائم رکھنے کے لئے مستقل کوشش ہورہی ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان کمزوریوں کو بھی دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.جس کی وجہ سے آپس کے تعلقات متاثر ہورہے ہیں، عہدیداروں کو افراد جماعت سے اور افراد جماعت کو عہدیداروں سے شکایات پیدا ہورہی ہیں یا ہوتی رہتی ہیں.پس اگر خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے حصول کے لئے اس جلسہ میں شامل ہوتے ہیں تو ان تو قعات پر پورا اترنے کی ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے توقع فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس پر کار بند ہونا چاہئے اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر کچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی سے ایک پاک نمونہ پیدا کر کے دکھاوے اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ: 605-604 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: ” معاہدہ کر کے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر نا فرمانی کرنا سخت خطرناک ہے“.پھر فرماتے ہیں ” جماعت کے افراد کی کمزوری یا برے نمونے کا اثر ہم پر پڑتا ہے اور لوگوں کو خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے.پس اس واسطے ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 456 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
379 خطبه جمعه فرمود 140 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو بہت تو بہ کرتا ہے، تو یہ نہ کرنے والا گناہ کی طرف جھکتا ہے اور گناہ آہستہ آہستہ کفر تک پہنچا دیتا ہے.تمہارا کام یہ ہے کہ کوئی ما بہ الامتیاز بھی تو پیدا کرو تم میں اور تمہارے غیروں میں اگر کوئی فرق پایا جاوے گا تو جب ہی خدا بھی نصرت کرے گا“.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 606 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ ) فرماتے ہیں ” تمہاری بیعت کا اقرار اگر زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی.چاہیئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 272 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا ” پس ضروری ہے کہ جو اقرار کیا جاتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو.(ذہنوں میں سوچتے رہو ) اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کا عمدہ نمونہ پیش کرو.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 605 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرماتے ہیں ایک طرف وعظ و نصیحت سنی جاتی ہے اور دل میں تقویٰ حاصل کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے.جتنی دیر جلسہ میں رہتے ہیں بعض لوگوں کو بڑا جوش پیدا ہو جاتا ہے.فرماتے ہیں ” اور دل میں تقویٰ حاصل کرنے کے لئے بڑا جوش پیدا ہوتا ہے.مگر پھر غفلت ہو جاتی ہے.اس لئے ہماری جماعت کو یہ بات بہت یادرکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں نہ بھلایا جاوے ہر وقت اسی سے مدد مانگتے رہنا چاہئے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 279 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) کسی احمدی کی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کسی نے پوچھا کہ کیا اسے احمدی کہنا چاہئے یا کافر کہنا چاہئے.اس پر آپ نے فرمایا: ”تم اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنی حالت کو درست کرو.ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ الگ ہے.تم کو کس نے داروغہ بنایا ہے جو تم لوگوں کے اعمال کی پڑتال کرتے پھر واور ان پر کفر یا ایمان کا فتویٰ لگاتے پھرو.مومن کا کام نہیں کہ بے فائدہ لوگوں کے پیچھے پڑ تا رہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ: 532-531 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس نیکیوں کو پھیلانے کی یہی اصل ہے کہ ہر ایک اپنے جائزے لے کر نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے اور یہی چیز ہے جو جماعت کے تقویٰ کے معیار کو بڑھائے گی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی کمزور ہو تو اس کے حق میں برا بولنے میں جلد بازی نہ کرو.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 20 جدید ایڈیشن مطبوعدر بوه) اس بارہ میں یہ بات بھی یادر کھنی چاہئے کہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ پہلے چالیس دن دعا کرو.پھر اصلاح کی غرض سے اس کے سامنے اس کا ذکر کرو اور لوگوں میں پھیلانے کی بجائے وہاں بات پہنچاؤ جہاں اس کی اصلاح ہو سکے.
380 خطبه جمعه فرمود 14 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کو تو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ دشمن پکار اٹھیں کہ گو یہ ہمارے مخالف ہیں مگر ہیں ہم سے اچھے.اپنی عملی حالت کو ایسا درست رکھو کہ دشمن بھی تمہاری نیکی ، خدا ترسی، اتقاء کے قائل ہو جائیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 271 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ ) فرمایا یہ بھی یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کی نظر جذر قلب تک پہنچتی ہے“.اصلی حالت جو دل کی ہے اس کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے.پس وہ زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا.زبان سے کلمہ پڑھنایا استغفار کرنا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے جب وہ دل و جان سے کلمہ یا استغفار نہ پڑھے.بعض لوگ زبان سے استغفر اللہ کرتے جاتے ہیں.مگر نہیں سمجھتے کہ اس سے کیا مراد ہے.مطلب تو یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کی معافی خلوص دل سے چاہی جائے اور آئندہ کے لئے گنا ہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے اور ساتھ ہی اس کے فضل اور امداد کی درخواست کی جائے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 271 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ نصائح جو آپ نے جماعت کو کیں جن میں سے کچھ میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہر احمدی اگر اپنے جائزے لے کہ میں کس حد تک ان پر پورا اترتا ہوں تو یقیناً یہ اصلاح نفس کا باعث بنے گا.ہمیں ان برکات سے فیضیاب کرنے والا بنائے گا جن کے حصول کی خواہش کے لئے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے گا کہ ہم پھر اس کے فضلوں کو جذب کرتے چلے جائیں گے.اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے عہد بیعت کو ہمیشہ نبھانے والے بنیں اور اس کے نتیجہ میں آپ علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں.خدا تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بنیں.دنیا کی چمک دمک اور ہماری نفسانی اغراض کبھی ہمیں ان برکات سے محروم نہ کریں اور نہ کرنے والی بنیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے حقیقی رنگ میں وابستہ رہنے والوں کے لئے مقدر فرمائی ہیں.جلسہ کے ان دنوں میں جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں اپنے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں ، ان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں جو پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں احمدیت کی وجہ سے مخالفین کی سختیوں اور دشمنیوں کا سامنا کر رہے ہیں.آجکل ان میں پاکستان میں تو جو شدت ہے وہ ہے.اس کے علاوہ ملائیشیا میں بھی احمدیوں کے خلاف کافی محاذ ہے.حکومت کافی سرگرم ہے.اور آج ملائیشیا کا جلسہ سالانہ بھی ہورہا ہے.باوجود ساری پابندیوں کے بڑے مشکل حالات میں اپنا جلسہ بھی منعقد کر رہے ہیں.ان لوگوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ ان کا بھی جلسہ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور کسی بھی قسم کی مشکل ان کو در پیش نہ ہو اور دشمن کے ہر حیلے اور حملے سے وہ محفوظ رہیں.
381 خطبه جمعه فرمود 14 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم آپ میں سے ہر ایک ہمیشہ یادر کھے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضل جو مالی کشائش اور ذہنی سکون کی صورت میں ہیں یا آپ کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہیں یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی برکت کی وجہ سے ہے.اس لئے ہمیشہ اپنے عہد بیعت کو وفا اور اخلاص سے نبھاتے چلے جائیں اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات راسخ کر دیں کہ آج تم جو کچھ بھی ہو جماعت کی وجہ سے ہو اس لئے جماعت اور خلافت سے کبھی اپنے تعلق کو کمزور نہ کرنا.اللہ تعالی سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.بعض ایک دوا نتظامی باتیں بھی میں کہ دیتا ہوں.آج کل جو دنیا کے حالات ہیں وہ ہر جگہ ہیں.گو سیکیورٹی کا انتظام یہاں اس طرح تو نہیں کیا گیا جس طرح یو.کے کے جلسہ سالانہ پر کیا گیا تھا.لیکن ہر احمدی جو ہے وہ محتاط ہو.ایک دوسرے کو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کو چیک کرے.اسی طرح یہاں جو گیٹ پر سیکورٹی ہے ان کو بھی چیک کرنا چاہئے.نظر رکھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور ہر ایک کو ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی سے محفوظ رکھے.اسی طرح سوائن فلو آج کل یورپ میں بھی پھیلا ہوا ہے.امیر صاحب نے کہا ہے یہاں قانون کی وجہ سے اس طرح دوائی نہیں دی جاسکتی جس طرح انگلستان کے جلسے میں، برطانیہ کے جلسے میں ہر ایک کو ہم نے دی تھی لیکن کسی کو اگر شک ہو تو ہو میو پیتھ یہاں آئے ہیں ان سے بھی دوائی لے سکتے ہیں اور ان کو فوری طور پر ہسپتال سے بھی رجوع کرنا چاہئے.اور اس وقت ایک افسوسناک خبر بھی ہے.ہمارے بہت پیارے مخلص اور وفاشعار دوست مکرم طه قزق صاحب جو اردن سے تعلق رکھتے تھے.دو دن پہلے ان کی وفات ہوگئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُونَ - قزق صاحب حیفا کی معروف قزق فیملی سے تعلق رکھنے والے تھے.ان کے والد حیفا میں دوسرے احمدی تھے جبکہ ان سے قبل رشدی بسطی صاحب احمدی ہو چکے تھے.یہیں سے پھر احمدیت قریب کی بستی کہا بیر میں پھیلی اور 1928ء میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس وہاں پہلے مبلغ تھے.طہ قزق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد احمدی ہوئے تو میں ابھی چھوٹا ہی تھا.والد صاحب کی بہت مخالفت ہوئی تھی اور مولویوں کے کہنے پر بچے ان کو ٹماٹر اور گندے مالٹے مارا کرتے تھے.کہتے ہیں ایک بار مخالفین نے والد صاحب کو اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو گئے.مولوی لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ کافر ہیں.کیونکہ انہوں نے قرآن بدل دیا ہے.قبلہ بدل دیا ہے.تو یہ کہتے ہیں میں چھپ کر والد صاحب کو دیکھا کرتا تھا کہ کیا واقعی انہوں نے قرآن اور قبلہ بدل دیا ہے؟ مگر میں دیکھتا تھا کہ والد صاحب اسی طرح قرآن کی تلاوت کرتے ہیں جیسی پہلے کیا کرتے تھے اور اسی قرآن کی تلاوت کرتے تھے جس قرآن کی پہلے کیا کرتے تھے.اسی طرح خانہ کعبہ کی طرف منہ
382 خطبه جمعه فرمود 14 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کر کے نماز پڑھتے ہیں جس طرح پہلے پڑھا کرتے تھے.تو میں اس بات پر بچپن میں مولویوں کے جھوٹ پر حیران ہوا کرتا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس بات پر میرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان مضبوط ہوتا چلا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفت بھی بچوں کے ایمان مضبوط کرتی رہی اور آج بھی کر رہی ہے.طہ قزق صاحب کے جو والد تھے انہوں نے ایک خواب کی بنا پر بیعت کی تھی.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کا ایک فوت شدہ رشتہ دار انہیں خواب میں کہتا ہے کہ اے حاجی محمد جلدی کرو احمدیوں نے مدینہ منورہ کو فتح کر لیا ہے.چنانچہ اگلے روز انہوں نے حضرت شمس صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور طہا فرق صاحب خود بھی اخلاص میں بہت بڑھتے چلے گئے اور 70 کی دہائی میں انہوں نے جلسہ پر ربوہ آنا شروع کیا اور باقاعدگی سے جب تک ربوہ کے جلسے ہوتے رہے وہاں آتے رہے.اس کے بعد یہاں کے جلسوں پر آتے رہے بلکہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع جب ہجرت کر کے لندن آئے ہیں تو اگلے روز ہی وہ پہنچ گئے تھے.خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا.ان کے ہر عمل سے اس کا اظہار ہوتا تھا.جب بھی وہ ملتے تھے تو ان سے ایک فدائیت ٹپک رہی ہوتی تھی.دوسال تک آتے رہے ہیں.اللہ کے فضل سے 1/8 حصے کے موصی تھے اور وہاں جماعت کے حالات کیونکہ ایسے ہیں تو ان کو ڈر تھا کہ وصیت کی ادائیگی میں مشکلات آسکتی ہیں اس لئے بڑی فراخ دلی سے جماعت کی مالی امداد اور ذرائع سے کرتے رہتے تھے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے جب تفسیر کبیر کے عربی ترجمہ کا منصوبہ شروع کیا ان کی زندگی میں دو جلدیں چھپی تھیں.اب گزشتہ چھ سال میں آٹھ چھپ گئی ہیں اور نویں بھی تیار ہو رہی ہے تو انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اس ترجمہ کا سارا خرج دوں گا اور اب تک ان کے خرچ سے یہ شائع ہو رہی ہے.ان کا گھر جو تھا وہ جماعت کا بڑا مرکز تھا.مرکزی نمائندگان اور مبلغین کی بڑی عزت اور احترام کیا کرتے تھے.گزشتہ چند ماہ سے زیادہ بیماری آگئی تھی، بیہوشی کی حالت بھی رہی ہے.بہر حال 12 راگست کو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے پسماندگان میں 3 بیٹے ، بیٹیاں اور 20 کے قریب پوتے پوتیاں ہیں.ایک پوتے حسام قزق صاحب جو ہیں وہ جماعت کے ساتھ بہت زیادہ اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس تعلق کو مزید بڑھاتا چلا جائے.اور ان کی باقی نسل کو بھی، اولا د کو بھی جماعت سے اخلاص و وفا میں بڑھاتا رہے اور ان پر اپنی مغفرت کی چادر ڈالے اور رحم کا سلوک فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے ، اپنے پیاروں میں جگہ عطا فرمائے.ابھی نماز جمعہ اور عصر جمع ہوں گی.اس کے بعد میں انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب بھی ادا کروں گا.الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شماره 36 مورخہ 4 ستمبر تا 10 ستمبر 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 383 (34) خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 فرمودہ مورخہ 21 راگست 2009ء بمطابق 21 ظهور 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو دن پہلے ہی میں جرمنی کے سفر سے واپس پہنچا ہوں.اس سال رمضان کی جلد آمد کی وجہ سے جرمنی کا جلسہ پہلے منعقد کرنا پڑا.یو کے (UK) کے جلسے کی مصروفیات کے ساتھ ہی جرمنی کی مصروفیات بھی شروع ہو گئیں.یو کے (UK) کے جلسہ پر باہر سے آئے ہوئے وفود جن کی اکثریت افریقن ممالک کے وفود پر مشتمل ہوتی ہے اور جن میں غیر از جماعت اور مختلف حکومتوں کے عہدیدار ہوتے ہیں، ممبر آف پارلیمنٹ ہوتے ہیں ، وزراء ہوتے ہیں، ان وفود سے جلسہ کے بعد ملاقات اور میٹنگز کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.پھر باہر سے آئے ہوئے مبلغین اور نمائندوں سے بھی ایک میٹنگ اور پھر احمدی احباب جو پاکستان ہندوستان یا دنیا کے کسی بھی ملک سے آئے ہوئے ہوتے ہیں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس طرح میرا جلسہ تو اس حوالے سے کئی دن چلتا رہتا ہے اور اس سال جیسا کہ میں نے کہا کیونکہ جرمنی کا جلسہ جلد منعقد کرنا پڑا اس لئے سفر کے دن تک ہی مصروفیت رہی.لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جلسہ اور اس کے بعد کی مصروفیات اور پھر جرمنی کا جلسہ اور وہاں کی مصروفیات کا سارا وقت اللہ تعالیٰ نے آرام سے، خیریت سے گزارا اور کسی بھی قسم کا کوئی احساس نہیں ہوا کہ یہ ایک بوجھ ہے.اس پر میں خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے.بہر حال یہ تو میں نے اپنا مختصر حال بتایا.جود وسرے احمدی ہیں ان کو بھی اس سال جلسہ کا جو تسلسل ہے وہ نظر آیا.انہیں بھی یہ لگا کہ جلسہ سالانہ یو کے (UK) کا جو اثر ہے وہ لمبا چلتا چلا جا رہا ہے اور پھر اس کے ساتھ جرمنی کا جلسہ سالانہ مل گیا.ایک لکھنے والے دوست نے مجھے لکھا کہ جرمنی کے جلسے کو دیکھنے اور سنے کا بڑا مزا آ رہا ہے اور اس طرح گھر میں ہم سب لوگ وہی جو لنگر کے کھانے ہوتے ہیں وہ پکا کر اور جلسہ کا سماں پیدا کر کے بیٹھے جلسہ سن رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ یو کے کا جلسہ ابھی ختم ہی نہیں ہوا اور ابھی تک برطانیہ کے جلسہ سالانہ کا ہی تسلسل چل رہا ہے اور گھر میں وہی روحانی ماحول ابھی تک قائم ہے.ہر ایک جو جلسہ دیکھنے کا مشتاق ہے اس کا جلسہ سے فائدہ اٹھانا اصل چیز ہے اور یہ تسلسل جاری رہنا چاہئے اور اگر یہ تسلسل نہیں تو پھر جلسوں کا فائدہ بھی کوئی نہیں ہوتا.کیونکہ مومن کی زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے،
384 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 عبادات اور اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جلسوں کے انعقاد کا بھی یہ مقصد تھا کہ ہر سال جمع ہو کر اپنی سوچوں اور خیالات کو اس نہج پر چلانے کی تربیت لیں اور سارا سال پھر اس روحانی ماحول کے فیض کی جگالی کرتے رہیں یہاں تک کہ اگلا جلسہ آ جائے اور پھر روحانیت میں ترقی کی طرف مزید قدم بڑھیں.پس یاد رکھیں کہ صرف یو کے اور جرمنی کے جلسے قریب قریب ہونے کی وجہ سے تسلسل کا مزا نہیں لینا بلکہ اس تسلسل کو اگلے جلسے تک قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور جب یہ حالت پیدا ہوگئی تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا.اس تسلسل کو قائم رکھنے کی طرف عبادتوں کے حوالے سے آنحضرت تم نے بھی ہمیں توجہ دلائی ہے.جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ " کہائر سے بچنے کے لئے پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک کفارہ ہوتا ہے.“ صلى الله (صحیح مسلم.کتاب الطهارة - باب الصلوات الخمس والجمعة الى الجمعة حديث (440) پس نیکیوں کی طرف توجہ اور ان میں تسلسل اور ان کی آمد کا انتظار ایک مومن کو دوسرے سے ممتاز کرتا ہے.غیر مومن سے ممتاز کرتا ہے.انسان کہائر سے یا گناہوں سے تبھی بیچ سکتا ہے جب نیکیوں کو قائم رکھنے کا ایک تسلسل ہو اور ایک خواہش ہو.پس نیکیوں کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے جو بھی مواقع پیدا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں.اب انشاء اللہ تعالیٰ دودن بعد یعنی پرسوں اتوار سے اس تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے رمضان بھی شروع ہونے والا ہے.جلسے کے روحانی ماحول کو تو ہم نے روحانی مائدے کے ساتھ ساتھ مادی غذا سے بھی لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارا.رمضان کے ان بابرکت ایام میں ہم نے جسمانی مادی غذا میں کمی کرتے ہوئے صرف روحانی ترقیات کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے اسے گزارنا ہے.ایک خاص توجہ اور کوشش اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھانا ہے انشاء اللہ.اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم رمضان کا حق ادا کرنے والے بنیں.ہم خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسوں کا اجراء فرما کر ہمارے لئے ایک زائد ٹرینگ کیمپ مہیا فرما دیا.ایک ایسا روحانی ماحول مہیا فرما دیا جس میں ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.ایک علمی ، دینی اور روحانی ماحول میسر کیا جاتا ہے جس میں جہاں ہم اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہیں.اپنے جائزے لیتے ہیں اور لینے چاہئیں.جلسوں کے فوراً بعد ہی مخلصین کی طرف سے خطوط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ جلسہ ہمارے لئے بے انتہا علمی دینی اور روحانی امور کی طرف توجہ دلانے کا باعث بنا ہے.جب احمدی
385 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اپنے جائزے لیتے ہوئے اس طرف دیکھیں تو ایک حقیقی احمدی خوفزدہ ہو جاتا ہے اور پھر بڑے درد کے ساتھ دعا کے لئے کہتے ہیں کہ دعا کریں یہ توجہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہو اور نیک نیتی سے ہم اس پر دوام حاصل کرنے والے ہوں.پس یہ بھی جماعت احمدیہ کی ایک خوبصورتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنی جماعت میں پیدا فرمایا ہے.آپ علیہ السلام ایک جگہ اپنی جماعت کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غور سے دیکھا جاوے تو جو کچھ ترقی اور تبدیلی (یعنی اخلاص اور وفا اور روحانیت میں ترقی مراد ہے ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے وہ زمانے بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں ہے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 536 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ انتہا کا حسن ظن ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کیا ہے.ایک حقیقی احمدی کو ہلا دینے والی بات ہے.یہ ایک انتہائی خوف کی حالت پیدا کرنے والی چیز ہے.اگر ہم ان فقرات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے جائزے لیتے رہیں تو ایک کے بعد دوسری نیکی کی طرف توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی.ہم اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھاتے چلے جائیں گے.دوسرا فائدہ جو ان جلسوں سے ہوتا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل جو خدا تعالیٰ جماعت پر فرمارہا ہے اس کو دیکھ اور سن کر پھر خدا تعالیٰ کے شکر کی طرف توجہ پھرتی ہے.ایک احمدی کا سر ان فضلوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم پر اپنے فضل برساتا رہے اور ہمیشہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے شکر گزار بننے والے بندے کہلائیں.جن جلسوں میں میں شامل ہوتا ہوں ، عموماً جلسوں کے بعد میں ان کا ذکر بھی کیا کرتا ہوں اور اس حوالے سے خدا تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ کارکنان اور کارکنات کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں.کارکنان کی بھی خواہش اور توقع ہوتی ہے کہ ان کا کچھ ذکر ہو.اس لئے آج میں جرمنی کے جلسے کے حوالے سے بھی کچھ ذکر کروں گا.ایک بات یہاں واضح کر دوں کہ ہمارے کارکنان اس لئے اپنے ذکر کی توقع اور خواہش نہیں رکھتے کہ صرف ان کی تعریف ہو.یہ لوگ تو بے نفس ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر کام کرنے والے ہیں اور جس جوش اور جذبے سے کام کرتے ہیں وہ کوئی دنیاوی اظہار کے لئے ، دنیاوی بدلے کے لئے نہیں کر سکتا.اس لئے اگر ان کارکنان کے بارہ میں یہ سوچا جائے تو یہ ان پر بڑی سخت بدظنی ہوگی کہ شاید وہ اپنی تعریف کروانے کے لئے ذکر سننا چاہتے ہیں.پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ کارکنان صرف اپنی تعریف سنا چاہتے ہیں.ان کو ان کے نقائص اور کمزوریوں کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے تا کہ اصلاح ہو.بلکہ ہمارے کارکنان تو خود اپنی کمزوریوں کو ایک لال کتاب میں لکھتے ہیں جو جلسہ کے لئے رکھی
386 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم گئی ہے تا کہ آئندہ کے لئے یہ غلطی دوہرائی نہ جائے اور یہی مومن کا طرہ امتیاز ہے، ایک خاص شان ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتا ہے.جماعت کے افراد کا اور خلافت کا جو تعلق ہے اس تعلق کی وجہ سے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ خلیفہ وقت کے خیالات ان تک پہنچیں.اگر خوشنودی کے الفاظ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالائیں اور اگر کسی قسم کی کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، توجہ دلائی گئی ہے تو تب بھی اس بات پر خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں خلافت جیسی نعمت عطا فرمائی ہے جو خالصتاً ہمدردی کے جذبے کے تحت اور مومن ہونے کے ناطے افراد جماعت کے نیکی کی خاطر اٹھنے والے قدموں کی صحیح سمت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور معیاروں کو اونچے سے اونچا تر کرنے کے لئے جو کمیاں رہ گئی ہیں ان کی نشاندہی کرتی ہے.اللہ تعالیٰ خلافت اور جماعت کے تعلق اور رشتے کو مضبوط تر کرتا چلا جائے.جرمنی جماعت کے کارکنان اور کارکنات جلسہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ لوگ جو ڈیوٹی دینے والے ہیں اب اتنے میچیور (Mature) اور بالغ ہو.بالغ ہو چکے ہیں کہ ان ڈیوٹیوں کے اکثر میدانوں میں کوشش کر کے کوئی معمولی نقص نکالے تو نکالے ورنہ عموماً بہت اچھا کام ہوتا ہے اور اس میں بھی نقص نکالنے والے کی نیک نیتی اور اصلاح کم ہوگی اور اعتراض زیادہ ہو گا.سو فیصد تو کہیں بھی پرفیکشن (Perfection) نہیں ہو سکتی.لیکن انسانی طاقت کے اندر جو بہترین کام ہو سکتا ہے وہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں باوجود اس کے کہ اس کام کے کرنے کی کوئی باقاعدہ ٹریننگ نہیں لی ہوتی جیسا کہ میں نے UK کے کارکنان کے بارے میں بھی کہا تھا.لف قسم کے لوگ ہوتے ہیں، مختلف پیشوں کے لوگ ہوتے ہیں اور مختلف کام ان کے سپر د کئے جاتے ہیں جو بڑے احسن طریق پر سر انجام دیتے ہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس کام کے سرانجام دینے کے لئے صرف کر دیتے ہیں.کارکنان کے کام کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے اور جلسہ میں شامل ہونے والوں اور دیکھنے والوں کو بھی ان کارکنان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ بے نفس ہو کر کام کرتے ہیں.وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس میں کوئی مہارت حاصل نہیں کی ہوتی لیکن اس کے باوجود بڑی بڑی غلطیاں نہیں ہوتیں بلکہ معمولی کمیاں رہتی ہیں اور اس سال تو جرمنی والوں نے خاص طور پر بہت محنت کی ہے.کارکنان نے بہت تھوڑے وقت میں جلسہ کے جملہ تمام انتظامات کو مکمل کیا ہے.جرمنی کے افسر صاحب جلسہ سالانہ بتا رہے تھے کہ جلسہ سے پہلے مارکیاں وغیرہ بھی وہ خود کھڑی کرتے ہیں اس کے لئے اور دوسرے کاموں کے لئے جو وقار عمل ہوتے ہیں اس میں اگر وہ جماعت کو کہتے تھے کہ اڑھائی یا تین سوا فراد کی ضرورت ہے تو ہمیشہ روزانہ جو وقار عمل کرنے والے آتے تھے وہ چالیس پچاس زائد آ رہے
خطبات مسرور جلد ہفتم 387 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 ہوتے تھے.اور دنیا میں ہر جگہ خدمت کا جذبہ لئے ہوئے احمدیوں کی یہ خوبصورتی ہے کہ جب بھی کسی جماعتی کام کے لئے بلاؤ، تو دوڑے چلے آتے ہیں.پس اس جذ بہ کو قائم رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے.اس سال جلسہ سالانہ جرمنی سے چند دن پہلے میں نے بعض وجوہات کی بنا پر اوپر کی انتظامیہ میں تبدیلی کی تھی لیکن انتظامات کو دیکھ کر کوئی احساس نہیں ہوتا تھا کہ افسر جلسہ سالانہ بدلا گیا ہے تو اس وجہ سے کہیں بھی کام کے دھارے میں کوئی روک پیدا ہوئی ہے یا کہیں کام انکا ہوا ہے یار کا ہوا ہے.گزشتہ جلسہ سالانہ میں یا اس سے پہلے سالوں میں جن کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی گئی ، یا کارکنان نے خود کمیاں محسوس کیں انہیں بڑی خوبصورتی سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی.یوکے کے جلسہ سالانہ میں جو اچھائیاں انہیں نظر آئیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے فائدہ بھی اٹھایا.ایک مومن کا فرض ہے کہ اگر کہیں اچھائی دیکھے تو اسے اختیار کرنے کی کوشش کرے نہ کہ حسد کے جذبے سے اس میں کیڑے نکالے اور صرف اپنے کام کو ہی دنیا داروں کی طرح سراہتار ہے اور اچھا سمجھتار ہے.ہمیشہ یا درکھیں کہ چاہے انفرادی طور پر ہو یا جماعتی طور پر ہو جب بھی رشک اور سبق سیکھنے کی بجائے حسد کا جذبہ ہوگا وہ بے برکت ہوگا.مومن ہمیشہ ایک دوسرے کا مددگار ہوتا ہے اور اس سے سبق لیتا ہے.ان کے کاموں سے سبق لیتا ہے.اچھائی دیکھ کر اس کی تعریف کرتا ہے اس کو اپنا تا ہے.اگر کوئی کمی دیکھے تو اس کی پردہ پوشی کرنے والا ہوتا ہے.اسی طرح UK کے جلسہ کے بعد جو میں نے کہا تھا کہ جرمنی والے اس طرف توجہ دیں.میں نے انتظامات میں مزید بہتری کے لئے ، خاص طور پر رہائشی خیموں کی حفاظت کے تعلق میں بعض ہدایات دی تھیں ، ان پر بھی انہوں نے پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی ہے.بہر حال ہر شعبہ میں کارکنان اور کارکنات نے جن میں ایک تعداد بالکل نو عمر نو جوانوں کی اور بچوں اور بچیوں کی ہوتی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی اور دنیا میں ہر جگہ، ان سب نے بھر پور طور پر اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور تمام کارکنان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے اوپر جو بھی افسر خلیفہ وقت کی طرف سے مقرر ہوگا ہم نے اس کی ہر طرح اطاعت کرنے کی کوشش کرنی ہے.اسے مکمل تعاون دینا ہے.اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نے اپنے تمام کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہیں اور یہ باتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم نے اپنے کام دنیا داروں کی طرح کسی خاص شخصیت کے کہنے یا اس کے تعلق کی وجہ سے نہیں کرنے بلکہ خلیفہ وقت کے اشارے پر چلتے ہوئے اپنے تمام تر فرائض سر انجام دینے ہیں.پس میں ایک بار پھر جلسہ سالانہ جرمنی میں کام کرنے والے تمام کارکنان مرد و عورت کا شکر یہ ادا کرتا ہوں، بچیوں بچوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی.اس طرح ایم ٹی اے جرمنی کے کارکنان نے جلسے کی کوریج اور متفرق پر وگرام دکھانے اور بنانے کے لئے بھی بڑی محنت سے کام کیا ہے اور لندن
388 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم سے جو ہمارے ایم ٹی اے مرکزیہ کے کارکنان کی ٹیم گئی ہوئی تھی ان سے بھی پورا تعاون کیا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی بہترین جزا دے.ہر سال میں جرمنی کے کچھ لڑکوں کے ایک کام کا ذکر کرتا ہوں جو کسی ایک علیحدہ شعبے کے تحت تو نہیں ہوتے لنگر کے نظام کے تحت ہی وہ کام ہے لیکن اس میں تین بھائی بڑی محنت سے کام کرتے ہیں.یہ ہے دیگ دھونے کی مشین جوان بھائیوں نے خود ایجاد کی ہے.اس سال بھی انہوں نے اس میں مزید بہتری پیدا کی ہے.اسے امپروو (Improve) کیا ہے اور اسے مکمل آٹو میٹک (Automatic) بنا دیا ہے.اس کے اندر سارا کمپیوٹرائزڈ نظام ہے جو دیگ کو مشین کے اندر لے جاتا ہے، دھوتا ہے اور جب صاف ہو جائے تو اٹھا کے باہر پھینک دیتا ہے.اللہ تعالیٰ ان بھائیوں کو بھی جزا دے اور ان کے ذہنوں کو مزید جلا بخشے.اس دفعہ انہوں نے مقامی طور پر دو انجینئر یا ٹیکنیشن یا مکینکس بھی ساتھ لگائے تھے.ایک شاید بوز نیا کا اور ایک جرمنی کا تھا.بہر حال ان سب نے بڑا اچھا کام کیا.دوسرے یہ کہ میرے دورے کے بعد جو احباب ہیں وہ عموماً سفر کے حالات اور جلسہ کے بعض واقعات جوایم ٹی اے پر دکھائے اور سنائے نہیں جاتے انہیں بھی سنے کی خواہش رکھتے ہیں، مجھے خطوط میں ذکر کرتے رہتے ہیں.تو یہ سفر تو جیسا کہ ہم جانتے ہیں خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں بلکہ جلسے میں شامل ہونے والے ہر شخص کا سفر ہی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوتا ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ برکتوں کے حصول کے لئے تین دن رات ایک جگہ جمع ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے سفر کرنے والوں کو بشارت بھی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی بشارت اس کی خوشنودی اور اس کے انعامات کا ملنا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ صرف منہ سے دعوی نہ ہو کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر سفر کرنے والے ہیں بلکہ بعض خصوصیات کا بھی اظہار ہونا چاہئے.سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلتَّائِبُونَ الْعَبْدُونَ الْحَمِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّكِعُونَ السَّجِدُونَ الأمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَفِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (التوبة: 112 ) یعنی جو لوگ تو بہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں ، خدا کی حمد کرنے والے ہیں ، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے ہیں، رکوع کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، نیک باتوں کا حکم دینے والے ہیں اور بری باتوں سے روکنے والے ہیں اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں ایسے مومنوں کو تو بشارت دے.پس ان تمام باتوں کا پیدا ہونا جن کا ذکر کیا گیا ، عبادت کرنے والے ہوں، خدا کی حمد کرنے والے ہوں ، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے، اس کے حضور جھکنے والے سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے، برائیوں سے روکنے والے ، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بشارت سے نوازا ہے.بہر حال میں ذکر کر رہا تھا کہ لوگ سفر کے حالات سننے کے شائق ہوتے ہیں.اس لئے مختصر اس کا ذکر کرتا
خطبات مسرور جلد هفتم 389 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 ہوں.اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے سفر میں خدا تعالیٰ برکت بھی بہت ڈالتا ہے بشرطیکہ وہ تمام لوازمات بھی پورے کئے جارہے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا اور میں نے آپ کو بتایا ہے.یہاں سے روانہ ہو کر ایک رات ہم بیلجیئم مشن ہاؤس میں بھی ٹھہرے تھے.وہاں با قاعدہ مسجد تو نہیں ہے کیونکہ لوکل کونسل اس کی اجازت نہیں دیتی.لیکن دو چھوٹے چھوٹے ہال ہیں جو مشن ہاؤس کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے لئے نمازوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں.ہمارا یہ سنٹر برسلز کے قریب ایک قصبے میں ہے جس کا نام د لبیک (Dilbeek) ہے.وہاں کے میٹر بھی اس دفعہ وقت لے کر مجھے ملنے آئے ہوئے تھے.ان سے کافی دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو چلتی رہی.میں نے جب مسجد کا ذکر چھیڑا تو کہنے لگے میں ذاتی طور پر تو اجازت کے حق میں ہوں لیکن مقامی لوگ اور کونسل کے بہت سے اراکین جو ہیں، باوجود اس کے کہ وہ جماعت کو برا نہیں سمجھتے.جماعت کے جو فنکشن وغیرہ ہوتے ہیں ان پر بھی آتے ہیں اور بلکہ جہاں بڑے پیمانے پر جماعتی فنکشنز ہوتے ہیں اور کافی ڈسٹر منیس (disturbance) بھی ہوتی ہے، ٹریفک بھی ہوتا ہے ، لوگ بھی آتے ہیں، نعرے بھی لگتے ہیں اس پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن وہ لوگ مسجد بنانے کے مخالف ہیں.ان کو رام کرنے میں، ان کو منانے میں کچھ عرصہ لگے گا.بہر حال ہمارے لئے تو اب وہاں مزید انتظار مشکل ہے.اس لئے میں نے وہاں کی جماعت کو یہ ہدایت دی ہے کہ برسلز شہر میں مسجد کے لئے جگہ تلاش کریں تا کہ ہم بیلجیئم میں جلد ہی پہلی مسجد تعمیر کر سکیں.انشاء اللہ.اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہاں مسجد کی تعمیر کی صورتحال پیدا بھی ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ میری اس خواہش کو بھی پورا فرمائے کہ جو پہلی نیز (Phase) ہے اس میں ہم یورپ کے ہر ملک میں جہاں مسجد میں نہیں ہیں آئندہ پانچ چھ سالوں میں کم از کم ایک مسجد بنالیں.پھر انشاء اللہ تعالیٰ جب ایک مسجد بن جائے گی تو ان میں اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا.بیلجیئم کی مسجد کے لئے ان کی MP نے بھی جوممبر آف پارلیمنٹ ہیں جن کی اب ٹرم ختم ہونے والی ہے انہوں نے مدد کی حامی بھری ہے.یہ جلسے پر یہاں بھی آئی تھیں اور سٹیج سے انہوں نے مختصر سا اپنا پیغام بھی دیا تھا اور جماعت سے بہت متاثر ہیں بلکہ میرے بیلجیئم پہنچنے سے پہلے مشن ہاؤس میں موجود تھیں کہ میں استقبال کرنے والے لوگوں میں شامل ہوں گی اور کافی دیر تک کھڑی رہیں.اللہ تعالیٰ ان کا اس لحاظ سے بھی سینہ کھولے کہ وہ احمدیت قبول کرنے کی طرف بھی قدم بڑھا ئیں.ان ممبر پارلیمنٹ خاتون سے ملاقات تھی.انہوں نے وہاں آئے ہوئے مراکن اور الجیرین جو ہیں ان میں تبلیغ کے لئے اور جماعت کا پیغام پہنچانے کے لئے بعض مشورے بھی دیئے اور ان کے مشورے بڑے اچھے تھے.لگتا ہے دل سے تو احمدی ہو چکی ہیں ، صرف اظہار کرتے ہوئے ان کو ابھی خوف ہے.
خطبات مسرور جلد هفتم 390 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 بیلجیئم میں ایک انڈونیشین نژاد مرد اور بیلجیئم کی ان کی اہلیہ ہیں اور اسی طرح ایک نواحمدی مراکن اور اس کی ایک غیر احمدی کزن تھیں وہ اور کچھ افریقن لوگ آئے ہوئے تھے.ان لوگوں سے بھی تربیتی اور تبلیغی موضوعات یہ باتیں ہوتی رہیں.یہ انڈو نیشین دوست جن کا میں نے ذکر کیا ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے بیلجیئم میں رہ رہے ہیں اور وہیں کہیں انہوں نے شادی کی لیکن ان کو خدا پر ایمان نہیں تھا.یہ دونوں میاں بیوی جلسہ یو کے (UK) پر بھی تشریف لائے تھے اور آنے سے چند دن پہلے یعنی یو کے جلسے سے چند دن پہلے احمدی ہوئے تھے.جلسہ پر جب یہاں آئے تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں تو خدا کے وجود کا قائل نہیں تھا اور یہ سمجھتا تھا کوئی خدا نہیں ہے لیکن جماعت کا لٹریچر پڑھ کر اور جو مبلغ ہیں ان سے باتیں کر کے میں خدا کے وجود کا قائل ہوا اور جب میں خدا کے وجود کا قائل ہو گیا تو اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں احمدی بھی ہو جاتا.مراکن لڑکی جو احمدی ہوئی ہیں انہوں نے اپنے والدین کی طرف سے مختلف اعتراضات اٹھائے.جو پرانے اعتراضات یہ جماعت پر ہمیشہ کرتے رہتے ہیں.بہر حال ایک گھنٹے کے قریب کافی لمبی یہ مجلس چلتی رہی.وہاں سے باہر نکلا ہوں تو افریقن اور بیلجیئن نو احمدی اور وہ لوگ جو احمدیت کے قریب ہیں اور دوستوں میں سے ہیں وہ بھی باہر کھڑے تھے ان سے ملاقات ہوئی.ایک نوجوان جنہوں نے اپنا تعارف کرایا.بیلجیئن تھے.جو ایک سال ہوا ڈاکٹر بنے ہیں.ہسپتال میں کام کر رہے ہیں.جب ان سے تعارف ہوا تو ہمارے مبلغ اور امیر صاحب کہنے لگے کہ یہ احمدیت کے بڑے قریب ہیں لیکن ابھی بیعت نہیں کی.ابھی مربی صاحب بات کر ہی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے فوراً جواب دیا کہ UK کے جلسے پر جو عالمی بیعت ہوئی ہے اور جلسہ کا پروگرام میں نے دیکھا ہے میں نے تو اس وقت ہی بیعت کر لی تھی.تو مربی صاحب اور امیر صاحب کو نہیں پتا تھا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے کہ خود لوگوں کو بھیجتا ہے.یہ ہے نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ کا نظارہ.بہر حال وہاں نمازوں کے بعد انہوں نے دستی بیعت بھی کی.اس کا اظہار کیا کہ دستی بیعت کروں گا.جرمنی کے جلسہ کے کارکنوں کے حوالے سے تو میں نے باتیں کی ہیں.جرمنی کا جلسہ سب نے دیکھا ہے.ایم ئی اے نے دنیا کو دکھایا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب جلسہ تھا.حاضری بھی 32 ہزار سے اوپر تھی.اور گزشتہ جلسہ کے برابر تھی.امیر صاحب کا بھی خیال تھا اور میرا بھی خیال تھا کہ گزشتہ سال سے شاید 6-7 ہزار حاضری کم ہو کیونکہ گزشتہ سال جو بلی کا جلسہ تھا.لیکن جلدی جلسہ کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ سکولوں کی چھٹیاں تھیں اس لئے لوگ آئے اور اصل چیز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل فرماتا ہے تو ہمارے اندازے جو ہیں وہ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں.جلسہ سالانہ کے پروگرام اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھر پور تھے.سب نے تقریر میں سنیں.مقررین کے خطابات
391 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم سے علمی اور روحانی فائدہ اٹھایا ہو گا.اُسے صرف حظ اٹھانے تک ہی محدود نہ کریں بلکہ اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں.اپنے دلوں میں پاکیزگی پیدا کریں.جلسے کو ہمیں صرف علمی اور ذوقی حفظ کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے اور نہ ہی ہم وقتی روحانی فائدہ اٹھانے والے ہوں.بلکہ جیسا کہ میں نے سورۃ توبہ کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جلسہ کی برکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم وہ تمام خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے.عبادت کرنے والے بھی ہوں.سجدہ کرنے والے بھی ہوں اور رکوع کرنے والے بھی ہوں.نیکیوں کا حکم دینے والے بھی ہوں.برائیوں سے روکنے والے اور رکنے والے بھی ہوں.اور ہوں گے ہم اس وقت جب خود اپنے آپ میں یہ ساری تبدیلیاں پیدا کریں گے.تب ہی ہم برائیوں سے روکنے والے یہ سب کام کرنے والے ہو سکتے ہیں.جلسہ کی خاص باتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس سال مشرقی یورپ کے ممالک میں سے دس ممالک سے جلسہ جرمنی پر نمائندگی ہوئی ہے.ان میں سے بلغاریہ ہے، ہنگری ہے ، رومانیہ ہے، مالٹا ہے، آئس لینڈ ہے، البانیہ، بوز نیا، میسیڈونیا، کسوو، لیتھو مینیا.ان ملکوں نے اس دفعہ وہاں حاضر ہو کر جلسہ کے پروگرام سنے اور ان میں سے کچھ تعداد تو احمدیوں کی تھی اور بہت سے غیر مسلم یا غیر احمدی مسلمان تھے.ان وفود سے ہفتہ کی شام کو ایک مشترکہ میٹنگ امیر صاحب نے رکھی ہوئی تھی.لیکن پھر میں نے محسوس کیا کہ فائدہ تبھی ہو گا جب علیحدہ علیحدہ یعنی ہر گروپ سے ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ ملاقات ہو اور وہاں کے حالات کے مطابق ان سے باتیں ہوں.چنانچہ جلسہ ختم ہونے کے اگلے روز ان وفود سے علیحدہ ملاقات ہوئی.جس میں میں نے ان کے تاثرات پوچھے.ہر ایک نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ جلسہ کا جو انتظام تھا عجیب حیرت انگیز تھا.ہر ایک نے جو احمدی نہیں تھے اس بات کا اظہار کیا کہ اب ہم نے جماعت کو قریب سے دیکھ لیا ہے.جلسے کو بھی دیکھ لیا ہے.اب ہم اپنے رابطے جماعت سے مزید مضبوط کریں گے اور اس بات پر بھی بلا استثناء سب کو حیرت تھی کہ اتنے بڑے مجمع کو سنبھالنا آسان نہیں ہے.لیکن ابھی کیونکہ یہ دنیا دار ہیں اس لئے علم نہیں کہ مجمع کو خدا کی خاطر شامل ہونے والا خود سنبھالتا ہے.والنٹیئر اور کارکن تو کم کام کر رہے ہوتے ہیں.ہر شامل ہونے والا کیونکہ خدا کی رضا کے حصول کے لئے آتا ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو خود سنبھال رہا ہوتا ہے.اس لئے کسی پولیس فورس کی یا کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے.اور ہر جلسہ پر ہمیشہ یہاں بھی ، وہاں بھی دنیا میں ہر جگہ پر جو غیر شامل ہوتا ہے اس کا یہی اظہار کرتا ہے.ہر ایک نے یہ کہا کہ امن اور پیار کا ماحول بھی عجیب تھا.یہ ہم نے تو کہیں نہیں دیکھا.ہر ایک لگتا تھا کہ دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہا ہے.پھر یہ بھی ان کے لئے حیرت انگیز بات تھی کہ اتنے بڑے مجمع کو کھانا کھلانا اور بڑے آرام سے کھلانا اور ایسٹ یورپ میں تو ویسے بھی ڈسپلن اتنا نہیں
خطبات مسرور جلد هفتم 392 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 ہے ان کے لئے تو بہت بڑی بات تھی.پھر ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ تو ان کے لئے بالکل ہی انوکھی بات تھی.پس یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے جو جلسہ میں شامل ہونے والا ہر شخص کرتا ہے.اس لئے ہمیشہ اس خصوصیت کو بھی قائم رکھیں اور یا درکھیں.بعض دفعہ جہاں بڑی بڑی دلیلیں کام نہیں کرتیں عملی نمونے جو ہیں اپنا کام دکھا جاتے ہیں.بلغاریہ سے نوے (90) افراد کا وفد با وجود اس کے کہ وہاں جماعت کی مخالفت ہے اور جو سرکاری مفتی ہے جماعت کا بڑا سخت مخالف ہے اور اس مفتی کی وجہ سے ہماری جماعت پر بڑی پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں.اس کے با وجود اتنے لوگ شامل ہوئے.اتنی تعداد میں لوگوں کا آنا جس میں سے نصف احمدی اور باقی غیر از جماعت دوست تھے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پھر لوگ ان کی پابندیوں کی وجہ سے حقیقت جاننا چاہتے ہیں.یہ پابندیاں بھی تبلیغ کا کام کرتی ہیں.مخالفت کی وجہ سے عیسائیوں کو بھی توجہ پیدا ہوئی ہے اور بہت سے عیسائی بھی وہاں آئے تھے.ایک باپ بیٹی آئے ہوئے تھے.انہوں نے کہا ہم نے علیحدہ بھی ملنا ہے.تو باپ نے پھر مجھے بتایا کہ گزشتہ سال میں یہاں آیا تھا اور اپنے بیٹے کے ساتھ آیا تھا اور میرا بیٹا وہاں پولیس میں ملازم تھا.جلسہ پر آنے کی وجہ سے واپس جاتے ہی اس کے خلاف چارج شیٹ لگ گئی.محکمانہ کارروائی کی گئی اور اس کو پولیس سے فارغ کر دیا گیا.میں نے کہا مقدمہ کر کے اپنا حق لیں لیکن قانون تو وہاں بھی اس طرح قائم نہیں ہے.انہوں نے کہا وہ بھی ملنے کی امید نہیں ہے.اس پر صرف یہ الزام تھا کہ جرمنی میں احمدیوں کا جلسہ ہوا وہاں کیوں گئے؟ ضرور تم میں کچھ نہ کچھ بغاوت کا عنصر ہے.جولڑ کے کا باپ تھا میں نے ان سے کہا کہ اپنے بیٹے سے کہیں کہ احتیاط کریں.ہمارے لئے اپنے آپ کو اتنی مشکل میں نہ ڈالیں.اس پر اس شخص نے جواب دیا کہ میرا بیٹا کہتا ہے کہ مجھے تو ان میں سچائی نظر آتی ہے اور یہ مظلوم بھی ہیں.اس لئے میں ہمیشہ انہی کا ساتھ دوں گا.چاہے میری نوکری جائے یا مجھے کوئی اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، مجھے تو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں.یہ باتیں کون ان کے دلوں میں ڈالتا ہے.سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں کر سکتا.احمدیت کے یہ لوگ بڑے قریب ہیں.اللہ تعالیٰ جلد ان کا سینہ بھی کھولے.اس دفعہ جو بیٹی ان کے ساتھ آئی تھیں پڑھی لکھی ہیں.ہمارے بعض لٹریچر اور کتب کے اقتباسات کا ترجمہ بھی کیا ہے.ان کا جماعت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے.اس وقت مبلغین تو وہاں ہیں نہیں صرف ایک پاکستانی فیملی ہے اور اس فیملی نے ساری جماعت کو وہاں سنبھالا ہوا ہے.کافی بڑی تعداد میں جماعت ہوگئی ہے.یہ عیسائی خاتون جن کا میں نے ذکر کیا.ان کا اس وجہ سے بھی اٹھنا بیٹھنا ہے کہ جماعت کے لٹریچر کا یہ ترجمہ کرتی ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اُردو بھی سیکھ لی ہے.میں جب اس خاتون کے والد سے مربی صاحب کے ذریعہ باتیں کر رہا تھا تو یہ لڑکی اپنا سر ہلاتی جاتی تھی.مجھے خیال آیا کہ اس کو سمجھ آ رہی ہے.میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا ہاں میں نے کافی حد تک اُردو سیکھ لی ہے.اللہ تعالیٰ اس کا
393 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 بھی سینہ کھولے اور احمدیت کی قبولیت کی توفیق عطا فرمائے.اس خاتون کے اُردو بولنے سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ جوا بھی بیعت میں شامل بھی نہیں ہوئے وہ تو قریب آنے کے لئے اُردو سیکھ رہے ہیں اور وہ جن کے ماں باپ کی یہ زبان ہے وہ اسے بھول رہے ہیں تو یہ بعد میں آنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لٹریچر آپ کی زبان میں پڑھ کر، کہیں پرانوں سے آگے نہ نکل جائیں.ان وفود میں بعض اخباری نمائندے بھی تھے جنہوں نے اپنے ملکی اخباروں میں جلسہ کی خبریں مع تصویروں کے شائع کرائی ہیں اور اس حوالے سے بھی جو جلسہ ہے وہ تبلیغ کا ذریعہ بن گیا اور جماعت کے تعارف کا ذریعہ بن گیا.ان اخباری نمائندوں کو میں نے جماعت کا تعارف اور جو ہم انسانیت کے لئے خدمت کر رہے ہیں اس کے بارہ میں تفصیل سے بتایا.ان کو توجہ دلائی کہ انسانی قدروں کی پہچان ہونی چاہئے.انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے اخبارات میں کالم لکھتے رہیں گے.جلسہ کے بعد جرمن احمدی مردوں اور عورتوں سے بھی علیحدہ علیحدہ وفود کی صورت میں ملاقات ہوئی.اس جلسہ میں شامل ہونے والی وہ خواتین جو قریب تھیں ان میں سے دو بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئیں.ایک ان میں سے جرمن تھیں اور ایک مصری نژاد تھیں.مصری خاتون کے میاں بھی مصری تھے.وہ بڑے عرصے سے یہاں آباد ہیں.انہوں نے بیعت کی.جرمن خاتون جنہوں نے بیعت کی وہ تو جذبات سے اس قدر مغلوب تھیں کہ جب میں نے ان سے کچھ سوال کئے ، تاثرات بیان کرنے کو کہا تو جذبات کی وجہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے، بار بار رو پڑتی تھیں.اور یہ کیفیت بناوٹ کی وجہ سے پیدا نہیں ہوسکتی.بعض نئی احمدی خواتین نے اس بات پر بھی بے چینی کا اظہار کیا کہ ہم بعض دکانوں میں کام کرتی ہیں، پہلے ہی کر رہی تھیں جہاں سورا اور شراب کا کام بھی ہوتا ہے.ہم کوشش کر رہی ہیں کہ اس کام کو جلد چھوڑ دیں یعنی ان دکانوں کو جلد چھوڑ دیں.براہ راست تو یہ کام نہیں کرتیں لیکن بے چینی سے اس بات کا اظہار کر رہی تھیں کہ ہم سے اس وجہ سے چندہ نہیں لیا جاتا.تو میں نے ان کو بتایا کہ اگر تم براہ راست شراب پلانے یا ر کھنے یا سنبھالنے کا کام نہیں کر رہی یا سور کا کام نہیں کر ہی تو پھر تو کوئی پابندی نہیں.لیکن اگر کسی بھی اس قسم کے کام میں ملوث ہو تو بہر حال چندہ نہیں لیا جائے گا.یہ عذر تمہارے لئے تو جائز ہے کہ اپنا پیٹ پالنا ہے لیکن جماعت کے لئے نہیں.پھر جب جرمنی اور یورپ کے مرد احمدیوں کی باری آئی تو ان میں سے بھی بہت سارے ہیں جو جماعت کے بہت قریب ہیں وہ بھی ان میں شامل ہوئے.مردوں میں سے ایک جرمن اور ایک ہنگری کے آئے ہوئے دوست جلسہ کی کارروائی دیکھ کر جماعت میں شامل ہو گئے.انہوں نے وہیں اس مجلس میں پھر دستی بیعت بھی کی اور ان کی یہ بیعت جذباتی کیفیت میں تھی.
خطبات مسرور جلد ہفتم 394 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسوں کے انعقاد کا ایک مقصد یہ بھی بتایا ہے کہ غیر قوموں میں تبلیغ کے راستے تلاش کئے جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جلسہ کی کارروائی دیکھ اور سن کر جلسہ کی برکت سے اور نیک اثر قائم ہونے کی وجہ سے، نیک نمونوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پھل بھی عطا فرما تا ہے.یہاں ایک وضاحت یہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ یو کے پرمیں نے نئے شامل ہونے والے ملکوں میں لیتھو مینیا کا نام بھی لیا تھا جس پر مجھے یہ بات پہنچی کہ یہ ملک تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے وقت میں شامل ہو گیا تھا اور دوبارہ تعداد بڑھانے کے لئے شاید نام لیا گیا ہے.ملکوں کی تعداد جو میں نے 193 بتائی ہے اس کو شامل کر کے بھی تعدا د اتنی ہی بنتی ہے.اس بارہ میں ایک وضاحت یہ بھی کر دوں کہ 1992ء میں یہاں جماعت کا نفوذ ہوا تھا.چندلوگوں نے بیعت کی تھی.وہاں مشن بھی کھولا گیا تھا.مبلغین سلسلہ کو بھی بھجوایا گیا تھا.اس دوران وہاں جماعتی حالات خراب ہو گئے اور جو چند احمدی ہوئے تھے انہوں نے تاتاری مخالفین کے ساتھ مل کر جماعت کی مخالفت شروع کر دی اور معاندانہ رویہ رکھا اور پیچھے ہٹ گئے.ان حالات میں اپریل 1994ء میں وہاں سے مبلغ کو بھی فوراً نکالنا پڑا.تو 1995ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر لیتھوینیا کو ان ممالک کی لسٹ سے نکال دیا گیا جہاں جماعت قائم کی گئی تھی.خود حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے اس کا اعلان فرمایا تھا کہ میں اس کو نکالتا ہوں.جرمنی کے سپرد یہ ملک کیا گیا تھا.اب 14 سال کے بعد اس ملک میں نئے سرے سے احمدیت کا نفوذ ہوا ہے.ایک مخلص خاتون جماعت میں شامل ہوئی ہے.شادی بھی پاکستانی سے ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں رابطے مزید بڑھ رہے ہیں اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت وہاں ترقی کرتی چلی جائے گی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سفر کامیاب رہا.جیسا کہ میں نے کہا کہ دو دن بعد رمضان بھی شروع ہو رہا ہے.اس روحانی ہلچل کے تسلسل کو قائم رکھیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دیں.تقویٰ میں بڑھنے اور دعاؤں کی قبولیت کا یہ خاص موقع انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں ملنے والا ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری روحانی ترقی کے سامان پیدا فرماتا چلا جائے.ہمیں پاک صاف کر دے، ہمارے اندر کی تبدیلیوں کو جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہیں ایک خاص ماحول کی وجہ سے مستقل رہنے والی تبدیلیاں بنادے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے اول اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے.ساری دعاؤں کا اصل اور جز ویہی دعا ہے.کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مظہر ہو جاوے تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں.( دنیاوی ضرورتوں کے لئے اور
395 خطبه جمعه فرموده 21 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حاجتوں کے متعلق ہوتی ہیں.وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں.وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں.بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راستباز ٹھہرایا جاوے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 617 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس نکتے کو سمجھتے ہوئے اپنے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اپنے اندر ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو مستقل ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی اس رمضان میں دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہر شر سے محفوظ رکھے.کیونکہ رمضان میں مخالفت بھی زوروں پر ہو جاتی ہے.ان کے لئے رمضان کی نیکی یہی ہے کہ احمدیوں کی مخالفت کرو اور ان کو تنگ کرو اور انہیں نقصان پہنچاؤ.جہاں جہاں اور جس ملک میں بھی احمدیت کی مخالفت ہے وہاں ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے.یہ رمضان جماعت کے لئے بے شمار برکتیں اور فضل لے کر آئے اور ہم اس سے صحیح رنگ میں استفادہ پانے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 37 مورخہ 11 ستمبر تا 17 ستمبر 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9
خطبات مسرور جلد ہفتم 396 (35) خطبہ جمعہ فرمود : 28 اگست 2009 فرمودہ مورخہ 28 راگست 2009ء بمطابق 28 رظہور 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.( البقره : 187) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.اللہ تعالیٰ کا بے حد و حساب احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک اور رمضان المبارک دیکھنا نصیب فرمایا اور آج ہم محض اور محض اس کے فضل سے اس رمضان کے چھٹے روزہ سے گزر رہے ہیں.اگر انسان سوچے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا شمار نہیں.جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنکبوت: 70) یعنی اور جولوگ ہم سے ملنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشتے ہیں.فرمایا تو یہ ہے کہ جو لوگ آنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے کی توفیق بخش دیتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بندوں پر نہیں چھوڑا کہ میری طرف آنے کے راستے خود تلاش کر و اگر صحیح راستے کو خود ہی پا لیا تو ٹھیک ہے، ہمیں پکڑ لوں گا اور آگ میں گرنے سے بچالوں گا.نہیں ، بلکہ خدا تعالیٰ نے ہر زمانے میں جیسا کہ اس کی سنت ہے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے وہ راستے دکھائے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں اور پھر جب انسانی استعدادوں نے اپنی بلوغت کو پا لیا جو یقینا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے انسان نے حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کو مبعوث فرما کر ہمیں اپنی کامل شریعت کے ذریعہ سے اپنی طرف آنے کے راستے دکھائے تا کہ انسان تباہی اور جہنم میں گرنے سے بچ جائے اور ان راستوں پر گامزن ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہیں اور ان میں سے ایک راستہ رمضان کے روزے ہیں.یہ رمضان کا جو مہینہ ہے بے شمار برکات لئے ہوئے ہے.جیسا کہ قرآن شریف سے ہمیں پتہ چلتا ہے.اور یہ
397 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس سے پہلی آیات میں سے ایک آیت میں اس کا ذکر بھی ہے کہ اپنی قربت دلانے کا یہ ذریعہ یعنی روزے خدا تعالیٰ نے پہلے انبیاء کی قوموں کے لئے بھی فرض کئے تھے اور آج مسلمانوں پر بھی فرض ہیں.لیکن جیسا کہ اسلام دین کامل ہے اسلام میں روزوں کا تصور بھی اعلیٰ ترین صورت میں اللہ تعالیٰ نے دیا اور اس کی تعلیم دی.سحری اور افطاری کے اوقات کا تعین اور بعض دوسری سہولیات کا ذکر کیا جس میں بیماری اور سفر کی حالت میں چھوٹ بھی دی.اور پھر یہ کہ بعد میں تعداد کو پوری کرنا ہے.لیکن پھر بھی اگر طاقت ہے تو فدیہ کا بھی حکم ہے.اور مستقل بیماری اور عذر کی وجہ سے فدیہ وغیرہ دینے کا حکم ہے.لیکن عبادتوں اور قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے ایک مومن پر فرض کی ہے، اس کو توجہ دلائی ہے.کیونکہ یہ برکتوں والا مہینہ ہے اس لئے ایک مومن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہلکی پھلکی بیماری اور کمزوری کو اس چھوٹ کا بہانہ بنا کر روزوں کو نہیں چھوڑ نا چاہئے.ایک مومن کی کامل اطاعت کا تو تبھی پتہ چلتا ہے جب خدا تعالیٰ کی خاطر کھانا پینا اور بعض جائز کام بھی ایک وقت تک کے لئے چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرے کیونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے گناہ معاف کرنے اور اسے اپنے قرب سے نواز نے کے لئے خاص سامان پیدا فرماتا ہے.ایک تو لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا کہہ کر ہر وقت ، ہر موسم ، ہر زمانے اور ہر ملک کے انسانوں کو کہہ دیا کہ ہم اپنی طرف آنے کے راستے دکھاتے ہیں.ہر اس شخص کو جو اپنی بھر پور کوشش ہماری طرف آنے کے لئے کرے.گویا یہ اعلان عام ہے اور ہر وقت جو بھی نیک نیت ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف جائے گا اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ پانے والا بنے گا.لیکن رمضان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے جس میں ان قربانیوں کی وجہ سے جو بندہ خدا تعالیٰ کے لئے کرتا ہے، خدا تعالیٰ کے حکم سے کرتا ہے، ایک فیض خاص کا چشمہ بھی جاری فرما دیا.اپنے بندوں کی روحانی ترقی کے لئے ایک خاص اہتمام فرمایا ہے.ایک ایسا ماحول میسر فرمایا ہے جو نیکیوں کے راستوں کو جلد از جلد طے کرنے میں مدد دینے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کے لئے آسانیاں پیدا فرما دی ہیں.بندے کی دعاؤں کی قبولیت کے لئے تمام دُوریوں کو قربتوں میں بدل دیا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَعُلِقَتُ اَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ - ( صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شهر رمضان حدیث نمبر (2384 ترجمہ اس کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے.تو یہ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ کسی طرح اس حالت کا نقشہ کھینچ دیا اور بیان فرما دیا کہ
398 خطبه جمعه فرموده 28 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم رمضان میں یہ صورتحال ہوتی ہے.پس کیا یہ ہماری خوش قسمتی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور رمضان سے ہمیں فائدہ اٹھانے کا فیض حاصل کرنے کا موقع مہیا فرما دیا.اللہ تعالیٰ تو عام حالات میں بھی ایک نیکی کے بدلے کئی گنا ثواب دیتا ہے اور گناہ کی سزا اُس (گناہ) کے برابر ہے.لیکن ان دنوں میں تو جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی کوئی حد نہیں ہوتی.وہ اپنے بندے پر بے شمار فضل نازل فرما رہا ہوتا ہے.اور عام حالات میں تو شیطان کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ ہر راستے سے بندوں کو ورغلانے کی کوشش کرتا ہے اور بعض اوقات نیکیاں بجالانے والے بھی اس کے بھرے میں ، اس کی چال میں آجاتے ہیں، اس کے دھوکے میں آ جاتے ہیں اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی رفتار میں ستی پیدا ہو جاتی ہے.اصل میں شیطان بعض اوقات بعض نیک لوگوں کو بھی نیکی کے روپ میں برائی کی طرف لے جارہا ہوتا ہے.لیکن یہاں تو آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان فرمایا ہے اور یقینا اللہ تعالی کے اذن سے یہ اعلان فرمایا ہے کہ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ کہ شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور شیطان نے اپنے چیلے مختلف راستوں پر انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے بٹھائے ہوئے ہیں ، ان سب کو جکڑ دیا جاتا ہے.پس موقع ہے اس رمضان کے روحانی ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہر قسم کی نیکیاں بجالاتے ہوئے ، جنت کے جتنے زیادہ سے زیادہ دروازوں سے داخل ہوا جا سکتا ہے انسان داخل ہونے کی کوشش کرے.ان بلندیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جہاں تک شیطان کی پہنچ نہ ہو اور پھر ان معیاروں کو ہمیں اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے چلے جانا چاہئے.عبادتوں کے معیار بھی بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں.صدقہ و خیرات میں بھی بڑھتے چلے جائیں کہ ہم نے اپنے آقا و مطاع محمدرسول اللہ ﷺ کے اسوہ پر عمل کرنا ہے جن کا ہاتھ صدقہ وخیرات کے لئے رمضان میں تیز آندھی کی طرح چلا کرتا تھا.( بخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبی یکون فی رمضان 1902) اخلاق حسنہ کی بجا آوری ہے اس میں بھی نئے سے نئے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.قرآن کریم کی تلاوت کر کے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش بھی خاص لگن اور شوق سے کرنی چاہئے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے.پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر ہم رمضان کے ان دنوں میں رمضان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے خالص بندے بن جائیں.ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جن کے بارے میں ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے.پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اس کو کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب
خطبات مسرور جلد هفتم 399 خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 ہے، پاک ہے، روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں.ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا.( صحیح بخاری کتاب الصوم.باب هل يقول انی صائم اذاشتم حدیث نمبر 1904) پس ہمیں وہ روزے رکھنے چاہئیں جو ہمارے اس دنیا سے رخصت ہونے تک ہماری ہر حرکت وسکون ، ہمارے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بناتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ملانے والے ہوں.ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ ہر روزہ دار جوروزے کے تمام لوازمات پورے نہیں کرتا حدیث کے الفاظ کہ وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بصَوْمِه - ( صحیح بخاری کتاب الصوم.باب هل يقول انی صائم اذاشتم حدیث نمبر 1904) یعنی اور جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا اس کا مصداق نہیں بن سکتا اور اس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے اندار بھی فرمایا ہوا ہے کہ صرف روزہ کافی نہیں ہے کہ روزہ رکھو گے تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر خوش ہو جاؤ گے، بلکہ روزہ کی قبولیت کے لئے جو لوازمات ہیں ان کو بھی پورا کرو.اس کے بارہ میں ایک روایت میں مزید آتا ہے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا.اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے.( صحیح بخاری کتاب الصوم ـ باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم حدیث نمبر (1903) پس پہلی حدیث میں برائیوں سے بچنے والے کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خبر دی گئی ہے اور اس حدیث میں یہ بتایا کہ برائیوں سے نہ بچنے والے کا روزہ ، روزہ نہیں ہوتا بلکہ فاقہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو کسی شخص کے فاقہ زدہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.یا اس شخص کے فاقہ زدہ رہنے سے اس کی نیکیوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا.پس حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ سے اس کے فضلوں کو مانگنے اور رمضان کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے اس خاص ماحول میں ایک کوشش کی ضرورت ہے.ماحول تو ہمارا وہی ہے جہاں اچھے لوگ بھی رہ رہے ہیں، نیکیوں پر قدم مارنے والے بھی لوگ رہ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشاں لوگ بھی رہ رہے ہیں اور پھر برائیوں میں مبتلا لوگ بھی یہاں بس رہے ہیں.گندگی میں ڈوبے ہوئے اور شراب اور زنا کی برائیوں میں مبتلا لوگ بھی یہاں بس رہے ہیں.ایسے لوگ بھی ہیں جو روزہ رکھ کر خدا اور مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا خون بھی کر رہے ہیں.ایسے لوگ بھی ہیں جو رمضان میں احمدیوں کو تکالیف دینا اور شہید کرنا کار ثواب سمجھتے ہیں.تو کیا یہ نیکیاں اور برائیاں کرنے والے صرف رمضان کے بابرکت مہینے کی وجہ سے برابر ہو جائیں گے.جس طرح نیکیاں کرنے والوں کے لئے جنت کے دروازے کھولے گئے ہیں.برائیوں میں مبتلا لوگوں کے لئے بھی جنت کے دروازے کھولے جائیں گے؟ جس طرح
400 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 نیکیاں بجالانے والے اور عبادت کرنے والے جہنم سے محفوظ کئے گئے ہیں اور ان کے شیطانوں کو قید کر دیا گیا ہے ان تمام قسم کی برائیاں کرنے والوں کو بھی جہنم سے محفوظ کر دیا گیا ہے اور ان کے شیطانوں کو قید کر دیا گیا ہے؟ اگر ان کے شیطانوں کو بھی قید کر دیا جاتا تو یہ شیطانی فعل ان سے سرزد ہی نہ ہوتے بلکہ وہ نیکیاں کرنے والے ہوتے.پس یہ معاملہ بعض نسبتوں اور اعمال کے ساتھ مشروط ہے.جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رمضان سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرے گا خدا تعالیٰ عام حالات سے بڑھ کر اس کے لئے یہ سامان مہیا فرمائے گا.کیونکہ وہ شخص جو روزہ دار ہے اور اس نیت سے روزہ رکھتا ہے کہ اللہ کو راضی کرے وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ان سب برائیوں کو ترک کر رہا ہے بلکہ جائز باتوں کو بھی چھوڑ رہا ہے.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان خاص سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس کے فضل کو مانگتے ہوئے اس کے حضور جھکنے کی ضرورت ہے.وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ، آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے سوال پر یا امکان سوال پر دیا تھا وہ ہمیشہ کے لئے قرآن کریم میں محفوظ ہو کر ہمارے لئے خوشخبری کا پیغام بن گیا ہے.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ روزوں کے احکام کے درمیان میں یہ آیت آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے قرب اور ان دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری دی ہے جو بندہ کرتا ہے اور جیسا کہ جو احادیث میں نے پیش کیں وہ بھی اس آیت کی وضاحت کرتی ہیں.احادیث میں روزہ کے حوالے سے بعض اوامر ونواہی کا ذکر کیا گیا ہے.یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے قریب آنے اور اپنا کر ب پانے اور اپنے بندے کی دعا کی قبولیت کا ذکر فرما کر بعض شرائط بھی عائد فرما دیں.پہلی بات تو سَأَلَكَ عِبَادِی کہہ کر فرما دی کہ رمضان سے فیضیاب ہونا اور فیض پانا اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنا ہر ایرے غیرے کے لئے نہیں ہے.فرمایا کہ ”میرے بندے ، وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کا عبد بننا چاہتے ہیں اور ہیں یہ قربتیں انہی کو ملنے والی ہیں.وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں یا خاص بندے بننے کے خواہاں ہیں.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ: 5 ) کا اظہار ان کے ہر فعل سے ہو رہا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ سوال عنی کا کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ میرے بارے میں پوچھتے ہیں، مجھے تلاش کرتے ہیں.ان کی خواہشات دنیا وی نہیں ہوتیں کہ خدا ملے تو بزنس بڑھانے کی دعا کرو.اس سے بزنس کے لئے مانگو.دوسری دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کی دعا کروں نہیں، بلکہ ان کی تڑپ پھر یہ ہوتی ہے کہ بتاؤ میرا اللہ کہاں ہے.میں بے چین ہوں اپنے خدا کی تلاش میں.دنیا دہریت کی طرف بڑھ رہی ہے.خدا کے وجود کے خلاف کتابیں لکھی جارہی ہیں ایسے میں مجھے بھی اپنی فکر ہے کہ میں جو خدائے واحد پر ایمان لانے والا ہوں.میری صرف ایک خواہش ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی ذات کا اتنا عرفان حاصل ہو جائے کہ کوئی دنیاوی چیز اور دہریت کی چمک اور دھو کہ مجھے میرے احمدی مسلمان ہونے سے ہٹا نہ سکے.اور اس خواہش کے پورا کرنے کے لئے میں
401 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 رمضان کے روزے بھی خاص اہتمام سے رکھ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالص ہو کر میری تلاش کرنے والو! میں تمہارے قریب ہوں.جو بھی مسلمان ہے اور حقیقی مسلمان بننے کے لئے کوشاں ہے.آنحضرت ﷺ پر اتری ہوئی کامل شریعت پر ایمان لانے والا ہے.اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ کی تلاش میں آنحضرت ﷺ کی سنت اور باتوں پر عمل کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے آنحضرت ﷺ سے محبت کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ان کے قریب ہوں اور جب بھی میرے بندے مجھے پکارتے ہیں میں جواب دیتا ہوں.پس اگر اللہ تعالیٰ سے سوال جواب کا سلسلہ شروع کرنا ہے تو سب سے پہلے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی تلاش ضروری ہے.اور تلاش کے لئے پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی طریق بھی بتا دیا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ قرآن کی حکومت اپنے پر قائم کرنا.سنت رسول ﷺ پر عمل کرنا اور عشق رسول عربی کی انتہا کرنا.اور قرآن کریم اور حضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق جوز مینی اور آسمانی نشانوں کے طور پر پوری بھی ہو چکی ہیں اس زمانہ کے امام سے کامل وفا کرنا.آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی بیعت میں خالص ہو کر آنا.صرف مسلمان ہونے کا اعلان کرنا کافی نہیں ہے.یہاں پھر وہی مضمون بیان ہوتا ہے کہ اَسْلَمْنَا کافی نہیں ہے بلکہ يُؤْمِنُوا بِٹی کے مضمون کو سمجھو.اپنے ایمان کو کامل کرو اور ایمان کامل کرنے کی اپنی تعریفیں نہ کرو بلکہ اُس راستہ سے کامل ایمان کی طرف آؤ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے بتائے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وليُؤْمِنُوا ہی مجھ پر ایمان لانے کا معیار کس طرح حاصل ہوگا؟ یہ اس وقت حاصل ہوگا جب فَلْيَسْتَجِيبُوا لِٹی پر بھی عمل ہوگا.یعنی میری بات پر لبیک کہو گے، میری باتوں کو سننے والے ہو گے اور یہ عمل اس وقت ہوگا جب قرآن کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنے کی کوشش ہو رہی ہوگی.تقویٰ کے راستوں پر چلنے کے لئے ، خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بات پر لبیک کہنے کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش خالص ہو کر کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادات کی طرف بھی خالص ہو کر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے اخلاق فاضلہ میں ترقی کی بھی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”جو لوگ ان دونوں باتوں کے جامع ہوتے ہیں ، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ، وہی متقی کہلاتے ہیں.انہی کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ کی تلاش ہے.انہی کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی بات پر لبیک کہنے والے ہیں.اگر بعض اخلاق تو ہیں اور بعض حقوق کی ادائیگی تو ہے لیکن بعض کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو اسے متقی نہیں کہا جا سکتا.پس اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے ، تقویٰ کا یہ معیار ہمیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے.پس ہمیں اس رمضان میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو سمجھنے والے اس کا حق ادا کرنے کی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنے والے بن جائیں.اپنی نمازوں کا حق ادا کرنے والے بن جائیں.کئی لوگوں سے یہ جواب سن کر مجھے بڑی حیرت بھی ہوتی ہے اور پریشانی بھی کہ ہم کوشش کرتے ہیں
خطبات مسرور جلد ہفتم 402 خطبه جمعه فرموده 28 اگست 2009 کہ پانچوں نمازیں ادا کرنے والے بن جائیں لیکن پھر بھی ایک آدھ نماز رہ جاتی ہے.جب نمازیں ہی رہ جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کی قبولیت کے لئے کس طرح درخواست کی جاسکتی ہے.اسی طرح تمام اخلاق فاضلہ کو اپنانے کے لئے درد کے ساتھ کوشش کی ضرورت ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ رمضان جو تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھا ئیں.اللہ تعالیٰ نے جو جنت کے دروازے ہمارے لئے کھولے ہیں ان میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے داخل ہونے کی کوشش کریں تبھی اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے قدم بڑھانے والے ہم کہلا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے حوالے سے ایک جگہ فرمایا کہ: پس چاہئے کہ وہ دعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھ پر ایمان لاویں تا کہ کامیاب ہوں“.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 396 ) پس یہ دعاؤں کی قبولیت کا خاص مہینہ ہے اور سب سے بڑی دعا جو ہمیں کرنی چاہئے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالی کا وصل تلاش کیا جائے ، اس کا قرب تلاش کیا جائے.اس سے ملنے کی خواہش ہو.اللہ تعالیٰ سے اس سے ملنے کی دعا کی جائے.جب خدا مل جائے گا تو دوسری خواہشات خود بخود پوری ہوتی چلی جائیں گی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.لیکن یہاں ایک بات اور یا درکھیں کہ دعا کی تعریف بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے کہ دعا ہے کیا چیز اور کس قسم کی دعا ہونی چاہئے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے.جو ہم پڑھتے ہیں کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فتا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کوزندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کوکشتی بن جاتا ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222) تریاق ہو جاتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ (223)
403 خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اللہ تعالیٰ ہمیں وہ معرفت عطا فرمائے جس سے ہم دعاؤں کی حقیقت اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے فلسفہ کو سمجھ سکیں.ہمارا ہر عمل اور فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو.رمضان میں ان دعاؤں کے طفیل جن سے خدا اپنے بندے کے نزدیک آ جاتا ہے وہ تبدیلیاں ہم میں پیدا ہوں جو ہمیں دوسروں سے ہمیشہ ممتاز کر کے دکھاتی چلی جائیں.اپنی دعاؤں میں ہمیں جماعت کے ہر شر سے محفوظ رہنے اور اسلام کی ترقی کے لئے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں.جو دعائیں ہم خدا تعالیٰ کے دین کے قیام و استحکام کے لئے کریں گے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کی بھی توفیق دے اور پاک تبدیلیاں بھی اس کے نتیجہ میں ہمارے اندر پیدا فرمائے اور ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی بن جائیں.اس کے بعد اب میں حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا کچھ ذکر خیر کروں گا.جن کی دو دن پہلے وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ جماعت کے چوٹی کے عالم تھے.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.آپ مؤرخ احمدیت کہلاتے تھے.تاریخ احمدیت آپ نے لکھی ہے جس کی 20 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ صرف مؤرخ احمدیت نہیں تھے بلکہ آپ تاریخ احمدیت کا ایک باب بھی تھے اور ایک ایسا روشن وجود تھے جو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی روشنی کو ہر وقت جب بھی موقع ملے دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشاں رہتا ہے.آپ کا حافظہ بلا کا تھا اور یہ کہنا بے جانہ ہوگا بلکہ کئی لوگوں نے مجھے لکھا بھی کہ آپ ایک انسائیکلو پیڈیا ہیں کیونکہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھی یہ کہہ چکے ہیں.مجھے پتہ نہیں تھا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے بھی کہا ہے لیکن میں ان کو یہ ہی کہا کرتا تھاکہ وہ تو ایک انسائیکلو پیڈیا ہیں.اب جب میں نے پڑھا تو مجھے پتہ لگا کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے بھی ان کے بارے میں یہی فرمایا تھا کہ وہ ایک انسائیکلو پیڈیا تھے.پرانے بزرگوں ، اولیاء اور مجددین کے حوالے بھی ان کو یاد ہوتے تھے.بڑا گہرا مطالعہ تھا اور نہ صرف حوالے یاد ہوتے تھے بلکہ کتابیں اور اس کے صفحے تک یاد ہوتے تھے.بعض لوگوں نے مجھے خطوط میں ان کی بعض ذاتی خوبیاں بھی لکھی ہیں.ان کے بارہ میں کچھ معلومات میں نے ان کے بیٹے کے ذریعہ سے بھی لی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا وہ تاریخ احمدیت کا بھی ایک باب تھے.سب کچھ تو یہاں بیان نہیں ہو سکتا.چند باتیں میں ان کے بارے میں بیان کروں گا.بہت ہی بے نفس اور اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ دین کی خاطر صرف کرنے والے بزرگ تھے.واقف زندگی تھے.خلافت سے انتہا کا تعلق تھا.بہت بزرگ اور دعا گو تھے.مجھے کسی نے لکھا کہ جب بھی کسی نے ان کو دعا کے لئے کہا تو ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ مجھے دعا کے لئے نہ کہو.دعا کے لئے لکھنا ہے تو خلیفہ اسیح کولکھو.
خطبات مسرور جلد ہفتم 404 خطبہ جمعہ فرمود : 28 اگست 2009 عاجزی میں بے انتہا بڑھے ہوئے تھے، کوئی بھی نئی چیز جب مطالعہ میں آتی تھی تو مجھے بھی متعلقہ صفحات کی فوٹو کا پیاں کر کے بھیجا کرتے تھے.ایک ایسے عالم تھے جو یقینا ایک عالم با عمل کہلانے کے حقدار تھے.اور جیسا کہ میں نے کہا بڑے بے نفس کا رکن.ایک ایسے سلطان نصیر کے جانے سے طبعاً فکر بھی پیدا ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ خلافت کو سلطان نصیر عطا فرماتا چلا جائے گا.ایک لکھنے والے ہمارے مبشر ایاز صاحب ہیں انہوں نے مجھے لکھا کہ ان کے ساتھ جب میٹنگز اٹینڈ (Attend) کرتے تھے ان کا وجود ایک عجیب عشق میں ڈوبا ہوا و جو لگتا تھا کہ جس طرح قطب نما کی سوئی ہمیشہ شمال کی جانب رہتی ہے اسی طرح ان کی سوچ کا محور بھی ہمیشہ خلافت کی طرف رہتا تھا.بڑے بڑے حوالوں اور فتاوی کو پر کاہ سے زیادہ وقعت نہیں دیتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ جب خلیفہ اسیح نے یہ کہ دیا تو فلاں کے حوالے کی اور فلاں کے قول کی کیا اہمیت ہے.پھر ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ سعودی عرب کے امیر صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے وہاں کی تاریخ احمدیت مرتب کرنی ہے.مولانا دوست محمد شاہد کے پاس چلتے ہیں.چنانچہ وہ ان کے دفتر میں گئے تو انہوں نے آدھے گھنٹے میں سارے حوالے وغیرہ دے کے پوری تاریخ بیان کر دی اور فوٹو کا پیاں بھی کروا کر ان کو دے دیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ بہت بلا کا حافظہ اور حوالوں کے بادشاہ تھے.جماعتی اموال کا بھی بڑا درد تھا ان کو.ایک صاحب نے لکھا کہ میں کسی حوالے کے لئے ان کے دفتر میں گیا.تو انہوں نے مجھے بتایا اور حوالہ میرے سامنے کر دیا تو میں نے ان کی میز سے قلم اٹھا کر لکھنا شروع کیا.پہلے قلم لیا، پھر کاغذ لیا تو انہوں نے قلم اور کاغذ دونوں مجھ سے لے لئے کہ تم یہاں ذاتی استعمال کے لئے حوالہ لینے آئے ہو، اپنا قلم استعمال کرو اور اپنی نوٹ بک استعمال کرو.پھر محمود ملک صاحب نے مجھے یہ لکھا کہ ان کے والد عبدالجلیل عشرت صاحب کے یہ دوست تھے.ایک دفعہ یہ لاہور کے دورہ پر گئے تو انہوں نے پیغام بھیجا کہ میں آ نہیں سکتا تو یہاں آجائیں تو دوستی کی وجہ سے ذاتی تعلق کی وجہ سے چلے گئے ، وہ رکشے پر ان کو لے کے گئے.مولوی صاحب نے رکشہ کا کرایہ ادا کرنے کی کوشش کی.خیر انہوں نے اس وقت تو دے دیا.اگلے دن وہاں مسجد دارالذکر میں جانا تھا تو انہوں نے کہا کہ جا کے ٹیکسی لے کے آؤ اور ٹیکسی کا کرایہ بھی میں ادا کروں گا، کیونکہ مجھے مرکز ٹیکسی کا کرایہ دیتا ہے اور مرکز چاہتا ہے کہ ہمارے علماء کی عزت رہے.اس لئے میں رکشے پہ نہیں بیٹھوں گا اور ٹیکسی پہ جاؤں گا.تو یہ صرف اطاعت نہیں تھی.اس سے بہت سے سبق ملتے ہیں کہ جو جس چیز کا اینٹا کلمینٹ (entitlement) ہے، جس چیز کا مرکز نے کہا ہے کہ آپ نے استعمال کرنا ہے ، اس کو استعمال بھی کرنا تا کہ کسی بھی قسم کی اطاعت سے باہر نہ نکل سکیں.اور دوسرے علماء کا جو وقار ہے اس کا بھی احساس رہنا.
405 خطبه جمعه فرموده 28 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم آپ کی وفات جیسا کہ میں نے بتایا دو دن پہلے 26 اگست کو ہوئی ہے.آپ 1935ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے تھے اور 1944ء میں جامعہ کی تعلیم کا آغاز ہوا.1946ء میں پنجاب یو نیورسٹی سے مولوی فاضل پاس کیا اور تیسری پوزیشن لی.آپ کا جماعتی خدمات کا عرصہ 63 سال پر محیط ہے.1952ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر الفضل میں شذرات“ کے نام سے لکھنا شروع کیا.بڑا لمبا عرصہ یہ چلتا رہا.1953ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو تاریخ احمدیت مدون اور مرتب کرنے کے لئے فرمایا.اس کی 20 جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور باقی بھی 2004 ء تک مکمل ہیں اور اس کے بعد نوٹس بنا کے چھوڑ گئے ہیں.آپ کا ایک بیٹا ہے ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب فضل عمر ہسپتال میں ہیں اور پانچ بیٹیاں ہیں.ان کے خاندان میں احمدیت اس طرح آئی کہ ان کے ایک عزیز حضرت میاں محمد مراد صاحب حافظ آبادی تھے.بڑے نیک بزرگ تھے، وہ احمدی ہوئے.حضرت مولوی صاحب کے دادا کو جب پتہ لگا تو انہوں نے ان پر بڑا ظلم کیا اور اتنا مارا کہ بعض دفعہ تو بہت زیادہ.شدید زخمی کر دیا کرتے تھے.تو میاں مراد صاحب نے کہا کہ انشاء اللہ تعالیٰ تمہارے تین عقلمند بیٹے ضرور احمدی ہو جائیں گے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کے پڑدادا جو تھے اس پر اور بھی مشتعل ہو گئے اور زیادہ سخت سزائیں دیں.اس بارہ میں مولوی صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا ہے.جابہ مخلہ ایک چھوٹی سی جگہ ہے جو حضرت مصلح موعود نے آباد کی تھی ، گرمیوں کے لئے آپ ان دنوں میں وہاں تفسیر صغیر کی تالیف فرما رہے تھے.مولوی صاحب بھی ان دنوں میں وہاں گئے لیکن وہاں جانے سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے دادا کے پاس خانقاہ ڈوگراں کے قریب گاؤں میں گیا.ان کی زندگی کے آخری دن تھے.تو وہ کہنے لگے اپنے خلیفہ صاحب کو میرا ایک پیغام دے دینا کہ میرے چھ بیٹے ہیں، جن میں سے تین بچے جن میں سے ایک حافظ قرآن ہے اور دوسرے دو بہت عقلمند اور صاحب علم ہیں تمہارے خلیفہ صاحب نے مجھ سے چھین لئے ہیں اور باقی جو تین ان پڑھ یا معذور ہیں میرے حوالے کر دیئے ہیں.اگر انہوں نے گنتی پوری کرنی ہے تو جو یہ تین معذور ہیں یہ لے لیں اور جو پڑھے لکھے ہیں وہ مجھے واپس کر دیں.تو کہتے ہیں جب میں جابہ خلہ گیا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی.میں نے یہ بات عرض کر دی.حضرت مصلح موعودؓ نے جب یہ پیغام سنا تو آپ مسکرائے اور فرمایا کہ اپنے دادا کو میرا پیغام پہنچا دیں کہ مجھے بیٹوں کا تبادلہ بڑی خوشی سے منظور ہے.آپ اپنے غیر احمدی بیٹے جو ہیں میرے حوالے کر دیں اور جو آپ کے احمدی بیٹے میں ان کو میری طرف سے اجازت ہے اگر وہ احمدیت چھوڑ کے آپ کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو چلے جائیں.تو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا کو آ کے یہ پیغام دیا.تو کہتے ہیں آپ کے خلیفہ صاحب بڑے ہوشیار ہیں ان کو پتہ ہے کہ انہوں نے مرزائیت نہیں چھوڑنی اور اس پر بڑے روئے اور چلائے بھی.حضرت مولوی صاحب کی والدہ بھی 1949ء میں ایک رؤیا کی بنا پر احمدیت میں شامل ہوئی تھیں.
406 خطبه جمعه فرموده 28 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم 1951ء میں جامعتہ المبشرین کی پہلی کامیاب ہونے والی شاہد کلاس میں آپ شامل تھے اور اس کی الوداعی پارٹی میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی شرکت فرمائی اور جو جوابی ایڈریس حضرت مولوی صاحب نے پیش کیا اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا.آپ نے جامعتہ المبشرین سے شاہد کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جماعت اسلامی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا.اس کا عنوان بھی خود حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تجویز فرمایا تھا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی راہنمائی میں ہی آپ نے یہ مضمون لکھا اور حضرت امیر مینائی کے جانشین اور حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے مختلف وقتوں میں ان کی راہنمائی بھی فرمائی.جیسا کہ میں نے کہا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے 1953ء میں آپ کے سپر د تاریخ احمدیت کی تدوین کا کام د کیا تھا جس کی 20 جلدیں مکمل ہو چکی ہیں اور خلافت خامسہ کی تاریخ کا کام بھی جاری ہے.40 سے زائد آپ کی تالیفات ہیں جو مختلف موضوعات پر چھپ چکی ہیں اور بعضوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے.بڑی ہی علمی ادبی شخصیت تھے اور روایتی رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے.اور تحریر وتقریر میں ایک خاص ملکہ تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو آواز بھی خوب دی تھی.1974ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی قیادت میں جو نمائندہ وفد اسمبلی میں گیا تھا وہاں اس وفد میں حضرت مولوی صاحب بھی شامل تھے.آپ اس وفد کے آخری رکن تھے جن کی وفات ہوئی ہے.وہاں بھی معلومات اور حوالوں کی فراہمی کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی اور آپ جب بھی حوالے نکال کر دیتے تھے تو ممبران اسمبلی بڑے حیرت زدہ ہو جایا کرتے تھے.بلکہ وہاں اس دوران میں ایک دفعہ ایک ممبر اسمبلی نے بڑی حیرانی کا اظہار بھی کیا کہ ہمارے علماء کو حوالے نکالنے کی ضرورت پڑتی ہے تو کئی کئی دن لگ جاتے ہیں اور مصیبت پڑ جاتی ہے.ان مرزائیوں کا یہ چھوٹا سا مولوی ہے، یہ پتہ نہیں پندرہ منٹ میں حوالے نکال کے لے آتا ہے.جلسوں میں بھی آپ کو بڑا لمبا عرصہ تقریر کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.1957ء کے جلسہ میں آپ نے شہبینہ اجلاس میں پہلی بار تقریر کی اور 1958ء میں آپ کی یہ تقریر شائع ہوئی اور اس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا پسند فرمایا کہ شوری میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا.ریسرچ سیل میں بھی کام کیا.قاضی کے طور پر بھی کام کیا اور وفات تک آپ مجلس شوری پاکستان کے مبرر ہے اور آپ کو بحیثیت نمائندہ خصوصی اور اعزازی ممبر جو خلیفہ اُسیح کی طرف سے منتخب ہوتا ہے شرکت کا موقع ملا.اور 1992ء.1993ء میں کیمبرج کے مشہور بین الاقوامی ادارہ انٹر نیشنل بائیوگرافیکل سنٹر نے آپ کو مین آف دی ایئر (Man of the Year) کا اعزاز بھی دیا تھا اور یہ جو
407 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 اعزاز ہے ایسی خاص علمی شخصیات کو دیا جاتا ہے جن کی صلاحیتوں کا میابیوں اور قیادت کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے.1994ء میں بھارت کے صوبہ تامل ناڈو کے شہر کو مجھے ٹور (Coimbatore) میں جماعت احمدیہ اور جماعت اہل قرآن وحدیث کے مابین ایک مناظرہ ہوا.یہ مناظرہ وہاں کے ایک ہوٹل کے وسیع ہال میں ہوا تھا.9 روز تک جاری رہا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی کے کہنے پر آپ وہاں گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی آپ کو فتح سے نوازا اور آپ نے جماعت احمدیہ کی خوب نمائندگی کی.اور اس دوران جب آپ وہاں تھے آپ کی ایک بیٹی کی شادی بھی ہوئی جس میں آپ شامل نہیں ہوئے بلکہ دو بیٹیوں کی شادیاں اس صورت میں ہوئیں کہ آپ دوروں پر ہوتے تھے اور اس دن پہنچتے تھے جس دن شادی تھی.اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی کہ میرے ذاتی کام کیا ہیں.1982ء میں آپ کو اسیر راہ مولیٰ بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوا.چند روز آپ ربوہ کی حوالات میں رہے.اپریل 1988ء میں دوبارہ ڈسٹرکٹ جیل گوجر انوالہ میں آپ کو قید کر کے رکھا گیا.پھر 1990ء میں حج نے آپ کی ضمانت منسوخ کر دی اور دو دو سال قید با مشقت اور پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ کی آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو سزا دی گئی.بہر حال کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ ضمانت پر رہا ہو گئے.جیل میں بھی آپ نے درس قرآن اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا.مولوی صاحب اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب میں نے دو ہفتہ کے لئے اپنا بستر رات کو اپنے معمول کے مطابق دفتر میں ہی بچھا رکھا تھا.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے فون کے لئے منتظر بیٹھا تھا تو اتنے میں ثاقب زیروی صاحب جو لاہور کے ایڈیٹر تھے وہ آئے.انہوں نے کہا میں ابھی حضور سے مل کے آ رہا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فرمایا کہ ابھی فون کر کے فلاں فلاں جو حوالہ ہے وہ مولوی صاحب سے کہو بھجوا دیں.تو ثاقب صاحب کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ ابھی رات ہو گئی ہے، اب کہاں مولوی صاحب ملیں گے.تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ اپنے دفتر شعبہ تاریخ میں اس وقت بیٹھے ہوں گے.ثاقب صاحب نے کہا کہ میں صرف چیک کرنے آیا ہوں کہ واقعی آپ دفتر میں ہیں کہ نہیں.تو دن رات آپ کا یہ کام تھا کہ خدمت دین میں مصروف رہیں.خلیفہ وقت کی طرف سے جب بھی کوئی کام آجاتا خواہ رات کے دو بجے ہوتے ، اسی وقت اٹھ کر کام شروع کر دیتے اور کام مکمل ہونے تک پھر اور کوئی کام نہیں کرتے تھے اور نہ آرام کرتے تھے، بلکہ کہا کرتے تھے کہ میں کوئی اور کام کرنا جائز ہی نہیں سمجھتا.ڈاکٹر مبشر صاحب نے بتایا کہ وفات سے چند روز پہلے انہوں نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی آواز آئی ہے کہ رہے ہیں.السلام علیکم.بہر حال واپسی کے اشارے ہو رہے تھے.ڈاکٹر
408 خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم سلطان مبشر نے ہی یہ لکھا ہے کہ کوئی بھی پریشانی ہوتی تو سب سے پہلے کہتے کہ خلیفہ وقت کو دعا کے لئے لکھو.پھر صدقہ دو اور پھر درود شریف اور استغفار کثرت سے پڑھو.اور آپ کا عربی ، فارسی، انگلش کا مطالعہ بڑا وسیع تھا اور نہ صرف مطالعہ کرتے تھے بلکہ پڑھتے وقت جلد پر پوائنٹس اور نشان بھی لگاتے تھے اور پھر اس کے باہر پوائنٹس نوٹ کرتے جاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ کتا ہیں ہمیشہ خود خریدو اور پڑھو تو انہوں نے ہمیشہ اس کو اپنے پلے باندھا.ان کی گھر میں اپنی لائبریری تھی جس میں آٹھ ہزار کے قریب کتا بیں تھیں.جب بھی کبھی ربوہ سے باہر جاتے تھے، خلیفتہ اسی کے ہوتے ہوئے تو خیر اجازت لینی ہوتی ہے، بعد میں امیر مقامی کی اجازت کے بغیر باہر نہیں نکلتے تھے اور جب جماعتی کاموں کے لئے جاتے تھے تو بعض دفعہ بلکہ اکثر ہی اپنے عزیزوں کو نہیں ملتے تھے.ان کی بیٹیاں لاہور میں رہتی تھیں.کبھی لا ہور دورے پر گئے ہیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بیٹیوں کو ملیں بلکہ بعض دفعہ بیٹیوں کو ان کے واپس پہنچنے پر پتہ چلا کرتا تھا اور اگر کبھی ملنا پڑ جائے تو امیر صاحب کی اجازت سے ان کو ملنے جایا کرتے تھے.ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ میں خلیفہ وقت کا سپاہی ہوں اور سپاہی اپنا مورچہ نہیں چھوڑتا.جمعہ کے دن بھی انہوں نے کبھی چھٹی نہیں کی.ربوہ میں جمعہ کو دفتروں میں رخصت ہوتی ہے، آپ ہمیشہ کام کیا کرتے تھے، چھٹی کا تصور ہی کوئی نہیں تھا.بڑا سادہ لباس ہوتا تھا لیکن صاف ستھرا اور نظافت تھی، روزانہ نہانا، خوشبو لگانا.ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ جماعت کے نمائندے کو جماعت کے وقار کا پاس رکھنا چاہئے اور ظاہری حلیہ بھی ٹھیک رکھنا چاہئے.اور واقف زندگی کر کے بہت مشکل حالات بھی آئے، کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور نہ کہیں اشارہ کنایہ اپنی غربت کا ، اپنی ضرورت کا اظہار کیا.بلکہ ڈاکٹر سلطان مبشر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میری والدہ نے ذکر کیا کہ فلاں عالم جو ہیں ان کو مخیر دوست کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے.آپ بھی اگر کوشش کریں تو یہ ہو سکتا ہے.حالات بہتر ہو سکتے ہیں.تو آپ نے فرمایا کہ میں یہ بے شرمی نہیں کر سکتا اور آپ کا یہ کہنا تھا کہ میں جائز نہیں سمجھتا کہ خدا کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاؤں.ایک دفعہ چند مربیان آپ کے پاس آئے کہ اس کاغذ پر دستخط کر دیں جس پر لکھا ہوا تھا کہ تحریک جدید کے مبلغین کو زیادہ الاؤنس ملتا ہے اور صدر انجمن احمدیہ کے مبلغین کو ، کارکنان کو کم تو اس پر نظر ثانی ہونی چاہئے.تو آپ نے کہا میں تو اس پر دستخط نہیں کروں گا کیونکہ میں تو ایک وقف زندگی ہوں، جو جماعت مجھے دے گی وہ بصد شکر یہ قبول کروں گا اور یہ بھی جماعت کا شکر ہے کہ ہم سے لینے کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ کچھ نہ کچھ دے دیتی ہے.کبھی خلفاء کو بھی ذاتی ضرورت کے لئے نہیں لکھتے تھے کبھی حرف شکایت منہ پر نہیں لائے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کو ضرورت پڑی.آپ نے کہا مولوی صاحب کو بلوا کے لاؤ.تو ہر جگہ تلاش
409 خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کرلیا.لائبریری میں، دفتر میں بھی ، گھر میں بھی، کہیں بھی نہیں ملے.عصر کی نماز پہ جب آئے تو حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے پوچھا کہ تلاش کر رہا ہوں کہاں تھے؟ انہوں نے کہا میں لائبریری میں تھا، مسئلہ یہ ہے کہ لائبریری کا کارکن باہر سے تالہ لگا کے چلا گیا تھا اور مجھے اندر جانا تھا.بجائے اس کے کہ میں وقت ضائع کرتا میں دیوار پھلانگ کے اندر چلا گیا اور اندر بیٹھا کام کر رہا تھا.تو یہاں بھی اپنا فرض ادا کیا اور بڑے طریقہ سے کارکن کی غلطی کی طرف بھی اشارہ کر دیا.جیسا کہ میں نے بتایا کہ جیل میں بھی رہے ہیں اور جیل میں مشقت لی جاتی تھی.لیکن جیل میں جب تک رہے کبھی اظہار نہیں کیا کہ مجھ سے مشقت لی جاتی ہے ہمیں بڑا پریشان ہوں.جب رہائی ہوئی تب بتایا کہ مجھ سے وہاں مشقت لی جاتی رہی ہے.ہر کام خود کرنے کے عادی تھے، کتابوں کی جلدیں بھی خود کر لیا کرتے تھے اور گھر میں جیسا کہ میں نے بتایا کہ لائبریری رکھی ہوئی تھی اس لائبریری کا مقصد بھی یہی تھا کہ رات کے وقت بھی جب بھی کہیں کسی وقت بھی خلیفہ اسیح کی طرف سے کوئی کام آئے یا حوالے کی تلاش آئے تو فوری طور پر میں مہیا کر دوں اور لائبریری کھلنے کا انتظار نہ کرنا پڑے.شروع میں سائیکل بھی نہیں تھا.ہر جگہ پیدل ہی جایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے جب میں نے سنا تو مجھے خود یہ خیال آیا تھا.جب خدام الاحمدیہ کے اجتماع ہوا کرتے تھے تو ٹی آئی کالج دور تھا اس کی گراؤنڈ میں ، گھوڑ دوڑ گراؤنڈ کہلاتی ہے وہاں تک یہ انجمن کے کوارٹروں سے پیدل چل کر جایا کرتے تھے.باوقار چال، پگڑی ، کوٹ ، ہاتھ میں سوٹی.حالانکہ اس وقت خدام الاحمدیہ میں تھے.شاید سائیکل نہیں لے سکتے ہوں گے.کیونکہ اس وقت جماعت کے حالات ایسے نہیں تھے.مبلغین اور واقفین زندگی کے الاؤنس بھی بہت تھوڑے تھے.ان کے بیٹے نے مجھے لکھا کہ واقعی وہ سائیکل نہیں خرید سکتے تھے اس لئے سارے ربوہ میں جہاں بھی جانا ہوتا تھا پیدل ہی پھرا کرتے تھے.پھر 1978-79ء میں ان کو دفتر کی طرف سے سائیکل ملی.جب بھی خلفاء کی مجلس عرفان میں بیٹھتے تھے تو ہمیشہ گردن جھکا کے بیٹھا کرتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول کی بھی یہی عادت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے گردن جھکا کر بیٹھے تھے.ان کے بیٹے نے لکھا کہ ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب بڑے خوش خوش گھر میں آئے ہم نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے انہوں نے کہا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی ملاقات کے لئے گیا تھا تو تھوڑی دیر کے لئے کسی کام سے حضور اندر تشریف لے گئے.آپ کی جوتی باہر پڑی تھی تو مجھے اس کو اپنے رومال سے صاف کرنے کا موقع مل گیا.اس بات پہ بڑے خوش تھے.کسی دوست نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ جس کام کے لئے دنیا میں ادارے بنائے جاتے ہیں وہ اکیلے اس شخص نے کیا.1982ء سے پہلے آپ کے پاس کوئی مستقل مربی بھی نہیں تھا اور اکیلے ہی آپ زیادہ تر تاریخ
خطبات مسرور جلد ہفتم 410 خطبه جمعه فرمود : 28 اگست 2009 احمدیت کا کام یا حوالے نکالنے، تلاش کرنے ، لکھنے، نوٹس بنانے وغیرہ کا کام کیا کرتے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب طریقہ سے ساری تاریخ لکھی.لوگ دنیا داری کے لئے تو بعض دفعہ ایسا کرتے ہیں کہ اپنا و یک اینڈ (Weekend) استعمال کر لیتے ہیں، چھٹی پہ بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں.بچے کہتے ہیں کہ ہمیں مہینوں یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ کس وقت ہمارے والد گھر آئے اور کس وقت گھر سے چلے گئے.جب وہ صبح صبح اٹھ کے چلے جاتے تھے تب بھی ہم سوئے ہوتے تھے اور جب گھر واپس آتے تھے تب بھی ہم سوئے ہوتے تھے.یہ واقفین زندگی اور مبلغین کے لئے بھی ایک تاریخی نصیحت بھی ہے.کہتے ہیں کہ 1965ء میں خلافت ثالثہ کے تاریخ ساز عہد کا پہلا جمعہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ جمعہ کو چھٹی تو ہوتی ہے لیکن میں نے تمہیں تکلیف دی ہے تو میں نے کہا بڑی خوشی کی بات ہے.پھر حضرت خلیفہ اسح الثالث نے فرمایا کہ تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ جب میں نے (حضرت خلیفہ اسیح الثالث کہتے ہیں کہ ) وقف زندگی کا فارم پر کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ آج تم نے میرے دل کی پوشیدہ خواہش کو پورا کر دیا ہے.میں چاہتا تھا کہ تم میری تحریک کے بغیر خود ہی تحریک جدید کے روحانی مجاہدوں میں شامل ہو جاؤ.آج میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں مگر یاد رکھو اب تم نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے اب مرنے سے پہلے تمہارے لئے کوئی چھٹی نہیں.مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے یہ عرض کی کہ حضور میں بھی یہ عہد کرتا ہوں کہ ایک واقف زندگی کی حیثیت سے ہمیشہ دن رات خدمت دین میں مشغول رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے آخری وقت تک اس عہد کو نبھایا ہے.جب ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں تو بڑے شدید بیمار تھے اور جب بھی ذرا کمزوری دور ہوئی تو جب تک ان کو ہوش رہی ہے ( آخری دو چار دن تو بیہوشی کی ہی کیفیت تھی ) تو بے چین ہو کر کہا کرتے تھے کہ مجھے ہسپتال سے جلدی فارغ کرو.میں نے دفتر جانا ہے کیونکہ مجھے خلیفہ اُسیح نے بعض کام سپرد کئے ہوئے ہیں جو میں نے فوری انجام دینے ہیں.تو انہوں نے آخر دم تک اس عہد کو نبھایا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا جائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی تو فیق عطا فرمائے.ان کے جو بیٹے ڈاکٹر سلطان مبشر ہیں وہ بھی واقف زندگی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی حقیقی رنگ میں وقف نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.میں جمعہ کے بعد ان کا جنازہ غائب ادا کروں گا.اس کے ساتھ ہی دو اور جنازے بھی ہیں.ایک تو مولوی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں جو سات سال آپ سے چھوٹے تھے.ان کی وفات مولوی صاحب کے ایک گھنٹے بعد ہوئی ہے اور وہ موصی تھے.اُن کی اولاد تو کوئی نہیں تھی.بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے ہیں.ان کو مالی قربانیوں کا موقع ملا
411 خطبه جمعه فرموده 28 اگست 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اور بڑے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق ملی.انہوں نے وفات سے پہلے مریم فنڈ کے لئے دولاکھ روپے دینے کی وصیت کی.اپنے خاندان میں بھی دو یا تین بچوں کی شادی اور بیوہ کے لئے دولاکھ روپے دیئے.اس لحاظ سے یہ بھی نیکیوں پر چلنے والے اور قربانیاں کرنے والے تھے.مولوی صاحب کے بھائی کا نام محمد اسلم صاحب ہے.اسی طرح ایک اور جنازہ ہے.نسیم بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب چک 46 شمالی سرگودھا.یہ 17 اگست کو وفات پاگئی ہیں.ہمارے مبلغ سلسلہ محمد عارف بشیر صاحب کی والدہ تھیں جو آج کل تنزانیہ میں ہیں.یہ میدان عمل میں تھے اپنی والدہ کے جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے.یہ کہتے ہیں کہ جب میں جامعہ میں داخل ہوا ہوں تو میری والدہ نے پنجابی میں نصیحت کی تھی (جس کا اُردو میں یہ بنتا ہے ) کہ بیٹا اب پڑھ کے آنا اور دین کی خدمت کرنا.آپ موصیہ بھی تھیں.بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اپنی اولادوں کے بارے میں جو نیک خواہشات تھیں وہ بھی پوری فرمائے.الفضل اند نیشنل جلد 9 شماره 38 مورخہ 18 تا 24 ستمبر 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 9
خطبات مسرور جلد ہفتم 412 (36) خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 فرمودہ مورخہ 4 ستمبر 2009 ء بمطابق 4 رتبوک 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمُهُ.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ.وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقره: 186) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پرا تارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنا ہوگی.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدیت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو.آج میں اس آیت کے پہلے حصہ کے بارے میں کچھ کہوں گا.رمضان کے مہینے کو قرآن کریم سے ایک خاص نسبت ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا جوئیں نے تلاوت کی ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ - یہ فرما کر واضح فرما دیا کہ رمضان کے مہینے کے روزے یو نہی مقرر نہیں کر دیئے گئے.بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی یا اس کا نزول ہونا شروع ہوا.اور احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ جبریل ہر سال رمضان میں آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم کا جو حصہ اُترا ہوتا تھا اس کی دوہرائی کرواتے تھے.( صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن علی النبی حدیث 4998-4997 ) پس اس مہینے کی اہمیت اس بات سے بڑھ جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی آخری اور کامل شریعت اس مہینے میں نازل ہوئی ، یا اس کا نزول شروع ہوا.پس اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں روزوں کا حکم دیا تو پہلے یہ فرمایا کہ روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں اور پھر یہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری دی.اس کے بعد کی جو آیات ہیں ان میں پھر بعض اور احکام جو رمضان سے متعلق ہیں
413 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 وہ دیئے.اور یہ واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا اور عبادت کرنا صرف یہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم کی طرف بھی تمہاری توجہ ہونی چاہئے.اس کے پڑھنے کی طرف تمہاری توجہ ہونی چاہئے.روزوں کی اہمیت اس لئے ہے اور اس لئے بڑھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں انسان کامل پر اپنی آخری اور کامل شریعت نازل فرمائی جو قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی.خدا تعالیٰ کا قرب پانے اور دعاؤں کے اسلوب تمہیں اس لئے آئے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں وہ طریق سکھائے جس سے اس کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں.پس اس کتاب کو پڑھنا بھی بہت ضروری ہے.رمضان میں اس کی تلاوت کرنا بھی بہت ضروری ہے تا کہ سارا سال تمہاری اس طرف توجہ رہے.آنحضرت ﷺ کے آخری رمضان میں جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کروایا.( صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن على النبي حديث 4998-4997) پس اس سنت کی پیروی میں ایک مومن کو بھی چاہئے کہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کی کوشش کرے.اگر دومرتبہ تلاوت نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک مرتبہ تو خود پڑھ کر کریں.پھر درسوں کا انتظام ہے، تراویح کا انتظام ہے، اس میں ( قرآن ) سنیں.بعض کام پہ جانے والے ہیں کیسٹ اور CDS ملتی ہیں ان کو اپنی کاروں میں لگا سکتے ہیں، سفر کے دوران سنتے رہیں.اس طرح جتنا زیادہ سے زیادہ قرآن کریم پڑھا اور سنا جا سکے ، اس مہینے میں پڑھنا چاہئے اور سننا چاہئے.اور پھر صرف تلاوت ہی نہیں بلکہ اس کے اندر بیان کردہ احکامات کی تلاش کرنی چاہئے.پھر سارا سال اُن تلاش شدہ احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ان حکموں کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تبھی رمضان کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے اور روزوں اور عبادتوں کا حق بھی ادا ہوتا ہے.کیونکہ اگر یہ نہیں پتہ کہ جو کام کر رہا ہوں اس کا مقصد کیا ہے اور کیوں خدا تعالیٰ نے احکامات دیئے ہیں تو ان اعمال کے حق ادا نہیں ہو سکتے.بلکہ اعمال کا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ کیا کرنا ہے.اگر صرف یہی سنتے رہیں کہ تقویٰ پر چلو اور اعمال صالحہ بجالا ؤ اور یہ پستہ نہ ہو کہ تقویٰ کیا ہے اور اعمال صالحہ کیا ہیں تویہ تو دیکھا دیکھی ایک نظام چل رہا ہے رمضان کے دنوں میں یا عام تقریر میں سن لیں ، آگے چلے گئے، خطبات سن لئے ، چلے گئے.ایک کام تو ہورہا ہو گا لیکن اس کی روح کا پتہ نہیں چلے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تلاوته (البقرة : 122 ) یعنی وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے.یعنی غور بھی باقاعدگی سے ہو.اور غور بھی اچھی طرح ہو تلاوت میں بھی با قاعدگی رہے اور پھر جو پڑھا یا سنا اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو.
