Khutbat-eMasroor Vol 6

Khutbat-eMasroor Vol 6

خطبات مسرور (جلد 6۔ 2008ء)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خليفة المسيح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2008 جلد ششم نظارت اشاعت قادیان

Page 2

نام کتاب خطبات 2008ء سن اشاعت با راول خطبات مسرور جلد ششم حضرت مرز امسر و راحمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تعداد مطبع ناشر $2013 : 2000 : فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان نظارت نشر واشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان ، ضلع گورداسپور ، پنجاب 143516 انڈیا ISBN : 81-7912-162-3 Khutbat-e-Masroor Friday Sermons delivered by: Hadhrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V (atba) in the year 2008.

Page 3

MAKHZAN-E-TASAWEER 80

Page 4

Page 5

i بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیه السلام کو احیاء اسلام کے لئے آخری زمانہ میں مبعوث کیا اور آپ کے ذریعہ اسلام کی حقیقی علمبردار اور فدائی جماعت احمدیہ کا سنگ بنیا درکھا گیا.جماعت احمدیہ نے دنیا کو نہ صرف حقیقی اسلام سے آگاہ کیا بلکہ وہ روحانی نظام قیادت بھی عطا کیا جس کو اسلامی اصطلاح میں نظام خلافت کہا جاتا ہے.یہ وہ بابرکت نظام ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے مومن بندوں سے کیا ہے کہ اعمال صالحہ کی شرط کے ساتھ ان کو یہ انعام ملتا رہے گا.قرون اولیٰ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت خلافت راشدہ کی صورت میں عطا فرمائی اور ایک طویل عرصہ تک امت محمدیہ اس نعمت عظمی سے محروم رہی.وہ جنہوں نے اس نعمت خداوندی سے منہ موڑ اوہ تاریکی اور گمراہی میں بھٹکتے رہے.الہی وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو خلافت کی برکت کے نتیجہ میں نیکی کے ہر میدان میں ترقی اور مضبوطی عطا ہوئی ، خوف کی حالت امن میں بدلتی رہی اور آج کرہ ارض میں یہ واحد جماعت ہے جو خلافت کے با برکت نظام سے فیضیاب ہے.آج جماعت احمد یہ قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روحانی قیادت میں نیکی اور تقویٰ کے ہر میدان میں دن رات ترقی کر رہی ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خلافت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں جس میں ہماری ساری ترقیات خواہ وہ روحانی ہوں یا دنیاوی پنہاں ہیں.خلیفہ وقت کے ارشادات ہماری زندگی کے لائحہ عمل ہیں جن پر کار بند ہونے کے نتیجہ میں ہم اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکتے ہیں.حضور انور کے خطبات ایک ایسا بیش قیمت خزانہ ہیں جو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے بہترین زادراہ ہے.چاہئے کہ ان خطبات مبارکہ کو ہر فر د جماعت بار بار گہرائی سے مطالعہ کرے اور ان پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے حضور انور کے بصیرت افروز اور روح پرور خطبات کو سن وار کتابی شکل میں ”خطبات مسرور “ کے نام سے شائع کیا جارہا ہے.حضور انور کے خطبات سے ہی شجر احمدیت کی آبپاشی ہوتی ہے.احباب جماعت کے استفادہ کے لئے

Page 6

ii خطبات مسرور کی یہ جلدیں شائع کی جارہی ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو شمع خلافت پر پروانہ وار فدا ہونے اور خلیفہ وقت کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہوئے جان و مال اور عزت و آبرو کے نذرانے پیش کرنے کی توفیق وسعادت عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہماری آئندہ نسلوں کو بھی خلافت سے وابستہ رکھے اور خلافت کے فیوض و برکات سے تادم زیست مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 7

خطبات مسرور جلد ششم پیش لفظ پیش لفظ لحمداللہ، خطبا مسرور کی چھٹی جلد پیش کی جارہی ہے جو حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ 2008ء کے 52 خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبات بیت الفتوح لندن، حدیقۃ المہدی آلٹن، باغ احمد گھانا ، ہین ، نائیجریا، امریکہ، کینیڈا ، ہمبرگ برلن، جرمنی، پیرس فرانس، بریڈ فورڈ لندن، کالی کٹ کیرالہ انڈیا، دہلی انڈیا میں ارشاد فرمائے.یہ تمام خطبات الفضل انڈ نیشنل لندن میں شائع شدہ ہیں.ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اس کا سراسر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا.ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے در در کھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں ، اور ان پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کوسننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی اور ہمارے علم و عمل میں برکت کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے.یہ لوگ خدا کے بلانے پر اور زمانے کی ضرورت کے مطابق بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں اور الہی تائیدات ونصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے.اسے الفرقان مئی جون 1967 ، صفحہ 37) اپنی صفات بخشتا ہے.“ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ارشادان خطبات کی خیر و برکت اور اہمیت کو اور واضح کر دیتا ہے آپ نے فرمایا: ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں ، اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ ( خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936ء)

Page 8

خطبات مسرور جلد ششم پیش لفظ 2008 ء کا سال جماعت احمدیہ عالمگیر کے لئے ایک تاریخی اور تاریخ ساز سال تھا.دنیا بھر کے احمدیوں نے خلافت احمدیہ کی سوسالہ تقریبات کو خدا کے حضور شکر کے سجدات بجالاتے ہوئے منایا، اور اس کی حمد اور فضلوں کے ترانے گاتے ہوئے اور اندھیری راتوں میں اپنی خوشی اور تشکر کے آنسوؤں کے دیپ جلاتے ہوئے اس سال کو اپنی عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ مزین کیا ، اسی سال میں خلیفہ اسیح نے افریقہ اور امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ فرمایا اور یوم خلافت کا وہ تاریخی خطاب بھی فرمایا کہ جو مر دوں کو زندہ کرنے والا تھا اور ایک عجیب روحانی انقلاب برپا کر دینے والا تھا، [ خطبہ جمعہ 30 مئی یہ خطبات جو ہمارے لئے ایک روحانی مائدہ ہے ان میں انواع و اقسام کے مضامین ہماری مادی اور روحانی بھوک و پیاس کومٹانے کے لئے شامل ہیں، انفاق فی سبیل اللہ ، وقف جدید اور تحریک جدید کی عظیم الشان عالمگیر تحریکات کے پھل، ابراہیمی دعاؤں کی انقلاب آفریں قبولیت ، ایم ٹی اے کی برکات اور اہمیت کا ذکر مغرب کے کچھ نا عاقبت اندیش ذہنوں کی اسلام مخالف مہم میں بعض کا گھٹیا انداز اور انہیں خدائی گرفت سے متنبہ کرنا اور اس کے جواب میں تمام دنیا میں بسنے والے لاکھوں احمدیوں کو کروڑوں بار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی عالمی تحریک ، دعاؤں اور خاص طور پر پاکستان کے لئے دعا کی تحریک، اپنی نمازوں اور عبادات میں حسن پیدا کر نے تلاوت قرآن کریم اور اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کرنے ، بنی نوع انسان سے محبت کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے ، دعوت الی اللہ کرنے ، آپس میں بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے ،میاں بیوی کے حقوق ادا کر نے اپنی اولادوں کی نیک تربیت کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اور وہ لوگ جو خدا کی راہ میں ستائے گئے اور جو لوگ خدا کی راہ میں خدمت دین کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کے ناموں کو ہمیشہ کی زندگی بخش دی، وہ جنہوں نے اس کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے شہادت کے خون سے احمدیت کی کہکشاؤں میں رنگ بھرے ان کے لئے اور ان کے خاندانوں کے لئے ہمارے پیارے امام کی مقبول دعاؤں کے تحفے اور پُر سے بھی ہیں.اور پیچھے رہ جانے والے مظلوموں کے لئے ایک نئی روح پھونکنے والے یہ تاریخی پیغام بھی : اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے درخت وجود کی سرسبز شاخو! اے وہ لوگو جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم مظلومیت کے دن گزار رہے ہو اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بہت سنتا ہوں تمہیں خدا تعالیٰ نے موقعہ دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزاردو اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں

Page 9

خطبات مسرور جلد ششم پیش لفظ سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں.اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمد سمی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے.ہر شہادت جو کسی بھی احمدی کی ہوئی ہے پھول پھل لاتی رہی ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھول پھل لائے گی.خطبہ جمعہ 5 ستمبر اور پھر مخالفین احمدیت کو بار بار کی نصیحت بھی ان خطبات میں ہے اور مظلوم احمدیوں کو یہ مسرور کن نوید بھی ہے کہ ”آخری غلبہ انشاء اللہ ہمارا ہے مخالفین بھی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں ان کے پاؤں سے زمین جلد نکلنے والی ہے اور وہ بلندیوں کی بجائے گہرے زمینی اندھیروں میں دھنسنے والے ہیں اور اس طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، احمدی ہمیشہ یادرکھیں کہ ان کا مددگار غالب اور رحیم خدا ہے.ان ظالموں کے ظلم انہیں پر پڑیں گے.“ [ خطبہ جمعہ 16 مئی سال کے آخر میں بھارت کا دورہ بھی ہے جو قادیان کی زیارت کے بغیر عرفتُ رَبِّي بِفَسُحَ الْعَزَائِم کی متوکلانہ اور عاجزانہ راہیں دکھلاتے ہوئے اس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے نئے سنگ میل متعین کرتے ہوئے اختتام پذیر ہوا.خطبات مسرور کی اس جلد کی ترتیب و تکمیل میں جن جن ساتھیوں نے خاکسار کے ساتھ تعاون کیا ان کا شکر گزار ہوں خصوصاً الفضل انٹر نیشنل لندن کا ادارتی عملہ محترم نصیر احمد قمر صاحب ایڈیٹر الفضل، اور مکرم عبدالحفیظ شاہد صاحب اور مکرم حفیظ کھوکھر صاحب، یہاں دفتر میں خاکسار کے ساتھ عزیزم مکرم ظہور الہی صاحب تو قیر، عزیزم مکرم عامر سہیل اختر صاحب اور عزیزم مکرم را شد محمود احمد صاحب.اللہ تعالیٰ ان سب کو احسن جزاء سے نوازے اور ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور انجام بخیر کرے.آمین

Page 10

Page 11

خطبات مسرور جلد ششم i فہرست خطبات نمبر تاریخ خطبه مقام فہرست خطبات فرمودہ 2008 ء صفحات خلاص 1 4 جنوری بیت الفتوح لندن -11-1 انفاق فی سبیل اللہ، وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ، خلافت کی پہلی صدی کی آخری تحریک جس کا اعلان کیا جا رہا ہے.2 11 جنوری بیت الفتوح لندن 27-12 حضرت ابراہیم کی دعا یعلمهم الكتب..کمی پر معارف تفسیر خوبصورت اسلامی تعلیم کا بیان جو اس عظیم نبی اتری جس کا کوئی شریعت مقابلہ نہیں کر سکتی 18 جنوری بیت الفتوح لندن 37-28 حضرت ابراہیم کی دعا يعلمهم الكتب والحكمة....پر معارف تفسیر ، قرآنی پیشگوئیاں ، 4 25 جنوری بیت الفتوح لندن 47-38 حضرت ابراہیم کی دعا کا چوتھا پہلو جو اس عظیم نبی ﷺ کی خصوصیت تھی ویز کیهم، خوبصورت اسلامی تعلیم، صفائی، نظافت ،حسد،ادائیگی قرض یکم فروری بیت الفتوح لندن 56-48 دعائے ابراہیمی اور آنحضرت ﷺ کا پیدا کردہ عظیم روحانی انقلاب اسلامی نظام حکومت اور ادائیگی حقوق ، آخری زمانہ میں اسلام کی کمزور حالت اور مسیح موعود کی بعثت 6 8 فروری بیت الفتوح لندن 64-57 ابتلاء اور دعائیں مختلف ممالک، پاکستان، انڈونیشیا اور سے ہندوستان میں احمدیت کی مخالفت، غیر مبائعین کو نصیحت بعض عرب حکومتوں کا مولویوں اور عیسائیوں.خوفزدہ ہو کر ایم ٹی اے کا العربی چینل کی نشریات بند کرنا، عارضی روکیں آتی ہیں اور آئیں گی.دشمنوں اور حاسدوں کے وار ہوں گے لیکن اس سے کسی احمدی میں مایوسی نہیں آنی چاہئے.ان روکوں کو دیکھ کر جیسا کہ میں نے بتایا مومن مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور جھکنا چاہئے.پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں.اپنی نمازیں سنواریں.فرائض پورے کریں اور پھر نوافل کی طرف توجہ دیں.کیونکہ یہ دعائیں اور عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارے مقاصد کے حصول میں ہماری مدد کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور اس سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں 7 15 فروری | بیت الفتوح لندن 73-65 چودھویں صدی اور آنحضرت ﷺ کے غلام صادق مسیح موعود کی بعثت، تزکیہ نفس اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں ، عبادت، اعلیٰ اخلاق ، نمازوں کی حفاظت ، ڈنمارک کے ایک اخبار کی انتہائی ظالمانہ اور گھٹیا حرکت کارٹون کی اشاعت اور اس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے مذمت اور اتمام حجت ، ایک منصف اَحكَمُ الْحَاكِمِین آسمان پر بھی بیٹھا ہے جو اس کا ئنات کا مالک ہے.وہ بھی پھر اپنا انصاف کرے گا جو غالب بھی ہے، ذُو انتقام بھی ہے.ہمارا کام انہیں سمجھا نا تھا.اتمام حجت کرناتھی جو ہم نے کر دی اور خوب اچھی طرح کر دی.

Page 12

خطبات مسرور جلد ششم فہرست خطبات 228 فروری بیت الفتوح لندن 85-74 نماز کی اہمیت اور افادیت 9 29 فروری ببیت الفتوح لندن 97-86 اسلام کو بدنام کرنے اور قرآن اور آنحضرت میہ کے خلاف مغرب کی ایک مہم ” فتنہ نامی فلم ، دعاؤں کی تحریک 7 مارچ بیت الفتوح لندن 109-98 قرآن اور اسلام کے خلاف مغرب کی ایک مہم اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بیان اور ایک احمدی کا کردار، تلاوت قرآن کریم اور اس کا طریق 11 14 مارچ بیت الفتوح لندن 117-110 اللہ تعالیٰ کی صفت حلم ، کارٹون بنانے والوں اور نبی اکرمی اور قرآن کریم کا استہزاء کرنے والوں کو قادر خدا کی گرفت کا انتباہ ، احمدیت کی ترقی اللہ کے وعدے اور ہماری ذمہ داریاں، 12 21 مارچ بیت الفتوح لندن 132-18 اللہ تعالیٰ کی صفت حلم اور انبیاء کی سیرت میں اس صفت کا اظہار ( سیرت النبی ﷺ اور سیرت مسیح موعود ) صلى الله 13 28 مارچ بیت الفتوح لندن 145-133 اللہ تعالیٰ کی صفت رفیق ، اسلام کے دشمنوں کے مذموم اور گھٹیا ارادے، ہالینڈ کا ایم پی Wilder کا ظالمانہ کردار، درود شریف پڑھنے کی عالمی تحریک.مخالفین اسلام کی ان ظالمانہ کوششوں کے جواب میں ہر احمدی یہ عہد کرے کہ آنحضرت عے پر کروڑوں اربوں دفعہ درود بھیجے گا.اور یورپ کے ان ظالموں کو انتباہ کہ ہم اس خدا کو ماننے والے ہیں جو حد سے بڑھے ہوؤں کو پکڑتا ہے اوروہ اپنے نبی ﷺ کی عزت وتوقیر قائم کرنا جانتا ہے.اور خوب جانتا ہے.اسلام کی خوبصورت تعلیم کا تذکرہ، 14 104 اپریل بیت الفتوح لندن 154-146 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں ، آپ کے حلم ورفق کے نمونے اور نصائح ، جو ایک احمدی کو اپنی اصلاح کے لئے جگالی کرتے رہنے کے لئے ضروری ہیں تا کہ یہ احساس اجا گر رہے کہ صرف احمدی ہونا اور بیعت کر لینا یا کسی صحابی کی اولاد ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ عہد بیعت کا حق تب ادا ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے.آج جب اس سال میں خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہو رہے ہیں.مختلف ممالک میں اس حوالے سے فنکشن بھی شروع ہیں.ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف فنکشن کرنا اور اس غرض کے لئے بہترین انتظامات کرنا ہی ہمارا مقصود نہیں ہے اور نہ کبھی کسی احمدی کو یہ مقصود بنانا چاہئے.بلکہ دعائیں اور نیک اعمال ہی ہیں جو ایک مومن کو اس انعام سے فیض یاب کرتے رہیں گے اور یہی اللہ تعالیٰ نے شرط لگائی ہے.15 11 اپریل بیت الفتوح لندن 163-156 قرآن کریم اور سفروں کے بارے مختلف مضامین، انبیاء کے انکار کرنے والوں کا عبرتناک انجام سفروں کی برکات کا حصول تقویٰ کے ساتھ ، تقویٰ پر چلنے کی شرائط ، حضور انور ایدہ اللہ کا خلافت جوبلی کے پروگراموں کے حوالے سے سب سے پہلے مغربی افریقہ کے تین ممالک گھانا ہین اور نائیجیریا کا دورہ اور اس کے لئے دعا کی تحریک ، سفر کی دعائیں اور سنت نبوی ہے،

Page 13

خطبات مسرور جلد ششم iii فہرست خطبات 16 18 اپریل باغ احمد ، گھانا 169-164 عبادت کا بہترین ذریعہ نماز، اس کی برکات اور اہمیت، یہ نمازیں اور دعائیں ہی ہیں جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر رہی ہیں اس کے سوا ہمارے پاس دنیاوی دولت کی کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی دین کبھی دولت اور طاقت سے پھیلا ہے.پس آپ نے اپنے ہم قوموں کے دل جیتنے ہیں تا کہ انہیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر سکیں اور اس کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہو گا کہ اپنی نمازوں اور عبادتوں کی حفاظت کریں.یہ سال جس میں جماعت، خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر جو بلی منا رہی ہے، یہ جو بلی کیا ہے؟ کیا صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم جو بلی کا جلسہ کر رہے ہیں یا مختلف ذیلی تنظیموں نے اپنے پروگرام بنائے ہیں، یا کچھ سوونیئر ز بنالئے گئے ہیں.یہ تو صرف ایک چھوٹا سا اظہار ہے.اس کا مقصد تو ہم تب حاصل کریں گے، جب ہم یہ عہد کریں کہ اس 100 سال پورے ہونے پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس نعمت پر جو خلافت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتاری ہے، ہم شکرانے کے طور پر اپنے خدا سے اور زیادہ قریبی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت پہلے سے زیادہ بڑھ کر کریں گے اور یہی شکر ان نعمت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید بڑھانے والا ہوگا.17 25 اپریل پورٹونو وو بین 174-170 دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مالی قربانیاں کرتے ہوئے مساجد تعمیر کرنا 18 2 مئی موعود کی توقعات پر پورا تر نے کی کوشش کریں، اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کریں، نمازوں کی حفاظت حسن اخلاق، خلافت کے انعام کی قدر کریں.19 9 مئی بیت الفتوح لندن -193-181 دورہ مغربی افریقہ کے تاثرات اور اللہ کے فضلوں کا حسین اور ایمان افروز تذکرہ، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود سے محبت کرنے والے مخلصین عطا فرمائے ہیں، ان کے اخلاص وفا کے ایمان افروز اور قابل رشک واقعات 20 16 مئی بیت الفتوح لندن 201-194 صفت جبار کی پر معارف تفسیر ، ملاں نے ہمیشہ دین کے نام پر فساد پھیلایا ہے، حکومتیں اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، آخری غلبہ انشاء اللہ ہمارا ہے ،مخالفین بھی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں ، ان کے پاؤں سے زمین جلد نکلنے والی ہے اور وہ بلندیوں کی بجائے گہرے زمینی اندھیروں میں دھنسنے والے ہیں اور اس طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ، احمدی ہمیشہ یادرکھیں کہ ان کا مددگار نائیجیریا 180-175 افتتاح جلسه سالانه نائیجیریا، جلسوں کی اہمیت حضرت مسیح غالب اور رحیم خدا ہے.ان ظالموں کے ظلم انہیں پر پڑیں گے.انشاء اللہ 21 23 مئی بیت الفتوح لندن 209-202 صفت جبار، اصلاح اور اس کے متعلق ارشادات

Page 14

iv فہرست خطبات خطبات مسرور جلد ششم 22 30 مئی بیت الفتوح لندن 220-210 اس سال Excel سنٹر میں منعقد ہونے والے یوم خلافت کی ایک خاص اہمیت ، یہ دن اپنوں اور غیروں کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان دکھا گیا ، مُردوں کو زندہ کرنے والا خطاب اور یہ تقریب، جماعت احمدیہ کی شکر گزاری کے جذبات ، آپ میرے لئے دعا کریں اور میں آپ کے لئے دعا کروں ، ایم ٹی اے کی افادیت اور اس میں کام کرنے والے مخلص کارکنان ، ایم ٹی اے خلافت کی برکات میں سے ایک برکت ہے ، ایسے با قاعدہ دیکھا کریں، سناکر میں ، خاص طور پر خطبات اور دوسرے عام تربیتی پروگرام ، اگر خلافت نہ ہوتی تو جتنی چاہے نیک نیتی سے کوششیں ہو تیں نہ کسی انجمن سے اور نہ کسی ادارے سے یہ چینل اس طرح چل سکتا تھا، 23 06 جون بیت الفتوح لندن 229-221 صفت رزاق کی پر معارف تفسیر ، اس زمانے میں خاص طور پر ، خدا تعالیٰ کی صفات کا ادارک ہونا چاہیے مسیح موعود کی بعثت ایسا رزق ہے جس سے روحانی اور مادی دونوں قسم کی بھوک ختم ہوتی ہے.نمازوں کا رزق کے ساتھ تعلق 24 13 جون بیت الفتوح لندن 239-230 صفت رزاق کی روح پرور لطیف تفسیر، مغربی ملکوں میں جھوٹ سے بول کر سوشل ہیلپ لینا تقویٰ سے دوری تو کیا ایک شرک ہے، اور جماعت کی بدنامی کا باعث ، ایسے لوگوں.چندہ لینا بند ایسا مال خدا کو نہیں چاہیے، احمدی کا مال پاک ہونا چاہیے، کم آمدنی والے خود تقویٰ کو مد نظر رکھ کر اپنے بجٹ پر نظر ثانی کر سکتے ہیں، مخالف ملا اور سیاستدان کو صرف کرسی اور پیسے سے غرض ہے اور ایسے رزق سے جو نا پاک ہے اور جس کی بنیا دجھوٹ پر ہے ، اس رزاق خدا نے جماعت کے لئے رزق کے نئے سے نئے باب کھول دئے.امریکہ اور کینیڈا کے دورہ کے لئے دعا کی تحریک 25 20 جون پینسلوینیا، امریکہ 249-240 جلسہ سالانہ امریکہ کا افتتاح، اپنی نسلوں کو سنبھالنے کے لئے پنے عملوں کی درستی ، اس مغربی ماحول کے مادی دور میں اپنے آپ کو اور بچوں کو اس عافیت کے حصار میں لانے کی کوشش کریں ، ایک احمدی کا معیار، تقویٰ، اور بنیادی اخلاق، آپس میں بھائی چارے اور اخوت کی روح پیدا کریں، اور ایک دوسرے کے لئے نمونہ بن جائیں ، ایک ایسے خاندان کی حضور انور سے ملاقات جو احمدیت اور اسلام کی حقیقی تصویر تھا، وہ معاشرہ قائم کریں جو تقویٰ پر مبنی ہو، افریقن احمدی بھائیوں اور بہنوں کے لئے بشارت، خلافت کے ساتھ ان کا تعلق ہے، اللہ کے ساتھ مسیح موعود کے ساتھ اور ان کے دلوں میں تقویٰ ہے تو یہ مقام جو ان کو ملا ہے کوئی دنیاوی طاقت چھین نہیں سکتی عہد یداران کو نصائح کہ اس انعام کی قدر کریں، بیاد شادی کے معاملات اور بہترین ازدواجی زندگی کے لئے رہنما اصول 26 27 جون مسی ساگا، انٹاریوکینیڈا 259-250 کینیڈا کے جلسہ سالانہ کا افتتاح، ایم ٹی اے کے ذریعہ ہر احمدی وحدت کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے، مسیح موعود کے ذریعہ ملنے والی نعمت ، عبادت اور اللہ کا قرب تلاش کرنے والے بہنیں نمازوں کا جائزہ لینے والے، خلافت کی برکات کا فیض انہی کو پہنچے گا جو خود بھی عبادت گزار ہوں گے اور اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پھونکیں گے.

Page 15

خطبات مسرور جلد ششم V فہرست خطبات 27 04 جولائی بیت النور، کیلگرمی کینیڈا 269-260 کینیڈا کی اس مسجد کا افتتاح، مساجد کی اہمیت اور ضرورت صرف مسجدیں بنانا کام نہیں خدا کے اور اسکی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے، بار بار مسجد میں آنا ہی اس کی اصل خوبصورتی اور زینت ہے، ذاتی خواہشوں اور مصلحتوں کی بناء پر اپنے عقیدے کا سودا نہ کریں، اعتقادی کمزوری اور بیاہ شادی کے معاملات ، نظام کو توڑ کر غیروں میں شادی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہیں، 28 11 جولائی بیت الفتوح لندن 280-270 دورہ امریکہ اور کینیڈا کے دوران اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے اور تبلیغ کے ایمان افروز واقعات ، حضرت اقدس مسیح موعود کے نام کی شہرت اور برکت اور تصویر کا اثر اور فیض ، ایک سٹیٹ اسمبلی میں خلیفہ وقت کو خوش آمدید کہنے اور خلافت کے سوسال پورے ہونے پر ریزولیوشن کی قرار داد پیش کرنے پر جماعت کا وسیع پیمانے پر تعارف ہلکی اور غیر ملکی ٹیلی ویژن اور اخبارات میں انٹرویوز ، اسلام کا خلیفہ دنیا کے لئے ایک پیغام لا رہے ہیں، امریکہ میں پہلا دورہ ، خلافت سے محبت ان کے دلوں سے پھوٹی پڑتی ہے، حضور انور کی تقریر اسلام کی تعلیم عبادت گاہوں کے حوالے سے کا غیر معمولی اثر ، ایک عیسائی کا تقریرین کر رو پڑنا، ایک افغانی دوست کا روتے روتے بیعت کا اظہار اور پھر بیعت کرنا، 29 18 جولائی بیت الفتوح، لندن 294-281 جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے ہدایات اور مہمان نوازی اور میز بانی کے آداب 30 25 جولائی حدیقۃ المہدی آلٹن، 305-295 برطانیہ کے اس سال کے جلسہ کی خاص اہمیت ، دنیا بھر کے ہمپشائر (برطانیہ) جلسوں پر کام کرنے والے کارکنان کا پر جوش جذبہ، پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک ،نمازوں، دعاؤں اور نوافل پر زور دیں، انتظامی امور اور سیکورٹی کی بابت ہدایات ، 31 یکم اگست بیت الفتوح لندن 315-306 جلسہ سالانہ کا خیر و خوبی کے ساتھ اختتام اور جذبات تشکر ، جلسہ کے مدعووین اور مہمانوں کے تاثرات، ہمارا جھنڈا وہ ہے جو محمد ﷺ نے لہرایا، ہماری تعلیم وہ ہے جو آنحضرت نے بتائی، جماعت کے اندر نیک تبدیلی ،سائیکل سفر کی تحریک اس کی اہمیت وافادیت، جلسہ سالانہ میں سائیکل سواروں کی شرکت واقفین نو بچوں خصوصاً بچیوں کو زبانیں سیکھنے کی تحریک ، ایم ٹی اے اور دوسرے کارکنان کے لئے دعاء 32 08 اگست بیت الفتوح لندن 324-316 صفت مھیمن کی پر معارف تفسیر ، قرآن کریم کی تعلیم مستقل اور ہر زمانہ کے لئے ہے، حضرت مسیح موعود کا انکار اللہ تعالیٰ کے نشانوں کا انکار ہے، 33 15 اگست ہمبرگ ، جرمنی 334-325 مساجد کی اہمیت اور بنیادی مقاصد، اللہ تعالیٰ اور اسکی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی اور تزکیہ نفس،

Page 16

خطبات مسرور جلد ششم vi فہرست خطبات 34 22 اگست منہائم ، جرمنی 345-335 افتتاح جلسہ سالانہ جرمنی، جلسہ کے مقاصد اور ان کے حصول کی کوشش ، نمازوں دعاؤں اور نبی اکرم ﷺ پر درود بھینے کی تلقین حقیقی عبادت گزاروہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا بھی حق ادا کرتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کا نمونہ ، عائلی معاملات اور ان کاحل، 35 29 اگست بیت الفتوح لندن 357-346 جرمنی کے جلسہ اور دورہ کی بابت ایمان افروز تاثرات ، اخلاص وفا میں بڑھنے والے عجیب پیارے لوگ، خلیفہ وقت سے ملاقات کرتے ہی بیعت کا فیصلہ، یورپ کی بے سکونی کا علاج احمدیت کی آغوش ، ہر احمدی کو اپنا عملی نمونہ پیش کرنا ہو گا.ہندوستان اور پاکستان میں احمد یہ مخالف جوش ، ہمارے مخالفین بھی سن لیں کہ جب یہ نازک پودا تھا اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی ، آج اس پودے نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے درخت کی شکل اختیار کر لی ہے اور آج بھی یہ درخت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالی ، ان ابتلاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے بھی جماعت کامیاب گزری ہے اور آئندہ بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گزارے گا.لیکن تم لوگ یادرکھو کہ تمہارے نشان مٹا دیئے جائیں گے.اس لئے ہوش کرو اور اپنی تباہی اور بربادی کو آواز نہ دو.36 05 ستمبر بیت الفتوح لندن 367-358 روزوں کی اہمیت و فرضیت ،فضائل رمضان ، روزوں کے احکامات اور تقاضے ، روزے قرب الہی اور قبولیت دعا کے ذریعہ ہیں، پس اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے درخت وجود کی سرسبز شا خو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں.اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو، اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بہت سنتا ہوں، تمہیں خدا تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو...اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں.اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے.خدا دشمنوں کو کبھی خوش نہیں ہونے دے گا.ان کی خوشیاں عارضی خوشیاں ہیں.ہر شہادت جو کسی بھی احمدی کی ہوئی ہے ، پھول پھل لاتی رہی ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھول پھل لائے گی.37 12 ستمبر بیت الفتوح ، لندن 380-368 صبر اور دعا کی اہمیت اور فضائل ،شہداء کا مقام، ابتلاؤں اور راضی برضا ر ہنے کے نتیجہ میں ملنے والے انعام ختم نبوت، جو فہم و ادراک خاتم النبین کا اور حضرت محمد رسول اللہ کا مسیح موعود نے ہمیں عطا فرمایا ہے ان مولویوں کو اس کا کروڑواں حصہ بھی نہیں ، ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کی شہادت، یہ اپنی جوانی کی شہادت سے یہ سبق نوجوانوں کے لئے پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ دیکھنا جان جائے تو چلی جائے لیکن حضرت مسیح موعود سے بیعت پر حرف نہ آئے ہیٹھ محمد یوسف صاحب کی شہادت، ان کے اخلاص و وفا کے تذکرے،

Page 17

خطبات مسرور جلد ششم vii فهرست خطبات 38 19 ستمبر بیت الفتوح لندن -391-381 رمضان کی اہمیت وفضائل استغفار اور رحمت و مغفرت الہی ، خالص تو بہ اور اسکی شرائط ، 39 26 ستمبر بیت الفتوح لندن 400-392 جمعہ کی اہمیت ، فضائل اور احکام، رمضان اور تہجد ونوافل ، لیلتہ القدر کی اہمیت وفضائل ، 40 103اکتوبر بیت الفتوح لندن 409-401 صفت مہیمن کی پر معارف تفسیر ، حضرت اقدس مسیح موعود اور بزرگان و مبلغین سلسلہ کی حفاظت الہی کے واقعات، حضور انور ایدہ اللہ کا ایک رؤیا اور رب کل شئی خادم......دعا پڑھنے کی تحریک، 41 10 اکتو بر مسجد مبارک پیرس، فرانس، 421-410 جماعت احمدیہ فرانس کی مسجد کا افتتاح ، سوائے اشد مجبوری کے نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں، اپنی عبادتوں اور مسجد کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں ، ایک احمدی سے حضرت مسیح موعود کی تو قعات تبلیغ کی ضرورت اور اہمیت، عربوں کا پہلا حق ہے کہ ان تک آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کا پیغام پہنچایا جائے ، دعاؤں کا ہتھیار سب سے کارآمد ہے، اپنا عملی نمونہ بھی پیش کریں ، شرائط بیعت اور احمدی کے فرائض، فرائیڈے The 10th، 42 17 اکتوبر مسجد خدیجہ برلن 432-422 جرمنی میں جماعت اور مسجد کی تاریخ، عورتوں کی مالی قربانی سے تعمیر ہونے والی مسجد ، اپنا بھی اور اپنی اولادوں کا بھی تعلق مسجد جرمنی سے جوڑیں ، آپس کے تعلقات اور بھائی چارے کو بڑھائیں، 43 24 اکتوبر بیت الفتوح لندن 444-1433 دورہ یورپ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کا تذکرہ ، پیرس میں تعمیر ہونے والی مسجد اور اسکی تاریخ، اس دورے کے نتیجہ میں یورپ کے اخبارات اور ٹی وی ریڈ یو وغیرہ کے ذریعہ اسلام کے حقیقی پیغام کی اشاعت اور وسیع پیمانے پر تبلیغ ، ایک جرمن سفارتکار کا کہنا کہ اگر جرمنوں نے مسلمان ہونا ہے تو وہ احمدی مسلمان ہوں ، مسجد خدیجہ کی دنیا بھر کے 148 اخبارات ورسائل اور ریڈیوٹی وی کے ذریعہ تشہیر، انگریزوں کا خود کاشتہ پودا اور اس کا جواب، 44 31 اکتوبر بیت الفتوح لندن 457-445 صفت رزاق، عالمی معاشی بحران اور اس کا پس منظر مسلمان ملکوں کے سربراہوں نے اپنا مفاد دیکھا ہے اور معیشت کو اس طرح نہیں چلایا جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے،ایمانداری اور اپنے ملک سے وفا کا احساس نہیں ، اسلامی بینکنگ Sugar Coated قسم کی بینکنگ، عالمی معیشت پر سود کے تباہ کن اثرات ، پاکستان کو اللہ نے قدرتی وسائل سے نوازا ہوا ہے ، ہر ایک اپنے وسائل پر انحصار کرے، ملک ایک دوسرے پر قبضہ کرنے کی بجائے تجارت سے فائدہ اٹھائیں،

Page 18

خطبات مسرور جلد ششم viii فہرست خطبات 45 07 نومبر مسجد المهدی 458-471 یورپ میں نوجوان طبقہ کا اسلام کی طرف رجحان مسیح موعود کی بعثت کا مقصد بندے کو خدا کے قریب کرنا اور مخلوق خدا کا حق بریڈ فورڈ لندن ادا کرنا، ہماری مساجد پیار محبت اور علم کی بنیاد ڈالنے والی ہوں، ہر احمدی محبت کا علمبر دار ہو، نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کریں تحریک جدید کا عظیم تاریخی پس منظر اور سال نو کا اعلان ، مالی قربانی کے جذبے احمدیت کی خوبصورتی اور حضرت اقدس مسیح موعود کا پیدا کردہ انقلاب، 46 14 نومبر مسجد بیت الفتوح 478-472 صفت وہاب ، آپس میں حقوق کی ادائیگی ، میاں بیوی کے فرائض اور نسلوں کی تربیت ، لڑکے یا لڑکی کی خواہش کی بجائے لندن پاک اور صالح اولا د کی دعا، 47 21 نومبر بیت الفتوح لندن 486-479 صفت وہاب، ربنا لا تزغ قلوبنا، ایک جامع دعا جو ہر احمدی کا روزمرہ کا معمول ہونا چاہیے، آج کل کے نام نہاد علماء اور مولوی کے مفاد میں نہیں کہ امت مسلمہ مسیح موعود کو مانے.قادیان کے سفر کے لئے دعا کی تحریک، 48 28 نومبر بیت القدوس ، کالی 493-487 کیرالہ کے احمدیوں کا اخلاص ووفاء اللہ کی رضا کا حصول ہماری کٹ کیرالہ، انڈیا زندگیوں کا مقصد ، آنحضرت ﷺ کی اطاعت ہمارا نصب العین روشنی کے وارث بنو نہ کہ تاریکی کے عاشق نمازوں کی ادائیگی اور اس کے طریق ، خدائے واحد یگانہ کی عبادت اور نیک اعمال ایک مومن کے لئے بہت ضروری ہیں 49 5 دسمبر بیت الہادی 499-493 ہر چھوٹی سے چھوٹی خواہش کے لئے اللہ کی طرف جھکنا چاہیے، کسی خواہش کی تکمیل میں اپنی پسند کو دخل نہ دے ،اس دہلی،انڈیا سال خلافت جو بلی کے حوالے سے ہر احمدی میں نیا جذبہ ہے، بمبئی انڈیا میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت، قادیان کے جلسہ میں شمولیت سے دنیا بھر کے احمدیوں کو حضور انور کی طرف سے روک دیا جانا ، ابتلاؤں اور مشکلات سے بچنے کی دعائیں 50 12 دسمبر بیت الفتوح لندن 509-500 دورۂ ہندوستان، وہاں کے مرد و خواتین کے اخلاص و وفا سے بھر پور جذبات، ان سب کی نظر میں خلافت کے لئے وفا ہے، ایم ٹی اے کی نعمت، ہندوستان کے اس علاقہ میں اسلام اور احمدیت اور دیگر مذاہب کی تاریخ، احمدیت کے لئے انشاء اللہ بڑی زرخیز زمین بن سکتی ہے، مجھے تعداد بڑھانے سے غرض نہیں تقویٰ میں بڑھنے والے ہونے چاہئیں، ایسی بیعتیں نہ لاؤ جو تربیت کی کمی کی وجہ سے غائب ہو جائیں ، اخبارات و میڈیا میں کوریج تبلیغی اور تربیتی لحاظ سے ایک کامیاب اور بابرکت دورہ ، خلیفہ وقت کا دورہ تبلیغ کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ تبلیغی حکمت عملی اور تبلیغ کو وسعت دینے کے لئے نئے اقدامات پر غور کرنے کے لئے ہوتا ہے،

Page 19

خطبات مسرور جلد ششم ix فہرست خطبات 51 19 دسمبر بیت الفتوح لندن 522-510 جسمانی بیماریاں اور شفا، علاج کا نظام اور مختلف اقسام کی ریسرچ ، اس حوالہ سے آنحضرت معیہ اور حضرت مسیح موعود کا اسوہ اور ارشادات، احمدی ڈاکٹر ز اور ریسرچ کرنے والوں کو خلیفہ وقت کی ہدایات مخفی شرک سے بھی بچنا چاہیے، شفاء اور شہد، احمدی طلباء ریسرچ کے میدان میں آگے آئیں، 52 26 دسمبر بیت الفتوح لندن 532-523 صفت شافی ، جسمانی اور روحانی شفا، شہد کی مکھی اور وحی ، انسان کی کامیابی اور ہدایت کے لئے وحی کا نظام بھی ضروری ہے ، وحی والہام کا دروازہ بند نہیں مسیح موعود کو ماننے سے روحوں کو شفاء نصیب ہوگی، اسلام کی تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ اپنے دلوں میں ہمدردی کے جذبات سے پر ہو کر انہیں خدا کے قریب لائیں، اسلام پرتختی اور شدت پسندی کا الزام اور جواب، ڈاکٹر نوری صاحب طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے انچارج اور ان کا سٹاف جو بڑی محنت سے اس ادارے کو چلا رہے ہیں، معجزانہ شفاء، مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک،

Page 20

Page 21

خطبات مسرور جلد ششم 1 1 خطبہ جمعہ فرموده 4 جنوری 2008 فرموده مورخه 04 جنوری 2008ء بمطابق (04 صلح 1387 ہجری شمسی ) بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیات تلاوت فرمائیں : الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتَّبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنَّا وَّلَا أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُون (البقره: 263262) یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے نیک عمل کا ذکر کیا ہے اور پھر ان پر اپنے فضل کا اور انعام کا.آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر جو خرچ کرتے ہیں اس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے اُن کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غم کریں گے.یہ لوگ کون ہیں؟ یہاں مخاطب کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والے کو اجر دیتا ہے.بعض لوگ اللہ کی خاطر نیکی نہیں بھی کرتے لیکن نیکی ہوتی ہے.دکھاوا بھی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ تو ان کو اجر دیتا ہے.سیاق وسباق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مومنین کی جماعت کا ذکر ہو رہا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں.جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ ( البقرة : 273) یعنی تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ کبھی خرچ نہیں کرتے.پس یہ مومن کی شان ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ اپنا ہر فعل خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرے.یہاں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی بھی یہی نشانی بتائی کیونکہ اللہ کی رضا کا حصول خرچ کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے اس لئے لا يُتَّبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنَّا وَّلَا أَذًى جو خرچ ہیں اس کا پھر تکلیف دیتے ہوئے، احسان جتلاتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے.جبکہ غیر مومن کی یہ نشانی ہے کہ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ (النساء: 39) یعنی اپنے اموال لوگوں کے سامنے دکھاوے کی خاطر خرچ کرتے ہیں.اور فرمایا یہ لوگ جو دکھاوے کی خاطر خرچ کرتے ہیں لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ (النساء: 39) اور جونہ اللہ پر ایمان رکھتا ہو نہ یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ شیطان کے ساتھی ہیں ان کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے.پس ایک مومن جو شیطان سے دُور بھاگتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑتا ہے اور جوڑ نا چاہتا ہے وہ کبھی دکھاوے کے لئے

Page 22

خطبات مسرور جلد ششم 2 خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 2008 خرچ نہیں کرتا اور جب کسی قسم کا دکھاوا نہیں ہوتا، خالص اللہ تعالیٰ کی خاطر سب کچھ خرچ ہے، اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ اپنا ہر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَرَتِهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمُ يَحْزَنُونَ کہ اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا، نہ وہ غم کریں گے.پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اللہ کی راہ میں کچھ خرچ بھی کیا ہے کہ نہیں.کبھی یہ احسان نہیں جتاتے کہ ہم نے فلاں وقت اتنا چندہ دیا اور فلاں وقت اتنا چندہ دیا.آج ہم جائزہ لیں ، نظریں دوڑائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو ایک کے بعد دوسری قربانی دیتے چلے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہم نے جماعت پر احسان کیا ہے.اگر کوئی اکا دُکا ایسا ہوتا بھی ہے تو وہ بیمار پرندے کی طرح پھڑ پھڑا تا ہوا ڈار سے الگ ہو جاتا ہے اور کہیں جنگل میں گم ہو جاتا ہے اور پھر درندوں اور بھیٹریوں کا شکار ہو جاتا ہے.نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا.یہی ہم نے اب تک دیکھا ہے.جب بھی کوئی عافیت کے حصار سے باہر نکلے تو یہی انجام ہوتا ہے.بہر حال ضمنا میں یہ ذکر کر رہا تھا.جو بات میں کہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل کر کے ان لوگوں میں شامل فرما دیا جن کو نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی غم ہے اور جو بھی قربانی کریں، جو بھی مال لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیں ، اللہ تعالیٰ بے شمارا جر دیتا ہے.ایک جگہ فرمایا فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمُ أَجْرٌ كَبِيرٌ (الحدید : 7) پس تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے.اللہ کی طرف سے تو جو بھی اجر ہے اتنا بڑا ہے کہ انسان کی جو سوچ ہے وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی.لیکن فرمایا صرف اجر ہی نہیں ایسے مومنوں کے لئے اجر کبیر ہے.پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ جنہیں اللہ تعالیٰ ایسے اجروں سے نوازے اور کتنے خوش قسمت ہیں احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آئے اور آپ نے یہ روح ہمارے اندر پیدا کی صحیح اسلامی تعلیم کے حسن و خوبی سے ہمیں آگاہ کیا روشناس کروایا.اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے راستے ہمیں دکھائے.اللہ تعالیٰ کے احکامات کے حسن کو کھول کھول کر ہم پر ظاہر فرمایا ، جس سے احمدی کے دل میں مرضات اللہ کی تلاش کی چنگاری بھڑ کی.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ مال کے ساتھ محبت نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) تم ہرگز نیکی کونہیں پاسکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے کوئی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جن سے تم پیار کرتے ہو.اگر آنحضرت کے زمانے کے ساتھ آج کل کے حالات کا مقابلہ کیا جاوے

Page 23

خطبات مسرور جلد ششم 3 خطبہ جمعہ فرموده 4 جنوری 2008 تو اس زمانہ کی حالت پر افسوس آتا ہے کیونکہ جان سے پیاری کوئی شے نہیں اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ہی دینی پڑتی تھی.تمہاری طرح وہ بھی بیوی اور بچے رکھتے تھے.جان سب کو پیاری لگتی ہے مگر وہ ہمیشہ اس بات پر حریص رہتے تھے کہ موقع ملے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کر دیں“.تغییر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم - سورة آل عمران زیر آیت 93 صفحہ 130-131) پھر آپ فرماتے ہیں: ”خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر ، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے.لیکن اگر تلخی اٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.لیکن اگر تم اپنے نفس سے در حقیقت مرجاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گئے“.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307-308) فرمایا کہ یہ اس صورت میں ہو گا جب تم اپنے نفس سے در حقیقت مر جاؤ گے، اپنے نفس کو چھوڑ دو گے، تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گئے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا اور وہ گھر با برکت ہوگا جس میں تم رہتے ہو گے.اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں.اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا“.(ایضاً) پس کتنے خوش قسمت ہیں ہم جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا امام عطا فرمایا جس نے ہمیں خدا سے ملنے کے راستے روشن کر کے دکھائے.آنحضرت ﷺ کے غلاموں کی حقیقی روح ہم میں پیدا کی ،قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کا فہم و ادراک ہم میں پیدا کیا، جس پر چل کر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے ہیں.جیسا کہ ہم نے دیکھا اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کو بھی اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ بتایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اہمیت ہم پر واضح فرمائی تا کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کا کام بخوبی ہو سکے اور ہر فر د جماعت اس کو بخوبی انجام دے سکے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلفاء بھی اس طرف جماعت کو توجہ دلاتے رہے ہیں اور دلاتے رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عبادات کے ساتھ ہر قسم کی قربانیوں کا بھی ذکر ہے اور مالی قربانیاں بھی ان میں سے ایک ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کا عرصہ خلافت تقریباً 52 سال پر پھیلا ہوا تھا، آپ نے جماعتی نظام کو مضبوط در مضبوط فرمایا.اس کی تنظیم کی.تربیتی تبلیغی ، روحانی، مالی پروگرام جماعت کو دیئے تا کہ حضرت

Page 24

خطبات مسرور جلد ششم خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 2008 مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کے حصول کے لئے ہم تیزی سے آگے بڑھتے چلے جائیں.انہی تبلیغی اور تربیتی پروگراموں کے لئے ایک سکیم وقف جدید کی بھی تھی جو آپ نے جماعت کے سامنے رکھی اور اس کے لئے مالی قربانی کی بھی اور واقفین زندگی معلمین کی بھی تحریک فرمائی تا کہ بر صغیر پاک و ہند کے دیہاتوں میں، زیادہ تر پاکستان میں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام تیزی سے پھیلایا جا سکے.27 دسمبر 1957ء کو آپ نے اس کا اعلان فرمایا تھا.گویا آج اس تحریک کو بھی 50 سال پورے ہو گئے ہیں اور 51 واں سال شروع ہو گیا ہے.یہ تحریک شروع میں جیسا کہ میں نے کہا پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش کے لئے ہی تھی اور زیادہ تر انہی ملکوں کے احمدی اس میں حصہ لیتے تھے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ صحیح طور پر صرف پاکستانی احمدی اس میں حصہ لیتے تھے جس میں ایک مالی پہلو بھی تھا، مالی قربانی بھی تھی اور وقف جدید کے لئے بہت بڑی رقم جو اس کام کے لئے تھی پاکستانی احمدی ہی مہیا کرتے تھے.اسی طرح واقفین زندگی معلمین تھے وہ بھی انہی میں سے تھے.تو بہر حال 1985ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے احمدیوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے دنیا میں پھیلانے میں مالی جانی اور وقت کی قربانی دی ہے.وہ لوگ قربانیاں دیتے رہے ہیں.اب باہر کی جماعتیں خاص طور پر جو یورپ اور امریکہ کی جماعتیں ہیں اُن کو اس احسان کو یاد کرتے ہوئے تبلیغی اور تربیتی پروگراموں میں ان کی مدد کرنی چاہئے اور خاص طور پر ہندوستان کی جماعتوں کی کیونکہ وہاں تعداد تھوڑی ہے اور اکثریت غریبوں کی ہے.گو بعد میں ہندوستان میں نئی بیعتوں کی وجہ سے تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے.لیکن وہاں بھی اکثریت غریب لوگوں کی ہے جن کا چندہ، وہاں کے جو اخراجات ہیں اس کے مقابلے پہ بہت کم ہے.بہر حال وقف جدید کے چندہ کی تحریک کو 1985 ء سے تمام دنیا پر لاگو کر دیا گیا.یورپ اور امریکن ممالک کا چنده وقف جدید زیادہ تر ہندوستان اور افریقن ممالک کے جو تبلیغی اور تربیتی پروگرام میں ان پر خرچ ہوتا ہے.مختصر یہ کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک تمام دنیا میں جاری ہے.تمام دنیا کے احمدی اس میں حصہ لیتے ہیں اور احمدی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے اپنی توفیق کے مطابق جیسا کہ میں نے کہا اس کی جو مالی ضرورت ہے اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ 1957ء میں جب وقف جدید کی سکیم کا آغاز ہوا تو اُس وقت اس کا جو پہلا سال تھا 1958 ء تھا.اس لئے ہر سال اس تحریک کا، وقف جدید کا مالی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور مالی قربانیاں جو احباب جماعت کرتے ہیں ان کو ایک سال کے بعد جنوری کے شروع میں جماعت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.اسی وجہ سے میں بھی آج وقف جدید کے بارے میں ہی بات کر رہا ہوں.یہ اس

Page 25

خطبات مسرور جلد ششم 5 خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 2008 سال 2008ء کا پہلا جمعہ ہے اور اس کے ساتھ نئے سال کا اعلان بھی کرتا ہوں اور اس بارے میں مزید چند باتیں بھی کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ کم زیادہ تر پاکستان بنگہ دیش وغیرہ میں شروع تھی اور خلیفہ وقت کے مخاطب عموماً وہیں کے احمدی ہوتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے پاکستانی احمدی بچوں کو کہا تھا.کہ تم وقف جدید کا بوجھ اٹھاؤ اور اپنے بڑوں کو بتا دو کہ احمدی بچے بھی جب ایک فیصلہ کر کے کھڑے ہو جائیں تو بڑے بڑے انقلاب لانے میں مددگار بن جاتے ہیں.چنانچہ احمدی بچوں اور بچیوں نے اس اعلان کے بعد جو حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا تھا اور جو کام بچوں کے سپرد کیا تھا ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دینے کی کوششیں کیں اور وقف جدید کا چندہ اطفال و ناصرات کے چندے کے نام سے احمدی بچوں اور بچیوں کی پہچان بن گیا.بچوں کی آمدنی تو کوئی نہیں ہوتی، وہ تو اپنے جیب خرچ میں سے جب کوئی بڑا ان کو پیسے دے دے تو اس میں سے چندہ دے دیتے ہیں یا بعض والدین بھی ان کی طرف سے دیتے ہیں.لیکن یہ بچوں کا جوش اور جذبہ ہے کہ پاکستان میں وقف جدید کے چندوں میں بچوں کی جو شمولیت ہے وہ بڑوں کی شمولیت کا تقریباً نصف ہے.گو کہ میرے خیال میں یہاں بھی اضافے کی بڑی گنجائش ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تسلی بھی ہے کہ ایسے بچے جن کو اس طرح بچپن میں مالی قربانی کی عادت پڑ جائے وہ آئندہ نسلوں کی قربانیوں کی ضمانت بن جایا کرتے ہیں.اللہ کرے کہ یہ روح ہمارے بچوں میں بڑھتی چلی جائے اور اب جب کہ یہ وقف جدید کی تحریک تمام دنیا میں رائج ہے تو بچے بھی اور ماں باپ بھی اور سیکرٹریان وقف جدید بھی اس طرف خاص توجہ کریں.جماعتی نظام اور ناصرات واطفال کی ذیلی تنظیمیں بھی اس طرف توجہ کریں کہ زیادہ سے زیادہ بچے وقف جدید کے چندے میں شامل کریں.بچوں کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیں ، قربانی کی روح ان میں پیدا کریں.جو بچے اس مادی دور میں اس طرح قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں گے، اس طرح قربانی کرتے ہوئے پروان چڑھیں گے، وہ نہ صرف جماعت کا بہترین وجود بنیں گے بلکہ اپنے روشن مستقبل کی بھی ضمانت بن جائیں گے.لہو ولعب سے بچتے ہوئے ، فضولیات سے بچتے ہوئے، لغویات سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں گے.پس ہمیشہ اس بات کو بڑے بھی یا درکھیں اور بچے بھی عورتیں بھی اور مرد بھی کہ انقلاب قربانیوں سے ہی آتے ہیں اور اس زمانے میں جب ہر طرف مادیت کا دور دورہ ہے مالی قربانی نفس کی اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.بچوں کی خواہشات بھی ہیں اور بڑوں کی خواہشات بھی ہیں لیکن اپنی خواہشات کو دبا کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی اس زمانے میں ایک بہت بڑا جہاد ہے.دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے خرچ کرنا تو آسان ہے لیکن دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مالی قربانی دینا یقیناً ایک جہاد ہے.

Page 26

خطبات مسرور جلد ششم 6 خطبہ جمعہ فرموده 4 جنوری 2008 پھر دوسری بات میں نو مبائعین سے بھی کہنا چاہتا ہوں اور نو مبائعین کو سنبھالنے والوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ نومبائعین کی جماعت سے تعلق میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب وہ مالی قربانی میں شامل ہوتے ہیں.جب وہ اس اصل کو سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ایک ذریعہ مالی قربانی بھی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو نو مبائعین اس حقیقت کو سمجھ گئے ہیں وہ جماعت سے تعلق، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت اور اخلاص اور آنحضرت ﷺ کے عشق میں فنا ہونے کی منازل دوڑتے ہوئے طے کر رہے ہیں.بعض نو مبائعین قربانیوں میں اول درجے کے شمار ہونے کے بعد بھی لکھتے ہیں کہ یہ قربانی ہم نے دی ہے لیکن حسرت ہے کہ کچھ نہیں کر سکے.انہیں یہ احساس ہے کہ ہم دیر سے شامل ہوئے تو قربانیاں کرتے ہوئے ان منزلوں پر چھلانگیں مارتے ہوئے پہنچ جائیں جہاں پہلوں کا قرب حاصل ہو جائے.پس یہ وہ موتی اور ہیرے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے اور عطا فرما رہا ہے.جن کی حسرتیں دنیاوی خواہشات کے لئے نہیں بلکہ قربانیوں میں بڑھنے کے لئے ہیں اور جس قوم کی حسرتیں یہ رخ اختیار کر لیں اس قوم کو کبھی کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا.جب کہ خدائی وعدے بھی ساتھ ہوں اور اللہ تعالیٰ یہ اعلان کر رہا ہو کہ میں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں.پس جو کمزور ہیں، نئے احمدی ہوں یا پرانے ، تربیتی کمزوریوں کی وجہ سے بھول گئے ہیں یا قربانیوں کی اہمیت سے لاعلم ہیں، ہمیشہ یاد رکھیں کہ مسلسل کوشش اور جدو جہد انہیں وہ مقام دلائے گی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا مقام ہے.اس اہم کام کی سرانجام دہی کے لئے جہاں ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس اہمیت کو سمجھے وہاں انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ احباب جماعت کو اس کی اہمیت بتائیں.نو مبائعین کو اس کی اہمیت بتائیں.جب تک عہد یداران کے اپنے معیار قربانی نہیں بڑھیں گے ان کی بات کا اثر نہیں ہوگا.جہاں عہد یداران اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں وہاں کی رپورٹس بتا دیتی ہیں کہ حق ادا ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل.جماعت میں ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنا سب کچھ بھول جاتے ہیں، بیوی بچوں کو بھی بھول جاتے ہیں، اپنے نفس کے حق بھی ادا نہیں کرتے.صبح اپنے کام پر جاتے ہیں اور وہاں سے شام کو سید ھے جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے پہنچ جاتے ہیں.انہیں کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارا اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی تم پر حق رکھا ہے.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں.بہت محنت کرنے والے ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ یہ جو محنت کرنے والے ہیں یہ بھی صحیح طریق پر محنت نہیں کر رہے ہوتے.مثلاً چندوں کے معاملے میں.جو چندہ دینے والے مخلصین ہیں ہر تحریک کی کمی پورا کرنے کے لئے انہیں کو بار بار کہا جاتا ہے.جب کہ کئی دفعہ کہا گیا ہے کہ نئے شامل ہونے والوں کو بھی شامل کریں اور تعداد بڑھا ئیں.ہر ایک میں قربانی کی روح پیدا کریں.اگر شعبہ تربیت اور مال یا وقف جدید، تحریک جدید مشتر کہ کوشش

Page 27

خطبات مسرور جلد ششم 7 خطبہ جمعہ فرموده 4 جنوری 2008 کریں تو کمزوروں کو بھی ساتھ ملایا جا سکتا ہے.شروع میں بعض وقتیں پیش آئیں گی لیکن دعا اور صبر سے یہ روکیں اور مشکلات بھی دور ہو جائیں گی انشاء اللہ.بعض لوگ لکھتے بھی ہیں اور زبانی بھی موقع ملے تو کہہ دیتے ہیں کہ بعض افراد جماعت پوری طرح تعاون نہیں کرتے، پروگراموں میں حصہ نہیں لیتے تو میں انہیں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ تمہارا کام یہ ہے کہ مسلسل دعا اور صبر سے کوشش کئے جاؤ.جو احمدی ہے اس میں کوئی نہ کوئی نیک فطرت کا حصہ ہے جس کی وجہ سے وہ احمدیت پر قائم ہے.پس کمزوروں کو ساتھ ملا کر چلنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.اس لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہئے.اب جبکہ ہم خلافت کی نئی صدی میں چند ماہ تک داخل ہونے والے ہیں.جماعتی نظام جو مختلف شہروں اور ملکوں میں قائم ہیں اور ذیلی تنظیمیں بھی ایسے پروگرام بنا ئیں جس سے ہماری قربانیوں کے ہر قسم کے معیار بلند ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی تڑپ ہر ایک میں پیدا ہو جائے.ہر احمدی بھی ، نئے بھی اور پرانے بھی اپنے جائزے لیں کہ کیا بہترین تحفہ ہم شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے جارہے ہیں.مجھے خیال آیا کہ وقف جدید کی یہ تحریک حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی وہ آخری تحریک ہے جس میں تبلیغی ، تربیتی اور مالی قربانیوں کا پروگرام دیا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا یہ بھی 50 سال پورے کر کے اپنے 51 ویں سال میں داخل ہو رہی ہے اور یہ خلافت کی پہلی صدی کی وہ خاص تحریک ہے جس کا سال کے آخر پر مختصر رپورٹ پیش کر کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.وقف جدید تحریک جدید کا تو اعلان کیا جاتا ہے لیکن اور بھی تحریکات ہیں ان کا اس طرح با قاعدہ سال کے سال اعلان نہیں ہوتا اور یہ تحریک خلافت کی پہلی صدی کی وہ آخری تحریک ہے جس کا میں آج اعلان کر رہا ہوں یعنی خلافت کی پہلی صدی کے آخری سال کا اختتام بھی اس الہی تحریک کے اعلان سے ہو رہا ہے.اس لحاظ سے بھی وقف جدید کی ایک اہمیت ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے 1413 سال پہلے وقف جدید کا اعلان کرتے ہوئے ہمارے ایک ماریشین واقف زندگی جہانگیر صاحب کی خواب کا ذکر کیا تھا.انہوں نے دیکھا تھا کہ جماعت ایک میز کی شکل میں ہے جس کے چار پائے ہیں.جس میں سے میز کا ایک پایہ یا ٹانگ جو ہے وہ بڑھنی شروع ہوتی ہے اور یہ وقف جدید کا پایہ ہے جس سے توازن خراب ہوتا ہے تو میز کی تحریک جدید کی جو ٹانگ ہے یا جو پا یہ ہے وہ بھی بڑھنا شروع کرتا ہے تا کہ بیلنس قائم رکھے لیکن وہ وقف جدید کے پائے کا ساتھ نہیں دے سکتا.وہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے.تو پھر اس پائے کو زبان ملتی ہے اور وہ وقف جدید کے پائے کو کہتا ہے کہ اپنی رفتار کم کرو تا کہ میں بھی تمہارے ساتھ مل جاؤں.اس پر وقف جدید کا پایہ یہ کہتا ہے کہ میں مجبور ہوں اپنی رفتار کم نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے بڑھنا ہی اسی رفتار سے ہے.

Page 28

خطبات مسرور جلد ششم خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 2008 حضرت خلیفة المسیح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں بتایا تھا کہ ای تو مالی قربانی کی رفتار ہے.دوسرے یہ تعبیر کی تھی اور دعا کی تھی کہ یہ تعبیر بیچ ہو کہ وقف جدید کے تحت جو تینوں ممالک خاص کام کر رہے ہیں ان میں انقلابی تبدیلی پیدا ہو اور جماعت تیزی سے ترقی کرے.ان تمام باتوں کی اہمیت کے پیش نظر میں بھی ان جماعتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ حالات میں جس تیزی سے تبدیلی پیدا ہورہی ہے یہ ملک اپنے تبلیغ اور تربیت کے کام کو بھی خاص طور پر سمجھیں اور کوشش کر کے اس رفتار کو تیز کرنے کی کوشش کریں اور جب اللہ تعالیٰ کی تائید اور دعا بھی ساتھ ہو تو کوئی نہیں جو اس رفتار ترقی کو روک سکے.اس نے بڑھنا ہی ہے.پس آگے بڑھیں اور جہاں مالی قربانیوں میں مثالیں قائم کر رہے ہیں وہاں دیہاتوں میں تبلیغی او تر بیتی کام کو بھی تیز کردیں.تینوں ملکوں میں بھی اور افریقہ میں بھی وقف جدید کے تحت خاص منصوبہ بندی کی ضرورت ہے.اللہ کرے کہ جو تعبیر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمائی تھی اس کو آج ہم تیزی سے پورا ہوتے دیکھیں.اس کے لئے مالی قربانی بھی ایک اہم حصہ ہے.کیونکہ مالی ضروریات بھی بڑھیں گی جب کام میں تیزی پیدا ہوگی.پس تمام ممالک اس میں مدد کریں.بچوں کی تربیت کے لئے جیسا کہ میں نے کہا تھا بچوں کو بھی بطور خاص توجہ دلائیں.ان کو بھی احساس ہو کہ یہ سب انقلاب اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر سے آ رہا ہے اس میں ہمارا بھی حصہ ہے.اس طرح گزشتہ دس سال میں جتنے احمدی ہوئے ہیں، جو بیعتیں ہوئی ہیں، انہیں بھی بطور خاص وقف جدید میں شامل کریں.میں نے نو مبائعین سے رابطے بحال کرنے کے لئے کہا ہوا ہے.بہت سارے رابطے ضائع ہو گئے.اس پر بعض ملکوں میں بہت اچھا کام ہو رہا ہے.ان رابطوں کی بحالی کے لئے بھی مالی قربانی کی ضرورت ہے اور جب رابطے بحال ہوتے ہیں تو ان کو بھی مالی قربانی کی عادت ڈالیں اور ان کو اس کے لئے وقف جدید میں شامل کریں.اگر غریب بھی ہیں تو چاہے ٹوکن کے طور پر معمولی چندہ دیں لیکن مالی قربانی میں شامل ہونا چاہئے.مالی قربانی کی عادت پڑے گی تو پھر یہ تقویٰ کی ترقی کا باعث بھی بنے گی.اللہ تعالیٰ نے تقویٰ میں بڑھنے والوں کے لئے عبادات کے ساتھ قربانی کا بھی ذکر فرمایا ہے جس میں مالی قربانی بھی شامل ہے.پس مالی قربانی بھی دلوں کی پاکیزگی اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے ضروری چیز ہے.پس دعاؤں اور قربانیوں سے تقویٰ میں بڑھیں اور خلافت کی نئی صدی کا استقبال کریں اور اس میں داخل ہوں.ان قربانیوں کی عادت جو پڑے گی ، یہ جاگ جو بچوں میں اور نئے آنے والوں میں لگے گی ، قربانیوں کا احساس اور تقویٰ میں بڑھنے کا احساس جو تمام احمدیوں میں پیدا ہو گا یہ جہاں آئندہ انقلاب میں سب کو حصہ دار بناتے ہوئے خوشخبریاں دے گا اور ترقیات دکھائے گا.انشاء اللہ، وہاں فوج در فوج آنے والوں کو بھی قربانیوں کی اہمیت دلاتے ہوئے مالی قربانیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دلائے گا.اور یوں جب خالصتاً للہ ان عبادتوں اور

Page 29

خطبات مسرور جلد ششم 9 خطبہ جمعہ فرموده 4 جنوری 2008 قربانیوں کے اعلیٰ معیار کے حصول کی کوشش ہو رہی ہو گی تو یہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام کا باعث بنے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والی ہوگی.آنحضرت ﷺ کے جھنڈے کو تمام دنیا میں گاڑنے کا باعث بن رہی ہوگی.پس اس جذبے سے اپنے بھی جائزے لیں اور بچوں اور نو مبائعین کو بھی خاص طور پر وقف جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں تا کہ ان مقاصد کا حصول کر کے جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں.اب میں حسب روایت وقف جدید کے کوائف پیش کروں گا یعنی دنیا کے مختلف ممالک کا موازنہ اور وصولی پیش ہوگی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر وقف جدید میں 124 کھ 27 ہزار پاؤنڈ مالی قربانی ہوئی ہے اور یہ جو وصولی ہے گزشتہ سال سے تقریباً دولاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے.تو وقف جدید کے پائے کے اونچا ہونے کی ایک تو یہ ظاہری شکل ہمیں نظر آتی ہے کہ گزشتہ سال سے وقف جدید کی وصولی دولاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے.جبکہ نومبر میں میں نے جب تحریک جدید کا اعلان کیا تھا تو اس میں گزشتہ سال سے تحریک جدید میں جو وصولی تھی وہ ایک لاکھ دس ہزار پاؤنڈ زیادہ تھی.یعنی وقف جدید کا اس سال کا جو اضافہ ہے وہ تحریک جدید کی نسبت کافی زیادہ ہے تقریب دو گنا.دنیا میں وقف جدید کی قربانی میں شامل جو پہلی دس جماعتیں ہیں ان میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے، پھر امریکہ ہے، برطانیہ نمبر تین پر ہے.نمبر 4 پر جرمنی نمبر پانچ پر کینیڈا نمبر چھ پہ ہندوستان اور نمبر سات پر انڈونیشیا، نمبر آٹھ پہ بلجیم، نمبرنو پہ آسٹریلیا اور نمبر دس پر فرانس کینیڈا اور جرمنی کا بڑا معمولی فرق ہے.کینیڈا اگر ذرا سا زور لگائے تو میرا خیال ہے آرام سے چوتھی پوزیشن آسکتی ہے.پاکستان کے حالات کے بارے میں ایک اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا کہ 2007 ء پاکستان کی تاریخ کا سب سے بدترین سال ہے اور معاشی لحاظ سے بھی بہت برا سال تھا.بہت سے جائزے پیش کئے گئے تھے.اس کے باوجود کہ غربت انتہاء کو پہنچ گئی.کاروباری لحاظ سے، معاشی لحاظ سے پاکستان بہت پیچھے تھا لیکن پھر بھی پاکستانی احمدیوں کے معیار قربانی نہیں گرے.اس میں پہلے سے بہتری پیدا ہوئی ہے.اس دفعہ میں سوچ رہا تھا کہ گزشتہ دنوں دسمبر میں جو حالات ہوئے ہیں، کراچی کے حالات بھی بہت زیادہ خراب تھے تو شاید اس سال پاکستان کی پوزیشن کوئی نہ ہو یا شاید وصولیاں کم ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جب میں نے ترقی دینی ہے تو پھر مدد بھی فرشتوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے.باوجود اس کے کہ ہر روز ہم نظارے دیکھتے ہیں اور میں خاص طور پر جماعتی ترقی کے نظارے دیکھتا ہوں اس لئے اپنی اس سوچ پر شرمندگی بھی ہوئی کہ خدا تعالیٰ پر بھی حسن ظن نہیں رکھا.اللہ رحم کرے.

Page 30

خطبات مسرور جلد ششم 10 خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 2008 پس یہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیارے لوگ ہیں کہ جیسے بھی حالات ہو جائیں اپنی قربانیوں کے معیار کو نہیں گرنے دیتے.فی کس چندے کے لحاظ سے بھی جو جائزہ ہے اس کے مطابق امریکہ نمبر ایک پہ ہے 65 پاؤنڈ فی کس اور برطانیہ نمبر دو پر 34 پونڈ ، فرانس نمبر تین پر 31 پونڈ، کینیڈا نمبر چار پہ 21 پونڈ اور بلجیم نمبر پانچ پر 18 پونڈ.افریقہ کی جماعتوں میں ترتیب کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتیں گھانا ، نائیجیریا ، بین ، بورکینا فاسو اور نمبر 5 تنزانیہ ہیں.گھانا بھی مالی قربانی میں کچھ ست ہو گیا تھا.شکر ہے میرے کہنے پر اب گھانا میں بھی ہل جل پیدا ہوئی ہے.افریقنوں میں عمومی طور پر میں نے دیکھا ہے کہ قربانی کا مادہ بہت ہے لیکن گھانا میں تو میں نے خود رہ کے دیکھا ہے.اتنا قربانی کا مادہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے.اگر ان میں کسی جگہ قربانی کی کمی ہے، اگر کچھ ستی ہے تو عام احمد یوں میں نہیں ہے ، لوگوں میں نہیں ہے، بلکہ انتظامیہ اور کام کرنے والے اور کارکنان اور عہد یداران میں سستی ہے.ان کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو بہتر کریں اور اپنے لوگوں کو قربانیوں کے معیار حاصل کرنے سے محروم نہ رکھیں.وقف جدید کے چندہ دینے والوں کی کل تعداد 5 لاکھ دس ہزار ہے لیکن اس میں بھی بہت گنجائش موجود ہے.گزشتہ سال میں نے ہندوستان کو 5لاکھ کا ٹارگٹ دیا تھا ان کو پورا کرنا چاہئے.وہ تقریباً سوالاکھ کے قریب پہنچے ہیں.ان کو چاہئے کہ وہ مزید اس سے بہتر کریں.انگلستان کی جماعتوں میں سے فی کس ادائیگی کے لحاظ سے مسجد بیت الفضل لندن میرا خیال ہے نمبر ایک پر ہے اور ساؤتھ ایسٹ لندن نمبر دو پر اور نیو مالڈن نمبر تین پر.امریکہ میں وصولیوں کے لحاظ سے سیلیکون ویلی ، لاس اینجلس ایسٹ، شکا گوویسٹ ، ڈیٹرائٹ اور نمبر پانچ پر لاس اینجلس ویسٹ.جرمنی میں ہمبرگ، گر اس گیرا ؤ، فرینکفرٹ اور ویز بادن ( اگر میں صحیح بول رہا ہوں تو ) اور نمبر پانچ ڈامسٹڈ.پاکستان میں اطفال اور بالغان کا علیحدہ علیحدہ دفتر ہوتا ہے جیسا کہ میں نے بتایا تھا.اطفال میں ناصرات بھی شامل ہیں تو اس میں پہلی پوزیشن بڑوں میں لاہور، کراچی اور نمبر تین ربوہ.اور اضلاع میں پہلا ضلع سیالکوٹ نمبر دو راولپنڈی، نمبر تین اسلام آباد نمبر چار فیصل آباد، نمبر پانچ شیخو پورہ، نمبر چھ گوجرانوالہ، نمبر سات میر پور خاص، نمبر آٹھ سرگودھا، نمبر نو ملتان ،نمبر دس گجرات.اطفال میں بھی اول ، دوم سوم کی وہی ترتیب ہے لاہور، کراچی ، ربوہ اور ضلعوں میں بھی تقریباً وہی ہے سوائے اس کے کہ بالغان میں نمبر 9ملتان تھا اور یہاں نمبر 9 نارووال ہے.یہاں تھوڑی سی پوزیشن بدل گئی ہے.اسلام آباد

Page 31

خطبات مسرور جلد ششم 11 خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 2008 نمبر ایک سیالکوٹ نمبر دو ،گوجرانوالہ نمبر تین ، شیخو پوره چار، فیصل آباد، پانچ ، راولپنڈی چھ، میر پور خاص سات، سرگودھا آٹھ ، نارووال نو اور حیدر آباد دس.اللہ تعالیٰ ان تمام مخلصین اور قربانیاں کرنے والوں کو بے انتہا اجر دے.ان کے مال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.جو قربانیاں کرنے والے ہیں وہ قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے حوالے سے ایسے لوگوں کے بارے میں جو قربانیوں میں بہت بڑھ رہے ہیں ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ ان کے اخلاص کو دیکھ کے ڈر لگتا ہے.اور یہ اخلاص میں بڑھنے والے اللہ تعالیٰ کے سے اب دنیا کے ہر ملک میں پیدا ہور ہے ہیں.ان کے اخلاص سے یہ ڈر ہے کہ اخلاص کی وجہ سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والے نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.اپنے وعدے کے مطابق جزائے کبیر عطا فرمائے.ان مخلصین کی قربانی کی روح آگے جاگ لگاتی چلی جائے اور ایسے قربانی کرنے والے پیدا ہوتے چلے جائیں جو اس قربانی کی روح کو کبھی مرنے نہ دیں.کبھی ماندہ نہ ہوں اور کبھی نہ تھکیں.ایسے نمونے بکھیر تے چلے جائیں کہ آئندہ آنے والوں کے دل ہمیشہ آپ کے لئے نیک جذبات اور دعاؤں سے بھرے رہیں اور آپ کے لئے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جنہوں نے ایسے نیک نمونے قائم کر کے آئندہ نسلوں میں بھی وہ روح قائم کی اور پیدا کی جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی روح تھی.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 نمبر 4.مورخہ 25 جنوری تا 31 جنوری 2008 صفحہ 8-5)

Page 32

خطبات مسرور جلد ششم 2 12 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 فرموده مورخہ 11 جنوری 2008ء بمطابق 11 صلح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح بلندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ.وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 130) گزشتہ خطبہ میں وقف جدید کے اعلان کی وجہ سے اس آیت کے مضمون کو جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے جاری نہیں رکھ سکا تھا.آج میں پھر اسی آیت کے مضمون کی طرف لوٹ رہا ہوں.اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی جو بیان ہوئی ہے.گزشتہ سے پیوستہ خطبہ میں میں نے پہلا حصہ بیان کیا تھا.اس کا جو بقیہ حصہ ہے وہ بیان کرتا ہوں.یعنی دعا میں اس عظیم رسول کے لئے چار چیز میں مانگی تھیں.پہلی تو تھی.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ایتک اس کا بیان ہو گیا ہے.اب ہے يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكّيهِمُ یعنی انہیں کتاب کی تعلیم دے اور اس کی حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ بھی کرے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی.جیسا کہ میں نے کہا جو آیات تو اس عظیم رسول پر نازل فرمائے وہ عظیم رسول ان اتری ہوئی آیات کی ان پر جن لوگوں کے لئے مبعوث ہوا ہے، تلاوت کرے گا.اب ان آیات کی تلاوت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو نشان بھیجے گئے ہیں یا جو آیات نازل کی گئی ہیں جن میں عبرت کے واقعات بھی ہیں، جن میں نصیحت بھی ہے، عذاب کی خبریں بھی ہیں ، صرف پڑھ کر سنادے بلکہ جیسا کہ گزشتہ سے پیوستہ خطبے میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ آئندہ آنے والوں کے لئے یہ نمونے جو دیئے گئے تھے وہ ایک سبق ہیں.اس لئے یہ دعا کی کہ یہ عظیم نبی جو تو آئندہ زمانے کے لئے مبعوث کرنے والا ہے اور جس کے لئے میں دعا کرتا ہوں کہ بنی اسماعیل میں سے مبعوث ہو وہ نبی صرف اپنی زندگی تک ہی ان آیات کی تلاوت کرنے والا نہ ہو ، یا اس کے زمانے کے لوگ ہی اس تعلیم سے فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں، اپنے وقت کے لوگوں کو ہی صرف تعلیم دینے والا نہ ہو بلکہ یہ عظیم نبی چونکہ قیامت تک کے لئے مبعوث ہونا ہے اس لئے یہ سب تعلیم جو ہے لیکھی ہوئی ملے.کتاب کی شکل میں ہوتا کہ قیامت تک اس پر عمل کرنے والے پیدا ہوتے رہیں.

Page 33

خطبات مسرور جلد ششم 13 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 اس دعا سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم ہو چکا تھا کہ ایک زمانے میں ایک ایسا نبی مبعوث ہونا ہے جس کی تعلیم قیامت تک رہنی ہے.اس لئے دعا کی کہ وہ جن میں مبعوث ہو اور جس زمانے کے لئے مبعوث ہو، انہیں کتاب کی تعلیم دے.یہ تمام تعلیم ، یہ تمام آیات یکجا تحریری صورت میں ہوں.اصل میں تو یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سکھائی تھی کہ جو عظیم رسول مبعوث ہونا ہے اس پر جو شریعت نازل ہونی ہے وہ تمام لکھی ہوئی صورت میں ہوگی اور اس طرح لکھی ہو گی کہ قیامت تک اس کا شوشہ بھی ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج صرف یہ قرآن کریم ہی ہے جو مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد لکھی ہوئی صورت میں ملا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے حفاظ پیدا کئے بلکہ آج تک پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں جن کے دل و دماغ پر اور یادداشت میں قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور حرف لکھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے جو تعلیم جاری فرمائی اس کو ظاہری کتاب میں بھی محفوظ کر لیا اور دل و دماغ میں بھی نقش کر دیا.جس طرح اس کی حفاظت کے سامان فرمائے کسی اور نبی پر اترنے والی آیات اور احکامات کی حفاظت نہیں کی.کوئی کتاب علاوہ قرآن کریم کے یہ دعوی نہیں کر سکتی کہ اس کا لفظ لفظ الہامی شکل میں قائم ہے جبکہ قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ یہ پہلے دن سے جس طرح اُترا اسی طرح محفوظ ہے.بلکہ زیر ز بر پیش ، کہاں رکنا ہے ، کہاں نہیں رکنا ، اس حد تک تفصیل سے قرآن کی حفاظت کا خدا تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہے.تو یہ ہے اس کتاب کی خوبی جو اس رسول پر اتری جس پر شریعت کامل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِينًا (المائدہ:4) یعنی میں نے تمہارے فائدہ کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر احسان پورا کر دیا ہے اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا اور تمام نعمتیں تمہیں عطا فرما دی ہیں.پس یہ اعلان ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا.یہ جہاں حضرت ابراہیم کی قبولیت دعا کا بھی نشان ہے کہ اس عظیم رسول پر تمام نعمتیں مکمل ہو چکی ہیں ، تمام احکام جمع ہو گئے ہیں، تمام تاریخی واقعات جمع کر دیئے گئے ہیں، سابقہ شریعتوں کا ذکر بھی کر دیا گیا ہے.شریعت کے تمام احکام کے اعلیٰ معیار بتا دیئے گئے ہیں جن سے تمہاری شریعت کامل اور مکمل ہو گئی ہے.یہ اعلان اللہ تعالیٰ نے کیا.کوئی سابقہ شریعت اب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کوئی سابقہ کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور حقیقت میں یہی ایک کتاب ہے جو الکتب کہلانے کی مستحق ہے.اور پھر صرف شرعی با تیں ہی نہیں ، مذہبی باتیں نہیں علمی اور سائنسی با تیں بھی بیان کیں.جو سابقہ شریعتوں کے لوگوں کے لئے سمجھنا تو دور کی بات ہے خود آنحضرت.زمانے میں بھی بعض باتیں شاید صرف آنحضرت کے علاوہ کوئی نہ سمجھتا ہو.جو ایسی باتیں اور مستقبل کی خبریں تھیں جو

Page 34

خطبات مسرور جلد ششم 14 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 اس زمانے میں ظاہر ہوئیں.پس اس کے الکتب ہونے کا یہ کمال ہے.اس میں تمام علوم بیان فرما کر اصل حالت میں آج تک قائم رکھا اور اس بات کا بھی خود اعلان فرمایا کہ اس کتاب کو ، اس تعلیم کو جوعظیم رسول ﷺ پر اتری ہے میں محفوظ رکھوں گا اور کوئی نہیں جو اس کی حالت کو بدل سکے.جیسا کہ فرماتا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 10) کہ اس ذکر یعنی قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.اور یہ حفاظت کے سامان پہلے دن سے ہی فرما دیئے اور آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہی لکھ کر محفوظ کر لی گئی.قرآن کریم کی تمام آیات یا قرآن کریم محفوظ کر لیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ : اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے.سو تیرہ سو برس سے اس پیشین گوئی کی صداقت ظاہر ہو رہی ہے.اب تک قرآن شریف میں پہلی کتابوں کی طرح کوئی مشر کا نہ تعلیم ملنے نہیں پائی اور آئندہ بھی عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ اس میں کسی نوع کی مشر کا نہ تعلیم مخلوط ہو سکے شامل ہو سکے ” کیونکہ لاکھوں مسلمان اس کے حافظ ہیں.ہزار ہا اس کی تفسیریں ہیں.پانچ وقت اس کی آیات نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں.ہر روز اس کی تلاوت کی جاتی ہے.اسی طرح تمام ملکوں میں اس کا پھیل جانا، کروڑ ہانسے اس کے دنیا میں موجود ہونا، ہر یک قوم کا اس کی تعلیم سے مطلع ہو جانا یہ سب امور ایسے ہیں کہ جن کے لحاظ سے عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہے کہ آئندہ بھی کسی نوع کا تغیر و تبدل قرآن شریف میں واقع ہونا ممتنع ہے اور محال ہے.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 102 حاشیہ) یعنی اس بات کی یہ دلیل ہے کہ آئندہ بھی کبھی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اس کو آج تک بلکہ اُس وقت جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس پر بھی مزید سو سال گزر چکے ہیں، قرآن کو محفوظ رکھا ہوا ہے.آج بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آئندہ بھی عقل تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس کی تعلیم میں کوئی رد و بدل ہو سکے.وہ خدا جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کی حفاظت بھی فرماتا رہے گا.فی زمانہ دجال نے ایک یہ چال چلی کہ اس میں رد و بدل کر سکے لیکن یہ کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتیں.جیسا کہ پہلے بھی میں ایک دو دفعہ ذکر کر چکا ہوں.اس قرآن کریم میں رد و بدل کا یا اس کے مقابل پر نیا قرآن کریم پیش کرنے کی جو عیسائیوں کی ایک چال تھی، بہت بڑا خوفناک منصوبہ تھا اور اس کو پہلی دفعہ انہوں نے فرقان الحق کے نام سے شائع کیا.خود ہی اپنے پاس سے الفاظ بنا کر، کچھ قرآن کریم کے الفاظ لے کر کچھ اپنے پاس سے ملا کر،

Page 35

15 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم جوڑ جاڑ کر کچھ آیتیں بنائیں اور کچھ سورتیں بنالیں.ستر یاستتر میرا خیال ہے اور پہلی دفعہ اس کی اشاعت 1999ء میں ہوئی.اتو بخیلی کل چرچ کی طرف سے تھی اور اس لئے تھی کہ ان کا خیال ہے کہ جو آنے والا مسیح ہے اس کے آنے کی خبر دینے کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو پہلے ذہنی طور پر تیار کر لیا جائے اور فرقان الحق کے نام سے ایک کتاب ان میں متعارف کروا دی جائے.ایک خبر آئی تھی اس زمانے میں بھی کہ کویت میں یہ تقسیم ہو رہی ہے یا بچوں کو پڑھائی گئی ہے.اس بارہ میں عربی ڈیسک کو کہا تھا کہ پتہ کریں لیکن ان کی رپورٹ نہیں آئی.انہوں نے بڑی دیر لگادی.پتہ لگنا چاہئے کیونکہ دوسال پہلے یہ خبر عام ہوئی تھی.بہر حال امریکہ سے یہ شائع ہوئی تھی.اس کے علاوہ تحریف کرنے کی ایک اور کوشش بھی ہے.مسلمانوں کا ایک گروپ ہے جو شریعہ کے خلاف کھڑا ہوا ہے.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ قرآن کریم میں سے جنگ اور جہاد کے بارہ میں جتنی آیات ہیں وہ نکال دی جائیں.انتہائی مداہنت اور بزدلی دکھانے والا یہ گروپ ہے جو مغربی معاشرہ کو یا دوسرے لفظوں میں عیسائیوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا مذہب سے ان کو کوئی لگاؤ ہی نہیں.قرآن کریم میں تحریف کر کے مسلمانوں کے اندر رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں.بہر حال یہ تو ان لوگوں کی کوشش ہے.یہ کوششیں چاہے اب عیسائیوں کی طرف سے ہوں یا اس طبقے کی طرف سے ہوں جو مسلمان کہلاتے ہوئے اپنی ہی جڑیں کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں یا منافقین کا کردار ادا کر رہے ہیں ، جن کی طرف سے بھی ہوں ، جو بھی قرآن شریف کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ اس میں تو بہر حال کامیاب نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.یہ لوگ صرف دنیا کی نظر سے دیکھنے والے ہیں.سمجھتے ہیں کہ جس طرح بائبل میں انسانی دخل ہو گیا ، اسی طرح قرآن کریم میں بھی کر سکتے ہیں.جبکہ بائبل کے ساتھ یاکسی بھی اور کتاب کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں تھا.قرآن کریم وہ واحد کتاب ہے جس کے ساتھ یہ وعدہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس عظیم رسول پر اتری ہوئی کتاب ہے جس کی تعلیم قیامت تک رہنی ہے.پس ان لوگوں کو چاہے وہ غیر ہیں یا اپنے ہیں اگر خدا پر ایمان ہو تو یہ سب کچھ دیکھ کر کہ واحد کتاب اپنی اصلی حالت میں ہے، دجل اور شرارت کرنے کی بجائے اس کتاب کی تعلیم پر غور کرتے کہ ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک عظیم رسول کے لئے ایک کتاب کی اور اس کی تعلیم کی دعا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے دعاس بھی لی اور وہ عظیم رسول عرب میں مبعوث بھی ہو گیا جو اس کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور اس تعلیم کے اثرات دنیا نے دیکھ بھی لئے.اس کے باوجود یہ دشمنی تبھی ہوسکتی ہے کہ آنکھوں پر پٹی بندھی ہو یا خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہ ہو، یا صرف اور صرف شرارت، فتنہ اور فساد کی غرض ہو.اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ کیونکہ ی تعلیم اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور یہ رسول بھی خاتم الانبیاء ہے اس لئے اس رسول کی اتباع کے بغیر نہ کوئی رسول ، نہ کوئی نبی آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور کتاب کبھی آسکتی ہے.تم لوگوں نے یہ

Page 36

خطبات مسرور جلد ششم 16 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 دجل کی کوششیں کرنی ہیں تو کر کے دیکھ لولیکن کبھی کامیاب نہیں ہو گے.اس کتاب کی حفاظت اور اس شریعت کی حفاظت اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے فرماتا رہتا ہے اور اس زمانے میں بھی وہ جری اللہ مبعوث ہو گیا جس نے دجال کے تو ڑ کرنے تھے اس لئے چاہے جتنی بھی کوشش کر لو یہ خدا کی تقدیر ہے کہ اب شیطان کے بندوں اور رحمن کے بندوں کی آخری جنگ ہے جس میں یقینا رحمان کے بندوں نے کامیاب ہونا ہے.ان لوگوں کو مخالفین کو جو اپنے کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی تا کہ اللہ تعالیٰ یہ بتا سکے کہ سب طاقتوں کا سر چشمہ میں ہوں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جب میں کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہوں تو وہ ہو کر رہتی ہے.اس لئے ہمیں ان باتوں کی کوئی فکر نہیں کہ ان کے یہ دجل کامیاب ہو جائیں گے.ہاں بعض بے وقوفوں اور کم علموں کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور بعض مسلمانوں میں سے کچھ ان کی باتیں سن کے کچھ ضائع بھی ہو جاتے ہیں.کچھ تو شرارت سے، کچھ معصومیت سے پھنس جاتے ہیں.پس وہ لوگ بھی جو مسلمان کہلا کر پھر تعلیم کے بعض حصوں کو دیکھ کر منہ چھپاتے پھرتے ہیں، پریشان ہونے کی بجائے اس زمانے کے جری اللہ سے اس کتاب کی تعلیم کا فہم و ادراک حاصل کریں.اس سے یہ تعلیم سیکھیں تاکہ پتہ چلے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے.قرآن کریم کے احکامات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے.اس کے ایک ایک حرف کی حفاظت اللہ تعالیٰ اس کے نزول کے دن سے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا انشاء اللہ.یہ اس کا وعدہ ہے.پس قرآن ایسی کتاب ہے جس کو کوئی بدل نہیں سکتا.بعض مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی بعض تعلیمات اب منسوخ ہونی چاہئیں.جیسا کہ میں نے کہا ان کو اس تعلیم کو جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور اس زمانے کے امام سے سمجھنا چاہئے جس کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست اس زمانے میں اس کے لئے مقرر فرمایا ہے.قرآن کریم کی تعلیم کے بارے میں یہ اہم بات سمجھنے والی ہے.اس میں کتاب کا ایک مطلب احکامات اور فرائض بھی ہیں.تو اس میں کچھ فرائض ہیں، کچھ احکامات ہیں اور فرائض ایسی چیز ہیں جو ضروری ہیں ، لازمی ہیں رڈو بدل نہیں ہو سکتیں اور ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ کس طرح ان کی ادائیگی کرنی ہے.بڑی واضح تعلیم ہے اور دیگر احکامات میں حالات کے مطابق کمی بیشی ہو جاتی ہے.ان احکامات میں سے بعض ذاتی نوعیت کے ہیں اور ایسے بھی جو جماعتی اور قومی نوعیت کے بھی ہیں.جو ذاتی ہیں ان میں بعض حالات اور مجبوریوں کی وجہ سے فرد کو اختیار دیا گیا ہے.مثلاً عبادت میں فرض نماز میں ہیں.یہ لازمی ہیں.نوافل ہیں یہ اختیاری ہیں.پھر فرض نمازوں میں باجماعت نماز ہے.کھڑے ہو کر پڑھنا ہے ، باوضو ہونا ہے ، اس طرح کے احکامات ہیں.پھر ساتھ ہی بیمار یا مسافر کو بعض

Page 37

خطبات مسرور جلد ششم 17 خطبه جمعه فرموده 11 جنوری 2008 سہولتیں بھی دی گئی ہیں.تو یہ ہے مکمل تعلیم جو قرآن کریم نے ہمیں دی ہے.اسی طرح کی اور بہت ساری مثالیں ہیں.پھر جو قومی یا اجتماعی احکامات ہیں مثلاً جہاد یا جنگ کا حکم ہے جس سے اس طبقے کو شرم آتی ہے جو اس میں تحریف کرنا چاہتا ہے.پہلی بات تو یہ کہ کیا یہ ممالک جن کے پیچھے چل کر یہ لوگ مداہنت دکھا رہے ہیں، بزدلی دکھا رہے ہیں، ان کی خوشامد کرنا چاہتے ہیں، جنگیں نہیں کرتے.ان لوگوں کی تاریخ ظالمانہ جنگوں سے بھری پڑی ہے اور پھر اس زمانے میں بھی بعض ملکوں پر ان لوگوں نے ظالمانہ تسلط قائم کیا ہوا ہے اور مسلسل جنگ کی صورت ہے.اس لئے مسلمانوں کو ، وہ جو صحیح مومن ہے بیچ مسلمان ہے ، شرمندہ ہونے کی بجائے ان لوگوں کو شرمندہ کرنا چاہئے کہ کہتے کیا ہوا ور کر کیا رہے ہو.دوسرے قرآن میں جہاں جہاد کا حکم ہے جو جنگ کی صورت میں ہے.یعنی جنگ کی صورت میں جہادہ تلوار سے جہاد، اس کے لئے بعض شرائط ہیں کہ تمہارے پر کوئی ظلم کرتا ہے ، حملہ کرتا ہے تو ظلم کا جواب دو.جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے تو بہانے تلاش نہ کرو اور خون بہانے کی کوشش نہ کرو.اسی طرح بیشمار اور احکامات ہیں.جنگی قیدی ہیں ان کے ساتھ انصاف کرو، عدل سے کام لو.اور پھر یہ کہ جنگ اور جہاد یعنی تلوار اور بندوق کا جہاد کرنا ہے تو اس کا فیصلہ اولوالامر نے کرنا ہے.ہر ایرے غیرے نے نہیں کرنا اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے جو حکم اور عدل بھیجا ہے جس نے یہ فیصلے اس کتاب کی تعلیم کے مطابق کرنے ہیں کہ اب کون سا عمل اللہ تعالیٰ کی نظر میں احسن ہے، جس نے یہ فیصلے کرنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تفصیل اور وضاحت کیا ہے.کون ساعمل اب اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہے تو اس حکم اور عدل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اس زمانے میں میرے آنے کے ساتھ تیر و تفنگ، تلوار، بندوق کے ساتھ جہاد بند ہے اور اب جہاد کے لئے تم بھی وہی حربے استعمال کرو جو مخالفین استعمال کر رہے ہیں.یا تمہارا دشمن استعمال کر رہا ہے.مخالف لٹریچر اور میڈیا کے ذریعہ سے اسلام کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے تو تم بھی لٹریچر کے ذریعہ سے نہ صرف اس کا دفاع کرو بلکہ قرآنی تعلیم کو پھیلا کر ثابت کرو کہ یہی ایک تعلیم ہے جو نجات دلانے والی تعلیم ہے جو کہ خدائے واحد کی طرف سے ہے.اگر یہ لوگ دجل سے کام لیتے ہوئے قرآن کی طرز پر کتاب شائع کر کے عیسائیت کی تعلیم دے رہے ہیں تو اس کا رڈ کرو.پس اس حکم کی اب یہ تشریح ہے کہ اب جہاد تعلیمی اور علمی جہاد ہے.جہاد کا مطلب صرف تلوار چلانا نہیں ہے.نہ ہی کبھی آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم نے صرف یہی مطلب سمجھا ہے.بلکہ جہادا کبر قرآنی تعلیم پر عمل کرنا اور اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے.اگر جہاد کی صورت میں جنگ کا جواب دینے کی اجازت ہے.اگر

Page 38

خطبات مسرور جلد ششم 18 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 حکومت پر کوئی حملہ کرتا ملکوں پر حملہ کرتا ہے اور حکومتیں جواب دیتی ہیں اور اب بھی اس صورت میں اجازت ہے نہ کہ تنظیموں کا کام ہے.ان عقل کے اندھوں کو اب یہ بتانا جہاد ہے کہ دلیل سے ہم ثابت کرتے ہیں کہ تمہاری یہ کوشش جو ہے یہ بچگانہ کوشش ہے.اگر اس کتاب کو دیکھیں تو انتہائی بچگانہ کوشش لگتی ہے.بظاہر یہ دعویٰ ہے کہ بڑے عقلمندوں نے بنایا ہے لیکن دیکھنے سے ہی پتہ لگ جاتا ہے، ایک عام فہم کا انسان اس کو دیکھتے ہی سمجھ لیتا ہے کہ انسانی کوشش ہے.تو بہر حال قرآن کریم کی اصل حالت میں حفاظت کی، اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم کے بارے میں اس اعلان کی میں بات کر رہا تھا ہمیشہ اس کی حفاظت کروں گا.بعض مستشرقین جو ہیں جو اسلام کے خلاف توڑ مروڑ کر بھی پیش کرتے ہیں ان سے بھی یہ تائید کروائی ہے.انہوں نے بھی بالآخر مجبوراً یہ لکھا ہے.چنانچہ جان برٹن (John Burton) کی ایک کتاب The Collection of " "The Quran ہے.اس میں وہ لکھتے ہیں.تھوڑا سا حصہ میں پڑھتا ہوں کہ ”ہم تک پہنچنے والا متقن بعینہ وہی ہے جو خود نبی کریم ﷺ کا مرتبہ اور مصدقہ ہے.چنانچہ آج ہمارے پاس جو کتاب ہے ( یعنی قرآن ) یہ دراصل مصحف محمدی ہی ہے.(John Burton, The Collection of The Quran, Cambridge University Press,1997.P.239-240) پھر H.A.R Gibb لکھتے ہیں کہ یہ ایک نہایت قوی حقیقت ہے کہ ( قرآن کریم میں ) کسی قسم کی کوئی تحریف ثابت نہیں کی جاسکی.اور یہ حقیقت بھی بہت قوی ہے کہ محمد (ﷺ) کے بیان فرمودہ الفاظ کو اصل حالت میں مکمل احتیاط کے ساتھ اب تک محفوظ رکھا گیا ہے.(H.A.R.Gibb, Muhammadanism, London, Oxford University Press 1969, P.50) سرولیم میور بہت بڑے مستشرق ہیں وہ لکھتے ہیں کہ دنیا کے پردے پر اور کوئی ایسا کام نہیں کہ جس کا متن بارہ صدیوں کے بعد بھی صحیح ترین حالت میں ہو.(Sir William Muir, Life of Mahomet, London 1878.P.558) ڈاکٹر موررس بکائے "The Bible The Quran and Science" میں لکھتے ہیں.فرنچ سے ٹرانسلیشن ہے کہ آج کے دور میں مہیا ہونے والے قرآن کریم کے تمام نسخے اصل متن کی دیانتداری سے کی گئی نقول ہیں.قرآن کے معاملہ میں اب تک کے شب وروز میں تحریف و تبدل کا کوئی سراغ نہیں ملتا.(The Bible, The Quran and Science, Translation from French by Alstair D.Pannel and The Author under heading Conclusion, P.102) پھر نولڈ یکے جو بہت بڑے مستشرق تھے.وہ لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت

Page 39

خطبات مسرور جلد ششم 19 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 موجود ہے اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے وہی ہے جو خود محمد (ﷺ) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اسے استعمال کیا کرتے تھے.( بحوالہ تفسیر کبیر جلد چہارم صفحه 16) پھر لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں ہوں“.یعنی طرز تحریر میں ہوں تو ہوں، یہ ان کا طرز ہے شک میں ڈالنے کے لئے بہر حال.لیکن جو قرآن عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس کا مضمون وہی ہے جو محمد نے پیش کیا ہے ( ﷺ ).گو اس کی ترتیب عجیب ہے.یورپ کے محققین کی وہ تمام کوششیں جو قرآن میں بعد میں بعض اضافہ جات ثابت کرنے کے لئے کی گئی تھیں قطعاً نا کام رہی ہیں.(Encyclopaedia Britanica.Edition: 1911.Under heading "Quran".P.905) اس طرح کے بہت سارے ہیں.پس یہی وہ کتاب ہے ، الکتب ہے جو حضرت محمد مصطفی کہ حضرت خاتم الانبیاء پر اتری.اس میں تحریف کی نہ پہلے بھی کوئی کوشش کامیاب ہوئی نہ آئندہ ہو سکتی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں گا.یہ انسانوں کے ذریعہ ہمارے تک نہیں پنچی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمائے تھے کہ اس کی حفاظت کے سامان ہمیشہ ہوتے رہے.اور ان کی کوششوں کے باوجود نہ ہی کبھی یہ الزام لگ سکتا ہے کہ اس میں کسی زمانہ میں بھی کبھی رد و بدل ہوئی.کتاب کے معنی جمع کرنے والی چیز کے بھی ہیں.پس اس لحاظ سے قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں تمام قسم کی تعلیمات جمع ہوگئی ہیں.اس میں تمدنی علم بھی ہے، مذہبی علم بھی ہے جیسا کہ میں نے کہا، اقتصادی بھی ہے، سائنسی بھی ہے، اخلاقی تعلیم بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” ذَالِكَ الْكِتَابُ یعنی یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا کے علم سے خلعت وجود پہنا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا علم تمام علوم سے کامل تر ہے.پس جو تعلیمات اس میں جمع کی گئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اپنے کامل علم کے مطابق اتاری ہیں کیونکہ شریعت کامل ہو رہی تھی اس لئے تمام تعلیمات جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں اس طرح کسی اور شرعی کتاب میں اس اعلیٰ پائے کی نہیں اتریں.بعض احکامات ایک جیسے ہیں لیکن ان کے بھی معیار وہ نہیں ہیں.لَا رَيْبَ فِيهِ کہ کر اللہ تعالیٰ نے مزید فرما دیا کہ میں جو تمام علوم کا سر چشمہ ہوں تمہیں بتارہا ہوں کہ اس تعلیم کے اعلیٰ پائے کے ہونے میں کوئی شک نہیں اور کسی بھی شک وشبہ میں کوئی گنجائش نہیں.تم لاکھ کوشش کر لو اس جیسی کتاب نہیں بنا سکتے.دجل سے کام لے کر کوشش تو کر لو گے لیکن فورا ننگے ہو جاؤ گے.چنانچہ ذرا اسے غور سے جیسا کہ پہلے میں نے کہا ایک عام آدمی بھی معمولی تعلیم یافتہ بھی اس کو دیکھ لے تو پتہ چل جاتا ہے کہ اس میں کتنے سقم ہیں کتنی بے ترتیبیوں سے ان کو جوڑا گیا ہے.قرآن کریم کی تعلیم کا

Page 40

خطبات مسرور جلد ششم 20 20 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 خلاصہ توحید کا بیان ہے، تو حید کے ارد گر دگھومتی ہے.جبکہ اس کو اگر پڑھیں تو مسلمانوں کو بگاڑنے کے لئے کوشش کی گئی ہے اور بڑی ہوشیاری سے شروع میں ہی تثلیث کا بیان کر دیا گیا ہے.لیکن اسی آیت میں توحید کا بیان کر کے تثلیث کو تو حید بنا دیا.ایک مسلمان جس کو بنیادی علم ہے وہ کس طرح اس کو قبول کر سکتا ہے یا تو ہوشیاری یہ ہوتی ہے کہ پہلے کچھ نہ کچھ تو حید کا بیان کیا جاتا پھر گھوم پھرا کر اس میں تثلیث کا کچھ حصہ ڈال دیا جاتا.تو بے وقوفی تو یہاں تک ہے کہ شروع میں ہی ایک ہی آیت میں جو انہوں نے اپنی طرف سے آیت بنائی ہے اس میں توحید اور تثلیث کا بیان ہے.بہر حال اس کو یہاں بیان کرنے کی تو ضرورت نہیں.اس میں فضول باتیں ہی ہیں.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں.اس بات کی وضاحت میں کہ جو الہام الہی ہے اس کی جو ہدایت ہے ہر ایک طبیعت کے لئے نہیں ہے.بلکہ الہام الہی کا یا اللہ تعالیٰ کی تعلیم کا اُن طبائع پر اثر ہوتا ہے جن کی طبیعتیں صاف ہوں.ہر حکم جو ہے، جو تعلیم اترتی ہے ان لوگوں کے لئے ہے جو پاک طبیعت رکھتے ہیں، جو صفت تقویٰ اور صلاحیت سے متصف ہیں.آپ فرماتے ہیں: ” اس آیت پر یعنی الم ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقره آیت : 3) پر غور کرنا چاہئے کہ کس لطافت اور خوبی اور رعایت ایجاز سے خدائے تعالیٰ نے وسوسہ مذکور کا جواب دیا ہے، یعنی اگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہر ایک اس تعلیم سے کیوں نہیں اثر لیتا تو اس کو اس آیت سے فائدہ اٹھانا چاہئے.کس خوبی سے اللہ نے جواب دیا ہے.اول قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی بیان کی، یعنی اس کے نزول کی ، اترنے کی وجہ اور اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا السم میں خدا ہوں جو سب سے زیادہ جانتا ہوں.یعنی نازل کنندہ اس کتاب کا میں ہوں جو علیم و حکیم ہوں جس کے علم کے برابر کسی کا علم نہیں.پھر بعد اس کے علت ماڈی قرآن کے بیان میں فرمائی اور اس کی عظمت کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا ذَالِکَ الكِتبُ وہ کتاب ہے.یعنی ایسی عظیم الشان اور عالی مرتبت کتاب ہے جس کی علت ماڈی“ اس کے پیدا ہونے کی وجہ علم الہی ہے.یعنی جس کی نسبت ثابت ہے کہ اس کا منبع اور چشمہ ذات قدیم حضرت حکیم مطلق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ”وہ“ کا لفظ اختیار کرنے سے جو بعد اور ڈوری کے لئے آتا ہے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ کتاب اس ذات عالی صفات کے علم سے ظہور پذیر ہے جو اپنی ذات میں بے مثل و مانند ہے.جس کے علوم کا ملہ اور اسرار دقیقہ نظر انسانی کی حد جولان سے بہت بعید اور دُور ہیں.یعنی اس کے اندر جو کامل علم ہے، جو کامل تعلیم ہے اس کے اندر اور جو راز کی باتیں پوشیدہ ہیں اور جو گہرائی کی باتیں پوشیدہ ہیں وہ انسان کا ، عام آدمی کا جو فہم و ادراک ہے اس سے بہت دور ہیں.” پھر بعد اس کے علت صوری کا قابل تعریف ہونا ظاہر فرمایا.“ یعنی ظاہری شکل جو ہے ” اور کہا

Page 41

خطبات مسرور جلد ششم 21 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 لَا رَيْبَ فِيهِ یعنی قرآن اپنی ذات میں ایسی صورت و مدلل و معقول پر واقع ہے کہ کسی نوع کے شک کرنے کی اس میں گنجائش نہیں.یعنی وہ دوسری کتابوں کی طرح بطور کتھا اور کہانی کے نہیں.بلکہ ادلۂ یقینیہ و براین قطعیہ پرمشتمل ہے“ یعنی اس میں یقینی دلائل بھی موجود ہیں اور بڑے صاف ستھرے اور قطعی طور پر روشن نشان موجود ہیں.اور اپنے مطالب پر نجی بینہ اور دلائل شافیہ بیان کرتا ہے.جو بھی اس کا مطلب ہے مکمل طور پر کھل کر ان کی دلیلوں کے ساتھ ، کافی شافی دلیل کے ساتھ ان کو بیان کرتا ہے.” اور فی نفسہ ایک معجزہ ہے جو شکوک اور شبہات کے دور کرنے میں سیف قاطع کا حکم رکھتا ہے.ایک ایسا معجزہ ہے جو ہر قسم کے شکوک و شبہات دور کر دیتا ہے اور ایک تیز دھار تلوار کا حکم رکھتا ہے کہ اگر اس طرح اس کو سمجھا جائے تو جو متقی ہے، جو اس کو سمجھنے کی کوشش کرے گا اس کا ہر شک ، ہر شبہ کٹ جائے گا ختم ہو جائے گا.” اور خدا شناسی کے بارے میں صرف ہونا چاہئے کے فنی مرتبہ میں نہیں چھوڑتا.اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ ہونا چاہئے.” بلکہ ہے کے یقینی اور قطعی مرتبے تک پہنچاتا ہے“.اس بات پر قائم کرتا ہے کہ خدا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ”یہ تو عمل ثلاثہ کی عظمت کا بیان فرمایا اور پھر باوجود عظیم الشان ہونے ان ہرسہ علتوں کے ان سب وجوہات کے، جو تینوں وجوہات بیان کی ہیں جن کو تا ثیر اور اصلاح میں دخل عظیم ہے علت رابعہ چوتھی جو اس کی وجہ ہے، جو اس کا اصل مقصد ہے.یعنی علت غائی ، نزول قرآن شریف کو جو راہنمائی اور ہدایت ہے صرف متقین میں منحصر کر دیا.یعنی یہ باتیں ان لوگوں کو پہنچیں گی ان کو یہ باتیں سمجھ آئیں گی جو تقی ہوں گے.وہ لوگ عام لوگ نہیں.جب تک تقویٰ نہ ہوا نہیں کوئی نہیں لے سکتا.اور فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کہ یہ کتاب صرف ان جواہر قابلہ کی ہدایت کیلئے نازل کی گئی ہے جو بوجہ پاک باطنی و عقل سلیم و فهم مستقیم و شوق طلب حق و نیت صحیح انجام کار درجه ایمان و خدا شناسی و تقوی کامل پر پہنچ جائیں گے.یعنی یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت دے گی ، ساری نصیحتیں ان لوگوں کو پہنچیں گی جو ایسے لوگ ہیں جو اس قابل ہیں جو ہدایت پائیں.اور کس طرح اس قابل بنیں گے جن کے اندرونے پاک ہوں گے، جن کو عقل ہوگی اور فہم ہو گا.جو سیدھے راستے پر چلنے والا ہو اور حق کو پانے کے لئے ایک شوق ہو گا، طلب ہوگی اور صحیح نیت ہوگی تو پھر آخر کا ر ان کو خدا تعالیٰ کی پہچان ہوگی اور پھر وہ تقویٰ جو کامل ہے اس تک پہنچ جائیں گے.اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو قرآن کریم کی کسی کو مجھ نہیں آسکتی.فرمایا: یعنی جن کو خدا اپنے علیم قدیم سے جانتا ہے کہ ان کی فطرت اس ہدایت کے مناسب حال واقعہ ہے اور وہ معارف حقانی میں ترقی کر سکتے ہیں وہ بالآ خر اس کتاب سے ہدایت پا جائیں گے اور بہر حال یہ کتاب ان کو پہنچ رہے گی.اور قبل اس کے جو وہ مریں خدا ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق دے دے گا.

Page 42

خطبات مسرور جلد ششم 22 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 اب دیکھو اس جگہ خدائے تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے علم میں ہدایت پانے کے لائق ہیں اور اپنی اصل فطرت میں صفت تقویٰ سے متصف ہیں وہ ضرور ہدایت پا جائیں گے.اور پھر اُن آیات میں جو اس آیت کے بعد لکھی گئی ہیں اسی کی زیادہ تر تفصیل کردی اور فرمایا کہ جس قدر لوگ ( خدا کے علم میں) ایمان لانے والے ہیں وہ اگر چہ ہنوز ابھی مسلمانوں میں شامل نہیں ہوئے پر آہستہ آہستہ سب شامل ہو جائیں گے اور وہی لوگ باہر رہ جائیں گے جن کو خدا خوب جانتا ہے کہ طریقہ حقہ اسلام قبول نہیں کریں گے“.اسلام کا طریق قبول نہیں کریں گے.” اور گوان کو نصیحت کی جائے یا نہ کی جائے ایمان نہیں لائیں گے یا مراتب کا ملہ تقویٰ و معرفت تک نہیں پہنچیں گے.غرض ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے کھول کر بتلا دیا کہ ہدایت قرآنی سے صرف متقی مشفع ہو سکتے ہیں جن کی اصل فطرت میں غلبہ کسی ظلمت نفسانی کا نہیں“.وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، وہی لوگ نفع حاصل کر سکتے ہیں جن کی فطرت میں کسی قسم کا نفسانی اندھیرا اور گند نہیں ہے.اور یہ ہدایت ان تک ضرور پہنچ رہے گی.یعنی جو لوگ متقی نہیں ہیں نہ وہ ہدایت قرآنی سے کچھ نفع اٹھاتے ہیں اور نہ یہ ضرور ہے کہ خواہ نخواہ ان تک ہدایت پہنچ جائے.( براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 200-202 حاشیہ) پس اس تعلیم کو سمجھنے کیلئے ، سننے کے لئے تقویٰ ضروری ہے.اس تعلیم کو سننے والوں میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بھی تھے اور ابو جہل جیسے لوگ بھی تھے لیکن حق کی تلاش والے قبول کر کے بہترین انجام کو پہنچے.حضرت ابو بکر نے وہ مقام پایا جو رہتی دنیا تک سنہری حروف میں لکھا جانے والا ہے اور جو ابو جہل جیسے لوگ تھے وہ اپنے بدترین انجام کو پہنچے.پس آج بھی دجالی چالیں چلنے والے جو یہ کوششیں کرنے لگے ہیں کہ اس کتاب کو بدل دیں تو وہ بھی اپنے بد انجام کو دیکھ لیں گے اور وہ اس کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.لیکن جو لوگ اس پاک کتاب کو ، پاک تعلیم کو، پاک دل سے سنتے اور پڑھتے ہیں تو یہی تعلیم ہے جو ان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے والی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس ہے وہ میں پڑھتا ہوں.وقت تھوڑا ہے.میرا خیال تھا کہ خلاصہ بیان کر دوں گا، لیکن خلاصہ نہیں کیونکہ اس اقتباس کی وضاحت تو ہو سکتی ہے خلاصہ نہیں ہو سکتا.اس لئے اصل حالت میں ہی سنا رہا ہوں گو کہ لمبا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرماتے ہیں.اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اپنی کمال تعلیم کا آپ دعوئی فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمُ نِعْمَتِی (المائدہ:4) کہ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کیا اور اپنی نعمت یعنی تعلیم قرآنی کوتم پر پورا کیا اور ایک دوسرے محل میں اس اکمال کی تشریح کے لئے کہ اکمال کس کو کہتے ہیں، یعنی

Page 43

خطبات مسرور جلد ششم 23 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 کمال کس کو کہتے ہیں.فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ، تُؤْتِي أكُلَهَا كُلَّ حِينِ بِإِذْنِ رَبِّهَا.وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ.وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةِ اجْتَنَّتُ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّلِمِينَ ( ابراھیم : 25 تا 28) - کیا تو نے نہیں دیکھا کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ ، درخت پاکیزہ کی مانند ہے کہ پاکیزہ بات جو ہے وہ پاکیزہ درخت کی طرح ہے.جس کی جڑ ثابت ہو“.بہت مضبوط ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہو اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تالوگ ان کو یاد کر لیں اور نصیحت پکڑ لیں اور نا پاک کلمہ کی مثال اس ناپاک درخت کی ہے جو زمین پر سے اکھڑا ہوا ہے اور اس کو قرار وثبات نہیں.سو اللہ تعالیٰ مومنوں کو قول ثابت کے ساتھ یعنی جو قول ثابت شدہ اور مدلل ہے اس دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدم کرتا ہے اور جو لوگ ظلم اختیار کرتے ہیں ان کو گمراہ کرتا ہے.یعنی ظالم خدا تعالیٰ سے ہدایت کی مدد نہیں پاتا جب تک ہدایت کا طالب نہ ہو.ظالم جو ہے اس کو ہدایت نہیں ملتی جب تک وہ خود کوشش نہ کرے.کسی آیت کے وہ معنے کرنے چاہئے کہ الہامی کتاب آپ کرئے“.یعنی آیات کے وہ معنے کرنے چاہئیں جو دوسری آیات سے مطابقت رکھتے ہوں.اور الہامی کتب کی شرح دوسری کتابوں کی شرحوں پر مقدم ہے.اب اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیتا ہے.اوّل یہ کہ أَصْلُهَا ثابت یعنی اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں.یہ ثابت ہو جائے کہ وہ واقعی ایماندار ہے.ایمان لایا ہوا ہے.اور فی حد ذاتہ یقین کامل کے درجے پر پہنچے ہوئے ہوں“.یقین کامل ہو اس کو اپنے ایمان پر پہنچے ہوئے ہوں اور فطرت انسانی اس کو قبول کرے کیونکہ ارض کے لفظ سے اس جگہ فطرت انسانی مراد ہے جیسا کہ مِن فَوقِ الْأَرْضِ کا لفظ صاف بیان کر رہا ہے.خلاصہ یہ کہ اصول ایما نیا ایسے چاہئیں کہ ایمانیہ ثابت شدہ اور انسانی فطرت کے موافق ہوں.ایمان کی مضبوطی اور جڑ جو ہے اتنی ہو اور ایسا پکا ایمان ہو جو فطرت ایمانیہ کے موافق بھی ہو.یہ خلاصہ بیان فرمایا انہوں نے اصل ثابت کا.پھر دوسری نشانی یہ کہ فطرت انسانی اور ایمان ایک چیز بن جائیں.” پھر دوسری نشانی کمال کی یہ فرماتا ہے کہ فَرُعُهَا فِی السَّمَاءِ یعنی اس کی شاخیں آسمان پر ہوں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جولوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں یعنی صحیفہ قدرت کو غور کی نگاہ سے مطالعہ کریں.قرآن کریم کو غور سے مطالعہ کریں تو اس کی صداقت ان پر کھل جائے.اور دوسری یہ کہ وہ تعلیم یعنی فروعات اُس تعلیم کے جیسے اعمال کا بیان ، احکام کا بیان ، اخلاق کا بیان یہ

Page 44

خطبات مسرور جلد ششم 24 خطبه جمعه فرموده 11 جنوری 2008 کمال درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں جس پر کوئی زیادہ متصور نہ ہو.جیسا کہ ایک چیز جب زمین سے شروع ہو کر آسمان تک پہنچ جائے تو اس پر کوئی زیادت متصور نہیں“.پھر فرمایا کہ : ”پھر تیسری نشانی کمال کی یہ فرمائی کہ تُؤْتِي اُكُلَهَا كُلَّ حِينِ.ہر ایک وقت اور ہمیشہ کے لئے وہ اپنا پھل دیتا رہے.ایسانہ ہو کہ کسی وقت خشک درخت کی طرح ہو جاوے جو پھل پھول سے بالکل خالی ہے.اب صاحبو! دیکھ لوکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمودہ الیوم اکملت کی تشریح آپ ہی فرما دی کہ اس میں تین نشانیوں کا ہونا از بس ضروری ہے.سوجیسا کہ اس نے یہ تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں اسی طرح اس نے ان کو ثابت کر کے بھی دکھلا دیا ہے.اور اصول ایمانیہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لا الہ الا اللہ ہے اس کو اس قدر بسط سے، یعنی کھول کر قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے مگر تھوڑا سا ان میں سے بطور نمونہ کے ذیل میں لکھتا ہوں.جیسا کہ ایک جگہ یعنی سیپارہ دوسرے سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَرِبَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ - (البقرة 165) یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اُس کے الہام اور اُس کے مدبر بالا رادہ ہونے پر نشانات ہیں.اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جلشانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانون قدرت سے کیا یعنی اپنے ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہ لا شریک اور مدبر بالا رادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے.وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی یہ تمام مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہوا اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لاشریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مدبر بالا رادہ بھی ہوا اور ستجمع جمیع صفات کا ملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو.“ فرماتے ہیں: ” دوسری نشانی یعنی فَرُعُهَا فِي السَّمَاءِ جس کے معنی یہ ہیں کہ آسمان تک اس کی شاخیں پہنچی

Page 45

25 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم ہوئی ہیں اور آسمان پر نظر ڈالنے والے یعنی قانون قدرت کا مشاہدہ کرنے والے اس کو دیکھ سکیں اور نیز وہ انتہائی درجہ کی تعلیم ثابت ہو.اس کے ثبوت کا ایک حصہ تو اسی آیت موصوفہ بالا سے پیدا ہوتا ہے.کس لئے کہ جیسا کہ اللہ جلشانہ نے مثلاً قرآن کریم میں یہ تعلیم بیان فرمائی ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتح :42) جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ جل شانہ تمام عالموں کا رب ہے یعنی علت العلل ہر ایک ربوبیت کا وہی ہے.تمام اسباب کا پیدا کرنے والا.اس کی پہلے پیدا کرنے کی جو وجہ ہے ، اس کی ربوبیت ہے جو ہر ایک چیز پر حاوی ہے.دوسری یہ کہ وہ رحمن بھی ہے یعنی بغیر ضرورت کسی عمل کے اپنی طرف سے طرح طرح کے آلاء اور نعماء شامل حال اپنی مخلوق کے رکھتا ہے.اور رحیم بھی ہے کہ اعمال صالحہ کے بجالانے والوں کا مددگار ہوتا ہے اور اُن کے مقاصد کو کمال تک پہنچاتا ہے.اور ملک يَوْمِ الدّین یہی ہے کہ ہر ایک جزا سزا اُس کے ہاتھ میں ہے.جس طرح پر چاہے اپنے بندہ سے معاملہ کرے.چاہے تو اس کو ایک عمل بد کے عوض میں وہ سزا دیوے جو اس عمل بد کے مناسب حال ہے اور چاہے تو اس کے لئے مغفرت کے سامان میسر کرے.یہ تمام امور اللہ جل شانہ کے اس نظام کو دیکھ کر صاف ثابت ہوتے ہیں پھر تیسری نشانی جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی تُونِي أَكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ یعنی کامل کتاب کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ جس پھل کا وہ وعدہ کرتی ہے وہ صرف وعدہ ہی وعدہ نہ ہو بلکہ وہ پھل ہمیشہ اور ہر وقت میں دیتی رہے.اور پھل سے مراد اللہ جل شانہ نے اپنا لقا معہ اس کے تمام لوازم کے جو برکات سماوی اور مکالمات الہیہ اور ہر ایک قسم کی قبولیتیں اور خوارق ہیں رکھی ہیں.یعنی کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی جو باتیں ہیں، پھل سے وہ مراد ہیں.یعنی قبولیت دعا جو ہے یعنی جو برکتیں اللہ تعالیٰ آسمان سے اتارتا ہے ان نیک لوگوں سے باتیں کرتا ہے یہ ساری چیز میں جو ہیں رکھی ہیں.جیسا کہ خود فرماتا ہے إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ.نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدْعُونَ.نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ( حم سجدہ: 31 تا 33).وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے.پھر انہوں نے استقامت اختیار کی یعنی اپنی بات سے نہ پھرے اور طرح طرح کے زلازل اُن پر آئے مگر انہوں نے ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیا اُن پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کچھ خوف نہ کرو اور نہ کچھ خون اور اس بہشت سے خوش ہو جس کا تم وعدہ دیئے گئے تھے.یعنی اب وہ بہشت تمہیں مل گیا اور بہشتی زندگی اب شروع ہوگئی.کس طرح شروع ہوگئی.نَحْنُ اَولِیؤُكُمُ الخ اس طرح کہ ہم تمہارے متولی اور متکفل ہو گئے اس دنیا میں اور آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشتی زندگی میں جو کچھ تم مانگو وہی موجود ہے.یہ غفور رحیم کی طرف سے مہمانی ہے.مہمانی کے لفظ سے اس پھل کی طرف اشارہ کیا ہے جو آیت تُؤْتِي أَكُلَهَا كُلَّ

Page 46

خطبات مسرور جلد ششم 26 خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 2008 حِيْنِ میں فرمایا گیا تھا.اور آیت فَرُعُهَا فِی السَّمَاءِ کے متعلق ایک بات ذکر کرنے سے رہ گئی کہ کمال اس تعلیم کا باعتبار اس کے انتہائی درجہ ترقی کے کیونکر ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن شریف سے پہلے جس قد تعلیمیں آئیں در حقیقت وہ ایک قانون مختص القوم یا مختص الزمان کی طرح تھیں اور عام افادہ کی قوت اُن میں نہیں پائی جاتی تھی.بعض قوموں کے لئے تھیں یا بعض زمانوں کے لئے تعلیمیں تھیں اور ہر ایک کے لئے اُن میں فائدہ نہیں تھا.لیکن قرآن کریم تمام قوموں اور تمام زمانوں کی تعلیم اور تکمیل کیلئے آیا ہے.مثلاً نظیر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسٹی کی تعلیم میں بڑا ز ور سزا دہی اور انتقام میں پایا جاتا ہے جیسا کہ دانت کے عوض دانت اور آنکھ کے عوض آنکھ کے فقروں سے معلوم ہوتا ہے.اور حضرت مسیح کی تعلیم میں بڑا زور عفو اور درگزر پر پایا جاتا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ یہ دونوں تعلیمیں ناقص ہیں.نہ ہمیشہ انتقام سے کام چلتا ہے نہ ہمیشہ عفو سے بلکہ اپنے اپنے موقع پر نرمی اور درشتی کی ضرورت ہوا کرتی ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَجَزَاؤُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشورى : 41) یعنی اصل بات تو یہ ہے کہ بدی کا عوض تو اسی قدر بدی ہے جو پہنچ گئی ہے.لیکن جو شخص عفو کرے اور عفو کا نتیجہ کوئی اصلاح ہو نہ کہ کوئی فساد یعنی عفوا اپنے محل پر ہو، نہ غیر محل پر.پس اجر اُس کا اللہ پر ہے یعنی یہ نہایت احسن طریق ہے.عفو سے فساد کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً اگر ایک عادی چور ہے اس کو عفو کرتے ہوئے چھوڑ دیں گے تو وہ پھر دوبارہ چوری کرے گا کسی دوسرے کو نقصان پہنچائے گا.اس سے مزید گناہ پھیلنے کا اندیشہ ہے اس لئے وہ عفو فساد میں آتا ہے.فرمایا کہ: ” اب دیکھئے اس سے بہتر اور کون سی تعلیم ہوگی کہ عفو و عفو کی جگہ اور انتقام کو انتقام کی جگہ رکھا.اور پھر فرمایا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبَى (نحل: 91) یعنی اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو.اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجو د رعایت عدل کے احسان کرو.اور احسان سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو پیار سے پیش آؤ کہ جیسے کہ گویاوہ تمہارے پیارے اور ذوالقربیٰ ہیں.اب سوچنا چاہئے کہ مراتب تین ہی ہیں.اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے.پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے.اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے.یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے“.جنگ مقدس پر چہ 25 رمئی 1893 ء روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 123-127) آپ فرماتے ہیں کہ: ”ایسی کامل کتاب کے بعد کس کتاب کا انتظار کریں جس نے سارا کام انسانی اصلاح کا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پہلی کتابوں کی طرح صرف ایک قوم سے واسطہ نہیں رکھا بلکہ تمام قوموں کی اصلاح چاہی اور

Page 47

27 خطبه جمعه فرموده 11 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم انسانی تربیت کے تمام مراتب بیان فرمائے.وحشیوں کو انسانیت کے آداب سکھائے.پھر انسانی صورت بنانے کے بعد اخلاق فاضلہ کا سبق دیا.یہ قرآن نے ہی دنیا پر احسان کیا کہ طبعی حالتوں اور اخلاق فاضلہ میں فرق کر کے دکھلایا.اور جب طبعی حالتوں سے نکال کر اخلاق فاضلہ کے محل عالی تک پہنچایا تو فقط اسی پر کفایت نہ کی بلکہ اور مرحلہ جو باقی تھا یعنی روحانی حالتوں کا مقام اس تک پہنچنے کیلئے پاک معرفت کے دروازے کھول دیئے ، طبعی حالتوں سے اخلاقی حالتوں تک پہنچایا اور جب اخلاق فاضلہ تک پہنچ گئے تو پھر روحانی مقام عطا فرمایا.بلند کرنے کیلئے طریقے سکھلائے.فرماتے ہیں: ” معرفت کے دروازے کھول دیئے اور نہ صرف کھول دیئے بلکہ لاکھوں انسانوں کو اس تک پہنچا بھی دیا.پس اس طرح پر تینوں قسم کی تعلیم جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کمال خوبی سے بیان فرمائی.پس چونکہ وہ تمام تعلیموں کا جن پر دینی تربیت کی ضرورتوں کا مدار ہے کامل طور پر جامع ہے اس لئے یہ دعوی اس نے کیا کہ میں نے دائرہ دینی تعلیم کو کمال تک پہنچایا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ( المائدہ:4) یعنی آج میں نے دین تمہارا کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا اور میں تمہارا دین اسلام ٹھہرا کر خوش ہوا.یعنی دین کا انتہائی مرتبہ وہ امر ہے جو اسلام کے مفہوم میں پایا جاتا ہے یعنی یہ کہ محض خدا کے لئے ہو جانا اور اپنی نجات اپنے وجود کی قربانی سے چاہنا ، نہ اور طریق سے اور اس نیت اور اس ارادہ کو عملی طور پر دکھلا دینا.یہ وہ نقطہ ہے جس پر تمام کمالات ختم ہوتے ہیں“.( اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 367-368) اور یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو ہمیں قرآن کریم نے دی ہے.پس یہ خوبصورت تعلیم جو ہے اس عظیم نبی پر اتری اور اس نے ہم تک یہ پہنچائی.جس کا نہ سابقہ شریعت کوئی مقابلہ کرسکتی ہیں نہ آئندہ کوئی کتاب بن سکتی ہے ، نہ آ سکتی ہے ، نہ آئے گی.اللہ تعالیٰ اس کتاب کی تعلیم کو سجھنے اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے اور پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 نمبر 5 یکم تا 7 فروری 2008 صفحہ 9-5)

Page 48

خطبات مسرور جلد ششم 3 28 خطبه جمعه فرمودہ 18 جنوری 2008 فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2008ء بمطابق 18 صلح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهم.إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 130) یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی وہی مضمون ہے جو گزشتہ چند خطبوں سے چل رہا ہے.اس میں جو آج میں بیان کروں گا تیسری بات جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں مانگی تھی وہ حکمت کی تھی.یعنی وہ رسول جس پر تو کتاب اتارے، جو تیری تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والا ہوگا ، وہ اس کی حکمت بھی سکھائے.حکمت کے مختلف معانی ہیں، گزشتہ ایک خطبہ میں میں بیان کر چکا ہوں یعنی حکمت کے ایک معنی انصاف اور عدل کے ہیں.حکمت کے ایک معنی علم کے ہیں، حکمت کے ایک معنی عقل اور دانائی کے ہیں اور حکمت کے معنی کسی چیز کو صحیح جگہ استعمال کرنے اور مناسب حال کام لینے کے ہیں.اس حکمت کے لفظ کو اس عظیم رسول ﷺ اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کو جس کی تعلیم تا قیامت رہنے والی ہے آج اس حوالے سے بیان کروں گا.جیسا کہ میں نے بتایا کہ حکمت کے معنی انصاف اور عدل کے ہیں، تو اس میں یہ دعا کی گئی تھی کہ آنے والا رسول حکمت بھی سکھائے گا.اس لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جو رسول آنے والا ہو، وہ عدل قائم کرے گا ، عدل سکھانے والا ہوگا.اور جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ اور وہ تمہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں وہ رسول مبعوث ہو چکا ہے.کتاب بھی اس پر نازل ہو چکی ہے اور یہ ایسی کتاب ہے جو پُر حکمت تعلیم سے بھری پڑی ہے.یہ رسول تمہیں اس کتاب کی حکمت بھی سکھاتا ہے اور تا قیامت سکھاتا چلا جائے گا.یعنی اس تعلیم نے عدل سکھایا ہے اور تا قیامت یہی کتاب عدل کی تعلیم پر مہر ہے.اور یہ عظیم نبی جو مبعوث ہوا، نہ ہی اس کی تعلیم عدل سے خالی ہے اور نہ اس کا عمل.بلکہ اس عظیم نبی ﷺ کا اُسوہ حسنہ بھی وہ عظیم مثالیں قائم کر رہا ہے جن تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے راستے بتا دیئے کہ اپنی اپنی انتہائی استعدادوں کے ساتھ اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرو کیونکہ اس کے بغیر تم وہ معیار حاصل نہیں کر سکتے جو اس عظیم رسول کی اُمت میں رہنے والے کو حاصل کرنے چاہئیں.آنحضرت ﷺ کی حکمت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے جو نصائح اور عمل ہیں میں گزشتہ ایک خطبہ میں ان کا ذکر کر چکا ہوں.آج حکمت کے معنی عدل کے حوالے سے آپ کے اسوہ حسنہ کے ایک دو واقعات پیش کرتا ہوں.پھر آگے قرآنی تعلیم بیان کروں گا.روایات میں آتا ہے کہ غزوہ حنین کے بعد جب اموال غنیمت تقسیم کئے جارہے تھے تو بعض عرب سرداروں کو

Page 49

29 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم دوسروں پر ترجیح دیتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے زیادہ مال تقسیم کیا.اس پر کسی نے اعتراض کیا کہ عدل سے کام نہیں لیا گیا.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول اگر عدل سے کام نہیں لے گا تو اور کون لے گا.یہ زائد مال جو دیا گیا تھا دراصل آنحضرت محلہ نے تالیف قلب کے لئے ان سرداروں کو عطا فر مایا تھا تا کہ یہ سردارانِ عرب اسلام کے قریب ہوں.چنانچہ وہ اور ان کے قبائل اسلام کے قریب ہوئے بلکہ قبول کیا.اور یہ جو حصہ زائد دیا گیا تھا یہ کسی پر زیادتی کر کے نہیں دیا گیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے شمس، مال غنیمت کا پانچواں حصہ، جو اللہ اور رسول کے لئے مختص کیا ہوا ہے.جس میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دینے کا رسول ﷺ کو اختیار دیا گیا ہے.آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بعض لوگوں کو جو میں زائد دیتا ہوں وہ ان کی ایمانی کمزوری کی وجہ سے دیتا ہوں اور ان کے حرص کی وجہ سے دیتا ہوں.جو ایمان میں مضبوط ہیں انہیں میں بعض حالات میں کم دیتا ہوں اور فرمایا کہ یہ جو ایمان والے ہیں مجھے زیادہ عزیز ہیں ، مجھے زیادہ پیارے ہیں.پس یہ جو کسی کو زیادہ دینا تھا ایک تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق تھا جیسا کہ میں نے بتایا ہے.دوسرے حکمت کے تحت تھا یعنی ایسا پر حکمت عدل قائم کرنے کا اُسوہ تھا جس نے ایمانوں میں بہتری پیدا کرنے کا کردار ادا کیا.پھر دیکھیں عدل کی عظیم مثال قائم کرنے کا وہ واقعہ جس میں ایک بوڑھے کو اپنی ذات سے پہنچی ہوئی تکلیف کا بدلہ لینے کے لئے آنحضرت ﷺ نے اجازت دی.روایت میں آتا ہے کہ جب سورۃ النصر کا نزول ہوا تو اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ایک خطبہ دیا.کیونکہ سورۃ نصر سے صحابہ سمجھ گئے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا وقت قریب ہے.اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے جب خطبہ دیا، صحابہ بڑے روئے اور اس خطبہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سب کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی نے مجھ سے کوئی حق یا بدلہ لینا ہے تو قیامت سے پہلے یہیں اس دنیا میں لے لے.اس پر ایک بوڑھے صحابی عکاشہ گھڑے ہوئے اور کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ نے بار بار اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر یہ فرمایا ہے کہ جس نے بدلہ لینا ہے وہ لے لے.تو میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فلاں غزوہ کے موقع پر میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے قریب ہو گئی تھی تو میں اترنے لگا تھا.میں پاؤں چومنے کے لئے یا کسی اور وجہ سے قریب ہوا تھا.بہر حال اس وقت آپ کی چھڑی مجھے لگی تھی ہوئی مجھے لی تھی.مجھے نہیں معلوم کہ ارادہ مجھے مارنے کے لئے یا اونٹ کو مارنے کے لئے تھی لیکن بہر حال مجھے سوئی لگی تھی.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے جلال کی قسم ! اللہ کا رسول تجھے جان بوجھ کر نہیں مار سکتا.پھر حضور ﷺ نے حضرت بلال کو کہا کہ وہی سوٹی لے کر آؤ.وہ حضرت فاطمہ کے گھر سے سوئی لے کر آئے.تو آپ نے عکاشہ کو سوئی دی اور فرمایا کہ لو بدلہ لے لو.اس پر حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے.حضرت عمر کھڑے ہوئے.حضرت علی کھڑے ہوئے کہ ہمارے سے بدلہ لےلواور آنحضرت ﷺ کو کچھ نہ کہو.عکاشہ نے کہا کہ نہیں میں نے تو بدلہ آنحضرت ﷺ سے ہی لینا ہے.پھر حضرت حسن اور حضرت حسین کھڑے ہوئے.انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے نواسے ہیں ہمارے سے بدلہ لے لو.تو عکاشہ نے کہا کہ نہیں بدلہ تو میں نے آنحضرت ﷺ سے لینا ہے.خود آنحضرت ﷺ بھی سب کو بٹھاتے رہے کہ تم لوگ بیٹھ جاؤ میں خود ہی اپنا بدلہ دوں گا.اس پر عکاشہ نے کہا کہ جب چھڑی مجھے لگی تھی تو اس وقت میرے بدن پر کوئی لباس

Page 50

خطبات مسرور جلد ششم 30 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 الله نہیں تھا.آنحضرت ﷺ نے اپنے جسم مبارک سے کپڑا اٹھایا اور کہا لو مارلو.صحابہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بے اختیا ر سب رونے لگ گئے.کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو کچھ ہو.سب کے سانس رُکے ہوئے تھے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے.لیکن دوسرے ہی لمحے انہوں نے جو نظارہ دیکھا وہ تو ایک عاشق و معشوق کی محبت کا نظارہ تھا.عکاشہ آگے بڑھے اور آپ کے جسم مبارک کو چومنے لگے اور کہتے جاتے تھے میرے ماں باپ آپ پر قربان.آپ سے بدلہ لینا کون گوارا کر سکتا ہے.ہمیں تو آپ نے عدل کے نئے نئے اسلوب سکھائے ہیں.ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ آپ کبھی ظلم کر سکتے ہیں یا زیادتی کر سکتے ہیں.یہ تو پیار کرنے کا ایک موقع تھا جس میں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا.لیکن دیکھیں کہ عدل کے اس شہزادے کا کیا خوبصورت جواب تھا.آپ نے فرمایا کہ یا تو بدلہ لینا ہوگا یا معاف کرنا ہوگا.عکاشہ نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے اس امید پر آپ کو معاف کیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے معاف کرے گا.اس پر آنحضرت ﷺ نے اس سارے مجمع کو جو لوگ سامنے بیٹھے ہوئے تھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو آدمی جنت میں میرے ساتھی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس بوڑھے عکاشہ کو دیکھ لے.اور پھر وہی صحابہ جو عکاشہ کے لئے سخت غم و غصہ کی حالت میں بیٹھے تھے اُٹھ اُٹھ کر انہیں چومنے لگے اور ان کی قسمت پر رشک کرنے لگے.تو یہ تھا اس عظیم رسول کا عدل کہ ایک ادنی چا کر کے سامنے بھی اپنے آپ کو بدلہ کے لئے پیش کر دیا اور فرمایا کہ اگر بدلہ نہیں لینا تو پھر معاف کرنا ہو گا.یہاں اس مجمع میں اعلان کرنا ہو گا کہ معاف کیا.(المعجم الكبير ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی الجزء الثالث صفحہ 61-59 داراحیاء التراث العربی) تو یہ نمونے آپ نے عدل کے قائم کئے.بہت سارے نمونے اور مثالیں اور بھی ہیں.اور پھر اپنے صحابہ کو بھی اس تھی تلقین فرماتے رہے کیونکہ قرآن کریم میں عدل پر بڑاز دردیا گیا ہے.اب میں قرآن کریم کی تعلیم کے حوالے سے ایک دو آیات اس بارہ میں پیش کرتا ہوں جن میں عدل قائم کرنے کی تعلیم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيْتَائِ ذِي الْقُرُبِي وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ.يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (احل: 91 ).یقینا اللہ تعالیٰ عدل کا ، احسان کا اور اقرباء پر کئے جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے.وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو.یہ ایک ایسی پر حکمت تعلیم ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو معاشرتی مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور قومی اور بین الاقوامی مسائل بھی حل ہو جائیں گے.ایسا عدل جو حکمت کے تحت کیا جائے وہ وہی عدل ہے جس میں نیکی کے معیار بڑھیں.عدل کے بعد محبت اور پیار پیدا ہو اور معاشرہ برائیوں سے بچنے کی کوشش کرے اور جب برائیوں سے بچیں گے تو پھر عدل کے مزید نئے معیار قائم ہوں گے.حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوگی.عدل صرف بدلہ لے کر ہی قائم نہیں ہوتا بلکہ بعض حالات میں احسان کرنے سے ہوتا ہے.پھر مزید پیار اور محبت کے جذبات سے ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے برائیوں کو چھوڑنے اور نیکیوں پر قائم ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے.ورنہ صرف عارضی بدلہ لے لینا، کسی کو سزا دے دینا ، یہ دنیاوی عدل تو ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے جو اصول ہیں ، جو علیم ہے، اس کے مطابق صرف یہ عدل نہیں ہے.کیونکہ ان سے بعض اوقات اصلاح نہیں ہوتی بلکہ دشمنیاں بڑھتی ہیں، ناراضگیاں پیدا ہوتی ہیں، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں ، کیئے اور بغض بڑھتے ہیں.پس عدل وہ ہے جس کا فیصلہ موقع محل کی مناسبت ہو.

Page 51

خطبات مسرور جلد ششم 31 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ) کا یہ حکم ہے کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کرو اور اگر عدل سے بڑھ کر احسان کا موقع اور محل ہو تو وہاں احسان کرو.اور اگر احسان سے بڑھ کر قریبوں کی طرح طبیعی جوش سے نیکی کرنے کا محل ہو تو وہاں طبعی ہمدردی سے نیکی کرو.اور اس سے خدا تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ تم حدود اعتدال سے آگے گزر جاؤ.یا احسان کے بارہ میں منکرانہ حالت تم سے صادر ہو جس سے عقل انکار کرے.یعنی یہ کہ تم بے محل احسان کرو یا برمحل احسان کرنے سے دریغ کرو.یا یہ کہ تم محل پر ایتَاءِ ذِي الْقُرُبی کے خُلق میں کچھ کمی اختیار کرو.یعنی غلط وقت پر احسان کرنا بھی غلط ہے.اور اگر موقع اور محل ہو اور پھر احسان کا موقع ہو اس وقت احسان نہ کرنا بھی غلط ہے اور پھر یہ کہ جس طرح قریبوں سے سلوک کرتا ہے، جس طرح ماں بچے سے سلوک کرتی ہے اس طرح کے اخلاق دکھاؤ اور اگر اخلاق میں کوئی کمی ہوتی ہے تو یہ غلط طریقہ ہے.آپ فرماتے ہیں: ” تم محل پر اِیتَاءِ ذِی الْقُرُبی کے خلق میں کچھ کی اختیار کر و یا حد سے زیادہ رحم کی بارش کرو.اس آیت کریمہ میں ایصال خیر کے تین درجوں کا بیان ہے.اول یہ درجہ کہ نیکی کے مقابلے پر نیکی کی جائے.یہ تو کم درجہ ہے اور ادنی درجہ کا بھلا مانس انسان بھی یہ خلق حاصل کر سکتا ہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتار ہے.دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداء آپ ہی نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طور پر اس کو فائدہ پہنچانا.اور یہ خلق اوسط درجہ کا ہے.اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں ایک میخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکریہ یا دعا چاہتا ہے.اور اگر کوئی ممنونِ منت اس کا مخالف ہو جائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے.جس کسی پر احسان کیا جاتا ہے اور وہ مخالف ہو جائے تو اس کو احسان فراموش کہتے ہیں.” بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے.یا پھر یہ ہے کہ اگر کوئی احسان کیا ہے تو اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈال دیتے ہیں.یہ بھی انصاف کے خلاف ہے ، عدل کے خلاف ہے.اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے.جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ نے متنبہ کرنے کے لئے فرمایا ہے لَا تُبْطِلُوا صَدَقتِكُمْ بِالْمَنِّ وَأَلا ذَى (البقره - 265) یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو.یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے.پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ ایک ریا کاری کی حرکت ہوتی ہے.غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلا دیتا ہے.اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا.تیسرا درجہ ایصال خیر کا خدائے تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بالکل احسان کا خیال نہ ہو اور نہ شکر گزاری پر نظر ہو بلکہ ایک ایسی ہمدردی کے جوش سے نیکی صادر ہو جیسا کہ ایک نہایت قریبی مثلاً والدہ محض ہمدردی کے جوش سے اپنے بیٹے سے نیکی کرتی ہے.یہ وہ آخری درجہ ایصال خیر کا ہے جس سے آگے ترقی کرناممکن نہیں.لیکن خدائے تعالیٰ نے ان تمام ایصال خیر کی قسموں کو گل اور موقعہ سے وابستہ کر دیا ہے اور آیت موصوفہ میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر یہ نیکیاں اپنے اپنے محل پر مستعمل نہیں ہوں گی تو پھر یہ بدیاں ہو جائیں گی.بجائے عدل فَحْشَاء بن جائے گا“.یہ عدل نہیں رہے گا بلکہ برائیاں بن جائیں گی.یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ نا پاک صورت ہو جائے اور فرمایا کہ اور ایسا ہی بجائے احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتا ہے.اور بجائے ایتَاءِ ذِی

Page 52

32 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم الْقُرُبی کے بَغِی بن جائے گا.یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بُری صورت پیدا کرے گا.اصل میں بَغِی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کر دے اور یا حق واجب سے افزونی کرنا بھی بعی ہے کمی یا زیادتی جو بھی ہوگی.غرض ان تینوں میں سے جو محل پر صادر نہیں ہوگا وہی خراب سیرت ہو جائے گی.اسی لئے ان تینوں کے ساتھ موقع اور محل کی شرط لگادی ہے.اس جگہ یادر ہے کہ مجر دعدل یا احسان یا ہمدردی ذی القربی کو خلق نہیں کہہ سکتے بلکہ انسان میں یہ سب طبعی حالتیں اور طبعی قو تیں ہیں کہ جو بچوں میں بھی وجود عقل سے پہلے پائی جاتی ہیں.مگر خلق کے لئے عقل شرط ہے اور نیز یہ شرط ہے کہ ہر ایک طبعی قوت محل اور موقعہ پر استعمال ہو“.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 353-354 ) یہ ساری چیزیں اور طاقتیں جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں.عدل کرو گے ، انصاف کرو گے ، احسان کرو گے ، یہ سب چیزیں اگر عقل کے بغیر استعمال ہو رہی ہیں ، موقع ومحل کے حساب سے استعمال نہیں ہور ہیں تو یہ کوئی اچھے اخلاق نہیں ہیں.تو یہ قرآن کریم کی پر حکمت تعلیم ہے جو معاشرے میں قیام عدل کے لئے مزید راستے دکھاتی ہے.اگر ایک عادی چور کو جس کے معاملے میں سختی کا حکم ہے اگر چھوڑ دیں گے تو یہ عدل نہیں ہے.لیکن ایک بھوکے کے لئے جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی چراتا ہے سزا کی بجائے روٹی کا انتظام ضروری ہے، یہ عدل ہے تا کہ اس کا اور اس کے بیوی بچوں کا پیٹ بھرے اور یہ احسان کرنے سے پھر عدل قائم ہوگا.لیکن اگر یہی روٹی چرانے والا ایک عادی چور بن جاتا ہے تو پھر اس کو سزادینا عدل ہے.تو ہر موقع کے لحاظ سے جو عمل ہوگا وہ اصل میں عدل ہے.قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ توحید کا قیام اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے اور اس کے لئے جو انسانی سوچ ہے اس میں عدل کا عنصر پیدا کرنا ضروری ہے.اس بات کو ذہن میں بٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ.وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا.اِعْدِلُوا..هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُون (المائدۃ آیت9) کہاے وے لو گو جوایمان لائے ہو.اللہ تعالیٰ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤا اور کسی قوم کی دشمنی تم کو ہرگز کسی بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو.یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.تو یہ ہے عدل اور انصاف کی خوبصورت اور پر حکمت تعلیم.پہلی بات یہ بتائی کہ اگر ایمان کا دعوی ہے ، مومن کہلاتے ہو تو مومن تو ہمیشہ انصاف کی تائید میں کھڑا ہوتا ہے.اس کا کام تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں عدل کا قیام ہے.اگر یہ سوچ رکھنے والے ہو تو مومن ہو کیونکہ اس کے بغیر ایمان ناقص ہے.پھر فرمایا کہ جب یہ سوچ بن جائے گی تو پھر عدل و انصاف تمہارے اندر سے پھوٹے گا اور جب دل کی آواز اللہ تعالیٰ کی رضا بن جائے ، اس کی تعلیم پر عمل کرنے والی بن جائے تو پھر کسی قسم کی دشمنی انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ایک مومن کو کبھی نہیں روکے گی.پس مومن کا کام ہے کہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرے.اللہ تعالیٰ اسی ضمن میں فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے تو یا در کھوکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات بھی چھپی ہوئی نہیں ہے.ایسا شخص جو اس عظیم تعلیم کو پاکر بھی اس پر عمل نہیں کرتا، حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا.پس یہ عدل قائم کرنے کی ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو صرف قرآن کریم کا ہی خاصہ ہے.

Page 53

33 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " خدا تعالیٰ نے عدل کے بارہ میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی فرمایا ہے لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا.اِعْدِلُوا.هُوَ أَقْرَبُ للتقوى (المائده: 9) یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو، انصاف پر قائم رہو، تقویٰ اسی میں ہے“.فرماتے ہیں کہ : ” اب آپ کو معلوم ہے جو قو میں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے.مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے.“ ( نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 409) اسلام یہ جوانمردی اپنے سب ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ ادوسری جگہ فرماتا ہے کہ تمہارا حسن سلوک اور عدل و احسان دشمنوں کو بھی دوست بنا سکتا ہے.پھر حکمت کے ایک معنی یہ ہیں کہ علم کو کامل کرنا.یعنی آنے والا رسول علم کو بھی اپنے پر اُتری ہوئی تعلیم کی وجہ سے کامل کرے گا.قرآن کریم کا دعوی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے فرمایا اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدہ:4).یعنی تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں اور احسان پورے کر دئے.اس بارہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں.پس اس عظیم رسول پر اس پر حکمت تعلیم کو اللہ تعالیٰ نے کامل کر دیا ہے.یہاں صرف علم کے کامل اور مکمل ہونے کی اس زمانے سے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں ان کا میں اس وقت ذکر کروں گا، جو پوری ہوئیں.اس کامل علم رکھنے والے خدا نے جو باتیں اس عظیم رسول اے کو بتا ئیں اور اس کتاب میں جن کا ذکر ہوا جن میں سے بعض ایسی ہیں کہ چودہ سو سال تو دور کی بات ہے ، ماضی قریب کا انسان بھی اس بارہ میں سوچ نہیں سکتا تھا.بہت ساری پیشگوئیاں ہیں.میں یہاں ایک بیان کر رہا ہوں مثلاً سورۃ رحمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَرَجَ رَيْنِ يَلْتَقِين (الرحمن : 20) کہ وہ دونوں سمندروں کو ملادے گا جو بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے ملیں گے.بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِينِ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَان الرحمن : 21-23) - کہ (سر دست ) ان (دونوں سمندروں کے درمیان ایک روک ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتے.پس (اے جن وانس ) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے.دونوں میں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں.اب اس میں دوسمندروں کو ملانے کا ذکر ہے اور نشانی یہ بتائی کہ ان میں سے موتی اور مونگے یا مرجان نکلتے ہیں.ایک تو نہر سویز کے ذریعہ سے دونوں سمندروں کو ملایا.RedSea اور میڈیٹرینین سی (Mediterian Sea) کو.اسی طرح پانا مہ نہر نے دو سمندروں کو ملایا.اور اس طرح بڑے سمندر آپس میں مل گئے.اب یہ علم آنحضرت کو خدا نے اس وقت دیا جب کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا.علم تو علیحدہ بات ہے اس وقت کے زمانے کے عربوں کی تو سوچ بھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی کہ کس جگہ پر سمندر ہوں گے اور کس طرح ملائے جائیں گے اور پھر 1300 سال

Page 54

خطبات مسرور جلد ششم 34 خطبه جمعه فرمودہ 18 جنوری 2008 کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم نظارہ دکھایا اور اس پیشگوئی کو کس شان سے پورا فرمایا.پس یہ ہیں اُس عالم الغیب خدا کے علم کی باتیں جنہیں اس نے قرآن کریم کے ذریعہ آنحضرت ﷺ پر ظاہر فرمایا.پھر کائنات کے بارہ میں علم دیا کہ کس طرح ہماری کائنات وجود میں آئی.فرماتا ہے اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْ ءٍ حَيْ.اَفَلَايُؤْمِنُونَ (الانبیاء: 31) کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان وزمین دونوں مضبوطی سے بند تھے.پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا.اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور حال کی تحقیقا تیں بھی اس کی مُصدِق ہیں کہ عالم کبیر بھی اپنے کمال خلقت کے وقت ایک گھڑی کی طرح تھا“.بند تھا.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.اس آیت میں جو میں نے پڑھی.یعنی کہ " کیا کافروں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بندھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 191-192 حاشیہ) پس یہ علم 1400 سال سے قرآن کریم میں محفوظ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ظاہر ہوا.سائنسدانوں نے بگ بینگ (Big Bang) کا نظریہ دیا یعنی ایک زبردست دھما کہ اور اس کے بعد یہ سب کائنات وجود میں آئی ، سیارے وجود میں آئے.یہ بڑا تفصیلی مضمون ہے.بہر حال مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم نے جس بات کی خبر 1400 سال پہلے دی تھی اسے آج کا سائنسدان ثابت کر رہا ہے.پھر پانی سے انسان کی زندگی ہے.بہت ساری پیشگوئیاں ہیں.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَهَا بِاَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریت : 48 ) اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا ہے اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں.اب اس آیت کے بھی مختلف ترجمے ہمارے اپنے تراجم قرآن کریم میں ملتے ہیں کیونکہ جس جس طرح انسان کو علم تھا اس کے مطابق ترجمہ ہو تا رہا.اور پھر سائنس کی ترقی کے ساتھ اس کے مزید معنی کھلے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے معنی کئے ہیں کہ ہم نے آسمان کو خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم اسے وسعت دینے والے ہیں.یہ وسعت کا تصور بھی ایک سائنس دان Edwin Hubble تھے اس کے تجربات نے دیا.اس نے یہ تجربات کئے تھے.اس نے پہلی دفعہ کائنات کے پھیلنے کی بات کی تھی.اور اب جونئی تحقیق آرہی ہے ، چند مہینے پہلے ایک رسالے میں تھا اس میں یہ کہتے ہیں کہ اب جو چیز دیکھنے میں آرہی ہے کہ یہ وسعت پذیری کی رفتار جو ان کے علم میں پہلے تھی اس سے کئی گنا بڑھ گئی ہے.یا بڑھی ہوئی تھی تو ان کو پتہ ہی نہیں لگا.ان نئے آلات کی وجہ سے شاید اب معلوم ہوا ہے.لیکن بہر حال وسعت پذیری ثابت ہے اور اب تو بہت واضح ہو کے نظر آ رہی ہے.بہر حال جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آسمانوں کو بھی ہم نے خاص قدرت سے ہی بنایا ہے.یہ بھی اس آیت کا ترجمہ ہے کہ خاص قدرت سے بنایا اور کئی صفات شامل ہیں.یعنی آسمان کی وسعت اور اجرام کے سفر پر اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کام کر رہی ہیں جن میں کچھ کا تو انسان ادراک حاصل کر لیتا ہے لیکن مکمل احاطہ نہیں کر سکتا.

Page 55

خطبات مسرور جلد ششم 35 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 جب بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے کوئی نئی دریافت کرتے ہیں تو پھر مزید پریشان ہو جاتے ہیں.بہت سارے سائنسدان بھی مزید تلاش کر رہے ہیں.بلکہ بعض تو ابھی بھی ایسے ہیں.ایک طبقہ ایسا بھی ہے اس بات کو بھی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ بگ بینگ ہوا تھا.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح ہی ہوا، ہمیں تو ایمان بالغیب پر بھی ایمان ہے، قرآن کریم نے ثابت کیا ہے اور سائنس دان اس کو ثابت کر رہے ہیں کہ زمین و آسمان کس طرح وجود میں آئے اور پھر اس کی وسعت بھی ہو رہی ہے، ایک طرف چل رہے ہیں.تو بہر حال کا ئنات کی اس وسعت پذیری کا جو تصور تھا ، سو سال پہلے کے انسان کو نہیں تھا.پس یہ ہے اس کتاب کی خوبصورتی کہ ہر نئی دریافت جو آج کا تعلیم یافتہ انسان کرتا ہے خدا تعالیٰ کی اس آخری کتاب میں پہلے سے اس کا تصور موجود ہے بلکہ وضاحت موجود ہے.اب یہ انسان کی بنائی ہوئی کتا بیں اس کا مقابلہ کیا کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ چیلنج ہے کہ نہ تو تم اس جیسی کتاب لا سکتے ہو، نہ اس جیسی ایک آیت بنا سکتے ہو.پس یہ وہ آخری کتاب ہے جو اس عظیم رسول ﷺ پر تری جس کا زمانہ قیامت تک ہے.اور اگر مسلمان سائنسدان ہوں بلکہ احمدی مسلمان تو دریافت کے بعد کسی چیز کو اس پر منطبق نہیں کریں گے بلکہ اپنی تحقیق کی بنیاد ہر ایک احمدی سائنسدان قرآن کریم کے دیئے ہوئے علم پر رکھے گا اور رکھتا ہے.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا ،ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی اپنی تحقیق کی اسی پر بنیا د رکھا کرتے تھے.بہر حال کہنے کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم نے ایسے ایسے علم و حکمت کے موتی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جو رہتی دنیا تک نئے نئے انکشافات تحقیق کرنے والے انسان پر کرتے رہیں گے.پس یہ ایسا عظیم اور پر حکمت کلام ہے جس کا کوئی دوسری شرعی کتاب مقابلہ نہیں کر سکتی.پھر اسی کتاب میں شرعی احکامات کی حکمت ہے.شرعی احکامات کی حکمت کا ایک یہ مطلب بھی ہے مثلاً نماز پڑھنے کا حکم ہے تو بیان فرمایا ہے کہ تم نماز سے کیا کیا فائدے اٹھاتے ہو.فرماتا ہے اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ.وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (العنكبوت: 46 ) تو کتاب میں جو تیری طرف وحی کیا جاتا ہے پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر.یقیناً نماز بے حیائی اور نا پسندیدہ بات سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر یقینا سب (ذکروں) سے بڑا ہے.اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو.یہ حکم صرف آنحضرت کے لئے نہیں تھا بلکہ امت کے لئے تھا، آنحضرت ﷺ کے خاص طور پر ماننے والوں کے لئے تھا.آپ تو پہلے ہی اس مقام تک پہنچے ہوئے تھے.آپ کو وہ مقام ملا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ سے یہ اعلان کروایا کہ یہ اعلان کر دو کہ میری نمازیں ، میری قربانیاں اور میری زندگی اور میری موت سب خدا تعالیٰ کے لئے ہے.آپ تو وہ مقام حاصل کر چکے تھے.یہ حکم تو اس بات سے بہت پیچھے ہے.پس یہ تعلیم تھی جواللہ تعالیٰ نے مومنین کو دی تا کہ اللہ تعالیٰ سے مومنوں کا تعلق جوڑنے کے لئے انہیں راستے بتائے جائیں.آنحضرت ﷺ کو فرمایا کہ یہ پر حکمت تعلیم مومنوں کو دو کہ دنیا کے ہر فساد کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ نا ضروری ہے.اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے عبادات کی ضرورت ہے اور عبادتوں کے معیار اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرو گے اور جب نمازوں کی حفاظت کروگے تو پھر یہ تمہیں ہرقسم کی برائیوں سے روکے گی اور تمہاری

Page 56

خطبات مسرور جلد ششم 36 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 یہ نمازیں تمہاری حفاظت کریں گی اور پھر اس مقصد کو حاصل کرنے والے بنو گے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے.نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے.سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو.اس فقرے پر غور کریں اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو.نماز نعمتوں کی جان ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذریعہ سے آتے ہیں.سو اس کو سنوار کر ادا کرو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 103 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ جو فر مایا کہ تم ایسی نماز تلاش کرو، اس کا یہی مطلب ہے کہ جب تک نیکیاں اچھی طرح دل میں راسخ نہیں ہو جاتیں اس وقت تک یہ خیال کرتے رہو کہ نماز کی ادائیگی میں کہیں کمی ہے.جب تک اللہ کی رضا اصل مقصود نہیں بن جاتی اُس وقت تک یہ سمجھتے رہو کہ ہماری نمازوں میں کمی ہے.دعائیں اور نماز میں صرف اسی وقت نہ ہوں جب اپنی ضرورتوں کے لئے بے چین ہو رہے ہو اور جب اس سوچ کے ساتھ ہم عبادتیں کر رہے ہوں گے تبھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث بھی بن رہے ہوں گے.ورنہ تو اس حکم میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی.پھر قرآن کریم میں ایک پر حکمت حکم یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ ( الج: 31) پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بُت بناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اسی سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے.جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بت کے ذریعہ سے نجات ہو جاوے گی.کیسی خرابی آکر پڑی ہے.اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو، اس نجاست کو چھوڑ دو تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں.اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا.اس سے بڑھ کر اور کیا بد قسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنامدار سمجھتے ہیں.مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخریج ہی کامیاب ہوتا ہے.بھلائی اور فتح اسی کی ہے.یقیناً یا درکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں.عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باور کروں.مجھ پر سات مقدمات ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی.کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو.اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا میں کوئی سچ بولنے کی جرات نہ کرے.اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقا داٹھ جاوے.راستباز تو زندہ ہی مرجاویں.اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں.یہ غور سے سننے والی چیز ہے.اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی.سزا اس وجہ سے نہیں کہ سچ بولا ہے وہ سزا ان کی بعض اور مخفی در مخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے.بہت ساری چھپی ہوئی برائیاں اور بدیاں جو ہیں ان کی وجہ سے سزا ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے.ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پا لیتے ہیں.“ (الحکم جلد 10 نمبر 17 مورخہ 17 مئی 1906 ، صفحہ 5،4)

Page 57

خطبات مسرور جلد ششم 37 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 2008 پس استغفار ایسی چیزوں سے بچنے کے لئے بہت ضروری ہے.پھر حکمت کے معنی عقل اور دانائی کے بھی ہیں.اس کتاب نے جو عظیم رسول ﷺ پر اتری بڑے پر حکمت احکامات اتارے ہیں.ہر حکم کی دلیل اتاری ہے جو ہر موقع محل کے لحاظ سے ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی مثال دے آیا ہوں قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر کوئی مجرم ہے تو اس کو سزا دو.چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آکر ، مغلوب الغضب ہو کر سزا نہ دو.اگر معاف کرنے سے اصلاح ہو سکتی ہے تو معاف کرنے میں حکمت ہے.لیکن اگر عادی چور کو معاف کر دیا جائے تو معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا موجب ہوں گے.اسی طرح اگر قاتل کو معاف کرو گے تو اور قتل پھیلائے گا.وہاں پھر سزا ضروری ہو جاتی ہے.غرض کہ قرآن کریم کا کوئی بھی حکم لے لیں اس میں حکمت ہے.ان احکامات کی بڑی لمبی تفصیل ہے.اگر مومن ان احکامات کو سامنے رکھے اور ان کی حکمت پر غور کرے تو جہاں ہر ایک کی اپنی معقل اور دانائی میں اضافہ ہوتا ہے وہاں معاشرے میں بھی علم و حکمت پھیلنے سے محبت اور پیار کو رواج ملتا ہے.زیادہ دماغ روشن ہوتے ہیں.پس ایک مومن کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ قرآن کریم سے یہ حکمت کے موتی تلاش کرے اور اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے جیسے کہ فرماتا ہے وَاذْكُرُنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ ايَتِ اللهِ وَالْحِكْمَةِ، إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (الاحزاب : 35).اور یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے.یقینا اللہ تعالیٰ بہت باریک بین اور باخبر ہے.ان باتوں کو ، قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان کو یاد کرنے کا حکم ہے.یہ آیات اور حکمت کی باتیں قرآن کریم میں جتنی بھی ہیں جن کی ہم اپنے گھروں میں تلاوت کرتے ہیں.قرآن کریم کاڑھے جاتے ہیں بڑے اہتمام سے رکھے بھی جاتے ہیں.تو تلاوت کی جائے تو تلاوت کا ثواب تو ہے لیکن اس کتاب کا حقیقی مقصد تب پورا ہوتا ہے.ان آیات کی تلاوت کرنے کا فائدہ تب ہو گا جب ان احکامات پر عمل بھی ہوگا اور اسی طرح اسوہ رسول یہ بھی ہمارے سامنے ہوگا اور یہ آیات اور حکمت کے موتی اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ہم کوشش کریں گے.اللہ باریک بین اور باخبر ہے ، یہ جو آخر میں فرمایا اور یہ کہ کر ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ جو ہمارے ظاہر و باطن سے باخبر ہے اسے کبھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی بھی خبر رکھتا ہے اور ہر برائی کی بھی.پس اس عظیم رسول کی اس عظیم تعلیم کو جب تک اپنے پر لاگو کر کے ہم اپنی زندگیاں اس کے مطابق ہم ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے حقیقی مومن کہلانے والے نہیں بن سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر حکمت تعلیم کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 15 نمبر 6 مورخہ 18 تا 14 فروری 2008 صفحہ 8-5)

Page 58

خطبات مسرور جلد ششم 4 38 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2008ء بمطابق 25 صلح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: رَبَّنَا وَابْعَتْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ.وَيُزَكِّيْهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 130) آج اس آیت میں بیان کردہ ابراہیمی دعا کے چوتھے پہلو یا اس عظیم رسول کی چوتھی خصوصیت کا ذکر کروں گا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نزدیک آئندہ تا قیامت رہنے والے زمانے کے لئے آنے والے اس خاتم النبیین میں ہونی چاہئے اور وہ دعائی تھی ویر كَيْهِمْ “ اور وہ ان کا جو اس کے ماننے والے ہوں تزکیہ کر دے.اب اگر دیکھا جائے تو ہر نبی جو خدا تعالی دنیا میں بھیجتا رہا ہے، اس کا کام ایسی تعلیم دینا ہی ہوتا ہے.ایسے عمل بجالانے کی تلقین کرنا ہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور جن سے ماننے والوں کا تزکیہ بھی ہو.تو یہاں یہ کون سا خاص تزکیہ ہے؟ الله جیسا کہ میں پہلے خطبات میں بتا چکا ہوں کہ اس عظیم رسول پر اترنے والی آیات بھی خاص مقام کی حامل تھیں.آپ پر اترنے والی آیات ایسی محکم تھیں جن کا کبھی پہلے کسی شریعت میں ذکر نہیں ہوا.آپ پر اترنے والی شریعت ایسی کتابی شکل میں موجود ہے اور آج تک موجود ہے جیسی پہلے دن تھی اور یہ تعلیم جو آنحضرت ﷺ پر اتری ، ایسی پر حکمت ہے جس کے ہر حکم کی دلیل بیان کی گئی ہے، اس کی حکمت بیان کی گئی ہے.جو ہمیں کسی دوسری شرعی کتاب میں نظر نہیں آتی.پس اس دعا میں تزکیہ کرنے کے معیار بھی وہی مانگے گئے ہیں، یا مانگے گئے تھے جو اس دعا کے پہلے تین حصوں کے لئے مانگے گئے تھے.یعنی ایسی پر حکمت تعلیم جو اتاری گئی ہے جس کا ہر ہر لفظ ایک آیت اور نشان ہے اس کے ذریعہ سے جب تزکیہ ہوتو وہ بھی ایسے اعلیٰ معیار کا ہو جس کا کوئی پہلی تعلیم مقابلہ نہ کر سکے.کیونکہ اس تعلیم کے ذریعے تزکیہ کا سامان تا قیامت رہنا ہے.تا قیامت اس کے ذریعہ سے تزکیہ ہوتے رہنا ہے اس لئے ہر زمانے کی برائیوں سے پاک کرنے کا سامان اس تعلیم میں موجود ہو.اور اللہ تعالیٰ نے دعا کے اس حصے کو بھی قبول فرمایا اور قبولیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا وَيُرَ كَيْهِمْ کہ وہ نبی جو مبعوث ہوا وہ تمہیں پاک کرتا ہے.جب ایسی عظیم آیات سے بھری ہوئی پر حکمت تعلیم مل گئی جس نے نہ سابقہ ، نہ آئندہ تا قیامت آنے والے کسی معاملے کو بھی نہیں چھوڑا تو تزکیہ والا حصہ کس طرح خالی رہ سکتا تھا.پس آنحضرت ﷺ اب تا قیامت پیدا ہونے والے ہر شخص کے لئے مزگی ہیں اور اب کوئی شخص حقیقی تزکیہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ آپ کے دامن کو پکڑتے ہوئے آپ کی لائی ہوئی تعلیم پر ایمان نہیں لاتا.

Page 59

39 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم تزکیہ سے متعلق چند باتیں بیان کرنے سے پہلے اس کے لغوی معنی بتا دیتا ہوں تا کہ اس کی وسعت کا اندازہ ہو سکے.رشی کے ایک معنی ہیں بڑھایا اور نشو ونما کی.دوسرے معنی ہیں، تطہیر کرنے یا پاک کرنے کے.اور پھر یہ بات جو میں نے پہلے بیان کی تھی کہ بڑھانا یا نشو و نما پانا.یہ بھی دو طرح کا ہے.ایک ذات میں بڑھنا اور بڑا ہونا.دوسرے سامان اور تعداد میں بڑھنا.اور پھر تطہیر بھی دو طرح کی ہے.ایک ظاہری پاکیزگی اور طہارت ہے.اور دوسرے اندرونی پاکیزگی اور طہارت ہے.پس اس لحاظ سے اس لفظ کی حضرت مصلح موعودؓ نے جو جامع تعریف کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ انہیں پاک کرے گا.نہ صرف دماغوں کو پاک کرے گا بلکہ حکمت سکھا کر دلوں کو بھی پاک کرے گا اور پھر اس تطہیر کی وجہ سے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھر جائیں گے یہاں تک کہ وہ ماننے والے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی صفات میں جذب کر لیں گے.عام انسان تو نظر آئیں گے لیکن اس طرح کے عام انسان نہیں ہوں گے بلکہ خدا نمائی کا آئینہ دکھائی دیں گے.یعنی ہر دیکھنے والا ان سے فیض پانے والا ہو گا.ان کے اندر سے خدائی صفات ظاہر ہو رہی ہوں گی.ان کو دیکھ کر دیکھنے والے یہ سمجھ جائیں گے کہ یہ اللہ والے لوگ ہیں اور ان سے ملنے والے بھی پاک اور اللہ کے خالص بندے ہیں.پس یہ بات ہمارا بھی مدعا اور مقصود ہونی چاہئے اور اس کے لئے ہماری کوشش بھی جاری رہنی چاہئے تبھی ہم اس مزر کی حقیقی کی لائی ہوئی تعلیم سے حقیقی رنگ میں فیضیاب ہو سکتے ہیں.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں تزکیہ اور تطہیر کا یہ رنگ جو ہمیں آپ کی تعلیم اور قوت قدسی کی وجہ سے صحابہ میں چڑھا ہوا نظر آتا ہے وہ بھی ایک خاص نشان ہے اور اس زمانے کے عرب معاشرے میں یہ عظیم انقلاب اس عظیم نبی کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے با اخلاق انسان بنایا یعنی بچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا اور پھر با اخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الہی رنگ سے رنگین کیا“.تبلیغ رسالت جلد نمبر 6 صفحه 9) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورے سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مر چکی تھی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء ﷺ کو بھیج کرنے سرے سے دنیا کو زندہ کیا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَمَوْتِهَا ( الحديد : 18 ) یعنی یہ بات سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے.پھر اس کے مطابق آنحضرت ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے حق میں فرماتا ہے وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ (المجادلہ : 23 ) یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدددی.اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قو تیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خدا تعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچادیتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 194 تا 195) پس یہ ہے اس مزکی کی قوت قدسی اور تعلیم کا اثر کہ وہی لوگ جو وحشی تھے جن کے دل کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے تھے جو شراب، نشہ، جوا، زنا جیسی بیماریوں میں مبتلا تھے.جو اپنے باپوں کی بیویوں کو بھی ورثے میں بانٹا کرتے تھے ، جو ذرا ذراسی بات پر بھڑک جاتے تھے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جا تا تھا اور پھر یہ سلسلہ سالوں تک چلتا تھا.لیکن جب اسلام کی آغوش میں آئے تو یہی قربانیاں لینے والے لوگ قربانیاں دینے والے بن گئے.وہی جو

Page 60

خطبات مسرور جلد ششم 40 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے تھے عفو و درگزر سے کام لینے والے بن گئے.وہی جو شراب کے نشے میں دھت رہنے والے تھے اور پانی کی طرح شراب پینے والے تھے شراب کی ممانعت کا اعلان سنتے ہی شراب کے ہونٹوں سے لگے ہوئے پیالوں کو چھینکنے والے بن گئے.وہی جن کے مٹکوں میں پانی کی بجائے شراب ہوتی تھی ایک آواز پر مشکوں کو توڑنے والے بن گئے اور مدینہ کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگ گئی.وہی جن کے دن اور رات برائیوں اور گناہوں سے بھرے ہوئے تھے خدمت دین اور عبادت سے اپنے دن اور رات سجانے لگے.وہی جو مجلسوں کے رسیا تھے گوشہ خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانے والے بن گئے.پس یہ انقلاب ان میں اس لئے آیا کہ انہوں نے اس مُرگی کی قوت قدسی اور پاک تعلیم سے فیض پایا.ایک جذبے اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں پاک قو تیں عطا فرمائیں جن سے ان کی سوچوں کے دھارے بدل گئے.وہی جو اس برائی کو برائی نہ سمجھتے تھے نیکی کے اعلیٰ معیاروں کے حصول میں سرگرداں ہو گئے.وہی جو جہالت کے اندھیرے گڑھوں میں پڑے ہوئے تھے علم وفضل کے خزانے بن گئے.آنحضرت ﷺ کی مجلسوں کی صحبت سے نہ صرف ان کے اپنے دل پاک ہوئے بلکہ وہ پاک علم پھیلانے والے بن گئے.خدا تعالیٰ کی ذات پر ان کا یقین کامل ہوا اور روشن نشانوں سے انہوں نے اپنے رب کو پہچانا.360 بتوں کی بجائے خدا تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی ذات پر ایمان ہر روز بڑھتا چلا گیا.ہر روز انہوں نے خدا کی ذات کو نئی شان سے دیکھا اور جانا.اور پھر جب ایسے پاک دل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْه یعنی اپنے کلام سے ، روح القدس سے ان کی مدد کی.پس یہ انقلاب تھا جو یہ عظیم رسول اس زمانے کے جاہل عربوں میں لایا.ایسا تزکیہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی.اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس عظیم رسول کا زمانہ تا قیامت ہے اس لئے اس تعلیم سے بھی ہمیشہ ان لوگوں کا تزکیہ ہوتا رہے گا جو حقیقی رنگ میں اس سے فیض پانے والے ہوں گے.اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے.جیسا کہ ہم نے لغوی معنوں میں دیکھا ہے کہ ” يُزَ كَيْهِمْ “ کے معنی یہ بنیں گے کہ ان کی تعداد بڑھائے گا.یعنی اس کلام کی غیر معمولی تاثیر کی وجہ سے جو اس پر اتر الوگ اسے قبول کرتے چلے جائیں گے اور ایک وقت آئے گا جب س عظیم رسول کا دین یعنی اسلام تمام دینوں پر غالب ہو گا.یہ انقلاب جولوگوں کی طبائع میں آپ نے پیدا کیا.لوگوں کی سوچیں اور ذہنتیں بدلیں.ان کے دماغوں اور دلوں کو یکسر بدل ڈالا.یہ ایک دن میں تو نہیں آیا تھا.پہلے دن تو تمام عرب نے پاکیزگی اختیار نہیں کر لی تھی.آہستہ آہستہ اس تعلیم سے انقلاب آنے لگا جس جس طرح لوگ عقل سے کام لیتے چلے گئے.بعض ایسے لوگ ہیں جن کا تزکیہ ہو ہی نہیں سکتا تھا.اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ان کا تزکیہ نہیں ہو سکتا یہ تو عذاب کے مورد بننے والے لوگ ہیں.مکہ میں مخالفت بڑھی تو مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے راستے کھول دیئے اور آہستہ آہستہ تمام عرب حلقہ بگوش اسلام ہو گیا.پس جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ابراہیمی دعا کو سنتے ہوئے اس عظیم رسول کے ذریعہ سے پشتوں کے بگڑے ہوؤں کو سیدھا کر دیا.وہی ہندہ جو میدان جنگ میں شہید ہونے والے آنحضرت ﷺ کے چچا کا کلیجہ چبانے والی تھی جب اسلام قبول کر کے پاک دل ہوئی تو عبادت گزار بن گئی.پس جب ہم یہ نظارے دیکھتے ہیں، ان واقعات کو سنتے ہیں تو دل اس یقین سے بھر جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا

Page 61

خطبات مسرور جلد ششم 41 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 وعدہ آج بھی ہم پورا ہوتا ہوا دیکھیں گے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیج کر آنحضرت ﷺ کے مشن کی تکمیل کا اعلان فرمایا ہے.پس اگر کہیں عارضی روکیں جماعت کی راہ میں حائل ہوتی ہیں تو یہ کسی بھی قسم کی مایوسی پیدا کرنے والی نہیں ہونی چاہئیں.اسلام کی ابتدائی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک اس مرگی کی لائی ہوئی تعلیم سے چھٹے رہیں گے یا وہ لوگ چھٹے رہے، سابقہ تاریخ یہی کہتی ہے کہ جب تک وہ لوگ چھٹے رہے، حقیقی طور پر اس پر عمل پیرا ر ہے تو لوگوں کے دل جیتتے ہوئے انہیں اسلام کی آغوش میں لاتے چلے گئے.ان کے تزکیہ کے سامان ہوتے چلے گئے.اور آج مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی ہم نے یہی نظارے دیکھے ہیں.ہمارا کام اپنے تزکیہ کے لئے اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہے اور پھر چاہے دنیا جتنا زور لگالے اس الہی وعدے کو نہیں ٹال سکتی کہ اس دین نے غالب آنا ہے.پاکستان میں احمدیوں کے خلاف قانون پاس ہونے سے کیا جماعت کی ترقی رک گئی ؟ ہر احمدی جانتا ہے کہ رکنے کا تو سوال ہی نہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس تیزی کے ساتھ چھلانگیں مارتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.پس جن جن ملکوں میں جماعت کی مخالفت آج ہو رہی ہے انہیں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے.انشاء اللہ تعالیٰ ، ایک راستہ بند ہو گا تو ہزاروں راستے اللہ تعالیٰ کھول دے گا.انڈونیشیا میں آجکل ملانوں کے دباؤ کی وجہ سے حکومت جماعت پر بعض سختیاں کر رہی ہے جن میں یہ بھی ہے کہ بعض ایسی باتیں منوانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمارا نکتہ نظر ہی نہیں ہیں.تو میں انڈونیشین احمدیوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر حکومت اپنی بزدلی کے نتیجے میں یا اس وجہ سے جماعت پر پابندی لگاتی ہے ، ملانوں کے ڈر سے جماعت پر پابندی لگاتی ہے تو لگا لے.اچھا ہے پاک لوگوں کی جماعت مزید نکھر کر دنیا کے سامنے آ جائے گی.یہ تسلی رکھیں کہ اس سے انشاء اللہ جماعت کا کوئی نقصان نہیں ہوگا.آج تک کی جماعت کی جو تاریخ ہے اس بات کی گواہ ہے کہ ہر راستے کی روک نے اونچا اڑانے کے لئے ایندھن کا کام کیا ہے.پس ہم علی وجہ البصیرت اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی تا کہ اس اندھیرے زمانے میں دلوں کو پاک کر کے روشنی بخشیں اور خدا سے ملائیں.پس آپ کا مقام مسیح و مہدی ہونے کی حیثیت سے، آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غیر شرعی نبی ہونے کا دیا ہے اور اس لحاظ سے آپ نبی ہیں اور آج دلوں کی پاکیزگی آنحضرت ﷺ کے اس غلام صادق سے وابستہ ہو کر ہی ہوتی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی ایک جماعت ہے جس نے نفوس میں بھی اور اموال میں بھی بڑھنا ہے اور بڑھ رہی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس بڑھنے کو نہیں روک سکتی.کیونکہ یہ مزگی حقیقی کے عاشق صادق کی جماعت ہے.پس جہاں جہاں بھی مخالفتیں ہو رہی ہیں انہیں میں کہتا ہوں اپنے حوصلے بلند رکھیں اور کسی بھی مخالفت سے گھبرانے کی بجائے اپنے دلوں کو پاک کرنے کے سامان پیدا کرتے چلے جائیں.مزید بڑھ کر اس مرگی کی تعلیم سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتے چلے جائیں.جتنے دل پاک ہوتے جائیں گے روح القدس کی تائید شامل ہوتی جائے گی ، انشاء اللہ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ہماری تعداد بڑھتی چلی جائے گی.پس ایک مومن کا فرض ہے کہ بُرتگنی کے معنوں پر غور کرتے ہوئے عمل کرنے کی کوشش کرے جس سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ دینی اور دنیاوی دونوں طور پر ترقی کرتے چلے جائیں گے.اس بارے میں ہمیں قرآن کریم نے کیا احکامات دیئے ہیں اور آنحضرت ﷺ نے کیا نصائح فرمائی ہیں ان کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور یہ بھی ہو گا جب ہم قرآن کریم پر غور کرنے والے اور روزانہ تلاوت کرنے والے ہوں گے.دلوں کی پاکیزگی کے چند ایک احکامات میں پیش کرتا ہوں.

Page 62

42 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم پہلی بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں کسی قوم کے امراء میں ان کی دولت کی وجہ سے بڑائی پیدا ہو جاتی ہے اور دولت بڑھنے کے ساتھ ساتھ لالچ بڑھتا ہے.اپنے ذاتی خزانے بھرنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے.بعض اوقات دوسروں کا حق مار کر بھی اپنے خزانے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں.ذرا ذراسی بات پر غریبوں کا حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں.بعض تو میں نے دیکھا ہے کہ بہانوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح ملازمین کے پیسے کاٹتے رہیں.اسلام نے ان باتوں کو نا پسند فرمایا ہے بلکہ یہ چیزیں ظلم ہیں اور ظلم بہت بڑا گناہ ہے.حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا.حرص ، بخل اور کینہ سے بچو کیونکہ حرص، بخل اور کینہ نے پہلوں کو ہلاک کیا ، اس نے ان کو خون ریزی پر آمادہ کیا اور ان سے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کروائی.( صحیح مسلم.کتاب البر والصلۃ والا داب - باب تحریم الظلم حدیث 6472) پھر ایک حدیث ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کیا جس کے پاس نہ روپیہ ہو نہ سامان.حضور نے فرمایا میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ وغیرہ عبادات ایسے اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا ناحق خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہوگا.پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی.اس شخص کی ساری عبادتیں ان مظلوموں کی طرف چلی جائیں گی.یہاں تک کہ ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمے ڈال دیئے جائیں گے اور اس طرح جنت کی بجائے اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا.یہی شخص دراصل مفلس ہے.( صحیح مسلم.کتاب البر والصلۃ والا داب - باب تحریم الظلم حدیث 6474) پس ایسے لوگ جو عبادات تو کرتے ہیں بعض دفعہ جماعتی طور پر چندے بھی بڑھ بڑھ کر دے رہے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے حق مارنے والے ہیں، ایسے لوگ ظالم ہیں جن کا بیان اس حدیث میں ہوا ہے اور اس ظلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو مفلس ہونے کی حالت میں حاضر ہوں گے.پاکیزگی صرف ظاہری عبادتوں سے نہیں ہے بلکہ دلوں کی حالت پاکیزہ بنانے سے ہے اور دلوں کی پاکیزگی عبادتوں کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا کرنے سے ہوتی ہے.پس امراء کا غریبوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے ان کے لئے مالی قربانیاں دینا ، انہیں پاک کرنے کا باعث بنتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهَرُهُمْ وَتُزَكَّيْهِمْ بِهَا (التوبة : 103 ) یعنی اے رسول ان کے مالوں سے صدقہ لے تاکہ انہیں پاک کرے اور ان کی ترقی کے سامان کرے.ان کا تزکیہ کرے.یعنی یہ صدقہ مومنوں کے مال میں بھی برکت کا موجب ہوگا اور ان کے نفوس میں بھی برکت کا موجب ہوگا.بشرطیکہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دیا جائے.اور یہ مال جو امیروں سے لیا جائے گا پھر قوم کے کمزور طبقے پر خرچ ہو گا جو پھر ان کمز ور لوگوں کے مال میں اضافے کا بھی باعث بن سکتا ہے اور ان غریبوں میں سے کئی حالات اچھے ہونے کی وجہ سے پھر اس قابل ہو جائیں گے کہ جو پھر خود اپنے مال کو صاف کرنے کے لئے صدقہ کرنے والے ہوں گے، زکوۃ دینے والے ہوں گے، چندوں میں بڑھنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی یہ خوبصورت تعلیم ہے جو

Page 63

43 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 خطبات مسرور جلد ششم اس پاک نبی ہے کے ذریعہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے اتاری ، جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور جس سے تزکیہ کا صحیح مفہوم سمجھ آتا ہے اور پھر صرف صدقہ اور چندے کا حکم ہی نہیں ہے.بلکہ یہ بھی بتادیا کہ کن کن جگہوں پر وہ خرچ ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة: 60 ) كم صدقات تو محض محتاجوں اور مسکینوں اور ان صدقات کا انتظام کرنے والوں اور جن کی تالیف قلب کی جارہی ہے اور گردنوں کو آزاد کرانے اور چٹی میں مبتلا لوگوں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں عمومی خرچ کرنے اور مسافروں کے لئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا ، بہت حکمت والا ہے.حقوق ادا کرنے کے لئے اسلامی نظام حکومت کی اب یہ ایک ذمہ داری بتائی گئی ہے.پہلے تو یہ بتایا کہ فقراء پر خرچ کرو یعنی جو بہت زیادہ غربت زدہ ہیں ، بیمار ہیں، علاج معالجے کی سہولت مہیا نہیں کر سکتے.پھر مساکین ہیں جو کام کی خواہش رکھتے ہوئے بھی سرمائے کی کمی کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے.ان کی اگر مالی مدد کی جائے تو بہت سی برائیوں سے بچ جائیں گے اور پاک معاشرے کا حصہ بن جائیں گے.پھر یہ زکوۃ ، صدقات کا روپیہ ان پر خرچ کرنے کی اجازت ہے جو حکومتی کارندے یا مال جمع کرنے کے لئے متعین کئے گئے ہیں یا کوئی اور حکومتی کام کر رہے ہیں.پھر تالیف قلب ہے اس کے لئے خرچ کیا جائے.پہلے زمانے میں یہ خرچ ان لوگوں پر بھی ہوتا تھا جو اسلام قبول کرنا چاہتے تھے لیکن بعض پابندیوں کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے.معاشرے کی پابندیوں میں جکڑے ہوتے تھے.یا پھر بعض نئے مسلمان ہونے والے جن کو اپنے معاشرے سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے مالی تکلیفوں کا سامنا تھا تو ان کے لئے یہ رقم خرچ کی جاسکتی تھی اور کی جاتی تھی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اسلام جو ہے وہ رقم دے کر یا پیسے دے کر مسلمان بنواتا ہے بلکہ جو مجبور ہیں خود اس بات کا مطالبہ کریں کہ ہماری بعض مجبوریاں ہیں.ہمارے بعض مالی بندھن ہیں اگر ہمیں اس سے آزاد کر دیا جائے تو ہم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں یا بعض پابندیاں ہیں ان سے آزاد ہونا چاہتے ہیں تو ان کے لئے خرچ کرنے کی اجازت ہے.آجکل تبلیغ کے ذرائع ان لوگوں کو مہیا کرنا بھی اس میں شامل ہے.تالیف قلب میں یہ ساری چیزیں آجاتی ہیں.پھر غلاموں کی آزادی ہے.اُس زمانے میں تو غلام رکھنے کا رواج تھا ، آج تو یہ نہیں ہے.لیکن بدقسمتی سے بعض امراء نے بعض جاگیرداروں نے غریبوں کو قرض دے کر اپنا غلام بنایا ہوتا ہے اور نہ وہ قرض اترتا ہے اور نہ ہی یہ نوکری کی صورت میں غلامی ختم ہوتی ہے.پاکستان میں بھی اس کا بہت رواج ہے.خاص طور پر بھٹے والوں میں یا زمینداروں میں.بعض جگہ پر تو اب اس کے خلاف کچھ آواز میں اٹھنی شروع ہوئی ہیں.لیکن یہ حکومت کا کام ہے کہ ان کو آزاد کرائے.جو مالک ہیں ان کو بھی محروم نہ کرے.جو مزدور ہے اس کو بھی محروم نہ کرے تا کہ کسی بھی قسم کا ایسارد عمل نہ ہو جو بجائے پاکیزگی پیدا کرنے کے فساد کا موجب بن رہا ہو.پھر جن کو کاروبار میں نقصان ہوئے ہوں ان پر خرچ ہوسکتا ہے.پھر اللہ تعالی کی راہ میں عمومی خرچ پر یہ رقم خرچ ہو سکتی ہے یعنی ہرا اچھے اور نیک کام پر جس کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس پر یہ رقم خرچ ہوسکتی ہے.

Page 64

خطبات مسرور جلد ششم 44 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 پھر مسافروں کے لئے ایسے مسافر جو بعض دفعہ رقم کی کمی کی وجہ سے راستوں میں پھنس گئے ہوتے ہیں یا پھر ایسے لوگ جو علم کی تلاش میں نکلنے والے ہیں ان کو اگر خرچ کی کمی ہو تو ان کے لئے یہ رقم خرچ ہو سکتی ہے.تو یہ جو سارے احکامات ہیں، یہ معاشرے کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتری ہوئی کتاب کے ذریعہ سے ہم تک پہنچائے ہیں.اگر اسلامی حکومتیں نیک نیتی سے ان باتوں پر عمل شروع کر دیں تو پھر اسلام اور مسلمانوں کا ایک ایسا تصور دنیا کے سامنے ابھرے گا جس کا کوئی نظام مقابلہ نہیں کر سکتا اور ہر قسم کے اعتراضات جو اسلام پر کئے جاتے ہیں خود بخود مٹتے چلے جائیں گے.کیونکہ نہ کسی مذہب کی تعلیم اس کے مقابلے پر ہے، نہ کوئی معاشی نظام اس کے مقابلے پر ہے اور اسلام کا معاشی نظام کیونکہ سود کے بغیر ہے اور پاک دل ہو کر حقوق العباد ادا کرنے کے لئے ہے اس لئے غیر ضروری بوجھ بھی کسی پر نہیں پڑتا.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے محدود طور پر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے.لیکن وسائل اتنے محدود ہیں کہ باوجود خواہش کے اس پر عمل نہیں ہو سکتا لیکن اگر حقیقی رنگ میں حکومتیں ہیں جو حکومتی نظام چلا رہی ہیں ان کے پاس وسائل بھی ہوتے ہیں وہ یہ بہتر طور پر کرسکتی ہیں.پاکستان کے وسائل کو بھی اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اتنے وسائل ہیں کہ پاکستان میں غربت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تو قرآن کریم کی تعلیم ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو ہر پہلو سے معاشرے کا تزکیہ کرتی ہے اور اسلامی حکومت میں رہنے والے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی تزکیے پر مبنی اس معاشی نظام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.پھر تزکیے سے ظاہری صفائی بھی مراد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقره: 223 ) یعنی اللہ تعالیٰ ان سے جو بار بار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو ظاہری اور باطنی صفائی کرنے والے ہیں ان سے محبت کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ کرتے ہوئے جھکنا، غلطیوں پر نادم ہو کر استغفار کرنا دل کی صفائی کا باعث ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ ظاہری صفائی پسند فرماتا ہے اور نظافت اور صفائی کے بارے میں خاص طور پر ہدایت ہے.دانتوں کی صفائی ہے، کپڑوں کی صفائی ہے جسم کی صفائی ہے، ماحول کی صفائی ہے اور عبادت کرنے کے لئے بھی ظاہری صفائی یعنی وضو کوضروری قرار دیا گیا ہے.لیکن ہمارے ہاں مسلمانوں میں صفائی کا معیار اتنا نہیں جتنی اس بارے میں نصیحت کی گئی ہے.آنحضرت ﷺ نے جمعہ والے دن خاص طور پر نہانے اور خوشبولگانے کا حکم دیا ہے.( بخاری کتاب الجمعۃ باب الطبيب للجمعۃ حدیث نمبر (880) مسجد میں آتے ہوئے ایسی چیزیں کھانے سے منع کیا ہے جن سے بو آتی ہو.(مسلم کتاب المساجد مواضع الصلاة باب بھی من اكل ثوم...حديث (1141) پھر ماحول کی صفائی ہے.ہم نے ، عموماً ہمارے بعض لوگوں نے جو خاص طور پر غریب ممالک ہیں یہ تصور کر لیا ہے، پاکستان بھی ان میں شامل ہے کہ اگر غربت ہو تو گندگی بھی ضروری ہے حالانکہ اپنے ماحول کی صفائی سے غربت یا امارت کا کوئی تعلق نہیں ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اَلطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَان، حضرت ابو موسیٰ اشعری سے یہ روایت ہے آپ بیان

Page 65

خطبات مسرور جلد ششم 45 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 ایک حصہ ہے.کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ الطُّهُورُ شَطْرُ الایمان کہ طہارت، پاکیزگی اور صاف ستھرا رہنا یہ ایمان کا ( صحیح مسلم.کتاب الطھارۃ.باب فضل الوضوء حدیث 422) حضرت عطا بن بیسار بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺہ ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری داڑھی والا آیا حضور ﷺ نے اسے اشارے سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر کے اور داڑھی کے بال درست کرو اور جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کر کے آیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا یہ بھلی شکل بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بھرے اور پرا گندہ ہوں کہ شیطان اور بھوت لگے.(موطا امام مالک.کتاب الشعر.باب اصلاح الشعر حدیث 1770) آجکل ہمارے ہاں بعضوں کو خیال ہے کہ جو اللہ والے ہوتے ہیں ان کے لباس بھی گندے ہونے چاہئیں اور حلیہ بھی بگڑا ہوا ہونا چاہئے اور ان میں سے بو بھی آنی چاہئے تو یہ حدیث اس کی نفی کرتی ہے.آجکل یہاں بھی میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ میں سیر سے آتا ہوں، بچے سکول جاتے ہیں، یہاں کے مقامی بچے تو ہیں ہی، ہمارے بعض پاکستانی بچے بھی ہیں اور بعض احمدی بھی کہ بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں.لگتا ہے کہ بس سو کے اٹھے ہیں اور اسی طرح اٹھ کر سکول جانا شروع ہو گئے ہیں.تو ماں باپ کو چاہئے کہ بچوں کی تربیت بھی ابھی سے اس عمر میں کریں کہ صبح اٹھیں ، تیار ہوں ، بال سنواریں، منہ ہاتھ دھو ئیں اور وقت پہ اٹھیں تا کہ وقت پہ تیار ہو کر سکول جاسکیں اور خود بھی ماں باپ اپنی صفائی کا خیال رکھیں.جن گرم ممالک میں پسینہ زیادہ آتا ہے وہاں خاص طور پر جسمانی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے.پانی اگر میسر ہے، بعض جگہ تو پانی بھی میسر نہیں ہوتا لیکن بہر حال ایک دفعہ ضرور نہانے کی کوشش کرنی چاہئے.تو یہ باتیں ہیں جن کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ صفائی ہے، یہ ستھرائی ہے ، یہ ایمان کا حصہ ہے.پھر دل کی صفائی ہے، جس سے تزکیہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ صحابہ نے کس طرح اپنا تزکیہ کیا اور برائیوں کا خاتمہ کیا.میں یہاں چند ایک برائیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جس نے باوجود اس کے کہ دلوں میں نیکی موجود ہے لیکن پھر بھی بعض احمد یوں کے دلوں میں بھی یہ برائیاں پیدا کر دی ہیں.اور نیکی اور برائی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ، یہ ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.اگر برائیاں بڑھتی رہیں یا قائم رہیں تو نیکیوں کو نکال دیتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں نیکیوں کے قدم مضبوط ہوں اور برائیوں کو باہر نکالیں تاکہ تزکیہ قلب حقیقی رنگ میں ہو.ان برائیوں میں سے ایک حسد ہے.ایک جھوٹ ہے.پھر قرض لینے کی عادت ہے اور قرض نہ واپس کرنے کی عادت ہے.تو آجکل کے معاشرے میں ان باتوں نے بہت سے مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں، اس لئے ان کا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں.حسد سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ یہ دعا کرو: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ( الفلق : 6) كه حاسد کے حسد سے اللہ تعالیٰ بچائے.جب ایک مومن خود بچنے کی دعا کرے گا تو پھر ایک پاک دل مومن یہ بھی کوشش کرے گا کہ دوسرے سے حسد کرنے سے بھی بچے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے.(ابوداؤ د کتاب الادب باب فی الحسد حدیث نمبر 4903 وسنن ابن ماجہ ابواب الزهد باب الحسد حدیث نمبر 4210)

Page 66

خطبات مسرور جلد ششم 46 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 نیکیاں جو ہیں وہ حسد سے بالکل ختم ہو جاتی ہیں جل کے راکھ ہو جاتی ہیں.پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کر باہمی تعلقات نہ توڑ و، بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق کرے.( مسند احمد جلد نمبر 4 مسند انس بن مالک حدیث نمبر 13084 عالم الكتب بيروت لبنان 1998 یہ چیزیں ہیں جو دلوں میں پاکیزگی پیدا کرتی ہیں.دلوں کی پاکیزگی اگر قائم رکھنی ہے.اگر اپنی عبادات سے فائدہ حاصل کرنا ہے.اس مزکی کی تعلیم سے فائدہ اٹھانا ہے تو حسد سے بچنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.اگر ہر شخص اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کرنے کا عہد کرے تو حسد پیدا ہی نہیں ہوسکتا.میں نے دیکھا ہے کہ بعض بظاہر بڑے اچھے نظر آنے والے جو لوگ ہیں ان میں بھی دوسروں کے لئے حسد ہوتا ہے جس کی آگ میں وہ آپ بھی جل رہے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.جتنا وقت ایسے لوگ حسد کرنے اور چالا کیوں کے سوچنے میں لگاتے ہیں کہ دوسروں کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے اتنا وقت اگر وہ تعمیری سوچ میں لگائیں ، دعاؤں میں لگائیں تو شاید حسد سے بچنے اور مسابقت کی روح کی وجہ سے.اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں سے زیادہ آگے بڑھا دے اور جلدی آگے بڑھا دے.پھر دوسری بات جھوٹ ہے.اس بارے میں بھی میں اکثر کہتا رہتا ہوں.ہر قسم کی غلط بیانی سے بچنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جھوٹ بھی شرک کے قریب کر دیتا ہے.پس اس سے بچنا بھی ایک مومن کے لئے ، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنا تز کیہ کرنا چاہتا ہو انتہائی ضروری ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہیں یچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ بچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے.انسان بیچ بولتا ہے اور سوچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق کہلاتا ہے.صدیق لکھا جاتا ہے.ہمیں جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بن جاتا ہے اور فسق و فجو رسیدھا آگ کی طرف لے جاتے ہیں.ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب یعنی جھوٹا لکھا جاتا ہے.( صحیح بخاری کتاب الأدب باب قول اللہ یا ایھا الذین امنوا اتقوا الله وكونوا حدیث نمبر 6094) پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا.جی حضور ضرور بتا ئیں.آپ نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا.آپ تکیے کا سہارا لئے ہوئے تھے جوش میں آکر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے.آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش آپ خاموش ہو جائیں.( صحیح بخاری کتاب الشهادات باب ما قيل في شهادة الزور حدیث نمبر 2654 ) پس آنحضرت ﷺ کو گوارا نہیں تھا کہ ان کی امت میں سے ہو کر اس مزگی کی طرف منسوب ہو کر پھر آگ میں

Page 67

خطبات مسرور جلد ششم 47 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 2008 پڑنے والا ہو اور اس تصور نے ہی آپ کو بے چین کر دیا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس لعنت سے ہمیشہ بیچنے کی توفیق دے اور اپنے دلوں کا حقیقی تزکیہ کرنے والا بنائے.تیسری بات جو آجکل کا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ قرضوں کی واپسی ہے.لوگ ضرورت ہو تو قرض لے لیتے ہیں مگر واپسی پر بہت لیت و لعل سے کام لیتے ہیں.قرض لینے سے پہلے جس شخص سے وہ قرض مانگا جا رہا ہو.اس سے زیادہ نیک اور پر خلوص دل رکھنے والا اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ نیکیوں اور خوبیوں کا مالک ہوتا ہے.لیکن جب اس کی طرف سے واپسی کا مطالبہ ہوتا ہے تو اس سے زیادہ خبیث اور بددماغ اور ظالم شخص کوئی نہیں ہوتا.تو مومن کا تو یہ شیوہ نہیں ہے.پاک دل کی خواہش رکھنے والوں کا تو یہ شیوہ نہیں ہے.اس عظیم رسول اور مزکی کی طرف منسوب ہونے والوں کا تو یہ شیوہ نہیں ہے.پس ہمیں وہی راستے اختیار کرنے چاہئیں جو اس مزگی نے اپنے اسوہ کے طور پر ہمارے سامنے پیش فرمائے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ سے قرض ادا کرنے کا تقاضا کیا اور بڑی گستاخی سے پیش آیا.آپ کے صحابہ کو بڑا غصہ آیا اور اسے ڈانٹنے لگے.حضور نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو کیونکہ جس نے لینا ہو وہ کچھ نہ کچھ کہنے کا بھی حق رکھتا ہے.پھر آپ نے فرمایا: اسے اس عمر کا جانور دے دو جس عمر کا اس نے وصول کرنا ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ اس وقت تو اس سے بڑی عمر کا جانور موجود ہے.آپ نے فرمایا : وہی دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنا قرض زیادہ عمدہ اور اچھی صورت میں ادا کرتا ہے.( صحیح بخاری کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ فی قضاء الديون حدیث نمبر 2305) پس یہ ہے اسوہ جس کے مطابق قرض ادا کرنے والے کو قرض ادا کرنا چاہئے.ہاں اگر حالات ایسے ہوں کہ قرض ادا نہ کرسکیں تو پھر احسن رنگ میں مہلت مانگ لینی چاہئے یا پھر کوئی ضمانت دینی چاہئے.اور ایک مومن قرض دینے والے کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مہلت کی یہ بات مان لے اور ضمانت مان لے تا کہ معاشرے سے فتنہ وفساد ختم ہو.دونوں طرف کے دلوں کی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوں اور پاک دل رہیں اور یہی اخلاق ہیں جو معاشرے میں دلوں کی پاکیزگی کا باعث بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم رسول اور مرگی کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَدَا فَلَحَ مَنْ تَزَكَّى ( الا علی : 15).یعنی وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہوا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں پاک لوگوں میں شمار کرتار ہے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 15 نمبر 7 مورخہ 15 تا 21 فروری 2008 صفحہ 8-5)

Page 68

خطبات مسرور جلد ششم 5 48 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 فرموده مورخہ یکم فروری 2008ء بمطابق یکم تبلیغ 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: رَبَّنَا وَابْعَتْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ ايتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ.إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 130) كَمَا أَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ أَيْسَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ((البقرة : 152) یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں پہلی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے جس کا مضمون گزشتہ چند خطبوں سے چل رہا ہے اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ ہم نے تم میں وہ رسول بھیج دیا جو اس دعا کی قبولیت کا نشان ہے کہ وہ رسول حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے مبعوث ہوا جس نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا کرنا تھا اور کیا.اس دعا میں مانگی گئی چاروں باتوں کا میں گزشتہ خطبوں میں کچھ حد تک بیان کر چکا ہوں.مضمون شروع کرتے وقت میں نے چند جمعے پہلے یہ دونوں آیات پڑھی تھیں اور مختصر اذکر کیا تھا کہ اس دعا کے مانگنے کے الفاظ میں اور خدا تعالیٰ کے قبولیت کے اعلان کے الفاظ میں ترتیب کا کچھ فرق ہے.اس میں ایک حکمت ہے اور حکیم خدا کا کوئی کام بھی بغیر حکمت کے نہیں ہوتا، یونہی نہیں کہ الفاظ آگے پیچھے ہو گئے اور بلا وجہ ہو گئے.ان الفاظ کا یعنی اس عظیم رسول کی ان چار خصوصیات کا جو اس اعلیٰ معیار کی تھیں کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں.اور جو صرف اور صرف ت ﷺ کی ذات کا ہی خاصہ تھیں.( جیسا کہ میں نے اس مضمون کی ابتدا میں کہا تھا کہ اس فرق کو بھی میں بعد میں کچھ بیان کروں گا کہ کیوں یہ فرق ہے ؟ تو اس وقت میں وہی کچھ بیان کرنے لگا ہوں.) قرآن کریم میں دو اور جگہ ( دوسری جگہ پر ) بھی یہ بیان ہوا ہے ، ایک سورۃ آل عمران میں.اللہ تعالیٰ فرماتا بِ لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ.وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ (سورۃ آل عمران : 165) یعنی اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا.وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے.اور انہیں پاک کرتا ہے.اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.دوسری جگہ سورۃ جمعہ میں ذکر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ ايته وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ.وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينِ (الجمعة: (3) وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے.

Page 69

خطبات مسرور جلد ششم 49 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 تو یہ دونوں جگہ بلکہ تینوں جگہ جیسا کہ میں نے کہا جہاں قبولیت کا اعلان ہو رہا ہے ترتیب ان آیات میں ایک طرح ہے اور دعا کی ترتیب سے فرق ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا میں تزکیہ کو آخر میں رکھا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ دعا قبول ہو گئی اور وہ رسول جس کے لئے ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی یہ یہ کام کرتا ہے تو اس میں تزکیہ کو آیات کی تلاوت کے بعد رکھا ہے.اس فرق پر چند مفسرین نے روشنی ڈالی ہے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے.جیسا کہ میں نے کہا جو مفسرین پہلے گزرے ہیں، انہوں نے زیادہ تفصیل بیان نہیں کی.مثلاً علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ: تزکیہ کو تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے درمیان اس لئے رکھا ہے تا کہ بتایا جائے کہ ان چاروں امور کو ایک بات نہ سمجھ لیا جائے بلکہ چار الگ الگ امور ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ بڑی نعمت ہے.دوسری بات کہتے ہیں کہ تلاوت آیات کو پہلے اس لئے رکھا گیا ہے کہ تزکیہ کے لئے پہلے مخاطبین کو تیار کرنا ضروری تھا.اس کے بعد تز کیہ کو رکھا کیونکہ یہ پہلی صفت ہے جسے مومنوں کو سب سے پہلے اپنانا چاہئے کیونکہ اچھی صفات کو اپنانے سے پہلے بری عادات کو چھوڑنا ضروری ہوتا ہے.اس کے بعد تعلیم کو رکھا گیا کیونکہ ایمان کے بعد ہی تعلیم حاصل کی جاتی ہے.تاہم سورۃ بقرہ کی آیت میں تعلیم کو تزکیہ سے پہلے شاید اس لئے رکھا گیا ہے تا کہ یہ بتایا جائے کہ خوبیوں کو اپنا نا زیادہ اہم ہے.( تفسیر روح المعانی سورۃ آل عمران آیت 165) تو اس طرح دو ایک اور مفسرین نے بھی اس ترتیب کے جو الفاظ ہیں ان پر مختصر بحث کی ہے.اس لئے اس فرق کو واضح کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیادہ وسیع تفسیر کی ہے.اس سے میں نے استفادہ کیا ہے جو بیان کروں گا.دعائے ابراہیمی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ نبی مبعوث ہونے کے بعد اپنے پر نازل ہونے والی وحی پیش کرتا ہے پھر اپنی تائید میں ہونے والے نشانات اور معجزات کو پیش کرتا ہے.پھر جس جس طرح احکامات نازل ہوتے جاتے ہیں وہ احکامات کی حکمتیں بیان کرتا ہے اور آخر کار اس وحی کو سننے، ان معجزات کو دیکھنے جو نبی نے دکھائے ہوتے ہیں اور ان احکامات کو سمجھنے کے بعد پھر جو جماعت تیار ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے تقدس عطا فرماتا ہے.یہ پاک لوگوں کی جماعت ہے جو پھر اس پیغام کو آگے پہنچاتی ہے اور غلبہ حاصل کرتی ہے.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں تزکیہ کوسب سے آخر میں رکھنے کی یہ وجہ ہے.یہ ایک ظاہری تقسیم ہے.اس میں کمزور ایمان والوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے جو تر تیب بیان فرمائی ہے اس میں ایمان میں ترقی اور روحانیت کو پہلے رکھا ہے اور علوم ظاہری والی باتیں بعد میں لی ہیں.پس ایمان میں ترقی اور روحانیت میں ترقی اور معرفت کے پیدا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وحی پر ایمان ہو.جب یہ ایمان بالغیب ہو گا تو پھر ایسی نظر بھی عطا ہو گی جو ان نشانات اور معجزات کو دیکھنے والی ہو گی.اور جب یہ نشانات اور معجزات نظر آئیں گے اور تزکیہ نفس میں ترقی ہوگی تو پھر اس ترقی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنانے کی کوشش ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی صفات اپنانے سے ایمان میں پھر مزید ترقی پیدا ہو گی.تمام نفسانی کدورتیں صاف ہو جائیں گی.تمام آلائشوں سے دل پاک ہو جائے گا.پس کتاب اور حکمت پر تزکیہ کے تقدم کی یہ وجہ ہے، کیونکہ کتاب پڑھنا، اسے سمجھنے کی کوشش کرنا، اس میں سے حکمتیں تلاش کرنا یہ ظاہری علم کی چیزیں

Page 70

خطبات مسرور جلد ششم 50 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 ہیں اور یہ باتیں یعنی کتاب اور حکمت کو آخر پر رکھ کر یہ اشارہ فرمایا کہ ایک انسان کی زندگی کا اصل مقصود نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ وغیرہ اور احکامات کی حکمتیں نہیں ہیں بلکہ اصل مقصود تزکیہ نفس ہے اور ہونا چاہئے.اگر ظاہری نماز میں کوئی لمبی لمبی پڑھتا ہے اور نفس کی اصلاح نہیں.یا اگر ز کوۃ دیتا ہے اور نا جائز کمائی کر رہا ہے.یا اگر حج کیا ہے اور دل میں یہ ہے کہ دوسروں کو پتہ لگے کہ میں حاجی ہوں یا اس لئے کہ کاروبار زیادہ چھکے کئی کاروباری لوگ اس لئے بھی حج پر جاتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا ہوا ہے کہ : ”جب میں حج پر گیا تو ایک لڑکا میرے ساتھ حج کر رہا تھا.نہ نمازیں تھیں اور نہ دعائیں پڑھ رہا تھا بلکہ کوئی گانے گنگنا رہا تھا تو میں نے پوچھا تم اس لئے حج پر آئے ہو؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ ہماری دکان ہے اور وہی کاروبار مقابلے پر ایک اور آدمی بھی کر رہا ہے اور وہ حج کر کے آیا ہے جس کی وجہ سے اس کا کاروبار زیادہ چپکا ہے تو میرے باپ نے کہا ہے کہ تم بھی جا کر حج کر آؤ.مجھے تو پتہ نہیں حج کیا ہوتا ہے اس لئے میں آیا ہوں کہ ہمارا کاروبار چمکے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 35) تو یہ حال ہوتا ہے حاجیوں کا.اگر اس طرح کے حج ہیں تو پھر اس کتاب کی تعلیم پر عمل بے فائدہ ہے.حضرت یہ ہوتا کا.اگر کے جنہیں تو پھراس تعلیم ملبے فائدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک حاجی کا قصہ بیان فرمایا ہے کہ: اس نے کسی نیک شخص کی دعوت کی.وہ امیر آدمی تھا جو نج کر کے آیا تھا.جب وہ بزرگ دعوت پر آیا تو اس کے سامنے اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ فلاں چیز فلاں طشتری میں رکھ کے لاؤ جو میں پہلے حج پر لے کے آیا تھا.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا کہ فلاں چیز فلاں طشتری میں لاؤ جو میں دوسرے حج پر لے کے آیا تھا.پھر کہنے لگا کہ فلاں چیز فلاں طشتری میں لاؤ جو میں تیسرے حج پہ لے کے آیا تھا.تو اصل مقصد اس کا یہ بتانا تھا کہ میں نے حج کئے ہیں.اس 66 نیک بزرگ مہمان نے کہا.تیری حالت بڑی قابل رحم ہے.تو نے تو اس اظہار سے اپنے تینوں حج ضائع کر دیئے.“ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 280) پس یہ بات یادر کھنے والی ہے کہ کتاب کی کسی بھی تعلیم پر آپ جو بھی عمل کرتے ہیں اس پر عمل کا مقصد تزکیہ نفس ہے.اس لئے تزکیہ مقدم رکھا گیا ہے اور اس عظیم رسول کے صحبت یافتوں نے اپنے دلوں کا تزکیہ کیا تعلیم تو ساتھ ساتھ اترتی رہی.تقویٰ کے معیار بھی بڑھتے رہے.لیکن دلوں میں پاکیزگی پہلے پیدا ہوگئی تھی.آہستہ آہستہ ترقی تو ہوتی رہی لیکن دل صاف ہو گئے تھے.پہلے دن سے ہی ان صحابہ کا تزکیہ ہوگیا تھا.اس تزکیہ کی ہی وجہ تھی کہ حکم آتے ہی شراب کے ملے توڑے گئے تھے.کسی نے دلیل نہیں مانگی.حکم پر عمل کیا.تو اصل چیز دلوں کی پاکیزگی ہے جو اس عظیم رسول نے کی.آنحضرت ﷺ کی ذات، آپ کا ہر عمل ، آپ کا اٹھنا بیٹھنا بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایک نشان تھا.چنانچہ آپ کے قریبیوں میں جیسے حضرت خدیجہ ہیں ، حضرت ابو بکر ہیں ، حضرت علی ہیں.انہوں نے وحی کے اترنے کے ساتھ ہی آپ کو قبول کر لیا تھا اور علم ومعرفت میں پھر بڑھتے چلے گئے.انہوں نے تفصیلی تعلیم اور حکمتوں کی تلاش نہیں کی.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے.جب واپس آئے تو کسی نے کہا تیرے دوست نے یہ یہ دعویٰ کیا ہے.وہ سید ھے آنحضرت ﷺ کے پاس گئے.ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے اس کی تفصیل بتانے کی کوشش کی کہ یہ علیم اتری ہے.حضرت ابو بکر نے عرض کی کہ مجھے تعلیم ، حکمت اور دلیل نہیں چاہئے.میں تو آپ کو بچپن سے جانتا ہوں.ایساز کی انسان کوئی غلط بات نہیں کرسکتا.( شرح العلامة الزرقانی علی المواہب اللہ نیہ جلد اول صفحہ 449 ذکر اول من آمن باللہ ورسولہ دارالکتب العلمیة بیروت طبع اول 1996)

Page 71

خطبات مسرور جلد ششم 51 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 پس یہ جو آیات ہیں اس مرگی کے ہر ہر لفظ میں ان کی پاک باتوں میں نظر آئیں جنہوں نے ان کو قبول کیا.لیکن کور باطن جو تھے وہ واضح آیات اور کتاب کی پاک کرنے والی پر حکمت تعلیم کو دیکھ کر بھی اس فیض سے محروم رہے.پھر تزکیہ کے بعد تعلیم کتاب کو حکمت پر مقدم کیا گیا ہے یعنی کتاب حکمت سے پہلے رکھی گئی ہے کیونکہ اعلیٰ ایمان والا شخص یہ دیکھتا ہے کہ اس کے محبوب کا کیا حکم ہے.وہ دلیلوں کی تلاش میں نہیں رہتا.بلکہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہتا ہے کہ ہم نے حکم سن لیا ہے اور ہم اس کے دل سے فرمانبردار ہو چکے ہیں.ہمارے پچھلے تجربات بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہر حکم پر عمل کرنے سے ہمارے دلوں کا تزکیہ ہوا ہے.اس لئے یقیناً اسے نبی ﷺ ! تیرے پر خدا تعالیٰ کی طرف سے اترے ہوئے اس حکم میں بھی کوئی حکمت ہوگی.چاہے ہمیں اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے.ہمارا اصل مقصود تو محبوب حقیقی کی رضا حاصل کرنا ہے جو اس پیارے نبی کے ساتھ جوڑ کر اس کے کہے ہوئے لفظ لفظ پر عمل کرنے سے ملتی ہے.پس حکمتیں تو اس حکم کی جو بھی آئے بعد میں سمجھ آتی رہیں گی لیکن اپنے محبوب کی اطاعت ہم ابھی فوری کرتے ہیں.یہ فلسفیوں اور کمز ور ایمان والوں کا کام ہے کہ حکمتوں کے سراغ لگاتے پھریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دین العجائز اختیار کرنے کی اسی لئے تلقین فرمائی ہے.لیکن جہاں تکبر اور فلسفہ میں انسان پڑے گا تو تزکیہ نہیں ہو سکتا اور جب آدمی میں تکبر آ جائے تو پھر ایمان میں ترقی تو کیا قبول کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی.پس حکمت کا علم ہونا ایک کامل مومن کے لئے ، ایمان لانے کے لئے ضروری نہیں ہے اور جس کا ایمان صرف دلائل کی حد تک ہو اس کو حکمت کی بھی ضرورت ہے اور یہ کمزوری ایمان ہونے کی نشانی ہے.پس نبی کا تزکیہ کرنا، اس کا حکم دینا اور اس حکم کو مانا اور نبی کی باتیں سن کر اپنے دلوں کو پاک کرنے کی کوشش ، یہ کامل الایمان لوگوں کا شیوہ ہے.اور ناقص ایمان حکمت کا تقاضا کرتا ہے.اس لئے ہرقسم کی طبائع کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس عظیم رسول پر وہ تعلیم اتاری جس میں ہر حکم کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے.پس یہ خاصہ ہے آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کا جو ہر قسم کی طبائع اور مزاج کے لوگوں کے لئے مکمل تعلیم ہے.کسی کے لئے کوئی فرار کی جگہ نہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دین العجائز کو ہی کامل ایمان والوں کا خاصہ فرماتے تھے.ہمیں حکمتوں کی بجائے پہلے ایمان میں مضبوطی کی کوشش کرنی چاہئے پھر حکمتیں بھی سمجھ آ جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.”خدا تعالیٰ کا کلام ہمیں یہی سکھلاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ تب نجات پاؤ گے.یہ ہمیں ہدایت نہیں دیتا کہ تم ان عقائد پر جو نبی علیہ السلام نے پیش کئے ، دلائل فلسفیہ اور براہین یقینیہ کا مطالبہ کرو اور جب تک علوم ہندسہ اور حساب کی طرح وہ صداقتیں کھل نہ جائیں، یعنی ایک اور ایک دو کی طرح ہر چیز ثابت نہ ہو جائے تب تک ان کو مت مانو.ظاہر ہے کہ اگر نبی کی باتوں کو علوم حسیہ کے ساتھ وزن کر کے ہی مانا ہے تو وہ نبی کی متابعت نہیں بلکہ ہر یک صداقت جب کامل طور پر کھل جائے خود واجب التسلیم ٹھہرتی ہے.خواہ اس کو ایک نبی بیان کرے خواہ غیر نبی“.یعنی اگر ظاہری باتوں پر جا کر لینا ہے تو جب سچائی کھل گئی پھر کوئی بھی بات کرے تو لوگ اس کو مان ہی لیتے ہیں.وہ ایمان بالغیب نہیں ہوتا.غیر نبی بھی کوئی ایسی بات کرے تو وہ بھی لوگ مانتے ہیں.فرماتے ہیں کہ : ”بلکہ اگر ایک فاسق بھی بیان کرے تب بھی ماننا ہی پڑتا ہے.جس خبر کو نبی کے اعتبار پر اور اس کی صداقت کو مسلم رکھ کر ہم قبول کریں گے وہ چیز ضرور ایسی ہونی چاہئے کہ گو عند العقل صدق کا بہت زیادہ احتمال رکھتی ہو مگر کذب کی طرف بھی کسی قدر نادانوں کا وہم جا سکتا ہو.یعنی اگر عقلی طور پر دیکھیں تو سچائی اس میں نظر آتی ہو، آ سکتی ہو، مگر اس میں ایسے لوگ ہیں جو پوری طرح سوچتے نہیں اور اس کو جھوٹ کی طرف بھی لے جا سکتے ہوں.ایسی بات ہو جو بالکل واضح نہ ہو.

