Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2007 جلد پنجم
i پیش لفظ - لحمدللہ، خطبات مسرورکی پانچویں جلد پیش کی جارہی ہے جو حضرت خلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ 2007ء کے 52 خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبات بیت الفتوح، بيت الفضل لندن، حدیقۃ المہدی آلٹن کے علاوہ ن سپیٹ ہالینڈ ، منہائم اور گروس گیراؤ جرمنی میں ارشاد فرمائے.یہ تمام خطبات الفضل انٹر نیشنل لندن میں شائع شدہ ہیں.ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچانے کی تو فیق دی اور اسکا سراسر فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا.ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے در درکھتا ہے ، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے ، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کوسنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں اور ان پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کو سنتا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے.یہ الہی بندے زمانے کی ضرورت کے مطابق بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں اور الہی تائیدات ونصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے...اسے اپنی صفات بخشتا ہے.“ ( الفرقان مئی جون 1967ء ص 37) پھر فرماتے ہیں: ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں نا کام ہیں.“ ( خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936 ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936 ء )
ii حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2 نومبر 2007 ء میں ارشاد فرماتے ہیں :.پس اللہ کا یہ فضل اب اس قدر بڑھ چکا ہے اور لوگوں کو اس کا فہم و ادراک اس قدر ہو چکا ہے کہ اب فتنہ پرداز لاکھ کوشش کریں یہ پودے جو اب تناور درخت بن چکے ہیں وہ اب ان کو ہلا نہیں سکتے.کوئی طاقت نہیں ہے جو اب ان کو اکھیڑ سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا تعلق اپنے رب سے اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ اب کوئی طوفان، کوئی آندھی اسے ہلا نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو کہ قدرت ثانیہ کا دیکھنا بھی تمہارے لئے ضروری ہے اور یہ دائمی ہے اور یہ وعدہ تمہارے لئے ہے اس خوبی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیاروں نے پکڑا ہے کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس حبل اللہ کے پکڑنے کی برکت سے جماعت کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جا رہا ہے.یہ وہ درخت ہے جو سدا بہار، سرسبز درخت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے قائم اور سرسبز رکھے.کبھی ہم میں سے کوئی سوکھے پتے کی طرح اس سے علیحدہ ہو کر گرنے والا نہ ہو اور ہمیشہ ہم وہ فیض پاتے چلے جائیں جن کی اس دو طرفہ تعلق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر ہمیں خوشخبری عطا فرمائی ہے.ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مضبوط تعلق اور اس کا فیض ہمارے ایمان کی مضبوطی اور دعاؤں سے مشروط ہے.پس اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مزید مضبوط کرتے چلے جائیں.دعاؤں سے اس شجرہ طیبہ کی آبیاری کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.‘“ ( خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 446) اس جلد کی تیاری میں محترم ظہور الہی تو قیر صاحب اور محترم عامر سہیل صاحب نے تعاون کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان واقفین زندگی کو بہترین جزا عطا فرمائے اور ہم سب کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پُر حکمت نصائح پر پوری طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار 10-6-2009
i خطبہ نمبر تاریخ 1 فہرست خطبات مسرور 2007 ء عنوان صفحہ 5 جنوری مغربی ممالک میں بسنے والے احمدی اور ان کی ذمہ داریاں، تبلیغ کے ساتھ 1 ساتھ مساجد کی تعمیر کی طرف بھی توجہ دیں، یہ دیکھنا چاہیے کہ تقویٰ کے معیار بڑھانے والے احمدی حاصل ہوں 12 جنوری وقف جدید کی مبارک تحریک کا تاریخی پس منظر اور اس کی ضرورت و اہمیت 7 باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں کے سپر دوقف جدید کی تحریک کرے اور اس کی ان کو عادت ڈالے.برلن میں مسجد خدیجہ کے سنگ بنیاد کی تقریب 3 19 جنوری روحانی فیض اٹھانے کے لئے رحمان خدا کی طرف توجہ اور اس کا خوف ضروری 21 ہے، جرمنی سے باہر کی خواتین کو بھی مسجد برلن کی تعمیر کے لئے چندہ دینے کی اجازت 4 26 جنوری صفت رحمانیت، آنحضرت عﷺ پر درود بھیجنے کی اہمیت، صلہ رحمی، دوستی 29 ہمسائیگی اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں.تعزیر، سزا اور رحم میں فرق 5 9 2 فروری صفت رحمانیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ ، احمدی ڈاکٹروں اور 43 زمینداروں کے لئے خصوصی نصیحت و فروری صفت رحیم سے اگر فیض اٹھانا ہے تو اپنی عاجزی اور انکسار کو بڑھائیں، 57 صفت رحیم اور صفت غفور کا باہم تعلق اور وجہ 7 16 فروری صفت ، رحیم، صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو قربانیاں کیں.اگلی نسلوں میں بھی قائم رکھنے کی کوشش کریں.اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرو اور حقوق العباد کی طرف بھی توجہ کرو.مغربی ممالک میں ہجرت کرنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں 65
9 10 10 23 فروری صفت رحیم، سیرت النبی سے بنی نوع انسان سے ہمدردی، ہالینڈ کے ایک ممبر 73 پارلیمنٹ کی طرف سے آنحضرت ﷺ اور اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے بارے میں ہرزہ سرائی اور اس کی پر زور مذمت، دنیا اللہ تعالیٰ کے پیارے پر ظالمانہ حملے کر کے عذاب کو دعوت دے رہی ہے.جنگوں کے علاوہ موسمی تغیرات کی وجہ سے بھی آج کل دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے 2 مارچ صفت رحیمیت ، آنحضرت میلے کے رحم کی چند مثالیں.عورتوں کے حقوق اور 83 اپنے بچوں کی تربیت و نگہداشت، شرک کے خلاف جہاد ہر احمدی کا فرض ہے.منڈی بہاؤالدین کے قریب ایک گاؤں میں ایک احمدی نو مبائع محمد اشرف صاحب کی شہادت کا دلگر از تذکرہ 9 مارچ صفت مالک اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا فضل حاصل کرنے کے لئے ان 95 صفات پر غور کرنا اور اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا انتہائی ضروری ہے.مکرم چوہدری منیر احمد صاحب عارف مربی سلسلہ کی وفات اور ان کی خدمات کا تذکرہ 11 16 مارچ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ اور اس حوالہ سے اہم 105 نصائح، مسلم امہ کے لئے بھی بالخصوص دعا کریں کہ وہ اپنے مالک حقیقی کی منشاء 12 13 کو سمجھنے والے ہوں، محترمہ امۃ الحفیظ صاحبہ بیوہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی وفات کا اور ان کی خدمات کا تذکرہ 23 مارچ 23 مارچ کے دن کی اہمیت، یہ دن اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے سنگ میل کی 113 حیثیت رکھتا ہے.ایک نئے چینل MTA3العربیة کا اجراء، خلافت - وا بستگی کی اہمیت اور برکات سے 30 مارچ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت سے فیض پانے کے لئے نہایت اہم نصائح الله 123 تعالیٰ کی خشیت ہر وقت دل میں رکھو.ربوہ میں سلسلہ کے پرانے کارکن چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیئر کی وفات اور ان کی خوبیوں کا تذکرہ
iii 14 6 اپریل احادیث نبویہ کے حوالہ سے صفت مالکیت کے تحت مومنین پر عائد ہونے والی 135 ذمہ داریاں ، دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں اور میں ہر وقت آپ کے لئے دعا گورہوں کیونکہ جماعت اور خلافت لازم و ملزوم ہیں.عہد یدار ان کے فرائض اور ذمہ داریاں اور عہدیداران کے انتخاب کے لئے قیمتی نصائح اور ہدایات 15 13 اپریل خلافت کے ساتھ عبادات کا بڑا تعلق ہے، سور کے گوشت کے پکانے یا بیچنے یا 147 براہ راست اس کے کاروبار میں ملوث لوگوں سے چندہ نہیں لیا جائے گا.چوہدری حبیب اللہ صاحب سیال کی شہادت اور قریشی محمود الحسن صاحب کی وفات پر مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب 2016 اپریل اللہ تعالیٰ کی صفت قدوس کے مختلف معانی اور اس صفت سے فیضیاب ہونے 157 کے لئے افراد جماعت کی ذمہ داریوں کا تذکرہ ، قرآن شریف کے معنی کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ وہ صفات الہی کے خلاف نہ ہو 17 27 اپریل اللہ تعالیٰ کی صفت قدوس کے حوالہ سے آنحضرت علی کی قوت قدسیہ کی 165 تا شیرات کا ایمان افروز بیان، مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ 18 19 قادیان کی شدید علالت اور دعا کی تحریک 4 مئی حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی وفات اور آپ کی سوانح ، خدمات، 179 قربانیوں اور خصائل حمیدہ کا تذکرہ اور اس حوالے سے احباب جماعت کو نصائح 11 مئی خدا تعالیٰ کی صفت السلام، ہم میں سے ہر ایک کو سلامتی کا پیامبر بننا ہوگا، دنیا 193 کے کسی بھی خطے میں جماعت کے خلاف جو آگ بھڑکائی جارہی ہے اس آگ نے یقیناً ٹھنڈا ہونا ہے 18 مئی صفت السلام، السلام خدا سے فیض پانے کے لئے سچائی پر چلنا ہوگا، اس زمانہ میں 203 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سلامتی کا وعدہ فرمایا ہے ، سری لنکا میں جماعت کی مخالفت میں شدت اور وہاں کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک
iv 21 25 مئی صفت السلام، سلام کو پھیلاؤ تا کہ تم غلبہ پاؤ، جماعت پر ظلم روا رکھنے کی وجہ سے ہی 211 مسلمانوں کے اندر سے سلامتی اٹھ رہی ہے، عرب ممالک میں عیسائیوں کی طرف سے جماعت کی شدید مخالفت اور اس حوالہ سے دعا کی تحریک 22 کیم جون صفت السلام، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ حقوق العباد کی قرآنی تعلیم کے 223 حوالہ سے احباب جماعت کو نصائح ، بیتامی کے لئے قائم فنڈ اور مریم فنڈ میں 23 24 25 26 46 احباب جماعت کو دل کھول کر مدد کرنے کی ہدایت 8 جون صفت السلام، اپنے عزیزوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں، جو لوگ 235 خوشحال ہیں ان کو اپنے عزیزوں کا جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں خیال رکھنا چاہیے.زکوۃ جن پر لاگو ہوتی ہے ان کو یہ ادا کرنی چاہیے.سود کی وجہ سے معاشرے کا امن برباد ہو رہا ہے 15 جون سود کی مناہی اور معاشرے کے جھگڑوں اور فسادوں کو ختم کرنے اور سلامتی اور 245 امن اور پیار اور صلح کو پھیلانے کے لئے مالی لین دین و تجارتی معاہدات اور قرض وغیرہ لینے اور دینے سے متعلق اسلامی تعلیم کا بیان 22 جون صفت سلام ، احمدی کی ذمہ داری کہ یہ پیغام پہنچائے کہ اسلام تشدد کا نہیں بلکہ 257 پیار اور محبت کا علمبردار ہے، رشدی کی کتاب کے جواب میں ارشد احمدی صاحب کی کتاب کا تذکرہ اور پڑھے لکھے طبقے کو کتاب پہنچانے کی ہدایت، توڑ پھوڑ کرنے سے اسلامی اخلاق کی غلط تصویر سامنے پیش ہوگی 29 جون قران مجید اور احادیث نبویہ کی روشنی میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے 267 کی وجوہات اور اس سے متعلقہ احکام اور قواعد وضوابط ، ڈنمارک کے مخلص احمدی مکرم عبد السلام میڈسن صاحب اور مکرم استاذ صالح جابی صاحب سینیگال کی وفات اور ان کی خدمات کا تذکرہ 27 6 جولائی لفظ مومن کے مختلف معانی کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی صفت المومن کے مختلف 279 پہلوؤں کی وضاحت
V 28 13 جولائی سچے مومن کی مختلف نشانیاں اور ان کے اوصاف کو پوری طرح اپنانے کی 287 نصیحت ، جماعتی ضروریات کے لئے بھی احمدی بڑے کھلے دل سے قربانیاں کرتے ہیں 29 20 جولائی آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے اسوہ حسنہ 297 کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے کارکنان کو اہم نصائح ، پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے دعا کی خصوصی تحریک 30 27 جولائی جلسہ سالانہ کے تعلق میں مہمانوں اور میزبانوں کے حقوق و فرائض کی انجام 307 دہی کے سلسلہ میں بیش قیمت نصائح 31 3اگست جلسہ کی کامیابی پر خدا تعالیٰ کا شکر اور تمام ناظمین منتظمین اور معانین کی خدمات 317 کا تذکرہ، جلسہ کے متعلق غیر از جماعت مہمانوں کے نیک تاثرات کا تذکرہ 32 10 اگست مومن کو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھنا چاہیے، ہمیں عبادتوں (327 کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ، صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ کی وفات اور ان کی خوبیوں کا ذکر، نیز نعیمہ سعدیہ صاحبہ اہلیہ ملک سعید احمد رشید صاحب کی وفات کا ذکر 33 17 اگست حقیقی مومنین کا بیان، اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومنین کے ساتھ وعدے، خلافت کا 335 نظام بھی مومنین کے ساتھ ایک وعدہ جو بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے، جرمنی کے سفر پر روانگی کے لئے دعا 34 24 اگست ہالینڈ کے ایک سیاسی لیڈر کے اسلام، بانی اسلام مع ہے اور قرآن مجید پر 343 اعتراضات کا جواب اور احباب جماعت کو اس پہلو سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو نیک فطرت ، انصاف پسند لوگوں تک پہنچانے کی تاکیدی نصائح ، آج کل یہ طوفان اور زلزلے جو دنیا میں آ رہے ہیں یہ وارننگز ہیں 35 31 اگست جلسہ میں شامل ہونے والوں کی ذمہ داریاں، جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ 351 سالانہ کے موقع پر جلسہ کے اغراض و مقاصد کا بیان اور بیش قیمت نصائح
vi 36 7 ستمبر جلسہ سالانہ جرمنی کے کامیاب انعقاد پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور اس کے 361 بندوں کا شکر یہ ادا کرنے کا طریق بتاتے ہوئے منتظمین کو اہم ہدایات اور بالخصوص لجنہ اماء اللہ کو جلسہ کے پروگراموں کو خاموشی اور توجہ اور انہاک سے سننے کے بارہ میں تاکیدی ارشادات 37 14 ستمبر رمضان تقویٰ کے حصول کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ، تین بزرگ خواتین 373 محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس، محترمہ سعید بیگم صاحب اہلیہ محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور محترمہ ناصرہ بیگم 38 صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری سید محمد صاحب کی وفات کا اعلان اور ان کا ذکر خیر 21 ستمبر رمضان میں ایسی نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے حقیقت میں 381 تزکیہ نفس ہو، قرآن کریم کی تلاوت ، ترجمہ اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے 39 28 ستمبر دعاؤں کی قبولیت کے لئے قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ 1389 السلام کے ارشادات کے حوالہ سے بعض اہم شرائط کا بیان ، کراچی میں ڈاکٹر 40 40 حمید اللہ صاحب مکرم پر و فیسر ڈاکٹر شیخ مبشر احمد صاحب کی شہادتوں کا دلگد از تذکرہ 5اکتوبر احمدیت ہے ہی خدا اور اس کے رسول کے احکام کی پابندی کا نام 401 آنحضرت ﷺ کی شان کے متعلق حضرت مسیح موعود کے اقتباسات ، کئی نیک فطرت خود حضور کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں خدا تعالیٰ خود ان کے دل کے دروازوں کو کھولتا ہے 41 12 اکتوبر جمعہ کی نماز کی اہمیت، اس کی ادائیگی کی تلقین، جمعۃ الوداع کے غلط تصور کا بیان، 411 مکرم ملک خلیل الرحمن صاحب ( مرحوم ) کا ذکر خیر 1942 اکتوبر اللہ تعالیٰ کی صفت العزیز کے مختلف معانی کا تذکرہ، پاکستان کے لئے دعا کی 423 تحریک
vii 43 126اکتوبر اسلام کا خدا با وجود عزیز ہونے کے رحمت اور بخشش کی نظر سے ہی اپنے بندے 431 کو دیکھتا ہے، ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسلام اور خدا پر ہونے والے اعتراضات کے رد کے لئے عزیز اور حکیم خدا کا صحیح تصور پیش کرے، پستہ کی تکلیف کی وجہ 44 45 سے اگلے ہفتہ میں آپریشن کا تذکرہ اور دعا کی تحریک 2 نومبر جماعت احمدیہ کی خلافت سے محبت اور تعلق، پستہ کے آپریشن کی خبر پر جماعت 441 احمد یہ عالمگیر کے افراد کی طرف سے خلافت سے محبت و فدائیت کے والہانہ اظہار اور آپریشن کی کامیابی کا تذکرہ 9 نومبر حکیم اور عزیز خدا سے تعلق جوڑ کر ہمارے اندر بھی حکمت و دانائی پیدا ہوگی ، اللہ 447 کی راہ میں خرچ کرنے کی اہمیت اور برکات کا ذکر تحریک جدید کے دفتر اول دوم، سوم، چہارم اور پنجم کے نئے سال کا اعلان.تحریک جدید اور وقف جدید میں نو مبائعین کو ضرور شامل کریں، سیرالیون کے مبلغ یوسف خالد ڈوروی صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب 46 16 نومبر بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق قرآن مجید کی پر حکمت تعلیم کا 459 بیان اور اہم نصائح، پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر احباب جماعت کو خصوصی دعاؤں کی تحریک 47 23 نومبر مختلف جگہ ہونے والے فسادات ، مذہب کے نام پر دہشت گردی اور آفات کا 469 سبب امام زمان کو پہچاننے سے انکار اور استہزاء اور ماننے والوں پر ظلم ہے، احمد یوں کو اللہ کے احکامات اور اسوہ رسول کی تعلیم کو پھیلانے سے پیچھے نہیں بٹنا چاہیے 48 30 نومبر جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد نیکی اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا 481 ادراک اپنے اندر پیدا کرنا ہے، ہمارا مقصد دنیا میں خدا اور رسول کی بادشاہت 49 قائم کرنا ہے 7 دسمبر لفظ الحکیم کے مختلف معانی کا بیان اور اللہ کی صفت الحکیم کی پر حکمت تشریحات 491
viii 50 51 14 دسمبر صفت حکیم، آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ سے آپ کے مختلف پر حکمت 501 فیصلوں اور ارشادات کی روشن مثالوں کا تذکرہ ، احمدی یا درکھیں کہ ہم نے کسی سے دشمنی کا بدلہ اور انتقام نہیں لینا، شیخو پورہ کے نوجوان ہمایوں وقارا بن سعید احمد صاحب کی شہادت کا تذکرہ اور نماز جنازہ غائب 21 دسمبر صفت حکیم ، يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ کے ضمن میں لفظ آیة کے مختلف معانی ، 515 تشریح اور اس دعا کی قبولیت کا روح پرور بیان 2 28 دسمبر انبیاء اور ان کی جماعتوں کے لئے نشانات ، ان کی اقسام، پاکستان کے انتہائی 523 خطرناک حالات کی بنا پر دنیا بھر کے احمدیوں کو پاکستانی احمدیوں کے لئے اور ان کے ملک کے لئے دعا کی تحریک
خطبات مسرور جلد پنجم 1 1 خطبہ جمعہ 05 / جنوری 2007 ء فرمودہ مورخہ 05/جنوری 2007ء ( 05 صلح 1386 ہجری شمسی) بمقام تنسپیٹ (ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بالله.(آل عمران : 111) یہاں ہالینڈ میں بھی دنیا کے اکثر مغربی ممالک کی طرح تین قسم کے احمدی آباد ہیں، ایک وہ جو پاکستان - آئے ہیں یا شاید ایک آدھ ہندوستان سے بھی آئے ہوں، یہاں آکر آباد ہوئے اور ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن میں تین چار نسلوں سے احمدیت چل رہی ہے ، ان کے آباؤ اجداد نے ، باپ دادا نے احمدیت قبول کی.دوسرے چند ایک وہ لوگ ہیں جو بعض مسلمان ممالک کے ہیں، جس میں عرب دنیا کے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے حق کو پہچانا ، اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ کر آپ کے مسیح و مہدی کو آپ کا سلام پہنچائیں اور اس کی جماعت میں شامل ہوں.اور تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو یہاں کے اصلی باشندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور فراست عطا فرمایا اور انہیں مسیح محمدی کے ماننے کی توفیق ہوئی اور یہ لوگ بھی چند ایک ہیں جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں.یہ لوگ وہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رویا کی تعبیر بنتے ہوئے ان سفید پرندوں میں شامل ہوئے جنہیں آپ نے پکڑا تھا.یہ تو ابھی ابتدا ہے، ابھی تو انشاء اللہ تعالی ہم نے وہ نظارے دیکھنے ہیں جب یہ پرندے ڈاروں کی شکل میں غولوں کے غول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آغوش میں آنے ہیں.پس احمدیوں کی جو پہلی قسم میں نے بتائی ہے جس میں پاکستانی احمدی بھی ہیں یا شاید ہندوستانی بھی ہوں، ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان پرندوں کو پکڑنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہاتھ بٹانے اور پھر ان کو اپنے ساتھ سدھا لینے کے لئے بھر پور مدد کریں.ورنہ پرانے احمدی ہونے کے دعوے آپ کی صحابی کی نسل ہونے کی باتیں، صرف باتیں رہ جائیں گی ، اُن صحابہ یا آپ کے بزرگوں کے جو نیک اعمال تھے ، اُن کا اجر تو اُن کو ملے گا ، آپ کو تو اپنے اعمال کا اجر ملنا ہے.اگر نیکیوں پر چلتے ہوئے آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن میں آپ کا ہاتھ بٹائیں گے تو آپ اپنے بہترین اجر حاصل کرنے کے ساتھ ان بزرگوں کے درجات بلند کرنے میں بھی مددگار ہورہے ہوں گے کہ انہوں نے ایک نیک نسل چھوڑی اور آپ پھر اس نیکی کی وجہ سے ان بزرگوں کے لئے دعائیں بھی کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے جنہوں نے ہمیں ان نیکیوں پر قائم کیا.آپ کی نیکیاں ان بزرگوں کے لئے سکون کا باعث بن رہی ہوں گی.پس یہ ایک بہت بڑا نیکی کا موقع ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے، اس کو ضائع
خطبات مسرور جلد پنجم 2 خطبہ جمعہ 05 جنوری 2007 ء نہ ہونے دیں.اپنے ماضی پر نظر ڈالتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے صدقے ، اپنی صفت رحمانیت کے تحت آپ کے لئے اس ملک میں آنے کا موقع بہم پہنچایا جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.اور یہ شکر گزاری کس طرح ہو سکتی ہے؟ یہ شکر گزاری نیکیوں پر قائم ہوتے ہوئے ہوسکتی ہے.یہ شکر گزاری احمدیت کے پیغام کو اس ملک کے ہر فرد تک پہنچانے سے ہوسکتی ہے.یہ شکر گزاری اللہ تعالیٰ کے گھروں کی تعمیر سے ہو سکتی ہے جسے مسجد کہتے ہیں.یہ شکر گزاری ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے سے ہوگی.یہ شکر گزاری نظام جماعت کی اطاعت سے ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ شکر گزاری آپ کے عبادت کے معیار بڑھنے سے ہوگی.پس اس بات کو سمجھیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں تو آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا؟ آپ فرماتے ہیں ”میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قومی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں، کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ ومراتب پر رکھتا ہے، اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیا وی اسباب پر ہے، یہ یقین اور یہ بھروسہ ہر گز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں، زبانوں پر بہت کچھ ہے.فرماتے ہیں ”زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے “.منہ سے تو بہت کچھ کہتے ہیں مگر دل وہ نہیں کہتے.فرمایا کہ میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.(كتاب البرية روحانی خزائن جلد 13 صفحه 291 تا 293 حاشیه پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں.اپنے دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ،تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے جس سچائی کو ماننے کی آپ کو توفیق ملی اس کو اپنے پر بھی لاگو کریں، اللہ تعالیٰ کی محبت سے دلوں کو بھرنے والے ہوں اور اس محبت کا شربت دوسروں کو بھی پلائیں تا کہ اس توحید کے مزے سے دوسرے بھی روشناس ہوں، ان کو بھی پتہ لگے کہ کیا مزا ہے.دوسری قسم کے احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق دی جن کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی مسلمانوں سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہونے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو پورا کرنے والے بننے والے اور پھر یہاں کے مقامی لوگ جن کا میں نے ذکر کیا تھا جو عیسائیت سے اسلام میں شامل ہوئے ہیں اور مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بنے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلتے ہوئے اس سے براہ راست تعلق پیدا ہو اور اس نظریہ کو ر ڈ کرنے والے بنیں جو ایک بندے کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر کے شرک کی تعلیم دیتا ہے.پس آپ لوگوں کو اللہ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کے معیار بڑھاتے ہوئے ، احمدیت کے پیغام کو آگے پہنچانے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے.اس کے لئے جماعت کومل کر بہت
خطبات مسرور جلد پنجم 3 خطبہ جمعہ 05/جنوری 2007ء وسیع پیمانے پر ایک پروگرام بنانا چاہئے جس میں باہر سے آئے ہوئے احمدی بھی شامل ہوں ، مقامی احمدی بھی شامل ہوں تا کہ ہر باشندے تک یہ پیغام پہنچ جائے.اللہ کے اُس پہلوان کی مدد کریں جس کو خود اللہ تعالیٰ نے جری اللہ کے خطاب سے نوازا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی اس کام پر مقرر کیا ہے کہ تمام ادیان کے ماننے والوں کو امت واحدہ بنا کر ایک ہاتھ پر جمع کریں.پس جس نیکی کو آپ لوگوں نے ، ہم نے ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے پالیا ہے اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے پہلے سے بہت بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے.بعض دفعہ نئے آنے والے لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جس کے ذریعہ سے بیعت کی اس کی عملی حالت کیا ہے، یہ نہ دیکھیں.احمدی بنانے والوں کی عملی حالت کو نہ دیکھیں کہ کیا ہوئی ہے اگر کسی میں کمزوری ہے تو وہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہے.بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو نیکیوں میں بڑھنے والے اور نیکیوں کو قائم کرنے والے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں.بہر حال اسلام میں ہر ایک، ہر شخص اپنے فعل کا انفرادی طور پر ذمہ دار ہے.کسی کی ذاتی کمزوری کو کسی دوسرے کے لئے ابتلاء کا باعث نہیں بنا چاہئے.پرانے احمدیوں میں اگر کسی کو بگڑتا ہوا دیکھیں تو اس کے لئے بھی وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھے راستے پر چلائے اور استغفار کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی کوشش کریں اور اس میں جتنی زیادہ استغفار کریں گے جتنی زیادہ کوشش کریں گے اتنے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے.جب نئے اور پرانے احمدی اس مقصد کی ادائیگی کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار بڑھنے شروع ہوں گے.اور جب معیار بڑھیں گے تو ڈچ قوم میں احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف آپ لوگوں کو خود مزید توجہ پیدا ہوگی تا کہ یہ لوگ بھی ہدایت پانے والے بن جائیں.ان لوگوں کو علم ہی نہیں ہ کہ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت تعلیم ہے.اس لئے اس نا واقفیت کی وجہ سے یہ لوگ اسلام پر حملے کرتے ہیں، اسلام کی تعلیم کا مذاق اڑاتے ہیں، استہزاء کرتے ہیں، اس کی خوبصورت تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں.بعض بڑے شدید رد عمل ہیں مثلاً پر دے پر یہاں بہت شور اٹھتا ہے اور اس کے Ban کرنے کے لئے قانون سازی کا بھی سوچا جا رہا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ اسلام کی بھیا نک تصویر ان کو دکھائی گئی ہے.اسلام کی خوبصورت تعلیم ان لوگوں کے سامنے اس طرح پیش ہی نہیں کی گئی جو اس کے پیش کرنے کا حق ہے.اگر احمدی مرد عورت، جو یہاں آکر آباد ہوئے ہیں ، بڑے چھوٹے سب، شروع میں ہی اس طرف توجہ دیتے ، بہت پہلے سے اس طرف توجہ ہوتی ، اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور احمدیت اور حقیقی اسلام سے لوگوں کو متعارف کرواتے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ صورتحال پیدا ہوتی.بہر حال اب بھی وقت ہے ہر احمدی کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے.اسلام کی صحیح تعلیم لوگوں کو بتانے کے لئے ایک مہم کی صورت میں کوشش کرنی چاہئے.پہلے بھی میرا خیال ہے یہاں میں دو دفعہ اس بات کا اظہار کر چکا ہوں، اس طرف توجہ دلا چکا ہوں لیکن جس طرح کوشش ہونی چاہیئے اس طرح کوشش نہیں ہوئی.ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہترین امت قرار دیا ہے جن کو دنیا کے فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے.پس ہمیں ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہماری نظر ہمیشہ دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچانے کی طرف رہے اور سب سے زیادہ بڑی خیر اور بھلائی کیا ہے ، وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے.دنیا کوفائدہ پہنچانے کا راستہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ نیکی کی ہدایت کرو اور اسلام کی تعلیم نے نیکیاں
خطبات مسرور جلد پنجم 4 خطبہ جمعہ 05 / جنوری 2007ء بھی ساری گنوادی ہیں.تو ظاہر ہے کہ جب آپ نیکی کی تلقین کریں گے نیکی کی تعلیم پھیلا ئیں گے تو سب سے پہلے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کو قائم کرنا ہوگا.اپنے اندر، اپنے بچوں کے اندران نیکیوں کو رائج کرنا ہو گا جو اسلام نے ہمیں بتائی ہیں.اس میں سب سے بڑھ کر جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہیں.جب حقیقی معنوں میں عبادت کے معیار بلند ہوں گے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی اور ذاتی رشتہ داریاں یا تعلق داریاں اس بات کی طرف نہیں لے جائیں گی کہ نیکی کے معیار ہر ایک کے لئے الگ بن جائیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نیکیوں کو رائج کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہوں گے.اور یہ باتیں، نیکیاں قائم کرنا اور بدی سے روکنا، ہم اس لئے کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان کامل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہوا ہے.پس جب ہم اپنے اندر یہ پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کو پھیلانے والے اور بدیوں سے روکنے والے بن جائیں گے تو غیر کو بھی ہماری طرف توجہ پیدا ہوگی کہ یہ لوگ نیکیاں اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور اللہ کی خاطر یہ تمام کام سرانجام دے رہے ہیں.ہر احمدی اپنے ماحول میں جہاں وہ کام کر رہا ہے یا رہائش رکھتا ہے، کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتا ہے.تو جب آپ کے چہروں سے آپ کی حرکات و سکنات سے یہ ظاہر ہورہا ہوگا کہ آپ کو بدی سے سخت نفرت ہے اور برائی کی محفلوں سے سلام کر کے اٹھ جانے والوں میں شامل ہیں تو ان کو توجہ پیدا ہوگی کہ پتہ کریں کہ یہ کون لوگ ہیں.اور اس طرح آپ میں سے ہر ایک کی شخصیت سے یہ اظہار ہورہا ہوگا کہ یہ نیکیوں کو پھیلانے والے اور بدی سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں.اور جب لوگ قریب ہو کر دیکھیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ سعید فطرت لوگوں کے سینے یقیناً کھولے گا.ہر قوم میں سعید فطرت ہوتے ہیں اور بڑی تعداد میں ہوتے ہیں.پس تبلیغ کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے.صرف اس ماحول میں ہی نہ رچ بس جائیں.اس کی خوبیاں بے شک اختیار کریں لیکن ان کی برائیوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کریں.آپ لوگوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم خیر امت ہیں، ہمارے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہم اس مقصد کو جاننے والے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور یوں عبادت کرنے والوں کے پھل بھی پھر عبادت کی طرف توجہ دینے والے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی صورت میں ملیں گے.ورنہ یاد رکھیں کہ عارضی تبدیلیاں یا دوہرے معیار یا ایمانی حالتوں میں بڑھنے میں کمی ایسے لوگوں کو اگر پھل ملیں گے بھی ، وہ بیعتیں کروائیں گے بھی تو یا تو وہ عارضی ہوں گی، کچھ دیر کے لئے آئے اور پھر چلے گئے، یا اس معیار کی نہیں ہوں گی جو ایک احمدی کا ہونا چاہئے.یہ باتیں سن کر صرف تعداد کے پیچھے نہ پڑ جائیں.بعض جگہ عادت ہوتی ہے صرف بیعتیں کروانے لگ جاتے ہیں.یہ دیکھیں اور یہ دیکھنا چاہئے کہ تقویٰ کے معیار بڑھانے والے احمدی حاصل ہوں.پس یاد رکھیں چاہے آپ جو موجودہ احمدی ہیں ان کی نسلوں میں ترقی ہے یا نئے آنے والے احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہے، اگر وہ نیکیوں کے معیار بلند کرنے ، تقویٰ پر چلنے اور عبادت کی طرف توجہ دینے والے نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہیں اور ایسے لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں.پس آپ لوگ جو یہاں کے احمدی ہیں ، پرانے احمدی ہیں یا نئے احمدی ہیں مل کر ایسے پروگرام بنا ئیں جس سے آپ کی نسل کی
5 خطبہ جمعہ 05 جنوری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم تربیت بھی ہو رہی ہو.بہت سارے لوگ پریشانی میں لکھتے ہیں تو نسلوں کی تربیت کے لئے خود بھی تو کچھ کوشش کرنی پڑے گی.تا کہ ہر احمدی بچہ اس تربیت کی وجہ سے خیر امت کی منہ بولتی تصویر بن جائے.تبلیغ کے میدان میں نیکیاں پھیلاتے اور برائیوں سے روکتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچا کر اس طرح ان لوگوں کو اپنے اندر سموئیں کہ وہ بھی خیر امت کا حق ادا کرنے والے بن جائیں.یاد رکھیں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کا بہت بڑا ذریعہ مسجدیں بھی ہیں اس طرف بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس وقت تک ہالینڈ میں مسجد کی شکل میں جماعت احمدیہ کی صرف ایک مسجد ہے جو ہیگ (Hague) میں ہے اور اس کی تعمیر ہوئے بھی شاید اندازاً 50 سال سے زائد عرصہ ہی ہو گیا ہے.اُس وقت بھی اس مسجد کا خرچ لجنہ نے دیا تھا جن میں اکثریت پاکستان کی لجنہ کی تھی.پھر یہ ن سپیٹ کا سینٹر خریدا گیا جہاں اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہیں یہ بھی مرکز نے خرید کر دیا ہے.ہالینڈ کی جماعت نے تو ابھی تک ایک بھی مسجد نہیں بنائی.اب آپ کی تعداد یہاں اتنی ہے کہ اگر ارادہ کریں اور قربانی کا مادہ پیدا ہو تو ایک ایک کر کے اب مسجدیں بنا سکتے ہیں.جب کام شروع کریں گے تو اللہ تعالی مدد بھی فرمائے گا انشاء اللہ.خیر امت ہونے کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا ہے.جب اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ہے تو پھر اس پر تو کل بھی کریں.اور یہ کام شروع کریں تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ مددبھی فرمائے گا جیسا کہ میں نے کہا.کل میں امیر صاحب سے اور مربی صاحبان سے مبلغین سے میٹنگ میں کہہ رہا تھا کہ مسجد شروع کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بن بھی جائے گی.اگر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے رہیں گے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے، پیسے اکٹھے ہوں تو مسجد بنے تو پھر نہیں بنا کرتی.ارادہ کریں اللہ تعالیٰ مدد کرے گا انشاء اللہ.احمدی جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے پھر وہ پورا بھی کرتا ہے ، جوش بھی پیدا ہو جاتا ہے، اس لئے فکر نہ کریں، اپنے آپ کو انڈراسٹیمیٹ (Undere stimate) نہ کریں.اپنے لئے غلط اندازے نہ لگا ئیں.اور (ایسا کر کے آپ ) اپنے لئے غلط اندازے نہیں لگا رہے ہوتے ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے غلط اندازے لگا رہے ہوتے ہیں.اگر ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھیں.اگر یہ ٹارگٹ رکھیں کہ ہر دو سال میں کم از کم ایک شہر میں جہاں جماعت کی تعداد اچھی ہے مسجد بنانی ہے ( یہاں دو تین تو شہر ہیں) تو پھر اس کے بعد مزید جماعت پھیلے گی انشاء اللہ.جس طرح میں نے کہا تبلیغ بھی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مسجدیں بناتے چلے جائیں تو یہ چھوٹا سا ملک ہے اس میں جب مسجدیں بنائیں گے، ان کے مناروں سے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی آواز گونجے گی اور آپ لوگوں کے عمل اور عبادتوں کے معیار بڑھیں گے تو یقینا ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور آپ لوگ ان کی غلط فہمیاں دور کرنے والے بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن رہے ہوں گے.ان لوگوں کو بھی حقیقت کا علم ہوگا.ان کو بھی پتہ چلے گا کہ ہم اسلام کو جو سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے ہیں حقیقت میں یہ وہ نہیں ہے بلکہ یہ تو حسن پھیلانے والا اور امن پھیلانے والے لوگوں کا مذہب ہے.پس تبلیغ کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعمیر کی طرف بھی توجہ دیں.دنیا میں ہر جگہ اس طرف توجہ پیدا ہو چکی ہے اس لئے ہالینڈ کی جماعت کو بھی اب پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہئے.اس چیلنج کو اب قبول کریں تو جیسا کہ میں نے
خطبات مسرور جلد پنجم 6 خطبہ جمعہ 05 جنوری 2007 ء کہا ہے کہ تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ جماعت کو متعارف کروانا ہے ، اسلام کو متعارف کروانا ہے تو مسجدیں بناؤ.پھر تبلیغ کے راستوں سے ان تثلیث کے شرک میں مبتلا لوگوں کو پتہ چلے گا کہ توحید کیا ہے اور صحیح مذہب کیا ہے.ہر احمدی بیعت کرنے کے بعد ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سیح و مہدی تسلیم کرنے کے بعد اس عہد بیعت کو پورا کرنے والا بھی کہلا سکتا ہے جب وہ تو حید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کرے کیونکہ یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا حقیقی مقصد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی تو حید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں.(ضمیمه رساله جهاد روحانی خزائن جلد 17 صفحه (29 اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے.جب آپ نیک نیتی سے اس مقصد کو سمجھتے ہوئے تو حید کے قیام کی کوشش کریں گے تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں نشانات کا وعدہ نہیں تھا.آپ کے دور کے لئے آپ کے زمانے کے لئے نشانات کا وعدہ ہے.اور اس کی توحید کے قیام کے لئے آپ اپنی کوششوں سے جو کریں گے آپ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نشانات دیکھتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو تو فیق دے کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والا ہو اور اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے مقصد کو سمجھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کریں گے، انشاء اللہ، اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان انعامات اور فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ فرماتے ہیں: تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الہی اور تزکیہ وتصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ.اس طرح اپنے تئیں مستحق بناؤ (اپنے آپ کو اس کا مستحق بناؤ) خدا تعالیٰ کی عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.(ملفوظات جلد 2 صفحه 212 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه ، الحكم جلد 6 نمبر 20 صفحه 5 ، 31 مئی 1902ء ) تو یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے اپنے ماننے والوں کے لئے وعدہ فرمایا ہے.یہ چیزیں اپنا ئیں گے تو اس کے مستحق ٹھہریں گے.اور کوشش کریں اور ایک نئے جوش سے ایک نئے جذبے سے اس طرف توجہ کرتے ہوئے تبلیغی میدان میں بھی عبادتوں کے معیار میں بھی آگے بڑھتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے حقیقی عبادت گزاروں میں سے بنائے اور اپنے انعامات کا وارث بنائے.آمین ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 26 جنوری تا یکم فروری 2007 ، ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 7 2 خطبہ جمعہ 12 / جنوری 2007 ء فرمودہ مورخہ 12 جنوری 2007 (12) صلح 1386 ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.(برطانیہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ تلاوت فرمائی: الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: 275) آج میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کروں گا.عموماً جنوری کے پہلے ہفتہ میں پہلے جمعہ میں اس کا اعلان ہوتا ہے، یا بعض دفعہ دسمبر کے آخر میں بھی ہوتا رہا.سفر پر ہونے کی وجہ سے میں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ واپس جا کر انشاء اللہ اعلان ہوگا.اللہ تعالیٰ آج توفیق دے رہا ہے.وقف جدید کی تحریک بھی جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاری کردہ تحریک ہے جس کو 1957ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمایا تھا اور صرف پاکستان کے احمدیوں کے لئے یہ تحریک تھی.پاکستان سے باہر کے احمدیوں میں سے اگر کوئی اپنی مرضی سے اس میں حصہ لینا چاہتا تھا تو لے لیتا تھا.خاص طور پر اس بارے میں تحریک نہیں کی جاتی تھی کہ وقف جدید کا چندہ دیا جائے.اُس وقت جب یہ جاری کی گئی تو حضرت مصلح موعود کی نظر میں پاکستان کی جماعتوں کے لئے دو خاص مقاصد تھے.آپ نے جب یہ وقف جدید کی انجمن بنائی تو اس میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو مہر مقررفرمایا اور آپ کو جو ہدایات دیں وہ خاص طور دو باتوں پر زور دینے کے لئے تھیں.ایک تو یہ کہ پاکستان کی دیہاتی جماعتوں کی تربیت کی طرف توجہ دی جائے جس میں کافی کمزوری ہے اور دوسرے ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کا کام.خاص طور پر سندھ کے علاقہ میں بہت بڑی تعداد ہندوؤں کی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کو بڑی فکر تھی کہ دیہاتی جماعتوں میں تربیت کی بہت کمی ہے خاص طور پر بچوں میں.اور اکثریت جماعت کے افراد کی دیہاتوں میں رہنے والی ہے اور اگر ان کی تربیت میں کمی ہوگی تو پھر آئندہ بہت ساری خرابیاں پیدا ہوجائیں گی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالٰی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مجھے وقف جدید کا ممبر مقرر فرمایا اور فرمایا کہ سارا جائزہ لو کہ تربیت کی کیا کیا صورتحال ہے.تو کہتے ہیں کہ جب میں نے
خطبات مسرور جلد پنجم 8 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء جائزہ لیا تو تربیت اور دینی معلومات کے بارے میں انتہائی بھیانک صورت حال سامنے آئی کہ بچوں کو سادہ نماز بھی نہیں آتی تھی اور تلفظ کی غلطیاں اتنی تھیں کہ کلمہ بھی صحیح طرح نہیں پڑھ سکتے تھے حالانکہ کلمہ بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مسلمان مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا.بہر حال اُس وقت پاکستان میں ان معلمین کے ذریعہ جن کو معمولی ابتدائی ٹرینگ دے کر میدان عمل میں بھیج دیا جاتا تھا وقف جدید نے ان دواہم کا موں کو سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت اور قربانی کے جذبے سے اس کام کو سرانجام دیا.سندھ میں ہندوؤں کے علاقے میں تبلیغ کا کام ہوا یہ بھی بہت مشکل کام تھا.یہ ہندو جو تھروں میں وہاں کے رہنے والے تھے.وہاں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے مزدوری کے لئے سندھ کے آباد علاقہ میں آیا کرتے تھے تو یہاں آ کر مسلمان زمینداروں کی بدسلوکی کی وجہ سے وہ اسلام کے نام سے بھی گھبراتے تھے.غربت بھی ان کی عروج پر تھی.بڑی بڑی زمینیں تھیں، پانی نہیں تھا اس لئے کچھ کر نہیں سکتے تھے.آمد نہیں تھی اور اسی غربت کی وجہ سے مسلمان زمیندار جن کے پاس یہ کام کرتے تھے انہیں تنگ کیا کرتے تھے اور ان سے بریگار بھی لیتے تھے.یا اتنی معمولی رقم دیتے تھے کہ وہ بریگار کے برابر ہی تھی.اسی طرح عیسائی مشنوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو ان کی غربت کا فائدہ اٹھا کر عیسائیوں نے بھی ان کو امداد دینی شروع کی اور اس کے ساتھ تبلیغ کر کے لالچ دے کر عیسائیت کی طرف ان ہندوؤں کو مائل کرنا شروع کیا تو یہ ایک بہت بڑا کام تھا جو اس زمانے میں وقف جدید نے کیا اور اب تک کر رہی ہے.بہر حال للہ تعالی نے مد فرمائی اور بڑے سالوں کی کوشوں کے بعد اس علاقے میں احمدیت کا نفوذ ہونا شروع ہوا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جو اس وقت وقف جدید کے ناظم ارشاد تھے بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں کامیابیاں ہونی شروع ہوئیں تو مولویوں نے ہندوؤں کے پاس جا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم یہ کیا غضب کر رہے ہو، احمدی ہونے سے تو بہتر ہے ہندو ہی رہو.ایک خدا کا نام پکارنے سے تو بہتر ہے کہ مشرک ہی رہو یہ مسلمانوں کا حال ہے.تو بہر حال ان سب مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مددفرمائی اور بڑا فضل فرمایا.تھر کے علاقے مٹھی اور نگر پارکر وغیرہ میں آگے بھی جماعتیں قائم ہونا شروع ہوئیں ، ماشاء اللہ اخلاص میں بھی بڑھیں، ان میں سے واقف زندگی بھی بنے اور اپنے لوگوں میں تبلیغ کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو متعارف کروایا، اس کا پیغام پہنچاتے رہے.جب ربوہ میں جلسے ہوتے تھے تو جلسے پر یہ لوگ ربوہ آیا کرتے تھے.میں نے دیکھا ہے کہ انتہائی مخلص اور بڑے اخلاص و وفا میں ڈوبے ہوئے لوگ تھے.اب تو ماشاء اللہ ان لوگوں کی اگلی نسلیں بھی احمدیت کی گود میں پلی بڑھی ہیں اور اخلاص میں بڑھی ہوئی ہیں بڑی مخلص ہیں.شروع زمانے میں وسائل کی کمی کی وجہ سے وقف جدید کے معلمین جنہوں نے میدان عمل میں کام کیا وہ بڑی تکلیف میں وقت گزارا کرتے تھے.ان علاقوں میں طبی امداد کی میڈیکل ایڈ (Medical Aid) کی
خطبات مسرور جلد پنجم 9 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء سہولتیں بھی نہیں تھیں.اس لئے اپنے لئے بھی اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کے لئے بھی کچھ دوائیاں، ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی وغیرہ ساتھ رکھا کرتے تھے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں موبائل ڈسپنسری ہے، دیہاتوں میں جاتی ہے، میڈیکل کیمپ بھی لگتے ہیں.باقاعدہ کوالیفائڈ (Qualified) ڈاکٹر وہاں جاتے ہیں.اسی طرح جماعت نے تھی میں ایک بہت بڑا ہسپتال بنایا ہے.اس میں آنکھوں کا ایک ونگ (Wing) بھی ہے.تو وقف جدید کی تحریک میں پاکستان کے احمدیوں نے اپنی تربیت اور تبلیغ کے لئے اُس زمانے میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں اور اللہ کے فضل سے اب تک کر رہے ہیں اور کام میں بھی اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے اور کام بہت آگے بڑھ چکا ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح جماعت پر فضل فرمارہا ہے یہ تو بڑھتا ہی رہنا ہے.یہاں ایک بات جو میں اس خطبہ کے ذریعہ سے سندھ کے علاقے کے احمدی زمینداروں کو کہنا چاہتا ہوں اور اسی بات پہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع " نے بھی توجہ دلائی تھی کہ یہ جو ہندو اس علاقے میں رہنے والے ہیں یا ان میں سے جو مسلمان ہو چکے ہیں، بڑے غریب لوگ ہیں.وہ اس غربت کی وجہ سے سندھ کے آباد علاقے میں جہاں پانی کی سہولت ہے مزدوری کی غرض سے آتے ہیں اور بڑی محنت سے مزدوری کرتے ہیں.ان کے ساتھ یہ جو احمدی زمیندار ہیں یہ حسن سلوک کیا کریں.یہ پیار ہی ہے جو ان لوگوں کو مزید قریب لائے گا اور اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدیوں کی قربانیوں کو انشاء اللہ پھل عطا فرمائے گا.اس لئے اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے.بہر حال یہ مختصر پس منظر، یہ حالات میں نے اس لئے بتائے ہیں تا کہ نئی نسل کے لوگوں کو اور نئے آنے والوں کو بھی اس تحریک کا مختصر تعارف ہو جائے کیونکہ اب تو وقف جدید کی یہ تحریک تمام دنیا میں جاری ہے، لوگ اس کے چندے کی ادائیگی کرتے ہیں.جہاں تک پاکستان کا سوال ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستانی احمد یوں نے اپنے اخراجات تو آپ سنبھالے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے.لیکن 1985 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع " نے وقف جدید کی تحریک کو ، یعنی مالی قربانی کی تحریک کو ساری دنیا پہ پھیلا دیا، تا کہ دنیا میں جو احمدی آباد ہیں خاص طور پر یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ان کے چندوں سے ہندوستان میں بھی وقف جدید کے نظام کو فعال کیا جائے اور وہاں زیادہ سے زیادہ تربیت و تبلیغ کا کام کیا جائے اور جس علاقے میں خلافت ثانیہ کے دور میں کسی زمانے میں شدھی کی تحریک چلی تھی اور جس کے توڑ کے لئے جماعت نے اس وقت بڑے عظیم کام کئے تھے بڑی قربانیاں دی تھیں اس علاقے میں رہ کر تبلیغ کی تھی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع " نے 1985 ء میں فرمایا تھا کہ اس علاقے میں دوبارہ تشویشناک صورتحال ہے اس لئے ہندوستان کی جماعتوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور وسیع منصوبہ بندی کرنی چاہئے.اور اخراجات کے لئے آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ باہر سے رقم آ جائے گی.اس لئے پھر جیسا کہ
خطبات مسرور جلد پنجم 10 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007ء میں نے کہا باہر کی جماعتوں میں بھی وقف جدید کی یہ تحریک جاری کی گئی تا کہ باہر کی جماعتیں بھی اس نیک کام میں ہندوستان کی جماعتوں کی مدد کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے باہر کی جماعتیں اس تحریک میں بھی مالی قربانی کے لئے لبیک کہنے والی بنیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال وقف جدید میں بھی باقی چندوں کی طرح اضافہ ہو رہا ہے.جوں جوں اللہ تعالیٰ کام میں وسعت دے رہا ہے جتنا جتنا کام پھیل رہا ہے اخراجات بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ وسائل بھی مہیا فرمارہا ہے.لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جماعت کے بڑی تیزی سے ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں اور اس لحاظ سے ضروریات بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمارہا ہے ضروریات پوری ہوتی ہیں.لیکن ہمیں اس طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم بھی ان مالی قربانیوں میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت پر بھی انفرادی طور پر بہت فضل ہو رہے ہیں.اس لئے ہمیشہ کی طرح اپنی قربانیوں کی طرف بھی خاص توجہ رکھیں تا کہ جو کمزور جماعتیں ہیں ہم ان کی مدد کر سکیں.ہندوستان کی نئی جماعتیں بھی ہیں اور افریقہ کی جماعتیں بھی ہیں جو بہت معمولی مالی وسعت رکھتی ہیں.گو کہ قربانی کی کوشش کرتی ہیں لیکن جتنی بھی ان کی وسعت ہے اس کے لحاظ سے، اپنے حالات کے لحاظ سے.تو ان کی مدد کرنے کے لئے تربیت و تبلیغ کے لئے ، ان کی قربانیوں میں جو کمی رہ گئی ہے، اس کو پورا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اس لئے بیرونی جماعتیں یا ان مغربی ملکوں کی جماعتیں جن کی کرنسی مضبوط ہے، انہیں خدمت دین اور دین کی مدد کے جذبے کے تحت ہمیشہ قدم آگے بڑھاتے چلے جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کرنے والوں کو اپنے فضلوں کو حاصل کرنے والا بتایا ہے.جو آیت میں نے تلاوت کی اس میں بھی یہی فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رات اور دن اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا جو اجر ہے وہ میرے پاس ہے اور جس کو میں نے اجر دینا ہے اس کو اس بات کا خوف بھی نہیں ہونا چاہئے کہ چندے دے کر ہمارا کیا بنے گا، ہماری اور مالی ضروریات ہیں.یہ خیال بھی تمہیں کبھی نہیں آنا چاہئے کہ مالی قربانیوں سے تمہارے مالوں میں کچھ کمی ہوگی.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میری خاطر قربانیاں دیتے ہیں ، سات سو گنا تک بڑھا کر بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر دیتا ہوں.پس کسی غم اور کسی خوف کا تو سوال ہی نہیں ہے، ہمیشہ ہر احمدی کو مالی قربانیوں میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے.پس اللہ تعالیٰ سے محبت اور رسول سے محبت کا تقاضا ہے کہ قربانی میں ہمارے قدم ہمیشہ آگے بڑھتے
11 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم رہیں.اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہم شامل ہوئے ہیں تو اس محبت اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ اصلاح اور تربیت کے لئے جب مالی قربانی کی ضرورت پڑے تو ہر احمدی ہمیشہ اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے قربانی میں آگے سے آگے بڑھتار ہے.اسی طرح جو مختلف ملکوں کے نو مبائعین ہیں انہیں بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہماری ضرورتیں باہر کی جماعتیں پوری کریں گی.ہر جماعت نے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہے تا کہ تربیت و تبلیغ کے دوسرے منصوبوں پر توجہ دی جائے.جماعت کی ترقی کے دوسرے منصوبوں پر توجہ دی جائے جن کے لئے بہت سے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے.آج کل کے اس ترقی یافتہ دور میں جب ایک طرف ایجادات کی ترقی ہے تو ساتھ ہی اخلاقی گراوٹ کی بھی انتہا ہو چکی ہے.اپنی نسلوں کو اس سے بچانے اور دنیا کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے، رقم کی ضرورت ہوتی ہے.جس طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس وقت محسوس کیا تھا کہ تربیت کی بہت ضرورت ہے، آج کل بھی کافی تعداد کے لئے اور جونو مبائعین آ رہے ہیں ان کے لئے جس وسیع پیمانے پر ہمیں منصوبہ بندی کرنی چاہئے وہ ہم نہیں کر سکتے.اس میں بہت سی وجوہات ہیں اور ایک بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی بھی ہے.گو کہ ہم جتنا کام پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ کام پورا کرتا ہے.لیکن جب وہاں تک پہنچتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ اس سے زیادہ بھی کر سکتے تھے.اگر ہر جگہ معلم بٹھا ئیں اور بہت سارے افریقین ممالک ہیں، ہندوستان کی بعض جماعتیں ہیں، جہاں بجلی کا انتظام نہیں ہے وہاں بجلی کا انتظام کر کے ایم ٹی اے مہیا کریں جو ایک تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اسی طرح کی اور منصوبہ بندی کریں تو اس کے لئے بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوشش کرتی ہے کہ کم از کم وسائل کو زیر استعمال لا کر زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے.یہ معاشیات کا سادہ اصول ہے.اور دوسری دنیا میں تو پتہ نہیں اس پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں لیکن جماعت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے.جو بھی جماعتی عہدیدار منصوبہ بندی کرنے والے یا کام کرنے والے یا رقم خرچ کرنے والے مقرر کئے گئے ہوں ان کو ہمیشہ اس کے مطابق سوچنا چاہئے اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے.بعض دفعہ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ جو ذمہ دار افراد ہیں وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کریں کہ جماعت کا ایک ایک پیسہ با مقصد خرچ ہونا چاہئے.جماعت میں اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے جو بڑی قربانی کرتے ہوئے چندے دیتے ہیں اس لئے ہر سطح پر نظام جماعت کو اخراجات کے بارے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ ہر پیسہ جو خرچ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی پر خرچ ہو.جب تک ہم اس روح کے ساتھ اپنے اخراجات کرتے رہیں گے، ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالتا رہے گا
خطبات مسرور جلد پنجم 12 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء انشاء اللہ تعالیٰ.ابھی تک جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ جہاں کسی کام پر دوسروں کا ایک ہزار خرچ ہو رہا ہو وہاں جماعت کو ایک سوخرچ کر کے وہ مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں.تو جب تک اس طرح جماعت احتیاط کے ساتھ خرچ کرتی رہے گی ، برکت بھی پڑتی رہے گی.جہاں قربانیاں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی قربانیاں تمام قسم کی بدظنیوں سے بالا ہو کر پیش کریں گے اور جماعت کے افراد اسی سوچ کے ساتھ کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ خرچ کرنے والے احتیاط سے خرچ کرنے والے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.بعض لوگ ایسے بھی ہیں، چند ایک ہی ہیں، جو مالی لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں لیکن چندے اس معیار کے نہیں دیتے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ جماعت کے پاس تو بہت پیسہ ہے اس لئے جماعت کو چندوں کی ضرورت نہیں ہے، جو ہم دے رہے ہیں ٹھیک ہے.جماعت کے پاس بہت پیسہ ہے یا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پیسے میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ برکت بہت زیادہ ہے.اس لئے معترضین اور مخالفین کو بھی یہ بہت نظر آتا ہے.معترضین تو شاید اپنی بچت کے لئے کرتے ہیں اور مخالفین کواللہ تعالیٰ ویسے ہی کئی گنا کر کے دکھا رہا ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.برکت ڈالتا ہے اور بے انتہا برکت ڈالتا ہے.میں نے یہاں بعض اپنوں کا ذکر کیا تھا جو کہتے ہیں کہ پیسہ بہت ہے اس لئے یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے اور خود ان کے چندوں کے معیار اتنے نہیں ہوتے.عموماً جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منصوبہ بندی سے خرچ کرتی ہے.اس لئے ایسی باتیں کرنے والے بے فکر رہیں اور چندہ نہ دینے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے اپنے فرائض پورے کریں.چندوں کی تحریک تو ہمیشہ جماعت میں ہوگی ، ہوئی اور ہوتی رہے گی کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہمیں بتایا ہے.دنیا کی تمام منصوبہ بندیوں میں مال کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا بہت زیادہ دخل ہے اور یہ منصوبہ بندی جس میں مال دین کی مضبوطی کے لئے خرچ ہورہا ہو اور جس کے خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دے رہا ہو کہ تمہارے خوف بھی دور ہوں گے اور تمہارے غم بھی دور ہوں گے اور اجر بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اتنا اجر ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں تو اس سے زیادہ مال کا اور کیا بہتر استعمال ہو سکتا ہے.ہر دینے والا جب اس نیت سے دیتا ہے کہ میں دین کی خاطر دے رہا ہوں تو اس نے اپنا ثواب لے لیا.کس طرح خرچ کیا جارہا ہے، اول تو صحیح طریقے سے خرچ ہوتا ہے.اور اگر کہیں تھوڑی بہت کمزوری ہے بھی تو چندہ دینے والے کو بہر حال ثواب مل گیا.اس لئے ہمیشہ ہر وہ احمدی جس کے دل میں کبھی انقباض پیدا ہو وہ اپنے اس انقباض کو دور کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ دنیا وی سلطنتیں زور سے ٹیکس لگا کر وصول کرتی ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادے پر چھوڑتے ہیں.پس
13 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اللہ تعالیٰ بندے کی مرضی پر چھوڑ کر پھر اس کا اجر بھی بے حساب دیتا ہے.پابند نہیں کر رہا کہ اتنا ضرور دینا ہے.چھوڑ بھی بندے کی مرضی پر رہا ہے، ساتھ فرما رہا ہے جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر بھی دوں گا.صرف یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیت نیک ہونی چاہئے.اس سے زیادہ ستا اور عمدہ سودا اور کیا ہوسکتا ہے.ہندوستان کی جماعتوں کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو رقمیں تو مہیا ہو جاتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا تربیتی اور تبلیغی پروگراموں میں گنجائش موجود ہے اس لئے جتنا وہاں کام ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہو رہا.اس لئے اس طرف پھر ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ توجہ دیں.گزشتہ سال جب قادیان گئے تو توجہ دلانے پر بہتری کی طرف ہل جل تو پیدا ہوئی ہے.مالی قربانی کے جو انہوں نے اعداد و شمار بھجوائے ہیں ان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تربیت کی طرف توجہ ہے اور اسی وجہ سے پھر مالی قربانی کی طرف بھی لوگوں کی توجہ ہوئی ہے.وقف جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کی تعداد میں اس سال انہوں نے 4 ہزار کا اضافہ کیا ہے.لیکن یہ بات شاید پہلی دفعہ ہے کہ جو بجٹ انہوں نے بنایا تھا اور پچھلے سال سے بڑھ کر بنایا تھا اس بجٹ سے انہوں نے نو مبائعین کے علاقے میں دو لاکھ 30 ہزار زائد وصولی بھی کر لی ہے اور فی کس ادا ئیگی میں بھی اضافہ ہوا ہے.چاہے معمولی اضافہ ہے لیکن ان کے لحاظ سے یہ معمولی اضافہ بھی بہت ہے.گو پانچ ساڑھے پانچ روپے کے قریب اضافہ ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ چندہ دینے والوں کی اکثریت نو مبائعین یا چند سال پہلے کے بیعت کنندگان کی ہے.پس اس طرف مزید توجہ کریں.ہندوستان کی جماعتیں ابھی تک اپنے اخراجات کا یعنی وقف جدید پر ہونے والے اخراجات کا تقریباً تین فیصد اپنے وسائل سے پورا کر رہی ہیں.یہ مختصر کوائف جو میں نے دیئے ہیں یہ ہندوستان کی جماعتوں کو توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں.اس طرح جو بیعتوں کی تعداد ہے اس حساب سے بھی شمولیت میں بہت گنجائش ہے.اگلے سال ہندوستان کو بھی اپنے لئے کم از کم شامل ہونے والوں کا 5 لاکھ کا ٹارگٹ رکھنا چاہئے.مجھے امید ہے انشاء اللہ دعاؤں اور توجہ سے اس کام میں پڑیں گے تو کوئی مشکل نظر نہیں آئے گی.جیسا کہ میں نے بتایا کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1985ء میں یہ تحریک تمام دنیا کے لئے کر دی تھی اور مقصد ہندوستان کی جماعتوں کی مدد کرنا تھا.اعداد و شمار سے آپ دیکھ چکے ہیں کہ ہندوستان اپنے وسائل سے فی الحال تین فیصد اخراجات پورے کر رہا ہے اور 97 فیصد اخراجات باہر کی دنیا پورے کرتی ہے اور اس میں یورپ اور امریکہ کے بڑے ممالک ہیں.اس سال یورپ اور امریکہ کے ممالک کی وقف جدید میں کل وصولی بمشکل ہندوستان کے خرچ پورے کر رہی ہے.اور افریقہ کی جماعتوں کے بہت سارے اخراجات دوسری مدات سے پورے کئے جاتے ہیں.تو ان ممالک کو جو مغرب کے ممالک ہیں بھارت اور افریقہ کے وقف جدید کے
خطبات مسرور جلد پنجم 14 خطبہ جمعہ 12 / جنوری 2007ء اخراجات پورے کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے.اس سوچ کے ساتھ قربانی ہونی چاہئے.یہاں گنجائش موجود ہے یہ میں نے جائزہ لیا ہے.میں ایک دفعہ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ عموماً یہاں دوسرے اخراجات اور منصوبوں کا عذر کیا جاتا ہے کہ وہاں زیادہ خرچ ہو گیا ، اور منصوبے شروع ہو گئے اس لئے اس میں اتنی کمی رہ گئی.تو یہ جو منصوبے ہیں یا دوسرے اخراجات ہیں، یہ پاکستان میں بھی ہیں لیکن وہاں قربانی کے معیار بڑھ رہے ہیں.جیسے سپرنگ کو جتنا زیادہ دباؤ اتنا زیادہ وہ اچھل کر باہر آتا ہے اور جو چیز اس پر پڑے اس کو اچھال کر پھینکتا ہے.تو احمدیوں کے حالات جتنے بھی وہاں خراب ہوتے ہیں اتنا زیادہ اچھل کر ان کی قربانیوں کے معیار بڑھ رہے ہیں اور باہر آ رہے ہیں.اور دوسری دنیا میں بھی جہاں جہاں بھی کوئی سختی جماعت پہ آئی وہاں قربانیوں کے معیار بڑھے ہیں.تو مغربی دنیا اس انتظار میں نہ رہیں کہ ضرور حالات خراب ہوں تو ہم نے قربانیاں بڑھانی ہیں بلکہ اپنے ان بھائیوں کے لئے قربانیوں کی طرف مزید توجہ دیں.ہاں تو میں مغربی ممالک کی گنجائش کی بات کر رہا تھا.تو سب سے پہلے میں کینیڈا کو لیتا ہوں.یہاں بھی اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے اور شاید 20-25 ہزار سے زیادہ تعداد ہے.ان پاکستانی احمدیوں کو جو وہاں رہتے ہیں میں کہتا ہوں کہ آپ پر ہندوستان کا بہت حق ہے.اکثر کی جڑیں وہیں سے شروع ہوتی ہیں.کینیڈا میں وقف جدید میں شامل افراد کی تعداد صرف 12,862 ہے اور فی کس 40 کینیڈین ڈالرز ہے جبکہ تعداد اور قربانی کی استعداد دونوں میں یہاں پر گنجائش موجود ہے تو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.پھر جرمنی ہے، جس کی فی کس قربانی 15 یورو ہے.شاملین ما شاء اللہ اچھی تعداد میں ہیں ، 22 ہزار 500 کچھ.بہر حال جرمنی میں بھی اکثریت پاکستانی ہے.15 یورو میرے لحاظ سے کم ہے.اس طرف ان کو توجہ کرنی چاہئے.امریکہ ہے ، ان کی ادائیگی ماشاء اللہ اچھی ہے 137 ڈالرز فی کس.لیکن وقف جدید میں چندہ دینے کی تعداد میں جو لوگ شامل ہیں ان میں اضافہ کی گنجائش موجود ہے.اور اب UK والے نہ سمجھیں کہ ان کو بھول گیا ہوں، پیش کر دیتا ہوں.تحریک جدید کے جو بعض اعداد و شمار میں نے پیش کئے تھے اس کے بعد کچھ ہل جل ہوئی تھی بعض جماعتوں میں بھی اور مرکزی طور پر بھی.تو یہاں بھی وقف جدید کا چندہ فی کس 34 پاؤنڈ ہے.اگر اس طرح لیں تو مہینے کا تقریباً پونے تین پاؤنڈز.اور میرا خیال ہے کہ آپ جو باہر جاتے ہیں تو ایک وقت میں اس سے زیادہ کے چپس وغیرہ اور دوسری چیزیں اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں.اس میں شمولیت کی بھی کافی گنجائش ہے.12024 کی تعداد میں شمولیت.اس سے اور زیادہ تعداد بڑھ سکتی ہے.میں نے جور یجنز کا جائزہ لیا ہے اس میں سکاٹ لینڈ ریجن کی شمولیت ما شاء اللہ سب سے اچھی ہے تقریباً
15 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم 81 فیصد.اور اس کے بعد ساؤتھ ویسٹ ریجن ہے جس میں کارنوال وغیرہ شامل ہیں اس کی 80 فیصد شمولیت ہے.نارتھ ایسٹ ریجن کی 78 سے اوپر ہے.لیکن یہاں نارتھ ایسٹ میں باقی تو ٹھیک ہے سکنتھ روپ والے اکثر ڈاکٹر ہیں ان کی شمولیت بہت کم ہے.اور سب سے کم ساؤتھ ریجن میں 54 فیصد شمولیت ہے.تو شمولیت کے لحاظ سے کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد وقف جدید میں شامل ہو اور اس میں بچوں کو شامل کریں.آگے کوائف میں دوبارہ بتاؤں گا بلکہ یہاں میں بتا ہی دیتا ہوں اس سے متعلقہ ہی ہیں.تحریک جدید میں میں نے بریڈ فورڈ کو توجہ دلائی ان کے بڑے خط آئے تھے کہ ہم وقف جدید میں اس دفعہ یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے.تو ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی شمولیت میں بھی لندن مسجد کا جو علاقہ ہے وہ فی کس ادا ئیگی کے لحاظ سے نمبر ایک پر ہی ہے.62 پاؤنڈز سے اوپر تقریباً 63 پاؤنڈز فی کس ہے.اور بریڈفورڈ جنہوں نے بہت دعوے کئے تھے وہ 38 پاؤنڈز پر ہیں.اسی طرح برمنگھم بہت ہی نیچے ہے وہاں اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں ، بہت بڑھ سکتے ہیں، مانچسٹر میں بڑھ سکتے ہیں.دوسری جماعت جو اپنے لحاظ سے اچھی قربانی کرنے والی ہے وہ ووسٹر پارک ہے.تو یہ اور ہندوستان کے کوائف میں نے اس لئے بتائے ہیں کہ آپ لوگوں کو ضرورت کا بھی اندازہ ہو جائے اور اپنی قربانی کا بھی.ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنا بوجھ نہ ڈالو جو برداشت نہ ہو سکے اور عفو پر عمل کرو یعنی اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھو.ان کو پورا کرو.لیکن ضروریات کی بھی کوئی حد مقرر ہونی چاہئے اس کے بھی معیار ہونے چاہئیں.ورنہ اس زمانے میں جتنا دنیاوی چیزوں کی خواہش کرتے جائیں گے، خواہشیں بڑھتی جائیں گی اور قسم قسم کی جو چیزیں بازار میں دیکھتے ہیں وہ آپ کی خواہشات کو مزید بھڑکاتی ہیں تو اس لحاظ سے بھی دیکھنا چاہئے کہ عفو کی تعریف کیا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمانی حالت کی بہتری کے لئے بھی قربانی کی ضرورت ہے.تو اپنے بچوں میں بھی اس قربانی کی عادت ڈالیں تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو ان کی خواہشات کی جو ترجیحات ہیں ان میں اللہ کی خاطر مالی قربانی سب سے اول نمبر پر ہو.اس سے ایک تو شاملین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور جو عفو کے معیار ہیں وہ ترجیحات بدل جانے سے بدل جائیں گے.جولوگ بچوں کو بھی جب جیب خرچ دیتے ہیں تو ان کو اس میں سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں.عیدی وغیرہ میں سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں ، ان مغربی ممالک میں میں نے اندازہ لگایا ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ بازار سے کھانا برگر وغیرہ جو ہیں اور بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں اور جو مزے کے لئے کھائے جاتے ہیں ، ضرورت نہیں ہے.اگر مہینے میں صرف دو دفعہ
خطبات مسرور جلد پنجم 16 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء یہ بچا کر وقف جدید کے بچوں کے چندے میں دیں تو اسی سے وصولی میں 25 سے 30 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے.تو وقف جدید کو جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے پاکستان میں بچوں کے سپر د کیا تھا.میں بھی شاید پہلے کہہ چکا ہوں نہیں تو اب یہ اعلان کرتا ہوں کہ باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں کے سپر دوقف جدید کی تحریک کرے اور اس کی ان کو عادت ڈالے تو بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ بہت بڑے خرچ پورے کر لے گی اور یہ کوئی بوجھ نہیں ہوگا.جب آپ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سے بچت کرنے کی ان کو عادت ڈالیں گے اسی طرح بڑے بھی کریں اور اگر یہ ہو جائے تو ہندوستان کے اخراجات اور کچھ حد تک افریقہ کے اخراجات بھی پورے کئے جاسکتے ہیں.بہر حال اس مختصر تاریخ وقف جدید اور کوائف کے بعد میں مجموعی کوائف بھی بتا دیتا ہوں جس میں ملکوں کی پوزیشن ہوگی اور پاکستان کے شہروں کی پوزیشن بھی.مجموعی طور پر اللہ کے فضل سے جماعت نے 22 لاکھ 25 ہزار پونڈ ز کی قربانی پیش کی ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 83 ہزار پاؤنڈ ز زیادہ رہی ہے.اور اس میں گو کہ مقامی ملکوں کے مطابق قربانیوں کے معیار بڑھے ہیں لیکن پاؤنڈز کے مقابلے میں امریکہ اور پاکستان میں بھی کرنسی کا ریٹ بہت کم ہو گیا ہے.یعنی ان کی کرنسیوں کے معیار کم ہو گئے ہیں.دنیا بھر کی جماعتوں میں ریٹ (Rate) گرنے کے باوجود پاکستان نمبر ایک پر ہے.امریکہ پہلے نمبر ایک پر ہوتا تھا.ان کو شاید یہ احساس ہو کہ ہماری کرنسی شاید گری ہے اس لئے ہم دوسرے نمبر پر چلے گئے لیکن جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں قربانیوں کے معیار بہت بڑھ گئے ہیں.غریبوں کا جذبہ قربانی جیت گیا ہے.پس پاکستان کے احمدیوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ اس جذبے کو جو آپ میں پیدا ہو گیا ہے کبھی مرنے نہ دیں اور ہر مخالفت کی آندھی اس جذبے کو مزید ابھارنے والی ہو تا کہ آپ کی قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جائیں.تو مجموعی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان نمبر ایک پرہ، امریکہ نمبر دو پہ، برطانیہ نمبر تین پہ، یہ انہوں نے Maintain رکھا ہوا ہے.جرمنی نمبر چار پہ، کینیڈا پانچ ، ہندوستان چھ، انڈونیشیا سات، تحکیم آٹھ ، آسٹریلیا نواور دسویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے.لیکن فرانس بھی تقریباً ان کے قریب ہی ہے، معمولی فرق ہے.یورپین ممالک میں فرانس میں دعوت الی اللہ کا کام بہت اچھا ہو رہا ہے اور انہوں نے دُور کے فریج جزائر میں جا کر وہاں بھی تبلیغ کی ہے برآمد نو کو اور اچھے نتائج بر آمد ہوئے ہیں.فرانس کو چاہئے کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنے نو مائعین کو چندوں میں بھی شامل کریں اور ان کو مالی قربانی کی بھی عادت ڈالیں یتیم کی بھی چندوں کی طرف توجہ ہورہی ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والے افراد چار لاکھ 92 ہزار سے اوپر ہیں.اور اس سال 26 ہزار 700 کا اضافہ ہوا ہے.اس میں بہت گنجائش ہے.اگر جماعتیں کوشش کریں تو بہت اضافہ ہوسکتا ہے.پاکستان میں کیونکہ اطفال اور بالغان کے دو مقابلے ہوتے ہیں پہلے بڑوں کا ہے.لاہور کی جماعت اول ہے،
17 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم کراچی دوم ہے اور ربوہ سوئم ہے.اس کے بعد اضلاع میں راولپنڈی اول ہے.پھر سیالکوٹ ، اسلام آباد فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، میر پور خاص، سرگودھا ، گجرات اور بہاولنگر.اور دفتر اطفال میں اڈل لاہور ہے دوم کراچی، سوئم ربوہ کی پوزیشن ہے.اور اضلاع میں اسلام آباد، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، راولپنڈی ، شیخو پوره ، فیصل آباد، میر پور خاص، سرگودھا، گجرات اور بہاولنگر.تقریباً وہی پوزیشن ہے.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو جنہوں نے اللہ کے دین کی خاطر اپنی ضرورتوں کو قربان کیا اور مالی قربانی کی بہترین جزا دے اور ان کے اموال ونفوس میں برکت دے.دینی ضرورتوں میں تو وسعت پیدا ہوتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ یہ ضرورتیں پوری کرتا رہے گا لیکن ہر احمدی ہمیشہ یادر کھے کہ وہ اللہ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اس کی خاطر مالی قربانیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہے.جماعت میں مختلف منصوبے ہمیشہ جاری رہتے ہیں.یہ نہیں کہ ایک طرف قربانی دی تو دوسری طرف قربانی کے لئے تھک کر بیٹھ گئے.ہمیشہ یادرکھیں جہاں بیٹھے وہاں پھر کمزوریوں پر کمزوریاں آنی شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے کبھی اس سوچ کو ذہن میں نہ آنے دیں کہ فلاں جگہ قربانی کر دی تو کافی ہے.اگلے جہان میں کام آنے والا بہترین مال وہ ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا گیا ہو.آج کل جماعتوں میں، دنیا میں ہر جگہ مسجدوں کی تعمیر کی طرف بہت توجہ ہو رہی ہے.کسی چندے یا کسی تحریک میں ایک طرف توجہ ہو جائے تو اس توجہ کو مساجد کی تعمیر میں روک نہیں بننا چاہئے بلکہ اس طرف توجہ قائم رہنی چاہئے.برطانیہ میں بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.ہر سال پانچ مساجد بنانے کا انگلستان کی جماعتوں نے وعدہ کیا ہے.بریڈ فورڈ میں تعمیر ہورہی ہے.دو اور جگہ بھی کارروائی ہورہی ہے انشاء اللہ شروع ہو جائے گی.تو یہ کام ساتھ ساتھ جاری رہنے چاہئیں.کیونکہ مسجد ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت کا بھی اور تبلیغ کا بھی.لجنہ کی ایک میٹنگ میں بڑے زور دار طریقے سے عورتوں نے درخواست کی کہ ہمیں فلاں فلاں جگہ بچوں کی تربیت میں دقت پیدا ہو رہی ہے ( یہیں UK کی شوری تھی یا کوئی اور میٹنگ تھی ) تو ہمیں مساجد بنا کے دی جائیں ، بہت ضروری ہیں.تو ان کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ مساجد ضروری ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں.لیکن یہ بنانی آپ نے خود ہیں، کسی نے باہر سے آکے بنا کے نہیں دینی.پھر جب نیشنل شوری ہوئی ہے تو اس وقت جب میں نے توجہ دلائی تو جماعت نے اللہ کے فضل سے جیسا کہ میں نے بتایا ہر سال پانچ مساجد بنانے کا وعدہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق بھی عطا فرمائے کہ مکمل کر سکیں.
خطبات مسرور جلد پنجم 18 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء گزشتہ دنوں میں جب میں جرمنی گیا تھا، وہاں بھی زیادہ مقصد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد کی تعمیر کے لئے ، سنگ بنیا دیا افتتاح کے لئے جانا تھا.تین کا افتتاح بھی ہوا، سنگ بنیاد بھی رکھا گیا.ایک مسجد جرمنی ہالینڈ کے بارڈر پر ہے واپس آتے ہوئے اس کا افتتاح ہوا.وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی لیکن ان کی خواہش تھی کہ اس میں نماز پڑھ لی جائے اسی کو ہم افتتاح سمجھیں گے، اس کی تھوڑی سی فنشنگ رہتی ہے تو وہ انشاء اللہ تعالیٰ جلدی کر لیں گے.وہاں ایک بہت بڑی مسجد مجلس انصار اللہ جرمنی نے بنائی ہے.اس میں تقریباً سات آٹھ سونمازی نماز پڑھ سکتے ہیں اور مسجد کے طور پر جرمنی میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے جو خاص اس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے.ہال وغیرہ نہیں بلکہ زمین پہ خاص طور پر مسجد کے مقصد کے لئے جو مسجد کھڑی کی گئی ہے، وہ ابھی تک جرمنی میں یہی بڑی مسجد ہے.اس کے ساتھ گیسٹ ہاؤس بھی ہے ،ہمشنری ہاؤس بھی ہے، دفتر وغیرہ بھی ہیں.پھر جیسا کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ سب سے بڑا بریک تھرو (Break Through) یا بڑی کامیابی جو ہے وہ مسجد برلن کا سنگ بنیا د تھا.وہاں مخالفت زوروں پر ہے.ابھی بھی مخالفین یہی کہتے ہیں کہ ہم اس مسجد کو بنے نہیں دیں گے اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے.گو کہ انتظامیہ کا خیال ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ قانونی تقاضے پورے ہو رہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہر طرح سے مدد فرماتا ہے اور یہ نظارے ہم دیکھتے رہے.پہلے امیر صاحب کا خیال تھا کہ ایک مہینہ پہلے جلدی آ جاؤں تاکہ مسجد کا سنگ بنیا د رکھا جائے.لیکن جب دسمبر میں میں نے جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت تک ان کو مسجد کی تحریری اجازت نہیں ملی تھی.تحریری اجازت بھی میرے جانے کے بعد انہیں ملی ہے تو اس کے بعد کوئی قانونی روک نہیں تھی.اس کے بغیر اگر ہم جاتے تو کئی قباحتیں پیدا ہو سکتی تھیں اور بنیا درکھنا بھی ممکن نہیں تھا.پھر وہاں کے میئر اور MP آئے اور انہوں نے بھی جماعت کی تعلیم کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ہمارے لوگوں کی ساری فکریں دور ہو جائیں گی.جس دن افتتاح تھا جب ہم وہاں گئے ہیں تو چالیس پچاس کے قریب مخالفین تھے جو نعرے لگارہے تھے.لیکن جرمنی میں ایک دوسرا گروپ بھی ہمیں نظر آیا.جب ہم گئے ہیں انہوں نے بھی بینر اٹھایا ہوا تھا اور وہ جماعت احمدیہ کے حق میں تھا کہ یہاں جماعت ضرور مسجد بنائے اور اس میں کوئی روک نہ ڈالی جائے.جماعت نے ان کو نہیں کہا تھا اور نہ وہ جانتے تھے.خود ہی کھڑے ہو گئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے توڑ کے لئے خود ہی وہاں انتظام فرما دیا.پھر یہ جو ان کا چھوٹا سا جلوس تھا اس پر بھی تین چار شہریوں نے ان کے بینر چھینے کی کوشش کی کہ یہ کیوں کر رہے ہو.اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسا سامان پیدا کر دیا کہ مخالفین کو ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی.ان کے اپنے لوگ ہی ان کو روکنے والے تھے.