خطبات مسرور جلد ہفتم 414 خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا بلکہ خود قرآن کریم میں آتا ہے کہ اُسے مہجور کی طرح نہ چھوڑ دینا.پس تعلیم یہ ہے کہ غور بھی ہو عمل بھی ہو ، تلاوت بھی ہو.نہ کہ مہجور کی طرح چھوڑ دیا گیا ہو.اور یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرمانے کے بعد کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.پھر فرماتا ہے هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ یعنی انسانوں کی ہدایت کے لئے اتارا گیا ہے اس میں ہدایت کی تفصیل بھی ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والے امور بھی بیان کئے گئے ہیں.پس جب تک اس کی تلاوت کا حق ادا نہ ہو، نہ ہدایت کی تفصیل پتہ لگ سکتی ہے، نہ ہی جھوٹ اور سچ کا فرق واضح ہو سکتا ہے.پس ہر مومن کا فرض ہے کہ اگر روزوں کا حقیقی حق ادا کرنا ہے تو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے احکامات کی تلاش بھی ضروری ہے.قرآن کریم کی تلاوت کے بارہ میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم فرمایا ہے وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ.وَاَنْ اَتْلُو الْقُرْآنَ (النمل: 92-93).یعنی اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہو جاؤں اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں.پس حقیقی فرمانبرداری یہی ہے کہ جو کامل شریعت خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتاری ہے اور جس کو ماننے کا ہمارا دعویٰ ہے اور پھر اس زمانے میں مسیح الزمان و مهدی دوران کو ماننے کا ہم اعلان کرتے ہیں تو پھر اس کامل کتاب کی یعنی قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی بھی کوشش کریں اور اس رمضان میں جہاں اس کو باقاعدگی سے پڑھنے کا عہد کریں اور پڑھیں وہاں اس بات کا بھی عہد کریں کہ ہم نے رمضان کے بعد بھی روزانہ ہم نے اس کی تلاوت کرنی ہے اور اپنے پر اس کی تلاوت کو فرض کرنا ہے.اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنی ہے.کیونکہ یہی چیز ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوگی اور یہی چیز ہمارے لئے رمضان کی مقبولیت کا باعث بنے گی.اور یہی بات ہے جس کی طرف خاص طور پر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے.آپ فرماتے ہیں: اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے یعنی اس حقیقی تعلیم پر عمل کو بھول نہ جانا.صرف پڑھنا ہی نہ رہے.صرف تلاوت کرنا ہی نہ رہے.بلکہ اس پر عمل بھی ہونا چاہئے.ورنہ مردہ کی طرح ہو جاؤ گے.روحانی زندگی جو ہے وہ نہیں رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت کا عہد جو ہے وہ فضول ٹھہرے گا.فرمایا کہ پس اس کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دینا.پھر فرمایا کہ ” جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13
415 خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم آسمان پر عزت پانا اور مقدم رکھا جانا کیا ہے؟ یہی کہ پھر خدا تعالیٰ اپنا فضل فرماتے ہوئے اپنا قرب عطا فرمائے گا.قبولیت دعا کے نشان ملیں گے.معاشرے کی برائیوں سے اس دنیا میں بھی انسان بچتا ر ہے گا.پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرما دیا ہے کہ پہلی کوشش تمہاری ہوگی تو میں بھی دوڑ کر تمہارے پاس آؤں گا.یہ نظارے دیکھنے کے لئے ہمیں قرآن کو عزت دینا ہوگی.اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا ہوگا.اس کے حکموں کی پیروی کی کوشش کرنی ہوگی.پھر آپ فرماتے ہیں: ” نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ہے.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھوا اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہےاور محمد عل ہے اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.( یعنی شفاعت کرنے والے ہیں اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کا ر اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا.کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی مسلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13-14) پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی کامل شریعت جو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اس کے مقام کو مجھنے کا عہد کیا ہے.آنحضرت ﷺ کے مقام خاتمیت نبوت کا ادراک حاصل کیا ہے جبکہ دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں.پس یہ اعزاز ہمیں دوسروں سے منفرد کرتا ہے اور اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھیں اور اس کی حقیقت کو جانیں اور اس کی حقیقی عزت اپنے دلوں میں قائم کریں.بلکہ اس کا اظہار ہمارے ہر قول و فعل سے ہو.اگر اس کا اظہار ہمارے ہر قول و فعل سے نہیں تو پھر یہ مہجور کی طرح چھوڑ دینے والی بات ہے اور یہ حالت پیشگوئی کی صورت میں خدا تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرما دی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا.سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : 31) اور رسول کہے گا اے میرے رب ! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.ترک کر دیا ہے.چھوڑ دیا ہے.پڑھتے تو ہیں لیکن عمل کوئی نہیں.پس بڑے ہی
416 خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم خوف کا مقام ہے، ہر احمدی کے لئے یہ لحہ فکر یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ہم زمانہ کے امام کو اس لئے ما نہیں کہ ہم نے قرآن کریم کی حکومت اپنے پر لاگو کرنی ہے.ہم نے اس خوبصورت تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرنی ہے.پس قرآن کریم کی تلاوت کے بعد اس کی اس تعلیم پر عمل ہی ہے جو ہمیں اس عظیم اور لاثانی کتاب کو مہجور کی طرح چھوڑنے سے بچائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: یا درکھو، قرآن شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں.لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں.ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور بختک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے“.( ان کو یہ علم ہو کہ بہت میٹھے پانی والا یہ چشمہ ہے.ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہے اور اس کا پانی بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے ).اور یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن با وجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا.تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمے پر مند رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفاء بخش پانی سے حفظ اٹھاتا.مگر با وجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے ڈور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو مل کرنا چاہئے.مگر نہیں.اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھرنری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بارہ میں فرما رہے ہیں کہ جب میں درد سے تمہیں یعنی مسلمانوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں کہ قرآن کریم پر عمل کرو تو کذاب ، جھوٹا اور دجال کہا جاتا ہے ).فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی.فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 417 خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے.کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 140-141 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اس اقتباس میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور افسوس کا اظہار فرمایا ہے.وہاں ہماری ذمہ داری بھی بڑھتی ہے کہ اس خوبصورت تعلیم کو اس قد را اپنی زندگیوں پر لاگو کریں کہ بعض مسلمان گروہوں کے عملوں کی وجہ سے جو غیر مسلموں کو اسلام اور قرآن پر انگلی اٹھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے وہ نہ رہے.احمدیوں کے عمل کو دیکھ کر انہیں اپنی سوچیں بدلنی پڑیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں جو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں، لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی ہمارے جلسے ہوں، سیمینار ہوں قرآن کریم کی تعلیم پیش کی جاتی ہے تو برملا ان غیروں کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کا یہ رخ تو ہم نے پہلی دفعہ سنا ہے.پس جب ہم ان باتوں کو اپنی روز مرہ زندگیوں کا بھی حصہ بنا لیں گے تو صرف تعلیم سنانے والے نہیں ہوں گے بلکہ عملی نمونے دکھانے والے بھی ہوں گے.اس طرح احمدیوں کو اپنے دائرے میں مسلمانوں کو بھی یہ تعلیم پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ تم ہمارے سے اختلاف رکھتے ہو تو رکھو لیکن اسلام کے نام پر اسلام کی کامل تعلیم و تو بدنام نہ کرو.تمہارے لئے راہ نجات اسی میں ہے کہ صرف قرآن کریم کو ماننے کا دعوی نہ کرو بلکہ اس کی تعلیم پر غور کرو.جس حالت کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے اور جس طرح مسلمانوں کی مصیبتوں اور مشکلات کا ذکر فرمایا ہے وہ صورت جو ہے وہ آج بھی اسی طرح قائم ہے.بلکہ بعض صورتوں میں مسلمانوں کی زیادہ نا گفتہ بہ حالت ہے اور جب تک قرآن کریم کو اپنا لائحہ عمل نہیں بنائیں گے اس مشکل اور مصیبتوں کے دور سے مسلمان نکل نہیں سکتے.اسلام کا نام لینے سے اسلام نہیں آ جاتا.اسلام کا حسن اس کی خوبصورت تعلیم سے خود بولتا ہے.قرآن کریم کی تفسیر کوئی عالم خود نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو وہ اسلوب نہ سکھائے جائیں اور وہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اسے ہی سکھائے ہیں جسے یہ لوگ دجال اور کذاب اور پتہ نہیں کیا کچھ کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں پر رحم فرمائے اور ان کو عقل دے اور ہمیں پہلے سے بڑھ کر قرآن شریف کی تلاوت کا حق ادا کرنے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس کی عزت قائم کرنے والے ہوں اور اسے ہمیشہ مقدم رکھنے والے ہوں.یہ عزت کس طرح قائم ہوگی اور اس کو مقدم کس طرح رکھا جا سکتا ہے، یہ میں پہلے بتا چکا ہوں.اس بارہ میں خود قرآن کریم نے بھی مختلف جگہوں پر مختلف احکامات کے ساتھ ہماری راہنمائی فرمائی ہے.بعض آیات یا آیات کے کچھ حصے میں یہاں مختصر پیش کرتا ہوں.کس خوبصورت طریقے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مقام اور اس کی اعلیٰ تعلیم کے بارہ میں راہنمائی فرمائی ہے.آج تو شاید یہ مضمون ختم نہ ہو سکے یعنی وہ
418 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 حصہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ختم نہ ہو سکے ورنہ تو قرآن کریم ایک ایسا سمندر ہے کہ انسان اس کو بیان کرنا شروع کرے تو کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا.اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہر انسان جب اس پر غور کرتا ہے تو نئے سے نئے نکات آتے چلے جاتے ہیں.سب سے پہلے تو یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کے آداب کیا ہیں اور قرآن کریم کو پڑھنے سے پہلے کس طرح ذہن کو صاف کرنا چاہئے.اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِدُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ (انحل: 99).پس جب تو قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ.جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کو تقویٰ کی راہ سے ہٹانے کے لئے شیطان نے ایک کھلا اعلان کیا ہے، ایک چیلنج دیا ہوا ہے اور قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کا ہر ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ، تقویٰ پر قائم کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستوں کی راہنمائی کرنے والا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے قرب کے معیاروں کو حاصل کرنا چاہتے ہو، اور اس تعلیم کو سمجھنا چاہتے ہو جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے تو قرآن کریم پڑھنے سے پہلے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان کے وسوسوں اور حملوں سے بچائے اور اس تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق دے جو تم پڑھ رہے ہو.کیونکہ یہ ایسا بیش قیمت خزانہ ہے جس تک پہنچنے سے روکنے کے لئے شیطان ہزاروں روکیں کھڑی کرے گا اور اگر شیطان سے بچنے کی دعانہ کی تو تمہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کس وقت شیطان نے کس طرف سے تمہیں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے سے روک دیا ہے.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن شیطان کی گرفت میں آنے کی وجہ سے اس کلام کو پڑھنے سے تمہاری راہنمائی نہیں ہو سکے گی.پس پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم کو خالص اللہ تعالی کی پناہ میں آ کر پڑھور نہ مجھ نہیں آئے گی.اس لئے ایک جگہ فرمایا کہ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ( بنی اسرائیل: 83) کہ ظالموں کو قرآن کریم خسارے میں بڑھاتا ہے حالانکہ مومنوں کے لئے یہی نفع رساں ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللَّهُ يُقَدِ رُاللَّيْلَ وَالنَّهَارَ.عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُ وُا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ.عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَّرْضَى وَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فضل الله (المزمل: 21) یعنی اور اللہ رات اور دن کو گھٹاتا بڑھاتا رہتا ہے.(اس سے پہلے کا حصہ میں چھوڑ رہا ہوں).اور وہ جانتا ہے کہ تم ہر گز اس طریق کو نبھا نہیں سکو گے.پس وہ تم پر عفو کے ساتھ جھک گیا ہے.پس قرآن میں سے جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو.وہ جانتا ہے کہ تم میں سے مریض بھی ہوں گے اور دوسرے بھی جوز مین پر اللہ کا فضل چاہتے ہوئے سفر کرتے ہیں.اور پھر اس کے آگے بھی کچھ ہدایات ہیں.اس حصے سے پہلے آیت میں تہجد کے نوافل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں قرآن کا حصہ جو بھی یاد ہو پڑھو اور اس کے علاوہ بھی جتنا
419 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 قرآن کریم تم غور کرنے کے لئے پڑھ سکتے ہو تمہیں پڑھنا چاہئے.ایک مومن کا یہی کام ہے.تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن سے صرف یہ مطلب ہی نہیں لینا چاہئے کہ جو ہمیں یاد ہے کافی ہے وہی پڑھ لیا اور مزید یاد کرنے کی کوشش نہیں کرنی.یا جس تعلیم کا علم ہے وہی کافی ہے اور مزید ہم نے نہیں سیکھنی.بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتَ (المائدہ: 49 ) کہ نیکیوں میں آگے بڑھو.اور جب تک یہ علم ہی نہ ہو کہ نیکیاں کیا ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں، کون کون سے اعمال ہیں جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں تو کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے.پس قرآن کریم کا پڑھنا اور سیکھنا اور اس پر غور کرنا بھی بڑا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا تھا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ ( تحفه بغداد روحانی خزائن جلد 7 صفحہ (29) کہ تمام بھلائیاں اور نیکیاں جو ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہیں.پس یہاں میسر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مزید سیکھنا ہی نہیں ہے.جو یاد ہو گیا، یا د ہو گیا بلکہ اپنی صلاحیتوں کو اور علم کو بڑھاتے رہنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس قرآن کریم سے فیض پایا جا سکے.باقی جو حالات ہیں ان کے مطابق یہ ذکر ہے کہ تم بیمار ہو گے، مریض ہو گے، سفر پہ ہو گے تو اس لحاظ سے نمازیں چھوٹی بڑی بھی ہو جاتی ہیں، قرآن ( پڑھنے ) میں کمی زیادتی بھی ہو جاتی ہے.لیکن اس کا مطلب یہ قطعا نہیں ہے کہ قرآن کریم کو جو سیکھ لیا وہ سیکھ لیا اور مزید نہیں سیکھنا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (المزمل: 5 ) یا اس پر کچھ زیادہ کر دے اور قرآن کو خوب نکھار کر پڑھ.یعنی تلاوت ایسی ہو کہ ایک ایک لفظ واضح ہو، سمجھ آتا ہو اور خوش الحانی سے پڑھا جائے.یہ نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ کے گزر گئے ، جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ میں بتا چکا ہوں کہ دوسرے مسلمان جو تراویح میں پڑھتے ہیں تو اتنی تیزی سے پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آ رہی ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے.الحکم نمبر 11 جلد 7 مورخہ 24 / مارچ 1903ء صفحہ 5 کالم 3) ایک حدیث میں آتا ہے، سعید بن ابی سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ یہ نے فرمایا جو شخص قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.( سنن ابو داؤد.کتاب الصلوۃ - باب استجاب الترتيل في القراءة حديث (146)
420 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 4 ستمبر 2009 پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور حکم ہے کہ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِه (البقرة : 232) اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہے اور جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت میں اتارا ہے.وہ اس کے ساتھ تمہیں نصیحت کرتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے جو احکامات قرآن کریم میں ہیں یہ سب نعمت ہیں جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں.سورۃ نور کے شروع میں بتا دیا کہ یہ نعمت جو تمہیں دی گئی ہے.اس میں احکامات ہیں اس میں غور کرو.جب تک پڑھو گے نہیں ان نعمتوں کا علم حاصل نہیں کر سکتے ان کا فہم ہی نہیں ہو سکتا.پس قرآن کریم پڑھنا نصیحت حاصل کرنا ہے اور ایک مومن کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے.کیونکہ یہی چیز ہے جو انسان کو تقویٰ میں بڑھاتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کتب أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ مُبَرَكَ لِيَدَّبَّرُوا ايته وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الأَلْبَابِ (ص: 30) یہ کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا، مبارک ہے تا کہ یہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور تا کہ عقل والے نصیحت پکڑ لیں.پس قرآن شریف کو ماننے والے اور اس کو پڑھنے والے ہی عقل والے ہیں.کیوں عقل والے ہیں؟ اس لئے کہ اس کتاب میں تمام سابقہ انبیاء کی تعلیم کی وہ باتیں بھی آ جاتی ہیں جن کو اللہ تعالی قائم رکھنا چاہتا تھا، جو صحیح باتیں تھیں اور اس زمانے کے لئے ضروری تھیں.اور موجودہ اور آئندہ آنے والی تعلیم یا ان باتوں کا بھی ذکر ہے جو ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سمجھا کہ یہ تا قیامت انسان کے لئے ضروری ہیں اور وہ آنحضرت صلی الله.نازل فرما ئیں.پس اس اعلان پر جو قرآن کریم نے کیا ہے غور کرو.نصیحت پکڑو اور عقل والوں کا یہی کام ہے.اس اعلان کا ہم تبھی چرچا کر سکتے ہیں جب اس تعلیم کو ہم خود بھی اپنے اوپر لاگو کر نے والے ہیں.پھر تلاوت کے بارہ میں کہ کس طرح سننی چاہئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَانْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف: 205) اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہوتا کہ تم پر رحم کیا جائے.قرآن کریم کا یہ احترام ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اور اپنی اولاد میں بھی اس کی اہمیت واضح کرنی چاہئے.بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں.تلاوت کے وقت اپنی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں.بعض دفعہ بعض گھروں میں ٹی وی لگا ہوتا ہے اور تلاوت آ رہی ہوتی ہے اور گھر والے باتوں میں مشغول ہوتے ہیں.خاموشی اختیار کرنی چاہئے.یا تو خاموشی سے تلاوت سنیں یا اگر با تیں اتنی ضروری ہیں کہ کرنی چاہئیں، اس کے کئے بغیر گزارا نہیں ہے تو پھر آواز بند کر دیں.یہ حکم تو غیروں کے حوالے سے بھی ہے کہ اگر خاموشی سے اس کلام کو سنیں تو انہیں بھی سمجھ آئے کہ یہ کیسا زبر دست کلام ہے.اور اللہ تعالیٰ پھر اس وجہ سے ان پر رحم فرماتے ہوئے ان کی ہدایت اور راہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما دے گا.پس ہمیں خود اس بات کا بہت زیادہ احساس ہونا چاہئے کہ اللہ کے کلام کو خاموشی سے سنیں اور سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا رحم حاصل کرنے کی کوشش کریں.
421 خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَقِمُ كَمَا أُمِرُتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوُا.إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بصير (هود: 113) پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے تو اس پر مضبوطی سے قائم ہو جا اور وہ بھی قائم ہو جائیں جنہوں نے تیرے ساتھ تو بہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو یقیناً وہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے.یہ سورۃ ھود کی آیت ہے.تو یہ حکم صرف آنحضرت ﷺ کے لئے نہیں تھا.ویسے تو ہر حکم جو آپ پر اتر اوہ اُمت کے لئے ہے.آپ کے ماننے والوں کے لئے ہے.لیکن یہاں خاص طور پر مومنوں کو اور تو بہ کرنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ تمام احکامات پر مضبوطی سے عمل کرو اور کرواؤ.اور ایک بات یاد رکھو کہ صرف عبادات پر ہی انحصار نہ ہو بلکہ اصل چیز جو اس کا مغز ہے اس کو تلاش کرو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور یہ حکم آپ کو دے کر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے توبہ کی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو جانیں اور سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ اس کا علم حاصل کریں اور کبھی اس سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کریں تبھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.اس میں ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی بھی ایسی تربیت کریں کہ وہ خدا تعالیٰ کے اس کلام کو سمجھنے اور غور کرنے اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں.اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: مجھے تو سخت افسوس ہوتا ہے جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ہندوؤں کی طرح بھی احساس موت نہیں کرتے.رسول اللہ ﷺ کو دیکھ وصرف ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ نے ہی بوڑھا کر دیا.کس قدر احساس موت ہے.آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی.صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں“.کوئی حکم ہوا تو آنحضرت ﷺ نے کہا کہ مجھے اس آیت نے بوڑھا کر دیا.کس لئے تا کہ اُمت ، جو ماننے والے ہیں وہ بھی اس سے سبق لیں.ان کی فکر تھی آپ کو.فرماتے ہیں کہ دور نہ رسول اللہ ﷺ کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا.مگر آپ کی زندگی کے گل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں.جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طرح پر رسول اللہ ﷺ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو و یا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے.ریویو آف ریلیجنز نمبر 1 جلد 3 صحہ 11 جنوری 1904ء مطبوعہ قادیان ضلع گورداسپور 20 جنوری 1904ء) اس کی مزید وضاحت بھی آپ نے فرمائی ہے.فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سورۃ ھود نے بوڑھا کر دیا کیونکہ اس حکم کے رو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سپرد ہوئی ہے.اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے ممکن ہے کہ وہ اس کو پورا کرے.لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان
422 خطبہ جمعہ فرموده 4 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم نہیں ہے.اس سے ہمارےنبی کریم ﷺ کی بلندشان اور قوت قدسی کا پتہ لگتا ہے.چنانچہ آپ نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی.صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ ان کو كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( سورة آل عمران آیت نمبر 111) کہا گیا اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ( المائدہ: 120 ) کی آواز ان کو آ گئی.آپ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیبہ میں نہ رہا.غرض ایسی کامیابی آپ کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعات زندگی میں نہیں ملتی.اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل وقال ہی تک بات نہ رکھنی چاہئے.( صرف زبانی جمع خرچ نہ ہو ) کیونکہ اگر نزے قیل و قال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تو دوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہوگا اور دوسروں پر کیا شرف؟“.(الحکم.جلد 5 نمبر 29.مورخہ 10/اگست 1901 ، صفحہ 1 کالم 1,2) پس آج یہ سبق ہمارے لئے بھی ہے کہ قیل و قال تک بات نہ رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.جیسا کہ ایک جگہ فرمایا کہ هَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام: 156 ) اور یہ مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے.پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم رحم کئے جاؤ.پھر ایک اور بات جو معاشرے کے لئے، امن کے لئے ضروری ہے اس کا میں یہاں ذکر کر دوں.پہلے ہی ذکر آنا چاہئے تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَإِذَا جَاءَ كَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِايَتِنَا فَقُلْ سَلَمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءُ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الانعام: 55) اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہا کر تم پر سلام ہو.تمہارے لئے تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت فرض کر دی ہے.یعنی یہ کہ تم میں سے جو کوئی جہالت سے بدی کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو یا در کھے کہ وہ ( یعنی اللہ یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو معاشرے کا حسن بڑھاتی ہے.جب سلامتی کے پیغام ایک دوسرے کو بھیج رہے ہوں گے تو آپس کی رنجشیں اور شکوے اور دوریاں خود بخود ختم ہو جائیں گی اور ہو جانی چاہئیں.بھائی بھائی جو آپس میں لڑے ہوئے ہیں.ناراضگیاں ہیں.ان میں صلح قائم ہو جائے گی.ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں اور قرآن کریم پر ہمارا پورا ایمان ہے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو پھر قرآن تو کہتا ہے کہ سلامتی بھیجو.ایک دوسرے پر سلامتی بھیجو.اور یہاں بعض جگہ پر ناراضگیوں کا اظہار ہورہا ہوتا ہے.پس غور کرنا چاہئے اور اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو قرآن کریم کی اعلی تعلیم اور احکامات ہیں ان کو قربان نہیں کرنا چاہئے.پس ہر احمدی کو قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ کوئی
423 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 2009 پہلو ایسا نہیں جس کا اس نے احاطہ نہ کیا ہو.پس معاشرے کے امن کے لئے بھی ، اپنی روحانی ترقی کے لئے بھی ، خدا کا قرب پانے کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کے احکامات تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اور یہ بھی ہوسکتا ہے جب ہم باقاعدہ تلاوت کرنے والے اور اس پر غور کرنے والے ہوں گے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ تمام باتیں تو بیان نہیں ہوسکتیں.کچھ میں نے کی ہیں باقی آئندہ انشاء اللہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف پر تدبر کرو.اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کے برکات اور شمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اُس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور حالت کے موافق ہر گز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہری کی ہے اس کے دُور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ ہمیں اس کے پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم خود بھی اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کی طرف توجہ دلائیں اور ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 39 مورخہ 25 ستمبر تا یکم اکتوبر 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 37 424 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2009ء بمطابق 11 تبوک 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ.وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (الحشر: 22) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ تفکر کریں.بعض لوگوں کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ کلام الہی کا ان پر اثر ہی نہیں ہوتا.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرمایا کہ اگر ہم یہ قرآن پہاڑ پر بھی اتارتے تو وہ بھی خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا.پس اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کے دل پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں.اپنے مقصد پیدائش کو بھول جاتے ہیں.اپنے پیدا کرنے والے کو بھول جاتے ہیں.اپنی عاقبت کو بھول جاتے ہیں.سورۃ بقرہ میں انسانی دلوں کی سختی کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً.وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَ نْهرُ.وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ، وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ (البقرة : 75) یعنی اس کے بعد پھر تمہارے دل سخت ہو گئے.گویا وہ پتھروں کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں.پتھروں میں سے ایسے ہیں جن میں سے دریا بہتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جب پھٹ جائیں تو ان میں پانی بہنے لگتا ہے، چشمے پھوٹ پڑتے ہیں.اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی تقدیروں کا ، اللہ تعالیٰ کے کلام کا، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جو مختلف تقدیریں چل رہی ہیں ان کا جمادات پر بھی اثر ہوتا ہے.لیکن انسان کا دل ایسا سخت ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو دیکھ کر بھی اپنے اندر تبدیلی لانا نہیں چاہتا.سورۃ بقرہ کی اس آیت میں یہودیوں کے حوالے سے بات ہو رہی ہے لیکن یہ حوالہ صرف واقعہ نہیں
425 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بلکہ پیشگوئی بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا نہیں کرو گے تو تمہارے دل بھی اسی طرح سخت ہوں گے.آج کل کے حالات دیکھیں تو مسلمانوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے.غور کریں کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ باوجود اس کے کہ مغربی دنیا میں جب یہاں کے سیاستدانوں کو مسلمان اپنے فنکشنز میں بلاتے ہیں یا خود اپنے فنکشنز کرتے ہیں تو تقریروں میں فنکشنز میں یہ لوگ مسلمانوں کی تعریف بھی کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب مجموعی طور پر کسی فیصلے کا وقت آتا ہے تو فیصلے وہی کئے جاتے ہیں جو ان کی اپنی مرضی کے ہوں نہ کہ مسلمانوں کے مفاد کو مد نظر رکھا جاتا ہے.پس مسلمانوں کی یہ جو دوسرے درجے بلکہ تیسرے درجے کی حیثیت ہے اور ان کے اپنے ملکوں میں بھی حکومتیں چلانے کے لئے دوسروں کی طرف نظر ہے.پھر آسمانی اور زمینی آفات ہیں.یہ سب کیا ہے؟ سورۃ حشر کی آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس سے پہلی آیات میں مومن ہی مخاطب ہیں جنہیں تقویٰ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.کل کے لئے کچھ آگے بھیجنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.آخرت کی اور عاقبت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اللہ کی یاد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.ورنہ فرمایا اگر اس طرف توجہ نہیں کرو گے تو نتیجتا تم خود اپنی پہچان کھو بیٹھو گے.فسق و فجور میں پڑ کر ذلت کا سامنا کرو گے.پس ہوش کرو اور شیطان کے پنجے سے نکلو اور اپنے دلوں کی سختیوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے بھر کر نرمی میں بدلو.لیکن شیطان نے ایسا قابو کیا ہے کہ حقیقت کو سمجھنا نہیں چاہتے.اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ ایک جگہ اس طرح کھینچا ہے کہ وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام : 44 ) یعنی ان کے دل تو اور بھی سخت ہو گئے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں شیطان نے انہیں اور بھی خوبصورت کر کے دکھایا ہے.ہر آفت سے، ہر مشکل سے سبق لینے کی بجائے ظلموں میں اور بڑھ جاتے ہیں.فسق و فجور میں اور بڑھ جاتے ہیں.پاکستان میں بھی آج کل شور ہورہا ہے.ہر جگہ مار دھاڑ ہوتی ہے.کہیں بجلی کے خلاف کہیں دوسرے ظلموں کے خلاف کہیں مہنگائی کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں، کہیں دوسری آفات ہیں.لیڈر جو ہیں ان کو بھی کوئی فکر نہیں.اخباروں میں کالم لکھے جا رہے ہیں کہ ہم لوگ تباہی کے کنارے کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ کیا ہے؟ اس کی ایک بہت بڑی وجہ میں بتا تا ہوں اور یہ وجہ ایک عرصہ سے بتارہا ہوں کہ زمانہ کے امام کو ماننا تو درکنار، وہ تو ایک طرف رہا ایسے قانون لاگو کئے گئے ہیں کہ ماننے والوں پر قانون کی آڑ میں ظلم کئے جاتے ہیں.وہ ظلم تو پہلے بند کرو.امام الزمان کے خلاف ہر سرکاری کاغذ پر گالیوں کی جو بھر مار کی جاتی ہے اس کو تو بند کرو.ورنہ خدا تعالیٰ کی تقدیر اپنے پیاروں کے لئے اپنا کام کرتی ہے.کوئی غیر مسلم اگر اللہ اور حمد کا نام یہاں پاکستان میں لے لے، گلوں میں لاکٹ پہنے ہوں تو بڑے خوش ہوتے ہیں.لیکن احمدی اگر اللہ اور محمد ﷺ کا نام اپنی مسجدوں اور گھروں پر لکھیں تو
426 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اسے توڑ کر گندے نالوں میں بہایا جاتا ہے.اُس وقت ان کو خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی بے حرمتی ان سرکاری کارندوں کے ذریعہ سے ہورہی ہے.اُس وقت تک رسول ان کو نظر نہیں آ رہی ہوتی.پس جب یہ چیزیں نظر نہیں آتیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پھر اپنا کام دکھاتی ہے.پاکستان میں علماء کہلانے والوں کی جہالت کا یہ حال ہے کہ ایک پروگرام کرنے والے کمپیئر ہیں، مبشر لقمان صاحب.بہر حال بڑی جرات سے وہ پروگرام کر رہے ہیں.ٹی وی پران کا پروگرام آیا.کتنی دیر جاری رہتا ہے.کس حد تک بے خوف رہتے ہیں یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے.لیکن بہر حال ان کا ایک پروگرام آیا جب اس میں احمدیوں کا ذکر ہوا تو ایک عالم صاحب وہاں بیٹھے جواب دے رہے تھے اور جس طرح کو کا کولا کا ٹریڈ مارک ہے اور اس نام سے کوئی اور کمپنی کوکا کول نہیں بنا سکتی ور نہ پکڑی جائے گی اسی طرح مسلمان صرف ہم کہلا سکتے ہیں اور احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے تو ان کو سزا ملے گی.ایسے فتوے دینے والے یہ علماء ہیں جن کے بارہ میں حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ایک زمانہ میں انتہائی جاہل اشخاص کو لوگ اپنا سردار بنالیں گے اور ان سے جا کر مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے.پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے.( صحیح بخاری کتاب العلم باب كيف يقبض العلم حدیث (100) مسلمان کون ہے ؟ میں اس کی کسی لمبی علمی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن یہ واضح ہو کہ کامل فرمانبردار اور آنحضرت ﷺ کے تمام حکموں پر عمل کرنے والے اور قرآن کریم کی پیروی کرنے والے اگر کوئی ہیں ، مسلمان کی تعریف میں آتے ہیں تو وہ احمدی ہیں.دوا حادیث بھی اس بارہ میں پیش کر دیتا ہوں جس سے مسلمان کی وہ تعریف واضح ہو جاتی ہے جو آنحضرت میں نے فرمائی ہے اور یہی حقیقی تعریف ہے، نہ کہ ان علماء کی تعریف جو کوکا کولا کے پیٹنٹ (Patent) نام کو اسلام کے نام کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں.جہالت کی انتہا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.ابی مالک روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مَنْ قَالَ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَرُمَ مَالُهُ وَدَمُهُ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ.(مسلم کتاب الإيمان باب الامر بقتال الناس حتى يقولوا لا اله الا الله حديث (38) کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور انکار کیا ان کا جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے تو اس کے جان و مال قابل احترام ہو جاتے ہیں.(ان کو قانونی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے ).باقی اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے.وہی جانتا ہے کہ اس کی نیت کیا ہے اور وہ اس کی نیت کے مطابق اسے بدلہ دے گا.کلمہ پڑھنے کے بعد ، لا إلهَ إِلَّا اللہ کہنے کے بعد، وہ بندوں کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 427 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 پھر ایک دوسری حدیث میں آتا ہے.انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت می نے فرمایا کہ مَنْ صَلَّى صَلوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِى لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةً رَسُولِ اللهِ فَلا تُخْفِرُوا اللهِ فِي ذِمَّتِهِ.( صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبلۃ حدیث نمبر 391) حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور اس میں ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے، ہمارا ز بیجہ کھائے وہ مسلمان ہے.جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول ملے نے لی ہے.پس اللہ کی ذمہ داری کی بے حرمتی نہ کرو.اسے بے اثر نہ بناؤ اور اس کا وقار نہ گراؤ.پس علماء جو یہ کہتے ہیں اُن سے میری درخواست ہے کہ اپنے اسلام کو پیٹینٹ (Patent) نہ کروائیں.ایسا اسلام پیش نہ کریں جو اللہ اور اس کے رسول کی تعریف کے مخالف ہے.اسلام وہی ہے جس کی تعریف آنحضرت می نے فرمائی ہے.ہمیں تو اس تعریف کے تحت آنحضرت ﷺ نے مسلمان قرار دے دیا ہے اور اس کے بعد نہ ہمیں کسی مولوی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے اور نہ کسی پارلیمنٹ کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے.اسی ضمن میں ایک اور بات بھی میں بیان کر دوں.گزشتہ دنوں کسی اخبار کے حوالے سے مجھے ایک خبر کسی نے بھجوائی.اس کی انہوں نے فوٹو کاپی نکال کے یا اس کا پرنٹ نکال کے مجھے بھجوا دی.احمدیوں میں ایسی خبروں کو میرے علم میں لانے کے لئے بھی اور شاید میری رائے پوچھنے کے لئے بھی بھجوانے کا شوق ہے.اور خبر تھی الطاف حسین صاحب کے حوالے سے جو ایم کیوایم کے لیڈر ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کے حق میں کھل کر بیان دیا ہے اور احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں جو کچھ زیادتی اور ظلم ہورہا ہے، اس کی کھلی کھلی مذمت کی ہے کہ یہ غلط اقدام کئے جارہے ہیں.غلط باتیں کی جارہی ہیں.جب یہ خبر پہنچی تو پریس کے نمائندوں کو چونکہ خبر کو سنسنی خیز کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے کسی اخبار نے شاید اس پر یہ خبر لگا دی کہ مرزا مسرور احمد اور الطاف حسین کی میٹنگ ہوئی لندن میں اور انہوں نے منصوبہ بندی کی ہے کہ پنجاب میں اور پاکستان میں کس طرح ایم کیوایم کو فعال کیا جائے.جہاں تک الطاف حسین صاحب کے بیان کا تعلق ہے ہر محب وطن پاکستانی میرے خیال میں یہ چاہے گا کہ ملک میں امن ہو اور ملائیت کا خاتمہ ہو اور فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو ملک سے باہر نکالا جائے.بڑی خوشی کی بات ہے.مجھے اس بات پر خوشی ہوئی کہ الطاف حسین صاحب نے یہ بیان دیا اور جرأت کا مظاہرہ کیا بلکہ اس دفعہ کافی اچھا بیان دے کر کافی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک میں امن دیکھنا چاہتے ہیں.فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ملک ترقی کرے.نیتوں کو تو اللہ بہتر جانتا ہے.ہم کسی کی نیت پر تو شبہ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ ان کو اس نیک مقصد کامیاب کرے اور کبھی وہ سیاست یا کسی سیاسی مصلحت کی بھینٹ نہ
428 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 چڑھ جائیں.لیکن کل ہی رات کو میں نے ٹی وی آن کیا خبریں دیکھتے ہوئے تو اس پہ خبر آ رہی تھی کہ ختم نبوت کے علماء کو جو انہوں نے خطاب کیا اس میں اب ان کی تسلی ہو گئی ہے.ختم نبوت والوں کے جو تحفظات تھے ان کے اس بیان کے بعد وہ دور ہو گئے ہیں.میں نے تفصیل تو نہیں دیکھی کہ کیا تحفظات تھے اور کیا تسلی ہوئی لیکن بہر حال لگتا ہے کہ بیان ان کا کچھ آیا جس سے مولوی خوش ہو گئے.مولویوں کی حکومت کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ دنوں اخبار میں وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ یہ کام ہو جائے لیکن علماء سے مجھے ڈرلگتا ہے.وزیر اعظم کی طاقت کا تو یہ حال ہے.جہاں تک میری میٹنگ کا سوال ہے جیسا کہ میں نے کہا سنسنی پیدا کرنے کے لئے خبریں لگانے والے دن کو بھی خواہیں دیکھتے ہیں.اگر کوئی میٹنگ ہوئی ہوتی تو جس طرح الطاف صاحب بیان دے رہے ہیں شاید یہ بھی بتا دیتے کہ میری میٹنگ ہوئی ہے.ہاں یہ میں ضرور کہوں گا کہ اللہ کرے کہ جو بھی ملک کو بچانے کے لئے ان نفرتوں کی دیواروں کو گرانے کی کوشش کرے، اللہ تعالیٰ اسے کامیاب کرے.ہمیں تو ملک سے محبت ہے.ہم نے اس کے بنانے میں بھی کردارادا کیا ہے اور اس کے قائم رکھنے کے لئے بھی ہر قربانی کریں گے اور کر رہے ہیں.انشاء اللہ.ہر احمدی کو دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ملک میں ایسے لیڈر پیدا کرے.جہاں تک احمدیوں پر ظلموں کا سوال ہے اور اس کے توڑ کے لئے ہماری کوششیں ہیں تو یہ کہ ہم نے اپنے معاملات جو ہیں خدا تعالیٰ کے سپرد کئے ہیں.اگر ہم راز و نیاز کرتے ہیں تو اپنے پیارے رب سے اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ احمدیت کے حق میں جو سکیم خدا تعالیٰ بنائے گا اور بنا رہا ہے اس کے سامنے تمام انسانی تدبیریں بیچ ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اور ضرور جماعت احمدیہ کے حق میں پاکستان میں اور تمام اسلامی ممالک میں وہ الہی تقدیر بڑی شان سے ظاہر ہوگی.اور خود بخو د روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ حقیقی مسلمان کون ہے اور اسلام کا در درکھنے والا کون ہے.پس میں احمدیوں سے، خاص طور پر جو پاکستانی احمدی ہیں چاہے وہ ملک میں رہ رہے ہیں یا ملک سے باہر ہیں کہوں گا کہ ملک کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور ملک کی سالمیت کو جو داؤ پر لگایا ہوا ہے اس سے ملک باہر نکلے.اسی طرح دوسرے مسلمان ممالک ہیں.عرب ممالک ہیں وہاں کے رہنے والے احمدیوں کو بھی رمضان کے ان دنوں میں جو گزر رہے ہیں اور خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کے دن ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے دن ہیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر مبرم کے جلد نظارے ہمیں دکھائے.اب میں واپس اسی آیت کے مضمون کی طرف آتا ہوں جو میں نے تلاوت کی تھی.مسلمان کی تعریف میں ذرا وقت لگ گیا لیکن یہ بیان کرنا بھی ضروری تھا.
429 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ لَوْ اَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ الله (الحشر (22) اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اتر تا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بے وقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے.اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہی اور رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اول تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے ، گر کر زمین سے ہموار ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہئے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے.اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر مُتَصَدِّعًا ہو جاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جدا ہو جاتی ہے.ایسا ہی اس کے پہلے تعلقات جو موجب گندگی اور الہی نارضامندی تھے وہ سب تعلقات ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جائیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 511-510 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ تکبر توڑنے کی ضرورت ہے اور اپنے دلوں کی سطح ہموار کرنے کی ضرورت ہے.میں پھر دوبارہ ان نام نہاد علماء کو کہوں گا.بات پھر وہیں پلٹ جاتی ہے کہ جب تک مسیح موعود کے مقابلہ میں اپنے تکبر سے پُر سر جو ہیں وہ نیچے نہیں کرو گے تو قرآن کی اور اسلام کی اسی قسم کی تعریفیں ہی کرتے رہو گے جو مضحکہ خیز ہیں.اب اللہ اور رسول ہے.محبت کا دم بھرنا ہے تو امام وقت سے تعلق جوڑنا بھی ضروری ہے.پھر دیکھو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں تم کس طرح عزت کی نگاہ سے دیکھے جاؤ گے.تب اس پاک کلام کے اسرار و رموز تمہیں سمجھ آئیں گے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتارا.اس کا فہم تمہیں حاصل ہوگا.کیونکہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کی ضرورت ہوتی ہے.جیسا کہ خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهُ لَقُرَانٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونِ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ: 80-78) کہ یقیناً ایک عزت والا قرآن ہے ، ایک چھپی ہوئی کتاب ہے، محفوظ کتاب ہے کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے.ان آیات میں جہاں غیر مسلموں کے لئے قرآن کریم کی عزت و عظمت کا اظہار کیا گیا ہے.ان کو بتایا گیا ہے کہ اس کی عظمت ہے.ایک ایسی کتاب ہے جو بیش بہا خزانہ ہے.جس کی تعلیم محفوظ ہے یعنی اس کے نزول کے وقت سے یہ محفوظ چلی آرہی ہے اور تا قیامت محفوظ رہے گی.لیکن فائدہ وہی اٹھائیں گے جو پاک دل ہو کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے.وہاں مسلمانوں کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے کہ صرف مسلمان ہو کر اس سے فیض نہیں پایا جا
430 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم سکتا.جب تک پاک دل ہو کر اس پر عمل نہیں کرتے اور اس کا مکمل فہم حاصل نہیں کرتے اور اس دُر مکنون کو حاصل کرنے کے لئے ان مُطَهَّرین کی تلاش نہیں کرتے جن کو خدا تعالیٰ نے اس کے فہم سے نوازا ہے یا نوازتا ہے اور اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں اور خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ مقام آنے والے مسیح و مہدی کو ہی ملنا تھا اور ملا ہے اور خدا تعالیٰ سے براہ راست علم پا کر آپ نے اس عظیم کتاب کے اسرار ورموز ہم پر کھولے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :." قرآن کے حقائق و دقائق انہیں پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کے لئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو.اگر قرآن کے سیکھنے کے لئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی.فرمایا کہ یہ کہنا کہ ابتدا میں تو حل مشکلات قرآن کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں.ماسوا اس کے اُمت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں.اب دیکھیں عملاً امت میں اس کا اظہار بھی ہو گیا.کئی سو آیات ایک وقت میں قرآن کریم کی منسوخ سمجھی جاتی تھیں.پھر اللہ تعالیٰ کے پاک بندے جن کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا، ان کوحل کرتے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام کو حل کر دیا.پس معلم کی ضرورت تو خود اسلام کی تاریخ سے بھی ثابت ہے.یہ جو اتنے فرقے بنے ہوئے ہیں یہ بھی اس لئے ہیں کہ جس جس کو اپنے ذوق کے مطابق سمجھ آئی اور اس نے اسی کو آخری فیصلہ سمجھ کے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا اور لاگو کر لیا اس پر قائم ہو گیا.بڑے بڑے مسائل تو ایک طرف رہے اب وضو کے بارہ میں ہی مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ، حالانکہ قرآن کریم میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ قرآن جامع جمیع علوم تو ہے، یعنی تمام علوم اس میں پائے جاتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں.(شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 348 پھر آپ خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں : " کہتے ہیں کہ ہم کو سیح اور مہدی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے راستے پر ہیں.حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پارکوں کے اور کسی کی فہم اس تک نہیں پہنچتی.اس وجہ سے ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہو اور بینا بنایا ہو.( ترجمه از خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 184-183 مطبوعہ ربوہ )
431 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 آج کل جو مسلمانوں کی حالت ہے وہ اس لئے ہے کہ خدا کے برگزیدہ کو بھیجے ہوئے کو ) جو خدا سے علم پا کر آیا، جس نے اس زمانہ میں قرآن کی جو تفسیر تھی وہ ہمارے سامنے پیش کی.اس کو ماننے سے انکاری ہیں.پس مسلمانوں کی بقا اور اُمت کا عزت و وقار اسی سے وابستہ ہے کہ آنحضرت اللہ کے عاشق صادق کے کہنے پر عمل کریں اور اس کو مانیں.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا اور قلم ، دعا اور توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا.اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جتنی توجہ دنیا کی طرف ہے ، دین کی طرف نہیں.دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھلیں.وہاں صاف لکھا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 553 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ بات جہاں عام مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے وہاں ہمیں جو احمدی مسلمان ہیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والی ہے.پس اس بابرکت مہینے میں ہر احمدی کو خدا تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ہمارے دلوں کو اس طرح پاک کرے کہ قرآن کریم کی برکات سے ہم اس طرح فیض پانے والے ہوں جس طرح خدا تعالیٰ ایک حقیقی مومن سے چاہتا ہے اور جس کی وضاحت اس زمانے میں خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے حسن، اس کی تعلیم اور اس کے مقام کے بارہ میں قرآن کریم میں جو بیان فرمایا ہے، بہت جگہ پہ ہے بلکہ سارا قرآن کریم ہی بھرا ہوا ہے.اس کی چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے ان کو پھر اس وجہ سے کیا مقام ملتا ہے.جو پاک دل ہو کر اس کو سمجھتا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا بھی بڑا مقام ہے.اس بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے کہ سہل بن معاذ چھنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے روز اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگی جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی.( سنن ابی داؤ د کتاب الصلاة ابواب قراءة القرآن باب فی ثواب قراءة القرآن حدیث (1453) پھر جب اس کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا جس نے قرآن پر عمل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ ”جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گئے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13
432 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہ عزت تبھی ہے جب ہم عمل کر رہے ہوں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس چیز کا جو درجہ ہے وہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے.قرآن کریم کے کامل کتاب اور اس کی خوبصورت تعلیم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں چونکہ قرآن کریم خاتم الکتب اور اکمل الکتب ہے اور صحائف میں سے حسین اور جمیل ترین ہے.اس لئے اس نے اپنی تعلیم کی بنیاد کمال کے انتہائی درجہ پر رکھی ہے اور اس نے تمام حالتوں میں فطری شریعت کو قانونی شریعت کا ساتھی بنا دیا ہے تا وہ لوگوں کو گمراہی سے محفوظ کر دے اور اس نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ انسان کو اس بے جان چیز کی طرح بنا دے جو خود بخود دائیں بائیں حرکت نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی کو معاف کر سکتی یا اس سے انتقام لے سکتی ہے جب تک کہ خدائے ذوالجلال کی طرف سے اجازت نہ ہو.( ترجمه از عربی عبارت خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 316) پس قرآن کریم کی تعلیم پر حقیقی عمل یہ ہے کہ اس کے ہر حکم کو بجالانے کی کوشش کی جائے تبھی عمل کرنے والے کی یا پڑھنے والے کی ہر حرکت وسکون جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع کہلائے گی اور یہ بھی نہیں کہ اس کی تعلیم میں کوئی مشکل ہے بلکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہے.اس کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ یہ کیا ہے.مثلاً روزوں کے جو احکام ہیں اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ (البقرة:186) که یعنی الله تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.یہ ایک اصولی اعلان ہے.قرآن کریم کی تعلیم فطرت کے مطابق ہے اور اس کے بارہ میں یہ بتایا گیا کہ اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں.تمہاری طاقتوں کے مطابق تمہیں تعلیم دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور پھر یہ تعلیم ان اعلیٰ معیاروں کا پتہ دینے والی ہے جو معیار تمہیں خدا تعالیٰ کے قریب ترین کر دیتے ہیں.پھر ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (القمر : 18) اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا.پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ یہاں نصیحت اس لئے نہیں کہ نصیحت برائے نصیحت ہے.کر دی اور مسئلہ ختم ہو گیا.بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نصائح کو پکڑو اور ان پر عمل کرو.اگر یہ خیال ہے کہ مشکل تعلیم ہے تو یہ خیال بھی غلط ہے.یہ اس خدا کا کلام ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کی استعدادوں کا بھی اس کو علم ہے.وہ خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کی نصیحتیں اور اس قرآن کی تعلیم پر جو عمل ہے وہ انسانی استعدادوں اور فطرت کے عین مطابق ہے.پس کیا اس کے بعد بھی تم اس سوچ میں پڑے رہو گے کہ اس تعلیم پر میں کس طرح عمل کروں؟ اس تعلیم پر عمل کرو تو جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے بے انتہا انعامات کے وارث ٹھہرو گے.پھر اس قرآن میں پرانی قوموں کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں وہ بھی اس لئے ہیں کہ نصیحت پکڑو اور
433 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اپنے اعمال کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق رکھو تا کہ وہ آفات اور پکڑ اور عذاب جو پرانی قوموں پر آتے رہے اس سے بچے رہو.ایک آیت میں پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم جو ہے وہ ہمیشہ رہنے والی ہے.فرمایا کہ رَسُولٌ مِنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ ( البيت : 3-4 ) اللہ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا.ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے مختلف جگہوں پر روشنی ڈالی ہے.ایک بیان میں پڑھتا ہوں.فرماتے ہیں کہ قرآن مجید لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةٌ فِيْهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البينة : 3-4) ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں.کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے.وہ باتیں ہیں جن کو انسانی طبیعت سمجھتی ہے کہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے.ان کی پیروی کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہئے ).فرمایا : ” قرآن شریف حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور وہ رطب و یابس فضولیات کا کوئی ذخیرہ اپنے اندر نہیں رکھتا (اس میں کوئی فضول بات نہیں ).ہر ایک امر کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے.وہ ہر ایک پہلو سے نشان اور آیت ہے.اگر کوئی اس امر کا انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں“.( یہ چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت دیا.) فرمایا کہ آجکل تو حید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں.(اور اس زمانے میں پھر آجکل اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف بہت زیادہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں تو آج کل پھر قرآن کریم کو پڑھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.فرمایا کہ آجکل تو حید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا ہے.لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے.نہ کہ ایک مُردہ ، مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا.اس کو آخر کا راسی خدا کی طرف آنا پڑے گا.جو اسلام نے پیش کیا ہے.کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پتہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.غرض ایسے آدمیوں کا قدم جب اٹھے گا وہ اسلام ہی کے میدان کی طرف اٹھے گا.فرمایا: ”یہ بھی تو ایک عظیم الشان اعجاز ہے.اگر کوئی شخص قرآن کریم کے اس معجزہ کا انکار کرے تو ایک ہی پہلو سے ہم آزما لیتے ہیں یعنی اگر کوئی شخص قرآن کریم کو خدا کا کلام نہیں مانتا تو اس روشنی اور سائنس کے زمانہ میں ایسا مدعی خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلائل لکھے.بالمقابل ہم وہ تمام دلائل قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھلا دیں گے اور اگر وہ شخص توحید الہی کی نسبت دلائل قلمبند کرے تو وہ سب دلائل بھی ہم قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے.پھر وہ ایسے
434 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 دلائل کا دعوی کر کے لکھے جو قرآن کریم میں نہیں پائے جاتے.یا ان صداقتوں اور پاک تعلیموں پر دلائل لکھے جن کی نسبت اس کا خیال ہو کہ وہ قرآن کریم میں نہیں ہیں.تو ہم ایسے شخص کو واضح طور پر دکھلا دیں گے کہ قرآن شریف کا دعوى فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البیہ : 4) کیسا سچا اور صاف ہے اور یا اصل و فطرتی مذہب کی بابت دلائل لکھنا چاہے تو ہم ہر پہلو سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت کر کے دکھلا دیں گے اور بتلا دیں گے کہ تمام صداقتیں اور پاک تعلیمیں قرآن کریم میں موجود ہیں.الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ: 80 ).( ملفوظات جلد اول صفحہ 52-51 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وہ جامع کتاب ہے اور ہدایت کا ذخیرہ ہے جس کو پڑھنے والا اور عمل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہدایت کے راستوں پر گامزن رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ چیلنج دیا تھا یہ آج تک قائم ہے.بلکہ آپ کے مریدوں نے بھی اس پر عمل کر کے دنیا کو ثابت کیا کہ قرآن کریم کی صداقت ہر زمانے کے لئے ہے.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے جو نظریہ پیش کیا تھا وہ بھی خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور قرآن کریم کی صداقت کو ہی ثابت کرتا ہے.پس آج بھی جو احمدی سائنٹسٹ، ریسرچ کرنے والے ہیں اس صداقت کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں تو خدا تعالیٰ انشاء اللہ خود ان کی راہنمائی فرمائے گا.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ ہدایت پانے کے بارے میں فرماتا ہے.اس میں قرآنی تعلیم کے مطابق روحانی ہدایت بھی ہے اور آئندہ آنے والے علوم کی طرف راہنمائی کی ہدایت بھی ہے.فرمایا وَانْ اتْلُـوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِه (النمل: 93) اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کرو.پس جس نے ہدایت پائی تو وہ اپنی ہی خاطر ہدایت پاتا ہے.پھر تلاوت کرنے سے قرآن کریم میں ہدایات نظر آئیں گی.لیکن ہر قسم کی ہدایت وہی پاسکتے ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ آچکا ہے کہ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کہ جب تک پاک صاف نہیں ہوں گے.اس کے بغیر سمجھ نہیں آئے گی.قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بھی پاک ہونا شرط ہے.پھر قرآن کریم کا ایک دعوئی یہ ہے کہ اس میں سب کچھ موجود ہے.بنیادی اخلاق ہیں اور اس اخلاقی تعلیم سے لے کر اعلی ترین علوم تک اس کتاب مکنون میں ہر بات چھپی ہوئی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں فرماتا ہے کہ وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَّلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ.وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا
435 خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم أَكْبَرَ إِلَّا فِى كتب مُّبِينٍ (یونس :62) اور تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتا.اسی طرح تم اے مومنو! کوئی اچھا عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس میں مستغرق ہوتے ہو اور تیرے رب سے ایک ذرہ برابر بھی کوئی چیز چھپی نہیں رہتی.نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ ہی اس سے چھوٹی اور نہ کوئی بڑی چیز ہے مگر کھلی کھلی کتاب میں تحریر ہے.یہ آیت اللہ تعالیٰ کی شان کا اظہار ہے.ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی نظر کا اظہار ہے.غائب اور حاضر اور دور اور نزدیک اور چھوٹی اور بڑی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.پس یہ اعلان ہے مومن کے لئے اور غیر مومن کے لئے بھی مسلمان کے لئے بھی اور کافر کے لئے بھی کہ یہ عظیم کتاب کامل علم رکھنے والے خدا کی طرف سے اتاری گئی ہے اور اس میں تمام قسم کے علوم ، واقعات، انذاری خبریں اور اس کے ماننے والوں کی ذمہ داریوں کے بارہ میں بھی بتا دیا گیا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی خاص کتاب ہے اسی لئے اس کتاب کے نازل ہونے کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ بھی رکھا ہوا ہے اور اس کے نازل ہونے کے بعد نہ اس کا انکار کرنے والے کے لئے راہ فرار ہے اور نہ ہی اس کو ماننے کا دعوی کر کے عمل نہ کرنے والوں کے لئے کوئی عذر رہ جاتا ہے.پس ماننے والوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب صداقت کا اقرار کیا ہے تو اپنے قبلے بھی درست رکھنے ہوں گے.اپنی نیتوں کو بھی صحیح نہج پر رکھنا ہوگا.اپنے نفس کا جائزہ بھی لیتے رہنا ہو گا.صرف یہ کہنا کہ ہم قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور یہ کافی ہے.یہ کافی نہیں ہے.صرف یہ کہنا کہ ہم اس کے ذریعہ سے دنیا کو اپنی طرف بلاتے ہیں تو یہ کافی نہیں ہے.بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے پڑھنے سے ہمارے اندر کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں.یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے دوسرے ہم سے کیا اثر لے رہے ہیں.اُن میں کیا تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.اُن کا اسلام کی طرف کیسا رجحان ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.جب اس نے ہر بات کھول کر قرآن کریم میں بیان کر دی.جب اس نے اپنے وعدے کے مطابق زمانے کا معلم بھیج دیا تو پھر اس بات پر ماننے والوں کو جوابدہ ہونا ہو گا کہ اگر تم نے اپنے اوپر اس تعلیم کو لاگو کرنے کی کوشش نہیں کی تو کیوں نہیں کی ؟ اور منکرین کو بھی جواب دینا ہوگا.ان کی بھی جواب طلبی ہوگی کہ جب اتنی واضح تعلیم اور نشانات آگئے تو تم نے امام کو کیوں قبول نہیں کیا.اور جہاں تک منکرین کا تعلق ہے ان کا معاملہ تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے.( وہی جانتا ہے کہ ان سے ) وہ کیا سلوک کرتا ہے.لیکن ہمیں اپنا معاملہ صاف رکھتے ہوئے اس کتاب کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان و اعتقاد ہوتے ، تو ہم قوموں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے.میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی.تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی
436 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 ہے.وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے لائق کتاب ہوگی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہوگی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.فرقان کے بھی یہی معنی ہیں.یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی.اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو.بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں.بڑے تأسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتناء اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے.اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے اس نور کے آگے کوئی ظلمت نہ ٹھہر سکے گی.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 386 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہاں ایک وضاحت بھی کر دوں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ حدیث کو ترک کرو اور قرآن کو پڑھو.لیکن دوسری جگہ فرمایا ہے کہ احادیث اگر قرآن کریم کے تابع ہیں تو ان کو لو اور دوسریوں کو رد کر وصرف احادیث کے اوپر نہ چلو.(ماخوذ از ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 454 ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں.صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو انہوں نے پیغمبر خدا ﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے.ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں.لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جوصدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 409 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس آج بھی ہماری فتح قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور احمدیت کے غلبہ کے نظارے ہمارے نزدیک تر کرے.اس وقت ایک افسوسناک اطلاع بھی ہے.ہمارے مبلغ سلسلہ کینیڈا، مکرم محمد طارق اسلام صاحب کی دو دن پہلے وفات ہوگئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کی عمر 54 سال تھی.ان کو جگر یا Spleen کا کینسر ہوا اس کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی ہے.مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے.آپ نے 1978ء میں شاہد کا امتحان پاس کیا اس کے بعد پاکستان میں مختلف جگہوں پر رہے.پھر آپ نے مرکز ربوہ میں وکالت علیاء میں بھی کام کیا.ان کو اٹلی بھجوایا
437 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 2009 گیا تھا لیکن ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کچھ ماہ بعد واپس آگئے.پھر وکالت تبشیر میں کام کیا.1993ء سے کینیڈا میں خدمات سرانجام دے رہے تھے.وینکوور میں اور آٹوا میں مربی کے طور پر کام کرتے رہے.بڑے ملنسار اور پیار کرنے والے اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.اپنے عزیزوں کا، رشتہ داروں کا ، غریبوں کا بڑا خیال رکھنے والے تھے.جماعتی روایات کا بھی بڑا گہرا علم تھا اور اطاعت کا بڑا سخت جذبہ ان میں پایا جاتا تھا.خلافت سے بڑی محبت کرنے والے تھے.ایک تو ہر احمدی کو ہوتی ہے.ہر مربی کو ہونی چاہیئے اور ہوتی ہے لیکن بعضوں کی محبت غیر معمولی ہوتی ہے.یہ بھی ان میں شامل تھے.کبھی کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی تھی.بڑی باریک بینی سے، محنت سے ہر کام کرنے والے تھے.میرے کینیڈا کے جو دورے ہوتے رہے ہیں تو اس وقت یہ ملاقاتوں کے لئے یا دوسرے کاموں کے لئے پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں ڈیوٹیاں بھی دیتے رہے اور ہمیشہ بڑی خوش اسلوبی سے اور بڑی محنت سے کام کرتے رہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.مغفرت کا سلوک فرمائے.ان کی اہلیہ اور پانچ بچیاں ہیں.دو کی شادی ہو گئی ہے.چھوٹی بچی ان کی شاید بارہ سال کی ہے.ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ دے اور ان کو اپنی حفظ وامان میں رکھے.مجید سیالکوٹی صاحب جو ہمارے یہاں مبلغ ہیں طارق اسلام صاحب کے بہنوئی ہیں اور ان کے ایک بھائی حافظ طیب احمد غانا میں ہیں وہ جنازہ پر نہیں جا سکے.اللہ تعالیٰ سب عزیز وں کو رشتہ داروں کو صبر اور حوصلہ دے.ابھی جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ ان کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 40 مورخہ 12اکتوبر تا 8 اکتوبر 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 438 (38) خطبه جمعه فرمودہ 18 ستمبر 2009 فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2009ء بمطابق 18 رتبوک 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیات تلاوت فرمائیں: يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوَا إِنْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا.قُلْ مَا عِندَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهُوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ.وَاللهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ.( الجمعة : 10-12) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب جمعہ کے دن ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.اور جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلاوہ دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے.تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سے بہت بہتر ہے.سب سے پہلے تو میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی حمد بھی کرتا ہوں کہ اس رمضان میں تقریباً ہر جمعہ پر ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مسجد بیت الفتوح میں جمعہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی اتنی کثرت رہی کہ مسجد کی گنجائش کم ہوتی رہی.دروازے کھول کر سامنے کی گیلریوں میں بھی نمازیوں کے لئے جگہ بنانی پڑی.بلکہ او در فلو (Overflow) اس سے بھی باہر نکل گیا.ایسارش عموماً خاص موقعوں پر یا عام طور پر رمضان کے آخری جمعہ میں جسے جمعۃ الوداع کہتے ہیں ، اس پر ہوتا تھا.پس ہمیشہ ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ جمعہ کا خاص اہتمام کر کے جمعہ پر آنا ہی حقیقی جمعتہ الوداع ہے.جمعہ پر ہم اپنے تمام کاروبار اور مصروفیات چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آئیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی برکات جو جمعہ کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں سمیٹیں.اور یہ برکات سمیٹتے ہوئے جب ہم جمعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی دنیاوی مصروفیات میں مشغول ہونے جا رہے ہیں تو اس دعا اور ارادے کے ساتھ کہ اللہ
439 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 2009 تعالیٰ کے ذکر کو نہیں بھولیں گے اور عبادات کے باقی لوازم بھی حسب شرائط پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کریں گے.اور آج کا جمعہ پڑھ کر مسجد سے نکلنا آئندہ ہفتے میں آنے والے جمعہ کے استقبال کی تڑپ پیدا کرنے والا ہونا چاہئے اور ہوگا.نہ کہ ہمیں کسی ایسے جمعۃ الوداع کی ضرورت ہے جو رمضان کا آخری جمعہ ہو، جو سال میں ایک دفعہ آتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف نہ رکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ سال کے اکاون باون جمعے اور بھی ہیں جن کا استقبال اتنا ہی ضروری ہے جتنا رمضان کے آخری جمعے کا.پس آج کا جمعہ جو اس رمضان کا آخری جمعہ ہے یہ ہمیں اس طرف تو بیشک توجہ دلانے والا ہو اور خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن سے سارا سال جمعہ کی ادائیگی میں سستی ہوتی رہی کہ آج اس جمعہ میں ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ اس جمعہ کو جو رمضان کا آخری جمعہ ہے الوداع کر کے ہم اگلے سال رمضان میں آنے والے جمعہ کا استقبال نہیں کریں گے بلکہ آئندہ ہفتے میں آنے والے جمعہ کا استقبال کریں گے.لیکن یہ کبھی نہ ہو کہ اس جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم اپنی برائیوں ، کمزوریوں ، خامیوں، سستیوں کو یکسر بھول جائیں بلکہ ہمیشہ ان کو یا درکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھانے والے ہوں.میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رمضان میں جمعہ پر جو حاضری یہاں مسجد بیت الفتوح میں ہمیں نظر آتی رہی ہے وہ دنیا میں ہر جگہ ہماری مساجد میں نظر آئی ہوگی.میری یہ بھی دعا ہے کہ خدا کرے کہ مسجد میں جمعہ کے لئے آنے کا یہ خوش کن رجحان ہمیشہ کے لئے قائم رہے اور ہر احمدی کو اس بات کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے.اس زمانے میں ہر احمدی کی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ یہی ان آیات سے ثابت ہے جومیں نے تلاوت کی ہیں.یہ سورۃ جمعہ کے آخری رکوع کی آیات ہیں اور ان کو شروع ہی اس طرح کیا گیا ہے کہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، جب جمعہ کے لئے بلایا جائے تو پھر تمہارا ایک ہی مقصود و مطلوب ہونا چاہئے کہ جمعہ کی نماز پڑھنی ہے اور باقی تمام کاموں کی حیثیت اب ثانوی ہو گئی ہے.اگر اس آیت سے پہلے کی آیات کو دیکھیں تو ان میں یہودیوں کا ذکر ہے جن پر تو رات اتاری گئی تھی.مگر انہوں نے اس کی تعلیم پر عمل نہیں کیا.نیز با وجود واضح پیشگوئیوں کے آنحضرت ﷺ کا بھی انکار کیا.اور یہ انکار تو ہونا ہی تھا کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا اس کی تعلیم جو تھی وہ اس کو بھول گئے تھے اور اس پر عمل ختم کر دیا تھا.اس کی کئی تاویلیں پیش کرتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بھی فرمایا ہے کہ اس وجہ سے کہ انہوں نے عمل چھوڑ دیا ان کا تو ایسا حال ہے جیسے گدھے پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہو.بہر حال عبادت کے خاص دن کے حوالے سے جو انہیں حکم تھا ، جو ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا ،، جو ہر سات دن بعد آتا تھا اس کو بھی انہوں نے بھلا دیا.اور سبت کا دن جوان کے لئے ایک خاص دن تھا اس میں بھی کئی قسم کی ایسی حرکات کیں جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند تھیں.سبت ہفتے کے دن کو بھی کہتے ہیں
440 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 2009 اور بھی اس کے کئی مطلب ہیں.عبادت کا خاص دن بھی ہے.بہر حال سبت جو ہفتے کا دن ہے یہودیوں کے لئے ایک بہت متبرک اور خاص عبادت کا دن ہے.اس میں ان پر بعض پابندیاں بھی لگائی گئی تھیں.جن کو جیسا کہ میں نے کہا انہوں نے اپنی چالاکیوں سے تو ڑا.اس بارہ میں قرآن کریم میں یوں ذکر آتا ہے کہ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ (البقرة : 66 ) اور تم ان لوگوں کو جنہوں نے سبت کے بارے میں زیادتی کی تھی جان چکے ہو.اور پھر اس زیادتی کی وجہ سے ان لوگوں کو سزا بھی دی گئی تو ان بھٹکے ہوئے یہودیوں کا اس سورۃ میں ذکر کر کے پھر بايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم نے جمعہ کا حق ادا کرنا ہے.یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اگر تم اپنے اس مقدس دن کا حق ادا نہیں کرو گے تو تم بھی اس سزا کے سزاوار ٹھہر سکتے ہو.ہر قوم کی طرح مسلمانوں کا بھی سبت کا دن ہے اور ہمارا سبت یہ جمعہ ہے.پس ہر مسلمان کو اس دن کی خاص حفاظت اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے.اور اس کا حق اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ جب بھی جمعہ کی نماز کے لئے بلایا جائے تو مومنوں کو اپنے تمام کام اور کاروبار بند کر کے فورا مسجد کی طرف چل پڑنا چاہئے.امام کا خطبہ سننے کے لئے فورا مسجد کی طرف دوڑنا چاہئے.اگر کوئی بہانہ جو یہ کہے کہ ہمیں ان ملکوں میں یا آج کل دنیا میں اذان کی آواز تو سنائی نہیں دیتی تو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں دوسرے انتظام کر دیئے ہیں.گھڑیوں کا انتظام کر دیا ہے.اب تو فونوں میں بھی گھنٹی کی بجائے مختلف آواز میں لوگ ریکارڈ کرتے ہیں جو بجتی ہیں ، سنائی جاتی ہیں.مجھے اس کا تجربہ تو نہیں کہ خاص وقت پہ الارم کے لئے بھی اذان کی یہ آواز سنائی دی جاسکتی ہے کہ نہیں.اگر یہ ہوسکتا ہے تو پھر اس پر اذان کی آواز ریکارڈ کرنی چاہئے.اس کا دوہرا فائدہ ہوگا بلکہ کئی فائدے ہو سکتے ہیں.جمعہ کے وقت کے لئے جہاں اذان کی آواز خود اپنے آپ کو جمعہ کی طرف توجہ دلائے گی وہاں اردگرد کے لوگ بھی توجہ کریں گے اور اذان کی یہ آواز سننے والوں کی توجہ کھینچنے کا باعث بنے گی اور یہ تبلیغ کے راستے کھولنے کا ذریعہ بھی بن جائے گی.لیکن بہر حال جوصورت بھی ہو سادہ الارم کی آواز بھی یاد دہانی تو کروا سکتی ہے.پس جمعہ کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ضمن میں جو وضاحت کی ہے وہ یقینا اس زمانے کے لئے سو فیصد حقیقی اور صحیح وضاحت ہے کہ اس زمانے میں نايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا سے مراد وہی قوم ہوسکتی ہے اور ہے جو سیح موعود کو ماننے والی ہے.حقائق الفرقان جلد چہارم صفحه 123-122 مطبوعہ ربوہ) اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے مراد عام مسلمان بھی ہیں لیکن اس صورت میں مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ جمعہ کی نماز کی اہمیت کو ملانا خاص طور پر مسیح موعود کو ماننے والوں کے لئے بہت اہم ہے.دوسرے غیر احمدی مسلمان تو با وجود مسلمان کہلوانے کے اور مومن کہلوانے کے ایمان لانے والے کہلوانے کے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
441 خطبه جمعه فرمودہ 18 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم انکار کی وجہ سے اَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ( البقرة : 86 ) ( کہ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر تو ایمان لاتے ہو اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہو ) کے مصداق ٹھہرتے ہیں.پس حقیقی مومن وہی ہیں جو قرآن شریف کی ابتدا سے آخر تک ہر حکم پر ایمان لاتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک تمام انبیاء پر ایمان لانے والے ہیں.پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا خاص اہتمام کریں اور تجارتوں کو چھوڑ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کو تجارتوں سے بھی خاص نسبت ہے.ہر قسم کے کاروباروں میں بڑی وسعت پیدا ہو چکی ہے.سٹاک مارکیٹوں سے دنیا کی تجارتوں کے اتار چڑھاؤ کا پتہ چلتا ہے جو اس کاروبار میں ملوث ہیں یا یہ کرتے ہیں ، اتنے مصروف ہوتے ہیں اور مختلف کمپنیوں کے شیئرز (Shares) کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر سودے کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کا اس بولی کے دوران یا ریٹ اوپر نیچے ہونے کے دوران ایک لمحے کے لئے بھی آنکھ جھپکنا یا سوچ ادھر ادھر پھیرنا ان کو لاکھوں کروڑوں اربوں کا گھاٹا دلوا دیتا ہے.اسی طرح منڈیوں کے چھوٹے کاروبار ہیں اور اس کاروبار میں منسلک تمام لوگ چاہے وہ تنخواہ دار ملازم ہی ہوں اس تجارت اور بیچ کے دوران جو پہلے کبھی کسی زمانے میں اس شدت سے نہیں تھی اور اتنی آرگنا ئز نہیں تھی جتنی مسیح موعود کے زمانہ میں ہو گئی ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ الیکٹرانک ذرائع اس میں استعمال ہونے کی وجہ سے تجارت کے لئے وقت کی اہمیت بھی ہر دن بہت بڑھتی چلی جارہی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جتنی بھی چاہے بڑی تجارت ہو، چاہے جتنی تمہارے پاس وقت کی کمی ہو نماز جمعہ کے مقابلہ میں اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں اور تمہارا وقت نکال کر اپنے تمام ممکنہ نقصانات کو پس پشت ڈال کر جمعہ کا اہتمام کرنا بہر حال ضروری ہے اور چھوٹے موٹے کاروباری لوگوں کے لئے تو پھر کوئی بہانہ رہ ہی نہیں جاتا.پس ہم احمدی ہی آج وہ مومن ہیں اور ہونے چاہئیں جن کو اپنے جمعوں کی حفاظت کرنی چاہئے.تبھی ہم اس زمانے کے راہنما کی راہنمائی سے حقیقی فیض حاصل کر سکتے ہیں اور تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اس کی رضا کے حاصل کرنے والے ٹھہر سکتے ہیں.جمعہ کی اہمیت کے بارے میں آنحضرت یا اللہ نے کس طرح ہمیں توجہ دلائی اور یہودیوں اور عیسائیوں سے کس طرح ہمیں ممتاز فرمایا ہے اس کا ایک روایت میں ذکر آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن آخرین ہونے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ انہیں کتاب پہلے دی گئی ہم سابقین ہوں گے.یہ ان کا وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا تھا مگر انہوں نے اختلاف کیا مگر خدا تعالیٰ نے ہماری اس کی طرف درست را ہنمائی کر دی.اب لوگ ہمارے پیچھے ہی چلیں گے.یہود ایک دن بعد اور نصاری پرسوں.( بخاری کتاب الجمعہ باب فرض الجمعۃ حدیث نمبر 876) یہ بخاری کی حدیث ہے.کتاب الجمعہ اور فرض الجمعہ کے باب میں ہے.یہ حدیث ایسی ہے کہ اس کی وضاحت ضروری ہے.اس ضمن میں میں مختصر یہ بتا دوں کہ جماعت میں حضرت
442 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے سپرد یہ کام ہوا تھا کہ بخاری کی حدیثیں جمع کریں اور پھر اس کی تھوڑی سی شرح بھی لکھیں.اُس زمانہ میں کتاب کی کچھ جلدیں شائع ہوئی تھیں اور پھر بڑا لمبا عرصہ اس کی اشاعت نہیں ہو سکی.اب کچھ سال ہوئے میں نے ایک نور فاؤنڈیشن قائم کی ہے.اس کے تحت جماعت میں بھی احادیث کی کتب کی اشاعت ہو رہی ہے اور مسلم کی کئی جلد میں اور بخاری کی کئی جلدیں شائع ہو چکی ہیں.بہر حال شاہ صاحب نے اس کی جو شرح لکھی ہے وہ ایسی ہے کہ اس سے اس حدیث کی وضاحت ہوتی ہے.وہ تو خیر لمبی شرح ہے.شاہ صاحب نے اس میں جمعہ کی نماز کی فرضیت اور اہمیت کے بارہ میں بعض فقہاء جو جمعہ کی نماز کو فرض کفایہ سمجھتے تھے، کا علمی اور زبان کے قواعد کے رو سے جواب دینے کے بعد ، ( فرض کفایہ وہ ہے جس میں چند لوگ اگر شامل ہو جائیں، پڑھ لیں تو کافی ہوتا ہے.ضروری نہیں کہ سب شامل ہوں ) اس کو غلط ثابت کیا.انہوں نے بتایا ہے کہ یہ فرض کفایہ نہیں ہے بلکہ اسی طرح فرض ہے جس طرح نمازیں فرض ہیں.پھر سبت کے لفظ کی لغوی بحث کی ہے اور یہودیوں کی تاریخ اور تعامل سے یہ بیان کیا ہے جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جمعہ کا دن ہی یہودیوں کا بھی سبت کا دن تھایا اس کا کچھ حصہ اس میں شامل تھا جو بعد میں ہفتہ میں بدل گیا.تو شاہ صاحب کی جو شرح ہے اس کا کچھ حصہ اس تعلق میں پیش کرتا ہوں.ایک تو سبت کے لغوی معنی ہیں.لسان العرب کے تحت اس کے معنی ہیں کہ کام کاج چھوڑ کر آرام کرنا اور اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ مشاغل سے کلیتا منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جانا.ایک روز عبادت میں سارا دن مشغول رہنے کا حکم بنی اسرائیل میں مخصوص تھا جس کا ذکر خروج باب 31 آیت 14 تا 16 میں ہے اور خروج میں ہی دوسری جگہ بھی ہے.اور احبار میں بھی ہے.بہر حال اس حکم کی آخر انہوں نے خلاف ورزی کی.جس کی وجہ سے ان کو سزا ملی.تو جمعہ کے روز ( میں یہ شاہ صاحب کی اس حصہ کی وضاحت پڑھ رہا ہوں ) "مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی پابندی نہیں جیسی بنی اسرائیل کے لئے تھی.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس خصوصیت کا ذکر بائیں الفاظ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا جُعِلَ السَّبُتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فيه (النحل: 125) - سبت یعنی مشاغل دنیا سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہنے کا حکم انہی لوگوں کے لئے مخصوص تھا جنہوں نے اس کی خلاف ورزی کی.اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ ساتواں دن ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا.اگر عیسائی زمانہ کی رو میں یہ کر بجائے ہفتہ، اتوار کو عبادت کا دن منا سکتے ہیں تو یہودیوں کا ایسا کرنا بعید از قیاس نہیں ( کہ جمعہ سے ہفتہ کر لیا ہو ) جیسا کہ تاریخی واقعات اور قرائن اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہود نے بھی اپنی جلا وطنی کے ایام میں بابلیوں اور فارسیوں کے درمیان مدت تک بود و باش رکھنے کی وجہ سے ان کے مشرکانہ عقائد و رسوم کو اپنا لیا تھا اور ان مشرک اقوام کے زیر اثر انہوں نے اپنے مذہب کے اصول میں بھی تغیر و تبدل کیا.جمعہ کے دن کو بھی قدیم یہودیوں کے نزدیک ایک تقدس حاصل تھا.چنانچہ روحانی احکام اور فیصلہ جات جو مؤرخ یو سیفس نے
443 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرمودہ 18 ستمبر 2009 اپنی مشہور تاریخ میں نقل کئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ اور ہفتہ دونوں دنوں میں اس بات کی قانوناً ممانعت تھی کہ کوئی یہودی کسی مقدمے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے کے لئے بلایا جائے.جمعہ کا نام ہی عبرانی میں عُرَيْبِ هَشَابَاتُ رکھا گیا تھا اور سبت کی تیاری چھٹے دن یعنی جمعہ کے روز آٹھویں گھڑی میں تقریباً اڑھائی بجے شروع ہوتی جبکہ قربانی کی جاتی اور نویں گھڑی تقریباً ساڑھے تین بجے ختم ہوتی جبکہ سوختنی قربانی چڑھائی جاتی تھی اور اس کے بعد یہودی کام کاج سے فارغ ہو کر نہا دھو کر صاف کپڑے پہن کر شاہ سبت یعنی ہفتہ کا استقبال کرتے.تو اس تسمیہ سے ظاہر ہے کہ جمعہ بھی ان کے نزدیک ایک گوناں سبت کا حکم رکھتا تھا.اس لئے اسلامی مؤرخین کی یہ روایتیں اپنے اندر صداقت رکھتی ہیں کہ جمعہ کے دن کا نام عروبہ جو قدیم عربوں میں مشہور تھا وہ دراصل اہل کتاب سے لیا گیا تھا“.بہر حال آگے پھر لکھتے ہیں.غرض عروبہ کے نام کا ماخذ یہودیوں کے درمیان اب تک پایا جاتا ہے اور سبت کی عبادت بھی جمعہ کے دن ہی شروع ہوتی ہے اور یہ دونوں شہادتیں اصل حقیقت کی غماز ہیں.پھر آخر میں نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ امر بھی یقینی ہے کہ یہود نے احکام سبت کے بارہ میں شدید سے شدید خلاف ورزیاں کیں بلکہ ان کے بعض انبیاء نے تو ان کی ذلت و ادبار کا سارا موجب سبت کی بے حرمتی قرار دیا ہے اور حضرت موسی نے بھی یہ پیشگوئی کی تھی کہ سبت کی بے حرمتی بنی اسرائیل کی تباہی کا موجب ہوگی“.( یہ بائیل میں لکھا ہوا ہے.) ( صحیح بخاری جلد دوم شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب صفحہ 275-274 مطبوعہ ربوہ ) یہ سب شواہد و قرائن آنحضرت ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد کی تصدیق کرتے ہیں.یہ جو حدیث ہے نا کہ ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف راہنمائی کی اور آج تک پندرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان جیسا بھی ہو جمعہ کا کہیں نہ کہیں اہتمام ضرور کرتا ہے.چاہے تھوڑے ہوں ، سارا شہر نہ بھی جمع ہو لیکن جمعہ پر ضرور آتے ہیں اور جب تک جمع ہوتے رہیں گے برکات ملتی رہیں گی اور اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود کے زمانے کے ساتھ اس کی ایک خاص اہمیت ہے اس لئے احمدیوں کو خاص طور پر اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہئے.پس جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ہماری درست راہنمائی فرمائی ہے.ہمارا یہ پہلا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بجا آوری کے لئے خاص اہتمام کرتے رہیں.اس حکم کی خلاف ورزی کر کے اللہ تعالیٰ کے کسی انذار کا مورد نہ بن جائیں.اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی پرانی تاریخیں بتائی ہیں.یہودیوں کی بتائی ہیں.بنی اسرائیل کی بتائیں.اسی لئے کہ ہم بھی ہوشیار رہیں.یہود نے جمعہ کے دن کو اگر ان کی خاص عبادت کی ابتداء اس دن سے ہوتی تھی جیسا کہ شاہ صاحب نے ثابت کیا ہے اور تاریخ سے ثابت ہوتا ہے تب بھی اس دن کو چھوڑنا تھا.انہوں نے اس دن کو اس لئے چھوڑنا تھا کیونکہ یہ الہی تقدیر تھی.اس بابرکت دن نے آنحضرت ما اور آپ کی امت کے لئے مخصوص رہنا تھا.
444 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 2009 اس دن کی اہمیت احادیث سے بھی ثابت ہے.آنحضرت اللہ نے اس دن کی اہمیت کے بارہ میں ہمیں بہت کھول کر بتایا ہے کہ کیوں یہ دن ہمارے لئے اہم ہے.اس لئے کہ یہ حضرت آدم کی پیدائش اور وفات کا دن ہے اور حضرت آدم علیہ السلام ہماری روحانی زندگی کی ابتداء میں ایک مقام رکھتے ہیں.جس کے بارہ میں قرآن کریم میں بھی خدا تعالیٰ نے بڑا واضح فرمایا ہوا ہے اور پھر مسیح موعود کے زمانے میں مسیح موعود کو بھی خدا تعالیٰ نے آدم کا نام دیا ہے.اس زمانہ میں احیائے دین آپ سے وابستہ ہے.پس احمدیوں کے لئے جمعوں کا اہتمام ایک انتہائی ضروری چیز ہے.تبھی ہماری سمتیں بھی درست رہیں گی تبھی ہم ہمیشہ ان برکات سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں.آنحضرت ﷺ نے جمعہ کے دن کی اہمیت کے بارے میں جو فرمایا ، ان میں سے بعض احادیث آپ کے سامنے رکھوں گا.حضرت اوس بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا ہے.اس میں حضرت آدم پیدا کئے گئے اور اسی دن فوت ہوئے.اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن بیہوشی طاری ہوگی.پس اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جائے گا.( سنن ابی داؤ د کتاب الصلوۃ باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة حديث نمبر 1047 پھر ایک دوسری حدیث ہے ابن ماجہ کی.اس میں حضرت ابولبابہ بن منذر سے روایت ہے کہ آنحضرت می نے فرمایا کہ جمعہ کا دن دنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظیم ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی بڑھ کر ہے.اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس دن آدم کو پیدا کیا.دوسرے اللہ نے اس دن حضرت آدم کو زمین پر اتارا.تیسری اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو وفات دی.چوتھی اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ حرام چیز کے علاوہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے تو وہ اسے عطا کرتا ہے.اور پانچویں یہ ہے کہ اسی دن قیامت برپا ہوگی.مقرب فرشتے آسمان، زمین اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمند راس دن سے خوف کھاتے ہیں.(ابن ماجہ.کتاب اقامۃ الصلوۃ وسنۃ فیھا.باب فی فضل الجمعۃ حدیث نمبر 1084) ان حادیث سے مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس دن کی کیا اہمیت ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پر کثرت سے درود بھیجو.ویسے تو عام طور پر بھی درود بھیجنا چاہئے لیکن فرمایا ہر جمعہ کو کثرت سے بھیجو.اس لئے ہر جمعہ کو یہ اہتمام خاص طور پر کرنا چاہئے کیونکہ دعاؤں کی قبولیت کا آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے سے بڑا تعلق ہے.قرآن کریم میں بھی خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) کہ اللہ اپنے بندے پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اور اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس نبی پر درود اور سلام بھیجتے رہو.
445 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پس جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہے.( صحیح بخاری کتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعۃ حدیث نمبر 935) تو دعا کی جو گھڑی ہے اس میں جو دعا خدا تعالیٰ نے سکھائی ہے یعنی درود بھیجنے کی وہ اگر ہم کریں گے تو ہماری جو باقی وقتوں میں کی گئی دعائیں ہیں اس درود کی برکت سے قبولیت کا درجہ پائیں گی.پس جمعہ کے دن ہمیں درود شریف پڑھنے کا بھی خاص طور پر اہتمام کرنا چاہئے.مسلمانوں پر یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ پورے دن کی پابندی نہیں لگائی گئی کہ کچھ نہیں کرنا بلکہ جمعہ کی نماز کے بعد دنیاوی کاموں میں مصروف ہونے کی اجازت دی ہے.لیکن یہ اجازت ایک شرط کے ساتھ ہے.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو نہیں بھولنا.دوسرے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا ہے یا ترتیب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا ہے اور اس کا ذکر کرنا ہے.تو جو شخص اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے دنیاوی کام کرے گا کہ میں یہ کام اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت کر رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میر افضل تلاش کر و تو فوراً یہ خیال بھی دل میں آئے گا کہ میرا کوئی کام ایسا نہ ہو جو صرف دنیاوی لالچ کے زیر اثر ہو.میرا کاروبار، میری ملازمت ، میری تجارت ان اصولوں پر چلتے ہوئے جو تقویٰ کی طرف لے جانے والے ہیں.میں کہیں یہ نہ سمجھوں کہ کیونکہ یہ دنیاوی کاروبار ہے اس لئے اس میں یہ دھو کہ جائز ہے.نہیں بلکہ جب خدا تعالیٰ کا فضل مانگنا ہے تو پھر ہمارا ہر معاملہ صاف اور شفاف ہونا چاہئے.دوسرے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرو.اس سے ایک تو ہمیشہ یہ خیال رہے گا کہ میں نے اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ہے.دوسرے یہ کہ میرے کام اگر اچھے ہورہے ہیں، ان میں کامیابی حاصل ہورہی ہے تو اس لئے کہ میرا پورا تو گل خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے.اور پھر آخری آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق دینے والی اصل ذات جو ہے خدا تعالیٰ کی ذات ہے.کاروباروں میں برکت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پڑتی ہے.تمہاری کوئی پہچان ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہے.اس لئے جب آخری زمانے میں مسیح موعود کو مان لوتو پھر دنیاوی لالچیں اور دنیاوی کھیل تماشے تمہارے سے بہت دور چلے جانے چاہئیں.اگر یہ اپنے سے دور نہ پھینکیں تو تمہاری حالت ایسی ہوگی جیسے تم نے مسیح موعود سے یہ عہد بیعت کر کے کہ ہم اپنی جان مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے، پھر مسیح موعود کو اکیلا چھوڑ دیا اور مسیح موعود نے جس کام کے لئے تمہیں جمع کیا تھا، ایک جماعت بنائی تھی ، جماعت میں شامل ہونے کے لئے کہا تھا ، اسے بھول گئے.خدا تعالیٰ سے کام کیا تھا یہی کہ خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق جوڑنا، اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر سے اپنی زندگیوں کو سجانا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنا.گویا اللہ تعالیٰ نے اس بات کو آزمانے کے لئے کہ تمہارا کس حد تک آخرین میں بھیجے ہوئے آنحضرت اللہ کے عاشق صادق کے ساتھ تعلق ہے اور کس حد تک تم اس بات میں بچے ہو کہ ہم مسیح موعود سے کئے گئے عہد بیعت کو نبھانے والے ہیں، جمعہ پر حاضر ہونا تمہارا معیار مقرر کیا ہے.پس ہر احمدی کو ہمیشہ یاد
446 خطبه جمعه فرموده 18 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم رکھنا چاہئے کہ جمعہ کے لئے مسجد آنا یا اگر مسجد نہیں ہے تو چند احمدیوں کا اکٹھے ہو کر جمع ہو کر جمعہ پڑھنا انتہائی اہم ہے.پس صرف رمضان کا آخری جمعہ یا رمضان کے جو باقی جمعے ہیں صرف وہی مسجد کی حاضری بڑھانے والے اور دکھانے والے نہ ہوں بلکہ سارا سال ہی ہمیں یہ نظر آئے کہ ہماری مسجد میں اپنی گنجائش سے تھوڑی پڑ گئی ہیں.اب یہ نمازیوں سے چھلکنی شروع ہوگئی ہیں.جمعوں کی اہمیت کے بارے میں اب میں بعض مزید احادیث بھی پیش کرتا ہوں جن سے جمعہ کے مختلف مسائل کا بھی پتہ لگتا ہے اور اہمیت کا بھی پتہ لگتا ہے.حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ پڑھنا فرض کیا گیا ہے، سوائے مریض ، مسافر اور عورت اور بچے اور غلام کے.جس شخص نے لہو ولعب اور تجارت کی وجہ سے جمعہ سے لا پرواہی برتی.اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہی کا سلوک کرے گا.یقیناً اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد والا ہے.( سنن دار قطنی.کتاب الجمعۃ.باب من تجب علیہ الجمعہ حدیث نمبر 1560 دار الكتب العلمیة بیروت 2003ء) پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جمعہ کے دن نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے.مجمع الزوائد ومنبع الفوائد.جلد دوم - کتاب الصلاۃ باب فی الجمعة وفضلها حدیث نمبر 2999 دارالکتب العلمیة بیروت 2001 ء) پس ہر قسم کی نیکیاں جو جمعہ کی نماز کے علاوہ جمعہ کے دن کی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا اجر بھی کئی گنا بڑھا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری سے بڑھ کر تو کوئی نیکی نہیں ہے اور حکم بھی وہ جو انتہائی فرائض میں داخل ہے.پس جمعہ کی نماز کے لئے آنا نیکیوں میں سب سے زیادہ بڑھانے کا موجب بنتا ہے اور یہی چیز ہے جو منافق اور مومن کی پہچان بھی کرواتا ہے.جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عباس سے مروی ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس کسی نے بلا وجہ جمعہ چھوڑ اوہ اعمال نامے میں منافق لکھا جائے گا جسے نہ تو مٹایا جا سکے گا اور نہ ہی تبدیل کیا جاسکے گا.(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - جلد دوم - کتاب الصلاۃ باب فی الجمعة وفصلها حدیث نمبر 299 دارالکتب العلمیة بیروت 2001 ء ) پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت جعد الضمری روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے تساہل کرتے ہوئے لگاتار تین جمعے چھوڑے ( سستی کرتے ہوئے تین جمعے لگا تار چھوڑے) اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے.(ابوداؤ د کتاب الصلوۃ باب في تفريح ابواب الجمعة باب التشدید فی ترک الجمعة حدیث نمبر 1052) اور جب مہر کر دیتا ہے تو پھر نیکیاں کرنے کی توفیق بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ انسان بالکل ہی دور ہٹ جاتا ہے.