Page 72

52 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم فرمایا: ” تاہم صدق کی شق کو اختیار کر کے اور نبی کو صادق قرار دیے کر اپنی نیک ظنی اور اپنی فراست دقیقہ اور اپنے ادب اور اپنے ایمان کا اجر پالیویں.یہی لب لباب قرآن کریم کی تعلیم کا ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے.لیکن حکماء اور فلاسفر اس پہلو پر چلے ہی نہیں اور وہ ہمیشہ ایمان سے لا پر وار ہے اور ایسے علوم کو ڈھونڈتے رہے جس کا فی الفو قطعی اور یقینی ہونا ان پر کھل جائے.مگر یادر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا حکم فرما کر مومنوں کو یقینی معرفت سے محروم رکھنا نہیں چاہا بلکہ یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے جس زینہ پر چڑھنے کے بغیر سچی معرفت کو طلب کرنا ایک سخت غلطی ہے لیکن اس زینہ پر چڑھنے والے معارف صافیہ اور مشاہدات شافیہ کا ضرور چہرہ دیکھ لیتے ہیں.ان کو صاف کھلے معارف بھی نظر آ جاتے ہیں جن پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو بڑے تسلی دینے والے مشاہدات بھی نظر آتے ہیں.”جب ایک ایماندار بحیثیت ایک صادق مومن کے احکام اور اخبار الہی کو حض اس جہت سے قبول کر لیتا ہے کہ وہ اخبار اور احکام ایک مخبر صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائے ہیں تو عرفان کا انعام پانے کے لئے مستحق ٹھہر جاتا ہے.یعنی ایک سچا مومن، اللہ تعالیٰ جو احکامات دیتا ہے یا ان کو نبی کی طرف سے جو احکامات ملتے ہیں یا جو اللہ تعالیٰ ان کو خبریں دیتا ہے، ان کو صرف اس لئے قبول کرتا ہے کہ یہ ایک سچے خبر دینے والے نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پا کر خبریں دی ہیں.تو پھر اس کو اس کا عرفان بھی حاصل ہوتا ہے.فرمایا کہ: ” اسی لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے یہی قانون ٹھہرا رکھا ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کر کے سب عقدے ان کے کھولے جائیں“.تو پہلے فرمانبرداری ضروری ہے.سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کرنا ضروری ہے.اس کے بعد پھر اس کو عرفان بھی حاصل ہو جائے گا، اس کی حکمتیں بھی معلوم ہو جائیں گی ہو لیکن افسوس کہ جلد باز انسان ان راہوں کو اختیار نہیں کرتا.خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص ایمانی طور پر نبی کریم ﷺ کی دعوت کو مان لیوے تو وہ اگر مجاہدات کے ذریعہ سے ان کی حقیقت دریافت کرنا چاہے وہ اس پر بذریعہ کشف اور الہام کے کھولے جائیں گئے.پہلے ایمان لانا ضروری ہے.پھر مجاہدات کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اطلاع دے گا اور اس کے ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچایا جائے گا“.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 251 تا 253 حاشیہ ) صلى الله پس یہ ہے وہ طریق جو ایمان میں کامل بننے والوں کے لئے ضروری ہے.پھر ان دو آیات میں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی قبولیت دعا کے اعلان کے الفاظ میں ایک اور فرق بھی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کے آخر میں عرض کی اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيْم اور الله تعالیٰ جب جواب دیتا ہے تو فرماتا ہے وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُون اس فرق کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم نے عزیز وحکیم صفات کے واسطے سے دعا کی کہ جو کچھ میں مانگ رہا ہوں وہ اپنی سوچ کے مطابق مانگ رہا ہوں لیکن جس زمانے میں یہ نبی مبعوث ہونا ہے اور پھر تا قیامت جس کی آیات اور تعلیم نے تزکیہ بھی کرنا ہے اور حکمت بھی سکھانی ہے اس زمانے کی ضرورتوں کو تو بہتر جانتا ہے اس لئے اُس وقت اے اللہ تو اپنی صفت عزیز اور حکیم کے ساتھ اس زمانے کی ضروریات کو اس نبی کے ذریعہ پورا فرمانا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 280 مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما کر اس آیت میں کہ رسول یہ یہ کام کرتا ہے آخر پر فرمایا وَ يُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُون یعنی یہ رسول تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے.پس اس عظیم نبی پر وہ آیات اور

Page 73

خطبات مسرور جلد ششم 53 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 کتاب اتری جن میں ایسی تعلیم بھی ہے جوتم پہلے نہیں جانتے تھے.اس نبی کی تعلیم میں ایسی باتیں بھی ہیں جو دوسری پرانی تعلیمات سے زائد ہیں.بعض ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کا زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کو ادراک ہوتا ہے، پتہ لگتا ہے، ظاہر ہوتی ہیں.ان میں سے بعض باتوں کا میں گزشتہ خطبوں میں ذکر کر چکا ہوں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں محکمات اور متشابہات کا ذکر کیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ ( ياتُ مُحْكَمْتُ هُنَّ اُمُّ الْكِتَابِ وَأَخَرُ مُتَشَابِهَا ( آل عمران : 8).یعنی وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی ہے جس کی بعض آیتیں تو محکم آیتیں ہیں جو اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اور ہیں جو متشابہ ہیں.پس مُخگم آیات دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ وہ باتیں بھی میں نے اتاری ہیں جنہیں تم پہلے نہ جانتے تھے اور وہ باتیں بھی ہیں جو پہلی شریعتوں میں آبھی چکی ہیں.بعض ایسی ہیں جو واضح ہیں ، بعض ایسی ہیں جن پر سوچنے کی ضرورت ہے.مُخگم کے معانی لغتوں میں یہ لکھے ہیں کہ جو کسی بھی قسم کی تبدیلی یا تحریف سے محفوظ کر دی گئی ہو.یہ محکم ہے.دوسری جس میں کسی بھی قسم کے ابہام کا شائبہ نہ ہو تیری بات جو معنوی لحاظ سے اور اپنی شوکت کے لحاظ سے فیصلہ کن ہو تو یہ محکمت ہیں.اور متشابہ وہ چیز کہلاتی ہیں جس کے مختلف معانی کئے جا سکیں.یا جس کا کچھ حصہ دوسری ویسی اسی طرح کی چیزوں سے مشابہ ہو.اب جو تز کیہ سے عاری ہیں وہ اس تعلیم کے حقیقی پیغام کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں.پھر اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ جس کے حقیقی معانی محکم احکامات کے خلاف نہ ہوں.متشابہ کے یہ معنی بھی ہیں کہ بعض دفعہ بعض ظاہری الفاظ شبہ میں ڈال دیتے ہیں لیکن اس کے جو حقیقی معانی ہیں وہ محکم احکامات جو قرآن کریم کی جڑ ہیں ان کے خلاف نہیں ہونے چاہئیں.اگر ان کے خلاف جاتے ہیں تو پھر اس کی وجہ تلاش کرنی ہوگی.اس لئے ان متشابہات کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے جو محکم احکامات سے تطابق رکھتے ہیں.متشابہ کا بھی یہی مطلب ہے کہ بغیر حقیقی غور وفکر کے صحیح طریق سے سمجھ نہیں آسکتے اس کے لئے پھر دلوں کو پاک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے.پس وہ عزیز خدا جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے ایسے تزکیہ شدوں کے دلوں کے دروازے کھولتا اور انہیں حکمت کے موتی اکٹھے کرنے کی توفیق دیتا ہے.تو یہ عظیم رسول جو قیامت تک کے زمانے کے لئے مبعوث ہوا اس کی تعلیم کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہے جیسا کہ میں پہلے ایک خطبہ میں یہاں بیان کر چکا ہوں.اس تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے.اس مزگی اعظم کی اتباع میں ہر صدی میں مجدد آتے رہے اور ان آیات و تعلیم کے ذریعہ سے تزکیہ کا کام کرتے رہے.علماء اور فقہا پیدا ہوتے رہے جو احکامات کی وضاحت کرتے رہے اور حکمت سکھاتے رہے.آجکل کے نام نہاد علماء کی طرح نہیں جو بے تکی باتیں کرتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ فیصل آباد میں، یہ 1974ء کی بات ہے، ایک مسجد سے مولوی صاحب سورۃ اخلاص پڑھ کے خطبہ دے رہے تھے، قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ کے بعد انہوں نے اس کی تشریح یہ کی تھی کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمدی جھوٹے ہیں، ( یا اس نے مرزائی کہا تھا.اگر کوئی ثابت ہوتا ہے تو یہ نتیجہ تو نکلتا ہے کہ خدا کا بیٹا بنانے والے غلط اور جھوٹے ہیں یا یہ نتیجہ تو نکالا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ جو قبروں کو پوجنے والے ہیں اور غلط قسم کی پیر پرستی میں مبتلا ہیں، یہ جھوٹے ہیں.لیکن ہم تو اس مزگی کے عاشق صادق کو ماننے والے ہیں جو تو حید کا پھیلانے والا تھا.اور جس کے ماننے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ پیغام دیا تھا کہ خُذُوا التَّوْحِيْدَ التَّوْحِيْدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ کہ تو حید کو پکڑو، تو حید کو پکڑو، اے فارس کے بیٹو.( تذکرۃ صفحہ 197 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ )

Page 74

54 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس اگر جھوٹے ہیں تو یہ لوگ ہیں، ہم نہیں.تو اللہ تعالیٰ نے اس تعلیم کی حفاظت کے یہ سامان پیدا فرمائے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس مزگی سے کئے گئے وعدے کے مطابق مسیح موعود اور مہدی موعود کو بھیجا جو خاتم الخلفاء کہلائے.قرآن کریم میں اس کا یوں ذکر آتا ہے.سورۃ جمعہ کی آیات ہیں، هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ ايتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ.وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ ، وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (الجمعة : 4-3) کہ وہی - ہے جس نے انھی لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے.اور انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے ملے نہیں.وہ کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے.ان آیات میں سے جو پہلی آیت ہے اس میں ابھی لوگوں میں سے عظیم رسول کے مبعوث ہونے کی خبر ہے.یہاں پھر جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کے اعلان کا اعادہ کیا گیا ہے اور واضح اعلان آخر میں ہے کہ اس سے پہلے وہ لوگ کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.یہ کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہونے کے الفاظ اس حوالے سے سورۃ آل عمران کی آیت میں بھی بیان کئے گئے ہیں.سورۃ آل عمران میں ان خصوصیات کا ذکر کرنے سے پہلے یعنی جو نبی نے آ کر چار باتوں پر عمل کرنا تھایا کروانا تھا، یہ ذکر ہے کہ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِین یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا ہے جو ان میں ایک رسول بنا کر بھیجا ہے.پس اس زمانے میں جب بحر و بر میں فساد بر پا تھا اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں پر ایک احسان ہوا کہ ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جس نے انہیں آیات سنائیں ، پاک گیا، تعلیم کتاب اور حکمت دی.اور انہیں عربوں نے جو جاہل کہلاتے تھے ایک انقلاب بر پا کر دیا.سورۃ جمعہ میں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس خدا نے ان ان پڑھ لوگوں پر احسان کرتے ہوئے رسول بھیجا کہ انہیں پاک کرنے اور اللہ کا قرب دلانے کا باعث بنا، کیا اس عظیم رسول کا زمانہ ختم ہو گیا ہے کہ پھر ایک ہزار سال سے وہی اندھیرا زمانہ چلتا چلا جائے.کیا وہ زمانہ چند سو سالوں کے بعد دوبارہ لوٹ کر آ گیا ؟ سوائے چند ایک چھوٹے چھوٹے گروہوں کے جن کے دائرے محدود ہیں اس ایک ہزار سال میں جو پچھلا اندھیرا دور گزرا ہے کہیں روشنی نظر نہیں آتی رہی.تو اللہ تعالیٰ جو احسان کرنے والا ہے اس نے ان لوگوں پر تو احسان کر دیا جو مشرکین تھے اور جو امت میں سے تھے، جو دعائیں مانگ رہے تھے کہ امت میں کوئی اصلاح کرنے والا آئے ، ان پر اللہ تعالیٰ نے احسان نہیں کیا.تو یہ تو کوئی عظمت نہ ہوئی.یہ تو قیامت تک کے لئے تعلیم قائم رکھنے کا وعدہ پورا کرنا نہ ہوا.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تواللہ تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالی تو وہ ذات ہے جس کی ہر چیز جو بھی زمین و آسمان میں ہے تسبیح کرتی ہے اور اس کی پاکیزگی بیان کرتی ہے.وہ عزیز ہے اور ہر چیز پر غالب ہے.تو کیا عزیز خدا اور حکیم خدا سے یہ توقع کرتے ہو کہ وہ اب دنیا کو بھٹکنے دے گا؟ کیا یہ حکمت ہے کہ اس تعلیم کو سنبھالا نہ جائے جو دنیا کی نجات کے لئے آخری تعلیم ہے؟ خدا تعالیٰ کے بارے میں یہ سوچ تو بڑی محدود سوچ ہے اور بدظنی ہے.پس اے وہ لوگو! جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہو! اس عظیم رسول کی طرف منسوب کرتے ہو جس کی تعلیم تا قیامت دلوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے.اس تعلیم کی روشنی دکھانے کے لئے محدود پیمانے پر نہیں جیسا کہ سابقہ صدیوں میں آتے رہے بلکہ وسیع پیمانے پر پاک کرنے کے لئے اور کمزور دلوں اور دنیاداروں اور فلسفیوں میں بھی پاکیزگی اور حکمت کے بیج ڈالنے کے لئے آخرین میں پھر یہ نبی مبعوث ہو گا.جو اپنے اس جسم کے

Page 75

خطبات مسرور جلد ششم 55 55 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 ساتھ نہیں بلکہ بروزی رنگ میں مبعوث ہوگا اور یہ اس خدا کا فیصلہ ہے جو عز یز اور حکیم ہے.اور اس خدا کی طاقتوں کو محدود نہ سمجھو.اس کے فیصلوں کو بغیر حکمت کے نہ سمجھو.پس جس طرح اس عظیم نبی نے ایک پاک جماعت کا قیام کیا تھا اور بگڑے ہوؤں کو خدا سے ملایا تھا اس نبی کا غلام بھی اس بگڑے زمانے میں خدا سے ملانے کا کام کرے گا.جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ وہ ہو گا کون جو آخرین میں مبعوث ہو گا ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسٹی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان کی نسل میں سے ایک شخص اسے زمین پر واپس لے آئے گا.( بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ باب قوله و آخرین منهم لما یلحقوا بهم حدیث : 4897) آنحضرت ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ وہ زمانہ آئے گا کہ قرآن کے الفاظ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے گا اور اسلام کے نام کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا.پس ہر غور کرنے والا ذہن اور ہر دیکھنے والی آنکھ یہ دیکھتی ہے اور اظہار کرتی ہے کہ آجکل یہی حالات ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اس عظیم رسول کو بھیج کر جو دین قائم کیا اور جس نے تا قیامت رہنا ہے اس کے اس شان و شوکت سے قائم رہنے کے لئے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو بھیجا ہے.پس ہم احمدی کہلانے والوں کی اب دوہری ذمہ داری ہے کہ ایک تو اپنے پاک ہونے اور اس کتاب پر عمل کرنے کی طرف مستقل توجہ دیں.دوسرے اس پیغام کو ہر شخص تک پہنچانے کے لئے ایک خاص جوش دکھا ئیں تا کہ کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہم تک تو یہ پیغام نہیں پہنچا.کیونکہ آج سوائے احمدی کے کوئی نہیں جس کے سپر دامت مسلمہ کے سنبھالنے کا کام کیا گیا ہے.بڑے بڑے اسلام کے نام نہاد چیمیئن تو نظر آئیں گے اور بزعم خویش اپنے آپ کو سب کچھ سمجھنے والے بھی ہوں گے.ہر گروہ اور ہر فرقہ اصلاح کا دعوی کر رہا ہے لیکن ایمان سے عاری ہیں اس لئے ہر طرف یہی شور ہے کہ مسلمانوں کو سنبھالو.اور اس گروہ بندی اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکار کی وجہ سے یہ علیحدہ علیحدہ گروہ بنے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکار کی وجہ سے دلوں کی پاکیزگی ختم ہو رہی ہے.تعلیم و حکمت سے عاری ہو رہے ہیں اور دشمن کے پنجے میں جکڑے چلے جارہے ہیں.کبھی کبھی یہ آواز اٹھتی ہے کہ خلافت ہونی چاہئے لیکن یہ سب جس وجہ سے ہورہا ہے وہ نہیں سوچتے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خداوہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوس انسانی علمی و عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہوگئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے یعنی خدا اور اس کی صراط مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمتی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیا.اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقین کامل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے نور سے ان کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگا.وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا.یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانِ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ فارس یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اٹھ گیا ہو گا.تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا.یہ

Page 76

56 66 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا.اس زمانے میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو سیح موعود کا زمانہ ہے اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لئے مسیح موعود کو آنا چاہئے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے اور یہ تمام آثار صلیبی حملہ کے زمانہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں.اور لکھا ہے کہ اس حملے کا لوگوں کے ایمان پر بہت برا اثر ہوگا.وہی حملہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجالی حملہ کہتے ہیں.آثار میں ہے کہ اس دجال کے حملہ کے وقت بہت سے نادان خدائے لاشریک کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور سیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدید ایمان ہوگا کیونکہ حملہ ایمان پر ہے اور حدیث لَوْ كَانَ الْإِيْمَان سے جو شخص فارسی الاصل کی نسبت ہے یہ بات ثابت ہے کہ وہ فارسی الاصل ایمان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے گا.پھر آپ فرماتے ہیں سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا.اس زمانے میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے.وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا.وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا.وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور جنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا.وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی.بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے ہیں جن کو کچی خوا ہیں آتی ہیں اور الہام الہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے.ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یا در کھتے اور دلوں کے نرم اور بچی تقویٰ پر قدم ماررہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی.وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کوکھینچا تھا.غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اخَرِيْنَ مِنْهُمْ کے لفظ سے مفہوم ہورہی ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا“.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 304 -307) پس یہ جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے اس کو جاری رکھنا جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے.نہیں تو ہم بھی اسی طرح گناہگار ٹھہریں گے جس طرح پہلے ایمان کو ضائع کرنے والے ٹھہرے تھے.لوگ تو انشاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس پیغام، کتاب اور تعلیم کو اپنے پر لاگو بھی کریں گے لیکن ہم میں سے ہر فرد کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی اس تعلیم سے روگردانی کرنے والے نہ ہوں اور کبھی اپنے دلوں کی پاکیزگی کو ختم کرنے والے نہ ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 نمبر 8 مورخہ 22 تا 28 فروری 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 77

خطبات مسرور جلد ششم 57 57 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 فروری 2008 فرموده مورخہ 8 فروری 2008ء بمطابق 8 تبلیغ 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 147 - جدید ایڈیشن) یہ وہ بنیادی چیز ہے جس کی گہرائی کو ایک حقیقی مومن کو سمجھنا چاہئے اور سمجھتا ہے.دعاؤں کے بغیر اور اللہ تعالی کے آگے جھکے بغیر تو ایمان لانے کا دعوی ہی بے معنی ہے.یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: ”ہمارا خدا تو دعاؤں سے ہی پہنچانا جاتا ہے.یہی آج ہر احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے.نہ صرف ابتلاؤں میں بلکہ سہولت اور آسائش اور امن کے دنوں میں بھی اپنے رب کے آگے جھکنے والے اور اس کو سب طاقتوں کا سر چشمہ سمجھتے ہوئے اس کا حقیقی خوف دل میں رکھنے والے ہی حقیقی مومن ہیں اور جب ابتلاؤں کے دور آتے ہیں تو پہلے سے بڑھ کر مومن اُس پر ایمان مضبوط کرتے ہیں اور نہ صرف ایمان مضبوط کرتے ہیں بلکہ چھلانگیں مارتے ہوئے ایمان میں ترقی کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں وہ پہلے سے بڑھ کر تیز ہو جاتے ہیں.عارضی ابتلاء اور روکیں ان کے قدم و م ڈگمگانے والی نہیں ہوتیں.بلکہ ان ابتلاؤں اور روکوں کی وجہ سے وہ اور زیادہ عبادت میں بڑھتے ہیں.پس یہ انقلاب ہے جو ایک احمدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا کیا ہے اور جب تک ہم مستقل مزاجی کے ساتھ اس حالت پر قائم رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنتے چلے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں : ” دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں.مگر مستقل مزاج ، سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے.ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سر یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی.اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں.پس بھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے.یہ بھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی ، ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 708-707.جدید ایڈیشن) جیسا کہ میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس سے ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالی کے حضور جھکنا ایک احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے جس میں عارضی روکیں اور ابتلاء مزید نکھار پیدا کرتے ہیں.اس حوالے سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آجکل دنیا کے بعض ممالک میں لگتا ہے احمدیوں کو تنگ کرنے کی ایک مہم شروع ہے.جس میں براہ راست یا بالواسطہ تنگ کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں.یہ حسد کی آگ ہے جس نے ان لوگوں ، گروپوں یا حکومتوں کو ایسے قدم اٹھانے پر لگایا ہوا ہے اور یہ حسد کی آگ بھی مسیح موعود کے زمانے میں اپنوں کی

Page 78

58 خطبه جمعه فرمودہ 8 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم طرف سے بھی غیروں کی طرف سے بھی مسلمانوں کی طرف سے بھی اور غیر مسلموں کی طرف سے بھی زیادہ بھڑ کنی تھی..غیر مسلموں کی طرف سے اس لئے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کی ترقی دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کا غلبہ دنیا پر ہو اور بعض مسلمان لیڈروں اور ملاؤں کی طرف سے اس لئے کہ ان کی بادشاہتیں اور ان کے منبر کہیں ان سے چھن نہ جائیں اور اس کو بچانے کے لئے انہیں غیر مسلموں کے سامنے بھی جھکنا پڑا تو انہوں نے اسے عار نہیں سمجھا.پھر جو مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور رحم کرے کہ یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے بن رہے ہیں.صرف اس لئے کہ احمدیت کی مخالفت کرنی ہے ، یہ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے لڑنے کی کوشش کریں گے تو خود فنا ہو جائیں گے.پس ہمدردی کے جذبے کے تحت کہ یہ کلمہ گو ہیں، چاہے ظاہری طور پر ہی سہی ، ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے ساتھ جو یہ اعلان کیا.وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (الجمعة) 4 ).یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ اسے بھیجنے والا میں ہوں جو عزیز اور حکیم ہے.اللہ غالب ہے، عزیز ہے، کوئی نہیں جو اس عزیز خدا کے کام کو روک سکے.اور وہ حکیم ہے اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی تعلیم کی حکمت کے موتی اس مسیح و مہدی سے منسلک ہو کر ہی اب حاصل کئے جاسکتے ہیں.پس جہاں ہم نے یہ پیغام دنیا کو دینا ہے، حاسدوں کے حسد اور ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلنے کے لئے دعاؤں کی بھی بہت ضرورت ہے.ایک تو جن ملکوں میں احمدیوں پر سختیاں ہورہی ہیں وہ اپنے ثبات قدم کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ کے در کو اس طرح پکڑھیں اور اس کے آگے اس طرح جھکیں کہ جلد سے جلد تر وہ فتوحات اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں.اور پھر دنیا میں وہ احمدی جن پر براہ راست سختیاں نہیں اور بظاہر امن میں ہیں وہ اپنے بھائیوں کے لئے دعائیں کریں.کیونکہ مومن کی یہی شان بتائی گئی ہے کہ یہ ایک جسم کی طرح ہے.جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا ہےکہ یہ کی ایک و جسم تکلیف محسوس کرتا ہے.پس ہمارے کسی بھی احمدی بھائی کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، بلکہ احمدی کا دل تو اتنا ستاس ہے اور ہونا چاہئے کہ کسی بھی انسان کی تکلیف پر وہ تکلیف محسوس کرے.پس جب ہم ایک درد کے ساتھ ان ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلنے اور ان کے جلد ختم ہونے کے لئے دعا کریں گے تو یقیناً وہ مجیب الدعوات خدا ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے ہمارے بھائیوں کی تنگیوں اور پریشانیوں کو دور فرمائے گا.مخالفین سمجھتے ہیں کہ یہ روکیں ، یہ تکلیفیں جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں.اگر کسی انسان کا یہ کام ہوتا تو گزشتہ 100 سال سے زائد عرصہ سے جو مخالفتوں کی آندھیاں چل رہی ہیں، وہ کب کی جماعت کو ختم کر چکی ہوتیں.کون احمدی نہیں جانتا کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت نے ہی ہمیں بڑھنے، پھلنے اور پھولنے کے مواقع پہلے سے زیادہ رفتار کے ساتھ مہیا فرمائے ہیں.پس ہمیں اس بات کی نہ کبھی پر واہ رہی ہے اور نہ ہے کہ یہ مخالفتیں جماعت کی ترقی میں کبھی سدراہ بن سکتی ہیں.آج کل پھر پاکستان میں لگتا ہے احمدیوں کے خلاف اس باسی کڑھی میں ابال آیا ہوا ہے.ویسے تو ہلکی ہلکی مخالفتیں ادھر سے ادھر چلتی رہی ہیں لیکن اب کچھ تھوڑی تیزی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے.جہاں بھی موقع ملتا ہے احمدیوں پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں.گزشتہ دنوں ایک 13 سال کے بچے پر پولیس نے مقدمہ درج کر دیا کہ مولوی کہتے ہیں کہ اس لڑکے نے فلاں مولوی کو مارا ہے.جبکہ مار کھانے والے کے رشتہ دار اس سے انکاری ہیں.صرف مقدمہ بنانا ہے اور شرارت ہے.اور مارا بھی اس طرح ہے کہ مار مار کر اس کا برا حال کر دیا کہ اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.یعنی ایک ہٹا کٹا جوان آدمی، اس کو 13 سال کا ایک بچہ اس طرح مار رہا ہے کہ وہ مار کھاتا چلا گیا اور

Page 79

خطبات مسرور جلد ششم 59 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 فروری 2008 آگے سے کوئی ردعمل نہیں ہوا.ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ نئی نسل میں اس قدر خوف پیدا کر دو کہ یہ بچے اگر احمدی رہیں بھی تو فعال احمدی نہ رہیں.ان کے خیال میں ہمارے جلسے بند کر کے ، ہمارے تربیتی پروگرام بند کر کے جور بوہ میں ہوا کرتے تھے، انہوں نے ہمیں معذور کر دیا ہے اور نئی نسل شاید اس طرح احمدیت سے پیچھے ہٹ رہی ہے.اگر مزید تھوڑا سا تنگ کیا جائے اور ان پر سختیاں کی جائیں تو یہ مزید دور ہٹ جائیں گے.ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے جلائے ہوئے چراغ ان کی پھونکوں سے نہیں بجھ سکتے.مجھے پاکستان سے نوجوانوں کے اخلاص و وفا میں ڈوبے ہوئے جتنے خطوط آتے ہیں وہ یقیناً اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ نو جوان اپنے اس عہد کو پورا کرتے ہیں کہ ہم خلافت احمدیہ کی خاطر اپنے مال، جان ، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں.قربانی کر رہے ہیں اور ہر وقت کرتے چلے جائیں گے اور دشمن کبھی ہمارے قدموں میں لغزش پیدا نہیں کر سکتا.پس جن کا خلافت سے پختہ تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق آنحضرت می تعلق کی وجہ سے ہے اور آنحضرت ﷺ کی ذات خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے.پس جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس پہ پختہ ایمان ہو ان کو یہ گیڈر بھبکیاں بھلا خوفزدہ کر سکتی ہیں؟ کبھی نہیں اور کبھی نہیں.پس اے نو جوا نو ! اپنے خدا سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جاؤ کہ یہی ایک احمدی نوجوان کی شان ہے.یہی ایک احمدی مرد کی شان ہے.یہی ایک احمدی عورت کی شان ہے اور یہی ایک احمدی بچے کی شان ہے.اسی طرح ہندوستان میں جس جگہ مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ملاؤں کی طرف سے احمدیوں کو تنگ کیا جا رہا ہے.ایسے لوگ اسلام کے نام پر تنگ کر رہے ہیں.نام کے مسلمان ہیں.نہ کسی کو نماز آتی ہے، نہ کلمہ ، نہ قرآن شریف پڑھ سکتے ہیں.صرف یہ ہے کہ احمدی مسلمان نہیں یہ کافر ہیں.ہمارے مبلغین اور معلمین کو دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدی کا کام ہے کہ ہم اپنے وہ کام کئے جائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگائے ہیں اور ان سختیوں اور ابتلاؤں کا مقابلہ اللہ کے آگے جھکتے ہوئے دعاؤں سے کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.اور یہ مخالفتیں اس لئے بھی زیادہ ہو رہی ہیں اور مخالفین اس لئے بھی زیادہ مخالفت پر کمر بستہ ہیں کہ ان کی حسد کی آگ ان کو اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد اب خلافت احمدیہ کو بھی 100 سال پورے ہو گئے ہیں.وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم جن کو اپنے زعم میں ختم کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے یہ تو اپنی خلافت کا بھی 100 سالہ جشن تشکر منا رہے ہیں.پس یہ مخالفتیں تو خود ہمیں یہ ثبوت دے رہی ہیں کہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے.گزشتہ چند سالوں سے انڈونیشیا میں بھی مخالفت زوروں پر ہے.احمدی گھروں کو لوٹا گیا، تو ڑا پھوڑا گیا، جلایا گیا، مسجدوں کو جلایا گیا، تو ڑا گیا.حکومت بھی شروع میں ملاں کے خوف کی وجہ سے ان کا ساتھ دے رہی تھی یا بعض صوبوں میں جہاں اور جن علاقوں میں یہ فساد زیادہ ہو رہا تھا شاید حکومتیں بھی ملاں پسند ہوں.بہر حال اتنے عرصے سے جماعت کے خلاف ان مظالم کو دیکھتے ہوئے اور ہمارے مختلف طریقوں سے حکومت کو توجہ دلانے کی وجہ سے مرکزی حکومت نے اس مسئلے کے حل کا فیصلہ کیا اور ایک معاہدہ لکھا گیا جس کی خبر اخبار نے لگائی.بعض الفاظ لے لئے اور بعض چھوڑ دیئے.تفصیل شائع نہیں کی گئی جس سے معاہدہ پوری طرح واضح نہیں ہوتا تھا.اس بات کا میں گزشتہ کسی خطبہ میں ذکر بھی کر چکا ہوں.بہر حال یہ خبر اخبار کے حوالے سے انٹرنیٹ پر بھی آئی.شاید میرے گزشتہ خطبہ کے حوالے اور انٹرنیٹ کی خر کو دیکھ کر بعض احمدیوں نے جن کو صحیح حالات کا علم نہیں ، اپنی لاعلمی میں اس بات کا اظہار

Page 80

60 خطبه جمعه فرمودہ 8 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم ے پاس کیا کہ فتنے کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اگر بعض باتیں مانتی بھی پڑیں تو کوئی حرج نہیں ہے.ساتھ یہ لکھا کہ مجھے بیج حالات کا علم نہیں ہے یا ہمیں بھی حالات کا علم نہیں ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے.اور مثال میں مثلاً ایک جگہ یہ لکھا گیا کہ آنحضرت میا نے بھی صلح حدیبیہ میں یہ بات مان لی تھی کہ رسول اللہ کا لفظ مٹادو تو پہلی بات تو یہ کہ مٹا یا کس نے تھا ؟ آنحضرت ﷺ نے مٹایا تھا.حضرت علیؓ نے تو انکار کر دیا تھا.انہوں نے یہ عرض کی تھی کہ میرے آقا میرے سے یہ کام نہیں ہو سکتا.اس پر جیسا کہ میں نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے اس جگہ جہاں لفظ لکھا ہوا تھا دیکھ کر رسول اللہ کا لفظ خود اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا اور یہ فرمایا جن کفار کے ساتھ معاہدہ ہو رہا ہے یہ تو کیونکہ مجھے اللہ کا رسول نہیں مانتے ، اس لئے میں اس کو مٹا دیتا ہوں.(مسلم کتاب الجہاد والسیر باب صلح الحدیبیہ حدیث نمبر 4521) لیکن جو آنحضرت علی کواللہ کا رسول مانتے تھے انہوں نے تو یہ حرکت کرنے کی جرات نہیں کی اور آنحضرت ﷺ نے بھی ان کے جذبات کو سمجھتے ہوئے حکم نہیں دیا کہ نہیں تم کرو.پس ہمارا کام نہیں کہ ہم مداہنت کا پہلو اختیار کریں اور کوئی ایسا کام کریں جس سے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے مقام کی سبکی ہوتی ہو.ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو سیح موعود اور مہدی موعود سمجھتے ہیں اور اس سے الگ ہو کر ہم کچھ حیثیت نہیں رکھتے.اس سے الگ ہو کر ہماری کوئی حقیقت نہیں ہے.ہماری خوبصورتی جو ہے وہ اسی بات میں ہے کہ ہم مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں مسیح موعود سمجھتے ہوئے ، جس نے ظلمت اور نور میں فرق ظاہر کر دیا.ہمارا تو موقف اور دعوی یہ ہے کہ اس ظلمت کے زمانے میں اس مسیح و مہدی نے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کی حقیقت کو ہم پر کھول دیا ہے اور ہمارے دلوں کو اس کے حقیقی نور سے منور کیا ہے.اس مسیح و مہدی نے ہی تو ہمیں قرآنی تعلیم کے مطابق خدا سے ملنے کے اسلوب سکھائے ہیں.اس مسیح و مہدی اور آنحضرت صیلہ کے عاشق صادق ہی نے تو ہمیں عشق رسول عربی میں ڈوبنے کے نئے نئے طریق سکھائے ہیں.کیا ہم اس مسیح و مہدی کو جس کا نام خود آنحضرت ﷺ نے مسیح مہدی رکھا ہے اور ہمارا مہدی کہہ کر پکارا ہے صرف عارضی تکلیفوں کی وجہ سے یا مولوی یا حکومت کو خوش کرنے کی خاطر مسیح و مہدی کہنا چھوڑ دیں.جن نشانیوں کو پورا کرتے ہوئے مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ نشانیاں بھی پوری ہو گئیں اور دعوی بھی موجود ہے اور زمانے نے تمام تقاضے بھی پورے کر دیئے تو کیا یہ سب دیکھ کر دوسروں کے خوف کی وجہ سے یہ کہیں کہ گو آنحضرت ﷺ نے اس آنے والے کا نام مسیح و مہدی رکھا تھا لیکن ہم دنیا کو خوش کرنے کے لئے اس کے ماننے والوں میں شامل ہونے کے باوجود اس کا کچھ اور نام رکھ دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں تم ہمیں جو عارضی تکلیفیں پہنچارہے ہو یہ نہ پہنچاؤ.کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سورج اور چاند گرہن کے نشان کو دیکھ کر مسیح و مہدی کی بجائے کسی اور پر اس کو پورا سمجھنے والے بن جائیں یا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی گواہی کو جھوٹا کرنے والے بن جائیں ؟ کیا ہم قرآنی پیشگوئیوں اور ان کے اس زمانے میں پورا ہونے کو جھوٹا قرار دے دیں.کیا ہم ایک طرف تو آپ کی بیعت میں شامل ہونے والے ہوں ، آپ کو اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ سمجھنے والے ہوں اور دوسری طرف آپ کے اس الہام کو غلط سمجھیں جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی ہے کہ إِنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ الَّذِي يَرْقُبُوْنَهُ وَالْمَهْدِى الْمَسْعُوْدَ الَّذِي يَنْتَظِرُوْنَهُ هُوَ أَنْتَ یعنی یقینا وہ مسیح موعود اور مہدی موعود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ تو ہے.اور پھر فرمایا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.( اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 275) کیا مصلحت کی خاطر ان باتوں پر عمل کرنے والے بن کر ہم احمدی کہلا سکتے ہیں.پس مسیح و مہدی کا انکار تو پھر احمدیت کا انکار ہوگا اور یہ بات بھی کوئی احمدی برداشت نہیں کر سکتا.اخبار نے حکومت اور احمدیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس خبر کی جس طرح اشاعت کی تھی، اس سے پیغامی یالا ہوری یا غیر مبائع جو ہیں ان کو بھی شور مچانے کا موقع مل گیا.ان لوگوں میں بھی جوش پیدا ہوا.باسی کڑھی کو بھی ابال آیا اور انہوں نے خبر شائع کی کہ احمدیوں نے

Page 81

61 خطبه جمعه فرمودہ 8 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم اپنے نکتہ نظر میں تبدیلی کر لی ہے اور مطلب یہ تھا کہ آخر کو ہماری یعنی پیغامیوں کی فتح ہوگئی ہے اور اب احمدیوں نے بھی تعوذ باللہ تسلیم کر لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی نہیں ہیں بلکہ مجد داور مرشد نہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری انڈونیشین انتظامیہ کی وہ کمیٹی کو حکومتی افسران سے بات کرنے کے لئے گئی تھی ان کے دل میں اس بات کا شائبہ تک نہیں تھا کہ ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو سیح ، مہدی اور نبی نہیں مانتے اور نہ ہی کبھی کوئی احمدی یہ سوچ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈو نیشین جماعت اخلاص و وفا میں بہت بڑھی ہوئی جماعت ہے اور صف اول کی جماعتوں میں سے ہے.ان کی جان اور مال کی قربانیاں جو وہ احمدیت کی خاطر دے رہے ہیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ان کے اخلاص و وفا میں کوئی کمی نہیں.پس یہ انڈونیشین جماعت پر بھی غلط الزام ہے اور الزام ہوگا اگر ہم یہ کہیں کہ انہوں نے وقتی مفاد کی خاطر کمزوری دکھائی ہے.حکومت نے جس بیان پر دستخط لئے تھے اس پر ایسے واضح الفاظ نہیں تھے.اس کی بعض شقیں تھیں جن کو ماننے سے کسی احمدی پر یہ حرف نہیں آتا کہ اس نے اپنے ایمان کے خلاف بات کی ہے.پس کسی انڈونیشین احمدی پر یہ الزام نہیں آتا کہ اس نے اپنے ایمان میں کمزوری دکھائی ہے اور اس بات کا اظہار بھی انہوں نے میرے سامنے پیغام میں بھی اور خط میں بھی کیا ہے.لیکن کیونکہ معین طور پر مسیح و مہدی کے الفاظ وہاں نہیں لکھے گئے تھے اس لئے اخبار کو بھی صحافتی ہوشیاری دکھانے کا موقع مل گیا اور ایسی خبر لگادی جس کا کسی احمدی کے دل میں شائبہ تک نہیں تھا.بہر حال پیغامیوں نے پھر اس خبر کو اچک لیا اور خوب اچھالا.لیکن جب میں نے بھی گزشتہ ایک خطبہ میں واضح طور پر بیان کر دیا اور اخبار نے بھی ہمارا واضح موقف شائع کر دیا ( بہر حال یہ اس اخبار کی شرافت تھی تو پھر بھی ان پیغامیوں کا اصرار اور شور مچانا اور یہاں ہمارے پریس سیکشن میں بھی فون کر کے یہ کہنا کہ ابھی بھی واضح نہیں ہے، سوائے ان کی ڈھٹائی کے کوئی اور چیز نہیں ہے.ان کی تسلی تو خدا ہی چاہے تو ہو سکتی ہے.جو کسی بات پر اڑ جائیں اور ماننے کو تیار نہ ہوں انسان پھر ان کی تسلی کروا سکتا ہے؟ ہم نے تو جو کہنا تھا وہ کہ دیا.بہر حال آج میں پھر ایک دفعہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ پیغامیوں یا غیر مبائع لوگوں سے کہوں کہ خدا کا خوف کرو.آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کو دیکھو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پر غور کرو اور پھر اپنے جائزے لو.کیا جو مؤقف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں تمہارا ہے اس سے تمہارے قدم کسی ترقی کی طرف آگے بڑھے ہیں؟ کیا انجمن کو خلافت پر بالا سمجھنے والوں نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا گاڑا ہے یا کسی درد کے ساتھ یہ جھنڈا گاڑنے کی کوشش کی ہے؟ یا پھر یہ بات ان کے حصہ میں آئی ہے جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو مسیح و مہدی اور نبی سمجھتے ہیں اور آپ کے بعد خلافت کو برحق سمجھتے ہیں.بیعت خلافت میں آنے والوں نے تو دنیا کے 189 ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا دیا.تم نے کیا کیا ہے؟ کیا خدا تعالیٰ کی فعلی شہادتیں نبی ماننے والوں کے ساتھ ہیں یا صرف ایک گرو یا مرشد یا مجدد ماننے والوں کے ساتھ ہیں.پس خدا کا خوف کرتے ہوئے اس ڈھٹائی کوختم کرو اور دیکھو کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بارے میں کیا فرماتے ہیں.ان کی کتابیں شائع بھی کرتے ہو.چھاپتے بھی ہو.پڑھنے کی بھی توفیق ملے اور سمجھنے کی توفیق ملے.خود ہی قرآن کھول کر دیکھ لو کہ ان لوگوں کے بارے میں خدا تعالیٰ کیا کہتا ہے جو کچھ پر تو ایمان لانا چاہتے ہیں اور کچھ کو چھوڑ نا چاہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعے سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.پس میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے

Page 82

62 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم کیونکر انکار کر سکتا ہوں.اور جبکہ خود خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیونکر رد کروں یا اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے.اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھ پر کھل گئی ہے.اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی حملے پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفتہ اللہ ہوں.مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں جو میرے مقابل پر ٹھہر سکے.کیونکہ خدا کی تائید اُن کے ساتھ نہیں.اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں ، مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اُس کا نام پا کر اُس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں ، مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.(ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 211-210) پس کیا اس کے بعد بھی کسی قسم کا ابہام رہ جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آپ کو خدا سے حکم پا کر کیا کہتے ہیں.واضح اعلان فرما رہے ہیں کہ میں نبی ہوں.میں بصد ادب اور عزت اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ آؤ اس روحانی انقلاب میں شامل ہو جاؤ جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی موعود اور ظلی نبی بنا کر بھیجا ہے.وہ مسیح اور مہدی جس نے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے اور پہنچایا.جس کو خدا نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا تھا.لہ ان سب مخالفتوں کے باوجود میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.آج اس وعدے کو صرف وہی لوگ پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں جو آپ کو نبی مانتے ہوئے آپ کے بعد خلافت سے منسلک ہیں.یہ پیغام آج ہواؤں کے دوش پر دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہا ہے.پس آج انہیں کی جیت ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آپ مسیح و مہدی اور نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی کی تائید فرماتے ہوئے پیغام پہنچانے کے معجزات دکھا رہا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اس کو روک سکے.اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا، اس میں ہمارے لئے ایک یہ پیغام بھی ہے کہ راستے کی روکیں بھی آئیں گی.مخالفتوں کی آندھیاں بھی چلیں گی.دائیں بائیں سے آگ کے شعلے بھی بلند ہوں گے.حکومتیں بھی روکیں ڈالنے کی کوشش کریں گی لیکن میں جو عزیز، غالب اور تمام قدرتوں کا مالک خدا ہوں، تمہیں تسلی دیتا ہوں کہ اے مسیح و مہدی ! تجھے بھی تسلی دیتا ہوں اور تیرے ماننے والوں کو بھی تسلی دیتا ہوں کہ تو مجھ سے ہے اور میرے پیغام کو پھیلانے کے لئے کوشاں ہے اس لئے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میری تائیدات ہمیشہ تیرے ساتھ رہیں گی اور میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.ایک جگہ اس تسلی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو الہاما اللہ تعالیٰ نے فرمایا.لَا تَخَفْ إِنَّنِي مَعَكَ وَمَاشٍ مَعَ مَشْيِكَ.أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةٍ لَا يَعْلَمُ الْخَلْقُ وَجَدْتُكَ مَا وَجَدْتُكَ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَاهَانَتَكَ

Page 83

خطبات مسرور جلد ششم 63 خطبه جمعه فرمودہ 8 فروری 2008 مُعِيْنٌ مَنْ أَرَادَ إِعَانَتَكَ.أَنْتَ مِنِّى وَ سِرُّكَ سِرِى وَاَنْتَ مُرَادِى وَمَعِى أَنْتَ وَجِيَّةٌ فِى ضْرَتِي اخْتَرْتُكَ لِنَفْسِي - ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 11) ترجمہ اس کا یہ ہے کہ خوف نہ کر میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے ساتھ ساتھ چلتا ہوں ، تو میرے ہاں وہ منزلت رکھتا ہے جسے مخلوق میں سے کوئی نہیں جانتا.میں نے تجھے پایا ہے جو میں نے تجھے پایا ہے.جو تیری اہانت چاہے گا میں اسے ذلیل ورسوا کر دوں گا اور جو شخص تیری مدد کرنے کا ارادہ کرے گا اس کا میں مددگار ہوں گا.تو میرا ہے اور تیرار از میرا راز ہے اور تو میرا مقصود ہے اور میرے ساتھ ہے.تو میری درگاہ میں صاحب وجاہت ہے.میں نے تجھے اپنے لئے برگزیدہ کر لیا.پس جس کو خدا نے ہر خوف سے تسلی دلائی.اپنی تائیدات کی یقین دہائی کروائی ہے.ان کی بھی مدد کرنے کا اعلان فرمایا جو مدد کریں گے اور اہانت کرنے والوں اور روکیں ڈالنے والوں کو ذلیل ورسوا کرنے کا اعلان فرمایا.جس کو خدا نے اپنے خاص برگزیدوں میں شمار کر لیا اس کے ماننے والوں کے لئے بھی کوئی خوف کا مقام نہیں.عارضی تکلیفوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اُحد کی جنگ میں باوجود مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے کے اور جانی اور مالی نقصان ہونے کے دشمن فتح یاب نہیں کہلا سکا تھا.آخر کو الله اعلیٰ وَ اَجل کا نعرہ ہی غالب آیا تھا.پس آج بھی جب اس اللهُ أَعْلَی وَ اَجَل نے تائید و نصرت کا اعلان اپنے محبوب کے عاشق کے لئے کیا ہے تو پھر ہم جو اس پر ایمان لانے والے ہیں انہیں ان عارضی روکوں اور تکلیفوں پر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ گزشتہ دنوں عربوں کو بھی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا.جن میں احمدی بھی ہیں اور ہمارے ہمدرد اور اسلام کا درد رکھنے والے عرب بھی ہیں.پریشانی اس طرح ہوئی کہ بعض بڑی بڑی عرب حکومتوں نے مولویوں اور عیسائیوں کے خوف اور احمدیت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے، اور اس کی ایک وجہ حسد کی آگ بھی ہے اس میں جلتے ہوئے ہمارے ایم ٹی اے العربیہ کی نشریات کو جو Nile سیٹ پر ( یہ سیٹلائٹ جو بعض عرب حکومتوں کی ملکیت ہے ) آتی تھیں بند کر واد یا اور کیونکہ سب اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر بغیر نوٹس کے یہ چینل بند کر دیا گیا تھا اس لئے اپنے اور عربوں میں سے غیر از جماعت جتنے تھے ان کے مجھے بھی اور انتظامیہ کو بھی پیغام اور خطوط آئے کہ یہ کیا ظلم ہوا ہے کہ ایک دم بغیر اطلاع کے آپ لوگوں نے چینل بند کر دیا ہے.انہیں تو ہم نے یہی کہا تھا کہ میر کریں انشاء اللہ تعالیٰ جلد شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں.آج میرے اس خطبے سے انہیں پتہ چل گیا ہوگا کہ وجہ کیا ہوئی تھی.ان مداہنت پسند حکومتوں نے لوگوں سے ڈر کر اور کچھ نے حسد کی وجہ سے اس چینل کو بند کرنے کی کوشش کی تھی.کیونکہ عرب ملکوں میں بعض عیسائی پادریوں کی طرف سے بھی مخالفت ہو رہی تھی جس کا ایم ٹی اے پہ جواب جارہا تھا ، جس کی وجہ سے انہوں نے بھی زور دیا کہ اس کو بند کیا جائے عیسائیوں پر برا اثر پڑ رہا ہے.تو بہر حال ان کا معاملہ تو اب خدا کے ساتھ ہے جنہوں نے خدا کے نام پر خدا والوں سے اس زعم میں دشمنی کی ہے کہ ہم سب طاقتوں والے ہیں لیکن وہ عزیز اور سب قدرتوں کا مالک خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ مَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران : 55) یعنی انہوں نے بھی تدبیریں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی تدبیریں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے.پہلے بھی مسیح اول کے خلاف بھی تدبیریں کی گئی تھیں جس پہ یہ اعلان کیا اور اب بھی مسیح محمدی کے خلاف بھی تدبیریں کی جارہی ہیں لیکن اللہ تعالی تسلی دلاتا ہے.پس یہ جو روکیں ہمارے آگے ڈالنے والے ہیں اس کا ہمیں کوئی فکر نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ کا مسیح ہے اور وہ ایسے ذریعہ سے پیغام پہنچاتا ہے کہ ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا.اور اللہ تعالیٰ نے کیا دیا؟ چند گھنٹے کے لئے یا ایک دن کے لئے شاید بند ہوا ہو گا.اس کے بعد ہم نے متبادل عارضی انتظام کر لیا.لیکن اس کوشش کے جواب میں جو انہوں نے اس کو بند کرنے کی کی تھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یورپ کی ایک سیٹلائٹ سے رابطہ کر وا دیا جو

Page 84

64 خطبه جمعه فرمودہ 8 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم اہم کر رہے تھے اور بہت کوششیں کی تھیں.ان کوششوں کے باوجود وہاں کوئی جگہ نہیں تھی اور یہ نہیں مل رہا تھا.بہن اس روک کے بعد خود ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے ملنے کا انتظام کروا دیا.پہلا سیٹلائٹ جو انہوں نے بند کیا اس کی کوریج تھوڑے علاقے میں عرب کے چند ملکوں میں تھی اس سیٹلائٹ کی کوریج اس سے بہت زیادہ ہے.مرا کو وغیرہ اور ساتھ کے ملکوں وغیرہ سے بھی پیغام آتے تھے کہ ہم ایم ٹی اے العربیہ نہیں دیکھ سکتے اور یہاں ہمیں بھی ضرورت ساجی ہے.اس کا انتظام کریں تو اب انشاء اللہ تعالیٰ اس نئے سیٹلائٹ کے ملنے سے یہ کی بھی پوری ہوگئی.پس یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں.وہ سچے وعدوں والا ہے.عارضی روکیں آتی ہیں اور آئیں گی.دشمنوں اور حاسدوں کے وار ہوں گے لیکن اس سے کسی احمدی میں مایوسی نہیں آنی چاہئے.ان روکوں کو دیکھ کر جیسا کہ میں نے بتا یا مومن مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور جھکنا چاہئے.پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں.اپنی نمازیں سنواریں.فرائض پورے کریں اور پھر نوافل کی طرف توجہ دیں.کیونکہ یہ دعائیں اور عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارے مقاصد کے حصول میں ہماری مدد کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور زبا نہیں تر رکھنے سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں.انشاء اللہ.پس یہ بنیادی نکتہ ہے جو ہر احمدی کو ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آجکل خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر جب احمدی پروگرام بنا رہے ہیں، تو حاسد پہلے سے بڑھ کر نقصان پہنچانے اور وار کرنے کی کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں.اس حسد میں نقصان پہنچا ئیں گے کہ ہم سے تو خلافت چھن گئی اور یہ لوگ خلافت کے مزے لے رہے ہیں.یہ لوگ وحدانیت پر قائم ہیں.مخالفین یعنی دوسرے مسلمان تو کھلم کھلا اب یہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم خلافت کے بغیر بھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور اس موضوع پر ان کے رسائل اور اخبارات بھرے پڑے ہیں.آئے دن کوئی نہ کوئی تقریر مضمون آتا رہتا ہے.نمونہ ایک اقتباس میں لایا تھا.آپ کے سامنے پڑھ دیتا ہوں.مفتی حبیب الرحمن صاحب درخواستی بیان کرتے ہیں کہ نظام خلافت اسلامیہ علی منہاج النبوت سے بڑھ کر کوئی نظام نہیں.یہ عظیم الشان مقصد اہل حق کے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہوئے بغیر کیونکر ممکن ہے.اور اس وقت امت مسلمہ جس حال سے دوچار ہے، اس میں ہر طرح امت مسلمہ کو محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.تو ایسے حالات میں وہی ہونا چاہئے جس کے لئے امت مسلمہ نے عظیم قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا اور یہ قربانی امت مسلمہ کی اس لئے تھی کہ ہمیں آزاد ملک ملے گا جس میں ہم نظام اسلام قائم کریں گے جو کہ فراڈ اور دھوکہ کی تعبیر میں ظاہر ہوا.ملک تو اس کہ تو لئے قائم ہوا تھا کہ اسلامی نظام قائم کریں گے لیکن سوائے یہاں پر فراڈ دھوکے کے کچھ نہیں.خود تسلیم کر رہے ہیں.پھر آگے کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کی بقا اور خیر کا راز اتفاق، اتحاد اور نظام خلافت اسلامیہ علی منہاج النبوت میں ہے.یہ ان کا بیان ہے.ایک جگہ دوسرے بیان میں یہ بھی تھا کہ امام مہدی آئے گا تو اس کے بعد خلافت قائم ہوگی.کاش یہ لوگ اپنی ضد چھوڑ دیں اور دیکھیں کہ جس امام مہدی کا انتظار کر رہے ہیں وہ تو آ گیا ہے اور اس کے ذریعہ سے اب نظام خلافت قائم بھی ہو چکا ہے.اب کوئی نیا نظام خلافت علی منہاج نبوت قائم نہیں ہو سکتا جتنی چاہیں یہ کوششیں کریں.پس آج احمدی جہاں اپنے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچاتے ہوئے ہمیں ثابت قدم رکھے.ہمیں اس مسیح و مہدی کی جماعت سے وابستہ رکھے جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا ، وہاں ان حق سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کے 66 لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ مسیح و مہدی کے ساتھ جڑ جائیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 نمبر 9 مورخہ 29 فروری تا 6 مارچ 2008ء صفحہ 6-5)

Page 85

خطبات مسرور جلد ششم 7 65 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 فرموده مورخہ 15 فروری 2008ء بمطابق 15 تبلیغ 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.وَلَذِكْرُ اللَّهِ اَكْبَرُ.وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (العنكبوت: 46) صلى الله جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ چودھویں صدی میں آنحضرت ﷺ کے ایک غلام صادق کا ظہور ہونا تھا جس نے ایک لمبے اندھیرے زمانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا.اس عاشق صادق اور مسیح و مہدی کا ظہور ہوا اور ہم ان خوش قسمتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ اس مسیح و مہدی کی بیعت میں آکر اس کی جماعت میں شامل ہو جائیں.لیکن کیا ہم اس بیعت میں آنے سے وہ مقصد پورا کرنے والے بن جاتے ہیں جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے یا جو یہ بیعت ہم پر ذمہ داری ڈالتی ہے.وہ ذمہ داریاں جن کو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی امیہ سے ملنے والے ، آپ کے حلقہ بیعت میں آنے والے، آپ کی امت بننے والے پہلوں نے نبھایا تھا؟ یقیناً ہر احمدی کا یہ جواب ہوگا کہ ہاں اس مسیح و مہدی کی بیعت کرنے والے، آپ کی جماعت میں شامل ہونے والوں پر بھی وہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو اولین کی ذمہ داریاں تھیں جنہیں ان لوگوں نے نبھایا اور خوب نبھایا.جنہوں نے آیات کو بھی سنا اور اپنا تزکیہ بھی کیا اور جب تزکیہ ہوا تو انہیں وہ مقام عطا ہوا جو انہیں باخدا انسان بنا گیا.جنہوں نے پھر آگے لاکھوں لوگوں کو پاک کیا.اگر ہماری یہ سوچ نہیں تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام اور مقام کو سمجھنے والے نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( الجمعة :4) یعنی نبی کریم ﷺ اپنی امت کے آخرِینَ کا اپنی باطنی تو جہات کے ذریعہ اسی طرح تزکیہ فرمائیں گے جیسا کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے.“ ( عربی عبارت کا اردو ترجمہ از حمامة البشرکی ، روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ 244 پس یہ باطنی تو جہیات اس عاشق صادق کے ذریعہ سے، اس مسیح و مہدی کے ذریعہ سے ظاہر ہوئی تھیں جس نے ایک جماعت قائم کرنی تھی اور اس آخرین کی جماعت کو پہلوں سے ملانا تھا.سو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں لاکھوں کا تزکیہ ہوا.اور ان تزکیہ شدوں نے پھر آگے ایک جماعت بنائی اور ان کی جماعت بڑھتی چلی گئی.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جماعت کی ترقیات کا وعدہ ہے اور وہ سچے وعدوں والا خدا ہے اور اس کے وعدے پورے ہوتے ہوئے ہم نے ماضی میں بھی دیکھے، آج بھی دیکھ رہے ہیں اور آئندہ بھی انشاء اللہ دیکھیں گے.لیکن ہر فرد جماعت کو ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کی ذات وعدوں کے پورا ہونے کی مصداق تب بنے گی جب اپنے تزکیہ کی طرف توجہ دے گا.پس ہر احمدی کی اپنی ذات کے بارے میں بھی اور بحیثیت نگران اپنے بیوی بچوں کے بارے میں بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس تزکیہ کی طرف توجہ دے.

Page 86

خطبات مسرور جلد ششم 66 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آخَرِينَ مِنْهُمْ کے الفاظ کے متعلق کہ کیوں یہاں جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ہ اس آیت میں اس تفہیم کی غرض سے بھی یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ تا ظاہر کیا جائے کہ وہ آنے والا ایک نہیں رہے گا بلکہ وہ ایک جماعت ہو جائے گی جن کو خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہوگا اور وہ اس ایمان کے رنگ و بو پائے گی جو صحابہ کا ایمان تھا.“ ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 220) پس یہ وہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اور آپ نے اس کی وضاحت فرمائی.جس کے حصول کے لئے، جس کے قائم رکھنے کے لئے اور نہ صرف اپنے اندر قائم رکھنے کے لئے بلکہ اپنے بیوی بچوں اور اپنے ماحول میں بھی قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.اور اس کے حصول کے لئے وہ طریق اپنانے ہوں گے جن کے بارے میں قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے.اس کو سمجھنے کے لئے وہ اسلوب سیکھنے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سکھائے ہیں.اللہ تعالیٰ نے تزکیہ نفس کے لئے برائیوں سے بچنے کے لئے نماز کو ایک بہت بڑا ذریعہ قرار دیا ہے جیسا کہ جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں وہ فرماتا ہے کہ اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ کہ جو کتاب میں سے تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اسے پڑھ.اور نہ صرف پڑھ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الكتاب جو کتاب میں سے تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اسے پڑھ اور پڑھ کر سنا.وَاَقِمِ الصَّلوۃ اور نماز کو قائم کر.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر یقیناً نماز بے حیائی اور ہر نا پسندیدہ بات سے روکتی ہے وَلَذِكْرُ اللهِ اكْبَرُ.اور اللہ کا ذکر یقینا سب ذکروں سے بڑا ہے.وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ اور اللہ جانتا ہے جوتم کرتے ہو.اس آیت میں جیسا کہ ہم نے ترجمہ میں دیکھا کہ جہاں تلاوت کرنے کا حکم ہے، اس پیغام کو پہنچانے کا حکم ہے وہاں ساتھ ہی فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلوة کہ نماز قائم کر کیونکہ اس کو تمام لوازمات کے ساتھ قائم کرنا اور خالص ہو کر پڑھنا، پاک کرنے کا ذریعہ بنے گا.یہ قرآن جوتز کیہ کرنے کی تعلیم سے پُر ہے اس پر عمل کرنے کی توفیق خدا کی مدد سے ملے گی.پس جب ایک مومن بندہ خالص ہو کر اس کے آگے جھکے گا اور اس پر اس تعلیم کا اثر ہوگا اور برائیوں سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوگا اور پھر خالص ہو کر ادا کی گئی نمازیں بعد میں بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زبانوں کو تر رکھنے کی طرف توجہ دلائیں گی تو ایسا شخص یقینا اپنے نفس کا تزکیہ کرنے والا ہوگا.پس نماز کی طرف توجہ ہر احمدی کی بنیادی ذمہ داری ہے.لیکن کس طرح؟ کیا صرف ایک دو نمازیں ؟ نہیں، بلکہ پانچ وقت کی نمازیں.اگر یہ نہیں تو عبادت کے معیار حاصل کرنے کا ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے.پہلوں سے ملنے کے لئے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے.پانچ فرض نمازیں تو وہ سنگ میل ہے جہاں سے معیاروں کے حصول کا سفر شروع ہونا ہے.پانچ نمازیں تو نیکی کا وہ پیج ہے جس نے پھلدار درخت بننا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے،اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا.(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 221) جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ نمازیں نیکی کا بیج ہیں پس نیکی کے اس بیج کو ہمیں اپنے دلوں میں اس حفاظت سے لگانا ہوگا اور اس کی پرورش کرنی ہوگی کہ کوئی موسمی اثر اس کو ضائع نہ کر سکے.اگر ان نمازوں کی حفاظت نہ کی تو

Page 87

خطبات مسرور جلد ششم 67 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 جس طرح کھیت کی جڑی بوٹیاں فصل کو دبا دیتی ہیں یہ بدیاں بھی پھر نیکیوں کو دبا دیں گی.پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کریں اور انہیں مضبوط جڑوں پر قائم کر دیں کہ پھر یہ شجر سایہ دار بن کر ، ایسا درخت بن کر جو سایہ دار بھی ہوا اور پھل پھول بھی دیتا ہو، ہر برائی سے ہماری حفاظت کرے.پس پہلے نمازوں کے قیام کی کوشش ہو گی.پھر نمازیں ہمیں نیکیوں پر قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک احمدی کی شناخت یہی بتائی ہے.پس ہر احمدی خود اپنے جائزے لے، اپنے گھروں کے جائزے لے کہ کیا ہم اپنی اس شناخت کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہم اس طرح پہچانے جاتے ہیں کہ عابد بھی ہیں اور اعلیٰ اخلاق بھی اپنے اندر رکھے ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کو پورا کرنے والے ہیں.یہ جائزے جو ہم لیں گے تو یہ جائزے یقیناً ہمارے تزکیہ کے معیار کو اونچا کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ: نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجالانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے.شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا وہ اسی ذریعہ سے کرے گا.پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے.جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے اُس وقت تک شیطان اس سے محبت کرتا ہے“.البدر جلد 2 نمبر 4 مورخہ 13 فروری 1903 ء صفحہ 27) پھر فرماتے ہیں: ”اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت و عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں اور زکوۃ صاحب مال کو دینی پڑتی ہے مگر نماز ہے کہ ہر ایک ( حیثیت کے آدمی کو) پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے.اسے ہرگز ضائع نہ کریں.اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈ میں.کیونکہ دوسرے دنیوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے.جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے کہ اسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں.اگر اسے لہر آ جاوے تو ابھی دے دیوے.بڑی تضرع سے دعا کرے.نا امید اور بدظن ہرگز نہ ہو وے.اور اگر اس طرح کرے تو ( اس راحت کو ) جلدی دیکھ لے گا اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا.تو یہ طریق ہے جس پر کار بند ہونا چاہئے.مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لا پرواہ ہے اور خدا تعالیٰ بھی اس سے لا پرواہ ہے.ایک بیٹا اگر باپ کی پرواہ نہ کرے اور نا خلف ہو تو باپ کو بھی پرواہ نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو“.البدر جلد 2 نمبر 4 مورخہ 13 فروری 1903 ، صفحہ 28) پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا شیطان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جس ہتھیار

Page 88

خطبات مسرور جلد ششم 68 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 کی ضرورت ہے وہ نماز ہے.اور شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہے گا کہ یہ ہتھیار مومن سے چھن جائے.پس جس طرح ایک اچھا سپا ہی کبھی اپنا ہتھیار دشمن کے ہاتھ لگنے نہیں دیتا.ایک حقیقی مومن بھی کبھی اپنے اس ہتھیار کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتا.انسانی فطرت ہے کہ برائیوں کی طرف بار بار توجہ جاتی ہے اس لئے اس کی حفاظت بھی ایک مستقل عمل چاہتی ہے اور اس کی مستقل حفاظت کے لئے ، اس مستقل عمل کو جاری رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ نمازوں کی حفاظت کرو.فرمایا ہے حفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقُوْمُوا لِلَّهِ قَنِتِينَ (البقرة: 239) - کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص مرکزی نماز کی اور اللہ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ.تو یہ ایک اصولی بات بتادی کہ نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص طور پر درمیانی نماز کا خیال کرو.مختلف مفسرین نے درمیانی نماز کی اپنے اپنے ذوق یا علم کے مطابق تفسیر کی ہے.کسی نے تہجد کی نماز کسی نے فجر کی نماز کسی نے ظہر وعصر کی نماز مراد لی ہے.بہر حال یہاں ایک اصولی ہدایت آگئی کہ صَلوةُ الوسطی کی حفاظت کرو اور ہر ایک کے حالات کے لحاظ سے درمیانی نماز وہ ہے جس میں دنیا داری یاستی اسے نماز قائم کرنے سے روکتی ہے یا نماز سے غافل کرتی ہے ، جب شیطان اس کی توجہ نماز کی بجائے اور دوسری چیزوں کی طرف کروارہا ہوتا ہے.پس اس وقت اگر ہم شیطان سے بیچ گئے اور اس کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا تو سمجھو کہ ہم نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جب یہ صورت ہوگی تو جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے پھر نماز ہماری حفاظت کرے گی.فرضوں کی حفاظت سنتیں کریں گی اور سنتوں کی حفاظت نوافل کریں گے اور یہی ایک مومن کی پہچان ہے.اور جب یہ حالت ہوگی تو پھر شیطان کا دور دور تک پتہ نہیں چلے گا.ایسے لوگوں کے قریب بھی شیطان پھٹکا نہیں کرتا.پس یہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہی حالت ہے جو حقیقی فرمانبرداری کی حالت ہے اور یہی حالت ہے جو بیعت کرنے کے بعد پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والی حالت ہے.پس اپنی نمازوں کی حفاظت ہر احمدی مسلمان پر خاص طور پر فرض ہے کیونکہ اس نے اپنے اس عہد کی تجدید کی ہے کہ میں اپنی پرانی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہوتا ہوں.جب یہ عہد باندھا ہے تو اس عہد کو مضبوط تر کرنے کے لئے ، فرمانبرداری کے کامل نمونے دکھانے کے لئے ان راستوں پر بھی چلنے کی کوشش کرنی ہو گی جن سے یہ عہد بیعت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے اور جس سے شیطان سے جنگ کرنے کی قوت ملتی ہے.جس سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے راستے دکھائی دیتے ہیں.جس سے ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور جس سے ایک مومن فَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ کے نظارے دیکھتے ہوئے اپنی دعاؤں کو عرش تک پہنچتے ہوئے دیکھتا ہے.جس سے ایک مومن نیکیوں کے معیار بلند ہوتے ہوئے دیکھتا ہے.جس سے قبولیت دعا کے نشان مومن پر ظاہر ہوتے ہیں.پس جبکہ یہ معیار حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی اپنے دل میں شدید خواہش اور تڑپ رکھتا ہے تو پھر نمازوں کے معیار بلند کرنے کی بھی ایک تڑپ کے ساتھ ضرورت ہے.یعنی ہماری نمازوں کے معیار بھی بلند ہوں اس کے لئے بھی ایک تڑپ پیدا کرنی ہوگی.آج کی دنیا میں مصروفیت کے نام پر بعض نمازیں جمع کر لی جاتی ہیں.بعض جائز مجبوریاں ہوں تو ٹھیک ہے لیکن بغیر مجبوری کے بھی بعض لوگوں کا معمول ہوتا ہے کہ نمازیں جمع کر لیں.جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر نماز کا وقت مقررفرمایا ہے اور دن کی پانچ نماز میں مقرر فرمائی ہیں.

Page 89

69 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ.إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ( بنی اسرائیل : 79) کہ سورج کے ڈھلنے سے شروع ہو کر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور فجر کی تلاوت کو بھی اہمیت دے یقیناً فجر کے وقت قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے.اس آیت میں صلوۃ کے مختلف اوقات کا ذکر ہے.ظہر کی نماز سے شروع کیا گیا ہے اور فجر تک کے اوقات بیان فرما دیئے ہیں اور نماز کے یہ پانچ اوقات رکھنے کی حکمت کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں وضاحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ” خدا نے اپنے قانون قدرت میں مصائب کو پانچ قسم پر منقسم کیا ہے یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں.اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا.پہلی بات یہ یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا.اور پھر ایسی حالت جب نومیدی پیدا ہوتی ہے اور پھر زمانہ تاریک مصیبت کا.اور پھر صبح رحمت الہی کی یہ پانچ وقت ہیں جن کا نمونہ پانچ نمازیں ہیں“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ( یاداشتیں صفحہ 7) روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ نمبر 422) پھر آپ فرماتے ہیں کہ: یاد رکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لئے مقرر ہیں.یہ کوئی تحکم اور جبر کے طور پر نہیں“.جبر نہیں کیا گیا کہ ضرور پڑھو.بلکہ اگر غور کرو تو یہ در اصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اقمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ یعنی قائم کرو نما ز کو لوكِ الشَّمْسِ سے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام صلوۃ کو دُلُوک شَمس سے لیا ہے.ڈلوک کے معنوں میں گواختلاف ہے.لیکن دو پہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام ڈلوک کہے.اب ڈلوک سے لے کر پانچ نمازیں رکھ دیں.اس میں حکمت اور سر کیا ہے؟ قانون قدرت دکھاتا ہے کہ روحانی تذلل اور انکسار کے مراتب بھی ڈلوک ہی سے شروع ہوتے ہیں.اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں.پس یہ طبعی نماز بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب حزن اور ہم وغم کے آثار شروع ہوتے ہیں.اس وقت جبکہ انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو کس قدر تذلیل اور انکساری کرتا ہے.اب اس وقت اگر زلزلہ آوے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلا کسی شخص پر نالش ہو.کوئی کیس ہو جائے تو سمن یا ورانٹ آنے پر اس کو معلوم ہوگا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نالش ہوئی ہے.اب بعد مطالعہ وارنٹ اس کی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا.کیونکہ وارنٹ یاسمن تک تو اسے کچھ معلوم نہ تھا.اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو اس قسم کے ترددات اور تفکرات سے جوز وال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت ڈلوک ہے.اور یہ پہلی حالت ہے جونماز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے.اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہو.فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جرح ہورہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے.یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا نمونہ ہے.کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں.جب حالت اور بھی نازک ہو جاتی ہے اور فرد قرار داد جرم لگ جاتی ہے تو یاس اور نا امیدی بڑھتی ہے کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزا مل جاوے گی.یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے.پھر جب حکم سنایا گیا اور منسٹبل یا کورٹ انسپکٹر کے حوالہ کیا گیا تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے.

Page 90

خطبات مسرور جلد ششم 70 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 یہاں تک کہ نماز کی صبح صادق ظاہر ہوئی.اور اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کے حالات کا وقت آ گیا تو روحانی نماز فجر کا وقت آ گیا اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے“.( رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 167-166) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو اقتباس میں نے پڑھا اس میں انسان کی دنیاوی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے مثال دے کر آپ نے سمجھایا کہ دُلوک کے مختلف معانی ہیں.دُلُوک کے تین معانی لغت میں ملتے ہیں.بعض لغات ان تینوں کو تسلیم بھی کرتی ہیں.اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ سورج کا زوال.دوسرے اس کے معنی یہ ہیں جب سورج پر زردی آنی شروع ہوتی ہے.اس وقت کو بھی دلوک کہتے ہیں.اور اس کے تیسرے معنی سورج کے غروب ہونے کے بھی ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو سامنے رکھتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ دلوک یعنی سورج کا سایہ بڑھنے سے شروع کر کے نماز کے اوقات رکھے گئے ہیں.اور اس میں کیا حکمت ہے اور کیا وجہ ہے؟ پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ اگر دنیاوی مثال سے اس کو دیکھا جائے تو ایک انسان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کی کیسی عاجزی اور پریشانی کی حالت ہوتی ہے مثلاً کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہو جائے تو اسے بہت سی فکریں دامنگیر ہو جاتی ہیں.وکیل کرنے کی فکر ہوتی ہے پھر پتہ نہیں لگتا کہ وکیل ملے یا نہ ملے.اگر ملے تو کیا ہو؟ مقدمہ بھی صحیح طریقے پر لڑ سکے یا نہ لڑ سکے.پھر فیصلہ کیا ہو.تو اس کی ایک عجیب حالت ہوتی ہے.عجیب مایوسی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور اس میں پھر وہ بے چین ہو کر اس حالت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.ہاتھ پیر مارتا ہے.جو جو خیالات آتے ہیں ان کے حل کی تلاش کی کوشش کرتا ہے.تو سورج کے زوال کے ساتھ اس دنیا وی مثال کے مقابلے پر ظہر کی نماز ہے جس میں ایک انسان کو اپنی روحانی حالت پر غور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے اور اس سے مدد مانگنی چاہئے.پھر دنیاوی مقدمات میں وارنٹ آنے کے بعد اسے کمرہ عدالت میں کھڑا ہونا پڑتا ہے.کورٹ کے سامنے پیش ہوتا ہے جہاں حج اس کا مقدمہ سنتا ہے، جہاں اسے سوال جواب ہوتے ہیں، جرح ہوتی ہے، اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ایک انسان کوشش کرتا ہے یا معافی مانگ رہا ہوتا ہے.پس عصر کی نماز کی یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ غلطیوں ، کوتاہیوں اور گناہوں سے بچائے اور معاف فرمائے.سارے دن میں جو شام تک غلطیاں ہوئی ہیں ان سے معاف فرمائے.روحانی حالت کو قائم رکھے.پھر مثال دی کہ عدالت میں فرد جرم لگ گئی ہے.عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ کر دیا ہے.تو اس وقت میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ جب خلاف فیصلہ کر دیا تو اب سزا ملے گی.بے چینی اور مایوسی بڑھ جاتی ہے.پس مغرب کی نماز اس کے مقابلے پر رکھی ہے کہ ایک مومن جب اپنے دن کو دیکھتا ہے تو کچھ نظر نہیں آتا.اپنے اعمال کو دیکھتا ہے تو کچھ نہیں لگتے.پھر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور اس کی مغفرت اور پناہ کا طلبگار ہوتا ہے.تو یہ مغرب کی نماز ہے.پھر فرمایا آخر فرد جرم لگنے کے بعد عدالت ثابت کر دیتی ہے کہ ہاں تم ملزم ہو تو پولیس کے حوالے کر دیتی ہے.سزا شروع ہو جاتی ہے تو اس کے مقابلے پر عشاء کا وقت ہے.رات اندھیری ہے.اس کو اب کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا.کال کوٹھڑی میں ایک ملزم ڈال دیا جاتا ہے.تو سارے دن کے اعمال ایک مومن کی نظروں کے سامنے گھومنے چاہئیں.اس کی ایسی حالت میں جو عشاء کی نماز پڑھ رہا ہے.جس طرح جیل کی کوٹھڑی میں بند ایک مجرم بے چین ہو ہو کر اپنی رہائی اور رحم مانگ رہا ہوتا ہے.رات کو ایک مومن کو بھی یہ احساس دلانا چاہئے کہ یہ جو راتیں ظاہری طور پر آ رہی ہیں.کہیں ایسی راتیں میری روحانی زندگی پر نہ

Page 91

خطبات مسرور جلد ششم 71 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 آجائیں.کہیں یہ راتیں لمبی نہ ہو جائیں.میرے پنہانی گناہ اور ظلم کہیں مجھے شیطان کی گود میں مستقل نہ پھینک دیں.وہ بے چین ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے اور گریہ وزاری کرتا ہے کہ اے اللہ ! اس ظاہری اندھیرے کی طرح میری روحانی زندگی بھی کہیں مستقل اندھیروں کی نظر نہ ہو جائے.مجھے اپنی پناہ میں لے لے اور مجھ پر ہمیشہ وہ سورج طلوع رکھ جو میری روحانی زندگی پر نہ کبھی زوال آنے دے، نہ اندھیروں میں بھٹکوں.پس اس کے لئے عشاء کی نماز ہے.اس میں وہ یہ دعائیں کرتا ہے اور آخر کو جس طرح قیدی آزاد ہو کر باہر کی دنیا کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے.ایک مومن فجر کی نماز کو دیکھ کر اس طرح خوشی کا اظہار کرتا ہے کہ اے اللہ ! جس طرح یہ دن چڑھ رہا ہے میری روحانی زندگی پر بھی ہمیشہ دن چڑھار ہے اور کبھی اندھیروں میں نہ بھٹکوں.پس نماز کے پانچ اوقات روحانی حالت کا جائزہ ایک مومن کے سامنے رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کی حالت کا وقت آ گیا تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مومن کو فجر کی نماز میں سست نہیں ہونا چاہئے.یہ ٹیسر اور آسانی پیدا کرنے کا وقت ہے.پس اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے بستروں کو اپنی آرام کی جگہ نہ سمجھو.اب اگر آرام دیکھنا ہے، اپنی روحانی حالت سنوارنی ہے، اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنا ہے تو فجر کی نماز کی بھی حفاظت کرو اور جب ہر دن کا سفر اسی سوچ کے ساتھ شروع ہوگا اور اسی سوچ پہ ختم ہو گا تو پھر وہ حالت ہوگی جب ہر صبح یہ گواہی دے گی کہ تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر شام یہ گواہی دے گی کہ ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.اور یہی حالت ہے جو ایک مومن میں انقلاب لانے کا باعث بنتی ہے.پس اس بات کو ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ نماز میں روحانی حالت کے سنوارنے کے لئے ایک بنیادی چیز ہیں جس کے بغیر انسان کا مقصد پیدائش پورا نہیں ہوتا.پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرے کیونکہ ایک مومن پر ان کا وقت پر ادا کرنا بھی فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَاباً مَوْقُوْتًا ( النساء:104) كه يقيناً نماز مومنوں پر ایک وقت مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس اہم رکن کی ادائیگی کا صیح حق ادا کرنے والے ہوں.آنحضرت ﷺ کے جس کام کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اس کو پورا کرنے میں آپ کا ہاتھ بٹانے والے ہوں.اور ہم آپ کے مددگار اور ہاتھ بٹانے والے اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک ہم اپنا تزکیہ کرنے والے نہیں ہوں گے.اور تزکیہ نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے اور انہیں وقت پر ادا کرنے والے نہیں بنیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ بڑے درد کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو.وفا اور صدق کا خیال رکھو.اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو.وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے.نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے.جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود ز ہر ہے.جیسے بیمار کو شرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں

Page 92

72 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم آتا.یہ دین کو درست کرتی ہے.اخلاق کو درست کرتی ہے.دنیا کو درست کرتی ہے.نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے اور لذات جسمانی کے لئے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو اسے ملتا ہے.قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے.ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے.اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے.کہ ایک بندے کا اور خدا کا جو ہمیشہ کا تعلق ہے اس کو قائم رکھنے کے لئے نماز بنائی ہے.اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے.جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے.جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے.ایسا ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.دروازہ بند کر کے دعا کرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو جو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پر ہے جس کی تفصیل نہیں ہوسکتی.جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 592-591 جدید ایڈیشن) یعنی اگر بندے اور رب کا تعلق نہیں ہے تو انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے.دوسری بات یہ افسوسناک خبر بھی ہر احمدی کے علم میں ہے جو ہمارے دلوں کو زخمی کرنے والی بھی ہے.اکثر نے سنی ہوگی ، اخباروں میں بھی پڑھی ہوگی.ڈنمارک کی اخبار نے ایک ظالمانہ اور گھٹیا سوچ کا پھر مظاہرہ کیا ہے.اپنے دل کا گند اور اندرونی کینے اور بغض کا پھر اظہار کیا ہے اور بہانہ یہ کیا کہ ہم یہ بدلے لے رہے ہیں کہ پولیس نے ان تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو ایک کارٹون بنانے والے کو مارنا چاہتے تھے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کر کے جو عجیب شکلیں بنائی تھیں.جب پولیس نے پکڑ لیا ہے، اگر یہ الزام صحیح ہے تو پھر قانون سزا دے رہا ہے.پھر ان کا کیا جواز ہے کہ باقی مسلمان امت کا بھی دل دکھائیں ، دوسرے مسلمانوں کا بھی دل دکھائیں؟ کہتے ہیں کہ ہم بڑے انصاف کے علمبردار ہیں.کیا یہ انصاف ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا دوسروں کو دی جائے ؟ اگر ان کا یہی انصاف ہے تو پھر ایک منصف احْكُمُ الْحَاكِمِین آسمان پر بھی بیٹھا ہے جو اس کا ئنات کا مالک ہے.وہ بھی پھر اپنا انصاف کرے گا جو غالب بھی ہے، ذُو انتقام بھی ہے.یہ ایک اصولی بات اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ جو بار بار ایک جرم کرنے والے ہوں اور باز نہ آتے ہوں پھر وہ ان سے انتقام بھی لے سکتا ہے..ان کے لئے جو اس قسم کے گھناؤنے فعل کرنے والے ہیں ، غلط حرکات کرنے والے ہیں ان کے لئے تو وہ کافی ہے.کس طرح اس نے پکڑنا ہے وہ خدا بہتر جانتا ہے.ہمارا کام انہیں سمجھانا تھا.اتمام حجت کرنا تھی جو ہم نے کر دی اور خوب اچھی طرح کر دی.مضمون بھی لکھے.اخباروں میں خط بھی لکھے، ان لوگوں کو ملے بھی.ان سے میٹنگز بھی کیں.تب بھی اگر ان لوگوں نے باز نہیں آنا تو ہمیں اب معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے.ہمارا کام یہ ہے کہ خدا کے آگے جھکیں اور پہلے سے بڑھ کر اس رسول کے پاک اسوہ کو قائم کرنے کی اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے لئے آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا.ہمارا ایک مولیٰ ہے وہ مولیٰ جس کی پہچان ہمیں آنحضرت ﷺ نے کروائی ہے.وہ مولی جس کو سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ پیارے ہیں.وہ سب قدرتوں والا ہے.وہ خود اپنی قدرت دکھائے گا

Page 93

خطبات مسرور جلد ششم 73 خطبه جمعه فرموده 15 فروری 2008 انشاء اللہ.ہمارا کام اپنے دل کے زخم اس کے حضور پیش کرنا ہے.اس کے آگے گڑ گڑانا ہے، اس کے آگے جھکنا ہے.پہلے سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا ہے.اور یہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر کرنا چاہئے اور ہر احمدی کی اب مزید ذمہ داری بڑھ جاتی ہے لیکن جب ایسے حالات پیدا ہوں تو پہلے سے بڑھ کر اس پر قائم ہو جائیں.پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں، پہلے سے بڑھ کر اپنا تزکیہ نفس کرنے کی کوشش کریں.پہلے سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجیں اور یہی چیزیں ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوناکامی دکھانے والی بنیں گی اور ہماری فتح ہوگی.اپنے جذبات کے اظہار کے لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: "مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریم کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور ان کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ ان کے رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت تو ہین سے ان کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ میں ان کو یاد کرتے ہیں.آپ یا درکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کی راہ میں کانٹے ہوتے ہیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہے مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے.وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بدزبانی میں ہی فتح ہے مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے“.مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 386-385) پھر آپ فرماتے ہیں : ”اور اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کر یم ﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم اللہ میں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دیکھتا جوان گالیوں اور اس تو ہین سے جو ہمارے رسول کریم کی گئی ، دکھا“.( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 52-51) اے اللہ ! یہ جو اپنی طاقت کے زعم میں ہمارے دل دکھا رہے ہیں تو اس کا مداوا کر کیونکہ تو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے.الفضل جلد 15 نمبر 10 مورخہ 7 تا 13 مارچ 2008 ، صفحہ 5 تا صفحہ 8

Page 94

خطبات مسرور جلد ششم 8 74 خطبہ جمعہ فرمود ه 22 فروری 2008 فرمودہ مورخہ 22 فروری 2008ء بمطابق 22 تبلیغ 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى.إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ.وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ.وَإِلَى اللهِ الْمَصِيرُ (الفاطر: 19) آج کا خطبہ بھی گزشتہ خطبہ کے تسلسل میں ہی ہے، یعنی نماز کا مضمون.پہلے خیال تھا کہ دوسرا مضمون شروع کروں گا لیکن پھر غور کرنے سے احساس ہوا کہ آج بھی یہی جاری رکھا جائے.کچھ اقتباسات پیچھے رہ گئے تھے جو پیش کرنے ضروری ہیں.نماز کا حکم بھی ایک ایسا حکم ہے جو ایک بنیادی حکم ہے اور ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر دین کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا.قرآن کریم میں اس کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے بلکہ قرآن مجید کی ابتداء میں سورۃ بقرہ میں ایمان بالغیب کے بعد جو دوسرا اہم حکم ہے وہ نماز کے قیام کا ہے.بلکہ اس سے پہلے سورۃ فاتحہ میں بھی ايَّاكَ نَعْبُدُ کہہ کر عبادت کی دعا مانگی گئی ہے کہ اے اللہ ! ہم تیری عبادت کرتے ہیں.اس لئے ہمیں ہمیشہ توفیق دیتارہ کہ ہم تیری عبادت کرتے رہیں اور اس عہد پر قائم رہیں جو ایک مومن مسلمان کا ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے والے بنیں جو ایک انسان کی پیدائش کا مقصد ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے بھی اس اہم حکم پر بہت زور دیا.ہے.فرمایا ”نماز دین کا ستون ہے.عمارتوں کی مضبوطی ستونوں سے ہی قائم ہوتی ہے.پس جن نمازوں کے ستونوں پر ہمارا دین قائم ہے اس کی حفاظت انتہائی اہم ہے ورنہ دین میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نمازوں کے بارے میں ارشادات بھی قرآن کریم اور احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے اس وضاحت سے ہمارے سامنے آئے ہیں کہ جن کا پڑھنا اور سننا ہر احمدی کے لئے انتہائی اہم اور ضروری ہے.ان کو پڑھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس انسان کامل کے شاگرد کامل کے علم کلام کی حسن و خوبی کیا ہے لہذا ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے نیز گزشتہ خطبہ کے بعد مجھے کسی نے اس اہم مضمون پر ابھی اور توجہ دلانے کی طرف بھی لکھا.پھر UK کے سیکرٹری تربیت کی رپورٹ ، اسی طرح امریکہ کی صدر لجنہ نے بھی جور پورٹ

Page 95

خطبات مسرور جلد ششم 75 خطبہ جمعہ فرمود ه 22 فروری 2008 دی اس سے جو حقائق سامنے آئے ، اس سے قابل فکر صورتحال کی تصویر ابھری ہے.یو کے یا امریکہ کے ذکر سے یہ نہ سمجھیں کہ باقی جو دوسرے ملک ہیں وہاں مکمل طور پر اس پر عمل ہو رہا ہے اور بڑا اعلیٰ معیار ہے.وہ اعلیٰ معیار جو ہمارا مطمح نظر ہیں اور ہونے چاہئیں وہ ابھی کسی جگہ کی رپورٹ میں بھی نظر نہیں آتے.اس سلسلے میں اور کوشش کی ضرورت ہے.بعض عہدیداران آنکھیں بند کر کے جتنی بھی رپورٹ آتی ہے اس پر خوش فہمی کا اظہار کرتے ہیں.نماز ایک ایسی چیز ہے، وہ ایسی بنیادی بات ہے جس پہ ہمیں کسی بھی قسم کی خوش فہمی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر احمدی، ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتا ہے، سو فیصد اس بات پر قائم ہو کہ وہ نمازوں کے قیام کی کوشش کر رہا ہے.بہر حال ان وجوہات کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ آج پھر آیات اور احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں نمازوں کے بارے میں توجہ دلاؤں.جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ ایک اہم اور بنیادی رکن ہے جس پر ہر احمدی کو سو فیصد عمل کرنا چاہئے ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارے ایمان کی عمارتوں میں دراڑیں پڑ جائیں گی.آج جب ہم خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر شکر کے جذبات سے لبریز ہیں اور خوشی منا رہے ہیں، دین کے اس سب سے اہم رکن کی طرف خاص طور پر ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے کیونکہ خلافت کا وعدہ ان ایمان والوں کے ساتھ ہے جو نمازوں کے قیام کی طرف توجہ دینے والے ہیں.پس اگر حقیقی رنگ میں خلافت کے انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بننا ہے تا کہ اس انعام سے ہمیشہ فیض پاتے رہیں تو اپنی نمازوں کے قیام کی طرف خاص توجہ دینا ہر احمدی کے لئے انتہائی ضروری ہے.پس دوبارہ میں کہتا ہوں کہ ہر احمدی اپنے جائزے لے کہ کیا ہم اپنی نمازوں کی حفاظت اس کا حق ادا کرتے ہوئے کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے اپنی نمازوں کے وہ معیار حاصل کر لئے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول یہ ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے مقابلے پر تم جس کو بھی کھڑا کرو گے کہ وہ تمہاری ضروریات پوری کر دے، وہ پوری نہیں کرسکتا.یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس سے پہلے اللہ تعالیٰ مشرکوں کو کہتا ہے کہ تمہارے معبود تو نہ سن سکتے ہیں نہ تمہاری ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک سے بھی انکار کر دیں گے.اگر کوئی مالک گل ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور بندے اس کے محتاج ہیں.یہ ساری باتیں بندوں کو اس طرح توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں کہ اس خدا کے آگے جھکیں جو مالک کائنات ہے.اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہوشیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جو اپنے رب سے غیب میں ڈرتے ہیں اور اس ڈر کی وجہ سے نماز قائم کرتے ہیں اور پھر ان نمازوں کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اپنے نفسوں کو پاک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.کسی کو بھی یہ

Page 96

خطبات مسرور جلد ششم 76 خطبہ جمعہ فرموده 22 فروری 2008 خیال نہیں آنا چاہئے کہ نمازوں میں سستیاں کرنی شروع کر دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا.ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہر ایک نے اپنے اعمال کے ساتھ جانا ہے، کوئی قریبی بھی کسی کے کام نہیں آسکتا.پس یہاں اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا چاہے کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو، پھر ایمان بالغیب اور نماز کا ذکر اور نفس کی پاکیزگی کا ذکر اور پھر یہ کہ آخری ٹھکانہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہے، یہ سب باتیں ہم کمزوروں کو توجہ دلانے کے لئے ہیں کہ آخرت کا خوف ہمیشہ تمہارے سامنے رہے.اور جب یہ یقین ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مالک یوم الدین ہے اور اس کی طرف لوٹنا ہے تو پھر نفس کی پاکیزگی کی طرف بھی خیال رہے گا.اور نفس کی پاکیزگی کے لئے سب سے اہم ذریعہ قیام نماز ہے اور یہ نماز کا قیام کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جن کا غیب پر بھی ایمان مضبوط ہوتا ہے اور جو غیب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں.ان کے ہی تقویٰ کے معیار بھی اونچے ہوتے ہیں.پس ہر احمدی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ صرف منہ سے کہ دینا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں.اللہ کے آخری نبی ﷺ پر ایمان لاتے ہیں اور آخری زمانے میں آنے والے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانتے ہیں، یہ کافی نہیں ہو گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوگا.جب اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا، ایسا خوف جو ایک قریبی تعلق والے کو دوسرے کا ہوتا ہے کہ کہیں ناراض نہ ہو جائے تو اس سے پھر محبت میں اضافہ ہوگا.اور جب محبت میں اضافہ ہو گا تو یہ خوف مزید بڑھے گا اور اس کی وجہ سے نیک اعمال سرزد ہوں گے.ان کے کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.نمازوں میں با قاعدگی کی طرف توجہ پیدا ہوگی.نمازوں کو اس کے حق کے ساتھ ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی ، ورنہ نری بیعت جو ہے وہ بخشش کا ذریعہ نہیں بن سکتی.ایک روایت میں آتا ہے، یونس کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے اعمال میں سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس بات کا محاسبہ کیا جائے گا وہ نماز ہے.آنحضور نے فرمایا: ہمارا رب عز وجل فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے، کہ میرے بندے کی نماز کو دیکھ کہ کیا اس نے اسے مکمل طور پر ادا کیا تھا یا نامکمل چھوڑ دیا ؟ پس اگر اس کی نماز مکمل ہو گی تو اس کے نامہ اعمال میں مکمل نماز لکھی جائے گی اور اگر اس نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی تو فرمائے گا کہ دیکھیں کیا میرے بندے نے کوئی نفلی عبادت کی ہوئی ہے؟ پس اگر اس نے کوئی نفلی عبادت کی ہوگی تو فرمائے گا کہ میرے بندے کی فرض نماز میں جو کمی رہ گئی تھی وہ اس کے نفل سے پوری کر دو.پھر تمام اعمال کا اسی طرح مؤاخذہ کیا جائے گا.( سنن نسائی.کتاب الصلوہ باب المحاسبة علی الصلوۃ حدیث 466) پس جب مرنے کے بعد سب سے پہلا امتحان جس میں سے ایک انسان کو گزرنا ہے وہ نماز ہے، تو کس قدر اس کی تیاری ہونی چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر مہربان بھی ہے.فرمایا کہ بندے کے نفل دیکھو اگر اس کے

Page 97

77 خطبہ جمعہ فرمود ه 22 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم نفل ہیں تو اس کے فرضوں کے پلڑے میں ڈال دو تا کہ فرضوں کی کمی پوری ہو جائے.پس صرف نمازوں کی ادائیگی نہیں بلکہ انسان جو کہ کمز ور واقع ہوا ہے اسے یہ دیکھنا اور سوچنا چاہئے کہ کسی وقت ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ میرے فرض صحیح حق کے ساتھ ادا نہ ہوئے ہوں تو کوشش کر کے نفل بھی ادا کرنے کی کوشش کرے.یہ ایک مومن کا اعلیٰ معیار ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بنے.اپنے پیارے خدا کا جس کے بے شمار احسانات اور انعامات ہیں شکر ادا کرے ہم احمدی مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ہم ایک جماعت ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں.ہم ایک ہاتھ پر اٹھنے بیٹھنے کے نظارے دیکھتے ہیں.جب ہماری یہ صورت حال ہے تو جو سب سے زیادہ تنظیم پیدا کرنے والی چیز ہے اس کا ہمیں کس قدر خیال کرنا چاہئے.اور پھر صرف اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی ہم اس سے فائدہ اٹھا رہے ہوں گے.سب سے پہلے جو جائزہ ہو گا وہ نماز کے بارے میں ہو گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے.پس ایک احمدی مسلمان صرف اپنی فرض نمازوں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ نوافل بھی ادا کرتا ہے تا کہ کمزوریوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے نظر آتے رہیں.اس کی رحمت کی نظر پڑتی رہے اور یہی غیب میں ڈرنا ہے.نوافل ادا کرتے ہوئے تو ایک انسان بالکل علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے.یہ صورتحال ایک احمدی مسلمان کی ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کی اہمیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ: نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی یا رسول اللہ ! ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کا روباری آدمی ہیں.آجکل کے بعض کا روباری بھی یہی بہانے کرتے ہیں.انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کا روباری آدمی ہیں.مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا کہ صاف ہیں کہ نہیں.اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے.دو بہانے ہیں، ایک کیونکہ جانور پالنے والے ہیں اس لئے پتہ نہیں کپڑے صاف بھی ہیں کہ نہیں اور نماز کے لئے حکم ہے کہ صاف کپڑے پہنو اور دوسرے کاروبار بھی ہے.دونوں صورتوں کی وجہ سے وقت نہیں ملتا." تو آپ نے (آنحضرت ﷺ نے ) اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا ؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدے میں گر جانا.اس سے اپنی حاجات کا مانگنا، یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے یعنی جس سے مانگا جارہا ہے، اس کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے.اس کی عظمت

Page 98

خطبات مسرور جلد ششم 78 خطبہ جمعہ فرموده 22 فروری 2008 اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا، پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتار ہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو کیونکہ اس کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے.اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر تجھے راضی کر لیں.خدا تعالیٰ کی محبت ، اسی کا خوف ، اسی کی یاد میں دل لگارہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے“.پھر فرماتے ہیں کہ : " پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے، اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا؟ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سورہنا.یہ تو دین ہر گز نہیں.یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 189 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس نماز مومن کے لئے ایک ایسی چیز ہے جس کا خیال رکھنا، اس میں با قاعدگی رکھنا ، یہی وہ باتیں ہیں جو ایک مومن اور غیر مومن میں فرق کرنے والی ہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر عبادت نہیں تو جانور اور انسان میں کیا فرق ہوا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں غیر مومنوں کی برائیوں کا جہاں ذکر فرماتا ہے وہاں مومنوں کو ان کمزوریوں سے پاک اس لئے قرار دیتا ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں.فرمایا الَّا الْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُوْنَ (المعارج : 24-23) ہاں نماز پڑھنے والوں کا معاملہ الگ ہے.وہ لوگ جو اپنی نماز پر دوام اختیار کرنے والے ہیں.پہلے ان کا ذکر ہوا جن میں برائیاں ہیں اس کے بعد فرمایا جو نمازیں پڑھنے والے ہیں اور اس میں با قاعدگی اختیار کرنے والے ہیں وہ مومن ہیں.ان کا معاملہ بالکل علیحدہ ہے.دنیاوی کاموں کے حرج ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتے.اور پھر اعلیٰ اخلاق کے مالک بھی یہ لوگ ہیں.یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہیں اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں.پس حقیقی نمازیوں کی یہی نشانی ہے کہ ان کے اخلاق بھی اعلیٰ ہوں ، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے بھی ہوں.پس نمازیں بھی خدا تعالیٰ وہ قبول کرتا ہے جو حقیقی نمازیں ہوں.مسلمانوں میں بعض بڑی باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے والے ہیں لیکن ماحول ان سے پناہ مانگتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی بھی نشاندہی فرما دی کہ نماز میں بہت ضروری ہیں لیکن وہ نمازیں پڑھو جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں.صرف دکھاوے کی نمازیں نہ ہوں.ایسی نمازیں نہ ہوں جن پر دنیاوی کام حاوی ہو جائیں بلکہ نمازیں ہر دنیاوی کام پر مقدم ہیں.اور پھر ان میں با قاعدگی بھی ہو اور پھر اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہوں.ان نمازوں کا اثر مومنین کے معاشرے اور اس ماحول میں جو تعلقات ہیں ان میں بھی نظر آئے.اور پھر یہ بھی دل میں خیال نہ ہو کہ لوگ مجھے دیکھ کر کہیں کہ بڑا نمازی ہے.بعض نمازی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر آیا

Page 99

خطبات مسرور جلد ششم 79 خطبه جمعه فرموده 22 فروری 2008 ہے کہ وہ لوگوں کے دکھاوے کے لئے نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں.یا پھر خواہش ہوتی ہے کہ لوگ دیکھ کر کہیں کہ بڑا نمازی ہے.یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر اس زمانے میں اس حقیقی اسلام سے آشنا ہوئے ، اس حقیقی اسلام کو سمجھا جو آنحضرت میں اللہ نے ہمیں دیا.اللہ تعالیٰ نے خالص صورت میں آنحضرت پر و تعلیم اتاری.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاءُ وْنَ ( الماعون :6-5) پس ان نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ہو جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں.وہ لوگ جو دکھاوا کرتے ہیں.تین چیزیں ہیں.نماز پڑھنے والے بھی ہیں.ہلاکت ان نماز پڑھنے والوں پر ہو جو نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور غافل بھی رہتے ہیں اور دکھاوا کرتے ہیں.پس ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں تو پڑھتے ہیں لیکن نمازیں خدا کے لئے نہیں بلکہ معاشرے کے زیر اثر پڑھ رہے ہوتے ہیں.لوگوں کو دکھانے کے لئے پڑھ رہے ہوتے ہیں.ان میں اخلاقی برائیاں بھی ہیں اس کی طرف وہ توجہ نہیں دے رہے ہوتے.نماز پڑھنے والے کی یہ نشانی ہے کہ اس کے اخلاق بھی اچھے ہوں اور وہ اپنی اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کرے.ان آیات میں بعد میں آنے والوں کے لئے ایک انذار بھی ہے.صحابہ تو ایسے نہیں تھے جو ان کی نمازیں ایسی تھیں کہ جن میں غفلت تھی یا جن کے اخلاق ایسے نہیں تھے جو ایک صحیح حقیقی مومن کے ہونے چاہئیں.آنحضرت می کے زمانے میں اگر دیکھیں تو منافقین تھے جو دھوکہ دینے والے تھے.جن کے بارے میں فرمایا کہ وَإِذَا قَامُوْا إِلَى الصَّلوةِ قَامُوا كُسَالَى - ( النساء: 143) یعنی جب وہ نماز کو جانے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں اخلاقی برائیاں بھی ہیں.یا پھر اس آخری زمانے کے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدی یعنی اس زمانے کے لوگوں کی مساجد بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی.پس یہ ہدایت سے خالی مسجدوں میں نمازیں پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جن کی نمازیں ان پر لعنت بن جاتی ہیں.ہم خوش قسمت ہیں کہ آخرین کے اس گروہ میں شامل ہیں جس کی عظیم رسول اور مزگی اعظم نے اپنے زمانے کے ساتھ ملنے کی خبر دی تھی.جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ وہ پہلوں سے ملے ہوئے ہیں.پس اتنے بڑے انعام کے بعد ہماری کتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنی نمازوں میں کبھی سستی نہ آنے دیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کبھی کمی نہ آنے دیں.اپنا پہلو ہر وقت ان باتوں سے بچا کر رکھیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اندار فر مایا ہے.جب ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور احسان

Page 100

خطبات مسرور جلد ششم 80 80 خطبه جمعه فرموده 22 فروری 2008 سے ان لوگوں سے علیحدہ کر دیا جن کی مسجدیں ہدایت سے خالی ہیں تو پھر ہمیں کس قدر شکر گزاری کے جذبات سے خالص ہو کر اس خدا کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے، تا کہ اس کے مزید انعامات کے وارث بنیں.پس ہماری نماز میں با قاعدہ اور خالص خدا تعالیٰ کی خاطر ہوں گی تو ہم اس انداری صورت سے اپنے آپ کو بچانے والے ہوں گے.بہت خوف کا مقام ہے.ہم میں سے کسی ایک میں بھی کبھی ایسی سستی نہ ہو جو اسے دین سے دور لے جائے ، خدا سے دور لے جائے.پس خدا کے قرب کو پانے کے لئے خالص ہو کر اس کے بتائے ہوئے راستے پر ایک خاص فکر سے چلنے کی ضرورت ہے.اپنی نمازوں کی ادائیگی میں ایک خاص فکر کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: و مفہوم لا إله إلا الله کے بعد نماز کی طرف توجہ کرو جس کی پابندی کے واسطے بار بار قرآن شریف میں تاکید کی گئی ہے.لیکن ساتھ ہی اس کے یہ فرمایا گیا ہے کہ وَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون : 5) وَيل ہے ان نمازیوں کے واسطے جو کہ نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.سو سمجھنا چاہئے کہ نماز ایک سوال ہے جو کہ انسان جدائی کے وقت در داور حرقت کے ساتھ اپنے خدا کے حضور کرتا ہے کہ اس کو لقاء اور وصال ہو کیونکہ جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا اور جب تک وہ خود وصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کر سکتا.یعنی جب تک وہ خود کسی بندے سے نہ ملائے یا اپنے ملنے کے راستے نہ کھولے کوئی بندہ خدا تعالیٰ کو نہیں مل سکتا." طرح طرح کے طوق اور قسم قسم کے زنجیر انسان کے گردن میں پڑے ہوتے ہیں اور وہ بہتیرا چاہتا ہے کہ دور ہو جاویں پر وہ دور نہیں ہوتے.باوجود اس خواہش کے کہ وہ پاک ہو جاوے، نفس لوامہ کی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں.گنا ہوں سے پاک کرنا خدا کا کام ہے اس کے سوائے کوئی طاقت نہیں جو زور کے ساتھ تمہیں پاک کر دے.پاک جذبات کے پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ نے نماز رکھی ہے.نماز کیا ہے؟ ایک دعا جو درد، سوزش اور حرقت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہے تا کہ یہ بد خیالات اور برے ارادے دفع ہو جاویں اور پاک محبت اور پاک تعلق حاصل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلنا نصیب ہو.صلوٰۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ سوزش اور جلن اور رقت کا ہونا بھی ضروری ہے“.( بدر جلد 6 نمبر 1,2 مورخہ 10 جنوری 1907 صفحہ (12) اللہ تعالیٰ ایک تڑپ کے ساتھ ہمیں اپنی نمازوں میں خوبصورتی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نماز کے مقابلے میں ہر قسم کے دنیاوی لالچ اور شغل سے ہم بچنے والے ہوں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا نہ ہی ہم اپنی کوشش سے دنیاوی لالچوں اور شغلوں سے بچ سکتے ہیں، نہ ہی ہم اپنی کوشش سے اپنے آپ کو پاک کر سکتے ہیں ، نہ ہی ہم کسی طرح خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں مگر صرف ایک ذریعہ ہے جو نماز کا ذریعہ

Page 101

خطبات مسرور جلد ششم 81 خطبه جمعه فرموده 22 فروری 2008 ہے.پس اگر ان لوگوں میں شمار ہونا ہے جو خدا کا قرب پانے والے لوگ ہیں تو پھر نمازوں میں باقاعدگی اور بغیر ریاء کے، بغیر دکھاوے کے ان کی ادائیگی کی ضرورت ہے اور یہی چیز ہمیں دوسروں سے ممتاز کرنے والی ہوگی اور یہی چیز ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوگی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خشِعُونَ (المومنون 3-2 ) یقیناً مومن کامیاب ہو گئے.وہ لوگ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں.اللہ تعالی نے فلاح پانے والے مومنوں کی بہت سی خصوصیات ان آیات کے بعد بیان فرمائی ہیں.لیکن سب سے پہلی بات یہی ہے کہ نمازیں پڑھتے ہیں اور خالص اللہ تعالیٰ کے ہو کر عاجزی دکھاتے ہوئے نمازیں پڑھتے ہیں.پس کامیابی کی پہلی سیڑھی ، دنیا و آخرت کے افضال سے فیضیاب ہونے کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اپنی نمازیں خالص اللہ کے لئے پڑھیں.اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے یہ نمازیں اللہ تعالیٰ کا خوف ، اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور پھر اس کی محبت میں بڑھنے، اس کے انعامات اور اس کی رضا کے حصول کے لئے پڑھی جائیں.اور یہی ایک انسان کی زندگی کا مقصود ہے اور جس کو بہل جائے اسے اور کیا چاہئے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اول مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز وگداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الہی میں مومن کو میسر آتی ہے.یعنی گدازش اور قمت اور فروتنی اور بعجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کر کے خدائے عزوجل کی طرف دل کو جھکانا جیسا کہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِيْنَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ حَشِعُونَ (المومنون : 3-2) یعنی وہ مومن مراد پا گئے جو اپنی نماز میں اور ہر ایک طور کی یا دالہی میں فروتنی اور عجز و نیاز اختیار کرتے ہیں اور رفت اور سوز و گداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں.یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے روحانی وجود کی طیاری کے لئے پہلا مرتبہ ہے یا یوں کہو کہ وہ پہلا تم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 351) یعنی روحانی وجود کی تیاری کے لئے پہلا مرتبہ یہ ہے یا وہ ایسا بیج ہے جو ایک بندے کے صحیح عابد بننے کے لئے اس زمین میں بویا جاتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہر گز نہ ہوگی.نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں.نماز وہ شے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پکھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت

Page 102

خطبات مسرور جلد ششم 82 خطبہ جمعہ فرموده 22 فروری 2008 پر گر پڑے.جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے.اور تضرع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں.اس قسم کی نماز با برکت ہوتی ہے.اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یادن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس امارہ کی شوخی کم ہوگئی ہے.جیسے اثر رہا میں ایک سیم قاتل ہے اسی طرح نفس امارہ میں بھی سم قاتل ہوتا ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اسی کے پاس اس کا علاج ہے.البدر جلد 3 نمبر 34 مورخہ 8 ستمبر 1904 ، صفحہ 3) پس عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور گرنا اور اس میں استقامت دکھانا، ثابت قدم رہنا، یہ نہیں کہ کبھی نمازیں پڑھ لیں اور کبھی نہیں ، اگر یہ دونوں چیزیں قائم رہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پھر برائیوں پر ابھارنے والے جذبات ایک دن ختم ہو جائیں گے کیونکہ برائیوں کو مارنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ضروری ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا.لَا نَسْتَلْكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ.وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوی (طہ: 133) اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتارہ اور اس پر ہمیشہ قائم رہ.ہم تجھے سے کسی قسم کا رزق طلب نہیں کرتے ، ہم ہی تو تجھے رزق عطا کرتے ہیں اور نیک انجام تقویٰ ہی کا ہوتا ہے.پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کا اعلان ، حکم ، ہدایت کہ تم خود بھی نمازوں کی طرف توجہ کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی توجہ دلاؤ.کیونکہ یہ تمہارے ہی فائدہ کے لئے ہے.اس دنیا میں بھی اس کے پھل ہیں اور آخرت میں بھی متقی ہی ہے جو فلاح پانے والا ہوگا.اس دنیا میں بھی متقی ہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ ایسے ایسے ذرائع سے رزق دیتا ہے جہاں تک اس کا خیال بھی نہیں جاتا.پس اللہ تعالیٰ یہ نمازیں فرض کر کے تم پر کوئی ٹیکس نہیں لگارہا بلکہ اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والے انسان کو انعامات سے نواز رہا ہے.انعامات کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے.انسان دنیا میں بھی انعامات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر روحانی انعامات حاصل کرنے کے لئے کیوں نہیں.جب ایسا پیار کرنے والا خدا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اس کی عبادت نہ کرے، اس کا شکر گزار نہ ہو.آنحضرت ﷺ کو کسی نے کہا کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے انعامات دینے کا اعلان کر دیا ہے پھر آپ اتنی لمبی لمبی نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ پس یہ اسوہ ہے جس پر چل کر ہم اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے حقیقی شکر گزار ہو سکتے ہیں.ہماری نمازوں کی کیفیت کیا ہونی چاہئے؟ نماز کی حرکات، اس کی مختلف حالتیں جو ہیں ان کی حکمت کیا ہے اور کس طرح ان حکمتوں کو سمجھتے ہوئے ان کو ادا کرنا چاہئے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

Page 103

خطبات مسرور جلد ششم 83 83 خطبہ جمعہ فرمود ه 22 فروری 2008 صلی جلنے کو کہتے ہیں.جیسے کباب کو بھونا جاتا ہے اسی طرح نماز میں سوزش لازمی ہے.جب تک دل بریان نہ ہو نماز میں لذت اور سرور پیدا نہیں ہوتا اور اصل تو یہ ہے کہ نماز ہی اپنے بچے معنوں میں اس وقت ہوتی ہے.جب ایسی حالت پیدا ہو جائے.”نماز میں یہ شرط ہے کہ وہ جمیع شرائط ادا ہو.جب تک وہ ادا نہ ہو وہ نماز نہیں ہے اور نہ وہ کیفیت جو صلوۃ میں میل نما کی ہے حاصل ہوتی ہے.یادرکھو صلوٰۃ میں حال اور قال دونوں کا جمع ہونا ضروری ہے.یعنی پہلے تو یہ کہا کہ وہ کیفیت جو صحیح راستے دکھانے والی ہے، جہاں سے بنیاد شروع ہونی چاہئے وہ نہیں مل سکتی جب تک ساری شرائط پوری نہ ہوں.پھر فرمایا کہ 'یا درکھو صلوٰۃ میں حال اور قال یعنی تمہاری اپنی حالت اور جو تم کہ رہے ہو دونوں کا جمع ہونا ضروری ہے.بعض وقت اعلام تصویری ہوتا ہے.ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جس سے دیکھنے والے کو پتہ ملتا ہے کہ اس کا منشاء یہ ہے.ایسا ہی صلوۃ میں منشاء الہی کی تصویر ہے.یہ شکل جو اس کی بنتی ہے، تصویر دکھائی جاتی ہے اس سے صحیح صورت حال پتنگتی ہے اور حالتوں کا اندازہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی جو مرضی ہے اس کی تصویر نماز میں ہے.” نماز میں جیسے زبان سے کچھ پڑھا جاتا ہے ویسے ہی اعضاء اور جوارح کی حرکات سے کچھ دکھایا بھی جاتا ہے.زبان سے جب نماز پڑھتے ہیں اسی طرح جو جسم کے اعضاء ہیں ، حرکات ہیں، وہ ان سے دکھایا جاتا ہے.’ جب انسان کھڑا ہوتا ہے تو تحمید اور تسبیح کرتا ہے اس کا نام قیام رکھا ہے.اب ہر ایک شخص جانتا ہے کہ حمد و ثناء کے مناسب حال قیام ہی ہے.بادشاہوں کے سامنے جب قصائد سنائے جاتے ہیں تو آخر کھڑے ہو کر ہی پیش کرتے ہیں.ادھر تو ظاہری طور پر قیام رکھا ہی ہے اور زبان سے حمد و ثناء بھی رکھی ہے.مطلب اس کا یہی ہے کہ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو.حمد ایک بات پر قائم ہو کر کی جاتی ہے.جو شخص مصدق ہو کر کسی کی تعریف کرتا ہے تو ایک رائے پر قائم ہو جاتا ہے.جب تعریف کی جاتی ہے تو کسی رائے پر قائم ہو کر کی جاتی ہے.فرمایا کہ جب کسی کی تصدیق کر رہے ہو، تصدیق کرتے ہوئے تعریف کر رہے ہو تو وہ کسی رائے پر قائم ہونے کے بعد ہوتی ہے.اس الحمد للہ کہنے والے کے واسطے یہ ضروری ہوا کہ وہ سچے طور پر احمداللہ اسی وقت کہہ سکتا ہے کہ پورے طور پر اس کو یقین ہو جائے کہ جمیع اقسام محامد کے اللہ تعالیٰ کے ہی لئے ہیں.تمام قسم کی جو تعریفیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.تبھی الحمد للہ صیح طرح کہہ سکتا ہے.جب یہ بات دل میں انشراح کے ساتھ پیدا ہوگئی تو یہ روحانی قیام ہے کیونکہ دل اس پر قائم ہو جاتا ہے اور وہ سمجھا جاتا ہے کہ کھڑا ہے.حال کے موافق کھڑا ہو گیا تا کہ روحانی قیام نصیب ہو“.دل بھی اس حالت کے مطابق کھڑا ہو گیا اور یہ روحانی قیام ہے، روحانیت کا کھڑا ہونا ہے.پھر رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیم کہتا ہے تو قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی کی عظمت مان لیتے ہیں تو اس کے حضور جھکتے ہیں.عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کے لئے رکوع کرے.پس سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیم زبان سے کہا اور حال سے جھکنا دکھایا.اللہ تعالیٰ کی زبان سے عظمت بیان کی ، اور اپنی ظاہری حالت میں جھک کر اس کا اظہار کیا.یہ اس قول کے

Page 104

84 خطبہ جمعہ فرمود ه 22 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم ساتھ حال دکھایا.پھر تیسرا قول ہے کہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى أَعْلَى اَفْعَلُ التَّفْضِیل ہے، یہ بالذات سجدہ کو چاہتا ہے.اعلیٰ جو ہے وہ سب سے بڑی چیز ہے اور یہ اپنی ذات میں سجدے کو چاہتا ہے.جو اعلیٰ چیز ہو اس کے سامنے سجدہ کیا جاتا ہے.اس لئے اس کے ساتھ حالی تصویر سجدہ میں گرے گا.یعنی اس وقت اپنا حال یہ ہو گا کہ زبان سے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلی کہا ہے تو سجدہ میں بھی ساتھ ہی گر جائے کہ اللہ تعالیٰ سب سے اعلیٰ ہے اور میں اس اعلیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہوں.اور اس اقرار کے مناسب حال ہیئت في الفور اختیار کر لی یعنی سُبْحَانَ رَبِّي الاعلی کا جو اقرار کیا وہی حالت اپنی اختیار کر لی.اس قال کے ساتھ تین حال جسمانی ہیں.یعنی یہ جو باتیں کی گئیں، زبان سے الفاظ ادا کئے گئے ان کے ساتھ تین جسمانی حالتیں بھی ہیں.ایک تصویر اس کے آگے پیش کی ہے.ہر ایک قسم کا قیام بھی کرتا ہے.زبان جو جسم کا ٹکڑا ہے ، اس نے بھی کہا اور وہ شامل ہوگئی.تیسری چیز اور ہے“.فرماتے ہیں، یہ دو چیزیں تو ہو گئیں.زبان بھی شامل ہوگئی.دعا کی اور اپنی ظاہری حالت جسم کی بھی وہ بنائی.کھڑے ہوئے تعریف کی عظمت بیان کی ، رکوع کیا، اللہ تعالیٰ کا اعلیٰ ہونا، افضل ترین ہونا بیان کیا تو سجدہ کیا لیکن تیسری چیز ایک اور ہے اور وہ ہے، فرمایا کہ ”تیسری چیز اور ہے وہ اگر شامل نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی.وہ کیا ہے؟ فرمایا : ” وہ قلب ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ قلب کا قیام ہو اور اللہ تعالیٰ اس پر نظر کر کے دیکھے کہ درحقیقت وہ حمد بھی کرتا ہے اور کھڑا بھی ہے“.تیسری چیز جو ہے وہ دل ہے.یہ ساری حرکتیں جب ہو رہی ہوں، زبان بھی اقرار کر رہی ہو، جسم بھی اظہار کر رہا ہو ، تو دل میں بھی وہی کیفیت ہو اور یہ جو کیفیت ہے وہ اللہ تعالیٰ کو نظر آ رہی ہو.وہ دیکھے کہ در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کر رہا ہے.اور کھڑا ہے اسی طرح تعریف کرنے کے انداز میں.اور روح بھی کھڑا ہوا حمد کرتا ہے.دل بھی کھڑا ہے، روح بھی کھڑا حمد کرتا ہے.جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی کھڑا ہے اور جب سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ کہتا ہے تو دیکھے کہ اتنا ہی نہیں کہ صرف عظمت کا اقرار ہی کیا ہے.نہیں، بلکہ ساتھ ہی جھکا بھی ہے.ظاہری حالت ہوگئی.اور اس کے ساتھ ہی روح بھی جھک گیا ہے.روح میں بھی محسوس ہو کہ میں جھک گیا ہوں.پھر تیسری نظر میں خدا کے حضور سجدے میں گرا ہے اس کی علومشان کو ملاحظہ میں لا کر اس کے ساتھ ہی دیکھے کہ روح بھی الوہیت کے آستانہ پر گرا ہوا ہے.زبان بھی الفاظ ادا کر رہی ہے، جسم بھی اس طرح جھکا ہوا ہے اور دل کی بھی وہی کیفیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے بالکل سجدہ ریز ہو گیا ہے.غرض یہ حالت جب تک پیدا نہ ہوئے اس وقت تک مطمئن نہ ہو کیونکہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے یہی معنی ہیں.یہ ہر مومن کا کام ہے کہ یہ تین حالتیں اپنے اندر پیدا کرے.زبان جب بول رہی ہے تو جسم سے اس کا اظہار ہو اور دل میں اس کو احساس ہوا اور ایسا احساس کہ جس کو خدا تعالیٰ پہچان سکے.تو فرمایا اگر یہ حالت نہیں ہے تو اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا اور يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے یہی معنی ہیں.اگر یہ سوال ہو کہ یہ حالت پیدا کیونکر ہو؟“ اب یہ سوال ہوگا کہ یہ حالت کس طرح پیدا ہو تو اس کا جواب اتنا

Page 105

85 خطبه جمعه فرمود ه 22 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم ہی ہے کہ نماز پر مداومت کی جائے اور وساوس اور شبہات سے پریشان نہ ہو.یعنی یہ حالت کس طرح اختیار کی جائے کہ نماز میں با قاعدگی ہو.پانچ نمازیں ہیں.پوری طرح نمازیں ادا کرنے کا جو حق ہے اس طرح ادا کی جائیں کسی قسم کے وسوسے اور شبہات جو دل میں پیدا ہوتے ہیں ان سے پریشان نہ ہو.ابتدائی حالت میں شکوک و شبہات سے ایک جنگ ضرور ہوتی ہے اس کا علاج یہی ہے کہ نہ تھکنے والے استقلال اور صبر کے ساتھ لگا رہے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتار ہے، آخر وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے“.الحکم جلد نمبر 14-17 اپریل 1901 ، صفحہ 1) شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں.وسو سے پیدا ہوتے ہیں.دل کی کیفیت وہ پیدا نہیں ہوتی.ظاہری حالت اور زبان تو چل رہی ہوتی ہے لیکن دل میں وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی.فرمایا لیکن صبر سے ہمستقل مزاجی سے دعاؤں میں لگا رہے، اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ر ہے، اس سے نماز میں لذت و سرور حاصل کرنے کے لئے مانگتا ر ہے تو آخر کار ایک وقت آئے گا جب ایسی حالت پیدا ہو جائے گی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے، استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے.لوگ پوچھتے ہیں کہ کوئی وظیفہ فرمایا سب سے بڑا اوظیفہ نماز ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد بھی بیان ہوتی ہے، انسان استغفار بھی کرتا ہے، درود شریف بھی پڑھتا ہے اور یہی چیزیں ایسی ہیں جو دعاؤں کی قبولیت کا نشان دکھانے والی ہیں، وجہ بننے والی ہیں.فرمایا: ” اور اس سے ہر قسم کے غم وہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اسی لئے فرمایا لا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: آیت (29) اطمینان، سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں“.الحکم جلد نمبر 7.مورخہ 31 مئی 1903 صفحہ 9) پس یہ ہیں وہ معیار جو ہم نے حاصل کرنے ہیں کہ نہ صرف نمازوں میں باقاعدگی ہو بلکہ ہمارے جسم کا ہر ذرہ اور ہماری روح بھی اس کے آگے جھک جائے.ہمارے سینے سے اہل ابل کر وہ دعائیں نکلیں جو ہمیں خدا کا مقرب بنادیں.ہم اپنی ذات میں وہ انقلاب بر پا ہوتا دیکھیں جس میں صرف اور صرف خدائے واحد کی رضا نظر آتی ہو.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک یہ نظارے دیکھنے والا ہو.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 11 مورخہ 14 مارچ تا 20 مارچ 2008ءصفحہ 5 تا صفحه 8)

Page 106

خطبات مسرور جلد ششم 98 86 9 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 فرمودہ مورخہ 29 فروری 2008ء بمطابق 29 تبلیغ 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے دوبارہ کھل کر اسلام پر حملے کئے جا رہے ہیں، آنحضرت کی ذات مبارک پر حملے کئے جارہے ہیں.قرآن کریم پر، اس کی تعلیم پر حملے کئے جارہے ہیں.کوشش یہ ہے کہ اسلام کو بدنام کیا جائے.وجہ کیا ہے؟ کیوں بدنام کیا جائے؟ اس لئے کہ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو زمانے کی ضروریات پوری کرنے والا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کو دیکھ کر لوگوں کا رخ اسلام کی طرف ہورہا ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض جگہ بعض مسلمانوں کے عمل دیکھ کر لوگوں میں نفرت کے جذبات بھی ابھرتے ہیں لیکن یہ جو اسلام مخالف مہم شروع ہوئی ہے یا کوششیں ہو رہی ہیں، یہ کوششیں مذہب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اسلام کی تعلیم دیکھنے اور سمجھنے کی طرف بھی مائل کر رہی ہیں، اس تعلیم کو جو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اتاری ہے.یہ تعلیم حقیقت پسندانہ اور فطرت کے مطابق ہے.ایسے لوگوں نے جو مذہب میں دلچپسی رکھتے ہیں جو خالی الذہن ہوتے ہیں، انہوں نے قرآن کریم کو پڑھ کر اس پر غور بھی کیا ہے.گو کہ صرف ترجمہ سے اس کی گہرائی کا علم نہیں ہوتا.ان پیغاموں کا پتہ نہیں چلتا جو قرآن کریم میں ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کی کوشش ہوتی ہے.بعض جو سعید فطرت ہیں ان کو سمجھ بھی آجاتی ہے.گزشتہ دنوں اخبار میں ایک کالم تھا یہاں کی ایک خاتون ہیں رڈ لی.اگر کوئی نام میں غلطی ہوتو کیونکہ یہ اردو میں چھپا ہوا تھا اس لئے غلطی کا امکان ہے.بہر حال وہ خاتون پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور اسی پیشے کی وجہ سے وہ افغانستان گئیں.وہاں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی.بہر حال برقعہ پہن کر بھیس بدل کر وہاں گئیں.کچھ عرصہ کام کیا، پکڑی گئیں، آخر اس وعدے پر رہا ہوئیں کہ قرآن کریم پڑھیں گی.یہاں واپس آ گئیں ، بھول گئیں لیکن پھر جو اسلام کے خلاف یہاں مہم شروع ہوئی، اس نے ان کو یاد کرایا کہ میں نے طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ قرآن کریم پڑھوں گی.خیر اس خاتون نے قرآن کریم خریدا اور اس کو پڑھا اور اسے اس بات سے سخت دھچکا لگا کہ عورتوں سے سلوک کے بارے میں قرآن کریم کی جو تعلیم ہے اس میں، اور جو طالبان یا وہ لوگ جو اپنے آپ کو بہت اسلام پسند ظاہر کرتے ہیں ان کا عورتوں کے بارے میں جو سلوک ہے، اس میں بڑا فرق ہے.بہر حال قرآن کریم کو پڑھ کر

Page 107

خطبات مسرور جلد ششم 87 52 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 اس تعلیم کو پڑھ کر یہ مسلمان ہوگئیں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے جب ان کو بڑا اچھالا گیا تو ایک مسلمان ملک شاید قطر کے ایک میڈیا کے مالک نے ان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا.یہ یورپ کی پلی بڑھی تھیں، دنیاوی تعلیم بھی تھی تو انہوں نے جرنلزم میں، اپنی صحافت کے پیشے میں وہاں یہ پالیسی رکھی کہ حق کو حق کہنا ہے اور سچائی کو ظاہر کرنا ہے.کوئی بڑے سے بڑا بھی ہو تو اس کے خلاف حق بولنے سے نہیں رکنا.اس بات سے مالکان اور ان کے درمیان اختلاف ہو گیا اور ان کو فارغ کیا گیا.لیکن انہوں نے وہیں ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ کیا اور اپنے حق کے لئے لڑیں کہ عورت کے یہ یہ حقوق ہیں اور انصاف کا یہ یہ تقاضا ہے.آخر وہ مقدمہ جیت گئیں.پھر ایک اور جگہ ملازم ہوئیں.وہاں سے بھی اسی بات پر نکالا گیا.وہاں بھی کیس لڑا.مقدمہ جیت گئیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمان عورت کے جو حقوق ہیں اور ایک مسلمان کے جو حقوق ہیں، مسلمان حکومت کو اس کو ادا کرنا چاہئے.بہر حال یہ کیس وہ جیتی رہیں اور اس بات پر ان کا ایمان جو بھی تھا، مزید مضبوط ہوتا رہا.کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو پڑھ کر اس خاتون کا قرآن کریم پر ایمان بڑھا، با وجود اس کے کہ جو بہت سارے تجربات ان کے سامنے آئے وہ اس کے بالکل خلاف تھے.لیکن انہوں نے قرآن کریم کی تعلیم کو برا نہیں کہا.ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا جو اس تعلیم کے خلاف جا رہے تھے.اس طرح کی مثالیں جب اسلام مخالف طبقے کے سامنے آتی ہیں تو ان کو فکر ہوتی ہے.اپنے مذہب سے انہیں لگاؤ ہو یا نہ ہو لیکن اسلام سے دشمنی انہیں ہر گھٹیا سے گھٹیا حرکت کرنے پر مجبور کرتی ہے.یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.انبیاء کی جماعتوں سے اسی طرح ہوتا ہے اور اسلام کیونکہ عالمی مذہب ہے اس لئے سب سے بڑھ کر اس کے ساتھ ہوتا ہے.مکہ میں جب آنحضرت ﷺ کے ساتھ چند لوگ تھے تو کفار مذاق اڑایا کرتے تھے.پھر جب قرآن کریم کی تعلیم نے ان میں سے سعید روحوں کے دلوں پر قبضہ کرنا شروع کیا تو پھر انہیں فکر پڑنی شروع ہوئی، پھر مخالفت شروع ہوئی.وہی عمر جو آنحضرت ﷺ کے قتل کے در پہ تھے وہی عمر قرآن کریم کی ایک آیت سن کر ہی اس قدر گھائل ہوئے کہ اپنا سر آنحضرت ﷺ کے پاؤں میں رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ مقام عطا فرمایا کہ خلفاء راشدین میں سے دوسرے خلیفہ ہوئے.پس یہ چیزیں دیکھ کر کفار کی مخالفت بجا تھی.ان کو بھی نظر آ رہا تھا کہ یہ تھوڑے عرصہ میں ہمارے شہر پر قابض ہو جائیں گے.مکہ کی وجہ سے ان کی جو انفرادیت تھی وہ ختم ہو جائے گی.یہ تو ہماری نسلوں کو بھی اپنے اندر جذب کرلیں گے.پھر اسلام کا پیغام مزید پھیلا.اس خوف کی وجہ سے مخالفت بھی شروع ہوئی.ہجرت کرنی پڑی.اسلام کا پیغام مزید دنیا میں پھیلتا چلا گیا.آنحضرت ﷺ مدینہ گئے وہاں پیغام پھیلا تو یہودیوں نے اس بات کو محسوس کیا اور سمجھا کہ ہماری تو نسلیں بھی اب ان کی لپیٹ میں آتی چلی جائیں گی.پھر مزید وسعت ہوئی تو قیصر وکسرٹی کی حکومتیں بھی پریشان ہونے لگیں.وہ بھی سب اسلام کے خلاف صف آراء ہو گئیں.اور آج تمام دنیا کے

Page 108

خطبات مسرور جلد ششم 88 88 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 مذاہب کے سر کردہ اس خوف سے کہ کہیں اسلام غلبہ حاصل نہ کر لے اسلام کے خلاف ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں کہ خود ان کے اندر رہنے والے اپنے شریف الطبع لوگوں نے ایسے ہتھکنڈوں کے خلاف آواز میں اٹھانی شروع کر دی ہیں.ہم یورپ میں اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو یورپ میں بسنے والے ہر شخص کی آواز سمجھ لیتے ہیں جبکہ یہ صورتحال نہیں ہے.ہر یورپین اسلام کے خلاف نہیں ہے.لیکن ہمارا رد عمل بہت سخت ہوتا ہے.ان میں بھی ایسی تعداد ہے اور خاصی تعداد ہے جو ایسی حرکتوں کو پسند نہیں کرتی.مثلاً گزشتہ دنوں جو آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک پر حملے کئے گئے تھے اس کے خلاف ڈنمارک میں ہی وہاں کے مقامی غیر مسلموں نے آواز اٹھائی کہ یہ سب غیر اخلاقی اور انتہائی گری ہوئی حرکتیں ہیں جو کی جارہی ہیں.انہوں نے اسی سوال کو اٹھایا جو میں گزشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ جب قاتل پکڑے گئے تو پھر کارٹونوں کی اشاعت کا کیا مطلب تھا؟ اور پھر یہ کہ بغیر مقدمہ چلائے دو کو ملک بدر کرنے ، ملک سے نکالنے کا حکم دے دیا اور ایک کو بری کر دیا.یہ کون سا انصاف ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اندر کوئی بات تھی ہی نہیں.بہر حال ان میں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں مثلاٹی وی چینلز نے ہمارے مشنریز کے انٹرویوز لئے اور اس پہ اپنا اظہار بھی کیا.مثلاً ایک ڈینش خاتون جوٹی وی کے انٹرویو کے وقت مشن ہاؤس میں موجود تھیں ، انہوں نے ٹی وی جرنلسٹ کے سامنے کھل کر کارٹونوں کی اشاعت پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ کارٹونوں کی اشاعت سے پہلے وہ بیرون ملک وزٹ کے دوران بڑے فخر اور خوشی سے بتایا کرتی تھیں کہ وہ ڈینش ہیں مگر اب وہ اپنے آپ کو ڈینش بتاتے ہوئے شرمندگی محسوس کریں گی.میں نے یہ رپورٹ وہاں سے منگوائی تھی.انہوں نے لکھا ہے کہ کارٹونوں کی دوبارہ اشاعت کے نتیجے میں بالعموم ڈینش عوام میں ایک مثبت سوچ بیدار ہورہی ہے اور اس بات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ کارٹونوں کی اشاعت محض پر ووکیشن (Provocation) ہے.اخبارات اور انٹرنیٹ میں اگر چہ مثبت اور منفی ملے جلے جذبات کا اظہار ہے تا ہم انٹرنیٹ پر ایک مشہور گروپ ہے جس کا نام فیس بک (Face Book) ہے.انہوں نے Sorry Muhammad کے نام سے آنحضرت سے معذرت کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں اب تک چھ ہزار سے زائد افراد شامل ہو چکے ہیں اور بڑی تعداد ہے جنہوں نے اپنی معذرت کا اظہار کیا ہے.گو اس کے مقابلے پہ دوسرے گروپ بھی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے.ایک صاحب نے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ ڈنمارک کہاں ہے؟ ایک طرف تو ہم عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کی مدد کے نام پر فوج بھیج رہے ہیں اور دوسری طرف یہاں کارٹون شائع کر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کر رہے ہیں.

Page 109

خطبات مسرور جلد ششم 89 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 پھر ایک نے طنزیہ انداز میں لکھا ہے کہ Moral اچھی بات ہے لیکن ڈبل Moral یقینا اور بھی اچھا ہونا چاہئے.پھر لکھتے ہیں کہ : میں ان دنوں اپنے ڈینش ہونے پر شرمندہ ہوں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اکثریت جو اس گروپ میں ہے وہ میری طرح جذبات رکھتے ہیں.پھر ایک نے لکھا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ ڈینیش جرنلسٹ آزادی رائے کے صحیح مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ سے کاغذ قلم اور دوات کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے.ایک نے لکھا کہ یہ جو کچھ بھی ہے یہ آزادی اظہار کا غلط استعمال ہے.سب سے زیادہ شائع ہونے والے ایک اخبار ایویسن ڈی کے Avisen DK) نے اپنی اشاعت 25 فروری میں ایک صاحب کا یہ تبصرہ لکھا ہے کہ مجھے محمد کے کارٹون کے مسئلہ پر اظہار کی اجازت دیجئے.میرے خیال میں یہ ایک وحشیانہ اور خبیثانہ حرکت ہے کہ اپنے کسی ہمسائے کے کارٹون بنا کر اپنے گھر کے سامنے لٹکائے جائیں جہاں وہ اسے دیکھ بھی سکتا ہو اور پھر منافقانہ طور پر یہ دعویٰ بھی کیا جائے کہ میں اپنے ہمسائے سے اچھا ہوں کیونکہ میں اس سے اپنے ہمسایہ کے طور پر محبت کرتا ہوں.پھر ایک تبصرہ ہے کہ اپنے ہمسائے کو دکھ دینے کی بات ہمیشہ بری ہے.اگر اسلام کے بارے میں کوئی تنقیدی بات کی جائے تو یہ تو بجا ہے مگر اس طرح خاکوں کی اشاعت تو محض کسی کو دکھ دینا ہے.پھر Kristelig Dagblad ایک مذہبی اخبار میں ایک ڈینش کا تبصرہ شائع ہوا ہے کہ آزادی ضمیر کو خطرہ مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ پریس منسٹرز اور سیاستدانوں کی طرف سے ہے کیونکہ وہ اس کے ردعمل کے طور پر مسلمانوں کو آزادی رائے کا حق دینے کو تیار نہیں.پھر ایک صاحب جو عیسائی کمیونٹی کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر ہیں، انہوں نے بائبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کارٹون کی اشاعت عیسائیت کی تعلیم کے بھی سراسر منافی ہے.نیز لکھا کہ ایسی حرکات کو محض حماقت کے نام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے.پھر کہتے ہیں کہ ڈینش محاورہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کوئی عہدہ دیتا ہے تو اس کو عقل بھی دیتا ہے.یہ لکھنے کے بعد کہتے ہیں: اس قسم کی حرکات کو دیکھ کر اہل حل و عقد میں عقل کی کمی نظر آتی ہے.اس طرح کے بے شمار تبصرے ہیں جو انہوں نے کئے.یہ جو اسلام کے خلاف مہم ہے اس میں جیسا کہ ان تراشوں سے پتہ چلتا ہے بہت سے شرفاء شامل نہیں.یہ ایک بہت بڑی مہم ہے اس میں صرف ایک آدھ کارٹونسٹ یا چند مبر پارلیمنٹ یا سیاسی لیڈر بنے کا شوق رکھنے والوں کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک گہری سازش ہے اور اس کے پیچھے بڑی طاقتیں ہیں جو اسلام کی تعلیم سے خوفزدہ ہیں.جو اپنے عوام کو یہ سمجھنے ہی نہیں دینا چاہتیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے.جو مذہب کے نام پر اصل میں اپنی برتری قائم کرنا چاہتی ہیں.جو اسلام سے پندرہ سوسال پرانی دشمنی کا

Page 110

90 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم اظہار بڑے منصوبے سے کر رہی ہیں.جو عاجز بندے کو خدا کے مقابلے پر کھڑا کر کے شرک کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں.اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں.اور اسی وجہ سے پھر دباؤ ڈالا گیا.ہمارا جو عربی چینل بند کیا گیا تھا، اس کے پیچھے عیسائیوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا جنہوں نے بڑی حکومتوں کے ذریعہ سے دباؤ ڈلوایا تھا.تو ایسے جو لوگ ہیں وہ بھلا اسلام کی شرک سے پاک تعلیم اور عین فطرت انسانی کے مطابق تعلیم کو کس طرح پنپنے دے سکتے ہیں.جبکہ یہ لوگ چاہے وہ مذہب کی آڑ میں کریں یا سیاست کی آڑ میں کریں، آجکل دنیا کا الہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں.دنیا کا معبود بننے کی کوشش کر رہے ہیں.دنیا کا مالک بننے کی کوشش کر رہے ہیں.دنیا کا رب بننے کی کوشش کر رہے ہیں.پس یہ بڑے دماغ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں.جنہیں خطرہ ہے کہ اسلام اگر پھیل گیا تو دوسرے مذاہب کی حیثیت معمولی رہ جائے گی.لیکن یہ ان کی سوچیں ہیں، جو چاہیں کر لیں.اسلام کا مقدر تو اب پھیلنا ہے اور انشاء اللہ اس نے پھیلنا ہے لیکن نہ کسی قسم کی دہشت گردی سے، نہ کسی قسم کی عسکریت سے بلکہ صیح و مہدی کے ذریعہ سے، اس پیغام کے ذریعہ سے جو قرآن کریم میں پیار و محبت پھیلانے کیلئے دیا گیا ہے اور دین فطرت کے اظہار کے ذریعہ سے.پس چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں.یہ اخبار جتنی چاہے کوششیں کرلیں یا ان کے ممبر پارلیمنٹ جتنی چاہے کوششیں کرلیں یا حکومتیں جتنی چاہے کوششیں کر لیں یا دوسرے مذاہب کے جو ہنما ہیں وہ بھی جتنی چاہے کوششیں کرلیں، اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر دیا ہے وہ اب رک نہیں سکتا.گزشتہ دنوں ہالینڈ کے مبر پارلیمنٹ جو اپنی پارٹی بنارہے ہیں، ان کو ان کی پارٹی سے صرف اس وجہ سے نکال دیا گیا کہ ان میں مسلمانوں کے خلاف بڑی شدت پسندی تھی.اور اسلام کے خلاف یہ بڑے گرمجوش ہیں.انہوں نے پھر ایک بیان دیا جو آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک کے بارے میں تھا.بڑا تو ہین آمیز بیان تھا.دوہرانے کی ضرورت نہیں.قرآن کریم کے بارے میں نہایت نا مناسب اور توہین آمیز بیان دیا.اور یہ اسلام دشمنی میں اس حد تک بڑھے ہوئے ہیں کہ جو ڈنمارک کے کارٹون چھپے ان کو اپنی ویب سائٹ پر لگایا اور پھر اس کی بڑی تعریف کی.بہر حال اللہ تعالیٰ خود ان سے بیٹے گا.قرآن کریم کے بارے میں جو بیان ہے اس میں لکھتے ہیں کہ ( رپورٹ جو منگوائی تھی یہ اس کا ترجمہ ہے ) قرآن مجید دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے.اس لئے اس پر پابندی لگانی چاہئے اور نعوذ باللہ آ دھا قرآن پھاڑ کر پھینک دینا چاہئے.اس وقت یہ شخص قرآن کے خلاف فلم بھی بنا رہا ہے.پہلے ان کا ریلیز کرنے کا ارادہ تھا فی الحال نہیں کر سکے.بہت ساری مسلمان تنظیمیں حکومت کو لکھ بھی رہی ہیں اور جماعت بھی لکھ رہی ہے.فلم کا نام انہوں نے فتنہ رکھا ہے.کسی نے ان سے پوچھا کہ تم اس میں دکھاؤ گے کیا ؟ تو کہتے ہیں کہ قرآن کا یہ حکم دکھاؤں گا کہ جب کافروں سے میدان جنگ میں ملوتو گردنیں کاٹو.اب جو حملہ آور ہوگا تو بہر حال دفاع کے لئے جنگ تو ہوگی.اور پھر یہ کہتے ہیں کہ دکھاؤں گا کہ عراق اور افغانستان میں اغوا کے بعد سر قلم کئے جاتے ہیں.

Page 111

خطبات مسرور جلد ششم 91 خطبہ جمعہ فرموده 29 فروری 2008 بہر حال اس کے پیچھے بھی ایک بہت بڑا ہاتھ لگتا ہے.یہ ایک بڑی تنظیم کی سازش ہے لیکن وہاں بھی رد عمل ہو رہا ہے اور حکومت نے تمام مسلمانوں کے اماموں کے ساتھ، میئرز کے ذریعہ سے میٹنگیں بھی کی ہیں.جماعت نے بھی خط لکھے تھے اور ملکہ کو یہاں سے خط لکھا تھا، کا بینہ کے ممبران کو بھی خط لکھے تھے اور بڑا واضح طور پر لکھا تھا کہ جو ایسی منفی اور بے بنیاد حرکتیں ہیں اس سے ہمارا پر امن معاشرہ متاثر ہو گا.نیز خطوں کے ساتھ میرا پچیس کا نفرنس ( Peace Conference) کا ایک ایڈریس بھی دیا ہے.بہر حال ممبر پارلیمنٹ اور کافی لوگوں نے اس پر مثبت رد عمل ظاہر کیا ہے.سپیکر نے لکھا ہے کہ میں نے آپ کا خط تمام ممبران پارلیمنٹ کو تقسیم کر وا دیا ہے اور ملکہ نے بھی اپنے کرسمس کے پیغام میں اس بات کا اظہار کیا کہ معاشرے میں بدامنی پھیلانے والے منفی بیانات سے جن سے کسی کی دلآزاری ہو، پر ہیز کرنا چاہئے.اور اس نے یہ وزیر اعظم کو بھی پیغام بھجوایا.ولڈرز (Wilders) جس نے یہ مہم شروع کی تھی ، اس نے یہ ملکہ کے خلاف بھی اب پارلیمنٹ میں بھیجا ہے کہ ملکہ نے میری طرف اشارہ کیا ہے اور ملکہ کا حکومت میں دخل بند ہونا چاہئے.بہر حال یہ ان کی کوششیں ہیں اللہ تعالیٰ انہی میں سے لوگ بھی پیدا کر رہا ہے جور د بھی کرتے ہیں.بعض نیک فطرت ہیں بلکہ بہت ساری تعداد ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ نیک فطرتوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے اور یہ باز آجائیں ور نہ خدا کی تقدیر جب چاہتی ہے تو پھر اپنا کام کرتی ہے اور پھر کسی کو چھوڑتی نہیں.قرآن کریم پر حملہ کرتے ہوئے ایک کینیڈین عیسائی مشنری ڈان رچرڈسن (Don Richardson) نے ایک کتاب تین چار سال پہلے لکھی ہے جس کا نام ہے دی سیکرٹس آف قرآن ( The Secrets of the Quran).یہ بھی دل کے کینوں اور بغضوں سے بھری ہوئی کتاب ہے.قرآن کریم کی مختلف آیات کا ترجمہ لکھ کر پھر تبصرہ کیا ہے اور ہوشیاری یہ کی ہے کہ چند ایک آیات لے کر ہر جگہ مختلف جو سات آٹھ ترجمے اس کو انگلش میں ملے وہ بیان کئے ہیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا جو ترجمہ قرآن ہے اس کا بھی کچھ حصہ لیا گیا ہے اور چوہدری صاحب کے ترجمہ پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ بائبل کے کرداروں کو عربی کی بجائے انگلش طرز پر بیان کیا گیا ہے.لیکن حیرت ہے کہ طالوت کو بائبل کے لفظ کی بجائے عربی طرز پر لکھا ہے.یعنی طالوت کو طالوت ہی لکھا ہے اور نتیجہ اس کے بعد یہ نکالتا ہے کہ یہ اس لئے کیا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی غلطیوں کو غیر عرب لوگوں سے چھپایا جائے.یہ تو ہمارے ترجمے کا طریق ہے.اگر یہ اتنا ہی ایماندار ہے تو جو Five Volume Commentary ہے اس میں Foot Notes دیئے گئے ہیں اس کو بھی دیکھتا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ترجمہ تو میں نہیں دیکھ سکا لیکن جو کمنٹری ہے اس میں سورۃ البقرہ میں جہاں یہ آیت، حضرت داؤد کے ضمن میں آتی ہے، وہاں نیچے Foot Notes میں بائبیل کے جوالفاظ ہیں وہ بھی استعمال کئے گئے ہیں.کتاب پوری نہیں تھی کسی نے نوٹس بھیجے تھے اس لئے پورا تبصرہ تو نہیں

Page 112

خطبات مسرور جلد ششم 92 خطبہ جمعہ فرموده 29 فروری 2008 ہوسکتا.بہر حال وہ کتاب میں نے منگوائی ہے.لیکن بظاہر اس سے جو بھی میں نے چند ایک صفحے دیکھے ہیں یا کچھ کچھ اس میں پیرے دیکھے ہیں، اسلام کے خلاف کینہ اور بغض صاف جھلکتا ہے.پھر ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ بہت سے آزاد خیال امریکن سمجھتے ہیں کہ 1.3بلین (Billion) مسلمان جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں تو یقینا اس میں پیغام صحیح اور سچا ہوگا تبھی تو ایمان رکھتے ہیں.وہ لکھتا ہے کہ یہ ان امریکنوں کی بھول ہے اسلام میں کوئی سچائی نہیں، قرآن میں کوئی سچائی نہیں ہے.پھر صدر بش کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے آگے لکھتا ہے کہ صدر بش اچھے آدمی ہیں لیکن بہت سے مغربی لوگوں کی طرح اسلام کے بارے میں بالکل لاعلم ہیں کیونکہ 9/11 کے بعد انہوں نے کھلے عام دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو کروسیڈ (Crusade) کا نام دے دیا تھا.مذہبی جنگ کا نام دے دیا تھا.یہ ان کی سادگی ہے اور ان کے کسی مشیر نے ان کو مشورہ بھی نہیں دیا.خلاصہ آگے اس کا یہ بنتا ہے کہ بے شک یہ Crusade ہی سمجھتے لیکن کھلے عام نہ کہتے.کیونکہ اس سے پھر عیسائیت کا اس سے برا اثر پڑتا ہے.تو یہاں تک ان لوگوں کا اسلام کے خلاف اور قرآن کے خلاف بغض اور کینہ بھرا ہوا ہے لیکن ان سب اسلام دشمنوں اور قرآن کے مخالفین کو یا درکھنا چاہئے کہ یہی وہ تعلیم ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غالب آنا ہے انشاء اللہ.یہ الہی تقدیر ہے اور اس کو ان کے دجل یا طاقت یا روپیہ یا پیسہ روک نہیں سکتے.لیکن افسوس ہوتا ہے بعض مسلمان حکومتوں پر بھی جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن اپنے مقصد کو بھولی ہوئی ہیں، اپنی ظاہری شان و شوکت کی وجہ سے انجانے میں یا جان بوجھ کر اسلام کو کمزور کر رہی ہیں.صرف اس لئے کہ اپنی ظاہری شان و شوکت قائم رہے.ایک امریکن نے ایک کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اسلامی ملکوں کے جو بعض سر براہ ہیں ان کا بھی ہاتھ ہے تا کہ جو دولت ہے وہ مغرب کے ہاتھ میں آجائے اور اس میں سے اسلامی حکومتیں اپنا حصہ لیتی ر ہیں.یعنی وہ افراد حصہ لیتے رہیں.عوام کو تو پتہ ہی نہیں.ایسے لوگ جن کے دل کینوں سے پر ہیں جو قرآن اس لئے کھولتے اور دیکھتے ہیں کہ اس میں اعتراض تلاش کئے جائیں.جن کے دل پتھروں کی طرح سخت ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ.ان کو یہ تعلیم جو قرآن کی تعلیم ہے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.جن کے دل خود کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوں ، گند میں رہنے کے عادی ہوں اور اس گند میں رہنے پر پھر اصرار بھی ہو ، وہ بھلا اس پاک چشمے سے کس طرح فیض پاسکتے ہیں.قرآن کریم میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيْمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونِ لَا يَمَسُّة إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : 80-78) کہ یقینا یہ ایک عزت والا قرآن ہے.ایک چھپی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے.کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے.ان آیات سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ (الواقعہ: 76) پس میں ستاروں کے جھرمٹ کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں.اس آیت کو بھی

Page 113

خطبات مسرور جلد ششم 93 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 شامل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان آیات کی وضاحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : میں مَوَاقِعِ النُّجوم کی قسم کھاتا ہوں، یعنی ستاروں کے جھرمٹ کی قسم کھاتا ہوں اور یہ بڑی قسم ہے اگر تمہیں علم ہو.اور قسم اس بات پر ہے کہ یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے اور اس کی تعلیمات سنت اللہ کے مخالف نہیں.بلکہ اس کی تمام تعلیمات کتاب مکنون یعنی صحیفہ فطرت میں لکھی ہوئی ہیں“.ہر ایک انسان کی فطرت میں چھپی ہوئی ہیں اور اس کے دقائق کو وہی لوگ معلوم کرتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.اگر اس کا علم ہے، اس کی گہرائی ہے تو اس کو وہی لوگ معلوم کر سکتے ہیں جن کے دل پاک ہیں.” ( اس جگہ اللہ جلشانہ نے مَوَاقِعِ النُّجُوم کی قسم کھا کر اس طرف اشارہ کیا کہ جیسے ستارے نہایت بلندی کی وجہ سے نقطوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر وہ اصل میں نقطوں کی طرح نہیں بلکہ بہت بڑے ہیں ایسا ہی قرآن کریم اپنی نہایت بلندی اور علوشان کی وجہ سے کم نظروں کے آنکھوں سے مخفی ہے اور جن کی غبار دور ہو جاوے وہ ان کو دیکھتے ہیں اور اس آیت میں اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے دقائق عالیہ یعنی بہت اعلیٰ قسم کے جو گہرے نکات ہیں ان کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے پاک کرتا ہے اور یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اگر علم قرآن مخصوص بندوں سے خاص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیونکر مواخذہ ہوگا کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے جس کو ایک کا فر بھی سمجھ سکتا ہے.گہرائی بھی ہے اور عام فہم بھی ہے جس کو اگر سمجھنا چاہے تو سمجھ سکتا ہے.اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے اور اگر وہ عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا“.اگر یہ ہوتا کہ قرآن کریم کی تعلیم عام نہم نہیں ہے، ہر ایک کو سمجھ نہیں آسکتی گو اس کے بہت گہرے مطالب بھی ہیں لیکن اس کے ظاہری مطلب اس کی تعلیم میں ایسی چیزیں ہیں جو عام فہم ہیں، سمجھ آ جاتی ہے.اگر اس میں یہ نہ ہوتا تو فرمایا کہ کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا.پھر تبلیغ کس طرح ہوتی ؟ لوگوں کو سمجھاتے کس طرح؟ ہر ایک تو قرآن کریم کے علم کے اتنے گہرے معارف نہیں رکھتا.تو یہ ہر آدمی کو سمجھ بھی آتی ہے مگر حقایق معارف چونکہ مدار ایمان نہیں صرف زیادت عرفان کے موجب ہیں اس لئے صرف خواص کو اس کو چہ میں راہ دیا.جو خاص خاص باتیں ہیں، جو معرفت کی بہت گہری باتیں ہیں ان پر صرف مدار ایمان نہیں ہے.یا یہ کہ صرف ان کی وجہ سے ایمان مضبوط نہیں ہوتا.یہ تو صرف قرآن کریم کی تعلیم کا جو عرفان ہے اس میں زیادت کا موجب ہے.اس لئے صرف خواص کو اس کو چہ میں راہ دیا.صرف خاص خاص لوگوں کو اس کی باتیں سمجھائی گئی ہیں کیونکہ وہ در اصل مواہب اور روحانی نعمتیں ہیں جو ایمان کے بعد کامل الایمان لوگوں کو ملا کرتی ہیں.“ کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 53-52)

Page 114

خطبات مسرور جلد ششم 94 خطبہ جمعہ فرموده 29 فروری 2008 فرماتے ہیں: دنیاوی علوم کی تحصیل اور ان کی باریکیوں پر واقف ہونے کے لئے تقوی وطہارت کی ضرورت نہیں ہے ایک پلید سے پلید انسان خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہو ، ظالم ہو، وہ ان کو حاصل کر سکتا ہے.چوڑھے چمار بھی ڈگریاں پالیتے ہیں لیکن دینی علوم اس قسم کے نہیں ہیں کہ ہر ایک ان کو حاصل کر سکے.ان کی تحصیل کیلئے تقوی وطہارت کی ضرورت ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَمَسُّة إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعہ: (80).پس جس شخص کو دینی علوم حاصل کرنے کی خواہش ہے اسے لازم ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے جس قدر وہ ترقی کرے گا اسی قدر لطیف دقائق اور حقائق اس کھلیں گے.“ البدر جلد 3 نمبر 2 مورخہ 8 جنوری 1904 صفحہ 3 پہلی بات تو ایمان کی ہے.ایمان کی باتیں تو ثابت ہو جاتی ہیں.پھر اگر مزید معرفت حاصل کرنی ہے تو تقویٰ میں ترقی کرنی ہوگی.جوں جوں تقویٰ میں ترقی کرتا جائے گا مزید پاک ہوتا چلا جائے گا.قرآن کریم کا عرفان حاصل ہوتا چلا جائے گا.پس قرآن کریم ان لوگوں کو جو دور کھڑے اس تعلیم کو دیکھ رہے ہیں اور اپنے بغضوں اور کینوں کی وجہ سے قریب آنا بھی نہیں چاہتے.بلکہ دوسروں کو ورغلانے پر بھی تلے ہوئے ہیں.شیطان کا کردار جواس نے کہا تھا کہ میں ہر راہ سے آؤں گا ، ان لوگوں نے تو وہ اختیار کیا ہوا ہے اہے.پس قرآن کو سمجھنے کے لئے پہلے پاک دل ہونے کی بھی ضرورت ہے اور اس پاکی میں پھر انسان آگے بڑھتا جاتا ہے.اگر پاک دل ہوں گے تو پھر کچھ سمجھ آئے گی.پھر مزید عرفان حاصل کرنے کے لئے مزید تقویٰ میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے.تو ایک انسان کا قرآن کریم سمجھنے کے لئے یہ معیار ہے.اب دیکھیں وہ خاتون بھی تھیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئیں.پتہ نہیں اس نے ترجمہ کس کا پڑھا تھا.کسی حد تک وہ صحیح تھا لیکن بہر حال اس کے دل پر اثر ہوا.پس قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے پاک دل ہونا اور اس میں چھپے ہوئے موتیوں کو تلاش کرنا ضروری ہے.قریب آکر دیکھنا بھی ضروری ہے لیکن اگر ان پادری صاحب کی طرح صرف اعتراض کے رنگ میں دیکھے گا تو پھر اسے کچھ نظر نہیں آئے گا.وہ اس جاہل کی طرح ہے جو ستاروں کو دور سے دیکھ کر انہیں چھوٹا سا چمکتا ہوا نقطہ سمجھتا ہے.ایسے بے عقل لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ایسے حاسدوں، بغضوں اور کینوں سے بھرے ہوؤں اور ظالموں کو سوائے گھاٹے کے کسی چیز میں نہیں بڑھاتی.اس میں اگر شفا ہے تو مومنین کے لئے ہے.اگر اس میں کوئی تعلیم ہے اور سبق ہے تو مومنین کے لئے ہے.اگر ان سے کوئی فیض پاتا ہے تو پاک دل مومن فیض پاتا ہے یا وہ فیض پانے کی کوشش کرتا ہے جو خالی الذہن ہو کر پھر اس کو سمجھنے کی کوشش کرے.اگر اس سے کوئی اپنی روحانی میل دور کرتا ہے تو پاک دل مومن کرتا ہے.قرآن کریم میں

Page 115

خطبات مسرور جلد ششم 95 95 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِيْنَ الَّا خَسَارًا ﴾ (بنی اسرائیل : 83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسی چیز میں نہیں بڑھاتا.پس یہ باتیں یعنی اسلام کی مخالف باتیں، جب ہم مخالفین اسلام اور مخالفین قرآن کے منہ سے سنتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں.خدا تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں پہلے ہی درج فرما دیا ہے.اگر پہلے انبیاء کے ذکر میں بعض باتیں بیان کی ہیں تو اس لئے کہ یہ ان انسانوں کی فطرت ہے جو شیطانوں کے چیلے ہیں وہی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں.یہ ان لوگوں کی فطرت ہے جو شیطان کے چیلے بنتے ہوئے قرآن میں نقص نکالتے ہیں.اگر کفار کے ذکر میں بیان ہے تو یہ پیشگوئی ہے کہ آئندہ بھی اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنی مخالفت میں اتنے اندھے ہو جائیں گے کہ بظاہر پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے اور ترقی یافتہ ملکوں کا شہری کہلانے کے اور مذہبی راہنما کہلانے کے باوجود، امن کے علمبر دار کہلانے کے باوجود ایسی حرکتیں ضرور کریں گے جن سے یہ ظاہر ہو جائے کہ ان کی ظاہری حالتیں محض دھوکہ ہیں.یہ لوگ تو خود ایسے بیمار ہیں جن کی بیماریاں بڑھتی ہیں.یہ لوگ تو ایسے ہیں جو کبھی محسن انسانیت کی لائی ہوئی تعلیم سے فیضیاب نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِيْنَ الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِيْنَ.فَوَرَبِّكَ لنَسْتَلَنَّهُمْ أَجْمَعِيْنَ.عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.( الحجر : 94-91) کہ اس عذاب سے جیسا ہم نے باہم بٹ جانے والوں پر نازل کیا تھا.كَمَا اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِيْنَ.جیسا ہم نے باہم بٹ جانے والوں پر نازل کیا تھا.جنہوں نے قرآن کو جھوٹی باتوں کا مجموعہ قرار دیا.فَوَرَتِكَ لَنَسْتَلَنَّهُمْ أَجْمَعِيْن.پس تیرے رب کی قسم ہم یقینا ان سب سے ضرور پوچھیں گے.عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ.اس کے متعلق جو وہ کیا کرتے تھے.پس یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے صرف ان مکہ والوں کے لئے نہیں تھا جو آنحضرت ﷺ کو تنگ کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے.یہ نبی تمام زمانوں کے لئے ہے.پس آپ کو تکلیف پہنچانے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک بھی ہمیشہ کے لئے ہے.کیا آج آنحضرت کی زندگی پر استہزاء کرنے والے یا قرآن کریم کی تعلیم کونعوذ باللہ جھوٹا کہنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائیں گے جس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کی غیرت رکھتے ہوئے ہمیشہ کیا ہے اور کرتا ہے؟ آج بھی دشمنوں کے اس گروہ نے آنحضرت ﷺ کی ذات پر حملے کرنے کے لئے اپنے کام بانٹے ہوئے ہیں.ان کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے تا کہ مختلف صورتوں میں آپ ﷺ کو اور قرآن کریم کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے.کتابوں کے ذریعہ ، اخباروں کے ذریعے، ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ، اور اب جیسا کہ میں نے بتایا فلم کے ذریعہ سے یہ کوشش کی جارہی ہے.تو انہوں نے آج یہ کام تقسیم کئے ہوئے ہیں.

Page 116

96 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 خطبات مسرور جلد ششم یہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ قرآن کریم کی تعلیم جھوٹی ہے.کینیڈین پادری جس کا میں نے ذکر کیا ہے، اس کی کوشش اپنی کتاب میں یہی تھی اور یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ ان حرکتوں کی وجہ سے تم چھوڑے جاؤ گے.اس کے لئے تمہیں جوابدہ ہونا ہو گا.سزا کے لئے تیار ہونا ہوگا اگر اپنے رویے نہ بدلے.اور یہ سزا اللہ تعالی کس طرح دے گا ؟ وہ مالک ہے ، اس کے اپنے طریقے ہیں.لیکن یہ اصولی بات ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لئے غیرت رکھتا ہے.اپنی شریعت کے لئے غیرت رکھتا ہے اور غیرت دکھاتا ہے.پس ان کے جو یہ عمل ہیں بغیر سزا کے چھوڑے نہیں جائیں گے اور جب سزا کا وقت آئے گا تو کوئی جھوٹا خدا ان کو نہیں بچا سکتا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں لوگوں کو نصیحت کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے.بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ یہ قرآن آخری شرعی کتاب ہے اور یہ رسول ﷺ آخری شرعی نبی ہیں اور تمام سابقہ انبیاء کی تعلیم کے اہم حصے اس قرآن میں سمو دیئے گئے ہیں.بلکہ بہت سی ایسی باتیں بھی اس میں شامل کر دی گئی ہیں جن کا پہلی کتابوں میں ذکر تک نہیں تھا.پس پھر بھی تم لوگوں کو یہ عقل نہیں آتی کہ اس پر غور کرو.اپنے دلوں کو پاک کرو ، سوچو، دیکھو کہ اس کے گہرے مضامین کیا ہیں؟ بجائے یہ کہنے کے کہ 1.3 بلین مسلمانوں کو دیکھ کر کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ قرآن کریم کی تعلیم حقیقی اور سچی ہے.سوچنا چاہئے.سوچو اور غور کرو کہ یہ ایک واحد کتاب ہے جو اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ یہ محفوظ رہے گی.گزشتہ دنوں ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ اب بعض جگہ لوگوں نے ایک نئی طرز پر تحقیق شروع کی ہے.یہ لوگ ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ قرآن کریم بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں ہے.تو جتنی چاہے یہ کوششیں کر لیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کو کبھی جھوٹا نہیں کر سکتے.اس لئے غلط راستوں پر چلنے کی بجائے اس نصیحت کی طرف توجہ دیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (القمر : 18) اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا.پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ؟ اس آیت کا سورۃ القمر میں ذکر ہے اور چار دفعہ ذکر آیا ہے اور ہر دفعہ کے ذکر کے بعد کسی قوم کی تباہی کی خبر دی گئی ہے.پہلی مثال عاد کی دی گئی.دوسری مثال شمود کی دی گئی.پھر لوط کی قوم کی دی گئی.پھر فرعون کی دی گئی.ان سب نے انبیاء کا انکار کیا، انہیں جھٹلایا.آخر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا سامنا کرنا پڑا.پس اللہ کے رحم کی جو نظر ہے اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ حد سے نہ بڑھیں.استہزاء میں بڑھنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کا تا ہے.پس ہم ان لوگوں سے ہمدردی کے جذبات کے تحت کہتے ہیں کہ خدا کا خوف کریں.قرآن کی تعلیم تو تمام قسم کی تعلیموں اور ضابطہ حیات کا مجموعہ ہے.روحانیت کے اعلیٰ معیاروں کی یہ تعلیم دیتی ہے.اخلاق کے اعلیٰ معیاروں کی تعلیم دیتی ہے.ہر معمولی عقل رکھنے والے اور اعلیٰ فہم وادراک رکھنے والے کے لئے

Page 117

خطبات مسرور جلد ششم 97 خطبه جمعه فرموده 29 فروری 2008 اس میں بیان ہے.پس اس میں ایک یہ بھی بات ہے کہ اگر تمہیں سمجھ نہیں آتی تو اعتراض کرنے کی بجائے اپنی عقلوں پر روؤ ، نہ کہ قرآن پر اعتراض کرو.قرآن کی تعلیم تو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے پاک دل ہونا ضروری ہے اور ایک مزکی کی ضرورت ہے.آج جماعت احمد یہ ہے جو اس کا فہم و ادراک اس مزگی سے حاصل کر کے آگے پہنچاتی ہے.آؤ اس سے یہ فہم وادراک حاصل کرو.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور اس انجام سے محفوظ رکھے جس کی خدا تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے.آجکل بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.امت مسلمہ کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اگر یہ اپنی رنجشیں چھوڑ کر ایک بڑے مقصد کے حصول کے لئے ایک ہو جائیں، اللہ تعالیٰ کے اشارے کو سمجھیں تو بہت سارے شر سے محفوظ رہیں گے.یہی چیز ہے جو ان حملہ آوروں کے حملوں سے ان کو محفوظ رکھے گی.اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے.ایک افسوسناک خبر کا بھی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں مکرم بشارت احمد صاحب مغل جو کراچی کے رہنے والے تھے ان کو 24 فروری کو کچھ افراد نے گولی مار کر شہید کر دیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.پچاس سال ان کی عمر تھی.صبح چھ بجے یہ نماز فجر کے لئے جارہے تھے مسجد نہیں پہنچے تو تھوڑی دیر کے بعد ان کے بیٹے نے آ کر بتایا کہ میرے والد کو کسی نے گولی مار دی ہے.وہاں جو سڑک کی صفائی کرنے والے تھے اس نے بتایا کہ موٹر سائیکل پر کچھ لوگ آئے تھے اور فائر کر کے، ان کو مار کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر دوڑ گئے.چار پانچ گولیاں ان کو لگیں.ایک گولی گردن کے آر پار گزر گئی ، دوسری چھاتی میں دل کے پاس لگی.ہسپتال لے جایا گیا لیکن بہر حال جانبر نہیں ہو سکے.مرحوم نے 1988ء میں اپنے خاندان، اپنی فیملی ( بیوی بچوں ) سمیت بیعت کی تھی.وہیں کراچی میں کام کیا کرتے تھے.بڑے نڈر اور دلیر آدمی تھے.لوگوں کی ہر وقت بڑی مدد کرتے تھے.نمازوں کے بڑے پابند تھے.نمازوں پر لوگوں کو لے کر جایا کرتے تھے.نماز کے لئے صبح فجر کی نماز پر خاص طور پر جاتے وقت ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹایا کرتے تھے.انہوں نے بڑی محنت سے وہاں منظور کالونی میں ایک خوبصورت مسجد بھی بنوائی ہے.ویسے یہ رہنے والے لاٹھیا نوالہ فیصل آباد کے تھے.لیکن آجکل کراچی میں آباد تھے.موصی تھے.جنازہ ربوہ میں ہوا ہے.وہیں تدفین ہوئی ہے.ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور ان کے بیوی بچوں کو صبر کی توفیق دے اور ان کے نیک نمونے قائم رکھنے کی توفیق دے.دشمنوں کو اپنی پکڑ میں لے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے درمیان میں فرمایا: ایک بات رہ گئی تھی.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ میں ان شہید کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 12 مورخہ 21 مارچ تا 27 مارچ 2008ء صفحہ 5 تا 8 )

Page 118

خطبات مسرور جلد ششم (10) 98 98 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 فرمودہ مورخہ 7 مارچ 2008ء بمطابق 7 امان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ.أَوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ.وَمَنْ يَكْفُرُبِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الخسِرُون.(البقره: 122) گزشتہ خطبہ میں میں نے قرآن کریم کے حوالے سے بات کی تھی کہ کیوں مغرب میں اس قدر اسلام کے خلاف نفرت اور استہزاء کی فضا پیدا کی جارہی ہے اور یہ بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا اسلام کے غلبے کا بھی اور قرآن کریم کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے.پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جتنی بھی یہ کوشش چاہیں کر لیں ان کے یہ رکیک حملے نہ اسلام کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ اس کامل کتاب کے حسن کو ماند کر سکتے ہیں.ہاں ایسے لوگ جو سامنے آ کر حملے کر رہے ہیں یا وہ جو پیچھے سے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان کے اسلام کے خلاف بغض اور کینوں کے اظہار ہو رہے ہیں.بہر حال یہ کام تو ان اسلام دشمنوں نے کرتے رہنا ہے اس لئے اس کی کوئی فکر نہیں کہ کیا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا اس کی یعنی قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ ہے.لیکن جب ایسی حرکتیں ہوں اسلام مخالفین کی تو اس پر ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے.ایک احمدی مسلمان کو اپنے اندر کیا خصوصیات پیدا کرنی چاہئیں جس سے وہ دشمنوں کے حملے کے رڈ کے لئے تیار ہو سکے.اس فوج کا سپاہی بن سکے جس کے لئے اس نے زمانے کے امام سے عہد باندھا ہے.ان فضلوں کا وارث بن سکے جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے والوں کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں.اس بارے میں کچھ باتیں میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ اس خوبصورت تعلیم کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں اور آپ کے عاشق صادق نے اس پیغام کو ہم پر واضح کرتے ہوئے ہم سے کیا تو قعات رکھی ہیں؟ لیکن اس سے پہلے میں ایک کتاب کے حوالے سے ذکر کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ دنوں نظر سے گزری.کتاب کا نام ہے Women Embracing Islam عورتیں اسلام قبول کر رہی ہیں، اور مختلف حوالے سے ذکر ہے کہ کیوں یہی صنف جو ہے وہ اسلام قبول کر رہی ہے.یہ کتاب کسی ایک مصنف کی نہیں ہے بلکہ کیرن وان نیومین (KARIN VAN NIEUMAN) نے ایڈٹ (edit) کی ہے.اصل میں تو یہ مختلف

Page 119

خطبات مسرور جلد ششم 99 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 لوگوں کی تحقیقات کا نتیجہ ہے.ہالینڈ کے ایک شہر میں جس کا نام ہے نائے مین (NIJMEGEN).اس کی ایک یونیورسٹی میں ایک کانفرنس ہوئی.وہاں ریسرچ پیپرز یعنی تحقیقی مقالے پڑھے گئے.2003ء میں یہ کانفرنس ہوئی تھی.اس کو خاتون نے ایڈٹ کیا اور 2006ء میں ٹیکساس یو نیورسٹی پریس نے اس کی اشاعت کی.اس کتاب میں جیسا کہ میں نے کہا مختلف لوگوں کے حوالے سے باتیں ہیں.ابتداء اس کی اس طرح ہوتی ہے کہ مذہب میں گزشتہ چند دہائیوں سے دلچسپی پیدا ہورہی ہے.اور پھر لکھتے ہیں کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد دنیا کی اسلام میں واضح دلچسپی پیدا ہو رہی ہے.لکھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کا عمومی تاثر ہے جو اسلام مخالف مغربی عیسائی ہیں کہ لوگوں میں یہ دلچسپی پیدا ہو رہی ہے.یا ان لوگوں کا بھی تاثر ہے جو خدا کو نہیں مانتے.لکھنے والا یہ لکھتا ہے کہ جو لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں چاہے یہ اسلام کے قبول کرنے والے کے ذہن میں ہو یا نہ ہولیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ اس کی مذہب سے زیادہ سیاسی وجوہات ہیں.بہر حال یہ ان کی سوچ ہے اور ظاہر ہے کہ جب سیاسی وجوہات سمجھی جائیں گی تو اس کو روکنے کے لئے مذہب کی آڑ میں سیاسی اور سیاست کی آڑ میں مذہبی طاقتیں کام کریں گی.ایک دلچسپ بات اس میں یہ کھی ہے کہ پہلا مشنری جو امریکہ آیا وہ احمدی تھا.پھر لکھتے ہیں کہ اصل میں یہ مشنری امریکہ میں اسی رد عمل کے طور پر آیا تھا یا اس حملے کو روکنا اس کا مقصد تھا جو عیسائی مشنری تبلیغ کا کام کر کے ہندوستان میں کر رہے تھے.اپنے پاس سے انہوں نے یہ بات بھی گھڑ لی کہ اس کا بنیادی مقصد امریکہ میں ایسا ماحول پیدا کرنا تھا جو مسلمان مہاجرین کے لئے سازگار ہو.اور اس کے لئے انہوں نے یعنی احمدیوں نے سفید فارم امریکن کو کنورٹ (Convert) کرنے کی کوشش کی ، اسلام میں لانے کی کوشش کی لیکن کہتے ہیں کہ چند ایک کو اپنے میں شامل کر سکے.پھر آگے لکھتے ہیں لیکن جن مسلمان مہاجرین کو یہ احمدی امریکہ میں آباد کرنے کی سوچ رہے تھے تا کہ ان کی تعداد بڑھے، انہوں نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر کرتے ہوئے رد کر دیا اور آخر احمدیوں نے سوچا کہ ان کی کوششیں تب بارآور ہوسکتی ہیں جب یہ ایفرو امریکن میں تبلیغ کریں اور انہیں بتائیں کہ تمہاری ایک پہچان ہے جو مسلمان ہو کر ہی مل سکتی ہے.مزید یہ کہ تمہاری جڑیں مسلمانوں میں ہیں.تمہیں ان لوگوں نے ، عیسائیوں نے زبردستی عیسائی بنالیا ہے اور پھر ظلم بھی کیا ہے.برابری کا حق اگر تم لینا چاہتے ہو تو یہ صرف تمہیں اسلام میں مل سکتا ہے.اور اس طرح افریقن امریکن اور افریقن مسلمان ایک طاقت بن سکتے ہیں اگر یہ مسلمان ہو جائیں.یہ احمدیوں نے تبلیغ کی.اور احمدیوں کے اس طرز سے دوسرے مسلمان گروپوں نے بھی فائدہ اٹھایا اور اس ذریعہ سے بڑی تیزی سے اسلام ایفرو امریکن میں پھیلا، یا ابھی تک پھیل رہا ہے.دوسری بڑی تعداد اسلام لانے میں سفید فارم امریکن عورتوں کی ہے.بہر حال جماعت کے متعلق تو توڑ مروڑ کر باتیں پیش کرنے سے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ واضح طور پر بیان نہیں کرنا چاہتے.کیونکہ جس طرح یہاں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ معلومات بہر حال ان کے

Page 120

خطبات مسرور جلد ششم 100 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 مارچ 2008 پاس مکمل ہیں لیکن بیان ٹھیک نہیں.اسی کتاب میں پھر ایک جگہ نئے شامل ہونے والوں میں سے ایک سفید فام عورت کو پوچھا گیا کہ کیوں مسلمان ہوئی تھی ؟ تو اس نے یہ جواب دیا کہ مسلمان ہوتے ہوئے کلمہ پڑھ لوتو انسان اس کے بعد اس طرح معصوم ہو جاتا ہے جس طرح ایک نوزائیدہ بچہ.اور پھر جنت کا تصور ہے کہ اگلے جہاں میں گناہ بخشے جائیں گے.تو یہ باتیں کہ کلمہ پڑھ کر انسان پاک ہو جاتا ہے اور گناہ بخشے جاتے ہیں، یہ بات کسی طرح بھی اسلام مخالف طبقے کو خاص طور پر مغرب میں برداشت نہیں ہو سکتی.اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طبقے میں یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا ہے کہ کفارہ کا جو نظریہ ہے وہ غلط ہے.اپنے گناہوں کی فکر کرنے والے یہ سوچ سکتے ہیں کہ انسان معصوم ہو جاتا ہے اور اگلے جہان میں جنت دوزخ کا سوال ہے، جزا سزا کا سوال ہے اور یہ عیسائیت کے ایک بنیادی دعوے کا رد ہے جو کسی صورت میں بھی ان لوگوں کو برداشت نہیں ہوسکتا.بہر حال یہ بہت ہی سوچی سمجھی سکیم کے تحت اسلام پر حملے ہیں.ایک آدھ بات میں نے مختصر بیان کر دی ہے.کیونکہ یہ مختلف پیپرز ہیں، مقالے ہیں اور مقالوں کا مجموعہ ہے.اسلام کے بارے میں بیچ بیچ میں بعض اچھی باتیں بھی ظاہر کی گئی ہیں.لیکن جو بھی صورت حال ہو جب اس طرح اسلام کی طرف توجہ دلانے والے نتائج سامنے آئیں گے تو اسلام مخالف طاقتوں کا ایک منظم کوشش کے لئے جمع ہونا ضروری ہے اور ضروری تھا، جو وہ ہو گئیں.اب میں پھر اصل بات کی طرف آتا ہوں جیسا کہ شروع میں میں نے کہا تھا کہ ایسے حالات میں ایک احمدی کا کردار کیا ہونا چاہئے ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ احمدی جب بیعت کرتا ہے، یہ عہد کرتا ہے کہ میں روحانی تبدیلی کے لئے زمانے کے امام کی بیعت میں آیا ہوں تو وہ خود بخود داس طرف متوجہ ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی بڑھانا ہے جو کہ اس کا حقیقی عبد بن کے ہی بڑھ سکتا ہے، جو کہ عبادتوں کے معیار بلند کرنے سے ہی ہو سکتا ہے.دوسرے اس تعلیم کی طرف توجہ ہو جو قرآن کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے.اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری کتاب کو اس کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھو.جیسا کہ میں نے ابھی جو آیت تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے: کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی در آنحالیکہ وہ اس کی ایسی تلاوت کرتے ہیں ( جبکہ وہ ایسی تلاوت کرتے ہیں ) جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے.یہی وہ لوگ ہیں جو ( در حقیقت ) اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں.تلاوت کا حق کیا ہے؟ تلاوت کا حق یہ ہے کہ جب قرآن کریم پڑھیں تو جو اوامر و نواہی ہیں ان پر غور کریں.جن کے کرنے کا حکم ہے ان کو کیا جائے.جن سے رکنے کا حکم ہے ان سے رُکا جائے.آنحضرت ﷺ کے سامنے یہود و نصاری کا یہی دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس بھی کتاب ہے.چاہتے تھے کہ مسلمان ان کی بات مان لیں.تو اللہ تعالیٰ

Page 121

101 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم نے ایک تو ان یہود کا یہ رد کر دیا کہ تمہاری کتاب اب اس قابل نہیں رہی کہ اسے اب سچی کہا جا سکے کیونکہ تمہارے عمل اس کے خلاف ہیں.بعض باتوں کو چھپاتے ہو بعض کو ظاہر کرتے ہو.پس تمہاری کتاب اب ہدایت نہیں دے سکتی.بلکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد، اس شریعت کے اترنے کے بعد، یہ قرآن کریم ہی ہے جو ہدایت کا راستہ دکھانے والی کتاب ہے جس نے اب دنیا میں ہدایت قائم کرنی ہے.پس صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ ثابت کیا ، ان کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ وہ مومن ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تلاوت کا حق ادا کیا اور یہی ایمان لانے والے کہلائے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط کیا ہے.پس حقیقی مومن وہ ہیں جو تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور حقیقی مومن وہ ہیں جو اعمال صالحہ بجالاتے ہیں.لہذا تلاوت کا حق و ہی ادا کرنے والے ہیں جو نیک اعمال کرنے والے ہیں.پس اس زمانے میں یہ مسلمانوں کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو اور وہ عمل نہیں جن کا کتاب میں حکم ہے تو ایمان کامل نہیں.اس زمانے کے حالات کے بارے میں ( جو حضرت مسیح موعود کے زمانے کے حالات تھے ) آنحضر نے انذار فرمایا ہے جو ظاہر وباہر ہے، ہر ایک کو پتہ ہے.احادیث میں ذکر ہے اور ایسے حالات میں ہی مسیح موعود کا ظہور ہونا تھا جب یہ حالات پیدا ہونے تھے.پس حق تلاوت ادا کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو فی زمانہ اس مہدی کی جماعت میں شامل ہو کر قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے.پس یہ ذمہ داری ہے ہر احمدی کی کہ وہ اپنے جائزے لے کہ کس حد تک ان احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں.جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے.نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے.اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا.زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ”ق“ اور ”ع“ کو پورے طور پر ادا کر دیا.قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے.مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے.یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے.اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی.جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مد نظر نہ رکھا جاوے، اس پر پورا غور نہ کیا جاوے، قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے“.الحکم جلد 5 نمبر 12 مورخہ 31 مارچ 1901 صفحہ 3

Page 122

خطبات مسرور جلد ششم 102 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 پس یہ ہے تلاوت کا حق جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے.ایک وقت تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ صحیح طور پر قرآن کریم نہیں پڑھا جاتا جماعت کو صحت تلفظ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس طرح پڑھا جائے.کیونکہ زیر زبر پیش کی بعض ایسی غلطیاں ہو جاتی تھیں، کہ ان غلطیوں کی وجہ سے معنے بدل جاتے ہیں یا مفہوم واضح نہیں ہوتا.تو اس طرح آپ نے صحت تلفظ کی طرف توجہ دلائی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد جماعت میں اس طرف خاص توجہ پیدا ہوئی.لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ترجمہ قرآن کی طرف بھی توجہ دی جائے.ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں.جماعتی نظام بھی کام کرے.یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصار اللہ یو کے نے شروع کیا ہے.یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھی پڑھا رہے ہیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے.کیونکہ ترجمہ آئے گا تو پھر ہی صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ احکامات کیا ہیں؟ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ غور کر بھی غور کی عادت پڑے گی عمل کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور یہی تلاوت کا حق ہے.ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: قرآن شریف تدبر و تفکر وغور سے پڑھنا چاہئے.حدیث شریف میں آیا ہے.رُبَّ قَارٍ يَلْعَنُهُ الْقُرْآنُ - یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں.پڑھنے والے ہیں کہ " جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے فرمایا: ” تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوئے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 157 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ اسلوب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں بتا دیا.اور جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ آتا ہو گا.اب بہت سے ایسے ہیں جن کی تلاوت بہت اچھی ہے.دل کو بھاتی ہے لیکن صرف آواز اچھی ہونا ان پڑھنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کہ وہ اس کو سمجھ کر نہ پڑھیں کسی بھی اچھی آواز کی تلاوت اس شخص کو تو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو ا چھی آواز میں یہ تلاوت سن رہا ہے اور اس کا مطلب بھی جانتا ہے.جب پیشگوئیوں کے بارے میں سنتا ہے اور پھر اپنے زمانے میں انہیں پوری ہوتی دیکھتا ہے

Page 123

خطبات مسرور جلد ششم 103 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتا ہے کہ اس زمانے کی پیشگوئیوں کے پورے ہونے کے نظارے دیکھے.اور اس پر پھر مستزاد یہ کہ ایک احمدی شکر گزاری کرتا ہے کہ جس مسیح و مہدی کے آنے کی آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی ، جس کے زمانے میں یہ قرآنی پیشگوئیاں پوری ہوئی تھیں، اسے ماننے کی بھی ہمیں توفیق ملی.پھر نئے سائنسی انکشافات ہیں.ان کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل لبریز ہوتا ہے، دل بھر جاتا ہے.چودہ سو سال پہلے یہ باتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کے ذریعے سے بتا دیں.پرانی قو میں جنہوں نے نبیوں کا انکار کیا اور اس انکار کی وجہ سے ان سے جو سلوک ہوا اس پر ایک خدا کا خوف رکھنے والا، قرآن کریم کا ترجمہ سمجھنے والا ، اس کے الفاظ کو سمجھنے والا استغفار کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس حالت سے بچایا ہوا ہے اور آئندہ بھی بچائے رکھے.تو جتنا جتنا ہم وادراک ہوگا اتنا اتنا اللہ تعالیٰ کی کامل کتاب پر ایمان اور یقین بڑھتا جائے گا.اور یہی چیز ہے جو حق تلاوت ادا کرنے والی ہے.آنحضرت وہ اس بارہ میں کیا نصیحت فرماتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے.کہ حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ جو صحابہ میں سے ہیں یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے.اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.(رواہ البیہقی فی شعب الایمان بحوالہ مشكاة المصابیح کتاب الفضائل کتاب فضائل القرآن حدیث نمبر 2210 ) پس اس آیت کی مزید وضاحت بھی ہو گئی کہ حق تلاوت ادا کر کے صرف گھاٹے سے ہی نہیں بچ رہے ہو گے جیسا کہ اس کے آخر میں لکھا ہوا ہے بلکہ ان لوگوں میں شامل ہو رہے ہو گے جو فلاح پانے والے ہیں.ان لوگوں میں شامل ہونے جارہے ہو جو کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں.پھر ایک روایت میں حق تلاوت ادا کرنے والے کے مقام بلکہ اس کے والدین کے مقام کا بھی، جنہوں نے ایک بچے کو اس تلاوت کی عادت ڈالی، ذکر یوں ملتا ہے.سھل بن معاذ جھنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگی جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی.پھر جب ان کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا جس نے قرآن پر عمل کیا.(ابوداؤد کتاب الوتر باب ثواب قراءة القرآن حدیث نمبر 1453 پس والدین کو بھی توجہ کرنی چاہئے کہ یہ اعزاز ہے جو بچوں کو قرآن پڑھانے پر والدین کو ملتا ہے.تو اپنے بچوں کواس خوبصورت کلام کے پڑھانے کی طرف بھی توجہ دیں اور ان میں پڑھنے کی ایک لگن بھی پیدا کریں.

Page 124

خطبات مسرور جلد ششم 104 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : وہ شخص جو قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہوگا جو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں.اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات پر شدت سے کار بند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے.( بخاری کتاب التفسیر باب سورۃ عبس حدیث نمبر 4937) ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقیناً یہ دل بھی صیقل کئے جاتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ آلود ہونے پر اسے صیقل کیا جاتا ہے.کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! اس کی صفائی کیسے کی جائے ؟ یعنی دل کی صفائی کس طرح کی جاتی ہے.تو آنحضور ﷺ نے فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا.(الجامع لشعب الایمان لمینتی جلدنمبر 3 باب التاسع عشر وحو باب فی تعظیم القرآن) فصل في ادمان تلاوة القرآن حدیث نمبر 1859- مكتبة الرشد ریاض طبع پانی 2004 ) پس موت کی یاد اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں رکھتی.اس پر یقین ہو کہ جزا سزا کا دن آنا ہے.اور قرآن کریم کی تلاوت، اس کا حق ادا کرنے سے نیکیوں کی توفیق ملتی ہے.اس حق ادا کرنے کی وجہ سے ایک مومن اس دنیا میں بہترین اجر حاصل کرنے والا بن جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے بہترین اجر ہوتا ہے.صاف دل ہو کر حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کی طرف ایک مومن کی توجہ رہتی ہے.آنحضرت ﷺ کس طرح قرآن پڑھتے تھے؟ اس کی وضاحت بھی ضروری ہے.کیونکہ بعض لوگ قرآن کریم جلدی جلدی پڑھنے میں زیادہ قابلیت سمجھتے ہیں جبکہ آنحضرت ﷺ کا طریق اس سے بالکل مختلف تھا.اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے: حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کی قراءت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم کو ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے.(ابو داؤد - کتاب الوتر باب استحاب الترتيل في القراءة حديث نمبر 1465) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے قرآن کریم کے کئی بطن ہیں.یعنی اس کے الفاظ میں اتنے گہرے حکمت کے موتی ہیں کہ ہر دفعہ جب ایک غور کرنے والا اس کی گہرائی میں جاتا ہے تو نیا حسن اس کی تعلیم میں دیکھتا ہے.آنحضرت ﷺ سے زیادہ تو کوئی اس گہرائی کا علم نہیں رکھ سکتا جو قرآن کریم کے الفاظ میں ہے.پس آپ جب ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے تو ان الفاظ کے مطالب، ان کے معانی، ان کی گہرائی کی تہ تک پہنچتے تھے.لیکن آپ کا یہ اسوہ ہمیں اس بات پر توجہ دلاتا ہے کہ قرآن کریم کو غور اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور تدبر اور فکر کریں.اسی غور و فکر کی طرف توجہ دلانے کے لئے آپ نے اپنے ایک صحابی کو یوں تلقین فرمائی تھی.

Page 125

خطبات مسرور جلد ششم 105 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو.اس پر میں نے عرض کیا کہ میں اس سے جلدی پڑھنے کی قوت پاتا ہوں.اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا: پھر ایک ہفتہ میں مکمل کیا کرو اور اس سے پہلے تلاوت قرآن مکمل نہ کرنا.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب فی کم یقرء القرآن حدیث نمبر 5054) پس اگر وقت ہے تو پھر بھی اجازت نہیں کہ ایک ہفتہ سے پہلے قرآن کریم کا دور پورا مکمل کیا جائے کیونکہ فکر اور غور نہیں ہوسکتا.جلدی جلدی پڑھنا صرف مقصد نہیں ہے.اس بات سے صحابہ کے شوق تلاوت کا بھی پتہ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت تھی.اور یہ جو ہمارا زمانہ ہے اس زمانہ میں قرآن کریم کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ ترجیحات بدل گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جب کہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہوگی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.الحکم جلد 4 نمبر 37 مورخہ 17 اکتوبر 1900 صفحہ 5) پس یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اس کتاب کو پڑھنے سے مخالفین کے منہ بند کئے جاسکتے ہیں اور یہی اسلام کی عزت بچانا ہے.لیکن کیا صرف پڑھنا کافی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الفاظ بڑے واضح ہیں کہ اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے.یعنی قرآن کریم میں وہ دلائل ہیں جن سے اسلام کی عزت قائم ہوگی اور اُس جھوٹ کی جو مخالفین اسلام پر افتراء کرتے ہیں ، جڑیں اکھیڑی جائیں گی.اور یہی اصول ہے جس سے اسلام کی عزت بچائی جائے گی.جھوٹ کا خاتمہ اس وقت ہو گا جب ہمارے ہر عمل میں اس تعلیم کی چھاپ نظر آ رہی ہوگی اور یہ چھاپ بھی اس وقت ہوگی جب ہم اس پر غور کرتے ہوئے با قاعدہ تلاوت کرنے والے بنیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں“.یعنی جو چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بغیر فتح حاصل ہو جائے.” صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے ، پورے ہو گئے.ابتداء میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی

Page 126

خطبات مسرور جلد ششم 106 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 کے دعوے کرتے ہیں.لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جوصدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 409 مطبوعہ ربوہ ) یہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کیا تھی؟ یہ اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش تھی جو آنحضرت ﷺ پر اتری تھی.اور پھر ایک دنیا نے دیکھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس شہر میں آزادانہ طور پر پھر نہ سکتے تھے اور پھر ایک وقت آیا کہ جب اس شہر سے نکالے بھی گئے.اسی اطاعت اور اسی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ آج بھی ہماری فتوحات اسی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے ہوں گی.انشاء اللہ.پھر اچھی آواز میں تلاوت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.یہ ایک روایت ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کے حسن میں اپنی عمدہ آواز کے ساتھ اضافہ کیا کرو کیونکہ عمدہ آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے.(سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب تفریع ابواب الوتر باب استحباب الترتيل في القراءة حديث نمبر 1468) اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے.بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.اور خود اس میں ایک اثر ہے.عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے.وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے یعنی کہ واضح طور پر نہ ہو تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا.جس شے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے.حضرت داؤد کی زبور گیتوں میں تھی اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤد" خدا تعالیٰ کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 524 مطبوعہ ربوہ ) تو اس خوش الحانی کا بھی مقصد ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا رکھا ہے؟ یہ کہ اس سے اسلام کی تبلیغ ہو.وہ لوگ جو اچھی آواز سے متاثر ہوتے ہیں ان کو متاثر کر کے پھر اس تعلیم کے اصل مغز سے آگاہ کیا جائے.جس کتاب کا میں نے شروع میں حوالہ دیا ہے ، اس میں اکثر عورتوں نے یہی ذکر کیا ہے کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا ؟ اس کو سنا اور پھر جب اس کی تعلیم کو دیکھا تو ان کو پسند آئی.تو یہی بات جو انہوں نے کی ہے اس کی تعلیم ان کو پسند آئی ، یہی قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ حقیقی تعلیم اور فطرت کے مطابق تعلیم اور ہدایت کے راستے قرآن کریم میں ہی ہیں.جیسا کہ فرماتا ہے.اِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا.( بنی اسرائیل : 10)

Page 127

خطبات مسرور جلد ششم 107 خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 2008 یعنی یقین یہ قرآن اس ( راہ) کی طرف ہدایت دیتا ہے جو سب سے زیادہ قائم رہنے والی ہے اور ان مومنوں کو جو نیک کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ( مقدر) ہے.پس یہ اعلان غیر مسلموں کے لئے بھی ہے اور مومنین کے لئے بھی.قرآن کریم کی ہدایت اور مقاصد بہت اعلیٰ ہیں.اور یہ ہدایت اور یہ شریعت ہمیشہ کے لئے ہے جبکہ پہلی شریعتیں نہ مکانی وسعت رکھتی تھیں نہ زمانی وسعت.نہ ہی ان میں کا ملیت ہے، نہ ہی فطرت کے مطابق ہیں.پس نیک فطرت لوگوں کا اس کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے.پس یہ پیغام ہے ہر غیر کے لئے جو ہم نے پہنچانا ہے کہ آئندہ اگر روحانی اور جسمانی انعامات حاصل کرنے ہیں تو یہی قرآن ہے جس کی تعلیم پر عمل کر کے حاصل کئے جاسکتے ہیں.پھر مومنوں کو بشارت ہے کہ جب تک تمہارے عمل نیک رہیں گے ، اعلیٰ مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے رہو گے تو تمہارے انعام اس اعلیٰ عمل کے نتیجے میں بڑھتے بھی رہیں گے اور بہت اعلیٰ بھی ہوں گے.پس جیسا کہ میں پہلے شروع میں ذکر کر آیا ہوں کہ قرآن کریم کی تلاوت کا حق مومنین کے نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے.اس لئے اپنے اعمال کی حفاظت کرتے رہنا یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ایک مسلمان پر ڈالی گئی ہے.اور نہ صرف ہر مسلمان پر اپنی ذات کے بارے میں یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اس انعام اور اس کے بڑے اجر سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے.یہ نہ ہو کہ صرف اس بات پر فخر رہے کہ ہمیں وہ کتاب دی گئی ہے جس کا مقام سب پہلی شریعتوں سے اعلیٰ ہے بلکہ یہ فکر رہے کہ اس کی تعلیم اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنے اوپر لاگو کر کے اس کے انعامات کے مستحق خود بھی ٹھہر میں اور اپنی نسلوں میں کوشش کر کے اس تعلیم اور حق تلاوت کو راسخ کرنے کی کوشش کریں.ورنہ یا درکھیں اگر ہر احمدی نے اس اہم نکتے کو نہ سمجھا اور صرف اسی بات پر ہم اتراتے رہیں کہ ہم قرآن کو ماننے والے ہیں تو جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس سے بتایا ہے کہ قرآن ایسے پڑھنے اور ماننے والوں پر لعنت کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے نیک اعمال کی بجا آوری اصل چیز ہے.قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا اصل چیز ہے اور جب تک ہم اس پر قائم رہیں گے ہدایت کے راستے نہ صرف خود پاتے رہیں گے بلکہ دوسروں کو بھی دکھاتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ قرآن اس سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے جس میں ذرا بھی نہیں اور انسانی سرشت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے اور در حقیقت قرآن کی خوبیوں میں سے یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک کامل دائرہ کی طرح بنی آدم کی تمام قومی پر محیط ہو رہا ہے اور آیت موصوفہ میں سیدھی راہ سے وہی راہ مراد ہے جو آیت میں نے پڑھی تھی کہ جو راہ انسان کی فطرت سے نہایت نزدیک ہے یعنی جن کمالات کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے ان تمام کمالات کی راہ اس کو دکھلا دینا

Page 128

خطبات مسرور جلد ششم 108 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 مارچ 2008 اور وہ را ہیں اس کے لئے میسر اور آسان کر دینا جن کے حصول کے لئے اس کی فطرت میں استعداد رکھی گئی ہے اور لفظ أَقْوَمُ سے آیت يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَم میں یہی راستی مراد ہے".کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 53-54) پھر آپ اس صحیفہ فطرت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی شکل میں رکھی ہے.حلم ہے.ایثار ہے.شجاعت ہے.صبر ہے.غضب ہے.قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا.جیسے فِي كِتَابٍ مَّكْنُون.یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اسی طرح اس کتاب کا نام ” ذكر “بیان کیا تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلا وے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا تا کہ انسان ان معارف اور حقائق اور روحانی خوارق کو معلوم کرے جن کا اسے نہ تھا.رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ 94) قرآن کریم کو تدبر سے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: "جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي القُرآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے.اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.(یعنی قرآن کے واسطے کے بغیر کوئی اور تمہیں ہدایت نہیں دے سکتا ) ”خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے.اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے.پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے.یہ بڑی دولت ہے.

Page 129

خطبات مسرور جلد ششم 109 خطبہ جمعہ فرموده 7 مارچ 2008 اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی.قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں بیچ ہیں.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27) پس یہ توقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک احمدی سے ہیں.قرآن کریم کے تمام احکامات کی پیروی کی کوشش ہی ہے جو ہمیں نجات کی راہیں دکھانے والی ہے.اس کے لئے ایک لگن کے ساتھ ، ایک تڑپ کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ تقویٰ کے راستوں کی تلاش ہم نے کرنی ہے اور اسی مقصد کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے تو پھر یہ تقویٰ انہی راستوں پر چل کر ہی ملے گا جن پر آنحضرت ﷺ کے صحابہ چلے تھے.اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان کر دنیا میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور ایک انقلاب لانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنی حالتوں میں انقلاب لانا ہوگا.اپنی نسلوں میں انقلاب لانا ہو گا.اپنے ماحول کو اس روشن تعلیم سے آگاہ کرنا ہوگا.اس تعلیم سے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں کے منہ بند کرنے ہوں گے جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.جن کو یہ فکر پڑ گئی ہے کہ اسلام کی طرف کیوں دنیا کی توجہ ہے.جس کی تحقیق کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں جائزہ کے لئے پیسہ خرچ کیا جارہا ہے.اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ یہ اسلام کی خوبیاں تلاش کرنے کے لئے ریسرچ ہو رہی ہے یا تحقیق ہو رہی ہے کہ خوبیاں کیا ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اسلام کا حسن نظر آئے تو یہ غلط نہی ہے.یہ تحقیق اس لئے ہے کہ ان طاقتوں اور حکومتوں کو ہوشیار کیا جائے جو اسلام کے خلاف ہیں کہ اس رجحان کو معمولی نہ سمجھو اور جو کارروائی کرنی ہے کر لو.جو ظاہری اور چھپے ہوئے وار کرنے میں کر لو اور اس کے لئے جو بھی حکمت عملی وضع کرنی ہے وہ ابھی کرلو، وقت ہے.پس ہر احمدی کی آج ذمہ داری ہے کہ اس عظیم صحیفہ الہی کی ، اس قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کریں.اپنے آپ کو بھی بچائیں اور دنیا کو بھی بچائیں.جن لوگوں کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے لیکن احمدی نہیں ہوئے ان میں سے بہت سوں نے آخر حقیقی اسلام اور حق کی تلاش میں احمدیت کی گود میں آنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اس کے لئے ہر احمدی کو اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیئے.آج جب اسلام دشمن طاقتیں ہر قسم کے ہتھکنڈے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہیں، بیہودگی کا ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے تو ہمارا کام پہلے سے بڑھ کر اس الہی کلام کو پڑھنا ہے ، اس کو سمجھنا ہے، اس پر غور کرنا ہے، فکر کرنا ، تدبر کرنا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اس کلام کے اتارنے والے خدا کے آگے جھکنا ہے تا کہ ان برکات کے حامل بنیں جو اس کلام میں پوشیدہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 13.مورخہ 28 مارچ تا 4 اپریل 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 130

خطبات مسرور جلد ششم 110 (11) خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مارچ 2008 فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2008ء بمطابق 14 امان 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت حلیم ہے جس کے معنی (اگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال کی جائے تو ) یہ ہیں کہ رحم کرنے والی ہستی ، معاف کرنے والا ، درگزر کرنے والا یعنی نافرمانی کی صورت میں نافرمانوں پر فوری طور پر غضب نازل نہیں کرتا.نافرمانی اسے بے چین نہیں کرتی.پھر پردہ پوشی کرنے والا ہے.گویا اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں کئی صفات کے معنی آگئے ہیں.رحیم بھی ہے.غفور بھی ہے.ستار بھی ہے لیکن جب انسان اصرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو توڑنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اگر وہ چاہے تو اس کی وہ صفات کام کرنا شروع کر دیتی ہیں جن میں پکڑ اور سزا بھی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم پکڑ میں جلدی نہیں کرتے.کیونکہ اگر خدا تعالیٰ پکڑ میں جلدی کرنے لگ جائے تو انسان جو گناہوں کا پتلا ہے، ہر گناہ اور جرم پر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آکر سزا پانے والا بن جائے.بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں بڑے گناہ کرنے والوں کو بھی ڈھیل دیتا ہوں حتی کہ کفار، اور انبیاء کو جولوگ دکھ اور تکلیف دینے والے ہیں ان کو بھی چُھوٹ دیتا ہوں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَلَكِنْ يُؤْخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُونَ.(النحل: 63) اور اگر اللہ انسانوں کا ان کے ظلم کی بنا پر مواخذہ کرتا تو اس زمین پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک طے شدہ میعاد تک مہلت دیتا ہے.پس جب ان کی میعاد آ پہنچے تو نہ وہ اس سے ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں.تو یہ ہے جواب ان لوگوں کو جو خدا کو نہ ماننے والے ہیں، جو انبیاء سے استہزاء کا سلوک کرنے والے ہیں، جن کو دنیا کی چکا چوند نے بالکل اندھا کر دیا ہوا ہے کہ اللہ غلط کام کرنے والوں کو اور اپنے پیاروں کے ساتھ استہزاء کرنے والوں کو ضرور پکڑتا ہے.اس لئے یہ نہ سمجھو کہ تمہیں اگر کبھی اللہ تعالیٰ نے نہیں پکڑایا ابھی تک اللہ تعالیٰ کی پکڑ نہیں آئی تو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے نبی غلط ہیں یا خدا تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے.آج کل جو کارٹون بنانے والے ہیں یا جو آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم سے استہزاء کرنے والے ہیں ان کا

Page 131

خطبات مسرور جلد ششم 111 خطبه جمعه فرمودہ 14 مارچ 2008 جواب بھی اس آیت میں آ گیا ہے کہ کیوں انہیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے.یہ کھلی چھٹی نہیں ہے بلکہ یہ ڈھیل اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنا ایک قانون بنایا ہوا ہے.اس کی صفت حلیم ہے جو اُن کو بچارہی ہے.اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم کا تقاضا ہے کہ وہ بندوں کی طرح فوری طور پر اشتعال میں نہیں آتا ، غصے میں نہیں آتا جب تک کہ اچھی طرح اتمام حجت نہ ہو جائے.اس لئے یہ نہ سمجھو کہ اس ڈھیل کا ملنا، یا تمہیں فوری سزا نہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تم حق پر ہو.یا اسلام یا قرآن حقیقت میں اس قابل ہی ہیں کہ ان کو اگر برا بھلا بھی کہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں.یا یہ نہ سمجھو کہ تمہیں سزا کا نہ ملنا خدا تعالیٰ کے عدم وجود پر دلالت کرتا ہے.اگر یہی دلیل ہے کہ فوری پکڑ نہ ہوتو یا وہ دین سچا نہیں ہے یا خدا تعالیٰ کا وجود نہیں ہے تو پھر بہت سی دنیاوی برائیاں ہیں جن میں مجرم فوری طور پر پکڑے نہیں جاتے.بعض جرموں کا پتہ لگنے پر حکومتی ادارے ان پر نظر رکھتے ہیں لیکن فوری پکڑتے نہیں.تو ان جرموں پر اس طرح پکڑے نہ جانے کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ وہ جرائم ، جرائم نہیں رہے.حکومتیں بھی ایک حد تک ڈھیل دیتی ہیں اور نظر رکھتی ہیں اور پھر قانون حرکت میں آ جاتا ہے.تو پھر جو حاکم اعلیٰ ہے اور جس نے اپنی ایک صفت حلیم بتائی ہے اُس سے کیوں توقع رکھی جاتی ہے کہ فوری پکڑے اور اگر نہ پکڑے گا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ دین خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے یا خدا تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے.دنیاوی قانون میں تو پکڑے جانے اور سزا کے بعد اس شخص تک ہی بات محدود رہتی ہے جس کو پکڑا گیا ہو یا سزا دی گئی ہو یا زیادہ سے زیادہ اس کے فوری زیر پر ورش لوگ بیوی بچے، بہن بھائی ، ماں باپ متاثر ہوتے ہیں.اور اگر کسی کو کسی جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو نسل چلتی رہتی ہے یا کم از کم انسانیت کی نسل چلتی رہتی ہے ، اس خاندان کی نسل چلتی رہتی ہے؟ اس معاشرے میں نسل چلتی رہتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میں نسل انسانی کے جرموں پر انہیں پکڑ نا شروع کر دوں اور فوری پکڑنے لگوں تو نسل انسانی ہی ختم ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل کے قانون کے بغیر تو نسل انسانی چل ہی نہیں سکتی.کیونکہ دنیا گناہوں سے بھری پڑی ہے اگر یہ ہو کہ ہر گناہ پر اس دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ عذاب نازل فرما نا شروع کر دے یا جب سے دنیا بنی ہے عذاب نازل کرتارہتا تو اب تک نسل انسانی ختم ہو چکی ہوتی.یہ ٹھیک ہے کہ نیک لوگ بھی دنیا میں ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو اول تو بہت کم ایسے نظر آئیں گے جو سو فیصد ہر نیکی کو بجالانے والے ہیں جن سے کبھی گناہ سرزد ہی نہ ہوا ہو.اللہ تعالیٰ تو کسی بھی جرم کی سزا میں پکڑ سکتا ہے.اور دوسرے یہ کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ان نیک لوگوں کے آباء واجداد بھی نیک ہی تھے.اگر وہ اسی وقت پکڑے جاتے تو یہ نسل ہی نہ آتی.یہ نیک نسل آگے چل ہی نہیں سکتی تھی اور ہوتے ہوتے آگے پھر نسل ختم ہی ہو جاتی.پس اگر اللہ تعالیٰ ہر گناہ کی فوری سزا اور پکڑا اور عذاب شروع کر دے تو نسل انسانی کا خاتمہ ہو جائے.یڑٹھیک ہے کہ بہت سوں کو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں بھی سزا دیتا ہے.لیکن جب شیطان نے کہا تھا کہ میں انسانوں کو ورغلانے کے لئے ان کے

Page 132

خطبات مسرور جلد ششم 112 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مارچ 2008 آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کے دائیں سے بھی اور ان کے بائیں سے بھی آؤں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں ان سب کو پھر جہنم سے بھر دوں گا جو تیری اتباع کرنے والے ہیں.گو بعض لوگوں کو ان کے اعمال اس دنیا میں ہی جہنم کا نمونہ دکھا دیتے ہیں لیکن یہ جہنم کا دور مرنے کے بعد ان کی سزا سے شروع ہوگا.پس اللہ تعالیٰ نے یہ جو جزا سزا کا دن رکھا ہے یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ فوری طور پر یہاں نہیں پکڑتا بلکہ آگے جاکے پکڑے گا.اگلے جہان جا کر جزا سزا کا فیصلہ ہوگا.اس لئے آخرت پر یقین نہ رکھنے والے یہ نہ سمجھیں کہ اس دنیا میں اگر پکڑ نہیں ہے تو اگلے جہان میں بھی ہمارے ساتھ کوئی پوچھ کچھ نہیں ہوگی کیونکہ ہمارا کفارہ ادا ہوا ہے یا خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جو ہمیں سزا دے.کاش کہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹ سے غلط مطلب نکالنے کی بجائے یا خدا کو نہ سمجھنے والے اس حقیقت کو سمجھیں کہ خدا ہے اور اس کی طرف جھکنے والے بنیں.پھر اس آیت میں خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ہر گناہ پر اس دنیا میں گرفت شروع ہو جائے تو اس زمین پر میں پھر کوئی جاندار بھی باقی نہ چھوڑتا اور جاندار کا نہ چھوڑنا، کیا مقصد ہے؟ یہ اس لئے کہ اس رحمان خدا نے انسان کی بقائے زندگی کے لئے اس دنیا میں پہلے زندگی پیدا کی ہے.اس لئے کہ جو خدا تعالیٰ کی باقی مخلوق ہے اس کی زندگی بھی انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے بلکہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی دوسری مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی تھی.پہلے دوسری زندگی شروع ہوئی تھی.ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت پر لگا دیا اور اس کے لئے مسخر کر دیا.پس اگر انسان کی زندگی کا سزا دے کر خاتمہ کرنا تھا تو اس مخلوق کو ہی ختم کر دیتا جو انسان کی بقا کے لئے تھی اور انسان ایک عذاب میں مبتلا ہو کرختم ہو جا تا.کیونکہ بقایا زندگی کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی.یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی عذاب سے انسانیت ہی کو ختم کرنا تھا تو پھر اس کی بقا کے جو سامان مہیا فرمائے ان کا بھی خاتمہ کر دیتا.کیونکہ جب انسان ہی نہیں رہا تو ان چیزوں کی بھی ضرورت نہیں رہی.پس اللہ تعالیٰ کے فوری طور پر کسی جرم میں نہ پکڑنے کی بڑی حکمت ہے.جس طرح نیک لوگوں میں سے بد پیدا ہو جاتے ہیں یا ہو سکتے ہیں اسی طرح بدوں میں سے نیک بھی پیدا ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی اس صفت حلیم کو خوب سمجھا ہے تبھی تو طائف کے سفر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بد قماش قوم کو ختم کرنے کے لئے کہنے پر آپ نے اس حلیم کا پر تو بنتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ ! میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل میں سے تیری عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے.اور تجھ سے دعا بھی کرتا ہوں اور تو میری اس دعا کو قبول کر.اور پھر اس قوم میں سے دنیا نے دیکھا کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے پیدا ہوئے.وہ جو آپ کی جان لینا چاہتے تھے ، ان کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھا کہ نعوذ باللہ آ نحضرت ﷺ کی جان لیں.وہی آپ پر اپنی جانیں نثار کرنے والے بن گئے.پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل میں بڑی حکمت ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں ان کا حساب نہیں لوں گا بلکہ مؤاخذہ میں ڈھیل ہے.اور فرمایا جب مؤاخذہ کا وقت آئے گا تو پھر اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا.

Page 133

خطبات مسرور جلد ششم 113 خطبه جمعه فرمودہ 14 مارچ 2008 پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو حد سے بڑھ جاتے ہیں فرماتا ہے کہ وَلَوْيُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَلكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى.فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا - (الفاطر : 46) اور اگر اللہ لوگوں کا اس کے نتیجہ میں مؤاخذہ کرتا جو انہوں نے کمایا تو اس (زمین) کی پشت پر کوئی چلنے پھرنے والا جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ان کو ( آخری ) مدت تک مہلت دیتا ہے.پس جب ان کی مقررہ مدت آ جائے گی تو ( خوب کھل جائے گا کہ یقینا اللہ اپنے بندوں پر گہری نظر رکھنے والا ہے.اس آیت سے کچھ پہلے اسی سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ اپنے حلیم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يُمْسِكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ اَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّنْ بَعْدِهِ.إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا - (الفاطر: 42 ) کہ یقینا اللہ آسمانوں اور زمین کورو کے ہوئے ہے کہ وہ ٹل سکیں اور اگر وہ دونوں (ایک دفعہ ) ٹل گئے تو اس کے بعد کوئی نہیں جو پھر انہیں تھام سکے.یقینا وہ بہت بُردبار اور بہت بخشنے والا ہے.اس آیت کا مقصد ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لانے والے نہیں وہ اپنی مذموم حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے یقیناً قابل ہیں.لیکن خدا تعالیٰ جو رحم کرنے والا ہے ، بردبار ہے، بخشنے والا ہے اس نے تمہیں بچایا ہوا ہے اور ڈھیل دیتا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلو.اس رویے کو بد لوجو آنحضرت ﷺ کے خلاف تم نے اپنایا ہوا ہے.اپنی اصلاح کر لو ورنہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا حساب لینا شروع کر دے اور فوری سزا شروع کر دے تو چند لمحوں میں تمہیں ختم کر سکتا ہے.اور زمین و آسمان کو اس نے روک رکھا ہے.اگر وہ ٹل جائیں تو پھر قیامت کا نمونہ ہوگا.پس وہ خدا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے جو فوری بدلے نہیں لیتا اور بخشنے والا بھی ہے اس کی طرف جھکو اور اپنی حدود کے اندر رہو.یہ جو پہلی آیت میں نے پڑھی تھی (الفاطر 46 مراد ہے.ناقل ) اور ترتیب کے لحاظ سے وہ آخری آیت ہے.اس میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فوری مؤاخذہ کرتا تو نہ کوئی جنگلی جانور باقی رہتا ، نہ کوئی گھریلو جانور باقی رہتا، نہ کوئی پرندہ باقی رہتا.یعنی پھر یہاں دوبارہ اس بات کا اظہار فرمایا کہ تمہاری زندگی کی بقا جن زندگیوں سے وابستہ ہے اگر صرف انہی کا خاتمہ اللہ تعالی کر دے تو تمہاری زندگی اذیت ناک ہو جائے گی اور اسی عذاب میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاؤ گے.پس کس بات پر اتراتے پھرتے ہواور تکبر کرتے ہو.پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ عارضی ڈھیل دی ہے اس سے سبق سیکھو.یہ مستقل سزا بھی بن سکتی ہے.اب یہاں مرغیوں کی بیماریاں آئیں مثلاً برڈ فلو ہے، دنیا میں بڑا پھیلا.اس نے کئی ملکوں کے لوگوں کو پریشان کر دیا.یہ تو ہلکے ہلکے جھٹکے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں.لیکن سب سمجھتے نہیں سمجھتے وہی ہیں جو سمجھنے والے ہیں.ایک

Page 134

خطبات مسرور جلد ششم 114 خطبه جمعه فرموده 14 مارچ 2008 زمانے میں گائیوں کی بیماری نے ان کو پریشان کر دیا تھا.اگر غور کریں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے ایک وقت میں ہی دنیا کے ان تمام جانوروں میں کسی قسم کی بیماری پیدا کر دے تو دنیا اسی سے عذاب میں مبتلا ہو جائے گی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے.وہ ایک آخری مدت تک مہلت دیتا ہے اور جب وہ مدت آ جائے اور انسان اپنے رویوں میں تبدیلی نہ کرے، خدا کے کاموں میں ہاتھ ڈالنے سے باز نہ آئے ، اس کی رکھ میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو پھر مزید ڈھیل نہیں ہوتی.پھر صفت حلیم کی بجائے دوسری صفات اپنا کام کرنا شروع کر دیتی ہیں.اس آیت میں بھی اور دوسری آیات میں بھی دَابَّة کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ ہے جاندار یا جانور.اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زمین کے کیڑے، پس یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ کے اور اس کے نبیوں کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں وہ دنیا کے کیڑے ہیں.اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ اگر یہ لوگ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو جس طرح کیڑوں کو مسلنے میں کوئی عار نہیں ہے ان کو بھی اسی طرح ختم کر دے.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق ایک مدت تک مہلت دی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کی نظر میں اور ہر دیندار کی نظر میں یہ لوگ بے حقیقت ہیں.ذلیل کیڑے سے زیادہ ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں جو خدا کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں.یہ تو چند مثالیں ہیں جو میں نے پیش کیں، ان لوگوں کی جو استہزاء میں بڑھے ہوتے ہیں اور خاص طور پر اسلام اور آنحضرت ﷺ کو نشانہ بناتے ہیں اور زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا اگر کوئی خدا ہے تو سامنے آکر ہم سے بدلہ کیوں نہیں لیتا.تو اللہ تعالیٰ حلیم ہے درگزر کرتا ہے لیکن جب اس کی چکی چلتی ہے تو اس دنیا میں بھی حد سے بڑھے ہوؤں کو خائب و خاسر کر دیتی ہے اور اگلے جہان میں بھی.قرآن کریم کی ان آیات میں ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف استہزاء اور بدزبانی اور بدگوئی سے باز نہیں آتے کہ اللہ کی چھوٹ سے غلط فائدہ نہ اٹھاؤ.اس کتاب کو ماننے والے ، قرآن کریم کو ماننے والے جو لوگ ہیں ان پر تو اور بھی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر غور کر کے غلط استہزاء اور الزام تراشی سے باز آئیں.اگر اللہ تعالی پکڑ نہیں رہا تو یہ نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نعوذ باللہ جھوٹے ہونے کی دلیل ہے نہ تم لوگوں کے سچے ہونے کی دلیل ہے.پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے ان پر بھی بڑی آفات آ رہی ہیں ، ان پر بھی غور کریں.یہاں میں احمدیوں کو بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ بعض جلد باز سمجھتے نہیں اور فکر میں رہتے ہیں کہ حالات بدلتے نہیں.اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایا ہر کام کے لئے ایک اجل مسمی ہے اور عذاب کے لئے تو خاص طور پر اس نے اجل مسمی کا ذکر کیا ہے.جب وہ آئے گی تو نہ (کوئی) اس سے ایک قدم آگے جائے گا نہ پیچھے.اللہ تعالیٰ تو اپنی تمام

Page 135

خطبات مسرور جلد ششم 115 خطبه جمعه فرموده 14 مارچ 2008 صفات کا اظہار کرتا ہے اور بوقت ضرورت کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی وعدہ ہے کہ آپ کی جماعت کا غلبہ ہوگا اور انشاء اللہ ضرور ہو گا.بعض احمدی بعض الہامات پر خوش فہمی میں وقت کا تعین شروع کر دیتے ہیں.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ وہ وقت نہیں بتاؤں گا.پس اگر حضرت مسیح موعود کو وقت نہیں بتایا گیا تو میں آپ کون ہیں جن کو وقت کا پتہ لگ جائے؟ اگر وقت کا پتہ لگ جائے تو بغیہ کیا ہوا؟ تو ہمارا کام دعائیں کئے جانا ہے اور وقت کا انتظار کرنا ہے.قوموں کی زندگی میں چند سال کوئی لمبا عرصہ نہیں ہوا کرتا.تمام مخالفتوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی جو ترقی ہے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.چاہے کسی کی ظاہری دشمنی کی کوششیں ہوں یا چھپی ہوئی دشمنی کی کوششیں ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں اور نہ کبھی بگاڑ سکیں اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے سے آگے ہی بڑھ رہی ہے اور انشاء اللہ بڑھتی ہی چلی جائے گی.ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے اعمال کی طرف توجہ دیں.اور یہ بڑی اہم بات ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو پاک صاف رکھے اور ہمارے سے وہ اعمال کروائے جو اس کی رضا کے حصول کے اعمال ہوں.اگر ہم نے اپنے عملوں کو، اپنے دلوں کو غلط کاموں سے پاک صاف رکھا تو بعید نہیں کہ جلد وہ غلبہ عطا ہو اور وہ نظارے ہمیں نظر آئیں جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.پس ہمیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے.کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے اور حلیم بھی ہے ہمارے کسی عمل کی وجہ سے ہمارا مواخذہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمُ (البقرة: 226) یعنی تمہارا مؤاخذہ کرے گا جو تمہارے دل کماتے ہیں اور پھر آگے فرمایا کہ وَاللهُ غَفُورٌ حلیم اللہ بہت بخشنے والا اور بردبار ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گنہ گار نہیں کرتے بلکہ عنداللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین ہی قسم ہیں.(1) اول یہ کہ زبان پر نا پاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں جاری ہوں.(2) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کی حرکات صادر ہوں.(3) تیسرے یہ کہ دل جو نافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعل بدضرور کروں گا.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكِنْ يُؤَاخِدُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ (البقرة : 226) یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مواخذہ ہوگا مگر مجرد دخطرات پر مواخذہ نہیں ہو گا کہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں.خدائے رحیم ہمیں ان خیالات پر نہیں پکڑتا جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں.ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے، یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی

Page 136

116 خطبه جمعه فرموده 14 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم ذکر کیا ہے.جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوَّادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل : 37) یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی.اب دیکھو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کان اور آنکھ کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا ہے.صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں.ہاں اس وقت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے.ایسا ہی اللہ جل شانہ اندرونی گناہوں کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتا ہے قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ.(الاعراف:34) یعنی خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر دیئے ہیں“.( نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 427 تا 428) پس اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں ان سے فیض حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے نظارے کرتے رہنے والے بنیں اور اس کے لئے تین باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے، جن سے ظاہری طور پر ایک مومن نیکیاں بجالانے والا ہوتا ہے اور دل بھی پاک رہتا ہے.آپ نے پہلی بات یہ بتائی کہ کوئی ایسی بات کبھی کسی کے خاص طور پر احمدی کے منہ سے نہ نکلے جو سچائی اور انصاف کا گلا گھونٹنے والی ہو.جس سچائی پر قائم رہنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس سے کبھی دور جانے والے نہ ہوں.اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے اس کو کبھی بھولنے والے نہ ہوں.انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اپنوں کے خلاف بھی اگر تمہیں انصاف قائم کرنے کے لئے گواہی دینی پڑے تو گواہی دو.اور پھر اس حد تک فرمایا کہ کسی کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم انصاف کے تقاضے نہ پورے کر سکو.پس یہ بہت اہم حکم ہے.اللہ حلیم ہے تو ہمیں بھی حلم اختیار کرنا چاہئے.پھر دوسری بات یہ کہ کسی بھی عمل سے ایسی حرکت ظاہر نہ ہو جو نا فرمانی والی ہو.اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ لڑائی جھگڑوں اور دنگا فسادوں سے بچو تو اس پر پوری طرح عمل ہو.پھر ظاہری عمل ہی نہیں اگر کسی نے اپنے لئے دل میں بھی کسی غلط کام کا ارادہ کیا ہے تو یہ بات بھی اسے خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے لانے والی ہوگی.ہاں اس بات کی تو چھوٹ ہو سکتی ہے کہ جو دل میں خیال آئے ، کیونکہ بعض اوقات انسان کے دل میں خیالات آ جاتے ہیں کہ بس میں نہیں ہوتا.اگر کوئی بدخیال آتا ہے تو اس کو فوراً جھٹک دے.لیکن اگر اس کو دل میں بٹھائے ، دوہرا تا ر ہے اور یہ ارادہ بھی کرے کہ یہ کام میں ضرور کروں گا تو یہ گناہ ہے.حدیث میں آتا ہے کہ اگر کسی شخص کے دل میں برا خیال آئے اور وہ

Page 137

خطبات مسرور جلد ششم 117 خطبه جمعه فرموده 14 مارچ 2008 اس کو دبالے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں پوری نیکی لکھے گا.اس بد خیال کو دبانے کی وجہ سے اسے نیکی کی جزاء ملے گی.پس یہ ہمارا خدا ہے، جو غفور بھی ہے اور حلیم بھی ہے.پس خدا کی اس صفت حلیم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے جو فوری طور پر نہیں پکڑتا بلکہ موقع دیتا ہے کہ انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرے.صفت حلیم کے ساتھ غفور کو لگا کر اس بات کا اعلان کیا کہ میں اپنے بندوں کے گناہوں اور غلط کاموں سے جو صرف نظر کرتا ہوں، درگزر کرتا ہوں ، پردہ پوشی کرتا ہوں تو بندے کا یہ کام ہے کہ اس پر بجائے گناہوں میں بڑھنے کے استغفار سے کام لے اور میرے سے بخشش طلب کرے اور میری اس صفت سے فائدہ اٹھائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 16.مؤرخہ 14اپریل تا 10 اپریل 2008، صفحہ 5 تا صفحہ 7

Page 138

خطبات مسرور جلد ششم 118 (12) خطبه جمعه فرموده 21 مارچ 2008 فرموده مورخه 21 / مارچ 2008ء بمطابق 21 رامان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں یہ ذکر ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات حلیم ہے اور باوجود بعض لوگوں اور قوموں کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہونے ، زیادتیوں میں بڑھے ہوئے ہونے اور نافرمانیوں میں بڑھے ہوئے ہونے کے اپنی اس صفت کے تحت اس دنیا میں ایسے لوگوں اور قوموں سے عمو ماصرف نظر کرتے ہوئے انہیں فوری نہیں پکڑتا.اگر وہ اس طرح رحم نہ کرے اور نرمی کا سلوک نہ کرے اور فوری سزا اور پکڑ اور انتقام کی صفات حرکت میں آجائیں تو دنیا میں کوئی فرد بشر باقی نہ بچے بلکہ پھر کوئی جاندار بھی باقی نہ بچتا.اللہ تعالیٰ نے اپنے پر ایمان لانے والوں کو بھی اپنی صفات کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے.ایک مومن کی یہی نشانی بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہو.انبیاء کو اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے وافر حصہ عطا فرماتا ہے تاکہ دنیا کی اصلاح کر سکیں ، ان کے سامنے نمونہ بن سکیں اور آنحضرت مہ کو سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک عطا ہوا اور آپ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو بنے.لیکن وہ لوگ جو اسلام اور آنحضرت ﷺ سے بغض رکھتے ہیں، کینہ رکھتے ہیں اُن کو اُن کے ان بغضوں اور کینوں نے اندھا کر دیا ہے.ان کو آپ ﷺ کی ذات میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا اظہار نظر ہی نہیں آتا.آنحضرت ﷺ نے امت کو کیا نصیحتیں کیں اور اس صفت کے حوالے سے آپ کے عمل کیا تھے ( اس ضمن میں ) آج میں صفت حلیم کے حوالے سے بعض احادیث پیش کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ایک دفعہ ایک ایلچی حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس آیا.وہ بار بار آپ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا.داڑھی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا اور حضرت عمر تلوار کے ساتھ اس کا ہاتھ ہٹاتے تھے.آخر حضرت عمر کو آنحضرت ﷺ نے روک دیا.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ یہ ایسی گستاخی کرتا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے اس کو قتل کر دوں مگر آ نحضرت ﷺ نے اس کی تمام گستاخی حلم کے ساتھ برداشت کی.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 324 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )

Page 139

خطبات مسرور جلد ششم 119 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مارچ 2008 آپ نے فرمایا نہیں سختی نہیں کرنی.آنحضرت ﷺ کے حسن خلق اور صفت حلیم کا اظہار ایک اور روایت میں اس طرح ملتا ہے.حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں.( یہ لمبی حدیث ہے ، خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا) کہ زید بن سعنہ آنحضرت یہ کی خدمت میں تشریف لائے.وہ یہودی عالم کہتے ہیں کہ جب میں نے آنحضرت ﷺ کے چہرے کو دیکھا تو اس میں نبوت کی تمام علامات مجھے نظر آئیں.سوائے دو باتوں کے جن کا مجھے پتہ نہیں چلتا تھا.ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نبی کا علم اس کے غصے پر غالب ہوگا اور دوسری بات یہ کہ جتنا زیادہ اس کو غصہ دلایا جائے اور اس کی گستاخی کی جائے اتنا ہی زیادہ وہ حلم اور بردباری دکھائے گا.تو کہتے ہیں کہ میں اس جستجو میں رہا کہ مجھے کوئی موقع ملے تو میں ان دو علامتوں کی بھی پہچان کروں کہ آیا آپ میں ہیں کہ نہیں اور آپ حقیقت میں وہی نبی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی ؟ وہ کہتے ہیں ایک دن ایک سوار آیا جو بدوی تھا، دیہاتی تھا.اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ بنو فلاں کے گاؤں بھری کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو ان کو وافر رزق ملے گا.اب حالات یہ ہیں کہ بارش کی کمی کی وجہ سے قحط کا شکار ہو گئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ پھر لالچ میں آکر کسی اور سے یہ رزق لے کر یا مدد لے کر اسلام سے باہر نہ نکل جائیں.کیونکہ لگتا تھا کہ وہ کسی لالچ میں ہی اسلام لائے ہیں.تو آپ مہربانی کریں اور مناسب سمجھیں تو ان کی کچھ مدد اور دلداری فرما ئیں.اس نے جب یہ آنحضرت سے عرض کیا، اُس وقت آنحضور کے ہمراہ حضرت علی تھے.حضرت علیؓ سے آپ نے پوچھا تو انہوں نے کہا اس وقت ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو مدد کے طور پر بھیجی جا سکے.تو زید بن سخنہ نے کہا کہ اے محمد ﷺ کہ اگر بنوفلاں کے باغ کی کھجوریں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت مجھے بیچ سکتے ہوں تو میں ان کی مدد کر سکتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ اے یہودی ! طے شدہ مقدا را در مدت کی شرط پر کھجوریں تو بیچ سکتا ہوں لیکن یہ شرط نہیں مان سکتا کہ یہ کھجور میں فلاں کے باغ کی ہی ہوں.خیر انہوں نے کہا ٹھیک ہے.معاہدہ ہو گیا.انہوں نے اپنی تھیلی کھولی اور سونے کے 80 مثقال ان کھجوروں کی قیمت کے طور پر پیشگی دے دیئے کہ فلاں وقت میں یہ ادائیگی ہو گی.آپ نے وہ رقم اس کو دی کہ جاؤ لوگوں میں برابر کی تقسیم کر دو.یہ زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ اس قرض کی واپسی میں یا جو سودا ہوا تھا جس کے بدلے کھجوریں لینی تھیں، ان کھجوروں کی ادائیگی میں کچھ دن باقی تھے تو میں آنحضرت کے پاس گیا اور آپ کا گریبان پکڑ لیا اور چادر کھینچی اور بڑے غصے کی حالت میں کہا کہ اے محمد ! کیا میرا حق ادا نہیں کرو گے؟ پھر کہتے ہیں میں نے کہا خدا کی قسم ! بنوعبدالمطلب کی اس عادت کو میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ قرض ادا کرنے میں بڑے بڑے ہیں اور تمہاری ٹال مٹول کی عادت کا بھی مجھے علم ہے.اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پاس ہی بیٹھے تھے اُن سے رہا نہ گیا

Page 140

120 خطبه جمعه فرمودہ 21 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم اور بڑے غصے سے انہوں نے اس کو دیکھا اور کہا کہ اے اللہ کے دشمن ! اللہ کے رسول ﷺ سے تو ایسا کہتا ہے جو میں سن رہا ہوں.اس طرح گستاخی سے پیش آتا ہے جس طرح میں دیکھ رہا ہوں.اُس خدا کی قسم جس نے ان کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگر مجھے ان کا ڈر نہ ہوتا تو میں اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا.جبکہ رسول اللہ یہ بڑے اطمینان اور تسلی سے بیٹھے حضرت عمر کی طرف دیکھ رہے تھے.پھر آپ مسکرائے اور آپ نے فرمایا کہ اے عمر ! اس غصہ کی بجائے تم مجھے بھی کہو کہ حقدار کا حق ادا کرو اور اس کو بھی کہو کہ جو قرض کا تقاضا ہے یا حق کا تقاضا ہے اس کے کوئی اصول اور طریقے ہوتے ہیں، اسے پیار سے سمجھاؤ.اور فرمایا کہ جاؤ اس کو لے جاؤ اور جو معاہدہ ہوا تھا اس سے اس کو 20 صاع زیادہ کھجور میں دے دینا.(صاع ایک پیمانہ ہے ).کہتے ہیں میں حضرت عمر کے ساتھ گیا اور انہوں نے زائد کھجوریں مجھے دیں.میں نے پوچھا عمر یہ زائد کس لئے ؟ انہوں نے کہا آنحضرت نے فرمایا تھا کہ جو شختی میں نے کی تھی اس کے بدلے میں تمہیں زائد دوں.انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ انہوں نے کہا نہیں، میں تو نہیں جانتا.زید بن سعنہ نے کہا کہ میں زید بن سعنہ ہوں.حضرت عمرؓ نے کہا وہی یہودی عالم؟ اس نے جواب دیا ہاں میں وہی ہوں.اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اتنے بڑے عالم ہو کر رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کا یہ طریق تم نے اختیار کیا ہے؟ اس پر میں نے کہا کہ اس شخص کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر ) جتنی بھی نبوت کی علامات تھیں وہ مجھے نظر آرہی تھیں.لیکن دو علامات کا مجھے پتہ نہیں چلتا تھا.ایک یہ کہ کیا اس نبی کا علم اس کے غصہ پر غالب ہے؟ اور دوسرے یہ کہ جتنا زیادہ ان سے تلخی یا جہالت سے پیش آیا جائے اتنا ہی زیادہ وہ حلم اور بردباری سے پیش آئیں گے.اب مجھے موقع ملا تھا تو میں نے آزمایا اور میں آپ کو گواہ بنا تا ہوں کہ میں اللہ کو اپنا رب اور اسلام کو اپنا دین اور محمد ﷺ کو رسول مانتا ہوں.اور اس خوشی میں میرا آدھا مال اُمت مسلمہ کے لئے ہے.آنحضرت کے اس علم کو دیکھ کر وہ یہودی عالم اسلام لے آئے اور پھر کئی جنگوں میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے ، غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے راستے میں انہوں نے وفات پائی تھی.( مستدرک مع التلخيص - کتاب معرفۃ الصحابة باب ذکر اسلام زید بن سعنه جلد 3 صفحہ 605-604 یہ آنحضرت ﷺ کا خلق اور حلم ہے کہ دشمن یا مخالف سے حسن سلوک اس طرح ہے کہ باوجود اس کے کہ جو معاہدہ ہے اس کے پورے ہونے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں لیکن پھر بھی بڑی نرمی سے ، بڑے پیار سے ، قرض خواہ کا قرض اس کو واپس کیا اور نہ صرف واپس کیا بلکہ زائد دیا.یہ کوئی ایک دو واقعات نہیں ہیں بلکہ بے شمار ایسے واقعات ہیں جو روایات میں ہیں اور لاکھوں ایسے واقعات ہوں گے جو ہم تک پہنچے ہی نہیں.آپ کے علم کا ایک اور روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم اللہ نے ایک شخص کا قرض ادا کرنا تھا.وہ آپ کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آیا.اس پر صحابہ اُسے مارنے کے

Page 141

خطبات مسرور جلد ششم 121 خطبه جمعه فرموده 21 مارچ 2008 لئے لیکے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرض لینے والا بات کرنے کا حق رکھتا ہے.(اسے کوئی جانور دینا تھا ، اونٹ یا بکری وغیرہ جو بھی تھا ).آپ نے فرمایا اس شخص کے لئے اس عمر کا جانور سے خرید کر دے دو جس عمر کا اس نے وصول کرنا ہے.تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے پاس اس کے جانور سے بڑی عمر کا جانور موجود ہے.آپ نے فرمایا تم وہ خرید کر اسے دے دو کیونکہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو عمدگی سے قرض ادا کرتا ہے.(اور کوئی سختی نہیں کرنی ).(مسلم کتاب المساقاة باب من استسلف شیبا فقضی خیرامنه - حدیث نمبر 4001) حلم کے معنی برداشت کرنے کے ہیں اور مہربان کے بھی ہیں.ان دونوں مثالوں سے آنحضرت ﷺ کی برداشت اور مہربانی دونوں ظاہر ہوتے ہیں.پھر گھریلو معاملات میں ایک مثال ہے کہ کس طرح غصہ کو برداشت کرتے تھے اور آپ اس طریق سے تربیت بھی فرماتے تھے کہ دوسرے کو احساس بھی ہو جائے اور سختی بھی نہ کرنی پڑے.ایک روایت میں آتا ہے کہ بنی سُواءۃ کے ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ مجھے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں بتا ئیں.حضرت عائشہ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِیم (القلم:4) پھر آپ فرمانے لگیں کہ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تھے.میں نے آپ کے لئے کھانا تیار کیا اور حضرت حفصہ نے بھی کھانا تیار کیا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے پہلے کھانا تیار کر کے بھجوا دیا تو میں نے اپنی خادمہ کو کہا کہ جاؤ اور حفصہ کے کھانے کے برتن انڈیل دو.اس نے حضور ﷺ کے سامنے کھانے کا پیالہ رکھتے ہوئے وہ کھانا انڈیل دیا.اس طرح انڈیلا کہ پیالہ بھی ٹوٹ گیا اور کھانا بھی نیچے گر گیا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے پیالے کے ٹکڑوں کو جمع کیا اور کھانے کو جمع کیا اور ایک چمڑے کے دستر خوان پر جو وہاں پر پڑا تھا اس کو رکھا اور وہاں سے اس بچے ہوئے کھانے کو کھایا اور پھر میرا پیالہ حضرت حفصہ کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا کہ اپنے برتن کے عوض یہ برتن رکھ لو اور کھانا بھی کھاؤ.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک پر اس وقت کوئی غصہ کے آثار نہیں تھے.(سنن ابن ماجہ.کتاب الاحکام.باب الحکم فیمن کسر شیا.حدیث 2333) آپ نے اس ایک فعل سے خادموں کو بھی نصیحت کر دی اور حضرت عائشہ کو بھی کہ آپس میں سو کنا پے جائز حد تک رہنے چاہئیں بلکہ ایک دوسرے کی دشمنی ہوتی ہی نہیں چاہئے.یہ جو عظیم اسوہ آپ نے اپنے ہر کام میں قائم کیا یہ صرف اس زمانے کے لوگوں کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ اسوہ جو آپ نے قائم کیا، یہ اسوہ ہمارے لئے رہتی دنیا تک ایک نمونہ ہے اور ہمارے عمل کرنے کے لئے ہے.صرف یہی نہیں کہ ہم پڑھ لیں اور سن لیں اور اس سے لطف اندوز ہو جائیں اور جب وقت آئے تو اس کی اہمیت بھول جائیں.