خطبات مسرور جلد پنجم 19 خطبہ جمعہ 12 / جنوری 2007ء جو مخالفین تھے لوگ اتنے زیادہ تو تھے نہیں) انہوں نے ایک ٹیپ ریکارڈر میں ایک آواز ریکارڈ کی ہوئی تھی.کسی ٹنل میں سے کوئی جلوس گزرا اس کی بڑی گونج تھی لگتا یہ تھا کہ بہت بڑا جلوس ہے اور آوازیں نکال رہا ہے.لیکن لگتا ہے ان کو بھی ملاؤں کی ٹرینگ تھی کہ ٹیپ ریکارڈر استعمال کرو.جو وہاں MP آئے ہوئے تھے انہوں نے بڑی حیرت سے اس بات کا اظہار کیا کہ میں تو ایک عرصے سے جماعت کو جانتا ہوں میرے خیال میں بھی نہیں تھا کہ جماعت احمدیہ کی مسجد کی مخالفت ہورہی ہوگی.یہ تو بڑی امن پسند اور پیار کرنے والی جماعت اور پیار پھیلانے والی جماعت ہے.اخباروں اور ٹی وی نے بھی بڑی اچھی کوریج دی.جیسا کہ میں پہلے بھی جرمنی کے خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برلن میں مسجد کی تعمیر کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا اور آپ کی بڑی شدید خواہش تھی.اور اس وقت ایک ایکٹر رقبہ کا قریباً سودا بھی ہو گیا تھا بلکہ میرا خیال ہے لیا بھی گیا تھا اور آج کل کے حالات میں اتنا بڑا رتبہ ملنا ممکن نہیں، کافی مشکل ہے کیونکہ زمینیں کافی مہنگی ہیں.جرمنی میں عموماً جو پلاٹ مساجد کے لئے خریدے جا رہے ہیں وہ بڑے چھوٹے ہوتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ یہاں تقریبا ایک ایکڑ سے زائد کا رقبہ برلن کی مسجد کے لئے مل گیا ہے اور اللہ میاں نے بڑی سستی قیمت پر دلا دیا.جبکہ باقی مساجد جو وہاں بن رہی ہیں اس سے چوتھے پانچویں حصے میں بن رہی ہیں.پہلے میں یہ بتا دوں کہ حضرت مصلح موعودؓ کا جو اس وقت کا منصوبہ تھا وہ نقشہ دیکھ کے آدمی حیران ہوتا تھا.600 نمازیوں کے لئے ہال کی گنجائش تھی ، مشن ہاؤس، گیسٹ ہاؤس ، پھر اس میں 13 کمرے تھے جو سٹوڈنٹس کے لئے ، طلباء کے لئے رکھے گئے تھے، اب جو مسجد بن رہی ہے اس کے نقشے میں بھی تقریباً 500 نمازیوں کے لئے گنجائش ہو گی اسی طرح باقی چیزیں ہیں.اور اگر فوری نہیں تو بعد میں کبھی جب بھی سہولت ہو، انشاء اللہ تعالی اس کو وسعت دی جاسکتی ہے.1923ء میں جب تحریک ہوئی تھی تو لجنہ اماءاللہ نے تعمیر کے لئے رقم جمع کی تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ کیونکہ یورپ میں عورتوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس وقت اس شہر میں جو دین کا مرکز بن رہا ہے اس میں مسلمان عورتوں نے جرمنی کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کروائی ہے تو کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے.تو جرمنی کی لجنہ کو جب یہ علم ہوا کہ پہلی کوشش مسجد کی تعمیر کی تھی اور عورتوں کی قربانیوں سے بنی تھی تو لجنہ جرمنی نے کہا کہ ہم اس مسجد کا خرچ برداشت کریں گی جو تقریبا ڈیڑھ ملین سے 2 ملین یورو کے قریب ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے اور ان کے مال ونفوس میں برکت ڈالے اور جلد سے جلد اپنا یہ وعدہ پورا کرسکیں تا کہ اپنا وعدہ پورا کر کے دوسرے منصوبوں اور قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.
خطبات مسرور جلد پنجم 20 خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء اس مسجد کا نام خدیجہ مسجد رکھا گیا ہے.پس لجنہ ہمیشہ یادر کھے کہ یہ مبارک نام اس پاک خاتون کا ہے جو سب سے پہلے آنحضرت علی اللہ پر ایمان لائیں اور آپ پر اپنا سارا مال قربان کر دیا.پس جہاں یہ مسجد احمدی عورت کو وسلم قربانی کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والی بنی رہے وہاں دنیا سے بے رغبتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی ہر احمدی کو توجہ دلانے والی بنی رہے تا کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی بنی رہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو ہمیشہ آگے سے آگے بڑھانے والی ہوں.مشرقی جرمنی میں یہ جو برلن میں مسجد بن رہی ہے، یہ ایک مسجد ہی نہیں بلکہ آئندہ نسلیں اور مساجد تعمیر کرنے والی بھی ہوں اور کرتی چلی جائیں اور ان کو آباد کرنے والی بھی ہوں اور خدائے واحد کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے والی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والی ہوں اور اس میں مددگار بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن جلد دکھلائے جب ہم دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر کے خدائے واحد کے حضور جھکتا ہوا دیکھیں.آمین ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 2 تا 8 فروری 2007 ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 21 3 خطبہ جمعہ 19 جنوری 2007ء فرمودہ مورخہ 19 جنوری 2007ء بمطابق 19 صلح 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ تلاوت فرمائی: إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرُهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ.(يس:12) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف حوالوں سے اپنی صفت رحمانیت کی شان بیان فرمائی ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ رحمن کا کیا مطلب ہے، کیونکہ اس کو چار پانچ ہفتے گزر گئے ہیں اس لئے مختصر دوبارہ بیان کر دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن سے مراد ایسی رحمت، مہربانی اور عنایت ہے جو ہمیشہ احسان کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی صفت کی وجہ سے بلا تمیز مذہب و قوم ہر انسان کو اپنے اس احسان سے فیض پہنچارہا ہے بلکہ ہر جاندار اس سے فیض حاصل کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر یک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کا وہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے.“ براهین احمدیه روحانی خزائن جلد 1 صفحه 450 حاشیه نمبر (11) آپ نے مزید کھول کر فرمایا کہ جاندار کی ضروریات اس کی فطرت کے مطابق جو بھی ہیں ان کو مہیا فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی مزید وضاحت ہوگئی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ دوسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے جس کو فیضان عام سے موسوم کر سکتے ہیں رحمانیت ہے جس کو سورہ فاتحہ میں الرحمن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی روح سے خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی.یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ ، جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں.پرندوں کے لئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں.اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تا وہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں.پس اس تحقیق.ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود
خطبات مسرور جلد پنجم 22 خطبہ جمعہ 19 جنوری 2007 ء سے پہلے ڈالی گئی.ہاں انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدارحمن ہے.“ ايام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحه 24-248 | پس یہ اتنا بڑا احسان ہے کہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور عطا فرمایا ہے، اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت رحمانیت کی وجہ سے اس کے آگے جھکے رہنے والا بنار ہنا چاہئے.لیکن عملاً انسان اس کے بالکل الٹ چل رہا ہے.انسانوں کی اکثریت اپنے خدا کی پہچان سے بھٹکی ہوئی ہے.فیض اٹھاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں.اپنی رحمانیت کے صدقے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا ہے جولوگوں کو بشارت بھی دیتے ہیں، ڈراتے بھی ہیں.اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر نیک اعمال کی طرف رہنمائی بھی کرتے ہیں.اس کی عبادت کے طریقے بھی بتاتے ہیں.لیکن اکثریت اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتی.اور پھر اس بات پر نبی اپنے دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں کہ قوم کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ اور سب سے زیادہ تنگی ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ سلم نے محسوس کی.جس پر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا پڑا که لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4) یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لے گا کہ یہ ایمان کیوں نہیں لاتے.پس آپ گا یہ احساس آپ کے اس مقام کی وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کے بھیجا تھا.اور یہ آپ علیل اللہ کی فطرت کا خاصہ تھا.بہر حال یہ رحمان خدا کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ دنیاوی ضرورتیں بھی بن مانگے پوری کرتا ہے اور روحانی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے.پھر اگر کوئی ان کی قدر نہ کرے، ان کو نہ پہنچانے ، ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو ایسے لوگ پھر خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں.نبی کی تعلیم اور نبی کا در دایسے لوگوں کے کسی کام نہیں آتا.پس روحانی فیض اٹھانے کے لئے رحمن خدا کی طرف توجہ اور اس کا خوف ضروری ہے.اسی لئے آپ علیم اللہ کی حالت دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرُهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرِ كَرِيمٍ (يس: 12) تو صرف اسے ڈرا سکتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرتا ہے اور رحمن سے غیب میں ڈرتا ہے.پس اسے ایک بڑی مغفرت کی اور معزز اجر کی خوشخبری دے دے.پس اللہ تعالیٰ جو رحمان ہے، اپنے بندے پر انعام و احسان کے لئے ہر وقت تیار ہے.اس نے اپنے انعامات کے ساتھ خوبصورت تعلیم اور نصیحت بھی لوگوں کے سامنے رکھ دی اور فرمایا کہ تمہارے اوپر زبردستی کوئی نہیں اگر ان احسانوں کو یاد کر کے جو میں تم پر کرتا ہوں میری نصیحت پر عمل کرتے ہو، غیب میں بھی میرے پہ ایمان کامل ہے تو ان احسانوں میں مزید اضافہ ہوگا.تمہارے لئے دنیا و آخرت میں انعامات مزید بڑھیں گے، مزید خوشخبریاں ملیں گی جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے تمہیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر ڈھانپے رکھے گی اور اس سے تم اللہ تعالیٰ کے مزید قریب ہونے والے بنو گے.اس کے لئے کیا طریق اختیار کرنے ہیں.یہ جو طریق ہیں، یہ اب آگے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت میں بیان
خطبات مسرور جلد پنجم 23 خطبہ جمعہ 19 جنوری 2007ء ہوں گے.بہر حال یہاں آنحضرت علیم اللہ کے ذریعہ ہمیں بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا اظہار خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا بھی ہے.اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو پیغام آنحضرت علی اللہ لے کر آئے اور جس کو لے کر آج آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہوئے ، اس پیغام کو ہم آگے پہنچاتے رہیں اور لوگوں کے دلوں پر اثر نہ ہونے کی وجہ سے مایوس نہ ہوں.کئی ایسے ملیں گے جن کے دل اس طرف مائل ہوں گے.چاہے وہ قلیل تعداد میں ہی ہوں جو رحمن خدا سے ڈرنے والے ہیں، اس کے شکر گزار ہیں.اس لئے یہ پیغام پہنچاتے چلے جانا ہے اور یہ پیغام دوسروں کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی، ان قبول کرنے والوں کے لئے بھی اور پہنچانے والوں کے لئے بھی مغفرت اور مزید انعاموں کا ذریعہ بن جائے گا.پس ہمارا ایمان بالغیب بھی اُس وقت اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا اقرار کرنے والا ہو گا جب ہم اپنے اندر بھی خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کریں گے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ، خالصہ اللہ اس پیغام کو آگے پہنچاتے چلے جائیں گے.راستے کی کوئی روک ہمارے لئے اس کام کو بند کرنے والی نہیں ہونی چاہئے.ختم کرنے والی نہیں ہونی چاہئے ، یہی ایک مومن کا خاصہ ہونا چاہیئے.دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ لوگ رحمن خدا کو سمجھیں ورنہ رحمن خدا کے احسانوں کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے ایسے عذابوں میں مبتلا ہوں گے جو کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے.کبھی ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی صورت میں آتا ہے.کبھی ایک قوم دوسری قوم پر ظالمانہ رنگ میں چڑھائی کر کے ان سے ظالمانہ سلوک کر کے عذاب کو دعوت دیتی ہے.کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمینی اور سماوی عذاب آتے ہیں.پس دنیا کوان عذابوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا کام ہے، جس کا بہترین ذریعہ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے.پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا ہے کیونکہ مُردوں کو زندگی دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.پس یہ ایک بہت بڑا فرض ہے جو احمدیت میں شامل ہونے کے بعد ہم پر عائد ہوتا ہے.اپنے اپنے ماحول میں ، اپنے عمل سے بھی اور دوسرے ذرائع سے بھی رحمن خدا کا یہ پیغام پہنچائیں.اس انعام کا دوسروں کے سامنے بھی اظہار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور یہ کرنے سے ہی پھر ہم بھی رحمن خدا سے ڈرنے والوں میں شمار ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہی ، اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف جو اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو،اس کا یہ پیغام پہنچارہے ہوں گے.قرآن کریم میں رحمن کے حوالے سے ہی ذکر ملتا ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو پیغام پہنچایا اور کس طرح نصیحت فرمائی.فرماتا ہے يابَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَنَ إِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا.يَا بَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَنِ وَلِيًّا (مريم: 45-46) اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کر ، شیطان یقینا رحمن کا نا فرمان ہے.اے میرے باپ یقینا میں ڈرتا ہوں کہ رحمن کی طرف سے تجھے کوئی عذاب پہنچے.پس تو اس وقت شیطان کا دوست نکلے.آج دنیا میں قسم ہ قسم کی بت پرستی ہے.اس بت پرستی میں ڈوب کر لوگ شیطان کی عبادت کر رہے ہیں.رحمن
خطبات مسرور جلد پنجم 24 خطبہ جمعہ 19 جنوری 2007 ء خدا کو سب بھول چکے ہیں یا کہنا چاہئے اکثریت بھول چکی ہے.اس طرف کسی کی نظر جانے کو تیار نہیں کہ رحمن خدا کا شکر گزار بنے ،مغرب اور یورپ کی دیکھا دیکھی مسلمان کہلانے والے بھی رچمن سے عملاً تعلق توڑ چکے ہیں.آج اس کے نتیجے بھی ہم دیکھ رہے ہیں.دنیا اور دنیا کی ہوا و ہوس سب سے پہلے ان کا سمح نظر بن چکی ہے.آخرین کے زمانے کی اس نشانی کا اللہ تعالیٰ نے نقشہ کھینچا ہے.جیسا کہ فرمایا: وَإِذَا رَأَوُا تِجَارَةً اَوْ لَهُوَا نِ انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَآئِمًا (الجمعة: (12) یعنی جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلا وا دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے.یہ نقشہ اس زمانے کے لوگوں کا ہے جو آج کا موجودہ زمانہ ہے، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.جب خدا کا مسیح پکار پکار کر کہ رہا ہے ، خدائے رحمن کا واسطہ دے کر کہہ رہا ہے کہ خدائے رحمن کی طرف آؤ.جس چیز کو تم بہترین سمجھ رہے ہو.وہ بہترین نہیں ہے بلکہ تمہیں تباہی کی طرف لے جانے والی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر نظر رکھو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علی اللہ کے ذریعہ سے اور پھر آپ کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے مسیح محمدی کے ذریعہ سے پہنچایا ہے کہ قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ (الجمعة: 12) تو کہہ دے جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہتر ہے.پس آج بھی دنیا اپنی جھوٹی روایات، اناؤں اور مفادات کی وجہ سے رحمن خدا کو بھول کر ان معبودوں کی عبادت کر رہی ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں معبود بنا کر پیش کئے ہوتے ہیں.زمانے کے امام کا انکار بذات خود شیطان کی گود میں گرانے والا ہے اور شیطان کے ورغلانے میں آنے والا ہر انسان پھر اسی صفت سے متصف ہو جاتا ہے جو شیطان کی ہے.اور شیطان کے ورغلانے میں آنے والا پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑ دیتا ہے، پھر اس کا رحمن خدا سے کوئی تعلق نہیں رہے گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ رحمن سے تعلق تو ڑو گے تو لازماً اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ شیطان سے تعلق جڑے گا اور شیطان سے تعلق جوڑنا یہی شیطان کی عبادت ہے.یہی دلوں کے بت ہیں جو رحمن خدا سے دور کرتے ہیں، جن میں دُنیا کا خوف زیادہ ہے اور رحمن کا خوف کم ہے یا بالکل ہی نہیں ہے.پس اس لحاظ سے بھی بڑی باریکی سے ہمیں بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.جہاں ہم دوسروں کو بتاتے ہیں وہاں ہمیں بھی اپنے آپ کو دیکھنا پڑے گا.بڑے خوف کا مقام ہے کہ کون سی ایسی بات کہیں ہو جائے ، ہمارے منہ سے نکل جائے یا ہمارے عمل سے ظاہر ہو جائے جو رحمن خدا کو ناراض کرنے والی ہو.بڑی بڑی باتیں نہیں ہیں بعض بہت چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہیں جو ناراض کرتی ہیں.ہم جب اپنے آپ کو دیکھیں گے اپنے عمل صحیح کریں گے تبھی ہم صحیح طور پر پیغام پہنچا سکیں گے.مثلاً بظاہر چھوٹی بات ہے.اس کا ایک حدیث قدسی میں ذکر ملتا ہے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے رحم ک فر مایا کہ کیا تو یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ میں اس سے تعلق جوڑوں جو تجھ سے تعلق جوڑے اور اس سے تعلق کاٹ دوں جو تجھ سے تعلق کائے.اس نے کہا کیوں نہیں، اے میرے رب ! تو اللہ تعالی نے کہا کہ پس اسی طرح ہو گا.“ (صحیح بخارى كتاب التفسير سورة محمد باب و تقطعوا ارحامکم حدیث نمبر (4830 ر
25 خطبہ جمعہ 19 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم تو رحم کیا ہے؟ رحم ہے رحمی رشتے.پس آج ہم آپس کے رشتے نہیں نبھاتے تعلق نہیں نبھاتے تو ان کو نہ نبھا کر رحمن خدا کی نافرمانی کر رہے ہوتے ہیں.اور رحمن خدا نے فرمایا کہ جوان رحمی رشتوں کو توڑے گا اس سے میں بھی تعلق توڑوں گا.خدا تعالیٰ کی نافرمانی پھر یقین شیطان کی طرف لے جانے والی ہے.اگر انسان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی غور کرے اور پھر ان برائیوں پر غور کرے اور ان کو نکالنے کی کوشش کرے تو تبھی وہ رحمن خدا کا قرب پانے والا بن سکتا ہے ورنہ یہی چیزیں بڑھتے بڑھتے پھر دل کو سیاہ کر دیتی ہیں.اور رحمن کی روشنی سے خالی کر کے پھر شیطان کے اندھیروں کو دل میں بسا لیتی ہیں.اور پھر ایک شخص جو بظاہر خدا کی عبادت کر رہا ہوتا ہے رحمن کی عبادت کرنے والا نہیں رہتا بلکہ شیطان کی جھولی میں گر جاتا ہے.اور پھر شیطان کی جھولی میں گرنے والے کو وارننگ ہے جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کو وارنگ دی تھی.اس کے الفاظ یہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں محفوظ کر لئے جو میں نے بتائے ہیں اور رہتی دنیا تک یہ رحمن خدا سے پرے ہٹے ہوئے لوگوں کے لئے وارننگ ہے کہ باوجود اس کے کہ خدارحمن ہے اور رحمن کی تعریف ہم دیکھ آئے ہیں بندوں پر احسان کرنے والا اور بغیر کسی وجہ کے احسان کرنے والا کوئی اجر نہیں لے رہا بلکہ احسان ہے اس نے اپنے بندوں کے لئے انعامات اور احسانات کی بارش برسائی ہوئی ہے لیکن اس کے حکموں پر نہ چل کر تم اس کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہو.اور اس کا نتیجہ عذاب کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو وارننگ دی.اگر ایک ذی شعور عقلمند انسان غور کرے تو دیکھے گا کہ آجکل مختلف صورتوں میں انسانیت پر جو عذاب آ رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمیشہ یہ یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن ہے تو اس کے ساتھ دوسری صفات بھی ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شرک معاف نہیں کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ ظاہری بتوں کا شرک نہیں ہے.بلکہ قسم ہا قسم کے مخفی شرک بھی ہیں جو انسان نے اپنے دل میں بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں.پس اس لحاظ سے بھی جب ہم غور کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ پتہ نہیں کون سی بات ہے جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بن جائے.یہاں بظاہر حضرت ابراہیم کا اپنے باپ کو رحمن خدا کے حوالے سے ڈرانا عجیب لگتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی اور صفات بھی ہیں.تو جب ایک انسان اس کے باوجود کہ خدا تعالیٰ بے انتہا نواز نے والا ہے انعامات دینے والا ہے اور بغیر مانگے دینے والا ہے جب اس سے تعلق توڑتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پھر وہ اللہ تعالی کی جو دوسری صفات ہیں جن میں سزا دینا بھی ہے ان کے نیچے آ جاتا ہے.تو یہ انسان کی انتہائی بدبختی ہے کہ جو ایسے رحمان خدا کے عذاب کا مورد بنے جس نے دنیاوی سامان بھی ہمیں اپنی زندگی گزارنے کے لئے مہیا فرمائے اور روحانی بہتری کے لئے بھی اپنے مقرب بندے دنیا میں بھیجتارہتا ہے.اور اس زمانے میں ہم گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
26 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کو بھیج کر یہ احسان عظیم ہم پر کیا ہوا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات بھی ہیں اور جب انسان صفت رحمانیت کی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر ایسی صفات بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہیں جن میں سختی بھی ہے.مثلاً جیسے اللہ تعالیٰ کی صفت جبار بھی ہے قہار بھی ہے تو جب انسان با وجود اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کے احسان فراموشی کرتا چلا جائے گا تو بعض دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کی ان حدود کو پھلانگے گا جہاں جانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ قہری جلوے بھی دکھاتا ہے.اس کا میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ پھر وہ جلوہ زلزلوں اور دوسری آفات کی صورت میں بھی ہوتا ہے.یہاں صفت رحمانیت پر اعتراض نہیں آتا بلکہ انسان کے یہ اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جب وہ شر پر اصرار کرتا چلا جائے گا،شہر سے باز نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پس آدمی کو لازم ہے کہ تو بہ واستغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے.ایسا نہ ہو بداعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں.پھر آپ فرماتے ہیں: وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ (الزلزال : 9) یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس سزا کو پائے گا.یہ لکھ کے آپ فرماتے ہیں کہ : ” پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں ہے کیونکہ اس شر سے وہ شرمراد ہے جس پر انسان اصرار کرے.یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ میں بخشوں گا میں رحمان ہوں اور یہاں شر کی سزا دے رہا ہے.بلکہ فرماتے ہیں کہ یہاں شہر سے مراد ایسا شر ہے جس پر انسان اصرار کرتا رہے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے، اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا.تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا ورنہ سارا قرآن شریف اس بارے میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے“.(چشمۀ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 24 پس اللہ تعالیٰ تو بن مانگے احسان کرنے والا ہے.مانگنے والے کو تو بے شمار نوازتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی الله بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھنے لگے تو رحمن ، بِسْمِ کا لفظ جب آپ کے مبارک منہ سے نکلتا تھا تو آپ بے چین ہو کر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے تھے اور آنکھوں سے آنسورواں ہو جاتے تھے.کئی مرتبہ ایسا ہوا، آخر کسی صحابی نے جو وہاں موجود تھے پوچھا کہ حضور! اس طرح بے چین ہونے کی وجہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب میں رحمن لفظ پہ پہنچتا ہوں تو اس لفظ پر پہنچ کر اللہ تعالی کے اپنی مخلوق پر بے شمار انعاموں اور احسانوں کو یاد کر کے اس بات پر بے چین ہو جاتا ہوں کہ پھر بھی لوگ اس رحمن خدا کی سزا کے مورد بنتے ہیں تو یہ کس قدر ان کی بد بختی ہے.(دروس الشيخ عائض القرنى جزء 128 صفحه 4 المكتبة الشاملة (CD
27 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ ابورافع نے حضرت ابو ہریرہ سے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی یہ لکھ چھوڑا ہے کہ یقیناً میری رحمت میرے غضب پر فوقیت لے گئی ہے.یہ بات اس کے پاس عرش کے اوپر لکھی ہوئی ہے.(بخارى كتاب التوحيد.باب قول الله تعالى بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ حدیث نمبر (7554 پھر ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم عبید اللہ کے پاس چند قیدی آئے تو ان قیدیوں میں سے ایک عورت بچے کو دودھ پلا رہی تھی ، جب وہ قیدیوں میں سے کسی بچے کو دیکھتی اس کو پکڑتی اپنے سینے کے ساتھ لگاتی.(اس کا شاید بچہ گما ہوا تھا) اور اسے دودھ پلاتی ، تو نبی کریم صل اللہ نے ہم سے پوچھا، کیا تم گمان کر سکتے ہو یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے کہا نہیں.یہ کبھی اسے آگ میں نہیں پھینکے گی تو آپ صلی اللہ نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، جتنی یہ عورت اپنے بچے پر کرتی ہے.(بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته حدیث نمبر (5999 پس رحمن خدا سزا نہیں دے رہا، یا وہ بندے کو سزا نہیں دیتا یا رحمن خدا عذاب نازل نہیں کرے گا یا نہیں کرتا بلکہ انسان اپنی شرارتوں اور خدا کی نافرمانیوں کا مرتکب ہو کر قانون قدرت کے تحت دوسری صفات کے تحت آکر جن میں سزا اور عذاب بھی ہے اس سزا اور عذاب کا مورد خود بن رہا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان احسانوں کا شکر ادا کرنے والا بنائے ، نہ کہ ہم اس کے احسانوں کی کسی قسم کی ناشکری کر کے رحمن خدا سے دور جانے والے بن جائیں، اور یہی پیغام ہم نے دوسروں تک پہنچانا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم صحیح طور پر یہ پیغام پہنچاسکیں تا کہ اس شرک کی وجہ سے جو آج دنیا کی اکثریت میں ہے دنیا کو عذاب کی وارننگ دے کر اس سے بچانے والے بن سکیں.دنیا کی بہت ہی بڑی اکثریت ہے جو عیسائی ہے، رحمن خدا کے ہی انکاری ہیں.خدا تعالیٰ کی اس صفت کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ وہ رحمن خدا ہے.اور اپنے اعمال اور اس کے آگے جھکنا ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے والا ہے.نہ کسی دوسرے کی قربانی کام آئے گی ، نہ نجات دلانے کے لئے رحمن خدا کے مقابل پر کسی بندے کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے.یہ تو صاف شرک ہے جس کے بارے میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کو وارنگ دی تھی.سورۃ مریم میں ہی عیسائیوں کے بارے میں یہ ذکر بھی ہے.حضرت ابراہیم کی وہ وارننگ بھی پہلے سورۃ مریم کی ہے.عیسائیوں کے بارے میں یہ کھول کر بیان کر دیا کہ رحمن کا بیٹا بنا کر انہوں نے اتنا بڑا شرک کیا ہے جس کی انتہا نہیں، قریب ہے کہ زمین آسمان پھٹ جائے.( یعنی خدا کو ہر کام کے لئے اپنے بیٹے کی مدد کی ضرورت ہے ).یہ اتنا خوفناک تصور ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو لانے والا ہے.اللہ فرماتا ہے وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِذَا تَكَادُ السَّمْواتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَذَا.أَنْ دَعَوُا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا.وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عبدا (مریم: 89-94) یعنی وہ کہتے ہیں رحمن نے بیٹا بنالیا ہے.یقیناً تم ایک بہت بیہودہ بات بنالائے ہو.قریب
28 خطبہ جمعہ 19 /جنوری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑے اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ لرزتے ہوئے گر پڑیں کہ انہوں نے رحمن کے لئے بیٹے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کوئی بیٹا اپنائے.یقینا آسمانوں اور زمین میں کوئی نہیں مگر وہ رحمن کے حضور ایک بندے کے طور پر آنے والا ہے.ہر جو دنیا میں آیا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، بندہ ہے.آجکل یہ شرک انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور یہی زمانہ تھا جب اس شرک کے ظاہر ہونے پر خدا تعالیٰ کی غیرت نے جوش میں آکر اس ظالمانہ نظریہ کے خلاف مسیح محمدی کو کھڑا کرنا تھا.سو وہ کھڑا ہوا اور اس نظریہ کو پاش پاش کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مبعوث ہونا بھی رحمن خدا کا ہم پر احسان ہے جس کے لئے ہمیں شکر گزار ہوتے ہوئے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ، اس پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ جو آیت ہے کہ تَكَادُ السَّمَوَاتُ يَتَفَطَّرُنَ مِنْهُ دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ قیامت کبری کے قریب عیسائیت کا زمین پر بہت غلبہ ہو جائے گا.جیسا کہ آجکل ظاہر ہورہا ہے اور اس آیت کریمہ کا منشاء یہ ہے کہ اگر اس فتنہ کے وقت خدا تعالیٰ اپنے میسج کو بھیج کر اصلاح اس فتنہ کی نہ کرے تو فی الفور قیامت آجائے گی اور آسمان پھٹ جائیں گے.مگر چونکہ باوجود اس قدر عیسائیت کے غلو کے اور اس قدر تکذیب کے.قیامت نہیں آئی تو یہ دلیل اس بات پر ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم کر کے اپنے مسیح کو بھیج دیا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا نکلے.“ (تحفہ گولڑویه روحانی خزائن جلد 17 صفحه (287 پس اب غلامان مصیح الزمان کا کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں اور خدا کے وعدہ کے مطابق اس کے اجر کے وارث بنیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں نے مسجد برلن کا ذکر کیا تھا کہ لجنہ اماءاللہ جرمنی نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ہے.اس پہ جو جرمنی سے باہر کی عورتیں ہیں ان کا بھی خیال ہے کہ اُس زمانے میں کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کام قادیان اور ہندوستان کے ذمہ کیا تھا جن میں سے بیشتر کی اولادیں پاکستان میں اور باہر کے دوسرے ممالک میں ہیں ، اس لئے ان کو ثواب پہنچانے اور ہمیں بھی ثواب حاصل کرنے کے لئے اس کی اجازت دی جائے کہ ہم بھی اس میں حصہ لے سکیں.تو بہر حال عام تحریک تو میں نہیں کرتا لیکن یہ اجازت ہے کہ اگر کوئی احمدی عورت یا بچی اس مد میں اپنی خوشی سے چندہ دینا چاہیں تو بے شک دے دیں، کوئی روک نہیں ہے.اور مجھے امید ہے کہ لجنہ اماءاللہ جرمنی بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گی.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خیریت سے اس مسجد کی تعمیر مکمل کروادے کیونکہ مخالفت ابھی بھی زوروں پر ہے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 9 تا 15 فروری 2007 ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 4 29 29 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء فرموده مورخہ 26 جنوری 2007 ( 26 صلح 1386 ہجری تشسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کے خطبہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا بیان ہی ہوگا.لیکن آج اس ضمن میں میں حدیث کے حوالے سے بات کروں گا.اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے حوالے سے بے شمار احادیث ہیں جن میں سے چند ایک میں نے چنی ہیں ، ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بارے میں جو نصائح فرمائی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اس صفت کی مختلف زاویوں سے جو وضاحت فرمائی ہے اس کا ذکر ہے تا کہ ہمیں اس کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہو.یہ احادیث جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلووں کو اپنی ذات میں جذب کرتے ہوئے اس کا عبد منیب بنانے والی اور اس کے آگے جھکائے رکھنے والی ہونی چاہئیں، جس سے ہمارے جسم کا رواں رواں خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا شکر گزار بن جائے ، وہاں اس رحمۃ للعالمین پر درود بھیجنے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے.جس نے ہم عاجز گناہگار بندوں کا خدائے رحمن سے تعلق جوڑنے کے لئے کس طرح مختلف طریق پر نصائح فرماتے ہوئے وہ فہم اور ادراک عطا فرمایا اور اپنا اسوہ قائم فرما کر ہمیں ان راہوں پر چلنے کی نصیحت فرمائی.احادیث پیش کرنے سے پہلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے اس صفت کا پر تو ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رحمانیت کا مظہر نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ محمد کے معنے ہیں بہت تعریف کیا گیا.اور رحمن کے معنے ہیں بلائزڈ.( بلا مزد کا مطلب ہے بغیر اجر کے ) ” بن مانگے بلا تفریق ، مومن و کافر کو دینے والا اور یہ صاف بات ہے کہ جو بن مانگے دے گا، اس کی تعریف ضرور کی جائے گی.پس محمد ( صلی اللہ) میں رحمانیت کی بجلی تھی، (ملفوظات جلد اول صفحه 395 جدید ایڈیشن مطبوعه (ربوه یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فہم وادراک اور کلام کی خوبصورتی اور آپ کا اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کے صحیح مقام کا فہم جس تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا.
خطبات مسرور جلد پنجم 30 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء رحمانیت کی یہ تجلی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے ہم احادیث میں دیکھیں گے.جہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے.وہاں ہر جگہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس صفت کے بارے میں بیان فرماتے ہیں تو آپ کے الفاظ میں ایک خاص رنگ ہوتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق صفت رحمانیت سے زیادہ سے زیادہ فیض پا سکے، مومن اس سے زیادہ سے زیادہ فیض پاسکیں.پھر بعض احادیث جانوروں کے بارے میں بھی ہیں کہ ان سے کس طرح رحم کا سلوک ہونا چاہئے.وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس رحمۃ للعالمین کا جذبہ رحم ، رحمن خدا کی مخلوق کی تکلیف دور کرنے کے لئے کس شدت رحم سے بے چینی کا اظہار کرتا ہے.گزشتہ خطبے میں میں نے ایک حدیث کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بے چینی کا ذکر کیا تھا.آپ نے فرمایا تھا: کیوں لوگ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے باوجود اپنی بدبختی کی وجہ سے اس کے عذاب کا مورد بنتے ہیں.اس تعلق میں دوسری حدیث یہ ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو صادق و مصدوق ابوالقاسم اور جھونپڑی والے ہیں، یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رحمت تو صرف بد بخت سے ہی چھینی جاتی ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 مسند ابى هريرة حدیث نمبر 7988.ایڈیشن 1998ء عالم الكتب.بيروت) | اس حدیث میں جہاں یہ ذکر ہے کہ رحمت بد بخت سے چھینی جاتی ہے وہاں اس انذار کے ساتھ ساتھ عیل اللہ نے اللہ تعالیٰ کی ایک وسیع رحمت کی بشارت بھی دی ہے کہ جو اللہ تعالی کی حدود سے تجاوز کرنے والے نہیں ہیں، وہ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہیں رہتے.بلکہ محرومی ان کے لئے ہی ہے اور وہی اس محرومی کا مورد بنتے ہیں جو ان حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں.تو ایک مومن کی یہی خواہش ہونی چاہئے اور یہی کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت سے حصہ لے اور باقی صفات سے بھی تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا زیادہ سے زیادہ وارث بنے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ اگر مومن کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور سزا کے بارے میں معلوم ہو جائے تو جنت کی کوئی بھی امید نہ کرے اور اگر کافرکو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کے پاس کتنی رحمت ہے تو کوئی بھی جنت سے مایوس نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں پیدا کیا جن میں سے ایک حصہ مخلوقات میں رکھ دیا.جس سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت کے ننانوے حصے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 مسند ابی هریره حدیث نمبر 10285 ایڈیشن 1998ء عالم الكتب، بيروت) ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں جو دیکھتے ہیں، بشمول انسان اور جو دوسری جاندار مخلوق ہے وہ صرف ایک حصہ رحمت کا ہے جو وہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں.مومن کا جنت سے نا اُمید ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مومن ہونے کے بعد انسان رحمانیت سے محروم ہو جاتا ہے.فرمایا کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور سزا کے بارے میں
31 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم معلوم ہو جائے تو جنت کی کوئی امید نہ رکھے.اور کا فرجو ہے اس کو رحمت کا پتہ لگ جائے تو اس کو یہی امیدر ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا.اگر یہی ہو کہ مومن کو کوئی امید نہ ہو تو پھر تو کوئی ایمان لانے کی جرات نہ کرے.مطلب یہ ہے کہ مومن کیونکہ تقویٰ کی وجہ سے، باقی صفات کا علم ہونے کی وجہ سے ان کا بھی فہم و ادراک رکھتا ہے اور اس میں بڑھ رہا ہوتا ہے اس لئے یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ کسی غلط عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نہ حاصل کرلے، اس لئے ہمیشہ سیدھے راستے پر چلتا رہنے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دعا ئیں بھی سکھا دی ہیں جو اس سے مانگنی چاہئیں تا کہ وہ جنتوں کا وارث بنتا چلا جائے.مثلاً سورۃ اعراف میں یہ دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْكَمُتَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِيْنَ (الاعراف : 24) اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو ہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.پس حقیقی مومن وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں لئے رکھے اور اس علم کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے، ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے ڈرتا رہے کہ کہیں میرا کوئی عمل مجھے اس سے محروم نہ کر دے.جب ایسی حالت ہوگی تو پھر ایک مومن پر رحمتوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی دوسروں سے بڑھ کر نازل ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو ، خواہ باطن کا ہو ،اسے علم ہو یا نہ ہو سب قسم کے گنا ہوں سے استغفار کرتا رہے.پھر فرمایا کہ آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہیے، رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِيْنَ (الاعراف: 24) “ فرمایا کہ یہ دعا اول ہی قبول ہو چکی ہے.(ملفوظات جلد 2 صفحه 577 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه پس مومن کو جہاں فکر مند ہونا چاہئے وہاں تسلی بھی رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت سے مزید نواز نے کے لئے دعا بھی سکھا دی ہے.اور پھر مومنوں کو ایک اور جگہ اس طرح بھی تسلی دی ہے کہ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ الله (الزمر: 54) کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو.تو یہ حدیث مایوس کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک تو یہ وضاحت ہے ، جس طرح کہ میں نے کی ہے، دوسرے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی رحمت دوسروں کے لئے ہے اور ننانوے حصے اس کے پاس ہیں تو اس سے یقینا تمہیں بھی بہت حصہ ملنا ہے، ان اعمال کی وجہ سے جو دوسروں سے بڑھ کر تم کرنے والے ہو جس کا فہم و ادراک تم رکھتے ہو.پھر ایک روایت ہے جو پہلی سے ملتی جلتی ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے لئے سورحمتیں ہیں.اُن میں سے اُس نے ایک حصہ رحمت تمام مخلوقات میں تقسیم کر دی ہے جس سے وہ
32 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم آپس میں رحم کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک دوسرے سے شفقت سے پیش آتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے ہی وحشی جانور اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں.وہ ایک حصہ انسانوں میں بھی دیا ہوا ہے اور دوسری جاندار مخلوق میں بھی اور اس نے ننانوے رحمتیں اپنے پاس رکھ لی ہیں جن کے ذریعے قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم کرے گا.(سنن ابن ماجه كتاب الزهد باب ما يرجى من رحمة الله يوم القيامة حديث نمبر (4293 تو جیسا کہ پہلی حدیث میں آنحضرت مع اللہ نے فرمایا تھا کہ انسان کی بد بختی ہے کہ پھر بھی اس رحم کو حاصل نہ کر سکے.اس کے باوجود اگر رحم حاصل نہ کر سکے تو یقینا وہ بدبختی ہے.اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ رحم مانگنا چاہئے اور کوئی ایسی حرکت عمد أجان بوجھ کر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے جس سے اس کے رحم سے انسان محروم ہورہا ہو.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس طرح رحم کرتا ہے اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم عبلہ نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا جسے اللہ نے مال اور اولا د عطا کی تھی، جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا میں تمہارے لئے کیسا باپ رہا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بہتر باپ، آپ بہت اچھے باپ تھے.اس نے کہا لیکن میں نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں چھوڑی اور جب میں اللہ کے حضور پیش ہوں گا تو وہ مجھے عذاب دے گا.میری کوئی نیکی ہی نہیں ہے.اس لئے دھیان سے سن لو بغور سے سن لو کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا اور جب میں کوئلہ بن جاؤں تو مجھے پیس دینا پھر جب شدید آندھی چلے تو میری راکھ کو اس میں اڑا دینا اور اُس نے ان سے اس بات کا بڑا پختہ عہد لیا.نبی کریم علیہ فرماتے ہیں کہ میرے رب کی قسم انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر جب اس طرح ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو اکٹھا کیا تو وہ ایک مجسم شخص کی صورت میں کھڑا ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے میرے بندے کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر اکسایا تھا.اس نے کہا تیرے خوف نے.اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی اس پر رحم کرتے ہوئے کی.(بخاری کتاب الرقاق باب الخوف من الله عز وجل حدیث نمبر (6481 اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھے اتنا ہی خوف تھا تو اس کا صلہ میں تجھے دیتا ہوں.تجھ پر رحم کرتا ہوں اور تجھے بخشتا ہوں.پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے نانوے قتل کئے تھے.پھر وہ تو بہ کے متعلق پوچھنے کے لئے نکلا.ایک راہب کے پاس آ کر اس سے پوچھا کہ کیا اب تو بہ ہو سکتی ہے؟ میں نے ننانوے قتل کئے.میں بہت گناہگار شخص ہوں.اس
33 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم راہب نے کہا نہیں اب تو کوئی صورت نہیں ہے.ایسا ظالم انسان جو اتنے بے گناہوں کا قاتل ہو وہ تو معاف نہیں ہو سکتا.اس نے کہا جہاں ننانوے قتل کئے تھے (ایک اور سہی).اس کو بھی قتل کر دیا کہ سوپورے ہو جا ئیں.اور پھر اس کے بعد مسلسل اس بارے میں پوچھتا رہا کہ کوئی معافی کی صورت ہے؟ اسے ایک شخص نے کہا کہ فلاں بستی میں جاؤ تو وہاں ایک بزرگ ہے، اس سے پوچھو وہ شاید تمہاری کوئی رہنمائی کر دے.وہ جا رہا تھا تو اس کو راستے میں موت آ گئی.جب موت کا وقت آیا تو اسے تھوڑی دیر پہلے احساس ہوا.وہ گرنے لگا تو اس نے اپنے سینے کو اس بستی کی طرف کر دیا.جب فوت ہو گیا تو رحمت اور عذاب کے فرشتے ، ہر ایک اس کو اٹھانے کے لئے پہنچ گئے کہ کہاں لے کے جانا ہے.وہ جھگڑنے لگے.رحمت کے فرشتے کہتے تھے کہ نہیں یہ بخشش کی طرف جارہا تھا، اپنی اصلاح کے لئے جار ہا تھا اس لئے ہم اس کو لے کے جائیں گے.عذاب کے فرشتے کہتے تھے کہ کیونکہ بہت ظالم انسان تھا اس کو ہم لے کے جائیں گے.تو اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس کی طرف وہ جارہا تھا حکم دیا کہ اس کے قریب ہو جاؤ اور جس بستی.دور جارہا تھا، اُسے حکم دیا کہ اس سے دُور ہو جا.پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ ان دونوں بستیوں کے درمیان فاصلے کی پیمائش کرو تو وہ ہستی جس کی طرف وہ جارہا تھا وہ ایک بالشت اس کے قریب تھا.اس طرف کے فاصلے میں ایک بالشت کی کمی تھی.تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا.سے وہ (بخاری کتاب احاديث الأنبياء باب 52/54 حدیث نمبر 3470) تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت.لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ڈھٹائی سے گناہوں پر مصر رہنے والے کو اللہ تعالیٰ نے عذاب کی خبر بھی دی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمت کو سمیٹنے کے لئے ضروری ہے کہ اس طرف قدم بھی بڑھنے شروع ہو جا ئیں.جب گناہوں کا احساس ہو جائے ، جب آدمی غلطی کر لے تو پھر گناہ کا احساس ہونے کے بعد اس کی رحمت اور بخشش کی طلب بھی شروع ہو جائے.ان سے بچنے کی کوشش بھی شروع ہو جائے.پھر ہی یہ امید بھی رکھنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دلائی ہے کہ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ.(الزمر: 54) پھر دیکھیں رحمۃ للعالمین کا اپنے صحابہ کو نصیحت کا انداز اور ان میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا ادراک پیدا الله کرنے کا طریق.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم علم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا.اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا بچہ تھا.وہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا.اس پر نبی کریم علم نے فرمایا : کیا تو اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا جی حضور ، آپ نے فرمایا اللہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا تو اس سے کرتا ہے.اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.الأدب المفرد باب رحمة العيال حدیث نمبر 382 ایڈیشن (2003ء)
34 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم آجکل شاید اس بات کو کوئی اتنا محسوس نہ کرے لیکن عرب معاشرے کا جن کو پتہ ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کی طبیعتوں میں کتنا اکھڑ پن تھا، کتنی کرختگی تھی.آنحضرت عیب اللہ کی بعثت سے پہلے شاذ ہی کوئی انسان اپنے بچوں سے میں پیار کا سلوک کرتا تھا.ایک دفعہ آنحضرت معیہ اللہ اپنے بچوں کو پیار کر رہے تھے.ایک شخص آیا بڑی حیرانگی سے پوچھنے لگا کہ آپ بچے کو پیار کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں.کہتا ہے کہ میرے تو دس بچے ہیں میں نے تو آج تک کسی کو پیار نہیں کیا.آپ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل کے اندر سختی بھری ہوئی ہے تو میں اس پر کیا کر سکتا ہوں.(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله حدیث نمبر 5998،5997) | ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم بخشش کا سلوک کرو، اللہ تم سے بھی بخشش کا سلوک کرے گا.ایسے لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں.ہلاکت ہے ان اصرار کرنے والوں پر جو جانتے بوجھتے ہوئے اپنے کئے پر اصرار کرتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 مسند عبدالله بن عمرو بن العاص حدیث نمبر 7041 ایڈیشن 1998ء عالم الكتب ، بيروت) پس یہ بدبختی جس کا آنحضرت صلی اللہ نے ذکر فرمایا ہے جس کو میں نے شروع میں بیان کیا تھا اور جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بھی کہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے بتایا تھا.آپ نے وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ :(الزلزال : (9) کی تشریح میں فرمایا تھا کہ اس اصرار کی وجہ سے پھر اس کو اس بات کے شتر کا بدلہ ملتا ہے اور وہ رحمانیت سے محروم ہو جاتا ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرے گا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا.(بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تبارك وتعالى قل ادعوا الله او ادعو الرحمن...حدیث نمبر 7376) پس آپس کے تعلقات میں صلہ رحمی کا خیال رکھنا چاہئے، دوستی کا خیال چاہئے ، ہمسائیگی کا خیال رکھنا چاہئے ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے ، رحم کے جذبات دل میں ہونے چاہئیں.لیکن یہاں ایک وضاحت کردوں کیونکہ عموماً اس مضمون پر کوئی بات کروں تو اکثر ایسے لوگ جو سزایافتہ ہیں ان کے خطوط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ کہتے تو رحم کے بارے میں ہیں لیکن ہم پر رحم نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام تعلقات میں ایک دوسرے کو رحم کی تلقین فرمائی ہے.اسی طرح عام معاملات میں عمومی صرف نظر نظام جماعت کے لئے بھی ہے، خلیفہ وقت کے لئے بھی ہے لیکن جو لوگ کسی چیز پر اصرار کرنے والے ہوں، جس کا میں نے پہلے ذکر کر دیا.ان کو پھر اگر سزامل جائے تو وہ سزا ہے، اس کو بھی لینا چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 35 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء عليه وسلم اب دیکھیں جب ایک جنگ میں بعض صحابہؓ صحت ہونے کے باوجود شامل نہیں ہوئے تو آنحضرت علیا نے ان سے قطع تعلقی کر لی اور پھر ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا کہ اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھنا.اُن میں سے ایک ایسے بھی تھے جن کی عمر زیادہ تھی لیکن اس سزا کی وجہ سے سارا دن روتے تھے اور بستر پر پڑے رہتے تھے اور اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ ان کی بیوی نے کہا کہ ان کی تو یہ حالت ہے.کیا مجھے اتنی اجازت ہے کہ میں کھانا وغیرہ پکا کر ان کو دے سکوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.تو یہ حالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آگئی کہ چار پائی سے اٹھ نہیں سکتا.سارا دن استغفار پڑھ رہا ہے.روتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے یہ نہیں کہا کہ معاف کرتا ہوں آپ کو.رحمۃ للعالمین تھے.رحم کا جذبہ تو اندر تھا لیکن ایک سزا تھی جو اصلاح کے لئے ضروری تھی.تو جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا اعلان نہیں ہو گیا اس وقت تک انہوں نے سزا کاٹی.اس لئے سزا لینے والے جو لوگ ہیں ایک تو یہ ہے کہ ان کو ویسے بھی یہ احساس کرنا چاہئے کہ بات پر اصرار نہیں کرنا چاہئے.اگر غلطی کی ہے تو اس غلطی کا پھر مدا وا ہونا چاہئے.پھر یہ نہیں ہے کہ اس پر اصرار کرتے چلے جائیں.اور جب اصرار کریں گے تو بہر حال پھر تعزیر ہوگی اور جب تعزیر ہو جاتی ہے تو پھر اس پر یہ حوالے نہیں دینے چاہئیں کہ رحم کا سلوک ہونا چاہئے.سزا کی وجہ بعض دفعہ روں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنا ہوتی ہے.تو جن کے حقوق مارے ہوتے ہیں وہ تو بہر حال ادا کرنے ہوتے ہیں.بعض دفعہ نظام جماعت کے تعلق میں بے قاعدگیاں ہوئی ہوتی ہیں ان بے قاعد گیوں کا جب تک مداوا نہ ہو جائے تو بہر حال ایک سزا تو ہے اور سزا اصلاح کے لئے ہوتی ہے.اس لئے اس میں اور رحم میں ہر ایک کو فرق سمجھنا چاہئے.بہر حال یہ ضمنا بات آگئی.سلم پھر ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آنحضرت عیب اللہ فرماتے ہیں، زربی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بوڑھا آدمی نبی کریم عیدی یا اللہ سے ملنے کے لئے آیا.لوگوں نے اسے جگہ دینے میں سستی سے کام لیا تو نبی کریم علی اللہ نے فرمایا جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بزرگوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.(ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى رحمة الصبيان حدیث نمبر (1919 تو جہاں بڑی مجلس ہو، جمعوں پہ جلسوں پہ، گھروں میں بھی بعض دفعہ یہ ہوتا ہے.انصار اللہ کے اجتماع پر بھی میں نے ایک دفعہ خدام اطفال کو کہا تھا جبکہ بڑی عمر کے لوگ کھڑے اور چھوٹی عمر کے بیٹھے ہوئے تھے تو ان کو جگہ دینی چاہئے تو یہ خلق بھی ایسا ہے جو ہر احمدی میں، بچے میں، جو ان میں، مرد میں عورت میں نظر آنا چاہئے جس سے پھر ہم آنحضرت معیہ اللہ کی دعاؤں سے بھی حصہ لے رہے ہوں گے.آپ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے.تو جو ہم میں سے نہیں ہوگا وہ دعاؤں سے حصہ کیسے لے گا.تو آنحضرت عیب اللہ کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے جو آپ نے امت کے لئے کیں ، ہر ایک کو ہر عمل کی کوشش کرنی چاہئے.اور اس کے علاوہ پھر معاشرے میں بھی محبت اور پیار کی فضا پیدا ہوتی ہے.
36 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جنت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اہل جنت تین قسم کے ہیں ایسا حاکم جو انصاف پسند ہو، کثرت سے صدقات کرنے والا ہو، عقلمند ہو.اور ایسا آدمی جو رحم کرنے والا ہو، رشتے داروں اور مسلمانوں کے لئے نرم دل ہوا اور پھر تیسری یہ چیز بتائی تھی کہ ایسا آدمی جو محتاج ہو مگر سوال نہ کرے اور صدقہ کرنے والا ہو.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 مسند عیاض بن حماد حدیث نمبر 17623 ایڈیشن 1998ء (بیروت) ایک روایت میں آتا ہے.نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ نے منبر پر فرمایا جو تھوڑے پر شکر ادا عليه و نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر ادا نہیں کرتا.اور جولوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا.اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کا ذکر کر نا شکر ہے اور اسے ترک کرنا نا شکری ہے.اور جماعت رحمت ہے اور علیحد گی عذاب ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 6مسند نعمان بن بشیر حدیث نمبر 19565 ایڈیشن 1998ء بیروت) تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جس کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس ذریعہ سے پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے والے بنے.تو اس شکر گزاری کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ایک زائد دروازہ ہم پر کھولا ہوا ہے، ہمیں اس تقاضے کو بھی پورا کرنا چاہئے جو انسانیت سے رحم کا تقاضا ہے اور وہ ہے دنیا کو اس پیغام کا پہنچانا جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے اور پھر ان کے لئے دعائیں کرنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو راستی پر رکھے، سیدھے راستے پر چلائے اور حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.به وسلم مومنوں کے ایک دوسرے سے محبت اور رحم کے جذبات کے معیار کیا ہونے چاہئیں اور آنحضرت علی اللہ ہم سے اس بارے میں کیا توقع رکھتے ہیں، اس کا اظہار اس روایت سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ نے فرمایا تو مومنوں کو ان کے آپس میں رحم کرنے ، محبت کرنے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح پائے گا.جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے.(بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم.حديث نمبر (6011 بیماری کی حالت میں ایک جسم کی جو یہ حالت ہے، وہی ایک مومن کی دوسرے مومن کے بارے میں ہونی چاہئے ، بجائے نقصان پہنچانے کے، کسی کی تکلیف کا احساس نہ کرنے کے، تکلیف کا احساس کرنا چاہئے اور اس کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے.تو یہ اسلام کا معاشرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے صدقے اس رحمتہ للعالمین نے ہمارے اندر پیدا کرنے کی ہمیں نصیحت فرمائی ہے.
37 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اب دیکھیں جانوروں سے کس طرح کے سلوک کی آپ تلقین فرماتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ نے فرمایا کہ جو رحم کرے خواہ کسی ذبح کئے جانے والے جانور پر ہی ہو، اللہ قیامت کے دن اس کے ساتھ رحم کا سلوک فرمائے گا.الأدب المفرد باب 176 رحمة البهائم حديث (386 جانور کو ذبح کرتے وقت بھی رحم کا تقاضا ہے کہ تیز چھری ہو، تکلیف نہ ہو.اور جلدی سے پھیری جائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میں بھیڑ کو جب ذبح کرتا ہوں تو میں اس پر رحم کرتا ہوں.جس پر آپ نے فرمایا اگر تو نے اس پر رحم کیا تو اللہ بھی تم سے رحم کا سلوک کرے گا.یہ بات آپ نے دو مرتبہ کہی.(مسند احمد بن حنبل جلد 5 مسند معاوية بن قرة حدیث نمبر 15677 ایڈیشن 1998ء بیروت) جانوروں کے ساتھ رحم کے سلوک کی کتنی اہمیت ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ نے ایک سفر میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو ایک شخص نے ایک پرندے کے گھونسلے سے انڈے اٹھا لئے تو جہاں رسول اللہ صلی اللہ تشریف فرما تھے آپ کے اوپر آ کر اس پرندے نے پھڑ پھڑانا شروع کر دیا.آپ نے اپنے ساتھیوں (صحابہ) سے پوچھا کہ کسی نے اس پرندے کے انڈے اٹھا لئے ہیں؟ انڈے اٹھا کے تکلیف دی ہے؟ تو ایک شخص نے کہا: ہاں یا رسول اللہ میں ہوں جس نے اس کا انڈا اٹھایا ہے.نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا کہ اس پرندے کے ساتھ رحم کا سلوک کرتے ہوئے اس انڈے کو واپس رکھ دو.الأدب المفرد باب 177 اخذ البيض من الحمرة حديث (387 پھر اسی طرح ایک اونٹنی کا قصہ آتا ہے.آپ نے اس کی آنکھوں میں ایسی چیز دیکھی جس پر آپ نے فرمایا: اس پر ضرورت سے زائد بوجھ لا دا جاتا ہے.اس پر اس کے مالک کو منع کیا.تو جانوروں پر بھی رحم کا سلوک فرمانے کی آپ نے تلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ پھر اس وجہ سے تم سے رحم کا سلوک فرمائے گا.آنحضرت علی اللہ کے زمانے میں بعض دفعہ لوگ آپ کا جو رحمتہ للعالمین کا مقام تھا اس کا خیال رکھے بغیر آپ سے بعض مطالبات کر دیتے تھے.مثلاً بددعا کرنے کے لئے کہتے کہ فلاں کے لئے بددعا کریں.تو آنحضرت علیل یا اللہ عموماً اس طرف توجہ نہیں دیتے تھے.اگر کوئی اصرار کرتا تھا تو نہایت پیارے انداز میں نصیحت فرماتے تھے اور احساس دلا دیتے تھے اور پھر جس کے خلاف شکایت کی جارہی ہو اس کے لئے دعا بھی کرتے تھے.اس کا ایک روایت میں ذکر ملتا ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کے آزاد کردہ غلام ميناء کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک شخص آیا.میرے خیال میں وہ قبیلہ قیس سے تھا، اس نے کہا اے
خطبات مسرور جلد پنجم 38 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء اللہ کے رسول ! حمیر پر لعنت کریں.آپ نے اس سے اعراض کیا.پھر اس نے دوسری طرف سے آکر یہی کہا.آپ نے پھر اس سے اعراض کیا.پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ حمیر پر رحم کرے.ان کے منہ سلامتی ہیں اور ان کے ہاتھ لوگوں کے لئے کھانا مہیا کرنے والے ہیں اور وہ امن اور ایمان والے لوگ ہیں.(ترمذی كتاب الدعوات باب في فضل اليمن حدیث نمبر 3939) تو دیکھیں کس خوبصورتی سے آپ نے اس آنے والے شخص کی اصلاح فرما دی.بجائے اس کے کہ کچھ کہتے ، آپ نے ان کے لئے دعا کی.اس کو بھی بتا دیا کہ دعا کرو کیونکہ یہی نیکی ہے.اور یہی مومنوں کا آپس کا سلوک ہے جس سے محبت پیار اور رحم کے جذبات میں مزید اضافہ ہوتا ہے.انسان کو انسان کی قدر ہوتی ہے.پھر ایک دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے دعا کی اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے، غیب اور حاضر کا علم رکھنے والے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرا بندہ اور رسول ہے.اگر تو نے مجھے میرے نفس کے سپرد کر دیا تو وہ مجھے برائی کے قریب کر دے گا اور نیکی سے دُور کر دے گا اور میں صرف تیری رحمت پر ہی بھروسہ کر سکتا ہوں.پس تو میرے لئے اپنے پاس ایک وعدہ لکھ رکھ جسے تو میرے لئے قیامت کے دن پورا کرے.یقینا تو وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا.جس شخص نے یہ دعا کی اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے قیامت کے دن یہ فرمائے گا کہ میرے بندے نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا پس اسے اس کے لئے پورا کر دو.پھر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 95 مسند عبدالله بن مسعود.حدیث نمبر 3916 ایڈیشن 1998ء بیروت) تو یہ دعا، ایک عہد، اس طرف بھی توجہ دلانے والا ہے کہ اپنے نفس کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ کے فضل اور رحم کی جب بھیک مانگ رہا ہے تو ایسے اعمال کی طرف بھی عموماً توجہ رہنی چاہئے جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوں، اس کے بعد اگر کوئی کمیاں ، خامیاں رہ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے لیکن اصرار کر کے اگر کوئی صرف یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھیک مانگتا ہوں اور زور ظالموں پر ہو، اس کے حکموں سے پیچھے ہٹنے والا ہو تو یہ پھر اس زمرہ میں نہیں آئے گا.کیونکہ پہلے یہی کہا ہے کہ میں نفس کے سپرد نہ ہو جاؤں اور اگر یہ دعامانگیں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نیکیاں کرنے کی بھی توفیق ملتی چلی جائے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا ہے وہ بھی پیش کرتا ہوں.خالد بن عمران روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ اپنے صحابہ کے لئے دعائیں کئے بغیر مجلس سے کم ہی اٹھتے تھے کہ اے اللہ ! ہمیں اپنی خشیت یوں بانٹ جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے.( یہ دعا ہے کہ ایسی خشیت ہو جو نا فرمانی کے درمیان حائل ہو جائے.اور ایسی اطاعت کی توفیق عطا فرما جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا
خطبات مسرور جلد پنجم 39 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء دے اور تو ہمیں ایسا یقین عطا کر جس سے تو ہم پر دنیا کے مصائب آسان کر دے اور تو ہمارے کانوں ، ہماری آنکھوں ، ہماری قوتوں سے تب تک فائدہ اٹھانے کی توفیق دے جب تک تو ہمیں زندہ رکھے اور اسے ہمارا وارث بنا اور ہمارے اوپر ظلم کرنے والے سے ہمارا انتقام لینے والا تو ہی بن.اور ہم سے دشمنی رکھنے والے کے مقابل پر ہماری مدد فرما.ہمارے مصائب ہمارے دین کی وجہ سے نہ ہوں اور دنیا کمانا ہی ہماری سب سے بڑی فکر اور ہمارے علم کا مقصود نہ ہوا اور تو ہم پر ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے.(ترمذی کتاب الدعوات باب نمبر 82/79 حدیث نمبر (3502 پس یہ دعا آج کل بھی احمدیوں کو بہت کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر اس ملک میں جہاں بھی بے رحم حاکم ، احمد یوں کو اور اپنی رعایا کو ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ نجات دلائے اور آزادی سے ہر جگہ احمدی اپنے دین اور مذہب کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں.اب آنحضرت علیہ کی زندگی میں ہونے والے چند واقعات اور آپ کی سیرت کے بعض حوالے جن میں صفت رحمانیت کا ذکر ہے وہ پیش کرتا ہوں.حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان چیزوں کے بارے میں پوچھنے کی جرات کر لیا کرتے تھے جن کے بارے میں کوئی اور نہیں پوچھتا تھا.انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ علیہ نبوت کے معاملے میں آپ نے سب سے پہلے کیا چیز دیکھی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ سید ھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے ابوہریرہ ! تو نے اس وقت کے بارے میں پوچھا ہے جبکہ میں صحرا میں دس سال اور چند ماہ کی عمر کا تھا.اوپر سے آواز آتے ہوئے میں کیا سنتا ہوں کہ ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا ہے کہ کیا یہ وہی ہے؟ شخص نے کہا ہاں!.پھر وہ میرے سامنے ایسے چہروں کے ساتھ آئے جنہیں میں نے مخلوق میں کبھی نہیں دیکھا.وہ ایسی ارواح تھیں جنہیں مخلوق میں میں نے پہلے کبھی نہیں پایا تھا.اور ان کے کپڑے ایسے تھے جو میں نے پہلے کسی کے نہیں دیکھے تھے وہ چلتے ہوئے میری طرف بڑھے.یہاں تک کہ ان دونوں نے مجھے ایک ایک بازو سے پکڑ لیا لیکن میں نے ان کی گرفت کا مس محسوس نہ کیا.اپنے بازو پر ان کی گرفت محسوس نہیں کی.ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اس کے سینے کو پھاڑ پھر ان میں سے ایک میرے سینے کی طرف جھکا اور اس کو اس طرح پھاڑا کہ مجھے نہ خون نظر آیا اور نہ ہی درد محسوس ہوا.اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کینہ اور حسد اس میں سے نکال دے.پھر ایک لوتھڑے جیسی چیز نکال کر اس نے دور پھینک دی.اس کے بعد اس نے اپنے ساتھی سے کہا اب رافت اور رحمت کو اندر ڈال دے.تو اُس نے چاندی جیسی کوئی چیز نکالی، پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلاتے ہوئے اُس نے کہا کہ اٹھوا اور سلامتی کے ساتھ جاؤ.پھر میں واپس لوٹ آیا اس حال میں کہ ہر چھوٹے کے بارے میں میرے دل میں نرمی اور شفقت اور ہر بڑے کے لئے میرے دل میں رحم کے جذبات موجزن تھے.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحه 133 مسند ابی بن کعب حدیث نمبر 21581 ایڈیشن 1998ء بیروت) دوسرے
خطبات مسرور جلد پنجم 40 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء تو بچپن سے ہی اس کشفی نظارے سے آنحضرت علی یا اللہ میں اللہ تعالیٰ نے رحم کے جذبات بھر دیئے تھے.جو پھر آہستہ آہستہ مزید نکھرتے گئے اور نبوت کے بعد تو وہ کمال کو پہنچ گئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ سے زیادہ گھر والوں سے رحم کا سلوک کرنے والا کبھی کوئی نہیں دیکھا.صلى الله (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب رحمته الله الصبيان والعيال حدیث نمبر (5920 پھر ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم علی الاسلام سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! مشرکین کے لئے بد دعا کریں.آپ نے فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا.میں تو سراپا رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن لعن الدواب وغيرها حديث نمبر (6508 جو پہلی مثال میں نے دی تھی کہ کسی نے آ کر جب یہ کہا کہ فلاں پر لعنت کریں تو اس کا جو جواب آپ نے دیا تھا.وہ ہم نے دیکھا کہ دعا دی.یہاں مشرکین پر لعنت کے لئے عرض کیا جا رہا ہے تو پھر بھی آپ فرما رہے ہیں کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا.کاش کہ آج اُمت مسلمہ بھی اس رحمۃ للعالمین کے اسوہ کو اپنانے کی کوشش کرے اور لعنتوں سے اور پھٹکاروں سے اور لڑائیوں سے اور ظلموں سے بچتے ہوئے اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے ہر ایک سے رحمت کا سلوک کرنے والی ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی وارث بنے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمر والڈ وسی اور ان کے ساتھی نبی کریم عیب اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور عرض کیا یا رسول اللہ ! دوس قبیلے نے اسلام کی دعوت کا انکار کر دیا ہے اس لئے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں.کسی نے کہا اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا.نبی کریم علی اللہ نے اس طرح دعا دی کہ اے اللہ ! تو دوس قبیلے کو ہدایت دے اور ان کو لے آ “.(بخارى كتاب الجهاد والسير باب الدعا للمشركين بالهدى ليتألفهم حديث نمبر (2937 ہر ایک کے لئے آپ کا جذبہ رحم یہ تھا.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا آنحضرت علی اللہ کا خادم تھا.وہ بیمار ہو گیا.آنحضرت عیب اللہ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اس کے سرہانے بیٹھ کر حال احوال پوچھا اور اسلام قبول کرنے کی تحریک فرمائی.لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا.اس کے باپ نے کہا ابوالقاسم کی بات مان لو.چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا.حضور خوش خوش وہاں سے یہ کہتے ہوئے واپس آئے.سب
خطبات مسرور جلد پنجم 41 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء تعریفیں اس اللہ جل شانہ کے لئے ہیں جس نے اسے دوزخ کی آگ سے بچالیا.(بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبى فمات ، هل يصلى عليه.....حدیث نمبر (1356 آپ علیہ جو رحم کے جذبہ سے سرشار تھے یہ برادشت نہ کر سکے کہ ایک شخص جو میری خدمت کرتا رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آئے.اس مرتے ہوئے شخص نے مسلمانوں کی تعداد تو نہیں بڑھائی تھی ، نہ کسی اور مقصد کے لئے اس کا استعمال ہونا تھا.جب تک یہ آپ کا خادم رہا، آپ تبلیغ ضرور کرتے رہے لیکن زور نہیں دیا.یہودی ہی رہا.جب مرنے لگا تو خالصہ اس کی عاقبت سنوارنے کے لئے اسلام کا پیغام پہنچایا اور پھر قبول کرنے پر خوشی بھی محسوس کی.اب ہمارے جو معترضین ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ختی سے پھیلا ، تلوار سے پھیلا اور آنحضرت علی الا اللہ نے بھی اس کی تعلیم دی، وہ سوائے اس کے کہ اعتراض کرنے والے ہیں اور کچھ اس کا جواب نہیں دے سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بے شمار مثالیں ہیں جہاں کبھی بھی تشد داور سختی کا ذکر نہیں ملتا.آپ کی محبت و شفقت سے ہی لوگوں نے اسلام قبول کیا.لیکن جب آنکھیں اندھی ہو جائیں ، دلوں پر پردے پڑ جائیں تو لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے.بچوں سے پیار کا آپ کا اسوہ کیا تھا؟ پہلے بھی میں بیان کر آیا ہوں.روایت میں آتا ہے حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی ایک ران پر بٹھاتے اور حسن کو دوسری ران پر اور ہم دونوں کو اپنے ساتھ چمٹا کر دعا کرتے کہ اے اللہ ! میں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں تو بھی ان دونوں پر رحم کا سلوک فرما.(بخاری کتاب الادب باب وضع الصبى على الفخذ حديث نمبر (6003 یہ تھیں چند مثالیں جو میں نے دیں.آپ نے اپنے ماننے والوں کو رحمن خدا کی پہچان کروائی ، ان کو مختلف طریقوں سے توجہ دلائی کہ کس طرح رحمن خدا کا قرب حاصل کرو.کس طرح اس کی رحمانیت سے حصہ لو.کس طرح اس کی رحمانیت سے حصہ لینے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا سلوک کرو.اپنے اُسوہ سے ایسے نمونے قائم فرمائے جس کو دیکھ کر ماننے والوں کو رحمن خدا کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہوا.گویا جب رحمن خدا نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تو آپ نے اپنی تعلیم سے بھی اور اپنے اسوہ سے بھی اس کا حق ادا کر دیا.اور صرف اس ایک صفت میں نہیں بلکہ باقی تمام صفات میں بھی آپ نے کمال حاصل کیا.لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف اس قد رتھا کہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ عبید اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجات نہ دے گا.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا آپ کو بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ نے فرمایا : ہاں مجھے بھی نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ اپنی رحمت کے ذریعے مجھے ڈھانپ لے.(بخاری كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل.حدیث نمبر (6463)
خطبات مسرور جلد پنجم 42 خطبہ جمعہ 26 جنوری 2007 ء دیکھیں وہ ذات جس کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کا پیار حاصل کرنا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں خود آپ سے قرآن کریم میں یہ اعلان کروایا کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ (الانعام (163 کہ تُو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.اس کے باوجود آپ فرما رہے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہی مجھے ڈھانپے گی.آپ کی زندگی ، موت ، نمازیں تمام نیکیاں ہر چیز اس اعلیٰ مقام کی تھیں جن تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور جیسا کہ ہم نے دیکھا اللہ تعالیٰ خود گواہی دے رہا ہے.یہ وہ اعلیٰ مقام تھا جو آپ نے حاصل کیا.پھر بھی آپ یہی فرماتے ہیں کہ اگر مجھے نجات ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوگی.پس رحمن خدا کے رحم کو جذب کرنے کے لئے اس کا فضل مانگنا انتہائی ضروری ہے جیسا کہ آنحضرت علیم اللہ نے ہمیں دعا سکھائی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دعائیں سکھائی ہیں جن کا ذکر آچکا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ایک مومن کو اس کے حضور جھکانے والی اور اس کا رحم طلب کرنے والی ہونی چاہیئے اور یہی ایک مومن کی نشانی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 16 تا 22 فروری 2007 ص 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد پنجم 43 5 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء فرمودہ مورخہ 02 فروری 2007 (02) تبلیغ 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں ، میں نے آنحضرت علی یا اللہ کے مخلوق پر رحم کرنے اور اپنے صحابہ کو بھی یہ نصیحت فرمانا کہ عليه وسـ تمہیں بھی رحمان خدا کی رحمانیت سے حصہ لینے کے لئے ایک دوسرے سے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے رحم کا سلوک کرنا چاہئے.اس حوالے سے بعض روایات پیش کی تھیں.آج میں آنحضرت صلی اللہ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے چند واقعات بیان کروں گا جن سے آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے جو جذ بہ رحم تھا اور اس کے لئے بسا اوقات آپ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی جو اظہار فرمایا کرتے تھے، اس کی کچھ حد تک تصویر کشی ہوتی ہے.آپ کی زندگی اتنی مصروف تھی کہ جس کی کوئی انتہا نہیں.اسلام کے دفاع میں تن تنہا ساری جنگیں لڑ رہے تھے.تقریر کے ذریعہ سے، تحریر کے ذریعہ سے، پھر مخالفین کی کارروائیاں بھی آپ کے خلاف بے انتہا تھیں، مقدمات وغیرہ بھی تھے.یہ سب چیزیں تھیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے اپنوں اور پرایوں کے لئے اس بات پر کمر بستہ تھے کہ اس کی صفت رحمانیت سے حصہ پا کر میں سراپا رحمت بنا رہوں.اور اپنے آقا و مطاع علیہ اللہ کے اسوہ کو مکمل طور پر اپنا سکوں.آپ کی سیرت کا یہ پہلو بھی پوری آب و تاب سے چمکا.اس لئے کہ آپ اپنے پیدا کرنے والے اور انعاموں اور فضلوں سے نوازنے والے خدا کا شکر گزار بندہ بھی بنا چاہتے تھے ، جس نے آپ کو الہا نا فرمایا تھا کہ " غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِی وَقُدْرَتِی تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.“ تذکره صفحه 72 ایڈیشن چهارم مطبوعه ربوه پس یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے جو رحمت کا پودا آپ کے لئے لگایا گیا آپ اس کی شکر گزاری کا اظہار اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کی نظر ڈال کر نہ کرتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے الہاما آپ کو یہ بھی فرمایا تھا.که يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ اے احمد ! تیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے.تذکره صفحه 74 73 ایڈیشن چهارم مطبوعه (ربوه پس اس رحمت میں جہاں روحانی بیماروں کے لئے آپ کے دل میں درد پیدا کیا ہوا تھا اور جس کے لئے آپ
خطبات مسرور جلد پنجم 44 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء دعا اور تدبیر کے ذریعہ سے ہر وقت کوشاں رہتے تھے وہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی جسمانی اور مادی ضرورتوں کے لئے بھی آپ دعا اور تدبیر کے لئے ہمہ وقت اور ہر وقت ہر لمحہ تیار رہتے تھے.اب میں وہ واقعات پیش کرتا ہوں کہ کس طرح آپ مخلوق کی خدمت کیا کرتے تھے اور آپ کے دل میں ان کی روحانی ترقی کے لئے کتنا درد تھا.حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ ایک لالہ شرمیت رائے ہوتے تھے.قادیان کے رہنے والے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آپ کی بعثت کے ایام سے بھی پہلے آیا کرتے تھے.اور آپ کے بہت سے نشانات کے وہ گواہ تھے ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے ( تو عرفانی صاحب کہتے ہیں کہ ) مجھے اس وقت قادیان ہجرت کر کے آجانے کی سعادت حاصل ہو چکی تھی.ان کے پیٹ پر ایک پھوڑا نکلا تھا اور اس دنبل نے ، بہت گہرا پھوڑا تھا، اس نے خطرناک شکل اختیار کر لی تھی.حضرت اقدس کو اطلاع ہوئی.آپ خود لالہ شرمپت رائے کے مکان پر تشریف لے گئے جو نہایت تنگ اور تاریک سا چھوٹا سا مکان تھا.اکثر دوست بھی آپ کے ساتھ تھے ، عرفانی صاحب کہتے ہیں کہ میں بھی ساتھ تھا، جب آپ نے لالہ شرمیت رائے کو جاکے دیکھا تو وہ نہایت گھبرائے ہوئے تھے اور ان کو یقین تھا کہ میری موت آنے والی ہے.بڑی بے قراری سے باتیں کر رہے تھے، جیسے انسان موت کے قریب کرتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بڑی تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں اور ایک ڈاکٹر عبداللہ صاحب ہوا کرتے تھے، فرمایا کہ میں ان کو مقرر کرتا ہوں وہ اچھی طرح علاج کریں گے.چنانچہ دوسرے دن حضرت اقدس ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے گئے اور ان کو خصوصیت کے ساتھ لالہ شرمپت رائے کے علاج پر مامور کیا.اور اس علاج کا بار یا خرچ لالہ صاحب پر نہیں ڈالا.اور روزانہ بلاناغہ آپ ان کی عیادت کو جاتے تھے اور جب زخم مندمل ہونے لگے اور ان کی وہ نازک حالت بہتر حالت میں تبدیل ہو گئی.تو پھر آپ نے وقفہ سے جانا شروع کیا.اور اُس وقت تک عیادت کا یہ سلسلہ جاری رکھا جب تک وہ بالکل اچھے نہیں ہو گئے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 169-170) پھر عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مہر حامد قادیان کے ارائیوں میں پہلا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا اور اب تک اس کا خاندان خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص ہے.(اب بھی ہوں گے انشاء اللہ ) مہر حامد علی صاحب نہایت غریب مزاج تھے اور ان کا مکان فصیل قادیان سے باہر اس جگہ واقع تھا جہاں گاؤں کا کوڑا کرکٹ اور روڑیاں جمع ہوتی ہیں.سخت بدبو اور تعفن اس جگہ پہ ہوتا تھا.اور خود بھی زمینداروں کے گھر ایسے ہی ہوتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ مکان کی صفائی کا التزام نہ تھا، مویشیوں کا گوبر اور اس قسم کی دوسری چیزیں پڑی رہتی تھیں ، جس کو وہ کھاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں.بہر حال اسی جگہ وہ رہتے تھے، وہ بیمار ہوئے اور وہی بیماری ان کی موت کا موجب بنی.رض
45 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم تو حضرت اقدس متعدد مرتبہ اپنی جماعت مقیم قادیان کو لے کر اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور جب جاتے تھے تو قدرتی طور پر بعض لوگوں کو اس تعفن اور بد بو سے سخت تکلیف ہوتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بھی تکلیف محسوس کرتے تھے اور بہت کرتے تھے.عرفانی صاحب لکھتے ہیں اس لئے کہ فطرتی طور پر یہ وجود نظافت اور نفاست پسند واقع ہوا تھا.مگر اشارہ یا کنایہ نہ تو اس کا اظہار کیا اور نہ اس تکلیف نے آپ کو ان کی عیادت اور خبر گیری کے لئے تشریف لانے سے کبھی روکا.آپ جب جاتے تو اس سے بہت محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے.اور اس کی مرض اور اس کی تکلیف وغیرہ کے لئے بہت دیر تک دریافت فرماتے اور تسلی دیتے اور ادویات وغیرہ بھی بتاتے ، توجہ الی اللہ کی بھی ہدایت فرماتے.کہتے ہیں کہ وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ایک معمولی زمیندار تھا اور یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپ کے زمینداروں میں ہونے کی وجہ سے وہ گویا رعایا کا ایک فرد تھا.لیکن آپ نے کبھی تفاخر اور تفوق کو پسند نہ فرمایا.اس کے پاس جاتے تھے تو اپنا ایک عزیز بھائی سمجھ کر جاتے تھے اور اس طرح پر باتیں کرتے تھے اور اس کے علاج کے متعلق دلچسپی لیتے تھے اور صاف طور پر کہتے تھے، دوسرے دیکھنے والے بھی کہتے تھے کہ کوئی عزیزوں کی خبر گیری بھی اس طرح نہیں کرتا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے.رض (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 172-173) پھر حضرت یعقوب علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحب لکھتے ہیں کہ عیادت کے لئے باوجودیکہ آپ تشریف لے جاتے تھے لیکن یہ بھی ایک صحیح واقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے قلب کو مخلوق کی ہمدردی اور غمگساری کے لئے جہاں استقلال سے مضبوط کیا ہوا تھا وہاں محبت اور احساس کے لئے اتنار قیق تھا ( اتنا نرم کیا ہوا تھا ) کہ آپ اپنے مخلص احباب کی تکالیف کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکتے تھے اور اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ اس موقعہ تکلیف پر پہنچ جاویں تو طبیعت بگڑ نہ جاوے.اس لئے بعض اوقات عیادت کے لئے خود نہ جاتے اور دوسرے ذریعہ سے عیادت کرلیتے یعنی ڈاکٹر وغیرہ کے ذریعہ سے حالات دریافت کر لیتے اور مریض کے عزیزوں رشتہ داروں کے ذریعہ سے تسلی دیتے اور ایسا ہوا کہ اپنی اس رقت قلبی کا اظہار بھی بعض اوقات فرمایا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه (186 تو دیکھیں باوجود بے انتہا معمور الاوقات ہونے کے کسی کی عیادت یا ہمدردی کیلئے جانے پر اس لئے انکار نہیں فرمار ہے کہ وقت نہیں ہے، مصروفیت ہے ، بلکہ اس لئے کہ مخلوق کی ہمدردی اور اس کی تکلیف کا خیال کر کے آپ کی اپنی طبیعت خراب ہو جایا کرتی تھی.اور یہ سراسر رحمت تھی جس سے آپ کا دل بھرا ہوا تھا.اس کا اظہار ایک خط کے ذریعہ سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے اپنے ایک مرید کی بیماری کے دوران لکھا.اس کے متعلق عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم ایوب صادق صاحب ایک نہایت مخلص اور پر جوش احمدی تھے.