447 خطبه جمعه فرمودہ 18 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم اللہ نے فرمایا کہ جو شخص بھی جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق پاکیزگی اختیار کرے اور تیل لگائے اور گھر سے خوشبو لگا کر چلے اور دو آدمیوں کو الگ الگ نہ کرے ( یعنی اپنے بیٹھنے کے لئے زبردستی پرے نہ ہٹائے ) اور پھر جو نماز اس پر واجب ہے وہ ادا کرے.پھر جب امام خطبہ دینا شروع کرے تو وہ خاموشی سے سنے تو اس کے اس جمعہ اور اگلے جمعہ کے درمیان ہونے والے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے.( بخاری کتاب الجمعة باب الدهن للجمعۃ حدیث نمبر 883) پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور پہلے آنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کی قربانی کرے.پھر بعد میں آنے والا اس کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرے.پھر مینڈھا ( بھیٹر ) ، پھر مرغی اور پھر انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے.پھر فرمایا کہ پھر جب امام منبر پر آ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں.یعنی فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر کوسنا شروع کر دیتے ہیں.( بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستماع الى الخطبة يوم الجمعۃ حدیث نمبر (92) اس خطبہ کو سننا شروع کر دیتے ہیں جو امام دے رہا ہوتا ہے.اس میں ایک تو ثواب اور اس کے بعد پھر خطبوں کو توجہ سے سننے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جس مسجد میں مجلس میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے بیٹھے ہوں اور وہ باتیں سن رہے ہوں اس سے زیادہ با برکت مجلس اور کون سی ہوسکتی ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی جمعہ کے روز امام کے خطبہ کے دوران بولے اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اس سے یہ کہے کہ خاموش رہے تو اس کا بھی جمعہ نہیں.( مسند احمد بن حنبل 1/230 - جلد 1 مسند عبداللہ بن عباس حدیث نمبر 2033 عالم الكتب بیروت 1998 ء ) یعنی بولنے والے کو بول کر خاموش کرانا بھی منع ہے.اگر بچے شور کر رہے ہیں اور ان میں کوئی چھوٹا بچہ ہو تو وہاں سے اس کو اٹھا کر لے جانا چاہئے اور اگر کوئی ہوش مند بچہ بول رہا ہے، شرارت کر رہا ہے تو اس کو اشارے سے منع کرنا چاہئے.حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ سُلَيْك غَطفانی جمعہ کے روز اس وقت آکر بیٹھ گیا جب رسول ال لی کہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ نے اسے فرمایا: اے سُليك! کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کرو اور اس میں
خطبات مسرور جلد ہفتم 448 خطبه جمعه فرمودہ 18 ستمبر 2009 اختصار سے کام لو.پھر آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے روز امام کے خطبہ دینے کے دوران آئے تو وہ دورکعت پڑھے اور ان کو جلد جلد مکمل کرلے.مسلم کتاب الجمعۃ.باب التحیۃ والا مام مخطب حدیث نمبر 1908) علقمہ روایت کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعودؓ کے ہمراہ جمعہ کے لئے گیا.انہوں نے دیکھا کہ ان سے پہلے تین آدمی مسجد میں پہنچ چکے تھے.انہوں نے کہا چوتھا میں ہوں.پھر کہا کہ چوتھا ہونے میں کوئی دوری نہیں.پھر کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور جمعہ میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے.یعنی پہلا دوسرا تیسرا اور انہوں نے کہا پھر چوتھا اور چوتھا بھی زیادہ دور نہیں.( سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوۃ والسنۃ فیھا.باب ما جاء فی التجیر الی الجمعۃ حدیث نمبر 1094) تو جمعوں کی اتنی اہمیت ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا : نماز جمعہ پڑھنے آیا کرو اور امام کے قریب ہو کر بیٹھا کرو اور ایک شخص جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے جنت سے پیچھے رہ جاتا ہے.حالانکہ وہ جنت کا اہل ہوتا ہے.(سنن ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب تفریح ابواب الجمعۃ باب الدنو من الامام حدیث نمبر 1108) نیکیوں کی توفیق والی حدیث میں نے پہلے پڑھی تھی.نیکیاں تو انسان کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ نیکیاں جمعہ نہ پڑھنے کی وجہ سے دل کو داغ لگنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر وہی انسان جو جنت کا اہل ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ جنت سے محروم رہ جاتا ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبید بن ثبات روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جمعہ کے روز فرمایا کہ اے مسلمانوں کے گروہ ایقیناً یہ دن خدا نے تمہارے لئے عید کا دن بنایا ہے پس تم غسل کیا کرو اور جس کسی کے پاس طبیب ہو یعنی خوشبو ہو وہ ضرور اسے لگالیا کرے اور مسواک کیا کرو.( سفن ابن ماجہ کتاب اقامتہ الصلوۃ باب ما جاء فى الزينة يوم الجمعة حدیث نمبر 1098) پس یہ اہمیت ہے جمعوں کی جسے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دن کو ایک اور زاویے سے پیش فرمایا ہے اور پھر جمعہ کی اہمیت بیان فرمائی ہے.آپ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم ( المائدہ: 4 ) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: غرض الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمُ کی آیت دو پہلو رکھتی ہے.ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا.تمہیں پاک کر دیا ایسادین آگیا کہ جو پاک کرنے والا ہے.اور دوم ( یہ کہ ) کتاب مکمل کر چکا.کہتے ہیں جب یہ آیت اتری وہ جمعہ کا دن تھا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کر لیتے.
449 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 2009 (احادیث میں بعض روایات میں حضرت ابن عباس کی روایت سے آتا ہے کہ یہودی نے ان سے کہا اور انہوں نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے.لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو روایات ہیں اور بعض ایسی ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مجھے براہ راست آنحضرت ﷺ نے بعض روایات بتائی ہیں.تو اس کی جو حیثیت ہے اور قدر و اہمیت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بیان فرمائی ہے ہمیں بہر حال اس کو دیکھنا چاہئے نہ کہ ان روایتوں کو جو مختلف راویوں کے ذریعہ سے پہنچیں.تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کر لیتے.( دوسری روایت میں آتا ہے کہ اگر یہ ہم پر اتری ہوتی تو ہم عید کا دن مناتے.( تو بہر حال کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کر لیتے.) ( بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة المائدة باب قولہ الیوم اکملت لکم دینکم حدیث نمبر 4606) حضرت عمرؓ نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے“.( حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں مگر بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں.دوسری عیدوں کو کپڑے بدلتے ہیں لیکن اس عید کی پرواہ نہیں کرتے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ آتے ہیں.میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے“.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ( ) میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے.اسی عید کے لئے سورۃ جمعہ ہے اور اسی کے لئے قصر نماز ہے اور جمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے.اور یہ عید اس زمانے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پہلا انسان اس عید کو پیدا ہوا.قرآن شریف کا خاتمہ اسی پر ہوا.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 673 جدید ایڈیشن مطبوعہ مطبوعہ ربوہ ) یعنی یہ آیت جو تھی یہ بھی جمعہ والے دن نازل ہوئی.پس ہم ایک عظیم الشان دین کے ماننے والے ہیں جس کو نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنا دین کامل اور مکمل کیا اور ایک یہودی کو بھی اس کی عظمت کا ، آیت کی عظمت کا اقرار کرنا پڑا.پس جس خدا نے دین کامل کر کے قرآن کریم کی صورت میں آنحضرت ﷺ پرا تا را اسی خدا نے ایک اہم فریضہ کی طرف اس کتاب میں ہمیں توجہ دلائی ہے بلکہ حکم دیا ہے.پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کی بجا آوری میں کبھی سستی نہ کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہماری اولادوں کو بھی ہمیشہ توفیق دیتا رہے کہ ہم جمعوں کا خاص اہتمام کرنے والے بنے رہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے توقع کی ہے اس پر پورا اتر نے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شماره 41 مورخہ 19اکتوبر تا15 اکتوبر 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 450 (39) خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 فرمودہ مورخہ 25 ستمبر 2009 ء بمطابق 25 رتبوک 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا.وَالَّذِينَ يَتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا.وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ، إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا.إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا.وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا.وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ.وَمَنْ يُفْعَلُ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا.(الفرقان آیات 69-64) وَ الَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا.وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَّ عُمْيَانًا.وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرُفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلَمًا.خَلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا.(الفرقان : 77-73) ان آیات کا ترجمہ ہے.اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جوابا کہتے ہیں السلام.اور وہ لوگ جو اپنے رب کے لئے راتیں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں.اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے.یقیناً وہ عارضی ٹھکانے کے طور پر بھی بہت بُری ہے اور مستقل ٹھکانے کے طور پر بھی.اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے درمیان اعتدال ہوتا ہے.اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرام قرار د یا ہونا حق قتل نہیں کرتے اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی ایسا کرے گا گناہ کی سزا پائے گا.اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں.اور وہ لوگ جب انہیں اُن کے رب کی آیات یاد کروائی جاتی ہیں تو ان پر وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے.اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے
451 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولا د سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.یہی وہ لوگ ہیں کہ انہیں اس باعث کہ انہوں نے صبر کیا بالا خانے بطور جزا دیئے جائیں گے اور وہاں ان کا خیر مقدم کیا جائے گا اور سلام پہنچائے جائیں گے.وہ ہمیشہ اُن جنتوں میں رہنے والے ہوں گے.وہ کیا ہی اچھا مستقل اور عارضی ٹھکانہ ہے.رمضان کا مہینہ آیا اور گزر گیا ، لوگوں کے خطوط ابھی تک آ رہے ہیں.رمضان کے دنوں کے لکھے ہوئے خطوط بھی ہیں اور رمضان کے بعد لکھے ہوئے خطوط بھی جو فیکسز کے ذریعہ سے پہنچ رہے ہیں کہ اللہ کرے ہم نے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی حقیقتا کوشش کی ہو اور اگر کوئی پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے تو خدا تعالیٰ اُسے جاری بھی رکھے.اور یہ خیالات اور احساسات جو ہم میں سے بعض میں پیدا ہوئے ہیں یہی رمضان کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض خصوصیات اور علامتیں بتائی ہیں جن کو اختیار کر کے یا جن پر عمل کر کے انسان عبادالرحمن کہلا سکتا ہے.یہ آیات جومیں نے تلاوت کی ہیں ان میں یہ خصوصیات بیان ہوئی ہیں جیسا کہ آپ نے سنا.جن میں ذاتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے ، معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.اگر ان کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو عبادالرحمن کہ کر مخاطب کرتے ہوئے اپنی رضا کی خوشخبری دیتا ہے، اپنی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے.پس رمضان کے بعد بھی اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے.اُس کی جنتوں میں جانے والے ہوں گے.اس سے حصہ لینے والے ہوں گے.اور اسی وجہ سے پھر جب اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے گا تو جو پاک تبدیلیاں ہم میں سے کسی میں پیدا ہوئی ہیں وہ بھی ہم میں قائم رہیں گی.پہلی خصوصیت ان عبادالرحمن کی یہ ہے کہ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا یعنی زمین پر عاجزی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں.ہر فیصلہ ان کا اعتدال پر ہوتا ہے.بلاوجہ کی تختی اور غصہ ان کی طبیعت میں نہیں ہوتا جو کہ پھر بعض اوقات تکبر تک لے جاتا ہے.اور بلا وجہ کا ٹھہراؤ بھی ان کی طبیعت میں نہیں ہوتا کہ ان سے بے غیرتی اور مداہنت کا اظہار ہوتا ہو.یہ خصوصیت جو بیان کی گئی ہے صرف انفرادی نہیں ہے بلکہ جماعتی طور پر بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ من حیث الجماعت بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے عبادت گزار بنتے ہوئے یہ خصوصیات پیدا کر و.اور پھر اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ جو عبادالرحمن ہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے غلبہ بھی ملے گا.اور جب غلبہ کی صورت ہو تو اس وقت تکبر پیدا نہ ہو.اُس وقت پرانے بدلے لینے کی طرف توجہ نہ ہو.اُس وقت خدا کو بھولنے والے نہ کہیں بن جانا.بلکہ تمہیں عاجزی، انکسار اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنے والا ہونا چاہئے.
452 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 دوسری خصوصیت یہ کہ خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَما یہ اس بات کا ایک طرح سے اعادہ کیا گیا ہے کہ ایک تو انفرادی خصوصیت ہر اللہ کے بندے میں ہونی چاہئے کہ لڑائی جھگڑوں سے بچتے ہوئے ہر سختی کرنے والے اور جھگڑنے والے کو نرمی سے سمجھاؤ اور دوسری یہ کہ جو عاجزی تم نے اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم کے تحت حاصل کر لی ، پھر اسی طرح جماعتی طور پر جو وقار تم نے اپنے معاشرے میں، اپنے علاقے میں قائم کر لیا ، جب طاقت بھی تمہارے پاس آ جائے گی تو پھر بھی اس کو یا د رکھنا.شیطان نے اپنا کام کئے چلے جانا ہے.تمہارے خلاف مختلف طریقوں سے ایسے محاذ کھڑے کئے جائیں گے کہ جس سے تمہارے جذبات کو بھڑ کا یا جائے گا اور پھر یہ کہا جائے گا کہ دیکھو یہ کتنے ظلم کرنے والے لوگ ہیں.ایسے میں اپنے جذبات کو کنٹرول رکھنا.ان مثالوں کو قائم رکھنا ، اُس اسوہ کو قائم رکھنا جو ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے پیش فرمایا.گویا اس میں بھی جماعتی طور پر آئندہ حالات بہتر ہونے کی پیشگوئی ہے.لیکن اس وقت بعض ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں ایسی صورتحال ہے کہ احمدیوں کو تنگ کیا جاتا ہے.ان کے جذبات انگیخت کئے جاتے ہیں.کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح احمدی اس قسم کی حرکتوں پر جو مخالفین کی طرف سے ہورہی ہیں، قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں اور پھر قانون کا بہانہ بنا کر احمدیوں کو قتی اور ظلم کا نشانہ بنایا جائے.تو فرمایا ان شیطانی تدبیروں کے مقابلہ پر رحمان کے بندے بنتے ہوئے ، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تو کارروائی کردو لیکن گند کا جواب گند سے نہ دو کہ اس سے بھی بعض مسائل دوسرے احمدیوں کے لئے بھی اور جماعتوں کے لئے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں.پس آجکل کے حالات کے حوالے سے میں احمدیوں کو کہوں گا کہ ایسے عباد الرحمن بننے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ کی رضا سے حصہ پانے والے ہوں اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس میں پیشگوئی بھی رکھی ہے کہ مِنْ حَيْتُ الْجَمَاعَت تمہارا ہا تھ ایک وقت میں اوپر ہو جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ تو اُس وقت تم دنیا کو بتانا کہ انصاف کیا ہوتا ہے اور طاقت رکھتے ہوئے بھی دوسرے کے جذبات کا احساس کرنا اور اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا کیا ہوتا ہے.آجکل پاکستان میں خاص طور پر مختلف طریقوں سے مخالفین کی یہ کوشش ہے کہ احمدی کسی طرح بھڑکیں اور ان کو نقصان پہنچانے کی جس حد تک ان کی کوشش ہو سکتی ہے کی جارہی ہے.مختلف جگہوں پر منصوبے بنائے جا رہے ہیں.اس لئے بڑی احتیاط سے ، بڑے محتاط طریقہ سے اس سب صورتحال کا سامنا کریں اور صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان حالات کا مقابلہ کریں.رحمن خدا کے بندوں کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: رحمن کے حقیقی پر ستاروہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بُردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی
453 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں.ہمارا واسطہ انتہائی جاہل لوگوں سے ہے اور اس کے لئے اپنے جذبات کو بہت زیادہ کنٹرول کرتے ہوئے سلامتی اور رحمت کا طریق اختیار کرنے کا اظہار کرنا ہے.فرمایا کہ: ” بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمن بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے.پس ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمن کا لفظ ان معنوں کر کے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہر یک بُرے بھلے پر محیط ہورہی ہے.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 449 بقیہ حاشیہ (11) پس آج بھی اور آئندہ بھی ہم نے ہر ایک بُرے بھلے، دوست دشمن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پر تو بننے کی کوشش کرتے ہوئے ، رحمت کا سلوک کرتے چلے جانا ہے.درگزر کا سلوک کرتے چلے جانا ہے اور دعاؤں سے اپنے لئے مدد مانگی ہے اور دوسروں کی ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتی ہے تا کہ ہم ہمیشہ عباد الرحمن میں شامل رہیں.پھر تیسری خصوصیت عبادالرحمن کی یہ بتائی کہ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا کہ اپنے رب کے لئے راتیں سجدے کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں.گزشتہ دنوں چند دن کے لئے ایک بہت بڑی تعداد نے اس پر عمل کیا.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبادالرحمن چند دن گزارتے ہیں.بلکہ مستقل اپنی راتیں عبادت اور قیام میں گزارتے ہیں.سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں.پس یہ ایک احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.خاص طور پر ان حالات میں جبکہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں احمدیوں کے لئے مصائب اور مشکلات کا دور ہے کہ احمدی نہ صرف اپنی فرض نمازوں کی طرف توجہ دیں بلکہ اپنی راتوں کو نوافل سے سجائیں اور تہجد کی طرف توجہ دیں.کیونکہ راتوں کو اٹھنا نفس کو کچلنا ہے.یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اگر ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور راتوں کو عبادت کرنے والے بنیں گے تو یہی چیز انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی مشکلات کے دور کرنے کا باعث بنے گی.پس یہ مد نظر رہنا چاہئے کہ راتوں کو اٹھنا صرف ذاتی اغراض کے لئے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور جماعتی ترقی کے لئے اور دعاؤں کے لئے ہو.اگر دنیا میں ہر احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے جماعتی ترقی کے لئے رات کے کم از کم دو نفل اپنے اوپر لازم کر لے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی مدد پہلے سے بڑھ کر ہمارے شامل حال ہوتی ہے اور کس طرح اللہ تعالی دشمن کی دشمنیاں اور مخالفین کی مخالفتیں ہوا میں اڑا دیتا ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نوافل کے ذریعہ مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ
خطبات مسرور جلد ہفتم 454 ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اس کے پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 (صحیح بخاری.کتاب الرقاق.باب التواضع حدیث 6502) پس اللہ تعالیٰ نوافل ادا کرنے والوں اور تہجد ادا کرنے والوں کے اتنا قریب آ جاتا ہے.اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور رمضان گزرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پھر اسی طرح راتوں کو ضائع کریں اور دیر تک فضول مجلسیں لگائی جائیں اور صبح کی نماز کے لئے اٹھنا مشکل ہو جائے.نہیں، بلکہ اُن راتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کو قریب لانے والی ہوں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والی ہوں.رمضان نے جو ہمیں عباد الرحمن بننے کے اسلوب سکھائے ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے ہمارا یہ کام ہے کہ اپنی راتوں کو عبادتوں سے سجائے رکھیں.یہی چیز ہے جو ہمارے حق میں جیسا کہ میں نے کہا انشاء اللہ تعالیٰ جلد انقلاب لانے والی ہوگی.آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے اس کا حق ادا کیا اور دنیا نے دیکھا کہ وہ کیا انقلاب لائے.دن کو اگر ان کو مجبوری کی وجہ سے جنگ کرنی پڑتی تھی تو راتوں کو وہ آرام نہیں کرتے تھے بلکہ راتیں عبادتوں میں گزارتے تھے.جب تک مسلمانوں میں راتوں کی عبادت کا یہ طریق قائم رہا ان کی ترقی ہوتی رہی.آج یہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عمل کرے.اور احمدیت اور اسلام کی ترقی کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اللہ ﷺ آئے کسی سے پوشیدہ نہیں.بالکل وحشی لوگ تھے.کھانے پینے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے.نہ حقوق العباد سے آشنا، نہ حقوق اللہ سے آگاہ.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف ان کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الانْعَامُ ( سورة محمد : 13) یعنی صرف ان کا کام کھانا پینا تھا اس طرح کھاتے تھے جس طرح جانور کھاتے ہیں.پھر رسول اللہ ﷺ کی پاک تعلیم نے ایسا اثر کیا کہ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وقِیاما کی حالت ہوگئی.یعنی اپنے رب کی یاد میں راتیں سجدے اور قیام میں گزار دیتے تھے.اللہ اللہ کس قدر فضیلت ہے.رسول اللہ کے سبب سے ایک بے نظیر انقلاب اور عظیم الشان تبدیلی واقع ہوگئی.حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کو میزان اعتدال پر قائم کر دیا اور مردار خوار اور مردہ قوم کو ایک اعلیٰ درجہ کی زندہ اور پاکیزہ قوم بنا دیا.دوہی خوبیاں ہوتی ہیں، علمی یا عملی عملی حالت کا تو یہ حال ہے کہ يَتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا اور علمی کا یہ حال ہے کہ اس قدر کثرت سے تصنیفات کا سلسلہ اور توسیع زبان کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.( ملفوظات جلد اول صفحہ 180 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
455 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پھر آپ فرماتے ہیں کہ: "روحانیت اور پاکیزگی کے بغیر کوئی مذہب چل نہیں سکتا.قرآن شریف نے بتلایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پیشتر دنیا کی کیا حالت تھی يَأكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الانْعَامُ (سورة محمد :13: پھر جب انہی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو فرماتا ہے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا.جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں رہتا.انسان آگے قدم رکھتا ہے مگر وہ پیچھے پڑتا ہے.قدسی صفات اور فطرت والا انسان ہوتو وہ مذہب چل سکتا ہے.اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا اور کرتا بھی ہے تو پھر قائم نہیں رہ سکتا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 431 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ہم جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جماعت کی جلد ترقی ہو.افراد جماعت کو جن مشکلات اور مصائب سے گزرنا پڑ رہا ہے وہ جلدی دُور ہوں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا آسمانی تریاق کی ضرورت ہے.اور آسمانی تریاق اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق حاضر ہو کر مانگنے سے ملتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.پھر چوتھی خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ عباد الرحمن خدا تعالیٰ سے جہنم سے دوری کی دعائیں کرتے رہتے ہیں.اور جہنم سے دونوں جہنم مراد ہیں ، اخروی جہنم بھی جو گناہوں کی پاداش میں ملے گی اور اس دنیا کی جہنم بھی جو بعض برے کاموں کے یا غلطیوں کے بدنتائج کی صورت میں ملتی ہے.پس عباد الرحمن کا کام ہے کہ ہر وقت تو بہ اور استغفار کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی ذلتوں سے بچائے.ہر قسم کی دنیاوی مشکلات کی جہنم سے بچائے.دنیا کی چمک اور تو جہات اور ترجیحات کا غلام نہ بنائے کہ یہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے دور لے جا کر پھر اخروی جہنم میں پڑنے کا باعث بناتی ہیں.پھر یہ کہ اولاد کی طرف سے بھی ہماری فکریں دُور ہوں اور ان کی وجہ سے بھی ہم اپنے اندر دل میں بے چینی کی آگ میں نہ جلتے رہیں.پھر عبادالرحمن کی پانچویں خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ لَمْ يُسْرِفُوا.اسراف نہیں کرتے ، فضول خرچی نہیں کرتے.نہ ہی ذاتی اموال میں دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی جماعتی اموال کو بغیر سوچے سمجھے خرچ کرتے ہیں.ذاتی فضول خرچی کی ایک مثال ہمارے ہاں بہت عام ہوتی جا رہی ہے اور وہ ہے شادی بیاہوں پر فضول خرچی.ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہاں بھی اور پاکستان میں بھی کئی قسم کے کھانے پکوائے جاتے ہیں اور شادی کی دعوت ہوتی ہے.پھر ولیمہ کی دعوت ہوتی ہے.دعوت کرنا کوئی حرج نہیں.سادہ بھی کی جاسکتی ہے.پھر شادی سے پہلے مہندی کی دعوت کا بھی رواج پڑ گیا ہے جو لڑکی کے گھر والے شادی کی رونق لگانے کے بہانے کرتے ہیں.اس پر بھی بے تحاشا خرچ کیا جاتا ہے اور اس کے لئے بھی باقاعدہ کا رڈ چھپوائے جاتے ہیں تقسیم کئے جاتے ہیں اور دعوت
456 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دے کے بلایا جاتا ہے.مہندی کرنی ہے تو لڑکیاں یا اس دلہن کی جو سہیلیاں ہیں وہ جمع ہوں اور رونق لگا لیں لیکن اس میں روز بروز وسعت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اور صرف دیکھا دیکھی.پھر ایک نئی رسم یہ پیدا ہوگئی ہے کہ لڑکے والے بھی شادی سے پہلے رونق لگانے کے نام پر دعوت کرنے لگ گئے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ یہ غلط قسم کی جو رسم ہے بلکہ بدعت ہے اس میں اچھے بھلے دین کا علم رکھنے والے بھی شامل ہو گئے ہیں.اور پھر جو کسی وجہ سے اتنی زیادہ زیادہ دعوتیں نہ کرے ( بہر حال ہمیں حسن ظن یہی رکھنا چاہئے کہ کسی نیکی کی وجہ سے ) تو اس کے متعلق پھر باتیں کی جاتی ہیں کہ یہ کنجوس ہے، یہ فلاں ہے.خاص طور پر باہر کے ملکوں سے لوگ پاکستان جاتے ہیں تو وہ دعوتوں ، زیور اور جوڑوں وغیرہ پر بے انتہا خرچ کرتے ہیں اور ہر ایک بڑھ بڑھ کر خرچ کر رہا ہوتا ہے.تو یہ سب اسراف ہے.یہی بچت جو ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا یہ غریبوں کے کام آ سکتی ہے.غریبوں کی شادیوں میں کام آ سکتی ہے.بہت ساری رقوم قیموں کو پالنے کے کام آ سکتی ہیں اور دوسرے نیکی کے کاموں میں خرچ ہو سکتا ہے.اس طرح اگر بچت کرنے کا احساس پیدا ہو جائے تو یہی چیز ہے جو انسان کو عبادالرحمن بناتی ہے.پھر چھٹی چیز یہ بیان فرمائی کہ لَمْ يَقْتُرُوا کہ بخل اور کنجوس بھی نہیں کرتے.اور بعض لوگ کنجوسی کر کے جہاں جائز ضرورت ہے وہاں بھی خرچ نہیں کرتے.کنجوسی کی انتہا کر دیتے ہیں اور وہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ مال جوڑتے چلے جائیں.بعض لوگ تو اس حد تک کنجوس ہوتے ہیں کہ اپنی جو ذاتی جائز ضروریات ہیں ان پر بھی خرچ نہیں کرتے.نہ اپنے عزیزوں کی مدد کرتے ہیں، نہ غریبوں کے لئے کچھ دیتے ہیں.نہ ہی جماعت کے لئے قربانی کا مادہ ان میں ہوتا ہے.پس جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں مال ہوتے ہوئے بھی خرچ نہ کریں تو وہ بھی عباد الرحمن میں شامل نہیں ہو سکتے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے اسراف کرنے والوں کو نا پسند فرمایا ہے اور عبادالرحمن سے اُنہیں باہر نکالا ہے وہاں بخل کرنے والوں کو بھی انتہائی نا پسند فرمایا ہے.ایک تو وہ جو خرچ ہے اس کا حق ادا نہیں کر رہا.دوسرے پیسے کو روک کر اور صرف جمع کر کے معاشرے کی ترقی میں بھی روک ڈالنے کا باعث بن رہا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عباد الرحمن میں نہ حد سے زیادہ شاہ خرچی ہو اور دنیا دکھاوے کے لئے شاہ خرچی ہو اور نہ ہی اتنی زیادہ کنجوسی کہ جائز ضرورت پر بھی خرچ نہ کریں.بلکہ اس کے بین بین رہنا چاہئے اور عباد الرحمن کا خرچ کرنا بھی اور خرچ سے رکنا بھی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو.پھر ساتویں علامت یہ بتائی کہ عبادالرحمن شرک کے قریب بھی نہیں جاتے.شرک خدا تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ظلم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام گناہ معاف ہو سکتے ہیں لیکن شرک نہیں.عبادالرحمن کے ساتھ جو شرک کو مخصوص کیا گیا ہے تو یہ صرف ظاہری شرک نہیں کہ بتوں کی پوجا کی جائے بلکہ شرک خفی سے بھی بچتے ہیں.ان کی عبادتوں اور دوسرے حقوق کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہوتی ہے اور بڑی باریکی سے اس بات کا خیال
457 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 رکھتے ہیں کہ ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی عمل کسی قسم کے شرک خفی کا باعث نہ بنے.انتہائی محتاط ہوتے ہیں.نہ ان کی ملازمتیں ان کی عبادتوں کے سامنے روک بن رہی ہوں.جیسا کہ میں نے گزشتہ جمعہ میں بیان کیا تھا کہ یہ بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے.پھر آٹھویں شرط یا خصوصیت عباد الرحمن کی یہ بتائی کہ کسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے.آنحضرت ﷺ نے اگر جنگیں لڑیں اور صحابہ نے یا خلفاء نے ، خلفاء راشدین نے بھی اور بعد میں مسلمانوں نے بھی تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اگر جنگیں لڑیں تو دشمن کے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے اور اس کے ہاتھ کو ظلم سے روکنے کی وجہ سے جنگیں لڑیں اور کوشش یہ کی بلکہ آنحضرت ﷺ نے بھی ، آپ کے خلفاء نے بھی حکم دیا کہ کوئی بچہ، کوئی عورت، کوئی مذہبی لیڈر، پادری راہب وغیرہ جو جنگ میں شامل نہیں اس کو قتل نہیں کرنا.لیکن اس کے مقابلہ پر ہم دیکھتے ہیں (کہ) صرف ) دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں معصوم جاپانیوں کو قتل کر دیا گیا.آجکل بھی امن قائم کرنے کے بہانے جہازوں سے حملے کر کے معصوم شہریوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا.جاتا ہے.یہ تو ان لوگوں کا حال ہے جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.لیکن جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو عبادالرحمن سمجھتے ہیں وہ بھی خود کش حملے کر کے معصوم جانوں کا خون کر رہے ہیں.اسلام کے نام پر ، مذہب کے نام پر جو خون ہو رہا ہے یہ ایک اور دردناک اور بھیانک کہانی ہے.پس خدا تعالیٰ کا ایسے لوگوں کے لئے فیصلہ یہ ہے کہ وہ کبھی عبادالرحمن نہیں ہو سکتے.پھر نویں خصوصیت یا علامت عبادالرحمن کی یہ ہے کہ وہ زنا نہیں کرتے.اس میں عملی زنا بھی شامل ہے اور گندے بیہودہ پروگرام اور نظارے دیکھ کر ان سے لطف اٹھانا بھی شامل ہے اور آجکل انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز پر جو بعض ایسے پروگرام دیکھے جاتے ہیں یہ سب ذہنی اور نظری زنا میں شمار ہوتے ہیں.پس احمدی کو ان سے بھی خاص طور پر بچنا چاہئے.پھر دسویں خصوصیت یہ ہے کہ عباد الرحمن نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں.یہ جھوٹ بھی قوموں کے تنزل اور تباہی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے بندے اور الہی جماعتیں جو ہیں انہوں نے تو اونچائی کی طرف جانا ہے اور ان سے تو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ان کے لئے ترقی کی منازل ہیں جو انہوں نے طے کرنی ہیں اور اوپر سے اوپر چلتے چلے جانا ہے.اُن میں اگر جھوٹ آ جائے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے نہیں رہتے جن پر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے یا جن سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمانے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.پس احمدیوں کو اپنی گواہیوں میں بھی اور اپنے معاملات میں بھی جب پیش کرتے ہیں تو سو فیصد سچ سے کام لینا چاہئے.مثلاً عائلی معاملات ہیں.نکاح کے وقت اس گواہی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم قول سدید سے کام
458 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 لیں گے.سچ سے کام لیں گے.ایسا سچ بولیں گے جس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو.جس سے کوئی اور مطلب بھی اخذ نہ کیا جا سکتا ہو.صاف ستھری بات ہو.لیکن شادی کے بعد لڑکی لڑکے سے غلط بیانی کرتی ہے اور لڑکا لڑکی سے غلط بیانی کرتا ہے.دونوں کے سسرال والے ایک دوسرے سے غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ان رشتوں میں پھر دراڑیں پڑتی چلی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ختم ہو جاتے ہیں.صرف ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں.اگر بچے ہو گئے ہیں تو وہ بھی برباد ہو جاتے ہیں.پہلے بھی کئی مرتبہ میں اس بارہ میں کہہ چکا ہوں.پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے بھی اور بندوں کے حق ادا کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ایک مؤمن کو ، ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو عبادالرحمن میں شمار کرتے ہیں ہر قسم کے جھوٹ سے نفرت ہو.پھر گیارہویں علامت یہ ہے کہ مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا یعنی دنیوی لذات سے متاثر ہو کر اس میں شامل نہیں ہو جاتے.اس زمانے کی لغویات جیسا کہ میں نے کہا ہے انٹرنیٹ بھی ہے، یہ ٹی وی چینلز بھی ہیں جو پروگراموں کے دکھانے میں، عجیب طرح کے غلط پروگراموں کے دکھانے میں مصروف ہیں.پھر آجکل لڑکے لڑکیاں سکولوں میں، کالجوں میں، گروپ بنا کر پھرتے ہیں، کلبوں میں جاتے ہیں، پھر ڈانس گانے وغیرہ کئے جاتے ہیں.یا اس کے پروگرام بنائے جارہے ہوتے ہیں یا کنسرٹ دیکھنے کے پروگرام بنائے ہوتے ہیں.تو ایک مومن کے لئے یہ سب لغویات ہیں.ایک طرف تو ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ہم عبادالرحمن بنے کا بھی عہد کرتے ہیں.پھر اس کے باوجو د لغویات میں شامل ہونا ، ایسی باتوں میں شامل ہونا جو سراسر اخلاق کو برباد کر نے والی باتیں ہیں.پس حقیقی احمدی کے لئے ضروری ہے کہ ان سے پر ہیز کرے.پھر لغویات میں لڑائی جھگڑا وغیرہ بھی شامل ہے.پہلے بھی اس کا تفصیل سے ذکر آ چکا ہے.پھر کسی بھی قسم کی بات جو معاشرے کے امن کو برباد کرنے کا ذریعہ بننے والی ہے ، یہ سب لغویات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا...اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہوتو بزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں اور ادنی ادنی بات پر لڑ نا شروع نہیں کر دیتے.یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے اور صلح کاری کے محل شناسی کا یہی اصول ہے کہ ادنیٰ ادنی باتوں کو خیال میں نہ لاویں اور معاف فرما دیں.اور لغو کالفظ جو اس آیت میں آیا ہے سو واضح ہو کہ عربی زبان میں لغو اس حرکت کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص شرارت سے ایسی بکواس کرے یا بہ نیت ایذا ایسا فعل اس سے صادر ہو کہ دراصل اس سے کچھ ایسا حرج اور نقصان نہیں پہنچتا.سو صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بیہودہ ایڈا سے چشم پوشی فرما دیں اور بزرگانہ سیرت عمل میں لاویں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 349)
459 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پھر بارہویں علامت یہ ہے کہ جب اُن کے سامنے خدا تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے بلکہ کان کھول کر توجہ سے سنتے ہیں.قرآن کریم کے حوالے سے جو نصائح کی جائیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اپنی روحانیت کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.پس عباد الرحمن بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر قسم کی نیک نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے.یہ نہ دیکھیں کہ کون کہ رہا ہے.یہ دیکھیں کہ جو بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حوالے سے کی جارہی ہے اس پر عمل کرنا ہے.ورنہ عمل نہ کرنا انسان کے لئے ٹھو کر کا باعث بن سکتا ہے.اور پھر نہ صرف یہ کہ عباد الرحمن کے زمرے سے نکل جاتے ہیں بلکہ آہستہ آہستہ جماعت سے بھی دُور ہو جاتے ہیں.پھر تیرہویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں اور اولادوں کے لئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک رکھے.پس آئندہ نسلوں کی بقا کے لئے یہ نہایت اہم نسخہ ہے کہ جہاں ظاہری تدبیریں اور کوششیں ہو رہی ہیں جو اپنی اولاد کی دینی و دنیوی ترقیات کے لئے ایک انسان کرتا ہے وہاں دعا بھی ہو کیونکہ اصل ذات تو خدا تعالیٰ کی ہے جو اچھے نتائج پیدا فرماتا ہے.اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ وہ لوگ اپنی ذاتی صلاحیت سے اپنی اولاد کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں تو یہ بھی خیال غلط ہے.ایسے لوگ جو دنیا دار لوگ ہیں اگر اپنی اولاد کی ترقی دیکھتے ہیں تو یہ ترقی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے صدقے تو بے شک انہیں فائدہ دے رہی ہے یا اس سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہ صرف دنیاوی ترقی ہے، دنیاوی معاملات کی ترقی ہے.لیکن وہ رحمان کے بندے کہلانے والے نہیں ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں متقیوں کا امام ہونے کا اعزاز نہیں بخشا اور متقیوں کا امام ہونے کی وجہ سے اپنے تقویٰ میں بڑھنے کی طرف ان کی توجہ نہیں پھیری.لیکن جو اپنی اولاد کے لئے تقویٰ میں بڑھنے کی دعا بھی مانگے گا وہ صرف ان کی دنیاوی ترقی نہیں مانگے گا بلکہ دینی اور روحانی ترقی بھی مانگے گا اور پھر خود بھی تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کرے گا.اللہ تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے والا ہوگا.آجکل دنیا میں ہر جگہ معاشرے میں بچوں کی تعلیم اور دنیاوی ترقی کے لئے والدین بڑے پریشان رہتے ہیں لیکن روحانیت کی طرف بہت کم توجہ ہے.یہاں مغربی ممالک میں تو آزادی کے نام پر اب بچوں کو اتنا بیباک کر دیا گیا ہے کہ وہ والدین کی نصیحت ماننے سے بھی انکاری ہوتے چلے جارہے ہیں.اور اب ان لوگوں کو احساس ہورہا ہے، پروگرام بھی ٹی وی پر آنے شروع ہو گئے ہیں کہ یہ ضرورت سے زیادہ آزادی ہے جو بچوں کو دی جارہی ہے.والدین نے بچوں کا امام کیا بننا ہے اب تو بچے والدین کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں.بہت سے کیس ایسے ہونے لگ گئے ہیں کہ بچے والدین پر ہاتھ اٹھانے لگ گئے ہیں.ذراسی روک ٹوک بھی برداشت نہیں کرتے ہیں.کوئی نیک نصیحت کی جائے برداشت نہیں کرتے.جیسا کہ میں نے کہا اب یہ آواز میں اٹھنے لگ گئی ہیں کہ اگلی نسل کو اگر
460 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 سنبھالنا ہے تو اس کی کوئی حد مقرر کی جائے کہ کس حد تک والدین نے برداشت کرنا ہے اور کہاں اپنے بچوں کو سزا دینی ہے.کیونکہ والدین جب کسی غلط حرکت پر سزا دیتے ہیں تو یہاں مغربی ممالک میں بچوں کی حفاظت کے جو ادارے بنے ہوئے ہیں وہ بچوں کو اپنے پاس لے جاتے ہیں یا بچے والدین کو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ کہا تو ہم وہاں چلے جائیں گے اور اس بات نے بچوں کو حد سے زیادہ بے باک کر دیا ہے.وہ کسی لینے دینے میں نہیں رہے.بعض خاندان تو ایسے ہیں کہ ان کے بچوں کی حالت بہت ہی بُری ہو چکی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دُعا کا خانہ خالی ہے.پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ بچوں کی صحیح تربیت ہو اور پھر اس کے ساتھ ہی اپنے نیک نمونے بھی قائم کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں.نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں.( تربیت کے جو مختلف درجے ہیں کہ کس طرح کرنی ہے.کس عمر میں کس قسم کی تربیت ہونی چاہئے.کس عمر سے بچوں کو سنبھالنا ہے.اس کی طرف توجہ نہیں ہے.) فرمایا کہ: ” میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولا دکو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں.لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو.اور جب اولا د ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا.نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 562 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) بچوں کو سکھایا بھی نہیں جاتا.کسی نے مجھے بتایا، کسی دوسرے مسلمان نے کسی بچے یا بچی کو کہہ دیا کہ تم لوگ تو شیطان کی عبادت کرنے والے ہو.خدا کو نہیں مانتے.اچھا بھلا ہوش مند بچہ تھا یا بچی تھی لیکن اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ جواب کیا دینا ہے اور خاموش ہوگئی.اس خاموشی سے دوسرے بچوں نے یقینا یہ تاثر لیا ہوگا کہ جو احمدی ہیں یہ خدا کو نہیں ماننے والے.تو بنیادی چیزیں بھی بعض والدین اپنے بچوں کو نہیں بتاتے.فرمایا: اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے.اخلاقی حالت کو اگر بچپن سے درست کیا جائے تو بچہ کبھی والدین کے سامنے کھڑا ہی نہیں ہو سکتا کہ آگے سے تو تکار کرے.پہلے میں ایک دفعہ کہہ چکا ہوں.بچوں کے لباس
461 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009 ہیں ،لڑکیوں کے لباس ہیں، بچپن میں ہی 4-5 سال کی عمر میں لباس کی طرف توجہ دلائیں گے تو بڑے ہو کر ان میں احساس پیدا ہو گا.13-14 سال کی عمر میں احساس کروائیں کہ ایک دم جیز بلاؤز سے اب تم کوٹ پہن لو تو وہ بچی آگے سے رد عمل دکھائے گی.اس لئے فرمایا کہ اخلاقی حالت کو درست نہیں کیا جاتا.اس کی طرف بچپن سے توجہ دینی چاہئے.فرمایا کہ: یہ یا درکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہوسکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا.جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے“.( جو قریب قریب کے تعلقات ہیں ان کا بھی اگر خیال نہیں ہے تو باقی نیکیاں کس طرح آ سکتی ہیں ).اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيتَنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان : 75).یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما دے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں.بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر یہ کہہ دیا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.اولا داگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہو گا اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 563-562 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یعنی اس میں اپنے متقی ہونے کی بھی دعا ہے.پس بچوں کی تربیت کے لئے جو متقی ہونا اور عبادالرحمن ہونا شرط ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اپنے متقی ہونے کے لئے بھی دعا اور کوشش کرنی چاہئے اور جب ہم خود متقی ہونے کی کوشش کریں گے تو ان خصوصیات کے بھی حامل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی بیان فرمائی ہیں اور یہی باتیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے اسے اللہ تعالی محفوظ رکھتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونہ کو صاف رکھتے ہیں اور نوع انسان کے ساتھ خیر اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور خدا کے بچے فرمانبردار ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 305 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ایک بچے احمدی میں یہ خصوصیات ہونی چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمیں اس کے ساتھ سچا تعلق ہو اور ہمارا اندرونہ ہمیشہ صاف رہے اور ہم اُن خصوصیات کے حامل بنیں جو عبادالرحمن بننے کے لئے ضروری ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی دائی جنتوں کا وارث بنائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 42 مورخہ 16 اکتوبر تا122اکتوبر 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 462 (40) خطبہ جمعہ فرموده 2 اکتوبر 2009 فرمودہ مورخہ 02/اکتوبر 2009ء بمطابق 02 را خاء 1388 ہجری کسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ.إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لَّا تَشْعُرُونَ.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأَمْوَالِ وَالاَ نُفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.(البقرة: 158-154) یہ آیات جومیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے اُن مومنوں کا نقشہ کھینچا ہے جو جب کسی ابتلا یا امتحان میں پڑتے ہیں تو ان کا ایمان کبھی ڈانواڈول نہیں ہوتا.بلکہ ابتلاؤں کے ساتھ ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور پہلے سے زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں.ان آیات کا میں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں.فرمایا کہ: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مر دے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیدے.ان لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں.جیسا کہ پہلی آیت سے ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صبر اور صلوٰۃ کی تلقین فرمائی ہے.گویا یہ دو خصوصیات ایسی ہیں جو ایک مومن میں ہونی چاہئیں اور خاص طور پر ان کا اظہار مشکلات کے وقت یا ابتلا کے وقت ہونا چاہئے یہ بظاہر مختصر الفاظ ہیں لیکن اس کے وسیع معانی ہیں.صبر کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ انسان تکلیف پہنچنے پر شکووں اور رونے دھونے سے بچے اور ابتلا کو اگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو بغیر کسی شکوے اور شکایت کے برداشت کرے.کیونکہ یہ شکوے اور کسی نقصان پر رونا جذباتی حالت میں بعض دفعہ ایسے فقرات منہ سے نکلوادیتا ہے جو خدا تعالیٰ سے شکوہ اور کفر بن جاتے ہیں.
463 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ثبات قدم دکھاؤ ، ثابت قدمی دکھاؤ.تیسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ان پر عمل کرو.اور پھر اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نواہی سے بچاؤ.جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بچاؤ.پس صبر میں دو ذرائع استعمال کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ برداشت، ہمت اور حوصلہ رکھتے ہوئے ہر تکلیف اور مشکل اور امتحان پر ثابت قدم رہو.تمہارے قدموں میں کبھی کوئی لغزش نہ آئے.تمہارے ایمان میں لغزش نہ آئے.اور دوسرے یہ کہ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی ہیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار و اور خدا تعالیٰ کے آگے جھکے رہو.اور پھر صبر کے ساتھ ہی صلوۃ کا لفظ استعمال کر کے دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی مزید تلقین فرمائی.مختلف لغات میں صلوۃ کے جو معنے لئے گئے ہیں ان کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نماز کی طرف توجہ کرو، نماز کے علاوہ بھی دعاؤں پر زور دو.دین پر مضبوطی سے قائم رہو.استغفار کی طرف توجہ کرو.ذکر الہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ کرو.آنحضرت ﷺ پر درود بھیجو.پس اس آیت میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ خوبی بیان فرما دی کہ ہمیشہ ابتلا اور مشکلات میں کامل صبر اور حو صلے سے تکالیف کے دور کو برداشت کرو.کسی حالت میں بھی تمہارے نیک اعمال بجالانے اور اعلیٰ خلق کے اظہار میں کمی نہ آئے.اور نمازوں اور دعاؤں اور ذکر الہی اور درود شریف پڑھنے کی طرف اس تکلیف کے دور میں ، ابتلاء کے دور میں زیادہ توجہ دو اور اس سوچ اور عمل کے ساتھ جب تم خدا تعالیٰ کی مدد مانگو گے اور اس پر استقلال سے قائم رہو گے، مستقل مزاجی دکھاؤ گے تو پھر ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ ابتلاؤں کا دور جو عارضی ہے تمہیں کا میابیوں اور فتوحات سے ہمکنار کرے گا.ایک مومن کا آخری سہارا تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے.یا تو کوئی احمدی، نعوذ باللہ ، یہ کہے کہ میں خدا کو نہیں مانتا اور یہ ہو نہیں سکتا.کیونکہ جہاں خدا تعالیٰ پر ایمان کمزور ہوا وہاں وہ احمدی ، احمدی ہی نہیں رہتا.خود احمدیت ختم ہو جاتی ہے، اسلام اس کے دل سے نکل جاتا ہے.پس جب ایک احمدی مسلمان کا خدا تعالیٰ پر ایمان بالغیب ہے تو اس بات پر بھی کامل یقین ہونا چاہئے کہ میرا ہر حال میں سہارا خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے.پس ابتلاؤں اور امتحانوں میں جو دشمن کی طرف سے مختلف طریقوں سے ہم پر آتے ہیں، عظمندی کا تقاضا بھی ہے اور ایمان کا بھی یہی تقاضا ہے کہ پھر اس ہستی سے تعلق میں پہلے سے زیادہ بڑھیں جو جائے پناہ بھی ہے اور ان ابتلاؤں اور امتحانوں سے نجات دلانے والی بھی ہے.اور جب ابتلاؤں میں صبر اور دعاؤں میں ایک خاص رنگ رکھ کر ہم خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں گے تو وہ جو سب پیار کرنے والوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، جو اس ماں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو اپنے بچے کی ہر تکلیف کو اس کی محبت سے مغلوب ہو کر دور کرنے کی کوشش کرتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں یہ کہہ کر کہ اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ میں تو یقینا تمہاری مددکروں گا جو صبر کرنے والے
464 خطبہ جمعہ فرموده 2 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہوں گے.ان لوگوں کی مدد کروں گا جو صبر کرنے والے اور دعا مانگنے والے ہیں.لیکن اگر تم میری مدد چاہتے ہو تو تمہیں بھی استقلال کے ساتھ میری بندگی کا حق ادا کرنا ہوگا اور بندگی کا حق اسی طرح ادا ہو گا جس طرح کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ابتلاؤں میں اپنے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آنے دو اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاؤ.یہ آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے.جیسا کہ میں گزشتہ خطبات میں بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ پاکستان میں بھی اور بعض عرب ممالک میں بھی اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں بھی احمدیوں پر بعض سخت حالات آئے ہوئے ہیں یا ان کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں.پاکستان جیسے حالات تو کہیں بھی نہیں وہاں تو بہت زیادہ حالات بگڑ رہے ہیں.پاکستان میں بعض جگہ ظلموں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے.آئے دن مولوی کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اور حکومت بھی ان کا ساتھ دے رہی ہے.یا بعض جگہوں پر حکومت کے کارندے یا افسران جو ہیں افراد جماعت پر سختیاں کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے.دوسرے ملکوں میں بھی احمدیوں پر بعض جگہوں میں جمعہ اور نمازیں پڑھنے پر پابندی ہے.حکومتی ایجنسیوں کی طرف سے بلا کے کہا جاتا ہے کہ تم نے نمازیں نہیں پڑھنی اور جمعہ نہیں پڑھنا، جمع نہیں ہونا.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے حالات میں پہلے سے بڑھ کر ایمان میں مضبوطی پیدا کر و اور یہ مضبوطی پیدا کرتے ہوئے ظاہری اعمال کو بھی بہتر کرو اور عبادتوں کے معیار بھی بہتر کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خدا تعالیٰ تمہاری مدد کے لئے آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے“.( یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے خود پاک ہونا بھی ضروری ہے.فرمایا کہ نگر تم اس نعمت کو کیونکر پا سکو.اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو.نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ سے پابند نہ رہو وہ لوگ جو عربی نہیں جانتے ان کو فرمایا کہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں.کیوں؟ فرماتے ہیں کہ ”جب تم نماز پڑھوتو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے.باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 68-69)
465 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اپنی زبان میں دعا کرو گے تو دل سے جو الفاظ نکل رہے ہوں گے اس میں اسی سے تضرع پیدا ہو گا اور وہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہوں گے.پس دعاؤں میں ایک خاص اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور جب یہ اضطراب پیدا ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اپنے بندے کے حق میں بہتر رنگ میں دعا قبول فرماتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ (النمل: 63 ) کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے ، جب وہ اس سے یعنی خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور وہ تم اور تمام دعا کرنے والے لوگوں کو ایک دن زمین کا وارث بنا دے گا.پس جو دعائیں ایک خاص حالت میں اور اضطراب سے کی جائیں وہ ایک ایسا رنگ لانے والی دعائیں ہوتی ہیں جو دنیا میں انقلاب برپا کر دیا کرتی ہیں اور جن کو خدا تعالیٰ کے راستہ میں امتحانوں اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑ رہا ہو ان سے زیادہ خدا تعالیٰ کو کون پیارا ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لئے ساری تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ تم صبر اور دعا سے ان ابتلاؤں کو برداشت کرتے چلے جاؤ.ایک دن تم ہی زمین کے وارث کئے جانے والے ہو.پس آجکل کے یہ امتحان جن سے احمدی گزر رہے ہیں، جیسا کہ میں نے بتایا پاکستان میں خاص طور پر، یہ قربانیاں جو کر رہے ہیں یہ ضائع جانے والی نہیں ہیں.یہ قربانیاں جو احمدی کر رہے ہیں یہ آج نہیں تو کل انشاء اللہ ایک رنگ لانے والی ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شکوہ کے اللہ تعالیٰ سے مد ما نگتے ہوئے ان امتحانوں سے گزرتے چلے جائیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ابتلا اور امتحانوں میں سے گزرنے والے کی انتہا یہ ہے کہ جان تک کی قربانی بھی کی جاسکتی ہے.لیکن یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو لوگ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں ان کا جانیں قربان کرنا ایک عام آدمی کے قتل ہونے کی طرح قتل نہیں ہے.اسلام کے ابتدائی دور میں تو جب جنگیں نہیں ہو رہی تھیں اس وقت بھی قربانیوں کی بے انتہاء مثالیں نظر آتی ہیں اور پھر جب دوسرا دور آیا، جب مسلمانوں پر جنگیں ٹھونسی گئیں، اس وقت بھی مومنوں کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن میں جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے اور ہر دو طرح سے جو قتل ہوئے ، مسلمانوں کے قتل ہونے والے لوگ جو تھے انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کی بقا کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے.توحید کے قیام کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے.اور خدا تعالیٰ نے پھر ان کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو جو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں.کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے مقصد کی خاطر قربانی دی ہے.خدا تعالیٰ کے ہاں جہاں ان جانیں قربان کرنے والوں کے اجر ہر آن بڑھتے چلے جاتے ہیں وہاں مومنین کی جماعت ان کی قربانیوں کو یاد کر کے ان کے ناموں کو زندہ
466 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 رکھنا چاہئے کیونکہ ان شہداء کے ناموں کو زندہ رکھنا جماعت مومنین کی زندگی کی بھی ضمانت بن جاتا ہے.ان مثالوں کو سامنے رکھ کر پھر دوسرے مومن جو ہیں وہ بھی دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں کہ کس طرح قربانیاں کرنے والوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور جس قوم میں قوم کی خاطر جان دینے والے موجود ہوں وہ قو میں پھر مرا نہیں کرتیں اور پھر جو خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر جانیں قربان کرنے والے ہوں ان کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کی خاص تائیدات ہوتی ہیں.آج مسیح موعود کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا تو خاتمہ ہے تو کیا خدا تعالیٰ کی راہ میں اب کوئی قتل نہیں ہوتا جو مرنے کے بعد خود بھی ہمیشہ کی زندگی پائے اور مومنین کی زندگی کے بھی سامان کرے.جب آخرین نے اولین سے ملنے کے معیار قائم کرنے تھے.تو یقیناً خدا تعالیٰ کی راہ میں جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنے تھے.پس ان آخرین نے جنہوں نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی جانیں قربان کرنے کے نمونے دکھائے سرزمین کابل میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور جانوں کے نذرانے پیش کر کے دائمی زندگی کے راستے ہمیں دکھائے اور اس کے بعد آج تک افراد جماعت خدا تعالیٰ کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے نمونے قائم کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہر شہید احمدی کے خون کا ہر قطرہ جہاں ان کی اُخروی زندگی میں ان کے درجات کو بلند کرتا چلا جارہا ہے وہاں جماعتی زندگی کے بھی سامان پیدا کرتا چلا جارہا ہے.پس اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس سے جماعتی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں، یا ایمانوں کو کمزور کر رہے ہیں تو یہ دشمن کی بھول ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شعور نہیں رکھتے.جو سطحی نظر سے دیکھنے والے ہیں ان کو اس بات کا فہم ہی نہیں ہے کہ جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کیا ہے وہ مالی اور جانی نقصان سے رکنے والا نہیں.اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آخر کا راسی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہے.پس آج بھی جماعت کی خاطر دی جانے والی ہر شہادت جماعت کے ہر فرد، مرد ، عورت، بچے، بوڑھے میں ایک نئی روح پھونکتی ہے.ہر شہادت کے بعد افراد جماعت کی طرف سے جوئیں خط وصول کرتا ہوں ان میں اخلاص و وفا اور قربانیوں کو پیش کرنے کے لئے نئے انداز پیش کئے جاتے ہیں.ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے.پس مخالفین کا یہ خام خیال ہے کہ ان کے احمدیوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے سے احمدی اپنے ایمان سے پھر جائیں گے.نہیں، بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہر امتحان ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتا ہے.اگر ان مخالفین کے خیال میں وہ اس مخالفت کی وجہ سے احمدیت کو ختم کر دیں گے تو یہ بھی ان کی خام خیالی ہے.جماعت کو تو
خطبات مسرور جلد ہفتم 467 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 بعض قوانین کی وجہ سے پاکستان میں یا بعض ملکوں میں تبلیغ کی پابندی ہے لیکن جماعت کی مخالفت میں رونما ہونے والے واقعات ہماری تبلیغ کے راستے خود بخود کھول دیتے ہیں اور کئی لوگ پاکستان سے بھی ، دوسرے عرب ممالک سے بھی براہ راست یہاں خط لکھ کر بیعت کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں.پس یہ مخالفتیں بھی ہمیں ترقیات کی طرف لے جانے والی ہیں.یہ مخالفین چند جانوں کو تو ختم کر سکتے ہیں، مالوں کو تو لوٹ سکتے ہیں ، ہماری عمارتوں کو تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ہماری مسجدوں کی تعمیر تو رکوا سکتے ہیں لیکن ہمارے ایمانوں کو کبھی کمزور نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ امتحان اور ابتلا اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اگلی آیت میں تمام قسم کے نقصانوں کا تفصیل سے ذکر کر کے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے.فرمایا تمہیں خوف سے بھی آزمائیں گے.اگر تم صبر اور دعا سے اس خوف کی آزمائش سے گزر گئے تو تمہیں خوشخبری ہو کہ تم انعامات کے وارث بننے والے ہو اور خوف کس قسم کے ہیں؟ ہر وقت دشمن کے حملوں کا بھی خوف ہے.مولویوں کی شرارتوں کا بھی خوف ہے.ذراسی بات پہ مقدمات ہونے کا بھی خوف ہے.حکومتوں کے قوانین کا خوف ہے.حکومتی افسران کی دھمکیوں کا خوف ہے.لیکن مومن کسی قسم کے جتھوں، پارلیمنٹوں کے فیصلوں سے ڈر کریا جو خوف میں نے بتائے ہیں ان سے کسی قسم کا خوف کھا کر اپنے ایمان کو نہ ضائع کرتے ہیں نہ ان میں کمزوری پیدا کرتے ہیں.پھر بھوک کے ذریعہ سے آزمانا ہے، جیسا کہ وسیع پیمانے پر اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، اب بھی انکا دُکا واقعات ہوتے رہتے ہیں.لیکن 1974ء میں جماعت کے خلاف جو حالات پیدا کئے گئے تھے اور اس میں احمدیوں پر سختیاں کی گئی تھیں کہ نہ کسی کو یہ اجازت تھی کہ احمدی گھروں تک کھانے پینے کا سامان پہنچا سکے اور نہ احمدیوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت تھی کہ بازار سے جا کر کھانے پینے کا سامان لے لیں اور اگر نکل ہی جائیں تو پھر دکانداروں پر پابندی تھی کہ ان کو کسی قسم کی کھانے پینے کی چیز نہیں دینی.پھر مالوں کا لوٹنا ہے، آجکل بھی احمدیوں کے مالوں پر قبضہ کرنے اور ان کو ہڑپ کرنے کی جو بھی کوششیں ہو سکتی ہیں کی جاتی ہیں.اور اگر کوئی احمدی اپنے مال کو حاصل کرنے کے لئے قانونی طور پر کوشش کرے تو بعض دفعہ ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں، کہہ دیتے ہیں کہ قادیانی ہے اور اس نام سے ہی کہ یہ قادیانی ہے یا احمدی ، بعض انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے لوگ جو ہیں یا انتظامی افسران بھی جو ہیں وہ احمدیوں کی داد رسی نہیں کرتے.جماعتی طور پر بھی 1974ء میں ربوہ کی زمین کا ایک حصہ حکومت نے مولویوں کے سپرد کر دیا، قبضہ دلوا دیا جہاں آجکل مسلم کالونی آباد ہے اور کچھ عرصہ پہلے جماعت کی زرعی زمین جوٹی آئی کالج کے نئے کیمپس کے ساتھ تھی ، اور بوہ کی ایک اوپن
خطبات مسرور جلد ہفتم 468 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 پلیس (Open space) جو دار النصر میں ہے اس پر بھی حکومت نے یہ فیصلہ کر کے کہ یہ ہماری جگہ ہے نا جائز قبضہ کر لیا.پھر اولا دوں اور جانوں کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے.بچوں کے تعلیمی کیریئر جو ہیں وہ برباد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.سکولوں میں بچوں کو اس طرح تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ بچہ بے دل ہو کر سکول ہی نہ جائے.کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد میں میڈیکل کالج میں یہی ہوا تھا کہ طلباء کو پڑھائی سے روکا گیا.لیہ میں جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ چار بچوں پر ظلم کرتے ہوئے انہیں جیل میں ڈالا گیا.اگر ان کے والدین بچوں کے احمدیت سے توبہ کا اعلان کر دیتے تو وہی مقدمہ جو مولویوں نے ہتک رسول کا ان بچوں کے خلاف بنوایا تھا فوری طور پر بدل جاتا.کیونکہ وہ یہی چاہتے تھے کہ احمدی کسی طرح خوف سے اپنے ایمان سے پھر جائیں.تو یہ ان لوگوں کی چالیں ہیں کہ احمدیوں کو ہر قسم کے ابتلاؤں سے گزار کر احمدیت سے ہٹایا جائے.لیکن نہیں جانتے کہ احمدی تو حقیقی مسلمان ہیں اور قرآن کریم میں لکھے ہوئے ہر ہر حرف پر یقین رکھتے ہیں.انہیں تو پہلے ہی خدا تعالیٰ نے فرما دیا تھا کہ ان ذرائع سے آزمایا جائے گا.پس ثابت قدم رہنا اور انجام کا انتظار کرنا اور ہر مصیبت پر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنا یعنی ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، یہی احمدی کا وطیرہ ہے.یہ جو دکھ دیئے جاتے ہیں یا دئیے جائیں گے ان پر صبر ہی ہے جو احمدی نے ہر وقت دکھانا ہے.اور صبر یہی ہے کہ دکھ محسوس تو بے شک کر ولیکن اس دُکھ کی وجہ سے اپنے ہوش و حواس کبھی نہ کھونا.شکوے شکائیتیں کبھی نہ کرنا.بلکہ ہر نقصان پر ہر ابتلا پر خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھنی ہے.اس یقین پر قائم ہونا ہے کہ بے شک یہ بتلایا امتحان ہے لیکن عارضی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں میرے حق میں انشاء اللہ تعالیٰ بہتر ہی کرے گا.ہر قسم کے نقصان پر یہ سوچ رکھنی ہے کہ میری جان بھی، میری اولاد بھی، میرا مال بھی اور میری جائیداد بھی اس دنیا کی عارضی چیزیں ہیں اور اگر یہ خدا تعالیٰ کی خاطر قربان کی جارہی ہیں تو میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا پہلے سے بڑھ کر وارث بننے والا ہوں.جب انسان إِنَّا لِلَّهِ کہتا ہے تو اس یقین پر کامل طور پر قائم ہونا چاہئے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور جو ہمارے مال، اولاد ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کے ہیں.پس اگر وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمتیں جو اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں وہ واپس لے لے تو اس پر ہمیں کسی قسم کا جزع فزع کرنے اور رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ وہ یہ کہتے ہیں وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یعنی ہم بھی اسی کی طرف جانے والے ہیں.اور جب ہم اسی کی طرف جانے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اخروی زندگی میں اس دنیا سے بہتر سامان ملنے والے ہیں.پس جب ایک مومن کی یہ سوچ ہوتی ہے تو دنیاوی نقصانات جو اسے کسی وجہ سے پہنچ رہے ہوں اس کے لئے عارضی افسوس کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن زندگی کا روگ نہیں بن جایا کرتے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 469 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”تم مومن ہونے کی حالت میں ابتلا کو بُرا نہ جانو اور بُرا وہی جانے گا جو مومن کامل نہیں ہے.قرآن شریف فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمُ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الامْوَالِ وَالا نُفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کبھی تم کو مال سے یا جان سے یا اولا دیا کھیتوں وغیرہ کے نقصان سے آزمایا کریں گے.مگر جو ایسے وقتوں میں صبر کرتے اور شاکر رہتے ہیں تو ان لوگوں کو بشارت دو کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کشادہ اور ان پر خدا کی برکتیں ہوں گی جو ایسے وقتوں میں کہتے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یعنی ہم اور ہمارے متعلق کل اشیاء یہ سب خدا ہی کی طرف سے ہیں اور پھر آخر کار ان کا لوٹنا خدا ہی کی طرف ہے.کسی قسم کے نقصان کا غم ان کے دل کو نہیں کھاتا اور وہ لوگ مقام رضا میں بود و باش رکھتے ہیں“.(اللہ تعالیٰ کی رضا میں خوش رہتے ہیں اور اسی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور رہتے ہیں.ایسے لوگ صابر ہوتے ہیں اور صابروں کے واسطے خدا نے بے حساب اجر رکھے ہوئے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 150 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ رد عمل ہے جو ہر احمدی کا ہونا چاہئے اور جس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک افراد جماعت نے اظہار کیا ہے اور یہی رد عمل ہماری ترقی کی علامت ہے.اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے.بیشک یہ ہمارا فرض ہے کہ امتحانوں اور ابتلاؤں سے بچنے کی دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہوا ہے.لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصیبت اور امتحان آ جائے تو پھر ثبات قدم بڑی اہم شرط ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجر حاصل کرنے والا بنائے گی.یہ بیان کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت کا رتبہ پانے والے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں.صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبریاں ہیں اور بہت خوشخبریاں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی خوشیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کر دیا ہے.مامورین کو اور ان کی جماعتوں کو جو مشکلات آتی ہیں اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : ” کوئی مامور نہیں آتا جس پر ابتلا نہ آئے ہوں.مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو قید کیا گیا اور کیا کیا اذیت دی گئی.موسی“ کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ آنحضرت ﷺ کا محاصرہ کیا گیا.مگر بات یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہوتی ہے.(یعنی ساری تکلیفوں کا جو انجام ہے وہ بہتر ہوتا ہے ).اگر خدا کی سنت یہ ہوتی کہ مامورین کی زندگی ایک مہم اور آرام کی ہو اور اس کی جماعت پلاؤ زردے وغیرہ کھاتی رہے تو پھر اور دنیا داروں میں اور ان میں کیا فرق ہوتا“.( اگر آرام اور صرف نعمتوں والی آسائش والی زندگی ہوتی اور کوئی تکلیفیں نہ برداشت کرنی ہوتیں تو فرمایا کہ پھر دنیادار میں اور الہی جماعت میں فرق کیا رہ گیا ).
خطبات مسرور جلد هفتم 470 خطبہ جمعہ فرموده 2 اکتوبر 2009 فرماتے ہیں: ”پلاؤ زردے کھا کر حمد اللہ وشکر اللہ کہنا آسان ہے.اگر آسانیاں ہی آسانیاں ہوں.کھانے پینے کو ملتا جائے تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا بڑا آسان ہے اور ہر ایک بے تکلف کہ سکتا ہے لیکن بات یہ ہے جب مصیبت میں بھی وہ اسی دل سے کہے“.(اصل بات یہ ہے کہ جب مشکلات آتی ہیں تب بھی اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر جو ہے وہ اسی دل اور شوق اور جذبے سے ہونا چاہئے جیسا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ملنے پر ہوتا ہے.فرمایا " مامورین اور ان کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں.ہلاکت کا خوف ہوتا ہے.طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں كَذَّبُوا کے یہی معنے ہیں.دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتا ہے.کیونکہ جو کچے ہوتے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہوتا ہے.جب مصائب آئیں تو وہ الگ ہو جاتے ہیں“.( یہ کمزور ایمان والے میں اور پکے میں امتحان ہے.جب مشکلیں آتی ہیں تو پھر ان کے قدم رک جاتے ہیں.لیکن جو مضبوط ایمان والے ہوتے ہیں وہ مشکلوں میں بھی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.فرمایا کہ ”میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہو تو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا.خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے.جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یعنی ہر ایک قسم کی مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت اختیار کرتے ہیں.خوشی کے ایام اگر چہ دیکھنے کو لذیذ ہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا.رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے“.( زیادہ آسائشوں میں اور رنگ رلیوں میں رہو تو اللہ تعالیٰ سے رشتہ ختم ہو جاتا ہے ).خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے“.(اس ابتلا سے بندے کی جو عظمت ہے، بڑائی ہے ، اس کے ایمان کی مضبوطی ہے وہ ظاہر ہوتی ہے ).مثلاً کسری اگر آنحضرت ﷺ کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات مارا گیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو فَتَحْنَالَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (الفتح 02) کی آواز کیسے سنائی دیتی.ہر ایک معجزہ ابتلاء سے وابستہ ہے.غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے.کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے حالانکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے.اس لئے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں“.ا ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 587-586 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی جانیں دیتے ہیں ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو خوشخبریاں دیتا ہے.جو آستیں میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا پھر اعادہ فرمایا.پھر اسی بات کو دوہرایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور
471 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم رحمتوں کے وارث بن جائیں وہی لوگ حقیقی ہدایت یافتہ ہیں.کیونکہ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اس لئے برکتیں اور مغفرت ترجمہ ہوگا.یعنی صبر اور دعا کا مظاہرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور مغفرتوں کے ایسے نظارے دیکھیں گے جو اُن کے روحانی مدارج بلند کرنے والے ہوں گے.صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِمُ کہ اللہ تعالیٰ کوئی دعائیں نہیں دے رہا.بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو مغفرت اور رحمتیں پہنچ رہی ہیں.اور جب رحمتیں اور برکتیں پہنچ رہی ہوں تو ایسے لوگوں کے روحانی مدارج جو ہیں بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی ان کے شامل حال رہے گی.ایسے لوگوں کے دنیاوی نقصانات بھی خدا تعالیٰ پورے فرما دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں.جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے والے کسی احمدی کے ہاتھ میں مخالفین نے اپنی خواہش کے مطابق کبھی کشکول نہیں پکڑایا نہ پکڑا سکے.بلکہ کشکول انہی کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے احمدیوں کو تکلیفیں پہنچائی ہیں اور آئین اور قانون کی اغراض کی خاطر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ کی اس واضح تائید کے بعد بھی ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور یا سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر کوئی کچھ نہیں کر سکتا.ہم تو دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے.پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت ، مغفرت اور برکت کو حاصل کرنے والا ہو، وہی حقیقی ہدایت یافتہ ہے اور اس وجہ سے، ہدایت پانے کی وجہ سے پھر ہدایت میں ترقی کرتے چلے جانے والا ہے اور ایسے لوگ کیونکہ مشکلات اور مصائب میں صبر اور دعا سے کام بھی لے رہے ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت بھی فرماتا چلا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی لقاء کے نئے راستے انہیں دکھائے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے ہر احمدی کو مشکلات سے بچائے.لیکن اگر الہی تقدیر کے مطابق کسی کو امتحان میں سے گزرنا ہی پڑ جائے تو اللہ تعالیٰ صبر اور دعا کے ساتھ اس سے گزرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور ہمیشہ ہماری راہنمائی بھی فرما تار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” جب میں آپ کی ان تکلیفوں کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ان کریمانہ قدرتوں کو جن کو میں نے بذات خود آزمایا ہے اور جو میرے پر وارد ہو چکی ہیں تو مجھے بالکل اضطراب نہیں ہوتا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خداوند کریم قادر مطلق ہے اور بڑے بڑے مصائب شدائد سے مخلصی بخشتا ہے.اور جس کی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہے ضرور اس پر مصائب نازل کرتا ہے تا اسے معلوم ہو جاوے کہ کیونکر وہ نومیدی سے امید پیدا کر سکتا ہے.غرض فی الحقیقت وہ نہایت ہی قادر وکریم و رحیم ہے“.مکتوبات جلد دوم صفحہ 27 مکتوب نمبر 15 بنام حضرت خلیفہ اول مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ )
خطبات مسرور جلد هفتم 472 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 ان ابتلاؤں سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُور ہو گئے.اس ابتلاء میں بھی وہ کریم اور رحیم ہے).پھر آپ فرماتے ہیں گو کیسے عوارض شدیدہ ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل کی راہیں ہمیشہ کھلی ہیں.اس کی رحمت کا امید وار رہنا چاہئے.ہاں اس وقت اضطراب میں تو بہ واستغفار کی بہت ضرورت ہے.یہ ایک نکتہ یا درکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص کسی بلا کے نزول کے وقت میں کسی ایسے عیب اور گناہ کو تو بہ نصوح کے طور پر ترک کر دیتا ہے جس کا ایسی جلدی سے ترک کرنا ہرگز اس کے ارادہ میں نہ تھا.تو یہ عمل اس کے لئے کفارہ عظیم ہو جاتا ہے“.( اگر کوئی بلا آئے کوئی مصیبتیں آئیں، کوئی امتحان آئیں تو اس وجہ سے اگر کوئی اپنی کسی برائی کو چھوڑتا ہے، کسی گناہ کو ترک کرتا ہے اور اس سے سبق حاصل کرتا ہے تو فرمایا کہ پھر اس کے لئے یہ ایک کفارہ عظیم بن جاتا ہے اور اس کے سینہ کے کھلنے کے ساتھ ہی اس بلا کی تاریکی کھل جاتی ہے اور روشنی امید کی پیدا ہو جاتی ہے.مکتوبات جلد دوم صفحہ 98 مکتوب نمبر 63 بنام حضرت خلیفہ اول - مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ) اور جب ایسا ہوتا ہے تو جہاں انسان کا سینہ کھلتا ہے ان بلاؤں کی وجہ سے جواند ھیرا پھیلا ہوا ہے وہ بھی روشنی میں بدل جاتا ہے اور روشنی کی امید پیدا ہو جاتی ہے.پس جیسا کہ میں نے بتایا آجکل بھی جو حالات ہیں ان میں افراد جماعت کو دنیا میں ہر جگہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اپنی غلطیوں پر نظر رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کا وصال حاصل کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے.انفرادی کوششیں ہی ہیں جو جب ہر فرد جماعت کرتا ہے تو وہ جماعتی دھارے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور یہ اکٹھی ہو کر جمع ہو کر جب آسمان کی طرف جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کو کھینچ کر لاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہر فرد جماعت کو اس روح کے ساتھ خاص دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ جس طرف حالات جارہے ہیں لگتا ہے کہ احمدیوں کو پاکستان میں خاص طور پر ابھی مزید امتحانوں میں سے گزرنا پڑے گا.یہ سمجھتے ہیں کہ احمدی آسان ٹارگٹ ہیں اس لئے اس ذریعہ سے ہم جو ملک میں دوسری افرا تفری ہے ختم کر کے توجہ صرف احمدیوں کی طرف پھیر دیں تو مسائل حل ہو جائیں گے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ان بیوقوفوں کو نہیں پتہ کہ وہ احمد یوں کو نقصان نہیں پہنچا رہے بلکہ لاشعوری طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر جو ملک کو توڑنا چاہتے ہیں ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں.پس پاکستان کے لئے بھی بہت زیادہ دعا کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.آج میں پھر ایک شہید کا جنازہ پڑھاؤں گا جنہیں گزشتہ دنوں شہید کیا گیا.ان کا نام محمد اعظم طاہر صاحب ہے.اوچ شریف کے رہنے والے ہیں ، ان کے والد کا نام حکیم محمد افضل صاحب ہے.26 ستمبر کو ان کو شہید کیا گیا انا
473 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ اپنے بھائی کے گھر سے ، ان کے کسی بچے کی شادی میں شامل ہو کر ساڑھے آٹھ بجے کے وقت اپنی بیٹی اور بچوں کے ہمراہ آ رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ پر جہاں آبادی کم تھی دو افراد نے انہیں پستول دکھا کر روکا.بیٹی اور بچے زمین پر گر گئے اور موٹر سائیکل کا بیلنس نہیں رہا.یہ بچوں کو اٹھانے کے لئے جب آگے بڑھے ہیں تو پھر حملہ آوران کے بہت زیادہ قریب آگئے اور پستول ان کی کنپٹی پر رکھ دیا.انہوں نے کہا جو تم نے لینا ہے وہ لے لو اور جان چھوڑو.لیکن انہوں نے وہیں ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کیا اور وہ شہید ہو گئے.یہ طب کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے حکمت پڑھی تھی اور اپنی آبادی میں جہاں یہ پریکٹس کرتے تھے کافی ہر دلعزیز تھے.موصی بھی تھے.51 سال ان کی عمر تھی ، بڑے خوش اخلاق ملنسار جماعت کے مخلص کارکن ، اطاعت کرنے والے، مہمان نوازی کرنے والے، دعاؤں اور نمازوں کی بڑی پابندی کرنے والے.آجکل بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق پا رہے تھے.ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو یادگار ہیں.اسی طرح ان کے پانچ بھائی اور بہنیں ہیں اور ان کے ایک بھائی مربی سلسلہ بھی ہیں.والد بھی ان کے حیات ہیں.اللہ تعالیٰ شہید کے بیوی بچوں اور والدین کو صبر اور دعا کے ساتھ یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے پیارے اور ہمارے پیارے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو رہے ہیں ان کی وجہ سے ہم میں سے ہر ایک کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہوتی رہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے.دو اور شہید بھی ہیں جو جماعتی وجہ سے تو نہیں لیکن دہشت گردی جو آج کل ملک میں عام ہے اور جیسا کہ میں نے کہا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ملک کو دولخت کرنے کی طرف یہ لوگ جا رہے ہیں، پھاڑنے کی طرف یہ لوگ جا رہے ہیں.اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں.یہ دو شہید.ایک ریاض احمد صاحب اور امتیاز احمد صاحب.دونوں بھائی تھے، پشاور میں پچھلے دنوں میں بنک کے قریب بم دھما کہ ہوا ہے یہ لوگ سڑک سے گزر رہے تھے تو اس کی زد میں آگئے اور وہیں ان کی موقع پر ہی وفات ہو گئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ایک کی عمر 40 سال تھی ، ان کی شادی ہوئی ہے اور ان کے دو بچے ہیں اور جو دوسرا بھائی تھا ابھی 20 سال کا تھا.ان کا بھی شہید کے جنازے کے ساتھ ابھی جمعہ کے بعد جنازہ پڑھاؤں گا.اسی طرح ایک جنازہ اور ہے جو یہاں یو کے، کے سابق نیشنل صدر اور امیر جماعت چوہدری انور کاہلوں صاحب کا ہے جن کی 27 ستمبر کو وفات ہوئی ہے.آپ لمبا عرصہ یہاں یو کے میں رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا نیشنل پریذیڈنٹ بھی رہے اور جماعت کے امیر بھی رہے.صدر قضاء بورڈ ( یو کے ) بھی رہے.پہلے یہ ڈھا کہ میں تھے لیکن اس سے پہلے کلکتہ میں تھے وہاں بھی امیر رہے ہیں.پھر ڈھا کہ میں امیر رہے ہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن کے ممبر بھی تھے.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا.یہ ان کے سیکرٹری کے طور پر مختلف سفروں
474 خطبه جمعه فرموده 2 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم میں ان کے ساتھ جاتے رہے اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع جب 1984 ء میں یہاں آئے ہیں تو اس وقت قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پر نظر ثانی کے لئے آپ نے جو ٹیم بنائی تھی اس میں ان کو بھی شامل کیا تھا.خلافت سے ان کا وفا کا تعلق تھا اور واقفین زندگی اور مبلغین کی بہت عزت و احترام کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے.رحمت کا سلوک فرمائے.ایک جنازہ اور ہے جو ہماری ایک عزیزہ ہیں منصورہ وہاب صاحبہ کا ہے.یہ مولوی عبدالوہاب آدم صاحب جو گھا نین ہیں اور جامعہ احمد یہ ربوہ سے پڑھے ہوئے ہیں جو شروع کا Batch تھا.ابتدائی مبلغین میں سے ہیں جو افریقہ سے وہاں پڑھنے گئے تھے.ان کی بیٹی ہیں.عبدالوہاب صاحب آجکل گھانا کے امیر اور مشنری انچارج ہیں.یہ محمد بید وصاحب کی اہلیہ تھیں.ان کو گردے کی تکلیف ہوئی.جس کی وجہ سے بیمار چلی آرہی تھیں.چند دن پہلے ان کے گردے کا ٹرانسپلانٹ کا انتظام بھی ہو گیا تھا.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہی تھی.28 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کا جنازہ بھی ساتھ ہی ہوگا.اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے اور ان کے والدین کوصبر کی تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 43 مورخہ 23 تا 29 اکتوبر 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 475 (41) خطبہ جمعہ فرمودہ 19اکتوبر 2009 فرمودہ مورخہ 09 اکتوبر 2009ء بمطابق 09 را خاء 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قوی ہونے کا قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر آتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ قوی ہے.انسانوں کے لئے تو قوی کے عام معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جسمانی اور عقلی طور پر طاقت رکھنا.کسی کام کو کرنے کی طاقت رکھنا، علمی طور پر مضبوط دلیل رکھنے والا لیکن خدا تعالیٰ کے بارے میں جب ہم قوی کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تمام طرح کی طاقت رکھنے والا ، ہر قسم کی طاقت رکھنے والا جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.وہ سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے اور طاقتوں کا مالک ہے.اپنی مخلوق کو بھی بعض قسم کی طاقتیں دے کر ان حدود کے اندر قوی بنا دیتا ہے.قرآن کریم میں جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ نے اپنی صفت کا مختلف حوالوں سے ذکر فرمایا ہے اور جہاں بھی ذکر فرمایا ہے یا تو تنبیہ کرتے ہوئے یا بد انجام سے ڈراتے ہوئے یا بد انجام کے بارہ میں بتاتے ہوئے.یا ان لوگوں کے انجام کا ذکر ہے جو خدا تعالیٰ کی باتوں پر کان نہیں دھرتے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوئے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتوں والا اور قوی سمجھنے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں.سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کے غیر اور مشرکین یا بتوں کی عبادت کرنے والے جو ہیں ان کو تنبیہ کی ہے کہ یہ شرک عذاب کا مورد بنائے گا.لیکن اس میں ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر چیز پر حاوی کر لیتے ہیں.سورۃ بقرہ کی 166 ویں آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ.وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ.وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً وَّاَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (البقرة : 166) اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مقابل پر شریک بنا لیتے ہیں.وہ ان سے اللہ سے محبت کرنے کی طرح محبت کرتے ہیں.جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کی محبت میں ( ہر محبت سے ) زیادہ شدید ہیں.اور کاش ! وہ (لوگ) جنہوں نے ظلم کیا سمجھ سکیں جب وہ عذاب دیکھیں گے کہ تمام تر قوت ( ہمیشہ سے اللہ ہی کی ہے اور یہ کہ اللہ عذاب میں بہت سخت ہے.
476 خطبہ جمعہ فرمودہ 9اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اس میں پہلی بات تو یہ بتائی کہ انسان کا جو مقصد پیدائش ہے وہ تو اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کو یا درکھنا ہے.لیکن بعض لوگ اس مقصد کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس طرف توجہ نہیں دیتے.بلکہ دنیا کی اکثریت محبت الہی کو نہ جانتی ہے، نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے.بلکہ اس کے مقابل پر یا تو ظاہری بتوں کی پوجا کی جاتی ہے یا بعض قسم کے بت دلوں میں گڑے ہوئے ہیں اور ان کی محبت ایسے لوگوں کے دلوں میں اتنی زیادہ گڑ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا تصور ہی نہیں رہتا.لیکن اس کے مقابلے پر حقیقی مومن اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں سے زیادہ شدید رکھتے ہیں.پس اس آیت میں جہاں خدا تعالیٰ سے دور ہٹے ہوؤں کو یہ وارننگ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ غیر اللہ سے محبت تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے تو یا د رکھو کہ وہ سب بے طاقت چیزیں ہیں.ان میں کوئی طاقت نہیں.اصلی طاقت اور قوت تو خدا تعالیٰ کو حاصل ہے.اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ میں شرک کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کروں گا.پس اس دنیا کی عارضی متاع تمہیں خدا تعالیٰ سے دور لے جا کر تمہیں تمہارے بد انجام کی طرف دھکیل رہی ہے لیکن مومنوں کو بتایا کہ اگر مومن ہونے کا دعوی ہے تو حقیقی مومن کی یہ تعریف ہے کہ اس کو خدا تعالیٰ سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہوتی ہے.اس کی محبت ہر قسم کی محبت پر حاوی ہوتی ہے اور جو کچھ اسے دنیاوی اور اخروی انعامات ملنے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہی ملنے ہیں.اللہ تعالیٰ سے محبت، پھر اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کی طرف بھی راہنمائی کرتی ہے.پس ہمیشہ ایک مومن کو یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تب کامل ہو گی جب اس کے رسول ﷺ سے بھی بے غرض محبت ہو.فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله ( آل عمران : 32) کے مضمون کو سمجھنا ہوگا.درود و صلوۃ سے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہو گا.دنیا کی کوئی محبت ان دونوں محبتوں پر حاوی نہیں ہونی چاہئے.پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے محبت کا بھی کہا ہے.تو دوسرے انسانوں سے محبت بھی خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ضروری ہے.پھر فرمایا کہ مشرک تو شرک کر کے جو عذاب اپنے پر سہیڑ رہے ہیں وہ تو ہے ہی.لیکن مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اگر ان محبتوں کا خیال نہیں رکھیں گے جو خدا تعالیٰ سے محبت کے نتیجہ میں پیدا ہونی چاہئے تو اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت قوی کو اہمیت نہیں دے رہے ہوں گے.اُس کو اُس کا مقام نہیں دے رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی جو پکڑ ہے اس پر ایسے لوگوں کی نظر نہیں ہوتی.پس ایک مومن کو اپنی زندگی میں اپنا ہر قدم اپنے سب طاقتوں والے خدا کا ادراک رکھتے ہوئے اور اس کو سب طاقتوں کا مالک سمجھتے ہوئے اٹھانا چاہئے.پس اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور غیر اللہ کو خدا تعالیٰ کے مقابلے پر زیادہ اہمیت دینے والوں کو جہاں ان کے بد انجام اور عذاب سے آگاہ کیا ہے اور ڈرایا ہے اور ان کے واقعات بیان کئے ہیں وہاں مومنوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت کی گہرائی تلاش کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.