Page 142

122 خطبه جمعه فرموده 21 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم کئی شکایات آتی ہیں.ذراسی غلطی پر مالک اپنے ملازموں کے ساتھ انتہائی بدترین سلوک کرتے ہیں.اسی طرح بعض خاوند اپنی بیویوں کے ساتھ بڑے ظالمانہ سلوک کرتے ہیں.غلط طریق سے مارتے ہیں.بعضوں کے اس حد تک کیس ہیں کہ ان کو ہسپتال جانا پڑتا ہے.یورپ میں تو بعض دفعہ پھر پولیس بھی آ کر پکڑ لیتی ہے.پھر مقدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.تو گھر والوں سے نرمی اور پیار اور حسن سلوک کرنا جو آپ کی سنت ہے وہ ہمارے لئے عمل کرنے کے لئے ہے.بلکہ بعض دفعہ تو اس پر یہ بھی زیادتی ہو جاتی ہے کہ صرف خاوند نہیں بلکہ اس کے رشتہ دار بھی اس جھگڑے میں شامل ہو جاتے ہیں.نندیں اور ساسیں بھی مارنا شروع کر دیتی ہیں.تو بہر حال اس بات سے احتیاط کرنی چاہئے اور ہمیشہ غصہ کو دبانے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر آدمی غصہ میں کھڑا ہے تو بیٹھے جائے اور اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے.استغفار پڑھے.لاحول پڑھے.ٹھنڈا پانی ڈالے.وضو کرے تو یہ ساری نشانیاں اس لئے بتائی ہیں کہ ان پر عمل کرو.پھر غیروں کی زیادتیوں سے کس طرح آپ نے درگزر کیا.کس طرح آپ ان سے حسن سلوک کرتے تھے.حلم کی آپ نے کیا مثال قائم کی.جب آپ فتحیاب جرنیل ہوئے تو ایک نئی شان سے یہ واقعات نظر آتے ہیں.فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا: اے قریش کے گروہ ! تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: خیر کی.آپ ہمارے معزز بھائی ہیں اور ایک معزز بھائی کے بیٹے ہیں.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا.اذْهَبُوا فَانْتُمُ الطَّلَقَاءُ.کہ جاؤ تم آزاد ہو.(السيرة النبوية لابن ہشام.صفحہ 744 دخول الرسول الله الحرم مطبع دار الکتب العلمیہ بیروت - طبع اول 2001) فتح مکہ کے موقعہ پر ہی پھر ایک واقعہ کا ذکر ہے ایک معاند اسلام صفوان بن امیہ ( مکہ سے بھاگ کر ) جدہ کی طرف چلے گئے تا کہ وہاں سے پھر یمن کی طرف چلے جائیں.تو عمیر بن وھب رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صفوان بن امیہ اپنی قوم کا سردار ہے لیکن آپ سے خوفزدہ ہو کر وہ یہاں سے بھاگ گیا ہے اور اپنے آپ کو سمندر میں ڈال رہا ہے آپ اُسے امان بخشیں.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے امان دی جاتی ہے.تو عمیر بن وھب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرمائیں جسے دیکھ کر وہ آپ کی امان کو پہچان لے.تو رسول کریم ﷺ نے وہ عمامہ اس کو دیا جو مکہ میں داخل ہوتے وقت آپ نے سر پر پہن رکھا تھا.یہ عمامہ ساتھ لے کر صفوان کی طرف روانہ ہوئے وہ انہیں راستے میں ملے.اس وقت صفوان سفر اختیار کرنے اور جہاز پر چڑھنے والے تھے.انہوں نے اس سے کہا کہ خدا کا خوف کر اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال.میں رسول کریم ﷺ کی امان کو لے کر آیا ہوں.صفوان نے کہا.تیرا بر اہو، میرے پاس سے دُور ہو اور میرے سے بات نہ کرو.اس پر انہوں نے کہا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ آنحضرت سب لوگوں سے افضل ہیں اور سب لوگوں سے زیادہ

Page 143

123 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم نیک سلوک کرنے والے ہیں.لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم طبیعت کے مالک ہیں.لوگوں میں سب سے زیادہ بہترین ہیں اور تیرے چچا زاد ہیں.ان کی عزت تیری عزت اور ان کا شرف تیرا شرف ہے اور ان کی بادشاہت تیری بادشاہت ہے.تو اس پر صفوان نے کہا کہ میں اپنے دل میں ان کا خوف رکھتا ہوں.مجھے ان سے خوف ہے.عمیر نے تسلی دی کہ وہ بہت زیادہ حلیم اور کریم ہیں.تم سوچ بھی نہیں سکتے.خیر عمیر واپس لوٹے یہاں تک کہ رسول کریم ہے کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو صفوان نے کہا کہ عمیر کہتا ہے کہ آپ نے مجھے امان بخشی ہے.رسول کریم ہ نے فرمایا ہاں سچ کہتا ہے.صفوان نے پھر عرض کی کہ مجھے دوماہ کی مہلت دیں.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس بارے میں چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے.السيرة النوبية لابن ہشام.ذکر تعلیم الاصنام صفحہ 747 طبع اول 2001 دار الکتب العلمیہ بیروت - لبنان) یعنی تمہیں مہلت ہے.یہ نہ سمجھو کہ صرف اسلام قبول کرنے کی شرط پر تمہیں امان دی گئی ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ اسوہ آنحضرت ﷺ نے ہمارے عمل کے لئے ہمیں ہر بارے میں قائم کر کے دکھایا.اس بارے میں علم اور برداشت اور مہربانی کی مزید چند احادیث ہیں کہ آپ اپنی امت سے کیا تو قعات رکھتے تھے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے.اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابورکھتا ہے.( بخاری کتاب الادب باب الحذر عن الغضب حدیث نمبر (6114) پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت سلیمان بن ضُر د بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور دو آدمی قریب ہی جھگڑ رہے تھے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور اس کی رگیں پھولی ہوئی تھیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں کہ اگر وہ اس بات کو کہے تو اس کی یہ کیفیت جاتی رہے گی.اور وہ بات یہ ہے کہ اعوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطن کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے.تو اس کا غصہ جاتا رہے گا.اس پر لوگوں نے اس جھگڑنے والے کو کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ تو شیطان سے اللہ کی پناہ میں آ تو تیرا غصہ ٹھیک ہو جائے گا.( بخاری کتاب بدء الخلق باب صلته ابلیس و جنودہ حدیث نمبر 3282) پھر حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی نصیحت کریں.آپ نے فرمایا تو غصہ نہ کیا کر.اس نے کئی مرتبہ پوچھا اور آپ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ غصہ نہ کیا کر.( بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب حدیث 6116)

Page 144

124 خطبه جمعه فرموده 21 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم بعض لوگ بات بات پر غصہ میں آ جاتے ہیں.مغلوب الغضب ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈال لیتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے یہ نصیحت خاص طور پر یا در کھنے والی ہے.ورنہ غصہ تو ہر ایک کو کچھ نہ کچھ آتا ہی ہے.انسانی فطرت ہے.آنحضرت ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کو کبھی غصہ آیا تو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کے تقدس کی خاطر.اس کے علاوہ کبھی ذاتی معاملات میں آنحضرت صلی اللہ کو نہیں آیا.کو غصہ پھر آپ نے ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جس کی روایت حضرت ابو ہریرہ سے ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں.میں ان سے حسن سلوک سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں.میں ان کے ساتھ حلم کے ساتھ پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں.آپ نے فرمایا اگر تو ایسا ہی کرتا ہے جیسا کہ تو نے کہا تو تو ان پر خاک ڈالتا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرے لئے ان کے خلاف اس وقت تک ایک مددگار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا.(مسلم کتاب البر والصلۃ.باب صلة الرحم وتحریم قطبیعتها حدیث نمبر 6420) بجائے اس کے کہ خود انسان بدلے لے کر شیطان کی گود میں چلا جائے اللہ تعالیٰ سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت سہل اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے غصہ کو دبایا حالانکہ وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ غصہ کو نافذ کر سکے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو مخلوقات کے سامنے بلائے گا.( یہ دکھانے کے لئے کہ یہ شخص میرا قریب ترین ہے ).ترندی کتاب البر والصلۃ باب فی کنظم الغيظ - حدیث نمبر 2021 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں اگر تو انہیں کہے تو بخش دیا جائے گا اگر واقعی تیری قسمت میں بخشش ہوگی.اور وہ کلمات یہ ہیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَلِيْمُ الْكَرِيمُ.لَا إِله إِلَّا اللهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمواتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین.کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو حلیم اور کریم ہے.اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو بلندشان والا ہے اور عظمت والا ہے.پاک ہے اللہ جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور عرش عظیم کا رب ہے.ہر قسم کی تعریف کا مستحق اللہ ہی ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.(مسند احمد بن حنبل.مسند علی بن ابی طالب.جلد اول صفحہ 282 حدیث نمبر 712 عالم الكتب بيروت 1998 ء ) تو یہ دعائیں ایسی ہیں جو بخشش کا سامان کرتی ہیں.

Page 145

خطبات مسرور جلد ششم 125 خطبه جمعه فرمودہ 21 مارچ 2008 پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اشج عبد القیس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ان میں سے ایک حلم ہے اور ایک وقار.(مسلم کتاب الایمان.باب الامر بالایمان بالله - حدیث نمبر (26) پس جیسا کہ ہم نے لغت میں بھی دیکھا.میں نے معنی بتائے تھے کہ حلم کے معنی ہیں رحم کرنا ، معاف کرنا، برداشت کرنا، دوسروں سے مہربانی سے پیش آنا، غصے کو دبانا.اور یہ ایسی خصوصیات ہیں جو معاشرے کے امن کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور روحانیت کی ترقی کے لئے بھی انتہائی ضروری ہیں.اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے بھی بہت اہم ہیں.پس ان کو ہر احمدی کو اختیار کرنا چاہئے.اس زمانے میں آنحضرت کے غلام صادق نے ہمارے سامنے اعلیٰ خلق کے کیا نمونے پیش فرمائے ان میں سے چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں.سب سے پہلے تو یہ کہ گھر کے سکون کے لئے اس صفت کے اظہار کی آپ نے کس طرح تلقین فرمائی.عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.“ اور فرمایا کہ: ” ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور در حقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکریہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے.حضور اس بات پر بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا کہ: ” ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے.اور پھر بہت دیر تک آپ نے عورتوں کے ساتھ سلوک پر نصیحتیں فرمائیں.( ملفوظات جلد اول.صفحہ 307 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ اپنے خادموں کے ساتھ کس طرح حلم اور برداشت کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے.حافظ حامد علی مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک خادم تھے.حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی نے لکھا ہے کہ وہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد صدرانجمن احمدیہ نے آخر عمر میں انہیں پنشن دے دی تھی.اور وہ قادیان میں رہنے کے لئے ایک مختصر سی دکان کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کے اخلاق اور برتاؤ کا جو حضور حافظ صاحب سے کرتے تھے ان پر ایسا اثر تھا کہ وہ بارہا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے ”میں نے تو ایسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں“.بلکہ زندگی بھر حضرت کے بعد کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا.

Page 146

خطبات مسرور جلد ششم 126 خطبه جمعه فرمودہ 21 مارچ 2008 حافظ صاحب کہتے تھے کہ ” مجھے ساری عمر میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ جھڑ کا اور نہ ختی سے خطاب کیا.بلکہ میں بڑا ہی ست تھا اور اکثر آپ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر بھی کر دیا کرتا تھا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی - صفحہ 349).لیکن کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سختی کی ہو.پھر انسان پر صحت اور بیماری کا دور بھی آتا ہے.بیماری میں چڑ چڑا پن بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود بہ الصلوۃ والسلام جن کو اس زمانے کی اصلاح کے لئے آنحضرت میہ کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.آپ کا اس زمانے میں کیا رویہ ہوتا تھا.اس بارے میں روایت سنیں.حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو سخت در دسر ہورہا تھا.اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا.اور پاس حد سے زیادہ شور وغل بر پا تھا.میں نے عرض کیا کہ آپ کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی ؟ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ہاں اگر یہ چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے.تو میں نے عرض کیا کہ جناب کیوں حکم نہیں کرتے.فرمایا آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں.میں تو کہہ نہیں سکتا.بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں گویا مزہ میں سورہے ہیں.کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا.اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اور تو نے ہماری خدمت نہیں کی.بیماری میں بھی آرام سے لیٹے رہتے تھے.کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہوتا تھا.پھر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بیمار ہوتا ہے اور تمام تیمار دار اس کی بد مزاجی اور چڑ چڑا پن سے اور بات بات پر بگڑ جانے سے پناہ مانگ اٹھتے ہیں.بعض دفعہ ایسی بیماری میں گالیاں بھی دیتا ہے.”اسے گالی دیتا ہے.اسے گھورتا ہے اور بیوی کی تو شامت آ جاتی ہے.بیچاری کو نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین کہیں تکان کی وجہ سے ذرا اونگھ آگئی ہے.بس پھر کیا خدا کی پناہ.آسمان کو سر پر اٹھا لیا.وہ بیچاری حیران ہے.ایک تو خود چور چُور ہو رہی ہے اور ادھر یہ فکر لگ گئی ہے کہ کہیں مارے غضب و غیظ کے اس بیمار کا کلیجہ پھٹ نہ جائے.غصے میں مجھے تو جو کہ رہا ہے کہہ رہا ہے اس کی اپنی بیماری نہ بڑھ جائے.غرض جو کچھ بیمار اور بیماری کی حالت ہوتی ہے.خدا کی پناہ کون اس سے بے خبر ہے.برخلاف اس کے سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جو طمانیت اور جمعیت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا.حضرت ( یعنی حضرت مسیح موعود ) کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے.وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے.اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ روئی ، کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں ہیں.کہتے ہیں: ”میں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جبکہ ابھی ابھی سر درد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپ کو افاقہ ہوا.آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے.اور فرمایا ہے اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا.جب بیماری کے بعد فوری طور پر پہنچا اور آپ کو دیکھا کہ گویا آپ کسی

Page 147

127 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم بڑے عظیم الشان دلکشا نُزهت افزاء باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں یعنی بہت خوبصورت اور دل کو اچھا لگنے والے کسی باغ کی سیر سے واپس آ رہے ہیں اور اس وجہ سے ”جو یہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ 23-22 پبلشر ابوالفضل محمود قادیان) پھر مخالفین کے ساتھ آپ کا حکم کیا تھا.حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے ہی بیان کیا کہ : محبوب را یوں والے مکان کا واقعہ ہے.ایک جلسہ میں جہاں تک مجھے یاد ہے.ایک برہمولیڈ ر ( غالبا انباش موز مدار بابو تھے ) حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے اور حضرت جواب دیتے تھے.اسی اثناء میں ایک بدزبان مخالف آیا اور اس نے حضرت کے بالمقابل نہایت دل آزار اور گندے حملے آپ پر کئے.وہ نظارہ میرے اس وقت بھی سامنے ہے.آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا کہ پگڑی کے شملہ کا ایک حصہ منہ پر رکھ کر یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے.خاموش بیٹھے رہے اور وہ شور پشت بکتا رہا.مغلظات بکتا رہا." آپ اس طرح پر مست اور مگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہو نہیں رہا.یا کوئی نہیں ہے.یا اس طرح بیٹھے تھے کہ گویا کوئی نہایت شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے.اچھی اچھی باتیں سنا رہا ہے.”بر ہمولیڈ ر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پر واہ نہ کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں، کہنے دیجئے.آخر وہ خود ہی بکواس کر کے تھک گیا اور اٹھ کر چلا گیا.برہمو لیڈر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے.اس وقت حضور اسے چپ کرا سکتے تھے.اپنے مکان سے نکال سکتے تھے اور بکواس کرنے پر آپ کے ایک ادنیٰ اشارے سے اس کی زبان کائی جاسکتی تھی.مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبط نفس کا عملی ثبوت دیا.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی - صفحہ 444-443) پھر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ : جالندھر کے مقام پر وہ ( میر عباس علی صاحب.ناقل ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور بیٹھے ہوئے اعتراضات کر رہے تھے.حضرت مخدوم الملت مولا نا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بھی اس مجلس میں موجود تھے.کہتے ہیں ” مجھے خود انہوں نے ہی یہ واقعہ سنایا.مولانا نے فرمایا کہ میں دیکھتا تھا کہ میر عباس علی صاحب ایک اعتراض کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت شفقت رافت اور نرمی سے اس کا جواب دیتے تھے اور جوں جوں حضرت صاحب اپنے جواب اور طریق خطاب میں نرمی اور محبت کا پہلو اختیار کرتے میر صاحب کا جواب بڑھتا جاتا یہاں تک کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی اور بے ادبی پر اتر آیا اور تمام تعلقات دیر ینہ اور شرافت کے پہلوؤں کو ترک کر کے تو تو میں میں پر آ گیا.کہتے ہیں میں دیکھتا تھا کہ حضرت مسیح موعوعلیہ السلام اس حالت میں اسے یہی فرماتے.

Page 148

خطبات مسرور جلد ششم 128 خطبه جمعه فرموده 21 مارچ 2008 جناب میر صاحب آپ میرے ساتھ چلیں.میرے پاس رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کوئی نشان ظاہر کر دے گا اور آپ کی رہنمائی کرے گا.وغیرہ وغیرہ.مگر میر صاحب کا غصہ اور بے با کی بہت بڑھتی گئی.مولوی صاحب کہتے ہیں میں حضرت کے علم اور ضبط نفس کو دیکھتے ہوئے بھی میر عباس علی صاحب کی سبک سری کو برداشت نہ کر سکا.اور میں جو دیر سے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم سمجھ رہا تھا کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اس طرح حملہ کر رہا ہے اور میں خاموش بیٹھا ہوں، مجھ سے نہ رہا گیا اور میں با وجود اپنی معذوری کے اس پر لپکا اور للکارا اور ایک تیز آوازہ اس پر کسا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اٹھ کر بھاگ گیا.حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ضبط نفس اور علم کا جو نمونہ دکھایا میں اسے دیکھا تھا اور بڑا پریشان تھا.مگر مجھے خوشی بھی تھی کہ میں نے اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم نہیں بنایا.کہ وہ میرے سامنے حضرت کی شان میں نا گفتنی بات کہے اور میں سنتار ہوں“.کہتے ہیں کہ گو بعد کی معرفت سے مجھ پر یہ کھلا کہ حضرت کا ادب میرے اس جوش پر غالب آنا چاہئے تھا.یعنی مجھے حضور کے سامنے بولنا نہیں چاہئے تھا.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی - صفحہ 445-444) پھر مولوی صاحب عبدالکریم صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجلس میں آپ کسی دشمن کا ذکر نہیں کرتے.اور جو کسی کی تحریک سے ذکر آ جائے تو برے نام سے یاد نہیں کرتے.یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں کوئی جلانے والی آگ نہیں.ورنہ جس طرح کی ایذاء قوم نے دی ہے اور جو سلوک مولویوں نے کیا ہے اگر آپ اسے واقعی دنیا دار کی طرح محسوس کرتے تو رات دن کڑھتے رہتے اور ایر پھیر کر انہیں کا مذکور درمیان لاتے اور یوں حواس پریشان ہو جاتے اور کاروبار میں خلل آ جاتا“.سیرت مسیح موعود علیه السلام از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ 51-52 پبلشرز ابوالفضل محمود - قادیان) پھر لکھتے ہیں: ”ایک روز فرمایا کہ میں اپنے نفس پر اتنا قابورکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتار ہے آخر وہی شرمندہ ہوگا.اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ 51-52 پبلشر زا بوالفضل محمود.قادیان) پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ایک اور واقعہ سناتے ہیں کہ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا.اور اپنے آپ کو بڑا تجربہ کار اور ہر طرح سے زمانے کو دیکھنے والا سمجھتا تھا.ہماری مسجد میں آیا.حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے بات کی اور تھوڑی گفتگو کے بعد اس نے کئی دفعہ کہا کہ آپ اپنے دعوے میں کا ذب ہیں اور میں نے ایسے مکار بہت دیکھتے ہیں اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں.

Page 149

خطبات مسرور جلد ششم 129 خطبه جمعه فرموده 21 مارچ 2008 غرض ایسے ہی بیا کا نہ الفاظ کہے.مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا.بڑے سکون سے سنا کئے اور پھر بڑی نرمی سے اپنی باری پر بات کی کسی کا کلام کیسا ہی بیہودہ اور بے موقع ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم یا نثر میں سے کیسا ہی بے ربط اور غیر موزوں ہو آپ سننے کے وقت یا بعد خلوت کبھی نفرت و ملامت کا اظہار نہیں کرتے تھے اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جو ساتھ بیٹھے سننے والے ہوتے تھے اس دلخراش اور لغو کلام سے گھبرا کر اٹھ جاتے تھے اور آپس میں نفرین کے طور پر کانا پھوسی کرتے تھے اور مجلس کے برخاست ہونے کے بعد تو ہر ایک نے اپنے اپنے حو صلے اور ارمان بھی نکالے کہ کیا بیہودہ کلام ہے جو یہاں سنایا گیا.یا فلاں شخص نے کیسی بیہودہ باتیں کی ہیں.لیکن مظہر خدا کے علیم اور شاکر ذات نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنا یہ نہیں کیا جس سے لگے کہ آپ کو بُر الگا ہے.(ماخوذ از سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی صفحہ 44 پبلشرز ابوالفضل محمود.قادیان) 1904ء کا ایک واقعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سناتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا تو اس پر آپ نے فرمایا کہ صبر کرنا چاہئے.گالیوں سے کیا ہوتا ہے ایسا ہی آنحضرت ﷺ کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مندم کہا کرتے تھے تو آپ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ میں ان کی مذمت کو کیا کروں میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمد رکھا ہوا ہے علی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے.يَحْمَدُكَ اللهُ مِنْ عَرشِهِ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے.یہ وحی براہین احمدیہ میں موجود ہے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.صفحہ 450) آپ پر غصہ دلانے والی ایسی باتیں اثر نہیں کرتی تھیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے صبر کی طاقت ہے.میرے میں وہ علم ہے جس سے میں سب کچھ برداشت کرتا ہوں.اگر آپ چاہتے تو جواب دے سکتے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر تھے اس لئے آپ ہمیشہ صبر سے کام لیتے تھے بلکہ آپ نے ایک شعر میں اس کا اظہار یوں کیا ہے.گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے پھر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ 1903ء فروری کا واقعہ ہے کہ ایک ڈاکٹر صاحب لکھنو سے تشریف لائے اور بقول ان ڈاکٹر کے وہ بغدادی نسل کے تھے اور عرصہ سے لکھنو میں مقیم تھے.انہوں نے بیان کیا کہ چند ا حباب نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حالات دریافت کرنے کے لئے

Page 150

خطبات مسرور جلد ششم 130 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مارچ 2008 بھیجا ہے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا اور ان کے بیان میں شوخ ، استہزاء اور بیبا کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ان کی باتوں کا جواب دیتے تھے.ایک دفعہ باتیں کرنے کے موقع پر اس ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ عربی میں مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا کہ میں بہت اچھی عربی میں لکھ سکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہاں میرا دعوئی ہے.اس پر اس شخص نے بڑی شوخی اور استہزاء کے انداز میں کہا کہ بے ادبی معاف ! آپ کی زبان سے تو قاف بھی نہیں نکل سکتا.کہتے ہیں میں اس مجلس میں موجود تھا.اس کا بات کرنے کا جو طریقہ تھا وہ بہت دکھ دینے والا تھا اور ایسا تکلیف دہ تھا کہ ہم لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے مگر حضرت کے علم کی وجہ سے خاموش تھے.وہاں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید بھی بیٹھے تھے ان سے ضبط نہ ہو سکا اور اس کو انہوں نے ڈانٹا اور کہا کہ حضرت اقدس کا ہی حوصلہ ہے جو تمہیں برداشت کیا ہوا ہے.اس پر اس نے بھی کوئی جواب دیا اور یہاں تک حالت ہو گئی کہ لگتا تھا کہ دونوں گھتم گتھا ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو روک دیا کہ نہیں.اس پر اس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے کہا کہ استہزاء اور گالیاں سنا انبیاء کا ورثہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم تو ناراض نہیں ہوتے.یہاں تو خاکساری ہے.میں تو ناراض نہیں ہوتا.میری طرف سے تو صرف خاکساری ہے.اور جب اس نے قاف ادانہ کرنے کا حملہ کیا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں لکھنو کا رہنے والا تو نہیں کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو.میں تو پنجابی ہوں.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ لَا يَكَادُ يُبين اور احادیث میں مہدی کی نسبت یہ آیا ہے کہ ان کی زبان میں لکنت ہوگی.لائی گادُ یبین کا مطلب یہ ہے کہ یہ اظہار بیان کی طاقت نہیں رکھتے.قرآن کریم میں آیا ہے حضرت موسی کو بھی کہا گیا.ام خَيْرٌ مِّنْ هَذَا الَّذِى هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبين (الزخرف : 53) کیا میں اس شخص کی جو کھول کر بیان بھی نہیں کر سکتا ، بیان کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا ، اس کی بات مان لوں؟ میں اچھا ہوں یا یہ اچھا ہے؟ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف سے جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضرت مسیح موعود نے جو لوگ وہاں موجود تھے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سب و شتم تک بھی نوبت پہنچ جائے.یعنی گالیاں دینا بھی شروع کر دے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے.کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے.ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں.یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں.اگر وہ نرمی سے باتیں کر لیتے ہیں تو یہ بھی ان کا احسان ہے.آپ نے فرمایا کہ پیغمبر خدا انے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں.یہ جو آپ کی ناراضگی ہوئی ہے، اس سے آپ دلبرداشتہ نہ ہوں.چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے.کلمہ

Page 151

خطبات مسرور جلد ششم 131 خطبه جمعه فرموده 21 مارچ 2008 ہمارا ایک ہے، ہم دونوں مسلمان ہیں.لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھتے ہیں.جب تک یہ نہ سمجھیں: جو کہیں ان کا حق ہے.وہ ڈاکٹر صاحب پھر کچھ دن اور ٹھہرے اور صبح شام حضرت مسیح موعود سے سوال جواب کرتے رہے اور کہتے ہیں وہ سوال جواب اسی وقت اخباروں میں ، بدر میں یا الحکم میں شائع ہوتے رہتے تھے.نووارد نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہا کہ میرے لئے دعا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا دعا تو میں ہندو کے لئے بھی کرتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ امر مکروہ ہے کہ اس کا امتحان لیا جاوے.میں دعا کروں گا آپ وقتاً فوقتا یاد دلاتے رہیں.اگر کچھ ظاہر ہوا تو اس سے بھی اطلاع دوں گا.مگر یہ میرا کام نہیں.خدا تعالیٰ چاہے تو ظاہر کر دے.وہ کسی کے منشاء کے ماتحت نہیں بلکہ وہ خدا ہے.غَالِبٌ عَلی اَمرِہ ہے.ایمان کو کسی امر سے وابستہ کرنا منع ہے مشروط بالشرائط ایمان کمزور ہوتا ہے.نیکی میں ترقی کرنا کسی کے اختیار میں نہیں.ہمدردی کرنا ہمارا فرض ہے.اس کے لئے شرائط کی ضرورت نہیں.ہاں یہ ضروری ہوگا کہ آپ ہنسی ٹھٹھے کی مجلسوں سے دور رہیں.یہ وقت رونے کا ہے نہ بنسی کا.آپ جائیں گے موت وحیات کا پتہ نہیں.دو تین ہفتے تک بچے تقویٰ سے دعا مانگو کہ الہی مجھے معلوم نہیں تو ہی حقیقت کو جانتا ہے مجھے اطلاع دے.اگر صادق ہے تو اس کے انکار سے ہلاک نہ ہو جاؤں اور اگر کا ذب ہے تو اس کے اتباع سے بچا.اللہ تعالیٰ چاہے تو اصل امر کو ظاہر کر دے.بہر حال اس پر ڈاکٹر صاحب نے جو غیر از جماعت تھا کہا کہ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں بہت بُرا ارادہ کر کے آیا تھا کہ میں آپ سے استہزاء کروں اور گستاخی کروں مگر خدا نے میرے ارادے کو رد کر دیا.میں اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو فتویٰ آپ کے خلاف دیا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے.اور میں زور دے کر نہیں کہہ سکتا کہ آپ مسیح موعود نہیں ہیں بلکہ مسیح موعود ہونے کا پہلو زیادہ زور آور ہے اور میں کسی حد تک کہ سکتا ہوں کہ آپ مسیح موعود ہیں.جہاں تک میری عقل اور سمجھ تھی میں نے آپ سے فیض حاصل کیا ہے اور جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ ان لوگوں پر ظاہر کروں گا جنہوں نے منتخب کر کے مجھے بھیجا ہے.کل میری اور رائے تھی اور آج اور ہے.اور کہا کہ کیونکہ ایک پہلوان بغیر لڑنے کے ہار ماننے والا نہیں ہوتا وہ نامرد کہلائے گا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ بغیر اعتراض کے آپ کی باتیں تسلیم نہ کروں.تو اتنا انصاف تھا کہ حق کو حق سمجھا، قبول نہیں بھی کیا تب بھی اپنے خیالات یکسر بدل لئے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام.مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی - صفحہ 453-451) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب چوہدری حاکم علی صاحب کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا کوئی خطاب دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کی جماعت اور آپ کو سخت گندی اور مخش گالیاں دینے لگا اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں نہیں آتا

Page 152

خطبات مسرور جلد ششم 132 خطبه جمعه فرمودہ 21 مارچ 2008 تھا.مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے.اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکا بوٹی اڑ جاتی.مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے.آخر جب اس کی مخش زبانی حد کو پہنچ گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ دو آدمی اسے نرمی کے ساتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں.اگر یہ نہ جاوے تو پھر وہاں ایک سپاہی ہوتا تھا اس کے سپرد کر دیں.(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 257 روایت نمبر 286 مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم کے سب سے اعلیٰ پر تو تو آنحضرت ملے تھے اور پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آقا کی اتباع میں ان صفات کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کی زندگی کے بھی چند واقعات میں نے بیان کئے ہیں.یہ نمونے ہیں جو ہماری اصلاح کے لئے بڑے ضروری ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی اور اس کی صفات اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 15 مورخہ 11 اپریل تا 17 اپریل 2008، صفحہ 5 تا صفحہ 9)

Page 153

خطبات مسرور جلد ششم 13 133 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 فرمودہ مورخہ 28 / مارچ 2008ء بمطابق 28 /امان 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رفیق ہے.حلیم اور رفیق کے ایک معنی مشترک بھی ہیں یعنی نرمی کرنے والا اور مہربانی کرنے والا.رفیق کے ایک معنی ساتھی کے بھی ہیں.اس کے علاوہ اہل لغت نے اس کے اور بھی کئی معنے لئے ہیں.ایک معنی اس کے ہیں کہ نقصان نہ پہنچانے والا.نہ صرف نقصان نہ پہنچانے والا بلکہ نفع اور فائدہ پہنچانے والا ، ہمدردی کرنے والا ، رحم کرنے والا ، اپنا کام ہر ستم سے پاک اور اعلیٰ کرنے والا اور ساتھیوں کے ساتھ اعلی سلوک کرنے والا اور وہ جس سے مدد لی جائے.اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ادراک بھی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا.9 ستمبر 1903 ء کو آپ نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا کہ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ یعنی تمہارے لئے سلامتی ہے ، خوش رہو.پھر کیونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا اُن دنوں میں طاعون کی وبائی بیماری پھیلی ہوئی تھی ) تو اس کا علاج خدا تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ناموں کا ورد کیا جائے.يَا حَفِيظُ، يَاعَزِيزُ، يَا رَفِيْقُ یہ تین نام بتائے گئے.آپ نے فرمایا کہ رفیق خدا کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا.پس یہ اللہ تعالی کی رفیق ذات ہے جو اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ، اُن کو ہر نقصان سے بچاتے ہوئے ، ان کے فائدے کے راستے دکھاتی ہے اور اس کے کام جو ہیں وہ ہر سقم سے پاک ہیں.وہ اپنے بندوں کے لئے ایک بہترین ساتھی ہے جو ہر لمحہ ان کی مدد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی بندوں کی مدد کرتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اللہ تعالیٰ کا یہاں تک قرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے.اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے اور ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ کہ جو شخص میرے ولی کی عدوات کرتا ہے وہ جنگ کے لئے تیار ہو جاوے.اس قدر غیرت خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کے لئے ہوتی ہے.

Page 154

خطبات مسرور جلد ششم 134 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شے میں اس قدر تردد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہے اور اسی لئے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہتا ہے مگر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 99 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ایک تو عام لوگ ہیں وہ جیسے بھی ہوں اللہ تعالیٰ کی صفت رفیق کے تحت اس کی نرمی اور مہر بانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.لیکن ایک اللہ تعالیٰ کے وہ خالص بندے ہیں جو خالص ہو کر اس کی عبادت کرنے والے اور اس کو رفیق اعلیٰ سمجھنے والے ہیں جس کا سب سے اعلی نمونہ دنیا میں ہم نے آنحضرت ﷺ کی ذات میں دیکھا ہے جنہوں نے اس رفیق اعلیٰ کی صفت کے جتنے بھی معنی بنتے ہیں ان کا فیض پایا ہے.لیکن پھر بھی اس رفیق اعلیٰ کے پاس جانے کی تڑپ تھی تبھی وصال کے وقت یہ الفاظ بار بار آپ کے مبارک منہ سے نکلتے تھے کہ فِی الرَّفِيقِ الا علی اور یہ اسوہ ہے جو آپ نے قائم فرمایا تا کہ ہم بھی دنیا پر نظر رکھنے کی بجائے رفیق اعلیٰ پر نظر رکھنے والے ہوں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس صفت کے تحت کیسا اعلیٰ رفیق اور ساتھی بنتا ہے اور مشکلات سے نکالتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی اس صفت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے الہاما فرمایا تھا.لیکن اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اُس رفیق کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ، اس کو جذب کرنے کے لئے ، اس کی صفت کو اپنانا ہوگا.آج جبکہ اسلام مخالف طاقتیں پھر سے سرگرم ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، ایک ہی رفیق ہے جس کے ساتھ رہ کر صلى الله ہم اپنی بچت کے سامان کر سکتے ہیں اور ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں.کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اسلام اور آنحضرت ہی ہے پر تشدد کی تعلیم کے حوالے سے حملے ہورہے ہیں اور آج کے دن تو خاص طور پر دشمن اسلام کا بڑا گھٹیا اور ذلیل ارادہ ہے بلکہ یہ اس کا ارادہ تھا.تو آج 28 / مارچ کو ہالینڈ کا جوایم پی ولڈر (Wilder) ہے اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں ایک فلم قرآن اور اسلام کے بارے میں جاری کروں گا لیکن اُس نے یہ فلم کل 27 / مارچ کو ہی جاری کر دی ہے اور ایک چھوٹے ٹی وی چینل نے اس کا کچھ حصہ دیا بھی ہے، پھر انٹرنیٹ پر بھی اس نے دے دی ہے.جو بڑے ٹی وی چینل تھے انہوں نے تو اس کو لینے سے انکار کر دیا ہے.خدا کرے کہ ان لوگوں کو عقل آئی رہے اور وہ انکا ر ہی کرتے رہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اس نے انٹرنیٹ پر اس کو جاری کیا ہے.جیسا کہ میں نے پچھلے خطبات میں بتایا تھا کہ اس نے کسی کے پوچھنے پر یہ اعتراض کیا تھا کہ سورۃ محمد کی آیت 5 کہ فَإِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ.حَتَّى إِذَا الْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ( محمد : 5 ) پس جب تم ان لوگوں سے بھڑ جاؤ جنہوں نے کفر کیا تو گردنوں پر وار کرو یہاں تک کہ جب تم ان کا بکثرت خون بہالو تو مضبوطی سے بندھن کسو.

Page 155

خطبات مسرور جلد ششم 135 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 یہ اعتراض کوئی نیا اعتراض نہیں ہے.بہت پرانا اعتراض ہے ، میں نے پہلے بھی یہ ذکر کیا تھا کہ جنگوں میں یہ لوگ کیا کچھ نہیں کرتے لیکن شرارت ہے اس لئے کہ اس آیت کا جو اگلا حصہ ہے وہ بیان نہیں کرتا کہ جب جنگ ختم ہو جائے تو احسان کرتے ہوئے یا فدیہ لے کر جن کو قیدی بنایا ہے ان کو چھوڑ دو.اصل میں تو یہ حکم اس لئے ہے کہ اسلام اس قدر نرمی اور دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ تعلیم کا یہ حصہ بتانا بھی ضروری تھا اور یہی کامل تعلیم کا کمال ہے کہ حالات کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے.نہ تو اتنی سختی سے بدلے کا حکم ہے کہ ہر بات کا بدلہ دیا جائے اور انسانوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جائے.نہ ہی اتنی نرمی کا حکم ہے کہ اگر ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو.جس پر عمل کرنا ناممکن ہے.اور اس تعلیم کو ماننے والے سب سے زیادہ بدلے لیتے ہیں.یہ ولڈر (Wilder) جو اس تعلیم کا پیروکار ہے، اس کو اپنے گریبان میں بھی کچھ جھانکنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اپنی تعلیم پر عمل کر رہا ہے.بہر حال اس وقت میں قرآن کریم کی اس تعلیم کا ذکر کروں گا اور وہ چند آیات سامنے رکھوں گا جس سے اسلام کے رفق ، حلم اور عفو کی تعلیم کا اظہار ہوتا ہے.لیکن اس سے پہلے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں.وہ یہ کہ احمدی عموماً درود شریف پڑھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں.کئی خط مجھے آتے ہیں جن میں اس کے فیض کا بھی ذکر ہوتا ہے کہ درود شریف پڑھا اور یہ یہ فیض ہم نے پایا.خلافت جو بلی کی دعاؤں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی الہامی دعا تسبیح تجمید اور درود جس میں ہے، وہ بھی شامل ہے یعنی سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ.اَللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ - اسی طرح مکمل درود شریف جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں وہ بھی دعاؤں میں شامل ہے.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اَللَّهُمَّ بَارَكِ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اور ایک خاص تعداد میں جو بلی کی دعاؤں میں اس کو بھی پڑھنے کے لئے کہا ہوا ہے اور یہ تعداد صرف عادت ڈالنے کے لئے ہے.بہر حال احمدی جیسا کہ میں نے کہا درود پڑھتے ہیں اور اس طرف توجہ ہے اور احمدی کو یہ توجہ اس لئے ہے کہ اس زمانے میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی اور اس میں خاص طور پر درود شریف کی اہمیت کا بھی ہمیں بتایا ہے جیسا کہ آپ نے مختلف جگہوں پر جماعت کو اس کی تلقین کی.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ” درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے، بکثرت پڑھو.مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ ﷺ کے حسن و احسان کو مد نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیر میں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.

Page 156

136 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں ، اوّل إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی ( آل عمران : 32).( یعنی اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری یعنی رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرو.دوم یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57 ) ( کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم اس نبی پر درود اور سلام بھیجتے رہا کرو ).اور سوم موهَبَتِ الهی (اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے.اس کے ذریعے سے بخشش ہے.دعائیں قبول ہوتی ہیں).(رسالہ ریویو، اردو.جلد 3 نمبر 1 صفحہ 14-15) پس جب تک درود پر توجہ رہے گی تو اس برکت سے جماعت کی ترقی اور خلافت سے تعلق اور اس کی حفاظت کا انتظام رہے گا.لیکن اس وقت جو میں نے کہا ہے اور خاص طور پر توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اس وقت خاص طور پر اس حوالے سے درود پڑھیں کہ آج دشمن ، قرآن اور آنحضرت ﷺ کے نام پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہا ہے.اس کی یہ کوشش سوائے اس کے بد انجام کے اس کو کوئی بھی نتیجہ نہیں دلا سکتی.لیکن اس کی اس مذموم کوشش کے نتیجہ میں ہم احمدی یہ عہد کریں کہ آنحضرت ﷺ پر کروڑوں اور اربوں دفعہ درود بھیجیں.جماعت جب من حیث الجماعت درود بھیجتی ہے یا ایک وقت میں بھیجے گی تو اس کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی اور نہ صرف آج بلکہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی توجہ سے ہم آپ پر درود بھیجتے چلے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے اور اس درود کو قبول فرمائے جس کے پڑھنے کا خود اس نے حکم دیا ہے اور اسلام اور آنحضرت ﷺ کے چہرے کی روشنی اور چمک دمک پہلے سے بڑھ کر دنیا پر ظاہر ہو.پس آج جب دشمن اپنی دریدہ دینی اور بدا را دوں میں تمام حدیں پھلانگ رہا ہے تو ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے کہ عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگیں کہ وہ ہمیں اس درود کا حق ادا کرنے کی توفیق دیتے ہوئے آپ ﷺ کے نام کو، قرآن کریم کی تعلیم کو روشن تر کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق دے.اپنے آپ کو ہم اس رفیق اعلیٰ میں جذب کرنے والے بن جائیں جو اپنے ساتھیوں کو نہ صرف نقصان سے بچاتا ہے بلکہ ترقیات سے نوازتا ہے.پس کیونکہ یہ زمانہ اور آئندہ آنے والا تا قیامت کا زمانہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ سے ہم یہ دعا کریں کہ اے اللہ ! آخری فتح تو یقیناً حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے لیکن ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے اسے ہمارے زمانے میں لے آ.ہالینڈ کی جماعت کو اس شخص ، ولڈر (Wilder) ایم پی پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ بے شک ہم قانون

Page 157

خطبات مسرور جلد ششم 137 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے اور نہ ہی کبھی ہم قانون اپنے ہاتھ میں لے کر تم سے بدلہ لیں گے.لیکن ہم اس خدا کو ماننے والے ہیں جو حد سے بڑھے ہوؤں کو پکڑتا ہے.اگر اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کی پکڑ کے نیچے آ سکتے ہو.پس خدا کا خوف کرتے ہوئے اپنی حالت کو بدلو.بے شک ہم تو خدا کے ماننے والے ہیں، اس خدا کے ماننے والے ہیں جو رفیق ہے اور اس صفت کے تحت وہ مہربانی کرنے والا بھی ہے، ہمدردی کرنے والا بھی ہے ، رحم کرنے والا بھی ہے، نقصان سے بچانے والا بھی ہے اور امن سے رکھنے والا بھی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ہم تمہاری ہمدردی اور تمہیں بچانے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ اپنی حالت بدلو.یہ ایک آخری کوشش ہے.اس کے بعد اغرِضُ عَنِ الْجَاهِلِینَ کے حکم کے تحت ہم معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں اور وہ اپنے نبی کے دین کی عزت و توقیر قائم کرنا جانتا ہے اور خوب جانتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اس انسان کامل ہمارے نبی ﷺ کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں ، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں.مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلے میں کیا کیا.ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کرسکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور ﷺ کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ 592.زیر سورۃ الاعراف آیت 200 ) آج بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا خدا زندہ خدا ہے.اپنی مذموم کوششوں میں دشمن کبھی کامیاب نہیں ہو گا.انشاء اللہ.بلکہ ذلیل وخوار ہوگا.لیکن ہمارے سپر دجو کام ہے وہ کرتے چلے جانا ہما را فراض ہے.دنیا کو امن دینے کے لئے اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ، دنیاوی ہمدردی کے لئے نرمی سے اپنا پیغام پہنچاتے چلے جانا ہے اور نرمی کا مظاہرہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں کیا حکم دیتا ہے.اس بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ الشوریٰ کی آیت 41 میں فرماتا ہے کہ وَجَزَاؤُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ.إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ (الشورى : 41) اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے.پس جو کوئی معاف کر دے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے.یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”بدی کی جزاء اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو ، کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو، نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خوانخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے.بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا

Page 158

خطبات مسرور جلد ششم 138 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 سزا دینے کا.پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے تو بہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے.آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں.پس جو امر کحل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو.افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں ، پڑدادوں کے کینوں کو یاد رکھتے ہیں.ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگزر کی عادت کو انتہا تک پہنچنے دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے افراد سے دیو سی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حلم اور عفو اور درگزران سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں.اور ایسے عفوا ور درگز رکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ تو بہ توبہ کر اٹھتے ہیں.انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن کریم میں ہر ایک خُلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگادی ہے اور ایسے خلق کو منظور نہیں کیا جو بے محل صادر ہو.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 351-352 مطبوعہ لندن) پس یہ ہے اسلامی تعلیم جس پر مخالفین اسلام کو اعتراض ہوتا ہے.جنگوں میں جنگ کی حالت ہے تو جس وقت تک جنگ کی حالت ہے اس وقت تک کیونکہ دشمن حملہ آور ہے اس لئے اس کا سختی سے جواب دو.لیکن جب جنگ ختم ہو جائے تو پھر ظلم نہیں کرنا.قیدیوں کو رہا کرنا ہے.پھر اس کے علاوہ اگر معاشرتی مسائل ہیں تو ان کی اصلاح کے لئے بھی یہ دیکھو کہ خفی سے اصلاح ہوتی ہے یا نرمی سے.اگر کسی مجرم کو معاف کرنے سے، اس سے نرمی سے پیش آنے سے، اس کی ہمدردی کرنے سے یہ یقین ہو کہ اس کی اصلاح ہو جائے گی اور جو جرم اُس نے کیا ہے وہ مجبوری کی حالت میں کیا ہے ، عادی مجرم نہیں ہے تو پھر معاف کرنا بہتر ہوتا ہے کہ اس سے اصلاح ہوتی ہے.لیکن اگر عادی مجرم ہو تو اس کو اگر معاف کرتے چلے جائیں تو پھر معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کا بہترین ساتھی ہے، اپنے ان بندوں کا جو عبادالرحمن ہیں، جو خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں، جو اس کی عبادت میں طاق ہیں، ان کے لئے پھر اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو دوسروں کے شر اور نقصان سے ان کو بچائیں.ان کو مشکلات سے نکالتا ہے جیسا کہ بیماری کی تکلیف سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو الہاما بھی اس صفت کا اظہار کر دیا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے اس بنیادی چیز کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا مقصد اصلاح ہو.اور اس مقصد سے اگر باہر نکلتے ہو تو پھر مقصد نیک نہیں ہے بلکہ ظلم بن جاتا ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.اللہ کے بندے تو ظلم کا خاتمہ کرنے والے ہوتے ہیں.سورۃ شوری کی جو آیت میں نے پڑھی ہے، اس کی اگلی آیات میں مزید کھول کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ذکر

Page 159

خطبات مسرور جلد ششم 139 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 ہوا ہے.فرماتا ہے وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمُ مِنْ سَبِيلِ (الشوریٰ : 42) اور جو کوئی اپنے او پر ظلم کے بعد بدلہ لیتا ہے تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر کوئی الزام نہیں.فرمایا إِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِى الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (الشوریٰ : 43) الزام تو صرف ان پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی سے کام لیتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے درد ناک عذاب مقدر ہے.فرماتا ہے.وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (الشوری: 44) اور جو صبر کرے اور بخش دے تو یقینا یہ اولوالعزم باتوں میں سے ہے.پہلی بات تو یہاں یہ واضح ہو کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ بدلہ لینے کی اجازت ہے تو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر جس طرح چاہو بدلے لے لو.اگر مسلمان بھی یہ سمجھیں تو وہ جن کو قرآن کریم کا علم ہے اس کی صحیح حقیقت سمجھتے ہیں لیکن دشمن چونکہ اعتراض کرنے والا ہوتا ہے وہ ان باتوں میں بھی اعتراض نکال لیتا ہے.بلکہ یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اُولو الا ئمر کے پاس جاؤ.اللہ اور رسول کے بعد اُولُو الا مر کا حکم مانو.اس لئے فی زمانہ جو بدلہ لینے کی بات ہو رہی ہے تو اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قانون کے ذریعہ سے جو بھی بدلہ لینا ہے وہ لو.قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے اس سے تو ظلم کے اور دروازے کھلیں گے.پس ظلم کا بدلہ اور دفاع قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے لینے کی اجازت ہے اور اسلام کی تعلیم نہ ہی تصوراتی ہے، نہ ایسی ہے جس پر عمل نہ کیا جاسکے.ہاں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے.دشمن بجائے اس کے سمجھنے کے اور اور رنگ میں اس کی وضاحتیں کرتا ہے.پس اسلام ایک عملی شکل پیش کرتا ہے کہ ہر ایک شخص میں معاف کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا ، اس لئے تم اپنے پر ظلم ہونے پر اپنا دفاع کر سکتے ہو لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر پکڑتا ہے تو انہیں پکڑتا ہے جو بغیر وجہ کے ظلم کرتے ہیں اور ظلم کرتے ہوئے دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ہر قسم کے اخلاقی، جذباتی ، معاشی ، معاشرتی ، مذہبی وغیرہ حقوق شامل ہیں.اور یہ لوگ جو حقوق غصب کرنے والے ہیں یہ معاشرے کا امن برباد کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بلا وجہ نقصان پہنچانے والے ہیں بلکہ ان کا یہ عمل ) سرکشی ہے.اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت ہے.ایسے لوگ اگر اپنے ملک کے قانون کی وجہ سے ان ظلموں کے کرنے کے باوجود بچ جاتے ہیں جیسے یہاں آجکل یورپ میں آزادی خیال کے نام پر دوسروں کے جذبات اور مذہبی خیالات یا مذہبی تعلیم سے کھیلنے کی اجازت ہے.لیکن ان سب کو یا د رکھنا چاہئے کہ سب طاقتوں کا مالک ایک خدا ہے جس کے حضور ہر ایک نے حاضر ہونا ہے.اس نے سرکشوں کے لئے اگلے جہان میں درد ناک عذاب مقدر کر رکھا ہے.

Page 160

140 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 خطبات مسرور جلد ششم پھر دیکھیں قرآنی احکامات میں برداشت کی انتہا.جبکہ الزام لگانے والے الزام یہ لگاتے ہیں کہ اس میں صبر کی تعلیم نہیں ہے.برداشت کی تعلیم نہیں ہے.ان آیات میں جو میں نے پڑھی ہیں، آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک تم بدلہ لینے اور اپنا نقصان پورا کرنے کا حق رکھتے ہو لیکن اعلیٰ ترین اخلاق یہ ہیں کہ تم صبر کرو اور دوسرے کو معاف کرو.ان کی بہتری کے لئے کوشش کرو اگر معاف کرنے سے بہتری پیدا ہو سکتی ہے.اور اس کی اعلیٰ ترین مثال آنحضرت ﷺ کی ذات میں ہمیں نظر آتی ہے اور تاریخ نے اسے محفوظ کیا ہے.مستشرقین بھی اسے تسلیم کرتے ہیں.جب ایک یہودیہ نے آپ کو زہر دینے کی کوشش کی تو آپ نے اس کو معاف کیا اور کئی مواقع آئے جب آپ اپنے پر ظلم کرنے والوں کو معاف کرتے چلے گئے.جیسا کہ میں نے جوا بھی اقتباس پڑھا ہے اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.پھر اس کی انتہاء فتح مکہ کے وقت ہوئی.جب اپنے پیارے ساتھیوں پر ظلم کرنے والوں کو ، اپنے پر ظلم کرنے والوں کو تمام اختیارات اور طاقت آنے کے باوجود لا تَفْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہ کر معاف کر دیا.اب بھی دشمن کہتے ہیں کہ اسلام کے احکامات میں سختی ہے اور کوئی انسانی ہمدردی نہیں اور آنحضرت ﷺ نعوذ باللہ رفق اور حلم کے نام کی کوئی چیز نہیں جانتے تھے.آپ تو اپنی جان کو اس بات سے ہی ہلاک کر رہے تھے کہ یہ لوگ جو شرک کرنے والے ہیں، جو ایک خدا کی عبادت نہ کرنے والے ہیں، اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے نہ آجائیں.اپنے ان ظالموں کی وجہ سے جو یہ لوگ آپ پر اور آپ کے ماننے والوں پر کر رہے تھے کہیں اللہ تعالیٰ کا دردناک عذاب ان کو پکڑ نہ لے.آپ کی اس صفت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:4) کہ کیا تو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوز و گداز سے دعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا.کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لا پرواہ ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اور ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام) جس قدر تو عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوز و گداز اور اپنی روح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہے تیری دعاؤں کے پُر تاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے.لیکن شرط قبولیت دعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لاپر واہ اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو، ورنہ دعا قبول نہیں ہوگی.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 226)

Page 161

خطبات مسرور جلد ششم 141 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 آنحضرت ﷺ کا تو لوگوں کی ہمدردی میں یہ اُسوہ تھا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں نعوذ باللہ ظلم اور سختی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں کیا جنگجو فطرت رکھنے والا اپنے آپ کو اس طرح ہلاکت میں ڈالتا ہے؟ کیا انا رکھنے والا اور بدلے لینے والا اپنے پر ظلم کرنے والوں کو اس طرح کھلے دل سے معاف کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ان عقل کے اندھوں کو آنکھوں کی روشنی عطا فرمائے لیکن ہمارا کام اُسوہ رسول اللہ ﷺ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی بھلائی کے لئے دعا کرنا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو ، بدفطرتوں سے علیحدہ کر دے.دنیا جس طرح غلاظتوں میں پڑی ہوئی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے.لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آقا و مطاع اللہ کے اُسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی بھلائی اور بہتری کے لئے دعا کریں.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ بنا کر بھیجا تھا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء: 108) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ آیت کا یہ حصہ اس وقت آنحضرت ﷺ پر صادق آتا ہے کہ جب آپ ہر ایک قسم کے خُلق سے ہدایت کو پیش کرتے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ نے اخلاق ، صبر ، نرمی اور نیز مار، ہر ایک طرح سے اصلاح کے کام کو پورا کیا اور لوگوں کو خدا کی طرف توجہ دلائی.مال دینے میں ، نرمی برتنے میں عقلی دلائل اور معجزات کے پیش کرنے میں آپ نے کوئی فرق نہیں رکھا.اصلاح کا ایک طریق مار بھی ہوتا ہے کہ جیسے ماں ایک وقت بچے کو مار سے ڈراتی ہے وہ بھی آپ نے برت لیا تو مار بھی ایک خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو آدمی اور کسی طریق سے نہیں سمجھتے خدا اُن کو اس طریق سے سمجھاتا ہے کہ وہ نجات پاویں.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 297) پس آپ مجسم رحم تھے اور آپ کا ہر عمل اور ہر نصیحت اس لئے تھی کہ دنیا خدا تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے والی بنے.وہ ہستی جس کا ہر فعل اور عمل دنیا کے لئے رحمت اور ہمدردی ہو، اس ذات کے بارے میں یہ کہنا کہ نعوذ باللہ وہ ظلم کی تعلیم لائے تھے کتنا بڑا ظلم ہے.اس وقت میں بعض احادیث پیش کرتا ہوں جس میں آپ کی ہمدردی ، نرمی اور رفق کے لئے تڑپ کا اظہار ہوتا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو اور تم بشارت دینے والے بنو، نہ کہ نفرت پیدا کرنے والے.( بخاری کتاب العلم باب ما کان النبی حوله بالموعظة والعلم حدیث نمبر (6) جب آپ یہ نصیحت فرماتے تھے تو خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل فرماتے تھے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کر یم ﷺ نے فرمایا

Page 162

خطبات مسرور جلد ششم 142 خطبه جمعه فرمودہ 28 مارچ 2008 کہ ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا وہ جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے ملازمین سے کہتا کہ اس سے صرف نظر کرو تا کہ اللہ بھی ہم سے صرف نظر کرے.( قرض کا زیادہ مطالبہ نہیں کرتا تھا ) اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سے صرف نظر کیا.( بخاری کتاب البیوع باب من انظر معسر احدیث نمبر 2078) یہ لوگ وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے پھر خاص سلوک فرماتا ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایسا بندہ لایا جائے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا تھا.اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا تم نے دنیا میں کیا عمل کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ.....اے میرے رب ! تو نے مجھے اپنا مال دیا میں لوگوں سے خرید و فروخت اور لین دین کرتا تھا اور درگزر کرنا اور نرم سلوک کرنا میری عادت تھی.میں خوشحال اور صاحب استطاعت سے آسانی اور سہولت کا رویہ اختیار کرتا اور تنگدست کو مہلت دیا کرتا تھا.اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مجھے اس بات کا زیادہ حق پہنچتا ہے کہ میں اپنے بندے سے در گزر سے کام لوں ، میرے بندے سے درگزر کرو.(مسلم کتاب المساقاة باب فضل انظار المعسر حدیث (3887).یہ لوگ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے بھوکے ہوتے تھے.اس لئے لوگوں سے بھی نرمی اور رفق کا سلوک کرتے تھے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نرمی جس کسی کام میں بھی ہو تو وہ اسے خوبصورت کر دیا کرتی ہے اور جس چیز میں سے نرمی نکال لی جائے تو وہ اسے خراب کر دیتی ہے.( صحیح مسلم.کتاب البر والصلۃ والاداب.باب فضل الرفق.حدیث : 6497) جیسا کہ ہم نے پہلی حدیث میں بھی دیکھا تھا اس نرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بھی نرمی کرتا ہے، اپنی مخلوق سے بھی نرمی کرتا ہے اور اسی سلوک کی وجہ سے بخشش کے سامان پیدا فرما تا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اس شخص پر جولوگوں کے قریب رہتا ہے ، ان کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اور ان کو سہولت دینے والا ہے.(سنن ترمذی.صفۃ القیامۃ.باب نمبر 110/45.حدیث نمبر (2488 پھر ایک جگہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں جو رفق اور نرمی سے محروم رہاوہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم رہا.( صحیح مسلم.کتاب البر والصلۃ.باب فضل الرفق.حدیث نمبر 6493)

Page 163

خطبات مسرور جلد ششم 143 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 پھر حضرت عائشہؓ سے روایت ہے.نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور وہ رفیق کو پسند فرماتا ہے اور وہ رفیق پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو وہ بختی پر عطا نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے علاوہ وہ کسی اور شے پر عطا کرتا ہے.( صحیح مسلم.کتاب البر والصلۃ.باب فضل الرفق.حدیث نمبر 6496) تو آنحضرت ﷺ جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کے بھوکے تھے کیا ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ اپنے ماننے والوں کو یہ نصیحت کریں اور خود اس پر عمل نہ کرنے والے ہوں؟ پھر آپ فرماتے ہیں، حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا.پہلی یہ کہ وہ کمزوروں سے رفق اور نرمی کا سلوک کرے.دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے شفقت کا سلوک کرے.تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے.( ترمذی.صفۃ القیمۃ والرقائق.باب 113/48.حدیث نمبر 2494) پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! نرمی اختیار کر کیونکہ اللہ جب کسی گھر والوں کو خیر پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو ان کی رہنمائی رفیق کے دروازے کی طرف کر دیتا ہے.( مسند احمد بن حنبل.مسند عائشہ.جلد نمبر 8 حدیث نمبر 25241 صفحہ 175 - عالم الكتب للطباعة بيروت طبع اول 1998ء) صلى الله حضرت معاویہ بن الْحَكَم اَلسُّلَمِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نماز میں رسول کریم ہے کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسی اثناء میں ایک شخص نے چھینک ماری تو میں نے بلند آواز سے يَرُحَمُكَ الله کہ دیا.اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے جو مجھے بہت برا محسوس ہوا.میں نے کہا تم مجھے کیوں تیز نظروں سے گھورتے ہو.اس پر لوگوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیئے.جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا.جب رسول کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو کہتے ہیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد ایسا معلم نہیں دیکھا جو اتنے اچھے انداز میں سکھانے والا ہو.خدا کی قسم ! نہ تو آپ نے مجھے تیوری چڑھا کر دیکھا اور نہ سرزنش کی اور نہ ہی ڈانٹا بس اتنا کہا کہ نماز میں لوگوں سے کسی قسم کی بات چیت مناسب نہیں.نماز تو صرف تسبیح اور تکبیر اور قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہوتی ہے.تو یہ آپ کے اپنوں کو سکھانے کے انداز تھے.(صحیح مسلم.کتاب المساجد - باب تحریم الکلام فی الصلوة نمبر 1087)

Page 164

خطبات مسرور جلد ششم 144 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 پھر غیروں سے کیا سلوک تھا؟ دشمنوں سے کیا سلوک تھا؟ (اس کی ) ایک ( مثال ) تو ہم فتح مکہ میں دیکھ چکے ہیں.لیکن جو پہلی جنگ بدر کی تھی اس کا ایک واقعہ ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی.اس پر خباب بن منذر نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا خدائی الہام کے تحت آپ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اس کو اختیار کیا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث ہے.انہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے.آپ لوگوں کو لے کر پانی کے چشمہ کے قریب چلیں تا کہ اس پر قبضہ ہو جائے اور وہاں حوض بنا لیں گے اور پانی پی سکیں گے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم نے اچھی رائے دی ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ صحابہ سمیت پانی کے قریب چلے گئے اور وہاں جا کے پڑاؤ ڈالا تھوڑی دیر کے بعد قریش کے لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ ان کو پانی پی لینے دو.کیونکہ صحابہ کا خیال یہ تھا کہ ان کو پانی سے روکا جائے گا لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا: نہیں ان کو پانی پی لینے دو.( سيرة النبوية لابن هشام - صفحه 484 - جنگ بدر - مشورة الخباب علی رسول اللہ الی اسلام ابن حزام - مطبع دار الكتب العلمیة بیروت طبع اول 2001 ء ) تو یہ ہے دشمن سے بھی سلوک کہ صحابہ کا خیال تھا کہ پانی سے دشمن کو محروم کرنے کے لئے قبضہ کیا جائے تا کہ وہ تنگ آ جائے.یہ بھی جنگی چالوں میں سے چال ہے.لیکن آپ نے اس ارادے سے یقینا قبضہ نہیں کیا تھا کہ دشمن کو پانی سے محروم کر دیں گے.آپ نے تو اس ارادے سے قبضہ کیا ہو گا کہ میں خدا تعالیٰ کی صفات کا پر تو ہوں ،ہمیں تو اس جگہ سے دشمن کو پانی لینے دوں گا لیکن اگر دشمن نے اس جگہ قبضہ کر لیا تو وہ ہمیں اس پانی سے محروم کرے گا جس کی وجہ سے تنگی ہوگی.گویا یہ قبضہ اپنوں اور غیروں دونوں کے لئے ہمدردی کے جذبے کے تحت تھا.کیا آج کل کے اس زمانے میں بھی، جب دنیا اپنے آپ کو Civilized کہتی ہے ، ایسی مثالیں مل سکتی ہیں؟ پس یہ اعلیٰ اخلاق اور نرمی اور ہمدردی اور رفیق کی نصائح ہیں جو آپ نے اپنی امت کو دیں اور جس کے اعلیٰ ترین نمونے آپ نے خود قائم فرمائے.اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی انصاف کی آنکھ سے اس حسین چہرے کو اور اس حسین تعلیم کو دیکھنے کی توفیق دے.اللہ تعالیٰ ہمارے عمل ، ہماری دعاؤں ، ہمارے درود کو بھی قبول کرتے ہوئے اس طرح برکت سے نوازے کہ ہم جلد تر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا روشن چہرہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دنیا کے ہر خطے، ہر شہر اور ہرگلی میں چمکتا ہوا دیکھیں.دنیا جلد تر آپ کے جھنڈے تلے آ جائے اور آپ کا ہر دشمن جو انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے آپ کی ذات مبارک پر حملے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے وہ ذلیل وخوار ہو جائے.

Page 165

خطبات مسرور جلد ششم 145 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2008 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک افسوسناک خبر ہے.گزشتہ دنوں 19 / مارچ کو ڈاکٹر محمد سرور خان صاحب کو آپ کے گاؤں میں ( سنگو ضلع پشاور میں ان کا گاؤں ہے ) رات 8 بجے شہید کر دیا گیا.دروازے پر گھنٹی بجی.آپ باہر نکلے، کلینک کرتے تھے ، تو چند نامعلوم شر پسند افراد نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے آپ کو شہید کر دیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کی عمر 74 سال تھی.1954ء میں بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تھی اور احمدیت کی خاطر بڑی قربانیوں کی توفیق پائی.نہایت نڈر، دلیر اور نیک انسان تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے علاقے میں آپ کی شہرت بھی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفار کھی ہوئی تھی.کافی اثر و رسوخ تھا.اکیلا احمدی خاندان تھا.پہلے بھی آپ پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں لیکن ہمیشہ محفوظ رہے تھے.حملوں کے باوجود بہادر بہت تھے.لوگوں نے کہا بھی کہ گاؤں چھوڑ دیں آپ نے اپنا علاقہ نہیں چھوڑا.آپ کی چھ بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر دے.آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی اس قربانی کو قبول کرتے ہوئے اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے.ابھی نماز جمعہ کے بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 16.مورخہ 18 اپریل تا 24 اپریل 2008 صفحہ 5 تا صفحہ 8

Page 166

خطبات مسرور جلد ششم 14) 146 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 اپریل 2008 فرمودہ مورخہ 04 اپریل 2008ء بمطابق 04 / شہادت 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو ہر احمدی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہی ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوتا ہے.یہی چیز ہے جو ہمیں دوسرے مسلمانوں سے بھی اور غیروں سے بھی ممتاز کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا جیسا کہ آپ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ مقصد بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا ہے.وہ راستے دکھانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے راستے ہیں.بندے کے تقویٰ کے معیار کو ان بلندیوں پر لے جانا ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو اور یہی باتیں ہیں جو ہمیں اس تاریک کنویں میں گرنے سے بچائے رکھیں گی جس سے ہم یا ہمارے باپ دادا نکلے تھے.جو باتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتا ئیں وہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں.دراصل تو یہ باتیں اس تعلیم کی وضاحت ہیں جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دی ہیں.یہ وہی باتیں ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے اپنے اسوہ سے ہمارے سامنے پیش فرمایا اور اس کے وہ اعلیٰ معیار قائم فرمائے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ( القلم :5) اور یقینا تو بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے.اور مومنوں کو یہ حکم ہے کہ جو اُسوہ اس رسول نے قائم فرمایا اور جو قائم کر دیا اس پر چلنا تمہارا فرض ہے.اور پھر آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الحَكِيمُ (الجمعة (4) کہہ کر یہ بھی اعلان فرما دیا کہ آخری زمانہ میں ایک تاریکی کے دور کے بعد جب مسیح و مہدی مبعوث ہوگا تو وہ حقیقی اور کامل نمونہ ہوگا اپنے آقا و مطاع کے اُسوہ حسنہ کا.پس یہ دور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا دور ہے.یہ دور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی تصویر ہمارے سامنے رکھی، یہ اصل میں اسی دور کی ایک کڑی ہے جو آنحضرت ﷺ کا دور ہے.کیونکہ اصل زمانہ تو تا قیامت آنحضرت ﷺ کا ہی زمانہ ہے اور یہ بیعت بھی جو ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کرتا ہے آنحضرت کے حکم سے ہی کرتا ہے.پس ایک مومن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت میں آکر یہ تجدید عہد کہ وقت کی دُوری نے جس

Page 167

خطبات مسرور جلد ششم 147 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 اپریل 2008 عظیم تعلیم اور جس عظیم اُسوہ کو ہمارے ذہنوں سے بھلا دیا تھا اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم ان نیکیوں پر کار بند ہونے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی ایک کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں“.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 143) پس یہ ہے وہ کام جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا.اللہ تعالیٰ کی پاک ہدایتوں پر قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان ہدایتوں کی طرف کھینچوں.یعنی جس گند میں ایک انسان ڈوبا ہوا ہے اس سے کوشش سے نکالوں.جس کنویں میں گرا ہوا ہے اس میں سے کھینچ کر نکالوں کھینچنا ایک کوشش چاہتا ہے.اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر دوسرے کو انسان کھینچ کر اس تکلیف سے باہر نکالتا ہے جس میں دوسرا پڑا ہوتا ہے یا جس مشکل میں کوئی گرفتار ہوتا ہے.پس یہ ہدایتوں کی طرف کھینچنا مددکرنے والے سے ایک تکلیف کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے اس تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے ایک جگہ یوں بھی فرمایا کہ میں کس دف سے منادی کروں تا لوگ ہدایت کے چشمہ کی طرف آئیں.اور پھر دیکھیں کہ اس اظہار ہمدردی کا کیا معیار ہے جو انسانیت کے لئے آپ کے دل میں تھی کہ صرف یہی نہیں کہ کھینچنا ہے اور گند سے یا تکلیف سے باہر نکال دینا ہے بلکہ اس روشن راستے پر چلانا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا.اور راستے پر چلانے کے لئے مستقل را ہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے.یہ روشنی صرف چند قدم کی نہیں ہے بلکہ اس راستے کی طرف لے جانے کے لئے روشنی مہیا کرنی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے.جس کی ایک منزل کے بعد دوسری منزل آتی ہے.جس کی ایک منزل پر پہنچ کر اگلی منزل پر پہنچنے کی بھڑک اور تڑپ اور زیادہ ہو جاتی ہے.پس یہ روشنی بھی ایک مستقل روشنی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں کے تمام دیوں کو روشن کرنے سے ملتی ہے.ہدایت کی ایک منزل پر پہنچ کر ہدایت کی اگلی منزل کے راستے نظر آنے لگتے ہیں.اخلاق کی ایک منزل پر پہنچ کر اخلاق کے دوسرے اعلیٰ معیار نظر آنے لگتے ہیں.پس یہ ایک مسلسل کوشش ہے ہدایت دینے والے کے لئے بھی اور ہدایت پانے والے کے لئے بھی.جس کے اس زمانے میں اعلیٰ ترین نمونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائے.اس لئے کہ ہم اس روشن راستے پر ہمیشہ سفر کرتے چلے جائیں اور نہ صرف خودان روشن راستوں پر چلنے والے ہوں بلکہ رحمتہ للعالمین کے ماننے والے ہونے کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس راستے پر چلانے کی کوشش کریں.

Page 168

خطبات مسرور جلد ششم 148 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 2008 پس ایک احمدی کی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ایک تو عہد بیعت کو پورا کرتے ہوئے اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہنے کی کوشش کرے.دوسرے اپنے ہم قوموں کو ، اپنے قریبیوں کو ان روشن راستوں کی نشاندہی کرتے ہوئے چلانے کی کوشش کرے.لیکن کیا طریق اختیار کرنا ہے، کیا حکمت عملی اپنانی ہے؟ اس کے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتا دیا کہ میرے آنے کا مقصد سختی اور تلوار سے دنیا کی اصلاح نہیں ہے.ڈنڈے کے زور پر ان راستوں پر نہیں چلانا بلکہ حلم اور خلق اور نرمی سے ان راستوں پر ڈالنا ہے.پس آپ نے علم اور خلق کے جو اعلیٰ نمونے دکھائے وہ اس عظیم اُسوہ حسنہ کے نمونے تھے جو آنحضرت مالی نے قائم فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گھر کے اندر بھی ، دوستوں میں بھی ، اپنے فوری ماحول میں بھی اور غیروں اور دشمنوں میں بھی وہ نمونے قائم کئے جو حلم وخلق اور رفق کی اعلیٰ مثالیں ہیں.کیونکہ دلوں کو فتح کرنے کا یہی ایک طریق ہے اور جیسا کہ میں نے کہا آپ کی بیعت میں آنے والے سے بھی اسی اعلیٰ خلق کی آپ توقع کرتے ہیں.اور یہی نصیحت آپ نے اپنی جماعت کو ہمیشہ کی.ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ.جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے.نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو.یہ میری نصیحت ہے اس کو یادرکھواللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے.آمین.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 185 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ نمونہ ایک احمدی اسی وقت قائم کر سکتا ہے جب ہر ماحول میں اس اعلیٰ خلق یعنی حلم اور رفق کا اظہار ہے.ایک شخص باہر غیروں کے سامنے تو حلم اور نرمی کے نمونے دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے دوسرے کو قائل کرے لیکن سر کا ماحول اور آپس میں ایک دوسرے سے جو تعلقات ہیں وہ اس کے خلاف گواہی دے رہے ہوں تو جس کو ہم تبلیغ کریں گے وہ جب قریب آکر ہماری تصویر کا یہ رخ دیکھے گا تو واپس پلٹ جائے گا کہ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں.اور یوں ہمارے عمل روشن راستوں کی طرف راہنمائی کرنے کی بجائے اُن بھٹکے ہوؤں کو پھر بھٹکتا ہوا چھوڑ دیں گے.ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے.ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.صلاح ،تقوی، نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہئے.مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی تک یہ لوگ آپس میں ذراسی بات سے چڑ جاتے ہیں.عام مجلسوں میں کسی کو احمق کہ دینا بھی بڑی غلطی ہے.اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لئے دعا کرو کہ خدا اسے بچا لیوے.یہ نہیں کہ منادی کرو.جب کسی کا بیٹا بد چلن ہو تو اس کو سر دست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتا ہے.ایک طرف لے جا کر سمجھاتا ہے کہ یہ برا کام

Page 169

149 خطبات مسرور جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 4 اپریل 2008 ہے.اس سے باز آجا.پس جیسے رفق، حلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو.جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے.اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ بر باد ہو گیا.پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسروں کو کہنے کا کیا حق ہے“.( ملفوظات جلد سوم.صفحہ 590 - جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) یہ نصیحت ہے جو انتہائی اہم ہے.مجھے بھی روزانہ چند ایک ایسے خطوط آتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ نرمی اور صبر کی جو کمی ہے یہ آپس کے جھگڑوں کی بہت بڑی وجہ ہے.پس جس حلم اور رفق کی کمی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فکر کا اظہار فرمایا ہے اس زمانے میں تو شاید چند ایک ایسے ہوں جن سے آپ کو فکر پیدا ہوئی لیکن جماعت کی تعداد بڑھنے کے ساتھ بعض برائیاں بھی بعض دفعہ بڑھتی ہیں تو اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.جماعتی نظام ایک حد تک اصلاح کر سکتا ہے.اصل اصلاح تو انسان خود اپنی کرتا ہے اور اگر ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس انذار کو پیش نظر رکھے جیسا کہ آپ نے اس اقتباس میں فرمایا ہے کہ ”جس کے اخلاق اچھے نہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے.تو ایک احمدی کا دل لرز جاتا ہے اور لرز جانا چاہئے.میں نے جائزہ لیا ہے کہ تکبر ہی ہے اور حلم اور رفق کی کمی ہی ہے جو بہت سے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہے.ایک طرف اگر کوئی بات ہوتی ہے تو دوسرا فریق بجائے نرمی دکھانے کے کہ اس سے جھگڑ ختم ہو جائے اس سے بھی زیادہ بڑھ کر جواب دیتا ہے اور نیتیجا جھگڑے جو ہیں وہ طول پکڑتے جاتے ہیں.اصلاحی کمیٹیوں سے حل نہیں ہوتے.پھر قضاء میں جاتے ہیں.پھر اگر کوئی فریق فیصلہ نہ مانے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو جو فیصلہ نہیں مانتا جماعتی نظام سے نکالنا پڑتا ہے.یوں ایک اچھا بھلا خاندان روشنیاں دیکھنے کے بعد پھر اس سے محروم ہو جاتا ہے.بعض پھر اس ضد میں اتنا پیچھے چلے جاتے ہیں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ان کے ایمان کا خطرہ ہے.حقیقت میں وہ ایمان گنوا بیٹھتے ہیں.صرف خطرہ ہی نہیں رہتا.والدین کی سزا کی وجہ سے بعض بچے جو نیک فطرت ہوتے ہیں اُن پر بھی اپنے ماں باپ کی حرکتوں کا منفی اثر ہوتا ہے.اپنے ماحول میں ان کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے.پھر ایسے والدین جو جھگڑالو ہیں جن کے واقف نو بچے ہیں ان کے واقف نو بچوں کے معاملات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے کہ ان بچوں کا وقف قائم بھی رکھا جائے کہ نہیں.کیونکہ اگر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ معاشرے کے حقوق ادا نہیں کر رہے اور نظام جماعت کا خیال نہیں تو بچوں کی تربیت کس طرح ہوگی.غرض کہ اس خلق حلم اور رفق کی کمی کے باعث ایک خاندان اپنے ایمان کو اور اپنی نسلوں کے ایمان کو داؤ پر لگا دیتا ہے اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے آدمی پھر دوسروں کو کہنے کا بھی حق نہیں رکھتے کہ ہمارے پاس سچائی ہے اور یوں کسی سعید فطرت کو احمدیت سے بھی دور لے جانے کا باعث بنتے ہیں.یعنی ایک غلطی ، دوسری غلطی کو جنم دیتی ہے اور پھر بڑھتی چلی جاتی ہیں.

Page 170

خطبات مسرور جلد ششم 150 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 2008 پس یہ ایک احمدی کے لئے جو مغضوب العضمی میں نتائج سے لا پرواہ ہو جاتا ہے بڑا فکر کا مقام ہے اور ہونا چاہئے.اکثریت ایسے احمدیوں کی ہے جو سزا ملنے کے بعد کچھ پریشان ہوتے ہیں.معافی کے خط لکھتے ہیں.غیر مشروط طور پر ہر فیصلے پر عمل کرنے کا کہتے ہیں.اگر پہلے ہی اس کے جو عواقب ہیں وہ سوچ لیں تو کم از کم ان کے بچے اور خاندان شرمندگی سے بچ جائیں.اعلیٰ اخلاق کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: چوتھی قسم ترک شر کے اخلاق میں سے رفق اور قول حسن ہے اور یہ خُلق جس حالت طبعی سے پیدا ہوتا ہے اس کا نام طلاقت یعنی کشادہ روی ہے، یعنی ہنس کر جواب دینا، ہنس مکھ ہونا.بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا بجائے رفق اور قول حسن کے طلاقت دکھلاتا ہے کہ وہ باتیں کرتا ہے جن میں نرمی ہوتی ہے.لیکن فرمایا ” یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑھ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے.طلاقت ایک قوت ہے اور رفق ایک خلق ہے جو اس قوت کو حل پر استعمال کرنے سے پیدا ہو جاتا ہے.اس میں خدائے تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے.وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84) - لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَانِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات:12) - اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ.إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات : 13 - وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أَوْلَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: 37).ترجمہ: یعنی لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک ہوں.ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے.ہوسکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں.بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھا نہ کریں ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھی ہوں.اور عیب مت لگاؤ.اپنے لوگوں کے بُرے بُرے نام مت رکھو.بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو.ایک دوسرے کا گلہ مت کرو.کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگاؤ جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں.اور یا درکھو کہ ہر ایک عضو سے مواخذہ ہوگا اور کان، آنکھ ، دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا“.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 350) تو آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ بچہ جب تک اسے برے بھلے کی تمیز نہ ہو جائے جب کوئی اچھی بات کرتا ہے یا جب بولتا ہے تو کسی اعلیٰ خلق کی وجہ سے یا اپنے دل کے رفق کی وجہ سے نہیں بولتا بلکہ یہ اس کے اندر کی وہ قوت ہے یا فطرت ہے جو خدا تعالیٰ نے بچے کو عطا فرمائی ہے.اور اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دلیل لی کہ رفق کی جو جڑھ ہے وہ انسان کے اندر ہوتی ہے اور نیک فطرت اور دین پر قائم خدا تعالیٰ کے حکم کے تابع اس خُلق کا

Page 171

خطبات مسرور جلد ششم 151 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 2008 استعمال کرتا ہے.اور اس خلق یعنی رفیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم کیا ہے اس بارے میں آپ نے قرآن کریم کی آیات کے کچھ حصے پیش فرمائے.پہلی بات یہ کہ اس خلق کو پیدا کرنے کے لئے ، رفق کے حسن کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حسنا (البقرة: 84).یہ بات ہے اس پر عمل کرنا چاہئے.یہ ہے اسلام کے اعلیٰ خلق کا معیار کہ لوگوں کو نیک باتیں کہو.پیار سے ، ملاطفت سے پیش آؤ.لوگوں کو نیک باتیں کہنے کے لئے پہلے اپنے اندر بھی تو وہ نیکیاں پیدا کرنی ہوں گی ، وہ خُلق پیدا کرنے ہوں گے تبھی تو اثر ہو گا.دوہرے معیار تو نیک نتیجے پیدا نہیں کرتے.پھر تعلیم دی دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہو جاؤ.عین ممکن ہے کہ جس کو تم اپنے سے کم تر سمجھ رہے ہو وہ تمہارے سے بہتر ہوں.جب یہ احساس ہوگا تو پھر اپنے اندر بھی بہتر تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.پھر فرمایا کہ یہ بات بھی کسی کے اعلیٰ خلق سے بعید ہے کہ وہ کسی کو ایسے ناموں سے پکارے جو دوسرے کو بُرے لگیں.رفق کرنے والے تو وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے ہمدرد ہوں، ان کے کام آنے والے ہوں.یہ حرکتیں تو ان کے اندر دوریاں پیدا کریں گی اور نفرتوں کی دیوار میں کھڑی کریں گی.اسی طرح بدظنیاں ہیں یہ ایسی برائیاں ہیں جو تعلقات میں دراڑیں ڈالتی ہیں، دوستیوں کو ختم کرتی ہیں، بغض اور کینے بڑھتے ہیں.پھر فرمایا کہ بلاوجہ کا تجس بھی جو کسی کے عیب تلاش کرنے کے لئے کیا جائے خود اپنے اخلاق کو بھی تباہ کرتا ہے اور معاشرے کا امن بھی برباد کرتا ہے اور پھر یہ بھی ایسے شخص سے بعید ہے جو رفیق ہونے کا دعوی کرے اور اپنے دوستوں کی غیبت کرے.ان کے بارے میں ایسی باتیں کہے جو اگر اس کے اپنے بارے میں کسی مجلس میں کی جائیں تو اُسے بُری لگیں.ایک طرف تو مومن کا یہ دعوئی ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات اپنانے والے ہیں دوسری طرف رفق جس کا مطلب دوسرے سے اعلیٰ سلوک کرنا ہے اس کی بجائے برائیاں بیان کی جائیں اور وہ بھی ایسی مجلسوں میں جن کا مقصد اصلاح نہ ہو بلکہ ہنسی ٹھٹھا ہو.پس اس سے بچنے کی نہ صرف کوشش کرنی چاہئے بلکہ ایسی جگہوں.بھاگنا چاہئے.سے دور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: جو ایک دوسرے کو برے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں پر عیب لگاتے ہیں اور دوستوں کی طرح پردہ پوشی سے کام نہیں لیتے بلکہ تمسخر کرتے ہیں اور غیبت کرتے ہیں اور بدظنی سے کام لیتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے لوگوں کے عیوب کی تلاش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان امور کے مرتکب کو ایمان کے بعد اطاعت سے نکل جانے والا قرار دیتا ہے اور اس پر اُسی طرح اپنے غضب کا اظہار کرتا ہے جیسے کہ سرکشی کرنے والوں پر.

Page 172

خطبات مسرور جلد ششم 152 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 اپریل 2008 پس یہ بہت سخت تنبیہ ہے کہ نہ صرف بدخلقی کر کے اپنے بھائیوں کا دل نہ دکھایا جائے بلکہ ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا بھی مورد بن جاتا ہے.پھر آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ آیت بیان فرمائی کہ جن باتوں کا تمہیں علم نہیں ان کے پیچھے نہ چل پڑو کیونکہ جب حساب کتاب ہوگا تو انسان کے اعضاء اس دن گواہی دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ”جس بات کا علم نہیں ہے خواہ نخواہ اس کی پیروی مت کرو کیونکہ کان ، آنکھ ، دل اور ہر ایک عضو سے پوچھا جاوے گا.بہت سی بدیاں صرف بدظنی سے ہی پیدا ہو جاتی ہیں.ایک بات کسی کے متعلق سنی اور جھٹ یقین کر لیا، یہ بہت بری بات ہے.جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو.یہ اصل بدظنی کو دور کرنے کے لئے ہے.الحکم جلد 10 نمبر 22 مورخہ 24 جون 1906 ، صفحہ 3 پھر ایک جگہ آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یا درکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہر گز نہیں نکل سکتیں.وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمے سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں.غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے.جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئے جاتے.غضب نصف جنون ہے اور جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ گل نا کر دنی افعال سے دور رہا کریں.وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے.سو دیکھو اگر تم لوگ ہمارے اصل مقصد کو نہ سمجھو گے اور شرائط پر کار بند نہ ہو گے تو ان وعدوں کے وارث تم کیسے بن سکتے ہو جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 104 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ توقعات ہیں ایک احمدی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اور یہی چیزیں ہیں جو ایک احمدی کو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کے کام آئیں گی اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں گے.پھر کشتی نوح میں نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: د کسی پر تکبر نہ کرو گواپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں.بہت سے ہیں جو

Page 173

خطبات مسرور جلد ششم 153 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 2008 اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں.سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر.اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو.پھر آپ فرماتے ہیں: کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11-12) خدا تعالیٰ کی ستاری ایسی ہے کہ وہ انسان کے گناہوں اور خطاؤں کو دیکھتا ہے لیکن اپنی اس صفت کے باعث اس کی غلط کاریوں کو اُس وقت تک جب تک کہ وہ اعتدال کی حد سے نہ گزر جاوے ڈھانپتا ہے.لیکن انسان کسی وسرے کی غلطی دیکھتا بھی نہیں اور شور مچاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسان کم حوصلہ ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات حلیم و کریم ہے.ظالم انسان اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے حکم پر پوری اطلاع نہ رکھنے کے باعث بے باک ہو جاتا ہے.اس وقت ڈو انتقام کی صفت کام آتی ہے اور پھر اسے پکڑ لیتی ہے.ہند ولوگ کہا کرتے ہیں کہ پر میشر اور ات میں ویر ہے یعنی خدا حد سے بڑھی ہوئی بات کو عزیز نہیں رکھتا.بایں ہمہ بھی وہ ایسا رحیم کریم ہے کہ ایسی حالت میں بھی اگر انسان نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ آستانہ الہی پر جا گرے تو وہ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرتا ہے.غرض یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں پر معا نظر نہیں کرتا اور اپنی ستاری کے طفیل رسوا نہیں کرتا تو ہم کو بھی چاہئے کہ ہر ایسی بات پر جو کسی دوسرے کی رسوائی یا ذلت پر بنی ہوفی الفور منہ نہ کھولیں“.( ملفوظات جلد اول - صفحہ 198.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ چند حوالے جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش کئے ہیں جن میں آپ نے رفق اور حلم کے خلق کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے تا کہ ہم اس کے معنوں کو وسیع کر کے دیکھیں.اس کے معنوں کو وسیع تر کر کے سمجھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں.یہ باتیں ایک احمدی کو اپنی اصلاح کے لئے جگالی کرتے رہنے کے لئے ضروری ہیں تا کہ یہ احساس اجا گر رہے کہ صرف احمدی ہونا اور بیعت کر لینا یا کسی صحابی کی اولاد ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ عہد بیعت کا حق تب ادا ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے.آج جب اس سال میں خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہو رہے ہیں.مختلف ممالک میں اس حوالے سے فنکشن بھی شروع ہیں.ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف فنکشن کرنا اور اس غرض کے لئے بہترین انتظامات کرنا ہی ہمارا مقصود نہیں ہے اور نہ کبھی کسی احمدی کو یہ مقصود بنانا چاہئے.بلکہ دعا ئیں اور نیک اعمال ہی ہیں جو ایک مومن کو اس انعام سے فیض یاب کرتے رہیں گے اور یہی اللہ تعالیٰ نے شرط لگائی ہے.وہی اس کی برکات سے فیض پائے گا جو اللہ

Page 174

خطبات مسرور جلد ششم 154 خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 2008 تعالیٰ کے حکموں پر اپنے آپ کو چلانے کی کوشش کرے گا.یہ کہیں نہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جس کا مشاعرہ اچھا ہوگا یا جس کے دوسرے پروگرام اچھے ہوں گے وہی جماعت ترقی کرے گی اور فیض پائے گی بلکہ عبادات اور نیک اعمال اس کی شرط ہیں.پس اس لحاظ سے ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے.اس طرف توجہ دلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ان باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں ہمیں یہ سب نیکی کی باتیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام بڑی وضاحت کے ساتھ ملتے ہیں.لیکن ایک تو اکثر کتب اُردو میں ہیں، بہت کم حصہ ترجمہ ہوا ہوا ہے.دوسرے اُردو پڑھنے والوں کی بھی عموماً پڑھنے کی طرف توجہ کم رہتی ہے.اس لئے عام طور پر اقتباس پیش کرنے کا میرا بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ جو راہنمائی ملے وہ تو ہے ہی.لیکن ایک مقصد یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں جو باتیں ہیں یا آپ کے الفاظ ہیں وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں.کیونکہ اب اصل تو یہی ہے جس پر قرآن و حدیث کی تشریحوں اور تفسیروں کی بنیاد ہے.جیسا میں نے کہا کہ بہت کم ترجمہ شدہ کتا بیں ہیں گو کہ اب یہ کام بڑی تیزی سے ماشاء اللہ ہورہا ہے اور مرکز ربوہ میں وکالت تصنیف کے وکیل جو ہیں مکرم و محترم چوہدری محمد علی صاحب بڑی محنت سے یہ انگلش ترجمے کے کام کر بھی رہے ہیں اور کروا بھی رہے ہیں.لیکن بہر حال یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، وقت لگے گا.مکرم چوہدری صاحب باوجود پیرانہ سالی کے بڑے جذبے سے یہ کام کر رہے ہیں.حیرت ہوتی ہے ان کو دیکھ کے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے بعض نوجوان ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم میں بھی انہوں نے وقف کی حقیقی روح پھونک دی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت ڈالے.آپ بھی ان کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق دے.بہر حال یہ ضمنا ذ کر آ گیا.میں یہ کہ رہا تھا کہ جب میں اقتباس پڑھتا ہوں تو مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوتا ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ حد تک ہم پیغام پہنچاسکیں.گو رواں ترجمہ جو ہے اتنا معیاری نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے لیکن بہت حد تک تشنگی دور ہو جاتی ہے اور بہت سے سننے والے آپ کے اپنے الفاظ سے فیضیاب ہوتے ہیں.اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کی برکت سے اللہ اور آنحضرت ﷺ کی حسین تعلیم اور اسوہ سے ہمیشہ فیض پاتے چلے جانے والے ہوں.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہے اور یہی ہمارے احمدی ہونے کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 17.مورخہ 25 اپریل تا یکم مئی 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)

Page 175

خطبات مسرور جلد ششم 15 155 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2008 ء بمطابق 11 شہادت 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سفر کے بارے میں مختلف جگہ مختلف مضامین اور حوالوں کے ساتھ توجہ دلائی ہے.انبیاء کا انکار کرنے والوں کو کہا کہ پھر واور دیکھو انکار کرنے والی قوموں کا کیا انجام اور حشر ہوا.مصر میں فرعون کی لاش کو آج تک محفوظ رکھ کر ہمیشہ کے لئے انکار کرنے والوں اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا فرما دیا.ہزاروں لاکھوں سیاح اسے دیکھتے ہیں.پھر معلومات ویسے بھی مل جاتی ہیں آجکل تو انٹرنیٹ پر بھی مل جاتی ہیں.دیکھنے والوں میں مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہیں، لا مذ ہب بھی ہیں.اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو دیکھیں کہ کس طرح فرعون کا عبرتناک انجام ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اس خبر کی سچائی کا ظہور ہوا جو فرعون کے بارے میں قرآن کریم نے حقیقی رنگ میں بیان فرمائی ہے.بائیل میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے.اس کو دیکھنے کے لئے اس زمانہ میں سفر اور دوسرے ذریعوں کی سہولتیں زیادہ میسر ہیں.قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق بہت اعلیٰ رنگ میں اس زمانے میں وسائل میسر ہیں جن سے پرانی چیزوں کو دیکھا جاسکتا ہے.بہر حال سبق بھی وہی حاصل کرتے ہیں جن کے دل میں نیکی کی چنگاری ہو اور جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہو.یہ تو ہے ایک نبی کا مقابلہ اور انکار کرنے والے کے انجام کا ایک واقعہ جو میں نے فرعون کا بیان کیا ہے.قرآن کریم میں کئی انبیاء کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو انکار کرنے والے ہیں پھریں اور دیکھیں، آثار قدیمہ کے کھوج لگائیں تاکہ پتہ لگے کہ تکبر اور فخر کوئی چیز نہیں ہے.بڑی بڑی قوموں کے بھی نشان مٹ جایا کرتے ہیں.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی مختلف نوعیت کے سفروں کی طرف توجہ دلائی ہے.مومن ایک تو قوموں کے عبرتناک انجام دیکھ کر، پڑھ کر ہن کر، اللہ تعالیٰ سے زیادہ کو لگاتے ہیں.ایک مومن ایسے واقعات دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکتا ہے.شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ

Page 176

156 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 خطبات مسرور جلد ششم بدانجام اور آفات سے محفوظ رہے.دوسرے ایک مومن کے سفر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کے طور پر ہوتے ہیں.ان دعاؤں سے ایک مومن اپنا سفر شروع کرتا ہے اور اس کا اختتام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کریم میں سکھائی ہیں.اس اُسوہ پر ایک مومن چلنے کی کوشش کرتا ہے جو آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا.اُن نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی ایک حقیقی مسلمان سے آنحضر نے توقع رکھتے ہوئے نصیحت کی ہے.پس ایک مومن کے ہر دوسرے عمل کی طرح اس کا سفر بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے اور نیکیوں کو قائم رکھنے اور قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى (البقرة:198) زادِراہ ساتھ لو اور بہترین زادہ راہ تقویٰ ہے.قرآن کریم کے یہ الفاظ اس آیت میں ہیں جس میں حج کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ جب اس رکن اسلام کی ادائیگی کے لئے نکل تو پھر ہمیشہ یاد رکھو کہ حقیقی مومن وہی ہے جو ہر قسم کی نفسانی بیماریوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ، نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے ، اس پاک فریضے کو سرانجام دینے کے لئے گھر سے نکلتا اور کوشش کرتا ہے.اور جو سفر کا سامان تم ساتھ لے کر نکلو، جو عمل تمہارے ہوں اس میں تقویٰ ہوگا تو حج بھی قبولیت کا درجہ پائے گا.لیکن یہ مومن کے لئے ایک عمومی حکم بھی ہے کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے.مومنوں کے سفر اعلیٰ ترین نیکیاں کمانے کے مقصد کے لئے ہوں یا عام سفر.ہر صورت میں یاد رکھو کہ سفر وہی اللہ تعالیٰ کی برکات کا حامل بنائے گا جس میں تقویٰ مد نظر ہو گا ، جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نیک اعمال کی بجا آوری کی کوشش مدنظر ہوگی.پس اگر سفروں سے برکات حاصل کرنی ہیں تو تقویٰ بنیادی شرط ہے.اسے ہر وقت مومن کو مدنظر رکھنا چاہئے.اگر یہ مد نظر رہے گا تو دنیاوی فائدوں کے حصول کے لئے بھی جو سفر ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائیں گے.پس یہی سفر ہیں جو مومن کی شان ہیں اور ہونے چاہئیں.جب ایک مسلمان زاد راہ کو حقیقت میں اپنے ساتھ رکھتا ہے یعنی تقوی کی زادراہ کو تو پھر وہ مومنین کی اس صف میں کھڑا ہو جاتا ہے جن کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سچے مومن ہونے کی بشارت دی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلتَّائِبُونَ الْعِبِدُوْنَ الْحَمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرَّحِعُوْنَ السُّجِدُوْنَ الْأَمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَفِظُونَ الِحُدُودِ اللهِ.وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ (التوبة: 112) کہ تو بہ کرنے والے عبادت کرنے والے حمد کرنے والے ، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے، بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ تعالی کی حدود کی حفاظت کرنے والے ، سب سچے مومن ہیں اور تو مومنوں کو بشارت دے دے.تو تقویٰ پر چلنے کے لئے پہلی شرط تو بہ کرنا ہے.ایسی بچی تو بہ جو اس میں اور گناہوں میں یعنی ایک مومن میں اور گناہوں میں دُوری پیدا کرتی چلی جائے.

Page 177

خطبات مسرور جلد ششم 157 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” جب وہ مداومت کرے گا تو خدا تعالیٰ اسے سچی تو بہ کی تو فیق عطا کرے گا.یہاں تک کہ وہ سیئات اس سے قطع زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گئے.اور مداومت کس طرح کرنی ہے، اس کے بارے میں آپ نے یہ نسخہ فرمایا کہ ایک پکا ارادہ کرے کہ برائیوں کے قریب بھی نہ پھٹکوں گا تب جو برائیاں ہیں ان کی جگہ اعلیٰ اخلاق لے لیں گے اور ایسے فعل اور عمل سرزد ہوں گے جو قابل تعریف ہوں گے.پس یہ ہے بچی تو بہ جو زاد راہ مہیا کرتی رہے گی اور پھر انسان مکمل طور پر خدا کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرنے والا ہو گا.خدا تعالیٰ کی طرف اس کی مدد کے لئے نظر ہوگی اور جب خدا تعالیٰ کی طرف نظر ہوگی تو اس آیت میں بیان کردہ دوسری اہم خصوصیت جو ایک مومن کی ہے اس کی طرف توجہ ہوگی.یعنی عبادت، مکمل طور پر اس کے آگے جھک جانا اور اپنے ہر عمل کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا.اور پھر جب یہ حالت ہوگی تو تیسری حالت مومن کی حامدون کی ہے یعنی حمد کرنے والے.جیسے بھی حالات ہوں، اچھے یا برے، سفر میں ہو یا حضر میں ہو، اللہ تعالیٰ کی حمد اس کی زبان پر ہوگی.اور پھر ایک مومن کو یہ خوشخبری دی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبر کرو تو تمہارے دین و دنیا سنور جائیں گے.تم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے.جوسفر بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور نیکیاں پھیلانے کی غرض سے کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے.اور پھر پانچویں بات یہ بیان فرمائی کہ اُن مومنین کو خوشخبری ہے جو رکوع کرنے والے ہیں.ہم نماز پڑھتے ہیں ہر رکعت میں رکوع کرتے ہیں لیکن حقیقی رکوع وہ ہے جس میں جسم بھی اور روح بھی اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے.جسم کا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ جب اس سوچ کے ساتھ رکوع ہوگا تو یہ حالت یقیناً میری رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گی.پھر سجدہ کرنے والوں کو خوشخبری ہے.سجدہ انسان نماز میں کرتا ہے.یہ انتہائی عاجزی کی حالت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سجدے حقیقی سجدے ہونے چاہئیں.یہ نہ ہو کہ جس طرح مرغی دانہ کھاتے ہوئے بار بار اپنی چونچ زمین پر مارتی ہے ایسے سجدے ہوں بلکہ عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سجدے کی حالت میں انسان خدا تعالیٰ کے انتہائی قریب ہوتا ہے اس لئے کہ اب اس نے اپنے نفس کو ختم کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور ڈال دیا.پھر اللہ تعالی بھی اسے اپنی نفس کشی کا بہترین بدلہ دیتا ہے.اب یہ مقام حاصل کرنے کے بعد بندے کا یہ بھی کام ہے کہ ان نیکیوں سے جو مقام اسے حاصل ہوا ہے اسے اپنے تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ ان نیکیوں کو پھیلائے.دوسروں کو بھی اس مقام کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرے.برائیوں کے خلاف جہاد کرے.اپنی برائیاں صاف کرنے کے بعد دنیا کو بھی بتائے کہ کون کون سی باتیں اللہ تعالیٰ کے

Page 178

خطبات مسرور جلد ششم 158 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 انعامات کو دور کر دیتی ہیں.بلکہ ان برائیوں کی وجہ سے ایک انسان اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہونے کی بجائے شیطان کی گود میں چلا جاتا ہے.پس یہ نیکیاں حاصل کرنا، ان نیکیوں کو حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا اور ان نیکیوں کو پھیلانے کے لئے سفر کرنا ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے.کیونکہ اس ذریعہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ حالت میرے بندوں کی ہو جائے تو اس کے لئے خوشخبری ہے اور ایسی خوشخبری ہے کہ وہ آئندہ خوشخبریاں دیتی چلی جائے گی.اللہ کرے کہ ہمارے حضر بھی اور ہمارے سفر بھی نیکیاں پھیلانے ، نیکیاں کرنے اور خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہوں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کے انعامات حاصل کرنے والے ہوں.دو تین دن تک انشاء اللہ تعالیٰ میں بھی ایک سفر شروع کرنے والا ہوں جو مغربی افریقہ کے تین ممالک کا ہے یعنی گھانا، بین اور نائیجیریا کا.ان ملکوں کے پروگرام خلافت جو بلی کے حوالے سے پہلے پروگرام ہیں جن میں میں شامل ہونے جا رہا ہوں.انشاء اللہ.اب اس کے ساتھ ہی مختلف ممالک میں پروگرام ہونے ہیں.بعض ملکوں میں میں شامل ہوں گا انشاء اللہ تعالیٰ اور یہ سال تقریباً اس لحاظ سے مصروفیت اور سفر کا سال ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی جو گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ پر بارشیں ہوئیں اور ہورہی ہیں وہ ہماری عبادتوں کے معیار بھی بڑھانے والی ہوں ، ہماری عاجزی کے معیار بھی بڑھانے والی ہوں، نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کی طرف ہم پہلے سے زیادہ توجہ دینے والے ہوں اور خاص طور پر میرا ہر سفر اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت لئے ہوئے ہو.اللہ تعالیٰ دوران سفر بھی حافظ و ناصر ہو اور جس جگہ پہنچیں وہاں بھی اپنی قدرت کے خاص نظارے دکھائے.ہم تو عاجز اور کمزور بندے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال نہ ہو تو نہ ہم خود اپنے اندر نیکی قائم کر سکتے ہیں نہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کر سکتے ہیں.نہ ہی یہ سفر خوشخبریاں دلانے والے بن سکتے ہیں.پس اُس کے فضل کے حصول کے لئے اس کے آگے جھکنا ہی ہماری کوششوں کا بہترین پھل لانے کی ضمانت بن سکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس میں کامیابی فرمائے اور قبول فرمائے.اللہ تعالیٰ نے سفر شروع کرنے سے پہلے قرآن کریم میں بعض دعائیں بھی سکھائی ہیں جو نہ صرف آرام دہ سفر کا ذریعہ بنتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی بڑھاتی ہیں اور آنحضرت ﷺ ہر سفر شروع کرنے سے پہلے دعائیں کیا ہرسفرشروع کرتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِتَسْتَوْا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمُ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ.وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُون (الزخرف:14-15) سواریوں کا ذکر چل رہا ہے.پھر فرمایا تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھ سکو، پھر جب تم ان پر اچھی طرح قرار پکڑ لو تو اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کرو اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لئے مسخر کیا اور ہم اسے زیر نگیں کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.

Page 179

خطبات مسرور جلد ششم 159 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 آج کل کے زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا، اپنے وعدے کے مطابق ایسی سواریاں بھی مہیا فرما دیں جو آسانی سے اور کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں.اگر انسان اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے، اس کی تسبیح کرے کہ میں حقیقی رنگ میں رکوع کرنے والا اور سجدہ کرنے والا ہو جاؤں اور ان میں شامل ہو جاؤں اور ان میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے والا بن جاؤں تو ہر سفر اللہ تعالیٰ کی برکات کو سمیٹنے والا سفر ہوگا.میرے لئے دعا کریں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ میرا ہر سفر اس جذبے اور روح کے ساتھ ہو.جب تمام جماعت کی دعاؤں کا دھارا ایک طرف چل رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل پھر کئی گنا بڑھ جاتے ہیں اور پھر بڑھ کر ظاہر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق بھی دے اور انہیں قبول بھی فرمائے اور ہم ہر قدم پر اس کے فضلوں کے نظارے پہلے سے بڑھ کر دیکھیں.اللہ تعالیٰ ہر قدم پر ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے، پردہ پوشی فرمائے.ہماری کوئی غلطی، کوئی کمزوری اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم سے دور لے جانے والی نہ ہو.اس وقت میں سفر سے متعلق چند احادیث بھی بیان کروں گا جن میں آنحضرت ﷺ نے نصائح بھی فرمائی ہیں ، رہنمائی بھی فرمائی ہے ، سفر کرنے والوں کو دعائیں بھی دی ہیں تا کہ یہ سفراللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائیں.آنحضرت مے سفر کرنے سے پہلے سفر کرنے والوں کو کس طرح دعا دے کر رخصت فرمایا کرتے تھے، اس بارے میں روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے نبی! میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں.آپ نے اس سے پوچھا کب، اس نے کہا کل انشاء اللہ.راوی کہتے ہیں کہ آپ اس کے پاس آئے اور اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے فرمایا فِی حِفْظِ اللَّهِ وَ فِي كَنَفِهِ زَوَّدَكَ اللهُ التَّقْوى وَغَفَرَلَكَ ذَنْبَكَ وَوَجَّهَكَ لِلْخَيْرِ أَيْنَ مَا تَوَفَّيْتَ وَأَيْنَ مَا تَوَجَّهْتَ تو اللہ کی حفاظت میں اور اس کے پہلو میں رہے اللہ تعالیٰ تقویٰ کو تیرا زادراہ بنائے اور تیرے لئے تیرے گناہ بخشے اور خیر کی طرف ہی تجھے پھیرے جہاں کا بھی تو ارادہ کرے یا جہاں بھی تو رخ کرے.سفر کرنے سے پہلے آپ کا اپنا عمل کیا تھا.اس بارے میں بعض روایات پیش کرتا ہوں.سفروں میں کامیابی کے لئے اور شکر گزاری کے لئے یہی اسوہ ہے جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ بنے گا.ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ بی کریم ﷺ جب کسی مقام پر پڑاؤ کرتے تو وہاں سے اُس وقت تک کوچ نہ فرماتے جب تک دورکعت نماز نہ ادا فرما لیتے.جب کسی مقام کو چھوڑتے تو دورکعت نماز ادا کرتے.

Page 180

خطبات مسرور جلد ششم 160 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 پھر سفر شروع کرنے اور اس کے اختتام پر صدقات کا بھی ذکر ملتا ہے.آنحضرت ﷺ تو ہر وقت صدقہ و خیرات کرتے رہتے تھے لیکن اس حوالے سے جانوروں کی قربانی کا ذکر ملتا ہے.جانور قربان کرتے تھے.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم جب حج یا عمرے سے یا غزوہ سے واپسی پر کسی گھاٹی یا ٹیلے سے گزرتے تو تین دفعہ اللہ اکبر کہتے پھر یہ پڑھتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے.اس کے لئے بادشاہت ہے اسی کے لئے تمام حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.ہم لوٹنے والے ہیں، تو بہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور کیلے ہی تمام گروہوں کو شکست دی.( بخاری کتاب الجہاد والسیر باب التكبير اذا اعلا شر فا حدیث نمبر 2995) اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے کئے گئے وعدے ہمیشہ سے ہماری زندگیوں میں بھی سچ کر دکھاتا رہے اور ہماری کوئی کمزوریاں ان کو دُور لے جانے والی نہ بنیں اور دنیا میں ہم جلد سے جلد آ نحضرت ﷺ کا جھنڈا لہراتا ہوا دیکھیں.پھر آپ نے ایک یہ نصیحت فرمائی، حضرت خولہ بنت حکیم بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے کوئی کسی مقام پر پڑاؤ کرے تو یہ کہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے میں اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کے تمام کلمات کی پناہ میں آتا ہوں.تو اس جگہ سے کوچ کرنے کے وقت تک ( یعنی وہ جگہ چھوڑنے کے وقت تک) کوئی بھی چیز اسے وہاں تکلیف نہیں پہنچائے گی.( سنن الدار می کتاب الاستئذان باب ما یقول اذ انزل منزلا.حدیث نمبر 2682) حضرت ابویر ہر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین دعائیں ایسی ہیں جو قبول ہوتی ہیں اور ان کی قبولیت میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں.مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی دعا اپنی اولاد کے لئے.پس مسافروں کو سفر کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے بجائے اس کے کہ سارا وقت فضول باتوں میں ضائع کیا جائے ، دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے اور محض اور محض اپنے فضل سے ان دعاؤں کو قبول بھی فرمائے.پھر آپ کی ایک دعا ایک روایت میں آتی ہے.حضرت صہیب جو نب کریم ﷺ کے صحابی تھے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب کسی ایسی بستی کو دیکھتے جس میں آپ کے جانے کا ارادہ ہو تو آپ یہ دعا کرتے اے اللہ !اسات آسمانوں اور جس پر ان کا سایہ ہے ان کے رب، سات زمینوں اور جو کچھ انہوں نے اٹھا رکھا ہے ان کے رب، شیاطین اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے رب ، ہواؤں اور جو کچھ وہ اڑاتی ہیں، ان کے رب ، ہم تجھ سے اس بستی اور اس کے رہنے والوں اور اس کی خیر اور بھلائی چاہتے ہیں اور اس کے شر سے اور اس کے باشندوں کے شر سے

Page 181

خطبات مسرور جلد ششم 161 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں.(مستدرک علی الصحيحين.جلد نمبر 2 كتاب المناسک.حدیث نمبر 1668.ایڈیشن 2002ء) سفر شروع کرتے وقت کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی دعا آپ نے ہمیں بتائی ، حضرت عبد اللہ بن سر جس کہتے ہیں کہ رسول اللہ یہ سفر شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنْ وَعْتَاءِ السَّفَرِ وَكَابَةِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ.وَدَعْوَةِ الْمَظْلُوْمِ وَسُوْءِ الْمَنْظَرِ فِي الْاهْلِ وَالْمَالِ (سنن ابن ماجہ.باب الدعاء باب ماید عوبه الرجل اذا سافر.حدیث نمبر 3888) اے اللہ میں سفر کی مشکلات سے اور سفر سے رنج اور غم کے ساتھ لوٹنے سے اور نفع کے بعد نقصان سے اور مظلوم کی دعا سے اور گھر میں اور مال میں برے نظارے سے تیری پناہ میں آتا ہوں.پھر روایت میں ہے حضرت ام سلمی بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا یہ عمل تھا کہ جب وہ اپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ میں گمراہ ہو جاؤں یا میں پھسل جاؤں یا میں ظلم کروں یا میرے پر ظلم کیا جائے یا میں جہالت کروں یا مجھ سے جہالت کا سلوک کیا جائے.( سنن ابن ماجہ باب الدعاء باب ما یدعو به الرجل اذا اخرج من بیتہ حدیث نمبر 3884 پھر سفر شروع کرتے وقت آنحضرت ﷺ کی بعض دعاؤں کا انگلی روایت میں ذکر ملتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ یہ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی پر تشریف فرما ہو کر اپنی انگلی کے اشارے سے کہتے کہ اے اللہ ! تو ہی سفر میں اصل ساتھی ہے اور تو ہی گھر والوں میں اصل جانشین ہے.اے اللہ اپنی خیر خواہی کے ساتھ تو ہمیں لے کر جا اور ہمیں اپنے ذمہ میں ہی واپس لانا ( اپنی پناہ میں ہی واپس لانا ).اے اللہ ! ہمارے لئے زمین کو لپیٹ دے اور اس سفر کو ہمارے لئے آسان کر دے.اے اللہ ! میں سفر کی تکلیف اور مشقت سے اور سفر سے رنج اور غم کے ساتھ لوٹنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں.صلى الله ( سنن الترمذی کتاب الدعوات باب ما یقول اذا خرج مسافرا.حدیث نمبر 3438 پھر ایک روایت میں ذکر ہے.عبدالرزاق بیان کرتے ہیں کہ ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سفر پر نکلتے وقت ایک سواری پر جب اچھی طرح بیٹھ جاتے تو آپ تین مرتبہ تکبیر کہتے پھر آپ پڑھتے ، پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے سواری کو مسخر کیا یعنی وہی قرآن کریم کی دعا ہے سُبحنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ.وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (الزخرف : 14-15) کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے سواری کو مسخر کیا اور ہماری طاقت میں نہیں تھا کہ اس پر قابو پاسکیں اور اے ہمارے رب ! یقیناً ہم تیری طرف ہی لوٹ کر آنے والے ہیں.اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقو کی طلب کرتا ہوں اور

Page 182

خطبات مسرور جلد ششم 162 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 ایسا عمل جس سے تو راضی ہو جائے.اے اللہ اس سفر کو ہمارے لئے آسان کر دے.اے اللہ! اس کی ڈوری کو ہمارے لئے لپیٹ دے، اے اللہ تو ہی اس سفر میں اصل ساتھی ہے اور گھر والوں اور مال میں تو ہی اصل جانشین ہے.اور جب آنحضرت یہ سفر سے لوٹتے تو یہ کلمات ادا کرتے اور یہ الفاظ زیادہ کہتے کہ ہم واپس آنے والے ہیں.ہم تو بہ کرنے والے ہیں، ہم عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی تعریف بیان کرنے والے ہیں جیسا کہ پہلے روایت میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی چڑھائی پر چڑھتے وقت اللہ اکبر کہتے اور اتر تے وقت سبحان اللہ کہتے.( سنن ابی داؤد - کتاب الجہاد - باب ما یقول الرجل اذا سافر حدیث نمبر (259) ہم بھی آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی ان دعاؤں کے ساتھ ہی اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان الفاظ کی برکت سے جو اس کے پیارے نبی ﷺ کے منہ سے نکلے، ہمارے سفروں میں بھی آسانی پیدا کر دے.ان میں برکت ڈالے اور خیریت سے اُن برکات کو ہم سمیٹتے ہوئے واپس لوٹیں.وہ برکات جو ہمیں ملیں وہ ایسی برکات ہوں جو ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی ہوں اور جن جن ملکوں میں جائیں، جن جن جماعتوں میں جائیں یا جہاں جہاں بھی یہ پروگرام ہو رہے ہیں، ہر جگہ ان برکات کا اظہار نظر آتا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن جلد دکھائے جب اس کی توحید کا جھنڈا تمام دنیا میں ہم لہراتا ہوا دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کے پیارے اور محسن انسانیت کے حسن کو ہم بڑی شان و شوکت کے ساتھ تمام دنیا میں چمکتا ہوا دیکھیں.ضمنا میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں جو باقیوں کے لئے تو ضمنا ہے لیکن جرمنی کی لجنہ کے لئے اہم بات ہے اور اس سفر کی وجہ سے مجھے اس کا خیال زیادہ آیا کہ جرمنی کی لجنہ یہ سن کر مزید بے چین ہوگی کہ دنیا میں اس سال جلسے ہورہے ہیں اور جوبلی کے حوالے سے بڑے اہم جلسے ہیں اور شاید ان سے محروم رہنا پڑے کیونکہ گزشتہ سال ان کے جلسے میں پوری طرح ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اگلے سال تمہارا جلسہ نہ کیا جائے جب تک اپنی اصلاح نہیں کر لیتے.اس کے بعد مجھے بے شمار خط عورتوں کے ، بچیوں کے لڑکیوں کے آئے کہ ہمیں معاف کر دیں آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ ایسی بدانتظامی نہیں ہوگی.بلکہ لجنہ جرمنی کی ہمدردی میں دوسرے ملکوں کی لجنہ کی ممبرات کے خطوط آئے کہ انہیں جلسے سے محروم نہ کریں بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سب سے پہلے جرمنی کی بجائے پاکستان سے معافی کا خط آیا تھا.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا وہ تو ایک اصلاحی قدم تھا.لجنہ جرمنی کا نیشنل اجتماع بھی اسی لئے نہیں کیا گیا کہ پہلے چھوٹے پیمانے پر اجتماعات کر کے جلسے کی اہمیت سے لوگوں کو آگاہ کریں، عورتوں کو آگاہ کریں.اور اس کا بڑا مثبت نتیجہ نکلا ہے.الحمد للہ کہ میری اطلاع کے مطابق وہاں ایک انقلابی تبدیلی اکثریت میں پیدا ہوئی ہے.مجھے جو خطوط آئے ان میں بھی تو بہ واستغفار کی طرف خاص توجہ تھی اور اخلاص و وفا کا اظہار ایسا تھا کہ آج اس مادی دور میں صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہی نظر آ سکتا ہے کہ

Page 183

خطبات مسرور جلد ششم 163 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 اپریل 2008 دنیاوی چیزوں کے لئے نہیں بلکہ دین کی خاطر اس طرح درد سے کوشش ہو رہی ہو، بچیوں ، لڑکیوں عورتوں کے خلافت سے محبت کے اور معافی کے خطوط آتے رہے.ایک بہن نے لکھا کہ اس کی غیر احمدی افغان واقف تھی.اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تمہارے خلیفہ تم سے ناراض ہیں اور پھر ساتھ ہی اس کو یہ بھی کہا کہ تم لوگ بڑی بُری عورتیں ہو.کہتی ہیں کہ میں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا جواب دوں کہ خود ہی وہ غیر احمدی کہنے لگیں کہ شکر کرو تمہاری غلطیوں کی نشاندہی کرنے والا کوئی ہے بیچ کرنے والا کوئی ہے، جو غلط کام پر سمجھا سکے.ہم تو برائیوں میں پھنستے جا رہے ہیں اور ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں.تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس پابندی نے پورے جرمنی کی لجنہ ، ناصرات، بچیوں میں ایک بے چینی کی لہر دوڑا دی تھی اور اس وجہ سے انہوں نے دعائیں بھی کیں اور اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کیں.کچھ عرصہ ہوا اسی وجہ سے میرے پاس ان کی رپورٹیں آ رہی تھیں.میں نے امیر صاحب اور صدر لجنہ کو کہہ دیا تھا کہ خاموشی سے جلسے کی تیاری کرتے رہیں لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک بات پہنچی نہیں کیونکہ جلسے کی تیاری تو ہو رہی ہے.تو بہر حال یہ بھی اچھی بات ہے کہ واقعی خاموشی سے کام ہورہا ہے جو دوسروں کو پتہ نہیں لگا.اخلاص ووفا کانمونہ جو لجنہ جرمنی نے اور وہاں کی بچیوں نے دکھایا ہے وہ تو بیان نہیں ہو سکتا.بہر حال یہ تسلی رکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہاں لجنہ کا، عورتوں کا بھی جلسہ ہوگا انشاء اللہ.لیکن اس واقعہ نے جرمنی کی لجنہ کی قدر خاص طور پر میرے دل میں کئی گنا بڑھا دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا رہے اور ہر دم ترقی کرتی رہیں.دوبارہ پھر میں دعا کی درخواست کرتا ہوں اپنے ملکوں کے جلسوں کے لئے بھی دعا کریں اور میرے دوروں کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے کھولتا چلا جائے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 18.مورخہ 2 مئی تا8 مئی 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 184

خطبات مسرور جلد ششم 16 164 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 2008 فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2008ء بمطابق 18 رشہادت 1387 ہجری شمسی بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گھانا بمقام باغ احمدگھانا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کل جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر میں میں نے عبادت کی طرف توجہ دلائی تھی اور عبادت کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو روزانہ پانچ نمازوں کی ادائیگی بتایا ہے اور اس بارہ میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ حکم فرمایا ہے بلکہ قرآن کریم کی ابتداء میں ہی یہ بتادیا کہ ایک متقی کی نشانی اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد یہ ہے کہ وہ با قاعدہ نماز کا حق ادا کرنے والا ہو.اور نماز کا حق ادا کرنا کیا ہے؟ نماز کا حق یہ ہے کہ اس کے مقررہ اوقات پر ادا کی جائے یعنی جہاں مسجد یا نما ز سنٹرز ہوں وہاں جا کر باجماعت نماز ادا کی جائے.کسی دنیاوی کام کو کرنے کے لئے نمازوں کو جمع کرنے کی کوشش نہ کی جائے.عورتیں جن کو کوئی شرعی عذر نہ ہو گھر میں باقاعدہ نماز ادا کریں.عورتوں کے لئے نماز معاف نہیں ہے.پس ایک مسلمان کے حقیقی مومن کہلانے کے لئے نماز ایک انتہائی بنیادی حکم ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ نماز عبادت کا مغز ہے پس اس مغز کو حاصل کرنا ایک مومن کا سمح نظر ہونا چاہئے.ان جلسے کے دنوں میں میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمازوں کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے.مرد، عورتیں، بچے ، بچیاں سب نماز کے لئے بڑی تعداد میں آرہے ہوتے ہیں.یہ عادت جو آپ کو اس ٹریننگ کیمپ میں پڑ رہی ہے اسے ہمیشہ جاری رکھیں.یہ نہ ہو کہ جب آپ گھروں کو واپس جائیں تو وہ سب کچھ بھول جائیں جو آپ نے یہاں سیکھا تھا جس میں نمازوں کی طرف توجہ بھی تھی.گھر کے کاموں میں، اپنی تجارتوں میں یا کھیل کود میں مشغول ہو کر اپنے اس پیدائش کے مقصد کو کہیں بھول نہ جائیں.جیسا کہ میں نے کل بتا یا تھا کہ انسان کے اس دنیا میں آنے کا یہی مقصد قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی بعثت کا بہت بڑا مقصد یہی بتایا ہے کہ بندے اور خدا میں ایک زندہ تعلق قائم کیا جائے.پس ہر احمدی با قاعدہ نمازیں پڑھنے والا ہو اور ہونا چاہئے اور اس کی نمازیں ایسی نہ ہوں جو سرسے بوجھ اتارنے والی ہوں بلکہ ایک فرض سمجھ کر ادا کی جائیں جس کے بغیر زندگی بے کار ہے.ہمیشہ یادرکھیں کہ ہم جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ پوری دنیا کو احد بیت کی آغوش میں لے آئیں گے تو ہمیں پتہ ہونا

Page 185

خطبات مسرور جلد ششم 165 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 2008 چاہئے کہ احمدیت کیا ہے.احمدیت اصل میں قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق خدا تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی حکومت لوگوں کے دلوں پر قائم کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت دلوں پر اس وقت قائم ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر زمینی و آسمانی چیز سے بالا سمجھا جائے اور اس کی ہستی کو سب چیزوں سے بالا سمجھتے ہوئے حقیقی رنگ میں اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت کی جائے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہم نے اپنے اندر ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے تعلق کو اُس زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والے خدا سے نہ جوڑا تو ہمارا یہ دعویٰ بے معنی ہے.ہماری یہ بات غلط ہوگی کہ ہم اپنی تبلیغ کو ہر شخص تک پہنچا کر اس کو خدا تعالیٰ کے قریب لے کر آئیں گے.اس زمانے میں مسیح موعود کے آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس لئے کہ دنیا خدا کو بھلا بیٹھی تھی.آنحضرت مالی کی پیشگوئی کے مطابق قرآن کریم کی تعلیم باوجود اپنی چمک دمک کے دھندلا گئی تھی.اب دیکھیں دنیا میں کئی سوملین مسلمان ہیں.ان میں سے کئی مسلمان ملک ایسے ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، بے شمار دولت ان کے پاس ہے لیکن وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم نے ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانا ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ایک خونی اور تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے والے مسیح کا انتظار کر رہے ہیں جو آپ نہیں آئے گا.لیکن آپ ایک چھوٹی سی جماعت ہیں لیکن آپ کا یہ فیض ہے اور ارادہ ہے کہ اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں گے.یہاں اس وقت افریقہ کے مختلف ملکوں کی جماعتوں کی نمائندگی ہے، برکینا فاسو ہے، آئیوری کوسٹ ہے، لائبیریا ہے، گیمبیا ہے، گنی کو نا کری ہے، کانگو ہے، اور کئی ملک ہیں.ہر ملک میں جماعت کی تعداد ایسی نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم تعداد اور مالی وسائل کے لحاظ سے اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان وسائل کی وجہ سے ہم اپنے ملکوں اور دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں.ہاں ہمارے ساتھ ایک طاقت ہے جو تمام انبیاء کو بھیجتی ہے.اس ہستی کی مدد ہمارے ساتھ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جس نے تمام انبیاء کو اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی آنحضرت ﷺ کی غلامی میں بھیجا ہے جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کو مسلمان بھلا بیٹھے ہیں اسے حقیقی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرو تا کہ دنیا بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کے حسن سے آشنا ہو اور خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والی بنے.ہم احمدی جو اتنے بڑے دعوی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں تو ہمارا سب سے پہلا فرض بنتا ہے کہ اس خدا کے آگے جھکنے والے بنیں، اس سے دعائیں کریں.اور دعائیں کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ نمازیں ہیں اور یہ نمازیں اور دعائیں ہی ہیں جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر رہی ہیں.ورنہ جیسا کہ میں نے کہا ہمارے پاس دنیاوی لحاظ سے تو کوئی ایسی طاقت نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم دنیا کو فتح کرلیں گے اور نہ کبھی دین ، دولت اور طاقت سے دنیا میں پھیلا ہے.

Page 186

خطبات مسرور جلد ششم 166 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 2008 اسلام پر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نعوذ باللہ تلوار سے پھیلا ہے جو بالکل غلط اور جھوٹا الزام ہے.کون سی دنیاوی طاقت تھی جنگ اُحد میں، جنگ بدر میں ، جنگ احزاب میں جس نے مدد کی.نہ لڑنے کا پورا اسلحہ تھا، نہ کھانے کے لئے کوئی خوراک تھی لیکن جس طاقت نے جتایا وہ آنحضرت ﷺ کی دعائیں تھیں.آنحضرت ﷺ کی وہ دعائیں ہی تھیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور فتح عطا فرمائی اور پھر آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی کی وجہ سے صحابہ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا جس نے ان کے ایمانوں کو مضبوط کیا.پس یہ اس فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا.یہ اُسوہ آنحضرت ﷺ نے ہمارے سامنے قائم فرما دیا کہ اسلام کی فتح کسی طاقت سے نہیں بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور ہوئی ہے.طاقت سے ملک تو فتح ہو جاتے ہیں دل نہیں جیتے جاتے.پس آپ نے اپنے ہم قوموں کے دل جیتنے ہیں تاکہ انہیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر سکیں اور اس کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہوگا کہ اپنی نمازوں اور عبادتوں کی حفاظت کریں.یہ سال جس میں جماعت ، خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر جوبلی منا رہی ہے، یہ جو بلی کیا ہے؟ کیا صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم جو بلی کا جلسہ کر رہے ہیں یا مختلف ذیلی تنظیموں نے اپنے پروگرام بنائے ہیں، یا کچھ سود نیئر ز بنالئے گئے ہیں.یہ تو صرف ایک چھوٹا سا اظہار ہے.اس کا مقصد تو ہم تب حاصل کریں گے، جب ہم یہ عہد کریں کہ اس 100 سال پورے ہونے پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس نعمت پر جو خلافت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتاری ہے، ہم شکرانے کے طور پر اپنے خدا سے اور زیادہ قریبی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت پہلے سے زیادہ بڑھ کر کریں گے اور یہی شکر ان نعمت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید بڑھانے والا ہوگا.قرآن کریم میں جہاں مومنوں سے خلافت کے وعدے کا ذکر ہے.اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ( النور : 57 ) اور تم سب نمازوں کو قائم کرو، زکوۃ دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خلافت کے انعام سے فائدہ اٹھانے کے لئے قیام نماز سب سے پہلی شرط ہے.پس میں جو یہ اس قدر زور دے رہا ہوں کہ ہر احمدی ، مرد، جوان، بچہ ، عورت اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تو اس لئے کہ انعام جو آپ کو ملا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ آپ فائدہ اٹھا سکیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق خلافت کا یہ سلسلہ تو ہمیشہ رہنے والا ہے لیکن اس سے فائدہ وہی حاصل کریں گے جو خدا تعالیٰ سے اپنی عبادتوں کی وجہ سے زندہ تعلق جوڑیں گے.پھر یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز قائم کرنے

Page 187

167 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 2008 خطبات مسرور جلد ششم کے ساتھ ، عبادت میں اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے ساتھ تمہارے پر یہ بھی فرض ہے کہ مالی قربانی بھی کرو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں گھانا کی جماعت بڑی تیزی سے قدم آگے بڑھا رہی ہے.یاد دہانی کی ضرورت تو پڑتی رہتی ہے اور جب بھی یاد دہانی کروائی گئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا رد عمل ہوا.لیکن نو جوانوں اور نئے آنے والے نو مبائعین کو ان کی تربیت کے لئے میں بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت میں مالی قربانی کا نظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہے.قرآن کریم میں زکوۃ کے علاوہ بھی مالی قربانی کا ذکر ہے تا کہ اصلاح نفس ہو سکے.خدا تعالیٰ کی خاطر وہی قربانی دے سکتا ہے جس کو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نیکی ، اس کا کوئی عمل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کیا جائے ضائع نہیں کرتا.میں اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کرتا ہوں اور آپ کو بھی کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ گھانا کو یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی کرتی ہے.بعض مخلص اور صاحب حیثیت احمدیوں نے بڑی بڑی مساجد تعمیر کی ہیں.ایک دنیا دار تو جب اس کے پاس دولت آ جائے اپنے مکان بنانے یا فضولیات میں رقم خرچ کرنے کی طرف توجہ کرتا ہے.لیکن آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے قادیان سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے ایسے مخلصین عطا کئے ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی خاطر مالی قربانی کرنے کے لئے کھولا ہے.پس نئے شامل ہونے والے نو مبائعین بھی اور نوجوان بھی ہمیشہ یادرکھیں کہ مالی قربانی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے اور خلافت کے انعام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے خاص طور پر بیان فرمایا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کے رحم کے مستحق ٹھہرو.رسول کا حکم وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ اطِیعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ کہہ کر ذکر فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ پاک معاشرے کے قیام کے لئے میری عبادت کے بعد ان تمام باتوں پر عمل کرو جو میں نے تمہیں قرآن کریم میں بیان کی ہیں.پھر اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ میں یہ بات بھی ہے کہ جو مسیح و مہدی آنے والا ہے وہ آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر حقیقی رنگ میں عمل کرنے اور کروانے والا ہو گا.وہ حکم اور عدل ہوگا.وہ جن باتوں کا تمہیں حکم دے وہ یقیناً عدل پر قائم رہتے ہوئے حکم دے گا.اس کا حکم یقیناً حکمت لئے ہوئے ہو گا.اس لئے اُس کی باتوں کو سرسری نظر سے نہ دیکھنا.اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جن کو کھول کر ہمیں بیان فرمایا ان میں سے اس وقت میں ایک کے حوالے سے بات کروں گا اور وہ بات ہے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے حوالے سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس بات پر خاص طور پر توجہ دلائی ہے کہ احمدی لڑکیاں احمدی لڑکوں سے شادی کریں تا کہ آئندہ نسلیں احمدیت پر قائم رہیں.جب بچوں کے دو کشتیوں میں پاؤں ہوں تو بچے کو مجھ نہیں

Page 188

خطبات مسرور جلد ششم 168 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 2008 آتی کہ وہ کیا کرے.کیونکہ عموماً باپوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے اگر باپ احمدی نہیں ہے تو با وجود ماں کے احمدی ہونے کے بچہ بعض دفعہ احمدی نہیں رہتا.بلکہ بعض دفعہ دونوں کے دو مختلف مذہب ہونے کی وجہ سے بچہ مذہب سے ہی دُور چلا جاتا ہے.اسی طرح احمدی لڑکوں کو بھی چاہئے کہ احمدی لڑکیوں سے شادی کریں جن کو ایک تو وہ غیروں سے شادی کر کے احمدی لڑکی کو اس کے حق سے محروم کرتے ہیں.دوسرے پھر یہاں وہی دو عملی کی صورت پیدا ہو جائے گی اور بچے متاثر ہوں گے.پس اگر آپ نے اس ایمان پر اپنے بچوں کو قائم رکھنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے تو پھر صرف اپنی پسند کو نہ دیکھیں بلکہ دین کو دیکھیں.مجھے کئی لڑکیاں خط لکھتی ہیں یہاں بھی اور دوسرے افریقن ملکوں سے بھی کہ گو کہ ہماری پسند کا رشتہ تو غیروں میں ہے لیکن آپ بتائیں کہ ہم اس سے شادی کر سکتی ہیں کہ نہیں.ان بچیوں کا یہ پوچھنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اپنا دین اپنی پسند سے زیادہ پیارا ہے.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ جب تک آپ اس بات کو پلے باندھے رکھیں گی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اس وقت تک آپ اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے فیض پاتی رہیں گی اور اسی طرح لڑ کے بھی فیض پاتے رہیں گے اور اللہ تعالی کے انعاموں کے وارث بنتے رہیں گے.پس خلافت احمدیہ کے 100 سال پورے ہونے پر ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کوسب سے اول رکھے گا.اس کی عبادت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہوئے عہد بیعت کو ہمیشہ نبھانے کی کوشش کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:.سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب بچ بچ تقوی کی راہوں پر قدم مارو گے.سواپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جوز کوۃ کے لائق ہے زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور ہدی کو بیزار ہوکر ترک کرو.یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے“.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) پھر آپ فرماتے ہیں: ”خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 68)

Page 189

خطبات مسرور جلد ششم 169 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 2008 اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ایمان پر قائم رکھے.اپنی عبادت کرنے والا بنائے رکھے.اپنے فضلوں سے ہمیں نواز تا رہے اور ہم ہمیشہ اس کے انعاموں کے وارث بنتے چلے جائیں.(نوٹ: حضور انور کے خطبہ کے دوران ساتھ ساتھ دو زبانوں میں رواں ترجمہ بھی پیش کیا جاتا رہا.مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر ومشنری انچارج کو مقامی غانین زبان میں جبکہ مکرم عبدالرشید انور صاحب مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ کو فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.) الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 19 ، مورخہ 9 مئی تا 15 مئی 2008 صفحہ 5 تا 7)

Page 190

خطبات مسرور جلد ششم 170 (17) خطبہ جمعہ فرمودہ 125 اپریل 2008 فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2008ء بمطابق 25 / شہادت 1387 ہجری شمسی بمقام پورٹونو و بین.مغربی افریقہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورٹونو وو کی اس مسجد میں ہم نماز جمعہ ادا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ توفیق دی کہ ایسی خوبصورت اور وسیع مسجد بنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں جمع ہوسکیں.گزشتہ دورے میں جب میں آیا تھا تو کو تو نو کی خوبصورت اور بڑی مسجد کا افتتاح کیا تھا.جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے رہا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں، ہر شہر میں مسجدوں کی تعمیر کریں.افریقہ کے غریب ممالک کے دُور دراز کے علاقوں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبوں میں بھی مسجد کی تعمیر ہورہی ہے اور بڑے شہروں میں بھی مساجد بن رہی ہیں.اسی طرح یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد تعمیر ہورہی ہیں.ہر جگہ جماعت بڑی قربانیاں کر کے مسجدیں بنا رہی ہے.جماعت احمدیہ کے پاس نہ تو تیل کی دولت ہے، نہ کسی اور ذریعہ سے ہم دولت جمع کرتے ہیں، ہاں ایمان کی دولت ہے جس کی وجہ سے احمدی قربانی کرتے ہیں.پس آپ ہمیشہ یادرکھیں کہ اس دولت کی ہمیشہ حفاظت کرنی ہے.یہ ایک ایسا بے بہا خزانہ ہے جس کو چھیننے کے لئے ہر راستے پر چور اچکے اور ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں.نہ ان لوگوں سے ہماری راتیں محفوظ ہیں، نہ ہمارے دن محفوظ ہیں بلکہ یہ ڈاکو شیطان کی صورت میں ہمارے خون میں دوڑ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے ہوشیار کیا کہ شیطان جو تمہاری رگوں میں دوڑ رہا ہے اس سے بچو.ہمیشہ یادرکھیں کہ آدم کی پیدائش کے وقت بھی شیطان نے یہ عہد کیا تھا کہ میں انسانوں کو ضرور ان کے راستے سے بھٹکاؤں گا.پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایمان کی دولت ایسی دولت ہے جس کی حفاظت سب سے مشکل کام ہے.باقی دنیاوی دولتوں کے لئے تو آپ بنیادی حفاظت کے سامان کر سکتے ہیں.تالے لگا سکتے ہیں، پہرے بٹھا سکتے ہیں.لیکن یہ دولت ایسی ہے جس کی حفاظت کے لئے مسلسل اپنے نفس کی پاکیزگی کے سامان کرنے اور مسلسل جہاد کرنا پڑتا ہے.جس کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تلاش کرنے کے لئے مسلسل جد و جہد کرنی پڑتی ہے.کیونکہ اس کے

Page 191

171 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اپریل 2008 خطبات مسرور جلد ششم بغیر ہر راستے پر بیٹھے شیطان نے انسان کو ورغلانا ہے.شیطان نے تو پہلے دن سے کہہ دیا تھا کہ جس فطرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے وہ ہمیشہ دنیا داری کی طرف اور لالچ کی طرف جھکتا چلا جائے گا.اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ انسان میری باتیں مانیں گے.عارضی خواہشات اور دنیا داری ان انسانوں کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جائے گی اور اکثریت خدا تعالیٰ کی ناشکر گزار ہو گی.اللہ تعالیٰ نے شیطان کو یہی کہا تھا کہ ایسے ایمان ضائع کرنے والے اور ناشکر گزار لوگوں سے میں جہنم کو بھر دوں گا.پس ایک مومن کے لئے یہ دنیا ایسی ہے جس میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اپنے ایمانوں کی حفاظت کی ضرورت ہے اور ایمان کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے بغیر ناممکن ہے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ عباد الرحمن بنے.اُس رحمن خدا کے آگے جھکنے والا بنے جس نے بے شمار انعامات سے ہمیں نوازا ہے.ان انعامات میں سے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خوبصورت مسجد ہمیں عطا فرمائی ہے.ہر مسجد کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہم خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لئے یہاں جمع ہوں.پس شکر گزاری کا ایک بہت بڑا طریق یہ ہے کہ اس مسجد کو ہمیشہ آباد کرنے کی طرف ہماری توجہ رہے.جماعت کی ہر مسجد ہمیں آباد نظر آنی چاہئے اور مسجد کی آبادی کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا مسجد کی آبادی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پانچ وقت مسجد میں آنا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے مسجد میں حاضر ہونا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ مسجد میں آ کر نماز پڑھنے کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے.اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں کہ مسجد بنانے کا حق تبھی ادا ہو گا جب اس نیت سے آیا جائے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے جمع ہونا ہے تو پھر ہی حقیقی ثواب ہوگا تبھی ایک مومن اپنی پیدائش کے حق کو ادا کرنے والا کہلائے گا.اس مقصد کو پورا کرنے والا کہلائے گا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57 ) کہ میں نے جنوں اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.پس چاہے کوئی بڑے رتبے والا آدمی ہے، بڑے جاہ وجلال والا آدمی ہے، کوئی بہت امیر آدمی ہے یا کوئی غریب آدمی ہے، اللہ تعالیٰ نے دونوں طرح کے لوگوں کی پیدائش کا مقصد یہی بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور یہ مساجد اسی لئے ہیں کہ تا تمام امیر وغریب ایک جگہ جمع ہوں اور تمام دنیاوی رشتوں کو ایک طرف رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور عبادت کے لئے صف بستہ ہو جائیں تا کہ ایک جان ہوکر ، ایک جماعت ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس کا فضل تلاش کریں اور جب اس طرح ایک جان ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے تا کہ اس کے فضلوں کی بارش پہلے سے بڑھ کر ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسی عبادتوں کا ثواب 27 گنا بڑھا دیتا ہے.اگر دل میں یہ

Page 192

172 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اپریل 2008 خطبات مسرور جلد ششم ہو کہ میں نے فلاں کے ساتھ کھڑے ہونا ہے یا فلاں کے ساتھ کھڑے نہیں ہونا یا فلاں شخص نے ابھی بیعت کی ہے اس کا مقام مجھ سے کم تر ہے تو باوجود اس کے کہ مسجد میں عبادت کے لئے آتے ہیں اس ثواب کے مستحق نہیں ہو سکتے.جہاں آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ مسجد میں نماز کا ثواب 27 گنا ہے، وہاں یہ بات بھی آنحضرت ﷺ نے فرمائی که إِنَّمَا الْاعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کہ ہر عمل کا ثواب اس کی نیت پر ہے.اگر نیت نیک نہ ہو تو باوجود بظاہر نیک عمل کے اللہ تعالیٰ ثواب روک بھی لیتا ہے.پس ہر فعل کا ثواب اس صورت میں ہے جب نیتیں نیک ہوں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا کہ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّینَ یعنی ایسے نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ہو.یہ ہلاکت اس لئے ہے کہ نماز کے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں، ان کی نیتوں میں کھوٹ ہوتا ہے.ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات نہیں ہوتے.دنیا داری کے خیالات دماغ میں پھرتے رہتے ہیں.پس نمازوں سے فیض پانے کے لئے اپنے خیالات کو پاک کرنا بھی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس نماز میں دل کہیں ہے اور خیال کسی طرف ہے اور منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ ایک لعنت ہے جو آدمی کے منہ پر واپس ماری جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی.آپ نے فرمایا نماز وہی اچھی ہے جس میں مزا آتا ہے.ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ نماز ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے، نماز ہر مومن کے واسطے ترقی کا ذریعہ ہے.پس ایسی نمازیں ہیں جو ہمیں پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایسی نمازیں پڑھنے کی نیت سے ہمیں مسجد میں آنا چاہئے.ہمیشہ یادرکھیں کہ ہماری ذاتی ترقی بھی اور جماعتی ترقی بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہونی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، اپنے مقصد پیدائش کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.خاص طور پر مسجدوں میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم نے کوئی دنیا داری کی بات یہاں نہیں کرنی.اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی ہے.مسجد میں آتے وقت جب یہ صورت ہوگی اور جب ہر شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد میں آرہا ہوگا تو دوسرے کے متعلق اگر کوئی دل میں برا خیال بھی ہے تو وہ اسے جھٹکنے کی کوشش کرے گا اور ان نمازوں اور عبادتوں کی برکت سے مسجد سے باہر بھی پیار، محبت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والی باتوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی.دلوں کی ناراضگیوں اور کینوں سے نجات مل جائے گی.پس یہ مسجدیں بنانے کا فائدہ تبھی ہے جب اس نیت سے مسجد بنائی جائے اور اس نیت سے مسجد میں عبادت کے لئے جایا جائے کہ ہم نے اپنے دلوں کو خدا تعالیٰ کی خاطر پاک صاف رکھنا ہے.ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بے شمار مسجدیں ہیں.کئی مسجدیں ہیں جن میں خطبوں میں خطیب ایک دوسرے فرقہ پر گالیوں اور نہایت گندے الفاظ

Page 193

خطبات مسرور جلد ششم 173 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اپریل 2008 کے استعمال کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے ہوتے.دنیا میں کئی مسجدوں میں جماعت کو بھی گالیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے.پھر مسجدوں میں بعض دفعہ خود اپنے اندر سے ہی دو گروہ لڑ پڑتے ہیں اور اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ حکومت کو دخل اندازی کر کے مسجدوں کو تالے لگانے پڑتے ہیں.تو کیا ایسی مسجد میں ثواب کا ذریعہ بن رہی ہیں؟ ایسے لوگ تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں.پس مسجد بنانا اور اس کو خوبصورت بنانا کوئی ایسی بات نہیں جس پر بہت زیادہ خوش ہوا جائے.اگر حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو اس صورت میں ممکن ہے جب خوبصورت دل رکھنے والے اور نیک نیت ، پیارا اور محبت پھیلانے والے اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نمازی پیدا کئے جائیں.ہمیشہ یاد رکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا ہے.آپس میں محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے.اگر ہم اس مقصد کے حصول کی کوشش نہیں کر رہے تو ہمارا احمدی کہلانا بے مقصد ہے.میں نے کل جلسے پر بھی بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو وہی پیارا ہے جو تقویٰ میں ترقی کرنے والا ہے.اور تقویٰ میں ترقی کے لئے اس نے ہمیں جو راستے سکھائے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اسی طرح اس کے دوسرے حقوق کی ادائیگی بھی ہے اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے.پس ہم احمدیوں کو ہمیشہ ان حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ رکھنی چاہئے.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کس قدر احسان ہے کہ اس نے زمانہ کے امام کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی.دنیا جب آپس میں فساد میں مبتلا ہے ہمیں ایک جماعت میں پرویا ہوا ہے.پس اس احسان کا شکر گزار ہوتے ہوئے اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کرنا ہمارا فرض ہے.آپس میں پیار اور محبت اور بھائی چارے کو پہلے سے بڑھا کر تعلق کا اظہار کرنا ہمارا فرض ہے.اپنے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے بالکل پاک صاف کرنا ہمارا فرض ہے.نئے بیعت کرنے والے، نومبائعین کو اپنے اندر پیار ومحبت سے جذب کرنا ہمارا فرض ہے.اگر ہم یہ تمام باتیں نہیں کر رہے تو یہ بڑی بد قسمتی ہوگی.پس ہر ایک احمدی کو اس کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے ، بلکہ یہ بات پلے باندھنی چاہئے کہ ہم اس نبی اے کے ماننے والے ہیں جس کا اوڑھنا، بچھونا، سونا، جاگنا، مرنا، جینا سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے تھا.ہم بھی اُس وقت حقیقی مومن کہلائیں گے یا کہلانے والے بن سکیں گے جب ہم اس اُسوہ کو اپنائیں گے.جب ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوگا اور جب یہ ہوگا تو ہماری عبادتیں بھی قبول ہوں گی اور ہمارے دوسرے اعمال بھی قبول ہوں گے.ہمارے اندر بھی پر امن فضا ر ہے گی اور ہم دوسروں کو بھی حقیقی امن اور حقیقی اسلام کا پیغام

Page 194

خطبات مسرور جلد ششم 174 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اپریل 2008 پہنچانے والے بن سکیں گے.ہماری تبلیغ کے نتائج بھی کامیاب ہوں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کو پہلے سے بڑھ کر حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ یہ مسجد ہر لحاظ سے یہاں جماعت کے لئے با برکت کرے اور ہمیں اس کے بہترین ثمرات سے نوازے.اب میں ایک انتظامی بات بھی یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں جو ذیلی تنظیموں سے متعلق ہے.یعنی انصار، خدام اور لجنہ.ان ذیلی تنظیموں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر تنظیم کی ذمہ داری صرف اپنی متعلقہ تنظیم کی حد تک ہے.انصار اللہ نہ لجنہ اماءاللہ، نہ خدام الاحمدیہ کے معاملات میں دخل دے سکتے ہیں اور نہ ہی جماعتی پروگراموں اور جماعتی معاملات میں.اسی طرح خدام اور لجنہ صرف اپنے دائرہ کار میں محدود ہیں اور جماعتی نظام ان تمام تنظیموں سے بالا ہے.یہ بات بھی واضح ہو کہ ذیلی تنظیمیں اپنے معاملات میں براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں.لیکن اپنے پروگرام بناتے وقت امیر سے مشورہ کر لیا کریں تا کہ جماعتی پروگراموں کے ساتھ ٹکراؤ نہ ہو.دوسرے یا درکھیں کہ ذیلی تنظیم کا ہر مبر جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو محبت اور پیار سے رہنے کی تو فیق عطا فرمائے اور ذاتی اناؤں سے بچائے ، خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول آپ کا مقصد ہو.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 20.مؤرخہ 16 مئی تا 22 مئی 2008 صفحہ 5 تا 6 )

Page 195

خطبات مسرور جلد ششم 18 175 خطبه جمعه فرموده 2 مئی 2008 فرموده مورخه 2 رمئی 2008ء بمطابق 2 ہجرت 1387 ہجری شمسی بمقام حدیقہ احمد ابوجہ نائیجیریا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ نائیجیریا کا 58 واں جلسہ سالانہ میرے اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے.ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں جب دنیا کی اکثریت خدا تعالیٰ کو بھول بیٹھی ہے احمدی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر ملک میں جلسے کرتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ چند دن کے لئے اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں.یہ انقلاب ہے جس کے بر پا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا میں بھیجا.اگر ہم اپنے اندر یہ انقلاب لانے والے نہیں، اگر ہم آج اس مقصد کے لئے جمع نہیں ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا ہے تو پھر اس جلسے کا کوئی فائدہ نہیں.آپ نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا کہ مجھے کوئی شوق نہیں کہ میلے کا ماحول پیدا کروں اور لوگوں کو جمع کر کے دنیا کو اپنی طاقت بتاؤں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ سوچ اور خیال ایسے ہیں جن سے مجھے کراہت آتی ہے.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا یہاں جلسے پر تقریریں ہوتی ہیں.بڑے بڑے مقرر تقریریں کرتے ہیں.بڑی علمی باتیں ہوتی ہیں.لوگ یہ باتیں سن کر مقررین کی بڑی تعریف کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ان تقریروں اور مقررین کی ان اعلی علمی باتوں کا کیا فائدہ؟ اگر جماعت کے دلوں پر اس کا اثر نہ ہو.پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے ہیں، اس لئے آج یہاں جمع ہیں کہ جو باتیں ہم سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنا ئیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ اپنی زندگیوں کو اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جس معیار پر آنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے توقع رکھتے ہیں اور وہ معیار ہم حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہم پر نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کے لئے بھی ایک مجاہدے کی ضرورت ہے، ایک کوشش کی ضرورت ہے.ایسی کوشش کہ جب اللہ تعالی انا خاص فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے

Page 196

176 خطبه جمعه فرموده 2 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم کی طرف دوڑ کر آتا ہے.اپنے بندے کی کوشش کو قبول فرماتا ہے.اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے.اس سے ایسے کام کرواتا ہے جو اس کی رضا کے کام ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت : 70) یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو اپنے راستے کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو.نماز میں دعائیں مانگو.صدقات ، خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلے سے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا میں شامل ہو جاؤ.جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا ، دوائی کھا تا مسہل لیتا ، خون نکلوا تا ٹکور کرواتا ہے اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے.اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو.صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں، وہ سب بجالاؤ“.( بدر جلد 1 نمبر 34 مورخہ 8 نومبر 1905 صفحہ 4-3) پس یہ کام ہے جو بیعت کرنے کے بعد ایک احمدی مسلمان کو کرتے رہنے کی ضرورت ہے.یہ جلسہ بھی ان طریقوں میں سے، ان ذریعوں میں سے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے اور پاک تبدیلی پیدا کرنے والے ذریعے ہیں، ایک ذریعہ ہے.ہمارا آج یہاں جمع ہونا اور بڑی تعداد میں جمع ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعد مجاہدہ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں.پس ان تین دنوں میں اس مقصد کے حصول کے لئے ہر احمدی خاص طور پر کوشش کرے تبھی یہاں جمع ہونے کے مقصد کو پورا کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا سب سے اہم ذریعہ نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب فرمایا کہ اپنے نفس کی تبدیلی کے لئے کوشش کرو تو سب سے پہلے نماز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ”نماز میں دعائیں مانگو.کیونکہ جب انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیک خواہشات کو قبول فرماتے ہوئے اس میں پاک تبدیلیاں پیدا فرماتا ہے.لغو اور غلط کاموں سے انسان بچتا ہے.نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اس بارے میں خود اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر (العنکبوت :46) یعنی نماز سب بُری اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ نماز بری اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.لیکن کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ماحول میں دیکھتے ہیں کہ بظاہر بڑے نماز پڑھنے والے لوگ ، ایسے لوگ جو حج بھی کر آتے ہیں،

Page 197

خطبات مسرور جلد ششم 177 خطبه جمعه فرموده 2 مئی 2008 ان کے جب دوسرے اعمال دیکھو، ان کے جب دوسرے اخلاق دیکھو تو بعض دفعہ ایک لا مذہب ان سے زیادہ اخلاق والا نظر آتا ہے.یہاں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ نماز نے تو بظاہر کوئی نیکی پیدا نہیں کی پھر نمازیں پڑھنے کا کیا فائدہ؟ تو یہاں یہ سمجھنا چاہئے کہ نماز کا قصور نہیں بلکہ ان نمازیوں کا قصور ہے جو نماز کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتے.اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے تو اس سے پہلے فرمایا کہ اقم الصلوة کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو.جب نمازیں اپنی شرائط کے ساتھ ادا کی جائیں گی تو پھر بے حیائیوں اور بری باتوں سے روکیں گی.نماز کی بہت سی شرائط ہیں.وضو کرنا، پاک صاف ہونا، مردوں کے لئے مسجد میں آکر نماز پڑھنا، خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونا.آنحضرت نے اس بارہ میں ایک انتہائی اہم بات کی طرف توجہ دلائی اور وہ یہ کہ جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو یہ خیال ہو کہ تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم اتنا ہو کہ یہ خیال رہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے.وہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے جو میرے دل اور دماغ کے اندرونے حصے تک ، گہرائی تک واقف ہے.کوئی خیال میرے دل میں نہیں آتا لیکن میرا خدا اس سے پہلے اس خیال کا علم رکھتا ہے.ہمارا خدا وہ خدا ہے جس کو کبھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.اس خدا کو پتہ ہے کہ کون سی نماز خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی خاطر اور اپنے نفسوں کو پاک کرنے کے لئے پڑھی جارہی ہے اور کون سی نماز صرف دکھاوے کی خاطر پڑھی جارہی ہے.پس جو نمازیں خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی خاطر پڑھی جائیں وہی مقبول نمازیں ہیں.وہی ایسی نمازیں ہیں جو دلوں کی صفائی کرتی ہیں.وہی ایسی نمازیں ہیں جو بے حیائیوں سے روکتی ہیں.پس احمدی جب نماز پڑھے تو ایسی نماز کی تلاش کرے.ورنہ بظاہر چاہے جتنا بڑا کوئی نیک آدمی نظر آتا ہوا اگر اس کا ہر عمل خدا تعالیٰ کے خوف کو لئے ہوئے نہیں تو اس کی نمازیں بھی خدا تعالیٰ قبول نہیں فرماتا.بلکہ اس کے ظاہری عمل اور قول اور اس کے دل کی اندرونی حالت میں اختلاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسی نمازیں پڑھنے والوں کی نمازیں بجائے اصلاح کے ان کے لئے ہلاکت کا ذریعہ بنا دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ (الماعون : 5) پس ان نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے.کون سے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے؟ فرمایا الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ( الماعون : 5 ) جو اپنی نمازوں سے غافل ہوتے ہیں.بظاہر تو نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن دل دنیا داری میں لگے ہوتے ہیں.بظاہر تو حج بھی کئے ہوتے ہیں لیکن یہ نمازیں اور حج ان میں پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے.وہ اپنی عملی زندگی میں بھول جاتے ہیں کہ خدا انہیں صرف نمازوں ہی میں نہیں دیکھ رہا بلکہ عام زندگی میں بھی خدا تعالیٰ انسان کی زندگی کے ہر قول اور فعل کا علم رکھنے والا ہے.پس نمازوں کی مقبولیت کے لئے اپنے ہر فعل کو درست کرنا ضروری ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے دل کی اندرونی حالت اور تمہارے عمل ایک جیسے نہیں تو ان لوگوں میں شامل ہو گے ، ان کے زمرے میں آؤ گے جو الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاءُ وْنَ (الماعون : 6) یعنی وہ جو صرف دکھاوے سے کام لیتے ہیں اور دکھاوے سے کام لینے والوں کی

Page 198

178 خطبه جمعه فرموده 2 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم نمازیں جن کے دل حقیقت سے غافل ہوں ان کی نمازیں برائیوں سے روکنے کی بجائے ان کے لئے ہلاکت کا سامان بن جاتی ہیں.پس ہمیشہ یاد رکھیں ہم جو اس زمانے کے امام کو مان کر یہ دعوی کرتے ہیں کہ دوسروں سے بہتر ہیں تو صرف یہ دعوی کافی نہیں.ہمیں اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کرنا ہوگا.وہ نمازیں پڑھنی ہوں گی جو ہر قسم کی برائیوں سے روک رہی ہوں.وہ نمازیں پڑھنی ہوں گی جو نیک عمل کرنے کی طرف آگے بڑھانے والی ہوں.اگر ہمارا نمازیں پڑھنا ہماری زندگیوں میں انقلاب نہیں لا رہا تو بڑے فکر کی ضرورت ہے.پس ایک احمدی مسلمان مومن کا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنی نمازوں کی حفاظت کریں.اپنی نمازوں کو اپنے اندر دوسری اخلاقی تبدیلیوں کا پیمانہ بنائیں.یا اپنے اعلیٰ اخلاق کو اپنی نمازوں کی قبولیت کا پیمانہ سمجھیں.اگر ہمارے اخلاق اعلیٰ نہیں ہور ہے ، اگر ہم اس زمانے کی بُرائیوں سے بچنے کی کوشش نہیں کر رہے تو ہم مجاہدہ نہیں کر رہے ، ہم اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کر رہے.پس ہر احمدی کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے جو مجاہدہ کرنا ہے اس میں سب سے پہلے خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت اور نمازوں کی ادائیگی ہے.دعاؤں اور ذکر الہی کی طرف توجہ ہے.پھر اپنی توفیق کے مطابق صدقہ و خیرات کرنا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ صدقہ و خیرات بھی بلاؤں کو دور کرتا ہے.آج اس زمانے میں دنیا داری ، اخلاقی گراوٹ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا اللہ تعالیٰ کی حقیقی عبادت سے غافل رہنا ان سے بڑی اور کون سی بلا ہوگی جو ہماری زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے.پس جس کو جتنی توفیق ہے صدقہ و خیرات کرے اور دکھاوے کے لئے نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرے.جو کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کیا جائے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پانے والا ہوتا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نیتوں کے مطابق انسان سے سلوک کرتا ہے اور جو عمل نیک نیست سے ہو وہ یقیناً پاک تبدیلیوں میں بڑھاتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نفس کی تبدیلی کے لئے ہر قسم کے حیلے اور کوشش کی ضرورت ہے.ان تمام قسم کے اخلاق کو اپنانے کی ضرورت ہے جن کا ذکر فرمایا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے نرمی اور حسن اخلاق سے بات کرو اور حسن اخلاق کا سلوک کرو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی امانتوں کی حفاظت کرو.ہر عہدیدار کے پاس کوئی بھی جماعتی کام ایک امانت ہے اسے ایمانداری سے ادا کرناضروری ہے.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالٰی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو اللہ تعالیٰ کی پسند سے باہر نکل جائے نہ اس کا دین رہتا ہے اور نہ اس کی دنیا رہتی ہے.بعض دفعہ انسان عارضی نفسانی خواہشات کی خاطر امانت کا حق ادا نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آسکتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا

Page 199

خطبات مسرور جلد ششم 179 خطبه جمعه فرموده 2 مئی 2008 ہے انسانوں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.پس ہمیشہ ایک احمدی کو اپنی امانت کا حق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں.پھر عہد کو پورا کرنا ہے.ہر احمدی کا ایک عہد ہے اس نے نئے سرے سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی عبادتوں کا بھی حق ادا کرے گا اور دوسرے تمام احکامات جو خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں ان پر بھی عمل کرے گا.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جو عمل خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہم کرتے ہیں عبادت بن جاتا ہے.پس کسی حکم کو بھی چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے.پھر ایک اعلیٰ خلق اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ سچائی پر قائم ہو جاؤ.ایسی سچائی ہو ، ایسی بات کرو جو قول سدید ہو، ایسی بات ہو جس میں کوئی بیچ نہ ہو.یہ نہ ہو کہ ایسی بات کرو جو واضح نہ ہو.صاف ستھری بات کرو.ایسی بات نہ ہو جس کی تاویلیں کرنی پڑیں.پھر فرمایا ایک حکم یہ ہے کہ حسد کرنے سے بچو.کیونکہ حسد بھی ایک انسان کو اندر ہی اندر جلا دیتی ہے.پھر حسد کی وجہ سے وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہے.ایک مومن کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ حسد کرے.خود بھی حسد سے بچو اور حسد سے بچنے کی دعا بھی کرو.فی زمانہ ہمارے کتنے ہی حاسد ہیں جو جماعتی ترقی کو دیکھ نہیں سکتے ، بظاہر اوپر سے میٹھے ہیں لیکن اندر سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر ہم آپس میں ہی ایک نہیں ہوں گے اور بعض معاملات میں ایک دوسرے سے حسد کرتے رہیں گے تو جو ہم سے حسد کرنے والے ہیں ان کے شر سے کس طرح بچیں گے؟ پس آپس میں پیار اور محبت کا بہترین نمونہ دکھا ئیں.پھر اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ لغویات سے بچو.کیونکہ اس زمانے میں بھی بہت سی ایسی لغویات ہیں جو شیطان کی گود میں پھینک دیتی ہیں.بہر حال یہ ایک لمبی فہرست ہے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں بتائی ہے.میں جماعتی نظام کو بھی کہتا ہوں اور ذیلی تنظیموں انصار الله، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو بھی کہ ایسے پروگرام بنا ئیں جن سے اعلیٰ اخلاق اپنی جماعت کے، اپنی تنظیم کے ہر ممبر میں پیدا کرنے کی کوشش کریں.پرانے احمدیوں کے بھی اخلاق کے معیار بلند کریں اور نو مبائعین کے اندر بھی اخلاق پیدا کریں.نو مبائعین کو سنبھالنے کے لئے ساتھ کے ساتھ تمام ذیلی تنظیمیں انہیں اپنے اندر سموتی چلی جائیں.آئندہ انشاء اللہ دو تقریروں میں کچھ بنیادی اخلاق پر مزید روشنی ڈالوں گا کیونکہ اب تو وقت کافی زیادہ ہو گیا ہے.آپ جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں ان باتوں کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور عمل کرنے کی کوشش کریں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ خلافت جو بلی جو آپ منارہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا وہ انعام ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان میں مضبوط ہوں گے اور نیک اعمال کرنے والے ہوں گے.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنی

Page 200

خطبات مسرور جلد ششم 180 خطبه جمعه فرموده 2 مئی 2008 عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے.اللہ تعالیٰ نے خلافت کے وعدے کو ان لوگوں کے لئے مخصوص فرمایا ہے جو نیک اعمال کے ساتھ عبادت کرنے والے ہوں گے.پس بہت فکر سے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں.نائیجیریا کی جماعت تو خلافت کی برکات کا براہ راست مشاہدہ کر چکی ہے.آپ لوگوں کو تو بہت زیادہ اس انعام کی قدر کرنی چاہئے.آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ یہاں مساجد سمیت خلافت سے علیحدہ ہو گئے تھے آج ان کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ بھی نہیں.لیکن جو لوگ خلافت کے انعام سے چمٹے رہے ، جنہوں نے اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار انعامات سے نوازا.آج ہر شہر میں آپ جماعت کی ترقی کے نظارے دیکھتے ہیں.آج آپ کی یہاں ہزاروں میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خلافت کے ساتھ ہی برکت ہے.پس ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس انعام سے فیضیاب ہوتے رہیں.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 21 مورخہ 23 تا 29 مئی 2008 ، صفحہ 5 تا صفحه 6

Page 201

خطبات مسرور جلد ششم 181 (19) خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 فرموده مورخه 9رمئی 2008ء بمطابق 9 ہجرت 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں اللہ تعالیٰ نے مغربی افریقہ کے تین ممالک کے دورہ کی مجھے توفیق دی.اس دورے کے کچھ پروگرام ، بلکہ کہنا چاہئے کہ جو بڑے مین (Main) پروگرام، جلسے وغیرہ تھے، ایم ٹی اے دیکھنے والی ہر آنکھ نے دیکھے اور نظارہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق نازل ہوتے دیکھے.بہت سی باتیں رپورٹس میں آ بھی رہی ہیں، کچھ چھپ چکی ہیں، کچھ انشاء اللہ چھپ جائیں گی.لیکن اکثریت تک کیونکہ بہت سارے الفضل دیکھتے نہیں، پڑھتے نہیں ، یہ رپورٹس پہنچتی نہیں.بہر حال یہ اکثر احباب کی خواہش ہوتی ہے کہ میں ان دوروں کے کچھ حالات بیان کروں بلکہ اس بارے میں بعض فیکسیں آنی بھی شروع ہو گئی ہیں.اس لئے میں مختصراً اس سفر کے کچھ حالات بیان کر دیتا ہوں.وہ باتیں بیان کروں گا جن کو بعض دفعہ کیمرے کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی یا جن کا تعلق جذبات سے ہے، گو کہ اس کا اظہار پوری طرح نہیں ہوسکتا لیکن کچھ حد تک.اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت جوبلی کے حوالے سے یہ پہلا دورہ تھا اور جن ملکوں کا دورہ کیا اس وجہ سے وہاں کے احمدی احباب و خواتین حتی کہ بچوں تک نے بڑے جذباتی انداز میں ان جلسوں کی ، ان تقاریب کی تیاری شروع کر دی تھی اور بعض کے اس تیاری کے تعلق میں جذبات دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح قربانی کرنے والے ہیں.پیار کرنے والے، محبت ، اخلاص اور نیکی میں بڑھنے والے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں.جن کی قومیتیں مختلف ہیں، جن کے رنگ مختلف ہیں، جن کے رسم و رواج مختلف ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مسیح محمدی کے خلیفہ سے بھی ایسی ہی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں کہ انسان جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور یہ ہونا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے.اور وہ خدا جو ہمارا خدا ہے، جو مسیح موعود کا خدا ہے، جو محد رسول اللہ ﷺ کا خدا ہے ، وہ سچے وعدوں والا خدا ہے.اس بچے ، الله تمام طاقتوں کے مالک اور اپنے وعدے پورے کرنے والے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ

Page 202

182 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم فرمایا تھا کہ میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیراذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا.ہر روز ایک نئی شان سے ہم اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور ایک دنیا گواہ ہے کہ افریقہ کے اس دورہ میں خاص شان کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھا.کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے.کوئی مبالغہ نہیں ہے.کیمرے کی آنکھ نے ٹی وی کی سکرین پر ایک دنیا کو دکھا دیا اور روز روشن کی طرح دکھا دیا کہ افریقہ کے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو عزت کے ساتھ اپنے دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں اپنے مخصوص انداز میں جب ” غلام احمد کی جے“ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو عزت کے ساتھ شہرت کا وعدہ ایک خاص شان سے پورا ہوتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ میں تیرا ذکر بلند کروں گا، ایک نئے انداز میں نعروں کی صورت میں فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرتا ہے.نور ایمان میں بڑھے ہوئے اور بھرے ہوئے افریقنوں کے دلوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کے سوتے پھوٹ رہے ہوتے ہیں.کیا کوئی انسانی کوشش یہ محبت دلوں میں ڈال سکتی ہے؟ کیا چہروں کی رونقیں اور آنکھوں سے پیار اور محبت کی چھلک کسی دنیاوی لالچ کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟.کہتے ہیں کہ غریبوں کو لالچ دو تو جو چاہے کر والو.لیکن لالچی بھی محبتیں نہیں پیدا کرسکتی.ان غریبوں کے پاس بظاہر دنیاوی دولت تو نہیں ہے لیکن ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں.ان کو جتنا چاہے لالچ دے لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت ان کے دلوں سے نہیں نکال سکتے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے آقا محمد رسول اللہ اللہ سے محبت کی وجہ سے ان کو جو خلافت احمدیہ سے محبت ہے دنیا کی بڑی سے بڑی محبت بھی اس کے پاسنگ بھی نہیں ہے.پس یہ ہے ہمارا خدا، جس نے احمدیوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کی وجہ سے خلافت کی محبت سے بھی احمدیوں کو سر تا پا بھر دیا ہے.مجھے لگتا ہے کہ افریقہ کے احمدی اس کی روشن مثال بنتے جارہے ہیں.اللہ کرے کہ یہ محبتیں آگے محبتوں کی جاگیں لگاتی چلی جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: انبیاء کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کمزور اور ضعیف لوگ ہی ہوا کرتے ہیں.بڑے بڑے لوگ اس سعادت سے محروم ہی رہ جاتے ہیں.اُن کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ان باتوں سے پہلے ہی فارغ التحصیل سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں.اپنی بڑائی اور پوشیدہ کبر اور مشیخت کی وجہ سے ایسے حلقے میں بیٹھنا بھی ہتک اور باعث ننگ و عار جانتے ہیں جس میں غریب لوگ مخلص ، کمزور مگر خدا تعالیٰ کے پیارے لوگ جمع ہوتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ صد ہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا مشکل سے چادر یاپا جامہ بھی ان کو میسر آتا ہے.ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لا انتہا اخلاص اور ارادت سے ہے.

Page 203

183 خطبہ جمعہ فرموده 9 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو ان سے وقتا فوقتا صادر ہوتی رہتی ہے.یا جس کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں.وہ اپنے ایمان کے ایسے پکے اور یقین کے ایسے بچے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور با وفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال و دولت کے بندوں ، ان دنیوی لذات کے دلدادوں کو اس لذت کا علم ہو جائے تو اس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جاویں“.( ملفوظات جلد 10 صفحہ 306-307) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ایسے محبت کرنے والے عطا فرمائے جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خلافت کے تعلق میں یہ فرمایا کہ یہ وعدہ تمہاری نسبت ہے.تو پھر بعد میں آنے والوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کے ساتھ خلافت کی محبت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی اور افریقہ کے ان روشن دلوں کی محبت آپ نے دیکھ بھی لی.اب میں مختصر اچند واقعات بتا دیتا ہوں.میرا سب سے پہلا دورہ غانا کا تھا.غانا کا استقبال ائر پورٹ پر آپ نے دیکھ ہی لیا ہے.رات ہونے کی وجہ سے احمدیوں کا جوش تو کیمرہ آپ کو دکھا سکا ہوگا لیکن ان آنکھوں کی محبت جو وہاں موجود تھے صرف وہاں موجود ہی دیکھ سکے.اکر ا جو اُن کا دارالحکومت ہے، ہمارا ہیڈ کوارٹر بھی وہیں ہے.وہیں میں پہلے گیا تھا.لیکن جلسہ وہاں سے تقریباً 30-40 میل کے فاصلے پر ایک نئی جگہ پر منعقد ہونا تھا.اس لئے ہم اگلے روز اس نئی جگہ باغ احمد میں چلے گئے.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ بڑی با موقع 1460 یکٹر زمین مین ہائی وے کے اوپر اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے.یہاں جب میں پہنچا ہوں تو اکثریت احباب و خواتین کی پہنچ چکی.ایک شہر بسا ہوا تھا.غانا جماعت نے اس زمین کو بڑا ڈ و یلپ (Develop) کیا ہے.پلاننگ کر کے سڑکیں وغیرہ بنائی ہیں اور ہر جگہ سے وہاں آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے.سارے علاقے کی جھاڑیاں ، گھاس وغیرہ صاف کیا ہوا تھا.ان افریقن ملکوں کی زمین بڑی زرخیز ہے.ذراسی بارش ہو تو فوراً سبزہ ہو جاتا ہے جس طرح یہاں یورپ میں ہے.یہ جونئی جگہ خریدی گئی ہے، یہ ایک بہت پرانا اور بڑا پولٹری فارم تھا.اس میں شیڈ وغیرہ بھی بنے ہوئے ہیں.انہیں صاف کر کے، فرش وغیرہ بھی نئے بنا کر ، کچھ کھڑکیاں دروازے لگا کر رہائش کے لئے بیرکس بن گئی تھیں.لیکن اگر جگہ کی تنگی تھی تو کسی نے شکوہ نہیں کیا کیونکہ بہت بڑی تعداد میں احمدی وہاں آئے تھے.بہت سارے اچھے بھلے کھاتے پیتے، کاروباری لوگ یا سکول ٹیچر زیا دوسرے کام کرنے والے ، اگر ان کو رہائش نہیں ملی تو با ہر صف بچھا کر آرام سے سو گئے.ان لوگوں میں اس لحاظ سے بڑا صبر ہے.مجھے کسی نے بتایا کہ انہوں نے ایک دو ایسے لوگوں سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ہم جلسہ سننے آئے

Page 204

خطبات مسرور جلد ششم 184 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 ہیں.خلیفہ وقت کی موجودگی میں جلسہ ہو رہا ہے.دو دن کی عارضی تکلیف سے کیا فرق پڑتا ہے.ہم خوش ہیں کہ اس جلسہ میں شمولیت کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا.نئی جگہ پر اور پھر تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض انتظامات میں کمی بھی تھی لیکن مجال ہے جو کسی نے شکوہ کیا ہو.اُن کی حاضری تقریباً ایک لاکھ سے اوپر تھی اور مرکزی طور پر لنگر چلانے کا بھی پہلا تجربہ تھا.عموماً وہاں یہ رواج ہے کہ ہر ریجن کو اپنے لوگوں کو کھانا کھلانے کا اور اپنے انتظام چلانے کا کام سپرد کیا جاتا ہے کہ وہی خوراک وغیرہ سنبھالیں.اس دفعہ گھانا سے باہر سے بھی تقریباً 5 ہزار افراد آئے ہوئے تھے اور ان کا اپنا بھی انہوں نے مرکزی طور پر لنگر چلایا تھا.اس لئے بہر حال بعض انتظامی وقتیں سامنے آئیں.ایک دن مجھے پتہ چلا کہ بورکینا فاسو کے بعض افراد کو کھانا نہیں ملا.بورکینا فاسو سے بھی تقریباً 3 ہزار افراد آئے تھے، سب سے بڑی تعدا د وہاں سے آئی تھی.یہ گھانا کا ایک ہمسایہ ملک ہے.300 کے قریب خدام سائیکلوں پر 1600 کلومیٹر سے زائد کا سفر کر کے آئے تھے.بہر حال میں نے وہاں جو ان کے ساتھ مبلغ آئے تھے ان کو کہا کہ جن کو کھانا نہیں ملا ان سے معذرت کریں اور آئندہ خیال رکھیں.جب انہوں نے جا کر معذرت کی تو لوگوں کا جواب تھا کہ ہم جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہ ہم نے حاصل کر لیا ہے.کھانے کا کیا ہے روز کھاتے ہیں لیکن جو کھانا ہم اس وقت حاصل کر رہے ہیں وہ روز روز کہاں ملتا ہے.بور کینافاسو کی جماعت تو اتنی پرانی نہیں ہے.اکثریت گزشتہ 10-15 سال پر مشتمل ہے.لیکن اخلاص اور وفا اور محبت میں ترقی کرتے چلے جارہے ہیں.غربت کا یہ حال ہے کہ بعض لوگ ایک جوڑے میں آئے ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مشکل سے بدن پر لباس بھی ہوتا ہے لیکن پیسے جوڑ کر جلسے پر پہنچے تھے کہ خلافت جو بلی کا جلسہ ہے.خلیفہ وقت کی موجودگی میں ہو رہا ہے اور ہم نے اس میں ضرور شامل ہونا ہے اور چھوڑنا نہیں.ایسی محبت خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کون پیدا کر سکتا ہے؟.جو خدام سائیکلوں پر سوار ہو کر آئے تھے، ان کے اخلاص کا اندازہ اس بات سے بھی کر لیں کہ یہ مختلف جگہوں پر پڑاؤ کرتے ہوئے ، سات دن مسلسل سفر کرتے رہے اور یہاں پہنچے ہیں.ان سائیکل سواروں میں 50 سے 60 سال کی عمر کے سات انصار بھی شامل تھے اور 13 اور 14 سال کے دو بچے بھی شامل تھے.جب ان بچوں سے امیر صاحب بور کینا فاسو نے کہا کہ آپ سفر پر نہیں جاسکتے.آپ چھوٹے ہیں اور سفر لمبا ہے تو وہ بڑے غمگین ہو گئے اور اپنے قائد اور معلم کے پیچھے بھاگے کہ امیر صاحب کو کہیں ہم نے ضرور ساتھ جانا ہے اور اب ہم واپس نہیں جائیں گے.وہ اپنے علاقوں سے آئے ہوئے تھے.چنانچہ ان بچوں کو اجازت دے دی گئی.انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ یہ سارا سفر مکمل کیا.

Page 205

خطبات مسرور جلد ششم 185 خطبہ جمعہ فرموده 9 مئی 2008 وہاں کے صدر خدام الاحمدیہ عبدالرحمن صاحب نے کسی کے پوچھنے پر کہا کہ ابتدائی مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بے حد قربانیاں کیں.ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارے خدام بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہوں اور ہماری خواہش تھی کہ خلافت جو بلی کے سلسلے میں کوئی ایسا خاص کام کیا جائے جس سے خلافت کے ساتھ ہمارے اخلاص اور وفا کا اظہار ہو اور ہم خلیفہ وقت کو بتائیں کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور ہر چیلنج کے لئے تیار ہیں.چنانچہ ہم نے سائیکل سفر کے ذریعہ جلسہ غانا میں شمولیت کی تحریک کی جس پر خدام نے لبیک کہا اور 1435 خدام نے اپنے نام پیش کئے.لیکن بعض انتظامی دقتوں کی وجہ سے 300 کا انتخاب کیا گیا.یہ سائیکل سوار بڑے اعلیٰ اور نئے سائیکلوں پر سفر نہیں کر رہے تھے بلکہ پرانے زنگ آلود سائیکل، کسی کی بریکیں نہیں ہیں، کسی کے ٹائر گھسے ہوئے ہیں لیکن جوش و جذبہ تھا.خلافت احمدیہ کے لئے اخلاص اور محبت تھی اور ہے.اس دائمی خلافت کے لئے جس کی پیشگوئی آنحضرت نے فرمائی تھی.میڈیا نے بھی اس کو دیکھا اور کوریج دی.میڈیا نے اس کو کس طرح دیکھا؟ ٹی وی کے نمائندے نے ان سے پوچھا، جب یہ سائیکل سوار سفر شروع کرنے لگے تھے کہ سائیکل تو بہت خستہ حال ہیں یہ کس طرح اتنا بڑا سفر کر سکتے ہیں.تو جماعتی نمائندے نے ان سے کہا کہ اگر چہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان اور عزم بڑا ہے کہ ہم خلافت کے انعام کے شکرانے کے طور پر یہ سفر اختیار کر رہے ہیں.اور نیشنل ٹی وی نے جب یہ خبر نشر کی تو اس کا آغاز اس طرح کیا کہ اللہ کی خاطر خلافت جوبلی کے لئے واگا سے اکرا کا سائیکل سفر.اگر چہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان بہت ہی مضبوط “.پھر ٹی وی نے ان سائیکلوں کی حالت بھی دکھائی کہ کس طرح خستہ حال سائیکل ہیں.اور کچھ خدام سے سوال بھی پوچھے کہ کیوں جا رہے ہیں؟ ایک خادم نے جواب دیا کہ اپنے خلیفہ سے ملنے کے لئے جا رہا ہوں.دوسرے نے کہا کہ احمد یہ خلافت جوبلی کی سو سالہ تقریبات میں ہمارے خلیفہ آ رہے ہیں اس میں شامل ہونے کے لئے جارہا ہوں.تو یہ ہیں ان کے جذبات.اور یہ احمدی کوئی پیدائشی احمدی نہیں ہیں.کوئی صحابہ کی اولاد میں سے نہیں ہیں.بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے بعض ایسے علاقوں کے رہنے والے ہیں جہاں کچی سڑکیں ہیں اور ان لوگوں نے چند سال پہلے احمدیت قبول کی ہے.ایسی جگہوں پر رہنے والے ہیں جہاں بجلی پانی کی سہولت بھی نہیں ہے.اب کہیں بعض جگہوں پر کنکشن لگ رہے ہیں تا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے رابطے رہیں.بعض جگہ غربت و افلاس نے ان کو بے حال کیا ہوا ہے لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام صادق کی جماعت میں شامل ہو کر وہ اخلاص ان میں پیدا ہو گیا ہے کہ جہاں دین کا سوال پیدا ہو وہاں ان کے عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور محبت سے لبریز ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے.بور کینا فاسو کے ایک دوست عیسی سیا ما صاحب نے کہا کہ میں نے 2005ء میں بیعت کی ہے.یعنی صرف 3 سال پہلے احمدی ہوئے ہیں.مجھے آج پتہ چلا ہے کہ میں کیا ہوں اور کتنا خوش قسمت ہوں اور میں نے کیا پایا، اپنی

Page 206

خطبات مسرور جلد ششم 186 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 خوشی کا اظہار میرے بیان سے باہر ہے.بعض کی خلافت سے محبت آنسوؤں کی شکل میں ان کی آنکھوں سے یہ رہی بعض بد قسمت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے کیا دیا؟ وہ ان لوگوں کو دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خدا نے ان کے دلوں میں کیا انقلاب پیدا کر دیا ہے.خلیفہ اسیح کے لئے بھی وہ محبت پیدا کر دی جس کے بیان کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے.گیمبیا سے 22 افراد کا ایک وفد آیا تھا جو غربت کی وجہ سے بائی ائیر (By Air) تو سفر نہیں کر سکتے تھے ، بس کے ذریعہ ان لوگوں نے سفر کیا.تین ملکوں سینیگال، مالی اور بورکینا فاسو، یہ بڑے بڑے ملک ہیں ان میں سے گزرتے ہوئے پانچ دن میں کوئی سات ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے یہ گھانا پہنچے تھے اور سفر کی تکان سے بھی پچور تھے.سڑکیں بھی ان ملکوں میں کوئی ایسی اچھی نہیں ہیں.بسوں کا معیار بھی کوئی ایسا اچھا نہیں ہے.جنہوں نے کبھی افریقہ کا سفر کیا ہوان کو پتہ ہے.لیکن جب یہ لوگ جلسہ گاہ پہنچے تو بجائے آرام کی جگہ تلاش کرنے کے یہ سیدھے نماز کی جگہ پہنچے کیونکہ اس وقت نماز کا وقت تھا اور وہاں کسی کے چہرے سے یہ عیاں نہیں تھا، یہ ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ یہ غلامان مسیح محمدی کسی لمبے اور تھکا دینے والے سفر سے ابھی پہنچے ہیں تفصیلی رپورٹس بعد میں الفضل میں آتی جائیں گی.جن کو موقع ملے وہ پڑھیں.پھر آئیوری کوسٹ سے بھی تقریباً ایک ہزار سے اوپر افراد کا قافلہ لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد گھانا پہنچا، لیکن اخلاص فدائیت اور محبت نے ان کے چہروں پر کسی قسم کی تھکان کے آثار نہیں آنے دیئے.اللہ تعالیٰ نے بعض مقامی احمدیوں کو یہ بھی توفیق دی کہ انہوں نے کئی کئی غریب احمدیوں کا سفر خرچ بھی برداشت کیا، ان کی حالت کو دیکھ کر جو تڑپ رہے تھے کہ جلسے پر جائیں.ان کی وہی کیفیت تھی کہ جب زاد سفر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں انکار کیا گیا تو ان کی آنکھوں سے آنسورواں ہو جاتے تھے.کون ہے جو ان لوگوں کے اخلاص و محبت کا مقابلہ کر سکے؟ پھر خلافت جو بلی کے جلسے میں شامل ہونے کے لئے ان غریبوں نے کیا کیا طریقے اختیار کئے؟ اس کے بھی ایک دو واقعات سن لیں.اپینگر وریجن آئیوری کوسٹ کی ایک جماعت نے عزم کیا کہ کیونکہ خلافت کے سوسال مکمل ہورہے ہیں تو اس مناسبت سے ہمارے گاؤں سے 100 افراد کا وفد جلسہ سالانہ غانا میں شرکت کرے گا.یہ انتہائی غریب لوگ ہیں لیکن ان کے عزم کے سامنے پہاڑ بھی بیچ تھے.انہوں نے ارادہ کیا کہ جلسہ سالانہ غانا سے چھ ماہ قبل ایک کھیت اس مقصد کے لئے تیار کریں گے اور اس کی ساری آمد جلسہ سالانہ غانا کے لئے ٹرانسپورٹ پر خرچ کریں گے.تو انہوں نے کچھ فصل ہوئی.اللہ تعالیٰ بھی پھر ایسے مخلصین کے کاموں پر پیار کی نظر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کی

Page 207

خطبات مسرور جلد ششم 187 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 فصل میں برکت ڈالی اور ایسی برکت پڑی کہ نہ صرف ان 100 کے اخراجات پورے ہوئے بلکہ زائد آمد ہوئی اور 100 کی بجائے 103 افراد وہاں سے آئے.پھر آئیوری کوسٹ کے ہی ایک گاؤں سے 57 افراد نے اس تاریخ ساز جلسے میں شرکت کی توفیق پائی.ان میں 23 عورتیں بھی تھیں جنہوں نے قرض لے کر سفر کے اخراجات برداشت کئے.یہ کہتی تھیں کہ ہمیں خدا کی رحمت سے امید ہے کہ ہمارے اس مبارک سفر کی برکت سے کھیتوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا اور اس قدرآمد ہو جائے گی کہ ہمارے قرض اتر جائیں اور ہماری دیگر ضروریات بھی پوری ہو جائیں.پھر اب بچوں کا یہ حال دیکھیں کہ ایک ریجن کی دو بچیاں جن کی 12-13 سال کی عمر تھی اپنے حصے کے ٹرانسپورٹ اخراجات جمع کروانے آئیں اور کہا کہ جس روز سے خلیفہ مسیح کے نانا آنے کی خبر نہیں ملی ہے، اسی روز سے ہم نے ایک کھیت میں کام کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہم جیسے غریب اور بے سرمایہ لوگ خلیفہ اسیح کے دیدار سے فیضیاب ہوسکیں اور اپنے سفر کے لئے محنت کر کے یہ پیسے کمائے ہیں.یہ آپ رکھ لیں اور ہمارے سفر پر خرچ کریں.آئیوری کوسٹ ہی کی ایک خاتون حبیبہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے آئیں.وہ بڑی سخت بیمار تھیں.ان کوئی بی کی یا اس طرح کی کوئی اور.ان کے بھائی اور خاوند نے بتایا کہ جب اپنے گاؤں سے جلسے کے لئے چلی ہیں تو اپنے گھر والوں کو انہوں نے کہہ دیا کہ میں اپنی بیماری کے باوجود خلافت جوبلی کے جلسے میں شرکت کرنے جارہی ہوں اور ہو سکتا ہے کہ ملاقات کے بعد میں واپس نہ آؤں اور مجھے لگتا ہے کہ میں واپس نہیں آؤں گی اس لئے میری غلطیاں معاف کر دو.وہ شدید بیمار تھیں اور وہاں آکر بیماری اور زیادہ بڑھ گئی.سفر کی تھکان بھی تھی.اسی بیماری کی حالت میں لمبا سفر اور گرمی کا سفر، بہر حال ان کی ملاقات ہوگئی تھی اور ایک دن کے بعد ان کی وفات ہوگئی ہیں نے ان کا وہیں جنازہ پڑھایا اور وہ وہیں دفن بھی ہوئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ تو یہ عورتوں بچوں، بڑوں کی اخلاص و محبت کی چند مثالیں ہیں.حالانکہ گھانا آئے ہوئے وفدوں کے قصے میں نے سنائے قصے بھی طویل ہو گئے ہیں اور کافی وقت گزر گیا ہے، میرا خیال ہے میں نے 100 واں کیا ، 200 واں اور 300 واں حصہ بھی بیان نہیں کیا ہوگا اور نہ بعض جذبات کا اظہار الفاظ میں ہوسکتا ہے.گھانا والے بھی انتظار میں ہوں گے کہ اب ہمارا ذ کر نہیں ہو رہا.جلسہ تو گھانا کا تھا.غانا کا ذکر تو میں اپنی تقریروں میں کر چکا ہوں کہ ان کا خلافت کے لئے جو پیار ہے اور مسیح محمدی کا جوعشق ہے وہ دوسروں کے لئے ایک مثال بن کر ہر دورہ پر ابھرتا ہے.پیار ومحبت کا ایک سمندر ہے جس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا.مجھے یاد ہے 1980ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے گھانا کا دورہ کیا.میں ان دنوں وہاں تھا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نائیجیریا سے غانا آئے تھے اور نائیجیریا میں بڑا شاندار استقبال تھا.مکرم مسعود دہلوی صاحب

Page 208

188 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم جو الفضل کے ایڈیٹر ہوتے تھے وہ ساتھ تھے، رپورٹس وہی لکھا کرتے تھے، تو نائیجیریا کا استقبال دیکھ کر انہوں نے یہ لکھا کہ ہزاروں افراد کا والہانہ اور عدیم المثال استقبال اور اس طرح کے اور فقرات لکھے.غانا پہنچے تو کہتے تھے میرا خیال تھا کہ نائیجیریا کا استقبال ایک انتہا ہے.لیکن غانا کا استقبال دیکھ کر تو جیسے پریشان ہو گئے.آخر انہوں نے کہا ، یہی لکھا جا سکتا ہے کہ احمدی مردوزن کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر.تو گھانا کی جماعت تو حقیقت میں ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے.خلافت سے محبت ان کے دل، آنکھ، چہرے اور جسم کے روئیں روئیں سے ٹپکتی ہے.اب تو گھانا کی جماعت نو مبائعین کی وجہ سے مزید وسعت اختیار کر چکی ہے اور پرانوں کے زیر اثر یہ نئے بھی اسی اخلاص و وفا میں رنگین ہورہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلوں کا تھا.جیسا کہ میں نے کہا اس دفعہ جلسہ نئی جگہ پر ہوا تھا اور یہ اتنا بڑا جلسہ وسیع پیمانے پر تھا، ایک لاکھ سے اوپر حاضری تھی.ان کی رجسٹریشن تقریباً 83 ہزار تھی.اس کے بعد ان کا انتظام اس کو سنبھال نہیں سکا اور ہزاروں کی تعداد میں اس کے بعد احباب وخواتین آئے اور پھر چھوٹے بچوں کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی.جمعہ پر حاضری کا نظارہ دنیا نے کر ہی لیا ہے.آئیوری کوسٹ سے آئے ہوئے ایک دوست نے یہ تبصرہ کیا کہ حج کے بعد اتنا بڑا مجمع میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے.جب میں خطبے کے دوران ان لوگوں کو دیکھتا تھا تو دل میں خیال آتا تھا کہ پتہ نہیں ایم ٹی اے والے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو پوری طرح دنیا میں دکھا بھی سک رہے ہیں کہ نہیں.لیکن الحمد للہ کہ ہمارے ایم ٹی اے کے لڑکوں نے جو یہاں سے ساتھ گئے تھے اپنی مہارت کا خوب اخلاص سے مظاہرہ کیا اور ایک دنیا نے اس کو دیکھا، اور ان کا بھی ان میں بڑا حصہ ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی جزا دے.غانینز (Ghanians) کی ایک خوبی جو آپ نے جمعہ میں دیکھی وہ یہ ہے کہ بڑے صبر سے تحمل سے گرمی میں بیٹھے ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ تک دھوپ میں خطبہ سنتے رہے اور بڑی تعداد میں بیٹھے رہے.صرف وہی خوبی نہیں ہے بلکہ تہجد کی نماز اور فجر کی نماز میں بھی میدان اسی طرح بھرا ہوتا تھا جس طرح جمعہ میں آپ نے دیکھا.اور آخری دن جو ہفتہ کا دن تھا اور اس دن چھٹی تھی ، شاید اس میں مزید لوگ بھی آئے ہوں.صبح جب میں نماز کے لئے گیا ہوں تو حیران رہ گیا کہ جو حاضر مرد و زن وہاں میدان میں نماز پڑھنے کے لئے جمع تھے ، ان کی تعداد جمعہ سے بھی زیادہ لگ رہی تھی.عورتوں کا جوش بھی دیدنی تھا.نماز کے بعد واپس گھر تک تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ ہے.گاڑی میں جاتا تھا تو رینگتی ہوئی گاڑی گزرتی تھی.دو رویہ عورتیں کھڑی ہوتی تھیں، مرد کھڑے ہوتے تھے.بچوں کو اٹھایا ہوتا تھا.ان سے سلام کرواتی تھیں.محبت یوں ٹپک رہی ہوتی تھی کہ جیسے دو سگے بہن بھائی یا بھائی بھائی آپس میں مل رہے ہیں.پس یہ ہیں گھا نین عورتیں اور مرد عورتوں کی تعداد بھی کم از کم 50 ہزار تھی جو خلافت سے اخلاص و محبت کے ساتھ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنا جانتی تھیں اور کر رہی تھیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دائمی خلافت کا وعدہ

Page 209

خطبات مسرور جلد ششم 189 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 ہے اور جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی خلافت کی محبت نسل در نسل چلتی چلی جائے گی.گھانا میں لنگر کا انتظام بھی عورتوں نے سنبھالا ہوا تھا.دنیا میں تو مردسنبھالتے ہیں وہاں عورتوں نے سنبھالا ہوا تھا.میں ایک دن صبح نماز کے بعد معائنہ کے لئے گیا تو قیام گاہ قریب ہونے کی وجہ سے جب دوسری خواتین کو علم ہوا تو وہ بھی آگئیں.لنگر میں کام کرنے والی خواتین کی اپنی تعداد بھی کافی تھی اور اس قدر فلک شگاف نعرے تھے اور جوش تھا کہ میں لنگر دیکھنے تو گیا تھا لیکن تھوڑا سا آگے جا کر اس لئے واپس آ گیا کہ اب یہ جوش جو ہے یہیں نہیں رہے گا اور یہ نہیں دیکھے گا کہ آگے چولہے پر دیگ پڑی ہوئی ہے یا آگ جل رہی ہے.تو اس خطرے کی وجہ سے کہ کہیں کسی کو نقصان نہ پہنچ جائے مجھے واپس آنا پڑا.خدام کا صبر اور ڈیوٹی بھی ماشاء اللہ معیاری تھی.ایک دن جلسہ گاہ میں شدید ہوا اور بارش تھی ، میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا تو خادم ڈیوٹی پر موجود تھے اور بغیر کسی چھتری کے طوفان میں یوں چاق و چو بند کھڑے تھے جیسے زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ کون ہے جو ہمارے پائے ثبات میں لغزش لا سکے.تو یہ ہے غانا کا خلاصہ.گھانا سے ہم نائیجیریا میں ایک رات قیام کے بعد بین چلے گئے.وہاں کے امیر اور مشنری انچارج کا اصرار تھا کہ پورتو نو وؤ جہاں چار سال پہلے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا ایک بڑی مسجد کی تعمیر ہوئی ہے ، اب مکمل ہو گئی تھی تو اس کا افتتاح بھی کر دیں.اور اسی طرح اتفاق سے انہی دنوں میں وہاں کا جلسہ بھی ہو رہا تھا اس میں بھی کچھ کہ دیں پہلے بینن جانا شامل نہیں تھا.بین کی جماعت نئی ہے، اکثریت نو مبائعین پر مشتمل ہے.اس لئے میں نے شروع کے پروگرام میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے، اس کو شامل کر دیا.نائیجیریا سے کاروں کے ذریعہ بارڈر کر اس کیا، وہاں حکومتی وزیر لینے آئے ہوئے تھے، ماشاء اللہ اچھا استقبال تھا.گزشتہ دورے کی نسبت حکومتی سطح پر بھی کافی تبدیلی پیدا ہوئی ہے.بہر حال میرا کام تو زیادہ تر احمدیوں کو ملنا تھا.نائیجیریا، بین بارڈر پر کافی تعداد میں احمدی موجود تھے.استقبال کے لئے احباب وخواتین آئے ہوئے تھے.بڑے پر جوش اور نعرے لگا رہے تھے.اگلے دن جلسے کا آخری دن تھا.وہاں میں نے تھوڑی سی تقریر بھی کی.وہاں تقریباً 22 ہزار کی حاضری تھی اور بڑے دُور سے لوگ آئے ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ جوں جوں نو مبائعین کو احمدیت کو سمجھنے میں ترقی ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا بھی ان کا بڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اخلاص اور محبت میں بڑھاتا چلا جائے.دوروں کا جہاں اپنوں پر اثر ہوتا ہے تعلق بڑھتا ہے وہاں تبلیغ کے راستے بھی کھلتے ہیں.وہاں ریسیپشن تھی.وہاں ایک ایم این اے آئے ، کافی دیر سے ان کا تعلق ہے، انہوں نے بعد میں کہا میں نے بیعت کرنی ہے تو میں نے کہا آپ مزید غور کر لیں لیکن وہ بڑے تیار تھے.میں نے کہا ٹھیک ہے پھر فارم Fill کر دیں.

Page 210

190 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم بینن کے ایک ہمارے احمدی دوست الحاجی راجی ابراہیم صاحب نے کہا کہ ان کا ایک مسلمان دوست الحاجی ہے.اس نے بڑی حیرت سے کہا کہ میں نے نیشنل ٹی وی پر آپ کے امام کا خطبہ جمعہ سنا ہے، جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی.پھر قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے ان کو سنا.میں نے تو عرصے سے یہی سنا ہے کہ احمدی نماز نہیں پڑھتے تو میں حیران ہوں کہ اتنا بڑا جھوٹ ہم روز سنتے رہے.اب آپ کو نماز پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے.تو ان دوروں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ میڈیا کافی کوریج دے دیتا ہے.اسی طرح ایک احمدی دوست کے ایک غیر احمدی دوست مجھ سے ملنے آئے، مختلف باتیں کرنے کے بعد کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے خلیفہ اسیح کا یہ دورہ غیر معمولی برکات کا دورہ تھا.غیروں کو بھی دوروں کی برکات نظر آ رہی ہیں.پھر صدر مملکت کی مشیر خاص ایک خاتون الحاجہ مادام گر اس لوانی ان کا نام ہے وہ وہاں مشن ہاؤس میں مجھے ملنے بھی آئی تھیں.پھر ہمارے آنے کے بعد دوبارہ مشن ہاؤس گئیں اور وہاں جا کے کہا کہ میں ایک تو یہ پتہ کرنے آئی ہوں، میرا پوچھا کہ وہ یہاں سے خوش گئے ہیں.(وہ جمعہ پڑھنے بھی مسجد میں آئی تھیں ) دوسرے یہ بتانے کے لئے کہ میں نے زندگی میں ایسا جمعہ کبھی نہیں پڑھا.میں نے اماموں کو دیکھا ہے.قرآن کریم کی بہت ساری آیات پڑھ جاتے ہیں اور طوطے کی طرح پڑھتے چلے جاتے ہیں اور آگے نکلتے جاتے ہیں لیکن انہوں نے جس طرح قرآن کریم ہمیں سمجھایا ہے وہ میری روح اور دل کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے.میں نے اس طرح قرآن کریم سمجھاتے کسی کو نہیں سنا.بہر حال وہ احمدیت کے کافی قریب ہیں اور امید ہے انشاء اللہ بیعت کر لیں گی.بینن سے پھر واپسی نائیجیریا کی تھی.جب ہم بارڈر پر پہنچے ہیں تو امیر صاحب نائیجریا نے کہا کہ راستے میں ایک نئی جگہ مسجد بنی ہے گو کہ وہاں جانا پروگرام میں شامل نہیں ہے.مین سڑک سے بھی 10-12 میل اتر کر جانا پڑتا ہے وہاں ایک سختی کی نقاب کشائی کر دیں.تو میں نے کہا ٹھیک ہے چلے جاتے ہیں.وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے نائیجیریا کے ساؤتھ کا جو علاقہ ہے اس میں پرانی جماعتیں قائم ہیں.2004ء میں بھی جب میں گیا ہوں تو میں نے دیکھا ہے.وہاں پھر ان کے اخلاص و وفا کا اندازہ ہوا، پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا.یہ لوگ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں.لگتا ہے ان کے اندر سے پیار پھوٹ رہا ہے.بہر حال جب وہاں پہنچا تو میں نے بڑا شکر کیا کہ میں آ گیا.امیر صاحب کی بات مان لی.کیونکہ وہاں ساری جماعت انتظار میں کھڑی تھی.ان کو یقین تھا کہ ضرور آؤں گا.مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہر بچے ، بوڑھے، جو ان کی یہ خواہش تھی کہ مصافحہ کرے.عورتیں بھی چاہتی تھیں کہ قریب سے ہو کر دیکھیں.وقت کی کمی کی وجہ سے مصافحہ تو ممکن نہیں تھا لیکن جو زور لگا کر کر سکتے تھے، انہوں نے کر لیا.اس رش میں ہمارے قافلے کے ایک ساتھی نے کسی عورت کو کہہ دیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ، ایک وقت میں بڑا دباؤ پڑ گیا.وہ عورت تو بڑی سیخ پا ہوئی.لگتا تھا اس بات پر غصہ میں وہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے گی.کہنے لگی تم کون ہو میرے اور خلیفہ وقت

Page 211

خطبات مسرور جلد ششم 191 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 کے درمیان میں حائل ہونے والے.یہ تو خیریت ہوئی کہ وہ عقلمند تھے، فوراد بک گئے اور ایک طرف ہو گئے لیکن وہاں کی اتنی زور آور عورتیں ہیں کہ کوئی بعید نہیں تھا کہ اٹھا کر باہر پھینک دیتیں اور جوش میں ویسے بھی انسان میں طاقت زیادہ آ جاتی ہے.میں نے مسجد میں جب انہیں تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ خاموش ہو کے بیٹھ جاؤ تو تب سارے احمدی جو سینکڑوں کی تعداد میں تھے وہ خاموش ہوئے.جب انہیں کہا کہ پروگرام میں یہاں آنا شامل نہیں تھا اور صرف تمہاری وجہ سے یہاں آیا ہوں تو اس کے بعد جو انہوں نے فلک شگاف نعرے لگائے ہیں، لگتا تھا کہ مسجد کی چھت اڑ جائے گی.ان کے نعرے سنے اور کچھ میں نے ان سے باتیں کیں.جوش ٹھنڈا ہوا تو پھر ان سے اجازت لے کر وہاں سے آیا.ہم وہاں سے چلے تو دو تین راتیں راستے میں گزرتی گئیں.ان کا مرکز ابو جا شہر ہے جہاں جلسہ ہونا تھا تقریباً 13-12 سوکلو میٹر کا فاصلہ ہے.راستے میں جہاں بھی جماعتیں تھیں وہاں سڑکوں پر استقبال کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا.وہی جوش اور جذ بہ، وہی پیار، وہی اخلاص جو ہر جگہ افریقن احمدیوں میں نظر آتا ہے، ان میں دیکھنے میں ملا.عورتیں بچوں کو اسی طرح گود میں لئے ساتھ ساتھ کار کے دوڑ رہی تھیں اور بچوں کی توجہ میری طرف کرانے کی کوشش کر رہی تھیں تا کہ خلافت سے محبت ان کی زندگیوں کا حصہ بن جائے.نائیجیریا میں بھی ہمسایہ ممالک نائیجر، چاڈ اور کیمرون وغیرہ کے وفود آئے تھے.نائیجر میں بھی گھانا اور بین کی طرح سرکاری افسران اور غیر از جماعت لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں.ہر ایک کا جماعت کے بارہ میں تاثر مزید نکھر کر ابھرا.انہیں مزید جماعت سے آگاہی ہوئی جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا.نائیجیریا میں ان کی ایک بڑی کنگڈم ہے نیو بھٹہ سٹیٹ میں.اس کے امیر بڑے پڑھے لکھے آدمی ہیں، پی ایچ ڈی ہیں اور نایجیریا کی سینٹ کے ممبر بھی ہیں.انہوں نے بڑے اصرار سے مجھے اپنے علاقے میں یہاں سے چلنے سے پہلے بلوایا تھا کہ وہاں آؤں.وہ دوسال سے جلسہ یو کے میں بھی شامل ہورہے ہیں.بڑے پیار سے انہوں نے اپنا مہمان رکھا.اپنے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا.اپنی والدہ کی یاد میں لڑکیوں کا ایک سکول کھول رہے ہیں.سکول تو چل رہا ہے لیکن بڑے وسیع پیمانے پر اس کو بنانا چاہتے تھے.اس کا سنگ بنیاد انہوں نے مجھ سے رکھوایا اور اس فنکشن میں بہت سے سرکاری افسران بھی تھے.روایتی بادشاہ بھی تھے.سیاسی لیڈر بھی تھے.ممبرز آف پارلیمنٹ بھی تھے.اس کنگ (King) نے سب کے سامنے جماعت کی خدمات اور میرے سے ذاتی تعلق کا برملا اظہار کیا.اللہ تعالیٰ ان کا سینہ مزید کھولے اور انہیں وہ جرأت عطا فرمائے جس سے وہ مسیح محمدی کی غلامی میں جلد سے جلد آ سکیں.بہر حال ہم نے ہر قدم پر ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تائید و نصرت کی بارش دیکھی ہے.کچھ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اور رپورٹوں کے ذریعہ سے باتیں آپ کے علم میں آتی رہیں گی.اللہ تعالیٰ تمام سعید روحوں کو سیح محمدی کے ہاتھ پر جلد از جلد جمع ہونے کے نظارے ہمیں دکھائے.

Page 212

خطبات مسرور جلد ششم 192 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 نایجیریا میں 1940ء میں ایک گروپ جو بڑی تعداد میں تھا اور امیر لوگ تھے، وہاں اس وقت کے امیر اور مشنری انچارج سے ناراض ہوئے اور جماعت کے خلاف ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان سے کہا کہ یا تو اطاعت کرو یا جماعت سے باہر ہو جاؤ تو وہ اپنی مسجدیں وغیرہ لے کر باہر ہو گئے.وہاں پریس کے ایک نمائندے نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کس طرح ہوا تھا ؟ اس پر میں نے کہا کہ اس سے کیا فرق پڑا؟ جماعت تو اب یہاں بھی ترقی کر رہی ہے اور دنیا میں بھی ترقی کر رہی ہے.جبکہ ان علیحدہ ہوئے لوگوں کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے.لیکن ان لوگوں کو خود بھی اب احساس پیدا ہورہا ہے.وہ آہستہ آہستہ کسی بہانے سے جماعت کے قریب آتے جا رہے ہیں.ان کے امام اور ایک اور بزرگ مجھے ملنے آئے.ان کو میں نے کہا کہ اب تو ہر چیز روشن اور واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے.تم یہاں نایجیریا میں بھی دیکھ رہے ہو اور دنیا میں بھی دیکھ رہے ہو.اس لئے اب ضد چھوڑو اور آ جاؤ کیونکہ جماعت کی ترقی اور برکات خلافت سے وابستہ ہیں.بظاہر تو بڑے آرام سے بات سن کر گئے.اب دیکھیں اللہ تعالیٰ ان کے سینے کھولے.یہاں ایک بات میں وہاں کے مبلغین کو بلکہ دنیا کے سب مبلغین کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اپنے اخلاق کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے میں مزید ترقی حاصل کرنے کی کوشش کریں.خود بھی یادرکھیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے تو اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرنا ہر ایک کا فرض ہے.پہلے سے بڑھ کر مقامی لوگوں سے پیار اور محبت کا تعلق رکھیں، خاص طور پر افریقہ میں رہنے والے.آپ کے نمونے اور عمل مقامی احمدیوں کے لئے مثال بنتے ہیں.پہلے شروع میں، ابتداء میں جو مشنریز ہمارے گئے ، مبلغین گئے ، ان میں سے صحابہ بھی تھے انہوں نے بڑی قربانیاں کی ہیں.اپنی نیکی اور تقویٰ کے اور ہمدردی انسانیت کے بڑے اعلیٰ نمونے دکھائے ہیں اور ایک نام پیدا کیا ہے.تو یہ معیار ہیں جو ان لوگوں نے قائم کئے اور یہ کم از کم معیار ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.جماعت کے اخلاص و وفا اور فدائیت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: دد بعض اوقات جماعت کا اخلاص اور محبت اور جوش ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے، یہاں تک کہ دشمن بھی تعجب میں ہے“.اور جب دشمن تعجب میں ہو تو حسد میں بڑھتا ہے.نئے نئے طریقے نقصان پہنچانے کے تلاش کرتا ہے.اس افریقہ کے دورہ کی بھی اور ویسے بھی جب جماعتی ترقی کی خبر میں دشمن تک پہنچتی ہیں تو وہ ہر طریقہ آزماتا ہے کہ کس طرح جماعت کو نقصان پہنچائے.ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اب جبکہ تمام دنیا یہ نظارے دیکھ رہی ہے تو ہمیں بھی حاسدوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اس کے آگے جھکنے کی پہلے سے زیادہ

Page 213

خطبات مسرور جلد ششم 193 خطبه جمعه فرموده 9 مئی 2008 ضرورت ہے.خلافت جوبلی کے حوالے سے جو خبریں آتی ہیں ان پر پاکستان میں تو مولویوں کی بیان بازیاں بھی شروع ہوگئی ہیں.پس بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.گوکہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ حاسدوں اور معاندوں کے گروہ پر اللہ تعالیٰ جماعت کو غالب کرے گا.لیکن ہمیں بھی اخلاص و وفا اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر اس کے آگے جھکنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ترقیات کی نئی سے نئی منزلیں ہمیں دکھائے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 22 مورخہ 30 مئی تا 5 جون 2008، صفحہ 5 تا صفحہ 8

Page 214

خطبات مسرور جلد ششم 194 (20) خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 فرمودہ مورخہ 16 مئی 2008ء بمطابق 16 ہجرت 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ | سُبْحَنَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ (الحشر:24) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ: وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ بادشاہ ہے، پاک ہے ، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے اور کبریائی والا ہے.پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت جبار ہے جیسا کہ میں نے جو آیت تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ پڑھا ہے، اس میں اس کا ذکر ہے.خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں جب جبار کا لفظ آتا ہے تو اس کے معنی اس سے مختلف ہوتے ہیں جب یہ لفظ بندے کے لئے استعمال ہو جیسا کہ اس کے ترجمے سے بھی ظاہر ہے.اہل لغت نے اس لفظ کے جو معنی کئے ہیں، پہلے میں وہ بیان کرتا ہوں.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں جو الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ کہا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا نام الْجَبَّارُ اہل عرب کے قول جَبَرْتُ الْفَقِیر یعنی میں نے فقیر کو نوازا کے مطابق ہے اور یہ نام الْجَبَّار اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ایسی ذات ہے جو لوگوں پر اپنی متعدد نعماء سے نعماء نازل کرتا ہے، اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے.یہ آگے لکھتے ہیں کہ الجبار انسان کی صفت کے طور پر اس شخص کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو ایسے متکبرانہ دعاوی کرتا ہے جن کا وہ مستحق نہیں ہوتا اور انسان کے بارہ میں جبار کا لفظ صرف مذمت کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے.پھر لغت کی ایک کتاب لسان العرب ہے اس میں لکھا ہے ، الْجَبَّادُ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے یعنی اپنی مخلوق کو اپنے منشاء کے مطابق اوامر و نواہی پر چلانے والا.یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس میں زبردستی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے برا اور بھلا بندے کے سامنے رکھ دیا ہے کہ نیکیوں پر چلو گے تو نیک جزا پاؤ گے اور اگر برائیاں کرو گے تو برائیوں کی سزا قانون قدرت کے مطابق ملے گی.لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رحمت کی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری

Page 215

خطبات مسرور جلد ششم 195 خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 رحمت تمام پر حاوی ہے، ہر چیز پر حاوی ہے.اس کے تحت وہ مالک ہے.جو چاہے سلوک کرتا ہے، رحمت سے بخش بھی دیتا ہے.بہر حال اس لغت میں آگے الْجَبَّارُ کے ایک معنی یہ لکھے ہی کہ اللہ تعالی کی وہ صفت ہے جس تک رسائی ممکن نہیں، جس تک انسان پہنچ نہیں سکتا.پھر لکھا ہے الجَبَّارُ مخلوق سے بلند مقام پر فائز ہستی کو جبار کہتے ہیں.انسانوں کے معاملے میں لکھا ہے کہ وہ متکبر شخص جو اپنے ذمہ کسی شخص کا حق تسلیم نہ کرے، اسے بھی جبار کہتے ہیں.لخيانی کہتے ہیں کہ جَبَّار وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے تکبر کی راہ سے اعراض کرے.عبادت نہ کرے اور اس میں تکبر پایا جا تا ہو.قلب جَبَّار کا مطلب ہے ایسا دل جس میں رحم نہ ہو.وہ دل جو تکبر کی وجہ سے نصیحت قبول نہ کرے.رَجُلٌ جَبَّارٌ ، ہر ایسے شخص کو جَبَّار کہیں گے جوز بر دستی اپنی بات منوائے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ( سورة ق : 46) یعنی تو ان پر مسلط نہیں ہے، تا انہیں زبر دستی اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور کرے.پھر ہر اس جھگڑالوشخص کو جو ناحق لڑتا جھگڑتا ہے جبار کہتے ہیں.الْجَبَّار عظیم، قوی اور طویل کو بھی کہتے ہیں.امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ الْجَبَّارِ اُسے کہتے ہیں جو بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے اور اس کی عزت و شرف میں کمی نہ ہو.حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف لغات سے جو معنی اخذ کئے ہیں، آپ لکھتے ہیں کہ الجبار اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اس کے معنی لوگوں کی حاجات پوری کرنے والے کے ہوتے ہیں.لیکن جب کسی غیر اللہ کے متعلق جبار کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی سرکش اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے ہوتے ہیں.( تفسير كبير جلد 7 تفسير سورة القصص آیت 20 صفحہ 485) پھر آپ لکھتے ہیں کہ جہاد کے معنی ہوتے ہیں دوسروں کو نیچا کر کے اپنے آپ کو اونچا کرنے والا.پھر ایک جگہ آپ نے لکھا ہے: جبار کا لفظ خدا تعالیٰ کی صفات میں ہے.یعنی اصلاح کرنے والا اور ہر سرکشی کرنے والے اور بات نہ ماننے والے کو بھی (جبار ) کہتے ہیں“.( تفسیر کبیر جلد 3 تفسير سورة هودزیر آیت 60 صفحہ 210) پھر ایک جگہ آپ لکھتے ہیں کہ: ” جہاں اس کے معنی اصلاح کرنے کے ہیں وہاں کسی کی مرضی کے خلاف اس پر ظلم کر کے جبراً اس سے کام لینے کے بھی ہیں.گویا ایک معنی ایسے ہیں جن میں نیکی اور اصلاح پائی جاتی ہے اور ایک معنی ایسے ہیں جن میں تختی اور ظلم پایا جاتا ہے.( تفسیر کبیر جلد 5 تفسیر سورہ مریم زیر آیت 15 صفحہ 148)

Page 216

خطبات مسرور جلد ششم 196 خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کے جو معنی کئے ہیں وہ ہیں کہ ” بگڑے ہوئے کو بنانے والا“.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جلسہ سالانہ کی ایک تقریر جس کا عنوان تقدیر الہی ہے اس میں خدا تعالیٰ کی ذات سے جبر کے بارے میں بعض لوگوں کے غلط نظریات بیان کرتے ہوئے جو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بیان کرتے ہیں، اس صفت جبار کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: قرآن کریم سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جبار ہے.مگر اس کے معنی اصلاح کرنے والا ہیں اور یہ کہتے ہیں جبر یہ ہے.زبر دستی کام کراتا ہے.حالانکہ یہ کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے.عربی میں جبر کے معنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنے کے ہیں اور جب یہ لفظ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ بندوں کے خراب شدہ کاموں کو درست کرنے والا اور اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے حق کو دبا کر اپنی عزت قائم کرنے والا.لیکن یہ دوسرے معنی تب کئے جاتے ہیں جب بندوں کی نسبت استعمال ہو.خدا تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں کئے جاتے اور نہ کئے جاسکتے ہیں کیونکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہی ہے.یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ دوسروں کے حقوق کو تلف کر کے اپنی عزت قائم کرتا ہے“.( تقدیر الہی.انوار العلوم جلد 4 صفحہ (459) یہ تقدیر الہی کا مسئلہ ہے، حقیقی عرفان تو یہ کتاب پڑھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے.بہر حال اس لفظ کے تحت انہوں نے یہ وضاحت کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے ، بیان کردہ صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں.اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی.یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے.اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کون سی لیاقت اپنی ثابت کرے.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے.اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی.کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا ؟ اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا ؟ تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے قانون بناتے ہیں.بات بات پر بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر

Page 217

خطبات مسرور جلد ششم 197 خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 سمجھ لیتے ہیں.مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو وہ یا تو کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوداع کہتا.بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے.پھر فرمایا اَلسَّلامُ یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے.اس کے معنی بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا.لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو اس بد نمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا..پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا ہے اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا کا مانے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہوگا کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں.لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے.وہ بجائے دلائل پیش کرنے کے ہر ایک بے ہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تاہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبَرُ یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کا بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے“.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 373-375) تو یہ ہے وہ خدا جس کا اس آیت سے پتہ لگتا ہے جومیں نے تلاوت کی.اس میں اللہ تعالیٰ کی وہ تمام صفات بیان ہوئی ہیں جو بندے کو اس کے قریب تر لانے والی ہیں.اللہ تعالیٰ کے رحم کا وارث بناتی ہیں.وہ بادشاہ ہے.ہر غلطی سے پاک ہے.ہر کمزوری سے پاک ہے.ہر برائی سے پاک ہے.جو اس کی طاقت ہے وہ منبع ہے ہر قسم کے اور مکمل امن کا.بندے کو ہر قسم کے خطرات سے بچانے والا اور حفاظت میں رکھنے والا ہے اور سب پر نگران ہے.تمام طاقتوں والا اور غالب ہے.ہر ٹوٹے کام کو بنانے والا ہے اور ہر نقصان کو پورا کرنے والا ہے.وہ ہر ضرورت سے بالا ہے اور ہر ایک کی ضرورت کو پورا کرنے والا ہے.پس ان طاقتوں کے خدا پر جبر کے وہ معنی نہیں کئے جاسکتے جو عموماً کئے جاتے ہیں یا بندے کے بارے میں کئے جاتے ہیں.یہ اس پر چسپاں ہو ہی نہیں سکتے.کیونکہ عارضی طاقتوں، وقتی حکومتوں کی تو ان لوگوں کو ضرورت ہے جو عارضی لوگ ہیں.خدا تو ہمیشہ کے لئے ہے، ہمیشہ سے طاقتور ہے اور طاقت کا منبع ہے اور اس کے مقابلے میں جیسا کہ میں نے کہا جب بندے کی طرف یہ صفت منسوب ہوتی ہے تو اس کے معنی جیسا کہ ہم نے دیکھا بے رحم ، تکبر کی وجہ سے نصیحت قبول نہ کرنے والا ، زبردستی اپنی بات منوانے والا اور جھگڑا کرنے والا ہے.

Page 218

198 خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی جبار کا لفظ بندوں کے لئے استعمال فرمایا ہے تو اس رنگ میں ہی استعمال فرمایا ہے جسے منفی رنگ کہہ سکتے ہیں.اب چند وہ آیات میں سامنے رکھتا ہوں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.ایک مفسر نے اس حوالے سے جبر کی یا انسان کے بارے میں جَبَّار کی درج ذیل اقسام بیان فرمائی ہیں.نمبر ایک کہ مسلط ہونے والا.اس کی دلیل میں وہ کہتے ہیں وَمَا أَنتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ (ق: 46) یعنی تو ان پر ز بر دستی کرنے والا نگران نہیں ہے.دوسرے عظیم جسامت والا - إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ (المائدہ:23 ) یقینا ان میں ایک سخت گیر قوم ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے سرکشی اختیار کرنے والا.وَلَمْ يَجْعَلْنِی جَبَّارًا ( مریم : 33) اور مجھے سخت گیر نہیں بنایا گیا.بہت زیادہ لڑنے والا جیسا کہ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ (الشعراء: 131) ہے.یعنی زبر دست بنتے ہوئے گرفت کرتے ہوئے اور ان تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ (القصص: 20) یعنی تو یہ چاہتا ہے کہ ملک میں دھونس جماتا پھرے.سومسلط ہونے والے کے ضمن میں جس آیت کا حوالہ میں نے دیا ہے، یہ سورۃ کہف کی آیت نمبر 46 ہے.مکمل آیت یوں ہے.نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ.فَذَكَّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يخَافُ وَعِيْدِ ( ق : 46) یعنی ہم اسے سب سے زیادہ جانتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اور تو ان پر زبر دستی اصلاح کرنے والا نگران نہیں ہے.پس قرآن کے ذریعہ اسے نصیحت کرتا چلا جا جو میری تنبیہ سے ڈرتا ہے.پس یہ حکم ہے آنحضرت ﷺ کے ماننے والوں کو بھی کہ تمہارا کام پیغام پہنچا دینا ہے.زبردستی سے کسی کی اصلاح نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ جب اپنے پیاروں کے حق میں نشان دکھاتا ہے تو پھر انکار کرنے والوں کو خیال آتا ہے کہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے بعض سزائیں مل رہی ہیں لیکن بعض بد قسمت پھر بھی حقیقت کو نہیں سمجھتے.پاکستان میں بھی مختلف آفات کے بعد لکھنے والوں نے اخباروں میں کالم کے کالم لکھے ہیں کہ لگتا ہے ہماری غلطیوں کی پاداش میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے.لیکن اللہ کی آواز پر کان نہیں دھرتے ، اپنی آنکھیں نہیں کھولتے.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہ حکم ہے کہ تمہارا کام تنبیہ کرنا اور پیغام پہنچانا ہے.پس انسانی ہمدردی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت دنیا کو راستی کی طرف بلاتے رہنا ہمارا کام ہے.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور اس کو ہم ہر روز پورا ہوتے دیکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ تمہارے جو ماننے والے ہیں ان کا کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچاتے رہو.اس کے نتائج پیدا کرنا میرے ذمہ ہے.اس کے لئے ذریعہ نکالنا میرے ذمہ ہے.ان کو استعمال کرنا تمہارا کام ہے.اس کے نتیجے نکالنے، دلوں کو فتح کرنا، خدا تعالیٰ کا کام ہے.پس جو کام

Page 219

خطبات مسرور جلد ششم 199 خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 ہمارے سپرد ہے وہ ہمیں کرتے چلے جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ ھود میں نافرمانوں اور سرکشوں کو اس زمرہ میں بیان فرمایا ہے.وہ جبار بنتے ہیں.جیسا کر فرمایا وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُوْا بِايْتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوْا أَمْرَ كُلَّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ (هود:60) اور یہ ہیں عاد جنہوں نے اپنے رب کی آیات کا انکار کر دیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سخت جابر اور سرکش کے حکم کی پیروی کرتے رہے.یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے ذکر فرمایا ہے جس سے عاد کا نیکیوں سے انکار ثابت ہوتا ہے.رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اور دنیاوی جاہ و حشمت والوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے نز دیک سرکش لوگ ہیں.اور پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بے وقوفوں کو اس ناشکری کی وجہ سے سزا ملی جن کی یہ پیروی کرتے رہے.اور جن کو وہ جابر اور اونچا مقام دلانے والا اور حفاظت کرنے والا سمجھتے رہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کے کچھ کام نہ آسکے.تو یہ سبق ہے جو پچھلی قوموں کو دے کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آئندہ بھی یہ قوموں کو یا درکھنا چاہئے.پھر سورۃ شعراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ (الشعراء: 131) اور جب تم گرفت کرتے ہو تو زبر دست بنتے ہوئے گرفت کرتے ہو.یہاں پھر عاد کا ذکر ہے کہ کس طرح غلبہ کی صورت میں تم لوگ اس تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہو.جس قوم پر قبضہ کر لو ا سے انتہائی ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہو اور اپنی بڑائی اور طاقت کا اظہار کرتے ہو.اپنی جنگی طاقت اور قوت کی وجہ سے چاہتے ہو کہ ہر قوم تمہارے زیر نگیں ہو جائے.لیکن اللہ کے رسول نے انہیں ڈرایا کہ اللہ کو یہ حرکتیں پسند نہیں ہیں.خدا سے ڈرو اور اصلاح کرو.آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بڑی طاقتیں اسی اصول پر چل رہی ہیں.گو سیاست کی وجہ سے بعض دفعہ مدد کے نام پر قبضے جمائے جاتے ہیں لیکن بڑائی اور تکبر صاف بتارہا ہوتا ہے کہ دل میں کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کیا جارہا ہے اور اصل مقصد قبضہ اور تسلط ہے.اصل مقصد اپنی حکومت قائم کرنا ہے.اصل مقصد اپنے زیر نگیں کرنا ہے اور پھر ظالمانہ طور پر ان پر گرفت کر کے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پھر سزائیں بھی دی جاتی ہیں.پہلے تو کچھ کہا جاتا ہے اور پھر اسی گرفت کی وجہ سے سزاؤں میں پھنسایا جاتا ہے.پھر آج کل بعض حکومتیں اور بدقسمتی سے اسلامی مملکتیں کہلانے والی جن کو قرآن کریم کی تعلیم پر غور کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن اس کے بجائے سرکشی اور ظلم میں بڑھ رہی ہیں.پہلے تو پاکستان میں ظلم ہوتا تھا.پھر حکومتیں جو بھی وقت کی مختلف حکومتیں رہیں، معصوم احمدیوں پر ظلم کرتی رہیں.اب انڈو نیشیا میں بھی گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ ظلم ہو رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم طاقت والے ہیں کہ جس طرح چاہے احمدیوں کے ساتھ سلوک کریں.اُن کو سزائیں دیں، اُن کی عورتوں بچوں پر ظلم کریں ، اُن کی جائیدادوں کو جلا

Page 220

خطبات مسرور جلد ششم 200 خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 دیں اور یہ صرف اس لئے ہے کہ وہاں کی حکومت میں اس وقت ملاں شامل ہے جس نے ہمیشہ دین کے نام پر فساد پھیلایا ہے اور حکومتی یا جو حکومت چلانے والے ممبران ہیں یا حکومت ہے وہ سیاست چمکانے کے لئے مجبور ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس وجہ سے کہ اس ملاں کی بات نہ ماننے پر کہیں ہماری حکومت نہ ٹوٹ جائے.اپنے آپ کو جابر سمجھتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ ان کا یہ فعل انہیں ان متکبروں میں شامل کر رہا ہے جو بندوں کا بھی حق تسلیم نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو بھی تو ڑ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ جب ایسے ظالموں اور سرکشوں کا ذکر کرتا ہے جو اللہ کے رسول کی دشمنی کی وجہ سے اسے یا اس کی قوم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس قسم کے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزِ الرَّحِيْمُ (الشعراء:10) کہ تیرا رب یقیناً غالب اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس ہمیں تو پتہ ہے کہ آخری غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمارا ہے.کیونکہ ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے وہ خدا ہمارے ساتھ ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں.وہ خدا ہمارے ساتھ ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے غلبہ کا وعدہ فرمایا ہے.پس یہ تو ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ آخری غلبہ ہمارا ہے اور یہ لوگ جو اپنے زعم میں جابر بننے والے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ یہ بھی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں.یہ سمجھتے ہیں کہ یوں احمدیوں کی مخالفت سے یہ اپنے مقام اونچے کر رہے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ ان کے پاؤں سے زمین جلد نکلنے والی ہے اور وہ بلندیوں کی بجائے گہرے زمینی اندھیروں میں دھنسنے والے ہیں اور اس طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں.پس احمدی جہاں کہیں بھی بسنے والے ہوں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو یا پاکستان ہو یا اور کوئی ملک ہو جہاں جہاں بھی ظلم کا شکار ہور ہے ہیں، ہمیشہ یادرکھیں کہ ان کا مددگار غالب اور رحیم خدا ہے.پس اس کے آگے جھکیں ، اس سے رحم مانگیں.وہ خدا جو عالم الغیب بھی ہے اس کی نظر میں اگر یہ لوگ اصلاح کے قابل نہیں ہیں تو ہمیں بھی ان سے نجات دلوائے اور ان بے وقوفوں کو بھی یا ان کمزوروں کو بھی جو ان کی باتوں میں آکر اپنی دنیا بھی برباد کر رہے ہیں اور اپنی آخرت بھی برباد کر رہے ہیں.پس ایسے لوگوں پر رحم کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے رحیم خدا سے دعا مانگیں کہ ظالموں سے اس دنیا کو محفوظ رکھے.اگر خدا تعالیٰ ان ظالموں کو اس زمرہ میں شمار کر چکا ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلّ قَلْبِ مُتَكَبِرٍ جَبَّارٍ (المومن : 36) کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور جابر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے، تو پھر باقی دنیا کی بقا کے لئے بھی احمدیوں کو بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے اور پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.انڈونیشیا کے احمدیوں کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے تو قرآنی پیشگوئی کے مطابق اس کے مصداق صرف پاکستان کے احمدی بن رہے تھے کہ آگئیں لگائی جاتی تھیں اور پولیس اور انتظامیہ بیٹھ کر تماشے دیکھا کرتی تھی.اب

Page 221

خطبات مسرور جلد ششم 201 خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 2008 انڈونیشیا میں بھی پے در پے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو ہمارے سامنے یہ نظارے رکھتے ہیں.پس یہ اس پیشگوئی کے مطابق ہے جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آگئیں لگائیں گے اور دیکھیں گے.پس اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کریں.انشاء اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں کے یہ ظلم انہی پر پڑیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو دعاؤں کی بھی توفیق دے اور صبر اور ثبات قدم بھی عطا فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک افسوسناک اطلاع ہے کہ ہمارے جامعہ احمد یہ گھانا میں زیر تعلیم ایک طالب علم ، احمد Apisai ، جو کر بیاتی (Kiribati) جزیرہ سے وہاں تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے تھے.جن کی عمر 20 سال تھی.وقف نو کے مجاہد تھے.بڑے سعادت مند اور تعاون کرنے والے نوجوان تھے.جب میں جلسہ سالانہ گھانا میں گیا ہوں تو اس موقع پر انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ دن رات ڈیوٹیاں بھی دیں.جامعہ میں بھی تیاری وغیرہ کرتے رہے، کچھ دیر بیمار رہ کر 4 مئی کو رات کو ان کی وفات ہوگئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ہر طرح کے علاج کی کوشش کی گئی تھی لیکن بہر حال اللہ کی مرضی تھی ، اسی پر ہم راضی ہیں.ان کے والدین نے 1988ء میں عیسائیت سے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی.احمدیت کو قبول کیا تھا.اور اس جزیرہ میں یہ پہلا احمدی خاندان ہے.نہایت مخلص خاندانوں میں شمار ہوتا ہے.ان کی والدہ ایک سکول ٹیچر ہیں اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتی ہیں.والد بھی سلسلہ کا در در رکھنے والے نیک انسان تھے.وفات پاچکے ہیں.وہ بھی خلافت رابعہ میں یہاں لندن جلسہ پر آئے تھے اس کے بعد واپس گئے اور بیمار رہے اور تھوڑی دیر بعد ہی ان کی وفات ہوگئی.اللہ تعالیٰ ان کے والد سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے.ان کے درجات بلند کرتا رہے اور اس مجاہد بیٹے سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے.ان کے ہاں پہلے اولا د تو تھی لیکن لڑکا کوئی نہیں تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی دعا سے یہ بچہ پیدا ہوا تھا جس کو انہوں نے وقف کیا تھا.اللہ تعالیٰ اس والدہ کو بھی صبر دے اور اپنی رضا پر راضی رکھے، ایمان میں بڑھائے.اس خاندان کے لئے بہت زیادہ دعا کریں.خاص طور پر ان کی والدہ کے لئے.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ میں اس بچے کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 23 مورخہ 6 جون تا 12 جون 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)

Page 222

خطبات مسرور جلد ششم 202 (21) خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مئی 2008 فرمودہ مورخہ 23 مئی 2008ء بمطابق 23 ہجرت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے لفظ جبار کے حوالے سے اس لفظ کی وضاحت خدا تعالیٰ کی ذات کے تعلق میں اور بندے کے تعلق میں کی تھی کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو، اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر استعمال ہو تو اس کا مطلب اصلاح کرنے والا ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ دعا بھی اسی وجہ سے سکھائی ہے جو ہر مسلمان نماز پڑھتے ہوئے دوسجدوں کے درمیان پڑھتا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے:.حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ دو سجدوں کے درمیان دعا کیا کرتے تھے کہ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعْنِی کہ اے میرے رب مجھے بخش دے.مجھ پر رحم فرما.وَاجْبُرْنِی اور میرے بگڑے کام سنوار دے.اور مجھے رزق عطا فرما.اور میرے درجات بلند فرما.( سنن ابن ماجہ.کتاب الصلوۃ باب ما یقول بين السجدتین حدیث نمبر 898) یعنی وَ اجْبُرْنِی کے حوالے سے میرے روحانی، جسمانی، مادی ، جتنے بھی معاملات ہیں ان کی اصلاح فرما اور میرے سب کام اس حوالے سے سنوارتا چلا جا.یہ دعا یقیناً اس لئے آنحضرت نے ہمیں سکھائی تا کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھیک خدا تعالیٰ سے مانگیں اور اُس حالت سے بچنے کی کوشش کریں جب یہ خدا کو بھولنے والے انسان کو اس لفظ کے ان معانی کا حامل بنا دیتا ہے جس کے نتیجے میں انسان حد سے زیادہ بڑھنے والا ، سختی کرنے والا ، باغی اور سرکش ہو جاتا ہے.اور خاص طور پر نبیوں کی مخالفت کرنے والے اس زمرہ میں شمار ہوتے ہیں.اس وقت میں اصلاح کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند الہامات اور اقتباسات پیش کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ تُوبُوا وَاَصْلِحُوْا وَإِلَى اللهِ تَوَجَّهُوْا “.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اس کا ترجمہ فرمایا ہے تو بہ کرو اور فسق و فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو اور خدا کی طرف متوجہ ہو جاؤ.( تذکرہ صفحہ 63 ایڈیشن چہارم مطبوعه ربوہ )

Page 223

خطبات مسرور جلد ششم 203 خطبہ جمعہ فرموده 23 مئی 2008 یہ الہام 1883 ء کا ہے.یعنی جب آپ نے پہلی بیعت لی ہے اس سے تقریباً چھ سال پہلے کا.اس میں زمانے کی حالت کا نقشہ بیان ہوتا ہے کہ اپنی اصلاح کے لئے خدا کی طرف توجہ کرو.اُس زمانے میں بھی جو دین کے ہمدرد تھے وہ اس بات سے فکرمند تھے کہ اسلام کی کیا حالت ہو رہی ہے.تو اس جری اللہ کے ذریعہ سے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے جسے اللہ تعالیٰ نے زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجنا تھا یہ پیغام دیا کہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو.خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آچکی ہے.جس مصلح کی پیشگوئی تھی جس مسیح و مہدی کے آنے کی پیشگوئی تھی وہ دعوی کرنے والا ہے اس کے آنے پر کفر نہ کرنا.آج بھی مسلمان فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں.اس طرف توجہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حاصل ہو.آج مسلمانوں کی حالت اور زلزلوں اور آسمانی آفات پر صرف جو فکر ہے وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتی، اگر عملی حالتیں نہ بدلیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خبر بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی کہ الَّذِيْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا أَوْلَئِكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْم - جولوگ تو بہ کریں گے اور اپنی حالت کو درست کرلیں گے تب میں بھی ان کی طرف رجوع کروں گا اور میں تو اب اور رحیم ہوں.( تذکرہ صفحہ 150-151 ایڈیشن چہارم.مطبوعہ ربوہ ) پس یہ مخالفین احمدیت کے لئے بھی قابل غور ہے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.خدا تعالیٰ سے کوئی لڑ نہیں سکتا.جماعت احمدیہ کی تاریخ اور جماعت کی ترقی اب ان مخالفین کے لئے کافی ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور اب اس مخالفت سے باز آتے ہوئے اس مسیح و مہدی کے ہاتھ مضبوط کرنے کی اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کے ہر فرد کو توفیق دے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحم کی چادر میں آتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امت محمدیہ کی حالت کی ایسی فکر تھی کہ ہر وقت اس راہ میں لگے ہوئے تھے.آنحضرت ﷺ کے نام کی عزت و حرمت قائم کرنا آپ کی زندگی کا مقصد تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک یہ دعا بھی الہاما آپ کو سکھائی رَبِّ اَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ" کہاے میرے رب امت محمدیہ کی اصلاح کر.تذکرہ صفحہ 37 ایڈیشن چہارم.مطبوعہ ربوہ ) یقینا اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ جو آپ سے کیا، یہ دعا جو آپ کو سکھائی وہ اس لئے سکھائی کہ اس کی قبولیت ہو اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم مایوس نہیں کہ امت محمدیہ بھی تمام کی تمام یا اکثریت اس مسیح محمدی کے جھنڈے تلے جمع ہوگی.قرائن بتا رہے ہیں کہ اب وہ وقت قریب ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہونے والا ہے.لیکن وہ علماء اور راہنما جو عوام الناس کی غلط راہنمائی کر رہے ہیں اُن کو فکر کرنی چاہئے کہ اگر وہ لوگ اپنی اصلاح نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آ سکتے ہیں.ایک طرف تو خود کہتے ہیں کہ زمانہ مسیح کی آمد کا منتظر ہے بلکہ بے چین ہے.لیکن جس کا دعوی ہے اسے نہ صرف خود قبول نہیں کر رہے بلکہ دوسروں کی غلط راہنمائی کر رہے ہیں، ان کو بھی ورغلاتے اور ڈراتے ہیں.