46 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم (مرزا ایوب بیگ صاحب ).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کو عاشقانہ ارادت تھی.وہ بیمار ہو گئے اور اس بیماری میں آخر وہ مولیٰ کریم کے حضور جا پہنچے اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے پاس بمقام فاضل کا تھے اور حضرت اقدس کی محبت کا غلبہ ہوا تو انہوں نے خواہش کی کہ حضرت کو دیکھیں.خودان کا آنا نہایت مشکل تھا کیونکہ سفر کے قابل نہ تھے اور جوش کو دبا بھی نہ سکتے تھے.انہوں نے حضرت اقدس کو خط لکھا کہ حضور اس جگہ فاضل کا میں آن کرمل جاویں.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا کہ آپ آ کر مجھے یہاں مل جائیں).میرا دل بہت چاہتا ہے کہ میں حضور کی زیارت کروں.پھر اسی مضمون کا ایک تار بھی دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں جو خط لکھا اس سے اس فطرت کا جو آپ میں رقت قلبی کی تھی اظہار نمایاں طور پر ہو جاتا ہے،.آپ مرزا ایوب بیگ صاحب کو خط میں لکھتے ہیں کہ مجبی ، عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب، و محبی عزیز مرزا یعقوب بیگ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت جو میں در دسر اور موسمی تپ سے یکدفعہ سخت بیمار ہو گیا ہوں، مجھ کو تا ریلی.جس قدر میں عزیزی مرزا ایوب بیگ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اس کا علم تو خدا تعالیٰ کو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز ناامید نہ ہونا چاہئے.میں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن میں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا.میرا دل جلد صدمه قبول کرتا ہے.یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں.جہاں تک انسانی طاقت ہے اب میں اس سے زیادہ کوشش کروں گا مجھے پاس اور نزدیک سمجھیں ، نہ دُور.میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں اس در دکو بیان کروں.خدا کی رحمت سے ہرگز ناامید مت ہو.خدا بڑے کرم اور فضل کا مالک ہے.اس کی قدرت اور فضل اور رحمت سے کیا دُور ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کو تندرست جلد تر دیکھوں.اس علالت کے وقت جوتار مجھ کو ملی میں ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ سے چلی جاتی ہے ( یعنی اتنی پریشانی کی حالت ہوگئی ہے کہ قلم بھی نہیں پکڑی جارہی ) میرے گھر میں بھی ایوب بیگ کے لئے سخت بے قرار ہیں.( حضرت اماں جان کے بارے میں لکھا ) اس وقت میں ان کو بھی اس تار کی خبر نہیں دے سکتا کیونکہ کل سے وہ بھی تپ میں مبتلا ہیں اور ایک عارضہ حلق میں ہو گیا ہے.مشکل سے اندر کچھ جاتا ہے.اس کے جوش سے تپ بھی ہو گیا ہے وہ نیچے پڑے ہوئے ہیں اور میں اوپر کے دالان میں ہوں.میری حالت تحریمہ کے لائق نہ تھی لیکن تار کے دردانگیز اثر نے مجھے اس وقت اٹھا کر بٹھا دیا.آپ کا اس میں کیا حرج ہے کہ اس کی ہر روز مجھ کو اطلاع دیں.معلوم نہیں کہ جو میں نے ابھی ایک بوتل میں دوا روانہ کی تھی وہ پہنچی یا نہیں، ریل کی معرفت روانہ کی گئی تھی.اور مالش معلوم نہیں ہر روز ہوتی ہے یا نہیں.( تو یہ ساری تسلی دی ) آپ ذرہ
خطبات مسرور جلد پنجم 47 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء ذرہ حال سے مجھے اطلاع دیں اور خدا بہت قادر ہے.تسلی دیتے رہیں.چوزہ کا شور با یعنی بچہ خورد کا ہر روز دیا کریں.معلوم ہوتا ہے کہ دستوں کی وجہ یہ ہے کہ کمزوری نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد رض (سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 187-188) تو بیماری کی وجہ سے خود جا نہیں سکتے تھے.بیماری میں انسان ویسے بھی زیادہ رقیق القلب ہو جاتا ہے.اپنی اس حالت میں کسی کو بیمار دیکھنا اور بہار بھی وہ جو آپ کو بہت عزیز تھا، آپ کو برداشت نہ ہوسکتا تھا.لیکن اس حالت میں بھی اپنے عزیز مریض کے لئے دعا کی انتہا کر دی.اور فرمایا کہ مجھے روزانہ اس کی صحت کی اطلاع بھی دیا کرو.حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ جہاں آپ کی عادت میں یہ تھا کہ آپ سائل کو کبھی رد نہ کرتے تھے.یہ امر بھی آپ کے معمولات میں تھا کہ بعض لوگوں کی ضرورتوں کا احساس کر کے قبل اس کے کہ وہ کوئی سوال کریں، ان کی مدد کیا کرتے تھے.چنانچہ 28 /اکتوبر 1904ء کی صبح کو قبل نماز فجر آپ نے کچھ روپیہ جس کی تعداد آٹھ یا دس ہوگی ایک مخلص مہاجر کو یہ کہ کر دیئے کہ موسم سرما ہے آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی.اس مہاجر کی طرف سے کوئی سوال نہ تھا.خود حضوڑ نے اس کی ضرورت محسوس کر کے یہ رقم عطا کی.لکھتے ہیں کہ یہ ایک واقعہ نہیں متعدد مرتبہ ایسا ہوتا اور مخفی طور پر آپ عموماً حاجتمند لوگوں سے سلوک کرتے رہتے.اور اس میں کسی دوست ، دشمن، ہندو یا مسلمان کا امتیاز نہ تھا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب على صاحب عرفانی صفحه 298 299) تو یہ ہے اس رحمن خدا کی صفت جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ کے عاشق صادق نے اس رحمۃ للعالمین کی اتباع میں اپنے پر جاری فرمائی اور نمونے دکھائے کہ بن مانگے بھی دیتے ہیں.پھر اسی طرح ایک اور واقعہ ہے عرفانی صاحب ہی لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت میں یہ امر بھی داخل تھا کہ بعض اوقات وہ کسی کی حاجت یا ضرورت کا احساس کر کے اس کے سوال یا اظہار کے منتظر نہ رہتے تھے بلکہ خود بخود ہی پیش کر دیا کرتے تھے.لکھتے ہیں کہ مکرمی شیخ فتح محمد صاحب پنشنر انسپکٹر ریاست کشمیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرصہ دراز سے آنے والے ہیں.وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب کبھی حضرت کی خدمت میں آتا تو ہمیشہ میرا کرایہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے.مگر مجھے چونکہ ضرورت نہ ہوتی تھی میں نے کبھی نہیں لیا.ملنے آتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کرایہ دیا کرتے تھے لیکن کہتے ہیں کہ میں لیتا تو نہیں تھا.لیکن حضرت کی روح سخاوت اس قدر عظیم الشان تھی کہ آپ بغیر استفسار ہمیشہ پیش کر
خطبات مسرور جلد پنجم 48 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007ء دیتے اور یہ میرے ساتھ معاملہ نہ تھا بلکہ اکثروں کو دیتے رہتے تھے.شام اور عرب سے بھی بعض لوگ آتے اور آپ ان کو بعض اوقات بیش قرار رقوم زادراہ کے طور پر دیتے.کیونکہ حضور جانتے تھے کہ وہ دور دراز سے آئے ہیں.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 319) صرف قریب سے آنے والوں کے لئے نہیں.پھر عرفانی صاحب لکھتے ہیں.آپ کی عام عادت تھی کہ جو کچھ کسی کو دیتے تھے وہ کسی نمائش کے لئے نہ ہوتا تھا.بلکہ محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور شفقت علی خلق اللہ کے نکتہ خیال سے اور اس لئے آپ عام طور پر نہایت مخفی طریقوں سے عطا فرماتے تھے اور کبھی دوسروں کو تحریک کرنے کے لئے اور عملی سبق دینے کے واسطے اعلانیہ بھی کرتے تھے ، خدا تعالیٰ کا حکم دونوں طرح ہے.تو مخفی طور پر عطا کرنے میں آپ کا ایک یہ بھی طریق تھا کہ بعض اوقات ایسے طور پر دیتے تھے کہ خود لینے والے کو بھی بمشکل علم ہوتا تھا.کہتے ہیں اس واقعہ کے سلسلہ میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.منشی محمد نصیب صاحب ایک یتیم کی حیثیت سے قادیان آئے تھے.حضرت اقدس کے رحم و کرم سے انہوں نے قادیان میں رہ کر تعلیم پائی.ان کے اخراجات اور ضروریات کا سارا بارسلسلہ پر تھا.جب وہ جوان ہو گئے اور انہوں نے شادی کر لی.وہ لاہور کے ایک اخبار کے دفتر میں محرر ہوئے.پھر دفتر بدر قادیان میں آکر 12 روپے ماہوار پر ملازم ہوئے.تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو جب اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا بیٹا نصیر احمد عطا فرمایا ( جو کچھ عرصے بعد فوت ہو گئے تھے ) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مرحوم نصیر احمد کے لئے ایک آنا کی ضرورت پیش آئی (ایسی عورت جو دائی کے طور پر رکھی جاتی تھی ) تو کہتے ہیں کہ میں نے شیخ محمد نصیب صاحب کو تحریک کی کہ ایسے موقع پر تم اپنی بیوی کی خدمات پیش کر دو.ہم خرماد ہم ثواب کا موقع ہے.یعنی کھانا پینا اکٹھا ہو جائے گا تو ملنا ہی ہے ایک گھر میں رہو گے.تو میرے مشورے کو شیخ صاحب نے قدر و عزت کی نظر سے دیکھا.اور ان کو یہ موقع مل گیا اور ان کی بیوی صاحبزادہ نصیر احمد صاحب کو دُودھ پلانے پر مامور ہو گئیں.تو اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باتوں باتوں میں ہی دریافت فرمایا کہ شیخ محمد نصیب کو کیا تنخواہ ملتی ہے؟ جب آپ کو معلوم ہوا کہ صرف 12 روپے ملتے ہیں تو آپ نے محسوس فرمایا کہ اس قدر قلیل تنخواہ میں شاید گزارا نہ ہوتا ہو.حالانکہ اس زمانے میں وہ بہت تھی.لکھتے ہیں کہ ارزانی کے ایام تھے بڑا سستا زمانہ تھا.لیکن حضرت اقدس کو یہ احساس ہوا اور آپ نے ایک روز گزرتے گزرتے ان کے کمرے میں 20-25 روپے کی ایک پوٹلی پھینک دی.شیخ صاحب کو خیال گزرا کہ معلوم نہیں یہ روپیہ کہاں سے آیا ہے، کیسا ہے؟ آخر انہوں نے بڑی کوشش کی تحقیق کی تو پتہ لگا کہ حضرت اقدس نے ان کی تنگی کا احساس کر کے اس طرح وہاں رکھ دیا تھا تا کہ تکلیف نہ ہو اور آرام سے گزارا کر لیں.تو عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کو تو ضرورت نہیں تھی اس روپیہ سے شاید بیوی نے
49 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم زیور بنالیا.کیونکہ کھانے پینے کی جو ضروریات تھیں وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دستر خوان سے ہی دودھ پلانے کی وجہ سے پوری ہو جاتی تھیں.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 304-306) پھر عرفانی صاحب لکھتے ہیں قادیان میں نہال سنگھ نامی ایک بانگر و جٹ رہتا تھا.اپنے ایام جوانی میں وہ کسی فوج میں ملازم تھا اور پینشن پاتا تھا.اس کا گھر جناب خان بہادر مرز سلطان احمد صاحب کے دیوان خانے سے دیوار بد یوار تھا، ساتھ جڑا ہوا تھا.یہ سلسلے کا بہت بڑا دشمن تھا اور جماعت کا دشمن بھی تھا اور اس کی تحریک سے حضرت حکیم الامت اور بعض دوسرے احمدیوں پر بہت خطرناک فوجداری جھوٹا مقدمہ دائر ہوا تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول اور بعض دوسرے لوگوں پر بھی اس نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہوا تھا.اور ہمیشہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر احمد یوں کو تنگ کیا کرتا تھا.اور گالیاں دیتے رہنا تو اس کا معمول تھا تو عین ان ایام میں جبکہ مقدمات دائر تھے اس کے بھتیجے سنتا سنگھ کی بیوی کے لئے مشک کی ضرورت پڑی.وہ بیار ہوگئی اور کسی دوسری جگہ سے یہاتی نہیں تھی بلکہ یہ بہت قیمتی چیز تھی.مشک ویسے ہی بہت قیمتی ہوتی ہے اور مل بھی نہیں رہی تھی.اور وہ اس حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دروازے پر گیا اور مشک کا سوال کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے پکارنے پر فوراً ہی تشریف لے آئے اور اسے ذرا بھی انتظار میں نہ رکھا.اس کا سوال سنتے ہی فوراً اندر تشریف لے گئے اور کہہ گئے ٹھہرو ا بھی لاتا ہوں.چنانچہ آپ نے کوئی نصف تولہ کے قریب جتنی دوائی کے لئے ضرورت تھی مشک لا کر اس کے حوالے کر دی.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 306) تو یہاں دیکھیں قطع نظر اس کے کہ جس کو ضرورت ہے وہ کون ہے.دشمنی کرتا ہے یا نہیں کرتا.یہ اس کا اپنا فعل ہے.ایک مریضہ کی جان بچانے کے لئے ایک دوائی کی ضرورت ہے تو فوراً جذ بہ رحم کے تحت دوائی لا کر اس کو دے دی.یہاں بدلے لینے کا یا مقد مے ختم کرانے کا سوال نہیں اٹھایا.پھر حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ حافظ نور احمد صاحب سوداگر پشمینہ لودھیانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے اور مخلص خدام میں سے ہیں.ان کو اپنے تجارتی کاروبار میں ایک بار سخت خسارہ ہو گیا اور کاروبار تقریبا بند ہی ہو گیا.انہوں نے چاہا کہ وہ کسی طرح کسی دوسری جگہ چلے جاویں اور کوئی اور کاروبار کریں تا کہ اپنی مالی حالت کی اصلاح کے قابل ہو سکیں.وہ اس وقت کے گئے ہوئے گویا اب واپس آ سکے ہیں.جس زمانے میں گئے تھے جب یہ لکھ رہے ہیں کہتے ہیں اب آئے ہیں بڑے سالوں بعد.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں برابر خط و کتابت رکھتے تھے اور سلسلے کی مالی خدمت اپنی طاقت اور توفیق سے بڑھ کر کرتے رہے.جب عرفانی صاحب نے یہ لکھا ان دنوں قادیان میں مقیم تھے.وہ کہتے ہیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی داد و دہش اور جو دوسخا کے متعلق میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ آپ تھوڑا دینا جانتے ہی نہ تھے.
50 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم اپنا ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے جب اس سفر کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کچھ روپیہ مانگا.حضور ایک صندوقچی جس میں روپیہ رکھا کرتے تھے اٹھا کر لے آئے اور میرے سامنے صندوقچی رکھ دی کہ جتنا چاہو لے لو اور حضور کو اس بات سے بہت خوشی تھی.میں نے اپنی ضرورت کے موافق لے لیا.جتنی ضرورت تھی اس صندوق میں سے نکال کے اتنا لے لیا گو کہ حضور یہی فرماتے رہے کہ سا راہی لے لو.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صفحه 317-316 حضرت مولوی عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں کہ بعض وقت دوائیاں لینے کے لئے گنوار عورتیں زور زور سے دروازے پر دستک دیتی تھیں.اور سادہ اور گنواری زبان میں کہتی تھیں کہ مر جاجی ذرائو کھولو.حضور اس طرح اٹھتے جس طرح مطاع ذیشان کا حکم آیا ہے، یعنی بڑا کوئی حاکم باہر کھڑا ہے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں.فوراً اٹھ کر دروازہ کھولتے اور بڑی کشادہ پیشانی سے بڑی خوشدلی سے باتیں کرتے اور دوائی بتاتے.تو مولوی عبد الکریم صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہوتے ہیں.ویسے ابھی تک یہ حال ہے.ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیا ہے.گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے.آئی دوائی لینے اور ساتھ قصے شروع کر دیئے اور آپ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں.زبان سے یا اشارے سے اس کو کہتے نہیں کہ بس جاؤ دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے.وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی.ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں اپنے بچوں کو دکھانے لے کر آئیں، اتنے میں اندر سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لئے برتن ہاتھوں میں لئے آ نکلیں اور آپ کو دینی ضرورت کے لئے بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا.میں بھی اتفاقاً جا نکلا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے یورپین اپنی دنیاوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں.کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا.اور ہسپتال جاری رہا.فراغت کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضور یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے.اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے.یہ مسکین لوگ ہیں کوئی ہسپتال نہیں، میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آ جاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے.اب تین گھنٹے ان عورتوں کے لئے ضائع ہو گئے اور اس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے اور بڑی جلدی لکھنی تھی.اس کے باوجود اس کام کو چھوڑ دیا اور ان کی خدمت میں لگے رہے.فرماتے ہیں یہ بڑے ثواب کا کام ہے.مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہ ہونا چاہئے.میں نے بچوں کا ذکر کیا
خطبات مسرور جلد پنجم 51 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء ہے.عام خدمتگار عورتوں کی نسبت بھی آپ کا یہی رویہ ہے.کئی کئی دفعہ ایک آتی ہے اور مطلوبہ چیز مانگتی ہے اور پھر اس چیز کو مانگتی ہے.ایک دفعہ بھی آپ نہیں فرماتے کہ کمبخت کیوں دق کرتی ہے جو کچھ لینا ہے ایک ہی دفعہ کیوں نہیں لے لیتی.بارہا میں نے دیکھا کہ اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چار پائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطر کر کے پائنتی پر بٹھا دیا ہے اور آپ بچپنے کی بولی میں مینڈک کوے اور چڑیا کی کہانیاں سنارہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جارہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جارہے ہیں.گویا بچے کہانیاں اپنی اپنی زبان میں سنا رہے ہیں اور حضرت سن رہے ہیں.گویا کہ مثنوی ملائے روم کوئی سنا رہا ہے.حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف ہیں.بچے کیسے ہی بسوریں ، شوخی کریں ، سوال میں تنگ کریں، بے جا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیر موجود شے کے لئے حد سے زیادہ اصرار کریں آپ نہ تو کبھی مارتے ہیں، نہ جھڑکتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کا نشان ظاہر کرتے ہیں.سیرت حضرت مسیح موعود مصنفه حضرت مولانا عبد الكريم سيالکوٹی صاحب صفحہ 34-35) میں پہلے بھی ایک دفعہ کہہ چکا ہوں.دوائیوں کا جہاں ذکر آیا تھا کہ ہمارے ڈاکٹروں کو یہ اسوہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.ان کا تو کام ہی مریضوں کو دیکھنا ہے، اور تو کوئی کام ہی نہیں ہے کہ وہ کام چھوڑ کر یہ کام کر رہے ہوں.ان کو ہمیشہ مریضوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ایک ڈاکٹر کے لئے بہت ضروری ہے اور خاص طور پر واقفین زندگی ڈاکٹروں کے لئے کیونکہ آدھی بیماری مریض کی مریض سے آرام سے بات کرنے سے دور ہو جاتی ہے.تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بعض لوگ آپ کی ہمدردی اور رحمت کے جذبے سے فائدہ بھی بہت اٹھاتے تھے.حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ منشی غلام محمد امرتسری ایک اچھے کا تب تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابتداء میں منشی امام الدین صاحب امرتسری سے کام لیا کرتے تھے.چنانچہ براہین احمدیہ کی پہلی تین جلدیں، شحنه حق اور سرمہ چشم آریہ وغیرہ اسی کی لکھی ہوئی ہیں.اور آئینہ کمالات اسلام کا ایک بڑا حصہ بھی اسی نے لکھا ہے.مگر پھر آپ منشی غلام محمد صاحب سے کام لینے لگے.کہتے ہیں منشی غلام محمد صاحب بھی عجیب نخرے کیا کرتے تھے.مختلف طریقوں سے اپنی مقررہ تنخواہ سے زیادہ وصول کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان باتوں کو سمجھتے تھے مگر ہنس کر خاموش رہتے تھے.کہتے ہیں کہ ایک روز مسجد میں ظہر کی نماز کے لئے تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود نماز کے بعد بیٹھ گئے آپ کا معمول یہی تھا کہ عام طور پر فرض پڑھ کر تشریف لے جاتے تھے مگر کبھی بیٹھ بھی جایا کرتے تھے.آپ نے ہنس کر اور خوب ہنس کر فرمایا کہ آج عجیب واقعہ ہوا ہے.میں لکھ رہا تھا تو منشی غلام محمد صاحب کا بیٹا روتا اور چلا تا ہوا بھا گا آیا اور پیچھے پیچھے منشی صاحب بھی جوتا ہاتھ میں لئے شور مچاتے ہوئے آئے کہ باہر نکلومیں تمہیں مار ڈالوں گا اور جان سے مار دوں گا اور یہ کر دوں گا.حضرت اقدس یہ شور سن کر باہر نکلے ہمنشی صاحب سے
52 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پوچھا کہ کیا ہوا؟ منشی صاحب یہی کہتے جاتے تھے کہ نہیں آج میں نے اس کو مار دینا ہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا بتاؤ تو سہی بات کیا ہوئی ہے.تو اس نے کہا میں نے اس کو نیا جوتا لے کے دیا تھا وہ اس نے گم کر دیا ہے.تو حضور نے ہنس کے فرمایا منشی صاحب اس پر اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے جو تا میں خرید دوں گا.اصل میں تو پتہ نہیں نیا جو تا لیا تھا کہ نہیں لیکن بچے کو نیا جوتا دلوانا تھا اس لئے اتنا شور مچایا تھا.لکھتے ہیں کہ ان کا بھی عجیب حال تھا تنخواہ کے علاوہ بھی خوراک وغیرہ کا خرچ بھی آپ دیتے ، کھانا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر سے ہی کھاتے.پھر کپڑے اور سردی کے موسم میں بستر اور گرم کوٹ وغیرہ سب کچھ لیتے تھے.اس کے باوجود باتوں باتوں میں اس طرح کی باتیں کر کے زائد بھی لے لیا کرتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے.اور نہ اس کو علیحدہ کیا بلکہ ناز برداریاں ان کی برداشت کرتے رہے اور کام دیتے رہے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 353-354) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب فقیر محمد صاحب بڑھئی تھے، انہوں نے بذریعہ تحریر مجھے بیان دیا کہ ہمارا زمینداری کا کام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زمینوں پر مزارع تھے.ایک دفعہ بارش بہت کم ہوئی فصل خراب ہو گئی.دانے کھانے کے واسطے بھی بہت کم تھے.ادھر حضرت صاحب کے مختار حامد علی صاحب معاملہ لینے کے لئے آگئے.سب آدمیوں نے مل کر عرض کی کہ دانے بہت کم ہیں معاملے کے واسطے اگر بیچ دیئے جائیں تو ہمارا کیا حال ہوگا.حامد علی صاحب نے جا کر ، حضرت صاحب کی خدمت میں جا کر اسی طرح کہہ دیا.آپ نے فرمایا ”اچھا اگلے سال معاملہ لے لینا اس وقت رحم کرو “ چنانچہ اگلے سال اس قدر فصل ہوئی کہ دونوں معاملے ادا ہو گئے.آپ غرباء پر بہت رحم فرمایا کرتے تھے.(ماخوذ از د سیرت المهدى جلد دوم حصه پنجم روایت نمبر 1293 صفحه 193-192 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه) پس احمدی زمینداروں کو یہ یا درکھنا چاہئے جس طرح کہ میں نے وقف جدید کے نئے سال کا جب اعلان کیا تو سندھ کے زمینداروں کو خاص طور پر خطبے میں کہا تھا کہ تھر کے جو غریب لوگ آتے ہیں ان کے لئے جذبہ رحم دل میں پیدا کریں.ایک تو ان کو مزدوری پوری دیا کریں اور جس حد تک بہتر سلوک ان سے ہو سکتا ہے کرنا چاہئے.یہ بھی اس علاقے میں تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.پھر صرف انسان ہی نہیں باقی مخلوق کے لئے بھی جذ بہ رحم تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی سب صفات کو اختیار کرنے کا سب سے بہترین نمونہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قائم ہوا وہ آپ میں تھا.
خطبات مسرور جلد پنجم 53 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007ء حضرت میاں بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میاں (یعنی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی) دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے.جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں.(سیرت المهدى جلد اوّل روایت نمبر 178 صفحه 176 جدید ایڈیشن ) تو جہاں آپ نے اس چڑیا پر رحم فرمایا وہاں بچوں کو بھی نصیحت فرما دی کہ اگر اپنے ایمانوں کو قائم رکھنا ہے تو دل میں جذ بہ رحم بھی پیدا کرو.پھر حضرت میاں بشیر احمد صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک خواجہ عبدالرحمن صاحب کشمیر کے رہنے والے تھے.انہوں نے ان کو خط میں لکھا کہ ایک دفعہ ایک بہت موٹا کہتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں گھس آیا.اور ہم بچوں نے اسے دروازہ بند کر کے مارنا چاہا لیکن جب کتنے نے شور مچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا اور آپ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازہ کھول کر کتے کو چھوڑ دیا.(ماخوذ از سیرت المهدی جلد اوّل صفحه 313 روایت نمبر 342 جدید ایڈیشن) کسی جانور پر بھی ظلم برداشت نہیں کر سکتے تھے.یہ ایک عجیب واقعہ ہے دیکھیں ایک غریب کے لئے جذبہ رحم اور ہمدردی کے تحت اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش اور رحم کے لئے دعا کرنا.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی بیان کرتے ہیں کہ اٹھارہ میں برس کا ایک شخص نو جوان تھا.وہ بیمار ہوا اور اس کو آپ کے حضور کسی گاؤں سے اس کے رشتہ دار لے آئے اور وہ قادیان میں آپ کی خدمت میں آیا چند روز بیمار رہ کر وفات پا گیا صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھیں.حضرت اقدس نے حسب عادت شریفہ اس مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی.بعض کو باعث لمبی لمبی دعاؤں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آگیا اور بعض گھبرا اٹھے.اتنی لمبی نماز جنازہ اس کی پڑھائی کہ جو پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ان کو چکر آنے لگ گئے.بعد سلام کے فرمایا (سلام جب پھر گیا جنازہ جب ختم ہوا ) کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی اس کے لئے ہم نے اتنی دعائیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کے چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا.تو یہ شخص بخشا گیا اور اس کو فن کر دیا.رات کو اس لڑکے کی والدہ جو بہت بوڑھی تھیں.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے ٹہل رہا ہے.اور اس نے کہا کہ حضرت کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنت میراٹھ کا نہ کیا.(ماخوذ از تذکرة المهدی از پیر سراج الحق صاحب نعمانی حصہ اوّل صفحه 80) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب لانے اور حق کو پہچاننے اور ان کو عذاب سے بچانے کے لئے آپ کا جذبہ ہمدردی اور رحم بھی سب کچھ بڑھا ہوا تھا.اس بارے میں یہاں ایک مثال سے واضح ہوتا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 54 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مخدوم الملت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدعا کے اوپر میرا حجرہ تھا.اور میں اس کو بطرز بیت الدعا استعمال کیا کرتا تھا.اس میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حالت دعا میں گریہ وزاری کو سنتا تھا.اس کے ساتھ ہی حجرہ تھا.کہتے ہیں کہ جب حضور وہاں دعا کیا کرتے تھے نماز پڑھا کرتے تھے تو میں حضور کی گریہ وزاری کو سنتا تھا.آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا اور آپ اس طرح آستانہ الہی پر گریہ وزاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردزہ سے بے قرار ہو.وہ فرماتے تھے کہ میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق الہی کے لئے طاعون کے عذاب سے بچنے کے لئے دعا کرتے تھے.(ان دنوں میں طاعون کے دن تھے ) مخلوق الہی کے لئے طاعون کے عذاب سے بچنے کے لئے دعا کرتے تھے کہ الہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا.یہ خلاصہ اور مضمون حضرت مخدوم الملت کی روایت کا ہے.اس سے پایا جاتا ہے کہ باوجود یکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب اور انکار ہی کے باعث آیا.مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اس قدر حریص تھے کہ اس عذاب کے اٹھائے جانے کے لئے باوجود یکہ دشمنوں اور مخالفوں کی ایک جماعت موجود تھی رات کی سنسان اور تاریک گہرائیوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے ایسے وقت جبکہ مخلوق اپنے آرام میں سوتی تھی یہ جاگتے تھے اور روتے تھے، القصہ آپ کی ہمدردی اور شفقت علی خلق اللہ اپنے رنگ میں بے نظیر تھی.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 428-429) تو یہ ہے ہمدردی مخلوق اور اس کے لئے رحم کی حالت طاری کرنا.اللہ تعالیٰ نشان دکھا رہا ہے تا کہ آپ کی سچائی کو ثابت کرے اور آپ فرما رہے ہیں کہ ان کو عذاب سے بچالے اور سچائی کی پہچان ان کے دلوں میں ڈال دے.تو یہ ہے اپنے آقا کے نمونے پر عمل ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے زخمی کیا، تو پہاڑ کے فرشتوں نے جب کہا ہم پہاڑ گرادیں تو آپ نے فرمایا نہیں ، انہی میں سے عبادت گزار لوگ پیدا ہوں گے.آپ نے ان کے لئے دعا بھی کی.اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی روحانی حالت سدھارنے کے لئے کس قدر رحم اور ہمدردی کا جذبہ آپ میں تھا، اس کا اظہار آپ کے اس اقتباس سے بھی ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں: ”اللہ جل شانہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں ، نہ مفتری ہوں ، نہ دجال، نہ کذاب.اس زمانہ میں کذاب اور دجال اور مفتری پہلے اس سے کچھ تھوڑے نہیں تھے تا خدا تعالیٰ صدی کے سر پر بھی بجائے ایک مجدد کے جو اس کی طرف سے مبعوث ہو ایک دجال کو قائم کر کے اور بھی فتنہ اور فساد ڈال دیتا.مگر جو
55 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم لوگ سچائی کو نہ سمجھیں اور حقیقت کو دریافت نہ کریں اور تکفیر کی طرف دوڑیں میں ان کا کیا علاج کروں.میں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے ایسا تیمار دار مریض کی تیمارداری کرنے والا جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گین ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا، اے بادی اور رہنما ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی.کیونکہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اُس کی طرف بلاتا ہوں.یہ سچ ہے کہ اگر میں اُس کی طرف سے نہیں ہوں اور ایک مفتری ہوں تو وہ بڑے عذاب سے مجھ کو ہلاک کرے گا کیونکہ وہ مفتری کو کبھی وہ عزت نہیں دیتا کہ جو صادق کو دی جاتی ہے“.اپنے شعر میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ (آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحه (324 گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے (آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحه 225 مطبوعه (ربوه پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو راہ راست پر لانے اور عذاب سے بچانے کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ: اکثر دلوں پر کب دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے.خدا اس گرد کو اٹھاوے، خدا اس ظلمت کو دور کرے، دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے.مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے انہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اٹھائے ہیں ویسا ہی ان کو مرہم عطا فرمادے اور ان کو ذلیل و رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز ان لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے شرمندہ کرے ) جنہوں نے حضرت احدیت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی قیمت نہیں سمجھا.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آنا ) اور اس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے.سو اگر اس عاجز کی فریاد میں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جونورمحمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الہی طاقتیں عجائبات دکھلاویں“.(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه 513-512 مکتوب نمبر 5 بنام میر عباس علی صاحب محرره 9 فروری 1883ء جدید ایڈیشن)
خطبات مسرور جلد پنجم 56 خطبہ جمعہ 02 فروری 2007 ء عام مخلوق کے لئے آپ کا جذبہ ہمدردی انتہائی بڑھا ہوا تھا لیکن جو لوگ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے ہوں، جو لوگ روشنی دیکھ کر اسے تاریکی کہیں ، جو علم رکھتے ہوئے جاہلوں کی طرح ضد کریں اور عوام الناس کو بھی اندھیروں میں لے جارہے ہوں، ان کے لئے تو دعانہیں نکلتی.اعلیٰ کے لئے ادنی کو قربان کرنا پڑتا ہے.تو یہ بھی جذ بہ رحم اور ہمدردی کی وجہ سے تھا کہ جو آپ نے ان کے لئے بددعا کی.بے شک آپ نے یہ بد دعا تو کی لیکن یہ حد سے بڑھے ہوؤں کے لئے بددعا تھی.اور یہ دعا مخلوق کی اکثریت سے ہمدردی کے جذبے کی وجہ سے تھی ، ان پر رحم کھاتے ہوئے تھی.اللہ تعالیٰ نے یقینا آپ کی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دیا ہے.سعید روحیں روز ہم دیکھتے ہیں سلسلے میں داخل ہوتی ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور نور محمدی معلم دنیا میں پھیل رہا ہے.آج ہم مسیح محمدی کے غلاموں کا بھی کام ہے کہ آپ کی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کریں اور آپ کی دعاؤں سے بھی حصہ لیں.آپ کی تعلیم کو اپنے عملوں پر لاگو کرتے ہوئے مخلوق خدا سے جذ بہ ہمدردی کے تحت اس پیغام کو بھی لوگوں تک پہنچائیں اور اپنی دعاؤں کو اپنی استعدادوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ کریں تا کہ جس نور محمد کو پھیلانے کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، اس میں ہم بھی نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ کانعرہ لگاتے ہوئے شامل ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 23 فروری تا 1 یکم مارچ 2007 ، ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 57 6 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء (فرموده مورخه 09 فروری 2007 ء ( 09 تبلیغ 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (النحل : 19) گزشتہ چند خطبوں سے میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن کا ذکر کر رہا تھا، آج میں صفت رحیم کے تحت کچھ بیان کروں گا.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ جو قرآن کریم کی پہلی سورۃ ہے اور جسے ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کی جو تیسری صفت بیان ہوئی ہے وہ الرَّحِیم ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تیسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو تیسرے درجہ کا احسان ہے رحیمیت ہے.جس کو سورہ فاتحہ میں الرحیم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے.اور قرآن شریف کی اصطلاح کے رو سے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے“.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحه 249 اس لفظ اور صفت کی وضاحت میں بعض علماء اور مفسرین نے جو معنے کئے ہیں وہ میں مختصر بیان کرتا ہوں.اس کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ان کو بیان کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد یا آپ کی کسی وضاحت کے بعد کسی اور سند کی ضرورت تو نہیں ہوتی لیکن اس بیان کرنے سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نگاہ جس کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصیرت اور بصارت عطا کی گئی تھی ، وہ آپ ہی کا حصہ ہے کیونکہ آپ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے.بہر حال مختصر پہلے مفسرین اور علماء کی تفسیر پیش کرتا ہوں جس سے اس لفظ کے معانی پر روشنی پڑتی ہے.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ الرحیم اُسے کہتے ہیں جس کی رحمت بہت زیادہ ہو.اقرب الموارد کہتی ہے کہ الرحیم رحم کرنے والا.نیز یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے.بہر حال لغوی بحث جو بھی ہے اس میں اس طرح کے ملتے جلتے معانی ملتے ہیں.اس لئے ان کو چھوڑتا ہوں اور بعض مفسرین کی اس لفظ کے تحت جو تفسیر بیان ہوئی ہے وہ بیان کرتا ہوں.اس کے بعد جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے اس صفت کے بارے میں بیان کروں گا.
خطبات مسرور جلد پنجم 58 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء تفسیر الجامع لاحکام القرآن.یہ ہے ابو عبد الله حمد بن احمد الانصاری القرطبی کی.یہ کہتے ہیں کہ الرحمن کے ساتھ ہی الرحیم کی صفت لانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے محمد بن یزید کہتے ہیں کہ یہ فضل کی عطا کے بعد دوسری عطا ہے.اور ایک انعام کے بعد دوسرا انعام ہے.خدا کی رحمت کی امید رکھنے والوں کی امیدوں کو تقویت بخشنے کے لئے ہے.اور ایک ایسا وعدہ ہے جس کے وفا ہونے کی امید رکھنے والا کبھی نا مراد نہیں رہتا.پھر کہتے ہیں کہ جمہورعلماء کا قول ہے کہ الرحیم نام کے اعتبار سے عام ہے اور اپنے اظہار کے لحاظ سے خاص مختص ہے.پھر اسی میں لکھتے ہیں کہ ابو علی فارسی رحمن کی صفت بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ جبکہ الرَّحِیم کی صفت صرف مومنین کے حوالے سے آتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (الاحزاب : 44) عبدالمالک العرزمی کہتے ہیں کہ صفت رحیم مومنوں کو ہدایت عطا کرنے اور ان پر لطف و کرم کرنے کے لئے آتی ہے.ابن المبارک کہتے ہیں کہ الرحمن وہ ہے کہ جس سے جب بھی مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے اور اَلرَّحِیم وہ ہے کہ جس سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے.چنانچہ ترندی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ لَّمْ يَدْعُ اللَّهَ سُبْحَانَهُ غَضِبَ عَلَيْهِ یعنی جوشخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا اور اس سے مانگتا نہیں اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے.(سنن ابن ماجه كتاب الدعا باب فضل الدعا حدیث نمبر (3827 ایک شاعر نے اس مضمون کو اپنے الفاظ میں یوں ڈھالا ہے.اللَّهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُوَّالَهُ روری وَبُنَى آدَمَ حِيْنَ يُسْتَلُ يَغْضَبْ یعنی اللہ وہ ہے کہ اگر تو اس سے سوال کرنا اور مانگنا چھوڑ دے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے.جبکہ اس کے مقابل بعض انسانوں کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی ان سے مانگ بیٹھے تو اس پر ناراض ہو جاتے ہیں.تو دیکھ لیں یہی چیز ہوتی ہے.کوئی پیچھے پڑ جائے کوئی چیز مانگنے کے تو آخر تنگ آ کر دے تو دیتے ہیں.لیکن آگے سے پھر جھڑک بھی دیتے ہیں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا.پھر انہی کے بیان میں حوالہ ہے مہدوی کا.کہتے ہیں کہ مہدوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میں رحیم لا کر یہ بتایا ہے کہ تم رحیم یعنی محمد عبید اللہ کے وسیلے سے ہی مجھ تک پہنچ سکتے ہو.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ الرحمن اس اعتبار سے ہے کہ وہ مخلوق میں سے ہر نیک و بد پر مہربانی کرنے والا ہے.اور الرحیم کی صفت خاص مومنوں پر رفق کرنے کے اعتبار سے ہے.(تفسير الجامع لاحكام القرآن جلد اول خطبة المصنف، صفحه 57-156 ایڈیشن 2004ء بیروت) بعض جگہ صفت رحمن کا بھی ذکر آ جائے گا.تو یہ اس لئے ضروری ہے کہ رحمن اور رحیم کے جو الفاظ ہیں ان کا مادہ ایک ہے.تو اس لحاظ سے مقابلہ کرنے کے لئے بعض جگہ دوبارہ دوہرایا جائے گا.جو ہو سکتا ہے پہلے بھی ہو چکا ہے.الرحمن.علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الرحمن کا نام اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے.جبکہ
59 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم الرَّحِیم اللہ تعالیٰ کے لئے بھی اور اس کے سوا بھی بولا جاتا ہے.اور اگر یہ کہا جائے کہ پھر اس طرح الر حمن برتر اور اعلیٰ ہے.تو پھر ادنی کا ذکر اعلیٰ کے بعد کیوں کیا گیا.یعنی پہلے رحمن اور پھر رحیم.تو کہتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے بڑا عظیم جو ہوتا ہے اس سے معمولی اور سہل الحصول چیز طلب نہیں کی جاتی.حکایت ہے کہ کوئی شخص کسی بڑے آدمی کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک معمولی سے کام کے لئے حاضر ہوا ہوں.جس پر اس بڑے آدمی نے کہا کہ معمولی کام کے لئے کسی معمولی شخص کے پاس جاؤ تو گویا اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم رحمن کے ذکر پر رک جاؤ تو مجھ سے مانگنے سے جھجھکتے اور شرماتے رہو گے.اور معمولی معمولی ضروریات مجھ سے مانگنے سے رک جاؤ گے لیکن جیسا کہ تم مجھے جانتے ہو کہ میں رحمن ہوں اور اس حوالے سے تم مجھ سے بڑی بڑی چیزیں طلب کرتے ہو.ویسا ہی میں رحیم بھی ہوں.پس تم مجھ سے جوتے کا تسمہ بھی طلب کرو اور اپنی ہنڈیا کا نمک بھی مانگو.(تفسیر کبیر از علامه فخرالدین رازى تفسير سورة الفاتحه الفصل الثالث في تفسير قوله الرحمن الرحيم الفائدة الثانية | پھر علامہ رازی فرماتے ہیں کہ وہ رحمان ہے اس نسبت سے کہ وہ ایسی تخلیق کرتا ہے کہ جس کی طاقت بندہ نہیں رکھتا اور وہ رحیم ہے اس نسبت سے کہ وہ ایسے افعال کرتا ہے کہ جیسے افعال کر ہی نہیں سکتا.گویا وہ فرماتا ہے کہ میں رحمن ہوں کیونکہ تم ایک حقیر سے نطفہ کا ذرہ میرے سپرد کرتے ہو تو میں تمہیں بہترین شکل وصورت عطا کرتا ہوں.نیز میں رحیم ہوں کیونکہ تم ناقص اطاعت مجھے دیتے ہومگر میں تمہیں اپنی خالص جنت عطا کرتا ہوں.(تفسیر کبیر از علامه فخرالدین رازى تفسير سورة الفاتحه الفصل الثالث في تفسير قوله الرحمن الرحيم الفائدة الرابعة) | تو یہ چند بڑے بڑے مفسرین کا مختصر بیان میں نے کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذو العقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے.اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے“.ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحه 243 یعنی اس صفت سے اگر فیض اٹھانا ہے تو ہر انسان جو عقل اور شعور رکھتا ہے اپنی عاجزی اور انکساری کو بڑھائے اور دعا اور تضرع کی طرف توجہ کرے اور سبھی پھر فیض حاصل ہو گا.تکبر اور غرور اپنے اندر سے نکالو گے تبھی صفت رحیمیت سے فیض پاؤ گے.یعنی نیک اعمال ہوں گے تو فیض سے حصہ ملے گا کیونکہ اگر کسی بھی قسم کی بڑائی ہوتو اللہ تعالیٰ کے حضور اُس عاجزی سے انسان حاضر ہو ہی نہیں سکتا جو اس کے ایک عبد بننے کے لئے ضروری ہے.تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا تقاضا ہے کہ اپنی ہستی کو کچھ نہ سمجھے، اپنے وجود کو کچھ نہ سمجھے، اپنی ذات کو کوئی حقیقت نہ دے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں مزید فرماتے ہیں ” الرَّحِیم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه (373
خطبات مسرور جلد پنجم 60 60 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء یہ پہلے دو حوالے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑھے ہیں ان کی مزید وضاحت اس حوالے سے ہوتی ہے.فرماتے ہیں: رحیمیت وہ فیض الہی ہے جو صفت رحمانیت کے فیوض سے خاص تر ہے.یہ فیضان نوع انسانی کی تکمیل اور انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے کے لئے مخصوص ہے.لیکن اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا عمل صالح بجا لا نا اور جذبات نفسانیہ کو ترک کرنا شرط ہے.یہ رحمت پورے طور پر نازل نہیں ہوتی جب تک اعمال بجالانے میں پوری کوشش نہ کی جائے.اور جب تک تزکیہ نفس نہ ہو اور ریا کو کلی طور پر ترک کر کے خلوص کامل اور طہارتِ قلب حاصل نہ ہو اور جب تک خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر موت کو قبول نہ کر لیا جائے.پس مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں ان نعمتوں سے حصہ ملا بلکہ وہی اصل انسان ہیں اور باقی لوگ تو چارپایوں کی مانند ہیں.( یعنی جانوروں کی طرح ہیں ).اعجاز اسیح - روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 95-96 - اردو ترجمہ عربی عبارت از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 44 مطبوعہ ربوہ ) یہ جو بیان ہے اس سے پتہ لگا کہ یہ صفت جو ہے یہ انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے والی صفت ہے اور یہ کمال تک پہنچنے والے کون لوگ تھے.اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سورۃ فاتحہ میں دعا سکھائی ہے کہ یہ دعا کرو کہ ہمیں ان کمال حاصل کرنے والے لوگوں میں شامل فرما اور وہ کون لوگ تھے.وہ لوگ تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا.یعنی منعم علیہ گروہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: چوتھا سمند رصفت الرَّحِیم ہے اس سے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة : 7) کا جملہ مستفيض ہوتا ہے تا بندہ خاص انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہو جائے کیونکہ رحیمیت ایسی صفت ہے جو انعامات خاصہ تک پہنچا دیتی ہے.جن میں فرمانبردارلوگوں کا کوئی شریک نہیں ہوتا.گو اللہ تعالیٰ کا ) عام انعام انسانوں سے لے کر سانپوں، اثر د ہاؤں تک کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے.“ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 118.اردو ترجمہ عربی عبارت از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 116) صفت رحیم کی وجہ سے یہ انعام ملتا ہے.تو ان انعام یافتہ لوگوں کی تعریف اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے کہ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (النساء: (70) اور جو لوگ بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے.یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین.اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں.تو رحیمیت سے فیض حاصل کرنا بعض عمل چاہتا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس میں سے جو بنیادی چیز ہے وہ اللہ اور رسول کی کامل اور مکمل اطاعت ہے تبھی انعام یافتہ ٹھہریں گے.عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے
خطبات مسرور جلد پنجم 61 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء کی ضرورت ہے اور دوسرے نیک اعمال بجالانے بھی انتہائی ضروری ہیں.جن کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے جس میں نفسانی جذبات کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے، ہر عمل وہ ہو جواللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو، جس میں قطعاً اپنا نفس شامل نہ ہو اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.بڑا مشکل کام ہے جب نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے.لیکن جذبات کو کچلے بغیر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مکمل حصہ نہیں ملتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں پھر یہ پورے طور پر نازل نہیں ہوتی.پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے اپنے نفسوں کو ٹولنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہمارے اعمال نیک ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے ہیں اور اس کی خاطر اپنی خواہشات اور اپنے نفسوں کو کچلنے والے ہیں.اگر یہ نہیںتو ہمارا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ہم صرف اپنے اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں.اس سے مانگنے والے ہیں.پس اس کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ پوری کوشش اور محنت کی ضرورت ہے.ایک جہاد کی ضرورت ہے تبھی نفس مکمل طور پر پاک ہو گا.ریا سے کامل طور پر ہمارے دل تبھی صاف ہوں گے.ہمارے دل خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے والے تبھی ہوں گے اور پھر جب ایسی صورت پیدا ہو جائے گی تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس گروہ میں شامل کرے گا جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے اور پھر اس بات کو اپنی زندگیوں میں ہم عملی طور پر دیکھنے والے ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی جو فرمایا ہے کہ وَاِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا (ابراهیم: 35) تو پھر اللہ کی اتنی نعمتیں ہوں گی کہ تم ان کا شمار بھی نہیں کر سکو گے.پس اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے اس کی رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے ہمیں استغفار کرتے ہوئے اپنے اعمال بھی درست کرنے ہوں گے تبھی اس صفت سے فیضیاب ہو سکیں گے.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو ویسے تو ہر چیز پر ہیں.اور کوئی ان سے باہر نہیں لیکن وہ رحمانیت کی صفت کے تحت ہیں.لیکن رحیمیت کی صفت سے حصہ لے کر ایک اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں پر شکر گزاری کا اظہار کرنے والا بن جاتا ہے اور اس زمانے میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق ہمیں عطا فرمائی ہے.اور دوسرے اس بات کے انکاری ہیں جو کہ عملاً اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے ملنے والوں انعاموں سے ہی انکار ہے.اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علی اللہ کی روشنی سے حصہ پا کر اس زمانے میں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں وہ چاند بھیجا جو روشنی پھیلا رہا ہے اس کی بجائے دوسرے جو مسلمان ہیں، پیروں فقیروں کے گھروں پہ جا کر ان دیوں کو روشنی سمجھ رہے ہیں حصہ پا رہے ہیں اور اسی وجہ سے پھر بدعتوں اور برائیوں میں پڑتے چلے جارہے ہیں.کیونکہ وہ تو روشنیاں بجھتی چلی جارہی ہیں.پس اس زمانے میں ایک احمدی کو اس رحیم خدا کی رحیمیت سے حصہ لینے کے لئے اس طرح بھی سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمانیت کے صدقے احمدی گھرانوں میں پیدا کیا یا نئے شامل ہونے والے جولوگ ہیں ان کو ، ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اپنی رحیمیت کے صدقے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانے کی توفیق دی.تو ان فضلوں اور نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شکر گزاری کریں.اللہ اور اس کے رسول کی کامل اور مکمل اطاعت کریں.اعمال صالحہ بجالائیں.اس کی بخشش کے ہر وقت طلب گار رہیں.
62 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم تمام دنیاوی اور دینی نعمتوں کو اپنے سامنے رکھیں.اور دیکھیں کہ کونسا فضل ہے جو اُس نے ہم پر نہیں کیا.ہر طرح کے انعامات سے ہمیں نوازا ہے اور پھر ہمیں یہ بھی راستہ دکھا دیا کہ میری بخشش مانگتے رہو کیونکہ ان چیزوں پر یعنی نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے اور ان کے معیار بلند کرنے کے لئے استغفار بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے انعام کی وجہ سے علم و عرفان میں یا نیکیوں میں یا روحانیت میں ترقی کے لئے عاجزی کا اظہار اور استغفار بہت ضروری ہے.ورنہ تکبر کا خناس جو ہے اچھے بھلے لوگوں کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے اوپر جاتے جاتے نیچے کی طرف چلنا شروع ہو جاتے ہیں اور اس وقت وہ نیکی اور علم کچھ کام نہیں آ رہا ہوتا.پس رحیم خدا کی رحیمیت کے ساتھ استغفار بہت ضروری ہے.اور اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رحیم کا لفظ جب استعمال کیا ہے وہاں اکثر جگہ پر صفت غفور کے ساتھ رحیم کو استعمال کیا گیا ہے.پس صفت رحیمیت سے فیض پانے کے لئے اعمال صالحہ اور استغفار انتہائی بنیادی چیزیں ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : رحیمیت میں ایک خاصہ پردہ پوشی کا بھی ہے مگر اس پردہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہوا اور اس عمل کے متعلق کوئی کمی یا نقص رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے.رحمانیت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحمانیت میں فعل اور عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا.مگر رحیمیت میں فعل و عمل کو دخل ہے.لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے.خدا کا رحم چاہتا ہے کہ پردہ پوشی کرئے“.پس اس سے یہ بات مزید کھل گئی کہ رحیمیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غَفُور کو کیوں رکھا ہوا ہے.اس لئے تا کہ بندوں کے لئے جو رحم اللہ تعالیٰ رکھتا ہے اس کی وجہ سے ان کو مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور ڈھانپتے ہوئے ان کی پردہ پوشی فرماتا رہے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ کوئی عمل ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ عمل کوئی نہ ہو اور توقع ہو اللہ تعالیٰ سے پردہ پوشی کی.اور پھر بدیوں پر اصرار نہیں ہونا چاہئے.اگر کوئی برائی ہوگئی تو پھر استغفار کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت شامل حال ہو اور اس کی پردہ پوشی ہو جائے تو بہ کی طرف توجہ ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءٌ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ (الانعام: 55) یعنی تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت فرض کر دی ہے اور یہ کہ تم میں سے جو کوئی جہالت سے بدی کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو یا در کھے کہ وہ یعنی اللہ یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو یہاں بھی وہی ایک مثال میں نے پہلے دی تھی کہ اللہ تعالیٰ بخشتا تو ہے لیکن یہ ہے کہ انسان تو بہ کی طرف متوجہ ہو.اُس قاتل کی جس نے 99 قتل کئے تھے اور 100 پورے کر دیئے تھے لیکن کیونکہ تو بہ کا خیال آ گیا نیکی کی طرف بڑھ رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش کے سامان کر دیئے.پس صفت رحیم سے زیادہ (ملفوظات جلد اول صفحه 126-127 جدید ایڈیشن ) | سے زیادہ فیض پانے کے لئے تو بہ کرتے ہوئے اس کے آگے جھکنا اور اعمال صالحہ بجالا نا انتہائی ضروری ہے.ایک جگہ فلسفہ دعا اور رحیمیت کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: دوسری رحمت رحیمیت کی ہے.یعنی جب ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے.غور کیا جاوے تو معلوم ہوگا
خطبات مسرور جلد پنجم 63 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء کہ قانون قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دعا کا تعلق ہے.بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں.ہماری دعا کا جو تعلق خدا تعالیٰ سے ہے میں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کروں.فرماتے ہیں کہ : ” ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلا تا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آ جاتا ہے.بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا.لیکن اس کی چھینیں دودھ کو کیونکر کھینچ کر لاتی ہیں اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں.مگر بچہ کی چلا ہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے.تو کیا ہماری چینیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو کچھ بھی نہیں کھینچ کر لاسکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے.بچے کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے.دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے مانگتے جاؤ گے ملتا جائے گا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : 61) کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے.مانگنا انسان کا خاصہ ہے.اور استجابت اللہ تعالی کا.جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے.بچہ کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کر کے دکھاتی ہے.رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں.پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا.رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت کے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے جو ایسا نہیں کرتا وہ کا فرنعمت ہے.“ (ملفوظات جلد اول صفحه 81-82 جدید ایڈیشن ) یعنی اللہ تعالیٰ نے جو سامان اپنی صفت رحمانیت کے تحت عطا فرمائے ہوئے ہیں ، جو انتظامات فرمائے ہوئے ہیں زندگی گزارنے کے، یہ جو مادی سامان ہیں یہ بھی اور جو روحانی سامان ہمیں مہیا فرمایا ہے اس کے لئے بھی جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری نعمتوں کے شکر گزار ہو کیونکہ تم نعمتوں کا شمارتو کر نہیں سکتے.اتنی زیادہ ہیں.پس ان نعمتوں کا جو صفت رحمانیت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے تحت ان سے مزید حصہ لینے اور ان کو جاری رکھنے کے لئے بھی اس کے حضور دعائیں کریں اور اس کے حقوق ادا کریں ، عبادت اور اعمال صالحہ بجالائیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صفت الرَّحِیم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : یہ احسان دوسرے لفظوں میں فیض خاص سے موسوم ہے اور صرف انسان کی نوع سے مخصوص ہے.دوسری چیزوں کو خدا نے دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ نہیں دیا مگر انسان کو دیا ہے.انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نطق کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا فیض پاسکتا ہے.بولنے کی طاقت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور اپنے بولنے سے دعائیں مانگنے سے اللہ تعالیٰ کا فیض پاسکتا ہے.دوسری چیزوں کو طق عطا نہیں ہوا.پس اس جگہ سے ظاہر ہے کہ انسان کا دعا کرنا اس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے.اور جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات ربوبیت اور رحمانیت سے فیض حاصل ہوتا ہے اسی طرح صفت رحیمیت سے بھی ایک فیض حاصل ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ربوبیت اور رحمانیت کی صفتیں دعا کو نہیں چاہتیں کیونکہ وہ دونوں صفات انسان سے خصوصیت نہیں رکھتیں اور تمام
خطبات مسرور جلد پنجم 64 خطبہ جمعہ 09 فروری 2007 ء پرند چرند کو اپنے فیض سے مستفیض کر رہی ہیں.بلکہ صفت ربوبیت تو تمام حیوانات اور نباتات اور جمادات اور اجرام ارضی اور سماوی کو فیض رسان ہے.جو حیوان ہیں جاندار ہیں ان کو بھی ، پودوں کو بھی ، دوسری غیر جاندار چیزیں ہیں ان کو بھی بلکہ تمام کا ئنات میں جتنے بھی ستارے، سیارے ہیں اور جو کچھ بھی ہے وہ سب اس سے فیض پا رہا ہے اور کوئی چیز اس کے فیض سے باہر نہیں.برخلاف صفت رحیمیت کے کہ وہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے.“ انسان کے لئے ایک ایسی چیز ہے، ایک ایسا لباس ہے، ایک ایسا انعام ہے.جو صرف انسان کے لئے خاص ہے اور اگر انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھا وے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے.اگر انسان صفت رحیمیت سے فیض نہیں اٹھارہاتو پھر وہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ جانور کی طرح ہے یا بلکہ بے جان چیزوں کی طرح ہے.پتھر اینٹ روڑے کی طرح ہے بلکہ جمادات کے برابر ہے.” جبکہ خدا تعالیٰ نے فیض رسانی کی چار صفت اپنی ذات میں رکھی ہیں اور رحیمیت کو جو انسان کی دُعا کو چاہتی ہے خاص انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ میں ایک قسم کا وہ فیض ہے جو دعا کرنے سے وابستہ ہے اور بغیر دعا کے کسی طرح حمل نہیں سکتا.یہ سنت اللہ اور قانون الہی ہے جس میں تخلف جائز نہیں.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کے لئے ہمیشہ دعا.حقیقت یہ ہے کہ دعا پر ضرور فیض نازل ہوتا ہے جو ہمیں نجات بخشتا ہے.اسی کا نام فیض رحیمیت ہے جس سے انسان ترقی کرتا جاتا ہے.اس فیض سے انسان ولایت کے مقامات تک پہنچتا ہے اور خدا تعالیٰ مانگتے رہے.پر ایسا یقین لاتا ہے کہ گویا آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے.“.ايام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحه 249-250 اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صفت رحیمیت کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے اور ہم اسے اس کے فضل سے ہم اسے اپنی زندگیوں میں لاگو کرتے ہوئے ، اس پر مکمل عمل کرنے والے بہنیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات سے مزید لاگوکرتے حصہ پانے والے ہوں اور منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے والے ہوں.مطبوع الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 2 تا 8 مارچ 2007ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 65 7 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء فرموده مورخه 16 فروری 2007 ء بمطابق 16 تبلیغ 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے پر اپنی رحیمیت کے جلوے دکھانے کے مختلف طریقے ہیں.کبھی بخشش طلب کرنے والوں کے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولتے ہوئے ان کی بخشش کے سامان قائم فرماتا ہے، انہیں نیکیوں کی توفیق دیتا ہے.کبھی اپنے بندے کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تمہارا میرے سے، میری رحمت کی طلب بھی، میری مہربانی سے ہے.اگر میرا فضل نہ ہوتا تو میری رحمت کی طلب کا تمہیں خیال نہ آتا.میری صفت رحمانیت کا تمہارے دل میں احساس بڑھنے سے تم میری طرف جھکے ہو اور کیونکہ یہ ایمان والوں کا شیوہ ہے کہ انہیں یہ احساس کرتے ہوئے جھکنا چاہئے کہ کتنے انعامات اور احسانات سے اللہ تعالی ہمیں نواز رہا ہے.اس احساس کے زیر اثر تم جھکے ہو اور میری رحیمیت سے حصہ پایا ہے.پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ میرے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے مجھے پکارتے رہو، کیونکہ یہی چیز ہے جو تمہیں نیکیاں کرنے کی طرف مائل رکھے گی.کبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت کو حاصل کرنے کے لئے میرے راستے میں جہاد کرنا اور میری خاطر ہجرت کرنا ضروری ہے جس سے میری رحمت کے دروازے تم پر واہوں گے، کھلیں گے.کبھی فرماتا ہے کہ نماز پڑھنے والے، صدقہ دینے والے میری رحیمیت کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھیں گے اور اگلے جہان میں بھی.پھر مومنوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو صالح اعمال تم بجالاتے ہو اس کے نیک نتائج تم اس جہان میں بھی دیکھو گے اور آئندہ کی زندگی میں بھی.غرض بے شمار ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے ایک مؤمن حصہ پاتا ہے.اور ایک مومن کی نشانی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہی ہے جو مومن اور غیر مومن میں فرق کرنے والی ہے.ایک مومن ہی کی یہ شان ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو اس سے روحانی اور مادی انعاموں اور اس کی رضا کا طلب گار ہوتا ہے اور پھر وہ اس کو ملتے ہیں.
خطبات مسرور جلد پنجم 66 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جو انسان کے اعمال حسنہ پر مترتب ہوتی ہے کہ جب وہ تضرع سے دعا کرتا ہے تو قبول کی جاتی ہے اور جب وہ محنت سے تخمریزی کرتا ہے تو رحمت الہی اس تخم کو بڑھاتی ہے یہاں تک کہ ایک بڑا ذخیرہ اناج کا اس سے پیدا ہوتا ہے.اسی طرح اگر غور سے دیکھو تو ہمارے ہر یک عمل صالح کے ساتھ خواہ وہ دین سے متعلق ہے یا دنیا سے ، رحمت الہی لگی ہوئی ہے اور جب ہم ان قوانین کے لحاظ سے جو الہی سنتوں میں داخل ہیں کو ئی محنت دنیا یا دین کے متعلق کرتے ہیں تو فی الفور رحمت الہی ہمارے شامل حال ہو جاتی ہے اور ہماری محنتوں کو سر سبز کر دیتی ہے.(منن الرحمن روحانی خزائن جلد 9 صفحه 148 حاشیه پس یہ امتیاز ہے ایک مومن اور غیر مومن میں کہ مومن دین اور دنیا کے انعامات کے لئے اللہ تعالیٰ کو اس کی رحیمیت کا واسطہ دیتے ہوئے اس کے آگے جھکتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ قوانین الہی کے مطابق انعاموں کو حاصل کرنے کے لئے اور رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے دعا کے ساتھ اُن اسباب اور قومی کو بھی کام میں لا نا ہو گا جوکسی کام کے لئے ضروری ہیں.پھر نماز، روزہ، زکوۃ صدقہ وغیرہ ہیں.یہ اُس وقت اللہ کے حضور قبولیت کا درجہ رکھنے والے اور اس کی رحیمیت کے معجزات دکھانے والے ہوں گے جب دوسرے اعمال صالحہ کی بجا آوری کی طرف بھی توجہ ہوگی.اور یہی ایک مومن کا خاصہ ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے صدقہ اس کے انعاموں کا طلبگار ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : فیض رحیمیت اسی شخص پر نازل ہوتا ہے جو فیوض مترقبہ کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے.ایسے فیض اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جن کی اس کو خواہش اور انتظار ہو.اسی لئے یہ ان لوگوں سے خاص ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے رب کریم کی اطاعت کی.جیسے اللہ تعالیٰ کے اس قول وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (الاحزاب : 44) میں تصریح کی گئی ہے.یعنی وہ مومنوں کے حق میں بار بار رحم کرنے والا ہے.اعجاز امسیح روحانی خزائن جلد 17 صفحه 141-140 اردو تر جمه از تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 3 صفحہ 727 پس ایک تو یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ اطاعت شرط ہے، اور اطاعت اس وقت حقیقی اطاعت ہو گی جب یہ مومن ہر قسم کے اعمال صالحہ بجالانے والا ہوگا اور پھر ایمان میں مضبوط ہوتا چلا جائے گا.پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ایک دفعہ جب تمہیں اللہ نے ایمان لانے کی توفیق عطا فرما دی تو پھر اس ایمان کی حفاظت بھی تم نے کرنی ہے.اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرو، تمام حقوق اللہ بجالاؤ اور دوسرے نیک اعمال بجالاتے ہوئے
67 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم حقوق العباد کی طرف بھی توجہ رکھو اور یہ ہر دو قسم کے اعمال تم اس وقت بجالانے والے ہو سکتے ہو جب اللہ تعالیٰ کا خوف تمہارے دل میں ہوگا.ایک فکر ہوگی کہ میں نے عبادت کی طرف بھی توجہ دینی ہے اور ہر دو حقوق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد حاصل کرنی ہے.کیونکہ اگر اس کی مدد شامل حال نہیں ہوگی تو نیک کاموں اور صالح اعمال کی انجام دہی نہیں ہو سکتی اور جب یہ صورت حال ہوگی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بہت قریب ہوتا ہے، ان پر رحمت سے توجہ فرماتا ہے، ان کو نیکیوں پر قائم رکھتا ہے اور ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچاتا ہے.اللہ فرماتا ہے وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا.إِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَريبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف: (57) اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ اور اسے خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہو یقینا اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے.تو یہ ہے مومن کی نشانی کہ قومی طور پر بھی اور ذاتی طور پر بھی ایسی کوئی بات نہ کرو جس سے معاشرے میں فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو.اگر ایسے حالات دیکھو جو پریشان کن ہوں اور تمہارے اختیارات سے باہر ہوں تو دعاؤں میں لگ جاؤ.اور جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے رحم کی امید رکھتے ہوئے اور فتنہ و فساد سے بچتے ہوئے اُس کو پکارے گا بشرطیکہ وہ خود بھی، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ تمام شرائط اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے کی پوری کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر توجہ کرتے ہوئے ان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ایسے ذرائع سے اس کی رحمت نازل ہوتی ہے کہ حیرانی ہوتی ہے، ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا.محسنین وہ لوگ ہیں جو حقوق العباد ادا کرنے والے ہیں اور حقوق اللہ بھی ادا کرنے والے ہیں اور اس طرف پوری توجہ دینے والے ہیں.اس فساد کے زمانے میں جس میں سے آج دنیا گزر رہی ہے اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر یہ کس قدر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ کے اس احسان اور انعام کا کبھی بھی بدلہ نہیں اتارا جا سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے، احسانوں پر احسان کرتا چلا جاتا ہے کہ فساد نہ کرنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کو محسنین میں شمار فرمارہا ہے اور ان کی دعائیں سنے کی تسلی فرمارہا ہے.پس یہ جو اتنا بڑا اعزاز ہمیں مل رہا ہے، یہ کوئی عام حسنین والا اعزاز نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اسی طرح اس کی بجا آوری کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں یا کم از کم خدا تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی حالت میں بھی تمہاری یہ حالت ہونی چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے اسے دیکھ رہے ہو یا کم از کم یہ احساس ہو کہ اللہ تمہیں دیکھے رہا ہے.پس جب یہ حالت ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی رحمت کے دروازے ایک مومن پر کھلیں گے.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے راستے میں جہاد کرنے والے، میری خاطر قربانیاں کرنے والے اور
68 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم میری خاطر ہجرت کرنے والے ، یہ بھی ایسے لوگ ہیں جو میرے قریبیوں میں سے ہیں جو میری رحمت سے وافر حصہ پانے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ.وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة: 219) یقیناًوہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.ایمان کے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کی شرط رکھی ہے اور یہ چیز پھر ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلاتی ہے.یہاں ہجرت سے مراد صرف ایک جگہ کو چھوڑنا ہی نہیں ہے کہ ہمیں اس لئے اسے چھوڑنا پڑا کیونکہ ان نیکیوں کو بجالانے میں کسی خاص جگہ پر ، یا کسی شہر میں یا ملکوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نفس کی خواہشوں کو چھوڑنے والے لوگ بھی اس زمرہ میں شامل ہیں جو اپنے نفس کو قربان کرنے والے ہیں، اپنی برائیوں کو ختم کر کے نیکیوں پر قائم ہونے والے ہیں.پس ان مغربی ممالک میں آنے والے افراد کو بھی اس طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اگر حالات کی وجہ سے اپنے ملکوں کو چھوڑنا پڑا ہے تو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ باہر آ کر ہمارے حالات اچھے ہو گئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے کے لئے اپنی حالتوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے.اپنے نفس کی بدیوں کو باہر نکال کر ان میں نیکیوں کو داخل کرنے کی ضرورت ہے.تب یہ ہجرت مکمل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے جو موقع دیا ہے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے.اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے اُس جہاد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس پاک دین کا پیغام پہنچا کر ہم نے کرنا ہے.اس جہاد کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہے اور یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہر احمدی کا جہاں بھی دنیا میں ہے ہمیشہ طرہ امتیاز رہا ہے.یہاں آ کر کشائش پیدا ہو جانے کے بعد اس طرف سے بے پرواہ نہیں ہو جانا چاہئے.پس اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کو جو جسمانی ہجرت کا موقع عطا فرمایا ہے اسے اس ہجرت کی وجہ سے اپنے نفس کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے والے بن سکیں اور فی زمانہ جماعت کو جب ضرورت پڑتی ہے اور وقت اور مال کی قربانی کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.ہمیشہ یادرکھیں یہ ان مومنین کی قربانیاں ہی تھیں جنہوں نے قرون اولیٰ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کیا اور
خطبات مسرور جلد پنجم 69 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹنے کے لئے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوشش کی ، ملک بدر ہوئے، مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے، جہاد کرنا پڑا، سب کچھ ہوا.اور پھر ان قربانیوں کو ایسے پھل لگے کہ آج ہم دیکھ کر حیران ہوتے ہیں.انہوں نے اپنے نفس کی بھی اصلاح کی ، اپنی برائیوں کو ترک کیا، نیکیوں کو اختیار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو پہنچانے کے لئے اعلیٰ قربانیاں دیں.پس ہم میں سے آج بھی وہی لوگ خوش قسمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے ہیں جو اس اصول کو سمجھے ہوئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ جیسا کہ فرماتا ہے ، وہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اگر ہم اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے اس کے آگے جھکنے والے اور اس کے دین کی سر بلندی کے لئے قربانی اور کوشش کرنے والے ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پانے والے ہوں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی کوشش کو کبھی ضائع نہیں کرتا جو نیک نیتی سے اس کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے اس کی خاطر کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” عادت الہیہ اس طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ ان کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے“.براهین احمدیه روحانی خزائن جلد 1 صفحه 422 حاشیه نمبر (11) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی رحیمیت سے ہمیشہ حصہ دیتا چلا جائے.اور ہر احمدی کو ایسی توفیق دیتا ر ہے کہ وہ ایسی ثمر آور کوشش کرنے والا ہو ، جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے کا باعث بنتی رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں.تیسری قسم فیضان کی فیضانِ خاص ہے.اس میں اور فیضان عام میں یہ فرق ہے کہ فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بناوے“.جو اللہ تعالیٰ کے فیض ہیں ، اس میں دو قسم کے فیض ہیں، ایک خاص اور ایک عام.عام تو رحمانیت کی صورت میں ہے اور خاص رحیمیت کی صورت میں ہے.فرمایا کہ رحمانیت کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ضرور نیکیوں کو اختیار کرنا ہے اور اپنی حالت کو بدلنا ہے.فرمایا " فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بناوے اور اپنے نفس کو مجب ظلمانیہ سے باہر نکالے“ یعنی نفس کو جو اندھیرے میں چھپا ہوا ہے اس سے باہر نکالے.یا کسی قسم کا مجاہدہ اور کوشش کرے بلکہ اس فیضان میں خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر ایک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کا وہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے.لیکن فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیہ قلب اور دُعا اور تضرع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہر طرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقعہ ہو شرط ہے.اللہ تعالیٰ کی رحیمیت حاصل کرنی ہے تو اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے.اپنے دلوں کو صاف کرنا پڑتا 66
خطبات مسرور جلد پنجم 70 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء ہے، دعاؤں کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے اور صرف سطحی قسم کی دعا ئیں نہیں، انتہائی تفرع اور عاجزی سے گڑ گڑاتے ہوئے اس کے سامنے جھکنا ہے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دینی ہوگی.اور پھر اس کے علاوہ جو بھی مجاہدہ کسی بھی کام کرنے کے لئے ضروری ہے اس کو اختیار کرنا ہوگا.فرمایا: ”اور اس فیضان کو وہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے.جو ڈھونڈے گا اس کو اللہ تعالیٰ کا فیضان ملے گا.اور اُسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے.اور اس فیضان کا وجود بھی ملاحظہ قانون قدرت سے ثابت ہے.کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ خدا کی راہ میں سعی کرنے والے اور غافل رہنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے.یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوشش کرنے والے ہوں اور ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے غافل بیٹھے ہوں وہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے.”بلاشبہ جو لوگ دل کی سچائی سے خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اور ہر یک تاریکی اور فساد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ایک خاص رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے.اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط به شرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے مؤخر ہے.یعنی بعد میں آیا ہے ” کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے اول صفت رحمانیت ظہور میں آئی ہے.پھر بعد اس کے صفت رحیمیت ظہور پذیر ہوئی.پس اسی ترتیب طبعی کے لحاظ سے سورۃ فاتحہ میں صفت رحیمیت کو ، صفت رحمانیت کے بعد میں ذکر فرمایا اور کہا الرَّحْمنِ الرَّحِيم اور صفت رحیمیت کے بیان میں کئی مقامات پر قرآن شریف میں ذکر موجود ہے جیسا ایک جگہ فرمایا ہے ــــــــان بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (الاحزاب : 44) پہلے میں مثال دے آیا ہوں.یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے جس سے کا فر کو یعنی بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں.اس جگہ دیکھنا چاہئے کہ خدا نے کیسی صفت رحیمیت کو مومن کے ساتھ خاص کر دیا.لیکن رحمانیت کو کسی جگہ مومنین کے ساتھ خاص نہیں کیا اور کسی جگہ یہ نہیں فرمایا که كَانَ بِالْمُؤْمِنِين رَحْمَانًا بلکہ جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف: 57) یعنی رحیمیت الہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں.پھر ایک اور جگہ فرمایا ہے اِنَّ الَّذِينَ امَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ.وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة: 219) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی ، وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے.یعنی اس کا فیضان رحیمیت ضرور ان لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا.“ براهين احمدیه روحانی خزائن جلد اوّل صفحه 450 تا 452 حاشیه نمبر (11)
71 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم یہاں سورۃ بقرہ کی جو یہ آیت ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ...اس ضمن میں یاد آیا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی ایک حدیث کا واقعہ لکھا ہے لیکن مجھے اس سے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو بھی جماعت میں بہت مقام تھا اور جو صحابہ کی اولاد ہیں، جب بھی کبھی کوئی تعارف کرانے لگے تو ضرور کراتے ہیں کہ میرے نانا یا دادا صحابی تھے.تو یہ جوان کا صحابی ہونا تھا یہ ان اولادوں کو یہ احساس دلانے والا ہونا چاہئے کہ جس طرح اُنہوں نے اپنے نفس کو بھی کچلا، ہجرت کا حق بھی ادا کیا، اپنے گھر بار کو بھی چھوڑا، قربانیاں بھی کیں.اس مقام کو ہم نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے.جس واقعہ کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حج پر گئے.تو وہاں کچھ نو جوان جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے ، قریب بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تشریف لائے ، حضرت عمرؓ نے ان نو جوانوں کو فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ کہ یہ صحابی رسول ﷺ ہیں.خیر وہ پیچھے ہٹ گئے ، تھوڑی دیر کے بعد ایک اور صحابی تشریف لائے ، حضرت عمر نے ان نوجوانوں کو پھر پیچھے ہٹا دیا، ہوتے ہوتے وہ دُور جوتیوں کے پاس چلے گئے.اور جب وہاں پہنچے تو وہ سارے اچھے خاندانوں کے تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ ہمارے ساتھ یہ ذلت کا سلوک ہوا ہے، اور باہر نکل گئے.باہر جا کر باتیں کرنے لگے کہ یہ تو ہمارے ساتھ آج بہت برا ہوا ہے.ان میں سے ایک زیادہ بہتر ایمان لانے والوں میں سے تھا.اس نے کہا کہ جو بھی ہوا یہ ہمارے باپ دادا کا قصور ہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو نہیں مانا اور آج ان کی وجہ سے ہمیں ذلت اٹھانی پڑی.بہر حال صحابہ رسول کا ایک مقام ہے.تو خیر انہوں نے کہا اس کا کیا علاج کیا جائے.انہوں نے کہا کہ حضرت عمر سے ہی پوچھتے ہیں.تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ آج ہم سے یہ سلوک ہوا ہے.حضرت عمر نے کہا میں مجبور تھا.میں تمہارے خاندانی حالات اور وجاہت سب کچھ جانتا ہوں لیکن صحابہ رسول ﷺ جنہوں نے اتنی قربانیاں دی ہوئی ہیں ، ہجرت بھی کی، جہاد میں شامل ہوئے ان کے مقابلے میں تمہاری حیثیت نہیں ہے.وہ کہتے ہیں ہمیں سمجھ آ گئی کہ یہی بات ہے لیکن اس کا اب علاج کیا ہے.حضرت عمر گوان سارے حالات کا پتہ تھا کہ بڑے اچھے خاندان کے یہ لوگ ہیں، ان کے باپ دادا نے بعض حالات میں مسلمانوں کی مددبھی کی ہوئی ہے.حضرت عمر بھی بڑے جذباتی ہو گئے.آپ سے بولا نہیں گیا.آپ نے شام کی طرف اشارہ کر کے کہا.ادھر جاؤ.وہاں اُس زمانے میں جنگ ہو رہی تھی تو بہر حال وہ سات نوجوان تھے چلے گئے اور اس جنگ میں شامل ہوئے.ملک سے ہجرت بھی کی اور جہاد بھی کیا اور شہادت حاصل کی.تو وہ مقام پایا جس کا اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر فرمایا ہے.(ملخص از تفسیر کبیر جلد 2 صفحه 477 تا 479
خطبات مسرور جلد پنجم 72 خطبہ جمعہ 16 فروری 2007ء پس جو صحابہ کی اولادیں ہیں میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے قربانیاں دیں تو انہوں نے مقام پایا.اب ہم میں صحابہ میں سے تو کوئی نہیں ہے صرف اتنا کہ دینا کہ ہم صحابی کی نسل میں سے ہیں، کافی نہیں ہوگا.اگر اس زمانے میں بعد میں آنے والے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے جہاد بھی کریں گے اور ہجرت بھی کریں گے تو وہ آپ لوگوں سے کہیں آگے نہ بڑھ جائیں.اس لئے اس طرف توجہ رکھیں اور آپ کے بڑوں نے جو قربانیاں کیں اور جس مقام کو پایا اس کو اگلی نسلوں میں بھی قائم رکھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دل میں اس کی سچی طلب اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی ہمیشہ نہ صرف خواہش پیدا ہوتی رہے بلکہ عمل کرنے کی بھی توفیق ملے.اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کرنے والے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لئے قربانیاں کرنے والے بھی ہوں تا کہ اس کی رحیمیت سے ہمیشہ فیض اٹھاتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 9 تا 15 مارچ 2007 ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 73 8 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء فرمودہ مورخہ 23 فروری 2007 ء بمطابق 23 تبلیغ 1386 ہجری کشی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وَقَ رَّحِيم.(التوبة: 128) جیسا کہ ہم جانتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی ہستی کو اپنی صفات سے ہم پر ظاہر فرماتا ہے اور مومن بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا رنگ پکڑو، میرے رنگ میں رنگین ہو.میری صفات اختیار کر وہ تبھی تم میرے حقیقی بندے کہلا سکتے ہو.اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی اعلیٰ ترین مثال کوئی شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ کسی اور فرد میں نہیں پائی جاسکتی.کیونکہ آپ ہی اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جس کے نور سے ایک دنیا نے فیض پایا، فیض پارہی ہے اور انشاء اللہ فیض پاتی چلی جائے گی تا کہ اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے.آپ فرماتے ہیں:.وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پُرزور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدق وثباتا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا.وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا“.وہ قیامت کیا تھی.مُردوں کو زندہ کرنے والی تھی.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبين جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا.اَللهُمَّ صَلَّ وَسَلّمُ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ وَاَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ “.ہو.اتمام الحجة على الذى لجّ وزاغ عن المحجّة.روحانی خزائن جلد 8 صفحه 308 پس یہ ہیں ہمارے نبی ﷺ جنہوں نے خدا تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا حقیقی پر تو بن کر دکھایا.