477 خطبہ جمعہ فرموده 19اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اس محبت کے بارہ میں کہ یہ کیسی محبت ہونی چاہئے اور اس کی اصل گہرائی کیا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے؟ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” جاننا چاہئے کہ محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں.بلکہ انسانی قویٰ میں سے یہ بھی ایک قوت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھینچے جانا اور جیسا کہ ہر یک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں ( اچھی طرح محسوس کئے جاتے ہیں ) یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جو ہر بھی اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے.( جب اپنی محبت جو ہے انتہا کو پہنچ جائے ، کامل ہو جائے تو پھر اس محبت کے جو جو ہر ہیں ، اس کے جو نتائج ہیں، اس کی جو خو بیاں ہیں وہی پھر ظاہر ہوتی ہیں.) فرمایا: أُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجُلَ (البقرة: 94) یعنی انہوں نے گوسالہ سے ایسی محبت کی تو گویا ان کو گوسالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا.در حقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے.یا کھالیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے.یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے.یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلمی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے.فرمایا ” محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو ( کوشش کرے ) تا اپنے محبوب میں ہو کر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے.سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے.اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے ( یعنی ہر وقت محبوب کے گریبان میں، اس کے دل میں اس کی تصویر رہتی ہے ) اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہو کر اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر اور اس کے ساتھ ہو کر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے.محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پر ہو جانا ہیں.چنانچہ عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہو جاتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ ( یعنی اس کا پیٹ پانی سے بھر گیا ) اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پر ہو گیا.تو کہتے ہیں شَرِبَتِ الْإِبِلُ حَتَّى نَحَبَّبَتْ.اور حسب جو دانہ کو کہتے ہیں ( کسی بھی قسم کے دانہ کو حب کہتے ہیں ) وہ بھی اسی سے نکلا ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا ( اور جو پہلا دا نہ تھا اس کی تمام کیفیت اس دانہ میں پیدا ہوگئی ) اور 66
خطبات مسرور جلد ہفتم 478 خطبه جمعه فرموده 9اکتوبر 2009 اسی بنا پر احباب سونے کو بھی کہتے ہیں.کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھو دے گا.گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ حس اس کو باقی نہیں رہے گی.( نورالقرآن حصہ دوم.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 431-430) پس اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت ایک مومن کے لئے یہ ہے کہ اس کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی کوشش کرے اور پھر دیکھے کہ وہ طاقتو ر خدا جو ہے، سب طاقتوں کا مالک خدا جو ہے، قوی خدا جو ہے اس کے لئے کیا کچھ کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ حج میں 41 ویں آیت میں طاقتور کافروں کے مقابلہ پر اپنے قوی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مومنوں کو تسلی دی ہے کہ اب کیونکہ ظلم کی انتہا ہو رہی ہے اس لئے باوجود کمزور ہونے کے باوجود تعداد میں تھوڑے ہونے کے باوجود بے سروسامان ہونے کے تم ان کافروں سے جنگ کرو جو نہ صرف شرک میں انتہا کئے بیٹھے ہیں بلکہ ظلم کی بھی انتہا کر رہے ہیں.اب مذہب کی بقا کا سوال ہے ورنہ ظلم جو ہیں بڑھتے چلے جائیں گے اور اللہ کے شریک ٹھہرانے والے کسی مذہب کو بھی برداشت نہ کرتے ہوئے ظلم کا نشانہ بناتے چلے جائیں گے.جیسا کہ وہ فرما تا ہے الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا اَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ ، وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَمَسجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج:41) یعنی وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر لڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معاہد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے.پس امن قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ظلم کا جواب بختی سے دینے کی اجازت دی.یہ کروتو اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی.پس یہاں اصولی بات بتادی کہ مذہب کی جو جنگیں ہیں یا جو جنگ ہے وہ تمہارے پر ٹھونسی جائے تو دفاع کرنا ہے.نہ صرف اپنے مذہب کا دفاع کرنا ہے بلکہ غیر مذاہب کا بھی دفاع کرنا ہے کیونکہ مسلمان کا دعوی ہے کہ ہم نے کسی مذہب کے پیرو سے بھی بزور باز ومذہب تبدیل نہیں کرانا.کیونکہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور دنیا کا امن برباد کرنے والی بات ہے.ہدایت دینایا نہ دینا خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے.ہاں پیار سے ،طریقے سے ، حکمت سے تبلیغ کا فریضہ ایک مسلمان کو ادا کرنا چاہئے اور یہ اس کے لئے ضروری ہے.پھر تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مذہبی جنگ میں مظلوم اور حق پر رہنے والے کی ضرور مدد کرتا ہے اور اس زمانہ
479 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 19اکتوبر 2009 میں آنحضرت ﷺ کی زندگی میں اس وقت جو ظلم ہو رہے تھے وہ مظلومیت کی انتہا تھی.مسلمانوں کی مکہ میں جو حالت زار تھی وہ اس سے ہر وقت ظاہر ہو رہی تھی.مذہبی جنگیں ہجرت کے بعد اگر کسی سے کی جا رہی تھیں تو وہ مسلمانوں سے کی جا رہی تھیں.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اپنے قوی اور طاقتور ہونے کا ثبوت دیا اور بے سروسامان تھوڑے اور نا تجربہ کار ہونے کے باوجود مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ اب جنگ کرو تو ان کی مدد بھی فرمائی اور فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا.پس اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی اجازت دفاع کے طور پر دی تھی.امن قائم کرنے کے لئے دی تھی.جہاد صرف وہ ہے جو مذہب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کیا جائے.باقی جو جنگیں ہوتی ہیں، چاہے وہ مسلمان مسلمان ملکوں کی ہوں یا مسلمانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ ہوں وہ سیاسی اور قو می جنگیں کہلاتی ہیں اور آجکل جو جنگیں ہو رہی ہیں وہ سیاسی اور قو می جنگیں ہیں یہ جہاد نہیں ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے قوی ہونے کا اعلان کر کے یہ فرمایا کہ مذہب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف میں مذہب کے ماننے والوں کی مدد کروں گا اور کیونکہ اب آخری اور مکمل مذہب اللہ تعالیٰ کے اعلان کے مطابق اسلام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کا وعدہ فرمایا اور اِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ کہہ کر یعنی اللہ تعالیٰ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے اس بات کا اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کے خلاف اگر مذہبی جنگ ہوگی تو میں مددکروں گا.پس آجکل کے جو حملے، فساد یا جنگیں ہو رہی ہیں جس میں مسلمان بجائے فتوحات کے رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے اور یہ دلیل ہے کہ یہ نہ جہاد ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مذہبی جنگ ہے اور اسی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید بھی حاصل نہیں ہے.پس مسلمانوں کو مذہب کے لئے تلوار اور توپ پکڑنے کی بجائے اپنے ایمان اور اعمال کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی اصلاح کے لئے رونا چلانا چاہئے.پھر بغیر توپ اور بندوق کے دنیا کو اپنی طرف مائل کرنے والے بن سکیں گے.دوسرے اس میں مسلمانوں کو یہ بھی حکم ہے کہ تمہیں قطعاً اجازت نہیں کہ کسی مذہب پر حملہ کر دیا طاقت استعمال کرو.پس آج اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تعلیم ہی قرآن کریم کی صحیح تعلیم ہے اور اسی طرف راہنمائی کرتی ہے.اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ قوی خدا کس طرح اپنی قدرت کا ہاتھ ظاہر فرماتا ہے اور کیا کیا نظارے دکھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کے ابتدائی ایام اور مسلمانوں پر ظلم اور جہاد کی اجازت اور اللہ تعالی کی مدد کا جو نقشہ ایک جگہ کھینچا ہے میں وہ بیان کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : ”چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے ان کے مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے، جو اپنے تئیں دولت میں، مال میں،
480 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرمودہ 9اکتوبر 2009 کثرت جماعت میں عزت میں، مرتبت میں، دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودا زمین پر قائم ہو.بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگارہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اٹھا نہیں رکھا تھا اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.سو اسی خوف سے جو ان کے دلوں میں ایک رعب ناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں ان سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے نخران شریہ درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے.اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر بی تا کی تھی کہ شر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو.چنانچہ ان برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا.ان کے خونوں سے کوچے سرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا.وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں، بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا.مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غضب شریروں پر بھڑ کا اور اس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں.میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں، ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا.جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن کریم میں اب تک موجود ہے یہ ہے أذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حق ( الج: 40-41) یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور نا حق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے.( الجزو 17 سورۃ الحج ) مگر یہ حکم مختص الزمان و الوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا ( اس زمانے کے لئے اور اس وقت کے لئے مختص تھا، خاص تھا ) بلکہ اس زمانے کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیٹروں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 5-6 ) پس اللہ تعالیٰ جو سب طاقت والوں سے زیادہ طاقتور اور قوی ہے اس کا غضب مظلوم کے لئے بھڑ کا اور جیسا کہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 481 خطبہ جمعہ فرموده 19اکتوبر 2009 دنیا جانتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مظلوموں کو جو مکہ میں آگ پر لٹائے جاتے تھے، جن کی نگی پیٹھوں پر کوڑے مارے جاتے تھے ، جن کے جسموں کو چیرا جاتا تھا اسی قومی خدا کی مدد اور نصرت سے نہ صرف ظلم سے بچایا بلکہ قیصر و کسری کی حکومت کے والی بنا دیئے گئے.پس یہ ہے قومی خدا کی شان.جیسا کہ میں نے کہا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قوی ہونے کا ذکر کئی آیات میں کیا ہے اور تقریباً ہر جگہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کے دشمنوں کے بد انجام کا ذکر فرمایا ہے یا بعض نصیحتیں فرمائی ہیں.دو مختلف آیتیں میں نے پڑھی ہیں.لیکن آئندہ کے لئے بھی اس میں خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ آئندہ بھی غالب آئیں گے.جیسا کہ سورہ مجادلہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِى إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (المجادلہ : 22) کہ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے.یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حق ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے.ہمیشہ تمام انبیاء کے مخالفین اپنے بد انجام کو پہنچے ہیں.جب تک مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیم کے علمبردار رہے اور اس پر عمل کرنے والے بنے رہے کا میابیاں ان کے قدم چومتی رہیں.جب نہ دین باقی رہا نہ اسلام باقی رہا تو اپنی اپنی حکومتیں بچانے کی فکر میں سارے لگ گئے کہ کم از کم جو چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہیں وہی بچ جائیں.آجکل مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ ایسی تو نہیں جس کے متعلق کہا جاسکے کہ مسلمانوں کی بڑی شان و شوکت ہے.دوسرے لوگ ان کی اس شان کو دیکھ کر ان کی طرف رشک سے دیکھنے والے ہیں.یا اس شان و شوکت کی وجہ سے بعض ملک ان کی طرف حسد سے دیکھنے والے ہیں.ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض ملکوں کی جو تیل کی دولت ہے اس پر غیروں کی نظر ہے اور وہ اس دولت کی طرف دیکھنے والے ہیں.بلکہ مسلمان جو ہیں دولتمند ترین ملک بھی اپنی بقا کے لئے غیر مسلموں کی طرف دیکھ رہے ہیں.پس اس وقت بظاہر مسلمانوں کی نہ شان وشوکت ہے، نہ ہی ترقی کے آثار نظر آ رہے ہیں.ہاں گراوٹ اور ذلت جو ہے وہ ہر اس شخص کو نظر آتی ہے جو اسلام کا درد رکھنے والا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کا غلبہ کا جو یہ وعدہ ہے یہ نعوذ باللہ غلط ہورہا ہے یا اس غلبہ کے وعدے کی مدت گزر چکی ہے اور یہ ایک وقت تک کے لئے تھا.یا اللہ تعالیٰ کے قوی ہونے کی صفت میں کوئی کمی آگئی ہے.یہ ساری باتیں غلط ہیں.اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی سچا ہے اور اسلام جو تا قیامت رہنے اور ترقی کرنے والا مذہب ہے اس کے بارہ میں جو پیشگوئی ہے وہ بھی سچی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی طرح قوی ہونے کی صفت بھی ہمیشہ قائم رہنے والی ہے اور قائم رہے گی اور اسی غلبہ اور قوی ہونے کی صفت ثابت کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانے کا امام بنا کر بھیجا ہے.جنہیں خود بھی انہی الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا تھا کہ كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی.پس دین
482 خطبہ جمعہ فرمودہ 19اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اسلام کی روشنی نے دوبارہ دنیا میں پھیلنا ہے اور یہ دین مضبوطی کے ساتھ دنیا میں قائم ہونا ہے.اپنے قوی ہونے کے بارے میں بھی اور اس حوالے سے کہ آپ کی تائید اور نصرت بھی اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کئی مرتبہ الہام کے ذریعہ سے اطلاع دی.ایک جگہ حضرت مسیح موعود کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُوَّةُ الرَّحْمَنِ لِعُبَيْدِ اللهِ الصَّمَدِ - ( تذکرہ - صفحہ 82.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) کہ یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ فنی مطلق ظاہر کرے گا.پھر فرمایا: إِنَّهُ قَوِيٌّ عَزِيزٌ.وہ قوی اور غالب ہے.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 5-6 پھر ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّ رَبِّي قَوِيٌّ قَدِيرٌ إِنَّهُ قَوِيٌّ عَزِيزٌ - میرا رب زبر دست قدرت والا ہے.اور وہ قومی اور غالب ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ میں اپنی چم کار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اَلْفِتْنَةُ هَهُنَا فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْم.اس جگہ ایک فتنہ ہے سو اولوا العزم نبیوں کی طرح صبر کر.فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا ـ جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا.قُوَّةُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَيْدِ اللهِ الصَّمَدِ.یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ فنی مطلق ظاہر کرے گا.مَقَامٌ لَا تَتَرَقَّى الْعَبْدُ فِيْهِ بِسَعْيِ الْأَعْمَالِ - یعنی عَبْدُ اللَّهِ الصَّمَد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطا ہوتا ہے.کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اول صفحہ 665- حاشیہ در حاشیہ نمبر 4) اللہ تعالیٰ کا بندہ بنا یا بے نیاز ہونا یہ ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عطا ہے اور خاص عطا اسی وقت ہوتی ہے جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے لیکن پھر بھی عطا اللہ تعالیٰ کی عطا ہی ہے.انعام جو ہے اللہ تعالیٰ کا انعام ہی ہے.کسی کوشش سے عطا نہیں ہوتا لیکن بہر حال اس سے اللہ تعالیٰ سے بندے کا ایک تعلق ظاہر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے عطا فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” مجھے اللہ جلشانہ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ میں گئے.برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 35)
483 خطبہ جمعہ فرموده 19اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم فرمایا کہ یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی.(یعنی جب بادشاہ داخل ہوں گے تو تو میں بھی داخل ہوں گی ) پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے.وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے.تذکرہ صفحہ 8.ایڈیشن چہارم 2004 ء.مطبوعہ ربوہ ) پس یہ کوئی خوش فہمیاں نہیں ہیں.بلکہ یہ اس خدا کا وعدہ ہے جو قوی ہے.جو سب طاقتوں والا ہے اور ہمیشہ اپنے انبیاء سے کئے گئے وعدے پورے کرتا آیا ہے اور آج تک بے انتہا وعدے ہم پورے ہوتے دیکھ بھی رہے ہیں.دیکھ چکے ہیں.ہماری مظلومیت کی حالت کو دیکھ کر جو بعض ملکوں اور خاص طور پر اسلامی ملکوں میں ہے یا ہمارے اپنے ملک پاکستان میں بھی ہے، دنیا یہ سمجھے گی کہ یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یہ لوگ باتیں کرتے ہیں.لیکن ہمیشہ دنیا نے یہی سمجھا ہے اور خدا تعالیٰ کی تقدیر ہمیشہ ہی غالب آئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی (المجادلہ: 22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی محبت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے.( غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ حجت زمین پر پوری ہو جائے کہ کوئی آگے دلیل نہ قائم کر سکے اور پیغام پہنچ جائے ).اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے“.(یعنی جو سچائی انبیاء لے کر آتے ہیں ان کا جو بیج ہے وہ انبیاء کے ذریعہ سے پھیلا دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظا ہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدرنا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304) یہ الوصیت میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.پس اس دوسری قدرت میں کتنی جلدی ہم نے اس غلبہ کا مشاہدہ کرنا ہے اس کا انحصار ہمارے اللہ تعالیٰ سے تعلق اس سے محبت اس کے رسول اللہ سے محبت اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی سے ہے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 484 خطبه جمعه فرموده 19اکتوبر 2009 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ: "مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللهُ لَهُ خدا تعالیٰ کبھی کسی صادق سے بے وفائی نہیں کرتا.ساری دنیا بھی اگر اس کی دشمن ہوا اور اس سے عداوت کرے تو اس کو کوئی گزند نہیں پہنچاسکتی ( اس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اس کو کوئی گزند نہیں پہنچاسکتی.خدا بڑی طاقت اور قدرت والا ہے اور انسان ایمان کی قوت کے ساتھ اس کی حفاظت کے نیچے آتا ہے اور اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات دیکھتا ہے پھر اس پر کوئی ذلت نہ آوے گی.یاد رکھو خدا تعالیٰ زبر دست پر بھی زبر دست ہے بلکہ اپنے امر پر بھی غالب ہے.بچے دل سے نمازیں پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے سب رشتہ داروں اور عزیزوں کو یہی تعلیم دو.پورے طور پر خدا کی طرف ہو کر کوئی نقصان نہیں اٹھاتا.خدا کی طرف ہو جاؤ.کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.) نقصان کی اصل جڑا گناہ ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 64 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے کامل وفاداروں میں رہیں.ہر گناہ سے بچنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ہر احمدی اپنے دل میں اس شدت سے بھڑکائے کہ تمام آلودگیاں جل کر خاک ہو جائیں، راکھ ہو جائیں اور پھر ہم دنیا کو وہ نظارہ دکھائیں جس کے دکھانے کے لئے ہی ہمارے دل میں تمنا اور آرزو ہے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 44 مورخہ 30 اکتوبر تا 5 نومبر 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد ہفتم 485 (42) خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2009 ء بمطابق 16 اخاء1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں متین “ کا لفظ تین آیات میں ، تین مختلف سورتوں میں استعمال ہوا ہے.ایک جگہ سورۃ اعراف میں، پھر سورۃ ذاریات میں اور سورۃ قلم میں اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے لفظ متین “ کو اپنی صفت کے طور پر بیان فرماتے ہوئے منکرین اور مشرکین کے بد انجام کی طرف اشارہ فرمایا.اس کا اظہار فرمایا ہے یا کچھ نصیحت فرمائی ہے.اس سے پہلے کہ ان جگہوں پر جس سیاق و سباق کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے، کچھ بیان کروں لفظ متین “ کے لغوی معانی بیان کرتا ہوں.ایک تو اس کا عمومی استعمال ہے اور دوسرے خدا تعالیٰ کے لئے لفظ متین‘استعمال ہوتا ہے دونوں صورتوں میں اس کے کیا معنی بنتے ہیں؟ معنے تو ایک بنتے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں ہوگا تو بہر حال وسیع معنوں میں آئے گا.متن کے معنی ہیں مضبوط پشت والا ہونا ، مضبوط پشت والے آدمی کو جس کی مضبوط کمر ہو متین کہتے ہیں.بعض لغات میں لغت والے اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کمر کے وہ پٹھے جو ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ دائیں بائیں، اوپر سے نیچے جاتے ہیں.پھر اس کے معنی ٹھوس اور مضبوط کے بھی ہیں.لسان العرب میں جو مختلف معانی لکھے ہیں ان میں سے ایک معنی رَجُلٌ مَتَن ، اس شخص کو کہتے ہیں جو طاقتور دور ہو اور اس کی کمر مضبوط ہو.اللہ تعالیٰ کی صفت کے لحاظ سے لسان میں اس کے یہ معنی لکھے ہیں کہ ذُو القُوَّةِ الْمَتِین.اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جو اقتدار والی اور مضبوط ہو اور المتین اللہ تعالیٰ کی صفت کے لحاظ سے قومی کے معنوں میں ہے.ابن الا شیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ذات ہے جو اتنی قوی اور مضبوط ہے کہ جس کو اپنے کاموں میں کوئی تکلیف یا مشقت یا تھکاوٹ نہیں ہوتی.المسان کا مطلب ہے شدت اور قوت.اور کوئی ذات قوی تب ہوتی ہے جب وہ اپنی قدرت کے کمال انتہا تک پہنچ جائے.اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بہت زیادہ طاقت اور قوت والی ہے.یہ بھی لسان کے معنی ہیں.اسی طرح قومی کے لسان میں یہ معنی بھی لکھے ہیں طاقتور ، ٹھوس اور مضبوط.پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اپنی طاقت اور قوت کے کمال کے لحاظ سے اور مضبوط اور ٹھوس تدبیر کے لحاظ سے
486 خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اپنے پیاروں اور انبیاء کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف ایسی تدبیر کرتی ہے کہ جہاں تک مخالفین کی سوچ نہیں پہنچ سکتی کہ وہ اس کے مداوا کا کوئی سامان کر سکیں.اس کا مداوا صرف ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ جب آنے والی ہے یا آ رہی ہے تو اس سے پہلے ہی جتنی استغفار کی جاسکتی ہے کر لی جائے اور توبہ کی جائے.گناہوں کی معافی مانگی جائے اور اسی طرح خود انبیاء کو بھی معین طور پر علم نہیں ہوتا کہ خدا نے مخالفین کو کس کس طریقہ سے اور کس ذریعہ سے پکڑنا ہے، سوائے اس کے کہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ خود اس کی نوعیت بتا دیتا ہے.جیسا کہ آنحضرت ﷺ کو بھی بدر کی جنگ میں بعض سرداران کفار کے انجام کے بارہ میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ ان ان جگہوں پر ان کی لاشیں گریں گی.یہ آیات جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی اب میں کچھ وضاحت کرتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے انجام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور اس حوالے سے کیا نصیحت فرمائی ہے.سورۃ اعراف کی آیات 183-184 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ.وَأُمَلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِيْنٌ (الاعراف: 183-184).اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانات کا انکار کیا ہم ضرور انہیں تدریجاً اس جہت سے پکڑیں گے جس کا انہیں کوئی علم نہیں ہوگا.اور میں انہیں مہلت دیتا ہوں.یقیناً میری تدبیر بہت مضبوط ہے.پھر سورۃ القلم کی آیات میں فرمایا کہ فَذَرْنِى وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ.وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتين ( القلم : 45-46 ) پس تو مجھے اور اسے جو اس بیان کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے ہم انہیں رفتہ رفتہ اس طرح پکڑ لیں گے کہ انہیں کچھ علم نہ ہو سکے گا.اور میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں.میری تدبیر یقیناً بہت مضبوط ہے.اللہ تعالیٰ کے نشانوں کا انکار کرنے والے جنہوں نے مکہ میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کا جینا دوبھر کیا ہوا تھاوہ نہیں جانتے تھے کہ اس ظلم اور زیادتی کی سزا کس طرح ان کو ملنے والی ہے.اس کا پہلا نظارہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی جنگ میں دکھایا.یہ دونوں سورتیں جو ہیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں.سورۃ القلم کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ ابتدائی چار پانچ سورتوں میں سے ہے بلکہ بعض کے نزدیک سورۃ العلق کے بعد کی سورۃ ہے.اسی طرح جو ذاریات ہے اس میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے ذو القوة المتین ہونے کی بات کرتا ہے.تو یہ بھی مکی سورۃ ہے.بہر حال مکہ میں مسلمانوں کی جونا گفتہ بہ اور مظلومیت کی حالت تھی وہ تاریخ اسلام کا ایک دردناک باب ہے.لیکن ایسے وقت میں خدا تعالیٰ آپ ﷺ کو یہ تسلی عطا فرمارہا ہے کہ میں متین ہوں.میری پکڑ بڑی مضبوط ہے.اور ایسی ٹھوس اور مضبوط پکڑ ہے کہ جس سے بچنا ان دشمنان اسلام کے لئے ممکن نہیں اور پھر جنگ بدر میں کس طرح انہیں گھیر کر ان کے تکبر اور غرور کو اللہ تعالیٰ نے تو ڑا، تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.اللہ تعالیٰ نے ان دونوں
487 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 سورتوں کی آیات میں اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ جولوگ ہمارے نشانات کو جھٹلاتے ہیں ان کو ہم ایسا پکڑیں گے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ یہ ہو کیا گیا ہے.یا ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی جو لوگ تجھے جھٹلا رہے ہیں ان کے جھٹلانے کی پرواہ نہ کر.اے رسول ! اس جھٹلانے کی وجہ سے تجھ پر اور تیرے ماننے والوں پر جو ظلم ہور ہے ہیں ان کو میرے لئے چھوڑ دے.یہ نہ سمجھ کہ وہ اپنے ظلموں میں کامیاب ہو جائیں گے یا وہ اپنے ظلموں کی وجہ سے مومنوں کو تجھ سے دُور کر دیں گے.نہیں وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتے.میں جو سب طاقتوں کا مالک ہوں.جو مضبوط اور ٹھوس تد بیر کرنے والا اور طاقتور ہوں.میں انہیں اس طرح ان کا انجام دکھاؤں گا کہ وہ عبرت کا نشان بن جائیں گے.اگر میں انہیں کچھ ڈھیل دے رہا ہوں تو اس لئے کہ شاید ان میں سے کچھ اصلاح کر لیں اور شیطانی حرکتوں سے باز آ جائیں.اس کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالی کمزوری دکھا رہا ہے جو ان کو ڈھیل دے رہا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہر چیز اور ہر انسان کی اور ہر مخلوق کی جان ہے بلکہ ہر چیز اس کی پیدا کردہ ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے ان کو پکڑ سکتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کو کوئی جلدی نہیں ہے.جب چاہے گا ان ظالموں کے ظلموں کی وجہ سے ان کو پکڑ کے پیس ڈالے گا.اگر باز نہیں آئیں گے تو خدا تعالیٰ کی چکی اس قدر زور سے چلے گی جو ان کو بالکل خاک کر دے گی.پس یہ تسلی تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس وقت آنحضرت ﷺ کو مکہ میں دی جب ان پر ظلم ہورہے تھے.فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو لا محدود حکمت ہے جب ضروری سمجھے گی ان بد کرداروں کے انجام تک انہیں پہنچائے گی اور جب خدا تعالیٰ کی تقدیر فیصلہ کرلے کہ دشمن کا کیا انجام ہونا ہے تو جیسا کہ لفظ متین سے ظاہر ہے اور پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے دشمنوں کو اپنی بڑی مضبوط گرفت میں لے لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو آنحضرت ﷺ سے زیادہ کون پیارا ہو سکتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ کو آنحضرت ﷺ سے زیادہ پیارا تو کوئی اور نہیں.اللہ تعالیٰ نے بدر کی جنگ میں اپنے اس محبوب کی مدد کرنے کا اور ظالموں کو گرفت میں لینے کا ایک عظیم مظاہرہ دکھایا.عتبہ، شیبہ اور ابو جہل جیسے سرداران جو مسلمانوں پر ظلم کرتے ہوئے اپنے آپ کو سب طاقتوں کا مالک اور بڑا مضبوط سمجھا کرتے تھے.وجاہت کے لحاظ سے بھی اور جسمانی لحاظ سے بھی بڑی مضبوط گرفت والا سمجھتے تھے.وہ سب خاک و خون میں لتھڑے ہوئے عبرت کا نشان بنے ہوئے تھے.ابو جہل جو تکبر میں اور طاقت کے گھمنڈ میں سب کو پیچھے چھوڑتا تھا.گویا کہ اس وقت وہ فرعون وقت تھا اس سے خدا تعالیٰ نے کس طرح انتقام لیا ؟ اور بدانجام کو پہنچا کہ اس کا قتل بھی دو کمسن انصاری بچوں نے کیا اور آخر وقت اس نے کہا کہ کاش میں کسی کسان کے ہاتھ سے قتل نہ ہوا ہوتا.مدینہ کے لوگ کیونکہ زراعت پیشہ تھے اور مکہ کے جو کفار تھے وہ ان کے زراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسان کہتے تھے اور انہیں تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا انتقام لیا کہ نہ صرف کسانوں سے بلکہ کسانوں کے بچوں سے اس کو قتل کروایا.اسی طرح بعض دوسرے سردار تھے جن کو قید کی ذلت برداشت کرنا پڑی.آنحضرت ﷺ نے جب مکہ کے ان 24 سرداروں جو جنگ میں قتل ہوئے تھے
488 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 اکٹھا دفنانے کا حکم فرمایا تو جب ان کو وہاں دفنا یا گیا یا جب دفنایا جارہا تھا، آپ اس گڑھے کے پاس تشریف لائے جس میں 24 لاشیں دفنائی گئی تھیں اور اُن مُردوں کو مخاطب کر کے فرمایا هَل وَجَدْتُمُ مَا وَعَدَكُمُ اللهُ حَقًّا فَإِنِّى وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِيَ اللَّهُ حَقًّا کہ کیا تم نے اُس وعدہ کو حق پایا جو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا؟ یقیناً میں نے اس وعدہ کو حق پا لیا ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھ سے کیا تھا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر فرمایا کہ یہ مرے ہوئے لوگ ہیں آپ ان سے کیا مخاطب ہو رہے ہیں.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہیں نہیں پتہ یہ مرے ہوئے تو ہیں لیکن اس وقت یہ جس جگہ پہنچ چکے ہیں وہاں یہ میرے الفاظ سن رہے ہیں.( مسند احمد بن حنبل جلد اول مسند عمر بن الخطاب، حدیث نمبر 182 صفحہ 130 عالم الكتب بيروت 1998ء) پس جب خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی سے کہا کہ ان کا معاملہ مجھ پر چھوڑ ، دیکھ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تو تھوڑے سے، معمولی سے جنگی سازوسامان کے ساتھ ایک تجربہ کار اور تمام تر جنگی ساز و سامان سے لیس فوج کی اس طرح کمر توڑی کہ دنیاوی تدبیر سے نہ اتنی فاش شکست دی جاسکتی ہے نہ دنیا نے کبھی یہ نظارہ دیکھا.اور پھر یہیں پر بس نہیں بلکہ فتح مکہ تک اور اس کے بعد بھی خدا تعالیٰ نے پکڑ کے یہ نظارے دکھائے.شاہ ایران نے اگر صلى الله آنحضرت مے پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اُس کے بیٹے کے ذریعہ سے پکڑا.اور پھر الہی تقدیر یہیں پر ہی نہیں رکی.آپ کی وفات کے بعد زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یہ مملکت بھی آپ کے زیر نگیں ہو گئی.شاہ ایران نے تو مٹی کا بورا عاصم بن عمرو کے کندھے پر ذلیل کرنے کے لئے اٹھوایا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے بورے کو ہی ایران کی فتح کا نشان بنا دیا.تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے قومی اور متین ہونے کی نشانی اور وہ اس طرح پکڑتا ہے کہ جب وقت آتا ہے تو کمزوروں کو طاقتوروں پر حاوی کر دیتا ہے.اب واپس آنحضرت ﷺ کے زمانے کی طرف آتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو سمجھنے کا موقع بھی عطا فرمایا تھا کہ شاید وہ سمجھ جائیں اور جب آنحضرت ﷺ ہجرت فرما رہے تھے اس وقت بھی ایسے موقعے آئے کہ اگر اس وقت اپنی وہ اپنی فرعونی صفت نہ دکھاتے اور سوچنے کی طرف توجہ دیتے تو پھر کبھی بدر کی جنگ کا معاملہ پیش نہ آتا.ہجرت کے وقت بھی تین مواقع آئے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر سوچنے کی عقل ہوتی اور نیک فطرت ہوتی تو انہیں یقینا اس بات پر سوچنے پر مجبور کرتی کہ کوئی طاقت ہے جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہے.اگر یہ طاقت آنحضرت ﷺ کو بچا سکتی ہے تو وہ طاقت ہمیں بھی اپنی گرفت میں لے سکتی ہے.پہلے تو جب آنحضرت ﷺے باوجود پہرے کے ان لوگوں کے سامنے سے گزر کر گھر سے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو اس وقت اُن کے لئے سوچنے کا موقع ہونا چاہئے تھا.پھر جب غار میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بیٹھے تھے.
489 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 پاؤں کے نشان بھی نظر آ رہے تھے اور کھوجی بھی وہاں تک لے گیا تھا.لیکن مکڑی کے جالے کی وجہ سے انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی.کھوجی نے یہی کہا کہ یا تو غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چڑھ گئے ہیں اس وقت بھی ان کو سوچنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ ان بد فطر توں نے اپنے انجام کو پہنچنا تھا.اسی لئے کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا.پھر سفر کے دوران بھی آپ کو پکڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور آخر اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ ہم جانتے ہیں خیریت سے آپ کو مدینہ پہنچایا اور اس کے بعد وقتا فوقتا دشمنوں سے اللہ تعالیٰ جو سلوک فرماتا رہا اس کا میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے بدر سے لے کر فتح مکہ تک اور اس کی بعد کی جنگوں میں بھی آپ کو محفوظ رکھا اور دشمنوں کی پکڑ کی.اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِاَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا.وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (آل عمران: 179) اور ہرگز وہ لوگ گمان نہ کریں جنہوں نے کفر کیا کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے.ہم تو انہیں محض اس لئے مہلت دے رہے ہیں تا کہ وہ گناہوں میں اور بھی بڑھ جائیں اور ان کے لئے رسوا کر دینے والا عذاب مقدر ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ اس لئے چھوٹ دیتا ہے کہ جو نیک فطرت ہیں وہ سمجھ جائیں اور حق کو پہچان کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ ہو جائیں.وہاں زیادتیوں اور ظلموں سے بڑھنے والوں کو یہ چھوٹ، یہ ڈھیل ظلموں میں بڑھاتی ہے اور وہ گنا ہوں میں مزید مبتلا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا انکار کر کے اور زیادہ اپنے گناہوں میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ لوگ سب سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہستی کی پکڑ میں آکر ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب میں مبتلا کر دیئے جاتے ہیں.پھر ایسے لوگوں کے لئے تو بہ کا کوئی راستہ نہیں کھلا ہوتا.پھر وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی چکی میں پیستے ہیں جو ان کے باریک سے باریک ذرے کر کے رکھ دیتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرعون کی مثال دے کر فرمایا ہے کہ جس طرح فرعون کو ڈھیل دی اور پھر پکڑا اسی طرح آنحضرت ﷺ کے دشمنوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں پکڑوں گا اور پھر پکڑ کر دکھایا.اللہ تعالیٰ کے پکڑنے کے اپنے طریقے ہیں.آنحضرت ﷺ کا دور جو ایک جلالی دور بھی تھا اور جنگوں کا بھی زمانہ تھا کیونکہ دشمنوں نے آپ پر جنگیں مسلط کی تھیں ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسی طریقہ سے دشمنوں کو پکڑا کہ وہ اس وقت کی ضرورت تھی.اللہ تعالیٰ نے دشمنان اسلام کو اُسی حربہ کے ذریعہ سے ذلیل و رسوا کیا جو وہ مسلمانوں پر استعمال کرتے تھے اور اپنی مضبوط پکڑ کا اظہار فرمایا.آج بھی اللہ تعالیٰ کی صفت متین کام کر رہی ہے اور قائم ہے جیسے پہلے قائم تھی.اُملِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِينَ کے نظارے خدا تعالیٰ آج بھی دکھاتا ہے اور آئندہ بھی دکھائے گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
490 خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم زمانے میں تلوار کے جہاد کے ذریعہ سے نہیں جیسا کہ میں نے کہا، ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پکڑنے کے اپنے طریقے رکھے ہوئے ہیں.بلکہ جو بانی اسلام ﷺ پر ظالمانہ طور پر الزام لگانے والے ہیں اور استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں، انہیں ایسے طریقہ سے پکڑے گا جس کے بارہ میں ہم سوچ نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کس طرح پکڑنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایسے لوگوں کو پکڑ کر پھر بتایا بھی.ان کو عبرت کا نشانہ بھی بنایا اور دنیا نے دیکھا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے جوگر بتایا ہے وہ یہ ہے کہ پکڑ تو میری آنی ہے لیکن جہاد کے ذریعہ سے پکڑ نہیں ہونی.پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے طریقہ سے کرنی ہے تم لوگوں نے کیا کرنا ہے لیکن جو طریق کار اختیار کرنا ہے اس میں تمہارا حصہ یہ ہو کہ تم دعا کا ہتھیار استعمال کرو اور یہ دعا کا ہی ہتھیار ہے جس کو ہم نے دیکھا.اس ہتھیار نے پنڈت لیکھرام کو بھی کچھ عرصہ ڈھیل دینے کے بعد اپنے انجام تک پہنچایا.عبداللہ آتھم کو بھی ، ڈوئی کو بھی انجام تک پہنچایا اور باقی مخالفین بھی اپنے انجام کو پہنچے.پس آج بھی جو لوگ آنحضرت مے کے بارہ میں استہزاء اور نازیبا کلمات کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ نہیں ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں یالا مذہب ہیں.قرآن کریم جو آنحضرت ﷺ کے واقعات کے علاوہ باقی انبیاء کے واقعات بھی بیان کرتا ہے کہ جب بھی مخالفین نے ان انبیاء کو دکھ پہنچائے تو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت کے بعد ، کچھ عرصے کے بعد، انہی کی تدبیریں ان پر الٹا دیں اور اپنے انبیاء کی حفاظت فرمائی.انسانی عقل اُس انتہا تک نہیں پہنچ سکتی جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کے حق میں دشمنوں کی سزا کا فیصلہ کیا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض کو موت دے کر عبرت کا نشان بنایا.بعض کو ڈھیل دے کر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کامیابیاں دکھا کر انہیں اپنی آگ میں جلنے پر مجبور کیا.یہ بھی ان کے لئے پکڑ تھی.پس یہ فیصلہ خدا تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے کہ کس کو کس طرح پکڑنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ثُمَّ يَتَقَضَى عَلَى الْمَاكِرِين - ( تذکرہ صفحہ 219.ایڈیشن 2004، مطبوعہ ربوہ ) اور انہوں نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.پھر وہ تدبیر کرنے والوں پر جھپٹ پڑے گا.يَتَقَضَى عَلَى الْمَاكِرِينَ تدبیر کرنے والوں پر جھپٹ پڑے گا.اس کو مزید کھو لیں تو یہ اس طرح بنے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو فنا کرنے کے لئے ان پر جھپٹے گا.پس جب اللہ تعالی تدبیر کرتا ہے تو کسی کی زندگی ختم کر کے فنا کرتا ہے اور کسی کی عزت خاک میں ملا کر اس کو دنیا میں ذلیل ورسوا کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر تو اپنا کام کرے گی اور کر رہی ہے.لیکن ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ
491 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 آنحضرت ﷺ جواللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے تھے اور جن کو کامل اور مکمل شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا اور سب سے زیادہ اگر کسی نبی کی پیشگوئیاں اس کی زندگی میں پوری ہوئیں تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے.آپ سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا.قرآن کریم میں اس کا ذکر بھی آتا ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الكوثر 3-4 ) کہ تو اپنے رب کی بہت زیادہ عبادت کر اور اس کی خاطر قربانی کے معیار قائم کر.پس یہ حکم اُمت کے لئے بھی ہے اور یہ عبادتیں اور ہر قسم کی قربانیوں کے اعلیٰ معیار ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر سمیٹیں گے اور ہر قسم کی قربانیوں کے معیار قائم کرنے کی آج بھی ضرورت ہے.آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ان عبادتوں اور قربانیوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی جو انسانی سوچ سے بھی باہر ہے.لیکن ایک اُسوہ حسنہ آپ ہمارے لئے قائم فرما گئے اور اللہ تعالیٰ نے پھر اس معیار پر پہنچنے کے بعد اپنا وعدہ بھی پورا فرمایا.وہی لوگ جو آنحضرت ﷺ پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ آپ کی نسل چلانے والی اولاد نہیں یعنی آپ کے ہاں لڑکے نہیں ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ یہ جواب دے رہا ہے کہ وہ خود ابتر ہیں.آئندہ دیکھیں کیا نظارے ان کے ساتھ ہوتے ہیں.کس طرح اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل کرتا ہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جن لڑکوں کو وہ اپنی اولا د سمجھتے تھے ایک وقت آیا کہ وہی لڑکے اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق اپنے باپوں کی طرف منسوب ہونے کی بجائے آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے میں اپنی عزت اور افتخار سمجھتے تھے.چنانچہ اسلام کے غالب آنے کے بعد سرداران قریش کی تمام اولاد آ نحضرت ﷺ کی آغوش میں آگئی اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے.عکرمہ ابو جہل کا بیٹا تھا.لیکن مسلمان ہوئے تو جان کی بازی آنحضرت ﷺ کے لئے اور آپ کے دین کے لئے لگا دی اور ہر وقت لگانے کے لئے تیار ہے.ولید آنحضرت ﷺ کا بڑا دشمن تھا.اس کے بیٹے حضرت خالد نے اسلام کے لئے وہ جو ہر دکھائے جن کی مثال نہیں ملتی.آپ کا ایک بڑا دشمن عاصی نام کا تھا اور اس کے بیٹے حضرت عمرو بن عاص نے اسلام کی کئی شاندار خدمات سرانجام دیں اور اسلام میں بڑے پائے کے جرنیل مانے جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ہے جو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور اور سب تدبیر کرنے والوں سے زیادہ تدبیر کرنے والا ہے.وہ آنحضرت ﷺ کی شان کو بلند سے بلند کرتا چلا گیا اور دشمن ناکام و نامراد ہوتا چلا گیا اور اس کی اولا د بھی اللہ تعالیٰ نے پھر آنحضرت ﷺ کی جھولی میں ڈال دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہی الہام ہوا تھا کہ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ ( تذکرہ صفحہ 219.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح اللہ نے دشمن کو کئی مواقع پر خائب و خاسر کیا اور آج تک کرتا چلا جارہا ہے.یہ نظارے ہم نے دیکھے.کیا یہ خدا تعالیٰ کی مضبوط تدبیر کرنے کی دلیل نہیں ہے؟ یا کیا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة
492 خطبات مسرور جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے کا اظہار نہیں؟ یقینا ہے اور اس پر احمد یوں کو غور بھی کرنا چاہئے اور سوچنا بھی چاہئے اور ان وعدوں کے اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھنے کے لئے دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بجز خدا کے انجام کون بتلا سکتا ہے اور بجز اس غیب دان کے آخری دنوں کی کس کو خبر ہے.دشمن کہتا ہے کہ بہتر ہو کہ یہ شخص ذلت کے ساتھ ہلاک ہو جائے اور حاسد کی تمنا ہے کہ اس پر کوئی ایسا عذاب پڑے کہ اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے.لیکن یہ سب لوگ اندھے ہیں اور عنقریب ہے کہ ان کے بد خیالات اور بدار ادے انہی پر پڑیں.اس میں شک نہیں کہ مفتری بہت جلد تباہ ہو جاتا ہے اور جو شخص کہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ نہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بُری موت سے مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے.لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مر کر بھی زندہ ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے اور سچائی کی روح ان کے اندر ہوتی ہے.اگر وہ آزمائشوں سے کچلے جائیں اور پیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروں طرف سے ان پر لعن طعن کی بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصوبے کرے تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے.کیوں نہیں ہوتے؟ اس بچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے.خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں.ہر یک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اول صدمات کا تختہ مشق ہوتا ہے“.(اس کو بہت ساری تکلیفیں پہنچتی ہیں مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینے تک اپنی قلبہ رانی کا تختہ مشق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑ تا رہتا ہے.اسی طرح وہ حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کو یہاں کسان سے تشبیہ دی ہے کہ وہ حقیقی کسان اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے ) اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہر یک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے.تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ظاہر ہو کر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے.یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطۂ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں ( یعنی ایسے گرداب میں ، ایسی ہلاکت میں ڈالے جاتے ہیں جو بہت بڑی ہوتی ہے ).لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں.بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہوں کہ جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں.( اللہ تعالیٰ ان کو اس لئے مشکلات میں نہیں ڈالتا کہ ان کو فنا کر دے یا غرق کر دے بلکہ نیک لوگوں کو ابتلاء اس لئے آتے ہیں تا کہ ان دریاؤں کے نیچے جا کر اللہ تعالیٰ کی وحدت کے دریا میں جو پھر رہے ہیں وہ
493 خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم مزید اس کی طرف توجہ کریں اور اس دریا میں سے موتی تلاش کر کے لائیں) اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں.لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے اور وہ ہر طرح سے ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں.اور بدخلنیاں بڑھ جاتی ہیں یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ بچے ہیں“.(آج) کل یہی الزام لگایا جا تا ہے نا کہ اگر آپ بچے ہوتے تو اس طرح تکلیفیں نہ اٹھارہے ہوتے اور سارے مسلمانوں نے ایک طرف آپ کے خلاف محاذ نہ کھڑا کیا ہوتا.فرماتے ہیں کہ ”بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ بچے ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے.پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے اور اگر اس برگزیدہ پر بشریت کے تقاضا سے کچھ قبض طاری ہو تو خدا تعالیٰ اس کو ان الفاظ سے تسلی دیتا ہے.( ان کو فکر پیدا ہوتی بھی ہے تو تسلی دیتا ہے) کہ صبر کر جیسا کہ پہلوں نے صبر کیا اور فرماتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں.سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.پس وہ صبر کرتا رہتا ہے.یہاں تک کہ امر مقدر اپنے مدت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے.تب غیرت الہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے“.( ایک ہی تجلی میں دشمنوں کو پاش پاش کر دیتی ہے ) ”سواؤل نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے.(پہلے دشمن خوش ہوتے ہیں کہ ان کو وہ تکلیفیں دے رہے ہیں.پھر آخر جو انجام ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کا ہوتا ہے ).اسی طرح خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ بنی ہو گی اور ٹھٹھا ہوگا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے.لیکن آخر نصرت الہی تیرے شامل ہو گی اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا“.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 52 تا 54) پھر اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : میں نے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں.( یعنی لوگ پیچھے ہٹتے جارہے ہیں ) تب میں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو تو اس نے عربی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ جِئْتُ مِنْ حَضْرَةِ الْوِتْرِ یعنی میں اس کی طرف سے آیا ہوں جوا کیلا ہے.تب میں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا.اور میں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگر کیا تم بھی پھر گئے تو اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں.تب میں اس حالت سے منتقل ہو گیا.( یعنی پھر واپس اسی حالت میں آ گیا.فرمایا کہ یہ سب امور درمیانی ہیں.( بیچ کے معاملات ہیں جو ہونے ہیں.یہ انجام نہیں ہیں بلکہ یہ جو معاملات ہورہے ہیں، واقعات چل رہے ہیں ان کا ایک حصہ ہے).فرمایا ” جو خا تمہ امر پر منعقد ہو چکا ہے وہ یہی ہے کہ بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو
494 خطبہ جمعہ فرموده 16 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہزار ہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہو گا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا“.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 54) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یادر ہے کہ یہ الہامات اس واسطے نہیں لکھے گئے کہ ابھی کوئی ان کو قبول کر لے.بلکہ اس واسطے کہ ہر یک چیز کے لئے ایک موسم اور وقت ہے.پس جب ان الہامات کے ظہور کا وقت آئے گا.تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادہ تر ایمان اور تسلی اور یقین کا موجب ہوگی.والسلام على من اتبع الهدى انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 54) اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں ، قربانیوں اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ دین پر قائم رہتے ہوئے احمدیت یعنی حقیقی اسلام ( کی ترقی ) کے نظارے دکھاتا رہے.اس کے ساتھ ہی میں دعا کے لئے خاص طور پر ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں.پاکستان کی سالمیت کے لئے بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ اس ملک کو احمدیت کی وجہ سے ہی بچالے کیونکہ احمدیوں نے اس کے بنانے میں بہت کردار ادا کیا ہے اور بہت قربانیاں دی ہیں.اس ملک کو توڑنے اور بدامنی پھیلانے والے جو لوگ ہیں آج کل اس میں مصروف ہیں.انہوں نے نہ ہی کبھی پاکستان کے قیام میں حصہ لیا اور نہ ہی اس حق میں تھے کہ پاکستان بنے.لیکن اب ملک سے ہمدردی کے نام پر ایک نیا طریقہ انہوں نے اختیار کیا ہے.اسلام اور ملک کی بقا کے نام پر ملک کو توڑنے کے درپے ہیں.اللہ تعالیٰ ان ملک دشمنوں کی پکڑ کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے اور ہمارے ملک کو بیچائے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 45 مورخہ 6 نومبر تا 12 نومبر 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 495 (43) خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 2009 فرمودہ مورخہ 23 را کتوبر 2009ء بمطابق 23 را خاء1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ولی ہے اور ولسی کے تحت لغات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے.اس کا مطلب ہے مددگار.بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ ذات جو تمام عالم اور مخلوقات کے معاملات سرانجام دینے والی ہے.جس کے ذریعہ سے وہ عالم قائم ہے.اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت الوالی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جو تمام اشیاء کی مالک اور اُن پر تصرف رکھنے والی ہے.ابن اثیر کہتے ہیں کہ ولایت کا حق تدبیر ، قدرت اور فعل کے ساتھ منسلک ہے.اور وہ ذات جس میں یہ امور مجتمع نہیں ہوں گے تو ان پر لفظ والی کا اطلاق نہیں ہوگا.اور پھر لسان العرب میں یہ لکھا ہے.الوَلِی کا مطلب ہے دوست مددگار.ابن الاعرابی کے مطابق اس سے مراد ایسا محب ہے جو اتباع کرنے والا ہو.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا ( سورة البقرہ کی آیت 258 ہے).ابو اسحق نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں کہ مومنوں کی حاجات اور ان کے لئے ہدایت اور ان کے لئے براہین کے قائم کرنے کے حوالے سے مددگار ہے.کیونکہ وہی ہے جو انہیں ان کے ایمان کے لحاظ سے ہدایت میں بڑھاتا ہے ، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمُ هُدًى ( محمد : 18) اور اسی طرح وہ مومنوں کا ان کے دشمنوں کے خلاف مددگار ہے اور مومنوں کے دین کو ان کے مخالفین کے ادیان پر غلبہ دینے والا ہے.سورۃ بقرہ کی آیت کا تھوڑا سا حصہ میں نے بتایا تھا ، یہ کم آیت اس طرح ہے اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوايُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ.وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيتُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَتِ.أَوْلَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ.هُمُ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة : 258 ) کہ اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے.وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے.اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست شیطان ہیں.وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں.یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.پس حقیقت یہی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کا دوست بنتا ہے یعنی
496 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 ایسا ایمان جس میں دنیا کی ملونی نہ ہو.ایمان لانے کے بعد وہ اللہ کے نور کی تلاش میں مزید ترقی کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.انہیں پھر اللہ تعالیٰ کا میابیاں عطا فرماتا ہے.یہاں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا مطلب ہے کہ روحانی اور جسمانی کمزوریوں سے روحانی اور جسمانی ترقی اور مضبوطی کی طرف لے جانا.پس اللہ تعالیٰ اعلان فرما رہا ہے کہ جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ انہیں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی روحانی اور جسمانی کامیابیاں عطا فرمائے گا اور ان کو تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات دے گا.مگر شرط ایمان لانا اور اس میں ترقی کرنا ہے اور یہ ترقی اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پڑھنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے سے ہوتی ہے اور جو اس طرح عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کا ویسی ہو جاتا ہے.کوئی مخالف کوئی دشمن، کوئی دنیا کی حکومت ایسے لوگوں کو ختم نہیں کر سکتی.لیکن یہاں یہ بات بھی واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں پر مشکلات بھی آتی ہیں، مصیبتیں بھی آتی ہیں.جان ، مال اور اولا د کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے.اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر یہ کہنا کہ جسمانی مشکلات سے بھی نکالتا ہے ، اس کا کیا مطلب ہوا ؟ اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کا یہ تو مطلب لیا جا سکتا ہے کہ ایمان لانے والوں کے روحانی ترقی میں قدم آگے بڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا دوست ہو کر ان لوگوں کو روحانیت میں ترقی دیتا چلا جاتا ہے اور پھر آخرت میں جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے اجر سے نوازے گا.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ مومن جب اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان لاتا ہے تو صرف اپنی ذات کا مفاد اور ذاتی تکالیف اس کے پیش نظر نہیں ہوتیں بلکہ وہ جماعتی زندگی کی طرف دیکھتا ہے.بے شک ایک مومن کو ذاتی طور پر جسمانی اور مادی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.لیکن یہ انفرادی نقصانات بھی اگر وہ دین کی خاطر ہورہے ہوں تو اکثر اوقات جماعتی ترقی کا باعث بنتے ہیں.اسلام کی ابتداء میں جب مکہ میں آزادی سے تبلیغ نہیں کی جاسکتی تھی اور مسلمان بڑی سخت مظلومیت کی زندگی گزار رہے تھے.اس زمانہ میں جب مسلمانوں نے قربانیاں دیں تو کیا وہ قربانیاں رائیگاں گئیں؟ جو مسلمان اس وقت ظلموں کا نشانہ بنائے گئے کیا وہ بے فائدہ تھے؟ نہیں، ہر گز نہیں.اُس وقت بھی جب وہ مٹھی بھر مسلمان تھے، اُن کی ہر قربانی ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والی بنتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جماعتی ترقی کا بھی باعث بنتی چلی جاتی تھی.اس سے تبلیغ نہیں رک گئی.مسلمان ہونا یا اسلام میں شامل ہونا اس سے رک نہیں گیا.ظلموں کے با وجود ترقی پر قدم پڑتے چلے گئے.پھر ان ظلموں کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی تو ہجرت کرنے پر اللہ تعالیٰ نے مزید ترقی کے دروازے کھولے.عددی لحاظ سے بھی اور مالی لحاظ سے بھی مسلمان بڑھتے چلے گئے کہ وہی کفار مکہ جو ظلم کرنے والے تھے وہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہو گئے.جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی دیکھ لیں.ہر ابتلا اور امتحان جہاں جماعت کی روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے اور بنا
497 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 ہے وہاں مادی اور جسمانی ترقی کا بھی باعث بنا ہے.1974ء کے حالات نہ ہوتے تو ایک حصہ جو ملک سے باہر نکل کر پھیلا ، وہ نہ نکل سکتا.کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والا تھا.کوئی معمولی زمیندارہ کرنے والا تھا.کوئی معمولی ملازمت کرنے والا تھا.بچوں کی تعلیم کے وسائل بھی بعض کو ٹھیک طرح میسر نہیں تھے.یا وسائل تھے تو ماحول نہیں تھا.یورپ میں آ کر کئی بچے جو ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یا انہوں نے کی ہے یا ڈاکٹر بنے ہیں، انجینئر بنے ہیں پاکستان میں انہیں کے عزیز اتنی تعلیم نہیں حاصل کر سکے یار جحان نہیں ہوا یا وسائل نہیں تھے.پس یہ بات باہر آئے ہوئے ہر احمدی کو ذہن میں پیدا کرنی چاہئے کہ جہاں ان کے ایمان کی وجہ سے انہیں ملک سے نکلنا پڑا تو خدا تعالیٰ نے انہیں بہتر حالات مہیا فرمائے اور مالی کشائش کی صورت میں ان کے معیار بدل گئے.بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے ماحول بھی پیدا فرمایا اور من حیث الجماعت جماعت نے مالی لحاظ سے بھی اور عددی لحاظ سے بھی ترقی کی.اسی طرح جب انفرادی طور پر تعلیمی میدان میں آگے قدم بڑھے تو جماعت کے اندر بھی دنیاوی تعلیم کا معیار بھی بہت بلند ہوا اور یہ چیز ہر احمدی کو خدا تعالیٰ کے مزید قریب کرنے والی ہونی چاہئے اور ایمان میں ترقی کا باعث بنانے والی ہونی چاہئے.نہ کہ اس چیز سے کسی قسم کا تکبر یا فخر یا رعونت پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے تو اپنے ولی ہونے کا اظہار فرما دیا.ہم نے بھی حقیقی عبد بنتے ہوئے حقیقی عبد بننے کا نمونہ دکھانا ہے اور پھر یہ چیز ہمیں مزید روشنیاں دکھانے والی بنتی چلی جائے گی اور پھر صرف باہر آنے والوں میں ہی ترقی نہیں ہوئی بلکہ ان ظلموں کی وجہ سے جو 1974ء میں پاکستان میں ہوئے پاکستان میں رہنے والوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.جن کے کاروبار تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے پھر ان کے کاروباروں میں ترقیاں دیں جیسا کہ ہم نے ولی کے معنوں میں دیکھا ہے.وَلِی دوست اور مددگار کو بھی کہتے ہیں.پس جس نے احمدیت کی خاطر قربانی دی اللہ تعالیٰ نے اسے یا اس کی نسل کو حقیقی دوست اور مددگار بنتے ہوئے ترقیات سے نوازا.پھر دیکھیں 1984ء میں جب جماعت پر زمین تنگ کی گئی یا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور خلیفہ وقت کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی.تو پھر کون کام آیا؟ وہی ولی دوست اور مددگار جوتمام اشیاء پر تصرف رکھنے والی ذات ہے.اس وقت سفر کے دوران مختلف مواقع پر حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی ایسی حفاظت اور مدد فرمائی جو کوئی بھی دنیا وی دوست نہیں کر سکتا.پھر اس بات نے جہاں افراد جماعت کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کی وہاں اس ہجرت کے نتیجہ میں جماعت کی عددی ترقی بھی ہوئی اور پھر ایم ٹی اے کی نعمت سے اللہ تعالیٰ نے روحانی ترقی اور تبلیغ کے سامان بھی مہیا فرمائے.ایک وقت میں دنیا میں ایک آواز سنی جاتی ہے جو تربیت اور تبلیغ کی طرف توجہ دلانے والی ہے.پھر اس آیت میں جہاں ایمان میں ترقی کے ساتھ ساتھ جسمانی ترقی کا وعدہ کیا گیا ہے وہاں ایمان نہ لانے والوں کے بارے میں بتایا کہ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا اَوْلِيَتُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلمت اور جو لوگ کافر
498 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ وہ انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہ اصولی فیصلہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کا انکار کرنے والے شیطان کے دوست ہیں اور شیطان روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے.کبھی اس کے پیچھے چلنے والے روشنی کے نظارے نہیں دیکھ سکتے.آنحضرت ﷺ نے جب دعوئی فرمایا اور مکہ والوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو سرداران قریش جن میں سے بعض بڑے عقلمند اور اچھے انسان کہلاتے تھے اور بعض نیکیاں بھی کرتے تھے لیکن آنحضرت ﷺ کے انکار کی وجہ سے شیطان کے بہکاوے میں آکر، یا بہکاوے میں آنے کی وجہ سے ان نیکیوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور آخر ہلاکت ان کا مقدر بن گئی.ابوالحکم پہلے ابو جہل بنا اور پھر ذلت کی موت ملی.گزشتہ خطبہ میں میں نے اس کا ذکر بھی کیا تھا اور آج تک ابو جہل ہی کہلاتا ہے بلکہ تا قیامت ابو جہل ہی کہلائے گا.اس کا ولی شیطان تھا جو اس کی کوئی مدد نہیں کر سکا.وہ اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا.لیکن حبشی غلام، بلال ایمان کے نور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وَلِی بن گئے اور اللہ تعالیٰ کی دوستی اور مدد کے نتیجہ میں قیامت تک سیدنا بلال کا مقام پاگئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں روحانیت اور سچائی کے دعویدار ہونے کے باوجود آپ کے جومنکرین تھے آپ کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے.لیکن کئی ایسے جو جاہل اور اُجڑ تھے، کئی ایسے جو رشوت خور اور بدنام زمانہ تھے، جب ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا تو وہ ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق روحانیت میں ترقی کرنے والے بنتے چلے گئے.پس نبی کے انکار کرنے والے اس انکار کی وجہ سے اندھیروں میں گرتے چلے جاتے ہیں اور شیطان ان میں کینہ اور بغض اور نا انصافی اس قدر بھر دیتا ہے کہ وہ پھر مزید ظلمات میں گرتے چلے جاتے ہیں اور پھر ان کے انجام کے بارہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کا انجام بہت برا ہوگا.اس دنیا میں بھی وہ حسد کی آگ میں اور دشمنی کی آگ میں جلتے چلے جائیں گے.جماعتی ترقی کا ہر قدم ان کے بغضوں اور کینوں کو بھڑکائے گا.لیکن ان کے یہ غصے اور کینے ان لوگوں کو جن کا ولی اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے.پھر میں لغت کے کچھ حصے کی طرف آتا ہوں.لسان میں لکھا ہے کہ بعض نے وَلِيُّهُمُ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ مومنوں کو ثواب دینا.اور ان کے نیک اعمال پر انہیں جزاد دینا اللہ ہی کے اختیار میں ہے.پھر لکھا ہے ولی اللہ، اللہ کا دوست.وَلِبی میں مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی کام کرنے کا مضمون پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا چنیدہ اور مقبول بندہ اللہ تعالیٰ کے مسلسل فضلوں اور انعامات کا مظہر ہوتا ہے.اَلْوَلِيُّ وَالْمَوْلى، اس کی گرائمر کی تفصیلات چھوڑتا ہوں، آگے بیان ہے کہ مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے متعلق وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ وَمَوْلَاهُمُ دونوں طرح کہنا درست
499 خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ہے.پھر انہوں نے مختلف آیات کے حوالے سے آگے اس کی مزید وضاحت کی ہے.مثلا ذلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا (محمد :12) سورة محمد کی آیت ہے.پھر نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِير (الانفال: 41) انفال کی آیت ہے.پھر قُلْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمُ أَنَّكُمُ اَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ (جمعہ :7) سورۃ جمعہ کی آیت میں ہے.ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللهِ مَوْلَهُمُ الْحَقِّ (الانعام : 63) سورۃ الانعام کی آیت ہے.وَمَالَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَّال | (الرعد: 12) الرعد کی آیت ہے.اس میں وال کے معنی ولی کے ہیں.پھر آگے انہوں نے ان آیات کے حوالے سے گرائمر کی بحث کی ہے.تو اس بحث میں جانے کی بجائے میں آیات کو پیش کرتا ہوں.پہلی آیت جو سورۃ محمد کی ہے وہ مکمل اس طرح ہے کہ ذلِكَ بِانَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَانَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ (محمد: 12) یہ اس لئے ہے کہ اللہ ان لوگوں کا مولیٰ ہوتا ہے جو ایمان لائے اور کافروں کا یقینا کوئی مولیٰ نہیں ہوتا.اس آیت سے پہلے کی آیات میں سے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِن تَنْصُرُ وَ اللَّهَ يَنْصُرُكُمُ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمُ ( محمد :8 ) کہ اے مومنو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا.اس آیت میں آنحضرت تعلیم کے بعد کے زمانہ کے مسلمانوں کو بھی نصیحت ہے اور تنبیہ بھی ہے کہ صرف ایمان لانا کافی نہیں ہوگا بلکہ اللہ کے دین کی مددتم پر فرض ہے اور یہی چیز پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے تمہیں اللہ تعالیٰ کی مدد سے حصہ لینے والا بنائے گی.تمہارے ایمان مضبوط ہوں گے اور تم ایک جماعت کہلاؤ گے اور خاص طور پر مسیح موعود کے زمانہ میں جب تجدید دین ہونی ہے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی مدد کر یں.اگر یہ مدد کریں گے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے دیکھیں گے اور ایمان نہ لانے والوں کا پہلے انبیاء کے منکرین والا حال ہوگا.آج بھی مسلمانوں کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے.میں کئی مرتبہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو مدد اور نصرت کا ہے.اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ روشنیوں کی طرف لے جانے کا ہے لیکن مومن کہلانے کے باوجود اخباروں میں کالم نویس جو ہیں یہ لکھتے ہیں کہ ہم ایمان میں کمزوری کی طرف بڑھ رہے ہیں.ہم روشنیوں سے اندھیروں کی طرف جارہے ہیں.ہم مادی لحاظ سے بھی ترقی کی بجائے تنزل کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں.کون سی ایسی بُرائی ہے جو اس وقت ہم میں نہیں.یہ ان کے خود اپنے لکھنے والے لکھتے ہیں.پس کہیں نہ کہیں ہم نے اس خدا کو ناراض کیا ہوا ہے جو مومنوں کا مولیٰ ہے.اب بھی سوچنے کا وقت ہے کہ اپنے اندر ایمان کی روشنی پیدا کریں.اللہ کے دین کی نصرت کے لئے آگے آئیں.وقت کے امام کی پہچان کریں.آنحضرت ﷺ کا سلام پہنچا ئیں.صرف اس بات کی ضد کرنا کہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور اب کوئی نبی نہیں آسکتا عقلمندی نہیں ہے.بزرگان سلف جو ہیں ان کے اقوال کو دیکھیں اور غور سے دیکھیں اور پڑھیں کہ وہ کیا کہتے ہیں.صرف آجکل کے علماء جو نام نہاد اور سطحی علماء ہیں ان کے پیچھے نہ چلیں.بعض پرانے بزرگوں کے حوالے میں
500 خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پیش کرتا ہوں جو ہماری جماعت کے لٹریچر میں اکثر موجود ہیں بلکہ یہ ان کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں اور ان کو ہم پیش کرتے ہیں.حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ وہ نبوت جو آنحضرت کے وجود پر ختم ہوئی وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.پس آنحضرت کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آسکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے اور یہی معنی ہیں آنحضرت صلعم کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی اور لَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَسی یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو.ہاں اس صورت میں نبی آ سکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آسکتا جو شریعت لے کر آوے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو.پس یہ وہ قسم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے.ورنہ مقام نبوت بند نہیں.( فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 6 الباب الثالث والسبعون في معرفته عدد ما تحصل من الاسرار....داراحیاء التراث العربی بیروت طبع اول) پھر ان کا ایک اور حوالہ ہے کہ نبوت کلی طور پر اٹھ نہیں گئی.اسی وجہ سے ہم نے کہا تھا کہ صرف تشریعی نبوت بند ہوتی ہے.یہی معنی ہیں لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے.پس ہم نے جان لیا کہ آنحضرت ﷺ کا لا نَبِيَّ بَعْدِی فرمانا انہی معنوں سے ہے کہ خاص طور پر میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نہ ہو گا.کیونکہ آنحضرت صلعم کے بعد اور کوئی نبی نہیں.(فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 73 الباب الثالث والسبعون في معرفة عدد ما تحصل من الاسرار....دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اول) یہ بعینہ اسی طرح ہے جس طرح آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ جب یہ قیصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد قیصر نہ ہوگا اور جب یہ کسری ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہ ہوگا.( صحیح بخاری کتاب الایمان والنذ ور باب کیف کانت یمین النبی حدیث 6630) حضرت امام شعرائی فرماتے ہیں کہ وَقَوْلُهُ صَلَعَمُ فَلا نَبِيَّ بَعْدِى وَلَا رَسُولَ الْمُرَادُ بِهِ لَا مُشَرِّعَ | بعدی کہ آنحضرت صلعم کا یہ قول کہ میرے بعد نبی نہیں اور نہ رسول.اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں.الیواقیت والجواہر جلد 1 صفحہ 346 دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اول 1998 ء ) پھر حضرت ملا علی قاری ، موضوعات کبیر صفحہ 58-59 میں لکھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہو جاتا اور اسی طرح اگر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ہو جاتے تو آنحضرت ﷺ کے متبعین میں سے ہوتے.پس یہ قول خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے.کیونکہ خاتم النبیین کا
خطبات مسرور جلد هفتم 501 خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ اللہ کی امت سے نہ ہو.( موضوعات کبیر از ملاعلی قاری حرف لام حدیث نمبر 745 صفحہ 192 ناشر قدیمی کتب خانہ کراچی) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں.قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمَ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ كه يه تو کہو کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں مگر یہ بھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.تکملہ مجمع البحار جلد 5 صفحہ 502 زیر حرف زید ، مکتبہ دارالایمان مدینه منوره طبع ثالث 1994ء) پس ان حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے اسلاف کا یہ نظریہ نہیں تھا جو آجکل کے علماء کا پیدا کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور کریں اور ان حوالہ جات پر غور کریں تو ہر بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے پھر اس بات پر بھی غور کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو کس طرح مہلت دے سکتا ہے جو اس کی طرف جھوٹ منسوب کر کے الہامات بیان کر رہا ہو اور دعوی کرے کہ میں اس کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.یہاں تو اس کے الٹ ہم معاملہ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیں ہر قدم پر نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے ولی اور مولیٰ ہونے کے روشن نشان ہمیں نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک د فعہ آپ کو فرمایا کہ وَالله وليكَ وَرَبُّكَ اور خدا تعالیٰ تیرا متولی اور تیرا پرورندہ ہے یعنی ولی اور پالنے والا ہے.پھر آپ کو ایک الہام ہوا جو 1883ء کا ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ خبر دار ہو بہ تحقیق جو لوگ مقربان الہی ہوتے ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ تم کرتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 620 بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر 3) اس کے علاوہ بھی اس مضمون کے بے شمار الہامات آپ کو ہوئے.جھوٹے مدعی نبوت کے بارہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاقَاوِيْلِ.لَا خَذْنَا مِنْهُ بالْيَمِينِ (الحاقۃ : 45-46) اور اگر بعض جھوٹ ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم یقینا اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اپنے الہامات بیان کرنے کے بعد 25-26 سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ رہے اور نہ صرف زندہ رہے بلکہ جماعت کی ترقیات دیکھیں.اور یہی نہیں بلکہ بہت سے الہامات اللہ تعالیٰ نے بڑی شان سے پورے ہوتے ہوئے آپ کو دکھائے اور اللہ تعالیٰ نے بے شمار موقعوں پر اپنے ولی ہونے کا ثبوت دیا.ایسا واضح ثبوت جو ایک اندھے کو بھی نظر آتا ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تیرے ساتھ ہوں، تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں.آج تک ہم یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں اور انشاء اللہ آگے بھی دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ " تیری
502 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.( تذکرہ صفحہ 112.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ) یہ ایک اور الہام ہے کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا ( تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.یہ الہام 1886ء میں ہوا ہے.اس وقت قادیان کی کیا حالت تھی.کوئی ذرائع نقل و حمل اور رسل و رسائل نہیں تھے.کسی قسم کی سفر کی ٹرانسپورٹ کی ، کمیونیکیشن (Communication) کی صورت موجود نہیں تھی.سواری لینے کے لئے پیدل یا ٹانگہ پر چڑھ کے بٹالہ جانا پڑتا تھا.قادیا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا کسی کا اس طرف آنا نہیں تھا اور اس گاؤں سے آپ نے ایک دعویٰ کیا.اس وقت لوگ اس دعوی کو سن کر ہنتے ہوں گے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی دعوت دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی ہے.اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کون سی بڑی بات ہے کہ ہم بھی اپنی ویب سائٹس کے ذریعہ سے یا اپنے ٹی وی چینلز کے ذریعہ سے اپنے پروگرام جو احمدیت کے خلاف ہیں یا اسلام کی جو بھی تھوڑی بہت تبلیغ کرتے ہیں دنیا کے کناروں تک پہنچا رہے ہیں.تو اگر یہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے یا تبلیغ کے ذریعہ سے پہنچ گئے تو یہ تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے.لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا کسی نے ان وسائل کے نہ ہوتے ہوئے ، ان وسائل کے شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ اعلان کیا تھا؟ کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.یا میں تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.یا سو سال پہلے تو بڑی بات ہے اب بھی شروع کرنے سے چند مہینے یا سال پہلے کسی نے یہ اعلان کیا ہو کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میں تمہارے اس کام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اگر تو کوئی یہ دعوی کرتا ہے تو کھل کے اعلان کرے کہ ہاں مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ یہ میرا پیغام ہے دنیا تک پہنچاؤ.ویب سائیٹ کے ذریعہ پہنچاؤ یا ٹی وی چینل کے ذریعہ پہنچاؤ اور میں تمہاری مدد کروں گا لیکن کبھی کوئی سامنے نہیں آسکتا.ویسے ہر بات پر اعتراض کرنا تو بڑا آسمان ہے اور آجکل کے سکالرز اور علماء کا یہی حال ہے کہ بیٹھے بٹھائے جو چاہامنہ میں آیا اور اعتراض کر دیا.یہ اصل میں حسد کی آگ ہے جواب برداشت نہیں ہو رہی.جس کی وجہ سے دشمنیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں.جماعت کو پھیلتا ہوا دیکھ کر اندر ہی اندر سلگتے چلے جا رہے ہیں اور حسد کی یہ آگ پیدا ہونی ہی تھی کیونکہ اس کے بارہ میں خدا تعالیٰ پہلے ہی فرما چکا ہے کہ نور سے ظلمات کی طرف جائیں گے.جب بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا دعویٰ ہوگا مخالفین کھڑے ہوں گے اور وہ مخالفین اگر کوئی عقل رکھتے بھی تھے تو اس مخالفت کی وجہ سے پھر ان کی عقل ماری جائے گی اور روشنیوں کی بجائے وہ اندھیروں میں گم ہوتے چلے جائیں گے اور پھر اَصْحَبُ النَّار بنتے چلے جائیں گے.اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل دے.ہمارا تو اللہ مولیٰ ہے اور ہر قدم پر اپنے ولی ہونے اور دوست ہونے کا اور مددگار ہونے کا اور نگران ہونے کا
503 خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اپنے فضلوں سے مسلسل نواز نے کا اظہار کرتا ہے اور نظارے دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمیشہ خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم ہمیشہ اس خدا تعالیٰ سے فیض پاتے رہیں جس نے ہمیں یہ تسلی دی ہے کہ آن الله مَوْلَاكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ.جان لو کہ اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے اور والی ہے.کیا ہی اچھا والی ہے اور کیا ہی اچھا مد دکر نے والا ہے.اب جمعہ کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا.اس کے بعد ان کے بارہ میں اعلان کرتا ہوں.پہلا تو ہے مکرم ذوالفقار منصور صاحب ابن مکرم منصور احمد صاحب مرحوم آف کوئٹہ کا ، جن کو 11 /اکتوبر کو کچھ شر پسندں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انہیں شہادت سے ایک ماہ قبل اپنے گھر سے کار پر نکلتے ہوئے اغواء کیا گیا تھا اور رقم کا مطالبہ کیا گیا کہ اتنی رقم دو.کافی بڑی رقم تھی اور مسلسل رابطہ رکھا اور رقم کا انتظام بھی ہورہا تھا لیکن آخر ایک دن پتہ لگا کہ ایک جنگل میں ان کی لاش پڑی ہے اور ساتھ یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگ کیونکہ بہت سے لوگوں کو قادیانی بنا لیتے ہیں اس لئے اس کو ہم زندہ نہیں چھوڑیں گے.شہادت سے قبل ان پر کافی تشدد بھی کیا گیا.ایک آنکھ میں فائر کر کے چہرے کو بری طرح مسخ کیا گیا.یہ بڑے ایکٹو (Active) خادم تھے.بڑے دیانتدار انسان تھے اور آجکل نائب قائد خدام الاحمدیہ کی خدمت بھی انجام دے رہے تھے.اس سے پہلے ان کے ایک چا عباس احمد صاحب کو اپریل 2008ء میں شہید کیا گیا تھا اور 2009ء جون میں ان کے ایک اور رشتہ کے چا خالد رشید صاحب کو شہید کیا گیا.یہ نو جوان حضرت منشی عبد الکریم صاحب بٹالوی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے پڑپوتے تھے.پسماندگان میں ان کی بوڑھی والدہ اور اہلیہ ہیں اور دو بچے ہیں.ایک بیٹی بعمر 9 سال اور ایک بیٹا بھمر 6 سال.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند کرتا چلا جائے.دوسرے ہمارے شام کے ایک دوست مُحَمَّد الشَّوَاء صاحب 14 اکتوبر 2009ء کو وفات پاگئے تھے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ شام کے پرانے مخلص بزرگ تھے اور بڑے مثالی احمدی تھے خلافت اور نظام جماعت سے عشق و وفا کا اور اطاعت و احترام کا تعلق تھا.نیک اور متقی انسان تھے.جب بھی کوئی کام سپر د ہوتا بڑی ذمہ داری سے سرانجام دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق تھا.آپ کے نام کے ساتھ ہی جذباتی ہو جایا کرتے تھے.1950ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور بڑے منجھے ہوئے وکیل تھے.آپ کی بیعت کا واقعہ اس طرح ہے کہ بیعت سے قبل جماعت سے تعارف کے بعد ایک مشہور عالم ناصر البانی جو جماعت کے شدید مخالف تھے اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے اور عرب دنیا میں ان کا بہت چرچا تھا.ان سے ملنا شروع کیا اور
504 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 ان سے جماعت کے عقائد کے بارہ میں پوچھا اور انہیں ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک پادری ایک احمدی کے آگے کس طرح بے بس ہو گیا.کس طرح ہتھیار ڈالے اور کیسے اس احمدی کی اس بات نے صلیب کو تو ڑ کر رکھ دیا.اس پر ناصر الدین البانی نے کہا کہ ہم عیسائیوں کا منہ بند کرنے کے لئے ان سے کہہ سکتے ہیں کہ عیسی بن مریم فوت ہو گئے ہیں.اس پر انہوں نے پوچھا کہ کیا حقیقت میں حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں ؟ تو البانی صاحب نے کہا نہیں.اس پر آپ نے ان کو کہا کہ میں جا کے بیعت کرنے لگا ہوں کیونکہ عقیدہ کسی دوغلی پالیسی کا محتاج نہیں ہوتا اور پھر آپ نے بیعت کر لی.نیشنل عاملہ کے ممبر بھی تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب شام تشریف لے گئے تو آپ کے ساتھ ان کو لبنان جانے کا شرف بھی حاصل ہوا.بیان کرتے ہیں کہ اس سفر کے دوران بعلبك کے آثار قدیمہ کی سیر بھی کی.بعلبك پر انا معبد تھا.اس کی سیر کے دوران حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہاں غیر اللہ کی عبادت ہوتی رہی ہے لیکن آج ہم میں سے ہر ایک یہاں پر خدائے واحد کی عبادت کرتے ہوئے دو رکعت نفل ادا کرے، چنانچہ سب نے ایسا ہی کیا.بڑے اچھے وکیل تھے اور خلافت سے ایسا تعلق تھا کہ وکیل ہونے کی وجہ سے ہر بات کے لئے وہ دلیل چاہتے تھے لیکن جب یہ کہ دیا جائے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے تو کہتے تھے.بس ختم ، جب یہ حکم آگیا تو بات ختم ہو گئی.اب یہی فیصلہ ہے.خلافت رابعہ کے زمانہ میں بعض احمد یوں پر مقدمات بنائے گئے ان مقدمات کی انہوں نے پیروی کی اور رہائی کے سامان اللہ تعالیٰ نے فرمائے.بڑے حاضر جواب تھے.ایک دفعہ شروع میں نو جوانی میں عدالت میں پیش ہوئے.حالانکہ وکالت کا لباس بھی پہنا ہوا تھا تو حج نے بڑے استہزائیہ انداز میں کہ نوجوان وکیل ہے پوچھا کہ کیا تم وکیل ہو؟ آپ اس مقدمہ میں پیش ہونے والے اکیلے وکیل تھے اور تو کوئی تھا نہیں اور وکالت کے لباس میں بھی تھے ، آپ نے فورا حج سے پوچھا کہ کیا تم حجج ہو ؟ تو اس پر حج خاموش ہو گیا اور سنا ہے کہ بڑی سیکی برداشت کرنی پڑی.عربی ڈیسک والے ہمارے مبلغین جو پڑھنے جاتے رہے ہیں ان کے ساتھ بھی یہ بڑا شفقت کا سلوک فرماتے رہے اور ان کی زبان ٹھیک کرنے میں انہوں نے بڑی مدد کی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور آگے ان کی نسلوں میں بھی احمدیت قائم رکھے.ہمارے محمد اولیس السعو دی صاحب ایم ٹی اے کے کارکن ہیں اور محمد ملص صاحب آجکل یو کے میں ہیں یہ دونوں ان کے نوا سے ہیں.تیسرا جنازہ ہے میاں غلام رسول صاحب کا ہے جو مکرم میاں سراج الحق صاحب آف میرک ضلع اوکاڑہ کے بیٹے تھے.یہ ہمارے ٹرینیڈاڈ کے مبلغ مظفر احمد خالد صاحب کے والد تھے.موصی تھے.بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.
505 خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم یہ حضرت میاں محمد دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے پوتے تھے.غیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے.نیک ،تہجد گزار، غریبوں کا دردر کھنے والے مخلص انسان تھے.ان کے جنازہ میں کئی غیر از جماعت بھی شامل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آج ہم بھی یتیم ہو گئے ہیں.ایم ٹی اے کے ذریعہ یا کیسٹس کے ذریعہ سے لوگوں کو تبلیغ کیا کرتے تھے اور ان کے ذریعہ سے کئی بیعتیں ہوئی ہیں.چوتھے ہمارے ایک مبلغ مظفر احمد منصور صاحب وفات پاگئے ہیں.ان کو 9 را کتوبر 2009 ء کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اچانک وفات ہوگئی.ان کی عمر 60 سال تھی.مغربی افریقہ میں آئیوری کوسٹ اور برکینا فاسو میں خدمات بجا لاتے رہے ہیں.آجکل اصلاح وارشاد میں تھے.بڑی محنت سے کام کرنے والے تھے.میں ان کو بچپن سے جانتا ہوں.اطفال الاحمدیہ میں بھی اور خدام الاحمدیہ میں بھی ہم نے اکٹھے کام کیا ہے.بڑے ہی محنت سے اور توجہ سے کام کرنے والے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر دے.مظفر منصور صاحب کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.الفضل اندر نیشنل جلد 16 شماره 46 مورخہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2009 صفحہ 5 تا صفحه 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 506 (44) خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 فرمودہ مورخہ 30 را کتوبر 2009 ء بمطابق 30 را خاء1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت ولی کے حوالے سے بعض آیات کا ذکر کیا تھا.جن کا بیان اہل لغت نے اپنی لغات میں کیا ہے اور ان کی روشنی میں ایک دو آیات کا مضمون بھی بیان ہوا تھا.باقی آیات کچھ رہ گئی تھیں ان میں سے بھی ایک آیت آج بیان کروں گا اور اس کے علاوہ جو میں نے اُس دن نہیں پڑھی تھیں ان میں سے بھی ایک آدھ آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ولی کا ذکر کیا ہوا ہے بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ کے وَلِی اور مولی ہونے کا ذکر تو کئی جگہ قرآن کریم میں آتا ہے ، تمام آیات تو بیان نہیں کی جاسکتیں جیسا کہ میں نے کہا چند بیان کرتا ہوں اور یہ بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں ہوگا.اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور غیر مومنوں دونوں کو اپنی اس صفت کے حوالے سے توجہ دلائی ہے.بلکہ کفار کو تنبیہ بھی کی ہے.سورۃ رعد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ.إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُونِهِ مِنْ وَّال (الرعد : 12).اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اس کے لئے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے محافظ مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں.یقینا اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خودا سے تبدیل نہ کریں جو ان کے نفوس میں ہے.اور جب اللہ کسی قوم کے بدانجام کا فیصلہ کر لے تو کسی صورت اس کا ٹالنا ممکن نہیں اور اس کے سوا ان کے لئے کوئی کارساز نہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ ہم نے دیکھا چار باتیں بیان فرمائی ہیں.پہلی بات تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لی ہوئی ہے.دوسری یہ کہ قوموں کی حالت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل کے مطابق کرتا ہے.تیسرے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو سزا کا مستوجب قرار دیتا ہے تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا اور پھر یہ کہ اللہ تعالی ہی حقیقی ولی اور نگران اور محافظ اور مددگار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آیت کے اس حصہ کہ لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ کے ذکر میں فرماتے ہیں کہ:
خطبات مسرور جلد ہفتم 507 خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 ” خدا تعالیٰ کی طرف سے چوکیدار مقرر ہیں جو اس کے بندوں کو ہر طرف سے یعنی کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر حفاظت کرتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 79) یہ حفاظت سب سے زیادہ کن لوگوں کی ہوتی ہے؟ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی؟ ان کی حفاظت پر سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے اپنا حفاظتی ہاتھ رکھا ہوا ہے، اور آنحضرت میہ کی پیدائش کے بعد خدا تعالیٰ کو اگر کوئی سب سے پیارا تھا تو وہ آنحضرت میہ کی ذات تھی.اور پیدائش سے لے کر وفات تک ہر موقع پر جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے اس قول کو آپ اللہ کی ذات پر پورا کر کے دکھایا ، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تفسیر میں اسی وجہ سے فرمایا ہے کہ لَهُ مُعَقِّبَات یعنی اس کے لئے چوکیدار ہیں.لہ کی ضمیر جو ہے آنحضرت ﷺ کی ذات کی طرف پھرتی ہے.جہاں ہر موقع پر خدا تعالیٰ کی حفاظت ہمیں نظر آتی ہے.مکہ میں آپ نے جو زندگی گزاری جیسا کہ اسلام کی تاریخ سے ہر ایک پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر موقعہ پر آپ کی حفاظت فرمائی.سورۃ رعد جس کی میں نے آیت پڑھی ہے.یہ آپ پر مکہ میں نازل ہوئی تھی جبکہ دشمنی کی ایک انتہا ہوئی ہوئی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ان خوفناک اور خطرناک حالات میں بھی آپ کی ایسی حفاظت فرمائی کہ دشمن جو چاہتا تھا، جس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا اس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکا.بدر کی جنگ میں ہم ظاہری و باطنی حفاظت کا شاندار نظارہ دیکھتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ عامرا بن طفیل ایک سردار تھا.آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو کیا آپ کے بعد خلافت مجھے مل جائے گی ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس شرط لگانے والے اور اس کی قوم کو کبھی بھی خلافت نہیں مل سکتی.اس پر وہ ناراض ہو گیا اور کہا کہ میں ایسے سوار لاؤں گا جو آپ کو نعوذ باللہ الیسا سبق دیں گے کہ آپ ہمیشہ یا درکھیں گے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ تمہیں کبھی اس کی توفیق ہی نہیں دے گا.بہر حال وہ اپنے ساتھی کے ساتھ جسے وہ اپنے ساتھ لایا تھا، غصہ میں واپس لوٹا.راستے میں اس کے ساتھی نے اس سے کہا کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے آؤ واپس چلتے ہیں.میں محمد ﷺ کو باتوں میں لگاؤں گا اور تم تلوار کا وار کر کے کام تمام کر دینا.عامر کچھ پتا بھی تھا، لگتا ہے اس کو عقل بھی زیادہ تھی.اس نے کہا اس سے تو بہت بڑا خطرہ ہے.اس کے بعد آپ ﷺ کے ساتھی ہمیں قتل کر دیں گے.اس ساتھی نے جو زیادہ ہی شیطان فطرت تھا کہا کہ ہم اس کے بدلہ میں دیت دے دیں گے.بہر حال اس نے اپنے ساتھی کو منالیا اور وہ واپس لوٹے.عامر کے ساتھی نے آپ میں سے باتیں شروع کیں اور عامر نے پیچھے کھڑے ہو کر تلوار سونتی لیکن وہ آپ پر وار نہ کر سکا.اللہ تعالیٰ نے اس پر
خطبات مسرور جلد ہفتم 508 خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 آنحضرت ﷺ کا ایسا رعب طاری فرمایا کہ اس کا ہاتھ وہیں کھڑا رہ گیا اور حملے کی جرات نہیں ہوئی.اتنے میں آنحضرت ﷺ نے مڑ کے دیکھا تو اس کے ہاتھ میں تلوار تھی.تلوار کا قبضہ ہاتھ میں تھا اور اٹھائی ہوئی تھی.تو آپ ﷺے اس الله کے ارادے کو بھانپ گئے اور پیچھے ہو گئے ، ایک طرف ہو گئے.اس پر وہ دونوں وہاں سے چپکے سے چلے گئے اور آپ نے ان کو جانے دیا، کچھ نہیں کہا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک تو آنحضرت مہ کی حفاظت فرمائی اور پھر ان دونوں سے انتقام کس طرح لیا؟ اس کے ساتھی پر تو راستہ میں بجلی گری اور ختم ہو گیا.اور عامر کے متعلق آتا ہے کہ وہ کا ر بنکل ایک بیماری ہے.ایک پھوڑا ہوتا ہے،اس سے ہلاک ہو گیا.(ماخوذاز تفسیر کبیر جلد سوم صفحه 392-391 مطبوعہ ربوہ ) تو یہ ایک مثال ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ مختلف وقتوں میں آپ کی حفاظت کے واقعات ہمیں ملتے ہیں اور چند ایک نہیں بلکہ آپ کی پوری زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی خاص حفاظت فرشتوں کے ذریعے سے نظر آتی ہے.اس حفاظت کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے مکہ میں کیا تھا مدینہ میں آپ کی تسلی کے لئے اس کا اعادہ فرمایا اور فرمایا وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة :68) یعنی اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : حضرت ﷺ کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے.کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة : 68) اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر زمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہوگا“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 364-363 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ علاوہ فرشتوں کے میرے نزدیک وہ مخلص صحابہ بھی مُعَقِّبَات میں سے تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ ﷺ کے آگے پیچھے لڑنے کا عہد پورا فرمایا.اور صحابہ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ کی حفاظت کی.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ مِنْ اَمْرِ اللهِ کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے حفاظت کرنے والے ہیں.ایک تو فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا رہا.دوسرے اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں کو پابند کر دیا کہ وہ آپ ﷺ کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار ر ہیں اور آپ کی حفاظت کے لئے ہر وقت حاضر رہیں.اُس ایمان کی وجہ سے یہ قربانی دیں جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ان صحابہ کے دلوں پر قائم ہوا.ان صحابہ نے کسی قومیت یا قبیلے کی وجہ سے آپ کا ساتھ نہیں دیا.یا کسی دوستی اور ضد کی وجہ سے ساتھ نہیں دیا.بعض دفعہ بعض ایسے ساتھی بن جاتے ہیں جو کسی کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ خود بھی اس کے مخالف ہوتے ہیں اور ضد میں ساتھ دے رہے ہوتے ہیں.آپ کے آگے اور پیچھے لڑنے کے لئے کسی ضد کی وجہ سے یہ لوگ تیار نہیں
509 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 ہوئے تھے یا کسی حکومت کے خوف کی وجہ سے مجبور نہیں تھے.بلکہ اس ایمان کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ نے صحابہ کے دلوں میں پیدا کیا تھا خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوئے تھے.پس سب سے زیادہ تو آنحضرت ﷺ کی ذات کی حفاظت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا.لیکن ایک معنی اس کے یہ بھی ہیں جو ہر انسان پر لاگو ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہوا ہے.اگر وبائی امراض نہ بھی پھیلی ہوں تب بھی فضا میں مختلف قسم کے بیماریوں کے جراثیم ہیں جو انسان کی سانس کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک دفاعی نظام رکھا ہوا ہے جو انسان کے اندر ان گندے جراثیم کو انسانی جسم کو متاثر کرنے سے باز رکھتا ہے.اور اس کے علاوہ اپنے خاص ولیوں کو بعض دفعہ نشان کے طور پر بھی ان چوکیداروں کے ذریعہ سے حفاظت کا نظارہ دکھاتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے اُن فرستادوں کے لئے نہیں ہوتے بلکہ ان کے ماننے والوں کی بھی حفاظت کرتے ہیں.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد سوم صفحه 393-392 مطبوعہ ربوہ ) اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی نشانی کے طور پر طاعون کی بیماری کا نشان دکھایا تو آپ اور آپ کے حقیقی ماننے والوں کی حفاظت کا وعدہ بھی فرمایا.چنانچہ جب حکومت نے کہا تھا کہ ٹیکہ لگوایا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کشتی نوح میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کراتے“.فرمایا کہ اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے.سواس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے.اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 1-2 اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح با وجود بڑے وسیع پیمانے پر طاعون پھیلنے کے اور کئی سال تک یہ وبا چلتے چلے جانے کے پانچ چھ سال کے عرصے پر محیط ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی محفوظ رہے.پھر بیماریوں کے علاوہ بھی مختلف قسم کے صدمات ہیں.مال کا صدمہ انسان کو پہنچتا ہے.اولا د کا صدمہ انسان کو پہنچتا ہے.عزت کا صدمہ پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے یہ طاقت دیتا ہے تو انسان وہ برداشت کر سکتا ہے.ور نہ انسان اس صدمہ سے ہی پاگل ہو جاتا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے.بعض انسانوں پر ان صدمات کے اثرات نظر بھی آتے ہیں اور عجیب ذہنی کیفیت ان کی ہوئی ہوتی ہے.بلکہ اس حالت میں پھر بعض دفعہ
510 خطبہ جمعہ فرمودہ 30اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بعض لوگوں کو جو صدمات پہنچتے ہیں ان کا خدا تعالیٰ سے بھی یقین اٹھ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے خلاف بول رہے ہوتے ہیں.تو یہ نمونے جواللہ تعالیٰ بعض دفعہ دکھاتا ہے وہ اس طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور اس کی حفاظت کا انتظام نہ ہو تو انسان کی زندگی چل ہی نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی حفاظت کی وجہ سے انسان کی زندگی کا جو ایک ایک لمحہ ہے اللہ تعالیٰ اس میں اپنے نیک بندوں سے خاص سلوک فرماتا ہے اور وہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھتے ہیں اور صدمات اور مصائب میں جب بھی وہ ان پر آتے ہیں تو انا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُونَ کہتے ہیں اور پھر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی جو رحمت ہے وہ انہیں سمیٹتی چلی جاتی ہے اور انہیں ہر مصیبت اور مشکل کے بدنتائج سے محفوظ رکھتی ہے.پھر قانون قدرت کے تحت اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا اثر کیونکہ تمام مخلوق اور تمام انسانوں کو پہنچ رہا ہے جس میں خدا تعالیٰ کو ماننے والے اور نہ ماننے والے سب شامل ہیں تو اس مضمون میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے انکاری اور کافروں کے لئے بھی سبق ہے کہ اگر شرارتوں میں بڑھتے رہے تو اللہ تعالیٰ جو تمہیں آرام مہیا کرنے والا ہے اور حفاظت کے سامان کرنے والا ہے اپنی حفاظت واپس بھی لے سکتا ہے اور ایسی صورت میں تمہاری تباہی لازمی ہے.پھر اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الرعد: 12 یعنی یقینا اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی اندرونی حالت کو نہ بدلیں.اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکوں کے متعلق اپنا رویہ نہیں بدلتا.جو نیک لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہمیشہ فیض پاتے چلے جاتے ہیں.جب تک ان میں نیکیاں رہیں گی، جب تک وہ خدا تعالیٰ کے احکامات کے پابند رہیں گے ، جب تک وہ حقوق اللہ کی ادائیگی کرتے رہیں گے ، جب تک وہ حقوق العباد خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہیں گے، جب تک وہ من حیث الجماعت نیکیوں پر قائم رہیں گے تو وہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنتی چلی جائے گی.اللہ تعالیٰ کے فضل، اس کی رحمت ، اس کے انعامات اس وقت اٹھنا شروع ہوتے ہیں جب لوگ اللہ تعالیٰ کے ولی بننے کی بجائے شیطان کو اپنا ولی بنانا شروع کر دیتے ہیں.نیکیاں جو ہیں وہ مفقود ہونی شروع ہو جاتی ہیں.ظلم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.سفا کی جنم لینا شروع کر دیتی ہے.حقوق غصب کئے جانے لگتے ہیں.حکومتی کارندے رشوت اور نا انصافی میں تمام حدود پھلانگنے لگ جاتے ہیں.ہر شخص دوسرے کے مال پر نظر رکھ رہا ہوتا ہے.مذہب کے نام پر خون کئے جاتے ہیں.تو اُس وقت پھر اللہ تعالیٰ اپنی امان اور حفاظت اٹھالیتا ہے.پس اس حصہ آیت کا صرف یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ بُروں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتا بلکہ یہ ہے کہ نیکوں کے بارے میں خدا تعالیٰ اپنے رویہ کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود بدیوں اور برائیوں میں اپنے آپ کو مبتلا کر کے خدا تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کر لیں.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.دنیا وی تاریخ تو ہمیں اس انجام کو
511 خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم خدا تعالیٰ کی تقدیر کے حوالے سے نہیں دیکھاتی.لیکن مذہبی تاریخ اس بات پر گواہ ہے.قرآن کریم کھول کھول کر اس بات کو ہمارے سامنے بیان فرماتا ہے کہ جب برائیاں قوموں میں جنم لینے لگتی ہیں.جب نیکیاں مفقود ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی امان اور حفاظت اٹھ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ ایک دفعہ تم نے کلمہ پڑھ لیا تو ہمیشہ کے لئے پناہ میں آگئے.اللہ تعالیٰ نے ایک اصولی بات بتا کر ہوشیار کر دیا کہ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلحت اصل شرط ہے.یہاں اس حصہ آیت میں تو یہ بیان نہیں ہوئی.دوسری بے شمار جگہ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے کہ ایمان لانے کے بعد جو نیک اعمال ہیں وہ اصل شرط ہیں.پس آج پوری امت کے لئے اور خاص طور پر ان مسلمان ملکوں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے جو ظلم و تعدی میں بڑھ رہے ہیں.شرفاء کوختم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انگلی بات فرمائی اور اس پر آجکل غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے خاص طور پر پاکستانیوں کو تو تو بہ اور استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ كه جب الله تعالیٰ کسی قوم کے بدانجام کا فیصلہ کر لے تو اسے ٹالنا ممکن نہیں.پس ضرورت ہے کہ کسی آخری فیصلہ سے پہلے اپنی حالتوں کو پھر نیکیوں کی طرف لانے کی کوشش کی جائے.کاش ہمارے لوگ یہ سمجھ لیں.ملک کے لوگوں کو اس کی عقل آجائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انسان کو عذاب ہمیشہ گناہ کے باعث ہوتا ہے.خدا فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَايُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الرعد: 12) اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ کرئے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 232 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”جب لوگوں نے اپنے افعال اور اعمال سے غضب الہی کے جوش کو بھڑ کایا اور بدعملیوں سے اپنی حالتوں کو ایسا بدل لیا کہ خوف خدا اور تقویٰ و طہارت کی ہر ایک راہ کو چھوڑ دیا اور بجائے اس کے طرح طرح کے فسق و فجور کو اختیار کر لیا اور خدا تعالیٰ پر ایمان سے بالکل ہاتھ دھو دیا.دہریت اندھیری رات کی طرح دنیا پر محیط ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے نورانی چہرے کو ظلمت کے نیچے دبا دیا تو خدا نے اس عذاب کو نازل کیا تا لوگ خدا کے چہرے کو دیکھ لیں اور اس کی طرف رجوع کریں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 37 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس خدا تعالیٰ کے عذاب کسی بھی رنگ میں آئیں، اس وقت آتے ہیں جب یہ کیفیت ہوتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لئے تبدیلی ہو.یعنی وہ ان عذابوں اور دکھوں سے رہائی پائے جو شامت اعمال نے اس کے لئے تیار کئے ہیں اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے.
خطبات مسرور جلد ہفتم 512 خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہےتو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بانفُسِهِمُ میں کیا ہے اس کے عذاب اور دکھ کو بدلا دیتا ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 119 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یعنی پھر وہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے فیض حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے انعامات اس پر نازل ہوتے ہیں.برائیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے جو آثار نظر آ رہے ہوتے ہیں وہ دور ہو جاتے ہیں.پس آجکل مسلم امہ کو بھی سوچنے اور بہت سوچنے اور استغفار کی ضرورت ہے.اللہ کرے کہ ان کو عقل آجائے.احمدی بھی جہاں ان کے تعلقات ہیں ان کو اس بات کو سمجھانا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وال (الرعد: 12) اور اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں.کوئی والی نہیں.پس جب خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو حفاظت میں رکھنے والا ہے یا مددگار ہے یا اپنے بندوں کی ہر شر کے خلاف نگرانی کرنے والا ہے تو اس کی تلاش کی ضرورت ہے.یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور وہ کہاں ملتا ہے.اگر باوجود نمازیں پڑھنے کے نتیجے نہیں نکل رہے ، وہ نتیجے نہیں نکل رہے جو آخری نتیجے ہوں.اگر باوجو د روزوں کے قومی لحاظ سے انحطاط پذیری ہے.اگر با وجود لاکھوں لوگوں کے حج کا فریضہ ادا کرنے کے بہتری کے نشانات نظر نہیں آ رہے تو یقیناً ان سب عبادتوں کا حق ادا کرنے میں کہیں نہ کہیں کمی ہے.اللہ کرے اُمت کو اس کی سمجھ آ جائے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف حقیقی رجوع کرنے والے ہوں.اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے سورۃ انفال میں اس طرح بیان فرمایا ہے.فرمایا کہ ذلِكَ بِاَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةَ أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الانفال:54) یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی وہ نعمت تبدیل نہیں کرتا جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو.یہاں تک کہ وہ خود اپنی حالت کو تبدیل کر دیں اور یا درکھو کہ یقیناً اللہ بہت سنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اسے مزید کھول دیا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو تبدیل نہیں کرتا.جب تک وہ خود اپنی حالت اس نعمت سے محرومی کی نہ بنالے اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی دی ہوئی نعمت نہیں چھینتا.انسان خود اپنے اعمال کی وجہ سے، اپنی بدبختی کی وجہ سے، اپنی بدقسمتی کی وجہ سے ان نعمتوں کو ضائع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہمارے سامنے قرآن کریم میں آگیا ہے.یہ صرف پرانے لوگوں کے قصے بیان کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی ہوشیار کرنے کے لئے ہے کہ یہ کتنی بڑی نعمت تمہیں مل گئی ہے اس کی قدر کرنا.اس نعمت کو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ:4) کہ اپنی نعمت کو میں نے پورا کر دیا.پس یہ نعمت آخری شرعی کتاب کی صورت میں، قرآن کریم کی صورت میں ہمیں ملی.عمل کا حکم ہے اور جب اس پر عمل ہوگا تو تب ہی نیکیاں قائم ہوں گی اور جب نیکیاں قائم ہوں گی تو پھر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد ہفتم 513 خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 اپنی حفاظت میں لے لے گا.اپنے مولیٰ ہونے کا ثبوت دے گا.اس کے نظارے دکھائے گا.جو اقبال نے کہا تھا اس سے یہ مزید واضح ہوتا ہے کہ ع گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی (با نگ درا ، از کلیات اقبال صفحہ 139، ناشر: جواد اکمل بث مطبع: نیاز جہانگیر پرنٹرز ، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور) اور اس کا نتیجہ پھر یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے محروم ہو گئے.نعمت کو ضائع کر دیا.اللہ تعالیٰ کی حفاظت بھی اٹھ گئی.غیر ہم پر حکومت کرنے لگ گیا.کیا اب بھی مسلمانوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ اُمت جس کے بارہ میں قرآن کریم نے اعلان فرمایا تھا.اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا تھا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : 111 کہ تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.وہ اُمت جو فائدے کے لئے پیدا کی گئی تھی وہ اس انعام سے محروم کیوں ہو رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو اسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا تھا.لیکن انعامات سے محرومی کیوں ہے؟ اس لئے کہ اپنے لوگوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں.کہیں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کئے جاتے ہیں.اب کل پرسوں ہی پشاور میں جو دھماکہ ہوا، معصوم جانیں ضائع ہوئیں وہ اسی کا نتیجہ ہے.کہیں خود کش حملے ہو رہے ہیں.کہیں مذہب کے نام پر احمدیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے یا بعض دوسرے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے.یہ کون سی خیر ہے جو امت کے نام نہاد علماء کے ٹولے کے پیچھے چل کر تقسیم کی جارہی ہے یا جس کو تقسیم کرنے کے لئے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں.پس سوچنے کا مقام ہے.اپنی حالتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے.ورنہ جب خدا تعالیٰ کی آخری فیصلہ کن تقدیر حرکت میں آ جائے تو پھر کوئی اس انجام کو ٹالنے والا نہیں ہوتا.دوسروں کے نمونے بھی اصلاح کا باعث بنتے ہیں اور بننے چاہئیں.یہ احمدیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بھی جائزے لیتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی تو فیق عطا فرما تار ہے.ہمیشہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں.ہمیشہ ہم اپنے اعمال پر نظر رکھنے والے ہوں.ہمیشہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزارر ہیں.اور اگر یہ رہے گا تو پھر خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہمارا مولی ، ہمارا نصیر ہونے کا نظارہ دکھاتا چلا جائے گا.کوئی نہیں جو جماعت کو نقصان پہنچا سکے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا بے فَأَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ ( الحج : 79 ) - پس نماز کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو.وہی تمہارا آقا ہے.پس کیا ہی اچھا آقا اور کیا ہی اچھا مددگار ہے.پس ایک حقیقی مومن کے یہ فرائض ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نماز کو قائم کریں اور اس قیام نماز سے ان میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی.اللہ تعالیٰ کی خاطر مالی قربانی کی طرف توجہ دیں.اپنے مالوں کو پاک کریں اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو مضبوطی سے پکڑیں.کیونکہ اس کے احکامات پر عمل ہی اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنا آقا و مولیٰ سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں.اور اس یقین پر قائم ہیں کہ وہی ہر آن ہمارا آقا ومولیٰ ہے اور رہے گا.قرآن کریم میں ایک اور جگہ سورۃ مائدہ میں اسی مضمون کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ
514 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 2009 وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ.وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهُ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَلِبُونَ (المائدة: 56-57) یقیناً تمہارا دوست اللہ ہی ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور خدا کے حضور جھکے رہنے والے ہیں.اور جو اللہ کو دوست بنائے اور اس کے رسول کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے تو اللہ ہی کا گروہ ہے جو ضرور غالب آنے والا ہے.یہ وہی باتیں ہیں.اس میں رَاكِعُونَ کا لفظ آیا ہے اور راكِعُونَ کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور خالصتاً اس کے حضور جھکتے ہوئے سب کچھ اسی کو سمجھنے والے ہوں.کسی بھی قسم کا شرک ،کسی بھی قسم کی دوسری ملونیاں ان کے دین میں شامل نہ ہوں.تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا دوست اور ویسی ہے اور اس کا رسول بھی اور مومن بھی اور مومنین کی یہی جماعت ہے جس نے پھر غالب آنا ہے اور اسی کے لئے غلبہ مقدر ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جو دوست ہیں اللہ تعالیٰ کے جو ولی ہیں اللہ تعالیٰ ان کا ولی ہو جاتا ہے اور ان کو یقیناً غالب کرتا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ہو نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( یہ حدیث قدسی ہے ) جس نے میرے ولی سے دشمنی اختیار کی تو میں نے اس کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا.مجھے یہ چیز سب سے زیادہ پسند ہے کہ میرا بندہ فرض کی ہوئی چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرے.( فرائض کیا ہیں؟ قرآن کریم میں تلاش کرنے ہوں گے فرائض.اور سب سے زیادہ فرض عبادات ہیں.روزانہ کی نمازیں ہیں ) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اسے پیار کرنے لگتا ہوں اور جب میں اسے پیار کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضرور عطا کروں گا اور اگر وہ میری پناہ چاہے گا تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا.کسی چیز کے کرنے میں مجھے کبھی تردد نہیں ہوا ( جیسا ) ایک مومن کی جان نکالتے ہوئے تر در ہوتا ہے وہ موت کو نا پسند کرتا ہے.اور اسے تکلیف دینا مجھے نا پسند ہے.( صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع.حدیث نمبر 6502 ) تو اللہ تعالیٰ اس طرح اپنے بندوں کا خیال اور لحاظ رکھتا ہے.پس اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے.اس کے حقوق ادا کئے جائیں.اس کے حکموں پر عمل کیا جائے.تقویٰ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا پھر مولیٰ بنتا ہے.جیسا کہ حدیث سے بھی ہمیں واضح ہوا.پھر اس کی ہر حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ کا عمل دخل شامل ہو جاتا ہے.اللہ کرے کہ ہم نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے اپنے حقیقی آقا و مولیٰ سے ہمیشہ جڑے رہیں تا کہ ہر آن ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 47 مورخہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 7
خطبات مسرور جلد ہفتم 515 (45) خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2009ء بمطابق 06 رنبوت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْ امَنَ أَهْلُ الْكِتبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُوْنَ (آل عمران: 111) یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے آل عمران کی آیت ہے اس کے اس حصہ کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہ کے بارہ میں کچھ بیان کروں گا.اس کا ترجمہ ہے کہ تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.اس میں مسلمان ہونے کی اہمیت اور اس کے مقاصد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.مسلمان ہونا ایک بہت بڑی بات ہے اس میں کوئی شک نہیں.ایک مسلمان آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے بعد اس آخری شریعت پر ایمان لاتا ہے، جو کامل مکمل اور جامع ہے.اور یہ وہ شریعت ہے جو قرآن کریم کی صورت میں خدا تعالیٰ نے اتار کر پھر یہ اعلان فرمایا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 10) کہ اس ذکر یعنی قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی یقینا اس کی حفاظت کریں گے.پس یہ وہ شریعت ہے جو قرآن کریم کی صورت میں آج تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور آج تک ہم خدا تعالیٰ کے وعدہ کو بڑی شان سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں اور یہ فخر آج مذاہب کی دنیا میں صرف اور صرف اسلام کو حاصل ہے اور تا قیامت یہ فخر اسلام کو ہی حاصل رہنا ہے.ایک حقیقی مسلمان کو ہمیشہ سوچنا چاہئے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے اس اعلان اور اسلام کے اس فخر کا ہونا ہی اس کے لئے کافی ہے؟ اسلام کا یہ اعلیٰ مقام ہونے اور آخری اور کامل شریعت ہونے میں ایک عام مسلمان کا کیا حصہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو مسلمانوں کو خیر امت کہا ہے ایک مسلمان نے یا بحیثیت اُمہ ، اُمت مسلمہ نے اس کے خیر امت ہونے میں کیا حصہ ڈالا ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے آنحضرت ﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر بھیجا ہے.قرآن کریم کو آخری شرعی کتاب کی صورت میں نازل فرمایا اور آج
516 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم تک اس کی حفاظت فرمائی اور اس کو اپنی اصلی حالت میں رکھا.اللہ تعالیٰ تو ایک مومن سے ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرنے کی توقع رکھتا ہے اور اسے عمل صالح کرنے کا حکم دیتا ہے.ایک مسلمان پر کچھ ذمہ داریاں عائد فرماتا ہے.اس آیت کے اس حصہ میں خدا تعالیٰ نے انہی ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی وجہ سے تم خیر امت ہو.بغیر دلیل کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیر امت کے خطاب سے نہیں نوازا.بلکہ وجہ اور دلیل بیان کی ہے کہ ان وجوہات سے تم خیر امت ہو.یہ چیزیں تمہارے اندر ہوں گی تو تم خیر امت کہلاؤ گے.ایک یہ کہ تم أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہو، تمہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تمہیں کسی خاص قوم یا لوگوں کی بھلائی کے لئے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.دوسرے یہ کہ تم تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ کرنے والے ہو.تم اچھی اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہو.یہ پوری اُمت کی ذمہ داری ہے کہ نیکی کی اور اچھی باتوں کی طرف توجہ دلائیں ، اس کا حکم دیں.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ خیر امت اس لئے ہو کہ بُرائی سے روکتے ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہو.تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کی پہلی چند صدیوں تک مسلمانوں نے خیر امت ہونے کو دنیا پر ثابت کیا حکومت کے معاملات چلاتے ہوئے بلا تخصیص مذہب اگر ایک طرف انصاف قائم کیا تو ساتھ ہی علم کی روشنی سے اس دنیا کو منور کیا.اگر اسلام کی خوبصورت تعلیم کی تبلیغ کر کے دنیا کو اس کے حلقے میں لائے تو ساتھ ہی علوم وفنون کے نئے نئے راستے بھی دکھائے ، نئے نئے دروازے بھی کھولے.جہاں نیکیوں کو پھیلانے کی کوشش کی وہاں برائیوں اور ظلموں کے خاتمے کی بھی کوشش کی اور اس کے خلاف جہاد کیا.غرضیکہ انسانیت کی بہتری کے لئے جو کچھ وہ کر سکتے تھے کرتے رہے لیکن پھر ہوس پرستوں نے ، ذاتی مفادات رکھنے والوں نے باوجود اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے کہ اس تعلیم کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ محفوظ رکھے گا اس پر عمل نہ کر کے اور بھلائیوں اور نیکیوں کو خیر باد کہ کر اور برائیوں پر عمل کر کے اپنے آپ کو بڑی تعدا دسمیت خیر امت کہلانے سے محروم کر لیا اور ایک شاعر کو یہ کہنا پڑا کہ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی (با نگ درا از کلیات اقبال صفحه 139 ناشر: جواد اکمل بث مطبع نیاز جہانگیر پرنٹرز ، غزنی سٹریٹ اردو بازارلا ہور ) لیکن خدا تعالیٰ نے جب قرآن کریم کی تعلیم کو محفوظ کرنے کا وعدہ فرمایا تو اس کتاب قرآن کریم میں بیان کی گئی باتوں کو قصے کہانیوں کے طور پر محفوظ رکھنے کا وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ اس تعلیم پر عمل کرتے چلے جانے والے گروہ اور جماعت کے پیدا کرنے کا بھی وعدہ فرمایا تھا.تا کہ اُمت مسلمہ پھر سے خیر امت کی عظیم تر شوکت سے دنیا میں ابھرے نیکیوں کی تلقین کرنے والی ہو.اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے والی ہو.برائیوں کو بیزاری سے ترک کرنے والی ہو اور بلاتخصیص مذہب وملت انسانیت کی خدمت پر مامور ہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے
517 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم مطابق آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو دنیا میں بھیجا تا کہ ایمان کو ثریا سے دوبارہ زمین پر لے کر آئے اور آ کر دوبارہ اسلام کی شان و شوکت کو قائم فرمائے تا کہ اسلام کے بہترین مذہب ہونے اور مسلمانوں کے خیر امت ہونے کا اعزاز ایک شان سے دوبارہ دنیا کے سامنے سورج کی طرح روشن ہو کر ابھرے.پس آج خیر امت ہونے کا یہ اعزاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو حاصل ہے.بیشک دوسرے مسلمان فرقوں میں نیک کام کرنے والے بھی ہیں.برائیوں سے روکنے والے بھی ہوں گے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خیر امت ہو.مِنْ حَيْث الامت ان نیکیوں کے بجالانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اُمت ایک ہاتھ پر کھڑی ہونے والی اور بیٹھنے والی نہ ہو.مسلمان ممالک میں بھی گروہوں کی صورت میں بھی اچھے کام کرنے والے اور برے کاموں سے روکنے والے ہو سکتے ہیں اور ہوں گے.لیکن وہ ہر ملک میں اپنے اپنے عالم یا لیڈر کے پیچھے چل کر اپنے اپنے طریق پر کام کرنے والے لوگ ہیں اور پھر کتنے مسلمان ملک ہیں جو ایک ہو کر اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرنے والے ہیں، دنیا میں تبلیغ اسلام کرنے والے ہیں.جتنے فرقے ہیں اپنے اندرونی فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں.اسلام کی خوبصورت تعلیم کو کیسے دنیا میں پھیلانے کی فرصت ہے؟ اس تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کسے فرصت ہے؟ گزشتہ دنوں اتفاق سے میں نے ایک اسلامی ٹی وی چینل دیکھا.اس میں ایک شیعہ عالم تھے اور ایک سنی عالم تھے اور شاید نبوت کے بارہ میں بحث ہو رہی تھی.آخر میں چند منٹ میں نے دیکھا، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی ایک اعتراض کا جواب دے رہا تھا.یا اعتراض کر رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں تو دونوں ایک جیسے خیالات رکھنے والے تھے.لیکن باتوں میں شیعہ عالم اپنے مسلک کے حوالے سے ہی بات کرتا تھا تو سنی عالم اس کو ٹوک دیتا تھا کہ یوں نہیں یوں ہونا چاہئے یا اس طرح ہے.اور جہاں سنی عالم اپنے مسلک کے حوالے سے کوئی بات کرتا تھا تو شیعہ اسے ٹوک دیتا تھا کہ اس طرح نہیں اس طرح ہونا چاہئے.آئے تو شاید ،شاید کیا یقینا ہمارے خلاف زہرا گلنے تھے، اپنے خیال میں، اپنے زعم میں مسلم امہ کو ایک فتنے سے بچانے کے لئے تھے لیکن خود آپس میں الجھ کر فتنے کا شکار ہو رہے تھے.اور نہ صرف خود شکار ہو رہے تھے بلکہ دوسروں کے لئے بھی بدنمونہ ہی پیش کر رہے تھے.اور ان کے چہروں پر صاف عیاں تھا ، صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ انہیں ایک دوسرے کو دیکھ کر بڑی بے زاری پیدا ہو رہی ہے.ان کے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف جو کفر کے فتوے ہیں، ان کو دیکھ کر ایک عام سادہ مسلمان جو دل سے صرف اسلام کی عظمت دیکھنا چاہتا ہے ان مختلف مسالک اور فرقوں کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا ہے.اب کئی لوگ یہ سوال
خطبات مسرور جلد ہفتم 518 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 اٹھاتے ہیں کہ یہ فرقہ مسلمان ہے یا دوسرا فرقہ مسلمان ہے.یہ ایک فرقہ خیر امت میں شامل ہے یا دوسرا فرقہ خیر امت میں شامل ہے.اس کا جوحل آنحضرت ﷺ نے بتایا ہے اگر اس پر عمل کریں تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے.آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب ایسے حالات ہوں گے، تم لوگ کئی فرقوں میں بھی بٹے ہوئے ہو گے (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم حدیث 3993) تو مسیح موعود کو خدا تعالیٰ مبعوث فرمائے گا اسے مان لینا اور جا کر میرا سلام پہنچانا.بلکہ برف کی پر گھٹنوں کے بل چل کر بھی اگر جانا پڑے تو جانا اور اسے سلام پہنچانا ( سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث (4084) اور اس کی جماعت میں شامل ہو جانا.وہی حکم اور عدل ہو گا.(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنة الدجال و خروج عیسی ابن مریم وخروج یا جوج و ماجوج حدیث 4078 ) وہی حقیقی فیصلے کرے گا.وہی تمہیں سلوں پر صحیح شریعت بتائے گا.وہی اسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کرے گا.وہی اسلام کی تبلیغ کا حق ادا کرے گا.پس جہاں یہ غیر از جماعت دوستوں کے لئے اور اسلام کا در در رکھنے والوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے، ایک احمدی پر بھی اس بات سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خیر امت ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کر و عَلى دِينِ وَاحِدٍ ( تذکرہ صفحہ 490 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کا حق ادا کریں.مسلمان تو پہلے ہی اس آخری شریعت قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہیں اور آخری نبی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ پر ایمان لانے والے ہیں.کسی نئے دین نے تو اب آنا نہیں ہے اور یہی ایک دین ہے جو تا قیامت قائم رہنے والا دین ہے.پھر یہاں کون سا دین مراد ہے جس پر مسلمانوں کو جمع کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حکم دیا ہے.یہ دین اسلام ہی ہے جس میں ہر فقیہ اور ہر امام کے پیچھے چلنے والوں نے فرقہ بندیاں اور گروہ بندیاں کر لی ہیں.اور زمانے کا امام جو آنحضرت ﷺ کی کامل پیروی میں مبعوث ہوا اور جسے حکم اور عدل بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا، وہی ہے جو اسلام کی اور قرآن کریم کی صحیح تفسیر پیش کرنے والا ہے.اور 13 صدیوں کے دوران پیدا ہونے والے جتنے عالم اور جتنے فقیہ اور جتنے مجد داور جتنے مفسر ہیں جنہوں نے اپنے اپنے حالات اور علم کے مطابق جو فیصلے دیئے یا تفسیریں لکھیں ان میں سے جن کی تصدیق اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا یہ خاتم الخلفاء اور حکم اور عدل کرے وہی تفسیر و تشریح صحیح ہے اور وہی حقیقی دین ہے جس پر جمع کرنا ہے.اس لئے اب کسی قسم کے فقہی یا فروعی مسائل میں الجھنے کی ضرورت نہیں.جو فیصلہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے اللہ تعالیٰ سے حکم یا کر اس زمانہ میں کیا وہی وہ حقیقی دین ہے جو آنحضرت میں لائے تھے اور اسی پر اب تمام امت کی بقا ہے کہ اس پر جمع ہو جائے.