Page 224

خطبات مسرور جلد ششم 204 خطبہ جمعہ فرموده 23 مئی 2008 پاکستان کے ایک بہت بڑے عالم جو جماعت کی مخالفت میں بھی بڑھے ہوئے ہیں.ڈاکٹر اسرار احمد اُن کا نام ہے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اصل اور محکم اساس گزشتہ چارسوسال کی تاریخ پر قائم ہے جو گواہی دیتی ہے کہ پچھلی چار صدیوں کے دوران میں تجدید دین کا سارا کام برعظیم پاک و ہند میں ہوا اور اس عرصے میں تمام مجددین اعظم اس خطہ میں پیدا ہوئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشیت ایزدی اور حکمت خداوندی کا کوئی طویل المیعاد منصوبہ اس خطہ کے ساتھ وابستہ ہے.( مضمون ” پاکستان کا مستقبل، مطبوعہ نوائے وقت 1993-07-16) ، انہوں نے بات کھل کر تو نہیں کی لیکن اس بیان سے صاف واضح ہے کہ ان کے نزدیک بھی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود اس خطہ میں آنے کے آثار نظر آتے ہیں.اور یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت جب ایک دعوی کرنے والے نے دعوی کر دیا ہے.آسمانی اور زمینی نشانات اس کی تائید میں کھڑے ہیں تو پھر آنکھیں بند کر کے اس کی مخالفت پر کیوں تلے ہوئے ہیں.اصل میں دنیا داری نے ان لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈالے ہوئے ہیں.اصل میں یہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پڑھ لکھ کر گنوایا ہے.بظاہر عالم ہیں لیکن خدائی اشاروں کو نہیں سمجھتے بلکہ دیکھنے کے باوجود انکار کرتے ہیں.اپنی آنکھوں سے یہ لوگ پر دے اٹھانا نہیں چاہتے.یہ لوگ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْى (البقرة:19) کے مصداق بنے ہوئے ہیں.بہرے گونگے اور اندھے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو بظا ہر علم کی روشنی دی ہے لیکن اس علم نے ان کو روشنی کا مینار بنانے کی بجائے مسیح موعود کی مخالفت کی وجہ سے بدترین مخلوق بنادیا ہوا ہے.جیسا کہ اس زمانے کے بعض علماء کے بارہ میں حدیث بھی ہے.پس اگر ان کے دل صاف ہیں، اگر واقعی امت مسلمہ کا درد رکھتے ہیں تو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنی اصلاح اور راہنمائی کی دعا مانگیں.ورنہ یہ خود بھی یونہی بھٹکتے رہیں گے اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی بھٹکاتے رہیں گے اور کوئی مسیح ان کی مسیحائی کے لئے نہیں آئے گا.ان کو ان پر یشانیوں سے نجات دلانے کے لئے نہیں آئے گا.اللہ تعالیٰ قوم کی بھی اصلاح کرے اور یہ بچے اور جھوٹے کا فرق پہچان سکیں.جیسا کہ میں نے کہا.اللہ تعالیٰ کی تائیدات واضح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ نظر آ رہی ہیں اور یہ خدا تعالیٰ نے پہلے ہی آپ کو بتا دیا تھا اور آپ کو فتح و کامیابی کی خوشخبری دی تھی اور بے شمار دفعہ دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی ایک خواب اور الہام کا ذکر کرتے ہوئے ( یہ 1893 ء کا ہے ) فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ اوّل گویا کوئی شخص مجھ کو کہتا ہے کہ میرا نام فتح اور ظفر ہے اور پھر یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے أَصْلَحَ اللهُ أَمْرِى كُلَّه - ( ترجمہ از مرتب ) یعنی خدا تعالیٰ میرے تمام کام درست کر دے.( تذکرہ صفحہ 202.ایڈیشن چہارم.مطبوعہ ربوہ ) کیا آپ کا یہ دعوی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح و ظفر کی نوید سنائی ہے اور آپ کی وفات کے 100 سال کے بعد تک بھی اللہ تعالیٰ کا آپ کی جماعت کے ساتھ یہ سلوک کہ ترقی کی طرف جو منزلیں طے ہو رہی ہیں، اس بات کا کافی

Page 225

خطبات مسرور جلد ششم 205 خطبہ جمعہ فرموده 23 مئی 2008 ثبوت نہیں ہے؟ یہ کافی دلیل نہیں ہے؟ کہ آپ ہی اس زمانے میں خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں.اللہ دُنیا کی آنکھیں کھولے اور وہ کسی تباہی کو آواز دینے کی بجائے جلد قبول کرنے والوں میں شامل ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ اَصْلِحْ بَيْنِي وَبَيْنَ اخْوَتِی.آپ فرماتے ہیں کہ: یہ الہام که أَصْلِحْ بَيْنِي وَبَيْنَ اِخْوَتِی اس کے یہ معنے ہیں کہ اے میرے خدا مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اصلاح کر.یہ الہام در حقیقت تتمہ اُن الہامات کا معلوم ہوتا ہے جن میں خدا تعالیٰ نے اُس مخالفت کا انجام بتلایا ہے.وہ الہام ہے.خَرُّوا عَلَى الْاذْقَانِ سُجَّدًا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِيْنَ تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِيْنَ.لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ آپ خود لکھتے ہیں کہ : یعنی بعض سخت مخالفوں کا یہ انجام ہوگا کہ وہ بعض نشان دیکھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا! ہمارے گناہ بخش.ہم خطا پر تھے.اور مجھے مخاطب کر کے کہیں گے ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھے مخاطب کر کے کہیں گے ) کہ بخدا! خدا نے ہم پر تجھے فضیلت دی اور تجھے چن لیا اور ہم غلطی پر تھے کہ تیری مخالفت کی.اس کا جواب یہ ہو گا کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا تمہیں بخش دے گا وہ ارحم الراحمین ہے.یہ اُس وقت ہوگا کہ جب بڑے بڑے نشان ظاہر ہوں گے.آخر سعید لوگوں کے دل کھل جائیں گے اور وہ دل میں کہیں گے کہ کیا کوئی سچا مسیح اس سے زیادہ نشان دکھلا سکتا ہے یا اس سے زیادہ اس کی نصرت اور تائید ہو سکتی تھی.تب یک دفعہ غیب سے قبول کے لئے ان میں طاقت پیدا ہو جائے گی اور وہ حق کو قبول کر لیں گے.( تذکرہ صفحہ 605.ایڈیشن چہارم.مطبوعہ ربوہ ) ہم تو یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی کو بھی سخت نشان دکھانے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچاننے کی عقل عطا فرمائے.آپ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ حق کو قبول کرنے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ (ابراهیم : 16) اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے فتح مانگی اور ہر جابر دشمن ہلاک ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یہ سنت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں، دکھ دیئے جاتے ہیں.مشکل پر مشکل ان کے سامنے آتی ہے.نہ اس لئے کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ نصرت الہی کو جذب کریں.یہی وجہ تھی کہ آپ کی ملکی زندگی مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے.یعنی لمبی ہے.چنانچہ مکہ میں تیرہ برس گزرے اور مدینہ میں دس برس.جیسا کہ اس آیت سے پایا جاتا ہے ہر نبی اور مامور من اللہ کے ساتھ یہی حال ہوا ہے کہ اوائل میں دکھ دیا گیا ہے.مکار، فریبی ، دکاندار اور کیا کیا کہا گیا ہے.یہی کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہا گیا اور کہا جاتا ہے.کوئی

Page 226

206 خطبہ جمعہ فرموده 23 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم برا نام نہیں ہوتا جو ان کا نہیں رکھا جاتا.وہ نبی اور مامور ہر ایک بات کی برداشت کرتے اور ہر دکھ کو سہہ لیتے ہیں.لیکن جب انتہا ہو جاتی ہے تو پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے دوسری قوت ظہور پکڑتی ہے.اسی طرح پر رسول اللہ ہے کو ہر قسم کا دکھ دیا گیا ہے اور ہر قسم کا برا نام آپ کا رکھا گیا ہے.آخر آپ کی توجہ نے زور مارا اور وہ انتہا تک پہنچی جیسا اسْتَفْتَحُوا سے پایا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ (ابراهیم : 15) تمام شریروں اور شرارتوں کے منصوبے کرنے والوں کا خاتمہ ہو گیا.یہ توجہ مخالفوں کی شرارتوں کے انتہاء پر ہوتی ہے کیونکہ اگر اول ہی ہو تو پھر خاتمہ ہو جاتا ہے.مکہ کی زندگی میں حضرت احدیت کے حضور گرنا اور چلا نا تھا جو اس حالت تک پہنچ چکا تھا کہ دیکھنے والوں اور سننے والوں کے بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے.مگر آخر مدنی زندگی کے جلال کو دیکھو کہ وہ جو شرارتوں میں سرگرم اور قتل اور اخراج کے منصوبوں میں مصروف رہتے تھے سب کے سب ہلاک ہوئے اور باقیوں کو اس کے حضور عاجزی اور منت کے ساتھ اپنی خطاؤں کا اقرار کر کے معافی مانگنی پڑی.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 424 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر بھی رحم کرے جس کی اکثریت اپنی اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے ، اپنے ان واقعات کو دیکھتے ہوئے مظلوم بننے کی بجائے ظالم بنتے ہوئے ظلم کے قریب جارہی ہے اور امام وقت کو بھی نہیں پہچانتی.یہ مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لئے دی ہے کہ اس زمانے میں بھی یہی حال ہو رہا ہے.مسلمان مسیح و مہدی کو نہیں مان رہے.غیر مسلم آنحضرت ﷺ کے متعلق جس طرح کر رہے ہیں یہ ساری چیزیں اگر اصلاح نہ ہو تو ہر مذہب اور ہر قوم کو تباہی کی طرف لے جارہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نہایت خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں.خواہ کوئی میری باتوں کو نیک ظنی سے سنے یا بدظنی سے، گرمیں کہوں گا کہ جو شخص مصلح بننا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ پہلے خود روشن ہو اور اپنی اصلاح کرے..یہ جو آجکل اصلاح کرنے والے بنے ہوئے ہیں ان کو یا درکھنا چاہئے.66 دیکھو یہ سورج جو روشن ہے پہلے اس نے خود روشنی حاصل کی ہے.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے معلم نے یہی تعلیم دی ہے لیکن اب دوسرے پر لاٹھی مارنا آسان ہے لیکن اپنی قربانی دینا مشکل ہو گیا ہے.پس جو چاہتا ہے کہ قوم کی اصلاح کرے اور خیر خواہی کرے وہ اس کو اپنی اصلاح سے شروع کرے.قدیم زمانے کے ریشی اور اوتار جنگلوں اور بنوں میں جا کر اپنی اصلاح کیوں کرتے تھے.وہ آجکل کے لیکچراروں کی طرح زبان نہ کھولتے تھے جب تک خود عمل نہ کر لیتے تھے.یہی خدا تعالیٰ کے قرب اور محبت کی راہ ہے.جو شخص دل میں کچھ نہیں رکھتا اس کا بیان کرنا پر نالہ کے پانی کی طرح ہے جو جھگڑے پیدا کرتا ہے.اور جو نور معرفت اور عمل سے بھر کر بولتا ہے وہ بارش کی طرح ہے جو رحمت سمجھی جاتی ہے..

Page 227

خطبات مسرور جلد ششم 207 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مئی 2008 ” فرماتے ہیں کہ میری نصیحت پر عمل کرو جو شخص خود زہر کھا چکا ہے وہ دوسروں کی زہر کا کیا علاج کرے گا.اگر علاج کرتا ہے تو خود بھی مرے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرے گا کیونکہ زہراس میں اثر کر چکا ہے.اور اس کے خواص چونکہ قائم نہیں رہے اس لئے اس کا علاج بجائے مفید ہونے کے مضر ہو گا.غرض جس قدر تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اس کا باعث وہی لوگ ہیں جنہوں نے زبانوں کو تیز کرنا ہی سیکھا ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 162-163.جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) ”میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے.نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی.جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے.آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کر دے.پس کچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشی محض سمجھے ( یعنی کچھ بھی نہ سمجھے ).اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے“.( دل کی تسلی ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو.کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچا ئیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے.پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 213.جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) آجکل کے جو علماء ہیں ان کا یہی حال ہے.پس اپنی اصلاح کے لئے وہی طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتائے گئے ہیں اور عاجزی اور انکساری کو اختیار کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ اگر اپنے زور بازو پر بھروسہ ہے اور اپنے علم کو ہی سب کچھ سمجھا جائے تو ایسے شخص پھر جابر اور سرکش تو کہلا سکتے ہیں، اصلاح یافتہ یا اللہ تعالیٰ کی صفت سے فیض نہیں پاسکتے.

Page 228

خطبات مسرور جلد ششم 208 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مئی 2008 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:.اصلاح کا طریق ہمیشہ وہی مفید اور نتیجہ خیز ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اذن اور ایماء سے ہو.اگر ہر شخص کی خیالی تجویزوں اور منصوبوں سے بگڑی ہوئی قوموں کی اصلاح ہو سکتی تو پھر دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے وجود کی کچھ حاجت نہ رہتی.جب تک کامل طور پر ایک مرض کی تشخیص نہ ہو اور پھر پورے وثوق کے ساتھ اس کا علاج معلوم نہ ہو لے کامیابی علاج میں نہیں ہو سکتی.اسلام کی جو حالت نازک ہو رہی ہے وہ ایسے ہی طبیبوں کی وجہ سے ہو رہی ہے جنہوں نے اس کی مرض کو تو تشخیص نہیں کیا اور جو علاج اپنے خیال میں گزرا اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر شروع کر دیا.مگر یقیناً یا درکھو کہ اس مرض اور علاج سے یہ لوگ محض نا واقف ہیں.اس کو وہی شناخت کرتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے اور وہ میں ہوں“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 344-343 مطبوعہ ربوہ ) آپ فرماتے ہیں کہ اس کو وہی شناخت کرتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے اور وہ میں ہوں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ :.خوب یا درکھو کہ قلوب کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے قلوب کو پیدا کیا ہے.دلوں کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے دلوں کو پیدا کیا ہے.” نرے کلمات اور چرب زبانیاں اصلاح نہیں کر سکتیں بلکہ ان کلمات کے اندر ایک روح ہونی چاہئے.پس جس شخص نے قرآن شریف کو پڑھا اور اس نے اتنا بھی نہیں سمجھا کہ ہدایت آسمان سے آتی ہے تو اس نے کیا سمجھا؟ المْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ ( یعنی کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ) کا جب سوال ہوگا تو پتہ لگے گا.اصل بات یہ ہے کہ ( فارسی کا ایک مصرعہ لکھا ہے کہ ) ” خدا را بخدا تواں شناخت“ کہ خدا کو خدا کے ذریعہ ہی پہچانا جا سکتا ہے.آپ فرماتے ہیں:.اور یہ ذریعہ بغیر امام کے نہیں مل سکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانوں کا مظہر اور اس کی تجلیات کا مورد ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ.یعنی جس نے زمانے کے امام کو شناخت نہیں کیا وہ جہالت کی موت مر گیا.الحکم جلد 9 نمبر 18 صفحہ 10 مورخہ 24 رمئی 1905ء) اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی اس امام کو مانے کی توفیق دے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انذار سے یہ لوگ بچ سکیں.بہت سے غیر از جماعت لوگ ہیں جو خطبہ سنتے ہیں اور اس کے بعد لکھتے بھی ہیں.بعض متاثر ہوتے ہیں لیکن خوف کی وجہ سے قبول

Page 229

خطبات مسرور جلد ششم 209 خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مئی 2008 نہیں کر سکتے کئی ایسے ہیں جن کو ہمارے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بہت سے پروگرام سنے کی وجہ سے قبولیت کا اللہ تعالیٰ موقع بھی دے رہا ہے، فضل فرما رہا ہے.تو ان کو دنیا کے خوف کی بجائے اب زمانے کی آواز کو دیکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی اس پکار کوسننا چاہئے جو مسیح و مہدی کے ذریعہ سے ان تک پہنچ رہی ہے.ہمیں بھی جو اس زمانے کے امام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقت میں اپنی اصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق دے.عاجزی سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اس نور سے فیض پانے والے ہوں جو ہمارے دلوں کو ہمیشہ روشن رکھے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 24 مورخہ 13 جون تا 19 جون 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)

Page 230

خطبات مسرور جلد ششم 210 (22) خطبہ جمعہ فرموده 30 مئی 2008 فرمودہ مورخہ 30 مئی 2008ء بمطابق 30 ہجرت 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس ہفتے ، چند دن پہلے 27 مئی کو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے یوم خلافت منایا.جیسا کہ میں اپنی تقریر میں بیان کر چکا ہوں اس سال کے یوم خلافت کی ایک خاص اہمیت تھی.یہ ایسا یوم خلافت تھا جو عموما ایک انسان کی زندگی میں ایک دفعہ ہی آتا ہے.یا کسی کی بہت لمبی زندگی ہو تو اس کی شعور کی زندگی میں ایک دفعہ آتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص ہی کسی پر احسان ہو اور وہ صحیح طرح پورے شعور کی زندگی میں ہو اور لمبی عمر کے ساتھ اس کے اعضاء بھی اس قابل ہوں اور مضحل نہ ہوئے ہوں تو بہر حال یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں جماعت احمدیہ کی، نہ صرف یہ جو بہت سارے ایسے احمدی ہیں ان کو خلافت جو بلی دکھائی بلکہ جماعت احمدیہ کی 120 سالہ تقریبا زندگی ہے اس پر تسلسل کے ساتھ جماعت کی دو مختلف جو بلیاں دیکھنے کا موقع فراہم فرمایا.اور اس حوالے سے ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور شکر اور احسان کے جذبات سے لبریز ہے.جماعت احمدیہ کی بنیاد کی پہلی صدی 1989ء میں آج سے اُنیس (19) سال پہلے ہم نے منائی.اس سال ہم نے جیسا کہ ہم سارے جانتے ہیں خلافت احمدیہ کے حوالے سے ، اس کے قیام کے حوالے سے سو سالہ تقریب اظہار تشکر کے طور پر 27 رمئی کو منائی اور دنیا کی مختلف جماعتوں میں منا رہے ہیں.اس وقت بہت سے بچے ایسے ہوں گے اور نئے آنے والے بھی جو 1989ء میں پیدا نہیں ہوئے ، اس کے بعد پیدا ہوئے یا شعور کی زندگی نہیں تھی یا بعد میں جماعت میں شامل ہوئے.انہیں اس جو بلی کا تو پتہ نہیں لیکن یہ جو بلی جو ایسے لوگوں نے اپنے ہوش وحواس میں منائی یا دیکھی اس نے انہیں یقیناً ایک منفرد تجربہ سے گزارا ہوگا اور گزر رہے ہوں گے اور گزرے ہیں.دنیا کے ہر ملک میں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں ہر ایک نے اپنے پروگرام بھی کئے اور کر رہے ہیں.ایم ٹی اے کے ذریعہ سے مرکزی پروگرام میں بھی شامل ہوئے.مقامی جماعتوں کے پروگرام اپنے اپنے حالات کے مطابق شاید سارا سال چلتے رہیں.لیکن یہاں کا مرکزی پروگرام وہ تھا جب Excel سنٹر میں مرکزی جلسہ ہوا اور اس میں تقریباً 18- 19 ہزار کی حاضری تھی اور دنیا کے

Page 231

211 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم مختلف ممالک کی نمائندگی بھی ہو گئی جس میں قادیان اور ربوہ ، ان دونوں بستیوں کے جلسہ سنے والوں کے نظارے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں دکھائے گئے اس نے بھی لوگوں کے دلوں پر ایک خاص قسم کا اثر چھوڑا ہے.اس بارے میں مجھے احباب وخواتین کے جو دلی تاثرات ہیں ان کے خطوط اور فیکسز بھی آنے شروع ہو گئے ہیں.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص کیفیت میں اُس دن نہ صرف اُس ہال میں موجود میرے سامنے بیٹھنے والے لوگوں کو لے لیا تھا بلکہ دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی احمدی یہ جلسہ سن رہے تھے خواہ جماعتی انتظام کے تحت یا انفرادی طور پر اپنے گھروں میں یا اپنے خاندانوں میں جو بھی کارروائی سن رہے اور دیکھ رہے تھے جن کو بھی موقع مل رہا تھا سب اس خاص ماحول اور کیفیت سے حصہ لے رہے تھے.گویا خدا تعالیٰ نے تمام دنیا میں رہنے والے ہر ملک اور قوم کے احمدی کو ایک ایسے تجربے سے گزارا جو انہیں وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہے.یہ ایک منفرد اور روحانی تجربہ تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا ایک عظیم اظہار تھا جسے اپنوں نے بھی دیکھا اور محسوس کیا اور غیروں نے بھی دیکھا.27 مئی کا یہ دن جس میں خلافت احمدیہ کے 100 سال پورے ہوئے اپنوں اور غیروں کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان دیکھا گیا.وہاں بیٹھے ہوئے احمدی مرد اور خواتین اور بچے سب اس کیفیت میں تھے کہ جو بھی مجھے ملے اس نے یہی کہا کہ ہمارے ایمان اس تقریب نے تازہ کر دیئے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا باہر کی دنیا کے احمدیوں کا بھی یہی حال تھا.ہر جگہ سے بے انتہاء خلافت سے محبت اور عقیدت اور اپنے ایمان میں مضبوطی کا اظہار ہو رہا ہے.ایک صاحب نے لکھا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ میں آج نئے سرے سے احمدی ہوا ہوں.کئی ایسے جو بعض شکوک میں مبتلا تھے گو انہوں نے بیعت تو کر لی تھی خلافت خامسہ کی لیکن ان کے دل اس بات پر راضی نہیں تھے انہوں نے لکھا کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور استغفار بھی کی اور آپ سے بھی عہد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریر کی برکت سے ہمارے دلوں کو صاف کیا ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ دھو کر چپکا دیا ہے.اس کے بعد ہم اب خلافت احمدیہ کے لئے ہر قربانی کے لئے بچے دل سے تیار رہیں گے اور اپنی نسلوں میں بھی وہ روح پھونکنے کی کوشش کریں گے جو ہمیشہ ان کو خلافت کے فیض سے فیضیاب ہونے والا رکھے.ایک لکھنے والے نے لکھا کہ اگر مُردوں کو زندہ کرنے کا ذریعہ کوئی تقریب بن سکتی ہے تو وہ یہ تقریب اور آپ کا خطاب تھا.خدا کرے کہ حقیقت میں ایک انقلاب اس تقریب سے دنیائے احمدیت پر آیا ہو اور وہ قائم بھی رہے.ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اپنے دلوں کی پاک تبدیلیوں کو ہمیشہ قائم رکھنے والے بنے رہیں.اس وقت وہاں اردگرد کے ماحول میں ایکسیل (Excel) سنٹر کے مقامی لوگ بھی حیرت سے لوگوں کو جمع ہوتے اور ایک عجیب

Page 232

خطبات مسرور جلد ششم 212 خطبہ جمعہ فرموده 30 مئی 2008 کیفیت میں دیکھ کر حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں.عموماً تو یہ تاثر ہے کہ مسلمان ڈسپلنڈ (Disceplend) نہیں ہوتے ، عجیب وغریب ان کی روایات ہیں.یہی مغرب میں تاثر دیا گیا ہے.لیکن اُس وقت ان کی حالت عجیب تھی اور یہ دیکھ رہے تھے کہ یہ تو عجیب قسم کے لوگ ہیں جو لگتے تو مسلمان ہیں لیکن ان میں ایک طرح کی تنظیم ہے.ایشیائی اکثریت ہونے کے باوجودان میں مختلف قومیتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور ہر بچے ، جوان، مرد، عورت اور مختلف قوموں کے لوگوں کا رخ جو ہے ایک طرف ہے.خلافت سے محبت اور عقیدت جواُن کے دلوں میں ہے اس کا اظہار ان کے چہروں سے بھی ظاہر وعیاں ہے بلکہ جسم کے ہر عضو سے ہو رہا ہے.صل الله Excel سنٹر کی ایک سیکیورٹی خاتون کارکن جو وہاں تھیں، انہوں نے ہماری خواتین کو کہا کہ یہ ایسا نظارہ ہے جو میرے لئے بالکل نیا ہے، بالکل ایک نیا تجربہ ہے اور اس کو دیکھ کر آج مجھے پتہ چلا کہ اسلام کیا ہے.میں تو اس نظارے کو دیکھ کر ہی مسلمان ہونا چاہتی ہوں.بہر حال ان لوگوں میں تو عارضی کیفیت فوری رد عمل کے طور پیدا ہوتی ہے، اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں لیکن دعا ہے کہ اس خاتون اور اس جیسے بہت سوں کے دلوں میں یہ نظارہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے.ہمارا مقصد اور مدعاتو یہی ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہنچانے اور آنحضرت میایی کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.چاہے جس ڈھب سے بھی کوئی سمجھے یا کسی بات سے بھی کوئی سمجھے.پس اس خلافت جو بلی کے جلسہ میں جس میں اپنوں اور غیروں نے وحدت کی ایک نئی شان دیکھی ہے یہ آج صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا خاصہ ہے.آج اس وحدت کی وجہ سے عافیت کے حصار میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق کوئی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف مسیح محمدی کی جماعت ہے.باقی سب انتشار کا شکار ہیں اور رہیں گے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر نہیں کریں گے.جب تک کہ وہ آنحضرت کے اس ارشاد کو نہیں مانیں گے کہ جب میرا امسیح و مہدی ظاہر ہو تو اس کو میرا سلام پہنچاؤ.مسلمانوں کی حالت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے.غیر مذاہب کی خدا تعالیٰ سے دُوری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ شیطان کی گود میں جا پڑے ہیں.اپنے پیدا کرنے والے کو بھول چکے ہیں.اس مقصد کو بھول چکے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.بلکہ اب تو اس کا فہم و ادراک بھی ان کو نہیں رہا کہ ان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے.پس آج اگر کوئی جماعت ہے تو یہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہے جو اس مقصد کو جانتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتی ہے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جس نے اس عُرُوهُ وثقی کو پکڑا ہوا ہے جس سے ان کے صحیح راستوں کا تعین ہوتارہتا ہے.اس مضبوط کڑے کو پکڑا ہوا ہے جس

Page 233

213 خطبہ جمعہ فرموده 30 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم کے نہ ٹوٹنے کی ضمانت خود خدا تعالیٰ نے دی.اللہ تعالیٰ نے آج اپنے فضل سے احمدیوں کو اس برتن کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑایا ہوا ہے جس میں مسیح محمدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے تازہ بتازہ روحانی پانی بھر دیا ہے.وہ زندگی بخش پانی جس کو پینے سے روحانیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار ایک مؤمن طے کر سکتا ہے.پھر اس مضبوط کڑے کو پکڑنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس پکڑے رہنے والوں کے ایمان ہمیشہ سلامت رہیں گے.مسیح محمدی کی غلامی میں آکر اس سے عہد بیعت باندھنے والے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنے ایمان میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جائیں گے.ہر حالت میں ہر مخالفت کے دور میں اس کڑے کے پکڑے رہنے والوں کے ایمان محفوظ رہیں گے.اس کڑے سے چمٹنے والا مومن اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن اس کڑے کو نہیں چھوڑتا جس کے چھوڑنے سے اس کے ایمان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہو.چنانچہ جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مخالفت کی آندھیاں حقیقی مومنین کو ان کے ایمان کو اپنی جگہ سے نہ ہلاسکیں.ماؤں کے سامنے بیٹے قتل کئے گئے، بیٹیوں کے سامنے باپوں کو آہستہ آہستہ اذیت دے کر مارا گیا، شہید کیا گیا ، باپوں کے سامنے بیٹوں کو شہید کیا گیا.پھر احمدیت کو چھوڑنے کے لئے انتہائی اذیت سے کئی احمد یوں کو گزرنا پڑا.آہستہ آہستہ ٹارچر دے کر مارا گیا.اور یہ دور کے واقعات نہیں ہیں.اس سال بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں.لیکن جس ایمان پر وہ قائم ہو چکے تھے یہ اذیتیں اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں لا سکیں.پس آج جب ہم جو بلی کی خوشی منا رہے ہیں تو دراصل یہ خوشی خلافت کے سو سال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کی خوشی ہے اور اس سو سال میں جو لہلہاتے باغ اس انعام سے چھٹے رہنے کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے ، اس کی خوشی میں ہے.ان لہلہاتے باغوں کو دیکھ کر جب ہم خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں تو ان شہدائے احمدیت کو بھی یا درکھیں اور ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بھی دعائیں کریں جنہوں نے اپنے خون سے ان باغوں کو سینچا ہے.اپنے ایمان کی مضبوطی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جو تاریخ کے سنہری باب ہیں.عُروہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا سبزہ زار جو ہمیشہ سرسبز رہتا ہے.بارش کی کمی بھی اس پر کبھی خشکی نہیں آنے دیتی.پس یہ ایسا سبزہ زار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان کی وجہ سے جماعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے جو ہمیشہ سرسبز رہنے کے لئے ہے.جس کو شبنم کی نمی بھی لہلہاتی کھیتیوں میں اور سرسبز باغات کی شکل میں قائم رکھتی ہے.پس اس عُرُوهُ وشقی کو پکڑے رہیں گے تو انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں گے.

Page 234

خطبات مسرور جلد ششم 214 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 2008 اللہ تعالیٰ نے جو فر مایا کہ جس نے شیطان کی باتوں کا انکار کیا اور ایمان پر قائم رہا تو فرمایا کہ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا (بقره:257) یعنی ایک نہایت قابل اعتماد مضبوط چیز کو مضبوطی سے پکڑ لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور پھر آخر پر فرمایا وَ اللهُ سَمِيعٌ عَلِيْمٌ (بقرہ: 257) اللہ بہت سنے والا اور بہت جاننے والا ہے.پس جو لوگ دلوں کی صفائی کے ساتھ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے چمٹے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس سے اس مضبوط کڑے سے چھٹے رہنے کے لئے دعائیں مانگتے رہیں گے تو ایسے لوگ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ بہت دعائیں سننے والا ہے.وہ ہمارے دلوں کا حال بھی جانتا ہے.وہ نیک نیتی سے کی گئیں دعاؤں اور کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا اور ہمارے دل بھی ایمان سے لبریز رہیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کے انعام سے فیضیاب بھی ہوتے رہیں گے.ہمارا ایمان بھی، ہم میں سے ہر ایک کا ایمان بھی مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا اور معمولی کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمارے نیک نیت ہونے کی وجہ سے ہم میں بھی اور ہماری نسلوں میں بھی ایسا ایمان پیدا کرتا چلا جائے گا جس سے ہماری نسلیں بھی اور ہم بھی لہلہاتی فصلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے.پس آج خلافت کے سوسال پورے ہونے پر ہم جو نظارے دیکھ رہے ہیں، ایمانوں کو تازہ کر رہے ہیں، جماعت کی وحدت اور ترقی کی ہری بھری فصلیں ہمیں نظر آ رہی ہیں.غیروں کو بھی عجیب سا لگ رہا ہے اور بعض حاسدوں کو حسد میں بڑھا بھی رہا ہے، جیسا کہ پاکستان کے حالات ہیں.یہ بھی اس زمانے میں آنحضرت مے کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے اور خلافت سے چھٹے رہنے کی وجہ سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ ہی مر گئے مگر ہمارے نبی ﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آ رہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے.جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت کے معجزات ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 468-469) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ آنحضرت کے ساتھ بھی اور اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ بھی ہر احمدی کو حقیقت میں چمٹائے رکھے.اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والا بنائے رکھے.اور خلافت احمدیہ کی حفاظت کے لئے قربانی کے عہد کو پورا کرنے والا بنائے رکھے.اور آج ہم نے جو نظارے دیکھے، جو ایک اکائی دیکھی ، جو وحدت دیکھی ، خلافت سے محبت و وفا کے جذبات کا اظہار و یکجہتی جو غیروں کے لئے ایک متاثر کرنے والی چیز اور ایک معجزہ تھا اسے قائم رکھنے کے لئے جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکنے والے بنے رہیں تا کہ اس

Page 235

خطبات مسرور جلد ششم 215 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 2008 شکر گزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے انعاموں کو ہم میں سے ہر ایک کے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے بھی دائمی کر دے.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مومنین سے وعدہ ہے کہ اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں اپنے انعام مزید بڑھاؤں گا.تمہارے ایمانوں کو مزید ترقی دوں گا.نتیجہ تم میرے فضلوں کے وارث بنتے چلے جاؤ گے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : 8 ) یعنی اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.آج ان دنوں میں جب اپنی ڈاک دیکھتا ہوں تو دل کی عجیب کیفیت ہوتی ہے.سوچتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں.اس کے انعامات کی بارش اس طرح جماعت پر ہو رہی ہے کہ اس کے مقابل پر اگر جسم کا رواں رواں بھی شکر گزار ہو جائے تو شکر ادا نہیں ہو سکتا.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کس طرح اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر جو خلافت کی صورت میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو دیا ہے شکر گزار بنتی ہے.اتنے زیادہ شکر گزاری کے خطوط آ رہے ہیں کہ میں بغیر کسی شک کے یہ کہ سکتا ہوں کہ آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی جماعت میں ہی ایسے افراد ہیں جو شکر گزاری میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں.اور جب تک ایسے شکر گزاری کے جذبے بڑھتے چلے جائیں گے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ہم بنتے چلے جائیں گے اور ہماری نسلیں بھی بنتی چلی جائیں گی.پس اس شکر گزاری کے جذبے کو کبھی ماند نہ پڑنے دیں کہ یہی شکر گزاری ہے جو ہمارے لئے نئے سے نئے سرسبز باغوں کو لگاتی چلی جائے گی اور ہمارے ایمانوں میں ترقی کا باعث بنے گی.آج جب دنیا لہو و لعب میں مبتلا ہے اور کوئی ان کی راہنمائی کرنے والا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی ایک واحد جماعت ہے.جو خلافت کے جھنڈے تلے اپنی کمتیں درست کرتی رہتی ہے.یہ یقیناً ایسا انعام ہے جس کے شکر کا حق تو ادا نہیں ہو سکتا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم شکر ادا کرنے کی کوشش بھی کرتے رہو گے صرف زبانی نہیں بلکہ عملوں کی درستگی کی کوشش کی صورت میں تو تب بھی میں اپنے انعامات سے تمہیں نو از تار ہوں گا.پس اس کے لئے دعا بھی کرتے رہیں.آپ میرے لئے دعا کریں اور میں آپ کے لئے دعا کروں تا کہ یہ شکر گزاری کے جذبات اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کبھی ختم نہ ہوں اور ہر آن اور ہرلمحہ بڑھتے چلے جائیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ بے شمار فیکسیں اور خطوط بچوں، بہنوں اور بھائیوں کے آ رہے ہیں.میں کوشش تو کرتا ہوں کہ ان شکر گزاری اور اخلاص سے بھرے ہوئے خطوط کا جواب دوں اور جلدی جواب دوں لیکن دیر ہوسکتی ہے کیونکہ آج کل مصروفیت ہے کچھ دوروں کی تیاری کی وجہ سے بھی.

Page 236

216 خطبه جمعه فرموده 30 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اور دوبارہ کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ایمان اور اخلاص کو بڑھائے.ایسے ایسے خط ہیں کہ میں جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہوں.کیسے کیسے حسین خوبصورت پھول اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چمن میں کھلائے ہوئے ہیں جن کی خوبصورتی کا بیان بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایمان اور اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں میں سے ایک انعام اس زمانے کی ایجاد سیٹلائٹ ٹیلی ویژن بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمایا ہے.اس کے بارہ میں میں کچھ بتانا چاہتا ہوں.اس میں بہت سارے ہمارے والٹیئر ز بھی کام کرتے ہیں اور بڑی محنت سے کام کرتے ہیں.بہت تھوڑے ہیں جو Paid ملازمین ہیں.اکثر اپنا وقت بغیر کسی معاوضے کے دیتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ تمام پروگرام دنیا دیکھتی بھی ہے.اس کو کامیاب بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں.یہ لوگ ایسا کام کر رہے ہیں تا کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دکھا سکیں اور اس وحدت کے نظارے دکھا سکیں جو اللہ تعالیٰ نے انعام کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے پیغام کو دنیا تک پہنچا سکیں.تا کہ سعید روحوں کو اس طرف توجہ پیدا ہو تو حق کو پہچان سکیں.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہامات کے ذریعہ جماعت کی ترقی کی خبریں دیں اور آپ کو یقین سے پر فرمایا کہ یقینا آپ کا غلبہ ہونا ہے، جماعت کا غلبہ ہے.جیسا کہ بے شمار الہامات اس بارہ میں ہیں.ایک جگہ آپ نے فرمایا كَتَبَ اللهُ لَا غَلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی یہ آپ کو الہام بھی ہوا تھا آیت بھی ہے.تو آپ نے اس کا یہی ترجمہ فرمایا کہ خدا نے ابتداء سے مقدر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کا رسول غالب رہیں گے.یہاں اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی طرف بھی.کیونکہ اس زمانہ میں اسلام کی ترقی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہے..پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غلبہ عطا فرمانا ہے.لیکن اس کے لئے دنیاوی سامان بھی ہوتے ہیں اور یہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے اور فرما تا رہا ہے اور اب بھی فرما رہا ہے.آپ نے اپنے زمانے میں جو کتب لکھیں اور ان کی اشاعت کی، بلکہ ایک خزانہ تھا جو کہ دیا اور دنیا کے سامنے پیش فرمایا وہ بھی اس غلبہ کے لئے ایک ذریعہ تھا.اور اب اس زمانہ میں اس خزانے کو ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا تک پہنچانے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں.پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت کی ترقی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق جاری کردہ آپ کی خلافت کے نظام

Page 237

217 خطبہ جمعہ فرموده 30 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم کی برکات ہیں، ان کو دکھانے کا ذریعہ بھی ایم ٹی اے کو بنایا.پس ایم ٹی اے ان سامانوں میں سے ایک سامان ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا اور پہنچا رہا ہے اور اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ اس زمانے کی ایجادات کا اگر صحیح استعمال ہو رہا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہو رہا ہے.اس وقت ایم ٹی اے کے تین چینلز نہ صرف اپنوں کی تربیت کا کام کر رہے ہیں بلکہ مخالفین اسلام کا ان دلائل سے منہ بند کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیئے.پس ایم ٹی اے کو جہاں اللہ تعالیٰ نے غلبہ دکھانے کا ذریعہ بنایا ہے وہاں غلبہ عطا فرمانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر بھی مہیا فرمایا ہے.جو اُن مقاصد کو لے کر ہر گھر میں داخل ہو رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا مقصد تھے.یعنی وہ کام جو آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی نے کئے تھے اور اس زمانے میں وہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد تھے.گویا اُن کاموں کو آگے چلاتے چلے جانا آپ کے سپرد ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کے سپر دفرمائے تھے.جس میں معجزات دکھانا بھی تھا.جس میں دلوں کا تزکیہ بھی تھا.جس میں قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانا بھی ہے.جس میں انسانیت میں حکمت کے موتی بکھیرنا بھی ہے.اور اگر آج ہم دیکھیں تو اس زمانے میں اس زمانے کی ایجادوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے باوجود اسلامی ملکوں کے چینلوں کے اور اس کے علاوہ بعض اسلامی تنظیموں کے چینلوں کے یہ صرف اور صرف ایم ٹی اے ہے جو ان تمام کاموں کو انجام دے رہا ہے.اگر غور سے انہیں سنیں تو یہ چاروں باتیں آپ کو نظر نہیں آئیں گی.اگر ایک بات صحیح کرتے ہیں تو دوسری جگہ ایک ایسی مضحکہ خیز بات کر جاتے ہیں جس سے کوئی عظمند انسان اسلام کا صحیح تصور قائم نہیں کر سکتا.پھر دنیا کے دوسرے ٹی وی چینل ہیں ان کا اشتہاروں کے بغیر چلنا مشکل ہے جس میں لغویات اور بے ہودگیاں ہیں.اسلامی ملکوں کے چینلز کا بھی یہی حال ہے کہ تفریح کے نام پر پروگرام بھی لغو اور بے ہودہ ہیں.پس آج ایک ہی چینل ہے جو مسیح محمدی کے غلاموں کا ہے جو انسان کی پیدائش کے مقصد کو پورا کر رہا ہے.اس مقصد کو پورا کر رہا ہے جو آنحضرت کی بعثت کا مقصد ہے.تو اس طرف بھی احمدیوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے کہ اپنی تربیت کے لئے بھی اور اس لئے بھی کہ آخر بڑی محنت سے یہ چینلز چل رہے ہیں، ان کو باقاعدہ دیکھا کریں، سنا کریں.خاص طور پر خطبات اور جو دوسرے عام تربیتی پروگرام میں اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات اس طرف توجہ مبذول کروانے کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں انعامات دیئے ہیں ان کا شکر ادا کریں.اللہ تعالیٰ کے انعام کا شکر ادا کریں جو خلافت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اپنے وعدوں کے مطابق عطا فرمایا ہے.اور یہ پیغام ایم ٹی اے کے ذریعہ سے

Page 238

خطبات مسرور جلد ششم 218 خطبہ جمعہ فرموده 30 مئی 2008 دنیا میں پہنچتا ہے.یہ بھی بات واضح ہونی چاہئے کہ اگر خلافت نہ ہوتی تو جتنی چاہے نیک نیتی سے کوششیں ہوتیں نہ کسی انجمن سے اور نہ کسی ادارے سے یہ چینل اس طرح چل سکتا تھا.تو یہ جو ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر مایا ہے یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ایک برکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے.اس لئے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان باتوں کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ خلافت کے بغیر نہیں چل سکتی تھیں.اس لئے کیا ہے کہ ہر ایک کو یہ احساس پیدا ہوتار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے جو جو نظام بھی جاری فرمایا اس کو خلافت کے انعام سے باندھا ہے.پس ہمیشہ اس کی قدر کرتے رہیں.اس خلافت جو بلی کی تقریب سے ہر احمدی میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ عارضی تبدیلی نہ ہو، عارضی جوش نہ ہو، بلکہ اس کو ہمیشہ یا درکھیں اور جگالی کرتے رہیں اور اس کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں.میں نے جو عہد لیا تھا اس عہد کا بھی بڑا اثر ہوا ہے.ہر ایک پر یہ اثر ظاہر ہو رہا ہے.اسے ہمیشہ یادر کھنے کی کوشش کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جو عہد کروا سے پورا کرو کیونکہ تمہارے عہدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا.پس آج جب کہ یہ بات ابھی آپ کے ذہنوں میں تازہ ہے، ہمیں اس بات کو اس لئے دہرا رہا ہوں کہ اس بات کو ہمیشہ تازہ رکھیں اور یہ عہد آپ میں مزید مضبوطی پیدا کرتا چلا جائے.یہ بھی ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ کوئی عہد بھی، کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی.کئیوں کو احساس بھی ہے.خطوط میں بھی لوگ لکھتے ہیں کہ ہم نے تو عہد کیا ہے اب ہم انشاء اللہ اس پر عمل کریں گے، کار بند رہیں گے.لیکن یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ اس کے فضلوں کے بغیر ممکن نہیں ہے.پس اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے طریقہ بتایا ہے اس پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار پہلے سے بڑھائیں.اس میں بڑھیں.نیکیوں میں پہلے سے بڑھیں اور اعمال صالحہ بجالانے کی کوشش کرتے چلے جائیں.نیکیوں میں نظام جماعت کی اطاعت بھی ایک اہم بات ہے.خلافت کی اطاعت میں نظام جماعت کی اطاعت بھی ایک اہم بات ہے.اس کے بغیر نہ نیکیاں ہیں اور نہ عہد کی پابندی ہے.نظام جماعت بھی خلافت کو قائم کرتا ہے اس لئے اس کی پابندی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو توفیق دے کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ سے قریب تر ہوتا چلا جائے.27 مئی کو اللہ تعالیٰ نے ایک یہ خوشخبری بھی ہمیں دی.بڑی دیر سے اٹلی (Italy) میں مشن و مسجد کے لئے کوشش ہورہی تھی اس کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی.تو اب عین 27 مئی کو کونسل نے بُلا کے ایک ٹکڑہ زمین کا اس مقصد کے

Page 239

خطبات مسرور جلد ششم 219 خطبہ جمعہ فرموده 30 مئی 2008 لئے دیا ہے.سودا ہو گیا ہے.اس ملک میں جہاں عیسائیت کی خلافت اب تک قائم ہے اللہ تعالیٰ نے خلافت احمد یہ کے سو سال پورے ہونے پر ایک ایسی جگہ عطا فرمائی ہے جہاں انشاء اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کے غلاموں کا ایک مرکز قائم ہوگا اور ایک مسجد بنے گی جہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان ہوگا.انشاء اللہ.اسی طرح ہمارا یہ جوفنکشن تھا جو یہاں ہوا ، اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ باوجود مولویوں کے شور کے پاکستان میں بھی جماعتوں نے اس میں شمولیت اختیار کی اور اپنے طور پر بھی جو ان کے پروگرام تھے وہ پورے کئے.گو کہ اس کے بعد آج یا کل پابندی لگ گئی.لیکن جماعت کو وہاں اُس طرح سے محرومی کا وہ احساس نہیں رہا جس طرح 1989ء میں صد سالہ جو بلی پر ہوا تھا کہ ساری تیاریوں کے باوجود حکومت کی طرف سے ایک آرڈینینس آیا تھا جس کے تحت جماعت احمد یہ کسی بھی قسم کا خوشی کا پروگرام نہیں کر سکتی تھی.نہ ہی بچوں میں ارد گر د مٹھائی اور ٹافیاں تقسیم کر سکتی تھی.یہ حال تھا اس ملک کا اور ہے اور اس وقت فکر یہی تھی کہ کیونکہ اب بھی پنجاب میں وہی حکومت تھی جو اس زمانے میں تھی.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وہ دور گزر گیا اور 27 مئی کا جلسہ بھی جس طرح منانا تھا منایا، دوسرے فنکشن بھی کئے.کھانے اور مٹھائی وغیرہ بھی تقسیم کرنی تھی وہ بھی ہوگئی.حال ان کا یہ ہے، ان مولویوں کی عقل کا تو یہ حال ہے کہ یہ کیونکہ خاموشی سے ہو گیا تھا زیادہ شور نہیں تھا اس لئے بعضوں کو پتہ بھی نہیں لگا اور ان کا خیال تھا کہ شاید حکومت نے روک دیا ہے.یا حکومت کی طرف سے اعلان بھی اخباروں میں آگئے لیکن اتنی تھی نہیں ہوئی.بہر حال مولویوں نے یہ بیان دیئے کہ قادیانیوں کو یہ فنکشن نہیں کرنے دیا گیا اور بچوں کو مٹھائی تقسیم نہیں کرنے دی گئی اور خوشی نہیں منانے دی گئی تو یہ حکومت نے بہت اہم کام سرانجام دیا ہے اور امت مسلمہ کو اس بات سے تباہی سے بچا لیا ہے.امت مسلمہ کی تباہی صرف بچوں کو مٹھائی کھلانے سے ہوئی تھی.یہ تو ان کی عقلوں کا حال ہے اور نہیں جانتے کہ اس وجہ سے خود تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہے ہیں.اس لئے پاکستان کے لئے بھی دعا کریں.ان ملاؤں کو تو شاید عقل نہیں آئی لیکن جو عوام ہیں ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھے راستے پر چلائے.سیاستدان جو وہاں کے ہیں وہ صرف اپنی خود غرضیوں میں نہ پڑے رہیں بلکہ حکومت کا حق ادا کرنے والے ہوں.غریبوں کا حق ادا کرنے والے ہوں.اس وقت جو پاکستان کے حالات ہیں وہ انتہائی ناگفتہ بہ ہیں.خزانہ خالی ہے.کھانے کو کچھ نہیں لیکن اس کے باوجو دلوٹ مار مچی ہوئی ہے.قدم قدم پر رشوت لی جاتی ہے.عوام بھوکے مر رہے ہیں اُس کی کوئی پرواہ نہیں.صرف اپنی کرسیوں کی آج کل ان کو پرواہ پڑی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ عوام پر بھی رحم کرے.تو جہاں ہم خوشی مناتے ہیں دنیا کے دوسرے احمدی بھی خوشی منا رہے ہیں، خلافت جو بلی بھی منارہے ہیں، شکرانے کے طور پر دوسرے پروگرام کر رہے ہیں، پاکستان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ ان غریبوں کی حالت بھی سنوارے.

Page 240

220 خطبہ جمعہ فرموده 30 مئی 2008 خطبات مسرور جلد ششم اگر حکمران ظالم ہیں تو ان سے بھی نجات دلائے اور ان کو صحیح راستے پر چلائے.مسلمان ملکوں کے لئے خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو مسیح محمدی کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.اور عموما دنیا کے لئے بھی دعا کریں کہ جس طرح وہ تباہی کی طرف جارہی ہے اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں سے انہیں محفوظ رکھے اور حقیقت پہچاننے کی توفیق دے تا کہ دنیا ایسے نظارے دیکھے جہاں صرف اور صرف خدا کی حکومت ہو اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا لہراتا ہو.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 25 مورخہ 20 جون تا 26 جون 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)

Page 241

خطبات مسرور جلد ششم 221 (23) خطبه جمعه فرموده 6 جون 2008 ہوں.فرمودہ مورخہ 06 جون 2008ء بمطابق 06 / احسان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رزاق ہے.مختلف اہل لغت نے اس صفت کے جو معنی کئے ہیں ، وہ میں بیان کرتا علامہ جمال الدین محمد کی لغت لسان العرب ہے ، وہ اَلرَّازِقِ وَالرَّزَّاق کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کیونکہ وہی تمام مخلوق کو رزق دیتا ہے اور وہی ہے جو مخلوقات کو ظاہری اور باطنی رزق عطا کرتا ہے.أَقْرَبُ الْمَوَارِد ایک لغت کی کتاب ہے، اس میں بھی الرزاق کے تحت لکھا ہے کہ لفظ رزاق صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، غیر اللہ کے لئے استعمال نہیں ہوتا.اسی طرح مفردات امام راغب میں یہ لکھا ہے کہ رزاق صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی بولا جاتا ہے.امام راغب عموماً قرآنی آیات کی روشنی میں اپنی لغت کی بنیادر رکھتے ہیں، اسی بنیاد پر معنی بیان کرتے ہیں.بہر حال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رزاق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے معنی کیا ہیں؟ مختلف اہل لغت نے کیا معنی کئے ہیں.عموماً ہم یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، ہماری زبان میں استعمال ہوتا ہے، اُردو میں بھی ، پنجابی میں بھی ، لیکن بڑے محمد ود معنوں کے لحاظ سے جبکہ اس کے معنوں میں بڑی وسعت ہے.لفظ رزق کے تحت امام راغب نے اس کے تین معنی بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ رزق مسلسل ملنے والی عطا کو کہتے ہیں خواہ وہ دنیا کی عطا ہو یا آخرت کی عطا ہو.دوسرے یہ کہ کبھی حصہ“ کے لئے رزق استعمال ہوتا ہے.حصہ میں اچھائی بھی ہوسکتی ہے اور برائی بھی ہو سکتی ہے.تیسرے یہ کہ کبھی خوراک کو بھی رزق کہتے ہیں جو پیٹ میں جاتی ہے اور غذا کا کام دیتی ہے.پھر لسان العرب کے مطابق ہر اس چیز کو رزق کہتے ہیں جس سے فائدہ اٹھایا جا تا ہو.اس کا مطلب عطا کرنا بھی ہے.بارش کو بھی رزق کہتے ہیں.اقْرَبُ الْمَوَارِد کے مطابق ہر وہ چیز جس سے فائدہ اٹھایا جائے وہ رزق ہے تنخواہیں وغیرہ یہ سب رزق میں آتی ہیں.

Page 242

خطبات مسرور جلد ششم 222 خطبه جمعه فرموده 6 جون 2008 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں رزق کا جو لفظ استعمال کیا ہے ، وہ چند آیات پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ ہود میں فرماتا ہے کہ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِى الْاَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلِّ فِي كِتب مُّبِينٍ (سورۃ ھود :7) کہ زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ پر ہے اور وہ اس کا عارضی ٹھکانہ بھی جانتا ہے اور مستقل ٹھہرنے کی جگہ بھی.ہر چیز ایک کھلی کھلی کتاب میں ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے زور دار طریقہ سے یہ اعلان فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اس دنیا میں موجود ہر جاندار کو رزق مہیا کرتا ہے.ہر چرند پرند بلکہ کیڑے مکوڑے اور ایسے چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی جنہیں کھانے کی حاجت ہے اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں خوراک مہیا کرتا ہے.زمین میں ہزاروں لاکھوں قسم کے کیڑے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے اس زمین کے اندر سے خوراک مہیا کر دی ہے.پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کا رزق مہیا کرنا کہ ایسے بھی کیڑے ہیں جن کا گو کہ تحقیق سے پتہ چل گیا ہے، اللہ تعالیٰ جنہیں رزق مہیا کرتا ہے، خوراک مہیا کرتا ہے اور کئی ایسے ہیں جن کے بارہ میں ابھی انسان اندھیرے میں ہے کہ کس طرح انہیں خدا تعالیٰ رزق مہیا کرتا ہے.پھر انسان فصلیں اگاتا ہے.مختلف قسم کی فصلیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں.ان کا اگر ایک حصہ انسان اپنی خوراک کے لئے استعمال کرتا ہے تو دوسرا حصہ دوسرے جانوروں کے کام آ جاتا ہے.غرض کہ ہر ایک کو رزق مہیا کرنے والا خدا ہے.اور صرف مادی رزق نہیں جو اس مادی زندگی کے لئے ضروری ہے بلکہ جیسا کہ لغت میں ہم نے دیکھا ہر قسم کی عطا چاہے وہ دنیا کی ہو یا آخرت کی ، رزق کہلاتا ہے اور آخرت کا رزق صرف انسان کے لئے ہے جو اشرف المخلوقات ہے.اور آخرت کے رزق کی بنیا د روحانیت ہے اور نیک اعمال کرنا اور نیک اعمال کی وجہ سے نیک جزا اس دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی اس کو ملتی ہے، جس کی انتہا آخرت میں جا کر ہوتی ہے.اور اس کے لئے ، اس آخرت کے رزق کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں سامان بہم پہنچائے ہیں.وہ رزق بھی اللہ تعالیٰ یہاں مہیا فرماتا ہے جو روحانی نشو و نما کا باعث بنے.اس کے لئے انبیاء آتے ہیں ، آتے رہے تا کہ وہ روحانی رزق بھی مخلوق کو دیتے رہیں اور آخر میں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ایسا بہتر روحانی رزق ہمیں عطا فرمایا جو ہمیشہ کے لئے ہے.نہ اس کے باسی ہونے کا خطرہ ہے اور نہ ختم ہونے کا خطرہ ہے.اس آیت میں رزق کے بارے میں بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ عبادت اور نیک اعمال کی طرف توجہ دلا رہا ہے اور واضح کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ہی تمہارا لوٹنا ہے.جہاں اس دنیا میں جو بہترین روحانی رزق حاصل کرنے والے تھے، وہ لوگ اس کے اور بھی اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں گے جنہوں نے نیک اعمال بجالائے ہوں گے.مادی رزق اور تمام جانداروں کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ مادی رزق پر غور کرنے والا جب اس بات کے

Page 243

خطبات مسرور جلد ششم 223 خطبہ جمعہ فرموده 6 جون 2008 مانے پر مجبور ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اصل رازق ہے.اور اس عارضی زندگی کے لئے جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر اس قدر مہربان ہے تو جو ہمیشہ کی زندگی ہے اس کے لئے رزق کیوں مہیا نہیں کرے گا.پس اللہ کی عبادت اور نیک اعمال بھی ایسا ہی رزق ہیں جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے ضروری ہیں اور انسان کو جو اشرف المخلوقات ہے اور مخلوق میں صرف اسی کے ساتھ دائمی اور آخری زندگی کا وعدہ ہے تو اسے اپنی روحانیت کی طرف اس وجہ سے توجہ دینی چاہئے.ایک مومن کے لئے قرآن کریم نے کھول کر رزق کے حصول کے ذریعے بتائے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ رزق معیار کے لحاظ سے بھی اور مقدار کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہمیں بھیجا ہے اور انسانوں کو قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارے لئے روحانی رزق اُتارا گیا ہے اس کی قدر کرو کیونکہ یہ نا قدری جب حد سے بڑھتی ہے تو پھر بعض دفعہ اس دنیا میں ہی انسان مادی رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتا ہے کہ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ امِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيْهَا رِزْقُهَارَ غَدًا مِّنْ كُلّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللهِ فَاذَا قَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُوْنَ (نحل: 113) اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو بڑی پُر امن اور مطمئن تھی.اس کے پاس ہر طرف سے اس کا رزق با فراغت آتا تھا.پھر اس کے مکینوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا اُن کاموں کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے.اب یہ جو مثال جو دی گئی ہے، یہ ملکہ کی مثال ہے.باوجود اس کے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں ہی رزق مہیا کرنے والی تھیں.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے کئے تھے آنحضرت ﷺ کے انکار کی وجہ سے ان پر بھوک اور سختی کے دن آئے.ایک وقت ایسا آیا کہ بھوک سے بے چین ہو گئے.جب تک آنحضرت ﷺ ان میں رہے اُن کی یہ حالت نہ ہوئی.ہر طرف سے رزق مکہ میں آتا تھا.لیکن آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے بعد ایک دفعہ ملکہ میں ایسا قحط پڑا کہ سب کو زندگی کے لالے پڑ گئے اور ابوسفیان جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کا جانی دشمن تھا آنحضرت ﷺ کے پاس مدینہ میں آیا اور بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ خدا کے حضور دعا کریں کہ ہماری بھوک اور افلاس اور خوف اور قحط کی حالت کو اللہ تعالیٰ ختم کر دے.کہنے لگا کہ کیا آپ اپنے بھائیوں کی دل میں ہمدردی نہیں رکھتے کہ انہیں اس طرح خوف اور بھوک کی حالت میں مرجانے دیں گے! آنحضرت ﷺ تو محسن انسانیت تھے.آپ تو محبت اور ہمدردی کے پیکر تھے.آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم ہمارے دشمن ہو تم نے مسلمانوں کو جس بے دردی سے ظلم کا نشانہ بنایا ہے تم اس بات کے سزاوار ہو کہ تمہارے سے یہ سلوک کیا جائے بلکہ آپ کا نرم دل فوراً اہل مکہ کے لئے ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو گیا اور آپ نے ان کے قحط کے حالات ختم ہونے کے لئے

Page 244

خطبات مسرور جلد ششم 224 خطبه جمعه فرموده 6 جون 2008 دعا کی.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وہ حالات ختم ہوئے.تو دشمن یہ جانتا تھا کہ آپ سچے ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کے پاس آنا اور دعا کی درخواست کرنا.اور یہ بھی جانتا تھا کہ جس روحانی رزق کو مہیا کرنے کے آپ دعویدار ہیں مادی رزق بھی اُسی خدا سے وابستہ ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے.لیکن پھر بھی مخالفت سے باز نہیں آئے اور بعد میں اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے سامان پیدا فرمائے اور سب زیر نگیں ہو گئے.اس زمانے میں بھی رزق کی کمی تھی.آج بھی یہ دنیا کو سوچنا چاہئے کہ آج کل بھی خوراک کی کمی اور مہنگائی کا شور ہے.غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر یہ حالات پرانے زمانے میں ہو سکتے تھے تو اب نہیں ہو سکتے ؟ کیا یہ روحانی رزق کی طرف تو عدم توجہ نہیں؟ جس کی وجہ سے یہ حالات ہیں.امریکہ میں بھی جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے، معاشی لحاظ سے مضبوط سمجھا جاتا ہے اپنی خوراک کی کمی اور معاشی گراوٹ کا شور پڑ گیا ہے.وہ ان حالات میں اس کو بہتر نہیں کر سکا.وہاں بھی مہنگائی کا شور مچا ہوا ہے.باوجود اس کے کہ ایسی مختلف قسم کی نئی نئی فصلیں آگئی ہیں جو کھانے والی خوراک کی فصلیں ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے کی نسبت دس سے نہیں گنا زیادہ پیداوار دیتی ہیں.پھر بھی امریکہ سمیت آج کل دنیا میں ہر طرف اس کی کمی کا شور ہے.چاول کی کمی کا رونا رویا جارہا ہے.دوسری چیزوں کی مہنگائی کا رونا رویا جا رہا ہے.یہ سب اس لئے ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے پانی نہ بر سے تو فصلیں بھی نہیں ہوسکتیں اور جب دنیا اللہ تعالیٰ سے دور ہٹ جائے بلکہ بغاوت پر آمادہ ہو جائے تو یہ جھٹکے لگتے ہیں.ایک مسلمان کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھول کر بیان کر دیا ہے کہ رزاق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کی طرف توجہ دینا جہاں تمہارے روحانی رزق اور آخرت کے رزق میں اضافے کا باعث بنے گا ، وہاں تمہارے اس دنیا کے مادی رزق بھی اس سے مہیا ہوں گے.پس مسلمانوں کو تو دوسروں سے بڑھ کر اپنی حالتوں کے جائزے لینے چاہئیں اور غور کرنا چاہئے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ اپنے رزاق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے کہ وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ.وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيمُ (العنكبوت: 61 ) اور کتنے زمین پر چلنے والے جاندار ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے پھرتے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی.اور وہ خوب سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں اور دین پر قائم رہنے والوں کو ہمیشہ یہ یا درکھنا چاہئے کہ جو بھی حالات ہو جائیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہتے ہوئے اُن احکامات پر عمل کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں.یہ خوف نہ رکھو کہ اگر ہم نے دنیا داروں کی بات نہ مانی، اگر بڑے لوگوں یا بڑی حکومتوں کی پیروی نہ کی تو ہمارے رزق کے دروازے بند ہو جائیں گے.اس لئے مومن کا کام یہ ہے کہ ہمیشہ

Page 245

225 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جون 2008 خطبات مسرور جلد ششم خدا تعالیٰ کو یا در کھے.مومن کا کام یہ نہیں کہ کسی بھی موقع پر کمزوری دکھائے.اس خوف میں رہے کہ ان لوگوں کی جن سے میرا رزق وابستہ ہے اگر ہاں میں ہاں نہیں ملاؤں گا تو اپنی نوکری سے، اپنے رزق سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا.یا قومی سطح پر اگر لیں تو یہ خوف کسی مسلمان حکومت کو دامنگیر نہ ہو کہ ہماری تجارتیں کیونکہ اب فلاں ملک سے وابستہ ہیں یا ہمارے مختلف مفادات فلاں ملک سے وابستہ ہیں، اس لئے مسلمان ، مسلمان حکومتوں کو دوسروں کی خاطر دھوکہ دیں جو آج کل ہو رہا ہے.اللہ تعالی بڑا واضح فرماتا ہے کہ دین کی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ تو انفرادی طور پر اور نہ ہی ملکی سطح پر مومنین کوکسی دوسرے کے زیر اثر نہیں آنا چاہئے.یہ خوف نہیں رکھنا کہ ہمارا رزق اُس جگہ سے یا اُس ملک سے وابستہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایمان والوں کو ، مومنین کو، غیرت رکھنے والوں کو رزق مہیا کرتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اپنی دوسری مخلوق کے لئے رزق مہیا کر سکتا ہے تو مومنوں کے لئے کیوں نہیں کر سکتا.پس اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جس نے سورج اور چاند کو اپنی مخلوق کی خدمت پر لگایا ہوا ہے، کیا اس میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے خالص بندوں کے لئے رزق کے سامان مہیا فرما سکے.پس ہمیشہ اس بات کو یا در کھو که اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ (العنكبوت : 63) یعنی کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے.پس دنیاوی ذریعوں پر اپنے رزق کا انحصار نہ سمجھو.رزق دینا اور روکنا اللہ تعالیٰ پر منحصر ہے.جو انسان دنیاوی ذریعوں پر انحصار کرتا ہے اس کا حال تو آج کی دنیا دیکھ رہی ہے.ان امیر ملکوں میں رہنے والوں میں بھی رزق کی تنگی کا شور مچنا شروع ہو گیا ہے.اگر کوئی بھی بڑے سے بڑا اور امیر ملک ہی رزاق ہو تو پھر آج ان ملکوں میں رزق کی تنگی کی چیخ و پکار کیوں ہوگی.پس ایک مومن کو چاہئے کہ ہمیشہ اس طرف نظر رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے.اگر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر توجہ دیتار ہے، اس کی عبادت کرتا رہے اور اس کے روحانی رزق سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتا رہے تو پھر اسے کوئی فکر نہیں.اللہ تعالیٰ مومنوں کی دنیاوی ضرورتیں بھی پوری کرتا رہتا ہے اور قناعت بھی پیدا کرتا ہے.پس جو حقیقی رازق ہے اس کی طرف ہمیشہ ایک مومن بندے کی نظر رہنی چاہئے نہ کہ انسانوں کی طرف.اس زمانے میں تو خاص طور پر خدا تعالیٰ کی صفات کا ادراک بندوں کو ہونا چاہئے کیونکہ یہ زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اس میں ہی حقیقی رب کی پناہ میں آنے کی دعا سکھائی گئی ہے.حقیقی مالک کی پناہ میں آنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور حقیقی معبود کی پناہ میں آنے کی دعا سکھائی گئی ہے.کیونکہ وسیع رابطوں اور ایک دوسرے پر انحصار اور کم سے کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جانے اور اپنے تمام تر ساز و سامان اور طاقتوں کے اظہار کے ساتھ پہنچنے کی وجہ سے غریب قومیں اور غریب لوگ امیر قوموں اور امیر لوگوں کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں.یا سمجھنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور مومن بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں رب ہوں.کوئی دنیا کا انسان یا ملک

Page 246

خطبات مسرور جلد ششم 226 خطبه جمعه فرموده 6 جون 2008 تمہارا رب نہیں.میں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں اور میں ہی تمہیں یہ مادی رزق بھی مہیا کرتا ہوں.پس اس کے حاصل کرنے کے لئے میں جو معبود حقیقی ہوں میری پناہ میں آؤ اور اس کے صحیح فہم و ادراک کے لئے میرے بھیجے ہوئے روحانی پانی سے فیض پانے والے روحانی رزق کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کو حاصل کرنے والے بنو.یہی چیز تمہیں دنیا اور آخرت کی نعماء کا حقدار بنائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ” جب انسان حد سے تجاوز کر کے اسباب ہی پر بھروسہ کرے اور سارا دارو مدار اسباب پر ہی جائھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور پھینک دیتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہوتا تو میں بھوکا مر جاتا.یا اگر یہ جائیداد یا فلاں کام نہ ہوتا تو میرا برا حال ہو جاتا.فلاں دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی.یہ امور اس قسم کے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اور اور اسباب و احباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے بکلی دور جا پڑے.یہ خطرناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (الذریت : 23 ) اور فرمایا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: 4 ) اور فرمایا مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 3-4) اور فرمایا وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِيْنَ (الاعراف: 197 ).آپ فرماتے ہیں: " قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور توکل کرتا ہے تو گویا خدا تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرنا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دینا ہے اور ایک اور خدا اپنے لئے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے.چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے.اس سے شرک کی طرف گو یا قدم اٹھاتا ہے.جو لوگ حکام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے.وہ ان کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو تو حید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دور پھینک دیتا ہے.پس انبیاء یھم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مال کار تو حید پر جاکھہرے.وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزتیں ، سارے آرام اور حاجات براری کا متکفل خدا ہی ہے.پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دوسروں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے.اس لئے مقدم ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو.رعایت اسباب کی جاوے.اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے.اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اس کے ہاتھ میں ہے.یعنی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.محسن حقیقی وہی ہے.ذرہ ذرہ اسی سے ہے.کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا.

Page 247

خطبات مسرور جلد ششم 227 خطبہ جمعہ فرموده 6 جون 2008 جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کرلے تو وہ موحد کہلاتا ہے.غرض ایک حالت تو حید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بنائے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہر کرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے“.( ملفوظات جلد دوم صفحه 57-58 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یعنی ظاہری اسباب بھی ہوں لیکن تو کل اللہ تعالیٰ پہ ہو.رزاق اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھا جائے.یہ بنیادی چیز ہے.پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقِ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ ايْتُ لِقَوْمٍ يَعْقِلُوْنَ (الجاثیہ: 6) اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں اور اس بات میں کہ اللہ آسمان سے رزق اتارتا ہے.پھر اس کے ذریعہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے اور ہواؤں کے رخ پلٹ پلٹ کر چلانے میں عقل کرنے والی قوم کے لئے بڑے نشانات ہیں.اس آیت میں مسلمانوں کے لئے خصوصاً یہ پیغام ہے کیونکہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ قرآن کریم پر ایمان لائے ہیں کہ جس طرح ہم روز رات اور دن کے آنے کو دیکھتے ہیں.جو کام اور ترقی ہم دیکھتے ہیں دن کی روشنی میں صد الله ہوتی ہے وہ رات میں نہیں ہوتی اور اسی طرح روحانی دنیا میں بھی رات اور دن کا دور آتا رہتا ہے.آنحضرت می سے پہلے ایک ظلمات کا دور تھا، اندھیرے کا دور تھا جس کو آپ نے آ کر روشن کیا.اور اللہ تعالیٰ سے آخری شریعت پا کر یہ اعلان فرمایا کہ اب یہ روشن کتاب اور کامل شریعت تا قیامت دلوں کی روشنی کا باعث بنے گی.لیکن ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بھی الہی تقدیر ہے کہ میرے بعد ایک دور ظلمت کا آئے گالیکن اس ظلمت اور اندھیروں کے دور میں بھی اس کامل شریعت کی روشنی مختلف جگہوں پر لیمپ اور دیوں کی صورت میں جلتی رہے گی.ایسے لوگ ہوں گے جو روشنی بکھیرتے رہیں گے.اور پھر اس ظلمت کے دور سے آپ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح محمدی کے آنے سے پھر تمام دنیا کا روشن ہونا تھا.اس کے بعد پھر وہ رزق اترنا تھا جس نے مُردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرنا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے سے پھر وہ پانی آیا جس نے مُردہ زمین کو زندہ کیا اور آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آپ وہ نور لائے جس سے دن دوبارہ روشن ہوا، تاریکیاں دور ہوئیں.ایک شعر میں اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.کہ ؎ میں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار پس اب یہ نور اور یہ پانی آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے.اس سے فیض پانا جہاں ہر مسلمان کا فرض ہے ، اس پر عمل کرنا بھی ہمارا فرض ہے.اور اتنا ہی فرض ہے جتنا آ نحضرت یہ ایمان لانا کیونکہ آپ نے اس آنے والے مہدی ومسیح کو اپنا سلام پہنچانے کا حکم فرمایا تھا.

Page 248

خطبات مسرور جلد ششم 228 خطبه جمعه فرموده 6 جون 2008 یہاں ایک بات اور بھی جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ اہل لغت نے بارش کو بھی رزق کہا ہے اور اس کی تائید میں یہی سورۃ جاثیہ کی جو آیت میں نے پڑھی ہے وہ پیش کرتے ہیں تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں یہ پانی اتارا ہے جس کے بعد لمبی زندگی اور روشنی ہے.رزق کے ذرائع ہیں.آنحضرت ﷺ کا نور دنیا میں پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو مبعوث فرمایا ہے.پس اب دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے یہی رزق اتارا ہے جس سے روحانی اور مادی بھوک ختم ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے.اس کے لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ دنیا تک پھیلائیں اور پہنچائیں.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا كَذلِكَ الْخُرُوجُ (ق:12) که بندوں کے لئے رزق کے طور پر اور ہم نے اس یعنی بارش کے ذریعہ ایک مردہ علاقے کو زندہ کر دیا اسی طرح خروج ہو گا.یہاں بارش کی مثال دی گئی ہے کہ جس طرح بارش کے آنے سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے.ہر طرف سبزہ نظر آنے لگتا ہے بلکہ بعض دفعہ بظاہر ریگستان نظر آنے والے علاقے اس طرح سرسبز ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی بنجر علاقے ہیں.پاکستان میں بھی سندھ میں تھر کا علاقہ ہے.وہاں خشک موسم میں ریت اڑتی ہے اور اگر بارشیں ہو جائیں تو وہی ریت کے ٹیلے سرسبز پہاڑ نظر آ رہے ہوتے ہیں.اچانک ایسی تبدیل ہوتی ہے، حیرت ہوتی ہے انہیں دیکھ کے کہ یہ سرسبزی اس زمین سے کس طرح پیدا ہوسکتی تھی.وہی علاقے جہاں لوگوں کی فاقوں تک نوبت پہنچی ہوتی ہے بارش ہوتے ہی ان کی فصلیں لہلہا رہی ہوتی ہیں اور ان کے رزق کی فراخی ہو جاتی ہے.اب ہر عقل والا انسان جب سوچتا ہے، چاہے وہ کسی مذہب کا ہو تو اس کے منہ سے بے اختیار اللہ تعالی کی تعریف ہی نکلتی ہے، سبحان اللہ نکلتا ہے.گو ان الفاظ میں نہ سہی.اس کے رزاق ہونے کی صفت پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے.اگر مومن ہے تو اور بھی زیادہ اس کا ادراک پیدا ہوتا ہے تو کیا یہ زمین جو باوجود خشکی کے ان جڑی بوٹیوں کے بیجوں کو اپنے اندر سمیٹ کے رکھتی ہے اور وقت آنے پر وہ بوٹیاں باہر نکلتی ہیں، یہ کسی بڑے آدمی یا حکومت نے محفوظ رکھا ہوتا ہے؟ کیا بارش برسانا کسی بھی بڑی حکومت کا کام ہے؟ پس یہ تمام چیزیں ایک مومن کے لئے غور کرنے والی ہیں کہ یہ تمام رزق خدا ہی مہیا فرماتا ہے.وقتی طور پر ہر ایک اور ہر مذہب والا یہی کہتا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ خدا نے رزق مہیا فرمایا ہے لیکن بعد میں بھول جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ بندوں کو یاد کروا رہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے زندگی نکالتا ہے اسی طرح انسان کے اس دنیا سے جانے کے بعد پھر اسے زندہ کرے گا.آخرت کی طرف توجہ بھی رکھنا جہاں حساب کتاب بھی ہوگا ، حد سے بڑھی ہوئی حرکتوں اور نبیوں کے انکار اور ان کی جماعت پر ظلموں کی وجہ سے باز پرس بھی ہوگی.پس اگر آخرت میں اچھے رزق کی خواہش رکھتے ہو، مسلمان کہلاتے ہوئے یہ خواہش رکھتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں ، ہمیں اچھا رزق ملے، بعد میں ہمارے ساتھ نرم سلوک ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر اس دنیا میں بھی

Page 249

خطبات مسرور جلد ششم 229 خطبه جمعه فرموده 6 جون 2008 نیک اعمال کرو.کیونکہ یہی اعمال، یہی نیکیاں اور یہی کمایا ہوا رزق آخرت میں کام آنا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹتے ہوئے ہمیشہ ان راہوں پر چلنے کی توفیق دے جو اس کی رضا کی راہیں ہیں اور ان لوگوں کو بھی عقل اور سمجھ دے جو حق کو نہیں پہچانتے اور اللہ تعالیٰ کے اشاروں کو نہیں سمجھتے.دنیا میں مختلف جگہوں پر احمد یوں پر ظلم پر کمر بستہ ہیں.اپنی رضا کی راہوں اور نیک اعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَأمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا.لَا نَسْتَلْكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوى (طه : 133) اور اپنے گھر والوں کونماز کی تلقین کرتارہ اور اس پر ہمیشہ قائم رہ.ہم تجھ سے کسی قسم کا رزق طلب نہیں کرتے.ہم ہی تو تجھے رزق عطا کرتے ہیں اور نیک انجام تقویٰ ہی کا ہوتا ہے.پس اس روحانی رزق کا جو بہترین حصہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اتارا ہے عبادت اور خاص طور پر نماز میں ہیں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی ہے.ہمارا کام ہے کہ اپنے گھروں میں بھی اس بارہ میں اب خاص اہتمام کریں.خدا اور اس کے رسول کی حکومت قائم کرنے اور خلافت کے انعام سے فیضیاب ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور پھر جو اللہ تعالیٰ نے نمازوں کے ساتھ رزق کا ذکر فرمایا ہے تو اس کی اہمیت بھی اس زمانے میں بہت زیادہ ہے.یہی زمانہ ہے جس میں رزق کے لئے ایسے ایسے طریقے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بعض دفعہ حلال اور جائز نہیں ہوتے.ایسے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے خلاف ہیں.پس اپنے نیک انجام اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث ہونے کے لئے قیام نماز کی ضرورت ہے اور رزق حلال کی ضرورت ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.بلکہ نماز پر قائم رہنے والوں یعنی خالص ہو کر عبادت کرنے والوں کو رزق حلال کی طرف متوجہ رہنے کی بھی ضمانت ہے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہم تم سے رزق طلب نہیں کرتے.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال اٹھایا کہ ایک طرف تو چندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کہتا ہے.مالی قربانیوں کے لئے کہا جاتا ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ کہ رہا ہے کہ تم سے کسی قسم کا رزق طلب نہیں کرتے تو اس کا کیا جواب ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ چندہ جولیا ہے وہ بھی اس نیکی کی وجہ سے کئی گنا کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوٹانے کا وعدہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنا بڑھا کر دیتا ہے کہ جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.پس خدا تعالیٰ جو لیتا ہے وہ اس لئے نہیں کہ اسے ضرورت ہے بلکہ اس لئے کہ تمہاری اس نیکی کی وجہ سے کئی گنا بڑھا کر وہ تمہیں واپس کرے اور کیونکہ یہ سب عمل تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے تقویٰ کے حصول کے لئے کئے جاتے ہیں اس لئے اس کا انجام اس دنیا میں بھی نیک ہے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی جنت کے وارث بننے کا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلاتے ہوئے ہمارے ہر عمل کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی نیک انجام کے حاصل کرنے والا بنائے اور اپنے بہترین رزق سے ہر آن ہمیں نو از تار ہے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 26 مورخہ 27 جون تا 3 جولائی 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 8

Page 250

خطبات مسرور جلد ششم 230 (24) خطبه جمعه فرمودہ 13 جون 2008 فرمودہ مورخہ 13 رجون 2008ء بمطابق 13 را حسان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ کے مضمون کو ہی آگے چلاتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے حوالہ سے رزق اور صفت رزاق کے بارے میں آج بھی کچھ کہوں گا.میں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہی ہوں جو تمہیں رزق مہیا کرتا ہوں اور نہ صرف انسانوں کو بلکہ ہر قسم کی مخلوق کو جسے بھی کھانے کی حاجت ہے.اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے، بحیثیت اشرف المخلوقات اسے ماڈی رزق کی بھی ضرورت ہے اور روحانی رزق کی بھی ضرورت ہے.ایک مومن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور اس کے احکامات پر عمل کروہ تقوی کو مد نظر رکھو، تو ایسے ذریعوں سے اسے رزق ملتا رہے گا جس کا ایک غیر مومن تصور بھی نہیں کر سکتا.کئی خط مجھے احمدیوں کے ملتے ہیں جن میں مختلف لوگوں نے مختلف ملکوں میں بسنے والے احمدیوں نے اپنے اپنے تجربات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کیا ہوتا ہے کہ کس کس طرح اللہ تعالیٰ ان کے کاروباروں میں برکت ڈال کر انہیں نواز رہا ہے.بعض دفعہ ایک کام کے ہونے یا کسی کاروبار میں اس قدر منافع ہونے کی امید بھی نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ غیر معمولی فضل فرماتا ہے اور توقع سے کئی گنا زیادہ منافع ہو جاتا ہے.اور پھر لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہ بات ہمارے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے.حقیقت میں ایک حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس پر فضل فرمائے تو فوراً اس کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے.وہ شکر گزار بنتا ہے اور اسے بننا چاہئے کیونکہ ایک مومن کو اس بات کا ادراک ہے کہ وَمَنْ يَشْكُرُ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ (لقمان: 13) یعنی جو بھی شخص شکر کرتا ہے اس کے شکر کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اور یہی ایک مومن کی نشانی ہونی چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنی اولاد کے لئے رزق کی دعا کی تو ساتھ ہی یہ عرض کی کہ وہ تیرے شکر گزارر ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ملتا ہے وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْن ( ابراهيم : 38) یعنی انہیں پھلوں میں سے رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بنیں.پس کاروبار میں برکت، تجارتوں میں برکت، زراعت میں برکت، یہ سب پھل ہیں جو رزق میں اضافے کا

Page 251

خطبات مسرور جلد ششم 231 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 باعث بنتے ہیں اور جب مؤمن ان فضلوں کو دیکھتا ہے تو شکر گزاری میں بڑھتا ہے اور یہ بات اس کے ایمان میں تو اضافہ کا باعث بنتی ہے.اس کے تقویٰ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے اور بنی چاہئے.جب ایک مومن ایمان اور تقویٰ اور شکر گزاری میں بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید نعمتوں سے نوازتا ہے.اس کے پھلوں میں مزید برکت پڑتی ہے.اس کے رزق کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید بڑھاتا ہے.یہ سلوک اللہ تعالی انہی سے فرماتا ہے جو ایمان میں بڑھے ہوئے ہیں یا بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.تو یہ رزق کا اضافہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے کہ کسی نے لکھا کہ میرے رزق میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو گیا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہے کہ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ (ابراہیم : 8) یعنی اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.ایک غیر مومن کے لئے تو کہا جا سکتا ہے کہ قانون قدرت کے تحت اس کی محنت کو اللہ تعالیٰ نے پھل لگایا لیکن ایک مومن کے لئے اس سے زائد چیز بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور ایمان اور تقویٰ میں بڑھنے کے ساتھ جب محنت ہو تو کئی گنا زیادہ پھل لگتا ہے اور پھر صرف محنت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پھر مومن کو اگر اس کی محنت میں کوئی کمی رہ بھی گئی ہو تو اپنے فضل سے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے زائد بھی عطا فرماتا ہے یا اس کمی کو پورا فرماتا ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اُس کا خدا تعالیٰ پر ایمان ہے تو خدائے تعالیٰ رزاق ہے.اس کا وعدہ ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کا ذمہ وار میں ہوں.پس یہ ہے اس خدا کا اپنے بندوں سے سلوک جو رزاق ہے کہ تھوڑی محنت میں بھی برکت ڈال دیتا ہے.یا بعض دفعہ غیر مومن کو یہ بتانے کے لئے ، مومن کی انفرادیت قائم کرنے کے لئے ، ایک جیسی محنت کے باوجود مومن کے کام میں برکت ڈال دیتا ہے.میں ذاتی طور پر بھی اس بات کا تجربہ رکھتا ہوں اور کئی احمدی بھی مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری فصل ہمارے غیر از جماعت ہمسائے سے زیادہ نکلتی ہے تو وہ بڑے حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ تم نے کیا چیز ہمارے سے زائد کی ہے جو تمہاری فصل اچھی ہوگئی.تو یہی لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ہمارا جواب یہی ہوتا ہے کہ جو 1/10 یا 1/16 ہم نے اس فصل کا خدا کی راہ میں دینا ہے وہ تمہارے سے زائد ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے برکت ڈال دی.بلکہ اللہ تعالی فرماتا ہے مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 3-4 ) یعنی اور جوکوئی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے، اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اسے خیال بھی نہیں ہو گا.یہ منجزات جو ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی فضل جو ہوتے ہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک شرط رکھی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے صفت رزاق کا کوئی غیر معمولی اظہار کرنا ہے تو بندے کو بھی تو غیر معمولی تعلق میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر اللہ تعالیٰ اپنے ولی ہونے کا ثبوت دیتا ہے تو بندہ بھی تو اپنی بندگی کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے.یہ ٹھیک ہے کہ حق تو بندگی کا کبھی ادا نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا شکر کرتے انسان اگر

Page 252

خطبات مسرور جلد ششم 232 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 اپنی تمام زندگی بھی ماتھا رگڑ تا رہے تو حق بندگی ادا نہیں ہو سکتا.لیکن کوشش تو ہونی چاہئے ، تقویٰ کی راہوں کی طرف قدم تو بڑھنے چاہئیں.تقویٰ کیا ہے؟ ایک جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.مجب، خود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقوی ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 50 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ایک مومن کا کام ہے کہ ان برائیوں سے بچے تبھی وہ ان لوگوں کے زمرہ میں شمار ہو گا جو تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ بھی اپنی جناب سے پھر ایسے ایسے ذریعوں سے ضروریات پورا کرنے کے سامان پیدا فرماتا ہے کہ انسان خود حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق: 3) کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ باریک سے بار یک گناہ جو ہے اسے خدا تعالیٰ سے ڈر کر جو چھوڑے گا خدا تعالیٰ ہر ایک مشکل سے اسے نجات دے گا.یہ اس لئے کہا کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں ، ہم تو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ایسی مشکلات آپڑتی ہیں کہ پھر کرنا پڑ جاتا ہے.خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اُسے ہر مشکل سے بچالے گا.(البدر جلد 2 نمبر 12 مورخہ 10 را پریل 1903ء صفحہ 92) جو اقتباس میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پڑھا ہے اس حوالے سے اُن لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو ان مغربی ملکوں میں سوشل ہیلپ (Social Help) لیتے ہیں.مختلف ملکوں میں اس مدد کے جو بھی نام ہیں، یہ حکومت کی طرف سے ملنے والی مدد ہے جو یا بیروزگاروں کو ملتی ہے یا کم آمدنی والوں کو تا کہ کم از کم اس معیار تک پہنچ جائیں جو حکومت کے نزدیک شریفانہ طور پر زندگی گزارنے کے لئے روزمرہ ضروریات پورا کرنے کا معیار ہے.مغربی حکومتیں ، بعض ان میں سے بڑے کھلے دل کے ساتھ یہ مدد دیتی ہیں اور برطانیہ کی حکومت بھی اس بارے میں قابل تعریف ہے شہریوں کی بڑی مدد کرتے ہیں.لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض لوگ جو چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرتے ہیں یا ایسی ملازمت کرتے ہیں جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی یا ٹیکسی وغیرہ کا کام کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی حکومت کو غلط معلومات دے کر اس سے مدد بھی لیتے ہیں.یا مکان بھی خریدا ہوا ہے لیکن حکومت سے مکان کا کرایہ بھی لیتے ہیں.تو یہ بات تقویٰ سے بعید ہے.اس طرح کر کے وہ دو ہرے بلکہ کئی قسم کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.ایک تو حکومت کو صحیح آمد نہ بتا کر حکومت کا ٹیکس چوری کرتے ہیں.پھر نہ صرف یہ ٹیکس کی چوری ہے بلکہ دوسروں کے اُس ٹیکس کو بھی کھا رہے ہوتے ہیں جو دوسرے لوگ حکومت کے معاملات چلانے اور شہریوں کو سہولتیں مہیا کرنے کے لئے حکومت کو دیتے ہیں.پھر جھوٹ کے

Page 253

خطبات مسرور جلد ششم 233 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 مرتکب ہوتے ہیں جو بذات خود شرک کے برابر ہے، تقویٰ تو دور کی بات ہے.پس اگر ہم میں ایسے چند ایک بھی ہوں تو وہ نہ صرف اپنے آپ کو اللہ سے دُور کر رہے ہوتے ہیں بلکہ جماعت کو بھی بدنام کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں اور جماعت کا جو وقار حکومتی اداروں اور لوگوں میں ہے اس کو کم کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” جب انسان خدا پر سے بھروسہ چھوڑتا ہے تو دہریت کی رگ اس میں پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور ایمان اسی کا ہوتا ہے جو اسے ہر بات پر قادر جانتا ہے.پس ان معیاروں کو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور جن کی بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تلقین فرمائی ہے.جو لوگ غلط معلومات دے کر چند پاؤنڈ حکومت سے لے لیتے ہیں گویاوہ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا رازق خدا نہیں بلکہ ہماری چالاکیاں ہیں.اس بات کی میں یہاں وضاحت کر دوں کہ حکومتی اداروں کو بعض ایسے لوگوں پر شک پڑنا شروع ہو گیا ہے اور یہ لوگ بڑی ہوشیاری سے اپنا دائرہ تنگ کرتے ہیں.ابھی تک ان اداروں پر یہی تاثر ہے کہ احمدی دھو کہ نہیں کرتے.کوئی ایک بھی اس قسم کا دھوکہ دہی میں ان کے ہاتھ لگ گیا تو اچھے بھلے شریف احمدی جو صرف اپنا حق لیتے ہیں وہ بھی پھر متاثر ہوں گے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت پر اعتماد علیحدہ ختم ہوگا.میں نے تو امیر صاحب کو کہہ دیا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کا اگر پتہ چلے تو اس سے چندہ لینا بند کر دیں.ایسے لوگوں سے چندہ نہ لینے سے اوّل تو جماعتی چندوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا انشاء اللہ اور اگر پڑے بھی تو اس کا پھر کوئی فرق نہیں پڑتا.کم از کم اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہوا مال تو پاک ہوگا.پس میں ایسے لوگوں سے جو چاہے چند ایک ہوں، یہی کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو رزاق نہیں سمجھنا تو پھر اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے دین کے لئے آپ کے مال کی ضرورت نہیں ہے.پھر آپ کا معاملہ اللہ سے ہے، جس طرح بھی چاہے اللہ سلوک کرے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یقینا اللہ عزوجل نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں رزق عطا کیا ہے.پس تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ.پس اگر اس حقیقت کو ہر ایک سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے رزق پہنچانا اپنے ذمہ لیا ہے جس کا گزشتہ خطبہ میں میں نے ذکر بھی کیا تھا تو حقیقی رنگ میں اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے گی اور جب اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے گی تو ہم حقیقی رنگ میں اس کے عبد بن کر رہیں گے اور پھر ہمارے اندرقناعت بھی پیدا ہوگی.اور جب قناعت پیدا ہوگی تو دوسرے کے رزق کی طرف نظر بھی نہیں ہوگی اور جب دوسرے کے رزق کی طرف نظر نہیں ہوگی تو نا جائز ذریعہ سے پیسے جوڑنے کی کوشش بھی نہیں ہوگی.تو یہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کے لالچ سے بچائے.

Page 254

خطبات مسرور جلد ششم 234 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ اور طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے.اس کا معیار قرآن ہے.اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے.پھر فرمایا اللہ تعالیٰ متقی کون بکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.یعنی بے کار اور جھوٹی قسم کی ضرورتیں جو ہیں.مثلاً ایک دکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام نہیں چل سکتا.اس لئے دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے.لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں“.یہ جو آج کل حکومت سے غلط بیانی کر کے مدد لیتے ہیں یا ٹیکس بچانا.یہ بھی اس قسم کی مثال ہی ہے.غلط بیانی کر کے یہ چیزیں لی جاتی ہیں.اگر تھوڑی سی تنگی بھی ہو تو برداشت کرنی چاہئے کہ خدا کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالی کمزور ہے.وہ بڑی طاقت والی ذات ہے جب اس پر کسی امر میں بھی بھروسہ کرو گے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا“.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ الطلاق آیت 3-4- جلد چہارم صفحہ 400-401 ) اللہ ہمیں حقیقی بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ ان کو اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہے کہ یہ سب طریقے اختیار کرو تو تمہارا رزق پاک بھی رہے گا اور اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا أَتَيْتُمْ مِنْ زَكوةٍ تُرِيْدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ (الروم: 40 ) اور جو تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے زکوۃ کے طور پر دیتے ہو تو یاد رکھو اس قسم کے لوگ خدا کے ہاں روپیہ بڑھا رہے ہیں.پس یہ ہے اپنے مال میں برکت ڈالنے کا ذریعہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور جتنی توفیق ہے اتنا خرچ کرو.اس سے قناعت بھی پیدا ہوگی اور ترجیحات بھی بدلیں گی.ذاتی خواہشات کی بجائے دینی ضروریات کی طرف توجہ پیدا ہوگی.اگر کوئی یہ کہے کہ میں جس طرح بھی جو بھی کمائی کرتا ہوں ، چندہ بھی اس میں سے اسی حساب سے دیتا ہوں اس لئے کیا فرق پڑتا ہے.اگر میں حکومت سے اپنی ہوشیاری کی وجہ سے کچھ لے بھی لوں تو چندہ بھی تو اس پہ دے رہا ہوں ، اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا.تو ایسا مال خدا تعالیٰ کو نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میری راہ میں خرچ کرنا ہے تو اس میں سے خرچ کرو جو پاک ہے.فرمایایا يُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوْا أَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ (البقرة: 268) اے مومنو! تم نے جو کچھ کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بُرا، اچھا کما یا اس میں سے جو پاک ہے وہ خرچ کرو دوسرا نہ کرو.

Page 255

خطبات مسرور جلد ششم 235 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 مطلب یہ ہے کہ تم نے پاکیزہ کمائی ہی کرنی ہے اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے.جو مال غلط بیانی سے کمایا ہو وہ پاکیزہ کس طرح ہو سکتا ہے.پس اگر کوئی کسی غلط فہمی کی وجہ سے یہ غلط مفاد اٹھا رہا ہے تو اسے بھی باز آنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کو پاک کمائی میں سے مال دیں اور پھر اللہ تعالیٰ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ روپیہ برکت والا ہو گا اور دینے والے کے مال میں اضافے کا باعث بنے گا.ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ بڑھا سکتا ہے.لیکن مال ہمیشہ پاک ہونا چاہئے.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4 ) يعنى اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ تو ناجائز طریقوں سے نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ تو پاک مال اور جائز طریقوں سے مال دیتا ہے.پس مومن کی یہ نشانی بتائی کہ ان کا رزق بھی پاک ہوتا ہے اور پھر وہ اس پاک رزق میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں.کمائی تو چور بھی کرتے ہیں، ڈا کو بھی کرتے ہیں ، ذخیرہ اندوز بھی کرتے ہیں، رشوت خور بھی کمائی کرتے ہیں اور اس طرح مختلف ناجائز ذرائع سے کمانے والے بھی کمائیاں کرتے ہیں تو کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مال ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے؟ اللہ تعالیٰ جو بندوں کو حکم دیتا ہے کہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرو، کیا وہ دوسرے کے حق کو مارنے والے کی کمائی کو جائز قرار دے سکتا ہے؟ کبھی نہیں ہو سکتا.گو کہ پاکستان میں یا اور بعض ملکوں میں ناجائز ذرائع سے دولت کما کر کہتے ہیں کہ یہ اللہ نے دیا ہے.تو یہ گندہ مال خدا کا نہیں ہو سکتا.یہ تو شیطان کے ذریعہ سے کمایا ہوا مال ہے اور یہ پاکستان میں جو بڑے بڑے تاجر بنے پھرتے ہیں یا پیسے والے، ایسا مال کما کے پھر ڈھٹائی سے یہ بھی کہتے ہیں، ان کا تو یہ حال ہے کہ اپنے گھروں پر بھی لکھ کے لگا دیتے ہیں کہ ھذا من فضل ربی.یعنی غلط طریقے سے مال بھی کماتے ہیں اس کو اللہ کا فضل بھی قرار دیتے ہیں ( انا للہ ).سیاستدان ہیں تو وہ قوم کا مال لوٹ رہے ہیں.غلط طریقے سے کمایا ہوا مال چاہے چھوٹے پیمانے پر ہو یا بڑے پیمانے پر ہو طیب مال نہیں ہوتا اور جو طیب مال نہیں وہ اللہ تعالیٰ کا مال نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو قابل قبول ہے.پس ہر احمدی کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اس کا مال پاک ہو اور اگر وہ اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اس میں برکت ڈالتا ہے.یہاں ایک بات کی اور وضاحت کر دوں.بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے بجٹ اپنی متوقع آمد کے پیش نظر لکھوائے تھے لیکن کاروبار میں بعض مشکلات کی وجہ سے اتنی آمد نہیں ہوئی یا بعض کو ملازمت میں وقتیں ہیں تو ایسے لوگ اپنے جائزے لے کر خود تقویٰ کو مد نظر رکھ کر اپنے بجٹ پر نظر ثانی کر سکتے ہیں.لیکن شرط تقویٰ ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے.جیسا کہ فرمایا ہے وَيَسْئَلُوْنَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ (البقرة: 216) یعنی وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ ان کو کہہ دے کہ جتنا تکلیف میں نہ ڈالے.پس اگر دل میں تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کے

Page 256

236 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 خطبات مسرور جلد ششم اس ارشاد پر بھی نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے راستے میں خرچ کرے گا میں اسے بڑھا کر دوں گا تو ایک مومن یہی کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ دے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا زیادہ وارث بنے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنے اوپر تنگی بھی کر لیتے ہیں لیکن چندوں میں کمی نہیں آنے دیتے.پس یہ چندہ بھی ہر ایک کی اپنی ایمانی حالت اور اللہ کے تو کل پر منحصر ہے.وہ یہ جانتے ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت بھی ڈالے گا اور اپنی رضا کی جنت کا وارث بھی بنائے گا.آنحضرت ﷺ کی ایک دعا ہے جو آپ کیا کرتے تھے.اس زمانے میں تو خاص طور پر یہ دعا بہت اہم ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ام سلمی بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم سے جب صبح کی نماز ادا کرتے تو سلام پھیر نے کے بعد یہ دعا کرتے کہ اللهُمَّ إِنِّي اَسْتَلْكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَيِّباً وَّعَمَلًا مُتَقَبَّلًا - (سنن ابن ماجہ کتاب اقامتہ الصلوۃ باب ما يقال بعد التسليم حديث 925) کہ اے اللہ ! میں تجھ سے ایسا علم جو نفع رساں ہو اور ایسا رزق جو طیب ہو اور ایسے عمل جو قبولیت کے لائق ہوں مانگتا ہوں.پس یہ دعا ہے اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.گزشتہ خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ رزق حصہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور حصہ ، بُرا بھی ہو سکتا ہے اور اچھا بھی ہو سکتا ہے.تو اس حوالے سے بھی میں اس وقت کچھ بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (الواقعة : 83) اور تم اپنے رزق بناتے ہو اس بنا پر کہ تم جھٹلاتے ہو.یہ سورۃ واقعہ کی آیت ہے اور یہ وہ سورۃ ہے جس میں دور اول اور دور آخر کے خوش نصیبوں کا بھی ذکر ہے اور دور اول اور دور آخر کے بدنصیبوں کا بھی ذکر ہے.اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے اس میں ان بدنصیبوں کا ذکر ہے جو جھٹلانے کی وجہ سے اپنا رزق بناتے ہیں.ان کی حالت اس قدر گر گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کا خوف ان میں نہیں رہا بلکہ دنیا کا خوف ہے.یہ لوگ شیطان کی گود میں جابیٹھے ہیں.کچھ لوگ تو اپنے دنیاوی رزق کے بند ہونے کے خوف سے سچ کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور کچھ لوگ جو اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں جن کو مسجدوں کے منبر ملے ہوئے ہیں اس لئے حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے کہ ان منبروں کی وجہ سے جو عوام الناس کو وہ لوٹ رہے ہیں اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے.تو خلاصہ یہ کہ یہ سیاستدان بھی اور ملاں بھی اپنی اس غلیظ کمائی کی وجہ سے اس روحانی مائدے سے اپنے آپ کو محروم رکھے ہوئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے اور کیونکہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ دنیا کے کیڑے بن چکے ہیں اس لئے اُن کے نصیب میں حق کو پہچانتا نہیں ہے.اُن کا کام حق کو جھٹلانا ہی ہے یہاں تک کہ ان کا آخری وقت آ جائے اور پھر ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہو.آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن ملکوں میں احمدیت کی مخالفت ہے سیاستدان اور مُلاں اکٹھے ہیں اور اکٹھے ہو کر

Page 257

خطبات مسرور جلد ششم 237 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 احمدیت کے خلاف کھڑے ہیں.خلافت کے سو سال پورے ہونے نے ان کے اندر حسد کی اور بغض کی آگ کو اور بھی بھڑ کا دیا ہے کہ یہ جو ہمارا جھوٹا رزق ہے یہ نہ کہیں چھن جائے.سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مولوی کی بات نہ مانی اور احمدیوں کی مخالفت نہ کی تو ہمارے ووٹ کم ہو جائیں گے.کیونکہ سیاستدان کو تو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کو تو اپنی سیاست اور کرسی سے دلچسپی ہے.ان کو تو اس سے غرض نہیں کہ ملک کی خدمت کرنی ہے.غرض ہے تو صرف یہ کہ اگر مخالفت نہ کی تو اپنی کرسی سے اور لوٹ مار سے جو ملک کا پیسہ کھا رہے ہوتے ہیں اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے.وہ رزق جو غیر طیب اور نا پاک رزق ہے جس کی بنیاد جھوٹ پر ہے وہ ان کے ہاتھ سے چھن جائے گا اور مولوی تو جیسا کہ میں نے کہا صرف اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اس کے رزق کے ذرائع بند ہو جائیں گے.مدرسوں کے نام پر ، جامعات کے نام پر جولوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے پیسے لیتے ہیں یا بعض حکومتوں سے رقم لیتے ہیں، یہ بند ہو جائے گی.پس یہ لوگ ہیں جو جھوٹ بول کر رزق کمانے والے ہیں یا جن کا رزق جھٹلانے پر منحصر ہے.یعنی ان کے حصے میں جس پہلو سے بھی دیکھ لیں جھوٹ کی وجہ سے رزق ہے اور یہی بُرا رزق ہے اور یہ رزق ان کو صداقت کا نہ صرف انکار کرنے کی وجہ سے بلکہ مخالفت میں حد سے زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے مل رہا ہے.یہ رزق جو وہ کماتے ہیں اس مخالفت کی وجہ سے ، صداقت کے انکار کی وجہ سے ہے، جھوٹ بولنے کی وجہ سے ہے.اللہ فرماتا ہے کہ پھر اللہ بھی گرم پانی کے ساتھ ان کی دعوت کرے گا اور پھر فرماتا ہے تَصْلِيَةُ جَحِيْم ( الواقعۃ : 95) یعنی ان کا ٹھکانہ جہنم ہے.پس آج جو احمدیوں کے خلاف پاکستان میں بھی مخالفت کا بازار گرم ہے اور انڈونیشیا سے بھی خبریں آ رہی ہیں، دونوں جگہ ملاں اور سیاستدانوں کے جوڑ کی وجہ سے یہ مخالفت ہے.عوام الناس کو بیوقوف بنایا جاتا ہے کہ تمہاری دینی غیرت کا سوال ہے اٹھو اور احمدیوں کو ختم کر دو.حالانکہ یہ تکذیب اس لئے ہے کہ ان لوگوں کو یہ خوف ہے کہ ہمارے رزق بند نہ ہو جائیں.ہم جو لوٹ مار کر رہے ہیں وہ بند نہ ہو جائے.پس احمدیوں کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ صبر اور حوصلے سے اور دعا سے کام لیں.اللہ تعالیٰ کے مسیح کو مانا ہے تو یقینا اس پیغام کے ماننے کی وجہ سے آپ اللہ کے مقرب ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے لئے نعمتوں سے پر جنتوں کی بشارت دیتا ہے.گزشتہ 120 سال سے انہوں نے اپنی ہر طرح کی مخالفت کر کے دیکھ لی ہے.بے شک ہمیں عارضی تکلیفیں تو برداشت کرنی پڑیں لیکن ان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوئیں کہ جماعت کو ختم کر دیں.ایک آمر نے اعلان کیا کہ میں ان کے ہاتھ میں کشکول پکڑاؤں گا تو خود اس کا جو انجام ہوا وہ ظاہر و باہر ہے.لیکن جماعت احمد یہ انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی مالی وسعت اختیار کرتی چلی گئی.دوسرے نے جب جماعت کو کچلنا چاہا، ہر لحاظ سے معذور کرنا چاہا تو اس کا انجام بھی ہم نے دیکھ لیا.اور جماعت کے لئے ترقی کی نئی سے نئی راہیں کھلتی چلی گئیں.اس رازق

Page 258

خطبات مسرور جلد ششم 238 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 خدا نے رزق کے نئے سے نئے راستے ، نئے سے نئے باب جماعت کے لئے کھول دئے.اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے ہمارے لئے اپنا رزاق ہونا اور تمام قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہونا ظاہر فرمایا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ (الذریت : 59) یقینا اللہ ہی ہے جو بہت رزق دینے والا ہے اور صاحب قوت اور مضبوط صفات والا ہے.پس ہم تو اس خدا کی عبادت کرنے والے اور اس سے رزق مانگنے والے ہیں اور اس سے ڈرنے والے ہیں.یہ دنیاوی لوگ نہ ہمارے رزق بند کر سکتے ہیں، نہ ہمارے ایمانوں کو ہلا سکتے ہیں، نہ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک سکتے ہیں.گزشتہ دنوں میں 27 مئی کے بعد ، پاکستان کے مختلف شہروں میں ، کوٹری شہر ہے ایک، حیدر آباد کے قریب، لاڑکانہ میں ، آزاد کشمیر میں کوٹلی ہے، اسی طرح پنجاب کے بعض شہر ہیں، احمدیوں پر ظلم کا بازار دوبارہ گرم ہو چکا ہے.فیصل آباد میں پنجاب میڈیکل کالج کے طلباء کو کالج سے نکالا گیا.اُن کے خیال میں اس طرح انہوں نے احمدیوں کے رزق بند کرنے کی کوشش کی ہے کہ احمدی طلباء ڈاکٹر بن رہے ہیں.فائنل ایئر کے سٹوڈنٹ ہیں.وہ گھبرا کے کہیں گے اچھا ٹھیک ہے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں نکالتے ہیں لیکن ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کی ایمانی حالت کیا ہے، کیونکہ اُن کے اپنے ایمان نہیں ہیں.ان کا خیال تھا کہ یہ خوفزدہ ہو کر احمدیت چھوڑ دیں گے.کوٹری میں گھیراؤ جلاؤ کی صورتحال ہے، بلکہ ایک گھر سے کل خط ملا ہے ان کا سامان نکال کے جلایا بھی گیا، گھروں کو گھیرا ہوا ہے.لیکن یہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہم ڈرنے والی قوم ہیں یا اپنے ایمانوں کا سودا کرنے والے لوگ ہیں.ہم تو اس ذُو الْقُوَّةِ المتين خدا کے ماننے والے ہیں جو اپنے بندوں کے لئے غیرت دکھاتا ہے اور جب دشمنوں کو پکڑتا ہے تو ان کی خاک اڑا دیتا ہے.یہی ہم دیکھتے آئے ہیں.پس سب احمدی صبر اور حو صلے سے کام لیں.اسی طرح انڈونیشیا کے احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں وہاں پر تبلیغ پر پابندی لگائی ہے اور اسی طرح بعض باتوں پر حکومت نے پابندی لگائی ہے.گوئین (Ban) تو اس طرح مکمل طور پر نہیں کیا لیکن مختلف ذریعوں سے ایسی صورت حال پیدا کی گئی ہے جو ئین کے برابر ہی ہے.تو یہ لوگ بھی دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دیں.پاکستان میں جو پابندیاں لگیں یا قانون پاس ہوئے اس سے کون سا انہوں نے جماعت کو پھیلنے سے روک دیا.دنیا بھر میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش پہلے سے بڑھ کر جماعت پر ہوئی اور انڈونیشیا پر بھی جو پابندیاں حکومت نے لگائی ہیں پہلے سے بڑھ کر جماعت کی ترقی کا باعث بنیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.پس دعاؤں پر زور دیں.انشاء اللہ تعالیٰ اب وہ وقت دور نہیں کہ ان کے مگر ان پر ہی اُلٹ کر پڑیں گے.بہر حال تمام دنیا کے احمدی اپنے انڈو نیشین اور پاکستانی بھائیوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور ان کی مشکلات دور فرمائے.آخر پر آج پھر میں دعا کا یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس ہفتہ انشاء اللہ تعالیٰ میں امریکہ اور کینیڈا کے سفر پر

Page 259

خطبات مسرور جلد ششم 239 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 2008 جارہا ہوں.وہاں ان کے جلسے بھی ہیں اور جوبلی کے حوالے سے وہاں جماعتوں نے بڑی تیاریاں بھی کی ہوئی ہیں.ان کی خواہش بھی بڑی شدید ہے.خطوں میں اس کا اظہار بھی ہوتارہتا ہے.براہ راست ملنے سے بہر حال جماعت میں کئی لحاظ سے بہتری پیدا ہوتی ہے.امریکہ کا تو میرا پہلا سفر ہے.اللہ تعالیٰ یہ سفر ہر طرح اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتے ہوئے بہتر فرمائے اور یہ سفر جماعت کے لئے ہر لحاظ سے بابرکت ہو اور اللہ تعالیٰ ان تمام مقاصد کا حصول آسان فرمائے جن کے لئے یہ سفر اختیار کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان ملکوں کے احمدیوں میں ترقی کرنے کی ایک نئی روح پیدا فرمائے اور ساری دنیا کے احمدیوں میں یہ نئی روح پیدا فرمائے اور اس صدی میں جب ہم نئے نئے عہد باندھ رہے ہیں اور جلسے کر رہے ہیں اور پروگرامز کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہر ایک میں نئی روح پھونک دے.اللہ تعالیٰ سفر میں راستے کی جو بھی کوئی مشکل ہے اس کو بھی آسان فرمائے“.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمار نمبر 27 مورخہ 6 جولائی تا 10 جولا ئی 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 8

Page 260

خطبات مسرور جلد ششم 240 (25) خطبہ جمعہ فرموده 20 جون 2008 فرمودہ مورخہ 20 جون 2008 ء بمطابق 20 / احسان 1387 ہجری شمسی بر موقع جلسہ سالانہ USA بمقام پینسلوینیا (USA.(Pennsylvania تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کا جلسہ سالانہ میرے اس خطبہ کے ساتھ شروع ہورہا ہے.ایک عرصہ سے یہ آپ کی بھی خواہش تھی اور میری بھی خواہش تھی کہ میں یہاں آؤں اور براہ راست جلسہ میں شمولیت اختیار کروں.یہ جلسہ سالانہ جو ہم دنیا کے ہر ملک میں منعقد کرتے ہیں، اس کا انعقاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر فرمایا تھا.یہ جلسہ اور یہ موقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا حامل ہے ، آپ کی دعا ئیں لئے ہوئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کی بستی میں جس پہلے جلسہ کا انعقاد فرمایا تھا.،جس میں حاضری گو صرف پچھتر (75) افراد کی تھی لیکن مسیح محمدی کے تربیت یافتہ وہ لوگ تھے جن کا خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق قائم ہو چکا تھا.ایمان اور ایقان میں بڑھے ہوئے لوگ تھے.جن کے نور ایمان اور نوریقین نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کیا اور احمدیت کے لئے ان کی کوششوں اور قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے بیشمار پھل عطا فرمائے اور برکت بخشی.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عاشق تھے.وہ جلسہ جو پہلا جلسہ تھا، اُن عاشقوں نے اپنے محبوب کے گرد جمع ہو کر ایک مسجد میں منعقد کر لیا تھا.مسیح محمدی کی وجہ سے جو انہیں نور بصیرت عطا ہوئی تھی، اُس کے ذریعہ وہ یقینا اس یقین پر قائم ہو گئے ہوں گے کہ یہ جلسہ مسجد سے نکل کر میدان میں پھیلنے والا ہے.اور پھر صرف آنحضرت کے عاشق صادق کی اس چھوٹی سی بستی قادیان کے میدان میں ہی نہیں ، بلکہ دنیا کے اکثر میدانوں میں پھیلنے والا ہے اور پھر مسیح محمدی کی یہ جماعت صرف چھوٹے چھوٹے میدانوں پر ہی اس جلسہ کے لئے اکتفا نہیں کرے گی بلکہ کئی ایکڑوں پر پھیلے ہوئے رقبوں کی ضرورت پڑے گی.چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بعض جماعتیں اپنے جلسوں کے لئے سینکڑوں ایکٹر زمین خرید رہی ہیں.جماعت امریکہ بھی ان جماعتوں میں سے ہے جس نے 22 ایکڑ کے قریب جگہ خریدی اور آپ لوگوں نے وہاں بڑی خوبصورت مسجد بھی بنائی.کچھ عرصہ تک وہاں جلسے بھی منعقد ہوتے رہے.لیکن بعض ضروری سہولیات کی کمی کی

Page 261

خطبات مسرور جلد ششم 241 خطبه جمعه فرموده 20 جون 2008 وجہ سے کچھ عرصہ کے بعد کرائے کی جگہ پر جلسے منعقد کرنے پڑرہے ہیں.اس لئے آج ہم یہاں جمع ہیں، جو کرائے کی جگہ ہے.اب آپ لوگ بھی اس بات کو محسوس کرتے ہوئے بڑے رقبہ کی تلاش میں ہیں تا کہ اپنی جگہ پر جلسے منعقد کر سکیں.یہ سب باتیں ایک سوچنے والے ذہن میں یقینا یہ بات راسخ کرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے بچے تھے.یہی امریکہ جس میں جب پہلے مبلغ بھیجے گئے تو انہیں نظر بند کر دیا گیا.تبلیغ کی اجازت نہیں دی گئی.لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کے آگے تو کوئی روک کھڑی نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ نے روکیں دُور فرما دیں اور آج آپ بھی جلسہ گاہ کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے کہا، زمین کی تلاش میں ہیں اور 1200,100 ایکڑ زمین خریدنے کی باتیں کرنے لگ گئے ہیں.لیکن یہ بات ہمیشہ ہر ایک کو اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جلسہ سے مقصد بڑی بڑی زمینیں خریدنا یا حاضری بڑھانا نہیں تھا، اپنے ماننے والوں کی تعداد کا اظہار کرنا نہیں تھا بلکہ تقویٰ میں ترقی کرنے والوں کی جماعت پیدا کرنا تھا.اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار پیدا کرنے والوں کی جماعت بنانا تھا.حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والوں کی ایک فوج تیار کرنا تھا جو دنیاوی ہتھیاروں ، توپ و تفنگ سے لیس نہ ہو بلکہ ایسے لوگ ہوں جن کے ماتھوں پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے نشان ظاہر ہوتے ہوں.جن کے دل خدا تعالیٰ کی مخلوق کی محبت سے لبریز ہوں.جن کی راتیں تقویٰ سے بسر کی جانے والی ہوں اور جن کے دن خدا تعالیٰ کا خوف لئے ہوئے ڈرتے ڈرتے گزررہے ہوں.پس یاد رکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر ہم بغیر کسی عمل کے عافیت کے حصار میں نہیں آگئے بلکہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی اور جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے دُوری پیدا ہو رہی ہے پہلے سے بڑھ کر اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہوگی.ہر باپ اور ماں کو اپنی نسلوں کو سنبھالنے کے لئے اپنے عملوں کی درستی کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوگی.اس مغربی ماحول میں خاص طور پر اور آج کل کے مادی دور میں عموماً دنیا میں ہر جگہ اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا حق ادا کرنے والے اگر ہم نہیں ہوں گے تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے بچوں کو بھی عافیت کے حصار سے نکال رہے ہوں گے.ہمارے منہ تو اللہ اللہ کر رہے ہوں گے مگر ہمارے عمل اس بات کو جھٹلا رہے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ جلسے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اس جلسے سے مدعا اور مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے

Page 262

خطبات مسرور جلد ششم 242 خطبہ جمعہ فرموده 20 جون 2008 ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل.اشتہار التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893 ء صفحہ 360 مطبوعہ ربوہ ) تو یہ ہیں وہ معیار جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.ہم میں سے بہت سوں نے یہ اقتباس کئی دفعہ سنا بھی ہوگا اور پڑھا بھی ہوگا لیکن دنیا کے دھندے ہمیں پھر اس بات سے دور لے جاتے ہیں، ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے.بہر حال یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ انسان بھول جاتا ہے، کمزوریاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور شیطان نے اللہ کے بندوں کو صحیح راستے سے ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کا اعلان بھی کیا ہوا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ نصیحت کرتے چلے جائیں.مومنوں کو نصیحت فائدہ دیتی ہے.تاکہ کمزوریاں دُور کرنے اور شیطان سے بچنے کے نئے نئے طریقے ان کو ملتے چلے جائیں.اور یہی کام اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو جاری رکھنے کے لئے بھیجا ہے اور یہی کام خلافت کا ہے تاکہ نصیحتوں سے اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ (النساء: 60) کرنے والے پیدا ہوتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس اقتباس میں جو میں نے پڑھا ہے ان باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو اگر ایک احمدی سمجھ لے اور اس پر عمل شروع کر دے تو یہ دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے.پھر ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے والے بن جائیں.پہلی بات آپ نے یہ فرمائی ہے.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقوی.اور تقویٰ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: تقویٰ تو صرف نفس امارہ کے برتن کو صاف کرنے کا نام ہے اور نیکی وہ کھانا ہے جو اس میں پڑنا ہے اور جس نے اعضاء کو قوت دے کر انسان کو اس قابل بنانا ہے کہ اس سے نیک اعمال صادر ہوں اور وہ بلند مراتب قرب الہی کے حاصل کر سکے.( ملفوظات جلد 3 حاشیہ صفحہ 503 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس پہلی بات تو یہ کہ تقویٰ ہوگا ، خدا تعالیٰ کا خوف ہوگا ، اس کی ہستی پر یقین ہوگا تو انسان کی توجہ اپنے دل کی صفائی کی طرف رہے گی.اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف رہے گی.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مضمون کو اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (الحكوت : 70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.پس تقویٰ پیدا کرنے کے لئے ، اس برتن کو صاف کرنے کے لئے پہلے محنت کی

Page 263

خطبات مسرور جلد ششم 243 خطبہ جمعہ فرموده 20 جون 2008 ضرورت ہے.جب انسان خدا کی محبت اور اس کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ وہ طریقے بھی سکھائے گا جس سے یہ برتن زیادہ سے زیادہ چمک دکھا سکے.آج کل تو برتنوں کو صاف کرنے کے لئے دنیا میں اور اس مغربی دنیا میں خاص طور پر مختلف قسم کے صابن ہیں یا کیمیکلز ہیں.ان کو ہم اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ برتن چمک جائیں، ان کی اس طرح صفائی ہو جائے کہ ہر قسم کا گند صاف ہو جائے، کوئی چکناہٹ باقی نہ رہے بلکہ جراثیم بھی مر جائیں.بلکہ بعض ایسے کھانے جن کی بُو رہ جاتی ہے ان کی بُو دور کرنے کے لئے بھی خاص محنت کی جاتی ہے.بعض گھریلو خواتین انڈے یا مچھلی کے برتن علیحدہ رکھ کر دھوتی ہیں اور اس کے لئے خاص محنت کرتی ہیں کہ اکٹھے دھونے سے کہیں دوسرے برتنوں میں بونہ چلی جائے.تو دنیاوی برتنوں کے لئے تو ہم اتنا تر ودکرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، مختلف قسم کے صابن تلاش کرتے ہیں اور یہ وہ برتن ہیں جو اکثر انسان کی زندگی میں اس کے سامنے ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کے کسی کام نہیں آتے یا اگر بچ بھی جائیں تو انسان کے ساتھ نہیں جاتے.ان برتنوں کی خاطر تو اتنی محنت کی جاتی ہے.لیکن وہ برتن جو انسان کے دل کا برتن ہے.جس کو تقویٰ سے صاف کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جس میں رکھی گئی نیکیوں، حقوق اللہ اور حقوق العباد نے خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے ، جس نے مرنے کے بعد بھی ہمارے کام آنا ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ اس برتن میں رکھی گئی نیکیوں نے ہماری نسلوں کے بھی کام آنا ہے.اگر ہمارے برتن صاف ہوں گے اور نیکیوں سے بھرے ہوں گے تو سعید فطرت اولا د بھی ان برتنوں کی صفائی کی طرف توجہ دے گی.خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشاں رہے گی.پس تقوی سے صاف کئے ہوئے برتن میں رکھے ہوئے کھانے کبھی نہ خراب ہونے والے کھانے ہیں.اور نہ ہی وہ کھانے ہیں جن سے کسی بھی قسم کی بیماری پیدا ہو.بلکہ یہ وہ کھانے ہیں جن سے جسم کو طاقت ملتی ہے.ایسی طاقت ملتی ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والی طاقت ہے، جس سے مزید نیکیاں سرزد ہوتی ہیں، مزید عمدہ کھانے اس میں پڑتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے مزید کھلتے چلے جاتے ہیں اور انسان نفس امارہ کی وادیوں میں بھٹکنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی پناہ کے مضبوط قلعے میں آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کے مضمون کو ایک جگہ یوں بھی بیان فرمایا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ: " قرآن کریم میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے.اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے.ایک مضبوط قلعہ ہے.ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک

Page 264

خطبات مسرور جلد ششم 244 خطبه جمعه فرموده 20 جون 2008 جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں.اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں“.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 342) پس ہم میں سے ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس درد کو محسوس کرنا چاہئے جو آپ نے بیان فرمایا ہے.سرسری طور پر آپ کی اس بات کو سن کر صرف یہ رد عمل ہم نے ظاہر نہیں کرنا کہ کس عمدہ الفاظ میں آپ نے تقویٰ کی تعریف فرمائی ہے بلکہ ہمیں اپنے دلوں کو ٹولنے کی ضرورت ہے.اس ہلاکت سے بچنے کی ضرورت ہے جس کی طرف آپ نے نشاندہی فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُس جہاد کی ضرورت ہے جس کی طرف خدا تعالیٰ نے توجہ دلاتے ہوئے ہمیں فرمایا کہ تم اگر میری رضا کے حصول کے لئے کوشش کرو گے تو یقینا میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتے ہوئے ان راستوں کی طرف تمہاری راہنمائی کروں گا جن پر چل کر تم دنیا و آخرت میں اپنے لئے محفوظ اور مضبوط پناہ گا ہیں تعمیر کر رہے ہو گے.پس کس قدر خوش قسمت ہیں ہم اور اس بات پر کس قدر ہمیں اپنے خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے اُس خدا کا کہ جس نے صرف اتنا ہی نہیں کہا کہ میرے راستوں کی طرف آنے کی کوشش کرو بلکہ اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ذریعے اُن راستوں کی صفائی کر کے، اُن پر سمتوں کے تعین کے بورڈ آویزاں کر کے، ان پر اندھیرے میں روشنی مہیا کر کے راہنمائی فرمائی ہے کہ یہاں شیطان بیٹھا ہے، اس سے کس طرح بچنا ہے.یہ راستے تمہیں خدا کی طرف لے جانے والے ہیں.جس طرح کہ جو اقتباس میں نے پڑھا تھا اس میں آپ نے فرمایا کہ تقویٰ میں سرگرمی اختیار کرو.اور پھر یہ کہ اس تقویٰ میں سرگرمی کس طرح اختیار کرنی ہے.ان نیکی کے راستوں کو کس طرح اختیار کرنا ہے.نفس امارہ کے برتن کو صاف کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنے ہیں.فرمایا کہ نرم دل ہو جاؤ.اور نرم دلی کس طرح اختیار کرنی ہے.اس کے کیا معیار حاصل کرنے ہیں.اس بارے میں بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے کہ اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں.بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے.اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں بر جبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں.کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو.جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری میخنہیں دور نہ ہو جائیں.خادم القوم ہونا

Page 265

خطبات مسرور جلد ششم 245 خطبه جمعه فرموده 20 جون 2008 مخدوم بننے کی نشانی ہے.اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے.اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں.اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 362.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہم سے خواہشات.فرمایا نرم دل ہو جاؤ.جب نرم دلی ہوگی تو وہ تمام اخلاق بھی پیدا ہوں گے جن کا آپ نے ذکر فرمایا.اُن اخلاق کا ذکر فرمایا جن کا ایک مومن کے اندر ہونا ضروری ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بعض ایسے نیک لوگ ہیں جو اپنی انانیت اور خود پسندی کو مارنا، بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا، غصے کو دبالینا، نمازوں میں ایک دوسرے کے لئے دعا کرنا، اپنا وطیرہ بناتے ہیں اور یہ ہونا چاہئے.لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کے برخلاف عمل کرتے ہیں.اب یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن دوسرے بھائی کے لئے نماز میں دعا بھی کر رہا ہو، اگر کوئی اس کے ساتھ زیادتی کرے تو اسے بخش بھی دے اور ان دعاؤں اور بخشش کے باوجود اس کے دل میں نفرت بھی ہو.یہ دونوں چیزیں اکٹھی تو نہیں ہوسکتیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک دوسرے کو کمتر بھی سمجھ رہے ہوں اور پھر یہ بھی کہیں کہ دل میں عزت بھی ہے.اس ضمن میں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں جو میرے سامنے ان دنوں میں آئی ہے، پہلے بھی آتی رہی ہیں لیکن بہر حال یہاں آنے کے بعد موقع تھا اور اس کے بعد کیونکہ دوبارہ موقع نہیں ملنا اس لئے جلسے کے دنوں میں ہی یہ باتیں کروں گا.یہاں امریکہ میں تین قسم کے احمدی ہیں.ایک پاکستانی یا ہندوستانی احمدی اور پھر ان میں آگے دو قسم کے نئے اور پرانے احمدی بھی ہیں.پھر مقامی افریقن امریکن احمدی ہیں جن کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ اخلاص و وفا میں بھی یہ لوگ بڑھ رہے ہیں.اُن میں سے کئی ایسے ہیں جو جماعتی نظام کا بہت فعال حصہ ہیں اور مختلف عہدوں پر خدمات پر معمور ہیں.اور تیسرے سفید فام امریکن بھی ہیں، ان کی تعداد گو بہت تھوڑی ہے لیکن یہ بھی نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرنے والوں میں سے ہیں.لیکن جو بات میں کہنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی نژاد احمدی اور افریقن امریکن احمدیوں میں جو ایک اکائی نظر آنی چاہئے وہ ہر سطح پر مجھے نظر نہیں آتی.مجھ تک دونوں طرف سے بعض شکوے پہنچتے رہتے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس کے فقرات پر غور کریں تو آپ کی جماعت میں شامل ہو کر یہ کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا کہ پاکستانی نژاد احمدی اپنوں اور مقامی احمدیوں میں کوئی فرق رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر وہ عاجزانہ راہیں اختیار کرنی ہوں گی جو آپ نے اختیار کیں.اور جن کو اللہ تعالیٰ نے سراہتے ہوئے، پسند فرماتے ہوئے آپ کو الہاما فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں.اور کیونکہ پاکستانی احمدی پرانے ہیں، اس لئے ان کا فرض بنتا ہے کہ

Page 266

خطبات مسرور جلد ششم 246 خطبہ جمعہ فرموده 20 جون 2008 انہیں یعنی نئے آنے والوں کو خواہ وہ کسی قوم کے بھی ہوں اپنے اندر سموئیں ، جذب کریں ، ان کو فعال حصہ بنائیں، بھائی چارے کو رواج دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مواخات میں ایک دوسرے کے لئے نمونہ بن جائیں اور مواخات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہمارے سامنے کیا ہے؟ وہ نمونہ ہے انصار مدینہ اور مہاجرین کا نمونہ.ایسا اعلیٰ نمونہ کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی تعریف فرمائی ہے.وہ نہ صرف ایک دوسرے کی تکلیفوں کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے تھے.جب انہوں نے سچائی کو اختیار کیا تو ان کے ہر عمل سے سچائی ظاہر ہونے لگی.ان کی عاجزی، محبت اور سچائی نے پھر وہ نمونے دکھائے کہ ایک دنیا ان کی طرف کھنچی چلی آئی.پس اگر دنیا کو اپنی طرف کھینچنا ہے تو ہر طرح کے تکبر ، نخوت، اور بدظنی کو دور کرتے ہوئے ایک دوسرے کے جذبات، احساسات اور ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ دینی مہمات میں سرگرمی دکھا ئیں.تو اس کا کیا مطلب ہے.سب سے بڑی مہم تو ہمارے سامنے تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لانے کی پیش ہے جو ہم نے سر کرنی ہے.اگر ہم آپس میں دلوں میں ڈوریاں لئے بیٹھے ہوں گے تو تبلیغ کے کام کو کس طرح سرانجام دیں گے.ہمارے کاموں میں برکت کس طرح پڑے گی.پس چاہئے کہ ایشین ہو یا افریقن امریکن ہوں یا سفید فام ہوں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں آکر ہمارے اندر پاک تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور اگر اس کے لئے ہم نے مسلسل کوشش نہیں کی اور مسلسل کوشش نہیں کر رہے تو ہم اپنے مقصد سے دور ہٹ رہے ہیں.تبلیغ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہمیں اپنے اخلاق کے معیار بھی بہتر کرنے ہوں گے اور اپنی غلط فہمیوں کو بھی دور کرنا ہوگا تبھی ہم ایک حسین معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جو تقویٰ پر چلنے والوں کا معاشرہ ہوگا.گزشتہ دنوں مجھے یہاں ملاقات میں ایک خاندان ملا جسے دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی ، بے اختیار دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات پیدا ہوئے.اس خاندان میں افریقن امریکن بھی تھے.سفید امریکن بھی تھے اور ایک پاکستانی بہو بھی تھی.تو یہ خاندان ہے جو احمدیت اور اسلام کی حقیقی تصویر ہے.بلکہ ان کو بھی میں نے یہی کہا تھا کہ تم لوگ حقیقت میں احمدیت کی صحیح تصویر ہو کیونکہ احمدیت تو دلوں کو جوڑنے کے لئے آئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد تو خدا تعالیٰ کی پہچان کروانا اور بندے کو بندے کے ساتھ پیار و محبت کے تعلق کو قائم کروانا تھا اور ہے.اگر کسی احمدی کے دل میں یہ خیال نہیں تو اس کا خلافت احمدیہ کے قیام اور مضبوطی کے لئے قربانی کا دعوی بھی عبث ہے، فضول ہے، بیکار ہے.پس یہ دونوں طرف کے لوگوں کا کام ہے، پاکستانی احمدیوں کا بھی اور افریقن امریکن احمدیوں کا بھی کہ اس خلیج کو پُر کریں.وہ معاشرہ قائم کریں جو تقویٰ پر مبنی معاشرہ ہو.

Page 267

خطبات مسرور جلد ششم 247 خطبہ جمعہ فرموده 20 جون 2008 ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں آنحضرت ﷺ کے اُن الفاظ کی جگالی ہوتی رہنی چاہئے جو آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمائے تھے.فرمایا کہ: ”اے لوگو! تمہارا خدا ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے.یاد رکھو کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی سرخ و سفید رنگ والے کو کسی سیاہ رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو کسی سرخ و سفید والے پر کسی طرح کی کوئی فضیلت حاصل نہیں.ہاں تقویٰ اور صلاحیت وجہ ترجیح اور فضیلت ہے.( مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 760 باب حدیث رجل من اصحاب النبی ﷺ حدیث نمبر 23885 عالم الكتب بيروت لبنان 1998 ء ) تو یہ الفاظ تھے جو آپ نے پر زور اور بڑی شان کے ساتھ ادا فرمائے اور پھر لوگوں سے پوچھا کہ " کیا میں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے؟“.پس افریقن بھائیوں اور بہنوں کو بھی ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر کسی قسم کی زیادتی ہوئی ہے، تب بھی وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کسی طرح بھی کمتر ہیں.خلافت کے ساتھ ان کا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ان کا تعلق ہے.آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق ہے اور ان کے دلوں میں تقویٰ ہے تو کوئی دنیا کی طاقت ان کو کمتر ثابت نہیں کر سکتی.خدا اور اس کے رسول نے جس کو یہ مقام دے دیا ہے، اُس مقام کوکوئی دنیاوی طاقت چھین نہیں سکتی.لیکن اس مقام کے حصول کے لئے شرط تقوی میں ترقی ہے.پس تقویٰ میں ترقی کریں، تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھیں اور اپنی کم تعداد کو اکثریت میں بدل دیں اور پھر تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے پاکستانیوں کے لئے تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کریں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ شکووں سے مسئلے حل نہیں ہوتے ، آپس میں مل بیٹھ کر مسئلے حل ہونے چاہئیں.عہد یداران سے بھی میں کہتا ہوں کہ وہ اس انعام کی قدر کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خادم بنیں گے تو مخدوم کہلائیں گے.اپنے اندر وسعت حوصلہ اور برداشت پیدا کریں.ایک احمدی جب آپ کے پاس آتا ہے چاہے وہ کسی قوم کا ہو، اس کی بات غور سے سنیں اور اسے تسلی دلائیں.اگر مصروفیت کی وجہ سے فوری طور پر وقت نہیں دے سکتے تو کوئی اور وقت دیں اور اگر کبھی بھی وقت نہیں دے سکتے تو پھر بہتر ہے کہ ایسے عہد یدار خدمت سے معذرت کر لیں.میں خود باوجود مختلف قسم کی مصروفیات کے کاموں کی زیادتی کے وقت نکال کر صرف اس لئے ذاتی طور پر بعض بڑھی ہوئی رنجشوں کو سن لیتا ہوں اور حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ ان میں کسی طرح آپس میں محبت اور پیار پیدا ہو.وہ حسین معاشرہ قائم ہو جس کے قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے.لیکن اگر عہد یداران سننے کا حوصلہ رکھنے والے ہوں تو میرا خیال ہے کہ ان معاملات میں میرا یہ کام آدھا ہوسکتا ہے.

Page 268

248 خطبہ جمعہ فرموده 20 جون 2008 خطبات مسرور جلد ششم ایک اور اہم بات جو یہاں امریکی احمدی معاشرے میں فکر انگیز طور پر بڑھ رہی ہے اور یہ بھی تقوی کی کمی ہے اور وہ یہ ہے کہ شادیاں کرنے کے بعد ان کا ٹوٹنا.کبھی لڑکی لڑکے کو دھوکہ دیتی ہے تو کبھی لڑکا لڑکی کو دھوکہ دیتا ہے.کبھی ایک دوسرے کے خاندان ایک دوسرے پر زیادتی کر رہے ہوتے ہیں اور عموماً زیادتی کرنے والوں میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جو اس مکروہ فعل میں ملوث ہوتے ہیں.شادیاں ہو جاتی ہیں تو پھر پسند نا پسند کا سوال اٹھتا ہے.اگر پسند دیکھنی ہے تو شادی سے پہلے دیکھیں.جب شادی ہو جائے تو پھر شریفانہ طریق یہی ہے کہ پھر اس کو نبھائیں.خصوصاً جب بچیوں کی زندگیاں اس طرح برباد کی جاتی ہیں تو زیادہ پریشانی ہوتی ہے.گھر والوں کے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی اور میرے لئے بھی.پس ہمارے لڑکوں اور لڑکیوں کا اگر پسند کا سوال ہو تو یہ معیار ہونا چاہئے کہ دین کیسا ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ کفو نہ دیکھیں یہ بھی ضروری ہے.مگر کفو میں بھی دینی پہلو کو نمایاں حیثیت ہونی چاہئے.آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہی فرمایا ہے کہ جب شادیوں کی پسند دیکھنی ہوتو بہترین رشتہ وہ ہے جس میں دینی یہی پسند تو وہ پہلو دیکھا جاتا ہے.پس ایک تو بہت اہم چیز یہی ہے اس کو دیکھیں اور ایسے رشتے قائم کریں جو پھر قائم رہنے والے رشتے ہوتے ہیں.اس کے ساتھ بچیوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ دین میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اپنی روحانیت کو بڑھائیں تا کہ کسی بچی پر یہ الزام نہ لگایا جائے کہ یہ بے دین ہے اس لئے میرا اس کے ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا.دوسرے دین پر ترقی سے لڑکی میں اتنی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اور اس تعلق کی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور مشکل حالات سے انہیں نکالتا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا آج کل یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور امریکہ میں خاص طور پر یہ بنتا جارہا ہے.مجھے نہیں پتہ کہ ابتدا میں قصور لڑکی کا ہوتا ہے یالڑ کے کا.کچھ نہ کچھ قصور دونوں کا ہوتا ہوگا.لیکن جو باتیں سامنے آتی ہیں، آخر میں لڑکا اور اس کے گھر والے عموماً زیادہ قصور وار ہوتے ہیں.بعض دفعہ بچے ہو جاتے ہیں اور پھر میاں بیوی کی علیحدگی ہوتی ہے.ایک دوسرے کو بچوں کے ذریعے سے جذباتی تکلیف پہنچا کر تنگ کیا جاتا ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ کا بڑا اواضح حکم ہے کہ نہ باپ کو اور نہ ماں کو بچوں کے ذریعہ سے تنگ کرو، تکلیف پہنچاؤ.اور پھر یہ نہیں کہ پھر تنگ ہی کرتے ہیں بلکہ بعض ماؤں سے بچے چھین لیتے ہیں اور جب میں نے اس بارے میں کئی کیسز میں تحقیق کروائی ہے تو مجھے پھر جھوٹ لکھ دیتے ہیں.اگر وہ جھوٹ لکھ کر مجھے دھوکہ دے بھی دیں تو خدا تعالیٰ کو تو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.وہ تو عالم الغیب ہے.تو یہ سب کچھ بھی صرف اس لئے ہوتا ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے اور اس میں بعض ماں باپ بھی اکثر جگہ قصودار ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا یہ تعداد بڑھ رہی ہے جو مجھے فکر مند کر رہی ہے.آپ کے کسی عہدیدار نے مجھے کہا کہ لڑکیوں سے کہیں کہ جماعت میں ایسے ہی لڑکے ہیں ان سے گزارا کریں.تو ایک تو ایسے عہدیداروں سے یہ میں

Page 269

خطبات مسرور جلد ششم 249 خطبه جمعه فرموده 20 جون 2008 کہتا ہوں کہ جب فیصلے کے لئے آپ کے پاس کوئی آئے تو خالی الذہن ہو کر فیصلہ کریں.نہ لڑکے کو مجبور کریں نہ لڑکی کو مجبور کریں اور نہ کسی پر کسی قسم کی زیادتی ہو.دوسرے میرے نزدیک یہ بات ہمارے احمدی نوجوانوں پر بھی بدظنی ہے کہ نہ ہی ان کی اصلاح ہوگی اور نہ ہوسکتی ہے.اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ پر بھی بدظنی ہے کہ اُس میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ان کی اصلاح کر سکے.میں نے تو نصیحت اور دعا سے کئی معاملات میں مختلف قسم کی طبائع میں بڑی واضح تبدیلیاں ہوتے دیکھی ہیں.میں کس طرح بچیوں سے کہوں کہ تمہارے معاملات کا کوئی حل نہیں ہے، زیادتیوں کو برداشت کرتی چلی جاؤ.یا لڑکوں کے بارہ میں یہ اعلان کر دوں کہ وہ قابل اصلاح نہیں ہیں.میں نے تو یہاں آکر نو جوانوں میں لڑکوں میں بھی، مردوں میں بھی ، جو اخلاص دیکھا ہے میں تو ان صاحب کی بات پر یقین نہیں کر سکتا.مجھے تو بہت اخلاص سے بھرے ہوئے نوجوان نظر آ رہے ہیں.اگر چند ایک لڑکے جماعت میں زیادتی کرنے والے ہیں تو اس اعلان کے بعد گویا پھر لڑکوں کو تو کھلی چھوٹ مل جائے گی، ہمیں کھلی چھوٹ دے رہا ہوں گا کہ تم بھی تقوی کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے والے بن جاؤ.پس عہدیدار بھی اپنے سر سے بوجھ اتارنے کی کوشش نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے تربیت کا جو کام ان کے سپرد کیا ہے اسے سرانجام دیں.اور لڑکوں اور لڑکیوں سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے اپنے جائزے لیں اور جس کی طرف سے بھی زیادتی ہے وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اس حسین معاشرے کو جنم دینے کی کوشش کرے جس سے یہ دنیا بھی ان کے لئے جنت بن جائے.نرم دلی اور نیک اعمال اور عبادت کی طرف توجہ پیدا کریں جو تقویٰ کی اساس ہیں، بنیاد ہیں.اگر ہر احمدی اس کی اہمیت کو سمجھ لے تو حقیقی معنوں میں ایک انقلاب ہوگا جو ہم اپنی زندگیوں میں پیدا کرنے والے ہوں گے.لیکن ہمیشہ یادرکھیں کہ اس کے لئے کوشش کرنی ضروری ہے.ان تمام نیک اعمال پر عمل کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بیان فرمائے ہیں.ان کی ایک لمبی فہرست ہے اور آئندہ بھی میں دو دن ان تربیتی امور پر بھی آپ سے کچھ کہوں گا.اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو تو فیق دے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں اور حقیقت میں اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر ہمیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 28 مورخہ 11 جولائی تا 17 جولا ئی 2008 ، صفحہ 5 تا صفحہ 8)

Page 270

خطبات مسرور جلد ششم 250 (26) خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 فرمودہ مورخہ 27 جون 2008ء بمطابق 27 /احسان 1387 ہجری شمسی ہم مقام انٹر نیشنل کانفرنس سینٹر مسی سا گا.انٹاریو ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میرے اس خطبے کے ساتھ جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل.جماعت احمد یہ ایک لمبے عرصے سے جلسوں کے انعقاد کی وجہ سے جو دنیا کے ہر اس ملک میں ہوتے ہیں جہاں جماعت قائم ہے ان جلسوں کے مقصد اور روایات سے اچھی طرح واقف ہوگئی ہے.بلکہ ایم ٹی اے نے تو ہر احمدی کو جو ایم ٹی اے دیکھتا ہے دنیا میں منعقد ہونے والے جلسوں کے نظارے دکھا کر ایک ایسی وحدت میں پرو دیا ہے جس نے مختلف قوموں کے احمدیوں کے مزاج اور روایات بھی ایک کر دیئے ہیں.ایک نیکی اور پاکیزگی کے اثرات ان کے چہروں پر عیاں ہوتے ہیں اور یہ بات ہم دنیا کو چیلنج کر کے بتاتے ہیں کہ یہ ایک مزاج ہے جو جماعت کا ہے.پرسوں یہاں خلافت جو بلی کے حوالے سے جو ریسیپشن (Reception) ہوئی ، جو بینکوئٹ (Banquet) ہوا تھا وہاں اونٹاریو کے پریمئر (Premier) بھی تشریف لائے ہوئے تھے.ان سے باتیں کرتے ہوئے میں نے انہیں یہی بتایا کہ جماعت احمدیہ کا مزاج دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم میں آپ کو ایک جیسا نظر آئے گا اور وہ ہے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش.اور جب تک کسی بھی احمدی میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوشش جاری رہے گی وہ جماعت کا ایک فعال رکن بنا رہے گا اور اس نعمت سے فائدہ اٹھائے گا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں عطا فرمائی ہے.اس کے چہرے پر وہ آثار نظر آئیں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے والے لوگوں میں نظر آتے ہیں اور نظر آنے چاہئیں.یہ عبادت گزار لوگ ہیں.دنیا کے کسی خطے میں چلے جائیں احمدیت کی خاطر بڑھ کر قربانی کرنے والے ہیں اور اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں.ایسے لوگوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَراهُمْ رُكَـعــا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيْمَا هُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح: 30) تو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا.وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں.سجدوں کے اثر سے ان

Page 271

251 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 خطبات مسرور جلد ششم کے چہروں پر ان کی نشانی ہے.پس یہ ان مومنین کی نشانی ہے جو آنحضرت ﷺ کواللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے اور جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اعلان فرمایا.اور اس زمانے میں اس قسم کے عباد الرحمن بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو مبعوث فرمایا جنہوں نے وہ پاک جماعت پیدا فرمائی جس نے وہ عباد الرحمن پیدا کئے جنہوں نے اولین سے ملنے کے نمونے قائم کئے.آپ نے مسلسل نصیحت اور تعلیم کے ذریعے جماعت میں ایسے پاک وجود پیدا کرتے چلے جانے کی طرف توجہ دلائی جن کا مقصد حیات اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانا اور اس کے آگے جھکنا تھا اور جھکنا ہے.آپ نے اپنی جماعت کو ایسے مومن بننے کی طرف توجہ دلائی جو خدا کی نگاہ میں حقیقی مومن ہیں.جن کی غرض عبادتوں کے اعلیٰ معیار پیدا کرنا ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: جو لوگ خدائے تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدائے تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چن لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے اور جن کے حق میں فرمایا ہے سیما هُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ (الفتح: 30) ان میں آثار سجود اور عبودیت کے ضرور پائے جانے چاہئیں کیونکہ خدائے تعالیٰ کے وعدوں میں خطا اور تختلف نہیں“.آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 32-322 پس اگر ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم زمانے کے امام پر ایمان لائے تو ہمارے سجدے اور ہماری عبادتیں اس ایمان کی گواہ ہونی چاہئیں، ہمیں وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار مختلف موقعوں پر اور مختلف طریق سے ہمیں وہ معیار حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس کے حقیقی عبادت گزاروں میں ہمیں شامل کر دے.ہماری عبادتیں صرف کھوکھلی عبادتیں نہ رہیں اور ہمارے ایمان صرف ظاہری ایمان نہ ہوں بلکہ ان حدود کو چھونے والے ہوں ، جہاں خدا تعالیٰ اپنے بندے کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے.اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ مختلف امور سرانجام دیتا ہے.اس کے پاؤں بن جاتا ہے، جس سے وہ چلتا ہے، نیکیوں کی طرف قدم بڑھاتا ہے.ہر مشکل موقع پر خدا تعالیٰ اپنے بندے کے کام آتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا یہ معیار حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تحریر و تقریر کے ذریعہ نصیحت فرمائی اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے جلسوں کا اہتمام فرمایا.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : دد تمام مخلصین داخلین سلسلۂ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت

Page 272

خطبات مسرور جلد ششم 252 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول ا کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351) اللہ تعالیٰ کی محبت دل پر کس طرح غالب کی جانی چاہئے ، یا کس طرح غالب آئے گی.عبادت کس قسم کی ہو؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے، صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمح خام ہے.جیسا کہ قر بانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی بیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو.دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو.اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے.اور سجود یہ کہ اس کے لئے اپنے وجود سے دست بردار ہو.پھر فرماتے ہیں: دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہا تھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کر دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ فرماتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا“.(شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد 6 - صفحہ 398) پس ہمیں ان دنوں میں ان سجدوں کی تلاش کرنی چاہئے جو فروتنی کے سجدے ہوں اور جب ہم اس جلسے کے ماحول کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے فیضیاب ہوتے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شاملین جلسہ کے لئے کی گئی دعاؤں سے حصہ پاتے ہوئے ان سجدوں اور ان عبادتوں کی تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں تو پھر اس پر قائم رہنے کے لئے مزید دعاؤں کی ضرورت ہوگی.تا کہ اللہ تعالی کے فضلوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے، ہماری عبادتوں کے معیار ہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کو اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کے حق میں قبول فرمائے.ہمارے دلوں کو پاک فرمائے.ہمارے دلوں پر صرف اور صرف خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ہ کی حکومت ہو.ان عبادتوں کے لذیذ پھل ہم خود بھی کھانے والے ہوں اور اپنے ماحول کو بھی کھلانے والے ہوں، اپنی نسلوں کو بھی دینے والے ہوں.ہمارے دل ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پاتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوشاں رہیں.جس درد کا اپنی جماعت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اظہار فرمایا ہے اس کو سمجھتے ہوئے ہم خدا تعالیٰ

Page 273

خطبات مسرور جلد ششم 253 خطبه جمعه فرمودہ 27 جون 2008 کے عبادت گزار بندے بننے والے ہوں اور آپ کی دعاؤں سے ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی حصہ پاتی چلی جائیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کیا حکم فرماتا ہے.اس کا مختلف جگہوں پر مختلف حوالوں سے ذکر ہے.سب سے اہم بات تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ واضح فرما دی کہ ایک انسان کو جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے وہ دماغ دیا ہے جو دوسری کسی مخلوق کو نہیں دیا.اسے اپنے قومی کو استعمال میں لانے کے لئے وہ صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دی گئیں.اسے مرنے کے بعد ایک نئی نہ ختم ہونے والی زندگی کی بشارت دی گئی ہے جس میں اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا عمل ہو گا جو کسی دوسری مخلوق کے ساتھ نہیں.پس جو اس اہم نکتے کو سمجھیں گے وہ کامیاب ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کچھ راستے متعین کئے ہیں کہ اگر ان راستوں پر چلو گے تو اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے حامل بنو گے اور اگلے جہان میں بھی.اور وہ راستے کون سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو.وہ ہیں اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بنا اور نیک اعمال بجالا نا بلکہ فرمایا کہ سب سے بنیادی چیز اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اسی مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) اس کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: چونکہ انسان فطرتا خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ (الذاريات :57) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.مگر جولوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سور ہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی.وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے.موت کا اعتبار نہیں ہے تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست ، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے.اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردد نہ کرے، تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے.نہیں، اصل

Page 274

خطبات مسرور جلد ششم 254 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 بات یہ ہے کہ یہ سب کا روبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ الذاریات آیت 57 جلد چہارم صفحہ 236 237) پھر آپ فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے....جواس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خریدلوں ،فلاں مکان بنا لوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے.انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ قابل قدر شے ہو جائے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخری تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جائے گا.(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الذاریات زیر آیت نمبر 57 جلد چہارم صفحہ 239 ) تو یہ ہے ہمارا مقصد پیدائش جسے کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت رکھ دی ہے اور اس فطرت کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب ایک ایسا انسان بھی جو دنیا میں ڈوب کر خدا تعالیٰ کو بھول بیٹھا ہو جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو، کشتی طوفان میں گھر جائے تو بے اختیار اس کی نظر آسمان کی طرف اٹھتی ہے.لیکن کیونکہ دنیا داری غالب ہوتی ہے.اس مشکل سے رہائی کے بعد ایسے لوگ خدا کو پھر بھول جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے.لیکن جو عباد الرحمن ہیں وہ مشکل سے رہائی پانے کے بعد پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں.اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کے قرب کے پانے کے لئے استعمال کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کائنات کی ہر چیز جو انسان کے علم میں ہے یا علم میں آتی ہے اسے خدا تعالیٰ کی پہچان کروانے والی اور اس کی عبادت میں بڑھانے والی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی تخلیق پر جب ایک اللہ تعالیٰ کا عابد بندہ غور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مزید اپنی زبان کو تر کرتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأَوْلِي الْأَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللهَ | قِيمًا وَقُعُوْدًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِي خَلْقِ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ.( آل عمران : 191) آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے کئی نشان موجود ہیں.وہ عظمند جو کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں پر بھی ، لیٹے ہوئے بھی اللہ کی یاد کر تے رہتے ہیں اور آسمان

Page 275

255 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 خطبات مسرور جلد ششم و زمین کی پیدائش پر غور کرتے رہتے ہیں.یہ عقل جو انسان کو خدا تعالیٰ نے دی ہے اور اسے جو اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز بخشا ہے، یہ ایک عابد بندے کو جب وہ اس کی پیدائش پر غور کرتا ہے خدا تعالیٰ کے مزید قریب کرتا ہے.لیکن افسوس ہے کہ آج کل بعض پڑھے لکھے اس تخلیق کو دیکھ کر اپنی عقلوں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور راہ راست سے ہٹ جاتے ہیں لیکن عبادت گزار، خدا پر یقین رکھنے والے ، اس کی عبادت کرنے والے اپنی ان مخفی صلاحیتوں کو جو خدا تعالیٰ نے انہیں ودیعت کی ہیں اللہ تعالیٰ کی پہچان اور اس کی وحدانیت کے مزید عرفان سے فیضیاب ہونے کا ذریعہ بناتے ہیں.مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرتے ہوئے اپنی تھیوری کو ثابت کیا اور قرآن کریم کی ایک آیت سے رہنمائی حاصل کی.پس یہاں پلنے بڑھنے والے نو جوان اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں کہ جتنا آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیں گے، اس سے مدد مانگتے ہوئے اپنی مخفی صلاحیتوں کو چمکائیں گے اتنا ہی آپ ان دوسرے لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ کی مخلوق اور دنیاوی علوم کا زیادہ فہم اور ادراک حاصل کرنے والے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی پہچان نہ کرنے والے رکھتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ آپ کو عرفان حاصل ہو گا جو اس کی عبادت نہ کرنے والے کسی چیز کا عرفان رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ نے کائنات کے مضامین پر جو قرآن کریم میں روشنی ڈالی ہے، اسے ایک پاک دل اور عبادت کرنے والے احمدی سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہے تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک عابد بندے کی اپنی مخلوق کی پیدائش کی طرف رہنمائی کرتا ہے، زمین و آسمان اور کائنات میں جو کچھ پیدا کیا ہے اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے.اس کی مکمل گہرائی تک ایک غیر عابد نہیں پہنچ سکتا.ایک غیر مسلم کو اس کی تحقیق خدا کا علم دلانے کی بجائے تکبر میں مبتلا کرتی ہے لیکن ایک عابد اللہ تعالیٰ کی تخلیق دیکھ کر مزید اس کی طرف جھکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ایک مومن کو ایمان میں بڑھاتے ہوئے اس کی طرف جھکنے والا اور اس کی عبادت کرنے والا بناتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آیت کی وضاحت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : مومن وہ لوگ ہیں جو خدائے تعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں عجائب صنعتیں موجود ہیں ان میں فکر اور غور کرتے رہتے ہیں اور جب لطائف صنعت الہی ان پر کھلتے ہیں تو کہتے ہیں خدایا تو نے ان صنعتوں کو بے کار پیدا نہیں کیا.یعنی وہ لوگ جو مومن خاص ہیں صنعت شناسی اور ہیئت دانی سے دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے کہ مثلاً اسی پر کفایت کریں کہ زمین کی شکل یہ ہے اور اس کا قطر اس قدر ہے اور اُس کی کشش کی کیفیت یہ ہے اور آفتاب اور ماہتاب اور ستاروں سے اس کو اس

Page 276

خطبات مسرور جلد ششم 256 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 قسم کے تعلقات ہیں.بلکہ وہ صنعت کی کمائیت شناخت کرنے کے بعد اور اس کے خواص کھلنے کے پیچھے صانع کی طرف رجوع کر جاتے ہیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں“.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 143-144) اور ایمان کو مضبوط کرنے والے لوگوں کی نشانی یہ ہے.اس بارے میں خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِايْتِنَا الَّذِيْنَ إِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لا يَسْتَكْبِرُوْنَ (السجدة: 16) ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کو ان کے متعلق یاد دلایا جاتا ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف اور تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے.پس یہ ہے مؤمن کی نشانی اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا جب اسے عرفان حاصل ہوتا ہے تو وہ خدا کے حضور جھکتا ہے.اللہ تعالیٰ کی آیات میں قرآنی تعلیم بھی ہے انبیاء کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والے نشانات بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز بھی.پس جتنا ایک مومن قرآن کریم کی تعلیم پر غور کرتا ہے اپنے ماحول پر غور کرتا ہے خدا تعالیٰ کی ہر قسم کی پیدائش پر غور کرتا ہے، کائنات پر غور کرتا ہے اس کے لئے کوئی راہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کا عبادت گزار بنے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ ہم احمدیوں کو خاص طور پر جگانے والا ہونا چاہئے کہ جو لوگ اپنی اصل اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جاپڑتے ہیں.پس یہ ایک احمدی کے لئے بڑے فکر کا مقام ہے.ایک طرف تو ہم فضل کو سمیٹنے کے لئے اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے والے سمجھیں یا کہیں اور اس وجہ سے دنیا کی مخالفت بھی مول لے رہے ہیں.بعض احمدی اپنے غیر از جماعت قریبی رشتہ داروں کی سختیوں کا بھی سامنا کر رہے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم عبادت کی طرف اس کا حق ادا کرتے ہوئے توجہ نہیں دے رہے تو نہ صرف دنیاوی رشتوں اور ماحول کی مخالفت کا ہم سامنا کر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھی دور جارہے ہیں.پس ہم میں سے وہ جو نمازوں میں اپنی حالتوں کے خود جائزے لیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اس درد کو محسوس کریں جو آپ کو ہمارے لئے ہے بلکہ یہ درد تمام انسانیت کے لئے ہے.لیکن جب آپ فرماتے ہیں کہ انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے تو ہم احمدی سب سے پہلے آپ کے مخاطب ہوں گے.ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب تلاش کرنے کے لئے اس کے حضور جھکنے کی ضرورت ہے.اس کی عبادت کی ضرورت ہے اور عبادت میں سب سے بہترین عبادت نمازوں کی ادائیگی ہے.اور نمازوں کی ادائیگی کس طرح ہونی چاہئے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل

Page 277

خطبات مسرور جلد ششم 257 خطبه جمعه فرمودہ 27 جون 2008 میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اس کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا تعالیٰ سے بہت مانگے اور بہت توبہ واستغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا تعالیٰ سے پکا تعلق پیدا ہو جاوے اور اسی کی محبت میں محو ہو جاوے.اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے.( تفسیر سورۃ فاتحہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 195) پھر آپ فرماتے ہیں: ” نماز اصل میں ایک دعا ہے جو سکھائے ہوئے طریقہ سے مانگی جاتی ہے.یعنی کبھی کھڑے ہونا پڑتا ہے کبھی جھکنا اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 335.جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) پس خدا تعالیٰ کا قرب اور اس سے سچا تعلق ہے جو ہم میں سے ہر ایک کا مطمح نظر ہونا چاہئے اور جب یہ سچا تعلق ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ پھر اپنے بندے کو تمام فکروں سے آزاد کر دیتا ہے وہ دنیا کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتے لیکن دنیا کی نعمتیں ان کا مقصود نہیں ہوتیں.انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی وہ ایسی طاقت نظر آتے ہیں جن سے مخالف ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں.پس یہ معیار ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص بچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.یہ یقینی اور سچی بات ہے کہ جو خدا کے ہوتے ہیں خدا ان کا ہوتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کی نصرت اور مدد کرتا ہے بلکہ ان پر اس قدر انعام واکرام نازل کرتا ہے کہ لوگ ان کے کپڑوں سے بھی برکتیں حاصل کرتے ہیں.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 387 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے والے لوگوں سے ایک بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا ہے یعنی خلافت کا.عبادت کرنے والوں سے ہی خلافت کے انعام کا بھی وعدہ ہے.پس آج ہر مرد اور عورت کی، ہر جوان اور بوڑھے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عبادت کے معیار بڑھانے کی طرف توجہ کرے.خلافت کی برکات کا فیض انہی کو پہنچے گا جو خود بھی عبادت گزار ہوں گے اور اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پھونکیں گے.اللہ تعالیٰ کی نعمت سے فیض پانے والے وہی لوگ ہوں گے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے.اس آخرین کے دور میں جب شرک کی طرف رغبت دلانے کے لئے نئے نئے طریق ایجاد ہو گئے ہیں.جب

Page 278

خطبات مسرور جلد ششم 258 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 تجارتوں اور کھیل کود کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور کرنے کی کوشش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.جب شیطان انسان کو ورغلانے میں پہلے سے زیادہ مستعد ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے ، اس کی عبادت کی طرف توجہ کرنے کے لئے ہمیں کوشش بھی پہلے سے بہت بڑھ کر کرنی ہوگی.60 اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص بچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.ایسے عبادت کرنے والے کبھی ضائع نہیں ہوں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.ان کی نسلیں بھی شیطان کے شر سے بچی رہیں گی اور خلیفہ وقت کی دعائیں ان کے حق میں اور ان کی دعائیں خلافت کے حق میں پوری ہوتی رہیں گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو ایسے لوگ عطا فرمائے ہوئے ہیں جو اس کی عبادت کرنے والے ہیں تبھی تو خلافت کے انعام سے بھی ہم فیضیاب ہورہے ہیں اور انشاء اللہ، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ عبادت گزاروں کے لئے تمکنت دین کے سامان خلافت احمدیہ کے ذریعہ پیدا فرما تا چلا جائے گا.لیکن میں پھر اس بات کو دہراؤں گا کہ ہر ایک کو اپنے آپ کو اس گروہ میں شامل کرنے اور شامل رکھنے کے لئے خود بھی کوشش کرنی ہوگی.27 مئی کو جو خلافت جوبلی منائی گئی.لندن میں ایک بڑا فنکشن ہوا اور دنیا بھر میں بھی ہوا.دنیا کی جماعتوں نے جہاں اور پروگرام بنائے اور ان پر عمل کیا وہاں دعاؤں اور نوافل کا بھی اجتماعی پروگرام رکھا اور دنیا کے ہر ملک کی جماعت نے اس کا بڑا اہتمام کیا.کینیڈا سے بھی مجھے کسی نے لکھا کہ ہم گھر سے مسجد کی طرف رات کو اڑھائی بجے نکلے.سڑک پر جہاں عموما مسجد تک پہنچنے میں 45 منٹ کا وقت صرف ہوتا ہے 20 منٹ میں مسجد کے قریب پہنچ گئے کیونکہ ٹریفک نہیں تھا.لیکن مسجد کے قریب پہنچ کر دیکھا تو اتنی لمبی کاروں کی لائنیں تھیں کہ وہ چند سو گز کا فاصلہ طے کرتے ہوئے آدھا گھنٹہ لگ گیا اور مشکل سے نوافل کی آخری رکعتوں میں پہنچے.پس یہ معیار جو آپ نے قائم کرنے کی کوشش کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ خلافت احمدیہ سے آپ کی محبت ہے.کمزور سے کمزور احمدی کے دل میں بھی اس محبت کی ایک چنگاری ہے جس نے اس دن اپنا اثر دکھایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوئی تا کہ خلافت احمدیہ کے قیام اور استحکام کے لئے دعائیں کریں.پس اس چنگاری کو شعلوں میں مستقل بدلنے کی کوشش کریں.اس کو کبھی ختم نہ ہونے دیں.ان شعلوں کو آسمان تک پہنچانے کی ہر احمدی کو ایک تڑپ کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ یہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.یہی اللہ تعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہونے کا ذریعہ ہے.یہی اللہ تعالیٰ کے فیض یافتہ گروہ کا حصہ بنے کا ذریعہ ہے.آج یہاں جلسہ کے ذریعہ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانی ترقی اور عبادتوں میں آگے بڑھنے کا ماحول میسر فرمایا ہے.یہ جلسہ عام جلسوں کی نسبت اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ خلافت جو بلی کا یہ جلسہ ہے اور اس جلسے سے صرف ایک مہینہ پہلے آپ نے

Page 279

خطبات مسرور جلد ششم 259 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2008 ایک عہد کیا ہے.اس عہد کی تجدید کا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع عطا فرمایا ہے.ہر ایک اپنے خدا سے اپنے سجدوں میں پھر یہ عہد کرے کہ جو مثال ہم نے 27 مئی کو قائم کی تھی ، جس طرح دعاؤں اور عبادتوں کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ کے احسان سے توجہ پیدا ہوئی تھی اسے ہم اپنی زندگیوں کا دائمی حصہ بنانے کی کوشش کریں گے تا کہ ہمارا شمار ہمیشہ ان لوگوں میں ہوتا رہے جو خدا تعالیٰ کے نیچے عابد ہیں اور جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کا خلافت کا وعدہ ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے.خدا کرے کہ یہ جلسہ ہر ایک میں عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانے والا ثابت ہو.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 29 مورخہ 16 جولائی تا 24 جولائی 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7

Page 280

خطبات مسرور جلد ششم 260 (27) خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2008 ء بمطابق 04 روف 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت النور کیلگری ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الحمد للہ جماعت احمدیہ کینیڈا کو ایک اور مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی.گو کہ نمازوں کے ساتھ اس کا افتتاح تو ہو چکا ہے لیکن رسمی افتتاح خطبہ جمعہ کے ساتھ ہو رہا ہے.کیلگری میں ایک لمبے عرصہ سے مسجد کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے.کچھ سال پہلے اگر مسجد بنتی تو ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی اور خوبصورت مسجد نہ بنتی.کل جب میں ائر پورٹ پر پہنچا ہوں تو شہر کے میئر اور کچھ صوبائی اسمبلی کے ممبران ائر پورٹ پر ریسیو (Recieve) کرنے آئے ہوئے تھے اُن سے بھی باتیں کرتے ہوئے میں نے کہا کہ امید ہے کہ یہ مسجد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے شہر میں ایک خوبصورت اضافہ ہوگی.تو سب نے اس کی خوبصورتی کی تعریف کی اور مجھے بتایا کہ مختلف سڑکوں سے اس مسجد کا خوبصورت نظارہ نظر آتا ہے.میں نے اُس وقت مسجد دیکھی نہیں تھی لیکن ائیر پورٹ سے آتے ہوئے دُور سے ہی اس کا مینارہ اور گنبد نظر آئے.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے جماعت احمد یہ کینیڈا کو اس علاقے میں ایک خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق دی.یہ مسجد جو تقریباً 15 ملین ڈالر کی لاگت سے بنی ہے اور یہاں یہ جگہ بھی بڑی اچھی مل گئی ہے.چارا یکڑ کا رقبہ ہے.کیونکہ ساری دنیا سن رہی ہوتی ہے اس لئے معلومات مہیا کر رہا ہوں.یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ (Project) تھا جو یہاں کی جماعت نے شروع کیا.مجھے اکثر یہاں سے افراد جماعت کے خطوط جاتے تھے اور ابھی بھی آ رہے ہیں کہ ہم نے اتنا وعدہ مسجد کے لئے کیا ہوا ہے بظاہر حالات ایسے نہیں کہ وعدہ جلد پورا ہو سکے.دعا کریں کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر سکیں.بڑی قربانی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے دی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے جنہوں نے اس مالی قربانی میں حصہ لیا اور ان لوگوں کو بھی توفیق دے جنہوں نے بڑے وعدے کئے ہیں لیکن حالات کی مجبوری کی وجہ سے اپنے وعدے فوری طور پر مکمل طور پر پورے نہیں کر سکے.ایک بے چینی کی کیفیت ان کے دلوں میں بھی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت دے.

Page 281

261 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم یہ مسجد کی تعمیر ظاہر کرتی ہے کہ باوجود ان ملکوں میں رہنے کے جماعت کے افراد خدا تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں.دنیا میں بسنے والے دوسرے احمدیوں کی معلومات کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ، یہ بھی بتا دوں کہ اس مسجد کا نقشہ اس لحاظ سے بہت خوبصورت اور اچھا ہے کہ ایک تو مسجد کا مین ہال (Main Hall) ہے.عورتوں اور مردوں کا جو مسقف حصہ ہے اس میں 10 ہزار 4 سو مربع فٹ ہے.اس کے علاوہ ایک ملٹی پرپز (Multy Purpose) ہال بھی ہے 7 ہزار 200 مربع فٹ کا.ڈائٹنگ ہال ہے تقریباً 18 سو مربع فٹ کا ہے.رہائش کے حصے ہیں، جماعت اور ذیلی تنظیموں کے دفاتر ہیں.تو ایک اچھا بڑا کمپلیکس ( Complex) ہے.بہر حال فی الحال تو جماعتی ضروریات کے لئے کافی ہے.اللہ تعالیٰ ہماری ضرورتیں بھی بڑھا تا ر ہے اور اُس کے حضور مزید پیش کرنے کی اور مزید مسجدیں بنانے کی توفیق بھی ہم پاتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسجد کو یا مسجدوں کو جماعت کے پھیلنے کا ذریعہ بتایا ہے.اللہ کرے کہ یہ مسجد بھی اس مقصد کو پورا کرنے والی ہو اور پھر جیسا کہ میں نے کہا ایک سے اگلی مسجد بھی تعمیر ہوتی رہے اور جاگ لگتی چلی جائے.مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑگئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہئے ، پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت با خلاص ہو.محض اللہ اسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تو تب خدا برکت دے گا“.فرمایا ” غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہیں.پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے.اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد و اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنی ادنی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 93 - جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) اس زمانہ میں، ان مغربی ممالک میں ہماری مساجد اسلام کی طرف کھینچنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں.بلکہ آج جبکہ اسلام کے خلاف ایک مہم زور وشور سے شروع ہے غیر مسلموں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ ہماری مساجد ہیں اور ہونی چاہئیں.یہ قربانی جو آپ نے کی ہے اس کے پیچھے یقینا وہ روح ہے اور ہونی چاہئے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ

Page 282

خطبات مسرور جلد ششم 262 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد ڈالی جائے.مسلمانوں کی توجہ بھی ہوگی اور غیر مسلموں کی توجہ بھی ہوگی.پس اللہ کرے کہ یہ مسجد جو آپ نے محض اللہ بنائی ہے جس میں یقینا نفسانی اغراض اور شر کو دخل نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا.ہم تو اس مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں آنحضرت ﷺ کے اس عاشق صادق کے ماننے والے ہیں جو اس زمانے میں بندے کو خدا کے قریب کرنے آیا ہے.جو بندے کو بندے کے حقوق بتانے آیا ہے.جو ہر قسم کے شر کو دور کرنے آیا ہے.جو اپنے ماننے والوں کو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلانے آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”یقینا سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولتمند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 596 - جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس خالص خدا کے ہونے والے مسجد کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور آپ کی بیعت کا بھی حق ادا کرتے ہیں.مسجد کا حق کس طرح ادا ہوتا ہے؟ یہ حق جیسا کہ آپ نے فرمایا اُس وقت ادا ہو گا جب سب مل کر مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں گے اور اس باجماعت نماز سے غرض علاوہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے یہ ہے کہ اتفاق اور اتحاد کو ترقی ہو اور ادنی ادنی باتوں کو نظر انداز کیا جائے.صرف مسجدیں بنانا کام نہیں ، بلکہ یہ مسجد میں اس وقت کارآمد ہوں گی جب ان میں خدا کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں اور خدا کی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں.ورنہ ایسی مساجد جو یہ حق ادا نہیں کر رہیں ان کو خدا تعالیٰ نے مسجد ضرار کے نام سے موسوم کیا ہے.جو مومنوں کے دل جوڑنے کی بجائے ، جو ایک دوسرے کے حقوق کی طرف توجہ کرنے کی بجائے یا کروانے کی بجائے مومنوں میں پھوٹ ڈالنے کا ذریعہ بن رہی ہیں.آج دیکھ لیں اُن لوگوں کی مساجد یہی کردار ادا کر رہی ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو نہیں مانا.ایک دوسرے پر کفر کے فتوے اور اگر کسی جگہ پر کہیں کسی میں آپس میں اتفاق ہے بھی تو جماعت احمدیہ کے خلاف کفر کے فتوے دینے پر اتفاق ہے.نفرتوں کے لاوے اہل رہے ہیں ان لوگوں کے دلوں میں سے کئی غیر از جماعت بھی بعض دفعہ اس بات کا بر ملا اظہار کر جاتے ہیں کہ جو امن اور پیار کے درس تمہاری مساجد سے دیئے جاتے ہیں اس سے ہماری مساجد خالی ہیں.اور کیوں نہ ہوں ؟ یہ اس نبی صادق کی پیشگوئی ہے جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ اعلان خدا سے خبر پا کر کیا تھا کہ میرے مسیح اور مہدی کے ظہور سے پہلے اور اس زمانے میں مساجد کا یہی حال ہو گا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا اور الفاظ کے سوا قر آن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آبا د نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی.ان کے علماء آسمان کے

Page 283

خطبات مسرور جلد ششم 263 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے.یعنی تمام خرابیوں کا وہی سر چشمہ ہوں گے.(شعب الايمان للمبنى الثامن عشر من شعب الایمان باب في نشر اعلم والا يمنع اهله الله حدیث نمبر 1763 مكتبة الرشد، ریاض 2004ء ) پس آج ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی.پس ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر ہمیشہ اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں.زمانے کے امام سے سچا تعلق قائم کرنے والے بھی ہوں.صرف خوبصورت مسجد ہی ہمارے کام نہیں آئے گی ، خوبصورت مسجد بنا دینا ہی کافی نہیں ہے.اس کے اندر لگے ہوئے قیمتی فانوس جو ہیں یہ ہمارے کسی کام نہیں آئیں گے.بلند و بالا مسجد جو دور سے نظر آتی ہے ہمارے کسی کام نہیں آئے گی.آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانے میں بلند و بالا مساجد تعمیر ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے بے بہرہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب فرمایا کہ مسلمان پیدا کرنے کے لئے مسجد میں بناؤ تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ضروری نہیں کہ مسجد مرقع اور کی عمارت کی ہو.خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا.مسجد نبوی جو تھی ایک لمبے عرصے تک کچھی مسجد ہی رہی تھی لیکن تقویٰ پر اس کی بنیادیں تھیں.جس کی خدا نے بھی گواہی دی.افریقہ میں ہماری جماعتیں قائم ہوئی ہیں اکثر جگہ غریباندی مسجد ہم بناتے ہیں لیکن اللہ تعالی کے فضل سے یہی مسجد میں وہاں مضبوط جماعت کے قیام کا ذریعہ بن جاتی ہیں.حالات کے مطابق اور اس لئے کہ غیروں کی توجہ کھینچی جائے بڑی بڑی مساجد بھی جماعت بناتی ہے اور یہ مسجد بھی آپ نے یقیناً اس سوچ سے بنائی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا شروع ہو گئی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ مزید بنے گی.لیکن یہ کبھی نہ بھولیں کہ اس کی تعمیر کے بعد ایک اور بہت اہم کام کے ذمہ دار ہم بنا دیئے گئے ہیں اور وہ ہے اس کی آبادی.اور ایسے پاک لوگوں سے آبادی جن کا دل اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے بھرا ہوا ہو.جو خوف خدا رکھتے ہوں اور اس خوف کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور اس کی عبادت کرنے والے ہوں.اور عبادت کے ساتھ حقوق العباد اور نظام جماعت کی اطاعت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں.کیونکہ ہماری مساجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اُس گھر کی طرز پر اور ان مقاصد کے حصول کے لئے رکھی جاتی ہے جس کی بنیا دیں جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل نے دوبارہ دعائیں مانگتے ہوئے اٹھائی تھیں تو ان کے بہت بڑے بڑے مقاصد تھے.جو گھر لوگوں کے بار بار جمع ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم فرمایا ہے کہ تم بھی اس مقصد کے لئے مسجدیں بناؤ جو مقصد حضرت ابراہیم کا تھا تبھی یہ مسجد ان مسجدوں میں شمار ہوگی جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اور تقویٰ سے بنائی جاتی ہیں.

Page 284

264 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَاَمْنًا، وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيْمَ وَإِسْمَعِيْلَ أَنْ طَهِرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِيْنَ وَالْعَاكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (البقرہ: 126) یعنی ہم نے اپنے گھر کو لوگوں کے بار بار اکٹھا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کی جگہ پکڑو اور ہم نے ابراہیم اور اسمعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک صاف بنائے رکھو.پس یہ مسجد جو آج ہم نے بڑی قربانی کر کے بنائی ہے اس کو ایک خوبصورت عمارت کے طور پر بنا کر چھوڑ دینا ہمارا کام نہیں.بلکہ اس کی خوبصورتی اس وقت مزید بڑھے گی جب ہم بار بار یہاں آئیں گے.پانچ وقت نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی.ہم پانچ وقت کی نمازوں کے لئے یہاں حاضر نہیں ہوتے تو بار بار آنے کا مقصد پورا نہیں کر رہے ہوں گے.اور پھر ہم آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق ایک نماز سے اگلی نماز اور ایک جمعہ سے اگلے جمعہ، جو انسان کو بڑے گناہوں سے بچاتا ہے.(المستدرك على الصحيحين كتاب العلم حدیث نمبر 412 مکتبہ نزار مصطفی الباز، سعودیہ - الطبعة الاولی 2000 ء ) اس بات کی ضمانت سے بھی محروم ہور ہے ہوں گے کہ ان گناہوں سے بچیں گے.پس اگر برائیوں سے بچنے کی ضمانت حاصل کرنی ہے تو خالص ہو کر واحد و یگانہ خدا کی عبادت کے لئے بار بار اس مسجد میں آنا بھی ضروری ہے اور یہی اس مسجد کی اصل خوبصورتی اور زینت ہے.اس میں آپ کے امن کی بھی ضمانت ہے اور علاقے کے امن کی بھی ضمانت ہے.نیک اور عبادت گزار لوگوں کی خاطر اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی آفات سے بچا لیتا ہے.پھر مسجد میں آنے والے جب خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے، مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور یہ بھی معاشرے کے امن کا باعث بنے گی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّى یعنی جس مقام پر حضرت ابراہیم کھڑے تھے تم بھی اس مقام پر کھڑے ہونے کی کوشش کرو اور وہ مقام تقویٰ کا تھا.ظاہری پتھر یا جگہ کی نشاندہی کی جاتی ہے اصل چیز جو ہے، جو مقام ہے وہ تقویٰ ہے.اور انسان جب اس مقام پر کھڑا ہوتا ہے تو خدا کی حقیقی پہچان اسے ہوتی ہے.پھر وہ خدا تعالیٰ کی عبادت میں بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے دین کی خاطر قربانیاں دینے کی کوشش کرتا ہے.پس یہ مقام ابراہیم صرف رسمی اور ظاہری جگہ نہیں بلکہ ان عبادتوں اور قربانیوں کے تسلسل کا نام ہے جو حضرت ابراہیم نے خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے کیں.اگر ہم یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ، ان دعاؤں کی طرف بھی توجہ کریں گے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیں تو اپنی نسلوں کے نیکیوں پر قائم ہونے کے سامان کر رہے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے نہ صرف خود حصہ لے رہے ہوں گے بلکہ اپنی اولادوں کو بھی اس انعام

Page 285

265 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم کے ساتھ جوڑ رہے ہوں گے جو اس زمانے کے ابراہیم کو خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً ابراہیم کہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا سلام عَلَى إِبْرَاهِيْمَ صَافَيْنَاهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّى قُلْ رَّبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ “ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یعنی سلام ہے ابراہیم پر.یعنی اس عاجز پر ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ) ہم نے اس سے خالص دوستی کی اور ہر ایک غم سے اس کو نجات دے دی اور تم جو پیروی کرتے ہو تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ اور پھر فرمایا کہہ اے میرے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو بہتر وارث ہے..گے.آپ فرماتے ہیں کہ اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ خدا اکیلا نہیں چھوڑے گا اور ابراہیم کی طرح کثرت نسل کرے گا اور بہتیرے اس نسل سے برکت پائیں گے..آپ فرماتے ہیں اور یہ جوفر مایا کہ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلَّی یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالا ؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونے پر اپنے تئیں بناؤ“.پھر فرمایا ایسا ہی یہ آیت وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب اُمت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابرا ہیم کا پیرو ہو گا“.(اربعین.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 420-421) پس یہ ہے ایک احمدی کی زندگی کا مقصد کہ کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ.اب کامل پیروی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ہر احمدی کامل پیروی کی طرف متوجہ اس وقت قرار پائے گا جب ہر وقت یہ ذہن میں رکھے کہ اطاعت کے بہترین نمونے قائم کرنے ہیں.اپنے عہد بیعت کا ہر دم خیال رکھنا ہے.شرائط بیعت پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کرنی ہے.تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اولاد میں شامل ہوں گے اور حضرت ابراہیم کی اس اولاد کی طرح جو نیکیوں پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنی، اس زمانہ کے ابراہیم کی کامل اطاعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا.آپ کو مخلصین کی جماعت عطا فرماتا چلا جائے گا.لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں ، اپنی مسجدوں کی آبادی کے وہ معیار حاصل کریں ، امن و سلامتی اور محبت کے وہ

Page 286

خطبات مسرور جلد ششم 266 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 نمونے قائم کریں جو خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے ہوں.اطاعت نظام کے حق ادا کریں جو کبھی ہمیں ان انعاموں سے محروم نہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے مقدر کئے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بناؤ یعنی ابراہیم کی طرز پر، اس زمانے کے ابراہیم کی طرز پر اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ اور جب ایسا کرو گے تو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل قرار دیئے جاؤ گے جو اسلام کے فرقوں میں سے نجات یافتہ فرقہ ہے.جس پر اللہ تعالیٰ نے خلافت کا بھی انعام فرمایا ہوا ہے.جو ایک جماعت کی شکل میں ہے.جس کے افراد ایک ہاتھ پر اٹھنا بیٹھنا جانتے ہیں.جو قربانیاں کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں.جو خانہ کعبہ کی طرز پر اپنی مسجدیں بناتے ہیں.جو اپنی اولادوں کو حضرت ابراہیم کی طرح دین کی خاطر قربان کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں.پس ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں حسب توفیق مساجد بھی بناتے چلے جانا ہے تا کہ اسلام کی طرف دنیا کی توجہ بھی رہے اور اپنی اولادوں کو بھی دین کی خاطر قربان کرتے چلے جانا ہے تا کہ ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جود نیا میں خدائے واحد کی پہچان کروانے والے ہوں.اس کا پیغام دنیا میں پھیلانے والے ہوں.یہاں ایک بات کی طرف میں خاص طور پر توجہ دلانی چاہتا ہوں.وہ یہ کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالا و یعنی اب اس زمانے میں نجات اسی میں ہے کہ اپنی عبادتوں کو اس شوق اور توجہ اور اس طریق پر ادا کرو جو اس زمانے کے حکم و عدل نے ہمیں بتائے ہیں یا ہم سے خواہش کی ہے.جو زمانے کے امام نے ہمیں بتائے ہیں.اپنے عقیدے پر اس طرح قائم ہو جس طرح اس زمانے کے امام ہمیں قائم کرنا چاہتے ہیں.ان اصولوں پر چلو جو اس زمانے کے حکم اور عدل نے ہمیں بتائے ہیں.ذاتی خواہشوں اور دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے اپنے عقیدے کے سودے نہ کرو.عقیدہ کیا ہے؟ یہ دلی یقین کی وہ کیفیت ہے جس کے مقابلے پر ہر دوسری چیز بیچ ہے اور ہونی چاہئے.کسی بھی چیز کی اس کے مقابلے پر کوئی اہمیت نہیں.ہر احمدی یہ عقیدہ رکھتا ہے اور اس پر کامل یقین اور ایمان کے ساتھ قائم ہے کہ آنحضرت میہ کی پیشگوئیوں کے مطابق پر جس مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام ہیں، ان کی صورت میں ظاہر ہوا.اور آپ کی بیعت میں آ کر اب ہمارے لئے آپ کا ہر حکم بجالا نا ضروری ہے.لیکن بعض دفعہ لوگ اپنی ذاتی پسند کی وجہ سے ایسے فعل کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو ان کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان اور اعتقاد کو ڈانواں ڈول کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” جو اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے وہ ظالم ہے.وہ اس حرکت کی شدت کو نہیں سمجھتے جو وہ بعض دفعہ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر کر رہے ہوتے ہیں جو انہیں بیعت کے دعوئی

Page 287

خطبات مسرور جلد ششم 267 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 سے منحرف کر رہا ہوتا ہے.جس کی ایک مثال میں پیش کرتا ہوں.یہ کمزوری ہے جو بعض دفعہ شدت سے بڑھنے لگ گئی ہے اور جو میرے نزدیک بڑی واضح اعتقادی غلطی بھی ہے اور یہ مسئلہ ہے شادی بیاہ کا.شادی کرنا ایک احسن عمل ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور آنحضرت مہ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے بیوگان کو ایک طرح کا حکم دیا ہے کہ وہ شادی کریں اور اس کے عزیز اس کے راستہ میں روک نہ بنیں.آنحضرت عہ بھی اپنے صحابہ کو تحریک فرماتے ،شادی کی ترغیب دلاتے تھے ، رشتے بھی تجویز فرماتے تھے.لیکن یہی مستحسن عمل جو ہے بعض حالتوں میں بعض احمدی خاندانوں کے لئے ابتلاء بن جاتا ہے اور اس میں نظام جماعت کا کوئی قصور نہیں ہوتا.لیکن بعض لوگ نظام جماعت کو بھی الزام دیتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب ایک شخص اپنی مرضی سے کسی غیر از جماعت لڑکی یا عورت سے شادی کرتا ہے اور اس خوف سے کہ نظام جماعت یا بُر امنائے گا اور مجھے اجازت نہیں ملے گی یا بعض اوقات غیر از جماعت لڑکی والوں کی طرف سے بھی یہ شرط رکھ دی جاتی ہے کہ نکاح غیر از جماعت مولوی یا کوئی شخص پڑھائے تو ایسے لوگ غیر از جماعت سے نکاح پڑھوا لیتے ہیں اور ایک ایسی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے باہر نکال دیتی ہے.کیونکہ یہ نکاح پڑھانے والے وہ شخص ہوتے ہیں، یا ہوتا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی ہوئی ہوتی ہے.آپ کی تکفیر کرنے والے ہیں.گویا عملاً ایسا احمدی لڑکا یا اس کا خاندان جو اس شادی میں اس کا مددگار ہوتا ہے یہ اعلان کرتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے باہر نکل کر مولوی سے یہ نکاح پڑھوا کر نعوذ باللہ آپ کی تکفیر اور تکذیب کرتا ہوں.ایسے شخص یا اشخاص اعتقادی لحاظ سے آپ کے دعوی مسیحیت اور مہدویت سے انکاری ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مکفر اور مکذب مولوی کو آپ کے مقابل پر کھڑا کیا ہے.اور جب اس بات پر اخراج از جماعت ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہوا ہے.نکاح تو ہم نے مسنون طریقہ سے پڑھایا تھا.اگر کسی کے باپ کو کوئی برا بھلا کہنے والا ہو تو اس پر تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے غیرت کا سوال آتا ہے تو ایسے لوگوں کی غیر تیں مصلحت اور نفسانی خواہشات کا شکار ہو جاتی ہیں.اگر ایسی کوئی اضطراری کیفیت ہے تو ایسے لوگ اجازت لے کر احمدی سے نکاح پڑھوا لیں تو اپنے ایمان کو بھی بچانے والے ہوں گے اور ابتلاء سے بھی بچ جائیں گے.دوسرے ایسے لوگوں کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ آنحضرت کے بتائے ہوئے خوبصورت اصول کے مطابق اپنی خواہشات اور نفسانیت کا شکار ہونے کی بجائے دینی پہلوکو دیکھا کریں اور احمدی خاندانوں میں رشتہ کریں.نیک اور دیندار لڑکی کی تلاش کریں تو نہ صرف ابتلاء سے بچ جائیں بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی ابتلاء سے بچانے والے ہوں بلکہ ثواب کمانے والے ہوں گے.اسی طرح بعض بچیاں جن کو ان کے ماں باپ نے آزادی دی ہوئی ہے یا کسی بھی وجہ سے غیروں سے شادی کر

Page 288

خطبات مسرور جلد ششم 268 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 لیتی ہیں، وہ بھی نہ صرف اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے علیحدہ کرتی ہیں بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اولا د کو غیروں کے ہاتھ میں دے دیتی ہیں.نہ چاہتے ہوئے میں نے اس لئے کہا ہے کہ بعض لڑکیاں نہیں چاہتیں کہ احمدیت سے تعلق توڑیں لیکن شادی کے بعد ایسے حالات ہوتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی چارہ نہیں ہوتا.سوائے اس کے کہ ان کی اولاد دوسروں کی گود میں پلے بڑھے.تو یہ مسئلہ چونکہ بڑھ رہا ہے اس لئے اس کا ذکر کرنا بھی میں نے ضروری سمجھا.پس ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے اس عہد کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.جہاں یہ احساس پیدا ہو کہ میرے کسی فعل کی وجہ سے میرا دین متاثر ہو رہا ہے وہاں تمام دنیاوی خواہشات اور عمل پر ایک بچے احمدی کو بند باندھ دینا چاہئے.اگر ہر احمدی اس کی پہچان کر لے، اگر اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو یقیناً خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے والے ہوں گے.اس زمانہ کے ابراہیم کے ساتھ سچا تعلق قائم کرنے والے ہوں گے اور کچی پیروی اور اطاعت کرنے والے ہوں گے اور ضمنا میں یہ بھی بتا دوں کیونکہ جب سزا کے معاملات میرے سامنے آتے ہیں تو بہر حال اصولی بات ہے سزا دینی پڑتی ہے.لیکن جب میں کسی کو سزا دیتا ہوں تو یہ بات میرے لئے بہت تکلیف کا باعث ہوتی ہے.پھر امن کا قیام بھی مسجدوں سے وابستہ ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ جو مسجد میں اس نیت سے آئے گا کہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرے گا.لیکن جو لوگ مسجدوں میں آ کر بھی بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ عملاً اپنے آپ کو سچی اطاعت سے باہر کر رہے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اپنی کتابوں میں اپنے ملفوظات میں اس قدر دوسروں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کا سچا پیرو بھی اس سے صرف نظر کرے.لیکن افسوس کہ بعض لوگ ، بعض احمدی اس خوبصورت تعلیم سے دُور ہٹتے چلے جارہے ہیں اور پھر دعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں.ایک دوسرے پر الزام تراشیاں.جھگڑے، خاص طور پر میاں بیوی کے جھگڑے ہوں تو پورے کا پورا خاندان اس میں ملوث ہو جاتا ہے.پھر لڑکیوں پر عورتوں پر گندے الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتے.تو اُن کو بد نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسے لوگ اپنے جائزے لیں، کچھ خدا کا خوف کریں.مجھے بعض دفعہ شکایات آتی ہیں بعض عہدیدار بھی انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے.غلط قسم کے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں.ان سے بھی میں یہی کہوں گا کہ انصاف کے تقاضے پورے کریں.اس وحدانیت اور امن کے قیام کی کوشش کریں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.ورنہ عہد کا پاس نہ

Page 289

خطبات مسرور جلد ششم 269 خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 2008 کرنے والے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والے بلکہ خیانت کرنے والے کہلائیں گے.اور ایسے لوگ پھر اگر یہاں کسی پکڑ سے بچ بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو تو فیق دے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر اس کا حق ادا کرنے والا ہو.مسجدوں کی تعمیر اور اس میں عبادتوں کا حق اس طرح ادا کرنے والا ہو جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے توقع کی ہے.آپس میں محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنے والے ہوں.امن اور سلامتی کا پیغام دینے والے ہوں.مسجد جہاں ہمارے اندر عبادت کا شوق پیدا کرے وہاں ہمیں ایک وحدت کی لڑی میں پرونے کا باعث بھی بنے.ہمیشہ ہم میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے ، اپنی خواہشات کو اپنے دین پر قربان کرنے والا بنائے اور بن جائے.اس مسجد سے جوں جوں رابطے اور تعارف وسیع ہوں گے، یقیناً بڑھیں گے کیونکہ ئی مسجد بنی ہے تو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام ہم نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل سے بھی پہنچانے والے ہوں کہ تبلیغ کا یہ بہترین ذریعہ ہے.اسلام کے خلاف غلط فہمیاں دور کرنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے.ہر ایک کا جوعمل ہے وہ جتنا اثر ڈالتا ہے آپ کی بحثیں یا دلیلیں اتنا اثر نہیں ڈالتیں.آپ کی نیکی کا اثر یہاں اکثریت پر قائم ہے، اس کو قائم کرنا ہے آپ نے اور اسی نے پھر جماعت کے پھیلنے کے مقصد پورے کرنے ہیں.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی بھی ہوگی.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل انٹر نیشنل خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی نمبر جلد 15 شماره 31-30 مورخہ 25 جولائی تا 7 اگست 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 290

خطبات مسرور جلد ششم 270 (28) خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2008ء بمطابق 11 وفا 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ احباب جماعت کے علم میں ہے، گزشتہ دنوں میں امریکہ اور کینیڈا کے جلسوں میں شمولیت کے لئے وہاں سفر پہ گیا ہوا تھا.جلسے کے علاوہ دوسرے پروگرامز بھی تھے، غیروں کو بھی مختلف رنگ میں اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچانے کی توفیق ملی.اس کا مثبت رد عمل بھی اس طبقے کی طرف سے ہوا جنہوں نے یہ باتیں سنیں ، یا جن کو کسی بھی رنگ میں جماعت سے تعارف حاصل ہوا.اسلام کے متعلق ان کے دل میں جو شبہات اور شکوک تھے وہ دُور ہوئے.بہر حال مجموعی طور پر یہ سفر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی برکتیں سمیٹے ہوئے تھا.اللہ تعالیٰ اپنوں اور غیروں میں اس کے جاری اور دور رس نتائج پیدا فرمائے.یہ تمام باتیں یا اثرات جو اپنوں میں بھی اور غیروں میں بھی ہمیں سننے اور مشاہدہ کرنے کو ملے، یہ نہ تو صرف جماعت کی انتظامیہ کی اعلی پلاننگ یا تعلقات کا نتیجہ تھے.نہ ہی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جس طرح غیروں میں مضامین بیان کئے انہوں نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچی اور اسلام کے بارے میں ان کے شکوک دور ہوئے یا اس کا انہوں نے اظہار کیا.یقینا قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم کلام دلوں پر اثر کرتا ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ کی مرضی اور منشاء نہ ہو تو یہی خدا کا کلام اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ان کو جو بغض اور عناد اور دشمنی پر تلے ہوئے ہوں، خسارے کے علاوہ کسی چیز میں نہیں بڑھاتا.پس دلوں کا کھولنا ، ان میں اثر پیدا کرنا ، یہ بھی خدا تعالیٰ کا کام ہے.اور جب وہ چاہے ایسا ماحول اور حالات پیدا کرتا ہے کہ ایک بات اثر کرتی ہے.پس اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچے اور پھر ان لوگوں میں سے جو نیک فطرت ہیں وہ اسے قبول کریں اور پھر درجہ بدرجہ ہر ایک اس کا اثر اپنے دل پر محسوس کرے.اور کم از کم جن کو اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچتی ہے اگر کچھ نہ کچھ ان میں نیکی ہے تو یہ رد عمل ان سے ضرور ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی دشمنی سے باز آ جاتے ہیں کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا ہے تا اسلام کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھائیں.اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جو اسلام کا حقیقی چہرہ دکھا سکتے ہیں کیونکہ اللہ

Page 291

خطبات مسرور جلد ششم 271 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 تعالیٰ نے اب یہ مقدر کر دیا ہے کہ اسلام کا حسن آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ذریعہ سے دنیا پر ظاہر ہو.آپ کو یہ الہام ہوتا ہے کہ آسمانی تائیدیں ہمارے ساتھ ہیں“.( تذکرہ صفحہ 1435 ایڈیشن چہارم 2004 ، مطبوعہ ربوہ ) پس جب آسمانی تائیدیں ساتھ ہوں تو نیک نتائج بھی نکلا کرتے ہیں.آج اگر اسلام کی تعلیم کا لوگوں پر اثر ہوتا ہے، آج اگر یہ بر ملا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ تو بالکل نئی باتیں ہیں جو آج ہمیں اسلام کے بارے میں پتہ لگ رہی ہیں تو یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ آسمانی تائیدات کے ساتھ ہونے کا وعدہ پورا فرما رہا ہے، دلوں اور سینوں کو کھول رہا ہے.پس یہ نظارے جو ہم نے دورہ کے دوران دیکھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام ہم نے دیکھا کہ عزت سے لیا جا رہا ہے، آپ کی جماعت کے بارہ میں عمدہ تاثرات کا اظہار کیا جارہا ہے، اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں بغیر کسی تبصرے کے انہی الفاظ میں بیان کیا جارہا ہے جو ان لوگوں کو بتایا گیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ہے ور نہ ان ملکوں کے لوگ تو بڑے آزاد خیال اور دلوں میں بڑائی رکھنے والے لوگ ہیں.باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے ہیں.اسلام کے خلاف تو ہر بات کو ہوا دی جاتی ہے لیکن حق میں اگر کوئی بات کرنی ہو تو کم ہی ہے کہ انصاف سے کام لیا جائے.پس بغیر کسی خاص کوشش کے اور خرچ کئے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو جب دنیا میں سنا جاتا ہے، آپ کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ، آپ کے خلفاء کے ساتھ بھی غیر لوگ عزت سے پیش آتے ہیں، آپ کی جماعت کی تعریف ہر وہ شخص جو تعصب سے پاک ہے کرتا ہے تو یہی تائیدی نشانات ہیں.ان کا مشاہدہ میں نے اپنے اس دورے کے دوران بھی کیا جو امریکہ اور کینیڈا کا تھا.بلکہ ان ملکوں کے رہنے والے احمدیوں نے بھی کیا.کیونکہ ہر احمدی نے خاص طور پر وہ جو کسی نہ کسی رنگ میں جو بعض فنکشنز ہوئے ان کے انتظامات میں شامل تھے یا اپنے قریبی دوستوں کو اور واقف کاروں کو دعوت دینے والے تھے، فنکشن میں لانے والے تھے، انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہماری توقع سے بڑھ کر، ہماری دعوت پر باتیں سننے کے لئے لوگوں کی توجہ پیدا ہوئی ہے.اخبارات اور دوسرے میڈیا نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور اسلام کے حقیقی پیغام کو کوریج دی اور لوگوں تک پہنچایا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا تھا کہ میں تجھے عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور پھر اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ آپ کے ساتھ ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ ( تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم 2004 ، مطبوعہ ربوہ ) یہ بھی ہم دنیا کے ہر ملک اور براعظم میں پورا ہوتے دیکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سال خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی اور جماعت کے تعارف کی دنیا میں ایسی ہوا چلائی ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہے.اس کے بغیر ممکن

Page 292

خطبات مسرور جلد ششم 272 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 نہیں تھا.یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو آپ کا پیغام پہنچا رہا ہے، ورنہ ہم تو جیسا کہ میں نے کہا کوشش بھی کرتے تو اس طرح جماعت کا تعارف اور آپ کی آمد کا اعلان نہ کر سکتے اور پھر خاص طور پر ان ملکوں میں جہاں اسلام کو ویسے بھی بڑی تنقید کی نظر سے دیکھا جاتا ہے.امریکہ میں اس کے پورا ہونے کا مشاہدہ ہم نے اس طرح کیا اور یقیناً ہر غور کرنے والے دل نے اس بات کو محسوس کیا ، پنسلوانیا کے شہر اور دارالحکومت ہیر سبرگ (Harrisburg) جہاں ہمارا جلسہ سالانہ ہوا، اس سال جیسا کہ میں نے کہا کہ خلافت جوبلی کے حوالے سے کچھ شہرت بھی جلسے کو ملی.بلکہ یہ کہنا چاہئے جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ہوا چلائی کہ اس حوالے سے جماعت کا تعارف ہو.تو بہر حال یہاں کی سٹیٹ اسمبلی نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بعض ممبران کے کہنے پر جماعت کو اس شہر میں جلسے کے حوالے سے خوش آمدید کہنے اور خلافت کے سوسال پورے ہونے پر مبارک دینے کے لئے ریزولیوشن پاس کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وہاں اسمبلی کے ایک ممبر نے اس پہ اعتراض اٹھایا کہ یہ نہیں ہو سکتا.کوئی کثر عیسائی تھا، ویسے بھی امریکہ میں یہاں کی نسبت عیسائیت کے معاملے میں کافی بڑی تعداد میں تھی اور کٹرپن ہے.بہر حال اس نے ریزولیوشن کی مخالفت کی.یہاں یہ واضح کر دوں کہ ہماری طرف سے اس بارہ میں کوشش نہیں کی گئی تھی کہ ہمارے سوسالہ فنکشن کے موقع پر ہوا اور خلیفہ وقت آ رہا ہے اس لئے یہ ہونا چاہئے.ان لوگوں میں سے چند کو خود ہی خیال آیا اور توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے اسمبلی میں پیش کیا.تو میں کہہ رہا تھا کہ ایک ممبر نے مخالفت کی اور اس دلیل کے ساتھ مخالفت کی کہ کیونکہ یہ لوگ حضرت عیسی کو خدا نہیں مانتے اس لئے کوئی جواز نہیں کہ ان کو خوش آمدید کہا جائے.اس سے یہ کہلوانا بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے تھا کیونکہ اگر یہ خاموشی سے ہو جاتا تو ا سمبلی کو پتہ ہوتا یا ہمارے پاس ایک کاغذ کا ٹکڑا آجا تا یا ہلکی سی ایک اخبار میں خبر لگ جاتی.اخلاقا تو ہم ان کے ممنون ہوتے کہ انہوں نے ہماری پذیرائی کی اور یہ اخلاق دکھانا اور شکر یہ ادا کرنا بھی ہمارا فرض ہے اور اسلام کا حکم ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ مخالفت بھی خدا تعالیٰ کی تقدیریتی کیونکہ اس ممبر اسمبلی کے اس سوال کو اخباروں اور میڈیا نے خوب اچھالا اور آج کل تو انٹرنیٹ پر ہر قسم کی ویسے بھی خبر آتی ہے اور اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں سے بے شمار لوگوں کو اس بات کے خلاف کھڑا کر دیا.ایک بحث شروع ہو گئی کہ ایک طرف تو ہم سیکولر ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں.یہودیوں نے بھی سوال اٹھا دیا کہ ہم بھی عیسی کو خدا نہیں مانتے بلکہ یہ لوگ تو مخالفت میں بھی بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں.پتہ نہیں حضرت عیسی کے بارے میں کیا کچھ کہہ جاتے ہیں.سیاسی مقاصد کے لئے بے شک یہ لوگ آج کل چپ ہوں لیکن دل تو ان کے خلاف ہیں.جبکہ ہم احمدی حضرت عیسی کو قابل احترام نبی مانتے ہیں.بہر حال ان یہودیوں نے بھی سوال اٹھایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا بھی امریکہ میں رہنے اور آزادی کا حق سلب کرنے کی آئندہ کوششیں ہوں گی.

Page 293

خطبات مسرور جلد ششم 273 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 اس بات پر خیال آیا کہ یہودیوں نے جو ہمارے حق میں بیان دیا ہے تو شاید مولوی یہ شور مچائے کہ دیکھو کہ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ قادیانی اور یہودی ایک ہیں.لیکن وہ اس بات کو بھول جائیں گے کہ ہماری مخالفت اگر ہے تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک عاجز بندے کو ہم خدا نہیں مانتے.تو بہر حال یہ ان مخالفین کا کام ہے ، مولوی کا کام ہے کئے جائیں یہی ان سے توقع ہے.اس ممبر اسمبلی نے ہمارے خلاف آواز اٹھائی تو خود عیسائیوں اور دوسرے مذاہب اور ہر طبقے میں اس نے ایک ایسی فضا پیدا کر دی جو ہمارے حق میں تھی اور جیسا کہ میں نے کہا ویب سائٹس اور اخباروں میں بحث شروع ہو گئی.اور اس وجہ سے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اور جماعت کا تعارف بھی خوب ہوا.اس کی وجہ سے اخباروں نے جلسے اور خلافت جوبلی کے حوالے سے ہماری خوب خبر میں شائع کیں.لیکن جو تعارف اور مشہوری اس مخالفت کی وجہ سے ہوئی ، جیسا کہ میں نے کہا اگر وہ خاموشی سے ہو جاتا تو اس طرح نہ ہوتی.تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے طریقے جماعت کے تعارف کے کہ مخالف کی جو کوششیں ہمیں نیچا دکھانے کے لئے ہوتی ہیں وہی ہماری شہرت اور تعارف کا باعث بن جاتی ہیں.آج پاکستان اور انڈونیشیا یا بنگلہ دیش یا ہندوستان کے بعض مسلم اکثریت کے علاقوں میں خاص طور پر حیدر آباد دکن میں جماعت کی مخالفت زوروں پر ہے.اس سے ان ملکوں میں بھی اور دنیا میں بھی جماعت کا تعارف مزید بڑھ رہا ہے.بعض ہندوؤں کو، انتظامیہ کو اور دوسرے لوگوں کو ہندوستان میں جماعت کا تعارف نہیں تھا.ان کو وہاں مخالفت سے مزید تعارف پیدا ہوا ہے.اب یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ مخالف یا دشمن جو حر بہ بھی استعمال کرے گا خدا تعالیٰ اسی میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا میں مزید پھیلانے اور آپ کی عزت کے سامان پیدا کر دے گا اور کر دیتا ہے.افراد جماعت کو بعض دفعہ جذبات کی یاما کی یا کبھی جان کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے لیکن یہ قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں.ان قربانی کرنے والوں کی ذات بھی اور ان کے خاندان بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور فضلوں کے وارث بنتے ہیں اور جماعتی طور پر بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.اس حوالے سے مزید جماعت کا تعارف ہوتا ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا اخبارات نے اس حوالے سے جماعت کا خوب تعارف کروایا اور ہمارے امریکہ کے جلسہ کی اخباروں اور دوسرے میڈیا نے خبریں دیں.انٹرویو لینے کے لئے نمائندے بھی آئے ، جلسوں میں شامل بھی ہوتے رہے، میرے ساتھ علیحدہ وقت لے کر بھی ایک نمائندے نے انٹرویو کیا ، سوال کئے ، پھر انہیں شائع بھی کیا.یہ ہمیں مانا پڑتا ہے کہ جو بھی صورتحال ہو اللہ تعالیٰ نے ایسی ہوا چلائی تھی کہ جو کچھ کہا انہوں نے بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے اس کو شائع بھی کیا.بعض باتیں ان کے مذہب اور عقیدے کے خلاف بھی تھیں.پنسلوانیا کے ایک اخبار Lancaster Intelligence Journal کے نمائندہ نے میرے سے جو انٹرو یولیا تھا اور اس کو

Page 294

خطبات مسرور جلد ششم 274 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 شائع بھی کیا.19 کو لیا تھا 20 کو شائع کیا اور تقریر بھی دی.اس میں یہ لکھا کہ اسلام کا خلیفہ اختتام ہفتہ کے روز دنیا اور خاص طور پر Harrisburg کے لوگوں کے لئے ایک پیغام لا رہے ہیں.ہر جگہ جو امریکہ میں اخباروں نے دیا وہ اسلام کا خلیفہ لکھا.اس سے بعض مسلمانوں کو اور خاص طور پر مولویوں کو اور زیادہ تکلیف ہوگی.یہ لکھتا ہے کہ مرزا مسرور احمد نے اپنے پیغام میں کہا کہ تم اپنے خالق کو پہچان سکتے ہو جب تم اس کی مخلوق سے محبت کرو.یہ پیغام امریکیوں کے لئے ہی نہیں.یہ پیغام تمام دنیا کے لئے ہے جو مسیح موعود لائے ہیں.یہ اس نے خلاصہ بیان کر دیا جو میں نے کہا تھا کہ اپنے خدا کو بھی پہچانو.یہی دو مقاصد ہیں کہ اپنے خدا کو پہچانو اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرو.پھر یہ لکھتا ہے کہ اگر ہر کوئی اس پیغام کو یادر کھے اور اس پر عمل کرے تو دنیا میں دشمنی باقی نہ رہے گی.لوگوں کے دل کینے سے پاک ہو جائیں گے.دنیا میں امن قائم کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے.دنیا میں ایٹم بموں کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ کی ہر مہیا کر دہ چیز کو لوگوں کی بہتری کے لئے استعمال میں لایا جائے.پھر یہ میرے حوالے سے لکھتا ہے کہ اس نے کہا کہ امریکہ آنے کا مقصد لوگوں سے ملنا اور ہر اس شخص سے ملنا ہے جو انہیں ملنا چاہے.احمد نے کہا کہ ان کا پیغام صرف یہی نہیں کہ تمام مسلمان فرقے متحد ہو جائیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگ آگے آئیں اور ہاتھ میں ہاتھ دیں اور وہ شخص جس کے وہ منتظر ہیں یعنی مسیح کے ، وہ مسیح آپ کا ہے.امریکہ میں خاص طور پر اس کا بڑا انتظار کیا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ امریکہ میں ایک بڑا حصہ مذہب سے دلچپسی رکھتا ہے اور عیسی کی آمد ثانی کے منتظر ہیں.تو ان کے اخبار کا یہ لکھنا کہ جس مسیح کے تم منتظر ہو وہ آ گیا ہے، بہر حال کچھ نہ کچھ لوگوں کو متوجہ کرے گا اور یہ سب انتظامات خدا تعالیٰ کے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ مزید انتظامات فرمائے گا اور فرماتا رہا ہے.اسی طرح دوسرے اخبارات نے جلسے اور دورے کی بھی خبریں شائع کیں.22 اخبارات نے وہاں اس کو کوریج دی.2 ریڈیو سٹیشنز نے اچھی خبریں دیں.3 ٹی وی سٹیشنز نے خبریں نشر کیں.انٹرنیٹ پر 15 مختلف سائٹس پر خبریں آئیں.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ جماعت تو اپنے وسائل کے لحاظ سے کبھی بھی اس طرح وسیع پیمانے پر یہ نہ کرسکتی.ہر دیکھنے والی آنکھ دیکھتی ہے اور ہر پاک دل یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات فرما رہا ہے.

Page 295

275 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم امریکہ میں ایک ہوٹل میں ایک ریسیپشن (Reception) بھی تھی.اچھے پڑھے لکھے لوگ مختلف طبقوں کے وہاں آئے ہوئے تھے.وہاں میں نے قرآن کریم ، آنحضرت ﷺ کے اقوال اور احادیث اور اسوہ رسول ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی رو سے جہاد کی حقیقت کے بارے میں بیان کیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے اپنے حوالے سے بھی یہ پیغام دیا کہ آپ نے فرمایا کہ میں عیسی ابن مریم ہوں.میں نے انہیں کہا کہ عیسیٰ ابن مریم ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی شخصیت میں آچکے ہیں اور یہ بھی کہا کہ امریکہ ایک بڑی طاقت ہے اور اس حیثیت سے یہ کوشش کرے کہ انصاف قائم ہوتا کہ دنیا میں امن قائم ہو سکے اور انصاف ہوگا تو حق ادا ہوگا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب لوگوں پر اس کا بڑا اچھا اثر ہوا.مختلف لوگوں نے میرے پاس آکر اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہمیں نئی باتیں پتہ چلی ہیں.اصل میں تو کوئی نئی چیز نہیں ہے.قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ کا حقیقی رخ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھایا ہے.جس کو آج کل کے مُلاں غلط رنگ دے کر اسلام کی بدنامی کا باعث بنارہے ہیں.جماعت امریکہ کا جلسہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب ہوا.جماعتی روایات کے مطابق وہاں بھی تمام شعبہ جات کام کرتے ہیں لیکن اس دفعہ انہوں نے وہاں جگہ لی تھی.ایک بڑا علاقہ ہے جس میں مختلف فنکشنز اور Exhibitions ہوتے ہیں.اس میں بڑے بڑے ہال ہیں.اس لحاظ سے یہ سہولت رہی کہ جلسہ گاہ ، کھانا پکانے کی جگہ، کھانا کھانے کے ہال اور دوسرے شعبہ جات، نمائش وغیرہ ایک ہی چھت کے نیچے آ گئی.اور ان کی نمائش جو خاص طور پر خلافت کے موضوع پر تھی ، اس لحاظ سے بھی مجھے اچھی لگی کہ اس میں انفرادیت تھی.حضرت آدم سے لے کر حضرت مسیح موعود کی خلافت کے تمام دوروں کی تاریخ اس میں انہوں نے بیان کی.امریکہ میں یہ میرا پہلا دورہ تھا اور تقریباً دس سال کے بعد خلیفہ وقت کا دورہ تھا.ایک نئی نسل جوان ہو کر جماعت کے کاموں میں شامل ہو گئی ہے.شعور نہ رکھنے والے بچے جو کچھ سال پہلے، 10 سال پہلے ، بہت چھوٹے تھے.وہ جوانی کی عمر میں داخل ہو رہے ہیں.پھر مغربی ماحول کا بھی اپنا ایک اثر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق ہے.خلافت کے ساتھ گہری وابستگی ہے.جلسہ کے کاموں میں اور ڈیوٹیوں میں بڑی تندہی سے سب نے کام کیا.یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی طرف توجہ پھیرتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے پیارے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں.امریکہ میں ایک خاصی تعدا د افریقن امریکن احمدیوں کی ہے.اسی طرح کچھ سفید امریکن بھی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کاموں میں، ڈیوٹیوں میں ہر ایک بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا تھا.اور خلافت کے لئے محبت ، ان مقامی احمدیوں کے دلوں سے بھی پھوٹی پڑتی تھی.ان کی آنکھوں میں ایک پیار اور احترام خلافت کے لئے نظر آتا تھا.اللہ تعالیٰ ان سب کو اخلاص و وفا میں بڑھائے.

Page 296

276 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم امریکہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کا جلسہ تھا.کینیڈا میں جماعت کی تعداد کے لحاظ سے جلسہ بھر پور ہوتا ہے.میں پہلے بھی دو دفعہ جلسہ پر وہاں جا چکا ہوں.اُس وقت امریکہ کے لوگ بھی وہاں آ جاتے تھے.اس دفعہ کیونکہ امریکہ سے میں ہو کر گیا تھا اس لئے جو تین چار ہزار کی تعداد عموماً امریکہ سے کینیڈا کے جلسے کے لئے آتی تھی وہ نہیں آئی.پھر کیلگری میں مسجد کے افتتاح پر جانا تھا وہاں سے یا اس کے قریب کے علاقوں سے بھی کم لوگ آئے.اس علاقہ میں بھی تقریباً تین چار ہزار کی تعداد تھی.وہاں فاصلے زیادہ ہیں.کینیڈا بہت وسیع ملک ہے.ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے وقت میں بھی دو گھنٹے کا فرق پڑ جاتا ہے.جہاز کا سفر بھی ٹورانٹو سے کیلگری تک چار گھنٹے کا ہے.بہر حال کینیڈا کے جلسے کی حاضری ، جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ ان حالات کے باوجود 15 ہزار تھی.اور کینیڈا کا جلسہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں ) بڑے آرگنا ئز ڈ طریقے سے ہوتا ہے.ایک تو وہاں اکثریت پاکستانیوں کی ہے جو پاکستان میں ڈیوٹیاں دے کر تجربہ کار ہو چکے ہیں.دوسرے وہاں بھی امریکہ کی طرح ایک چھت کے نیچے تقریباً تمام انتظامات ہوتے ہیں.سوائے کھانا پکانے کے جو پک کر جلسہ گاہ میں چلا جاتا ہے.بہر حال پکے انتظامات کی وجہ سے بہت سہولت رہتی ہے.لیکن آپ لوگ یہاں بیٹھ کے پریشان نہ ہوں.یہ بتا دوں کہ جو محنت کر کے اور عارضی انتظامات سے یو کے جلسے کی رونق ہے، اس کا ایک اپنا ہی مزا ہے.چاہے مہمانوں اور میز بانوں دونوں کی حالت بارش میں اور کیچڑ کی وجہ سے خراب ہی ہو رہی ہو لیکن ایک مزا آ رہا ہوتا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ یہاں بھی وقت آئے گا ، ہمارے اپنے انتظامات پکے ہو جائیں گے.بہر حال کینیڈا کا جلسہ بڑا کامیاب رہا اور اس جلسہ کی وہاں کی پانچ بڑے اخباروں نے بڑے وسیع پیمانے پر کوریج دی.ان کے پڑھنے والوں کی تعداد ڈھائی ملین ہے.اس کے علاوہ چھوٹے اخبار ہیں.ریڈیو ٹیشن نے کوریج دی.چھوٹی وی سٹیشنوں نے کوریج دی اور انٹرنیٹ کی سائٹس پر بھی خبریں آتی رہیں.بہر حال یہ جلسہ خاص طور پر جب جلسہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں ہوتا ہے تو جماعتی تعارف اور احمدیت کے پیغام پہنچانے کا زیادہ ذریعہ بنتا ہے.اور اس سال تو اللہ تعالیٰ نے خاص ہوا چلائی ، امریکہ میں بھی اور کینیڈا میں بھی.احمدیوں کو جو ان ملکوں میں رہتے ہیں، خود بھی حیرت تھی (جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں) کہ ان کی توقعات سے بڑھ کر جماعت کا تعارف دنیا تک پہنچا ہے.کینیڈا میں اس دفعہ خلافت جو بلی کے حوالے سے ایک زائد پروگرام کینیڈا کی جماعت نے یہ بھی رکھا تھا جس میں ایک ریسیپشن (Reception) دعوت تھی، جس میں اسمبلیوں کے نمائندے، سرکاری افسران اور دوسرے پڑھے لکھے اور مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے.اس میں بھی میں نے قرآن اور

Page 297

خطبات مسرور جلد ششم 277 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے اسلام کی امن پسند اور خوبصورت تعلیم کا ذکر کیا اور اسلام کے بارے میں ان کے دلوں کے شکوک دور کرنے کی کوشش کی.انہیں یہ بھی بتایا کہ ایک واحد و یگانہ خدا کو پہچانو کہ اس میں دنیا کی بقا ہے اور یہ حقیقی خدا ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.اس تقریب میں تقریباً ساڑھے پانچ سو کی تعداد میں مہمان شامل تھے.اوشار یو صوبہ کے وزیراعلیٰ بھی اس میں شامل تھے.کئی مرکزی اور صوبائی وزیر بھی تھے.اسمبلیوں کے ممبر تھے.وزیر اعظم کے خصوصی نمائندہ تھے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر ہوا.کئی عیسائی پادریوں نے اور یو نیورسٹی کے پروفیسروں اور دوسرے لوگوں نے انفرادی طور پر مل کر اظہار بھی کیا کہ آج اسلام کے بارے میں ہمیں نئی باتیں پتہ چلی ہیں.اسی طرح کیلگری مسجد کا افتتاح جو جمعہ کو ہوا تھا اس کے اگلے روز ہفتہ کو ایک دعوت کا اہتمام غیروں کے لئے تھا.اس میں بھی مسجد کے حوالے سے اسلام کا تعارف کروانے اور پیغام پہنچانے کی توفیق ملی.بڑے غور سے لوگوں نے سب باتوں کو سنا ، بڑی توجہ سے سن رہے تھے.یہ مسجد بھی جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں، بڑی خوبصورت مسجد ہے.جب میں نے اس کی بنیا درکھی تھی ، اس دن بارش بھی شدید تھی اور سڑکیں بھی ایسی تھیں، علاقہ بڑا عجیب لگ رہا تھا اور میں اس وقت یہ سوچ رہا تھا.کہ یہاں مسجد تو بنا رہے ہیں لیکن بظاہر لگتا ہے کہ مسجد کی شایان شان جگہ نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ ان تین سالوں میں اس کے قریب ہائی وے بن گئی.سڑکیں بڑی خوبصورت بن گئیں.اس علاقہ کی سڑکیں بھی بہت اچھی ہو گئیں اور بہت سی نئی ڈویلپمنٹ ہوئی.مسجد کے سامنے ایک خوبصورت پارک بھی بن گیا اس کا بہت بڑا حصہ کونسل نے جماعت کو ہی Maintenance کے لئے دے دیا ہے.پھر گزشتہ سال وہاں ریلوے سٹیشن بھی بن گیا جو مسجد سے صرف 10 منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے اور شہر کی ہر جگہ سے ٹرین وہاں آتی ہے اس لئے وہاں تک پہنچنا بھی آسان ہو گیا ہے.اس کے علاوہ بھی بڑی تعداد دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو (Drive) پر اس کے قریب رہتی ہے.مسجد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام سہولتوں کے سامان بھی مہیا فرما دیئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے.ائر پورٹ بھی وہاں سے 20 منٹ کے فاصلے پر ہے.اس مسجد نے علاقہ میں بھی اور پورے ملک بلکہ دنیا کی بھی توجہ اپنی طرف کھینچی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ ہفتہ کو وہاں مہمان مدعو تھے.اس میں ملک کے وزیر اعظم با وجود اپنی تمام مصروفیات کے ہمارے پروگرام میں شامل ہونے کے لئے آئے.اس دن انہوں نے بیرون ملک سفر پر جانا تھا اور وہیں سے سیدھا سفر پر روانہ ہو گئے.انہوں نے مسجد دیکھی.وہاں فنکشن میں تقریر کی.جماعت کے متعلق نیک خیالات کا اظہار کیا.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.

Page 298

278 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تقریب بھی جماعت کے تعارف اور تبلیغ کا ذریعہ بنی.یہاں بھی بعض پادریوں نے میری تقریر اسلام کی تعلیم عبادت گاہوں کے حوالے سے پر بڑی حیرت کا اظہار کیا.ایک احمدی نے مجھے بتایا کہ ایک عیسائی جو اس تقریب میں موجود تھے، میری تقریر کے بعد رو پڑے کہ اصل میں تو یہ تعلیم ہے جو فطرت کے مطابق ہے.اسلام کی تعلیم تو ہر معاملے میں بڑی جامع ہے اگر اس کو صحیح طور پر اگلے کو پہنچایا جائے.اگر انسان نیک فطرت ہو تو اس کے لئے کوئی راہ فرار نہیں بجز اس کے تسلیم کرنے کے.ایک افغانی دوست جو عرصہ سے جماعت سے تعارف میں تھے.اس تقریب کے بعد مجھے ملے اور ان کا رورو کے بُرا حال تھا.بعد میں ان کے احمدی دوست نے بتایا جن کے ذریعہ سے وہ ملنے کے لئے آئے تھے کہ وہ کہتے ہیں کہ آج میرے لئے اب اور کوئی روک نہیں چاہئے ، اس لئے آج ہی میں بیعت کرتا ہوں.اس طرح اور بیعتیں بھی ہوئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک کے دورے احمدیت اور اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ اس خدا کے وعدے کی وجہ سے ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا تھا کہ میں تجھے عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.یہ الہی تقدیر ہے اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا.بد قسمت مولوی جتنا چاہے زور لگالیں ، ان کے مونہوں کی بک بک کے سوا اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں جو وہ کہتے ہیں.احمدیوں کو عارضی تکلیفیں دے کر خوش ہو رہے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر بھی ان کے خلاف چل چکی ہے اور یہ انشاء اللہ تعالیٰ اپنے بد انجام کو پہنچنے والے ہیں.اس مسجد کے افتتاح سے میڈیا کے ذریعہ جو جماعت کا تعارف ہوا ہے ، اس کی کچھ تھوڑی سی تفصیل بتا دوں کہ نو (9) ٹیلیویژن سٹیشنز نے کیلگری مسجد کے افتتاح کو کوریج دی جن کے دیکھنے والوں کی تعداد 3.1 ملین ہے.31 لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا.9ریڈیوسٹیشنز نے مسجد کے افتتاح کو کوریج دی.23 لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا.پرنٹ میڈیا میں پورے کینیڈا کے مختلف شہروں سے نکلنے والے اخبارات نے وسیع پیمانے پر کوریج دی.اخبار پڑھنے والوں کی تعداد 40 لاکھ ہے.ان ملکی اخبارات کے علاوہ بہت سارے غیر ملکی اخبارات نے بھی کوریج دی ہے.آسٹریلیا ، جرمنی، نیوزی لینڈ، انڈیا، پاکستان، پاکستان میں شاید مخالفت میں خبر آئی ہو ) اٹلی، برطانیہ، امریکہ، بلجیم، متحدہ عرب امارات اور فلسطین کینیا اور مسلمان اور عرب دنیا کے 41 اخباروں نے اس کی خبر دی ہے.ایران ، ترکی ،سعودی عرب، اردن ، فال لبنان.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعارف اس طرح کرایا گیا کہ اسلام کا ایک فرقہ ہے جنہوں نے مسجد بنائی ہے.بہر حال ایک روچلی ہے کسی رنگ میں پیغام پہنچا ہے، اگر مخالفت میں پیغام پہنچے تو وہ بھی جیسا کہ میں نے بتایا بعض دفعہ، بعض دفعہ نہیں بلکہ یقینی طور پر ترقی کا باعث بنتا ہے اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی 130 مختلف سائٹس نے اس کو کوریج دی ہے.