خطبات مسرور جلد پنجم 74 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ”اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.حقيقة الوحى.روحانی خزائن جلد (22 صفحه (119 پس آپ کی خدا تعالیٰ سے یہ انتہائی درجہ کی محبت تھی جس کی وجہ سے آپ نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھی محبت کی مخلوق کی تکلیف آپ کو گوارا نہ تھی.اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق سے اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت کے تحت سلوک فرماتا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ ذات جس کا اوڑھنا بچھونا، جس کی ہر حرکت وسکون اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھی ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے وہی سلوک روا نہ رکھتی جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کرتا ہے.آپ کے اندر خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے جو رحیمیت ، رحمانیت کے جذبات تھے، اس جذبے کے تحت جو محبت موجزن تھی ، اس کی شدت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اُسے ان الفاظ میں محفوظ فرما لیا جس کی میں نے تلاوت کی ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ یقینا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے، اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو اور وہ تم پر بھلائی چاہتے ہوئے حریص رہتا ہے ، مومنوں کے لئے بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس یہ ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ کا اسوہ اور آپ کے بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے جذبات.وہ پیارا رسول ﷺ انتہائی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے جب تم تکلیف اٹھاتے ہو یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی نہ کر کے اٹھاؤ گے.اس آیت میں کافروں اور مومنوں دونوں کے لئے جذبات کا اظہار ہے.آپ کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کیا کیا تکلیفیں تھیں جو دشمن نے آپ کو نہ دیں، آپ کے ماننے والوں کو نہ دیں.عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر ان کی ٹانگیں باندھ کر ان کو چیرا گیا.خود آپ کو انتہائی تکلیفیں پہنچائی گئیں.اڑھائی سال تک آپ کے ماننے والوں کے ساتھ ایک گھائی میں محصور رکھا گیا لیکن آپ پھر بھی ان لوگوں کی بھلائی کی خواہش کرتے تھے.دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے، انہیں سیدھے راستے پر چلائے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکیں.اپنا دفاع کیا تو صرف اس حد تک کہ وہ دفاع سے آگے نہ بڑھے، بدلہ یا دشمنی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اس کا تو شائبہ تک بھی آپ کے دل میں نہیں تھا.اور ان کو بچانے کے لئے اس حد تک بے چین تھے کہ اپنی جان ہلکان کر رہے تھے جیسا کہ قرآن کریم نے ذکر کیا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہا کہ ان کافروں کو ، مشرکین کو ، اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا لینے والے خیالات رکھنے والوں کو، خبر دار کر کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو ایک عذاب تمہارے لئے منہ کھولے کھڑا ہے.تم لوگ اس کی پکڑ کے نیچے آنے والے ہو.تو اس رحمۃ للعالمین کی حالت انتہائی کرب اور تکلیف کی حالت ہو جاتی ہے، بے چین
75 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہو ہو کر ان کے سیدھے راستے پر آنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور دعائیں کرتے ہیں اور ان کو پیغام حق پہنچاتے ہیں.لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کیوں اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کے درپے ہو؟ کیوں اپنے آپ کو جہنم کی آگ میں جھونک رہے ہو؟ اس حد تک حالت پہنچ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ( الكهف : 7) پس اگر وہ اس عظیم الشان کلام پر ایمان نہ لائیں تو کیا تو اُن کے غم میں شدت افسوس کی وجہ سے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ پس یہ سراسر رحمت کے جذبات لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے تھے اس فکر میں تھے جس نے آپ کی یہ حالت کر دی تھی کہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہے تھے.آج کوئی بتائے کہ کیا کبھی کسی کے حقیقی باپ کو بھی اپنے بچوں کی دنیا و عاقبت سنوار نے کے لئے اتنی فکر ہوتی ہے جتنی آپ کو ان لوگوں کے لئے تھی جن سے آپ کا رشتہ صرف یہ تھا کہ وہ آپ کے پیارے خدا کی مخلوق ہیں.اور اللہ کا اپنی مخلوق سے جو تعلق ہے اور ان کو شیطان کے پنجے سے بچانے کے لئے جو اس نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے ، اس کا حق ادا کرنے والے بن سکیں.صرف یہ آپ کی غرض تھی.اور پھر مومنوں کے لئے بھی آپ کتنے حریص رہتے ہیں اس کا اظہار بھی اس آیت میں ہے.ایمان لانے والوں کو دیکھ کر آپ کو بڑی خوشی ہوتی تھی اور ان کو مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے آپ رہنمائی فرمایا کرتے تھے.ہر وقت یہ فکر تھی کہ میرے ماننے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں لیٹے رہیں.حدیث میں سے ایک دو مثالیں دیتا ہوں.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، آپ مجھے کوئی دعا سکھائیں جو میں نماز میں کیا کروں.آپ نے فرمایا تو کہہ اے اللہ! یقینا میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے.تو اپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھے رحمت سے نواز.یقیناً تو ہی غفور اور رحیم ہے.(بخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام حدیث نمبر (834 | پھر ایک اور روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرشتے تم میں سے اس شخص کے لئے جو نماز والی اپنی اس جگہ پر رہتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو، بشر طیکہ وہ کوئی نا گوار بات نہ کرے، یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم فرما.(بخاری کتاب الصلوة باب الحدث في المسجد.حديث نمبر (445) | تو یہ بھی ترغیب دلانے کے لئے ہے کہ نمازوں کی طرف آؤ اللہ کی بخشش اور رحمت طلب کرو.اللہ کے پیار کو
خطبات مسرور جلد پنجم 76 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء زیادہ سے زیادہ سمیٹنے والے بنو.پھر مومنوں کے لئے رحمت بننے کے لئے آپ کے حریص ہونے کی انتہا دیکھیں.ایک روایت میں آتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے اللہ ! جس مومن کو میں نے سخت الفاظ کہے ہوں تو تو اس بات کو قیامت کے دن اس شخص کے لئے اپنے قریب ہونے کا ایک ذریعہ بنا دے.(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول النبى عال من آذيته فاجعله له زكاة و رحمة.حديث نمبر 6361) | صلى الله یعنی میری تختی بھی اس کے لئے رحمت بن جائے.تو اس حد تک آپ رؤف اور رحیم تھے کہ کہیں غلطی سے بھی یا ارادہ بھی اگر کسی وجہ سے کسی کو کچھ کہہ دیا ہے تو اس کی بھی سزا نہ ہو بلکہ وہ رحمت کا ذریعہ بن جائے.پس یہ ہیں ہمارے نبی ، جو رؤف اور رحیم ہیں.جن کو اللہ تعالیٰ نے رؤف اور رحیم کا نام دیا ہے جو اپنوں کے معیار بلند کرنے کے لئے بھی بے قرار ہیں اور غیروں کو بھی عذاب سے بچانے کے لئے بے قرار ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " جذب اور عقد ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتا ہے، اور ظل اللہ بنتا ہے اور پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں گل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لئے آپ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُم یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا.وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں“.(الحكم جلد 6 نمبر 26 صفحه 6 مورخه 24/جولائی 1902ء) پھر آپ فرماتے ہیں : ” تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ (التوبة: 128) یعنی اے کا فروا یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پاؤ“.نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحه (433 پس جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ آپ کی خواہش کا فروں کو بھی ان بلاؤں سے نجات دلانے کے لئے اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ اُن کے ایمان نہ لانے پر آپ نے اُن کی ہمدردی میں اپنی جان کو ہلکان کیا ہوا تھا.پس یہ ہے وہ انسان کامل جس کی ہمیں کہیں اور مثال نہیں ملتی.
خطبات مسرور جلد پنجم 77 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء آج آئے دن مغرب کے کسی نہ کسی ملک میں اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف مختلف طریقوں سے غلط پروپیگنڈا کر کے آپ کے مقام کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے.گزشتہ دنوں ہالینڈ کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے ایک ہرزہ سرائی کی جس میں آنحضرت ﷺ اور اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے بارے میں انتہائی بیہودہ اور ظالمانہ الفاظ کا استعمال کیا.جہاں بھی اسلام اور بانی اسلام ﷺ کے متعلق اس قسم کی بیہودہ گوئی کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ، اس ملک میں ، جماعت احمد یہ جواب دیتی ہے.ہالینڈ والوں کو بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی لکھیں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا تصور ان کے ذہنوں میں پیدا کریں تا کہ عوام کے ذہنوں سے اس اثر کو زائل کیا جائے.در اصل اسلام ہی ہے جو اس زمانے میں مذہب اور خدا کا عقلی اور حقیقی تصور پیش کرتا ہے.اس طرح اگر تو یہ لوگ جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں اس قسم کی لغو اور بیہودہ باتیں لاعلمی یا کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں تو ان کو بتائیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ زندگی کے ہر شعبے میں کیا ہے.مخلوق خدا سے ہمدردی کس طرح آپ کے پاک دل میں بھری ہوئی ہے تاکہ ان کے ذہن صاف ہوں.لیکن اگر ان کے دل صرف بغض اور کینے سے بھرے ہوئے ہیں اور کچھ سننے کے لئے تیار نہیں تو پھر اتمام حجت ہو جائے گا.بہر حال آج یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو ہر احمدی نے انجام دینا ہے.ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ جس کا میں نے ذکر کیا، اس کا جہاں تک تعلق ہے، لگتا ہے اس کے دل میں تو اسلام اور آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم اور مسلمانوں کے لئے بغض اور کینہ انتہا کو پہنچا ہوا ہے.جس کا اظہار اس نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کیا تھا.ان صاحب کا نام ہے غیرت ولڈر ز ( Geert Wilders).کیتھولک گھر میں یہ پیدا ہوا لیکن رپورٹ کے مطابق مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے.ان لوگوں کو بھی جب اپنے مذہب میں سکون نہیں ملتا اور سمجھ نہیں آتی.خدا تک تو پہنچ نہیں سکتے تو پھر اسلام کو بھی برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں، اس پر الزام تراشی شروع ہو جاتی ہے.بہر حال یہ صاحب کافی پرانے اسلامی تعلیم پر اعتراض کرنے والے ہیں.برقع کے خلاف بھی جو سب سے پہلے ہالینڈ میں مسئلہ اٹھا تھا، یہی اس میں پیش پیش تھا.بظاہر مذہب سے لاتعلق ہے لیکن اسلام کے خلاف بغض کی وجہ سے عیسائیت اور یہودیت کو بقول اس کے اسلام سے بہتر سمجھتا ہے.سمجھے لیکن اگر عقل رکھتا ہے تو اس زمانے میں جب مغربی ممالک کو تہذیب یافتہ ہونے کا دعویٰ ہے اور یہ صاحب اپنے آپ کو پڑھا لکھا بھی کہتے ہیں، ہمبر آف پارلیمنٹ بھی ہے، تو پھر دوسرے مذاہب کے بارے میں بیہودہ گوئی کرنے کا ان لوگوں کو حق نہیں پہنچتا.چند افراد کے ذاتی فعل سے اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قرآن اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں ایسی باتیں کرے کہ کوئی بھی عقلمند اور پڑھا لکھا انسان نہیں کر سکتا.مثلاً آنحضرت ﷺ کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر وہ آج ہالینڈ
78 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم میں ہوتے تو نعوذ باللہ دہشت گرد قرار دے کر ملک سے نکالتا.تم نے کیا نکالنا ہے، ہم تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ زمانہ دیکھنے والے ہو جب محمد رسول اللہ ﷺ کے نام لیواؤں کی اکثریت ہر جگہ دیکھو گے.آنحضرت ﷺ کے دعوئی سے لے کر آج تک کیا کیا کوششیں ہیں جو آپ کے مخالفین نے نہیں کیں.کیا وہ کامیاب ہو گئے ؟ آج دنیا میں ہر جگہ، ہر ملک میں ، چاہے وہاں مسلمانوں کی تعداد تھوڑی ہے یا زیادہ ہے روزانہ پانچ وقت بلند آواز سے اگر کسی نبی کا نام پکارا جاتا ہے تو وہ اس رحمتہ للعالمین کا نام ہے.جس کا دل با وجودان مخالفتوں اور مخالفین کی گھٹیا حرکتوں کے انسانیت کا حق ادا کرنے کے ناطے ہر وقت ہر ایک کے لئے ہمدردی کے جذبات سے پر تھا.پھر کہتا ہے کہ قرآن کے احکامات ایسے ہیں کہ نعوذ باللہ آدھا قرآن پھاڑ کر علیحدہ کر دینا چاہئے.ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ تم عملاً تو لا مذہب ہو لیکن جن مذاہب کو اسلام سے بہتر سمجھتے ہو، ان کی تعلیم کا قرآن کریم کی تعلیم سے موازنہ تو عقل کی آنکھ سے کر کے دیکھو.تعصب سے پاک نظر کر کے پھر قرآن کا مطالعہ کرو اور پھر سمجھ نہ آئے تو ہم سے سمجھو کہ جہلاء کو اس پاک کلام کی سمجھ نہیں آسکتی.قرآن کریم کا تو دعوی ہے کہ پہلے اپنے دلوں اور اپنے دماغوں کو پاک کرو تو پھر اس پاک تعلیم کی سمجھ آئے گی ورنہ تمہارے جیسے جہلاء تو پہلے بھی بہت گزر چکے ہیں جو اعتراض کرتے چلے گئے.وہ بھی ابوالحکم کہلاتا تھا جس کا نام قرآن نہ سمجھنے کی وجہ سے ابو جہل پڑا.اور وہ غریب مزدور، وہ غلام جو دنیا کی نظر میں عقل اور فراست سے عاری تھے اس قرآن کو سمجھنے کی وجہ سے علم و عرفان پھیلانے والے بن گئے.پس ہم تمہیں اتمام حجت کے لئے اس رؤف اور رحیم نبی کے حوالے سے توجہ دلاتے ہیں کہ وہ تم جیسے لوگوں کو بھی آگ کے عذاب سے بچانے کے لئے بے چین رہتا تھا.اس کی باتوں کو خورا اور تدبر سے پڑھو اور دیکھو، پرکھو، مجھ اور سمجھ نہ آئے تو ہم سے پوچھو اور اپنے آپ کو اُس دردناک عذاب سے بچاؤ جو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے تیار کیا ہوا ہے.جو حد سے بڑھنے والوں کے لئے مقدر ہے.اللہ کرے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے، یہ لوگ عقل کے ناخن لینے والے ہوں اور سمجھنے والے ہوں.لیکن یہ احمدیوں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس رؤف و رحیم نبی کی زندگی کے ہر حسین لمحے کی تصویر ان لوگوں تک پہنچائیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ، جسے اللہ تعالیٰ نے رؤف و رحیم قرار دیا تھا، انہوں نے دہشت گردی کی تعلیم دی ہے.ان کو بتائیں کہ اسلام کی جنگوں میں عورتوں، بچوں ، بوڑھوں کے ساتھ کیا نرمی اور احسان اور رحم کے سلوک کی اسلام کی تعلیم ہے.جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا رحم کی تعلیم ہے.اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر قیدیوں کے لئے رحم کے جذبات تھے.وہ قیدی جو جنگی قیدی تھے ، جو جنگ میں اس غرض سے شریک تھے کہ مسلمانوں
خطبات مسر در جلد پنجم 79 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء کا قتل کریں ان سے شفقت اور رحم کا سلوک ہے کہ آپ بھوکے رہ کر یا روکھی سوکھی کھا کر ان کو اچھا کھلایا جا رہا ہے.آج اس سرا پا رافت اور رحم پر یہ الزام لگانے والے یہ بتائیں کہ جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کر جو وہاں کی تمام آبادی کو جلا کر بھسم کر دیا تھا، بچے بوڑھے، عورتیں ، مریض ، سب کے سب چشم زدن میں راکھ کا ڈھیر ہو گئے تھے بلکہ اردگرد کے علاقوں میں بسنے والے بھی اس کی وجہ سے سالوں بلکہ اب تک بہت ساری خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں ، نئے پیدا ہونے والے بچے اپاہج پیدا ہورہے ہیں.کیا یہ ہیں اعلیٰ اخلاق ؟ جن کے انجام دینے والوں کو یہ لوگ امن پسند اور امن قائم کرنے والا کہتے ہیں.عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو یہ لوگ کیا نام دیتے ہیں.تم لوگ یا درکھو کہ ان تمام زیادتیوں کے باوجود اسلام کا خدا جس نے اپنے پیارے نبی ، جو ہر ایک کے لئے رؤف و رحیم تھے، پر جو تعلیم اتاری ہے، جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، وہ اتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر وہ سمجھنے والے ہوں تو سمجھ جائیں.ایک آیت کا میں ذکر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے گناہگاروں کو بھی بخشنے کے سامان فرمائے ہوئے ہیں.فرماتا ہے.إِلَّا مَنْ تَابَ وَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ.وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (الفرقان (71) سوائے اس کے جو تو بہ کرے اور ایمان لائے ، نیک عمل بجا لائے.پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدیوں کو اللہ تعالیٰ خوبیوں میں بدل دے گا.اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار با ررحم کرنے والا ہے.پس اس ارشاد کی روشنی میں ان لوگوں کو اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے.مسلمانوں کی دلآزاری کرنے کی بجائے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے.خود ان میں کتنی نیکیاں ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی ہتک کرنے کی بجائے اپنے اندر جھانکنا چاہئے.آج مغرب میں جو بے شمار برائیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ اپنے گریبان میں نہ جھانکنے کی وجہ سے ہیں.تمہارے گھروں کے چین اور سکون جو بر باد ہوئے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ نہ کرنے کی وجہ سے ہیں.اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اب بھی اپنے خدا کو پہچان لو اور اس کے پیاروں کے بارے میں بیہودہ گوئیوں سے باز آ جاؤ اور رحیم خدا کو پکارو کہ وہ بخش دے.احمدیوں سے میں پھر یہ کہتا ہوں کہ اپنے اوپر اسلام کی تعلیم لاگو کرتے ہوئے ان عقل کے اندھوں یا کم از کم ان لوگوں کو جو ان کے زیر اثر آ رہے ہیں اور خدا کے پیاروں سے ہنسی ٹھٹھے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ، ان کو سمجھائیں کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو نہ تمہاری بقا ہے اور نہ تمہارے ملکوں کی بقا ہے.کوئی اس کی ضمانت نہیں.پس اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو
خطبات مسرور جلد پنجم 80 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء اس محسن انسانیت اور اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی ﷺ کی ذات پر حملے بند کرو ، اس سے تعلق پیدا کرو.اگر تعلق نہیں بھی رکھنا تو کم از کم شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ خاموش رہو.جنگوں کے علاوہ موسمی تغیرات کی وجہ سے بھی آجکل دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے.ہالینڈ تو وہ ملک ہے جس میں اس لحاظ سے بھی شرک بڑھا ہوا ہے کہ یہاں کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ باقی دنیا کو تو خدا نے بنایا ہے لیکن ہالینڈ کو ہم نے بنایا ہے.سمندر سے کچھ زمین نکال لینے کی وجہ سے ان کے دماغ الٹ گئے ہیں.یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا اکثر حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے.جب طوفان آتے ہیں ، جب آفات آتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے عذاب آتے ہیں تو پھر وہ پہاڑوں کو بھی غرق کر دیتے ہیں.پس ان لوگوں کو بھی اور دنیا میں ہر جگہ انسانیت کو اس حوالے سے خدا کے قریب لانے کے لئے احمدی کی ذمہ داری ہے.اپنی ذمہ داری کو بھی سمجھیں اور خود بھی اس نبی ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے رحم کے جذبے کے تحت انسانیت کو بچانے کی فکر کریں.دنیا کو ایک خدا کی پہچان کروائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو بہ کرنے والے، ایمان لانے والے اور پھر ایمان پر قائم رہتے ہوئے صالح عمل کرنے والے ہی ہیں جن کی بخشش ہو سکتی ہے.پس یہ پیغام عام کر دیں ورنہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے پیارے پر ظالمانہ حملے کر کے عذاب کو دعوت دے رہی ہے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ارضی و سماوی آفات کی خبر اپنی صداقت کے طور پر بھی دی ہے.اس لئے بڑے خوف کا مقام ہے اور دنیا کو بڑی شدت سے متنبہ کرنے کی ضرورت ہے.آنحضرت ﷺ کا مقام ان پر واضح کرنے کی ضرورت ہے.اس نور کو دکھانے کی ضرورت ہے جس نے اُجڈ اور جاہل عرب کو اس زمانے میں مہذب ترین اور باخدا بنادیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دنیا میں ایک رسول آیا تا کہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صد ہا سال سے بہرے ہیں.کون اندھا ہے اور کون بہرا، وہی جس نے تو حید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر تو حید کو قائم کیا.وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے با اخلاق انسان یعنی بچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا.اور پھر با اخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الہی رنگ سے رنگین کیا.وہی رسول، ہاں و ہی آفتاب صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں مُردے شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اٹھے اور عملی طور پر قیامت کا نمونہ دکھلایا.نہ یسوع کی طرح صرف لاف و گزاف.جس نے مکہ میں ظہور فرما کر شرک اور انسان پرستی کی
خطبات مسرور جلد پنجم 81 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء بہت سی تاریکی کو مٹایا.ہاں دنیا کا حقیقی نور وہی تھا جس نے دنیا کو تاریکی میں پا کر فی الواقع وہ روشنی عطا کی کہ اندھیری رات کو دن بنا دیا.اس کے پہلے دنیا کیا تھی اور پھر اس کے آنے کے بعد کیا ہوئی ؟ یہ ایک سوال نہیں ہے جس کے جواب میں کچھ دقت ہو.اگر ہم بے ایمانی کی راہ اختیار نہ کریں تو ہمارا کانشنس ضرور اس بات کے منوانے کے لئے ہمارا دامن پکڑے گا کہ اس جناب عالی سے پہلے خدا کی عظمت کو ہر ایک ملک کے لوگ بھول گئے تھے اور اس بچے معبود کی عظمت اوتاروں اور پتھروں اور ستاروں اور درختوں اور حیوانوں اور فانی انسانوں کو دی گئی تھی اور ذلیل مخلوق کو اس ذوالجلال وقدوس کی جگہ پر بٹھایا تھا اور یہ ایک سچا فیصلہ ہے کہ اگر یہ انسان اور حیوان اور درخت اور ستارے درحقیقت خدا ہی تھے جن میں سے ایک یسوع بھی تھا تو پھر اس رسول کی کچھ ضرورت نہ تھی.لیکن اگر یہ چیزیں خدا نہیں تھیں تو وہ دعوئی ایک عظیم الشان روشنی اپنے ساتھ رکھتا ہے جو حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے پہاڑ پر کیا تھا.وہ کیا دعوی تھا وہ یہی تھا کہ آپ نے فرمایا کہ خدا نے دنیا کو شرک کی سخت تاریکی میں پا کر اس تاریکی کو مٹانے کے لئے مجھے بھیج دیا.یہ صرف دعوی نہ تھا بلکہ اس رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعوی کو پورا کر کے دکھلا دیا.اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہوسکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو ! اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں.اندھے مخلوق پرستوں نے اس 1......بزرگ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے.لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے.چاہو تو میری بات کولکھ رکھو کہ اب کے بعد مردہ پرستی روز بروز کم ہوگی یہاں تک کہ نابود ہو جائے گی.کیا انسان خدا کا مقابلہ کرے گا؟.کیا نا چیز قطرہ خدا کے ارادوں کو رد کر دے گا؟.کیا فانی آدم زاد کے منصوبے الہی حکموں کو ذلیل کر دیں گے؟ اے سنے والو سنو! اور اے سوچنے والو سوچو! اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہوگا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه 8-9 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ پیغام، پیغام تو حید ہے جو آج ہم نے ان سب تک پہنچانا ہے جو عقل اور شرافت رکھتے ہیں.جن کے لئے ہمیں اب پہلے سے بڑھ کر کمر ہمت کسنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے یہ منصوبے ہیں جو حرکت میں آچکے ہیں اور ہم ہر روز اس کے نظارے دیکھتے ہیں، دیکھ رہے ہیں.ہماری تو یہ حقیر سی کوشش ہوگی جو ہمیں ثواب کا مستحق بنائے گی.آخر میں پھر میں ان بڑبولوں تک جو آنحضرت ﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ پہنچانا چاہتا ہوں.آپ فرماتے ہیں :.
خطبات مسرور جلد پنجم 82 خطبہ جمعہ 23 فروری 2007ء مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریم کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور ان کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ ان کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت تو ہین سے اس کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ سے ان کو یاد کرتے ہیں.آپ یا درکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں.کیونکہ وہ اُن کی راہ میں کانٹے ہوتے ہیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہے مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے.وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بد زبانی میں ہی فتح ہے.مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 385 ) انشاء اللہ وہ فتح تو آنی ہے.ہر احمدی یہ پیغام ایسے لوگوں تک بھی اور ملک کی دوسری آبادی تک بھی پہنچا دے کہ یہ لوگ جو اس قسم کی باتیں کرنے والے ہیں نہ تمہارے خیر خواہ ہیں نہ ملک کے خیر خواہ ہیں.نہ دنیا میں امن وسلامتی کے چاہنے والے ہیں بلکہ فتنہ پرداز لوگ ہیں بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف دنیا میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کو ہر شر سے محفوظ رکھے.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 16 تا22 مارچ 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 83 9 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007 ء فرمودہ مورخہ 2 /مارچ 2007ء بمطابق 2 رامان 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبے میں میں نے آنحضرت ﷺ کے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے کامل پر تو ہونے کا کچھ ذکر کیا تھا.کہ وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے رؤف و رحیم کہہ کر پکارا ہے، جو اپنوں اور غیروں کے لئے بے انتہا رحم کے جذبات لئے ہوئے تھا، آپ کی زندگی ان واقعات سے بھری پڑی ہے جب معمولی سے معمولی بات پر بھی آپ کا جذبہ رحم موجزن نظر آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا درد دل میں محسوس کرتے ہوئے یہ رحمۃ للعالمین اور رؤف و رحیم مخلوق کا درد دُور کرنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے.گزشتہ خطبہ میں ہیں نے احادیث سے چند مثالیں پیش کی تھیں.آج چند اور احادیث پیش کروں گا.یہ مختلف مثالیں ہیں جو آپ کی سیرت کے اس پہلو پر روشنی ڈالتی ہیں.لیکن عقل کے اندھے پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ میں رحم کا جذ بہ نہیں تھا.ہم دیکھیں گے کہ بعض ایسی معمولی باتیں ہیں جن پر دنیا کی نظر میں ایسے شخص کو جو اس مقام پر پہنچا ہو جہاں اس کے ماننے والے دیوانوں کی طرح سب کچھ اس پر قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوں، ان باتوں کے کرنے کا کبھی خیال آ ہی نہیں سکتا.آپ کے ماننے والوں کا ، مومنین کا آپ کے لئے جو جذ بہ تھا وہ دنیا کی نظر میں شاید دیوانگی ہو لیکن عشق و محبت کی دنیا میں یہ عشق و محبت کی انتہا ہے.اس کی ایک مثال دیتا ہوں جس کو غیر نے بھی محسوس کیا اور اپنے لوگوں کو جا کر کہا کہ ان لوگوں کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے جو اس دیوانگی کی حد تک آپ سے عشق کرتے ہیں کہ آپ کے وضو کے پانی کے قطروں کو زمین پر پڑنے سے پہلے ہی اُچک لیتے ہیں.اگر کوئی دنیا دار ہو تو اس اظہار کے بعد دوسروں کے لئے محبت و نرمی اور رحمت کے جذبات رکھنے کی بجائے خودسری اور خود پسندی میں بڑھ جائے.لیکن ہم قربان جائیں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے کہ آپ اس کے باوجو د رحمت کے جذبے کے ساتھ اپنے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لئے قربانیوں پر قربانیاں کر رہے ہیں، ان پر اپنی رحمت کے پر پھیلا رہے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے طریقے سکھا رہے ہیں.اس خیال سے بے چین ہورہے ہیں کہ کہیں مجھ سے کسی کو کبھی تکلیف نہ پہنچ جائے.اللہ تعالیٰ نے میرا نام رحمتہ للعالمین رکھا ہے تو رحمتیں اور شفقتیں مجھ سے نکلنی چاہئیں اور دوسروں کو پہنچنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ سے مومنوں کے لئے رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگ رہے ہیں، ان کی تکلیفوں پر پریشان ہورہے ہیں.کوئی ایسا نہیں
84 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم جو اس نبی ﷺ کی رافت اور رحمت کا رہتی دنیا تک مقابلہ کر سکے بلکہ اس کا عشر عشیر کیا، ہزارواں ، لاکھواں حصہ بھی دکھا سکے.اس سراپا رحمت کا ایک واقعہ جو بظاہر معمولی لگتا ہے لیکن اپنے ایک معمولی چاکر کے لئے نرمی و رحمت کے جذبات کی ایک ایسی تصویر کھینچتا ہے جو بڑے بڑے نرم دل اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنے والوں میں ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آ سکتا.ایک روایت میں آتا ہے ، حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہا ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ حنین کے روز ایک مرتبہ میری وجہ سے نبی کریم ﷺ کا راستہ تنگ ہو گیا.اس وقت میں نے موٹے چمڑے کا جوتا پہنا ہوا تھا.میرا پاؤں رسول اللہ ﷺ کے پاؤں پر آ گیا تو آپ نے اس کوڑے کے ساتھ جو آپ نے پکڑا ہوا تھا مجھے جلدی سے پیچھے ہٹایا اور کہا بسم اللہ تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے.راوی کہتے ہیں میں نے وہ رات اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے گزار دی.میں اپنے دل میں بار بار سوچتا تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دی ہے.جب صبح ہوئی تو ایک شخص آیا اور پوچھا کہ فلاں کہاں ہے؟ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ میں یہاں ہوں اور ان کے ساتھ چل پڑا.آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا.رسول اللہ ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تم نے کل اپنی جوتی سے میرے پاؤں کو لتاڑ ہی دیا تھا اور تم نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی لیکن میں نے تمہیں کوڑے کے ساتھ اپنے پاؤں سے پیچھے کیا تھا.تو یہ جو ہلکا سا کوڑا میں نے تمہیں مارا تھا یہ اسی (80) دنبیاں ہیں، بکریاں ہیں، بھیڑیں ہیں انہیں اس کے بدلہ میں لے لو.(السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 473 باب ما يذكر فيه صفة الله الله الباطنة وان شاركه فيها غيره.دار الكتب العلمية بيروت) تو دیکھیں اس رحمتہ للعالمین کا اپنے چاکروں سے کیا حسن سلوک ہے.تکلیف بھی آپ کو پہنچی ہے.اس تکلیف سے اپنے پاؤں کو آزاد کروانے کے لئے ہلکے سے کوڑے کے اشارے سے دوسرے کا پاؤں پیچھے ہٹایا ہے تو ساری رات آپ کے دل میں یہ خیال رہا کہ چاہے یہ ہلکا سا کوڑا ہی سہی.میں نے یہ کیوں مارا.اس سے اس کو تکلیف پہنچی ہوگی.اپنی تکلیف کا کوئی احساس نہیں رہا.جس کوکوڑا مار وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہے.وہ ساری رات سونہیں سکا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو تکلیف پہنچائی ہے.لیکن یہ سراپا رحمت صبح اٹھ کر کہتے ہیں کہ تمہیں میرے ذریعہ سے تھوڑی سی جو تکلیف پہنچی تھی یہ اس کا بدلہ ہے.یہ اسی (80) بھیٹریں ہیں یہ لے لو.پھر دیکھیں آپ کی مجلس میں آنے والے ایک بدو کا رویہ جو ادب آداب سے بالکل نابلد تھا بلکہ لگتا ہے لوگ سیکھنا نہیں چاہتے تھے.ان لوگوں کو اپنے اکھڑ پن پر بہت زیادہ فخر تھا.لیکن اس رویہ کے باوجود کیا شفقت کا سلوک تھا جو آپ نے اس سے فرمایا اور اس کی حاجت براری فرمائی.روایت میں آتا ہے.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی معیت میں تھا.آپ نے ایک موٹے کنارے والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی.ایک بدو نے اس چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں کے نشان آپ کی گردن پر پڑ گئے.پھر اُس نے کہا اے محمد ! (ﷺ)
خطبات مسر در جلد پنجم 85 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے آپ کو عنایت فرمایا ہے ان دو اونٹوں پر لاد دیں کیونکہ آپ نہ تو مجھے اپنے مال میں سے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیں گے.پہلے تو نبی کریم ﷺ خاموش رہے.پھر فرمایا.اَلْمَالُ مَالُ اللهِ وَأَنَا عَبُدُہ.مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں.پھر آپ نے فرمایا تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا.بد و نے کہا: نہیں.تو آپ نے فرمایا کہ کیوں؟ تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا.اس بد و نے کہا اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے.اس پر نبی کریم ﷺ ہنس پڑے.پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجور میں لا ددی جائیں.(الشفاء لقاضي عياض.الباب الثاني في تكميل الله تعالى...الفصل واما الحلم جلد اول صفحه 74.دار الكتب العلمية بيروت (2002ء) تو دونوں لا ددیئے.یہ بد و بھی کوئی بے وقوف نہیں تھا.اسے پتہ تھا کہ جو چاہے آپ کے سامنے بول لوں.جیسا بھی سلوک کرلوں اس سراپا رحمت کی طرف سے صرف عفو اور درگز راور رحمت کا اظہار ہی ہونا ہے.پھر مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف ہر وقت متوجہ رکھنے کے لئے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لیتے رہیں آپ مختلف طریقوں سے توجہ دلاتے تھے.پہلی قوموں پر جو سماوی آفات کے ذریعہ سے عذاب آتے رہے اور جس کے ذریعہ سے ان کے نام ونشان صفحہ ہستی سے مٹ گئے ان کا کیونکہ آپ کو سب سے زیادہ احساس تھا اور خیال فرماتے تھے کہ مجھے ماننے والے یا ارد گرد کے رہنے والے آج بھی کسی غلطی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے نہ آ جا ئیں.اس لئے جب بھی کبھی ہوایا آندھی یا بارش کو دیکھتے تو خود بھی اللہ تعالیٰ کا رحم طلب کرتے ، دعاؤں میں لگ جاتے اور مسلمانوں کو بھی نصیحت فرماتے کہ اس کا رحم طلب کرو کہ یہ ہوا، آندھی یا بارش جو آ رہی ہے یہ کہیں اللہ تعالی کا غضب لانے والی ، عذاب لانے والی نہ ہو.پس جب بھی ہوا یا بارش دیکھتے تو اللہ تعالیٰ کا رحم طلب فرماتے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم ہوا کو بُرا بھلا نہ کہا کرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو کہ رحمت اور عذاب دونوں کو لاتی ہے.لیکن اللہ سے اس کی خیر چاہا کرو (اور جب اسے دیکھو اللہ سے اس کی خیر چاہا کرو ) اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو.(سنن ابن ماجه کتاب الادب باب النهي عن سبّ الريح حديث نمبر (3727 عطاء بن ابی رباح نے حضرت عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس دن میں ہوا چلتی ، بادل آتے تو آپ کے چہرے پر اس کے آثار نظر آتے اور آپ کبھی تشریف لاتے اور کبھی چلے جاتے.یعنی پریشانی میں ٹہلتے رہتے.جب بارش ہوتی تو اس کی وجہ سے آپ خوش ہو جاتے اور پریشانی آپ سے جاتی رہتی.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ یہ کوئی عذاب نہ ہو جو میری امت پر مسلط کر دیا جائے.اور آپ بارش کو دیکھ کر کہتے کہ اب رحمت ہے.(صحيح مسلم كتاب صلاة الاستسقاء باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم والفرح بالمطر حدیث نمبر (1968
86 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم اس سراپا رحمت نے اس موقع پر خود بھی دعائیں کیں اور جود عا ئیں سکھائیں.وہ ایک دو میں یہاں نمونہ پیش کرتا ہوں.ایک دعا آپ نے آندھی، ہوا، بارش اور طوفانوں کو دیکھ کر یہ سکھائی کہ اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْئَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَمَا فِيهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ وَاَعُوذُبِكَ مِنْ شَرِهَا وَ شَرِّمَا فِيهَا وَ شَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ.(صحیح مسلم کتاب صلاة الاستسقاء باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم والفرح بالمطر حديث نمبر (1969 کہ اے اللہ میں تجھ سے اس کی ظاہری و باطنی خیر و بھلائی چاہتا ہوں اور وہ خیر بھی چاہتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اور میں اس کے ظاہری و باطنی شر سے اور اس شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے.پھر ایک دعا آپ نے یہ سکھائی کہ اَللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ وَ فَجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ.(صحیح مسلم کتاب الرقاق باب اكثر اهل الجنة الفقراء واكثر اهل النار النساء و بيان الفتنة بالنساء حديث نمبر (6838 کہ اے اللہ میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے، تیری اچانک سزا اور ان سب باتوں سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تو ناراض ہو.پھر دیکھیں اس سراپا رحمت نے ایک غریب عورت کو جو قریب المرگ تھی ، اپنی رحمت اور دعاؤں سے نوازنے کے لئے کیا سلوک فرمایا اور پھر وفات کے بعد بھی اس کے لئے مغفرت کی دعا کی اور رحمت کے جذبات کا اظہار فرمایا.ایک روایت میں آتا ہے.ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابوامامہ نے بتایا کہ مدینہ کی بیرونی بستیوں کی غریب عورت بہت بیمار پڑگئی.نبی کریم ﷺ اس کی صحت کے بارے میں صحابہ سے دریافت فرمایا کرتے تھے.آپ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ خاتون فوت ہو جائے تو اُس وقت تک اس کو دفن نہ کرنا جب تک میں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھ لوں.چنانچہ وہ فوت ہوگئی.رات کے وقت فوت ہوئی اور صحابہ اس کا جنازہ رات گئے مدینہ لائے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کوسو یا ہوا پایا.انہوں نے آپ کو جگانا پسند نہیں کیا.چنانچہ انہوں نے اس کی نماز جنازہ خود ہی پڑھی اور جنت البقیع میں دفن کر دیا.جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے.اس پر رسول اللہ ﷺ نے اس خاتون کے بارے میں دریافت فرمایا.انہوں نے کہا یا رسول اللہ اسے تو دفن کر دیا ، وہ رات فوت ہو گئی تھی.ہم آپ کے پاس آئے تھے مگر آپ کو سوئے ہوئے پایا تو ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا.اس پر آپ نے فرمایا مجھے اس کی قبر پر لے چلو.چنانچہ آپ وہاں گئے اور قبرستان میں جا کر اس کی قبر جو آپ کو دکھائی گئی تو رسول اللہ ﷺ وہاں کھڑے ہو گئے.صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے.اور آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس نماز جنازہ میں چار تکبیر میں کہیں.(سنن النسائى كتاب الجنائز باب الصلاة على الجنازة بالليل حدیث نمبر (1969
خطبات مسرور جلد پنجم 87 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا اگر کسی کے بارے میں کہوں کہ میں جنازہ پڑھاؤں گا.مجھے بتا دینا تو بتا دیا کرو.ویسے بھی بتانا چاہئے کہ اگر تم میں سے کسی کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو جب تک مجھے آگاہ نہ کرو گے میں اس وقت تک کیسے آسکوں گا.میری دعا فوت شدہ کے لئے باعث رحمت ہے.پھر آپ قبر پر تشریف لے گئے اور چار تکبیریں کہیں اور نماز جنازہ پڑھائی.(سنن ابن ماجه كتاب الجنائز باب ما جاء في الصلواة على القبر حدیث نمبر (1528 پھر بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا ذکر کر کے اپنی اُمت کو ان نیکیوں کے بجالانے کی طرف توجہ دلاتے تھے تا کہ وہ جس ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر سکیں اور اس کی رحمت سے حصہ لے سکیں ، لے لیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے راستہ میں ایک خار دار درخت کی شاخ پڑی دیکھی تو اس نے کہا اللہ کی قسم ! میں اس کو ضرور ہٹا دوں گا تا اس سے مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچے.اس پر اس کو جنت میں داخل کر دیا گیا.(صحیح مسلم كتاب البر والصلة باب فضل ازالة الاذى عن الطريق حديث نمبر (6565 اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کے اجر کو بھی خالی نہیں چھوڑا.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے رحمت کا سلوک فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں ہر عمل کی جزا دوں گا تو اس عمل کو بھی خالی نہیں چھوڑا.اللہ تعالی کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی یا بڑی سے بڑی نیکی بغیر جزا کے نہیں چھوڑتا.پھر ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی راستے پر چلا جار ہا تھا اس کو شدید پیاس محسوس ہوئی اسے ایک کنواں نظر آیا.اس نے اُس میں اتر کر پانی پیا.جب وہ باہر نکلا تو اس نے ایک کتے کو دیکھا جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی شدت کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا تھا.اس شخص نے کہا کہ اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جس طرح مجھے لگی ہے.وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھر کر اپنے منہ کے ذریعہ سے اس کو پکڑا اور کتے کو اس سے پانی بلایا.اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہمارے لئے جانوروں میں بھی اجر ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہر جاندار میں اجر مقدر ہے.(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم حديث نمبر (6009 پس کوئی بھی عمل ضائع نہیں ہوتا.ہر عمل جو نیک نیتی سے کیا جائے اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت کے صدقے ضرور است کا بدلہ دیتا ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.مختلف طریقوں میں مجالس میں جب بیٹھے ہوتے تھے، آپ تشریف فرما ہوتے تھے، لوگ سوال کرتے تھے آپ جواب دیتے تھے اور تربیتی نصیحت بھی فرماتے تھے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں
خطبات مسرور جلد پنجم 88 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی کا بوسہ لیا اور آپ کے پاس اقرع بن حابس التمیمی بیٹھے ہوئے تھے.تو اقرع نے کہا میرے دس بچے ہیں میں نے کبھی بھی ان میں سے کسی کو نہیں چوما.تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا جو تم نہیں کرتا ، اس پر رحم نہیں کیا جاتا.“ (صحيح بخارى كتاب الأدب باب رحمة الولد وتقبله ومعانقته.حديث نمبر 5997) بچوں کو پیار کرنا ، ان کی تربیت کرنا یہ بھی ایک رحم کے جذبے کے تحت ہونا چاہئے.اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کے رحم کو سمیٹنے والی ہے.اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرنے والی ہے.رض عبد الله بن بسر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے والد کے ہاں بطور مہمان تشریف لائے ہم نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا جسے آپ نے تناول فرمایا.پھر آپ کے پاس کھجور میں لائیں گئیں آپ انہیں کھاتے جاتے تھے اور اپنی دوانگلیوں سے ( شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے گٹھلیاں ایک طرف رکھتے جاتے تھے.پھر آپ کے پاس مشروب لایا گیا.جسے آپ نے پینے کے بعد اپنے داہنے ہاتھ بیٹھے ہوئے شخص کو دیا.میرے والد نے آپ کی سواری کی لگا میں پکڑے ہوئے عرض کیا کہ ہمارے لئے دعا کریں.آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ ! جو تو نے انہیں رزق عطا کیا ہے اس میں ان کے لئے برکت ڈال دے اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما.(سنن الترمذى كتاب الدعوات باب فى دعاء الضيف حديث نمبر (3576 آپ کو علم تھا کہ آپ کی دعا ان لوگوں کی زندگیاں بھی سنوارنے والی ہے اور عاقبت سنوارنے کے لئے بھی بہت ضروری ہے.اور شکر گزاری کے جذبات سے بھی آپ کا دل بھرا ہوا تھا.جو خدمت انہوں نے اس وقت کی اس کا تقاضا تھا کہ ان کو اس سے بہت بڑھ کر دیا جائے.اور آپ کی دعاؤں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل کو اور رحم کو سمیٹنے والی اور کیا چیز ہوسکتی تھی جس کی برکتیں ان کے بھی اور ان کی نسلوں کے بھی ہمیشہ کام آنے والی تھیں.وضین سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! ہم جاہل تھے اور بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ہم اپنے بچوں کو قتل کیا کرتے تھے.میری ایک بیٹی تھی.جب وہ جواب دینے کی عمر کو پہنچی اور جب میں اُسے بلاتا تو وہ بڑی خوش ہوتی.ایک دن میں نے اسے بلایا تو وہ میرے پیچھے ہولی.میں چلتا گیا یہاں تک کہ میں اپنے خاندان کے کنویں تک آپہنچا جو زیادہ دور نہ تھا.چنانچہ میں نے اپنی بیٹی کو اس کے ہاتھ سے پکڑ کر اس کنویں میں پھینک دیا اور میں نے جو اس کی آخری آواز سنی وہ یھی کہ وہ کہہ رہی تھی کہ اے میرے ابا ! اے میرے اتبا.رسول اللہ ﷺ رو پڑے.آپ کے آنسو آہستہ آہستہ بہنے لگے.اُس وقت رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں جو لوگ بیٹھے تھے اُن میں سے ایک شخص نے کہا کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کو نمگین کر دیا ہے.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم
89 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم خاموش رہو، یہ مجھ سے ایسے معاملے کے بارے میں سوال کر رہا ہے جو اس کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے.پھر آنحضور ﷺ نے کہا کہ اپنا قصہ دوبارہ مجھے سناؤ.چنانچہ اس نے سارا واقعہ دوبارہ سنایا.اس واقعہ کو دوبارہ سن کر آنحضور کے آنسو آپ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آپ کی داڑھی تک جا پہنچے.پھر آنحضور نے اس کو کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اعمال سے در گزر فرمایا ہے.پس اب تم نئے سرے سے اعمال کا آغاز کرو.(سنن الدارمی باب نمبر 1.ماكان عليه الناس قبل مبعث النبي عن الجهل والضلالة.حديث نمبر (2 یہ معاملہ اس کے لئے اہمیت کا حامل اس لئے تھا کہ وہ اس لئے حاضر ہوا تھا کہ کیا اتنے بڑے بڑے گناہ کرنے کے بعد بھی میرے بخشے جانے کا ، مجھ پر اللہ کی رحمت کے نازل ہونے کا ، رحمت سے حصہ لینے کا کوئی امکان ہے؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ جہالت کا زمانہ تھا وہ گزر گیا.اب نیک اعمال کرو گے، صالح عمل بجالاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پاتے چلے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ تمہارے لئے رحمت کے سامان فرمائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہوں نے توبہ کی اور نیک عمل کئے ، آئندہ کے لئے اگر وہ نیک اعمال کی ضمانت دیں تو ان کو میں بخش دوں گا.پھر عورتوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے ، ان سے رحم کا سلوک کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے ایک مثال دی ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں سے بھلائی سے پیش آیا کرو.عورت یقینا پسلی سے پیدا کی گئی ہے.پہلی کے اوپر کے حصہ میں زیادہ کبھی ہوتی ہے.اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے.اور تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی.پس تم عورتوں سے بھلائی سے ہی پیش آؤ.(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء با ب خلق آدم صلوات الله علیه و ذريته حدیث نمبر (3331 مقصد یہ ہے کہ جس کام کے لئے وہ بنائی گئی ہے، جس شکل میں وہ بنائی گئی ہے اسی سے اس سے کام لو گے تو بہتر رہے گی.پہلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں تو پسلیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور جس مقصد کے لئے بنائی گئی ہیں یعنی انسان کے جسم کے اس حصہ کی حفاظت وہ نہیں کر سکتی جس میں دل بھی آتا ہے پھیپھڑے بھی ہیں یا اور چیزیں بھی ہیں.اسی طرح اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ اپنے گھروں کی حفاظت کرو، اپنے بچوں کی تربیت و نگہداشت صحیح طریقے سے کرو، ان کے پالنے کے صحیح سامان کرو تو عورت کو جس شکل میں وہ ہے اس سے کام لو.چھوٹی چھوٹی باتوں پر عورتوں کو موردالزام ٹھہرانا، ان کے نقص نکالنا، جھگڑے پیدا کرنا، مسائل پیدا کرنا یہ باتیں تمہارے گھروں کو بھی برباد کرنے والی ہے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھی محروم کرنے والی ہیں.اس لئے فرمایا اس سے اسی طرح کام لو جس طرح اس کی شکل ہے.اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے کسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے مطابق ہی اُس کو شکل عطا کی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا (النساء : (37) کہ تم الله تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ کیونکہ إِنَّ الشَّرُكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان: 14) شرک بہت بڑا
خطبات مسرور جلد پنجم 90 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007 ء ظلم ہے.وہ ہستی جس نے کائنات کو پیدا کیا تمہارا رب ہے، تمہیں پالنے والا ہے.اپنی رحمانیت کے صدقے ہماری ضروریات کی تمام چیزیں اس نے مہیا کی ہیں.پس یہ چیز تقاضا کرتی ہے کہ اس بات پر اس کی شکر گزاری کرتے ہوئے اس کے آگے جھکوتا کہ اس کی رحیمیت سے بھی حصہ پاؤ، ورنہ تم اپنے آپ پر بڑا ظلم کرنے والے ہو گے.اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر دوسروں کو اپنا رب سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے فیض پانے کی بجائے اس سے دور ہٹ رہے ہو گے، اپنی عاقبت خراب کر رہے ہو گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمام گناہ بخش دوں گا.لیکن شرک کا گناہ نہیں بخشوں گا.پھر فرمایا.إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ (النساء : 49) الله تعالى اس گناہ کو ہر گز نہیں بخشے گا کہ اس کا کسی کو شریک بنایا جائے اور جو گناہ اس کے علاوہ ہیں ان کو جس کے حق میں چاہے گا معاف کر دے گا.پس اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے ہر قسم کے شرک سے، وہ ظاہری ہے یا مخفی ہے، بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو اس بارے میں کس طرح نصیحت فرمائی ہے کہ ہر قسم کے شرک سے بچتے رہیں ، اس کا ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے.حضرت معاذ بن جبل روایت کرتے ہیں کہ میں گدھے پر سوار تھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے.آپ نے مجھے فرمایا اے معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے.میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.( یہ بھی صحابہ کا ایک طریقہ تھا.) آپ نے فرمایا کہ بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں.اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جب وہ یہ اعمال کر لیں تو وہ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے.(سنن ابن ماجه كتاب الزهد باب ما يرجى من رحمة الله يوم القيامة.حديث نمبر (4296 لیکن بد قسمتی ہے کہ آجکل مسلمانوں کی بڑی تعداد مخفی شرک میں مبتلا ہے.گدی نشینوں ، پیروں فقیروں کے پاس جا کر یا قبروں پر جا کر دعائیں مانگتے ہیں.وہ بزرگ جن کی قبروں پہ جاتے ہیں ان کو اپنی نجات کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.بہت سارے ایسے ہیں جو اپنی ساری زندگی وحدانیت کی تعلیم دیتے رہے مگر ان کے مزاروں پر جا کر شرک کیا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کو جذب کرنے کے لئے عذاب سے بچنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ جو ہر قسم کے شرک ہیں ان سے بچو.اور ہمارا ہر احمدی کا یہ بھی فرض ہے کہ اس کے خلاف ہمیشہ جہاد کرتا رہے.بعض احمد یوں میں بعض جگہوں پر یہ باتیں پیدا ہو جاتی ہیں.بعض لوگوں کو جادو ٹونے ٹوٹکے دم درود کی طرف بہت زیادہ اعتقاد بڑھ گیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا.اس لئے اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے.اب میں چند واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آپ کے سامنے رکھوں گا کہ آپ کا سینہ ودل لوگوں کے لئے ہمدردی کے جذبات سے کس طرح پر تھا.اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت پر چلتے ہوئے ، آپ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے آپ نے کیا نمونے دکھائے.
91 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ باہر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کر کے تشریف لائے تو بہت سارے لوگ وہاں جمع تھے اُن لوگوں میں ایک سائل تھا، سوالی جو سوال کیا کرتا تھا.اس نے سوال کیا ، آواز لگائی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لوگوں کے رش کی وجہ سے صحیح طرح سے سن نہ سکے.تو جب اندر گئے تو احساس ہوا کہ سوالی نے ایک سوال کیا تھا تو آپ باہر آئے اور پوچھا تو لوگوں نے کہا وہ تو چلا گیا ہے.پھر آپ اندر چلے گئے اس وقت کہا کہ اسے تلاش کر دیا پھر تھوڑی دیر کے بعد سوالی پھر آ گیا.آپ باہر آئے اس کی ضرورت پوری کی اور فرمایا میرا دل بڑا سخت بے چین تھا، ہمیں دعا مانگ رہا تھا کہ وہ دوبارہ آئے اور میں اس کی ضرورت پوری کرسکوں.(ماخوذ از سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه 72-73) پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی ایک واقعہ کابل کی آئی ہوئی ایک لڑکی کا بیان کیا.اس کی آنکھیں سخت دُکھنے آ گئیں اور وہ دوائی نہیں لگواتی تھی.ایک دن اس کی ماں ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تو وہ دوڑ کر آگئی کہ نہیں میں تو حضرت صاحب سے ہی علاج کرواؤں گی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوئی اور روتی جاتی تھی اور اپنی آنکھوں کی درد اور سرخی کی تکلیف بیان کر رہی تھی.اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کر رہی تھی کہ آپ میری آنکھوں پر دم کر دیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دیکھا تو واقعی اس کی آنکھیں بڑی سخت تکلیف میں تھیں، دکھ رہی تھیں.آپ نے اپنا تھوڑا سا لعاب دہن انگلی پر لگا کے اس کی آنکھ پر رکھا اور دعا کی اور فرمایا: بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف کبھی نہیں ہوگی.چنانچہ وہ کہتی ہیں وہ تکلیف آئندہ مجھے کبھی نہیں ہوئی.رض (ماخوذ از سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه 83-284 تو ہر وقت ہر ایک کے لئے بچہ ہو، چھوٹا ہو، بوڑھا ہو، آپ میں جذبہ رحم تھا.جذ بہ رحم کے تحت ہی آپ دعا بھی کرتے تھے ، علاج بھی کرتے تھے اور ان کی تکلیفیں دور کرنے کی کوشش فرماتے تھے.پھر حضرت میر محمد الحق صاحب کا بچپن کا واقعہ ہے وہ سخت بیمار ہو گئے تو آپ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاسنی اور الہام ہو اسلام قَوْلًا مِّن رَّبِّ رَّحِیم یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے.چنانچہ میر صاحب صحت یاب ہوئے.(ماخوذ از سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه 286 287) جہاں یہ قبولیت دعا کے واقعات ہیں وہاں جس رحم کے جذبے کے تحت آپ دعا مانگا کرتے تھے اس کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے.
92 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم حضرت حکیم مفتی فضل الرحمن صاحب بیان فرماتے ہیں کہ 1907ء میں میراد وسرالڑ کا عبدالحفیظ پیدا ہوا.توان دنوں میں عورتوں میں بچوں کی پیدائش کے بعد شیخ کی بیماری بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی تو میری بیوی کو بھی بیماری ہوئی.کہتے ہیں میں دوڑا دوڑا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے ایک دوائی دی.میں نے کھلائی.کوئی فرق نہیں پڑا.دوبارہ آکر عرض کیا آپ نے دوسری دوائی دی.میں نے جا کر کھلائی اس سے بھی فرق نہیں پڑا.تیسری دفعہ بھی اسی طرح ہوا تو آپ نے فرمایا جو دنیاوی حیلے تھے وہ تو ختم ہو گئے.اب دعا کا ہتھیار باقی رہ گیا ہے.تم جاؤ اور میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک اپنا سر نہیں اٹھاؤں گا، اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا چلا جاؤں گا جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی.وہ کہتے ہیں کہ میں تو اس کے بعد آ کر آرام سے سو گیا کہ اب مجھے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.ٹھیکیدار نے خود ٹھیکہ لے لیا ہے.کہتے ہیں کہ صبح برتنوں کی آواز سے میری آنکھ کلی تو دیکھا تو میری بیوی صحت یاب ہو کر آرام سے اپنے کام میں مصروف تھی.رض (ماخوذ از سیرت احمد از قدرت الله سنوری صاحب صفحه 204 تا (206 لوگوں سے ہمدردی اور ان کے لئے رحمت کے جذبات کا ایک اور واقعہ بھی اس طرح ہے.حضرت منشی زین العابدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری شادی ہوئی ، اولا د نہیں ہوتی تھی.اولا د ہوتی تھی اور وقت سے پہلے فوت ہو جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ پوچھا تو میں نے بتایا کہ یہ وجہ ہے.آپ نے کہا کہ حضرت خلیفہ اول سے اس کا علاج کروالو.میں نے کہا جی میں نے اُن سے علاج نہیں کرانا، بہت مہنگا علاج ہے.آپ نے فرمایا کہ کیا مجھ سے علاج کرواؤ گے؟ میں نے عرض کی نہیں ، علاج کی ضرورت نہیں.دعا کرواؤں گا.دیکھیں آپ کا جذ بہ رحم ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ظہر کی نماز کے بعد کہا کہ اچھا اگر یہی ہے تو پھر آؤ دعا کرتے ہیں.دروازے کے باہر ہی کھڑے ہو گئے اور آپ نے دعا کرنی شروع کی اور وہ کہتے ہیں کہ عصر کی اذان تک رو رو کر دعا کرتے رہے اور آنسو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی داڑھی مبارک سے ٹیک کر کرتے پر گر رہے تھے.کہتے ہیں کہ میں تو تھک کر دیوار کے ساتھ لگ گیا.اور سوچتا رہا کہ میں نے کیوں تکلیف دی.نہ بھی اولاد ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن مجھے یہ تکلیف ہرگز نہیں دینی چاہئے تھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعالمی کرتے چلے گئے یہاں تک کہ جب آمین کہہ کر دعاختم کروائی تو فرمایا کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے اب تمہاری بیوی کی یہ جو بھی بیماری ہے ختم ہوگئی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ پہلے جو حمل ہو گا اس میں بیٹا پیدا ہو گا.چنانچہ وہ ہوا اور بچے بھی پیدا ہوئے.تو لوگوں کی ہمدردی کے جذبہ سے آپ اپنی تکلیف کا خیال نہیں کیا کرتے تھے.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 13 صفحه 94-95
خطبات مسرور جلد پنجم 93 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007 ء آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جا بجارحم کی تعلیم دی ہے یہی اخوت اسلامی کا منشاء ہے“.(ملفوظات جلد چهارم صفحه 269 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه (11) 66 پھر فرمایا مخلوق خدا سے ایسے پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو.“ (ملفوظات جلد 3 صفحه 460 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں.حقیقی رشتہ دار کی تعریف بھی فرما دی کہ ماؤں کا رشتہ ہو.بعض دوسرے رشتوں میں تو بعض دفعہ دراڑیں آجاتی ہیں لیکن ماں بچے کا رشتہ ایسا ہے جو ہمیشہ محبت و پیار اور شفقت کا رشتہ ہوتا ہے.اس طرح پیش آؤ جس طرح ماں کا رشتہ ہے.پھر فرمایا ” میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں اور میرے کانوں میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں.یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے.اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو.اپنے تو در کنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو.یعنی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ جو اپنوں سے دکھاتے ہو.(ملفوظات جلد 4 صفحه 82 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اُسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے اور آپ کے غلام صادق نے اس زمانے میں جس طرح عمل کر کے ، اس نصیحت پر چلتے ہوئے ہمیں دکھایا اور ہمیں نصیحت فرمائی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے رحم اور ہمدردی کے جذبات ہمارے دل میں ہمیشہ رہیں اور بڑھتے رہیں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے والے ہوں.آخر میں ایک افسوسناک خبر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں.کل پاکستان میں منڈی بہاؤالدین کے علاقے کے ایک گاؤں سیر تحصیل پھالیہ میں ایک شہادت ہوئی ہے.محمد اشرف صاحب ایک احمدی نو مبائع تھے.شاید دو تین سال، چار سال پہلے بیعت کی تھی.رابطہ تو ان کا دس بارہ سال سے تھا لیکن بیعت کی جب توفیق ملی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی استقامت اور ثبات قدمی دکھائی.ان کے خلاف اُس گاؤں میں جہاں یہ رہتے تھے بڑی
94 خطبہ جمعہ 2 / مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم سخت مخالفت کی ہوا چلی اور مولویوں نے ان کے خلاف لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرنا شروع کیا کہ قادیانیت کا یہ پودا، بُرائی کا پودا جو ہمارے گاؤں میں لگ گیا ہے اس کو جڑ سے اکھاڑ دو نہیں تو یہ سارے گاؤں کو خراب کرے گا.کچھ عرصہ پہلے ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص نے بھی بیعت کی تھی.اس کے بعد فضا میں اور زیادہ بڑی سخت مخالفت کی رو چل پڑی.ایک طوفان بے تمیزی کھڑا ہو گیا تھا کہ اس گاؤں میں کفر کا پودا لگ گیا ہے اور یہ بڑھ رہا ہے اس کو ابھی سے کاٹو.تو گزشتہ کل یا شاید پرسوں کسی وقت ایک بد بخت ہی کہنا چاہئے ( کہنا کیا چاہئے بلکہ ہے ہی ).جو اس وقت پولیس میں حاضر سروس سب انسپکٹر ہے چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا، یہ بھی اور وہ احمدی بھی جو اُن کی تبلیغ سے نیا احمدی ہوا ہے ان کی دوکان پر بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے آتے ہی بندوق نکالی اور ان پر فائر کر دیا.پیٹ میں گولی لگی شہید ہو گئے اور اس نے اس قدر ظالمانہ فعل کیا کہ ہاتھ میں اس کے ٹو کہ یا کلہاڑی تھی ، اس ٹو کے سے ان کی شہادت کے بعد ان کی گردن اور بازوؤں پر بھی وار کئے.دوسرے احمدی جو تھے انہوں نے وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور آ کے جماعت کو اطلاع دی.ان کے بھائیوں وغیرہ نے بھی ان سے تقریباً بائیکاٹ کیا ہوا تھا.ان کے بھائی کی بیٹی کی شادی تھی اور اس پر اسی وجہ سے ان کو نہیں بلایا ہوا تھا.ان کی ایک بیوہ ہے اور تین بچیاں ہیں.ان کی اپنی عمر شاید 46 سال تھی اور بڑی بیٹی کی عمر 10 سال ہے.ان کے تمام بچوں نے فیملی نے بیعت کر لی تھی.اللہ تعالیٰ ان کا بھی حافظ و ناصر ہو.ابھی تک تو جو ان کے بھائی ہیں انہوں نے ان کی بیوہ اور بچوں کو آنے نہیں دیا.بہر حال یہ شرافت انہوں نے دکھائی کہ نعش جو ہے وہ جماعت کے سپر د کر دی اور آج ربوہ میں ان کی تدفین ہوگئی ہے.یہ بڑے دلیر اور نڈر آدمی تھے اور دعوت الی اللہ بہت زیادہ کیا کرتے تھے.اور مونگ کے شہداء کی تصویروں کو دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ کاش خدا مجھے بھی ان خوش نصیبوں میں، ان شہیدوں میں شامل کر لے.تو یہ بات قرونِ اولیٰ کی یاد دلاتی ہے جب ایک موقع پر آنحضرت مال تقسیم فرمارہے تھے تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ حضور میں اس مال کے لئے تو مسلمان نہیں ہوا.میری تو یہ خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قربان ہوں اور میرے حلق پر تیر لگے.جب وہ چلا گیا تو آنحضرت نے فرمایا اگر اس کی خواہش کچی ہے تو یہ پوری ہو جائے گی.چنانچہ کچھ عرصہ بعد ایک جنگ میں وہ گئے اور عین حلق پر ان کے تیر لگا اور وہاں انہوں نے شہادت پائی.تو اس کی بھی یقینا خواہش بچی تھی جو اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی.اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے ، درجات بلند فرمائے انتہائی مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی بیوہ اور بچوں کا حافظ و ناصر ہو.ان کے لئے دعا بھی کریں.ابھی نمازوں کے بعد جمعہ اور عصر کی نمازوں کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 23 تا 29 مارچ 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 95 10 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2007ء بمطابق 9 رامان 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت مالک ہے جس کا سورۃ فاتحہ میں ذکر ہے اور کیونکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کا ذکر چل رہا ہے اور سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے صفاتی ناموں کی جو تر تیب رکھی ہوئی ہے، اسی حساب سے میں نے ذکر شروع کیا تھا، اس لئے آج اس ترتیب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کا بیان ہوگا.ترتیب کے لحاظ سے جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے چوتھے نمبر پر فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں چوتھا احسان خدا تعالیٰ کا جو تم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضان اخص سے موسوم کر سکتے ہیں، مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّين میں بیان فرمایا گیا ہے.اور اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے.اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے.“ ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحه 250 ) یعنی رحیمیت سے دعا اور عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے، انسان دعا اور عبادت کرتا ہے ، اس سے مانگتا ہے اور مالکیت سے اس کا پھل ملتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی یہ ترتیب انتہائی پر حکمت اور ہر ایک کو اپنی قدرت کے جلوے دکھاتی ہے، ہر اس شخص کو دکھاتی ہے جو اس پر کامل ایمان لانے والا ہے اور خالص ہو کر اس کا عبد بننے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی مزید وضاحت بھی فرمائی ہے.لیکن اس سے پہلے جیسا کہ میں نے عموماً طریق رکھا ہوا ہے لغت کے لحاظ سے اور دوسرے مفسرین نے جو تفسیریں کی ہیں وہ بیان کرتا ہوں.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ المالك اسے کہتے ہیں جو عوام الناس میں اپنے احکام از قسم اوامر و نواہی اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہو.یہ پہلو صرف انسانوں کی سیاست یعنی ان کے معاملات کی تدبیر کرنے اور ان پر حکومت کرنے سے مختص ہے.اس بنا پر مَلِكُ النَّاس تو کہا جاتا ہے مگر مَلِكُ الْأَشْيَاء نہیں کہا جاتا.پھر کہتے ہیں که قول خداوندی مَالِكِ يَوْمِ الدِین کا معنی ہے کہ وہ جزا سزا کے دن میں ملک ہوگا.اس کی علماء کے نزدیک دو قرآتیں ہیں.مَلِكِ يَوْمِ الدِّين بھی پڑھتے ہیں اور مَالِكِ يَوْمِ الدِّين بھی.لیکن زیادہ تر مَالِكِ يَوْمِ الدِّين
96 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم ہی پڑھا جاتا ہے.یہ معنی مندرجہ ذیل آیت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المؤمن : 17) کہ آج کے دن بادشاہت کس کی ہے؟ اللہ ہی کی ہے جو واحد ،صاحب جبروت ہے.پھر لسان العرب میں لکھا ہے.اَلْمَلِكُ ، اللہ بادشاہ ہے.مَلِكُ الْمُلُوكَ بادشاہوں کا بادشاہ، پھر لَهُ المُلْكُ ، بادشاہت اسی کی ہے اور هُوَ مَالِكُ يَوْمِ الدِّينِ وہ جزا سزا کے دن کا مالک ہے وَهُوَ مَلِيكُ الْخَلْقِ ، اس کے معنے لکھے ہیں رَبُّهُمْ وَمَالِكُهُم، وہ مخلوق کا رب اور مالک ہے.لسان العرب کے معنی سامنے رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کے معنی یوں بیان فرمائے ہیں لیکن آپ نے اس میں مالک کے ساتھ یوم اور دین کے بھی علیحدہ علیحدہ معنی حل کر کے پھر مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کے مفصل معنی لکھے ہیں.آپ لکھتے ہیں کہ اس کے معنی یہ بنیں گے کہ جزا سزا کے وقت کا مالک، شریعت کے وقت کا مالک، اور فیصلہ کرنے کے وقت کا مالک ، مذہب کے وقت کا مالک.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت مذہب یا شریعت کی بنیا د رکھی جاتی ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار فرماتا ہے.اور کمزوری کے بعد اپنے پیارے کی جماعت کو صفت مالکیت کے تحت غلبہ عطا فرماتا ہے.پھر نیکی کے زمانے کا مالک اور گناہ کے زمانے کا مالک، یعنی جب بدی اور گناہ بہت پھیل جاتا ہے تو زمانے کا مالک مصلح اور نبی مبعوث فرما کر دنیا کی اصلاح اپنی مالکیت کی صفت کے تحت کرتا ہے.محاسبہ کے وقت کا مالک، اطاعت کے وقت کا مالک یعنی اطاعت کرنے والوں کے لئے خاص قانون قدرت ظاہر فرماتا ہے.معجزات بھی رونما ہوتے ہیں.خاص اور اہم حالتوں کا مالک یعنی اس کے حکم کے مطابق اعمال بجالانے والوں کے اجر اُن کو دیتا ہے جو آخر وقت تک وفا کے ساتھ اپنی حالتوں کو اس کے مطابق رکھیں ، اس کے احکام کے مطابق رکھیں ، وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد اول صفحه (24 اب بعض مفسرین جو پہلے گزرے ہیں ان کے حوالے پیش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالک کی جو تفسیر فرمائی ہے اور اس کو بھی آپ نے لسان العرب اور تاج العروس کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ مالک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہو، مکمل قبضہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لاسکتا ہو اور بلا اشتراک غیر ، یعنی بغیر کسی دوسرے کے اشتراک کئے اس پر حق رکھتا ہو.اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پاسکتا.کیونکہ قبضہ نامہ پورا مکمل قبضہ تام، تصرف تام اور حقوق نامہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلم نہیں.“ منن الرحمان روحانی خزائن جلد 9 صفحه 153 152 حاشیه )
خطبات مسر در جلد پنجم 97 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء اسی کو ہر چیز کا مکمل طور پر تصرف ہے.مالک ہونے کی حیثیت سے ، رب ہونے کی حیثیت سے، اس کا حق ہے.علامہ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کا مطلب ہے، دوبارہ اٹھائے جانے اور جزا سزاد یئے جانے کے دن کا مالک.اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ نیکی بجالانے والے اور گناہگار، فرمانبردار اور نافرمان، موافق اور مخالف کے درمیان فرق ہونا ضروری ہے اور یہ فرق صرف جزا سزا کے دن ہی ظاہر ہو سکتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُ وُا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوا بِالْحُسُنی (النجم : 32) تا کہ وہ ان لوگوں کو جو بُرائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے عمل کی جزا دے اور وہ ان کو بہترین جزا دیتا ہے جو بہترین عمل کرتے ہیں.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ.أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (ص: (29) کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ویسا ہی قرار دے دیں گے جیسا کہ زمین میں فساد کرنے والوں کو ، یا کیا ہم تقویٰ اختیار کرنے والوں کو بد کرداروں جیسا سمجھ لیں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (طه: 16) ساعت ضرور آنے والی ہے بعید نہیں کہ میں اسے چھپائے رکھوں تا کہ ہر نفس کو اس کی جزا دی جائے جو وہ کوشش کرتا ہے.پھر امام رازی کہتے ہیں کہ نیز واضح ہو کہ جس نے ایک ظالم کو مظلوم پر زور بخشا ہے، اگر وہ ظالم سے انتقام نہ لے تو یہ یا تو اس کے عاجز ہونے کی بنا پر ہوتا ہے کہ کوئی انتقام نہیں لیتا.کمزوری ہے تو اس لئے انتقام نہیں لیتا، یا لا علم اور جاہل ہونے کی وجہ سے یا پھر اس بنا پر کہ وہ خود بھی ظالم کے ظلم سے راضی ہے.تو کہتے ہیں کہ یہ تینوں باتیں اللہ تعالیٰ کے متعلق قرار دینا محال ہے.سولازمی ہوا کہ وہ مظلوموں کی خاطر ظالموں سے انتقام لے.لیکن جبکہ اس دنیا وی گھر یعنی دنیا میں ظالم سے انتقام لیا جانا بکمالہ نہیں ہوتا اس لئے لازمی ٹھہرا کہ اس دنیا وی گھر کے بعد ایک اُخروی گھر ہو.یہی مضمون ہے جو مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ اور فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ.وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ الزلزال : 8-9) میں بیان ہوا ہے.(التفسير الكبير لامام رازی زیر آیت مالك يوم الدين جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض علماء کے نزدیک مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کی دوسری قرآت مَلِكِ يَوْم الدین بھی ہے.لیکن علامہ فخر الدین رازی کہتے ہیں کہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کی قراءت کو تر جیح دیتا ہوں ، اس کے لئے وہ لکھتے ہیں کہ لفظ ملک کی نسبت مالك بندے کو اپنے رب کے فضلوں پر کہیں زیادہ امید دلانے والا ہے کیونکہ ملک یعنی بادشاہ سے زیادہ سے زیادہ جو امید رکھی جاسکتی ہے وہ عدل و انصاف ہے اور یہ کہ انسان اس سے
98 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کلیہ بچ جائے.جبکہ مالک وہ ہے جس سے بندہ اپنا لباس ، کھانا ، رحمت اور تربیت و پرورش ہر چیز کا طالب ہوتا ہے.بس مَالِكِ يَوْمِ الدّین میں مالک کا لفظ رکھ کر گویا اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ اے میرے بندو! میں تمہارا مالک ہوں تمہارا کھانا پینا ، لباس ، جزا ، ثواب اور جنت سب میرے ذمہ ہے.پھر دوسری بات وہ کہتے ہیں کہ اگر چہ ایک ملک ، بادشاہ ایک مالک کی نسبت زیادہ مال و دولت رکھنے والا ہوتا ہے.کیونکہ مالک مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں.تھوڑی چیز کا بھی جو مالک ہے وہ اس کا مالک کہلائے گا اور بادشاہ کے اختیارات زیادہ ہیں تو اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ پھر بھی ملک کی امید تجھ سے ہوتی ہے کہ وہ تجھ سے کچھ حاصل کرے جبکہ مالک وہ ہے کہ تو اس سے امید رکھتا ہے.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سے نیکیاں اور اطاعتیں بجالانے کا طلبگار نہ ہوگا بلکہ یہ چاہے گا کہ ہم اس سے طلب گار ہوں کہ وہ محض اپنے فضل سے ہم سے عفو اور درگز راور مغفرت کا سلوک کرے اور ہمیں اپنی جنت عطا فرمائے.اس لئے امام کسائی کہتے ہیں کہ میں مَلِكِ يَوْمِ الدِّین کی بجائے مَالِكِ يَوْمِ الدِّين ہی پڑھتا ہوں کیونکہ یہ قراءت اللہ تعالیٰ کے کثیر فضل اور وسیع رحمت پر دلالت کرتی ہے.تیسرا فرق ان کے نزدیک ملک اور مالک میں یہ ہے کہ جب بادشاہ کے سامنے سپاہی پیش کئے جاتے ہیں تو وہ ان میں بیماروں ، کمزوروں کو رڈ کر دیتا ہے اور صرف قوی بدن اور تندرست افراد کو ہی قبول کرتا ہے اور کمزوروں، بیماروں کو کچھ بھی نہیں دیتا جبکہ مالک وہ ہے کہ اگر اس کا غلام بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج معالجہ کراتا ہے، اگر غلام کمزور ہو تو مالک خود اس کی مدد کرتا ہے، اگر غلام کسی مصیبت میں پڑ جائے تو مالک اسے خلاصی دلاتا ہے، پس ملک کی بجائے مالک کی قراءت گناہگاروں اور بے سہاروں کے لئے زیادہ مناسب حال ہے.چوتھا فرق ملک اور مالک میں یہ ہے کہ ملک بادشاہ میں ہیبت اور ملکی انتظام وانصرام کرنے کی وجہ سے رعب ود بد بہ پایا جاتا ہے.جبکہ مالک میں رحمت و رافت پائی جاتی ہے اور ہم بندوں کو ہیبت اور دبدبہ کی بجائے رحمت اور رافت کی زیادہ احتیاج ہے.(التفسير الكبير لامام فخر الدین الرازی جلد اول زیر آيت مالك يوم الدين ابو عبد اللہ محمد بن احمد القرطبی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر یہ سوال ہو کہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّین میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو کیسے اس چیز کا مالک کہہ دیا جس کا ابھی وجود بھی نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ مالِك مراد قدرت رکھنے والا ہے یعنی یوم الدین میں وہی قادر ہوگا یا يَوْمُ الدِّين پر جزا و سزا کے دن پر ، اور اسے برباد کرنے پر کلیۂ قدرت اسی کو ہوگی کیونکہ جو کسی چیز کا مالک ہو وہ اس چیز میں تصرف کرنے کا حقدار بھی ہوتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو مکمل تصرف ہے اور اپنی مخلوق کی چیز پر قادر بھی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز
خطبات مسرور جلد پنجم 99 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء کا مالک ہے اور جس طرح چاہے اپنے ارادے کو نافذ کرنے والا ہے.کوئی کام اس کے لئے محال اور ناممکن نہیں.اور اگر یہ سوال ہو کہ اللہ تعالیٰ يَومُ الدِّين سمیت ہر چیز کا مالک ہے تو پھر یہاں صرف يَوْمُ الدِّین ہی کا بطور خاص کیوں ذکر کیا گیا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں تو لوگ فرعون اور نمرو قسم کے بادشاہ کی مخالفت کر لیتے ہیں، بڑے بڑے بادشاہ طاقتور ہیں، زور آور ہیں ان کے خلاف بھی بول لیتے ہیں.آج بھی دیکھیں طاقتوروں کے خلاف کئی غریب لوگ بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.اس کی بادشاہت کے بارے میں جھگڑ لیتے ہیں لیکن اس روز یعنی جزا سزا کے دن اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص اس کی بادشاہت سے متعلق جھگڑ نہ سکے گا.جیسا کہ فرمایا لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ یعنی آج کے دن بادشاہت کس کی ہے؟ تو تمام مخلوقات جواب دیں گی لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ، اسی بنا پر مَالِكِ يَوْمِ الدِّين فرمایا.یعنی اس دن کے سوا کوئی مالک ہوگا نہ فیصلہ کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی جزا سزا دینے کا مجاز ہوگا.پاک ہے اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت الْمَلِكُ بھی آتی ہے اور الْمَالِكُ بھی، اَلْمَلِكُ اللہ تعالیٰ کی ذات کی صفت ہے اور الْمَالِكُ اس کے فعل کی صفت ہے.(تفسير الْجَامِعُ لِاحْكامِ الْقُرْآن از ابو عَبْدُ الله مُحَمَّد بن اَحْمَد اَلْقُرْطَبِي زير آيت مالك يوم الدين) نْ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس پر تفصیلی بحث فرمائی ہوئی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ مختلف لغات سے جو نتیجہ اخذ فرمایا اس سے وضاحت فرمائی کہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کے کیا معنی بنتے ہیں.اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّين سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ آخرت کا مالک ہے دنیا کا مالک نہیں.بلکہ مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے قانون قدرت اور اپنی دوسری صفات کے تحت انسان کے لئے بعض باتیں مقدر کی ہوئی ہیں.ڈھیل دی ہوئی ہے یا چھوٹ دی ہوئی ہے.اس کی وجہ سے اس دنیا میں فوری جزا سزا نہیں ہے لیکن اس دن جو جزا سزا کا دن ہے اس دن کوئی مفر نہیں ہوگا.بلکہ تمام جزا سزا کا اللہ تعالیٰ خود فیصلہ فرمائے گا، کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا.کوئی معافی اور تو بہ اس وقت کام نہیں آئے گی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا أَدْراكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ يَوْمَ لَا تَمُلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأمُرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ (الانفطار : 18-20) تجھے کیا پتہ کہ یوم الدین کیا ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ تجھے کیا پتہ جزا سزا کا دن کیا ہے ؟ يَوم الدین وہ ہے کہ جس دن کوئی شخص کسی دوسرے کے کام نہ آسکے گا.اور صرف خدا تعالیٰ کا حکم جاری ہو گا.یہ خوف کا مقام ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے ، مومنوں کے لئے ، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں ، اعمال صالحہ بجالانے والے ہیں، یہ خوشخبری بھی اس میں ہے کہ اگر خالص ہو کر اس کے احکامات پر عمل کر رہے
100 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم ہو تو مالکیت یوم الدین تمہیں ان جنتوں کا وارث بنائے گی جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یوں فرمایا ہے کہ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ فِي جَنْتِ النَّعِيمِ (الحج: 57) کہ سلطنت اس دن اللہ ہی کی ہوگی.وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے نعمتوں والی جنتوں میں ہوں گے.جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالک کے معنی میں فرمایا تھا کہ قبضہ تام والا ، اور تصرف تام والا ، اس کو ہر چیز پر مکمل قبضہ اور مکمل تصرف ہو.اس آیت میں یہ وضاحت فرما دی کہ جزا سزا کا دن کیسا ہوگا - اَلْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ کہ سلطنت اس دن اللہ تعالیٰ کی ہوگی یعنی وہ صرف مالک ہی نہیں ، وہ بادشاہ بھی ہوگا.کسی کو خیال آ سکتا ہے کہ مالک ہے اور جیسا کہ پہلے بھی اس کے مختلف معنی میں بیان ہو چکا ہے کہ ہر مالِك صاحب اختیار نہیں ہوتا لیکن یہ مسالک وہ ہے جس کی بادشاہت بھی ہے.پس اس کی وضاحت فرما دی کہ ہر چیز مکمل طور پر اس کے تصرف میں ہے.دنیاوی بادشاہ کسی نہ کسی رنگ میں دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں.ان کے سامنے لوگ کھڑے بھی ہو جاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ ایسا بادشاہ ہے جو کسی کا محتاج نہیں، نہ اس دنیا میں نہ آخرت میں.اس لئے اس کی عام دنیاوی بادشاہوں کی طرح کی بادشاہت نہیں ہے بلکہ مالک ہونے کی وجہ سے مکمل تصرف والی بادشاہت ہے جو زمین پر بھی قائم ہے اور آسمان پر بھی قائم ہے.اس زندگی میں اُس نے اپنی مالکیت کے تحت چھوٹ دی ہوئی ہے جیسا کہ میں نے بتایا.اچھے اور برے عمل بتا دیئے کہ یہ عمل اچھے عمل ہیں.یہ کرو تو میری طرف سے بہترین جزا پاؤ گے.یہ عمل برے عمل ہیں.اگر یہ کرو گے تو پھر میں سزا کا بھی حق رکھتا ہوں ، سزا دے سکتا ہوں، سزا دوں گا.اور جزا سزا کا فیصلہ مکمل طور پر میرے ہاتھ میں ہے.اس بارے میں کوئی کسی کے کام نہیں آ سکتا، کوئی سفارش کام نہیں آئے گی.اس وقت کی کوئی معافی کا م نہیں آئے گی.اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کرنے والا ہے.پس ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنات نعیم یعنی نعمتوں والی جنت کی خوشخبری دیتا ہے.جبکہ کافروں کو اللہ تعالیٰ اس حوالے سے ڈراتا ہے جیسا کہ مختلف جگہوں پر برے اعمال کرنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں ان کو ان کے عملوں کی سزا دوں گا.ایک جگہ فرمایا ہے اِنَّ كِتبَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجَيْنِ (المطففين: 8) یعنی بدکاروں کی جزا کا حکم یقیناً ایک دائی کتاب میں ہے.یہ کا فراور فاجر سمجھتے تھے کہ جزا سزا کا دن نہیں آنا ، وہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹ کو ، رعایت کو ، اس کی مالکیت کا نہ ہونا سمجھتے تھے.جزا سزا کے دن کو اس دنیا میں جھٹلاتے رہے، اللہ تعالیٰ کی حدود کوتوڑتے رہے.اس لئے
101 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے حد سے بڑھے ہوئے ہونے کی وجہ سے اور جزا سزا کے دن کے انکار کی وجہ سے ویل يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (المطففين : 9) اس دن جھٹلانے والوں کے لئے عذاب ہوگا.پس اللہ تعالیٰ مَلِک بھی ہے اور مالک بھی ہے اور اسے تصرف میں پوری آزادی حاصل ہے.نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دیتا اور برے اعمال کرنے والوں کو سزا دیتا ہے.اور مالِكُ ہونے کی حیثیت سے اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ اگر چاہے تو معاف فرما دے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَلَمُ تَعْلَمُ اَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (المائدة: (41) کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہی ہے جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشا ہی ہے.وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے.اور اللہ ہر چیز پر جیسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ بغیر کسی اصول کے بلاوجہ اللہ تعالی پکڑ کر سزا دے دیتا ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ جزا سزا کے دن ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، کوئی اپیل نہیں ہوگی، اس وقت کوئی واویلا کام نہیں آئے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ اعمال کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ نیک عمل ہو تو میری رضا حاصل کرنے والے ہو گے.جب تمہیں پتہ ہے کہ کوئی چیخ و پکار کوئی اپیل اُس وقت کام نہیں آئی تو اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کرو، اپنے اعمال کی اصلاح کرو.سزا دینے میں تو اللہ تعالی انتہائی نرمی کا سلوک فرماتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس کا رحم اس کے غصہ پر غالب آجاتا ہے.“ (صحیح بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى بل هو قرآن مجيد في لوح محفوظ حدیث (7554) پس کس قدر بد بختی ہوگی کہ انسان اس کے باوجود ایسے ارحم الراحمین خدا کے غضب کا مورد بنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: "مَالكِيتِ يَوْمِ الدِّین اپنے فیضان کے لئے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے.اگر اس سے فیض اٹھاتا ہے تو انتہائی عاجزی سے ، دعاؤں سے اس کے آگے جھکنا ضروری ہے اور صرف اُن انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح‘ ( فقیروں کی طرح) حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لئے دامن افلاس پھیلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فیض حاصل کرنے والے انتہائی عاجز اور غریب آدمی کی طرح اپنا دامن پھیلاتے ہوئے ان کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور سچ مچ اپنے تئیں تہی دست پا کر خدا تعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں.ان کو حقیقت میں اس بات کا علم ہوتا ہے اس کا پورا فہم و ادراک رکھتے ہیں.اور اس عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں کہ ہم بالکل خالی ہاتھ ہیں ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور اس کی مالکیت پر مکمل ایمان ہے.پھر فرمایا " یہ چارالہی صفتیں ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحیمیت کی صفت ہے وہ دعا کی تحریک کرتی ہے.اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز
خطبات مسرور جلد پنجم 102 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء کر کے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مالک جزا ہے.کسی کا حق نہیں جو دعویٰ سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور نجات محض فضل پر ہے.ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحه 243 پس مالكِيتِ يَوْمِ الدِّین کی صفت سے فیض پانے کے لئے نیک اعمال بجالانا، اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنا ، اس کی عبادت کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری چیزیں ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکیں اور یوں مغفرت اور نجات حاصل کرنے والے ہوں.اس کا ایک اور پہلو بھی ہے.اس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے.یہ ترتیب بغیر حکمت کے نہیں ہے اس ترتیب میں بھی بڑی حکمت ہے.آپ نے بڑی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے، خلاصہ میں اس کو بیان کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پہلے ربوبیت جو اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کی صفت ہے، اس کے تحت نشو و نما کے لئے ماحول تیار فرماتا ہے.کسی چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کو بڑھانے کے لئے اس کا ماحول مہیا کرتا ہے.وہ سامان پیدا فرماتا ہے جس میں نشو و نما ہو سکتی ہے.پھر یہ سامان رحمانیت کے تحت بندے کو دیتا ہے.اس کے استعمال میں بھی آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ اس کے لئے بھی روحانی ترقی ہو.آپ نے یہ روحانیت کے لئے زیادہ بیان فرمایا ہے لیکن دنیاوی لحاظ سے بھی یہی ہے.پھر جب بندہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے اعلیٰ نتائج پیدا فرماتا ہے اور یہ رحیمیت ہے ، دعاؤں کو بھی پھل دیتا ہے اور چیزوں کو بھی پھل لگاتا ہے اور پھر مسلسل ان نتائج یا انعامات کے بعد مالکیت کی صفت کے تحت دنیا پر غلبہ دے دیتا ہے اور یہ اللہ تعالی نے الہی جماعتوں کی تقدیر کھی ہوئی ہے کہ وہ غلبہ عطا فرماتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ترتیب اس طرح سے ہے، پہلے رب ، پھر رحمان، پھر رحیم اور پھر مَالِكِ يَوْمِ الدِّين.اس کا موازنہ حضرت مصلح موعودؓ نے کیا کہ بندے کے لئے کیا ترتیب ہوگی.اس میں بھی یہی ترتیب ہوئی چاہئے یا کوئی مختلف ترتیب ہوگی.تو اس کے لئے فرمایا کہ بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے فائدہ اٹھانے کے لئے یا ان کا اظہار کرنے کے لئے ترتیب بدل جاتی ہے.کیونکہ بندے نے اللہ تعالیٰ کی طرف ترقی کرنی ہے اوپر جانا ہے.وہ پہلے مالک کی صفت کا مظہر بننے کی کوشش کرتا ہے تا کہ جو طاقتیں اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں.اس سے انصاف اور عدل دنیا میں قائم کرے، اپنے ماحول میں قائم کرے اور شر سے بچنے کے لئے اور ماحول کو شر سے بچانے کے لئے کوشش کرے.پہلے مالکیت آئے گی.اس کے لئے اس مالکیت کے وقت میں بعض معاملات سے صرف نظر بھی کرنا پڑتا ہے.چاہے وہ رحم کی نیت سے ہو یا در گذر کی وجہ سے ہو.پھر رحیمیت کا اظہار بندے کی طرف
خطبات مسر در جلد پنجم 103 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء سے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے ہوتا ہے.اپنے ماحول کے لئے اس کے دل میں قدر دانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.ان کو بھلائی پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.پھر انسان اس رحیمیت کے دور سے ترقی کرتا ہے تو رحمانیت کی صفت اختیار کر لیتا ہے.اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ایک مومن رحمانیت کا اظہار کرتا ہے.اپنے پرائے سب بغیر کسی تفریق کے اُس کے نیک سلوک سے حصہ لے رہے ہوتے ہیں.معاشرے میں وہ نیکیاں پھیلا رہا ہوتا ہے.اور یہ چیز اِبْتَاءِ ذِی القربی کا نقشہ پیش کر رہی ہے، احسان سے بڑھ کر آگے چل رہی ہے.پھر جب اس سے ترقی کرتا ہے تو رب العالمین کا مظہر بننے کے لئے سوسائٹی کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے.وہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں یہ ساری چیزیں پنپ سکیں.یہ بیان کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس ترتیب سے جو بیان ہوئی ہے جو ان صفات کو اختیار کرتا ہے تو یہ سالکوں کے لئے اللہ کی طرف بڑھنے والوں کے لئے ایک رحمت ہوتی ہے.عام طور پر بھی دیکھیں تو انسان کی صفات، اس کی خوبیاں اُس وقت ہی کھل کر سامنے آتی ہیں جب اُس کے پاس کوئی طاقت ہو، اختیار ہو، کوئی ملکیت ہو.اعلیٰ اخلاق کا اُسی وقت پتہ چلتا ہے جب طاقت ہو، جب ایک مقام ہو.کمزور اور بے بس نے کسی سے رحیمیت کا کیا سلوک کرنا ہے اور کیا رحمانیت کا سلوک کرنا ہے اور پھر اسی طرح کسی سے ربوبیت کا کیا اظہار ہوتا ہے.اپنے اپنے ماحول میں جو بھی ہے جتنا بھی ملکیت رکھتا ہے اس کو وہاں ان صفات کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ یہ کسی کی ملکیت کا زعم ہی ہے جو انسان کے دل میں تکبر اور نفرت بھی پیدا کرتا ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد اول صفحه (27) پس اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا فضل حاصل کرنے کے لئے ان صفات پر غور کرنا اور اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا انتہائی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں سے ہمیشہ حصہ دیتا رہے اور جزا سزا کے دن بھی رحم حاصل کرنے والے ہوں.گزشتہ جمعہ میں میں نے جس شہید کا ذکر کیا تھا اُن کا نام بتانا بھول گیا تھا یہ محمد اشرف صاحب ہیں تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاؤالدین کے جن کو شہید کیا گیا تھا.جونو مبائع تھے.دوسرا آج ایک اور افسوسناک خبر بھی ہے کہ ہمارے ایک پرانے خادم سلسلہ، مربی اور استاد جامعہ احمدیہ چوہدری منیر احمد عارف صاحب گزشتہ دنوں وفات پاگئے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کی عمر 78 سال تھی اور 1946ء میں انہوں نے زندگی وقف کی تھی.جامعہ 1956ء میں پاس کیا اور تقریباً 50 سال تک جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے.برما میں مبلغ رہے، نائیجیریا میں مبلغ رہے.پھر جامعہ میں بطور استادخدمات انجام دیتے رہے.