519 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 پس آج احمدی اس ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے خیر امت کہلاتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ نیک باتوں کا حکم دیں اور بُری باتوں سے روکیں اور یہ سب کچھ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اپنے عمل بھی اس کے مطابق نہ ہوں اور جب تک خدا تعالیٰ پر مضبوط ایمان نہ ہو اور پھر ان نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے من حَيْتُ الجماعة قربانی کا جذبہ نہ ہو.بڑے مقاصد حاصل کرنے کے لئے بہر حال قربانیاں دینی پڑتی ہیں.اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرنے پڑتے ہیں اور اپنے مال کا تزکیہ کرنا ہوتا ہے.سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے.فرمایا: الَّذِيْنَ إِنْ مَكْتُهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَآتَوُا الزَّكَوةَ وَآمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْامُوْرِ ( ا ج :42 ) کہ جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور ہر بات کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہیں ہم زمین میں تمکنت دیتے ہیں ، ان کی ایک منفردشان ہو جاتی ہے.وہ فتنوں اور فسادوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں.وہ ایک ڈھال کے پیچھے ہوتے ہیں اس لحاظ سے دینی اور روحانی لحاظ سے وہ محفوظ ہو جاتے ہیں.اب اس آیت کو اگر آیت استخلاف کے ساتھ ملائیں جس میں خدا تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ فرمایا ہے تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کو خلافت کے انعام کے ساتھ تمکنت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے.پس جب ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آتا ہے تو اس کے لئے پہلی خوشخبری یہ ہے کہ اس خاتم الخلفاء کی بیعت اور اس کے بعد نظام خلافت کے جاری ہونے اور اس کی بیعت میں آنے کی وجہ سے اسے تمکنت ملی ہے اور یہی چیز پھر اسے خیر امت بناتی ہے.اب اس کا حق ادا کرنے کے لئے نماز کے قیام کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.مالی قربانی کرتے ہوئے اپنے مال کا تزکیہ کرنے کی ضرورت ہے.نیک باتوں کا حکم دینے کا حکم ہے.انہیں پھیلانے کا حکم اور اس کی ضرورت ہے.اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی تلقین ہے.اور برائیوں کے راستے میں سدراہ بن جانے کا حکم ہے.ایک روک کھڑی کرنے کا حکم ہے.تم برائیوں کے رستے میں ایسے کھڑے ہو جاؤ جیسے ایک سیسہ پلائی دیوار ہوتی ہے جس سے کوئی چیز گزر نہیں سکتی.پس اگر نیک نیتی سے ایک احمدی اس حق کو ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں مدد ملے گی ، قوت اور طاقت بھی ملے گی.جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ جب تک مسلمان ان نیکیوں پر قائم رہے انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوت اور طاقت اور مددملتی رہی اور خیر امت بنے رہے اور جب اپنے فرائض کو بھولے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی محروم ہو گئے.جس کا میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا.میں نے یہ آیت پڑھی تھی کہ ان اللہ
520 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: 12) یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی اندرونی حالت کو نہ بدلیں.جب تک عبادتیں قائم رہیں گی ، جب تک تزکیہ اموال کی طرف توجہ رہے گی ، جب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر کمر بستہ رہیں گے ، جب تک نیکیوں کو پھیلاتے رہیں گے، جب تک برائیوں سے روکتے رہیں گے، جب تک خلافت سے تعلق قائم رکھیں گے تمکنت دین حاصل کرنے والوں کا حصہ بنے رہیں گے اور خوف کی حالت کو خدا تعالیٰ امن میں ہمیشہ بدلتا چلا جائے گا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ خیر امت کہہ کر ایک مجموعی ذمہ داری سب پر ڈالی گئی ہے کہ نیکیاں پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کے لئے مل کر کام کریں.اب ہر ایک تو اپنے علم میں اتنا نہیں ہوتا کہ بعض کام کر سکے یا اپنی مصروفیت کی وجہ سے بھی بعض دفعہ اس کو وقت نہیں ملتا.اپنی بعض دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے بھی وہ ہر وقت اس کام کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.ان پروگراموں کو بجالانے کے لئے جو نیکیوں کو پھیلانے اور تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہیں وہ پوری طرح اپنا عہد نبھا نہیں سکتا اور ذاتی طور پر جیسا کہ میں نے کہا ہر ایک کے لئے بہت مشکل ہے اور اگر وقت دے بھی دے تو اکثر کام بلکہ فی زمانہ تو سارے کام ہی ایسے ہیں کہ جن کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہمیشہ الہی جماعتیں مالی قربانیاں بھی کرتی ہیں اور وہ لوگ جو ذاتی طور پر یہ کام انجام نہیں دے سکتے وہ اس زمانہ میں خاص طور پر مالی قربانیوں کے ذریعہ سے اس کام کو سر انجام دیتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے جو منصوبے مرکزی طور پر انبیاء کے زمانے میں انبیاء کے حکم کے مطابق اور بعد میں خلافت کے تابع تیار کئے جاتے ہیں انہیں پورا کیا جا سکے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی اس کی ضرورت پڑتی تھی اور مالی قربانیوں کا حکم تھا.اسی لئے قرآن کریم نے متعدد جگہ عبادتوں کے ساتھ مالی قربانیوں کا بھی ذکر فرمایا.پھر جو آپ میہ کے خلفاء راشدین کہلاتے ہیں انہوں نے بھی مالی قربانیوں کے لئے اُمت میں تحریک کی.اس کے علاوہ بھی مومنین ان کا موں کے لئے قربانیاں کرتے رہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی یہ قربانی جاری رہی.پھر آپ کے بعد ہر خلافت کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت مالی قربانیوں میں حصہ لیتی رہی اور یہ سلسلہ انشاء اللہ تا قیامت چلتے چلے جانے والا ہے، چاہے جتنے بھی جماعت کے وسائل ہو جائیں.لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے پاس بہت پیسہ آ جائے گا، جب جماعتیں بہت ہو جائیں گی تو چندوں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی.یہ بالکل غلط تصور ہے.مالی قربانیوں کا مطالبہ تو ہر صورت میں ہوتا چلا جائے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مالی قربانیوں کو تزکیہ نفس کے لئے ضروری قرار دیا ہے.جماعت میں مالی قربانیوں کا سلسلہ جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے چلتا
خطبات مسرور جلد هفتم 521 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 چلا جارہا ہے.علاوہ آمد پر چندے کے اور وصیت وغیرہ کے مختلف تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں.ان میں سے ایک مستقل تحریک، تحریک جدید کی بھی ہے جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی تھی.جب حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تحریک کی تو اس کا بہت بڑا مقصد ہندوستان سے باہر دنیا میں تبلیغ اسلام تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بہترین نتائج نکلے اور آج احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 193 ممالک میں یا تو اچھی طرح قائم ہو چکی ہے یا ایسے پودے لگے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی صحت کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں.193 ممالک میں رہنے والے احمدی امت واحدہ کا نظارہ پیش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں مالی قربانیوں میں حصہ لیتی ہیں.بعض تیز دوڑنے والی جماعتیں ہیں بعض آہستہ چلنے والی ہیں اور جوں جوں تربیت ہو رہی ہے بہتری آتی جارہی ہے اور قربانیاں بڑھ رہی ہیں.آج سے چند سال پہلے مثلاً جامعہ احمدیہ صرف ربوہ میں تھا جہاں مبلغین تیار ہوتے تھے ، مربیان ہوتے تھے.اور اس میں ہر سال زیادہ سے زیادہ تھیں پینتیس لڑکے داخل ہوتے تھے جو وقف کر کے آتے تھے.اور اب جب سے وقف نو کے بچے جوان ہونے شروع ہوئے ہیں گزشتہ تقریباً تین سال سے جامعہ ربوہ میں ہی ہر سال 200 سے اوپر بچے داخل ہوتے ہیں.ظاہر ہے اس کے انتظامات کے لئے اخراجات میں اضافہ بھی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی جو جماعتیں ہیں خود یہ تمام اخراجات برداشت کرتی ہیں.اسی طرح اب یو کے، جرمنی، کینیڈا، انڈونیشیا وغیرہ میں بھی جامعات ہیں اور یہ ممالک بھی تقریباً اپنے وسائل سے اپنے جامعات کے اخراجات پورے کر رہے ہیں.لیکن بنگلہ دیش، نائیجیریا ، گھانا ، کینیا اور بعض اور ممالک ہیں جن کے جامعہ احمدیہ کے اخراجات چلانے کے لئے مرکز سے مدد دینی پڑتی ہے.اور اس کے علاوہ اخراجات ہوتے ہیں.لٹریچر ہے.جو بڑی کتب ہیں ان کی تو مرکزی طور پر اشاعت ہوتی ہے.مساجد کی تعمیر ہے جو غریب ممالک میں مرکز کی مدد کے بغیر ممکن نہیں.وہاں مرکز مساجد بنا کر دیتا ہے.اسی طرح مشن ہاؤسز ہیں.مبلغین کو بھجوانے اور ان کے الاؤنسز اور متفرق اخراجات ہیں جو مرکز کرتا ہے جس میں چندہ تحریک جدید کا بھی ایک بہت بڑا اور اہم کردار ہے.ایک تو جیسا کہ میں نے بتایا شروع میں تحریک جدید نے اپنا کردار ادا کیا کہ ہندوستان سے باہر تبلیغ پھیلی اور باہر آنے کے بعد مزید وسعت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے.پس یہ وہ کام ہیں جس میں چندہ تحریک جدید میں شامل ہونے والے ہر احمدی بڑے اور بیچے کا حصہ ہو جاتا ہے اور وہ بجا طور پر کہہ سکتا ہے کہ ہم وہ اُمت ہیں جو نیکیوں کی تلقین کرتے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں، برائیوں سے روکنے میں حصہ لیتے ہیں.ہر مالی قربانی کرنے والا ایک احمدی علاوہ اپنی انفرادی کوشش کے جو وہ اپنے ماحول میں نیکیوں کو پھیلانے کے لئے اور برائیوں کو روکنے کے لئے کرتا ہے اور یہی احمدیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ کرتا ہو اور کرے.کوئی بعید نہیں کہ ایک عام احمدی کی معمولی سی قربانی جو وہ انگلستان میں بیٹھ کر کر رہا ہے یا جرمنی میں
522 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم بیٹھ کر وہ کرتا ہے یا امریکہ کینیڈا میں بیٹھ کر کر رہا ہے یا آسٹریلیا میں بیٹھ کر کر رہا ہے یا ہالینڈ اور فرانس میں بیٹھ کر کر رہا ہے یا یورپ یا کسی بھی دنیا کے ملک میں بیٹھ کر کر رہا ہے وہ قربانی افریقہ کے دور دراز علاقوں میں کسی نیک بخت کی تربیت کا باعث بن رہی ہے.وہ برائیوں کو روکنے کا باعث بن رہی ہے.پھر جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ تفقہ فی الدین کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں تو ان تَفَقُه فِی الدِّینِ کرنے والوں پر جو اخراجات ہیں اس میں بھی چندہ دینے والے احمدی کا حصہ شامل ہو کر اسے بھی اس ثواب میں شامل کر رہا ہوتا ہے جو دین کا پیغام پہنچانے والے کو مل رہا ہوتا ہے.پس یہ قربانیاں جو احمدی کرتے ہیں ایسی قربانیاں ہیں جو تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کے دائرے کو وسیع کرتی چلی جاتی ہیں.اب میں بعض کو ائف پیش کروں گا جو چندہ تحریک جدید کے ختم ہونے والے گزشتہ سال کے ہیں اور ساتھ ہی حسب روایت نومبر کے پہلے جمعہ میں جو تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے اس کا بھی اعلان کرتا ہوں.مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے چندے کی اس مد میں یا اس تحریک میں جو فضل فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر ایک مومن اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہے.ایک احمدی کے جذ بات اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری سے جھکتے ہیں.دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ سال معاشی لحاظ سے بدترین سال گزرا ہے.کاروباروں پر بھی بے انتہا منفی اثرات ہوئے ہیں.ملازمتوں سے بھی کئی لوگوں کی فراغت ہوئی ہے.مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے گھریلو اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں.اگر عام نظر سے، دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ چندوں پر منفی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے تھا.لیکن حضرت مسیح موعود کی اس جماعت نے خیر امت ہونے کا ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم کسی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتے.ہمارے حمد اور شکر کے پیالے جتنے بڑے ہوں تو وہ پھر بھی محدود ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے انعامات اور فضل لا محدود ہیں.اب میں بعض کو ائف پیش کر دیتا ہوں.تحریک جدید کا یہ 75 واں سال گزرا ہے.باقی دفاتر جو ہیں، دفتر اول دوئم سوئم انکارپورٹ میں ذکر نہیں آیا.مجھے بھی یاد نہیں رہا کہ نوٹ کر کے لے آتا.بہر حال دفتر دوم 19 سال بعد شروع ہوا تھا.پھر دفتر سوئم حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے غالباً 1965ء میں جنوری میں شروع کیا تھا.پھر حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے 19 سال بعد شاید 1985ء میں دفتر چہارم شروع کیا.اور 2004ء میں میرا خیال ہے کہ میں نے دفتر پنجم شروع کیا تھا اور میں نے یہ کہا تھا کہ دفتر پنجم میں نئے بچے اور نئے شامل ہونے والے احمدی شامل ہوں.بہر حال تحریک جدید کو شروع ہوئے 75 سال ہو گئے ہیں.75 واں سال اختتام پذیر ہو گیا ہے.76 واں سال شروع ہو گیا ہے اور ر پورٹس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی جماعتوں نے اس سال تحریک جدید میں 49لاکھ 53 ہزار 800 پاؤنڈ کی مالی قربانی پیش کی ہے اور یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے 8 لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.
523 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اوپر کی جو دس جماعتیں ہیں ان میں پہلے نمبر پر پاکستان کا نمبر آتا ہے.باوجود غربت کے ابھی تک انہوں نے اپنا پہلا اعزاز برقرار رکھا ہوا ہے.دوسرے نمبر پر امریکہ ہے.تیسرے پر جرمنی.چوتھے پر برطانیہ.پھر کینیڈا، انڈونیشیا، پھر ہندوستان، پھر آسٹریلیا پھر بیلجیئم پھر سوئٹزرلینڈ.برطانیہ اور جرمنی کا ویسے تو تھوڑا سا ہی فرق ہے صرف 15 سو پاؤنڈ کا.میرا خیال تھا کہ پچھلے سال تیسری پوزیشن تھی.اب بھی شاید تیسری آ جائے لیکن جرمنی نے اس سال بڑی محنت کی ہے.بہر حال اس کے علاوہ ماریشس، نائیجیریا، ناروے، فرانس، ہالینڈ، مڈل ایسٹ کی دو جماعتوں کی وصولی بھی کافی قابل ذکر ہے.دنیا میں جو معاشی انحطاط پیدا ہورہا ہے اس کی وجہ سے دنیا کی ہر کرنسی جو ہے ڈسٹرب ہوگئی ہے.کسی بھی کرنسی کو انڈیکس بنا کر اگر ہم لیں تو خاص طور پر غریب ممالک کی کرنسیاں بہت متاثر ہوئی ہیں.بہر حال مقامی کرنسی کے لحاظ سے گزشتہ سال کے مقابلہ پہ یہ جائزہ میں نے اس لئے دے دیا ہے تا کہ ان کے جائزے بھی پتہ لگتے رہیں.اس میں انڈیا نے اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی پوزیشن لی ہے.اس نے 42.19 فیصد اضافہ کیا ہے.قادیان انڈیا کی جو وکالت مال ہے اس کے وکیل المال صاحب نے لگتا ہے کافی محنت کی ہے.اور اللہ کے فضل سے 42 فیصد سے زیادہ وصولی ہوئی ہے.جرمنی نے جیسا کہ میں نے کہا کہ فرق تو تھوڑا ہے لیکن اس دفعہ انہوں نے بہت محنت کی ہے بڑا جمپ لیا ہے.32.8 فیصد انہوں نے گزشتہ سال کی نسبت اپنا اضافہ کیا ہے اور آسٹریلیا نے 18 فیصد اور برطانیہ نے 17 فیصد.انہوں نے بھی زور تو بڑا لگایا تھا لیکن اب دیکھ لیں جرمنی کے مقابلے میں جو کوشش ہے وہ تقریباً نصف ہے، گو کہ جرمنی والوں کے امیر صاحب کو شکوہ ہے کہ ہمارے بہت سارے چندہ دینے والے مانگریٹ (Migrate) کر کے برطانیہ چلے گئے ہیں.بیلجیئم 12.2 فیصد ، سوئٹزر لینڈ تقریباً 9 فیصد.اسی طرح پاکستان 9 فیصد ، پاکستان تو اپنے معیاروں کو چھو رہا ہے.کینیڈا تقریباً 6.2 ، امریکہ 3.7.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر امریکہ نے 3.7 حاصل کیا ہے تو انہوں نے اپنا معیار حاصل کر لیا ہے ابھی وہاں بہت گنجائش ہے.اسی طرح انڈونیشیا میں صرف 2 فیصد اضافہ ہے.ان میں بھی گنجائش ہے.تحریک جدید میں نئے مجاہدین کو شامل کرنے کے لئے میں نے گزشتہ سال جماعتوں کو توجہ دلائی تھی.جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ بچوں کو شامل کریں اور مرکز کی طرف سے بھی نئے مجاہدین کو شامل کرنے کے لئے ٹارگٹ دیئے گئے تھے.جماعتوں نے ان ٹارکٹس کے حصول کے لئے امسال جو محنت کی ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے 90 ہزار افراد تحریک جدید کی قربانی میں شامل ہوئے ہیں.یہ ٹوٹل نہیں بلکہ گزشتہ سال جتنے شامل ہوئے تھے ان میں 90 ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور اب کل 5لاکھ 93 ہزار ہو گئے ہیں.گزشتہ سال 5 لاکھ تھے.ابھی بھی بہت گنجائش ہے.جماعتیں کوشش کریں تو اضافہ ہو سکتا ہے.شاملین میں اضافے کے لحاظ سے بھی انڈیا پہلے نمبر پہ ہے.انہوں
524 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 نے اس سال 32 ہزار 200 افراد کا اضافہ کیا ہے.76 ہزار سے ایک لاکھ 8 ہزار افراد تک لے گئے ہیں اور پاکستان 14 ہزار 200، نائیجیر یا 9 ہزار، سیرالیون 5 ہزار ، آئیوری کوسٹ 5 ہزار 200 ، انڈونیشیا 4 ہزار یہ اضافہ ہے جو ان میں ہوا.گھانا 3 ہزار 300 ، بین 2 ہزار 400 بین چھوٹا سا ملک ہے لیکن اللہ کے فضل سے جماعت وہاں پھیل رہی ہے.اس طرح گیمبیا بھی چھوٹا سا ملک ہے وہاں بھی 2 ہزار 300 کے قریب اضافہ ہوا ہے.برطانیہ میں 2 ہزار کا اضافہ ہوا ہے.کینیڈا 1700 کا.کینیا 1500.بنگلہ دیش میں بھی تھوڑا سا 1100 اضافہ ہوا ہے.ایک ہزار سے اوپر جواضافے تھے وہ میں نے بتائے ہیں.تحریک جدید کے جو پانچ ہزاری مخلصین تھے جو پہلے دفتر اول کے تھے ان کا تمام ریکارڈ مع کوڈ نمبر الاسلام ویب سائیٹ پر آ گیا ہوا ہے.مرحومین کے جو ورثاء ہیں، عزیز واقارب ہیں انہوں نے اس سے دیکھ کر کھاتے جاری کئے ہیں.اللہ کے فضل سے اب سارے کھاتے جاری ہو چکے ہیں.پاکستان کی بڑی جماعتوں میں سے اول لاہور ہے.دوم ربوہ ہے، سوئم کراچی ہے.اس کے علاوہ شہری جماعتوں میں پہلے نمبر پر راولپنڈی، پھر اسلام آباد، پھر شیخوپورہ، حیدر آباد، بہاولنگر ، چھٹے نمبر پہ بہاولپور، ساتویں پر پیشاور.( پشاور کا شامل ہونا اور پوزیشن لینا بھی بڑی ہمت کی بات ہے کیونکہ وہاں تو ہر روز ہی بم دھماکے اور فساد اور آگئیں لگی رہتی ہیں.اس کے باوجو داحمدیوں نے قربانی کا نمونہ دکھایا ہے.جہلم نمبر آٹھ پر ، پھر کوٹلی آزاد کشمیر ہے کوٹلی آزاد کشمیر میں مخالفت بہت زیادہ ہے یہاں بڑے حالات خراب رہتے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی امن اور سکون اور چین کی زندگی نصیب کرے.خانیوال نمبر 10 پر.ضلعی سطح پر قربانی کرنے والے پہلے 10 اضلاع یہ ہیں.سیالکوٹ نمبر 1، پھر سرگودھا، گوجرانوالہ.عمرکوٹ.نمبر 5 اوکاڑہ نمبر 6 میر پور خاص.7 نارووال.8 پر فیصل آباد.9 میر پور آزادکشمیر.10 پر حافظ آباد اور سانگھڑ.گزشتہ سال کی نسبت بعض اور جو اچھی جماعتیں ہیں وہ واہ کینٹ ، کنری ، چونڈہ ،کھوکھر غربی وغیرہ چھوٹی جماعتیں ہیں.انہوں نے اچھا کام کیا.امریکہ کی پہلی چار جماعتیں جو ہیں ان میں سیلیکون ویلی نمبر 2 لاس اینجلیس ویسٹ.3.ڈیٹرائیٹ اور 4 شکا گوویسٹ.دفتر پنجم کا جو میں نے ذکر کیا تھا کہ بچوں کو شامل کریں تو امریکہ نے اس بارہ میں بہت اچھی کوشش کی ہے اور ایسے بچے جن کی عمر 5 سال سے کم تھی اور تحریک جدید میں شامل نہیں تھے ان میں سے بھی تقریباً 80 فیصد بچوں کو انہوں نے کم از کم 20 ڈالر کے ساتھ شامل کیا.مجھے تصویروں کی البم بھی بھجوائی تھی.بچوں کو خود بھی ان کے ہاتھ سے قربانی دلوانی چاہئے تا کہ ان کو بھی آئندہ قربانیوں کی عادت پڑے.
525 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم کینیڈا کی جو چار اچھی جماعتیں ہیں وہ کیلگری نارتھ ویسٹ ہے.پیس ولیج ایسٹ.پیس ولیج سنٹر اور سرے ایسٹ.اور چوتھے نمبر پر وینکوور ہیں.انگلستان کی جو دس بڑی جماعتیں ہیں ان میں مسجد فضل پہلے نمبر پر ہے.دوسرے پہ سر بٹن.پھر کیمبرج، پھر پر نیو مولڈن، برمنتظم ویسٹ، ووسٹر پارک، پرلے، ساؤتھ ایسٹ لنڈن اور آکسفورڈ شامل ہیں.چھوٹی جماعتوں میں سکنتھو رپ، ڈیکنم، کارنوال، ولور میمپٹن ، نارتھ ویلز سپین ویلی، برسٹل ، پیٹر برا، آلڈ گیٹ ہیمنگٹن سپا، م ریجنز جو ہیں ان میں لنڈن ریجن، ساؤتھ ریجن، نارتھ ویسٹ ریجن، ہارٹفورڈ شائر ، مڈلینڈز ، نارتھ ایسٹ ریجن ، ساؤتھ ویسٹ ریجن اور ایسٹ لندن ہے.فی کس ادائیگی کے لحاظ سے جرمنی کی پوزیشن حاصل کرنے والی ) جو جماعتیں ہیں وہ ہیں مہدی آباد (یہ ہمبرگ کے قریب ہماری ایک چھوٹی سی جگہ ہے وہاں جماعت کی زمین ہے اور اس میں کچھ آبادی بھی ہے ) اور دوسرے نمبر پر مائنیز ، ویز باڈن، گروس گراؤ، فرانز ہائم ، ڈی بُرگ، ماربرگ، یو کسٹے ہو ڈے، کولون، ہائیڈل برگ اور ریڈ فنڈ.اور جو دوسری جماعتیں ہیں ان میں آگس برگ میونخ، میونسٹر ہیمپٹن ٹونٹے ہاؤزن، نیورن برگ، وائن گارٹن ، شٹول برگ ، الزائے ، ہینز ڈورف اور ہوف شامل ہیں.وصیتوں کی تحریک کرنے پر جب جماعت کا وصیت کی طرف رجحان ہوا تو بعض کا خیال تھا کہ باقی چندوں میں ادائیگی کی رفتار شاید اتنی نہ رہے جتنی پہلے تھی.لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا اور کوائف نے ثابت کر دیا کہ چندہ دہندگان کی تعداد میں بھی خوش کن اضافہ ہے اور وصولی میں بھی.الحمد للہ.جہاں اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھرتا ہے وہاں اس طرف بھی توجہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں میں مزید وسعت بھی انشاء اللہ تعالیٰ پیدا فرمانے والا ہے اور جو پہلے سے انتظام کر رہا ہے اور ہمیں ہوشیار بھی کر رہا ہے.قربانیوں کی طرف بھی مائل کر رہا ہے.جو کام ہمارے سپرد ہیں ان میں انشاء اللہ بہت وسعت پیدا ہونے والی ہے اور یہ بھی کہ تم دنیا کے کسی کریڈٹ کرنچ Credit) (Crunch کی فکر نہ کرو.میرے ساتھ سودا کرتے جاؤ میں انشاء اللہ تعالیٰ تمہاری توفیقیں بڑھاتا چلا جاؤں گا.اللہ کرے کہ ہمارے ایمان بھی ان کو دیکھ کر بڑھتے چلے جائیں.ہماری قربانیاں بھی بڑھیں.ہماری ترقی کی ترقی کی رفتار بھی بڑھے اور ہم فتح کے نظارے بھی دیکھنے والے ہوں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ وصیت کی ارہاص کے طور پر ہے.( نظام نو ، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 600 مطبوعہ ربوہ) وصیت کے لئے ایک بنیادی اینٹ ہے.اس سے وصیت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور قربانی کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جہاں جماعت کو
526 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 6 نومبر 2009 وصیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے وہاں تحریک جدید میں بھی اضافہ ہوا ہے.یعنی یہ بنیا د ایسی ہے جو خود بھی پھیلتی چلی جا رہی ہے اور نئے دفتر پنجم میں شاملین کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وصیت کرنے والوں کے بچے اور آئندہ جو ہماری نئی نسل آرہی ہے بچپن سے لڑکپن میں یا 7 سال کی عمر میں، اطفال الاحمدیہ میں شامل ہورہے ہیں وہ بھی تحریک جدید میں قربانی کر کے آئندہ کے لئے اپنے آپ کو وصیت کے لئے بھی تیار کر رہے ہیں اور قربانیوں کے لئے بھی تیار کر رہے ہیں.دنیا کہتی ہے اور معیشت دان یہ کہا کرتے ہیں کہ جب معاشی کرائسز آتے ہیں تو غربت کا ایک شیطانی چکر جو ہے وہ شروع ہو جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ جنہیں خیر امت بناتا ہے ان کے لئے معاشی کرائسز کے باوجود چندوں میں اضافہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو سمیٹنے اور نیکیوں کی طرف مائل ہونے کا ذریعہ بنتا ہے.اور یوں ہمارا رحمان خدا ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے اور فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کا ادراک ہم میں پیدا ہوتا ہے اور جب تک ہم نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کی سوچ کو منتقل کرتے چلے جائیں گے، روشن کرتے چلے جائیں گے، چمکاتے چلے جائیں گے، خیر امت کہلانے والے بنے رہیں گے انشاء اللہ.ایک معمولی قربانی کرنے والا غریب آدمی اور ایک بچہ جو چند پیس (Pense) اپنے جیب خرچ میں سے دیتا ہے وہ اس قربانی کی وجہ سے تبلیغ اسلام اور تعمیر مساجد اور نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے میں حصہ دار بنتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری نسلوں میں قربانی کی یہ روح ہمیشہ قائم رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 48 مورخہ 27 نومبر تا 3 دسمبر 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 527 (46) خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 2009 فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2009 ء بمطابق 13 رنبوت 1388 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمایا: أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَكَانُوا يَتَّقُوْنَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ.ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (يونس: 65-63) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ سنو کہ یقینا اللہ کے دوست ہی ہیں جن کو کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے.وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ تقویٰ پر عمل پیرا تھے، ان کے لئے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی.اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں.یہی بہت بڑی کامیابی ہے.جیسا کہ ان آیات کے مضمون سے ظاہر ہے ان میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کی حالت اور صفات کا ذکر فرمایا ہے یعنی لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ان پر کوئی خوف طاری نہیں ہوتا.دوسرا یہ کہ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ نہ وہ نمگین رہتے ہیں.پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ آمَنُوا ایمان لانے والے اور اسے کامل کرنے والے ہیں.پھر یہ کہ يَتَّقُونَ تقویٰ میں بڑھنے والے ہیں اور پھر یہ کہ جواللہ تعالیٰ کے ولی ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا ولی ہو جاتا ہے.ان کو اس دنیا میں بھی خدا کی طرف سے بشارت ہے اور آخرت میں بھی بشارت ہے.پس یہ انعامات کا ایک سلسلہ ہے جس سے خدا تعالیٰ اپنے ولیوں، دوستوں، حقیقی مومنوں کو نوازتا ہے.یعنی ایک حقیقی مومن کو خدا تعالیٰ کے تعلق کی وجہ سے ، خدا تعالیٰ کے اس کے ساتھ جاری سلوک کی وجہ سے یہ تسلی ہوتی ہے کہ انہیں پریشانیوں اور ابتلاؤں کی وجہ سے کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچے گا.خطرات پیدا ہو سکتے ہیں ، امتحانوں میں سے گزرنا پڑ سکتا ہے لیکن ایک حقیقی مومن کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ اگر اس دنیا میں کسی قسم کا دنیاوی نقصان ہو بھی گیا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اسے پورا فرمائے گا اور اگر کسی قسم کا جانی نقصان ہوتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں اپنے وعدے کے مطابق انعامات سے نوازے گا، ایسے انعامات سے کہ تصور سے بھی باہر ہیں.لیکن پہلی شرط اللہ تعالیٰ نے یہ لگائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کا حق ادا کرنا ہوگا.دنیاوی دوستوں کی خاطر تو ہم بعض اوقات بڑی بڑی قربانیاں دے دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا دوست کہلانے اور بننے کے لئے ، اس کا کامل طور پر حق ادا کرنے کے لئے ہر وقت نہ صرف تیار رہنا ہو گا بلکہ ایک محبت کے جذبے سے اس کی ہر بات پر لبیک کہتے
528 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 2009 ہوئے عمل بھی کرنا ہو گا.اور جب یہ بات ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ کے ولی خوف سے باہر ہوں گے.خدا تعالیٰ کا خوف یعنی یہ خوف کہ کہیں خدا تعالیٰ کی دوستی ختم نہ ہو جائے اس کے ولیوں کو ہر قسم کے دنیاوی خوفوں سے محفوظ رکھے گی.امام راغب لکھتے ہیں کہ الْخَوْف مِنَ اللہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ گناہوں سے بچنا اور اطاعت کو اختیار کرنا.(المفردات امام راغب زیر مادہ خوف کامل بندگی اور عبادت کی طرف توجہ دینا.پس اولیاء اللہ کا مقام یونہی نہیں مل جاتا.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے تَتَجَافَى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدة :17) اور ان کے پہلوان کے بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں.یعنی رات کو نوافل ادا کرنے کے لئے وہ اپنے بستروں کو چھوڑ دیتے ہیں اور وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کی حالت میں پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا خوف اس لئے دُور فرمائے گا کہ انہیں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے.ہر قسم کے دنیاوی خوفوں کی ان کے نزدیک کوڑی کی بھی اہمیت نہیں ہوتی.اور پھر یہی نہیں کہ ان کو کسی قسم کا آئندہ کا خوف نہیں رہے گا کیونکہ ان کا مقصد دنیا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا ہوگی بلکہ مزید تسلی دی که وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وه گزشتہ باتوں پر غمگین نہیں ہوں گے.یعنی جب خدا تعالیٰ کسی کو اس کی غلطیاں کو تا ہیاں معاف کرتے ہوئے اپنا ولی بنا لیتا ہے تو اس کی گزشتہ غلطیوں کے اثرات اور صدمات سے بھی اس کو محفوظ رکھتا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ جب ایک مرتبہ دوست بناتا ہے تو بندہ اگر اس کی دوستی کا حق ادا کرنے والا بنا رہے تو خدا تعالیٰ جہاں آئندہ کے فضلوں کی ضمانت دیتا ہے وہاں گزشتہ گناہوں کی تختی دھونے کی بھی ضمانت دیتا ہے.دنیا کی کوئی بھی طاقت ایسی عظیم ضمانت دینے کا اختیار نہیں رکھتی بلکہ طاقت بھی نہیں رکھتی.پس کیا ہی پیارا ہے ہمارا خدا جو سب طاقتوں کا مالک ہے اور اس سے تعلق پیدا کر کے انسان ہر قسم کے خوفوں اور غموں سے آزاد ہو جاتا ہے.مگر افسوس کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ خدا تعالیٰ کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پہ پڑا ہوا ہے اور نہ صرف اس کا در چھوڑ کر دوسرے کے در پہ پڑا ہوا ہے بلکہ بغاوت پر تلا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کے خلاف کتابیں لکھی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے وجود کے متعلق بحثیں چل پڑی ہیں کہ خدا تعالیٰ ہے بھی کہ نہیں؟ اور خدا تعالیٰ کے کسی قسم کے حق ادا کرنے اور اس کی عبادت بجالانے کی طرف توجہ نہیں ہے.ایک بہت بڑی دنیا اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی اور نیچے آگ کے گڑھے کی طرف تیزی سے انسان بڑھتا چلا جارہا ہے.پس بڑے خوف کا مقام ہے.بہت زیادہ توجہ اور استغفار کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے ان کو اپنا ولی کہا ہے حالانکہ وہ بے نیاز ہے.اس کو کسی کی حاجت نہیں.اللہ تعالیٰ نے دوست
529 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 2009 کہا ہے حالانکہ اس کو تو کسی دوست کی ضرورت نہیں ہے.اس لئے استغناء ایک شرط کے ساتھ ہے وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلّ (بنی اسرائیل: 112) یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تھرہ کرکسی کو ولی نہیں بناتا.بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنا مقرب بنالیتا ہے.اس کو کسی کی کوئی حاجت نہیں ہے.اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے یعنی انسان کو پہنچتا ہے.یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا اجتباء اور اصطفاء فطرتی جو ہر سے ہوتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ جب کسی کو پسند کرتا ہے، چھانٹتا ہے اور برگزیدگی عطا فرماتا ہے تو وہ انسان کے اندر اس کا اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کا جو تعلق ہوتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے عطا کرتا ہے.فرمایا کہ ممکن ہے گزشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو.ایک انسان اپنی پہلی زندگی میں چھوٹے اور بڑے گناہ کرنے والا ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کل خطائیں بخش دیتا ہے.ایک گنہگار انسان بھی جو اپنی پہلی زندگی میں بہت گناہ کرنے والا ہے بڑے بڑے گناہ بھی کرتا ہے چھوٹے گناہ بھی کرتا ہے لیکن جب اس کا خدا تعالیٰ سے ایک تعلق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پھر اس کی پہلی خطائیں بخش دیتا ہے.اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا.نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں.یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگزر کرتا اور عضو فرماتا ہے.پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا.اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے.پھر با وجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ یعنی انسان ” منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بد قسمتی اور شامت ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 596-593 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: "برکات اور فیوض الہی کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے.جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں.چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی حصہ یا کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو.جب یہ حالت ہو تو پھر الہی نظر کے ساتھ تجلیات آتی ہیں.کسی بھی قسم کی منافقانہ زندگی نہ ہو.انسان کے دل میں منافقانہ بات نہ ہو.’ اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے.اس کے لئے ایسا وفادار اور صادق ہونا چاہئے جیسے ابراہیم نے اپنا صدق دکھایا.یا جس طرح پر آنحضرت ﷺ نے نمونہ دکھایا.جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہے تو وہ بابرکت آدمی ہو جاتا ہے.پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلت نہیں اٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے.بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو لعنتی زندگی سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے.مختصر یہ کہ جو خدا تعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی ساری مرادیں پوری کر دیتا ہے.اسے نامراد نہیں رکھتا“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 595 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر ان آیات میں سے جو دوسری آیت ہے اس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَكَانُوْا
530 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 2009 يَتَّقُونَ (یونس: 64) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور تقویٰ پر چلنے والے ہیں، یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے اولیاء کی یہ خصوصیت اور صفت ہے کہ وہ ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوتے ہیں.تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ بھی قائم کرنے والے ہوتے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو لایا جائے گا.اور وہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے.ان کو تین قسموں میں تقسیم کیا جائے گا.اولیاء کی بھی آگے قسمیں ہیں.پہلے ایک قسم کا آدمی لایا جائے گا.( یعنی اللہ تعالیٰ نے اس گروپ میں سے ایک نمائندہ بلایا.اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے! تو نے نیک اعمال کس وجہ سے کئے تھے ؟ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب آپ نے جنت پیدا کی اور اس کے درخت اور پھل پیدا کئے اور نہریں پیدا کیں اور اس کی حوریں اور اس کی نعمتیں اور جو کچھ بھی آپ نے اپنی اطاعت کرنے والوں کے لئے تیار کیا ہے سب کچھ بنایا.پس میں نے ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے شب بیداری کی.راتوں کو اٹھا نفل ادا کئے اور دن کو روزے رکھے.اس پر خدا تعالیٰ اسے فرمائے گا کہ اے میرے بندے! تو نے صرف جنت کی خاطر اعمال کئے.سو یہ جنت ہے اس میں داخل ہو جاؤ.اور یہ میرا فضل ہی ہے کہ میں نے تجھے آگ سے آزاد کر دیا اور یہ بھی فضل ہے کہ میں تجھے جنت میں داخل کروں گا.پس وہ اور اس کے ساتھی جنت میں داخل ہو جائیں گے.پھر دوسری قسم کے آدمیوں میں سے ایک آدمی لایا جائے گا.اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے! تُو نے نیک اعمال کس لئے کئے تھے؟ وہ جواب دے گا کہ اے میرے رب ! تُو نے دوزخ پیدا کی اور اس کی بیڑیاں اور اس کی شعلہ زن آگ اور اس کی گرم ہوائیں اور گرم پانی اور جو کچھ بھی تو نے اپنے نافرمانوں اور دشمنوں کے لئے تیار کیا ہے، پیدا کیا.پس میں نے ان چیزوں سے ڈرتے ہوئے رات کو اٹھ کر نفل پڑھے اور دن کو روزے رکھے.اس پر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ اے میرے بندے! تو نے یہ کام صرف میری آگ سے ڈرتے ہوئے کئے تھے.پس میں نے تجھے آگ سے آزاد کیا اور اپنے فضل سے تجھے اپنی جنت میں داخل کروں گا.پس وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت داخل ہو جائے گا.اس کے بعد تیسری قسم کے لوگوں میں سے ایک آدمی لایا جائے گا.اس سے بھی خدا تعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے ! تو نے نیک کام کس وجہ سے کئے تھے؟ وہ کہے گا.اے میرے رب ! تیری محبت کی وجہ سے اور تیرے ملنے کے شوق میں.تیری عزت کی قسم ! میں راتوں کو جاگا اور میں نے دن کو روزے رکھے صرف تیرے شوق اور تیری محبت میں.پس مبارک اور بہت بلند خدا اس سے فرمائے گا کہ اے میرے بندے ! تو نے یہ تمام کام میری محبت اور میری ملاقات کے شوق کی وجہ سے کئے تھے.سو اپنا بدلہ لے اور اللہ جل جلالہ اس شخص کے لئے خاص تجلی فرمائے گا اور
531 خطبہ جمعہ فرموده 13 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم سارے پردوں کو اپنے چہرے سے دُور کر دے گا اور اس کے سامنے آ جائے گا اور کہے گا اے میرے بندے لے میں یہ موجود ہوں.میری طرف دیکھے.پھر فرمائے گا میں نے اپنے فضل سے تجھے اپنی آگ سے آزاد کیا اور جنت کو تیرے لئے جائز کرتا ہوں اور فرشتوں کو تیرے پاس بھیجوں گا اور میں خود تجھے سلام کہوں گا.پس وہ اپنے ساتھیوں سمیت جنت میں داخل ہو جائے گا.اب تینوں قسموں کے مختلف گروپوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے خیال کے مطابق عمل کئے اور تینوں کو اللہ تعالیٰ نے ولیوں میں شمار کیا.یہ تفصیلی حدیث ابن کثیر کی ہے جس کو حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں بھی نوٹ کیا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس حدیث میں اولیاء کی مختلف قسمیں بیان فرمائی گئی ہیں.ایک جنت کا شوق رکھنے والے اور اس جنت کے حاصل کرنے کے لئے عمل کرنے والے.دوسرے جہنم کا خوف رکھنے والے اور اس جہنم سے بچنے کے لئے عمل کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے ہیں.اور تیسرے خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا لوگ.اور تینوں کو جب اللہ تعالیٰ جنت میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے تو فرماتا ہے یہ تمہارے عمل بھی نہیں بلکہ میں اپنے فضل.تمہیں یہ سب کچھ دے رہا ہوں.پس دیکھیں کہ ہر گروہ میں ایک ایک شخص آگے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کو حاصل کر کے جنت میں اپنے ساتھیوں سمیت داخل ہو جاتا ہے.آخری گروہ جو خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہے یقیناً اس کے سردار آ نحضر تم ہی ہوں گے.وفات کے وقت بھی آپ کے جو الفاظ ہم تک روایت میں پہنچے ہیں وہ یہی ہیں.رفيق الأغلى، رفيق الاغلی.اور آپ کی یہ سب باتیں ، اور وفات کے وقت یہ الفاظ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت چاہئے تھی اور اس میں سب سے بلند ترین مقام آپ ہی کا تھا.پس اولیاء اللہ کی بھی مختلف قسمیں ہیں.لیکن بنیادی بات ایمان اور تقویٰ میں ترقی ہے اور انبیاء اللہ تعالیٰ کے وہ اولیاء ہیں جن کا ایمان کامل ہوتا ہے اور تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں اور اس کی بھی اعلیٰ ترین مثال جیسا کہ میں نے کہا آ نحضرت ﷺ کی ذات ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود جلد سوم صفحہ 100-101 مطبوعہ ربوہ ) اولیاء اللہ کے بارہ میں احادیث میں مزید وضاحت بھی ملتی ہے کہ کون لوگ اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کے حقدار ہوتے ہیں اور کس طرح یہ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے.مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث ہے.حضرت عمرو بن الجموح بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بندہ اس وقت تک ایمان خالص کا حقدار نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے محبت نہ کرے اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے بغض نہ رکھے.جب تک وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے کسی سے بغض رکھتا ہے تو وہ
خطبات مسرور جلد هفتم 532 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 2009 اللہ تعالیٰ کی دوستی کا حقدار ہو جاتا ہے.اور فرمایا اور میرے بندوں میں سے میرے اولیاء اور میری مخلوق میں سے میرے محبوب ترین وہ ہیں جو مجھے یادر کھتے ہیں اور میں انہیں یا درکھتا ہوں.( مسند احمد بن حنبل جلد 5 حدیث عمرو بن الجموح صفحہ 354-353 حدیث 15634 عالم الكتب بیروت 1998ء ) پس اس حدیث میں خالص ایمان کی یہ نشائی بتائی گئی ہے کہ ان کا ہر عمل حتی کہ آپس کی محبت اور نفرت جو ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوتی ہے.ذاتی عناد اور ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں.اگر انسان اپنا جائزہ لے تو خوف سے کانپ جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں.دوسری طرف بہت سارے ایسے ہیں جن کے دلوں میں ذاتی عناد اور ذاتی بغض بھرے ہوتے ہیں، کینے بھرے ہوتے ہیں.ایک دفعہ کسی کی غلطیاں دیکھتے ہیں تو معاف نہیں کرنا چاہتے.اور جب کسی کو اللہ تعالیٰ کی رضا اس وجہ سے مل جائے کہ ہر فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کا دوست بن جاتا ہے.صيا الله اسی طرح ایک اور حدیث ہے.یہ بھی مسند احمد بن حنبل میں ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ہے نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین باتوں کو پسند فرمایا ہے اور تین باتوں کو نا پسند کیا ہے.اس نے تمہارے لئے پسند فرمایا کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ.اور جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملات کا نگران بنایا ہے اس کی خیر خواہی چاہو.اور یہ کہ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو.اور اس نے تمہارے لئے فضول گوئی اور کثرت کے ساتھ سوال کرنے اور مال کو ضائع کرنے کو نا پسند فرمایا ہے.( مسند احمد بن حنبل جلد 3 مسند ابی ہریرہ صفحہ 346 حدیث 8703 عالم الكتب بيروت 1998ء) اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہر ایک پر واضح ہے.اس میں فرض عبادت بھی شامل ہے اور نفل عبادت بھی شامل ہے اور جو بھی عبادت سے بے تو جہگی برتے گا، اس پر توجہ نہیں دے گاوہ اللہ تعالیٰ کا ولی تو کسی صورت میں کہلانے والا بن ہی نہیں سکتا بلکہ ایک عام مومن بھی نہیں ہے جو ایمان کی طرف ابتدائی قدم ہے.دوسری اہم بات اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ باتوں میں سے یہ بیان فرمائی کہ جسے تمہارے معاملات کا نگران بنایا جائے اس کی خیر خواہی چاہو.اور نگران کون بنائے جاتے ہیں؟ نظام جماعت کی طرف سے مقرر کردہ ہر کارکن جو کسی بھی کام پر متعین کیا جاتا ہے وہ ایک حقیقی مومن کا نگران ہوتا ہے.پس اس کے ساتھ مکمل تعاون اور اس کی خیر خواہی چاہنا ایک حقیقی مومن کا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے خدا کا دوست بننا چاہتا ہے.یہ بات جہاں ایک عام مومن کو اطاعت کی طرف توجہ دلاتی ہے اور ہر قسم کے فساد سے بچنے کی طرف متوجہ کرتی ہے وہاں نگرانوں اور عہدیداروں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے.ایک خوف کا مقام ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تمہاری خیر خواہی چاہ رہا ہے تو پھر تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر کس قدر اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے
533 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 2009 پورے کرنے ہیں اور نگرانی کا حق ادا کرنا ہے.خیر خواہی صرف یکطرفہ عمل نہیں ہے بلکہ جب انصاف کا اعلیٰ ترین معیار قائم ہوگا نیتیں صاف ہوں گی ، اللہ تعالیٰ کی رضا عہد یداروں کو بھی مطلوب ہوگی تو ما تحت بھی اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے عہدیدار کی خیر خواہی چاہے گا.بدظنیوں سے دُوری ہوگی اور محبت کی فضا پیدا ہوگی.پھر فرمایا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو.یہاں پھر عام مومن کو توجہ دلائی گئی ہے کہ نگران اور عہدیدار کی طرف سے خلاف مرضی باتیں ہو بھی جائیں تب بھی تمہاری طرف سے کوئی ایسا رد عمل ظاہر نہ ہو جو کسی قسم کے شر اور فتنے کا باعث بنے.اور عہدیداروں کو بھی اس میں ہدایت ہے کہ تمہارے جو ر د عمل ہیں وہ بھی ایسے ہوں جن میں خدا تعالیٰ کا خوف ظاہر ہوتا ہو.اللہ تعالیٰ کی جو رتی ہے یہ تو بنائی ہی اعمال صالحہ اور تقویٰ سے گئی ہے.اس میں اپنے کسی مفاد اور بدعمل کی وجہ سے کمزوری کا باعث نہ ہو کہ جس سے پارٹی ٹوٹنے کا خطرہ ہو یا کسی شخص کا ہاتھ چھوٹ کر آگ کے گڑھے میں گرنے کا خطرہ ہو.اللہ تعالیٰ کے دوست تو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے ساتھیوں کا ہاتھ پکڑ کر بچانے کی کوشش کرتے ہیں.پھر فرمایا کہ نا پسندیدہ باتوں سے بچو کیونکہ یہ باتیں خدا تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں.ان میں فضول گوئی ہے.بیہودہ اور لغو باتیں ہیں.ایک دوسرے پر اعتراضات ہیں، کیونکہ جب یہ باتیں پیدا ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رہتی پر گرفت ڈھیلی ہونی شروع ہو جاتی ہے.پھر کثرت سوال اور مال کے ضیاع سے بھی منع فرمایا.ایک مومن میں قناعت ہونی چاہئے اور دین کی راہ میں مالی قربانی کی طرف توجہ ہونی چاہئے.پھر ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے مقام کا ایک عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے.حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جو نہ تو نبی ہیں اور نہ ہی شہید مگر انبیاء اور شہداء قیامت کے دن اللہ کے حضور ان کے مقام کی وجہ سے ان پر رشک کریں گے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ہمیں بتائیں گے کہ وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں نہ کہ رحمی رشتہ داری کی وجہ سے اور نہ ہی ان اموال کی وجہ سے جو وہ ایک دوسرے کو دیتے ہیں.اللہ کی قسم ان کے چہرے نور ہیں اور یقینا وہ نور پر قائم ہیں اور جب لوگ خوف محسوس کریں گے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمگین ہوں گے انہیں کو ئی غم نہ ہوگا.اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی الّا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ.(سنن ابو داؤد كتاب البيوع ابواب الاجارۃ باب فی الرحن حدیث 3527) پس یہ لوگ اللہ کے ولی بنتے ہیں جن کا اٹھنا بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا خدا تعالیٰ کی رضا ہو.اور جب خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر تمام نیکیاں بجالائیں گے تو پھر یقینا ایسے لوگوں پر انبیاء رشک کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے متبعین میں سے، ان کے ماننے والوں میں سے ایسے لوگ عطا فرمائے جو نیکیوں کے اعلیٰ معیار کو چھورہے ہیں.انبیاء کی بعثت کا
534 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 2009 مقصد تو روحانی انقلاب پیدا کرنا ہوتا ہے.پس جب ان کے متبعین اپنے اندر انقلاب برپا کر لیتے ہیں اور اللہ کے ولی ہونے کے اعلیٰ معیار حاصل کر چکے ہوتے ہیں تو یقینا نبیوں کے لئے یہ رشک کرنے والی بات ہوتی ہے.ان کو ان کی نیکیوں کی وجہ سے رشک نہیں آ رہا ہوتا بلکہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے ماننے والے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے حدیث پڑھی ہے اس سے بھی واضح ہے کہ اولیاء کا جو اعلیٰ ترین معیار ہے وہ انبیاء کوملتا ہے اور اس میں سے بھی سب سے اعلیٰ معیار جو ہے وہ آنحضرت ﷺ کا ہے.پس اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ کے ولی وہی ہیں جو آپ ﷺ کی امت میں شامل ہوکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر عمل بجالاتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اس وجہ سے خدا تعالیٰ کا قرب پاتے ہیں اور ان کے ہر خوف اور غم کو خدا تعالیٰ دور فرما دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا اگر مطلوب ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم پر بھی نظر ہوگی.یہ بھی ایک حقیقی مومن کا کام ہے اور آخری زمانہ میں مسیح موعود کو ماننا بھی خدا تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے.اور جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ تفرقہ نہ ڈالو.اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو.یہ سب باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کسی ایک نے فرقہ بندی کو ختم کرنا ہے اور وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا جسے خدا تعالیٰ نے خود بھیجا ہو.جو اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کا اعلیٰ معیار حاصل کر چکا ہو.پس فی زمانہ خدا تعالیٰ کی خاطر جمع ہو کر آپس میں محبت کرنے والی جماعت بننا اور ایک ہاتھ پر ا کٹھے ہو کر ہر خوف سے امن میں آنا صرف مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا طرہ امتیاز ہے اور ہونا چاہئے.پس جہاں یہ غیر از جماعت مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے احمدیوں کے لئے بھی قابل توجہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت، پیار اور نظام جماعت کا احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا بہت ضروری ہے.پھر اگلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے خوشخبریاں ہیں اور نہ صرف اس دنیا کے انعامات ہیں بلکہ آخرت کے بھی انعامات ہیں.یقیناً ان انعامات کا ملنا ایک مومن کے لئے پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنا ہے.اور عظیم الشان کامیابی ہے.یہ خوشخبریاں کس طرح ملتی ہیں؟ ان کا کیا مطلب ہے؟ اس بارے میں بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے.ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (يونس: 65) - بشرى سے مرادر دیاء صالحہ ہے جسے مومن اپنے متعلق خود دیکھتا ہے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا شخص دیکھتا ہے.موطا امام مالک کتاب الرؤیا باب ما جاء فی الرؤیا حدیث 1785 دار الفکر بیروت 2002ء) اور اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جب یہ عرض کیا گیا کہ ہمیں آخرت کی بشری کے بارے میں تو علم ہے کہ
535 خطبہ جمعہ فرموده 13 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم جنت ہے.اس دنیا کی بشری کیا ہے؟ آپ نے فرمایا رویا صالحہ ہے جو بندہ دیکھتا ہے یا اس کی خاطر دوسروں کو دکھائی جاتی ہیں.ان رؤیاء صالحہ میں انعامات کی خوشخبریاں دی جاتی ہیں.پس یہ رویا جو ہیں یہ بے مقصد نہیں ہوتیں.کبھی خوف کو امن میں بدلنے کے بارہ میں ہوتی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو پورا فرماتا ہے اور مومنین کی زندگی کو جو خوف میں ہوتی ہے امن میں بدل دیتا ہے.کبھی انعامات کے نزول کے بارہ میں ہوتی ہیں اور ایک مومن ہر لمحہ اپنی زندگی میں اور جماعتی زندگی میں یہ دیکھتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ انعامات کی بارش برسا رہا ہوتا ہے.اس بارہ میں اللہ تعالیٰ پہلے کئی مومنوں کو بتا بھی چکا ہوتا ہے کہ اس طرح ہوگا اور (ویسے ہی ) ہوتا ہے.پس یہ بھی انعامات ہیں.ان کے بارہ میں اللہ تعالی مبشر خوا ہیں دکھا کر اطلاع دے رہا ہوتا ہے.اور پھر بہت ساری مبشر خوا میں ہوتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز رہا ہے اور اس کی تائید مومنین کے ساتھ ہے.پس جب مومنین کی جماعت کا ہر عمل اور فعل خدا تعالیٰ کی خاطر ہو جاتا ہے.جب وہ ایک جماعت بن جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے دوست بننے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں آپس کے اس تعلق کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے بشارتیں بھی ملتی ہیں.آج ہمیں یہ محبت جماعت اور خلافت کے اس مضبوط رشتہ سے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر نظر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایمان میں مضبوطی کی خاطر رویا صالحہ مومنین کو دکھاتا رہتا ہے.پس جب تک یہ مضبوط رشتہ پروان چڑھتار ہے گا اور قائم رہے گا مومنین اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبریوں سے حصہ پاتے رہیں گے اور ایک مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی بشارتیں عظیم الشان کامیابی کا اعلان کرتی رہیں گی تا کہ ایمان میں ترقی ہوتی رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے.جن کے ذریعہ سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں نا پیدا کنار ترقیاں کرتے جائیں گے.یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ملیں گی.اور تبشیر کے نشانوں کو پالینا یہی فوز عظیم ہے.یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہی مقام تک پہنچا دیتا ہے“.( یعنی محبت اور معرفت کے انتہائی مقام تک لے جاتا ہے.) تصدیق النبی.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ 15-14 مطبوعہ کریمی پریس لاہور ) اللہ کرے کہ اس نکتہ کو ہم سمجھنے والے ہوں اور اپنے ایمانوں اور تقویٰ کو اُس معیار تک لے جائیں جہاں خدا تعالیٰ کی معرفت اور محبت میں قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے ہر خوف کو امن میں بدلتا رہے اور ہمارے گناہوں اور لغزشوں کو اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپتے ہوئے ہمارے غموں کو ہمیشہ دُور فرماتا رہے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 49 مورخہ 4 دسمبر تا 10 دسمبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)
خطبات مسرور جلد ہفتم 536 (47) خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 فرمودہ مورخہ 20 رنومبر 2009 ء بمطابق 20 ربوت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ اَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَّ إِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ.(العنكبوت: 42) ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور دوست بنائے مکڑی کی طرح ہے اس نے بھی ایک گھر بنایا اور تمام گھروں میں یقینا مکڑی ہی کا گھر سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے.کاش وہ یہ جانتے.یہ آیت سورۃ عنکبوت کی آیت ہے.جیسا کہ اس کے مضمون سے ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان بدقسمتوں کا ذکر فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کا در چھوڑ کر دوسروں کے در تلاش کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی دوستی کو چھوڑ کر غیر اللہ کی دوستی کو اختیار کرتے ہیں.ظاہری اور عارضی فائدہ کو دیکھ کر ٹھوس اور مستقل فوائد کو نظر انداز کرتے ہیں.دنیا کی جاہ و حشمت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کو بھول جاتے ہیں.دنیا داروں کی خوشنودی کی خاطر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو بھلا بیٹھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو ولی بنانے کی بجائے غیر اللہ کو ولی بنانے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے مضبوط حصار میں آنے کی بجائے مکڑی کے کمزور جالے کو اپنا حصار سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے پہلی آیات میں عادہ شمود کا ذکر کیا ہے.پھر قارون اور فرعون اور ہامان کا ذکر فرمایا ہے.بلکہ کچھ آیات پیچھے چلے جائیں تو لوط کی قوم کا بھی ذکر ہے اور پھر ان سب کے انجام کا ذکر ہے.اس لئے کہ وہ خدا کو بھول گئے اور دنیاداری ان کا مقصود ہوگئی.کسی کی قوم کسی کی دولت کسی کے اونچے محل کسی کے پہاڑوں میں بنائے ہوئے محفوظ گھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے آگے کوئی کام نہ آسکے.قرآن کریم میں اس حوالے سے کئی جگہ ذکر ملتا ہے کہ کس طرح قو میں ہلاک ہوتی رہیں.کیونکہ بجائے خدا تعالیٰ کو پناہ گاہ پکڑنے کے انہوں نے عارضی پناہ گاہوں پر بھروسہ کرنے کی کوشش کی.ان قوموں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ نے ہمیں بھی ہوشیار کیا ہے.واضح کر دیا کہ صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کو ولی بنانے کی بھی ضرورت ہے.اس کی پناہ میں آنے کے لئے اس کی دوستی کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے.جس طرح ماضی میں ہامان کا معزز ہونا یا اس کی حکومت کا ہونا کسی کو نہ بچا سکا،
537 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم آئندہ بھی نہیں بچا سکے گا.اگر قارون کی دولت اور مال ماضی میں اس کے کسی تعلق رکھنے والے یا خود سے نہ بچاسکی تو اب بھی کسی کا مال اور دولت خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف چلنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گی.قارون کی دولت نہ پہلے کسی کی بھوک مٹا سکی اور نہ اب مٹا سکتی ہے.نہ ہی فرعون کسی کے کام آسکا کہ فرعون کی غلامی میں آنے سے ہامان اور قارون سے خود بخود بچت ہو جائے گی کہ وہ سب سے بڑا ہے.لیکن یہ بھی کام نہ آسکا.پس یہ ساری پناہ گا ہیں مکڑی کے جالوں سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں.آج بھی دنیا دولتمندوں کی دولت کی طرف دیکھتی ہے.حسرت سے یہ کہا جاتا ہے کہ کاش ہمارے پاس بھی یہ ہوتا اور جس طرح یہ لوگ دولتمند ہیں، ہم بھی اس طرح دولتمند ہوتے.یا دولتمند شخص کی خوشامد کی جاتی ہے یا دولتمند حکومتوں کی خوشامدیں کی جاتی ہیں.جو غریب حکومتیں ہوتی ہیں وہ ان سے امداد لینے اور ان کی حکومتوں کے سائے میں آنے کے لئے ان کی خوشامد کرتی ہیں کہ اس سے ہماری ملکی ترقی وابستہ ہے یا پھر یہ کہ اس سے ہماری بقا وابستہ ہے.اپنے قومی اور ملکی مفاد کو، مفادات کو جو مفاد پرست لیڈر ہیں داؤ پر لگا دیتے ہیں اور یہ باتیں اب کئی ملکوں کے اندرونی راز ظاہر ہونے پر دنیا کے علم میں آچکی ہیں.کئی ایسے مسلمان ملکوں کے سربراہ بھی اپنے ملکوں کو گروی رکھ چکے ہیں جن کو ضرورت تو نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس اچھی بھلی دولت ہے لیکن کیونکہ خدا تعالیٰ پر یقین کامل نہیں ہے اس لئے اپنی حکومتوں کے بقا کے سہارے ڈھونڈے جاتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ قارون کے زیر تصرف دولت اس کے کچھ کام آ سکی اور نہ ہی فرعون کی طاقت اس کے کسی کام آ سکی.جب خدا تعالیٰ کی تقدیر اپنا کام کرنا شروع کر دیتی ہے تو پھر کوئی اسے ٹالنے والا نہیں ہوتا.قرآن کریم میں جو پرانے لوگوں کے یہ ذکر محفوظ کئے گئے ہیں، یہ ہمیں صرف تاریخ سے آگاہ کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ایک مومن کے ایمان میں ترقی کے لئے ہیں اور اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے کے لئے ہیں.مثلاً قارون کے ضمن میں اس کا قصہ بیان کرنے کے بعد اس کے انجام کے بارے میں خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ (القصص:82 ).پس ہم نے اسے اور اس کے گھر کوزمین میں دھنسا دیا پس اس کا کوئی گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلے پر اس کی مدد کرتا اور وہ کسی تدبیر سے بچ نہ سکا.پس خدا تعالیٰ کے مقابلے پر نہ گروہ کسی کام آسکا، نہ ان کی دولت کسی کام آ سکی اور نہ یہ کبھی آتی ہے.جن کی دولت کے سہارے ڈھونڈتے ہوئے بعض لوگ ان سے تعلقات استوار کرتے ہیں اور اس حد تک تعلقات استوار کئے جاتے ہیں ، اس حد تک ان کو سہارا بنایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو ہی بھلا دیا جاتا ہے.گزشتہ سال دولتمند ملکوں کو بلکہ ساری دنیا کو ہی اللہ تعالیٰ نے معاشی بحران کی شکل میں جو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا ہے جسے Credit Crunch کہتے ہیں، یہ ٹرم مشہور ہے.اس حالت سے ابھی تک نہ یہ کہ دنیا باہر آئی ہے بلکہ آج
538 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم تک اس کے اثرات ظاہر ہوتے چلے جارہے ہیں.کہنے کو تو کہا جا رہا ہے کہ معیشت میں استحکام پیدا ہونے کی طرف قدم اٹھنے شروع ہو گئے ہیں.لیکن آج تک ملازمتوں میں کمی اور فراغتوں کا سلسلہ چل رہا ہے.روزانہ کوئی نہ کوئی کمپنی اپنے ملازمین کو فارغ کر رہی ہے.سرمایہ کاری کرتے ہوئے ابھی تک خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں.اسی طرح طاقت کا سہارا ہے.سمجھتے ہیں کہ ہم فرعون کی طاقت کے زیر اثر ہیں.اپنی پناہ گاہ تلاش کی ہوئی ہے اس سے بیچ سکتے ہیں.صداقت کے حوالے سے قرآن کریم نے فرعون کی مثال دی ہے.وہ تو خدائی کا دعویٰ کرنے والا تھا.خدائی کی بڑ مارنے والا تھا لیکن جب اس کے بھی انجام کا وقت آیا تو اس کی حکومت تو ایک طرف رہی وہ بڑ بھی اس کو نہ بچا سکی.کہاں تو اس کا یہ اعلان اور دعوی تھا کہ فَاجْعَلُ لِي صَرْحًا لَّعَلِی اَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الكَاذِبِينَ.(القصص: 39) یعنی پس مجھے ایک محل بنا دے تاکہ میں موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں تو سہی اور میں یقیناً یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آیا تو پھر بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لانے پر بھی تیار ہو گیا.جس کا قرآن کریم میں یوں ذکر ملتا ہے کہ حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَاءِ يُلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (يونس: 91) کہ جب غرق ہونے کی آفت نے پکڑا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں اس پر جس کے سوا کوئی معبود نہیں.جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں کچی فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں.پس کہاں تو یہ بڑ کہ میں اونچے محل پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کا پتہ تو کروں اور کہاں یہ تذلل کہ موت کو سامنے دیکھ کر ڈوبتے وقت یہ اعلان کہ میں بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لاتا ہوں.وہ قوم جو فرعون کی نظر میں حقیر قوم تھی اور معمولی مزدوروں کے کام کرتی تھی ان کے خدا کا حوالہ دے رہا ہے.موسیٰ کے خدا کی بات کرتا تو حضرت موسیٰ اس کے گھر میں پلے بڑھے تھے اور اس لحاظ سے معزز سمجھے جاتے تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس وقت اس سے ایسے الفاظ کہلوائے جو اس کی نہایت ذلت اور عاجزی کی حالت کا اظہار کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے دنیا کے سہاروں کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے.اللہ تعالیٰ نے آج بھی دنیاوی سہاروں کی یہی حقیقت بیان فرمائی ہے.لیکن دنیا داروں کو پھر بھی سمجھ نہیں آتی.بادشاہتیں تو علیحدہ رہیں کسی کو اگر کسی عام ممبر پارلیمنٹ کے رشتہ دار سے بھی تعلق پیدا ہو جائے تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگ جاتا ہے اور خاص طور پر جو غریب ملک ہیں، جو ترقی پذیر ملک کہلاتے ہیں، ترقی پذیری تو ابھی تک ان میں نہیں آئی لیکن بہر حال کہلاتے ہیں.ان ملکوں کی یہ عام بیماری ہے اور پاکستان میں تو اس کی انتہا ہوئی ہوئی ہے.اس تعلق کی بنا پر جو ان کا بعض افسروں سے ہوتا ہے.ان پر انتظامیہ سے بھی ظلم کروائے جاتے ہیں.لیکن ظلم کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ اصل حکومت خدا تعالیٰ کی ہے اور جب خدا تعالیٰ کی تقدیر اپنے فیصلے کرنے شروع کرتی ہے تو پھر بڑے بڑے فرعونوں کو بھی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.پس صرف خدا کا نام لینے سے خدا کا خوف اور ایمان دل میں قائم نہیں ہو جاتا.خدا کا خوف رکھنے والا وہی کہلاتا ہے جو طاقت
539 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 ہوتے ہوئے بھی خدا کا خوف رکھے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے.ورنہ یہ سب منہ کی باتیں ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کا خوف ہے.بعض لوگ جو خدا کا نام لے کر پھر مظالم کی انتہا کرتے ہیں انہیں تو خدا تعالیٰ کی طاقتوں پر ایمان ہی نہیں ہوتا.صرف رسماً معاشرے کے اثر کی وجہ سے خدا کا نام لیتے ہیں.ایسے لوگ ان گھروں میں رہنے والے ہیں جو عنکبوت کا گھر ہے جو مکڑی کا جالا ہے، جس کو ہوا کا ایک جھونکا بھی اڑا کر لے جاتا ہے.ان لوگوں کو اصل یقین اپنی دولت، اپنے تعلقات، اپنی طاقت ، اپنی پارٹی ، اپنے جتھے، بڑی حکومتوں سے اپنے تعلقات پر ہوتا ہے اور نہیں جانتے کہ بڑی طاقتیں بھی اپنے مفاد پورے ہونے پر طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور وفا کرنے والی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.پس مسلمانوں کو خاص طور پر بار بار اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف پیدا کرو.اللہ تعالیٰ کو اپنی ڈھال بناؤ.ہمیشہ یادرکھو کہ قائم رہنے والی اور سب طاقتوں کی مالک صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس لئے اسے ہی اپنے بچاؤ کا ذریعہ مجھو.اسباب سے کام لینا، تعلقات قائم کرنا، تعلقات سے فائدہ اٹھانا بے شک جائز بھی ہے ، ضروری بھی ہے.اسباب بھی خدا تعالیٰ کے مہیا کردہ ہی ہیں اور آپس کے معاشرتی تعلقات قائم کرنا، نبھانا ، مدد لینا اور مدد دینا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگیاں گزارنے اور معاشرے کی بقا کے لئے ضروری ہیں.مگر یہ خیال ایک مومن کو کبھی نہیں آتا ، نہ آنا چاہئے کہ اسباب اور تعلقات ہی سب کچھ ہیں.اصل سہارا تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ کا سہارا نہ ہو اس کی مدد نہ ہو تو ظاہری اسباب اور تعلقات رتی بھر فائدہ نہیں دے سکتے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ہی مومن کو اس کے مقام اور طریق کار کے حصول کے لئے ایک دعا سکھا دی فرمایا کہ یہ دعا کیا کروايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه : 5 ) کہ ہم عبادت بھی خدا تعالیٰ کی کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں اور مددبھی اسی سے مانگتے ہیں کہ عبادت کی توفیق بھی وہی دے اور ہماری احتیا جیں بھی وہی پوری کرے.اور اس دعا کی اتنی اہمیت ہے کہ پانچ نمازوں کے فرائض اور سنتوں میں اسے پڑھنا لازمی قرار دیا گیا ہے بلکہ نوافل میں بھی اسے پڑھنالازمی قرار دیا گیا ہے تا کہ ہر وقت یہ خیال رہے کہ عبادت بھی سچے دل سے خدا تعالیٰ کی ہی کرنی ہے اور مدد بھی سچے دل سے خدا تعالیٰ سے ہی مانگتی ہے.ہر ضرورت پر ، ہر خواہش پر ، ہر کوشش کی تکمیل کے لئے پہلی نظر خدا تعالیٰ پر پڑنی چاہئے اور پھر اسباب کے ساتھ ساتھ اس اصول کو بھی پکڑے رکھنا چاہئے کہ دینے والا تو خدا تعالیٰ ہے.ان کوششوں میں، ان تعلقات میں برکت ڈالنی ہے تو خدا تعالیٰ نے ڈالنی ہے.اگر کوئی اس اصول سے منہ پھیرتا ہے تو پھر وہ کامیابی کے اس دروازے کو اپنے اوپر بند کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اور اس طرح سوائے اپنی ہلاکت کے سامان کے اور کچھ نہیں کر رہا ہوتا.آخر کار پھر مادی اور روحانی زوال کا شکار ہو جاتا ہے.
540 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ایک مومن کے لئے روحانیت اور تقویٰ انتہائی اہم چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے گھر کی مثال دے کر یہ بھی واضح فرما دیا کہ منہ سے مذہب کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے.مذہب کا لیبل لگا لیتا اور اس کا لبادہ اوڑھ لینا کافی نہیں ہے.اس سے انسان اپنی نجات کے سامان نہیں کر لیتا.بلکہ نجات اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہے.اس روح کو پیدا کرنے سے ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذہب بھیجا ہے.اور مذہب کا بنیادی سبق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا جائے اور جب یہی مقصد ہے تو ایک دیانتدار انسان کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی تلاش کرے.قرآن کریم میں تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے مومن کو حکم فرمایا ہے کہ میری طرف قدم بڑھاؤ.ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرو جو خدا تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے لازمی قرار دی ہیں.اسی لئے انبیاء آتے ہیں اور یہی کام خدا تعالیٰ کے مقربین اور اولیاء، انبیاء کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے کرتے ہیں.یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بھی تھا اور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اُس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں.تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 صفحه 143 ) پھر آپ فرماتے ہیں : ” میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں.کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے.اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ ومراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں.زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.سوئمیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 293-291 حاشیہ) پس با وجود اس کے کہ قرآن کریم کی تعلیم اپنی اصلی حالت میں آج تک قائم ہے اور موجود ہے لیکن دلوں سے اس کا اثر غائب ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا خدا تعالیٰ کو بھول جاتی ہے.خدا کو چھوڑ کر دنیا پر انحصار کرنا شروع کر دے.اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے تا کہ وہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دنیا میں قائم کریں.جیسا کہ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ نے پرانی قوموں کے قصے اس لئے بیان فرمائے کہ ان کو دیکھ کر ہوشیار رہوا اور اپنے مقصد پیدائش کو نہ بھولو.اور مقصد پیدائش صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور دوسرے یہ
541 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 پیشگوئی کا رنگ بھی رکھتی ہے.یہ واقعات جو بیان کئے گئے ہیں یہ پیشگوئی کا رنگ رکھنے والے واقعات ہیں کہ آئندہ بھی یہ حالت ہو سکتی ہے.چاہے وہ مسلمانوں کی جماعت ہی ہو اور آج دنیا کی حالت بتا رہی ہے کہ یہ سو فیصد سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کو بھول کر غیر مسلم تو علیحدہ رہے، مسلمانوں کا انحصار بھی اور توجہ بھی ، کوشش بھی اور لگن بھی ، دنیاوی چیزوں کے حصول میں بڑھتی چلی جارہی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت اس مقصد کے لئے ہوئی کہ اس قرآنی تعلیم کو دنیا پر لاگو کریں جو آج سے تقریباً 15 سو سال پہلے آنحضرت یا اللہ کے ذریعہ قائم ہوئی تھی.جس میں بندے اور خدا کا ایسا تعلق پیدا کیا گیا تھا کہ عبادات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے معاشرتی حقوق بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ادا کئے جاتے تھے.مومن ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کے لئے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کر سکے اپنے نصف وسائل دوسرے مسلمان کو دینے کے لئے تیار ہوتے تھے کہ اس کو ضرورت ہے.اس لئے کہ اس وجہ سے میں خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤں گا اور اللہ تعالیٰ پھر مجھے ہر مشکل اور کڑے وقت میں بچانے والا ہوگا اور اس قربت کی وجہ سے وہ کیا حسین معاشرہ تھا جو آنحضرت ملے نے قائم فرمایا.جو آپ کی قوت قدسی کی وجہ سے قائم تھا جس میں خالصتا اللہ تعالیٰ کو ہی ڈھال بنایا جاتا تھا.صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ان کا مقصود ہوتا تھا.جہاں ایک مومن صحابی اپنی چیز کی ایک قیمت مقرر کرتا ہے تو دوسرا مومن کہتا ہے کہ نہیں آپ نے اس کی یہ قیمت کم مقرر کی ہے.شہر میں تو آجکل اس سے بہت زیادہ قیمت ہے.بیچنے والا کہتا ہے کہ میں اسے کیونکہ گاؤں سے لایا ہوں وہاں یہی قیمت ہے میں تو اسے اسی قیمت پر بیچوں گا.میں زائد قیمت لے کر اللہ تعالیٰ کے دروازوں کو اپنے پر بند نہیں کرنا چاہتا.دوسرا کہتا ہے کہ میں تمہیں کم قیمت دے کر اپنے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازوں کو بند نہیں کرنا چاہتا.ان میں جو بات چل رہی ہے تکرار اور بحث کی شکل اختیار کر لیتی ہے، کوئی بھی ان میں ماننے کو تیار نہیں ہوتا ، نہ لینے والا نہ دینے والا کہ میں کیوں عارضی منافع کی خاطر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصار سے باہر نکلوں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے سے دور کروں.پس یہ معاشرہ ہے جو قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے اور اب احمدیوں کو بھی یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ اس معاشرے کے قیام کے لئے کیا ہم کوئی کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کو ولی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں یا دنیا کے مال و دولت کو یا تعلقات اور جاہ و حشمت کو اپنا ولی بنا رہے ہیں؟ جب تک ہمارا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر نہ ہو اور غیر اللہ سے مکمل تعلق نہ ٹوٹے.اس پر بھرو سے اور امیدیں نہ ختم ہوں ہم حقیقی مومن نہیں کہلا سکتے.اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو مکمل طور پر اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر ہم ایسے گھر میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں جو عنکبوت کا گھر ہے.بے شک ہم کہنے کو تو ایمان لانے والوں میں شامل ہیں لیکن ہمارا عمل خدا تعالیٰ کو ڈھال نہیں سمجھ رہا.پس
542 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ہمارا خدا تعالیٰ کو ڈھال بنانا اس وقت حقیقی رنگ اختیار کرے گا جب ہمارا ہر قول وفعل، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہمارا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو گا.ہمارا اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق قائم ہوگا.ہماری تمام محبتوں پر خدا تعالیٰ کی محبت حاوی ہوگی.ہم صرف ولیوں اور پیروں کے قصے سننے والے اور پڑھنے والے نہیں ہوں گے بلکہ اپنی روحانیت کو اس بلندی تک لے جانے والے ہوں گے جہاں ہمارا ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا ہو.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ولی بنو.ولی پرست نہ بنو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 139 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تمہارا تعلق خدا تعالیٰ کے پیاروں سے صرف اس لئے نہ ہو کہ ان سے دعائیں کروانی ہیں یا پھر کسی کو ولی سمجھ کر اس کے پیچھے پڑ جاؤ کہ اسی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور پھر یہ اس حد تک بدعت اختیار کرلے کہ آپ تو دعاؤں کے قریب بھی نہ جاؤ، نمازیں بھی ادا نہ کرو اور کہ دو کہ ہم نے فلاں بزرگ سے تعلق پیدا کر لیا ہے اور یہ کافی ہے.کسی کی بزرگی کی حالت کو تو خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے.لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایسے بزرگ جو اپنے آپ کو خدا کا قریبی سمجھ کر صرف یہ کہتا ہے یا کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے میں دعا کروں گا اور تمہارا کام ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی تلقین نہیں کرتے ان میں بھی ایک قسم کا تکبر پایا جاتا ہے.جو بھی تعویذ گنڈہ کرنے والے غیروں میں ہیں ،مسلمانوں میں تو یہ بہت زیادہ یہ رواج ہے ، وہ سب بدعتیں پیدا کرنے والے ہیں.پس بجائے کسی کا محتاج ہونے کے ایک مومن کا کام ہے کہ خود خدا تعالیٰ سے ایسے رنگ میں تعلق پیدا کرے کہ خدا کا ولی بن جائے.نہ لوگوں کے پاس یا کسی شخص کے پاس اس نیت سے دعا کروانے جائے کہ صرف اسی کی دعا قبول ہوتی ہے.نہ ہی اپنے اندر چند دعاؤں کی قبولیت کی وجہ سے یہ تکبر پیدا کرے کہ میرا خدا تعالیٰ سے بڑا تعلق قائم ہو گیا ہے.حقیقی ولی وہی ہے جس میں عاجزی اور انکسار ہے اور جماعت احمدیہ میں ہر فرد کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس میں حقیقی ولی وہی ہے جس کا خلافت کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے.جماعت میں بہت بڑے بڑے دعائیں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے بزرگ گزرے ہیں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی تو خود نوشت کتاب بھی ہے انہوں نے اپنے واقعات بیان کئے ہیں.ان کے قبولیت دعا کے بے شمار واقعات ہیں باوجود اس کے کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق تھا.لیکن انہوں نے دعا کروانے والے کو ہمیشہ یہی کہا ہے کہ خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق مضبوط کرو اور دعا کے لئے کہو اور خود بھی دعا کرو.یہ حقیقی ولایت ہے جو عاجزی میں بڑھاتی ہے اور ایسے ولی بننے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نصیحت فرمائی ہے کہ تمہارا حقیقی سہارا ہر وقت خدا تعالیٰ کی ذات ہو.یہ نہیں کہ جب کسی پریشانی کا وقت آئے تو پیروں اور
543 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم فقیروں کے درباروں پر حاضریاں لگانی شروع کر دیں.جس کا غیروں میں بہت رواج ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ محفوظ رکھے جماعت کو اس بدعت سے.دعا کے لئے کہنا منع نہیں ہے.مومنوں کو ایک دوسروں کے لئے دعائیں کرنی بھی چاہئیں اور کہنا بھی چاہئے لیکن اس کے ساتھ خود بھی دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ کسی مشکل میں نہیں بلکہ عام حالت میں خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق ہو جو اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کا حق ادا کرنے والا ہو اور جب یہ حالت ہوگی تو تبھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان نے ادھر ادھر پنا ہیں ڈھونڈے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے.اس بات کو مزید کھولنے کے لئے کہ کیوں خدا تعالیٰ کی پناہ تلاش کی جائے اور باقی ہر وسیلے کو خدا تعالیٰ کے مقابلے پر لاشئی محض سمجھا جائے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ قُلْ اَ غَيْرَ اللَّهِ اتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ المُشْرِكِيْنَ (الانعام: 15) تو کہہ دے کہ کیا اللہ کے سوا میں کوئی دوست پکڑ لوں جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا آغاز کرنے والا ہے اور وہ سب کو کھلاتا ہے جبکہ اسے کھلایا نہیں جاتا.تو کہہ دے کہ یقیناً مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر ایک سے جس نے فرمانبرداری کی ، اول رہوں اور تو ہرگز مشرکین میں سے نہ بن.پس زمین و آسمان کا مالک تو وہ خدا ہے.یہ کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ جو مالک ہے اس کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی مخلوق کو مدد کے لئے پکارا جائے ، اس مخلوق کے سہارے ڈھونڈے جائیں.خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کا آغاز کیا.اس نے سب کچھ پیدا فرمایا.اس کو بنانے والا وہ ہے.اس میں ہر موجود چیز خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے.پس جو پیدا کرنے والا اور اصل مالک ہے اس کو چھوڑ کر غیر اللہ کی جھولی میں گرنا کتنی بڑی حماقت ہے.پھر مزید اس دلیل کو مضبوط کیا کہ اس نے پیدا کر کے آغاز کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ غذا جو ہماری بقا کے لئے ضروری ہے اس کا انتظام بھی اس خدا نے کیا ہے.پس جب زندگی کی بقا کے سامان خدا نے کئے ہیں تو کسی دوسرے کی دولت ، حکومت ، اثر و رسوخ دیکھ کر اس پر گرنا یقینا جہالت ہے.جس کے دروازوں پر انسان گرتا ہے وہ تو خود مخلوق ہونے کے ناطے خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں اور جو خود کسی کا محتاج ہوا اور کسی سے لے رہا ہو اور اس کو دینے والے سے مانگنے کی بجائے لینے والے سے مانگنا یہ تو پرلے درجے کی حماقت ہے.جبکہ جن دنیا داروں کے در پر تم گر رہے ہو ان کو دینے والا خود تمہیں کہہ رہا ہے کہ میرے پاس آؤ میں تمہاری حاجات پوری کروں گا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کوکوئی نہیں کھلاتا.ایک تو یہ کہ مالک کل ہے.اس کو اس کی مخلوق نے کیا دینا ہے.دوسرے اصل مطلب یہ ہے کہ اس کو کھانے کی احتیاج ہی نہیں ہے.اس کی بقا تمہاری طرح مادی وسائل سے نہیں ہے.اس کو کسی خوراک اور لباس کی یا دوسری اشیاء کی ضرورت نہیں ہے.پس یہ مادی ضرورتیں انسان کی ہیں خدا تعالیٰ کی نہیں اور جس کی یہ ضرورتیں نہیں اور جو تمام وسائل کا منبع اور مہیا کرنے والا ہے اس کو چھوڑ کر ایک مومن کس طرح دوسرے کے در کو پکڑسکتا ہے.
544 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس اس خدا کی پناہ میں آنا ہر مومن کی زندگی کا مقصود ہونا چاہئے.ہر مومن کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس خدا کی عبادت کرنا میرا مطمح نظر ہو.اس خدا کے آگے اپنی ضروریات رکھنا یہی ایک مومن اور ایک انسان کی عظمندی کا تقاضا ہے.پس اس خدا کی کامل فرمانبرداری کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے اور جو ایسے لوگ ہیں یہی حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے اولیاء ہوتے ہیں اور پھر ان سے بڑھ کر انبیاء کا درجہ ہے جو یقیناً اولیاء بھی ہیں.اس مقام کو حاصل کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے.فرماتا ہے رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْاحَادِيثِ.فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِي فِى الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ (يوسف: 102) کہ اے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے ! تو دنیا اور آخرت میں میرا دوست ہے.مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرہ میں شامل کر.خدا تعالیٰ کے ولیوں کو نہ ہی کشائش اور نہ ہی بُرے حالات خدا تعالیٰ کو بھلانے کا باعث بنتے ہیں.انہیں ہر حالت میں خدایا درہتا ہے اور وہ اس پر قائم رہنے کے لئے کہ ہر آن خدا تعالیٰ سے ہی حاصل کرنا ہے یہ دعا بھی مانگتے ہیں جو بیان ہوئی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت یوسف کی دعا تھی جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے.اور اس دعا کا بیان اس لئے ہے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ سے تعلق اور روحانی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ سے قرب بڑھانے کے لئے یہ دعا کیا کریں دنیاوی کامیابیاں ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات سے دور نہ لے جائیں اور ابتلاء اور مشکلات ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات سے بدظن نہ کر دیں.بلکہ یہ دعا ہو کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہر حالت میں فرمانبرداری کرتے ہوئے وفات دے.ہمارا شمار ہمیشہ ان میں ہو جو صالحین اور خدا تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کا طریق بھی ہمیں سمجھا دیا کہ یہ دعا کس طرح کرنی ہے.ولی بننے کے لئے کس طرح کوشش کرنی ہے.کسی حالت میں تم خدا تعالیٰ کے قریب ہوتے ہو کہ جب خدا تعالیٰ تمہاری دعائیں سنتا ہے اور تمہیں اپنے قرب سے نوازتا ہے اس بارہ میں سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرماتے ہوئے کہ جو دنیوی زندگی کے سامان ہیں جو دنیا داروں کو دیئے گئے ہیں انہیں دیکھ کر تمہارے اندر بھی دنیاوی لالچ پیدا نہ ہو جائے بلکہ یہ عارضی رزق ہے.تم اپنے رب کے اس رزق کی تلاش کرو جو ہمیشہ رہنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کے ولی بننے کی کوشش کرو.دنیاوی لالچ کی وجہ سے نہ دنیا داروں سے دوستی کرو، نہ ہی اس دولت کی طرف اتنے مائل ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ تمہیں بھول جائے.ہمیشہ یا درکھو کہ جو دنیاوی دولت تمہیں آج نظر آ رہی ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہے.آجکل بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دنیاوی دولت کا لالچ ہی ہے جس نے دنیا کے دو بلاک بنائے تھے.پھر ان میں کوششیں ہوئیں تو کمی لانے کی کوشش کی گئی.روس کی سٹیٹس بنیں اور ٹوٹا.اب پھر وہی سوچیں ابھر نے لگ گئی ہیں.بلاک بننے شروع ہو رہے ہیں.پاکستان افغانستان وغیرہ پر بھی جو
545 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بڑی طاقتوں کی امن قائم کرنے کی مہربانی ہے یہ ان کی کسی ہمدردی کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنی طاقت قائم رکھنے اور ہمسایہ ممالک کے وسائل کو استعمال کرنے کے لئے ہے اور آخر میں دنیا دیکھے گی کہ نتیجہ یہی نکلے گا.پس آجکل جو حالات ہیں، دنیا کی طاقتوں کی جو چھیڑ چھاڑ شروع ہے اس کا بھی انجام بڑا بھیا نک نظر آ رہا ہے.اس کے لئے بھی احمدیوں کو بہت دعا کرنی چاہئے.مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ تم ان کی دولتوں اور ان موجودہ حالتوں کو نہ دیکھو.تمہاری کامیابی خدا تعالیٰ سے تعلق میں ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ فرمایا وَ أَمر اَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرُ عَلَيْهَا لَا نَسْتَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ.وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوی (طہ: 133) اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتارہ اور اس پر ہمیشہ قائم رہ.ہم تجھ سے کسی قسم کا رزق طلب نہیں کرتے.ہم ہی تو تجھے رزق عطا کرتے ہیں اور نیک انجام تقویٰ ہی کا ہوتا ہے.اپنی روحانی حالت بڑھانے کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے خود بھی نمازوں کی طرف توجہ دو اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کرو.یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور جیسا کہ رزق کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے یہاں بھی یہی بیان ہے کہ اصل رزق تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.مومن جب عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کو خدا تعالیٰ جہاں مادی رزق دیتا ہے وہاں وہ روحانی رزق میں بھی ترقی کرتا چلا جاتا ہے.اس کا تعلق خدا تعالیٰ سے بڑھتا ہے.اس میں قناعت پیدا ہوتی ہے.اس کی نظر دوسروں کی دولت پر پڑنے کی بجائے ہر آن خدا تعالیٰ پر پڑتی ہے اور جب یہ صورت ہوگی تو تقویٰ میں ترقی ہوگی اور متقی کا اللہ تعالیٰ خود ہر معاملے میں کفیل ہو جاتا ہے.اسے ایسی ایسی جگہوں سے دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا.یہ بھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وہ متقی ہر وقت اللہ تعالی کی پناہ میں ہوتے ہیں.دوسروں کی دولت اور طاقت کی انہیں رتی بھر پروانہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اپنے سے خاص تعلق پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس مقصد کے حصول کے لئے آنحضرت ﷺ نے ایک دعا بھی سکھائی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.یہ روایت حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کچھ کلمات سکھائے کہ میں ان کو وتر میں پڑھا کروں.کلمات یہ ہیں کہ اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں شامل کر کے ہدایت دے جنہیں تو نے ہدایت دی ہے.اور مجھے ان لوگوں میں شامل کر کے عافیت دے جنہیں تو نے عافیت دی ہے.اور ان لوگوں میں شامل کر کے میر ا متکفل بن جاجن کی تو نے خود کفالت کی ہے.اور جو کچھ تو نے مجھے عطا کیا ہے اس میں میرے لئے برکت رکھ دے.اور جو شر تو نے مقدر کر رکھا ہے اس سے مجھے بچا.یقینا تو ہی فیصلہ کرنے والا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا.جس کا تو دوست بن جائے وہ کبھی ذلیل ورسوا نہیں ہوتا.اے ہمارے
خطبات مسرور جلد هفتم 546 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 2009 رب تو بڑی برکتوں والا اور بڑی شان والا ہے.یہ حدیث سنن ترمذی کتاب الصلوۃ میں ہے.پس یہ دعا ہمیشہ ہمیں مانگتے رہنا چاہئے.( سنن ترمذی کتاب الصلوۃ باب ما جاء فى القنوت فی الوتر حدیث (464) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں“.( مجموعہ اشتہارات.جلد دوم صفحه 619 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا: ” خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونے سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو.( مجموعہ اشتہارات.جلد دوم صفحہ 619 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ کرے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ کی ذات میں ہر آن پناہ ڈھونڈ نے والے ہوں.دنیاوی لالچوں سے دور ہوں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کرنے میں اول درجے میں شمار ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو دعائیں ہیں ان سب کے وارث بنیں اور اللہ تعالیٰ کے ولی بننے کی طرف ہر آن ہمارے قدم بڑھتے چلے جائیں.آج یہاں ایک وضاحت بھی میں کر دوں، پہلے تو ایک آدھ خط مجھے آتے تھے، اب ایسے خطوں کی کثرت ہو گئی ہے.بعض لوگوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے.میرے حوالے سے یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ یہاں یورپ میں بھی اور دوسری جگہوں پہ بھی حکومتوں کی طرف سے جو سوائن فلو کا ٹیکہ پر یومینٹو (Preventive) لگایا جا رہا ہے، وہ نہ لگوا ئیں کہ میں نے اس سے روکا ہے.میں نے قطعاً کوئی ایسی بات نہیں کی.جہاں جہاں لگایا جا رہا ہے اور جن جن لوگوں کو ، بچوں یا بوڑھوں کو حکومت نے کہا کہ لگوائیں، تو وہ بالکل لگوائیں.کسی نے روکا نہیں ہے.پتہ نہیں میری کس بات سے اخذ کر لیا گیا ہے یا ویسے ہی ہوائی اڑادی ہے.افواہوں سے بھی پر ہیز کرنا چاہئے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 50 مورخہ 11 دسمبر تا 17 دسمبر 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8
خطبات مسرور جلد ہفتم 547 (48) خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2009ء بمطابق 27 رنبوت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ چند جمعوں سے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں میں ولی کے مضمون کو خطبات میں بیان کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہمارا والی ہے اور مولیٰ ہے اور کس کس طرح اپنی اس صفت کا اظہار فرماتا ہے اور ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کا ولی اور دوست کس طرح بننا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اعلیٰ مقام حضرت محمد مصطفی امیے کو ملا اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کہ نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِى أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدْعُونَ ( حم سجدہ:33-31) ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو تم طلب کرتے ہو.اس کے سب سے پہلے مخاطب آنحضرت ﷺے ہی ہیں ، سب سے پیارے تو خدا تعالیٰ کے آپ ہی ہیں.زمین و آسمان آپ کی خاطر پیدا کیا گیا.آپ کی پیدائش سے وفات تک اللہ تعالیٰ آپ کے ولی ہونے کے ہر دم نظارے دکھاتا رہا.آپ کی خواہش کی آپ کی زندگی میں تکمیل ہوئی.شریعت کامل ہوئی اور خاتم الانبیاء کہلائے اور آپ کا سلسلہ یہ آج تک بھی قائم و دائم ہے.جب اللہ تعالیٰ نے آپ سے يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: 68 ) کا وعدہ فرمایا تو ہرسختی اور مشکل میں آپ کی حفاظت فرماتے ہوئے ہر قسم کے نقصان سے بچایا.بلکہ ہجرت کے وقت جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکڑے جانے کے خدشہ اور خوف کا اظہار فرمایا تو لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبة : 40 ) کہ خوف نہ کرو جو ہمارا آقا اور مولیٰ ہے جو ہمارا اللہ ہے، جو ہمار اولسی ہے وہ ہمارے ساتھ ہے، یہ کہہ کر ان کی تسلی کرائی.پس اللہ تعالیٰ کے مومنین کے لئے ویسی ہونے کے نظارے بھی آپ کی قوت قدسی کی وجہ سے آپ کے ماننے والوں کو بھی نظر آئے اور حضرت ابو بکر صدیق کا تو آپ کا خاص ساتھی ہونے کی وجہ سے ایک خاص مقام تھا.انہوں نے تو ہر آن دیکھے ہی ، عمومی طور پر بھی صحابہ نے اللہ تعالیٰ کے ولی بن کر اس کے ولی ہونے کے نظارے دیکھے.اور آج تک آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ نظارے دکھاتا چلا جارہا ہے.ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہونے والے یہ نظارے دیکھتے ہیں.
548 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم جب اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مسیح محمدی کو بھیجا تو اللہ تعالیٰ کی اس دوستی، مدد اور ولی ہونے کی نئی مثالیں بھی ہم نے اس زمانے میں دیکھیں، ایمان میں ترقی کے نظارے نظر آنے لگے.بہر حال اس وقت میں اسی حوالے سے بعض واقعات بیان کروں گا جو پہلے تو آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی زندگی کے واقعات ہیں.اس کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے بھی.جن سے اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے ساتھ تعلق اور ان کے لئے غیرت رکھنے پر روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح ان کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ ان کا مددگار بنتا ہے اور اُن کے مرنے کے بعد بھی.اُن کی ذات پر دنیا کے حملوں سے انہیں بچاتا ہے.اگر کسی نے کوئی دعا کی تو اس کو صرف اس کی زندگی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی خواہش کو جس کے لئے دعا کی گئی تھی مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا.پہلی جو مثال میں نے لی ہے، واقعہ جو میں نے لیا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت زبیر کا ہے.حضرت عبداللہ بن زبیر جو حضرت زبیر کے بیٹے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے روز میں حضرت زبیر کے پہلو میں کھڑا تھا.آپ نے فرمایا اے میرے بیٹے ! آج کے دن یا تو کوئی ظالم قتل ہوگا یا کوئی مظلوم ، دو طرح کے لوگ آج قتل ہونے والے ہیں.یا ایک ظالم یا مظلوم.اور یقینا میں دیکھ رہا ہوں کہ میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا.میرا سب سے بڑا مسئلہ میرا قرض ہے.کیا تو دیکھتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے مال میں سے کچھ بچے گا ؟ پھر آپ نے کہا اے میرے بیٹے ! ہمارے مال کو بیچ کر میرا قرض ادا کر دینا.ان کی عرب کے مختلف شہروں میں جائیدادیں تھیں.اس لئے انہوں نے کہا کہ میرا قرض جو ہو تم جائیدادوں کو بیچ کر ادا کر دینا اور آپ نے تیسرے حصے کی وصیت کی اور تین میں سے تیسرے حصے کی وصیت اپنے بیٹے یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر کے حق میں کی.پھر کہا کہ قرض کی ادائیگی کے بعد اگر ہمارے مال میں سے کچھ بیچ رہے تو تیرے بیٹے کے لئے بھی تیسرا حصہ ہے.عبداللہ ابن زبیر نے کہا کہ وہ مجھے قرض کی ادائیگی کے لئے کہتے رہے.پھر کہا کہ اے میرے بیٹے ! اگر تو قرض ادا کرنے سے رہ جائے تو میرے مولیٰ سے مدد طلب کرنا.عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نہ سمجھا کہ آپ کی اس سے کیا مراد ہے.میں نے عرض کیا کہ اے میرے باپ! آپ کا مولیٰ کون ہے؟ آپ نے کہا کہ اللہ.عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! کہ جب بھی میں نے زبیر کے قرض کی ادائیگی کرتے ہوئے مشکل محسوس کی میں نے دعا کی ، اے زبیر کے مولیٰ ! ان کا قرض ادا کر دو تو اللہ تعالیٰ آپ کا قرض ادا کر دیتا تھا.انتظام فرما دیتا تھا جس سے قرض ادا ہو جاتا تھا.(صحیح بخاری کتاب النمس باب برکتہ الغازی فی ماله حياً وميتاً حدیث نمبر 3129) پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ساتھ مدد اور دوستی کا سلوک کہ وفات کے بعد بھی کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے کسی قرض کی وجہ سے، کسی کو آپ پر انگلی اٹھانے یا اعتراض کرنے کا موقع نہیں دیا اور جب ضرورت ہوئی قرض کی ادائیگی کے انتظام ہوتے چلے گئے.