Page 299

279 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم اس کو ریج میں جہاں مختلف مہمانوں کے تاثرات کا ذکر ہے ، وہ بے تحاشا ہیں.ان میں سے ایک دو میں بیان کرتا ہوں.کیتھولک بشپ نے کہا کہ اخلاقیات کے متعلق جماعت کی تشریح قابل تعریف ہے.کیلگری کے میئر جو انتہائی شریف النفس انسان ہیں اور جماعت سے بڑا گہرا محبت کا تعلق رکھتے ہیں.دراصل یہی اپنے وزیر اعظم کو اس فنکشن میں لانے کی بھی وجہ بنے.ان کے اس سے قریبی تعلقات ہیں.انہوں نے جماعت کی تعریف کی اور مسجد کے بارہ میں کہا کہ یہ مسجد کیلگری کے افق پر طلوع ہونے والا ایک تابناک اضافہ ہے.اسی طرح وزیر اعظم نے کہا کہ جماعت احمد یہ اسلام کا حقیقی اور امن پسند چہرہ اجاگر کرتی ہے اور یہ مسجد امن اور سماجی ہم آہنگی کی علامت ہے.CBC کینیڈا نے اپنی ملکی خبروں میں جو تمام کینیڈا میں نشر کی جاتی ہیں، میرے گزشتہ خطبہ کی خبر دومنٹ تک نشر کی.خطبہ کا ابتدائی حصہ بھی دیا اور مسجد کی تصویر دی.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دکھائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی تصویر کھنچوانے کا مقصد یہی تھا تا کہ نیک لوگ جو چہرہ دیکھ کر پہچانتے ہیں ان تک تصویر پہنچے اور اللہ تعالیٰ ان کو حق پہچاننے کی توفیق دے.دنیا کے مختلف ممالک سے جو بیعتیں آتی ہیں، ہمارے ذریعہ سے تو بہت ساری بیعتیں نہیں ہورہی ہو تیں کئی ان میں سے ایسی ہیں جنہوں نے خواب میں کسی بزرگ کو دیکھا ہوتا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کو دیکھ کر پہچان جاتے ہیں کہ یہی وہ بزرگ تھے جن کے ذریعے سے ہمیں حق پہچانے کی توفیق ملی جنہوں نے یہ یہ کہا.جس کی وجہ سے توجہ پیدا ہوئی ، تلاش پیدا ہوئی جستجو پیدا ہوئی.یا بعض دفعہ کسی گھر میں گئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر یا ایم ٹی اے پر دیکھ کر جس پیدا ہوتا ہے اور پھر تحقیق شروع کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے کینیڈا میں بڑے وسیع پیمانے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر کے ساتھ احمدیت کے تعارف کا موقع پیدا فرما دیا.اللہ تعالیٰ نیک فطرت لوگوں کے سینے کھولے.مسلمان ملکوں میں بھی اور عیسائی ممالک میں بھی حق کو پہچاننے کی ان نیک فطرت لوگوں کو تو فیق عطا فرمائے.مسلمان ملکوں کے لئے خاص طور پر دعا کرنی چاہئے کہ یہ لوگ نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و عاقبت کو مزید خراب کرنے والے نہ بنیں.اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیدا فرمائے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حق کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.عیسائیوں اور دوسرے غیر مسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورتی اور حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ اسی میں ان لوگوں کی نجات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اب وقت آتا ہے کہ یکدم یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوگی اور وہ اس مردہ پرستی کے مذہب سے بیزار ہو کر حقیقی مذہب اسلام کو اپنی نجات کا ذریعہ یقین کریں گئے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 463 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )

Page 300

خطبات مسرور جلد ششم 280 خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 2008 اللہ کرے کہ وہ دن ہماری زندگیوں میں آئیں جب ہم اسلام کا جھنڈا دنیا کے ہر ملک میں بڑی شان سے لہراتا ہوا دیکھیں.کینیڈا کے جلسہ کے حوالے سے ایک بات کرنا بھول گیا تھا.ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ تھوڑا سا ذکر کیا جائے.ڈیوٹی دینے والے بھی اور دوسرے لوگوں کا بھی اخلاص و وفا اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھنے والا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں.خاص طور پر جس دن میں ٹورانٹو سے روانہ ہوا ہوں لوگوں کا ایک ہجوم تھا.ہیں ویلج کے کافی وسیع رقبے پر ایسا تھا جیسے تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے اور ہر ایک کی جذباتی کیفیت عجیب تھی.اللہ تعالیٰ سب احمد یوں کو بھی اخلاص و وفا میں بڑھائے اور انہیں اسلامی تعلیم کا صحیح نمونہ بنائے تا کہ ہم وہ پیغام پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بنیں جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دنیا میں لے کر آئے.حضور انور نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا: یہ ایک افسوسناک اطلاع ہے.آج تقریبا 20 دن ہو گئے ہمارے ایک بہت پرانے واقف زندگی اور مبلغ سلسلہ مولانا نورالدین منیر صاحب جو مشرقی افریقہ میں مبلغ رہے ہیں، نائب وکیل التبشیر بھی رہے ہیں، تصنیف کے بھی رہے ہیں.کراچی میں 93 سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.یہ ایسٹ افریقہ میں تھے.55 ء سے 59 ء تک کینیا میں مربی سلسلہ رہے.ایسٹ افریقہ ٹائمز کے ایڈیٹر رہے.پھر ماہنامہ تحریک جدید ربوہ اور ر یو یو آف ریلیجنز کے بھی ایڈیٹر رہے.بڑے علمی آدمی تھے اور تاریخ لجنہ اماءاللہ کی چار جلدوں کا انہوں نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے.مختصر تاریخ احمدیت کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا، مرتب کی.احکام القرآن کے عنوان سے ان کی کچھ کتب چھپ چکی ہیں.ان کے تین بیٹے ہیں اور ان کی تدفین و ہیں بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی ہے.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ میں ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے ، درجات بلند فرمائے.الفضل انٹر نیشنل خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی نمبر جلد 15 شماره 31-30 مورخہ 25 جولائی تا 7 اگست 2008 صفحہ 23 تا 26 )

Page 301

خطبات مسرور جلد ششم 281 (29) خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2008ء بمطابق 18 روفا 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جلسہ سے ایک ہفتہ پہلے کا خطبہ عموماً میں میز بانوں کو جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کے بارے میں توجہ دلانے کے لئے دیتا ہوں.یہ میز بانی جماعتی نظام کے تحت بھی ہو رہی ہوتی ہے اور ذاتی طور پر بھی احمدی اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کی کر رہے ہوتے ہیں.مہمان نوازی ایک ایسا وصف اور خلق ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں بھی ذکر ہے اور انبیاء کا اور ان کے ماننے والوں کا بھی یہ خاصہ ہے.مہمان نوازی آپس میں محبت اور پیار بڑھانے کا بھی ایک ذریعہ ہے اور غیر کو بھی متاثر کر کے قریب لاتی ہے جس سے تبلیغ کے مزید راستے کھلتے ہیں.آنحضرت کی سنت میں بھی ہمیں اکرام ضیف کے نظارے نظر آتے ہیں اور آپ کے غلام صادق کی زندگی میں بھی ہمیں اس طرف ایک خاص توجہ نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا بھی تھا کہ لوگ کثرت سے آئیں گے اور ظاہر ہے جب ایک اجنبی جگہ پر لوگ آئیں تو مہمان ہونے کی حالت میں آتے ہیں.اس لئے یہ بھی الہام ہوا کہ وَلَا تُصَعِرْ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمْ مِنَ النَّاسِ اور جو لوگ تیرے پاس آئیں گے، تجھے چاہئے کہ ان سے بد خلقی نہ کرے اور ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے.( تذکرہ صفحہ 40 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ مہمان نوازی کرنی تھی کہ انبیاء کا یہ خاصہ ہوتا ہے لیکن اس میں اصل میں ہمارے لئے نصیحت ہے کہ مسیح موعود کے لنگر تو پھیلنے ہیں.اس لئے وہ مرکز جہاں پر خلیفہ وقت ہو خاص طور پر اور اس کے علاوہ بھی جہاں مسیح موعود کے نام پر لوگ جمع ہوں گے وہاں یہ مہمان نوازی کرنی پڑے گی.وہاں اس اعلی خلق کو جو مہمان نوازی کا ہے اس کام پر معمور لوگ کبھی پس پشت نہ ڈالیں.یہ پیشگوئی جماعت کی بہت زیادہ تعداد میں بڑھنے کے بارے میں بھی ہے اور نہ صرف تعداد کے بڑھنے کے بارے میں بلکہ جماعت کے افراد کے اخلاص و وفا میں بڑھنے کے بارے میں بھی ہے کہ مخلصین کا مرکز میں تانتا بندھا رہے گا.آنے والے لوگ آتے

Page 302

خطبات مسرور جلد ششم 282 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 رہیں گے اور پھر صرف ماننے والوں کی تعداد ہی نہیں بلکہ حق کے متلاشی لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد آتی رہے گی اور ان کی مہمان نوازی بھی رہے گی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لنگر خانہ بھی شروع فرمایا تھا اور یہ بھی اہم کاموں میں سے آپ نے ایک اہم کام قرار دیا تھا.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر دنیا کے کونے کونے میں چل رہے ہیں اور جماعتی مراکز کی طرف جہاں جہاں بھی جماعت کے مرکز ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سننے کے لئے آنے والوں کی توجہ پیدا ہورہی ہے اور پھر جب جلسہ سالانہ ہوتا ہے تو اس کا ایک اور ہی قسم کا نظارہ ہمیں نظر آتا ہے.پس یہ مہمان نوازی ایک ایسا کام ہمارے سپرد ہو چکا ہے جس کا کرنا ہر احمدی کے لئے عام طور پر اور خلیفہ وقت اور انتظامیہ کے لئے خاص طور پر فرض ہو چکا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہمارے لئے وارننگ بھی ہے کہ اگر تم نے اعلیٰ اخلاق نہ دکھائے تو اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے محروم رہنے والے بھی بن سکتے ہو اور یہ خلق اگر اپنے اندر قائم کر لو گے تو یہ خلق قائم کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے والے بن جاؤ گے.پس وہ تمام کارکنان والنٹیئر ز اور انتظامیہ کے لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور انہیں یہ موقع مل رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی عمر کے مرد، خواتین بھی ، نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اور بچے بھی جلسہ کے دنوں میں ایک خاص جوش سے اپنے نام مہمانوں کی خدمت اور جلسہ سالانہ کی متفرق ڈیوٹیوں کے لئے پیش کرتے ہیں.اور جیسا کہ میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ اب ہر ملک میں جلسے ہوتے ہیں، کئی جلسوں میں میں بھی شامل ہوتا ہوں تو ہر قوم کے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈیوٹیاں دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور خوشی سے پیش کرتے ہیں.افریقہ کی بھی مثالیں میں دے چکا ہوں کہ کس طرح خوش دلی سے وہ ڈیوٹیاں دیتے ہیں.پھر امریکہ، کینیڈا میں جلسے ہوئے اور کہیں بھی جب میں گیا ہوں، جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں، وہاں بھی ہر طبقے کے لوگ اور ہر عمر کے لوگ مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور بڑی خوشی سے ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں.لیکن UK کے جلسہ کی ایک اہمیت بن چکی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں انتظامات کی وسعت، جو خلافت کی موجودگی کی وجہ سے ہے، باقی دنیا کی نسبت زیادہ ہے اور لوگوں کی نظر بھی اس جلسے پر زیادہ ہوتی ہے.اپنوں کی بھی اور غیروں کی بھی اور اس لحاظ سے جو ڈیوٹیاں دینے والے ہیں، بعض قسم کی ڈیوٹیاں بھی ان کے لئے بڑی حساس ہیں اور ظاہر ہے جب یہ جلسہ جیسا کہ میں پہلے کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، غیر شعوری طور پر مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے تو میری فکر بھی اس جلسے پر زیادہ ہوتی ہے، لوگوں کی توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں، ان لوگوں کی جو خاص طور پر باہر سے آتے ہیں، جو دوسرے ملکوں سے مہمان بن کے آ رہے ہوتے ہیں.ضمناً یہاں یہ بھی بتا دوں کہ اس

Page 303

خطبات مسرور جلد ششم 283 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 وقت خلافت کا مرکز یہاں ہونے کی وجہ سے لندن کے خدام اور بعض دوسرے کام کرنے والے جو حفاظت کی ڈیوٹیاں دیتے ہیں یا مستقل لنگر میں ڈیوٹیاں دے رہے ہیں یا دوسرے فنکشنز میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، فنکشنز بڑی تعداد میں ہو رہے ہوتے ہیں.دوسرے ممالک کے افراد جماعت کی نسبت یہاں کے لوگ زیادہ اور مستقل کام کرنے والے ہیں اور گزشتہ 24 سال سے نہایت احسن رنگ میں اپنی ذمہ داری نبھارہے ہیں.ربوہ اور قادیان میں تو اس کام کے لئے مستقل عملہ ہے لیکن یہاں لنگر کا بھی بہت سا حصہ اور مسجد فضل کی جو متفرق ڈیوٹیاں ہیں یہ والنٹیئرز انصار اور خدام اللہ تعالیٰ کے فضل سے کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی اس خدمت کی بہترین جزا دے.اس ملک میں اور پھر اس مہنگے شہر میں رہتے ہوئے اپنے وقت اور مال کی قربانی کر رہے ہوتے ہیں تو یقینا یہ سب کا رکنان کا جماعت اور خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق ہے جس کی وجہ سے وہ یہ کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان کو یہ توفیق دیتا چلا جائے.جماعت کے جلسے اور ان کے لنگر کے جاری نظام سے غیر بھی بہت متاثر ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی جو لوگ قادیان آئے تھے ، بعض غیر از جماعت اس لنگر کے نظام کو اور مہمان نوازی کو دیکھ کر اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کو دیکھ کر بڑے متاثر ہوتے تھے.آج کل بھی جلسوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جاری کردہ لنگر لوگوں کو متاثر کرتا ہے.اس دفعہ جب میں افریقہ کے دورے پر گیا ہوں تو بعض ممالک میں جہاں جلسے ہوئے خلافت جوبلی کے حوالے سے لوگوں کی آمد بھی زیادہ تھی تو اتنے مہمانوں کو کھانا ملتے دیکھ کر کئی غیر جو وہاں آئے ہوئے تھے وہ اس بات سے بہت متاثر تھے اور ان کا حیرت کا اظہار تھا.اور بعض نے تو اسی بات کو خدائی جماعت ہونے کی دلیل سمجھ لیا کہ اس طرح کی مہمان نوازی تو ہم نے کہیں نہیں دیکھی.تو یہ سب اصل میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کی تربیت کی وجہ سے ہے جنہوں نے ہمیں آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلاتے ہوئے یہ راستے دکھائے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہ آپ کی مہمان نوازی اور سخاوت تھی جس نے کئی کافروں کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی.پس مہمان نوازی ایک ایسا خلق ہے جو دین اور دنیا دونوں طرح سے دوسروں کو قریب لانے کا باعث بنتا ہے اور اس زمانہ میں کیونکہ دین کی تجدید کے لئے اور بندے کو اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والا بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے قریب لانے کے لئے ، اعلیٰ اخلاق قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ سے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم 2004 مطبوعہ ربوہ ) یعنی یہ سب کام جو مسیح محمدی کے سپرد ہوئے بظا ہر آپ اور آپ کے بعد نظام خلافت کے ذریعہ پورے ہور ہے

Page 304

خطبات مسرور جلد ششم 284 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 ہوں گے.لیکن دلوں کو پھیرنے کی طاقت سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ہے.اس لئے حقیقت میں یہ کام خدا تعالیٰ خود کرتا ہے، کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی اس زبر دست مدد کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا جب اس طرح ہوگا ، دلوں کو پھیرے گا تو لوگ آئیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.( تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم 2004 ، مطبوعہ ربوہ ) که یعنی لوگ دور دراز جگہوں سے تیرے پاس آئیں گے.پس جب اللہ تعالیٰ دین قبول کرنے والوں کو ، دین سیکھنے والوں کو اور دین کی تحقیق کرنے والوں کو بھیجے گا تو فرمایا پھر گھبرانا نہیں بلکہ اعلیٰ خلق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑ نا تو یہ اہمیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آنے والے مہمانوں کی تھی اور آپ کے لئے آنے والے مہمانوں کی ہے.جلسوں کا انعقاد بھی آپ نے اس لئے فرمایا تھا کہ دین اور روحانیت میں ترقی ہو اور اس کے لئے لوگ جمع ہوں.پس یہ مہمان جو جلسے کے لئے آتے ہیں اور آرہے ہیں ان کی ہر رنگ میں خدمت کرنا، ہر کارکن کا جس نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لئے پیش کیا ہے اور جس کی ڈیوٹی مختلف شعبہ جات میں لگائی گئی ہے اس کا فرض ہے کہ پوری توجہ سے ڈیوٹی دے.یہ مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے آ رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ان کو دیکھ کر ن گھبرانا اور نہ ہی بد خلقتی دکھانی ہے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہمیں مہمان نوازی کے عجیب نمونے نظر آتے ہیں.اب دیکھیں کے عظیم نمونے ہیں کہ مہمان بستر گندا کر گیا ہے تو خود اپنے ہاتھ سے آنحضرت ﷺ اس کو دھور ہے ہیں.نجاشی کے بھیجے ہوئے وفد کی خود اپنے ہاتھ سے خدمت کر رہے ہیں.صحابہ آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ہمیں کام کرنے دیں اور موقع دیں، آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں.تو آنحضرت ﷺے جواب میں فرماتے ہیں، ان لوگوں نے مسلمانوں کی جو عزت اور خدمت کی ہے اب میرا فرض بنتا ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے ان کی خدمت کروں.پھر مہمان آتا ہے، ایک بکری کا دودھ پیتا ہے، اور مانگتا ہے ، آپ پیش فرماتے چلے جاتے ہیں حتی کہ سات بکریوں کا دودھ پی جاتا ہے لیکن آپ نے نہیں فرمایا کہ یہ کیا کر رہے ہو، تمہارا پیٹ ہے یا کیا چیز ہے؟ دیتے چلے جاتے ہیں.( سنن ترمذی ابواب الاطعمه باب ما جاء ان المؤمن یا کل فی معی واحد حدیث نمبر 1819) صحابہ کی اس طرح تربیت فرمائی کہ گھر والے مہمان کی خاطر بچوں کو بھوکا سلا دیتے ہیں کہ کھانا کم ہے اور خود بھی اندھیرا کر کے صرف ظاہر منہ سے ایسی آوازیں نکالتے ہیں جیسے کھانا کھا رہے ہیں تا کہ مہمان محسوس کرے کہ یہ

Page 305

خطبات مسرور جلد ششم 285 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 میرے ساتھ شامل ہیں.اور یہ مہمان نوازی پھر خدا کو بھی اس قدر پسند آتی ہے کہ عرش پر خدا بھی اس کو دیکھ کر مسکراتا ہے.اور آنحضرت ﷺ کو آپ کے ایسے قربانی کرنے والے خدام کے اس عمل کی خوش ہو کر پھر خبر بھی دیتا ہے.( بخاری کتاب مناقب الانصار باب و یا ثرون على انفسهم ولو کان بهم خصاصة حدیث نمبر 3798) پھر صحابہ کی مہمان نوازی کے وہ نمونے بھی ہیں جو ایک دوروز کی مہمان نوازی نہیں بلکہ مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انصار نے ان مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں اپنے آدھے مال کا بھی حصہ دار بنادیا جن کو خدا تعالیٰ نے تحسین کی نظر سے دیکھتے ہوئے فرمایا کہ يُؤْثِرُونَ عَلَى اَنْفُسِهِمْ (الحشر: 10) کہ خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ دوسروں کی خاطر قربانی اس لئے نہیں تھی کہ خود بڑے کشائش میں تھے، اچھے حالات تھے اس لئے مال دے دیا بلکہ خود تنگی میں رہتے ہوئے قربانی کے جذبے سے وہ یہ خدمات سرانجام دے رہے تھے.رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کا نظارہ ہر وقت ہمیں ان میں نظر آتا ہے.اپنے بھائیوں کی خدمت پر وہ خوش ہوتے تھے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسے پر آنے والے مہمان بھی یہاں UK میں تو خاص طور پر خلافت سے محبت اور دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں.اس لئے ان کی خدمت ہمارا فرض ہے.ہر ایک سے نرمی اور پیار سے پیش آنا ہم پر فرض ہے.بعض لوگ پہلی دفعہ پاکستان سے یا افریقہ کے ممالک سے آ رہے ہیں، پھر مختلف قوموں کے لوگ بھی آ رہے ہیں، ان سب سے اعلیٰ اخلاق سے پیش آنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے.امیر ہو، غریب ہو ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مہمان سمجھ کر خدمت کرنی ہے.اس سال خلافت کے سو سال پورا ہونے پر مہمانوں کی آمد بھی زیادہ متوقع ہے.اسی لئے انتظامیہ پہلے سے بڑھ کر کچھ انتظامات بہتر کر رہی ہے.کارکنان کو بھی پہلے سے بڑھ کر اُن انتظامات کو کامیاب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.انتظامات چاہے جتنے مرضی ہوں اگر کارکن صحیح طور پر کام نہیں کر رہے تو سب انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں.جس خوشی اور جذبے کے ساتھ مہمان آرہے ہیں اسی طرح کا رکنان اور کارکنات کو ان مہمانوں کو خوش آمدید بھی کرنا چاہئے اور ان کی خدمت پر ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے.پس مسیح محمدی کی خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر کارکنان بھی پہلے سے بڑھ کر خدمت کرنے کا اپنے اندر ایک جوش اور عزم پیدا کریں اور وہ نمونے دکھائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مہمانوں کے لئے دکھاتے تھے.آپ اس زمانہ میں جو اسوہ ہمارے سامنے قائم کر گئے.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے بڑے حسین اوراق ہیں اور اسی حوالے سے آج میں اس سیرت کے پہلو کے چند واقعات پیش کرنا چاہتا ہوں.مہمانوں کی خاطر تواضع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نصیحت فرمائی کہ لنگر خانہ کے مہتمم کو تاکید کر دی جاوے کہ وہ ہر ایک شخص کی احتیاج کو مد نظر رکھے.مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے،

Page 306

خطبات مسرور جلد ششم 286 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 ممکن ہے کہ اُسے خیال نہ رہتا ہو، اس لئے کوئی دوسرا شخص یا د دلا دیا کرے“.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی وسیع نظام ہے، کارکنان ہیں مستقل بھی اور عارضی بھی ، تو اس لحاظ سے تو کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے.پھر فرمایا کہ کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دستکش نہ ہونا چاہئے.کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے واقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مدنظر رکھیں.بعض وقت کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوتا تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے.میں تو اکثر بیمار رہتا ہوں ( یہ آخری عمر کی آپ کی ہدایت تھی ) اس لئے معذور ہوں.مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائمقام کیا ہے میدان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں.کیونکہ لوگ صد ہا اور ہزار ہا کوس کا سفر طے کر کے صدق اور اخلاص کے ساتھ تحقیق حق کے واسطے آتے ہیں پھر اگر ان کو یہاں تکلیف ہو تو ممکن ہے کہ رنج پہنچے اور رنج پہنچنے سے اعتراض بھی پیدا ہوتے ہیں.اس طرح سے ابتلا کا موجب ہوتا ہے اور پھر گناہ میزبان کے ذمہ ہوتا ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 170 جدید ایڈیشن جدید ایڈیشن) پس جیسا کہ میں نے کہا تھا.اس دفعہ بھی لوگ مختلف قومیتوں کے یہاں آ رہے ہیں اور زیادہ تعداد میں آرہے ہیں اور کئی ہیں جو پہلی دفعہ آ رہے ہیں.پھر بعض مہمان ہیں ان کی بھی افریقہ اور دوسرے ملکوں سے بڑی تعداد آرہی ہے جو احمدی نہیں ہیں، ان سب کی مہمان نوازی اور ان کے جذبات کا خیال رکھنا ہر کارکن کا فرض ہے.اللہ کے فضل سے ہمیشہ غیر یہاں کے انتظام سے متاثر ہوتا ہے جب بھی یہاں گزشتہ سالوں میں انتظام ہوتے ہیں.جو بھی غیر آتے ہمیشہ متاثر ہو کر گئے.اس دفعہ زیادہ فکر اس لئے ہے کہ تعداد بھی زیادہ ہوگی اور یہی خیال ہے، لیکن اس تعداد کی وجہ سے کسی قسم کے انتظام میں فرق نہیں پڑنا چاہئے.پھر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں مہمانوں کا انتظام اور مہمان نوازی کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتارہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے.مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے.شیشے کی طرح نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ میں خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا.مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پر ہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا.ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی.اس لئے مجبوری علیحدگی ہوئی.ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے.بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 292.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )

Page 307

287 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے گو کہ انتظام ہر قوم کے لئے تو نہیں مختلف دو تین طرز کا کھانا پکتا ہے لیکن جو کھلانے والے ہیں ، جو مہمان نوازی کرنے والے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ مزاج کے مطابق ان کو کھانا مہیا کر دیا کریں.حضرت مولوی حسن علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ( یہ ان کا اپنی بیعت سے پہلے کا واقعہ ہے وہ 1887ء میں پہلی دفعہ قادیان گئے تھے ) لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھے کو بہت تعجب سا گزرا.ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں“.کہتے ہیں کہ مجھ کو پان کھانے کی بری عادت تھی، امرتسر میں تو مجھے پان ملالیکن بٹالے میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا.ناچار الا بچی وغیرہ کھا کرصبر کیا.میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بُری عادت کا تذکرہ کر دیا.جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی کو روانہ کیا، دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان موجود پایا.سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا.(سیرت حضرت مسیح موعود مرتبہ یعقوب علی عرفانی.جلد اول - صفحہ 135-136) امرتسر وہاں سے 16 میل تھا وہاں سے حضرت مسیح موعود نے ان کے لئے پان منگوایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو کہا بھی تھا کہ دوبارہ آئیں.چنانچہ نیک فطرت ،سعید فطرت تھے ، 1894ء میں پھر دوبارہ قادیان جا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی کیونکہ پہلی دفعہ جب گئے ہیں، تو اس وقت تو ابھی آپ نے بیعت نہیں لی تھی.ایک روایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے ، مولوی عبداللہ سنوری صاحب کے حوالے سے کہ حضرت مسیح موعود بیت الفکر میں ( مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے ) لیٹے ہوئے تھے اور میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرمیت یا شاید ملا وامل نے دستک دی، میں اٹھ کر کھڑ کی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا: آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیئے.( سیرت حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 160 - مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عاجزی کی بھی ایک اعلیٰ مثال ہے.مہمان کے احترام کی بھی ایک اعلیٰ مثال ہے.بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن آقا نے اپنے غلام کی جو عزت افزائی کی ہے اور صرف اس لئے کہ آنحضرت ﷺ کا فرمان اور اسوہ کی پیروی کرنی ہے تو یہ ایک سچا عاشق ہی کر سکتا ہے.اور یہی سچے عاشق آپ اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے آج الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نعوذ باللہ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے بالا سمجھتے ہیں.

Page 308

288 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم ایک مرتبہ بیگو دال ریاست کپورتھلہ کا ایک ساہوکا را اپنے کسی عزیز کے علاج کے لئے آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اطلاع ہوئی.آپ نے فوراً اس کے لئے نہایت اعلی پیمانہ پر قیام وطعام کا انتظام فرمایا اور نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ ان کی بیماری کے متعلق دریافت کرتے رہے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالی عنہ کو خاص طور پر تاکید فرمائی.اسی سلسلہ میں آپ نے یہ بھی ذکر کیا کہ سکھوں کے زمانہ میں ہمارے بزرگوں کو ایک مرتبہ بیگوال جانا پڑا تھا اس گاؤں کے ہم پر حقوق ہیں اس کے بعد بھی اگر وہاں سے کوئی آ جاتا تو آپ ان کے ساتھ خصوصاً بہت محبت کا برتاؤ فرماتے تھے.یہاں پھر ہمیں اس اسوہ پر عمل ہوتا نظر آتا ہے جو آپ کے آقاو مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا اسوہ ہے کہ نجاشی کا جو وفد آیا تھا تو آپ نے اس کی خدمت اس لئے کی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کیا تھا.حضرت میر حامد علی شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ اپنی ذات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانے کا واقعہ ہے اور ایک دفعہ کا ذکر ہے ( یہ لمبا واقعہ ہے ) کہ اس عاجز نے حضور مرحوم و مغفور کی خدمت میں قادیان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد رخصت حاصل کرنے کے واسطے عرض کیا.حضور اندر تشریف رکھتے تھے چونکہ آپ کی رافت اور رحمت بے پایاں نے خادموں کو اندر بھجوانے کا موقع دے رکھا تھا اس واسطے اس عاجز نے اجازت طلبی کے واسطے پیغام بھجوایا.حضور نے فرمایا کہ وہ ٹھہریں ہم ابھی باہر آتے ہیں.یہ سن کر میں بیرونی میدان میں گول کمرے کے ساتھ کی مشرقی گلی کے سامنے کھڑا ہو گیا اور باقی احباب بھی یہ سن کر کہ حضور باہر تشریف لاتے ہیں پروانوں کی طرح اِدھر اُدھر سے شمع انوار الہی پر جمع ہونے کے لئے آگئے.یہاں تک کہ حضرت سیدنا و مولانا نورالدین صاحب بھی تشریف لے آئے اور احباب کی جماعت اکٹھی ہوئی.ہم سب کچھ دیر انتظار میں کم بر سر راہ رہے کہ حضور اندر سے برآمد ہوئے.خلاف معمول کیا دیکھتا ہوں کہ حضور کے ہاتھوں میں دودھ کا بھرا ہوا لوٹا ہے اور گلاس شاید حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے اور مصری رومال میں ہے.( یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی آپ کے ساتھ تھے.چھوٹے بچے تھے.اور مصری رومال میں ہے ( چینی رومال میں تھی ).حضور گول کمرے کی مشرقی گلی سے برآمد ہوتے ہی فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب کہاں ہیں.میں سامنے حاضر تھانی الفور آگے بڑھا اور عرض کیا حضور حاضر ہوں.حضوڑ کھڑے ہو گئے اور مجھ کوفرمایا کہ بیٹھ جاؤ.میں اسی وقت زمین پر بیٹھ گیا.اب یہ بھی بتایا کہ کھانے یا پینے کے وقت بیٹھ کر پینا چاہئے.یا آرام سے کھانا چاہئے.پھر حضور نے گلاس میں دودھ ڈالا اور مصری ملائی گئی.مجھے اس وقت یہ یاد نہیں رہا کہ حضرت محمود نے میرے ہاتھ میں گلاس دودھ بھرا دیا یا خود حضور نے“.شیخ یعقوب علی عرفانی بھی وہاں موجود تھے جو لکھنے والے ہیں وہ یہ لکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ میری آنکھیں اب

Page 309

خطبات مسرور جلد ششم 289 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 تک اس مؤثر نظارے کو دیکھتی ہیں گویا وہ بڑا گلاس حضرت کے ہاتھ سے میر صاحب کو دیا جا رہا ہے.جو مجھے بھی یہ نظارہ یاد ہے.بہر حال یہ کہتے ہیں مگر یہ ضرور تھا کہ حضرت محمود اس کرم فرمائی میں شریک تھے اور حضور چینی گھولتے تھے گلاس میں دودھ ڈالتے تھے، اچھی طرح ہلاتے تھے پھر مجھے پینے کے لئے دیتے تھے.بعض دوستوں نے یہ کام خود کرنا چاہا تو حضور نے فرمایا نہیں نہیں کوئی حرج نہیں، ہمیں خود کروں گا.جب شاہ صاحب نے گلاس پی لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسرا گلاس بھر کے دیا.کہتے ہیں میں نے وہ بھی پی لیا.گلاس بڑا تھا میرا پیٹ بھر گیا.پھر اسی طرح تیسرا گلاس بھرا گیا میں نے بڑا شرمگیں ہو کر عرض کیا کہ حضور اب تو پیٹ بھر گیا ہے، فرمایا کہ ایک اور پی لو.میں نے وہ تیسرا گلاس بھی پی لیا.پھر حضور نے اپنی جیب سے کچھ بسکٹ نکالے اور فرمایا کہ جیب میں ڈال لو اور راستے میں اگر بھوک لگی تو یہ کھانا.میں نے وہ جیب میں ڈال لئے اور خیر وہ دودھ جو باقی تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اندر بھجوا دیا.تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا چلو آؤ آپ کو چھوڑ آئیں.کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ حضور اب میں سوار ہو جاتا ہوں، ٹانگے پر سوار ہونا تھا چلا جاؤں گا.حضور تکلیف نہ فرما ئیں.لیکن حضرت صاحب نے فرمایا ساتھ چلیں گے اور مجھے ساتھ لے کر روانہ ہو پڑے اور پھر ایک مجمع بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ساتھ تھا.راستے میں دین کی اور بعض علمی باتیں کرتے رہے.تو کافی دور تک نکل گئے ، تو کہتے ہیں کہ مجھے حضرت خلیفتہ المسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریب آ کر کان میں کہا کہ آگے ہو کر حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو اور اجازت لے لو.اگر تم نے اجازت نہ لی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اسی طرح تمہارے ساتھ چلتے چلے جائیں گے.تو کہتے ہیں اس پر میں نے آگے بڑھ کر اجازت لی تو بڑے لطف سے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اچھا ہمارے سامنے سوار ہو جاؤ تو اس پر میں یکہ پر بیٹھ گیا اور حضور واپس روانہ ہوئے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود - از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی.صفحہ 136 تا 139) پھر منشی عبدالحق صاحب کے ساتھ سیر پر تھے واپس لوٹتے ہوئے فرمایا کہ آپ مہمان ہیں، آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو، مجھے بے تکلف کہیں کیونکہ میں تو اندر رہتا ہوں اور نہیں معلوم ہوتا کہ کس کو کیا ضرورت ہے.آجکل مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کر سکتے ہیں.آپ اگر زبانی کہنا پسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیا کریں.مہمان نوازی تو میرا فرض ہے.(سیرت حضرت مسیح موعود - از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی.صفحہ 142) مفتی صادق صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا.غالباً 1897ء یا

Page 310

خطبات مسرور جلد ششم 290 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 1898ء کا واقعہ ہوگا.مجھے حضرت مسیح موعود نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو کہ اس وقت چھوٹی سی جگہ تھی.فرمایا کہ آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے کھا نا لاتا ہوں.یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے.مگر چند منٹ کے بعد جب کھڑ کی کھلی تو میں کیا دیکھتا ہوں اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے ایک ٹرے میں کھانا رکھے ہوئے لائے ہیں.مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں.بے اختیار رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرت ہمارے مقتداء پیشوا ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں کس قدر خدمت کرنی چاہئے.“ (ماخوذ از ذکر حبیب - صفحہ 327 - مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب مطبوعہ قادیان دسمبر (1936ء حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے جن کے پاس کوئی گرم کپڑے وغیرہ نہیں تھے.بستر لحاف کپڑے وغیرہ نہیں تھے.ایک شخص نبی بخش نمبر دارسا کن بٹالہ نے اندر سے لحاف اور بچھونے وغیرہ منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا.کہتے ہیں عشاء کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے ہوئے تھے اور ایک بیٹا ان کا جو غالباً حضرت خلیفہ ثانی تھے، پاس لیٹے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا چوغہ ان کے اوپر تھا.تو پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا لحاف، بچھونا، بستر بھی طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا ہے.تو میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بھی بہت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر جائے گی.نیچے آ کر میں نے نبی بخش نمبر دار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف اور بچھونا بھی لے آئے ہو.وہ شرمند ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اب اس سے کس طرح لوں.کہتے ہیں پھر میں مفتی فضل الرحمن یا کسی اور سے ٹھیک طرح یاد نہیں، بستر اور لحاف لے کر آیا.تو آپ نے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کسی اور مہمان کو دے دو، مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آتی اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہیں لیا اور فر مایا کسی اور مہمان کو دے دو.اصحاب احمد.جلد 4 صفحہ 180 مطبوعہ قادیان) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی لکھتے ہیں غالباً پہلی مرتبہ 1893ء کے مارچ کے مہینے کے اواخر میں قادیان آیا.رمضان کا آغاز تھا اور لوگ اس وقت اٹھ رہے تھے، مہمان خانے کی کائنات صرف دو کو ٹھڑیاں اور ایک دالان تھا.یعنی کل لنگر خانہ اور دارالضیافت کو ٹھڑیاں تھیں اور اس کا ایک صحن تھا جو مطب والا ہے.اس جگہ جہاں مطب تھا باقی موجودہ مہمان خانہ تک پلیٹ فارم تھا.حضرت حافظ حامد علی مرحوم کو خبر ہوئی کہ کوئی مہمان آیا ہے اس وقت مہمان خانے کے مہتم کہو یا داروغہ یا انچارج جو بھی مہمانوں کے تھے سب کچھ وہی تھے اور وہ مجھے جاننے والے تھے جب وہ آ

Page 311

291 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم کر ملے تو محبت اور پیار سے انہوں نے مصافحہ اور معانقہ کیا اور حیرت سے پوچھا کہ اس وقت کہاں سے آگئے ، صبح کے تین بجے سحری کے وقت پہنچے تھے تو میں نے جب واقعات بیان کئے تو بیچارے بہت حیران ہوئے.کچھ سبزی وغیرہ ان کے حوالے کی ، جو یہ ساتھ لے کر آئے تھے.تازہ سبزی تھی وہ لے کر اندر چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اطلاع کی.کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ تین بجے کے قریب قریب وقت تھا.حضرت صاحب نے مجھے گول کمرے میں بلایا اور وہاں پہنچنے تک پر تکلف کھانا بھی موجود تھا.میں اس ساعت کو اپنی عمر میں کبھی نہیں بھول سکتا.ایسا وقت تھا کبھی بھول نہیں سکتا.کس محبت و شفقت سے بار بار فرماتے تھے کہ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی.میں عرض کرتا نہیں، حضور تکلیف تو کوئی نہیں ہوئی، معلوم بھی نہیں ہوا.مگر آپ بار بار فرماتے ہیں، راستہ بھول جانے کی پریشانی بہت ہوتی ہے.آتے ہوئے راستہ بھول گئے تھے پیدل آ رہے تھے اور اس لئے دیر سے پہنچے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا راستہ بھول جانے کی بڑی پریشانی ہوتی ہے اور کھانا کھانے کے لئے تاکید فرمانے لگے.کہتے ہیں مجھے آپ کے سامنے کھانا کھانے سے شرم آتی تھی.میں ذرا ہچکچا رہا تھا آپ نے خود اپنے دست مبارک سے کھانا آگے کر کے فرمایا کہ کھاؤ، بھوک لگی ہوگی اور سفر میں تھکان بھی ہو جاتی ہے تو آخر میں نے کھانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ خوب سیر ہو کر کھاؤ ، شرم نہ کرو.سفر کر کے آئے ہو، حضرت حامد علی صاحب بھی پاس بیٹھے تھے اور آپ بھی تشریف فرما تھے.میں نے عرض کیا حضور آپ آرام فرما ئیں میں اب کھانا کھا لوں گا.حضرت اقدس نے محسوس کیا کہ آپ کی موجودگی میں تکلف نہ کروں.فرمایا اچھا حامد علی تم اچھی طرح سے کھلاؤ اور یہاں ان کے لئے بستر بچھا دو تا کہ یہ آرام کرلیں اور اچھی طرح سے سو جائیں.آپ تشریف لے گئے مگر تھوڑی دیر بعد ایک بستر الئے ہوئے پھر تشریف لے آئے.میری حالت اس وقت عجیب تھی ایک طرف تو میں آپ کے اس سلوک سے نادم ہور ہا تھا کہ ایک واجب الاحترام ہستی اپنے ادنی غلام کے لئے کس مدارات میں مصروف ہے.میں نے عذر کیا کہ حضور نے کیوں تکلیف فرمائی ہے.فرمایا نہیں نہیں تکلیف کس بات کی آپ کو آج بہت تکلیف ہوئی ہے اچھی طرح سے آرام کرو.غرض آپ خود بستر رکھ کر تشریف لے گئے اور حامد علی صاحب میرے پاس بیٹھے رہے اور محبت سے مجھے کھانا کھلایا اور پھر حضرت حافظ حامد علی صاحب نے فرمایا کہ آپ لیٹ جائیں میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں.تو میں نے بڑے شرمندہ ہو کر کہا نہیں میں نے نہیں دبوانی.تو اس پر حضرت حافظ حامد علی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ ذرا دبا دینا تھکے ہوں گے.ان کی یہ باتیں سنتے ہی کہتے ہیں میری آنکھوں سے بے اختیار آنسونکل گئے کہ اللہ اللہ کسی شفقت اور محبت کے جذبات اس دل میں ہیں، اپنے خادموں کے لئے وہ کس درد کا احساس رکھتا ہے.فجر کی نماز کے بعد جب آپ تشریف فرما ہوئے تو پھر مجھ سے دریافت فرمایا کہ نیند اچھی طرح آگئی تھی ؟ اب تھکان تو نہیں؟ غرض اس طرح پر اظہار شفقت فرمایا.اور کہتے ہیں آپ کی شفقت اور محبت یہی چیز تھی جو مجھے ملازمت چھڑوا کر قادیان لے آئی.(ماخوذاز سیرت حضرت مسیح موعود مرتبه شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.جلد اوّل صفحہ 146 تا 149)

Page 312

خطبات مسرور جلد ششم 292 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 میاں رحمت اللہ باغانوالہ کا واقعہ ہے یہ میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ سیکرٹری انجمن احمد یہ بنگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص خادموں میں سے ہیں، اور بنگہ کی جماعت میں بعد میں خدا تعالیٰ نے بڑی برکت اور ترقی بخشی.1905ء میں جبکہ حضرت اقدس باغ میں تشریف فرما تھے ، میاں رحمت اللہ قادیان آئے ہوئے تھے اور وہ مہمان خانے میں حسب معمول ٹھہرے ہوئے تھے.میاں نجم الدین مرحوم لنگر خانے کے داروغہ مہتمم تھے ، ان کی طبیعت کسی قدرا گھڑ سی واقعہ ہوئی تھی.اگر چہ اخلاص میں وہ کسی سے کم نہ تھے اور سلسلہ کی خدمت اور مہمانوں کے آرام کا اپنی طاقت اور سمجھ کے موافق بہت خیال رکھتے تھے اور مجتہدانہ طبیعت پائی تھی.میاں رحمت اللہ صاحب نے کچھ تکلف سے کام لیا روٹی کچی ملی اور وہ بیمار ہو گئے.مجھ کوخبر ہوئی اور میں نے ان سے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ روٹی کچی تھی اور تندور کی روٹی عام طور پر کھانے کی عادت نہیں ہے.مجھے ان کی تکلیف کا احساس ہوا.میری طبیعت بے دھڑک سی واقعہ ہوئی ہے.میں سیدھا حضرت صاحب کے پاس گیا اطلاع ہونے پر آپ فوراً تشریف لے آئے اور باغ کی اس روش پر جو مکان کے سامنے ہے ٹہلنے لگے اور دریافت فرمایا میاں یعقوب علی کیا بات ہے.میں نے واقعہ عرض کر کے کہا کہ حضور یا تو مہمانوں کو سب لوگوں پر تقسیم کر دیا کرو اور یا پھر انتظام ہو کہ تکلیف نہ ہو.میں آج سمجھتا ہوں اور اس احساس سے میرا دل بیٹھنے لگتا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل کے حضور اس رنگ میں کیوں عرض کی.اب وہ کہتے ہیں کہ مجھے خیال آتا ہے کہ میں نے کیا بیوقوفی کی.مگر بہر حال کہتے ہیں اس رحمت کے پیکر نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی کہ میں نے کس رنگ میں بات کی ہے.فرمایا کہ آپ نے بہت ہی اچھا کیا کہ مجھے کو خبر دی.میں ابھی گھر سے چپاتیاں پکوانے کا حکم کردوں گا.تندور کی روٹی اگر کھانے کی عادت نہیں نرم چھلکے پکوانے کا انتظام کر دوں گا.میاں نجم الدین کو بھی تاکید کرتا ہوں اسے بلا کر میرے پاس لاؤ.یہ بہت اچھی بات ہے اگر کسی مہمان کو تکلیف ہو تو فوراً مجھے بتاؤ.لنگر خانے والے نہیں بتاتے اور ان کو پتہ بھی نہیں لگ سکتا اور یہ بھی فرمایا کہ میاں رحمت اللہ کہاں ہیں وہ زیادہ بیمار تو نہیں ہو گئے اگر وہ آسکتے ہوں تو ان کو بھی یہاں لے آؤ.میں نے واپس آ کر میاں رحمت اللہ صاحب سے ذکر کیا وہ بیچارے بہت پریشان ہوئے کہ آپ نے کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دی.میری طبیعت اب اچھی ہے.خیر میں ان کو حضرت صاحب کے پاس لے گیا اور میاں نجم الدین صاحب کی بھی حاضری ہوگئی جو انچارج لنگر خانہ تھے.حضرت صاحب نے میاں رحمت اللہ صاحب سے بہت عذر کیا ، بڑی معذرت کی کہ بڑی غلطی ہو گئی ہے، آپ کو تو تکلف نہیں کرنا چاہئے تھا.میں باغ میں تھا ورنہ تکلیف نہ ہوتی اب انشاء اللہ انتظام ہو گیا ہے.جس قدر حضرت صاحب عذر اور دلجوئی کریں میں اور میاں رحمت اللہ اندر ہی اندر نادم ہوں اور پھر جتنے دن وہ رہے حضرت صاحب نے روزانہ مجھ سے دریافت فرمایا کہ تکلیف تو نہیں؟ اور میاں نجم الدین کو بھی بڑی نصیحت کی کہ مہمانوں کا خیال رکھا کرو.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود مرتبہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی جلد اول صفحہ 149 تا 151)

Page 313

خطبات مسرور جلد ششم 293 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 حضرت مفتی صادق صاحب لکھتے ہیں حضرت صاحب مہمانوں کی خاطر داری کا بہت اہتمام رکھا کرتے تھے.جب تک تھوڑے مہمان ہوتے تھے آپ خود ان کے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کیا کرتے تھے.جب مہمان زیادہ ہونے لگے تو خدام حافظ حامد علی صاحب اور میاں نجم الدین وغیرہ کو تا کید فرماتے رہتے تھے کہ دیکھو مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.ان کی تکلیف ان کی تمام ضروریات خور و نوش اور رہائش کا خیال رکھا کرو.بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو.سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میر احسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دیا کرو.( ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 195) ایک غیر از جماعت کے تاثرات بھی سن لیں جو 1905ء میں قادیان تشریف لائے تھے.اپنے قادیان سے جانے کے بعد امرتسر کے اخبار وکیل میں اپنے سفر کی داستان انہوں نے بیان کی.اس کا کچھ حصہ ہے.لکھتے ہیں کہ میں نے اور کیا دیکھا.قادیان دیکھا، مرزا صاحب سے ملاقات کی مہمان رہا.مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے ، میرے منہ میں سے حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے ( گرمی کی وجہ سے ) اور میں شور غذا ئیں کھا نہیں سکتا تھا.مرزا صاحب نے جبکہ دفعتا جب گھر سے باہر تشریف لے آئے تھے دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی.آج کل مرزا صاحب قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ جو خود ان کی ہی ملکیت ہے میں قیام پذیر ہیں.بزرگان ملت بھی وہیں ہیں.قادیان کی آبادی تقریباً 3 ہزار آدمیوں کی ہے مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے.نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت ساری بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے.راستے کچے اور ناہموار ہیں، بالخصوص وہ سڑک جو بٹالے سے قادیان تک آئی ہے اپنی نوعیت میں سب پر فوقیت لے گئی ہے.آتے ہوئے یکہ میں مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کی رتھ نے لوٹنے کے وقت نصف کی تخفیف کر دی.آتے ہوئے ٹانگے پر آئے تھے اور جاتے ہوئے رتھ پر گئے.بہر حال پھر لکھتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتا.اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا.) سیرت حضرت مسیح موعود.مرتبہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی.جلد اول صفحہ 144-145) یہ چند واقعات میں نے پیش کئے ہیں کہ آج اس حوالے سے جہاں مہمان نوازی کے لئے ایک جوش سے کارکن تیار ہوں وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کا یہ پہلو بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہو بلکہ اکثریت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے پہلوؤں کو جانتی نہیں ہے کیونکہ ہر زبان میں سیرت

Page 314

294 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم موجود بھی نہیں ہے ، ان کے علم میں بھی نہیں ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض لوگوں کے اپنے مہمان آتے ہوں گے.بعض قریبی عزیز ہوتے ہیں، ان کی مہمان نوازی تو انسان خوش ہو کے کر لیتا ہے بعض دُور کے عزیز یا کسی تعارف سے واقف ہوتے ہیں جو ذاتی طور پر آکے مہمان ٹھہر جاتے ہیں.ان کی مہمان نوازی بھی کریں.اسی طرح جماعتی نظام کے تحت کارکنان خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھیں.کھانا ، رہائش اور صفائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کے جو کارکنان ہیں ان کو براہ راست اور زیادہ مہمانوں سے واسطہ پڑے گا.اس دفعہ ٹرانسپورٹ کے انتظامات میں بھی کچھ تبدیلی ہے اور کچھ نئے تجربے ہورہے ہیں.اس لئے ٹرانسپورٹ کے کارکنان کو بھی بڑے احسن رنگ میں اپنے فرائض سرانجام دینے ہوں گے.گو ٹرین اور بسیں چلائی جا رہی ہیں لیکن بسوں پر جو جماعتی انتظام ہے اس کے مطابق بسیں خاص جگہوں سے چل رہی ہیں.اس میں خاص طور پر یورپ کے باہر سے آنے والے جو مہمان ہیں ان کو وقت پر جلسہ گاہ میں پہنچانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے.لیکن دوسرے مہمانوں سے بھی سختی سے بات نہیں کرنی ان کو بھی آرام سے سمجھائیں کیونکہ یورپ سے آنے والے اور یہاں UK مقامی کے پاس کاریں بھی ہیں اور ٹرین کے ذریعے سے وہ خرچ کر کے بھی جا سکتے ہیں.لیکن غریب ممالک سے آئے ہوئے جو لوگ ہیں ان کو بسوں کے ذریعہ سے پہنچانا ہو گا.اس لئے اس واسطے جو کارکنان ہیں وہ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں.مہمانوں سے جو یہاں کے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں وہ بھی خیال رکھیں.باہر سے آنے والوں کو بہر حال ترجیح دیں.اور موسم کا بھی کیونکہ پیشگوئیاں تو ایسی ہیں کہ کوئی اعتبار نہیں ہے.یہ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ یہ بھی ٹھیک رکھے اور ہر لحاظ سے ہمارا موسم موافق ہو لیکن اگر کسی بھی وجہ سے کوئی مشکل پیدا ہو تو کارکنان کو ہمیشہ حو صلے میں رہنا چاہئے اور خوش دلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے.گزشتہ سال بھی ماشاء اللہ کیا تھا.اس سال بھی اس روایت کو قائم رکھیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر قائم کریں.اصل میں تو خدمت کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے.اس لئے ہمیشہ یہ ذہن میں رکھیں کہ خدمت ہم نے قربانی کر کے کرنی ہے.آسانی سے خدمت نہیں کی جاتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی تو خاص طور پر اس طرح خدمت کرنی ہے جو اس کا حق ادا ہو کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اور جلسہ پر آنے والے مہمان ہیں.اس طرح سے اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی احسن رنگ میں تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 32 مورخہ 8 تا 14 اگست 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 315

خطبات مسرور جلد ششم 295 (30) خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2008ء بمطابق 25 روفا 1387 ہجری مشی بمقام حدیقۃ المہدی آلٹن ہمپشائر (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج انشاء اللہ باقاعدہ افتتاح کے ساتھ شام کو جماعت احمد یہ یو.کے کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.اس سال کا جلسہ سالانہ خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے اور اس سو سال میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور نصرتوں کی بارش کے شکرانے کے لئے جمع ہونے کی وجہ سے یہ جلسہ ایک خاص اہمیت کا جلسہ بن گیا ہے، بوڑھے، جوان، مرد، عورت، ہر احمدی کے دل میں اس کی خاص اہمیت ہے اور اس اہمیت کے پیش نظر اس سال جماعت احمدیہ برطانیہ کی انتظامیہ نے اندرون ملک بھی اور بیرون از برطانیہ بھی زیادہ مہمانوں کی متوقع آمد کے پیش نظر اپنے انتظامات میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور مجھے امید ہے کہ معمولی کمیوں کے علاوہ جو ایسے وسیع انتظامات میں جو عارضی بنیادوں پر کئے گئے رہ جاتی ہیں عمومی طور پر انتظامات اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر رہیں گے.انشاء اللہ.ایک لمبے تجربہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان کو اپنے اپنے کاموں کا ماہر بنا دیا ہے اور اس پر جب ایک احمدی کا جذبہ ایمان بھی شامل ہو جائے تو پھر تو کارکنوں کے کام میں ایک دیوانگی ہوتی ہے اور اس سال تو جیسا کہ میں نے کہا خلافت جو بلی کا جلسہ بھی ہے.ہر کارکن بچے، جوان، بوڑھے میں ایک خاص جذبہ ہے اور یہ جذبہ اس سال خاص رنگ میں جہاں جہاں بھی جلسے ہورہے ہیں ، جن جن ملکوں میں بھی میں گیا ہوں نظر آ رہا ہے.چاہے وہ گھانا اور نائیجیریا کی پرانی جماعتوں کے جلسے ہوں یا بین کی نئی جماعت کا جلسہ سالانہ یا امریکہ یا کینیڈا کا جلسہ.امریکہ کے احمدیوں کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں، پتہ نہیں کیوں دوسری دنیا کے احمدیوں کو یہ خیال تھا کہ وہاں کے جلسہ میں وہ جوش اور رونق نہیں ہوگی جو باقی دنیا میں نظر آتی ہے.اکثر خطوں میں اب بھی جو مجھے آرہے ہیں اس کا ذکر ہوتا ہے.شاید اس لئے یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ جو عمومی تاثر امریکہ کے بارے میں ہے اس میں ہمارے احمدی بھی رنگے گئے ہوں گے کیونکہ کافی تعداد و ہیں پلے بڑھے نو جوانوں کی ہے.لیکن ایک تو یہ عمومی تاثر عوام کے بارہ میں بھی غلط ہے.عمومی طور پر وہاں کے عوام بہت اچھے ہیں اور جہاں تک احمدی کا سوال ہے جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، وہ کسی بھی طرح کم نہیں ہیں، الحمد للہ.یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کی برکت ہے.

Page 316

296 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم بہر حال آج تو برطانیہ کے جلسہ کا ذکر ہونا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے عارضی انتظامات کے لحاظ سے تو اتنے وسیع انتظامات سخت قانونی پابندیوں کے ساتھ کہیں بھی نہیں ہوتے.تعداد کے لحاظ سے بھی، گزشتہ چند سالوں سے جو جلسے ہو رہے ہیں ان میں جرمنی اور برطانیہ کے جلسے برابر ہوتے ہیں.اس سال گھانا کا جلسہ تعداد کے لحاظ سے بہت آگے نکل گیا تھا.پاکستان کا میں نے ذکر نہیں کیا کیونکہ وہاں تو نام نہاد حق و انصاف اور آزادی کا دعوی کرنے والی حکومتیں گزشتہ 24 سال سے ہمیں جلسے کرنے نہیں دے رہیں.پتہ نہیں اس امن پسند جماعت سے ان لوگوں کو کیا خوف ہے.جلسہ کے ان دنوں میں میں آپ لوگوں کو یہ بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے حالات کے لئے بہت دعا کریں.ایک تو عمومی ملکی حالات کے لئے بھی کہ پتہ نہیں حکمران ملک کو کس طرف لے جارہے ہیں اور اس ملک کا کیا کرنا چاہتے ہیں.جب گزشتہ الیکشن ہوئے تو مولوی کو اس سال حکومت نہیں ملی تو وہ اپنی فطرت کے مطابق اس کا پورے ملک سے بدلہ لے رہا ہے اور جگہ جگہ فساد کر کے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہا ہے.اور حکمران اور سیاستدان باوجود اس حقیقت کے ظاہر ہو جانے کے کہ عوام نے کس طرح عمومی طور پر الیکشن میں انہیں رو کیا ہے، ملاں سے خوفزدہ ہیں.اور بجائے اس کے کہ ان کی مفسدانہ حرکتوں کو سختی سے کچلیں ان کے آگے یوں جھکے ہوئے ہیں، یوں ان سے باتیں ہوتی ہیں جیسے ان کے زیر نگیں ہوں.بہر حال اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے.دوسرے پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں، احمدی آزادی سے اپنے جو بھی فنکشنز ہیں وہ منعقد کر سکیں ، سکھ کا سانس لے سکیں ، اپنے جلسے پوری شان و شوکت سے منعقد کر سکیں ، ظالمانہ قانون کا خاتمہ ہو.اللہ تعالیٰ ان ارباب حل و عقد کو عقل دے جو اس بات کو سمجھتے نہیں کہ کس طرف وہ جارہے ہیں اور کیا ان کے ساتھ ہونے والا ہے.ان دنوں میں خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوئے احمدی پاکستان کے لئے بھی اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی بہت دعائیں کریں.پھر میں واپس یو کے (UK) کی طرف لوٹتا ہوں.گزشتہ جمعہ میں میں نے کارکنان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی.یہ میرا طریق ہے جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کارکنان صحیح کام نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر دوسری جماعت کی طرح یہاں کے کارکنان بھی بہت جذبہ سے کام کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اتنے وسیع عارضی انتظامات اور ان کے لئے لمبی تیاری بھی اتنی زیادہ کہیں نہیں ہوتی جتنی یہاں ہوتی ہے.جرمنی کا جلسہ گو تعداد کے لحاظ سے یو.کے (UK) کے جلسہ کے برابر ہے لیکن ان کو کافی سہولتیں جلسہ گاہ میں میسر آ جاتی ہیں جو یہاں نہیں ہیں.گزشتہ سال کارکنوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک نیا تجربہ کرا دیا.یعنی موسم کی وجہ سے بارشوں نے کافی نظام درہم برہم کر دیا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان نے بڑے احسن رنگ میں ان مشکل حالات میں

Page 317

خطبات مسرور جلد ششم 297 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 بھی اپنی ڈیوٹیاں دیں.مشکلات کا سامنا اپنے اپنے دائرے میں ہر شعبے کو کرنا پڑتا ہے اور اس لئے گزشتہ سال کرنا پڑا.اس سال بظاہر تو موسم کی پیشگوئیاں اچھی ہیں.خدا کرے کہ اچھی رہیں، دعائیں کرتے رہیں.اصلی کنجی تو ہر بات اور ہر چیز کی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اس کے فضل کے بغیر تو کوئی چیز نہیں ہے.وہ چاہے تو یہ موسمی پیشگوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں.انسان کا تو ایک اندازہ ہے جس پر بنیا د کر کے وہ موسم کا حال بتاتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ گزشتہ سال کے موسم کا ایک فائدہ ہوا ہے کہ خدام کو نئے تجربے ہو گئے.خدام جو ابھی تک صاف سڑکوں اور خشک جگہوں کے ماہر تھے ، اب کیچڑ کے بھی ماہر ہو گئے ہیں.کسی نے کہا تھا کہ ”ہمارا گر وکھو بے کا ماڑا ہے، لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے گرو کی بات نہیں اب ہمارے خدام بھی باوجود یو.کے (UK) میں رہنے کے کھوبے کے ماہر ہو گئے ہیں.اب میرے خیال میں کوئی گاڑی کیچڑ میں پھنس بھی جائے تو ان کی ٹریننگ اتنی ہو گئی ہے کہ آرام سے نکال سکتے ہیں.بہر حال آنے والے مہمانوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کارکنان تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت سے کام کرتے ہیں اور انشاء اللہ کریں گے.لیکن مہمانوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں.جنہیں نبھانا آپ کا فرض ہے.سب سے پہلی بات تو یہ یا درکھیں کہ خالصتاً یہاں جلسہ میں شامل ہونے کا مقصد لڑہی ہونا چاہیئے.اس لئے اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور اس میں سب سے اہم چیز نمازوں کی ادائیگی ہے.صرف جلسہ میں بیٹھ کر ، دلچسپی کی چند تقریریں سن کر آپ کے اس سفر کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا.بلکہ ان دنوں میں ہر ایک ایسی پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ ان دنوں میں کی گئی عبادتیں اور نماز میں جلسہ میں شامل ہونے والوں کی زندگی کا ایک دائمی حصہ بن جائیں.ایسی نمازیں ہوں جن میں صرف خشوع و خضوع نہ ہو، تمام نماز میں وقت پر پڑھنے کی کوشش بھی کریں.بلکہ یہ لازمی کریں کہ باجماعت نمازیں ادا کرنی ہیں.یہاں نمازوں اور جلسہ کے دوران بازار عموماً بند رہتے ہیں.اس لئے نئے آنے والے مہمان اور پرانے مہمان بھی اس طرف جانے کی کوشش نہ کریں.بعض دفعہ بلاوجہ قواعد توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر اس طرح یہ زیادتی کر کے کارکنان کے لئے بھی مشکل کا باعث نہ بنیں.پھر یہاں جلسہ گاہ میں تو عموماً جلسہ کے دنوں میں اجتماعی تہجد کے لئے انتظام ہوگا اور یہاں لوگ آتے بھی ہیں لیکن دوسری قیام گاہوں میں بھی ان کے رہنے والے بھی اس بات کی پابندی کریں.اسلام آباد میں اجتماعی قیام گاہ ہے اسی طرح بیت الفتوح میں ہوگی ، وہاں بھی تہجد اور فجر کی نماز کی پابندی کی کوشش کریں.پھر ایک بہت بڑی تعداد گھروں میں رہ رہی ہے.وہ بھی اگر کوئی سنٹر نزدیک ہے یا اس تک پہنچنا آسان ہے تو فجر اور مغرب عشاء سے اگر پہلے چلے گئے ہیں تو مغرب عشاء کی نمازیں باجماعت سنٹر یا مسجد میں جا کر ادا کرنے کی کوشش کریں.لندن میں رہنے والے جو لوگ ہیں، روزانہ جانے والے، خود بھی اس کی پابندی کریں

Page 318

خطبات مسرور جلد ششم 298 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 اور اپنے مہمانوں کو بھی اس کی پابندی کروائیں.اگر نمازوں اور عبادت کی طرف پوری توجہ نہیں تو پھر اس جلسہ کے بہت بڑے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں بن رہے ہوں گے.کوئی تقریر فائدہ نہیں دے سکتی یا اس تقریر سے علمی حظ اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں اگر نمازوں کی طرف پورے شوق اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو ادا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے.یہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے اس لئے بہت بڑی تعداد یہاں آئی ہے، مطلب یہ کہ خلافت جو بلی کے سال میں ہونے والا پہلا جلسہ ہے اور جیسا کہ میں نے کہا اس دفعہ اکثریت اس حوالے سے اور اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے جلسہ میں شامل ہو رہی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ وہ مومنین کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا تو اس آیت میں یہ بتایا کہ وہ لوگ میری عبادت کریں گے.اللہ تعالیٰ کی عبادت اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرانے کی وجہ سے ان پر یہ انعام ہو گا کہ ان کو خلافت کی وجہ سے تمکنت عطا ہوگی اور پھر یہ بات انہیں مزید عبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہوگی.اور پھر اگلی آیت جو اس آیت استخلاف کے بعد آتی ہے، اس کے شروع میں ہی فرمایا وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ (النور: 57 ) کہ عبادت کے لئے بنیادی چیز اور شریک نہ ٹھہرانے کے لئے پہلا قدم ہی نماز کا قیام ہے.اور قیام نماز کیا ہے؟ باجماعت نماز پڑھنا،سنوار کر نماز پڑھنا اور وقت پر نماز پڑھنا.نماز کے مقابلے میں ہر دوسری چیز کو بیچ سمجھنا، کوئی حیثیت نہ دینا.پس ان دنوں میں تمام آنے والے مہمان ، تمام جلسے میں شامل ہونے والے لوگ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دیں اور پھر صرف ان دنوں میں نہیں بلکہ ان دنوں میں یہ دعا بھی خاص طور پر کریں اور کوشش کریں کہ ان دنوں کی نماز کی عادت ہمیشہ آپ کی زندگیوں کا حصہ بن جائے تا اس نعمت سے حصہ لیتے رہیں جو خلافت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے.اور جو انفرادی طور پر بھی ہر احمدی کے لئے تمکنت کا باعث بنے گی اور جماعتی طور پر بھی تمکنت کا باعث بنے گی اگر ہماری عبادتیں زندہ رہیں.پس اپنی نمازوں کی حفاظت ان دنوں میں خاص طور پر کریں کہ یہی ہمارا بنیادی مقصد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.فرمایا: ” ایمان کی جڑ بھی نماز ہی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ مَنُوا مِنْكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنادے گا.تو ہر احمدی کواس انعام سے فیض پانے کے لئے ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے اس جڑ کو پکڑنے کی کوشش کرنی چاہئے.بلکہ اس کی جڑیں ہمیں اپنے دل میں

Page 319

خطبات مسرور جلد ششم 299 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 اس طرح لگانی ہوں گی کہ جو چاہے گزر جائے لیکن اس جڑ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.کسی بھی حالت میں اس جڑ کو نقصان نہ پہنچے.کیونکہ اس کو نقصان پہنچنا یا نمازوں میں کمزوری دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان میں کمزوری پیدا ہو رہی ہے اور ایمان میں کمزوری جو پیدا ہوگئی تو خلافت سے تعلق بھی کمزور ہوگا.پس ان دنوں میں جب آپ خاص دنوں میں جمع ہوئے ہیں تو اپنی نمازوں کی حفاظت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نمازیں پھر ہماری حفاظت کریں.ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے اس کے نام کے ہمیشہ وارث بنتے رہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے کیا ہے.نماز میں دعاؤں کے طریق اور اس کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: نماز تضرع اور انکسار سے ادا کرنی چاہئے اور اس میں دین اور دنیا کے لئے بہت دعا کرنی چاہئے.پھر آپ فرماتے ہیں: "وَالَّذِيْنَ هُم عَلى صَلَوتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ (المومنون: 10) یعنی ایسے لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کبھی ناغہ نہیں کرتے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے.یا درکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شے ہے جس سے تمام مشکلات آسان ہو جاتی ہیں اور سب بلائیں دُور ہوتی ہیں.مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں.بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے اور پھر یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ نماز کی حفاظت اس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا کو ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں.وہ تو غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِيْنَ ہے.اس کو کسی کی حاجت نہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کو ضرورت ہے اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ انسان خود اپنی بھلائی چاہتا ہے اور اس لئے وہ خدا سے مدد طلب کرتا ہے.کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو جانا حقیقی بھلائی حاصل کر لینا ہے.ایسے شخص کی اگر تمام دنیا دشمن ہو جائے اور اس کی ہلاکت کے در پے رہے تو اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور خدا تعالیٰ کو ایسے شخص کی خاطر اگر لاکھوں کروڑوں انسان بھی اگر ہلاک کرنے پڑیں تو ہلاک کر دیتا ہے.یادرکھو نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.فرمایا: ” نماز تو ایسی چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے، مگر اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگارہے اس طرح کا خشوع و خضوع پیدا نہیں ہو سکتا.اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو.پس یہ دن اللہ تعالیٰ نے پھر ہمیں میسر فرمائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنی نمازوں کو سنوار میں اور دعاؤں میں دن رات گزاریں.خدا تعالیٰ سے اُن انعاموں کے طالب ہوں ، وہ نماز میں خدا تعالیٰ ہمارے نصیب

Page 320

خطبات مسرور جلد ششم 300 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 کرے جو ہر طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچانے والی ہوں.ان دنوں میں ہمیں ایسی دعائیں مانگنے کی توفیق ملے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو جذب کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیں اس کی رحمتوں اور فضلوں کا وارث بناتے چلے جانے والی ہو.اللہ تعالیٰ ہمارے مخالفین کو سمجھ اور ہدایت دے اور اگر اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ان کا یہ مقدر نہیں تو ہمیں اُن کے شر سے بچانے کے ہمیشہ سامان فرماتا رہے.پس ان دنوں میں خالص نمازوں اور عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں کیونکہ یہی ہمارا یہاں جمع ہونے کا مقصد ہے.جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو سب سے پہلے یہ بنیادی مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جلسہ کے دنوں میں سلام کو رواج دیں.خدا تعالیٰ نے جو ہمیں احکام دیئے ہیں ان میں یہ بھی بڑا بنیادی حکم ہے اور آپس کے پیار و محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے.پھر آنے والے مہمان یہ بھی یا درکھیں کہ گومیزبان پر مہمان کا بہت حق ہے لیکن بعض ذمہ داریاں مہمان کی بھی ہیں.ایک حکم ہمیں قرآن کریم میں سورۃ احزاب میں آیا ہے جو کہ آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ہے لیکن یہ مہمان کے لئے ایک بنیادی حکم ہے جسے عمومی طور پر تو ہر مہمان کو جو کسی بھی مقصد کے لئے مہمان بن کر کسی کے ہاں جائے ہمیشہ یا درکھنا چاہئے ، لیکن جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو خصوصیت سے یہ یادرکھنا چاہئے.کیونکہ جلسہ پر آنے والے مہمان ایک خاص مقصد کے لئے آتے ہیں اور خاص طور پر جماعتی نظام کے تحت ٹھہر نے والے مہمان تو اس کا خاص اہتمام کریں.پہلی بات یہ ہے کہ بن بلائے مہمان نہ جاؤ.آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اس میں ہمارے سامنے ہے کہ ایک دعوت میں جب مقررہ تعداد سے زیادہ لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو کر چلے اور ایک شخص زائد تھا جو ان لوگوں میں شامل ہو گیا، باتیں کرتا ہوا اس گھر تک پہنچ گیا جہاں کھانے کی دعوت دی گئی تھی.تو آپ نے گھر والے سے اجازت لی کہ اس طرح میرے ساتھ یہ زائد شخص آ گیا ہے، اگر تم چاہو تو میرے ساتھ اندر داخل ہو جائے ، اگر نہیں تو بغیر کسی تکلف اور پریشانی اور شرمندگی کے بتا دو تو میں اس کو کہوں گا کہ واپس چلا جائے.(مسلم کتاب الاطعمة والاشربۃ باب ما يفعل الضيف اذا تبعه غیر من دعاه صاحب صاحب الطعام....حدیث نمبر 5203 پس ایک تو یہ کہ باہر سے آنے والے یاد رکھیں گو کہ جلسہ پر آئے ہیں، دعوت پر آئے ہیں، بغیر دعوت کے نہیں آئے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جماعتی مہمان نوازی ایک معینہ مدت تک کے لئے ہے.اس کے بعد ضد کر کے بعض لوگ ٹھہرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ بات پھر بن بلائے والی بات اور بعد میں پھر تکلیف دینے والی بات بن جاتی ہے.بعض لمبے عرصہ کی ٹکٹوں کی تاریخیں لے کر آتے ہیں اور اس کے بعد یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اب کیا کریں مجبوری ہے اور پھر اس عرصہ میں کام وغیرہ بھی کرتے ہیں.تو اگر مجبوری ہے تو جو رقم کما رہے ہیں اس میں سے خرچ

Page 321

301 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم کریں اور اپنے اخراجات خود پورے کریں اور جماعت پر بوجھ نہ بنیں.اتنا لمبا عرصہ رہنے والوں کی وجہ سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں.گزشتہ سال بھی پیدا ہوئے اس سے پہلے بھی پیدا ہوتے رہے اور ان کو جگہ خالی کرنے کے لئے کہا جاتا ہے تو پھر سب ایسے لوگوں کو شکوہ ہوتا ہے.پھر قانونی طور پر کام کی اجازت نہیں ہے.ویزا جو ملا ہوتا ہے وہ وزٹ ویزا ہوتا ہے اس لئے بعض مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں، بعض مسائل ہوتے ہیں.جماعت کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں.اگر حکومتی اداروں کو پتہ چل جائے اور بعض کے متعلق پتہ چل بھی جاتا ہے.اس لئے چند ایک وہ لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں ان سے میں کہہ رہا ہوں کہ اگر اس طرح بعد میں رہنا ہے تو اپنا انتظام خود کریں اور جماعت سے کسی قسم کا شکوہ نہ کریں کیونکہ جلسہ کے بعد لمبا عرصہ رہنا پھر اس زمرہ میں آئے گا کہ دعوت کے بعد بیٹھ کر گھر والے کو تکلیف دے رہے ہیں اور اس کے لئے تکلیف کا باعث بن رہے ہیں.پھر ایک بات یہ بھی مہمانوں کو یا د رکھنی چاہئے کہ ان کی خدمات کرنے والے مختلف طبقات سے کارکنان آتے ہیں بہت پڑھے لکھے بھی ہیں اور عام پڑھے لکھے بھی ہیں اور مختلف پیشوں میں کام کرنے والے بھی ہیں.یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور شوق سے پیش کرتے ہیں.عموماً ہر کارکن بڑی خوشدلی سے یہ کر رہا ہوتا ہے اور ہر کام کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے.میں بھی انہیں جلسہ سے پہلے دو تین مرتبہ ہر طرح سے مہمانوں کا خیال رکھنے اور ان کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں.لیکن اگر کبھی کسی سے کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو مہمانوں کو بھی برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے.اگر ہر مہمان اور ہر شخص جو جلسہ میں شامل ہو رہا ہے اپنی بھی ذمہ داری سمجھے تو بعض بدمزگیاں جو پیدا ہو جاتی ہیں، نہ ہوں.گزشتہ سال کی بارش کی وجہ سے جو نظام میں دقت پیدا ہوئی، بعض خرابیاں ان کمیوں کی وجہ سے آئیں اس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کارکنان اور مسافروں میں بعض چھوٹی چھوٹی بدمزگیاں پیدا ہوئیں اور اب بھی مجھے شکایت ملی ہے بعض مہمان ایسے ہیں کہ مثلاً سڑکوں پر گاڑیاں روکنا منع ہیں.حکومتی انتظامیہ کی طرف سے بھی منع ہے ، ہمسایوں کے لئے بھی وقت کا باعث بنتا ہے.کسی چھوٹے شہر میں، قصبے میں گاڑی کھڑی کر دیتے ہیں.سختی سے بار بار ایم ٹی اے پر اعلان بھی ہو رہا ہے جماعتوں کو بتایا بھی گیا ہے لیکن اس کے باوجود بعض یورپ سے آنے والے اپنی گاڑیاں کھڑی کر کے ٹیکسی پر آ جاتے ہیں.یہ بالکل غلط طریق ہے، قواعد کی پابندی کریں.اگر اس مقصد کے لئے آئے ہیں کہ جلسے کی برکات سے فائدہ اٹھانا ہے.کارکنوں کو بھی اگر بعض بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں تو کارکن بھی بعض دفعہ تیز ہو جاتے ہیں.ان کو بھی انسان سمجھ کر ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے صرف نظر کرنا سیکھیں تو بدمزگیاں نہ صرف بڑھیں گی نہیں بلکہ پیدا ہی نہیں ہوں گی.

Page 322

خطبات مسرور جلد ششم 302 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 پھر کھانے کے وقت میں بعض دفعہ عورتیں اور بچے یا ایسے مریض جن کو شوگر وغیرہ کی بیماری ہے، بھوک برداشت نہیں کر سکتے ان کو لمبے فاقے کی وجہ سے دقت پیدا ہوتی ہے، وہ لمبا فاقہ نہیں کر سکتے.اگر کسی وجہ سے پروگرام لمبا ہو جاتا ہے یا ٹریفک کی وجہ سے کسی کو زیادہ وقت لگ جاتا ہے.بچوں والوں اور مریضوں کو بعض دفعہ کھانے کی حاجت ہوتی ہے جیسا کہ میں نے کہا.تو اس بارے میں پہلے تو کارکنوں کو میں کہتا ہوں کہ اتنی سختی نہ کیا کریں کہ ایسے لوگوں کے لئے پروگرام کے دوران بھی اگر کسی کو ضرورت پڑتی ہے کیونکہ دکا نہیں تو بند ہوں گی تو کھانے کا انتظام کر دیا کریں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے.دوسرے ایسے بچوں والے اور مریض جلسے کے ہنگامی حالات کے پیش نظر اپنی جیب میں بھی کوئی چیز کھانے کی رکھ لیا کریں تاکہ کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچ سکیں ، تکلیف سے بچ سکیں.پھر ٹرانسپورٹ کے انتظار میں بھی وقت لگ سکتا ہے.گو کہ اس دفعہ انتظام گزشتہ سال کی نسبت بہت بہتر ہے، انشاء اللہ تعالیٰ دقت نہیں ہوگی.لیکن پھر بھی کسی امکان کو ہم رو نہیں کر سکتے.خاص طور پر واپسی کے وقت جب زیادہ رش پڑ جاتا ہے اُس وقت بعض وقتیں پیدا ہو سکتی ہیں تو انتظامیہ بھی ایسی ہنگامی صورتحال کے لئے جہاں جہاں بھی بسوں کے سٹینڈ بنائے گئے ہیں جہاں سے مسافروں کو اٹھانے کا انتظام ہے، ( مسافر ) اپنے پاس بھی کچھ رکھیں اور ضیافت کی ٹیم کا بھی کام ہے کہ ان کے سپر د کچھ کر دیا کریں اور کچھ نہیں تو پیٹا بریڈ (Pita Bread) کے پیکٹ رکھ دیا کریں تاکہ فوری طور پر اگر دیر ہو جاتی ہے تو ہنگامی طور پر کچھ نہ کچھ کھانے کومل جائے.گزشتہ سال بھی بعض ایسی شکایات آتی رہی ہیں لیکن مہمانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ میزبان کا جو فرض ہے وہ تو پورا کرے گا لیکن مہمانوں کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ ہم نے تو اس اُسوہ پر چلنا ہے جو آنحضرت ﷺ کا تھایا جس کے نمونے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دکھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس قسم کے مہمان تھے اس کا ایک نمونہ بھی دیکھ لیں ہیں نے ایک روایت میں سے نکالا ہے.میزبانوں کے نمونے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے میں نے گزشتہ خطبہ میں پیش کئے تھے.لیکن آپ جب مہمان تھے.تو کس طرح ان کے مہمان تھے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ جنگ مقدس ( جنگ مقدس وہ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور عیسائیوں کے درمیان ایک مباحثہ ہوا تھا اور عبداللہ آ تقم عیسائیوں کی طرف سے پیش ہوا تھا.آپ سفر پر گئے تھے وہاں آپ مہمان تھے.) کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہو گئے تھے.ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے کھانا رکھنا یا وقت پر کھانا پیش کرنا گھر والے بھول گئے.کہتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی تھی مگر وہ کثرت کا روبار اور مشغولیت کی وجہ سے بھول گئی.یہاں تک کہ رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے انتظار کے بعد استنفسار فرمایا تو سب کو فکر ہوئی.بازار

Page 323

خطبات مسرور جلد ششم 303 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 بھی بند ہو چکا تھا اور کھانا نہ مل سکا.حضرت کے حضورصورتحال کا اظہار کیا گیا.آپ نے فرمایا اس قدر گھبراہٹ اور تکلف کی کیا ضرورت ہے.دستر خوان میں دیکھ لو کچھ بچا ہوا ہو گا، وہی کافی ہے.دستر خوان میں دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے.آپ نے فرمایا یہی کافی ہیں اور ان میں سے ایک دوٹکڑے لے کر کھالئے اور بس.(سیرت حضرت مسیح موعود - مؤلفہ: حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 333-332) لکھتے ہیں بظاہر یہ واقعہ معمولی معلوم ہوگا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سادگی اور بے تکلفی کا ایک حیرت انگیز اخلاقی معجزہ نمایاں ہے.کھانے کے لئے اس وقت نئے سرے انتظام ہو سکتا تھا اور اس میں سب کو خوشی ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ساری رات بیٹھ کر بھی پکانا پڑتا تو اس میں ایسی کیا بات تھی خوشی محسوس کرتے.مگر آپ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ بے وقت تکلیف دی جاوے اور نہ اس بات کی پرواہ کی کہ پُر تکلف کھانا آپ کے لئے نہیں آیا اور نہ اس غفلت اور بے پرواہی پر کسی سے جواب طلب کیا اور نہ خفگی کا اظہار کیا.بلکہ نہایت خوشی اور کشادہ پیشانی سے دوسروں کے لئے گھبراہٹ کو دور کر دیا.پس اگر کسی بھول چوک یا ہنگامی حالت کی وجہ سے کسی کی مہمان نوازی میں کمی رہ بھی جائے تو کسی قسم کا غصہ کرنے کی بجائے ہمیشہ یہ مدنظر رکھیں کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟ سینکڑوں یا ہزاروں میل کا سفر کر کے آنے کے باوجود اگر اس مقصد کو پیش نظر نہیں رکھتے ، اپنی روحانی، اخلاقی اور علمی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں کرتے تو یہاں جلسہ پر آنے کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہیں.گزشتہ دورہ میں جب میں نے افریقہ کا دورہ کیا ہے ، میں نے اس کا اپنے خطبہ میں ذکر بھی کیا تھا کہ بینن سے آئے ہوئے لوگوں کو ، آئیوری کوسٹ سے آئے ہوئے بعض لوگوں کو بعض وجوہات کی وجہ سے ایک وقت کھانا نہیں مل سکا.لیکن جب ان سے کہا گیا اور معذرت کی گئی.ان کا انتظام نئے سرے سے ہو گیا تو انہوں نے کہا اس معذرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں.ہم جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہ ہمارا مقصد پورا ہو گیا ہے اور جلسہ پر ہم شامل ہو گئے ہیں اور خلیفہ وقت کی موجودگی میں جلسہ ہوا اس میں شامل ہو گئے ہیں.تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم کہتے ہیں کہ افریقہ میں نئے آنے والے.نئے آنے والے ایمان میں ترقی کرنے والے بنتے چلے جارہے ہیں.پھر چھوٹی چھوٹی باتوں کا شکوہ بسا اوقات عورتوں کی طرف سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے تمام مہمان یاد رکھیں کہ چاہے مرد ہوں یا عورتیں.اگر میزبانوں کی طرف کی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں تو مہمانوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور فرائض ہیں.مہمان صرف حقوق نہیں رکھتا جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں.آنحضرت ﷺ نے تو مہمان کی مہمان نوازی کا حق تین دن کے بعد ختم کر دیا.اس کے بعد تو میزبان کا احسان ہے جو وہ مہمان پر کرتا ہے.( سنن ابو داؤد کتاب الاطعمه باب ما جاء فی الضیافۃ حدیث نمبر 3749-3748)

Page 324

خطبات مسرور جلد ششم 304 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 ایک احمدی مہمان جب جلسہ سالانہ پر مہمان بن کر آتا ہے تو اس کا مقصد مہمان نوازی کروانا نہیں ہوتا بلکہ وہ طریق سیکھنا ہوتا ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر سکے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کر سکے.اور اگر ان باتوں کا علم پہلے سے ہے، حقوق ادا کرنے والا ہے، نہ صرف علم ہے بلکہ کرنے والا ہے تو اس میں جلسے کی برکت سے مزید جلا پیدا کر سکے.اور اس سے بھی بڑھ کر اجتماعی طور پر کی گئی دعاؤں سے حصہ لینے والا بن کر پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بن سکے.پس ان دنوں میں نمازوں اور دعاؤں پر زور دیں، نوافل کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں.جلسہ کے ماحول میں بھی اور اس سے باہر اپنے ماحول میں بھی سلام کو رواج دیں.پیار و محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کریں تا کہ ان دعاؤں سے بھی حصہ پانے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور جو بھی ان کے حصول کی نیک نیتی سے خواہش کرے گا اور اس کے لئے کوشش کرے گا تو ہمیشہ ہر ملک کے جلسے میں شامل ہونے والوں کو یہ دعا ئیں فیض پہنچاتی رہتی ہیں، یہاں بھی فیض پہنچائیں گی.جماعت کی ترقی کی ضمانت جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے کی گئی دعاؤں کی قبولیت کی ضمانت بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دی.اور اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان دعاؤں کے پیچھے وہ دعائیں بھی کام کر رہی ہیں بلکہ وہ دعائیں ہی کام کر رہی ہیں جو آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے ان افراد کے لئے کی ہیں جو آپ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہوئے.پس ان دعاؤں سے حصہ دار بننا اب ہمارے اعمال پر منحصر ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.انتظامی طور پر بھی چند باتیں کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ ہر شخص اپنے ماحول پر نظر رکھے.جتنی تعداد بڑھ رہی ہے جلسے میں آنے والوں کی ، اور اس سال خاص طور پر حالات کی وجہ سے، حالات اور اپنے ماحول پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے.کوئی اجنبی مشکوک چہرہ اگر آپ دیکھیں تو فوراً انتظامیہ کو بتا ئیں.جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے اپنے اردگر ونظر رکھیں.کوئی شخص اگر کسی جگہ اپنی کوئی چیز چھوڑ کر اٹھتا ہے تو فورا اس کو توجہ دلائیں.اگر کوئی چیز بیگ یالفافے وغیرہ، کوئی چیز ہو، پڑی ہوئی دیکھیں تو انتظامیہ کو توجہ دلائیں.سیکیورٹی والے بھی خاص طور پر اس پر نظر رکھیں.خاص طور پر خواتین کے جلسے میں، ان کی مارکی میں بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور نظر رکھنے کی ضرورت ہے.کوئی عورت جلسہ گاہ میں منہ ڈھانک کر نہ بیٹھے.اگر کوئی ایسے بیٹھی ہو تو سیکیورٹی والوں کا کام ہے، ساتھ بیٹھے ہوؤں کا کام ہے کہ کوشش کر کے اس کا چہرہ دیکھیں.

Page 325

305 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2008 خطبات مسرور جلد ششم پھر صفائی کا خیال رکھیں.آپ کو جو پروگرام یہاں چھپا ہے اس میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں بھی ان سب باتوں کا ذکر ہے ان کو غور سے پڑھیں.عموماً ہدایات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور یہ عمومی حالت ہے.جہاز پر بھی جب ہم سفر کرتے ہیں تو عموماً جو زیادہ سفر کرنے والے لوگ ہیں وہ جو سفر کی اناؤنسمنٹ (Announcement) ہوتی ہے، سفر کی ہدایات کی اگر ایسی ہنگامی صورت ہو جائے تو یہ یہ کرنا ہے، عموماً اس کو ایک رسم سمجھ کے نظر انداز کر دیتے ہیں.لیکن ان کو غور سے سننا چاہئے.میں تو ہمیشہ ہر سفر میں غور سے دیکھتا ہوں.ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بات نئے زاویے سے سامنے آ جاتی ہے بلکہ میں تو اس کے بعد ان کا کارڈ بھی پڑھتا ہوں.بعض مسافر شاید اس لئے نہ سننا چاہتے ہوں کہ وہم کی وجہ سے ان کی طبیعت نہ خراب ہو جائے ، اس لئے وہم کرنے کی بجائے اور خوفزدہ ہونے کی بجائے یہ ہدایات سن کر اپنے لئے بھی، مسافروں کو تو ویسے بھی سفر میں دعائیں کرتے رہنا چاہئے، اور باقی مسافروں کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.ان کو بلکہ ایسے حالات میں موقع مل جاتا ہے.گزشتہ دنوں ہمارے کچھ عزیز امریکہ میں دریا کی سیر کے لئے گئے.وہاں دریا میں چٹانیں اور تیز لہریں بھی ہیں.ان ملکوں میں ہنگامی تقاضے کی وجہ سے وہ بڑی ہدایات دیتے ہیں.تو عزیزہ نے مجھے بتایا کہ جب وہ ہدایات دے رہے تھے تو ہم سرسری طور پر ان کو کانوں سے سن رہے تھے، ان ہدایات کو نہیں دیکھا اور اتفاق ایسا ہوا کہ کشتی کو حادثہ پیش آ گیا اور کشتی الٹ گئی.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا سب بچ گئے لیکن اس وقت کہتی ہیں ہمیں ہر ہدایت یاد آنی شروع ہوئی.جس کو جو بھی ہدایت یاد تھی اس نے اس پر عمل کرنا شروع کیا.تو ہدایات فائدہ کے لئے ہوتی ہیں اور ہر موقع کے لئے جو ہدایات دی جاتی ہیں وہ اس موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہوتی ہیں اس لئے ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہم جلسہ پر آتے رہے ہیں، سرسری طور پر بعض ہدایات دیکھتے ہیں کہ پچھلے 24 سال سے یا 25 سال سے یا سو سال سے ہم یہ ہدایات سن رہے ہیں کیا فرق پڑتا ہے.فرق یہ پڑتا ہے کہ پھر بے احتیاطی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور بے احتیاطی سے پھر انسان نقصان اٹھاتا ہے.پس ہدایات جہاں کی بھی ہوں ہمیشہ غور سے دیکھنی چاہئیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تو ان جلسہ کی ہدایات کو بھی غور سے دیکھیں اور خاص طور پر سیکیورٹی ،صفائی اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات اور سلام کو رواج دینا اور نمازوں کی باجماعت ادائیگی کی طرف خاص توجہ رکھیں.اللہ تعالیٰ اس جلسے میں شامل ہونے والوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر لحاظ سے یہاں جلسہ میں شامل ہونا سب کے لئے بابرکت ہو.دعاؤں کی توفیق ملتی رہے.انتظامیہ سے بھی ہر لحاظ سے مکمل تعاون کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 33 مورخہ 15 تا 21 اگست 2008ء صفحہ 5 تا صفحه 8)

Page 326

خطبات مسرور جلد ششم 306 (31) خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 فرموده مورخه یکم راگست 2008ء بمطابق یکم رظہور 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْالِي وَلَا تَكْفُرُونَ (البقرة: 153) الحمد للہ کہ جلسہ سالانہ یو کے بھی گزشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کے نظارے دکھاتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ برطانیہ کے جلسے کو خود ہی ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے.جہاں دنیا میں رہنے والے ہر احمدی کو اس جلسہ کا انتظار ہوتا ہے، اس کے لئے تیاریاں ہو رہی ہوتی ہیں، کچھ جو طاقت پرواز رکھتے ہیں، جلسہ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ غریب لوگ بھی جو ان کے پاس جمع پونچی ہوتی ہے خرچ کر کے اس جلسے پر آنے کی کوشش کرتے ہیں اور صرف جلسے میں شامل ہو کر واپس چلے جاتے ہیں.اس سال بھی کئی لوگ مجھے ملے جو صرف جلسے کی غرض سے آئے اور جلسے کے اگلے روز واپس چلے گئے.یا کچھ لوگ ہیں جو اس جمعہ تک کا انتظار کر رہے ہیں اور اکثریت کی کل پرسوں کی فلائٹ ہے.بعض کو میں جانتا ہوں اتنی مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ اتنا خرچ کر کے آئیں خاص طور پر پاکستان سے آنے والے لیکن جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں لینے اور خلیفہ وقت سے ملنے کے لئے آتے ہیں.اس دفعہ کافی تعداد میں دنیا میں ہر جگہ مختلف ممالک میں احمدیوں نے ویزے کے لئے درخواستیں دی تھیں لیکن ہر جگہ جتنی تعداد میں درخواستیں دی گئی تھیں اس کے مقابلہ میں بہت کم ویزے ملے.جن کی درخواستیں روکی گئیں انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں اپنی محرومیت کا اظہار کیا.لیکن اصل جذباتی کیفیت کا اظہار تو ان لوگوں کے خطوں سے ہوتا ہے جو وسائل بھی نہیں رکھتے کہ یہ امید کر سکیں کہ اگر اس دفعہ نہیں تو اگلے سال اللہ تعالیٰ ویزہ ملنے کا کوئی سبب بنا دے گا.ایسے جذباتی انداز میں اپنی محرومیت اور خلافت سے ڈوری کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کا بیان کرنا تو ایک علیحدہ بات ہے ایسے خط پڑھ کر بھی جذباتی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمائے کہ جلد یہ ڈوریاں بھی قربتوں میں بدل جائیں.جتنی بھی کوشش ہو جائے یہاں آنے یا قادیان کے جلسہ میں شمولیت کے لئے چند ہزار سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہو سکتے.لیکن پاکستان میں

Page 327

خطبات مسرور جلد ششم 307 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 تو لاکھوں کا جلسہ ہوتا تھا.ربوہ کے چھوٹے سے شہر میں جب جلسے کے دنوں میں اتنا رش ہوتا تھا تو سڑکوں پر چلنا مشکل ہو جاتا تھا.وہ بھی عجیب رونقیں تھیں اور عجیب بہاریں ہوتی تھیں.ایک عجیب روحانی ماحول ہوتا تھا.یہاں کے جلسے ربوہ کے جلسوں کی یاد تازہ کرتے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن بھی ضرور آئیں گے جب ربوہ کی رونقیں دوبارہ قائم ہوں گی اور پاکستانی احمدی بھی ایک شان سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے.وہ اُسوہ ان کے سامنے ہو گا جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر اونٹ کے کجاوے پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے قائم فرمایا تھا.لیکن یہ بھی ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ اس سجدہ شکر کے حصول کے لئے ہمیں اُسوہ رسول ﷺ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کے ہر دن کو سجدوں سے سجانا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے تمام دُوریوں کے باوجود، تمام پابندیوں کے باوجود ہم پر یہ احسان فرمایا ہوا ہے کہ ایم ٹی اے کا ایک ذریعہ ہمیں عطا فرمایا ہے، جس سے کچھ حد تک تو پاکستان کے رہنے والے یا ان ملکوں کے رہنے والے جہاں ہم آزادی سے جلسے نہیں کر سکتے یہ دیکھ کر اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں.پاکستان کے محروم احمدی ٹی وی کی سکرین پر جلسہ کے نظارے دیکھ لیتے ہیں، دعاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں.بعض باقاعدہ جلسہ کا ماحول بنا کر گھروں میں وہی لنگر خانے کی طرز کے کھانے ، آلو گوشت اور دال وغیرہ پکاتے ہیں اور اپنے دل کی حسرت کسی حد تک پوری کر لیتے ہیں.لیکن ایک طرف کی ان کی حسرت تو پوری ہو جاتی ہے.بغیر موجودگی کے کچھ نہ کچھ حد تک ان کی کمی پوری ہو جاتی ہے.لیکن میری جو اُن کو دیکھنے کی خواہش ہے وہ سکرین کی آنکھ سے پوری تو نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تصور کی آنکھ سے میں بھی وہ نظارے دیکھ لیتا ہوں جب خطوں میں ان نظاروں کا ، ان جلسوں کا بڑی تفصیل سے ذکر ہوتا ہے.بہر حال اللہ کا شکر اور احسان ہے کہ وہ دنیا کے ہر ملک کے احمدی کو جلسہ میں ایم ٹی اے کی وساطت سے شامل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے.پس خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کو اس شکر گزاری کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکنے والا بنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے.بہر حال بات تو جلسہ یو.کے سے شروع ہوئی تھی اور آج اسی کی ہوئی ہے لیکن محرومی کے حوالے سے پاکستان کا ذکر شروع ہو گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے UK کے جلسہ کا اختتام بہت کامیاب ہوا ہے.اس کے اختتام کے بعد دنیا کے ہر ملک سے احمدیوں کی جلسے کی کامیابی کی مبارکباد پر مشتمل فیکسوں اور خطوط کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے.لیکن اس سال کے جلسہ کو ایک خاص اہمیت بھی حاصل ہے کہ میری روزانہ کی ڈاک میں بے شمار خطوط جلسہ کی مبارکباد کے جو آتے ہیں اس کا سلسلہ اپریل سے شروع ہے جب سے کہ گھانا اور نائیجیریا کے جلسے ہوئے.اور ان جلسوں کے حوالے سے اور خاص طور پر خلافت جو بلی کے سال کے حوالے سے جن ملکوں اور خاص طور پر پاکستان جہاں میں جانہیں سکتا ، وہاں

Page 328

308 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم سے مبارکباد کے خطوط بھی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا بڑا جذباتی رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں.بہر حال اپنی روایت کے مطابق آج کے خطبہ میں UK کے جلسے کے حوالے سے کچھ باتیں جو جلسہ کے ضمن میں ہیں ، لوگوں کے تاثرات ہیں اور اسی طرح ایک احمدی کو بھی اس کا کس طرح شکر گزار ہونا چاہئے ،اس بارے میں مختصر اذکر کروں گا.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جیسا کہ میں نے جلسہ کے آخری دن بتایا تھا اس سال یہاں کے جلسہ کی حاضری 40 ہزار سے اوپر تھی.گو کہ ابھی تک جو جلسے خلافت جو بلی کے حوالے سے ہو رہے ہیں ان میں گھانا کا جلسہ سب سے بڑا تھا، جس میں حاضری ایک لاکھ سے او پر تھی.لیکن نمائندگی کے لحاظ سے 85 ممالک کی نمائندگی اتنی بڑی تعداد میں صرف یہاں کے جلسہ میں ہی تھی.اتنی بڑی تعداد میں اتنے ملکوں کی نمائندگی مخالفین کے لئے یقیناً ایک تازیانہ ہے لیکن ہمیں یہ بات اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہونی چاہئے.اس دفعہ بھی ہمیشہ کی طرح بہت سے غیر از جماعت، مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی، اس ملک سے بھی اور بیرونی دنیا سے بھی ہمارے جلسہ میں شامل ہوئے جو اچھے اور نیک جذبات اور خیالات جماعت کے بارے میں رکھتے ہیں.کچھ نے اپنے خیالات کا اظہار بھی جلسہ کے دنوں میں کیا جو آپ لوگوں نے سنا.ہر ایک نے عمومی طور پر جلسہ کے انتظامات کی تعریف کی اور جماعت کی تعلیم کی تعریف کی ، احمدیوں کے سلوک سے بہت متاثر ہوئے.تو یہ جلسہ جہاں ہماری روحانی بہتری اور تربیت کا ذریعہ بنتا ہے وہاں ان جلسوں سے جو مختلف ممالک میں ہوتے ہیں اور یہ جلسہ بھی تبلیغ کا ذریعہ بھی بنتا ہے.مجھے جو بھی ملے سب نے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ تقریروں کے معیار بھی اور ان تقریروں کے نفس مضمون بھی ایسے تھے کہ جنہوں نے ہمیں نئی روشنی عطا کی ہے.نائیجیریا کے ایک پڑھے لکھے اور مسلمان سکالر ہیں، انہوں نے اس بات کا بر ملا کھل کر اظہار کیا کہ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں بہت کچھ سنتا تھا ، تعلقات تھے ، لیکن دل میں شکوک و شبہات تھے کہ یہ لوگ ہیں کیسے؟ ان کے عمل کیا ہیں اور ان کی تعلیم کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ جو کچھ میں نے یہاں دیکھا اس کے بعد میں اس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حقیقی اسلام صرف تمہارے پاس ہے.بلغاریہ کا وفد آیا ہوا تھا، اس میں بھی بعض ایسے ممبران تھے جو احمدی نہیں ہیں.وہ بھی جماعت کے پرانے تعلق رکھنے والے ہیں، وہ بھی یہ دیکھنے آئے تھے، ان میں سے کچھ جرمنی میں بھی شامل ہوتے رہے ہیں کہ جماعت کی تعلیم کیا ہے اور یہ کیسے لوگ ہیں.بلغاریہ بھی یورپ کا ایک واحد ملک ہے جہاں جماعت کی مخالفت ہے.کیونکہ یہ مسلمان ملک ہے ان کی مسلم کونسل کا اثر حکومت پر ہے ، جماعت کی وہاں رجسٹریشن میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے.تو ان غیر از جماعت نے بھی یہی اظہار کیا کہ ہم نے دیکھا اور سنا اور لوگوں سے ملے حقیقی اور اصلی اسلام ہمیں یہیں نظر آیا ہے.جلسہ کے دنوں میں عموماً باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کو وقت دیا جاتا ہے جس میں چند منٹ وہ اپنے خیالات

Page 329

309 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم کا اظہار کرتے ہیں، آپ لوگ سنتے رہے.ایک اسلامی ملک کے دو غیر از جماعت بھی یہاں آئے ہوئے تھے جن کا یہ شکوہ تھا کہ ہمیں وقت نہیں دیا گیا.تو بہر حال آئندہ انتظامیہ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہر ملک کو اگر وقت نہیں دیا جاسکتا تو کم از کم ہر علاقے جن میں ملکوں کے لحاظ سے تقسیم ہو، ان غیر از جماعت کی نمائندگی ہونی چاہئے جو وہاں کی جماعتوں سے پتہ کر کے آتے ہیں.جلسہ کے تمام پروگراموں میں جو مجھے غیروں کی طرف سے اعتراض ملے وہ دو تھے.ایک تو یہی کہ ہمیں وقت نہیں دیا گیا ، ہمیں بولنے کا وقت دیا جانا چاہئے تھا اور دوسرا یہ اعتراض تھا کہ پروگرام وقت پر شروع نہیں ہوتے رہے.حالانکہ جہاں تک مجھے علم ہے بعض حالات کی وجہ سے اگر کوئی دیر ہوئی ہے تو چند منٹ کے علاوہ عموماً پروگرام وقت پہ شروع ہوتے رہے ہیں.میں نے انہیں بتایا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اتنا وسیع انتظام ہے اور تمام انتظام عارضی بنیادوں پر ہے.اگر کسی بات پر چند منٹ کی دیر ہو جائے تو اس کو نظر انداز کر دینا چاہئے.میں نے انہیں بتایا کہ مثلاً بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ کھانا وسیع انتظام کے تحت ہے، وقت پر ختم نہیں ہوا یا ٹرانسپورٹ کی وجہ سے لوگوں کے آنے میں کوئی دقت ہوگئی کیونکہ لوگ مختلف جگہوں سے آ رہے ہوتے ہیں.پھر مہمان مقررین کو جو وقت دیا جاتا ہے جب وہ بول رہے ہوتے ہیں تو اپنے مقررہ وقت سے بعض دفعہ زائد بول جاتے ہیں اس لئے پھر ہر پروگرام آگے چلتا چلا جاتا ہے اور ہم ان کو مہمان ہونے کی وجہ سے ، اس کی مہمان کی ایک حیثیت ہے اس وجہ سے روک نہیں سکتے.تو ان وجوہات کی وجہ سے اگر پروگرام لیٹ ہو جاتا ہے تو امید ہے وہ ہماری معذرت قبول کریں گے.لیکن وہ صاحب بھی بڑے پکے تھے کوئی نہ کوئی اعتراض تو انہوں نے ڈھونڈ نا تھا لیکن عمومی طور پر اچھا تاثر تھا.یہ اعتراض تو اس لئے کہ ہر کوئی وہاں بیٹھا تعریف کر رہا تھا.اس بات پہ وہ بضد رہے کہ وقت کی پابندی ہونی چاہئے.کہنے لگے کہ میں نے بڑی بڑی کانفرنسیں اٹینڈ (Attend) کی ہیں جن میں وقت کی پابندی ہوتی ہے تو میں نے ان سے کہا کہ اس سے انکار نہیں کہ وقت کی پابندی ہونی چاہئے.لیکن جو کا نفرنسیں آپ اٹینڈ (Attend) کر کے آتے ہیں، بیرونی دنیا میں آپ نے دیکھی ہوں گی وہ کا نفرنسیں جہاں منعقد ہوتی ہیں وہاں سارے انتظامات وہیں موجود ہوتے ہیں اور اس طرح مختلف طبقوں کی اتنی بڑی تعداد بھی وہاں نہیں ہوتی.پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، ایک محدود طبقہ ہوتا ہے.تو بہر حال باتیں ہوتی رہیں.اس بات کو انہوں نے تسلیم کیا کہ جماعت کا ڈسپلن اور اطاعت اور آپس کی محبت واقعی بہت اعلیٰ اور مثالی ہے.اور پھر مجھے کہنے لگے کہ تمہارے پروگرام جہاں تم شامل ہوتے تھے ذاتی طور پر وہ تقریباً وقت پر شروع ہوتے رہے اور تمہاری باتیں بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق اور بڑی اعلیٰ با تیں تھیں.میں نے انہیں کہا کہ کم از کم آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری باتیں اچھی ہیں، لوگوں میں اطاعت کا مادہ ہے، روحانی ماحول ہے اور یہی باتیں آپ کے لئے اور آپ کے علماء کے لئے کافی ہونی چاہئیں کہ جماعت احمدیہ کی لیڈرشپ اور

Page 330

خطبات مسرور جلد ششم 310 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 جماعت کے افراد بہر حال اچھے ہیں اور یہ لیڈر شپ خلافت کی وجہ سے جماعت کو صحیح راستے پر چلا رہی ہے اور جماعت کے افراد میں اطاعت کا مادہ ہے.میں نے ان کو کہا آپ نے خود ہی کہہ دیا، یہی پیغام اپنے علماء کو دے دیں جو جماعت کے خلاف شور مچاتے رہتے ہیں.پس ان لوگوں کے لئے اب یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ جماعت کے پاس خلافت ہے جس سے وہ لوگ محروم ہیں اور اس وجہ سے ان میں وہ وحدت پیدا نہیں ہو سکتی جس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں.پس اگر باقی اعتراضوں کے باوجود مجھے براہ راست انہوں نے اعتراض کا نشانہ نہیں بنایا تو یہ کوئی میری ذات کی بڑائی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے وعدے کے مطابق خلافت کا رعب قائم کرنا ہے.گو کہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو منہ پر آپ کے کچھ کہہ بھی جاتے ہیں، کہہ سکتے ہیں، آج تک کسی نے کہا تو نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لیکن جس میں ہلکی سی بھی شرافت ہے وہ اعتراض بھی جب کرتے ہیں تو محتاط رنگ میں کرتے ہیں.بہر حال یہ اعتراض کی باتیں بھی میں نے اس لئے بتا دیں کہ ہم نے تو بہر حال بہتری کی تلاش میں رہنا ہے اور رہتے ہیں اس لئے آئندہ ہم اپنے اندر مزید بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں اور کر سکیں ، وقت کی پابندی کے لحاظ سے بھی اور مہمانوں کا خیال رکھنے کے لحاظ سے بھی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ عمومی طور پر ہر ایک نے جلسہ کے پروگرام کو بہت سراہا ہے.یوگنڈا کی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر بھی آئی ہوئی تھیں انہوں نے وہاں شاید تقریری بھی کی ہے.مجھے ملیں اور کہنے لگیں کہ جو تم نے عورتوں میں تقریر کی تھی اس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے.کہنے لگیں کہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں لوگ تقریریں کرتے ہیں لیکن حقوق ہونے چاہئیں تک رہتے ہیں.لیکن یہ نہیں بتاتے کہ عورت کا حق کیا کیا ہے.تم نے جس طرح قرآن کریم کی روشنی میں بتایا ہے یہ میں نے اس تفصیل سے پہلی دفعہ سنا ہے.اتنے واضح حقوق عورت کے اسلام نے بیان کئے ہیں.تو وہ شاید عیسائی ہیں، کہتی ہیں میں تو اس تعلیم سے بہت متاثر ہوئی ہوں.یہی اظہار قازقستان سے آئی ہوئی وہاں کی ایک سیاسی لیڈر نے کیا ہے.کہنے لگیں میں دعا کرتی ہوں، یہ سب ماحول دیکھنے کے بعد اور تم لوگوں کی باتیں سننے کے بعد ، تمہاری تقریریں سننے کے بعد کہ تمام دنیا جماعت کے جھنڈے تلے آ جائے.ہمارا جھنڈا کیا ہے؟ احمدی تو وہ جھنڈا لہراتا ہے جو آنحضرت ﷺ نے ہرایا وہ تعلیم بتا تا ہے جو آنحضرت مے نے بتائی.پس یہ تو احمدی کا کام ہے ہی کہ تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرے اور یہ انشاء اللہ ایک دن ضرور ہوگا.ایک احمدی نے مجھے لکھا کہ بچے جو پانی پلانے کی ڈیوٹی پر تھے وہ آ آ کر پانی پیش کرتے تھے اور جب ان سے پانی لے لو تو ان کے چہروں سے بڑی خوشی ظاہر ہوتی تھی، چہرے چمک اٹھتے تھے.یہی بات ہمارے آئیوری کوسٹ

Page 331

خطبات مسرور جلد ششم 311 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 سے آئے ہوئے ایک عیسائی مہمان نے مجھ سے کہی جو وہاں سیاسی لیڈر ہیں، حکومت میں ہیں.کہتے ہیں جب بچے چائے اور پانی سرو (Serve) کر رہے ہوتے تھے تو عجیب طمانیت ان بچوں کے چہروں پر ہوتی تھی.اگر ان سے نہ لو تو ان کے چہروں پر بڑی افسردگی سی طاری ہو جاتی تھی.اس لئے مجبور ہر دفعہ جب بھی وہ آتے تھے، چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو ان سے جو بھی وہ پیش کر رہے ہوں لینا ہی پڑتا تھا اور جب ان سے چیز لے لو تو ان کے چہرے کھل اٹھتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے خوشی ان کے دلوں سے پھوٹی پڑتی ہے.پس یہ ہیں احمدی بچے جن کے دلی جذبات مہمانوں کی خدمت کر کے پھولے پڑتے ہیں.دنیا تو دیدہ و دل فرش راہ کا جو اردو کا محاورہ ہے اکثر مبالغہ کے طور پر استعمال کرتی ہے لیکن احمدی خاص طور پر جو جلسہ کے دنوں میں ڈیوٹی دینے والے احمدی ہیں بڑے سے لے کر بچے تک اس کی روح کو سمجھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر کے اس کی عملی تصویر بن جاتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ ہر ایک کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے اور خواہش بھی ہے کہ مہمان کی خدمت کرے اور اس لئے کرے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا یہ حکم ہے.پس مبارکباد کی مستحق ہیں وہ مائیں جن کی گودوں سے ایسے بچے اور بچیاں نکل رہی ہیں جو عشق رسول عربی ا اور احمد ہندی کی وفا کی وجہ سے آپ کے مہمانوں کی خدمت کر کے دلی سرور حاصل کر رہے ہوتے ہیں.ایک مہمان نے اطاعت اور ڈسپلن کی یہ مثال دی کہ ایک موقع پر جب نعرے لگ رہے تھے.ہر ایک انتہائی جوش کی حالت میں تھا.مجھے کہنے لگے کہ اس وقت تم نے جب کہا کہ خاموش ہو جاؤ تو ایک دم ہر طرف سناٹا چھا گیا.تو کہنے لگے کہ یہ نظارہ تو نہ کبھی پہلے دیکھا تھا اور نہ سنا تھا اور یہ نظارے یقینا آج کہیں اور دیکھے اور سنے جا بھی نہیں سکتے.کیونکہ آج مسیح محمدی کے علاوہ کسی کے ساتھ تائیدات الہی شامل ہونے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ نہیں ہے اور نہ ہی اخلاص و وفا میں بڑھنے والی اور اطاعت گزار جماعت دینے کا وعدہ کسی اور سے خدا تعالیٰ کا ہے.پس دلوں پر تصرف تو صرف خدا تعالیٰ کا ہے اور وہی ہے جو اطاعت کی حالت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر سکتا ہے اور پیدا کرتا ہے جنہیں اس نے مسیح محمدی کا غلام بنایا ہے اور نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا غلام بنایا ہے بلکہ آپ کے بعد خلافت احمدیہ سے بھی ایک اخلاص و وفا کا اور اطاعت کا تعلق پیدا فرما دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص و محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.بعض اوقات جماعت کا اخلاص ، محبت اور جوش اور جوشِ ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 605 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں : ” غور سے دیکھا جاوے تو جو کچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے.وہ

Page 332

خطبات مسرور جلد ششم 312 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 زمانہ بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں ہے.ان لوگوں کی تبدیلی تو حیرت میں ڈالتی ہے.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 536 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا : ” خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے“.پس یہ اخلاص اور وفا جو جماعت میں ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کی وجہ سے ہے اور لوگوں سے محبت یا آپ کے مہمانوں کی خدمت کا جذبہ ہر بچے بوڑھے میں اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہی ایک بہت بڑی دلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صادق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی ہے.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت چاہا کہ صادق کو بھیج کر اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے والے تیار کرے.پس ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ غیر بھی اس بات کا بر ملا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ جماعت بچوں کی جماعت ہے.اس دفعہ جلسہ کی ایک رونق اور میڈیا میں مشہوری کی وجہ جرمنی سے آئے ہوئے سائیکل سوار بھی تھے.یہ 100 نوجوان سائیکل سواروں کا گروپ تھا.یہ بھی اخلاص و وفا کا ایک اظہار ہے جو اس معاشرے کے رہنے والے نوجوانوں کے دل میں ہے اور خلافت احمدیہ سے ایک تعلق ہے کہ خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر انہوں نے 100 سائیکل سواروں کا گروپ تیار کیا.لیکن یہاں ایک وضاحت کردوں ، اس بارہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس میں پہل افریقہ نے کی ہے.یورپ میں رہنے والوں کی قربانی بھی بہت ہے لیکن تاریخ تو ٹھیک ہونی چاہئے.یہ وضاحت میں اس لئے کر رہا ہوں کہ جلسہ کے دنوں میں اتفاقا میں نے ایک دن ٹی وی پر ایم ٹی اے آن (On) کیا تو وہاں یہ گفتگو ہو رہی تھی سٹوڈیو میں بیٹھے لوگوں کی کہ پہلی دفعہ اتنی تعداد میں سائیکل سوار جلسے میں شامل ہوئے ہیں.اگر تو وہ ساری گفتگو یورپ کی حد تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن گفتگو کرنے کے دوران میرا خیال ہے شمس صاحب نے شاید کینیڈا کے سائیکل سواروں کی مثال دے کر یہ تاثر قائم کر دیا کہ گویا دنیا میں یعنی احمدی دنیا میں یہ پہ ایہ پہلا واقعہ ہوا ہے.لیکن میرا خیال ہے کہ پاکستان میں جب اجتماعات ہوتے تھے کافی بڑی تعداد میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریک پر سائیکل سوار آیا کرتے تھے.خدام نے جو یہ کام شروع کیا ہے اگر اس کو جاری رکھیں تو آج کل دنیا میں جو پیٹرول کی کمی کا رونا رویا جارہا ہے اور مہنگائی کا رونا رویا جارہا ہے، کم از کم نو جوان تو اس سے بچ سکتے ہیں اور ایکسر سائز (Exercise) کی ایکسرسائز (Exercise) ہے، ورزش ہے.حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی اس تحریک کا اس زمانے میں بڑا فائدہ ہوا تھا.مجھے بھی یاد ہے میں اس زمانے میں فیصل آباد میں پڑھتا تھا.اس تحریک کی وجہ سے مجھے سائیکل سفر کی عادت پڑ چکی تھی.تو جلسہ کے بعد ایک دفعہ

Page 333

313 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم فیصل آباد جانے کے لئے میں بس کے اڈے پہ آیا تو ان دنوں میں بہت رش ہوتا ہے.جنہوں نے ربوہ کا جلسہ دیکھا ہو ان کو پتہ ہو گا.میرے ساتھ میرے ایک عزیز بھی تھے تو آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد میں نے کہا چلو بہتر یہ ہے کہ سائیکل پر چلتے ہیں.ہم دونوں گھر آئے وہاں سے سائیکل لیا اور سائیکل پہ بیٹھ کے آرام سے فیصل آباد پہنچے گئے.اگلے دن میرا پیپر تھایا جو بھی ایمر جنسی تھی.تو اگر ہمیں پہلے عادت نہ ہوتی تو شاید چھ گھنٹے تک بس کے انتظار میں کھڑے رہنا پڑتا، تو بڑا فائدہ ہو جاتا ہے سائیکل سواری کا.بہر حال اس سال گھانا کے جلسہ پر جیسا کہ میں نے کہا، افریقہ نے پہل کی ہے.برکینا فاسو سے 300 نوجوانوں کا قافلہ آیا تھا اور انہوں نے سولہ سترہ سوکلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا.امیر صاحب جرمنی گو کہ اپنے سائیکل سواروں کو بڑا پروٹیکٹ (Protect) کر رہے تھے کہ ہماری سڑکوں پر رش بڑا ہوتا ہے، اس لحاظ سے ان کا بڑا کارنامہ ہے.لیکن برکینا فاسو کے ان افریقن نو جوانوں کا بھی بڑا کارنامہ ہے کہ وہاں ان کی سڑکیں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں اور سائیکل بھی ٹوٹے ہوئے تھے.بلکہ وہاں کے اخباروں نے خبر لگائی کہ کیا یہ ٹوٹے ہوئے سائیکل اپنی منزل تک پہنچ سکیں گے.پھر بیچاروں کو خوراک کی آسانیاں بھی پوری طرح میر نہیں تھیں.پھر گرمی بھی بے انتہا تھی.تو یہ ساری چیزیں اگر دیکھیں تو ان لڑکوں نے بڑی ہمت کی ہے.بہر حال اگر دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو خلافت جو بلی کے جلسوں میں سائیکل سواروں کی شمولیت کے لحاظ سے نمبر ایک بورکینا فاسو کے خدام ہیں.لیکن سائیکل سفر کی جو رو چلی ہے اسے اب جاری رہنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا سائیکل سفر بڑا فائدہ مند چیز ہے.افریقہ کے تجربہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے اور جرمنی کے سائیکل سواروں سے بھی، کہ تبلیغ کے راستے بھی بڑے کھلتے ہیں.جماعت کا تعارف بڑھتا ہے.جرمنی میں بھی سفر شروع کرنے سے پہلے میڈیا نے وہاں جرمنی کے ایک شہر سے کوریج دی ، اور پھر جب یہاں پہنچے ہیں تو یہاں بھی میڈیا نے ان سائیکل سواروں کو کافی کوریج دی تھی.جو یقیناً جماعت کے تعارف کا باعث بنی ہے.اللہ تعالیٰ جرمنی سے آنے والے نو جوانوں کے اخلاص و وفا کو بھی بڑھائے.آج ہم جماعت کے نوجوانوں اور بچوں میں جو یہ قربانی دیکھتے ہیں تو یہ ان کا خلافت سے اخلاص و وفا کا اظہار ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.خدا تعالیٰ ان کو مزید اخلاص و وفا میں بڑھائے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مختلف نظارے ہم نے دیکھے اور اس کا اثر جیسا کہ میں نے کہا غیر احمدی مہمانوں پر بھی بہت ہوا اور کئی ایک نے اس کا اظہار بھی کیا، چند ایک میں نے مثالیں دی ہیں.بعض مہمانوں نے یہ بھی اظہار کیا کہ جماعت کی وفا اور اخلاص ہی ہے اگر قوموں میں پیدا ہو جائے تو دنیا میں یہ چیزیں انقلاب لایا کرتی ہیں.بعضوں نے جو اظہار کیا بالکل ٹھیک بات کی ہے لیکن کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ جب یہ جذبات دنیا کے سامنے آئیں تو حاسد بھی پیدا ہوتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کے لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یا درکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر احمدی کو بچائے.یہ تمام انتظامات جو جلسہ سالانہ کے تھے اور ہوتے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں کہ والنٹیئر ز کے ہوتے ہیں ان سے مختلف شعبہ جات میں کام لیا جاتا ہے.35-40 شعبہ جات مردوں میں تھے اور اتنے

Page 334

314 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم ہی عورتوں میں جن میں کام کرنے والے افسران صیغہ جات بھی ہوتے ہیں ، نائین بھی ہوتے ہیں منتظمین بھی ہوتے ہیں معاونین بھی ہوتے ہیں اور کام کا بہت بڑا حصہ معاونین نے سنبھالا ہوتا ہے.گو افسر پالیسی بنا کر دے دیتے ہیں لیکن معاونین کام کرنے والے ہوتے ہیں جن میں بچے بھی ہیں، بچیاں بھی ہیں.نوجوان بھی ، چھوٹی عمر کے بھی ہیں.ان شعبہ جات میں، کچھ تو ظاہری شعبہ جات ہیں ، سب جانتے ہیں.ایک شعبہ ترجمانی کا بھی ہے جو مختلف زبانوں میں ترجمہ کر رہے ہوتے ہیں.تقریباً اس دفعہ جلسہ پر اڑھائی ہزار لوگوں کے لئے مختلف زبانوں میں ترجمے کا کام ہو رہا تھا.اس حوالے سے میں واقفین نو بچوں کو بھی کہنا چاہتا ہوں، خاص طور پر بچیاں کہ زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں کیونکہ آئندہ یہ ضرورت بڑھتی جائے گی انشاء اللہ تعالی.اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں مستقل اپنے واقفین چاہئیں اور وہ واقفین نو میں سے ہی پورے ہو سکتے ہیں.پھر جو کارکن مختلف شعبہ جات میں مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے ، ان کی تعداد مردوں اور لڑکوں کی تقریباً 3500 تھی جو جلسہ کی خدمت پر مامور تھے.اسی طرح لجنہ میں عورتوں اور بچیوں کی تعداد 1800 تھی اور تمام بڑی خوشدلی سے یہ کام کر رہے تھے.مہمانوں کو بھی جو آئے ہوئے ہیں ان سب کے لئے دعا کرنی چاہئے.اس کے علاوہ ایم ٹی اے کے جو کام کرنے والے کارکنان ہیں جو جلسہ گاہ میں تھے وہ تقریباً 110 تھے.سب تقریباً والنٹیئر ز تھے.ویسے تو 180 کارکن ہیں جو ہر وقت ایم ٹی اے میں کام کر رہے ہیں جنہوں نے بیرونی دنیا کے احمدیوں کے لئے بھی جلسہ دیکھنے کا انتظام مہیا کیا.تو دنیا میں بسنے والے تمام احمد یوں کو بھی اس شکر گزاری کے طور پر ان لوگوں کے لئے بھی بہت دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جنہوں نے آپ کو یہاں آنے والوں کو بھی اور باہر کی دنیا کو بھی جلسے کے انتظامات اور اس کے دیکھنے کو آسان بنایا اور یہی شکر گزاری ہے جس کا حکم ہے.اسی طرح تمام کارکنان کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے انہیں تو فیق عطا فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر سکیں.پس یہ باتیں ہمیں ہمیشہ شکر گزار بناتی ہیں اور بنانی چاہئیں.شامل ہونے والوں کو بھی کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے کا موقع ملا اور اللہ تعالیٰ نے تمام کام اپنے فضل سے آسانی سے اپنے انجام تک پہنچائے اور خدمت کرنے والوں کو بھی کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر انہیں خدمت کرنے کا موقع ملا.اور شامل ہونے والوں کی شکر گزاری کا ایک یہ بھی اظہار ہے کہ اس جلسہ کے ماحول میں جو کچھ نیک باتیں سننے اور دیکھنے کا موقع ملا اللہ تعالیٰ سے فضل مانگتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں.کام کرنے والوں کو بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیکیوں میں بڑھنے اور خدمت کی ہمیشہ تو فیق عطا فرمائے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہر ایک کو یا درکھنا چاہئے جس کی تلاوت میں نے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کر کے ہمیشہ شکر گزار بنتے رہیں.اس مادی ماحول میں جہاں ہر طرف شیطان اپنے ساز وسامان کے ساتھ راستے سے بھٹکانے کے لئے کھڑا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کے لئے اپنی روحانی ترقی کی بہتری کے لئے سامان مہیا فرمائے ہیں.پس یہ جلسے روحانی ترقی کا باعث بنتے ہیں اور صرف یہاں بیٹھے ہوئے شامل ہونے والوں کے لئے

Page 335

315 خطبه جمعه فرموده یکم اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم نہیں بلکہ اب ایم ٹی اے کے ذریعے سے دنیا میں ہر احمدی اس میں شامل ہوتا ہے اور اس ماحول سے اثر لیتا ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ غیر تو اثر لے کر اس کا اظہار کر دیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والوں پر ان کا اثر نہ ہو.یقیناً اثر ہوتا ہے اور ہر روز اس بارے میں مجھے خط آ رہے ہیں.فیکسز آ رہی ہیں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا اور اس جلسہ کے بارہ میں تو ہر ایک کا یہی تاثر ہے کہ ایک خاص ماحول میں یہ جلسہ ہوتا نظر آیا تھا جو گزشتہ جلسوں سے منفرد لگتا تھا.یہاں شامل ہونے والوں نے بھی یہی محسوس کیا ہے اور ایم ٹی اے دیکھنے والوں نے بھی یہی محسوس کیا ہے.پس یہ تمام چیزیں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہونی چاہئیں تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں گے اور ان جلسوں کے انعقاد کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں گے اور اس کے لئے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا اور اس آیت میں بھی ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا ذکر کرتے رہو، مجھے ہمیشہ یاد رکھو، میرے حکموں پر عمل کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر میں تمہیں یاد رکھوں گا.یعنی تمہیں نیکیوں میں بڑھا تار ہوں گا اور یہی حقیقی شکر گزاری ہے اور نیکیوں میں اللہ تعالیٰ کا بڑھانا اس شکر گزاری کی جزا ہے.پھر شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ ہمیں مانگتے رہنا چاہئے کہ جو نیکیاں ہم نے سیکھیں اور سنیں ان کو اپنے اندر رائج کرنے کی کوشش کریں اور شیطان کے بہکاوے میں نہ آجائیں.پس یہ باتیں ہر احمدی کو ہر وقت مدنظر رکھنی چاہئیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعامات ہم پر بڑھتے چلے جائیں.ہم ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے بچے غلاموں میں شامل ہو کر اپنے اعمال میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے.آپ کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک ہر شہر اور ہرگی میں لہرانے والے بن سکیں.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کی ایک دعا کا ذکر ملتا ہے اسے بھی ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.آپ یہ دعا اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیا کرتے تھے کہ اے میرے رب مجھے اپنا شکر گزار، اپنا ذکر کرنے والا ، اپنے سے ڈرنے والا اور اپنا کامل اطاعت گزار اور اپنے حضور عاجزی کرنے والا بنادے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس دعا کو اپنی دعاؤں میں ان کا خاص حصہ بنا کر اپنے حق میں اسے قبول ہوتے ہوئے دیکھیں آمین.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا کہ: ابھی جمعہ کے بعد میں ایک حاضر جنازہ پڑھاؤں گا اور اس کے ساتھ ہی ایک جنازہ غائب ہے مکرم پیر ضیاء الدین صاحب کا.جو حضرت پیرا کبر علی صاحب کے بیٹے اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے داماد تھے.گزشتہ دنوں وہ فوت ہو گئے جب میں دورہ پہ تھا.تو ان کی نماز جنازہ غائب بھی ساتھ ہی ہوگی.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 34 مورخہ 22 اگست تا 28 اگست 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 336

خطبات مسرور جلد ششم 316 (32) خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 فرمودہ مورخہ 08 اگست 2008ء بمطابق 08 رظہور 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خدا تعالیٰ کی ایک صفت مهیمن ہے ، اس لفظ کے اہل لغت نے مختلف معنے کئے ہیں، وہ میں پہلے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.لسان العرب، ایک لغت کی کتاب ہے ، اس میں لکھتے ہیں کہ الْمُهَيْمِنُ اور الْمُهَيْمَنُ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو پرانی کتابوں میں بیان ہوئی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ یعنی بعض لوگوں نے مُهَيْمِن کا مطلب گواہ کیا ہے جس کا معنی ہے کہ وہ اس پر گواہ ہے.تو اس رُو سے وہ لکھتے ہیں کہ مھیمن کے معنی ہوں گے گواہ اور وہ ذات جو دوسروں کو خوف سے امن میں رکھے.الا زهری، مشہو ر لغوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ مھیمن کا مطلب ہے ، امین یعنی امانت دار.بعض نے مُهَيْمِن کو مُؤْتَمن کے معنوں میں بھی بیان کیا ہے یعنی وہ ذات جس کو امین سمجھا جائے.مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ کے معنی ہیں وہ ذات جو مخلوقات کے معاملات پر نگران اور محافظ ہو.مھیمن کے معنی بعض نے رقیب کے کئے ہیں یعنی وہ ذات جو نگران ہو.پھر ایک جگہ لغت میں کہتے ہیں، قرآن کریم کے مُهَيْمِنَّا عَلَيْهِ ہونے کا ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ یہ کتب سابقہ پر نگران اور محافظ ہے.وہیب سے مروی ہے کہ جب بندہ وجود باری تعالیٰ میں فنا ہو جاتا ہے اور صدیقوں کی مُهَيْمَنِی ت میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر کوئی مادی چیز ایسی نہیں رہتی جو اس کے دل کو بھائے.مُهَیمَنِيَّت کا لفظ مُهَيْمِن کی نسبت سے ہے اور اس سے مراد ہے صدیقین والا اطمینان قلب.یعنی جب بندہ اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو نہ کوئی چیز بھاتی ہے اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی چیز اسے پسند آتی ہے.پھر الْقَامُوس میں ہے کہ الْمُهَيْمِن یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے اور مومن کے معنوں میں آیا ہے یعنی وہ ذات جو دوسروں کو خوف سے امن میں رکھنے والی ہو.

Page 337

خطبات مسرور جلد ششم 317 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 لغت کی ایک کتاب اقْرَبُ الْمَوَارِد ہے اس میں لکھا ہے کہ مُهَيْمِن یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے، اس کا مطلب ہے کہ الامین.امن دینے والا یا نگران - المُؤتَمَن وہ ذات جس کے پاس امانت رکھی جائے اور جس کو امین سمجھا جائے.اَلشَّاهِد گواہ - اَلْقَائِمُ عَلَى خَلْقِهِ بِأَعْمَالِهِمْ وَاَرْزَاقِهِمْ وَاجَالِهِمْ - مُهَيْمِن وہ ذات جو اپنی مخلوقات کے اعمال اور ان کے رزق اور ان کی عمروں کی حدوں پر نگران اور محافظ ہو.قرآن کریم میں اس صفت کا استعمال دو جگہ آتا ہے.ایک سورۃ المائدہ کی آیت 49 اور سورۃ الحشر کی آیت 24 میں.پرانے مفسرین نے بھی ان آیات کے حوالے سے اس کے بعض معنی بیان کئے ہیں.پہلے میں مفسرین نے جولکھا ہے وہ بیان کر دیتا ہوں.شیخ اسماعیل حقی تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کو جو مُهمِنَّا عَلَيْهِ کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام محافظ کتابوں کے تغیر وتبدل ہونے پر نگران ہے اور اب یہ قرآن اُن کی سچائی اور صحت اور پختگی اور شریعت کے بنیادی اور فروعی اصول کی گواہی دے گا اور پرانی شریعتوں کے جو احکام منسوخ ہو گئے اور جو باقی رہ گئے ان سب کی تعیین اب یہ کرے گا.پس اب یہ قرآن کریم ہے جو آخری شرعی کتاب ہے اور آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالی نے اتارا ہے.جس کا ہر ہر لفظ سچ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پرانی کتب کی تصدیق کرنے والا ہے.اب اگر سچائی ہے تو قرآن کریم میں ہے اور پرانی کتب اور صحیفوں کی بھی وہی باتیں صحیح ہیں جن کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے.کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ اسے تمام کتب پر نگران بنایا گیا ہے جیسا کہ مفسرین نے بھی لکھا ہے.سورۃ المائدہ کی آیت 49 کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لَّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَبِ وَمُهَيْمِناً عَلَيْهِ (المائدہ: 49) تو یہ تصدیق کے ساتھ مُهَيْمِنَّا عَلَيْهِ کہ کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی بھی یقین دہانی کرادی کہ پہلے صحیفوں کی ہمیشہ صحت سے رہنے کی تو کوئی ضمانت نہیں تھی.لیکن یہ قرآن کریم کیونکہ ان پر اب نگران اور محافظ ہے اس لئے نگران اور محافظ ہونے کی حیثیت سے خود بھی محفوظ ہے.اور اس بارے میں دوسری جگہ واضح الفاظ میں قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُوْنَ (الحجر: 10).اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خداوند نے کہا تھا کہ میں اپنے کلام کی آپ حفاظت کروں گا.اب دیکھو کیا یہ سچ ہے یا نہیں کہ وہ تعلیم جو آنحضرت ﷺ نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ اس کی کلام کے پہنچائی تھی وہ برابر اس کی کلام میں محفوظ چلی آتی ہے.

Page 338

318 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس یہ حفاظت کا وعدہ جو قرآن کریم کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے یہ اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ پہلی کتب کی جو باتیں قرآن کریم تصدیق کرتا ہے وہی کچی باتیں ہیں.غیر مسلم قرآن کریم کی باتوں کو مانیں یا نہ مانیں لیکن ان کا ایک بہت بڑا طبقہ جو مذہب سے دلچسپی رکھتا ہے یہ مانتا ہے کہ ان کی کتب 100 فیصد اصلی حالت میں نہیں ہیں.دوسرے 100 فیصد اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں ہوتی.قرآن کریم کے بارہ میں بھی لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ابتداء سے آج تک اپنی اصلی حالت میں ہے.گو کہ بعض شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے ایک خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ امریکہ میں گزشتہ دنوں کوشش کی گئی ہے اور اب اس کی تحقیق کی جارہی ہے لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکے.تو قرآن کریم کے بارہ میں بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صیح حالت میں ہے اور یہی چیز قرآن کریم کو باقی صحیفوں پر فوقیت دلواتی ہے.پس یہاں قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ یہ باقی کتب پر نگران ہے اس کے باقی کتب پر نگران ہونے اور پہلے انبیاء کے جو واقعات اس میں بیان کئے گئے ہیں ان کے بچے ہونے کی دلیل ہے اور پرانی کتب میں بیان کردہ واقعات وہی بچے ہیں جن کو قرآن کریم نے رو نہیں کیا یا جن کی تصدیق کی ہے.اس طرح اس سے یہ بھی مراد ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم مستقل اور ہر زمانہ کے لئے ہے اور ہر زمانہ کے حالات کے مطابق اس پر غور کرنے والوں پر اس تعلیم کے عجائبات اور راز کھلتے ہیں.اور پھر صرف جماعتی سطح اور قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی ہر شخص جو اس کتاب کو ماننے والا ہے اور جو اس پر غور کرنے والا ہے اس سے فائدہ اٹھائے گا یا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا تو اس کو فائدہ پہنچے گا.یعنی روحانی طور پر بھی اور مادی طور پر بھی ہر شخص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.پس اگر حقیقی فائدہ اٹھانا ہے تو اس تعلیم کا جو آ جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے اپنی گردن پر ڈالنا ہوگا اور پھر اسی وجہ سے ہر شخص ایمان میں بھی مضبوط ہوتا چلا جائے گا.خدا تعالیٰ کی صفت مُھیمن سے پھر فیض اٹھائے گا.پس ہمیشہ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ یہ فیض اٹھانے کے لئے اس تعلیم پر عمل کرنا، اس میں بیان کردہ احکامات پر عمل کرنا اور ان نیکیوں میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں بیان فرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرہ:149) اور ہر ایک شخص کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے آپ پر مسلط کر لیتا ہے سوتمہارا صطح نظریہ ہوکہ تم نیکیوں کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.پس اس تعلیم پر عمل کرنے والا بنے کے لئے یہ نیکیاں مسلط کرنی ہوں گی.یا مسلط کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.نیکیوں کو ہر دوسری بات پر فوقیت دینی ہوگی.

Page 339

319 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم سورۃ المائدہ کی آیت کے شروع میں سابقہ کتب کا ذکر کر کے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ لوگ اُس تعلیم کو بھول گئے جو انہیں دی گئی تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی کتب میں تحریف شروع ہوگئی اور ان انعامات سے بھی وہ لوگ محروم ہو گئے.اگر نہ بھولتے اس میں تحریف نہ کرتے تو انعام سے بھی محروم نہ ہوتے.یہود و عیسائی پھر اس کے نتیجہ میں آنحضرت مﷺ پر ایمان لانے والے ہوتے.لیکن قرآن کریم کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس میں تحریف نہیں ہو سکتی.کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا.اس کی حفاظت خدا تعالیٰ خود فرمائے گا.ایک تو یہ تحریری صورت میں محفوظ ہے، گزشتہ 1500 سال سے محفوظ چلی آرہی ہے، دوسرے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے.اور پھر مجددین کے ذریعہ سے اس کی تعلیم پر عمل بھی ہمیشہ محفوظ رہا ہے.چاہے تھوڑے پیمانے پر رہا ہو اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے بعد اس کی تعلیم کے مزید روشن پہلونکھار کر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر فرمائے.اس لئے تعلیم کے بگڑنے کا تو سوال نہیں لیکن افراد کے بگڑنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے.اس لئے ہر فرد کو بھی یہ تنبیہ کر دی گئی کہ اس تعلیم پر عمل کرو اور ان اعمال صالحہ اور نیکیوں کی طرف توجہ دو جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہو گے.قرآن کریم میں یہ تنبیہ فرما دی کہ یہ قرآن کیونکہ نگران ہے اس لئے ہر فیصلہ اس کے مطابق ہونا چاہئے.نیکیوں کے معیار اب اس کے مطابق مقرر ہونے چاہئیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں.ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ هُم مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُونَ (المومنون : 58) یعنی وہ لوگ اپنے رب کے رعب سے ڈرنے والے ہیں.پھر فرمایا وَ الَّذِينَ هُم بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ (المومنون : 59) وہ لوگ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں.پھر فرمایا ہے وَالَّذِينَ هُم بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ (المومنون (60) اور وہ لوگ جو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے.پھر فرماتا ہے وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَ نَّهُمُ إِلى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ (المومنون: 61) اور وہ لوگ کہ جو بھی وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس خیال سے ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ یقینا اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں.یہ خصوصیات بیان کرنے کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُولئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (المومنون : 62 ) کہ یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ ان پر سبقت لے جانے والے ہیں.پس ان آیات میں نیکیوں میں بڑھنے والوں کی کچھ خصوصیات بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ کہ دنیا داری ان کا مطمح نظر نہیں ہوتا.جیسا کہ پہلے فرمایا تھاکہ تمہارا لمح نظر بھلائی میں بڑھنا ہے بلکہ سب سے اہم چیز جن کی انہیں تلاش ہے وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق صرف ظاہری الفاظ کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خشیت ان کے دلوں پر

Page 340

خطبات مسرور جلد ششم 320 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 قائم ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا رعب ان پر ہوتا ہے اور اس رعب اور ڈر کی وجہ سے اور اس تعلق کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ سے ہے وہ اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات ان کو ہر وقت ہر کام سے پہلے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہوتی ہے.ہر وقت ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک ذات ہے جو ہر وقت مجھے دیکھ رہی ہے.وہ اپنے ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی تمام آیات پر ایمان لاتے ہیں.قرآن کریم کی تمام پیشگوئیوں پر انہیں یقین ہوتا ہے.قرآن کریم ایک قائم رہنے والی کتاب ہے جس نے گزشتہ صحیفوں کو بھی درست کیا ہے یا تصدیق کی ہے اور آئندہ کے لئے بھی اسلام کے زندہ ہونے کے کچھ نشان ظاہر فرمائے اور اس زمانے میں مسیح موعود و مہدی موعود کا ظہور بھی ان نشانوں میں سے ایک نشان ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں کا انکار ہے.آج مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت باوجود یہ دعا پڑھنے کے، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة : 7 ) کہنے کے ، یہ دعا مانگنے کے خدا تعالیٰ کے فرستادہ کا انکار کر کے مَغضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضالین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے اور ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتا کر کہ دوسروں کے معاملات کے فیصلے بھی اب اس کتاب کے مطابق ہونے ہیں مسلمانوں کو توجہ دلا دی تھی کہ تم میں بھی اس کتاب پر ایمان کو کامل کرنے کی ہر وقت فکر رہنی چاہئے.صرف منہ سے نہیں، صرف قرآن کریم کو زبانی عزت دے کر نہیں بلکہ جو پیشگوئیاں ہیں ان پر غور کرتے ہوئے.جب بھی کوئی پیشگوئی اپنے وقت پر پوری ہو تو ایمان لا کر.جیسا کہ میں نے کہا کہ آج یہ ایمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر پورا ہوتا ہے.اس کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”یا درکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصے کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَضْل.وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ ( الطارق :14-15) یعنی یقینا وہ ایک فیصلہ کن کلام ہے اور ہرگز کوئی بیہودہ کلام نہیں“.فرماتے ہیں کہ وہ میزان مهیمن ، نور اور شفا اور رحمت ہے.جولوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے.ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سراسر نور ، حکمت اور معرفت ہے، دکھانا چاہتے ہیں.اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں.ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن

Page 341

خطبات مسرور جلد ششم 321 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 کتاب ہے ، اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کر یں.غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بڑوں اس سے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہوسکتا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے.اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 113.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ نیکیوں میں بڑھنے والے گروہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ کسی کو بھی اللہ کے مقابلے میں شریک نہیں ٹھہراتے.لیکن مسیح موعود کے زمانہ کے حالات بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورۃ الجمعہ میں فرماتا ہے کہ مخفی شرک اس زمانے کے مسلمانوں میں اس حد تک نظر آئے گا کہ باوجود مسلمان کہلانے کے عبادت کی طرف توجہ نہیں ہوگی.تجارتیں اور دل بہلاوے کی چیزیں انہیں نمازوں کی نسبت زیادہ پرکشش نظر آ رہی ہوں گی.بجائے نیکیوں میں بڑھنے کے وہ یہود ونصاری کی طرح اسلام اور قرآن کی تعلیم کو بھلا رہے ہوں گے.عبادت کی طرف توجہ بھی کم ہوگی اور اعمال صالحہ کی بجا آوری کی طرف بھی توجہ کم ہوگی.چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت اسی پر چلتی نظر آتی ہے.لیکن ہمیں بھی یہ بات دعوت فکر دیتی ہے کہ ہم بھی اپنے جائزے لیتے رہیں کہ کہیں اپنے آپ کو اپنے نفس کے دھوکے میں تو نہیں ڈال رہے؟ پھر ایک نشانی یہ بتائی کہ نیکیوں میں بڑھنے والے اپنی دولت دونوں ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.لیکن پھر بھی یہ خوف رہتا ہے کہ پتہ نہیں اس معیار پر پورے اتر بھی رہے ہیں یا نہیں جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے.کہیں اُس معیار سے نیچے رہ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے تو نہیں بن رہے؟ پس یہ باتیں ایسی ہیں جو پھر آگے باریک در باریک نیکیوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے حصول کے لئے نہ صرف ایک مومن کوشش کرتا ہے بلکہ ان میں بڑھنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور جب یہ عمل ہوں گے تو تب ایک انسان اس خدا کی پناہ میں رہے گا جو ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں.جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے، جو قدوس ہے، جو سلام ہے، جو امن دینے والا ہے، جو مھیمن ہے ، جو عزیز ہے، جو ٹوٹے کام بنانے والا ہے، اور جو کبریائی والا ہے.اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں کیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم حاصل کرنا ہر مومن کا فرض ہے اور جب اس فہم کے حصول کی کوشش ہوگی تو تب ہی ایمان میں بھی مزید ترقی ہوگی.ایک روایت میں آتا ہے، علامہ طبرسی نے سورۃ الحشر کی آیت کے ضمن میں یہ حدیث بیان کی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے حبیب رسول اللہ ﷺ سے اللہ کے اسم اعظم کی بابت پوچھا جس پر آپ نے فرمایا سورۃ الحشر کی آخری آیات کثرت سے پڑھنے کا التزام کرو.

Page 342

خطبات مسرور جلد ششم 322 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ رسول کریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس کسی نے بھی سورۃ الحشر کی آخری آیات رات یا دن کو تلاوت کیں اور اسی دن یا رات کو فوت ہو گیا اس کے لئے جنت واجب ہوگی.مجمع البیان فی تفسیر القرآن از علامه حسن طبری تفسیر سورة الحشر زیر آیات 21 تا 24 وہ آخری آیات یہ ہیں.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (الحشر : 23 ) اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے، وہی بے انتہا کرم کرنے والا خدا ہے اور وہی بار بار رحم کرنے والا خدا ہے.پھر اگلی آیت میں ہے.هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ ہے..الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ (الحشر : 24) وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے اور کبریائی والا ہے، پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں.پھر فرما يا هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَا لْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(الحشر: 25) اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا موجد ہے اور ہر چیز کو اس کی مناسب کی صورت دینے والا ہے، اس کی بہت سی اچھی صفات ہیں، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کی تسبیح کر رہا ہے اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ صرف تلاوت ہی نجات کے سامان پیدا نہیں کرے گی.یقیناً تلاوت بھی ایک اچھا کام ہے.اس کا حکم بھی ہے کہ قرآن کریم کی اچھے لکھن میں تلاوت کی جائے.لیکن ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو عبادت انسان کا مقصد پیدائش بتایا ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ ان کی نمازیں ان پر لعنت ڈالیں گی.کیوں؟ اس لئے کہ وہ دکھاوے کی عبادتیں ہیں یا دل سے ادا نہیں کی جار ہیں.تو صرف تلاوت ہی نجات کا ذریعہ نہیں بنے گی.صرف یہ آیات پڑھ لینا ہی نجات کا ذریعہ نہیں بنیں گی اگر ان پر غور نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھتے ہوئے ، اس سے فیض پانے کی دعا نہ ہو، اس کے لئے کوشش نہ ہو، اپنی عبادتوں کے معیار بلند نہ ہوں ، خالصتاً اس کے لئے ہو کر عبادت نہ کی جائے ، اعمال صالحہ بجالانے کی طرف توجہ نہ کی جائے.نیکیاں جو قرآن کریم میں درج کی گئی ہے، ان پر غور کرتے ہوئے ان کو بجالانے کی طرف توجہ نہ کی جائے تب تک صرف آیتوں کا پڑھنا کوئی فائدہ نہیں دے گا.تو پھر خالص ہو کر اس کی تسبیح کی جائے ، پھر یہ نیکی کے معیار بلند کرتی ہے، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جو میں نے اقتباس پڑھا توجہ دلائی ہے.پھر یہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی.پس اس غائب اور حاضر کو جاننے والے خدا جو عالم الغیب والشہادہ ہے کے سامنے جب مومن جاتا ہے تو یہ سمجھ کر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دھو کہ نہیں دیا جاسکتا.ہر فعل جو ایک مومن کرتا ہے وہ اللہ

Page 343

خطبات مسرور جلد ششم 323 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے اور اس کا خوف دل میں رکھتے ہوئے کرتا ہے، تو پھر ہی ان برکات سے مستفید ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں رکھی ہیں.جن کے بارے میں حدیث میں نے پڑھی کہ یہ آیات پڑھو تو اللہ تعالیٰ بخشش کے سامان پیدا فرماتا ہے.پس صرف منہ سے الفاظ ادا کرنا کافی نہیں اگر یہ بغیر غور وفکر اور عمل کے ہوں.پس اس غور اور اس فکر اور اس مقام کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور اس کوشش کے ساتھ انسان یہ آیات پڑھے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والا ہوگا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو اعمال میں ایک خاص لذت آتی ہے اور اس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے.گناہوں سے اسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے.نا پاک مجلس سے نفرت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خاص جوش اور تڑپ پاتا ہے.ایسا ایمان اسے حضرت مسیح کی طرح صلیب پر بھی چڑھنے سے نہیں روکتا.وہ خدا تعالیٰ کے لئے اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیم کی طرح آگ میں بھی پڑ جانے سے راضی ہوتا ہے.جب وہ اپنی رضا کو رضاء الہی کے ماتحت کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ہے اس کا محافظ اور نگران ہو جاتا ہے اور اسے صلیب پر سے بھی زندہ اتار لیتا ہے اور آگ میں سے بھی صحیح سلامت نکال لاتا ہے.مگر ان عجائبات کو وہی لوگ دیکھا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر پورا ایمان رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ایمان میں کامل کرے اور اسے بڑھاتا رہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا صحیح ادراک رکھتے ہوئے ہمیشہ نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتے ہوئے اس کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتے چلے جائیں..حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا: دوافسوسناک خبریں ہیں.ہمارے قادیان کے دو نو جوان گزشتہ دنوں وفات پا گئے تھے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ایک جامعہ احمدیہ قادیان کے طالب علم وسیم احمد تھے.ان کی عمر 21 سال تھی جو قادیان کے قریب ایک نہر ہر چوال میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے.یہ بڑا تیر نے والا لڑکا تھا اور سمندر میں نہانے کی مہارت رکھتے تھے بلکہ لوگوں کو تیرا کی سکھایا کرتے تھے.لگتا ہے نہر میں نہاتے ہوئے کہیں چھلانگ لگائی ہے تو سرکسی چیز سے ٹکرایا ہے جس کی وجہ سے بیہوشی ہوئی ہے اور پھر پتہ نہیں لگا.دو تین دن کے بعد لاش ملی.اس وقت کوئی دیکھ نہیں رہا تھا.فوری طور پر نکالا جاتا تو شاید.بہر حال اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی.عزیز موصی تھے اور بڑی دُور ہلکش دیپ کے رہنے والے تھے.ان کو کھلے سمندر میں نہانے کی بڑی مہارت تھی.

Page 344

324 خطبه جمعه فرمودہ 8 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم دوسرے طالب علم عزیز حافظ اطہر احمد جو مکرم حافظ مظہر احمد طاہر صاحب نائب افسر جلسہ سالانہ قادیان کے بیٹے تھے.3 اگست کو بعد نماز عشاء حافظ صاحب اپنے بیٹوں کے ساتھ اپنے کسی عزیز کو لینے کے لئے بٹالہ گئے ، جب واپس آ رہے تھے تو قادیان سے کوئی 2-3 کلومیٹر پہلے سڑک پر ایک بڑا درخت تھا جو اچانک سڑک پر گر گیا اور گاڑی اس سے ٹکرائی، جس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ میں یہ وفات پاگئے.باقی بھی شدید زخمی ہوئے لیکن یہ طالب علم جس کی 19 سال عمر تھی وہاں فوری طور پر ان کی وفات ہو گئی اور یہ بھی حافظ قرآن تھے جیسا کہ میں نے کہا اور جامعہ احمد یہ میں اس سال داخل ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ دونوں نوجوانوں سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے.ابھی انشاء اللہ نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب میں ادا کروں گا.الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شماره 35 مورخہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2008ءصفحہ 5 تا صفحہ 7)

Page 345

خطبات مسرور جلد ششم 325 (33) خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 فرمودہ مورخہ 15 /اگست 2008ء بمطابق 15 ظہور 1387 ہجری کسی بمقام ہمبرگ (Hamburg) (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: قُلْ اَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَاَقِيْمُوا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الذِيْنَ كَمَا بدَاكُمْ تَعُوْدُونَ (الاعراف: 30) عموماً جرمنی کے جلسہ سے پہلے میں جب بھی جرمنی آیا ہوں، فرینکفرٹ کے علاوہ کہیں دوسری جگہ نہیں جاتا ، نہ گیا ہوں.بلکہ اس دفعہ جلسہ جرمنی جلدی ہو رہا ہے اس لئے لندن سے بھی جرمنی کے لئے جلد روانہ ہونا پڑا اور UK کے جلسے میں باہر سے جو مہمان آئے ہوئے تھے ان سے ملاقاتیں بھی بڑی تیزی سے کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ خاصی بڑی تعداد UK میں اس دفعہ پاکستان سے بھی اور دوسرے ملکوں سے آئی ہے.لیکن میرا خیال ہے کہ بہت سارے لوگ ملاقاتوں سے رہ بھی گئے کیونکہ جلد جرمنی آنا پڑا.ایک تو وجہ ایک ہفتہ پہلے جرمنی کا جلسہ سالانہ اس دفعہ منعقد ہو رہا ہے.دوسرے امیر صاحب جرمنی کا بڑا زور تھا کہ ہمبرگ آئے ہوئے بڑا عرصہ ہو گیا اس لئے یہاں کا بھی دورہ ہو جائے اور یہاں قریب ہی مساجد بھی بنی ہیں ان کا افتتاح بھی ہو جائے.گویا دو مساجد کا افتتاح ہو گا.ایک تو کل ہو چکا ہے جو سٹاڈے میں بیت الکریم ہے اور دوسرے کل انشاء اللہ واپسی پر بینور (Hannover) میں بیت السمیع کا افتتاح ہوگا.کیونکہ رمضان بھی اس سال جلدی آ رہا ہے اس لئے جلسہ کے بعد جو مساجد کے افتتاح کے پروگرام عموماً ہوا کرتے ہیں، ان کو پہلے کرنا پڑ رہا ہے.ظاہر ہے جلسہ کے بعد پھر رکنے کا سوال نہیں تھا.تو بہر حال آج مساجد کے موضوع پر ہی میں بات کروں گا.مساجد جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں اور اس لحاظ سے یہ مساجد ایک احمدی مسلمان کی زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں اور ہونی چاہئیں.ان کی اہمیت کے پیش نظر میں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں جہاں بھی ہو سکے خود جا کر ان مساجد کا افتتاح کروں.گزشتہ پانچ سال میں جرمنی میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت کی توجہ مساجد کی تعمیر کی طرف بہت زیادہ ہوئی ہے اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے

Page 346

326 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم ارشاد کی روشنی میں جماعت کو اس طرف توجہ بھی دلاتا رہتا ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جہاں بھی جماعت کو متعارف کرانا ہے، اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور اسلام کی حسن و خوبی سے مزین تعلیم کولوگوں تک پہنچانا ہے، وہاں مسجد کی تعمیر کر دو.جس سے اپنی تربیت کے بھی مواقع ملیں گے اور تبلیغ کے بھی مواقع ملیں گے.اللہ کرے کہ جب بھی ہم کسی مسجد کی تعمیر کا سوچیں اور اس کی تعمیر کریں یہ اہم مقاصد ہمیشہ ہمارے سامنے رہیں.پس اس حوالے سے اگر ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اپنا جائزہ لیتا رہے گا تو مساجد کی تعمیر سے فیض پانے والا ہوگا.ایک وقت تھا جب ہمبرگ میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی.احمدیوں کی تعداد بھی محدود تھی اور وہ مسجد ضرورت کے لحاظ سے کافی تھی.علاقے کے لوگوں پر بھی اس مسجد کا بڑا اچھا اثر ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک ہے لیکن پھر ضرورت کے پیش نظر جماعت کی تعداد بڑھی تو آپ لوگوں نے ایک بڑی جگہ جو بیت الرشید کے نام سے موسوم ہے وہ خریدی ، جس میں بڑے ہال بھی ہیں اور مسجد کا حصہ ملا کے شاید ہزار بارہ سو تک نمازی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں اور پہلے جب بھی میں آیا ہوں تو میں نے دیکھا ہے کہ مسجد پوری بھری ہوتی ہے.نزدیکی جماعتوں کے لوگ بھی جمعہ پڑھنے کے لئے آجاتے تھے تو مار کی لگانی پڑتی تھی.تو وہ جگہ بھی چھوٹی پڑ جاتی تھی بلکہ اس دفعہ تو گل میں دیکھ رہا تھا.کہ مغرب اور عشاء کی نمازوں پر بھی وہ جگہ چھوٹی تھی اور لوگ باہر نمازیں پڑھ رہے تھے اس لئے آج یہاں اس ہال میں جمعہ کا انتظام کیا گیا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم چھلانگ لگا کر جب بڑی چیز بناتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتے ہوئے ضرورت کو اور بڑھا دیتا ہے اور جب تک ہم خالص اس کے بندے ہوتے ہوئے یہ کوشش کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے گھروں کو آباد کریں اللہ تعالیٰ بھی ضرورتیں بڑھاتا چلا جائے گا اور جماعت انشاء اللہ بڑھتی چلی جائے گی.پس ہمیشہ ہر ایک کو یا درکھنا چاہئے کہ ہمیں مساجد کے حسن کو دوبالا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے اور وہ کوشش کس طرح ہوگی ؟ وہ کوشش اس طرح ہو گی جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہمیں بتایا ہے کہ اس طرح کوشش کرو.وہ طریق بتائے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے، ترجمہ اس کا یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی تو جہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو اور دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارو.جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم مرنے کے بعد لوٹو گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسجد میں آنے والوں کو بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.ہر مومن کا پہلا فرض ہے کہ وہ اعلان کرے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے انصاف کا حکم دیا ہے.اور انصاف کیا ہے؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ سورۃ نساء آیت 59 میں فرماتا ہے کہ اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤْدُّوا الا مَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ.إِنَّ اللهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء آيت: 59)

Page 347

327 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم کہ یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کر و تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یعنی جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے.یقینا اللہ تعالیٰ بہت سنے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.یہاں ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ ایک مومن کا انصاف کا معیار اس وقت قائم ہوتا ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا حق کس طرح ادا ہو گا اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہم اسی وقت بچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہے، ہم اس کو واپس کر دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں.ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ اس حق کے ادا کرنے کا حقیقی حق تو آنحضرت ﷺ نے ادا فرمایا.آپ فرماتے ہیں کہ امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی اور جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل بر طبق آیت إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤْدُّوا الَّا مَنتِ إِلَى أَهْلِهَا - ( النساء: 59) اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.آپ فرماتے ہیں یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اثم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی ، نبی وامی ، صادق و مصدوق محمد مصطفی ﷺ میں پائی جاتی تھی.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 161-162) پس یہ ہے وہ انصاف کا اعلیٰ ترین معیار جو آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا.لیکن یہ اسوہ قائم فرما کر ہمیں بھی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق یہ حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں حکم ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا جوا سوہ ہے وہ ہی قابل تقلید ہے.وہ کامل نمونہ ہیں جن کے نقش قدم پر چلنے کی تم نے کوشش کرنی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ ہم اُس وقت بچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا نے ہمیں دیا اسے واپس دیں یا واپس دینے کی کوشش کریں.یعنی آنحضرت ﷺ نے جو اُسوہ قائم فرمایا اس پر چلنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں کیونکہ آپ نے ہی اللہ تعالیٰ کی امانت کو اللہ تعالیٰ کو لوٹانے کا صحیح حق ادا کیا اور اس کے لئے کوشش کرنا بھی ایک مومن کا فرض ہے اور یہی ایک مومن ہونے کی نشانی ہے.اور جب یہ سوچ پیدا ہوتی ہے تو تب ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور ہوں گے.سورۃ اعراف میں اَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ (اعراف: 30) کہہ کر جس انصاف کا حکم دیا گیا ہے وہ دو طرح قائم ہوتا ہے ایک اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر کے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو اس کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کر کے ، اس کی دی ہوئی امانتوں کو اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو واپس لوٹاتے ہوئے.اور دوسرے

Page 348

328 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم بندوں کے درمیان عدل قائم کر کے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ان دونوں باتوں کے لئے جو کوشش ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.جو کامیابی ملنی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملنی ہے.اس لئے جب مسجد میں آؤ تو اپنی تو جہات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھو.نماز کے لئے کھڑے ہو تو خالص ہو کر اس کو پکارو ، اس سے فضل مانگو کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے اور آپس کے تعلقات میں بھی عدل قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.کسی کے حقوق غصب کرنے سے بچاتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.جو ایسی عبادتوں کے ادا کرنے والے ہوں گے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے ہوں گے.کیونکہ یہی خالص عبادتیں ہیں جن کو خدا تعالیٰ سنتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ بصیر بھی ہے صرف ظاہری چیز نہیں دیکھتا یا دیکھ رہا بلکہ اس کی بڑی گہری نظر ہے دلوں کے اندرونے کو بھی دیکھ رہا ہے، انسان کی پاتال تک سے وہ واقف ہے.اسے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اے اللہ میں تیرے لئے خالص ہو کر سب کچھ کر رہا ہوں ، اس لئے میری دعاؤں کو قبول فرما.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بصیر ہوں ، میں اسے بھی دیکھ رہا ہوں جو تمہارے دلوں میں ہے.میں تمہاری اس نیت سے بھی واقف ہوں جس سے تم نے امانتیں لوٹا ئیں ، جس سے تم نے صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نمازیں ادا کیں.اس پر بھی میری گہری نظر ہے جو عدل کے تقاضے تم نے میرے حکموں پر چلتے ہوئے پورے کرنے کی کوشش کی.ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا کہ نمازوں میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کا کس طرح کا نقشہ پیش نظر ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ”موٹی بات ہے قرآن شریف میں لکھا ہے اُدْعُوْهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے اور اس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہیئے.یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو احسان کئے ہیں اُن کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.آپ میں سے بہت سارے یہاں ہیں، اپنے جائزے لیتے رہیں، اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کو گنتے رہیں تو تبھی صحیح عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوگی.فرماتے ہیں کہ اس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے.چاہئے کہ اخلاص ہو ، احسان ہو اور اس کی طرف ایسار جوع ہو کہ بس وہی ایک رب اور حقیقی کارساز ہے.عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت تو بہ واستغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا سے سچا تعلق ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جاوے“.( الحکم جلد 11 نمبر 38 مورخہ 24 اکتوبر 1907ءصفحہ 11.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود زیر سورۃ الاعراف آیت 30)

Page 349

خطبات مسرور جلد ششم 329 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 تو یہ چیز ہے کہ آپ نے اس طرح کہا کہ نماز میں توجہ پیدا ہونی چاہئے.اور اس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت ﷺ کی ذات میں نظر آتی ہے.کیونکہ ہمارے لئے وہی اُسوہ حسنہ ہے، یعنی کامل اسوہ ہے.اور آپ کا اللہ تعالیٰ میں فنا ہونے کا ایسا اعلیٰ مقام تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروایا کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: 163) یعنی تو کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے.یعنی اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے.اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے تا میرے مرنے سے ان کو زندگی حاصل ہو.اور اس مرنے سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں ” غرض اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے واقعی ہمدردی اور محنت اٹھانے سے بنی نوع کی رہائی کے لئے جان کو وقف کر دیا تھا اور دُعا کے ساتھ اور تبلیغ کے ساتھ اور ان کے جور و جفا اٹھانے کے ساتھ اور ہر ایک مناسب اور حکیمانہ طریق کے ساتھ اپنی جان اور اپنے آرام کو اس راہ میں فدا کر دیا تھا.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ الانعام آیت 163) پس جب ایک اللہ کا بندہ، خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جائے گا یا ہونے کی کوشش کرے گا، ایک مومن جب آنحضرت مہ کے اُسوہ کو سامنے رکھے گا تو اس کا اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ خدا تعالیٰ کا حقیقی عابد بنے اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لئے انصاف کے تمام تقاضے پورے کر رہا ہو.اُس حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کروائے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعے اتاری ہے تا کہ حقیقی عدل دنیا میں قائم ہو اور جب ایک شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ دے رہا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے بھی تمام تقاضے پورے کر رہا ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنے نفس کے تزکیہ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے والا نہ ہو اور اس طرف اس کی توجہ نہ ہو اور اس میں ترقی کرتے چلے جانے والا نہ ہو.پس اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل اور آنحضرت ﷺ کے اُسوہ پر چلنا ایک انسان کو وہ مقام عطا کرتا ہے کہ جب وہ خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے تو ایک پاک اور معصوم روح کی صورت میں حاضر ہوتا ہے.اس مقام اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سورۃ النحل میں اس طرح حکم فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْتَائِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْي.يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (النحل:91) یقینا اللہ تعالیٰ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح

Page 350

خطبات مسرور جلد ششم 330 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے.وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم عبرت حاصل کرو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ طریق مزید کھول کر بتا دیئے جس سے انسان خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کر سکتا ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بندوں کے حق بھی ادا کر سکتا ہے اور اپنے نفس کا تزکیہ بھی کر سکتا ہے.اور یہی مطلب ہے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے کا.اس آیت کے پہلے حصہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو.یعنی اس کا لحاظ رکھو.” ظالم نہ بنو.پس جیسا کہ در حقیقت بجز اس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں، کوئی بھی محبت کے لائق نہیں، کوئی بھی تو کل کے لائق نہیں کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت اور ربوبیت خاصہ ہر ایک حق اسی کا ہے.وہی خالق ہے ہمارا.کل کائنات کا خالق ہے، اس میں رہنے والی ہر چیز کا خالق ہے.اس لئے وہی اس لائق ہے کہ اُسی پر تو کل کیا جائے.فرمایا اور قیومیت اسی کی ہے وہ قائم ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.جس چیز کو اس نے پیدا کیا اجل مسمی تک اس کی زندگی رکھتا ہے.ربوبیت اسی کی ہے.وہی ہے جس نے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہمارے لئے انتظامات کر دیئے اور ہماری زندگی کو سہولت سے گزارنے کے بھی انتظامات فرما دیئے ، تمام چیز میں اس نے مہیا فرما دیں.تو فرمایا کہ تو کل کے لائق اور کوئی چیز نہیں کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت اور ربوبیت کے خاصہ کے ہر یک حق اسی کا ہے.اسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اس کی پرستش میں اور اس کی محبت میں اور اس کی ربوبیت میں شریک مت کرو.اگر تم نے اس قدر کر لیا تو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی.اگر یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ میرا رب ہے، اللہ تعالیٰ سے محبت سب سے زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرنی تو یہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں عدل ہے جو تم نے قائم کر لیا.پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہو جاؤ اور اس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متأدب بن جاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت اور جلال اور اس کے حسن لا زوال کو دیکھ لیا ہے" عدل سے ترقی کرو گے تو پھر احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کر و فہم حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کو پھر پکڑتے ہوئے ، اس کی محبت میں کھو جاؤ.اس کے احسانوں کا ذکر ہر وقت تمہاری زبان پر رہے.بعد اس کے اِيْتَائِي ذِي الْقُرْبی کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلف اور تصنع دور ہو جائے اور تم اس کے لئے ایسے جگری تعلق سے یاد کرو جیسے مثلا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہو جائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت کرتا ہے“.

Page 351

331 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللہ تعالیٰ سے محبت پھر بے غرض محبت ہو جائے یہ نہیں کہ مشکل میں گرفتار ہوئے تو مسجدوں میں آنا شروع کر دیا اور لمبے لمبے سجدے شروع ہو گئے اور عبادتیں شروع ہو گئیں اور جہاں آسانیاں ملیں اور کشائش ملی پیسے کی فراوانی آئی.تو اللہ تعالیٰ کو بھول گئے نمازوں کو بھول گئے عبادتوں کو بھول گئے.پھر آپ فرماتے ہیں اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ ان سے کچھ تعرض نہ کرو اور انصاف پر قائم رہو اور اگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرئے“.اگر کسی سے کوئی تکلیف پہنچی ہے تو بجائے اس کا بدلہ لینے کے اصلاح اگر نیکی سے ہوسکتی ہے تو نیکی کرئے" اور اس کی آزار کے عوض میں تو اس کو راحت پہنچا وے“.جو تکلیف تمہیں دی ہے اس کے عوض میں اس کو خوشی پہنچانے کی کوشش کرو اور مروت اور احسان کے طور پر دستگیری کرئے“.یہ ہے احسان.پھر بعد اس کے ايْتَائِ ذِی الْقُرْبی کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یا جس قدر بنی نوع سے خیر خواہی بجالا وے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو جیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے.ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار سے، ایک قریبی دوسرے قریبی سے جس طرح نیکی کرتا ہے اس طرح نیکی کرو.یہ ایسائی ذِي الْقُرْبى ہے.سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مد عا یا غرض درمیان نہ ہو.بلکہ اخوت و قرابت انسانی کا جوش اس اعلی درجہ پر نشو نما پا جائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلف کے اور بغیر پیش نہا در رکھنے کسی قسم کی شکر گزاری یادعایا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 550-552) یہ وہ خوبصورت تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے پہلے حصہ کی کی ہے جو اُس انصاف کی وضاحت کرتی ہے جس کی ایسے شخص سے توقع کی جاتی ہے جوخدا تعالیٰ کے لئے خالص ہو کر اس کی عبادت کا دعویٰ کرتا ہے.ہم جو احمدی کہلاتے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم اُس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے سامنے قائم فرمایا اور ہم اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت می پر اتاری اور جس کا حقیقی فہم و ادراک ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عطا فرمایا.پس اگر ہم صرف زبانی دعووں تک رہتے ہیں اور اپنی عملی حالتوں کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہمارے یہ دعوے کوئی وقعت نہیں رکھتے.

Page 352

خطبات مسرور جلد ششم 332 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں جو میں نے اس اقتباس میں سے بیان کیا تھا کہ تین نیکیاں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا ہو رہا ہے اور بندوں کا بھی.لیکن اس آیت کے دوسرے حصے میں تین برائیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے.اور ایک انسان جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہو اس سے کبھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ یہ برائیاں بھی کر سکے جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ عبادتیں ان چیزوں سے، ان برائیوں سے دور لے جانے والی ہیں.اگر انسان خالص ہو کر عبادت کرے اور نمازیں پڑھے تو ان چیزوں سے دور ہٹ جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (العنکبوت : 46) که یقینا نماز سب بری اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ ایک کے بعد دوسری نیکی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے تا کہ نیکی کے معیار بڑھتے چلے جائیں اور ایک وقت ایسا آئے جب بندہ خالصتاً خدا تعالیٰ کا ہو کر اس کی مرضی کے مطابق کام کرے اس کی رضا کے حصول کے لئے اس کی ہر حرکت ہو.وہاں اس طرف بھی توجہ دلائی کہ ان نیکیوں کے حصول کے لئے برائیوں کے خلاف جہاد بھی ضروری ہے.ورنہ یہ برائیاں ان نیکیوں کے بجالانے میں روک بنتی رہیں گی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فحشاء سے بچو، فحشاء کے لفظ میں ان بدیوں کی طرف اشارہ ہے جن کا صرف بدی کرنے والے کو پتہ ہو.دوسروں کو اس کا علم نہ ہو یا کافی حد تک وہ برائی دوسروں سے چھپی ہو.پس جب ایک انسان خالص مومن بنتے ہوئے اور سچا عابد بنتے ہوئے خدا تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے نفس کو سامنے رکھ کر ، اپنی برائیوں کو دیکھ کر خدا تعالیٰ سے ان کے دُور کرنے کی دعا مانگتا ہے اور جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو پھر وہ انصاف اور عدل ہے جو ایک انسان خودا اپنے نفس کے ساتھ کر رہا ہوتا ہے.کیونکہ جب تک نفس کلیتا پاک کرنے کی کوشش نہ ہو خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور اسی طرح جب نفس پر نظر نہ ہو ایک ایک بدی کو باہر نکال کر پھینکنے کی کوشش نہ ہو.پھر دوسروں سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا.پس باہر کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے پہلے اپنے نفس کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا اور جب ایک مومن اس کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کی توجہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف پھرتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منکر سے بچو.یعنی ناپسندیدہ باتوں سے بچو.وہ باتیں جو براہ راست دوسروں کو نقصان پہنچانے والی تو نہیں ہوتیں لیکن لوگ اس کو دیکھ کر برا محسوس کر رہے ہوتے ہیں.مثلاً بعض دفعہ لوگوں کو جھوٹ بولنے کی ایسی عادت ہوتی ہے کہ چاہے دوسرے کو نقصان نہیں بھی ہو رہا ، یا اپنا

Page 353

خطبات مسرور جلد ششم 333 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 کوئی فائدہ نہیں بھی ہو رہا، عادتاً ہر بات کو غلط انداز میں پیش کرنے کی عادت ہوتی ہے.یا ایسے گول مول انداز میں پیش کرتے ہیں جس سے بات واضح ہی نہ ہو سکے.بعض لوگوں کو گالیاں نکالنے کی عادت ہوتی ہے.اس طرح ایک قصہ ہے کسی شخص کی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں رپورٹ ہوئی کہ وہ گالیاں بڑی دیتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کو بلا کر پوچھا کہ سنا ہے آپ گالیاں بڑی دیتے ہیں.تو انہوں نے ایک گالی دے کر کہا کون کہتا ہے میں گالی دیتا ہوں.تو بعض لوگ عادتا گالیاں دے رہے ہوتے ہیں.تو اس چیز سے بھی پاک کرنا ہے.کیونکہ جھوٹ جو ہے، غلط بیانی جو ہے چاہے نقصان نہ پہنچانے کے لئے بھی کی جارہی ہو تب بھی جب اس کی عادت پڑ جاتی ہے تو انسان پکا عادی جھوٹا بن جاتا ہے اور پھر یہاں تک ہو جاتا ہے کہ اپنے مفاد کے لئے غلط حربے استعمال کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے لوگ پھر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نہیں ہوتے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ خالص ہو کر نماز پڑھنے والوں میں یہ برائیاں پیدا ہو ہی نہیں سکتیں ، جیسا کہ میں نے ابھی آیت کا حصہ پڑھا.پھر تیسری برائی جو یہاں بیان فرمائی، فرمایا وہ بغی یعنی بغاوت ہے، دوسروں کا حق مارنا ہے، معاشرے میں فساد پیدا کرنا ہے.اور جب انسان دوسرے کا حق مارنا شروع کر دے اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بن جائے تو وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا.اس کی نمازوں سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا جس کے لئے وہ مسجد میں آنے کی کوشش کرتا ہے یا آتا ہے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک طرف تو اعلان ہو کہ میں نے یہ مسجد اس لئے بنائی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے عدل اور انصاف قائم کروں اور دوسری طرف باغیانہ رویہ ہو.پس اللہ تعالیٰ نے اس رویہ سے بچنے کے جو طریق بتائے ہیں ان پر چلنا انتہائی ضروری ہے اور اس کے لئے سب سے بنیادی چیز جیسا کہ میں نے بتایا یہی ہے کہ اپنے اندر جھانک کر اپنا جائزہ لیتے ہوئے، اپنے نفس کو پاک کرے.پھر ہی معاشرے کو تکلیف دینے والی معمولی برائیاں بھی دُور ہوں گی اور تبھی بغاوت کی بدی سے بھی انسان بچے گا.کیونکہ اگر یہ چیزیں قائم رہیں تو پھر یہ نظام جماعت سے بھی دور لے جانے والی ہوتی ہیں اور پھر خلافت کی اطاعت کا بھی انکار کروا دیتی ہیں.اور پھر ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ پھر اللہ تعالیٰ کی خالص ہو کر عبادت کرنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ظاہری عبادت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں پھر ان کی عبادت خالص تو رہتی نہیں.کیونکہ ظاہر ہے جو باغی ہو گا وہ انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی خالص ہو کر کر ہی نہیں سکتا.کسی بھی باغی کو آپ دیکھ لیں وہ اپنی انانیت کے جال میں پھنسا ہوتا ہے اور جوانا نیت کے جال میں پھنس جائے وہ کبھی عاجزی نہیں دکھا سکتا اور جو عاجزی نہ دکھائے وہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بھی نہیں بن سکتا اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے.

Page 354

334 خطبه جمعه فرمودہ 15 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنا ہے اور ان مسجدوں کی تعمیر سے فائدہ اٹھانا ہے جس کی طرف آج کل آپ کی توجہ ہوئی ہوئی ہے تو ان برائیوں سے بچیں اور ان نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کریں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلاتے ہوئے حکم فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہوسکتا کہ انسان غفلت کاریوں میں مبتلا بھی رہے اور صرف منہ سے دم بھرتا رہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیا ہے.اکیلے بیعت کا اقرار اور سلسلہ میں نام لکھ لینا ہی خدا تعالیٰ سے تعلق یر کوئی دلیل نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.آپ فرماتے ہیں ” ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 33 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ ) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ” تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الہی اور تزکیہ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ.اس طرح اپنے تئیں مستعد بناؤ خدا تعالیٰ کی عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود کی جماعت سے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 212 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کا اعلیٰ فرض ہے کہ وہ اپنے اخلاق کا تزکیہ کریں اور حقوق عباد اور حقوق اللہ کے ادا کرنے کی دقیق سے دقیق رعایت کیا کریں“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 326 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تو یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم اور توقعات.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم خالص ہو کر اس کی عبادت کرنے والے بنیں، انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے والے بنیں اور اپنے نفس کی پاکیزگی کی طرف ہمیشہ توجہ دینے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اپنی عبادتوں اور اپنی قربانیوں کی قبولیت کی بھیک مانگتے رہنے والے ہوں.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 36 مورخہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2008 صفحہ 5 تا صفحہ 7

Page 355

خطبات مسرور جلد ششم 335 (34) خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 فرموده مورخہ 22 اگست 2008ء بمطابق 22 رظہور 1387 ہجری شمسی بمقام مئی مارکیٹ.منہائم.جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس خطبہ جمعہ کے ساتھ جماعت احمد یہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.اس سال کیونکہ خلافت احمدیہ کے پہلے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے خاص اہتمام سے جلسے منعقد کر رہے ہیں، اول تو پہلے بھی اہتمام سے ہوتے تھے لیکن لوگوں کی بھی اس طرف زیادہ توجہ ہے اس لئے اس سال کے جلسہ میں ہر ملک میں شاملین جلسہ کی تعداد اور انتظامات کے لحاظ سے اضافہ اور وسعت نظر آتی ہے.اور کیونکہ خلافت جو بلی کی وجہ سے میں بھی اس سال دنیا کے مختلف ممالک کے جلسوں میں شامل ہو چکا ہوں ، اس لئے انتظامیہ اس لحاظ سے بھی زیادہ کا نشس ہو گئی ہے.یہاں جرمنی میں بھی توجہ دے رہی ہے کہ یہاں کا جلسہ کسی بھی لحاظ سے کسی دوسرے ملک کے جلسوں سے کم نظر نہ آئے.اور افریقہ کے جلسوں میں گھانا کے جلسے نے خاص طور پر لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھیری.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اس سال کا میرا تو سا تو اں جلسہ ہے، جس میں میں شامل ہوا ہوں.جرمنی کا جلسہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیابی سے منعقد ہوتا ہے اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس سال پہلے سے بڑھ کر ہوگا اور ہر فر د جو اس جلسے میں شامل ہو رہا ہے اس جلسے کی روح کو سمجھتارہا تو خود بھی اس جلسے سے فیض اٹھانے والا ہوگا اور مجموعی طور پر جلسے کی کامیابی کا باعث بھی بنے گا.پس آپ میں سے ہر ایک مرد عورت، بچہ، جوان ، ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ ہمارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟ اور یہ مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتا دیا ہے.آپ نے اپنی بیعت میں آنے والوں کو اس بیعت میں آنے کے بنیادی مقصد ، جس کی وجہ سے ایک شخص جماعت میں شامل ہے، بتایا ہے یا جماعت میں جو نیا آنے والا شامل ہوتا ہے اس کو یہ مقصد بتایا جاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ : "تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول ﷺ کی محبت غالب آجائے.اطلاع منسلکہ آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351)

Page 356

336 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس پہلی بات ہر احمدی کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بیعت میں آنے والوں کو مخلصین“ کے پیارے لفظ سے مخاطب فرمایا ہے.یعنی ایسے خالص ہو کر پیار کرنے والے جن میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جن کی دوستی بغیر کسی ذاتی مفاد کے ہو، بغیر کسی نام ونمود کے اخلاص و وفا کا تعلق ہو.اخلاص اس مکھن کو بھی کہتے ہیں جو تلچھٹ سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے.پس یہ مقام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیا ہے یا ہم سے توقع رکھی ہے کہ ہم یہ مقام حاصل کریں اس کو حاصل کرنے کی ہم کو کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے مخلصین کی جو خوبیاں بیان فرمائی ہیں وہ اگر ہرلمحہ ہمارے سامنے ہوں تو یقینا ہم ان لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جن پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ان کے دلوں میں اگر کسی کی محبت قائم ہوتی ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عورت کے بُرائی کی طرف بلانے پر اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی ذات کے حقیقی فہم و ادراک کی وجہ سے برائی سے بچنے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت یوسف کے بارے میں فرماتا ہے کہ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ (یوسف: 25) یعنی وہ یقیناً ہمارے پاک اور برگزیدہ بندوں میں سے تھا اور اس پاکیزگی نے انہیں بچالیا اور اگر انسان حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ہو تو یہ خوف اور پاکیزگی ہی ہے جو ہر ایک کو برائی سے بچانے والی ہوگی.ایک دوسری جگہ فرمایا پھر جب شیطان نے کہا کہ اے اللہ ! میں تیرے بندوں کو ضر در گمراہ کروں گا اور انہیں دنیا کی چمک دمک کے ایسے انداز دکھاؤں گا کہ ان کی اکثریت ضرور میرے پیچھے چلے گی اور تجھے بھول جائیں گے تو شیطان نے ایک جگہ اپنی ہار مانتے ہوئے یہ اعلان کیا اور کہا کہ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ (الحجر:41) مگر جو تیرے مخلص بندے ہیں ، جن کی محبت تیرے اور تیرے رسولوں کے ساتھ ہے اور اس زمانے میں آنحضرت کے ساتھ ہے جن کی محبت اللہ اور رسول کے ساتھ خالص ہے وہ میرے دام میں نہیں آسکیں گے.جن کی بیعت زمانہ کے امام کے ساتھ ان شرائط بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے خالص ہے کہ ہم اس پر ہمیشہ عمل کرنے کی کوشش کریں گے.شیطان کہتا ہے کہ وہ میرے دام میں نہیں آسکیں گے.ان کو میں جتنی بھی دنیا کی چمک دمک دکھاؤں وہ میرے ہاتھ سے نکل جائیں گے.پھر ایک جگہ قرآن کریم میں کفار کا ذکر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک شاعر اور ایک مجنون کے کہنے پر اپنے محبوبوں کو چھوڑ دیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقینا محمد رسول اللہ سے سچے رسول ہیں اور نہ صرف خود بچے رسول ہیں بلکہ پہلے رسولوں کی سچائی بھی آپ کی وجہ سے آج کھل کر ثابت ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ اگر آنحضرت ﷺ نہ آتے تو ہم پر پہلے رسولوں کی

Page 357

خطبات مسرور جلد ششم 337 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 سچائی بھی ثابت نہ ہوتی.کیونکہ پہلے رسولوں کے ماننے والوں نے تو ان کا ایک عجیب و غریب تصور پیش کر دیا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سچے اور عظیم رسول کا انکار کرنے والو! سن لو کہ تم یقینا جہنم کا عذاب چکھو گے اور نجات یافتہ وہی ہوں گے جو خالص ہو کر رسول پر ایمان لانے والے ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ پہلی قوموں کے رسولوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کی گمراہی کی وجہ سے ہم نے انہیں اس دنیا میں بھی عذاب سے دو چار کیا.سوائے اُن میں سے تھوڑے سے ان لوگوں کے جو عِبَادَ اللهِ الْمُخْلَصِيْن تھے، ان لوگوں میں شامل تھے.یہ مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے آج مسلمانوں اور غیر مسلموں کو بتادیا کیونکہ قرآن کی شریعت اور غیر کی ایک جاری شریعت ہے اور ہمیشہ رہنے والی شریعت ہے، ہمیشہ رہنے والی تعلیم ہے یہ بتا دیا کہ کیا آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلام صادق کا انکار کر کے تم بیچ سکو گے؟ ہر گز نہیں.پس یہ بھی ہم احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرما کر اپنے انعام سے نوازا ہے.اب ہم پر فرض ہے کہ اس انعام کی قدر کرنے والے بنیں.پھر اللہ تعالیٰ اپنی بڑائی بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ ہر اس عیب سے پاک ہے جو اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے اس پر لگاتے ہیں.اُن لوگوں کو سوائے ناکامی اور جہنم کے کچھ نہیں ملے گا اور اللہ کی خالص عبادت کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے.اس زمانہ میں آج کل ان یورپین ممالک میں بھی خدا تعالیٰ کی خدائی اور اس کے وجود سے انکار کرنے والے بہت سے پیدا ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے بارہ میں، خدا کی ذات کے ہونے یا نہ ہونے کے بارہ میں مختلف تصورات اور نظریات ابھر نے لگ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ان سب کا انجام بد ہونا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں رکھتے اور کامیابی اللہ تعالیٰ کے خالص بندوں کی ہی ہے.پس تم ہمیشہ اس بات کو یا د رکھو، یہ نہیں کہ جب تم کسی مشکل میں گرفتار ہوئے تو یا جب اپنے مطلب ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی یاد آنے لگ جائے اور عام حالات میں خدا کو بھول بیٹھیں.اتنے انعامات جو ہم احمدیوں پر اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے پیش نظر رہے اور ہر جگہ جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کو بیان کرنا ہے اور اس کی خوبیاں بیان کرنی ہیں، اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود کو دنیا پر ثابت کرنا ہے وہاں ایک احمدی کو فوراً تیار ہو جانا چاہئے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ اعلان فرمایا کہ میرے مخلصین اللہ اور اس کے رسول کی محبت سب محبتوں پر غالب کر لیں تو ہر قسم کی دنیاوی برائیوں سے بچنے کی طرف بھی توجہ دلا دی اور یہ فرمایا کہ ہر وقت تمہیں یہ توجہ رکھنی چاہئے کہ کسی بھی قسم کی برائی تمہارے اندر کبھی پیدا نہ ہو.اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی توقعات پر پورا اترنے کی طرف ہمیں توجہ دینی ہوگی.اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر اور سنت پر چلنے کی کوشش کرنی ہوگی اور اس پر عمل کرنے کے لئے اس کو جاننے کی

Page 358

338 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم طرف بھی توجہ دینی ہوگی.اپنے دینی اور روحانی معیار بلند کرنے کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کسی ذاتی مفاد کے بغیر ہوگی، کسی دنیاوی منفعت کے بغیر ہوگی اور تبھی ہم میں سے ہر ایک جماعت کے لئے مفید وجود ثابت ہوگا اور یہی لوگ ہیں جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْن فرمایا ہے.کیونکہ یہ خالص اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں.یہ خالص ہو کر آنحضرت ﷺ سے محبت کرنے والے ہیں.کیونکہ آپ ہی وہ ذات ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ،سونا جاگنا خدا کی خاطر ہے جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اعلان کر دیں یہ کہہ کر کہ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ( آل عمران : 32) یعنی تو کہہ دے اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو پھر اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.پس آنحضرت ﷺ کی محبت نہ صرف اللہ تعالیٰ سے محبت کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ گناہوں کی بخشش اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا ذریعہ بھی بنتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کا جب آغاز فرمایا تھا تو اس سے پہلے یہ اعلان فرمایا تھا کہ یہ اللہ اور رسول کی خالص ہو کر محبت کرنے کے لئے میں جلسے شروع کر رہا ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سال میں تین دن لوگ جمع ہوں اور محض اللہ ربانی باتوں کو سننے اور دعا میں شامل ہونے کے لئے آئیں.آپ نے فرمایا کہ حتی الوسع دوستوں کو آنا چاہئے.پس یہ بات پھر ان لوگوں کو توجہ دلانے والی ہونی چاہئے جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں، جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مخلصین کے نام سے پکارا ہے کہ جلسہ میں شامل ہونے کی بھی کوشش کریں کیونکہ یہ بھی اخلاص بڑھانے کا ذریعہ ہے کیونکہ یہاں آنا کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہیں ہے بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے ہے.پس یہ مقصد ہمیشہ ہر احمدی کے پیش نظر ہونا چاہئے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اگر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو یہ محبت خالص نہیں ہے اور جب یہ محبت خالص نہیں تو پھر ایسے لوگوں کا شمار بھی مخلصین میں نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ” مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو سچے دل سے تمام احکام اپنے سر پر نہیں اٹھا لیتے اور رسول کریم کے پاک جوا کے نیچے صدق دل سے اپنی گردن نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے.غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے

Page 359

339 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکتیر سے کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں.فرمایا: ”مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں.عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں، کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب کریم کو یادر کھتے ہیں.فرمایا سوئیں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات تیار کی گئی ہے.شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398 397 ) پس یہ بڑی درد بھری نصائح ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں کی ہیں اور یہی باتیں ہیں جو اختیار کرنے سے ہم ان مخلصین میں شاملین ہوں گے جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اس جلسہ میں آنے کے مقصد کو پورا کرنے والے ہیں.ورنہ آپ نے تو صاف فرما دیا ہے کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے.آج آپ یہاں جمع ہیں اور اس حوالے سے کہ خلافت جو بلی کا جلسہ ہے جس کی ایک خاص اہمیت ہے یہ اللہ تعالیٰ کے ایک انعام کی یاد دلانے والا جلسہ ہے.تو پھر حقیقی شکر اس وقت ادا ہو گا جب ہم اپنے نفسوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.جب ہم نے اس طرف توجہ کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے آنحضرت ﷺ کے اسوہ کی پیروی کرنی ہے کیونکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے ان لوگوں کے لئے جو خالص ہو کر اس کے بندے بنتے ہیں.ہر میدان میں آنحضرت ﷺ نے ہمارے سامنے اسوہ قائم فرمایا ہے.ہمیں نصیحت فرمائی کہ یہ اعمال میں اگر تم کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں قائم کرنے والے ہو گے.قرآن کریم کے تمام احکامات آنحضرت ﷺ کا اسوہ ہیں.حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آنحضرت میر کے اُسوہ کے بارے میں بتائیں، آپ کے اخلاق کے بارے میں بتا ئیں.تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا تم نے قرآن کریم نہیں پڑھا.قرآن کریم کا ہر حکم آپ نے پہلے اپنے اوپرلا گو فرمایا.پھر اس کی اپنی امت کو نصیحت فرمائی.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ اعمال ہیں اگر تم کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت بھی دلوں میں قائم کرنے والے ہو گے اور میری محبت کا دعوی بھی پھر حقیقی ہوگا.جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ اعلان خدا تعالیٰ کا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعوی ہے تو آنحضرت ﷺ سے بھی اس طرح محبت کرو کہ آپ کے ہر حکم اور ہر نصیحت پر عمل کرنا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی دعاؤں کو اگر قبول کروانا چاہتے ہو تو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجتے ہوئے میرے پاس آؤ.لیکن درود اس طرح ہو کہ حقیقی عشق و محبت کی خوشبو میں لپٹا ہوا ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأْيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا (الاحزاب: 57).

Page 360

خطبات مسرور جلد ششم 340 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے کہ خدا اور اس کے سارے فرشتے اس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں.اے ایماندار و ا تم بھی اس پر درود بھیجو اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو“.(براہین احمدیه رحانی خزائن جلد اول صفحه 265 حاشیہ نمبر 11 الله پس یہ اخلاص اور محبت سے سلام اور درود ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتا ہے اور قبولیت دعا کے نظارے بھی ایک مومن دیکھتا ہے.پس ان دنوں میں جو جلسے کے دن ہیں جہاں نمازوں اور دعاؤں کی طرف ہمیں توجہ رکھنی چاہئے وہاں آنحضرت ﷺ پر خالص ہو کر درود بھیجتے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے ہماری حالتوں کو بدلے اور ہمیں اپنا خالص بندہ بنالے.ہمیں اپنی زبانیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آنحضرت ﷺ کے اُسوہ کی پیروی کرنے والے ہوں اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں.جن برائیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے درد کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اُن سے بچنے والے ہوں.آنحضرت ﷺ جواللہ تعالیٰ کے عبد کامل تھے، آپ نے اپنی عبادتوں کے وہ نمونے قائم فرمائے جس کی کوئی مثال نہیں.کبھی ویرانوں میں دنیا و مافیہا سے بے خبر خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہیں.ایک دن آپ کی ایک بیوی رات کو آپ کو بستر سے غائب پاتی ہیں تو شک کرتی ہیں کہ کہیں کسی دوسری بیوی کے گھر نہ گئے ہوں.لیکن جب تلاش کے بعد اُس نظارے کو دیکھتی ہیں تو اپنی سوچ پر پریشان ہوتی ہیں کہ میں نے آپ سے دنیاوی سوچ کے مطابق کیا توقع رکھی تھی اور آپ کے مقام کو نہ پہچان سکی لیکن آپ تو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہیں اور اس طرح گڑ گڑا رہے ہیں جس کی کوئی مثال بیان نہیں کی جاسکتی.کوئی آپ کے اس طرح اپنے مولیٰ کے حضور عبادت کی گڑ گراہٹ کو ہنڈیا کے ابلنے کی آواز سے تشبیہ دیتا ہے، کوئی کسی اور مثال سے لیکن اس عبد کامل کی اپنے مولیٰ کے حضور عبادت کی گڑگڑاہٹ سب مثالوں سے بالا ہے.شدید بیماری میں بھی نماز باجماعت نہیں چھوڑتے.آخری بیماری میں انتہائی ضعف کی حالت میں مسجد میں تشریف لاتے ہیں، اپنے سامنے اپنے ماننے والوں اور مسلمانوں کی جماعت کو نماز پڑھتا دیکھ کر تبسم فرماتے ہیں کہ یہی ایک حقیقی مقصد ہے انسان کی پیدائش کا جس کو یہ مخلصین اور عبادالرحمن پورا کر رہے ہیں.آپ فرماتے ہیں، میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہی ہے.یہ اُسوہ ہے جو آپ نے نمازوں کی پابندی کے بارہ میں ہمارے سامنے قائم فرما دیا.نوافل کی پابندی پر قائم فرمایا.اللہ تعالی کی عبادت پر قائم فرمایا.یہ مقام تو ہر ایک کو حاصل نہیں ہوسکتا جو آپ کا تھا.اس مقام تک تو صرف وہ انسان کامل پہنچا.تبھی تو خدا اور اس کے فرشتے آپ پر درود بھیج رہے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُوْلِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( سورة الاحزاب : 22) كه يقيناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے، ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے.پس اللہ کا ذکر کرنے والوں کو اس

Page 361

خطبات مسرور جلد ششم 341 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 نمونے کی پیروی کرنا ضروری ہے جو اپنے آپ کو عباد الرحمن کہتے ہیں.اُن کو اللہ کے رسول کی پیروی کرنا ضروری ہے جو اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہو کر، خالص ہو کر اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا اعلان کرتے ہیں.ان کے لئے اس رسول کے اُسوہ کی پیروی کرنا ضروری ہے.پس اپنی اپنی انتہائی استعدادوں کے مطابق اپنی عبادتوں کے معیار ہر احمدی کو بڑھانے چاہئیں تا کہ اُس محبت کا دعوی حقیقت کا روپ دھار لے.صرف دعوی ہی نہ رہے.پس ان دنوں میں اپنی عبادتوں اور اپنی نمازوں کی طرف بھی توجہ دیں.یہ جلسہ کے دن ہر شامل ہونے والے کی اس طرف توجہ پھیر نے والے ہوں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کی بھر پور کوشش کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”خوب یاد رکھو اور پھر یا درکھو کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور تو حید کچھ ہی ہو، تو حید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے.اُس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو.فرمایا ”سنو وہ دعا جس کے لئے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم (المؤمن : 61) فرمایا ہے، اس کے لئے بھی کچی روح مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ المومن آیت نمبر 61 صفحہ 59-58) پھر آپ فرماتے ہیں: ”مدار اس بات پر ہے کہ جب تک تیرے ارادے ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں، انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا.عبودیت کاملہ کے سکھانے کے لئے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے“.پھر آپ نے فرمایا: میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کار بند نہ ہو کہ تمہارا جسم، نہ تمہاری نماز بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں“.ظاہری نمازیں نہ ہوں بلکہ روح نماز پڑھ رہی ہو.پس یہ ہے وہ نماز کی روح جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھنا اور توحید کا دعویٰ کرنا لا إِلهَ إِلَّا اللہ کا اعلان کرنا یہ بے مقصد ہے اور اس میں کبھی برکت نہیں پڑ سکتی جب تک دل بھی ہر قسم کے مخفی شرک سے پاک نہ ہو، جب تک انتہائی عاجزی اور تذلل نہ ہو.اور جب یہ ہوگا تو پھر دعا ئیں بھی قبول ہوں گی کیونکہ یہی بنیادی چیز ہے جسے خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کو قائم کرنے کے لئے ہمارے سامنے نمونے آنحضرت نے قائم فرما دیئے.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی کہ یہ عاجزی اور تذلیل کس قسم کا ہونا چاہئے کہ ہر قسم کے ناپاک منصوبوں

Page 362

خطبات مسرور جلد ششم 342 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 سے دل پاک ہو.کسی قسم کا تکبر نہ ہو.کسی قسم کی انانیت نہ ہو.بندوں سے بھی عاجزی دکھانے والے ہو گے تو تبھی دعا ئیں بھی قبول ہوں گی اور نماز میں بھی حقیقی نمازیں ہوں گی.اللہ تعالیٰ کی حقیقی تو حید کا اعلان کرنے والے کبھی یہ نہیں کر سکتے کہ اپنے مفاد کے لئے دنیا کے سہارے لے لیں.دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے ہوں.دوسروں سے تکبر سے بات کرنے والے ہوں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ حقیقی عبادت گزار وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والا ہے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلنے والا ہے.آنحضرت ﷺ نے کیا نمونے قائم فرمائے بعض مثالیں میں دیتا ہوں.عبادت کی مثال میں دے آیا ہوں.ایک غریب معذور عورت آپ کو راستے میں روک لیتی ہے اور آپ انتہائی توجہ سے اس کی بات کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں فکر نہ کرو میں تمہاری بات سن کر جاؤں گا.یہ عاجزی تھی آپ کی.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں، باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم بیعت کے لئے میرے رسول کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہو تو اصل میں وہ میرا ہاتھ ہے جو تمہارے ہاتھ کے اوپر ہے.لیکن پھر بھی آپ کی عاجزی کا یہ حال کہ صحابہ کونصیحت کرتے ہوئے جب آپ نے یہ فرمایا کہ اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو کسی کے اعمال اسے جنت میں نہیں لے جا سکتے اور صحابہ نے جب اس بات پر آپ سے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ کے عمل بھی آپ کو جنت میں نہیں لے جائیں گے؟ تو دیکھیں اللہ تعالیٰ کی خشیت، خوف اور عاجزی میں ڈوبا ہوا جواب، آپ نے فرمایا ہاں مجھے بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت نہ ڈھانچے تو میں بھی جنت میں نہیں جاسکتا.پس یہ ہے وہ عاجزی کی اعلیٰ ترین مثال، یہ ہے وہ تکبر کے خلاف جنگ کا عظیم اعلان کہ میں جس کو ہر طرح کی ضمانت دی گئی ، خدا تعالیٰ نے یہ ضمانت دی ہوئی ہے کہ جب میں تم سے بیعت لیتا ہوں تو تمہارے اوپر میرا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو جنت میں لے کے جائے گا.عاجزی کی مثال یہ ہے.تو یہ مثال دے کر آپ نے ہمیں یہ فرمایا، اس طرف توجہ پھیرائی کہ میں اگر یہ بات کر رہا ہوں کہ مجھے بھی جنت میں لے جانے والا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے تو تم لوگ جو دن میں کئی مخفی شرک کر لیتے ہو تم جوتو حید کا اس قدر فہم اور ادراک نہیں رکھتے جس قدر میں رکھتا ہوں تم جو نمازوں کے وہ معیار قائم نہیں کر سکتے جو معیار میں نے قائم کئے ہیں پھر تم کس طرح اپنی نیکیوں پر تکبر کر سکتے ہو، اپنے اعمال پر تکبر کر سکتے ہو.پس عاجزی اختیار کرو کہ اس میں تمہاری بقا ہے.اس میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا راز مضمر ہے.ایک موقع پر آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اُسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تواضع اور انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ

Page 363

خطبات مسرور جلد ششم 343 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 عطا کرتا ہے.پس یہ باتیں ہیں جو ایک احمدی کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے ان کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.آج کل یہاں بھی اور دنیا میں ہر جگہ میاں بیوی کے جھگڑوں کے معاملات میرے سامنے آتے رہتے ہیں.جن میں مرد کا قصور بھی ہوتا ہے عورت کا قصور بھی ہوتا ہے.نہ مرد میں برداشت کا وہ مادہ رہا ہے جو ایک مومن میں ہونا چاہئے نہ عورت برداشت کرتی ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہہ چکا ہوں کہ گوز زیادہ تر قصور عموم مردوں کا ہوتا ہے لیکن بعض ایسے معاملات ہوتے ہیں جن میں عورت یا لڑ کی سرا سر قصور وار ہوتی ہے.قصور دونوں طرف سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے رنجشیں پیدا ہوتی ہیں ، گھر اجڑتے ہیں.پس دونوں طرف کے لوگ اگر اپنے جذبات پر کنٹرول رکھیں اور تقویٰ دل میں قائم کرنے والے ہوں تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہوں.آنحضرت ﷺ ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تم دونوں کو ایک دوسرے کے عیب نظر آتے ہیں تو کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی لگتی ہوں گی.یہ نہیں کہ صرف ایک دوسرے میں عیب ہی عیب ہیں؟ اگر ان اچھی باتوں کو سامنے رکھو اور قربانی کا پہلو اختیار کرو تو آپس میں پیار محبت اور صلح کی فضا پیدا ہوسکتی ہے.آپ کی بیویوں کی گواہی ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ بیویوں سے حسن سلوک کرنے والا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا.پس آپ جو نصیحت فرماتے ہیں تو صرف نصیحت نہیں فرماتے بلکہ آپ نے اپنے اسوہ سے بھی یہ ثابت کیا ہے.پس یہ دن جو آج کل آپ کو میسر ہیں، ان میں جائزے لیں کیونکہ ماحول کا بھی اثر ہو جاتا ہے، روحانیت کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے دلوں پر اثر پڑتا ہے اس لئے جائزے لینے کی طرف توجہ پیدا ہوسکتی ہے.اپنے جائزے لیں، اپنی نمازوں کے بھی جائزے لیں ، اپنے دوسرے اخلاق کے بھی جائزے لیں.کسی بھی قسم کے ایک دوسرے کے حقوق کی تلفی کا کبھی کسی کو خیال نہ آئے.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ تمام بنیادی اخلاق جن کا معاشرے میں رہتے ہوئے ایک انسان کو مظاہرہ کرنا چاہئے اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتے جب تک خدا تعالیٰ کا حقیقی خوف دل میں نہ ہو اور ہر قسم کی انانیت اور تکبر دل سے دور نہ ہو.اور جس شخص میں یہ پیدا ہو جائے تو پھر ایسا شخص تمام قسم کی برائیوں سے پاک ہو جاتا ہے.ایک ایسا احمدی پھر اس معیار کو حاصل کرنے والا بن جاتا ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں لانا چاہتے ہیں تو ایسا شخص پھر حقیقت میں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے حقیقی محبت کرنے والا بن جاتا ہے.پس ان دنوں میں جب آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر یہاں جمع ہوتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی جمع ہوتے ہیں اس جلسہ کے مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے اس کی جگالی کرتے رہیں کیونکہ اپنے نفس کی اصلاح کے لئے سب سے بہترین ذریعہ اپنے اندر سے ہی ایک مُرگی کو کھڑا کرنا ہے.جلسہ کی تقاریر اور پروگرام با قاعدہ دیکھیں اور سنیں خلافت جو بلی کے حوالے سے بڑے علمی اور تربیتی مضامین اور تقریریں پیش کی جائیں گی.اللہ تعالیٰ

Page 364

خطبات مسرور جلد ششم 344 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 مقررین کی زبان اور علم میں بھی برکت ڈالے کہ وہ ان مضامین کا حق ادا کرنے والے ہوں اور حق ادا کرتے ہوئے آپ کے سامنے اپنے مضمون کو پیش کر سکیں اور سننے والوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ جو کچھ سنیں اس سے نہ صرف علمی و ذہنی حظ اٹھانے والے ہوں بلکہ روحانی فیض پاتے ہوئے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بھی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خوش قسمت وہ شخص نہیں ہے جس کو دنیا کی دولت ملے اور وہ اس دولت کے ذریعہ ہزاروں آفتوں اور مصیبتوں کا مورد بن جائے بلکہ خوش قسمت وہ ہے جس کو ایمان کی دولت ملے اور وہ خدا کی ناراضگی اور غضب سے ڈرتا رہے اور ہمیشہ اپنے آپ کونفس اور شیطان کے حملوں سے بچاتا رہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو وہ اس طرح پر حاصل کرے گا.مگر یاد رکھو کہ یہ بات یونہی حاصل نہیں ہو سکتی.اس کے لئے ضروری ہے کہ تم نمازوں میں دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو جاوے اور وہ تمہیں تو فیق اور قوت عطا فرمائے کہ تم گناہ آلودزندگی سے نجات پاؤ.کیونکہ گناہ سے بچنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی توفیق شامل حال نہ ہو اور اس کا فضل عطا نہ ہو.اور یہ توفیق اور فضل دعا سے ملتا ہے.اس واسطے نمازوں میں دعا کرتے رہو کہ اے اللہ ہم کو ان تمام کاموں سے جو گناہ کہلاتے ہیں اور جو تیری مرضی اور ہدایت کے خلاف ہیں، بچا.اور ہر قسم کے دکھ اور مصیبت اور بلا سے جوان گناہوں کا نتیجہ ہے، بچا.اور سچے ایمان پر قائم رکھے.اور پھر گناہوں کی قسمیں بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ”بہت سے گناہ اخلاقی ہوتے ہیں، جیسے غصہ، غضب ، کینه، جوش، ریا، تکبر،حسد وغیرہ.یہ سب بداخلاقیاں ہیں جو انسان کو جہنم تک پہنچادیتی ہیں.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 609 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف اس بات پر ناز نہ ہو کہ ہم بڑے گناہ نہیں کرتے بلکہ معمولی بداخلاقیاں بھی گناہ ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ان گناہوں سے بچو بلکہ ایک مومن کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں بلکہ قرآن کریم کے مطابق یہ حکم ہے، یہ کام ہے کہ نہ صرف گناہوں سے بچو بلکہ نیکیوں میں بڑھنے کی بھی کوشش کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان کو چاہئے کہ گناہوں سے بچ کر نیکی کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرے.جب وہ گناہوں سے بچے گا اور خدا کی عبادت کرے گا تو اس کا دل برکت سے بھر جائے گا“.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 610 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد.اگر یہ ہو جائے تو یہی ایک انسانی زندگی کا مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا دل برکتوں سے بھر دے.اللہ کرے کہ اس جلسہ میں ہم میں سے ہر ایک اس مقصد کو پانے والا ہو.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش جماعت پر ہورہی ہے اور حضرت مسیح موعود

Page 365

خطبات مسرور جلد ششم 345 خطبه جمعه فرمودہ 22 اگست 2008 علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جو انشاء اللہ کا میابیاں حاصل ہوئی ہیں ہم میں سے ہر احمدی اس سے فیض پانے والا ہو اور ان دنوں میں اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے والا دعائیں کرنے والا ہو.شروع میں میں نے گھانا کے جلسہ کی مثال دی تھی.اس حوالے سے میں خواتین سے بھی خاص طور پر کہنا چاہوں گا کہ گزشتہ سال میں نے عورتوں کی مارکی میں شور اور باتوں کی وجہ سے عورتوں پر کچھ پابندی لگائی تھی لیکن پھر عورتوں کے مسلسل خطوط اور معافی کی درخواستیں آنے کی وجہ سے اور جلسہ کی اہمیت کے پیش نظر یہ پابندی اٹھالی گئی ، اس سال بھی جلسہ ہورہا ہے.لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ نے جو وعدہ کیا ہے کہ اب تمام جلسہ کی کارروائی کوغور اور خاموشی سے سنیں گی اسے پورا کرنا ہے.آپ سے سبق لیتے ہوئے ، یہاں جرمنی کی لجنہ سے سبق لیتے ہوئے دنیا کی بہت سی بجنات کی جو تنظیمیں ہیں انہوں نے خاموشی سے اپنے پروگراموں میں شامل ہونے کا عہد کیا اور اس پر عمل بھی کیا.بہت سوں نے سبق سیکھا.اب آپ کا یہ فرض ہے کہ اس عہد کو پورا کریں.گھانا کی میں بات کر رہا تھا وہاں جلسے پر 50 ہزار کے قریب عورتیں شامل ہوتی تھیں اور فجر کی نماز میں بھی 25-30 ہزار کے قریب عورتیں شامل ہوتی تھیں.بچے بھی بعض کے ساتھ ہوتے تھے.لیکن مجال ہے جو کوئی شور ہوا ہو.نمازوں کے اوقات میں بھی ، جمعہ کے وقت میں بھی، خطبے کے دوران بھی، تقریروں کے اوقات میں بھی باوجود گرمی کے اور اس کے باوجود کہ بچوں کا کوئی علیحدہ انتظام نہیں تھا، مجال ہے جو کسی طرف سے کوئی آواز آئی ہو.بڑی خاموشی سے سب نے تمام کارروائی دیکھی اور سنی.پس وہ قومیں جو بعد میں شامل ہو رہی ہیں اگر اپنے نمونے اسی طرح قائم کرتی رہیں تو آگے نکل جائیں گی اور ان کا حق بنتا ہے کہ آگے نکلیں.میں یہ باتیں عورتوں سے کہنا چاہتا تھا، کل بھی کہ سکتا تھا لیکن اس خوف سے کہ کہیں وہ اپنے وعدے کو بھول نہ جائیں اور یہ ڈیڑھ دن جلسے میں دوبارہ شور نہ مچانا شروع کر دیں یہ یاد دہانی کروا رہا ہوں.پس ان باتوں کو پلے باندھ لیں کہ تمام پروگرام آپ نے صبر اور تحمل سے نہ صرف سننے ہیں بلکہ اس لئے سنتے ہیں کہ ان پر عمل کرنا ہے اور تبھی آپ لوگ خلافت جو بلی کے حوالے سے جو عہد کر رہے ہیں اور جلسے منعقد کر رہے ہیں، اس کو پورا کرنے والے ہوں گے اس سے فیض پانے والے ہوں گے.پس مرد عورتیں سب یہ ذہن میں رکھیں کہ خلافت کے انعام سے فیضیاب ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کا حقیقی عابد بنا اور اس کے احکامات کی پیروی کرنا ضروری ہے.اس کے لئے کوشش کریں اور اپنے معیاروں کو بلند کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 37 مور محہ 12 ستمبر تا 19 ستمبر 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 366

خطبات مسرور جلد ششم 346 (35) خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 فرموده مورخہ 29 /اگست 2008ء بمطابق 29 رظہور 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو دن پہلے میری جرمنی کے سفر سے واپسی ہوئی ہے.گزشتہ اتوار کو جیسا کہ سب جانتے ہیں جرمنی کا جلسہ سالانہ تھا.آج میرا خیال کچھ اور مضمون بیان کرنے کا تھا، نوٹس بنانے لگا تو خیال آیا کہ روایت کے مطابق جلسہ کے بارہ میں جس میں میں شامل ہوتا ہوں یا اس ملک کی جماعت کے بارے میں جہاں دورے پہ جاتا ہوں عموماً میں بیان کیا کرتا ہوں.اس لئے آج جرمنی کے جلسے کے بارہ میں ہی میں کچھ کہنا چاہوں گا اور اس لئے بھی ضروری ہے کہ جو کارکنان کام کر رہے ہوتے ہیں ان کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.یہی ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے.نیز اس لئے بھی ضروری تھا کہ اگر میں اپنی روایت کے مطابق ذکر نہ کروں تو جرمنی والے کہیں پریشان نہ ہو جائیں کہ کہیں دوبارہ کوئی ناراضگی نہ ہوگئی ہو.یہ جلسہ جس کا اجراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تا کہ احمدیوں کی دینی ، اخلاقی اور روحانی حالت کو بہتر بنایا جائے ، تربیت کے بہتر سامان پیدا کئے جائیں ، اب تمام دنیا کی جماعتوں کے جو پروگرام ہیں یہ جلسہ اُن کے پروگراموں کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے.اور اس سال تو جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ خلافت جو بلی کے حوالے سے اس سال کے جلسوں کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور اگر جرمنی کے اس سال کے جلسے کے بارہ میں مختصراً کچھ نہ بتاؤں تو فوراً وہاں سے خطوط کا سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ کیا وجہ ہے آپ جلسہ کے اختتام پر عموماً تا ثرات بیان کیا کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ نہیں کیا.جرمنی کی جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بڑھنے والی جماعت ہے اور اگر ان کو اس طرح کا شکوہ ہو تو بڑا جائز شکوہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اخلاص و وفا میں بڑھنے والے عجیب پیارے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان آج بھی بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے کہ جماعت نے اخلاص و محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.پس آج جس طرح میں دنیا کے دوسرے ممالک میں بسنے والے بعض احمدیوں کے اخلاص و وفا میں ترقی دیکھتا ہوں اسی طرح جرمنی کی جماعت بھی اس میں قدم آگے

Page 367

خطبات مسرور جلد ششم 347 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 بڑھا رہی ہے.بعض احمدی لوگ یعنی جو بڑی عمر کے احمدی ہیں، وہ نو جوانوں کو بڑی تنقید کی نظر سے دیکھتے تھے.خود کئیوں نے میرے سامنے بیان کیا ہے کہ جرمنی میں نوجوانوں میں نمازوں کی طرف توجہ اور اخلاص میں قدم واضح طور پر بہتری کی طرف بڑھتے نظر آ رہے ہیں.پس یہی باتیں ہیں جن کا اگر ہمارے نو جوان خیال رکھتے رہے تو اپنی دنیا و عاقبت بھی سنوارنے والے ہوں گے اور جماعت کے لئے بھی مفید وجود بنیں گے.اللہ کرے کہ یہ اس میں ترقی کرتے چلے جائیں.جیسا کہ دنیائے احمدیت نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دیکھا اور سن لیا کہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی برکات پھیلاتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچا تھا اور حاضری بھی اس دفعہ جرمنی کے لحاظ سے ریکارڈ حاضری تھی ، یعنی 37 ہزار سے اوپر.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے 32-33 ہزار کا اندازہ لگایا تھا اور بڑی چھلانگ لگائی تھی اور یہی مقامی انتظامیہ کا اندازہ ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا اور یہ احمدیوں کے خلافت کے ساتھ پنہ تعلق کا اور اللہ تعالیٰ کی تائید کا ایک ثبوت ہے.دشمن جس چیز کو ختم کرنے کے درپے تھا وہ مزید صیقل ہو کر ہر جگہ سامنے آ رہی ہے.اب بھی اگر دنیا داروں اور عقل کے اندھوں کو سمجھ نہ آئے تو کیا کیا جاسکتا ہے.ہم تو دنیا کی راستی کے لئے دعا کر سکتے ہیں اور وہ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں عقل اور سمجھ دے.بہر حال اتنی بڑی تعداد کے آنے کے باوجود وہاں کے انتظامات عمومی طور پر بہت اچھے تھے.پھر جلسہ کے پروگرام تھے.اس سال کی اہمیت کی نسبت سے وہ بھی بڑے اچھے پروگرام تھے.مقررین کی تقاریر کی تیاری بھی یعنی مواد کے لحاظ سے اور اس کا جو انہوں نے بیان کیا وہ بھی بڑی اچھی طرح کیا.ہر طرح سے بڑا بہترین تھا اور یہی اکثر کا تاثر ہے جن سے بھی میں نے پوچھا ہے.اور پھر جلسہ میں شامل ہونے والوں نے ان تقریروں کو سنا بھی بڑے غور سے ہے.اکثر کا جلسہ کے دوران مکمل انہماک نظر آتا تھا.وقتا فوقتا میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دیکھتا رہتا تھا.عمومی طور پر وہاں بیٹھے ہوؤں کی حاضری بھی اچھی ہوتی تھی اور سن بھی بڑے غور سے رہے ہوتے تھے.جیسا کہ میں نے کہا اس سال کیونکہ خلافت کے 100 سال پورے ہونے کے حوالے سے خلافت کے موضوع پر تقاریر تھیں اس لئے جہاں سنے والوں کی توجہ نظر آتی تھی وہاں ان کے چہروں پر اخلاص و وفا بھی چھلکتا ہوا نظر آتا تھا.عموماًمیں نے دیکھا ہے کہ میری تقریروں کے علاوہ جلسوں میں حاضری اس قدر نہیں ہوتی جس قدر اس دفعہ نظر آئی ہے.اللہ تعالیٰ سننے والوں کے اخلاص و وفا میں بھی مزید ترقی دے اور نہ صرف وہ لوگ جو جلسے میں موجود تھے ان کے بلکہ تمام دنیائے احمدیت کے ہر احمدی کے اخلاص و وفا کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا چلا جائے.جرمنی میں میرے جلسہ کے جو عموماً پر وگرام ہوتے ہیں ان میں گزشتہ سالوں کی نسبت ایک زائد کام بھی تھا اور وہ جرمنی اور دوسرے ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے غیر مسلم لوگوں کے ساتھ جن میں اکثریت جرمنوں کی تھی،

Page 368

348 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم دوسرے ممالک کے بھی کچھ لوگ تھے، غیر مسلم تھے اور کچھ غیر احمدی بھی تھے جن کی تعداد چار ساڑھے چار سو تھی ان کے ساتھ ایک علیحدہ پروگرام تھا.اس میں میں نے جہاد کی حقیقت پر ان کے سامنے قرآنی تعلیم رکھی اور بتایا کہ ہجرت سے پہلے کفار مکہ مسلمانوں سے کیا سلوک کرتے رہے.ہجرت کے بعد کس طرح حملے کئے.کس طرح مسلمان دفاع کرتے رہے.قرآن نے کس طرح اور کس حد تک ان حملوں کا جواب دینے کا مسلمانوں کو حکم دیا اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاد کی کیا تعریف کی ہے اور کس طرح کا جہاداب ہم احمدی کرتے ہیں.اس کا ان مہمانوں پر بڑا اچھا اثر تھا.جس کا بعض نے ملاقات کے دوران بعد میں اظہار بھی کیا اور بڑا کھل کر اظہار کیا کہ آج ہمارے مسلمانوں کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات دور ہوئے ہیں.اسلام کی تاریخ اور جہاد کا ہمیں پتہ لگا ہے.جہاد کی تعریف پتہ لگی ہے.بعض ملکوں کے پڑھے لکھے لوگ بھی آئے ہوئے تھے.اکثریت تو پڑھے لکھوں کی تھی لیکن اس لحاظ سے پڑھے لکھے کہ ان میں لکھنے والے بھی تھے کچھ جرنلسٹ بھی تھے.ان میں سے ایک دو نے مجھے کہا کہ ہم اپنے ملکوں میں جا کر اخباروں میں جلسہ کے حوالے سے خبر اور مضمون لکھیں گے اور اسی طرح اس تقریر کے حوالے سے بھی آرٹیکل لکھیں گے کہ مسلمانوں کا اصل جہاد کیا ہے اور آج کل احمد یہ جماعت کس طرح کا جہاد کر رہی ہے.اللہ کرے کہ یہ لوگ صحیح طور پر لکھ سکیں کیونکہ بعض دفعہ یہ لوگ صحافتی مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں.انہوں نے کچھ نہ کچھ ایچ پیچ ضرور ڈالنا ہوتا ہے.لیکن بہر حال ان کے چہروں سے یہ واضح اور عیاں تھا کہ وہ ہمارے جلسہ میں شامل ہو کر بہت متاثر ہوئے ہیں.جن ممالک سے یہ مہمان شامل ہوئے ان میں ایسٹونیا، آئس لینڈ (آئس لینڈ کے تمام لوگ عیسائی تھے ان میں سے کوئی احمدی یا مسلمان نہیں تھا اور انہی میں بعض لکھنے والے بھی تھے البانی، مالٹا، رومانی، بلغاریہ اور اسی طرح پانچ چھ اور ممالک تھے.ان مہمانوں میں اکثریت عیسائی تھی.بلغاریہ ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد ہے اور مسلمانوں کے یہاں ہونے کی وجہ سے یہاں مخالفت بھی ہے.ان یورپین یعنی مشرقی یورپ کے ملکوں میں سے پرانے مقامی مسلمان بھی یہاں رہتے ہیں.اسلام کا تو ان کو کچھ پتہ نہیں ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جیسا کہ ہمیں دنیا میں ہر جگہ نظر آتا ہے کہ جہاں جہاں بھی مذہب کے نام پر فساد برپا ہوتے ہیں وہاں ان مسلمان ملکوں میں ملاں کا بڑا اہم کردار ہے کیونکہ عموماً لوگوں کو تو اسلام کا پتہ نہیں لیکن جماعت کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں.بلغاریہ میں بھی احمدیوں کے خلاف حکومت کا جو رویہ ہے، حکومت حالانکہ مسلمان نہیں ہے اس کی وجہ بھی یہ ملاں ہی ہے کیونکہ اگر جماعت مکمل آزادی سے تبلیغ کرتی ہے تو اسلام سے متعلق لوگوں کو بتاتی ہے.ایک حقیقی مسلمان بنا کر اسے خدا سے تعلق پیدا کرنے پر زور دیتی ہے تو یہ جو ملاں ہے یا نام نہاد دین کے لیڈر یا ٹھیکیدار ہیں ان کی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا اکثریت عوام کو تو اسلام کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے.ہر کام کے لئے انہوں نے اپنے نام نہاد مسلمان سکالروں کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے

Page 369

349 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم اور وہ اپنی مرضی کی باتیں ان کو بتاتے ہیں.حکومت نے ایک کونسل بنائی ہوئی ہے جس کو وہ کونسل سرٹیفیکیٹ دے دے یا جو ان کا لیڈر کہے کہ یہ صحیح مسلمان ہیں یا یہ صحیح مسلمانوں کی تنظیم ہے وہی اپنی ایکیٹیو یٹی (activity) اس ملک میں جاری رکھ سکتی ہے.تو بہر حال اس کے لئے تو جماعت کوشش کر رہی ہے مقدمے بھی ہوئے آئندہ دیکھیں اللہ کرے، اللہ مددفرمائے اور جماعت وہاں رجسٹر ڈ ہو جائے.بلغاریہ سے ایک بہت بڑا وفد آیا ہوا تھا جس میں کافی تعداد غیر از جماعت مسلمانوں کی بھی تھی اور کچھ ان میں غیر مسلم بھی تھے ، سب نے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ یہاں آ کر ہمیں پتہ چلا ہے کہ حقیقی اسلام کا تصور جماعت احمد یہ ہی پیش کرتی ہے.اور اب ہم واپس جا کر اپنے اپنے حلقہ میں اپنے اپنے سفر کے تاثرات بیان کریں گے تو یہ بات بھی بتا ئیں گے.بلکہ میں نے انہیں کہا کہ مُلاں کے اس غلط تصور کو دور کریں اور اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جو آپ لوگوں نے دیکھا ہے، جو محسوس کیا ہے، جو سنا ہے اسے اپنے اپنے حلقہ میں جا کر بتا ئیں اور ضرور بتائیں.بعض نے اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ بلغاریہ میں تقسیم ہونا چاہئے.لٹریچر تو بہر حال بلغارین زبان میں ہے اگر چہ کچھ پابندیاں اور کچھ شرطیں ہیں لیکن جب میں نے پتہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ فلاں فلاں لٹریچر موجود ہے تو میں نے جو یہاں کے مربی صاحب تھے ، مشنری تھے ان کو کہا کہ جو موجود لوگ ہیں ان کو فوری طور پر مہیا کر دیں.کیونکہ ان کو بھی جماعت کے بارہ میں بہت معمولی علم تھا.اللہ کرے کہ وہاں جماعت جلد تر آزادی کے ساتھ قائم ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو کامیاب فرمائے.جماعت تو وہاں ہے جیسا کہ میں نے کہا لیکن حکومت نے رجسٹریشن کینسل کر دی تھی.بلغاریہ میں جتنے بھی احمدی ہوئے ہیں، کافی بڑی تعداد ہے.اخلاص میں بڑے بڑھے ہوئے ہیں اور جذباتی رنگ رکھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ جسے بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے اس کے دل میں اخلاص و وفا بھی اتنا بھر دیتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی تائید کے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہونے کے وعدے کے اظہار ہیں.پھر جرمن احمدی مردوں اور عورتوں سے جلسے کے آخری دن ملاقات ہوئی.گزشتہ سال تو صرف عورتوں کے ساتھ ملاقات کا پروگرام ہوا تھا.اس سال امیر صاحب نے کہہ کر مردوں کے ساتھ بھی ایک پروگرام رکھا.پہلے عورتوں کی ملاقات میں ایک عورت نے کہا کہ وہ ابھی بیعت کرنا چاہتی ہے.27-28 سال کی نوجوان لڑکی تھی اور وہ کافی حد تک پہلے جماعت کے بارہ میں معلومات حاصل کر چکی تھی لیکن بیعت نہیں کر رہی تھی.اس ملاقات کے دوران ہی اس نے کہا کہ میں جلسہ سے متاثر ہوئی ہوں اور کافی عرصے سے جماعت سے رابطہ ہے جو تھوڑے بہت شکوک و شبہات تھے وہ اب دور ہو گئے ہیں.اس لئے میں آج ابھی فوری طور پر بیعت کرنا چاہتی ہوں.اسی طرح

Page 370

350 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم مردوں میں ایک دوست جو غالبا یونان کے رہنے والے تھے وہ کہنے لگے کہ میں بھی جماعت سے رابطے میں ہوں اور لٹریچر بھی پڑھا ہے اور میرے پوچھنے پر کہ کس چیز نے انہیں احمدیت کے زیادہ قریب کیا ہے.انہوں نے بتایا کہ ایک احمدی دوست نے انہیں ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ پڑھنے کو دی جس کو پڑھنے کے بعد اسلام کی مکمل تصویر اور تعلیم جو ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے تھی وہ میرے سامنے آگئی.اور بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ آج آپ سے ملاقات کے بعد میں نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے.میں نے پوچھا کہ بیعت فارم ابھی بھرنا ہے یا بعد میں.تو انہوں نے فوراً جواب دیا کہ ابھی اور اسی وقت میری بیعت لیں.چنانچہ وہاں جو جرمن اور پاکستانی لوگوں کی مجلس تھی جس میں اکثریت تو احمدیوں کی تھی بلکہ سارے احمدی تھے وہاں ان کی بیعت بھی لی.وہاں ایک نو جوان لڑکا بھی تھا جس نے بیعت میں شمولیت کی کسی پاکستانی لڑکے کا دوست تھا اور لباس وغیرہ سے احمدی لگتا تھا.شاید اس سے مانگ کے شلوار قمیص پہن کر جلسہ میں آیا تھا.میرے پاس آیا کہ میں بھی احمدی ہونا چاہتا ہوں.میں نے اسے کہا کہ تم تو شکل سے یا لباس سے کم از کم احمدی لگتے ہو.تو کہنے لگا کہ نہیں میں عیسائی ہوں.اب میں آج احمدی ہونا چاہتا ہوں.میں نے کہا بیعت تو تم کر چکے ہو.مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.لیکن میں نے اسے کہا کہ ابھی تمہاری عمر چھوٹی ہے.سولہ سترہ سال کا نوجوان تھا.تمہارے والدین تمہارے بیعت کرنے کو بُرا نہ سمجھیں.سوچ لو، دیکھ لو.بعد میں اپنے گھر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے.کہنے لگا جو بھی ہو، میں حق کی تلاش میں ہوں اور احمدیت کو اچھی طرح سے جانتا ہوں.اور آج میں نے بالکل اچھی طرح سب کچھ دیکھ لیا ہے اور میں احمدی ہوں.بیعت کے وقت بھی وہاں بڑا جذباتی ماحول تھا.وہ یونانی دوست جنہوں نے بیعت کی اور دوسرے لوگ بھی ہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے بیعت کے الفاظ دہرا رہے تھے.بہر حال ان نوجوانوں تک جو آج کل یورپ میں بسنے والے ہیں اگر صحیح رنگ میں احمدیت کا پیغام پہنچ جائے تو یہ نوجوان جوان ملکوں میں ہیں، ان میں ایک بے سکونی کی کیفیت ہے جیسا کہ میں نے جلسہ کی اپنی تقریر میں بھی ذکر کیا تھا سکون کی تلاش میں وہ ضرور احمدیت کی آغوش میں آئیں گے بشرطیکہ پیغام انہیں صحیح طور پر پہنچا ہو.پس ہمیں بھی اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ ان لوگوں کے لئے عملی نمونہ بن سکیں اور اسی طرح تبلیغ کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے تا کہ دنیا کو خدا کے قریب لا کر حقیقی سکون مہیا کرنے والے بن سکیں.ہر سعید فطرت جس کو حق کی تلاش ہے اگر اسے صحیح رنگ میں پیغام پہنچ جائے یا وہ عملی نمونہ دیکھ لے تو ضرور اس کو احمدیت کی طرف توجہ ہوگی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ؎ ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

Page 371

خطبات مسرور جلد ششم 351 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 پس یہ جو آواز ہم لگا رہے ہیں ، دے رہے ہیں یہ آواز کوئی منفرد چیز ہے جس کی طرف توجہ پھرانے کی احمدی کوشش کرتا ہے.اگر عام چیز ہو تو توجہ پیدا ہی نہیں ہو سکتی.کوئی منفرد آواز ہونی چاہئے.پس توجہ دینے کے لئے اپنی حالت کو بھی قابل توجہ بنانے کی ضرورت ہے اور یہ حالت عملی نمونہ سے پیدا ہوتی ہے.اور جب بھی ایک آواز دینے والا آواز دے تو اپنے نمونے بھی قائم کرے.اور جب نیک اور سعید فطرت کی اس طرف توجہ پیدا ہوگی تو اس کے لئے اس آواز میں شامل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہوگا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونا ہی اس کے لئے سکون کا باعث بنے گا اور انہی جذبات کا اظہار احمدیت میں شامل ہونے والا ہر نیا احمدی کرتا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا.اس سال خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے کی وجہ سے باقی جلسوں کی طرح جرمنی کے جلسہ کا بھی ایک ذرا مختلف انداز اور شان تھی.حاضری زیادہ اور اسی وجہ سے انتظامات وسیع تھے اور کارکنان نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وسیع انتظام کو خوب سنبھالا تھا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں کارکنان کی اس قدرٹر میٹنگ ہو چکی ہے کہ انتظامات کی وسعت ان میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہیں کرتی.لیکن ان مغربی ممالک میں جب انتظامات میں وسعت پیدا ہوتی ہے تو سرکاری محکمے زیادہ متوجہ ہو جاتے ہیں.سو جرمنی میں بھی یہی ہوا.ہائی جین (Hygiene) والوں کا ایک محکمہ ہے جو صفائی ستھرائی کا انتظام دیکھتا ہے.انہوں نے گزشتہ سال بھی کچھ پختی کی تھی لیکن اس دفعہ صفائی ستھرائی اور کھانے وغیرہ پر اس محکمہ کی خاص نظر تھی اور لنگر خانہ جہاں کھانا پکتا ہے اس پر چھوٹی چھوٹی بات پر اعتراض لگتے رہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان نے ہر طرح سے کوشش کر کے مطلوبہ معیار حاصل کرنے کی طرف توجہ رکھی اور کسی بڑے اعتراض کا بظاہر موقع نہیں ملا.بعد میں کیا ہوا یہ تو اب پتہ لگے گا.بہر حال اللہ کا شکر ہے کہ جلسہ خیریت سے گزر گیا اور کوئی پریشانی نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھے.گزشتہ سال دیگیں دھونے کی جس مشین کا میں نے وہاں اپنے جرمنی کے خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا.یہ تین بھائی ہیں جنہوں نے مشین بنائی تھی، پہلے دو تھے اب ان میں تیسرا شامل ہو گیا ہے، اس مشین کو مکمل آٹو میٹک بنادیا اور حیرانی والی بات یہ ہے کہ ان بھائیوں میں سے کوئی بھی انجینئر نہیں ہے.ایک شاید بیالوجی میں ڈگری کر کے اب آگے پڑھ رہا ہے دوسرا بھی کسی ایسے مضمون میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے اور تیسرا بھائی سیکنڈری سکول میں پڑھتا ہے.تو اگر لگن سچی ہو تو پڑھائی یا کسی بھی قسم کا مضمون جماعت کی خدمت میں روک نہیں بن سکتا.بہر حال اب اس مشین کو انہوں نے آٹو میٹک کر لیا اور اب آٹو میٹک اس طرح کیا ہے کہ گندی دیگ ایک بیلٹ پر رکھی جاتی ہے اور یہ بیلٹ دیگ کو مشین کے اندر خود لے جاتی ہے جہاں مکمل کمپیوٹرائزڈ نظام ہے اور اس کے تحت صابن اور گرم پانی مطلوبہ مقدار میں دیگ کے اندر پھینکا جاتا ہے، ساتھ ہی مختلف قسم کے برش مشین کے اندر اور باہر اس کو دھونے لگ جاتے ہیں بلکہ مشین میں

Page 372

خطبات مسرور جلد ششم 352 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 سکریپر (Scraper) بھی لگا ہوا ہے.اگر دیگ میں کچھ حصہ جلا ہوا ہو تو اس کو بھی بالکل صاف کر کے چمکا دیتا ہے اور دومنٹ میں دیگ دھل کر دوسری طرف سے باہر نکل آتی ہے.اب یہ لوگ قادیان کے لئے بھی وہاں کی دیگوں کے مطابق مشین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہاں کی دیگیں یہاں کی نسبت ذرا مختلف ہیں.وہ ایک تو گولائی میں ہوتی ہیں اور اندر سے کھلی اور منہ سے تنگ ہوتی ہے.اس کے مطابق بہر حال ان کو ڈیزائن کرنا پڑے گا.ان کا یہ پکا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی وہ یہ مشین بھی تیار کر دیں گے.ان بھائیوں کے نام ہیں عطاء المنان حق ، ود و الحق اور نور الحق.اللہ تعالیٰ ان تینوں بھائیوں کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کا اخلاص و وفا ہمیشہ قائم رکھے اور آئندہ بھی انہیں جماعت کی بہتر رنگ میں خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہر کامیابی ان میں مزید عاجزی پیدا کرے.بعض دفعہ تکبر بعض چیزوں سے پیدا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ہر احمدی کے دل کو جب بھی وہ اچھا کام کرے اللہ تعالیٰ ہمیشہ عاجزی میں بڑھائے.اس دفعہ خدام الاحمدیہ نے خلافت جوبلی کے حوالے سے جو سپورٹس ٹورنامنٹ کر وایا تھا وہ بھی کیونکہ وہیں مئی مارکیٹ منہائیم میں ہوا تھا جہاں جلسہ ہوتا ہے اس لئے تیاری بھی کچھ پہلے شروع ہو گئی تھی.خدام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت سے پہلے کام شروع کیا اور تمام انتظامات مکمل کئے.گویا ہر سال کی نسبت اس سال ہفتہ دس دن پہلے خدام نے وقار عمل کے لئے وقت دینا شروع کر دیا تھا.بڑی محنت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام ہر جگہ ہی کام کرتے ہیں.جرمنی میں مارکیز بھی یہ لوگ خود لگاتے ہیں اور یہ بڑا محنت طلب اور پیشہ ورانہ قسم کا کام ہے.بڑا ماہرانہ کام ہے.بعض کو جو اناڑی ہوتے ہیں اس کام میں چوٹیں بھی لگتی ہیں.لیکن ایک جوش اور جذبے سے یہ کام کرتے چلے جاتے ہیں اور بغیر کسی چوں چراں کے کئی دن لگا تار کرتے چلے جاتے ہیں.بعضوں کو تو 36 اور 48 گھنٹے کے بعد سونے کا موقعہ ملتا ہے.پھر جلسہ کے بعد وائنڈ آپ کا کام ہے، صفائی کرنا اور سب کچھ سمیٹنا اور پھر صاف بھی کرنا اور سی بھی بڑا مشکل اور ذمہ داری کا کام ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کام کرنے والوں کو جزا دے.تمام کارکنان ہی شکریہ کے مستحق ہیں.جلسہ میں شامل ہونے والے تو جلسہ میں شامل ہو کر ہن کر چلے جاتے ہیں ان کو احساس نہیں ہوتا کہ اس کے انتظامات کو معیار کے مطابق بنانے کے لئے اور پھر اس کو سمیٹ کر جگہ صاف کر کے انتظامیہ کے حوالے کرنے میں کتنی محنت اور وقت صرف ہوتا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے سپاہی ہیں جن کا آپ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کا ایک مزاج بن گیا ہے اگر کسی وجہ سے ان سے خدمت نہ لو تو یہ لوگ بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں.یہ لوگ ہیں جو خلافت سے وفا کے تعلق کی وجہ سے خلافت کی طرف سے ہر آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور ان کے مالوں اور جانوں میں بے انتہا برکت ڈالے.