104 خطبہ جمعہ 9 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم تقریباً 27 سال انہوں نے جامعہ میں پڑھایا.ہوٹل میں لمبا عرصہ سپر نٹنڈنٹ رہے، جو ہوٹل میں رہنے والے ہیں وہ جانتے ہوں گے.بڑی نرم طبیعت کے ہنس مکھ انسان تھے اور 21 سال سے دار القضاء میں بھی خدمات سر انجام دے رہے تھے.وفات سے ایک دن پہلے بھی ایک کیس کے سلسلہ میں گاڑی منگوا کر آئے.ان سے چلا نہیں جا رہا تھا اور دو چھڑیوں کے سہارے چلتے ہوئے دفتر میں آئے.دل کی تکلیف بھی تھی اور کمزوری بھی تھی اور اپنا قضاء کا پورا کیس سنا اور اسے نبٹایا اور ایک دن بعد کی تاریخ بھی مقرر کی.ان کو وہاں کے ناظم قضاء نے کہا کہ اتنی طبیعت خراب ہے تو آنے کی کیا ضرورت ہے.انہوں نے کہا دل نہیں مانتا کہ جو جماعت کے کام میرے سپرد ہوئے ہیں ان میں کسی بھی طرح انکار کروں.اس لئے میرے سپر د جو کیس ہیں وہ تو میں نبٹاؤں گا.بہر حال اسی رات یا اگلے دن صبح ان کی وفات ہوگئی.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے ، درجات بلند فرمائے.ان کی اہلیہ، بیوہ، رضیہ منیر صاحبہ ان کا نام ہے اور ان کے علاوہ ان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں.ابھی نمازوں کے بعد میں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 30 مارچ تا6 اپریل 2007 ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 105 (11) خطبہ جمعہ 16 مارچ 2007ء فرموده مورخه 16 / مارچ 2007 ء بمطابق 16 رامان 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.وہ مالک گل ہے، تمام کائنات اس کے اشارے پر چل رہی ہے.وہ اس دنیا میں بھی تمہارا مالک ہے اور مرنے کے بعد بھی.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حکموں پر عمل کرو تا کہ اس دنیا میں بھی میری خوشنودی حاصل کر سکو اور اگلے جہان میں بھی جب تمہارے متعلق آخری جزا سزا کا فیصلہ ہوگا، میری رضا کے حصول کے لئے کئے گئے اعمال کی وجہ سے میری جنتوں کے وارث ٹھہر سکو.پس یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ جیسا کہ اکثر اللہ تعالیٰ کی ہستی کو نہ ماننے والے سمجھتے ہیں کہ اگلے جہان میں تو پتہ نہیں کیا ہوتا ہے یا کچھ ہونا بھی ہے کہ نہیں، سوال جواب بھی ہونے ہیں کہ نہیں، جزا سزا بھی ملنی ہے کہ نہیں، کچھ ہے بھی کہ نہیں، اس لئے دنیا میں جو دل چاہتا ہے کئے جاؤ.اگر یہ لوگ غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس دنیا میں بھی ہزاروں آفات ایسی ہیں جن سے ہر روز لوگ گزرتے ہیں اور اس دنیا میں بھی اس کی وجہ سے جزا سزا حاصل کرتے ہیں.یہی نہیں، یہ چیزیں یہ بتاتی ہیں کہ جب اس دنیا میں جزا سزا ہے تو برائیوں میں یا ان اعمال کے کرنے کی وجہ سے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور ان پر اصرار کرنے کی وجہ سے اگلے جہان میں بھی اللہ تعالٰی عذاب دے سکتا ہے اور وہ اس کے سزاوار ٹھہر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ملِكِ يَوْمِ الدِّين (الفاتحة: 4) خدا مالک ہے جزا سزا کے دن کا ، ایک رنگ میں اسی دنیا میں بھی جزا سزا ملتی ہے.ہم روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ چور چوری کرتا ہے.ایک روز نہ پکڑا جاوے گا ، دوروز نہ پکڑا جاوے گا ، آخر ایک روز پکڑا جائے گا اور زندان میں جائے گا“.یعنی قید میں ڈالا جائے گا اور اپنے کئے کی سزا بھگتے گا.یہی حال زانی ، شراب خور اور طرح طرح کے فسق و فجور میں بے قید زندگی بسر کرنے والوں کا ہے کہ ایک خاص وقت تک خدا کی شان ستاری ان کی پردہ پوشی کرتی ہے.آخر وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دکھوں میں مبتلا ہو کر ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور یہ اس اُخروی دوزخ کی سزا کا نمونہ ہے.اسی طرح سے جو لوگ سرگرمی سے نیکی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور فرمانبرداری ان کی زندگی کا اعلیٰ فرض ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ ان کی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا اور مقررہ وقت پر ان کی نیکی بھی پھل لاتی اور بار آور ہو کر دنیا میں ہی ان کے واسطے ایک نمونہ کے طور پر مثالی جنت حاصل کر دیتی ہے.غرض جتنے بھی بدیوں کا ارتکاب کرنے والے فاسق ، فاجر ، شراب خور اور
106 خطبہ جمعہ 16 / مارچ 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم زانی ہیں ان کو خدا کا اور روز جزا کا خیال آنا تو درکنار، اسی دنیا میں ہی اپنی صحت ،تندرستی، عافیت اور اعلی قومی کھو بیٹھتے ہیں اور پھر بڑی حسرت اور مایوسی سے ان کو زندگی کے دن پورے کرنے پڑتے ہیں.سل ، دق ، سکتہ اور رعشہ اور اور خطرناک امراض ان کے شامل حال ہو کر مرنے سے پہلے ہی مر رہتے اور آخر کار بے وقت اور قبل از وقت موت کا لقمہ بن جاتے ہیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 641-642 جدید ایڈیشن ) اس زمانے میں دیکھیں کتنے ہیں جو ان غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے سزا بھگت رہے ہوتے ہیں.بعض تو ان میں سے ایسے ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی ان میں نیکی کی رگ ہوتی ہے، جن کو خیال آ جاتا ہے، اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اس دنیا کی سزا کے نمونے سے ہی عبرت حاصل کرتے ہیں اور تو بہ کرتے ہیں تو اخروی سزا سے بچ جاتے ہیں.لیکن جو لوگ برائیوں پر اصرار کرنے والے ہیں انہیں ان برائیوں کا اصرار لے ڈوبتا ہے.اپنی دنیا بھی خراب کرتے ہیں اور آخرت بھی خراب کرتے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا شرابی ہیں ، شراب کی وجہ سے اپنی طاقتیں ضائع کر دیتے ہیں، دماغی صلاحیتیں کھو دیتے ہیں.یہ شراب پینے والے جب شراب پی رہے ہوتے ہیں ان کے دماغ کے ہزاروں لاکھوں خلیے اور سیل (Cell) ہیں جو ساتھ ساتھ ضائع ہورہے ہوتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والے ہیں.پھر اس زمانے میں جو ایڈز (Aids) کی بیماری ہے، یہ بھی بہت بڑی تباہی پھیلا رہی ہے.جب انسان اپنی پیدائش کے اصل مقصد کو بھول کر جانوروں کی طرح صرف نفسانی خواہشات کا غلام ہو جائے تو پھر وہ جو مالک ہے جس نے انسان کے اور حیوان کے درمیان فرق کے لئے حدود قائم کی ہوئی ہیں وہ اپنی صفت مالکیت کے تحت اس دنیا میں بھی سزا دے دیتا ہے اور آخرت میں ان حدود کو توڑنے کی وجہ سے کیا سلوک ہونا ہے وہ بہتر جانتا ہے.پس انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس کو یہ سوچنا چاہئے کہ اپنے پیدا کرنے والے کے قانون پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ کس قدر تباہی کی طرف جا رہا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے یہاں تو آتا ہی ہے آئندہ جہان میں بھی آسکتا ہے.اس لئے صرف یہ سوچ کر کہ اگلا جہان پتہ نہیں ہے بھی کہ نہیں اور اس میں کوئی سزاملنی بھی ہے کہ نہیں ، غلاظتوں اور گناہوں میں پڑ جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو پھر غلط کاریوں اور گناہوں کی وجہ سے اس دنیا میں بھی سزا ملتی ہے.لیکن اگر احساس ہو کہ سزا ہے تو پھر آدمی اصلاح کی کوشش بھی کرتا ہے.بعض لوگوں کی تو یہ حس ہی ختم ہو جاتی ہے.جانور پن پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے اور باوجود اس سزا سے گزرنے کے یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم کن غلاظتوں میں پڑے ہوئے ہیں.پس ہر عقلمند انسان کو اپنے ماحول کے نمونوں کو دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے انسان کی غلطیوں کی وجہ سے بعض کو اس دنیا میں بھی سزا کے جو نمونے دکھاتا ہے تو یہ بات ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والی اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے.
107 خطبہ جمعہ 16 / مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ان ملکوں میں بعض برائیاں ایسی ہیں جن سے بچنے کے لئے خاص طور پر نو جوانوں کو بہت کوشش کرنی چاہئے.شروع شروع میں بعض چھوٹی چھوٹی برائیاں ہوتی ہیں پھر بڑی برائیوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور پھر اگر ان حرکتوں کے بدنتائج اس دنیا میں بھی ظاہر ہو جائیں تو یہ جہاں ایسے لوگوں کے لئے سزا ہے وہاں ان کے ماں باپ عزیزوں رشتہ داروں خاندان کو بھی معاشرے میں شرمسار کرنے والے ہوتے ہیں.ان کو بھی معاشرے کی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.پس ان چیزوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں قائم کرتے ہوئے ، اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ وہ گناہوں سے بچانے والا بھی ہے اور گناہوں کو معاف کرنے والا بھی ہے، نیکیوں کی توفیق دینے والا بھی ہے اور نیکیوں کا بہترین اجر دینے والا بھی ہے، اس کے سامنے جھکے رہنا چاہئے ، اس سے مدد مانگنی چاہئے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ.فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (الزمر: 7) یہ ہے اللہ تمہارا ارب اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پس تم کہاں الٹے پھرائے جاتے ہو.توجہ کر واپنے خدا کی طرف کہ اُسی کی طرف جانا ہے.پس اپنے پیدائش کے مقصد کو سمجھ کر اس کے بتائے ہوئے احکامات کی نافرمانی نہ کرو.ہر ایک عقلمند انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَّلِي وَّلَا نَصِيرٍ (البقرة: 108) کیا تو نہیں جانتا کہ وہ اللہ ہی ہے جس کی آسمان اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر تمہارے لئے کوئی سر پرست اور مددگار نہیں ہے.پس آسمان اور زمین کی بادشاہت اسی واحد اور لاشریک خدا کی ہے تو یہ بات بھی اُسی کو زیب دیتی ہے کہ اس کی عبادت بھی کی جائے اور اس کے احکامات پر عمل بھی کیا جائے.کیونکہ اس کے علاوہ کوئی نہیں جو تمہارا بہترین دوست اور مددگار ہو.جو گل عالم کا، زمین و آسمان کا مالک ہے، بادشاہ بھی ہے جب وہ کسی کا دوست اور مددگار ہو جائے تو پھر اس کو اور کیا چاہئے.کیا تم اس کے مقابلے میں جو مالک ارض و سماء ہے دنیا کی عارضی چیزیں اور ادنی خواہشات اور شیطان کا غلط کاموں کے لئے بہکانا اور اس کی جھولی میں گرنا اختیار کرو گے.پس اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے ہمیں سمجھاتا ہے کہ میں جو مالک گل ہوں مجھے چھوڑ کر تم کن باتوں میں پڑنے کی کوشش کر رہے ہو.آج دنیا کے تمام فساداسی اہم نکتے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں.آج اگر دنیا اس حقیقت کو سمجھ لے کہ سوائے ایک خدا کے جو ملِكِ يَوْمِ الدِّين ہے مکمل مالکیت اسی کی ہے ، وہی مالک حقیقی ہے، اس کی زمین و آسمان پر بادشاہت قائم ہے تو دنیا کے یہ تمام فتنے اور فساد ختم ہو جائیں.پس اگر انسان خدا تعالیٰ کی حقیقی مالکیت کو اپنے اوپر تسلیم کرلے تو پھر اس کا خوف بھی پیدا ہو گا.پھر یہ احساس ہوگا کہ ایک خدا ہے جس کی ہمیں عبادت بھی کرنی ہے، جس کے احکامات پر عمل بھی کرنا ہے کیونکہ جزا سزا کا ہمارے ساتھ سلوک ہونا ہے تو پھر ہی نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ بھی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "یادر ہے کہ مالک ایک ایسا لفظ ہے جس کے مقابل پر
خطبات مسر در جلد پنجم 108 خطبہ جمعہ 16 / مارچ 2007ء تمام حقوق مسلوب ہو جاتے ہیں اور کامل طور پر اطلاق اس لفظ کا صرف خدا پر ہی آتا ہے کیونکہ کامل مالک وہی ہے.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 23 پس دنیا میں تو کوئی ایسی ہستی نہیں جس کے لئے انسان تمام حقوق چھوڑتا ہے.بادشاہوں کے مقابل پر بھی رعایا کے کچھ حقوق ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کوئی حق نہیں ہے.یعنی حق کا مطالبہ کوئی نہیں کر سکتا.ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کے لئے بعض حقوق خود اپنے پر فرض کر لئے ہیں.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرے، اس کی عبادت کرے، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے تو اللہ نے پھر اپنے پر یہ فرض کر لیا ہے کہ اس کو اپنی جنت میں جگہ دے.پس حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا، اس کی عبادت کرنا، اس کا شکر گزار ہونا، اس کا خوف رکھنا، صرف اس لئے نہیں کہ اگلے جہان میں ہمارے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے، وہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ جزا سزا کا سلوک کرتا ہے.نیک کام کرنے والوں کو نوازتا ہے.برائیاں کرنے والوں کو سزا دیتا ہے.مختلف طریقوں سے اپنے بندوں کے امتحان لیتا ہے اور اس میں پورا اتر نے والوں کو اس کی بہترین جزا دیتا ہے اور جو اس کی مالکیت کی بجائے اپنی مالکیت جتاتے اور اس کے ناشکر گزار بندے بنتے ہیں تو بعض وقت وہ اس دنیا میں ہی ان کو سزا بھی دیتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل کے تین آدمی تھے.ایک کوڑھی ، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کے لئے ان کے پاس انسانی شکل میں ایک فرشتہ بھیجا.پہلے وہ کوڑھی کے پاس گیا اور اس سے کہا تجھے کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا خوبصورت رنگ، خوبصورت جلد ، میری وہ بد صورتی جاتی رہے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے گھن آتی ہے.اس فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اس کی بیماری جاتی رہی.یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے تھے اور خوبصورت رنگ اس کو مل گیا.پھر فرشتے نے کہا کون سا مال تجھے پسند ہے؟ اس نے اونٹ یا گائے کا نام لیا.اسے اعلیٰ درجہ کی دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں دے دی گئیں.فرشتے نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے.پھر وہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا کون سی چیز تجھے پسند ہے؟ اس نے جواب دیا خوبصورت بال اور گنجے پن کی بیماری چلی جائے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے گھن آتی ہے.فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری جاتی رہی اور خوبصورت بال اس کے اُگ آئے.پھر فرشتے نے کہا کون سا مال تجھے پسند ہے؟ اس نے کہا گائیں.فرشتے نے اس کو گا بھن گائیں دے دیں یعنی ایسی گائیں جو بچے دینے والی تھیں اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دے.پھر وہ اندھے کے پاس گیا اور کہا تجھے کون سی چیز پسند ہے؟ اس نے کہا میں چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ میری نظر کو لوٹا دے تا کہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں.فرشتہ نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نظر واپس دے دی.پھر فرشتے
109 خطبہ جمعہ 16 / مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم نے پوچھا کون سا مال تجھے پسند ہے؟ اس نے جواب دیا بکریاں.چنانچہ خوب بچے دینے والی بکریاں اسے دے دی گئیں.پس ان تینوں کے پاس اونٹ گائے اور بکریاں خوب پھلی پھولیں.جس نے اونٹ مانگے تھے اس کے ہاں اونٹوں کی قطاریں لگ گئیں.اسی طرح گائیوں کے گلوں اور بکریوں کے ریوڑوں سے وادیاں بھر گئیں.کچھ مدت کے بعد فرشتہ کوڑھی کے پاس خاص غریبانہ شکل وصورت میں آیا اور کہا میں غریب آدمی ہوں میرے تمام ذرائع ختم ہو چکے ہیں.خدا تعالیٰ کی مدد کے سوا آج میرا کوئی وسیلہ نہیں جس سے میں منزل مقصود تک پہنچ سکوں.میں اس خدا تعالیٰ کا واسطہ دے کر ایک اونٹ مانگتا ہوں جس نے تجھ کو خوبصورت رنگ دیا ہے، ملائم جلد دی ہے اور بے شمار مال غنیمت دیا ہے.اس پر اس نے کہا مجھ پر بہت ساری ذمہ داریاں ہیں.میں ہر ایک کو کس طرح دے سکتا ہوں.انسان نما فرشتے نے کہا.تو وہی کوڑھی غریب اور محتاج نہیں ہے جس سے لوگوں کو گھن آتی تھی.اللہ تعالیٰ نے تجھے صحت عطا فرمائی اور مال دیا.اس پر وہ بولا تم کیسی باتیں کرتے ہو.مال تو مجھے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملا ہے یعنی میں خاندانی امیر ہوں.اس پر فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا.پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور اس کو بھی وہی کہا جو پہلے کو کہا تھا.اس نے بھی وہی جواب دیا جو پہلے نے دیا تھا.اس پر فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹ بول رہا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا.ان دونوں کا حال اس جھوٹ کی وجہ سے اور حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ویسا ہی ہو گیا.پھر وہ فرشتہ اسی ہیئت اور صورت میں اندھے کے پاس آیا اور اسے مخاطب کر کے کہا.میں غریب مسافر ہوں سفر کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ کی مدد کے سوا منزل مقصود تک پہنچے کا کوئی وسیلہ نہیں پاتا.تجھ سے میں اس خدا کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں جس نے تجھے نظر واپس دے دی اور تجھے مال و دولت سے نوازا.اس آدمی نے کہا بے شک میں اندھا تھا.اللہ تعالیٰ نے مجھے مال دیا ہے جتنا چاہو اس مال میں سے لے لو اور جتنا چاہو چھوڑ دو.سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی قسم آج جو کچھ بھی تم لو اس میں سے میں کسی قسم کی تکلیف اور تنگی محسوس نہیں کروں گا.اس پر اس انسان نما فرشتے نے کہا اپنا مال اپنے پاس رکھو یہ تو تمہاری آزمائش تھی.اللہ تعالیٰ تجھ سے خوش ہے اور تیرے دوسرے ساتھیوں سے ناراض ہے.تو اس کی رحمت کا مستحق ہے اور وہ اس کے غضب کے مورد بن گئے.(بخاری کتاب الانبياء باب حديث ابرص حدیث نمبر 3464 ) ( مسلم كتاب الزهد باب الدنيا سجن للمؤمن وجنة للكافر حديث نمبر 7325 ) تو اللہ تعالیٰ کا یہ غضب ان لوگوں پر اس دنیا میں نازل ہو گیا اور جس نے نیکی کی تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اجر عطا فرمایا.پس اللہ تعالیٰ کی مالکیت کا تصور ہمیشہ رہنا چاہئے.جب وہ اپنے فضل سے دیتا ہے تو ایک مومن کے دل میں ہمیشہ یہ تصورا بھرتا ہے کہ یہ سب کچھ دینے والا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لئے میرے پر فرض بنتا ہے کہ اس کی راہ میں جس طرح اس نے حکم دیا ہے خرچ کروں لیکن مال کی محبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے.حالانکہ حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور دنیا دار ڈرتے ہیں.یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ مالک ہے جس نے پہلے دیا وہ آئندہ بھی دے سکتا
خطبات مسرور جلد پنجم 110 خطبہ جمعہ 16 / مارچ 2007ء ہے.اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کی بجائے وہ ڈر کر بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کو جیسا کہ ابھی مثال میں بھی دیکھا اللہ تعالیٰ پکڑتا ہے اور ان کا مال ان کے ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَوَ لَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا ملِكُونَ (یاس: (72) کیا انہوں نے دیکھا نہیں ہم نے اس میں سے جو ہمارے دست قدرت نے بنایا ان کی خاطر مویشی پیدا کئے.پس وہ اس کے مالک بن گئے.پس یہ جو اللہ تعالیٰ نے انعام دیا ہے اور تمہیں جائیدادوں اور مویشیوں کا مالک بنایا ہے یہ بات شکر گزار بنانے والی ہونی چاہئے اور ہمیشہ یہ خیال رہے کہ اصل مالک تو اللہ تعالیٰ ہے جس نے مجھے ان چیزوں کا مالک بنایا ہے.جس نے دنیا کا یہ عارضی سامان ہمارے سپرد کیا ہے اور اس کی ملکیت ہمیں دی ہے اور ملکیت کی شکر گزاری کا یہ حق ہے جو اس طرح ادا ہو سکتا ہے جس طرح اس اندھے نے ادا کیا، جب یہ صورت ہو تو پھر جو اصل مالک ہے اور تمام قدرتوں کا مالک ہے اپنے انعامات سے نوازتا ہے اور یہ انعام ایمان پر قائم کرنے والے ہوتے ہیں اور اس کی عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوتے ہیں.ورنہ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بعض اوقات ذلیل و رسوا کرتا ہے.اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کی مالکیت کے اظہار کے لئے اور اس کی مالکیت کی صفت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا بھی سکھائی ہے تا کہ ہم ہمیشہ اس کے فضلوں کے حصہ دار بنتے رہیں.جیسا کہ فرماتا ہے قُلِ اللَّهُمَّ مَلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ..إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران (27) تو کہہ دے اے میرے اللہ ! سلطنت کے مالک تو جسے چاہے فرمانروائی عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے فرمانروائی چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے.خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقینا تو ہر چیز پر جسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.پس یہ بات ہمیشہ سامنے رہے اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی نہ کی جائے اس کے حکموں پر عم ر عمل نہ کیا جائے تو وہ جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے جس کے سامنے نہ حکومتیں کوئی چیز ہیں، نہ دولتیں کوئی چیز ہیں وہ اگر کمزوروں کا بھی مددگار بن جائے تو ان کو بھی عزت کے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے اور طاقتوروں اور دولتمندوں کو رسوا اور ذلیل کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی اور قومی طور پر بھی سمیٹنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس کے احکامات پر عمل کیا جائے.وہ سب قدرتوں کا مالک ہے.وہ سب خیر کا سر چشمہ ہے.اس نے ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ میرے احکامات پر عمل کرو تا کہ میری رضا حاصل کرنے والے بنو.اللہ کرے کہ مسلم اُمہ بھی اس نکتے کو سمجھ لے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے سب سے پہلے مخاطب ہیں تا کہ ان قوموں کے ہاتھوں، جن کو اللہ تعالیٰ نے مغضوب اور ضال قرار دیا ہوا ہے، گھٹیا سلوک سے بچ جائیں.ذلیل ورسوا ہونے کے سلوک سے بچ جائیں.ان ظالم لوگوں نے بھی اپنی سزا بھگتنی ہے.لیکن اگر زمانے کے امام کو نہ مان کر مسلمان ایک ہاتھ پر جمع نہ ہوں گے تو ان کو بھی سزا ملتی جائے گی.اگر یہ ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تو اتنی ہی جلدی یہ ذلت اور رسوائی کی مار اُن پر پڑے گی جن کو اللہ تعالیٰ نے مغضوب اور ضال قرار دیا ہے.اب اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر
111 خطبہ جمعہ 16 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہے کہ ان لوگوں میں سے بھی وہی لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچیں گے جن کو اللہ تعالیٰ سیدھا راستہ دکھائے گا.پس اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان لوگوں کو سمجھانا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "پانچواں سمندر ملِكِ يَوْمِ الدِّين ( کی صفت ) ہے اور اس سے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة : 7) کا جملہ مستفیض ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے غضب اور اس کے (انسان کو ضلالت اور گمراہی میں چھوڑ دینے کی حقیقت لوگوں پر مکمل طور پر جزا اور سزا کے دن ہی ظاہر ہو گی.جس دن اللہ تعالیٰ اپنے غضب اور انعام کے ساتھ جلوہ گر ہو گا اور ان کو اپنی طرف سے ذلت دے کر یا عزت دے کر ظاہر کر دے گا.اور اس حد تک اپنے آپ کو ظاہر کر دے گا کہ اس طرح کبھی اپنے وجود کو ظاہر نہیں کیا ہو گا.اور ( خدا ) کی راہ میں ) سبقت لے جانے والے یوں دکھائی دیں گے جیسے میدان میں آگے بڑھا ہوا گھوڑا.اور گنہگا را پنی کھلی کھلی گمراہی میں نظر آئیں گے اور اُس دن منکروں پر واضح ہو جائے گا کہ وہ در حقیقت غضب الہی کے مورد تھے اور اندھے تھے.اور جو اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا.لیکن اس دنیا کی نابینائی منفی ہے اور جزا سزا کے دن وہ ظاہر ہو جائے گی.پس جن لوگوں نے انکار کیا اور ہمارے رسول کی ہدایت اور ہماری کتاب ( قرآن کریم ) کے نور کی پیروی نہ کی اور اپنے باطل معبودوں کی اتباع کرتے رہے وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دیکھیں گے اور جہنم کے جوش اور اس کی خوفناک آواز کو سنیں گے اور اپنی گمراہی اور کج روی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے.اپنے آپ کو لنگڑے کانے جیسے پائیں گے اور جہنم میں داخل ہوں گے جہاں وہ لمبا عرصہ رہیں گے اور ان کا کوئی شفیع نہیں ہوگا.اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ (خدا کا اسم ملِكِ يَوْمِ الدِّين دو پہلوؤں والا ہے.وہ جسے چاہے گمراہ ٹھہراتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے.پس تم دعا کرو کہ وہ ہدایت یافتہ بنادے“.کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 118-119 ترجمه از عربی عبارت تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 116-117 حاشیہ) پس جہاں اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے، اپنی مالکیت کی حقیقت کی سمجھ عطا فرماتے ہوئے ہمارے سے ایسے اعمال کروائے جو ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنا ئیں.اس کی سزا سے ہم ہمیشہ بچے رہنے والے ہوں اور وہ اپنی ہدایت کی راہیں ہمیشہ ہمیں دکھا تا ر ہے ، وہاں مسلم امہ کے لئے بھی بالخصوص دعا کریں کہ وہ اپنے مالک حقیقی کی منشاء کو سمجھنے والے ہوں اور زمانے کے حالات کے مطابق اپنی مالکیت کے تحت جو اُس نے یہ امام بھیجا ہے.(اللہ جب حالات خراب ہوں تو نبی مبعوث فرماتا ہے یا مصلح بھیجتا ہے.یہ بھی اپنی مالکیت کی صفت کے تحت ہی بھیجتا ہے جیسا کہ میں نے پیچھے بتایا تھا).اس کو یہ لوگ ماننے والے ہوں اور اس کے مددگار ہو کر دنیا میں اسلام کے غلبہ کی کوشش کریں اور اس روح کے ساتھ اس کے حکموں پر چلنے والے ہوں جس کی وہ توقع رکھتا ہے.اور بالعموم دنیا کے لئے بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خدا کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے جو مِلِكِ يَوْمِ الدِّین ہے تا کہ اس کی پکڑ سے بچ سکیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ جوڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کی بیوہ تھیں وہ امریکہ
112 خطبہ جمعہ 16 / مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم میں 13 مارچ کو وفات پاگئی ہیں.ان کا جنازہ یہاں آئے گا اس کے بعد پاکستان لے جایا جائے گا.انشاء اللہ.یہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے تایا چوہدری غلام حسین صاحب کی بیٹی تھیں.شادی سے پہلے بھی ان کا رشتہ تھا.وہ بھی بڑے دیندار آدمی تھے.امتہ الحفیظ صاحبہ کی پیدائش سے قبل ان کے والد نے رویا میں دیکھا تھا کہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی سواری آئی ہے اور ان کے سامنے رکی ہے.ایک لڑکی باہر آئی ہے اور اس نے السلام علیکم کہا.جس پر ان کی پیدائش کے وقت ان کا نام امتہ الحفیظ رکھ دیا اور یہ چونکہ جھنگ کے رہنے والے تھے اس لئے وہیں تعلیم حاصل کی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ساتھ نکاح پڑھایا تھا.اس کے بعد جب ڈاکٹر صاحب یہاں آ گئے تھے تو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہاں رہیں اور UK میں ان کی لجنہ میں کافی لمبا عرصہ خدمات ہیں.تقریباً 28 سال بحیثیت صدر لجنہ UK انہوں نے خدمات انجام دیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ کو آرگنا ئز کیا.عورتوں کی تربیت کے لئے بڑے آرام سے پیار سے سمجھانے والی تھیں.بڑی نرم مزاج تھیں اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.اسی طرح ان کا خلافت سے بڑا وفا اور اطاعت کا تعلق تھا.بڑے نیک جذبات رکھتی تھیں اور بڑی عاجزی سے ملا کرتی تھیں.اسی طرح نظام جماعت سے بھی بڑا والہانہ تعلق تھا.بڑی سادہ صبر کرنے والی اور منکسر المزاج تھیں، بڑی دعا گو تھیں اور ایسے دعا کرنے والے لوگوں میں شامل تھیں جن کو میرا خیال ہے اور میرا ان کے ساتھ چند سال کا تجربہ ہے کہ ان کو دعا کے لئے کہو تو تسلی ہوتی تھی کہ دعا کے لئے کہا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے.ان کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے.ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.انہوں نے اللہ کے فضل سے بچوں کی بھی اچھی تربیت کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 6 مارچ تا 12 اپریل 2007، ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 113 (12) خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء فرمودہ مورخہ 23 / مارچ 2007ء بمطابق 23 رامان 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج 23 مارچ ہے.جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آج کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ آج سے 118 سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے بیعت کا آغاز فرمایا تھا اور یوں جماعت کا قیام عمل میں آیا تھا.یہ دن اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس لئے اُس وقت اسلام کے جو حالات تھے اس کے بارے میں تھوڑا سا پس منظر بھی بیان کر دیتا ہوں.اُس وقت جو مسلمانوں کی حالت تھی ، اُس سے ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اسلام کا درد تھا، بے چین تھا.برصغیر میں آریوں اور عیسائی پادریوں اور ان کے مبلغین نے اسلام پر بے انتہا تابڑ توڑ حملے شروع کئے ہوئے تھے.انتہائی شدید حملے تھے کہ مسلمان علماء بھی اُس وقت سہمے رہتے تھے اور ان کے پاس ان حملوں کا کوئی جواب نہیں تھا.کچھ تو لا جواب ہونے کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کی جھولی میں گرتے جا رہے تھے اور کچھ بالکل اسلام سے لاتعلق ہورہے تھے.عیسائیت اور دوسرے مذاہب جو حملہ کرنے والے تھے ، اُس وقت ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر کوئی شخص تھا.تو ایک ہی جری اللہ تھا، یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام.آپ نے پاک و ہند میں اس وقت کے تمام مذاہب یعنی آریہ سماج ، برہمو سماج یا عیسائیت کے ماننے والے، جو اس وقت اسلام اور بانی اسلام پرتحریر وتقریہ سے خوفناک حملے کر رہے تھے، ان سب کو اپنی معرکہ آراء کتاب براہین احمدیہ میں جو آپ نے چار حصوں میں تحریر فرمائی تھی ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ ان کو خاموش کر دیا.اس کا پہلا اور دوسرا حصہ 1880ء میں اور تیسرا حصہ 1882ء میں اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع فرمایا.اس میں آپ نے قرآن کریم کے کلام الہی اور بے نظیر ہونے اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کے دعویٰ نبوت میں بچے اور صادق ہونے کے ناقابل تردید دلائل بیان فرمائے اور فرمایا کہ میں نے جو دلائل دیئے ہیں، جو ان دلائل کو رڈ کرے گا اس کے لئے چیلنج ہے کہ اگر ان کا تیسرا حصہ یا چوتھا حصہ یا پانچواں حصہ بھی دلائل دے دے تو دس ہزار روپے انعام دوں گا ، جو اس وقت ایک بہت بڑی رقم تھی.اس کتاب نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کئے اور ان حملہ آوروں کے منصوبوں کو بھی خاک میں ملایا.اسلام کی خاطر آپ کے اس
خطبات مسر در جلد پنجم 114 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء جوش کو دیکھ کر آپ سے ارادت کا تعلق رکھنے والے بعض مخلصین آپ کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ آپ ہماری بیعت لیں.لیکن آپ انکار فرماتے رہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس بات کا حکم نہیں ملا.حکم ملنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اعلان یکم دسمبر 1888ء کو تبلیغ کے نام سے شائع فرمایا جس میں آپ نے فرمایا کہ: میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموما اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور کچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولی کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کا ہلانہ اور غذارانہ زندگی کے چھوڑنے کیلئے مجھ سے بیعت کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لا زم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کیلئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کیلئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کیلئے بدل و جان تیار ہوں گے.یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچادیا ہے.اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (مجموعه اشتهارات جلد اول صفحه 158 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه یعنی جب تو نے اس خدمت کیلئے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسہ کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے رُوبرو اور ہماری وحی سے بنا.جولوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں، خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ ہو گا جو ان کے ہاتھ پر ہو گا ).پھر آپ نے 12 جنوری 1889ء کو ایک اعلان تکمیل تبلیغ “ کے نام سے شائع فرمایا اور اس میں یکم دسمبر 1888ء کے اشتہار کا حوالہ دے کر 10 شرائط بیعت درج فرمائیں.ان شرائط بیعت کو ہم سب جانتے ہیں لیکن یاد دہانی کیلئے تا کہ یاد تازہ ہو جائے اور احمدی بھی اس سے استفادہ کر لیں اور کیونکہ ایم ٹی اے بڑے وسیع حلقہ میں غیروں میں بھی سنا جاتا ہے وہ بھی اندازہ کرسکیں کہ یہ شرائط کیا ہیں، ان شرائط کو میں پڑھ دیتا ہوں.پہلی شرط آپ نے فرمائی: ” بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.“ دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتارہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگر چہ کیسا ہی جذ بہ پیش آوے“.شرط سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا
خطبات مسرور جلد پنجم 115 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا“.شرط چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کوعموما اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا ، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے“.شرط پنجم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور ٹیسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کیلئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا“.شرط ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کر لے گا.اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستورالعمل قرار دے گا“.شرط ہفتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا“.آٹھویں شرط یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز مجھے گا“.نویں شرط یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا“.دسویں شرط یہ کہ اس عاجز سے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ) عقد اخوت محض اللہ با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.(مجموعه اشتهارات جلد اول صفحه 160-159 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه) آج جماعت احمدیہ کا خلافت سے جو رشتہ قائم ہے وہ بھی اس لئے ہے کہ اس عہد بیعت کے تحت ہر احمدی اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق جوڑ رہا ہے اور پھر اس سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ اور خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے.کاش آج کے مسلمان بھی یہ نکتہ سمجھے جائیں اور زمانے کے مسیح کا انکار کرنے کی وجہ سے طرح طرح کی جن مشکلات میں مبتلا ہیں، اُن سے نجات پائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا ، آنحضرت ﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا اور قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنا تھا.اس مقصد کیلئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن ہونے کے بعد ایک پاک جماعت کے قیام کا اعلان فرمایا اور بیعت لی.آپ کا آنحضرت ﷺ سے عشق انتہا کو پہنچا ہوا تھا اور
خطبات مسرور جلد پنجم 116 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء آپ آنحضرت ﷺ کے مقام کی حقیقی پہچان رکھتے تھے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اگر کسی کو پہچان تھی تو وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوتھی.آپ ایک جگہ آنحضرت ﷺ کے مقام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی ، وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اُس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرارا فاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے“.(حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد 22 صفحه 118 119 ) پھر آپ فرماتے ہیں : وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے ، اپنے اعمال سے، اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقا وثبات دکھلایا اور انسان کامل کہلایا.وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مراہا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا ، وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء ، امام الاصفیاء، ختم المرسلين، فخر النبين جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اتمام الحجة.روحانی خزائن جلد 8 صفحه (308 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت سے بھی یہ توقع رکھتے تھے اور یہ تعلیم دیتے تھے کہ قرآن اور آنحضرت ﷺ سے سچا عشق اور محبت قائم ہو.اسی لئے شرائط بیعت میں قرآن کریم کی تعلیم اپنے پر لاگو کرنے اور آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی طرف آپ نے خاص توجہ دلائی ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دینگے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک
117 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کیلئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 13-14) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کے مقام کی پہچان کروانا اور دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچانا تھا اور نہ صرف بچانا بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانا بھی تھا، اُس ہدایت سے دنیا کو روشناس کروانا بھی تھا جو آخری شرعی نبی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری تھی اور جس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں مسیح و مہدی نے آ کر یہ کام کرنا ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر اللہ تعالیٰ کی مدد سے غالب کرنا ہے.آپنے یہ دعوئی فرمایا کہ وہ مسیح و مہدی جو آنا تھا وہ میں ہوں اور اپنے دعوے کی سچائی میں آپ نے بیشمار پیشگوئیاں فرما ئیں جو بڑی شان سے پوری ہوئیں.ان میں زلازل کی پیشگوئیاں بھی ہیں، طاعون کی پیشگوئی بھی ہے اور دوسری پیشگوئیاں ہیں.پس یہ تمام نشانیاں جو آپ کی تائید میں پوری ہوئیں، یہ زمینی اور آسمانی آفات کی پیشگوئیاں جو آپ کی تائید میں پوری ہو ئیں ، یہ آپ کی سچائی پر دلیل تھیں.پھر آنحضرت ﷺ کی یہ عظیم الشان پیشگوئی کہ ہمارے مہدی کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی چاند اور سورج کا خاص تاریخوں میں گرہن لگتا ہے جو پہلے کبھی کسی کی نشانی کے طور پر اس طرح نہیں ہوا کہ نشانی کا اظہار پہلے کیا گیا ہو اور دعویٰ بھی موجود ہو.ان سب باتوں کے ساتھ ایک شخص کا دعویٰ کہ آنے والا مسیح و مہدی میں ہوں اگر اپنی امان چاہتے ہو تو میری عافیت کے حصار میں داخل ہو جاؤ.یہ سب کچھ اتفاقات نہیں تھے.عقل رکھنے والوں کیلئے ، سوچنے والوں کیلئے ، یہ سوچنے کا مقام ہے.احمدی خوش قسمت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس موعود کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہم نے بھی اس پیغام کو جس کو لے کر آپ اٹھے تھے ، دنیا میں پھیلانا ہے تا کہ خدا کی تو حید دنیا میں قائم ہو اور آنحضرت ﷺ کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرائے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ تو ہونا ہے.ہم نے تو اس کام میں ذراسی کوشش کر کے ثواب کمانا ہے، ہمارا صرف نام لگنا ہے.اللہ تعالیٰ نے تو سعید فطرت لوگوں کو تو حید پر قائم کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی امت میں شامل
خطبات مسرور جلد پنجم 118 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اس لئے اس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیجا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں ، کیا یورپ اور کیا ایشیا ، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں.توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کر دیگر رزمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے“.( الوصية روحانی خزائن جلد 20 صفحه 30-307 پس یہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اب دنیا میں اپنے اس پاک نبی ﷺ کی حکومت قائم کرے.گو آجکل دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے یہ بات بظاہر بڑی مشکل نظر آتی ہے لیکن اگر غور کریں تو وہ شخص جو قادیان ( جو پنجاب کی ایک چھوٹی سی بستی ہے ) میں اکیلا تھا.اس مسیح و مہدی کی زندگی میں ہی لاکھوں ماننے والے اس کو اللہ تعالیٰ نے دیکھا دیئے.بلکہ یورپ وامریکہ تک آپ کے نام اور دعوے کی شہرت ہوئی اور آپ کو ماننے والے پیدا ہوئے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر چڑھتا ہے وہ ہمیں ترقی کی نئی راہیں دکھاتا ہوا چڑھتا ہے.آج 185 ممالک میں آپ کی جماعت کا قیام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جس نے اس زمانے میں تمام دنیا کو دین واحد پر جمع کرنا تھا.دنیا کے تمام براعظموں کے اکثر ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کی عملی صورت ہمیں بیعتوں کی شکل میں نظر آ رہی ہے.آج بھی اگر کوئی اسلام کا دفاع کر رہا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تعلیم سے فیضیاب ہو کر آپ کو ماننے والا ہی کر رہا ہے.آج عرب دنیا بھی اس بات کی گواہ ہے کہ عیسائیت کے ہاتھوں گزشتہ چند سالوں سے عرب مسلمان کس قدر زچ ہو رہے تھے ، کتنے تنگ تھے.اللہ کے اس پہلوان کے تربیت یافتوں نے ہی عرب دنیا میں عیسائیت کا ناطقہ بند کیا.کیونکہ آج اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے وہ دلائل قاطعہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیئے گئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کیا جا سکتا ہے اور دنیا کے غلط عقائد کا منہ بند کیا جاسکتا ہے.آج اتنی آسانی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برہان کی روشنی سے عقائد باطلہ کا جورڈ کیا جارہا ہے، مختلف وسائل استعمال ہوتے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس الہام کی صورت میں فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.یہ پیغام جو اتنی آسانی سے ہم دنیا کے کناروں تک پہنچارہے ہیں یہ بھی اس بات کی دلیل اور تائید ہے.ایک چھوٹی سی غریب جماعت جس کے پاس نہ تیل کی دولت ہے نہ دوسرے دنیاوی وسائل ہیں اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آج کل کی اس دنیا کے ماڈرن ذرائع اور وسائل استعمال کر کے تبلیغ کی جاسکتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی
خطبات مسرور جلد پنجم 119 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء صداقت کی دلیل ہے.آج ہم اللہ تعالیٰ کے آپ سے کئے گئے وعدوں کو نئے سے نئے رنگ میں پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں.آج اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو ایک اور شان کے ساتھ بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو آج ایک نئے سیٹلائٹ کے ذریعہ سے جو عرب دنیا کیلئے خاص ہے ایک نئے چینل mta3 العربية جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو 24 گھنٹے عربی پروگرام پیش کرے گا تا کہ عرب دنیا کی پیاسی روحیں، نیک فطرت اور سعید روحیں اُن خزائن سے فیضیاب ہوسکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقسیم فرمائے تھے.اس چینل کی وجہ سے مخالفت بھی شروع ہے.وہاں عرب میں بھی جماعت کے مخالفین ہیں.اس کمپنی کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں جس سے سیٹلائٹ کا یہ معاہدہ ہوا ہے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: خدا چاہتا ہے کہ اب یہ پیغام پہنچے ، اس لئے اب یہ خدا کے منشاء کے مطابق پہنچے گا اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں.انشاء اللہ.دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ ان مدد کرنے والوں کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھے، جو اس پیغام کو پہنچانے میں مدد کر رہے ہیں اور انہیں اپنے معاہدوں پر قائم رہنے کی بھی توفیق دے.اور سعید روحوں کو اس روحانی مائدہ سے فیض پانے کی بھی توفیق دے.ہمیں اس بارے میں تو ذرا بھی شک نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت انشاء اللہ تعالیٰ اس پیغام کو قبول کرے گی.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے.ایک الہام ہے." إِنِّی مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ الله سب مسلمانوں کو جوڑوئے زمین پر ہیں جمع کر و علی دِينِ وَاحِدٍ.تذكرة صفحه 490 ایڈیشن چهارم 2004ء مطبوعه (ربوه جو پہلا حصہ ہے اس کا عربی ترجمہ ہے، میں تیرے ساتھ ہوں اے رسول اللہ کے بیٹے.اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں:.یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو.على دِینِ وَاحِدٍ.یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.فرمایا کہ احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو، خون نہ کرو.وغیرہ.اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے.....غرض یہ امر شرعی ہے.دوسرا امر گونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضاء وقدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا يَنَارُ كُونِی بَرُدًا وَّسَلَمًا (الانبياء : 70) اور وہ پورے طور پر وقوع میں آ گیا.جب آگ کو ٹھنڈے ہونے کا حکم ملا تو وہ ٹھنڈی ہو گئی اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانان روئے
خطبات مسرور جلد پنجم 120 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء زمین عـلــى دِينِ وَاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں“.(ملفوظات جلد 4 صفحه 57-5 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جلد اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے دین واحد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنی زندگیوں میں یہ نظارے دیکھیں.آج جیسا کہ میں نے کہا کہ mta3 الْعَرَبِيَّة کا اجراء بھی ہو رہا ہے ، اس لئے اس مناسبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں، آپ نے عربوں کو مخاطب ہو کر جو پیغام دیا ہے اس کا کچھ حصہ پڑھتا ہوں.اس کا تو صرف میں ترجمہ ہی پڑھوں گا.اللہ تعالیٰ جلد عرب دنیا کے بھی سینے کھولے اور وہ زمانے کے امام کو پہچان لے.آپ عرب دنیا کو اپنا پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں: السلام علیکم ! اے عرب کے تقوی شعار اور برگزیدہ لوگو! السلام علیکم، اے سرزمین نبوت کے باسیو! اور خدا کے عظیم گھر کی ہمسائیگی میں رہنے والو! تم اقوام اسلام میں سے بہترین قوم ہو اور خدائے بزرگ و برتر کا سب سے چنیدہ گروہ ہو.کوئی قوم تمہاری عظمت کو نہیں پہنچ سکتی.تم شرف و بزرگی میں اور مقام و مرتبہ میں سب پر سبقت لے گئے ہو.تمہارے لئے تو یہی فخر کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا آغاز حضرت آدم سے کر کے اس نبی پر ختم کیا جو تم میں سے تھا اور تمہاری ہی زمین اس کا وطن اور مولد و مسکن تھی.تم کیا جانو کہ اس نبی کی کیا شان ہے.وہ محمد مصطفی.تی ہے ، برگزیدوں کا سردار، نبیوں کا فخر ، خاتم الرسل اور دنیا کا امام.آپ کا احسان ہر انسان پر ثابت ہے اور آپ کی وحی نے تمام گزشتہ رموز و معارف اور نکات عالیہ کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے.اور جو معارف حقہ اور ہدایت کے راستے معدوم ہو چکے تھے ان سب کو آپ کے دین نے زندہ کر دیا.اے اللہ ! تو روئے زمین پر موجود پانی کے تمام قطروں اور ذروں اور زندوں اور مردوں اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ ظاہر یا مخفی ہے ان سب کی تعداد کے برابر آپ پر رحمت اور سلامتی اور برکت بھیج.اور ہماری طرف سے آپ کو اس قدر سلام پہنچا جس سے آسمان کناروں تک بھر جائیں.مبارک ہے وہ قوم جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کا جواً اپنی گردن پر رکھا.اور مبارک ہے وہ دل جو آپ ﷺ تک جا پہنچا اور آپ میں کھو گیا اور آپ کی محبت میں فنا ہو گیا.اے اس زمین کے باسیو جس پر حضرت محمد مصطفی کے مبارک قدم پڑے اللہ تم پر رحم کرے اور تم سے راضی ہو جائے اور تمہیں راضی برضا کر دے.اے بندگان خدا! مجھے تم پر بہت حسن ظن ہے اور میری روح تم سے ملنے کیلئے پیاسی ہے.میں تمہارے وطن اور تمہارے بابرکت وجودوں کو دیکھنے کیلئے تڑپ رہا ہوں تا کہ میں اس سرزمین کی زیارت کر سکوں جہاں حضرت خیر الوریٰ ﷺ کے مبارک قدم پڑے اور اس مٹی کو اپنی آنکھوں کیلئے سرمہ بنالوں اور میں مکہ اور اس کے صلحاء اور اس کے مقدس مقامات اور اس
121 خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کے علماء کو دیکھ سکوں اور تاکہ میری آنکھیں وہاں کے اولیاء کرام سے مل کر اور وہاں کے عظیم مناظر کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوں.پس میری خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اپنی بے پایاں عنایت سے آپ لوگوں کی سرزمین کی زیارت نصیب فرمائے اور آپ لوگوں کے دیدار سے مجھے خوش کر دے.اے میرے بھائیو! مجھے تم سے اور تمہارے وطنوں سے بے پناہ محبت ہے.مجھے تمہاری راہوں کی خاک اور تمہاری گلیوں کے پتھروں سے بھی محبت ہے اور میں تم ہی کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتا ہوں.اے عرب کے جگر گوشو! اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو خاص طور پر بے پناہ برکات ، بے شمار خوبیوں اور عظیم فضلوں کا وارث بنایا ہے.تمہارے ہاں خدا کا وہ گھر ہے جس کی وجہ سے اُم القریٰ کو برکت بخشی گئی اور تمہارے درمیان اس مبارک نبی کا روضہ ہے جس نے تو حید کو دنیا کے تمام ممالک میں پھیلایا اور اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کیا.تم ہی میں سے وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے سارے دل اور ساری روح اور کامل عقل وسمجھ کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مدد کی اور خدا کے دین اور اس کی پاک کتاب کی اشاعت کیلئے اپنے مال اور جانیں فدا کر دیں.بے شک یہ فضائل آپ لوگوں ہی کا خاصہ ہیں اور جو آپ کی شایان شان عزت و احترام نہیں کرتا وہ یقینا ظلم و زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے.اے میرے بھائیو! میں آپ کی خدمت میں یہ خط ایک زخمی دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ لکھ رہا ہوں.پس میری بات سنو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے“.عربی عبارت کا اردو ترجمه آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحه 419 تا 422 پھر آپ فرماتے ہیں: ”اے عرب کے شریف النفس اور عالی نسب لوگو! میں قلب و روح سے آپ کے ساتھ ہوں.مجھے میرے رب نے عربوں کے بارے میں بشارت دی ہے اور الہا نا فرمایا ہے کہ میں اُن کی مدد کروں اور انہیں ان کا سیدھا راستہ دکھاؤں اور ان کے معاملات کی اصلاح کروں اور اس کام کی انجام دہی میں مجھے آپ لوگ انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب و کامران پائیں گے.اے عزیز و! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کی تائید اور اس کی تجدید کیلئے مجھ پر اپنی خاص تجلیات فرمائی ہیں اور مجھ پر اپنی برکات کی بارش برسائی ہے اور مجھ پر قسم ہا قسم کے انعامات کئے ہیں اور مجھے اسلام اور نبی کریم ﷺ کی امت کی بدحالی کے وقت میں اپنے خاص فضلوں اور فتوحات اور تائیدات کی بشارت دی ہے.پس اے عرب قوم ! میں نے چاہا کہ تم لوگوں کو بھی ان نعمتوں میں شامل کروں.میں اس دن کا شدت سے منتظر تھا.پس کیا تم خدائے رب العالمین کی خاطر میرا ساتھ دینے کیلئے تیار ہو؟“ ور ( عربی سے اردو ترجمه ، حمامة البشرى.روحانی خزائن جلد 7 صفحه 182-183 پس اے سرزمین عرب کے باسیو! آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نمائندے کی حیثیت سے خدائے رب العالمین کے نام پر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اس روحانی فرزند کی آواز
122 خطبات مسر در جلد پنجم خطبہ جمعہ 23 مارچ 2007ء پر لبیک کہو جس کی تعلیم اور اس کے رسول ﷺ سے عشق کی چند باتیں یا مثالیں میں نے پیش کی ہیں اگر اس مسیح و مہدی کے کلام میں ڈوب کر دیکھو تو خدائے واحد ویگانہ سے تعلق اور پیار اور حضرت محمد مصطفی ﷺ سے عشق اور آپ کیلئے غیرت کے جذبات کے علاوہ اس میں اور کچھ نظر نہیں آئے گا.صاف دل ہو کر اگر دیکھو گے تو جماعت احمدیہ کی 100 سال سے زائد کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جماعت کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتا رہا ہے.آج اس سیٹیلائٹ کے ذریعہ سے آپ تک وسیع پیمانے پر یہ پیغام پہنچنا بھی اس تائید و نصرت کی ایک کڑی ہے.اللہ تعالیٰ نے آج یہ انتظام فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کو ماننے والی ایک چھوٹی سی غریب جماعت، پیسہ پیسہ جوڑ کر ، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس زمانے کے امام کا پیغام تمہیں سیٹلائٹ کے ذریعہ سے پہنچانے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.پس بدظنی سے بچتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس جری اللہ کی تائید و نصرت کیلئے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور مخالفت پر کمر بستہ ہونے کی بجائے اس مسیح و مہدی کی آواز پر کان دھرو جسے خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اپنے وعدے کے مطابق جو اس نے آنحضرت ﷺ سے کیا تھا مبعوث فرمایا ہے.پس آؤ اور اس مسیح و مہدی کے منکرین میں شامل ہونے کی بجائے اس کے دست راست بن جاؤ کہ آج اُمت مسلمہ بلکہ تمام دنیا کی نجات حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اس عاشق صادق کا ہاتھ بٹانے میں ہی ہے.اے عرب کے رہنے والو! دلوں میں خوف خدا پیدا کرتے ہوئے ، خدا کیلئے اس درد بھری آواز پر کان دھر و اور اس درد کو محسوس کرو جس کے ساتھ یہ صیح و مہدی تمہیں پکار رہا ہے.آؤ اور اس کے سلطان نصیر بن جاؤ.یا درکھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اُسے دنیا پر غالب کرے گا.تم نہیں تو تمہاری نسلیں اس برکت سے فیض پائیں گی اور پھر وہ یقینا اس بات پر تأسف اور افسوس کریں گی کہ کاش ہمارے بزرگ بھی آنحضرت ﷺ کے ارشاد کو سمجھتے ہوئے اس عاشق رسول اللہ ﷺ اور مسیح و مہدی کے معین و مددگار بن جاتے اور اس کی جماعت میں شامل ہو جاتے.اللہ کرے کہ تم لوگ آج اس حقیقت کو سمجھ لو.اللہ تعالیٰ ہماری یہ عاجزانہ دعائیں قبول فرمائے.( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 13 تا 19 اپریل 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 123 (13) خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2007ء ( 30 رامان 1386 ہجری شمسی مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : وَلِلهِ مُلكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ عَلى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِيرٌ (آل عمران: 190) اللہ تعالیٰ جو مالک کل ہے.جو آسمان کا بھی مالک ہے اور زمین کا بھی مالک ہے.کوئی چیز اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے مالک اور الملك ہونے کی صفت کو قرآن کریم میں مختلف رنگ میں مختلف مضامین کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور یہ ہر مومن کا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ادراک حاصل کرے ، اسے ذہن میں رکھے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، اس کی عبادات کی طرف توجہ دے، اس کے احکامات پر عمل کرے، اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرے.وہ جو مَالِكِ يَوْمِ الدِّين ہے.اُس سے اس دن سے ڈرے جس دن جزا سزا کا فیصلہ ہوگا.کوئی بھی عقلمند انسان اس دن اپنے زعم میں یہ خیال کر کے کہ میں نے زندگی میں بڑے نیک اعمال کئے ہیں، میں تو لازماً جنت میں جانے والوں میں سے ہوں ، جنت میں جانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا.ایسے ہر شخص کو دنیا بے وقوف کہے گی.یہ حدیث ہم کئی بارسن چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر جنت میں نہیں جاسکتا.صحابہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھ پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا تو میں جنت میں جاؤں گا.“ (صحیح بخاری کتاب المرضى باب تمنى المريض الموت حدیث نمبر (5673 تو جب آپ جیسا انسان جس کے لئے یہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے ، آپ جو سب نبیوں سے افضل اور خاتم النبیین ہیں ، آپ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( الاحزاب: (57) اللہ تعالیٰ یقیناً اس نبی پر اپنی رحمت نازل کر رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.پس اے مومنو! تم بھی اس پر درود بھیجتے ہوئے دعائیں کرتے رہا کرو اور اس کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو.آپ ﷺ جن کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنا تھا، جن کی را تیں خدا تعالیٰ کی عبادت میں کھڑے اس طرح گزرتی تھیں کہ پاؤں مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے.(صحيح بخارى كتاب التفسير باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك..حدیث نمبر (4836
124 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم آپ کے بارے میں حضرت عائشہ گواہی دیتی ہیں کہ آپ کے رات اور دن قرآن کریم کی عملی تصویر تھے.(مسلم کتاب صلواة المسافرين باب جامع صلاة الليل حديث نمبر (1623 | پھر اللہ تعالیٰ بھی یہ گواہی دیتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: (5) كه تو نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے.یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ تو اپنے عمل اور تعلیم میں انتہائی درجہ کو پہنچا ہوا ہے.پھر اللہ تعالیٰ آپ سے یہ اعلان کرواتا ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: 163 ).تو ان سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.ان تمام ضمانتوں کے باوجود، ان تمام عملوں کے باوجود، اپنوں اور غیروں کی گواہی کے باوجود خوف ہے.اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں ہے.نہیں، بلکہ اس لئے کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک آپ کو تھا.اللہ کی مالکیت اور پھر اس کے مَالِكِ يَوْمِ الدِّين ہونے کا صحیح فہم آپ گو تھا.اس لئے آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا رحم ما نگتے تھے اور یہی آپ نے اپنے ماننے والوں کو تلقین فرمائی.پس یہی اصل ہے کہ جو مَالِكِ يَوْمِ الدِین ہے اُس سے اُس کا فضل اور رحم ما نگ کر ہی انسان کی بچت ہے.کسی کو کیا پتہ کہ کون ساعمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہے اور کونسا نہیں اور کس نیت سے کوئی نیکی کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جانتا ہے.ہر انسان کے دل کا حال بظاہر دوسروں کو نیکی کرنے والا بھی نظر آتا ہو تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی.ان تمام باتوں اور وعدوں کے باوجود اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا خوف دامنگیر تھا تو ایک عام مومن کو کس قدر اس کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ جہاں اس بات کا اظہار فرماتا ہے کہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّين جزا سزا میرے ہاتھ میں ہے.گناہگار کو بھی بخش سکتا ہوں اور بخشتا ہوں.وہاں مومنوں کو یہ تسکی بھی کرواتا ہے کہ جب زمین و آسمان کی ملکیت میری ہے اور ہر چیز پر میری دائمی قدرت ہے.ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی.اس میں ذرہ برابر بھی نہ کبھی کمی واقع ہوئی اور نہ ہوگی.تو میرے احکامات پر عمل کر کے خالص میرے لئے ہو کر ہر قسم کے حقوق ادا کرو تو میری پناہ میں رہو گے اور ہر شر سے بچائے جاؤ گے.پس اس بات کو سمجھتے ہوئے میرے احکامات پر عمل کرو.ورنہ یا درکھو اگر میرے مقابلے پر کسی اور کی پناہ تلاش کرنے کی کوشش کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے.تمہیں کوئی مستقل پناہ نہیں دے سکتا.اس دنیا کی عارضی منفعتیں تمہیں بعض دفعہ بہت نظر آتی ہیں لیکن پھر جزا سزا کے دن تمہارے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہو گی.اور ایسے تمام لوگ جو کفر میں بڑھے ہوئے ہیں ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت میں رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے.لیکن ان کفر میں بڑھے ہوؤں کے لئے جب جزا سزا کا دن آئے گا تو بڑا کڑا اور دشوار گزار دن ہوگا.پس اگر اللہ تعالیٰ کے اُس دن اللہ تعالیٰ کی رحمانیت سے فیض پانا ہے تو اس کے بتائے ہوئے رستوں پر چلو اور پھر بھی یہ خوف دامن گیر رہے کہ وہ
125 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم قادر مطلق ہے ، ہماری کسی غلطی پر ہمیں پکڑ نہ لے اس لئے ہمیشہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس آسمان و زمین کے مالک سے رحمت اور بخشش کے طلبگار رہیں.اس سے گناہوں اور غلطیوں کے باوجو د رحم اور بخشش کے امیدوارر ہیں.اس لئے کہ وہ مالک اور بادشاہ ہے.اس نے فرمایا ہے کہ میں عدل سے بالا ہو کر انعام و احسان کرتا ہوں.اگر صرف عدل کا معاملہ ہو تو بہت سے لوگ پکڑ میں آ سکتے ہیں.کہتے ہیں کسی پر قتل کا الزام لگایا گیا جب کہ وہ بے قصور تھا.اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ تعالیٰ انصاف کر اور مجھے اس سزا سے بچا، تو جانتا ہے کہ غلط الزام ہے.باوجود اس کے کہ وہ نیک آدمی تھا ، دعا ئیں قبول ہوتی تھیں اس کی دعا قبول نہیں ہوئی اور اس کو پھانسی کی سزا سنائی گئی.اس نے پھر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ تو تو سب سے زیادہ انصاف کرنے والوں سے زیادہ انصاف کرنے والا ہے.تجھے پتہ ہے کہ جس جرم میں یہ سزا سنائی گئی ہے وہ میں نے نہیں کیا.تو اس پر اسے بتایا گیا کہ تو نے انصاف مانگا تھا تو انصاف یہی ہے جو تجھے مل گیا.گو کہ تو آج ایک غلط الزام میں پکڑا گیا ہے یا سزا سنائی گئی ہے.لیکن فلاں وقت تو نے ایک جانور کو یا کیٹرے کو ظالمانہ طریقے پر مارا تھا.تو آج تجھ سے اس عمل کی پاداش میں یہ سلوک ہو رہا ہے.پس یہ خوف کا مقام ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اپنے زعم میں بعض لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑے نیک اعمال کئے یا لوگ کسی کو نیک اعمال کرنے والا سمجھ رہے ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں.اس لئے جزا سزا کے وقت کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا رحم اور فضل مانگنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کی آغوش میں آسکیں.پس آنحضرت ﷺ نے اپنی سنت سے اپنی دعاؤں سے جو ہمیں یہ نکتہ سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت دل میں رکھو یہی یا در کھنے کے قابل چیز ہے.حضرت عائشہ نے آپ کی ایک دعا کے بارے میں بیان کیا کہ آپ ہر نماز میں پڑھتے تھے.کہ سُبحَنَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَللّهُمَّ اغْفِرْلِی کہ اے اللہ تو پاک ہے ، اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ اے اللہ مجھے بخش دے.(صحیح بخارى كتاب الأذان باب الدعا في الركوع حديث نمبر 794 پس بخشش ، رحم اور فضل مانگنے کی ضرورت ہے ، نہ کہ عدل اور انصاف.کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندرونے کو ہم سے بہتر جانتا ہے.پس احکام پر عمل کر کے بھی حق کے طور پر نہیں بلکہ پھر فضل کے طور پر خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کیوں کہا اور عَادِلِ يَوْمِ الدِّين ( کیوں ) نہیں کہا تو واضح ہو کہ اس میں بھید یہ ہے کہ عدل کا تصور اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک حقوق تسلیم نہ کر لیا جائے اور جہانوں کے پروردگار خدا پر تو کسی کا کوئی حق نہیں اور آخرت کی نجات خدا تعالیٰ کی طرف سے
126 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ان لوگوں کے لئے محض ایک عطیہ ہے جو اس پر ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی اطاعت کرنے اور اس کے احکام کو قبول کرنے ، اس کی عبادت کو بجالانے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے لئے حیران کن تیزی سے قدم بڑھایا.پس تمام احکامات پر عمل کرنے اور حیران کن تیزی سے قدم نیکیوں کی طرف بڑھانے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نیک اجر ملنا ہے وہ حق نہیں ہے.جو ان اعمال کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی ہمیں عطا فرماتا ہے، جس کا اس نے وعدہ کیا ہوا ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہے، احسان ہے.اور کوئی عقلمند انسان عطیہ اور احسان کو حق نہیں سمجھ سکتا.اور اس عطیہ کی انتہا اس وقت ہوتی ہے، اس کی مالکیت کا جلوہ اس وقت انتہا کو پہنچتا ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ...گو وہ اطاعت کے معاملہ کو پورے کمال تک نہ پہنچا سکے اور نہ عبادت کا پورا حق ادا کر سکے ہوں اور نہ ہی معرفت کی حقیقت کو پوری طرح پاسکے ہوں.لیکن ان باتوں کے حصول کے شدید خواہش مند ر ہے ہوں.یعنی حصول تو نہ ہو.اس چیز کو، ان نیکیوں کو پا تو نہ سکے ہوں لیکن ان کی خواہش ہو.حصول کی طرف بڑھنے کی کوشش ہو اور شدید خواہش کی ابتداء ہو چکی ہوتو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی نیک جزا دیتا ہے.کیونکہ یہ عطیہ اور احسان ہے اور مالک حق رکھتا ہے جس پر جتنا چاہے احسان کرے.اگر اللہ تعالیٰ صرف عدل کرنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ لوگ حصہ نہ پا سکتے جو صرف کوشش کرنے والے ہیں.کیونکہ ایسے لوگوں نے وہ مرتبہ حاصل نہیں کیا جس کے حصول کی وہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں.اسی طرح بدی کرنے والوں کے متعلق آپ نے فرمایا کہ (جو) بُرے عمل کرتے رہے اور بدی کرنے پر اپنی جرات میں ترقی کرتے گئے.اور وہ (بدی کے کاموں سے ) رکنے والے نہ تھے“.کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحه 116 عربی ترجمه از تغییر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 136-135) ایسے لوگ پھر اللہ تعالیٰ کی سزا کے اندر آتے ہیں.تو مالک کیونکہ بااختیار ہوتا ہے اس لئے عدل سے بڑھ کر احسان کر سکتا ہے.ہمیشہ احسان اور بخشش کی دعامانگنی چاہئے ورنہ انصاف تو پھر اُسی طرح ہو گا جس طرح میں نے پہلے ایک مثال دی ہے.لیکن یہ جو بدی کرنے والے ہیں یہ بھی اگر اصرار نہ کریں اور نیکی کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اَوْظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (آل عمران: 136) یعنی نیز وہ لوگ جو کسی بے حیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کریں تو اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ بخشا ہے اور جو کچھ وہ کر بیٹھے ہوں اس پر جانتے بوجھتے ہوئے اصرار نہیں کرتے.لیکن اگر اصرار کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتے ہیں.پس ایسے محسن مالک کے در پر نہ جھکنا کتنی بڑی بد بختی ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقل دے جو خدا
127 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کے مقابلے پر دوسرے خدا بنا بیٹھے ہیں اور یہ عقل انہیں آجائے کہ وہ ایک خدا ہے جو دائمی قدرت کا مالک ہے.زمین و آسمان میں اس کی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے.اس کے علاوہ جسے بھی تم اپنا دوست اور مددگار بناتے ہو تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا.پس اس قادر ومقتدر خدا کے آگے جھکو اور اس کے احسان سے جزا سزا کے دن فیض پاؤ.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے اپنی کتاب ”حیات قدسی میں جو انہوں نے لکھی ہوئی ہے، حضرت میر ناصر نواب صاحب کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرمودہ ایک حکایت درج کی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ یہاں اس دنیا میں بھی جزا سزا کا فیصلہ کرتا ہے.لکھتے ہیں کہ حضرت داؤد کے زمانے کی بات ہے کہ ایک درویش حجرہ نشین، جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہتا تھا اور خلوت نشینی اس کا محبوب شغل تھا علیحدہ کمرے میں بند رہتا تھا.ایک دن جب وہ ذکر الہی میں مشغول تھا.اس کے....دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اگر تم البقر ملے تو میں کھاؤں.( یعنی گائے کا گوشت کھانے کی اس کو خواہش پیدا ہوئی ) چنانچہ یہ خواہش جب شدت کے ساتھ اسے محسوس ہوئی تو ایک قریب البلوغ، ایسا گائے کا بچھڑا جو قریباً جوانی کی عمر کو پہنچنے والا تھا اس کے حجرہ کے اندر خود بخود آ گیا اور اس کے گھنے کے ساتھ ہی اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گائے کا بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری خواہش پر اس حجرہ میں آیا ہے.اس لئے اس نے اسے ذبح کیا تا کہ اس کا گوشت کھا کر اپنی خواہش پوری کرے.جب ابھی ذبح کیا ہی تھا کہ اوپر سے ایک شخص آ گیا اور یہ دیکھ کر کہ اس درویش نے بچھڑ ا ذبح کیا ہے غضبناک ہوکر بولا کہ یہ میرا جانور ہے ، تم نے اسے ذبح کیوں کیا.تو اس جانور کو یہاں چوری کر کے لے آیا پھر ذبح کر لیا یہ مجرمانہ فعل ہے.میں اس پر عدالت میں استغاثہ دائر کروں گا.چنانچہ اس شخص نے بحیثیت مدعی حضرت داؤد کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا.عدالت نے مجرم کو طلب کیا اور حضرت داؤ د ه ا نے اس درویش سے پوچھا کہ یہ شخص جو بحیثیت مدعی تجھ پر الزام لگاتا ہے کہ تو نے ایسا ایسا فعل کیا ہے اس الزام کا تمہارے پاس کیا جواب ہے.اس کے متعلق اس درویش نے بیان کیا کہ میرے والد جب کہ میں چھوٹا ہی تھا تجارت کے لئے کسی ملک میں گئے.اس کے بعد میں جوان ہوا اور اسے عرصہ دراز گزر گیا.میں نے کچھ تعلیم حاصل کر کے بعض اہل اللہ سے تعلق پیدا کیا اور گوشہ نشینی کو اختیار کر لیا.اسی اثناء میں جبکہ میں ذکر الہی میں مصروف تھا میرے دل میں گائے کا گوشت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی.اس خواہش کی حالت میں یہ گائے کا بچھڑا میرے حجرہ میں آگیا.میں نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ گائے کا بچھڑا میرے حجرہ میں بھیج دیا ہے.اس لئے میں نے اسے ذبح کر لیا.یہ شخص اوپر سے آ گیا اور غضبناک ہو کر بولا کہ تو نے میرا جانور چرایا ہے اور پھر ذبح بھی کر لیا ہے اور میں عدالت میں مقدمہ دائر کروں گا..چنانچہ اسی بناء پر یہ مجھے ملزم قرار دیتا ہے.میں تو سمجھا تھا اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کے مطابق بھیجا ہے.اب جو فیصلہ عدالت کے نزدیک مناسب ہو وہ فیصلہ کر دے.