549 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پھر ایک اور عجیب روایت ہے ، ایک واقعہ ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے ایک صحابی کی خواہش کے مطابق اس کی شہادت کے بعد بھی اسے کافروں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا.یہ واقعہ الرجیع کے شہید کی بابت ہے جو سیرت ابن ہشام میں درج ہے، رجیع وہ جگہ تھی جہاں دھوکے سے 10 صحابہ کو دینی تربیت کے لئے بلا کر لے گئے تھے ، ایک قبیلہ والے اور وہاں جا کے ان کو شہید بھی کیا ان میں سے سات کو پہلے.ایک دو جو بچے تھے ان کو بھی بعد میں قید کر کے شہید کر دیا.تو بہر حال ان میں عاصم بن ثابت بھی شامل تھے انہوں نے دشمنوں سے مقابلہ جاری رکھا اور لڑتے لڑتے وہ شہید ہو گئے.جب حضرت عاصم بن ثابت کی شہادت ہو گئی تو اہل هُدَیل نے کوشش کی کہ ان کا سر حاصل کرلیں تا کہ وہ ان کو سلافة بنت سعد بن شہید کے ہاتھ بیچ سکیں.اس عورت نے نذر مانی تھی کہ اگر اس کو عاصم بن ثابت کی کھوپڑی مل گئی تو وہ اس میں شراب پئے گی کیونکہ حضرت عاصم نے جنگ اُحد کے دن اس کے دو بیٹوں کا کام تمام کیا تھا.لیکن اہل حُصیل کو اس کی توفیق نہ ملی کیونکہ عاصم کی لاش اور ان کے درمیان شہد کی مکھیاں حائل ہوگئی تھیں.جب شہید ہو کے گرے تو تھوڑی دیر بعد ہی مکھیوں اور بھڑوں نے قبضہ کر لیا.انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کو رات کو پھر آ کر لے جائیں گے.رات تک پڑا رہنے دیتے ہیں.لیکن اس کا موقع بھی ان کو نہیں ملا.پھر بارش ہوئی بڑی شدید اور خدا تعالیٰ نے ایسا سیلاب بھیجا کہ عاصم کے جسم کو اٹھایا اور وہ سیلاب اپنے ساتھ بہا کر لے گیا.یہ وہی عاصم تھے جنہوں نے قبول اسلام کے بعد خدا سے عہد کیا تھا کہ کوئی مشرک ان کو نہ چھوئے گا اور نہ ہی وہ کسی مشرک کو چھوئیں گے.کیونکہ کہیں وہ اس سے ناپاک نہ ہو جائیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ان کو جب یہ پتہ چلا کہ مکھیوں نے عاصم کی لاش کی حفاظت کی تھی تو فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی حفاظت فرمایا کرتا ہے.عاصم نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ ساری زندگی ہرگز کسی مشرک کو نہ چھوئیں گے اور نہ کبھی کوئی مشرک ان کو چھوٹے گا.پس اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو عاصم کی وفات کے بعد بھی اس سے باز رکھا جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگی میں مصروف رکھا تھا.(ماخوذ از السيرة النبوية لابن ہشام صفحہ 592 ذکر یوم الرجيع في سنة الثلاث - دار الكتب العلمیة بیروت 2001ء) پھر ایک واقعہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہوئے بھوک مٹانے کے انتظامات کرتا ہے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مہم کے لئے ہمیں بھیجا اور حضرت ابو عبیدہ کو ہمارا امیر مقرر کیا اور ہمارے ذمہ قریش کے ایک قافلے کو روکنے کا فرض تھا اور ایک تھیلا صرف ہمیں دیا سفر کے زادراہ کے لئے اور اس کے علاوہ اور کچھ کھانے کو نہیں تھا.حضرت ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ ہم ایک کھجور روزانہ کھایا کرتے تھے اور پانی پی لیتے تھے اور جیسے بچہ چوستا رہتا ہے، سارا دن چوستے رہتے ہیں.پھر بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ پیٹ بھرنا ہو تو درختوں پر سوٹیاں مار کے ان کے پتے جھاڑتے تھے اور ان کو پھر پانی میں تر کر کے کھالیا کرتے تھے.ایک دن ہم سمندر کے کنارے جارہے تھے تو ایک
550 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 بہت بڑا سائیلہ سا نظر آیا ، ہم نے دیکھا تو وہ ایک مچھلی تھی.حضرت ابوعبیدہ نے کہا یہ مردار ہے اسے نہیں کھانا چاہئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلے ہیں اور مجبوری بھی ہے اور اس لئے تم کھا سکتے ہو.کہتے ہیں ہم نے اس مچھلی پر جو اتنی بڑی تھی کہ ہم نے اس مچھلی پر ایک مہینہ گزارا کیا.300 آدمی تھے اور اس کو کھا کر سب خوب موٹے ہو گئے اور بہت بڑی مچھلی تھی اس میں سے تیل مشکیں بھر بھر کے نکالتے رہے.اس کی آنکھ اتنی بڑی تھی کہ 13 آدمی اس میں آرام سے بیٹھ سکتے تھے.اس کی پسلی کی ہڈی اتنی اونچی تھی کہ اونٹ پر بیٹھ کر اس میں سے گزر سکتے تھے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ ان کے لئے انتظام کیا ، اس میں سے کچھ بچا کے وہ لے بھی آئے اور آنحضرت تم کو بتایا تو فرمایا کہ بالکل ٹھیک کیا تم نے، یہ تمہارے لئے جائز تھی بلکہ اگر کوئی ٹکڑا ہے تو مجھے بھی دو میں بھی کھاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ رزق مہیا کیا تھا.(مسلم کتاب الصيد والذبائح باب اباحة ميتة الحديث 4891) تو یہ ہیں خدا تعالیٰ کی مدد کے طریق کہ جو اس کی راہ میں نکلتے ہیں ان کی خوراک کے بھی سامان فرما دیتا ہے.کہاں ایک کھجور کھا کر پانی پی کر اور پتوں پر گزارا کر رہے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ گوشت بھی مہیا ہو گیا اور تیل بھی مہیا ہو گیا.اللہ تعالیٰ کامل ایمان لانے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کو، تو کل کرنے والوں کو فرماتا ہے وَيَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق:4) کہ اور ان کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتے.پس جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے ہم دیکھتے ہیں تو اس بات پر یقین اور بڑھتا ہے کہ جو اس دنیا میں ولی ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اپنے بندوں کے انتظامات کرتا ہے اس نے جو آخرت کے متعلق وعدے کئے ہوئے ہیں ان کو بھی یقیناً پورا فرمائے گا.جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : 4) کے وعدہ کو پورا فرماتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کے ماننے والوں کو بھی ان صفات سے متصف کیا جو آقا نے انقلاب لا کر اپنے ساتھیوں میں پیدا کی تھی، تقویٰ پر چلنے والوں میں پیدا کی تھی.اللہ تعالیٰ کے اس خاص سلوک کے واقعات جو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے روار کھے اور ہر تقویٰ پر چلنے والے اور اللہ تعالیٰ کا ولی بننے کی کوشش کرنے والے کے ساتھ آج بھی روا رکھ رہا ہے ان میں سے چند بیان کروں گا.پہلے تو آنحضرت ﷺ کے چند صحابہ کے بیان کئے تھے.یہ واقعات بیان کرنے سے پہلے ایک عجیب روایت ہے ڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک گواہی
551 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 27 نومبر 2009 ہے وہ بھی پیش کرتا ہوں جو ایک غیر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں اظہار کرتے ہوئے دی.ڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک مجذوب را ہوں ضلع جالندھر کا رہنے والا مصری شاہ نام امر تسر آیا.وہ ایک صوبہ دار میسجر کا لڑکا تھا.ڈاکٹر صاحب اس مجذوب کی شہرت سن کر اس کے پاس گئے.اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہا کہ جس نے ولی بننا ہے وہ قادیان جائے.چنانچہ آپ نے 1899ء میں بیعت کا خط قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لکھ دیا.(اصحاب احمد جلد 10 صفحہ 2) پھر حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ای پائے کے حکیم تھے اور بہت بڑے بزرگ تھے، عالم دین تھے، ان کے بارہ میں حضرت مولانا راجیکی صاحب لکھتے ہیں کہ چوہدری نواب خان صاحب تحصیلدار جو خلص احمدی تھے جب گجرات میں تبدیل ہو کر آئے تو جب دورہ پر راجیکی میں تشریف لاتے میرے پاس کچھ دیر ضرور قیام فرماتے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور عظمت شان کے متعلق اکثر تذکرہ کرتے رہتے.ایک دن اسی طرح کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ نواب خان صاحب تحصیلدار نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے حضرت حکیم نورالدین صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا کہ مولانا آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اس پر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے فرمایا کہ نواب خان ! مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد بہت حاصل ہوئے ہیں.لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھےنبی کریم یا اس کے کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے.(حیات نور صفحہ 194) پھر فرمایا آپ کی صحبت میں یہ فائدہ اٹھایا کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد پڑ گئی ہے.یہ سب مرزا کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا.اب کچھ اور واقعات ہیں جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا واقعہ ہے.لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر چوہدری اللہ دادصاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہ جو دست غیب کے متعلق مشہور ہے کہ بعض وظائف یا بزرگوں کی دعا سے انسان کی مالی امداد ہو جاتی ہے کیا یہ صحیح بات ہے؟ میں نے کہا ہاں بعض خاص گھڑیوں میں جب انسان پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس وقت اس کی تحریری یا تقریری دعا باذن اللہ یقیناً حاجت روائی کا موجب ہو جاتی ہے.میری یہ بات سن کر چوہدری اللہ داد کہنے لگے تو پھر آپ مجھے کوئی ایسی دعا یا عمل لکھ دیں جس سے میری مالی مشکلات دور ہو جائیں.میں نے کہا کہ اچھا اگر کسی دن کوئی خاص وقت اور گھڑی میسر آ گئی تو انشاء اللہ میں آپ کو وہ دعا لکھ دوں گا.چنانچہ ایک دن جب افضال ایز دی اور سید نا حضرت مسیح موعود
552 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے مجھے روحانی قوت کا احساس اور قوت مؤثرہ کی کیفیت کا جذبہ محسوس ہوا ( یعنی ایسی طاقت جس سے اثر ہو سکتا ہے دعا میں ) تو میں نے حسب وعدہ چوہدری اللہ داد کو ایک دعا لکھ کر دی.جس کے الفاظ غالبا اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَاَغْنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ تھے اور تلقین کی کہ وہ اس دعا کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں.چنانچہ انہوں نے اسی وقت اس دعا کو اپنی پگڑی کے ایک گوشہ میں باندھ کر محفوظ کر لیا.خدا کی حکمت ہے کہ میرے مولیٰ کریم نے سیدنا حضرت مسیح موعود کے طفیل اس وقت اس ناچیز کی دعا کو ایسا قبول فرمایا کہ ایک سال تک چوہدری اللہ داد غیبی امداد اور مالی فتوحات کے کرشمے اور عجائبات اور ملاحظہ کرتے رہے.اس کے بعد اتفاق سے، بدقسمتی سے یہ دعا چوہدری اللہ داد صاحب سے ضائع ہو گئی اور وہ دست غیب کا سلسلہ ختم ہو گیا.جب تک وہ کاغذر ہا چلتا رہا اس کے گنے کے بعد ختم ہو گیا.(ماخوذ از حیات قدسی حصہ اول صفحہ 46-45 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر حکیم محمد اسماعیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے بچے محمد یعقوب کی پیدائش پر جب اس کا ختنہ کیا گیا تو حجام کی غلطی سے اس کی رگیں تک کٹ گئیں.خون کسی صورت میں بند نہ ہوتا تھا.خون کے مسلسل خارج ہونے سے بچے کی حالت غیر ہوگئی.دودھ پینا تو ایک طرف رہا اس میں اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ حرکت کر سکے ، آنکھیں پتھرا گئیں اور بظاہر ایک بے جان لاشے کی طرح نظر آنے لگا.اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں میں اپنے مطلب سے ، حکمت کرتے تھے، دواخانہ سے دوائی لینے کے لئے گیا تو اس وقت اتفاقاً حضرت مولوی شیر علی صاحب میرے مطب کے سامنے سے گزر رہے تھے.میں نے السلام علیکم کہا اور تمام حالات بیان کر کے دعا کی درخواست کی.حضرت مولوی صاحب نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی اور کافی دیر تک نہایت سوز و گداز اور انہماک سے دعا میں مشغول رہے.دعا سے فراغت کے بعد جب میں گھر پہنچا اور بیوی سے کہا بچے کو ذرا دودھ تو پلاؤ.جب اس کو ماں نے اشارہ کیا تو نہایت اشتیاق سے تندرست بچے کی طرح دودھ پینے لگا.جیسے اس کو کبھی کوئی تکلیف ہی نہیں تھی.کہتے ہیں میں حضرت مولوی صاحب کے اس دعا کے اعجاز کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے گہرے تعلق کا یہ کرشمہ میرے لئے بہت ایمان افروز ثابت ہوا.سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحہ 228 227 ) پھر حضرت محمد حسین جہلمی ٹیلر ماسٹر کہتے ہیں یہ بھی حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ہی قصہ ہے کہ ایک دفعہ موضع پھلر وال ضلع جہلم تشریف لائے ایک غیر احمدی عورت کی شادی ہوئے چھ سات برس کا طویل عرصہ گزرچکا تھا.لیکن وہ اولاد سے محروم تھی.عورت کو جب آپ ایسی بزرگ ہستی کی آمد کا علم ہوا تو کہنے لگی سنا ہے مولوی صاحب بڑے بزرگ آدمی ہیں ان سے مجھے اولاد کا کوئی تعویذ ہی لے دیں.میں نے کہا مولوی صاحب تعویذ تو نہیں دیتے البتہ دعا
553 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کے لئے کہوں گا.چنانچہ جب آپ واپس جانے لگے تو سٹیشن پر پہنچ کر میں نے سارا واقعہ بیان کیا اور دعا کے لئے عرض کیا، آپ نے وہیں ہاتھ اٹھا کر دعا کی، آپ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ قریباً ایک سال کے اندر ہی خدا تعالیٰ نے اس کو لڑکا عطا فر مایا.سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحہ 241-240) پھر مولوی غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فیضان ایزدی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے طفیل اور تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجتمندوں کے لئے دعا کرتا تھا مولا کریم اسی وقت میرے لئے معروضات کو شرف قبولیت بخش کرلوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا.چنانچہ ایک موقع پر جب موضع سعد اللہ پور گیا تو میں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو جو چوہدری عبداللہ خان نمبر دار کے بھائی تھے اور ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے دیکھا ، بھائی کے بیٹے تھے کہ وہ بے طرح دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف کی وجہ سے نڈھال ہو رہے تھے.میں نے وجہ دریافت کی انہوں نے کہا کہ 25 سال سے پرانا دمہ ہے مجھے اور اس کی وجہ سے میری زندگی دوبھر ہو گئی ہے.میں نے علاج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا سارے ہندوستان کے جتنے قابل ڈاکٹر ہیں ، طبیب ہیں ان سے علاج کروا چکا ہوں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو رہا.ایسی بیماری کو موروثی اور مزمن کہتے ہیں اور ڈاکٹروں نے اسے لا علاج قرار دے دیا ہے.تو مایوس ہو چکا ہوں اب علاج سے اور اب تو میں زندگی سے تنگ آچکا ہوں.تو میں نے انہیں کہا کہ آنحضرت ﷺ نے تو کسی بیماری کو لِكُلِّ دَاءِ دَوَاء کے فرمان سے لاعلاج قرار نہیں دیا.آپ اسے لا علاج سمجھ کر مایوس کیوں ہوتے ہیں.انہوں نے کہا مایوسی کے سوا چارہ کوئی نہیں.میں نے کہا کہ ہمارا خدا تو فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ (هود: 108) ہے.اس نے فرمایا کہ اِنَّهُ لَا يَايُنَسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (یوسف: 88) یعنی پاس اور کفر تو ا کٹھے ہو سکتے ہیں لیکن ایمان اور پاس اکٹھے نہیں ہو سکتے.نا امیدی اکٹھی نہیں ہو سکتی ایمان کے ساتھ.اس لئے آپ نا امید نہ ہوں اور پیالے میں تھوڑ اسا پانی منگوائیں.میں آپ کو دم کر کے دیتا ہوں چنانچہ انہوں نے پانی منگوایا اور کہتے ہیں کہ میں نے خدا تعالیٰ کی صفت شافی سے استفادہ کرتے ہوئے اتنی توجہ سے پانی پر دم کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی صفت کے فیوض کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے.اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ یہ پانی اللہ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے مجسم شفا بن چکا ہے.چنانچہ جب میں نے یہ پانی حضرت چوہدری اللہ داد کو پلایا تو تھوڑی دیر میں ان کا دمہ رک گیا اور پھر اس کے بعد بھی ان کو دمہ کی تکلیف نہیں ہوئی.اس کے بعد 15-16 سال وہ
خطبات مسرور جلد ہفتم 554 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 زندہ رہے.اور اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت نصیب فرمائی اور وہ نہ صرف احمدی ہوئے بلکہ مخلص احمدی مبلغ بن گئے.(ماخوذ از حیات قدی حصہ اول صفحہ 45-44 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکئی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ موضع جا موڈ ولا جو ہمارے گاؤں سے شمال کی طرف 2 میل کے فاصلے پر ہے وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے جب انہوں نے جیون خان ساکن دھد رہا کی معجزانہ بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا تو ان میں سے خان محمد زمیندار میرے والد صاحب ، یہ بھی ایک واقعہ ہے جو میں بیان نہیں کر رہا جو کافی لمبا ہے، جیون خان بھی ایک شخص تھا جو مولوی صاحب کے ساتھ مل کے گاؤں کے خوب مخالفت کیا کرتا تھا اور ان کا وہاں آنا بند کر دیا تھا.لیکن پھر اس کو کچھ ایسی تکلیف ہوئی پیٹ کی کہ آخر مجبوراً انہوں نے کہا کہ اب یہ اس کی اگر صحتیابی ہو سکتی ہے تو مولوی صاحب کی دعا سے ہو سکتی ہے.ان کو بلا کے لاؤ.چنانچہ مولوی صاحب گئے ، دعا کی تھوڑی دیر کے لئے شفا ہوئی واپس گئے تو پھر تکلیف شروع ہو گئی.پھر انہوں نے خاص طور پر دعا کی اس کے لئے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دی.پھر مولوی صاحب نے اس واقعہ میں لکھا ہے کہ مولویوں نے اس وقت کہا تھا کہ ساری دنیا کے علاج ہو چکے ہیں اس کے اس کو شفا نہیں ہوئی یہ کونسا اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ آ گیا ہے جو کہتا ہے کہ میں کروں گا، مرزا صاحب کا مرید تو دیکھ لینا یہ بھی کچھ نہیں کر سکتا.اس بات پہ پھر مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر یہ واسطہ دے کے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو شفادی.تو بہر حال جیون خان کے اس واقعہ کے معجزانہ شفاء کی وجہ سے جو زمیندار تھے ، خان محمد زمیندار کہتے ہیں وہ میرے والد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے اس لئے مہربانی کر کے میاں غلام رسول را جیکی کو میرے ساتھ بھیجیں تا کہ وہ کچھ دن ہمارے گھر ٹھہریں اور جان محمد کے لئے دعا کرے.( یہ خلاصہ میں بیان کر رہا ہوں).چنانچہ ان کی درخواست پر مولوی صاحب کہتے ہیں والد صاحب نے مجھے کہا میں چلا گیا اور وہاں جاتے ہی وضو کر کے نماز میں اس کے بھائی کے لئے دعا کرنی شروع کر دی.سلام پھیرتے ہی میں نے ان سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہے گھر والوں نے دیکھا تو جواب دیا کہ بخار تو بالکل اتر گیا ہے.کچھ بھوک بھی محسوس ہوتی ہے.چنانچہ اس کے بعد چند دنوں کے اندر ہی اس کے کمزور جسم میں جان پڑ گئی اور اس میں اتنی طاقت آ گئی کہ وہ چلنے پھرنے لگ گیا.اس نشان کو دیکھ کر اگر چہ ان لوگوں کے اندر احمدیت سے متعلق کچھ حسن ظن تو پیدا ہو مگر حضرت مسیح موعود کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا ( لکھتے ہیں مولوی صاحب ) کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے اگر انہوں نے احمدیت قبول نہ کی تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینے کی 28 ویں تاریخ کی درمیانی
555 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم شب قبر میں ڈالا جائے گا.چنانچہ میں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اور الہام الہی کاغذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیر احمد یوں میں دے دیا اور انہیں تلقین کی کہ اس پیشگوئی کو تعین موت کے عرصہ سے پہلے ظاہر نہ کریں.اس کے بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں قادیان چلا آیا اور یہیں رمضان مبارک کا مہینہ گزارا.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب جان محمد بظاہر صحت یاب ہو گیا اور جابجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی 29 ویں رات اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا.اس کے مرنے کے بعد غیر احمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی کہ ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی.مگر افسوس اس کے بعد بھی اس کو دیکھ کر بھی اس کے عزیز رشتہ دار اور گاؤں والے احمدی نہیں ہوئے.(ماخوذ از حیات قدی حصہ اول صفحہ 28-27 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کود یکھ لو کہ انہیں جوضرورت ہو اس وقت پوری ہو جاتی ہے اور کوئی روک یا دیر نہیں ہوتی.ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب تمہیں ضرورت ہو ہم دیں گے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے سامنے ایک آدمی آیا.اس نے دو سو روپے بطور امانت دوسال کے لئے دیا اور کہا کہ میں دو سال کے بعد آ کے آپ سے لے لوں گا...ایک شخص جس نے جناب سے ایک سورو پیہ قرض مانگا ہوا تھا وہ پاس ہی بیٹھا ہوا تھا.دوسرا آدمی جس نے حضرت خلیفتہ امسیح الاول سے سو روپیہ قرض مانگا تھا تو پاس بیٹھا ہوا تھا.آپ نے اس دوسور و پیہ میں سے ایک سورو پیدا اسے دیا اور رسید دے کر اس تھیلی میں رکھ دی جس میں بقایا رقم تھی اور روپوں کی تھیلی گھر بھجوا دی.تھوڑی دیر کے بعد وہی امانت رکھوانے والا دوبارہ واپس آیا اور کہا کہ میرا ارادہ بدل گیا ہے وہ روپیہ مجھے ابھی دے دیں.دو سال کی مدت نہیں.فرمایا کب جاؤ گے، کہیں باہر جانا تھا اس نے ، اس نے کہا کہ ایک گھنٹے تک.آپ نے فرمایا کہ اچھا پھر ایک گھنٹہ کے بعد آ کر لے جانا.جب وہ وقت پر پہنچا، آپ کے پاس بیٹھا ہی تھا تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو انسان پر بھروسہ کرنا کیسی غلطی ہے.میں نے غلطی کی خدا نے بتلا دیا کہ تم نے غلطی کی ہے.اب دیکھو میرا مولیٰ میری کیسی مدد کرتا ہے.وہ ایک سور و پیہ اس کے آنے سے پہلے ایک گھنٹے کے اندراندر آپ کو مل گیا کسی اور ذریعہ سے اور آپ نے اسے دے دیا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه 556-555 مطبوعه ربوہ ) قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ اہلیہ چراغ دین جمونی کی تذلیل کے واقعہ کے قریباً ایک سال بعد یہ واقعہ ہوا کہ خاکسار عام طور پر ، ( پہلا واقعہ ہے اس کے بعد یہ واقعہ ہے ) کہتے ہیں کہ خاکسار عام طور پر عشاء کے بعد اپنے مکان کے آگے محلے والوں کو تبلیغ کیا کرتا تھا اور ایک مجلس لگ جایا کرتی تھی.ایک دن ایک ہندو جو پر لے درجے کا منفتن تھا اس نے ایک ایسی بات کہی جس کے جواب میں مجھے حضرت مسیح موعود کی صداقت کی مثال کسی نبی
556 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم کی مثال سے دینی پڑی.اس پر اس شخص نے مجلس کے مسلمانوں کو اشارہ کیا اور اس میں سے ایک ملاح نے جو وہاں جموں کے ایک گھاٹ کا ٹھیکیدار تھا اور بڑا زبان دراز تھا یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا کی مثال نبیوں سے دیتا ہے؟ اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اور مجھے سخت گندی گالیاں دینی شروع کر دیں اور مجھے گلے سے پکڑ لیا اور خوب مارا.یہاں تک کہتے ہیں کہ بہت برا حال کیا میرا.اس وقت مجھے اپنی کسی رسوائی اور تکلیف کی تو حس نہیں تھی مگر حضور کی شان میں اس کی بد زبانی سے سخت درجہ دکھ ہوا اور اکثر حصہ رات کا بے چینی میں گزرا.خدا تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ رات کو یکدم بارش ہوئی اور زور کی بارش ہوئی اور انگلی صبح کے اول وقت میں اس ملاح کے دروازے کے سامنے تھانیدار اور سپاہی کھڑے ہوئے سخت گندی گالیاں دے رہے تھے اور اس کو گھر سے نکلنے کے لئے بلا رہے تھے جب وہ نکلا تو اس کو ہتھکڑی لگا کر تھا نہ میں لے گئے.اس شخص کو جولڑا تھا ان سے.کہتے ہیں یہاں اس بات کا ذکر بھی کر دینا ضروری ہے کہ ریاست کے تھانیدار گورنمنٹ انگریزی کے تھانیداروں کی طرح نہیں ہوتے اس وقت کے رواج کے مطابق جابر سخت گیر اور بے باک ہوا کرتے تھے اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کس قدر مخش کلامی کی ہوگی.اور واقعہ یوں ہوا کہ ٹھیکیدار پابند ہوتے ہیں کہ رات کے وقت دریا عبور کر کے کشتیاں نہ چلائیں لیکن اس کے آدمیوں نے جو کشتی رات کو استعمال کرتے تھے کی اس رات اور بارش اور طوفان کی وجہ سے اس میں جو بیٹھی ہوئی تھیں عورتیں وہ ڈوب گئیں جس کی وجہ سے پولیس کو اطلاع ہوئی اور پولیس نے آکے اس کو مارا پیٹا بھی اور گالیاں بھی دیں اور پکڑ کے بھی لے گئے.کہتے ہیں اس شوخی کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دکھائی تھی فوری مزا چکھ لیا.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 6 صفحہ 134-133 جدید ایڈیشن مطبوعہ قادیان) ماسٹر عبدالرحمن صاحب نے سنایا کہ ایک دفعہ میں قادیان کے ہند و بازار میں سے گزرا بے پناہ گرمی پڑ رہی تھی.چند ہندوؤں نے کہا کہ آپ ہر روز دعا کی برکات بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے.آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آج بارش برسا دے تا گرمی دور ہو.آپ نے ان کے طنز و تمسخر کو بری طرح محسوس کیا ( وہ دعا کے لئے نہیں کہہ رہے تھے بلکہ تمسخر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے مذاق اڑاتے ہوئے ) اور آپ کی غیرت جوش میں آئی.آسمان بالکل صاف تھا آپ مسجد اقصیٰ میں جا کر اس وقت تک دعا میں مصروف رہے جب تک بارش کی وجہ سے آپ کے کپڑے گیلے نہ ہو گئے.فرماتے تھے کہ میں ہندوؤں سے جب بھی اس نشان کا ذکر کرتا تو وہ شرمندہ ہو کر آنکھیں نیچی کر لیتے.( اصحاب احمد جلد 7 صفحہ 135 جدید ایڈیشن مطبوعہ قادیان) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.واقعات تو بہت ہیں بیان کرنے کا وقت نہیں ملے گا.ایک اقتباس پڑھنا چاہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کا.
557 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم آپ فرماتے ہیں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَاذَنْتُهُ للعرب یعنی جو شخص میرے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ گویا میرے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوتا ہے.فرمایا کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ محبت کرتا ہے اور محبت بھی ایسی جیسے کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہے اور ہر ایک دوسرا شخص بار بار کہے کہ یہ شخص مر جائے یا اس کی نسبت اور اسی قسم کی دلآزاری کی باتیں کہے اور اسے تکلیف دے تو وہ شخص ایسی باتوں سے خوش ہو سکتا ہے اور وہ باپ جس کے بچے کے لئے کوئی شخص بددعائیں کر رہا ہو یا دیگر رنجیدہ کلمات اس کے بچے کے لئے استعمال کر رہا ہوا ایسے شخص سے کب محبت کر سکتا ہے.اسی طرح پر اولیاء اللہ بھی اطفال اللہ کا رنگ رکھتے ہیں ( اللہ کے جو اولیاء ہوتے ہیں، اللہ کے بچوں کی طرح کا رنگ رکھتے ہیں ).کیونکہ انہوں نے جسمانی بلوغ کا چولہ اتارا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پرورش پاتے ہیں.وہ خود ان کا متولی اور متکفل اور ان کے لئے غیرت رکھنے والا ہوتا ہے.جب کوئی شخص خواہ وہ کیسا ہی نماز روزے رکھنے والا ہو ان کی مخالفت کرتا ہے اور ان کے دکھ دینے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش مارتی ہے اور ان کی مخالفت کرنے والوں پر اس کا غضب بھڑکتا ہے.اس لئے کہ انہوں نے اس کے ایک محبوب کو دکھ دینا چاہا ہے.اس وقت پھر نہ وہ نماز کام آتی ہے اور نہ وہ روزہ.کیونکہ نماز اور روزہ کے ذریعہ سے اسی ذات کو خوش کرنا تھا جس کو ایک دو سرے فعل سے ناراض کر لیا ہے.( نماز روزہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے پیاروں کو تکلیف دے کر جو کام کیا اس سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لیا).فرمایا کہ پھر وہ رضا کا مقام کیونکر ملے.جب تک غضب الہی دور نہ ہو.وہ اولیاء اللہ کا مخالف نادان ان اسباب غضب سے ناواقف ہوتا ہے بلکہ اپنے نماز روزے پر اسے ایک ناز اور گھمنڈ ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا غضب دن بدن بڑھتا جاتا ہے اور وہ بجائے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے دن بدن اللہ تعالیٰ سے دور ہٹتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل راندہ درگاہ ہو جاتا ہے.وہ شخص جو بالکل فنا کی حالت میں ہے اور آستانہ الوہیت پر گرا ہوا ہے اور آغوش ربوبیت میں پرورش پا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت نے اسے ڈھانپ لیا ہے.یہاں تک کہ اس کا بات کرنا اللہ تعالیٰ کی بات کرنا ہوتا ہے اور اس کا دوست خدا تعالیٰ کا دوست اور اس کا دشمن خدا تعالیٰ کا دشمن ہو جاتا ہے.پس ایسے مومن کامل کا دشمن رہ کر کوئی شخص کیونکر مومن کامل ہو سکتا ہے اور ایسے ہی مومن کامل کی دشمنی سے اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے اور اسے مَغضُوبِ عَلَيْهِمُ میں سے بنا دیتا ہے.خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اولیاء اللہ کی مخالفت اور ان کی ایذاء رسانی کبھی اچھا پھل نہیں دے سکتی.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں ان کوستا کر اور دکھ دے کر بھی آرام پا سکتا ہوں وہ سخت غلطی کرتا ہے اور اس کا نفس اسے دھو کہ دے رہا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 230-229 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
558 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ہمیشہ غیرت دکھائی ہے اور آج بھی دکھاتا ہے.لیکن جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے جس نے نہ سمجھنا ہو نہیں سمجھتے.دعاؤں کے ذریعہ سے ان کی تکلیفیں بھی دور ہوئیں لیکن پھر بھی سمجھ نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی سچا ہے اور ہمیں ان کو تکلیف دینے کی بجائے ان کے ساتھ ان کی بیعت میں آنا چاہئے.یہ اللہ تعالیٰ کا جو تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ، آپ کی جماعت کے ساتھ ، یہ آج تک قائم ہے.جو خالص ہو کر دعائیں کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو نظارے دکھاتا ہے اور یہ تعلق قائم ہو بھی سکتا ہے ہر ایک کے ساتھ، اگر خالص ہو کر اللہ تعالی کے آگے جھکا جائے صرف تقویٰ پر چلنے اور عبادات کی طرف توجہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں یہ قومی جو انسان کو دئے گئے ہیں اور اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہو سکتا ہے میں یقیناً کہتا ہوں کہ اس اُمت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں جو نو راور صدق اور و فا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قومی سے محروم نہ سمجھے.کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے.جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملے گا.خدا تعالی بڑا کریم ہے اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا.اس لئے تم کو چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو.ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں، رکوع، قیام ، قعدہ ، سجدہ وغیرہ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے.فجر ، ظہر، عصر، شام اور عشاء اور ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 234-233 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) آنحضرت ﷺ نے بھی ہمیں دعا کا طریق سکھایا ہے کہ کس طرح دعا کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے ہمیں ایک دعا سکھائی اور فرمایا کہ ہر روز اس کے ذریعہ سے اپنے گھر والوں کا خیال رکھا کریں.آپ نے فرمایا کہ تو صبح کے وقت یہ کہہ میں حاضر ہوں ، اے اللہ میں حاضر ہوں اور سب ساعتیں اور خوشیاں تجھ سے ہی ہیں اور ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے اور تجھ سے ہی ہے اور تیرے ذریعہ ہی مل سکتی ہے اور تیری طرف رجوع کر کے ہی مل سکتی ہے.اے اللہ میں جو بھی کہوں یا جو بھی نذرمانوں یا کوئی قسم کھاؤں تو تیری مشیت اس سے پہلے ہے.جو تو چاہے وہی ہوتا ہے اور جس کو تو پسند نہ کرے وہ ہر گز نہیں ہوتا.اور ہر قسم کی قوت اور طاقت تجھ سے ہی یقینا تجھ سے ہی ہے.یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے.اے میرے اللہ ! میں جو بھی درود بھیجوں تو وہ اس پر ہو جس پر تو درود بھیجے اور میں جس پر لعنت کروں وہ لعنت
559 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اس پر ہو جس پر تو لعنت کرے.یقینا تو ہی میرا دوست اور مددگار ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین سے ملا دے.اے میرے اللہ ! میں تجھ سے راضی بالقضاء رہنے کی توفیق مانگتا ہوں اور مرنے کے بعد زندگی کی ٹھنڈک کا اور تیرے چہرہ کو دیکھ کے حاصل ہونے والی لذت کا طلبگار ہوں.اور میں کسی نقصان پہنچانے والے کے نقصان اور گمراہ کر دینے والے فتنے کے بغیر تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں اے میرے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے.یا میں زیادتی کروں یا مجھ پر زیادتی کی جائے.یا میں کوئی نیچے گرا دینے والی خطا کروں یا ایسا گناہ کروں جو بخشا نہ جائے.اے آسمانوں اور زمین کو پھاڑنے والے، اے غیب اور حاضر کا علم رکھنے والے، اے عزت و جلال والے میں دنیا میں بھی اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور تجھے گواہ ٹھہراتا ہوں اور تو گواہ ہونے کے لحاظ سے کافی ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں.بادشاہت اور ہر قسم کی ستائش تیرے لئے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد یہ تیرے بندے اور رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا وعدہ سچا ہے اور تیری ملاقات حق ہے اور جنت حق ہے اور وہ گھڑی آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں.اور جو قبروں میں ہیں تو انہیں کھڑا کرے گا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اپنے نفس کے سپرد کر دیا تو تو نے مجھے گھاٹے اور تنگ اور گناہ اور خطا کے سپر د کر دیا.میں یقینا تیری رحمت پہ بھروسہ کرتا ہوں.پس تو مجھے میرے تمام گناہ بخش دے.یقیناً تیرے سوا کوئی گنا ہوں کو نہیں بخشا اور میری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو یقینا تو ہی بہت زیادہ رحمت کے ساتھ توجہ کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.( مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 255 مسند زید بن ثابت حدیث 22006 عالم الكتب بيروت 1998ء) یہ ایک لمبی دعا ہے جو آنحضرت ﷺ نے سکھائی ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہر وقت قائم رہے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہم ہوں اور اس کے انعامات سے ہر آن فیضیاب ہوتے رہیں.آج ایک افسوسناک خبر ہے.ہمارے ایک احمدی دوست مکرم را نا سلیم احمد صاحب نائب امیر ضلع ناظم انصار اللہ ضلع اور علاقہ سانگھڑ کو 26 نومبر کو کل نماز مغرب کے بعد احمدیہ مسجد سانگھڑ سے باہر نکل کر موٹر سائیکل کھڑی کر کے نماز پڑھنے کے بعد باہر نکلے، گیٹ بند کر رہے تھے کہ کسی بد بخت نے آپ کی ناک پر پستول رکھ کر فائر کیا اور گولی سر کے پیچھے سے نکل گئی.فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن بہر حال وہاں جانبر نہ ہو سکے اور ان کی وفات ہو گئی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون آپ پڑھے لکھے آدمی تھے ایم اے بی ایڈ کیا ہوا تھا.شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور سانگھڑ میں ایک سکول چلا رہا
560 خطبہ جمعہ فرموده 27 نومبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم تھے نیولائیٹ اکیڈمی کے نام سے اور بڑا اچھا مشہور سکول ہے یہ سانگھڑ کا.اس وقت بھی آپ کے سکول میں تقریباً ایک ہزار طالب علم تھے.اللہ کے فضل سے موصی تھے اور جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے.اور مختلف پوزیشنوں میں جماعت کی رہے ہیں، حیدر آباد، سانگھڑ میں، سیکرٹری دعوت الی اللہ بھی رہے.اصلاح و ارشاد کے عہدہ پر بھی فائز تھے، 2004ء میں آپ کو نائب امیر ضلع سانگھڑ بنایا گیا تھا.والدین تو ان کے وفات پاچکے ہیں ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور شہید کے درجات کو بلند فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں ان کو جگہ دے.دوسرا ایک اور جنازہ ہے وفات کا اعلان جو گیانی عبداللطیف صاحب در ولیش ابن مکرم عبد الرحمن صاحب قادیان کا ہے جو 20-21 نومبر کی درمیانی رات کو 82 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی حضرت محمد حسین صاحب کپور تھلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے، آپ نے گورمکھی کا امتحان گیانی پاس کیا تھا اس لئے گیانی کے نام سے مشہور تھے.حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر فوج سے ریلیز ہو کر قادیان آئے اور 313 درویشوں میں شامل ہوئے.کچھ عرصہ دیہاتی مبلغین میں شامل ہو کر فیلڈ میں خدمات بجالاتے رہے پھر ریٹائرمنٹ کے بعد ری امپلائی ہو کر دفتر زائرین میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی.قرآن کریم کے گورمکھی کے ترجمے کے نظر ثانی اور پروف ریڈنگ بھی بڑی محنت سے آپ نے کی.کچھ عرصہ مینیجر بدر بھی رہے.اس طرح بہشتی مقبرہ کا ایک قطعہ بھی اپنے ذمہ لیا ہوا تھا.مسلسل وقار عمل کرتے رہتے تھے اس کو ٹھیک رکھنے کے لئے.خوش طبع اور زندہ دل انسان تھے مطالعہ کا شوق تھا.معاشی تنگی کے باوجود ہمیشہ خوش باش نظر آتے تھے.اور کہتے ہیں کہ ایک افسردہ شخص بھی ان سے بات کرتا تو خوش ہوئے بغیر نہ رہتا.ان کے پسماندگان بھی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.عبدالہادی صاحب نور ہسپتال کی لیب میں کام کر رہے ہیں اور ایک ان کی بیٹی شمیم اختر سکول میں ٹیچر ہیں اور قادیان کی صدر لجنہ بھی ہیں.ان کے ایک داما دصباح الدین صاحب نائب ناظر بیت المال ہیں.بچے مختلف حیثیتوں میں جماعت کی خدمت کی توفیق پارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی اپنے والد کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے.ان دونوں مرحومین کے شہید کے بھی اور ان کے بھی.نماز جنازہ غائب ابھی میں جمعہ اور عصر کی نماز کے بعد ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 51 مورخہ 18 دسمبر تا 24 دسمبر 2009 ، صفحہ 5 تا صفحہ 8)
خطبات مسرور جلد ہفتم 561 (49) خطبہ جمعہ فرموده 4 دسمبر 2009 فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2009ء بمطابق 04 فتح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا اَوْلِيَتُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمتِ.أُولَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة: 258) یہ آیت جومیں نے تلاوت کی ہے اس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ولی ہے جو ایمان لانے والے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ولی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے.اس آیت کا پہلے بھی کسی خطبے میں ذکر ہو چکا ہے لیکن وہاں لفظ ولی اور اللہ تعالیٰ کی صفت ولی کے حوالے سے یہ ذکر ہوا تھا.لیکن آج میں اللہ تعالیٰ کی جو صفت نُور ہے یا لفظ تُو رہے اس کے حوالے سے بات کروں گا.لغات میں لکھا ہے کہ تُو راللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ میں سے ایک صفت ہے اور النور ابن اثیر کے نزدیک وہ ذات ہے جس کے ٹور کے ذریعہ جسمانی اندھا دیکھتا ہے اور گمراہ شخص اس کی دی ہوئی سمجھ سے ہدایت پاتا ہے.یہ معنے لسان العرب میں لکھے ہیں.پھر اسی طرح لسان میں دوبارہ لکھا ہے کہ بعض کے نزدیک نور سے مراد وہ ذات ہے جو خود ظاہر ہے اور جس کے ذریعے سے ہی تمام اشیاء کا ظہور ہو رہا ہے.اور بعض کے نزدیک ٹور سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی ذات میں ظاہر ہے اور دوسروں کے لئے بات کو ظاہر کرتی ہے.پھر لسان میں لکھا ہے، ابومنصور کہتے ہیں کہ ” نُورُ اللهِ " نور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپ فرماتا ہے اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : 36).اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بعض کا خیال ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمان میں رہنے والوں اور زمین میں رہنے والوں کو ہدایت دینے والا ہے.اور بعض کے نزدیک مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاح ( النور : 36) کا مطلب ہے کہ مومن کے دل میں اس کی ہدایت کے نور کی مثال طاق میں رکھے ہوئے چراغ کی سی ہے.النور اس پھیلنے والی روشنی کو کہتے ہیں جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے اور یہ دو قسم کی ہوتی ہے.دنیوی اور اخروی.پھر کہتے ہیں دنیوی ٹور پھر دو قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ نور جس کا ادراک بصیرت کی نگاہ سے ہوتا ہے اور یہ وہ نور
خطبات مسرور جلد ہفتم 562 خطبہ جمعہ فرموده 4 دسمبر 2009 ہے جو الہی امور میں بکھرا پڑا ہے جیسے نور عقل اور ٹور قرآن.دوسرے وہ نور جس کو جسمانی آنکھ کے ذریعہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے.اہل لغت اس کے معنے بیان کرتے ہوئے بعض آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں.مثلاً نور الہی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَبٌ مُّبِينٌ (المائدة: 16) یعنی تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نو ر اور کتاب مبین آچکی ہے.اسی طرح فرمایا: جَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِى النَّاسِ كَمَنُ مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمْتِ لَيْسَ بِخَارِجِ مِنْهَا (الانعام : 123) اور ہم نے اس کے لئے روشنی کی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے.کیا ایسا شخص اس جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں ہو اور اس سے نکل نہ سکے.بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنا نام نور رکھا ہے تو وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہی منور ہے یعنی ہر چیز کو روشن کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ کا نام نو ر اس وجہ سے ہے کہ وہ یہ کام یعنی روشن کرنا بہت زیادہ کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.پھر اس آیت کی مثال دی گئی ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ یعنی اللہ ہی ہے جس کے نور سے آسمانی اور زمینی حقائق الاشیاء کا علم ہوتا ہے اور وہ اپنے ولیوں کو پھر اس نور سے منور کرتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنے آپ کونُورُ السَّمواتِ وَالاَرضِ کہا ہے اور اس کی مثال جیسا کہ میں نے بتایا اہل لغت نے دی ہے.تو اس آیت میں اپنے اس ٹور کی مثال دے کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے.لیکن یہ ٹور انسانوں پر پڑتے ہوئے انہیں کس طرح منور کرتا ہے.یہ سورۃ نور کی آیت ہے یہ بھی چند ماہ پہلے میں ایک جگہ بیان کر چکا ہوں.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ ـرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِى ءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ.نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللهُ لِنُورِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( النور : 36) یعنی الله آسمانوں اور زمین کا نور ہے.اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو.وہ چراغ شیشہ کے شمع دان میں ہو.وہ شیشہ ایسا ہو گویا کہ ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے.وہ (چراغ ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی.اس (درخت) کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کر روشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو.یہ نور علی نور ہے.اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے.اس آیت کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں جیسا کہ میں نے بتایا چند ماہ
563 خطبہ جمعہ فرموده 4 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم پہلے میں ایک اور مضمون کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں.اب یہاں اس کی تفصیل تو بیان نہیں کرتا لیکن اس کا خلاصہ بیان کر کے اس مضمون کو پھر آنحضرت ﷺ کے صحابہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے بیان کروں گا.اس ٹور کی جو مثال دی گئی ہے وہ آنحضرت ﷺ کی ذات تک ہی ہے یا اس میں وسعت ہے.پچھلی دفعہ میں نے تفصیل بیان کی تھی.شاید بعضوں کا خیال ہو کہ آنحضرت ﷺ کی ذات تک محدود ہے.یقینا اللہ تعالیٰ کا نور ہر چیز پر حاوی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلا اعلان ہی یہ فرمایا کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ که الله تعالى زمین و آسمان کا نور ہے.اس لئے ہر چیز اس کے نور سے ہی فیض پاتی ہے اور فیض پاسکتی ہے.اس کے علاوہ کوئی نہیں جو اپنی ذاتی ہوشیاری یا علم یا عقل سے اس کے نور کو حاصل کر سکے.وہ خود چاہے تو مہیا کرتا ہے اور اس کے طریقے ہیں.یہ نو ر اللہ تعالیٰ کس طرح ہے اور کیوں ہے اس لئے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے.جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ میں نے ہی زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے.مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (ابراہیم : 33) کہ اللہ وہ ہستی ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے.اس میں موجود ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر انہیں انسانوں کے لئے مسخر کیا.جب اس نے پیدا کیا تو وہی ہے جو روحانی روشنی بھی عطا فرماتا ہے اور مادی بھی.پس حقیقی نور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو دیکھنے والی آنکھ کو ہر جگہ ، ہر روح میں، ہر جسم میں ، ہر چیز میں نظر آتا ہے.لیکن ایک ایسا شخص جس کی روحانی آنکھ اندھی ہوا سے یہ نور نظر نہیں آتا.لیکن ایک مومن اس یقین پر قائم ہے کہ ہماری کائنات اور جتنی بھی کائناتیں ہیں جن کا علم انسان کو ہے یا نہیں ہے، ان کا پیدا کرنے والا ، ان کا نور اور ان کو قائم رکھنے والا خدا تعالیٰ ہے اور اس نور کا صحیح ادراک پیدا کروانے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے انبیاء اور فرستادوں کو بھیجتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے نور پاتے ہیں جو آسمان سے ان پر اترتا ہے اور وہ دنیا میں پھر اسے پھیلاتے ہیں.وہ ٹور جو آسمان سے اتر کر زمین پر انبیاء کے ذریعہ سے پھیلتا ہے اس کی مثال اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے آنحضرت مے کے حوالے سے کہ یہ نور آپ کی ذات میں کس طرح چپکا ؟ میں بیان کر چکا ہوں.اور یہ اعلیٰ ترین معیار تھا اور قیامت تک رہے گا جو اللہ تعالیٰ کے نور کا پر تو بن کر دنیا میں قائم ہوا اور آنحضرت ﷺ نے اس نور کوزمین میں پھیلا دیا اور پھر یہی نہیں کہ اپنی زندگی میں پھیلایا بلکہ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ ٹور پھیلتا چلا جا رہا ہے.آنحضرت ﷺ کی ذات سے جو اس کی مثال ہے وہ میں مختصر دوبارہ بیان کر دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر که اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالاَرض کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے، پھر فرمایا کہ انسانوں کے سمجھنے کے لئے اس کی مثال بیان کی جاتی ہے اور مثال یہ ہے.اس کی مثال ایک مشکوۃ کی طرح ہے، ایک طاق کی طرح ہے، ایک ایسی
564 خطبہ جمعہ فرموده 4 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اونچی جگہ کی طرح ہے جس میں روشنی رکھی جاتی ہے اور یہ طاق آنحضرت میلے کا سینہ ہے اور اس طاق میں ایک مصباح ہے، ایک لیمپ ہے اور یہ لیمپ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو آنحضرت ملے پر اتری اور یہ لیمپ ایک زجاجہ میں ہے یعنی شیشہ کے گلوب میں ہے اور یہ گلوب آنحضرت ﷺ کا دل ہے جو نہایت صاف اور تمام کثافتوں سے پاک ہے اور یہ زجاجہ یا گلوب ستارے کی طرح چمکدار ہے اور خوب روشنی بکھیرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس سے مراد آنحضرت میا اللہ کا دل ہے ( براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 193) جس کے اندر کی روشنی بھی بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی نظر آتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ اپنی مثال میں آگے بیان فرماتا ہے کہ یہ چراغ یا لیمپ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے روشن ہے اور اس شجرہ مبارکہ سے مراد یہاں آنحضرت ﷺ کی مثال ہم سامنے رکھیں تو آنحضرت ﷺ کا وجود ہے جو تمام کمالات اور برکات کا مجموعہ ہے جو تا قیامت قائم رہے گا.اس لئے قائم رہے گا کہ آنحضرت یہ ہی ہیں جو انسان کامل کہلائے اور قیامت تک آپ ﷺ جیسا کوئی پیدا نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس مثال میں شرقی یا غربی نہ ہونے سے مراد اسلام کی تعلیم ہے.جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط ہے.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 193) نہ ایک طرف جھکاؤ ہے.نہ سوشلزم یا کمیونزم ہے نہ کپٹلزم ہے.بلکہ ایک درمیانی تعلیم ہے جو انسانی حقوق کو واضح کرتی ہے.دنیا کے امن کو قائم کرتی ہے اور اس مثال میں جو یہ فرمایا کہ قریب ہے وہ تیل از خود روشن ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اس سے مراد عقل لطیف نورانی محمد ﷺ ہے (براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 193) اور اسی طرح تمام اخلاق فاضلہ ہیں جو آپ کی فطرت کا حصہ بن چکے ہیں.اور نُورٌ عَلَی نُور سے مراد یہ ہے کہ ان تمام خصوصیات کے حامل انسانِ کامل پر جب خدا تعالیٰ نے اپنا نور ڈالا یعنی نو روحی تو روحانی دنیا میں وہ نور پیدا ہوا جس کی کوئی مثال نہیں.پس یہ ہے خلاصہ اس ساری تفسیر کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے.(خلاصہ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 198-191) پہلے بھی میں ایک دفعہ تفصیل سے بیان کر چکا ہوں.اب حقیقی نور صرف اور صرف آنحضرت ﷺ پر اتری ہوئی شریعت اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ میں ہے.اور تمام پرانی شریعتیں اب اس کامل انسان اور جو نُورٌ عَلی نُور ہو چکا ہے کے آنے کے بعد ختم ہو چکی ہیں اور اب یہی تعلیم ہے اور یہی نور ہے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے فیضیاب کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کے اس مقام کو جو انسان کامل ہونے کا مقام ہے - ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں
565 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 4 دسمبر 2009 میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل ہیں.جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء ، سید الا حیاء محمد مصطفی میہ ہیں.سو وہ نور اُس انسان کو دیا گیا.اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں.اور امانت سے مراد انسانِ کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے.اور پھر انسان کامل برطبق آیت إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمُ اَنْ تُؤَدُّوا الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء آیت : 59) اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.....اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ ، ہمارے ہادی، نبی امی ، صادق مصدوق محمدمصطف منانے میں پائی جاتی تھی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 160-162) پس یہ مقام آپ ﷺ کو اللہ تعالی کے نور سے ملا اور آپ ﷺ نے اپنے صحابہ میں یہ نور منتقل کر کے ان کو بھی اعلی اخلاق پر قائم فرمایا.آپ نے اپنے صحابہ کو ستاروں سے تشبیہ دی ہے کہ جن کے بھی پیچھے چلو گے تمہیں روشنی ملے گی.(مشکوۃ المصابیح الجزء الثانی.کتاب المناقب باب مناقب الصحابه الفصل الثالث حدیث 6018 دار الكتب العلمیة بیروت 2003 ء ) خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ملتا ہے.عرب کے ان پڑھ کہلانے والے جو لوگ تھے اس ٹور کی وجہ سے جو انہیں آنحضرت ﷺ سے ملا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کا ایک نمونہ بن گئے.اللہ تعالیٰ کے نور سے اس طرح حصہ پایا کہ اللہ تعالیٰ نے رَضِيَ اللهُ عَنْهُم کا تمغہ ان کے سینے پر سجادیا جو بعد میں آنے والوں کو بھی روشنی کی راہیں دکھانے کا باعث ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان صحابہ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں محو تھے.جو ٹو ر آپ مکہ میں تھا وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ کے قلب پر گرتا اور ماسوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا.تاریکی کے بجائے ان سینوں میں نور بھرا جاتا تھا.حدیث میں آیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا اللهُ اللهُ فِی اَصْحَابِی “.میرے صحابہ کے دلوں میں اللہ ہی اللہ ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 121 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور اللہ تعالیٰ جو نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْض ہے، اس نے اپنے نور کو آنحضرت ملی اور آپ کے صحابہ کے بعد بند نہیں کر دیا.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ نور جو آپ نے خدا تعالیٰ سے لیا ہمیشہ کے لئے جاری فیض کا ایک چشمہ ہے اور اسلامی شریعت ہی ہے جو تا قیامت جاری رہنے والی شریعت ہے.اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے محبت اور عشق میں ڈوبنے کی وجہ سے اس زمانہ میں اس نور کے ساتھ جو
خطبات مسرور جلد ہفتم 566 خطبہ جمعہ فرموده 4 دسمبر 2009 آسمان سے اترنے والی روحانیت کا نور ہے.اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا تا خدا تعالیٰ کے نور کا فہم و ادراک ہمارے دلوں میں بھی قائم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں کچھ (اپنے بارے میں بیان نہیں کر سکتا کہ کون ساعمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل کو خدا تعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے رو کنے سے رک نہیں سکتی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سومیں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا...(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 195 تا 197) جب یہ خواب دیکھی تو پھر آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ روزے رکھے جائیں.لیکن آپ نے کہا کہ میخفی طور پر رکھے جائیں کسی کو پتہ نہ لگے اور اس کے لئے پھر آپ اپنے گھر کے باہر جو کمرہ تھا، مردانہ جگہ تھی ، اس میں منتقل ہو گئے اور وہیں کھانا وغیرہ بھی منگواتے تھے اور کھانا جو آتا تھا اس کا اکثر حصہ یتیم بچوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور خود معمولی سی ، تھوڑی سی غذا پر روٹی کھا کر گزارہ کرتے تھے.اور ان روزوں کے دوران جن تجربات سے آپ گزرے ہیں اس کا بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گزر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول الله له ومع حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سید ھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے.ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے.یعنی وہ ایک نو ر تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ ٹور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 198-199) اور یہ سب مقام اور اللہ تعالیٰ کا آپ پر نور کا اتارنا یا اللہ تعالیٰ کا نو را تر نا آنحضرت علی کی کامل اطاعت کی وجہ سے تھا.
567 خطبه جمعه فرموده 4 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم چنانچہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ الہام جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں ( یعنی جو آسمانی فرشتے ہیں وہ آپس میں بحث کر رہے ہیں، جھگڑ رہے ہیں ).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مخیسی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی.اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُول الله.یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے.یعنی اس میں ثابت ہے.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 598) صد الله پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنا تو آپ پر اتار کر آپ کو اس زمانے میں اس ٹو کو پھیلانے کے لئے کھڑا کر دیا جو آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اتارا تھا اور آپ کا یہ سب کچھ آنحضرت ہی سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی وجہ سے تھا.پس اس محبت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے بھی آپ سے محبت کی اور آنحضرت ﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس ٹو رکو جو زمین و آسمان پر حاوی ہے، جو روحانی انقلاب لانے کا ذریعہ بنتا ہے ، اپنے آقا کی غلامی میں آپ بھی اس ٹور کا پر تو ہے.وہ وہی جو آنحضرت ﷺ کے پاک سینے پر اتری تھی اس کے علوم و معارف آپ پر بھی کھولے گئے تا کہ دنیا کو بتا سکیں کہ اس تعلیم کی اصل تفسیر یہ ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے کی ہے.آپ کو دنیاوی شہرت کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کا نور کسی پر پڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر خود خدا تعالیٰ اس کو دنیا میں شہرت دیتا ہے تا کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کے نور کو پھیلانے کا باعث بنے.آپ کو خدا تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ تو اس سے نکلا اور اس نے تمام دنیا سے تجھ کو چنا تو جہان کا نُور ہے تو خدا کا وقار ہے.پس وہ تجھے ترک نہیں کرے گا.اے لوگو! تمہارے پاس خدا کا نور آیا.پس تم منکر مت ہو“.کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 103-101) پس یہ نور آپ پر اللہ تعالیٰ نے خودا تارا اور آپ کی پاک فطرت کی وجہ سے آپ کا خدا تعالیٰ سے جو ایک تعلق قائم ہوا اور پھر آنحضرت ﷺ سے محبت کی وجہ سے اور آنحضرت مہ کی قوت قدسی کی وجہ سے وہ نور جو صحابہ کے ظاہری قالب پر پانی کی طرح یہا.1400 سال بعد بھی اس نے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس نور سے بھر دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو وہ ٹور آگے پھیلانے کا مقام بھی عطا فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو.( یعنی اللہ تعالیٰ میرے پر خوش ہے ) مجھے اس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں
568 خطبہ جمعہ فرموده 4 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم بہتر ٹھہراؤں ).میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبر انکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں.مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 153 پس خدا تعالیٰ کا یہ طریق ہے کہ جب کسی کو اپنے نور سے سجاتا ہے تو تمام دنیا میں اس کا اظہار بھی کروا دیتا ہے.ایک انسان کی بنائی ہوئی عام روشنی بھی جہاں روشنی ہو وہاں اپنا نشان ظاہر کر رہی ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ کے نور کو کس طرح چھپایا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ یہ ٹو جب اپنے بندے کو دیتا ہے اور جب یہ اعلان فرما دیتا ہے کہ اس کا ثوریعنی اللہ تعالیٰ کا نو ر تمام زمین و آسمان پر حاوی ہے تو اس سے یہ بھی مراد ہے کہ جو روحانی ٹو ر اللہ تعالیٰ کے خاص فیض سے اس کے خاص بندوں پر آسمان سے اترا ہے اب اس کے فیض عام کا بھی سلسلہ جاری ہو گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں سے جڑ جاؤ تو یہ ٹور پھر تمہارے دلوں کو بھی روشن کر دے گا.چاہے چھوٹے چھوٹے طاق بنیں.چاہے چھوٹے چھوٹے گلوب ہوں.چاہے اس کی روشنی کو پھیلانے کی ایک عام مومن کی استعدادوں کے مطابق کوئی حد مقرر ہولیکن جو جڑیں گے وہ پھر اس نور سے حصہ پاتے ہوئے آگے بھی ٹور کو پھیلانے والے بنتے جائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کا نُور جب کسی انسان تک پہنچتا ہے، کسی مومن تک پہنچتا ہے اگر اس نے حقیقی نور حاصل کیا ہے تو وہ اس تک پہنچ کر اسے فیضیاب کرتے ہوئے دوسروں کو فیض پہنچانے کا باعث ضرور بنتا ہے.پس اس کے حاصل کرنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کے محبوب ترین کا اسوہ اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.عبادات میں ، اخلاق میں ، عادات میں جب اس شوق سے اس اسوہ کو اختیار کرنے کی کوشش اور سوچ ہوگی اور آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوگی تو اس کا اعلان خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے قرآن کریم میں یوں کروایا ہے کہ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله ( آل عمران : 32) کہ کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو.اللہ تعالیٰ بھی پھر تم سے محبت کرے گا.پس یہ محبت تھی جو صحابہ نے آپ سے کی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہو گئے اور یہی محبت ہے جو اس زمانے میں حقیقی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ سے کی ہے.تو آپ خدا تعالیٰ کے محبوب بن کر اس زمانہ میں نور پھیلانے کا اعزاز پانے والے بن گئے.پس آج اگر کسی کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کا دعویٰ ہے تو مسیح موعود سے تعلق جوڑنا بھی ضروری ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کے حکموں میں سے ہے اور یہی رسول اللہ ﷺ کے حکموں میں سے ہے.آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس سلسلہ تعلق کی وجہ سے خلافت سے بھی جڑی ہوئی ہے اور اس ٹور سے بھی فیض پا رہی ہے جو اللہ تعالیٰ
569 خطبه جمعه فرموده 4 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم روحانی ٹور کی صورت میں انبیاء کے ذریعہ ظاہر فرماتا ہے اور جس کا عظیم ترین معیار اور مقام جیسا کہ میں نے کہا آنحضرت ﷺ کی ذات ہے اور جس کا احیاء اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت اللہ کے عاشق صادق کے ذریعہ سے فرمایا ہے.پس اب جہاں روحانی ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جڑنے سے وابستہ ہیں وہاں دنیا وی امن کا قیام بھی مسیح موعود سے ہی وابستہ ہے کیونکہ آپ نے ہی آنحضرت می کہے کے اس ارشاد کو پورا فرمایا کہ دنیا کو پیار محبت اور صلح کی طرف بلاتے ہوئے ، اسے قائم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے حقوق قائم کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کریں اور دنیا کے امن کا ذریعہ بن جاتے جائیں.آنحضرت کا یہ ارشاد تھا کہ يَضَعُ الْحَرُب ( بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم صفحہ 490 الناشر قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی) جب مسیح آئے گا تو جنگوں کا خاتمہ ہوگا اور اس يَضَعُ الْحَرُب کی وجہ سے پھر امن اور سلامتی کے پیغام بھی پھیلیں گے اور آپ کی تعلیم کی روشنی میں ہی ، آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں ہی دائمی سلسلہ خلافت نے اس کو پھر آگے بڑھاتے چلے جانا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تفسیر میں ٹور کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے اس نکتہ کو بھی بیان فرمایا ہے کہ اس نور کے دنیا میں انتشار کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں.نمبر ایک الوہیت ، اللہ تعالیٰ کی ذات دوسرے نبوت اور تیسرے خلافت - ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 320-319 مطبوعہ ربوہ ) اور جب تک مومن اپنے اندر ایمان اور اعمال صالحہ پر توجہ دیتے رہیں گے اس چیز کو اپنے اندر قائم رکھیں گے اس نور کا سلسلہ لمبا ہوتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم خدا تعالیٰ کے نور سے ہمیشہ فیضیاب ہوتے چلے جانے والے بنتے چلے جائیں اور کبھی ہم خدا تعالیٰ کے نور سے محروم نہ ہوں.آج مسلم اُمہ بھی اگر اس حقیقت کو سمجھ لے، ہمارے جو باقی مسلمان بھائی ہیں اس حقیقت کو سمجھ لیں تو مغرب میں اسلام کے خلاف جو آئے دن ابال اٹھتا ہے اور کوئی نہ کوئی وبال اٹھتا ہی رہتا ہے اس کی بھی غیروں کو کبھی جرات نہ ہو.وحدت میں ہی طاقت ہے اور اس کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے.گزشتہ دنوں سوئٹزرلینڈ میں میناروں کے خلاف، مساجد کے میناروں کے خلاف بھی ایک شور اٹھا.میناروں سے انہیں کیا تکلیف ہے یہ تو خدا بہتر جانتا ہے.ان کے اپنے چرچوں کے بھی تو مینارے ہیں اور کیا ان میناروں کو گرانے سے اگر کوئی شدت پسند ہیں تو ان کی زندگی بدل جائے گی.بہر حال یہ جو شور اٹھا ہے وہ بھی اسی اسلام دشمنی کی ایک کڑی ہے اور اس کے پیچھے بھی ایک گہری سازش نظر آتی ہے.یہ ابتدا لگ رہی ہے اور مزید ان کے اور بھی مطالبے ہونے ہیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان کے ہر شر سے اسلام کو بھی بچائے.ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اسلام کے دشمنوں کی ہر سازش کو نا کام ونا مراد کر دے.الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شماره 52 مورخہ 25 دسمبر تا 31 دسمبر 2009 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد ہفتم 570 (50 خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 2009 فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2009ء بمطابق 11 فتح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت نور کے حوالے سے مختلف لغوی معنی بیان کرنے کے بعد اہل لغت نے اپنی وضاحتوں کے لئے جو آیات قرآنیہ درج کی ہیں ان میں سے چند آیات کے کچھ حصے پیش کئے تھے اور سورۃ نور کی آیت اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ( النور : 36) کے حوالے سے کچھ وضاحت کی تھی.جیسا کہ میں نے کہا کہ اہل لغت نے اپنے بیان کردہ مختلف معانی کو ثابت کرنے کے لئے آیات کے حوالے دیئے ہیں.آج کے خطبہ میں ان میں سے ایک دو آیات کی وضاحت کروں گا جن کا حوالہ گزشتہ خطبہ میں دے چکا ہوں.میں نے بتایا تھا کہ ٹور پھیلنے والی روشنی کو بھی کہتے ہیں اور یہ ٹور بھی دو قسم کا ہے یعنی یہ روشنی جو پھیلتی ہے مفسرین کے نزدیک آگے اس کی پھر دو قسمیں ہیں.ایک دنیوی نور ہے اور دوسرا اُخروی نور ہے.اور دنیوی نور پھر دو قسم کا ہے ایک ٹور کی قسم وہ ہے جس کا ادراک بصیرت کی نگاہ سے ہوتا ہے اس کا نام انہوں نے معقول رکھا ہے یعنی یقین اور عقل اور دانائی کی وجہ سے یہ ٹور ملتا ہے اور الہی امور میں یہ نور عقل اور نور قرآن ہے.اور دوسرا وہ نور ہے جس کو جسمانی آنکھ کے ذریعہ محسوس کیا جاتا ہے.اس کو محسوس کہتے ہیں.جیسے وہ ٹور جو چاند اور سورج اور ستاروں اور دیگر روشن اجسام میں پایا جاتا ہے.نورالہی کی مثال میں مفردات کے حوالے سے میں نے سورۃ مائدہ کی آیت اور سورۃ انعام کی آیات کا حوالہ دیا.تھا.جس کی تفصیل میں نے بیان نہیں کی تھی.بہر حال جسمانی آنکھ کی جس کے ذریعہ دیکھنے والے نور کی مثال مفردات نے سورۃ یونس کی آیت نمبر 6 کی دی ہے.جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاء وَالْقَمَرَ نُورًا (یونس: 6) یعنی وہی ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے.یہاں بعض کو شاید یہ الجھن ہو کہ سورج کے لئے ضیاء اور چاند کے لئے نور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اس لئے ضیاء جو ہے وہ زیادہ روشن چیز ہے اور ٹور کم روشن ہے.اہل لغت بھی یہی لکھتے ہیں کہ ضیاء روشن چیز کو کہتے ہیں اور نور کم روشن کو.ضیاء نور کے مقابلے پر زیادہ طاقتور ہے.اپنی ذات میں جو روشنی ہوتی ہے اس کو ضیاء اور ضوء کہتے ہیں اور نور کا لفظ عمومی طور پر اس وقت بولا جاتا ہے یا استعمال کیا جاتا ہے جب کسی غیر سے روشنی لیتی ہے.
571 خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالاَرضِ.تو اس کا کیا مطلب ہے.اس کا مفسرین نے یہ جواب دیا ہے کہ نور کے اور بھی کئی معنی ہیں اور یہ نور جو ہے یہ ضیاء کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَسِرَاجًا مُنِيرًا ( الاحزاب : 47 ) کہ وہ روشن سورج ہے.یعنی آپ کے ٹور سے دوسرے لوگ روشن ہوں گے جبکہ آپ کا نور بھی اللہ تعالیٰ کے نور سے ہے.نیز لغت والے یہ بھی لکھتے ہیں کہ تو رضیاء کی روشنی کو بھی کہتے ہیں ، ضیاء کی شعاع کو بھی کہتے ہیں یعنی جو چیز اپنی ذات میں روشن ہے اس روشنی کے انعکاس کو بھی نور کہتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے نور کی شعاعوں کا جو انعکاس ہے یا خدا تعالیٰ کا جو انعکاس ہے یہی ہمیں مادی اور روحانی زندگی میں نظر آتا ہے.کائنات کا حقیقی ادراک اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ٹور سے اُسے دیکھیں.کیونکہ نُور ہر اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے دوسری چیز میں نظر آنے لگیں.پس خدا تعالیٰ کی ذات میں ڈوب کر ظاہری آنکھ سے بھی اس نور کا حقیقی رنگ میں ادراک ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ظاہر کیا ہے اور انسانوں کے لئے مسخر کیا ہے.سورج بھی اور چاند بھی اور کائنات کی ہر چیز بھی اُسی طرح حقیقی طور پر نظر آ سکتی ہے جب اُسے اللہ تعالیٰ کے نور کے سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے.لیکن اگر کسی دہریہ کو ان چیزوں میں خدا نظر نہیں آتا جبکہ مومن کو تو ہر چیز میں خدا نظر آتا ہے اور وہ ان چیزوں سے فیض بھی پا رہا ہے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے اور پھر بعض دفعہ ان کی یا سائنسدانوں کی کوششیں بھی اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے جلوے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات کی چیزوں کا ایک حد تک علم حاصل ہو رہا ہے اور چاند اور سورج اور دوسرے ستاروں کے دنیاوی فائدے ایک دہر یہ اٹھا رہا ہے.جبکہ مذہب کی دنیا میں رہنے والا اور ایک حقیقی مومن جسے نور قرآن بھی دیا گیا ہے اس سے روحانی اور مادی دونوں طرح کے فائدے اٹھاتا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض جگہ دونوں ٹوروں کا ایک ہی جگہ ذکر بھی فرمایا ہے تا کہ دنیاوی کاموں میں بھی راہنمائی ملے اور روحانی کاموں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو.پھر ٹو راخروی کے متعلق مفردات میں آتا ہے کہ ٹور اخروی کیا چیز ہے.اس کے بارہ میں انہوں نے اس آیت کو سامنے رکھا ہے کہ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا (التحريم: 9) اُن کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف روشنی کرتا ہوا چل رہا ہو گا اور وہ خدا سے التجا کریں گے کہ اے پروردگار ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کر دے.یہ وہ اخروی نور ہے جو ان کو مرنے کے بعد نظر آئے گا.بہر حال یہ تھوڑا سا بیان پچھلے خطبہ میں رہ گیا تھا.اس لئے میں نے اس کی وضاحت کر دی.اب میں ان آیات کی وضاحت کروں گا جن کا بیان میں گزشتہ خطبہ میں کر چکا ہوں لیکن ان کی وضاحت نہیں ہوئی تھی.یہ سورۃ مائدہ کی آیات ہیں اور ان کا ایک حصہ پڑھ چکا ہوں.
572 خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ياهل الكتب قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمُ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَبِ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ.قَدْ جَاءَ كُمُ مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَبٌ مُّبِينٌ.يَهْدِى بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلام وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (المائدہ: 16-17) اے اہل کتاب یقیناً تمہارے پاس ہمارادہ رسول آچکا ہے جو تمہارے سامنے بہت سی باتیں جو تم اپنی کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے خوب کھول کر بیان کر رہا ہے اور بہت سی ایسی ہیں جن سے وہ صرف نظر کر رہا ہے.یقینا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک ٹور آچکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی.اور دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے.پس وہ تمام باتیں جو پہلی کتابوں میں ان کے ماننے والوں نے یا تو بدل دی تھیں یا چھپا لیا کرتے تھے.ظاہر نہیں کیا کرتے تھے ان کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر آنحضرت ﷺ اب دوبارہ دنیا کے سامنے وہ باتیں پیش فرما ر ہے ہیں.اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ جواب آپ میک کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش ہو رہی ہیں ان میں بہت سے نئے احکامات ہیں.بہت سی نئی باتیں ہیں.خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے، روحانیت میں ترقی کے نئے اور وسیع راستے کھل رہے ہیں.اور ایسے احکامات ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں اور جن میں کوئی افراط اور تفریط نہیں ہے.ایک ایسا رسول آیا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی ہے.ایک معتدل تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ہر یک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے“.( یعنی جس نبی پر وہ وحی اتر رہی ہو اس کی فطرت کے مطابق وحی نازل ہوتی ہے.جیسے حضرت موسی" کے مزاج میں جلال اور غضب تھا.تو ریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی.سوانجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے.مگر آ نحضرت ﷺ کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا.( ایسا بہت زیادہ ایک ایسی جگہ پر واقع تھا جہاں نہ بختی تھی نہ نرمی تھی.فرمایا کہ ”نہ ہر جگہ علم پسند تھا اور نہ ہر مقام پر غضب مرغوب خاطر تھا“.( نہ ہر جگہ نرمی ظاہر کرتے تھے.نہ ہر جگہ اور موقع پر غصہ ہی ظاہر کیا جاتا تھا.بلکہ ایک ایسا رستہ تھا جو سیدھا راستہ تھا).فرمایا کہ ” بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی.سو قرآن شریف بھی ایسی طرز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت ور رحمت ، و ہیبت و شفقت ونرمی و درشتی ہے“.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اول - صفحہ 193 حاشیہ (11)
573 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 2009 چنانچہ دیکھ لیں قرآن کریم کے احکامات بھی سموئے ہوئے ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے جو آؤ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشورى : 41) اور بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مد نظر رکھے تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے.پس یہ ہے اسلام کی سموئی ہوئی تعلیم جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی کہ سزا کا مقصد اصلاح ہے ، غلط کام کرنے والے کے اخلاق کی بہتری ہے.اگر معاف کرنے سے اصلاح ہو جاتی ہے، اخلاق میں بہتری آسکتی ہے تو معافی ہونی چاہئے.اور اگر سزا ہی اس کی اصلاح کا ذریعہ ہے تو سزا دینا ضروری ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ سزا اتنی ہی دی جائے جتنا کہ جرم ہے.کسی طرح کا بھی ظلم نہ ہو.اسلام کی تعلیم نہ تو یہ ہے کہ دائیں گال پر تھپڑ کھا کر بایاں بھی آگے کر دو اور نہ ہی یہ ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ ضرور نکالنی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلوؤں کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے.سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے.“ (نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 438) یہ بتانے کے بعد کہ تمہارے پاس ایک رسول آیا جس نے تمام پرانی باتیں اور نئی باتیں بھی کھول کر سامنے رکھ دیں.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُورٌ وَكِتَبٌ مُّبِينٌ (المائدہ: 16) یقینا تمہارے پاس ایک رسول آچکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی.یہ ٹور جو یہاں بیان ہوا ہے یہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں.اس کی مثال میں نے پہلے بھی پیش کی تھی کہ آنحضرت ﷺ کواللہ تعالی نے سِرَاجًا منيرا کہا ہے.ایک روشن چمکتا ہوا سورج کہا ہے.کیونکہ اب آپ ہی ہیں جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے نور نے آگے اپنی چمک دکھانی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی روشنی اور نور کو حاصل کر سکے اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اور خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانہ میں سب سے بڑھ کر اس شخص نے اُس نور سے حصہ پانا تھا جسے مسیح و مہدی کا اعزاز دیا گیا اور اس حیثیت سے امتی نبی ہونے کے خطاب سے بھی نوازا گیا.کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انسان کامل، افضل الرسل اور سراجا منیرا کی مہر ، جو مہر نبوت ہے یہ جس پر لگے گی اُسے پھر اللہ تعالیٰ کے نور سے بھر دے گی.پس آنحضرت ﷺ کی خاتمیت نبوت خدا تعالیٰ کے نوروں کو بند کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ نوروں کو مزید جلا بخشنے کے لئے اور صیقل کرنے کے لئے ہے.پس یہ ہے مقام ختم نبوت کہ وہ ایسی روحانی روشنی ہے جو پھر اعلیٰ ترین روشنیاں پیدا کر سکتی ہے.لیکن یہ واضح ہو کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس ٹور کے ساتھ کتاب مبین ہے جو پھر ایک نور ہے.اس لئے اب قرآن کریم کے علاوہ جو کامل اور مکمل کتاب اور شریعت ہے کوئی اور کتاب اور شریعت نہیں اتر سکتی.یہی ہم احمدی مانتے ہیں.
574 خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان دونوں باتوں کو یعنی نور محمد نے اور نور قر آن کریم کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے.اس شعر سے دونوں مطلب نکلتے ہیں.خدا تعالیٰ کا نور بھی اور قرآن کریم بھی جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے کہ.نور لائے آسماں خود بھی اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا وہ ہوئے کیا جائے عار براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 144 دشمن اعتراض کرتا ہے کہ ایک ان پڑھ اور وحشی قوم کا شخص آخری پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.جو خود بھی اتمی ہے پڑھا لکھا نہیں.فرمایا یہ تو کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے.یہ بات تو آپ کے مقام کو بڑھارہی ہے کہ آسمان سے وہ کامل نور لے کر آئے جس نے وحشیوں کو انسان اور انسانوں کو با اخلاق اور باخدا انسان بنا دیا.اس وحشی قوم نے جب اس ٹور سے حصہ پایا اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا تو دنیا کی سب سے زیادہ مہذب قوم بن گئی.اور ان لوگوں نے تو جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے اور کتاب سے یہ ٹور پایا ، انہوں نے تو ہزار سال پہلے اپنی علمیت کا سکہ منوالیا تھا.یورپ جو آج علم کی روشنی کا اظہار کر رہا ہے، یورپ نے ان سے علوم سیکھے تھے.پس صرف روحانی نور نہیں بلکہ دنیاوی ترقیات کے لئے بھی وہ لوگ جو تھے روشنی کا مینار بن گئے.پس آج مسلمانوں کو غور کی ضرورت ہے کہ وہ ٹور جس نے تمام دنیا کو روشن کیا، کیا دنیاوی علوم کے لحاظ سے اور کیا روحانی علوم کے لحاظ سے، وہ نورکیوں ان کے اندر سے نکل کر نہیں پھیل رہا جس کے لئے آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے تھے اور اپنے ماننے والوں میں وہ نُور پیدا کیا تھا.اللہ ، رسول اور قرآن کی پیروی کا دعوی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ نو ر نظر نہیں آ رہا.وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں جس شخص نے اس ٹو کا حقیقی پر تو بنا تھا اس کا انکار ہے.لیکن ساتھ ہی احمدیوں کے لئے بھی سوچنے کا اور فکر کرنے کا مقام ہے کہ منہ سے مانے کا دعوی کر کے نور سے حصہ نہیں مل جاتا.اس قرآنی نور سے حصہ لینے کے لئے اس انسان کامل کے عاشق صادق کی بیان کردہ تعلیم اور قرآنی تفسیر پر غور کرنا اور اس کو اپنے اوپر لاگو کرنا بھی ضروری ہے.دنیا میں ڈوب کر روشنی تلاش نہ کریں.بلکہ قرآن کریم میں ڈوب کر حکمت کے موتی تلاش کرنا ہر ایک احمدی کا فرض ہے اور دنیا کو حقیقی روشنی سے روشناس کروانا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پنے ایک عربی شعری کلام میں آنحضرت ﷺ کے ٹو ر کو اس طرح بیان فرمایا ہے.ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ نُوْرٌ مِّنَ اللَّهِ الَّذِى اَحْيَا الْعُلُوْمَ تَجَدُّدَا المُصْطَفَى وَالْمُجْتَبَى وَالْمُقْتَدى وَالْمُجْتَدَى کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 70)
خطبات مسرور جلد ہفتم 575 خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 2009 وہ اللہ کا نور ہے جس نے علوم کو نئے سرے سے زندہ کیا.وہی برگزیدہ اور چنیدہ ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور فیض طلب کیا جاتا ہے.پس علوم معارف کا خزانہ اب آنحضرت اللہ کی ذات اور قرآن کریم ہے.لیکن اس کو سمجھنے کے لئے آنکھ میں نور پیدا کرنے کی ضرورت ہے.جس کا پیدا کرنا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جوڑ کر ہی مقدر کر دیا ہے.پس خوش قسمت ہیں وہ جو اس نور کو حاصل کرنے کے لئے آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ بیان فرماتے ہوئے کہ میں نے یہ مقام کس طرح پایا ، فرماتے ہیں کہ : میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ).یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مراد ہیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے“.( کہ اب جو کچھ ہے وہ آنحضرت ﷺ سے منسوب ہو کر ہی ہے.جو اس کے علاوہ کوئی دعوی کرتا ہے وہ اللہ کا بندہ نہیں کہلا سکتا پھر وہ شیطان کی ذریت ہے.) فرمایا ” کیونکہ ہر ایک فضلیت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.( وہ ہمیشہ محروم رہے گا ).ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے ٹور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119-118) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس میں آنحضرت ﷺ کے مقام پر جو آپ کی نظر میں ہے، روشنی پڑتی ہے.اگر فطرت نیک ہو تو آپ پر اعتراض کرنے والوں کے لئے یہ کافی جواب ہے کہ آنحضرت یہی ہے کی
خطبات مسرور جلد ہفتم 576 خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 2009 ذات سے علیحدہ ہو کر آپ کا کچھ بھی مقام نہیں ہے اور ہم اس وقت تک خدا تعالیٰ کے نور سے فیضیاب ہو سکتے ہیں جب تک اُس آفتاب ہدایت کے سامنے کھڑے رہیں گے جسے خدا تعالیٰ نے سِرَاجًا مُنِيرًا کہا ہے.سورۃ مائدہ کی دوسری آیت 17 جو میں نے پڑھی تھی اس میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونو ر ہیں ایک حضرت اقدس محمد مصطفی یا اللہ کی ذات اور دوسرا قرآن کریم.گزشتہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہی دو چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنیں گی اور ہیں اور یہی دو چیزیں ہیں جو سلامتی کی راہوں کی طرف لے جانے والی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہیں.سلامتی کی راہیں کیا ہیں؟ یہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے یا پہنچانے کے مختلف راستے ہیں جو محفوظ طریقہ سے خدا تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں.ہر راستہ پر شیطان بیٹھا ہے لیکن سلامتی کی راہیں وہ ہیں جہاں اللہ تعالیٰ تک انسان شیطان سے بچ کر پہنچ جاتا ہے اور نور سے فیض پاتا ہے.اور یہ سلامتی کی راہیں ان کو ملتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہدایت پاتے ہوئے اس کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں.اس کے قدم پھر اندھیروں سے نکل کر ٹور کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں.وہ صراط مستقیم پر چل پڑتا ہے.پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی روشن کتاب سے فیض پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی پیروی کی ضرورت ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان دونوں چیزوں سے جانا ضروری ہے.آنحضرت مے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا کا جو اعلیٰ ترین نمونہ ہے وہ آپ کی تربیت کی وجہ سے، قوت قدسی کی وجہ سے آپ کے صحابہ نے دکھایا.اور وہ لوگ پھر صرف اندھیروں سے روشنی کی طرف ہی نہیں آئے بلکہ انہوں نے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ کا اعزاز پایا.پس صحابہ رسول اللہ اللہ بھی ان ٹوروں سے فیض پا کر ہمارے لئے اسوہ حسنہ بن گئے.ان کے بارہ میں آنحضرت مہ نے فرمایا کہ وہ ستاروں کی مانند ہیں جن سے تم راستوں کی طرف راہنمائی حاصل کرتے ہو.پس یہ لوگ بھی وہ تھے جو صراط مستقیم پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے.پس کیا خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے براہ راست فیض پایا اور اندھیروں سے نور کی طرف جانے کی منزلیں جلد جلد طے کرتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آخری زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو بھیجا جس کو پھر اپنے آقا و مطاع کے نور کا پر تو بنا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ؎ مصطفى پر تیرا بجد ہو سلام اور رحمت اُس نور لیا بار خدایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225 ) اور آپ پر جب اس ٹور کی انتہا ہوئی تو آپ سے براہ راست فیض پانے والے بھی اپنے دلوں کو ٹو ر سے بھرتے
577 خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم ہوئے صراط مستقیم پر قائم ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے.توحید کا قیام کرنے والے بن گئے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو صراط مستقیم کی دعا سکھائی ہے تو اس کے لئے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اُس نور سے فیض حاصل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق نور ملتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ.لیکن ملتا ضرور ہے.نور سے فائدہ ہر انسان ضرور اٹھاتا ہے.ہر مومن اٹھاتا ہے جو نیک نیتی سے اس کی طرف بڑھے گا.اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک نے بہر حال اس مقام تک پہنچنا ہے جو اعلیٰ ترین مقام ہے.لیکن کوشش کا حکم ہے.جس کے لئے پوری طرح کوشش ہونی چاہئے.بے شک صراط مستقیم کی طرف اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دیتا ہے اور اس کے لئے اس نے ہمیں دعا بھی سکھائی ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں لیکن اس کے لئے کوشش کا بھی حکم ہے.فرمایا کہ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے نور کی ضرورت ہے اور نور اللہ تعالٰی ، اس کے رسول ﷺ اور قرآن کریم سے حاصل ہوگا اور جو اس کے حصول کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ پھر ایسے شخص کو صراط مستقیم پر چلاتے ہوئے اس ٹور سے فیض حاصل کرنے والا بنا تا چلا جائے گا.صراط مستقیم کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”صراط مستقیم جو حق اور حکمت پر مبنی ہے تین قسم پر ہے.علمی اور عملی اور حالی.اور پھر یہ تینوں تین قسم پر ہے.علمی میں حق اللہ اور حق العباد اور حق النفس کا شناخت کرنا ہے“.( علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ اللہ کاحق تلاش کرو، بندوں کے حقوق کی پہچان کرو اور اپنے نفس کے حق کی پہچان کروا ور عملی صراط مستقیم جو ہے).فرمایا کہ اور عملی میں ان حقوق کو بجالانا‘.عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ یہ حق جس کی شناخت کرنی ہے ان پر پھر عمل کیا جائے.) فرماتے ہیں کہ " مثلاً حق علمی یہ ہے کہ اس کو ایک سمجھنا“.خدا تعالیٰ کو ایک سمجھنا ) اور اس کو مبدء تمام فیوض کا اور جامع تمام خوبیوں کا اور مرجع اور ماب ہر ایک چیز کا اور منزہ ہر ایک عیب اور نقصان سے جاننا اور جامع تمام صفات کا ملہ ہونا اور قابل عبودیت ہونا “.( یعنی اللہ تعالیٰ کا جوحق علمی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سمجھنا.انسان کو تمام فیض جو پہنچتے ہیں، جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور جو کچھ بھی وہ حاصل کر رہا ہے اس کو پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ کو سمجھنا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اور تمام خوبیوں کا جامع وہ ہے اور ہر ایک چیز نے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور ہر ایک عیب سے وہ پاک ہے اور تمام صفات جتنی اس کی صفات ہیں ان کا وہ جامع ہے چاہے وہ صفات ہمیں معلوم ہیں یا ہمیں نہیں معلوم اور کامل طور پر اس کی بندگی میں آ جانا.یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حق ) اور فرمایا کہ اس میں محصور رکھنا.یہ تو حق اللہ میں علمی صراط مستقیم ہے.( یہ جو باتیں بیان کی گئی ہیں اسی دائرے میں اپنے آپ کو رکھنا اس سے باہر نہ نکلنے دینا.اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی یہ علمی صراط مستقیم ہے ).اور
578 خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم عملی صراط مستقیم یہ ہے جو اس کی طاعت اخلاص سے بجالانا اور طاعت میں اس کا کوئی شریک نہ کرنا “.(اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر پوری طرح عمل کرنا اور طاعت کے معاملہ میں اس کا کوئی شریکنہ ٹھہرانا.یعنی اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان کے مقابلے پہ کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے ).” اور اپنی بہبودی کے لئے اسی سے دعا مانگنا اور اسی پر نظر رکھنا اور اسی کی محبت میں کھوئے جانا یہ عملی صراط مستقیم ہے کیونکہ یہی حق ہے“.پھر آپ فرماتے ہیں اور حق العباد میں علمی صراط مستقیم یہ جو ان کو اپنا بنی نوع خیال کرنا اور ان کو بندگان خدا سمجھنا اور بالکل بیچ اور نا چیز خیال کرنا کیونکہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جو ان کا وجود بیچ اور نا چیز ہے اور سب فانی ہیں.( علمی صراط مستقیم یہی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سمجھنا اور اس کو کسی رنگ میں بھی خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر کوئی فوقیت نہ دینا ).فرمایا " یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک کی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی نقصان نہیں اور اپنی ذات میں کامل ہے“.( یہ چیز پیدا ہوگی تو تبھی اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم ہوگی جو کامل ذات ہے ).پھر فرمایا کہ اور عملی صراط مستقیم یہ ہے (کہ) حقیقی نیکی بجا لانا.یعنی وہ امر جو حقیقت میں ان کے حق میں اصلح اور راست ہے بجالانا.یہ توحید عملی ہے کیونکہ موحد کی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا کے اخلاق میں فانی ہوں“.(اس کی تھوڑی سی وضاحت کردوں.یعنی عملی صراط مستقیم جو ہے وہ یہی ہے کہ ہر کام کرتے ہوئے یہ دیکھنا کہ میرا کام ان اخلاق پر قائم ہو جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ میرے رنگ میں رنگین ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر لاگو کرنے کی کوشش کرنا اور تبھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان حقیقی نیکی بجا لایا ہے اور وہ صحیح راستے پر چل رہا ہے ).اور حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ جو جو نفس میں آفات پیدا ہوتے ہیں جیسے عجب اور دریا اور تکبر ” اور حقد اور حسد “.( حقد کہتے ہیں کینے کو ).اور غرور اور حرص اور بخل اور غفلت اور ظلم اُن سب سے مطلع ہونا اور جیسے وہ حقیقت میں اخلاق رذیلہ ہیں ویسا ہی ان کو اخلاق رذیلہ جاننا.یہ علمی صراط مستقیم ہے.( نفس کا جو حق ہے اس کا صراط مستقیم یہ ہے کہ تمام برائیاں جن کے بارہ میں بتایا گیا ہے ان کو انتہائی گھٹیا چیزیں اور گناہ سمجھنا تبھی انسان صراط مستقیم پر چل سکتا ہے ).اور یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے“.پھر فرماتے ہیں کہ اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے جونفس سے ان اخلاق رذیلہ کا قلع قمع کرنا اور صفت یہ تخلّى عن رذائل اور تحلّى بالفضائل سے متصف ہونا “.( کہ حق النفس کا جوصراط مستقیم کا عملی حصہ ہے وہ ہے کہ جتنے اخلاق رذیلہ ہیں ، گھٹیا قسم کے اخلاق ہیں، برائیاں ہیں ان کو اپنے سے پاک کرنا.خالی کرنا اور صرف خالی نہیں کرنا بلکہ جو نیکیاں ہیں ان سے اپنے آپ کو پر کرنا.صرف برتن برائیوں سے خالی نہیں کرنا بلکہ اس برتن کو
579 خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم نیکیوں سے پر بھی کرنا ہے ).یہ عملی صراط مستقیم ہے.یہ توحید حالی ہے.کیونکہ موحد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تا اپنے دل کو غیر اللہ کے دخل سے خالی کرے اور تا اس کو فنافی تقدس اللہ کا درجہ حاصل ہو اور اس میں اور حق العباد میں جو عملی صراط مستقیم ہے ایک باریک فرق ہے اور وہ یہ ہے جو عملی صراط مستقیم حق النفس کا وہ صرف ایک ملکہ ہے جو بذریعہ ورزش کے انسان حاصل کرتا ہے اور ایک بالمعنی شرف ہے خواہ خارج میں کبھی ظہور میں آوے یا نہ آوے.( جو عملی صراط مستقیم ہے یہ برائیوں کا ایک ملکہ ہے.ظہور میں آوے نہ آوے سمجھ لیا کہ میرے دل سے خالی ہوگئیں.لیکن حق العباد میں بعض دفعہ بعض انسانوں میں ان اخلاق کو دکھانے کے موقعے نہیں پیدا ہوتے لیکن انسان سمجھتا ہے کہ میرے اندر وہ اخلاق ہیں لیکن جب موقع آئے تو تب پتہ لگتا ہے کہ حق ادا ہو رہا ہے یا نہیں.لیکن فرمایا کہ حق العباد میں حق النفس میں یہ باریک فرق ہے).فرمایا کہ حق العباد جو عملی صراط مستقیم ہے وہ ایک خدمت ہے اور سبھی متفق ہوتی ہے کہ جب افراد کثیرہ بنی آدم کو خارج میں اس کا اثر پہنچے اور شرط خدمت کی ادا ہو جائے“.(اب یہ جو اعلیٰ اخلاق ہیں بندوں کے حقوق اس صورت میں ادا ہوں گے.فرمایا یا عملی صراط مستقیم کا اظہار اس وقت ہوگا جب یہ ثابت ہو جائے کہ عملی طور پر اکثریت کو اپنے معاشرہ میں ان اعلیٰ اخلاق کا فیض پہنچ رہا ہے اور اثر پہنچ رہا ہے اور فائدہ پہنچ رہا ہے اور خدمت کی شرط جو ہے وہ ادا ہو رہی ہے ).فرماتے ہیں : " غرض تحقق عملی صراط مستقیم حق العباد کا ادائے خدمت میں ہے اور عملی صراط مستقیم حق النفس کا صرف تزکیہ نفس پر مدار ہے“.(اپنے نفس کی اصلاح کی طرف کوشش ہے.لیکن اس کا اظہار بھی ہوتا ہے جب حقوق العباد ادا کئے جائیں.تزکیہ نفس بھی تبھی پتہ لگتا ہے کہ ہوا ہے کہ نہیں جب حق العباد کی ادائیگی ہوتی ہے ).کسی خدمت کا ادا ہونا ضروری نہیں.یہ تزکیہ نفس ایک جنگل میں اکیلے رہ کر بھی ادا ہو سکتا ہے“.( عبادات میں مشغول رہ کر بھی انسان تزکیہ نفس کر سکتا ہے ).لیکن حق العباد بجز بنی آدم کے ادا نہیں ہو سکتا.اسی لئے فرمایا گیا جورہبانیت اسلام میں نہیں“.(رہبانیت کو اسلام میں اس لئے منع کیا گیا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ادا ہوں.تزکیہ نفس کر کے انسان حقوق اللہ تو جنگل میں بیٹھ کر بھی ادا کر سکتا ہے لیکن جنگل میں بیٹھ کر حقوق العبادادا نہیں ہو سکتے اور پھر اس وجہ سے صراط مستقیم کی علمی اور عملی صورت واضح نہیں ہوتی.فرماتے ہیں کہ اب جاننا چاہئے جو صراط مستقیم علمی اور عملی سے غرض اصلی توحید علمی اور توحید عملی ہے.یعنی وہ تو حید جو بذریعہ علم کے حاصل ہو اور وہ تو حید جو بذریعہ عمل کے حاصل ہو.پس یاد رکھنا چاہئے جو قرآن شریف میں بجز تو حید کے اور کوئی مقصود اصلی قرار نہیں دیا گیا اور باقی سب اس کے وسائل ہیں.احکام جلد 9 نمبر 33 مورخہ 17 ستمبر 1905 ء صفحہ 34 کالم 4)
580 خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پس جب صراط مستقیم کی طرف انسان ہدایت پالے تو اسے اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ کا بھی اور اک حاصل ہوتا ہے کہ وہی ایک ہے جو نوروں کا منبع ہے اور جس نے اس غرض کے لئے دنیا میں انبیاء بھیجے کہ دنیا کو اس کے نور کا علم ہوا اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کو بھیجا اور قرآن کریم کی صورت میں کتاب مبین اتاری جو اسی ایک نور کا پتہ دیتی ہے جو خدائے واحد کی ذات ہے.جس کی روشنی وہ انبیاء منعکس کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ نے منعکس فرمائی اور قرآن کریم کو سمجھنے والے بھی اس سے فیض پاتے ہیں اور یہی ایک روشنی ہے جس نے تمام دنیا کو روشن کرنا ہے اور تمام دنیا کو خدائے واحد کا عبد بنانا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس حقیقی نور کا ادراک حاصل کرنے والے ہوں.اپنی زندگیوں کو اس سے فیضیاب کرنے والے ہوں اور اس کو پھیلانے کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں.الفضل انٹرنیشنل جلد 17 شماره 1 مورخہ یکم جنوری تا 7 جنوری 2010ء صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد ہفتم 581 (51) خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2009ء بمطابق 18 فتح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد نور.فرینکفرٹ (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیات تلاوت فرمائیں: قُلْ اَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَاقِيْمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينِ.كَمَا بدَاكُمْ تَعُودُونَ (الاعراف: 30) التَّائِبُونَ الْعَبْدُونَ الْحَمِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّكِعُونَ السَّجِدُونَ الأمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَفِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ.وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (التوبة: 112) آج میں مسجد نور فرینکفرٹ سے یہ پہلا خطبہ دے رہا ہوں.جیسا کہ جرمنی میں رہنے والے احمدی جانتے ہیں، اس کی وجہ اس سال اس مسجد کی تعمیر پر پچاس سال پورے ہونا بنی ہے.پچاس سال پہلے یہ مسجد اس وقت کی جماعتی ضرورت اور وسائل کے مطابق تعمیر کی گئی تھی.گو آج یہ احمدیوں کی تعداد کے مطابق ضرورت پوری نہیں کرتی.ایک چھوٹی سی مسجد ہے.اس لئے یہاں کے علاقہ کے احمدیوں کے علاوہ بہت کم تعداد میں دوسروں کو اجازت دی گئی کہ آج جمعہ پر یہاں آئیں.یہاں جرمنی کی یہ دوسری مسجد ہے جو جماعت احمدیہ نے تعمیر کی.پہلی مسجد ہمبرگ کی تھی جس کے پچاس سال میرا خیال ہے 2007ء میں پورے ہوئے تھے.بہر حال وہاں تو کسی تقریب میں میں شامل نہیں ہوا تھا لیکن فرینکفرٹ کی اس مسجد کے پچاس سال پورے ہونے کے حوالے سے جماعت جرمنی ایک فنکشن منعقد کرنا چاہتی تھی جس میں انہوں نے بعض شخصیات کو بلایا ہے یا بلانا چاہتے تھے.اس لئے امیر صاحب جرمنی نے مجھے کہا کہ میں بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کروں.اس لئے میں نے مسجد کے پچاس سال پورے ہونے کی اس تقریب میں شامل ہونے اور یہاں جمعہ پڑھنے کی حامی بھر لی تھی.جیسا کہ میں نے کہا کہ میں نے یہ سوچ کر بھی حامی بھری تھی کہ اس حوالہ سے اعلیٰ شخصیات کو جو دعوت دی گئی ہے تو اس تقریب میں کچھ کہنے کا موقع ملے گا اور اسلام کی تعلیم کے بارے میں ان لوگوں تک بھی گو کہ پہلے آواز پہنچی ہوگی اور جانتے بھی ہوں گے، بہت سارے احمدیوں کے واقف ہیں لیکن پھر بھی مجھے خود بھی ان تک کچھ نہ کچھ پیغام اپنے رنگ میں پہنچانے کا موقع مل جائے گا.ہماری نئی مساجد بھی تعمیر ہوتی ہیں اور دنیا میں جماعت احمدیہ کی کئی پرانی مساجد بھی پھیلی ہوئی ہیں جن کی تعمیر پر
582 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 پچاس سال یا پچھتر سال یا سو سال پورے ہو چکے ہیں.مساجد کی اہمیت ان کے پچاس سال یا سو سال پورے ہونے سے نہیں ہے.مساجد کی اہمیت اور ان کی خوبصورتی ان کو آباد کرنے کے لئے آنے والے لوگوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ رکھتے ہیں اور تقویٰ رکھتے ہوئے مساجد میں آکر پانچ وقت ان کی رونق کو دوبالا کرتے ہیں.مساجد کے مقام اور اس کی اہمیت کے بارے میں ہمیں قرآن اور احادیث سے بڑی راہنمائی ملتی ہے اور ایک احمدی کی یہی شان اور پہچان ہے کہ ہمیشہ مسجد کے اس مقام کو پہچانے جس کی خدا تعالیٰ نے ہمیں ہدایت فرمائی ہے اور اسی حوالے سے میں چند باتیں آج کروں گا.لیکن اس سے پہلے کہ مسجد کی اہمیت کے بارے میں کچھ کہوں اس مسجد کے حوالے سے بھی چند باتیں کہوں گا.یہاں کے رہنے والے تو جانتے ہیں اور اب دنیا کے احمدی بھی جان گئے ہوں گے کہ اس مسجد کا نام مسجد نور ہے.اتفاق سے گزشتہ دو خطبوں سے میں نور کے حوالے سے اس کے مختلف معانی اور اللہ تعالیٰ کی صفت ہونے کے بارہ میں روشنی ڈال چکا ہوں.پس یہ مسجد اور ہماری ہر مسجد اس نور کو اپنے دلوں میں قائم کرنے اور اسے دنیا میں پھیلانے کے لئے ہی تعمیر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کا نور ہے.چاہے جو بھی اس کی پہچان کے لئے اس کا نام رکھ دیا جائے لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ جونو ر خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ اور قرآن کے ذریعہ سے ہم پر اتارا اور پھر اس کا حقیقی پر تو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بنایا تا کہ یہ نور ہر سو پھیلتا چلا جائے.تو یہی ہماری مساجد کا مقصد ہے.لیکن یہ بھی اتفاق ہے بلکہ میں کہوں گا کہ سوئس (Swiss) حکومت کی بدقسمتی ہے کہ اسلام دشمن ایک پارٹی کے کہنے پر ایک ریفرنڈم کی بنیاد پر یا ایک ریفرنڈم کو بنیاد بناتے ہوئے جس میں ایک حساب سے جو حصہ لینے والے تھے ہے ان کی اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کہ سوئٹزرلینڈ میں آئندہ تعمیر ہونے والی مساجد کے مینار نہ تعمیر کئے جائیں.لیکن یہ بھی رپورٹ ہے کہ اس ریفرنڈم میں جن لوگوں نے حصہ لیا اگر ان کی تعداد کا اندازہ کیا جائے تو 2 3 فیصد لوگوں نے حقیقت میں ”ہاں“ میں ووٹ دیئے ہیں کہ مینارے تعمیر نہ کئے جائیں.گویا اکثریت یا اس سے لاتعلق رہی ہے یا ان کو تجویز پسند نہیں تھی.یہ بھی آج آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کا ہی کام ہے کہ جہاں تمام مسلمان فرقے سوئے ہوئے تھے بلکہ بعض نے توجہ دلانے پر یہاں تک بھی کہا کہ کیا ضرورت ہے میناروں کے ایشو پر شور مچانے کی.یونہی ہم کیوں ان لوگوں کی مخالفت مول لیں لیکن وہاں صرف جماعت احمدیہ نے پبلک میٹنگ کر کر کے اور سیاستدانوں سے رابطے کر کے بھی اس احمقانہ قانون کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھائی اور اب بھی اٹھا رہے ہیں.بعض سیاسی پارٹیوں نے ہم سے اس بات پر معذرت کی ہے کہ یہ ہمارا افعل نہیں ہے اور ہم اس قسم کی احمقانہ چیزوں کے بڑے سخت مخالف ہیں.بلکہ سوئٹزر لینڈ میں زیورخ میں جہاں ہماری مسجد ہے وہاں کے علاقہ کے لوگوں نے
583 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم ہمارے حق میں مسجد کے میناروں کے حق میں نعرے لگائے ، جلوس نکالے ، سڑکوں پر آئے اور کہا کہ یہ بالکل احمقانہ بات ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے.ایک سیاسی پارٹی کے نیشنل لیڈر نے اس ریفرنڈم سے یہ سمجھ کر کہ دوسری پارٹی نے اس ایشو سے اپنا ایک مقام حاصل کر لیا ہے اور اس کی کچھ اہمیت ہوگئی ہے یہ آواز بلند کرنی شروع کر دی کہ اب قانونی طور پر حجاب پر بھی پابندی لگنی چاہئے اور مزید پابندیاں بھی مسلمانوں پرلگنی چاہئیں.لیکن اسی پارٹی کی زیورخ صوبے کی جو صوبائی برانچ تھی اس کے صدر اور اس پارٹی کے دوسرے لیڈروں نے اپنے اس نیشنل لیڈر کی اس بات پر سخت احتجاج کیا اور یہاں تک انہوں نے شور مچایا اور اس کو خطوط لکھے کہ اس نیشنل لیڈر کوئی وی پر آ کر معافی مانگنی پڑی.اور اس کے بعد پھر اس پارٹی کا جو صو بائی لیڈر ہے اس نے ہمارے امیر صاحب سوئٹزر لینڈ کو ایک خط لکھا کہ یہ شخص ہمارا لیڈر ہے لیکن پٹڑی سے اتر گیا ہے.اب ہم نے اس کو سیدھے رستے پر ڈال دیا ہے اور ہم ہیں جو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے.تو شرفاء ہر جگہ موجود ہیں جو آواز بلند کرنے والے ہیں.تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ کام ہے جو جماعت احمد یہ اسلام کے دفاع کے لئے ہر جگہ کر رہی ہے اور جماعت کے شور مچانے پر ہی ان سیاستدانوں کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی کہ اس قانون کے خلاف آواز بلند کریں.اسلام کے جو نام نہاد ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ان کا تو صرف یہی کام ہے کہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہیں یا معصوموں کی جانوں سے کھیلتے رہیں اور اس کے باوجود پھر یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی کیا ضرورت تھی اور ہمیں کسی لیڈر کی کسی روحانی لیڈر کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ ہمارے پاس آخری رسول حضرت محمد مصطفی ہے اور کتاب مبین کی صورت میں نور موجود ہے.یہ سب ٹھیک ہے.ہم بھی یہی کہتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اس نور سے حصہ لینے کے لئے اللہ اور رسول میلے کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھے جو اس ٹو رکو جذب کر کے پھر آگے پھیلائے.پس اسلام کی یہ روشنی کے پھیلانے کا کام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا ہی مقدر ہے اور اسی کے ذمہ لگایا گیا ہے.چنانچہ صرف سوئٹزر لینڈ میں ہی نہیں چین کے ایک بہت بڑے سیٹلائٹ چینل نے یہ خبر دی اور خبر کے ساتھ پیڈ رو آباد میں جو ہماری مسجد بشارت ہے اس کی تصویر دی اور مقامی لوگوں کے انٹر ویو دیئے اور سب نے یہ کہا کہ اس قسم کے قوانین جو ہیں یہ بڑے غلط قسم کے قوانین ہیں اور یہ بتایا کہ ہمارے علاقہ میں مسلمانوں کی یہ مسجد ہے یہاں سے تو امن و محبت کا پیغام پھیلانے والی آواز اٹھتی ہے.بلکہ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ تم ان لوگوں سے Terrorism کی بات کرتے ہو، یا کسی قسم کی نفرت کی بات کرتے ہو ہمیں تو کہتا ہوں کہ اصل امن پسند یہ لوگ ہیں اور ہمیں بھی ان جیسا ہونا چاہئے.یہ ایک انقلاب ہے جو دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے آپ سے تربیت پا کر پیدا فرمایا ہے کہ وہ ملک جہاں چند دہائیاں پہلے مسلمان سے سلام کرنا بھی شاید ایک دوسرے کو
خطبات مسرور جلد هفتم 584 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 خوفزدہ کر دیتا تھا.آج ٹی وی پر کھل کر وہاں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر سپینش لوگ امن چاہتے ہیں تو ان مسلمانوں جیسے بنیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو امن اور محبت کا سمبل (Symbol) ہیں.پس یہ انتہائی احمقانہ حرکت ہے کہ یہ قانون بنایا جائے کہ مساجد کے میناروں کی تعمیر روک دی جائے.اگر فرض کر لیں کہ تمام مسلمان دہشت گرد ہی ہیں تو کیا مینار نہ بنانے سے یہ دہشت گر دی رک جائے گی ؟ نہایت بچگانہ باتیں ہیں.مینار کا لفظ تو خودنور سے نکلا ہے اور اس کا مقصد جس کے لئے بنایا جاتا ہے یہ ہے کہ اونچی جگہ سے اذان کی آواز خدائے واحد کی عبادت کرنے والوں کو نماز کے لئے عبادت کے لئے بلانے کے لئے بلند کی جائے.پہلے جب یہ بجلی اور لاؤڈ سپیکر کی سہولت نہیں تھی تو مینار پر کھڑے ہو کر ہی اذان دی جاتی تھی.اب تو جو مینارے ہیں یہ ایک سمبل کے طور پر ہیں.مسلمان ملکوں میں بعض جگہ لاؤڈ سپیکر لگا دئے جاتے ہیں جن سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے.یہاں تو اس کی اجازت نہیں.ان میناروں کا تو پھر بھی کچھ نہ کچھ مقصد ہے لیکن اگر یہ اعتراض کرنا چاہیں تو چر چوں کے گنبد ہیں یا کون ہیں ان پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے.گو کہ ہمارا مقصد نہیں ہے اعتراض کرنا.میں نے جو میناروں کا مقصد بتایا ہے جیسا کہ اذان کی آواز پہنچانا اور یہ اذان کیا ہے؟ اذان کے الفاظ میں خدا تعالیٰ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے.اس کی وحدانیت بیان کی جاتی ہے.آنحضرت ﷺ کے رسول ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے.عبادت کی طرف بلایا جاتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ یہی انسانی پیدائش کا مقصد ہے اور اسی میں انسان کی فلاح ہے.اس لئے فلاح کی طرف آؤ.وہ فلاح حاصل کرو جس سے تمہارا دین بھی سنور جائے اور آخرت بھی سنور جائے.تمہاری دنیا بھی سنور جائے.کتنا حسین اور ٹھوس پیغام ہے جو ان میناروں سے دیا جاتا ہے.اس کے باوجود بھی کہ چہ چوں پر ہم اعتراض کر سکتے ہیں ، ہم نے اعتراض نہیں کیا، نہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے.ہم تو ہر ایک کے معبد ہے یا مندر ہے یا چرچ ہے اس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں نہ صرف ان عبادت گاہوں کی عزت کرنے کا کہا ہے بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ڈالی ہے تا کہ دنیا میں محبت اور پیار کی فضا قائم ہو.فرینکفرٹ کی اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر ، آج سے پچاس سال پہلے اس مسجد کے مینار کے بارے میں جو اخبار نے لکھا تھا وہ ان اخبار نویسوں کی شرافت کی عکاسی کرتا ہے.اس وقت جرمنی کے ستر سے زائد اخبارات نے مسجد کے افتتاح کی خبر میں شائع کیں.مثلاً ایک اخبار ہے فرینکفرٹ رمشاؤ (Frankfurter Rundschah) (اگر میں نے تلفظ صحیح بولا ہے )
خطبات مسرور جلد هفتم 585 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 اس نے 14 ستمبر 1959 ء کی اشاعت میں لکھا کہ فرینکفرٹ میں ایک سفید مسجد بلند اور دلفریب میناروں کے ساتھ تعمیر ہو چکی ہے.اسی طرح Abend Post نے لکھا کہ فرینکفرٹ میں اللہ کا گھر موجود ہے.پھر ایک اخبار منہائم مورگن نے لکھا کہ اسلام یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے.یہ ہیڈ نگ دے کے پھر تفصیل لکھی اور لکھا کہ محمد (ع) کے پیرو اس سے قبل تلواروں اور نیزوں کی مدد سے جنوبی فرانس تک آئے.موجودہ زمانہ میں یہ کام روحانی ہتھیاروں سے ہو رہا ہے.بہت سے اسلامی ممالک کے لوگ یورپ آتے ہیں جو ساتھ ساتھ اسلام پھیلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح مختلف تبلیغی فرقے جن میں ایک فرقہ جس نے خاص طور پر مختلف جگہوں پر مساجد بنائی ہیں مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا ہے جو 1890ء میں پنجاب میں قائم ہوا.بہر حال سال اس نے تھوڑا سا غلط لکھا ہے.1889 ء کی بجائے 1890 لکھ دیا لیکن خبر بڑی تفصیل کے ساتھ دی.لیکن یہ دیکھیں کہ جب جرمنی میں چند ایک جرمن احمدی تھے اس وقت اس مسجد اور اسلام کے حقیقی پیغام کی وجہ سے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو پریس نے عزت اور احترام کے ساتھ اپنی خبروں میں پیش کیا.یہ ان کی شرافت تھی.لیکن اب جب آپ کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے تو آپ کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کے دفاع اور اس کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مساجد کے مینار جس طرح اس زمانے میں دلفریب تھے آج بھی اسی طرح دلفریب ہیں.لیکن آج مغربی ممالک کے بعض لوگ اور سیاستدانوں کی انصاف کی نظر ختم ہوگئی ہے.چند ایک کے جرم کو پوری اُمت کے سر تھوپ دیا جاتا ہے.اسلام کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بعض پریس کے نمائندہ بھی اور پریس میڈیا بھی اس میں غلط کردار ادا کرتا ہے.مثلاً کل ٹی وی پر ایک خبر آ رہی تھی ( کل کی ہی تھی میرا خیال ہے ) کہ ایک شیخی شخص نے جو مسلمان تھا ( پوری طرح تو میں نے خبر نہیں سنی ) غالباً بر طانوی شہری تھا.اس نے اپنی پندرہ سالہ بیٹی کو قتل کر دیا.تو خبر اس طرح بیان ہورہی تھی کہ ایک مسلمان نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا.جب کہ اس طرح کے جرائم مغرب کے باشندے بھی کرتے ہیں اور آئے دن اخباروں میں ان جرائم کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھیانک جرائم کی خبریں آرہی ہوتی ہیں.لیکن یہ نہیں لکھا جاتا کہ فلاں عیسائی نے قتل کر دیا.یا فلاں یہودی نے قتل کر دیا یا فلاں مذہب کے ماننے والے نے قتل کر دیا.یا یہ جرم کیا ہے.فلاں فلاں جرم کیا ہے.لیکن اگر کوئی مسلمان جرم کرتا ہے تو اسلام کے حوالہ سے ضرور اس کا تعارف کروایا جاتا ہے.یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام کے خلاف ایک مہم ہے.پس مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے اس مہم کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور اسلام کی حقیقی تصویر پیش کریں.لیکن نہیں.آج یہ کام ہر ایک کے بس کا نہیں ہے.یہ کام جیسا کہ میں نے
خطبات مسرور جلد ہفتم 586 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 کہا صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا مقدر ہے.ہر احمدی کا کام ہے.آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی بیعت میں آنے والوں کا کام ہے.انہیں سے اب منسوب ہو چکا ہے.آپ لوگوں کو میں جلسہ میں بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں.پس احمدی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور مساجد اور اس کے میناروں سے اسلام کے نور کو اللہ تعالیٰ کے نور کو یورپ اور مغرب کے ہر ملک اور ہر باشندے تک پہنچائیں اور اس کو پہنچانے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں.اور یہ اس وقت ہو گا جب مسجدوں کے ساتھ جڑ کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے ،اس سے مدد مانگتے ہوئے ، اس کام کو سرانجام دینے کے لئے کوشش کریں گے.مسجد کے مقام اوراہمیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں گے.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی اس بارہ میں کچھ راہنمائی ملتی ہے.ان آیات میں سے پہلی آیت جو تھی سورہ اعراف کی تھی.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے.نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی تو جہات ( اللہ کی طرف) سیدھی رکھو.اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارا کرو.جس طرح اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم (مرنے کے بعد ) لوٹو گے.یہ کیا خوبصورت تعلیم ہے.اعتراض کرتے ہیں کہ مساجد دہشتگردی کا اڈہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلا حکم یہ دیا ہے کہ انصاف پر قائم ہو جاؤ.پھر مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.یا اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے تمہیں اپنے دلوں کو ہر قسم کی نا انصافی سے پاک کرنا ہوگا.قرآن کریم میں اور کئی مقامات پر بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.مثلاً ایک جگہ فرمایا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بالعدل (النساء آیت : 59) کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرو.یہ ہے خوبصورت تعلیم.یہ نہیں کہا کہ جب مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کرو.بلکہ محسن انسانیت پر جو تعلیم اتاری گئی تھی وہ بھی گل انسانیت کی بہتری کے لئے ہے.اور اس کا اظہار ایک اور جگہ اس طرح ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی انصاف سے نہ روکے اور جو مسجد فتنہ اور شر کے لئے بنائی گئی تھی اس کے گرانے کا حکم قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دے دیا.پس مسجد کا تو وہ مقام ہے جہاں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کے آگے جھکنے کے لئے آیا جاتا ہے.مسجد کا لفظ مسجد سے نکلا ہے.جس کا مطلب ہے عاجزی انکساری اور فرمانبرداری کی انتہا.پس مسجد تو یہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے والی جگہ ہے اور اس آیت میں یہی حکم ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو مسجد میں جمع ہو کر، ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو پکارو کہ تو ہی ہے جو ہمیں سیدھے راستے پر چلانے والا ہے.ہمارے اندر سجدے کی حقیقی روح پیدا کرنے والا ہے.تو ہی ہے جو ہمیں دین کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق
587 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم دینے والا ہے.تو ہی ہے جو ہمارے سے انصاف کے تمام تقاضے پورے کروانے والا ہے اور اے اللہ تو ہی ہے جو ہمیں اپنے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے والا ہے اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق دینے والا ہے.پس ہم آج تیرے آگے سجدہ ریز ہیں کہ ہمیں ان نیکیوں کے کرنے کی توفیق عطا فرما.ایک مومن جسے آخرت پر یقین ہے، مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے پر یقین ہے.وہ کوئی ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا جو ا سے آخرت کے انعام سے محروم کرے کیونکہ ہر عمل درجہ بڑھانے کا باعث بنتا ہے اور ترقی کا یہ عمل اسی طرح جاری ہے جس طرح پیدائش کا عمل ہوا.پس اگر ہر نیکی کے بجالانے کی طرف توجہ نہیں تو روحانی ترقی کے درجے حاصل کرنے بھی ممکن نہیں ہوں گے.پس یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک مومن ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے ، خالص اس کے لئے ہوتے ہوئے ،مسجدوں کی طرف آئے اور دوسری طرف ان مساجد سے نفرتوں کی آوازیں گونجیں جو دنیا میں فتنہ و فساد کا باعث بنیں.پس مساجد تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف قدم بڑھانے کا ایک نشان ہیں اور مینارے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک ذریعہ ہیں جن پر کھڑے ہو کر اس نور کی طرف بلایا جاتا ہے جو انسان کے لئے اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو روشن تر کرنے کا باعث بنتا ہے.پس آج ہم احمدیوں کا فرض ہے کہ دنیا کو یہ بتائیں کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے اور مساجد کی حقیقت کیا ہے.دنیا کی بقا بھی اسی سے وابستہ ہے کہ ایک خدا کو مانتے ہوئے اس نور کو تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ کا نور ہے.جو دنیا میں اگر نظر آ سکتا ہے تو آنحضرت ﷺ کی ذات میں نظر آ سکتا ہے.جو اگر نظر آ سکتا ہے تو آنحضرت ﷺ پر اتری ہوئی شریعت اور آخری شرعی کتاب قرآن کریم میں نظر آ سکتا ہے.جس کی خوبصورت تعلیم دنیا کی بقا کا واحد ذریعہ ہے.جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے راستے دکھانے اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے راستے دکھانے کا واحد ذریعہ ہے.جس کی خوبصورت تعلیم دنیا کے امن کی ضمانت ہے کیونکہ اس تعلیم پرعمل کرنے والوں کی حالت کا قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ ایک جگہ اس طرح بیان ہوا ہے.دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی تھی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: تو بہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، ( خدا کی راہ میں) سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے اور بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ( سب سچے مومن ہیں ) اور تو مومنوں کو بشارت دے دے.تو یہ ایک مومن کی خصوصیات ہیں.جو خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرتا ہے اس میں یہ پائی جانی ضروری ہیں.