Page 373

353 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم جیسا کہ UK جلسہ پر بھی غیروں کا تاثر تھا اور دنیا کے دوسرے ممالک کے جلسوں پر بھی ہوتا ہے، جرمنی میں بھی غیروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس بات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح خوش دلی سے چھوٹے سے لے کر بڑے تک جن میں 7-8 سال کے بچے بھی شامل ہیں اور 60-70 سال کے بڑے بھی ، نو جوان بھی اور مرد بھی اور عورتیں بھی.جو جو اپنی ڈیوٹیوں پر ہوتے ہیں، انتہائی خدمت کے جذبے سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور اتنی لمبی لمبی ڈیوٹیاں دینے کے باوجود کسی کے ماتھے پر بل تک نہیں آتا بلکہ ان کے چہروں سے مہمانوں کی خدمت کر کے خوشی ظاہر ہورہی ہوتی ہے.پھر شامل ہونے والوں کی آپس کی محبت اور بھائی چارے کا ماحول ہے، یہ بھی غیروں کو بہت متاثر کرتا ہے اور یہ بات ایسی ہے جو ہر احمدی کا خاصہ ہے اور ہونی چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جلسہ کی اغراض میں سے ایک بڑی غرض یہ بھی تھی کہ آپس میں محبت اور پیار پیدا ہو.یہ بات جلسہ دیکھنے جو غیر آتے ہیں ان کو بہت متاثر کرتی ہے.جس کا کئی غیروں نے جرمنی میں میرے سامنے بھی اظہار کیا کہ اتنا مجمع ہے اور ہمیں پولیس کہیں نظر نہیں آتی اور آرام سے سارے کام ہو رہے ہیں.اب ان کو کوئی کس طرح بتائے کہ یہی تو وہ پاک انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے اندر پیدا فرمایا.تم بھی اگر اس جماعت میں شامل ہو جاؤ تو تمہاری بھی یہی حالت اور کیفیت ہو جائے گی کیونکہ اس حالت کے پیدا کرنے کے لئے ایک تسلسل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری تربیت فرمائی اور توجہ دلاتے رہے اور اس کے بعد خلافت توجہ دلاتی رہی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے.جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا ہے یہ اصلاح نہیں ہوتی.زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں.اسی لئے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 262 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے ہماری تربیت کرتے ہوئے فرمایا: ” پس یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے.پھر آپ نے فرمایا: ” قرآن شریف میں آیا ہے تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَی کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ.کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی، جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ان کی پردہ پوشی کی جاوے.صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے.اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت اور ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے دیکھو وہ جماعت، جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے“.

Page 374

354 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا: ” جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے.پردہ پوشی کی جاوے.جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں.یعنی اعضاء بن جاتے ہیں اور پنے تیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں“.پھر آپ نے فرمایا: ” اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے.پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر، غریب، بچے، جوان، بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں.پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں اور ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 265-263 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہے وہ تعلیم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں ایک تسلسل سے دی اور یہی وجہ ہے کہ یہ تعلیم آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جارہی ہے اور ہماری اصلاح بھی ہوتی ہے.پس جو ایسی تعلیم کے ماننے والے ہوں وہی ہیں جو ایک دوسرے سے محبت اور پیار سے پیش آتے ہیں اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب خدا تعالیٰ کی خاطر جمع ہوئے ہوں.پس ان باتوں کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے تا کہ اخلاق کے معیار بلند ہوتے چلے جائیں اور ہم غیروں کی توجہ جذب کرنے والے بہنیں اور یہی چیز ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنے گی.اس دفعہ عورتوں کے جلسہ گاہ سے بھی عمومی رپورٹ اچھی تھی اور گزشتہ سال جو ان سے شکوہ پیدا ہوا تھا اس کو انہوں نے بڑے اخلاص و وفا سے دھویا.عورتوں کو اس پابندی کی وجہ سے جوئیں نے ان پر لگائی تھی استغفار کا بھی بڑا موقع ملا اور اس دوران جو دردناک قسم کے خط وہ معافی کے لئے مجھے لکھتی رہیں وہ یقینا ان کے دل کی آواز تھے.کیونکہ اس دفعہ عمومی طور پر اکثریت کا جو عمل تھا اُس نے اُسے ثابت بھی کر دیا.پس یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور حمد کی طرف توجہ پھیرتی ہے کہ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی پیاری جماعت عطا فرمائی ہے جو خلافت کی آواز پر اس طرح اٹھتی اور بیٹھتی ہے اور اس طرح لبیک کہتی ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے جس کے قبضہ قدرت میں ہر دل ہے کوئی یہ حالت اور کیفیت مومنوں میں پیدا نہیں کرسکتا، کسی کے دل میں پیدا نہیں کر سکتا.پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہی جماعت وہ کچی جماعت ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے اور جس نے اس زمانہ میں اسلام کی صحیح تعلیم کو دنیا میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے.جلسہ کے آخری دن عورتوں اور مردوں میں جو جذبات کا اظہار ہوا تھا وہ بھی پہلے سے بڑھ کر تھا اور بڑا جوش تھا.مجھے وہاں کسی احمدی نے کہا کہ اس دفعہ کا تعلق مجھے کچھ اور طرح سے نظر آ رہا ہے اور واقعی اس کی یہ بات ٹھیک

Page 375

355 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم تھی.ایک جرمن احمدی سے میں نے پوچھا کہ اس دفعہ گزشتہ جلسوں کی نسبت تمہیں کوئی فرق محسوس ہوا ہے؟ تو فوری رد عمل اس کا یہ تھا اور اس کا جواب تھا کہ منصب خلافت کا فہم وادراک اور ایک خاص تعلق زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے.یہ عمومی طور پر ہر جگہ نظر آتا ہے اور کہنے لگا کہ میں خود بھی یہ محسوس کرتا ہوں.خلافت جو بلی کی تیاریوں ، مضامین ، جن کی تیاری کے لئے خلافت کے مضمون کو بہت سارے لوگوں کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کا موقع ملا اور پھر اس حوالے سے مختلف تربیتی فنکشنز بھی ہوئے تو ان سب باتوں نے اس طرف خاص توجہ اور تبدیلی پیدا کی ہے.اللہ تعالیٰ اسے بڑھا تا ر ہے اور ہر احمدی وہ مقام حاصل کرے جو نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے کا مقام ہے، جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت سے توقع کی ہے اور جس کی طرف توجہ دلانے کی خلافت احمد یہ ہمیشہ کوشش کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسالہ الوصیت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں“.(رساله الوصیت ، روحانی خزائن جلد 20 صفحه (307) پس یہ تقویٰ کا معیار حاصل کرنے کے لئے جو بھی کوشش کرتا رہے گا وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام پائے گا، اس کے انعامات سے حصہ لینے والا ہوگا.اس دفعہ جرمنی میں خلافت کے حوالے سے ایک تصویری نمائش کا بھی انہوں نے اہتمام کیا.وہ بھی ان کی اچھی کوشش تھی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر جرمنی کا جلسہ سالانہ بھی خاص برکات لئے ہوئے تھا.اللہ تعالیٰ تمام کام کرنے والے کارکنان اور کارکنات کو جزا دے.ان سب کو اخلاص و وفا اور ایمان میں بڑھائے اور وہ تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں اور اپنے مقصد کو سمجھنے والے ہوں.اس کے بعد میں آج کل کے بعض حالات کی وجہ سے ایک دعا کی درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں.آج کل ہندوستان کے بعض علاقوں میں احمدیت کی مخالفت نے بڑا زور پکڑا ہوا ہے.خلافت جو بلی کے حوالے سے حیدرآباد دکن انڈیا میں جو ہمارے جلسے ہورہے تھے ان میں مخالفین نے بڑا شور مچایا.تیاریوں کے ابتدائی مراحل میں جلوس اور توڑ پھوڑ کی.آخر انتظامیہ بے بس ہوگئی اور بعض جگہ جلسے نہیں ہو سکے.اور پھر گزشتہ دنوں سہارنپور میں احمدیوں کے گھروں پر حملے کئے گئے ، احمدیوں کو مارا گیا، سامان کی توڑ پھوڑ کی گئی ، گھروں کو نقصان پہنچایا گیا.آگ لگانے کی کوشش کی گئی اور یہ سب کام کوئی اور نہیں کر رہا، یہ نہیں کہ ہندو اکثریت کا علاقہ ہے تو ہندو ہی ظلم کر رہے ہوں بلکہ خدا اور اسلام کے نام پر یہ ظلم یہ نام نہاد مسلمان کر رہے ہیں اور

Page 376

356 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم یہاں بھی ملاں ہی ہے جو اس کو ہوا دے رہا ہے.مقامی لوگ شامل نہیں ہوتے.باہر سے ملاں آ جاتے ہیں.بعض احمدیوں کو جیسا کہ میں نے کہا بڑی بری طرح مارا پیٹا گیا.زخمی ہیں.ہسپتال میں پڑے ہیں اور یہ سب نو مبائعین ہیں.زیادہ پرانے احمدی بھی نہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام کے تمام مضبوط ایمان والے ہیں.اس بات پر قائم ہیں کہ جس مسیح و مہدی کو ہم نے قبول کیا ہے وہ وہی ہے جس کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی.یہ تمام احمدی اس وقت تو وہاں سے نکال لئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہیں.قادیان میں ہیں اور کچھ ہسپتال میں داخل ہیں لیکن ان کے گھروں اور مالوں کو بہت نقصان پہنچا ہے.ظالموں نے تو یہ ظلم اس لئے کیا تھا کہ نئے احمدی ہیں خوفزدہ ہو کر احمدیت چھوڑ دیں گے لیکن اس ظلم کی وجہ سے اگر کسی گھر میں باپ احمدی ہے اور باقی گھر والے نہیں تو اپنے باپ پر ظلم دیکھ کر اور اس کے ایمان میں اس ظلم کی وجہ سے مزید پختگی دیکھ کر جو باقی گھر والے تھے، جو بالغ اولاد تھی انہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ ہم احمدی ہیں.اس شہر میں آٹھ دس گھر احمدی تھے اور اس مار دھاڑ کی وجہ سے تو دس پندرہ اور بیعتیں ہو گئیں.ان ملانوں کا کیونکہ اپنا ایمان سطحی ہے بلکہ دکھاوے کا ہے اس لئے احمدیوں کو بھی وہ اسی نظر سے دیکھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اب احمدیت قبول کرنے کے بعد وہی لوگ جو ان میں سے آئے ہیں لیکن نیک فطرت اور سعید فطرت تھے ان کی حالتوں میں کیا انقلاب برپا ہو چکا ہے.اسی طرح ہندوستان کے بعض اور علاقے ہیں جہاں مسلم اکثریت ہے، وہاں بھی احمدیوں پر ظلم کی خبریں آ رہی ہیں.اسی طرح آج کل پاکستان میں بھی نئے سرے سے احمدیوں کے خلاف فسادوں میں سرگرمی نظر آ رہی ہے.لاہور میں ہمارے ایک سنٹر میں پولیس نے کلمہ طیبہ اتارا ہے.اسی طرح گری میں گزشتہ دنوں ہماری مسجد میں پتھراؤ کیا گیا، نقصان پہنچایا گیا.اسی طرح احمدیوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا گیا.اور ساری تکلیف ان کو یہ ہے کہ تمام تر مخالفت کے باوجود جماعت کے قدم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں.ہر جگہ خلافت جو بلی کے حوالے سے جلسے اور پروگرام ہو رہے ہیں اور اس چیز نے ان کو بڑی تکلیف دی ہے اور ان کے خیال میں کہ ہم اپنے اپنے اختلافات میں بڑھ رہے ہیں اور احمدی اپنی ترقیات میں بڑھ رہے ہیں.کسی نے مجھے بتایا کہ گزشتہ دنوں جب خلافت جو بلی کے حوالے سے لاہور میں پروگرام ہو رہے تھے تو جماعت اسلامی کے ایک سیاسی لیڈر نے کہا کہ ان کے پروگرام نہیں ہونے دینے چاہئیں.اگر ان لوگوں نے خلافت جو بلی منالی تو پھر یہ لوگ تو آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور ہماری حیثیت گلی کے گنوں کی طرح ہو جائے گی.اب ہم نے تو ان کو گالی نہیں دی یہ تو اپنی حیثیت کا خوداظہار کر رہے ہیں کہ کیا ہو جائے گی.

Page 377

357 خطبه جمعه فرموده 29 اگست 2008 خطبات مسرور جلد ششم بہر حال ان مخالفین پر یہ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے کہ جماعت احمدیہ کے قدم آگے بڑھنے ہی بڑھنے ہیں.اور انہیں کوئی روک نہیں سکتا انشاء اللہ تعالیٰ تمہاری کیا حیثیت ہونی ہے؟ یہ تم اپنی ظاہری حالت دیکھ کر خود جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس نے کیا حیثیت کرنی ہے.تو ان مظلوم احمدیوں کے لئے بھی خاص طور پر دعا کریں.اللہ تعالیٰ ظلم کے خاتمے کے دن جلد تر لائے اور قریب لائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے“.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) پس احمدیوں کا تو اس بات پر ایمان اور مضبوط ہوتا ہے.ہمارے مخالفین بھی سن لیں کہ جب یہ نازک پودا تھا.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی اور کوئی حملہ بھی کامیاب نہیں ہونے دیا.آج اس پودے نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے درخت کی شکل اختیار کر لی ہے اور آج بھی یہ درخت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے ہی اس کی حفاظت کرنی ہے.ان ابتلاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے بھی جماعت کامیاب گزری ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گزارے گا.لیکن تم لوگ یا درکھو کہ تمہارے نشان مٹا دیئے جائیں گے.اس لئے ہوش کرو اور اپنی تباہی اور بربادی کو آواز نہ دو.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اور سمجھ دے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 38 مورخہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 378

خطبات مسرور جلد ششم 358 (36) خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2008ء بمطابق 05 رتبوک 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ أَيَّامًا معْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ اُخَرَ يُرِيْدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى مَا هَدَكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.( البقره :187.184) جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ ہے: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.گنتی کے چند دن ہیں.پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے.اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے.پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لئے بہت اچھا ہے اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے لیام میں ہو گا.اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گفتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو.اور جب

Page 379

359 خطبات مسرور جلد ششم خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والوں کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.آج کل ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان میں سے گزر رہے ہیں اور یہ مہینہ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، روزوں کا مہینہ ہے اور جیسا کہ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان سے واضح ہے کہ یہ روزے بغیر کسی مقصد کے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے تقویٰ میں ترقی ، ان کی روحانیت میں اضافہ، انہیں اپنے قرب سے نواز نے اور انہیں دعاؤں کی قبولیت کے طریق اور حقیقت بتانے کے لئے ایک تربیتی کورس کے طور پر یہ روزے فرض فرمائے ہیں.پہلی آیت جومیں نے تلاوت کی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزے اس لئے فرض ہیں تا کہ تم تقویٰ اختیار کر و یعنی ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤ.ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے.(جامع ترمندی.باب ما جاء فی فضل الصوم حدیث نمبر 764) پس جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے روزے کو اپنی ڈھال بناؤ گے تو خدا تعالیٰ خود تمہاری ڈھال بن جائے گا.اور نہ صرف بڑے بڑے گناہوں سے بچائے گا بلکہ ہر قسم کے چھوٹے گناہوں سے اور چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے بھی بچائے گا.ہر شر سے بھی بچو گے اور نیکیاں کرنے کی توفیق بھی پاؤ گے.لیکن شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان تمام شرائط کا بھی پابند رکھو جو روزے کے ساتھ وابستہ ہیں.اس کے بارہ میں یہ حکم ہے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھ، زبان ، ہاتھ اور ہر عضو بھی روزہ رکھے.یعنی ڈھال فائدہ مند بھی ہوگی جب اس کا استعمال بھی آتا ہو گا.صرف روزہ رکھنا ، تقوی کے معیار حاصل نہیں کروا دے گا بلکہ اس کے لئے اپنے آپ کی تربیت بھی کرنی ہو گی، اپنے آپ کو ڈھالنا ہو گا، اپنے آپ کو ڈسپلنڈ (Disciplined) کرنا ہوگا، ان شرائط کا پابند کرنا ہو گا جو خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں.جیسا کہ انگلی دو آیات سے بھی ظاہر ہے کہ مریض یا مسافر ہونے کی حالت میں روزہ جائز نہیں ہے بلکہ ایسی حالت میں روزہ نہ رکھنے اور دوسرے دنوں میں پورا کرنے کا حکم ہے.کیونکہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے میں ہے نہ کہ فاقہ کرنے میں.پھر قرآن کریم کا پڑھنا، اس کے احکامات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور بے شمار احکامات ہیں جو قرآن کریم میں درج ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکام الہی کی تفصیل موجود ہے اور کئی سو شاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں.پس تقویٰ کا حصول اس ڈھال

Page 380

خطبات مسرور جلد ششم 360 خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 کے پیچھے آنا ہے جو روزے کی ڈھال ہے اور جو دراصل خدا تعالیٰ کی ڈھال ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ روزے کی جزا میں خود ہوں.یہ حدیث قدسی ہے یعنی وہ حدیث جو آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بیان فرمائی ہے.پس اس ڈھال کا فائدہ تبھی ہو گا جب روزہ میں نفس کا مکمل محاسبہ کرتے ہوئے کانوں کو بھی لغو اور بری باتوں سے انسان محفوظ رکھے.ہر ایسی مجلس سے اپنے آپ کو بچائے جہاں دین کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا ہو رہا ہو، دین کی باتوں کا مذاق اڑایا جارہا ہو.جہاں ایسی مجالس ہوں جن میں دوسروں کی ، اپنے بھائیوں کی چغلیاں اور بدخوئیاں ہو رہی ہوں.اپنی آنکھ کو ہر ایسی چیز کے دیکھنے سے محفوظ رکھے جس سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.مثلاً مر دوں کو نفض بصر کا حکم ہے.یعنی عورتوں کو نہ دیکھنے کا حکم ہے.عورتوں کو مردوں کو نہ دیکھنے کا حکم ہے.فضول اور لغو فلمیں جو آج کل وقت گزاری کے لئے دیکھی جاتی ہیں ان سے بچنے کا حکم ہے.ان دنوں میں یعنی روزے کے دنوں میں رمضان کے مہینے میں یہ عادت پڑے گی تو امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ زندگی میں بھی روزوں سے فیض پانے والے ان چیزوں سے بھی بچتے رہیں گے.پھر زبان کا روزہ ہے.زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے کسی کو بُرے الفاظ نہ کہو.کسی کو دکھ نہ دو تبھی تو دوسری جگہ ایک حدیث میں یہ حکم بھی ہے کہ اگر تمہیں روزے کی حالت میں کوئی برا بھلا کہے یا سخت الفاظ سے مخاطب ہو یا لڑائی کرنے کی کوشش کرے تو اِنِّی صَائِم کہہ کے چپ ہو جاؤ اور جواب نہ دو.( بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذاشتم حدیث 1904) یعنی میں تو روزہ دار ہوں، تم جو بھی کہو، میں تو کیونکہ اس تربیتی کورس میں سے گزر رہا ہوں جہاں ہر عضو کا روزہ ہے اور میں تمہیں جواب دے کر اپنا روزہ مکروہ نہیں کرنا چاہتا.اسی طرح ہاتھ کا روزہ ہے ، کوئی غلط کام ہاتھ سے نہ کرو.تقویٰ تو یہ ہے کہ کسی دوسرے کے لئے بھی کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہو، یا غلط کام ہو، یا اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے غلط کہا ہو.اب اگر کوئی سور نہ بھی کھا تا ہو لیکن دوسرے کو کھلاتا ہے تو یہ نافرمانی ہے اور غلط کام ہے.شراب نہیں بھی پیتا لیکن دوسرے کو پلاتا ہے تو یہ بھی گناہ ہے.آنحضرت ﷺ نے تو پلانے والے پر بھی لعنت بھیجی ہے.پس روزہ ڈھال اُس وقت بنے گا، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والا انسان اس وقت ہوگا ، جب ان پابندیوں کو بھی اپنے اوپر لاگو کرے گا جو خدا تعالیٰ نے ایک مومن پر روزہ کی حالت میں لگائی ہیں.وہ ٹریننگ حاصل کرے گا جس کی وجہ سے ڈھال کا صحیح استعمال آئے گا.ور نہ روزہ رکھنا تو کوئی فائدہ نہیں دیتا.یہ تو خود کو بھی دھوکہ دینے والی بات ہوگی اور خدا تعالیٰ کو بھی.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمام لوازمات کے ساتھ روزہ نہیں رکھا جاتا ، تمام ان پابندیوں کا خیال نہیں

Page 381

خطبات مسرور جلد ششم 361 خطبه جمعه فرموده 5 ستمبر 2008 رکھا جاتا جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور تمام اُن باتوں کو نہیں کیا جاتا جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے تو تمہارے بھوکا رہنے کی خدا تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ہے.( بخاری کتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم حدیث (1903) پس ہم نے ان دنوں میں یہ ٹریننگ لینی ہے کہ اپنے آپ کو ان پابندیوں میں جکڑنا ہے اس لئے تا کہ خدا تعالیٰ پھر ہمیں تمام اوامر ونواہی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.تا کہ ہمارے ان اعمال سے وہ راضی ہو جن کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اور وہ ہمیشہ ہماری ڈھال بن کر رہے اور جس طرح دشمن کے ہر حملے سے اپنے خاص بندوں کو محفوظ رکھتا ہے، ہمیں بھی بچائے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ جو رمضان کا مہینہ ہے، جو روزہ رکھنے کے دن ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ ان دنوں میں میری خاطر ، میری رضا کے حصول کی خاطر ، صرف ناجائز چیزوں سے ہی نہیں بچنا بلکہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ کو تو ایک خاص کوشش سے معمولی سے بھی ناجائز کام سے بچا کر رکھنا ہے.اس کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک مجاہدہ تو کرنا ہی ہے لیکن جائز چیزوں سے بھی بچنا ہے.ایک ایسا جہاد کرنا ہے جس سے تمہارے اندر صبر اور برداشت پیدا ہو اور ڈسپلن پیدا ہو.پھر یہ مجاہدہ ایسا ہوگا جو تمہاری روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کا ذریعہ بنے گا.اللہ کا قرب دلانے کا ذریعہ بنے گا، دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنے گا.یہ جو آخری آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے روزوں کے احکامات کے ساتھ ان کے بعد بیان فرمایا ہے بلکہ اس آیت کے بعد بھی روزہ سے متعلقہ احکام ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے روزوں کے احکامات اور ان کی تفصیلات کے ساتھ اس آخری آیت میں جو میں نے تلاوت کی انّی قَرِيْب کا اعلان فرمایا اور یہ اعلان فرمانا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ میری طرف آنے کے لئے جب تم رمضان کے مہینہ سے فیض اٹھانے کی کوشش کرو گے تو سن لو کہ یہ عبادت ایسی ہے جس کی جزا میں ہوں، اور جزا دینے کے لئے میں تمہارے بالکل قریب آچکا ہوں.پس اگر میرے بندے میری اس بات پر عمل کرتے ہوئے جو کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العکبوت : 70) یعنی اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لئے مجاہدہ کرتے ہیں، ہم ضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.اور اللہ تعالیٰ نہ صرف آنے کی توفیق بخشتا ہے بلکہ ایسے آنے والے کو پکڑنے کے لئے خود بھی اس کے قریب ہو جاتا ہے جو اس کے راستے میں جہاد کر رہا ہو اور روزہ جس کی جزا خدا تعالیٰ خود ہے اس کا مجاہدہ کرنے والے کے بارے میں تو خدا تعالیٰ نے اِنِّی قَرِیب کہہ کر خود ہی قریب ہونے کا اعلان فرما دیا.

Page 382

خطبات مسرور جلد ششم 362 خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 ایک دفعہ ہر بات سے بے پرواہ ایک عورت ادھر سے اُدھر بھا گئی پھر رہی تھی اور جو بچہ دیکھتی تھی اسے اپنے سینے سے لگا لیتی تھی اور پیار کر کے اس کو دیکھ کر چھوڑ دیتی تھی.آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ اُس عورت کا یہ عمل دیکھ رہے تھے وہ عورت اپنے گمشدہ بچے کی تلاش میں تھی.آخر جب اسے بچہ مل گیا تو سینے سے لگا کر وہیں پر بیٹھ گئی اور پیار کرنے لگی اور ایک سکون اس کے چہرے پر تھا.آنحضرت ﷺ نے اسے دیکھ کر اپنے صحابہ سے فرمایا کہ جس طرح یہ عورت بے چینی سے اپنے بچے کی تلاش کر رہی تھی اور تمام قسم کے خطرات سے لا پرواہ ہو کر اس کی تلاش میں تھی کیونکہ وہ جگہ میدان جنگ تھی اور پھر جب بچہ مل گیا تو پر سکون ہو کر اسے لاڈ کرنے لگ گئی اور وہیں بیٹھ گئی ، اور خوشی سے بے حال ہوئی جا رہی تھی.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی طرف آنے اور نیکیوں کی راہ اختیار کرنے سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا یہ ماں خوش ہو رہی ہے.پس جب ایسا پیار کرنے والا ہمارا خدا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اُس کی طرف آنے کے لئے اس کے احکامات پر عمل نہ کریں.ایک ماں تو ایک بچے کی چند عارضی ضروریات کا خیال رکھنے والی ہے اور وہ بھی اپنے محدود وسائل کے لحاظ سے.ہمارا خدا جورب العالمین ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جو تمام کائنات کا مالک ہے، جو لا محد و دخزانوں اور طاقتوں کا مالک ہے، وہ جب اپنے بندے سے خوش ہو کر اسے اپنے ساتھ چھٹاتا ہے تو پھر وہ کیا کچھ نہیں کر سکتا یا نہیں کرتا.پس یہ روزے اس کا قرب پانے کا ذریعہ ہیں اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ ہیں.پس ان دنوں میں ہمارا کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر چلا چلا کر، گڑ گڑا کر اپنے رب کو پکاریں.لیکن یہ ہمیشہ یادرکھیں کہ صرف اپنے ذاتی مفاد اور مقاصد کے لئے بوقت ضرورت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اسے نہیں پکارنا بلکہ اپنی پکار میں اس کی رضا کو شامل رکھنا ہے.اور اس کی رضا کیا ہے؟ فرماتا ہے فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِنی.پس چاہئے کہ وہ میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، اللہ تعالی کی بات پر لبیک کہنا اس کے احکامات پر عمل کرنا ہے.جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اور ایمان لانا، ایمان میں ترقی کرنا ہے.مومن کا ہر قدم ترقی کی طرف بڑھنا چاہئے.ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ ( النساء: 137) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ.پس صرف منہ سے ایمان لانا، یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لائے کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارا اللہ اور رسول پر ایمان بڑھتا چلا جائے.ہر روز ترقی کی طرف قدم اٹھتا چلا جائے.اور جب یہ صورت ہو گی تب ہی کامل ایمان کی طرف بڑھنے والا ایک مومن کہلا سکتا ہے اور اس کے لئے مسلسل مجاہدے کی ضرورت ہے اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے عبادتوں کا بھی حکم دیا ہے تا کہ یہ مجاہدہ جاری رہے اور تقویٰ

Page 383

363 خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم میں ترقی ہوتی رہے.اور ہر سال روزہ بھی، رمضان کا مہینہ بھی اس مجاہدے اور ایمان میں ترقی کی ایک کڑی ہے.پس ان دنوں میں ہر مومن کو اس سے بھر پور فیض اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا جائزہ لینے کے لئے کہ ایمان میں ترقی ہے اور ایمان میں ترقی کا معیار دیکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نشانی بتائی کہ اگر خالص ہو کر میرے حضور آؤ گے ، روزے بھی میری خاطر ہوں گے، کوئی دنیا کی ملونی اس عبادت میں نہیں ہوگی ، خالص میری رضا کا حصول ہوگا تو فرمایا أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے اور یہ پکار اسی وقت سنی جائے گی جب ایمان میں ترقی کی طرف کوشش ہو گی.ترقی کی طرف قدم بڑھیں گے گویا دعاؤں کی قبولیت اس وقت ہوگی جب ایمان میں ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہوں گے اور ایمان میں ترقی اس وقت ہوگی جب خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور اس کی عبادت کرنے کی کوشش ہو رہی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے، پس میں بہت ہی قریب ہوں.میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے.بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں.پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکار واور مجھ سے مانگو، میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا.اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دُور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے.وہ شخص تمہاری آواز سن کر تم کو جواب دے گا، مگر جب وہ دُور سے جواب دے گا تو تم باعث بہرہ پن کے سن نہیں سکو گے.پس جوں جوں تمہارے درمیانی پر دے اور حجاب اور ڈوری دُور ہوتی جاوے گی تو تم ضرور آواز کو سنو گے.جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی کوئی ہستی ہے بھی؟ پس خدا کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبر دست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں.یا دیدار یا گفتار.یاد یکھ لیں یا بات کر لیں.پس آج کل کا گفتار قائمقام ہے دیدار کا.ہاں جب تک خدا کے اور اس کے سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے.جب درمیانی پردہ اٹھ جاوے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی“.(الحکم - جلد 8 نمبر 38-39 مورخہ 10-17 نومبر 1904 صفحہ 7-6 - بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحه 650) پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ یہ درمیانی پر دے اور حجاب ہٹانے کی کوشش کریں.اس کے قریب تر آنے کی کوشش کریں.یہ نہ ہو کہ رمضان میں تو قریب آنے کی کوشش ہو اور پھر اس کے بعد فاصلے اتنے بڑھ جائیں کہ وہ پر دے اور حجاب پھر راستے میں حائل ہو جائیں اور اگلے سال پھر نئے سرے سے مجاہدے کی کوشش ہو.

Page 384

364 خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے یہ پردے اٹھانے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے تا کہ قبولیت دعا کے نظارے ہمیشہ دیکھتے چلے جائیں اور اس کے لئے وہ دعا سب سے اہم ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے اور ان میں سب سے اول دعا اس کے دین کے غلبہ کی دعا ہے.انسانیت کو خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنانے کے لئے دعا ہے.آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے کی دعا ہے.یہ دعائیں ایسی ہیں جو یقیناً خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والی دعائیں ہیں اور جب ایک مومن خدا تعالیٰ کے دین کا درد رکھتے ہوئے اس کے لئے دعائیں کر رہا ہو تو خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اپنے بندے کی ذاتی ضروریات کا بھی خیال رکھتا ہے اور خود پوری فرماتا ہے.پس آج کل یہ دعائیں ہر احمدی کو بہت زیادہ کرنی چاہئیں جو اس کے دین کے غلبہ کی دعائیں ہوں، جو جماعت کے ہر فرد کے ایمان پر قائم رہنے کی دعا ہو.آج رمضان کا پہلا جمعہ ہے.یہ دن بھی بابرکت ہے اور یہ مہینہ بھی بابرکت ہے.یعنی قبولیت دعا کے دو موقعے جمع ہو گئے ہیں.خدا تعالیٰ کو پکارنے کے دو موقعے میسر آ گئے ہیں.حدیث میں ہے کہ جمعہ کے دن ، جمعہ کے وقت ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہوتی ہے.(مسلم کتاب الجمعة باب في الساعة التي في يوم الجمعة حدیث نمبر 1854) پھر یہ بھی آتا ہے کہ عصر سے مغرب تک ایسا وقت ہوتا ہے، کوئی وقت ایسا آتا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے.پس آج کے دن اس برکت سے بھی فائدہ اٹھانے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.عصر سے مغرب تک نوافل کا تو وقت نہیں ہوتا لیکن ذکر الہی ہے، اور دوسری دعائیں ہیں جو انسان کر سکتا ہے.مسنون دعائیں ہیں یا اپنی زبان میں دعائیں ہیں، یہ مانگنی چاہئیں تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور ہم قبولیت دعا کے نظارے دیکھ سکیں.آج کل جماعت کو بھی مختلف جگہوں پر جو حالات پیش آرہے ہیں، اس حوالے سے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو ہمیں ہر قسم کی مشکلات سے نکالے گا اور خدا تعالیٰ کا قرب عطا فرمائے گا اور قبولیت دعا کے نظارے ہم دیکھیں گے.انشاءاللہ.پس اللہ تعالیٰ کے حضور خاص طور پر اور التزام سے یہ دعا کریں کہ وہ اسلام اور احمدیت کی فتح کے سامان ہماری زندگیوں میں پیدا فرمائے.ہم بہت کمزور ہیں، ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے.ہماری غفلتوں کی پردہ پوشی فرمائے.ہمیں اپنے قرب کے راستے دکھائے.ہمارے لئے اپنی رضا کا حصول ہمارا مقصود بنادے اور یہ مقصد ہم حاصل کرنے والے بھی ہوں.ہم بہت کمزور ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ کہ رعب سے تیری مدد کی گئی، سے ہم بھی حصہ لینے والے ہوں تا کہ دشمن پر مسیح موعود کے رعب کے نظارے ہم ہر وقت دیکھتے رہیں.

Page 385

365 خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ آپ کی ذات سے ہنسی ٹھٹھا کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا.اور آپ کو الہاما فرمایا کہ إِنَّا كَفَّيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِنِيْنَ کہ جو لوگ تجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں ہم ان کے لئے کافی ہیں.ہم ہمیشہ دیکھتے رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دشمنوں نے جو بھی مذاق اڑانے یا ٹھٹھا کرنے کی کوشش کی تو دشمن کا جو انجام ہوا اس کے نظارے ہم نے دیکھے بھی اور سنے بھی.لیکن ہمیں یہ فکر ہونی چاہئے کہ ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے وعدے کے پورے ہونے کے دن کہیں آگے نہ چلے جائیں.ہماری کمزوریاں دشمن کو استہزاء کا موقع نہ دیں.اللہ تعالیٰ ہماری پردہ پوشی فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ہمیں اپنے جلال اور عظمت کے نظارے دکھائے.آنحضرت ﷺ کی عظمت و عزت کو ہم جو مسیح محمدی کے غلام ہیں، ہمیں حقیقی غلاموں کا نمونہ بناتے ہوئے ہماری زندگیوں میں دنیا کے ہر شہر اور ہر گلی میں قائم ہوتا ہوا دکھائے.ہماری کمزوریاں ، ہماری کوتاہیاں، ہماری ستیاں کبھی ہمیں خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دُور نہ کر دیں.اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے ہمارے کمزور جسموں کو وہ طاقت عطا فرمائے جس سے ہم اس کے دین کی عظمت کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہیں.اللہ تعالیٰ اپنی محبت ہمارے دلوں میں اس طرح قائم فرما دے جس طرح اللہ اور اس کا رسول چاہتے ہیں اور جس کے لئے آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ.اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِى وَمَالِي وَأَهْلِيْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ - (جامع ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر (3490) اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرے اور ایسا عمل جو تیری محبت کے حصول کا ذریعہ بنے.اے اللہ !میرے دل میں اپنی محبت پیدا کر دے جو میرے اپنے نفس سے زیادہ ہو، میرے مال سے زیادہ ہو، میرے اہل وعیال سے زیادہ ہو، اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو.پس یہ محبت ہے جو ہمارے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنادے گی.اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر عمل کرنے والے ہوں گے.اللہ کرے کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے دبانے والے ہوں.مال سے محبت ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادتوں اور اس کی محبت سے کبھی غافل نہ کرے.بیوی بچوں، عزیز رشتہ داروں کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہمیں کبھی غافل نہ کرے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (المنافقون: 10) یعنی تمہارے مال اور تمہاری اولا دیں تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں.اور آخرین کے زمانے میں یہ زیادہ ہونا تھا.پھر دنیا کے لالچ مال کے لالچ کے نئے نئے طریقے ایجاد ہو جانے تھے.پس اس زمانہ میں ان چیزوں سے بچنا

Page 386

خطبات مسرور جلد ششم 366 خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کرنا ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کا خاص قرب دلاتی ہے.پھر اس دعا میں ٹھنڈے پانی کی مثال دی.ایک پیا سا جس کو پانی کی تلاش ہو اور کہیں پانی میسر نہ ہو.یہاں تک حالت پہنچ جائے کہ ششی کی کیفیت ہونے لگے.اس وقت وہ پانی کے ایک گھونٹ کے لئے بھی اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے.لیکن ایک حقیقی مومن کو آنحضرت ﷺ نے یہ دعا سکھائی کہ اُس وقت جو تمہیں پانی کا ایک گھونٹ میسر آ جائے ، وہ تم جتنی بڑی نعمت سمجھتے ہو.جو ٹھنڈے پانی کا ایک گھونٹ تمہیں نعمت لگتا ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت اس سے زیادہ تمہارے دل میں قائم ہونی چاہئے.آپ خود یہ دعا مانگا کرتے تھے.آپ نے یہ دعائیں مانگ کر اپنا اُسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا اور نہ صرف دعائیں کیں بلکہ عمل سے بھی اُسوہ قائم فرمایا.پس ان دنوں میں دین کی سر بلندی کے لئے ، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے غلبہ کے لئے ، آنحضرت ﷺ کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے خالص ہو کر دعائیں مانگیں اور ساتھ ہی جب ہم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے دعائیں مانگیں گے تو یہ باتیں ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب تر لانے والی ہوں گی.ہمیں تقویٰ میں بڑھانے والی ہوں گی.اگر اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک اس مقصد کو حاصل کرلے.اللہ تعالیٰ کا قرب اور پیار حاصل کرلے.تقویٰ میں ترقی کرنے والا بن جائے تو انی قریب کی آواز سنے والا بھی بن جائے گا اور اُحِیبُ دَعْوَةَ الدعِ إِذَا دَعَانِ کے نظارے بھی دیکھنے والا بن جائے گا.کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ یعنی تا کہ وہ ہدایت پا جائیں کہہ کر اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ جب نیک اعمال ہوں گے ایمان میں ترقی ہوگی ، دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوگی تو وہ مومن ہدایت یافتہ ہو جائے گا اور ہدایت یافتہ کے لئے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ ایسے خالص مومن کی پکار کا جواب دیتا ہے.پس اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے درخت وجود کی سرسبز شاخو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں.اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو، اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بہت سنتا ہوں ، تمہیں خدا تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو.یہ رمضان جو خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا رمضان ہے، خدا تعالیٰ کے حضور اپنے سجدوں اور دعاؤں سے نئے راستے متعین کرنے والا رمضان بنا دو.اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا رمضان بنا دو.اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں.اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے.

Page 387

367 خطبہ جمعہ فرموده 5 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم خدا تعالیٰ جو ان دنوں میں ساتویں آسمان سے نیچے اترا ہوتا ہے.ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آغوش میں لے لے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لیں.اے اللہ تو ایسا ہی کر.آمین یہ جو شہادتیں ہوئی ہیں اور جس اذیت کے دور سے بعض جگہ جماعت گزر رہی ہے اس کے پیچھے بھی فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا کی آواز میں آرہی ہیں.خدا دشمنوں کو کبھی خوش نہیں ہونے دے گا.ان کی خوشیاں عارضی خوشیاں ہیں.ہر شہادت جو کسی بھی احمدی کی ہوئی ہے، پھول پھل لاتی رہی ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھول پھل لائے گی.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شمارہ 39 مورخہ 26 ستمبر تا 12 اکتوبر 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7

Page 388

خطبات مسرور جلد ششم 368 (37) خطبه جمعه فرموده 12 ستمبر 2008 فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2008ء بمطابق 12 رتبوک 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیات تلاوت فرمائیں:.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ.وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْامْوَالِ وَالْا نُفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِيْنَ الَّذِيْنَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوْا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.(البقرة:154تا158) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُن کو مردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے.اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے.اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.اور یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں.ان آیات کی تلاوت سے اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ آج جو مضمون میں بیان کرنے لگا ہوں وہ گزشتہ دنوں ہمارے بھائیوں اور بزرگوں کی جو شہادتیں ہوئی ہیں ان کے حوالے سے ہے.ان آیات میں صبر، دُعا ،شہداء کا مقام، ابتلاؤں کی وجہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی طرف توجہ اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام پانے والوں کا ذکر ہے.اور یہ باتیں ہی ہیں جو ایک مومن کے حقیقی مومن ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں.ان آیات میں سے جو پہلی آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان لانے والوں کی نشانی یہ ہے کہ مشکلات کے وقت وہ گھبراتے نہیں.بلکہ ہر مشکل ان کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف پھیرتی ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی طرف ایک مومن کی توجہ پھر نی چاہئے اور کسی تکلیف پر ایک مومن کا فوری رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة کا مظاہرہ کرے.یعنی صبر اور دُعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگے.پس مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے

Page 389

خطبات مسرور جلد ششم 369 خطبه جمعه فرمودہ 12 ستمبر 2008 ہوشیار کیا ہے کہ تمہیں مشکلات آئیں گی، تکلیفیں پہنچیں گی لیکن ایسی صورت میں تمہارے ایمان کی پختگی کا حال یہی ہے کہ ایک تو صبر سے ان کو برداشت کرنا ہے، کسی بے چینی اور گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرنا، اللہ تعالیٰ سے کسی قسم کا شکوہ نہیں کرنا.دوسرے ان کے دُور کرنے کے لئے انسانوں کے آگے نہیں جھکنا بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے.اُسی سے دعا مانگنی ہے.اپنے ایمان میں استقامت اور ثبات قدم کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کام پر استقلال سے قائم رہنا ہے جو خدا تعالیٰ نے مومنوں کے سپرد کیا ہے اور وہ کام ہے خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا.وہ کام ہے آنحضرت ﷺ کے کام کو دنیا میں پھیلانا.وہ کام ہے دنیا کو زمانے کے امام کی جماعت میں شامل کر کے حقیقی اسلام سے روشناس کرانا.اس کے لئے ہو سکتا ہے کہ تمہیں جان اور مال کے قربان کرنے کے امتحانوں سے گزرنا پڑے اور روحانی اذیتوں کا بھی سامنا کرنا پڑے.روحانی اذیتیں کیا ہیں؟ ہمارے کلمہ کہنے پر پابندی لگائی جاتی ہے.نمازیں پڑھنے پر پابندی لگائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو برے ناموں سے پکارا جاتا ہے.علاوہ دوسری اذیتوں کے جو جسمانی اور مالی اذیتیں ہیں، یہ روحانی اذیتیں بھی ہیں تو ان سب اذیتوں سے اس کام کے لئے گزرنا پڑے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلانے اور ذہنی طور پر مومن کو ان تکلیفوں اور اذیتوں کے لئے تیار کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر تم صبر، حوصلے اور دعاؤں کے ساتھ ان امتحانوں سے گزرنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ پھر ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ وہ ایسے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور انجام کار فتح ان صبر کرنے والوں کی ہی ہے.پھر اللہ تعالیٰ جان کی قربانی کرنے والوں کے مقام کے بارے میں فرماتا ہے کہ دین کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک بہت بڑا مقام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمن تو تمہیں اس لئے قتل کرتا ہے کہ زندگی کا خاتمہ کر کے تمہاری جان لے کر عددی لحاظ سے بھی تمہیں کم اور کمزور کر دے.لیکن یاد رکھو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو ایک شخص یا چند اشخاص کا قتل جو خدا کے دین کے لئے ہو، جماعتوں کو مردہ نہیں کرتا.بلکہ اللہ تعالیٰ جو دونوں جہاں کا مالک ہے اگر ایک انسان یہاں مرتا ہے تو دوسرے جہان میں جب زندگی پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے.تو اللہ فرماتا ہے کہ ایک قتل سے جماعتیں مردہ نہیں ہو جایا کرتیں.بلکہ ایک شخص کی موت کئی اور مومنوں کی زندگی کے سامان کر جاتی ہے.ایک شہادت مومنوں کو خوفزدہ نہیں کرتی بلکہ ان میں وہ جوش ایمانی بھر دیتی ہے کہ ایمانی لحاظ سے کئی کمزوروں کو سستیوں سے نکال کر باہر لے آتی ہے.ایمان میں وہ زندگی کی حرارت پیدا کر دیتی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی بجائے کئی اور سینہ تان کر دشمن کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ اے نادانو ! تم سمجھتے ہو کہ ایک شخص کو مار کر تم نے ہمیں کمزور کر دیا ہے؟ تو سنو اس ایک شخص کی موت نے ہم میں وہ روح پھونک دی ہے جس نے ہمیں وہ زندگی عطا

Page 390

خطبات مسرور جلد ششم 370 خطبه جمعه فرمودہ 12 ستمبر 2008 کی ہے، ہمیں اپنی قربانیوں کے قائم کرنے کا وہ فہم عطا کیا ہے جس سے ہم ایک نئے جوش اور جذبے سے دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہو گئے ہیں.گزشتہ دنوں جب ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کو شہید کیا گیا تو میں نے یہ نظارہ بھی دیکھا.زبانی بھی اور تحریری طور پر بھی میرے سامنے یہ اظہار کیا گیا کہ اگر فلاں جگہ جہاں ہم رہتے ہیں خون کی ضرورت ہے یا کسی بھی خطرناک جگہ پر جہاں کسی احمدی کے خون کی قربانی کی ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم اپنا خون پیش کریں.پس یہ قربانی کا جذبہ اس لئے ابھر کر سامنے آیا ہے کہ دشمن کو بتائیں کہ اللہ کے آگے جھکنے والوں اور ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنے والوں کو موتوں کا خوف متاثر نہیں کر سکتا.کیونکہ ایسے مرنے والوں کے لئے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ مردہ نہیں بلکہ دائی زندگی پانے والے ہیں.پس ایک تو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے والا اپنے پیچھے رہنے والوں کے لئے ، مومنوں کے لئے ، ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بن کر ان کو زندہ کر دیتا ہے.جو اُس کے درجات میں بلندی کی بھی دعا کرتے ہیں اور جو دائمی زندگی ہے اس میں اُس کے درجات بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہی ایک مومن کی زندگی کا مقصد ہے کہ اس دنیا میں وہ کام کرے جس سے اخروی زندگی میں فیض پائے.اور پھر اللہ تعالیٰ کا واضح طور پر یہ اعلان بھی ہے کہ اللہ کی راہ میں مرنے والا مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے کیونکہ وہ فوری طور پر وہ مقام پالیتا ہے جس سے اسے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.ہر انسان نے ایک نہ ایک دن مرنا ہے لیکن وہ درجہ جو اعلیٰ حیات کا درجہ ہے، ایک دم میں ہی ہر ایک کو نہیں مل جائے گا.ہر شخص جو مرنے والا ہے ایک درمیانی حالت میں اس کو ہنا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے شہید کے بارے میں فرمایا کہ اسے فوری طور پر اعلیٰ حیات مل جاتی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید کی چھ خصوصیات ہیں.نمبر ایک یہ کہ اسے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے وقت ہی بخش دیا جائے گا.دوسرے وہ جنت میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لے گا.تیسرے اسے قبر کے عذاب سے پناہ دی جائے گی.چوتھے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا.پانچویں اس کے سر پر ایسا وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یا قوت دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا.نمبر چھ، اور اسے اپنے 170 قارب کی شفاعت کا حق دیا جائے گا.( سنن ترمذی.کتاب فضائل الجہاد.باب فی ثواب الشہید حدیث 1663

Page 391

خطبات مسرور جلد ششم 371 خطبه جمعه فرمودہ 12 ستمبر 2008 پس یہ شہید کا مقام ہے.احیاء جو حسی کی جمع ہے اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جس کی زندگی کا عمل ضائع نہیں جاتا.پس شہید کا قتل اس اعلیٰ حیات کو فوری پالیتا ہے جیسا کہ حدیث سے بھی ظاہر ہے.جس کے پانے کے لئے ہر مرنے والا ایک درمیانی عرصے سے گزرتے ہوئے پہنچتا ہے اور وہ عرصہ ہر ایک کی روحانی حالت کے لحاظ سے ہے.کوئی اسے جلد حاصل کر لیتا ہے اور کوئی دیر سے حاصل کرتا ہے.احیاء کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جس کا بدلہ لیا جائے.پس اللہ تعالی دشمن کو فرماتا ہے کہ تم نے ایک زندگی ختم کر کے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے بڑا ثواب کما لیا اور ہم نے جماعت کو کمزور کر دیا لیکن یا درکھو کہ مرنے والے نے شہادت کا رتبہ حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب تو پاہی لیا ہے لیکن اس کی شہادت بغیر بدلے کے نہیں جائے گی.پس غور سے سن لو کہ بع خوں شہیدان ملت کا اے کم نظر رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائیگا آج بھی ہر شہید کے خون کے ایک ایک قطرے کا خدا تعالیٰ خود انتقام لے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلكِن لا تَشْعُرُونَ.یہ دنیا والے ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے.تمہاری عقل تو ایسی ماری گئی ہے کہ باوجود اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھنے کے، باوجود اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے، ایسی حرکتیں کر کے تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہو.ا اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء:94) اور جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہوگی وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا اور اسے اپنے سے دور کر دے گا اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر دے گا.اور مومن کی تعریف آنحضرت ﷺ نے ایک جگہ بیان فرما دی.ایک روایت میں آتا ہے ، اسامہ بن زید اور ایک انصاری نے ایک موقع پر ایک کافر کا تعاقب کیا جب اس کو پکڑ کر مغلوب کر لیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا.اسامہ کہتے ہیں کہ میرے انصاری دوست نے تو اس کو کچھ نہیں کہا وہ اس پر ہاتھ اٹھانے سے رک گیا لیکن میں نے اسے قتل کر دیا.واپسی پر جب آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اے اسامہ! کلمہ توحید پڑھ لینے کے بعد بھی تو نے اسے قتل کر دیا.کیا تو نے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا.اور بار بار آپ نے یہ الفاظ دوہرائے.اس پر میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! اس نے تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے دل سے کہا ہے یا تلوار کے خوف سے کہا ہے ؟.اس پر میں نے خواہش کی کہ آج سے پہلے میں مسلمان نہ ہوا ہوتا.( صحیح مسلم.کتاب الایمان.باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ حدیث (179)

Page 392

خطبات مسرور جلد ششم 372 خطبه جمعه فرموده 12 ستمبر 2008 پھر ایک روایت میں ابی مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا جس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور انکار کیا ان کا جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے.تو اس کے جان و مال قابل احترام ہو جاتے ہیں.باقی اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے.(مسلم کتاب الایمان باب الامر بقتال الناس حتى يقولوا لا الہ الا اللہ حدیث (38) اب یہ جو نام نہاد علماء ہیں، مسلمانوں کو غلط رنگ میں ورغلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے ایک حصہ پر تو احمدی ایمان لاتے ہیں، لا إلهَ إِلَّا الله تو کہتے ہیں لیکن مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ پر ایمان نہیں لاتے.دوسرے حصے کی نفی کرتے ہیں، اس لئے یہ واجب القتل ہو گئے.کیا ان لوگوں نے ہمارے دلوں میں بیٹھ کر دیکھا ہے؟ یا دل چیر کر دیکھا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے؟ جو فہم و ادراک خاتم النبیین کا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا ہے ، ان مولویوں کو تو اس کا کروڑواں حصہ بھی ادراک نہیں ہے اور کہتے یہ ہمیں ہیں کہ ہم ختم نبوت کے قائل نہیں ہیں اس لئے واجب القتل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس مقام ختم نبوت سے ہمیں آشنا کرایا ہے وہ یہ ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی کس قدرشان بزرگ ہے اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلی درجہ پر روشن تاثیریں ہیں جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے، کسی کو عارف کے درجہ تک پہنچاتا ہے، کسی کو آیت اللہ اور حجتہ اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد الہیہ کا مورد ٹھہراتا ہے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 170-271.بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 1 پھر آپ فرماتے ہیں : ” وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء ، امام الاصفیاء ختم المرسلين، فخر النبيين جناب محمد مصطفى الله ہیں.اے ہمارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمتیں اور درود بھیج جو ابتدائے دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308) پھر آپ نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں فرمایا کہ: اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں“.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 141)

Page 393

373 خطبه جمعه فرموده 12 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں آنحضر کا یہ ہے مقام اور آج کے یہ فتنہ پرداز اور بدطینت نام نہاد علماء کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو احمدی آخری نبی نہیں مانتے ، اس لئے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور واجب القتل ہیں اور میڈیا پر اس کا پرچار کیا جارہا ہے.وہ کام جو یہ کر رہے ہیں اس کی نہ خدا ان کو اجازت دیتا ہے اور نہ خدا کا رسول ان کو اجازت دیتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ ان کے نام پر ظلم کیا جارہا ہے.پس ہمیں تو اس رسول کی پیروی نے نشانوں سے انعام یافتہ کیا ہوا ہے.اب بھی اپنی فتنہ پردازیوں اور احمدیوں پر ظلم سے باز آ جاؤ، ورنہ یا درکھو کہ وَأَهْلِى لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِيْن (الاعراف: 184) کا نشان جیسے کل ظاہر ہوا تھا وہ آج بھی ظاہر ہو سکتا ہے اور ہوگا.پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل کو اپنی فتح نہ سمجھو.ہاں ہم کیونکہ ایمان میں پختہ ہیں، زمانے کے امام کو مان چکے ہیں جسے آنحضرت مے کی کامل اتباع نے آپ ﷺ کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ، آپ کے غلام کی حیثیت سے نبی کا مقام دے کر بھیجا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک صبر اور حو صلے سے تمہارے ظلموں کو برداشت کر رہے ہیں کہ یہی اس زمانے کے امام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور ہم سے توقع رکھی ہے.اور یہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ خوف اور بھوک اور جان و مال کے نقصان سے تمہیں آزمایا جائے گا اور جب تم اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلو گے تو تمہیں مبارک ہو کہ تم بَشِّرِ الصَّبِرِینَ کے گروہ میں داخل ہو گئے ہو.ان صبر کرنے والوں میں شامل ہو گئے جن کو اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کی بشارتیں ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں دنیا وی نقصانات یا جانی نقصانات کیا دکھ پہنچا سکتے ہیں.یہ تکلیفیں جہاں ہماری روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں جماعتی ترقی کا بھی باعث ہیں.پس ہم احمدیوں کو بھی ان مصائب اور تکلیفوں سے گھبرانا نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہو اور جب بھی مشکلات اور مصائب آئیں تو تمہارے منہ سے انتہائی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف یہ الفاظ نکلیں کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کہ ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور جب ہم یہ کہیں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے والے ہوں گے.ہمیشہ ہدایت پر قائم رہیں گے.ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے رہیں گے اور آخری فتوحات کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے.انشاء اللہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: " خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت دکھاتے ہیں.پس ہمارا صبر اور استقامت ہے جو فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا کی بشارت لے کر آئے گا.ہماری مخالفت اگر ہوتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے.ہمیں دکھ دیئے جاتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانے کی وجہ سے.ہمارے مالوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 394

374 خطبه جمعه فرمود ه 12 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم کو ماننے کی وجہ سے.ہمارے پیاروں کو شہید کیا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے.پس اگر ہم استقامت دکھائیں گے، ابتلاؤں سے کامیاب ہو کر گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس وعدے کے بھی حقدار ٹھہریں گے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہامات میں کئی دفعہ فرمایا کہ انا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (الفتح 02) کہ میں ایک عظیم فتح تجھے عطا کروں گا جو کھلی کھلی فتح ہوگی.پس قوموں کی زندگی میں ابتلاء اور امتحان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کو دکھانے کے لئے آتے ہیں، نشانات ظاہر کرنے کے لئے آتے ہیں.پس صبر اور دعا سے اس کی مدد مانگتے چلے جائیں.یہ جو شہادتیں ہوئی ہیں اور جس اذیت کے دور سے بعض جگہ جماعت گزر رہی ہے اس کے پیچھے بھی فَتَحْنَالَكَ فَتْحًا مُبِینا کی آوازیں آرہی ہیں.خدا دشمنوں کو کبھی خوش نہیں ہونے دے گا.ان کی خوشیاں عارضی خوشیاں ہیں.ہر شہادت جو کسی بھی احمدی کی ہوئی ہے، پھول پھل لاتی رہی ہے اور اب بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھول پھل لائے گی.دشمن کی پکڑ کے نظارے ہم نے پہلے بھی دیکھے ہیں اور آج بھی اللہ تعالیٰ کا یہ کلام ہمیں تسلی دلاتا ہے کہ فَأَخَذَهُمُ اللهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللهِ مِنْ وَّاقِ (المؤمن: 22) پس اللہ نے ان کو بھی ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا.پس جب ماضی میں اللہ تعالیٰ پکڑتا رہا ہے تو آج بھی وہی زندہ خدا ہے جو ہمارا خدا ہے، جو ان کو ان کا دردناک انجام دکھائے گا.پس اللہ ہمارا پیارا خدا سچے وعدوں والا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے یقیناً پورے کرے گا جیسا کہ ہم پورے ہوتے دیکھتے آئے ہیں.اللہ تعالیٰ مومنوں کی تسلی کے لئے فرماتا ہے اور وہ مختلف وقتوں میں نظارے دکھاتا رہتا ہے.ایک ہی بات کئی کئی دفعہ دکھاتا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی دکھاتا رہے گا.پس ہمارا کام یہ ہے کہ ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں.اپنے ان بھائیوں کی خوبیوں کو کبھی مرنے نہ دیں جنہوں نے جماعت سے وفا کے اعلیٰ نمونے دکھاتے ہوئے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں.ان شہداء کا اب میں مختصر اذکر بھی کروں گا.پہلے شہید ، ہمارے بہت ہی پیارے بھائی ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی ہیں.ان کی شہادت 27 مئی کے بعد پہلی شہادت ہے.یعنی اس عظیم شہید نے بھی اپنی جان خدا تعالیٰ کی راہ میں دے کر یہ ثابت کر دیا کہ خلافت احمدیہ کی دوسری صدی میں بھی ہمارے ایمانوں میں وہی پختگی ہے.جماعت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے ہم اسی طرح تیار ہیں جس طرح گزشتہ 100 سال یا اس سے زائد عرصے میں جماعت قربانیاں دیتی چلی آئی ہے.یہ شہید جن کی عمر صرف 46 سال تھی.اپنی جوانی کی شہادت سے یقیناً نو جوانوں میں بھی ایک روح پھونک

Page 395

خطبات مسرور جلد ششم 375 خطبه جمعه فرمودہ 12 ستمبر 2008 گئے ہیں اور یہ سبق نوجوانوں کے لئے بھی اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ دیکھنا جان جائے تو چلی جائے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت پر حرف نہ آنے دینا.خلافت احمدیہ کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا.ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب بڑی پیاری طبیعت کے مالک تھے.اخلاص و وفا میں بہت بڑھے ہوئے تھے.میرا ذاتی طور پر پہلے بھی ان سے تعلق تھا.سندھ کے سفروں میں اور پھر ناظر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی پرانا تعلق تھا.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس خاندان سے ہی ہمارا پرانا تعلق تھا.ان کے والد صاحب بھی جب ربوہ آتے تھے تو ہمارے والد صاحب کے پاس ضرور آتے اور ہمارے گھر میں پھر لمبی مجلسیں لگا کرتی تھیں، خاص طور پر شوری کے بعد ، جہاں جماعتی معاملات بڑی دیر تک ڈسکس (Discuss) ہوتے رہتے تھے.ان کے والد کا نام ڈاکٹر عبد الرحمن صدیقی تھا.ان کا بھی جیسا کہ میں نے کہا جماعت سے گہرا تعلق تھا.خلافت سے وفا کا بڑا گہرا تعلق تھا.ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے والد صاحب کی ایک جھلک میں بتا دیتا ہوں.وہ بھی تقریباً 40 سال تک امیر ضلع میر پور خاص اور ڈویژنل امیر حیدر آباد رہے.جب پاکستان بنا ہے تو اس کے بعد ہجرت کر کے جب عبد الرحمن صدیقی صاحب پاکستان آئے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے مستقبل کے بارہ میں رہنمائی کی درخواست کی.جس پر حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ میر پور خاص سندھ چلے جائیں اور وہیں سیٹ ہو جائیں وہاں ہماری سٹیٹس بھی ہیں، ان کو آپ کی مدد حاصل رہے گی اور آپ کو ان کا تعاون حاصل رہے گا.چنانچہ وہ بغیر کسی چوں چرا کے وہاں چلے گئے ، جا کر آباد ہو گئے اور بڑے اخلاص سے جماعت کی وہاں خدمت کرتے رہے.سی ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب جو شہید ہوئے ہیں یہ ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی صاحب کی اکلوتی اولاد تھے.اور شادی کے گیارہ سال بعد پیدا ہوئے تھے.سندھ میڈیکل کالج سے انہوں نے ایم بی بی ایس کیا.پھر 1988ء میں امریکہ چلے گئے.وہاں سے الٹرا ساؤنڈ کی ٹریننگ لی.پھر انٹرنل میڈیسن میں فلاڈیلفیا کی یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوایشن کیا اور امریکن بورڈ آف انٹرنل میڈیسن کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا.پھر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر منان صدیقی صاحب نے وہاں ہی ملازمت کا پروگرام بنایا.لیکن آپ کے والد کو جب پتہ لگا کہ میرے بیٹے نے وہیں رہنے کا پروگرام بنایا ہے تو انہوں نے انہیں لکھا کہ آپ کو اس علاقے کی خدمت کے لئے میڈیکل کی میں نے تعلیم دلوائی ہے جہاں حضرت مصلح موعود نے مجھے فرمایا تھا کہ بیٹھ جاؤ اور لوگوں کی خدمت کرو.ان غریب لوگوں کی خدمت کے لئے میں نے تمہیں میڈیکل کروایا ہے اور امریکہ بھیج کے بھی پڑھایا ہے اور تم نے بھی یہاں ہی خدمت کرنی ہے اور یہی میری خواہش ہے تا کہ یہ سلسلہ جاری رہے تو اپنے والد صاحب کی خواہش کو انہوں نے پورا کیا اور امریکہ سے فورا چھوڑ کر میر پور خاص تشریف لے آئے اور یہاں خدمت کا سلسلہ شروع کیا.

Page 396

خطبات مسرور جلد ششم 376 خطبه جمعه فرمودہ 12 ستمبر 2008 ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کے نانا ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کی والدہ بھی حیات ہیں.ان کا نام سلیمہ بیگم ہے.نیک، تہجد گزار، دعائیں ان کا نام کرنے والی ، بڑی شفیق ، مہربان ، غریبوں کا خیال رکھنے والی خاتون ہیں.37 سال انہوں نے بھی صدر لجنہ میر پور خاص کے طور پر خدمات انجام دیں اور لجنہ کی تربیت میں ان کا بھی کردار ہے.بڑھاپے اور بیماری کے باوجود بڑے حوصلے سے انہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی اور اسے رخصت کیا.یہ اس بوڑھی والدہ کے لئے بہت بڑا صدمہ ہے.ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بعد میں بھی برداشت حوصلہ اور صبر دے.ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کو مختلف شعبہ جات میں جماعت کی خدمت کی توفیق ملی.95 ء سے وفات تک 13 سال آپ نے بطور امیر میر پور خاص کے فرائض سرانجام دیئے.اس کے علاوہ اس سے پہلے بھی سیکرٹری امور عامہ جماعت میر پور خاص رہے.قائد علاقہ خدام الاحمد یہ رہے.نگران صوبہ سندھ مجلس خدام الاحمد یہ تھے اور 1998ء میں ان کے والد کی وفات ہوئی تو انہوں نے ہسپتال بھی سنبھالا.چھوٹا کلینک تھا اس کو مکمل ہسپتال بنا دیا جس میں ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں.ڈاکٹر صاحب تھر پار کر کے علاقے نگر پارکر میں جو بہت دور دراز ہندوؤں کا اور غریبوں کا علاقہ ہے ہر ماہ ذاتی طور پر میڈیکل کیمپ لگاتے اور مریضوں اور ناداروں اور ضرورت مندوں کو طبی امداد پہنچانے کے لئے خود تشریف لے جاتے تھے.ہزاروں مریض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ہاتھ سے شفایاب ہوئے.ان کی شہادت پر غریب امیر سب رور ہے تھے.بہت دور دور سے ان کو دیکھنے کے لئے لوگ آئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے اس غلام کو دست مسیحائی اور شفا عطا فرمائی ہوئی تھی جس سے وہ غریبوں کی خدمت کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے شفا کا ذریعہ بنایا تھا.میر پور خاص کے علاوہ بھی پورے صوبہ سندھ میں ان کی شہرت اور نیک نامی تھی.جوانی میں ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا نیک نام حاصل کر لیا تھا.احمدیوں اور غیر احمد یوں میں یکساں مقبول تھے.بڑے ہر دلعزیز تھے.دعوت الی اللہ اور تبلیغ کا بڑا شوق تھا اور مختلف وفود کو مرکز میں بھی لے کر آتے تھے اور اپنی نگرانی میں بھجواتے بھی رہتے تھے.گزشتہ پانچ سال میں میں نے دیکھا کہ ہر دفعہ جب بھی کوئی دعوت الی اللہ کا پروگرام ہوتا ، جانے سے پہلے دعا کے لئے لکھتے تھے کہ کامیابی ہو اور اللہ تعالی کا میابی عطا فر ما تا تھا.ان کی دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ دعوت الی اللہ بھی تھی کیونکہ سندھ کے وڈیروں ، زمینداروں کو غریبوں کو بے دھڑک تبلیغ کرتے تھے.الغرض ہر جگہ تبلیغ کا ماحول پیدا کر دیا کرتے تھے.تو دشمن نے تو اپنی طرف سے ان کو شہید کر کے تبلیغ کے ایک وسیلے کو ختم کرنا چاہا ہے.لیکن نادان یہ نہیں جانتے کہ ڈاکٹر عبدالمنان اللہ کی راہ میں قربان ہو کر اپنے جیسے کئی اور منان پیدا کر جائے گا انشاء اللہ.ڈاکٹر صاحب کی شادی اپنی ماموں زادامہ الشافی صاحبہ سے ہوئی جو امریکن نیشنل ہیں.ان

Page 397

خطبات مسرور جلد ششم 377 خطبه جمعه فرموده 12 ستمبر 2008 کے دو بچے ہیں، بڑی بیٹی 18 سال کی ہے اس نے ایف ایس سی کی ہے اور ایک بیٹا 13 سال کا ہے.ان کی اہلیہ بھی میر پور خاص کی صدر ہیں.وقف جدید کا جو ہسپتال نگر پار کر کے علاقہ مٹھی میں ہے اس میں بھی آپ کی بڑی نمایاں خدمات ہیں اور فری میڈیکل کیمپس لگاتے رہے ہیں.انسانیت کی خدمت کے لئے قائم کی گئی النور سوسائٹی کے بھی آپ صدر تھے.صدر انجمن کی منصوبہ بندی کمیٹی کے ممبر اور مجلس تحریک جدید کے رکن کا بھی اعزاز حاصل تھا.جیسا کہ میں نے کہا میرا ان سے ایک پرانا تعلق تھا اور ان کے والد کا بھی ہمارے والد سے تعلق تھا اور ان کے نانا حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے معالج تھے ان سے بھی ہمارا تعلق تھا.حضرت ڈاکٹر صاحب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی قصر خلافت میں رہتے تھے.ان کے پاس آنا جانا تھا.تو اس سارے خاندان سے ایک خاندانی تعلق تھا.ڈاکٹر منان صاحب ان انسانوں میں سے تھے جن کے چہرے پر کبھی گھبراہٹ کے آثار نہیں آتے تھے ، جیسے مرضی حالات ہو جائیں.ضلع میر پور خاص گزشتہ کئی سال سے مولویوں کا ٹارگٹ رہا ہے بلکہ پورا سندھ ہی رہا ہے لیکن زیادہ تر اس علاقے میں.تو بڑے عمدہ طریق پر انہوں نے جماعت کو ، اپنے ضلع کی جماعت کو سنبھالا.بلکہ ساتھ کے ضلعوں کی بھی اپنے تعلقات کو استعمال میں لا کر مدد کرتے تھے.لیکن کبھی انہوں نے اپنے تعلقات کو اپنی ذات کے لئے استعمال نہیں کیا.استعمال کرتے تو جماعت کے مفاد کے لئے ہی استعمال کرتے تھے.پھر دن ہو یا رات جب کسی نے مدد کے لئے پکارا مسکراتے ہوئے اس کی مدد کی.ہمیشہ مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگتی تھی کہ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہ مسکراہٹ رہتی تھی.یہ صرف میں نے ہی نہیں کہا بلکہ ہر غریب اور امیر نے اس کا اظہار کیا ہے.عاجزی انتہا کی حد تک تھی.کوئی زعم نہیں تھا کہ میں امریکہ سے پڑھا ہوا ہوں ، ہسپتال کا مالک ہوں ضلع کا امیر ہوں، مرکزی کمیٹیوں کا ممبر ہوں ، تو کسی بھی قسم کا فخر نہیں تھا.عموماً امراء دعوت الی اللہ اور میڈیکل کیمپس میں خود نہیں جاتے لیکن ڈاکٹر صاحب مرحوم جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہر موقع پر اگر کوئی اور جماعتی مصروفیت نہیں ہوتی تھی تو خود جایا کرتے تھے.کسی نے میرے پاس ان کے بارے میں بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے جو سندھ سے آئے ہوئے ایک احمدی تھے کہ وہ سندھ میں دائمیین الی اللہ کے امیر تھے.غریبوں کی مدد اس حد تک کرتے تھے کہ نہ صرف ان کا مفت علاج کرتے تھے بلکہ اپنے پاس سے بھی کچھ دے دیا کرتے تھے.ان کی وفات پر جہاں امراء، وڈیرے اور زمیندار افسوس کے لئے آئے وہاں غریب عورتیں، مرد بھی عجیب جذباتی کیفیت میں ڈاکٹر صاحب کا ذکر کرتے رہے.خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق بے انتہا تھا.میں سمجھتا ہوں کہ وہ سرتا پا خلافت کے جاں نثار اور فدائی تھے اور میرے بہترین ساتھیوں میں سے تھے.ان پر مجھے اتنا اعتماد تھا کہ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کو کوئی کام کہوں، کوئی رپورٹ کے لئے بھیجوں اور اس میں کسی بھی طرح کی بے انصافی ہوگی یا تقویٰ کے بغیر کوئی بات کر جائیں گے.انتہائی متقی

Page 398

خطبات مسرور جلد ششم 378 خطبه جمعه فرمودہ 12 ستمبر 2008 انسان تھے.باوجود اس کے کہ انہیں بڑے عرصہ سے دھمکیاں مل رہی تھیں، بغیر کسی خوف کے اپنے کام میں مگن رہے.اگر کسی نے توجہ دلائی بھی، ان کو چند دن پہلے ہی کسی عزیز نے توجہ دلائی تھی کہ خیال کیا کریں تو ہنس کر ٹال دیا کہ دیکھا جائے گا جو ہونا ہو وہ ہو جائے گا.جماعت کے ایک بہترین کارکن تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے ، شہید ہو کر وہ درجہ تو پاگئے ہیں اب ان کے درجات اللہ تعالیٰ بڑھاتا چلا جائے.ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے ، انہوں نے بھی بڑے حو صلے سے اپنے خاوند کی شہادت کی خبر کو سنا اور بہترین صبر کا نمونہ دکھایا.اپنی ساس جو اُن کی پھوپھی بھی ہیں انہیں بھی سنبھالا اور اپنے بچوں کو بھی سنبھالا.امریکہ میں پلنے بڑھنے کے باوجود اپنے خاوند کے ساتھ کامل وفا سے ساتھ دیا اور جماعتی کاموں میں کبھی روک نہیں بنتی رہیں، بلکہ خدمت کرتی رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی لمبی زندگی کے ساتھ بچوں کی خوشیاں دکھائے.ڈاکٹر صاحب کی وفات پر مختلف غیر از جماعت لوگوں نے بھی اظہار خیال کیا.ان کے چند نمونے پیش کرتا ہوں.پہلے تو ایم کیوایم کے لیڈر الطاف حسین صاحب کا ایک بیان جو یہیں لندن میں ہی رہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ طب کے مقدس پیشے سے وابستہ ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کا قتل میر پور خاص کے شہریوں کا بہت بڑا نقصان ہے.انہوں نے کہا کہ سفاک قاتلوں نے ہزاروں مریضوں کو بلا امتیاز رنگ ونسل، زبان، مذہب اور عقیدہ علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے والے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کو قتل کر کے ثابت کر دیا کہ یہ عناصر مسلمان تو کجا انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں.انہوں نے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے وحشیانہ قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قتل کی واردات سندھ میں مذہبی انتہا پسندی اور طالبانائیزیشن کی سازشوں کا تسلسل ہے.جو عناصر مذہب، عقیدہ اور فقہ سے اختلاف کی بنا پر بے گناہ شہریوں کوقتل کر رہے ہیں وہ انسانیت کے کھلے دشمن ہیں.پھر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میر پور خاص کے صدر نے بیان دیا کہ ڈاکٹر منان کا قتل انسانیت کا قتل ہے.لیکن یہ جو آج کل نام نہاد علماء ہیں جو اپنے آپ کو قرآن کریم کا عالم سمجھتے ہیں.ان لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ خدا تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ایسے شخص کا قتل جس نے نہ تو قتل کیا ہو اور نہ ملک میں فساد پھیلایا ہو، اس کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے.اور ڈاکٹر صاحب کا وجود ایسا ہی وجود تھا.جو ہرلمحہ انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوتا تھا اور غیر بھی اس کا اظہار کر رہے ہیں.پھر اور بہت سارے ڈاکٹر صاحبان کی ایک ٹیم اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ز نے اظہار کیا کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے بہت قریبی ، پیارے اور ہمدرد تھے.وہ ایک عظیم انسان تھے.یہ قومی نقصان ہے.ایسے فرشتہ نما انسان صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوتے.

Page 399

خطبات مسرور جلد ششم 379 خطبه جمعه فرموده 12 ستمبر 2008 پھر بڑے بڑے زمیندار طبقے سے لوگ آئے.نام تو اس وقت نہیں لے سکتا.ان کا اظہار یہی تھا کہ یہ آپ کی جماعت کا نقصان نہیں بلکہ یہ ہم سب کا نقصان ہے.پھر بعض سماجی شخصیات نے اظہار کیا کہ وہ غریبوں کے ہمدرد، بے سہاروں کے سہارا تھے آپ کی مسکراہٹ لوگوں کے دل جیت لیتی تھی.آپ کا اخلاق نا قابل بیان ہے.پھر اس علاقے کے وکلاء نے بیان دیا کہ میر پور خاص ایک بہترین ڈاکٹر اور محسن سے محروم ہو گیا ہے.یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے.نومبائعین نے اظہار کیا کہ غریبوں کے ہمدرد تھے.ہم سب کو یتیم کر کے چلے گئے.ان کے ہسپتال کے اپنے عملہ کا اظہار یہ ہے کہ غریب پرور تھے.غریبوں کے ساتھ بہت ہمددری کے ساتھ پیش آتے تھے.ہمارا بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے.پھر سرکاری افسران ڈی ایس پی، ڈی پی او، ڈی آئی جی وغیرہ جو آئے ان کا اظہار یہ تھا کہ شہید کے ساتھ ہمارا ذاتی تعلق تھا وہ عظیم انسان تھے.ایک معروف سیاسی شخصیت نے کہا کہ یہ ڈاکٹر منان صدیقی کا قتل نہیں بلکہ پورے میر پور خاص کا قتل ہے.پھر دوسرے ہمارے شہید سیٹھ محمد یوسف صاحب ہیں.یہ بھی ضلع نواب شاہ کے امیر جماعت تھے.گو زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بڑے اخلاص و وفا سے جماعت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے تھے.1956ء میں نواب شاہ میں آکر آباد ہوئے.1962ء میں نواب شاہ کے صدر جماعت بنے.پھر آپ کی صدارت کے دوران وہاں ایک بڑا ہال محمود ہاں بنایا گیا، حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کا نام محمود ہال رکھا تھا.دو سال قائد ضلع بھی رہے اور پھر مسلسل 14 سال قائد علاقہ سکھر ڈویژن رہے.1993ء میں آپ ضلع نواب شاہ کے امیر مقرر ہوئے اور وفات تک اسی عہدے پر تھے.بہت ملنسار، مہمان نواز ، خدمت خلق کرنے والے، غرباء کا خاص خیال رکھنے والے، اپنے پرائے کا درد رکھنے والے اور وہاں بڑے ہر دلعزیز تھے اور ہمیشہ ہر شخص کو پہلے سلام کرتے اور بڑی عزت و احترام سے پیش آتے.کوشش یہ کرتے تھے کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو.واقفین زندگی کا خاص احترام کرنا اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا ان کی خاص بات تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیٹھ صاحب موصی تھے.گزشتہ دنوں اپنی امارت میں انہوں نے ایک اور بڑی مسجد اور ہال ایوان طاہر" کے نام سے نواب شاہ میں تعمیر کرایا.دل کے مریض ہونے کے با وجود بڑی محنت کیا کرتے تھے.بلکہ کسی نے مجھے لکھا کہ ان کا گھر دوسری منزل پر تھا، نیچے دکا نہیں وغیرہ تھیں.ڈاکٹر نے ان کو منع کر دیا کہ سیڑھیاں چڑھنی اور اترنی نہیں.اب یہ گھر تو بیٹھ نہیں سکتے تھے.جماعت کا کام کس طرح کرتے ؟ قریب ہی ان کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر مسجد تھی اور وہاں ہی امیر کا دفتر تھا.پاکستان میں لفٹ کا انتظام

Page 400

خطبات مسرور جلد ششم 380 خطبه جمعه فرموده 12 ستمبر 2008 بھی نہیں ہوتا ، نہ یہاں کی طرح معذوروں کے لئے جس طرح کرسی کا انتظام ہو جاتا ہے، آٹو میٹک کرسی یا الیکٹرانک کرسی تھی جو سیٹرھیوں کے ساتھ لگ جاتی ہے.تو انہوں نے اس کا طریقہ یہ نکالا کہ ایک کرسی نما چھوٹی پیڑھی لے کر اس کے ساتھ رسیاں باندھ دیں اور اپنے گھر والوں، نوکروں کو کہہ کر روزانہ نیچے اتر جاتے تھے اور شام کو اس پر بیٹھتے تھے اور اس سے اوپر کھینچ لئے جاتے تھے.اس طرح سارا دن جماعت کا کام کرتے رہتے تھے.بڑے انتھک اور جماعت کی خدمت کرنے والے تھے.تو یہ ہیں جماعت کے خدمت کرنے والے کارکنان.ہر شہید جب جاتا ہے تو یہ پیغام دے کر جاتا ہے کہ میں مرا نہیں بلکہ زندہ ہوں.اب تم بھی یا درکھو کہ جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا کا یہی تعلق تمہیں بھی زندگی دے گا.ان کی اہلیہ کی عمر 60 سال ہے اور سیٹھ صاحب کی عمر تقریباً 70 سال تھی اور ان کے بچے ہیں، ایک ڈاکٹر ہیں، ایک کاروبار کرتے ہیں، ایک وکیل ہیں اور ایک بیٹے کی وفات ہو چکی ہے، ان کی بیٹی راولپنڈی میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے ،مغفرت کا سلوک فرمائے.اس کے علاوہ ان دو زخمیوں کے لئے بھی دعا کا اعلان کرنا چاہتا ہوں ایک تو شیخ سعید احمد صاحب ہیں جو پہلی رمضان کو یا ایک دن پہلے چاند رات کو کراچی میں ان کو اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا اور دوسرے ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کے ساتھ جو دوسرے احمدی گارڈ عارف صاحب زخمی ہوئے تھے.یہ بھی شدید زخمی ہیں اور یہ دونوں مریض کافی کریٹیکل (Critical) حالت میں ہیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان کو صحت دے.رمضان میں ان نام نہاد مسلمانوں کا گروہ ثواب کمانے میں اور زیادہ تیز ہو جاتا ہے اور نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا کیا انجام بتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور قوم کو بھی ان انسانیت دشمن لوگوں سے محفوظ رکھے.ان دنوں میں بہت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 40 مورمحه 3 اکتوبر تا 9 اکتوبر 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 401

خطبات مسرور جلد ششم 381 (38) خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2008ء بمطابق 19 رتبوک 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ رمضان کا مہینہ ہے، یوں لگتا ہے کہ کل شروع ہوا تھا، بڑی تیزی سے یہ دن گزر رہے ہیں.دوسرا عشرہ بھی اب دو تین دن تک ختم ہونے والا ہے اور پھر آخری عشرہ شروع ہو جائے گا.ایک روایت میں رمضان کی اہمیت یوں بیان ہوئی ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایاهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةً وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِلْقٌ مِّنَ النَّارِ (الجامع لشعب الایمان لیستی جلد 5.باب فضائل شهر رمضان الباب الثالث والعشرون، باب في الصيام حدیث نمبر 363 مكتبة الرشد، ریاض طبع دوم 204 ) یعنی وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے.اس حدیث کی مختلف روایات ہیں، کچھ ذرا تفصیل کے ساتھ ہیں اور کچھ مختصر لیکن یہ جو تینوں عشروں کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہ ہر ایک میں مشترک ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ اس وقت دوسرے عشرے سے ہم گزر رہے ہیں.اس کے ابھی دو تین دن باقی ہیں اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ تیسرا عشرہ شروع ہو گا، جس کے متعلق اس روایت کے مطابق کہا جاتا ہے کہ آگ سے نجات کا عشرہ ہے.اس وقت میں موجودہ عشرہ جو مغفرت کا عشرہ ہے اس کے بارہ میں اور پھر آخری حصہ کے بارہ میں کچھ بیان کروں گا.مغفرت تو بہ اور آگ سے نجات کے بارہ میں مختلف حوالوں سے ہمیں جو توجہ دلائی گئی ہے وہ بیان کرتا ہوں.استغفار کا حکم ایک ایسا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی مومنوں کود یا اور انبیاء کے ذریعہ سے بھی کہلوایا اور مومنین کو استغفار کی طرف توجہ دلائی.انبیاء کو کہا کہ مومنوں کو استغفار کی طرف توجہ دلا ؤ اور جب اللہ تعالٰی مومنوں کو وَاسْتَغْفِرُوا الله ، یعنی اللہ سے بخشش مانگو، کا حکم دیتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی فرماتا ہے کہ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّ 66 200 رحیم یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس جب اللہ تعالی یہ اعلان آنحضرت ﷺ سے بھی کرواتا ہے کہ مومنوں کو بتا دو کہ یہ مہینہ بخشش کا مہینہ ہے اور خود بھی اس بارہ میں یہ کہہ رہا ہے کہ بخشش میرے سے مانگوں میں بخشوں گا.بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہوں تو اللہ تعالیٰ پھر بخشتا بھی ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے

Page 402

382 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم بندے بخشش مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکیں اور بخشے نہ جائیں.اصل میں تو یہ رحمت بخشش اور آگ سے نجات ایک ہی انجام کی کڑیاں ہیں اور وہ ہے شیطان سے دُوری اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنا.اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی ایک انسان کو روزے رکھنے کی توفیق ملتی ہے.عبادت کی بھی توفیق ملتی ہے.اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے جائز کام چھوڑنے کی بھی توفیق ملتی ہے.تو اللہ تعالیٰ تمام چھلی کوتا ہیاں ، غلطیاں اور گناہ معاف فرماتے ہوئے ایسے انسان کو پھر اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لیتا ہے.یہ مغفرت بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہی ہے.مغفرت کے بعد خدا تعالیٰ کی رحمت ختم نہیں ہوتی بلکہ مغفرت اور تو بہ کا تسلسل جو ہے یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے جاری ہوتا ہے اور جب یہ تسلسل جاری رہتا ہے تو ایک انسان جو خالصتا اللہ تعالیٰ کا ہونے کی کوشش کرتا ہے پھر اس سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو جذب کرنے والے ہوں.ایسے اعمال صالحہ بھی بجا لاتا ہے جن کے بجالانے کا خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور نتیجتا پھر آگ سے نجات پاتا ہے.جب تسلسل کے ساتھ استغفار اور گناہوں سے بچنے کی کوشش ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اُس استغفار کی وجہ سے مومن نظارہ کر رہا ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں سے فیض پا رہا ہو تو پھر وہ نجات پا گیا.پھر اس کو آگ کس طرح چھو سکتی ہے.پس یہ رمضان کے تین عشرے جو بیان ہوئے ہیں یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور اعمال سے مشروط ہیں.صرف رمضان کا مہینہ یا سحری اور افطاری کے درمیان کھانا نہ کھانا انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت مغفرت اور آگ سے نجات کا حقدار نہیں بنا دیتا.پس جب خدا تعالیٰ اپنے بندے کو ان باتوں کے حاصل کروانے کے لئے رمضان کے مہینے میں ایک خاص ماحول پیدا فرماتا ہے ، شیطان کو جکڑ دیتا ہے اور دعائیں سننے کے لئے اپنے بندوں کے قریب ہو جاتا ہے تو پھر ان کے حصول کی بندوں کو زیادہ سے زیادہ کوشش بھی کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ اے بندو! مجھے سے ناامید مت ہو.میں رحیم و کریم اور ستار اور غفار ہوں اور سب سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہوں اور اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرے گا جو میں کرتا ہوں.اپنے باپوں سے زیادہ میرے ساتھ محبت کرو کہ در حقیقت میں محبت میں ان سے زیادہ ہوں.اگر تم میری طرف آؤ گے تو میں سارے گناہ بخش دوں گا اور اگر تم تو بہ کرو تو میں قبول کروں گا اور اگر تم میری طرف آہستہ قدم سے بھی آؤ تو میں دوڑ کر آؤں گا.جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے گا وہ میرے دروازے کو کھلا پائے گا.میں تو بہ کرنے والے کے گناہ بخشتا ہوں، خواہ پہاڑوں سے زیادہ گناہ ہوں.میر ارحم تم پر بہت زیادہ ہے اور غضب کم ہے کیونکہ تم میری مخلوق ہو.میں نے تمہیں پیدا کیا ہے، اس لئے میرا رحم تم سب پر محیط ہے.پس اللہ تعالیٰ جو عام حالات میں اتنا رحم کرنے والا ہے تو رمضان میں اس کی رحمت کس طرح برس رہی ہوگی اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا.

Page 403

383 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جنہوں نے رمضان کے ان گزرے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے فائدہ اٹھایا.ابھی بھی وقت ہے ان دنوں سے فیض پانے کا.جب انسان عاجز ہو کر اس کی طرف جھکتا ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرتا جس طرح میں کرتا ہوں.جو شخص مجھے ڈھونڈے گاوہ مجھے پائے گا.پس اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے ، مغفرت کے حصول کے لئے اسے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ جو تلاش میں آئے گا عام حالات میں بھی لیکن خاص طور پر ان دنوں میں، وہ میرا دروازہ کھلا ہوا پائے گا.میں چھپا ہوا نہیں ، سامنے ہوں اور دروازہ بھی کھلا ہے.قرآن کریم میں جب رمضان کے روزوں کی تاکید کی گئی تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انی قریب کا لفظ استعمال کیا.تو اللہ تعالیٰ قریب ہے اور دروازہ کھلا ہوا ہے.فرماتا ہے آؤ اور میری مغفرت کی پناہ میں آ جاؤ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا تو مخلوق کے لئے عام حالات میں بھی غضب بہت کم ہے اور رحم زیادہ ہے.ان دنوں میں تو اور بھی بڑھ کر رحمت کے دروازے کھولتا ہوں اور مغفرت میں ڈھانپ لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ کہہ کر کہ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (النساء: 65 ) کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پاتے ، اس پر ایک طرح کا افسوس کا اظہار کیا ہے کہ میں جو اتنا رحیم وکریم ہوں ہمیں تو یہ قبول کرنے والا ہوں، اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹنے والا ہوں لیکن انسان پھر بھی اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور بخشش طلب نہیں کرتا.پس اللہ تعالیٰ کا بار بار مختلف ذریعوں سے استغفار کی طرف توجہ دلانا یہ بتارہا ہے کہ بندے کی استغفار اللہ تعالیٰ کی رحمت کو ضرور بالضرور جذب کرتی ہے.وہ لوگ غلط ہیں جو کہتے ہیں کہ استغفار انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا.یہ آنحضرت ﷺ کی حدیث بھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں.اسی طرح قرآن کریم میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت : 70 اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.پس استغفار اللہ تعالی کی طرف جانے کا ایک رستہ ہے.لیکن استغفار ہے کیا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس کے معنے بیان کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا

Page 404

خطبات مسرور جلد ششم 384 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے.سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے“.ریویو آف ریلیجنز جلد 1 نمبر 5 مئی 1902ء صفحہ 188-187) یعنی جو استغفار کر رہا ہے اس کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے.اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بشری کمزوری کبھی ظاہر نہ ہو.انسان ہے، بشر ہے کمزوریاں ظاہر ہوتی ہیں.شیطان ہر وقت حملے کی تاک میں ہے.جب انسان روحانی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے تو شیطان فور احملہ کرتا ہے.اس لئے شیطان سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب مسلسل انسان استغفار کرتار ہے اور مسلسل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں رہے.تبھی اللہ تعالی کی حمایت اور نصرت کے حلقے میں ایک انسان رہ سکتا ہے.ورنہ جیسا کہ ایک جگہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تو انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہا ہے جہاں کمزوری آئی شیطان نے حملہ کیا.پس یہ مغفرت اور بخشش کے دن تبھی ہمیں فائدہ دیں گے جب ہم ان دنوں کے فیض کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے.اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے استغفار سے اُن کا علاج کرتے رہیں گے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حلقے میں رہیں.ورنہ جس طرح بعض بیماریاں انسانی جسم میں علاج کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں بلکہ ڈورمنٹ (Dormant) ہو جاتی ہیں یعنی بظاہر ان کے اثرات نہیں لگتے لیکن کسی وقت دوبارہ ایکٹو (Acitve) ہو کر وہ بیماریاں پھر ابھر آتی ہیں.جب کوئی بیماری آئے جسم کمزور ہو تو ایسی سوئی ہوئی بیماریاں پھر جاگ اٹھتی ہیں اور حملہ کرتی ہیں اسی طرح انسان کی نفسانی، روحانی، اخلاقی بیماریاں ہیں.اگر انسان اللہ تعالیٰ کے حکموں پر مکمل چلنے کی کوشش نہ کرتا رہے ،استغفار اور تو بہ سے اپنی ان حالتوں کو ، ان بیماریوں کو اللہ تعالی کی مدد سے دبائے نہ رکھے تو پھر یہ اپنے اثرات دکھا کر انسان کو پہلی حالت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتی ہیں.پس استغفار صرف گناہوں سے بخشش کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بچانے کے لئے بھی ضروری ہے تاکہ فطرتی کمزوری کمزور پڑتی جائے اور انسان مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر قدم مارنے والا ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلسل کوشش کے ساتھ اور ہمیشہ کوشش کے ساتھ استغفار کی طرف متوجہ رہنے کا حکم فرمایا اور پھر سال میں ایک دفعہ ہمیں ایک intensive یا جامع قسم کے پروگرام سے گزارتا ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا مزید قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں.ایک دفعہ جب اس کے حلقے میں آگئے تو اس حلقے کے اندر جو مزید درجے ہیں، انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں.پس اس ٹارگٹ کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم اللہ تعالیٰ کی بخشش کے طالب ہوں گے تو تبھی یہ عشرہ جو گزررہا ہے ہمارے گناہوں اور غلطیوں کو ڈھانکتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب لانے والا ہو گا.اگر صرف یہی مطلب لیا جائے کہ اس عشرے میں روزے رکھ کر نماز میں پڑھ کر یا کچھ فل

Page 405

385 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم ادا کر کے پھر سارا سال بھول جائیں کہ رمضان میں کیا کیا تھا.تو پھر تو یہ مغفرت کا عشرہ نہیں بن سکتا.پس اس مہینے اور اس عشرے سے ہم سبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں تبھی کامیاب ہو کر گزر سکتے ہیں جب ہم یہ عہد کریں اور کوشش کریں کہ جو گزشتہ گناہ اور غلطیاں ہوئی ہیں ان کا ہم نے اعادہ نہیں کرنا.تو یہی حقیقی استغفار ہے اور وہ تو بہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے.استغفار اور تو به عموماً دولفظ استعمال ہوتے ہیں.ان میں فرق کیا ہے؟ یہ تھوڑ اسا بتا دیتا ہوں.جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھتا ہے، جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال فرمائے ہیں، جیسا کہ فرماتا ہے وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَيْه (هود: 4 ) اور تم اپنے رب سے استغفار کرو.پھر اس کی طرف تو بہ کرتے ہوئے اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یاد رکھو کہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے.دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 348 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یعنی استغفار وہ ہتھیار ہے جس سے شیطان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور تو بہ اس ہتھیار کا استعمال کرنا ہے.یعنی ان عملی قوتوں کا اظہار جس سے شیطان دُور رہے.ہمارا نفس کبھی مغلوب نہ ہو اور اس کے لئے وہ نیکیاں اور اعمال کرنے کی مسلسل کوشش ضروری ہے جن کے کرنے کا ہمیں خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے، ورنہ استغفار نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا.بخشش کا حصول ممکن نہیں.ایک روزہ دار نمازیں بھی پڑھ رہا ہے، نوافل بھی ادا کر رہا ہے، قرآن کریم کی تلاوت بھی کر رہا ہے اگر ممکن ہو اور وقت ہو تو درس بھی سن لیتا ہے.لیکن اگر اُن احکامات پر عمل نہیں کر رہا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بھائیوں کے حقوق کے بارے میں قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں تو یہ حقیقی توبہ استغفار نہیں ہے ، روزوں سے حقیقی فیض پانے کی کوشش نہیں ہے.حقیقی فائدہ بھی ہو گا جب استغفار سے جو قوت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے استعمال کیا جائے.اللہ تعالیٰ نے گناہوں کو ڈھانکنے کی جو قوت عطا کی ہے ، جن گناہوں کو دور کرنے کی توفیق بخشی ہے، استغفار کرتے ہوئے اپنے دل کو ایک انسان نے گناہوں سے جو خالی کیا ہے تو فوری طور پر انہیں نیکیوں سے بھرنے کی کوشش کی جائے.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی جائیں.ورنہ اگر دل کا برتن نیکیوں سے خالی رہا تو شیطان پھر اسے انہیں غلاظتوں سے دوبارہ بھر دے گا.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے که يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا تُوْبُوْا إِلَى اللهِ تَوْبَةً نَصُوْحًا ( التحريم: 9) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف خالص تو بہ کرتے ہوئے جھکو.پس وہی استغفار دائمی بخشش کا سامان کرتا ہے جس کے ساتھ خالص تو بہ ہو، جس کو پھر انسان نیکیوں سے بھرتا چلا جائے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال رکھے.ایک مسلسل کوشش کرے.

Page 406

خطبات مسرور جلد ششم 386 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 ستمبر 2008 خالص توبہ کے لئے کیا کچھ کرنا ضروری ہے؟ اس کے لئے تین باتوں کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے.پہلی بات یہ کہ ہر برائی کا تصور اور اس کی خواہش سب سے پہلے انسان کے دماغ میں پیدا ہوتی ہے.پس جب تک اپنے ذہن کو پاک رکھنے کی کوشش نہیں ہوگی ، اس وقت تک تو بہ خالص نہیں ہو سکتی.منہ سے اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبّى مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّاتُوْبُ إِلَيْهِ کچھ فائدہ نہیں دیتا جب تک ذہن بھی اس کے ساتھ نہ چل رہا ہو.اور پھر دوسری چیز یہ کہ اگر کوئی برائی یا بدی ہو ہی گئی ہے یاذ ہن پہ خیال غالب آ گیا ہے، نکل نہیں رہا تو اس کو نکالنے کی کوشش کے ساتھ اس پر ندامت اور پریشانی انسان کو ہونی چاہئے اور گناہوں میں صرف بڑے گناہ نہیں ہیں.ہر قسم کی برائی، دوسروں کے حقوق کی تلفی کسی کو بُرے الفاظ کہنا یہ سب برائیاں ہیں اور توبہ کی قبولیت.سے دور لے جانے والی ہیں.کئی لوگ مقدموں میں دوسروں کے حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ سگے بھائی ایک دوسرے کے حقوق مارنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.میاں بیوی ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں.تو اس قسم کی حرکتیں کر کے پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید رکھنا اور سمجھنا کہ ہم تو بہ کر رہے ہیں، یہ بالکل غلط خیال ہے.انسان کی خام خیالی ہے.کچی اور خالص تو بہ اس وقت کہلائے گی جب اگر کوئی چھوٹی سی بھی غلطی ہو جاتی ہے تو اس پر ندامت اور پریشانی کی انتہا ہو جائے.اور پھر تیسری بات تو بہ کرنے والے کا ارادہ پکا اور مصم ہو کہ میں نے ہر قسم کی برائیوں کو چھوڑنا ہے.اس استغفار کے ساتھ اگر صرف یہی خیال ہو کہ یہ رمضان بخشش کا مہینہ ہے اس میں کچھ عرصہ برائیوں سے بچ جاؤ.دوسروں کے حقوق کے تلخی سے احتراز کرو.رمضان کے بعد دیکھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جاننے والا ہے ایسے لوگوں کی مغفرت کی طرف توجہ نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ نے تو صاف فرما دیا ہے کہ توبتہ النصوح کرد یعنی خالص توبہ کرو.کوئی دھو کے والی بات نہ ہو.خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا.جب یہ تین باتیں تو بہ کرنے والا اپنے اندر پیدا کرے گا تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا.یہاں تک کہ وہ سیئات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے.تو یہ بچی تو بہ جو برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتی ہے اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے.فرماتا ہے مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ | حَسَنَتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ( الفرقان : 71) یعنی جو تو بہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے پس

Page 407

387 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدیوں کو اللہ تعالیٰ خوبیوں میں بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس یہ انقلاب لانے کی ضرورت ہے کہ پہلے ذہنوں کو پاک رکھنے کے لئے استغفار کے ساتھ جہاد کیا جائے.پھر چھوٹی سے چھوٹی برائی پر بھی احساس ندامت اور شرمندگی ہو اور پھر مضبوط قوت ارادی چاہئے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں، جو بھی لالچ ملے برائیوں کے قریب نہیں جانا اور اپنے ہر فعل اور عمل و اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کرنی ہے اور یہ جو روزے کے دن میسر آئے ہیں جس میں انسان برداشت اور قربانی کی ٹریننگ کی کوشش کرتا ہے اور روزے کی برکات سے فیض پانے کے لئے یہی کوشش کام آئے گی اور یہ کوشش کرنی چاہئے تو پھر ہی بخشش کا عشرہ بخشش کے سامان کرے گا.اور صرف درمیانی عشرہ ہی نہیں بلکہ اگلا عشرہ بھی بخشش کے سامان کرے گا اور صرف رمضان کا مہینہ نہیں بلکہ آئندہ آنے والا ہر مہینہ اور ہر سال بلکہ ہر سال کا ہر دن بخشش کے سامان کرے گا.پس اس روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے جو آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے پیچھے ہے کہ درمیانی عشرہ بخشش کا سامان کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عقل کیونکر اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے بلکہ خدا جس کی ذات نہایت کریم ورحیم واقع ہوئی ہے وہ بندہ سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں خدا تعالی کا نام....تواب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا.سو بندہ کا رجوع تو پشیمانی اور ندامت اور تذلل اور انکسار کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا رجوع رحمت اور مغفرت کے ساتھ.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 133-134) پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو حقیقی استغفار کرنے والے اور خالص تو بہ کرنے والے ہیں اور رمضان کے بابرکت مہینے میں اس کے اثرات اپنے پر دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے نظارے دیکھنے والے ہیں.اگر سستیاں ہوتی ہیں تو بندوں کی طرف سے، اگر کوتا ہیاں ہوتی ہیں تو بندوں کی طرف سے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہی یہ ہے کہ بندہ اس کے پاس آئے اور وہ اس کی تو بہ کرے جیسا کہ فرمایا وَاللَّهُ يُرِيْدُ اَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ (النساء: 28) اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر شفقت کرے اور توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس کام کو اپنے لئے اللہ تعالیٰ نے خود چنا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پورا نہ کرے.پس یہ بندے کا کام ہے کہ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے پھر دیکھے اللہ تعالیٰ کس طرح اس کی طرف بڑھتا ہے.

Page 408

خطبات مسرور جلد ششم 388 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 ستمبر 2008 پس اس ماہ میں جب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش پہلے سے بہت بڑھ کر اس کے بندوں پر نازل ہو رہی ہے ہمیں چاہئے اس سے فیض پانے کی حتی المقدور کوشش کریں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھیں کہ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا (الفرقان : 72) اور جو کوئی تو بہ کرے اور نیک اعمال بجالائے تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف حقیقی تو بہ کرتے ہوئے رجوع کرتا ہے.پس حقیقی تو بہ کے ساتھ اعمال صالحہ کا بجالانا بھی مشروط ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا.پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ درمیانی عشرہ کو بخشش کا عشرہ بنایا ہے تو یہ اس وقت اثر دکھائے گا جب ہم اپنے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کرنے کی کوشش کریں گے.پس استغفار اور نیک اعمال جب ہمیں رمضان کے آخری عشرے میں داخل کریں گے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے مطابق آگ سے آزاد کرانے کا عشرہ ہوگا.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ | يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال : 34) اللہ ایسا نہیں ہے کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش کے طالب ہوں.اللہ تعالیٰ تو مختلف ذریعوں سے ہمیں سمجھاتا رہتا ہے.پرانے لوگوں کے واقعات بیان کر کے، انبیاء کے واقعات بیان کر کے، انبیاء کے ذریعہ نصائح فرما کر کہ کس کس طرح تم میری بخشش طلب کر سکتے ہو اور کس طرح میں پہلی قوموں سے سلوک کرتا رہا ہوں اور اب بھی کروں گا.ظاہر ہے جب انسان ایک خاص توجہ کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہو، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کر رہا ہوں، نوافل سے بھی انہیں سجار ہا ہو، استغفار بھی کر رہا ہو، اور دوسرے نیک اعمال بجالانے کی بھی کوشش کر رہا ہو یہاں تک کہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر اس سے کوئی جھگڑے،اُسے برا بھلا کہے تو وہ بالکل جواب نہ دے اور یہ کہہ کے چپ ہو جائے کہ میں روزہ دار ہوں، میں تو اس ٹرینینگ میں سے گزر رہا ہوں اور میری یہ کوشش ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤں.تو لازماً ایسا شخص پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرلے وہ آگ سے یقینا نجات پا جاتا ہے اور اس کی جنت میں داخل ہوتا ہے.جیسا کہ اس حدیث کے شروع میں جس کا میں نے حوالہ دیا تھا اس کی تفصیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص کسی بھی اچھی خصلت کو اس مہینہ میں اپنا تا ہے یعنی کوئی بھی اچھا فعل کرتا ہے، کام کرتا ہے، نیکی کو اپنا تا ہے وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو جملہ فرائض ادا کر چکا ہو، جتنے اس کے ذمہ فرض ہیں اس نے ادا کر دیئے ہوں.اور جس نے ایک فریضہ اس مہینے میں ادا کیا وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے ستر فرائض رمضان کے علاوہ ادا کئے اور رمضان کا مہینہ صبر کرنے کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے.یہ مؤاخات اور اخوت کا مہینہ ہے یعنی دوسرے کے غم میں شریک ہونا، دوسروں سے نرمی سے پیش آنا، دوسروں کو معاف کرنا.آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کو قائم کرنا اور یہ سب باتیں پھر حقوق العباد اور اعمال صالحہ کی طرف لے جانے والی ہیں.بلکہ یہ ان کی وضاحت ہی ہیں.

Page 409

خطبات مسرور جلد ششم 389 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 اور جب یہ ساری باتیں جمع ہو جائیں تو ایسے لوگوں کو آنحضرت ﷺ نے آگ سے بچنے کی خوشخبری دی ہے اور مسلسل نیکیوں پر قائم رہنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اپنے خلاف ہونے والے ظلموں پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جنت کی خوشخبری دی ہے.عموماً رمضان میں پاکستان میں بھی اور بعض دوسرے ممالک میں بھی جہاں ان نام نہاد علماء نے اپنا اثر قائم کر کے مسلمانوں کو غلط راستے پر ڈالا ہوا ہے احمدیوں پر ظلم اور زیادتی کے نئے سے نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بھی کہا تھا احمدیوں کو جذباتی ، روحانی، مالی اور جانی تکلیفیں اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.لیکن ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.اور پھر رمضان میں تو خاص طور پر اُس مومن کو جو نیک اعمال بجالا رہا ہے اور صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول جنت کی بشارت دے رہے ہیں.اس لئے اس تربیتی مہینے میں تو خاص طور پر ہر احمدی کو دعاؤں، استغفار، نوافل اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کو اپنے قریب تر لانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور ایسے ہی اعمال کرنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عمل کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَحَرِيْرًا (الدهر : 13) اور ان کے نیکیوں پر قائم رہنے اور صبر کرنے کی وجہ سے انہیں جنت اور ریشم عطا کیا جائے گا.پس آج اگر احمد یوں پر ظلم ہو رہے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ یہ ظلم ہم پر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے کہ آنے والے امام کو ہم نے مان لیا، اس وجہ سے ہم پر ظلم ہو رہا ہے تو دشمن کو یہ ظلم کرنے دیں اور صبر سے کام لیں کہ اس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے.ظالموں کو جو اللہ تعالیٰ نے انذار کیا ہے اس سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے.یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ ان آگ لگانے والوں سے کیا سلوک کرے گا.لیکن ان دنوں میں ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ انسانیت کے لئے بالعموم اور امت مسلمہ کے لئے بالخصوص رحم کی دعا کریں.بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ ان ظلموں کے بعد دعا نہیں ہو سکتی.لیکن ہمیشہ ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کی اکثریت گو دین کے معاملے میں پُر جوش تو ہے لیکن دین کے علم سے بالکل نا واقف ہے یا معمولی علم رکھنے والے ہیں یا علماء سے خوفزدہ ہیں.اور یہ جو دین کے نام نہاد عالم ہیں یہ لوگ ہیں جو انہیں غلط راستوں پر ڈال رہے ہیں.پس رمضان کے اس آخری عشرے میں صبر کا انتہائی مظاہرہ کرتے ہوئے ، دعاؤں اور نوافل کیے پر زور دیتے ہوئے ، استغفار اور تو بہ کرتے ہوئے ، نیک اعمال بجالاتے ہوئے ، تقویٰ پر ہمیشہ چلنے کا عہد کرتے ہوئے ، آگ سے دور ہونے والے اور جنت کو حاصل کرنے والے بنے کی کوشش کریں.ہمیں اس رمضان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاز لِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ (الشعراء: 91) اور جنت متقیوں کے قریب کر دی جائے گی.دُور نہیں ہوگی.هَذَا مَا تُوعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابِ حَفِيظ ( سورة ق : 33) یعنی یہ ہے وہ جس کا تم وعدہ دیئے گئے

Page 410

390 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم تھے.یہ وعدہ ہر اس شخص سے ہے جو خدا کے آگے جھکنے والا ہے.اپنے اعمال کی حفاظت کرنے والا ہے، اس سے یہ وعدہ ہے.جو احکام شریعت اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں ان پر عمل کرنے والا ہے اس سے یہ وعدہ ہے.تو رمضان سے ہم میں سے ہر ایک کو اس طرح گزرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس طرح اللہ اور رسول یو نے گزرنے کا حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں آخری عشرہ میں بھی یہ برکات سمیٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا اور اس کی جنت میں داخل ہونے والا بنائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج پھر جمعہ کے بعد میں جنازہ ہائے غائب پڑھاؤں گا.ایک تو افسوسناک اطلاع یہ ہے ، جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ درخواست دعا کی تھی کہ ہمارے ایک بھائی شیخ سعید احمد صاحب جن کو اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے احمدیت کی دشمنی کی وجہ سے گولیاں ماری گئی تھیں ، وہ ہسپتال میں کافی زخمی حالت میں تھے.وہ12 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد آخر پھر جانبر نہ ہو سکے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اور انہوں نے بھی شہادت کا رتبہ پایا.اس شہید نے بھی نو جوانی کی عمر میں اپنا خون پیش کیا.ان کی 42 سال عمر تھی اور ان کی شادی گزشتہ سال ہی ہوئی تھی اور اس حملے کے دوران جب یہ ہسپتال میں تھے ، اس عرصے میں ہی ان کے ہاں پہلے بیٹے کی ولادت بھی ہوئی.یہ تھوڑی دیر کے لئے ہوش میں آئے تھے تو ان کو بتایا گیا کہ آپ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے تو وہ کچھ اظہار نہیں کر سکتے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں ذرا نمی سی آگئی.اس خاندان میں جس کے یہ نو جوان شیخ سعید صاحب ہیں پہلے بھی تین شہادتیں ہو چکی ہیں.ان کے والد شیخ بشیر صاحب کو زہر دے کر احمدیت کی وجہ سے مارا گیا ، شہید کیا گیا.پھر ایک بھائی شیخ محمد رفیق صاحب اور ان کے ماموں پروفیسر ڈاکٹر شیخ مبشر احمد صاحب کو فائرنگ کر کے شہید کیا گیا تھا.شیخ مبشر احمد صاحب کو تو اس سال کے شروع میں شہید کیا گیا.شیخ سعید صاحب بھی بڑے خاموش طبع انسان تھے، ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی ، انتہائی مخلص خادم دین اور دعوت الی اللہ کا بہت شوق رکھتے تھے.1990ء میں مولویوں نے ان کے خلاف فوج کو شکایت کی جس پر انہیں گرفتار کیا گیا اور پھر ضمانت پر رہائی ہوئی.جیسا کہ میں نے بتایا ، ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور ایک بیٹا ہیں اور والدہ ہیں.ان کی عمر 72 سال ہے.ان کے لئے بھی بڑھاپے میں یہ صدمہ بڑا بھاری ہے.ان سب کو دعاؤں میں یا درکھیں.گزشتہ جمعہ کو جب میں نے دو شہداء کا ذکر کیا تھا تو ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کا ذکر ان کی علاقہ میں واقفیت اور بعض کاموں کی وجہ سے تھا اور دوسرے ضلع میر پور خاص بھی بہت بڑا ضلع ہے جہاں جماعت بھی بڑی ہے اس کے مقابلے میں نواب شاہ کا ضلع چھوٹا تھا.یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس سے کیا سلوک کرنا ہے، شہادت کا درجہ تو بہر حال دونوں نے لیا.گزشتہ دنوں مجھے بعض افسوس کے خط آ رہے تھے تو ان میں سے ایک اچھلے بھلے پڑھے لکھے

Page 411

391 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم نے صرف ڈاکٹر صاحب کے افسوس کا ذکر کیا، حالانکہ اگر میرے سے افسوس کرنا ہی ہے تو پھر تو دونوں شہداء کا افسوس کرنا چاہئے تھا.سیٹھ صاحب سے بھی میری ذاتی واقفیت تھی ، بڑے خاموش طبع اور کام کرنے والے، دین کا جذبہ و شوق رکھنے والے کارکن تھے.میں جب بھی نوابشاہ گیا ہوں ، کئی مرتبہ گیا ہوں، خاص طور پر ملنے کے لئے آتے تھے، میٹنگ کرتے تھے، جماعتی کاموں میں مشورہ لیتے تھے اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے.تو بہر حال میں اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا تھا.آج دوسرا جنازہ غائب جوا بھی ادا ہوگا وہ ایک ہماری سیرئین (Syrian) بہن مروہ الغالول صاحبہ ہیں.یہ پیدل جارہی تھیں ان کو پیچھے سے کسی ٹرک یا گاڑی نے ٹکر ماری اور کچھ عرصہ یہ ہسپتال میں رہیں اور پھر ان کی وفات ہو گئی.24 سال ان کی عمر تھی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یہ بھی ہماری عربی ویب سائیٹ اَجْوِبَة عَنِ الْإِيْمَانِ میں بڑی محنت سے کام کر رہی تھیں اور ہر مشکل کام انہوں نے اس میں کیا.پھر اسی طرح الاسلام ویب سائیٹ پر زکوۃ کے موضوع پر انگریزی میں لکھی گئی ایک کتاب کا انہوں نے عربی میں ترجمہ بھی کیا ہے.اس ترجمے کی تکمیل کے بعد دراصل یہ اس کو کتابی شکل دینے کے لئے پریس میں جارہی تھیں ، تو حادثے کا شکار ہوگئیں.بہت نیک خاتون تھیں.تقوی شعار تھیں ، خدمت کا جذبہ رکھنے والی تھیں.اکثر کہتی تھیں کہ مجھے دین کا کام ملتا چلا جائے.یہاں ان کے منگیتر محد ملص صاحب ہیں جو ایم ٹی اے العربیہ میں کام کر رہے ہیں.عنقریب ان کی شادی ہوئی تھی.بہر حال جو اللہ کی تقدیر.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور پیچھے رہنے والوں کو صبر اور حوصلہ دے.ایک تیسرا جنازہ غائب ہوگا یہ بھی سیر تکین (Syrian) ہیں سامی قزق صاحب.ان کی چند روز قبل وفات ہوئی ہے.یہ بھی فلسطین کے ایک مخلص احمدی خضر قزق صاحب کے بیٹے تھے اور نو جوانی میں ہی یہ بڑا جذ بہ رکھنے والے انسان تھے.1996ء میں برطانیہ میں جلسہ میں شمولیت کے لئے آئے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی اور حضور رحمہ اللہ سے جو شفقت کا سلوک دیکھا تو اس کے بعد ایمان میں یہ اور بھی بڑھ گئے اور واپس جا کر اپنا ایک مکان تھا جو جماعتی ضروریات کے لئے انہوں نے بغیر کرایہ کے جماعت کو دے دیا اور کہا کہ میں جماعت کے لئے دے رہا ہوں اس لئے کوئی پیسہ وصول نہیں کروں گا.جب یہ جلسہ پر آئے تھے تو کہتے ہیں اب جلسہ پر آ کے مجھے پتہ لگا کہ جماعت احمدیہ کیا چیز ہے.بہت نیک طبع ملنسار انسان تھے.غریبوں کی مدد کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولا د کو بھی احمدیت کے زیور سے آراستہ کرے.ان کو توفیق دے کہ وہ بھی جماعت میں شامل ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شمارہ 41 مورخہ 10 اکتوبر 2008 ء تا 16 اکتوبر 2008 صفحہ 5 تا8 )

Page 412

خطبات مسرور جلد ششم 392 (39) خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2008ء بمطابق 26 رتبوک 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ.ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.وَإِذَا رَاَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَائِمًا.قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ.وَاللهُ خَيْرُ الرَّازِقِيْنَ ( الجمعة : 10-12) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پس جب نماز ادا کی جا چکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.اور جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلا وا دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے.تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.جیسا کہ ہم نے قرآن کریم کے ان الفاظ میں سنا جو کہ سورۃ جمعہ کی آخری آیات ہیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کی کس قدر اہمیت ہے کہ اس کے بارے میں علیحدہ احکامات ہیں.باوجود اس کے کہ عبادات اور نمازوں کی ادائیگی ، اُن کے وقت پر ادا کرنے ، باقاعدہ ادا کر نے مسجد میں جا کر ادا کرنے ، ان کی ادائیگی سے پہلے ظاہری طور پر وضو کر کے پاک صاف ہونے وغیرہ کے تفصیلی احکامات قرآن کریم میں موجود ہیں لیکن جمعہ جو ایک عبادت اور نماز ہی ہے اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے علیحدہ حکم اتارا ہے.پس جمعہ کی نماز کی ایک خاص اہمیت ہے جس کی مزید وضاحت ہمیں احادیث سے بھی ملتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات سے بھی واضح ہوتی ہے.رمضان کے پہلے جمعہ میں جب میں نے رمضان میں دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی تو ضمنا جمعہ کے دوران اور

Page 413

393 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم جمعہ کے دن دعاؤں کی قبولیت کی خاص گھڑی یا عرصہ کا ذکر کیا تھا جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اس اہمیت کے پیش نظر جمعہ کی جو اہمیت ہے، اکثر نے اس رمضان کے گزشتہ جمعوں میں خاص طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہوگی کہ جمعہ اور روزے جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی بنتے ہیں.آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کے آخری عشرے کا پانچواں دن گزار رہے ہیں اور اس رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے، جس کو بعض دوسرے مسلمان گروہوں میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ یہ آخری جمعہ ہے اس لئے اس میں اپنے تمام گناہ بخشوانے کے لئے ضرور شامل ہو.جب سلیٹ صاف ہو جائے تو پھر نئے سرے سے جو چاہو کرو.بلکہ بعض کئی سال بعد ایک جمعہ پڑھنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں.اُن لوگوں میں یہ تصور اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ مان کر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو صیح طور پر سمجھنے سے عاری ہیں.پس ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اصل حکم کو سمجھتے ہوئے ہر جمعہ کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہیں ، چاہے وہ رمضان کا جمعہ ہے یا اس کے علاوہ.لیکن اگر رمضان کے جمعوں کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت ہے تو اس لئے کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ ایک طرف تو ہمیں یہ خوشخبری مل رہی ہے کہ جمعہ کے دن ایک وقت ایسا آتا ہے جب خدا تعالیٰ بندے کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے اور رمضان کے روزوں کی وجہ سے یہ خوشخبری مل رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب ہو کر اس کی دعائیں سنتا ہے اور رمضان میں تہجد اور نوافل کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے اور ہر شخص عموماً توجہ دیتا ہے.پس رمضان کے جمعوں کی یہ اہمیت ہوگئی کہ اس میں دن کو بھی خدا تعالیٰ خاص فضل فرماتے ہوئے بندے کی دعائیں سن رہا ہے اور رات کو بھی خاص فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی دعائیں سن رہا ہے.پس ان دنوں اور راتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لئے اللہ تعالیٰ کی دائمی رحمت مانگنے، ہمیشہ اس کی مغفرت کی چادر میں ڈھکے رہنے، ہمیشہ اس دنیا کی جہنم سے بھی اور اگلے جہان کی جہنم سے بھی بچے رہنے کی دعا مانگنی چاہئے تا کہ صرف رمضان اور رمضان کے جمعے یا صرف آخری جمعہ ہمیں عبادتوں میں توجہ دلانے والا نہ ہو بلکہ سال کا ہر جمعہ اور ہر دن ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی طرف توجہ دلانے والا ہو.پس ہر احمدی کو اس بات کو پلے باندھنے کی ضرورت ہے اور باندھنی چاہئے کہ صرف رمضان کا جمعہ نہیں یا آخری جمعہ نہیں جس کے لئے بعض لوگوں میں اہتمام کیا جاتا ہے کہ جس طرح بھی ہو ضر ور مسجد جانا ہے یا بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عید ضر ور عید گاہ یا مسجد میں جا کر پڑھنی ہے.جبکہ عید کی اہمیت کے بارے میں قرآن کریم میں براہ راست کوئی حکم نہیں ہے.یہ ٹھیک ہے کہ عید کی اتنی اہمیت ہے کہ آنحضرت نے اس میں شامل ہونے کی خاص تاکید فرمائی ہے اور ان عورتوں کو بھی عید پر جانے کا حکم ہے جنہوں نے نماز نہیں پڑھنی لیکن جمعہ کے بارے میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ ضرور شامل ہونا ہے.لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ عید پر جانے کا حکم صرف اس لئے نہیں کہ سال کے بعد دو رکعت پڑھ لینے سے یا چند

Page 414

خطبات مسرور جلد ششم 394 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 منٹ کا خطبہ سن لینے سے گناہ بخشے جائیں گے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جو عبادت اور قربانی کی توفیق ملی یا جس کی خواہش تھی لیکن مجبوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہی اس پر مکمل عمل نہ ہوسکا.لیکن کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے شکرانے کی عبادت میں شامل ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو سکیں، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے والے ہوں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ توفیق دے کہ عبادت کا ہر فرض پورا کرنے والے بن سکیں اور نوافل کی توفیق پا سکیں تو تب ہی ہر عید میں شامل ہونے کا فائدہ ہے اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ ایسی عید منانے کی کوشش کرے.بہر حال اس وقت میں جمعہ کی اہمیت کا ذکر کر رہا تھا.حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے.مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 2 کتاب الصلاۃ باب فی الجمعة وفضلها حدیث نمبر 2999.دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء ) پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور پہلے آنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کی قربانی کرے پھر بعد میں آنے والا اس کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرے پھر مینڈھا یعنی دونبہ کی قربانی ، پھر مرغی اور پھر انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے.پھر جب امام منبر پر آجاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر کوسننا شروع کر دیتے ہیں.( صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب الاستماع الى الخطبة حدیث نمبر 929) پھر ایک روایت ہے، جس کا کچھ حصہ میں بیان کرتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں دنوں میں سب سے افضل دن کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ پھر آپ نے فرمایا وہ جمعہ کا دن ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ مینوں میں سے سب سے افضل مہینے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ فرمایا وہ رمضان کا مہینہ ہے.پھر آپ نے فرمایا راتوں میں سے سب سے افضل رات کے بارے میں نہ بتاؤں؟ فرمایاوہ لیلۃ القدر ہے.مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 2 کتاب الصلاۃ باب فی الجمعة وفضلها حدیث نمبر 3005 - دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء ) پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابولبابہ بن منذر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کا دن ، دنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظیم ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی بڑھ کر ہے.اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت آدم کو پیدا کیا.اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر اتارا.اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو وفات دی.اور اس دن ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ حرام چیز کے علاوہ جو بھی اللہ سے مانگے تو وہ اسے عطا کرتا ہے.اور اسی دن قیامت

Page 415

خطبات مسرور جلد ششم 395 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 بر پا ہوگی.مقر ر فرشتے آسمان اور زمین اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمندر، اس دن سے خوف کھاتے ہیں.(سنن ابن ماجہ.کتاب اقامة الصلوۃ وستة - باب فی فضل الجمعة حدیث نمبر 1084) اب یہ تمام حدیثیں جمعہ کی اہمیت واضح کر رہی ہیں.اس طرف توجہ دلا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے که إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ (الجمعة : 10) یہ اس دن کی خاص برکات کی وجہ سے ہے.یہ نہ سمجھو کہ تمہاری تجارتیں، تمہارے کارو بار تمہارے لئے بہتر ہیں.نہیں، بلکہ اصل خیر تمہارے لئے جمعہ کے دن کی عبادت میں ہے.اب یہ جو حدیث میں آیا کہ نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے تو پہلی نیکی تو اس اطاعت میں ہے جو ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حکم پر کرتے ہوئے اپنے تمام دنیاوی دھندے چھوڑ کر تجارتیں چھوڑ کر خاص طور پر مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کے لئے آتا ہے.اور جمعہ کی نماز بھی وہ نماز ہے جو عموماً ظہر کی نماز سے لمبی ہوتی ہے اور پھر خطبہ بھی دیا جاتا ہے.کاروبار میں مصروف انسان بظاہر یہ خیال کرتا ہے کہ اتنا لمبا عرصہ کا روبار سے باہر رہنے کی وجہ سے میرا نقصان ہو گا.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری اطاعت کی وجہ سے تمہارا نقصان نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ( النور : 53) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کا تقویٰ اختیار کریں وہ بامراد ہو جاتے ہیں.پس اللہ فرماتا ہے کہ عام حالات میں بھی اطاعت کرنے والے بامراد ہوتے ہیں.تو جمعہ کے دن تو یہ اطاعت اتنی زیادہ برکات لانے والی ہے کہ اس کا حساب شمار ہی نہیں کیا جاسکتا.اللہ کے ذکر کے لئے وہی آئے گا جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں رکھتا ہوگا، تقویٰ پر قدم مارنے والا ہوگا اور ایسا انسان جو اس معیار پر قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے کاروبار چھوڑ کر آئے وہ بھلا اپنی مرادوں کو حاصل کئے بغیر کس طرح لوٹا یا جاسکتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایسا خدا کا خوف رکھنے والا جب خدا کے حضور عبادت کے لئے حاضر ہوتا ہے تو کئی گنا اجر پاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمعة : 10) ہر اس انسان کو جو اللہ تعالیٰ کو تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک سمجھتا ہے.خدا تعالیٰ کو رب العالمین سمجھتا ہے تسلی دلانے والا ہونا چاہئے.اللہ تعالی فرماتا ہے تمہیں علم ہی نہیں کہ تم کتنی برکتیں نماز پر آ کر سمیٹتے ہو.اگر تم جانتے ہو کہ کتنی برکتیں تم جمعہ سے سمیٹ رہے ہو تو رمضان کے آخری جمعہ یا رمضان کے جمعہ پر ہی بس نہ کرتے بلکہ جمعہ کے بعد جمعہ کا انتظار رہتا.اور پھر مسجد میں آنے کے لئے جلدی کرتے تا کہ اونٹ کی قربانی کا ثواب لو، یا گائے کی قربانی کا ثواب لو ، یا یہ کوشش تو کرتے کہ کچھ نہ کچھ ثواب فرشتوں کا رجسٹر بند ہونے سے پہلے فرشتوں کے رجسٹر میں لکھا جائے.اُس گھڑی اور لمحے کی تلاش میں دعاؤں میں مشغول رہتے.ذکر الہی اور جمعہ کی نماز کے مقابلہ پر ہر دنیاوی چیز کو ثانوی حیثیت

Page 416

خطبات مسرور جلد ششم 396 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 دیتے.ہم احمدیوں کے دلوں میں اس دن کی خاص اہمیت ہونی چاہئے.کیونکہ اس زمانے میں آخرین کو پہلوں سے ملانے میں اس دن کی بھی بہت اہمیت ہے جبکہ دنیا داری انتہا تک پہنچی ہوئی ہے اور شیطان ہمیں ہر اس نیک کام سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو، اس کی رضا کے حصول کا حامل بنانے والا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں اپنی بعثت کا اس دن اور اس زمانے سے تعلق جوڑتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں، ذکر فرماتے ہیں اور اپنے نہ مانے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے وہاں اپنے ماننے والوں کو بھی بڑے درد سے نصیحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے.مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے.یہ بیچ ہے کہ تم منکروں کی نسبت قریب تر با سعادت ہو.جنہوں نے اپنے شدید ا نکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی.لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے.ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے.یہ فقرہ بڑے غور کے قابل ہے اور ہم سب کو بڑا فکر دلانے والا ہے.فرمایا ” پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے بڑوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا.یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمے سے پیئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے.اس چشمے سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو د وحق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو.ان میں سے ایک خدا کا حق ہے اور دوسرا مخلوق کا“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 135 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) بڑے واضح طور پر آپ نے فرما دیا کہ یہ ٹھیک ہے تم نے حسن ظن کر کے مجھے مان لیا.زمانہ کے امام کو مان لیا.اس اہمیت کو تسلیم کر لیا کہ آخری زمانے میں امام نے آنا تھا جنہوں نے پچھلوں کو پہلوں سے ملانا تھا.اس زمانہ میں عبادتوں کی بھی بڑی اہمیت تھی.لیکن فرمایا کہ صرف یہ سمجھ لینا کافی نہیں ہے.ابھی بھی کئی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے اندر پوری تبدیلیاں پیدا نہیں کیں.بہت ساروں کے لئے خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس زمانہ میں اپنے ساتھیوں کے بارے میں ، ان لوگوں کے بارے میں فرما رہے ہیں جو براہ راست آپ کی صحبت سے فیض پانے والے تھے تو ہمیں کس قدر اپنے جائزے لیتے ہوئے اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ یہ جمعہ جو ایک عظیم جمعہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو

Page 417

خطبات مسرور جلد ششم 397 خطبه جمعه فرمودہ 26 ستمبر 2008 مان کر ہمیں نصیب ہوا ہے ، اس کا حق ادا کرنے کے لئے کوشش اور سعی کریں.صرف سال کے رمضان میں ہی توجہ نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر عبادات اور مخلوق کے حق کی ادائیگی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہیں.رمضان میں جو نیکیوں کی توفیق ملی ہے، یہ نیکیاں اب ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن جائیں.جب جھگڑوں اور لغویات سے ہم جو ان دنوں میں انی صائم کہہ کر بچتے رہے تو اب رمضان کے بعد بھی بچتے رہیں.نمازوں میں جو با قاعدگی ہم نے حاصل کی اسے مستقل اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں.جیسا کہ حدیث میں جو میں نے ابھی سنائی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہترین دن جمعہ کا دن ہے اور بہترین مہینہ رمضان کا مہینہ ہے اور بہترین رات لیلۃ القدر کی رات ہے.آج اسی دن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنی دعاؤں میں اس دعا کو ضرور شامل کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے آئندہ آنے والے جمعوں کی برکات سے بھی ہمیں فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے.پھر بہترین مہینے سے بھی ہم گزر رہے ہیں جس کے آخری چند دن رہ گئے ہیں.ان دنوں میں بھی اپنی دعاؤں میں اس دعا کو ہمیشہ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ان دنوں کی برکات ہمارے لئے اللہ تعالیٰ اتنا لمبا کر دے کہ اگلے رمضان تک ہم ان سے فیض پاتے چلے جائیں اور پھر آئندہ آنے والے رمضان میں اور ترقی کی منازل طے کریں.اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو مزید حاصل کرنے والے ہوں اور پھر یہ نیکیوں کے حصول کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ، تاحیات ہمارے ساتھ چلتا چلا جائے بلکہ مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں ہمیں لیٹے رکھے.پھر بہترین رات کا ذکر ہے جو لیلۃ القدر ہے.اس کے بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آخری عشرہ میں تلاش کرو اور بعض جگہ ہے کہ آخری سات دنوں میں تلاش کرو.( بخاری کتاب فضل ليلة القدر باب تحرى ليلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر حدیث نمبر 2017) پس ہم اس لحاظ سے بھی آخری ہفتہ سے گزر رہے ہیں.پھر روایات سے طاق راتوں میں تلاش کرنے کا بھی پتہ چلتا ہے.تو اس لحاظ سے بھی دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ قبولیت دعا کی رات ہے.مختصراً یہاں لیلۃ القدر کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں کر دیتا ہوں.قرآن کریم میں سورۃ القدر جس میں لیلۃ القدر کا ذکر ملتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے ذکر میں فرماتے ہیں کہ ایک لیلتہ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں.لیکن ایک معنے اس کے اور ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی.چنانچہ پھر آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آنحضرت ﷺ کا آنا اور قرآن کا نازل ہونا اس زمانہ کی ضرورت تھی جو تا قیامت رہنے والا

Page 418

خطبات مسرور جلد ششم 398 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 زمانہ ہے اور إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ( القدر :2) کی آیت اس کی دلیل ہے کہ حقیقی ضرورت تھی.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے.اس وقت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کے پہلے حصے کے حوالے سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جب دعا اور استغفار قبول کرنے کے لئے ہاتھ پھیلا رہا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تو ہمیں ہمیشہ ایسی راتوں کی تلاش میں رہنا چاہئے جب ہم اس سے فیض پانے والے ہوں اور حقیقت یہی ہے کہ جمعہ کا دن یا رمضان کا مہینہ بالیلۃ القدر اُس وقت ہمارے لئے فائدہ مند ہوں گے جب ہم وہ انقلاب اپنی زندگیوں میں پیدا کریں گے جو ہمیں اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والا بنائے ، ہماری عبادتیں اور نماز میں دائمی ہو جائیں.پھر اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر صرف جمعہ کے وقت یا جمعہ کے دن ہی نہیں رہے گا بلکہ ہم ہمیشہ اپنی زبانوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے تر رکھنے والے ہوں گے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ جب جمعہ پڑھ لو، اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاؤ تو یاد رکھو کہ پھر یہ نہ سمجھنا کہ اب اگلے جمعہ تک دنیاوی دھندوں میں پڑے رہو نہیں، بلکہ اپنے کاموں کے دوران بھی، اپنی تجارتوں کے دوران بھی ، اپنی مصروفیات کے دوران بھی خدا تعالیٰ کی یاد تمہیں آتی رہنی چاہئے.اس کا ذکر تمہاری زبانوں پر رہنا چاہئے.دن کی پانچ وقت کی نمازیں تمہارے سامنے اہنی چاہئے.فرمایا وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الجمعة: (11) جب تم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاؤ تو اللہ کا فضل تلاش کرو.یعنی یہ دنیاوی کام بھی جائز کام ہونے چاہئیں.کسی ناجائز کام کواللہ تعالیٰ کے فضل پر محمول نہیں کیا جا سکتا.ان نمازیوں اور حاجیوں کی طرح نہ بنو جو اپنی ظاہری عبادتوں کے بعد پھر اپنی تجارتوں میں دھو کہ کرتے ہیں.پس اپنے ذہنوں کو پاک رکھنے کے لئے ذکر الہی ضروری ہے.صرف ظاہری تسبیح پھیرنا ذکر الہی پر دلالت نہیں کرتا بلکہ دل دماغ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں ، فضلوں کی سمت کو سامنے رکھ کر اس طرح اللہ کو یاد کرے کہ تقویٰ پیدا ہو اور اللہ فرماتا ہے تمہاری اصل فلاح اور کامیابی اسی میں ہے.اللہ تعالیٰ کا ذکر کس طرح کرنا چاہئے؟ اس بارہ میں بھی قرآن کریم میں کئی جگہ مختلف حوالوں سے بیان کیا گیا ہے مثلاً سورۃ آل عمران میں تخلیق کے بارے میں ، کائنات کے بارے میں، زمین و آسمان کے بارے میں ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ.وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا.سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: 192) وه لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے رہتے ہیں اور بے ساختہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے کسی چیز کو بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا.پاک ہے تو.پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پس ذکر الہی اس طرح ہونا چاہئے کہ ہر وقت خدا یا در ہے.اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش کی طرف

Page 419

399 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم توجہ دلا کر پھر یہ جوفرمایا کہ اس پیدائش پر غور کرنے والے کہتے ہیں کہ سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.تُو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.یہ اس لئے ہے کہ جو کچھ زمین و آسمان میں پیدا کیا گیا ہے وہ سب اللہ کی مخلوق ہے.ہماری زندگی کے تمام انحصار اور ذرائع اصل میں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں اور اس کے درمیان ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے.پس جب ہر چیز ہی خدا کی ہے اور خدا کے فضل سے ملتی ہے اور مانی ہے تو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر اور کسی طرف انسان کس طرح جا سکتا ہے.اسے شریک بنائیں گے تو اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا.اللہ کے مقابلے میں اگر تجارتوں کو شریک بناؤ گے تو معاف نہیں ہو گے.فرمایا یہ چیزیں پھر آگ کی طرف لے جانے والی ہیں.اس لئے انسان دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.ہرلمحہ ہر آن اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمیں ہر قسم کے فضلوں سے نواز نے والا ہے.اس لئے انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی ایسا موقع اس کی زندگی میں نہ آئے.اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ! کبھی ہماری زندگی میں ایسا موقع نہ آئے کہ تیرے مقابل پر ہم کوئی چیز لائیں.یہ دعا ہمیشہ کرنی چاہئے کہ اے اللہ ! ہم ہمیشہ تیرے عبادت گزار اور ذکر کرنے والے رہیں تا کہ دین ودنیا میں بھی ذلیل ورسوا نہ ہوں اور آخرت کے عذاب سے بھی بچے رہیں.پس جب اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے کہ نماز جمعہ کے بعد اس کے فضلوں کو تلاش کرو اور ذکر الہی کرتے رہو تو یہ یاد دہانی ہے کہ تمہارے تمام نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہیں.پس یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میرے سے تعلق جوڑ کر تم روحانی فائدہ بھی اٹھارہے ہو اور دنیاوی فائدہ بھی اٹھا رہے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو یہ بیان کیا ہے کہ اولوالالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جل شانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں.یہ گمان نہ کرنا چاہئے کہ عقل و دانش ایسی چیزیں ہیں جو یو نہی حاصل ہوسکتی ہیں.نہیں، بلکہ بچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.اس لئے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو.فرمایا کہ حقیقی دانش کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقوی نہ ہو.پس یہ بات بھی اگر کسی کے ذہن میں ہے کہ ہم اپنی تجارتوں اور کاروباروں کو اپنی عقلوں سے چلا رہے ہیں تو یہ غلط ہے.ٹھیک ہے ایک انسان محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا قانون قدرت کے تحت پھل دیتا ہے.ایک دنیا دار جو خدا کو نہیں مانتا یا اس کا خدا سے تعلق نہیں وہ تو اپنی تجارتوں سے ، اس دنیا داری سے عارضی فائدہ اٹھا رہا ہے.لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جب زمانہ کے امام کو ہم نے مانا ہے تو پھر ہمارے ہر کام میں برکت تبھی پڑے گی ، ترقی بھی تبھی ملے گی جب خدا تعالیٰ کا ذکر بھی رہے اور اُن شرائط کی پابندی بھی رہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہیں اور تقویٰ

Page 420

خطبات مسرور جلد ششم 400 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 2008 بھی رہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو ماننے کے بعد پھر دو عملی نہیں ہو سکتی.ہمیں اُس اُسوہ کو اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو صحابہ نے قائم فرمایا تھا.اگر کاروبار کیا بھی تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کو نہیں بھولے.آنحضرت میااللہ کے کئی صحابہ تھے جنہوں نے چند سکوں سے کاروبار شروع کیا اور کروڑوں میں لے گئے.اس لئے کہ ایمانداری، فراست اور اللہ تعالیٰ کا فضل اُن کو اس مقام پر لے گیا.ان کی ایمانداری تھی ، فراست تھی، اللہ تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال رہا اور وہ اس مقام پر پہنچے.پس ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی کوشش کرنی ہے.اپنی عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچے کرنے کی کوشش کرنی ہے تا کہ ہمیشہ فلاح پانے والے رہیں.اس زمانہ کے دل بہلاوے اور تجارتیں کیونکہ ہماری زندگیوں پر زیادہ اثر انداز ہوئی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ خَيْرُ الرَّازِقِيْنَ خدا کی ذات ہے.ہر خیر اس کی طرف سے ملتی ہے.کاروباری فائدے اور اس بارہ میں وقت پر اور صحیح فیصلے کی توفیق بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.کئی لوگوں کے بڑے بڑے کاروبار ہیں صحیح فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے یا اور وجوہات کی وجہ سے دیوالیہ ہو جاتے ہیں.آج کل جو دنیا کی معاشی حالت ہے اس میں بھی دیکھ لیں بڑے بڑے بینک بھی دیوالیہ ہورہے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر کے مقابلے میں ہر دوسری چیز کو بیچ سمجھو اللہ کا فضل ہو تو سب کچھ ملتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے نہ صرف اس جمعہ کو بلکہ ہر جمعہ کو اہتمام کے ساتھ ادا کرنے والے بنیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے تساہل کرتے ہوئے تین جمعے لگا تار چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے.(ابوداؤد - کتاب الصلوة - باب التشديدفی ترک الجمعة - حدیث نمبر 1052) اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے اور کبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے دور ہٹنے والے نہ ہوں.آمین.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 42 مورخہ 17 اکتوبر تا 23 اکتوبر 2008 صفحہ 5 تا 7)

Page 421

خطبات مسرور جلد ششم 401 (40) خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اکتوبر 2008 فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2008ء بمطابق 03 را خاء 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چند خطبات پہلے میں نے اللہ تعالیٰ کی صفت مھیمن بیان کی تھی اور اس کی کچھ وضاحت بیان کی تھی اس کے معنی بھی بتائے تھے جو مختلف لغات میں درج ہیں.عموماً اس کے معنی پناہ دینے کے لئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہر چیز کی آخری پناہ گاہ ہے جہاں سے تحفظ ملتا ہے اور اپنے سے خالص ہو کر چھٹے رہنے والے کے لئے وہ عجیب عجیب نشان دکھاتا ہے.اس کے معنی گواہ کے بھی کئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ جب اپنے بندوں ، خاص طور پر انبیاء کے لئے گواہ بن کر کھڑا ہوتا ہے تو اپنے بندوں پر لگائے گئے ہر مخالف کے الزامات اور جھوٹ کو ر ڈ کرتے ہوئے گواہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے.اس کے معنی مخلوق کے معاملات پر نگران اور محافظ کے بھی ہیں.اس کے معنی خوف سے امن دینے والے کے بھی ہیں اور جب اللہ تعالیٰ اپنی صفت اپنے خاص بندوں کے لئے ظاہر کرتا ہے تو اس حفاظت اور نگرانی کے خارق عادت نشان ظاہر ہوتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے والے بھی یہ لوگ ہوتے ہیں ان پر اس کا اظہار بھی ہو رہا ہوتا ہے اور اس سے فیض اٹھانے والے بھی سب سے پہلے انبیاء ہوتے ہیں جن کے لئے خدا تعالیٰ کی ہر صفت غیر معمولی طور پر حرکت میں آتے ہوئے ان کی سچائی ثابت کرتی ہے تا کہ دنیا کو پتہ لگ سکے کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پھر اس نبی کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ان صفات کا اظہار اس کو ماننے والوں سے بھی ہوتا ہے.اس وقت میں اس حوالہ سے جو صفت مھیمن کے وسیع معنوں میں پوشیدہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے چند واقعات پیش کروں گا اور اس کے ساتھ ہی بعض بزرگوں کے بھی واقعات ہیں.جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے معجزانہ حفاظت اور نگرانی کے نظارے دکھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ پایا وہ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ سے پایا اور

Page 422

خطبات مسرور جلد ششم 402 خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 2008 آپ پر اللہ تعالیٰ کا احسان اس لئے تھا تا کہ آنحضرت یے اور اسلام کی سچائی ظاہر ہو.اس مضمون کے حوالے سے بھی جو میں بیان کر رہا ہوں آنحضرت ﷺ کے بارہ میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ”یادر ہے کہ پانچ موقعے آنحضرت ﷺ کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے، جن میں جان کا بچانا محالات سے معلوم ہوتا تھا.اگر آنجناب در حقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھالی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے.دوسرا موقع وہ تھا کہ جب کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت یہ مع حضرت ابو بکر کے چھپے ہوئے تھے.تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جب کہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت ﷺ اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلوار میں چلائیں، مگر کوئی کارگر نہ ہوئی.یہ ایک معجزہ تھا.چوتھا وہ موقعہ تھا جبکہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا.(5) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جب کہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت مالہ کے قتل کے لئے معصم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے.تو آپ فرماتے ہیں کہ "پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ان تمام پر خطر موقعوں سے نجات پانا اور اُن تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی ز بر دست دلیل اس بات پر ہے کہ در حقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 حاشیہ صفحہ 263-264 پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” یہ عجیب بات ہے کہ میرے لئے بھی پانچ موقعے ایسے پیش آئے تھے جن میں عزت اور جان نہایت خطرے میں پڑ گئی تھی.(1) اول وہ موقع جبکہ میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلارک نے خون کا مقدمہ کیا تھا.(2) دوسرے وہ موقع جبکہ پولیس نے ایک فوجداری مقدمہ مسٹرڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی کچہری میں میرے پر چلایا تھا.(3) تیسرے وہ فوجداری مقدمہ جو ایک شخص کرم الدین نام نے بمقام جہلم میرے پر کیا تھا.(4) وہ فوجداری مقدمہ جو اسی کرم دین نے گورداسپور میں میرے پر کیا تھا.(5) پانچویں جب لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی کی گئی اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگایا تھا تا میں قاتل قرار دیا جاؤں مگر وہ تمام مقدمات میں نامرادر ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 حاشیہ صفحہ 263) ساروں کی تفصیل بیان کرنا تو ممکن نہیں، ڈاکٹر مارٹن کلارک کا جو مقدمہ تھا ایک ایسا جھوٹا مقدمہ تھا جس میں ایک لڑکے سے جس کا نہ کوئی دین تھا نہ ایمان تھا اور مہا کا جھوٹا نکما جوان تھا یہ بیان دلوایا گیا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے یہ کہا ہے کہ جا کر ڈاکٹر مارٹن کلارک کو قتل کردو اور یہ لڑکا اپنے مذہب بدلتا رہتا تھا.

Page 423

خطبات مسرور جلد ششم 403 خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 2008 قادیان بھی آیا تھا کہ میری بیعت لے لیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قبول نہیں کی تھی ، پتہ لگ گیا تھا کہ یہ کیسا ہے.ڈاکٹر مارٹن کلارک ایک مشنری ڈاکٹر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین میں سے تھے، کیونکہ عیسائیت کی غلط تعلیم کے خلاف آپ ہر وقت آواز اٹھاتے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام کا بطور نبی صحیح مقام آپ بتا یا کرتے تھے.تو بہر حال مختصر یہ کہ اس مقدمہ میں تمام مخالفین کی طرف سے مخالفت اور مکر کی انتہا کی گئی.یہاں تک کہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب بھی اس وقت عیسائیوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے سے خبر دے دی تھی کہ اس کے فضل سے آپ محفوظ رہیں گے.چنانچہ ڈگلس صاحب جو مجسٹریٹ تھے.انہوں نے تمام حقائق جاننے کے بعد آپ کو باعزت بری کیا.اللہ تعالیٰ کس طرح اپنوں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے گواہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے اور حفاظت فرماتا ہے اس کی روداد ڈگلس صاحب کی زبان سے ہی سن لیں.راجہ غلام حیدر صاحب جو احمدی نہیں تھے، وہاں عدالت میں کام کرتے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ فیصلے سے پہلے حج صاحب نے سفر کرنا تھا وہ بڑی پریشانی سے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے.تو میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے پریشان کیوں ہیں اتنے ؟ کہنے لگے کچھ نہ پوچھو.آخر زور دینے پر بتایا کہ جب سے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ اٹھا کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گناہگار نہیں ، ان کا کوئی قصور نہیں.غرض حجج نے اس کے بعد پھر طریق تحقیق بدلا ملزم کو بجائے ان لوگوں کے پاس رکھنے کے پولیس کے حوالے کیا تو حق ظاہر ہو گیا.اسی طرح باقی مقدمات جو دشمن نے اپنے زعم میں آپ کو ذلیل ورسوا کرنے کے لئے کئے تھے خود اُن میں ناکام و نامرادر ہا اور اللہ تعالیٰ جس طرح آپ کو پہلے بریت کی خبر دیتا رہا تھا ہر جگہ سے سرخر وفرمایا.مارٹن کلارک والے مقدمہ کے بارہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہیں.فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو میں نے گھبرا کر دعا کی ، رات کو رویا میں دیکھا کہ میں سکول سے آ رہا ہوں اور اس گلی میں جو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے ( قادیان کا ذکر ہے ) اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے.پہلے تو ان میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا ، ( یہ خواب کا ذکر چل رہا ہے ) مگر پھر کسی نے کہا کہ یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے.جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا (یعنی باہر کا جو دروازہ تھا اس سے داخل ہو کر اندر جانے لگا ) تو وہاں ایک نہ خانہ ہوا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا.ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہ خانے میں اترتی تھیں بعد میں یہاں صرف ایندھن ( یعنی لکڑی وغیرہ جلانے کے لئے رکھی جاتی تھی) اور پیپے پڑے رہتے تھے.جب میں گھر میں داخل ہونے

Page 424

404 خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا ہوا ہے، ( جو جلانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے ) صرف آپ کی گردن مجھے نظر آ رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اُپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں.جب میں نے انہیں آگ لگاتے ہوئے دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر آگ بجھانے کی کوشش کی.اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا.کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور میں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اُپلوں کو آگ لگا دیں.اسی دوران میں اچانک میری نظر او پر اٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ” جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں ان کو کون جلا سکتا ہے.تو ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مومنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے اور ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گونہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامان حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دیئے.(سیر روحانی (3).انوار العلوم جلد 16.صفحہ 383 مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حقیقۃ الوحی میں اپنے صداقت کے نشانات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (25) پچیسواں نشان کرم دین جہلمی کے اس مقدمہ فوجداری کی نسبت پیشگوئی ہے جو اس نے جہلم میں مجھ پر دائر کیا تھا.جس پیشگوئی کے یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ.رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ وَانْصُرُنِي وَارْحَمُنِی.اور دوسرے الہامات بھی تھے جن میں بریت کا وعدہ تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس مقدمہ سے مجھ کو بری کر دیا“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 224) اس بارے میں میں ایک دعا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں ، چند دن پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ دشمن کا کوئی منصوبہ ہے، تو میں اس کو حملے سے پہلے ہی بھانپ لیتا ہوں اور اس وقت میں یہ دعا پڑھ رہا ہوں کہ رَبِّ كُلُّ شَيْ ءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظُنِى وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِی اور پڑھتے پڑھتے مجھے خیال آتا ہے کہ اپنے سے زیادہ مجھے جماعت کے لئے دعا پڑھنی چاہئے تو اس میں جماعت کو بھی شامل کروں.تو اس حوالے سے میں آپ کو بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ احباب جماعت بھی اپنی دعاؤں میں اس دعا کو بھی ضرور شامل کریں، اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر ایک کو بچائے اور جماعت کی حفاظت فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آپ کو تسلی دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی اور الہامات اور رویا بھی دکھائے اور بتائے جن کا مختلف جگہوں پر ذکر ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ میں ہر میدان میں تیرے ساتھ ہوں گا اور ہر ایک مقابلے میں روح القدس سے میں تیری مددکروں گا.

Page 425

خطبات مسرور جلد ششم 405 خطبه جمعه فرمودہ 13اکتوبر 2008 پھر ایک الہام ہے الا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ که خبر دار ہو کہ بہ تحقیق ( یقینا) جولوگ مقربان الہی ہوتے ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ تم کرتے ہیں.( تذکرہ صفحہ 75.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ تجھ سے ہر ایک مقابلہ کرنے والا مغلوب ہوگا.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ (181) پھر آپ ایک جگہ ذکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے.وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے.وہ چاہتے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں.اللہ تیری حفاظت کرے گا اور تیری نگہبانی کرے گا.میں تیری حفاظت کرنے والا ہوں.اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری محافظ ہے.( تذکرہ صفحہ 307-308.ایڈیشن چہارم.مطبوعہ ربوہ ) ایک اور الہام ہے، عربی کی لمبی عبارت ہے ( پہلا الہام بھی عربی کی عبارت ہے ) ترجمہ اس کا پڑھ دیتا ہوں کہ مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ تا خدا کے نور کو بجھا دیں.کہ خدا اس نور کا آپ حافظ ہے.عنایت الہیہ تیری نگہبان ہے.ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں.خدا خَیرُ الْحَافِظِينَ ہے اور وہ اَرحَمُ الرَّاحِمِينَ ہے اور تجھ کو اور اور چیزوں سے ڈرائیں گے.یہی پیشوایان کفر ہیں.مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے.یعنی حجت اور برہان اور قبولیت اور برکت کے رو سے تُو ہی غالب ہے.خدا کئی میدانوں میں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا.دوسری پھر فرمایا میرا دن حق اور باطل میں فرق بہین کرے گا.خدا لکھ چکا ہے کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال دے.یہ خدا کے کام ہیں، دین کی سچائی کے لئے حجت ہیں.میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا.میں خود تیرا غم دور کروں گا اور تیرا خدا قادر ہے.( یہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں جو الہاما آپ کو بتائے گئے ).(تذکرہ صفحہ 84.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر نبوت کے بعد کے واقعات ہیں لیکن پہلے بھی کس طرح آپ کے خوف کی حالت کو اللہ تعالیٰ امن میں بدلتا رہا.آپ کا مشہور واقعہ ہے، آپ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی مرحوم کی وفات کا جب وقت قریب آیا اور صرف چند پہر باقی رہ گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کی وفات سے مجھے ان الفاظ میں عزا پر سی کے ساتھ خاص خبر دى وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ یعنی قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد ظہور میں آئے گا اور چونکہ ان کی زندگی سے بہت سے وجوہ معاش ہمارے وابستہ تھے، اس لئے بشریت کے تقاضہ سے بہ

Page 426

خطبات مسرور جلد ششم 406 خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 2008 خیال دل میں گزرا کہ ان کی وفات ہمارے لئے بہت سے مصائب کا موجب ہوگی.کیونکہ وہ رقم کثیر آمدنی کی ضبط ہو جائے گی جو ان کی زندگی سے وابستہ تھی.اس خیال کے آنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا الْيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے.تب وہ خیال یوں اڑ گیا جیسا کہ روشنی کے نکلنے سے تاریکی اڑ جاتی ہے اور اسی دن غروب آفتاب کے بعد میرے والد صاحب فوت ہو گئے.جیسا کہ الہام نے ظاہر کیا تھا.اور جو الہام الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ ہوا تھا.وہ بہت سے لوگوں کو قبل از وقت سنایا گیا جن میں سے لالہ شرمیت مذکور اور لالہ ملا وامل مذکور، کھتریان ساکنان قادیان ہیں اور جو حلفاً بیان کر سکتے ہیں اور پھر مرزا صاحب مرحوم کی وفات کے بعد وہ عبارت الہام ایک نگین پر کھدوائی گئی اور اتفاقا اس ملاوامل کو جو کسی کام کے لئے امرتسر جا تا تھا وہ عبارت دی گئی.( وہ جو انگوٹھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہے ، اس پر کھدوائی اور بعد میں وہ بھی اب تک چل رہی ہے ، خلافت کے حصہ میں آئی ) کہ تا وہ نگین کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آئے.چنانچہ وہ حکیم محمد شریف مرحوم امرتسری کی معرفت بنا کر لے آیا جواب تک میرے پاس موجود ہے.جو اس جگہ لگائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.اب ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی میں ایک تو یہی امر ہے کہ جو پورا ہوا یعنی یہ کہ الہام کے ایماء کے موافق میرے والد صاحب کی وفات قبل از غروب آفتاب ہوئی.باوجود اس کے کہ وہ بیماری سے صحت پاچکے تھے اور قوی تھے اس کی عبارت میں کچھ آثار موت ظاہر نہ تھے اور کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک برس تک بھی فوت ہو جائیں گے.لیکن مطابق منشاء الہام سورج کے ڈوبنے کے بعد انہوں نے انتقال فرمایا.(صحت تو ایسی اچھی تھی کہ سال تک بھی کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ فوت ہوں گے.لیکن سورج ڈوبنے کے وقت تک فوت ہو گئے ) اور پھر دوسرا لہام یہ پورا ہوا کہ والد مرحوم و مغفور کی وفات سے مجھے کچھ دنیوی صدمہ نہیں پہنچا جس کا اندیشہ تھا.بلکہ خدائے قدیر نے مجھے اپنے سایہ عاطفت کے نیچے ایسا لے لیا کہ ایک دنیا کو حیران کیا اور اس قدر میری خبر گیری کی اور اس قدر وہ میرا متولی اور متکفل ہو گیا کہ باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم کے انتقال کو 24 برس آج کی تاریخ تک جو 20 / اگست 1899ء اور ربیع الثانی 1317ھ ہے گزر گئے ہر ایک تکلیف اور حاجت سے مجھے محفوظ رکھا اور یہ ظاہر ہے کہ میں اپنے والد کے زمانے میں گمنام تھا.خدا نے ان کی وفات کے بعد لاکھوں انسانوں میں مجھے عزت کے ساتھ شہرت دی اور میں والد صاحب کے زمانے میں اپنے اقتدار اور اختیار سے کوئی مالی قدرت نہیں رکھتا تھا اور خدا تعالیٰ نے ان کے انتقال کے بعد اس سلسلے کی تائید کے لئے اس قدر میری مدد کی اور کر رہا ہے کہ جماعت کے درویشوں اور غریبوں اور مہمانوں اور حق کے طالبوں کی خوراک کے لئے جو ہر ایک طرف سے صد ہا بندگان خدا آ رہے ہیں اور نیز تالیف کے کام کے لئے ہزار ہا روپیہ ہم پہنچایا اور ہمیشہ پہنچاتا ہے.اس بات کے گواہ اس گاؤں کے تمام مسلمان اور ہندو ہیں جو دو ہزار سے کچھ زیادہ ہوں گے.( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 198-199)

Page 427

خطبات مسرور جلد ششم 407 خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 2008 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ بچپن سے ہی حفاظت فرماتا تھا.کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تیرنا اور سواری ( تو ) خوب جانتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بچپن میں تیرتے ہوئے میں ڈوبنے بھی لگا تھا تو ایک بڑھے شخص نے مجھے نکالا تھا اور اس شخص کو نہ میں نے وہاں اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ اس کے بعد کبھی دیکھا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے حفاظت کے لئے ایک فرشتہ کی صورت میں اس شخص کو بھیجا تھا.نیز فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس نے شوخی کی اور بے قابو ہو گیا.تیز گھوڑا تھا میں نے بہت روکنا چاہا مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا، نہ رکا.چنانچہ وہ اپنے پورے زور سے ایک درخت یا ایک دیوار کی طرف بھاگا اور پھر اس زور کے ساتھ اس سے ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مر گیا.مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا.حضرت میاں بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سرکش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کا تو ان سے خاص سلوک تھا، بچایا.اس کے بعد سے نصیحت کیا کرتے تھے اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اُس گھوڑے کا مجھے مارنے کا ارادہ تھا مگر میں ایک طرف گر کر بچ گیا اور وہ مر گیا.ما خود از سیرت المہدی.حصہ اول روایت نمبر 188 صفحہ 199-198 مطبوعہ ربوہ ) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ابھی ایک کیس میں ایک ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے.اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے غصے میں آ کر اپنی بیوی کو قتل کر دیا.جب مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ کے سامنے اس نے بیان دیتے ہوئے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں سن سن کر میرے دل میں احمدیوں کے متعلق یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ ہر مذہب کے دشمن ہیں.عیسائیت کے وہ دشمن ہیں ، ہندو مذہب کے وہ دشمن ہیں سکھوں کے وہ دشمن ہیں، مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں اور میں نے نیت کر لی کہ جماعت احمدیہ کے امام کو قتل کر دوں گا.میں اس غرض کے لئے قادیان گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ پھیر و بیچی گئے ہوئے ہیں.پھیر و پیچی قادیان کے ساتھ ایک گاؤں تھا، بلکہ اب بھی ہے.وہ بھی ساری احمدیوں کی آبادی تھی چنانچہ میں وہاں چلا گیا.پستول میں نے فلاں جگہ سے لے لیا تھا اور ارادہ تھا کہ وہاں پہنچ کر ان پر حملہ کر دوں گا.چنانچہ پھیر و پیچی پہنچ کرمیں ان سے ملنے کے لئے گیا تو میری نظر ایک شخص پر پڑ گئی جو ان کے ساتھ تھا اور وہ بندوق صاف کر رہا تھا.حضرت خلیفہ ثانی فرماتے ہیں کہ ی خان صاحب مرحوم تھے جو میرے ساتھ تھے اور بندوق صاف کر رہے تھے.(اب مجرم کہتا ہے ) اور میں نے سمجھا کہ اس وقت حملہ کرنا ٹھیک نہیں کسی اور وقت حملہ کروں گا.پھر میں دوسری جگہ چلا گیا اور وہاں سے خیال آیا کہ گھر ہو آؤں.جب گھر پہنچا تو بیوی کے متعلق بعض باتیں سن کر برداشت نہ کر سکا اور پستول سے ہلاک کر دیا.( مجرم کہہ رہا ہے ) یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا ورنہ میرا ارادہ تو کسی اور کو قتل کرنے کا تھا.

Page 428

408 خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم اب ( حضرت خلیفہ ثانی فرماتے ہیں کہ دیکھو کس طرح ایک شخص کو ایک ایک قدم پر خدا تعالیٰ روکتا اور اس کی تدبیروں کو ناکام بنا تا رہا.پہلے تو وہ قادیان آتا ہے، مگر میں قادیان میں نہیں بلکہ پھیر و نیچی ہوں.وہ پھر پھیر و پیچی پہنچتا ہے تو وہاں بھی میں اسے نہیں ملتا اور اگر ملتا ہوں تو ایسی حالت میں کہ میرے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں اتفاقا بندوق ہے اور اس کے دل میں خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس وقت حملہ کرنا درست نہیں.پھر وہ وہاں سے چلا جاتا ہے اور ادھر ادھر پھر کرگھر پہنچتا ہے اور بیوی کو مار کر پھانسی پر لٹک جاتا ہے.( تو اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ).(سیر روحانی (3).انوار العلوم جلد 16 صفحہ 384 - مطبوعہ ربوہ ) ہمارے شروع کے مبلغین میں سے حضرت مولانا شیخ عبدالواحد صاحب کا بھی ایک واقعہ ہے.جو نجی میں مبلغ تھے.1968ء میں ان کا نجی کے شہر با (Ba) میں احمد یہ مشن کھولنے کا ارادہ ہوا اور مکان خرید لیا گیا.وہاں کہتے ہیں کہ ہماری سخت مخالفت شروع ہوگئی اور انہوں نے بڑا زور لگایا کہ احمدیت کی تبلیغ یا اسلام کی تبلیغ کا یہ مشن یہاں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور ابو بکر نامی ایک شخص تھا جو ان کا سرغنہ تھا.تو اس نے بھی شہر میں اعلان کیا کہ اگر احمدیوں نے یہاں مشن خریدا تو جلادیں گے.کہتے ہیں ہم نے سارے حفاظتی انتظامات کئے.پولیس سٹیشن اس جگہ کے ساتھ تھا جہاں ہم نے آخر گھر خرید لیا.پولیس کو بھی انتظامات کے لئے کہ دیا.اس نے کہا ہم حفاظت کا انتظام کریں گے لیکن پھر بھی کہتے ہیں کسی نے مشن کے ایک حصے میں رات کو تیل ڈال کر آگ لگا دی اور باوجود ان کے سارے اقدامات کے آگ لگانے والا فوراً بھاگ گیا.اس کو پتہ تھا کہ اب یہ آگ بجھ نہیں سکتی لیکن وہ آگ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی نقصان کے بجھادی اور جب یہ لوگ واپس آئے اور دیکھا، یا جب ان کو پتہ لگا تو چند ایک لکڑی کے پھٹے جلے ہوئے تھے جن کی مرمت ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا.اس وقت کہتے ہیں کہ ہمارے ایک مبلغ مولانا نورالحق صاحب انور نے اس جلے ہوئے کمرے میں جس کا ہلکا سا حصہ جلا تھا بڑے دکھ بھرے انداز میں آہ بھر کر کہا تھا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی اشاعت کے اس مرکز کو جلانے کی کوشش کی ہے خدا اس کے اپنے گھر کو آگ لگا کر راکھ کر دے.چنانچہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مخالفین کا جو سرغنہ تھا ابو بکر کو یا اس کے گھر کو آگ لگ گئی اور با وجود بجھانے کی کوشش کے وہ نہیں بجھی اور سارا گھر اور جو اس کی رہائش تھی سب خاک ہو گیا.(ماخوذ از روح پر دریا دیں.از مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب - صفحہ 94-95) تو یہ نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو اُن کی خاطر دکھاتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صفت مهیمن کے تحت خوف سے امن دیتا ہے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے معاملات پر نگران اور محافظ ہے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو اس کی طرف آئے وہ اسے پناہ دیتا ہے.پس ہمیں ہر وقت اس کی پناہ تلاش کرنی چاہئے.

Page 429

خطبات مسرور جلد ششم 409 خطبه جمعه فرموده 3 اکتوبر 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اس امر کے دلائل بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انسان اپنی مختصر زندگی میں بلاؤں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے.(انفرادی طور پر بھی بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعائیں کرنی چاہئیں).فرماتے ہیں کہ اور چاہتا ہے کہ ان بلاؤں اور وباؤں سے محفوظ رہے جو شامت اعمال کی وجہ سے آتی ہیں اور یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں“.( جو بچی تو بہ کرتا ہے ، جو کامل ایمان رکھتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ پھر ان باتوں سے محفوظ رکھتا ہے).فرماتے ہیں کہ "پس تو بہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا حافظ اور نگران ہو جاتا ہے اور ساری بلاؤں کو خدا دور کر دیتا ہے اور ان منصوبوں سے جو دشمن اس کے لئے تیار کرتے ہیں ان سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا یہ فضل اور برکت کسی سے خاص نہیں بلکہ جس قدر بندے ہیں خدا تعالیٰ کے ہی ہیں.اس لئے ہر ایک شخص جو اس کی طرف آتا ہے اور اس کے احکام اور اوامر کی پیروی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسے پہلا شخص جو تو بہ کر چکا.وہ ہر ایک بچے تو بہ کرنے والے کو بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا پس یہ تو بہ اور ایمان میں بڑھنا اور ایمان میں کامل ہونے سے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے سے ہر شخص یہ نظارے دیکھ سکتا ہے جو سچے نبی کی پیروی کرنے والا، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اصل کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنی خاص حفاظت میں رکھے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 43 مورخہ 24 اکتوبر تا 31 اکتوبر 2008، صفحہ 5 تا صفحه 7

Page 430

خطبات مسرور جلد ششم 410 41 خطبہ جمعہ فرموده 10 اکتوبر 2008 فرمودہ مورخہ 10 راکتوبر 2008ء بمطابق 10 اخاء 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک.پیرس (فرانس) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: يبَنِي آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْا تِكُمْ وَرِيْشًا.وَلِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ ايَتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ - سورة الاعراف (27) الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ فرانس کو بھی پہلی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ کرے کہ یہ مسجد مزید مسجدوں کے لئے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہو.ملکی قوانین بھی راہ میں حائل نہ ہوں اور احباب جماعت کے اندر بھی مساجد کی تعمیر کے لئے قربانیوں کا شوق مزید بڑھے.اور تعمیر کے لئے صرف شوق ہی نہیں بلکہ وہ روح بھی پیدا ہو جس سے وہ مساجد کی تعمیر کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں.اس مسجد کی تعمیر نے یقینا افراد جماعت کو یہ سبق دیا ہوگا کہ اگر ارادہ پختہ ہو اور گن سچی ہو تو وقت آنے پر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے تمام روکیں دُور فرما دیتا ہے.یہ جگہ جہاں اب یہ خوبصورت مسجد تعمیر کی گئی ہے گو میناروں وغیرہ کی اونچائی کے بارہ میں کونسل نے علاقہ کے لوگوں کے شور مچانے پر بعض یہاں پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں لیکن کم از کم اس جگہ مسجد کے نام کے ساتھ ہمیں ایک پراپر (Proper) مسجد بنانے کی ، باقاعدہ مسجد بنانے کی اجازت تو ملی اور موجودہ ضرورت کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں کو نمازیں ادا کرنے کے لئے، جمعہ پڑھنے کے لئے جگہ میسر آ گئی.آج تو باہر سے بھی کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں اس لئے جگہ چھوٹی نظر آ رہی ہے.فرانس کی جماعت کے لحاظ سے، اس علاقہ کی جماعت کے لحاظ سے مسجد کی یہ جگہ کافی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ میناروں کی اونچائی کا مسئلہ بھی آہستہ آہستہ حل ہو جائے گا.اس جگہ پر جیسا کہ آپ جانتے ہیں پہلے ایک عارضی ہال تھا جس میں نمازیں پڑھی جاتی تھیں.علاقہ کے لوگوں کے اکثر اعتراض بھی آتے رہتے تھے یہاں تک کہ ایک وقت میں وہی ہمارے مہربان میئر صاحب جو اس وقت بھی یہاں ابھی آئے ہوئے تھے وہ بھی ایک دن غصہ میں بھرے ہوئے آئے اور یہاں نمازوں پر پابندیاں لگانے کی ، اس ہال کو گرانے کی دھمکیاں بھی دیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماتے ہوئے ان لوگوں کے دلوں کو اپنے فضل سے بدلا تو انہی لوگوں نے باقاعدہ مسجد کی اجازت بھی دے دی.بلکہ مجھے یاد ہے کہ یہی میئر صاحب جو ایک زمانہ میں جماعت کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے

Page 431

خطبات مسرور جلد ششم 411 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 تھے ایک جلسہ پر یہاں تشریف لائے.میں یہیں تھا تو بڑے ادب احترام سے سٹیج پر بھی جوتے اتار کر آئے ، بڑے احترام سے مجھے ملے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا دل نرم کیا اور وہی شخص جو ہمیں نمازوں سے روکتے ہوئے ہمارے اُس عارضی ہال کو گرانے کے درپے تھا ہمیں باقاعدہ مسجد کی تعمیر کے لئے نہ صرف اجازت دینے کے لئے تیار ہو گیا بلکہ راستے کی روکوں کو دور کرنے کے لئے خود ہمارا مددگار بن گیا اور ابھی تک یہ ہماری مدد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان کا سینہ مزید کھولے کہ وہ احمدیت کے پیغام کو ، اسلام کے پیغام کو بھی سمجھنے والے بنیں.پس یہ جو اللہ تعالیٰ جماعت پر فضل فرماتا ہے اور اپنے بیشمار انعامات سے نوازتا ہے اور ہم جو مانگ رہے ہوتے ہیں اس سے بہت بڑھ کر دیتا ہے ، يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ کے الفاظ کہ کر جب تسلی دیتا ہے تو صرف اپنوں کو ہی مددگار نہیں بناتا بلکہ غیروں کے دلوں میں بھی ڈالتا ہے کہ وہ اس کے بندوں کے معین و مددگار بن جائیں.یہ باتیں ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہونی چاہئیں اور شکر گزاری کا اظہار ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ ہو.مسجد کی زینت اور خوبصورتی کا خیال پہلے سے بڑھ کر رکھنے والے ہوں تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں کیونکہ مساجد کی تعمیر کا سب سے بڑا مقصد تو تقویٰ کا قیام ہی ہے.مسجد ہمیں جہاں ایک خدا کے حضور جھکنے والا بنانے والی ہوتی ہے اور بنانے والی ہونی چاہئے ، وہاں خدا تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والی بھی ہونی چاہئے.پس یہ ایک بہت بڑا مقصد ہے جو ہر احمدی کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا کہ شکر گزاری تبھی ممکن ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت پہلے سے بڑھ کر کرنے والے ہوں گے.اس کے گھر میں جب جائیں تو تمام دنیاوی سوچیں اور خیالات باہر رکھ کر جانے کی کوشش کریں.کیونکہ یہ خدا کا گھر ہے اور جب ہم اس کے گھر اس لئے جارہے ہیں کہ وہی ایک خدا ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے اور خالق ہے ، وہ رب العالمین ہے.ہماری زندگی ، ہمارے پیاروں کی زندگی عطا کرنے والا وہی ہے، ہماری ضروریات زندگی کو پورا کرنے والا وہی ہے تو پھر اس کے حضور حاضر ہوتے ہوئے کسی دوسری چیز کا ہمیں خیال نہیں آئے گا.جب ہماری یہ سوچ ہوگی ، جب تک ہمارے اندر یہ سوچ قائم رہے گی ہر قسم کے مخفی شرکوں سے بھی اتنے عرصہ کے لئے ہم بچے رہیں گے.آج کل دنیا کے دھندے اور فکریں انسان کی سوچیں اپنی طرف مبذول کرا لیتی ہیں اور نماز پڑھتے پڑھتے بھی سوچیں اس طرف نہیں ہوتیں اور اپنی سوچوں میں غائب انسان الفاظ تو دو ہرا رہا ہوتا ہے لیکن اس کو سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ کیا کر رہا ہے.سلام پھیرتا ہے اور نماز سے فارغ ہو جاتا ہے.اس زمانہ کے امام کو مان کر جب ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو پہلی بات تو یہ کہ جمعہ کے جمعہ نہیں بلکہ سوائے اشد مجبوری کے نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں.خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کی کوشش

Page 432

خطبات مسرور جلد ششم 412 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 کریں.مسجد میں آئیں تو صرف اور صرف اس کی طرف توجہ ہو اور پھر یہ کہ جیسا کہ میں نے کہا اپنی عبادتوں اور مسجد کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.اور وہ حق کس طرح ادا ہو گا اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57 ) ، یعنی ہم نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جواس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خریدلوں ، فلاں مکان بنا لوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلالے اور کیا سلوک کیا جاوے“.آپ فرماتے ہیں کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ.اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا“.فرمایا: ” پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے.سب عبادتوں کا مرکز دل ہے.اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی.فرمایا: ”اب دیکھو ہزاروں مساجد ہیں مگر سوائے اس کے کہ ان میں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 222.جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد اور تنبیہ دل کو ہلا دیتا ہے کہ آپ ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں.ہماری اصلاح کے لئے اور خدا تعالیٰ سے ہمارا تعلق جوڑنے کے لئے کس درد سے ہمیں سمجھاتے ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر شے بنانے کے لئے آپ میں کس قدر بے چینی پائی جاتی ہے.پس ایسی عبادتوں کا حصول ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے تبھی ہم اپنی عبادتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بھی بن سکتے ہیں اور مساجد کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بھی بن سکتے ہیں.ورنہ مسجدیں تو دوسرے بھی بنا رہے ہیں، بعض مسجد میں خوبصورتی کے لحاظ سے اتنی خوبصورت ہیں کہ ہماری مساجد ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں لیکن کیونکہ وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے باہر رہ کر بنائی گئی ہیں اس لئے ظاہری خوبصورتی تو ان میں بیشک ہے لیکن جو اصل خوبصورتی جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے ان میں پیدا نہیں ہوسکتی کیونکہ مسجد بنانے والوں نے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے زمانے کے امام کو نہ صرف مانا نہیں بلکہ اس کی مخالفت میں بھی بڑھ گئے.اُس مسیح و مہدی کو نہیں مانا جس کے آنے کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے دی تھی.

Page 433

خطبات مسرور جلد ششم 413 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 پس اب جبکہ ہم نے یہاں اپنی مسجد بنالی ہے جو گواتنی بڑی نہیں لیکن پھر بھی جیسا کہ میں نے کہا فی الحال یہاں کی ضرورت کے لئے کافی ہے.اب اس مسجد کے بن جانے کے ساتھ احمد یوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں.مسلموں اور غیر مسلموں سب کی توجہ اب اس مسجد کی وجہ سے آپ کی طرف پھرے گی.بلکہ کل امیر صاحب نے مجھے یہاں چھپنے والا ایک رسالہ دکھایا جس کی بڑی سرکولیشن ہے جس نے مسجد کے حوالے سے ہمارا تعارف شائع کیا ہے.اس سے جہاں جماعت کا تعارف دوسروں تک پہنچے گا وہاں حاسدوں کے حسد بھی بھڑکیں گے اور دونوں باتوں کے لئے یعنی تعارف کی وجہ سے تبلیغ کے مواقع پیدا ہونے اور اس کے بہترین نتائج ظاہر ہونے کے لئے بھی اور حسد کی وجہ سے دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں.ان دشمنیوں کے پیدا ہونے پر نقصان سے بچنے کے لئے بہترین ذریعہ دعا ہے.عبادتوں کی طرف متوجہ ہونا ہے.خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے اس سے تضرع اور عاجزی سے اس کی مدد مانگنا ہے.دلوں کو کھولنے والا بھی خدا تعالیٰ ہی ہے اور حاسدوں کے حسد سے بچانے والا بھی خدا تعالیٰ ہی ہے.پس اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ کو دو بلکہ تین طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے.ایک تو عبادتوں کو پہلے سے بڑھ کر بجالانے کی اور سجانے کی کوشش کرنی ہے اور اس کے لئے خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے گھر میں آ کر پانچ وقت اپنی نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے.جب نمازوں کی طرف بلایا جائے تو اس پر بغیر کسی حیل و حجت کے لبیک کہنا ہے کہ حقیقی فلاح نمازوں سے ہی ملتی ہے نہ کہ دنیاوی دھندوں سے.پس ان مغربی ملکوں میں رہنے والے عام طور پر اور فرانس کے اس شہر میں یا اس کے قریب رہتے ہوئے خاص طور پر جس کے بارہ میں مشہور ہے کہ دنیا وی رنگینیوں اور چکا چوند کا شہر ہے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنانا یقیناً خدا تعالیٰ کے پیار کو سمیٹنے والا بنائے گا.پس اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اپنی عبادتوں کے بھی نئے معیار قائم کریں.دوسرا چیلنج تبلیغ کا ہے جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مواقع پر بتا چکا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی جگہ فرمایا ہے کہ جہاں اسلام کو متعارف کرانا ہو، جہاں ایک مرکز کی طرف لانے کی کوشش کرنی ہو.وہاں مسجد بنا دو، اس سے تعارف پیدا ہوتا ہے اور تبلیغ کے مواقع پیدا ہوتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا، ابھی باقاعدہ اس مسجد کا افتتاح نہیں ہوا کہ رسالہ میں جماعت اور مسجد کا تعارف بھی شائع ہو گیا.پس یہ ابتداء ہے، انشاء اللہ تعالیٰ تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے اور جب یہ راستے کھلیں گے تو پھر لوگوں کی نظریں آپ پر ہوں گی.پس اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے بھی تیار ہو جائیں.ویسے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرانس کی جماعت کی تبلیغ کی مساعی اچھی ہے، کتنے فیصد لوگ شامل ہیں مجھے نہیں پتہ لیکن بہر حال اچھے نتائج ہوتے ہیں، لیکن بعض طبقوں اور قوموں تک محدود ہیں جس میں عرب مسلمان زیادہ ہیں.یہ بڑی اچھی بات ہے اور عربوں کا پہلا حق بنتا ہے کہ ان تک آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی آمد کا پیغام پہنچایا جائے.کیونکہ یہ ان لوگوں کا

Page 434

414 خطبہ جمعہ فرموده 10 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم ہی ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں آنحضرت مال اللہ کا پیغام پہنچا کر ہمیں اس خوش قسمت اُمت میں شامل ہونے کا سامان بہم پہنچایا، جس نے ہماری دنیا بھی سنواری اور اخروی اور دائمی زندگی کے راستے بھی دکھائے.پس اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تمام عرب تک آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کا پیغام پہنچانا ہمارا اولین فرض ہے.لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ آنحضرت عیہ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اس زمانہ میں یہ عظیم مشن مسیح موعود داور مہدی موعود کا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے دنیا کو اکٹھا کریں.پس یہ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے.جس کو خدا تعالیٰ ہدایت دینا چاہے گا جس کی فطرت نیک ہوگی اس کے آپ ﷺ کی غلامی میں آنے کے سامان اللہ تعالی پیدا فرما دے گا.پس پیغام پہنچانا اور پھر دعا کرنا یہ ہمارا اہم کام ہے.کیونکہ دعاؤں کا ہتھیار ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سب سے کار آمد ہتھیار ہے اور یہی ہتھیار آپ کو دیا گیا ہے اس لئے کبھی اپنے علم اور اپنی تبلیغ پر بھی انحصار نہ کریں.پھل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی لگتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے دعائیں انتہائی ضروری چیز ہیں اس لئے کبھی دعاؤں کو نہ بھولیں.اور پھر تیسرا چیلنج، جب دنیا کی نظر آپ پر پڑے گی تو اپنے اعمال پر بھی ہمیں نظر رکھنی ہوگی کیونکہ جس کو تبلیغ کریں گے وہ ہمارے عمل بھی دیکھتا ہے.وہ یقیناً ہمارا اٹھنا بیٹھنا اور رکھ رکھاؤ دیکھے گا.وہ ہمارے آپس کے تعلقات کو دیکھے گا.وہ ہمارے قول و فعل کو دیکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے.فرمایا ” جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برانمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے.برے نمونے سے اور وں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونے سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے.بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ میں اگر چہ آپ کی جماعت میں ابھی داخل نہیں مگر آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگا تا ہوں کہ اس جماعت کی تعلیم ضرور نیکی پر مشتمل ہے.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَّالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل: 129) یقینا اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور احسان کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روز نامچہ بناتا ہے.پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روز نامچہ تیار کرنا چاہئے اور اس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے.فرمایا کہ انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 455 جدید ایڈیشن مطبوعد ربوہ )

Page 435

خطبات مسرور جلد ششم 415 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 پس آج ہم نے اپنے اعمال پر نظر رکھ کر اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اپنے ساتھ دنیا کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو زمینی اور سماوی آفات سے بچانا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کو آنحضرت ا کے جھنڈے تلے لا کر اس دنیا میں بھی تباہ ہونے سے بچانا ہے اور آخرت کی آگ سے بھی بچنے کے راستے دکھانے ہیں.پس اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم نے ایک مسجد بنالی.مومنین کا ترقی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اسے مزید ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے اسے مزید ترقی کے راستوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے.تقویٰ میں مزید ترقی کی طرف سے توجہ دلاتا ہے اور جوں جوں تقویٰ میں ترقی ہوتی جاتی ہے، ذمہ داری کا احساس بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اور نیکیوں کو بجالانے کے لئے نئے سے نئے راستے بھی نظر آنے لگتے ہیں.پس یہ پہلا قدم تو آپ نے اٹھا لیا کہ ایک مسجد بنالی لیکن اس کا اصل اجرت تبھی ہمیں ملے گا جب یہ احساس رہے کہ ہمارا یہ عمل محض اللہ ہے، اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور اس کا حق ہم نے ادا کرنا ہے اور جب یہ احساس ہوگا تو ہمارے تقویٰ کے معیار بھی بڑھتے چلے جائیں گے.ہماری عبادتیں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں گی.آنحضرت ﷺ نے جب مسجد بنانے والوں کو یہ خوشخبری دی کہ مسجد بنانے والے کو ایسا ہی گھر جنت میں ملے گا تو ساتھ یہ بھی فرمایا یہ شرط لگائی کہ مسجد اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو اس کا اجر ہے اور جو مسجد اللہ کے لئے ہو اس میں انسان خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے لئے عبادت کرنے کی کوشش کرتا ہے.مسجد کی تعمیر کر کے یا اس کے لئے کسی قسم کی قربانی کر کے اس میں فخر نہیں پیدا ہو جاتا بلکہ اس کا دل اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی خشیت میں مزید بڑھتا ہے اور وہ یہ دعا کر رہا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی اس حقیر قربانی کو قبول فرمائے.تقویٰ پر چلتے ہوئے وہ وہی باتیں کرنے کی کوشش کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی پسندیدہ اور خدا کے بندوں کے لئے آسانی اور خوشی پیدا کرنے والی ہو نہ کہ تکلیف میں ڈالنے والی.پس آج جو آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر گزاری کا اظہار کرنا ہے یا کر رہے ہیں تو اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ تقویٰ میں ترقی ہو اور ہماری عبادتیں اور ہمارے سب عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں اور یہی چیز خدا تعالیٰ کو پسند ہے.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے، اس میں خدا تعالیٰ نے اس بات کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کو تقویٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے.خدا تعالیٰ نے یہاں لباس کی مثال دی ہے کہ لباس کی دو خصوصیات ہیں.پہلی یہ کہ لباس تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکتا ہے.دوسری بات یہ کہ زینت کے طور پر ہے.کمزوریوں کے ڈھانکنے میں جسمانی نقائص اور کمزوریاں بھی ہیں ، بعض لوگوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں جس سے ان کے بعض نقص چھپ جاتے ہیں.موسموں کی شدت کی وجہ سے جو انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے بچاؤ بھی ہے اور پھر خوبصورت لباس اور اچھا لباس انسان کی شخصیت بھی اجاگر کرتا ہے.لیکن آج کل ان ملکوں میں خاص طور پر اس ملک میں بھی عموماً تو سارے یورپ میں ہی

Page 436

416 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم ہے لباس کے فیشن کو ان لوگوں نے اتنا بیہودہ اور لغو کر دیا ہے خاص طور پر عورتوں کے لباس کو کہ اس کے ذریعہ اپنا نگ لوگوں پر ظاہر کر نازینت سمجھا جاتا ہے اور گرمیوں میں تو یہ لباس بالکل ہی نگا ہو جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لباس کے یہ دو مقاصد ہیں ان کو پورا کرو.اور پھر تقویٰ کے لباس کو بہترین قرار دے کر توجہ دلائی ، اس طرف توجہ پھیری کہ ظاہری لباس تو ان دو مقاصد کے لئے ہیں.لیکن تقوی سے دور چلے جانے کی وجہ سے یہ مقصد بھی تم پورے نہیں کرتے اس لئے دنیاوی لباسوں کو اس لباس سے مشروط ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے.یہاں لفظ ریش استعمال ہوا ہے.اس کے معنی ہیں پرندوں کے پر جنہوں نے انہیں ڈھانک کر خوبصورت بنایا ہوتا ہے.وہی پرندہ جو اپنے اوپر پروں کے ساتھ خوبصورت لگ رہا ہوتا ہے اس کے پر نوچ دیں یا کسی بیماری کی وجہ سے وہ پر جھڑ جائیں تو وہ پرندہ انتہائی کراہت انگیز لگتا ہے.پھر اس کا مطلب لباس بھی ہے اور خوبصورت لباس ہے.لیکن بدقسمتی سے آج کل خوبصورت لباس کی تعریف نگا لباس کی جانے لگ گئی ہے اور اس میں مردوں کا زیادہ قصور ہے کہ انہوں نے عورت کو اس کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے اور عورتیں بھی اپنی حیا اور تقدس کو بھول گئی ہیں اور ہماری بعض مسلمان عورتیں بھی اور احمدی بھی اتحاد کا متاثر ہو جاتی ہیں.پر دے اور حجاب جب اترتے ہیں تو اس کے بعد پھر اگلے قدم ننگے لباسوں میں آ جاتے ہیں.پس اپنے تقدس کو ہر عورت کو قائم رکھنا چاہئے.کل ہی مجھ سے ایک نئے احمدی دوست نے سوال کیا کہ اس معاشرے میں جہاں ہم رہ رہے ہیں بہت ساری برائیاں بھی ہیں ننگے لباس بھی ہیں تو ہم کس طرح اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.تو میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ بچپن سے ہی بچوں میں اپنی ذات کا تقدس پیدا کریں انہیں احساس ہو کہ وہ کون ہیں.خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟ اور پھر بڑی عمر سے ہی نہیں بلکہ پانچ چھ سال کی عمر سے ہی انہیں لباس کے بارے میں بتائیں کہ تمہارے ارد گرد معاشرے میں جو چاہے لباس ہو لیکن تمہارے لباس اس لئے دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں کہ تم احمدی ہو.اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو وہی لباس پسند ہے جن سے ننگ ڈھکا ہو.ان کے اندر کی نیک فطرت کو ابھاریں کہ انہوں نے ہر کام خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے.تو آہستہ آہستہ بڑے ہونے تک ان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ اور راسخ ہو جائے گی.اسی طرح دیش کا مطلب دولت بھی ہے اور زندگی گزارنے کے وسائل بھی ہیں.یہاں بھی یادرکھنا چاہئے کہ اس کے لئے بھی تقوی ضروری ہے، زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کے لئے کوئی غلط کام نہیں کرنا، غلط ذریعہ سے دولت نہیں مانی.ناجائز کاروبار نہیں کرنا، حکومت کا ٹیکس چوری نہیں کرنا.اس طرح کی دولت سے تم اگر چوری کرتے ہو تو ظاہرا تو شاید عارضی طور پر خوبصورت گھر بنا لو لیکن تقوی سے دور چلے جاؤ گے.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکنے کے لئے اور تمہاری زینت کے لئے جو جائز اسباب تمہارے لئے میسر کئے ہیں.ان کو

Page 437

خطبات مسرور جلد ششم 417 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 استعمال میں لا ناضروری ہے.لیکن ہمیشہ یاد رکھو کہ لباس تقوی ہی اصل چیز ہے.اس کی طرف اگر تمہاری نظر رہے گی تو ظاہری لباس، رکھ رکھاؤ اور زینت کے لئے بھی تم اس طرح عمل کرو گے جس طرح خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور جس طرح تمہارے باپ آدم نے اپنے آپ کو ڈھانکنے کی کوشش کی تھی جب شیطان نے اسے بہ کا یا تھا.پس آدم کی اولا دکو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ، اس کی خشیت اور تقویٰ ہر وقت پیش نظر رہے گا اور استغفارا اور تو بہ اور دعاؤں سے اس کی حفاظت کی کوشش کرتے رہو گے تو دنیا میں جو بے انتہا لغویات ہیں ان سے بھی بچ کر رہو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے، چنانچہ لباسُ التَّقوای قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی ان کے دقیق دردقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210) یعنی گہرے سے گہرے مطلب بار یک مطلب کو تلاش کرے اور پھر عمل کرنے کی کوشش کرئے“.آپ فرماتے ہیں : ”ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے“.پس یہ کم از کم معیار ہے جو ہمارا ہونا چاہئے کہ تقویٰ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہے کہ ہماری زینت ظاہری لباسوں، دولت کو جمع کرنے یا اعلی گھر بنانے اور ان کو صرف سجانے میں نہیں ہے بلکہ اصل زینت جو روحانی زینت ہے.اس لباس سے ہے جو تقویٰ کا لباس ہے اور یہی ایک احمدی کا مطمح نظر ہونا چاہئے.اور یہ لباس تقوی کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ سے کئے گئے عہد کا پورا حق ادا کرتے ہوئے اور بندوں کے حقوق بھی صحیح طرح ادا کرو.الصلوة ایک احمدی کے لئے یہ حق ادا کرنے کا کیا طریق ہے، اس کے لئے ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الص والسلام نے شرائط بیعت کی صورت میں لائحہ عمل رکھ دیا ہے.ہم نے یہ عہد بھی کیا ہے کہ ہم ان شرائط کے پابند رہنے کی حتی الوسع کوشش بھی کرتے رہیں گے.تو اس پہ پھر کوشش کرنی چاہئے.پہلی شرط مختصر میں بتا دیتا ہوں.یہ کہ کسی بھی حال میں شرک نہیں کرنا.اب شرک ظاہری بھی ہے اور مخفی بھی ہے.روزمرہ کی بہت سی مصروفیات میں ہمیں خدا تعالیٰ کی عبادت سے غافل کر دیتی ہیں.لیکن ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری اصل زینت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہے.ہمارا حقیقی مفاد اس میں ہے کہ ہم ان مخفی شرکوں سے بچیں جو آئے دن ہمارے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں.

Page 438

خطبات مسرور جلد ششم 418 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 پھر دوسری شرط میں تمام وہ برائیاں آگئیں جو انسان کو روزمرہ کے معاملات میں پیش آتی رہتی ہیں اور ایک مومن کا ان سے بچنا انتہائی ضروری ہے.یعنی جھوٹ ہے، بد نظری ہے، زنا ہے.اب زنا صرف یہی نہیں کہ ضرور عملی طور پر زنا کیا جائے ، گندے خیالات کا ذہن میں بار بار آنا اور ان سے ذہنی حظ اٹھانا بھی ایک زنا کی قسم ہے.پھر فسق و نجور ہے.ہر ایسی حرکت جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلے فسق و فجور میں شامل ہیں.ظلم ہے، خیانت ہے ، فساد ہے، بغاوت ہے ، چاہے وہ حکومتی نظام کے خلاف ہو، چاہے جماعتی نظام سے متعلق باتیں کی جائیں.اس کے علاوہ غلط باتوں کے لئے بھی جب بھی نفس کسی بھی انسان کو ابھارے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم بچیں گے.پھر تیسری شرط میں پانچ وقت کی نمازیں ہیں.اللہ اور رسول میے کے حکم کے مطابق ان کو ادا کرنا ہے اور اب مسجد کی تعمیر کے بعد تو خاص طور پر آپ کو اس بات کی یاددہانی ہوتی رہنی چاہئے اور پھر تقویٰ میں بڑھنے کے لئے صرف فرض نمازیں ہی نہیں.فرمایا کہ تہجد پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہو، آنحضرت ﷺ کی طرف درود بھیجنے کی طرف بھی توجہ رہے کیونکہ ہماری دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے وسیلہ آنحضرت ﷺ کی ذات کو بنایا ہے اگر درود نہیں تو دعائیں بھی بے فائدہ ہیں اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہماری تبلیغ بھی کامیابی کی منزلیں طے کرے گی.یہ درود ہی ہے جو ہماری روحانی حالتوں کو ترقی کی طرف لے جائے گا.پھر استغفار میں باقاعدگی ہے.اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر اس کی حمد اور تعریف ہے.چوتھی شرط یہ کہ عام طور پر تمام انسانوں، اللہ کے تمام بنی نوع انسان اور خاص طور پر مسلمانوں کو نفسانی جوشوں سے، جوش ، غصے، اور غضب سے تکلیف نہیں پہنچانی.اگر اس پر عمل شروع ہو جائے تو تمام ذاتی رنجشیں دور ہو جائیں اور یہ دنیا بھی جنت نذیر بن جائے.پھر پانچویں شرط یہ کہ ہر حال میں خدا تعالیٰ سے وفا کا تعلق رکھنا ہے.جو کچھ حالات ہو جائیں اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں چھوڑنا.چھٹی شرط یہ کہ تمام دنیاوی خواہشات کو ختم کر کے وہی عمل کرنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے.ساتویں بات یہ کہ تکبر اور خود پسندی کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے.عاجزی اور دوسروں سے ہمیشہ نرمی اور خوش خلقی سے پیش آنا ہے.پھر ایک عہد یہ ہم نے کیا ہے کہ اسلام اور اسلام کی عزت اپنی جان ، اپنے مال، اپنی اولاد سے زیادہ کریں گے.اور نو میں بات یہ کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ انسانیت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہوگی.اور آخری بات یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کامل اطاعت کا تعلق ہوگا اور اس کے ساتھ محبت بھی ایسی ہوگی کہ کسی دوسرے رشتے میں وہ محبت نہ ہو.

Page 439

خطبات مسرور جلد ششم 419 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 اور پھر اب آپ کے بعد یہ عہد خلافت احمدیہ کے ساتھ بھی ہے.ہمیں نبھانا ہوگا کہ ہر معروف فیصلہ جو خلیفہ وقت دے گا وہ مانوں گا.اور جب خلافت پر یقین ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا انعام ہے تو خلافت کی طرف سے کیا گیا ہر فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق اور معروف فیصلہ ہی ہوگا.پس میں نے مختصر یہ ذکر کیا ہے اس عہد کا جو تقویٰ کی شرط ہے اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے ضروری ہے اور اس عہد کی تکمیل کرتے ہوئے جب ہم عبادت کے لئے مسجدوں میں جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے.کہ يبنى آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الاعراف : 32) کہ اے ابنائے آدم ہر مسجد میں اپنی زینت کے یعنی لباس تقویٰ کے ساتھ جایا کرو.اپنی زینت سے مراد تو یہی لباس تقویٰ ہے، جیسا کہ میں نے ترجمہ میں پڑھا ہے جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.اگر ہم ان شرائط پر غور کریں جو بیعت کی ہیں.جن کا خلاصہ میں نے ابھی بیان کیا ہے اور جس پر پابندی کا ہم عہد کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے جب ہم خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے جھکیں گے اور جھکنے کے لئے مسجدوں میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے بنیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کر واور وہ سب باتیں جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں چھوڑ دو.جب تک خوف الہی کی حالت نہ ہو تو تب تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا.کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ.جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے تب وہ لوگ بچالئے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں.انسان اپنی چالاکیوں ، شرارتوں اور غداریوں کے ساتھ اگر بچنا چاہے تو ہر گز نہیں بچ سکتا.فرمایا یا د رکھو کہ دعائیں منظور نہیں ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو اور تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ کی دو قسم ہیں ایک علم کے متعلق اور دوسرا عمل کے متعلق.فرمایا ” علوم دین نہیں آتے اور حقائق و معارف نہیں کھلتے جب تک متقی نہ ہو.پس اپنی عبادتوں کی قبولیت کے لئے ہمیں تقویٰ پر قدم مارنا ہوگا.فرمایا اور عمل کے متعلق یہ ہے کہ نماز ، روزہ اور دوسری عبادات اس وقت تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو.پس اپنی عبادتوں کی قبولیت کے لئے ہمیں تقویٰ پر قدم مارنا ہوگا اور تقویٰ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد اور امانتوں کو جب ہم پورا کریں گے.تب ہمارے اندر پیدا ہوگا اور بندوں سے کئے گئے عہد اور امانتیں بھی ہم نے پوری کرنی اور لوٹانی ہیں.تب ہم تقویٰ پر صیح قدم مارنے والے ہوں گے.تب ہم ان راہوں پر چلنے والے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اپنی مسجدوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے اور مسجدوں کے حق ادا کرنے میں خالص ہو کر اس کی عبادت کرنے کے ساتھ اسلام کا پیغام پہنچانا بھی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی فرمایا کہ اس کے ذریعہ سے تبلیغ کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں.

Page 440

خطبات مسرور جلد ششم 420 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 اللہ تعالیٰ آپ کو ان تمام برکات کا مورد بنائے جو اس مسجد سے وابستہ ہیں.نیکیوں اور اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے.آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنے والے ہوں.عہدیدار بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے.عاجزی، انکساری، پیار اور اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے والے ہوں اور افراد جماعت بھی نظام جماعت کو سمجھتے ہوئے اطاعت کا نمونہ دکھا ئیں.اللہ تعالیٰ پرانے احمدیوں کا بھی خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق بڑھائے اور نئے آنے والے جن میں سے کافی تعداد میں کل میرے ساتھ اجتماعی ملاقات میں شامل تھے جن کے چہروں، باتوں اور عمل سے خلافت کے لئے وفاء اخلاص، پیار، گہرا تعلق اور اطاعت اور محبت پھوٹی پڑ رہی تھی اللہ تعالیٰ ان کے اس تعلق کو بھی مزید بڑھاتا چلا جائے.احمدیت کے لئے وہ مفید وجود بننے والے ہوں.تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں.مجھے آنے سے پہلے ماجد صاحب ( عبدالماجد طاہر صاحب) نے بتایا کہ 28 دسمبر 1984ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دورہ فرانس کے دوران اپنے اس کشفی نظارے کا پہلی دفعہ ذکر کیا تھا جس میں گھڑی پر دس کے ہند سے کو چمکتے دیکھا تھا اور آپ کے ذہن میں اس کے ساتھ آیا تھا کہ یہ Friday the 10th کی تاریخ ہے.وقت نہیں ہے.تو آج بھی اتفاق سے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ Friday the 10th ہے اور فرانس کی پہلی مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے.خدا کرے کہ وہ برکات جو Friday the 10th کے ساتھ وابستہ ہیں، جن کے بارے میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع " کو بھی خوشخبری دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ ایک بات کو کئی رنگ میں پورا فرماتا ہے اور کئی طریقوں سے ظاہر فرماتا ہے اللہ کرے کہ وہ اس مسجد کے ساتھ بھی وابستہ ہوں اور یہ مسجد جماعت کی ترقی کے لئے اس ملک میں ایک سنگ میل ثابت ہو.کئی صدیاں پہلے جو ہم تاریخ دیکھتے ہیں تو فرانس میں مسلمان سپین کے راستے داخل ہوئے تھے لیکن یہاں انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور دنیاداری بھی آچکی تھی اور سرحدوں کے قریب کے علاقے سے ہی انہیں پسپا ہونا پڑا کیونکہ اس وقت دنیا داری بھی غالب آ رہی تھی روحانیت کم ہو رہی تھی لیکن مسیح محمدی کو جو پیار اور محبت اور دعاؤں کا ہتھیار دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا کارگر ہتھیار ہے جو دلوں کوگھائل کرنے والا ہے جس کو بھی پسپانہیں کیا جا سکتا.بلکہ یہ زخم ایسا ہے جو زندگی بخشتا ہے.پس یہاں کے احمدی اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں کہ آپ مسیح محمدی کے غلاموں میں سے ہیں.اس دفعہ یہ حملہ جو دلوں کو جیتنے کے لئے ہے، باہر سے اندر کی طرف نہیں ہورہا بلکہ فرانس کے مرکز سے تمام ملک میں کرنے کے اللہ تعالیٰ نے سامان آپ کو بہم پہنچائے ہیں.پس اس موقع کو ضائع نہ کریں اور اپنی عبادتوں اور اعلیٰ اخلاق اور تبلیغ کے معیار پہلے سے بہت بلند کر دیں تا کہ سعید فطرت لوگوں کو آنحضرت مے کے جھنڈے تلے جلد سے جلد لے آئیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 441

خطبات مسرور جلد ششم 421 خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 2008 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: دو و فاتوں کی افسوسناک اطلاع ہے جن کے جنازے ابھی میں جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.ایک تو ہیں ہمارے مولانا بشیر احمد صاحب قمر جو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی تھے.ان کی کل 9 را کتوبر کو وفات ہوئی ہے ، آپ کی عمر 74 سال تھی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اور آخر وقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی، کچھ عرصہ پہلے یا چند دن پہلے ان کو انفیکشن ہوا.اس کے بعد نمونیہ ہو گیا تھا جو وفات کی وجہ بنا.آپ نے 1950ء میں اپنی زندگی وقف کی تھی.1958ء میں شاہد کا امتحان پاس کیا اور پھر پاکستان میں ، غانا میں نجی میں خدمت کی توفیق پائی.آپ کو 1999ء میں ناظر تعلیم القرآن مقرر کیا گیا تھا.بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے، بہت سادہ مزاج تھے، افریقہ میں میرے ساتھ بھی رہے ہیں، میں نے دیکھا کہ افریقن لوگوں کے ساتھ بڑا پیار اور محبت کا سلوک تھا.بڑے انتھک محنتی اور اکیلے رہے اور کوئی شکوہ نہیں اور خود ہی کھانا پکا بھی لیتے تھے مختصر سی خوراک ، بڑے دعا گو، نیک اور متقی انسان تھے.وفات سے ایک دن پہلے انہوں نے مجھے اپنی صحت کے بارہ میں مختصر خط لکھا بڑے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں اور ساتھ لکھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک، مددگار اور تعاون کرنے والے لوگ ہمیشہ مہیا فرما تار ہے.بڑا درد تھا، بڑا اخلاص کا تعلق تھا اور بے نفس ہو کر خدمت کرنے والے انسان تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.وہ ہمارے لندن میں جو وکیل اشاعت ہیں، نصیر احمد قمر صاحب، ان کے والد تھے.ان کا ایک اور بیٹا ہے جو سب سے چھوٹا ہے وہ صدرانجمن احمدیہ میں کا رکن ہے مظفر احمد قمر.اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو بھی صبر عطا فرمائے ، ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں.دوسرے بھی ہمارے واقف زندگی مبلغ مکرم عبدالرشید رازی صاحب جو 29 ستمبر کو آسٹریلیا میں 76 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ بھی تحریک جدید میں اور آئیوری کوسٹ، تنزانیہ، نجی اور گھانا میں مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے.بڑے سادہ مزاج آدمی تھے اور تقریباً سال پہلے ہی اپنے بیٹے کے پاس آسٹریلیا جا کر آباد ہونے کا خیال تھا.ابھی ان کا معاملہ پر اس میں ہی تھا کہ وفات ہو گئی.ان کو اچانک ایک کینسر ڈائیکنوز (Diagnose) ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کے بیوی بچوں کو صبر اور حوصلہ دے.ان کی تدفین سڈنی میں ہی عمل میں آئی ہے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 44 مورخہ 31اکتوبر تا 7 نومبر 2008 صفحہ 5 تا 8 )

Page 442

خطبات مسرور جلد ششم 422 (42) خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 فرموده مورخہ 17 اکتوبر 2008ء بمطابق 17 /اخاء 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد خدیجہ.برلن (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی: إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَاقَامَ الصَّلوةَ وَآتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللهَ فَعَسَى أُولئِكَ اَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (سورة التوبة : 18) وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ.أَوْلَئِكَ سَيَرُ حَمُهُمُ اللهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورة التوبة: 71).الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر اپنے فضل کی بارش کا ایک اور قطرہ آج اس مسجد کی صورت میں ہم پر گرایا ہے.ملک کے مشرقی حصہ میں یہ ہماری پہلی مسجد ہے.برلن شہر جو یہاں کا دارالحکومت بھی ہے اس کی ایک اپنی اہمیت ہے.جرمنی اور خاص طور پر اس شہر میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنے کی تاریخ جیسا کہ آپ جانتے ہیں 86 سال پرانی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں یہاں احمدی مبلغین آئے تھے اور ان کی رپورٹوں کے مطابق جرمن قوم میں بڑی سعادتمندی پائی جاتی تھی اور حقیقی اسلام کو سمجھنے کی طرف ان کی اُس وقت توجہ تھی.بہر حال یہاں اس شہر میں اور اس ملک میں جو ابتدائی مبلغین آئے تھے ان کی جو کوششیں تھیں، ان کا بھی میں ذکر کر دیتا ہوں کیونکہ اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ ان کی یادیں وابستہ ہیں.یہاں احمدیت کی ترقی کے بارے میں اس شہر سے بھی اور اس ملک سے بھی کسی حد تک وہ پُر امید تھے ، یہ ان کی بعض رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے اور میں یہ ذکر اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ نوجوانوں ، بچوں اور نئے آنے والوں کو بھی جو اس ملک میں رہ رہے ہیں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہیں اپنی تاریخ کا کچھ پتہ لگے، تاکہ ان مبلغین کے لئے دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جو ہمارے ابتدائی مبلغین تھے جنہوں نے شروع میں بڑی قربانیاں کیں اور مختلف ممالک میں گئے.جو اپنے ملکوں سے نکلے تھے اور پھر مختلف جگہوں پر رہے.اس زمانہ میں جماعت کے مالی وسائل تو بہت اچھے ہیں اور اس زمانے میں تو وسائل بھی

Page 443

خطبات مسرور جلد ششم 423 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 نہیں تھے لیکن ان لوگوں کی احمدیت کے لئے بے لوث خدمت کا جذبہ اور انتھک محنت انہیں وسائل نہ ہونے کے با وجود ہر جگہ متعارف کروا دیتی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان لوگوں کی دعاؤں کی طرف بہت توجہ تھی اور اس وجہ سے وہ جماعت کی ترقی کے بارے میں پیر امید بھی بہت زیادہ تھے.1922ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جرمنی میں مشن کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور مولوی مبارک علی صاحب بنگالی بی اے کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ وہ جرمنی جائیں اور وہاں مشن کا آغاز کریں.مولوی مبارک علی صاحب 1920ء سے لندن میں بطور مبلغ کے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر 1922ء میں وہ لندن سے برلن آگئے.پھر آپ کی معاونت کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملک غلام فرید صاحب ایم اے کو بھی جرمنی جانے کے لئے منتخب فرمایا اور وہ بھی 26 نومبر 1923ء کو قادیان سے جرمنی کے لئے روانہ ہوئے اور 18 دسمبر 1923ء کی صبح یہاں برلن پہنچے.جرمنی پہنچ کر محترم مولوی مبارک علی صاحب کی ابتدائی کوششوں کو خدا تعالیٰ کے فضل سے کس قدر کامیابی نصیب ہوئی.اس کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 2 فروری 1923 ء کے خطبہ میں فرمایا کہ ان کی رپورٹیں نہایت امید افزا ثابت ہوئیں بلکہ ان کو تو اس ملک میں کامیابی کا اس قدر یقین ہو گیا کہ وہ متواتر مجھے لکھ رہے ہیں کہ وہاں فوراً ایک مسجد اور مکان بنوایا جائے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ چھ ماہ میں خود وہاں چلا جاؤں.یعنی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو کہا کہ آپ خود وہاں آجائیں جس کے نتیجہ میں انہیں جلد کامیابی کی امید ہے کہ قلیل عرصہ میں دنیا میں اہم تغیرات ہو سکتے ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو خود جرمنی جانے پہ انشراح نہیں تھا لیکن دوسری تجویز کے متعلق آپ نے فرمایا کہ ان کی اس درخواست کو کہ اس جگہ فوراً ایک مسجد اور سلسلہ کا ایک مکان بن جائے تو بہت کامیابی کی امید ہے نظر انداز کر دینا میرے نزدیک سلسلہ کے مفاد کو نقصان پہنچانے والا تھا.اس لئے میں نے اس کے متعلق ان کو تاکید کر دی ہے کہ وہ فوراً زمین خرید لیں.چنانچہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت موصول ہونے پر مولوی مبارک علی صاحب نے اس طرف توجہ دی اور فوری طور پر برلن شہر میں دوا ایکڑ زمین خرید لی برلن میں مسجد کے لئے زمین کا انتظام ہو جانے پر حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے 2 فروری 1923ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر احمدی خواتین کے چندہ سے ہو.اس کے لئے حضور نے 50 ہزار روپیہ تین ماہ میں اکٹھا کرنے کا اعلان فرمایا.لجنہ اماءاللہ کے قیام کے بعد یہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی جس کا خالصتنا تعلق مستورات سے تھا.اس تحریک میں احمدی خواتین کے صحیح نظر کو یکسر اتنا بلند کر دیا کہ ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت اور للہیت کا ایسا ز بر دست ولولہ پیدا ہو گیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں تھی.

Page 444

خطبات مسرور جلد ششم 424 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 اُس وقت تو ہند و پاکستان ایک تھا.وہاں کی لجنہ نے ، خاص طور پر قادیان کی لجنہ نے ایسی مثال قائم کی کہ اس سے پہلے وہاں کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی.اُس زمانہ میں جو ایک انقلابی صورت پیدا ہوئی تھی لجنہ کی ایکٹیوٹیز ( activities) میں اور خاص طور پر اس تحریک کے لئے قربانی میں، ایسی قربانیاں قرون اولیٰ میں نظر آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس زمانے کی جو جاگ لگی ہوئی ہے، آج تک اس کی مثالیں ملتی رہتی ہیں.اُس وقت احمدی عورتوں نے نقد رقمیں اور طلائی زیورات حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کئے.پہلے دن ہی 8 ہزار روپے نقد اور وعدوں کی صورت میں قادیان کی احمدی عورتوں نے یہ وعدہ پیش کیا اور یہ رقم عطا کی اور 2 ماہ کے تھوڑے سے عرصہ میں 45 ہزار روپے کے وعدے ہو گئے اور 20 ہزار روپے کی رقم بھی وصول ہوگئی.پھر کیونکہ اخراجات کا زیادہ امکان پیدا ہو گیا تھا حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے اس کی مدت بھی بڑھا دی اور ٹارگٹ بڑھا کے 70 ہزار روپے کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورتوں نے اس وقت 72 ہزار 700 کے قریب رقم جمع کی.بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ 5 اگست 1923ء کو مسجد برلن کا سنگ بنیا درکھا گیا.جس میں جرمنی کے وزیر داخلہ اور وزیر برائے رفاہ عامہ، ترکی اور افغانستان کے سفراء، متعدد اخبار نویس اور بعض دیگر معززین شامل تھے اور مہمانوں کی تعداد 400 تھی اور احمدی اس زمانے میں صرف چار تھے.یہ اُس وقت حال تھا لیکن اتنے وسیع تعلقات تھے.یہ تھی اُس وقت کے مبلغین کی کوشش کہ اتنے وسیع تعلقات تھے اور یہ سب بڑی بڑی شخصیات اُس وقت مسجد کی بنیاد کے لئے تشریف لائیں اور بہر حال مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا.لیکن کیونکہ اقتصادی حالات یہاں کے بہت خراب ہو گئے تھے، جنگ عظیم کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوا تو وہی جو خیال تھا کہ 50-60 ہزار میں مسجد بن جائے گی اس کا اندازہ خرچ 15 لاکھ روپیہ پر لگایا گیا.اتنے اخراجات پورے کرنا جماعت کے وسائل کے لحاظ سے بہت ناممکن تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے فیصلہ فرمایا کہ دومراکز کو چلانا بہت مشکل ہے، ایک لندن والا بھی اور ایک برلن میں بھی.تو 1924ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ برلن مشن کو ان حالات کی وجہ سے بند کر دیا جائے کیونکہ مالی وسائل بھی نہیں ہیں اخراجات بھی نہیں پورے ہو سکتے ، حالات یہاں بہت خراب ہو گئے تھے.لیکن وہ جو عورتوں نے ، احمدی خواتین نے قربانیاں کی تھیں ، وہ رقم حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر لندن بھیج دی گئی اور وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد فضل لندن تعمیر ہوئی.پھر یہاں 1948ء میں دوبارہ شیخ ناصر احمد صاحب آئے تھے جنہوں نے ہمبرگ میں مشن شروع کیا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ سفر کی سہولتیں بھی ہیں اور جماعت کے مالی حالات بھی بہت بہتر ہیں.اُس زمانے میں سمندری سفر ہوتا تھا.مکرم ملک غلام فرید صاحب کو سفر میں 22 دن لگے تھے.یہ وہی حضرت ملک غلام فرید صاحب ہیں جنہوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور مختصر نوٹس جن کی بنیا د حضرت

Page 445

خطبات مسرور جلد ششم 425 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نوٹس پر ہے اور اسی طرح انگریزی کا ترجمہ و تفسیر ” فائیو والیوم Five) (Volumes بھی انہوں نے کیا ہوا ہے.گو اس کے لئے ایک کمیٹی تھی لیکن اس کا زیادہ کام اور اکثر کام آپ نے کیا اور حضرت ملک صاحب بڑے پڑھے لکھے اور انگریزی علم پر بڑی مہارت رکھتے تھے.انہوں نے قرآن کریم کے الفاظ کی ڈکشنری بھی تیاری کی تھی لیکن وہ شائع نہیں ہو سکی.اب گزشتہ سال اس کو مکمل کر کے شائع کروایا گیا ہے اور ملک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.اسی طرح مولوی مبارک علی صاحب کا بھی تعارف کرا دوں.وہ ابتدائی مبلغ تھے یہاں آئے.انہوں نے 1909ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تھے اور 1917ء میں جب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو جن 63 نو جوانوں نے اپنے نام پیش کئے اُن میں مولوی مبارک علی صاحب بھی تھے.آپ نے 1969ء میں بنگلہ دیش میں وفات پائی.بوگرا (Bogra) میں مدفون ہیں.تو یہ تھے دو ابتدائی مبلغ جو یہاں آئے اور ان کے تعلقات با وجود وسائل کی کمی کے کس قدر وسیع تھے، یہ میں آپ کو بتا چکا ہوں.اب جومر بیان اور مبلغین ہیں ان کو بھی اپنے جائزے کے لئے پرانے مبلغین کے جو واقعات اور رپورٹیں ہیں وہ ضرور پڑھنی چاہئیں تو بہر حال ان بزرگوں نے یہاں انتھک محنت کی.اُس وقت تو حالات کی وجہ سے جیسا کہ میں نے بتایا کہ مسجد باوجود کوشش کے نہ بن سکی.لیکن قادیان اور ہندوستان کی لجنہ کی جو قربانی تھی وہ رائیگاں نہیں گئی.اُس رقم سے مسجد فضل تعمیر ہوگئی اور آج اس مسجد کی جو تاریخی اہمیت ہے وہ بھی سب پر واضح ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت کی احمدی خواتین کی قربانی اتنی سچی تھی اور اس کی قبولیت کے لئے دعائیں اس درد کے ساتھ انہوں نے کی ہوں گی کہ ایک مسجد تو انہوں نے اپنی زندگی میں بنالی اور دوسری مسجد کی تعمیر میں ہو سکتا ہے آج ان کی نسلیں شامل ہوئی ہوں.لیکن بہر حال وہی جذ بہ جوان ابتدائی خواتین کی قربانی کا تھا وہ آج بھی کچھ حد تک لجنہ میں دین کی خاطر قربانی میں ہمیں نظر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ان کی دعا ئیں تھیں جنہوں نے اپنی نسلوں میں بھی یہ جذبہ پیدار کھا.یہ مسجد جو اس وقت موجودہ مسجد ہے 17 لاکھ یورو میں تعمیر ہوئی ہے.جس میں سے 4 لاکھ یورو کے علاوہ 13لاکھ جرمنی کی لجنہ نے دیا ہے اور 4 لاکھ جو باہر سے آیا ہے اس میں سے بھی زیادہ بڑا حصہ لجنہ UK کا ہے.117 کھ یورو کو اگر آپ پاکستانی روپوں میں بدلیں ، یہ میں پاکستانیوں کے لئے بتا رہا ہوں تو 19 کروڑ روپے کے قریب بنتا ہے.پس آج یہ قربانی کرنے والیاں جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تو فیق دی کہ یہ مسجد تعمیر کرسکیں.

Page 446

خطبات مسرور جلد ششم 426 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 اس مسجد کے کچھ کوائف بھی بیان کر دیتا ہوں.اس زمانے میں تو دوا ایکٹر رقبیل گیا تھا لیکن اس کا بیدگل پلاٹ، 4 ہزار 790 مربع میٹر ہے جو ایک ایکڑ سے کچھ زیادہ ہے اور اس پر جو رقبہ تعمیر کیا گیا ہے وہ ایک ہزار 8 مربع میٹر ہے.اسی طرح باوجود پابندیوں کے 13 میٹر مینارہ کی اجازت مل گئی.168 مربع میٹر کے دو ہال ہیں یعنی کل 336 مربع میٹر کے مسجد کے ہال ہیں.اس میں 4 کمروں کا ایک فلیٹ ہے.اس کے علاوہ جو گھر بنائے گئے ہیں، ایک دو کمروں کا ہے.ایک کمرے کا گیسٹ ہاؤس شامل ہے.4 دفتر ہیں.لائبریری ہے.کانفرنس کا کمرہ ہے اور بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا پارک بنانے کا ان کا ارادہ ہے.تھوڑی سی پار کنگ بھی ہے.جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اس کی مخالفت بھی یہاں بہت ہوئی لیکن آہستہ آہستہ لگتا ہے مخالفت اب ٹھنڈی پڑتی جارہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا کہ خود ہی ٹھنڈی ہو جائے گی جب یہاں سے انشاء اللہ تعالیٰ امن، پیار اور محبت کا پیغام دنیا میں ہر طرف پھیلے گا.یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ آج جب دنیا دوبارہ اقتصادی بحران کا شکار ہے.مہنگائی یورپ میں بھی بڑھ رہی ہے لیکن ایک تو یہ ہے کہ اس مہنگائی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے لجنہ کو توفیق دی کہ انہوں نے جو قربانی کی وہ رنگ لائے اور پھل لائے اور اس کا نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والیوں کو بے انتہا جزا دے.ان سب کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.یہ نظارے ہمیں دنیا میں ہر جگہ نظر آتے ہیں.اس طرح بڑھ چڑھ کر احمدی قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.یہ بھی عجیب اتفاق ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ 1923ء میں برلن کی مسجد کی تعمیر شروع کی گئی تھی تو خوفناک اقتصادی بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے تعمیر نہیں ہوسکی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے مسیح کی جماعت کو اس انعام سے نوازنے کا فیصلہ کیا تھا.اس لئے جو آج کل دنیا میں اقتصادی حالات ہورہے ہیں ان حالات سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے مسجد کی تعمیر کی توفیق بھی عطا فرما دی اور مکمل بھی ہو گئی.باوجود تمام اقتصادی حالات کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس جذبہ سے احمدی قربانی کرتے ہیں مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ انشاء اللہ احمدیوں کے روپے میں ہمیشہ برکت ڈالتا رہے گا.کسی نے مجھے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ریٹرن (Return) داخل کرائے تو ٹیکس کے محکمہ والے اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ تمہارے گھر کا خرچہ تمہارے چندے سے کم کس طرح ہو سکتا ہے.تو ایسے لوگ بھی ہیں جن کے گھر کے خرچ ان کے چندوں کی ادائیگی سے کم ہیں.پس یہ وہ روح ہے جو ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہے کہ اپنے خرچ کم کر کے بھی قربانی کرنی ہے.اس روح کو قائم رکھنا اور قربانی کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.حقیقی مومن کبھی اس روح کو نہ مرنے دیتا، نہ اس پر فخر کرتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے آپ پر کیا اس پر اس کے آگے جھکتے چلے جائیں اور خود بھی اس مسجد کی تعمیر کا حق ادا کریں اور اپنی نسلوں کی بھی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ مسجد کا حق ادا کرنے والی ہوں.احمدی عورتوں کو خاص طور پر آج اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنی

Page 447

خطبات مسرور جلد ششم 427 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 چاہئے کہ جو قر بانی انہوں نے کی ہے اس کا فائدہ بھی ہو گا جب اس سے ہمیشہ فیض اٹھاتے چلے جانے کی کوشش کریں گی اور وہ کوشش تبھی کامیاب ہوگی جب اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں گی جس کی تلقین خدا تعالیٰ نے ہمیں فرمائی ہے اور ان کا مسجد سے تعلق جوڑیں گی.اسی طرح مرد بھی یا درکھیں کہ عورتوں نے اس مسجد کی تعمیر سے جو احسان آپ پر کیا ہے اس کا حق اسی طرح ادا ہو سکتا ہے.بہت سارے مرد کہیں گے کہ پیسے تو ہم سے ہی لئے تھے ، بے شک لئے ہوں گے لیکن پھر دینا بھی بڑی قربانی ہے.بہر حال اس کا حق اس طرح ادا ہو سکتا ہے، احسان کا بدلہ تب اثر کر سکتا ہے جب آپ مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.برلن کی مسجد کی تعمیر نے یہ سبق بھی آپ کو دیا ہے کہ عورتوں کی یہ خواہش ہے کہ ان کے مرد عبادت گزار ہوں اور اگر ان کے بس میں ہو تو وہ ہر جگہ آپ کو مسجد بنا کر دیں.جب میں کینیڈا گیا تو کینیڈا کی لجنہ نے ایک ملین ڈالر کی قربانی دی کہ اس سے مسجد بنادیں.لیکن زائد بھی خرچ ہوگا تو کہتی ہیں بہر حال ہم دیں گی.ایسی قربانیاں ہر جگہ نظر آتی ہیں.مسجدوں میں آنے کی فرضیت تو مردوں کے لئے ہے.عورتوں کا تو اگر دل چاہے تو جمعہ پر آنا ہے نہیں تو نہیں آنا.یا پھر اگر کوئی اپنا فنکشن ہوا تو اس پر کبھی کبھار یہاں آنا ہے.پس مساجد کی تعمیر کے لئے عورتوں کی قربانی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربانی کرتی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ میری یہ سوچ صرف خوش فہمی پر مبنی نہ ہو بلکہ عورتیں اپنے بچوں کی بقا اور اپنے مردوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے جو قربانیاں کر رہی ہیں وہ اسی سوچ کے ساتھ ہوں اور یہ سوچ پھر یقیناً عورتوں کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گی.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے.پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں گے.پھر اسی سورۃ توبہ کی 71 ویں آیت ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں.یہی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ضرور رحم کرے گا یقینا اللہ کامل غلبہ والا بہت حکمت والا ہے.پس اب اس مسجد کی تعمیر کے بعد مرد بھی اور عورتیں بھی اس انتہائی اہم کام کی طرف متوجہ ہو جائیں.اپنا بھی تعلق مسجد کے ساتھ جوڑیں اور اپنی اولادوں کا بھی تعلق مسجد کے ساتھ جوڑیں.کیونکہ یہی خدا تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والوں کی نشانی ہے.اور ایمان کیا ہے؟ یا حقیقی مومن کون ہے؟ اس کی گہرائی میں جب ہم جائیں تو خوف

Page 448

428 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کیا ہمارا ایمان اس قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حقیقی ایمان کہلا سکے؟ یا کیا ہم حقیقی مومن کے زمرے میں آتے ہیں؟ ہم پر خدا تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس زمانہ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل کیا جنہوں نے قدم قدم پر ہماری راہنمائی فرمائی.ہمیں سیدھے راستے پر رکھنے اور حقیقی مومن بننے کے لئے بے شمار اور مختلف ذریعوں سے ہماری راہنمائی فرمائی.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جوبت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.پس یہ وہ ایمان ہے جو ہمیں کامل الایمان بنائے گا.فاسقانہ اعمال کے بارے میں تو کسی احمدی کے متعلق سوحا بھی نہیں جاسکتا.لیکن اگر ہمارے اخلاق میں ادنی سی بھی کمزوری ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک ہمیں اپنی حالت کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ یہ ہمارے ایمان میں کمزوری پیدا کر سکتی ہے.لیکن ہمارا ہر عمل اور فعل اگر خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو پھر ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ ہماری یہ کمزوریاں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دور فرما تا چلا جائے گا اور یہی بات پھر ایمان میں مضبوطی بھی پیدا کرتی ہے.ہم اگر آپس کے روز مرہ کے تعلقات نبھا رہے ہیں ، خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے کے حق ادا کر رہے ہیں تو یہ باتیں ہمارے ایمان میں اضافے کا باعث بنانے والی ہوں گی.پس ان معیاروں کو حاصل کرنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.بعض دفعہ بعض عمل جان بوجھ کر ایک انسان نہیں کرتا لیکن غفلت اور ستی راہ میں حائل ہو جاتی ہے.اس میں عبادت کی ادائیگی میں کمزوری بھی ہے اور دوسری ایسی باتیں بھی ہیں جو خدا تعالیٰ کو نا پسند ہیں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ تمہارے فرائض ہیں، انہیں پورا کرو.اگر انسان لا پرواہی اور غفلت کی وجہ سے انہیں پورا نہیں کرتا تو آہستہ آہستہ یہ چیزیں پھر ایمان کی کمزوری اور شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس ایک احمدی کو ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے.کیونکہ کسی بھی قسم کی نیکی سے جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے غفلت برتنا یا ان کے کرنے میں سستی دکھانا مومن کا شیوہ نہیں ہے.اس پہلی آیت میں جو میں نے پڑھی جو سورۃ توبہ کی آیت 18 ہے، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ پر ایمان کامل ہو اور یوم آخر پر بھی.اور یوم آخرت کے بارہ میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلے وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں؟ اور اسی امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور

Page 449

429 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم القاء کے ریکا یک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ کریمہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے.مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ سے قرآن شریف کی وحی ، اور مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ سے انبیاء سابقین کی وحی اور اخرة سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے.آخرت کے معنی ہیں پیچھے آنے والا.آپ فرماتے ہیں: ” آخرت کے معنی ہیں پیچھے آنے والی.وہ پیچھے آنے والی چیز کیا ہے؟ یہاں پیچھے آنے والی چیز سے مراد وہ وحی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی کیونکہ اس سے پہلے وحیوں کا ذکر ہے.ریویو ف ریلیجنز جلد14 نمبر 4 بابت ما مارچ اپریل 1915ء صفحہ 164 حاشیہ بحوالہ فقیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلداول صفحہ 445 مطبوع در بود) آخرت کا مطلب بے شک جزا سزا کا دن بھی ہے اور یہ مطلب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہوا ہے.لیکن جو وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے زمانے اور اپنی وحیوں سے تعلق میں بتائی ہے وہ یہاں بھی صادق آتی ہے.کیونکہ اس زمانہ میں مساجد تو بہت بن رہی ہیں لیکن حقیقی مساجد آباد کرنے والے وہی ہوں گے جو مسیح موعود کو ماننے والے ہوں گے.کیونکہ ایمان کی طرف صحیح راہنمائی بھی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی کرنی ہے.خدا اور آنحضرت ﷺ سے تعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی جوڑنا ہے.پس جہاں ہمیں یہ بات تسلی دلاتی ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی مسجدوں کی تعمیر اور آبادی کا حقیقی حق ادا کرنے والی ہے وہاں ایک خوف بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ صرف ایمان لا کر اور مسجد تعمیر کر کے ہی حق ادا ہو جاتا ہے؟ یا کچھ اور بھی کام کرنے والے ہیں.اور ان کاموں کی طرف اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا کہ نماز قائم کرو اور نماز قائم کرنے کے لئے جو دوسری جگہ وضاحت بیان فرمائی ہے اس میں فرمایا کہ پانچ وقت کی نماز میں پڑھنا ہے اور باجماعت نماز پڑھنا ہے.پس ایک تو یہ بات یادرکھنے والی ہے کہ مسجدوں کا حسن ان کی آبادی سے ہے اور ان کی آبادی پانچ وقت مسجد میں آنے سے ہے.اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی آبادی کے لئے قیام نماز ہو.یہاں کے مقامی لوگوں کو جو جرمن ہیں یہی شکوہ ہے کہ یہاں تو آپ کی اتنی تعداد نہیں ہے پھر مسجد اس علاقہ میں بنانے کی کیا ضرورت تھی.تو ان لوگوں کا یہ شکوہ بھی اس طرح دور ہو سکتا ہے کہ جب ان کو پتہ لگے کہ یہ احمدی ہیں اور وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے ایک خدا کے آگے جھکنے کے لئے باقاعدہ مسجد میں آتے ہیں.انہوں نے عمارت صرف دکھانے کے لئے نہیں بنائی بلکہ ایک خدا کی عبادت کرنے کے لئے اس جگہ اس عمارت کو کھڑا کیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زکوۃ دیتے ہیں.اپنے مال میں سے غریبوں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور جماعت کی متفرق ضروریات بھی پوری کرتے ہیں.اس بات پر ان لوگوں کو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ مالی قربانی کر کے مسجدیں بناتے ہیں.اس کا اخباروں میں ذکر بھی ہوا ہے کہ لجنہ کی قربانی سے یہ مسجد بنی ہے.اس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا

Page 450

خطبات مسرور جلد ششم 430 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 ہے کہ ٹیکس کے محکمے والوں کو یقین نہیں آتا کہ کس طرح تم لوگ کر سکتے ہو.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ مسجدوں کی تعمیر و آبادی کے ساتھ مالی قربانی کی طرف توجہ پہلے سے بڑھتی ہے.کیوں بڑھتی ہے؟ اس لئے کہ ان کا کامل تو کل خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے جو مومن ہوتے ہیں.وہ کسی چیز سے خوف نہیں کھاتے.آج کل کے سودی مالی نظام چلانے والوں کی طرح انہیں یہ خوف لاحق نہیں کہ ہماری معاش کا کیا ہوگا.ہماری آمد کا کیا ہوگا.کیونکہ مومن کا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور اس کا خوف اور خشیت دل میں رکھتے ہوئے ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.اس لئے یہ تسلی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ، اپنی خاطر کی گئی قربانی کوکئی سو گنا کر کے نواز تا ہے اور نوازے گا.اس لئے خوف کرنے کی ضرورت نہیں.دنیا کے اقتصادی حالات جیسے بھی ہوں احمدی ایک قربانی کے بعد دوسری قربانی کرنے کے لئے بغیر خوف کے تیار بیٹھا ہوتا ہے اور میرے سامنے کئی مثالیں ایسی ہیں، کئی ملکوں کی مثالیں ایسی ہیں جو غریب ملک ہیں لیکن قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں اور ہر احمدی اپنا یہ عہد پورا کرتا ہے کہ جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہوں گا اور یہ اس لئے ہے کہ اُس کو خدا تعالیٰ نے ہدایت کا راستہ دکھاتے ہوئے مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ کی 71 ویں آیت میں فرمایا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور دوست وہ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے حقوق ادا کر رہے ہوں.اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں مسجدوں کی آبادی انہی لوگوں سے بتائی ہے جو مومن ہیں اور مومن اخلاق میں بڑھنے والے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں.اس دوستی سے یہ مراد نہیں کہ مرد عورتوں کی آپس میں دوستیاں ہو جائیں اور آپس کے حجاب اور پردے ختم ہو جائیں.بلکہ ایسے رشتے قائم ہوں جن کی بنیاد تقدس پر ہو.ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہوں.اب یہ اخلاق کیا ہیں جن کا ایک مومن میں پایا جانا ضروری ہے؟ اس میں آپس کے تعلقات میں محبت پیار اور بھائی چارے کو بڑھانا ہے.محبت پیار کے یہ تعلقات اس طرح بڑھ سکتے ہیں جب شکووں، شکایتوں اور نفرتوں کی تمام دیواریں گرادی جائیں.جب ہر ایک یہ ارادہ کر لے کہ ہم نے ادنیٰ سے ادنی نیکی کرنے کی بھی کوشش کرنی ہے اور ہر قسم کی برائی سے بچنا ہے.ہم نے رشتوں کے حقوق ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی ہے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد ہم نے اس عظیم رشتہ کی قدر کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے.جو ایک احمدی کا احمدی کے ساتھ ہے اور رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ کی عظیم مثال قائم کرنی ہے.ہم نے اپنے غریبوں کی مدد کرنی ہے اور اپنی امانتوں کے حق ادا کرنے ہیں.ذاتی لالچ اور مفاد ہمیں ایمان میں کمزوری دکھاتے ہوئے دوسروں کے حق مارنے پر مائل نہ کرے.ہمارا ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا جذبہ ایسا ہونا چاہئے جس کے نمونے قرون اولیٰ

Page 451

431 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم کے صحابہ میں نظر آتے ہیں جو اپنی آدھی جائیدادیں بانٹ دیا کرتے تھے.بدظنیوں کے خلاف جہاد کی صورت ہم میں سے ہر ایک میں نظر آنی چاہئے کہ بہت سے فتنہ وفساد اور آپس کی رنجشوں کی وجہ سے یہ بدظنیاں ہیں.سچائی کے وہ معیار ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ سچائی ہر جگہ، ہر موقع پر ہمارا طرہ امتیاز ہو.شکر گزاری کے جذبات ہم میں اس حد تک پیدا ہو جانے چاہئیں کہ ہر آن اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں نعمتوں میں اضافے کی نوید ملتی رہے.اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عفو اور درگزر ہمارا شیوہ بن جانا چاہئے.ہمارے عدل اور انصاف کے معیار ہر معاملے میں اتنے اونچے ہونے چاہئیں کہ وہ احسان کے راستوں سے گزرتے ہوئے اِیتَاءِ ذِي الْقُرُبی کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے بے نفس ہو کر اپنے اور غیروں کی خدمت پر مجبور کرنے والے ہوں.اپنے وعدوں کی پابندی ہمارا وہ خاصہ ہو جو ہماری پہچان بن جائے تاکہ آپس میں دوستیاں اور بھائی چارے بڑھتے چلے جائیں.دنیا بھی آنکھیں بند کر کے ہم پر اعتماد کرنے والی ہو.اپنے اور ایک دوسرے کے تقدس ، عصمت اور عزت کی حفاظت ہر وقت ہمارے پیش نظر رہے.مردوں عورتوں میں غض بصر کی عادت ہو اور یہ چیزیں اپنے کردار کا ہر احمدی لازمی حصہ بنا لے.احمدی عورتیں اپنے لباس، پردے اور حجاب میں پوری پابندی کرنے والی ہوں.اس بارہ میں بہت کانشنس ہوں.ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف ہر وقت توجہ رہے اور ہمسایہ صرف گھر یلو ہمسایہ نہیں بلکہ سفر کرنے والے بھی ہمسائے ہیں.آپس میں کام کرنے والی جگہوں پر رہنے والے بھی ہمسائے ہیں اور پھر افراد جماعت بھی خاندان اور ہمسائے کی شکل اختیار کر گئے ہیں.گویا تمام قسم کی اخلاقی کمزوریاں ہم میں دور ہوں گی تو ہم حق ادا کرنے والے ہوں گے اور عملی طور پر مومن کہلانے والے ہوں گے.پھر اس آیت میں نماز قائم کرنے کا حکم ہے.اس کی پہلے میں وضاحت کر چکا ہوں.زکوۃ دینے کا حکم ہے.اور ایسے ہی لوگ ہیں جو پھر اپنے اعمال اس طرح درست کرتے ہیں کہ جو در حقیقت حقیقی مومن کے اعمال ہونے چاہئیں کیونکہ یہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں.گویا اس آیت میں مومن کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے دوست کی حیثیت سے ایک دوسرے کا حق ادا کرتے ہیں.جماعت ایک مضبوط جسم بن کر رہتی ہے.وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں.اور تیسری بات برائیوں سے بچتے ہیں.وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں.اور نیکیوں کا حکم دینے کے بارے میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ وہ امت ہو جو انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہے.تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو.پھر ایمان کی نشانی یہی ہے کہ تمہارا فرض یہ بتایا گیا ہے کہ تم خیر امت بنائے گئے ہو.اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تمہارے سے صرف وہ اعمال سرزد ہوں جو نیکیوں کی طرف لے جانے والے ہیں اور کبھی ان چیزوں کے قریب نہ جاؤ جن کی اللہ تعالیٰ نے نہی فرمائی ہے.سبھی فائدہ ہو گا زمانے کے امام کی بیعت کا بھی سبھی فائدہ ہو گا عبادت گاہوں کی تعمیر کا بھی.