128 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم حضرت داؤد کے دل پر اس درویش کے بیان سے بلحاظ اس کی نیکی اور پارسائی اور عاجزانہ حالت کے خاص اثر ہوا.آپ نے فرمایا کہ اچھا اس وقت جاؤ اور فلاں تاریخ کو دونوں مدعی جس نے درخواست دی تھی اور مد عاعلیہ جو دوسرا تھا، جس پر الزام لگایا گیا تھا دونوں حاضر ہو جاؤ تا فیصلہ سنا دیا جائے.جب مدعی اور ملزم دونوں عدالت سے رخصت کئے گئے تو حضرت داؤد نے اللہ تعالیٰ کے حضور بہت دعا کی کہ اے میرے خدا میری عدالت سے کسی کیس کے متعلق ناروا فیصلہ ہونا جو تیرے نزدیک اپنے اندر ظلم کا شائبہ رکھتا ہو میں قطعا پسند نہیں کرتا.تو اس مقدمہ میں میری راہنمائی فرما اور اصل حقیقت جو بھی ہے مجھ پر منکشف فرما، کھول دے.جب حضرت داؤد نے نہایت تضرع سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ جو کچھ درویش نے بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ذکر کی حالت میں اس درویش کے دل میں یہ خواہش ہم نے ہی ڈالی اور گائے کا بچھڑا بھی ہمارے ہی تصرف کے ماتحت درویش کے حجرہ میں لایا گیا اور پھر اس کا ذبح کیا جانا بھی ہمارے ہی منشاء کے مطابق ہوا.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ سب کارروائی ہمارے ہی خاص ارادے کے تحت وقوع میں آئی اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اس درویش کا والد جو بہت بڑا تاجر تھا اور مدت تک باہر تجارت کرنے کے بعد لاکھوں روپے کی مالیت حاصل کی اور کئی ریوڑ بھیٹروں اور بکریوں کے اور کئی گلے گائیوں اور اونٹوں کے اس کی ملکیت میں تھے.وہ واپس وطن کو آرہا تھا اور یہ جو مدعی ہے جو یہ کہتا تھا کہ میری گائے کیوں ذبح کر لی.یہ نمک حرام اس درویش کے باپ کا نوکر تھا.جب وہ تاجر اپنے شہر کے قریب ایک میدان میں اترا اور رات کو سویا تو اس شخص نے جو اس کا نوکر تھا نمک حرامی کی اور چھری سے اس کے اوپر حملہ کر کے ، اس چھری سے جس پر اس شخص کا نام بھی لکھا ہوا تھا ، اس کا نام کندہ تھا اس تاجر کوقتل کر دیا اور اس میدان کے گوشے میں معمولی سا گڑھا کھود کر اس میں گھسیٹ کر ڈال دیا.اس میدان میں اس پر مٹی ڈال کر اس کو دفن کر دیا.چنانچہ حضرت داؤد کو خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں وہ میدان اور وہ گڑھا سب کچھ دکھا دیا اور وہ چھری بھی جس سے تاجر قتل کیا گیا تھا اور خون آلود کپڑے بھی جو اس کے ساتھ دفن کئے گئے تھے.یہ ساری چیزیں ان کو دکھا دی گئیں اور بتایا کہ ہم نے یہ سب کا رروائی اس لئے کروائی کہ اس قاتل کے پاس جس قدر مال مویشی اور روپیہ ہے وہ سب درویش کو جو مقتول تاجر کا بیٹا ہے اور اصل وارث ہے دلایا جائے اور مدعی کو جو درویش کے باپ کا قاتل ہے قصاص کے طور پر قتل کی سزا دلائی جائے.جب حاضری کے لئے مقررہ دن کو یہ دونوں حاضر ہوئے تو حضرت داؤد نے اس مدعی کو کہا کہ تم اس درویش کو معاف کر دو تمہارے لئے اچھا ہو گا.اس مدعی نے عدالت کے کمرے میں شور ڈال دیا کہ دیکھو جی کیا عدالت ہے؟ کیا عدالت یوں ہوتی ہے مجرموں کو بجائے سزا کے مدعی سے معافی دلائی جارہی ہے.ایسا عدل نہ کبھی سنا اور نہ دیکھا.حضرت داؤڑ کے بار بار سمجھانے پر بھی جب مدعی نے عدل عدل کی رٹ لگائی تو آپ نے فرمایا کہ بہت اچھا اب ہم عدل ہی کریں گے اور سپاہی کو حکم دیا کہ اس مدعی کو ہتھکڑی لگالی جائے اور فلاں میدان کی طرف کوچ کیا
129 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم جائے.وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہ قبر کس کی ہے اور اس کا قاتل کون ہے.آپ نے چھری جس پر مدعی کا نام بھی لکھا تھا.اور تاجر کے خون آلود کپڑے جو ساتھ ہی مدفون تھے.وہ سب کچھ گڑھا کھودنے سے قبل ہی بتا دیا کہ یہاں یہاں پڑے ہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ جو مدعی ہے یہ اس تاجر کا ، جو اس درویش کا باپ ہے، قاتل ہے جسے اس مدعی نے اپنی چھری سے سوئے ہوئے قتل کر دیا تھا.اور خدا نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے اور دکھا بھی دیا ہے.جیسے کہ بتایا تھا.اسی طرح وہاں کی چیزوں کو دیکھا.اسی کے مطابق قبر سے چھری بھی نکل آئی اور خون آلود کپڑے بھی نکل آئے.چنانچہ جب حضرت داؤد نے مدعی قاتل کو قصاص کے طور پر قتل کا حکم سنایا تو اس پر مدعی کہنے لگا کہ جناب میں ملزم کو معافی دیتا ہوں اور مقدمہ واپس لیتا ہوں ، آپ بھی مجھے معاف فرما ئیں.تو حضرت داؤد نے فرمایا کہ اب معافی نہیں دی جاسکتی.اب وہی عدل جس کے متعلق عدل عدل کے الفاظ میں تم شور ڈالتے رہے ہو تمہارے ساتھ کیا جائے گا اور اسی کے مطابق عدالت کی کارروائی ہوگی.اور اس کے بعد مدعی کو درویش کے تاجر باپ کے قصاص میں قتل کا آخری حکم سنایا گیا.جس چھری سے تاجر کو قتل کیا گیا تھا اسی سے بعد اقرار جرم قاتل قتل کر دیا گیا اور جو کچھ مال و متاع مویشی اور رو پید اور جائیداد وغیرہ تاجر کی جو چیزیں غصب کی گئی تھیں وہ سب کی سب اس درویش کو جو تاجر کا بیٹا تھا اور وہ اصل وارث تھا اس کو دے دی گئیں.(حیات قدسی حصه چهارم صفحه (165-16 اس طرح با وجود انتہائی پیچیدہ معاملے کے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو پوری چیز کھول کر دکھا دی اور انصاف ہو گیا.جو عدل مانگ رہا تھا اُس کو عدل سے سزا مل گئی اور جس درویش نے سچ بولا تھا ، درویشی میں عمر گزاری.اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے، اس کو اس کا اجر اللہ تعالیٰ نے دے دیا.اگر وہ جو ملزم تھا غلطی مان لیتا تو اللہ کے پیارے بھی جو اس کا پر تو ہوتے ہیں اس پر رحم کرتے.لیکن کیونکہ اس نے غلط بات پر اصرار کیا اور اپنے زعم میں دوسروں کو اپنی چالاکی سے دھوکہ دے رہا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے بندے کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی وجہ سے سزا وار ہوا، سزا پا گیا.اور جیسا کہ میں نے کہا وہ اللہ کا نیک بندہ تھا اپنی عاجزی اور نیکی اور سچائی کی جزا اس کوئل گئی.اب میں بعض احادیث پیش کرتا ہوں جن میں آنحضرت ﷺ نے اس صفت سے فیض پانے کے جو طریق ہمیں سکھائے ہیں وہ بیان کئے گئے ہیں.عامر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نعمان بن بشیر کو فرماتے ہوئے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حلال اور حرام واضح واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان متشابہات ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے اور جو بھی متشابہات سے بچتار ہے اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی اس میں پڑ گیا وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو اپنے جانور روکی گئی فصل کے قریب چراتا ہے ممکن ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائیں.یادرکھو کہ ہر ملک ، بادشاہ
130 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کے لئے ایک روک ہوتی ہے اور اللہ تعالی کی روک دنیا میں اس کے محارم ، نواہی ، مناہی ہیں.خوب یاد رکھو کہ جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو تو سارا بدن ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہوتا ہے اور وہ دل ہے.(صحیح بخاری کتاب الايمان باب فضل من استبراء لدينه حديث نمبر (52) اللہ تعالیٰ نے ایک تو واضح واضح احکام فرما دیئے کہ یہ کرنے ہیں اور یہ نہیں کرنے.بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں جب کسی شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہو تو ان سے بچنا چاہئے.تقویٰ یہی ہے.کیونکہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں سے منع کیا ہے اس کی مثال اس طرح ہے کہ جس طرح کسی بادشاہ کی کوئی رکھ ہو اور وہاں باڑ لگی ہو.فصلیں لگی ہوں اور کوئی اپنی بکریاں چراتا ہوا ان میں چلا جائے.پھر فرمایا کہ یہ دل ایک لوتھڑا ہے، جو انسان کے جسم میں ہے.اگر یہ ٹھیک ہو تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے.اگر یہ خراب ہو جائے تو سارا جسم جو ہے، بدن جو ہے، وہ خراب ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اوامر ونواہی جو ہیں جس کے کرنے کا اور نہ کرنے کا اس نے حکم دیا ہے.اس کے مطابق زندگی گزارنا اس مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کے رحم کو جزا سزا کے دن جذب کرنے والا ہے.ورنہ انسان اللہ تعالیٰ کی سزا کے نیچے آ سکتا ہے اور دل کی نشاندہی فرما دی کہ تمہارے دلوں سے ہی نیکی اٹھنی ہے اور انہی میں سے بیماریاں پنپتی ہیں.پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے تو اس کو ہر قسم کے گند سے پاک کرو.بعض چیزیں دیکھ کے انسان بعض دفعہ برائی کی طرف مائل ہو جاتا ہے.اس کو احساس نہیں رہتا کہ کس گناہ میں پڑنے لگا ہے.اس لئے ہمیشہ دل پر نظر رکھنی چاہئے کہ یہی دل ہے جس میں آئے ہوئے خیالات اور اس کے بعد کئے گئے عمل کے مطابق پھر آپ اللہ تعالیٰ سے اجر پانے والے بھی ہو سکتے ہیں اور اس کی سزا کے مور د بھی بن سکتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ذکر کرنے والوں کی تلاش میں رستوں میں نکلتے ہیں.جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کو پالیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اپنی حاجتیں بیان کرو.پھر وہ ایسے لوگوں کو ورلے آسمان تک گھیرے رکھتے ہیں.ان کا رب ان سے پوچھے گا حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں؟ وہ کہیں گے کہ وہ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری حمد کرتے ہیں اور تیری بڑائی بیان کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا.کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے کہیں گے اے اللہ ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.پھر اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ فرشتے کہیں گے کہ اگر وہ تجھے دیکھے لیتے تو تیری زیادہ عبادت کرتے اور تیری بڑائی شدت کے ساتھ بیان کرتے اور تیری تسبیح کثرت کے ساتھ کرتے.پھر اللہ فرمائے گا کہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ تو فرشتے کہیں گے کہ وہ جنت مانگ رہے تھے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ تو فرشتے جواب دیں گے اے اللہ انہوں نے اس کو نہیں دیکھا.پھراللہ تعالیٰ
131 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم فرمائے گا کہ اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیتے تو ان کی کیا حالت ہوتی.وہ عرض کریں گے کہ وہ اگر اس کو دیکھ لیتے تو اس کے حصول کی خواہش اور رغبت ان میں بہت زیادہ بڑھ جاتی.پھر اللہ پوچھے گا کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے جواب دیں گے کہ آگ سے بچنے کی.اللہ فرمائے گا کہ کیا انہوں نے اُسے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ! انہوں نے نہیں دیکھا.اللہ فرمائے گا کہ اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ تو فرشتے جواب دیں گے اے اللہ ! وہ اگر اسے دیکھ لیتے تو اور زیادہ ڈرنے والے اور اس سے زیادہ دور بھاگنے والے ہوتے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تم کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا، ان کے اس عمل کی وجہ سے ، جنت کی خواہش کی وجہ سے ، آگ سے ڈرنے کی وجہ سے ان کو بخش دیا.فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرے گا کہ ان میں ایک بندہ ایسا بھی تھا جو اپنی کسی ضرورت کے لئے وہاں آ گیا تھا.اللہ فرمائے گا یہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والے بھی بد نصیب نہیں ہوتے.اسے بھی بخشتا ہوں.(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذكر الله عز وجل حدیث نمبر (6408 | یہ مالک کا احسان اور انعام ہے کہ نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والوں کو بھی بخش دیتا ہے.نیکی کو بغیر دیکھے اس کی خواہش کرنے والوں کو بخش دیتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہاں عدل کا سوال نہیں ہے.یہاں احسان تقسیم ہو رہا ہے.اس کا احسان اس کی مالکیت کے ثبوت کے تحت ہی ہے.ان نیک لوگوں میں بیٹھنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ بخش رہا ہے اور فیض پہنچارہا ہے.پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفت مالکیت کے تحت اپنے بندے کے اچھے اور برے اعمال کے لحاظ سے اس سے کیا سلوک کرتا ہے.کس طرح اس کی نیکیوں اور بدیوں کا اندراج فرماتا ہے جو کہ جزا سزا کے دن سامنے آنا ہے.اس میں بھی کتنی رعایت ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نیکیوں اور بدیوں کو لکھ رہا ہے پھر ان کو بیان بھی کر دیا ہے.پس جس نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا لیکن اسے نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں ایک نیکی شمار کرے گا.نیکی کا ارادہ کیا اور عمل نہ کیا تو نیکی شمار ہوگی.اگر وہ اس کا ارادہ کرے اور پھر اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے پاس سے دس سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے.اور جو کوئی بدی کا ارادہ کرلے اور پھر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے پاس ایک نیکی لکھ دیتا ہے.( بدی کا ارادہ کیا لیکن عمل نہیں کیا، جھٹک دیا، اللہ تعالیٰ نے نیکی لکھ دی ) اور وہ اگر اس کا ارادہ کر کے اس پر عمل بھی کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک بدی کو شمار کرے گا.(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب من هم بحسنة او بسيئة حديث نمبر (6491
132 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے تحت یہ احسان اور انعامات ہیں جو بندوں پر وہ کرتا ہے ، جیسا کہ ہمیں پتہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان صفات کا رنگ بندوں کو بھی اپنے اوپر لاگو کرنا چاہئے ، چڑھانا چاہئے اور جیسے کہ ہم جانتے ہیں آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ ان صفات کا ، اللہ تعالیٰ کی جو بھی صفات ہیں، ان کا اظہار اپنی ذات سے کرنے والے تھے.ایک دو مثالیں اب میں اس کی دیتا ہوں کہ کس طرح غلبہ اور قدرت ہونے کے باوجود جب آپ تعرب کے بادشاہ بن چکے تھے آپ دشمنوں سے بھی احسان کا سلوک فرماتے تھے.عکرمہ بن ابو جہل کا واقعہ بڑا مشہور ہے.آنحضرت ﷺ نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا اور اس کی وجہ سے یہ تھی کہ یہ خود بھی اور ان کا والد ابو جہل تھا اس نے بھی مسلمانوں کو بڑی تکلیف پہنچائی تھی اور اس میں بڑی شدت اختیار کرنے والوں میں سے تھا.جب مکرمہ کو یہ خبر لی کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے.تو یمن کی طرف بھاگ گیا.اس کے پیچھے پیچھے اس کی بیوی جو اس کی چازاد بھی تھی اور حارث بن ہشام کی بیٹی تھی ، اسلام قبول کرنے کے بعد گئیں اور کشتی پر سوار ہونے سے پہلے عکرمہ کو جالیا اور پکڑ لیا اور اس کو جا کر کہا کہ میں تیرے پاس آئی ہوں اے میرے چا زاد! ( خاوند کا حوالہ نہیں دیا، چچا زاد کا حوالہ دیا ہے ) میں تیرے پاس سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والے اور لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر کے پاس سے آئی ہوں.تم اپنے آپ کو برباد نہ کرو.میں نے تمہارے لئے امان طلب کر لی ہے.جانے سے پہلے اس کے لئے آنحضرت ﷺ سے امان طلب کر کے گئی تھیں کہ اگر میں اُسے لے آؤں تو.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے.اگر وہ آ جائے اور اطاعت میں رہے گا تو ٹھیک ہے.تو خیر باتیں ہوتی رہیں بڑی مشکل سے مان کر عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس آئے.تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اے محمد نے میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے.آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ درست کہتی ہے کہ تمہیں امان دی گئی ہے.تو اس بات کو سن کر عکرمہ نے کلمہ پڑھ دیا - اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ.پھر عکرمہ نے شرم کے باعث اپنا سر جھکا لیا.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.اے عکرمہ ! ہر وہ چیز جو میری قدرت میں ہے اگر تم اس میں سے کچھ مجھ سے مانگو تو میں تم کو عطا کر دوں گا.جتنا بھی ملکیت کا دائرہ ہے، جو کچھ میری قدرت میں ہے، مانگو میں تمہیں دوں گا.عکرمہ نے کہا کہ مجھے میری وہ تمام زیادتیاں معاف کر دیں جو میں آپ سے کرتا رہا ہوں.اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللهُمَّ اغْفِرْ لِعِكْرِمَةَ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا أَوْ مَنْطِقٍ تَكَلَّمَ بِہ اے اللہ! عکرمہ کو ہر وہ زیادتی جو وہ مجھ سے کرتا رہا ہے بخش دے یا آپ نے یہ فرمایا کہ اے اللہ! عکرمہ میرے بارے میں جو بھی کہتا رہا ہے اسے بخش دیا.(السيرة الحلبيه لعلامه ابو الفرج نورالدین باب ذکر مغازيه فتح مکه شرفها الله تعالیٰ جلد 3 صفحه 132 دار الكتب العلمية )
خطبات مسر در جلد پنجم 133 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء پھر فتح مکہ کے موقع پر ہی تاریخ میں آتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.اے قریش کے گروہ ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری زمانہ جاہلیت والی نفرت کو ختم کر دیا ہے اور اسے آباء واجداد کے ذکر کے ساتھ عظمت دی ہے اور تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے.پھر آنحضور ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی.يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (سورة الحجرات : 14) اے لوگو یقینا ہم نے تمہیں زاور مادہ پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.لیکن اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے.پھر فرمایا: اے قریش اتم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟ قریش نے کہا کہ ہم آپ سے بھلائی کی ہی امید رکھتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے معزز بھائی اور ہمارے معزز بھائی کے بیٹے ہیں.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ سہیل بن عمرو نے اس سوال پر کہا کہ ہم اچھی بات کرتے ہیں اور آپ سے اچھی امید وابستہ کرتے ہیں.کیونکہ آپ ایک معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں اور آپ ہم پر قدرت بھی رکھتے ہیں.قریش کا یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں ویسا ہی کہتا ہوں جیسا کہ میرے بھائی یوسف نے کہا تھا ك لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِین (یوسف: 93) آج کے دن تم پر کوئی علامت نہیں.اللہ تمہیں بخش دے گا.وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو.کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کا یہ فرمانا تھا کہ وہ لوگ ایسے نکلے جیسے قبروں سے نکلے ہوں اور بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا.(تلخیص از السیرة الحلبيه جلد 3 صفحه 140-141 باب ذکر مغازيه فتح مکه مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت) | جب غلبہ اور قدرت مل گئی، جب آپ بادشاہ بن گئے تو تب بھی آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا پر تو بنتے ہوئے احسان کا سلوک فرمایا.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو بنتے ہوئے اس نبی کی سنت پر چلتے ہوئے ، اپنے نفسوں کو قابو میں رکھتے ہوئے ، اپنے اپنے دائرے میں ایک دوسرے سے احسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جزا سزا کے دن ہم ایسے عمل لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں جو اس کے رحم اور بخشش کو کھینچنے والے ہوں.
خطبات مسر در جلد پنجم 134 خطبہ جمعہ 30 مارچ 2007ء خطبہ ثانیہ میں حضور انور نے فرمایا: آج ربوہ سے ایک اطلاع ہے کہ ہمارے سلسلہ کے بہت پرانے کارکن چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیئر پرسوں وفات پاگئے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ خاندان میں اکیلے احمدی تھے.بڑے پرانے احمدی تھے.احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے ان کو ان کے عزیزوں نے تمام جدی جائیداد اور مکانات وغیرہ جو بھی تھے سب سے محروم کر دیا.اور بیعت کرنے کے بعد پھر وصیت بھی کی، زندگی وقف بھی کی اور تحریک جدید میں رہے اور شروع میں جور بوہ کی آبادکاری ہوئی ہے اس میں یہ شامل تھے.تمام پلاننگ نقشے اور ساری نشاندہی وغیرہ انہوں نے اس ٹیم میں شامل ہو کر بڑی محنت سے کی بلکہ ربوہ کے ہر پلاٹ کی سڑک کی ، ہر کونے کی حد بندی ان کو زبانی یاد تھی.یہ سب کچھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے نکالا ہوا تھا.اپنے کام میں بڑے اصولی اور سخت تھے.کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے تھے اور بڑے محنتی تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.ربوہ کے جو ابتدائی لوگ ہیں یہ ان میں سے تھے اور بہر حال ربوہ کے نام کے ساتھ جب بھی تاریخ میں نام آئے گا ان لوگوں کا نام بھی آئے گا.ابھی نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ ان کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 20 تا 26 اپریل 2007 ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 135 14 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء فرمودہ مورخہ 6 اپریل 2007 ء (6 / شہادت 1386 ہجری شمسی مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج میں بعض احادیث کا صفت مالکیت کے لحاظ سے ذکر کروں گا.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ کو یہ کہتے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے.امام نگران ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے.آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے ، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.خادم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.(بخارى كتاب الأسقراض و اداء الديوان.باب العبد راع في مال سيده ولا يعمل الا باذنه.حدیث نمبر (2409 اس حدیث میں چار لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے.ایک امام کو کہ وہ اپنی رعیت کا خیال رکھے.ایک گھر کے سربراہ کو کہ وہ اپنے بیوی بچوں یا اگر اپنے خاندان کا سر براہ ہے تو اس کا خیال رکھے.ایک عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے ان کا خیال رکھے.ایک خادم جو اپنے مالک کے مال کا نگران ہے.پھر آخر میں فرمایا کہ یہ سب لوگ جن کے سپر دیہ ذمہ داری کی گئی ہے، یہ سب یا درکھیں کہ جو مالک گل ہے، جو زمین و آسمان کا مالک ہے جس نے یہ ذمہ داریاں تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم سے ان ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گا کہ مسیح طرح ادا کی گئی ہیں یا نہیں کی گئیں.جس دن وہ مالک یوم الدین جزا اور سزا کے فیصلے کرے گا اس دن یہ سب لوگ جوابدہ ہوں گے.اس لئے کوئی معمولی بات نہیں ہے.دل دہل جاتا ہے ہر اس شخص کا جو جز اسرا پر یقین رکھتا ہے.پس سب سے پہلے فرمایا کہ امام پوچھا جائے گا اور یہ چیز تو ایسی ہے جس سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری سپرد کی ہے اس کی ادائیگی میں سستی نہ ہو جائے اور یہ ذمہ داری ایسی ہے کہ جو نہ کسی ہوشیاری سے ادا ہو سکتی ہے، نہ صرف علم سے ادا ہوسکتی ہے ، نہ صرف عقل سے ادا ہوسکتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو ایک قدم بھی نہیں چلا جاسکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دعاؤں کے ذریعہ ہی جذب کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے.پس سب سے پہلے تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ دعاؤں کے ذریعہ سے میری مدد کریں اور میں
136 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ہر وقت آپ کے لئے دعا گو ہوں کیونکہ جماعت اور خلافت لازم وملزوم ہیں.اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذمہ داریاں اُس طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح وہ چاہتا ہے.جب سب مل کر خلافت احمد یہ اور خلیفہ وقت کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو کھینچنے والی ہوگی کیونکہ امام اور جماعت کی دعائیں ایک سمت میں چل رہی ہوں گی، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اللہ تعالیٰ سے مانگ رہی ہوں گی.تو جب ایک سمت میں چل رہی ہوں گی تو دعائیں کرنے والوں کی سمتیں بھی ایک طرف چلتی رہیں گی.ان کو بھی یہ خیال رہے گا کہ جب ہم دعا کر رہے ہیں تو ہمارے عمل بھی ایسے ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوں، اس سمت میں جا رہے ہوں جہاں خلیفہ وقت اور اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ہمیں جانا چاہئے یا خلیفہ وقت اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ہمیں لے جانا چاہتا ہے.اگر اس احساس کے ساتھ دعا کر رہے ہوں گے تو اپنی اصلاح کی بھی ساتھ ساتھ توفیق ملتی رہے گی اور امام کے لئے نگرانی کا کام بھی آسان ہورہا ہو گا.پس اس نکتہ کو ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ جہاں امام کی ذمہ داری ہے کہ انصاف قائم کرے اور اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق جماعت کی تربیت کی طرف توجہ دے، ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کرے، ان کے لئے دعائیں کرے وہاں افراد جماعت کو بھی اس احساس کو اپنے اندر قائم کرنا ہوگا کہ اگر ہمیں خلافت سے محبت ہے تو ہم بھی اپنی حالتوں کو دیکھیں اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس نہج پر چلانے کی کوشش کریں جس پر خدا اور رسول کے حکموں کے مطابق ہماری زندگی چلنی چاہئے یا جس طرف ہمیں خلیفہ وقت چلانا چاہتا ہے.دیکھیں جب ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیتے ہیں تو بعض اوقات بچوں میں یہ احساس بھی پیدا کرتے ہیں اور ان کے اس احساس کو بیدار کرتے ہیں کہ تم ہماری عزت اور ہمارے خاندان کی عزت کی خاطر یہ یہ بُری باتیں چھوڑ دو اور نیک عمل کرو.ایسی باتیں نہ کرو جس سے دوسروں کے سامنے ہماری سبکی ہو.نگران کا ان کے ان جذبات کو ابھارنا بھی ان کی اصلاح کا ایک حصہ ہے، ایک کام ہے.پس ہر فرد جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب ہوتا ہے یہ بات یادر کھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہو کر آپ کو بدنام نہیں کرنا.اس بات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی اظہار فرمایا ہے.مفہوم یہی ہے جو میں نے بیان کیا، الفاظ ذرا مختلف ہیں.اسی طرح امام کی نگرانی کے ضمن میں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ آجکل یا یوں کہنا چاہئے جماعت میں امام یا خلیفہ وقت کی نمائندگی میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، عہدیداران متعین ہیں، ان کا بھی فرض ہے کہ حقیقی رنگ میں انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اگر کبھی کسی موقع پر اپنے پر یا اپنے عزیزوں پر بھی زد پڑتی ہو تو اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے سپرد کی گئی ہے تا کہ اس نگرانی میں خلیفہ وقت کی بھی احسن رنگ میں مدد کر سکیں ، تا کہ جزا سزا کے دن اس کو سرخرو کروانے والے بھی ہوں.ہر عہدیدار کے عمل جہاں براہ راست اس کو
خطبات مسرور جلد پنجم 137 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء جوابدہ بناتے ہیں اور ہر عہد یدار اپنے دائرے میں جہاں نگران ہے وہ ضرور پوچھا جائے گا.یادرکھیں کہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں آپ اس لحاظ سے بھی ذمہ دار ہیں، اس لئے کبھی یہ نہ سوچیں کہ کسی معاملے میں خلیفہ وقت کو اندھیرے میں رکھا جاسکتا ہے.ٹھیک ہے، رکھ سکتے ہیں آپ لیکن خدا تعالیٰ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے، اس کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا.پس ہر عہدیدار کی دوہری ذمہ داری ہے، اس کو ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا دعا ہی ہے جو سیدھے راستے پر چلانے والی ہے اور چلا سکتی ہے کہ اپنے ذمہ داری کو دعاؤں کے ساتھ نبھانے کی کوشش کریں.جہاں تک میری ذات کا سوال ہے.میں جہاں اپنے لئے دعا کرتا ہوں ، عہدیداروں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ انصاف پر قائم رکھتے ہوئے سیدھے راستے پر چلائے.کبھی ان سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جس کا اثر پھر آخر کار یا نتیجتاً مجھ پر بھی پڑے.یہاں جماعت کو بھی یہ توجہ دلا دوں کہ آپ لوگ بھی اپنی ذمہ داری کا صحیح حق ادا نہیں کر رہے ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ خادم مالک کے مال کا نگران ہے ، اگر آپ اس ذمہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے اُسے ادا نہیں کر رہے جو خلیفہ وقت نے آپ کے سپرد کی ہے.اس کی صحیح ادائیگی نہ کر کے آپ بھی اس مال کی نگرانی نہ کرنے کے مرتکب ہورہے ہوں گے.جب خلیفہ وقت نے آپ سے مشورہ مانگا ہے تو اگر آپ صحیح مشورہ نہیں دیتے تو خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں کو منتخب نہیں کرتے جو اس کام کے اہل ہیں جس کے لئے منتخب کیا جا رہا ہے، اگر ذاتی تعلق، رشتہ داریاں اور برادریاں آڑے آرہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی نافرمانی کر رہے ہیں کہ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء: 59) یعنی تم امانتیں ان کے مستحقوں کے سپردکر و جو ہمیشہ عدل پر قائم رہنے والے ہوں.اور اس اصول پر چلنے والے ہوں کہ جب بھی فیصلہ کرنا ہے تو اس ارشاد کو بھی پیش نظر رکھنا ہے کہ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (النساء: 59) کہ انصاف سے فیصلہ کرو.جو ذمہ داریاں سپرد کی گئی ہیں ان کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرو.اگر نہیں تو یہ نہ سمجھو کہ یہاں داؤ چل گیا تو آگے بھی اسی طرح چل جائے گا.اللہ کا رسول کہتا ہے کہ جزا سزا کے دن تم پوچھے جاؤ گے.پس جماعت کا بھی کام ہے کہ ایسے عہدیداروں کو منتخب کریں جو اس کے اہل ہوں اور ذاتی رشتوں اور تعلقات اور برادریوں کے چکر میں نہ پڑیں.اور اسی طرح خلیفہ وقت کی نمائندگی میں عہد یداروں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ان افراد جماعت کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے ( جیسا کہ میں نے پہلے کہا ) جن پر اعتماد کرتے ہوئے بہترین عہدیدار منتخب کرنے کا کام سپرد کیا گیا ہے اور مالک کے مال کی نگرانی یہی ہے جو ہر فر د جماعت نے ، جس کو رائے دینے کا حق دیا گیا ہے کرنی ہے.یہ سال جماعتی انتخابات کا سال ہے.بعض جگہوں سے بعض شکایات آتی ہیں، ہر جگہ سے تو نہیں، اس لئے میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایسی جگہیں جہاں بھی ہیں، جو بھی ہیں اور جہاں یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے ان کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر کام دعا سے کریں اور دعائیں کرتے ہوئے اپنے عہد یدار منتخب
138 خطبات مسرور جلد پنجم خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء کریں اور ہمیشہ دعاؤں سے آئندہ بھی اپنے عہدیداروں کی مدد کریں اور میری بھی مدد کریں.اللہ مجھے بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق دیتار ہے اور جو کام میرے سپر د ہے اس کو ادا کرنے کی احسن رنگ میں توفیق دیتار ہے.دوسری اہم بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ گھر کے سربراہ کی ہے.گھر کا سر براہ ہو یا بعض اوقات (جیسا کہ میں نے کہا ) بعض خاندانوں نے بھی اپنے سر براہ بنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ اپنے بچوں یا خاندان کی تربیت کی ذمہ داری ان کی ہے.ان کے اپنے عمل نیک ہونے چاہئیں.ان کی اپنی ترجیحات ایسی ہونی چاہئیں جو دین سے مطابقت رکھتی ہوں، نظام جماعت اور نظام خلافت سے گہری وابستگی ہو.اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پابندی کی طرف پوری توجہ اور کوشش ہو تبھی صحیح رنگ میں اپنے زیر اثر کی بھی تربیت کر سکیں گے.خود نمازوں کی طرف توجہ ہوگی تو بیوی بچوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلا سکیں گے.خود نظام جماعت کا احترام ہوگا تو اپنے بیوی بچوں کو اور خاندان کو نظام جماعت کا احترام سکھا سکیں گے.خود خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے والے اور اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں گے تو اپنے بیوی بچوں اور اپنے زیر نگیں کو اس طرف توجہ دلاسکیں گے.پس خاندان کے سربراہ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، ورنہ یا درکھیں کہ جزا سزا کا دن سامنے کھڑا ہوا ہے.پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی ، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے.اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو.خاوند کا مال صحیح خرچ ہو.بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لوٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پر ہیز کریں.بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو.اپنی ذمہ داری کا احساس ہو.پڑھائی کا احساس ہو.اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہوتا کہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں ( کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں ) اپنی ذمہ داریاں صحیح ادا نہیں کر رہی.اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گا تو یہ تو معمولی بات ہے.یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یا درکھوتم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی.اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے.اللہ ہر ایک پر رحم فرمائے.اور پھر فرمایا ما لک کے مال کی نگرانی کے بارے میں بھی ہر شخص پوچھا جائے گا.اس کی کچھ مثال تو میں نے پہلے دے دی ہے، ایک تو ظاہری طور پر جو کسی کی ذمہ داریاں ہیں اگر وہ ادا نہیں کر رہا تو مال کی نگرانی نہیں کر رہا.ہر پیشہ کا آدمی اگر اپنے پیشہ سے انصاف نہیں کر رہا تو اس کے سپر د حکومت کی طرف سے یا جماعت کی طرف سے یا معاشرے کی طرف سے جو ذمہ داری کی گئی ہے اس نے اس کی ادائیگی نہیں کی اور وہ جہاں دنیاوی قانون اور قواعد کے لحاظ سے اس دنیا میں محکمانہ طور پر اس کا جوابدہ ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جوابدہ ہے.یا پھر روحانی نظام میں، جماعت کے نظام میں عہدیداران اور بڑے پیمانے پر امام تک بات پہنچتی ہے کہ جماعت کے افراد جو اللہ کا مال ہیں
خطبات مسرور جلد پنجم 139 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء ان کی تربیت کی طرف توجہ نہ دے کر صحیح طرح نگرانی نہیں کی گئی.اگر دنیاوی حکومتیں بھی یہ سمجھیں، دنیا کی نظر سے اگر دیکھیں تو ان کو بھی یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس مال کا بہترین مصرف بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رعایا کو، ملک کی آبادی کو تمہارے سپرد کیا تھا، ان کی ذمہ داریاں نہ نبھا کر، ان کے حقوق ادا نہ کر کے، ان کے تعلیمی اور دوسرے ترقیاتی مسائل پر توجہ نہ دے کر جو مالک گل ہے اس کی طرف سے ودیعت کردہ ذمہ داری کا حق ادا نہیں کیا.اس لحاظ سے وہ بھی جوابدہ ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے احساس ذمہ داری کے ساتھ دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ سب کو، ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس میں گویا چار باتیں ہیں لیکن بنیادی اکائی سے لے کر ایک عام آدمی سے لے کر امامت تک، ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے حساب سے بچنے کے لئے ایک خوفزدہ شخص کی مثال حدیث میں یوں دی گئی ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے:.حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا جسے اللہ نے مال اور اولا دعطا کی تھی.جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا میں تمہارے لئے کیسا باپ رہا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بہتر باپ.اس نے کہا لیکن میں نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں چھوڑی اور جب میں اللہ کے حضور پیش ہوں گا تو مجھے عذاب دے گا.اس لئے دھیان سے سنو کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا اور جب میں کوئلہ بن جاؤں مجھے پہیں دینا اور پھر اس طرح پینا کہ راکھ اتنی باریک ہو کہ جو ہلکی سی ہوا سے بھی اڑنے والی ہوتی ہے اور پھر کہا کہ جب شدید آندھی چلے تو میری راکھ کو اس میں اڑادینا اور اس نے اس بات کا پختہ عہد لیا.نبی کریم اللہ فرماتے ہیں کہ میرے رب کی قسم انہوں نے ایسا ہی کیا.اللہ نے اس راکھ کو، اس کو جو ہوا میں اڑائی گئی تھی کہا کہ تو ہو جا تو وہ مجسم شخص کی صورت میں کھڑا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس راکھ کو اکٹھا کیا اور مجسم بنا دیا.پھر اللہ نے پوچھا اے میرے بندے! کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پرا کسایا تھا.اس نے کہا تیرے خوف نے.اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی اس پر رحم کرتے ہوئے کی.(بخاری کتاب الرقاق باب الخوف من الله عزّ وجل حديث : 6481) پس یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاءُ (البقرة: 285) تو یہ اس کی ایک تصویر ہے.مرتے ہوئے کا خوف بھی اس کی بخشش کا سامان کر گیا.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مالکیت کے ضمن میں فرماتا ہے وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا - ( النساء: 101 ) اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے.پس اس شخص کو اللہ کا خوف تھا جس نے اس کو اپنی لاش کے ساتھ یہ سلوک کروانے پر مجبور کیا.لیکن مالک نے رحم فرماتے ہوئے اس کی بخشش کے سامان کر دیئے.لیکن ایک مومن بندے کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ایک مومن کو
140 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم برائیوں میں نہیں بڑھا تا کہ اللہ تعالیٰ نے بخش دینا ہے جو مرضی کئے جاؤ.بلکہ یہ سلوک اسے اتنی مہربانی اور رحم کرنے والے خدا کی طرف جھکانے والا ہونا چاہئے.یہ سلوک اپنے گناہوں کی طرف نظر کر کے استغفار کی طرف توجہ دلاتا ہے، اس کی عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے.کیونکہ باوجود اللہ تعالیٰ کے اتنا رحم کرنے کے اللہ فرماتا ہے کہ بعض گناہ میں نہیں بخشوں گا اور فرمایا کہ شرک کا گناہ میں معاف نہیں کروں گا.(النساء: 49) ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب عز وجل کے حوالے سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! تو مجھ سے دعا نہیں کرتا اور مجھ سے امید بھی وابستہ کرتا ہے.میں تیری بدیوں کے باوجود تجھے بخش دوں گا خواہ تو مجھے ایسے حال میں ملے کہ تیری بدیاں زمین کے برابر بھی ہوں تو میں تجھے اس کے برابر مغفرت کے ساتھ ملوں گا.اور اگر تیری خطائیں آسمان کی انتہا تک بھی پہنچ جائیں سوائے اس کے کہ تو نے میرا کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو.پھر اگر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں بخش دوں گا اور کچھ بھی پرواہ نہیں کروں گا.(مسند احمد بن حنبل، مسند، ابو ذر غفاری جلد 7 صفحه 208 حدیث : 21837) پس شرک سے بچنا ضروری ہے.شرک کی بے شمار قسمیں ہیں.دوسرے یہاں فرمایا کہ میرے سے بخشش طلب کرو.پس دعاؤں کی طرف بھی توجہ ضروری ہے.اللہ تعالیٰ جزا سزا کے دن کا مالک ہے، اس کی مالکیت کی صفت کو بھی سامنے رکھنا چاہئے.گناہوں پر اس لئے دلیر ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ نے بخش ہی دینا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس مالک سے بخشش مانگنے کے لئے ایک دعا سکھائی ہے جو جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے، یہ وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علہ جب بستر پر لیٹتے تو یہ کہتے تھے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى كَفَانِي وَ آوَانِي وَأَطْعَمَنِي وَسَقَانِى وَ الَّذِى مَنَّ عَلَيَّ وَأَفْضَلَ ، وَالَّذِي أَعْطَانِي | فَاجْزَلَ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، اَللَّهُمَّ رَبَّ كُلَّ شَيْءٍ وَمَلِكَ كُلِّ شَيْءٍ وَالهُ كُلِّ شَيْءٍ وَلَكَ كُلُّ شَيْءٍ أَعُوذُبِكَ مِنَ النَّارِ.یعنی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو میرے لئے کافی ہے اور جس نے مجھے پناہ دی اور مجھے کھانا کھلایا اور مجھے پانی پلایا اور وہی ہے جس نے مجھ پر احسان کیا اور اپنے فضل سے نوازا اور وہی ہے جس نے مجھے بہت زیادہ عطا کیا اور ہر حال میں تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں.اے اللہ ! ہر چیز کے رب، ہر چیز کے بادشاہ ہر چیز کے معبود اور ہر چیز تیرے ہی لئے ہے میں آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں.(مسند احمد بن حنبل ، مسند عبدالله بن عمر الخطاب جلد 2 صفحه 495 حدیث : (5983) اللہ تعالیٰ نے جو یہ اتنے احسان کئے ہیں اگر آدمی یا در کھے تو شرک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پھر یہ دعا کہ تیرا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے میں تیرے آگے جھکنے والا رہوں اور تیری پناہ میں رہوں تا کہ آگ سے بچایا جاؤں.
141 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم پس اللہ تعالیٰ کی بخشش کی مثالوں کے باوجود، جو میں نے پہلے بیان کی ہیں، آنحضرت ﷺ کا اپنے لئے دعا کرنا جن کے لئے یہ زمین اور آسمان پیدا کئے گئے تھے ، جو اللہ تعالیٰ کے سلوک کا بھی سب سے زیادہ اور اک رکھتے تھے ، آپ جن سے اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ پیار کرتا تھا اور آج تک کرتا ہے کیونکہ آپ کے وسیلے سے ہی خدا ملتا ہے اور آپ بھی سب سے زیادہ خدا کو پیار کرنے والے تھے، آپ کا یہ دعا کرنا کہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا، یہ بتاتا ہے کہ حقیقی مومن اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے دعا کی طرف توجہ دیتا ہے اور بخشش عطا کرنے والی حدیث میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ بخشش طلب کرو، یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس خدا کے در پر جانا ضروری ہے ، اس کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے ،تب ہی وہ صورتحال پیدا ہوگی جب 100 آدمیوں کے قاتل کے لئے گناہوں کی طرف والی زمین لمبی کر دی گئی ، فاصلہ بڑھا دیا گیا اور نیکیوں کی طرف جانے والی زمین سکیٹر دی گئی.کیونکہ وہ اس کوشش میں لگ گیا تھا کہ اللہ سے بخشش طلب کرے.پس گنا ہوں کا اعتراف کرتے ہوئے بخشش طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرنا اس کی عبادت کرنا، آگ سے بچنے کا ذریعہ بنتا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو دعا کی بھی توفیق دے اور اپنی پناہ میں بھی رکھے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات والے آسمان پر اترتا ہے.جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے تا میں اس کی دعا کو قبول کروں.کون ہے جو مجھ سے مانگے تا میں اسے عطا کروں.کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تا میں اسے بخشوں.(بخاری کتاب التهجد باب الدعاء والصلوة من آخر الليل حديث: 1145) یہ بخاری میں درج ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہی ایک مسلم کی بھی روایت ہے اس میں یہ ہے کہ ہر رات جب اس کا ابتدائی، تیسرا حصہ گزر جاتا ہے، دنیا کے آسمان پر اللہ تعالیٰ اترتا ہے اور کہتا ہے که اَنَا الْمَلِكُ اَنَا الْمَلِكُ ، یعنی میں اس کا حقیقی مالک ہوں، اور بادشاہ ہوں.جو بھی مجھ سے دعا کرے گا میں اس کے لئے اسے قبول کروں گا اور جو مجھ سے مانگے گا تو میں اسے دوں گا اور جو مغفرت طلب کرے گا میں اس کو بخش دوں گا اور وہ اسی طرح طلوع فجر تک رہتا ہے.(مسلم کتاب صلواة المسافرین و قصرها باب الترغيب فى الدعاء والذكر في آخر الليل والاجابة فيه حديث : 1657) دیکھیں جو زمین و آسمان کا مالک ہے وہ خود آواز دے رہا ہے، خود پکار رہا ہے کہ آؤ اور مجھ سے مانگو، مجھ سے لو، یہ جو میرے خزانے ہیں ان کو حاصل کرو، میں تم سب کو بھی دیتا رہوں تو میرے خزانوں میں کمی نہیں آتی.کسی بادشاہ کو تو اپنے خزانے میں کمی کا خوف ہو سکتا ہے لیکن مجھے نہیں.اللہ فرماتا ہے میرے خزانوں میں تو اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کر اس سوئی کے ساتھ پانی کا قطرہ لگ جانے سے آتی ہے.(مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم الظلم حديث : 6467) |
142 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ایک حدیث جس میں اللہ تعالیٰ نے بعض احکام کا بتایا ہے اور اپنے خزانوں کا ذکر کیا ہے، اس کا ذکر اس طرح ہے.حدیث قدسی ہے.: ” حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم علیہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کیا ہوا ہے اور اسے تمہارے درمیان حرام قرار دیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.اے میرے بندو! تم میں سے ہر کوئی گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں.پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو.میں تمہیں ہدایت دوں گا.پھر فرمایا اے میرے بندو ! تم میں سے ہر کوئی بھوکا ہے سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا.“ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ دینے والا ہے.انسان ایک عاجز چیز ہے اس کو کسی بات پر فخر نہیں کرنا چاہئے.بڑے بڑے صنعتکار اور زمیندار بھی منٹوں میں دیوالیہ بن جاتے ہیں، تباہ و برباد ہو جاتے ہیں.فرمایا میں ہوں جو تمہیں کھلاتا ہوں، پھر فرمایا اے میرے بندو! تم میں سے ہر کوئی نگا ہے سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں تم مجھ سے لباس طلب کرو میں تمہیں لباس پہناؤں گا.پھر فرمایا اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں تمام قسم کے گناہ بخشتا ہوں.پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں بخش دوں گا.پھر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی، پھر فرمایا اے میرے بندو! اگر تم مجھے نقصان پہنچانا چا ہو بھی تو نقصان نہیں پہنچاسکتےاور تم مجھے نفع پہنچانا بھی چاہو تو مجھے نفع نہیں پہنچا سکتے.اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بالا ہے.اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور تمہارے جن وانس ایسے ہو جا ئیں جیسے تمہارا سب سے زیادہ پر ہیز گار شخص تو پھر بھی یہ بات میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ کر سکے گی.اگر سب نیک ہو جائیں تو نیکیاں میرے لئے نہیں ہیں.وہ نیکیاں تمہیں فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں.پھر فرمایا اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور تمہارے جن وانس، سب کے سب ایسے ہو جائیں جیسا تمہارا سب سے زیادہ بد کار شخص تو بھی یہ بات میری سلطنت میں سے کچھ کم نہ کر سکے گی.اگر بدیاں پھیل جاتی ہیں، میرے احکامات پر عمل نہیں کرتے ، ان راستوں پر نہیں چلتے جن پر چلنے کا میں نے حکم دیا ہے تو اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا.فرق پڑے گا تو تمہیں پڑے گا.پھر فرمایا اے میرے بندو! تمہارے اگلے اور پچھلے اور تمہارے جن وانس سب ایک میدان میں کھڑے ہو جا ئیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو جتنا مانگے دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں ہوگی جتنی ایک سوئی کے سمندر میں ڈالنے سے ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے پاس لامحدود خزانے ہیں.پس فرمایا ! اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے گن رکھوں گا.پھر تمہیں ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دوں گا.پس جو کوئی بہتر بدلہ پاوے وہ اللہ کی تعریف کرے اور جو اس کے برخلاف پائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرئے“.(مسلم کتاب البر والصلة والآداب.باب تحريم الظلم حديث : 6467) | نیکیاں کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے گا.نہیں کرو گے تو سزا ملے گی پھر اس پر اپنے آپ کو ملامت کرو.پس جیسا کہ پہلی حدیثوں میں ذکر ہو چکا ہے، کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشتا ہے لیکن پھر بھی سزا پانے والوں کے متعلق فرمایا کہ اپنے آپ کو ملامت کرو کہ اس غفور رحیم کے، ایسے مالک کے ہوتے ہوئے بھی اس کے دربار سے فیض نہیں پایا.
خطبات مسرور جلد پنجم 143 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء اب میں بعض احادیث سے آنحضرت لے کے اپنے نمونے ، اللہ تعالیٰ کا صفت مالکیت کے تحت آپ پر جو اظہار تھا اور آپ کا اس صفت کا پر تو بنتے ہوئے جواظہار تھا، اس کا ذکر کرتا ہوں.ایک دفعہ ایک شخص کو آپ کے سامنے لایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ آپ کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا.جب وہ قابوآ گیا تو بہت خوفزدہ تھا، بڑا ڈرا ہوا تھا کہ اب مجھے سزا ملے گی تو آنحضرت علیہ نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تو مت ڈر ، تو مت ڈر.اگر تم ایسا کرنے کا ارادہ بھی کرتے تو تم مجھ پر مسلط نہ کئے جاتے.(الشفاء للقاضی عیاض، جز اوّل صفحه 74- الباب الثاني.فصل و اما الحلم دار الكتب العلمية بيروت.طبع ثانيه (2002) تو ایک تو آپ نے باوجود اس شخص پر مقدرت رکھتے ہوئے اپنے اللہ کی عفو کی صفت کا اظہار فرمایا اور اسے معاف کر دیا.اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین رکھتے ہوئے کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة : 68) یعنی اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملے سے محفوظ رکھے گا، اس کو یہ بتا دیا ، کہ تم ارادہ بھی کرتے تو میں جو خدا کا سچا رسول ہوں اور سب سے پیارا نبی ہوں ، جس نے میری حفاظت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے، جس کی میں ملکیت ہوں، وہ خود ہی میری حفاظت کرے گا اور تمہیں یا تم جیسے کسی بھی اور کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا، کبھی مسلط نہیں کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے.کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس (المائدة: 68) اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخرالزمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہو گا“.(البدر.جلد 4 نمبر 31 مورخه 14 ستمبر 1905ء صفحه 2 تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود جلد 2 صفحه 415) پھر آنحضرت ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک دیکھیں.طائف کے سفر پر آپ کو غنڈوں نے لہو لہان کر دیا.تھا.جب نڈھال ہو کر آپ ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے، جب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مخالفین کے لئے حرکت میں آ چکی تھی.اس وقت جبریل علیہ السلام اور آپ کے درمیان کیا باتیں ہوئیں.لکھا ہے جب رسول اللہ ﷺ کا آپ کی قوم نے انکار کر دیا تو جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کے آپ کے بارے میں تبصرے اور ان کا آپ کو جواب سن لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ملک الجبال کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ آپ اس کو اپنی قوم کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں.چنانچہ ملک الجبال نے آپ کو مخاطب کیا، آپ کو سلام کیا اور کہا مجھے اپنی قوم کے بارے میں جو چاہے حکم دیں.اگر آپ پسند کریں تو میں ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں.نبی عیلی نے ملک الجبال کو مخاطب کر کے فرمایا: نہیں بلکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسی نسل پیدا کرے جو خدائے واحد کی عبادت کرتے اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ قرار دیتے ہوں.الشفاء للقاضی عیاض، جز اوّل صفحه 184 الباب الثانى.فصل و اما ا الشفقة.مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت.طبع ثانيه (2002
خطبات مسرور جلد پنجم 144 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء پس آپ کا اسوہ یہ تھا کہ کامل قدرت کے باوجود سزا سے مخالف کو بچارہے ہیں.یہ علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مالکیت یوم الدین آج ان لوگوں کے لئے اس دنیا میں ہی سزا کا اظہار کر سکتی ہے.لیکن اس کی جو عفو کی صفت ہے وہ بھی اس مالکیت کے تحت ہی ہے اور آپ اس کا پر تو ہیں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے تو آخری فتح یقیناً میری ہے.اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا اور اس یقین اور عفو کی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ اے ملک جسے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعہ جزا سزا کے لئے مقرر کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئی بستیاں ایسی ہیں جو نا فرمان تھیں جن کو اس طرح تباہ کر دیا گیا کہ ان کو پہاڑوں کے ذریعہ سے زمین میں دفن کر دیا گیا.لیکن پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشنے کا ذریعہ بھی تو بنایا ہوا ہے.اس لئے مجھے امید ہے کہ جو روحانیت کی بارش اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے نازل فرما رہا ہے اور جو فیض کے چشمے مجھ سے جاری ہوں گے اور ہورہے ہیں وہ ان کی اصلاح اور زندگی کا باعث بن جائیں گے اور یہ لوگ یا ان کی نسلیں روحانیت کی لہلہاتی فصلیں بن جائیں گی.اور دنیا گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے کی بات کو پورا فرمایا اور چند سال میں وہ سب آپ کے دامن میں آگئے.جو آپ کے خون کے پیاسے تھے آپ کی خاطر خون بہانے لگے.پس مالک کے آپ ﷺ کے ساتھ سلوک کے یہ نظارے ہیں.اس زمانے میں آپ کے عاشق صادق کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمائے ہوئے ہیں جن میں سے کئی ہم نے پورے ہوتے دیکھے بلکہ بار بار پورے ہوتے دیکھے اور دیکھ رہے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی دیکھیں گے.وہ مالک الملک ہے.وہ آج آنحضرت علیہ کے فیض کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دنیا میں پھیلا رہا ہے اور یہ انشاء اللہ تعالیٰ پھیلے گا اور پھلے گا اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی غالب فرمائے گا.آپ کو الہام ہوا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.عنقریب اسے ایک ملک عظیم دیا جائے گا....اور خزائن اس پر کھولے جائیں گے.“ ( تذکرہ صفحہ 148 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) پس یہ خدا کا وعدہ ہے.یہ ملک عظیم دنیا کی حکومتیں نہیں ہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ضرورت تھی بلکہ روحانی بادشاہت ہے.روحانی بادشاہت کے قیام کے لئے یہ تمام دنیا آپ کو دی جائے گی.وہ ملک دیا جائے گا جس کی حدیں کسی ملک کی جغرافیائی حدود تک نہیں بلکہ کل دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ روحانی خزائن جو آپ کو دیئے گئے وہ تقسیم ہو رہے ہیں ، آج دنیا میں ہر جگہ پہنچ رہے ہیں.پس یہ سچے وعدوں والا خدا ہے جو ہر روز ہمیں اس عظیم ملک کی فتح کی طرف لے جارہا ہے اور اس کے نشان دکھا رہا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک اور الہام ہوا.آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ جل شانہ نے یہ
خطبات مسرور جلد پنجم 145 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( تذکرہ صفحہ 8 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) فرمایا یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی.پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے.وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے.تذکرہ صفحہ 8 ایڈیشن چہارم مطبوعه ربوہ ) اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے الہامات کے ذریعہ سے، کشوف کے ذریعہ سے ، رویا کے ذریعہ سے، جو سلوک تھا ان میں سے ایک کشفی نظارے کا یہاں میں ذکر کرتا ہوں جس کو آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے نے بھی محسوس کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میں نے عالم کشف میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء وقد ر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں.“ حضرت مسیح موعود نے قضاء و قدر کے احکام اپنے ہاتھ سے لکھے " کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جلشانہ کے سامنے پیش کیا ہے“.فرمایا کہ " اور یا درکھنا چاہئے کہ مکاشفات اور رویا صالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفات جمالیہ یا جلالیہ الہیہ انسان کی شکل پر متمثل ہو کر صاحب کشف کو نظر آ جاتے ہیں اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادر مطلق ہے اور یہ امر ارباب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے“.یعنی جو صاحب کشف ہیں ان کو اس کی حقیقت پتہ ہے ” جس سے کوئی صاحب کشف انکار نہیں کر سکتا فرماتے ہیں کہ " غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت متخیلہ ( یعنی سوچنے کی جو قوت تھی) کے آگے ایسی دکھائی دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے.اس ذات بے چون و بے چگون کے آگے ( جو بے مثل ہے، لاثانی ہے، جس کی کوئی مثال نہیں ) وہ کتاب قضاء وقد ر پیش کی گئی اور اس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثل تھا، اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو اس عاجز کی طرف چھڑ کا اور بقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا.اس سے اس کتاب پر دستخط کر دیئے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دور ہو گئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا تو کئی قطرات سرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے.چنانچہ ایک صاحب عبد اللہ نام جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہو کر بیٹھے ہوئے تھے.دو یا تین قطرہ سرخی کے ان کی ٹوپی پر پڑے.پس وہ سرخی جو ایک امر کشفی تھا.وجود خارجی پکڑ کر نظر آ گئی.اسی طرح اور کئی مکاشفات ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے مشاہدہ کیا گیا ہے.( تذکرہ صفحہ 100-102 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد پنجم 146 خطبہ جمعہ 6 اپریل 2007 ء تو یہ کشف کہ اللہ تعالیٰ نے جب دستخط کئے تو پین کو چھڑ کا ، جو سیا ہی چھٹر کی تو وہ ظاہری طور پر بھی سامنے نظر آ گئی.حضور کے کپڑوں پر پڑی.دیوار پر پڑی اور ان کی ٹوپی پر پڑی.حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب بھی اس کا ذکر کرتے ہیں کہ اس طرح ہوا اور کہتے ہیں میں اس وقت پاؤں دبا رہا تھا میں نے محسوس کیا کہ پاؤں پر بھی ایک قطرہ پڑا ہوا ہے تو اس وقت کہتے ہیں کہ 27 رمضان تھی.رمضان کا مہینہ تھا.آخری عشرہ تھا.جمعہ کا دن تھا.یہ میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے پاؤں میں دبارہا ہوں.مبارک ہستی ہے ، مبارک مہینہ ہے ، مبارک دن ہے تو اللہ تعالیٰ کوئی نشان دکھائے تو اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بدن میں لرزہ طاری ہوا ہے پھر آنکھوں سے آنسو بھی نکل رہے تھے اور اس وقت میں نے محسوس کیا کہ کوئی چیز آگری ہے جیسے چھینٹے پڑے ہیں.جہاں پاؤں دبا رہا تھا اس کے قریب ایک چھینٹا پڑا تھا، میں نے انگلی لگائی کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو شاید اس میں خوشبو بھی ہو لیکن اس میں بہر حال خوشبو کوئی نہیں تھی لیکن وہ سیاہی پھیل گئی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اٹھے اور مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں بیٹھ کے میں نے کہا کہ یہ قمیص جس پر چھینٹے پڑے ہیں مجھے دے دیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں مانے لیکن بڑے وعدہ کے بعد اس بات پہ مانے کہ یہ قمیص میں تمہیں دیتا ہوں جس پر چھینٹے پڑے ہیں اور حضرت مسیح موعود نے فرمایا دیکھو تمہارے اوپر تو نہیں چھینٹے پڑے تو اور کہیں نہیں تھے.ان کی سفید ٹوپی پر ایک چھینٹ یا دو چھینٹے پڑے ہوئے تھے.تو بہر حال اس شرط پر حضرت مسیح موعود نے اپنی قمیص دی کہ کہیں بدعت نہ بن جائے، شرک کا موجب نہ بن جائے اس لئے یہ تمہارے ساتھ ہی دفن ہو جائے گی.ورثاء میں نہیں جائے گی.تو یہ نشان تھا.حضرت عبداللہ سنوری یہ ساری باتیں لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ ہے سچی عینی شہادت.اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الكَاذِہین کی وعید کافی ہے.میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سراسر سچ ہے.اگر جھوٹ ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت لعنت لعنت.مجھ پر خدا کا غضب غضب غضب“.(ماخوذ از تذکره صفحه 100-102 حاشیه ایڈیشن چهارم مطبوعه ربوه تو یہ آپ کے اس واقعے کی کچی گواہی یہ تھی کہ دوسرے جو ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کو بھی اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ہر روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا فرما رہا ہے اور ہم ان کو دیکھ رہے ہیں ، آئندہ بھی ہمیں دکھاتا رہے.اور وہ وعدے بھی جو ابھی تک پورے نہیں ہوئے یا وہ نشان ، یا جو ابھی تک پورے نہیں ہوئے یا ہونے ہیں ان کو بھی ہمیں اپنی زندگی میں دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم بھی اس مالک کے آگے ہمیشہ جھکے رہنے والے ہوں.آمین ( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 27 اپریل تا 3 مئی 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 147 15 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2007ء (23 شہادت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمُ ايْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَّ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (الانفال : 4-3) اللہ تعالیٰ نے مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کے حوالے سے ان کے سامنے کوئی بات رکھی جائے، کوئی نصیحت کی جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں.اس نصیحت کا ان پر اثر ہوتا ہے اور یہ نصیحت ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے، بعض دفعہ ذاتی مصروفیات، ذاتی مسائل یا کئی دوسری وجوہات کی وجہ سے ایک مومن اللہ تعالیٰ کے دیئے گئے احکامات پر پوری طرح توجہ نہیں دے سکتا.انسانی فطری کمزوریاں غالب آ جاتی ہیں.بعض دفعہ شیطان سستیاں پیدا کر دیتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً یاد دہانی کرانے کا اور نصیحت کرنے کا ارشاد فرمایا ہے تا کہ جو حقیقی مومن ہے اس کو اپنی کمزوریوں کی طرف توجہ پیدا ہو.اگر حقیقی عذر ہیں تب بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان کو دور کرنے کے لئے دعا کرے.اگر خود ساختہ بہانے ہیں تو نصیحت اور یاد دہانی اس کو جھنجوڑنے اور ہوشیار کرنے کے لئے کافی ہو جائے اور اُسے ہوشیار کرے کہ دیکھو جس رستے پر تم چل رہے ہو یہ غلط راستہ ہے، شیطان کی گود میں گر رہے ہو، بعض حکموں پر عمل نہ کرنے کے لئے شیطان تمہیں بہکا رہا ہے ہو تو یا درکھو اصل پناہ گاہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور تمہاری ضروریات کو پوری کرنے والی اور اپنے بندوں سے پیار کرنے والی بھی خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ہستی نہیں ہے.پس ہر حالت میں جنگی میں ، آسائش میں ہمسر میں، سیر میں مجبوری میں یا سہولت میں اگر کسی پر توکل کیا جاسکتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.پس جب حقیقی مومن کو اس خدا کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو یہ بات اسے ایمان میں بڑھاتی ہے اور ظاہر ہے جب ایمان میں بڑھے گا، جب احساس پیدا ہو گا کہ اوہو! ہم دنیاوی مصروفیات اور خود ساختہ مجبوریوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا وی سہاروں پر تو کل کرنے لگ گئے تھے تو پھر وہ اپنے حقیقی اور اصل سہارے کی طرف لوٹے گا اور تمام تر تو کل اس واحد ویگانہ پر ہوگا جورب ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرتا ہے.ان کی دعاؤں کو سنتا ہے، مالک یوم الدین ہے، اپنے بندوں کے نیک اعمال کی جزا دیتا ہے، اپنی راہ میں کئے گئے ہر فضل اور ہر عمل کا بہترین بدلہ دیتا ہے.یہی ایک
خطبات مسرور جلد پنجم مومن کی نشانی ہوتی ہے.148 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایمان میں بڑھنے والوں اور اللہ تعالیٰ پر تو کل کرنے والوں کی دو بڑی واضح نشانیاں ہیں.ایک تو نماز قائم کرتے ہیں ، دوسرے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.گویا یہ دو بنیادی چیزیں ہیں جو مومن کے ایمان اور توکل علی اللہ کو بڑھاتی ہیں.نمازوں کے ساتھ مالی قربانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور بھی کئی جگہ بیان فرمایا ہے.قرآن کریم کی ابتدا میں سورۃ بقرہ (آیت : 4 ) کے شروع میں ہر متقی کی یہ نشانی بتائی ہے کہ نماز قائم کرتا ہے اور اس مال میں سے جو خدا نے اسے دیا ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اس طرح جیسا کہ میں نے کہا بے شمار جگہ نمازوں اور مالی قربانی کو یکجا کیا گیا ہے تا کہ ایک مومن روح اور نفس کی پاکیزگی کے سامان پیدا کرے.ایک جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے.قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَّاتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَلٌ (ابراهيم :32) تو میرے ان بندوں سے کہہ دے جو ایمان لائے ہیں کہ وہ نماز کو قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے مخفی طور پر بھی اور اعلانیہ طور پر بھی خرچ کریں ، پیشتر اس کے کہ وہ دن آ جائے جس میں کوئی خرید و فروخت نہیں ہوگی اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی.پس جو جز اسرا کے دن پر یقین رکھتے ہیں، جن کو اس بات کا مکمل فہم وادراک ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک یوم الدین ہے وہ یاد رکھیں کہ نمازیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں کی گئی قربانیاں ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک انسان کی بچت کے سامان کرنے والی ہوں گی.اس کے علاوہ نہ کوئی تجارت کام آئے گی، نہ مال کا زیادہ ہونا کام آئے گا.نہ خدا تعالیٰ یہ پوچھے گا کہ کتنا بینک بیلنس چھوڑا ہے.نہ یہ پوچھے گا کہ تمہارے دوست کون کون سے بڑے لوگ تھے.نہ یہ دنیاوی دوستیاں کسی قسم کے بچت کے سامان کر سکتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر حقیقی مومن ہو تو ان دو چیزوں کی طرف بہت توجہ دو.یہ نمازیں اور قربانیاں ظاہراً بھی ہوں اور چھپ کر بھی ہوں.چھپ کر کی گئی عبادتیں اور قربانیاں ایمان میں مزید مضبوطی کا باعث بنیں گی اور پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والی ہوں گی اور ظا ہرا کی گئی قربانیاں ، نہ اس لئے کہ بڑائی ظاہر ہو بلکہ اس لئے کہ دوسروں کو بھی تحریک ہو، یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہوتی ہیں، کیونکہ یہ نیک نیتی سے کی گئی ہوتی ہیں.پس ہر احمدی کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر اپنے آپ کو مومنین کی جماعت میں شامل سمجھتا ہے ان دو امور کی طرف خاص طور پر بہت توجہ دینی چاہئے.پہلی چیز نماز کا اہتمام، با قاعدگی سے ادائیگی ہے.حتی الوسع با جماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ان نمازوں کو نوافل کے ساتھ سجایا بھی جائے.آنحضرت علم سے ایک روایت ہے آپ نے فرمایا کہ بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيْمَانِ تَرُكُ الصَّلَوةِ.(ترمذی کتاب الايمان باب ما جاء في ترك الصلوة حديث : 2618
خطبات مسرور جلد پنجم 149 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء کہ کفر اور صلوٰۃ کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے.پس اس بات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.صرف اتنا نہیں کہ تارک نماز نماز کو چھوڑنے والا یا نمازوں میں کمزوری دکھانے والا ، کمزور ایمان والا ہے.بلکہ آپ نے فرمایا کہ کفر اور ایمان میں فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے.پھر اس بات کا صحابہ کو اس قدر خیال تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ میں یہ بات راسخ فرما دی تھی، ان کو اس بات پر بڑا پکا کر دیا تھا.اور انکو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا اس درجہ احساس دلا دیا تھا کہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن شقیق تحقیکی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ نماز کے علاوہ کسی عمل کو بھی ترک کرنا کفر نہ سمجھتے تھے.(ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء في ترك الصلواة حديث : 2622) پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا، کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا.میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ماں باپ سے نیک سلوک کرنا.پھر میں نے عرض کی کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا.یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے پوری پوری کوشش کرنا.(بخاری کتاب الجهاد باب فضل الجهاد و السير حدیث : 2782) پھر ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے.اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے نجات پائی.اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ ناکام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا.اگر اس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں؟ اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی نوافل کے ذریعہ پوری کر دی جائے گی.اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہوگا اور ان کا جائزہ لیا جائے گا.(ترمذی ابواب الصلواة باب ان اوّل ما يحاسب به العبد حدیث (413) پس یہ جو اللہ تعالیٰ نے میرا بھی عبادت اور قربانی کی طرف توجہ دلائی ہے یہ نوافل ہی ہیں.بعض دفعہ بعض مصروفیات کی وجہ سے نمازیں آگے پیچھے ہو جاتی ہیں یا پورے خشوع سے ادا نہیں کی جاسکتیں تو فرمایا کہ نوافل کی ادائیگی کرو وہ اس کمی کو پوری کر دے گی.نماز باجماعت کے ضمن میں ہی ایک اہم بات یہ ہے کہ مسجد میں آ کے ہم نماز پڑھتے ہیں تو مسجد کے کچھ آداب ہیں جسے ہر مسجد میں آنے والے کو یا د رکھنا چاہیئے.نماز با جماعت جب کھڑی ہوتی ہے تو آداب میں سے ایک بنیادی چیز صفوں کو سیدھا رکھنا ہے اور اس کو آنحضرت ﷺ نے بڑی اہمیت دی ہے کیونکہ اس سے ایک وحدت کی شکل پیدا ہوتی ہے.حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نمازوں کی صفوں کو سیدھا کرنے کے لئے ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھتے اور فرماتے صفیں سیدھی بناؤ اور آگے پیچھے نہ ہو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف بھر جائے گا.میرے قریب زیادہ علم والے سمجھدار لوگ کھڑے ہوں پھر وہ لوگ جو رتبے میں ان سے قریب ہوں.پھر وہ لوگ جو
خطبات مسرور جلد پنجم 150 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء ان سے قریب ہوں.(مسلم کتاب الصلواة باب تسوية الصفوف حدیث : 858) تو صفیں سیدھی کرنے کی بڑی اہمیت ہے.آپس میں تعلقات کے لئے بھی اور ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کے لئے بھی.صفیں سیدھی کرنے کے ضمن میں یہاں میں آج عورتوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں ، یہ عمومی شکایت عورتوں کی طرف سے آتی ہے، یہاں بھی اور مختلف ممالک میں جب بھی میں دورے پر جاؤں عموماً عورتیں جمعہ پر اور جمعہ کے علاوہ بھی مسجد میں بعض دفعہ نماز پڑھنے آجاتی ہیں.لیکن شکایت یہ ہوتی ہے کہ عورتیں صفیں سیدھی نہیں رکھتیں اور لجنہ کی انتظامیہ بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتی.بلکہ بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عہدیداران خود بھی ٹیڑھی میڑھی صفوں میں کھڑی ہوتی ہیں، بیچ میں فاصلہ ہوتا ہے، خاص طور پر جلسے کے دنوں میں یا کسی مار کی وغیرہ میں اگر صفیں بن رہی ہوں.بلکہ بعض دفعہ جب یہاں ہال میں عورتیں نمازیں پڑھتی ہیں تو یہاں بھی اب عموماً یہ شکایت ہوتی ہے کہ بعض بیمار اور بڑی عمر کی عورتیں کرسیاں صفوں کے بیچ میں رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں.کرسی پر بیٹھنے والیاں جن کو مجبوری ہے وہ یا تو ایک طرف کرسی رکھا کریں یا جس طرح یہاں انتظام ہے کہ پیچھے کرسیاں رکھی جاتی ہیں.کیونکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ نماز کے آداب میں سے صفوں کو سیدھا رکھنا انتہائی ضروری چیز ہے اور آنحضرت ﷺ اس بات کا بڑا اہتمام فرماتے تھے.پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ خطبہ جمعہ بھی نماز کا حصہ ہے.بعض عورتیں اور بچیاں جو شاید سکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سے آجکل مسجد میں آ جاتی ہیں لگتا ہے کہ وہ نماز کی بجائے اس نیت سے اس میں آتی ہیں کہ سہیلیوں اور دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی اور یہ جوئیں نے کہا ہے کہ ملاقات ہو جائے گی تو وہ اس غرض سے اس میں آتی ہیں.یہ میں بدظنی نہیں کر رہا بلکہ بعضوں کے عمل اس بات کا ثبوت ہیں.مثلاً گزشتہ جمعہ کی یہاں کی رپورٹ مجھے ملی کہ بعض بچیاں خطبے کے دوران اپنے اپنے موبائل پر یا تو ٹیکسٹ میسیجز (Text Messages) بھیج رہی تھیں اور یا با تیں کر رہی تھیں اور اس طرح دوسروں کا خطبہ جمعہ بھی خراب کر رہی تھیں جو وہ سن نہیں سکیں.یہی شکایت بعض چھوٹے بچوں کے بارے میں آتی ہے.آجکل ہر ایک کو ماں باپ نے موبائل پکڑا دیئے ہیں.حکم تو یہ ہے کہ اگر خطبہ کے دوران کوئی بات کرے اور اسے روکنا ہو تو ہاتھ کے اشارے سے روکو کیونکہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے.یہ بظاہر چھوٹی باتیں ہیں لیکن بڑی اہمیت کی حامل ہیں اس لئے ان کا خیال رکھنا چاہئے.اگر کسی نے اتنی ضروری پیغام رسانی کرنی ہے یا فون کرنا ہے کہ جمعہ کے تقدس کا بھی احساس نہیں اور مسجد کے تقدس کا بھی احساس نہیں تو پھر گھر بیٹھنا چاہئے ، دوسروں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہئے.عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ مسجد آ کر دوسروں کی نماز میں خراب کی جائیں.نماز با جماعت کا اصل مقصد دلوں کی کجی دور کرنا اور آپس میں محبت پیدا کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ہو کر جھکنا ہے تا کہ ایک ہو کر واحد خدا کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں ، نہ کہ دلوں میں نفرتیں بڑھیں اور دوسروں کی تکلیف کا باعث بنیں.پس یا درکھیں جہاں ایک مومن کے لئے نماز کا قیام انتہائی اہم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا ہے وہاں مسجد کا تقدس بھی بڑا اہم ہے.نمازوں کے حوالے سے ہی میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں ہمیشہ یادرکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑا
خطبات مسرور جلد پنجم 151 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء تعلق ہے.اور عبادت کیا ہے؟ نماز ہی ہے.جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اَقِيْمُوا الصَّلوةَ (النور: (57) کا بھی حکم ہے.پس تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکر گزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہو گے.پھر شکر گزاری نہیں نا شکر گزاری ہو گی اور نافرمانوں کے لئے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کے لئے ہے.پس یہ اختباہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے.اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ يَعْبُدُونَنِي (النور : 56) یعنی میری عبادت کرو.اس پر عمل کرنا ہوگا.پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا ، جو خلافت کی صورت میں جاری ہے، فائدہ تب اٹھا سکیں گے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.گزشتہ دنوں پاکستان سے آنے والے کسی شخص نے مجھے لکھا کہ میں ربوہ گیا تھا وہاں فجر اور عشاء پر مسجدوں میں حاضری بہت کم لگی.یہ وہاں والوں کے لئے لمحہ فکر یہ بھی ہے.ربوہ تو ایک نمونہ ہے اور گزشتہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرف بہت توجہ ہوگئی تھی.آنے جانے والوں کی بھی بڑی رپورٹس آتی تھیں کہ ربوہ میں مسجدوں کی حاضری بڑھ گئی ہے بلکہ بازاروں میں بھی کاروبار کے اوقات میں دکانیں بند کر کے نمازیں ہوا کرتی تھیں.گو کہ مجھے اس شخص کی بات پر اتنا یقین تو نہیں آیا.میں تو ربوہ کے بارے میں حسن ظن ہی رکھتا ہوں لیکن اگر اس میں سستی پیدا ہو رہی ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اس طرف خود توجہ کرنی چاہئے.ایک کوشش جو آپ نے کی تھی ، نیکیوں کو اختیار کرنے کا جو ایک قدم بڑھایا تھا وہ قدم اب آگے بڑھتا چلا جانا چاہئے.اللہ کرے کہ میرا حسن ظن ہمیشہ قائم رہے.اسی طرح عمومی طور پر پاکستان میں بھی اور دنیا کی ہر جماعت میں جہاں جہاں بھی احمدی آباد ہیں، نمازوں کے قیام کی خاص طور پر کوشش کریں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ افراد جماعت اور خلیفہ وقت کا دوطرفہ تعلق اُس وقت زیادہ مضبوط ہو گا جب عبادتوں کی طرف توجہ رہے گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو پاک نمونے پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نمازوں کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ”نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے.کیونکہ اس میں حمد الہی ہے ، استغفار ہے اور در دو شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یعنی تمام قسم کے درد اسی میں ہیں ” یہی نماز ہے.اور اس سے ہر ایک قسم کے غم و ہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اسی لئے فرمایا ہے الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب (الرعد: 29).اطمینان سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں نے قسم
152 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم قسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت ﷺ کی شریعت کے مقابل میں بنادی ہوئی ہے.مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں.ان وظائف اور اور اد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اور اد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سنا ہے ( حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسی الاول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے سنا ہے ) کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں.میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خدا چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے اس لئے فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى (طه: 15) الحکم جلد 7 نمبر 20 مورخہ 31 مئی 1903 ء صفحہ 9) دوسری بات جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے نمازوں کے ساتھ مالی قربانیوں کی طرف توجہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی مالی قربانی کی طرف توجہ دیتے ہیں.لیکن اس میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں بار بار ہر مالی قربانی میں وہی لوگ حصہ ڈالتے چلے جاتے ہیں.لیکن ایک طبقہ جن کی کشائش بہت زیادہ ہے، جن کی استطاعت زیادہ ہے، وہ اس کے مطابق اپنے چندوں کی ادائیگی نہیں کرتے.میں نے نماز کے سلسلے میں ذکر کیا تھا کہ جہاں اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ تمکنت عطا کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، وہاں اسے اپنی عبادت سے مشروط کرتا ہے اور اگلی آیت میں عبادت کی وضاحت کی کہ نماز کو قائم کرنے والے لوگ ہوں گے.لیکن جہاں یہ ذکر ہے کہ نماز کو قائم کرنے والے ہوں گے وہ صرف نماز کے بارے میں ہی نہیں فرمایا، بلکہ ساتھ ہی فرمایا کہ وَاتُوا الزَّكواةَ (النور: (57) کہ زکوة ادا کرو.زکوۃ اور مالی قربانی بھی استحکام خلافت اور تمہارے اس انعام پانے کا ذریعہ ہے.اور پھر آگے فرمایا وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (النور: (57) اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے مسیح و مہدی کو مانا جس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے خلافت کی دائمی خوشخبری فرمائی تھی.پس خلافت کا نظام بھی اطاعت رسول کی ایک کڑی ہے اور اس دور میں اگر دین کی ضروریات کے لئے مالی تحریکات کی جاتی ہیں جو اگر زکوۃ سے پوری نہ ہو سکیں تو یہ عین اللہ اور رسول کی منشاء کے مطابق ہے.خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زکوۃ سے بڑھ کر جو اخراجات ہوتے تھے ان کے لئے چندہ لیا جاتا تھا.یہ ٹھیک ہے کہ زکوۃ
153 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم کی اپنی ایک اہمیت ہے.قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے.لیکن ساتھ ہی بہت سی ضروریات کے لئے مالی قربانی کا بھی ذکر آتا ہے.اس لئے ایک تو میں یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ جماعت میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زکوۃ کا نظام رائج نہیں اور ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے.جماعت میں زکوۃ کا نظام رائج ہے اور جن پر زکوۃ فرض ہے ان کو ادا کرنی چاہئے.بعض منافق طبع یا کمزور لوگ یا لاعلم کہنا چاہئے ، بعض دفعہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بعض ذہنوں میں یہ سوال ڈالتے ہیں اور نئے شامل ہونے والے احمدی اس سے بعض دفعہ ٹھو کر بھی کھاتے ہیں کہ جماعت چندے کے اسلامی طریق کو رائج کرنے کی بجائے اپنا نظام چلاتی ہے.ایک تو زکوۃ ہر ایک پر فرض نہیں ہے ، اس کی کچھ شرائط ہیں جن کے ساتھ یہ فرض ہے اور دوسرے اس کی شرح اتنی کم ہے کہ آجکل کی ضروریات یہ پوری نہیں کر سکتی.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی زائد ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ، زکوۃ کے علاوہ زائد چندے لئے جاتے تھے.زکوۃ کی اہمیت اور فرضیت سے کسی کو انکار نہیں.اس لئے جن پر زکوۃ فرض ہے ، ان کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ زکوۃ دینی لازمی ہے وہ ضرور دیا کریں اور خاص طور پر عورتوں پر تو یہ فرض ہے جو زیور بنا کر رکھتی ہیں.سونے پر زکوۃ فرض ہے.دوسرے جیسا کہ میں نے کہا کہ خلافت نبوت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس زمانے میں خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئی ہے.اس لئے خلفاء کے مقرر کردہ چندے اور تحریکات اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکم کے مطابق ہیں اس لئے ان کی ادائیگی کی طرف توجہ ہونی چاہئے.بعض لوگوں کو شرح پر اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں شرح نہیں تھی ، بعد میں مقرر کی گئی تو ضرورت کے مطابق مقرر کی گئی.پس خلافت کے ساتھ وابستہ ہو کر جہاں قیام نماز ہوگا، زکوۃ کی ادائیگی ہوگی نمونے ہوں گے جس سے دین کی تمکنت قائم ہو، وہاں اللہ اور رسول کے حکموں پر عمل کر کے ایک مومن اللہ تعالیٰ کے رحم کا وارث بھی بن رہا ہو گا.ان دنوں میں بعض جماعتوں کو اپنے چندہ عام کے بجٹ پورے کرنے کی فکر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی کا اظہار کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا جماعت پر ہمیشہ فضل رہا ہے اور افراد جماعت کو قربانی کے جذبے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق ملتی رہی ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو احسن رنگ میں پورا کرنے والے بنے رہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت نے اپنی ذمہ داری کو احسن رنگ میں پورا کرتے ہوئے عہد یداران کی پریشانیوں کو غلط ثابت کیا ہے.اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا.اس کی تو مجھے فکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے اس فرض کی طرف صحیح طور پر توجہ نہیں دیتا.وہ سمجھتے ہیں کہ پوری شرح سے چندہ دینے سے ان کی آمد میں کمی آجائے گی.یہ خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارا ایمان مضبوط ہے اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ہو اور عبادت کی طرف توجہ دینے والے ہوتو اللہ تعالیٰ پر یہ باطنی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے لئے رزق کی راہیں کھولنے والا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 154 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : جو خدا کے آگے تقویٰ اختیار کرتا ہے، خدا اس کے لئے ہر ایک تنگی اور تکلیف سے نکلنے کی راہ بتا دیتا ہے اور فرمایا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 4) وہ متقی کو ایسی راہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے رزق آنے کا خیال و گمان بھی نہیں ہوتا.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، وعدوں کو سچا کرنے میں خدا سے بڑھ کر کون ہے.پس خدا پر ایمان لاؤ، خدا سے ڈرنے والے ہرگز ضائع نہیں ہوتے.يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق: 3) یہ ایک وسیع بشارت ہے، تم تقویٰ اختیار کر وخدا تمہارا کفیل ہوگا.اس کا جو وعدہ ہے وہ سب پورا کر دے گا“.( تفسیر حضرت مسیح موعود تفسیر سورۃ الطلاق جلد چہارم صفحہ 402) بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کام کر رہے ہیں وہ جائز ہیں یا نا جائز ہیں ، ان کو چھوڑ نا بڑا مشکل ہے.وہ اللہ تعالیٰ کو رازق نہیں سمجھتے.کچھ عرصہ ہوا میں نے کہا تھا کہ جو لوگ سور کے گوشت پکانے یا بیچنے یا براہ راست اس کے کاروبار میں ملوث ہیں، اس سے منسلک ہیں، وہ یہ کام نہ کریں یا اگر کرنا ہے تو پھر ایسے لوگوں سے چندہ نہیں لیا جائے گا.جس پر جرمنی کی جماعت نے ماشاء اللہ بڑی سختی سے عمل کیا ہے.باقی جگہ دوسرے ملکوں میں بھی یہ ہونا چاہئے.لیکن مجھے بعض لوگوں نے جو ایسی جگہوں پر کام کرتے تھے لکھا کہ ہماری تو روزی ماری جائے گی ، یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا.تو میں نے کہا جو بھی ہوگا اگر براہ راست اس کام میں ملوث ہو تو پھر تم سے چندہ نہیں لیا جائے گا.تم نے یہ روزی کھانی ہے تو کھاؤ، اللہ کے مال میں اس کا حصہ نہیں ڈالا جائے گا.اگر تمہاری اضطراری کیفیت ہے تو اپنے پر لاگو کر لو، اس کو استعمال کر لولیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر کوئی ایسی اضطراری کیفیت نہیں ہے.اللہ جماعت کی ضروریات کو پوری کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں انشاء اللہ کی نہیں آنے دوں گا.حسب ضرورت انشاء اللہ جس طرح ضرورت ہوتی ہے اللہ پوری فرماتا ہے تو جماعت کو بھی میری اس بات سے بڑی فکر تھی کہ بہت سارے لوگوں سے اس طرح چندہ لینا بند ہو جائے گا.لیکن اب مجھے سیکرٹری صاحب مال نے وہاں سے لکھا ہے کہ اس دفعہ جو بجٹ آئے ہیں وہ اتنے اضافے کے ساتھ آئے ہیں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، پہلے کبھی اتنا اضافہ ہوا ہی نہیں.تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يحتسب (الطلاق: 4 ).پس اللہ تعالیٰ دے گا اور وہم وگمان سے بڑھ کر دے گا اور دیتا ہے لیکن تقویٰ پر قائم رہنے کی ضرورت ہے.عمومی طور پر دنیا میں ہر جگہ چندہ عام میں اضافہ ہورہا ہے اور یہی مد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اخراجات پورے کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.لیکن افریقن ممالک کو میں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان میں جس طرح اس طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے تھی، توجہ پیدا نہیں ہورہی.افریقن ممالک میں نائیجیریا میں جماعت کے ہر شعبہ میں ترقی نظر آ رہی ہے اور اسی طرح چندوں
155 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم میں بھی ہے، مجھے امید ہے کہ چندہ عام کی طرف بھی ان کی توجہ ہوگی کیونکہ باقی تحریکات میں بہت زیادہ ہے.نائیجیریا میں عمومی طور پر ملکی ترقی میں انحطاط ہے، باوجود ان کے وسائل ہونے کے، ان کے پاس تیل کی دولت ہونے کے، کر پشن اتنی زیادہ ہے کہ وہاں ترقی نہیں ہو رہی بلکہ ملک گرتا چلا جارہا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہی لوگ جو جماعت میں شامل ہوئے ہیں ان کے مزاج بالکل بدل گئے ہیں.اللہ کرے یہ پاک تبدیلی ان میں بڑھتی چلی جائے اور دوسرے افریقن اور غریب ممالک کے احمدی بھی ، احمدیت کے اونچے معیاروں کی طرف توجہ کرنے والے ہوں، اپنی مالی قربانیوں کی طرف توجہ کرنے والے ہوں اور یہ احساس ان میں پیدا ہو کہ ہم نے اپنے نفس کی پاکیزگی کے لئے یہ مالی قربانیاں کرنی ہیں.حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الايْمَانِ، كشف الخفاء جلد 1 از اسماعيل بن محمد العجلاني الجراحى مطبوعہ بیروت (1405) وطن کی محبت بھی ایمان کا حصہ ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ہر احمدی کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ، روحانیت میں بڑھتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اعلیٰ اخلاق میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے ، قربانیوں میں ترقی کرتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہئے.امیر ملکوں کے احمدی بھی اور غریب ملکوں کے احمدی بھی، اس بات پر عمل کرتے ہوئے کہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے جہاں اپنے ہم وطنوں کے لئے دعائیں کریں ، وہاں یہ کوشش بھی کریں کہ ان میں بھی اخلاقی اور روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں تا کہ اپنے اپنے ملکوں میں ایک انقلاب لا سکیں.پس ہر احمدی اس بات کی طرف خاص توجہ کرے کہ اس نے اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے، اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے معیار کو بھی بلند کرنا ہے تبھی دنیا میں حقیقی انقلاب لانے والے بن سکیں گے اور اپنے آپ کو بھی اس معیار پر لانے والے بن سکیں گے جس پر اللہ تعالیٰ ہمیں لانا چاہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا:.ایک افسوسناک اطلاع ہے کہ جماعت کے ایک بزرگ مکرم چوہدری حبیب اللہ صاحب سیال جن کی عمر 80 سال تھی ، اپنی زمینوں پر ، ڈیرہ پر رہا کرتے تھے.ان کو 8 اپریل کی صبح چند نا معلوم افراد نے شہید کر دیا.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کا گھر نماز سنٹر تھا.وہیں ظہر و عصر اور مغرب کی نماز ہوتی تھی.رات کے کسی وقت چند افراد نے ان کے گھر جا کر ان پر وار کیا، بلکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق پہلے ان کو باندھا گیا، ٹانگیں باندھیں ، ان کے ہاتھ پیچھے باندھے ہوئے تھے، تکیہ دبا کر ان کا سانس روکا گیا اس سے ان کی شہادت ہوئی.اس کے بعد چھری کا وار بھی کیا گیا.خون نکلا ہوا تھا.بہر حال اگلے دن ان کی بہو جب گئیں تب پتہ لگا کہ اندر ان کی نعش پڑی تھی.انہوں نے احمدیوں کو اطلاع دی ، پولیس کو اطلاع دی گئی تو بہر حال پتہ لگ رہا ہے کہ قریب کے کچھ ایسے شر پسند لوگ
156 خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ہیں جو احمدیوں کے مخالف تھے، انہوں نے ان کو شہید کیا تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ملک کے لوگوں کو بلکہ حکومت کو بھی عقل دے کہ جہاں ایسے قانون چل رہے ہیں جس میں کوئی انصاف نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو وہاں کے احمدیوں کے حقوق کی بھی ، جو ان کے شہری ہیں ، حفاظت کرنے کی توفیق عطا کرے ورنہ اللہ تعالیٰ بھی ایک حد تک ڈھیل دیتا ہے.دوسری افسوسناک اطلاع ہے مکرم قریشی محمود الحسن صاحب لمبے عرصے تک نائب امیر جماعت سرگودھا رہے ہیں ان کی عمر 92 سال تھی.یہ گزشتہ دنوں فوت ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انہوں نے بھی کافی لمبا عرصہ مختلف عہدوں پر جماعت کی خدمت کی.سرگودھا میں رہے.حضرت مرزا عبدالحق صاحب کے ساتھ انہوں نے کافی لمبا کام کیا ہے.موصی تھے اور بہشتی مقبرہ میں ان کی تدفین ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے پسماندگان کو اور اسی طرح سیال صاحب کے پسماندگان کو صبر کی تو فیق عطا فرمائے.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ میں ہر دو کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 4 تا 10 مئی 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 157 (16 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2007 ء (20 رشہادت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدوس ہے.مختلف لغات میں اس لفظ کے جو معنی لکھے ہیں اور پرانے مفسرین نے جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے چند مشہور مفسرین کی مختصر تفسیر اور معانی میں پیش کرتا ہوں.تاج العروس میں لکھا ہے کہ القدوس اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک اسم ہے اور الْقُدُّوس کے معنی ہیں الطاھر تمام عیوب ونقائص سے منزہ ہستی.اور المُبارك، با برکت جس میں تمام قسم کی برکات جمع ہیں.اور اَلتَّقْدِیس کا مطلب ہے اَلتَّطْهِير، اللہ عز وجل کو پاک اور بے عیب قرار دینا.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ التَّقْدِيس اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی وہ طہارت ہے ، وہ پاکیزگی ہے جس کا ذکر ار شا در بانی وَيُطَهِّرُ كُمُ تَطْهِيرًا میں ہوا ہے اور اس سے مراد ظاہری نجاست کا دُور کرنا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ دوسری آیات سے ثابت ہے نفس انسانی کی تطہیر کرنا ہے.پھر اقرب الموارد میں لکھا ہے کہ قدوس ایسی ہستی ہے جو پاک اور تمام عیوب ونقائص سے منز ہ ومبرا ہے.بالکل پاک صاف ہے.ہر لحاظ سے پاک کی ہوئی ہے.پھر القدس کے معنی لکھتے ہیں پاکیزگی اور برکت.تقریباً یہی ملتے جلتے معنی لسان العرب میں لکھے ہیں ، یہ چند مشہور لغات ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام لغات سے جو معنی اخذ کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ القدوس تمام پاکیزگیوں کا جامع ہے یعنی صرف عیوب سے ہی مبر انہیں ہے، صرف عیوب سے ہی پاک نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی خوبیاں بھی اپنے اندر رکھتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ وہ پاک ذات ہے جس میں ہر قسم کی پاکیزگی جمع ہے، ہر قسم کے عیب سے وہ پاک ہے، اللہ تعالیٰ کی ہستی میں کسی بھی قسم کے عیب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور کوئی ایسی خوبی نہیں جس کا انسانی عقل احاطہ کر سکے اور اس میں موجود نہ ہو بلکہ وہ تو ان خوبیوں کا بھی جامع ہے جو اس میں جمع ہیں، جو موجود ہیں اور وہ تمام خوبیاں بھی جن کا انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی اور یہی اس قدوس ذات کی عظمت ہے.اب بعض مفسرین کی تفسیر پیش کرتا ہوں جو انہوں نے اس صفت کے تحت کی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو کہا نُقَدِّسُ لَكَ (البقرۃ: 31) اس کی وضاحت کرتے ہوئے تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے کہ نُقَدِّسُ لَكَ کا معنی ہے اے اللہ ! تمام وہ صفات نقص جو تیرے شایان شان نہیں ہم تجھے
158 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ایسی تمام صفات سے پاک قرار دیتے ہیں اور کوئی بھی قبیح بات تیری طرف منسوب نہیں کرتے.اس معنی کے اعتبار سے نُقَدِّسُ لَكَ میں لام زائدہ ہے یعنی مضمون کی تاکید کرنے کے لئے ہے.اور اگر اس لام کا ترجمہ بھی شامل کیا جائے تو پھر بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ ہم تیری خاطر نماز پڑھتے ہیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اے اللہ! ہم اپنے نفوس کو تیری خاطر یعنی تیری رضا حاصل کرنے کے لئے خطاؤں اور گناہوں سے پاک صاف کرتے ہیں.اسی طرح اس بارے میں علامہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لك (البقرة: (31) کہ بعض لوگوں نے یہ شبہ اٹھایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو خلق آدم کے وقت اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا (البقرة: 31) کہ کر اللہ تعالیٰ پر اعتراض کیا تھا.علامہ فخر الدین رازی اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ شبہ دو وجہ سے باطل ہے ، غلط ہے.نمبر ایک ، فرشتوں نے فساد اور خون خرابہ کو مخلوق کی طرف منسوب کیا ہے نہ کہ خالق اللہ تعالیٰ کی طرف.اور دوسرے فرشتوں نے اپنے اس قول کے معا بعد کہا وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ (البقرة: 31) اور تسبیح کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مادی اجسام والی ہر صفت سے منزہ قرار دینا، پاک قرار دینا اور نقد میں سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے افعال کو مذمت اور نادانی کی صفت سے منزہ قرار دینا.اسی طرح علامہ رازی صفت القدوس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ القدوس اور القَدُّوس ( قاف کی زبر اور پیش دونوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے ) یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، افعال و احکام اور اسماء کی پاکیزگی اور بے عیبی کو بیان کرنے کے اعتبار سے بڑا بلیغ ہے.اس میں بڑی بلاغت ہے، بڑا وسیع لفظ ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بے عیب ہے جیسا کہ لغت میں بھی دیکھا ہے.اس کی صفات کو اگر پر کھنا ہے تو صفت قدوس ذہن میں رکھنی چاہئے.صفت قدوس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کی اور وضاحت ہوتی ہے.حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ فرمایا کہ قرآن کریم کے معنی کرتے ہوئے (اگر صحیح معنے کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی صفات ضرور دیکھو.لیکن ایک گر یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت پر حرف نہ آئے.کوئی بھی قرآن کریم کی تشریح کرنی ہے، صفت قدوسیت کو ہمیشہ سامنے رکھو.یعنی ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب ہے.کوئی ایسی تشریح نہ ہو، کوئی ایسی تفسیر نہ ہو جس سے اللہ تعالیٰ کے بے عیب ہونے پر حرف آتا ہو.اس کا ہر فعل اور ہر حکم اسی صفت کے تحت بے عیب اور پاک ہے.تفسیر روح البیان میں وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ کے تحت لکھا ہے، ہم قسم ہا قسم کی نعمتوں پر جن میں سے ایک نعمت اس عبادت کی توفیق ملنا بھی ہے، تیری حمد کرتے ہوئے تجھے ہر اس بات سے پاک قرار دیتے ہیں جو تیرے شایان شان نہیں.اس اعتبار سے تسبیح صفات جلال کے اظہار کے لئے اور حمد صفات انعام کے اظہار کے لئے ہے.وَنُقَدِّسُ لَكَ کے معنی لکھتے ہیں یعنی رفعت و عزت کا جو بھی معنی تیرے لائق شان ہے اسے ہم تیرے حق میں بیان کرتے ہیں اور جو تیرے لائق شان نہیں، اس سے تجھے منزہ قرار دیتے ہیں.تفسیر ابن کثیر میں وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ کے تحت لکھتے ہیں کہ قتادہ کہتے ہیں کہ یہاں
159 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم تسبیح سے مراد تو معروف تسبیح ہے جبکہ تقدیس سے مراد صلوۃ یعنی نماز ہے.اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود اور دیگر کئی صحابہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ نُصَلِّي لَكَ یعنی اے خدا ہم تیری خاطر نماز پڑھتے ہیں.پھر مجاہد نے وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ کا معنی کیا ہے کہ نُعَظِمُكَ وَ نُكَبِّرُكَ یعنی ہم تیری تعظیم کرتے ہیں، تیری بڑائی بیان کرتے ہیں.پھر اسی طرح محمد بن اسحاق نے معنی کئے ہیں کہ اے اللہ ! ہم نہ تیری نافرمانی کرتے ہیں اور نہ کسی ایسے امر کے مرتکب ہوتے ہیں جو تجھے نا پسند ہو.پھر تقدیس سے مراد التَّعْظِيم والتطهير ہے یعنی عظمت اور پاکیزگی بیان کرنا.عظمت کا اور ہر عیب سے پاک ہونے کا اقرار کرنا.اسی سے سبوح قدوس ہے.سبوح کا معنی ہے اللہ کو ہر عیب سے منزہ قرار دینا اور قدوس سے مراد یہ اقرار کرنا ہے کہ تمام تر طہارت اور تعظیم اُسی کو زیبا ہے.آگے وہ لکھتے ہیں کہ اس تمام بحث کی روشنی میں وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ کا معنی ہوگا اے اللہ ! ہم تجھے ہر اس غلط بات سے پاک اور بری قرار دیتے ہیں جو اہل شرک تیری طرف منسوب کرتے ہیں اور وَنُقَدِّسُ لَک کا معنی ہے (اے اللہ ! ) ہر میل کچیل اور اہل کفر کی تیرے بارہ میں بیان کردہ غلط باتوں سے پاک ہونے کی جو صفات تجھ میں پائی جاتی ہیں ہم تجھے ان صفات سے منسوب کرتے ہیں.میں نے ابھی ایک مفسر کی قدوس لفظ کی وضاحت میں حضرت خلیفہ مسیح الاول کا حوالہ دیا تھا.پورا حوالہ اس طرح ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یہ بچی بات ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے.ہر ایک ذرہ گواہی دیتا ہے کہ وہ خالق ہے اور اسی کی ربوبیت اور حیات اور قیومیت کے باعث ہر چیز کی حیات اور قائمی ہے یعنی ہر ایک کی زندگی ہے اور وہ قائم ہے.اسی کی حفاظت سے محفوظ ہے.پھر یہ بھی کہ وہ الله المَلِكُ ہے.وہ مالک ہے.اگر سزا دیتا ہے تو مالکانہ رنگ میں، اگر پکڑتا ہے تو جابرانہ نہیں بلکہ مالکانہ رنگ میں تا کہ ماخوذ شخص کی اصلاح ہو ، یعنی جس کو پکڑا گیا ہے وہ اس کی اصلاح کے لئے اُسے پکڑتا ہے.پھر وہ کیسا ہے؟ القُدوس ہے.اس کی صفات وحمد میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو نقصان کا موجب ہو.بلکہ وہ صفات کا ملہ سے موصوف اور ہر نقص اور بدی سے منزہ ، القدوس ہے.قرآن شریف پر تدبر نہ کرنے کی وجہ سے کہو یا اسماء الہی کی فلاسفی نہ سمجھنے کی وجہ سے.یا تو قرآن کریم پر غور نہیں کرتے یا اللہ تعالیٰ کے نام کی فلاسفی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے.غرض یہ ایک غلطی پیدا ہوگئی ہے کہ بعض وقت اللہ تعالیٰ کے کسی فعل یا صفت کے ایسے معنی کر لئے جاتے ہیں جو اس کی دوسری صفات کے خلاف ہوتے ہیں.اس کے لئے میں تمہیں ایک گر بتاتا ہوں کہ قرآن شریف کے معنی کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ کبھی کوئی معنے ایسے نہ کئے جاویں جو صفات الہی کے خلاف ہوں.اسماء الہی کو مدنظر رکھو اور ایسے معنی کرو اور دیکھو کہ قدوسیت کو بقہ تو نہیں لگتا.صفات الہی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت بھی یہ دیکھو کہ قدوسیت کو بٹہ تو نہیں لگتا.لغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنی ہو سکتے ہیں.اور ایک نا پاک دل انسان کلام الہی کے گندے معنی بھی تجویز کر سکتا ہے ہے.