588 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم پہلی بات یہ فرمائی.تو بہ کرنے والے تو بہ کیا چیز ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ برائیوں سے قطع تعلق کرنا.اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے.فرمایا: انسان کو چاہئے کہ اگر تو بہ کرے تو خالص تو بہ کرے تو بہ اصل میں رجوع کو کہتے ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ صرف زبان سے تو بہ تو بہ کرتے پھرو بلکہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرو، جیسا کہ حق ہے رجوع کرنے کا.کیونکہ جب متناقض جہات میں سے ایک کو چھوڑ کر انسان دوسری طرف آ جاتا ہے تو پھر پہلی جگہ دور ہوتی جاتی ہے ( جب انسان متناقض جہات ، یعنی الٹی طرف جانا شروع کرتا ہے.ایک طرف کو چھوڑ کر جب دوسری طرف آتا ہے تو پہلی جگہ سے دوری ہوتی جاتی ہے ) اور جس کی طرف جاتا ہے وہ نزدیک ہوتی جاتی ہیں.یہی مطلب تو بہ کا ہے کہ جب انسان خدا کی طرف رجوع کر لیتا ہے اور دن بدن اس کی طرف چلتا ہے تو آخر یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان سے دور ہو جاتا ہے اور خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 409 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ ) پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری خصوصیت ایک مومن کی یہ بتائی کہ عبادت کرنے والے ہیں.ظاہر ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھ رہے ہوں گے تو خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور یہی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد قرار دیا ہے.اور ایک مومن جو خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہے وہ اس بات کی پوری کوشش کرتا ہے کہ عبادت کا حق ادا کرے.وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ عبادت کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے اور عبادت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کا حق ادا کرنا ہوگا.اور اس کا حق اس کو ادا کرنے سے ہوگا.فرمایا وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ (البقرة: 44) کہ نماز کو قائم کرو اور نماز کا قائم کرنا یہی ہے کہ مسجد میں جا کر با جماعت نماز ادا کی جائے اور یہی نمازوں کی ادائیگی کا حقیقی حق ہے.یہاں ضمناً میں یہ بھی بتا دوں کہ مجھے اس مسجد کے بارہ میں پتہ لگا ہے کہ یہاں نمازوں کے وقت پوری طرح پر مسجد میں لوگ نہیں آتے.مجھے کسی نے لکھا تھا، بلکہ کسی لوکل اخبار نے بھی لکھا کہ ایک وقت میں یہاں پانچوں نمازیں ہوتی تھیں اب یہ مسجد صرف جمعہ کے لئے استعمال ہوتی ہے.اس علاقہ کے لوگوں کا ، احمدیوں کا فرض بھی ہے کہ یہاں آئیں.باقاعدہ پانچ وقت یہ مسجد کھولیں اور نماز میں ادا کیا کریں.صرف عشاء کی نماز ادا کرنا یا مغرب کی نماز ادا کرنا یا چند ایک کا فجر پر آ جانا ہی کافی نہیں ہے.یہ حق آپ ادا کریں گے تو تبھی آپ حقیقی مومن کہلانے والے ہوں گے.مسجد کی بنیا د ر کھتے ہوئے غیر بھی اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیوں مسجد بنا رہے ہیں.پرسوں بھی ایک شہر میں جہاں میں نے مسجد کی بنیاد رکھی ہے، وہاں پریس والے نے یہی سوال کیا کہ آپ مسجد میں کیوں بنا رہے ہیں؟ تو سیدھا سادہ جواب تو اس کا یہی ہے کہ نماز با جماعت کی ادائیگی کے لئے جس کی اسلام میں بہت اہمیت ہے.نماز کے قیام کا
589 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم حکم ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ باجماعت ادا کرو.اس لئے مسجد تعمیر کرتے ہیں کیونکہ حقیقی نمازیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور جو نمازیں اس سوچ کے ساتھ ادا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ( الماعون : 5 ) پس ان نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نمازیں ظاہری حرکات کے لئے تو ادا کرتے ہیں اور اس مقصد کو بھول جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی کامل فرمانبرداری ہے.پس قرآن کریم تو خود ہر قدم پر توجہ دلا رہا ہے اور توجہ دلا کر ایک حقیقی مسلمان کو اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے راستے دکھا رہا ہے.پھر ایک حقیقی مسلمان خدا تعالیٰ کی حمد کرنے والا بھی ہے اور حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کا جامع سمجھتا ہو اور جو اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کا جامع سمجھتے ہوئے اُن تمام احکامات پر عمل کرنے والا ہو جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.کیونکہ اگر وہ حقیقی مومن ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ایسی حرکت کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی رضا سے دور لے جانے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام محمد کے بارہ میں کہ یہ کیا چیز ہے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : " تمام اقسام حمد کے ( جو تمام قسمیں ہیں حمد کی ) کہ کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے ہی مخصوص ہیں“.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 436) تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ سوچ رکھنے والے جب اس کے سامنے جھکتے ہیں ، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں حتی کہ اپنے گھروں سے بھی اس کی رضا کے حصول کے لئے ہی نکلتے ہیں تو یہی لوگ ہیں جو پھر نیکیاں پھیلانے والے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ کی حدود کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی حدود وہ تمام احکامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو دیئے ہیں.ایک منتقی کا یہی کام ہے کہ ان حدود کے دائرہ کے اندر رہے.تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بشارت دیتا ہے.یہ شور، یہ مخالفتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں.یہاں اس حوالہ سے میں ایک یہ بات بھی آپ کو کہنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والوں کے لئے بھی بشارت ہے.جیسا کہ میں نے ذکر کیا، ان میں ایک تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر جہاد کے لئے نکلتے ہیں.اس کے پیغام کی اشاعت کے لئے مصروف ہیں.تبلیغ بھی ایک جہاد ہے.اس کام کو سر انجام دے رہے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے حکم بھی فرمایا ہے اور توفیق بھی عطا فرما رہا ہے.دوسرے وہ بھی ایک طرح اس میں شامل ہیں جن کے حالات اپنے ملکوں میں اس قدر تنگ کر دیئے گئے کہ انہیں ہجرت کرنی پڑی.یہ بھی خدا تعالیٰ کا
590 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم حکم ہے کہ اگر تمہیں توفیق ہے تو اگر تم پر دینی تنگیاں وارد کی جاتی ہیں تو ہجرت کر جاؤ.آپ میں اکثر اس وجہ سے یہاں آئے ہیں اور جرمن حکومت کی بھی یہ مہربانی ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کہ آپ اپنے ملک میں آزاد نہیں ہیں ، بعض تنگیاں وارد کی جارہی ہیں، آپ کو یہاں رہنے کی اجازت دے دی.اس لئے ہمیشہ یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے، اگر حقیقی احمدی کہلانا پسند کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے دنیوی اور اخروی انعاموں کو بھی اپنے اور پھر اپنی نسلوں پر بھی نازل ہوتے دیکھنا ہے تو ان مومنین میں سے بننا ہوگا جو عبادتوں کا بھی حق ادا کرنے والے ہیں.اپنے رکوع و سجود سے کامل فرمانبرداری کا اظہار کرنے والے ہیں.نیکیوں کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہیں اور معاشرے میں بھی یہ نیکیاں پھیلانے والے ہیں.برائیوں سے اپنے آپ کو بھی بچانے والے ہیں اور معاشرے کو بھی بچانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر حتی الوسع کوشش کرنے والے ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کرانے والے ہیں.اگر یہ باتیں نہیں تو پھر اسلام دشمن یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ تمہاری تعلیم کیا ہے.ہم تو تمہارے عمل دیکھ کر تمہیں اور تمہارے دین کو نشانہ بنا رہے ہیں.پس ایک باغیرت احمدی کی طرح ہمیشہ اپنے کسی فعل اور حرکت سے احمدیت اور حقیقی اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس درد کو ہمیشہ یادرکھیں کہ آپ نے فرمایا کہ ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کریں.(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 184 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ہر احمدی کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ اس ملک میں آ کر مجھے اپنے حالات پہلے سے بہتر کرنے کا اور آزادی سے زندگی گزارنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی وجہ سے دیا ہے.اس لئے میں نے خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اپنی زندگی اس نہج پر گزارنی ہے کہ جو جہاں مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بنائے وہاں دشمنان اسلام کے منہ بند کرنے والی بھی بنائے.امر بالمعروف میرا طرہ امتیاز ہو اور نہی عن المنکر میری پہچان ہو.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑا مقام عطا فرمایا ہے اور جو احمدی مسلمان ہیں انہوں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہم اس مقام کو حاصل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ یہ ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران: 111 ) کہ تم وہ لوگ ہو جو انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو.صرف اپنی بھلائی نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو.قطع نظر اس کے کہ کون کس مذہب کا ہے آج انسانیت کی بھلائی تمہارے ساتھ وابستہ ہے.یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ یونہی نہیں مل گیا بلکہ یہ وجہ بتائی کہ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو.پس اگر اپنے اندر یہ نیکیاں ہوں گی.آپس میں احمدی معاشرے میں بھی ان نیکیوں کا اظہار نظر آ رہا ہو گا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں قرآن
591 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 کریم میں بتائی ہیں تبھی دوسروں کو ہم فائدہ پہنچا سکتے ہیں تبھی ہم یہ اعزاز حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں.ورنہ جیسا کہ میں نے کہا دوسرے اس سے کیا سبق حاصل کریں گے.پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اس پر بہت بڑی ذمہ داری پڑ گئی ہے اور اس بات کی شکر گزاری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف مزید توجہ دیں کہ جب زمین آپ پر تنگ کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں پھیلنے کی توفیق دی.آپ کا دنیا میں نکلنا آپ کے کسی استحقاق کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور اس لئے بھی تھا کہ بعض مسلمانوں کے عمل سے جب اسلام کے خلاف بغض اور عناد کی دیوار میں بعض طبقات کی طرف سے کھڑی کی جائیں گی تو اس وقت احمدی وہاں موجود ہوں جو اپنے نمونے سے اور اس حقیقی اسلام کی تعلیم کے اظہار سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے اسلام کا دفاع کریں.دنیا کو دکھا ئیں کہ آؤ دیکھو مساجد کی کیا حقیقت ہے.آؤد یکھو ہم تمہیں بتائیں کہ میناروں کی کیا حقیقت ہے.آؤ دیکھو ہم تمہیں بتائیں کہ اعلیٰ اخلاق کیا ہیں.آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ نیکیاں کس طرح پھیلائی جاتی ہیں اور برائیاں کس طرح دُور کی جاتی ہیں.آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ دنیا کا امن کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے.پس یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آج احمدیوں کے ذمہ لگائی گئی ہے.دنیا کو بتانا ہے کہ یہ حقیقی اسلام ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اور اس کے پھیلانے کی خاطر ہر احمدی مرد، عورت، بچہ، جوان اپنی جان، مال، وقت اور عزت قربان کرنے کا عہد کرتا ہے.اگر ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے ممتاز نہ کیا تو ہم اسلام کا دفاع کسی صورت نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں : ”میں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ظاہر میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں.تم بھی مسلمان ہو ، وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں.تم بھی کلمہ گو ہو، وہ بھی کلمہ گو ہیں.تم بھی اتباع قرآن کریم کا دعویٰ کرتے ہو ، وہ بھی اتباع قرآن ہی کے مدعی ہیں.غرض دعووں میں تم اور وہ دونوں برابر ہو.مگر اللہ تعالیٰ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعوی کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو“.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 604 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس خیر امت بننے کے لئے حقیقی تعلیم پیش کرنے کے لئے ہمیں عملی ثبوت پیش کرنے ہوں گے.اپنی حالتوں کو بدلنا ہوگا.اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرنا ہوں گے.اپنے اعلیٰ اخلاق کے معیار بلند کرنے ہوں گے.آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنی ہوگی اور پھر اس کو معاشرے میں پھیلانا ہوگا.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.
592 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اس حوالے سے کہ مسجد میں افتتاح بھی ہوتے ہیں یہ تو خیر پچاس سالہ تقریب ہے.ایک بات میں اور کہنا چاہتا ہوں کہ بعض مساجد کیونکہ چھوٹی ہیں تو مسجدوں کے افتتاح پر اب عموماً یہ روایت بن گئی ہے کہ جو ریسپشن (reception) ہوتی ہے اس میں مسجد کے اندر ہی میٹ (Mat) بچھا کر دعوت اور کھانے وغیرہ کا انتظام کر لیا جاتا ہے.آئندہ سے اس کی اجازت نہیں ہے.اگر کہیں مسجد کی ریسپشن وغیرہ ہونی ہے تو صحن میں مار کی لگا کر کریں.مسجد کا جو اندرونی ہال ہے اس میں کسی قسم کی کوئی کھانے وغیرہ کی دعوت آئندہ سے نہیں ہو گی.یہ آپ بھی نوٹ کرلیں اور دنیا میں رہنے والی باقی جماعتیں بھی نوٹ کرلیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 1 شماره 20 مورخہ 8 جنوری تا 14 جنوری صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد ہفتم 52 593 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2009ء بمطابق 25 فتح 1388 ہجری کشی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی: أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلِإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِّنْ رَّبِّهِ.فَوَيْلٌ لِلْقَسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللَّهِ.أولَئِكَ فِي ضَلَلٍ مُّبِينِ الزُّمَر : 23) یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ پس کیا وہ کہ جس کا سینہ اللہ اسلام کے لئے کھول دے پھر وہ اپنے رب کی طرف سے ایک نور پر ( بھی ) قائم ہو ( وہ ذکر سے عاری لوگوں کی طرح ہوسکتا ہے؟ ) پس ہلاکت ہو ان کے لئے جن کے دل اللہ کے ذکر سے ( محروم رہتے ہوئے) سخت ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو کھلی کھلی گمراہی میں ہیں.ہدایت کی طرف لانا یا ہدایت دینا یہ بے شک خدا تعالیٰ کا کام ہے جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَنْ يَّشَآءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص: 57 ) یعنی تو جس کو پسند کرے ہدایت نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے.آنحضرت مے جس ٹو ر کو لے کر آئے، جو ہدایت دنیا کے سامنے رکھی ، جو شریعت قرآن کریم کی صورت میں آپ پر اتری، آپ کی خواہش تھی کہ دنیا اس ہدایت کو قبول کرے اور جو روشنی آپ پر اتری ہے اس روشنی سے حصہ لے کر اپنے دلوں کو منور کرے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے.کیونکہ آپ کو علم تھا کہ یہ روشنی جو آپ پر اتری ہے اس کے انکار کی صورت میں منکرین عذاب الہی کے مورد بنیں گے اور آپ یہ جن کی طبیعت میں انسانیت کے لئے بہت زیادہ رحم تھا ، آپ ک یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی انسان بھی ہدایت کے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو کر عذاب پائے.پس آپ کے دل کی یہ کیفیت تھی کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر ، بے چین ہو کر خدا تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے.دنیا کی بقا اور اللہ تعالیٰ کا عبد بنانے کے لئے یہاں تک آپ ﷺ کے دل کا اندر کا دردتھا کہ آپ کی بے چینی کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا
594 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم مُؤمِنِينَ (الشعراء: 4 ) یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ کیوں یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ، مومن نہیں ہوتے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول! ہدایت دینا تیرا کام نہیں.پیغام پہنچانا تیرا کام ہے، یہ تیرے ذمہ ہے وہ کئے جا.ہدایت پہنچانا یا ہدایت دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون لوگ ہدایت کے مستحق ہیں یعنی کون لوگ ہدایت کے لئے کوشاں بھی ہیں اور خواہش بھی رکھتے ہیں.جولوگ ہدایت کے جو یاں ہیں ، تلاش میں ہیں ، انہیں ہم ہدایت دیتے ہیں اور انہیں پھر اس ٹور سے حصہ ملتا ہے جواسے محمد یہ تجھ پر اتارا گیا.ان کے سینے پھر ہم اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں.ان کے دل پھر اُس نُور سے منور ہوتے چلے جاتے ہیں جو ہم نے حضرت محمد مصطفی ملے پر اتارا.وہ لوگ پھر سچائی کے ٹور سے اپنے سینوں کو بھر لیتے ہیں.وہ اپنے دلوں کو خدا تعالیٰ کی یاد اور محبت سے بھر لیتے ہیں.ان کی زبان پر خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے.پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوتے ہیں.ان لوگوں کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.اسلام کی خوبصورت تعلیم ، قرآن کریم کا ثور ایسے مومنین کے سینوں کو بھرتا چلا جاتا ہے کہ وہ علم و عرفان اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں بہتر سے بہتر معیار حاصل کرنے کی کوشش اور جستجو میں رہتے ہیں اور یہ کوشش اور جستجو ان کے لئے نئے اور نہ ختم ہونے والے خوبصورت راستے دکھاتی ہے.جو اُن کے خیالات کی پاکیزگی کو بڑھاتی ہے.جو ان کے علم و عرفان کو بھی بڑھاتی چلی جاتی ہے.جو اُن کے سچائی کے نور کو بھی پھیلاتی چلی جاتی ہے.اور پھر جہاں جہاں یہ روشنی پڑتی ہے وہاں سعید فطرتوں اور نیک طبعوں کو اس نور سے حصہ دیتی چلی جاتی ہے.اس مضمون کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ.وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ.كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (الانعام : 126).پس جسے اللہ چاہے کہ اسے ہدایت دے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہے کہ اُسے گمراہ ٹھہرائے اس کا سینہ تنگ ،گھٹا ہوا کر دیتا ہے.گویا وہ زور لگاتے ہوئے آسمان ( کی بلندیوں ) پر چڑھ رہا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے پلیدی ڈال دیتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے کہ ہدایت کا کام خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے.بے شک نور ہر جگہ پہنچتا ہے.بے شک جب سورج چمکتا ہے تو دن کی روشنی کر دیتا ہے یا دن کو روشن کر دیتا ہے.لیکن اگر کوئی کمرے میں بند ہو کر کھڑکیاں دروازے بند کر لے تو اسے اس ٹور سے کوئی حصہ نہیں ملتا جو کہ سورج کی روشنی سے اس کے سامنے آنے والوں کو ، اس کے سامنے کھڑے ہونے والوں کو مل رہا ہوتا ہے.اگر ایسا شخص کہے کہ میں تو کہیں سورج کی
595 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم روشنی نہیں دیکھتا تو یہ اس کے اُس عمل کا نتیجہ ہے جو اُس نے اپنے تک سورج کی روشنی پہنچنے کے لئے روکیں کھڑی کر کے کیا ہے.پس روحانی دنیا میں بھی روشنی انہی تک پہنچتی ہے جو یہ روشنی پہنچنے کے لئے اپنے دل و دماغ کے دروازے اور کھڑکیاں کھول کے رکھتے ہیں.پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَنْ يُرِدِ اللهُ أَنْ يُهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلاِسْلَامِ.پس جسے اللہ چاہے کہ اسے ہدایت دے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے.یہاں پر اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کا عمل ہے جو نیک اعمال کی صورت میں اور ٹو ر سے حصہ لینے کی تڑپ دل میں رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے.اس کے نتیجہ میں پھر وہ ہدایت پاتا ہے.پس خدا تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کی طرف تو جو ایک قدم بڑھانے والا ہے خدا تعالیٰ اس کی طرف دو قدم بڑھاتا ہے اور اس کی طرف چل کر جانے والے کی طرف خدا تعالیٰ دوڑ کر آتا ہے.پس یہاں جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ یہ علم رکھتا ہے کہ فلاں شخص خوشی اور کوشش سے خدا تعالیٰ کی رضا کی تمنا رکھتے ہوئے اس کے احکامات کو قبول کرنا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل اطاعت بدل و جان کرنے کے لئے تیار ہے.اگر انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی اور کامل اطاعت کے لئے ہر وقت تیار ہو تو یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ اُس کے قدم روحانی ترقی کی طرف اٹھ رہے ہیں.اور جس کے قدم روحانی ترقی کی طرف اٹھ رہے ہوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہے جس کا سینہ اللہ تعالیٰ پھر کھولتا چلا جاتا ہے.اُسے حقیقی اسلام کا فہم و ادراک حاصل ہوتا چلا جاتا ہے.نام کا مسلمان نہیں ہوتا.اس کی عبادات، اس کی نمازیں ، اس کے روزے، اس کے حج ، اس کے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دنیا کو دکھانے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں.لیکن بعض ایسے بدقسمت بھی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے احکامات کو بوجھ سمجھتے ہیں، جو دین کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں.یا بعض ایسے ہیں جو اپنے دین کو یا اُن روایات کو جو انہوں نے اپنے آباء واجداد سے، اپنے باپ دادا سے سنیں ، آخری حرف سمجھتے ہیں اور اسلام کو قبول کرنا نہیں چاہتے.وہ اپنے خیال میں یا اپنے ماحول میں جتنا بھی خیال کریں یا سمجھے جائیں کہ وہ کسی دین پر قائم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دین پر قائم نہیں اور روحانی لحاظ سے ترقی کی بجائے انحطاط پذیر ہیں، نیچے کی طرف جا رہے ہیں.جب آنحضرت ﷺ کی بعثت ہوگئی اور اس نور پر خدا تعالیٰ کی آخری شریعت قرآن کریم کا نور بھی نازل ہو گیا تو اب اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الإسلام ( آل عمران : 20) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل دین اسلام ہی ہے جو کامل فرمانبرداری سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے لئے راہیں متعین کرتا ہے.اس کے علاوہ اب کوئی دین نہیں جو روحانی ترقیات کی راہیں دکھا سکے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ وَمَنْ يُرِدْ اَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا اور جے چاہے اُسے گمراہ ٹھہرائے.اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا
خطبات مسرور جلد ہفتم 596 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 چاہے سینہ تنگ کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے تو آدم کو زمین پر بھیجا اور بھیج کر پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ تمہیں آزادی ہے.اگر نیکیوں کی طرف قدم بڑھاؤ گے تو میرے نور سے حصہ پاؤ گے اور اگر شیطان کے قدموں پر چلو گے تو میرے عذاب کے مورد بنو گے.پس یہ انسان کے بُرے اعمال ہیں جو اس کا سینہ تنگ ہونے کا باعث بنتے ہیں.جب انسان گناہوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور دین سے اور اللہ کے رسولوں سے استہزاء شروع کر دیتا ہے تو پھر وہ گمراہی کے راستوں کی طرف چلتا ہے اور صراط مستقیم سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بوجھ سمجھنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے پر بند کر رہے ہوتے ہیں.اور جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بند کرتے ہیں تو ان کے سینے میں اللہ تعالیٰ مزید گھٹاؤ پیدا کر دیتا ہے.ان کے لئے راستے کی مشکلات پیدا ہوتی ہیں.وہ ایسے حالات میں ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اونچی جگہ چڑھ رہا ہے.سانس پھول رہا ہے جس کی وجہ سے سینے میں تنگی محسوس ہورہی ہے.تو یہ عمل خود انسان کے ہیں جو اُسے خدا سے دُور کر کے مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں.ورنہ خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ جب بھی انسان میں ، قوموں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اپنے نبی اور رسول اور خاص بندے بھیجتا ہے کہ دنیا کی راہنمائی کر کے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں اور انبیاء اپنی جان پر ظلم کر کے یہ کام سرانجام دیتے ہیں.قوم کی دشمنیاں مول لے کر یہ کام انجام دینے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں.قوم کے جو سردار ہیں، جن کی اپنے نفس کی خواہشات ہیں، جو صرف اپنی ذاتیات کے دائرے کے اندر ہی رہنا چاہتے ہیں، وہ پھر اللہ تعالیٰ کے ان پاک بندوں کے خلاف ہوتے ہیں.اپنی دشمنیوں کو ان کے لئے انتہا تک بڑھا دیتے ہیں.لیکن یہ لوگ ان لوگوں کی دشمنیاں لے کر بھی اصلاح کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں.راستے کی کسی روک کی پرواہ نہیں کرتے.جیسا کہ میں نے بتایا محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی اے کے ای در دکود یکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فر مایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے اپنی جان کو ہلاک کرے گا کہ یہ اسلام قبول نہیں کرتے.پس جو خود گناہوں میں گرنا چاہتا ہے جو گمراہی کے راستوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا اسے پھر اللہ تعالیٰ بھلائی کے راستے نہیں دکھاتا.اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں بیان کرنے کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ پرانوں کے واقعات بیان کر دیئے یا آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد مسلمانوں میں سے اب کوئی بھٹک نہیں سکتا اور جس کے ساتھ اسلام کا لیبل لگ گیا اس کے لئے روحانی ترقی بھی لازمی ہوگئی.قرآن کریم میں ایسے بے شمار احکامات ہیں کہ اسلام لانے کے بعد بھی روحانی ترقی کے لئے عبادات، استغفار، اعمال صالحہ بجالانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حکموں کی حقیقی رنگ میں پیروی نہیں کرو گے تو سزا کے مستوجب بن جاؤ گے یا بن سکتے ہو.پھر یہ بھی واضح کر دیا کہ جس طرح پہلی قوموں میں انحطاط ہوا تم میں بھی ہوگا.لیکن کیونکہ یہ آخری شریعت ہے اور دین اسلام میں مکمل کر دیا گیا ہے اس لئے یہ وہ نور کا آخری مینار ہے جس سے آئندہ تا قیامت دنیا نے روشنی حاصل کرنی ہے.اور آنحضرت یہ وہ آخری روشنی
597 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد هفتم اور سراج منیر ہیں جن سے کامل عشق کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگ بھیجتا رہے گا جو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتے رہیں گیا ور آخرین میں وہ خاتم الخلفاء مبعوث ہو گا جو نبوت کا درجہ بھی پائے گا تا کہ اس نور کو چار سو پھیلا تا چلا جائے.اُس کام کو مکمل کرے جس کو کرنے کے لئے آنحضرت ملالہ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تھا.اور یہ ہے خدا تعالیٰ کا ہر طرف ٹور پھیلانا جو آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی صورت میں خدا تعالیٰ نے دنیا میں ظاہر فرمایا.پس یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے فرما دی اور اس کی وضاحت آنحضرت ﷺ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح کا یہ سلسلہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعثت کی وجہ ہے.اور پھر آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام صادق کی اپنے آقا اور مطاع کی پیروی میں یہی تڑپ تھی کہ دنیا سے شرک ختم ہو.غیر مذاہب کے لوگ بھی اسلام کی تعلیم کی حقیقت کو سمجھیں.اور مسلمان بھی اپنی حالتوں کو درست کر کے ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوں.یہ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت اور ہدایت سے دُوری ہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعثت سے پہلے کئی لاکھ مسلمان ہندوستان میں ہی اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے.آج بھی ہدایت کا حال دیکھ لیں.کہتے ہیں کہ ہمیں ہدایت نصیب ہے لیکن مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں.کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ کیا معصوموں کی جانیں لینا اسلام کی تعلیم ہے؟ کیا بد دیانتی اور رشوت اور لیڈروں کے ذریعہ سے عوام کے حقوق کی تلفی کوئی اسلامی تعلیم ہے؟ یقینا نہیں ہے.اور اس زمانہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے کسی فرستادہ کی ضرورت تھی جو خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق بھیجا اور جیسا کہ میں نے کہا آپ کی بھی تڑپ تھی کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کریں.جس تعلیم کو بھول گئے ہیں اسے حاصل کریں.جونو ر خدا تعالیٰ نے انہیں دیا تھا اس سے اپنے دلوں کو منور کریں.ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوتے ہوئے تمام احکامات کو بجا لانے کی کوشش کریں.شرک کا خاتمہ ہو.انسان کو خدا بنانے والوں کی ہدایت کا سامان ہو اور آپ نے اس کے لئے بڑی تڑپ سے جہاں کوشش کی لٹریچر لکھا وہاں دعائیں بھی کیں.اور اس تڑپ کو دیکھتے ہوئے آپ کو بھی خدا تعالیٰ نے الہا نا فرمایا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِين - کیا تو اس بات پر اپنے تئیں ہلاک کرے گا کہ یہ کیوں ایمان نہیں لاتے ؟ ( تذکرہ صفحہ 545 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ ہدایت کے لئے سامان مہیا فرماتا ہے.اپنے نُور سے منور کر کے اپنے خاص بندے ہمیشہ بھیجتا ہے لیکن جو ماننے سے انکاری ہوں، جن کے سینے خود انہوں نے خدا تعالیٰ کے پیغام کو سننے کے لئے تنگ کر لئے ہوں ان پر پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہے کہ ان کا سینہ پھر مزید گھٹتا چلا جاتا ہے.وہ نیکیوں سے دُور ہٹ جاتے ہیں اور بُرائیوں کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں.پس اس آیت میں یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالی صرف انہی کی مدد کرتا ہے جو اعمال
598 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم صالحہ بجالاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل اطاعت کرتے ہیں اور پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے فضل سے روحانی ترقیات کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں.اور جو ایمان نہیں لاتے وہ گناہوں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.پس یہ مسلمانوں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے اور احمدیوں کے لئے بھی فکر کا مقام ہے کہ اگر مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے تو یا درکھیں کہ اسلام کامل فرما نبرداری کا نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اکثر انسانوں کے اندر سے قوت روحانیت اور خدا ترسی کم ہوگئی ہے اور وہ آسمانی نور جس کے ذریعہ سے انسان حق اور باطل میں فرق کر سکتا ہے وہ قریباً بہت سے دلوں میں سے جاتا رہا ہے اور دنیا ایک دہریت کا رنگ پکڑتی جاتی ہے.فرمایا ” اس بات پر یہ امر گواہ ہے کہ عملی حالتیں جیسا کہ چاہئے کہ درست نہیں ہیں.سب کچھ زبان سے کہا جاتا ہے مگر عمل کے رنگ میں دکھلایا نہیں جاتا.فرمایا 'دل کی حقیقی پاکیزگی اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت اور اس کی مخلوق کی سچی ہمدردی اور حلم اور رحم اور انصاف اور فروتنی اور دوسرے تمام پاک اخلاق اور تقویٰ اور طہارت اور راستی جو ایک مذہب کی روح ہے اس کی طرف اکثر انسانوں کو توجہ نہیں“.فرماتے ہیں کہ مذہب کی اصلی غرض اُس بچے خدا کو پہچاننا ہے جس نے اس تمام عالم کو پیدا کیا ہے اور اس کی محبت میں اس مقام تک پہنچنا ہے جو غیر کی محبت کو جلا دیتا ہے اور اُس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا ہے.اور حقیقی پاکیزگی کا جامہ پہنا ہے“.لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 148-147) پس یہ اعلیٰ اخلاق، یہ تقویٰ، یہ دل کی پاکیزگی، یہ خدا تعالیٰ کی محبت اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کس طرح ہو؟ یہ میں نے بتایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے سے ہے.اس نور سے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا اس کو حاصل کرنے سے ہے اور یہ تو آنحضرت ﷺ کا اسوہ اور قرآن کریم ہے.اصل میں تو قرآن کریم کی تعلیم کی جو عملی شکل ہے یہی آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے.یہی جواب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک صحابی کے سوال کرنے پر انہیں دیا تھا.اخلاق کے بارہ میں پوچھتے ہو.تم نے قرآن کریم کھول کر نہیں پڑھا؟ ( مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 145-144 مسند عائشہ حدیث نمبر 25108 عالم الكتب بیروت لبنان 1998ء) اب اس کی طرف واپس لوقا ہوں پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی تھی کہ اللہ تعالیٰ جن کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور پھر وہ ٹور پر قائم ہوتے ہیں.وہ لوگ ان کی طرح نہیں ہو سکتے جن کے دل سخت ہو گئے ہوں.اور دل کیوں سخت ہو گئے ؟ اس کی وضاحت ہوگئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے.اس کی عبادت کی طرف توجہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے ذکر سے محروم ہیں.گویا الہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اگر دلوں کی سختی کو دور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے تو ذکر اس کی ایک اہم شرط ہے اور بہت بڑی شرط ہے.ذکر کیا ہے؟ اس کی مختلف
599 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 شکلیں ہیں.قرآن کریم کو بھی خدا تعالیٰ نے ذکر کہا ہے.جیسا کہ فرمایا انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحج : 10) یعنی ہم نے ہی اس ذکر یعنی قرآن شریف کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کے مطابق اس کی حفاظت فرمائی اور فرمارہا ہے اور یہ آج تک اپنی اصلی حالت میں ہے اور رہے گا.اس آیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعثت کی طرف بھی اشارہ ہے جس کی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے وضاحت فرمائی ہے.ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرماتے ہیں کہ ( یہ آیت) صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہو گی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسمان سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 حاشیہ صفحہ 276) اب دنیا جانتی ہے کہ اس زمانہ میں یا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کا زمانہ تھا جب عیسائیوں نے دنیا پر ایک یلغار کی ہوئی تھی یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی جیسا کہ میں نے کہا لاکھوں مسلمان عیسائی ہو گئے تھے اسلام کے خلاف ایک ایسی مہم تھی کہ افریقہ وایشیا میں بڑی تیزی سے عیسائیت پھیلانے کی کوشش ہو رہی تھی.اس وقت اسلام کے دفاع کے لئے قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کے نور سے بھر کر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو کھڑا کیا جنہوں نے اسلام کا دفاع کیا.اور وہی لوگ جو افریقہ میں بھی اور ایشیا میں بھی عیسائیت کے پھیلنے کے خواب دیکھتے تھے دفاع پر مجبور ہو گئے بلکہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے.آج بھی دیکھ لیں اسلام کے خلاف مختلف طبقوں سے ابال اٹھتا رہتا ہے.کبھی آنحضرت ﷺ کے متعلق بیہودہ گوئی کی جاتی ہے.کبھی اسلام کے بارہ میں کچھ کہا جاتا ہے.گزشتہ دنوں ایک سیاسی پارٹی نے مسجد کے میناروں کے بارہ میں سوئٹزر لینڈ میں شور اٹھایا تھا.تو گو کہ رپورٹس یہی ہیں کہ جو ریفرنڈم میں حصہ لینے والے تھے ان کی اکثریت نے میناروں کے خلاف ووٹ ڈالا لیکن جو ملکی آبادی کی اکثریت تھی وہ اس کے خلاف تھی.انہوں نے حصہ نہیں لیا.بہر حال ریفرنڈم ہوا اور میناروں کے خلاف ایک قانون پاس ہو گیا.اور حکومت بھی اور بہت سارے دوسرے سیاسی لیڈر بھی اس بات پر شرمندہ ہیں بلکہ اس پر دوبارہ بحثیں چل پڑی ہیں کہ یہ ریفرنڈم کروانا ہی نہیں چاہئے تھا.کیوں ہوا؟ اب کیا کرنا چاہئے.بہر حال اس قسم کے جو لوگ ہیں ، جو اسلام مخالف ہیں ان کی طرف سے کوششیں ہوتی رہتی ہیں.اب بھی جماعت کے مخالفین ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے مخالفین ، چاہے جتنا بھی یہ دعوی کریں کہ احمدیت کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے وہ یہ بات تسلیم کئے بغیر نہیں رہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی ذات ہی تھی جس نے اس زمانہ میں اسلام کا دفاع کیا اور مسلمانوں کو عیسائیت کی گود میں گرنے سے بچایا.اس زمانہ کے بعض علماء نے تو یہ اعلان بڑا کھل کر کیا تھا.بے شک بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی مخالفت کی وجہ سے، اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے، یہ مخالف
600 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 خطبات مسرور جلد ہفتم آپ کے دشمن ہو گئے.لیکن اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے مخالفین کے منہ سے یہ نکلوا دیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اس وقت عیسائیت کا مقابلہ کر کے انہیں دوڑایا تھا.کیونکہ اس وقت کے جو مسلمان علماء تھے ان کو قرآن اور بائبل کا علم نہ تھا جبکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی یہ علم رکھتے تھے.ٹی وی پروگرام پر بھی آچکا ہے ڈاکٹر اسرار الحق نے یہ کھل کے بات کی تھی ایک دفعہ.چاہے یہ مانیں یا نہ مانیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے علم قرآن اور خدا تعالیٰ کی آپ کے لئے تائیدات نے یہ کارنامہ آپ سے کروایا مگر حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسلام اور قرآن کی حفاظت کے لئے کھڑا کر کے دشمنوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کا ہی حصہ ہے جو آپ کو خدا تعالیٰ کے نور آنحضرت ﷺ کے نور اور قرآن کریم کے نور سے ملا کہ آپ کے علم کلام کی کوئی مثال آج کے دور میں پیش نہیں کی جاسکتی.بلکہ آپ کی تفاسیر ہی ہیں جواب ہر تفسیر پر حاوی ہیں.قرآن کریم کے ذکر ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے.اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے.حلم ہے، ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے ، غضب ہے، قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا جیسے فِي كِتَابٍ مَّكْنُون (الواقعہ: (79).یعنی صحیفہ فطرت نے کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اس طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلا وے.“ ( رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 ء صفحہ 94 طبع اول.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 2 صفحہ 770 مطبوعہ ربوہ ) یعنی یہ ذکر پڑھو قرآن کریم تو جو پاک فطرت ہیں ان کے دل کا جو نور ہے اس کو یہ نکال کر باہر رکھتا ہے ان کو یاد دلاتا ہے کہ یہ یہ احکامات ہیں، یہ تعلیم ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں، یہ بندوں کے حقوق ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں.) پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہلاکت ہے ان پر جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سخت ہیں یہ لوگ ان لوگوں کی طرح نہیں ہو سکتے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ یہ ذکر جو قرآن شریف کی صورت میں ہے اس کو اپنانے کی ضرورت ہے.پس اس کو پڑھنا بہت ضروری ہے تا کہ اس کو پڑھنے سے انسان کی ایک مومن کی نیک فطرت اس نور سے منور ہو کر مزید روشن ہو اور صرف روشن کرنا ہی مقصد نہ ہو اپنے دل کو بلکہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل ہے جو اصل میں حقیقی روشنی کا فائدہ اٹھانے والا بناتا ہے.ان احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ایک نیک فطرت انسان کے لئے ضروری ہیں.جو ایک مومن کے لئے ضروری ہیں.
601 خطبات مسرور جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں.جس سے انسان کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو جلا ملتی ہے.جس سے روحانیت میں ترقی کے راستے متعین ہوتے ہیں.اگر عمل نہیں تو صرف علمی حالت اس ذکر سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.غیر از جماعت مسلمان جو ہیں ان میں بڑے حفاظ ہیں ، بڑے مقررین بھی ہیں ہمفسرین بھی لیکن جب وہ اس پر اس طریق پر غور نہیں کر رہے جو زمانہ کے امام نے بتایا ہے تو یہ ایک ظاہری خول ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں پاسکتے.اس تعلیم کی عملی حالت اُن تمام باتوں کو اپنے اندر سمیٹتی ہے جس سے حقوق اللہ کی ادائیگی بھی ہورہی ہو اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہو رہی ہو.تبھی یہ ذکر ہے جو انسان کی زندگی میں روحانی، اخلاقی علمی اور عملی معیاروں کو بلند کرنے کا باعث بنے گا.قرآن کریم میں جو سینکڑوں احکامات پر مشتمل ہے اس کا پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے ذہنوں اور زبانوں کو تازہ رکھنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان تمام باتوں پر عمل بھی کیا جائے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.عبادت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى (طه : 15 ) کہ میرے ذکر کے لئے نماز قائم کر.پس جہاں قرآن کریم سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک مکمل ایک ذکر ہے اور اس میں سینکڑوں نصیحتیں مومنوں کو کی گئی ہیں، احکامات دیئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم رکھنے کے لئے ایک بہت بڑا حکم نماز کا قیام ہے جسے مومنین کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرماتے ہیں کہ ”نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے.کیونکہ اس میں حمد الہی ہے ، استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے ہم و غم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں.آنحضرت ﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے.اور اسی لئے فرمایا ہے الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ( سورة الرعد : آیت (29) اطمینان و سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں“.فرمایا کہ ”سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے“.(اکثر لوگ اب خطوں میں پوچھتے رہتے ہیں، کئی دفعہ میں جواب دے چکا ہوں اس لئے دوبارہ بتا تا ہوں ) آپ نے فرمایا کہ سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے ، اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو.اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہیے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے اسی لئے فرمایا ہے وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى طه : 15) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 311-310 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کے لئے سینہ کھولنے والے اور اس وجہ سے ٹور پر قائم ہونے والے کی یہ نشانی بتائی ہے وہ اس کا ذکر ہے.اس کو ہمیشہ یادرکھنا ہے.اس کی عبادت ہے، اس کے احکامات کی پابندی ہے اگر یہ نہیں تو پھر دل آہستہ آہستہ سخت ہوتے جاتے ہیں.
602 خطبات مسرور جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2009 اسلام قبول نہ کرنے والوں کے دلوں کی سختی کی بھی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کے دل خالی ہیں.پس ایک مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھے کہ لِذِکری یعنی میرے ذکر کے لئے.اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد دل میں رکھتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے.اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنا جائے.ہماری نمازیں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں اور ہم اپنی نمازوں اور قیام نماز میں اس طرح با قاعدگی اختیار کرنے والے ہوں کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کے ذکر میں حقیقی ذکر کرنے والوں کے نظارے قائم ہوتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہماری نسلوں کو بھی گمراہ ہونے سے بچائے اور ہم حقیقی نور سے حصہ پانے والے ہوں.کل انشاء اللہ قادیان کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے.آپ سب لوگ بھی دعا کریں سب اور اللہ تعالیٰ ان شاملین کو بھی توفیق دے کہ وہ نمازوں کی باقاعدگی کے ساتھ ساتھ جلسہ کی کارروائی کے دوران بھی اور سڑکوں پر چلتے پھرتے بھی اپنی زبانوں کو خدا تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھنے والے ہوں.ان دنوں میں مسیح موعود کی اس بستی کو دعاؤں سے ایسا بھر دیں کہ ہر طرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستی نظر آئے.حمد اور درود سے فضا کو اس طرح بھر دیں کہ جو ہر شامل ہونے والے کو حقیقی نور کا حامل بنا دے.اس سے حصہ لینے والا بنادے دنیا کے احمدی بھی دعا کریں کہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے بابرکت ہو اور ہر احمدی کو ہر شامل ہونے والے کو وہاں ، خدا تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے.اپنی امان اور پناہ میں رکھے اور ہر شر سے محفوظ رکھے.(الفضل انٹر نیشنل مورخہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2010 جلد 17 شمارہ 3 صفحہ 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد ہفتم انڈیکس خطبات مسرور (جلد ہفتم) (مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز ) آیات قرآنیہ صلى الله احادیث نبویہ الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 6..............10................حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و فرمودات........دیگر متفرق مضامین.اسماء....مقامات کتابیات 13.........32.........42.........49..انڈیکس
خطبات مسرور جلد ہفتم 1 انڈیکس (آیات قرآنیہ) آیات قرآنیہ (آیت کے ساتھ اس کا نمبر اور بعد میں کتاب کا صفحہ نمبر ہے ) سورة الفاتحة اياك نعبد......5 اهدنا الصراط المستقيم صراط...7-6 سورة البقرة الله لا اله الا هو..256.......254 561.495 212 269 290 539 400 | الله ولى الذين آمنوا.......258 64 الشيطان يعدكم الفقر..آمن بالله وملئكته وكتبه ورسله...245،25286 اقيموا الصلوة.....44 ولقد علمتم الذين.......66 ثم قست قلوبكم.افتؤمنون ببعض الكتاب.اشربوا في قلوبهم العجل......94 588 440 424 75 441 86 477 لا يكلف الله نفسا......287 241.25 سورة آل عمران ربنا لا تزغ قلوبنا......ان الدين عند الله الاسلام......20 117.19 595 فاتبعوني يحببكم الله....3 133،132،43، 476 ،568 الم تعلم ان الله على كل شيء قدير..107 58 اذ قال الله يعيسى.....56 ان هدى الله هو الهدى.......121 الذين اتينهم......122 76 413 85..لا نفرق بين احد.لن تنالوا البر حتى تنفقوا.......3 93 يا ايها الذين امنوا استعينوا......158-154 462 کنتم خير امة......111 فان الله شاكر حليم......159 والهكم اله واحد......164 346 203 194......304-302 335 196 590.515.422.64 ولا يحسبن الذين كفروا......179 ان في خلق السموات والارض...192-191 ان في خلق السموات والارض......165 206،202 | ربنا فاغفر لنا ذنوبنا ومن الناس من يتخذ..166.......انما حرم عليكم الميتة والدم......174 يريد الله بكم اليسر.186 واذا سألك عباد........187 هن لباس لكم وانتم لباس لهن......188 475 249 سورة النساء وان خفتم الا تقسطوا في اليتمي......4 432،412 | انما ياكلون فى بطونهم نارا.396 170 146 489 177 176 متى نصر الله......215 ان تجتنبوا كبائر ما تنهون عنه..وجئنا بك على هؤلاء شهيدا.والله اعلم باعدائكم..46 يسئلونك عن الخمر والميسر......220 248 واذا حكمتم......59 واذكروا نعمت الله.......232 420 224 230 11 236-174 32 132 42.59 586 و يريد الشيطان ان يضلهم ضلالا بعيدا..61 213 لا جناح عليكم ان طلقتم النساء.....237 228 واذا حييتم.......87 322
خطبات مسرور جلد ہفتم ومن يقتل مؤمنا متعمدا.......94 2 انڈیکس (آیات قرآنیہ) یبنی آدم لا يفتننكم الشيطان.....ولن تستطيعوا ان تعدلوا بين......130 152 225 قل امر ربي بالقسط.......30 وان يتفرقا يغن الله كلا من سعته.......131 226 لا تفتح لهم ابواب.......41 173 28.581 315 231 219 486 420 وقولهم انا قتلنا المسيح......159-158 302 ، 304 والذين امنوا وعملوا الصلحت......43 واكتب لنا في هذه الدنيا حسنة......157 سورة المائدة اليوم اكملت لكم........لا يجر منكم شنان قوم.......448، 12 واملى لهم ان كيدى متين.......184-183 قد جاء كم من الله نور.16.يا اهل الكتاب قد جاء كم......17-16 يهدى به الله من اتبع رضوان.......فاستبقوا الخيرات.......49 انما وليكم......57-56 والله يعصمك من الناس.68......139 573.562 572 105 17.419 514 رضى الله عنهم و رضوا عنه......120 سورة الانعام 547،508 | التائبون العابدون......112 422.10 واذا قرئ القرآن 205......سورة الانفال ذالك بان الله.......54 512 سورة التوبة لا تحزن ان الله معنا.......40 547.6 وصل عليهم ان صلوتك سكن......103 260 581.388 سورة يونس هو الذي جعل الشمس ضياء......6 570 قل اغير الله......15 ولكن قست قلوبهم......44 واذا جاء ك الذين يومنون.......55 543 425 422 فمن اظلم ممن افترى على الله كذبا.......368 وما تكون في شان......62 الا ان اولياء الله..قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا......20972 الذين آمنوا وكانوا.......64 لم يلبسوا ايمانهم بظلم.......83 رفع درجات.......84 124 359 لهم البشر........65 سورة يوسف لا تدركه الابصار وهو يدرك.....104 183، 301 انه لا يايئس من روح الله......88 434 527 63-65.530 534 وجعلنا له نورا.......123 فمن يرد الله ان.126......562 594 رب قد اتيتني.......102 سورة هود 553 544 فاعدلوا ولو كان ذا قربى......153 230،229 | ليس من اهلك.هذا کتاب انزلناه.......156 قل ان صلاتی و نسکی.......163 سورة الاعراف ان الشيطان لكما عدو مبين.ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا......24 فيها تحيون.......26 23 یبنی آدم قد انزلنا عليكم لباس........27 422 134 213 240 315 172 بعجل حنيذ..فعال لما يريد.47....70 108......فاستقم كما امرت........113 ورفع ابويه على العرش.124 322 553 421 186 101......سورة الرعد الله الذي رفع السموات.......له معقبات.......12 301 520.510.506
خطبات مسرور جلد ہفتم واما ما ينفع الناس فيمكث.الا بذكر الله.......29 سورة ابراهيم 3 انڈیکس (آیات قرآنیہ ) 211 18.الم تر ان الله انزل من السماء ماء......64 187 601 هو مولكم فنعم المولى......79 سورة النور 513 لئن شكرتم.8......الله نور السموات........33 سورة الحجر انا نحن نزلنا......10 انا كفيناك المستهزئين.......96 سورة النحل والانعام خلقها لكم فيها دفء.....7-6 وان تعدوا نعمت الله......19 ولو يؤاخذ الله الناس بظلمهم......62 فاذا قرأت القرآن.......99 سورة بنی اسرائیل ولا يزيد الظالمين الا خسارا.......83 ولم يكن لهم ولى......112 سورة مريم 346 563 ان الذين يحبون ان تشيع الفاحشة......20 164 الله نور السموات.......36 278 ، 279، 570،562،561 | في بيوت اذن الله ان ترفع......37 515، 599 | رجال لا تلهيهم تجارة ولا.......38 43 207 345 208 418 418 529 ليجزيهم الله احسن ما عملوا.......39 وان تطيعوه تهتدوا.......54 284 285 286 79 سورة الفرقان ان قومي اتخذوا هذا القرآن.......31 415 وتوكل على الحى الذى لا يموت........59 258 وعباد الرحمن.......69-64 والذين لا يشهدون.......77-73 450 450 سورة الشعراء لعلك باخع.......594 198 واذكر فى الكتاب ابراهيم.430 42 واذكر في الكتاب ادريس........58-57 سورة طه واقم الصلوة لذكر........15 قد خاب من افترا........62 قل رب زدنی علما.......115 وأمر اهلك بالصلوة.....133 سورة الانبياء ومن يقل منهم اني اله من دونه.......30 يخشون ربهم بالغيب........50 قال افتعبدون من دون الله ما لا.يوم لا ينفع مال ولا بنون.......90-89 سورة النمل 311 الذين تتوفهم الملائكة....29 601 34 242 545 61 236 197 67.......امن يجيب المضطر.......63 308 465 و امرت ان اكون من المسلمين.......93-92 414 وان اتلو القرآن......93 انما جعل السبت.......125 434 442 سورة القصص فاجعل لي صرحا.......39 انك لا تهدى......57 فخسفنا به و بداره 538 593 537 سورة العنكبوت والذين آمنوا وعملوا الصالحات........مثل الذين اتخذوا.......42 ومن اظلم ممن افترا.......69 144 168 536 34 82......لا اله الا انت سبحانك اني كنت.......25888 احسب الناس ان يتركوا......3،2 سورة الحج الذين اخرجوا من ديارهم..الذين ان مكنهم......42 478 41 519
خطبات مسرور جلد ہفتم انڈیکس (آیات قرآنیہ) والذين جاهدوا فينا......70 70، 372، 396 والذين يجتنبون كبائر الاثم......38 سورة الروم ظهر الفساد في البر والبحر...18842، 367،205 الارض بعد موتها.......20 سورة السجدة قل يتوفكم ملك الموت......12 تتجافى جنوبهم..17 188 308 528 سورة الاحزاب لقد كان لكم في رسول الله اسوة......42622 ولكن رسول الله........سراجا منيرا......47 41 ان الله وملائكته.......57 سورة فاطر 318 571 444 اليه يصعد الكلم الطيب..276 11 236-235 ولا تزر وازرة وزر اخرى.......19 انما يخشى الله من عباده العلموا......29 244 سورة ص کتاب انزلنه اليك.......30 420 سورة الزمر افمن شرح صدره......23....593 جزاء سيئة......41 237.175 573 499 499 495.77 166 163 13......سورة محمد يا ايها الذين آمنوا ان تنصروا......ذلك بان الله مولى الذين.......12 والذين اهتدوا.......18 سورة الفتح رحماء بينهم.30.سورة الحجرات يا ايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا.سورة ق نحن اقرب اليه.......17 سورة الذاريات فجاء بعجل سمين.......27 سورة النجم الذين يجتنبون كبائر الاثم.......33 ان ليس للانسان.......40 سورة القمر ولقد يسرنا القرآن......18 سورة الواقعة 300 322 232 372 432 فمن اظلم ممن كذب على الله......38-33 33 لا يمسه الا المطهرون.......80-78 اليس الله بکاف عبده......37 39 في كتاب مكنون......79 سورة الحديد هو معکم این ما کنتم.......5 سورة المؤمن الذين يحملون العرش ومن حوله......8 رفيع الدرجات......16 وان يك كاذباً فعليه كذبه......29 217 358 36 وقال ربكم ادعونی استجب لكم......61 65 سورة حم السجدة نحن أولياؤكم فى الحيوة الدنيا..نحن أولياؤكم في.......33-31 سورة الشورى الله لطيف بعباده......20 39 31 547 188 429 600 300 15 ان المصدقين والمصدقات 19 اعلموا انما الحيوة الدنيا لعب و لهو......21 16 سابقوا الى مغفرة من ربكم......22 سورة المجادلة ما يكون من نجوا........كتب الله لا غلبن.......22 سورة الحشر و يؤثرون على انفسهم......10 17 300 481.259 326
انڈیکس (آیات قرآنیہ) 589 491 5 سورة الماعون فويل للمصلين........5 سورة الكوثر فصل لربك وانحر......4-3 429-424 71 550-316 19 438 79 571 203 282 486 501 <47 419 418 235 42 166 18.235 434-433 خطبات مسرور جلد ہفتم لو انزلنا هذا القرآن.......22 سورة الصف هو الذي ارسل رسوله بالهدا.......10 سورة الجمعة و آخرين منهم.......4 ذالك فضل الله يوتيه من يشاء.......5 يا ايها الذين آمنوا اذا نودى.......12-10 سورة التغابن ومن يومن بالله يهد قلبه......12 نورهم يسعى........سورة التحريم سورة الملك قل ارئيتم ان اصبح ماؤكم غورا......31 سورة القلم انك لعلى خلق عظيم........فذرني ومن يكذب......46-45 سورة الحاقة ولو تقول علينا......46-45 سورة المزمل ورتل القرآن ترتيلا......5 والله يقدر الليل.......21 سورة الاعلى قد افلح من تزكي.....15 سورة الفجر فادخلي في عباد........30 سورة البلد تواصوا بالصبر وتواصوا بالمرحمة.سورة الشمس قد افلح من زكها.....10 سورة البينة رسول من الله يتلوا صحفا.......4-3
خطبات مسرور جلد ہفتم 6 انڈیکس (احادیث نبویہ ) اذا جاء رمضان.الامام جنة........احادیث نبویہ جو اس جلد میں مذکور ہیں 379 79 اللهم اغفرلی و ارحمنی و اهدنی و ارزقنی 116 اللہ تعالیٰ حیا کو پسند کرتا ہے 156 اللہ تعالیٰ کے اذن سے آنحضرت شفاعت فرمائیں گے 260 اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اللهم ارزقني حبك و حـب مـن يـنـفـعـنـى حبـه عندك اللهم انى اسئلك علما نافعا 9 195 ڈالنا بھی ثواب کا کام ہے اللہ نے تین باتوں کو پسند فرمایا....136 532 اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون 209 آنحضرت کے اخلاق قرآن کریم کے احکامات کی عملی ان الله عز و جل يحب الحياء و الستر لا نبی بعدی من صل صلوتنا.....156 500 تصویر ہیں 250 427 انسان کی رگوں میں شیطان خون کی طرح دوڑ رہا ہے 242 13 من قال لا اله الا الله وكفر بما يعبد..من قرء الأيتين من آخر سورة البقرة في ليلة كفتاه 25 من قرء بالأيتين من آخر سورة البقرة...و من لم يشكر الناس.........يا من اظهر الجميل و استر القبيح يضع الحرب 28 346 182 569.274 آپ بیویوں کی بیماری کی حالت میں تیمارداری کرتے 222 آپ سفر پر جاتے تو بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے 222 اے اللہ مجھے ہدایت دے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھ..116 اے اللہ میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں اس دل سے جو نہ ڈرے..195 اے اللہ میرے ننگ کو ڈھانپ دے اور میرے اندیشوں کو امن میں بدل دے.....، 159 ابوموسیٰ اشعری کے دولڑکوں کے لئے کام کی سفارش پر اے میرے اللہ میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت آپ نے فرمایا عہدہ کی خواہش پر ہم اسے عہدہ نہیں پاکبازی اور غٹی مانگتا ہوں دیتے 139 اے میرے اللہ مجھے اپنی محبت عطا کر.....116 196 اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے 232 ایسے بندے جو نبی اور شہید تو نہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس قوم کو بخش دے اور عقل دے 130 نبی اور شہیدان پر رشک کریں گے 533
خطبات مسرور جلد ہفتم 7 انڈیکس (احادیث نبویہ ﷺ) ایک بڑھیا کا سامان آپ نے منزل مقصود تک ایک رات تہجد میں آپ یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ 194 تیرے لیے میرے جسم و جان سجدہ میں ہیں...137 پہنچایا.135 ایک دعا میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں اور ایک رات حضور کی حضرت عائشہ کے ہاں باری تھی.سب ساعتیں اور خوشیاں تجھ سے ہی ہیں اور ہر قسم کی ان کی آنکھ کھلی تو آپ بستر پر نہ تھے...بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے اور تجھ سے ہی ہے اور ایک زمانہ میں جاہل شخص کو لوگ اپنا سردار بنائیں گے اور 558 مسائل پوچھیں گے تیرے ہی.426 325 ایک شخص کا جمعہ کے روز دوران خطبہ آکر بیٹھ جانا ایک کافر کا مہمان بنا...سات بکریوں کا دودھ پی آنحضرت ﷺ کا فرمانا پہلے دور کعت ادا کرو 447 گیا...ایک شخص نے حضرت ابن عمر سے پوچھا کہ آپ نے بندہ اس وقت تک ایمان خالص کا حقدار نہیں ہوتا 531 رسول اللہ سے راز و نیاز کے متعلق کیا سنا ہے؟ 156 بہشت میں ایک ایسا مقام ہوگا جس میں صرف میں ہوں ایک شخص نے راستے میں درخت کی ایک شاخ پڑی گا 192 131 پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اور اس امت ایک صحابی کا جنگ کے دوران دشمن کو قتل کرنا جبکہ اس نے میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے تم ایک قدم آؤ میں دو قدم بڑھوں گا کلمہ پڑھ لیا تھا...152.130 11 372 ایک صحابی نے نیا گھر بنایا.آپ نے پوچھا بتاؤ یہ کھڑکی تم سے پہلی قو میں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ جب بڑے کس لئے رکھی ہے؟ 136 20 آدمی سے قصور ہوتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا...137 تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اپنے اہل خانہ سے سلوک میں بہتر ہے......222 ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت سے پوچھا کہ جنت تمہیں اگر ایک دوسرے میں کوئی عیب نظر آتا ہے تو کئی اگر زمین و آسمان تک پھیلی ہے تو دوزخ کہاں ہے 18 باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی لگتی ہوں گی 222 گی ایک دفعہ مکہ میں سات سال تک قحط رہا لوگ چھڑے اور تمہاری امت میں سے جو شخص تم پر ایک بار عمدگی سے ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے 204 درود بھیجے گا اس کے بدلہ اللہ دس نیکیاں لکھے گا 5 ایک دفعہ ایک انصاری نے شادی کی اور اس عورت کو تمہارے دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا ہے 444 چھونے سے قبل طلاق دے دی...228 تمہارے لیے اپنے خونوں اور اموال کی حفاظت کرنا اسی ایک دیہاتی شخص آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا طرح واجب ہے جس طرح تم اس دن اور اس مہینے کی اور اسلام کے بارہ میں پوچھا....حرمت کرتے ہو 250 141
خطبات مسرور جلد ہفتم 8 انڈیکس (احادیث نبویہ ﷺ) 447 تین قسم کے لوگوں کی تین قسم کی زمینوں سے مثال 206 | جو جمعہ کے دن غسل کرے.....جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار آئے تو اس کی تکریم جو شخص سورۃ البقرۃ کی دس آیات پڑھ کر سوئے صبح تک کرو 329 اس کے گھر شیطان نہیں آتا...254 کے 340 جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولتا اور اس پر عمل جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے..جبریل ہر سال رمضان میں قرآن کی دہرائی کروا تا 412 نہیں چھوڑتا...399 جب وہ ظاہر ہو تو گھٹنوں کے بل برف کی سلوں پر چل کر جو شخص قرآن کریم خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں 14 سے نہیں 419 جانا پڑے تو جانا اور اسے میر اسلام کہنا جب یہ قیصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد قیصر نہ ہوگا 500 جو شخص محمد پر درود بھیجے گا قیامت کے روز میں اسکی جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس کا جھکاؤ صرف ایک شفاعت کروں گا طرف ہو......5 226 جو مومن اپنے بھائی کے عیب کو دیکھ کر اسکی پردہ پوشی جس نے کسی مومن عورت کی حرمت کی پردہ پوشی کی تو اللہ کرے گا تو اللہ اسے جنت میں داخل کر دے گا 161 آگ سے اسے محفوظ رکھے گا جس نے بلا وجہ جمعہ چھوڑا 160 حضرت ابو ہریرہ کا بھوکا رہنا اور آنحضرت کا دودھ کا 446 پیالہ پیش کرنا 327 جس نے تساہل کرتے ہوئے لگاتار تین جمعے چھوڑے 446 حضرت خدیجہ کی آنحضرت پر پہلی وحی کے بعد گواہی لگا 323 جس نے قرآن پڑھا اور عمل کیا قیامت کے دن اس ک...کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے 431 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ جمعہ خدا نے تمہارے لئے عید کا دن بنایا 448 ایک بکری ذبح کی...جمعہ پڑھنا فرض ہے...جمعہ کا دن دنوں کا سردار......446 حضرت عائشہ کا فرمانا اقولوا...193 501 444 حضرت عائشہ کا فرمانا قرآن کی عملی شکل آنحضرت کا جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی جو قبولیت دعا کی...445 | اسوہ ہے جمعہ کے دن نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے 446 حیاء ایمان کا حصہ ہے 598 175 جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے خبردار رہو کہ عیسی بن مریم اور میرے درمیان کوئی نبی ہو جاتے ہیں.......447 نہیں 67 جواحادیث قرآن کے تابع ہیں ان کو...436 خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ وحی حضرت عائشہ کے حجرہ جو بھی امام مہدی کو پائے میر اسلام پہنچائے 359 | میں ہوئی 223
خطبات مسرور جلد ہفتم 9 انڈیکس (احادیث نبویہ ﷺ) خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا 223 | ایک شخص کو جنت میں داخل کرنا خطبہ کے دوران جو بولے..198.194 447 دوستوں پر اللہ کے پر دے اس قدر ہیں کہ شمار سے باہر خیبر کا قلعہ فتح ہونے کے بعد کھجوروں کی بٹائی کئے جانے ہیں پر حضرت عبد اللہ کوکسی کا قتل کر دینا 139 میرا بندہ نوافل کے ذریع...399 میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں 157 514 284 سب سے افضل ایمان کا حصہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے 152 میری دونوں آنکھیں تو بے شک سو جاتی ہیں لیکن دل شیطان عمر کے سائے سے بھاگتا ہے صحابہ ستاروں کی مانند...صفائی ایمان کا حصہ ہے 11 بیدار ہوتا ہے 136 565 میرے ایک بندے نے تجھ پر احسان کیا کیا تو نے اس کا 343 شکریہ ادا کیا علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے 243 | مہدی کے لئے دونشان.کسوف وخسوف 139 مہمان کی پہلے دن خوب خاطر کرو.....عہدہ ایک امانت ہے.....قیامت کے دن اولیاء کو لایا جائے گا 351 359 324 530 نماز کی معافی کی درخواست پر فرمانا جس مذہب میں قیامت کے روز لوگ اللہ کے حضور جمعہ میں آنے کے عبادت نہیں وہ مذہب نہیں 448 292 حساب سے بیٹھے ہونگے وتر میں پڑھنے کے لئے کلمات کا سکھایا جانا 545 کبائر سے بچنے کے لئے پانچ نمازیں ایک جمعہ سے وہ شخص جس نے ایسے علم کو چھپایا جس کے ذریعے سے دوسرے جمعہ..لهم البشرى سے مرادر و یا صالحہ 384 اللہ لوگوں کے معاملات....192 534 ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کی چوٹی کا محمد پر کثرت سے درود بھیجو خاص طور پر جمعہ کے دن 444 حصہ سورة البقرة ہے.مرد اور عورت کا علیحدہ ہونا اللہ کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے..فعل ؟ 254 192 227 ہم آنحضرت کے حضور بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے 245 مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے...11 پاس ایک آدمی آیا....مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان ہمسائے کے حقوق گمان گذرا کہ ہماری جائیداد کے محفوظ رہے 13 وارث نہ ٹھہرائے جائیں 336 مسیح موعود کو سلام پہنچانے کا پیغام 518 یہ ان کا وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا تھا.441 مصر قبیلے کی بد حالی دیکھ کر ان کی خوراک اور لباس کا یہ ایک ایسی گھڑی ہے جس میں آسمانوں کے دروازے انتظام کرنا 329 مومنوں کے راستے کی تکلیف دور کرنے کے لیے اللہ کا کھولے جاتے ہیں...285
خطبات مسرور جلد ہفتم 10 انڈیکس ( الہامات حضرت مسیح موعود ) الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اس جلد میں مذکور ہیں انی معك يا ابراهيم عربی الہامات اذا عزمت فتوكل على الله الا ان اولياء الله.......142 501 انی مهين من اراد اهانتك حان ان تعان و تعرف بين الناس الذين يبايعونك انما يبايعون الله يد الله فوق | حماك الله.....ايديهم الخير كله في القرآن 142 419 فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا قل ان كنتم تحبون الله....الفتنة ههنا فاصبر كما صبر اولوا العزم 482 | قل ياخذك الله اللهم صل على محمد و ال محمد......8،7 قوة الرحمن........اليس الله بکاف عبده 266،42 267 | لعلك باخع نفسك ان شانئك هو الابتر 491 لكم البشري في الحيوة الدين انا كفيناك من المستهزئين انا كفيناك المستهزئين 43 52 268 52 268 360 482 319 268 482 597 268 مقام لا تترقى العبد فيه بسعى الاعمال 482 من قال لا اله الا الله و....426 انت منى بمنزلة روحي انك معى و اهلك انى انا الرحمان فانتظر اني رافعك الى اني معك........اني معك ذكرتك فاذكرني انى معك و مع اهلك 358 و اما ما ينفع الناس فيمكث في الارض 211 272،268 | و اتل عليهم ما اوحى اليك من ربك 265 268 265 361 268 و اصنع الفلك باعيننا و وحينا و القيت عليهم محبة منى 142 265 و بشر الذين امنوا ان لهم قدم صدق عند ربهم 268 وسع مكانك 265 268.267.266
خطبات مسرور جلد ہفتم وسع مكانك ياتون من كل فج عميق 268 وضعنا عنك وزرك..و مكروا و مكر الله.ولا تصعر لخلق الله.هو الذي ارسل رسوله بالهدى.یا احمد فاضت الرحمة.......يا عبد الرافع........ياتون من كل فج عميق ياتون من كل فج..يُصلّون عليك صلحاء العرب يلقى الروح..360.268 490 265 71 360 360 332 377 357 358 اردو الہامات بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ میں گے 127 چکی پھرے گی اور قضاء و قدر نازل ہوگی...56 خیر و نصرت و فتح انشاء اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو...سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی 268 518 ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.....میں تجھے رحمت کا ایک نشان دیتا ہوں.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک......کشوف 54 7 91 562 کشف میں نبی کریم ، حضرت عیسی ، حسنین اور فاطمہ کو دیکھنا..لوگ ایک عجمی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں..8 7 11 انڈیکس ( الہامات حضرت مسیح موعود )
خطبات مسرور جلد ہفتم 12 انڈیکس (ارشادات حضرت مسیح موعود ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات و فرمودات جو اس جلد میں مذکور ہیں آئینہ کمالات اسلام اربعین 278 | سبز اشتہار 49، 73 ، 320 | سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ازالہ اوہام 276،142، 317،314،309،308،307،305 | سراج منیر اسلامی اصول کی فلاسفی اعجاز ا صبیح البدر الحام الوصيت انجام آتھم ایام ا ع براہین احمدیہ براہین احمدیہ حصہ پنجم پیغام صلح تحفہ قیصریه تحفہ گولر و یہ 402-257-244.224 سر الخلافة 63 سرمه چشم آریہ 19 شحنه حق 87،84،34، 225 | ضرورة الامام 257 فتح اسلام 366 كتاب البریه 200 ،201 | کرامات الصادقین 283،265،210،58،8 | کشتی نوح 94 86 266 95 244 184 69 142 319.315.52 291.86.78.77 206.205.68 314،313 لیکچر سیالکوٹ 335 مجموعه اشتہارات 335 67 مکتوبات احمد 402.260 117 104.93.92 108 ملفوظات 2 ، 10 ، 34، 57،48، 87 ، 122، 123 ، «144 132 131 130-127 126 125 124 377-361-360-358-357-272-268-142 تریاق القلوب تفسیر حضرت مسیح موعود چشمه معرفت 267.72.14 600 181.176 174.167.163.160.158.157 239-238-232.225.211.199.196.195 291.277-260-256-251-249-244-240 | 301-258.169.50 حقیقة الوحی 57،27، 185 ، 368،367،256،255،247،246 حمامة البشرى خطبہ الہامیہ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء رساله ریویو آف ریلیجنزاردو 338.331-330-321-318-316.300.293 423.417.395.385.379.378.373.372 235 460.455.454-449-436 434.431.429 68 529-512-511-508.484.470.469.461 600 601.591.590.588-565-558-557-542 376
خطبات مسرور جلد ہفتم 13 دیگر متفرق مضامین انڈیکس (مضامین) الله عظ اللہ اور بندے کے لئے لفظ واسع کے استعمال سے مراد 241 256 اللہ کی ستاری پر بندے کا کام 168 حقیقی عقل اسی کو ملتی ہے جو اللہ کی طرف جھکتا ہے 180 اللہ کی صفت ستار سے فیض پانے کے لئے مومن پر عائد اللہ تعالیٰ کی رضا کی حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے 16 ذمہ داریاں 160 اللہ کے نور کو حاصل کرنے کے لئے ضروری عوامل 284 اللہ تعالیٰ کے حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرنے کا مطلب 159 اگر اللہ تعالیٰ کے انوار سے فیض حاصل کرنا ہے تو اہل بیت ہر قسم کی پیدائش خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے 177 سے محبت کرنا ضروری ہے 8 سائنس کی ترقی سے اللہ کے علم کے لا محدود ہونے کا یہ بنیادی اور اصولی بات کہ جو خدا پر افترا کرے گا وہ اللہ ثبوت کی پکڑ میں آئے گا اللہ پر افتراء کی سزا 35 48 261 اگر خواہش سچی ہو تو اللہ خود اپنی صفات کے اظہار سے بندے کی ہدایت کے سامان مہیا فرما دیتا ہے 184 خدا کی ذات ہے جس کی طرف جانے سے اچھائیوں اور دن، رات اور مختلف موسموں کا ادلنا بدلنا اللہ کا انسان پر برائیوں کا پتہ لگتا ہے 25 180 احسان ہے 177 جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہے اس کا جواب اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت، نظام جماعت کے اخباروں میں کالم نویسوں کا لکھنا کہ ہم نے خدا کو ناراض احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا کیا ہوا ہے 534 499 خدا کا جماعت کو ہر فتنہ کے بداثرات سے محفوظ رکھنا 58 نہایت ضروری ہے اللہ کا قرب پانے کے لئے اعمال صالحہ کی ضرورت 102،77 با وجود کی مسائل اور کم بجٹ کے جماعت کی ترقی خدا کا فضل 207 ہے 58 جانوروں کا پھیلانا اللہ کا احسان ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مزید احسان کس طرح کرتا ابتلاؤں میں ایک احمدی کا کردار یہ ہوتا ہے کہ خدا سے ہے اس کی وضاحت اللہ کا اپنے انبیاء سے سلوک 27 264 تعلق کو بڑھائے صفات الہیہ 463 غلبہ اور دائمی زندگی انہیں ملے گی جو تمام صفات کے جامع غلبہ اور دائی زندگی انہیں ملے گی جو تمام صفات کے جامع سائنس کی ترقی اس بات کی دلیل کہ خدا جستجو کرنے والوں اللہ کا فیضان عام خدا پر یقین رکھتے ہیں کو نئے رستے دکھاتا ہے 259 خدا پر یقین رکھتے ہیں 261 | خدا کی صفت رب کے ظہور کا وقت 259 201 62
خطبات مسرور جلد ہفتم 14 انڈیکس (مضامین) خدا کی ربوبیت کا تذکرہ 201 202 | آل انڈیا کشمیر کمیٹی صفت الکافی کا پُر معارف تذکرہ 47.24 98 اللہ کا بعض دفعہ دنیا وی ابتلاؤں اور امتحانوں کے ذریعہ صفت الہادی کا پُر معارف تذکرہ 62، 75، 105 بندے کو آزمانا صفت ستار کا پُر معارف تذکرہ صفت اللطیف کا پُر معارف تذکرہ 168.156 ابتلاء 30 182 ابتلاؤں میں ایک احمدی کا کردار یہ ہوتا ہے کہ خدا سے صفت النافع کا پُر معارف تذکرہ 191، 200 تعلق کو بڑھائے 463 صفت الواسع کا پُر معارف تذکرہ 212، 221 ، 232 ، 241 احمدی جس امتحان سے گزر رہے ہیں پاکستان میں خاص صفت رافع کا پُر معارف تذکرہ 276 ،300 ،358 طور...یہ قربانیاں ضائع جانے والی نہیں ہیں 465 475 جماعت احمدیہ پر آنے والی مختلف آزمائشیں 468-466 صفت قوی پر پر معارف خطبہ صفت متین صفت ولی 485 احمدیت پر آنے والا ابتلاء ہمیشہ ترقی کا باعث بنا497-496 547،536،527،506،495 ایمان کی تکمیل کے لئے ابتلاء اور امتحان ضروری ہیں 144 548 جانوروں کا پھیلانا اللہ کا احسان ہے 207 اللہ تعالیٰ کی صفت ولی کے بعض نظارے اور واقعات 548 احسان صحابہ آنحضرت کے واقعات صفت ولی ، صحابہ حضرت مسیح موعود کے واقعات 550 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مزید احسان کس طرح کرتا صفت النور 593.561 اللہ تعالیٰ کے نور....اور اس کی پر معارف تشریح 563 آخرت ہے اس کی وضاحت احمدیت سلسلہ احمدیہ کی غرض و غایت 27 121 یہ خدا کی قائم کردہ جماعت ہے اور اس کے نشانوں میں 146 یہ دنیا عارضی ہے ہمیشہ آخرت کی فکر کرنی چاہیئے 198 سے ایک نشان ہے تعالی رضا کی زندگی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کی حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے 16 دوسروں کو حمد بیت سے متعارف کروانے کا ایک ذریعہ 125 احمدیت آل ایک احمدی کا مقام اور ذمہ داریاں 519 محرم میں درود شریف بہت پڑھنے، امت مسلمہ کے وہ اعلیٰ معیار جن کی ہم سے توقع کی جارہی ہے 125،124 جھگڑوں کے لئے دعا اور آنحضرت کی آل سے بے مثال جماعت کی روحانی، مادی ، اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ محبت کے اظہار کی تلقین آریہ سماج آفات 10 89 امت مسلمہ کے لئے خلافت احمدیہ کا کردار ہر احمدی احمدیت کا سفیر ہے ایک احمدی کی آج کی بہت بڑی ذمہ داری 149 338 4 آج دنیا میں صرف احمدیوں کی دعا میں ہی آفات سے بچا سکتی ہیں 88 ہر احمدی کو غور کرنا چاہئے کہ اللہ نے جو بھی پیدائش کی ہے وہ ہمارے لئے اللہ کے وجود کا ایک ثبوت ہے 180 اس زمانہ میں بہت سی بلائیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں 124 لہو ولعب میں ڈوبی دنیا کے بالمقابل جماعت قرآن کی مسلمان دنیا کی ابتر اور کمزور حالت اور زمینی آفات اور تعلیم کو اپنے اندر لاگو کرنے کی کوشش پہلے سے بڑھ کر ان کا پس منظر 425 4.3
خطبات مسرور جلد ہفتم 15 انڈیکس (مضامین) آج اگر کوئی جماعت من حیث الجماعت خرچ کر رہی ہے حضرت مسیح موعود کی جماعت کو نصائح اصلاح نفس کے تو جماعت احمدیہ ہی ہے ایک احمدی کا طرہ امتیاز 16 لئے 378-380 179 ایک امریکن غیر احمدی کا کہنا کہ آپ اس لئے وفات مسیح اکنامک کرائسز کے باوجود احمدیوں کا مالی قربانی میں کے قائل ہیں تا احمد بیت زندہ رہے شاندار نمونه 16 71 چنائی میں احمدی خاتون کی قبر کشائی پر ایک لوکل ٹی وی چینل کا 271 مولویوں اور احمدیوں کو پروگرام کے لئے بلانا حضرت مسیح موعود کی جماعت کو ہمدردی کی تعلیم 176 خلیفہ وقت اور جماعت کا تعلق، خدا کی حمد اور شکر کے جماعتی نظام کے ماتحت بعض حالات میں خاموش رہنے کا حکم مگر مداہنت نہیں اختیار کرنی جذبات کا اظہار 288 348 79 بعض احمد یوں کا، رشتوں کے لئے چھ گھنٹوں میں استخارہ کرنا85 احمدی اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا جذبہ آج دنیا میں صرف احمدیوں کی دعائیں ہی آفات سے بچاسکتی ہیں 88 جماعت کی ترقی سے حسد کی آگ بھی اسی تیزی سے پھیل رہی ہے 144 خدا کا جماعت کو ہر فتنہ کے بداثرات سے محفوظ رکھنا 58 با وجود کی مسائل اور کم بجٹ کے جماعت کی ترقی خدا کا فضل یہ دور بڑا خطرناک ہے ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ ہے 166 خلیفہ ثانی کے دور میں احمدیہ مشنز 58 103 کرنی چاہئے ایک احمدی شہید کی وفات پر اس کی ماں کا نمونہ 262 آخری فتح حضرت مسیح موعود کی جماعت کی ہے 122 مولویوں کا انڈیا میں ایک احمدی خاتون کی نعش کو قبر سے جماعت کے دو دور باہر نکالنا 143.142 263 ذاتی کمزوری کی وجہ سے لوگوں کا جماعت پر انگلی اٹھانا 31 جماعت احمدیہ کی تاریخ میں الہام وَسِعُ مَكَانَكَ کا بار احمدیت کے عروج کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار پورا ہونا 266 کی پیشگوئی 127 اس وقت جماعت احمدیہ کی مساجد اور مراکز کی تعداد 14 ہر مخالفت احمدی کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتی ہے 144 ہزار 715 ہے 270 مخالف حالات میں مساجد کی تعمیر کے چند واقعات 270 مختلف لوگوں کے قبولیت احمدیت کے واقعات 109 مالی قربانی کے حوالہ سے ربوہ کے احمدی کا واقعہ کہ گوشت لیتے وقت چندہ دے دینا اور گوشت نہ کھانا 214 ایک احمدی کا فرض.اپنی حالت بہتر کرے ، امر جانی قربانی کے واقعات سے احمدیت کی تاریخ بھری پڑی بالمعروف.590 ہے 214 127 غلبہ کے حصول کے لئے ایک احمدی کی ذمہ داری 259 جماعت کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مخالفین کا حسد بعض جگہوں میں احمدیت کو بہائیت کے ساتھ ملایا جانا 59 میں بڑھنا اسلام کی روشنی پھیلانے کا کام اب صرف جماعت احمدیہ جماعت کا پھیلنا حضرت مسیح موعود کی صداقت کا نشان 37 583 پاکستانی احمدیوں پر دو بڑی اہم ذمہ داریاں 123 124 کا مقدر ہے یں یوں پر ظلم کا نیا رستہ کہ بچوں کو دہشت زدہ کیا گیا 66 احمدیوں کی اپنے ملک کے لئے قربانیاں...299