Page 452

432 خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پھر چوتھی چیز یہ بتائی کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں.یعنی با قاعدگی سے نمازیں ادا کرنے والے ہیں جیسا کہ پہلے میں نے بتایا.اور باجماعت نمازیں ادا کرنے والے ہیں یا اس کی کوشش کرنے والے ہیں.پانچویں چیز زکوۃ اور مالی قربانیوں میں پیش پیش.اور چھٹی یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے ہیں اور پھر اس میں بڑھنے والے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اطاعت کا نتیجہ ہے کہ اس زمانہ کے امام کو ماننے کی نئے آنے والوں کو توفیق ملی اور جو ہمارے بڑے ہیں ان کو تو فیق ملی.اس لحاظ سے اپنے بزرگوں کے لئے بھی دعائیں کریں جن کے باپ دادا نے احمدیت کو قبول کیا.ہر ترقی اور ہر نئی چیز اور ہر نیا انعام جو اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرماتا ہے وہ ان کو جو پرانے پیدائشی احمدی ہیں اس طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے کہ یہ بھی ان کے بزرگوں کی نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قبولیت کی توفیق دی اور آج ہم اس کے پھل کھا رہے ہیں.اس لحاظ سے ان کے لئے بھی دعائیں کرتے چلے جائیں تا کہ اگر وہ فوت ہو چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے.پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو ان باتوں کے پابند ہیں وہ خدا تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتا چلا جائے گا اور جب اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے تو اور زیادہ نوازتا چلا جاتا ہے.اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ لیتا چلا جائے.اس مسجد کا حق ادا کرنے والا ہو اور یہاں کے لوگوں کی توجہ جو اس طرف پیدا ہو رہی ہے اور اخباروں اور میڈیا کے ذریعہ سے جو کوریج مل رہی ہے اور جو ملے گی ، ابھی تک مجھے رپورٹ تو نہیں ملی کہ فنکشن پر کیا کوریج تھی، بہر حال مجھے امید ہے انشاء اللہ ہوگی، تو اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے اور فائدہ یہی ہے کہ جو تو قعات لوگوں کی ہم سے ہیں اور سب سے بڑھ کر جو توقعات ہیں اللہ تعالیٰ کی ایک مومن بندے سے ان کو پورا کرنے والے ہوں.پس ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے فیض اٹھانے والے ہوں اور فیض تبھی اٹھا سکیں گے جب اپنی عبادتوں اور نیک اعمال کے نمونے قائم کریں گے.اپنی زندگیوں کو اسلام اور قرآن کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے.اپنی نسلوں میں بھی اسلام اور احمدیت کی محبت پیدا کرتے چلے جائیں گے.انہیں حقیقی رنگ میں خدا اور رسول حملے کا اطاعت گزار بنائیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 45 مؤرخہ 7 نومبر تا 13 نومبر 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)

Page 453

خطبات مسرور جلد ششم 433 (43) خطبه جمعه فرموده 24اکتوبر 2008 فرمودہ مورخہ 24 /اکتوبر 2008ء بمطابق 24 را خاء 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی اولاد کی آمین پر کہا گیا ایک طویل منظوم کلام ہے یا ایک کہی گئی نظم ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا ذکر ہے اور ان فضلوں کے ذکر کے ساتھ ہر بند اس طرح بند ہوتا ہے یا اس کے آخر پر اس طرح مصرعہ آتا ہے کہ فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي یعنی پاک ہے وہ جس نے میرے دشمنوں کو پکڑا ، یا انہیں ذلیل ورسوا کیا.اس کلام کا ایک شعر یہ بھی ہے کہ ؎ ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی ـحَانَ الَّذِى أَخْرَى الْأَعَادِي حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی جو بارش برسائی وہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ہمیشہ برسنے والی بارش ہے.اللہ تعالیٰ آج آپ کی وفات کے سوسال گزرنے کے بعد بھی اپنے فضلوں سے ہر آن آپ کی جماعت کو نواز رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ نواز تارہے گا اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی منادی رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں اس یقین پر قائم فرما گئے ہیں کہ یہ فضل جو تم پر برستے ہیں یا برستے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ یہ آخری نتیجہ تک پہنچیں گے.ہاں راستے کی روکیں آتی رہیں گی لیکن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے دور بھی فرماتا رہے گا اور ترقی کرتے چلے جانا اور آگے بڑھتے چلے جانا اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا مقدر ہے.آپ فرماتے ہیں : ”وہ اس سلسلے کو پوری ترقی دے گا کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304) پھر آپ دشمن کے ہنسی ٹھٹھے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور جب وہ جنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ پھر دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے.” اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے.جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدرنا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304)

Page 454

434 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کو کمال تک پہنچانا ہے اور یقیناً پہنچانا ہے تو اس کے لئے خدا تعالیٰ نے نظام خلافت آپ کی جماعت میں قائم فرمایا ہے تا کہ آپ کے سپر د جو کام کیا گیا تھا اس کی اللہ تعالیٰ تکمیل فرمائے اور جماعت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا رکھ کر وحدت پیدا کرے تا کہ وہ ایک جان ہو کر کام کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں اور ہمیشہ بنتے چلے جائیں.شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے منادی بنیں اور پھر ترقی کی منازل پھلانگتے ہوئے طے کرتے چلے جائیں.پس جماعت کی ترقی جو ہم ہر آن دیکھتے ہیں اس بارہ میں کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہم نے یہ یہ قربانیاں دیں تو ہمیں کامیابی ملی یا ہم نے یہ سکیم بنائی جس سے ہم نے یہ مقاصد حاصل کئے.جماعت کی جو یہ سب کچھ ترقیات ہم ہر جگہ دیکھ رہے ہیں ، بعض ملکوں میں باوجود مخالفتوں اور مشکل حالات کے یہ ترقی نظر آتی ہے ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور وعدوں کے مطابق ہے.اس میں ہلکا سا بھی کسی انسانی کوشش کا کمال یا دخل نہیں ہے.اور جب تک ہم ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنے رہیں گے یہ ترقیاں ہمیں نظر آتی رہیں گی.خدا کرے کہ ہم صدق سے خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے اُن تمام فضلوں سے حصہ لیتے ر ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے لئے مقدر ہیں.ہر قسم کی بڑائی سے ہمارے دل و دماغ پاک رہیں.گزشتہ دو ہفتوں میں، جو میرے سفر کے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی ہے اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے جو حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق دی اس کا کچھ ذکر کرتا ہوں.جیسا کہ آپ جانتے ہیں، گزشتہ دنوں میں سفر پہ رہا ہوں اور اس دوران فرانس اور جرمنی میں مسجدوں کے افتتاح ہوئے.ہالینڈ کا جلسہ تھا، پیجیم میں انصار اللہ کا اجتماع تھا ان میں شمولیت کی توفیق ملی.فرانس میں پیرس کے بالکل قریب بلکہ پیرس شہر کا ایک حصہ ہی کہنا چاہئے شہر کا نام سینٹ پیری (Saint Prix) ہے، جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق ملی اور یہ فرانس میں ہماری پہلی مسجد ہے.اس بارہ میں آپ سن چکے ہیں.1924ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ انگلستان اور یورپ کے دورے پر آئے تھے تو یہاں تو مسجد فضل لندن کی بنیاد رکھی تھی اور کا نفرنس بھی ہوئی تھی جو ویمبلے کا نفرنس کے نام سے مشہور ہے.بہر حال اس وقت جو بات میں کہنی چاہتا ہوں کہ اس دورہ کے دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیرس بھی گئے تھے وہاں جماعت تو تھی نہیں لیکن بہر حال اس زمانہ میں غیر احمدی مسلمانوں کی ایک نئی مسجد حکومت کی مدد سے تعمیر ہوئی تھی اور آپ وہاں تشریف لے گئے تھے اور اُس وقت اس کی تازہ تازہ تعمیر مکمل ہوئی تھی اور اس مسجد میں آپ نے پہلی نماز ادا کی تھی یا اس مسجد کی جو پہلی نماز تھی وہ آپ نے پڑھائی تھی.وہاں آپ کے ساتھ جو بہت سارے جماعتی بزرگ تھے، اس

Page 455

خطبات مسرور جلد ششم 435 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 قافلے میں صحابہ بھی تھے، جن میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب بھی تھے تو آپ نے ان سب کے کچھ گروپ بنائے کہ فرانس میں تبلیغ کے لئے مختلف لوگوں اور طبقوں سے رابطے کریں.بہر حال وہاں آپ کا مختصر قیام تھا.ہر ایک کو جو جو کام سپر د کیا گیا تھا وہ انہوں نے کیا.کچھ رابطے بڑھے.لوگ ملنے بھی آتے رہے لیکن با قاعدہ جماعت تو قائم نہیں ہوئی.بہر حال ایک جماعت کے تعارف کی وہاں بنیاد پڑ گئی.وہاں بعد میں ہمارا مشن بھی کھلا لیکن اپنی عمارت نہیں تھی.خلافت رابعہ میں وہاں جگہ خریدی گئی جس میں ایک گھر بھی بنا ہوا تھا اور شروع میں وہی جماعت کی مسجد تھی ، وہی مشن ہاؤس تھا.اس کے ایک ہال میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تو نہیں رکتی.پھر جماعت نے اس دور میں ہی چند سالوں بعد اس گھر کے صحن میں ایک عارضی ہال یا مسجد بنائی.نماز اور جمعہ پڑھنے کے لئے جماعت کی تعداد زیادہ بڑھ رہی تھی.یہاں اس وقت اس علاقہ میں جماعت کی مخالفت کی رو بھی چلی.اس وجہ سے کہ عموماً مسلمانوں کا تاثر غلط تھا اور ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور ایک وقت ایسا آیا جیسا کہ پہلے بھی میں بتا چکا ہوں کہ اس علاقہ کے جو میئر تھے وہ ہماری اس عارضی مسجد میں جوتوں سمیت آگئے اور جماعت کے افراد کو بڑا بُرا بھلا کہا.وہاں صفوں پر جہاں نمازیں پڑھی جاتی تھیں ان لوگوں کا جوتوں سمیت آنا جماعت کے لئے بڑا تکلیف دہ تھا.بہر حال صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا.2003ء میں اس گھر کے ساتھ ہی ایک اور گھر خریدا گیا اور پھر 2006ء میں ساتھ ہی ایک اور خریدا گیا.اب یہ کافی بڑی جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پاس ہے.تین گھر اکٹھے ہیں اور ان کے پیچھے کافی بڑا مسکن ہے یا جگہ ہے اور اسی وسیع جگہ میں اب جماعت نے مسجد بنائی ہے.یہاں با قاعدہ مسجد ہے جس میں رہائش کا انتظام بھی ہے، گیسٹ ہاؤس بھی ہے، مشنری کا گھر بھی ہے اور بڑے فنکشنز کے لئے اب وہاں بڑا کچن اور بڑا ڈائننگ ہال بھی انہوں نے بنالیا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ خوبصورت مسجد وہاں بن گئی.وہی میئر صاحب جو غیظ و غضب کی حالت میں ہماری مسجد میں آئے تھے اتنے پیار اور محبت سے جماعت کا اب ذکر کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ وہی شخص ہے؟ اور اگر ذکر ہو تو اپنے سابقہ رویہ پر ان کے چہرے سے شرمندگی بھی ٹپکتی ہے، افسوس بھی ہوتا ہے.اس دن جس دن جمعہ پر مسجد کا افتتاح ہوا ہے ، باجود اس کے کہ غیروں کو ، مہمانوں کو شام کو فنکشن پر بلایا گیا تھا.یہ میئر صاحب جمعہ کے وقت تشریف لے آئے اور جب میں نے تختی کی نقاب کشائی کی اس وقت وہ بھی وہاں رہے.پھر انہوں نے خطبہ بھی سنا اور دوسرے کمرے میں جمعہ کے دوران بھی رہے اور اخباری نمائندوں کو انٹرویو دیا کہ اب میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ جماعت ایسی ہے کہ نہ صرف جس سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس طرح ہے جس طرح ہم میں سے ہی ہیں اور ان کا دنیا کو خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلانے اور امن قائم کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ دلوں کو بدلتا اور پھیرتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے وہاں اپنے خطبہ میں بھی کہا تھا کہ اب تبلیغ کا میدان کھلے گا اس لئے تیار ہوجائیں.

Page 456

436 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی ہو رہا ہے.لوگ مسجد دیکھنے آرہے ہیں.تیونس کے ایک مسلمان جو قریب ہی رہتے ہیں مسجد دیکھنے آئے وہ بڑے حیران تھے کہ آپ کو مسجد بنانے کی اجازت کس طرح مل گئی.یہاں کا یہ میئر اور کونسل مسلمانوں کے بارے میں بڑے سخت لوگ ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جو مسلمانوں کے حق میں ظالم میئر مشہور ہے اس نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اخبار میں اپنا یہ پیغام بھی شائع کرایا.وہاں کا ایک اخبار ہے Le Parisien اس کی 10 اکتو بر کی اشاعت میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنا بیان دیا کہ یہ غیر معروف جماعت ایک امن پسند اور بہت قابل احترام اسلام کو پیش کرتی ہے.وہی جو اسلام کے خلاف نظر یہ تھا وہ ایک قابل احترام اسلام کو پیش کرتی “ کا فقرہ استعمال کیا.کہتے ہیں کہ میں ان کے امن پسند ہونے کا گواہ ہوں.یہ لوگ مکمل طور پر معاشرے میں گھل مل گئے ہیں اور شہری فلاحی کاموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں.اسی وجہ سے انہوں نے اپنے تمام ہمسایوں کو ڈنر پر مدعو کیا ہے جس میں بعض سفارتکار اور دیگر ملکوں کے مہمان شرکت کریں گئے“.اسی اخبار نے جماعت کا تعارف بھی کرایا ہے کہ یہ 1889ء میں انڈیا میں قائم ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوئی اور کئی ملینز میں دنیا کے 190 ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور تشدد کے خلاف ہے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے.محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں، ان کا ماٹو ہے.تو اس طرح کی خبریں شائع ہوئی ہیں.اخبار Le Parisien-10 اکتوبر 2008ء) خدا تعالیٰ اسی طرح سوچیں بدلتا ہے.اب مختلف اخباروں کے ذریعہ جیسا کہ میں نے کہا چرچا بھی ہو رہا ہے لوگ مسجد دیکھنے کے لئے آتے ہیں اور پھر یہ لوگ اور اخبارات اور میڈ یا اسلام کی تعلیم ،مسجد کا مقصد اور احمدیت کا پیغام دنیا تک پہنچارہے ہیں.امیر صاحب تو وہاں اس دن اخبار والوں اور آنے والے مہمانوں کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہورہے تھے.بعد میں جور پورٹ آئی کہ بہت زیادہ تعداد میں لوگ آرہے ہیں تو وہ لوگ تو کبھی یہ توقع نہیں کر سکتے تھے کہ اس قدر ہماری مشہوری اور پہلیٹی ہوگی اور یوں لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوگی.یہ سب اُس خدا کے کام ہیں جو وقت آنے پر اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے.فرانس کے نیشنل ٹی وی نے جمعہ والے دن شام سات بجے کی خبروں میں پہلی بار جماعت کے حوالے سے کوئی خبر نشر کی ہے اور کافی تفصیل سے خبر دی، جہاں مجھے نقاب کشائی کرتے ہوئے دکھایا اور خطبہ کی جھلکیاں دکھائیں.ایم ٹی اے کا تعارف بھی کرایا کہ ان کا ایم ٹی اے کا چینل بھی ہے.مسجد کے مختلف مناظر دکھائے.اسی طرح 24 TV ان کا ایک چینل ہے.اس نے بھی افتتاح کی ساری تقریب دکھائی اور پھر اس کے بعد اس نے ڈاکومینٹری پروگرام بنایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں بتایا، جماعت کے بارے میں بتایا،

Page 457

خطبات مسرور جلد ششم 437 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 تعارف پیش کیا ، ٹی وی چینل کے بارے میں بتایا.مسجد مبارک فرانس کے اندر اور باہر کے مناظر دکھائے اور پھر آخر میں برلن مسجد کے بارے میں بتایا کہ وہاں بھی اسی طرح 17 اکتو بر کو افتتاح ہوگا.یہ ٹی وی چینل فرانس 24 یہ بی بی سی کی طرح کا چینل ہے اور انگلش ، فریج، عربی میں ساری دنیا میں دیکھا جاتا ہے، پانچوں براعظموں میں.تو اس ٹیلیویژن چینل نے چار بار یہ پروگرام نشر کیا.دو مرتبہ انگریزی زبان میں اور ایک مرتبہ فریج میں اور عربی زبان میں اور پھر اس نے آخر میں یہ کہا کہ آج دنیا کے سارے احمدی کہہ سکتے ہیں کہ فرانس میں Saint prix کے مقام پر ہماری مسجد موجود ہے.اول تو ہمارے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے کہ کروڑوں خرچ کر سکیں اور اگر ہوتے بھی تو اس طرح کو ریج نہ ملاتی جس طرح خود میڈیا نے آ کے کوریج دی ہے اور اس تعارف کی وجہ سے جتنے فرانکو فون ملک ہیں خاص طور پر افریقہ کے وہاں کے ٹی وی چینلز نے بھی یہ افتتاح دکھایا اور اس طرح ماریشس میں بھی.گویا اس ایک مسجد نے دنیا کے کئی ممالک میں جماعت کا تعارف کروایا اور تبلیغ کے نئے راستے کھلے.شام کو اس دن وہیں مسجد کے احاطہ میں ریسیپشن بھی تھی جس میں سرکاری افسران، سفارتکار اور ہمسائے وغیرہ آئے ہوئے تھے.اخباری نمائندے بھی تھے.وہاں مجھے اسلام کی تعلیم پیش کرنے کا موقع ملا اور بعض عورتیں اور مرد جب اسلام کے ابتدائی دنوں میں مظالم کا حال سنتے تھے جس کا میں نے ذکر کیا تو بعد میں بعضوں نے جذباتی ہو کر اس کا اظہار کیا کہ ہمیں تو آج تک کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ مسلمانوں پر بھی ظلم ہوا ہے.ہمارے سامنے تو جو اسلام کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ صرف اور صرف ظالم اسلام کا تصور پیش کیا گیا ہے.ایک جرمن سفارتکار وہاں آئے ہوئے تھے ، ان سے باتیں بھی ہوتی رہیں.کہنے لگے کہ جرمنی میں بعض نوجوانوں میں اسلام قبول کرنے کی روچلی ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ میری تو یہ دعا ہے کہ اگر ان جرمنوں نے مسلمان ہونا ہے تو وہ احمدی مسلمان ہوں تا کہ کم از کم حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے تو ہوں.انہوں نے بتایا کہ میں مڈل ایسٹ کے بعض ممالک میں بھی رہا ہوا ہوں.وہ پروٹسٹنٹ ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میں نے قرآن کریم بھی رکھا ہوا ہے اور بڑی عزت اور احترام قرآن کریم کا بھی کرتا ہوں.بہر حال یہ تبلیغ کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور نئے نئے راستے کھل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج بھی پیدا فرمائے.فرانس کے بعد ہالینڈ کا جلسہ تھا، وہاں گئے.یہاں بھی جو بلی جلسے کے حوالے سے بعض اخباری نمائندوں نے اس کی کوریج کی اور جماعت کا تعارف کافی اچھے طبقہ میں پھیل گیا جو ویسے ناممکن تھا.اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گن گن کر زندگیاں گزار دیں تب بھی وہ فضل ختم نہیں ہو سکتے.

Page 458

خطبات مسرور جلد ششم 438 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 ہالینڈ کے بعد پھر برلن کے لئے روانگی تھی.5-6 گھنٹے کا سفر طے کر کے وہاں پہنچے.برلن مسجد کا افتتاح اپنی اہمیت کے لحاظ سے تو ایک اہم موقع تھا ہی.لیکن علاقہ کے مخالفین میں جماعت کے بارہ میں جو بڑے غلط خیالات رکھتے تھے.(رکھتے ہیں تو نہیں کہ اب کافی حد تک صاف ہو گیا ہے ) ان کی وجہ سے امیر صاحب اور انتظامیہ بڑی پریشان تھی کہ پتہ نہیں افتتاح والے دن کیا ہو جائے گا کیونکہ ان کا ہنگامے کا پروگرام بھی تھا.کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچنے کے لئے ، علاوہ مقامی لوگوں کے شور شرابے کے، انتظامیہ کی طرف سے بھی کوئی پریشانی ہو سکتی تھی ، انہوں نے احمدیوں کو پابند کر دیا تھا کہ سوائے جن کو آنے کی اجازت دی گئی ہے یا جن کو دعوت نامے دیئے گئے ہیں، اس کے علاوہ اور لوگ نہ آئیں.ایک لحاظ سے ان کی یہ احتیاط صحیح بھی تھی لیکن ضرورت سے زیادہ احتیاط کی گئی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ایسے انتظامات فرما دیئے کہ دائیں بازو کی بڑی پارٹی جس نے مسجد کے خلاف افتتاح والے دن جلوس نکالنا تھا اس نے ایک دن پہلے اعلان کر دیا کہ ہم جماعت کے خلاف یا مسجد کے خلاف کوئی جلوس نہیں نکالیں گے.گویا اپنی طرف سے پوری یقین دہانی کرادی.لیکن اخبار والوں کو اور پولیس کو باوجوداس اعلان کے یہ شک تھا کہ یہ درست بھی ہے کہ نہیں.ان کے خیال میں اتنی جلدی یہ فیصلہ بدل نہیں سکتے تھے.کہیں دھوکہ نہ ہو.لیکن جب اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے تو ایسی ہوا چلتی ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.جماعت کے افراد اور مبلغین تو ایک عرصہ سے غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کر رہے تھے.اسلام کی حقیقی تعلیم ،مسجد کا مقصد عورت کی آزادی، یا اسلام کی شدت پسند تعلیم کا جو تصور مغرب میں ہے اس کے بارہ میں سوالات وہاں ہوتے ہیں ان کے مناسب جواب دیئے جارہے تھے لیکن ان لوگوں کی تسلی نہیں ہو رہی تھی.ہر روز کوئی نہ کوئی نئی بحث چل جاتی تھی.ایک دم جو یہ کایا پلٹی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے علاوہ اس کو اور کیا کہا جا سکتا ہے.بہر حال جہاں مخالفین نے مظاہرے کا اعلان کیا تھا وہاں شرفاء نے بھی ہمارے حق میں مظاہرے کا اعلان کیا تھا.آخر شرافت کی فتح ہوئی.اللہ تعالیٰ ان شرفاء کے دل مزید کھولے اور وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو سمجھنے والے بھی بنیں.افتتاح سے پہلے ایک اخبار نے لکھا ( ٹائیٹل اس نے لگایا کہ ” نو تعمیر شدہ مسجد کے لئے مبارکباد ) قرآن گمشده کناروں سے ہر ایک کو نظر آنے والی عمارتوں میں منتقل ہو رہا ہے.یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان جرمنی کا با قاعدہ حصہ بن گئے ہیں.مبصر نے کہا کہ احمدی سنی اور شیعہ جو بھی مساجد بنا رہے ہیں ان کے خیالات ایسے ہیں جیسے C.C.U پارٹی کے پچاس کی دہائی کے دوران تھے.مثلاً اگر عورت نوکری کرنا چاہے تو پہلے شوہر سے اجازت لے.آج کے یورپ میں اور طرح طرح کے خیالات رواج پاچکے ہیں.پھر آگے لکھتے ہیں کہ مسلمان جرمنی میں جہاں کہیں بھی مسجد بنا ئیں ہم ان کو مبارکباد دے سکتے ہیں.لیکن ان کو شہری فرائض سے بری الذمہ نہیں کرنا چاہئے.ہم تو یہ چاہتے بھی نہیں.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ مذہبی آزادی ہونی چاہئے

Page 459

439 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم اور ہر مسلمان کو قانون کا پابند ہونا چاہئے.لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا دینی جوش دیکھ کر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ بھی مذہب کی طرف زیادہ متحرک ہورہے ہیں، مسابقت کی رو سے ترقی ہوتی ہے.مذہب پر بھی یہ قانون اطلاق پاتا ہے.کاش کہ آزادی کا یہ جو نظریہ ہے، سوچ ہے، یہ مسلمان بھی سمجھ سکیں اور جماعت کے بارے میں جو غلط قسم کی باتیں عوام الناس میں پھیلائی جاتی ہیں وہ بدلیں اور رواداری کی اپنے اپنے ملکوں میں خاص طور پر پاکستان میں فضا پیدا کریں.بہر حال اخبارات اور علاقہ کی مخالفت نے افتتاح سے پہلے ہی مسجد کو اتنی شہرت دے دی تھی کہ افتتاح کے لئے خود بخود ہی رابطے ہوتے چلے گئے ہیں اور لوگوں کا تجس بھی بڑھتا چلا گیا.جب جمعہ پڑھ کے میں نکلا ہوں تو کافی دور سے ایک جرمن عورت آئی کہ میں یہاں کی پرانی رہنے والی ہوں.اخباروں اور ٹیلیویژن پر کل سے میں دیکھ رہی ہوں کہ ایک مسجد کا افتتاح ہے اور یہاں خلیفہ آیا ہوا ہے تو میں دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کیا ہے.اس طرح لوگوں کو تجسس پیدا ہوا خاص طور پر وہ مجھے ملنے آئی تھی.جمعہ سے ایک دن پہلے جمعرات کی رات کو غیر مسلم مہمانوں کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا تھا.اس میں جرمن پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر بھی شامل ہوئے تھے اور بھی کئی ممبر شامل تھے.میئر تھے، ان کے خاص نمائندے تھے، ایمبسیڈر یا دوسرے سفارتکار تھے.بعض معززین کو وہاں بولنے کا موقع بھی دیا گیا.انہوں نے جماعت کے بارے میں بڑے عمدہ خیالات کا اظہار کیا.آخر پر میں نے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم اور مسجد کے حوالے سے، مسجد کی کیا اہمیت ہے اور ہماری تعلیم کیا ہے ان کو بتایا تو سارے سننے والوں نے ، شامل ہونے والوں نے ، نہ صرف غور سے سنا بلکہ ان کے چہرے کے تاثرات اور بعض موقعوں پر سر ہلانے سے لگتا تھا کہ ان کو بہت دلچسپی پیدا ہورہی ہے.یہ باتیں عجیب بھی لگ رہی ہیں اور دلچسپی بھی پیدا ہورہی ہے بلکہ بعض لوگ تو نوٹس بھی لیتے جا رہے تھے.پھر بعد میں مجھے ملے ہیں تو اس بات کا انہوں نے اظہار کیا ہے کہ اسلام کے بارے میں انہیں بہت سی نئی باتوں کا پتہ لگا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس موقع کو بھی دنیا بھر کے میڈیا نے کور (Cover) کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ اور تعارف کے مزید میدان کھلے ہیں.دنیا بھر میں تقریباً 148 اخبارات اور رسائل نے مسجد خدیجہ برلن کے افتتاح کے بارے میں خبر نشر کی ہے.جرمنی کے علاوہ 16 ممالک کے اخبارات نے خبریں شائع کیں.ان میں امریکہ، آسٹریا، ترکی، بحرین ، نیوزی لینڈ ، انگلستان، پاکستان ، سری لنکا، کینیڈا، کویت، فرانس، سکاٹ لینڈ، انڈیا، تائیوان ، سعودی عرب اور آسٹریلیا.اور خبر رساں ایجنسیاں اور میگزین اور اخبارات میں C.N.N ، گوگل نیوز، گلف نیوز، ایسوسی ایٹڈ پریس Zimbo نیوز ایجنسی، ورلڈ نیوز نیٹ ورک، نیوز ڈے ڈاٹ کام، رائٹرز، یورو اسلام، یاہو نیوز، انٹرنیشنل ہیرالڈ وغیرہ نے خبریں دیں.اخبارات میں گارڈین UK نے اور اڈوئچے ویلے (جرمنی میں )، آئی ٹی این اے بی سی نیوز ( یوایس اے

Page 460

خطبات مسرور جلد ششم 440 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 کا سپیگل جرمنی کا ہے، ایم ایس این بی سی امریکہ کا ہے، یوایس اے ٹوڈے، واشنگٹن پوسٹ، ٹائمنز آف انڈیا ان سب نے خبریں دیں.بڑے وسیع پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعارف کا میدان کھلا ہے.جو جرمن اور دوسری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا میں آیا اس میں جاپان، چیک ریپبلک ، پولینڈ، ہالینڈ، اٹلی ، سوئٹزر لینڈ ، فرانس اور اس طرح بہت سارے بین الاقوامی اخبارات ہیں جن میں یہ خبریں دی گئی ہیں.ان کے علاوہ بہت ساری تعدا دلوکل اخبارات کی بھی ہے.برلن کی سب سے مشہور اور زیادہ بکنے والی اخبار Berliner Zeitung نے سرخی لگائی کہ مسجد برداشت کا مادہ رکھتی ہے.اور پھر انہوں نے لکھا کہ افتتاح کے موقع پر برلن کے وزیر اعلیٰ نے احمدیوں کو مسجد کی مبارک باد دی ہے اور کہا ہے کہ یہ مسجد برداشت اور بُردباری کی علامت ہے اور اس وصف کو ترجیح دینے میں مدد دے گی.جرمن پارلیمنٹ کے نائب صدر نے اس علاقے کے احمدیوں میں ایک دوسرے کے لئے زیادہ برداشت اور مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا ہے.احمدیوں کے پانچویں خلیفہ نے اپنے خطاب میں مہمانوں کا اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ باوجود مخالفتوں کے مسجد بنانے کی اجازت دی گئی.انہوں نے اپنے فرقہ کے لوگوں کی جرمنی سے وفاداری پر بھی یقین دلایا اور مسجد کے مخالفین کے لئے بھی دعائیہ کلمات کہے.اسی طرح انہوں نے دعا بھی کی اور امید ظاہر کی کہ احمدیوں کو جرمن قوم کا حصہ سمجھا جائے گا.ان کی تعداد جرمنی میں 30 ہزار ہے.پھر ایک بہت بڑی اخبار ہے Die Nelt ، یہ جرمنی کے بڑے اخباروں میں شمار ہوتا ہے اس نے لکھا ہے کہ اسلامی تنظیموں کا مسجد کی تعمیر پراطمینان کا اظہار.یہ بھی ایک عجیب بات ہے.ویسے ہماری مخالفت ہوتی ہے، مسلمان نہیں سمجھا جاتا.لکھتے ہیں کہ اسلامی اداروں کی کانفرنس O.IC کے جنرل سیکرٹری مسٹر احسان اوگلو نے کہا کہ مسجد کی تعمیر مسلمانوں کی جرمن معاشرے میں انٹیگریشن کی طرف اہم قدم ہے.میں مسجد کے افتتاح پر خوش ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف اٹھنے والی آواز میں تمام جرمنی کی نمائندگی نہیں کرتیں.اسی طرح انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک آزاد ملک ہے.اس لئے یہاں مسجد کی تعمیر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے.یہ نئی مسجد جماعت احمدیہ کی ہے جس کے افتتاح کے لئے ان کے خلیفہ لندن سے آئے ہیں.پھر ایک بہت بڑا اخبار ہے Focus Online ، یہ کہتا ہے کہ ان کے لندن میں رہائش پذیر مرزا مسرور احمد نے اپنے ابتدائی خطاب میں تمام با ہمت شہریوں کا شکریہ ادا کیا جو احتجاج کے باوجود تشریف لائے.احمد یہ جماعت ایک ایسی تنظیم ہے جو امن پسند ہے اور اسلام کے انتہا پسندوں سے بالکل مختلف ہے.آپ نے کہا محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں.MTA نے اس تقریب کو ساری دنیا میں دکھایا.اڑھائی سومہمانوں نے شرکت کی.پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر ضلعی میئر اور سب نے مذہبی آزادی کا دفاع کیا.

Page 461

خطبات مسرور جلد ششم 441 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 ایک اور اخبار جو پورے جرمنی میں پڑھا جاتا ہے بہت مشہور اخبار ہے.اس نے بھی اس کی بڑی اچھی طرح خبر دی.آخر پر اس نے یہ بھی لکھا، یہ زائد بات ہے کہ مسجد کا نقشہ بھی ایک احمدی خاتون نے بنایا ہے اور مسجد کا نام حضرت محمد ﷺ کی بیوی کے نام پر رکھا گیا ہے.باقی اس نے مخالفت میں کچھ نہ کچھ فقرے تو لکھنے تھے ، لکھتے ہیں کہ علاقہ میں جماعت کی مخالف تنظیم کا دعوی ہے کہ احمدیہ فرقہ کیونکہ عورتوں پہ بہت ظلم کرتا ہے لہذا وہ اس کے خلاف ہیں.اور ان کے نزدیک ظلم کی جو مثال دی ہے وہ یہی ہے کہ پردہ کی بڑی پابندی کروائی جاتی ہے.اس کے علاوہ کوئی اعتراض نہیں ہے.جرمن ٹی وی چینل نے بھی بہت اچھی طرح خبر دی.لکھتے ہیں جماعت نے مشرقی برلن میں مسجد تعمیر کی ہے.اس کے افتتاح کی تقریب جمعرات شام کو منعقد ہوئی ، جس میں پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر شامل ہوئے.لندن سے ان کے سربراہ آئے.آپ نے کہا ہم جہاں بھی جائیں لوگوں کو خدشات اور تحفظات ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں.جماعت احمدیہ کا بیان ہے کہ ہم امن پسند جماعت ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہے اور واشنگٹن پوسٹ نے 16 اکتوبر کی اشاعت میں لکھا کہ سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں پہلی مسجد کا افتتاح.برلن میں گنبد اور مناروں والی پہلی مسجد کا افتتاح جمعرات کے روز ہوا.اس موقع پر پولیس نے مخالفین کو مسجد سے کچھ فاصلے پر روکے رکھا.خدیجہ مسجد دومنزلہ عمارت ہے.اس کا مینارہ 42 فٹ اونچا ہے.اس موقع پر کم از کم 300 مخالفین نے احتجاجی مظاہرہ کیا.جرمنی میں مسلمان زیادہ تر مغربی جرمنی میں رہتے ہیں.ویسے تو برلن میں کم و بیش 70 مساجد ہیں لیکن زیادہ تر چھپی ہوئی اور برلن کے مغربی علاقے میں ایسی عمارتوں پر مشتمل ہیں جو بظاہر مساجد نظر نہیں آتیں.جماعت احمدیہ کے ممبر نے کہا کہ یہ مسجد مشرقی برلن میں جو کہ کیپیل (Capital) ہے پہلی مسجد ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت کی حامل ہے.حکومت نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے.بر کینافاسو سے بھی ہمارے امیر صاحب نے اطلاع دی ہے کہ فرانس کی اور برلن کی مسجد کو انہوں نے اپنے ٹی وی چینلز پر بھی دیا اور 6 اخبارات نے ایڈیٹوریل میں خاص طور پر اس کی خبر دی.یورو نیوز جو ایک مشہور یوروپین چینل ہے اس میں بھی فرنچ، جرمن، انگلش اور عربی میں خبریں دی جاتی ہیں.یہ بھی بڑا مشہور چینل ہے سارے یورپ میں سنا جاتا ہے.اس نے بھی افتتاح کی تصویروں کے ساتھ دو تین منٹ کی خبر دی.بظاہر جو حالات ہیں اس چینل تک ہمارا پہنچنا ممکن نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کے نشانات جو واضح اور روشن تر ہو کر اپنی شان دکھاتے ہیں انہوں نے اس کو ممکن بنا دیا.پھر بھی اُن لوگوں کو جو اندھے ہیں حق کو سمجھنے کا خیال نہیں آتا.عربوں کے مختلف چینلز میں گو بعض حقائق تو ڑ مروڑ کر پیش کئے گئے ہیں، خاص طور پر ہمارے عقائد کے بارے میں.لیکن مسجد کا نام لے کر خبر دی ہے.مخالفین کے اعتراضات تو وہی گھسے پٹے ہوتے ہیں.کہتے ہیں کہ انگریزوں کا

Page 462

خطبات مسرور جلد ششم 442 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 خود کاشتہ پودا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ 1923ء میں بھی جب برلن مسجد بنے لگی تھی تو اس وقت بھی ہمارے مخالفین میں ایک مصری تنظیم تھی جس نے جرمن حکومت کو یہ کہہ کر ہمارے خلاف بھڑ کانے کی کوشش کی تھی کہ یہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے اور جرمنوں کے خلاف ہیں.اس طرح کے الزامات تھے.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مولوی مبارک علی صاحب کو جو یہاں پہلے مبلغ تھے ، ایک مضمون وہاں سے لکھ کے بھجوایا جس میں تفصیل سے اس بات کا رد کیا گیا تھا اور فرمایا تھا کہ اسے وہاں اخباروں میں بھی شائع کریں اور لوگوں تک بھی پہنچائیں.وہی اعتراضات آج کل بھی ہو رہے ہیں.یہ اتفاقاً کل ہی مجھے پرانی تاریخی بات مولانا دوست محمد صاحب نے بھجوائی تھی.ان لوگوں کو اس مضمون میں واضح کیا گیا تھا کہ ہم تو ہر ملک کے وفادار ہیں.جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کے ساتھ ہماری وفاداری ہے لیکن ہر طبقے تک، ملک کے ہر فرد تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہمارا فرض ہے جو ہم پہنچاتے ہیں اور اس لئے ہم مسجد بنارہے ہیں.لیکن ان لوگوں کو تو جرات نہیں ہے کہ کھل کر اظہار کر سکیں.عبدالباسط صاحب جو برلن میں ہمارے مبلغ ہیں انہوں نے وہاں سے جو بعد کی رپورٹ بھیجی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہفتہ ، جس روز میں وہاں سے آیا ہوں اور اتوار کے روز مسلسل جرمن افراد خدیجہ مسجد آتے رہے.ان دو دنوں میں تقریباً 900 افراد مسجد آئے اور ان کی خاطر تواضع کی گئی اور برلن کے مختلف حصوں سے مسجد دیکھنے کے لئے ہمسائے بھی آئے اور تصویریں بھی کھینچیں.برلن کے بچوں ناصرات اور اطفال نے ان کی خوب مہمان نوازی کی اور کر رہے ہیں اور مسجد کا تعارف بھی کرا رہے ہیں اور عبادت کے بارے میں بھی بتارہے ہیں.اور ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو کام کرتے دیکھ کر بھی لوگ متاثر ہورہے ہیں.لکھتے ہیں کہ جرمن زائرین اور بعض معمر زائرین نے خاکسار کے پاس آ کر خصوصی طور پر حیرت کا اظہار کیا کہ کس طرح 10 اور 12 سال کے معصوم بچے اور بچیاں اسلام کے بارے میں معلومات مہیا کرتے ہیں.خاکسار نے بتایا کہ ان کی ماؤں نے ان کو اس کی تعلیم دی ہے اور جماعت میں تعلیم و تربیت کا منظم نظام ہے.تو بچوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے وہاں تبلیغ کے مواقع پیدا کر دیئے.ایک ہمسایہ جرمن نے خاکسار کو لکھا کہ بطور ہمسائے کے میں آپ کو اس علاقے میں دلی طور پر خوش آمدید کہتی ہوں.ہم بہت خوش ہیں کہ آخر کار ہمارے پاس بھی دوسرا کلچر اور دوسرامد ہب آیا ہے.برلن چرچ کے ایک نمائندے نے ان کو خط لکھا کہ چرچ کی طرف سے آپ کی جماعت کے ممبران اور آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی پذیرائی ہوئی ہے.وہی مخالفت پذیرائی میں بدل گئی ہے.بران مسجد کے افتتاح کے بعد اگلے دن ہفتہ کو جیسا کہ میں نے بتایا میں وہاں سے آ گیا تھا.ہم بلیجیم آئے وہاں انصار اللہ کا اجتماع تھا.اللہ کے فضل سے وہاں بھی جماعت اکٹھی تھی اور ان کے لحاظ سے ان کو کہنے کا کچھ موقع مل گیا.

Page 463

خطبات مسرور جلد ششم 443 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 وہاں سے پھر اسی دن شام کو ، ان کے اجتماع کے فورا بعد ہماری واپسی ہوئی.یہاں واپسی جلدی اس لئے تھی کہ ہمارے مسجد فضل کے علاقہ کی ایم پی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں خلافت جو بلی کے حوالے سے ایک ریسیپشن (Reception) کا انتظام کیا ہوا تھا.وہاں دریا کے کنارے ہاؤس آف کامن والا جو ٹیرس (Terrace) ہے کے ایک ہال میں یہ تقریب تھی.پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر یہ تقریب منعقد ہونے کی وجہ سے کافی تعداد میں ایم پی ایز (M.Ps) اور پارلیمنٹیر مینز (Parlimentarians) اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہوئے.اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ، خلافت کا کیا کام ہے، اسلام کی امن پسند تعلیم اور آج کل دنیا میں کس طرح امن قائم ہو سکتا ہے اور بڑی طاقتوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور آج کل کے اقتصادی بحران کی وجہ سودی نظام ہے، اس بارہ میں ان کو قرآن کریم کی روشنی میں کچھ وقت کہنے کا موقع ملا.یہ چیز ان کے لئے بڑی حیرت انگیز تھی اور بعض پارلیمنٹیرینز اور سفیر اور دوسرے سفارتکار بعد میں ملنے آتے رہے، انہوں نے اچھا اثر لیا اور اس کا اظہار کیا.یہ صرف اچھا اخلاق دکھانے کے لئے نہیں تھا کہ وہ ریسیپشن ہے تو دکھا دیں بلکہ بعد میں جس طرح وہ مجھے ملے ہیں اور اس تقریر کا ٹیکسٹ (Text) بھی مانگ رہے تھے تو اس سے لگ رہا تھا کہ حقیقت میں وہ چاہتے ہیں کہ جو باتیں کی ہیں اس کو غور سے دیکھیں اور سمجھیں اور بعض نے وہاں بیٹھ کر نوٹ بھی لئے.لگتا ہے کہ یہ لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اپنے نظام کو بدلیں اور کم از کم یہ دیکھیں کہ کہاں سے انہیں اچھی باتیں مل سکتی ہیں.وہیں پارلیمنٹ ہاؤس میں اللہ تعالیٰ نے ظہر وعصر کی نمازیں پڑھنے کا بھی موقع دیا.بہر حال یہاں لندن میں ایک دو ہفتے کے دوران یہ فنکشن بھی ہو گیا.پارلیمنٹ ہاؤس میں، جیسا کہ میں نے کہا اسلام کا پیغام سننا اور دلچسپی سے سننا ان لوگوں کی بدلتی ہوئی سوچوں کی عکاسی کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی یہ کام ہو رہا ہے ورنہ ہماری کوششوں سے نہیں ہو سکتا تھا.جیسا کہ میں نے کہا ہم اگر ان فضلوں کی منادی کر کر کے زندگیاں بھی ختم کر لیں تو حق ادا نہیں کر سکتے.بہر حال اس کی رپورٹ بھی ایم ٹی اے یا اخباروں کی رپورٹس میں آجائے گی.یہ لوگ جیسا کہ میں نے جرمنی کا بھی کہا تھا کہ بعض مسلمانوں نے اعتراض کیا اور ہم پہ یہ الزام لگائے ہیں کہ یہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے.کیا اسلام کا پیغام اور قرآن کریم کی تعلیم ان لوگوں کو ان کا کوئی پروردہ بتا سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی نے ان لوگوں کو اندھا کر دیا ہے.نہیں دیکھتے کہ خدا کی تقدیر کس طرف جا رہی ہے.اپنا کیا برا حال ہو رہا ہے.کس تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے جارہے ہیں.لیکن خاص طور پر جو یہ ملاں ہیں ان میں احمدیت کی دشمنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی بجائے کم ہونے کے بڑھتی چلی جارہی ہے.آج مسلمانوں کی بقا اسی میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوسنیں اور مانیں.

Page 464

خطبات مسرور جلد ششم 444 خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں.سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے، بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے.خدا فرماتا ہے کہ میں حملہ پر حملہ کروں گا یہاں تک کہ میں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا.پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو.مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اُس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا.اور یا تو وہ زمانہ تھا کہ اس کو صرف مگار اور کذاب خیال کیا جاتا تھا اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہوگئی کہ اب چالیس کروڑ انسان اُس کو خدا کر کے مانتا ہے“.اب تو اور تعداد بڑھ گئی ہے.فرماتے ہیں: ”اگر چہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا.مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے کہ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے کچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں اور بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سوئیں نے اگر چہ یہ دعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا میں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمے سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق اور مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشت خاک کو اُس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا.( تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409-410 - مطبوعہ لندن ) اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی احمدی بنتے ہوئے یہ سب نظارے اور ترقیات دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے.جس کے وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمائے ہیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 46 مورخہ 14 نومبر تا 20 نومبر 2008 صفحہ 5 تا صفحہ 8

Page 465

خطبات مسرور جلد ششم 445 (44) خطبہ جمعہ فرموده 31اکتوبر 2008 فرموده مورخه 31 اکتوبر 2008ء بمطابق 31 راخاء 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاء وَيَقْدِرُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.فَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ذَلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرُبُوا فِى اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ.وَمَا آتَيْتُمْ مِّنْ زَكُوةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ الله فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ اللهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَّنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ سُبْحَنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ( الروم : 38 تا 41) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور تنگ بھی کرتا ہے.یقینا اس میں ایمان لانے والی قوم کے لئے بہت سے نشانات ہیں.پس اپنے قریبی کو اس کا حق دو، نیز مسکین کو اور مسافر کو.یہ بات ان لوگوں کے لئے اچھی ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں اور جو تم سُود کے طور پر دیتے ہوتا کہ لوگوں کے اموال میں مل کر وہ بڑھنے لگے.اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تم جو کچھ زکوۃ دیتے ہو تو یہی ہیں وہ لوگ جو اسے بڑھانے والے ہیں.اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا.پھر تمہیں رزق عطا کیا.پھر وہ تمہیں مارے گا اور وہی تمہیں پھر زندہ کرے گا.کیا تمہارے شرکاء میں سے بھی کوئی ہے جو ان باتوں میں سے کچھ کرتا ہو.وہ بہت پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں.یہ آیات جن کی میں نے تلاوت بھی کی اور ترجمہ بھی پڑھا ہے.ان کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رزاق ہونے کا اعلان فرمایا ہے کہ رزق میں کشائش وہ عطا فرماتا ہے اور تنگی بھی کسی کا اگر رزق تنگ کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے.رزق کو دیتا بھی وہی ہے اور رزق کو روکتا بھی وہی ہے.فرمایا کہ حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کی صفت رزاق بہت نشان دکھاتی ہے اگر اس کا ایمان پختہ ہو.آج کل جو دنیا کے معاشی حالات ہیں، جس معاشی بحران سے دنیا ہمیں گزرتی نظر آ رہی ہے، جس سے امیر ملک بھی متاثر ہیں اور غریب ممالک بھی صنعتی ممالک بھی متاثر ہیں اور زراعت پر انحصار رکھنے والے ممالک بھی.اور وہ بھی جو سمجھتے ہیں کہ تکنیکی مہارت ہمارے پاس اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ

Page 466

446 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم دنیا کو ہماری خدمات کی ہر حالت میں ضرورت ہے کیونکہ آج کے اس سائنسی دور میں اور اس جدید دور میں ان خدمات کی بہت اہمیت ہے.بعض بڑی طاقتیں یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ ہماری معیشت اتنی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے کہ اب ہم جلد ہی تمام دنیا کو اپنے زیرنگیں کرلیں گے گو کہ بہت سارے ملکوں کو وہ پہلے ہی ڈکٹیٹ (Dictate) کرواتے ہیں لیکن تمام دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہی تھیں.اُن کے خیال میں سائنس میں ہم اس حد تک ترقی کر چکے ہیں کہ اب ہمارا سائنس کے میدان میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.وسیع رقبہ اور مختلف موسموں کی وجہ سے خوراک میں ہم خود کفیل ہو چکے ہیں.اب ہمیں کھانے پینے کی اشیاء کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں رہی.طلبتی میدان میں ہم نے وہ ترقیات حاصل کرلی ہیں کہ اب دنیا ہی ہے جو ہم سے سب کچھ اس میدان میں سیکھے گی.ہتھیاروں کی دوڑ میں ہم سب دنیا سے آگے نکل چکے ہیں.اب دنیا ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہے.زمین کی تسخیر کے ساتھ ساتھ ان کے خیال میں آسمانوں پر بھی ہم نے کمندیں ڈال لی ہیں اس لئے اب ہر طرح سے اس دنیا پر ہما را قبضہ ہو سکتا ہے اور ضروری ہے کہ اب دنیا ہماری برتری تسلیم کرے اور خود بخود اپنے آپ کو ہماری جھولی میں گرا دے.پھر بعض طاقتوں نے یہ سمجھا کہ ہمارے پاس معیشت کو کنٹرول کرنے کی جو طاقت ہے دنیا مجبور ہو کے ہم پر انحصار کرے اور اپنی مضبوط معیشت اور بعض میدانوں میں تکنیکی مہارت کے زعم میں ان لوگوں نے ایسی پلینگ (Planning) کی کہ بہت ساری اپنی صنعت ختم کر دی اور زراعت بھی برائے نام رہ گئی.نتیجہ یہ نکلا کہ معیشت کی تیزی سے گرتی ہوئی حالت اور جو ان کے پاس پہلے تھی، صنعت اور زراعت ان چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی معیشت بڑی تیزی سے گرنے لگی.تو یہ سب کچھ جو دنیا میں معاشی بحران کی صورت میں ہمیں نظر آ رہا ہے اس کی اصل وجہ کی طرف اب بھی ان لوگوں کی سوچیں نہیں جار ہیں اور وہ ہے سب قدرتوں کے مالک اور رازق خدا کو حقیقی طور پر نہ ماننا.یا ماننے کا حق ادا نہ کرنا ، یہ بھی نہ ماننا ہی ہے.یہ طاقتیں یا ملک جو معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں یا کچھ عرصہ پہلے تک مضبوط تھے اس طرف کم توجہ دیتے ہیں کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کا اپنا بھی ایک قانون چل رہا ہے.جب ارضی و سماوی آفات، زلزلوں اور سمندری طوفانوں یا ہری کینز (Hurricans) وغیرہ کی صورت میں یہ آفات آتی ہیں تو ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.ہر چیز تلپٹ ہو جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی غیر فطری طور پر جب معیشت کو چلایا گیا تو اس کے نتائج بھی سامنے آگئے.ایک تو خدا کو بھولنے کی وجہ سے جو زمینی و آسمانی آفات تھیں، انہوں نے اپنے اثرات دکھائے.دوسرے معیشت کے لحاظ سے بھی جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کام کئے گئے تو اس نے اپنا اثر دکھایا اور اس کے لئے اب جوحل سوچے جارہے ہیں وہ بھی کوئی ایسے دیر پا نہیں ہیں.اصل حقیقت تک نہیں پہنچ رہے.گو کچھ حد تک قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جواب تک حل ہیں، لگتا ہے کہ وہ ان کو مزید الجھاتے چلے جائیں گے.

Page 467

447 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس یہ سب باتیں جب ہم دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمارا ایمان مزید بڑھتا ہے.اس وقت ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو اس بات سے ہوشیار کریں کہ ان سب آفتوں اور بحرانوں کی اصل وجہ خدا تعالیٰ سے ڈوری ہے.بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف عدم تو جنگی ہے.دوسروں کے وسائل پر حریصانہ نظر رکھنا ہے.پس اگر مستقل حل چاہتے ہیں تو ان چیزوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے.کئی بلین ڈالرز یا کئی بلین پاؤنڈز کی جو بیل آؤٹ (Bailout) ہے یا خرچ کرنا ہے یا امداد ہے وہ مستقل حل نہیں ہے کیونکہ اگر سوچا جائے تو یہ رقم بھی اسی جیب سے نکلتی ہے جس کو پہلے ہی نقصان ہو چکا ہے.اور آج مسلمان ممالک کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بھی دنیا کے معاشی نظام کی طرف چل پڑے ہیں، بجائے اس کے کہ اس سے راہنمائی لیتے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن کو راہنمائی دی ہے.ایمانداری اور اپنے ملک سے وفا کے تعلق کی جو انتہا ہے اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہے.سربراہان مملکت صرف اپنے مفاد دیکھتے ہیں.مشرق وسطی یا عرب ممالک جہاں تیل کی فراوانی ہے ان ملکوں نے بھی اپنی معیشت کو اس طرح نہیں چلا یا جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم تھا.ایمان داری اور اس اصول پر چلنے کی وہ کوشش نہیں کی یا وہ حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا.بے شک اپنے ملک کو ترقی دی ہے، باقی ملکوں کی نسبت اس کا انفراسٹرکچر بڑا بہتر بنا لیا لیکن جیسا کہ میں نے کہا وسائل کو اس طرح استعمال نہیں کیا گیا جیسا خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا.مثلاً ان کے پاس اگر زائد رقم تھی اور بے تحاشا زائد رقم تھی ، تیل کا اندھا پیسہ تھا تو اس رقم کو ان مغربی ممالک میں تجارت پر لگایا جہاں سے ان کو سود ملنا تھا اور وہ بھی ایسے غیر پیداواری کام پر جو صرف عارضی نفع کی چیز تھی.یعنی بعض بینکوں کو یا بعض اداروں کو تمیں جمع کروائی گئیں تا کہ سود ملتا ر ہے.ان اسلامی ممالک نے اپنے ملکوں میں دکھانے کے لئے گو ایک بینکاری نظام شروع کیا جسے اسلامی بینکنگ کہتے ہیں.لیکن یہ بھی ایک شوگر کوٹڈ (Sugar Coated) قسم کی بینکنگ ہے.ظاہر طور پر ہے کہ اسلامی بینکنگ ہے لیکن حقیقت میں وہ چیز نہیں ہے جو اسلام چاہتا ہے، جو قرآن چاہتا ہے.کیونکہ اگر گہری نظر سے دیکھیں تو گو کہنے کو اسلامی بینکنگ ہے لیکن سود کی ایک قسم ہے جو ان کو منافع میں ملتا ہے.بہر حال میں یہ بتارہا تھا کہ اسلامی تعلیم سے ہٹ کر انہوں نے اپنے پیسے کا استعمال کیا اور مغربی ممالک کو یہ رقم دی جس کا کوئی پیداواری مقصد نہیں ہے اور اب جب معاشی بحران آیا ہے تو یقینا ان کی رقوم کو بھی دھچکا لگا ہو گا.ظاہر ہے جب سب دنیا متاثر ہوئی تو یہ بھی متاثر ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رزاق ہونے کا ذکر فرمایا تو مومنوں کو جو نصیحت فرمائی ہے.میں نے سورۃ الروم کی جو آیات تلاوت کی ہیں ان میں سے دوسری آیت میں فرمایا کہ اپنے قریبی کو بھی اس کا حق دو، مسکین کو اس کا حق دو اور

Page 468

خطبات مسرور جلد ششم 448 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 مسافر کو اس کا حق دو.یعنی اپنے پیسے کے صحیح استعمال کے لئے تین حقوق اس آیت میں بتائے گئے ہیں.اور پھر آخر میں ان حقوق کو ادا کرنے کی وجہ سے دو باتیں بیان کی گئیں کہ اس کا مفاد تم کو اس طرح ملے گا کہ اللہ کی رضا حاصل کرو گے اور پھر دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرو گے.پس مومن ہونے کے لئے صرف منہ سے یہ کہ دینا کافی نہیں کہ ہم ایمان لائے یا ہم مسلمان ہیں یا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں جو رزاق ہے.ایمان کے اعلان اور صفت رزاق پر یقین کے لئے عملی نمونے دکھانے کی ضرورت ہے.اگر اللہ تعالیٰ رزاق ہے تو جو کامل ایمان والا ہے وہ کبھی رزق کی کمی سے نہیں ڈرتا.اس کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے رزق مہیا کرنے کے سامان پیدا فرمادے گا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق کو اس کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے.بہتر رزق پانے والا جس کے حالات بہتر ہیں، مالی حالات بہتر ہیں، معاشی حالات بہتر ہیں دوسرے کو بھی اپنے مال میں حصہ دار بناتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.زیادہ آمدنی والا ضرورت مند کی ضرورت پوری کرتا ہے.جس میں اپنے قریبی بھی ہیں، رشتہ دار بھی ہیں، ہمسائے بھی ہیں بلکہ مسلمان مسلمان کا جو بھائی ہے تو تمام اُمت کو اس کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے.امیر اسلامی ممالک جو ہیں ان کو اپنے غریب ملکوں کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ان کی ترقی کس طرح کی جائے اور پھر ہی یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صحیح حق ادا کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيْلِ اور اتِ کا جو اللہ تعالیٰ نے لفظ فرمایا (الفت سے ) اس کے لفظ میں اعزاز کے ساتھ چیز دینا شامل ہے اور پھر حق کا لفظ استعمال کر کے مزید اس کو کھول دیا کہ اعزاز کے ساتھ ان کی خدمت کرنا تمہارا فرض ہے.یہ عطا نہیں ہے، یہ بخشش نہیں ہے، یہ خیر نہیں ہے جو تم دوسرے کو ڈال رہے ہو.بلکہ جوزائد رقم ہے اس میں سے ان کو دینا تم پر فرض ہے.پس اسلامی ممالک اگر اپنے غریب مسلمان ملکوں کی بہتری کا سوچتے ، اپنے تیل کے پیسے سے ان کی ترقی کی طرف توجہ دیتے ، بجائے لالچ میں آکر اپنا مال مغربی ملکوں کے بینکوں کو دینے کے اور ان سے سود لینے کے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے اور پھر فلاح پانے والوں میں ہوتے.ان ملکوں کے کئی دفعہ بیان آتے ہیں کہ ہمارے حالات ٹھیک ہیں ان کا یہ خیال غلط ہے کہ ہمارے پاس تیل کی دولت ہے اس لئے ہمارے روپے کو کوئی خطرہ نہیں ہے.ایک تو یہ کہ ان کا مغربی بینکوں میں جو روپیہ ہے یا ان اداروں میں ہے جو قرض دینے والے ہیں وہ تو بہر حال متاثر ہوتے ہیں.اس لحاظ سے ان کا روپیہ بھی متاثر ہوا.مختصر ابتا دوں ، اس پر ہمارے بعض احمد یوں نے مضمون بھی لکھے ہیں.بڑے اچھے مضمون ہیں.یہاں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے احمدی بھی جو قرضے بینکوں سے لیتے ہیں، یہ ادارے جو قرضے دیتے ہیں، یہ تمام غیر پیداواری قرضے ہیں اور ان میں سے بہت بڑی رقم گھروں کے سامانوں کے خریدنے کے لئے ، کاروں کے خریدنے کے لئے ، گھر خریدنے کے لئے ہیں یہ سب غیر پیداواری چیزیں ہیں.اور

Page 469

449 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم جب ان تیل کی دولت والوں کا روپیدان کے پاس آیا، ان بینکوں میں جمع ہوا تو ان مغربی ملکوں نے دیکھا کہ یہ تو بڑی تیزی سے ہمارے پاس مال آنے لگ گیا ہے تو انہوں نے اور زیادہ کھلے دل سے قرضے دینے شروع کر دیئے.بنگ اپنا تو بہت تھوڑا سا خرچ رکھتے ہیں اور بقا یار تم کا بڑا حصہ یعنی 95،90 فیصد دوسروں کا استعمال ہو رہا ہے اور اس میں جیسا کہ میں نے کہا ، ان ملکوں کا جو تیل کی دولت پیدا کر رہے ہیں اور کوئی تعمیری کام یا پیداواری انویسٹمنٹ تو انہوں نے کی نہیں، غیر پیداواری مقاصد پر یہ لوگ خرچ کر رہے ہیں.تو بہت بڑی رقم ہے جو اس کے اوپر خرچ کی جاتی ہے.مثلاً یہاں ایک بینک والے نے مجھے بتایا کہ جو بینکوں کی کل انویسٹمنٹ ہے اس کا تقریباً 45 فیصد حصہ وہ گھروں کے خریدنے کے لئے قرضے دینے پر خرچ کرتے ہیں.اس کے علاوہ بہت ساری رقم دوسرے قرضوں میں چلی جاتی ہے اور تھوڑی سی رقم ہے جو پیداواری مقاصد کے لئے خرچ ہوتی ہے یا قرض دی جاتی ہے.اس طرح آسان شرائط پر قرض دے دیا جاتا ہے.آسان شرائط کے بارہ میں میرے سامنے بیٹھے ہوئے بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ اگر تین لاکھ کا مکان ہے تو پہلے 10-15 ہزار اُن سے کیش مانگ لیا جاتا ہے حالانکہ پہلے خاص فیصد ہوتی تھی کہ اتنے فیصد دو گے تو تمہارا قرض منظور ہوگا اور بقایا تمام رقم بینک کا قرض ہوتا ہے.پھر جو قرض لینے والا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ شرح سود کتنی ہے ، کتنا مجھے اس پر دینا پڑے گا، کتنا عرصہ تک میں دیتا چلا جاؤں گا اور کتنی زائد ادا ئیگی کرنی پڑے گی؟ وہ صرف یہ سوچ رکھتا ہے کہ چلو گھر خرید لو.واپسی آہستہ آہستہ ہوتی رہے گی.لیکن نہیں جانتا کہ ایک تو یہ لمبا عرصہ کی ادائیگی ہے دوسرے اس کی اپنی آمدنی محدود ہے.اس کے وسائل محدود ہیں اور اس قرض کی ادائیگی میں.پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جو وہ متحمل نہیں ہوسکتا.کیونکہ عموما مہنگائی دوسری چیزوں کی بھی بڑھ رہی ہے اور پھر گھر کے بھی اخراجات بڑھتے ہیں.اگر وہ قرض اتارنے لگے تو گھر کو کس طرح چلائے.بہر حال اس چکر میں پھر ایسا قرض لینے والا پھنستا چلا جاتا ہے اور پھر قرض بڑھتے چلے جاتے ہیں.بعض لوگ یہاں پر اور دنیا میں ری مورگیج کا رواج ہے جو کرواتے ہیں اور پھر مزید قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے.کہنے کو تو ان کو رقم بینک سے مل گئی.لیکن اگر سوچیں تو مزید قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا.عارضی طور پر تو جان چھٹ گئی لیکن مستقل اُن کے اوپر ایک قرضہ چڑھ گیا.پھر بعض لوگ ایسے ہیں بعض بینکوں نے ایسے Incentive دیئے ہوئے ہیں کہ اپنی جیب سے بھی کچھ نہیں دیا، معاہدہ بینک کے ساتھ ہو گیا.مکان خرید لیا، کرا یہ جمع سود بینک کو ادا کرتے رہے اور ساری زندگی کرا یہ جمع سودا دا ہوتا رہتا ہے اور جب مرنے کے قریب آتے ہیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا.وہ چیز واپس بنگ کو چلی جاتی ہے.جب میں نے پچھلی دفعہ سود پہ خطبہ دیا تھا تو بہتوں نے اس سے جان بھی چھڑائی.اگر حقیقت میں سوچا جائے تو جو سو د کا قرض ہے وہ پھر اس طرح بڑھتا چلا جاتا ہے.بہت سارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ڈیفالٹر بن جاتے ہیں.جن بینکوں نے لوگوں کو قرض دیئے ہوتے ہیں جیسا کہ میں

Page 470

خطبات مسرور جلد ششم 450 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 نے کہا وہ بھی لوگوں سے لے کر دیئے ہوتے ہیں، دوسرے کا پیسہ ہوتا ہے اور اس میں جیسا کہ میں نے بتایا کہ تیل کے ملکوں کی بہت بڑی رقم شامل ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے قرض دینے میں کھلے دل کا مظاہرہ کیا.یہ صورت حال صرف یہاں نہیں ہے، امریکہ میں بھی ہے اور دنیا میں بھی ہے تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ قانون قدرت پھر اپنا کام کرتا ہے.جب ایک حد کو پہنچ کر لوگوں کی قرض کی واپسی کی طاقت ختم ہوئی تو بنکوں کو ہوش آئی کہ ہمارا اپنا پیسہ تو قرض میں تھا نہیں، یہ تو دوسروں کا پیسہ تھا اور پھر انہوں نے مزید قرضے دینے بند کر دیئے اور نہ صرف ان غیر پیداواری مقاصد کے لئے قرضے دینے بند کر دیئے بلکہ پیداواری مقاصد کے لئے بھی قرضے دینے بند کر دیئے.اس کا پھر یہی نتیجہ نکلا کہ پوری معیشت متاثر ہو گئی اور ملکوں کی معیشتوں کا کیونکہ ایک دوسرے پر انحصار ہے اس لئے پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی.اس لئے کسی ملک کا یہ کہنا کہ ہمارے پاس وسائل ہیں اور ہمیں فرق نہیں پڑتا ، بالکل غلط ہے.ایک تو وہ رقم جو مغرب میں ہے اس کے فوری ملنے کا امکان نہیں.دوسرے جب معیشت بر باد ہوئی تو جو چیز ان کے پاس ہے یعنی تیل جس کو وہ کہتے ہیں کہ اپنی معیشت (Economy) کو سنبھال لیں گے اس میں بھی کمی ہوگی.اس ہفتے کا ٹائمنر رسالہ ہے اس نے مضمون لکھا ہے، کچھ حقائق پیش کئے ہیں.اس نے لکھا ہے کہ A sea of Debt کہ قرضوں کا ایک سمندر ہے اور ایسا سمندر جس کا پانی امریکہ، جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت سمجھتا ہے اس کی کشتی میں بھی اس حد تک بھر چکا ہے کہ وہ ڈول رہی ہے اور ڈوبنے کے قریب ہے.اور اس نے لکھا کہ امریکہ کی معیشت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ جو بھی وہ کوشش کر لیں اس کی جلد بحالی کا امکان نہیں ہے.پھر یہ کہ معیشت کو جو جھٹکے لگ رہے ہیں اس سے دنیا کا کوئی ملک بھی اب محفوظ نہیں ہے.مغربی ملکوں، خاص طور پر امریکہ کی معیشت کا جو حال بیان کیا گیا ہے اس کا یہ حال ہے کہ مثلا کریڈٹ کارڈ کا ان ملکوں میں بڑا رواج ہے.جس کو بغیر سوچے سمجھے استعمال کرنے کا رواج ہے.اس کی اب پابندی لگ گئی ہے اور بہت حد تک اس میں پابندی لگ رہی ہے.وہ جو لوگوں کی ایک لحاظ سے عیاشی بنی ہوئی تھی کہ بغیر سوچے سمجھے خرچ کئے جاتے تھے اس میں کمی آگئی.کاروں کی سیل (Sale) کہتے ہیں کہ گزشتہ 15 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے.ہوائی سفروں میں کمی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بہت ساری کمپنیوں نے اپنی فلائٹس بند کر دی ہیں.یہ دو چیزیں خاص طور پر ایسی ہیں جن میں تیل کا استعمال ہوتا ہے تو جب استعمال ہی نہیں تو رقم کہاں سے آئے گی.کسی کو ضرورت ہی نہیں تو خود بخود اس کی طلب میں کمی ہو جائے گی اور جب طلب میں کمی ہوگی تو ظاہر ہے اس کا اثر پڑے گا.پھر لوگوں کے جو تفریحی پروگرام ہیں، کھانے پینے کے ، ریسٹورنٹس وغیرہ کے، اینٹرٹینمنٹ (Entertainment) کے، ان ملکوں میں اس کا بہت زیادہ رواج ہے اس میں بھی کمی آگئی ہے اور جب اس میں کمی آئے ، خاص طور پر سردیوں میں کوئی آؤٹنگ (Outing) نہیں رہی تو پھر اس کا بعد میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ ڈیپریشن جو ان ملکوں میں پہلے

Page 471

خطبات مسرور جلد ششم 451 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 ہی بہت زیادہ ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا.پھر جب یہ بیماری شروع ہو جاتی ہے تو اس کے اپنے بداثرات ہیں.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ سود پر انحصار کرنے والے یا اس کا کاروبار کرنے والے ایسے لوگ ہیں جیسے شیطان نے انہیں حواس باختہ کر دیا ہو.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.الَّذِينَ يَأكُلُونَ الرّبوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَنُ مِنَ الْمَسَ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرّبوا وَاَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوا.فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ.وَاَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ.وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة : 276) یعنی وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہیں ہوتے.مگر ایسے جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے اپنے مکس سے حواس باختہ کر دیا ہو.یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے کہا یقیناً تجارت سود ہی کی طرح ہے جبکہ اللہ نے تجارت کو جائز اور سود کو حرام قرار دیا ہے.پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آجائے اور وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا اسی کا رہے گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو کوئی دوبارہ ایسا کرے تو یہی لوگ ہیں جو آگ والے ہیں جو اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.باقی اثرات تو جو ہونے ہیں وہ تو ہیں ہی.اس وجہ سے جن کی رقم ضائع ہوگئی یا کم از کم یہ خوف ہو گیا کہ کچھ عرصہ کے لئے ہمیں رقم نہیں ملے گی یا باوجود حکومتوں کی تسلیوں کے یہ خوف کہ ہماری رقم ضائع ہو جائے گی تو یہ خوف ہی بہت خطر ناک چیز ہے.پھر جن کے پروگرام تھے کہ اپنی جائیداد کوری مورگیج کروالیں گے پھر قرضے اتاریں گے تو ان کا بھی حال خراب ہے.قرضے نہ ملنے کی وجہ سے مکان باوجود اس کے کہ ان کی قیمتیں کئی فیصد گر گئی ہیں، فروخت نہیں ہورہے.کیونکہ لوگوں کے پاس نقد نہیں ہے اور بینک والے قرض نہیں دے رہے کیونکہ بینک پہلے تو جرات کر رہے تھے اب ان کے پاس خود پیسہ نہیں ہے.اب جب حالات بدلے ہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح ہے جس طرح شیطان کے مکس سے حواس باختہ ہو گئے ہیں، دنیا کی اکثریت جو اس میں ملوث تھی مخبوط الحواس ہو چکی ہوئی ہے.اللہ رحم کرے.اور لگتا ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جب ایسی حالت ہو تو ڈیپریشن بھی بڑھتا ہے اور معاشرے میں ایک ابتری پیدا ہو جاتی ہے.اس ڈیپریشن سے ان کا ہی ایک لطیفہ یاد آ گیا.اقتصادیات والے یہ کہتے ہیں، ان کا انگریزی کا لطیفہ ہے کہ If my neighbour loses his Job, it is recession.If i loose my Job it is | depression.ہے یعنی اگر میرا ہمسایہ اپنی ملازمت سے فارغ ہوتا ہے ، اس کی نوکری ختم ہوتی ہے تو یہ recession کہلاتا اور اگر مجھے نوکری سے فارغ کر دیا جائے تو پھر depression ہو گیا.اقتصادیات میں recession اور

Page 472

خطبات مسرور جلد ششم 452 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 depression کی ٹرم ہے.اس کا موٹا مطلب یہ ہے کہ recession وہ ہے جو عارضی معاشی بحران ہوتا ہے اور depression وہ ہے جو مستقل معاشی بحران ہوتا ہے.لیکن اس وجہ سے اور لوگوں میں بھی depression پیدا ہو جاتا ہے.جب نوکریاں چھٹتی ہیں جیسا کہ میں نے کہا اور وہ بیماری کا Depression ہے اور یہ معاشی بحران جو آیا ہے تو اس نے دنیا میں لاکھوں لوگوں کی نوکریاں چھڑوا دیں.پس اب بھی اگر دنیا میں عقل ہے تو اس سودی نظام سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے.وہ تجارت کریں جسے اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے اور مسلمان ممالک بھی جن کے حالات بہتر ہیں اپنی مثالیں قائم کریں.مسلمان کو سود کی سختی سے مناہی کی گئی ہے.ورنہ پھر اس دنیا کے بعد آخرت کی سزا کی بھی وارنگ ہے.جو ممالک اپنے وسائل ہوتے ہوئے ایماندار نہیں ہیں اور ان کی حکومتیں اپنے وسائل ضائع کر رہی ہیں یا اپنے ذاتی مفاداٹھا رہی ہیں ان کو بھی ہوش کرنی چاہئے.مثلاً پاکستان ہے یا اس جیسے اور ممالک ہیں جن کے لیڈروں نے کبھی بھی اپنے ملک سے وفا نہیں کی اور ملک کو ٹوٹتے ہی رہے ہیں اور دنیا سے قرضے لے لے کر اس پر گزارا کرتے رہے ہیں.ابھی چند دن ہوئے بڑی خوشی سے یہ اعلان ہوا کہ چار سوملین یا پتہ نہیں کتنے سوملین ڈالر کا پاکستان کے لئے قرض دوبارہ منظور ہو گیا ہے.اس کی واپسی کس طرح ہوگی؟ کچھ پتہ نہیں ہے.کیونکہ پہلی یمنٹ (Payment) جو انہوں نے کرنی ہے، جو قرضے دینے ہیں اس کے بارے میں ایک شور پڑا ہوا ہے.بڑا شور تھا کہ ہمارے فارن ایکسچینچ کے ریز رو بڑھ گئے.اب جب حقیقت ساری ظاہر ہوئی تو پتہ لگا کہ ان کے پلے کچھ بھی نہیں.حالانکہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے بھی نوازا ہوا ہے اور زراعت کے لحاظ سے بہترین موسمی لحاظ سے، زمینوں کے لحاظ سے بھی نوازا ہوا ہے.لیکن مانگنے اور قرض لینے کی اور اپنے وسائل کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ پھر غیرت بھی ختم ہو گئی ہے.یہی حال بعض افریقن ملکوں نائیجیریا کا ہے.تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن ان کے لیڈروں کو بھی کوئی خیال نہیں.بہر حال اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ خدا کو بھلا کر، اس تعلیم پر عمل نہ کر کے سودی نظام میں پھنس گئے ہیں، لالچوں میں پھنس گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سود دینے والوں کو فرماتا ہے کہ تمہارے خیال میں جو مال سود کی وجہ سے بڑھ رہا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں بڑھتا.اور جو اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اس میں پھر برکت نہیں پڑسکتی.پس جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ مسلمان ممالک جو سود پر بینکوں میں رقم رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کے نتیجہ میں زیادہ بڑی سزا ملے گی.اس لئے یہ خیال کرنا کہ ہم محفوظ ہیں بالکل غلط خیال ہے.بلکہ اب تو حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ غیر مسلم بھی اس سزا کے جال میں آگئے ہیں، اس پکڑ میں آگئے ہیں اور وقتا فوقتا آتے رہیں گے.اس آیت میں جو آیت نمبر 40 ہے اس میں زکوۃ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو غریبوں کا حق ہے.پہلے بھی

Page 473

453 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم تین مختلف باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور اس میں بھی کہ زکوۃ ادا کرو.غریبوں کا بھی حق ہے اور حکومت کا بھی حق ہے اور اسلام کی خدمت بھی ہے.جبکہ سودی نظام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جب یہ حق ادا نہیں کرتے تو امیر، امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ایک حد تک ہی ہوگا.پھر جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو وہی نتیجے نکلتے ہیں جو آجکل نکل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ پہلے بھی اس کی ہدایت دے چکا ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کا حق ادا کرو کیونکہ یہی حقیقت میں تمہارے مال میں اضافے کا باعث بنے گا نہ کہ سود.پس اس اہم نکتے کو مسلمان ملکوں کو خاص طور پر یا د رکھنا چاہئے اور یہ بات ایسی ہے جس کو ان مغربی ممالک نے بھی کسی زمانے میں ریلائنز (Realise) کیا.جرمنی کی حکومت نے چند دہائیاں پہلے اس بات کو سمجھا اور وہ چاہتے تھے کہ سود ختم ہو جائے.لیکن پھر بد قسمتی کہنا چاہئے کہ اپنی سوچ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے.اب بھی گزشتہ دنوں یہ خبر تھی اس کرائسز کے بعد شرح سود میں کمی کی وجہ سے معیشت میں کچھ بہتری پیدا ہوئی.لیکن اصل حل یہی ہے کہ جو لے لیا وہ تو لے لیا.وہ تو معاملہ ختم ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا.جو بقایا سود ہے اس کو اب ختم کرو اور اسے معاف کر دو اور آئندہ سود لینے سے تو بہ کرو.اور جو مومن ہیں ، جو مسلمان ہیں ان کو خاص طور پر بچنے کی تلقین کی گئی ہے.اگر یہ ہوگا تو پھر یہ جو چند سالوں بعد بار بار بحران آتے ہیں، معیشت کو دھچکے لگتے ہیں ، ساری دنیا میں ہر ایک ملک اور افراد کو مصیبت پڑ جاتی ہے اس سے بچ سکیں گے.اللہ تعالیٰ سورۃ الروم کی آیت نمبر 41 میں ( جو میں نے تلاوت کی ) یہ ساری باتیں بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا.پھر تمہیں رزق عطا کیا پھر وہ تمہیں مارے گا اور وہی پھر تمہیں زندہ کرے گا.کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ہے جو ان باتوں میں سے کچھ کرتا ہو؟.وہ بہت پاک ہے.وہ بہت بلند ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور پیدا کر کے پھر چھوڑ نہیں دیا.رزق عطا کیا ہے.وہ رزق عطا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وہ اپنی تمام مخلوق کو رزق دیتا ہے جو جانور ہیں ان کو بھی رزق دیتا ہے، جو پرندے ہیں ان کو بھی رزق دیتا ہے.تمام مخلوق کو اللہ تعالی ہی رزق دیتا ہے تو تمہیں بھی رزق دے گا اگر اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرو گے.پس اللہ فرماتا ہے تمہاری توجہ یہ رہنی چاہئے کہ ان حکموں کو ہر وقت اپنے سامنے رکھو، کیونکہ موت دینے والا بھی وہی ہے اور موت کے بعد زندہ کر کے اس کو اپنے سامنے حاضر بھی وہ کرے گا.سوال و جواب بھی ہوں گے.اس لئے نہ ظاہری شرک کرو.نہ مخفی شرک کرو اور نہ ہلکا سا بھی اس کے حکموں سے انحراف کرنے کی کوشش کرو.اور مسلمان کے لئے خاص طور پر یہ تنبیہ ہے.اس سودی کاروبار کا جو بیان ہے یہ ایسا خطر ناک ہے کہ ہم احمد یوں کو تو خاص طور پر اس سے بچنا چاہئے.

Page 474

454 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم یہاں اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ سود چھوڑ دو.فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرّبوا إِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (البقرة: 279) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور چھوڑ دو جوسود میں سے باقی رہ گیا ہے اگر تم فی الواقع مومن ہو.اللہ تعالیٰ سود لینے کی مناہی کے بارے میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرُبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُ وُسُ اَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (البقرة: 280) اور اگر تم نے ایسانہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو اور اگر تم تو بہ کرو تو اصل زر تمہارے ہی رہیں گے.نہ تم ظلم کرو گے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا.مومنوں کو خاص طور پر تنبیہ کی گئی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسی نظام یعنی سودی نظام کے اثرات ہر مذہب والے پر پڑ رہے ہیں چاہے وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم ہے.پہلے تو یہ بتایا تھا کہ شیطان اس وجہ سے تمہارے حواس کھو دے گا اور اس حواس کھونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سود میں ڈوبتے چلے گئے.پتہ ہی نہیں لگ رہا کہ کس طرح خرچ کرنا ہے.وہ سوچیں ہی ختم ہو گئیں جس سے اچھے بھلے کی تمیز کی جاسکتی ہو.اور اب فرمایا اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور جب اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہو تو نہ دین باقی رہتا ہے اور نہ دنیا.دین تو گیا ہی، اس کے ساتھ دنیا بھی گئی.مسلمان ممالک اگر خاص طور پر یہ جائزہ لیں.ہر ملک کو یہ جائزہ لینا چاہئے لیکن ان ملکوں کو تو خاص طور پر جائزہ لینا چاہئے ) تو انہیں نظر آئے گا کہ سود کی وجہ سے امیر غریب کی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے ملکوں کے اندر بھی اور ایک دوسرے ممالک میں بھی ، جو غریب مسلمان ممالک ہیں وہ غریب تر ہورہے ہیں.جو امیر ہیں، تیل والے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں ہمارے پاس دولت ہے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں.پھر بغاوتیں ہوتی ہیں مسلمان ملکوں کے اندر بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی.جیسا کہ میں نے پاکستان کی مثال دی تھی.وہاں بھی امیر غریب کا فرق بہت وسیع ہوتا چلا جارہا ہے اور ملک میں بے چینی کی وہاں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے.دولت کے لالچ میں امیر غریب کے حقوق ادا نہیں کرتے اور اسی وجہ سے پھر مولوی کو اس ملک میں کھیل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے.اگر غریب کا حق صحیح طرح ادا ہوتا تو وہ خود کش بموں کے حملے جو غریبوں کے بچوں کو استعمال کر کے کروائے جاتے ہیں اس میں ان لوگوں کو آج اس طرح کامیابی نہ ہوتی.گو اس کی اور بھی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے.پس یہ جو ہنگامی حالتیں ہیں، غریب ملکوں میں بھی اور امیر ملکوں میں بھی جو اور زیادہ ابھر کر سامنے آ رہی ہیں یہ اب اللہ تعالیٰ کے اعلان کا نتیجہ نکل رہا ہے.پھر ماضی میں بھی ہم نے دیکھا اور آج کل بھی دیکھتے ہیں کہ سُود کے لئے دیا گیا جو روپیہ ہے یہ جرموں کی وجہ بن رہا ہے.یہ رو پید اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اس کو استعمال کر کے دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرو تا کہ یہ واپسی قرض بھی محفوظ ہو جائے اور آمد کا ذریعہ بھی مستقلاً بن جائے.

Page 475

455 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم آج کل امن کی بحالی کے نام پر جو جنگیں ہو رہی ہیں یہ جغرافیائی حدود پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے ہیں.اگر کوئی حکومت ان کی اچھی شرائط مان لے تو وہیں امن بھی قائم ہو جاتا ہے یا اپنی مرضی کا مقامی شخص و ہیں ان کا صدر بنا دیا جاتا ہے یا حکومت بنادی جاتی ہے ورنہ پھر جنگیں لمبی ہوتی چلی جاتی ہیں.کیونکہ پیچھے سے رقم ان کو فیڈ (Feed) ہوتی رہتی ہے اور یہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہے اس لئے ایک وقت آتا ہے کہ طاقتور کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نظارہ دکھاتا ہے اور پھر اسے ذلیل کر دیتا ہے اور یہ ہم نے اب اس زمانے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ تمام تر کوششوں اور بہتر معاشی حالات کے باوجود جب اللہ تعالیٰ نے جھٹکا دیا تو تمام بڑی طاقتوں کی جو معیشتیں تھیں وہ ایک ٹھوکر سے گرتی چلی گئیں.وہ رقمیں دینے والے ادارے بھی کسی کام نہ آ سکے بلکہ حکومتوں کو اپنے خزانے سے لوگوں کے مال سے، ان کو سہارا دینا پڑا.جن سے قرضے لئے جاتے تھے انہی کو سہارے بھی دیتے جا رہے ہیں اور وہاں بھی پبلک کا پیسہ استعمال ہو رہا ہے لیکن کوئی ضمانت نہیں کہ کس حد تک اور کتنی جلدی حالات بہتر ہوں گے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ دنیا داراب خود بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ جیسی طاقتور معیشت کے بھی جلدی سنبھلنے کے امکانات نہیں ہیں.میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ دوسروں کے وسائل پر نظر ہے اور ان لوگوں کو نظر آ رہا ہے کہ دوسروں کے وسائل پر نظر ہے.اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو دنیا کے امن بر باد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَّعْنَا بِهِ (الحجر: 89) اور ان کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہ دیکھو جو ہم نے انہیں عارضی دنیا کا سامان دیا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ جو مال تمہارا نہیں ہے، جو تمہیں نہیں ملا اس کے پیچھے نہ پڑو.پس یہ ایک اصولی ہدایت ہے کہ ہر ایک اپنے وسائل پر انحصار کرے اور مومنوں کے لئے خاص طور پر ہدایت ہے کہ دنیا کا مال ومتاع عارضی چیز ہے تمہاری اس طرف نظر نہ ہو.کیونکہ یہ دائی رہنے والی چیز نہیں ہے بالکل عارضی چیزیں ہیں.ایک مومن کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی فکر کرنی چاہئے.اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ عارضی مال و متاع رکھنے والے بھی تباہی کی طرف جا رہے ہیں اور اس کی خواہش رکھنے والوں کا بھی یہی انجام ہوگا.پس دنیا کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے وسائل کے اندر رہیں چاہے وہ گھر یلو سطح پر ہوں، معاشرے کی سطح پر ہوں ہلکی سطح پر ہوں، بین الاقوامی سطح پر ہوں.اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق سود سے بچیں.گھر یلو سطح پر اگر قناعت ہو جائے تو نہ زائد گھر یلو ضروریات ہوں گی نہ قرض کی خواہش ہوگی.نہ ہمسائے کا اچھا صوفہ یا کوئی چیز دیکھ کر یہ خیال ہوگا کہ میں بھی خریدوں.نہ اپنے دوست کی اچھی کاردیکھ کر یہ خیال ہو گا کہ میرے

Page 476

خطبات مسرور جلد ششم 456 خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 2008 پاس بھی ایسی کار ہو.اور نہ کسی عزیز کا گھر دیکھ کر فوری طور پر گھر خریدنے کی خواہش بھڑ کے گی.بے شک گھر ہونا چاہئے ، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے لیکن سود کے پیسے سے نہیں.اسی طرح ملک ہیں.دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی بجائے اگر تجارت سے ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھائیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.چھوٹے سے چھوٹے غریب ملکوں کو بھی اس تحفظ کا احساس ہو کہ میرے وسائل، جو ہمارے ملک کے وسائل ہیں ہماری ترقی کے لئے خرچ ہوں گے، استعمال ہوں گے.اگر بین الاقوامی مدد ہے تو ملکوں کو یہ احساس ہو کہ یہ ہماری بھلائی کے لئے ہے نہ کہ ہمارے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے.پھر لیڈرز اپنے ملک کی دولت پر مجموعی طور پر جو ملک کی دولت ہے اس کو ایمانداری سے ملک کے مفاد کے لئے استعمال کریں تو فساد ختم ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے حقدار کو اس کا حق ادا کیا جائے تو شیطان کے مس سے بچ سکتے ہیں.سودی نظام سے بچیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں.اگر دنیا اسے ہر سطح پر نہیں سمجھے گی تو پھر جنگ کی صورت رہے گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقتا فوقتا اسی طرح دنیا والوں کو مار پڑتی رہے گی.پس آج کل کے بحران کا حل مومنوں کے پاس ہے اور تمام مسلمانوں اور مسلمان ملکوں کو اس بحران سے نکلنے اور نکالنے کے لئے پہل کرنی چاہئے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْالَا تَأْكُلُوا الرِّبوا أَضْعَافًا مُضْعَفَةً وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران : 131) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہوئو د درسو دنہ کھایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.پس اللہ کرے کہ فلاح پانے کے لئے کم از کم مسلمان دنیا کو یہ تقویٰ حاصل ہو جائے اور خاص طور پر امیر مسلمان ممالک کو جنہوں نے سُود کی کمائی کے لئے اپنی رقمیں لگائی ہوئی ہیں.لیکن اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی اس آواز کو بھی سننا ہو گا جو اس کے مسیح و مہدی کے ذریعہ ہم تک پہنچی کیونکہ اس کے بغیر اس زمانے میں کوئی نجات نہیں، کوئی تحفظ نہیں، کوئی ضمانت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں.زمین بالکل مر چکی ہے.یہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : 42) کا ہو گیا ہے.جنگل اور سمند ر بگڑ چکے ہیں.جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے مراد اہل کتاب ہیں.جاہل اور عالم بھی مراد ہو سکتے ہیں.غرض انسانوں کے ہر طبقے میں فساد واقع ہو گیا ہے.جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے.روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیر میں نظر آتی ہیں.اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے.خدا پرستی اور خدا شناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے.اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے.خدا تعالیٰ کا شکر کرو اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس ٹور سے فائدہ اٹھاتے ہیں.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 52.زیر سورۃ الروم آیت نمبر 42)

Page 477

457 خطبه جمعه فرموده 31اکتوبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم خدا تعالی دنیا کوتو فیق دے کہ اس ٹور کے دائرے کے اندر آ جائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کی وجہ سے جو اس دنیا میں فساد برپا ہے اس سے بچ سکیں کیونکہ اب خدا کی پہچان کروانے ، اس تک پہنچانے کا یہی ایک ذریعہ ہے جو بندے کو خدا کا صحیح عابد بنائے گا، جو آنحضرت ﷺ کا صیح اور حقیقی مطیع اور فرمانبردار بنائے گا.اللہ کرے کہ دنیا اس اہم بنیادی اصول اور نکتے کو پہچان لے.حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک تو یہ اعلان ہے کہ عصر کی نماز کا وقت آجکل سوا دو بجے سے شروع ہو جاتا ہے تو ابھی میں جمعہ کے بعد عصر کی نماز بھی پڑھاؤں گا.صرف آج جمعہ کے لئے کل سے نہیں.اور دوسرے یہ بھی وجہ ہے کہ لجنہ کا اجتماع ہورہا ہے.نمازوں کے بعد انشاء اللہ ایک نماز جنازہ پڑھاؤں گا جو میری خالہ زاد امتہ المجیب بیگم صاحبہ کا ہے جو نواب مصطفی خان صاحب کی اہلیہ تھیں.21 /اکتوبر کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی وفات ہوگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 66 سال ان کی عمر تھی.صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی یہ سب سے بڑی بیٹی اور اسی طرح حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی نواسی بھی تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں.ان کی ربوہ میں تدفین ہوئی ہے.میرے ساتھ ان کا بڑا اخلاص اور وفا کا تعلق تھا.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور جنت میں جگہ دے.ان کی دو بیٹیاں رملہ خان.جو ہمارے ڈاکٹر افضال الرحمن صاحب جو امریکہ میں ہیں ان کی اہلیہ ہیں.دوسری صائمہ خان.باسل احمد خاں صاحب جو حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے نواسے اور حضرت نواب امت الحفظ بیگم صاحبہ کے پوتے ہیں ان کی اہلیہ ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے.نمازوں کے بعد انشاء اللہ جیسا کہ میں نے کہا نماز جنازہ ادا کی جائے گی.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 47 مورخہ 21 نومبر تا 27 نومبر 2008 صفحہ )

Page 478

خطبات مسرور جلد ششم 458 (45) خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 فرمودہ مورخہ 7 نومبر 2008ء بمطابق 7 نبوت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد المہدی.بریڈفورڈ (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِيْنَ آمَنُوْايُقِيْمُوا الصَّلوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَّاتِيَ يَوْمٌ لا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلَلٌ.(ابراهيم : 32) الحمد للہ کہ آج بریڈ فورڈ کی جماعت کو بھی یہ مسجد بنانے کی توفیق ملی.مسجد کے طور پر استعمال ہونے والا ایک سینٹر تو یہاں موجود تھا اور میرے خیال میں اس کے جو ہال تھے ان کی گنجائش کافی حد تک بریڈ فورڈ جماعت کی ضرورت پوری کر رہی تھی لیکن اس کو مسجد نہیں کہا جا سکتا تھا.خاص مسجد کی عمارت جسے انگریزی میں Purpose Built کہتے ہیں اس لحاظ سے یہ جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ہے جو اس علاقے میں تعمیر ہوئی ہے.ابھی میں نے دیکھا تو نہیں لیکن تصویریں میں نے دیکھی تھیں، بتانے والے بتاتے ہیں کہ مین (main) سڑک سے بڑا خوبصورت نظارہ اس مسجد کا نظر آتا ہے اور اس کے ٹیرس (Terrace) پر کھڑے ہو کر سارا شہر بھی نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ تمام شہر اس مسجد کو دیکھتا ہو گا.اور غیر از جماعت مختلف فرقوں کی دوسری مساجد بھی یہاں ہیں وہ بھی سامنے دور دور نظر آتی ہیں.لیکن بہر حال اس جگہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ جگہ تعمیر کے لئے دی ہے جو شہر کی کافی اونچائی پہ ہے اور یہاں سے سارا شہر بھی نظر آتا ہے اور سارے شہر سے یہ مسجد نظر آتی ہے اور اس لحاظ سے اس مسجد کی ایک نمایاں حیثیت ہوگئی ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور آپ لوگوں کو بھی جو بریڈ فورڈ کے رہنے والے ہیں یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ جب ارادہ پکا اور مصم ہو تو اللہ تعالیٰ مددفرماتا ہے.جب آپ نے فیصلہ کر لیا کہ مسجد بنانی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی مددفرمائی.پھر اس علاقہ میں کچھ اور مساجد بھی بن رہی ہیں یا بنی ہیں اور اس جمعہ کے ساتھ میں ان کے بارہ میں بھی مختصراً بتادوں کہ شیفیلڈ میں بھی ایک مسجد بنی ہے.ابھی کل انشاء اللہ تعالیٰ اس کا بھی افتتاح ہوگا لیکن چونکہ جمعہ کا موقع نہیں اس لئے اس کے بارہ میں بھی آج ہی بتا رہا ہوں.اسی طرح دو سینٹر ز خریدنے کی بھی آپ کو توفیق ملی.دنیا کے احمدیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس مسجد کے مختصر کوائف بھی ان کو پتہ لگیں.آپ جو یہاں انگلستان کے رہنے والے ہیں ، ان میں سے بھی بہت سوں کو پتہ نہیں ہو گا اس لئے بتا دیتا ہوں.

Page 479

خطبات مسرور جلد ششم 459 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 یہاں جماعت کی تاریخ تو بہت پرانی ہے.1962ء سے یہاں جماعت قائم ہے.1968ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث یہاں تشریف لائے تھے، پھر 1973ء میں دوبارہ تشریف لائے تھے اور 1979ء میں جو اس وقت آپ کا سینٹر استعمال ہو رہا ہے اس کو خریدا گیا تھا.پھر حضرت خلیفہ اسیح الرابع 1982ء میں یہاں تشریف لائے تھے اور پھر 1989 ء اور 1992ء میں بھی آپ یہاں تشریف لائے اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے کہنے پر یہاں مسجد کے لئے جگہ تلاش کی گئی اور پھر 2001ء میں اس کی پلاننگ Permission مل گئی تھی اور 2004ء میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا.اس مسجد کی تعمیر پر اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 2.3 ملین پاؤنڈ یعنی 23 لاکھ پاؤنڈ ز خرچ ہوئے ہیں اور اس کی گنجائش 600 افراد کے لئے ہے.ایک مردوں کا ہال ہے.اتنا ہی عورتوں کا ہال ہے.اس کے علاوہ ایک اور ہال ہے.اور اس کی تعمیر میں کمپنی کے کام کے علاوہ ہمارے والینٹیئرز ( Volunteers) نے بھی کافی کام کیا.رشید صاحب ہیں، شاہد صاحب ہیں اور بعض دوسرے لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.اس مسجد کے فنڈ کے لئے صرف بریڈ فورڈ جماعت نے ہی فنڈز اکٹھے نہیں کئے بلکہ لجنہ اماءاللہ UK کو میں نے کہا تھا کہ وہ اس میں بڑا حصہ ڈالیں اور اسی طرح خدام الاحمدیہ کو بھی کیونکہ ہارٹلے پول کی مسجد انصار اللہ کی رقم کے بہت بڑے حصے سے تعمیر ہوئی تھی.تو بہر حال لجنہ اماءاللہ نے اس میں بڑھ چڑھ کر چندے دیئے اور اسی طرح خدام الاحمدیہ نے بھی اور پھر لوکل بریڈ فورڈ کی جماعت نے بھی کافی قربانی کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.UK جماعت میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بیداری پیدا ہو رہی ہے.پہلے تو کئی سالوں کے بعد ایک مسجد کی تعمیر ہوتی تھی یا سینٹرز خریدے جاتے تھے لیکن اب ان کو بھی Purpose built مسجدیں بنانے کا خیال آیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو جاری رکھے اور فی الحال جو انہوں نے 25 مساجد کا اپنا ٹارگٹ مقرر کیا ہے اس کو جلد سے جلد حاصل کرنے والے ہوں.یورپ میں جہاں ایک طبقہ مخالفت میں بڑھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک طبقہ خاص طور پر نو جوانوں میں ایسا بھی ہے جن کا اسلام کی طرف رجحان پیدا ہورہا ہے.تعلیم تو وہ قرآن کریم سے دیکھتے ہیں، تاریخ پڑھتے ہیں، واقعات دیکھتے ہیں.UK میں جو اسلام کا عروج ہوا اس کو دیکھتے ہیں.پھر جو ترقیات اسلام کے ذریعہ سے اس وقت ملیں اس سے متاثر ہوتے ہیں اور پھر کیونکہ جماعت احمد یہ بعض علاقوں میں بہت مختصر تعداد میں ہے، اتنا تعارف بعض جگہ پر نہیں ہے ، لوگ جانتے نہیں ہیں، تو جن مسلمان گروہوں کے پاس جاتے ہیں ان کے ذریعہ سے جب مسلمان ہوتے ہیں تو بعض دفعہ غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں.اس لئے میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ فرانس کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایک جرمن ڈپلومیٹ آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ جرمنی کے نوجوانوں کا اسلام کی طرف بڑا رجحان

Page 480

خطبات مسرور جلد ششم 460 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ اگر ہم نے مسلمان ہی ہونا ہے تو پھر احمدی مسلمان ہوں تا کہ صحیح راستے پر چلنے والے ہوں.تو یہ جو رجحان پیدا ہو رہا ہے اس کو سنبھالنا ہے اور جب ہم مسجد بناتے ہیں تو ایک نیا تعارف جماعت کا ہوتا ہے.نئے نئے تعارف کے راستے کھلتے ہیں.امیر صاحب نے جور پورٹ دی تھی اس میں لجنہ کی تعریف کی گئی تھی کہ فنڈ ز کی وصولیوں میں لجنہ اماءاللہ UK نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے لیکن خدام الاحمدیہ یہ ان کو کچھ شکوہ تھا.تو جہاں تک خدام الاحمدیہ کا سوال ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے بھی اپنا وعدہ پورا کر دیا لیکن بہر حال اگر نہیں کیا تو وہ اس شکوہ کوڈ ورکر ہیں.دوسری مسجد کا جو میں نے کہا کہ شیفیلڈ میں مسجد بن رہی ہے یہاں بھی 1985ء سے جماعت قائم ہے اور اب جہاں موجودہ جائیداد ( پراپرٹی ) خریدی گئی ہے اور مسجد بنائی ہے یہ 2006ء میں خریدی گئی تھی اور وہاں بھی 5لاکھ پاؤنڈ کی لاگت سے مسجد تیار ہوئی ہے.2006ء میں وہاں چند ایک لوگ تھے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے 200 کی جماعت ہے.اس مسجد کی گنجائش بھی 300 نمازیوں کی ہے.اسی طرح کچھ سینٹرز خریدے گئے ہیں.ہیمنگٹن سپا Liamington Spa) میں اور ہڈرز فیلڈ میں ایک نئی جگہ خریدی گئی ہے.یہ ڈیڑھ ایکٹر کی جگہ ہے جہاں انشاء اللہ کسی وقت آئندہ جلد امید ہے مسجد تعمیر ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ وہاں بھی جلد تعمیر کرنے کی توفیق دے.ہمیں اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ دنیائے احمدیت میں مسجدوں کی تعمیر کی طرف جو توجہ ہو رہی ہے اس میں UK والے بھی حصہ دار بن رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو جلد جو ٹارگٹ میں نے بیان کیا ہے اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کیا عمارت بنادینا اور ایک خوبصورت عمارت بنا دینا کافی ہے.کیا یہی بات ہمیں اس حدیث میں بتائے گئے انعام کا وارث بنائے گی جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس دنیا میں اللہ کا گھر بنایا اس نے اگلے جہان میں اپنا گھر بنایا.یقیناً مسجد بنانا ایک نیک کام ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے تبھی تو اگلے جہان میں بھی اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک گھر بنانے کی خوشخبری دی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے اس گھر کو تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے وہ مقصد پورا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے.اپنی نیتوں کو خالص کرتے ہوئے وہ جذبہ پیدا کرنا بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کا حال جانتا ہے، جس کے علم میں ہے کہ بندے کے دل میں کسی کام کے کرنے کی نیت کیا ہے اُس خدا کے لئے وہ خالص دل پیدا کرنا ضروری ہے جس میں اس کی رضا کے حصول کا مقصد کوٹ کوٹ کر بھرا ہو.جس میں خالصتا اللہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا جذبہ بھی موجزن ہو.پس میں امید کرتا ہوں کہ مسیح محمدی کے غلام ہونے کے ناطے یقیناً یہ جذبہ ہر احمدی کے دل میں ہے اور یہاں بھی ہر احمدی کے دل میں یہ مسجد

Page 481

خطبات مسرور جلد ششم 461 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 تعمیر کرتے وقت پیدا ہوا ہوگا.کیونکہ اگر یہ جذ بہ نہیں تو ایسی مسجد کے بدلے اگلے جہان میں مسجد بنانے یا گھر بنانے کا کیا سوال ہے، اس دنیا میں ہی ایسی مسجد کو زمین بوس کرنے کا حکم دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول نہ ہو.چنانچہ جب مخالفین اور منافقین نے اللہ کے نام پر دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک مسجد بنائی تو اللہ تعالیٰ نے اسے گرانے کا حکم دیا.اس بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَارْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ.لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ أَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ فِيْهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوْا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ.أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ.وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (التوبۃ : 107-109) اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی سے لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی، ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے.جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً وہ جھوٹے ہیں.تو اس میں کبھی کھڑا نہ ہو یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہو زیادہ حقدار ہے کہ تو اس میں نماز کے لئے قیام کرے.اس میں ایسے مرد ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ وہ پاک ہو جائیں اور اللہ پاک بننے والوں سے محبت کرتا ہے.فرمایا: پس جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور اس کی رضا پر رکھی ہو کیا وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھو کھلے ڈھے جانے والے کنارے پر رکھی ہو.پس وہ اسے جہنم کی آگ میں ساتھ لے گرے اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا.ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسیح محمدی کے غلاموں میں سے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس زمانے میں اپنی پہچان کرانے کے لئے بھیجا تھا.جن کی بعثت کا مقصد ہی یہی ہے کہ بندے کو خدا کے قریب کرنا اور مخلوق خدا کا حق ادا کرنا.مخلوق کو مخلوق کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانا.ہم سے تو کبھی یہ توقع کی نہیں جاسکتی کہ ہماری مسجدیں کبھی بھی ایسی مسجدیں ہوں جن کا مقصد تکلیف پہنچانا ہو.یا جس میں اللہ معاف کرے کبھی کفر کی تعلیم دی جائے یا مومنوں میں پھوٹ ڈالنے کا ذریعہ بنے یا اللہ اور رسول کے مخالفین کو کبھی ہم پناہ دینے والے ہوں.پس جب ہم کبھی ان برائیوں کے کرنے والے نہیں ہو سکتے تو پھر ہمیں اپنے ماحول میں اس بات کو پھیلا نا ہوگا.اس مسجد کی تعمیر کے بعد پہلے سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانا ہوگا کہ آنحضرت کی غلامی میں جس مسیح و مہدی

Page 482

خطبات مسرور جلد ششم 462 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 نے آنا تھا اور دنیا کی تکلیفیں دُور کرنے کے لئے آنا تھا وہ آچکا اور ہم اس کی جماعت کے فرد ہیں.ہم اُس کو ماننے والے ہیں.ہم وہ ہیں جو تکلیف کا تو سوال نہیں محبت اور پیار کی شمعیں دلوں میں جلانے والے ہیں.ہم اُس مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں جس نے اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے تاکہ سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180) پس ہماری مساجد اس تعلیم کا پر چار کرنے والی ہوں جو پیار محبت اور علم کی بنیاد ڈالنے والی ہے.ہم تو ہر حال میں صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دنیا کو امن دینے کے خواہش مند ہیں.ہم نے تو دنیا کی تکلیفیں دُور کرنے کے لئے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں اور ہمیشہ قربانیاں دیتے چلے جائیں گے.آج دنیا میں جماعت احمدیہ کا تعارف ہی دنیا کی تکلیفوں کو دور کرنے میں صف اول میں رہنے والوں کے حوالے سے ہے.جو لوگ بھی ہمیں جانتے ہیں، وہ اسی لئے جانتے ہیں کہ یہ ایک امن پسند جماعت ہے.بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہم سب سے آگے ہیں کیونکہ ہماری خدمات بے لوث ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے بغیر امتیاز کے ہر جگہ پر ہیں.افریقہ میں ہیومینیٹی فرسٹ کے ذریعہ سے خدمت کر رہے ہیں.جزائر میں خدمت کر رہے ہیں.ساؤتھ امریکہ میں خدمت کر رہے ہیں.پھر احمدیوں کی انجینئر زایسوسی ایشن ہے.UK والے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں افریقہ میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی بہت کام کر رہے ہیں.تو ہر جگہ ہمارا کام تو خدمت کرنا ہے تاکہ لوگوں کی تکلیفیں دور ہوں.پینے کے لئے جہاں پانی مہیا نہیں وہاں پینے کے لئے پانی مہیا کرتے ہیں.غرض بے شمار طرح کی خدمتیں ہیں جو جماعت احمد یہ انجام دے رہی ہے.پھر جو میں نے آیات پڑھی تھیں ان میں ایک برائی اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کی جو خدا تعالیٰ کی خاطر نہ بنائی جائے یہ بیان فرمائی کہ کفر پھیلانے والی ہے.جبکہ ہماری مساجد تو خدائے واحد کی عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں.ہماری مساجد تو اپنے مقصد پیدائش کا حق ادا کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں اور وہ مقصد ہے ایک خدا کی عبادت کرنا.اس علاقہ میں مسلمانوں کی بھی کافی آبادی ہے.میں نے جیسے ذکر کیا ان کی بہت ساری مساجد بھی ہیں ان میں سے ایک طبقہ کو تو ہماری مسجد کا بنتا پسند نہیں آیا اس لئے تعمیر کے دوران بعض لوگوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی.اس کے علاوہ بعض غیر مسلموں نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی.لیکن ان کے یہ فعل اور عمل ہمیں اپنے خدا کی عبادت کا پہلے سے بڑھ کر حق ادا کرنے والا بنانے والے ہونے چاہئیں.اپنے خدا سے تعلق میں پہلے سے بڑھ کر ہماری کوشش ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اس پر عمل کرنے کی کوشش

Page 483

خطبات مسرور جلد ششم 463 خطبه جمعه فرموده 7 نومبر 2008 کرنے والے بننا چاہئے.اس ارشاد میں اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: وہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جواب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180) تو یہ آپ کا کام تھا کہ وہ خالص تو حید جو دنیا سے ختم ہوگئی ہے اس کو نہ صرف قائم کرنا بلکہ اس کا ایسا پودا لگانا جو کبھی سو کھنے والا نہ ہو ، ہمیشہ ہرا بھرار ہے.اور ہم وہ لوگ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آپ کی جماعت میں شامل ہوئے.ہم اس پودے کی شاخیں ہیں.جب تک ہم سرسبز شاخیں رہیں گی اس کا حق ادا کرتی رہیں گی تو حید کا حق ادا کرتے رہیں گے ہم اس پودے سے جڑے رہیں گے.ورنہ سوکھے پتوں کی طرح اور سوکھی ٹہنیوں کی طرح علیحدہ ہو جائیں گے.پس ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اپنوں کو بھی اور غیروں کو بھی اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کروانا ہے کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کرنے کے لئے مسجدیں بنانے والے ہیں.اور شرک کے خاتمے کے لئے ہر قربانی کرنے والے ہیں تا کہ دنیا سے ہمیشہ کے لئے کفر والحاد ختم ہو جائے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مساجد بنانا ان کا کام نہیں جو مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے والے ہوں.پس آج ہم میں سے ہر احمدی کا یہ نعرہ ہونا چاہئے اور صرف نعرہ نہیں اس کے ہر قول اور عمل سے اس بات کا اظہار ہونا چاہئے کہ وہ محبتوں کا علمبر دار ہے.وہ دلوں کو جوڑنے والا ہے.وہ فتنہ و فساد کو دنیا سے عمومی طور پر ختم کرنے والا ہے اور خاص طور پر اپنے معاشرے سے اپنے اندر سے ختم کرنے والا ہے اور وہ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کا عملی اظہار کرنے والا ہے.تبھی یہ مسجد ہمارے اس مقصد کو پورا کرنے والی ہوگی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے.تبھی ہماری تبلیغ دوسروں کے دلوں پر اثر کرنے والی ہوگی تبھی ہم اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بھی دل جیتنے والے ہوں گے جن کو ان کی لاعلمی اور غلط راہنمائی نے شکوک وشبہات میں ڈالا ہوا ہے.کیونکہ اب اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے عاشق صادق اور مسیح محمدی نے ہی تمام مسلمانوں کو امت واحدہ بنانے کا کردار ادا کرنا ہے.اب اس مسیح محمدی کی جماعت کی ذمہ داری ہے کہ مومنوں کا حقیقی کردار ادا کریں.اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حقیقی تعلیم کو اپنے پر لاگو کریں.تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں اور اس مسجد کو اس مسجد کے نمونے پر قائم کردیں جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور اس کی رضا پر رکھی گئی تھی.ورنہ جو مسجد بغیر تقویٰ کے اور تقویٰ کے مقاصد پورا نہ کرتے ہوئے تعمیر کی جائے وہ آگ کے کنارے پر بنے والی مسجد ہے.ایسی عمارت ہے جو آگ کے کنارے پر بنائی گئی ہے.

Page 484

خطبات مسرور جلد ششم 464 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 حضرت خلیفہ امسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ اس کی اس طرح وضاحت فرمائی کہ دریا کا کنارہ تو پانی میں گرتا ہے.اب دریا چوڑا ہو جاتا ہے.اس سے مزید لوگوں کو فائدہ ہی ہوتا ہے لیکن نفاق کا کنارہ آگ میں گرتا ہے.جو مسجدیں خالص اللہ کی رضا کے لئے نہ ہوں وہ اس مسجد کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ وہ آگ میں گرنے والی مسجد تھی.ہم تو نفاق سے پاک اور خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرنے والے لوگ ہیں.ہماری مسجد میں تو انشاء اللہ ان مسجدوں کا کردار ادا کرنے والی ہیں جو ہر قربانی کرنے والے کے لئے جنت میں گھر بنانے کی ضمانت دینے والی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ مثال دے کر منافقین اور مخالفین کی ایسی حرکتوں کا ذکر کیا ہے جن سے مومنوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو یا یہ ارادہ ہو کہ ہمیں نقصان پہنچانا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی بھی دلائی ہے کہ آنحضرت.زمانہ میں یہ کوشش ناکام ہوئی.تو آئندہ بھی اگر مومن ، خالص مومن، ایمان کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور تقویٰ پر قائم رہیں گے تو خدا تعالیٰ مومنوں کی جماعت کو ہر شر اور تکلیف سے بچانے کے سامان پیدا فرماتا رہے گا.لیکن یہاں مومنوں پر بھی ذمہ داری ڈالی ہے کہ اس مسجد کی مثال تمہارے سامنے ہے جس کی بنیا دیں تقویٰ پر اٹھائی گئیں.اس سے مراد مسجد نبوی ہے جس کی بنیادیں عاجزی اور دعاؤں سے اٹھائی گئیں جو تقویٰ کے قیام کے لئے بنائی گئی.پس آئندہ بھی مومن ہمیشہ اپنے سامنے وہ نمونے رکھیں جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے اس مسجد کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے قائم کئے تھے.ورنہ کوئی ضمانت نہیں کہ تمہاری مساجد تمہیں خدا کا قرب دلانے والی بنیں.پس اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے اپنے دلوں کو پاک کرنے کی خواہش رکھنا اور اس کے لئے تقویٰ پر قدم مارنا انتہائی ضروری چیز ہے.پس ہر احمدی جب بھی مسجد بنائے اسے ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کی تعمیر کا مقصد ایک خدا کی عبادت کرنا اور تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے.تقوی کیا ہے یا متقی کون ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور اس کو راضی کرنے کے لئے جو شخص ہر ایک بدی سے بچتار ہے اس کو متقی کہتے ہیں“.ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ قرآن شریف تقوی ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علت غائی ہے.یعنی تقویٰ ہی اس کا بنیادی مقصد ہے.فرمایا کہ ”اگر انسان تقوی اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہوسکتی ہیں.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 411 - الحکم جلد 11 نمبر 28 مورخہ 10 راگست 1907 صفحہ 14

Page 485

465 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللہ ہر احمدی کو اس سے محفوظ رکھے کہ نمازیں صرف بے فائدہ ہی نہیں ہیں بلکہ دوزخ کی طرف لے جانے والی ہیں.ہم مسجد کی باتیں کر رہے ہیں کہ اس کا مقصد تقویٰ کا قیام ہونا چاہئے اور اس تقویٰ کے حصول کے لئے ایک مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے بنانے سے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر دیتا ہے.یہاں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے انذار فرمایا ہے.تو ہر وہ شخص جو مسجد کے لئے قربانی دینے والا ہے اسے پہلی بات ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ مسجد بناتے ہوئے نیت صاف ہو، ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو.اب جو نمازیں پڑھنے والے ہیں ان کے بارہ میں فرمایا کہ اگر تقوی نہیں تو بے شک ظاہری نمازیں تم لوگ پڑھ رہے ہو یہ بے فائدہ ہے.انسان اگر غور کرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ جہاں تقویٰ نہیں وہاں حسنہ حسنہ نہیں اور کوئی نیکی نیکی نہیں ہے.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اوّل صفحہ 410 احکام جلد 5 نمبر 32 مورخہ 31 اگست 1901ء صفحہ 3) پس ہمیں اس بات پر ہی خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے ایک بہت خوبصورت مسجد بنالی جو دور سے نظر آتی ہے اور اس شہر میں بڑی نمایاں حیثیت رکھتی ہے.اصل خوبصورتی اس کی اس وقت ظاہر ہو گی جب ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اس مسجد کی تعمیر کے مقاصد کو حاصل کرنے والے ہوں گے.تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے ان مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں گے.پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ خالص اللہ کا ہو کر اپنی نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کرے.اور پہلے سے بڑھ کر آپس میں پیار محبت اور بھائی چارے کے تعلقات پیدا کرے.اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کی غلطیوں سے صرف نظر کرنے والا ہو، ان کو معاف کرنے والا ہو.اپنے دلوں کو ہر قسم کے کینوں اور بغضوں سے پاک کرنے والا ہو.اپنوں اور غیروں ہر ایک کے حقوق ادا کرنے والے ہوں.عاجزی اور انکسار دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں تبھی اس مسجد کی تعمیر سے فیض پاتے ہوئے جنت میں خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے گھر میں ہم جگہ پانے والے ہوں گے.تبھی ہماری نماز یں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والی ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ مقام حاصل کرنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے دو اہم حکم عطا فرمائے ہیں جو قرآن کریم کی ابتداء سے لے کر آخر تک مختلف حوالوں اور مختلف طریق پر مسلسل بیان ہوئے ہیں اور ان میں سے پہلا حکم نمازوں کا قیام ہے.جس کے بارہ میں بھی میں نے تھوڑی سی توجہ دلائی ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے بعد تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی نمازوں کی حفاظت ہر مومن پر فرض ہے اور یہی بات پھر مزید تقوی میں بڑھائے گی.

Page 486

خطبات مسرور جلد ششم 466 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 نماز کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.لیکن تم جب نماز پڑھوتو بجر قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 68-69) اور جب اثر ہوگا تو پھر تقویٰ کے معیار بھی بڑھیں گے.پس اللہ تعالیٰ کا قرب نماز کو سمجھ کر پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے.اب جبکہ اس مسجد کی تعمیر کے بعد آپ کی ذمہ داری بڑھے گی کیونکہ میں نے یہی دیکھا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے ساتھ عموماً تعارف بڑھتا ہے اور نئے راستے تبلیغ کے کھلتے ہیں تو اس کے لئے بھی اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی ضرورت ہے تا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش پہلے سے بڑھ کر ہو.اور ان نمازوں کی وجہ سے آپ کو اپنی اصلاح کے ساتھ احمدیت کا پیغام پہنچانے کے بہتر مواقع بھی حاصل ہوں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بہتر نتائج بھی نکلیں گے.اب اس آیت میں بیان کردہ دوسرے حکموں کی طرف آتا ہوں.یہ عجیب اتفاق ہے کہ بریڈ فورڈ کی مسجد اور ہارٹلے پول کی مسجد کی بنیاد میں نے ایک دن کے وقفہ سے رکھی تھی.پہلے بریڈ فورڈ کی ، اس سے اگلے دن ہار ملے پول کی مسجد.لیکن ہارٹلے پول کی مسجد آج سے دو سال پہلے مکمل ہوگئی کیونکہ چھوٹی تھی اس لئے جلدی مکمل ہوگئی.لیکن بریڈ فورڈ کی مسجد کو کچھ عرصہ لگ گیا.بہر حال جو بات میں کہنی چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہارٹلے پول کی مسجد کا جب افتتاح ہوا تو اس وقت بھی یہ اتفاق تھا یا اللہ تعالیٰ کا خاص تصرف تھا کہ تحریک جدید کے سال کا وہاں میں نے اعلان کیا اور لندن سے باہر تحریک جدید کے نئے سال کا جو پہلا اعلان میری طرف سے ہوا تھا وہ وہیں تھا.اور آج آپ کی مسجد کے افتتاح پر بھی اتفاق سے وہ دن ہے جب تحریک جدید کا پرانا سا ختم ہوا اور نئے سال کا آغاز ہورہا ہے.تحریک جدید کے قیام کی وجہ دشمنان احمدیت کی بڑھتی ہوئی دشمنی تھی جب حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کا اجراء فرمایا تو اس وقت دشمن کے احمدیت کو ختم کرنے کے بڑے شدید منصوبے تھے.لیکن آپ نے جب جماعت کے سامنے یہ تحریک رکھی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس منصوبے سے احمدیت کی تبلیغ پہلے سے زیادہ بڑھ کر اور شان سے ہندوستان سے باہر کے ممالک میں پھیلی.آج ہم جو مسجد میں بنا رہے ہیں یا مشن ہاؤسز کھول رہے ہیں، سینٹرز لے رہے ہیں اور جماعتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یہ اصل میں اسی تحریک کا ثمرہ ہے.پس آج

Page 487

خطبات مسرور جلد ششم 467 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 آپ کو ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی دعاؤں کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح انعامات سے نواز رہا ہے.ایک جوش کے ساتھ تبلیغ کرنے کی ضرورت ہے.ایک جوش کے ساتھ مالی قربانی کی ضرورت ہے اور یہی حقیقی شکرانہ ہے اور یہی دشمنوں کی کوششوں کا جواب ہے.اس آیت میں جو دوسری بات بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ مال خرچ کرو.ہر عظمند جانتا ہے کہ یہاں مال خرچ کرنے سے مراد خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے.جس سے لٹریچر وغیرہ کی اشاعت کی تبلیغی ضروریات پوری ہوں.مساجد کی تعمیر ہو سکے.نئے مشن کھل سکیں.مبلغین تیار ہوسکیں.پہلے تو قادیان میں ایک جامعہ احمد یہ تھا اور ایک ربوہ میں.دو جامعہ تھے.اب مبلغین کی نئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اور مبلغین کو تیار کرنے کے لئے کئی جگہ جامعات کھل چکے ہیں تا کہ جونئی ضروریات آئندہ پیش آنے والی ہیں ان کو پورا کیا جاسکے.برطانیہ بھی ان خوش قسمت ملکوں میں سے ہے جہاں جامعہ احمدیہ قائم ہے.تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مال خرچ کرو تو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ صرف ایک کام کر کے بیٹھ نہ جاؤ بلکہ جس طرح تمہارے لئے نمازوں کی طرف مستقل توجہ کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو، خالص ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت ہے.اسی طرح مالی قربانیوں کی بھی ضرورت ہے.ایک دفعہ کی مالی قربانی سے تمہارا فرض پورا نہیں ہو جا تا.ایک مسجد بنانے سے مالی قربانیوں میں کمی نہیں آنی چاہئے.تھوڑا سا لٹریچر شائع کرنے سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بہت ہو گیا.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے نئے راستے بھی اللہ تعالیٰ خود بخود کھول رہا ہے اور اس کے لئے اخراجات کی بھی ضرورت ہے.ان نئے راستوں میں جیسے ہم دیکھتے ہیں ایم ٹی اے بھی ہے.آج پہلی دفعہ یہاں اس شہر سے براہ راست دنیا خطبہ بھی سن رہی ہے.ایم ٹی اے کا تبلیغ کے میدان میں بہت بڑا کردار ہے.دنیا میں اس کی وجہ سے نہ صرف احمدیت کا تعارف ہو رہا ہے بلکہ اکثر ممالک کی اکثر جگہوں پر احمدیت اور اسلام کا پیغام اس کے ذریعہ سے سے پہنچ چکا ہے.اب صرف ملکوں یا چند شہروں میں پیغام پہنچادینا ہی کافی نہیں ہم نے دنیا کے ہر شہر، ہر گاؤں ، ہر قصبے اور ہر گلی میں اس کا پیغام پہنچانا ہے اور بہر حال اس کے لئے قربانیاں دینے کی ضرورت ہے.اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.اسی لئے آپ لوگ اپنے عہدوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ جان و مال، وقت اور عزت قربان کروں گا.کس لئے؟ بغیر کسی مقصد کے لئے تو نہیں کرنا؟ اللہ تعالیٰ کے دین کا پیغام پہنچانے کے لئے کرنا ہے.آنحضرت ﷺ کا جھنڈا د نیا میں لہرانے کے لئے کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ احباب جماعت کے دل میں وہ خود جوش ڈالتا ہے کہ وہ مالی قربانی کریں.آج دنیا جب مالی بحران میں گرفتار ہے احمدی کو اللہ تعالیٰ یہ فرمارہا ہے کہ تمہاری عبادتیں اور تمہاری مالی قربانیاں تمہیں اس کے

Page 488

خطبات مسرور جلد ششم 468 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 بداثرات سے محفوظ رکھیں گی.کیونکہ مومن کی نظر اپنی آخری منزل کی طرف ہوتی ہے اور ہونی چاہئے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ دنیاوی تجارتیں اور روپیہ پیسہ کام آئے گا.نہ تمہاری دوستیاں کام آئیں گی.بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی گئی عبادتیں اور مالی قربانیاں کام آئیں گی.اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بڑا احسان ہے کہ احمدیوں نے اس پیغام کو سمجھا ہے.مالی قربانیوں کے بوجھ بعض دفعہ اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ احساس ہوتا ہے کہ بہت بڑھ گئے ہیں.لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد جن کو قربانی کی عادت پڑ چکی ہے وہ قربانی کرتے چلے جاتے ہیں.یہ مسجد بنائی تو بعض نے اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.ایک شخص کو میں جانتا ہوں جو عارضی طور پر یہاں آیا ہوا تھا، اس کے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے دے دیا اور مجھے اس سے کہنا پڑا کہ نفس کا بھی حق ہے، اس کو بھی ادا کرنا چاہئے.پھر تحریک جدید کا سال جن کو پتہ ہے کہ 31 اکتوبر کو ختم ہوتا ہے تو اس دن سے تیار ہو کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کہ کب خطبہ آئے اور میں نئے سال کا اعلان کروں تو ہم اپنا چندہ دیں یا وعدہ لکھوائیں.میں جانتا ہوں کہ ایسے بھی ہیں جو رقم جمع کر کے بیٹھے ہوتے ہیں کہ جب اعلان ہو تو فوری طور پر اپنے وعدے کے ساتھ ادا ئیگی بھی کر دیں.خدا تعالیٰ سے ادھار نہیں رکھتے.ایسے بھی ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ اگر قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں تو تحریک جدید کا وعدہ اور دوسرے چندے کیوں ادا نہیں کئے جا سکتے.حالانکہ نفس کا حق ادا کرنا بھی بڑا ضروری ہے.لیکن ہر ایک کا اپنے خدا کے ساتھ علیحدہ معاملہ ہے.اس لئے باوجود بہت سے لوگوں کے علم ہونے کے کہ ان کی ایسی حالت نہیں ہے، میں ان کو یہ نہیں کہتا کہ چندہ واپس لے لو.ان کو توجہ ضرور دلاتا ہوں کہ اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا حق بھی ادا کر و.تو جواب ان کا یہی ہوتا ہے کہ یہی تو ہم خدا تعالیٰ سے سودا کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کی بیویاں بھی بڑھ چڑھ کر قربانی کر رہی ہوتی ہیں اور احمدی عورتیں تو میں نے دیکھا ہے کہ ماشاء اللہ مردوں سے مالی قربانی میں زیادہ آگے بڑھی ہوئی ہیں.ابھی آپ نے سنا میں نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ امیر صاحب نے مجھے رپورٹ دی کہ لجنہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے.اسی طرح جرمنی میں جو برلن کی مسجد ہے لجنہ تعمیر کر رہی ہے وہاں بھی لجنہ UK نے تقریباً پونے دو لاکھ پاؤنڈ ادا کئے ہیں.برطانیہ میں جونئی مسجدیں بنانے اور سینٹر ز خریدنے کی روچلی ہے اس میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ احمدی عورتوں کا بڑا ہاتھ اور کردار ہے.اس کا اظہار کئی میٹنگز میں اور شوریٰ میں احمدی عورتوں کی طرف سے ہوتا ہے.میرے سامنے بھی کئی دفعہ ہو چکا ہے.ملاقاتوں میں بھی اظہار کرتی ہیں کہ فوری طور پر مسجد بنی چاہئے کیونکہ یہ ہمارے بچوں کی تربیت کے لئے انتہائی ضروری ہے.پس یہ ہے احمدیت کی خوبصورتی.یہ ہے وہ انقلاب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم میں پیدا کیا ہے ، ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں میں بھی پیدا کیا ہے اور جب تک کہ یہ روح

Page 489

خطبات مسرور جلد ششم 469 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 ان میں قائم رہے گی، ان کی نسلوں میں عبادتوں میں ترقی کرنے والے اور مالی قربانی کرنے والے پیدا ہوتے چلے جائیں گے.ان کی نسلیں بڑھ چڑھ کر مالی قربانی کرنے والی ہوں گی.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو ہمیشہ ایسی قربانی کرنے والی عورتیں، ایسی قربانی کرنے والے مرد، بچے اور بوڑھے عطا فرما تا چلا جائے ، جود نیا کی دوستیوں اور دنیا کی تجارتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے آخرت پر نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب ہوں اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں.اب میں آخر میں وہ اعداد و شمار پیش کر دیتا ہوں جن میں تحریک جدید کا موازنہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا بھی دنیا کو انتظار ہوتا ہے.تحریک جدید کا 74 واں مالی سال ختم ہوا ہے اور نیا 75 واں سال شروع ہو گیا ہے.اور جور پورٹس آئی ہیں اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر جماعت کو تحریک جدید میں 41 لاکھ 2 ہزار 792 پاؤنڈ کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی اور یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے پر 5لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے.باوجود اس کے کہ دنیا میں بہت بڑا مالی کرائسز (Crises) آیا ہوا ہے اور عموماً احمدیوں کا مزاج ہر جگہ یہی ہے کہ آخری مہینہ بلکہ آخری دن میں اپنے وعدے پورے کرتے ہیں، سارا سال انتظار کرتے ہیں یا تقسیم کیا ہوتا ہے.بہر حال پاکستان دنیا بھر کی جماعتوں میں اس دفعہ بھی مجموعی لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے.مجموعی وصولی کے لحاظ سے جو پہلی دس جماعتیں ہیں، ان کے بارہ میں بتا دیتا ہوں کہ پاکستان نمبر 1، پھر امریکہ، پھر برطانیہ.لیکن امریکہ نمبر 2 تو آ گیا ہے، اس وجہ سے کہ آخر میں جب ہم نے Calculate کیا تو ڈالر کا ریٹ کچھ بہتر ہو گیا تھا لیکن ٹوٹل وصولی ان کی گزشتہ سال سے کم ہے اس لئے امریکہ کو توجہ کرنی چاہئے اور نمبر تین برطانیہ ہے.اس سال برطانیہ نے وصولی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے 74 ہزار پاؤنڈ زائد وصولی کی ہے.اور پھر نمبر 4 جرمنی ہے، پھر کینیڈا، انڈونیشیا انڈیا پیجیم اور آسٹریلیا آٹھویں نمبر پر ہے.نویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ( پہلے نکل گیا تھا دوبارہ آ گیا ہے ) اور دسویں نمبر پر نائیجیریا اور ماریشس.نائیجیریا کی جماعت تحریک جدید میں نمایاں طور پر آگے آئی ہے اور مجموعی طور پر وصولی کے لحاظ سے پہلی دس جماعتوں میں شامل ہو گئی اور اس طرح افریقن ممالک میں نائیجیر یا وہ پہلا ملک ہے جو پہلی دس جماعتوں میں آ گیا اور اس نے ایک اچھی مثال قائم کر دی ہے.گزشتہ سال سوئٹزرلینڈ جیسا کہ میں نے بتایا تھا نکل گیا تھا اب دوبارہ اپنی پوزیشن پر آ گیا ہے.گھانا، ناروے، فرانس، ہالینڈ اور مڈل ایسٹ کی بعض جماعتیں بھی ادا ئیگی کے لحاظ سے قابل ذکر ہیں.Figure تو نہیں بتا تا لیکن بہر حال انہوں نے ترقی کی ہے.مقامی کرنسی میں جن ملکوں نے وصولی کے لحاظ سے نمایاں طور پر آگے قدم بڑھایا ہے، اس میں پاکستان، برطانیہ، کینیڈا، انڈونیشیا، گھانا، سیرالیون، ٹرینیڈاڈ اور سنگا پورشامل ہیں.

Page 490

470 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد بھی پانچ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور گو کہ میرا جو اندازہ تھا اور جو ٹارگٹ میرے ذہن میں ہے اس سے یہ تھوڑی ہے اگر یہ چاہیں اور جماعتیں اگر پوری طرح کوشش کریں خاص طور پر افریقہ کی جماعتیں تو ایک سال میں ہی یہ تعداد تین گنا زیادہ ہو سکتی ہے اور پھر آگے جمپ (Jump) کرتی چلی جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ.اور اس میں تعداد کے لحاظ سے بھی جو اضافہ کرنا ہے، جیسا کہ میں نے کہا افریقہ میں نائیجیریا نے سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے اور توجہ کی ہے، پھر گھانا نے اضافہ کیا ہے، کینیڈا ہے، ہندوستان ہے، جرمنی ہے، برطانیہ ہے، انڈونیشیا ہے، بین ہے، نائیجریا ہے اور آئیوری کوسٹ ہے تو پانچ ممالک افریقہ کے شامل ہوئے ہیں اور مزیدا گر توجہ دیں تو یہ تعداد بہت بڑھ سکتی ہے.جو سب سے پہلا دفتر شروع ہوا تھا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تحریک کا اجراء فرمایا تھا وہ دفتر اول کہلاتا ہے جس کے 19 سال تھے، اور اس میں جو مرحومین ہیں ان کے کھاتے زندہ کرنے کے لئے بھی کہا گیا تھا تو یہ تقریباً تمام کھاتے 3 ہزار 851 زندہ کر دیئے گئے ہیں.کچھ تو انہوں نے خود ہی ان کے ورثاء نے عزیزوں نے جاری کئے تھے، باقی جو تھے وہ مرکزی طور پر بعض نے یہاں یورپ سے رقوم بھیجیں ان سے 272 کھاتے پورے کر دیئے گئے.پاکستان کی رپورٹ بھی پیش کی جاتی ہے اس میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے 3 بڑی جماعتوں میں اول لاہور ، دوم ربوہ اور سوم کراچی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ کے رہنے والوں نے اپنی مجموعی وصولی کے لحاظ سے جو فیصد اضافہ ہے وہ بہت زیادہ کیا ہے.اگر وصولی کے لحاظ سے دیکھا جائے نمبر 1 پر ربوہ نمبر 2 پر کراچی اور نمبر 3 پر لاہور چلا گیا ہے.وصولی کے لحاظ سے پاکستان کی جو باقی پہلے دس نمبر کی جماعتیں ہیں ، وہ ہیں راولپنڈی، اسلام آباد، سیالکوٹ، ملتان، کوئٹہ، شیخو پورہ ، اوکاڑہ ،حیدرآباد، بہاولپور، ساہیوال.اور ضلعوں میں پہلے دس اضلاع ہیں، سیالکوٹ، میر پور خاص، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا، گجرات ، بہاولنگر ، نارووال، میر پور آزاد کشمیر، پشاور اور بدین.پھر جنہوں نے اپنی وصولیوں میں نمایاں پیشرفت کی ہے ان میں سانگھڑ ، واہ کینٹ ، کنری، کھوکھر غربی ( سیہ چھوٹی جماعتیں ہیں )166 مراد، ندیم آباد، بشیر آباد ، گھٹیالیاں خورد، صابن دستی.انگلستان کی جو پہلی بڑی دس مجالس ہیں انہوں نے اس دفعہ یہ کیا ہے کہ بڑی اور چھوٹی علیحدہ کر دی ہیں.کیونکہ چھوٹی جو تھیں وہ بڑی سے آگے نکل جاتی تھیں.شاید شکوے کو دور کرنے کے لئے لیکن وصولی کے لحاظ سے بہر حال چاہے اس کو چھوٹی کہیں یا بڑی سکنتھو رپ آگے ہی ہے.حلقہ مسجد فضل نمبر 1 پر ہے، ووسٹر پارک نمبر 2 پر، ویسٹ ہل

Page 491

خطبات مسرور جلد ششم 471 خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 2008 پر ٹوٹنگ 4 پر سٹن 5 پر، نیو مالڈن ) پہ بریڈفورڈ نارتھ اینڈ ساؤتھ ساتویں نمبر پر.( شکر ہے کچھ آگے پوزیشن آ رہی ہے).مانچسٹر آٹھ پہ جلنلھم 9 پر اور 10 نمبر پر انرز پارک.اور چھوٹی جماعتیں جو انہوں نے لی ہیں ان میں سکنتھو رپ نمبر 1 په ولور ہیمپٹن نمبر 2 پر، برسٹل 3 ، پین ویلی 4 لمنگٹن سپا5، بور نمتھ 6 ، نارتھ ویلز 7، دوکنگ 8، کیتھلے 9، ڈیون اور کارنوال 10 نمبر پر.امریکہ میں سیلیکون ویلی نمبر 1 پہ، شکاگو ویسٹ نمبر 2 پر، ناردرن ورجینیا نمبر 3 پر ڈیٹرائیٹ نمبر 4 پر اورکینیڈا کی جو تین جماعتیں ہیں کیلگری نارتھ ایسٹ پہلے نمبر پر، کیلگری نارتھ ویسٹ 2 پر، اور پیس ویلج نمبر 3 پر.میرا تو خیال تھا کہ پیں ویلج نمبر 1 پہ آئے گا.بہر حال اللہ تعالیٰ ان سب مالی قربانی کرنے والوں کو جزا دے، ان کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور آئندہ بھی یہ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے مالی قربانی کی روح کو قائم کرتے ہوئے قربانیاں کرتے چلے جانے والے ہوں اور اپنی عبادتوں کے معیار بڑھاتے چلے جانے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 48 مورخہ 28 نومبر تا 4 دسمبر 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)

Page 492

خطبات مسرور جلد ششم 472 (46) خطبہ جمعہ فرمود 140 نومبر 2008 فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2008ء بمطابق 14 نبوت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) اللہ تعالیٰ کا ایک نام وَاهِب یا وھاب بھی ہے.اس لفظ کی مختلف اہل لغت نے جو وضاحت کی ہے اور معنی بیان کئے ہیں وہ تقریباً ایک ہیں اس لئے میں نے لسان العرب ( یہ لغت کی کتاب ہے ) نے جو معنی بیان کئے ہیں وہ لئے ہیں.اس میں لکھا ہے کہ الو اب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے یعنی الْمُنْعِمُ عَلَى الْعِبَادِ اپنے بندوں پر انعام کرنے والا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت وَاهِبٌ بھی ہے.لکھتے ہیں کہ الھیہ ایسا عطیہ جو عوض میں کچھ لینے یا دیگر اغراض و مقاصد سے مبر اہو اور جب ایسی عطا بہت کثرت سے ہو تو اس عطا کرنے والے کو وھاب کہتے ہیں.یہ لفظ انسانوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن حقیقی و تاب اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو اپنے بندوں کو مانگنے پر بھی اور بغیر مانگنے پر بھی کثرت سے عطا فرماتی ہے.ایک حقیقی مومن اگر غور کرے تو اللہ تعالیٰ کے وہاب ہونے کے نظارے، اس کی عطاؤں اور انعاموں کے نظارے ہر وقت دیکھتا ہے اور یہی بات ہمیں ہمارے زندہ خدا کا پتہ دیتی ہے.لیکن جو انسان ناشکرا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی عطائیں اور فضل نظر نہیں آتے.جو دنیا کی آنکھ سے دیکھتا ہے وہ دنیا کو ہی ان چیزوں کا ذریعہ سمجھتا ہے جو اُ سے مل رہی ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف حوالوں سے اس لفظ کا بھی استعمال فرمایا ہے اور اپنی اس صفت کا بھی استعمال فرمایا ہے.انبیاء اور نیک لوگوں پر اپنی عطاؤں کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اپنی صفت کے حوالے سے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.جس میں نیک اولاد کے لئے بھی دعائیں ہیں، معاشرے کی نیکی کے لئے بھی دعائیں ہیں، اپنے تقویٰ میں بڑھنے کے لئے بھی دعائیں ہیں، ایمان میں مضبوطی کی بھی دعائیں ہیں.تو مختلف دعاؤں کا ذکر ہے.اس وقت میں ان قرآنی دعاؤں کے حوالے سے ایک پہلو کا ذکر کروں گا.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نسل کو اپنے مقصد پیدائش کے قریب رکھنے بلکہ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنے نیک بندوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی اولاد بلکہ بیویوں کے لئے بھی دعائیں کریں.بلکہ بیویوں کو بھی کہا کہ اپنے خاوندوں اور اولاد کے لئے دعائیں کریں تاکہ نیکیوں کی جاگ ایک دوسرے سے لگتی چلی جائے اور نسل در نسل قائم رہے.

Page 493

خطبات مسرور جلد ششم 473 خطبہ جمعہ فرمود 140 نومبر 2008 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( سورة الفرقان آیت : 75 اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.یہ جامع دعا ہے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک بنا، ایک دوسرے کے لئے بھی اور اپنی اولاد میں سے بھی ایسی اولاد ہمیں عطا کر جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور جب اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھاتا ہے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک مانگو تو اللہ تعالی کے ان لا محدود فضلوں کی دعامانگی گئی ہے جس کا علم انسان کو نہیں، خدا تعالیٰ کو ہے جس کا انسان احاطہ ہی نہیں کر سکتا.اور میاں بیوی اور اولادیں نہ صرف اس دنیا میں ان نیکیوں پر قدم مار کر جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان نیکیوں کی وجہ سے جو انسان اس دنیا میں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے انعامات سے نوازتا ہے.ایک مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیک اولا دان نیکیوں کو جاری رکھتی ہے جس پر ایک مؤمن قائم تھا.اپنے ماں باپ کے لئے نیک اولا د دعائیں کرتی ہے جو اس کے درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں.دوسری نیکیاں کرتی ہے جو ان کی درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں.پس یہ اولاد کی نیکیاں اور اپنے ماں باپ کے لئے دعا ئیں اگلے جہان میں بھی ایک مومن کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ (السجدہ: 18) پس کوئی ذی روح یہ نہیں جانتا کہ اس کے اعمال کے بدلہ میں اس کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے.یہ ان لوگوں کے بارہ میں کہا گیا ہے جو تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں اور اس کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں اور دوسری نیکیاں بھی بجالاتے ہیں.وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سیدھے راستے پر چلنے اور اپنی اولاد کے سیدھے راستے کی طرف چلنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک مانگتے ہیں جس کا علم صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات کو ہے.اپنی اولا دوں اور اپنی بیویوں اور خاوندوں کے لئے اور بیویاں اپنے خاوندوں کے لئے دعا مانگتی ہیں کہ یہ سب تقویٰ پہ قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کے لئے اس دنیا میں بھی انعامات عطا فرمائے جو اس کی رضا کے حامل بنائے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں.پس یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو عباد الرحمن ہیں، نیکیاں بجالاتے ہوئے مانگتے ہیں اور اپنے پیچھے بھی ایسی نسل چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو تقویٰ پر قدم مارنے والی ہو.یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھا کر ہمیں ہر وقت اس اہم کام کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس کی رضا حاصل کرنے کا نہ صرف ہماری ذات کے لئے ذریعہ بنے بلکہ آئندہ نسلیں بھی اس راستے پر چلنے والی ہوں جواللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنیں.

Page 494

خطبات مسرور جلد ششم 474 خطبه جمعه فرمود 140 نومبر 2008 وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا کہہ کر یہ بتا دیا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک تبھی ہو سکتی ہے جب تم بھی اور تمہاری اولادیں بھی تقویٰ پر چلنے والے ہو گے.اگر تمہارے اپنے فعل ایسے نہیں جو تقویٰ کا اظہار کرتے ہوں تو اپنے دائرہ میں متقیوں کے امام بھی نہیں بن سکتے.پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا اس دعا کے ساتھ ہم آپس میں حقوق کی ادائیگی کے لئے تقویٰ پر چل رہے ہیں؟ اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ان شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں تقویٰ پر چلانے والی ہوں.اگر گھر یلو سطح پر بھی میاں بیوی تقویٰ کی راہوں پر قدم نہیں مار رہے تو اولاد کے حق میں اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کس طرح دیکھ سکتے ہیں.پھر اگر تقویٰ مفقود ہے تو خلافت اور جماعت کی برکات سے کس طرح فیض پاسکتے ہیں.خلافت کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کی شرط رکھی ہوئی ہے.اگر تقویٰ نہیں تو اعمال صالحہ کیسے ہو سکتے ہیں یا اگر اعمال صالحہ نہیں تو تقویٰ نہیں اور تقویٰ نہیں تو نہ ہی ایک دوسرے کے لئے قرة العین بن سکتے ہیں، نہ ہی اولا د قرۃ العین بن سکتی ہے.پس اولاد کو بھی قرۃ العین بنانے کے لئے ، آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کے لئے، اپنی حالتوں اور اپنی عبادتوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.آنحضرت ﷺ نے میاں بیوی کی عبادتوں کے بارے میں یہ نصیحت کی ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ اللہ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے، نماز پڑھے، اور اپنی بیوی کو جگائے.اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو پانی کے چھینٹے ڈالے تا کہ وہ اُٹھ کھڑی ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے، نماز پڑھے اور اپنے میاں کو جگائے ، اگر وہ اٹھنے میں پس و پیش کرے تو پانی چھڑ کے تا کہ وہ اٹھ کھڑا ہو.پس یہ فرائض دونوں کے ہیں.میاں کے بھی اور بیوی کے بھی کہ اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دیں تاکہ نسلوں سے بھی قرۃ العین حاصل ہو.بعض مردوں کی شکایات آتی ہیں ، رات کو اٹھنا تو علیحدہ رہا، عورتوں کے جگانے کے با وجود، فجر کی نماز کے علاوہ اور دوسری نمازوں میں بھی توجہ دلانے کے باوجودستی دکھاتے ہیں.ایسے لوگ کس طرح اور کس منہ سے رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ کی دعا کرتے ہیں.کس طرح وہ اپنی اولاد میں قرة العین تلاش کر سکتے ہیں، کس طرح اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھتے ہیں یا ر کھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کے متقی ہونے کی دعا قبول ہو.ہاں اللہ تعالیٰ فضل کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں.وہ تو مالک ہے لیکن اگر اس کے فضل سے حصہ لینا ہے تو تقویٰ کے یہ نمونے دکھانے کا بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اپنی حالتوں کے درست کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے..پس اپنے بچوں سے قرۃ العین بننے کی توقع اور خواہش رکھنے والوں کو آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولادکو دیتا ہے، یا دے سکتا ہے.(سنن الترمذی باب ما جاء فی ادب الولد حدیث 1952)

Page 495

خطبات مسرور جلد ششم 475 خطبه جمعه فرموده 14 نومبر 2008 اور اچھی تربیت اس وقت ہوتی ہے جب انسان کے اپنے عمل بھی ایسے ہوں جو اولاد کے لئے نمونہ بن سکیں.عبادتوں کے معیار بھی اچھے ہوں دوسرے اعمال بھی اچھے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرمادے اور یہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ ( یعنی انسان) فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں“.فرمایا اور کھول کر کہ دیا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا - اولا دا گر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام بھی ہوگا.اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے.الحکم جلد 5 نمبر 35 مورخہ 24 ستمبر 1901ء صفحہ 12 کالم 1) پس یہ ذمہ داری پہلے مردوں کی ہے کہ اپنے آپ کو ان راستوں پر چلانے کی کوشش کریں جو ا سے عبادالرحمن بنانے والے ہوں.عورتیں بھی اپنے گھر کی نگران کی حیثیت سے اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے اور اپنے خاوندوں کے بچوں کی تربیت کریں تا کہ وہ معاشرے کا ایک بہترین اور مفید وجود بن سکیں.لیکن عورتوں کی تربیت کے لئے بھی پہلے مردوں کو قدم اٹھانے ہوں گے.جب دونوں نیکیوں پر قدم مارنے والے ہوں گے.تو پھر اولا د بھی نیکیوں پر چلنے کی کوشش کرے گی.دونوں کی دعائیں بھی اولاد کی تربیت میں مددگار بن رہی ہوں گی.پہلے جومیں نے حدیث بیان کی تھی کہ اگر مرد پہلے جاگے تو عورت کو جگائے اور اگر عورت پہلے جاگے تو مر د کو جگائے.یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دونوں میاں بیوی آپس میں بڑے پیار اور محبت کے تعلق والے ہوں، انڈرسٹینڈنگ (Understanding) ہو، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوں کہ ہم نے اپنی رات کی عبادت اور نمازوں کی حفاظت کرنی ہے اس لئے صبح اٹھنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے.اگر آپس میں یہ انڈرسٹینڈنگ نہیں تو مرد جب پڑا سو رہا ہوگا (ایسی شکایتیں بعض دفعہ آتی ہیں) اور عورت جب اسے نماز کے لئے جگاتی ہے تو بیچاری کی شامت آ جاتی ہے اور بعید نہیں کہ یہ بھی ہو جائے کہ سخت الفاظ سننے کے علاوہ بیچاری عورت کو اس سے مار بھی کھانی پڑ جائے.اور یہ میں صرف مثال نہیں دے رہا، یہ بعض گھروں میں عملی صورت میں ہوتا ہے.آہستہ آہستہ پھر عورتیں بھی یا تو خاموش ہو جاتی ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی کوشش کرتی ہیں.یا اپنے خاوندوں کی ڈگر پر آ جاتی ہیں.اور بچے دنیاوی لحاظ سے تو شاید کچھ بہتر ہو جائیں، پڑھ لکھ جائیں لیکن دینی لحاظ سے بالکل بگڑ جاتے ہیں.بلکہ جب اس طرح گھر کی صورتحال ہو تو بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے بھی کئی بچے برباد ہو جاتے ہیں.پس بچوں کو قرۃ العین بنانے کے لئے ماں باپ کو اپنی اصلاح بھی کرنی ہوگی اور اپنے نمونے بھی قائم کرنے ہوں گے.

Page 496

خطبات مسرور جلد ششم 476 خطبہ جمعہ فرمود : 14 نومبر 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گاری کے لئے عورتوں کو پر ہیز گاری سکھاویں.ورنہ وہ گناہگار ہوں گے.اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی.جب تقوی نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید پیدا ہوتی ہے.اولاد کا طیب ہونا تو طیات کا سلسلہ چاہتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو پھر اولا دخراب ہوتی ہے.اس لئے چاہیئے کہ سب تو بہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں.عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے ، وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا.نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں.یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں.وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثروں کو حاصل کرتی ہیں.جب خاوند سید ھے راستے پر ہوگا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی.فرمایا ”عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں.جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 163-164 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ توقع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر احمدی مرد سے رکھی ہے.یہ الفاظ ہمیں جھنجھوڑ نے والے ہونے چاہئیں.مردوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.پہلے تو عورتیں جاہل ہوتی تھیں، کم پڑھی لکھی ہوتی تھیں.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم کی روشنی نے عورتوں میں بھی عقل و شعور پہلے سے بہت بڑھا دیا ہے.جیسا کہ پہلے میں نے کہا ایسی عورتیں بھی جماعت میں ہیں اور اکثریت میں ہیں جو مردوں کی برائیوں کی وجہ سے کڑھتی ہیں یا ان کی سختیوں کی وجہ سے علیحدہ ہو کے بیٹھ جاتی ہیں.اپنی نیکیاں قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں.اور مردوں سے زیادہ بے چین اور پریشان بھی ہوتی ہیں.ایسے بھی خاندان ہیں جہاں عورتوں کو اپنی اولاد کی فکر ہوتی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مردوں کی جو بگڑی ہوئی حالت ہے اسے دیکھ کر عورتیں بعض دفعہ مردوں سے علیحدہ ہو جاتی ہیں اور پھر اس کے نتیجہ میں اولاد پر برا اثر پڑتا ہے.اس ماحول میں جہاں بچوں کو خاص طور پر باپ کی سر پرستی کی ضرورت ہوتی ہے بچے جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو بگڑنے لگتے ہیں.تو ان سب چیزوں کے ذمہ دار مرد ہوتے ہیں.تو ایسے مردوں کو بھی فکر کرنی چاہئے کہ کتنی بد قسمتی ہے کہ ہمارا خدا ہماری بقا اور ہماری نسلوں کی بقا کے لئے ایک دعا سکھا رہا ہے اور اللہ میاں کا دعا سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے اور دعا کے الفاظ میں هَبْ لَنَا کے الفاظ استعمال کر کے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے سے کچھ نہیں لینا وہ تمہاری دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے ، تمہاری نسلوں کی بقا کے لئے صحیح راستے پر چلنے کے طریق سکھاتے ہوئے تمہیں انعام دے رہا ہے.ان پہ چلو گے تو انعامات کے وارث بنو گے.لیکن ہم اس انعام سے فیض پانے والے نہ بنے.پس ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے ان راستوں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا ئیں.اپنے گھروں کے سکون

Page 497

خطبات مسرور جلد ششم 477 خطبہ جمعہ فرمود 140 نومبر 2008 کو بھی ہمیشہ قائم رکھیں اور اپنے بچوں اور اپنی اولادوں کی طرف سے بھی ہمیشہ آنکھیں ٹھنڈی رکھیں اور حقیقت میں ہر احمدی گھر میں تقویٰ پر قائم رہنے والے لوگ ہوں.احمدی معاشرے میں ہر شخص تقویٰ پر چلنے والا ہو اور یہی چیز پھر خلافت کے انعام سے بھر پور فائدہ اٹھانے والا بنائے گی اور یہی بات آنحضرت میہ کی غلامی میں آنے والے مسیح و مہدی اور امام الزمان کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے والا بنائے گی.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس اصل کو سمجھتے ہوئے وھاب خدا سے جب مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی انہیں ایسے ایسے طریق سے قرۃ العین عطا فرماتا ہے جس کا ایک انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.اولاد کے ضمن میں یہاں ایک اور بات بھی میں کہنی چاہتا ہوں جو بعض گھروں کے ٹوٹنے کا باعث بن رہی ہوتی ہے یا میاں بیوی کے آپس کے ناخوشگوار تعلقات کی وجہ سے اولاد پر بُرا اثر ڈال رہی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض میاں بیوی کے تعلقات اس لئے خراب ہو جاتے ہیں یا خاوند اپنی بیوی سے اس لئے ہر وقت ناراض رہتا ہے کہ لڑکے کیوں پیدا نہیں ہوتے ؟ لڑکیاں کیوں صرف پیدا ہوتی ہیں؟.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِلَّهِ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَّشَاءُ الذُّكُورَ (الشوری:50) آسمان وزمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے.وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطا کرتا ہے.اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے.ایک اور جگہ فرمایا جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں ملا کر بھی دیتا ہے.تو اب جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اس میں کسی پر الزام دینا تقویٰ سے ہٹنے والی بات ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل اور علاج کے طریقے اس زمانے میں عطا فرما دیئے ہیں ان کے استعمال سے بہتوں کو فائدہ ہوتا ہے اور جن کو لڑکوں کی خواہش ہوتی ہے ان کے لڑکے پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن یہاں بھی بعض اوقات اپنے خالق ہونے کا اور اپنی مرضی کا اظہار فرماتا ہے.لاکھ علاج کروالیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا.تو اس بات پر بیویوں کی زندگی اجیرن کر دینا کہ تمہارے لڑکیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں یا لڑکیوں کو باپ کا اس طرح پیار نہ دینا جس کا وہ حق رکھتی ہیں بلکہ ہر وقت انہیں طعنے دینا، بچیوں کے دلوں میں بھی باپوں کے لئے نفرت پیدا کر دیتا ہے.بعض ایسے معاملات جب سامنے آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایسے لوگ بھی اس زمانہ میں ہیں جو بچوں پر اس طرح ظلم کر رہے ہیں جن کا ذکر پرانے عرب کے جہالت کے زمانے میں ملتا ہے کہ لڑکی کی پیدائش سے ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں.پس یہ جہالت کی باتیں ہیں اس سے ہر مومن کو ، ہر احمدی کو بچنا چاہئے.میں ایک احمدی فیملی کو جانتا ہوں، پرانی بات ہے، ان کے لڑکیاں پیدا ہوتی تھیں.چار پانچ بیٹیاں پیدا ہو گئیں.انہوں نے بیٹے کی خاطر دوسری شادی کر لی.اس بیوی سے بھی دو تین لڑکیاں پیدا ہوئیں.انہوں نے بیٹے

Page 498

خطبات مسرور جلد ششم 478 خطبہ جمعہ فرمود : 14 نومبر 2008 کی خاطر تیسری شادی کر لی.اس سے پھر تین چار بیٹیاں پیدا ہو گئیں.پھر چوتھی شادی کر لی ، اس سے بھی اللہ تعالیٰ نے بیٹیاں ہی دیں.آخر جو پہلی بیوی تھی جس سے بیٹیاں پیدا ہورہی تھیں، پہلا بیٹا جو پیدا ہوا اسی بیوی سے پیدا ہوا.تو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جسے چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے عطا کرتا ہے.پس اگر اولاد مانگتی ہے، لڑ کے ما نگتے ہیں تو آپس میں لڑ کر گھروں میں بے چینیاں پیدا کرنے کی بجائے تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہئے اور نیک اولاد کی دعا مانگنی چاہئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں انبیاء کے ذکر میں دعا سکھائی ہے.ایک جگہ فرمایا کہ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّلِحِيْنَ (الفت : 101 ) کہ اے میرے رب ! مجھے صالحین میں سے عطا کر.یعنی صالح اولاد عطا کر.ایک جگہ یہ دعا سکھائی کہ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ( سورة آل عمران : 39) اے میرے رب! تو مجھے اپنی جناب سے پاک اولا د بخش.پس ہمیشہ ایسی اولاد کی دعا کرنی چاہئے یا خواہش کرنی چاہئے جو پاک ہو اور صالحین میں سے ہو اور ہمیشہ اس کے قرۃ العین ہونے کی دعا مانگنی چاہئے.میرے پاس جو بعض لوگ لڑکے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو میں ان کو ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ نیک اور صحت مند اولاد مانگو.بعض دفعہ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ماں باپ کی خدمت کرنے والیاں ہوتی ہیں اور نیک ہوتی ہیں.ماں باپ کے لئے نیک نامی کا باعث بنتی ہیں.جبکہ لڑ کے بعض اوقات بدنامی اور پریشانی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.پس ایک مومن کی یہی نشانی ہے کہ اولاد مانگے نیک اور صالح اور پھر مستقل اس کے لئے دعا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہو.ورنہ ایسی اولاد کا کیا فائدہ جو بدنامی کا موجب بن رہی ہو.کئی خطوط میرے پاس آتے ہیں جس میں اولاد کے بگڑنے کی وجہ سے فکر مندی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے.لوگ ملتے بھی ہیں تو اظہار کر رہے ہوتے ہیں.پس اصل چیز دل کا سکون ہے اور اولا دوں کا نیک اور صالح ہونا ہے.اگر یہ نہیں تو پھر اولا دبے فائدہ ہے.صالحین کی تعریف جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے وہ میں پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا“.پس یہ معیار ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں اپنی اولاد کے لئے دعا مانگنی چاہئے اور خود بھی اس پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ آئندہ نسلوں میں بھی نیکی کی جاگ لگتی چلی جائے اور ذریت طیبہ پیدا ہوتی رہے جو نسل در نسل اپنے آبا و اجداد کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان پیدا کرتی چلی جائے اور جماعت کے لئے ، خاندان کے لئے نیک نامی کا باعث ہو اور جیسا کہ میں نے کہا یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی حالتوں کی طرف بھی نظر رکھنے والے اور توجہ دینے والے نہیں بنتے.ہم خود بھی صالحین میں شامل ہونے اور تقویٰ پر قدم مارنے والے نہیں بنتے.پس اس چیز کو پکڑنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 49 مورخہ 5 دسمبر تا 11 دسمبر 2008ءصفحہ 5 تا صفحہ 7)

Page 499

خطبات مسرور جلد ششم 479 (47) خطبہ جمعہ فرموده 21 نومبر 2008 فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2008ء بمطابق 21 رنبوت 1387 ہجری کشی بمقام مسجد بیت الفتوح بلندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت کی تلاوت فرمائی: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران:9) اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.یہ آیت جوئیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ بھی آپ نے سنا.اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت و تاب کا واسطہ دے کر اپنے دین کی مضبوطی کی دعامانگی گئی ہے.ایک تو یہ کہ زمانے کے امام کو ماننے کی جو ہمیں توفیق دی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کی تصدیق کرنے کی اے اللہ جو تو نے ہمیں توفیق دی.اے اللہ تو نے اپنے پیاروں کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی امت میں آخرین میں جو آنحضرت ﷺ کا غلام صادق مبعوث فرما کر ہمیں اپنے فضل اور رحم سے اس کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور پھر آنحضرت ہی ہے جو اے اللہ ! تیرے سب سے پیارے بندے ہیں ان کی پیشگوئی جو یقینا آپ ﷺ نے تجھ سے اطلاع پا کر کی تھی کہ مسیح موعود کے بعد خلافت کا نظام جاری ہو گا جو دائمی نظام ہے، جس سے جڑے رہنے سے وہ برکات حاصل ہونی ہیں جو اس مسیح و مہدی کی جماعت سے وابستہ ہیں، اے اللہ ! تو نے ہم پر رحم فرماتے ہوئے اس نظام سے بھی منسلک کر دیا.اب ہماری کوتاہیوں ، ہماری لغزشوں، ہماری غلطیوں کی وجہ سے ان تمام انعامات سے جو تو نے ہم پر کئے محروم نہ کرنا.انسان غلطیوں کا پتلا ہے، اس سے غلطیاں اور کوتا ہیاں ہوتی ہیں.ہم تیرے آگے جھکتے ہوئے ، تیرے سے یہ التجا کرتے ہیں کہ کبھی اس وجہ سے یا کسی تکبر، غرور اور نخوت کی وجہ سے یا کسی بھی صورت میں ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہمیں کبھی وہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوں جو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا کر دیں، یا ہمارے اندر اتنی کمی پیدا ہو جائے جو ہمارے ان اعمال کی وجہ سے جو تیری نظر میں ناپسندیدہ ہیں، ہمیں تیری رحمت سے محروم کر دیں.پس ہمیں ہمیشہ ایسے بُرے اور بدنصیب وقت سے بچا.اور پھر اس جامع دعا میں صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے محروم نہ رہنے کی دعا ہی نہیں سکھائی بلکہ یہ دعا

Page 500

خطبات مسرور جلد ششم 480 خطبہ جمعہ فرموده 21 نومبر 2008 ایک مومن بندے کو سکھائی کہ اس ہدایت پر ہم صرف قائم ہی نہ رہیں بلکہ یہ دعا کریں کہ اپنی طرف سے رحمت عطا کر اپنی اس رحمت کی چادر میں لپیٹ لے جو ہمیشہ ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہمارے ایمان میں اضافہ کرتی رہے.ہم ایمان میں ترقی کرتے رہیں ، ہم ایقان میں ترقی کرتے رہیں، ہم تقویٰ میں ترقی کرتے رہیں، ہمارا ہر آنے والا دن ہمیں ایمان اور تقوی میں گزشتہ دن سے آگے بڑھانے والا ہو.پس یہ خوبصورت دعا ہمیشہ ہر احمدی کا روز مرہ کا معمول ہونا چاہئے اور اگر حقیقی رنگ میں یہ ہمارا معمول ہوگی تو ہم اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنے میں بھی شعوری کوشش کرنے والے ہوں گے.اپنی عبادتوں کی طرف بھی دیکھنے والے ہوں گے.اپنی عبادتوں اور نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور نتیجہ نمازیں بھی ہماری حفاظت کر رہی ہوں گی.ایسے اعمال بجالانے کی کوشش کرنے والے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ اعمال ہیں کیونکہ یہی اعمال ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، ہدایت پر قائم رکھنے والے ہوتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيْمَانِهِمْ (سورة يونس آیت نمبر (10) یعنی یقیناً جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اور مناسب حال عمل کئے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ہدایت دے گا.پس جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ نیک اعمال ہدایت کا راستہ دکھانے کا باعث بنتے ہیں تو ایک مومن جب رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا کی دعا پڑھے گا تو اس کی برکات سے فیض پانے کے لئے ، اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے، ہر بھی اور ٹیڑھے پن سے بچنے کے لئے ، دعا کے ساتھ اپنے عمل بھی اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کرے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.اپنے ایمان کو بچانے کے لئے جو دعائیں ہم کرتے ہیں تبھی قبولیت کا درجہ پائیں گی جب اس کے لئے ہم اپنی عبادتوں میں بھی تسلسل رکھیں گے اور اعمال صالحہ بجالانے کی بھی کوشش کریں گے.نظام جماعت سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.چھوٹی چھوٹی دنیاوی باتوں کو اپنے ایمان پر ترجیح نہیں دیں گے.کسی جماعتی کارکن کے ساتھ معمولی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے نظام جماعت کو اعتراض کا نشانہ نہیں بنائیں گے.پس جب انسان یہ دُعا کرتا ہے تو ہر وقت ایک کوشش کے ساتھ راستے کی ٹھوکروں سے بچنے کی کوشش بھی کرنی ہوگی.ایک توجہ کے ساتھ یہ کوشش کرنی ہوگی.اگر کسی کے خلاف اس کے اپنے خیال میں جماعتی طور پر کوئی غلط فیصلہ بھی ہوا ہے تو جہاں تک اپیل کا حق ہے اسے استعمال کرنے کا ہر ایک کو حق ہے، اسے استعمال کر کے پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے بجائے اس کے کہ پورے نظام پر بدظنی کرے.دنیاوی نقصان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھ کر برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ اگر شکوے پیدا ہونے شروع ہوں تو پھر یہ بڑھتے بڑھتے جماعت سے دور لے جاتے ہیں، خلافت سے بھی بدظنیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.

Page 501

481 خطبہ جمعہ فرموده 21 نومبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس اللہ تعالی نے یہ دعا سکھائی کہ ایک تو کبھی ایسا موقع ہی پیدا نہ ہو کہ ہمارے دل میں کبھی نظام جماعت کے خلاف میل آئے.ہمارے اعمال ہی ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کی منشاء اور حکموں کے مطابق ہوں اور نظام کو ہمارے سے کبھی شکایت پیدا نہ ہو.اور اگر کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جو ہماری کسی بشری کمزوری کی وجہ سے کسی امتحان میں ڈال دے تو کبھی ایسا نتیجہ نہ نکلے جس سے ہمارے ایمان کو ٹھوکر لگے اور نظام جماعت یا نظام خلافت کے بارے میں کبھی بدخانیاں پیدا ہوں اور یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد ہمیں لا پرواہ نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی تلاش پہلے سے بڑھ کر کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے پرانے انبیاء کی اور قوموں کی مثال اس لئے دی ہے کہ وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے مان لیا اب آئندہ ہمیں کسی ہدایت کی ضرورت نہیں.یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اسی حوالے سے کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ آنے والی جو ہدایت رکھی تھی اسے نہ مان کر وہ بگڑ گئے.جب بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں تو صرف اپنے علم اور سوچ کی وجہ سے انسان کا ذہن محدود ہو جاتا ہے اور ان کے بگڑنے کی بھی یہی وجہ تھی اور نہ صرف ان کے دل ٹیڑھے ہو گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مغضوب اور ضان کے زمرہ میں شامل کیا.اللہ تعالیٰ نے جو ہر نماز کی ہر رکعت میں ہمیں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے وہ اس لئے ہے کہ ان لوگوں سے سبق حاصل کرو اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اسی کی رحمت مانگتے رہو.اپنے دلوں کو ٹیڑھا ہونے سے بچاؤ ورنہ جس طرح اُن کی دین کی آنکھ ختم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو بھول گئے ہم نہ کہیں بھول جانا.لیکن بدقسمتی سے اس پانچ وقت کی نمازوں کی دعا کے باوجود آج مسلمانوں کی اکثریت انہی قدموں پر چل رہی ہے جو خدا تعالیٰ سے دُور لے جانے والے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بدظنیاں اور اپنے آپ کو عالم سمجھنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ میں خدا نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة : 6-7) اس جگہ احادیث صحیحہ کی رو سے بکمال تو اتر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد بد کار اور فاسق یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو کا فرقرار دیا اور قتل کے درپے رہے اور اس کی سخت تو ہین و تحقیر کی اور جن پر حضرت عیسی نے لعنت بھیجی جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور الضالین سے مراد عیسائیوں کا وہ گمراہ فرقہ ہے جنہوں نے حضرت عیسی کو خدا سمجھ لیا اور تثلیث کے قائل ہوئے اور خون مسیح پر نجات کا حصر رکھا اور ان کو زندہ خدا کے عرش پر بٹھا دیا.اب اس دُعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا ایسا فضل کر کہ ہم نہ تو وہ یہودی بن جائیں جنہوں نے مسیح کو کا فرقرار دیا تھا اور اُن کے قتل کے در پہ ہوئے تھے اور نہ ہم مسیح کو خدا قرار دیں اور تثلیث کے قائل ہوں، چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں اس اُمت میں سے مسیح موعود آئے گا.اور بعض یہودی صفت

Page 502

خطبات مسرور جلد ششم 482 خطبہ جمعہ فرموده 21 نومبر 2008 مسلمانوں میں سے اسے کا فرقرار دیں گے اور قتل کے درپے ہوں گے اور اس کی سخت توہین و تحقیر کریں گے اور نیز جانتا تھا کہ اس زمانہ میں تثلیث کا مذہب ترقی پر ہو گا اور بہت سے بدقسمت انسان عیسائی ہو جائیں گے اس لئے اس نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اور اس دعا میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا جو لفظ ہے وہ بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ جو اسلامی مسیح کی مخالفت کریں گے وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مَغضُوبِ عَلَيْهِمْ ہوں گے جیسا کہ اسرائیلی مسیح کے مخالف مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ تھے.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 419) پس ہم احمدی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مسیح موعود کو مان کر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے بچنے کی دُعا قبول ہوتے دیکھی اور الضالین سے بچنے کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں قبول فرمائی کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھے.لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ حکم کہ دعا کرو کبھی دل ٹیڑھے نہ ہوں اور کبھی مَغضُوبِ عَلَيْهِمْ اور ضالین میں شامل نہ ہوں ، یہ دعا پڑھنے کا مستقل حکم ہے.اس لئے ہر احمدی کو اسے یاد رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ دوسرے مسلمانوں کو بھی اس دعا کو سمجھنے کی توفیق دے تا کہ اُمت مسلمہ آنحضرت اللہ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہو کر امت واحدہ کا حقیقی نظارہ پیش کرنے والی بن جائے اور ہر مسلمان کہلانے والا مسیح محمدی کی مخالفت چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی صداقت کا مصدق بن جائے اور فروعی مسائل کے پیچھے چلنے کی بجائے اس دعا کے بنیادی پیغام کو سمجھنے والا بن جائے حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ کی دُعا بہت پڑھا کرتے تھے.پھر ایک حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ جو حضرت شهر بن حوشب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے اُم سلمہ سے پوچھا کہ اے ام المومنین! آنحضرت ﷺ جب آپ کے یہاں ہوتے تھے تو کون سی دعا کرتے تھے.اس پر ام سلمہ نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے کہ يَا مُقَلبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِینِكِ که اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ.اُمّ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت میں سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی کہ آپ باقاعدگی سے اس کو کیوں پڑھتے ہیں.تو آپ نے فرمایا کہ اے ام سلمہ ! انسان کا دل خدا تعالی کی دوانگلیوں کے درمیان ہے جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے اس کو ثابت قدم رکھے اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے.(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب 94/89 حدیث نمبر (3522) پس دیکھیں کس قدر خوف کا مقام ہے اور ہمیں اپنے دل کو ٹیڑھا ہونے سے بچانے کے لئے کس قدر دعا کی

Page 503

خطبات مسرور جلد ششم 483 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 2008 ضرورت ہے کیونکہ بدظنیاں ہیں، چھوٹی چھوٹی شکایتیں ہیں جو پھر اتنی دور لے جاتی ہیں کہ آدمی دین سے بھی جاتا ہے.کیا آنحضرت ﷺ کا دل نعوذ باللہ ٹیڑھا ہو سکتا تھا.یقینا نہیں اور کبھی نہیں ہو سکتا تھا.آپ کا دل تو خدا تعالیٰ کی یاد کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں.آپ سے تو خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا کہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (آل عمران : 32) یعنی میری اتباع کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.پس آپ کا دل ٹیڑھا ہونے کا کیا سوال ہے.آپ کی پیروی تو گناہوں کی بخشش کے سامان کرنے والی ہے.آپ کا اوڑھنا بچھونا، جینا مرنا خدا تعالیٰ کے لئے تھا.آپ نے ایک دفعہ فر مایا کہ نیند میں بھی میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن دماغ میں اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی یاد ہوتی ہے.پس آنحضرت ﷺ کی دعا ہمارے لئے نمونہ قائم کرنے کے لئے تھی جو آپ کیا کرتے تھے اور امت کے لئے تھی کہ ان کے دل کبھی ٹیڑھے نہ ہوں اور جب مسیح و مہدی کا زمانہ آئے تو آنے والے مسیح موعود کو مان لیں.کاش کہ مسلمان اس اہم نکتہ کو سمجھیں.اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ سچائی کو دیکھ لینے کے بعد، ان لوگوں کی نسلوں میں پیدا ہونے کے بعد جنہوں نے سچائی کو پایا اور اس کی خاطر قربانیاں دیں پھر انسان راستے سے بھٹک جائے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھنے اور ان سے حصہ لینے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں.یہ مسلمان بھی سوچیں اور غور کریں.آج کل بھی دیکھ لیں کیا مسلمانوں کے حالات انہی باتوں کی نشاندہی نہیں کر رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بنے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آنحضرت کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کے طور پر جو سیح موعود آیا اس کو مسلمان اس لئے نہیں مانتے کہ اب ہمیں کسی بادی کی ضرورت نہیں.دراصل یہ آج کل کے نام نہا دعلماء اور مولوی کے مفاد میں نہیں ہے کہ امت مسلمہ مسیح موعود کو مانے کیونکہ اس سے ان کی دکانداری ختم ہوتی ہے.اور بہانہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی یا مصلح نہیں آسکتا کیونکہ آپ کی خاتمیت نبوت پر حرف آتا ہے.پھر کہتے ہیں کہ قرآن کریم ہمارے سامنے ہے ہمیں کسی مسیح مہدی یا مصلح کی ضرورت نہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ میں اس پر کافی تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں خلافت کی ضرورت کا انکار نہیں کرتے.لیکن جاہل یہ نہیں سمجھتے کہ مسیح موعود کے بغیر خلافت کا کوئی تصور پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور مسیح موعود کا آپ کی اُمت میں سے آنا ہی آنحضرت ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا ثبوت ہے.لیکن ان لوگوں کا قرآن سمجھنے کا دعویٰ تو ہے لیکن یہ چیز ان کو سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں.ان کا یہی فہم قرآن کریم ہمارے سامنے ہے کہ کسی ہادی کی ضرورت نہیں.قرآن کریم بھی انہی پر کھلتا ہے یا انہی پر اس کی تعلیم روشن ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوں اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی اللہ تعالیٰ کے وہ چنیدہ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے اسرار ہمیں کھول کر بتائے ،اُن راستوں کی نشاندہی کی جن سے اس کا فہم حاصل ہوسکتا ہے.

Page 504

484 خطبہ جمعہ فرموده 21 نومبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” دینی علم اور پاک معارف کے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے پہلے کچی پاکیزگی کا حاصل کر لینا اور ناپاکی کی راہوں کا چھوڑ دینا از بس ضروری ہے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے.لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعہ :180) یعنی خدا کی کتاب کے اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل ہیں اور پاک فطرت اور پاک عمل رکھتے ہیں.دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے“.ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 126) پھر آپ فرماتے ہیں: ” قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے“.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 612.بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر (3) پھر آپ فرماتے ہیں: ” کہتے ہیں کہ ہم کو سیح و مہدی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے راستے پر ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے پاکوں کے اور کسی کی فہم اُس تک نہیں پہنچتی.اس وجہ سے ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہو اور بینا بنایا ہو.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الواقعۃ.آیت 80.جلد چہارم.صفحہ 308 ) پس اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہے اور صاف کیا ہے اور فہم قرآن عطا فرمایا ہے.پس یہ لوگ جتنا بھی زور لگا لیں مسیح موعود کی مخالفت کر کے کبھی یہ قرآن کریم کے اسرار کو سمجھ نہیں سکتے.اور جتنی بھی دعائیں کر لیں ، جب تک مسیح موعود کو ماننے کی طرف عملی قدم نہیں اٹھائیں گے ان کے دل ٹیڑھے رہیں گے.پس اُن کی حالت دیکھ کر جہاں ہمیں احمدی ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے وہاں ہمیشہ ہر قسم کے ٹیڑھ سے بچنے کے لئے دعائیں بھی کرتے رہنا چاہئے.اور جوں جوں دنیا مادیت کی طرف بڑھ رہی ہے اور خدا تعالیٰ کو بھول رہی ہے پہلے سے بڑھ کر یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انعام کی برکت سے کبھی محروم نہ کرے.ہمیشہ ہمیں ثبات قدم عطا فرمائے اور ہمارے ایمان کو اپنی رحمت سے بڑھائے.رحمت عطا ہونے کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے ہی سکھائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت انہی کو ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار اور ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف میں.ایک جگہ فرمایا ہے وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا (الاحزاب :44 ) یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے.جس سے کا فر کو یعنی بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں.پھر فرمایا ”جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے، ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے“.فرمایا: إِنَّ رَحْمَةَ اللهِ قَرِيْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ (الاعراف: 57) یعنی رحیمیت الہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں.پھر ایک اور جگہ فرمایا ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَجَهَدُوْا فِي سَبِيْلِ

Page 505

485 خطبہ جمعہ فرموده 21 نومبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم اللَّهِ أُوْلَئِكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللهِ.وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيمٌ ( البقرة: 219) یعنی جولوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے.یعنی اس کا فیضانِ رحیمیت ضرور ان لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اُس کے مستحق ہیں.کوئی ایسا نہیں جس نے اُس کو طلب کیا اور نہ پایا.(براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 451-452.بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر (11) پس یہاں پھر واضح ہو گیا کہ رحمت بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے لیکن آتی ان کو ہے جو ایمان میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور محسنین میں شامل ہونے کی جستجو کرتے ہیں.اور محسنین کون ہیں؟ محسنین وہ ہیں جو نیک اعمال بجالانے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے دعاؤں کے ساتھ ہر قسم کے ٹیڑھ سے بچنے کی کوشش کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور نہ صرف ٹیڑھ سے بچنے کی کوشش ہے بلکہ محسنین میں شامل ہونے کی کوشش کی ضرورت ہے.ایسے لوگ جو نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتے ہیں وہی محسنین ہیں اور پھر عام اعمال ہی بجا نہیں لاتے بلکہ اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد کے مطابق اس سوچ سے ہر کام کر رہے ہوتے ہیں کہ خدا کی ہم پر ہر وقت نظر ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کرنے والے ہوں اور بچنے والے ہوں اور نیک اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے ہمیشہ نفس پرستیوں سے بچنے والے ہوں ، ہر قسم کی ٹیڑھ سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے بچنے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو انعامات اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں ان کی قدر کرنے والے بنیں اور پھر یہ رحمت ہم پر اور ہماری نسلوں پر بڑھتی اور پھیلتی چلی جائے.دوسرے ایک بات میں سفر کے حوالے سے دعا کے لئے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ سفر شروع ہونے والا ہے.لوگ جانتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ قادیان کے سفر پر جارہا ہوں.قادیان کا انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ ہے.اس کے لئے دعا کریں کہ ہر لحاظ سے کامیاب اور بابرکت ہو.اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر احمدی کو محفوظ رکھے.انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے لوگ دنیا کے مختلف ممالک سے وہاں جارہے ہیں.حکومت ہند کو اپنے مسائل کی وجہ سے بڑی تعداد میں ویزے دینے میں کچھ مشکلات ہیں.اس لئے ویزوں میں کچھ روک بھی پیدا ہو رہی ہے لیکن بہر حال کچھ کومل گئے اور کچھ جانے کی کوشش کر رہے ہیں.بہر حال حکومت نے کافی تعاون کیا ہے.اللہ تعالیٰ تمام جانے والوں کو ہر طرح اپنی حفاظت میں رکھے.ان روکوں کی وجہ سے جو خواہش کے باوجود جا نہ سکیں انہیں ان کی نیتوں کا اللہ تعالیٰ ثواب دے.بہر حال جانے والے بھی اور نہ جانے والے بھی مستقل دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ

Page 506

خطبات مسرور جلد ششم 486 خطبہ جمعہ فرموده 21 نومبر 2008 تعالیٰ حاسدوں اور شریروں کے شر سے ہر وقت بچائے کیونکہ ان لوگوں کی نظر تو ہر وقت جماعت پر رہتی ہے.اور جو وہاں قادیان میں رہنے والے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرور سے محفوظ رکھے.قادیان کے علاوہ انڈیا کی بعض دُور دراز کی جماعتوں کی خواہش تھی کہ ان کی جماعتوں میں بھی دورہ کیا جائے جو قادیان نہیں آ سکتے.ہندوستان ایک بڑا وسیع ملک ہے اور غریب لوگ ہیں اس لئے نہیں آسکتے.تو انشاء اللہ تعالیٰ بعض دوسرے شہروں میں بھی جانے کا پروگرام ہے.اللہ تعالیٰ ان جگہوں کے پروگرام بھی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے اور میرا یہ دورہ بے شمار برکات کا حامل ہو اور ان کو سمیٹنے والا ہو اور دشمن کا ہر حربہ اور چال ناکام و نامراد ہو اور ہم جماعت کی ترقی ہمیشہ دیکھتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری پردہ پوشی فرمائے اور کبھی ہم اس کے فضلوں اور رحمتوں سے محروم نہ رہیں.اس کے علاوہ ابھی نمازوں کے بعد دو جنازے بھی پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو ہمارے درویش بھائی مکرم بشیر احمد مہار کا ہے جنہوں نے قادیان میں اپنی درویشی کی زندگی گزاری.13 نومبر کو ان کی وفات ہوئی تھی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ قادیان کے ابتدائی درویشوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ساری زندگی بڑی درویشی کی حالت میں بسر کی ہے.باوجود اس کے کہ ان کو دو تین دفعہ ایسے موقعے میسر آئے کہ پاکستان جاسکتے تھے وہاں ان کا خاندان تھا ان کی جائیداد تھی ، زمینیں تھیں لیکن انہوں نے کہا نہیں اب میں قادیان میں ہی رہوں گا.یہیں میرا مرنا اور دفن ہونا ہے.بڑے نیک، سادہ مزاج ، نمازوں کے پابند، تہجد گزار اور دعا گو انسان تھے.بڑے خاموش طبع تھے.خلافت کے ساتھ بھی بڑا والہانہ لگاؤ تھا.ہر تحریک پہ لبیک کہنے والے تھے.ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.موصی تھے.ان کی تدفین وہیں قطعہ خاص درویشان میں ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیشہ اپنے پیار کی نظر ان پر ڈالے.دوسرا جنازہ مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب کا ہے.آپ بورے والا میں نظارت بیت المال پاکستان کی طرف سے انسپکٹر بیت المال تھے.18 نومبر کو دورے کے دوران جب آپ ضلع وہاڑی کا دورہ کر رہے تھے امیر صاحب کی رہائش گاہ کے قریب دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے ، ان سے بیگ چھینے کی کوشش کی اور مزاحمت پر فائر کیا اور یہ شہید ہوگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ کی عمر 56 سال تھی.آپ کا تعلق بھی وہاڑی سے ہی تھا.اس لحاظ سے بھی میں اس کو جماعتی شہادت سمجھتا ہوں کہ میرا خیال ہے کہ بیگ میں بھی جماعتی سامان اور چیزیں اور کاغذات تھے اور ہوسکتا ہے رقم بھی ہو.اس لحاظ سے ان کی شہادت جماعتی شہادت بھی کہلا سکتی ہے، صرف ڈکیتی کی شہادت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 50 مورخہ 12 دسمبر تا 18 دسمبر 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)

Page 507

خطبات مسرور جلد ششم 487 (48) خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 2008 فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2008ء بمطابق 28 رنبوت 1387 ہجری ششی بمقام بیت القدوس کالی کٹ کیرالہ (انڈیا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ہندوستان کے اس علاقے میں بھی آنے کی توفیق دی.2005ء میں جب میں قادیان آیا تھا اُس وقت بھی کیرالہ کے بعض مخلصین کا اصرار تھا کہ کیرالہ بھی ضرور آئیں لیکن حالات ایسے تھے کہ اس وقت فوری طور پر پروگرام نہیں بن سکتا تھا.میں نے اس وقت ان سے کہا تھا کہ آئندہ انشاء اللہ آنے کی کوشش کریں گے.سو اللہ تعالیٰ نے آج محض اپنے فضل سے اس بات کو پورا کرنے کی توفیق دی.یہ بالکل حقیقت ہے کہ جب تک انسان خود کسی چیز کا مشاہدہ نہ کر لے اس کے بارہ میں جو بھی معلومات ہوں صحیح طرح ان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا.میں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا اور بھی زیادہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں آ کر آپ لوگوں سے ملنے اور آپ لوگوں کے اخلاص و وفا کو دیکھنے کا موقع عطا فرمایا.گو اس صوبہ کے، اس علاقہ کے جتنے بھی لوگوں سے میں قادیان یا لندن میں ملا ہوں انہیں اخلاص و وفا سے پُر ہی پایا ہے لیکن یہاں آ کر جماعت کو دیکھ کر اور ہر مرد، عورت، بچے، بوڑھے ، جو ان کو دیکھ کر اور ان کے اخلاص و وفا کے معیار کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر فضلوں کا جو اندازہ ہوا ہے وہ آپ لوگوں سے ملنے کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا.ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ ان میں انڈو نیشین احمدیوں کی طرح کا ڈسپلن اور اخلاص ہے.کوئی کہہ رہا تھا کہ افریقنوں کی طرح کا اخلاص ہے، گو کہ افریقنوں کے اخلاص کے اظہار میں جوش بھی بہت نمایاں ہوتا ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے احمدیوں کا اخلاص و وفا نا قابل مثال ہے گو کہ اظہار کے طریقے مختلف ہیں اور ہندوستان کے اس حصہ کے احمدیوں کے اخلاص و وفا کے اظہار کا بھی اپنا ایک طریق ہے.یہ حصہ جو قادیان سے ہزاروں میل دور ہے، اس حصہ میں رہنے والے احمدیوں میں سے شاید بڑی تعداد ایسی ہو جنہوں نے براہ راست خلیفہ وقت سے پہلی مرتبہ ملاقات کی ہو.لیکن بوڑھوں، جوانوں ، بچوں کی آنکھوں میں پہچان اور جذبات کا ایک خاموش اظہار کہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعد جاری کردہ نظام خلافت سے محبت و وفا کے جذبے کو ختم کرنے میں روک بن سکے ، اسے میں نے دیکھا ہے.

Page 508

خطبات مسرور جلد ششم 488 خطبہ جمعہ فرموده 28 نومبر 2008 یہ سب کچھ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ کیا ان جذبات کے اظہار کے بعد بھی دوسرے مسلمانوں کو شک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور بھیجے ہوئے نہیں ہیں؟ جماعت کی بڑی مسجد شہر کے مرکز میں ہے اور آتے جاتے لوگ احمدیوں کی گرمجوشی اور خوشی کو دیکھ رہے ہیں، خلافت سے محبت کا اظہار ہورہا ہے اور یہ صرف اور صرف اس لئے ہے کہ یہ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے وہ رہتی ہے جس کو پکڑ کے ہم نے آگے بڑھتے چلے جانا ہے اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنا ہے.اور ہماری منزل مقصود کیا ہے؟ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے.مرتے دم تک وہ کام کئے جانا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو آسان بنانے والے ہوں.وہ کام کرتے چلے جانا ہے جو اللہ کے رسول میہ کی کامل اطاعت کا حامل بنانے والے ہیں.وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق، زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی موعود ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.پس جس جذ بہ کا اظہار میں نے دیکھا کہ کس طرح یہاں کے احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کی وجہ سے آپ کے نظام خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے ہیں اس کو قائم رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے اور اس کو اسی صورت میں قائم رکھا جا سکتا ہے جب ہم اس بنیادی مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنے والے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ہے.آنحضرت ﷺ کی پیروی اور اطاعت ہماری زندگیوں کا نصب العین ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بیعت میں آ کر وہ معیار حاصل کرنا جن کی آپ علیہ السلام نے ہم سے توقع کی ہے، ہمارا ہدف یا ٹارگٹ ہونا چاہئے.ورنہ اگر یہ نہیں تو خلافت کے متعلق ترانے پڑھنا اور نظمیں پڑھنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا.لوگ دنیاوی لیڈروں سے بھی جذباتی تعلق اور عقیدت رکھتے ہیں.دنیاوی مقاصد کے لئے بھی قربانیاں یتے ہیں.لیکن کتنے ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ، اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں.جولوگ بظاہر یہ قربانیاں دیتے نظر آتے ہیں، یہ سب نام نہاد قربانیاں ہیں کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہیں اور ان علماء اور لیڈروں کے پیچھے چل کر کرتے ہیں جو خود کسی ایسے رہنما کو چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو اور وہ اس زمانے میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور ان کے علاوہ کوئی نہیں.پس حقیقی قربانی کا شعور اور مقاصد کے حصول کے لئے راہیں متعین کرنا صرف احمدی کے ہی نصیب میں ہے اور اس کے علاوہ ہر احمدی کو اس تعلیم کو سمجھتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے قرآن اور سنت کی روشنی میں پیش فرمائی ، اپنانے اور اس پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے تبھی ہم بچے اور حقیقی احمدی کہلانے کے قابل ہوں گے.

Page 509

خطبات مسرور جلد ششم 489 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ بچے اور پاک اخلاق راستبازوں کا معجزہ ہے جن میں کوئی غیر شریک نہیں.کیونکہ وہ جو خدا میں محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوت نہیں پاتے.اس لئے ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں.سو تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو ٹھٹھا، ہنسی، کینہ وری، گندہ زبانی ، لالچ، جھوٹ ، بدکاری، بدنظری، بدخیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، خود پسندی ، شرارت، کج بحثی ، سب چھوڑ دو.پھر یہ سب کچھ تمہیں آسمان سے ملے گا“.یعنی راستبازوں کا معجزہ آسمان سے ملے گا.” جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے ،تمہارے شامل حال نہ ہو اور روح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو.اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو نہ اقبال اور دولتمندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو.آپ نے فرمایا: " تم ابنَاءُ السَّمَاءِ بنو نہ أَبْنَاءَ الْأَرْضِ.اور روشنی کے وارث بنونہ کہ تاریکی کے عاشق تا تم شیطان کی گزرگاہوں سے امن میں آجاؤ“.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 45) پس یہ وہ اعلیٰ معیار ہے، وہ ٹارگٹ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیا ہے.انسان کمزور واقعہ ہوا ہے، زندگی میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے اس لئے اس ٹارگٹ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ایک احمدی کو مسلسل کوشش اور جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے.اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے اور ان اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لئے طریقہ بھی بتا دیا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ سے صاف ربط پیدا کرنا.ایک خالص تعلق پیدا کرنا.اور وہ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ وہ اسی صورت میں پیدا ہو گا جب ہم اپنے مقصد پیدائش کو ہمیشہ سامنے رکھنے والے ہوں گے اور وہ مقصد پیدائش خدا تعالیٰ نے ہمیں خود بتا دیا اور فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاريات : 57) کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.پس یہ ایک بہت بڑا مقصد ہے.اگر اس مقصد کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو کر حاصل کرنے کی کوشش ہم کرتے رہیں گے تو اُن اعمال کے نہ کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے.اور ان نیک اعمال بجالانے کی طرف بھی توجہ رہے گی جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.ہم معاشرے کے حقوق ادا کرنے والا بنانے والے ہوں گے اور پھر یہ اعمال ہمیں مزید اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائیں گے.اور پھر خلافت کی نعمت کا بھی انہی لوگوں سے وعدہ ہے جو اعمال صالحہ بجالانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شرک سے بکلی پاک اور اس کے عبادت گزار ہیں.

Page 510

490 خطبہ جمعہ فرموده 28 نومبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم پس اگر ہم نے اس انعام کو اپنے پر جاری رکھنا ہے جس کی پیشگوئی آنحضرت می ﷺ نے فرمائی تھی تو اپنے مقصد پیدائش کو یا درکھنا انتہائی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لئے جو راستے ہمیں بتائے ہیں اور جو طریق ہمیں سکھایا ہے اس میں سب سے اہم پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی ہے.پس ہر عورت ، مرد، بچہ، بوڑھا ہمیشہ یادرکھے کہ اگر اس کی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت نہیں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا نہیں، تو نہ ہم اعمال صالحہ کے اُس معیار کو حاصل کرنے والے ہو سکتے ہیں جو ہمیں بتائے گئے ہیں اور نہ انسان اللہ تعالیٰ کے اُن انعامات سے حصہ لے سکتا ہے جو عبادت کے ساتھ مشروط ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو“.(کشتی نوح.روحانی خزائن.جلد 19 صفحہ 15) پس اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد تقویٰ سے متعلق سب سے بڑی شرط نمازوں کی ادائیگی ہے اور نمازوں کی ادا ئیگی اس طرح نہیں کہ جیسے کوئی بوجھ سر سے اتارا جا رہا ہے کہ جلدی جلدی ختم ہو اور پھر جا کر اپنے دنیاوی کاموں میں مشغول ہو جائیں.نہیں، بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں نماز اس طرح ادا کرو جس طرح تم خدا کو دیکھتے ہو.اب دیکھیں جب ہم کسی بڑی ہستی کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ایک خوف ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ جو سب سے بالا ہستی ہے اس کی عبادت کرتے ہوئے جب ہم یہ سوچ رکھیں گے کہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں تو کس قدر ہماری خوف کی حالت ہوگی اور یہی حالت ہے جو خالص عبادت گزار بناتی ہے.لیکن چونکہ ہر ایک میں یہ حالت ایک دم پیدا نہیں ہو سکتی اس لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نماز پڑھتے ہوئے اگر یہ حالت نہیں کہ تم سمجھو کہ خدا کو دیکھ رہے ہو تو کم از کم یہ خیال کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے.وہ خدا جو سب طاقتوں کا مالک ہے، جو دلوں کا حال جانتا ہے.جب یہ خیال ہو گا کہ وہ سب طاقتوں والا خدا ہمیں دیکھ رہا ہے تو اُس کی عبادت کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی.اس طرح خالص ہو کر عبادت کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی جو خدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والی ہوگی.ہم اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کرنے والے بنیں گے جود نیاوی لذات، دنیاوی کاروبار، دنیاوی مقاصد کو ثانوی حیثیت دے رہے ہوں گے.اور یہ چیز ہے جو ہمیں اَبْنَاءُ السَّمَاءِ بنائے گی اور یہی چیز ہے جو ہمیں اس مقام پر لانے والی ہوگی جس سے ہم حقیقی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شمار کئے جانے والے بنیں گے.یہ باتیں اس لئے نہیں بیان کی جار ہیں کہ جن لوگوں کو یہ حالت میسر نہیں آتی وہ مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ

Page 511

خطبات مسرور جلد ششم 491 خطبہ جمعہ فرموده 28 نومبر 2008 جائیں کہ ہم تو یہ معیار نہ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہم نے کیا ہے اس لئے ہم جماعت سے باہر ہو گئے.بلکہ یہ وہ اعلیٰ معیار ہیں جن کے حصول کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.آگے بڑھنے والی جماعتوں کے لئے ہمیشہ بڑے ٹارگٹ مقرر ہوتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکتیں پہلے سے بڑھ کر نازل ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: 157) کہ میری رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے.پس ہم جو حاصل کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مل رہا ہے اور نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کا ہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.پس یہ نہ سمجھیں کہ جو حاصل نہیں کر سکتے یا نہیں کیا تو مایوس ہو گئے.بلکہ بڑھتے چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے آگے بڑھاتا چلا جائے گا.اور پھر من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان انعاموں اور فضلوں کے ہم وارث بن رہے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے لئے مقدر فرمائے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو عبادتوں کے معیار حاصل کرنے والے ہیں.راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نفل پڑھنے والے ہیں.جماعت کے لئے دعائیں کرنے والے ہیں.تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی وجہ سے جماعت پر پھر مجموعی لحاظ سے فضل فرماتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت کے افراد کی اکثریت کو اس معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں جو آپ نے بیان فرمایا ہے تا کہ جماعت کے ہر فرد کا اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا ہو جائے.ہر فرد جماعت وہ فیض پانے والا بنے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے پاتے ہیں.جتنا زیادہ ہر فرد جماعت کے تقویٰ کا معیار بڑھے گا اتنی جلدی ہم احمدیت کے غلبہ کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے.جیسا کہ میں نے کہا اپنے ماحول میں ان نیک اعمال کی وجہ سے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ہم دوسروں کو بھی اپنی طرف کھینچنے والے ہوں گے.ہماری ان عبادتوں کی وجہ سے ہماری دعوت الی اللہ کی کوشش بھی بار آور ہوگی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سوں کو میں نے ملاقات کے دوران اخلاص و وفا سے پر پایا ہے.اور ان کو دعاؤں کی قبولیت پر یقین سے پر پایا ہے.اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اس کی رضا کی کوشش ان کی باتوں سے عیاں تھی.بہت سی عورتوں اور مردوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے دین میں ترقی کرنے کی باتیں کی ہیں ان کے لئے دعا کے لئے کہتے رہے.یہی وجہ ہے کہ خلافت اور جماعت سے بھی ان لوگوں کا پنت تعلق ہے.پس اس تعلق اور اس جذبہ کو نہ صرف کبھی آپ نے مرنے نہیں دینا بلکہ اس میں ہر روز اضافہ کی کوشش کرنی ہے.اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یادرکھیں کہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت اور نیک اعمال ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہیں.اپنے آپ کو ہر مخفی شرک سے بھی بچائیں.یہاں آپ کے آپس میں مختلف مذاہب کے ساتھ تعلقات ہیں اور اُن کی وجہ سے، آپس میں ملنے جلنے کی وجہ سے، بعض بدعات اور غلط رسومات راہ پا جاتی ہیں اپنے آپ کو ان سے

Page 512

خطبات مسرور جلد ششم 492 خطبہ جمعہ فرموده 28 نومبر 2008 ہمیشہ بچا کر رکھیں.کیونکہ یہی باتیں پھر آہستہ آہستہ شرک کی طرف لے جاتی ہیں.یہاں تعلیم کا معیار ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس صوبہ میں احمدی بھی باقی آبادی کی طرح 100 فیصد تعلیم یافتہ ہیں.تو اس تعلیم کو اپنے دین کی حفاظت کے لئے استعمال کریں.دینی تعلیم کا حصول بھی آپ لوگوں کا ایک اہم مقصد ہونا چاہئے تا کہ اپنے ایمان کی حفاظت کے ساتھ اپنے بچوں میں بھی دین سے تعلق پیدا کر کے ان کی حفاظت کرنے والے ہوں تا کہ آئندہ نسلوں کا ایمان بھی ہمیشہ ترقی کرتے چلے جانے والا ہو.اور پھر اس دینی علم کو استعمال کر کے دعوت الی اللہ میں بھی اہم کردار ادا کرنے والے بنیں.یہ سرزمین ایسی ہے جہاں ہندوؤں کے علاوہ یہودی بھی آکر آباد ہوئے پھر ان کی تلاش میں حضرت عیسی" کے خاص حواری حضرت تھومہ (Thomas) یہاں آئے ، عیسائیت یہاں پھیلی.پھر جیسا کہ یہاں مشہور ہے حضرت مالک بن دینار کے ذریعہ اور عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام کی ابتداء یہاں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہوگئی.اب آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے ماننے کی توفیق دی ہے تو اس پیغام کو ایک خاص کوشش اور جدو جہد کے ساتھ آگے پہنچائیں اور آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے اس حصہ کی آبادی کو بھی لانے کی کوشش کریں کہ اب دنیا کی اصل نجات آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے آنے میں ہی ہے.اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اسی لئے بھیجا ہے.پس اب ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دنیا میں پھیلا نا مقدر فرمایا ہے تو ایک کوشش کے ساتھ پھیلانے کی طرف توجہ کریں.دنیا کی توجہ اب پہلے سے بڑھ کر احمدیت کی طرف ہو رہی ہے.آپ نے اپنے علاقہ میں بھی میڈیا کے ذریعہ محسوس کیا ہوگا اور مخالفت میں بھی اور سننے کے لئے بھی اب دنیا کی ایک خاص توجہ احمدیت کی طرف ہو گئی ہے.پس اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مجھے دعاؤں کا ہتھیار دیا گیا ہے.اس لئے دعاؤں کی طرف ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.یہی ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری کامیابی کا باعث بنیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 51 مورخہ 19 دسمبر تا 25 دسمبر 2008ءصفحہ 5 تا صفحه 8)

Page 513

خطبات مسرور جلد ششم 493 (49) خطبه جمعه فرموده 5 دسمبر 2008 فرمودہ مورخہ 5 دسمبر 2008ء بمطابق 5 رفتح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الہادی.دہلی.انڈیا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ہر انسان کی اس دنیا میں خواہشات ہوتی ہیں جو ہر ایک کی ذہنی اور جسمانی استعدادوں ، علمی صلاحیتوں ، مالی حالتوں ، اپنے ماحول اور معاشرے کی حدود یا وسعت کے مطابق مختلف ہوتی ہیں.لیکن ایک مومن کو ، ایک کامل ایمان والے کو ، ایسے لوگوں کو جن کا کامل بھروسہ خدا تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے ہر کام ہر خواہش ہر مشکل اور ہر آسائش میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے تبھی ایک انسان مومن کہلا سکتا ہے.تبھی ایمان میں ترقی کرنے والا کہلا سکتا ہے.تبھی اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار کہلا سکتا ہے.ہر چھوٹی سے چھوٹی خواہش اور اس کو پورا کرنے کے لئے وہ اس فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے کہ اگر جوتی کا تسمہ بھی لینا ہے تو خدا سے مانگو.کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کی مرضی نہیں ہوگی تو جیب میں رقم ہونے کے باوجود، بازار تک پہنچنے کے باوجود، اُس دکان میں داخل ہونے کے باوجود جہاں سے تسمہ خریدنا ہے، ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ اس تسمے کا حصول ممکن نہ ہو.اور اگر یہ ممکن ہو بھی جائے تو اس کو استعمال کرنا نصیب نہ ہو.پس ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لئے ، ہر چھوٹی سے چھوٹی خواہش کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے اس چیز یا خواہش کے حصول اور تکمیل کی کوشش کرنی چاہئے.ہم احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور میں اکثر اس حوالے سے بات کرتا ہوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ عرفان اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی طرف بڑی شدت سے کوشش کی اور جماعت کو توجہ دلائی بلکہ پیدا فرمایا کہ خدا کو پہچانو اور کس طرح پہچانو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں: میں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہی کو پیار کرتا ہے اور انہی کی اولا د بابرکت ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی

Page 514

خطبات مسرور جلد ششم 494 خطبہ جمعہ فرموده 5 دسمبر 2008 تعمیل کرتا ہے.اور یہ بھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرمانبردار ہو، وہ یا اس کی اولا د تباہ و برباد ہو جاوے.دنیا اُن لوگوں کی ہی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہر امر کی طناب اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اُس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا.کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور کسی قسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آسکتی.دولت ہو سکتی ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ بیوی بچوں کے کام ضرور آئے گی.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مخفی ہے مگر وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے.دعا کے ذریعہ سے اس کی ہستی کا پتہ لگتا ہے.کوئی بادشاہ یا شہنشاہ کہلائے ہر شخص پر ضرور ایسے مشکلات پڑتے ہیں جن میں انسان بالکل عاجز رہ جاتا ہے اور نہیں جانتا اب کیا کرنا چاہئے.اس وقت دعا کے ذریعہ سے مشکلات دور ہوتے ہیں“.پس یہ فہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا فرمایا کہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے وہی ہے جو تمام مشکلات کو دور کرنے والا ہے.وہی ہے جو اپنے بندوں کی صحیح راہنمائی کرنے والا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اکثریت اس بات کا ادراک رکھتی ہے اور مشکلات میں اور ہر ضرورت میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتی ہے.ہر مومن کا کام اور اس کی پیدائش کا مقصد ہی خدا تعالیٰ کی عبادت ہے لیکن خاص حالات میں زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل بھی خاص اس وجہ سے ہوتا ہے کہ عام حالات میں بھی مومن خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دینے والا ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا مومن کی بھی خواہشات ہوتی ہیں لیکن وہ ان کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اور اس کو جھکنا چاہئے.کیونکہ اسے پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو میری خواہشات کو پورا کرنے والا ہے.ہر کام میں خدا تعالیٰ کی رضا میرا مقصود زندگی ہے.یہ ایک مومن کی سوچ ہوتی ہے.ایک مومن کو اس بات کا ادراک ہے کہ چاہے وہ ذاتی کام ہو جس کا تعلق روز مرہ کے معاملات سے ہے یا کاروباری معاملات سے ہے یا دینی اور جماعتی حالات ہیں ہر کام کرنے سے پہلے ایک مومن جسے خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت ڈالے اور اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے.بعض دفعہ ایک انسان ایک کام کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے اور ہوتا بھی وہ نیک کام ہی ہے ، سمجھتا ہے کہ اس کے اچھے نتائج نکلیں گے.کسی خواہش کی تکمیل کے لئے کوشش بھی کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ بہتر نہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی بھلائی کی خاطر اس میں وقتی یا مستقل روک ڈال دیتا ہے.بعض اوقات ایک مؤمن کسی کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو یا اس کے قریبیوں کو یا اگر جماعتی معاملہ ہے تو جماعت میں بہت سارے افراد کو اس کام

Page 515

495 خطبہ جمعہ فرموده 5 دسمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم کے اس خاص موقع پر نہ ہونے یا بعض روکوں کے بارے میں پہلے سے اطلاع دے دیتا ہے.لیکن انسان پھر بھی اپنے اجتہاد کی وجہ سے اس کو کرنے پر اصرار کرتا ہے اور نتیجہ پھر وہ کام اس خواہش کے مطابق نہیں ہوتا جو مومن چاہ رہا ہوتا ہے اور کام بھی نیک ہوتا ہے.اور پھر بعد کے حالات اس حقیقت کو کھول دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے اور اسی میں برکت ہے اور اللہ تعالیٰ فی الحال نہیں چاہتا کہ ایسے حالات پیدا ہوں جس میں یہ کام ہو.اللہ تعالیٰ نے اس اصولی بات کی طرف کہ تم بعض کاموں کو اپنے لئے بہتر اور خیر کا باعث سمجھتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس میں تمہارے لئے خیر نہیں ہوتی یا اس میں ایک عارضی روک ہوتی ہے.قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ کہ ممکن ہے تم کسی چیز کونا پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو.وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ اور ممکن ہے ایک چیز تم پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے شر انگیز ہو.اور پھر فرمایا وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرة: 217) کہ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.اب یہ اصولی بات ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا کہ انسان کا علم چونکہ محدود ہے.بعض دفعہ وہ ایسی چیز کا مطالبہ کر رہا ہوتا ہے جو اسے اچھی بھی لگ رہی ہوتی ہے اور ہوتی بھی حقیقتا اچھی ہے.اس میں اس کو اپنے لئے فائدے بھی نظر آ رہے ہوتے ہیں.اس کے حصول کے لئے اس کے دل کی شدید خواہش ہوتی ہے جبکہ وہ یہ برداشت نہیں کرتا کہ کسی بھی طرح وہ اپنی خواہش کی تکمیل یا اس کام کے ہونے سے محروم رہ جائے.لیکن نہیں جانتا کہ اس کام کے ہونے سے اس کو نقصان بھی ہو سکتا ہے یا اس وقت کے لئے اتنا فائدہ نہیں جتنا بعد میں ہوسکتا ہے.جو جذ بہ ایک انسان کا کسی کام کے ہونے کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے وہ شدت پسندیدگی یا نا پسندیدگی ہے.وہ آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش ہے.وہ اچھے سے اچھا حاصل کرنے کی خواہش ہے.اگر یہ عام حالات میں کسی مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے ہے تو تب بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری مرضی کے موافق کام ہو جائے تا کہ میرا ہاتھ مخالف کے اوپر رہے.اور کیونکہ انسان کا علم محدود ہوتا ہے اس لئے دونوں طرح کے جذبات یعنی خواہش کی تکمیل اور مخالف کو فوری طور پر نا کامی کا منہ دکھانے کے فائدے اور مضرات کو سمجھ نہیں سکتا اور جب انسان ضد کرتا ہے تو اس کوشش میں بجائے فائدے کے بعض اوقات اپنا نقصان کر الیتا ہے.اپنے تمام وسائل اور سوچیں بروئے کارلانے کے بعد پھر نا کامی ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مومن کا کام ہے کہ کسی خواہش کی تکمیل میں اپنی پسند کو دخل نہ دے.بلکہ خاص طور پر جو دینی معاملات ہیں ان کے لئے تو بہت اہم ہے اور عام معاملات میں بھی کہ جو عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ خدا ہے جو سیدھے راستے پر چلانے والا خدا ہے، جس نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ: 6) کی دعا سکھائی ہے اس سے مدد مانگیں.وہ خدا جو مجیب ہے، دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے ، جو دعاؤں کو سنتا ہے اس کے آگے جھکے کہ اے اللہ ! تو ہی ہر ظاہری اور چھپے ہوئے کا کامل علم رکھنے والا ہے.تو مجھے سیدھے راستے پر چلا.میری دعا سن اور مجھے

Page 516

خطبات مسرور جلد ششم 496 خطبہ جمعہ فرموده 5 دسمبر 2008 اپنی جناب سے جو تیرے نزدیک بہترین ہے اور جس طرح تو چاہتا ہے اس طرح عطا کر.تو جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ ایک مومن کو دُعا کے ذریعہ سے ہر کام میں خدا تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے اور جب اس طرح مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ راستہ بھی دکھا دیتا ہے.لیکن بعض دفعہ دُعا کرنے کے باوجود اور بعض اشاروں کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا اجتہادی غلطی کر جاتا ہے اور بعض اور اشاروں پر محمول کرتے ہوئے کہ اس میں کامیابی ہے لیکن وہ اشارے کسی اور مقصد کے لئے ہوتے ہیں یا کسی اور وقت کے لئے ہوتے ہیں، اُن کو دیکھتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کو نقصان سے بچانا چاہتا ہے ان کی غلطیوں کے باوجود پھر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے، بعض ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ نہیں ہے.باوجود تمہاری شدید خواہش کے خدا تعالیٰ نے اس کام کی تکمیل یا اس کو کرنا کسی اور وقت کے لئے مقدر کر رکھا ہے.بے شک یہ کام ہونا ہے، خاص طور پر جو جماعت کی ترقی کے کام ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں یہ مقدر ہیں.بے شک انہوں نے ہونا ہے.بے شک ہم نے اور جماعت نے من حیث القوم، من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو سمیٹنا ہے اور پھر ان فضلوں کا ایک نئی شان کے ساتھ دوبارہ انتشار بھی ہونا ہے جس نے پھر دنیا میں پھیلتا ہے اور پھر جماعتی ترقی کے اسباب نظر آنے ہیں.لیکن اس کے وقت کا تعین خود خدا تعالیٰ نے فرمانا ہے.ہمارا کام اس کی رضا پر چلتے ہوئے اور دعائیں مانگتے ہوئے اپنے کام کئے چلے جانا ہے.اس سال خلافت جو بلی کے حوالے سے ہر احمدی میں نیا جذبہ ہے.مختلف ملکوں کے جلسہ سالانہ ہو چکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں.قادیان کا جلسہ سالانہ بھی دسمبر کے آخر میں مقرر کیا گیا ہے اور اس میں شمولیت کے لئے بڑے جذبے سے دنیا میں احمدیوں نے کوشش کی اور تیاریاں بھی کی ہیں.لیکن گزشتہ دنوں ظالم لوگوں نے اس ملک میں، ممبئی میں جو دہشت گردی کی واردات کی ہے، اس نے پورے ملک میں ایک بے چینی پیدا کر دی ہے.یہاں کے اخباروں اور ٹیلیویژن چینلز نے جو شخص پکڑا گیا ہے اس کے حوالے سے انکشافات کئے ہیں.جو باتیں سامنے آ رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ ظالم لوگ یا گروپ جو بھی ان میں ملوث ہیں اپنے ظلموں کو مزید پھیلانے کی کوشش کریں گے.اس کی وجہ سے حکومت نے بڑے احتیاطی اقدامات بھی کئے ہیں.تو بہر حال ان حالات کی وجہ سے جو یہاں آج کل ہیں میں نے باہر سے آنے والے احمدیوں کو روک دیا ہے اور بلا استثناء ہر ایک کو ہمیں پھر واضح کر دوں کہ با وجود اپنی بڑھی ہوئی خواہش کے باہر سے کسی نے اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے نہیں آنا.اللہ تعالیٰ حالات بہتر کرے گا تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ موقع مل جائے گا.ہمیں تعلیم بھی یہی دی گئی ہے اور دعا بھی یہی سکھائی گئی ہے کہ ہمیشہ ابتلاؤں اور مشکلات سے بچنے کے لئے دعا کرو اور ان جگہوں سے بھی بچو.جو یہاں کے شہری ہیں وہ تو بہر حال یہیں رہتے ہیں.غیر ملکی جو سفر میں ہوتے ہیں ان کے حالات کچھ اور ہو جاتے ہیں.تو بہر حال ہمیں دعاؤں کی تلقین کی گئی

Page 517

خطبات مسرور جلد ششم 497 خطبه جمعه فرموده 5 دسمبر 2008 ہے چاہے وہ قدرتی آفات ہیں یا ظالموں کے پیدا کردہ فسادات ہیں، ان سے بچنے کے لئے دعائیں ہیں.مختلف لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے جو پہلے ہی بعض فکر مندی والی رویا دکھائی تھیں جو کچھ نے مجھے پہلے بھی لکھی تھیں اور اب زیادہ آ رہی ہیں اور یہ سب خوابیں جو دنیا میں ان لوگوں کو دکھائی گئیں جو مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں یہ سنے اور پڑھنے کے بعد اور اسی طرح دعا کے بعد اور مختلف مشوروں کے بعد میں نے باہر سے آنے والے لوگوں کو روکا ہے.یہی فیصلہ کیا ہے کہ نہ آئیں.ہمارے سب کام جذباتیت سے بالا ہو کر ہونے چاہئیں.دنیا کی باتوں یا استہزاء کا خیال دل سے نکالتے ہوئے ہونے چاہئیں.ہر احمدی کی جان کی قیمت ہے، بلا وجہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے کی ضرورت نہیں.مجھے پتہ ہے بہت سوں کو اس سے شدید جذباتی تکلیف پہنچے گی.لیکن ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل فرماتا ہے.اگر ہم کسی غلط فیصلے کا اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے سوچ بھی رہے ہوں تو حالات و واقعات کو اللہ تعالی اس نہج پر لے آتا ہے جس سے ہمیں صحیح سوچوں اور صحیح فیصلوں کی طرف راہنمائی ملتی ہے.میں نے ابتلاؤں اور مشکلات سے بچنے کے لئے دعا کا ذکر کیا تھا اس کے لئے بہت سی مسنون دعائیں بھی ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی دعائیں سکھائی ہیں.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کی دعائیں بھی ہیں.تو اس وقت میں آنحضرت ﷺ کی ایک دعا سامنے رکھتا ہوں جس کو میں پہلے بعض حوالوں سے بیان کر چکا ہوں اور وہ دعا یہ ہے اَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِيْمِ الَّذِى لَيْسَ شَيْء أَعْظَمُ مِنْهُ وَبِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ وَبَأَسْمَاءِ اللهِ الْحُسْنَى كُلِهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَ مَا لَمْ أَعْلَمْ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ ذَرَأَ وَبَرَا.(موطا امام مالک کتاب الشعر باب ما یومر به من التعوذ حدیث نمبر 1775) کہ میں اپنے عظیم شان والے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ جس سے عظیم تر کوئی شے نہیں اور کامل اور مکمل کلمات کی پناہ میں بھی کہ جن سے کوئی نیک و بد تجاوز نہیں کر سکتا اور اللہ کی تمام صفات حسنہ جو مجھے معلوم ہیں یا نہیں معلوم ان سب کی پناہ طلب کرتا ہوں اس مخلوق کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا اور پھیلایا.اس میں تمام زمینی و آسمانی شرور سے بچنے اور خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعا ہے.آنحضرت ﷺ کی تو ہر دعا ہی بہت جامع ہے، اور برکتیں سمیٹنے والی ہے.لیکن جن چند مسنون دعاؤں کو روزانہ میں سامنے رکھتا ہوں ان میں سے ایک یہ بھی ہے، اس لئے ذہن میں آگئی.تو اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول فرمائے اور ہر احمدی کو ہر شر سے بچائے.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مثلاً ایک دعا جو حضرت موسیٰ کی ہے رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ (القصص:25) کہ اے میرے رب ! میں تیری ہر چیز ، ہر خیر جو تو مجھے دے میں اس کا محتاج ہوں.یہ دعامانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ہمیں خیر ہی خیر ملتی رہے.

Page 518

خطبات مسرور جلد ششم 498 خطبہ جمعہ فرموده 5 دسمبر 2008 پس یہ دعائیں ہیں جو ہر وقت انسان کو اپنے خدا سے مانگنی چاہئیں.ہمیشہ وہ اپنی خیر اور فضل سے ہمیں نواز تا رہے.ہر برائی اور شر سے ہمیں بچائے.ہماری خواہشات کو ہمیشہ صحیح سمتوں پر رکھے.اگر کبھی کسی غلط اجتہاد کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے پیغام کونہ سمجھ سکیں تواللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے اس کے بداثرات سے ہمیں محفوظ رکھے.کبھی ہم ایسے نہ بنیں جو حکمت سے عاری ہوتے ہوئے اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور منشاء کے الٹ چلانے والے ہوں.حکمت سے کئے ہوئے فیصلے بھی اللہ تعالیٰ کی خیر میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہیں اور یہ بھی خیر ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی دعا سکھائی ہے کہ رَبِّ هَبْ لِى حُكْمًا وَّالْحِقْنِي بِالصَّلِحِيْنَ (الشعراء: 84) کہ اے میرے رب مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر.حکمت کے بہت وسیع معنی ہیں.ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کوئی پیغام ملے تو اسے انسان سمجھنے کی کوشش کرے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی ذات کی ہمیں حقیقی پہچان کروائی ہے اور ہر کام کے لئے اس کے آگے جھکنے اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی تلقین فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس پر قائم رکھے.ہمارے سب فیصلے حکمت والے ہوں.اللہ تعالیٰ کی منشاء کو سمجھنے والے ہوں اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے.مومن کی فراست ہی یہی ہے کہ ہر پہلو پر غور کرے.مومن کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے.یقینا مومن نڈر ہوتا ہے.لیکن یہ ضرور غور کرنا چاہئے کہ کس بات میں فائدہ ہے یازیادہ فائدہ ہے اور کس بات میں زیادہ نقصان ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم کسی قربانی سے نہیں ڈرتے لیکن اگر کسی جگہ ایسے شر نظر آتے ہوں جن سے بچنا مومن کے اور جماعت کے مفاد میں ہو تو اس سے بچنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض خوابوں کے ذریعہ ایسے اشارے بھی ملے تھے یا کچھ اور اندازے تھے جس سے لگتا تھا کہ وسیع پیمانہ پر یہ جلسہ نہ ہو سکے گا.بہر حال اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمارے اس فیصلے کے بہتر نتائج نکالے اور بے انتہا برکت ڈالے اور ہمارا ہر کام جماعت کے مفاد میں ہو.افراد جماعت جو جلسہ پر آنا چاہتے تھے ان کو نہ آنے سے جو جذباتی تکلیف ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ان کا ایسا مداوا کرے کہ ان کی توجہ مزید اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے.ہر احمدی کو ایمان اور ایقان میں بڑھائے.ان کی توجہ دعاؤں کی طرف پہلے سے بڑھ کر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یقیناً خدا رحیم ، کریم اور حلیم ہے اور دعا کرنے والے کو ضائع نہیں کرتا“.پس ہمیشہ ہمیں ہر تکلیف کے بعد پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنے والا بننا چاہئے.انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ بہتر حالات میں ہمیں جلسہ میں شمولیت کی توفیق دے گا.قادیان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں اور یہاں کے بسنے والے تمام احمدیوں کے لئے بھی.دنیا میں بسنے والے احمدی ان کو دعاؤں میں یاد

Page 519

خطبات مسرور جلد ششم 499 خطبه جمعه فرموده 5 دسمبر 2008 رکھیں اور یہاں اس ملک ہندوستان میں رہنے والے احمدی بھی اپنے لئے بھی دعائیں کریں اور یہاں کے بسنے والوں کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر علم سے محفوظ رکھے.دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانے.انسان، انسان کا حق ادا کرنے والا بنے.مذہب کے نام پر یاذاتی مفادات کی خاطر جو ظلم ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو جو اس میں ملوث ہیں اپنی پکڑ میں لے اور ان کو عبرت کا نمونہ بنائے.پاکستان کے احمدی بھی بعض لحاظ سے محرومی کا شکار ہیں یا محرومی سے گزررہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی محرومیاں بھی دور فرمائے.ہر ایک کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور اللہ تعالیٰ دنیا میں ہر شخص کو اور اپنی ہر مخلوق کو جو انسانیت کے نام پر انسان ہونے کا دعوی کرتے ہیں حقیقی انسانیت پر قائم کر دے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا: ابھی نمازوں کے بعد میں ایک نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکر مہ امتہ الرحمن صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد احمد صاحب در ولیش مرحوم کا ہے.3 دسمبر 2008ء کو قادیان میں وفات پا گئی تھیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ - مرحومه موصیہ تھیں اور 91 سال کی عمر پائی اور درویشی کا زمانہ اپنے میاں کے ساتھ انتہائی صبر اور شکر کے ساتھ گزارا.بڑی نیک خاتون تھیں.کئی خوبیوں کی مالک تھیں.نمازوں کی پابندی، چندوں میں با قاعدگی ، با وجود کم وسائل کے غریبوں کی مدد کرنے والی اور پھر جب حالات اچھے ہوئے تب بھی غریبوں کی مدد کرنے والی مخلص خاتون تھیں.ایک لمبے عرصے تک بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق بھی پائی.مرحومہ کے ایک بیٹے کینیڈا میں مکرم بشیر احمد صاحب ناصر فوٹو گرافر ہیں جو یہاں آئے ہوئے تھے.میرے ساتھ پھر رہے تھے ابھی.واپس چلے گئے ہیں.ان کے علاوہ اور بچے بھی ہیں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 15 شماره 52 مورخہ 26 دسمبر 2008 تا کیم جنوری 2009 صفحہ 5 تا صفحه 7)

Page 520

خطبات مسرور جلد ششم 500 (50) خطبہ جمعہ فرموده 12 دسمبر 2008 فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2008ء بمطابق 12 فتح 1387 ہجری تشی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ دو جمعے تو میں نے ہندوستان میں پڑھائے تھے.ایک کالیکٹ میں جو جنوبی ہندوستان کے صوبہ کیرالہ کا ایک شہر ہے اور دوسرا دہلی میں اور پھر جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعض حالات کی وجہ سے میں اپنا دورہ مختصر کر کے واپس آ گیا.عموما میں اپنے دورے سے واپسی پر دورے کے مختصر حالات بیان کیا کرتا ہوں.ان حالات کو سننے کے لئے دنیا میں بیٹھے ہوئے احمدیوں کو بھی عادت ہو گئی ہے.ان کی خواہش ہوتی ہے اور جن جگہوں کا دورہ کیا جاتا ہے انہیں بھی یہ سننے کا شوق ہوتا ہے کہ ہمارے بارہ میں کچھ بیان کیا جائے.گو کہ میں نے کیرالہ کے دورہ کے دوران ہی بلکہ کالی کٹ کے خطبہ میں ہی اس علاقہ کی اہمیت، اس علاقہ میں مذہب کی تاریخ کے حوالہ سے مختصر باتیں کر دی تھیں اور اُن لوگوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلا دی تھی.ان کے اخلاص و وفا کا بھی ذکر کر دیا تھا.لیکن اپنے دورہ کے حوالے سے مزید کچھ باتیں اختصار کے ساتھ بیان کروں گا.کیرالہ جانے سے پہلے ہی راستے میں ہم چنائی (Chenai) جو پہلے مدراس (Madras) کہلاتا تھا وہاں ڑکے تھے.گو کہ قیام چند گھنٹوں کا تھا لیکن وہاں لجنہ کا بھی اچھا پروگرام ہو گیا جس میں مختصراً ان کی ذمہ داریوں کی طرف ان کو توجہ دلا دی اور ہماری ایک نئی مسجد جو ماؤنٹ تھومس Mount Thomas) میں بنی ہے، اس کا بھی افتتاح کیا.چنائی کی جماعت اتنی چھوٹی بھی نہیں ، چند سو نفوس پر مشتمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بہت بڑھی ہوئی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اس نے جماعتوں میں وحدت اور خلافت سے ایک تعلق کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے.یہ علاقہ جو قادیان سے تقریباً 2 ہزار میل کے فاصلے پر ہے.بہت سے ایسے احمدی لوگ ہیں جو کبھی قادیان بھی نہیں گئے ہوں گے ، اُن سب کی نظر میں خلافت کے لئے وفا ہے.ان کا ایک ڈسپلن ، ایک جماعتی وقار کا اظہار اور جماعت سے تعلق بہت زیادہ نظر آتا تھا.اس کی ایک وجہ تو بڑوں کی تربیت ہے.کیونکہ اس علاقہ میں بھی بہت سے بزرگ گزرے ہیں.دوسرے ایم ٹی اے کا بھی کردار ہے جیسا کہ میں نے کہا نظمیں ہیں.نظمیں پڑھنے کا انداز ہے.دنیا میں اب ہر جگہ تقریباً ایک جیسا ہو گیا ہے، چاہے وہ افریقہ ہے یا ایشیا ہے یا یورپ ہے.یہ تعلق اور وحدت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں روز بروز بڑھتا

Page 521

خطبات مسرور جلد ششم 501 خطبہ جمعہ فرمود ه 12 دسمبر 2008 چلا جارہا ہے.میں نے یہاں بڑوں کی تربیت کا ذکر کیا تھا، اس ضمن میں یہ بتا دوں کہ چنائی شہر میں یا اس علاقہ میں احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں پہنچی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے 16 صحابہ کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے.اُن کی اولادیں اور اُن کی نسلیں ہیں جواب احمدیت پر قائم ہیں.پھر نئے احمدی بھی ہیں.ماؤنٹ تھومس میں میں نے مسجد کا ذکر کیا ہے تو اس جگہ مذہب کی بھی مختصر تاریخ بتا دوں.یہاں کی عیسائیت کی تاریخ کے مطابق تھو ما حواری جو حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری تھے، وہ 52 عیسوی میں اس علاقہ میں آئے تھے اور کیرالہ سے ہوتے ہوئے وہاں پہنچے تھے.یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جسے ماؤنٹ تھومس کہتے ہیں جہاں ایک چرچ بھی ہے.یہاں انہوں نے زندگی کے 15-16 سال گزارے اور یہیں ان کو کسی دشمن نے قتل کر دیا تھا اور وہیں وہ چرچ میں دفن ہوئے.پھر ان کی لاش بعد کے کسی زمانہ میں ویٹیکن (Vatican) لے جائی گئی.بہر حال تھو ما حواری کا یہاں آنے کا مقصد یہی لگتا ہے کہ اسرائیل کی جو گمشدہ بھیڑیں تھیں.یعنی جو ( گمشدہ) قبیلے تھے ان کی تلاش کر کے ان کو عیسائیت کا پیغام پہنچایا جائے.حضرت تھو ما حواری جو ہیں، ان کے بارہ میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی کے ساتھ صلیب کے واقعہ کے بعد سفر کیا تھا.یہ واحد تھے جن کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت عیسی کے صلیب سے زندہ بچ جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عیسائی اس بات کے خود قائل ہیں کہ بعض حواری ان دنوں میں ملک ہند میں ضرور آئے تھے اور دھو ما حواری کا مدراس میں آنا اور اب تک مدراس میں ہر سال اس کی یاد گار میں عیسائیوں کا ایک اجتماع میلہ کی طرح ہونا یہ ایسا امر ہے کہ کسی واقف کار سے پوشیدہ نہیں“.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 350-351) اس کے علاوہ ملفوظات میں بھی تھو ما حواری کے حوالہ سے آپ نے ذکر فرمایا.ایک جگہ فرمایا کہ جس طرح آنحضرت ﷺ ہجرت کے وقت صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے تھے اسی طرح حضرت عیسی بھی ہجرت کے وقت تھو ما حواری کے ساتھ نکلے تھے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ لوگوں کو زیادہ پتہ نہ لگے تا کہ احتیاط کے ساتھ سفر طے ہو اور اسی طرح سفر کرتے ہوئے پھر وہ کشمیر پہنچے تھے.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 389-390 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) کیرالہ میں یہودیت کی بھی تاریخ ہے اس کے بارہ میں بھی بتا دوں.یہاں یہودی بہت عرصہ پہلے آ کے آباد ہوئے تھے.ان کو تبلیغ کے لئے حضرت عیسی کے حواری کا آنا ضروری تھا تا کہ پیغام پہنچ جاتا اور یہ قبیلہ بھی اس پیغام سے محروم نہ رہ جاتا جو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے.