160 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم اور کتاب الہی پر اعتراض کر بیٹھتا ہے.مگر تم ہمیشہ یہ لحاظ رکھو کہ جو معنی کرو اس میں دیکھ لو کہ خدا کی صفت قدوسیت کے خلاف تو نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے سارے کلام حق و حکمت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جس سے اس کی اور اس کے رسول اور عامۃ المومنین کی عزت و بڑائی کا اظہار ہوتا ہے.حقائق الفرقان جلد 4 صفحه 83-84 مطبوعه ربوه ) یہاں میں حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہتعالیٰ عنہ کی نصیحت کا بھی ذکر کر دیتاہوں جو اس حوالے سے آپ نے جماعت کو کی.اور بڑی اہم اور پیاری نصیحت ہے جسے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ چاہے پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ ہے، امیر ہے یا غریب ہے، مرد ہے یا عورت ہے اپنے پلے باندھے کہ اصلاح نفس کے لئے بڑی ضروری ہے اور اس سے عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی.آپ فرماتے ہیں کہ: جو ان پڑھ ہیں انہیں کم از کم یہی چاہئے کہ وہ اپنے چال و چلن سے خدا کی تنزیہ کریں.یعنی اپنے طرز عمل سے دکھا ئیں کہ قدوس خدا کے بندے، پاک کتاب کے ماننے والے، پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصاً اس عظیم الشان مجد د کے پیر وایسے پاک ہوتے ہیں.(حقائق الفرقان جلد 4 صفحه 372-73 3 مطبوعه ربوه ) یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیرو ایسے ہوتے ہیں.اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کریں.پس خدا تعالی کو ہر عیب سے، ہر خرابی سے پاک سمجھنا اس وقت صحیح ہو گا جب ہم اپنے ہر قول وفعل سے اس کا اظہار کر رہے ہوں گے.آپ فرماتے ہیں اس کے لئے وسیع اور بہت علم کی ضرورت نہیں ہے.ان پڑھ سے ان پڑھ احمدی کو بھی پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کیا احکامات ہیں.خطبات میں تقریروں میں اور درسوں میں سنتا ہے کہ کن باتوں کے کرنے کا حکم ہے اور کن باتوں سے روکا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا نمونے قائم کر کے دکھائے ہیں.ایک احمدی سے خدا تعالی کی قدوسیت کی صفت پر یقین کا اظہار اسی وقت ہوگا جب وہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے اور پاک ہو، تو تبھی اس زمانے کے امام کو ماننے کا فائدہ ہے.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ 'یاد رکھو، خدا قدوس ہے اس کا مقرب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو.( حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 356) تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے اور قرب پانے کے لئے دعاؤں کی قبولیت کی بھی ضرورت ہے.اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے.لیکن اس سے پہلے اپنے آپ کو پاک کرنے کی بھی کوشش ہونی چاہئے.اس صفت کے ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : ”انسان کی نیکی کیسی ہوتی ہے.یعنی نیک عمل کرتا ہے تو اس کو اس کا بدلہ ملتا ہے یا اس کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نیکی ذاتی ہوتی ہے.اسی لئے خدا قدوس کہلاتا ہے لیکن انسان قدوس نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں بے عیب ہے، یعنی خدا تعالیٰ اپنی ذات میں بے عیب ہے اور انسان بے عیب کوشش سے بنتا ہے.اس صفت کو اس وقت حاصل کرو گے جب کوشش کر کے بے عیب ہو گئے.خدا تعالیٰ پر کوئی وقت ایسا نہیں آیا جب وہ ناقص تھا اور پھر اس نے کامل
خطبات مسرور جلد پنجم 161 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء بننے کی کوشش کی.لیکن انسان پہلے ناقص ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے.پہلے وہ بچہ ہوتا ہے پھر اسے عقل آتی ہے تو وہ نماز شروع کرتا ہے.اس کے بعد ایک دن کی نماز اسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے.دو دن کی نماز اُسے اور آگے لے جاتی ہے تین دن کی نماز اُسے اور آگے لے جاتی ہے.اس طرح وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ جیسے آج سے اربوں ارب سال پہلے تھا اسی طرح آج بھی ہے.اس کی قدوسیت نہ پہلے کم تھی اور نہ آج زیادہ ہے.(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه 207 مطبوعه ربوه اس کی قدوسیت اور ہر صفت ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی.اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت سے صحیح طور پر مؤمن اسی وقت حصہ لے سکتا ہے جب اس قدوس خدا کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ایک مومن اپنی عبادتوں اور نیکیوں میں ترقی کرے.پھر حضرت مصلح موعودؓ فرشتوں کی یہ بات کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو کہا کہ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لک کہ ہم جو ہیں تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرنے والے اور تجھ میں سب بڑائیوں کے پائے جانے کا اقرار کرنے والے تو پھر آدم کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.تو جب فرشتوں نے یہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے یعنی یہ تو ٹھیک ہے کہ جس طرح تم کہتے ہو کہ فساد کریں گے.فساد تو کریں گے مجھے بھی پتہ ہے لیکن تمہیں ایک بات کا نہیں پتہ کہ اب انسانی افعال شریعت کے تابع ہوں گے اور جو شریعت کے مطابق عمل کرنے والے اور صفت قدوسیت سے حصہ لینے کے لئے نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں گے تو وہ پھر فرشتوں سے بھی بڑھ جائیں گے.اس چیز کا فرشتوں کو علم نہیں تھا.اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ آدم کو خلیفہ بنانے کے موقعہ پر جو کچھ خدا تعالیٰ نے فرمایا وہ بھی درست تھا اور جوفرشتوں نے کہا وہ بھی درست تھا جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے، صرف نقطہ نگاہ کا فرق تھا.اللہ تعالیٰ کی نظر ان صلحاء پر تھی جو آدم کی نسل میں ظاہر ہونے والے تھے اور اس نظام کی خوبیوں پر تھی جو آدم اور اس کے اظلال کے ذریعہ سے دنیا میں قائم ہونے والا تھا لیکن فرشتوں کی نظر ان بدکاروں پر تھی جو انسانی دماغ کی تکمیل کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا موردعتاب بننے والے تھے.خدا تعالیٰ آدم کی پیدائش میں محمدی جلوہ کو دیکھ رہا تھا اور فرشتے بوجہلی صفات کے ظہور کو دیکھ کر لرزاں و ترساں تھے.( پریشان تھے ) اور گو یہ درست ہے کہ جو کچھ فرشتوں نے خلافت کے قیام سے سمجھا تھا درست تھا مگر ان کا یہ خوف کہ ایسا نظام دنیا کے لئے لعنت کا موجب نہ ہو، غلط تھا.کیونکہ کسی نظام کی خوبی کا اس کے اچھے ثمرات سے اندازہ کیا جاتا ہے نہ کہ اس میں کمزوری دکھانے والوں کے ذریعہ سے.اگر کسی اچھے کام کو اس کے درمیانی خطرات کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے تو کوئی ترقی ہو ہی نہیں سکتی.ہر بڑا کام اپنے ساتھ خطرات رکھتا ہے.آپ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طالب علم، علم کے سیکھنے میں جانیں ضائع کر دیتے ہیں“.مگر علم سیکھنا ترک نہیں کیا جاتا.اسی طرح ملکوں میں فوجوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں تو لوگ فوج میں جانے سے رک نہیں جاتے یا جنگیں ختم نہیں ہو
خطبات مسرور جلد پنجم 162 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء جاتیں یا اپنے ملک کی حفاظت ختم نہیں ہو جاتی.پس گو خلافت کے قیام سے انسانوں کا ایک حصہ مور د سزا بنے والا تھا.اور مفسد اور قاتل قرار پانے والا تھا.مگر ایک دوسرا حصہ خدا تعالیٰ کا محبوب بنے والا تھا اور فرشتوں سے بھی اوپر جانے والا تھا.وہ کامیاب ہونے والا حصہ ہی انسانی نظام کا موجب تھا اور اس حصہ پر نظر کر کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انسانی نظام نا کام رہا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس اعلیٰ حصہ کا ایک ایک فرد اس قابل تھا کہ اُس کی خاطر اس سارے نظام کو تیار کیا جاتا.اسی حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بعض اپنے کامل بندوں سے فرمایا ہے کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الدُّنْيَا (ابن عساکر) کہ اگر تو نہ ہوتا تو ہم دنیا جہان کے نظام کو ہی پیدا نہ کرتے.یہ حدیث قدسی ہے اور رسول کریم ﷺ کی نسبت وارد ہوئی ہے.بعض اور کامل وجودوں کو بھی اسی قسم کے الہام ہوئے ہیں.پس یہ کامل لوگ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہی حکمت کے مطابق تھا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد اول صفحه (283-284 ایسے اللہ والے جو فرشتوں کی نسبت بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کرتے ہیں اور پھر اس کو دنیا میں پھیلاتے ہیں یہ یقیناً اس سے اونچا مقام رکھنے والے ہیں جن کی تقدیس کرنا صرف اپنے تک ہے.انسانوں میں تقدیس کرنے والوں کی کامل ترین مثال جیسا کہ ابھی بیان ہوا آنحضرت ﷺ کی ہے جنہوں نے ایک دنیا کے دماغوں کو بھی پاک کیا اور ان کے اعمال کو بھی پاک کیا.اور آج تک ہم اس قدوس خدا کے حقیقی پر تو کے فیض کو دیکھ رہے ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم ہے، دنیا دیکھتی رہے گی انشاء اللہ.سورۃ جمعہ میں قدوس لفظ کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ : " دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ الْقُدُّوس ہے، اس کے متعلق فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمُ آینه وَيُزَكِّيهِمُ (الجمعة: 3) وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیزہ ہو.اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تا کہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے.پہلے اللہ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھر یو سیھم ان کے اعمال کو پاک کرے“.(فضائل القرآن (2) انوار العلوم جلد 11 صفحه 130 مطبوعه ربوه ) پھر آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ القدوس کے مقابل رسول کا کام یہ بتایا.وَيُزَ كَيْهِمْ کہ دنیا کو پاک کرتا ہے.عالم کی علامت کیا ہوتی ہے.یہی کہ وہ دوسروں کو پڑھاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے ذریعہ عالم ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کا ثبوت یہ ہے کہ اُس کی طرف سے آنے والے دنیا کو پاک کرتے ہیں.محمد رسول اللہ ﷺ گندے لوگوں کو لیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں آ کر وہ پاک ہو جاتے ہیں.(احمدیت کے اصول.انوار العلوم جلد 13 صفحه 353 مطبوعه ربوه ) پس قدوس خدا کا یہ کامل نبی ہے جس کے ہاتھ میں آکر عام انسان بھی پاک ہو جاتے ہیں.پس ہر ایک کو چاہئے کہ اگر پاک ہونا ہے اور اگر سچے مومن بننا ہے تو ان کے ہاتھ میں آنے کی کوشش کرے.جیسا کہ میں نے کہا کہ قرآن کریم کے جو اوامر ونواہی ہیں، جو کرنے کا حکم ہے اور نہ کرنے کی باتیں ہیں ان پر عمل کرنا ہوگا.اگر ہم عمل
خطبات مسرور جلد پنجم 163 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والے نہیں کہلا سکیں گے، محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف آنے والے نہیں کہلا سکیں گے اور نتیجہ صفت قدوسیت سے فیض پانے والے نہیں بن سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ جو آپ کو قدوس خدا نے عطا فرمائی کے بارے میں عرب کا نقشہ کھینچ کر تحریر فرماتے ہیں کہ اس وقت کی عرب کی حالت کو دیکھو جو برائیوں میں گھرے ہوئے تھے، ہر قسم کی ضلالت و گمراہی ان کی پہچان تھی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ قوم کبھی پاک ہوسکتی ہے یا ان کو کبھی عقل آ سکتی ہے.یا یہ لوگ عام اخلاق کے اختیار کرنے والے بھی بن سکتے ہیں کجا یہ کہ باخدا بن جائیں.لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ جو میرے اس پیارے کے ساتھ تعلق جوڑے گا وہ پاک ہوگا بلکہ روح القدس سے حصہ پائے گا اور دنیا نے پھر دیکھا کہ قوم میں انقلاب آیا.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” جو شخص اس بات کو غور کی نظر سے دیکھے کہ انہوں نے اپنی پہلی چرا گا ہوں کو کیونکر چھوڑ دیا یعنی جو ان کے شوق تھے ، جو ان کی حرکتیں تھیں، جو باتیں تھیں، جو عمل تھے، جس میں وہ پھرا کرتے تھے، جس کو بہت اچھا سمجھتے تھے اس کو کیونکر چھوڑ دیا.” اور کیونکر وہ ہوا و ہوس کے جنگل کو کاٹ کر اپنے مولا کو جاملے.تو ایسا شخص یقین سے جان لے گا کہ وہ تمام قوت قدسیہ محمدیہ کا اثر تھا“.یہ سب تبدیلی جو آئی وہ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کے اثر کے تحت تھی وہ رسول جس کو خدا نے برگزیدہ کیا اور عنایات از لیہ کے ساتھ اس کی طرف توجہ کی اور آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کو سوچ کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لئے گئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچائے گئے اور درجہ بدرجہ برگزیدگی کے مقام تک منتقل کئے گئے، یعنی بزرگی کا اور پاکی کا مقام ہر لمحہ ہر درجہ بڑھتا ہی گیا.اور آنحضرت ﷺ نے ان کو چار پایوں کی مانند پایا کہ وہ تو حید اور پر ہیز گاری میں سے کچھ بھی نہیں جانتے تھے یعنی جانوروں کی طرح تھے نہ ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پتہ تھا، نہ پر ہیز گاری کا پتہ تھا.برائیوں میں مبتلا تھے اور نیکی بدی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے.پس رسول اللہ ﷺ نے ان کو انسانیت کے آداب سکھلائے اور تمدن اور بود و باش کی راہوں پر مفصل مطلع کیا“.(نجم الهدى.روحانی خزائن جلد 14 صفحه 31-32.مطبوعه لندن پھر آپ فرماتے ہیں ” تیسرا دروازہ معرفت الہی کا جو قرآن شریف میں اللہ جل شانہ نے اپنی عنایت خاص سے کھول رکھا ہے برکات روحانیہ ہیں جس کو اعجاز تاثیری کہنا چاہئے.یہ بات کسی سمجھدار پر مخفی نہیں ہوگی کہ آنحضرت کا زاد بوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشتہ تنہائی میں پڑا رہا ہے.اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خواری اور قمار بازی و غیر فسق کے طریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا یہ سب برائیاں ان میں تھیں اور چوری اور قزاقی اور خونریزی اور دختر کشی اور یتیموں کا مال کھا جانے یعنی ڈاکے ڈالنا، قتل کرنا، بیٹیوں کو مارنا، یتیموں کا مال کھا جانا اور بیگا نہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ
164 خطبہ جمعہ 20 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم سمجھنا.غرض ہر یک طرح کی بری حالت اور ہر یک نوع کا اندھیرا اور ہر قسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہور ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشر طیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو، اس سے انکار نہیں کر سکتا.یعنی یہ اتنی مشہور بات ہے کہ کوئی متعصب آدمی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا.اور پھر یہ امر بھی ہر یک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یا وہ اور ناپار ساطبع لوگ وحشی تھے ، بیہودہ باتیں کرنے والے بیہودہ لوگ ، بالکل ناپاک لوگ جن کو کسی چیز کا پتہ ہی نہیں تھا.”اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہو گئے اور کیونکر تاثیرات کلام الہی اور صحبت نبی معصوم نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکانت ایسا مبدل کر دیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہو گئے اور محبت دنیا کے بعد الہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں ، اپنے مالوں، اپنے عزیزوں، اپنی عزتوں، اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا.چنانچہ یہ دونوں سلسلے ان کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے ، قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پر آب ہو جاتا ہے.پس وہ کیا چیز تھی جو اُن کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی.وہ دوہی باتیں تھیں ایک یہ کہ وہ نبی معصوم اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا بہت اثر رکھنے والے تھے.ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا.دوسری خدائے قادر مطلق حتی وقیوم کے پاک کلام کی زبر دست اور عجیب تا شیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں.بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں.یہ بڑی غیر معمولی چیزیں ہیں.کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی.کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی“.سرمه چشم آریه روحانی خزائن جلد 2 صفحه 76 تا 78 حاشیه مطبوعه (لندن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں.قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر ، وہی برکات اب بھی موجود ہیں.ملفوظات جلد 4 صفحه 630 پس جب خدا بھی وہی قدوس ہے تو جو اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے وہ اس سے فیض پاتا ہے.اس کے رسول کی تاثیرات بھی قائم ہیں، اس کی کتاب کی تاثیریں بھی قائم ہیں، اس زمانے میں اُس نے اپنے مسیح و مہدی کی قوت قدسی کے نظارے بھی ہمیں دکھا دیئے اور دکھا رہا ہے.یہ سب باتیں ہمیں اس قدوس خدا کی صفت سے فیضیاب بنانے والی ہونی چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 11 تا 17 مئی 2007ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 165 (17) خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2007ء ( 27 / شہادت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ (النحل: 103) اللہ تعالیٰ کی باقی صفات کی طرح صفت قدوس سے بھی سب سے زیادہ فیض پانے ، اُس کو اپنے اوپر لاگو کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے والی اس دنیا میں کوئی ہستی تھی تو وہ آنحضرت ﷺ تھے.آپ ہی وہ کامل انسان اور کامل نبی تھے جس نے اللہ تعالیٰ کا رنگ مکمل طور پر اپنے اوپر چڑھایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی سب سے زیادہ آپ کو ہی اپنی صفات سے متصف فرمایا اور پھر اپنی امت کو بھی مختلف رنگ میں آپ نے تلقین و نصیحت فرمائی کہ اُس پاک ذات سے تعلق جوڑنے کے لئے ، اس کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے تمہیں بھی اپنے اندر سے تمام کجیوں کو دور کرنا ہوگا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا تبھی تمہارا تعلق مجھ سے اور میرے خدا سے ہوسکتا ہے.اس ضمن میں آج میں متفرق احادیث پیش کروں گا جن میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے پہلو بھی ہیں دعا ئیں بھی ہیں اور مومنوں کو نصیحتیں بھی ہیں.اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آپ کے عاشق صادق تھے اور غلام صادق تھے، جو خود بھی آنحضرت ﷺ کی اس زمانے میں قوت قدسی کا ایک نشان ہیں آپ ﷺ کے اس فیض کو جس طرح آپ نے سمجھا، اس مقام کو جس طرح آپ نے سمجھا اور ہمیں بتایا ، اس پہلو سے بھی آپ کے حوالے پیش کروں گا.آنحضرت ﷺ کی ایک دعا ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رکوع میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ سُبُوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَئِكَةِ وَالرُّوح -.(سنن النسائی کتاب التطبيق باب نوع آخر منه حديث نمبر 1048 | پاک مبارک اور مطہر فرشتوں اور روح کا خالق اور پالنے والا ہے.ایک روایت یہ ہے کہ یہ وہ تہی ہے جو ملائکہ کرتے ہیں ، فرشتے کرتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت سعید بن عبدالرحمن اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ وتر میں یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے ، سورۃ الاعلیٰ پہلی رکعت میں، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت
خطبات مسرور جلد پنجم 166 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء میں سورۃ الاخلاص اور سلام پھیرنے کے بعد آپ تین بار یہ الفاظ دوہراتے اور اپنی آواز بلند کرتے تھے کہ سُبحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوس پاک ہے وہ ذات جو بادشاہ ہے، قدوس ہے.(سنن النسائی کتاب قيام الليل وتطوع النهار باب التسبيح بعد الفراغ من الوتر.حديث نمبر (1751 ایک روایت میں آتا ہے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی صبح بھی ایسی نہیں جس میں بندے صبح کریں کہ اس میں ایک منادی کرنے والا ان الفاظ میں منادی کرتا ہے سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ یعنی پاک ہے وہ ذات جو صلى الله بادشاہ ہے اور قدوس ہے.(سنن الترمذى كتاب الدعوات باب فى دعاء النبي علم و تعوذه دبر كل صلاة حديث نمبر (3569) الـ پھر ایک روایت ہے.حضرت يُسَيْرَه رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو مہاجرات میں سے تھیں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ”تم لازم پکڑو تسبیح کو تہلیل کو اور تقدیس کو “.یعنی تسبیح کرو تہلیل ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرنا، اس کے علاوہ کسی کو معبود نہ مانا، لا الہ الا اللہ کہنا اور تقدیس یعنی اللہ تعالیٰ کو پاک اور بے عیب قرار دیا اور یہ عہد کرنا کہ ہم اپنے نفسوں کو تیری خاطر پاک رکھیں گے اور یہی ایک مومن کی شان بھی ہونی چاہئے ورنہ دعوے تو ہم کر رہے ہوں گے کہ ہم قدوس خدا کے ماننے والے ہیں اور اس رسول کے پیروکار ہیں جس کی قوت قدسی تمام انبیاء سے بڑھ کر ہے اور رہتی دنیا تک اس کے جلوے قائم رہنے ہیں لیکن اگر اپنے آپ کو پاک نہیں کر رہے تو یہ تقدیس نہیں ہے.فرمایا کہ: "لازم پکڑو تسبیح و تہلیل کو اور تقدیس کو اور انگلیوں کے پوروں پر گنا کرو، اس لئے کہ قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا، اور وہ بولیں گی اور غافل نہ ہو، ورنہ تم رحمت کو بھول جاؤ گی.(سنن الترمذى كتاب الدعوات باب فى فضل التسبيح والتهليل والتقديس حديث نمبر (3583 | پھر ایک روایت میں آتا ہے آپ نے ایک دعا سکھائی، حضرت فضالہ بن عبید انصاری بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے ایک دم سکھایا اور حکم دیا کہ اگر کوئی میرے پاس دم لینے کے لئے آئے تو یہ دم کروں.تو وہ دُعا یہ تھی کہ ہمارا رب وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے (اے رب)، تیرا نام پاک اور مبارک ہے، آسمان اور زمین میں تیری حکومت ہے ، اے اللہ ! جس طرح تیری حکومت آسمان میں ہے، اسی طرح تو ہم پر زمین میں اپنی رحمت نازل کر.اے اللہ ! جو پاک لوگوں کا رب ہے ہمارے گناہ اور خطائیں بخش دے اور اپنی رحمت میں سے ایک رحمت نازل کر اور اپنی شفا میں سے ایک شفانا زل کر.اور پھر آپ نے یہ فرمایا کہ یہ کلمات تین مرتبہ دوہراؤ اور معوذتین بھی تین مرتبہ پڑھو.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 مسند فضالة بن عبيد الانصارى حديث نمبر 24457 صفحه نمبر 934 جدید ایڈیشن مطبوعه بيروت 1998ء) معوذتین یعنی یہ دو سورتیں جو قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ہیں.ایک روایت میں آتا ہے، یہ شَرحُ السُّنة میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو
167 خطبہ جمعہ 27 را پریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم مدینہ میں انصار کی آبادی اور کھجوروں کے باغات کے درمیان ایک جاگیر عطا فرمائی.اس پر بنو عبد بن زھرہ نے کہا (یا رسول اللہ!) ہم سے ابن ام عبد (اُمّم عبد کے بیٹے یعنی عبداللہ بن مسعودؓ ) کو دُور کیجئے.اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا تو پھر مجھے اللہ نے مبعوث ہی کیوں فرمایا ہے؟ یقینا اللہ تعالیٰ کسی امت کو درجہ تقدیس عطا نہیں فرماتا جس میں اس کے ضعفاء کے لئے ان کے حق کو نہیں لیا جاتا.(مشكوة كتاب البيوع باب احياء الموات الشرب الفصل الثاني حدیث نمبر 3004) | پس قدوسیت کا فیض اور اللہ تعالیٰ کی تقدیس کرنا ، اُسی وقت فائدہ مند ہے جب ہر بڑا، ہر صاحب حیثیت، ہر مالک، ہر با اختیار، ہر عہدیدار، ہر نگر ان اپنے سے کم درجہ کے لوگوں اور اپنے سے کمزوروں اور ضرورت مندوں کے حقوق کو حق کے ساتھ اور انصاف کے تقاضوں کے ساتھ ادا کرتا رہے.حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں زاد راہ اور راشن کی بہت قلت ہوگئی.صحابہ کرام پریشان ہو کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانے کے لئے اپنی سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت چاہی.آپ نے اجازت دے دی.ان صحابہ کو حضرت عمر ملے تو انہوں نے آپ کو ساری بات بتائی ، حضرت عمرؓ نے پوچھا تمہارے پاس اونٹوں کے بعد سواری کے لئے کیا رہے گا.حضرت عمر نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے ، عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! ان کے پاس اونٹوں کے بعد سواری کے لئے کیا رہے گا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں یہ اعلان کر دو کہ وہ اپنی بچی کچھی اشیاء لے کر آئیں، جو کھانے پینے کی چیزیں تھیں وہ لے کر آجائیں.پھر آپ نے دعا کی اور اس میں برکت ڈالی.پھر آپ نے صحابہ کو اپنے برتن وغیرہ لانے کا ارشاد فرمایا.تمام صحابہ نے اپنے برتن بھر لئے.پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں.(بخاری كتاب الجهاد والسير باب حمل الزاد فى الغزو حدیث نمبر (2982 پس یہ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی اور قبولیت دعا تھی جس نے فاقے کی فکر انگیز صورتحال کو کشائش میں بدل دیا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو قوت قدسیہ عطا فرمائی تھی اس سے آپ نے صحابہ کی سوچوں کو ، ان کی حالتوں کو اس قدر پاک کر دیا تھا کہ کوئی بھی حکم جو اترتا تھا اور جس کا آپ اعلان فرماتے تھے، صحابہ بغیر کسی چون و چرا کے اس کی تعمیل کیا کرتے تھے.کان میں آواز پڑتے ہی اس پر عملدرآمد شروع ہو جاتا تھا.یہ تحقیق بعد میں ہوتی تھی کہ حکم کس کے لئے ہے اور کیوں ہے.صحابہ کی پاکیزگی کے معیار اس قدر بڑھ گئے تھے کہ جس کوئی مثال نہیں ہے.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جس دن حرمت شراب کا حکم نازل ہوا تو میں اس دن ابوطلحہ کے گھر ایک گروہ کو شراب پلانے میں مصروف تھا.اُن دنوں عربوں
خطبات مسرور جلد پنجم 168 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء میں فصیح نامی شراب استعمال ہوتی تھی.یہ ایک خاص شراب تھی جو کچی اور خشک ( دونوں قسم کی ) کھجور سے تیار ہوتی تھی.ایک منادی کی آواز سنائی دی.ابوطلحہ نے کہا گھر سے باہر نکل کے دیکھو، میں گھر سے نکلا تو ایک اعلان کرنے والے کو یہ اعلان کرتے ہوئے پایا سنو شراب حرام قرار دے دی گئی ہے.راوی کہتے ہیں چنانچہ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی.اس وقت ابوطلحہ نے مجھے کہا کہ تم نکلو اور شراب کو بہا دو.چنانچہ میں نے شراب بہادی.اسی طرح ایک دوسری روایت میں آتا ہے.حضرت ابوطلحہ نے کہا اے انس! ان مٹکوں کو انڈیل دو یا توڑ دو.راوی کہتے ہیں اس آدمی کے اعلان کے بعد صحابہ نے دوبارہ شراب نہ پی اور نہ اس کے بارے میں کسی نے کسی سے پوچھا.(مسلم کتاب الاشربه باب تحريم الخمر حدیث نمبر (5024 یہ تھا آنحضرت ﷺ کے صحابہ پر آپ کی قوت قدسی کا اثر کسی نے یہ نہیں کہا کہ تحقیق کرو کہ ایک دم یہ حکم کس طرح آ گیا ، ابھی تک تو ہم شراب پی رہے تھے.پاک دلوں اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والوں کا فوری رد عمل تھا کہ پہلے تعمیل کرو.صحابہ ماشاء اللہ فراست رکھتے تھے ، جانتے تھے کہ ہمارے دل و دماغ کو پاک کرنے والا حکم یقینا اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی طرف سے ہی ہوگا.باوجودیکہ استعمال کیا کرتے تھے لیکن شراب کے نقصانات سے بھی واقف تھے.اپنے کئی ساتھیوں کو نشے کی حالت میں بعض معیار سے گری ہوئی حرکتیں کرتے دیکھتے تھے.پھر بعض لڑائی میں ملوث ہو جاتے تھے.آنحضرت ﷺ کے دلوں کو پاک کرنے اور صحابہ کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا مندی حاصل کرنے کی ایک اور اعلیٰ مثال - عبد اللہ بن اُبی بن سلول نے جب آنحضور ﷺ کے خلاف زبان درازی کی تو آنحضور ﷺ خاموش رہے، مگرلوگوں کی باتوں کے باعث عبد اللہ رضی اللہ عنہ، جو عبد اللہ بن اُبی بن سلول جو مدینہ میں رئیس المنافقین تھا کے بیٹے تھے ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ عبد اللہ بن ابی کی باتوں کے باعث اس کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، یا رسول اللہ ! اگر حضور نے لازماً ایسا کرنا ہی ہے تو حضور مجھے اس کے قتل کا حکم دیں، ہمیں خود اس کا سر حضور کی خدمت میں لے آؤں گا.اللہ کی قسم ! میں خزرج کو جانتا ہوں ان میں سے کوئی بھی میرے جتنا اپنے والد کا فرما نبردار نہیں ہے.اور مجھے ڈر ہے کہ آپ میرے علاوہ کسی اور کو میرے والد کو قتل کرنے کا حکم نہ دے دیں اور آپ مجھے عبد اللہ بن ابی کے قاتل کولوگوں میں پھرتے ہوئے دیکھنے والا نہ چھوڑ دیں کہ پھر میں انتقام کے جذبے کے تحت ایک کافر کے بدلے میں ایک مومن کو قتل کر دوں اور دوزخ میں جاگروں.عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسول ﷺ نے فرمایا کہ معاملہ یوں نہیں ہے بلکہ ہم اس سے رفق کا معاملہ کریں گے اور جب تک وہ ہمارے ساتھ رہے گا ، ہم اس سے حسن صحبت کا معاملہ کریں گے.(السيرة النبوية لابن هشام طلب بن عبدالله بن ابى ان يتولى قتل ابيه صفحه 672 مطبوعه بيروت (2001ء
خطبات مسرور جلد پنجم 169 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء تو یہ تھا آپ کی قوت قدسی کا اثر کہ خوف یہ تھا کہ باپ کے خونی رشتہ کی وجہ سے میں دوبارہ ان ناپاکوں میں شامل نہ ہو جاؤں اس لئے ہر اس امکان کو ختم کرنے کے لئے جو مجھے جہنم کی طرف لے جاسکتا ہے ، جو مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دور لے جاسکتا ہے، میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ اللہ اور رسول ﷺ کی خاطر اپنے باپ کو قتل کر دوں.لیکن آنحضرت ﷺ جو حسن و احسان کے پیکر تھے انہوں نے فرمایا کہ نہیں میں تو معاف کر چکا ہوں اور معاف کرتا رہوں گا.ان گندے کیڑوں کے ساتھ میرا کوئی مقابلہ نہیں ہے.آپ کی قوت قدسی نے تو آپ کے ماننے والوں کی بھی سوچوں کو تبدیل کر دیا تھا.حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ آتا ہے جب انہوں نے ایک لڑائی میں اپنے مخالف کو گرا لیا اور اس نے منہ پہ تھوکا تو آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کے پوچھنے پر فرمایا کہ میں تو تمہارے ساتھ خدا کے لئے لڑ رہا تھا لیکن کیونکہ اب میری ذات Involve ہوگئی ہے، میرانفس Involve ہو گیا ہے، یہ ذاتیات بیچ میں آگئی ہے اس لئے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں.تو سیتھی پاک تبدیلیاں جو آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ میں پیدا کیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحه 337) آنحضرت ﷺ کے وقت میں عرب کی جو حالت تھی اور جس قسم کے گند میں وہ مبتلا تھے اور جس طرح آنحضور ﷺ نے ان میں ایک پاک تبدیلی پیدا کی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” اسلام وہ دین بزرگ اور سیدھا ہے جو عجائب نشانوں سے بھرا ہوا ہے اور ہمارا نبی وہ نبی کریم ہے جو ایسی خوشبو سے معطر کیا گیا ہے جو تمام مستعد طبیعتوں تک پہنچنے والی اور اپنی برکات کے ساتھ ان پر احاطہ کرنے والی ہے.اور وہ نبی خدا کے نور سے بنایا گیا اور ہمارے پاس گمراہیوں کے پھیلنے کے وقت آیا اور اپنا خوبصورت چہرہ ہم پر ظاہر کیا.اور ہمیں فیض پہنچانے کے لئے اپنی خوشبو کو پھیلایا اور اس نے باطل پر دھاوا کیا اور اپنے تاراج سے اس کو غارت کر دیا.یعنی جھوٹ پر حملہ کر کے اس کو ختم کر دیا اور اپنی سچائی میں اجلی بدیهیات کی طرح نمودار ہوا.اس نے اس قوم کو ہدایت فرمائی جو خدا کے وصال کی امید نہیں رکھتے تھے.اُن لوگوں کے لئے ہدایت کے سامان پیدا فرمائے جن کو کبھی خیال بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے ملیں گے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنیں گے.اور مُردوں کی طرح تھے جن میں ایمان اور نیک عملی اور معرفت کی روح نہ تھی اور نومیدی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے.اور ان کو ہدایت کی اور مہذب بنایا اور معرفت کے اعلیٰ درجوں تک پہنچایا.اور اس سے پہلے وہ شرک کرتے تھے اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے.اور خدائے واحد اور قیامت پر ان کو ایمان نہ تھا.اور وہ بتوں پر گرے ہوئے تھے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو بتوں کی طرف منسوب کرتے تھے، یعنی جو کام بھی تھا بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کریں، ہر کام کے لئے بُت بنائے ہوئے تھے.”یہاں تک کہ مینہ کا برسانا اور پھلوں کا نکالنا اور بچوں کو رحموں
170 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم میں پیدا کرنا اور ہر ایک امر جو موت اور زندگی کے متعلق تھا، تمام یہ امور بتوں کی طرف منسوب کر رکھے تھے اور ہر ایک ان میں سے اعتقاد رکھتا تھا کہ اس کا ایک بڑا بھاری مددگاربت ہی ہے جس کی وہ پوجا کرتا اور وہی بت مصیبتوں کے وقت اس کی مدد کرتا ہے اور عملوں کے وقت اس کو جزا دیتا ہے اور ہر ایک ان میں سے انہی پتھروں کی طرف دوڑتا تھا.ان ہی کے آگے فریاد کرتا تھا.پھر آپ فرماتے ہیں اور ان کے دل میں یہ ذہن نشین تھا کہ ان کے بت تمام مرادیں ان کی دے سکتے ہیں اور وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ان تکالیف سے کہ کسی کو مراد دیوے اور کسی کو پکڑے پاک اور منزہ ہے اور اس نے یہ تمام قو تیں اور قدرتیں جو عالم ارواح اور اجسام کے متعلق ہیں ایسی تمام باتیں جو روح یا جسم کے متعلق ہیں ، یہ انسان سے متعلق ہیں یا کسی بھی مخلوق سے متعلق ہیں.اُن کے بتوں کو دے رکھی ہیں.اور خود ایک طرف ہو کے بیٹھ گیا ہے.فرماتے ہیں کہ ” اور عزت بخشی کے ساتھ الوہیت کی چادر ان کو پہنادی ہے یعنی بتوں کو ہی تمام طاقتیں دی ہیں اور خدا عرش پر آرام کر رہا ہے اور ان بکھیڑوں سے الگ ہے اور ان کے بت ان کی شفاعت کرتے اور دردوں سے نجات دیتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ” بدکاریاں کرتے تھے اور ان کے ساتھ فخر کرتے تھے اور زنا کرتے اور چوری کرتے اور یتیموں کا ناحق مال کھاتے اور ظلم کرتے اور خون کرتے اور لوگوں کو لوٹتے اور بچوں کو قتل کرتے اور ذرا نہ ڈرتے.اور کوئی گناہ نہ تھا جو انہوں نے نہ کیا.اور کوئی جھوٹا معبود نہ تھا جس کی پوجانہ کی.انسانیت کے ادبوں کو ضائع کیا اور انسانی خُلقوں سے دور جاپڑے اور وحشی جانوروں کی طرح ہو گئے.پھر آپ فرماتے ہیں :" بدکاریوں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے اور جنگلی حیوانوں کی طرح جو کچھ چاہا کیا اور ہمیشہ ان کے شاعر دریدہ دہنی سے عورتوں کی بے عزتی کرتے اور ان کے امراء کا شغل قمار بازی اور شراب اور بدی تھی.جوا اور شراب کی برائیوں میں پوری طرح ملوث تھے اور جب بخل کرتے تھے تو بھائیوں اور یتیموں اور غریبوں کا حق تلف کر دیتے تھے اور جب مالوں کو خرچ کرتے تھے تو عیاشی اور فضول خرچی اور زنا کاری اور نفسانی ہوا اور ہوس کے پوری کرنے میں خرچ کرتے اور نفس پرستی کو انتہا تک پہنچاتے تھے.غریبوں پر خرچ کرنا ان کے لئے دو بھر تھا لیکن اپنی عیاشیوں پر فضولیات پر خرچ کرتے تھے.تو یہ اس وقت کے عرب کی حالت تھی.آج بھی جو دنیا دار ہیں ان سے اگر اللہ کے راستے میں مانگو تولیت ولعل سے کام لیتے ہیں لیکن اپنی فضولیات اور دنیاوی چیزوں کے لئے جتنا مرضی چاہیں خرچ کر لیں.پھر فرماتے ہیں : ”وہ لوگ اپنی اولادکو درویشی اور تنگدستی کے خوف سے قتل کر دیا کرتے تھے اور بیٹیوں کو اس عار
خطبات مسرور جلد پنجم 171 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء سے قتل کرتے تھے کہ تا شرکاء میں سے ان کا کوئی داماد نہ ہو.اور اسی طرح انہوں نے اپنے اندر اخلاق رویہ اور رزیل خصلتیں جمع کر رکھی تھیں.پھر فرماتے ہیں اور عورتیں زانیہ آشناؤں سے تعلق رکھنے والیں اور مردزانی پیدا ہو گئے تھے اور جو لوگ ان کی راہ کے مخالف ہوتے تھے ، وہ نصیحت دینے کے وقت اپنی عزت اور جان اور گھر کی نسبت خوف کرتے تھے“.یعنی اگر ان میں کوئی شریف آدمی تھا تو وہ اپنی عزت بچانے کے خوف کی وجہ سے، اپنے گھر کو برباد ہونے سے بچانے کی وجہ سے ان کے سامنے بولتا نہیں تھا.غرض عرب کے لوگ ایک ایسی قوم تھی جن کو کبھی واعظوں کے وعظ سنے کا اتفاق نہ ہوا اور نہیں جانتے تھے کہ پر ہیز گاری اور پرہیز گاروں کی خصلتیں کیا چیز ہیں اور ان میں کوئی ایسانہ تھا کہ جو کلام میں صادق اور فیصلہ مقدمات میں متصف ہو.یعنی کوئی سچی بات نہیں کرتے تھے ، فیصلہ کرتے تھے تو انصاف نہیں ہوتا تھا، نا انصافی سے فیصلے ہوتے تھے.کوئی اچھی خصلت ، اچھی خوبی ان میں نہیں تھی.پس اسی زمانے میں جبکہ وہ لوگ ان حالات اور ان فسادوں میں مبتلا تھے اور ان کا تمام قول اور فعل فساد سے بھرا ہوا تھا خدا تعالیٰ نے مکہ میں سے اُن کے لئے رسول پیدا کیا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ رسالت اور نبوت کیا چیز ہے اور اس حقیقت کی کچھ بھی خبر نہ تھی.پس انکار اور نافرمانی کی.وہ جانتے نہیں تھے اس لئے انہوں نے انکار اور نافرمانی کی اور اپنے کفر اور فسق پر اصرار کیا.اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے ہر ایک جفا کی برداشت کی.ہر زیادتی جو آنحضرت ﷺ پر کی ، آپ نے اس کو برداشت کیا اور ایذاء پر صبر کیا اور بدی کو نیکی کے ساتھ اور بغض کو محبت کے ساتھ ٹال دیا اور غمخواروں اور متبوں کی طرح ان کے پاس آیا اور ایک مدت تک آنحضرت ﷺا کیلے اور رڈ شدہ انسان کی طرح مکہ کی گلیوں میں پھرتے رہے اور قوت نبوت سے ہر ایک عذاب کا مقابلہ کیا.تو یہ تھا اس وقت عرب قوم کا حال جس میں آپ تمبعوث ہوئے لیکن وہ خدا جس نے روح القدس کے ساتھ آپ کو بھیجا تھا اور آپ کے ذریعہ دنیا میں ایک انقلاب لانا تھا اس نے ان لوگوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا.(نجم الهدى ، روحانی خزائن جلد (14 صفحه 20 تا 28 آنحضرت ﷺ کے بارے میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پھر ایسا وقت آیا کہ آواز دینے والے بابرکت کی طرف دل کھنچے گئے.یعنی پھر آنحضرت ﷺ کی طرف دل کھنچے جانے لگئے اور ہر ایک رشید اپنے قتل گاہ کی طرف صدق اور وفا سے نکل آیا اور انہوں نے مالوں اور جانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کوششیں کیں اور اپنی جانفشانی کی نذروں کو پورا کیا.اسلام کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں، اپنا مال قربان کر دیا ، اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور اس کے لئے یوں ذبح کئے گئے جیسا کہ قربانی کا بکرا ذبح کیا جاتا ہے.اور انہوں نے اپنے خونوں سے گواہی دے دی کہ وہ ایک سچی قوم ہے اور اپنے اعمال سے ثابت کر دیا کہ وہ لوگ خدا کی
172 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم راہ میں مخلص ہیں اور زمانہ کفر میں وہ لوگ تاریکی کے زندان میں قید تھے.سو اسلام کے قبول کرنے نے ان کو منور کر دیا اور ان کی بدیوں کو نیکی کے ساتھ اور ان کی شرارتوں کو بھلائی کے ساتھ بدل دیا اور ان کی شراب شب انگاہی کو رات کی نماز اور رات کے تضرعات کے ساتھ بدل ڈالا.یعنی جو راتوں کی شراب تھی، پیتے تھے ، نشے میں مست ہوتے تھے.آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی نے اس کو عبادتوں میں بدل دیا.جو ان کی صبح کی شراب تھی.سوتے تھے تو شراب پی کر سوتے تھے، صبح اٹھتے تو پہلے کام شراب تھا جس طرح عام طور پر نشہ کرنے والے کرتے ہیں.اور ان کی بامدادی شراب کو صبح کی نماز اور تسبیح اور استغفار کے ساتھ مبدل کر دیا اور انہوں نے یقین کامل کے بعد اپنے مالوں اور جانوں کو خدا تعالیٰ کی راہوں میں بخوشی خاطر خرچ کیا.فرماتے ہیں: ” پس خلاصہ یہ ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت تین قسم پر منقسم تھی ، پہلی یہ کہ وحشیوں کو انسان بنایا جائے اور انسانی آداب اور حواس ان کو عطا کئے جائیں.اور دوسری یہ کہ انسانیت سے ترقی دے کر اخلاق کا ملہ کے درجہ تک ان کو پہنچایا جائے.اور تیسری یہ کہ اخلاق کے مقام سے ان کو اٹھا کر محبت الہی کے مرتبے تک پہنچایا جائے اور یہ کہ قرب اور رضا اور معیت اور فنا اور محویت کے مقام ان کو عطا ہوں.اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش ہو، اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش ہو، اس کا ساتھ دینے کی کوشش ہوا اور اس کی تلاش میں اور اس کی رضا جوئی کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنے والے ہوں، ایسا ان کو مقام عطا ہوا.یعنی وہ مقام جس میں وجود اور اختیار کا نشان باقی نہیں رہتا اور خدا اکیلا باقی رہ جاتا ہے.جیسا کہ وہ اس عالم کے فنا کے بعد اپنی ذات قہار کے ساتھ باقی رہے گا.(نجم الهدی روحانی خزائن جلد 14 صفحه 28 تا 35 جدید ایڈیشن) پھر آپ آنحضرت ﷺ کے اس مقام اور قوت قدسیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ”نبی کریم ﷺ کی قوت قدسیہ اور انفاس طیبہ اور جذب الی اللہ کی قوت کا پتہ لگتا ہے کہ کیسی زبر دست قو تیں آپ کو عطا کی گئی تھیں جو ایسا پاک اور جاں شار گر وہ اکٹھا کر لیا.یہ خیال بالکل غلط ہے جو جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یونہی لوگ ساتھ ہو جاتے ہیں.جب تک ایک قوت جذب اور کشش کی نہ ہو کبھی ممکن نہیں ہے کہ لوگ جمع ہو سکیں.میرا مذہب یہ ہے کہ آپ کی قوت قدسی ایسی تھی کہ کسی دوسرے نبی کو دنیا میں نہیں ملی.اسلام کی ترقی کا راز یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی قوت جذب بہت زبر دست تھی اور پھر آپ کی باتوں میں وہ تا ثی تھی کہ جو سنتا تھاوہ گرویدہ ہوجاتا تھا.جن لوگوں کو آپ نے کھینچا ان کو پاک صاف کر دیا اور اس کے ساتھ آپ کی تعلیم ایسی سادہ اور صاف تھی کہ اس میں کسی قسم کے گورکھ دھندے اور معمے تثلیث کی طرح نہیں ہیں.لکھتے ہیں کہ ”چنانچہ نپولین کی بابت لکھا ہے کہ وہ مسلمان تھا اور کہا کرتا تھا کہ اسلام بہت
خطبات مسرور جلد پنجم 173 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء ہی سیدھا سادہ مذہب ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحه 60 جدید ایڈیشن) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(الاحزاب : 57) اُن قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن کریم میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم اُن نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے.جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ عَلَيْهِمُ السَّلام اور دوسرے انبیاء.سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آ نحضرت ﷺ دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا.یعنی ان نبیوں کی سچائی ہم پہ مشتبہ ہوتی واضح نہ ہوتی ، شک میں رہتے.” کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی.اور ممکن ہے کہ وہ قصے صیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام منجزات جو ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں.کیونکہ اب ان کا نام ونشان نہیں ہے بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقیناً سمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے.لیکن آنحضرت ﷺ کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے.اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں.یعنی صرف باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں، واضح ہو گیا ہے.عمل دیکھ لیا ہے.کہ مکالمہ الہیہ کیا چیز ہوتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ سے جو بات ہے، اللہ تعالیٰ سنتا ہے اور سناتا ہے وہ کیا چیز ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت ﷺ کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قو میں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا.پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے.کسی نے شعر یہ بہت ہی اچھا کہا ہے.محمد عربی بادشاہ ہر رو سرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں یہ کہتا ہوں کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے
خطبات مسرور جلد پنجم 174 خطبہ جمعہ 27 را پریل 2007 ء آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج“.روح کے لئے اس کی اسی طرح اہمیت ہے، وہ سورج کی روشنی دیتا ہے جس طرح جسم کی پرورش کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورج کو بنایا ہوا ہے.وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا.وہ نہ تھا، نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصے کو شرک سے پاک نہ کر دیا.وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے، کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی کچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو.کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا.لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نوران کے اندر داخل ہو“.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 301-303) | پس آج ہمیں آنحضرت ﷺ نے جہاں پرانے انبیاء کے مقام سے بھی روشن کروایا ہے وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی پانے والے اور ہمیشہ زندہ رہنے والی تعلیم اور شریعت آپ ﷺ کی ہی ہے جن کی قوت قدسی کا فیضان آج بھی جاری ہے اور آپ کے عاشق صادق نے آج اسی قوت قدسی سے حصہ پا کر ہمیں وہ راستے دکھائے ہیں جن پر چل کر ہمیں خدائے واحد ویگانہ کا قرب حاصل ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کے مقام اور قرآن کریم کے مقام کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خاتم النبیین کا لفظ جو آ نحضرت ﷺ پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہوا اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں.وہ ایسی کتاب ہے جس کے اندر ساری دنیا کے کمالات موجود ہیں، تمام دنیا کا علم اس میں موجود ہے اور یہی اس کی خاتم ہونے کی نشانی ہے اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں.کیونکہ کلام الہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے، اسی قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا، اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبے پر واقع ہوا ہے، جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا.کیونکہ آنحضرت ﷺ کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہو چکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے.اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے.یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کے جو منجزات ہیں وہ قرآن شریف پر ختم ہو گئے.اس کے بعد اب اس
175 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم سے بڑھ کر کوئی معجزہ دکھانے والی یا ان کے بارے میں بتانے والی کتاب نہیں ہے.اور نہ علم سے پر.پھر فرماتے ہیں : "آپ خاتم النبین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری.جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحه 26 جدید ایڈیشن) پھر آنحضرت ﷺ کے مقام اور تاثیر قدسی کے بارے میں آج کل کے مولویوں کے خیالات کا رڈ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں آج کل کے مولویوں کا رڈ ہے جو یہ مانتے ہیں کہ سب روحانی فیوض اور برکات ختم ہو گئے ہیں اور کسی کی محنت اور مجاہدہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.اور ان برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں ملتا جو پہلے منعم علیہ گروہ کو ملتا ہے.یہ لوگ قرآن شریف کے فیوض کو اب گویا بے اثر مانتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی تاثیرات قدسی کے قائل نہیں.کیونکہ اگر اب ایک بھی آدمی اس قسم کا نہیں ہوسکتا جو نعم علیہ گروہ کے رنگ میں رنگین ہو سکے تو پھر اس دعا کے مانگنے سے فائدہ کیا ہوا.مگر نہیں بیران لوگوں کی غلطی اور سخت غلطی ہے جو ایسا یقین کر بیٹھے ہیں ، خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کا دروازہ اب بھی اسی طرح کھلا ہے لیکن وہ سارے فیوض اور برکات محض آنحضرت ﷺ کی اتباع سے ملتے ہیں اور اگر کوئی آنحضرت ﷺ کی اتباع کے بغیر یہ دعوی کرے کہ وہ روحانی برکات اور سماوی انوار سے حصہ پاتا ہے تو ایسا شخص جھوٹا اور کذاب ہے.66.پھر آپ فرماتے ہیں : یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر (الكوثر : 2) اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے.معلوم نہیں اس نے ابسر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ.(الکوثر : 4) تیرا دشمن ہی بے اولا در ہے گا.روحانی طور پر لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور آپ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے.اس آیت کو مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين (الاحزاب: 41) کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے.اگر آنحضرت ﷺ کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی پھر معاذ اللہ آپ ابتر ٹھہرتے ہیں.جو آپ کے اعداء کے لئے ہے.آپ کے دشمنوں کے لئے.اور إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر (الکوثر: 2) سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولا د کثیر دی گئی ہے.پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے.اس لئے ہر حالت میں ایک سچے مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا اور ماننا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی تاثیرات قدسی ابدال آباد کے لئے ویسی ہی ہیں ، ہمیشہ کے لئے ہیں.” جیسی تیرہ سو برس پہلے تھیں.چنانچہ ان تاثیرات کے ثبوت کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 176 خطبہ جمعہ 27 را پریل 2007 ء یعنی جماعت احمدیہ کا سلسلہ قائم کیا ہے اور اب وہی آیات و برکات ظاہر ہورہے ہیں جو اس وقت ہورہے تھے.(ملفوظات جلد دوم صفحه 38-39 جدید ایڈیشن) کاش کہ یہ مخالفین عقل کریں اور سمجھیں کہ اسلام کی خدمت، قرآن کی خدمت اور آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت کا دعوی تبھی سچ ثابت ہو گا جب مسیح و مہدی اور روح القدس سے تائید یافتہ کی جماعت میں شامل ہوں گے.ان کو کچھ خوف کرنا چاہئے.آج کل پھر مخالفت میں، خاص طور پر مسلمان ملکوں میں اور دوسرے ملکوں میں بھی بعض جگہ جہاں پر ان کا زور چلتا ہے خوب مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے ، عوام کے، کم علم لوگوں کے جذبات کو انگیخت کریں جس سے معاشرے میں نفرتوں کے بیج کے علاوہ کچھ نہیں بور ہے.وہ جو امن قائم کرنے کے لئے آیا تھا ، جس نے روح القدس سے حصہ پاتے ہوئے جانوروں کو انسان بنایا تھا یہ دوبارہ اس کی طرف منسوب ہوتے ہوئے انسانوں کو جانور بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.ان کو چاہئے کہ مسیح مہدی کو مان کر اس عظیم شارع نبی جو خاتم النبین بھی ہے کہ قوت قدسی سے فیض اٹھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر چہ مجھے افسوس ہے کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ خوارق اور اعجاز اب نہیں ہیں، پیچھے ہی رہ گئے ہیں، یعنی وہ معجزے اور غیر معمولی باتیں جو اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے وہ اب نہیں رہے.مگر یہ ان کی بدقسمتی اور محرومی ہے.وہ خود چونکہ ان کمالات و برکات سے جو حقیقی اسلام ہے اور آنحضرت ﷺ کی سچی اور کامل اطاعت سے حاصل ہوتی ہیں محروم ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاثیریں اور برکات پہلے ہوا کرتی تھیں اب نہیں.ایسے بیہودہ اعتقاد سے یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی عظمت و شان پر حملہ کرتے ہیں.ختم نبوت کے جو نعرے لگاتے ہیں.فرمایا: ” یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی عظمت وشان پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس وقت جبکہ مسلمانوں میں یہ زہر پھیل گئی تھی اور خود مسلمانوں کے گھروں میں رسول اللہ ﷺ کی بہتک کرنے والے پیدا ہو گئے تھے مجھے بھیجا ہے تا کہ میں دکھاؤں کہ اسلام کے برکات اور خوارق ہر زمانے میں تازہ بتازہ نظر آتے ہیں.فرمایا : ” اور لاکھوں انسان گواہ ہیں کہ انہوں نے ان برکات کو مشاہدہ کیا ہے اور صدہا ایسے ہیں جنہوں نے خودان برکات و فیوض سے حصہ پایا ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ایسا ئین اور روشن ثبوت ہے کہ اس معیار پر آج کسی نبی کا متبع وہ علامات اور آثار نہیں دکھا سکتا جو میں دکھا سکتا ہوں.جس طرح پر یہ قاعدہ ہے کہ وہی طبیب حاذق اور دانا سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مریض اچھے کرے اسی طرح انبیاء عَلَيْهِمُ السَّلام سے وہی افضل ہوگا جو روحانی انقلاب سب سے بڑھ کر کرنے والا ہو اور جس کی تاثیرات کا سلسلہ ابدی ہو“.ملفوظات جلد سوم صفحه 526 تا 527 جدید ایڈیشن)
خطبات مسرور جلد پنجم 177 خطبہ جمعہ 27 را پریل 2007 ء پس آنحضرت ﷺکی قوت قدسی کا فیض آج بھی جاری ہے اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ روح القدس کی تائیدات کے نظارے ہم دیکھتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی اور زندہ اور قدوس خدا کے جلوے ہیں جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ فرمایا ہوا ہے کہ اَنَا اللهُ ذُو الْمِنَنُ إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ اَقُومُ یعنی میں اللہ بہت احسان کرنے والا ہوں میں یقیناً اپنے رسول کی مدد کے لئے کھڑا ہوں گا.پس یہ سلوک اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے ساتھ آج بھی چل رہا ہے.روح القدس کے ساتھ تائیدات کا فیض آج بھی جاری ہے.اللہ تعالیٰ کے یہی سلوک ہیں جس نے آخرین کو اولین کے ساتھ ملایا ہوا ہے جو روح القدس کے اس جاری چشمے سے اس زمانے میں بھی اعمال صالحہ بجالانے والے مومنین کو سیراب کرتا ہے، جو اپنی قدوسیت کے جلووں سے اس زمانے کے لوگوں کو بھی فیض پہنچاتا ہے.اس زمانے میں بھی آنحضرت ﷺ کے جاری فیض سے خدا تعالیٰ آپ کے عاشق صادق کی جماعت کو فیضیاب کر رہا ہے جس کے نظارے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ہم دیکھتے ہیں.ہر احمدی بلکہ میں کہوں گا کہ بعض غیروں نے بھی ایک بار پھر، چند سال پہلے دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں کو پاک کرتے ہوئے اپنے پاک نبی ﷺ جو سب سے زیادہ روح القدس سے فیض یافتہ ہیں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے آپ کے ایک ایک لفظ کو پورا کرتے ہوئے ، آپ کے غلام صادق کے الفاظ کو سچ کر دکھاتے ہوئے ، قدرت ثانیہ کی برکت سے حصہ دینے کے لئے مومنین کے دلوں کو صرف اور صرف ایک دعا اور پاک خواہش سے بھر دیا کہ اے خدا ہمیں اکیلا نہ چھوڑ نا اور خلافت کے نظام کو ہم میں ہمیشہ جاری رکھنا.ہر مومن نے اپنے دل کی عجیب کیفیت دیکھی.وہ کیا تھی ، وہ کیفیت یقیناً خدائے قدوس اور اس کے رسول ﷺ کی قوت قدسی کا اس زمانے میں اظہار تھا جس نے ان دنوں میں ہر دل کو پاک صاف کیا ہوا تھا.بعض کو اس قدوس خدا نے رویا سے نواز کر دلوں کو تسلی اور دلوں کو پاک کرنے کے سامان بھی کئے.اور پھر دنیا نے دیکھا کہ خلیفہ وقت کے لئے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے محبت بھر دی اور خلیفہ وقت کے دل میں بھی ہمیشہ کی طرح لوگوں کے لئے محبت بھر دی.ایک شخص جو جماعت کی اکثریت کیا بلکہ بہت تھوڑی تعداد کو جاننے والا تھا اس کے لئے جماعت کے ہر فرد کو عزیز ترین بنا دیا.وہ محبت کے جذبات ابھرے جو سوچے بھی نہیں جاسکتے تھے.جماعت اور خلافت ایک وجود کی طرح ہمیشہ رہے ہیں اور رہیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ.پس اس زندہ نبی آنحضرت ﷺ کے فیض ہی ہیں جو ہر آن ، ہرلمحہ ہمارے ایمانوں کو بڑھاتے ہیں.یہ نظارے جماعت انشاءاللہ تعالیٰ ہمیشہ دیکھتی رہے گی.لیکن اس سے فیض پانے کے لئے ہمیں ہمیشہ اپنے دلوں کو اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق پاک صاف رکھنا ہو گا تا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت سے فیض پاتے رہیں.اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد پنجم سب کو اس کی توفیق دے.178 خطبہ جمعہ 27 اپریل 2007 ء حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا.میں ایک دعا کا اعلان کرنا چاہتا تھا.مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جو ناظر اعلی صدرا انجمن احمد یہ قادیان اور امیر مقامی قادیان ہیں وہ گزشتہ دو دنوں سے بڑے شدید علیل ہیں، انتہائی تشویشناک حالت ہے اور دل کا ان کو بڑا شدید دورہ ہوا ہے.ان کی حالت پر ڈاکٹر زابھی تک فکرمند ہیں.ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے ، صحت سے نوازے، بڑی قربانی کرنے والے وجود ہیں.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 18 تا 24 مئی 2007 ء ص 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد پنجم 179 (18) خطبہ جمعہ 4 رمئی 2007 ء فرمودہ مورخہ 04 مئی 2007 (104 ہجرت 1386 ہجری کشی بمقام مسجد بیت الفتوح بلندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کو میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی شدید بیماری کے پیش نظر دعا کی درخواست کی تھی، اس کے بعد مجھے کئی مخلصین کے خط بھی آئے ، بڑے درد کے ساتھ لوگوں نے دعائیں کیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور دو دن بعد وہ اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ان کی خدمات اور ان کی قربانیوں اور ان کی خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی دعائیں یقینا اللہ تعالیٰ کے حضور اگلے جہان میں ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنیں گی.انشاء اللہ میں امید رکھتا ہوں کہ ایسے بے نفس قربانی کرنے والے اور ہمہ وقت وقف کی روح سے کام کرنے والے، غریبوں کی مدد کرنے والے، ان کے کام آنے والے جماعت کی غیرت رکھنے والے اور خلافت کے فدائی سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک فرمائے گا انشاء اللہ.انہیں اپنے پیاروں کے قرب میں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے گا.اب بھی لوگوں کے بے شمار تعزیت کے خطوط آ رہے ہیں، افسوس کے لئے لوگ مجھے ملنے بھی آئے ، اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے.جو اس دنیا میں آیا اس نے اس دنیا سے جانا بھی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ہمیشہ سے ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے اسی طرح چلتا رہے گا.لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی زندگیاں خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اس کے دین کی خدمت کرتے ہوئے گزارتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا دردر کھتے ہیں اور اس کے لئے عملی نمونے بھی دکھاتے ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی یقینا ایسے لوگوں میں سے ہی ایک تھے.اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے.ان کی وفات پر جیسا کہ میں نے کہا لوگوں کے تعزیت کے خطوط بھی آ رہے ہیں اور ان خطوط میں یہ اظہار بھی ہو رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل کی ایک نشانی جودار مسیح قادیان میں تھی ، آپ نہیں رہی.بیح ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے بہت حد تک قادیان کے احمدیوں کے ساتھ خصوصاً اور جماعت ہندوستان کے افراد کے ساتھ عموماً ایسا تعلق رکھا ہوا تھا جس سے لوگوں کو بہت تسلی ہوتی تھی اور آپ کی بات کا بہت پاس اور لحاظ رکھا کرتے تھے.