خطبات مسرور جلد ہفتم 16 انڈیکس (مضامین) رکھنے کی وجہ 106 پاکستان میں 1974ء میں اسمبلی کی کارروائی کو چھپا کر | احمدی جس امتحان سے گزر رہے ہیں پاکستان میں خاص طور.یہ قربانیاں ضائع جانے والی نہیں ہیں 465 آج کل کے جبہ پوشوں کا حلفیہ بیان دے کر احمد یوں جماعت احمدیہ پر آنے والی مختلف آزمائشیں 468-466 140 مخالفین کی خام خیالی ہے کہ مخالفت احمدیت کو ختم کرد.کے خلاف مقدمات بنوانا 466 میں احمدیت کے کینسر کو ختم کروں گا کہنے والے کا انجام 150 گی احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور بے انصافی اللہ اورمحمد کا نام بھی احمدیت پر آنے والا ابتلاء ہمیشہ ترقی کا باعث بنا497-496 مسجد یا گھر پر لکھیں تو بے حرمتی کا مرتکب ہونا 425 اب احمدیت پر اعتراض دراصل حسد کی وجہ سے ہیں 502 پاکستان میں ایک حج کا احمدیوں کو اپنے زعم میں نقصان آج خیر امت ہونے کا اعزاز حضرت مسیح موعود کی جماعت کو حاصل ہے 44 517 پہنچانا اور عجیب فیصلہ احمدیوں کو بہائیوں کے ساتھ ملانے والوں کا رڈ 38 احمدی بھی خیر امت ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے 518 احمد یوں پر ہونے والے ظلم....ہم نے اپنے معاملات 428 اس اعتراض کا جواب کہ احمدی 12 ربیع الاول کا دن خدا کے سپرد کئے ہیں احمدیت کے حق میں خدا تعالیٰ کی سکیم پاکستان اور تمام اہتمام سے کیوں نہیں مناتے ؟ 128 اسلامی ممالک میں وہ الہی تقدیر بڑی شان کے ساتھ اس سوال کا جواب کہ ہم یوم صلح موعود کیوں مناتے ہیں 104 فون میں اذان کے الارم کی طرف توجہ ظاہر ہوگی 428 احمد یوں خصوصاً پاکستانی احمدی جو جہاں بھی ہوں ملک کے لئے دعا کی تحریک 428 استخاره 440 بعض احمد یوں کا، رشتوں کے لئے چھ گھنٹوں میں استخارہ کرنا 85 استغفار کی حقیقت اور اہمیت ہم یہاں پیار و محبت کی فصلیں کاشت کرنے آئے ہیں استقامت پیار اور محبت سے دل جیتنے آئے ہیں 336 اسلام کا نام استقامت ہے اسلام 375 86 بعض عرب ممالک میں احمدیوں کو تنگ کرنے کی کوشش 369 صدر مملکت برکینا فاسو کا احمدیہ جماعت کو تمغہ امتیاز دینے اصل مقصد اسلام کا تو حید ہے 354 اسلام کی خوبصورت تعلیم اور غیروں کا اس بارہ میں غلط کا اعلان 130 335 573 دنیا کو اسلام اور مساجد کی حقیقت بتانا احمدیوں کا فرض ہے 587 تصور اور اس کی تردید احمد یوں کو خاص طور پر جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے 443 اسلام کی تعلیم کی افضلیت احمدی ان مشکلات کے دور میں فرض نمازوں اور تہجد کی ارکان اسلام کی وضاحت طرف توجہ دیں 453 اسلام کا پردہ اور حیا پر زور اس کی حکمت ایتلاؤں میں ایک احمدی کا کردار یہ ہوتا ہے کہ خدا سے اسلام کی خوبی کہ تمام رسولوں کو مانے کا حکم دیا 26 463 اسلام کا نام استقامت ہے 246 165 86 تعلق کو بڑھائے پاکستان ، عرب ممالک اور ہندوستان میں احمدیت کی مولویوں کا اسلام میں بگاڑ اور خلافت کی ضرورت کا مخالفت 464 اعلان کرنا لیکن پرانے عقائد پر قائم رہنا 63
خطبات مسرور جلد ہفتم 17 اسلام کی حقیقی تعلیم اب نظام خلافت کے ذریعہ پھیلائی افتاء جائے گی انڈیکس (مضامین) 284 یہ بنیادی اور اصولی بات کہ جو خدا پر افترا کرے گا وہ اللہ اسلام کی روشنی پھیلانے کا کام اب صرف جماعت احمدیہ کی پکڑ میں آئے گا 583 اللہ پر افتراء کی سزا کا مقدر ہے دنیا کو اسلام اور مساجد کی حقیقت بتانا احمدیوں کا فرض ہے 587 امام الزمان اسمبلی 35 48 امام الزمان وہی ہوتا ہے جسے خدا یہ درجہ دے 70 پاکستان میں 1974ء میں اسمبلی کی کارروائی کو چھپا کر امام الزمان کی تکفیر کرنے والے نام نہاد علماء کو نصیحت 429 سکھنے کی وجہ 106 اسمبلیوں کا کام نہیں کہ کسی مذہب ، عقیدے اور عبادت کے طریقوں کا فیصلہ کرتی پھرے 151 پاکستان کے ایک عالم کا جاہلانہ امر کہ کوکا کولا کی طرح اسلام بھی ہمارا ٹریڈ مارک ہے اصلاح 426......زمانہ کے امام کو اور خلافت کو مانے بغیر نیکیوں کی صحیح سمت نہیں رہ سکتی...انتخاب 289 انتخاب کے دوران بعض احباب ووٹ استعمال نہیں کرتے یہ دور بڑا خطرناک ہے ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ انٹرنیٹ 138 166 اس زمانے کی مختلف لغویات، انٹرنیٹ اور ٹی وی اور کرنی چاہئے کسی کی اصلاح کرنے کے حوالہ سے عہدیداران کو کالجوں کے گروپس..نصیحت 165-166 انجمن 458 حضرت مسیح موعود کی جماعت کو نصائح اصلاح نفس کے دوسری قدرت کوئی انجمن نہیں خلافت ہے 143 378-380 | انسان ایک دوسرے کے لئے دعاؤں سے اصلاح کے راستے انسان کا اسم اعظم استقامت ہے ھلتے ہیں اطاعت 86 187 انسان کی فطرت میں تجسس کا مادہ جس کے نتیجہ میں سائنسدانوں پر مختلف علوم کا اظہار اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت، نظام جماعت کے انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا نہایت ضروری ہے اعتراض 534 200 169 اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو نکالنا، منتقل کرنا ہر انسان کا کام ہے 222 انصار الله اب احمدیت پر اعتراض دراصل حسد کی وجہ سے ہیں 502 اس اعتراض کا جواب کہ احمدی 12 ربیع الاول کا دن انصار کھیل کود کی بجائے اپنے عہد کی طرف توجہ کریں 104 128 انصاف اہتمام سے کیوں نہیں مناتے؟ اس سوال کا جواب کہ ہم یوم مصلح موعود کیوں مناتے ہیں 104 دنیا کو انصاف کی تلقین اور عدم انصاف کی صورت میں جنگوں انگریز کے خود کاشتہ پودا ہونے کا اعتراض اور اس کا جواب 53 کی شکل میں عالمگیر تباہی کا انتباہ 12
خطبات مسرور جلد ہفتم 18 انڈیکس ( مضامین ) انفاق فی سبیل اللہ باطنی مذہب کی حقیقت مالی قربانی کے حوالہ سے ربوہ کے احمدی کا واقعہ کہ گوشت وہ میلاد جو باطنی مذہب والے مناتے ہیں لیتے وقت چندہ دے دینا اور گوشت نہ کھانا انگریز 214 بجٹ 128-129 129 با وجود کی مسائل اور کم بجٹ کے جماعت کی ترقی خدا کا فضل انگریز کے خود کاشتہ پودا ہونے کا اعتراض اور اس کا جواب 53 ہے اولاد بچے 58 اولاد کی تربیت، بنیا دی اصل دعا ہے 458 بچوں کو ان کے ہاتھ سے قربانی دلوانی چاہئے تا کہ انہیں قرآن کریم کا احترام اپنی اولاد میں اس کی اہمیت واضح عادت پڑے کرنی چاہئے اہل بیت 524 420 بچوں کو کسی نہ کسی چندے کی تحریک میں ضرور شامل کریں 20 ،22 پاکستان میں چھوٹی عمر کے بچوں کو بھیانک الزام میں اگر اللہ تعالیٰ کے انوار سے فیض حاصل کرنا ہے تو اہل بیت پکڑنا سے محبت کرنا ضروری ہے 8 ایمان 190 احمدیوں پر ظلم کا نیا رستہ کہ بچوں کو دہشت زدہ کیا گیا 66 بچپن کا زمانہ بے خبری کا ہے جو قابل مواخذہ نہیں ہوگا 251 ایمان کی مضبوطی اور اعمال پر قائم رہنے کے لئے دعا 19 بچوں کی تربیت کے بنیادی اصول اور یہ کہ بچپن سے ہی ایمان کی تکمیل کے لئے ابتلاء اور امتحان ضروری ہیں 144 لباس کی طرف بچوں کو توجہ دلائیں..460 ارکان ایمانیات کی وضاحت ایم ٹی اے 245 بدر سوم بہت ساری بدعات اور رسومات کا مسلمانوں میں راہ پالینا 17 ایم ٹی اے کے ذریعہ تبلیغ اور اس کی اہمیت 502 فضولی خرچی اور خاص طور پر شادی بیاہ میں فضول خرچی جلسہ میں کردار اور شکریہ ایم ٹی اے کی اہمیت 350 اور نصائح ایم ٹی اے نے تبلیغ کے لحاظ سے وسعت کے نئے بدظنی دروازے کھولے ہیں 455 456 497 شادی بیاہ پر فضول رسومات 272 دنیا میں برائیاں پھیلانے میں بدظنی کا سب سے بڑا ہاتھ بر ہمو سماج بلاء ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ عرب دنیا میں تبلیغ میں ہے وسعت امت مسلمہ 273 163 89 آج امت مسلمہ کے لئے ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے 187 اس زمانہ میں بہت سی بلا ئیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں 124 محرم میں درود شریف بہت پڑھنے، امت مسلمہ کے بہائیت جھگڑوں کے لئے دعا اور آنحضرت کی آل سے بے مثال بہائیوں کا اپنی تعلیم پھیلانے کا طریقہ حبت کے اظہار کی تلقین باؤنڈری کمیشن 10 59 بعض جگہوں میں احمدیت کو بہائیت کے ساتھ ملایا جانا 59 148 | احمدیوں کو بہائیوں کے ساتھ ملانے والوں کا رڈ 38
خطبات مسرور جلد ہفتم 19 انڈیکس (مضامین) بیع انسان کی فطرت میں بجس کا مادہ جس کے نتیجہ میں تجارت اور بیع میں فرق 286 سائنسدانوں پر مختلف علوم کا اظہار 200 پرده تحریکات پاکستان میں بعض احمدی بچیوں کا نہ صرف پردہ اتارنا بلکہ مریم فنڈ لباس بھی نا مناسب ہونا 173 نصرت جہاں اسلام کا پردہ اور حیا پرزور اس کی حکمت 165 تحریک جدید پرده پوستی تحریک جدید کی اہمیت اور تاریخی پس منظر 411 155 32 521 پردہ پوشی کے متعلق اسلام کا دوسرے مذاہب سے امتیاز 156 تحریک جدید میں نئے مجاہدین کو شامل کرنے کی تحریک 523 پردہ پوشی نہ کرنے کی صورت میں معاشرہ میں ہونے تحریک جدید وصیت کے ارہاص کے طور پر ہے 525 164 165 احمد یوں خصوصاً پاکستانی احمدی جو جہاں بھی ہوں ملک والے نقصانات 168 کے لئے دعا کی تحریک 428.117 اللہ کی ستاری پر بندے کا کام اللہ کی صفت ستار سے فیض پانے کے لئے مومن پر عائد پاکستان کی سالمیت کے دعا کی تحریک 494 ذمہ داریاں 160 محرم میں درود شریف بہت پڑھنے ، امت مسلمہ کے اللہ تعالیٰ کے حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرنے کا مطلب 159 جھگڑوں کے لئے دعا اور آنحضرت کی آل سے بے مثال پیر محبت کے اظہار کی تلقین پاکستان و ہندوستان میں پیروں کی قبروں پر جانے کا تربیت رواج پیشگوئی 37 اولاد کی تربیت، بنیادی اصل دعا ہے 10 458 بچوں کی تربیت کے بنیادی اصول اور یہ کہ بچپن سے ہی احمدیت کے عروج کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام لباس کی طرف بچوں کو توجہ دلائیں..460 کی پیشگوئی 127 تزکیہ نفس پیشگوئی مصلح موعود کی تفصیلات 90 تزکیہ نفس حاصل کرنے کے لئے ضروری عوامل 232 تبلیغ تبلیغ بھی ایک جہاد ہے ایم ٹی اے کے ذریعہ تبلیغ اور اس کی اہمیت 502 جلسہ سالانہ کا ایک مقصد غیر قوموں میں تبلیغ کے راستوں تعدد ازواج کی تلاش......تزکیہ نفس کے حصول کے لئے ضروری دعائیں 252 589 تزکیہ نفس کے لئے جامع دعا 29 394 تعدد ازدواج کے بارہ میں اسلامی تعلیم تفسیر نیز دیکھیں ” آیات قرآنیہ“ 224 274 عربوں میں تقریر اور تبلیغ کا خاص ملکہ تجارت نیتجارت اور بیع میں فرق تجسس نہ کرنے کی تعلیم آیت الکرسی کی تفسیر 254 286 سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات کے رات کے وقت پڑھنے کے متعلق نبی کریم کے ارشاد کی حکمت 26،25 164 حقیقی عبد سے مراد 40
تقوی خطبات مسرور جلد ہفتم 20 حج انڈیکس (مضامین) تقویٰ کا لباس ظاہری لباس کے معیار اور ایک دوسرے پاکستان میں ہائی کورٹ کے ایک حج کا احمدیوں کو اپنے کی پردہ پوشی کے معیار قائم کرتا ہے 173 زعم میں نقصان پہنچانا اور عجیب فیصلہ تکبر جلسه سالانه تکبر کی وجہ سے کوئی کام نیک نیتی کی وجہ سے نہیں کیا جاتا 185 جلسہ سالانہ کی اہمیت اور مقاصد تقویٰ میں ترقی ان جلسوں کا مقصد ہے تلاوت قرآن نیز دیکھیں قرآن 412 جلسہ کے فوائد اور مقاصد و اہمیت 44 371 273 385 رمضان اور قرآن کریم رمضان میں دومرتبہ قرآن کا دور مکمل کرنے کی کوشش کی ہماری خوش قسمتی کہ حضرت مسیح موعود نے ہماری روحانی جائے......413 ٹرینگ کے لئے جلسوں کا اجراء فرمایا 384 رمضان میں ایک یا دو دور، درس، تراویح کا اہتمام ایک جلسہ سے دوسرے جلسہ تک کے تسلسل کو قائم رکھنا کاروں میں cd لگا کر سنے کا اہتمام کرنا چاہئے 413 ہے قرآن پڑھنے کے آداب تنظیم 384 418 جلسہ کے سفر دنیاوی فائدے کا ذریعہ کبھی نہ بنائیں.خالصہ اللہ یہ آپ کا سفر ہو 344 UN اس کا فلسطینیوں کو دوائیاں اور خوراک مہیا کرنا 32 جلسہ سالانہ کا ایک مقصد غیر قوموں میں تبلیغ کے راستوں Save the Children تنظیم کا فلسطینیوں کی مدد کر نا 32 کی تلاش...ایمنسٹی انٹرنیشنل فضل عمر فاؤنڈیشن نور فاؤنڈیشن توحید 275 46 394 جلسہ سالانہ یو کے کے حوالہ سے مہمانوں اور میزبانوں کو اصولی اور عمومی ہدایات 442 جلسہ سالانہ یوکے کی مرکزی حیثیت 334 334 جلسہ سالانہ یو کے.بخیر و خوبی اختتام ، اس کے احسانوں کا تو حید اور ہستی باری تعالیٰ قرآن سے ثابت کرنا 433 تذکرہ اور جذبات تشکر، کارکنان اور دیگر.....345 توحید کے قیام کے لئے سب سے اہم کام نماز ہے 124 تہجد 351 جلسہ سالانہ یوکے.مہمانوں کے تاثرات جلسہ پر آنے والے ویزے کی مدت ختم ہونے سے بہت احمدی ان مشکلات کے دور میں فرض نمازوں اور تہجد کی پہلے واپس جانے کی کوشش کریں طرف توجہ دیں ٹی وی 453 جلسہ سالانہ جرمنی کا افتتاح 343 371 جلسہ کے موقعہ پر خیموں کے بارہ میں بعض اصولی ہدایات 349 حضور انور کا خطاب (اختتامی خطاب جلسہ یو کے ) سن کر اس زمانے کی مختلف لغویات، انٹرنیٹ اور ٹی وی اور ایک عرب خاتون کی آنکھوں میں آنسوائد آنا (بیلجئیم 458 کی ممبر پارلیمنٹ) کالجوں کے گروپس..ٹون 355 سکیورٹی کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے بارہ میں ہدایات 381 فون میں اذان کے الارم کی طرف توجہ 440 کارکنان جلسہ سالانہ کو نصیحت اور ذکر الہی اور اس بات پر جانوروں کا پھیلانا اللہ کا احسان ہے 207 | خوش ہوں کہ خدمت کی توفیق ملی 377
خطبات مسرور جلد ہفتم 21 انڈیکس (مضامین) کارکنان اور والنٹئیرز جلسہ کا شکر یہ ادا کرنا 346 جوا لنگر خانہ کے بارہ میں عمومی ہدایات کارکنان کو 340 جوا کھیلنے سے ممانعت کی وجہ ڈیوٹی دینے والوں کا اخلاص اور جذ بہ اور دو بہن بھائی جو جہاد 248 مسلسل ڈیوٹی دینے اور آرام نہ کرنے کی وجہ سے بے جہاد آج کل جو فساد اور جنگ ہے یہ جہاز نہیں ہے..ہوش ہو گئے جمعه نماز جمعہ کی اہمیت اور اہتمام 347 اور اس کی دلیل 438-440 تبلیغ بھی ایک جہاد ہے چغلی کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات اسلامی اور ہجری شمسی سال کا پہلا جمعہ.اللہ جماعت کے چغلی 1 479 589 164 لئے اسے بے شمار برکتوں کا موجب بنائے جمعہ کے دن کی حضرت مسیح موعود سے خاص مناسبت 1 چنده نیز دیکھیں انفاق فی سبیل اللہ مالی قربانی نئے سال کے پہلے جمعہ کے حوالہ سے جماعت کے ہر فرد چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے سے نئے جوش اور نئی روح کے ساتھ پاک تبدیلی پیدا کبھی یہ خیال نہ آئے کہ چندے ہم پر بوجھ ہیں 19 بچوں کو ان کے ہاتھ سے قربانی دلوانی چاہئے تا کہ انہیں 448 عادت پڑے 19 524 کرنے کی درخواست جمعوں کی اہمیت ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں احمد یوں کو خاص طور پر جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے 443 بچوں کو کسی نہ کسی چندے کی تحریک میں ضرور شامل کریں 20 ،22 جمعہ کی نماز اور مسیح موعود کو ماننے والے...440 نو مبائعین کو چندوں میں شامل کریں خواہ ٹوکن کے طور پر 19 جمعتہ الوداع..ہر معہ کا اہتمام کر کے آنا ہی حقیقی جمعتہ چھٹی الوداع ہے جھوٹ جھوٹ کے تباہ کن نقصانات جماعت اسلامی 438 واقف زندگی کی مرنے سے پہلے کوئی چھٹی نہیں (حضرت) مصلح موعودہؓ کی حضرت خلیفہ ثالث کو نصیحت ) 410 457 حسد حسد اور غیبت کے حوالے سے شیخ سعدی کے دوشاگردوں کی جماعت اسلامی کا قیام پاکستان کی مخالفت کرنا 149 حکایت 167 جماعت کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مخالفین کا حسد جنت اور دوزخ کے ایک ہی وقت میں ہونے کی میں بڑھنا وضاحت جنگ 18 127 اب احمدیت پر اعتراض دراصل حسد کی وجہ سے ہیں 502 اس زمانہ میں کوئی جنگ جو دین کے نام پر ہوگی وہ شک کی بجائے حسد کا جذ بہ ہوگا تو وہ بے برکت ہوگا 387 کامیاب نہ ہوگی 11 122 حقوق صحابہ کو حقوق اللہ کی ادائیگی سے کوئی چیز غافل نہ کرسکی 285 یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے دنیا کو انصاف کی تلقین اور عدم انصاف کی صورت میں مساجد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک نشان جنگوں کی شکل میں عالمگیر تباہی کا انتباہ 12 ہیں...اور اس کے مینارے........587
خطبات مسرور جلد ہفتم میاں بیوی کے حقوق حکایت 22 انڈیکس ( مضامین ) 136 | اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت ، نظام جماعت کے احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا ایک بادشاہ کا قرآن لکھنا اور ایک ملاں کا کہنا کہ ایک نہایت ضروری ہے آیت غلط لکھی ہے جس پر بادشاہ نے اس آیت پر دائرہ خواب بھیج دیا 534 162 کچی خواب خدا اس لئے دکھاتا ہے تا کہ انبیاء کی وحی والہام حسد اور غیبت کے حوالے سے شیخ سعدی کے دوشاگردوں کی کا کچھ ادراک ہو سکے 167 خودکش حملے حکایت 250 ایک شخص کو ملازمت نہیں مل رہی تھی تو اس کے ایک عزیز کا خود کش حملے اسلام کے نام پر ہونے والے خون کی مذمت 457 کہنا کہ ایک افسر میرا دوست ہے صبح اس کے پاس چلیں دولت 197 دنیا وی دولت کے لالچ کا انجام اچھا نہیں درود شریف 544 حکمت کی تعریف اور قرآن میں اس کا بکثرت استعمال 248 محرم کے مہینے میں درود شریف پر بہت زور دیں کیونکہ یہ حياء قبولیت دعا کا نسخہ ہے 10.4 جب معاشرہ میں سر عام برائیاں ہوں اور ان کے چرچے ہوں جمعہ کے دن ہمیں خاص طور پر درود کا اہتمام کرنا چاہئے 445 درود شریف پڑھنے کی اہمیت کے متعلق روایات 4 165 تو حیاء کے معیار ختم ہو جاتے ہیں اسلام کا پردہ اور حیا پرزور اس کی حکمت اللہ تعالیٰ کے حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرنے کا مطلب 159 درود پڑھتے وقت آل کے لفظ پر غور کی تلقین اور آل کی 165 درود شریف میں ہر قسم کے بغض اور کینہ کا رد 5 وضاحت 7.6 ختم نبوت کانفرنس ختم نبوت کانفرنس جس میں بڑے بڑے علماء شامل ہوئے اور ہمارا فرض ہے کہ درود اور دعاؤں کے ذریعہ مسلمانوں کی حضرت اقدس کے خلاف انتہائی نازیبا کلمات کا استعمال 190 مدد کریں خلافت دعا 15 253 دوسری قدرت کوئی انجمن نہیں خلافت ہے 143 جمع کے صیغہ میں دعا کرنے میں حکمت زمانہ کے امام کو اور خلافت کو مانے بغیر نیکیوں کی صحیح سمت دعا کرنے اور کروانے کے آداب اور ایک ضروری...289 نصیحت 542-543 نہیں رہ سکتی..خلیفہ وقت اور جماعت کا تعلق، خدا کی حمد اور شکر کے دعاؤں میں ایک خاص اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہے 465 جذبات کا اظہار 288 ہدایت پر قائم رہنے کے حوالہ سے آنحضرت کی دعائیں 116 احمدی اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا جذبہ 348 قبولیت دعا کے لئے خدا کی رضا کے مطابق چلنا ضروری مولویوں کا اسلام میں بگاڑ او رخلافت کی ضرورت کا ہے اعلان کرنا لیکن پرانے عقائد پر قائم رہنا 63 122 دعا اور اعمال کے نتیجہ میں جو دینی و دنیاوی ترقیات اب اسلام کی حقیقی تعلیم اب نظام خلافت کے ذریعہ پھیلائی آنحضرت کے ساتھ مقدر ہیں وہ جماعت کے ذریعہ دنیا 284 | کونئی شان سے نظر آئیں گی جائے گی 3
خطبات مسرور جلد ہفتم 23 انڈیکس ( مضامین ) ایک دوسرے کے لئے دعاؤں سے اصلاح کے راستے | رمضان میں دو مرتبہ قرآن کا دور مکمل کرنے کی کوشش کی 187 جائے......413 کھلتے ہیں کسی کا عیب اس وقت بیان کرنا چاہئے جو پہلے کم از کم 40 رمضان میں ایک یا دو دور، درس، تراویح کا اہتمام دن اس کے لئے روروکر دعا کی ہو 167 کاروں میں cd لگا کر سننے کا اہتمام کرنا چاہئے 413 عناد سے پاک ہوکر اهدنا الصراط المستقیم کی دعا ریسرچ سکالرز کرنے سے اللہ رہنمائی دیتا ہے 65 احمدی سائنسدانوں کو نصیحت.434 اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون یہ دعا اس زمانہ زمین کے لئے بھی ہے پڑھتے رہنی چاہئے 107 کائنات کے نقشے میں ہماری زمین کی کوئی حیثیت نہیں 179 اهدنا الصراط المستقیم کی دعا سے کئی غیر مسلموں زمینی اور روحانی زندگی دونوں کے لئے کا ہونا 70 ضروری ہے کارہنمائی پانا اهدنا الصراط کی دعا میں تین پہلوؤں کو مد نظر رکھنے کی سائنس تلقین 87 187 انسان کی فطرت میں تجس کا مادہ جس کے نتیجہ میں 200 اس سوال کا جواب کہ اب جو بلی کی دعائیں کیا بند کر دیں سائنسدانوں پر مختلف علوم کا اظہار کیونکہ سال تو گزرچکا ہے؟ آج دنیا میں صرف احمدیوں کی دعائیں ہی آفات سے بچا سکتی ہیں 88 ساؤنڈ کے ذریعہ جنس کے متعلق اندازہ بتانا احمد یوں خصوصاً پاکستانی احمدی جو جہاں بھی ہوں ملک سائنسدانوں پر غور کے وقت ایک ایسی کیفیت طاری ہوتی 116 | سائنس میں ترقی کے باعث ماؤں کے پیٹوں میں الٹرا 428 233 181 کے لئے دعا کی تحریک آج امت مسلمہ کے لئے ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے 187 ہے جو الہامی کیفیت ہوتی ہے سائنس کی ترقی سے 15 سو سال قبل عرب کے صحرا میں ذکر صبح و شام ذکر کس طرح کرنا چاہئے اس کی تفصیل 285 نبی کریم پرخدا کا اپنا کلام اتارکر زمین و آسمان کے گہرے وہ گھر جن کو بلند کیا جائے گا ان کی نشانیاں یہ کہ اللہ کا ذکر راز بتانا اور اس کی تسبیح وہاں ہوتی ہے ذمه داری 180 284 سائنس کی ترقی اس بات کی دلیل کہ خدا جستجو کرنے والوں کونئے رستے دکھاتا ہے 261 غلبہ کے حصول کے لئے ایک احمدی کی ذمہ داری 259 سائنس کی ترقی سے اللہ کے علم کے لا محدود ہونے کا پاکستانی احمد یوں پر دو بڑی اہم ذمہ داریاں 123 124 | ثبوت رشک احمدی سائنسدانوں کو نصیحت...261 434 رشک کی بجائے حسد کا جذبہ ہوگا تو وہ بے برکت ہوگا 387 مسلمان سائنسدانوں کو قرآن پر غور کرنے کی نصیحت 2 رمضان سبت رمضان کی اہمیت اور برکات 423 - 396 سبت کی تاریخ ، تشریح اور دیگر تفصیلات رمضان اور قرآن کریم 412 یہودیوں کا سبت کا احترام نہ کرنا 442 439
خطبات مسرور جلد ہفتم دو قسم کے لوگ جو سزا سے نہیں بچ سکتے سمندر سمندر کا فائدہ سوائن فلو ایک نئی وبا سوائن فلو سوائن فلو احتیاطی تدابیرا اور دوائی 36 203 348 224 انڈیکس (مضامین) ایک احمدی شہید کی وفات پر اس کی ماں کا نمونہ 262 جانی قربانی کے واقعات سے احمدیت کی تاریخ بھری پڑی ہے شیطان 214 زمانہ بدلنے کے ساتھ شیطان کے حملوں کا بھی بدلنا 213 شیطان کے بندوں کو دو طرح سے اللہ سے دور کرنا 212 شیطان سے حفاظت کے لئے رات کو سورۃ البقرۃ کی دس 343 آیات پڑھنا میں نے ہرگز منع نہیں کیا کہ سوائن فلو کا ٹیکہ نہ لگوائیں یہ صادق 254 افواہ سے سوائن فلو اور احتیاط سوشل الاؤنس 546 صادق کی پہچان کی علامات 381 مبر حضرت مسیح موعود کی طرف سے صبر کی تلقین 48 44 مغربی ممالک میں حکومت سے سوشل الا ونس لینے والوں صحابہ کو نصیحت سیکورٹی 193 صحابہ کو حقوق اللہ کی ادائیگی سے کوئی چیز غافل نہ کرسکی 285 140 41 صحابہ کا صدق کا معیار سکیورٹی کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے بارہ میں ہدایات 381 صحابہ کے حقیقی عباد ہونے کی گواہی سیرت النبی کے جلسوں کے متعلق جماعت کا تعامل 133 امام حسین اور صحابہ کے مقام کے متعلق حضرت مسیح موعود شادی بیاه علیہ السلام کے ارشادت فضولی خرچی اور خاص طور پر شادی بیاہ میں فضول خرچی صدقہ اور نصائح 8-11 455 کسی رنگ میں کسی کی تکلیف دور کر کے اسے فائدہ پہنچانا شادی بیاہ پر فضول رسومات شراب سے ممانعت کی وجہ نت کی وجہ شرک برائیوں کی بنیادی وجہ مخفی شرک ہے ظاہری اور مخفی شرک 456 248 163 197 صدقہ ہے صدقہ کی حقیقت منافع کے حصول کے لئے پہلی چیز صدقہ صراط مستقیم 194 125 193 شرک سے بچنے کی نصیحت اور اس کی مختلف صورتیں 456 صراط مستقیم کی وضاحت شفاعت ظالم ظلم نیز دیکھیں مخالفت / نبی کریم کی شفاعت کی حقیقت 260 دو قسم کے ظالم لوگ شهید 79 35.33 احمدیوں پر ظلم کا نیا رستہ کہ بچوں کو دہشت زدہ کیا گیا 66 شہداء کے ناموں کو زندہ رکھنا اور یہ مومنوں کی زندگی کی احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور بے انصافی اللہ ور محمد کا نام بھی 466 مسجد یا گھر پر لکھیں تو بے حرمتی کا مرتکب ہونا 425 بھی ضمانت ہے
خطبات مسرور جلد ہفتم 25 انڈیکس ( مضامین ) احمدیوں پر ہونے والے ظلم ہم نے اپنے معاملات | پاکستان، عرب ممالک اور ہندوستان میں احمدیت کی خدا کے سپرد کئے ہیں عائلی معاملات.428 مخالفت..464 ایم ٹی اے العربیة کے ذریعہ عرب دنیا میں تبلیغ میں 160 | عربوں میں تقریر اور تبلیغ کا خاص ملکہ 273 274 عائلی معاملات کے متعلق قرآن وحدیث سے تعلیم 222 وسعت عائلی معاملات میں پردہ پوشی کی نصیحت میاں بیوی کے تعلقات میں پردہ پوشی کی تلقین 170 ایک عرب خاتون کی آنکھوں میں آنسوائد آنا (بیلجئیم آنا 136 کی ممبر پارلیمنٹ) میاں بیوی کے حقوق 355 عائلی معاملات میں جھگڑوں سے بچنے کا ایک طریق 136 سائنس کی ترقی سے 15 سو سال قبل عرب کے صحرا میں قضا یا عدالت میں میاں بیوی کے جھگڑوں میں پردہ پوشی نبی کریم پر خدا کا اپنا کلام اتار کر زمین و آسمان کے گہرے 160 راز بتانا اختیار کرنے کی نصیحت میاں بیوی کے غصہ میں آنے کے حوالہ سے ایک بچی کا عرش واقعہ 171 عرش کو فرشتوں کے اٹھانے سے مراد ایک احمدی کا فرض کہ میاں بیوی کے جھگڑے کی صورت میں علم ایسا مشورہ دیں جن سے ان کے گھر جڑیں نہ کہ ٹوٹیں 172 حصول علم کے لئے اسلامی تعلیم 180 217 242-243 رشتوں کے فیصلے جذبات میں آکر نہیں کرنے چاہئیں 227 اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے متعلق نبی کریم طلاق کی صورت میں مردوں کو معاملہ نہ لٹکانے کی تلقین 227 کی تعلیم غصہ کی وجہ سے میاں بیوی اور دوسری لڑائیوں کی شکایات وہ علوم جو دین کی مدد کے لئے ہیں کا موصول ہونا 237 عیب 195 181 بعض احمدیوں کا رشتوں کے لئے چھ گھنٹوں میں استخارہ کرنا85 کسی کا عیب اس وقت بیان کرنا چاہئے جو پہلے کم از کم 40 اس سوال کا جواب جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل نہیں ملے 171 دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو عبد 40 حقیقی عبد سے مراد عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی رہنمائی 292 عبادت کی طرف توجہ کرنے سے مادی اور روحانی رزق بڑھتا ہے عبادالرحمان کی 13 خصوصیات عبادتوں میں ڈوبنا زندگی کی علامت ہے عرب 545 453-461 134 عہد 167 انصار کھیل کود کی بجائے اپنے عہد کی طرف توجہ کریں 104 عہدہ عہدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے 138 عہد یداروں میں خاص طور پر بے نفسی ہونی چاہئے 139-138 کسی کی اصلاح کرنے کے حوالہ سے عہد یداران کو نصیحت 165-166 کارکنان ، عہدیداران اور واقفین زندگی فکر سے توجہ کریں پاک بعض عرب ممالک میں احمدیوں کو تنگ کرنے کی کوشش 369 تبدیلی اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے 294
خطبات مسرور جلد ہفتم عیسائیت عیسائی عقائد کی تردید 26 26 فیصلہ انڈیکس (مضامین) 312 پاکستان میں ایک حج کا احمدیوں کو اپنے زعم میں نقصان عیسائیوں کا خدا کے تصور کو خوفناک سختی اور سزا دینے والے پہنچانا اور عجیب فیصلہ 169 | قبر 44 کے طور پر پیش کرنا کفارہ کے عقیدہ کا رد 242 ، 260 مولویوں کا انڈیا میں ایک احمدی خاتون کی نعش کو قبر سے 263 غصہ کوئی معمولی گناہ نہیں ہے باہر نکالنا 237 چنائی میں احمدی خاتون کی قبر کشائی پر ایک لوکل ٹی وی چینل کا 271 غصہ اور طیش کو خدا نے بڑے گناہوں میں رکھا ہے 175 مولویوں اور احمدیوں کو پروگرام کے لئے بلانا حقیقی مومن بننے کے لئے غصہ پر قابو رکھیں 175 پاکستان و ہندوستان میں پیروں کی قبروں پر جانے کا رواج غلبہ کے حصول کے لئے ایک احمدی کی ذمہ داری 259 قرآن غیبت کی تعریف قرآن کی علل اربع 166 ایک کامل کتاب کی صفات حسد اور غیبت کے حوالے سے شیخ سعدی کے دوشاگردوں کی قرآن کے کامل کتاب ہونے کی سند حکایت 37 255 255 255 167 احمدی قرآن کے لکھے ہوئے ایک ایک حرف پر یقین آخری فتح حضرت مسیح موعود کی جماعت کی ہے 122 فرشته رکھتے ہیں 468 122 قرآن میں اللہ کی سائنس اور پیدائش کے بارہ میں آیات سے اللہ پر ایمان میں مضبوطی آنا 180 ہر فرشتہ اپنی متعلقہ صفت کے حوالہ سے لوگوں کے لئے دعا سائنس کی ترقی سے 15 سو سال قبل عرب کے صحرا میں کرتا ہے 218 نبی کریم پر خدا کا اپنا کلام اتار کر زمین و آسمان کے گہرے فضولی خرچی اور خاص طور پر شادی بیاہ میں فضول خرچی راز بتانا اور نصائح شادی بیاہ پر فضول رسومات فطرت 455 456 180 صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں بلکہ اپنے اندر کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں جائزہ لینا ہوگا 435 انسان کی فطرت میں تجسس کا مادہ جس کے نتیجہ میں ہماری فتح قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی ہے 436 سائنسدانوں پر مختلف علوم کا اظہار انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے 200 بعض ذاتی اور معاشرتی ذمہ داریاں جن کی طرف قرآن 169 نے توجہ دلائی 451 فون میں اذان کے الارم کی طرف توجہ 440 قرآن کریم کا احترام اپنی اولاد میں اس کی اہمیت واضح کرنی چاہئے فیشن 420 فیشن اور دنیا داری کے باعث لباس کو اتنا بے حیا کرنا کہ ہم نے قرآن کریم کی حکومت اپنے پر لاگو کرنی ہے 416 175 | مسلمان سائنسدانوں کو قرآن پر غور کرنے کی نصیحت 2 ننگ نظر آتا ہے
خطبات مسرور جلد ہفتم 27 انڈیکس ( مضامین ) رمضان اور قرآن کریم 412 مالی قربانی چاہے کسی رنگ میں ہو خدا اس کی قدر کرتا ہے 15 رمضان میں دو مرتبہ قرآن کا دور مکمل کرنے کی کوشش کی مالی قربانی اور اس کی اہمیت 413 قضاء 520 رمضان میں ایک یا دو دور، درس، تراویح کا اہتمام، قضا یا عدالت میں میاں بیوی کے جھگڑوں میں پردہ پوشی کاروں میں cd لگا کر سننے کا اہتمام کرنا چاہئے 413 | اختیار کرنے کی نصیحت قرآن کی تفسیر کوئی عالم خود نہیں کر سکتا جب تک خدا کی قلب طرف سے اسلوب نہ سکھائے جائیں 417 قلب سلیم سے مراد قرآن پڑھنے کے آداب 418 قناعت 160 198 قرآنی آیت کی روشنی میں انسان پر اللہ کے چند احسانوں قناعت اور شکر گزاری کے وقت ایک مسلمان کا اللہ ہمیں کا ذکر 202 کافی ہے کہنا 282 کالج 24 قرآن شریف کی تعلیم اعتدال پر مبنی سورۃ فاتحہ میں دنیاوی اور روحانی میدان میں انفرادی اور اس زمانے کی مختلف لغویات، انٹرنیٹ اور ٹی وی اور 75-76 کالجوں کے گروپس.....اجتماعی طور پر آگے نکلنے کی دعا قرآن میں بیان انبیاء کے قصے آئندہ کے لئے کتنے پیشگوئیاں بھی ہیں 458 219 پہلی کتب خدا کی طرف سے تھیں لیکن زمانے نے ان میں قرآن کے تمام احکامات قابل عمل ہیں 250 بگاڑ پیدا کر دیا قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ قربانی 26 26 کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی اہمیت یہ اصلاح اور پاک ہونے کا ذریعہ ہیں جانی قربانی کے واقعات سے احمدیت کی تاریخ بھری پڑی کفارہ ہے 214 کفارہ کے عقیدہ کا رد احمدی جس امتحان سے گزررہے ہیں پاکستان میں خاص گناہ طور یہ قربانیاں ضائع جانے والی نہیں ہیں 465 گناہ کبیرہ سے مراد مالی قربانی مالی قربانیوں کی اہمیت.بڑے گنا ہوں سے بچنے کا مطلب 526 ہر گناہ کبیرہ بن سکتا ہے نو مبائعین کو مالی قربانی میں شامل نہیں کیا گیا جو جماعتی غصہ کوئی معمولی گناہ نہیں ہے 19 239 260.242 236 174 175 237 غصہ اور طیش کو خدا نے بڑے گناہوں میں رکھا ہے 175 نظام کی کمزوری ہے اکنا مک کرائسز کے باوجود احمدیوں کا مالی قربانی میں لال کتاب شاندار نمونه 16 کارکنان کی اصلاح اور بہتری کے لئے لال کتاب 385 بیسیوں خطوط کا آنا جن میں مالی قربانی کے بعد سکینت کا لباس ذکر ہوتا ہے 18 لباس کے تین مقاصد 170
28 انڈیکس ( مضامین ) خطبات مسرور جلد ہفتم مغرب میں لباس کی زینت کا تصور 172 | محرم میں درود شریف بہت پڑھنے ، امت مسلمہ کے فیشن اور دنیا داری کے باعث لباس کو اتنا بے حیا کرنا کہ جھگڑوں کے لئے دعا اور آنحضرت کی آل سے بے مثال 175 محبت کے اظہار کی تلقین 10 ننگ نظر آتا ہے ایک مومن اور غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار 172 اگر اللہ تعالیٰ کے انوار سے فیض حاصل کرنا ہے تو اہل بیت بہترین لباس یعنی تقوی کے لباس کو پہننے کی تلقین 173 سے محبت کرنا ضروری ہے 8 تقویٰ کا لباس ظاہری لباس کے معیار اور ایک دوسرے محرم کی پردہ پوشی کے معیار قائم کرتا ہے 173 محرم میں درود شریف بہت پڑھنے، امت مسلمہ کے بچپن سے ہی لباس کی طرف بچوں کو توجہ دلائیں..460 جھگڑوں کے لئے دعا اور آنحضرت کی آل سے بے مثال محبت کے اظہار کی تلقین لغت لفظ "کفی 24 10 محرم کے مہینہ میں پاکستان کے مختلف مولویوں پر پابندی ا کسب اور اکتساب کے استعمال میں فرق اور حکمت 251 لگنا لفظ الواسع کی حل لغت لفظ ھدی کے تین معانی لفظ رافع کے لغوی معانی حل لغت لفظ ” نفع، حل لغت لفظ لطیف 66 6 212 محرم کے حوالہ سے شیعہ اور سنی حضرات کو نصیحت 13 75 محنت 276 ہاتھ سے محنت کرنے کے بارہ میں نبی کریم کی تعلیم 193 191 مخالفت : نیز دیکھیں ظلم 182 ہر مخالفت احمدی کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتی ہے 144 جماعت کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مخالفین کا حسد اس زمانے کی مختلف لغویات، انٹرنیٹ اور ٹی وی اور میں بڑھنا کالجوں کے گروپس......لنگر خانه 127 458 بعض عرب ممالک میں احمدیوں کو تنگ کرنے کی کوشش 369 پاکستان، عرب ممالک اور ہندوستان میں احمدیت کی لنگر خانہ کے بارہ میں عمومی ہدایات کارکنان کو 340 مخالفت..مجدد 464 مخالفین کی خام خیالی ہے کہ مخالفت احمدیت کو ختم کر دے مجددین مخصوص لوگوں اور مخصوص علاقوں میں تعلیم کو گی پھیلاتے رہے مجلس احرار 284 149 یہاں پیار و محبت کی فصلیں کاشت کرنے آئے ہیں پیار اور محبت سے دل جیتنے آئے ہیں 336 مدعیان الوہیت مدعیان الوہیت کے ساتھ خدا کا سلوک مداہنت 466 61 جماعتی نظام کے ماتحت بعض حالات میں خاموش رہنے کا اللہ کی رضا حاصل کرتی ہے تو محبت، نظام جماعت کے حکم مگر مداہنت نہیں اختیار کرنی احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا مسجد نہایت ضروری ہے 534 | مساجد کی اہمیت 79 582
خطبات مسرور جلد ہفتم 20 29 انڈیکس (مضامین) احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور بے انصافی اللہ اور محمد کا نام مسلمانوں کی کمزور حالت اور ان کے وقار کی بحالی کا ایک بھی مسجد یا گھر پر لکھیں تو بے حرمتی کا مرتکب ہونا 425 ہی واحد حل اور رستہ 75 بادشاہی مسجد میں ختم نبوت کانفرنس جس میں بڑے بڑے مسلم ممالک پر غیر مسلموں کی حکومت اور اس کا سبب 277 علماء شامل ہوئے اور حضرت اقدس کے خلاف انتہائی مسلم لیگ نازیبا کلمات کا استعمال 148 190 مسلم لیگ کے خلاف عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیان 149 دنیا بھر میں مسجد میں دعوت اور کھانے پینے کے انتظام کی محمدی سلسلہ ممانعت اور پابندی 592 محمدی اور موسوی سلسلہ میں مشابہت مساجد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک نشان معاشی بحران ہیں......اور اس کے مینارے..مساجد کے مینار اور ان کی اہمیت 68 587 ساری دنیا میں آنے والا معاشی بحران Credit 584 Crunch دنیا کو اسلام اور مساجد کی حقیقت بتانا احمدیوں کا فرض ہے 587 مغربی ممالک 537 اس وقت جماعت احمدی کی مساجد در مراکز کی تعداد 14 مغربی ممالک میں حکومت سے سوشل الا ونس لینے والوں کو نصیحت ہزار 715 ہے 270 مخالف حالات میں مساجد کی تعمیر کے چند واقعات 270 | مغرب میں لباس کی زینت کا تصور مسلمان موجودہ مسلمانوں کی ابتر حالت کا تذکرہ 37 193 172 مغربی اخباروں کو اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا 11 مغربی ممالک میں سردیوں میں راتوں کے لمبا ہونے کے باعث ڈپریشن کے مریضوں کا بہت زیادہ ہونا 177 مسلمانوں کا اپنے اندرونی مسائل میں الجھنا 517 مسلمان ہونے کی اہمیت اور اس کے مقاصد 515 431 مغرب کا اسلام کو بد نام کرنا مولوی 585 مولویوں کا انڈیا میں ایک احمدی خاتون کی نعش کو قبر سے مسلمانوں کی بقا اور امت کی عزت و وقاراسی میں ہے..مسلمان دنیا کی ابتر اور کمزور حالت اور زمینی آفات اور باہر نکالنا ان کا پس منظر مسلمانوں کی عملی بدحالی 425 263 مولویوں کا اسلام میں بگاڑ او رخلافت کی ضرورت کا 417 اعلان کرنا لیکن پرانے عقائد پر قائم رہنا مسلمان اگر مسیح محمدی کی بیعت میں آجائیں تو ہر دشمن کا مومن 63 ہاتھ بے ضرر ہو جائے گا..وہ نکتہ جسے مسلمان اگر سمجھ لیں تو کبھی نفرتوں کی دیوار میں حصول کی کوشش کرے 345 حقیقی مومن کا نشان که خدا کی مغفرت اور اس کی رضا کے 9 17 ایک مومن اور غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار 172 276 کھڑی نہ ہوں وہ مسلمان جن کی شفاعت نبی کریم کریں گے 5 ایک مومن کو بلند مقام ملنے کے ذرائع مسلمان سائنسدانوں کو قرآن پر غور کرنے کی نصیحت 2 حقیقی مومن بننے کے لئے غصہ پر قابورکھیں 175 سورۃ جمعہ میں مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ دنیاوی مسائل میں مہمان نوازی نہ پڑے رہو جمعہ کی نماز کی طرف بھی توجہ کرو 1 مہمان نوازی کے آداب ، فرائض اور حقوق اور اسوہ 332-322
خطبات مسرور جلد ہفتم 30 انڈیکس (مضامین) جلسہ سالانہ یو کے کے حوالہ سے مہمانوں اور میزبانوں کو دعا کرنے اور کروانے کے آداب اور ایک ضروری اصولی اور عمومی ہدایات میلادالنبی میلادالنبی کا آغاز اور تاریخ وہ میلا د جو باطنی مذہب والے مناتے ہیں وہ میلا دجو باطنی مذہب والے مناتے ہیں 334 نصیحت احمدی سائنسدانوں کو نصیحت..542-543 434 128 | مسلمان سائنسدانوں کو قرآن پر غور کرنے کی نصیحت 2 129 محرم کے حوالہ سے شیعہ اور سنی حضرات کو نصیحت 13 حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں مولود خوانی کی حقیقت 129 واقف زندگی کی مرنے سے پہلے کوئی چھٹی نہیں (حضرت) 129 مصلح موعودہؓ کی حضرت خلیفہ ثالث کو نصیحت ) 410 نظام مساجد کے مینار اور ان کی اہمیت 584-587 نظام خلافت کی برکت، رہنمائی اور مرکزیت 288 سوئس حکومت کی بد قسمتی کہ مساجد کے مینار کی تعمیر پر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت، نظام جماعت کے پابندی....اور جماعت کا ایسے احمقانہ قانون کے خلاف احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا آواز اٹھانا 582 نہایت ضروری ہے ضروری ہے 534 نا راضگی آپس کی ناراضگیاں اور رنجشیں ختم کرنے کی ترغیب 422 دنیاوی اور دینی لحاظ سے اس کا استعمال اصل منافع وہ ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے سے ملتا ہے 192 نبوت 191 نبوت کے بارہ میں بزرگان امت کے بعض حوالے 500 دوسروں کو نفع پہنچانے کے متعلق آنحضرت کے ارہ میں بز نبی انبیاء کی آمد کا مقصد بائبل کے مطابق جھوٹا نبی مارا جائے 36 49 ارشادات نفع رساں وجود بننے کے لئے ضروری امور نماز 192 197 اللہ کی طرف سے بھیجے گئے کو مان کر اطمینان قلب پانا اور سوائے مجبوری کے ظہر و عصر جمع نہ کی جائیں 285 نیکیوں میں بڑھنا بھی اس کی سچائی کا معیار ہے 39 آج کل تجارت اور بیچ کی وجہ سے عبادات ، نماز کی طرف جھوٹے نبی کی سزا منکرین نبوت پر خدا کی طرف سے حجت جھوٹے نبی کے ساتھ اللہ کا سلوک 61 35 47-48 کچی خواب خدا اس لئے دکھاتا ہے تا کہ انبیاء کی وحی والہام کا کچھ ادراک ہو سکے نصائح نصیحت 250 زیادہ توجہ کی ضرورت ہے 286 نماز میں ستی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ کاموں میں مشغول رہنا ہے 215 نماز سے ہر ایک کا اپنی استعداد کے موافق قرب الہی حاصل کرنا حضرت مسیح موعود کی جماعت کو نصائح اصلاح نفس کے نماز کے قیام کی طرف توجہ کریں لئے 285 519 378-380 نماز قائم کریں اس سے پاک تبدیلیاں قائم ہوں گی 513 امام الزمان کی تکفیر کرنے والے نام نہاد علماء کونصیحت 429 نمازوں کے قیام کی تلقین 602
خطبات مسرور جلد ہفتم 31 انڈیکس (مضامین) احمدی ان مشکلات کے دور میں فرض نمازوں اور تہجد کی ہدایت طرف توجہ دیں نور 453 تحمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کی وضاحت 3،2 ہمدردی جس کے پاس نو ر ہو اسی کو نو ر دیا جاتا ہے 283 حضرت مسیح موعود کی جماعت کو ہمدردی کی تعلیم 176 ہمسایہ حقیقی نیکی کیا ہے اس کی وضاحت نیکی کے دو پہلو واقعة الرجيع 79 194 ہمسائے کا خیال رکھنے کی نصیحت ہوا ہوا سے فصلوں کو فائدہ پہنچنا 335-337 204 203 ایک صحابی جو شہید ہوئے ان کی لاش کی حفاظت 549 ہواؤں کو مومنوں کے لئے مسخر کرنے سے مراد 208 یتیم واقف زندگی واقف زندگی کی مرنے سے پہلے کوئی چھٹی نہیں (حضرت یتیم کے مال کے حوالے سے نصائح مصلح موعودہؓ کی حضرت خلیفہ ثالث کو نصیحت) 410 یتیم لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے تحفظ وقف جدید یوم 229 224 وقف جدید کے حوالے سے گذشتہ سال کے اعداد و شمار 20 اس اعتراض کا جواب کہ احمدی 12 ربیع الاول کا دن وقف جدید میں بچوں کو زیادہ شامل کرنے کی تلقین 20 اہتمام سے کیوں نہیں مناتے ؟ 128 ایک سیکرٹری مال کا لکھنا کہ ایک دوست کا کہنا کہ آج اس سوال کا جواب کہ ہم یوم مصلح موعود کیوں مناتے ہیں 104 وقف جدید پر خطبہ آئے گا تو گذشتہ سال سے بڑھا کر یہود پہلی رسید کٹوانا ولی اولیاء اور ان کی اقسام حقیقی ولایت عاجزی میں بڑھنا ہے ووٹ 18 531 542 انتخاب کے دوران بعض احباب ووٹ استعمال نہیں کرتے وہابی 138 ان کے نزدیک آنحضرت کا تذکرہ حرام ہے 131 132 ہائی کورٹ پاکستان میں ہائی کورٹ کے ایک حج کا احمدیوں کو اپنے زعم میں نقصان پہنچانا اور عجیب فیصلہ 44 یہودیوں کا سبت کا احترام نہ کرنا 439
خطبات مسرور جلد ہفتم 32 اسماء انڈیکس (اسماء) آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد آپ کا مقام اور نورمحمدی 278 21 آپ کی صفت مہمان نوازی اور سیرت 323 تا 329 کی جسمانی اور روحانی آل سے محبت و حبشہ کے وفد کی آنحضرت علیه خود مہمان نوازی فرمائی 325 کی اللہ نے ہرلمحہ مددکی اور نصرت فرمائی مغرب میں آنحضرت ہے کے بارے میں بے ہودہ اور اور اللہ کے کافی ہونے کے نظارے 41،40 لٹریچر کی اشاعت اور عام مسلمانوں اور احمد یہ جماعت کی ایک احمدی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرت ﷺ طرف سے ردعمل میں فرق 44 336 اللہ کی محبت تب کامل ہو گی جب رسول اللہ ﷺ بے غرض محبت ہو سے 476 کی شان میں گستاخی کرے یا نچ مواقع جب خدا نے آپ کی حفاظت فرمائی 50،49 آنحضرت ﷺ کی تائید و نصرت الہی اور ہجرت کا سفر 488 حضور علیہ کی دعاؤں سے ہدایت لانے کے واقعات 105 آنحضرت ﷺ کو استہزاء کا نشانہ بنانے والے کو اللہ ایسے غزوہ احد میں تکالیف کے باوجود مخالفین کیلئے ہدایت کی دعا 117 پکڑے گا جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے 490 دنیا داروں کا آپ پر جہاد اور تعدد ازدواج کا الزام لگانا 133 آنحضرت اللہ کی ظاہری اور باطنی حفاظت کے نظارے 507 کیا آپ کو وسیلہ بنا کر دعا کی جاسکتی ہے ؟ اس کا جواب 133 آنحضرت عل او نور تفسیر و تشریح آپ کے عدل و انصاف کی مثالیں خداتعالی میں مکمل طور پر رنگین اور خدا کی صفات کے پر تو 184 آدم ، حضرت اللہ کا نور سب سے زیادہ انبیاء کو ملتا ہے اور سب سے بڑھ آصف باسط کر حضرت محمد علی کو ملا 184 ابراہیم ، حضرت جب کبھی آپ کو بد دعا کیلئے کہا جاتا تو آپ ہدایت کیلئے ابراہیم بن محمد ) دعا کرتے 564 137 آنحضرت اللہ کے نور ہونے کی پر معارف تفسیر 573 187 ابراہیم جیا ما گڑیا.نیامی کی میئر خدا کو دنیا میں آنحضرت ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں.ابراہیم علی خان ، نواب اس لئے ہمیشہ آپ کے وسیلہ سے دعا مانگنی چاہئے 196 ابن عباس، حضرت تعدد ازدواج کے حوالہ سے مستشرقین کا آپ پر گندہ الزام ابوا حوض لگانا 223 ابوالعطاء، مولانا 444.441.213 70 322.132 500 354 53 449.447.446 116 60 547.488.5 نبی کریم علیہ سے شفیع ہونے سے مراد 260 ابوبکر صدیق ، حضرت نبی کریم ﷺ کا غار حرا میں چھپ کر عبادت کرنا مگر اللہ کا آنحضرت ﷺ کے بہترین ساتھی حضرت مسیح موعود کے نزدیک آپ کا مقام پ کو باہر نکالنا 264 7 10
خطبات مسرور جلد ہفتم 33 116 الفا ابو اسحاق ابوذر غفاری ، حضرت ابوسعید خدری ، حضرت ابو طلحہ انصاری ، حضرت 138 القرطبي 192 | الله داد انڈیکس (اسماء) 110 182 553.551 4 الہی بخش اکا ؤنٹنٹ ہمنشی.شروع میں حضرت اقدس کے ابوایوب انصاری ، حضرت سے کسی کا پوچھنا کہ آپ ظہر کی عقیدت مند لیکن بعد میں مخالف ہو کر کتاب عصائے موسیٰ سے کا پو کہ کی مند میں ہوکر نماز سے قبل چار سنتیں کیوں ادا کرتے ہیں؟ 285 تالیف کرنا ابو جہل 498،491،487،314،211 | اس کا طاعون سے مرنا ابو عبیدہ ، حضرت ابولیا به بن منذر، حضرت ابو مالک ابو موسی اشعری ، حضرت 549 اس کے بعض الہامات 444 امام دین ، مرزا 116ء426 حضرت اقدس سے دشمنی کرنا 139 ، 192 | امانی عوده ابوہریرۃ ، حضرت 324،192، 397،326 | امتیاز احمد 532،514،447،446،441،399 امتہ البصیر مہرین احمد جمال احمد نورالدین.امریکہ اخوند صاحب سوات اور لیں ، حضرت ارجن سنگھ 299 امته الجمیل بیگم صاحبہ 354 امتة الحفیظ بیگم 109 امتہ الحی 311 312 امتہ الحی، سیده 96 97 امتہ القیوم ، صاحبزادی 55.54 55 55 56.55 356 473 370 295 263 120 294 297 294 333 195 406 427 473 444 113 270 354 263 120 408-268-267.99.90 اسامہ ، حضرت 137 امتہ المؤمن صاحبہ اہلیہ مرزا نعیم احمد صاحب اسرار، ڈاکٹر کا یہ کہنا کہ عیسائیت کا مقابلہ کر کے انہیں ام سلمہ ، حضرت شکست مرزا غلام احمد قادیانی نے دی 600 امیر مینائی اسلم جہانگیری امیر ضلع ہری پور ہزارہ 155 انس بن مالک ، حضرت اسود نفسی افضال احمد، میجر 48 انور کاہلوں.نماز جنازہ اور ذکر خیر اوس بن اوس ، حضرت طالبان کے خلاف حکومت کے آپریشن میں شہادت 298 اولیک (Olek) اقبال، ڈاکٹر محمد انکی نظم شکوہ کا ذکر اقبال احمد 513،98 ایس ڈی ایم ، پولیس افسر 179 | امبارا ایلوا.برکینا فاسو 298 | بشیر احمد، چوہدری الطاف حسین لیڈر ایم کیوایم کا احمدیوں کی حمایت میں بشیر احمد سیالکوٹی ایک جرات مندانہ بیان اور.....427 | بشیر احمد ، حضرت مرزا
خطبات مسرور جلد ہفتم 34 بشیر الدین محمود، حضرت مرزا مصلح موعود 295 ، | جعد الضمری 555.507-504-405-333-296 297 جعفر احمد خان 61 جلال الدین شمس انگریز بہائی عورت کا واقعہ پیشگوئی مصلح موعود، پس منظر اور اس کے پورا ہونے کے ثبوت 91 جنید بغدادیؒ آپ کا مصلح موعود ہونے کا دعوئی آپ کے متعلق غیروں کی شہادتیں آپ کا بچپن سے بیمار رہنا آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور استعفیٰ دینا 95 | جو تیس سیزر انڈیکس (اسماء) 446 263 381.302 182 95 شمسی سال کی تاریخ اس کے زمانہ سے اور پھر عیسائیوں 97 کے زمانے سے گریگوریان کیلنڈر کے نام سے جانی جاتی 98 ہے انگلستان اور بیلجیئم کے بادشاہ کے متعلق رویاؤں کا جیون خان ساکن دھد رہا 101 | چراغ دین جمونی پورا ہونا آپ کا ایک الہام Abdicated 102 حامد علی، حضرت حافظ خدائی حفاظت کے واقعات 102 | حبیب، سید مولا نا محمد علی جوہر کا آپ کی اور جماعت کی تعریف کرنا 147 حبیب اللہ شاہ، سید آپ کا ارشاد کہ لوگوں کا کام ہے کہ تمہارے اعمال حداد عبد القادر دیکھیں لیکن تم ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرو 289 حسام قزق آپ کے زمانہ میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے حسن ، حضرت سپرد بخاری کی شرح لکھنے کا کام اور اب نور فاؤنڈیشن حسن علی مولوی کے تحت مسلم اور بخاری.....آپ کا نور کی تفسیر بیان فرمانا بشیر اول، حضرت بشیر خان بہاء اللہ نبوت کا دعویدار اس کا خدائی کا دعوی تھا 442 569 حسن نظامی، خواجہ 92 تا 95 | حسنین رضی اللہ عنہما 109 حسین، حضرت حشمت اللہ خان، حضرت ڈاکٹر 37 | حنا حمید اس کے بیٹے کا پانچ نماز میں مسجد آ کر پڑھنا 60 حوا یا سانغا تولا ثاقب زیر وی ایڈیٹر لاہور 59 حنوک (ادریس ) 110 خاتم النساء درد.نماز جنازہ کا اعلان 407 خادم حسین، چوہدری ، ناصر آبا دسندھ 549،447 | خالد ، حضرت جابر بن عبداللہ ، حضرت جان الیگزینڈر، ڈوئی جان محمد 490،353 | خالد رشید 554 | خان محمد جبیر بن مطعم ، حضرت 159 خدیجہ، حضرت 3 554 555 53 98 330 111 382 545.128 331 98.97 8 359.128 74 370 312 213 73 370 491 503 554 223
خطبات مسرور جلد ہفتم خسرو پرویز 35 50 | سعدی، شیخ 183 سعید احمد کی شہادت انڈیکس (اسماء) 167 خطاطی دانید افضال دوس، قبیلہ دوست محمد شاہد ، مولانا 299 سعید بن ابی سعید 107 سعید بن ابی برده سلافہ بنت سعد بن شہید ذکر خیر ، سیرت اور خدمات سلسلہ کا محبت بھرا تذکرہ سلطان احمد مبشر ، ڈاکٹر ڈوئی.ڈپٹی کمشنر گورداسپور ذوالفقار علی خان ،سر ذوالفقار منصور ابن منصور احمد کوئٹہ نماز جنازہ،شہادت اور ذکر خیر راجر کیلف 403 تا 410 | سلمان فارسی ، حضرت 50 سلیک غطفانی 98 سلیم احمد، رانا، کی شہادت سلیم اللہ 503 سلیمہ بیگم.جنازہ کا اعلان سمره، حضرت سویڈن کی کال مارک کاؤنٹی کے صدر 351 سمیع اللہ خان فاروقی ربیع مفلح عوده رحیم اللہ ، مولوی 357 | سهل بن معاذ 109 سیوطی عزیز احمد رئیس التبلیغ انڈونیشیا رحیم بخش رشدی نسطی ریاض احمد ریم شریقی اخلف رئیس احمد جعفری رانا زاہد محمود 52 شاہ جہاں بیگم، نواب 381 شریف احمد 473 | شریف احمد ، حضرت مرزا 356 امام شعرانی 148 شمیم اختر شیبه 45 419 192 549 410.408.405 447 447 559 275 74 448 95 431 74 52 155 333.263 500 560 487 155.153 552 560 288 |315313.52 53 156 109 355 ظالمانہ فیصلہ زبیر، حضرت زید بن ثابت ، حضرت سانو اسحاق ہائی کورٹ کے حج کا احمدیوں کے خلاف ایک عجیب شیر از باجوہ، ڈاکٹر ، کی شہادت کا واقعہ 44 شیر علی ، حضرت مولوی 548 صباح الدین 558 صدر مجلس خدام الاحمدیہ یو کے 114 | صدیق حسن خان سجا د احمد مربی سلسلہ کی شہادت 370 براہین احمدیہ کو پھاڑنا اور پیکٹ واپس کرنا سراج الحق ، میاں سرورشاہ، حضرت سید سرگئی مانا کوف، پروفیسر 504 صفوان بن محرز 120 | صلاح الدین ایم اے، ملک 352 | صَوَّاد رَزُوق.بیلجیئم
خطبات مسرور جلد ہفتم طارق باجوہ، ڈاکٹر 36 370 | عبدالرحمن، ماسٹر طاہر احمد، حضرت مرزا، خلیفتہ امسیح الرابع 155، 295، عبدالرحمن ، حضرت قادیانی 522.497.474.382.296 عبدالرحمن صدیقی ، ڈاکٹر طاہرہ مریم طفیل بن عمرو 275 | عبدالرحیم، حضرت قاضی عبدالرحیم درد، حضرت مولانا اس کے اور اس کی قوم کے ایمان لانے کا واقعہ 105 106 عبدالرحیم فنجان طلحہ بن عبید اللہ ، حضرت ط اقزق 326 عبدالرشید، مرزا، نائب صدر انصار الله لندن عبدالرؤف ابراہیم قزق ان کی قبولیت احمدیت اور ذکر خیر 382،381 عبدالسلام، ڈاکٹر طیب احمد ، حافظ ظاہر احمد انڈیکس (اسماء) 556 560 74 555 148 112 370 357 437 انہوں نے قرآن کے علم کی روشنی میں اپنی ریسرچ کی تھی 2 295 296 ڈاکٹر عبدالسلام کے مطابق قرآن میں سات سو کے ظفر اللہ خان ، حضرت چوہدری 473،101 | قریب آیات سائنس سے متعلق ہیں 2 باؤنڈری کمیشن کے سامنے دلائل کے متعلق جسٹس منیر کا آپ کا نظریہ بھی توحید اور قرآن کی صداقت ثابت کرتا ہے 434 خراج تحسین ظفر علی خان ، مولوی ، چوہدری ظہور احمد مربی سلسلہ عاصم بن ثابت ، حضرت عاصم بن عمرو عامر بن طفیل 148 97 120 549 488 عبدالعزیز ، چوہدری عبد العزیز صلاح عبدالکریم ، حضرت مولوی عبدالکریم بٹالوی ، حضرت منشی عبد الله اس کا آنحضرت علی کوقتل کرنے کی ناکام سازش 507 عبد اللہ انتم عائشہ حضرت 223،193، 250 عبد اللہ خان، چوہدری ایک کتاب میں آپ کے حوالے سے گند اچھالنے کی عبداللہ بن زبیر، حضرت مذموم کوشش عباس احمد عباس احمد خان ، نواب عبد الباسط ، امیر انڈونیشیا عبد البہاء 135 عبد اللہ سنوری ، حضرت 503 عبد اللہ بن سہیل ، حضرت 263 عبد اللہ بن عمر، حضرت 74 عبد اللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ قداح بہائیوں کی تعداد کے متعلق اس کا موقف 60 میلادالنبی کا آغاز کرنے والا 51 عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت 330 عبداللہ بن یزید انصاری ، حضرت عبدالحمید عبد الحق منشی عبدالرحمن ، حضرت مولوی 214 عبد اللطیف، سید ، صاحبزادہ حضرت 299 113 331.108 503 116 490.361 553 548 331.267.90 140.139 161.159.156 195 128 448 196 214.143
خطبات مسرور جلد ہفتم عبداللطیف، گیانی عبد الماجد دریا آبادی عبدالمجید سالک عبدالمنان صدیقی ، ڈاکٹر عبد المومن عبد الواحد سماٹری ، مولانا عبد الواحد، مبلغ جزائر فیجی عبد ولائی شیخ.سیرالیون عبید بن ثبات ، حضرت عبیر رضاعلمی عقبه عثمان ، حضرت عزت الله عزیز احمد ، حضرت مرزا عزیز اللہ شاہ سید عصمت ، صاحبزادی 37 560 | عمرو بن الجموح 100 عمرو بن عاص ، حضرت 147،98 عنایت اللہ طارق، چوہدری 74 عیسی علیہ السلام، حضرت انڈیکس (اسماء) 531 491 370 311 70 آپ کے مزاج کے موافق انجیل کی تعلیم حلم اور رمی پرمشتمل 282 ایک امریکن غیر احمدی کا کہنا کہ آپ اس لئے وفات مسیح 109 کے قائل ہیں تا احمدیت زندہ رہے 354 وفات مسیح کے دلائل اور اس کی اہمیت 448 71 321.310302.300 321 311 وفات مسیح اور لفظ رفع پر تفصیلی بحث 487 غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت مرزا 10 113 | بعثت کے مقاصد 585.441.440 1 333 آپ کی دین کے نام پر جنگ نہ کرنے کی ہدایت 11 155 آپ کا اللہ پر توکل 92 مخالف رشتہ داروں سے حسن سلوک عطاء الرحمن ، ڈاکٹر 2003 میں انہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مہمان نوازی 57 56 3320329 آپ بدرجہ اولی آنحضرت ﷺ کی آل میں شمار ہوتے طرف سے of the yearman کا ایوارڈ دیا گیا.آپ ہیں کی وفات اور جنازے کا اعلان 275 13 10 آپ کی نظر میں حضرت امام حسین کا مقام عطاء الکریم نون ، رانا ، ملتان کی شہادت 369 نبی کریم ﷺ سے عشق کی وجہ سے آپ کا خدا کو انتہائی عطاء اللہ شاہ بخاری 149 پیارا بننا عطاءالمجیب راشد، امام ببيت الفضل 70 آپ کا ہندوستان میں عیسائیوں کے قدم روکنا عطر دین ، ڈاکٹر عفیفہ، جنازے کا اعلان علقمہ علی، حضرت علی زین العابدین، امام علی قاری ، ملا عمر، حضرت 551،550 آپ کا دو امور کے ساتھ بھیجا جانا 74 آپ کو جری اللہ کا خطاب ملنے کی وجہ بچپن سے ہی اسلام کی خدمت کا جذبہ 491 448 129 128.116.8 359 47 63 72 89 89 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد ہماری بہت بڑی ذمہ داری 174 اسلام کے غلبہ کیلئے پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنا 264 500 والد ماجد کے پوچھنے پر فرمانا کہ میں تو احکم الحاکمین کا نوکر 533،500،449،245،10 | ہو چکا ہوں 266
خطبات مسرور جلد ہفتم 38 انڈیکس (اسماء) آپ کے خاتم الخلفاء کہلائے جانے کی وجہ 284 | دشمنوں کے بالمقابل اللہ کے کافی کونے کے واقعات 42 اپنی جماعت کو نصائح 288 والد ماجد کی وفات کے وقت خدا کا الہاما تسلی دینا 266 مسیح موعود کی بعثت کا مقصد قرآنی تعلیم کو دنیا میں لاگو کرنا ہے 541 تبلیغ کیلئے ہمیں ہزار کی تعداد میں اشتہار شائع کرنا 90 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صفت نور 567،566 کتب حضرت اقدس کا مطالعہ اس زمانہ میں اصلاح اور زمانے کی اصلاح کی ضرورت کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ تزکیہ کے حصول کا اہم ذریعہ ہے السلام کی بعثت عشق رسول علم 239 597 مطالعہ کتب کے حوالہ سے جرمنی کی ایک خاتون کا واقعہ 239 278، 265 حضرت مسیح موعود کے کلام کی خوبصورتی اور حسن کا بیان 376 آنحضرت کی غلامی سے اللہ سے آپ کا وجو دل گیا 185 احمدی یا د رکھیں کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود کی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اللہ نے فساد کتب میں حق و باطل کے معرکے میں دلائل و براہین سے کے وقت آپ کے عاشق صادق کو بھیجا 198 دشمن کا منہ بند کرنے والی ہیں انچ نازک مواقع میں خدا تعالیٰ نے آپ کی حفاظت آپ کی کتب کی اہمیت فرمائی 309 310.309 50 کتب حضرت مسیح موعود ہر گھر میں ہونی چاہئے ، خریدیں، مقدمہ مارٹن کلارک میں اللہ کا آپ کی بریت کا اظہار پڑھیں...کرنا.اس کی تفصیل مقدمہ دیوار میں کامیابی آپ کی دعاؤں کی کیفیت 310 51 آپ کو تفسیر قرآن کے اسلوب خدا نے سکھائے 417 56 آپ کی خوش الحان حافظ سے قرآن سننے کی خواہش 132 108 آپ کی بعثت سے مخالفین کا دنیا وی دائدہ اٹھانا 188 حضرت اقدس کی ایک دعا اے رب العالمین تیرے مخالفت کے باعث آپ کا قادیان سے ہجرت کا ارادہ 265 احسانوں میں 160 نام نہاد علماء کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا ئیں.اے میرے محسن نزول کا انکار کرنا اور خدا 159 آپ کی صداقت کی دلیل 27.26 34 37 47 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شرک کے خاتمہ اور انسان آپ پر مفتری ہونے کے الزام کارڈ کی ہدایت کی تڑپ اور دعائیں 597 صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو بیماری میں الہا ما سبحان اللہ کی دعا سکھایا جانا 14 انگریز کے خود کاشتہ پودا ہونے کے الزام کا جواب 53 ہوشیار پور میں چلہ کشی اور پیشگوئی مصلح موعود 91 | اب حضرت اقدس کے علاوہ کوئی اور مسیح نہیں خواہ مخالفین آپ کی تائید میں خدائی نشانات 361 تا 368 دعا کرتے ہوئے اپنی ناکیں رگڑتے رہیں 66،65 الہام وَسِعُ مَكَانَكَ کے پورا ہونے کے نظارے 266 غیر احمدیوں کے اس سوال کا جواب کہ اگر مرزا صاحب کو سورج اور چاند کے مہینوں یا سالوں کے جمعہ کے ایک نبی نہ کہو تو پھر ہم مان لیتے ہیں بابرکت دن میں جمع ہونا مسیح محمدی کیلئے ایک نشان ہے 3 آپ کی جسمانی نسل کے ساری دنیا میں پھیلنے کی پیشگوئی حضور کی دعا سے نواب صدیق حسن خان کی عزت کا کا پورا ہونا چاک ہونا اور پھر دعا کے ذریعہ ہی عزت کا بحال ہونا 53 نبی کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی بعثت 142 66 93
خطبات مسرور جلد ہفتم 39 آپ کا پیدا کردہ انقلاب اور پورپ میں اس کا نمونہ 145 | فضل اللہ طارق آپ کی صداقت کیلئے قہری نشانوں کا ظہور 219 فضل الحى آپ کی نبوت کے بارے میں وضاحت ، بعض ناواقف فیضی احمدیوں کا اس پر خاموش رہنا آپ کی اہانت کا بدلہ اور انتقام 319 | قارون 556 قاسم دال اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے ہمیشہ قرطبی، علامہ غیرت دکھائی ہے اور آج بھی دکھاتا ہے 558 کمال یوسف الہام وسع مکانک کی تعمیل کیلئے امرتسر سے چھپر کا سامان کرم الدین منگوانا 267 گنگس کزاکمتولی، قازقستان اگر آج کسی کو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا دعویٰ ہے لوط تو مسیح موعود سے تعلق جوڑنا نہایت ضروری ہے 568 لوئی نحوی، سیریا عیسائیت کے فروغ کی کوشش اور اسلام کے دفاع میں لئیق احمد طارق، میاں کی شہادت کا واقعہ 599 لیاقت علی خان آپ کی کامیاب مہم اسرار، ڈاکٹر کا یہ کہنا کہ عیسائیت کا مقابلہ کر کے انہیں لیکھرام شکست مرزا غلام احمد قادیانی نے دی مرزا غلام دستگیر، ڈاکٹر غلام رسول، میاں کا نماز جنازہ اور ذکر خیر انڈیکس (اسماء) |370 262 210 537 115 182 120 50 352 323.100.99 370 262 148 490.92.55.54.50 93 102 51 326 263 426 118 404 437 |343 600 پیشگوئی مصلح موعود کے بالمقابل اس کی پیشگوئی لیوپولڈ، شاہ بیلجیئم مارٹن کلارک ، ڈاکٹر 299 564 غلام رسول را جیلی ، حضرت 554،551،542 553 مالک بن ابی عامر غلام قادر اٹھوال ، چوہدری م مصطفیٰ.A.S.I کی شہادت کا واقعہ اغلام فاطمہ ، حضرت 45 262 128 مبارکہ بیگم اہلیہ چوہدری بشیر احمد مبشر لقمان کشف میں ان کی ران پر حضرت اقدس کا اپنا سر رکھنا اور مبشر احمد کی شہادت اور جنازہ کا اعلان مولویوں کا اعتراض فاطمه 14.8 مبشر ایاز مجید سیالکوٹی چوری کرنے پر آنحضرت ﷺ کا ہاتھ کاٹنے کی سزا دینا 137 مجید شاہنواز 128 | محمد آصف فاطمی فتح محمد سیال، چوہدری 295 محمد احمد اشرف فرعون 489، 538،537 محمد اسلم خدائی کا دعوی 62 محمد اسلم ، مرزا 299 73 411 74 فضل احمد، چوہدری کی وفات اور جنازے کا اعلان 275 محمد اسماعیل، حکیم فضل الرحمن 190 | محمد افضل، حکیم 552 472
خطبات مسرور جلد ہفتم محمد اکرم ، مرزا 40 40 74 | محمود احمد اشرف محمد اعظم طاہر.اوچ شریف کی شہادت 472 محمود احمد، چوہدری، چیمہ کا ذکر خیر محمد الشواء.شام کے مخلص دوست کا ذکر خیر 503 | محمود خان، رئیس چھتاری محمد اولیس السعودی محمد بید وصاحب.غانا محمد حسین بٹالوی 504 | محمود احمد درویش قادیان کے جنازہ کا اعلان 474 محمود عاصم محمود ملک کرسی طلب کرنے کا واقعہ 52،51،43 محی الدین ابن عربی محمد حسین جہلمی محمد حسین کپور تھلوی محمد حسین.لاس اینجلس محمد خان ایڈووکیٹ، را نا امیر بہاولنگر محمد دین، میاں محمد شریف ، حکیم محمد شفیع اشرف 552 560 سید مختار احمد شاہجہان پوری، حضرت حافظ 370 مدارالمہام جونا گڑھ Jauredui Marielov 47 انڈیکس (اسماء) 73 333 53 119 151 404 500 140.139 406 53 112 505 | مسرور احمد ، مرزا، حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 267 فلسطینیوں اور مسلمانوں کو دفاع اور مدد کے حوالے سے 73 اللہ سے دعاؤں کے ذریعہ مدد کی تلقین 11 محمد طارق اسلام، مبلغ سلسلہ کینیڈا کا ذکر خیر 436 بینین کے صدر سے ملاقات کے دوران اس کا اپنے ملک محمد عارف بشیر محمد عبد اللہ شیخ ، شیر کشمیر محمد علی جناح ( قائد اعظم ) 411 میں انویسٹمنٹ کے بارے میں پوچھنا 58 98 افریقہ اور ہندوستان میں جہاں جہاں دورے کئے وہاں 148 | مخالفت بڑھی اور تبلیغ کے نئے راستے کھلے 271 ان کا مایوس ہو کر ہندوستان چھوڑ جانا اور امام صاحب آپ کے اور الطاف حسین کی لندن میں میٹنگ کا شعشہ 427 بیت الفضل لنڈن کا واپسی پر آمادہ کرنا 148،147 مسعود خورشید | دستور ساز اسمبلی میں پاکستان سے متعلق آپ کے فرمودات 51 مسیلمہ کذاب محمد علی جوہر، مولانا مصری شاہ مسلمانوں کی بہبود کیلئے جماعت کی تعریف کرنا 147 مظفر احمد ، مرزا 298 48 551 محمد قاسم ،مولوی 109 مظفر احمد خالد محمد محسن 299 | مظفر احمد منصور مبلغ سلسلہ میاں محمد مراد حافظ آبادی 405 مظہر علی اظہر محمد ملص 504 ممتاز بیگم محمد نصر اللہ، راجا محمد یعقوب محمود احمد 298.297 295.294 504 505 97 148،147 وفات پر مولویوں کا قبر کشائی کرنا اور اس کی وجہ 271،263 552 مریش 148 118 | منصورہ وہاب بنت عبدالوہاب آدم غانا کی نماز جنازہ 474
خطبات مسرور جلد ہفتم منیر ،جسٹس منیر احمد چوہدری ، مبلغ منیر حامد 41 انڈیکس (اسماء) 148 ،150 | نورالدین حضرت حکیم،مولوی 551،294،96،95 263 خلافت کے مسئلے پر آپ کا واضح الفاظ میں اصلاح کرنا 143 غائبانہ مالی مدد جنازے کا اعلان امریکہ کے پہلے نیشنل قائد خدام نورین شہزاد، ڈاکٹر، کی شہادت کا واقعہ 118 119 نیاز فتح پوری الاحمدیہ منیره یوسف ،سیدہ، کے جنازے کا اعلان 120 ویرا ابوبکر مودودی موسیٰ علیہ السلام ، حضرت 555 155.153 99 150 آئیوری کوسٹ میں ان کے احمدیت قبول کرنے کا واقعہ 272 | 219، 443 | وليد آپ کے مزاج کے موافق تو ریت کا جلالی رنگ میں نزول 282 ہالہ محمد الجوہری 491 سیدہ مہر آیا، حضرت مهر علی شیخ نا صراحمد، مرزا، حضرت خلیفتہ امسح الثالث ناصر البانی 155 ہدایت اللہ، میاں 211،90 یعقوب علیہ السلام، حضرت یعقوب احمد 522،296،295،406 یعقوب علی عرفانی ، حضرت شیخ یعلی بن امیہ اس کا کہنا کہ عیسائیوں کے منہ بند کرنے کیلئے کہہ سکتے یوسف علیہ السلام، حضرت ہیں کہ عیسی فوت ہو چکے ہیں ناصر نواب، حضرت میر ناصره بیگم، سیده نثار احمد نجاشی ، شاہ ندیم احمد خالد، رانا نذیر احمد علی ، مولانا نسیم بیگم اہلیہ بشیر احمد نصرت جہاں ،سیدہ ، حضرت اماں جان نصیر احمد عارف نظام دین ، مرزا حضرت اقدس سے دشمنی کرنا نواب خان، چوہدری نوح علیہ السلام، حضرت 503 | آپ کی مہربانیاں اور احسان 97 یوسیفس - مؤرخ 155 263 325 46 110 411 294 120 56.55 551 272 111 330 186 262 331.108 156 544 186 442
خطبات مسرور جلد ہفتم 42 مقامات انڈیکس ( مقامات) آئس لینڈ آئیوری کوسٹ بنگرو آسٹریلیا آکسفورڈ آگس برگ الٹن آلٹرگیٹ 391 524.505.272 272 522.269 525 افغانستان البانية الجزائر الزائے 544 391 111 525 امریم 21،20، 22، 26912832269,972,70 524-523-522-298.295.277.271 525 امریکہ میں آنحضرت کے متعلق نئی کتاب لکھی گئی جس پر ایک عیسائی کا تبصرہ کہ ایسی بے ہودہ کتاب ہے کہ اس کو پڑھا نہیں ابورڈ آف پیس الى سينيا احمد نگر ارجنٹائن اردن 350 525 23 103 436 333 103 382 جاسکتا انر پارک انڈونیشیا 133 22 524-333-269.74.21 انتخاب کے بعد انصاف کرنے اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی حکومت کے لیے دعا کی تلقین انڈیا ( نیز دیکھیں ہندوستان ) 190 270-21 انگلستان ( نیز دیکھیں یو کے) اسرائیل 525-524-523-521-337-271.148.101.22 انگلستان کے وزیر خارجہ کا بیان کہ اگر پاکستانی حکومت نے اسرائیل اور فلسطین کی لڑائی میں صحیح رہنمائی نہ ہونے کے باعث مظلوم فلسطینیوں کا نقصان اٹھانا فلسطین پر اسرائیل کی ظالمانہ بمباری کے خلاف مسلمانوں کی اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو مکمل طور پر ملک دہشت گرد قرار دے نسبت مغرب کا پرزور رد عمل.11 15 فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف اسرائیل کے ہمدردوں کا بھی چیخ اٹھنا 32 اسلام آباد (پاکستان) اسلام آباد (لندن) افریقہ 524.296.22 348 599.522-264.110.59.21.20 دیا جائیگا اوکاڑہ ایڈمنٹن ایران ایران کے صدر کا ایک بیان ایسٹ لندن بحرین کے وفد کا حضور کی خدمت میں پیش ہونا عیسائی مشنریز کا دعویٰ کہ احمدیت افریقہ میں ان کے پاؤں ایشیاء اکھیٹر رہی ہے 63 افریقہ کی جماعتوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی نصیحت 21 بخارا 153 524 23 103 312.302 525 599.264 328 103
برسٹل خطبات مسرور جلد ہفتم مرسلز بر صغیر برطانیہ برکینا فاسو بعلبک بلغاریہ 43 انڈیکس ( مقامات) 525 | پاکستان کے ارباب حل و عقد اور عوام خدا کے عذاب کو دعوت 389 نہ دیں اور خود غرض اور بکاؤ مولویوں کے پیچھے چل کر اپنی 146.145.128 381.52.22.21 505 عاقبت نہ خراب کریں 45 پاکستان کے احمدیوں کو حالات کی وجہ سے اللهم اهد قومی 525 504 فانهم لا يعلمون کی دعا پڑھنے کی تلقین پاکستان میں ایک مربی صاحب پر فائرنگ 117 118 392،391،113 پاکستان میں احمدیوں پر زیادتی اور حکومت کا مولویوں کوکھلی ایک مفتی کے کہنے پر احمد یوں کو ہراساں کیا جانا 135 چھٹی دینا 135.122 123 بلغاریہ کے نو مبایعین کو حضور کا سلام بھجوانا اور ان کا جذباتی ہونا 145 پاکستان کے حالات کے حوالہ سے دعا کی تلقین 524،343،119 آج دنیا میں پاکستان کا تصور ظلم و بربریت کے ایک خوفناک نمونہ کے طور پر ابھر رہا ہے 123 پاکستان اور ہندوستان میں سیرت کے جلسہ کی حقیقت 129 بنگلہ دیش بو بوجلا سو بورکینا فاسو بوز نیا ( بوسنیا ) ی کٹے ہوڑے بہاولپور بہاولنگر بھوپال، ریاست بھیں بيت الدعا بیت الفتوح بيت الذكر بيت الفكر 114 114 391.388.114 525 524 524.47 53.52 210 108 22 331.294 331.294 پاکستان میں ایک دوسرے کو لوٹا جا رہا ہے 141 پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کا تذکرہ کہ یا احمدیت چھوڑ دو یا ملک چھوڑ دو پاکستانی ملاؤں کا ملک کی بدنامی کا باعث بننا 146.145 146 جو مولوی اب پاکستان کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں وہ تو اس وقت نظریہ پاکستان کی بھی مخالفت کرتے تھے 147 افراد جماعت حضرت خلیفہ ثانی کی قیام پاکستان کے متعلق مساعی کا ذکر قیام پاکستان کے حوالے سے مولویوں کا کردار 147 149 21، 389،101،22 390 ، 523 سیاسی حکومت کا مولویوں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور احمدیوں پر مظالم 150 احمدیت کا پیغام پہنچانے کی مساعی.حضور انور کی ملاقاتیں پاکستان میں احمدیوں کو شہید کرنے پر قدرت کا انتقام 153 ببینن سعید روحوں کا قبول حق بینن میں مسجد کی تعمیر پر مخالفت 389 390 خلفائے احمدیت کا ہمیشہ حکومت کو باور کرانا کہ ملاؤں سے بچنا 153 58 524-271 پاکستان میں خطرناک حالات کے باعث احمدیوں کے لیے پاکستان 6 ، 20 ،22، 23 ، 44،37، 46، 59، 67، 95، پہلے سے بڑھ کر دعا کی تلقین 193 189 173.154148.128.124.106 190 پاکستان میں مساجد اور حج اور دیگر نیکیوں کے بڑھنے کے 203، 214، 269، 270 ، 272، 275 ، 289، 295 ، با وجود نتائج اچھے نہ ہونے کا تاثر ایک غیر احمدی کا تبصر...406.395.383 380.343.309.303 296 <483.467.465 464.456.455.436.427 544-538-524-523-521.497.494| 288 جو میڈیا میں بھی نام رکھتے ہیں پاکستان میں احمدیوں پر مظالم اور پورا ملک دنیا میں بدنام...368
خطبات مسرور جلد ہفتم 44 پاکستان میں لاقانونیت کا دور دورہ اور احمدیوں کو دعا کی تحریک 369 | جابہ نخلہ پاکستان کی ابتر حالت...بڑی وجہ زمانے کے امام کو نہ ماننا 425 جاپان پاکستان کے ایک عالم کا جاہلانہ امر کہ کوکا کولا کی طرح اسلام جامعہ احمدیہ بھی ہمارا ٹریڈ مارک ہے ہمیں ملک سے محبت ہے ہم نے اس کے بنانے میں بھی کردار جامعہ احمد یہ انڈونیشیا ادا کیا ہے اور اس کے قائم رکھنے کے لئے بھی ہر قربانی کریں جامعہ احمد یہ ربوہ 426 428 کئی ممالک میں جامعات کا ہونا جامعہ یوکے گے اور کر رہے ہیں وزیر اعظم پاکستان کا بیان کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ کام ہو جائے جامعہ جرمنی 428 جامعہ کینیڈا انڈیکس ( مقامات) 405 103 521 521.373 521.73 521 521 521 لیکن علماء سے ڈرلگتا ہے پاکستان میں ایک حج کا احمدیوں کو اپنے زعم میں نقصان جرمنی ،21، 23، 333،114، 349، 383، 393، 44 525.523.521 452 پہنچانا اور عجیب فیصلہ پاکستان اور دیگر ممالک میں احمدیت مخالفت اور احمدیوں کو صبر دورہ جرمنی، رمضان کی وجہ سے جلسہ جرمنی جلد منعقد کرنا اور دعا اور احتیاط کی نصیحت اور جرمنی کے دورہ کے ایمان افروز تاثرات 383 پاکستان کے لئے دعا کی بہت زیادہ ضرورت ہے 472 جرمنی جماعت کے کارکنان اور کارکنات جلسہ کا شکریہ 25 اور خراج تحسین آپ لوگ اب اللہ کے فضل میرے پشاور پنجاب پولینڈ پھلر وال پیٹیٹر برا پیس و پیج سنٹرل پیس و پیج ایسٹ پیس ویج ساؤتھ 524473 | Mature ہو چکے ہیں 386 585،427 جرمنی کے تین بھائی جو لنگر کے انتظام کے تحت بھر پور محنت اور جذبہ سے کام کرتے ہیں.دیگ دھونے کی 103 552 مشین ایجاد کرنا 525 525.23 525.23 23 388 جلسہ جرمنی میں مشرقی یورپ کے دس ممالک کی نمائندگی 391 جموں ترکی سے شائع ہونے والے قرآن جن میں عیسی کی وفات کا جونا گڑھ ترجمہ 302 جہلم تنزانیہ 411 چک 46 شمالی سرگودھا ٹ، ج، چ، ح، خ چنائی ٹرینیڈاڈ 504 | چنائی میں اس سال مسجد ہادی کی تعمیر ٹوٹنگ ٹورنٹو سینٹرل 22 23 چونڈہ چھتاری ٹونٹے ہاؤزن 525 چیکوسلواکیہ 556 525 53 552.524.50 411 271.263 270 524 53 103
خطبات مسرور جلد ہفتم 45 چین حافظ آباد 524 325 حبشہ حجاز روس رومانیہ 204 ریڈشٹڈ 243 ، 335 | روڈرگ ، جزیرہ انڈیکس ( مقامات) 112 544.103 حديقة المهدی حیدر آباد 336، 350 | ریزڈورف 560،524 ریسرچ سیل ربوہ 391.103 525 525 406 حيفا 381 س، ش، ع، غ،ف خانقاہ ڈوگراں 405 سانگھڑ خانیوال 524 ساہیوال 139 سپن ویلی و، ڈر چین سپین.بیڈ رو آباد در هم دیلی ڈسٹرکٹ جیل گوجر انوالہ 23 149.97 407 فیلمنٹس سٹن سربین 560.559.524 275 525 583 103 22 525 ڑھا کہ 473 | سرگودھا 524.22 525 ڈیٹرائیٹ ڈی برگ راجیکی راولپنڈی را ہوں ضلع جالندھر 524-22 525 525 551 524.298.22 551 سرے ایسٹ سکائون سعد اللہ پور سعودی عرب سکھ نورپ سماٹرا سوات 23 553 404 525 103 153.109 333 299 296 275 214.120-22% 524.436.407.370.340 سوئٹزرلینڈ 523.22.21 سوئٹزرلینڈ میں مینارہ کے خلاف ایک شور، خدا تعالیٰ امید ربوہ میں مولویوں کا جلسہ کرنا مگر صرف احمدیوں کے ہے کہ دشمنوں کی ہر سازش کو نا کام ونامراد کرے گا 569 خلاف بغض کا اظہار کرنا 129 130 سوئس حکومت کی بد قسمتی کہ مساجد کے مینار کی تعمیر پر ربوہ مسلم کالونی کا ناجائز قبضہ اور 467 پابندی اور جماعت کا ایسے احمقانہ قانون کے خلاف ربوہ ٹی آئی کالج نیو کیمپس اور دیگر جگہوں پر حکومت کا آواز اٹھانا نا جائز قبضہ.......رچمنڈ ہل ایگوآئیوویو نیورسٹی، نائجیر یا 468 23 سوئٹزرلینڈ.زیورخ 582 582 سوئٹزر لینڈ میں مسجد کے مناروں پر پابندی کی اسلام 271 مخالف کوشش اور جماعت کی مذمت 599
خطبات مسرور جلد ہفتم سوڈان ساؤتھ ریجن ساؤتھ ویسٹ ریجین ساؤتھ ایسٹ ریجین سیرالیون سیالکوٹ سیلیکان ویلی سیلون سینٹ تھا میں ماؤنٹ شام شٹول برگ شکا گوویسٹ 103 525 525 525 524.155.110 46 فلسطینیوں کے لئے دعا اور مدد کی تحریک انڈیکس ( مقامات) 32 فیصل آباد 524.262.22 فیصل آباد میڈیکل کالج میں احمدی طلباء کو پڑھائی سے روکنا 468 524،22 | قازقستان 524.22 103 263 ق، ک، گ، ل 190 قادیان 115،56، 119، 265،120، 268 ، 269 ، +421-405-367-364-333-294.272.270 602-560-556.555.523.502 103 قادیان کا لنگر خانہ اور مہمانوں کے بارہ میں کارکنان کو 525 ہدایت 340 524،22 ایک مجذوب کا کہنا کہ جس نے ولی بننا ہے وہ قادیان 524.120.22 112.103 جائے 551 2005ء میں حضور انور دورے کے بعد قادیان میں 264،180 جماعتی اداروں میں وسعت شیخوپوره عراق عرب عمر کوٹ 524 | کابل غار حرا 264 | کارنوال غانا فارس فتح آباد ضلع 269 214 525 437 کانگڑہ میں احمد یہ بیت الذکر کی تعمیر پر مخالفت 270 50 کبابیر 381 270 کہا بیر کی جماعت کے جلسہ سالانہ پر ان کا ذکر اور ان 370،115،109 کے نام پیغام فرانز ہائم 525 کراچی فرانس 21، 523،522،22 | کربلا مسجد مبارک، پیرس فرانس 271 | کرغیزستان فرید برگ 23 كسووو فرینکفورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن فضل عمر ہسپتال فلاڈلفیا فلسطین 23 274-273 524.118.22 6 190 391 103.99.98 473 حکومت کے سامنے کشمیریوں کی بے بسی کا ایک واقعہ 99 73 355.118 274 273.103.60 کلکتہ کنری 473 46 524.370
خطبات مسرور جلد ہفتم 47 کوئٹہ کے دوشہداء کا ذکر خیر 299 | لندن مسجد کوٹری 45 لندن انڈیکس ( مقامات) 22 525 382.148.120.119 کوٹلی آزاد کشمیر کویت کھاریاں کو ٹمبے ٹور.صوبہ تامل ناڈو بھارت 407 کو نیاں باؤ کا ہون ، ریاست 524 لیتھوینیا 113 110 391 جلسہ سالانہ یو کے میں نئے شامل ہونے والے ملکوں 263 میں اس کا نام لینے کی وضاحت کجھن ضلع کانگڑہ 270 لیک ڈسٹرکٹ، برطانیہ کھوکھر غربی کولون کیمٹن 524 525 لیمنگٹن سپا 394 179 525 م، ن، و، ه ، ی 525 مارنگ 525 کیمبرج کیتھلے کیلگری نارتھ ایسٹ نمبر 1 کیلگری نارتھ ویسٹ کینیڈا کینیڈا، وینکوور.آٹوا کینیا گجرات گروس گراؤ گوجرانوالہ گورداسپور ضلع گوندل فارم سندھ گھانا 525 مارهم 525 ماریشس ماسکو 23 523 269.112.103 113 23 525.23 525-524-523-522-275-23-21 437 524 551.23.22 525-23 524-22 مالٹا مالیر کوٹلہ مائینز مدرسہ احمدیہ مد بینہ مڈل ایسٹ ڈلینڈز مرا کو 332،50، 148 مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع 45 524 مسجد بیت الفتوح مسجد فضل 524 مسجد مبارک، فرانس 22 مسجد مبارک ( قادیان) 391 53 525 120 382 523 525 355.103 269 270 525.270 271 294 لاس اینجلس ویسٹ 524422 مسجد نور فرینکفرٹ کے پچاس سال ہونے پر حضور انور کا لاہور 22، 98، 149، 262، 330 ، 340 ، 370 ، خطبہ 524.408 581 مسجد نور فرینکفرٹ کی تعمیر کے وقت جرمنی کے اخبارات لبنان لدھیانہ 504 میں تذکرہ 331.91 585 129.111.103
خطبات مسرور جلد ہفتم مغربی افریقہ مکه 48 505 | دولور میمپٹن 507،355،204،114،105 | ویز بادن مکہ میں مسلمانوں اور آنحضرت پر ہونے والے مظالم 479 ویسٹ بل مکہ میں مسلمانوں کی کمزور حالت 486 وینکوور 22، 297،153 ہائیڈل برگ ملتان موضع جا موڈ ولا مهدی آباد (جرمنی) میر پور آزاد کشمیر میر پور خاص میرک ضلع اوکاڑہ میونخ میونسٹر میسیڈونیا نارووال ناروے نارتھ ایسٹ ریجن نارتھ ویسٹ ریجن 554 بارٹفورڈ شائر 525 ہالینڈ 22 ہریانہ 524 ہری پوری ہزارہ ضلع 524،74،22 | ہمبرگ 504 525 انڈیکس ( مقامات) 525 525.23 22 525 525 525 522 270 155 525.23 ہندوستان ،21، 37 ، 52، 63 ، 90، 148، 203، 599-523-343-309-271-270-263 525 ہندوستان میں نو مبائعین پر ظلم 135.122 391 ہندوستان کے نو مبائعین پر مظالم اور احمدیوں کو صبر اور 22 524،744 حو صلے سے کام لینے کے ساتھ دعا کی تلقین 145 حوصلے 114 ، 523 ہندوستان میں مسلم اکثریت والے علاقے میں بال اٹھنا 190 525 ہنسلو نارتھ 525 ہوشیار پور 525 ہنگری 22 91.90 393.391 525 نارتھ ویلز نائیجیریا نصرت جہاں سیکنڈری سکول کمپالہ 524،523،271 | ہوف 46 یروشلم ننکانہ کے احمدیوں پر پولیس کے کیس اور حج کا عجیب یمن 44 271 52 522.381.277.264.135.21 525 یورپ میں رہنے والے لوگوں کے لئے لٹریچر کی تیاری 525،22 کے لئے اصولی ہدایت......309 525 یورپ میں شراب اور سؤر کا کام کرنے والوں سے چندہ ظالمانہ فیصلہ نیورن برگ نیو مالڈن وائن گارٹن واپڈا ہسپتال ملتان 154 نہ لینے کی پابندی اور اگر..اشنگٹن واہ کینٹ وڈ بریج جنور بی وزیرستان 294 یوکے 524 یوگوسلاویہ 23 298 یونائیٹڈ سٹیٹس 393 504.270 103 103 ووسٹر پارک 525.22
خطبات مسرور جلد ہفتم 49 انڈیکس (کتابیات) کتابیات آئینہ کمالات اسلام 576،565،507،278 | المعجم الاوسط 329،204،195،194،192 | المعجم الكبير للطبراني ابنِ ماجہ ،سنن 518.448.444.340 الموعود ابوداؤ د سنن 324،223،159،130، 359 | الوصیت 533.448.446.444.431.419 اربعین الیواقیت والجواہر 49، 73 ، 320 | انجام آتھم ازالہ اوہام 307،305،276،142 308 309 ، انقلاب اخبار 436-317.314 انوار العلوم اسلامی اصول کی فلاسفی 224 ،458،402،257،244 ایام اصلح 556،551،109 | ایک خوفناک سازش 260 359 103 102 101.100 483.257.64 500 366.361 147 525.494.493 201-200 97 516-513 443.312 15 بخاری، صحیح 161،156،141،138،136،28، اصحاب احمد اظہار الحق 96،95 | بانگ درا اعجازاح 63، 210 بائبل افکار قائد اعظم اقدس 59 336-326-323-319-274-242.222.207.192 اقرب البدر، اخبار 560.329.19 <422.441.427.426.413 412.399.398 182 569-548-514-500-454-449.447.445 الحكم ، اخبار 579.422.419.225.84.81.34 براہینِ احمد یہ چہار حصص الدر المنثور 131 السيرة الحلبية 325 برامین احمدیہ حصہ پنجم المعجم الصغير للطبراني السيرة النبویہ لا بن ہشام 292،106، 549 | بركات الدعاء الشفاء لقاضی عیاض 209،117،107 پاکستان ٹائمنر، اخبار الطبقات الكبرى لابن سعد الفضل ، روزنامه 405.214.98 67 تاریخ احمدیت 555،406،403،98،97،96 310-283-265.89 589.574.572.567.564.501.482.453361 314.313.210 482 148 335 107 پیغام صلح تحفہ بغداد 419
خطبات مسرور جلد ہفتم تحفہ قیصریہ تحفہ گولر و یہ 50 335 خطبہ الہامیہ 599،67 | خلیفه قادیان، رساله 358،357،342،272،268،142، دار قطنی سنن 360، 502،491،490،483،482،377،361، دارمی سنن 597-518 در مشین نرمندی سنن 222،196،195،193،11،9، در عدن 546-327-254-223 تریاق القلوب ذکر اقبال 267،72، 540 رپورٹ تحقیقاتی عدالت تصديق النبی.ایک عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 535 رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار رمشاؤ، فرینکفرٹ کا اخبار تفسیر حضرت مسیح موعود تفسیر فتح البيان تفسیر قرطبی تفسیر کبیر 148،147 | رنگین،اخبار 63 روح المعانی 313 روح پرور یادیں 183 ریویو، اردو انڈیکس ( کتابیات) 432.430.68 97 446.359 254 96 179 98 150.149.148 600 584 97.96 228 111.110 421.376 97 94 531،509،508،286،252،61 | زمیندار، اخبار تفسیر کبیر جلد سوم کے متعلق علامہ نیاز فتح پوری کا تبصرہ 99 سبز اشتہار تفسیر کبیر عربی ترجمہ کی اشاعت کا سارا خرچ طا قزق سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب صاحب متکملہ مجمع البحار جلاء الافہام جنگ مقدس 382 سراج منیر 501 سرمه چشم آرید 5 220 سر الخلافة سلسلہ احمدیہ 266.265 244 95.94 99 98 چشمه معرفت 301،258،213،169،50 | سیاست، اخبار حقائق الفرقان 440 سیر روحانی حقیقة الوحی ،27، 57، 185، 246 ، 247، 255، 256 ، سیرت المہدی 575-568-482-368-367 298 268 سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت مولوی عبد الکریم (331 235 سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی 53 صاحب 554،552 سیرت مولانا شیر علی حمامة البشرى حیات طیبہ حیات قدسی حیات نور خالد ، سید نا مصلح موعود نمبر 100،99،98 | شحنه حق 339-332-331.108 553.552 551 سیرت و سوانح حضرت سیدہ امتہ الحی بیگم 297، 298 184
خطبات مسرور جلد ہفتم شہادت القرآن ضرورة الامام طبقات کبری عادل، اخبار عصائے موسیٰ فتح اسلام فتوحات مکیہ قائد اعظم اور ان کا عہد 430.340 69 328 97 55 142 500 148 51 ملفوظات انڈیکس ( کتابیات) 125 124 123 122.87.57.48.34.10.2 158.157.144.132 131 130.127.126 196 195 181.176 174.167.163.160 244-240-239-238.232.225.211.199 300-293-291.277-260-256.251.249 373-372-338-331-330-321.318.316 كتاب البرية 431.429.423.417.395.385.379.378 $469.461 460 455 454 449.436.434 557-542-529.512.511.508.484.470 601 591 590-588-565-558 566 540 319.315.52 کرامات الصادقین 574،291،78،77،86،85 کشتی نوح 68 ،205، 509،464،415،414،431،206 کشف الغمه عن جميع الامة کلام محمود کنز العمال گورنمنٹ انگریزی اور جہاد لسان العرب لیکچر سیالکوٹ لیکچر لاہور مثنوی مولانا روم مجمع الزوائد 292 298 351.243.157 480 485.191.62.25 402.260 598 326 منہائم مورگن ، جرمنی کا اخبار اسلام یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے موضوعات کبیر نسائی سنن نسیم دعوت نظام نو نگار، رساله نور القرآن 585 501.500 284.226.103 573 525 99 478 147 446،161،160،136،37 | ہمدرد اخبار مجموعه اشتہارات 546،117،104،93،92 | اخبار ABEND POST مرقاة المفاتيح 136 Essence of Islam مسلم صحیح 329،250،246،245،222،192،13 | Lane _ لین 550.448.426.397.384.372.343 مسند احمد بن حنبل 223،158،156،20،18،5 488.447-359-346-329-325-285-250 598.558.532.531 مشكوة المصابيح 565 مفردات لامام راغب 571،570،191،156 مکتوبات احمد 472 471.160.108 585 310 276.191.24