Page 522

خطبات مسرور جلد ششم 502 خطبہ جمعہ فرموده 12 دسمبر 2008 بہر حال کہنے کا یہ مقصد ہے کہ یہ شہر بڑی پرانی مذہبی تاریخ رکھتا ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح محمدی کے حواریوں کے ذریعہ، آپ کے صحابہ کے ذریعہ اس علاقہ میں جو احمدیت آئی ہے تو وہ بھی اللہ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.اگلی نسلیں بھی ایمان اور اخلاص میں ترقی کر رہی ہیں.جماعت کو اس سال عین اس علاقہ میں مسجد بنانے کی بھی توفیق ملی ہے جہاں مسیح موسوی کے حواری نے اپنی جگہ بنائی تھی اور جیسا کہ میں نے کہا پھر یہاں عیسائیت پھیلی اور یہاں کا بہت بڑا چرچ ہے.اللہ تعالیٰ اب احمدیوں کو توفیق دے رہا ہے کہ اس مسجد کی برکت سے پہلے سے بڑھ کر مسیح محمدی کے پیغام کو اس علاقہ میں پھیلائیں.اللہ کرے کہ ان کو اس کی توفیق ملتی چلی جائے.کیونکہ اب ان لوگوں کی نجات اس باطل عقیدے کو چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آنے میں ہے اور خدائے واحد کے آگے جھکنے میں ہے، بجائے اس کے کہ بندے کو خدا بنایا جائے.تو بہر حال یہ ہے چنائی کی مختصر تاریخ.یہاں سے جیسا کہ میں نے بتایا اگلا سفر کیرالہ کے شہر کالی کٹ کا تھا.یہ وہ شہر ہے جہاں حضرت تھوما سب سے پہلے آئے تھے کیونکہ یہاں یہودیوں کی کافی بڑی تعداد آباد تھی اور یہ لوگ مالا باری یہودی کہلاتے تھے.ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانہ سے تجارتی قافلے یہاں آیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ پھر یہودیت بھی یہاں آئی ہو گی.بہر حال تھو ما حواری جب یہاں آئے تو یہیں انہوں نے اپنا زندگی کا اکثر وقت گزارا اور یہودیوں کو عیسائیت کا پیغام پہنچاتے رہے.اکثریت نے پیغام کو قبول کیا.جو لوگ حضرت تھوما کے ذریعہ سے اس علاقہ میں عیسائی ہوتے نصرانی یا تھو مائی عیسائی کہلاتے ہیں اور بہت سارے ان میں سے ابھی بھی ہیں جو موحد ہیں.بہر حال یہ تو اس علاقے میں یہودیت اور عیسائیت کی مختصر سی تاریخ ہے.ہندو یہاں بہت بڑی اکثریت میں ہیں اور مسلمان بھی کافی تعداد میں ہیں.لیکن یہ اس علاقہ پر اللہ کا خاص فضل ہے کہ آپس میں سب مل جل کر رہتے ہیں.اگر ملک کے ایک حصہ میں مذہبی فساد ہوتا بھی ہے تو کیرالہ والوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، ان کو کوئی پتہ نہیں لگتا.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گھانا میں ایک ہمارا دوست کیرالہ کا رہنے والا تھا تو میں ایک دن دفتر میں گیا تو وہاں وہ بھی تھا.ایک گھا نین آ گیا تو گھا نین نے مجھ سے پوچھا کہ تم انڈین ہو.میں نے بتایا کہ نہیں میں پاکستانی ہوں.تو وہ پاکستانی اور انڈین میں فرق پوچھنے لگا.تو میرے سے پہلے ہی کیرالہ کا جو عیسائی انجینئر تھا وہ کہتا تھا کہ ہمارا کوئی فرق نہیں صرف سرحدوں کا جغرافیائی فرق ہے یا پھر کچھ فرق ہمارے لیڈروں نے پیدا کر دیا ہے.تو بہر حال ان لوگوں کی سوچ بڑی مثبت سوچ ہے.ان میں برداشت بھی بہت زیادہ ہے.وہ کچھ فرق رکھنا نہیں چاہتے.اس علاقہ میں جو عرب تجارتی قافلے آتے تھے ان کے ذریعہ سے اسلام بھی پہنچا ہے.ان کی تاریخ یہی بیان کرتی ہے کہ جب تجارتی قافلے یہاں آیا کرتے تھے تو ان کے ساتھ خلافت راشدہ کے دور میں حضرت مالک بن

Page 523

خطبات مسرور جلد ششم 503 خطبہ جمعہ فرمود ه 12 دسمبر 2008 دینار یہاں آگئے تھے.ان کے ساتھ بارہ عرب تاجر اور تھے.اس زمانہ میں وہاں کا جو راجہ تھا ، پارول، اس نے اسلام قبول کیا ہے.اس نے پہلے معلومات حاصل کیں اور آخر اسلام کو سچا سمجھ کے اسے قبول کیا اور پھر اسی تجارتی قافلے کے ساتھ وہ مکہ بھی گیا.یہ جو راجہ تھا وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم اور منجزات دیکھ کر مسلمان ہوا.اس علاقہ میں ایک راجہ کے مسلمان ہونے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ذکر فرمایا ہے.ناموں میں کچھ فرق ہے.ہو سکتا ہے کہ اس زمانہ کے نام اور آج کل کے ناموں میں فرق ہو.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے کہ وہاں کا راجہ مسلمان ہوا اور پھر یہاں اسلام پھیلا.بلکہ وہاں ایک احمدی خاندان ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم بھی اسی راجہ کی اولاد ہیں.اس راجہ کی کچھ نیکیاں تھیں جو اس زمانے میں مسلمان ہوا اور اس کی آئندہ نسلوں کے لئے یقیناً دعا ئیں بھی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ نے آئندہ نسل کے ایک حصہ کو احمد بیت قبول کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی.یہاں یہ بھی بتا دوں جیسا کہ میں پہلے بھی ایک خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ اس علاقہ میں لٹریسی ریٹ (Literacy Rate) تقریباً 100 فیصد ہے جبکہ باقی ملک میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور مسلمانوں میں تو نہ ہونے کے برابر ہے.لیکن اس علاقہ کے مسلمانوں میں بھی 90 فیصد سے اوپر شرح خواندگی ہے اور یہ علاقہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس خطہ کے جو تمام بڑے مذاہب ہیں انہیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور پڑھے لکھے اور روشن خیال لوگ یہاں موجود ہیں.ان میں برداشت کا مادہ بھی بہت زیادہ ہے.احمدیت کی تبلیغ کی صحیح اور مسلسل کوشش ہو تو مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے لئے یہ بڑی زرخیز زمین بن سکتی ہے.گو کہ آج کل جس طرح باقی دنیا میں بعض مسلمان تنظیموں نے نفرتیں پھیلانے اور شدت پسندی کے رویے اپنائے ہوئے ہیں اسی طرح یہاں بھی کوششیں ہو رہی ہیں.کیونکہ بعض ایسے گروہ یہاں ملے ہیں لیکن عمومی طور پر لوگ اس بات کے خلاف ہیں اور اس چیز کو ختم بھی کرنا چاہتے ہیں.عین ممکن تھا کہ میرے جانے پر لوگ غلط اور منفی رد عمل ظاہر کرتے لیکن مجھے بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ایک دو مہینے پہلے ہی ایک ایسے گروہ کی نشاندہی ہوئی جوفتنہ پیدا کرنا چاہتے تھے یا دہشت گردوں میں شمار ہوتے تھے اور حکومت نے انہیں پکڑ کے بند کیا ہوا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ہمارے دورہ کے دوران کسی ایک طرف سے بھی مخالفانہ آواز نہیں اٹھی.بلکہ وہاں کے ایک احمدی جرنلسٹ نے مجھے لکھا کہ مخالف مسلمان تنظیمیں یا فرقے جو ہیں، وہ ہمارے مخالف تو ہیں ہی لیکن ان کے اخباروں نے بھی انتہائی شریفانہ رنگ میں میرے وہاں جانے کی خبر دی.ہمارے جماعتی پروگرام بھی بھر پور طریقے سے ہوتے رہے.ایک احمدی دوست جس کے گھر میں میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں سے مسجد کا فاصلہ تقریباً 20 منٹ کے فاصلہ پر تھا اور ہماری مسجد بھی عین شہر کے وسط میں ہے.ہماری وہاں جو ریسیپشن ہوئی جس میں مہمان آئے ہوئے تھے ان میں ایک بڑے سیاسی لیڈر تھے جو مجھے کہنے لگے کہ آپ لوگوں کی مسجد تو شہر کے دل میں ہے.

Page 524

خطبات مسرور جلد ششم 504 خطبه جمعه فرمود ه 12 دسمبر 2008 بڑی مرکزی جگہ پر ہے.اس شہر کے دل میں جو ہماری مسجد ہے تو انشاء اللہ تعالی اسی طرح یہاں سے محبت کا پیغام پھیلے گا اور اسی نے انشاء اللہ تعالیٰ دلوں کو فتح کرنا ہے.صوبائی حکومت نے بھی وہاں کافی تعاون کیا.ایک احمدی پولیس افسر دے دیا جو اپنی ٹیم کے ساتھ آئے ہوئے تھے لیکن عموماً لوگوں کا اپنا تعاون بھی بڑا اچھا تھا.روزانہ کم از کم دو دفعہ مسجد میں جانے کے باوجود یہ نہیں تھا کہ لوگ تنگ آئے ہوں یا ان کو ایک طرف رو کا جاتا ہو.بعض دفعہ ٹریفک خود بخود رک جاتی تھی اور خود شوق سے راستہ دے دیتے.تھے.اسی لئے میں نے کہا کہ اس زمین سے صحیح رنگ میں احمدیوں کو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.کالیکٹ (Kalicut) میں کالیکٹ اور اردگرد کے احمدیوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں.اس علاقے کے جتنے بھی احمدی آئے تھے جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اللہ کے فضل سے سب سے ملاقاتوں کی توفیق ملی.ان ملاقاتوں کے دوران جو تعلق اور وفا کا اظہار سب مردوزن اور بچوں نے کیا وہ بھی حیرت انگیز تھا.جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں، یہ لوگ اخلاص و وفا میں بہت بڑھے ہوئے ہیں.کئی ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ چند سال پہلے ہی بیعت کی اور جماعت میں شامل ہوئے لیکن اخلاص و وفا میں بہت بڑھ گئے ہیں.اس طرح جماعتی نظام میں سموئے گئے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ نئے احمدی ہیں یا پرانے احمدی ہیں.خدمات میں پیش پیش ہیں.کئی ہیں جن کے پاس اہم جماعتی عہدے ہیں اور بڑے احسن طریق سے خدمات بجالا رہے ہیں.جماعتی نظام کو سمجھنے کے لئے اور اپنے معیار بہتر کرنے کے لئے وہ بار بار سوال کرتے رہے.اپنے علم میں اضافہ کی کوشش کرتے رہے تا کہ جماعتی کاموں کو صحیح طرز پر اور صحیح نہج پر چلا سکیں.تو اس قسم کے نئے احمدی ہیں جو ہر جگہ ہونے چاہئیں.صرف بیعتیں کروانے کا کوئی فائدہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا تھا کہ مجھے تعداد بڑھانے سے غرض نہیں ہے، تقویٰ میں بڑھنے والے ہونے چاہئیں.تو باقی دنیا سے بھی میں یہ کہتا ہوں اور اسی طرح ہندوستان کے دوسرے علاقہ کی جماعتوں کو بھی کہ بیعت ایسی ہو جو ایسا پکا ہوا پھل ہو جو جماعتی زندگی کے لئے مفید ہو.جو صحت بخشنے والا ہو.جس کے بیج سے پھر ایسے پودے نکلیں جو ہر لحاظ سے ثمر آور ہوں.پس جب میں جماعتوں کو کہتا ہوں کہ گمشدہ بیعتوں کو تلاش کرو تو اس کے ساتھ اس میں یہ بھی پیغام ہے کہ ایسی بیعتیں نہ لاؤ جو تربیت کی کمی کی وجہ سے غائب ہو جائیں.جن کے صرف اپنے مفاد ہوں.اگر اُن کی مثال پرندوں کی ہے تو ایسے پرندے ہوں جن کی مثال قرآن کریم نے اس طرح دی ہے کہ فَصُرْهُنَّ اِلَيْكَ یعنی ان کو اپنے ساتھ ایسا سدھا لے کہ ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِيْنَكَ سَعْيا (البقرة: 261) پھر انہیں اپنی طرف بلاوہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے.پس ایسے احمدی چاہئیں جو اپنے آپ کو جماعت کے کام کے لئے بغیر عذر پیش کریں.جو جماعت میں داخل ہوتے ہی اس نظام میں سموئے جائیں اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دعوت الی اللہ

Page 525

خطبات مسرور جلد ششم 505 خطبه جمعه فرموده 12 دسمبر 2008 کرنے والے تبلیغ کرنے والے خود بھی اپنے نفس کی خواہشات سے آزاد ہو کر تبلیغ نہیں کرتے.جب تک خود بھی اس مثال پر قائم نہ ہوں کہ اَصْلُهَا ثَابِتْ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم : 25) کہ جن کی ایمان کی جڑیں مضبوط ہیں اور جن کی شاخیں آسمان کی طرف جارہی ہیں.جنہیں دنیا کا کوئی خوف نہیں ہے.جن کے کام دکھانے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہیں.اگر اس طرح اور ایسے داعیان نے کوشش کی ہوتی یا اس طرح کے داعیان ہوں تو تبھی نئے شامل ہونے والے بھی جماعتی نظام میں صحیح طرح پروئے جاتے ہیں اور جماعتی نظام نئے آنے والوں کو حقیقی رنگ میں سنبھالتا ہے اور پھر آگے ان سے کام لیتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو پھر وہی صورتحال ہے جس کا میں کئی دفعہ ذکر چکا ہوں کہ بعض بیعتوں کا پتہ ہی نہیں لگتا.بہر حال یہ ذکر میں نے ضمنا کر دیا.اس مضمون پر کسی اور وقت بات کروں گا.یہ مثال مجھے جنوبی ہندوستان میں نظر آئی کہ یہ لوگ نئے شامل ہو کر بھی قربانیوں میں شامل ہونے والے ہیں اور مثالی رنگ میں شامل ہونے والے ہیں.قربانیوں میں مالی قربانیاں بھی شامل ہیں.اس مسجد میں جس کا میں نے ذکر کیا کہ عین شہر کے دل میں ہے اور یہ بڑی قیمتی جگہ ہے اس کے ساتھ ایک بہت بڑا پلاٹ کئی کروڑ کا فروخت ہو رہا تھا تو وہاں کی جماعت نے پہلے مرکز سے درخواست کی.میں نے کہا نہیں اپنے وسائل سے خریدیں.ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ میرے جانے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں جوش اور جرات پیدا ہوئی اور پختہ ارادہ بھی کر لیا اور کافی رقم جمع بھی ہو گئی.پہلے تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے لئے مشکل ہوگا خرید نا لیکن اب انہوں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ ہم خریدیں گے اور اپنے وسائل سے خریدیں گے بلکہ ایک احمدی جن کا اس پلاٹ میں بہت بڑا حصہ ہے انہوں نے کہا کہ میں اس کی قیمت ہی نہیں لوں گا.اسی طرح اور وں نے بھی مالی قربانی کا وعدہ کیا ہے.یہ وہیں کھڑے کھڑے جب میں اس پلاٹ کی قیمت کی باتیں ان سے کر رہا تھا، وہاں کی جماعت کے جو مخیر حضرات ہیں انہوں نے خریدنے کا وعدہ کر لیا.تو قربانی کے لحاظ سے بھی یہ لوگ بہت بڑھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نئے احمدیوں کو بھی اور پرانے احمدیوں کو بھی توفیق دے کہ وہ حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے والے بھی ہوں اور اس خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور حقیقی قربانی کی روح کو سمجھنے والے بھی ہوں.کالیکٹ میں لجنہ کا ایک چھوٹا سا اجتماع بھی ہو گیا.کم از کم 4 ہزار کے قریب ناصرات اور خواتین تھیں.UK اجتماع سے تو زیادہ تعداد لگ رہی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بہت اچھا اثر ہوا.ہر عورت اور ہر بچی کے چہرے پر کام کرنے کا ایک نیا عزم اور ایک نیا ولولہ تھا.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جس طرح انہوں نے اظہار کیا ہے وہ اپنے پروگراموں میں کئی گنا ترقی کریں گی.ویسے بھی کیرالہ کی لجنہ بھارت کی صف اول کی بجنات کی تنظیم میں ہے.لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ لوگ چھلانگیں مارتے ہوئے آگے بڑھیں گے.ہندوستان کی باقی لجنہ

Page 526

خطبات مسرور جلد ششم 506 خطبه جمعه فرمود ه 12 دسمبر 2008 کی مجالس بھی میری باتیں سن رہی ہوں گی.اللہ کرے انہیں بھی یہ باتیں سن کر جوش پیدا ہو اور مسابقت کی روح پیدا ہو.جمعہ کا خطبہ تو اکثر نے سن ہی لیا ہے.وہاں سے پہلی دفعہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے یہ خطبہ نشر ہوا.اس جمعہ پر ارد گرد کے احمدی جو تھے ہزاروں کی تعداد میں سارے آئے ہوئے تھے.وہاں ایک ہوٹل میں جماعت نے ایک ریسیپشن کا انتظام بھی کیا ہوا تھا.وہاں کافی تعداد میں سرکاری افسران اور پڑھے لکھے لوگ آئے ہوئے تھے.شہر کے میئر بھی آئے ہوئے تھے.انہوں نے جماعت سے متعلق اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے متعلق بڑے اچھے انداز میں اظہار کیا.کچھ تو خیر رسمی اظہار کرتے ہی ہیں لیکن اس کے بعد جب بعض مجھ سے ملے ہیں تو وہ خاص طور پر اس شدت سے باتوں کا اظہار کر رہے تھے کہ لگ رہا تھا کہ دل سے ان کو باتیں پسند آئی ہیں.اس کو اخباروں نے بھی اپنی خبروں میں بڑی اچھی طرح شائع کیا.ایسے فنکشن کا اس بات کے علاوہ کہ بڑے پڑھے لکھے طبقے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم صحیح رنگ میں پہنچ جاتی ہے، یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اخبار اچھی کوریج دے کر بہت وسیع طبقے تک اسلام کی خوبصورت تعلیم جماعت احمدیہ کے حوالے سے پہنچا دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد اور بعثت کا بھی دنیا کو علم ہو جاتا ہے.کالیکٹ میں ملیالم زبان کے سب سے بڑے اخبار ماتر و بھومی کے چیف ایڈیٹر گوپال کرشنن، ہندو تھے، انہوں نے میرا انٹرو یولیا اور اپنے اخبار میں شائع بھی کیا.اس اخبار کے پڑھنے والوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے.مختلف سوال مذہب کے حوالے سے بھی اور دنیا کے حوالے سے بھی کرتے رہے اور بہر حال اچھا اثر لے کر گئے.یہ لوگ آزاد خیال تو بے شک بنتے ہیں لیکن اچھی چیز کو صرف اپنے تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ہمارے میں اچھائیاں ہیں.یہ بڑے پڑھے لکھے ہیں.قرآن کا بھی انہوں نے ترجمہ پڑھا ہوا ہے اور آنحضرت مہ کے اُسوہ کے متعلق بھی ہمارے ایک کالم لکھنے والے ہیں جو ان کے ساتھ اخبار میں کالم لکھتے ہیں اور یہ اس کو پڑھتے بھی ہیں.لیکن میری ساری باتیں سننے کے بعد باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ تعریف کر رہے ہوں.جب ہماری باتیں ختم ہوئیں تو آخر پر مجھے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہنے لگے کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ گاندھی جی سے بہت متاثر ہیں.تو میں نے انہیں فوراً جواب دیا کہ میں بالکل گاندھی جی سے متاثر نہیں ہوں ، میں تو قرآن کریم کی تعلیم سے متاثر ہوں ، اس تعلیم سے جو آنحضرت ﷺ پر اتری ہے اور اس کی روشنی میں میں نے آپ سے ساری باتیں کی ہیں.تو بعض لوگوں کو ہر اچھی بات کا کریڈٹ اپنے پر لینے کی عادت ہوتی ہے.بہر حال اچھے خوشگوار ماحول میں ان سے باتیں ہوئیں اور یہ ان کی شرافت ہے کہ ساری باتیں انہوں نے لکھ بھی دیں.پھر کالیکٹ سے دوسرے شہر کو چین (Cochine) گئے.یہاں بھی اچھی جماعت ہے.ارد گرد کی چھوٹی جماعتیں بھی وہاں جمع ہو گئی تھیں.انہوں نے یہاں نئی مسجد بنائی ہے.اس کا بھی افتتاح تھا اور اسی طرح تین چار اور

Page 527

507 خطبہ جمعہ فرموده 12 دسمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم قریب کی مساجد بھی ہیں.وہاں تو نہیں جا سکے لیکن وہ ایک جگہ اکٹھے جمع ہو گئے اور پھر وہیں مساجد کا نام لے کر ایک رسمی افتتاح ہو گیا.اس جگہ بھی شہر میں جو ہماری نئی مسجد بنی ہے ، وہ بڑے آباد علاقے میں ہے اور اردگرد ہمسائیگی میں عیسائی اور ہندو ہیں.انہوں نے بڑے کھلے دل کا مظاہرہ کیا.جب یہ پتہ چلا کہ میں مسجد کے افتتاح کے لئے آؤں گا تو ان لوگوں نے بھی اپنے گھروں کی چار دیواری پر اندر باہر رنگ و روغن کیا تا کہ علاقہ صاف ستھرا لگے.جیسا کہ میں نے کہا یہ شہر کے اندر ہے لیکن یہاں بھی انتظامات اچھے تھے اور لوگوں کا تعاون بڑا اچھا تھا کہ کوئی آنے جانے میں دقت نہیں ہوئی.میں نے ذکر کیا ہے کہ چار اور مساجد بنائی تھیں لیکن وہاں جا نہیں سکا جب لوگوں کو مجبوریاں بتائیں تو باوجود خواہش کے انہوں نے اس کو سمجھا اور بڑی شرح صدر کے ساتھ بغیر کسی انقباض کے فورا لتسلیم کر لیا.گو کچھ دیر کے لئے ان لوگوں کے چہرے ذرا مرجھا گئے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے یہی کہا کہ جو آپ کا فیصلہ ہےاسی میں برکت ہے.یہاں بھی بڑے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں.کوچین اچھا بڑا شہر ہے.کو چین میں بھی ایک نیشنل اخبار، The Hindu ہے ، اس کے چیف رپورٹر نے بھی انٹرویو لیا.یہ اخبار ان کے مطابق ہندوستان کے تمام بڑے شہروں سے بیک وقت شائع ہوتا ہے اور اس کی سرکولیشن بھی کروڑوں میں ہے.پھر انڈین ایکسپریس ہے.یہ بھی تمام بڑے شہروں سے شائع ہوتا ہے.اس کی سرکولیشن بھی کروڑوں میں ہے.اس کے بھی سینئر نمائندے نے خواہش کا اظہار کر کے انٹر ویولیا تو ان سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے اور احمدیت کے حوالے سے احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں فرق اور مختلف موضوعات پر اور اسلام کی امن کی تعلیم پر گفتگو ہوئی.وہ آئے تو چند منٹ کے انٹرویو کے لئے تھے لیکن تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک یہ اخباری نمائندے باتیں کرتے رہے اور سوال پوچھتے رہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ذریعہ سے بھی اس علاقہ میں احمدیت کا تعارف بڑے وسیع طبقہ میں ہو گیا ہے.ریسیپشن پر دونوں جگہ بعض MPS بھی تھے اور دوسرا پڑھا لکھا طبقہ بھی تھا.پروفیسر بھی تھے انجینئر بھی تھے.جیسا کہ میں نے کہا یہاں بھی ریسیپشن تھی.یہاں کے ایک ایم پی مہمان خصوصی تھے.مجھ سے اکثر نے یہی اظہار کیا کہ جس طرح تم لوگ اسلام کی تعلیم بیان کرتے ہو تم لوگوں سے ہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ دنیا میں امن قائم کر سکو.بلکہ وہاں ایک ریسرچ سکالر ہیں، انہوں نے اپنی تجاویز بھی لکھ کے دی تھیں.بہر حال ان کا تو اپنا ایک انداز ہے لیکن خلاصہ یہی تھا کہ دنیا میں نیکی قائم کرنے کے لئے تم لوگ ہی ہو جو کچھ کر سکتے ہو.عمومی طور پر بہر حال بڑا اچھا اور باشمر دورہ تھا.احمدیوں کو تربیتی لحاظ سے بڑا فائدہ ہوا.بچوں بڑوں اور سب کا جماعت سے اخلاص کا تعلق مضبوط ہوا.اب جو خطوط کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دورے نے وہاں جماعت میں ایک نئی روح پھونکی ہے اور احمدیت اور اسلام کے سلسلہ میں تو میں بتاہی چکا ہوں کہ کس طرح کروڑوں تک پیغام پہنچا جو عام حالات میں نہیں پہنچ سکتا.تو دورے سے تبلیغ کے نئے راستے بھی کھلتے ہیں.

Page 528

508 خطبہ جمعہ فرمود ه 12 دسمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ خلیفہ وقت کا دورہ تبلیغ کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ سوچنا چاہئے.بلکہ اُس جگہ کے براہ راست حالات جان کر وہاں تبلیغی حکمت عملی اور تبلیغ کو وسعت دینے کے لئے نئے اقدامات پر غور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور بہر حال اس وجہ سے تبلیغ کے چند مواقع بھی مل جاتے ہیں.تبلیغ تو ایک مسلسل عمل ہے جو وہاں رہنے والے ہی زیادہ بہتر طور پر اور تسلسل کے ساتھ کر سکتے ہیں جس علاقے کے بھی ہوں.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جہاں جس علاقہ میں دورہ ہو رہا ہو براہ راست معلومات سے وہاں کے حالات کی واقفیت سے میں نے دیکھا ہے کہ مبلغین کو اور جماعت کو بعض نئے طریقوں کو اپنانے کی طرف توجہ دلانے کا بھی موقع مل جاتا ہے.مشورے ہو جاتے ہیں.نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دورے سے جماعتوں میں خود بھی تیزی پیدا ہو جاتی ہے جس سے وہ جماعتیں اپنے تبلیغ کے اس اہم مقصد کو مجھنے لگ جاتی ہیں اور کم از کم کچھ عرصہ ضرور پُر جوش رہتی ہیں.لیکن اگر علاقے کی واقفیت ہی نہ ہو تو جیسی بھی رپورٹیں آ رہی ہوں بعض دفعہ اسی پر یقین کرنا پڑتا ہے.بہر حال ایک بات تو یہ ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.لیکن اس کا ایک فائدہ اور بھی ہو جاتا ہے کہ میڈیا کے ذریعہ سے آج کل دورے کی اتنی کوریج ہو جاتی ہے کہ غیروں کی بھی مخالفت میں یا موافقت میں جماعت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے.پھر اس وجہ سے جماعت کے افراد اور نظام جماعت کو بھی کچھ نہ کچھ تیز ہونا پڑتا ہے گویا ان غیر لوگوں کی وجہ سے پھر سوئے ہوئے احمدیوں کو یا سست جماعتوں کو جاگنا پڑتا ہے.تو جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایسے اخباروں میں جماعت کا تعارف آ گیا ہے جس کی اشاعت کروڑوں میں ہے تو اب اس تعارف سے جماعت کو فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ انتظار نہ کریں کہ ہمیں منفی یا مثبت رو عمل ظاہر کر کے جگائیں گے یا یہ نہ کریں کہ خاموش بیٹھے رہیں کہ ٹھیک ہے کچھ عرصہ خاموش رہو.اگر کوئی ری ایکشن ظاہر ہوا بھی ہے تو خود بخود معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا.اس موقع سے وہاں کی جماعتوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے.اپنے پیغام پہنچانے کے ذریعہ تبلیغ کے ذریعہ، جو بھی رد عمل ہے اس کو یا جو بھی ایک ہلچل آپ کے اندر پیدا ہوئی ہے یا جوش پیدا ہوا ہے اس کو کبھی ٹھنڈا نہ ہونے دیں.اگر مخالفت ہوئی ہے تو شرفاء بھی ہیں جو سننے کے لئے تیار ہیں.دنیا چاہتی ہے کہ امن قائم کرنے والے لوگ، منظم طریقہ سے کام کرنے والے کوئی لوگ سامنے آئیں.پس احمدیوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے کام میں تیزی اور وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.جنوبی ہندوستان کے ان علاقوں کی تاریخ مذہب سے جڑی ہوئی ہے.انشاء اللہ اگر صحیح منصوبہ بندی کر کے تبلیغ کے کام کو تیز کریں گے تو اللہ تعالیٰ بہتر نتیجے پیدا فرمائے گا.مسیح محمدی کے ماننے والوں کا یہی کام ہے کہ اس طریق پر چلیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے.پیار محبت نرمی کے ذریعہ سے اس پیغام کو ہر شخص تک پہنچا دیں جس طرح آپ پہنچانا چاہتے تھے.

Page 529

خطبات مسرور جلد ششم 509 خطبہ جمعہ فرموده 12 دسمبر 2008 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے پیغام کولوگوں تک پہنچانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عوام الناس کے کانوں تک ایک دفعہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچادیا جاوے کیونکہ عوام الناس میں بڑا حصہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو کہ تعصب اور تکبر وغیرہ سے خالی ہوتے ہیں اور محض مولویوں کے کہنے سننے سے وہ حق سے محروم رہتے ہیں“.پھر آپ فرماتے ہیں: ”دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.عوام، متوسط درجہ کے، امراء.عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں.ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے.امراء کے لئے بھی سمجھانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں اور ان کا تکبر اور تعلی اور بھی سد راہ ہوتی ہے.ان امراء کا تکبر راستے کی روک بن جاتا ہے.اس لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کے طرز کے موافق ان سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو.قَلَّ وَ دَلَّ ، یعنی تھوڑے الفاظ میں ہو اور پوری دلیل کے ساتھ بات ہو.مگر عوام کو تبلیغ کرنے کے لئے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئے.رہے اوسط درجے کے لوگ زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتا ہے کہ ان کو تبلیغ کی جاوے.وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ تعلی اور تکبر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا“.یہ اوسط درجہ کے لوگ اس علاقے میں بہت ہیں اور یہ علاقہ ابھی تک اس لحاظ سے بھی پاک ہے کہ مسلمانوں میں مولویوں کا زیادہ خوف بھی نہیں ہے.اور عیسائی تو ویسے بھی اگر سننا چاہیں تو سن لیتے ہیں.اگر کوئی ریجڈ (Rigid) ہندو ہیں تو ان سے بچا بھی جاسکتا ہے.پاکستان میں تو جو اوسط درجہ کے لوگ ہیں وہ سننا نہیں چاہتے ، اگر سنتے ہیں تو خوفزدہ رہتے ہیں کہ مولوی کفر کا فتویٰ لگا دے گا.لیکن یہاں ابھی بعض جگہوں پر ایسے حالات نہیں ہیں.جن علاقوں میں زمین کچھ حد تک سازگار ہو اور موافق ہو وہاں اس پیغام کے ساتھ ہمیں ضرور کوشش کرنی چاہئے.کیونکہ اب یہی مسیح محمدی کے ماننے والوں کا کام ہے کہ حکمت کے ساتھ عیسائیوں کو بھی مسیح موسوی کے ماننے والوں کو بھی صحیح صحیح راستہ دکھا ئیں اور مسلمان ہونے کے دعویداروں کو بھی صحیح راستہ دکھائیں جو خدا کی طرف لے جانے والا راستہ ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اخلاص و وفا کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اُن کے کاموں میں برکت ڈالے اور حکمت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف ہر ایک کی توجہ پیدا ہو اور اس ذریعہ سے پھر ہم دنیا کو نجات دلانے والے بہنیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ نمبر 1 مورخہ 2 جنوری تا 8 جنوری 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)

Page 530

خطبات مسرور جلد ششم 510 (51) خطبہ جمعہ فرموده 19 دسمبر 2008 فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2008ء بمطابق 197 فتح 1387 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں ہزاروں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو روزانہ مختلف بیماریوں اور وباؤں کا شکار ہوتے ہیں.کسی بڑے ہسپتال میں انسان چلا جائے تو لگتا ہے کہ دنیا میں سوائے مریضوں کے کوئی ہے ہی نہیں.مغربی اور ترقیاتی ممالک میں تو علاج کی بہت سہولتیں ہیں جن سے عام آدمی فائدہ اٹھاتا ہے لیکن تیسری دنیا کے اور غریب ممالک میں اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ لاکھوں مریض ایسے ہیں جو اپنی غربت یا وسائل نہ ہونے کی وجہ سے علاج کروا ہی نہیں سکتے.اور بیماری کی حالت میں انتہائی بے چارگی میں پڑے ہوتے ہیں.بڑی کسمپرسی کی حالت ہوتی ہے.پھر ان ملکوں کے ہسپتالوں کی حالت بھی ایسی ہے کہ اگر کوئی ہسپتال میں چلا بھی جائے تو پوری سہولتیں میسر نہیں.اگر کچھ سہولتیں ہیں تو ڈاکٹر میسر نہیں ہے اور پھر اس وجہ سے علاج نہیں ہوسکتا.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں لوگ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا جس کو علاج کی سہولتیں مل جاتی ہیں ان کے لئے شفا اور صحت مقدر ہوتی ہے وہ شفایاب بھی ہو جاتے ہیں.اور بہت سی تعداد ایسی بھی ہے جو اپنی اجل مسمی کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور کوئی علاج بھی ان پر کارگر نہیں ہوتا.بہت سے ایسے ہیں جو اپنی غلطیوں کی وجہ سے بعض بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور بظاہر ان کی عمریں بھی چھوٹی ہوتی ہیں اور صحت بھی صحیح اور ٹھیک نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن ذراسی بیماری سے وہ باوجود علاج کے شفا نہیں پاتے یا کوئی ایسی بیماری ان کو لگ جاتی ہے جو ایک دم خطر ناک ہو جاتی ہے.ہر ممکن طریقہ اپنی زندگی کو بچانے کا کرتے ہیں لیکن ان کی اجل مسمی سے پہلے ہی ان کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے.دنیا میں بے شمار ایسے بھی لوگ ہیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ بعض ممالک میں علاج کی سہولتیں نہیں ہیں اور جو علاج کی سہولت نہیں رکھتے یا جس جگہ پہ علاج نہیں ہو سکتا وہاں ان کو سہولت ہی میسر نہیں یا ان کو علاج کروانے کی طاقت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ بعض کو بڑی خطر ناک بیماریوں سے شفا دے دیتا ہے اور پھر وہ لمبی زندگی گزارتے ہیں یا ایسے بھی ہیں جو ہر قسم کے علاج کے ناکام ہو جانے کے بعد اپنے کسی بزرگ کی دعا سے یا کسی دو سرے کی دعا سے یا صرف اپنی دعا سے صحت یاب ہو جاتے ہیں اور یہ ساری باتیں ایک سعید فطرت انسان کو اس بات

Page 531

خطبات مسرور جلد ششم 511 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 پر سوچنے اور توجہ دلانے پر مجبور کرتی ہیں اور ہونی چاہئیں کہ علاج سے بھی بغیر علاج کے بھی شفا پانا، اور علاج کے با وجود بھی شفانه پانا، ان سب عوامل اور ذریعوں کے پیچھے کوئی طاقت بھی کارفرما ہے.کوئی ایسی ہستی ہے جو شفا کے عمل کا اصل محرک اور وجہ ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا بعض اوقات ہر قسم کے علاج کی ناکامی کے باوجود یا علاج کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ کے آگے فریاد کرنے والوں کی بے چین دعاؤں سے ایک انسان جو بظاہر موت کے منہ میں گیا ہوا لگتا ہے واپس آجاتا ہے.اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شفا کا ذریعہ صرف علاج ہی نہیں ہے بلکہ علاج یا نہ علاج دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات شفا دینے والی ہے.اور یہی اسلام ہمیں بتاتا ہے اور اس پر ایک مومن کو کامل یقین ہونا چاہئے اور ہوتا ہے.ایک نیک فطرت انسان تو سوچنے کے مراحل پر ہوتا ہے لیکن ایک مومن جو ہے وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ حقیقی شافی خدا تعالیٰ کی ذات ہے.ہر مریض جو کسی بھی مومن کے سامنے شفا پاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت شافی پر اس کے یقین کو مزید مضبوط کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی شافی ذات صرف انسان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تمام جاندار چرند، پرند حتی کہ نباتات بھی اس کے نمونے دکھا رہے ہوتے ہیں.آج کل تو انسان ریسرچ کرتا ہے جانوروں پر بھی ریسرچ ہوتی ہے ، ان کی صحت کا بھی علاج ہو رہا ہوتا ہے.پودوں پر بھی ریسرچ ہو رہی ہے ان کا بھی علاج ہو رہا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ انسان کو طریقے بتاتا ہے کہ یہ یہ ان چیزوں کے علاج ہیں.یہ علاج کرو گے تو یہ صحت یاب ہو جائیں گے.آج کل کی دنیا میں زراعت ہی لے کو لیں بہت سارے پودوں کی بیماریوں کی وجہ پینینگتی ہے اور پھر ان کا علاج دریافت ہوتا ہے اور پھر ان علاجوں میں اللہ تعالیٰ نے اس کی بہتری بھی رکھی ہوتی ہے.اسی طرح جانوروں میں، گھر یلو اور پالتو جانوروں کے علاوہ جنگلی جانوروں میں بھی یہ ریسرچ ہو رہی ہے.لیکن انسان جو اشرف المخلوقات ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے جسمانی شفا کے ساتھ ساتھ روحانی شفا کا بھی انتظام کیا ہوا ہے اور روحانیت کی ترقی اور اپنے قریب کرنے اور روحانی بیماریوں کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کو دنیا میں بھیجتا ہے.اگر انسان اپنی عقل کا صحیح استعمال کرے تو اس بات پر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا چلا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کی روحانی اور جسمانی شفا کے لئے سامان پیدا فرمائے ہیں.اس وقت میں جسمانی بیماریوں سے متعلق ہی بات کروں گا کہ کس کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے شفا کا انتظام فرمایا ہوا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اپنی دوسری مخلوق کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو مقرر کیا ہے کہ ان کے بھی علاج کرو اور اس طرح جانوروں کی بیماریوں میں جیسا کہ میں نے کہا انسانوں کے ساتھ ساتھ بہت ریسرچ ہوتی ہے.انسانوں کی بیماریوں پر جو تحقیق ہے اور ان کے علاج کی جو کوشش ہے اس کی تو حد اور انتہا نہیں ہے.بڑے ملکوں میں بعض دفعہ بہت بڑی رقمیں صحت کے او پر خرچ ہوتی ہیں.آج کل جونئی نئی دوائیوں کی ایجادات

Page 532

512 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم ہیں اور مختلف آپریشنوں اور مختلف پروسیجرز (Procedures) کی جونئی نئی تحقیق ہے، جن کے ذریعہ سے آج کل جو انسان علاج کرواتا ہے صحت یاب ہوتا ہے.یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ہے اس کو وہ استعمال میں لا یا اور یہ علاج پیدا ہوئے.آج ترقی یافتہ دنیا میں بیماریوں کے علاج کی شرح بہت بہتر ہو گئی ہے.چند دہائیاں پہلے بعض علاج ایسے ہیں جو سوچے بھی نہیں جا سکتے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے آج بھی انسان کو یہ بتانے کے لئے کہ شانی تم نہیں بلکہ میں ہوں ، ایسے کیس جن پر بعض اوقات ڈاکٹروں کو 100 فیصد یقین ہوتا ہے کہ بچ جائیں گے اللہ تعالیٰ انہیں شفاء نہیں دیتا.پس ایک مومن کی نظر ہمیشہ کی طرح اپنی بیماریوں میں بھی بجائے ڈاکٹروں کے اپنے شافی خدا پر ہونی چاہئے.آنحضرت ﷺ نے ایک ایسے ہی بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے کو جو اپنے آپ کو بڑا معالج سمجھتا تھا.فرمایا کہ اصل طبیب تو اللہ تعالیٰ ہے.ہاں تو ایک ہمدردی کرنے والا شخص ہے.اس بیماری کا اصل طبیب وہ ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے.جو بھی چیز پیدا ہوتی ہے اس کی طرف سے ہے یا انسان کی غلطیوں کے جو منطقی نتیجے نکلتے ہیں پھر قانون قدرت کے تحت انسان کو ان کے نتیجے بھگتنے پڑتے ہیں.اس زمانہ میں بھی اپنے آقا و مطاع کی حقیقی پیروی کرنے والے اور غلام صادق سے بھی ایک دفعہ اسی طرح کا واقعہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس شخص کو جو اپنے آپ کو بڑا ماہر طبیب سمجھتا تھا اور جس کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر جو یقین تھا اس کا خانہ خالی لگتا تھا.آپ نے ایسے علاج کرنے والے کو بڑا نا پسند فرمایا اور اس سے علاج کروانے سے انکار کر دیا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کو دوران سرکا عارضہ تھا.ایک طبیب کے متعلق سنا گیا کہ وہ اس میں خاص ملکہ رکھتا ہے.اسے کرایہ بھیج کر کہیں ڈور سے بلوایا گیا.اس نے حضور کو دیکھا اور کہا کہ دو دن میں آپ کو آرام کر دوں گا.یہ سن کر حضرت صاحب اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے علاج میں ہرگز نہیں کرانا چاہتا.یہ کیا خدائی کا دعوی کرتا ہے؟ اس کو واپس کرایہ کے روپے اور مزید 25 رو پنے بھیج دیئے کہ یہ دے کر اس کو رخصت کر دیں.چنانچہ اسے واپس بھجوادیا گیا.مشینیں (ماخوذ اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 145 - مطبوعہ ربوہ ) تو یہ ہے اللہ والوں کا طریقہ کہ بیماری کی صورت میں بھی کامل یقین اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے نہ کسی معالج پر ، نہ کسی دوائی پر.پس اس زمانے میں جب کہ نئی نئی ایجادات ہو گئی ہیں.ایسی لائف سپورٹ (Life Support) بن گئی ہیں جن سے کافی لمبا عرصہ زندہ رکھا جا سکتا ہے، یا زندگی کو دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے.جراحی کے بھی نئے نئے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں.لوگوں کی عمریں بھی بہت بڑھ گئی ہیں.ہمارے لئے آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلام صادق اور زمانے کے امام کا یہ ارشاد اور یہ اسوہ ہے.

Page 533

خطبات مسرور جلد ششم 513 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 آج سے چند سال پہلے جیسا کہ میں نے کہا جو بیماری ناقابل علاج سمجھی جاتی تھی آج اس کے علاج کو معمولی سمجھا جاتا ہے.اس ترقی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ انسان اب خدا نخواستہ اللہ تعالیٰ کی حکومت میں یا اس کی صفات میں برابری کا حصہ دار بن گیا ہے.بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ نئے علاج بھی دریافت کر رہا ہے اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ پھر اپنا فضل کرتے ہوئے انسان کو شفا بھی دے رہا ہے.شافی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے.انسان تو جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک ہمدردی کرنے والا شخص ہے اور ہر ریسرچ کرنے والے کو جو بیماریوں کے علاج کے لئے ریسرچ کرتا ہے اور ہر ڈاکٹر کو اور طبیب کو صرف دوسرے انسان اور اپنے مریض کا ہمدرد بنتے ہوئے انسان کی بہتری کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور یہی ایک مومن کی شان ہے.غیر تو اس طرح نہیں سوچتے لیکن ایک احمدی کی سوچ یہی ہونی چاہئے.پس ہر احمدی ڈاکٹر اور ریسرچ کرنے والے کو اپنے مریضوں کے لئے اس انسانی ہمدردی کے جذبہ سے کام کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ڈاکٹر ز ( ربوہ کے ہسپتالوں میں بھی ، افریقہ میں بھی ) اپنے نسخوں کے اوپر هُوَ الشَّافِی لکھتے ہیں.اگر ہر ڈاکٹر دنیا میں ہر جگہ اس طرح لکھتا ہو اور ساتھ اس کا ترجمہ بھی لکھ دے تو یہ بھی دوسروں پر ایک نیک اثر ڈالنے والی بات ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو بھی جذب کرنے والی ہوگی اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں شفاء بھی بڑھا دے گا.اکثر پرانے ڈاکٹر ز تو مجھے امید ہے کہ یہ کرتے ہوں گے لیکن بہت سے نوجوان ڈاکٹر ز شاید اس طرف توجہ نہ دیتے ہوں.تو ان کو بھی میں اس لحاظ سے توجہ دلا رہا ہوں.ہر احمدی جو معالج ہے ہمیشہ سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی عقل اور علم سے میں علاج تو کر رہا ہوں لیکن شافی خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر اس کا اذن ہوگا تو میرے علاج میں برکت پڑے گی اور ظاہر ہے جب یہ سوچ ہوگی تو پھر ڈاکٹر کی دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور جب دعا کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میں اس کے ہاتھ میں شفاء بھی بڑھے گی تو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین بھی بڑھے گا اور اس طرح روحانیت میں بھی ترقی ہو گی.اسی طرح مریض ہیں، ان کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ فلاں ڈاکٹر میرا اعلاج کرے گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا یا فلاں ہسپتال سب سے اچھا ہے وہاں جاؤں گا تو ٹھیک ہوں گا.ٹھیک ہے سہولتوں سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے لیکن مکمل انحصار ان پر نہیں ہو سکتا.بلکہ ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ شافی خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا اذن ہوگا تو میں شفا پاؤں گا.اس لئے جس ڈاکٹر سے بھی ایک مریض علاج کروا رہا ہے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا رکھ دے اور اسے صحیح راستہ سمجھائے.ہر احمدی کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفا دے تو اس کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے شفادے.اللہ کے فضل سے جس طرح مجھے اپنے یا اپنے عزیزوں کی بیماری پر دعا کے لئے لوگوں کے خطوط آتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احمدی کو علاج کے لئے خدا تعالیٰ کی ذات پر بڑا یقین ہوتا ہے.لیکن اس

Page 534

خطبات مسرور جلد ششم 514 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 کے باوجود بعض دفعہ طبائع میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر کا علاج ہی میری کامیابی ہے اور یہ بات بھی ایک طرح سے مخفی شرک میں شمار ہو جاتی ہے.حضرت خلیفہ مسیح الاول جو بہت ماہر طبیب تھے.ان کے بہت سارے واقعات ہیں.ان میں سے ایک واقعہ میں اس ضمن میں بیان کرتا ہوں.آپ لکھتے ہیں کہ میری ایک بہن تھی.ان کا ایک لڑکا تھا.وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا اور مر گیا.اس کے چند روز بعد میں گیا.میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ہوتے ہوئے دیکھا.مجھ سے فرمانے لگیں کہ بھائی اگر تم آ جاتے تو میرا لڑکا بیچ ہی جاتا.میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہوگا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر مرے گا.چنانچہ وہ حاملہ ہوئیں اور ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوا.پھر جب وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا ، ان کو میری بات یاد آئی.مجھ سے کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو.میں نے کہا خدا تعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں ایک اور لڑکا دے گا لیکن اس کو تو اب جانے ہی دو.چنانچہ وہ لڑ کا فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جو زندہ رہا اور اب تک زندہ اور برسر روزگار ہے.یہ الہی غیرت تھی.(مرقاۃ الیقین صفحہ 202 مطبوعہ ضیاءالاسلام پریس ربوہ ) اسی طرح حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کا واقعہ ہے کہتے ہیں کہ 1907ء میں لاہور میوہسپتال میں ہاؤس سرجن تھا کہ میری بڑی سالی ہمارے ہاں اپنی بہن سے ملنے آئیں.شاید مہینہ بھر یا کم وبیش وہ ہمارے ہاں ٹھہر ہیں.وہ نہ صرف میری سالی تھیں بلکہ میری پھوپھی کی بیٹی تھیں.وہ آئی اس طرح تھیں کہ ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی تھی جو کچھ مہینے زندہ رہ کر مر گئی.اس کے مرنے کے صدمہ کو بھلانے کے لئے وہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاں آئی تھیں.یہاں آ کر وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا بار بار ذکر کیا کرتی تھیں کہ اگر میرے بہنوئی ڈاکٹر صاحب ( یعنی ڈاکٹر میر اسماعیل صاحب ) میرے پاس ہوتے تو میری لڑکی نہ مرتی.جب انہوں نے کئی دفعہ اس بات کا ذکر کیا تو مجھے خدا تعالیٰ کے متعلق بڑی غیرت آئی.میں نے کہا کہ اب ان کے ہاں ضرور ایک لڑکا پیدا ہوگا اور وہ میرے زیر علاج رہ کر میرے ہی ہاتھوں مرے گا.بات گئی آئی ہو گئی.کہتے ہیں پھر اس کے بعد ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اور وہ چلہ کر کے اپنی بہن کو ملنے کے لئے اس بچے کے ساتھ آئیں اور رستے میں تھر مس میں گرم دودھ ڈالنے کی وجہ سے دودھ پھٹ گیا اور وہ وہی پلاتی رہیں جس کی وجہ سے بیٹے کو سخت تکلیف ہو گئی اور ہر قسم کا علاج کیا.اس کا پیٹ خراب ہو گیا.خود بھی ڈاکٹر صاحب نے علاج کیا اور دوسروں سے بھی علاج کروایا لیکن کہتے ہیں کہ بچہ اچھا نہ ہوا اور دو ہفتہ بیمار رہ کر فوت ہو گیا.ان کے ہاں نرینہ اولاد کی کمی تھی.ماں کو سخت صدمہ تھا.تو میر صاحب کہتے ہیں مجھے اس وقت وہ بات یاد آئی جو میں نے چھ سال پہلے لاہور میں کہی تھی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور وہ میرے ہاتھوں مرے گا.تا کہ ان کا شرک ٹوٹے چنانچہ ایسا ہی ہوا.آپ بیتی از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب صفحہ نمبر 29-30)

Page 535

خطبات مسرور جلد ششم 515 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 تو یہ وہ لوگ تھے جو ہر قسم کے مخفی شرک سے بھی اپنے آپ کو بچاتے تھے اور دوسروں کو بھی خدا تعالیٰ کی ذات کی حقیقی پہچان کروا کر شرک سے بچانے والے تھے.ان کے دل خدا تعالیٰ کی یاد پر یقین سے بھرے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی نے اس کو اور نکھار دیا تھا.پس ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ ڈاکٹریا طبیب کا علاج بھی اس وقت فائدہ مند ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ جو شافی ہے اس کی بھی مرضی ہو.پس اس کی صفت کے واسطے سے مریض کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے.بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لئے دوائی بھی رکھی ہے.یہ ریسرچ کرنے والے جو مختلف بیماریوں کی نت نئی دوائیاں نکالتے ہیں تو یہ ان چیزوں سے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں.بے شمار جڑی بوٹیاں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں.بعض کیڑے مکوڑے ہیں.بعض زہر یلے جانور ہیں جن کے زہر میں بھی اللہ تعالیٰ نے شفاء رکھی ہے.سانپ کے زہر سے بھی دوائیاں بنتی ہیں.وہی زہر جو اگر براہ راست سانپ کے کاٹنے سے انسان کے جسم میں جائے تو موت کا سبب بن جاتا ہے لیکن وہی زہر جب دوائی کی صورت میں استعمال ہوتا ہے تو تریاق بن جاتا ہے.پس یہ بھی ہم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے علاج کے لئے دوائیں بھی مہیا فرمائی ہیں اور پھر انسان کو عقل بھی دی کہ ان کا استعمال کس طرح کرنا ہے.قرآن کریم نے شفاء کے حوالے سے خاص طور پر شہد کا ذکر کیا ہے اور اسے شِفَاء لِلنَّاسِ کہا گیا ہے یعنی انسانوں کے لئے شفا ہے اور اس بات کو مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلمانوں نے سمجھا ہے اور جتنی ریسرچ شہد پر ہو رہی ہے.اور اس کے خواص بیان کئے جاتے ہیں اور مختلف طریقوں سے مختلف کمبینیشنز (Combinations) بنائی جاتی ہیں.اس کی مختلف قسمیں ہیں رائل جیلی (Royal Jelly) ہے.اس کے بھی خواص ہیں.اس پر بیشمار ریسرچ دنیا میں اس پر ہو رہی ہے اور ہوئی بھی ہے اور ہر ایک یہ ثابت کرتا ہے کہ اس میں شفا ہے.اور Propolis دوائی بھی اس سے بنی ہے.اس سے تو آ کمنٹس (Ointments) بن رہی ہیں.یعنی ایسے زخم جو بعض دفعہ کسی بھی دوائی سے ٹھیک نہیں ہو رہے تھے شہد کی آٹمنٹ کی دوائی سے ٹھیک ہوتے رہے.آج کل شہد کی مکھیوں کے چھتوں پر ایک خاص قسم کے کیڑے کا بھی حملہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے شہد پر ریسرچ کرنے والے بڑے پریشان ہیں یا پالنے والے بھی پریشان ہیں اور یہ دنیا میں بڑے وسیع پیمانے پر ہوا ہے کسی خاص ملک میں نہیں.یہ کیڑے کا حملہ ہے جو شہد کی مکھیوں کی موت کا باعث بن جاتا ہے اور شہد کی مکھی کے چھتے میں باوجود بہت ساری حفاظتی روکیں ہوتی ہیں.داخل ہونے سے پہلے اینٹی بایوٹک کی قسم کی ایک چیز ان کے سوراخوں میں لگی ہوتی ہے اور جن سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو صاف کر رہی ہوتی ہیں اس کے باوجود ان روکوں سے گزرکر یہ کیڑا حملہ کر رہا ہے اور مکھیوں کی موت کا باعث بن جاتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس کی وجہ سے لکھیاں پالنے والے بھی اور

Page 536

خطبات مسرور جلد ششم 516 خطبہ جمعہ فرموده 19 دسمبر 2008 ریسرچ والے بھی بڑے پریشان ہیں.اس پر بڑی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس کیڑے کو کس طرح ختم کیا جائے اور پھر اس بیماری سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے.بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر یہی حال رہا تو چند سالوں میں شہد کی مکھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی.یا بعض جگہوں پر بالکل ختم ہو جائے گی.میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے یہ اندازے غلط ہیں کہ کبھی ختم ہو جائے گی یا شہد ختم ہو جائے گا کیونکہ یہ مثال جو قرآن کریم نے دی ہے یہ مثال ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ ختم نہیں ہو گا.جس طرح قرآن کریم نے رہتی دنیا تک رہنا ہے.یہ چیزیں بھی ساتھ ساتھ چلیں گی جن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ شفاء بھی ہے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت دکھانے کے لئے اور انسان کے بڑھے ہوئے شرک کی وجہ سے سزا کے طور پر اس میں کمی کر دے.احمدیوں کو بھی ریسرچ میں آنا چاہئے.کیونکہ شہد کی مکھی کا سلسلہ بھی وحی کے سلسلے سے جڑا ہوا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا جو وحدانیت اور وحی سے خاص طور پر جڑے ہوئے ہیں.اس سوچ کی وجہ سے میں احمدیوں کو کہہ رہا ہوں کہ احمدیوں کو شہد کی مکھی کی ریسرچ میں آکر اس وجہ کو تلاش کرنا چاہئے جس سے باہر کے کیڑے نے آ کر شہد کے چھتوں میں یہ فساد پیدا کیا ہے.مجھے نہیں پتہ کہ اس وقت کوئی احمدی اس فیلڈ میں ہے کہ نہیں اگر کوئی ہے تو مجھے اس بارہ میں بتا ئیں.ضمنا میں یہ بھی کہ دوں کہ میں احمدی طلباء سے کچھ سالوں سے یہ کہ رہا ہوں کہ ہر قسم کی ریسرچ کے میدان میں آگے آئیں.یہ میدان بڑی تیزی سے ان ملکوں میں خالی ہو رہا ہے اور دنیا کو اس کی ضرورت بھی ہے.اس سے ترقی یافتہ ملکوں میں احمدیوں کے پاؤں بھی جمیں گے اور جو دوسرے ملکوں سے آئے ہیں.اور جو یہاں کے احمدی ہیں ان کو تو کرنا ہی چاہئے.اس ریسرچ کی وجہ سے وہ اپنے ملکوں کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں گے.تو بہر حال یہ بات ہورہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بیماریوں کے علاج بھی پیدا کئے ہوئے ہیں اور اس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے اور احادیث میں بھی ذکر ہے.آنحضرت ﷺ کی بعض احادیث پیش کرتا ہوں جن میں آپ نے بعض بیماریوں کے لئے علاج بیان فرمایا ہے.حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ میں بیمار ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے.اپنا ہاتھ میری چھاتی پر رکھا یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک میں نے دل پر محسوس کی.آپ نے فرمایا تمہیں دل کا مرض ہے.تم ثقیف قبیلہ کے حریف حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ کیونکہ وہ طبابت کرتا ہے.اسے چاہئے کہ سات عجوہ کھجوریں گٹھلیوں سمیت کوٹ ڈالے اور پھر ان کی دوائی بنا کر تیرے منہ میں ڈالے.تو دل کی بیماری کے لئے عجوہ کھجوروں کی طرف نشاندہی فرمائی.( سنن ابی داؤد کتاب الطب باب في تمرة العجوة - حدیث نمبر 3875) پھر حضرت عباس سے روایت ہے.آپ نے فرمایا کہ تین چیزوں میں شفا ہے.شہد کے گھونٹ میں نشتر سے

Page 537

خطبات مسرور جلد ششم 517 خطبہ جمعہ فرموده 19 دسمبر 2008 چیر لگانے میں یعنی جراحی ( سرجری جسے کہتے ہیں ) اور آگ سے داغنے میں، آگ سے بھی علاج کیا جاتا تھا زخموں کو جلایا جاتا تھا.فرمایا کہ میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں.( بخاری کتاب الطب - باب الشفاء في ثلاث.حدیث نمبر 5680) پھر ایک روایت میں حضرت خالد بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ہم سفر پر نکلے اور ہمارے ساتھ غالب بن ابجر تھا وہ راستے میں بیمار ہو گیا.جب ہم مدینہ پہنچے تو بیمار ہی تھا.ابن ابی عتیق ان کی عیادت کے لئے آئے تو انہوں نے ہم سے کہا کہ تم سیاہ دانے کو استعمال کرو.اس میں سے پانچ یا سات دانے لے کر پیس لو.پھر اسے تیل کے ساتھ ملا کر قطروں کی صورت میں اس کی ناک میں ڈالو.اس طرف سے بھی اور دوسری طرف سے بھی، دونوں طرف سے.کیونکہ حضرت عائشہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک یہ سیاہ دانہ ہر بیماری سے شفاء کا ذریعہ ہے سوائے سام کے.حضرت عائشہ نے پوچھا سام کیا ہے آپ نے فرمایا موت.(یہ سیاہ دانہ کلونجی ہے).( بخاری کتاب الطب باب الحبة السوداء - حدیث نمبر (5687) پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت سعید بن زید کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا کا باعث ہے.(کھمبی جو مشروم ہوتی ہے ).( بخاری کتاب الطب باب المن شفاء للعین.حدیث نمبر 5708) اسی طرح حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بخار جہنم کا شعلہ ہے پس تم اسے پانی سے بجھاؤ.( بخاری کتاب الطب باب البھی من فیح جہنم.حدیث نمبر 5723) ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو بڑا شدید بخار تھا تو یہ صحابی پوچھنے گئے.انہوں نے دیکھا کہ آپ کے اوپر پانی کا مشکیز ہ لڑکا ہوا تھا اور اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی آپ کے جسم پر گر رہا تھا.تو یہ علاج آنحضرت ﷺ خود بھی کیا کرتے تھے.پھر حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو چاہئے کہ اسے پوری طرح غوطے دے، اس میں ڈبو دے، پھر اس کو پھینک دے کیونکہ اس کے پروں میں سے ایک میں شفا اور دوسرے میں بیماری ہے.( بخاری کتاب الطب.باب از اوقع الذباب فی الاناء.حدیث نمبر 5782) آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال پہلے یہ کھی کے بارہ میں یہ جو ہمیں بتایا ہے.آج کے سائنس دان بھی اس پر ریسرچ کر رہے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ اس میں ایسی چیز ہے جو بیکٹیریا کو ختم کرتی ہے.ایک ریسرچ

Page 538

خطبات مسرور جلد ششم 518 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 کرنے والے نے لکھا ہے کہ مکھی کو Ethenol میں ڈبو کر اس کو بعض قسم کے بیکٹیریا بشمول ہسپتال کے پیتھوجن (Pathogen) پر استعمال کیا گیا تو اس میں اینٹی بایوٹک عمل ظاہر ہوا اور جتنے بیکٹیریا تھے وہ مر گئے.ایک اور ریسرچ ٹوکیو یو نیورسٹی کے ایک پروفیسر نے کی ہے.کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ہسپتالوں میں لکھیاں اینٹی بایوٹک کے طور پر استعمال ہورہی ہیں.سکھیوں میں ایسی چیز بھی نکلی ہے جو قوت مدافعت پیدا کرتی ہے.رزسٹنس (Resistance) پیدا کرتی ہے.یا امیون سسٹم (Immune System) کو ڈویلپ کرتی ہے.سیکھیوں کی ریسرچ کی طرف سائنسدانوں کا خیال اس لئے بھی گیا کہ مکھیاں گندی جگہوں پر بیٹھتی ہیں.بہت ساری بیماریوں کو لئے پھرتی ہیں.کالرا(Cholara) وغیرہ کے جراثیم بھی اس میں ہوتے ہیں لیکن یہ خود کسی بیماری سے متاثر نہیں ہوتیں.اس بات کی وجہ سے ان کو اس پر ریسرچ کی طرف توجہ پیدا ہوئی.اور تب انہوں نے دیکھا کہ اس میں اینٹی بیکٹیرئیل (Ani Bicterial) قسم کی کچھ چیزیں پائی جاتی ہیں.یہ بھی انہوں نے دیکھا کہ جب مکھی کسی سیال (Liquid) چیز پانی یا دودھ وغیرہ میں گرتی ہے تو اس کو بیماری کے بعض جراثیم سے خراب کر دیتی ہے.اس کے پروں پر جو جراثیم لگے ہوتے ہیں فوری طور پر وہاں ان کا اثر شروع ہو جاتا ہے.لیکن اگر اس مکھی کو ڈبو دیا جائے تو اس میں سے ایسے انزائمز نکلتے ہیں جو ارد گرد کے بیکٹیریا کو فوراً مار دیتے ہیں.تو اسلام کے شافی خدا کی یہ عجیب حیرت انگیز شان ہے جس نے اپنے نبی اللہ کو آج سے 14 سو سال پہلے علاج کے یہ طریقے سکھا دیئے جن پر آج دنیا ریسرچ کر رہی ہے.لیکن ان سب علاجوں کی نشاندہی کے باوجود آنحضرت ﷺ نے اپنے ماننے والوں کو خاص طور پر یہی بتایا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ دعا علاج ہے ، صدقہ علاج ہے، علاج کے ساتھ صدقہ اور دعا کرو.ایک حدیث میں آتا ہے کہ تم اپنے مریضوں کا علاج صدقہ کے ساتھ کرو اور اپنے اموال کوزکوۃ کے ذریعہ محفوظ کرو کیونکہ یہ تم سے مشکلات اور امراض کو دور کرتی ہے.(کنز العمال جلد 5 الكتاب الثالث من حرف الطاء كتاب الطب والرقى الفصل الاول.حدیث نمبر 28179) پھر ایک حدیث میں ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا.نبی کریم ﷺ اپنے گھر والوں کے لئے پناہ مانگتے اور اپنے داہنے ہاتھ کو چھوتے اور فرماتے ، اے اللہ ! لوگوں کے رب ، بیماری کو دور کر دے تو اسے شفا عطا کر اور تو ہی شافی ہے.تیری شفا کے سوا اور کوئی شفا نہیں.ایسی شفا عطا کر جو بیماری کا نام ونشان بھی نہ چھوڑے.اَللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ اَذْهِبِ الْبَاسَ، اشْفِ وَ اَنْتَ الشَّافِي.لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُكَ إِشْفِنِي شفَاءً كَامِلا لَا يُغَادِرُ سَقَمًا - پس یہ اصل ہے جس پر ایک مومن کو کامل ایمان ہونا چاہیئے کہ علاج بھی بے شک خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے

Page 539

خطبات مسرور جلد ششم 519 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر ہی ہوتے ہیں.لیکن انحصار صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو شفا دینے والی ہے.جب سب علاج بے کار ہو جاتے ہیں تو دعا سے اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے.اس کے بارہ میں بھی ہمیں آنحضرت ﷺ کی زندگی میں واقعات ملتے ہیں.آپ کے صحابہ کی زندگی میں ملتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ملتے ہیں.آپ کے صحابہ کی زندگی میں ملتے ہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک ہم شفا پانے اور احیاء موتی کے نشان دیکھتے ہیں.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بیٹے کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی.اس نے کہا یارسول اللہ ﷺ یہ دیوانہ ہے اور ہمارے کھانے کے اوقات میں اس کی دیوانگی ظاہر ہوتی ہے.اس کو خاص طور پر کوئی دورہ پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے کھانے کو برباد کر دیتا ہے.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اس بچے کی چھاتی پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لئے دعا کی.اس بچے نے قے کر دی اور اس کے منہ سے کوئی سیاہ رنگ کی چھوٹی سی چیز نکلی اور اس نے چلنا شروع کر دیا.اور وہ ٹھیک ہو گیا.( مسند احمد بن حنبل.مسند عبد اللہ بن عباس - جلد اول صفحہ 634.ایڈیشن 1998ء.حدیث نمبر 2133) پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمی کی پنڈلی پر ایک زخم کا نشان دیکھا.میں نے پوچھا اے ابو مسلم یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے بتایا کہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم آیا تھا.لوگوں نے بیان کیا کہ حضرت سلمی کو زخم آیا ہے.میں نبی کر یم ﷺ کے پاس آیا.تو آپ نے اس زخم پر تین بار پھونک ماری تو اس کے بعد مجھے آج تک کوئی تکلیف نہیں ہوئی.( بخاری کتاب المغازی.باب غزوة ذات قرد.حدیث نمبر 4206 ) اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہمیں اس طرح کے نشان ملتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک موقع پر خود فرماتے ہیں کہ سردار نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ کالڑ کا عبدالرحیم خان ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہ دیتی تھی.گویا کہ وہ مردہ کے حکم میں تھا.اس وقت میں نے اس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے.تب میں نے جناب الہی میں دعا کی کہ یا الہی ! میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں ، اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا.مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (البقرة : 255) یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الہی کے کسی کی شفاعت کر سکے.تب میں خاموش ہو گیا.بعد اس کے بغیر توقف کے الہام ہوا اِنَّكَ اَنْتَ الْمَجَازُ یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی ہے.تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خدا تعالیٰ نے

Page 540

خطبات مسرور جلد ششم 520 خطبہ جمعہ فرموده 19 دسمبر 2008 میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیا تھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن میں آیا، تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد 22 صفحہ 229-230) حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ 1904ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب بہت بیمار ہو گئے تھے اور اس بیماری کی حالت میں ایک وقت تنگی اور تکلیف کا ان پر ایسا آیا کہ ان کی بیوی مرحومہ نے سمجھا کہ ان کا آخری وقت ہے.وہ روتی چیختی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچیں.حضور نے تھوڑی سی مشک دی کہ انہیں کھلاؤ اور میں دعا کرتا ہوں.یہ کہہ کر اسی وقت وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو گئے صبح کا وقت تھا.حضرت مفتی صاحب کو مشک کھلائی گئی اور ان کی حالت اچھی ہونے لگی.تھوڑی دیر میں طبیعت سنبھل گئی.) سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.جلد پنجم صفحہ 510) منشی ظفر احمد صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی ایک رشتہ دار کو امر وھہ سے قادیان لائے وہ شخص فربہ اندام موٹا تھا.50-60 سال کی عمر کا ہوگا اور کانوں سے اس قدر بہرہ تھا کہ سننے کے لئے ایک ربڑ کی نلکی کانوں میں لگایا کرتا تھا اور زور سے بولتے تو قدرے سنتا تھا.حضرت صاحب ایک دن تقریر فرمارہے تھے اور وہ بھی بیٹھا تھا.اس نے عرض کی کہ حضور مجھے بالکل سنائی نہیں دیتا.میرے لئے دعا فرمائیں کہ مجھے آپ کی تقریر سنائی دینے لگے.آپ نے دوران تقریر میں اس کی طرف روئے مبارک کر کے فرمایا کہ خدا قادر ہے.اسی وقت اس کی سماعت کھل گئی ، سنے لگا اور کہنے لگا.حضور آپ کی ساری تقریر مجھے سنائی دیتی ہے اور نکی بھی اس نے ہٹا دی.(اصحاب احمد.جلد چہارم صفحہ (179) میاں نذیر حسین صاحب ابن حضرت حکیم مرہم عیسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت میاں چراغ دین کے ہاں پہلا بچہ یعنی ہمارے والد صاحب حکیم مرہم عیسی صاحب پیدا ہوئے تو آپ پانچ سال کی عمر تک نہ چلنا سیکھے اور نہ بولنا.اس پر ایک روز جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور تشریف لائے ہوئے تھے.ہمارے دادا محترم نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ حضوڑ میرا صرف ایک ہی لڑکا ہے اور وہ بھی گونگا اور گنجا ہے.حضور دعا فرمائیں کہ تندرست ہو جائے.حضور نے فرمایا میاں صاحب اس بچے کو لے آئیں.چنانچہ حضور نے محترم حکیم صاحب کو اپنی گود میں لے کر ایک لمبی دعا کی اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ بچہ درست ہو جائے گا.چنانچہ حضور جب دوبارہ تشریف لائے تو حضرت میاں چراغ دین صاحب سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہماری دعا قبول فرمالی ہے.آپ کا یہ بچہ بڑا بولنے والا اور چلنے والا ہوگا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت حکیم صاحب کو 80-90 سال کی عمر میں اس قدر اونچی اور مسلسل بولتے دیکھا کہ ہم حیران رہ جاتے تھے.( تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 176 ضیاء الاسلام پریس ربوہ )

Page 541

خطبات مسرور جلد ششم 521 خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 2008 حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ایک دفعہ میں قادیان آیا تو حضرت صاحب گول کمرے میں ٹہل رہے تھے.مجھے شدید کھانسی تھی اور کسی طرح ہٹتی نہیں تھی.کئی علاج کر چکا تھا جیسا کہ حضور کی عادت تھی.فرمایا میاں زین العابدین کیسے آئے؟ عرض کیا کہ حضور کھانسی ہے اور اس قدر شدید ہے کہ پتہ نہیں تھا کہ دوسرا سانس آئے گا یا نہیں.فرمایا اچھا یہ بتاؤ کہ کتنے عرصے کی ہے.عرض کیا کہ چھ ماہ کی.فرمایا کہ اب تک اطلاع کیوں نہ دی.اب تو بیماری پرانی ہو چکی ہے.پھر فرمایا اچھا امیرانہ علاج کروانا ہے یا غریبانہ؟ تو عرض کیا جیسے آپ مناسب سمجھیں.فرمایا کہ زمیندار بالعموم غریب ہی ہوتے ہیں.اچھا علاج کے لئے آپ کتنے پیسے لائے ہیں.عرض کیا پانچ روپے.فرما یالا ؤ.میں نے دے دیئے.فرمایا جاؤ اب آپ کو آئندہ کبھی کھانسی نہیں ہوگی.میں نے عرض کیا جیسا کہ میری عادت تھی کہ بڑی بے تکلفی سے سب کچھ کہہ دیتا تھا.حضور جانتے تھے کہ زمیندار سادہ طبیعت ہوتے ہیں.اس لئے حضور برانہیں مناتے تھے کہ کیا حضور کے پاس کوئی جادو ہے کہ حضور کا صرف زبان سے کہہ دینا بیماری دور کرنے کے لئے کافی ہے.آپ نے فرمایا میں جو کہتا ہوں بیماری نہیں ہوگی.تھوڑی دیر کے بعد میرے بھائی حافظ حامد علی صاحب آگئے حضور نے فرمایا حامد علی! ہم نے آپ کے بھائی سے پانچ روپے لئے ہیں اور ان کو کہ دیا کہ آپ کو اب کھانسی نہیں ہوگی.مگر گاؤں کے لوگوں کو تسلی نہیں ہوتی جب تک ان کو دوا نہ دی جائے ان کو بازار سے ملٹھی دھیلے کی ، اور بادام دھیلے کے، الا بچی دھیلے کی اور منقہ دھیلے کا لا کر دیں.تو جب وہ لے آئے ( کیونکہ دھیلے کی بھی کافی چیزیں مل جاتی تھیں ) تو حضرت صاحب نے خود گولیاں بنا دیں اور فرمایا میاں زین العابدین آپ کی کھانسی بھی دور ہو جائے گی اور پانچ روپے میں موٹے تازے بھی ہو جاؤ گے.کھانسی تو آپ کی دور ہوگئی.اب یہ پانچ روپے لے لو اور اس کا گھی استعمال کرو موٹے بھی ہو جاؤ گے.کہتے ہیں میں نے بڑا اصرار کیا کہ حضور یہ رکھ لیں.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں.آپ کو کوئی فیس کی ضرورت تو نہیں تھی.یہ تو ایک شفقت کا پیار کا اظہار تھا مریدوں سے.اصحاب احمد.جلد 13 صفحہ 96-97 - مطبوعہ ربوہ ) پس اصل چیز اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے کہ وہ شافی خدا ہے.علاج بھی اس وقت فائدہ دیتا ہے جب اللہ تعالیٰ کا اذن ہو.حدیث میں آیا ہے کہ دوا تو اندازہ ہے اور وہ اللہ کے اذن سے ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنے رب کی خصوصیات بیان کیں.اس کے فضل اور اس کی قدرت کا ذکر کیا تو فرمایا وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے شفادیتا ہے.یہاں آپ نے ”میں بیمار ہوتا ہوں“ کہہ کر وہی بات بیان کی ہے کہ بعض دفعہ انسان اپنی غلطیوں کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے اور پھر ان غلطیوں کی وجہ سے بعض بیماریاں اس کو آجاتی ہیں کیونکہ قانون قدرت چلتا ہے.تو فرمایا کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے.جب اللہ تعالیٰ ہی فضل فرمائے تو پھر انسان شفا پاتا ہے اور اگر اللہ

Page 542

522 خطبہ جمعہ فرموده 19 دسمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو جتنے مرضی انسان علاج کرلے انسان نہیں بچتا.پس حضرت ابراہیم نے یہ فرمایا.کہ میں اپنی غلطیوں کی وجہ سے بیمار ہوتا ہوں اور میرا خدا اپنے فضل سے مجھے شفاء دے دیتا ہے اور یہ سب دوائیاں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں جو ہمیں میسر ہیں اور پھر ان کے استعمال سے شفا بھی اللہ تعالیٰ عطا فر ما دیتا ہے.پس ان سب علاجوں کے فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی ضرورت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے سے حاصل ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سن کر اپنے شافی ہونے کی صفت کو بھی حرکت میں لاتا ہے اور مزید شفا پاتا ہے اور بعض دفعہ صرف دعا ہی کام کر جاتی ہے جیسا کہ میں نے بعض واقعات سنائے.پس اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا ادراک حاصل کرنا یہی اصل میں مومن کی شان ہے.اللہ کرے کہ ہم سب یہ حاصل کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے ہمارے سب مریضوں کو شفا عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شماره 2 مورخہ 9 جنوری تا 15 جنوری 2009 ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)

Page 543

خطبات مسرور جلد ششم 523 52) خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2008ء بمطابق 26 فتح 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے اللہ تعالیٰ کی صفت شافی کا ذکر کرتے ہوئے جسمانی عوارض سے شفاء کے بارے میں کچھ باتیں کی تھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے علاج کے لئے بعض چیزیں پیدا کر کے ان میں شفاء رکھی ہے.لیکن شفاء کا اصل ذریعہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے اگر اس کا اذن ہو تو دعاؤں کو شفاء کی طاقت ملتی ہے اور آخر پر میں نے ذکر کیا تھا کہ بعض دفعہ تمام قسم کے علاج نا کام ہو جاتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ مستحق بندوں کی دعاؤں کو سن کر شفاء عطا فرماتا ہے اور جب اس طرح واضح رنگ میں دعا سے شفاء کا معجزہ ظاہر ہوتا ہے تو ایک مومن بندے کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین مزید مضبوط ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے تمام قدرتوں کا مالک ہونے پر ایمان پختہ ہوتا ہے.یہ منجزات دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حقیقی رنگ میں حاصل ہوتا ہے اور جب یہ سب کچھ ایک مومن کو نظر آتا ہے تو نتیجا اس کی روحانی حالت میں بھی ترقی ہوتی ہے.تو گویا یہ چیز یعنی اپنے یا اپنے کسی پیارے مریض کا کسی خوفناک مرض سے شفاء پانا اس کا موت کے منہ سے واپس آنا جو کہ ایک جسمانی شفاء ہے مومن بندے کو روحانیت میں ترقی کی طرف لے جاتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ بعض اوقات جسمانی شفاء سے روحانی شفاء کی بنیاد بھی پڑ جاتی ہے اور اصل میں انسانی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان روحانی طور پر ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہونے کی کوشش میں ہمیشہ لگا رہے اور ایک صحت مند اور خالص عبد بننے کے لئے اس کے قدم ہمیشہ اٹھتے رہیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کہا ہے کہ میری عبادت کی طرف توجہ دو اور میرے احکامات پر عمل کرو تو جسمانی شفاؤں کے ساتھ ساتھ روحانی شفاء کے نظارے بھی ہر آن دیکھتے چلے جاؤ گے.اور پھر یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اپنے نبی کامل ہے کے ذریعہ ایک کامل تعلیم ہماری روحانی شفاء کے لئے قرآن کریم کی صورت میں ہمارے لئے نازل فرمائی.قرآن کریم میں کئی جگہ خدا تعالیٰ نے اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کس کس طرح تمہارے لئے شفاء ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے شہد کی مکھی کے حوالے سے شفاء کا ذکر کیا تھا اور وہ جسمانی بیماریوں سے شفاء ہے.

Page 544

خطبات مسرور جلد ششم 524 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 لیکن اگر غور کریں تو اس شہد کی مکھی کے ذریعہ روحانی شفاؤں کے راستوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے جب شہد کی مکھی کا ذکر فرمایا تو وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (النحل: 69) اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی.جس کے نتیجہ میں پھر آگے ذکر ہے کہ اس نے اونچی جگہ چھتے بنائے اور پھولوں کا رس چوس کر مختلف دوروں سے گزر کر شہد بنایا.جس کے بارہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے فرما یا فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ (النحل: 70) کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے اور اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ اِنَّ فِي ذَلِكَ لَا يَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُوْنَ (النحل: 70) یقینا اس میں غور فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت بڑا نشان ہے.کس غور کی طرف یہاں اشارہ ہے؟ یہ اس بات کے غور کی طرف اشارہ ہے کہ ایک معمولی مکھی کو اللہ تعالیٰ نے وحی کر کے وہ راستہ دکھا دیا جس سے ایسی چیز پیدا ہوئی جو لوگوں کے لئے شفاء بن گئی.کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم ، سب اس چیز کو تسلیم کرتے ہیں کہ شہد میں شفاء ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر کام کے لئے وحی الہی کی ضرورت ہے.اس لئے اے لوگو! تم میں سے بعض جو خدا تعالیٰ کی وحی کے انکاری بن جاتے ہیں اس بات پر غور کرو کہ شہد بنانے کا سارا عمل، پھولوں کا رس چوسنے سے لے کر شہد بننے تک اللہ تعالیٰ کی وحی کی وجہ سے مکمل ہوا ہے.بلکہ معمولی جانور بھی اپنے کاموں کے لئے وحی کے محتاج ہیں، جن کو اپنے کاموں سے متعلق راہنمائی ملتی ہے.اور جانوروں، کیڑوں مکوڑوں میں اس کی اعلیٰ ترین مثال شہد کی مکھی کی وحی ہے.تو انسان کس طرح کہہ سکتا ہے؟ کہ وہ خود ہی ہدایت پا جائے گا یا اس کو کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ، سب کام خود بخود ہو رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس بارے میں فرمایا کہ: ایک دنیا دارا انسان سمجھتا ہے کہ اس کی کوشش سے وہ اپنے مقصد حاصل کر لیتا ہے، اپنی کوشش سے اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے.جبکہ اس کی کوشش بھی دعا ہی کی ایک قسم ہے اور اس کے نتیجہ میں جو تد بیر اس کے ذہن میں آتی ہے وہ بھی وحی کی ایک قسم ہے.پس انسان کو شہد کی مکھی کے عمل سے یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کسی چیز کا اعلیٰ حصول ممکن ہی نہیں.اس لئے انسان جو اشرف المخلوقات ہے، جس کے لئے دوزندگیاں مقرر ہیں، ایک اس جہان کی اور ایک اگلے جہان کی دائمی زندگی.اور اگلے جہان کی زندگی کا انحصار اس جہان کے اعمال پر ہے.وہ اعمال کون سے ہیں ، وہ جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں.تو جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اعمال پر انحصار ہے تو وہ بغیر وحی کے کس طرح اس دنیا میں کامیاب زندگی گزار کر اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے.پس انسان کی کامیاب زندگی کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزاری جائے وحی الہی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے قانون بنایا ہوا ہے کہ اپنے انبیاء کے ذریعہ اپنے نیک لوگوں کے ذریعہ روحانیت کے حصول کے راستوں کی راہنمائی کرواتا ہے.اور آنحضرت کے ذریعہ جو کہ انسان کامل تھے ، وحی بھی کامل کی اور

Page 545

خطبات مسرور جلد ششم 525 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 قرآن کریم جیسی کامل کتاب وحی الہی کے ذریعہ نازل ہوئی.جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بھی شفاء ہے.روحانی شفاء تو ہے ہی جسمانی شفاء بھی ہے.ایک دفعہ کچھ صحابہ کسی جگہ گئے وہاں کے قبیلے کا سردار بیمار ہو گیا یا اس کو سانپ نے ڈس لیا تو ایک صحابی کو پتہ لگا اس پر دم کیا تو وہ ٹھیک ہو گیا.آنحضرت ﷺ کو آ کے بتایا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے کس طرح دم کیا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! سورۃ فاتحہ کا دم کیا.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک دم کیا.تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ اس میں شفاء ہے؟.( بخاری کتاب الاجارة - باب ما یوتی فی الرقیة علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب حدیث 2276) بلکہ وہاں یہ بھی واقعہ ہوا کہ اس سردار نے جب صحت پائی تو اس صحابی کی خدمت میں بکریوں کا ایک ریوڑ پیش کیا جو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا کہ میں معاوضہ نہیں لیتا.آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو تمہیں خود دیتا ہے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں.لیکن اس صحابی نے کیوں انکار کیا اس لئے کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ قرآن کریم کو کمائی کا ذریعہ نہ بناؤ.آج کل کے پیروں فقیروں کی طرح جو تعویذ گنڈے کرتے اور پیسے کماتے ہیں.ان کے لئے یہ سبق ہے.بہر حال اللہ کا بڑا احسان ہے کہ احمدی اس سے محفوظ ہیں.پس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم میں روحانیت کے ساتھ ساتھ جسمانی عوارض سے شفا کا بھی ذکر ہے، اور اس روحانی بیماریوں سے شفاء کے بارے میں قرآن کریم میں مختلف آیات میں ذکر آیا ہے.اب میں کچھ آیات پیش کروں گا.لیکن آیات پیش کرنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں آنحضرت ﷺ پر کامل کتاب نازل فرمائی.لیکن اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کامل کتاب کے اتارنے کے ساتھ اب وحی کے دروازے بھی بند کر دیئے ہیں.گو شریعت کامل ہوگئی اور دین مکمل ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے انبیاء بھیجے اور ان پر وحی ہوتی تھی، باوجود اس کے کہ وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آتے تھے ، اسی طرح اب بھی ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کا کلام اب بھی جاری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال دی ہے کہ توریت نازل ہوئی لیکن اس کے بعد بہت سے انبیاء بھیجے تا کہ اس کی تائید اور تصدیق کریں اور زمانے کے گزرنے سے جو لوگ عمل چھوڑ دیتے ہیں ان کی طرف ان کو توجہ دلاتے رہیں اور اس دین کی پیروی کرتے ہوئے جو اُن سے پہلے کے انبیاء پر ہوا، یا کسی شرعی نبی پر اترا تھا.اللہ تعالیٰ ان انبیاء سے بھی ہم کلام ہوتا رہا جو بعد میں آنے والے تھے.اور اس سے لوگوں کے دلوں میں ایمان کی مضبوطی پیدا ہوتی رہی.تو فرمایا کہ اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی وحی کا دروازہ بند نہیں ہوا.بلکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مثال بھی دی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 546

خطبات مسرور جلد ششم 526 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 والسلام سے اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن کریم کی تعلیم کی تائید میں بھیجا.اس کو پھیلانے کے لئے بھیجا تا کہ اللہ تعالیٰ کے براہ راست مکالمہ و مکاشفہ کے حوالے سے قرآنی تعلیم کو مومنوں کے دلوں میں بھی صحیح رنگ میں راسخ کریں اور غیروں کو اس حوالے سے تبلیغ کریں اور دعوت دیں تا کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا اور وحی صرف پرانے قصے نہ رہیں بلکہ جاری عمل ہوتے ہوئے قرآن کریم کے تمام نقائص سے پاک تعلیم پر ایمان ، آنحضرت می پر ایمان، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور ایمان میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب کہ تو پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے ، مجد داور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں“.پھر آپ فرماتے ہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں“.پس ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کونکھار کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے مبعوث فرمایا تھا.وحی والہام کا راستہ کبھی اللہ تعالیٰ نے بند نہیں فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعد آپ کے مشن کو اللہ تعالیٰ کی خاص راہنمائی میں جاری رکھنا خلافت کا کام ہے.اور قرآن کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا مشن ہے تا کہ دنیا کامل اور مکمل علاج سے فیض پاتے ہوئے اپنی روحانی شفاء کا بھی انتظام کر سکے.آج جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اور آپ کی قائم کردہ جماعت پر لوگ اعتراض کرتے ہیں، وہ اپنی حالت دیکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا علماء اور مفسرین کے ہونے کے باوجود قرآن کریم کا یہ دعوی کہ وہ تمہارے سینوں کی کدورتیں دُور کر کے انہیں شفاء دیتا ہے.مسلمانوں کو کوئی فیض پہنچا رہا ہے؟ مجموعی طور پر مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ اس بات کی نفی کر رہی ہے.باوجود اس کے قرآن کریم موجود ہے اُن کے زعم میں ان کے علماء اور مفسرین موجود ہیں لیکن وہ فیض انہیں حاصل نہیں ہورہا.تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نعوذ باللہ قرآن کریم کی تعلیم میں کوئی کمی ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں.اگر جھوٹ ہے تو اس نام نہاد دعوی کرنے والوں کے عملوں میں ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مسیح اور مہدی کی ضرورت نہیں ہے.جو اپنے عمل سے آنحضرت ﷺ کے حکم کا انکار کر رہے ہیں.قرآن کریم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی مومنین کے لئے شفاء ہے.اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو ہمیشہ اس انعام کی قدر کرنے والا بنائے رکھے اب جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس بارہ میں قرآن کریم کی کچھ آیات پیش کروں گا.سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِيْنَ إِلَّا خَسَارًا ) بنى اسرائیل : 83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفاء ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا.

Page 547

خطبات مسرور جلد ششم 527 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 اس آیت میں ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اس میں شفاء اور رحمت ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ جو مومن نہیں ان کے لئے اس میں گھاٹے کے سوا کچھ نہیں ، خسارے کے سوا کچھ نہیں.قرآن کریم نے تو ابتداء میں ہی ، سورہ بقرہ کے شروع میں ہی فرما دیا کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : 2 ) کہ یہ کتاب ہے جس کے خدا تعالیٰ کے کلام ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور متقیوں کے لئے ہدایت ہے.پس یہ روحانی شفاء اور مومنوں کے لئے ہدایت ہے.جن کے دل گند سے بھرے ہوئے ہیں جو ہر وقت اس میں نقائص کی تلاش میں ہیں.یہ لوگ بغضوں اور کینوں کی وجہ سے قرآن کریم سے فیض پا ہی نہیں سکتے ان کو تو قرآن کریم صرف اور صرف گھاٹے میں بڑھائے گا.یہ لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ انجام یا بد انجام مقدر کیا ہوا ہے.لیکن مومنوں کے لئے اس میں شفاء اور رحمت ہے اور وہ لوگ اس سے فیض پانے والے ہیں جو ایمان لانے کے بعد اس کی تعلیم پر عمل کر کے پھر اپنی روحانی حالتوں کے معیار بلند کرتے چلے جائیں اور اس زمانہ میں جیسا کہ میں نے کہا قرآن کریم کے اسرار و معارف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس طرح بتائے جو ہمارے دلوں کی کدورتوں اور بیماریوں کو ایسے حیرت انگیز طور پر دُور کر دیتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.اور تب احساس ہوتا ہے کہ دوائی تو موجود تھی لیکن استعمال کا طریقہ نہیں آتا تھا.علاج تو کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اب بھی کرتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو نہیں مانا لیکن اس علاج کے ساتھ کیا کیا پر ہیز ضروری ہیں یہ پتہ نہیں.کیونکہ ہر دوائی کے ساتھ ڈاکٹر کچھ پر ہیز بھی بتاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے مسیحا کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کے پاس پہنچا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یہ خدا کا قول ہے کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی، روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مریضوں پر مشتمل ہے.روحانی طور پر اس لئے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ بیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد ان کے عملی حالات درست ہو گئے.اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور میں صد ہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہو گئی ہے کہ کس طرح وہ جذبات نفسانیہ سے پاک ہوں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد 22 صفحہ 86 - حاشیہ) پس جس کو خدا تعالیٰ نے مریضوں کو برکت دے کر شفایاب کرنے کی ضمانت دی ہے یہی اب آنحضرت ﷺ کا غلام صادق اور عاشق قرآن ہے.جس کے ماننے سے روحوں کو شفاء نصیب ہوگی.بشرطیکہ تمام پر ہیزوں کے ساتھ اس سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں.اس کے ساتھ ہی اس آیت میں ایک اور مضمون بھی واضح ہوتا ہے کہ اب

Page 548

خطبات مسرور جلد ششم 528 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 مومنوں کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وہی وارث ہیں.قرآن کریم میں درج تمام پیشگوئیاں مومنوں کے حق میں ماضی میں بھی پوری ہوئیں اور آخرین کے دور میں بھی پوری ہوں گی اور مومنین کی جماعت اور شیطان کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس کا انجام آخر کار مومنوں کے حق میں ہی نکلنا ہے اور مخالفین نے خائب و خاسر ہونا ہے.یہ ایک پیشگوئی ہے جو مسیح موعود کے زمانے کے لئے بھی اسی طرح قائم ہے.پس میں یہاں پھر ہمدردی کے جذبے سے تمام سعید فطرت مسلمانوں سے بھی کہتا ہوں کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں اور کہتا رہا ہوں کہ قرآن کریم کی تعلیم کا حقیقی فیض اور شفاء اور رحمت اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام کی جماعت سے جڑنے سے ہی وابستہ ہے.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے بڑی تاکید سے اپنے ماننے والوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ آخرین میں آنے والے سے جڑو گے تو وہ فیض پالو گے جو پہلوں نے پایا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت سے جڑ کر قرآن کریم کی حکومت دنیا میں قائم کر کے اپنی اور دنیا کی روحانی شفاء کا انتظام کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ اس کا حق ادا کرنے والے بنتے چلے جائیں اور کبھی اس فیض سے محروم نہ ہوں.پھر سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُوْرِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِيْنَ (یونس:58) کہ اے انسانو! یقینا تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت کی بات آ چکی ہے.اسی طرح جو بیماری سینوں میں ہے اس کی شفاء بھی اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت بھی.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.وہ خدا جو تمام کا ئنات کا رب ہے.زمین آسمان میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ربوبیت سے باہر ہے.پس اس کلام کو معمولی نہ سمجھو اور نہ ہی اس رسول ﷺ کومعمولی سمجھو جس پر یہ کلام اترا ہے.وہ رسول جس کو ہم نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے وہ اس صفت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کلام کے ذریعہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عذاب سے بچ سکو.وہ تمہارے سینوں کو بیماریوں سے پاک کرتا ہے تا کہ تم روحانیت میں ترقی کر سکو.وہ تمہاری ہدایت اور رحمت کا سامان کرتا ہے جس سے ہدایت پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے بنو اور جب یہ سب کچھ ہو گا تبھی تم مومن کہلانے کے حقدار بنو گے.پس آنحضرت ﷺ پر یہ کتاب اتار کر اللہ تعالیٰ نے گل انسانیت پر احسان کیا ہے.یہ ایسا کامل کلام ہے جس میں وہ تمام نصائح موجود ہیں.ان تمام اوامر و نواہی کا ذکر ہے جو انسان کو با اخلاق انسان بنا کر پھر باخدا انسان بناتے ہیں.پس ایسی کامل کتاب سے اے لوگو! فیض پانے کی کوشش کرو تا کہ تمہاری دنیا بھی سنور جائے اور تمہاری آخرت بھی سنور جائے.اس دنیا میں اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے لگو.پس یہ ایک انتہائی

Page 549

خطبات مسرور جلد ششم 529 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 پیارا انداز ہے قرآن کریم کا اور اگر ایک عقلمند آدمی ، ایک عظمند انسان اس پر غور کرے تو یہ بات اس الزام کا رد ہے جو اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ اسلام مفتی سے اپنے دین کے پر چار اور اپنے احکامات کو ٹھونسنے کا حکم دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو تمہارے رب کی طرف سے نصیحت ہے اور یہ تمہارے فائدے کے لئے ہے.حضرت محمد رسول اللہ اللہ کو جتھا بنا کر طاقتور بنانے کے لئے نہیں ہے یا انسانوں کو زیر کر کے ان پر اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ خالصتاً تمہارے فائدے کے لئے ہے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالی تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُدْعُ إِلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: 126) کہ تو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلا.پس یہ مَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم ہے جس میں صرف اور صرف انسانوں کی بھلائی اور بہتری کا ذکر ہے.اور ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو روحانی طور پر شفاء کے سامان پیدا کرتی ہے.پس ہمیں اگر تبلیغ کا حکم ہے اسلام کا پیغام پہنچانے کا حکم ہے تو اس لئے نہیں کہ اپنی طاقت یا جتھہ بنائیں بلکہ اس لئے کہ اپنے دل میں دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہوئے اور ان جذبات سے پُر ہو کر انہیں خدا تعالیٰ کے قریب لائیں.ان کی روحانی بیماریوں کو دُور کریں.انہیں بتائیں کہ یہ کتاب جو آنحضرت ﷺ پر اتری ، اب تمہاری روحانی شفاء کا واحد ذریعہ ہے.خدا کے لئے اسے قبول کرو اور اپنی دنیا و آخرت سنوارو.میں نے اسلام پرختی اور شدت پسندی کے الزام کا ذکر کیا تھا.اگر تاریخ دیکھیں تو اسلام نے دلوں کو اس قرآنی تعلیم کے ذریعہ سے ہمیشہ جیتا ہے، ماضی میں جتنی فتوحات ہوئی ہیں اسی خوبصورتی کی وجہ سے ہوئی ہیں اور آج بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح دل جیت رہے ہیں.پس دنیا کوئیں بتا تا ہوں کہ چند شدت پسندوں کے ناجائز عمل کی وجہ سے اسلام مخالف اور مغربی ممالک جو اسلام اور قرآنی تعلیم پر غلط الزام لگاتے ہیں انہیں بغیر سوچے سمجھے یہ الزام لگانے کی بجائے اس کی خوبصورت تعلیم کو دیکھنا چاہئے اور جیسا کہ میں نے کہا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اس تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کریں تا کہ انسانیت کی شفاء کا موجب بن سکیں اور جس ہدایت اور رحمت سے ہم فیض پارہے ہیں اس میں دوسروں کو بھی حصہ دار بنانے والے بہنیں.یہی حقیقی ہمدردی ہے جو آج ایک احمدی کو دنیا والوں سے ہونی چاہئے.یہاں ایک اور بات کی وضاحت کی بھی ضرورت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَشِفَآءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ (یونس: 58) کی اس میں شفاء ہے ہر اس بیماری کے لئے جو ان کے سینوں میں پائی جاتی ہے.اس پر اب تک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ خیالات تو دماغ میں پیدا ہوتے ہیں اچھے یا برے، ان کا دل سے کیا تعلق ہے لیکن اہل دل اس بات کے ہمیشہ قائل رہے ہیں کہ دل کا روحانیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے.اور جب قرآن کریم نے کہہ دیا تو

Page 550

530 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 خطبات مسرور جلد ششم سب سے بڑی سند تو یہی ہمارے لئے ہے لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس پر بھی اب ریسرچ ہو رہی ہے کہ دل اور دماغ کا کیا تعلق ہے اور آیا جذبات اور خیالات کا اثر دل پر بھی پڑتا ہے یا نہیں پڑتا.کچھ سائنسدان اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جذبات کا اثر پہلے دل پر ہی ہوتا ہے.خیالات کا اثر پہلے دل پر ہی ہوتا ہے اور ایک ریسرچ یہ ہے کہ دل ، دماغ کو زیادہ معلومات دیتا ہے اس کی نسبت جو دماغ دل کو بھیجتا ہے.ابھی تو یہ جذباتی کیفیت اور بعض جسمانی عوارض تک ریسرچ ہے.روحانیت کے تعلق کی تو دنیا دار براہ راست تحقیق نہیں کر سکتے لیکن اگر دیکھا جائے ( جو ان کی ریسرچ سے بھی ثابت ہوتا ہے ) کہ بعض جذبات کی کیفیت بعض برائیوں کی طرف لے جاتی ہے اور اگر اسی تناظر میں دیکھیں تو یہ دل کی روحانی بیماریاں ہی ہیں جو انسان کو ہدایت سے دور کرتی ہیں.بہر حال ایسے تحقیق کرنے والے بھی ہیں اور اس سے اختلاف رکھنے والے بھی ہیں جو اپنی تحقیق کر رہے ہیں.لیکن بہر حال دنیا کی توجہ اس طرف پیدا ہو رہی ہے.بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید دل میں یہ بعض خیالات پہلے پیدا ہوتے ہیں اور پھر دماغ کو اطلاع کرتے ہیں.اور ان کے نزدیک جو دل ہے وہ دراصل پہلے دماغ کو اطلاع کر رہا ہوتا ہے.لیکن بعض یہ کہہ رہے ہیں کہ نہیں اصل میں پہلے دماغ ہے ، دل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا بہر حال اس طرف توجہ ہو رہی ہے.ہمارے ڈاکٹر نوری صاحب جو طا ہر ہاٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ کے انچارج ہیں.جب یہ سرکاری ملازم تھے تب بھی انہوں نے اپنے کلینک میں لکھ کر لگایا ہوا تھا کہ اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ( سورة الرعد : آیت (29) کہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں.تو احمدی ڈا کٹر ہی یہ سوچ رکھ سکتا ہے.یقینا ذکر الہی دلوں کی تسلی کا باعث بنتا ہے.دل کی بہت سی بیماریاں بعض جذباتی کیفیات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.پس روحانی شفاء بھی اور جسمانی شفاء بھی اللہ کے ذکر میں ہے.اور اس کے طریقے قرآن کریم نے بڑے احسن رنگ میں کھول کر ہمیں بتائے ہیں اور اب بے شک جیسا کہ میں نے کہا بعض اختلاف رکھنے والے بھی موجود ہیں لیکن سائنسدانوں کی ریسرچ اس طرف چل رہی ہے.ضمنا میں یہاں ساتھ ہی یہ بھی ذکر کر دوں کہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ جیسا کہ میں نے کہا کہ ڈاکٹر نوری صاحب اس کے انچارج ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اور ان کا سٹاف بڑی محنت سے اس ادارے کو چلا رہے ہیں اور اب تک تو بیماریوں کی شفاء کے ایسے ایسے معجزے دیکھنے میں آرہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.بلکہ بعض ڈاکٹرز جو وہاں باہر امریکہ وغیرہ سے گئے انہوں نے خود مجھے بتایا کہ ایسے ایسے کیس ہم نے ٹھیک ہوتے دیکھے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ٹھیک ہو گئے.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے ڈاکٹر بھی دعا کر کے کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر یقین ہے.اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں میں شفاء رکھنے اور پہلے سے بڑھ کر ان کے مریض شفاء پانے والے ہوں.

Page 551

خطبات مسرور جلد ششم 531 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 پھر ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآناً أَعْجَمِيًّا لَقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ ايتُهُ عَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ.قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمِّى أُوْلَئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيْدِ ( حم سجدہ: 45) اور اگر ہم نے اسے بھی یعنی غیر فصیح قرآن بنایا ہوتا تو وہ ضرور کہتے کہ کیوں نہ آیات کھلی کھلی یعنی قابل فہم بنائی گئیں.کیا عجمی اور عربی برابر ہو سکتے ہیں.تو کہہ دے کہ وہ تو ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ہدایت اور شفاء ہے.اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بہرا پن ہے جس کے نتیجہ میں وہ ان پر مخفی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ایک دُور کے مکان سے بلایا جاتا ہے.اس سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بعض ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں ایسی باتیں تلاش کرتے رہتے ہیں تا کہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کو الجھاتے رہیں، دُور ہٹاتے رہیں اور اس تعلیم سے دُور رکھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو تو ہم دیکھ لیں گے کہ ان کے ساتھ کیا کرنا ہے.اس دنیا میں جو چاہو کر لولیکن یا درکھو کہ یہ قرآن بڑی عزت والی کتاب ہے اور اس کے ساتھ استہزاء کر کے تم اپنی تباہی کے سامان کر رہے ہو.تمہارے استہزاء اور تمہاری باتوں سے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس کے اندر ایک بچی تعلیم ہے.جھوٹ نہ اس کے قریب پھٹک سکتا ہے نہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے.اور جو بھی سعید فطرت ہو گاوہ بہر حال اس سے فیض پائے گا.اور جہاں تک بدفطر توں کا تعلق ہے انہوں نے تو اعتراض کرتے رہنا ہے.یہ اعتراض کہ یہ عربی پر کیوں اترا اور عجمی پر کیوں اترا.اگر دوسری زبان میں اتارتے تو کہتے کہ عربی میں کیوں نہیں اتارا.جو کھلی کھلی آیات ہوتیں سمجھ آتیں.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں پھر فرمایا کہ یہ تو ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لانے والے ہیں جنہوں نے اعتراض کرنے ہیں وہ تو بہرے ہیں اور اس وجہ سے اس تعلیم کی خوبصورتی کوسن ہی نہیں سکتے ، ان کو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا.ایک تو ان میں بہرہ پن ہے، دوسرے انہوں نے دُور کھڑے ہو کر اس بہرے پن میں اور بھی اضافہ کر لیا اور وہ اس کے قریب بھی نہیں ہونا چاہتے تاکہ ان کو سمجھ آ جائے.دُور کھڑے ہو کر بس اعتراض کئے جاتے ہیں اور اس بات پر غور کرنا نہیں چاہتے.یہی حال آج کل کے قرآن کریم پر ان اعتراض کرنے والوں کا ہے جو مغرب میں ہیں کہ بغیر سمجھے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں اس پر اعتراض کئے چلے جارہے ہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.کئی ایسے ہیں، بلکہ ہندوستان کے سفر میں مجھے ایک عیسائی ملے.انہوں نے مجھے کہا کہ میں قرآن کریم میں سے بعض باتیں تلاش کرتا ہوں اور میں اس کی اسی طرح عزت کرتا ہوں جس طرح بائیل کی.بہر حال ان کے کچھ سیاسی بیان بھی ہوتے ہیں لیکن کئی باتیں انہوں نے مجھے بتائیں جو انہوں نے قرآن کریم سے سیکھیں.جو سیکھنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ ان کو پھر ہدایت بھی دے دیتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کی اکثریت کو عقل دے کہ وہ اس خوبصورت تعلیم کو سمجھنے والے ہوں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں.

Page 552

خطبات مسرور جلد ششم 532 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2008 ہمیں مسلمانوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے ان کے سینے بھی کھولے.وہ بھی قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اپنی روحانی شفاء کا انتظام زمانے کے امام کو مان کر کرنے والے بنیں.آج کل جو دنیا میں مسلمانوں کا حال ہے.پہلے بھی میں ذکر کر آیا ہوں.وہ ہر بچے اور دردمند مسلمان کو خون کے آنسور لاتا ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کی شفاء کا دعویٰ کرنے والے ہیں، جسمانی روحانی اور دنیاوی ہر لحاظ سے مریض بنے ہوئے ہیں، محتاج بنے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے تا کہ وہ زمانے کے امام کو مان کر اپنی دنیاوی اور دینی ہر مرض سے شفاء پانے والے بنیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے کہ زمانے کے امام کو مان کر اپنی دنیاوی اور دینی ہر مرض سے شفاء پانے والے بنیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے کہ زمانے کے امام کو مان کر وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ بحال کر سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس روحانی چشمے سے ہمیشہ فیض پاتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے بچا کر رکھے.آمین الفضل انٹر نیشنل جلد 16 شمارہ 3 مورخہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2009 صفحہ 5 تا صفحہ 8

Page 553

خطبات مسرور جلد ششم انڈیکس خطبات مسرور (جلد ششم) (مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز ) آیات قرآنیہ احادیث نبویہ الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 1.........4.........حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و فرمودات........دیگر متفرق مضامین.اسماء....مقامات کتابیات 9.............27............32............37............انڈیکس

Page 554

Page 555

خطبات مسرور جلد ششم 1 انڈیکس (آیات قرآنیہ ) آیات قرآنیہ آیت کے ساتھ اس کا نمبر اور بعد میں کتاب کا صفحہ نمبر ہے ) 1 اهدنا الصراط المستقيم.الفاتحه : 7-6 481 495 الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (البقرہ:262-263) صراط الذین انعمت عليهم...مغضوب | يايها الذين امنوا انفقوا من طيبت..البقرة : 268 234 | عليهم...الفاتحه : 7 ذالک الکتاب لاريب فيه، البقرة : 2 527 | الذين ياكلون الربوا..البقرة : 276 320 وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ (البقرة : 273) و ممارزقنهم ينفقون..البقرة :4 قولواللناس حسناً...البقرة: 84 1 451 235 | يا ايها الذين امنوا اتقوا الله وذروا ما 151 بقى..البقرة:280.279 454 الذين اتينهم الكتب يتلونه...البقرة:122 98 | هو الذي انزل علیک الکتاب...آل عمران : 53 264 | ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذهديتنا، آل عمران: 9 479 | وجعلنا البيت مثابة...البقرة : 126 رَبَّنَا وَابْعَتْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمُ (البقرة: 130) قل ان كنتم تحبون الله...آل عمران :32 48.38.28.12 338 رب هب لي من لدنك ذرية، آل عمران: 39 478 63 456 48 387 1 ولكل وجهة هو موليها....البقرة: 149 318 | مکرو او مكر الله...آل عمران : 55 كما ارسلنا فيكم رسولا...البقرة : 152 48 لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: 93) 2 فاذكروني اذكركم..البقرة: 153 306 | يا ايها الذين امنو الاتاكلوا الربوا، آل عمران: 131 يايها الذين امنوا استعينوا با الصبر..البقرة: 158-154 368 | لقدمن الله على المومنين.آل عمران:165 يايهالذين امنوا كتب عليكم الصيام، البقرة: 184187 358 ان فى خلق السماوات والارض.آل عمران: 24،254191 | تزودوا فان خير الزاد التقوى...البقرة : 198 156 | الذين يذكرون الله قياما...آل عمران: 192 398 | ویسئلونک ماذا ينفقون...البقرة : 216 235 | والله يريدان يتوب عليكم ، النساء: 28 وعسى ان تكرهوا شيئا...البقرة : 217 495 يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاس (النساء: 39) ان الذين امنوا والذين هاجروا..البقرة : 219 485 ان الله يامركم أن تؤدوا الامانات..النساء : 59 326 327 | ان الله يحب التوابين...البقرة : 223 44 | اطيعوا الله واطيعوا الرسول...النساء: 60 يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم...البقرة : 115226 لوجدوا الله تواباء النساء:65 حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى.البقرة : 239 68 | ومن يقتل مومنا...النساء:94 من ذالذي يشفع عنده ،البقرة:255 519 ان الصلواة كانت على المومنين كتاباموقوتا..النساء: 104 فقد استمسک بالعروة الوثقى..البقرة: 257 214 یا ایهالذین امنوا امنوا بالله...النساء:137 فصرهن الیک ثم ادعهن..البقرة: 261 واذا قاموا الى الصلوة قامواكسالي...النساء : 143 79 504 242 383 371 71 362

Page 556

2 انڈیکس (آیات قرآنیہ) 329.26,30 223 خطبات مسرور جلد ششم الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائده: 4 ،22،13، 33 كما انزلنا على المقتسمين...الحجر : 94-91 95 يايها الذين امنوا كونوا قوامين....المائده : 9 32 و اوحى ربك الى النحل...النحل : 70-69 524 | وانزلنا اليك الكتب بالحق...المائده : 49 317 ان الله يامر بالعدل...النحل : 91 قل ان صلاتي ونسكي ومحياي...الانعام: 163 329 | ضرب الله مثلاقرية...النحل: 113 یبنی آدم قدانزلنا عليكم لباسا الاعراف : 27 410 ادع الى سبيل ربك بالحكمة، النحل: 126..529 | قل امرربي بالقسط...الاعراف: 30 327،325 | ان الله مع الذين اتقوا..النحل: 129 يبني آدم خذوا زينتكم عند كل مسجد، الاعراف:32 419 ان هذا القرآن يهدى للتي هي اقوم..بنی اسرائیل: 10 106 ان رحمة الله قريب من المحسنين، الاعراف: 48457 ان السمع والبصر والفؤاد.بنى اسرائيل: 37 واملى لهم ان كيدى متين الاعراف : 184 373 | اقم الصلواة لدلوك الشمس بنی اسرائیل : 79 69..414 116 وهو يتولى الصالحين...الاعراف : 197 226 | وننزل من القرآن ماهو شفاء بنی اسرائیل : 526،9583 | وما كان الله معذبهم الانفال : 34 انما 388 | ولم يجعلني جبارا....مريم : 33 يعمر مسجد الله من امن..التوبة : 18 422 وامراء ـر أهلك بالصلواة....طه : 133 انما الصدقات للفقراء....التوبة : 60 43 | اولم ير الذين كفروا...الانبياء: 31 والمومنون والمومنت بعضهم.التوبة: 71 422 | فاجتنبو الرجس....الحج 31 خذمن اموالهم صدقة...التوبة: 103 42 | قدافلح المؤمنون...المومنون: 3-2 198 229.82 34 36 81 395 166 388.386 473 التائبون العبدون الحمدون التوبة : 112 156 | والذين هم على صلوتهم يحافظون.المومنون: 10 299 والذين اتخذوا مسجداضرارا،التوبه: 109-107 ان الذين هم من خشية ربهم.المومنون : 62-31958 ان الذين امنوا وعملو الصلحت، يونس 10, 480 ومن يطع الله ورسوله ، النور : 53 يا ايها الناس قدجاء تكم موعظة، يونس : 58 528 | واقيموا الصلواة...النور : 57 529 | من تاب وامن...الفرقان : 72.71 385 | والذين يقولون ربنا هب لنا الفرقان : 75 222 | لعلک باخع نفسك...الشعراء:4 199 | رب هب لي حكما..الشعراء:84 336 | وازلفت الجنة للمتقين، الشعراء:91 وشفاء لما في الصدور يونس : 58 ان استغفروا ربكم ثم توبوا، هود : 4 ومامن دابة في الارض...هود : 7 تلک عادجحدوا...هود : 60 انه من عبادنا المخلصين....يوسف : 25 واستفتحوا و خاب...ابراهيم : 15 205 | بطشتم جبارين....الشعراء : 131 140 498 389 199.198 198 اصلها ثابت وفرعها في السماء.ابراهيم: 25 505 ان تريد الا ان تكون جبارا..القصص : 20 الم تركيف ضرب الله مثلا ابراهیم : 28-25 23 رب انى لما انزلت الى من خير القصص : 25 497 قل لعبادى الذين امنوايقيموا الصلواة.ابراهيم 32 458 الله يبسط الرزق لمن يشاء...العنكبوت : 3 225 انا نحن نزلنا الذكر...الحجر : 10 317 اتل ما اوحی الیک...العنکبوت : 46 الاعبادك منهم المخلصين..الحجر : 41 336 ان الصلوة تنهى عن الفحشاء..العنكبوت : 46 332 ،176 | لاتمدن عینیک الى مامتعنا به الحجر : 89 455 و كاين من دابة...العنكبوت: 61 65.35 224

Page 557

خطبات مسرور جلد ششم 3 انڈیکس (آیات قرآنیہ ) والذين جاهدوا فينا...العنكبوت : 70 242، 383،361 | 412،253،171 اولم يروا ان الله يبسط الرزق..الروم: 41-38 ، 445 | ان الله هو الرزاق ذو القوة المتين.الذاريات : 23859 وما أتيتم من زكواة...الروم: 40 ظهر الفساد في البر والبحر الروم : 42 456 256 473 339 و من يشكر فانما يشكر لنفسه...لقمان : 13 230 انما يومن بايتنا الذين...السجدة : 16 فلا تعلم نفس ما اخفى السجده:18 ان الله وملائكته يصلون...الاحزاب : 7 القد كان لكم في رسول الله...الاحزاب : 22 340 واذكرن ما يتلى.....الاحزاب.: 35 وكان بالمومنين رحيما، الاحزاب :44 ولا تزر وازرة وزرى اخرى...الفاطر: 19 ولويؤاخذ الله الناس...الفاطر : 46 رب هب لي من الصالحين، الصفت : 101 ادعوني استجب لكم...المومن : 61...37 484 74 110.113 478 341 ان الذين قالواربنا الله...حم سجده :33-31 25 ولو جعلناه قرآنا عجميا، حم السجدة: 45 وجزاء سيئة...الشورى: 41 531 26 139 ولمن انتصر بعد ظلمه...الشورى: 42-44 الله ملک السموات والارض الشورى: 50 477 التستوا على ظهوره....الزخرف : 15-14 و اختلاف الليل والنهار...الجاثيه : 6 فاذا لقيتم الذين كفروا....محمد : 5 انا فتحنا لک فتحا مبینا، الفتح : 2 تراهم ركعا سجدا...الفتح : 30 رزقاً للعباد واحيينا...ق : 12 158 227 134 374 250 228 هـــــــامــــــاتـــــوعـــــدون لكل اوابق : 33 389 وفي السماء رزقكم...الذاريات : 23 وما انت عليهم بجبار...ق : 46 والسماء بنينها...الذاريت : 48 226 198 34 وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون......الذاريات : 57 مرج البحرين يلتقين...الرحمن : 20 فلا اقسم بمواقع النجوم...الواقعة: 76 33 92 انه لقرآن كريم في كتاب..الواقعة : 80-78 92 | وتجعلون رزقكم انكم تكذبون..الواقعه:83 236 237 تصلية جحيم...الواقعة : 95 فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كبير (الحديد : 7) كتب الله لاغلبن انا ورسلى...المجادله : 22 216 | هو الله الذى لا اله...الحشر : 23-25 194،322 | هو الذي بعث في الاميين.الجمعة : 3 65،58،54،48 | واخرين منهم....الجمعة : 4 146 385 146 يا ايها الذين امنوا اذا نودي للصلاة الجمعة : 12-10 392 ، 1395 | ومن يتوكل على الله فهو حسبه الطلاق: 4-3 231،226 | ياايها الذين امنو اتوبوا الى الله ، التحريم: 9 وانك لعلى خلق عظيم..القلم: 5 الذين هم على صلاتهم دائمون.المعارج: 24-7823 وجزاهم بما صبر و اجنة وحريرا الدهر : 13 1389 وانه لقول فصل...الطارق : 15-14 قدافلح من تزكي...الاعلى: 15 انا انزلنه في ليلة القدر، القدر : 2 فويل للمصلين...الماعون : 6-5 320 47 398 177.80.79

Page 558

خطبات مسرور جلد ششم انڈیکس (احادیث نبویہ می) الطهور شطر الإيمان احادیث نبویہ علم جو اس جلد میں مذکور ہیں 45-44 آپ جب صبح کی نماز ادا کرتے تو سلام پھیرنے کے بعد یہ 336 اللهم انی اسالک حبک و حب من یحبک 365 | دعا کرتے....اللهم رب الناس اذهب الباس، اشف و انت آپ جس مقام پر پڑاؤ کرتے دونوافل ادا کر کے اس مقام کو 518 چھوڑتے ، سفر سے قبل صدقات، الشافي.159 158 آپ نے ایک شخص کو سفر پر رخصت کرتے دعادی..159 284 پ سفر سے قبل دعا کرتے آپ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے 104 آنحضور ﷺ کی مہمان نوازی.ایک مہمان کو سات بکریوں کا کا فرمانا ایک تاجر قرض دیتا جب تنگ دست دیکھتا تو دودھ پیش کیا ملازمین کو کہتا در گذر کر و خدا نے اس سے صرف نظر کیا 141-142 رسول اللہ ﷺ کو شدید بخار اور آپ کے اوپر پانی کا مشکیزہ لٹک رہا آپ کا فرمانا بتاؤں کس کس پر آگ حرام کر دی گئی ہے جو تھا جس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی آپ کے جسم پر گر رہا تھا 517 آسانی مہیا کرتا ہے 142 رسول کریم کا فرمانا کہ اصل طبیب تو اللہ تعالی ہے.512 آپ کا فرما ناتم آسانی پیدا کرو اورتنگی پیدا نہ کرو..141 رسول کریم اللہ کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے یا مقلب آپ کا فرمانا جو رفق اور نرمی سے محروم رہا وہ ہر قسم کی بھلائی القلوب ثبت قلبی علی دینک سے محروم رہا 482 142 رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک شخص زائد آ گیا تو آپ نے 300 122 رسول کریم علیہ نے فرمایا کہ تین چیزوں میں شفا ہے.شہد ، 516-517 آپ کا فرمانا غصہ میں انسان کھڑا ہے تو بیٹھ جائے بیٹھا ہے میزبان سے پہلے اجازت طلب فرمائی تو لیٹ جائے..پانی پئے آپ کا فرمانا قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کریں دن کو رات کو نشتر میں، اور آگ سے داغنے میں...تلاوت کرو جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے 103 اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کا فرمانا قرآن کے کئی بطن ہیں 104 | کودیتا ہے، کا فرمانا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں 82 اللہ اس شخص پر رحم کرے جو رات کو اٹھے اور اپنی بیوی کو گھر سے نکلتے دعا کرتے.....161 جگائے اور اسی طرح سے بیوی بھی...474 474 143 آپ اونٹنی پر تشریف فرما ہوکر یہ دعا پڑھتے....161 اللہ تعالیٰ رفیق ہے رفق کو پسند کرتا ہے....آپ سواری پر چڑھ کر تین بار تکبیریں پڑھتے 161-162 اللہ عزوجل نے تمہیں پیدا کیا ہے تمہیں رزق عطا کیا ہے پس آپ کا فرمانا سجدے میں انسان خدا سے انتہائی قریب ہوتا ہے 157 تم اسی کی عبادت کرو کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ 233 آپ نے آنے والے مہدی ومسیح کو اپنا سلام پہنچانے کا حکم ایک بچے سے کھانے کے اوقات میں دیوانگی ظاہر ہونا آپ 227 نے اس بچے کی چھاتی پر ہاتھ مارا تو بچہ ٹھیک ہو گیا.519 فرمایا ہے

Page 559

خطبات مسرور جلد ششم 5 انڈیکس (احادیث نبویہ ) سلو کی کریں 364 شخص کو رشتہ داروں سے حسن سلوک کا حکم بے شک وہ بد | جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں 124 اور سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں..394 ایک صحابی حضرت سلمی کی پنڈلی پر خیبر کے دن زخم آیا آپ جمعہ کے دن نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے.394 نے اس زخم پر تین بار پھونک ماری تو وہ ٹھیک ہو گئے.519 جمعہ کے دن ، جمعہ کے وقت ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جو ایک کاروباری قوم کا آپ کے پاس آنا نماز سے رخصت قبولیت دعا کی گھڑی ہوتی ہے.طلب کرنا فرمانا جب نماز نہیں تو وہ دین کیا 77 جمعہ والے دن خاص طور پر نہانے اور خوشبو لگانے کا حکم 44 ایک نماز سے اگلی نماز اور ایک جمعہ سے اگلے جمعہ، انسان کو جو قرآن پڑھتا ہے اور حافظ ہے وہ معزز لکھنے والوں کے ساتھ ہوگا بڑے گناہوں سے بچاتا ہے 264 اور جو اس پر کار بند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے 104 ایک یہودی کا آپ کا حلم دیکھ کر ایمان لانا...119-120 جو کوئی کسی مقام پر پڑاؤ کرے تو یہ دعا پڑھے...160 آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ بدلہ لینا ہے تو لے لو ایک صحابی جو مال تمہارا نہیں ہے، جو تمہیں نہیں ملا اس کے پیچھے نہ پڑو.455 عکاشہ کا اٹھنا اور آپ کے جسم مبارک کو بوسہ دینا 29 30 حج یا عمرے سے واپسی پر گھائی یا ٹیلے سے گذرتے تو تین دفعہ بخار جہنم کا شعلہ ہے پس تم اسے پانی سے بجھاؤ.517 اللہ اکبر کہتے...بغض نہ رکھو ، حسد نہ کرو باہمی تعلقات نہ توڑ وہ تین دن سے حسد نیکیوں کو بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو 45 زیادہ اپنے بھائی سے ناراض نہ رہو قطع تعلق نہ کرو 46 حضرت اسامہ نے اس کے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کر دیا بے شک یہ سیاہ دانہ ہر بیماری سے شفاء کا ذریعہ ہے سوائے اور اس پر رسول اللہ اللہ کی ناراضگی کا اظہار کرنا...371 سام کے...517 | حضرت سلیمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کا فرمانا تم اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو اور اپنے اموال کو ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو.زکوۃ کے ذریعہ محفوظ کرو.تین باتیں جس میں ہوا سے اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے گا 143 فرمانا بال وغیرہ درست کر کے آئے تین دعائیں ایسی ہیں جو قبول ہوتی ہیں....160 دل کی بیماری کیلئے حضرت سعدؓ کو عجوہ کھجوریں کھانے کا ارشاد جس بستی میں جانے کا ارادہ ہو تو یہ دعا پڑھتے..160 | فرمایا..160 55-54 18 داڑھی اور بکھرے بالوں والے شخص کے بارے آپ کا 45 516 جس چیز میں نرمی ہو وہ اسے خوبصورت بنا دیتی ہے 142 دلوں کے زنگ کو دور کرنے کا طریقہ موت کو کثرت سے یاد 124 کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا 104 202 جس شخص نے غصہ کو دبایا جس نے تساہل کرتے ہوئے تین جمعے لگاتار چھوڑے اللہ دو سجدوں کے درمیان دعا تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے.جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا اس کے والدین کو دو رمضان کا مہینہ ابتدائی عشرہ رحمت ، درمیانی عشرہ مغفرت اور 400 دوخو بیاں جن کو خدا پسند کرتا ہے حلم ووقار 103 آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے.125 381 359 تاج پہنائے جائیں گے جس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں تو اس روزہ ڈھال ہے.کے جان و مال قابل احترام ہو جاتے ہیں.372 روزه ، اگر تمام لوازمات کے ساتھ نہیں رکھا جاتا تو تمہارے جمعہ کا دن دنوں میں سے سب سے افضل دن ہے..394 بھوکا رہنے کی خدا تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ہے.361 جمعہ کا دن دنوں کا سردار ہے....اس دن کی پانچ روزے کی حالت میں تمہیں کوئی برا بھلا کہے تو انی صائم کہہ 394 | کر چپ ہو جاؤ.خصوصیات ہیں...360

Page 560

خطبات مسرور جلد ششم 6 انڈیکس ( احادیث نبویہ می) زمینی و آسمانی شرور سے بچنے کی دعا : اعوذ بوجه الله | مسجد میں آتے ہوئے ایسی چیزیں کھانے سے منع فرمایا جن العظيم الذي ليس شیء اعظم منہ...497 سے بو آتی ہو 44 سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا ، والدین کی مسجد میں آکر نماز پڑھنے کا ثواب 27 گنا زیادہ ہوتا ہے 171 46 صیح اور مہدی کے زمانے کی مساجد کا حال ہدایت سے خالی نافرمانی 262-263 161 مفلس کون ہے؟ جس کی نیکیاں قیامت کے دن مظلوموں کو 42 سچ بولو سچ نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے...46 ہوں گی.ان کے علماء.سفر کی ایک دعا اللهم انی اعوذ بک...سورۃ الحشر کی آخری آیات کی جس کسی نے بھی تلاوت کیں اور اسی دی جائیں اس کے ظلم کی وجہ سے، دن یا رات کو فوت ہو گیا اس کے لئے جنت واجب ہوگی.322 لکھی جب کسی برتن میں گر جائے تو اس کو ڈبو کر پھینک دے شہید کی چھ خصوصیات 370 اس کے ایک پر میں شفاء دوسرے میں بیماری ہے.517 صحابہ کسی جگہ گئے تو وہاں کے قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس من لم يعرف امام زمانه فقد مات ميتة الجاهلية 208 | لیا.تو ایک صحابی نے سورۃ فاتحہ کا دم کیا تو وہ ٹھیک ہو گیا.525 نماز دین کا ستون ہے صحابہ کی مہمان نوازی کا ایک دلفریب منظر 285-284 نماز عبادت کا مغز ہے | صدقہ وخیرات بلاؤں کو دور کرتا ہے 178 نماز مومن کی معراج ہے صلح حدیبیہ کے موقع کا حضرت علیؓ سے رسول اللہ کا لفظ مٹوانا 60 نماز میں چھینک پر کسی کا مر حمک اللہ بلند آواز سے کہنا آپ کی طاقتو ر وہ ہے جو اپنے غصے کو کنٹرول میں رکھے 123 | تربیت کا انداز ظلم سے بچو ، قیامت کو تاریکی بن کر سامنے آئے گا حرص بخل لیلۃ القدر کو آخری عشرہ میں تلاش کرو اور بعض جگہ ہے کہ 42 | آخری سات دنوں میں تلاش کرو.کینہ سے بچو غزوہ حنین کے اموال کی تقسیم پر اعتراض کہ آپ نے (نعوذ باللہ ) عدل سے کام نہیں لیا.29.28 غصہ دور کرنے کی دعا بتانا اعوذ بالله من الشيطان الرجيم غصہ نہ کیا کرو ہر بار یہ ہی جواب فتح مکہ پر فرمانا اذهبوا فانتم الطلقاء قرآن کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کرو.........123 123 122 105 76 قرآن کے الفاظ رہ جائیں گے اسلام کا نام رہ جائے گا 55 قرآن کے حسن میں اپنی عمدہ آواز کے ساتھ اضافہ کرو 106 قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا کسی گستاخی سے قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرنا ہم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادئیگی عمدہ اور بہتر صورت میں کرتا ہے 120،47 لا اله الا الله الحليم حضرت علی کو کلمات سکھانا 124 مساجدهم عامرة و هي خراب من الهدى 79 74 164 172 143 397

Page 561

خطبات مسرور جلد ششم 7 انڈیکس ( الہامات حضرت مسیح موعود ) الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اس جلد میں مذکور ہیں اصلح بيني وبين امتی.الا ان اولياء الله...الذين تابوا اصلحوا.....اليس الله بکاف عبده توبوا واصلحوا...خذو التوحيد..التوحيد...رب اصلح امة محمد....سلام عليكم طبتم....سلام على ابراهيم.لا تخف انني معک...میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ياتون من كل فج عميق...205 405 203 406 202 53 203 133 26 62 62 284

Page 562

خطبات مسرور جلد ششم آسمانی فیصلہ 80 انڈیکس (ارشادات حضرت مسیح موعود ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تحریرات و فرمودات جو اس جلد میں مذکور ہیں 335،252،251 حمامة البشرى آئینہ کمالات اسلام ،34، 66،63،52،39، 73، 327 رپورٹ جلسہ سالانہ 65 108.70, 1897 اتمام الحجة اربعین ازالہ اوہام 60 ،372 | رساله ریویواردو 265 | ست بچن 331 سرمه چشم آریہ اسلامی اصول کی فلاسفی 197،150،138،27,32 | شہادت القرآن البدر 232،94،82،67 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم الحکم 36 ،363،328،152،105،101،85 464 ،475، کرامات الصادقین 433،357،355،3 کشتی نوح 244،56 لیکچر لاہور صیت ایاما ایک غلطی کا ازالہ بدر 62 مجموعه اشتہارات 429.384.136 484 256 339.252 501.417.140 108.93 490.489.466.168.153.109 463.462 242.245.66.39 176،80 | ملفوظات ،36، 50، 57، 72، 78، 102، 106، 118، براہین احمدیہ 14 ،22 ، 69 ،485،484،372،340 | 125، 134 ،148، 149، 152، 153، 183، 206، تجلیات الہیہ تحفہ گواٹر و یه تذكرة الشهادتين تریاق القلوب <262-261-257-242-232-227.208 207 444 353.344.334.321.312.311.286.279 405 501.476.414.412-396-385-354 168 372،147، 406 | نزول اصبح تفسیر حضرت مسیح موعود 3، 81، 137 ، 254،234،141 ، نورالقرآن 464.456.429.363.341.329.328.257 484.465 جنگ مقدس چشمه معرفت حقیقة الوحی 26 402.387.73 527.520.404.214 482 116.33

Page 563

خطبات مسرور جلد ششم 9 انڈیکس ( مضامین ) اللہ تعالٰی: دیگر متفرق مضامین صفت حلیم کا پر معارف بیان ا، ب، پ، ت،ٹ،ث اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل فرمایا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا 2 467 صفت علیم اور آنحضرت علی اللہ صفت رفیق کی بابت پر معارف خطبہ صفت جبار.117_110 118 133 194.202 صفت رزاق کا پر معارف بیان.رزاق کے لغوی مفاہیم 221 تا 239 صفت مهیمن کا بر معارف بیان _لغت 316 ت مہیمن پر مزید خطبہ.معانی، واقعات سیرت حضرت مسیح صفت اللہ کا احسان کہ مسیح موعود کو ماننے کے نتیجہ میں ہم مسلمان ہیں 77 تا 79 اللہ کے انعامات کے حصول کے لئے اپنے جائزے لینے کی موعود کی روشنی میں ضرورت اللہ تعالی کی ڈھیل کو اپنی فتح نہ سمجھو 116 صفت رزاق 410401 4570445 373 صفت وھاب قرآنی دعاؤں کے پہلو سے اس صفت کا تذکرہ جماعت کی مساجد کی بنیاد اللہ کے اس گھر کی طرز پر اور اس کے مقاصد کے حصول کی خاطر رکھی جاتی ہے.263 | آفات: 479-472 احمدی جہاں کہیں بھی بسنے والے ہوں ہمیشہ یادرکھیں کہ ان کا سب آفتوں اور بحرانوں کی اصل وجہ خدا سے دوری ہے 447 200 ابتلاء: دعاؤں اور خدا کے حضور جھکنے میں نکھار پیدا کرتے ہیں (53 مددگار غالب اور رحیم خدا ہے.احمدیت.قرآنی تعلیم کے مطابق خدائے واحد کی حکومت کو شہداء کا مقام.ابتلاؤں میں راضی برضا ر ہنے کا مضمون 368 165 | احسان: دلوں پر قائم کرنے کا نام ہے.ہم اس ذو القوة المتین خدا کے ماننے والے ہیں جو اپنے احسان جتلانے والوں کا انجام بندوں کے لئے غیرت رکھتا ہے ، جب دشمنوں کو پکڑتا ہے تو احمدیت : جماعت احمدیہ ان کی خاک اڑا دیتا ہے 2 238 اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں 2 خلافت کے سوسال پورے ہونے پر ہر احمدی یہ عہد کرے کہ شامل فرمایا وہ اللہ تعالی کی رضا کو سب سے اول رکھے گا.168 احمدی کی قربانی کا معیار.یہ مسیح موعود کے پیارے لوگ ہیں.صفات الهيد: جیسے بھی حالات ہو جائیں یہ اپنے قربانی کے معیار کو گرنے ایک مومن اللہ کی صفات میں رنگین ہونا چاہئے 118 نہیں دیتے.اپنے علم کو ہی سب کچھ مجھنے والے اللہ تعالی کی صفات سے فیض احمدیت کی برکت کہ صحیح اسلامی تعلیم کے حسن و خوبی.نہیں پاسکتے 207 حضرت مسیح موعود نے روشناس کروایا 10 2

Page 564

خطبات مسرور جلد ششم 10 انڈیکس ( مضامین ) احمدیت.احباب جماعت کے اخلاص اور وفا کا تذکرہ 312 | احمدیت.قرآنی تعلیم کے مطابق خدائے واحد کی حکومت کو جماعت احمدیہ.دنیا میں جماعت کا تعارف خدمت اور امن دلوں پر قائم کرنے کا نام ہے.پسند جماعت کے طور پر ہے ہر احمدی کی ذمہ داری ہے.احمدیہ انجینئر زایسوسی ایشن 165 462 احمدی کا صرف بیعت کر لینا، کسی صحابی کی اولاد ہونا کافی نہیں ادی صرفی کر لینا حالی والد ہونا کافی نیں 109 462 دنیا کو ہماری خدمات کی ہر حالت میں ضرورت ہے 446 بلکه....153 احمدیت.خدا ہمارے ساتھ ہے.کسی کی دشمنی خدا کے فضل سے جماعت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اور نہ کبھی بگاڑا ہے 115 جماعت کی مخالفت اللہ تعالی کے فضل سے اس کے تعارف اور ان احمدیوں کو نصیحت جو جلد بازی میں گھبرا کر کہتے ہیں کہ شہرت کا باعث بن رہی ہے.پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، 114 494 حالات نہیں بدلتے ہندوستان.حیدرآباد میں جماعت کی مخالفت کا زور 273 عروہ تھی اور جماعت احمدیہ کی خوش نصیبی اور ترقی 213 ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ مشکلات میں خدا کے سامنے جھکتے احمدیوں کا ثبات قدم اور مخالفت کی آندھیاں.213 ہیں.احمدی جہاں کہیں بھی بسنے والے ہوں ہمیشہ یادرکھیں کہ ان کا دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے احمدیوں کا اخلاص و وفا نا قابل 200 بیان ہے.کیرالہ کے احمدیوں کے اخلاص کا تذکرہ 487 488 468 مددگار غالب اور رحیم خدا ہے.امریکی احمدی معاشرہ.میں ایک فکر انگیز بات کہ شادیاں احمدی عورتوں کا مالی قربانی میں بڑا ہاتھ ہے ٹوٹنے کا سلسلہ؛ اس کے متعلق را ہنما ہدایات اور طریق 28 احمدیوں کو مخالفت پر صبر کی تلقین.یہ نہ ہمارا رزق بند کر سکتے افریقن احمدی.خلافت کے ساتھ تعلق ہے دلوں میں تقوی ہیں اور نہ ہمارے ایمانوں کو ہلا سکتے ہیں.ہے، تو وہ کسی طرح بھی کمتر نہیں.احمدیت کی صحیح تصویر.ایک خاندان کے اخلاص وفا پر حضور آنحضرت ﷺ نے فرمایا.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو با ہمی تعلقات نہ توڑو 247 246 انور کا پر مسرت اظہار امریکن احمدیوں کو نصیحت.پاکستانی نژاد احمدی اور افریقن اخوت 238.237 بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو ، کسی مسلمان احمدیوں میں جو ایک اکائی نظر آنی چاہئے وہ ہر سطح پر مجھے کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق کرے نظر نہیں آتی.245 احمدیت.آجکل کے مادی دور اور مغربی ماحول میں عافیت کا حصار - 241 جماعت احمد یہ اور والدین کی ذمہ داری کہ بچوں باہمی اخوت کی نصیحت اور صحابہ کانمونہ.241 استغفار: کو خدا کے قریب لائیں 27 مئی.کے بعد پاکستان میں مخالفت کی ایک لہر.فیصل آباد استغفار کی اہمیت اور حکمت میں میڈیکل کالج سے طلباء کو نکالنا 238 استغفار اور تو بہ میں فرق اور توبہ کی شرائط احمدی سائنسدان تحقیق کی بنیاد قرآن کے لائے ہوئے علم پر استہزاء: رکھے گا.46 246 381 386 385 35 اسلام کا استہزا کرنے اور کارٹون بنانے والوں کو ڈھیل ملنے کی احمدیت کی مخالفت اس کی ترقی کو روک نہیں سکتی.تاریخ گواہ حکمت 111-110 ہے کہ ہر ایسی روک نے اونچا اڑانے کے لئے ایندھن کا کام کیا آنحضرت ملے اور قرآن کو جھوٹا کہنے والے اور استہزاء دیا ہے 44 کرنے والے خدا کی پکڑ سے بچ جائیں گے.95

Page 565

خطبات مسرور جلد ششم 11 انڈیکس ( مضامین ) اس اعتراض کا رد کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا.اسلام کا استہزا کرنے اور کارٹون بنانے والوں کو ڈھیل ملنے کی اصلاح: حکمت 166 111-110 حضرت مسیح موعود کے اقتباسات اور پر معارف تشریح 202 اسلام کے خلاف مغرب کی کوششیں اور ان کے نا کام اور یہ بدظنی کہ احمدی نوجوان کی اصلاح نہیں ہوسکتی یہ خدا پر بدظنی 98 ہے 249 نا مرا در ہنے کا اعلان اور ہماری ذمہ داری اور ردعمل ایک امریکن کتاب میں ذکر کرنا کہ جو کچھ اسلام کے خلاف ہو نو جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح اور راہنمائی خصوصا رہا ہے اس میں اسلامی ملکوں کے بعض سربراہوں کا بھی ہاتھ شادی کے معاملہ میں.ہے.167 92 جماعتی نظام ایک حد تک اصلاح کر سکتا ہے اصل اصلاح تو 92 | اعتراض: 149 166 مسلمان حکومتیں صرف اپنی ظاہری شان و شوکت قائم رکنے انسان خود اپنی کرتا ہے.کے لئے اسلام کو کمزور کر رہیں ہیں.اسلام کا مقدر تو اب پھیلنا ہے مگر دہشت گردی یا عسکریت سے اس اعتراض کا رد کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا.نہیں بلکہ مسیح محمدی اور قرآن کی محبت کی تعلیم.90 عربوں کے چینلز میں مسجد خدیجہ کی خبر کی اشاعت لیکن عقائد اسلام کی مخالفت کا اصل سبب اس کا عالمی مذہب ہونا اور کے بارے میں توڑ مروڑ کر حقائق پیش کرنا اور اعتراض کہ 87 انگریز کا خود کاشتہ پودا ایک مصری تنظیم نے ایسا ہی بودا 442.441 غالب آنے کا جذبہ ہے اسلام کی عورتوں کے متعلق تعلیم اور طالبان کا سلوک اس میں الزام لگایا تھا بہت فرق ہے ایک مغربی صحافی رڈلی کے تاثرات 86 غزوہ حنین کے اموال کی تقسیم اور ایک منافق کا اعتراض 29 اسلام کیخلاف مغرب کی ظالمانہ مہم اور اس کی مذمت 86 امت مسلمہ: موجودہ اسلام کے خلاف مہم میں ایک احمدی کا کردار کیا ہونا مسیح محمدی کے جھنڈے تلے امت محمدیہ جمع ہو جائے اب وہ چاہئے 100 وقت قریب ہے 203 اسلامی تعلیم اور معاشی نظام سے کے مقابلہ پر کوئی نظام ایسا امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکر یہ مسیح موعود کو ماننا ان نام نہاد 47 مولویوں کے مفاد میں نہیں اور بہانہ ختم نبوت کا ہے.483 97 نہیں ہے جو اس سے اعلی ہو.اسلامی تعلیم.خصوصا رفق اور حلم کے حوالہ سے 135 امت مسلمہ کے لئے دعاؤں کی تحریک خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی تعلیم کی حکمت کے موتی اس میسیج و امن: مہدی سے منسلک ہو کر ہی اب حاصل کئے جاسکتے ہیں 53 امن کی بحالی کے نام پر جنگیں، وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے اسلامی ممالک.دولت کا مصرف درست نہ کرنا اور اس کا ہیں نقصان 443 | انٹرنیٹ: 455 اسلام پر شدت پسندی کے الزام کی تردید کہ ماضی میں ہمیشہ انصار الله یو کے کا انٹرنیٹ کے زریعہ ترجمہ قرآن سکھانے فتوحات اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ہوئی ہیں میں دنیا کو بتاتا کا انتظام استفادہ کی تلقین 102 ہوں کہ چند شدت پسندوں کے ناجائز عمل کی وجہ سے اسلام پر انٹرنیٹ پر کارٹونوں کے خلاف معذرت کا اظہار یورپ والوں الزام لگتے ہیں 529 | Sorry Mohammad کے نام سے 88

Page 566

خطبات مسرور جلد ششم انصار الله 12 انڈیکس ( مضامین ) ایمان: اپنے ایمان کی دولت کی ہمیشہ حفاظت کرنی ہے اور انصار الله یو کے کا انٹرنیٹ کے ذریعہ ترجمہ قرآن سکھانے کا اس کے لئے..انتظام استفادہ کی تلقین انصاف.دیکھیں عدل انعام 170 102 احمدیوں کو مخالفت پر صبر کی تلقین.یہ نہ ہمارا رزق بند کر سکتے 34 ہیں اور نہ ہمارے ایمانوں کو ہلا سکتے ہیں.237 ،238 آنحضرت ﷺ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر اللہ کے انعامات کے حصول کے لئے اپنے جائزے لینے کی ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان کی نسل میں ضرورت انفاق فی سبیل اللہ : نیز دیکھیں زیر لفظ چندہ انفاق فی سبیل اللہ اور ان کا اجر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا 116 سے ایک شخص اسے زمین پر واپس لے آئے گا بجٹ 55 1 اگر آمد اتنی نہیں ہو تو خود تقوی کو مد نظر رکھ کر اپنے بجٹ پر نظر 467 ثانی خدا کے دئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنے کا حکم اور اس بچے: 235 کے مصارف اور اس پر توجہ نہ کرنے کے نقصانات 448،447 زیادہ سے زیادہ بچوں کو وقف جدید میں شامل کرنے کی تحریک 5 احمدی عورتوں کا مالی قربانی میں بڑا ہاتھ ہے 468 احمدی بچوں کا جذبہ خدمت جلسہ پر اور غیر از جماعت کا اظہار انقلاب: تحسین اس سوال کا جواب کہ مرزا صاحب نے کیا دیا؟ خلافت کی بحران: 311.310 محبت اور ایک عجیب روحانی انقلاب 186 زبر دست عالمی معاشی بحران اور اس کا ماہرانہ تجزیہ اور انتہاہ ، اس سودی نظام سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے 447 تا 452 ایم.ٹی.اے ایم.ٹی.اے کا تذکرہ اور اس کی افادیت و اہمیت اور اس کے سب آفتوں اور بحرانوں کی اصل وجہ خدا سے دوری ہے 447 216 برائی: کارکنان کے لئے دعا ایم.ٹی اے کے کارکنوں کی مہارت اور اخلاص 188 بعض برائیاں اور ان سے بچنے کی تلقین.حسد، جھوٹ ، قرض ایم.ٹی.اے.کے پروگرام اور خطبات دیکھنے والے اور وغیرہ 209 | برتن: 49 بعض کے خوف کی وجہ ایم.ٹی.اے تبلیغ کے میدان میں بہت بڑا کردار 467 جب برتنوں کو صاف کرنے کے لئے اتنی محنت کی جاتی ہے تو وہ 307 برتن جو انسان کے دل کا برتن ہے اور جسے تقوی سے صاف ایم.ٹی.اے.کی برکات اور افادیت ایم.ٹی.اے تربیت اور دیگر امور میں کردار.جماعت کرنے کا حکم ہے.وحدت کی لڑی میں پروئی جارہی ہے.500 بیعت 243 ایم ٹی اے کا نظموں میں کردار کہ پڑھنے کا انداز ایک احمدی کا صرف بیعت کر لینا کسی صحابی کی اولاد ہونا کافی نہیں 500 بلکه...153 417 جیسا ہو گیا ہے جلسہ سالانہ پر ڈیوٹیاں دینے والے کارکنان ایم.ٹی.اے شرائط بیعت اور ہمارے فرائض اور سب کے لئے دعا کی تحریک اور شکریہ 314 بیعت میں آنے کے بعد ہمیں لا پرواہ نہیں ہو جانا چاہئے 481

Page 567

خطبات مسرور جلد ششم گمشدہ بیعتوں کو تلاش کرو 13 504 | ترقی: انڈیکس ( مضامین ) ایسی ہی میں نہلاؤ جو تربیت کی کمی کی وجہ سے غائب ہو جائیں 504 سلسلہ کی ترقی.خدا کے فضلوں کی بارش ہمیشہ برسنے والی بارش عہد بیعت اور اس کی ذمہ داریاں بینک: 67 ہے 433 جب تک درود پر توجہ رہے گی اس کی برکت سے خلافت سے اسلامی بینکنگ حقیقت میں وہ چیز نہیں جو اسلام چاہتا ہے، تعلق اور جماعت کی ترقی ہوتی رہے گی شوگر کوٹڈ قسم کی بینکنگ ہے پارلیمنٹ: 447 | ترجمه: 136 ترجمہ قرآن کی طرف توجہ کرنے کی تحریک اور ذیلی تنظیموں لندن کی پارلیمنٹ میں خلافت جو بلی کے حوالہ سے حضور انور کا اور نظام جماعت کو توجہ دلانے...اور والدین...102 103 خطاب اور حیرت انگیز نیک اثر پاکیزگی 443 تزکیہ: تزکیہ نفس کی ضرورت اور اس کئے ذرائع دلوں کی پاکیزگی کے لئے چند قرآنی احکام 44 تزکیہ کے لغوی مفاہیم باہمی تعلقات 64 41 پیغامی (غیر مبائعین) میں بصد ادب اور عزت اپنے ان بھٹکے ہوئے..59 آنحضرت ﷺ نے فرمایا.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد پیغامیوں کا انڈو نیشیا کے اخبارات میں چھپنے والی ایک خبر پر رد نہ کرو، بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو با ہمی تعلقات نہ توڑو، 57 بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان عمل اور حضرت خلیفہ امسیح کی نصیحت تبلیغ تبلیغ ، مساجد اور لٹریچر مبلغین کی تیاری اور مشن ہاوسز کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ 467 ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق کرے 467 | تقوی: 46 تبلیغ کی اہمیت اور اس کے ذرائع.فرانسکی تبلیغی مساعی کی جب برتنوں کو صاف کرنے کے لئے اتنی محنت کی جاتی ہے تو وہ تعریف تحریک جدید تحریک جدید (انجمن) 413 برتن جو انسان کے دل کا برتن ہے اور جسے تقوی سے صاف کرنے کا حکم ہے..421 | تلاوت تحریک جدید کا قیام اور اس کے نیک ثمرات 466 تلاوت قرآن کریم کی اہمیت اور تقاضے تحریک جدید دفتر اول کے مرحومین کے کھاتوں کا اجراء 470 تو بہ:..اس میں اضافہ کی گنجائش، افریقہ کی جماعتیں تو تین گنا کر استغفارا اور تو بہ میں فرق اور توبہ کی شرائط ج، چ، ح، خ، سکتی ہیں 470 تحریک جدید سال رواں کے اعداد و شمار 469 | جامعہ کئی جگہ جامعات کھل جانا مالی قربانی کا جذبہ کہ جو نبی اعلان ہو تو وعدہ لکھوانا اور قرض جزا و سزا کے دن کی حکمت لے کر بھی ادا کرتے ہیں تحقیق : دیکھیں زیر لفظ ریسرچ“ 468 | جلسہ سالانہ : جلسہ کے بنیادی اغراض و مقاصد 243 100 386.385 467 112 346

Page 568

14 انڈیکس ( مضامین ) خطبات مسرور جلد ششم جلسہ سالانہ کی ابتدا اور اس کے بنیادی مقاصد 338 | عورتوں کا جلسہ جرمنی اور تبدیلی اور نیک اصلاح کا ذکر 354 جلسہ سالانہ کے بنیادی مقاصد اور اغراض اور جلسوں کی جلسہ سالانہ جرمنی کے اعداد وشمار اور دیگر تفصیلات کا ذکر 347 جلسوں کی روایات اور مقاصد سے آگا ہی اور ایم.ٹی.اے وسعت اور عالمی ترقی 240 250 جلسہ.جماعت احمدیہ کے جلسوں کا بنیادی مقصد خدا کی رضا کا کی بدولت ایک وحدت حصول ہے...اور اپنے اند را نقلاب 175 عورتوں ( جرمنی جلسہ ) کو خصوصی نصیحت کہ خاموشی سے جلسہ سنیں ،شور اور باتوں کی وجہ سے پہلے پابندی لگی تھی 345 جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو ہدایات.گھانا کے جلسہ میں عورتوں کا قابل تقلید اسوہ کہ 345 نمازوں کی ادائیگی، تہجد، سلام کو رواج ، بن بلائے مہمان نہ بنیں، زیادہ دیر نہ ٹہریں، جماعت پر بوجھ نہ بنیں، برداشت کا مظاہرہ کریں، ٹریفک قوانین کی پابندی کریں 297 خلافت جوبلی اور جلسے ہر احمدی میں ایک نیا جذبہ 496 احمدی بچوں کا جذ بہ خدمت جلسہ پر اور غیر از جماعت کا اظہار تحسين جلسہ کے ایام میں خصوصا آنحضرت پر درود بھیجنے کی تلقین 340 جمعه جلسہ کے حوالہ سے انتظامی طور پر دی جانے والی بنیادی نماز جمعہ کی اہمیت، برکات اور احکامات 304 ایک عظیم جمعہ ہدایات برطانیہ کے جلسہ کے کارکنان کی محن اخلاص اور ڈیوٹیوں کی حمتہ الوداع کا غیر احمدیوں میں غلط تصور.تعریف 296 | جنگ 311.310 4000392 396 393 کارکنان جلسہ خاص طور پر برطانیہ کے کاموں کی تعریف امن کی بحالی کے نام پر جنگیں، وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے ہیں 455 295 جوبلی : دیکھیں خلافت جو بلی وتوصيف جلسہ کے کارکنان اور والنٹیر ز کی خوش قسمتی کہ مسیح موعود کے جہاد: مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.282 اب تعلیمی اور علمی جہاد ہے جلسہ سالانہ پر ڈیوٹیاں دینے والے کارکنان ایم.ٹی.اے قرآنی جہاد کی فلاسفی اور احکامات 17 17 149 اور سب کے لئے دعا کی تحریک اور شکریہ 314 جس جہاد کا حکم قرآن میں ہے اس کی بعض شرائط ہیں 17 جلسہ برطانیہ میں جرمنی سے سائیکل سواروں کی شمولیت.ان جھگڑوں کی بنیادی وجہ اور اس کے بداثرات نوجوانوں کا اخلاص و وفا کا اظہار.البتہ پہل افریقہ نے کی جھوٹ: ہے.312 38 جھوٹ کی مذمت اور اس کے نقائص برطانیہ میں شامل ہونے والوں کے جذبات و آپ نے فرمایا جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور جلسہ سالانہ کا باعث بن جاتا ہے اور فسق و فجور رسیدھا آگ کی طرف لے تاثرات 308 جاتے ہیں....46 جلسہ برطانیہ میں احمدیوں کی اطاعت ، ڈسپلن اور آپس میں بعض برائیاں اور ان سے بچنے کی تلقین.حسد، جھوٹ ، قرض 309 وغیرہ 49 جلسہ سالانہ برطانیہ کے اختتام پر تشکر اور اس کی برکات 308 چندہ: نیز دیکھیں زیر لفظ "انفاق جلسہ میں شامل ہونے والوں کے اخلاص اور محبت کے احمدیوں میں چندوں کی ادائیگی کی روح 306 | اگر آمد اتنی نہیں ہو تو خود تقوی کو مد نظر رکھ کر اپنے بجٹ پر نظر ثانی 235 تذکرے 426

Page 569

خطبات مسرور جلد ششم 15 چندہ دے کر جتلاتے نہیں کہ اتنا دیا.احسان جتلانے والوں کا خدام الاحمدیہ: انجام 2 خدام الاحمدیہ جرمنی کا وقار عمل جلسہ کے لئے انڈیکس ( مضامین) 352 سوشل ہیلپ Social Help.مغربی ممالک میں یہ طریق خدام الاحمدیہ جرمنی کا خلافت جوبلی کے حوالہ سے کرکٹ اور لوگوں کا غلط معلومات دے کر یہ لینا.تقوی سے بعید ہے.ٹورنامنٹ ایسے لوگوں سے چندہ لینا بند کر دیں.232 233 خدام الاحمدیہ گھانا کی ڈیوٹی کی تعریف حدیث: (اس جلد میں مذکور احادیث انڈیکس کے شروع میں) خدمت حسد میں مذکوراد 352 189 احمدی بچوں کا جذ بہ خدمت جلسہ پر اور غیر از جماعت کا اظہار حسد کی آگ جو مخالفین اور مخالف حکومتوں کے دل میں تحسین جماعت کے خلاف ہے 53 ختم نبوت: 311.310 بعض برائیاں اور ان سے بچنے کی تلقین.حسد، جھوٹ، قرض امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ مسیح موعود کو ماننا ان نام نہاد وغیرہ 49 مولویوں کے مفاد میں نہیں اور بہانہ ختم نبوت کا ہے.483 خلافت احمدیہ کے سوسال احمدیوں کے پروگرام اور حاسدوں خلافت: کا حسد 61 اس سوال کا جواب کہ مرزا صاحب نے کیا دیا؟ خلافت کی اسلامی حکومت میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی معاشی محبت اور ایک عجیب روحانی انقلاب 186 47 خلافت کی طرف سے کیا گیا ہر فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں 419 نظام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اور معروف ہی ہوگا.اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن اور گھاس کو شکر گزاری.خلافت کی نعمت پر.آپ میرے لئے دعا کریں 45 اور میں آپ کے لئے دعا کروں گا.215 62 508.189 بھسم کر دیتی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد مسلمانوں کا اظہار کہ خلافت کے بغیر بھی ہم کامیاب نہیں ہو نہ کرو، بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو باہمی تعلقات نہ توڑو، سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان خلیفہ وقت کے دوروں کی اہمیت ، برکت اور دیگر بھر پور کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ فوائد تبلیغ وغیرہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق کرے 46 جب تک درود پر توجہ رہے گی اس کی برکت سے خلافت سے حقوق کی ادائیگی کے پس منظر میں اسلامی حکومت کی ذمہ داری 46 | تعلق اور جماعت کی ترقی ہوتی رہے گی عبادت کرنے کے باوجود دوسرے لوگوں کا حق مارنا اور ظلم عہد بیعت جو حضرت مسیح موعود کے بعد اب خلافت احمد یہ کرنا.ایسے لوگوں کی مذمت اور......حکمت 45 سے بھی خلافت جو بلی: 136 419 حکمت، عقل اور دانائی کے معنی اور اس کی تفسیر 34،39 خلافت جوبلی کی روح اور اصل حقیقت ابراہیمی دعا ئیں.حکمت کی پر معارف تفسیر 28 یہ سال جس میں جماعت، خلافت کے 100 سال پورے حلم اور خلق کے اعلی نمونے اور حضرت مسیح موعود 148 ہونے پر جوبلی منا رہی ہے، یہ جو بلی کیا ہے؟ کیا صرف اس

Page 570

خطبات مسرور جلد ششم 16 انڈیکس ( مضامین ) 61 168 بات پر خوش ہو جانا کہ ہم جو بلی کا جلسہ کر رہے ہیں یا مختلف خلافت احمدیہ کے سو سال احمدیوں کے پروگرام اور حاسدوں ذیلی تنظیموں نے اپنے پروگرام بنائے ہیں، یا کچھ سونیئر ز بنا کا حسد لئے گئے ہیں.یہ تو صرف ایک چھوٹا سا اظہار ہے.اس کا خلافت جوبلی جلسہ میں شمولیت کے لئے غریب افراد کا عزم اور مقصد تو ہم تب حاصل کریں گے، جب ہم یہ عہد کریں کہ اس ولولہ فصل کاشت کر کے کرایہ اکٹھا کرنا اور قرض لے کر 186 100 سال پورے ہونے پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس نعمت پر خلافت کے سو سال پورے ہونے پر ہر احمدی یہ عہد کرے کہ جو خلافت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتاری ہے، ہم وہ اللہ تعالی کی رضا کو سب سے اول رکھے گا.شکرانے کے طور پر اپنے خدا سے اور زیادہ قریبی تعلق پیدا خلافت جوبلی کی حقیقی روح خلافت کی نعمت کا شکریہ.جو خدا کرنے کی کوشش کریں گے.اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی تعالی سے تعلق پیدا کرنے کی صورت میں ہو حفاظت پہلے سے زیادہ بڑھ کر کریں گے اور یہی شکر ان نعمت خلافت جوبلی کے فنکشن کے حوالہ سے ایک نصیحت 154 اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید بڑھانے والا ہوگا.166 خلافت جو بلی کی دعاؤں میں درود شریف رکھنے کی اہمیت 135 خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر غیر معمولی فضل 271 خلافت کے سو سال پورے ہونے پر ہر احمدی یہ عہد کرے کہ خلافت اور جماعت کا والہانہ تعلق اور خلیفہ وقت کا جذبہ تشکر 215 وہ اللہ تعالی کی رضا کوسب سے اول رکھے گا.خلافت جو بلی کے حوالہ سے ان جلسوں کی اہمیت اور یہ ساتواں خلافت کے انعام کا حقیق شکر نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ 75 جلسہ ہے جس میں حضورا نور بنفس نفیس شریک ہوئے 335 خدام الاحمدیہ جرمنی کا خلافت جو بلی کے حوالہ سے کرکٹ امسال جلسہ برطانیہ خلافت جو بلی کی وجہ سے خاص اہمیت کا ٹورنامنٹ حامل ہے 295 لندن کی پارلیمنٹ میں خلافت جوبلی کے حوالہ سے حضور انور کا دعا: د، د، ذ، ر، ز 443 دعاؤں کی اہمیت اور برکات.پر معارف بیان 166 168 352 52 خطاب اور حیرت انگیز نیک اثر خلافت جوبلی کے سال میں ہونے والے جلسے اور خطوط دعاؤں اور خدا کے حضور جھکنے میں نکھار پیدا کرتے ہیں 53 مبارکباد کے 307 تین دعائیں ایسی ہیں جو قبول ہوتی ہیں اور ان کی قبولیت میں خلافت جو بلی اور جلسے ہر احمدی میں ایک نیا جذبہ 496 کسی قسم کا کوئی شک نہیں.مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد خلافت جوبلی جلسہ وحدت کی ایک نئی شان کا مظہر غیروں اور کی دعا اپنی اولاد کے لئے اپنوں کے ایمان افروز تاثرات 160 212 جن ملکوں میں احمدیوں پر سختیاں ہورہی ہیں ان کو دعاؤں کی یوم خلافت اس سال کا یوم خلافت خاص اہمیت کا حامل تھا اور تلقین اور دیگر ہدایات اس دن کے جلسہ کا ذکر 53 210 مخالفین سے ہمدردی ، کہ یہ کلمہ گو ہیں ان کے لئے دعا کرنی لندن میں ہونے والا خلافت جوبلی کا فنکشن اور دنیا بھر اور کینیڈا چاہئے.کے احمدیوں کے نوافل اور اجتماعی پروگرام.یہ سب خلافت حضورانور کا سفر افریقہ اور دعا کی تحریک 53 158 سے محبت کا اظہار ہے اسے کبھی ختم نہ ہونے دیں 258 مسیح محمدی کو محبت اور پیار اور دعاؤں کا ہتھیار دیا دلوں کو گھائل خلافت جو بلی اور حسد کی بنا پر ملاں اور سیاستدانوں کا اکٹھا ہونا کرنے والا ہے جو بھی پسپا نہیں کیا جا سکتا.بلکہ یہ زخم ایسا ہے اور اس کی وجہ کرسی ، ووٹ اور جھوٹا رزق 236 237 | جو زندگی بخشتا ہے 420

Page 571

خطبات مسرور جلد ششم 17 ایک خوبصورت دعا جو ہر احمدی کا روزمرہ کا معمول ہونا چاہئے 480 | دولت : امت مسلمہ کو دعاؤں کی تحریک انڈیکس ( مضامین) 97 | اسلامی ممالک، دولت کا مصرف درست نہ کرنا اور اس کا مسلمانوں کی حالت زار اور دعا کی تحریک 532 | نقصان 443 مسلمان ملکوں اور پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 220 اپنے ایمان کی دولت کی ہمیشہ حفاظت کرنی ہے اور اس کے شکر گزای.خلافت کی نعمت پر.آپ میرے لئے دعا کریں لئے.اور میں آپ کے لئے دعا کروں گا.درود شریف 215 دہشت گردی: 170 اسلام کا مقدر تو اب پھیلانا ہے مگر دہشت گردی یا عسکریت جب تک درود پر توجہ رہے گی اس کی برکت سے خلافت سے سے نہیں بلکہ مسیح محمدی اور قرآن کی محبت کی تعلیم سے 90 تعلق اور جماعت کی ترقی ہوتی رہے گی 136 اسلام پر شدت پسندی کے الزام کی تردید کہ ماضی میں ہمیشہ درود شریف کی اہمیت و برکات اور اس کا ورد کرنے کی تلقین 135 فتوحات اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ہوئی ہیں میں دنیا کو بتاتا خلافت جو بلی کی دعاؤں میں درود شریف رکھنے کی اہمیت 135 ہوں کہ چند شدت پسندوں کے ناجائز عمل کی وجہ سے اسلام پر جلسہ کے ایام میں خصوصا آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی تلقین 340 الزام لگتے ہیں دشمن اسلام کے گھٹیا حملوں کے جواب میں درود پڑھنے کی تحریک 136 ڈاکٹر : دشمن 529 ڈاکٹر یا طبیب کا علاج تبھی فائدہ مند ہوتا ہے جب اللہ جو شافی ہم اس ذو القوۃ المتین خدا کے ماننے والے ہیں جو اپنے ہے اس کی مرضی ہو.بندوں کے لئے غیرت رکھتا ہے ، جب دشمنوں کو پکڑتا ہے تو احمدی ڈاکٹر ز اور ریسرچر کوراہنما ہدایت، 515 513 238 ڈاکٹر ز کا نسخوں پر ھوالشافی لکھنا اور ارشاد کہ اس کا ترجمہ بھی ان کی خاک اڑا دیتا ہے آج بھی محمد ﷺ کا خدا زندہ خدا ہے.دشمن اپنی مذموم ساتھ لکھ دیا کریں کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا 137 ڈیوٹی: 513 دشمن اسلام کے گھٹیا حملوں کے جواب میں درود پڑھنے کی تحر یک 136 کارکنان جلسہ خاص طور پر برطانیہ کے کاموں کی تعریف ول وتوصيف 295 جب برتنوں کو صاف کرنے کے لئے اتنی محنت کی جاتی ہے تو وہ جلسہ کے کارکنان اور والنٹیر ز کی خوش قسمتی کہ مسیح موعود کے برتن جو انسان کے دل کا برتن ہے اور جسے تقوی سے صاف کرنے کا حکم ہے..دلوں کی پاکیزگی کے لئے چند قرآنی احکام 243 44 مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.282 جلسہ سالانہ پر ڈیوٹیاں دینے والے کارکنان ایم.ٹی.اے اور سب کے لئے دعا کی تحریک اور شکریہ یہ ریسرچ ہو رہی ہے کہ دل اور دماغ کا کیا تعلق ہے اور ذكر: خیالات کا اثر دل پر پڑتا ہے کہ نہیں.دنیا 530 314 ذکر الہی اس طرح ہونا چاہئے کہ ہر وقت خدا یا درہے 398 ذمہ داری دنیا کو ہماری خدمات کی ہر حالت میں ضرورت ہے.446 دورہ: خلیفہ وقت کے دوروں کی اہمیت، برکت اور دیگر بھر پور میں تیری بلی کو ہی اک وعدہ ہے اور ہماری ذمہ داریاں 198 خدا فوائد تبلیغ و غیره 189 ایک احمدی سے خدا کے وعدے اور اس کی ذمہ داریاں اور معیار 64،63

Page 572

خطبات مسرور جلد ششم 18 انڈیکس ( مضامین ) س ،ش، ص، ض، ط، ظ ذیلی تنظیموں کے لئے اصولی ہدایات، جماعتی معاملات میں سیچ اسچائی: دخل نہیں دے سکتے.جماعتی نظام ان تمام تنظیموں سے بالا آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہیں بیچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ بچ ہے.ذیلی تنظیمیں براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں 174 نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ذیلی تنظیمی شعبہ جات کی ذمہ داری اور ہدایات 6 ہے....رزق سائنسدان: 46 خدا کے دئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنے کا حکم اور اس احمدی سائنسدان تحقیق کی بنیاد قرآن کے لائے ہوئے علم پر کے مصارف اور اس پر توجہ نہ کرنے کے نقصانات 448،447 رکھے گا.35 سائیکل دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا زعم کہ ہم نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن ان کا بید م...کیونکہ وہ خدا کو رازق نہیں مانتیں 446 سائیکل سفر پر جلسہ وغیرہ پر آنے کی افادیت تبلیغ کا ایک یہ زعم....وہ کور احمدیوں کو مخالفت پر صبر کی تلقین.یہ نہ ہمارا رزق بند کر سکتے ذریعہ 313 سائیکل پر اجتماعات وغیرہ پر آنے کی تاریخ.حضرت خلیفہ ہیں اور نہ ہمارے ایمانوں کو ہلا سکتے ہیں.237 238 امسیح الثالث کی تحریک پر آنے شروع ہوئے رزق کا شکر سے گہرا تعلق 230 312 جلسہ برطانیہ میں جرمنی سے سائیکل سواروں کی شمولیت.ان رزق کی وجہ سے دین کی غیرت میں فرق نہیں آنا چاہئے 225 نوجوانوں کا اخلاص و وفا کا اظہار.البتہ پہل افریقہ نے کی آج بھی رزق کی کمی کا اصل سبب اور اس کو دور کرنے کاحل 224 ہے.روزه ارمضان رمضان کی برکات ، تینوں عشروں کی اہمیت 381 سائیکل سفر.بورکینا فاسو سفر: 312 185 158 رمضان کی اہمیت اور فضائل اور اس کے تقاضے.احادیث اور سفر شروع کرنے کی دعائیں اور احادیث کا ذکر اقتباسات کی روح پرور تفسیر و توضیح 367،359 سفر کے بارہ میں توجہ اور اس کی مختلف نوعیت اور افادیت 112 ریسرچ حضورانور کا سفر افریقہ اور دعا کی تحریک 158 احمدی ڈاکٹرز اور ریسرچر کو راہنما ہدایت، 513 آنحضرت ہر سفر شروع کرنے سے پہلے دعائیں کیا کرتے احمدی سائنسدان تحقیق کی بنیاد قرآن کے لائے ہوئے علم پر تھے رکھے گا.158 35 آنحضرت یہ سفر کرنے سے پہلے ، سفر کرنے والوں کو کس احمدی طلباء کو ریسرچ کے میدان میں آگے آنے کی تحریک 516 طرح دعا دے کر رخصت فرمایا کرتے تھے، خیالات کا اثر دل پر پڑتا ہے کہ نہیں.530 159 یہ ریسرچ ہو رہی ہے کہ دل اور دماغ کا کیا تعلق ہے اور آپ جب کسی مقام پر پڑاؤ کرتے تو وہاں سے اُس وقت تک کوچ نہ فرماتے جب تک دو رکعت نماز نہ ادا فرمالیتے.159 نبی کریم اللہ جب حج یا عمرے سے یا غزوہ سے واپسی پر کسی گھائی یا ٹیلے سے گزرتے تو تین دفعہ اللہ اکبر کہتے پھر یہ زمانه یہ زمانہ.قیامت تک آنحضرت ﷺ کا زمانہ ہے 146 پڑھتے...160

Page 573

خطبات مسرور جلد ششم 19 انڈیکس ( مضامین) اگر تم میں سے کوئی کسی مقام پر پڑاؤ کرے تو یہ کہے کہ...110 | سوشل ہیلپ Social Help تین دعائیں ایسی ہیں جو قبول ہوتی ہیں اور ان کی قبولیت میں مغربی ممالک میں یہ طریق اور لوگوں کا غلط معلومات دے کر 160 | دیں.233.232 کسی قسم کا کوئی شک نہیں.مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد یہ لینا تقوی سے بعید ہے ایسے لوگوں سے چندہ لینا بند کر کی دعا اپنی اولا د کے لئے نی کریم ہے جب کسی ایسی بستی کو دیکھتے جس میں آپ کے سیٹیلائیٹ ٹیلی ویژن نیز دیکھیں ایم ٹی اے“ جانے کا ارادہ ہو تو آپ یہ دعا کرتے اے اللہ! سات ایم.ٹی اے کا تذکرہ اور اس کی افادیت و اہمیت اور اس کے 160 آسمانوں اور جس پر ان کا سایہ ہے رسول الله الا اللہ سفر شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے ك اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوْذُبِكَ مِنْ وَعْتَاءِ السَّفَرِ وَكَابَةِ المُنْقَلَب وَالْحَوْر بَعْدَ الْكَوْر.وَدَعْوَةِ الْمَظْلُوم کارکنان کے لئے دعا شادی 216 نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح اور راہنمائی خصوصا شادی کے معاملہ میں.167 شادی بیاہ کے معاملہ میں بے احتیاطی اور بے قاعد گیوں کا وَسُوْءِ الْمَنْظَرِ فِي الْاهْلِ وَالْمَالِ 161 اظہار اور اس سلسلہ میں تفصیلی راہنمائی 267 نبی کریم ﷺ کا عمل تھا کہ جب وہ اپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا امریکی احمدی معاشرہ.میں ایک فکر انگیز بات کہ شادیاں 161 ٹوٹنے کا سلسلہ؛ اس کے متعلق را ہنما ہدایات اور طریق 248 کرتے تھے کہ..جب رسول اللہ یہ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی پر تشریف شفا: فرما ہو کر اپنی انگلی کے اشارے سے کہتے کہ اے اللہ ! تو ہی جسمانی بیماریاں اور اللہ تعالی کی صفت شفا.510 تا522 سفر میں اصل ساتھی ہے اور تو ہی گھر والوں میں اصل جانشین روحانی اور جسمانی شفا کا نظام 161 523 شہد کی مکھی کے ذریعہ روحانی شفاء کے راستوں کی بھی نشاندہی رسول اللہ یہ سفر پر نکلتے وقت ایک سواری پر جب اچھی ہوتی ہے.ہر کام کے لئے وحی کی ضرورت ہوتی ہے 524 شکر: طرح بیٹھ جاتے تو آپ تین مرتبہ تکبیر کہتے پھر آپ پڑھتے، خلافت جو بلی کی حقیقی روح خلافت کی نعمت کا شکریہ.جوخدا سُبُحْنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ.وَإِنَّا تعالی سے تعلق پیدا کرنے کی صورت میں ہو إِلَى رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ سود سود کے مضرات 166 161 خلافت کے انعام کا حقیق شکر نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ 75 شکر گزاری کا بنیادی طریق.عبادت پہلے سے بڑھ کر 411 452 تا 457 رزق کا شکر سے گہرا تعلق 230 سودی نظام کے اثرات مذہب پر بھی پڑتے ہیں.اچھے برے جلسہ سالانہ برطانیہ کے اختتام پر تشکر اور اس کی برکات 308 کی تمیز ختم ہو جاتی ہے، جرائم میں اضافہ ہوتا ہے شکر گزامی.خلافت کی نعمت پر.آپ میرے لئے دعا کریں 454 اور میں آپ کے لئے دعا کروں گا.215 ز بر دست عالمی معاشی بحران اور اس کا ماہرانہ تجزیہ اور انتباہ ، اس شهد سودی نظام سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے 447 تا 452 شہد کی مکھی کے ذریعہ روحانی شفاء کے راستوں کی بھی نشاندہی سورۃ النصر کے نزول پر آپ کا خطبہ دینا 29 ہوتی ہے.ہر کام کے لئے وحی کی ضرورت ہوتی ہے 524

Page 574

خطبات مسرور جلد ششم 20 انڈیکس ( مضامین ) ع ، غ ف ق ک گ 343 شہداء کا مقام.ابتلاؤں میں راضی برضا ر ہنے کا مضمون 368 عائلی معاملات: ہر شہید جب جاتا ہے تو یہ پیغام دے کر جاتا ہے کہ میں مرا عائلی جھگڑے اور ان میں اصلاح کا ایک طریق نہیں بلکہ زندہ ہوں.اب تم بھی یاد رکھو.380 میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کی ایک بڑی وجہ لڑکا کیوں پیدا ہر شہید کے خون کے ایک ایک قطرے کا خدا خود انتقام لے گا 371 نہیں ہوتا.یہ ایک جہالت کی بات ہے.ہر احمدی کو بچنا شہداء.کسی کا یہ کہنا کہ صرف ڈاکٹر منان صاحب کا ذکر کیا گیا چاہئے ہے سیٹھ یوسف صاحب کا نہیں.اس غلط فہمی کا جواب 391 میاں بیوی کے فرائض.قرة العین اولا داور دیگر اہم امور صبر: 477 477474 احمدیوں کو مخالفت پر صبر کی تلقین.یہ نہ ہمارا رزق بند کر سکتے عدل کی پر حکمت تعلیم اور تمام معاشرتی ، قومی و بین الاقوامی ہیں اور نہ ہمارے ایمانوں کو ہلا سکتے ہیں.237 238 مسائل کا حل | صبر واستقامت کا عہد صدر انجمن احمد یہ پاکستان صدقات 374 | عرب 31 421 مسلمان اور عرب ممالک سربراہان صرف اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں.اللہ کے بتائے ہوئے احکام کی طرف توجہ نہیں.447 صدقات اور چندوں کے مصارف کا بیان 46 عربوں کے چینلز میں مسجد خدیجہ کی خبر کی اشاعت لیکن عقائد صدقہ خیرات کی تلقین اور برکات صفائی 178 کے بارے میں توڑ مروڑ کر حقائق پیش کرنا اور اعتراض کہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ایک مصری تنظیم نے ایسا ہی بودا ماحول کی صفائی کا غربت یا امارت کے ساتھ تعلق نہیں.48 الزام لگایا تھا ماحول کی صفائی تعلیم اور ضرورت 442.441 48 عربوں کا پہلا حق بنتا ہے کہ ان تک آنحضرت ﷺ کے عاشق ظاہری صفائی اور اس کی اہمیت اور اسلامی تعلیم نظافت 48 صادق کی آمد کا پیغام پہنچایا جائے پاکیزگی اور صاف ستھرا رہنا یہ ایمان کا ایک حصہ ہے.عروہ اٹھی اور جماعت احمدیہ کی خوش نصیبی اور ترقی 45 413 213 حضرت ﷺ ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص اپنے علم کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اللہ تعالیٰ کی صفات سے فیض پراگندہ بال اور بکھری داڑھی والا آیا حضور ﷺ نے اسے نہیں پاسکتے اشارے سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر کے اور داڑھی کے عورت 207 بال درست کرو ظلم کی مذمت 45 | عورت سے حسن سلوک کی نصیحت احمدی عورتوں کا مالی قربانی میں بڑا ہاتھ ہے 125 468 45 عورتوں (جرمنی جلسہ ) کو خصوصی نصیحت کہ خاموشی سے جلسہ اسلامی حکومتوں کا ظلم معصوم احمدیوں پر پاکستان اور انڈونیشیا ان سنیں ، شور اور باتوں کی وجہ سے پہلے پابندی لگی تھی 345 کے پاؤں سے زمین جلد جلد نکلنے والی ہے“ 199 200 | گھانا کے جلسہ میں عورتوں کا قابل تقلید اسوہ کہ 345 عبادت کرنے کے باوجود دوسرے لوگوں کا حق مارنا اور ظلم الجنہ.مسجد برلن کی تعمیر میں نمایاں کارنامہ.خصوصا قادیان کی کرنا.ایسے لوگوں کی مذمت اور...45 لجنہ.کہ وہاں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی 429

Page 575

خطبات مسرور جلد ششم 21 انڈیکس ( مضامین) لجنہ کینیڈا کا ایک ملین ڈالر مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کرنا.427 | قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا یورپ کے ننگے لباس.اور اپنی بیٹیوں کو اس معاشرے سے مشن 526 محفوظ کرنا ہے تو بڑی عمر سے نہیں.بچپن سے ہی اپنی ذات کا قرآن کریم کی صرف تلاوت ہی کافی نہیں بلکہ غور کرنا بھی تقدس پیدا کریں.عید: عہد کی اہمیت 416 218 عہد بیعت جو حضرت مسیح موعود کے بعد اب خلافت احمد یہ سے بھی صبر واستقامت کا عہد 419 ضروری.......322 قرآن کریم کے بارہ میں یہ تحقیق کرنے کی کوشش کہ یہ اپنی اصل حالت میں نہیں اور ان کا ناکام و نامرادر ہنے کا ذکر 96 قرآن کریم موجودہ مسلمانوں کو کوئی فیض نہیں پہنچا تا...374 اس کا نتیجہ یہ ہے کہ.....عہد.اسے ہمیشہ یادر کھنے کی کوشش کرتے ہیں 218 قرآن کریم میں شرعی احکامات کی حکمت کی تفصیل 526 37 عہد بیعت اور اس کی ذمہ داریاں خلافت کے سو سال پورے ہونے پر ہر احمدی یہ عہد کرے کہ قرآن میں روحانی اور جسمانی عوارض کی شفا کا بھی ذکر ہے 67 قرآن کریم نے شفاء کے حوالہ سے شہر کا ذکر کیا ہے 515 وہ اللہ تعالی کی رضا کو سب سے اول رکھے گا.عہدیدار عہد یداران کے فرائض اور نصائح عہد یداران کو نصائح 168 525 94 قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک رہنے کی ضرورت ہے 268 قرآن کی تعلیم تمام تعلیموں اور ضابطہ حیات کا مجموعہ ہے جو 249.248 روحانیت اور اخلاق تک اعلیٰ معیاروں کی تعلیم دیتا ہے 96 عہد یداران کو نصیحت کہ خادم بنیں.وسعت حوصلہ اور برداشت پیدا کریں جو بھی آتا ہے اس کی بات غور سے سنیں قرآن میں تحریف کی ایک کوشش جو مسلمانوں کے ایک گروپ اور تسلی دلائیں.اگر وقت نہیں دے سکتے تو خدمت سے کی کتاب کہ جنگ اور جہاد کی آیات نکال دی جائیں 15 247 قرآن WILDERS کے بارہ میں توہین آمیز کلمات اور معذرت کر لیں عہدیداران کی ذمہ داری کہ اپنے معیار قربانی کو بڑھائیں 6 اسکے خلاف فلم بنانا ممبر پارلیمنٹ ہالینڈ کا اور جماعت احمدیہ غزوہ حنین کے اموال کی تقسیم اور ایک منافق کا اعتراض 29 کے ردعمل میں مہم چلانا غصہ کو دبانے کا طریق فته نامی فلم قرآن کریم قرآن کریم اور اسکی حفاظت 90 122 انصار اللہ یو.کے کا انٹرنیٹ کے ذریعہ ترجمہ قرآن سکھانے کا 90 13 قرآن کریم پر اعتراض کر نیوالوں کا انداز کہ بغیر سوچے سمجھے اعتراض کرنا..انتظام استفادہ کی تلقین 102 احمدی سائنسدان تحقیق کی بنیاد قرآن کے لائے ہوئے علم پر رکھے گا.35 531 قرآنی پیشگوئی.مرج البحرین.دوسمندر کو ملانے کی 35 قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ توحید کا قیام اور حقوق العباد 33 قرآنی جہاد کی فلاسفی اور احکامات 17 قرآن کریم کی حفاظت اور محفوظ نمونے کی بابت بعض کیا آنحضرت ﷺ اور قرآن کو جھوٹا کہنے والے اور استہزاء مستشرقین کی آراء 18 کرنے والے خدا کی پکڑ سے بچ جائیں گے.95

Page 576

خطبات مسرور جلد ششم 22 خلیفہ اسیح الرابع کا قرآن کریم صحت تلفظ کے ساتھ سیکھنے کی | قرض: تحریک فرمانا انڈیکس ( مضامین ) 102 بینکوں سے ملنے والے قرض اور ان کے عواقب و عوامل 448 449 | 49 آنحضرت ﷺ کا فرمانا اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر بعض برائیاں اور ان سے بچنے کی تلقین.حسد، جھوٹ ، قرض اور بچنے نہ سو یا کرو اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس وغیرہ انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے.اور اس کو حکومتوں کا اپنے وسائل ہونے کے باوجود انہیں ضائع کرنا.پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین جیسے پاکستان..جن کے لیڈروں نے ملک سے وفا نہیں کی پر غور کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ 103 اور ملک لوٹتے رہے اور قرض لیکر گزارا کرتے رہے 452 جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کا قرض اچھے رنگ میں ادا کرنے کی نصیحت اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی اور واقعہ 103 قناعت: 47 سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگی وہ شخص جو قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے اپنے وسائل پر انحصار کریں.خواہ ملی سطح پر ہو یا انفرادی سطح لکھنے والوں کے ساتھ ہو گا جو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں.پر بہت سے مسائل کا حل.قناعت پیدا کریں 455 اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات پر کارٹون: شدت سے کار بند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے 104 کارٹون ایک گہری سازش ، ان بڑی طاقتوں کی جو اسلام کی دل بھی صیقل کئے جاتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ لعلیم سے خوفزدہ ہیں.آلود ہونے پر اسے صیقل کیا جاتا ہے.کہا گیا کہ اے اللہ کے حضرت محمد ﷺ کے بارہ میں کارٹون کی اشاعت کا رد عمل مغرب رسول ! اس کی صفائی کیسے کی جائے ؟ یعنی دل کی صفائی کس میں خصوصاڈ مینش لوگوں کا معذرت خواہانہ اظہار طرح کی جاتی ہے.تو آنحضور ﷺ نے فرمایا: موت کو کثرت انٹرنیٹ پر کارٹونوں کے خلاف معذرت کا اظہار یورپ والوں کاSorry Mohammad کے نام سے سے یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا نبی کریم یہ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے 104 89 89.86 88 104 اسلام کا استہزا کرنے اور کارٹون بنانے والوں کو ڈھیل ملنے کی آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے قرآن کریم کے کئی بطن ہیں 104 قربانی نیز دیکھیں ، انفاق / چندہ كتب 111-110 احمدی کی قربانی کا معیار.یہ مسیح موعود کے پیارے لوگ ہیں.کتب حضرت مسیح موعود کے تراجم اور وکالت تصنیف 154 جیسے بھی حالات ہو جائیں یہ اپنے قربانی کے معیار کو گرنے کتب حضرت مسیح موعود قرآن اور حدیث کی تفسیر کی بنیاد اس نہیں دیتے.10 پر ہے 154 احمدی عورتوں کا مالی قربانی میں بڑا ہاتھ ہے 468 حضرت مسیح موعود کی کتب کی اہمیت اور افادیت.اور حضور انور ایک آمر نے اعلان کیا کہ میں ان کے ہاتھ میں کہ کشکول کے خطبات میں اس کے اقتباسات پیش کرنے کا مقصد 154 پکڑاؤں گا تو خود اس کا انجام....اور دوسرے نے جب کرکٹ: جماعت کو کچلنا چاہا تو...237 خدام الاحمدیہ جرمنی کا خلافت جوبلی کے حوالہ سے کرکٹ کائنات کے بارہ میں قرآن کے عطا کردہ علوم 35 ٹورنامنٹ 352

Page 577

خطبات مسرور جلد ششم 23 انڈیکس ( مضامین ) گناه: بڑے بڑے گناہ مومن کی شان ہونی چاہئے کہ ہر فعل خدا کی رضا کیلئے کرے 1 مالی قربانی.احمدیوں کی مالی قربانی کا جذبہ.ایک شخص کا جو کچھ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ تھا مسجد کی تعمیر کے لئے دے دینا اور حضور کو کہنا پڑا کہ نفس کا نہ بتاؤں؟ آپ نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی بھی حق ہے.468 نافرمانی کرنا.آپ تکیے کا سہارا لئے ہوئے تھے جوش میں آ مبلغ : کر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو تیسرا بڑا گناہ جھوٹ مربیان اور مبلغین کو اپنے جائزے لینے کے لئے پرانے بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے.آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ مبلغین کے واقعات اور ر پورٹس پڑھنے کی تلقین دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش آپ خاموش ہو جائیں 46 مبلغین کو عموما اور افریقہ کے لئے خصوصا تلقین کہ اللہ تعالی ہر گناہ پر اس دنیا میں نہ گرفت کرنے کی حکمت 112 سے تعلق اور اپنے اخلاق کے اعلی معیار حاصل کر نہیں مزید ل، م، ن، و، ه ، ی لجنہ : نیز دیکھیں عورت“ ترقی اور نمونے قائم کریں 425 192 دور خلافت ثانیہ میں جرمنی اور برلن میں آنے والے ابتدائی 430 56 لجنہ.مسجد برلن کی تعمیر میں نمایاں کارنامہ.خصوصا قادیان کی مبلغین کی مساعی اور مشن کا قیام اور مسجد برلن کی تحریک 422 لجنہ.کہ وہاں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی 429 | محبت : لجنہ کینیڈا کا ایک ملین ڈالر مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کرنا.427 آپس میں محبت اور بھائی چارے کی نصیحت لجنہ جرمنی کی اصلاح کے لئے جلسہ پر جو پابندی تھی وہ ان کے ہمارا کام نہیں کہ ہم مداہت کا پہلو اختیار کریں اخلاص و وفا اور اصلاح کے بعد ختم کرنے کا اعلان 163 مسجد : الجنہ اماء اللہ اور مالی قربانی.برلن کی مسجد کی تعمیر اور برطانیہ کی مساجد کے عمومی اور بنیادی آداب اور نصائح 267 تا 269 مساجد وغیرہ میں لجنہ.U.K کی قربانی 468 مسجد کی اہمیت اور ان کی تعمیر کی تحریک اور افادیت 261 کیرالہ کی لجنہ بھارت کی صف اول کی لبنات 505 جماعت کی مساجد کی بنیاد اللہ کے اس گھر کی طرز پر اور اس کے 263 171 یورپ کے ننگے لباس.اور اپنی بیٹیوں کو اس معاشرے سے مقاصد کے حصول کی خاطر رکھی جاتی ہے.محفوظ کرنا ہے تو بڑی عمر سے نہیں.بچپن سے ہی اپنی ذات کا مسجد کو آباد کرنے کی تلقین اور دیگر آداب تقدس پیدا کریں.لنگر خانہ مسیح موعود کی وسعت ، اہمیت اور افادیت 281 تا 283 | ہماری مساجد پیار محبت اور علم کی تعلیم کا پر چار کرنے والی ہوں 462 مساجد کی تعمیر کا بنیادی مقصد خدائے واحد کی عبادت اور محبت کا لنگر مسیح موعود کے لنگر پھیلنے میں.لیلۃ القدر کی فضیلت اور اہمیت مال مال کے ساتھ محبت نہیں چاہئے 416 مسجد کی تعمیر اور جماعت احمد یہ افریقہ اور مغربی ممالک میں 170 281 397 پر چار مسجدوں کا حسن ان کی آبادی سے ہے.463 429.428 2 مساجد کی تعمیر کا سب سے بڑا مقصد تقوی کا قیام ہے 411 خدا تعالی کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی اس زمانہ میں مساجد کے حسن کو دوبالا کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہنا ایک بہت بڑا جہاد ہے چاہئے مساجد کی اہمیت، افادیت اور آداب 326 325

Page 578

خطبات مسرور جلد ششم 24 انڈیکس ( مضامین ) مرداور عور تیں اپنا اور اپنی اولاد کا تعلق مسجد سے جوڑیں.427 | مسیح محمدی کے جھنڈے تلے امت محمدیہ جمع ہو جائے اب وہ مسجد برلن کی تعمیر میں نمایاں کارنامہ.خصوصا قادیان کی لجنہ.وقت قریب ہے 203 420 کہ وہاں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی 429 مسیح محمدی کو محبت اور پیار اور دعاؤں کا ہتھیار دیا دلوں کو گھائل الجنہ کینیڈا کا ایک ملین ڈالر مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کرنا.427 کرنے والا ہے جو کبھی پسپا نہیں کیا جا سکتا.بلکہ یہ زخم ایسا ہے مسجد برلن کی تحریک اور یہ کہ احمدی خواتین کے چندہ سے ہو 423 جو زندگی بخشتا ہے مسجد ضرار اور جن لوگوں نے زمانہ کے امام کو نہیں مانا وہ مساجد امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکر یہ مسیح موعود کو مانا ان نام نہاد امام پھوٹ کا ذریعہ..کیونکہ ان مساجد کے بارہ میں نبی کریم نے مولویوں کے مفاد میں نہیں اور بہانہ ختم نبوت کا ہے.483 262 مسلمانوں کا فرانس میں سپین کے ذریعہ داخل ہونا.تب مسجد کا حق ادا کرنے کی تلقین اور یہ کہ حق کس طرح ادا ہو مسلمانوں پر دنیا حاوی ہو چکی تھی.لیکن مسیح محمد...420 262 تمام سعید فطرت مسلمانوں کو دعوت کہ حضرت مسیح موعود کی فرمایا.......سکتا ہے عربوں کے چینلز میں مسجد خدیجہ کی خبر کی اشاعت لیکن عقائد جماعت سے جڑ کر قرآنی تعلیم کا حقیقی فیض اور شفا حاصل کے بارے میں توڑ مروڑ کر حقائق پیش کرنا اور اعتراض کہ کریں 528 انگریز کا خود کاشتہ پودا ایک مصری تنظیم نے ایسا ہی بودا اب حضرت مسیح موعود کو جو آنحضرت ﷺ کا غلام صادق اور عاشق الزام لگایا تھا 442.441 میئر فرانس، پیرس کے.جو پہلے مسجد کے سخت مخالف تھے اور بعد میں نیک تبدیلی 435 1923 میں مسجد برلن کا سنگ بنیاد رکھا جانا.جس میں جرمنی 527 قرآن ہے جس کے ماننے سے روحوں کو شفا نصیب ہوگی مسلمانوں کا یہ کہنا کہ ہمیں اب کسی مسیح اور مہدی کی ضرورت نہیں عملاً آنحضرت اللہ کے حکم سے انکار کر رہے ہیں.526 کے وزرا ، ترکی ، افغانستان کے سفیر اور صرف 4 احمدی تھے.مہدی کو سلام آنحضرت ﷺ کا پہنچانے کی حکمت 227 ان کی شمولیت مسلمان 424 معاشی نظام: اسلامی تعلیم اور معاشی نظام کے مقابلہ پر کوئی نظام ایسا نہیں ملاں اور مسلمان معترض کا حضرت مسیح موعود کی دشمنی میں ہے جو اس سے اعلی ہو.اندھے ہو کر مخالفت کرنا 443 47 زبردست عالمی معاشی بحران اور اس کا ماہرانہ تجزیہ اور انتباہ ، اس آج مسلمانوں کی بقا اسی میں ہے کہ حضرت مسیح موعود کو سنیں سودی نظام سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے 447 تا 452 443 دنیا کے معاشی نظام کی ناکامی اور اس کی وجوہات 446 تا 457 اور مانیں مسلمانوں کا فرانس میں سپین کے ذریعہ داخل ہونا.تب معروف: مسلمانوں پر دنیا حاوی ہو چکی تھی.لیکن مسیح محمدی 420 خلافت کی طرف سے کیا گیا ہر فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں اور معروف ہی ہوگا.419 مسیح و مهدی خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی تعلیم کی حکمت کے موتی اس مسیح و مولوی املاں / مخالفین حق مہدی سے منسلک ہو کر ہی اب حاصل کئے جاسکتے ہیں 53 امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ مسیح موعود کو ماننا ان نام نہاد اللہ کا احسان ہے کہ مسیح موعود کو ماننے کے نتیجہ میں ہم مسلمان مولویوں کے مفاد میں نہیں اور بہانہ ختم نبوت کا ہے.483 77 تا 79 | مخالف مولوی اپنے بد انجام کو پہنچنے والے ہیں.ہیں 278

Page 579

خطبات مسرور جلد ششم 25 انڈیکس ( مضامین) آج کل کے ملاں اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں 275 اور یہ کہ مایوس نہیں ہونا.کوشش کرتے رہنا ہے.490 491 ملاں.جس نے ہمیشہ دین کے نام پر فساد پھیلایا 200 نماز کی برکات اور اس کی شرائط مہمان / مہمان نوازی مہمان نوازی کے خلق کی اہمیت نمازوں کی اہمیت 283 نمازوں کی حفاظت اور اہمیت مہمان نوازی جلسوں پر اعلی درجہ کی مہمان نوازی.بعض لوگوں نماز جمعہ کی اہمیت ، برکات اور احکامات 177 164 466.465 4000392 نے تو اس کو خدائی جماعت کی دلیل کے طور پر دیکھا 283 نمازیں روحانی حالت کے سنوارنے کے لئے ایک بنیادی چیز ہیں 71 جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو ہدایات.297 نمازوں کے اوقات اور اس کی اہمیت جلسہ سالانہ برطانیہ کے حوالہ سے مہمان اور مہمان نوازی کے نماز کی اہمیت آداب کھی: 281 نماز نعمتوں کی جان ہے نمازوں کی اہمیت اور فلسفہ 68 65 38 37 شہد کی مکھی کے ذریعہ روحانی شفاء کے راستوں کی بھی نشاندہی نبی ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے اعمال میں سے قیامت کے دن ہوتی ہے.ہر کام کے لئے وحی کی ضرورت ہوتی ہے 524 سب سے پہلے جس بات کا محاسبہ کیا جائے گا وہ نماز ہے.اور مکھی کے ایک پر میں شفا.اور ریسرچ.ٹوکیو کے ایک پروفیسر اگر اس نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی تو نوافل میں سے.....76 518،517 نصیحت.کاش یہ لوگ اپنی ضد چھوڑ دیں 62 کی ریسرچ.میٹر فرانس، پیرس کے.جو پہلے مسجد کے سخت مخالف تھے اور نصائح ضروری.وہ سچے وعدوں والا خدا ہے.عارضی روکیں بعد میں نیک تبدیلی نجات: 435 آتی ہیں اور آئیں گی.61 سچ بولنا، حسد اور اغویات سے اجتناب جیسی پر حکمت نصائح 179 زمانہ کے امام کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے میں نجات نو مبائع: ہے.نظام 266 نومبائعین سے رابطے بحال کرنے کی تحریک 8 نو مبائعین اور ان کے نگرانوں کو نصیحت کہ مالی قربانی میں ان کا جماعتی نظام ایک حد تک اصلاح کر سکتا ہے اصل اصلاح تو شامل ہونا جماعت سے مضبوط تعلق کا باعث بنے گا انسان خود اپنی کرتا ہے.نظم: 149 | والدین: 6 جماعت احمدیہ اور والدین کی ذمہ داری کہ بچوں کو خدا کے ایم ٹی اے کا نظموں میں کردار کہ پڑھنے کا انداز ایک جیسا ہو قریب لائیں گیا ہے نماز 500 | وحی 241 وحی والہام کا راستہ اللہ نے کبھی بند نہیں فرمایا اور حضرت مسیح نماز ایسا بنیادی حکم جس کے بغیر دین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا 74 موعود کے مشن کو اللہ کی خاص را ہنمائی میں جاری رکھنا خلافت نماز کی اہمیت اور افادیت کے تسلسل میں دوسرا خطبہ اور اس کا کا کام ہے ایک پس منظر بعض ممالک کی رپورٹس 526 74 شہد کی مکھی کے ذریعہ روحانی شفاء کے راستوں کی بھی نشاندہی نمازوں کی اہمیت.عبادتوں کے معیار کو بڑھانے کی نصیحت ہوتی ہے.ہر کام کے لئے وحی کی ضرورت ہوتی ہے 524

Page 580

وسائل: خطبات مسرور جلد ششم اپنے وسائل پر انحصار کریں.خواہ ملکی سطح پر ہو یا انفرادی سطح پر بہت سے مسائل کا حل.قناعت پیدا کریں 455 حکومتوں کا اپنے وسائل ہونے کے باوجود انہیں ضائع کرنا.جیسے پاکستان...جن کے لیڈروں نے ملک سے وفا نہیں کی اور ملک لوٹتے رہے اور قرض لیکر گزارا کرتے رہے 452 وقار عمل : خدام الاحمدیہ جرمنی کا وقار عمل جلسہ کے لئے 352 واقفین نو خصوصاً بچیوں کو زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کرنے کی تحریک وقف جدید وقف جدید سکیم کا پس منظر اور اہمیت 314 7.4 زیادہ سے زیادہ بچوں کو وقف جدید میں شامل کرنے کی تحریک 5 وقف جدید.خلیفہ اسیح رابح کا تمام دنیا میں اسے پھیلا دینا 4 ایک ماریشین احمدی کی خواب کا ذکر کرنا کہ جماعت ایک میز کی شکل میں ہے اور وقف جدید اس کا پایہ ہے جو....ووٹ: 7 خلافت جو بلی اور حسد کی بنا پر ملاں اور سیاستدانوں کا اکٹھا ہونا اور اس کی وجہ کرسی ، ووٹ اور جھوٹا رزق ہتھیار: 237.236 مسیح محمدی کو محبت اور پیار اور دعاؤں کا ہتھیار دیا دلوں کو گھائل کرنے والا ہے جو کبھی پسپانہیں کیا جا سکتا.بلکہ یہ زخم ایسا ہے جو زندگی بخشتا ہے ہمدردی 420 انسانی ہمدردی اور اللہ تعالی کے حکم کے تحت دنیا کو راستی کی طرف بلاتے رہنا ہمارا کام ہے.198 مخالفین سے ہمدردی ، کہ یہ کلمہ گو ہیں ان کے لئے دعا کرنی چاہئے.ہیومینیٹی فرسٹ اور عالمی خدمات.53 462 26 26 انڈیکس ( مضامین )

Page 581

خطبات مسرور جلد ششم 27 انڈیکس (اسماء) اسماء جو اس جلد میں مذکور ہیں حضرت محمد علا اله 56،43،29،16،13، 72 ، 54، 62 ، ابوسفیان 89،65، 119، 120، 136،131، 144،137، 181، احسان اوگلو، جنرل سیکرٹری.O.I.C 529-372-336-327.307.288.185.182 223 440 احمد Apisai جامعہ احمد یہ گھانا کے طالب علم کی وفات اور 201 آنحضرت ملے اور عدل کے حوالہ سے آیات 29 ذکر خیر آنحضرت ملے پر اترنے والے کلام کی اہمیت اور امتیازی اسرار احم.ڈاکٹر، کا ایک بیان کہ حکمت خداوندی کا کوئی طویل خصوصیت 40 المیعاد منصوبہ اس خطے کے ساتھ وابستہ ہے آنحضرت ﷺ پر شاعر اور مجنون ہونے کا الزام اور اس کی اسماعیل حقی شیخ مفسر تفسیر روح البیان 336 اطہر احمد ، حافظ تردید آنحضرت مہ کا مقام خاتم الانبیاء از تحریرات حضرت مسیح افضال الرحمن ، ڈاکٹر موعود 372 اکبر علی صاحب میر آنحضرت مہ کی قوت قدسیہ سے پیدا کردہ انقلاب 42 الازھری 204 317 324 457 315 316 رت یہ کی ہمدردی نرمی اور رفق 141 الطاف حسین.لیڈر ایم کیوایم.ڈاکٹر منان صاحب کی آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ کوئی حق یا بدلہ لینا ہو تو لے لے شہادت پر اظہار تعزیت 29 امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.حضرت نواب 379.378 457 اس پر عکاشہ کھا کھڑا ہونا..آنحضرت ﷺ کا عبادت کے لئے رات کو بستر سے غائب امتہ الرحمان اہلیہ چوہدری محمد احمد درویش کی وفات اور ذکر خیر 340 بشیر احمد ناصر صاحب فوٹوگرافر کینیڈا کی والدہ تھیں 499 ہونا اور حضرت ابرا ہیم 223،230،40،28،13 امتہ الشافی.اہلیہ ڈاکٹر صدیقی 376 آپ کی دعا و اذا مرضت اور اس کی عارفانہ تشریح 521 امتہ المجیب بیگم صاحبہ اہلیہ نواب مصطفیٰ خان صاحب کی وفات آپ کی دعا ربنا و ابعث فيهم اور اس کی پر معارف تغییر 12 اور اخلاص و وفا کا ذکر ابوالفضل محمود حضرت ابو بکر 457 128، 12 ایڈون ہبل (Edwin Hubble).ایک سائنسدان 36 501-22 | باسل احمد خان ابوبکر نامی ایک مخالف جس کا گھر جل کر خاکستر ہو گیا 408 بش.صدر ابو جمیل امام ابو حنیفہ 22 بشارت احمد مغل کراچی کی شہادت کا ذکر 195 | مرزا بشیر احمد صاحب حضرت 457 92 97 131.287

Page 582

خطبات مسرور جلد ششم 28 بشیر احمد قمر صاحب.مولانا، وفات پر خدمات اور خوبیوں کا | جان برٹن.John Barton رصاحب..انڈیکس (اسماء) 18 421 چراغ دین صاحب.حضرت میاں ، ان کے بیٹے کا 5 سال بشیر احمد مهار در ولیش قادیان کا نماز جنازہ اور ذکر خیر 486 کی عمر تک نہ چلنا نہ بولنا......499 حاکم علی صاحب.چوہدری بشیر احمد ناصر فوٹو گرافر کینیڈا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد، خلیفه امسیح الثانی <375.41.229.288-3,192,195,196.457 520 131 حضرت حافظ حامد علی صاحب 290 ، 291، 521، 125 | حامد علی.حضرت میر آپ کا دورہ یورپ اور در انگلستان ہمسجد فضل کی بنیاد اور ویمبلے حبیب الرحمان درخواستی.مفتی کانفرنس 434 حبیبہ.آئیوری کوسٹ کی ایک مخلص خاتون آپ کے پاس کسی شخص کی رپورٹ کہ وہ گالیاں دیتا ہے 333 حسن حضرت آپ کا پیرس کی ایک مسجد میں نماز پڑھنا اور افراد قافلہ جن میں حسن علی.حضرت مولوی، حضرت مرزا شریف احمد صاحب بھی تھے 434 حسین حضرت آپ کا ایک مضمون لکھ کر مولوی مبارک علی صاحب کو دینا اس حشمت اللہ خان.ڈاکٹر جواب میں کہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا.442 حضرت مصلح موعود کا فرمانا کہ خلیفہ وقت کا دورہ تبلیغ کے لئے حمزه 288 62 187 30 287 30 377.376 43 مرزا حمید احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 457 نہیں ہوتا بلکہ تبلیغی حکمت عملی اور تبلیغ کو وسعت دینے کے نئے حضرت داؤد علیہ السلام اقدامات پر غور کرنے کے لئے ہوتا ہے.508 دوست محمد ، مولانا 91 442 ڈان رچرڈسن کی کتاب The Secrets of Quran پر آپ کا بیان کردہ واقعہ کہ ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی.جس نے ثناء اللہ امرتسری کی تقریر سن کر امام جماعت حضور انور کا تبصرہ احمدیہ کے قتل کا ارادہ کیا.لیکن اپنی بیوی کو ہی قتل کر دیا 407 آپ کا مارٹن کلارک کے مقدمہ میں دعا کرنا اور آپ کی ایک رویا 403 ڈکس.مجسٹریٹ راجی ابراہیم.آف بینین آپ کے دور خلافت میں جرمنی اور برلن میں آنے والے ابتدائی رحمت اللہ باغانوالہ.میاں مبلغین کی مساعی اور مشن کا قیام اور مسجد برلن کی تحریک 422 29 91 403 190 292 رڈ لی.ایک صحافی خاتون جو بھیس بدل کر افغانستان گئی اور بالآخر قران کریم غور سے پڑھنے پر مسلمان ہوئی 86 حضرت بلال راجہ پا رول کا ہندوستان سے مکہ جا کر اسلام قبول کرنا 503 رملہ خان اہلیہ ڈاکٹر افضال الرحمان صاحب.امریکہ 457 492 ،502 زین العابدین.حضرت شیخ 521 تھو ما حواری تھوما حواری کا صلیب کے واقعہ کے بعد حضرت عیسی کے سامی قزق صاحب ابن خضر قزق کا ذکر خیر اور نماز جنازہ 1391 501 | سعید احمد.شیخ ، کی شہادت، ذکر خیر ساتھ سفر حضرت عیسی کے حواری تھو ما جو کیرالہ آئے 492 سلطان احمد صاحب.مرزا ثناء اللہ امرتسری کی تقریر سن کر ایک شخص کا امام جماعت سلیمان علیہ السلام - حضرت 390.380 403 502 احمدیہ کے قتل کا ارادہ کرنا.لیکن اپنی بیوی کو ہی قتل کر دیا 407 سلیمہ بیگم والدہ محترمہ ڈاکٹرعبدالمنان صدیقی صاحب 376

Page 583

خطبات مسرور جلد ششم شریف احمد صاحب ، حضرت مرزا : 29 انڈیکس (اسماء) عبدالرحیم خان ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب 519 169 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پیرس کی ایک مسجد میں نماز پڑھنا اور عبدالرشید انور.آئیوری کوسٹ افراد قافلہ جن میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب بھی تھے 434 عبدالرشید رازی مبلغ سلسلہ آسٹریلیا کی وفات پر ذکر خیر 421 287 عبد السلام.ڈاکٹر ، خدا سے مدد چاہتے ہوئے قرآن سے شمس صاحب کا ایم.ٹی.اے پر کینیڈا کے سائیکل سواروں انہوں نے اپنی تھیوری کو ثابت کیا جو نمونہ ہے ہمارے 312 نوجوانوں کے لئے کہ خدا سے مدد مانگتے ہوئے اپنی شرمیت.لالہ، کے بارہ میں اظہار خیال....شیر علی صاحب.حضرت مولوی صائمہ خان.اہلیہ باسل احمد خان.ضیاءالدین.پیر کی نماز جنازہ غائب 519 صلاحیتوں کو چمکائیں.457 | عبدالکریم صاحب.حضرت مولوی 315 عبداللطیف شہید.صاحبزادہ طاہر احمد مرزا، حضرت خلیفتہ امسیح الرابع 459 عبداللہ اعلم پ کا ایک ماریشین احمدی کی خواب کا ذکر کرنا کہ جماعت عبداللہ سنوری.حضرت مولوی ایک میز کی شکل میں ہے اور وقف جدید اس کا پایہ ہے جو..7 عبدالماجد طاہر صاحب 255 128.126 130 302 287 420 آپ کا قرآن کریم صحت تلفظ کے ساتھ سیکھنے کی تحریک فرمان 102 عبدالمنان صدیقی صاحب، ڈاکٹر، کی شہادت اور ذکر خیر آپ کا فرانس میں ایک کشف.فرائیڈے دی ٹینتھ 420 آپ کی دعا سے پیدا ہونے والا لڑکا.طالوت طبرسی.علامہ ظفر احمد صاحب.حضرت منشی 91 201 عبدالواحد شیخ، مولانا عبدالوہاب بن آدم عکاشہ ، حضرت 321 520-290 علی حضرت ظفر احمد صاحب.حضرت ، حضرت مسیح موعود کے دوران سر عمر حضرت کے لئے طبیب بلوایا.اس کا کہنا میں دو دن میں آرام دے دوں عمیر بن وہب گا.آپ نے اس کو واپس بھجوادیا کہ یہ خدائی کا دعوی ہے 512 عیسی سیاما.بور کینا ظفر اللہ خان ، حضرت چوہدری 91 عارف صاحب جو راہ خدا میں زخمی ہوئے کے لئے دعا کی تحریک عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عباس علی صاحب.میر 380 339 128.127 عیسی علیہ السلام حضرت ، 390.370 408 169 29 30 30-22 122 185 501-272 غلام احمد قادیانی علیہ الصلوة والسلام - حضرت مرزا بیح 275-58 56 موعود و مہدی معہود آپ کا مقام اور مرتبہ آپ کو مانا ایک خوش قسمتی پس اپنے جائزے لیتے رہیں 263 عبدالباسط صاحب مبلغ جرمنی عبد الحق منشی 442 289 آپ کی بعثت کا بہت بڑا مقصد بندے اور خدا میں زندہ تعلق پیدا کرنا 164 عبدالرحمان صدیقی.ڈاکٹر ، امیر ضلع میر پور خاس سندھ 375 عبدالرحمان - صدر خدام الاحمدیہ اور کینا.کا خلافت جو بلی پر آپ کی بعثت ہی ایسا رزق ہے جس سے دنیا کی مادی اور اخلاص اور وفا کے ساتھ سائیکل سفر کا پروگرام 185 | روحانی بھوک ختم ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے.228

Page 584

خطبات مسرور جلد ششم 30 30 انڈیکس (اسماء) مسیح موعود کی تصویر کھنچوانے کا مقصد اور کینیڈا کے ٹی وی پر گوپال کرشن، چیف ایڈیٹر خبار مات بومی کالیکٹ 506 آپ کی تصویر اور تصویر کا بہت ساری بیعتوں کا ذریعہ بنا 279 لحیانی 125 مارٹن کلارک.ڈاکٹر کا ایک جھوٹا مقدمہ 195 403.402 آپ کا خلق "حلم" آپ کی مہمان نوازی کا خلق اور واقعات 285 تا 294 مارٹن کلارک کے مقدمہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا دعا آپ کا اپنی بیعت کرنے والوں کو مخلصین کے پیارے لفظ کرنا اور آپ کی ایک رؤیا 403 سے یاد فرمانا اور حضورانور کی اس کی پر معارف تشریح 336 مالک بن دینار حضرت کے ذریعہ کیرالہ میں اسلام کی ابتداء 502،492 آپ کے الہامات پر خوش فہمی میں وقت کی تعیین کرنے کا مبارک علی بنگالی صاحب.بی.اے.مولوی 423 425 115 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم : دیکھیں انڈیکس کا سب سے پہلا نام رجحان درست نہیں آپ ہی ہیں جو اس زمانہ میں اسلام کا حقیقی چہرہ دکھا سکتے محمد احسن صاحب امروہی.حضرت مولوی کے ایک رشتہ دار 270 کا حضرت اقدس کی دعا سے سننے لگنا ہیں.مسیح موعود کی بعثت کا مقصد خدا اور بندے کا قرب پیدا کرنا محمد احمد چوہدری.درویش قادیان ہے.520 499 146 محمد اسماعیل - حضرت میر.میوہسپتال لاہور 514315 مسیح موعود کی عزت کے ساتھ شہرت.بد قسمت مولوی جتنا محمد حسین بٹالوی.مولوی چاہے زور لگالیں اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں.278 محمد سرور خان صاحب پشاور کی شہادت کی خبر 403 145 آپ کی بعثت کے مقصد کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے محمد صادق صاحب.حضرت مفتی کی بیماری کو حضرت اقدس کہ یہ ہماری اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے.146 کی دعا سے صحت ہونا آپ کا خود مہمان بن کر نمونہ آپ کا مقام ومرتبہ.غیر تشریعی نبی آپ کی دعا سے شفا کے معجزات 520 293-289 محمد علی صاحب.چوہدری ، وکیل التصنیف ، آپکی محنت پر 302 | محمد صادق.حضرت مفتی 519 | اظہار خوشنودی اور دعا کی تحریک آپ کے ضبط نفس اور حلم کے واقعات 125 تا 132 محمد علیخان صاحب.حضرت نواب، مالیر کوٹلہ غلام حیدر راجہ صاحب 403 محمد غضنفر چٹھہ.انسپکٹر بیت المال.کی شہادت غلام فرید صاحب ایم.اے.ملک 425-423 | محمد ملص ، فاطمہ حضرت فضل الرحمان - مفتی کرمی گاندھی جی H.A.R.Gibb, 154 519 486 391 30 محمد یوسف صاحب.سیٹھ اور ان کی خوبیوں کا بیان 379 380 290 مروہ الغالول.نوجوان شامی خاتون کی وفات دعائے 87 | مغفرت 391 87 مسرور احمد حضرت مرزا، خلیفه مسح الخامس ایدہ اللہ 506 آپ کا ایک رؤیا اور دعا کی تحر یک رب کل شی ء خادم....404 18 آپ کا امریکہ کا پہلا سفر اور اس کے لئے دعا کی تحریک 239-238 رای لوری سالانہ ارام کا حضرت خلیفتہ اس سے ملاقات آپ کا جرمن میں ایک استقبالہ سے سلام کی خوبصورت تعلیم ایج کا اور خطبہ جمعہ سن کر نیک تبدیلی کا اظہار 190 اور مسجد کی اہمیت کے بارہ میں خطاب 439

Page 585

خطبات مسرور جلد ششم 31 انڈیکس (اسماء) آپ کی کینیڈا میں ایک تقریر اسلامی تعلیم عبادتگاہوں کے نور الدین منیر.مولانا، نائب وکیل التبشیر کی وفات اور حوالہ سے جس پر پادریوں کا حیرت کا اظہار، ایک عیسائی کا خدمات سلسلہ کا تذکرہ 280 سن کر رو پڑنا.آپ کے دورہ پر مختلف اخبارات کے انٹرویو اور کوریج 507 انچارج.ان کا اپنے کلینک میں الا بذکر اللہ لگانا.دول 278 نوری صاحب.ڈاکٹر ، طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ کے آپ کے دورہ فرانس اور جرمنی کے دوران ہونے والے بے کی بیماریاں اور روحانی شفا شمار فضلوں اور تائید و نصرت کا تذکرہ 434 | نولڈ کے 530 18 323 حضور انور کا فرمانا کہ ایک دفعہ جب آپ فیصل آباد پڑھتے وسیم احمد تھے.جلسہ کے بعد سائیکل پر ہی واپس گئے.312 313 ولڈر (Wilder) کو انتباہ کے ہم معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں 137 مسعود دہلوی صاحب.ایڈیٹر الفضل حضرت مسیح علیہ السلام مظفر احمد قمر مظہر احمد طاہر، حافظ ملا وامل مورس بکائے.ڈاکٹر ، موسی.حضرت 187 ولیم میور سر، 501 وهيب 421 ہندہ 18 316 43 324 یعقوب علی عرفانی صاحب.حضرت 125 ، 127، 129 ، 302-292-290.288 287 18 | یوسف.حضرت، 336,503 میاں نذیر حسین ابن حضرت حکیم مرہم عیسی 525.30 520 ناصر احمد، حضرت مرزا ، خلیفة اصبح الثالث 459,379,457 آپ کے دورہ غانا کا ذکر اور غانا والوں کا جوش محبت 187 آپ کی تحریک سائیکل سفر اور حضور انور خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کہ ایک دفعہ جب آپ فیصل آباد پڑھتے تھے.جلسہ کے بعد سائیکل پر ہی واپس تشریف لے جانا 313.312 آپ کا احمدی بچوں کو وقف جدید کا بوجھ اٹھانے کی تحریک اور پاکستان کے بچوں کا والہانہ لبیک کہنا نی بخش.بٹالہ نجم الدین میاں نصیر احمد قمر صاحب.وکیل اشاعت لندن نواب صاحب مالیر کوٹلہ نورالحق انور.مولانا 5 290 293.292 421 293 408 464.288 نورالدین ، حضرت حکیم مولوی خلیفہ امسح الاول 288, 14 آپ کا الہی غیرت کا ایک واقعہ 514

Page 586

خطبات مسرور جلد ششم 32 انڈیکس ( مقامات) مقامات انڈونیشیا میں مخالفت اور ایک لاعلمی میں کی جانے والی بات کی یک اعلی میر آسٹریا آسٹریلیا آئس لینڈ 439 تردید اور تفصیل 348 انگلستان برطانیہ 469،439،9،278 | انڈیا آئیوری کوسٹ 470،165،188،186,187 | انرز پارک ابوجا اتلی اردن اسلام آباد افریقہ 191 | اوکاڑہ 440-278-218 278 ایران ایسٹونیا 470.10 470.170.165.10 باغ احمد.گھانا بٹالہ بحرین افریقہ والوں کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی محبت کا نور مسیح علیہ السلام کو ایسے محبت کرنے والے ملنے ہیں 182 افریقن اور خصوصاً گھانا میں قربانی کا حیرت انگیز جوش 10 بدین افغانستان ارا امروہہ امریکہ 90.86.88 برسٹل 183 برطانیہ دیکھیں انگلستان 520 برکینا فاسو بورکینافاسو 99.75.74.439.278.9,10.15.4 55 469.493.487.439 470.469.439.278.9,10 471 470 278 348 164 324 439 470 471 بورکینافاسو والوں کا افسوس اور محبت 186.10.165 184 امریکہ میں پہلے مبلغ اور ان کی نظر بندی اور اب اللہ کے فضل بورکینا فاسو 300 خدام کا سائیکلوں پر غانا جلسہ پر آنا.کھانا سے جماعت کی ترقی کا عالم کہ امریکہ معاشی طور پر کمزوری کی طرف انڈونیشیا 241 224 470.469.273.44.278.9 انڈونیشیا کے احمدیوں کا اخلاص وفا اور قربانی نہ ملنے پر معذرت کا پیغام بھیجا تو کہا کہ جس مقصد...184 برلن 57 بریڈ فورڈ انڈونیشیا میں احمدیت کی مخالفت اور وہاں کے احمدیوں کو ترقی بشیر آباد کی خوشخبری اور تمام دنیا کو پاکستان اور انڈونیشیا کے احمدیوں بھری کے لئے دعا کی تحریک 238 | بلغاریہ 440 471.466 470 119 348

Page 587

خطبات مسرور جلد ششم بمبئی بنگلہ دیش بور نمتھ بھارت بہاولپور بهاولنگر بیت الفتوح بیت القدوس، انڈیا بیت النور کیلگری کینیڈا بیت الہادی انڈیا بیلجیئم بین 10 ،470،191،170،158 33 انڈیکس ( مقامات) 496 | پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت....باسی کڑی میں ابال 54 273،5،4 پاکستان میں ایک تیرہ سال احمدی بچے پر جھوٹا مقدمہ اور 471 | ظالمانہ تشدد 54 505 پاکستان میں 1989 کے جشن تشکر پر پابندی کا لگایا جانا اور 470 مولویوں کا اب بھی شور ڈالنا..219 470 پاکستان کے سیاستدان اور عوام کے اور پاکستان کے حالات سدھرنے کے لئے دعا کی تحریک 487 | پانامہ کے ذریعہ سمندروں کو ملایا جانا 260 | پشاور 493 پورٹونو دو.بین مغربی افریقہ کی مسجد کا افتتاح 10،9 ،278 ،469 پیس و پلیچ کینیڈا پینسلوینیا امریکہ بیٹن...پورتو نو وو کی مسجد کا افتتاح 189 تائیوان پاکستان 509، 58،54،48،444,5,9,10، 64،59، ترکی 162 ، 228 ، 235 ، 237 ، 238 ، 273 ، 278، 439، تنزانیہ 285، 296، 306، 307، 312، 325، 356، 375، ٹرینیڈاڈ 378 379 ، 389، 421، 424، 439، 452، 469 ، | ٹوٹنگ 499.486.470 ٹیکساس یونیورسٹی پاکستان میں ایک لمبے عرصہ سے جماعت احمدیہ کے جلسوں پر جالندھر 307،296 | جاپان پابندی پاکستان کے ملاؤں کو تو عقل نہیں آنی.عوام کے لئے دعا جدہ کریں..219 35 470 170 471 240 439 439.278 10 469 471 99 127 440 122 <425.423.422 163 162-278.9.10 219 پاکستان کی معاشی اور اقتصادی بدحالی کا ذکر اور پاکستانی 434، 441-470،469،443،453،438 احمدیوں کا جوش قربانی 9 جزائر پاکستان کے مولویوں کا خلافت جو بلی پروگرامز کے حوالہ سے جلنگھ 193 | چاڈ حاسدانہ رد عمل پاکستان کے وسائل کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو چنائی پاکستان میں غربت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا 47 چیک ریپبلک پاکستان مختلف آفات کے نتیجہ میں بعض اخبارات کا کہنا کہ لگتا حیدر آباد ہے کہ ہماری غلطیوں کی پاداش میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے 198 حیدر آباد دکن 462 471 191 502.501.500 440 470.11 355

Page 588

خطبات مسرور جلد ششم دہلی ڈا مسٹر ڈنمارک 34 =4 500،493 | شکا گوویسٹ 10 شیخو پوره 90،88 | شیفیلڈ ڈنمارک ان پر اتمام حجت ہوگئی خداذ وانتقام ہے.72 صابن دستی | ڈنمارک کے ایک اخبار کی گھٹیا اور بزدلانہ سوچ کا مظاہرہ 72 عراق ڈیٹرائٹ ڈیون راولپنڈی ربوه 471،10 | عرب انڈیکس ( مقامات) 471.10 470.11.10 460 470 88.90 15 471 عرب ممالک میں ایم ٹی اے العربیہ کی نشریات کو بند کرنا اور 470،11،10 اسلام کے ہمدرد عرب لوگ...60 191 189 187 186 184 183.158.10 470.375.154.59.97.10 ربوہ میں ہونے والے جلسے اور تربیتی پروگراموں پر پابندی 54 469 502،470 رومانیہ سانگھڑ ساؤتھ افریقہ ساؤتھ ایسٹ لندن 348 غانا....کے دورہ کے مختصر واقعات 183 470 اہل غانا کا خلافت کے لئے پیار کا سمندر ہے جس کے سامنے 462 کوئی ٹھہر نہیں سکتا 187 10 غانا، ایک یہ خوبی کہ نمازوں اور خطبہ میں بھر پورحاضری 187 470..خلافت جوبلی جلسہ کا لنگر عورتوں نے سنبھالا ہوا تھا 189 471 انکی مالی قربانی اور اخلاص کا ذکر بعض کا مساجد تعمیر کروانا 167 ساہیوال سپین ویلی سٹن سرگودها 471 فرانس 11،10 | فرینکفرٹ سری لنکا 439 439.278 فلسطین سعودی عرب فیصل آباد سکاٹ لینڈ 440.439.9,10 10 278 470.11.10 238 سکنتھو سندھ، تھر کا علاقہ سنگاپور سوئٹزرلینڈ سیالکوٹ 439 فیصل آباد میں میڈیکل کالج سے طلباء کو نکالنا 470 471 | قادیان 125، 128، 129، 240 ، 288، 289، 290، 404-403-356-326-324-306-293.292 228 520-500-496-487-486-425-423 469 469،440 | قطر...470،11،10 | کارنوال سیرالیون 469 | کالی کٹ سیلیکون و ملی 10 | کانگو سینٹ پیری 434 | کراچی سینیگال 186 کریباتی.87 471 506.505.504.502.500.487 165 470.10 201

Page 589

کنری کو تو نو خطبات مسرور جلد ششم 35 501 | ماریشس 470 مالٹا 170 | مالی 507،506 مانچسٹر انڈیکس ( مقامات) 469 348 کو چین کویت 439 ماؤنٹ تھومس کو یت میں فرقان الحق نام کے قرآن کی تقسیم..15 متحدہ عرب امارات 470 مدراس 471 | مدینہ میں اسلام کی مخالفت اور اس کی اصل وجہ 502،501،500،487 505 مسجد بيت الفضل لندن 278 | مسجد ی فضل ، حلقہ 471 مسی ساگا.انٹاریو کینیڈا 191 | مصر میں فرعون کی لاش کا محفوظ رہنا 186 471 501.500 278 500 87 10 470 250 155 278 مغربی افریقہ کے تین ممالک کے کامیاب دورے اور اللہ تعالی 471،470،469،439،250،9,10 کے افضال واقعات کا تذکرہ خلافت جو بلی کا پہلا دورہ 181 کھوکھر غربی لیتھلے کیلگری مسجد کی کوریج کیلگری نارتھ ، ویسٹ کیمرون کینیا کینیڈا گر اس گیرا ؤ گنی کوناکری گوجرانوالہ گھانا ، دیکھیں غانا‘“ گھٹیالیاں خورد گیمبیا لاس اینجلس ایسٹ لائبیریا لاہور البنان لکش دیپ 470،10 | مکہ 10 مکہ میں اسلام کی مخالفت اور اس کا حقیقی سبب 165 | ملتان 470،11،10 میر پور آزاد کشمیر میر پور خاص 470 | میوہسپتال لاہور 186،165 | نارتھ ویلز 10 | نارووال نائیجر 165 نا.122.223.95 87 470.10 470 470.11.10 |514 471 470.11.10 191 ‹191.189.187.186.175.158.92.10470.356.10 470.469 278 لکھنو 323 نائیجیر یا ایک عورت کا خلیفہ وقت کی محبت کا جوش.." تم 129 کون ہو میرے اور خلیفہ وقت کے درمیان حائل ہونے لندن 378،297،283،258،487،201، 421، والے“ 190 نائیجیریا کے ان لوگوں کی ناکامی جو مساجد سمیت خلافت سے 443.441.440.434-424-423| Liamington Spa 471،460 الگ ہو گئے تھے.180

Page 590

خطبات مسرور جلد ششم 36 نائیجیریا میں ایک مسجد کا افتتاح اور اہل نائیجیریا کے اخلاص و | یورپ محبت کا ذکر ندیم آباد نہر سویز انڈیکس ( مقامات) 4.122 190 یورپ میں اسلام کے خلاف اٹھنے والی آواز یورپ کے ہر شخص 470 کی آواز نہیں ہے..88 35 یورپ میں اسلام کے خلاف مہم...بعض نیک فطرت ہیں 91 نیوبضہ سٹیٹ...نائیجیریا کے غیر از جماعت امیر..خلیفہ یورپ میں کارٹون کے خلاف آواز اٹھانے والے اسیح سے محبت اور مہمان ٹھہرانا اور اپنے سکول کا سنگ بنیاد یوگنڈا رکھوانا نیو مالڈن نیوزی لینڈ واہ کینٹ 191 | 166 مراد 88 310 470 35 لا لا لا 35 Excel | 471،10 Mediterairian Sea | 439،278 Red sea | 470 ور جینیا ناردرن وولور سیمپٹن ووسٹر پارک د و کنگ و پیکن ویز بادن ویسٹ ہل ہارٹلے پول بالینڈ 471 471 470 471 501 10 470 466 440 ہالینڈ کے ایک شہر NIJMEGEN کی یونیورسٹی میں ریسرچ پیپر کی کتابی اشاعت 99 ہالینڈ کے wilder - mp کا قرآن اور اسلام کے خلاف ایک فلم ( فتنہ ) جاری کرنا.....134 اور اس کا آنحضرت علیہ کے خلاف توہین آمیز بیان اللہ خود نیٹے گا ہڈرزفیلڈ ہر چووال ہمبرگ 90 460 323 10 ہندوستان ،99، 4 ، 9، 10، 59، 273، 355، 425، 466، 531.507.505.504-500-500-499.487.486.470

Page 591

خطبات مسرور جلد ششم 37 انڈیکس (کتابیات) آپ بیتی از میر محمد اسماعیل صاحب آئینہ کمالات اسلام احکام القرآن كتب کتابیات 514 تقدیر الہی.انوار العلوم 60،42،35 | ٹائمنر ویکلی 280 | جنگ مقدس اسلامی اصول کی فلاسفی 27 ، 33 | حقیقۃ الوحی اصحاب احمد 520،521،512،290 | ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحب اقرب الموارد 221 317 روح پرور یا دیں.محمد صدیق امرتسری 38،131 ریویو آف ریلیجنز الفضل القاموس الوصية انڈین ایکسپریس، اخبار انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا ایک غلطی کا ازالہ ایولین ڈی کے Avisen D K) اخبار بائیبل بدرا اخبار براہین احمدیہ تاریخ احمدیت لاہور 186 | سیر روحانی.انوار العلوم 316 | سیرت المہدی 507 196 450 302.26 520.404 290,293 408 280 404,408 132 سیرت حضرت مسیح موعود از مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی 129.128.127 19 سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی 127 ، 128 ، 520-303-293-292-291-289-287-192.131 59 89 531.91.89 131 501.22.14.129 520 280 تحریک جدیدر بوہ، ماہنامہ 283 281 271 205 204 203 202 405.284 تفسیر حضرت مسیح موعود تفسیر کبیر 3 195.19 "فرقان الحق نام کے قرآن کی کویت میں تقسیم..قرآن کریم قرآن کریم اور اسکی حفاظت 318.14.15 13 قرآن کریم پر اعتراض کر نیوالوں کا انداز کہ بغیر سوچے سمجھے اعتراض کرنا....531 قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ توحید کا قیام اور حقوق العباد 33 قرآن کریم کی حفاظت اور محفوظ نمونے کی بابت بعض مستشرقین کی آراء 18 قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا مشن 526

Page 592

خطبات مسرور جلد ششم 38 انڈیکس (کتابیات) قرآن کریم کی صرف تلاوت ہی کافی نہیں بلکہ غور کرنا بھی | A Visen DK ڈنمارک کی کثیر اشاعت اخبار میں کارٹون ضروری......322 کے خلاف آواز 89 قرآن کریم کے بارہ میں یہ تحقیق کرنے کی کوشش کہ یہ اپنی Five volume Commentary91 اصل حالت میں نہیں اور ان کا ناکام و نا مرا در بہنے کا ذکر 96 Kristelig Dagblal اخبار کا کہنا کہ آزادی ضمیر کا خطرہ قرآن کریم موجودہ مسلمانوں کو کوئی فیض نہیں پہنچا تا...مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ...89 526 Le Parisien اخبار.فرانس اور جماعت کا ذکر کہ امن پسند 436 18 اس کا نتیجہ یہ ہے کہ...قرآن کریم میں شرعی احکامات کی حکمت کی تفصیل 37 اور میں گواہ ہوں قرآن کریم نے شفاء کے حوالہ سے شہد کا ذکر کیا ہے 515 | Life of Mahomet قرآن میں روحانی اور جسمانی عوارض کی شفا کا بھی ذکر ہے 525 The Bible, the Quran and Se قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک رہنے کی ضرورت ہے قرآن کی تعلیم تمام تعلیموں اور ضابطہ حیات کا مجموعہ ہے جو Women Embracing Islam نامی کتاب روحانیت اور اخلاق تک اعلیٰ معیاروں کی تعلیم دیتا ہے 96 ڈان رچرڈسن کی کتاب The Secrets of Quran پر The Collection of Quran | 94 قرآن میں تحریف کی ایک کوشش جو مسلمانوں کے ایک گروپ حضور انور کا تبصرہ 18 18 98 91 کی کتاب کہ جنگ اور جہاد کی آیات نکال دی جائیں 15 Lancaster Intelligence Journal پنسلوانیا قرآن WILDERS کے بارہ میں توہین آمیز کلمات اور کا ایک اخبار...اسکے خلاف فلم بنانا.ممبر پارلیمنٹ ہالینڈ کا اور جماعت احمد یہ | The Hindu 273 507 کے ردعمل میں مہم چلانا لسان العرب ماتر و بھومی ، کالیکٹ کا اخبار مجمع الزوائد مجموعہ اشتہارات 90 472-316-221-194 506 30 66 18 280 514 221.194 محمدان ازم Muhammadanism مختصر تاریخ احمدیت انگریزی مرقاة اليقين مفردات امام راغب ملفوظات نوائے وقت نور القرآن ویسٹ افریقہ ٹائمنر 38 204 34 280

Page 592