خطبات مسرور جلد پنجم 180 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء ایک لمبا عرصہ ایسا بھی گزرا جس میں پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے تعلقات کی وجہ سے براہ راست مرکز سے یا اس جگہ سے جہاں خلیفہ وقت کی موجودگی تھی تعلق نہ رہا.ایسے دور بھی آتے رہے جب آج کی طرح ذرائع مواصلات نہیں تھے اور جو تھے وہ منقطع ہو جاتے رہے لیکن درویشان نے جماعت اور خلافت سے محبت اور وفا کے غیر معمولی نمونے دکھائے اور اس بات پر ان کو تسلی ہوتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پوتا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا ان کے درمیان موجود ہے اور اس بیٹے نے بھی خلافت سے محبت اور اطاعت نظام اور اطاعت امیر کے نمونے عملا دکھا کر جماعت کے احباب کو ہر وقت یہ احساس دلایا اور یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی کہ جماعت اور خلافت ہی سب کچھ ہیں جس سے جڑے رہ کر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں.تقریباً 30 سال آپ نے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کی امارت کے دور میں نہایت عاجزی اور وفا کے ساتھ ایک عام کارکن کی حیثیت سے اپنے عہد وفا کونبھایا اور پھر جب حضرت خلیفتہ مسیح الثالث" نے آپ کو 1977ء میں ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی بنایا تو اس اہم ذمہ داری کو بھی خوب خوب نبھایا.درویشن بن کر گئے تھے تو درویشی میں زندگی گزاری، یہ خیال نہیں آیا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پوتا ہوں ، حالانکہ آپ کے مقام کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر آپ کو فر مایا تھا جبکہ آپ پاکستان اپنی شادی کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے اور شادی کو ابھی چند دن ہی ہوئے تھے، اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جانے کے لئے ان کے کاغذات کی تیاری کروا رہے تھے، تو جیسا کہ اس زمانے میں عموماً ہوتا تھا.دونوں ملکوں کے تعلقات ذرا ذراسی بات پر خراب ہو جایا کرتے تھے (اب کچھ عرصہ سے ہی نسبتا کچھ بہتری آ رہی ہے.یہ کھچاوٹ تو ہمیشہ سے رہی ہے.تو ایسے ہی ایک موقع پر جب آپ وہیں تھے ، شادی کو چند دن ہوئے تھے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس کیا کہ حالات میں کھچاوٹ پیدا ہورہی ہے تو آپ نے میاں صاحب ( اپنے بیٹے ) کو کہا کہ بیوی کے کاغذات تو بنتے رہیں گے، ان کو تم چھوڑو اور فوری طور پر واپس چلے جاؤ کیونکہ اگر تم بھی یہاں رہے تو تمہارے نہ جانے سے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی فرد قادیان میں نہیں رہے گا.اس لئے فوری طور پر جہاز کی سیٹ بک کرواؤ ( کیونکہ آپ اس وقت بائی روڈ بارڈر کراس کر کے نہیں آئے تھے بلکہ حالات ایسے تھے کہ جہاز سے آئے تھے ) اور فوراً سیٹ بک کروا کے واپس چلے جاؤ اور اگر جہاز کی سیٹ نہیں بھی ہوتی تو چارٹر جہاز بھی کروانا پڑے تو کروا ؤ اور فوراً چلے جاؤ.لیکن فوری جانا بہر حال ضروری ہے ورنہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو جائے گا کہ گویا قادیان خالی ہو گیا کیونکہ اگر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا نمونہ پیش نہ کیا اور
خطبات مسرور جلد پنجم 181 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء قربانی نہ دی تو لوگ پھر کس طرح قربانی دیں گے.تقریباً انہی الفاظ میں مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے جب میں 2005 ء میں قادیان گیا ہوں تو مجھے یہ سارا واقعہ سنایا تھا.تو وہ نوجوان جو 21 سال کی عمر میں دیار مسیح کی حفاظت کے لئے چھوڑا گیا تھا، جو دنیاوی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وجہ سے قادیان کی موروثی جائیداد کا بھی مالک تھا، جس کا باپ خلیفہ وقت تھا ، جس نے اپنے بیٹے کو یہ باور کروایا تھا کہ تمہارا قادیان میں رہنا ہی درویشان قادیان کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنے گا اور تمہاری وہاں موجودگی ضروری ہے.ان سب باتوں نے میاں صاحب کو اطاعت امیر سے باہر رہنے کے خیال کو دل میں جگہ نہیں لینے دی.بلکہ یہ احساس اور شدت سے پیدا ہوا کہ میں نے اطاعت امیر کے بھی اعلیٰ نمونے دکھانے ہیں تا کہ ہر درویش مجھے دیکھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر اطاعت امیر کے نمونے دکھائے.اور یہ یقیناً اُس اولوالعزم باپ کی نصیحتوں کا اثر تھا جو انہوں نے اپنے بچوں کو کی تھیں اور خاص طور پر شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے چھوڑے ہوئے اس درویش بچے کو کی تھی.جس میں ایک انتہائی اہم نصیحت یہ بھی تھی کہ تم نے یہ خیال اپنے دل میں کبھی نہیں لانا کہ تم ناظر ہو، نو جوانی ہی میں آپ کو نظارت ملی تھی، بلکہ ہمیشہ تمہارے دل میں یہ خیال رہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے ہو اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنی ہے اور یہی اپنی اصل حیثیت سمجھنی ہے اور اپنے آپ کو اسی حیثیت سے پیش کرنا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے ہونے کے بعد کیا احساس ابھرنا چاہئے تھا؟ یقیناً یہی کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آ ئیں اور یقیناً یہ کہ جس مقصد کے دعوے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا اس کی تکمیل کرنی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اور جماعت کا وقار قائم کرنا ہے اور قائم رکھنا ہے.پس یہ باتیں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے اپنے پلے باندھیں اور عمل کیا اور نبھائیں اور خوب نبھائیں اور قادیان والوں، بھارت کی جماعتوں میں اس کو راسخ کرنے کی کوشش کی.پس ہر مخلص احمدی کو چاہے وہ قادیان کے رہنے والے ہیں، ہندوستان کی دوسری جماعتوں کے رہنے والے ہیں یا کہیں کے بھی رہنے والے ہیں اور ہر عہد یدار کو اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہر فرد کو ایسے نمونے قائم کرنے چاہئیں.آپ کی پیدائش کے بارے میں مختصر آبتا دوں کہ آپ حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ جو حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب آف جدہ کی صاحبزادی تھیں، ان کے بطن سے یکم اگست 1927ء کو پیدا ہوئے تھے.یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پہلے شادی کا ارادہ نہیں تھا، بلکہ کہیں اور ہو گیا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہی تھی کہ حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ کی شادی حضرت مصلح موعودؓ سے ہو اور اس کے لئے اُم المومنین کو بھی ،
خطبات مسرور جلد پنجم 182 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بھی اور دوسرے لوگوں کو بھی بعض ایسی خواہیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بار بار ایسا اظہار ہوا جس کی وجہ سے یہ شادی ہوئی.اس کا ذکر حضرت مولوی سرورشاہ صاحب نے جب حضرت مصلح موعودؓ کا نکاح پڑھایا، اس وقت کیا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی پیدائش کے بارے میں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا ایک رویا بھی ہے، وہ بیان کر دیتا ہوں.یہ مجھے میری خالہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ نے ایک خط میں لکھا.انہوں نے کوئی پرانا خط تلاش کیا تھا جو ان کی والدہ کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے لکھا تھا یعنی ان کی والدہ سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کو جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں.صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ نے لکھا کہ میرا خیال ہے کہ میاں وسیم احمد صاحب پر یہ رویا پوری ہوتی ہے.نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی بیٹی تھیں، انہوں نے اپنی بھاوج سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کو یہ خط لکھا تھا لکھتی ہیں کہ حیرت ہے کہ ادھر آپ کے خط سے عزیزہ دلہن کے حمل کی خبر معلوم ہوئی اور میں اس شب کو خواب دیکھ چکی تھی کہ میں گویا بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو خواب میں یہ خواب بتلا رہی ہوں ( خواب میں یہ خواب بتا رہی ہیں) کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے ہاتھ پکڑ کر یہ بشارت دی ہے کہ اغلبا حفیظ اور تمہارے بھائی کے ہاں عزیزہ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوگا اور یہ بشارت سن کر بھائی صاحب بہت خوش ہوئے ، خواب میں ہی حضرت خلیفہ امسیح الثانی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے یہی چاہا تھا کہ عزیزہ سے ہو.حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی نے ایک موقع پر آپ کے بارے میں فرمایا کہ میں نے اپنا ایک بیٹا اس وادی غیر ذرع میں بسا دیا ہے اللہ تعالیٰ اس کو کام کی توفیق دے.اب بظاہر تو قادیان کا علاقہ آباد اور سرسبز تھا لیکن قادیان کے درویشوں کی زندگی ابتدا میں نہایت تنگی اور خوف کی حالت میں تھی.گو کہ مومن مشکلات میں خوف نہیں کھاتا لیکن ارد گرد کی غیر مسلم آبادی نے جو صورتحال پیدا کی ہوئی تھی وہ بڑی فکر انگیز تھی.رہنے والوں کو بھی فکر تھی کہ جس مقصد کے لئے ہم یہاں چھوڑے گئے ہیں اس کا حق ادا کر سکیں گے یا نہیں اور دنیا کی جماعت کو بھی اور خلیفہ وقت کو بھی یہ فکر تھی ، جس کے لئے وہ دعائیں کرتے ہیں کہ کوئی خوف ان لوگوں کو جو عزم لے کے وہاں بیٹھے ہوئے تھے، اس عہد سے ہٹانے والا نہ ہو، اور وہ جو دیا مسیح میں شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے بھجوائے گئے ہیں اس کا حق ادا کرنے والے بنیں.ان دنوں میں حالات اتنے کشیدہ تھے کہ قادیان میں رہنے والوں کو حکومتی ادارے بھی ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے رہتے تھے اور پاکستان سے جو بعض ہندو سکھ وغیرہ ہندوستان آنے والے تھے، ان کی بھی دشمنی اس وجہ سے تھی کہ وہ پاکستان میں جو ظلم کا نشانہ بنے تھے یا جو بھی وجوہات تھیں، اس کی وجہ سے سخت مخالفت کی نظر سے ان
خطبات مسرور جلد پنجم 183 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء لوگوں کو دیکھتے تھے اور کوشش یہ ہوتی تھی کہ جب موقع ملے ان کو ختم کر دیں.ان حالات میں جبکہ باہر سے کھانے پینے کی اشیاء کی آمد بھی بند تھی.کچھ خوراک کا جو سٹاک رکھا ہوا تھا بس وہی استعمال ہوتا تھا.باقی کوئی آمد نہیں تھی.ماحول بھی انتہائی خوفناک تھا.قادیان کے ان درویشوں کے لئے جن کی تعداد چند سوتھی ، یہ وقت واقعی وادی غیر ذی زرع کا نظارہ پیش کر رہا تھا.پھر آہستہ آہستہ مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم اور درویشوں کی کوششیں اور دعا ئیں اور خلیفہ وقت کی دعائیں اور جماعت کی دعا ئیں اپنا اثر دکھانے لگیں اور ماحول سے تعلقات بھی پیدا ہونے شروع ہوئے ، ان کے دل بھی نرم ہونے شروع ہوئے.اور پھر یہ لوگ ، درویشان نسبتا آزادی کا سانس لینے لگے.لیکن غربت اور مالی تنگی پھر بھی بڑے عرصہ تک قائم رہی.اس زمانے میں درویشان کے لئے جماعتی فنڈ سے بہت معمولی سا گزارہ الا ونس مقر تھا،اس میں مشکل سےکھانا پینا ہوتا ہوگا لیکن حضرت میاں صاحب کے لئے حضرت خلیفہ آسیح الثانی کی ہدایت تھی کہ گزارہ تو اتنا ہی ملے گا لیکن اُس فنڈ سے نہیں ملے گا جو جماعت کا ہے بلکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اپنی ذاتی امانت میں سے اُن کو یہ دیا کرتے تھے.پھر آہستہ آہستہ حالات بہتر ہوئے تو ان لوگوں کی آمدنیاں بھی شروع ہوئیں، میاں صاحب کی آمد بھی زرعی زمین سے شروع ہوئی.بہر حال انتہائی تنگی اور ہر وقت دھڑ کے کے دن تھے جو ان لوگوں نے ، ابتدائی درویشوں نے گزارے اور یہ ان کی غیر معمولی قربانی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس بات میں بھی اللہ تعالیٰ کی گہری حکمت تھی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے اللہ تعالیٰ نے درویشی اور قربانی کا اس شخص کو موقع دیا جس کا ننھیال عرب سے تعلق رکھتا تھا اور اس علاقے کے قریب تھا جہاں اسماعیلی قربانی کی مثال قائم کی گئی.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا جو خواب میں نے ابھی سنایا ہے اس سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ کہ میں نے یہی چاہا کہ عزیزہ سے ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خود آنا اور بشارت دینا، یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ اس بیٹے سے اللہ تعالیٰ نے کوئی غیر معمولی کام لینا تھا اور وہ کام قربانی کا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی قربانی قبول فرمائے.اس قربانی کی حضرت مرزا وسیم احمد صاحب میں کتنی ناپ تھی اس کا اندازہ ان کی اس بات سے ہوتا ہے کہ میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہیں رہنے دے.کیونکہ پہلے یہ اصول تھا کہ حضرت خلفیہ اسی الثانی کی اولاد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد باری باری قادیان آ کر ر ہیں اور چند مہینے رہا کریں تا کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہے.لیکن پھر حالات ایسے ہوئے کہ یہ آنا جانا بند ہوگیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جو پاکستان میں ہیں وہ
خطبات مسرور جلد پنجم 184 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء پاکستان میں رہیں گے، جو قادیان میں رہ گئے وہ بس وہیں رہ سکتے ہیں اور مزید کوئی نہیں آئے گا.تو اپنی اس خواہش کا ذکر کرتے ہوئے میاں وسیم احمد صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ میری یہ دلی خواہش اور دعا تھی کہ میں قادیان میں ہی رہ کر خدمت بجالاؤں.چنانچہ اس کے لئے ایک دن میں نے اپنا جائے نماز لیا اور قصر خلافت قادیان کے بڑے کمرے میں چلا گیا اور وہاں جا کر میں نے نفل شروع کر دیئے اور جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ دعا قبول ہونی ہو تو اللہ تعالی اس کے سامان پیدا کرتا ہے، مجھے اتنی الحاج کے ساتھ دعا کا موقع ملا کہ لگتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس کو قبول فرمالے گا اور میں نے دعا کی اور خدا تعالیٰ سے کہا کہ میں نے قادیان سے نہیں جانا تو کوئی ایسے سامان کر دے اور پھر کہتے ہیں کہ قادیان کے غیر مسلموں نے حکومت کو شکایت کی کہ یہ قافلے یہاں آتے جاتے رہتے ہیں.یہاں آتے ہیں تو یہاں کے وفا دار بن جاتے ہیں، اور پاکستان جاتے ہیں تو پاکستان کے یہ لوگ وفادار بن جاتے ہیں.یہ لوگ یہی کہتے ہیں اس لئے اس سلسلے کو بند کیا جانا چاہئے.چنانچہ ان کی شکایت پر حکومت نے یہ پابندی لگادی کہ کوئی آجا نہیں سکتا اور اس طرح میاں صاحب پھر مستقل قادیان کے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے وہاں رہنے کا انتظام کر دیا.اب کچھ اور قربانیوں کا ذکر ہے.وہاں کے حالات میں کس طرح رہے اور جب بھی موقعے آئے اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کو صبر اور حوصلے سے تکلیفیں برداشت کرنے کی توفیق دی.مثلاً 1952ء میں جب حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی تو حالات کی مجبوری کی وجہ سے آپ پاکستان نہیں جا سکتے تھے اور یہ صدمہ آپ نے ہندوستان میں تنہائی میں ہی برداشت کیا.میرا خیال ہے ان دنوں آپ تعلیم کے سلسلے میں لکھنو میں تھے.کچھ عرصہ کے لئے تفسیر کا علم حاصل کرنے کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو لکھنو بھجوایا تھا اور و ہیں آپ نے حکمت بھی پڑھی تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اس مجاہد درویش بیٹے سے ان کی قربانی کی وجہ سے بہت تعلق تھا اور یہ جو میں نے واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ، جب آپ شادی کی غرض سے پاکستان آئے ہوئے تھے، بعض وجوہات کی وجہ سے یہ کہا کہ فوری واپس چلے جاؤ، تو اُس وقت جب ان کو جہاز کی سیٹ مل گئی لیکن جہاز نے دو دن بعد روانہ ہونا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جب پتہ لگا تو آپ خود بھی لاہور تشریف لے آئے.یہ نہیں کہا کہ دو دن رہتے ہیں تو ربوہ آ جاؤ بلکہ میاں صاحب کو کہا وہیں ٹھہر وہ ہمیں آ رہا ہوں اور خو د لا ہور تشریف لائے ، مختلف ہدایات اور نصائح فرمائیں، دعائیں دیں اور اپنے سامنے ان کو رخصت کیا.آپ یہ دعائیں کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو خیریت سے قادیان پہنچائے اور ان کو موقع ملے کہ دیار مسیح کی حفاظت کی ذمہ داری کو نبھا سکیں.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے بعد میں میاں صاحب کو بتایا، میاں صاحب نے اس کا خود ہی ذکر کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب والٹن ائر پورٹ ( اس زمانے میں لاہور میں والٹن ائر پورٹ ہوتا تھا ))
خطبات مسرور جلد پنجم 185 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء میں جہاز پر چڑھانے کے لئے آئے تو جب تک جہاز نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا مسلسل جہاز کو دیکھتے رہے اور دعائیں کرتے رہے.پھر حضرت مصلح موعودؓ کے اس تعلق کو حضرت بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بیان کرتی ہیں کہ جب کاغذات مکمل ہو گئے اور شادی کے ایک سال کے بعد میں قادیان جانے لگی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاص طور پر مجھے یہ ہدایت کی تھی کہ ام ناصر کے مکان میں رہنا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کثرت سے قدم پڑے ہیں اور اس کے صحن میں حضور نے درس بھی دیا ہوا ہے ( غالباً حضرت مصلح موعودؓ کا درس ہی مراد ہوگا، واضح نہیں ہے ) حضرت میاں وسیم احمد صاحب کی خدمات صدر انجمن کی جائیدادوں کو واگزار کرانے کے لئے بھی بڑی نمایاں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا ہونے کی وجہ سے، آپ کا پوتا ہونے کی وجہ سے، حکومت نے اس بات کو بھی کنسیڈر (Consider) کیا اور انجمن کی جائیداد واپس ملی ورنہ کئی بہانے ہو سکتے تھے.اس کے لئے آپ نے بڑے بڑے افسران سے رابطے کئے، بلکہ اس زمانے میں وزیر اعظم ہندوستان جواہر لعل نہرو تک سے رابطے کئے اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ، اس کے مثبت نتائج نکلے.1963ء میں آپ کی والدہ محترمہ سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ کی وفات ہوئی اور بڑی مشکل سے آپ کو پاکستان آنے کی اجازت ملی اور آپ تدفین کے وقت پہنچ سکے.پھر 1965ء میں پاکستان بھارت کی جو جنگ ہوئی اس میں رابطے بالکل ختم ہو گئے تھے، ڈاک اور ٹیلیفون وغیرہ کے انڈیا اور قادیان سے سب رابطے ختم تھے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیماری کی اطلاع بھی ریڈیو پاکستان کی خبروں سے پتہ لگی تھی اور پھر وفات کی اطلاع بھی ریڈیو پاکستان سے ہوئی.پھر انہوں نے جماعت سے رابطے کئے اور پھر سری لنکا سے کنفرمیشن ہوگئی.تو بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت بھی یہ قادیان میں تھے.اس کے بارہ میں لکھنے والے لکھتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعود کی وفات ہوئی تو انہوں نے تمام درویشان کو مسجد مبارک قادیان میں اکٹھا کیا اور وہاں تقریر کی اور درویشان قادیان کو شدید صدمہ کے وقت صبر اور دعاؤں کی تلقین کی اور پھر فرمایا کہ میری ہمیشہ یہ دعا اور تڑپ رہی ہے کہ اے خدا جب بھی حضرت ابا جان یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آخری وقت آئے تو میں ان کے پاس موجود ہوں.مگر ایسے حالات میں حضور کی وفات ہوئی ہے کہ میرا جانا ممکن نہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سمجھایا کہ قادیان اور ہندوستان کے سارے احمدی افراد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بچوں کی طرح ہی ہیں سب کو جدائی کا یکساں صدمہ پہنچا ہے تم بھی ان کے ساتھ جدائی کا ویسا ہی
خطبات مسرور جلد پنجم 186 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء صدمه برا دشت کرو جیسا کہ وہ کر رہے ہیں اور تمہارا قادیان رہنا ان کے لئے موجب ڈھارس اور تسلی ہو گا.پھر 1971ء میں دونوں ملکوں کے حالات خراب ہوئے اور بعض افسران نے قادیان کی احمدی آبادی کو زبر دستی قادیان سے نکالنے کی کوشش کی اور چھوٹے افسران نے حکم جاری کیا کہ یہ نکل جائیں اور بہانہ یہ کیا کہ ہم آپ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، قادیان میں رہ کر ہم حفاظت نہیں کر سکتے.اس لئے محلہ احمد یہ اور دار مسیح سب چیزیں خالی کرو تا کہ ایک جگہ ہم تم لوگوں کو جمع کر دیں اور وہاں تمہاری حفاظت کر سکیں.اصل میں تو حفاظت مقصد نہیں تھا.میرا خیال ہے شک کی نظر سے دیکھا جارہا تھا، بلکہ خیال کیا، بڑا واضح ہے کہ ان لوگوں کو شک کی نظر سے دیکھا جار ہا تھا.تو اس موقع پر بھی حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے قادیان کے تمام احمدی احباب کو مسجد مبارک میں جمع کیا اور ایک بڑی پر سوز تقریر کی.آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا دائمی مرکز ہے ہم اس کو قطعا نہیں چھوڑیں گے.اُن کی نیت تو یہ تھی کہ اس طرح یہ خالی کریں گے اس کے بعد ہم جگہوں پر قبضہ کر لیں گے.اس تقریر میں آپ نے کہا کہ یہ ہمارا دائمی مرکز ہے اس کو ہم قطعاً نہیں چھوڑیں گے آج کی ایک رات ہمارے پاس ہے، اپنی دعاؤں کے ذریعہ عرش الہی کو ہلا دیں.اگر حکومت کا ہمارے بارے میں یہی قطعی فیصلہ ہے تو یا درکھو ایک بچہ بھی خود سے قادیان سے باہر نہ جائے گا.ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن مقامات مقدسہ اور قادیان سے باہر نہیں نکلیں گے.نیز فرمایا کہ آپ یادرکھیں کہ میں بھی یہاں سے خود باہر نہیں جاؤں گا اگر حکومت کے کارندے مجھے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جائیں تو لے جائیں لیکن اپنے پیروں سے چل کر نہ جاؤں گا.آپ میں سے ہر درویش اور درویش کے بچے کی یہی پوزیشن ہونی چاہئے.ہوسکتا ہے کہ مجھے لے جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تمہارے میاں صاحب کو لے گئے ہیں اس لئے تم بھی چلو.وہ مجھے لے جاتے ہیں تو لے جائیں.آپ نہیں جائیں گے اور ہر فرد جماعت کے منہ سے بس یہی آواز نکلنی چاہئے کہ ہم قادیان کو نہیں چھوڑیں گے.تو لکھنے والے کہتے ہیں کہ اس رات قادیان کے بچے بچے کی یہ حالت تھی کہ ہر شخص اس رات جس طرح خدا تعالیٰ سے آدمی لپٹ جاتا ہے، لپٹا ہوا تھا.مسجد مبارک کا گوشہ گوشہ اور مسجد اقصیٰ کا کونہ کو نہ بہشتی مقبرے میں ہر جگہ دعائیں ہو رہی تھیں اور کہتے ہیں ہر گھر کی دیواریں اس بات کی گواہ ہیں کہ درویشوں کے دلوں سے یہ نکلی ہوئی آہیں اور چھینیں آستانہ الہی پر دستک دینے لگیں.اُن کی سجدہ گا ہیں تر ہو گئیں ، اُن کی جبینیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکی رہیں.سینکڑوں ہاتھ خدا تعالیٰ کے حضور اٹھے رہے اور رات اور دن انہوں نے اسی طرح گزار دیا اور آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دیا اور اگلے دن پھر کچھ وفود ملنے گئے ، فوجی افسران خود قادیان آئے اور مقامات مقدس کا معائنہ کیا،احمدیہ ملہ کا معائنہ کیا اور پھر D.C صاحب وغیرہ کی سفارش پر یہ فیصلہ منسوخ ہو گیا.آپ کی دعاؤں کے بارے میں وہاں رہنے والے ہمارے ایک مبلغ نے مجھے لکھا کہ مجھے کچھ عرصہ دار مسیح میں
خطبات مسرور جلد پنجم 187 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء رہنے کا موقع ملا تو میں نے اکثر دیکھا کہ میاں وسیم احمد صاحب رات کو بیت الدعا میں یا اور جگہوں پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعائیں کرتے رہے ہیں وہاں دعاؤں میں مشغول ہیں.1977ء میں جیسا کہ میں نے کہا حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے آپ کو امیر مقامی اور ناظر اعلی مقرر کیا.آپ نے اس لحاظ سے انتظامی خدمات بھی انجام دیں.1982ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات ہوئی تو اس موقع پر بھی آپ ربوہ نہیں جاسکتے تھے آپ کی دو بڑی بیٹیوں کی تو شادیاں ہو چکی تھیں.چھوٹی بیٹی اور بیٹا شاید آپ کے ساتھ تھے تو آپ کی بیٹی امتہ الرؤف کا بیان ہے کہ ابا کو خلافت سے بے انتہا عشق تھا اور حضور کی وفات کے اگلے روز ایک خط لے کر امی کے اور میرے پاس لائے کہ اس کو پڑھ لو اور اس پر دستخط کر دو.یعنی اپنی اہلیہ اور اپنی بیٹی کے پاس لائے کہ دستخط کر دو.اس میں بغیر نام کے خلیفتہ اسیح الرابع کی بیعت کرنے کے متعلق لکھا تھا.خلیفہ مسیح الرابع لکھ کر بیعت تھی کہ یہ میں ابھی بھجوار ہا ہوں تو یہ بیٹی کہتی ہیں کہ میں نے اس پر کہا کہ ابا ابھی تو خلافت کا انتخاب بھی نہیں ہوا، ہمیں پتہ نہیں کہ کون خلیفہ بنے گا.تو کہتے ہیں کہ میں نے خلیفہ کا چہرہ دیکھ کر بیعت نہیں کرنی بلکہ میں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کی خلافت کی بیعت کرنی ہے.اللہ تعالیٰ جس کو بھی خلیفہ بنائے اس کی میں نے بیعت کرنی ہے.اس لئے میں نے یہ خط لکھ دیا ہے اور میں اس کو روانہ کر رہا ہوں تا کہ خلافت کا انتخاب ہو تو میری بیعت کا خط وہاں پہنچ چکا ہو.تو یہ تھا خلافت سے عشق اور محبت اور اس کا عرفان.اللہ کرے ہر ایک کو حاصل ہو.مخالفین کی طرف سے آپ پر بعض جھوٹے مقدمے بھی بنائے گئے.بعض اپنوں نے بھی آپ کو بعض پریشانیوں میں مبتلا کیا لیکن بڑے حوصلے اور صبر سے آپ نے ہر چیز برداشت کی.بلکہ ان مخالفین میں سے سنا ہے، اب ان کی وفات پر تعزیت کے لئے بھی لوگ آئے ہوئے تھے.الصلوة جشن تشکر کے وقت آپ نے سارے بھارت کا دورہ کیا، جماعتوں کو آرگنا ئز کیا ، ان کو بتایا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا دورہ ہوا.اس وقت آپ نے ساری انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں.پھر جب 2005 ء میں میرا دورہ ہوا ہے اس وقت آپ کی طبیعت بھی کافی خراب تھی، کمزوری ہو جاتی تھی، بڑی شدید انفیکشن ہو گئی.جلسہ پہ پہلے اجلاس کی انہوں نے صدارت کرنی تھی اور بیمار تھے، بخار بھی تھا لیکن چونکہ میرے سے منظوری ہو چکی تھی تو اتفاق سے جب میں نے گھر آ کے ایم ٹی اے دیکھا تو صدارت کر رہے تھے ، میں نے پیغام بھجوایا کہ آپ بیمار ہیں چھوڑ کے آ جائیں.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بخار ہے، میں بیمار ہوں ، بیٹھ بھی نہیں سکتا.سخت کمزوری کی حالت تھی لیکن اس لئے کہ اجلاس کی صدارت کے لئے میری خلیفہ وقت سے منظوری ہو چکی ہے، اس لئے کرنی ہے.خیر اس پیغام کے بعد وہ اٹھ کر آ گئے.اس حالت میں ہی نہیں تھے کہ بیٹھ سکتے.تو انتہائی وفا سے اپنی ذمہ داریاں
خطبات مسرور جلد پنجم 188 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء نبھانے والے تھے اور پھر میں نے دیکھا کہ جہاں ہماری رہائش تھی ، وہاں گھر میں بعض چھوٹے چھوٹے کام ہونے والے تھے تو مستریوں کو لا کر کھڑے ہو کر اپنی نگرانی میں کام کرواتے تھے، حالانکہ اس وقت ان کو کمزوری کافی تھی.خلافت سے عشق کی میں نے کچھ باتیں بتائی ہیں، کچھ آگے بتاؤں گا.پھر ان میں تو کل بڑا تھا.اللہ تعالیٰ سے بڑا محبت کا تعلق تھا، تو کل تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت عشق تھا اور وہی عشق آگے خلافت سے چل رہا تھا اور خلافت سے عقیدت اور اطاعت بہت زیادہ تھی.پھر لوگوں سے بے لوث محبت تھی.خدمت کا جذبہ تھا.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بے انتہا احترام کیا کرتے تھے، درویشان سے آپ کو بڑی محبت تھی.بلکہ ایک دفعہ کسی نے درویشان کے متعلق بعض ایسے الفاظ کہے جو آپ کو پسند نہیں آئے تو اس پر آپ نے بڑی ناپسندیدگی کا اور ناراضگی کا اظہار کیا.حالانکہ طبیعت ان کی ایسی تھی کہ لگتا نہیں تھا کہ کبھی ناراضگی کا اظہار کر سکیں گے.لیکن درویشان کی غیرت ایسی تھی کہ اس کو برداشت نہیں کر سکے.مہمان نوازی آپ کا بڑا خاصہ تھی.رات کے وقت آپ کو کوئی ملنے آ جاتا تو بڑی خوشی اور خندہ پیشانی سے ملتے.آپ کی بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ عیدین کے موقع پر مجھے خاص طور پر بیواؤں سے ملنے اور انہیں تحفہ پیش کرنے کے لئے بھجواتے تھے.اگر کوئی عورت، مرد بیمار ہو جاتا تو اس کی عیادت کے لئے جاتے اور اگر کوئی زیادہ بیمار ہوتا تو اس کو امرتسر ہسپتال بھجوانے کا انتظام کرتے تھے.انہوں نے درویشوں کو بالکل بچوں کی طرح پالا ہے.مہمان نوازی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم تین مہینے باہر رہ کر آئے اور گھر آئے ہیں تو کوئی مہمان آ گیا.تو انہوں نے کہا مہمان آیا ہے کچھ کھانے پینے کو بھجواؤ تو میں نے کہا ابھی تو ہم اترے ہیں.پتہ نہیں گھر میں کوئی چیز ہے بھی کہ نہیں، کیا بھیجوں؟ تو میاں صاحب نے کہا اس قسم کے جواب نہیں دینے چاہئیں.تلاش کرو، کچھ نہ کچھ مل جائے گا، خیر بسکٹوں کا ایک ڈبہ مل گیا وہ بھجوایا.تو ذرا ذراسی بات کا خیال رکھنے والے تھے.غیروں سے تعلقات کے پہلے تو یہ حالات تھے پھر یہ تعلقات بھی اتنے وسیع ہوئے کہ ہر کوئی گرویدہ تھا.اب جب میں 2005 ء میں دورے پر گیا ہوں، ہوشیار پور بھی ہم گئے ہیں.وہاں رہنے والی بعض اہم شخصیتوں نے آپ کی وجہ سے مجھے بھی اپنے گھروں میں بلوایا اور بڑا محبت کا اظہار کیا.سکھوں میں سے، ہندوؤں میں سے، جو بھی غیر ملتے تھے آپ کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے اور آپ کے اخلاق کے معترف تھے.اب بھی آپ کی وفات پہ بہت سارے پڑھے کہ ے لکھے سکھ ، ہندو آئے.ممبر آف پارلیمنٹ، کاروباری لوگ ، وکلاء، غریب آدمی ، بلکہ ایک اسمبلی کے سابق سپیکر بھی آئے ، سب کی آوازیں میں ویڈیو میں سن رہا تھا.انتہائی تعریف کر رہے تھے کہ ایسا شخص ہے جنہوں نے مذہب سے بالا ہو کر ہمارے سے تعلق رکھا اور ہمیں بھی یہی سکھایا کہ انسانیت کے ناطوں کو مضبوط کرنا چاہئے ، انسانیت کے رشتوں کو مضبوط کرنا چاہئے.ہر ایک ان کا گرویدہ تھا.بے شمار چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو
خطبات مسرور جلد پنجم 189 خطبہ جمعہ 4 رمئی 2007ء لوگوں نے مجھے تعزیت کے خطوط میں لکھے ہیں.میں ان کا ذکر کروں تو بہت لمبا قصہ ہو جائے گا.پھر حضرت میاں صاحب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ بڑے نپے تلے انداز میں ، بڑے سوچ سمجھ کے بات کیا کرتے تھے، کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو جماعتی روایات سے ہٹ کر ہو.کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آنحضرت ﷺ کے مقام کو نہ سمجھتے ہوئے ہو، کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جس سے بڑائی کی بُو آتی ہو، جس میں درویشانہ عاجزی کا فقدان ہو اور پھر اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو میری بات دور کر دے.ایک دفعہ کینیڈا میں کسی نے آپ سے درویشوں کی قربانیوں اور حفاظت مرکز کے کام کو سراہتے ہوئے آپ کی بڑی تعریف کی.تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو امر واقعہ یہ ہے کہ ہم درویشوں نے قادیان کی حفاظت نہیں کی بلکہ قادیان کے مقامات مقدسہ اور وہاں کی جانے والی دعاؤں نے نہ صرف قادیان کی بلکہ اس کے رہنے والوں کی بھی حفاظت کی ہے.تو یہ ہے ایک مومن کی سوچ اور ادراک کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہوتا ہے.اس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے دعا کے مواقع مہیا فرمائے اور اپنے پیارے مسیح کی مقدس بستی کو ہر شر سے محض اپنے فضل سے بچایا.ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے مقامات مقدسہ کے ساتھ ہماری بھی حفاظت فرمائی.کسی نے ایک تعزیت کا خط لکھا اس میں یہ فقرہ مجھے بڑا اچھا لگا، آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نے مجاہدانہ شان سے درویشانہ زندگی گزاری اور حقیقت یہی ہے.پھر مالی تحریکات میں بھی حسب استطاعت خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.ہر تحریک جو خلیفہ وقت کی طرف سے ہوتی تھی پہلے خود حصہ لیتے ، پھر جماعت کو توجہ دلاتے تھے.ابھی وفات سے چند دن پہلے مجھے لکھا کہ میں نے خلافت جو بلی کے لئے ایک لاکھ روپے کا وعدہ کیا تھا اور میرے ذہن سے اتر گیا کہ اس کی ادائیگی کرنی ہے.بڑا معذرت خواہانہ خط تھا اور لکھا کہ احمد للہ مجھے وقت پر یاد آ گیا اور میں نے آج اس کی ادا ئیگی کر دی ہے اور یہ بھی حساب وفات سے چند دن پہلے صاف کر کے گئے.وصیت کا حساب ساتھ ساتھ صاف ہوتا تھا.زندگی میں جائیداد کا حساب بھی اپنی زندگی میں صاف کر دیا.اور 1/9 کی وصیت تھی.درویشوں کی خودداری کا واقعہ تو میں بیان کر چکا ہوں.خلافت سے تعلق کے بارہ میں دوبارہ بتا تا ہوں.کوئی حکم جاتا تھا، کوئی ہدایت جاتی تھی تو من وعن انہی الفاظ میں اس کی فوری تعمیل ہوتی تھی.یہ نہیں ہوتا تھا، جس طرح بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ اگر کوئی فقرہ زیادہ واضح نہیں ہے تو اس کی تو جیہات نکالنا شروع کر دیں گے.جس کے دو مطلب نکلتے ہوں تو اپنی مرضی کا مطلب نکال لیں.بلکہ فوری سمجھتے تھے کہ خلیفہ وقت کا منشاء کیا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 190 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے باوجود بیماری کے خلیفہ وقت کی طرف سے آمدہ ہدایت پر اگر ضرورت ہوتی تو خود جا کے تعمیل کرواتے.گزشتہ دنوں ڈیڑھ سال پہلے جو زلزلہ آیا، اس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا.تو مسجد کی مرمتیں ہو رہی تھیں.یہاں سے انجینئر جاتے رہے ہیں.وہاں کی زمین کی ٹسٹنگ (Testing) کے لئے کہ مزید کیا جائزہ لینا ہے، کھدائی کر کے دیکھنی تھی.یہ کام میاں صاحب کے بغیر بھی ہوسکتا تھا.لیکن خود وہاں موقع پر پہنچے اور اپنی نگرانی میں یہ کروایا اور جوانجینئر یہاں سے گئے ،بڑا انس کے پھر ان انجینئر صاحب کو میرے متعلق کہا کہ انہیں یہ بتا دینا کہ میں وہاں موجود تھا.یہ بتا دینا کہ مجھ سے چلا نہیں جاتا تھا لیکن اس کے باوجود میں یہاں آکے کھڑا ہو گیا.یہ نہیں کہ کوئی اظہار تھا کہ دیکھو میں بیماری کے باوجود یہاں آگیا ہوں.احسان کے رنگ میں نہیں بلکہ اس لئے کہ خلیفہ وقت کی دعائیں میرے ساتھ ہو جا ئیں گی.تو یہ تھا ان کا خلافت سے تعلق.گزشتہ دنوں چند ماہ پہلے باوجود بیماری کے کشمیر کا بڑا تفصیلی دورہ کیا اور ہر جگہ خلافت سے تعلق کے بارے میں لوگوں کو تلقین کی.پھر یہ ہے کہ لوگ آپ کو دعا کے لئے جو خطوط لکھتے تھے، آپ کے نام سے خطوط لکھے جاتے تھے لیکن اگر یہ سمجھتے تھے کہ ایسے خطوط خلیفہ وقت کے پاس جانے چاہئیں تو یہاں بھجوادیا کرتے تھے تا کہ ان لوگوں کے لئے دعا ہو جائے اور یہاں سے بھی جواب چلا جائے.مجھے انہوں نے لکھا کہ پچھلے دنوں میں بیماری کچھ زیادہ ہوگئی تھی ھیچ کام نہیں ہو رہا اس لئے کچھ عرصہ کے لئے کسی کو مقرر کر دیں، ایک ذمہ داری سپرد کر دیں.اس پر میں نے ان کو لکھا تھا کہ کسی کے سپرد کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بعض کام ہیں جس سے چاہے لے لیا کریں، ناظر اعلیٰ آپ ہی رہیں گے.اب میرا خیال ہے کہ اس کے بعد اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی یہ کام کرتے رہے ہیں اور ایک معاملے کی رپورٹ ابھی چند دن پہلے مجھے ان کی وفات کے بعد آئی، اس پر ان کے دستخط تھے اور 25 را پریل کی تاریخ تھی.یعنی اس وقت بھی جس دن یہ ہسپتال داخل ہوئے ہیں اور شدید انفیکشن تھی ، بخار 05-104 تک پہنچا ہوا تھا.لیکن وہ ساری رپورٹ دیکھی اور اس پر دستخط کئے.اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرزند اور آپ کی نشانی کے درجات بلند فرمائے جس نے اپنے درویشی کے عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا.قدرتی طور پر ان کی وفات کے ساتھ مجھے فکر مندی بھی ہوئی کہ ایک کام کرنے والا بزرگ ہم سے جدا ہو گیا.وہ صرف میرے ماموں نہیں تھے بلکہ میرے دست راست تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں میرا سلطان نصیر بنایا ہوا تھا.تو فکر مندی تو بہر حال ہوئی لیکن پھر اللہ تعالیٰ کے سلوک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح اپنے فضل سے یہ خلا بھی پر فرمائے گا اور انشاء اللہ پہلے سے بڑھ کر قربانی کرنے والے سلطان نصیر عطا فرمائے گا اور فرماتا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 191 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء اللہ تعالیٰ درویشوں کی اولادوں کو اور قادیان کے رہنے والے ہر فرد کو ان قربانی کرنے والے درویشوں کی یادیں زندہ رکھنے کی توفیق دے اور اس وقت جو چند ایک درویشان ان کے پاس رہ گئے ہیں ، ان کی خدمت کی بھی ان کو توفیق دے.قادیان میں رہنے والا ہر احمدی اس مقام کو سمجھے جو دیار مسیح میں رہنے والے کا ہونا چاہئے.جب بزرگ اٹھتے ہیں تو نئی نسل کی ذمہ داریاں بڑھتی ہیں اور جو زندہ قومیں ہیں ان کی نئی نسلیں پھر ان کی ذمہ داریوں کو با حسن نبھانے کی کوشش بھی کرتی ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ قادیان کے رہنے والے سب واقفین زندگی اور عہدیداران پہلے سے بڑھ کر پیار محبت اور بھائی چارہ کا ایک دوسرے سے سلوک کریں گے اور یہ سلوک کرتے ہوئے نیکی اور تقویٰ میں ترقی کریں گے.قادیان کا رہنے والا ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اولا د ہونے کے ناطے اس کا حق ادا کرے گا اور جس طرح ہمارے یہ بزرگ اُن جگہوں پر سجدہ ریز ہوئے جہاں مسیح الزمان نے سجدے کئے اور اُن جگہوں کو اپنی دعاؤں سے پر کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے ان جگہوں میں جماعت کی ترقی کے وعدے فرمائے تو یہ لوگ ( نئی نسل ) جو وہاں رہنے والے ہیں یہ بھی ان جگہوں پہ جائیں گے اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوں گے، دعا ئیں کریں گے اور اس کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور مجھے ان فکروں سے آزاد کریں گے کہ قادیان میں نیکی اور تقویٰ پر چلنے والے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والوں کی کمی ہو رہی ہے.بلکہ یہی خوشی کی خبریں پہنچیں گی کہ تقوی میں ترقی کرنے والے بڑھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اس کی توفیق دے.دنیا کی جماعتوں پر بھی قادیان کا حق ہے کہ اس بستی کے رہنے والوں کے لئے ہر احمدی دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مسیح کی بستی کا حق ادا کرنے والے پیدا فرماتا رہے.حضرت میاں صاحب کی بیگم صاحبہ کیلئے بھی دعا کریں.وہ بھی بیمار رہتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہمت اور حوصلہ دے اور یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے.یہ بھی بڑی با برکت وجود ہیں.انہوں نے جماعت کی خواتین کو عورتوں کو اکٹھا کرنے میں ، Organize کرنے میں، ان سے ہمدردیاں کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو صحت سلامتی والی زندگی عطا فرمائے.ان کے بچوں کو بھی اپنے بزرگ والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.گو کہ ان میں سے کوئی بھی قادیان میں نہیں ہے.بچیاں شادی ہو کے پاکستان چلی گئیں ، اب وہ پاکستانی شہریت رکھتی ہیں ، بیٹا اُن کا امریکہ میں ہوتا ہے لیکن جہاں بھی ہیں اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں اور ان خصوصیات کے حامل بنے کی کوشش کریں جو ان کے باپ یں تھیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا :
خطبات مسرور جلد پنجم 192 خطبہ جمعہ 4 مئی 2007 ء جیسا کہ میں نے کہا تھا بعض غیر بھی بلکہ بڑی کثرت سے غیر آ کے حضرت میاں صاحب کا افسوس کر رہے ہیں.تو قادیان کی انتظامیہ میرا یہ خطبہ سن رہی ہے ، میری طرف سے ان سب کا شکریہ ادا کر دیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.(نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی نماز جنازہ غائب پڑھائی) ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 25 تا 31 مئی 2007ء ص 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد پنجم 193 (19) خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء (فرمودہ مورخہ 11 مئی 2007ء (11 ہجرت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ایک نام السّلام ہے.قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے اس لفظ سلام کو مختلف پیرایوں میں استعمال فرمایا ہے.اپنی صفت کے حوالے سے بھی بیان فرمایا ہے اور مومنوں کو اس صفت کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بھی فرمایا ہے.اس کے معانی مختلف مفسرین اور اہل لغت نے کئے ہیں تفسیر الطبری میں علامہ ابو جعفر محمد کہتے ہیں کہ السلام وہ ذات ہے جس کی مخلوق اس کے ظلم سے محفوظ رہے.پھر ابوالحسن الترندی کے نزدیک السَّلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے.اللہ تعالیٰ کو السّلام اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر نقص ، عیب اور فنا سے سلامت ہے.جبکہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک وجہ تسمیہ یہ ہے یعنی اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان آفتوں سے سلامت ہے جو دوسروں کو تغیر اور فنا وغیرہ کی پہنچتی رہتی ہیں.نیز یہ کہ وہ ایسا باقی رہنے والا دائگی وجود ہے کہ تمام مخلوقات فنا ہو جائیں گی مگر اس پرفت نہیں.وہ ہر ایک چیز پر دائی قدرت رکھنے والا ہے.پھر تفسیر روح البیان میں لکھا ہے السلام ہر قسم کی آفت اور نقص سے محفوظ ہے، تمام تر نقائص سے پاک ہونے کی وجہ سے اور سلامتی عطا کرنے میں بڑھا ہوا ہونے کی وجہ سے اُسے اَلسَّلام کہا گیا ہے.اور اَنْتَ السَّلام حدیث میں آتا ہے، ( ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما يقول اذا سلم من الصلاة حدیث : 300) نماز کے بعد جو دعا پڑھتے ہیں اس میں بھی استعمال ہوا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ تو وہ ذات ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور ہر قسم کے نقص اور کمی سے مر ا ہے.اور حدیث میں جو یہ ہے کہ مِنكَ السَّلام تو اس سے مراد یہ ہے کہ تو وہ ذات ہے جو ایک بے کس شخص کو نا پسندیدہ اور تکلیف دہ امور سے محفوظ کرتی ہے اور دونوں جہانوں کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے چھٹکارا دلاتی ہے اور تو وہ ذات ہے جو ایمان لانے والوں کے گناہوں اور عیوب کی پردہ پوشی کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت والے دن کی رسوائی سے سلامتی میں ہوں گے.یہ لکھتے ہیں کہ مِنْكَ السَّلام کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں مومنوں پر سلامتی کا تحفہ عطا کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیم یعنی ان کو سلام کہا جائے گا جو بار بار کرم کرنے والے رب کی طرف سے ان کے لئے پیغام ہو گا.تو اس لفظ سلام میں اللہ تعالیٰ کی
خطبات مسرور جلد پنجم 194 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء طرف سے ایک مکمل حفاظت کا پیغام اور وعدہ دے دیا ہے.اُس خدا کی طرف سے جو رحم کرنے والا خدا ہے اور بار بار رحم کرنے والا خدا ہے.یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے لیکن ایک عظیم پیغام اپنے اندر رکھتی ہے کہ اس سلامتی کے تحفے کو حاصل کرنے کے لئے ، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بننے کے لئے اور اگلے جہان میں بھی اس سے فیض پانے کے لئے تم بھی اپنے اندر، آپس میں، یہ روح پیدا کرو.آپس کے تعلقات میں یہ روح پیدا کرو.ایک دوسرے کو سلامتی بھیج تو یہ تحفہ تمہیں ملتا رہے گا.پھر اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپس کی سلامتی کے تحفے سے جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے جنت میں جگہ پاؤ گے وہاں اس دنیا میں بھی سلامتی کی وجہ سے اپنے روح و دماغ کو بھی امن میں رکھو گے اور تمہارے لئے ، اپنی ذات کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی مکمل خوشی پہنچانے والی چیز ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بھی یہ ایک عظیم راستہ ہے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں رکھا ہے اس لئے تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ.پس یہ سلام کو پھیلانا، آپس کی محبت پیدا کرنے کا اور معاشرے میں امن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے.اس لئے بے شمار مواقع پر ، آنحضرت ﷺ نے آپس کے محبت و پیار کو قائم کرنے کے لئے سلام کو رواج دینے کی طرف توجہ دلائی ہے.پس خدا کا سلام حاصل کرنے کے لئے ہم اپنے معاشرے میں بھی حقیقی سلامتی پھیلانے والے بنیں گے تو تبھی اس کو حاصل کرنے والے ہوسکیں گے.حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تُطْعِمُ الطَّعَامَ ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِفُ.پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تم کھانا کھلا ؤ اور دوسری یہ ہے کہ سلام کہو ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے.(الادب المفرد لامام بخاری باب السلام من اسماء الله عز وجل حدیث نمبر (1019) (بخاری کتاب الایمان با ب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر (12 پھر ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تم سے پہلی قوموں کی بیماریاں تم میں آہستہ آہستہ داخل ہورہی ہیں.یعنی بغض اور حسد“.اب یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس زمانے میں بھی غور کریں تو یہ چیزیں بھی دوبارہ داخل ہو رہی ہیں بلکہ ایک انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس پیغام کو لے کے آئے تھے اس میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو تو جہ تھی اس میں بھی بغض اور حسد ایک بہت بڑی چیز ہے جو حقوق ادا نہ کرنے کی ایک وجہ بنتی ہے.تو جماعت کو ہمیشہ اس سے محفوظ رہنا چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 195 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء فرمایا کہ یہ بیماریاں تم میں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی ہیں یعنی بغض اور حسد " بغض مونڈھ دینے والی ہے.فرمایا: بالوں کو مونڈھنے والی نہیں بلکہ دین کو مونڈھنے والی بغض ایسی چیز ہے جو تمہارے دین کو ختم کر دے گی.فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کامل ایمان نہ لے آؤ اور اس وقت تک کامل ایمان نہیں لا سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو.اور کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس محبت کو تم میں مضبوط کر دے گی، وہ بات یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو رواج دو 66 (الترغيب والترهيب جزء 3 الترغيب فى افشاء السلام و ما جاء في فضله......حدیث نمبر 3978 صفحه 371-372 پس جیسا کہ میں نے کہا آج بھی اگر ہم جائزہ لیں تو کسی نہ کسی رنگ میں شیطان حسد اور بغض کے جذبات بہت سوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے.پس کتنی بدنصیبی ہے کہ زمانے کے امام کو مان کر بھی ہم بعض حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں.پس اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل کرنے کے لئے اللہ اور رسول ﷺ نے یہی راستہ بتایا ہے کہ سلام کو رواج دو.اس سے آپس میں دلوں کی کدورتیں بھی دور ہوں گی ، محبت بھی بڑھے گی ، عفوا ور درگز ر کی عادت بھی پیدا ہوگی اور پھر اس سے معاشرے میں ایک پیار اور محبت کی فضا پیدا ہو جائے گی جو کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک بڑا اہم حکم ہے جس سے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی.عام طور پر جماعت میں بھی بعض دفعہ آپس میں لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں، جھگڑے ہوتے ہیں جو بعض دفعہ اتنا طول کھینچ لیتے ہیں کہ انتہا کو پہنچ جاتے ہیں.گزشتہ دنوں بھی ایک جگہ اسی طرح آپس میں دو خاندانوں کی لڑائی ہوئی اور اس حد تک بڑھ گئی کہ جماعت کی بدنامی کا باعث بنی جس کی وجہ سے دونوں فریقوں کو جماعت سے اخراج کی سزا دینی پڑی.خیر اس کے بعد معافی کے لئے لوگ لکھتے ہیں، لکھتے رہے، ایک نے لکھا کہ میں نے جب اس بات کو ختم کرنے کے لئے ، جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے جا کر مسجد میں ہی دوسرے فریق کو سلام کیا تو اس نے کہا بھول جاؤ اس بات کو ، ابھی چھ مہینے سال تک میں تمہارے ساتھ کوئی بات نہیں کر سکتا ، نہ سلام ہوسکتا ہے، نہ ہماری صلح ہو سکتی ہے.تو ایسے موقعے جماعت میں بھی پیدا ہوتے ہیں.بڑے افسوس کی بات ہے کہ امام الزمان کو مان کر بھی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعووں پر ایمان لانے کے بعد بھی، اُن شرائط بیعت کو ماننے کے بعد بھی کہ حقوق العباد کی ادائیگی کریں گے پھر ہم اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہوں.تو جہاں یہ نفرتیں، کینے بڑائیاں بعض لوگوں کو جو اس قسم کے معاملات میں ملوث ہوتے ہیں جماعت سے علیحدہ کرتے ہیں، وہاں یہ سزا دینے کی وجہ سے خلیفہ وقت کے لئے بھی تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ سب سے بڑھ کر اپنے خدا کی ناراضگی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.تو خدا تو السلام ہے وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن اپنی حرکتوں کی وجہ سے بندہ پھر اس کی ناراضگی کا مورد بن رہا ہوتا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 196 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء پس اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بندہ خود ہے جو اپنی ذات پر اس قسم کی حرکتیں کر کے ظلم کر رہا ہوتا ہے.پھر امام غزالی اللہ تعالیٰ کے اَلسَّلَام ہونے کی بابت فرماتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی ذات ہر عیب سے اور جس کی صفات ہر نقص سے اور جس کے کام ہر قسم کے شر سے محفوظ اور پاک ہوں ، یعنی اس کے کام میں صرف شریعنی دیکھ اور تکلیف ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر اس تکلیف سے کہیں بڑھ کر خیر اور بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ تو یوں سلامتی بکھیر تا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.انسان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت السلام سے فیض پاسکیں سلامتی پھیلانے سے صرف شر اور دکھ سے ہی نہیں بچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن رہا ہوتا ہے.اس خیر اور بھلائی سے بھی حصہ لے رہا ہوتا ہے جو السلام خدا بندے کے نیک اعمال اور سلامتی پھیلانے کی وجہ سے اسے دے رہا ہوتا ہے.امام راغب نے اس بارے میں مزید وضاحت فرمائی ہے، یہ لکھتے ہیں کہ السَّلام اور السَّلامة ان معنوں میں ہے کہ وہ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی عیوب ونقائص سے خالی ہے اور جب اللہ کی نسبت السلام کہیں گے تو مراد یہ ہوگا کہ اس میں انسانوں والے عیوب ونقائص نہیں ہوتے.پھر لکھتے ہیں کہ عبدالسلام یعنی خدائے سلام کا بندہ وہ ہے جو السلام کا مظہر ہو، خدائے السلام اس کو ہر نقص ، آفت اور عیب سے محفوظ رکھتا ہے.جب بندہ اس السلام خدا کا مظہر بننے کی کوشش کرتا ہے ، سلامتی پھیلاتا ہے، معاشرے میں محبت امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرتا ہے تو پھر کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہر نقص آفت اور عیب سے محفوظ رکھتا ہے.، پس ہر بندہ جس کا دل ملونی ، کینہ، حسد اور بد ارادے سے پاک ہو اور جس کے اعضاء گناہوں کے ارتکاب اور ان امور کے ارتکاب سے جن سے خدا نے روکا ہے، بچے ہوئے ہوں اور جس کے اخلاق ایسے ہوں کہ اس کی عقل ، خواہشات اور غضب کی اسیر نہ ہو.عقل اپنی خواہشات کی غلام نہ بن جائے کہ غصے میں آ کر ہر چیز بھول نہ جائے.ایسے لوگ نہ ہوں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے.جنہیں عیش میں یا دخدا نہ رہی جنہیں طیش میں خوف خدا نہ رہا اور کوئی شخص صفت سلام اور السّلام سے اس وقت تک متصف نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ نہ ہوں.اور السّلام صفت کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ تکالیف اور مصائب کو دور کرتی ہے.جس طرح حدیث میں آیا ہے.آنحضرت ﷺ ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھایا رسول اللہ ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی میں رہیں.ایک جگہ فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامتی میں رے رہے.(بخاری کتاب الايمان باب اى الاسلام افضل؟ حدیث نمبر 11)
خطبات مسرور جلد پنجم 197 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء پس آپس کے تعلقات، ایک دوسرے سے محبت کے سلوک کے حقوق کا خیال رکھنا ، یہ کوئی معمولی چیزیں نہیں ہیں ، ان کی بڑی اہمیت ہے.اگر اس سلام خدا کی طرف منسوب ہونا ہے تو پھر ہم میں سے ہر ایک کو سلامتی کا پیامبر بننا ہوگا ، سلامتی کو پھیلانے والا بننا ہو گا، اپنے معاشرے میں سلامتی بکھیر نے والا بننا ہوگا.ورنہ جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے نام کا اسلام ہوگا اور یہ ایمان کی کمزور حالت ہے، یہ کمزور درجہ کا ایمان ہوگا.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ یہی نہیں کہ صرف مسلمان تمہارے سے محفوظ رہیں بلکہ ایک بچے اور پکے مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام انسانیت کی سلامتی کی ضمانت ہو.سہل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص سلامتی والا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں.(مسند احمد بن حنبل، مسند معاذ بن انس، جلد 5 صفحه 377 حدیث 15729 مطبوعه بيروت 1998ء) جب ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو صرف اپنے مسلمان بھائیوں سے نہیں، تمام بنی نوع انسان سے محبت اور پیار اور سلامتی کا تعلق ہو جاتا ہے اور یہی سلامتی کا تعلق ہے جو پھر یہ نیک پیغام دوسروں تک پہنچا تا ہے اور یہی سلامتی کا تعلق ہے جو پھر دوسروں کو آپ کے ارد گرد لے کر آتا ہے.اور پھر یہی سلامتی کا پیغام ہے جس سے تبلیغ کے میدان کھلتے ہیں.اور یہی سلامتی کا پیغام ہے جس سے پھر لوگوں کو آپ کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور صحیح دین کو پہچان کر اس میں شامل ہو جاتے ہیں.یہ سلامتی کا پیغام جب اختیار کریں گے اور پھیلائیں گے تو تبھی اللہ تعالیٰ کے صحیح پر تو بن سکیں گے.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ حقیقی سلام صرف جنت میں ہی ہے کیونکہ وہاں ایسی بقا ملے گی جو فنا سے پاک ہے اور ایسی تو نگری ملے گی جو ہر قسم کے فقر سے مبرا ہے اور ایسی عزت نصیب ہوگی جس کے ساتھ کوئی ذلت نہیں اور ایسی صحت عطا ہوگی جس کے بعد کوئی بیماری نہیں.یہی مضمون اس آیت کریمہ میں ہے لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبِّهِمْ.اور یہ آیت اس طرح ہے کہ لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: 128) کہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس امن کا گھر ہے اور وہ ان نیک کاموں کے سبب سے جو وہ کیا کرتے تھے ان کا ولی ہو گیا ہے.پس جیسا کہ سلام بھی خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے تو یہ جو لفظ دار السلام استعمال کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے قرب کی جگہ، یعنی جنت.پس ہر تقویٰ پر قدم مارنے والے مومن کے لئے جو سلامتی بکھیر نے والا ہے اور معاشرے میں سلامتی اور امن کا علمبردار ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ولی ہو گا.اپنے قرب میں جگہ دے گا کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والے کو اپنے وعدوں کے مطابق اپنے قرب میں جگہ نہ دے.پھر فرمایا يَهْدِى بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَام وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ
خطبات مسرور جلد پنجم 198 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (المائدة : 17) کہ اللہ اس کے ذریعہ سے انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جو بھی اس تعلیم کے ذریعہ سے جو آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی، اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، اسے سلامتی کی راہوں پر اللہ تعالیٰ ہدایت دے گا.جس سے وہ اس دنیا میں بھی سلامتی بکھیر نے والا بن جائے گا اور اس کا ہر عمل اور ہر فعل اس طرح سے ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو گا.روشنی اس کا مقدر ہو جائے گی اور اندھیرے اس سے دُور ہو جائیں گے.پس یہ سُبُلَ السَّلام یعنی سلامتی کے راستے یقیناً وہ راستے ہیں جو خدا کی طرف لے جانے والے ہیں اور یہ اُسی وقت حاصل ہوں گے جب قرآن کریم کی تعلیم ایک مومن گلی طور پر اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر صراط مستقیم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب اس کو حاصل ہوتا ہے جس کے حصول کے لئے ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے اور وہ کرتا ہے اور یہی ذریعہ ہے جس ذریعہ سے پھر انسان دونوں جہان کے فیض پاسکتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ (يس: 59) اس لام کہا جائے گا رب رحیم کی طرف سے فرما یا سَلَمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ :(الرعد: (25) پس تمہارے لئے سلامتی ہو کیونکہ تم ثابت قدم رہے.پس دیکھو تمہارے لئے اس گھر کا کیا ہی اچھا انجام ہے.پس یہ ثابت قدمی بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان میں اور ان احکامات کی پابندی میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومن کو دیئے ہیں جن کے ذریعہ سے حقوق اللہ بھی ادا ہوتے ہیں اور حقوق العباد بھی ادا ہوتے ہیں.ایک مومن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے گھر کی خوشخبری دی ہے جو ہمیشہ رہنے والا گھر ہے.پس یہ جو مختلف جگہوں پر بار بار السّلام خدا کا پیغام ہے، بے شمار جگہوں پر سلام کا جو لفظ استعمال ہوا ہے یہ ہمیں اس بات کی اہمیت کو سمجھنے والا بنا چاہئے.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیم کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” سلام تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو“.فرمایا ”خدا تعالیٰ کا سلام وہ ہے جس نے ابراہیم کو آگ سے سلامت رکھا.جس کو خدا کی طرف سے سلام نہ ہو بندے اس پر ہزار سلام کریں، اس کے واسطے کسی کام نہیں آسکتے“.ملفوظات جلد 5 صفحه 244 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں“.تذكرة الشهادتين روحانی خزائن جلد (20 صفحه 63 پس جب یہ حالت ہوگی جس کی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اس زمانے کے امام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور جس کی وہ ہم سے توقع رکھتے ہیں تو پھر ہم خدا تعالیٰ کی سلامتی کے نیچے ہوں گے اور دنیا کی لعنتیں یا منصوبے ہمارا کچھ بھی
خطبات مسرور جلد پنجم 199 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء نہیں بگاڑ سکتے لیکن اگر خدا کی سلامتی کے نیچے ہم نہیں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا کے ہزار سلام بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 244) پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے وارث اُس وقت بنیں گے جب ہم اس تعلیم کے مطابق صفت سلام کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے نیچے آنے کی کوشش کریں گے.ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں امام بھیجا اور پھر یہ تو فیق دی کہ اس امام کو مانیں ، اس مسیح و مہدی کو مانیں جس کو سلام پہنچانے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور جس کو سلام کہتے ہوئے اپنے پیارے ہونے کا مرتبہ و مقام اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے.یعنی خود اللہ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے.جیسا کہ ایک الہام میں آپ کو فرمایا سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنْ آمِيْنٌ ذُو عَقْلٍ مَتِيْنِ ، تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم ! تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانتدار اور قوی العقل ہے.تذکره صفحه 82 ایڈیشن چهارم مطبوعه (ربوه پس ان تمام فیوض سے فیضیاب ہونے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے اور اس سلام سے حصہ لینے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا، ہدایت کے اس سرچشمے کی ہر ہدایت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتارا اور جس کے عشق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ابراہیم کے نام سے پکار کر سلام بھیجا تا کہ وہ تمام آگیں بھی اللہ تعالیٰ ٹھنڈی کر دے جو مخالفین نے آپ کے خلاف بھڑکائی تھیں.جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف مخالفین نے آگ جلائی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپ کو فرمایا ہے وَنَظَرْنَا إِلَيْكَ وَقُلْنَا يَا نَارُ كُونِى بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ اور ہم نے تیری طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ جو فتنے کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا.تذکره صفحه 39-40 ایڈیشن چهارم مطبوعه ربوه) تاریخ شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آپ کی زندگی میں جو بھی آگ بھڑکائی گئی وہ نہ صرف ٹھنڈی ہوئی بلکہ آپ کے لئے سلامتی کا پیغام لائی.سلامتی کا مطلب جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ خیر اور بھلائی لانا ہے.تو اس زمانے میں بھی مخالفت کی جو آگ دنیا کے کسی بھی خطے میں جماعت کے خلاف بھڑکائی گئی یا بھڑ کائی جا رہی ہے وہ ضرور ٹھنڈی ہوگی انشاء اللہ.کیونکہ وہ کسی فرد کے خلاف نہیں بھڑکائی جا رہی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھڑ کائی جارہی ہے.آپ کے ماننے والوں کے خلاف اس لئے بھڑکائی جا رہی ہے کہ انہوں نے اس زمانے کے امام کو قبول کیا.پس اس مخالفت کی وجہ سے اگر ان چھوٹی موٹی تکالیف میں جو آجکل بعض لوگوں کو بعض جگہوں پر برداشت کرنی پڑتی ہیں ہم مبتلا کئے جارہے ہیں تو یہ بھی ایک امتحان ہے جس پر پورا اترنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.چاہے وہ سری لنکا میں ہو، بنگلہ دیش میں ہو یا پاکستان میں ہو ، اس آگ نے یقینا ٹھنڈا ہونا
خطبات مسرور جلد پنجم 200 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء ہے انشاءاللہ.نہ صرف یہ ٹھنڈی ہوگی بلکہ سلامتی بھی لے کر آئے گی اور یہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے.اللہ تعالیٰ سے ہمیں ہمیشہ سلامتی مانگتے رہنا چاہئے.اس ضمن میں سری لنکا کی یہ خبر میں آپ کو بتادوں.ابھی جب میں جمعہ پر آرہا تھا تو فون پر یہ اطلاع ملی کہ وہاں کافی عرصہ سے مخالفین شدید مخالفت کر رہے تھے اور مخالفت کی ایک انتہا کی ہوئی تھی.وہاں پر مسلمانوں کی آبادی تقریباً 13 فیصد ہے لیکن کیونکہ زور زیادہ ہے، شیطان کا زور زیادہ چلتا ہے نا.مسلمان تو نہیں ، نام کے مسلمان ہیں.آنحضرت ﷺ کے نام کو بدنام کرنے والے لوگ ہیں.مولویوں کے پیچھے چل کے اس ملک میں جتنی مساجد ہیں.وہاں 2 ہزار 300 کے قریب مساجد ہیں ) وہاں تمام مسجدوں میں جماعت کے خلاف خطبہ دیا گیا اور ایک آگ بھڑ کائی گئی ، لوگوں کو بھڑ کا یا گیا.تو صبح اطلاع تھی کہ ہماری نگومبو (Nigombo) کی جو مسجد ہے وہاں 500 کے قریب لوگوں نے حملہ کیا اور 60 کے قریب جو وہاں اندر نمازی تھے ان کو یر غمال بنایا ہوا تھا.بہر حال ابھی دوبارہ اطلاع آئی ہے کہ پولیس نے کچھ ہمت کر کے ( پہلے تو پولیس کے قابو نہیں آرہے تھے ) ان کو باہر نکال دیا ہے اور اب احمدی اس وقت مسجد میں جارہے ہیں.لیکن وہاں کے احمدیوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ جو آگ بھڑکائی جارہی ہے یہ ان لوگوں کی طرف سے بھڑکائی جا رہی ہے جو اُس نبی کی طرف منسوب ہونے والے ہیں جنہوں نے سلامتی کا پیغام دیا اور یہ بجائے اسلام کی خدمت کے اسلام کو بدنام کرنے والے لوگ ہیں.اللہ نے فضل کیا ہے، مسجد تو خالی ہوگئی.آپ لوگ آئندہ بھی ثابت قدم رہیں، پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ اس امتحان سے آپ لوگوں کو کامیاب کر کے نکالے.ان لوگوں کے اس عمل کو دیکھ کر اور جب دنیا یہ شور مچاتی ہے کہ یہ تعلیم ہے جس پر مسلمان عمل کر رہے ہیں تو شرم آتی ہے.اس نبی کی طرف منسوب ہوتے ہوئے ، جیسا کہ میں نے کہا، جس نے ہمیشہ سلامتی کی تعلیم دی، پیارا اور محبت اور امن کا پیغام ہر جگہ پہنچایا اور ہمیشہ یہ تلقین کرتے رہے کہ پیار اور محبت سے رہو.ان کی طرف منسوب ہو کر یہ لوگ نہایت ظالمانہ قسم کے عمل کر رہے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کی بجائے یہ لوگ حقوق العباد کو دبانے والے ، اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم کرنے والے اور حقوق العباد غصب کرنے والے ہیں.ان کے خیال میں یہ احمدیت کو اس طرح ختم کر دیں گے؟ یہ ان لوگوں کو زعم ہے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا یہ زعم کبھی پورا نہیں ہونے دے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.ان کے خیال میں یہ کسی انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے یا کسی بندے کا لگایا ہوا پودا ہے.جماعت احمد یہ تو اللہ تعالی کا لگایا ہوا پودا ہے، اور جس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تیری ساری مرادیں پوری کرے گا اس کو یہ لوگ کس طرح ختم کر سکتے ہیں.ہمیشہ کی طرح نامرادر ہیں گے اور اپنی آگ میں جلتے رہیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ آگ جلد سری لنکا کے احمدیوں پر ٹھنڈی ہو جائے گی جو ان کے خلاف بھڑکائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے اور ایمانوں کو مضبوط کرے.ان کو میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تا کہ اس کے فضلوں کو جلد سے جلد سمیٹنے
خطبات مسرور جلد پنجم 201 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء والے ہوں اور دنیا کی جماعتوں کے احمدی بھی ان لوگوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس امتحان اور ابتلا سے جلد سے جلد نکالے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جو ایک وعدہ ہے اور ہر احمدی کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ صَافَيْنَاهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِ.تَفَرَّدْنَا بِذلِكَ فَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى که ابراہیم پر سلام ہو.ہم نے اس کو خالص کیا اور رغم سے نجات دی.ہم نے ہی یہ کام کیا سوتم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو.(تذکره صفحه 85 ایڈیشن چهارم مطبوعه ربوه) پس دعائیں کرنا اور اللہ تعالیٰ کو پہچانا اور وحدانیت کا صحیح فہم و ادراک حاصل کرنا.یہ ہے جو اس زمانے کے ابراہیم کے نقش قدم پر چلنے والوں کو بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر فرمایا کہ اے ابراہیم ! تجھ پر سلام ، ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.پس جس کو اللہ تعالیٰ نے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا ہے اس کی طرف منسوب ہونے والوں کو کیسا ہونا چاہئے.یقیناً ان راہوں پہ چلنے والا جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں، جو اس کی وحدانیت کو قائم کرنے والی راہیں ہیں، جو اس واحد خدا کے آگے جھکنے والی راہیں ہیں اور جن پر چل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے وہ اعزاز پایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا ہے اور فرمایا.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا.یعنی جب بھی ضرورت پڑی تیرے سب کام درست کرتا چلا جائے گا اور اب بھی جن میں روک ہے وہ بھی انشاء اللہ درست ہو جائیں گے اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ خود اتر کر آتا ہے اور اپنے فضل سے، نہ کہ ہماری کسی کوششوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوستی کا حق ادا کرتا ہے.ہر کام سنوارتا ہے اور سنوارتا چلا جاتا ہے بلکہ اس طور سے ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی بارش ہورہی ہے کہ حیرت ہوتی ہے.گزشتہ دنوں ایم ٹی اے کے سٹاف نے اور عربوں نے مل کر Mta العربیہ کے اجراء پر ایک فنکشن کیا تھا.تو وہاں بھی میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو وہ ہمیشہ سے حسب ضرورت پورا کرتا چلا جا رہا ہے اور آج بھی پورا کر رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ کرتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی دلائی ہے کہ میں دوستوں کا دوست ہوں کبھی تجھے چھوڑوں گا نہیں.ایک نیک شخص جو دوستی کا حق ادا کرنے والا ہو، جو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے وہ بھی اپنے دوست اور دوستی کا حق ادا کرتا ہے اور نہیں چھوڑتا، وقت پر کام آتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو سب سے زیادہ وفا کرنے والا ہے وہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اعلان کرے کہ میں نے خالص دوستی کے ساتھ تجھے چن لیا اور پھر وہ دوستی کا حق ادا نہ کرے.
خطبات مسرور جلد پنجم 202 خطبہ جمعہ 11 مئی 2007 ء پس ہم جو اس امام کی طرف منسوب ہوتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے دوستی کا اعلان فرمایا ہمیں انفرادی طور پر بھی اس سے فیض پانے کے لئے ان تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جن کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی اور قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اس کا ذکر ہے.مثلاً فرمایا وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا (الفرقان ( 64 ) که رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواب میں کہتے ہیں سلام.تو یہ مومن کی نشانی ہے اور یہ اس رحمن خدا کے ماننے والے کی نشانی ہے ، یہ اس کے پیاروں کی طرف منسوب ہونے والوں کی نشانی ہے جس کی معراج آنحضرت ﷺ کی ذات تھی کہ انتہائی عاجزی اور فروتنی کے ساتھ زندگی گزاری.غریب کے ساتھ بھی عزت سے پیش آئے ، بات کی تو ہمیشہ عزت واحترام سے کی ، جاہل کے ساتھ ( جو جاہل بدو تھے ) جو ناز یبا کلمات بھی بعض اوقات منہ سے نکال دیتے تھے ، ان کے ساتھ بھی نہایت پیار سے اور عاجزی سے اور سلامتی بھیجتے ہوئے اپنے نمونے دکھائے اور اس عاجزی کا عظیم نمونہ اس وقت قائم کیا جب فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہو رہے تھے لیکن اس پر بھی آپ کا سر عاجزی سے جھکتا چلا جارہا تھا.اونٹ کے کجاوے کے ساتھ لگتا چلا جارہا تھا اور پھر وہاں جا کے بھی سلامتی بکھیری کہ کوئی ظلم نہیں کرنا کسی کو تل نہیں کرنا لڑائی نہیں کرنی ہوائے اس کے کہ جو تلوار اٹھاتا ہے وہ بھی مجبوری سے.تو ہمیں بھی اسی اُسوہ پر چلنا ہوگا تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پیار کی نظر ہم پر پڑے گی اور پھر پڑتی چلی جائے گی.پھر اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عاشق صادق نے کیا عاجزی کے نمونے دکھائے ، اس عاجزی کے کیا معیار قائم کئے.لغو مجالس سے ہمیشہ بچتے رہے اور عاجزی کی انتہا کی وجہ سے ہی اور صرف امن قائم کرنے کے لئے نہ کہ اپنی انا کو قائم کرنے کے لئے بعض ایسے موقعے پیش آئے جہاں ظاہر اسکی کا بھی خیال تھا لیکن آپ نے عاجزی دکھاتے ہوئے اس کو بھی برداشت کیا اور اسی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الهاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آ ئیں.تذکره صفحه 595 ایڈیشن چهارم مطبوعه ربوه پس ہم جو اللہ کے ان پیاروں کو ماننے والے اور ان کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے اور لغویات سے بچنے ، جھگڑوں اور فضول مجلسوں سے پہلو بچانے والے ہوں گے تو تبھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی سلامتی کے وارث بن سکیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ یکم تا 7 جون 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 203 (20) خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء (فرموده مورخہ 18 مئی 2007ء 18 ہجرت 1386 ہجری منشی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ہزار ہزار شکر اس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدا دانی اور خداترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے.یعنی خدا کو پہچاننے ، جاننے اور خدا سے ڈرنے یا تقویٰ اختیار کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانے میں نہیں پائی گئی.اور ہزار ہادرود اس نبی معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے.اور ہزار ہا رحمتیں نبی کریم کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اس باغ کی آبپاشی کی.اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نماند ہب ہے کہ اگر کوئی شخص بچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کار بند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا“.براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه 25 پس خدا انما مذہب سے فیض اٹھانے کے لئے بچے طور پر اُس کی پابندی اختیار کرنی ہوگی اور کچی پابندی کس طرح اختیار کی جاسکتی ہے؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ان ہدایتوں اور وصیتوں اور تعلیموں پر کار بند ہونا ہو گا.ان پر مکمل عمل کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں بتائی ہیں.اور یہ ہدا یتیں ، یہ احکامات جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے ، ایک جگہ فرمایا پانچ سو اور ایک جگہ فرمایا سات سو ہیں ، جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں.اگر مزید جزئیات میں جائیں تو شاید اس سے بھی زیادہ ہو جا ئیں گی.تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس عظیم مذہب کا نام جو اسلام رکھا ہے تو اس لئے کہ اس میں ہر حکم جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دیا ہے، اس کا آخری نتیجہ امن، محبت، پیار اور بھائی چارے کا قیام ، تمام برائیوں کو چھوڑنا اور انتہائی کوشش سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے.اور یہی چیزیں ہیں جو خدا تعالیٰ کا دیدار کرواتی ہیں.اس خدا کا اپنا نام بھی السلام ہے، جو ہمارا خدا ہے، جو ہر مومن سے اُن نیک اعمال کی وجہ سے اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد کی اخروی زندگی میں بھی سلامتی کا وعدہ کرتا ہے.پس اگر غور کریں تو مسلمان ہونے کے بعد ایک عظیم ذمہ داری کا احساس ابھرتا ہے، اور ابھرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نام سے موسوم کر رہا ہے جو اس کا اپنا نام ہے اور یہ چیز یقیناً اس طرف توجہ دلاتی ہے اور دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے بعد صرف منہ سے یہ کہنے
خطبات مسرور جلد پنجم 204 خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء پر اکتفا نہ کریں کہ الحمد للہ میں مسلمان ہوں، بلکہ اس رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں تبھی اسلام کے فیض سے اور صفت السّلام کے فیض سے فیضیاب ہو سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں.اور اصطلاحی معنی اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بلی مَنُ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: 113) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالص اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجالا وے، مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 57-58) قرآن کریم میں سلامتی کے حوالے سے مختلف نصائح بھی ہیں اور نیک اعمال کرنے والوں کے لئے سلامتی کا ذکر بھی آیا ہے.وہ کس طرح ہے؟ سورۃ القصص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغَوَ اَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَمٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الجهِلِينَ.(القصص : 56) یعنی اور جب وہ کسی لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں تم پر سلام ہو ، ہم جاہلوں کی طرف رغبت نہیں رکھتے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کی پیروی کرنے کے لئے ، خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جو وقف کر دے گا، تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یہ ہے کہ لغویات کا جواب لغویات سے نہیں دینا.احمدی سلامتی پھیلانے والا ہے اس لئے ان چیزوں سے بچو.بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ جو ہے کہ تم پر 66 سلام ہو سلمٌ عَلَيْكُمُ “ یہ اس قماش کے لوگوں کو جو فساد پھیلانے والے ہیں اُن کو دعا دینے کے معنوں میں نہیں آتا بلکہ بچنے کے معنوں میں ہے اور بچنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے کہ ہم تمہارے جیسے گندے اعمال نہیں کر سکتے ، ہم تو اس سے بچتے ہیں.گالیاں دیتے ہو، قانون توڑتے ہو تو یہ تمہارا انعل ہے.ہمیں تو حکم ہے کہ اس فساد سے بچیں.اس لئے احمدی نہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا اور اس طرح قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر کبھی جواب نہیں دیتا اور یہ بات اس حکم کے تحت ہے کہ لغویات سے بچو.اُن کو کہو کہ تم جو حرکتیں اللہ اور رسول کے نام پر کر رہے ہو ان سے ہم اس
خطبات مسرور جلد پنجم 205 خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء لئے بچتے ہیں کہ یہ اللہ اور رسول کا حکم نہیں ہے.ہم کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں بچتے.اس لئے نہیں کہ ہم اس کا جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس لئے کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر تمہارے جیسی حرکات کر کے ہم بھی بدامنی پھیلانے والے نہیں بن سکتے.ان لوگوں میں شامل نہیں ہو سکتے جو تمہاری تماش کے لوگ ہیں اور ان لغویات میں ملوث ہونا نہیں چاہتے جن میں تم ہو.تم جاہل ہو اس لئے کہ تم نے باوجود آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے کے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا.جب ہم نے اس امام کو مانا ہے اور قرآن کریم کے حکم کے تحت زمانے کے امام نے جو ہمیں توجہ دلائی ہے تو ہم اب اس پر عمل کرنے والے ہیں.آج کل سری لنکا میں بھی بڑی شدت سے احمدیت کی جو مخالفت ہو رہی ہے.اور فسادیوں کا جو ایک گروہ مُلاں کے پیچھے چل کرحرکتیں کر رہا ہے یہ تمہارے زعم میں تو اسلام کی خدمت ہو سکتی ہے لیکن یہ تمہارا صرف زعم ہے ، حقیقت میں یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی لعنت سہیڑ رہے ہو.کلمہ گوؤں کو کافر کہنا، تکلیفیں پہنچانا ، توڑ پھوڑ کرنا تمہیں خود اللہ تعالیٰ کی سلامتی سے باہر کر رہا ہے.ہم احمدی تو ہر اُس شخص کے لئے اسلام کے پھیلانے والے ہیں ، جو سلامتی کے حصول کی چاہت رکھتا ہے اور تمہارے جیسے قانون شکنوں اور بدی پھیلانے والوں سے بچنے والا ہے.ہم اس کے ساتھ ہیں اور تم جیسے لوگوں سے ہم اعراض کرنے والے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اللہ تعالیٰ نے اُسے زمین میں رکھا ہے پس تم اسے اپنے درمیان پھیلاؤ.اگر ایک مسلمان شخص ایک قوم کے پاس سے گزرے تو وہ ان پر سلام بھیجے.اگر ان لوگوں نے جواب دیا تو اس شخص کو ایک درجہ زیادہ فضیلت ملے گی کیونکہ اس نے ان کو سلام کرنایا د دلایا.اگر انہوں نے اس کا جواب نہ دیا تو اس کا جواب وہ وجود دے گا جوان سے بہتر ہے.(الترغيب والترهيب جز 3.الترغيب فى افشاء السلام وما جاء في فضله.حديث نمبر 3988 صفحه (373-374) پس کسی بھی طبقے کا، کسی بھی شخص کا ہمارے سلام کا جواب نہ دینا اور آگے لغو اور فضولیات بکنا ہمیں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی طرف سے بھی ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سلامتی پہنچانے والا ہے.جس کو اللہ تعالیٰ خود سلام پہنچوا رہا ہو تو قبول بھی فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح سلام بھیجواتا ہے.قرآن کی سورۃ الرعد میں آتا ہے که جَنْتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ.سَلَمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ.(الرعد: 24-25) یعنی دوام کی جنتیں ہیں ، ان میں وہ داخل ہوں گے.ایسی ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو ان کے آباؤ اجداد، ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے اصلاح پذیر ہوئے اور فرشتے اُن پر ہر دروازے سے داخل ہورہے ہوں گے.سلام ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر کیا.پس کیا ہی اچھا ہے گھر کا انجام.پس فرشتوں کا ہر دروازے سے داخل ہو کر سلام بھیجنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مومنوں کا صبر اللہ تعالیٰ کی
خطبات مسرور جلد پنجم 206 خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء نگاہ میں قبول ہوا.اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کیا تھا اس لئے قبول ہوا اور اس صبر کی وجہ سے ان کی دوسری نیکیاں بھی اُجاگر ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے تمام دروازے کھول دیئے.پس جو صبر کسی غیر اللہ کے خوف اور ڈر کی وجہ سے نہ ہو؟ جو خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہو وہ اللہ کی جناب میں قبول کیا جاتا ہے اور بندے کو اس کا اجر ملتا ہے.اور یہ سلام جو اللہ کے بندوں کو پہنچایا جارہا ہے یہ ہمیشہ کی سلامتی کا پیغام ہے اور جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اللہ کی راہ میں اپنا وجو د سونپ دینے کی وجہ سے ہے.پس اگر مخالفین احمدیت کو یہ زعم ہے کہ ڈرا دھمکا کر کسی احمدی کو اس کے دین سے برگشتہ کر سکتے ہیں ، اس کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے.چاہے وہ سری لنکا کے گورنر علوی صاحب ہوں یا پاکستان کے مُلاں ہوں یا بنگلہ دیش کے نام نہاد علماء ہوں جن کا دین صرف فساد اور فساد ہے نہ کہ رحمت اور سلامتی.یا انڈونیشیا کے شدت پسند ہوں جنہوں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو، اُن مسلمانوں کو جو اللہ تعالیٰ کے احکامات بجالانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، تکلیفوں میں مبتلا کیا ہوا ہے.ہم انشاء اللہ تعالیٰ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے، نہ احمدی کبھی قانون ہاتھ میں لیتا ہے لیکن جہاں احمدی کو یہ خوشخبری ہے کہ اگلے جہان میں اس کو صبر کی جزا ملے گی، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سلامتی کے فیض پہنچا تا رہے گا ، اور پہنچا رہا ہے اور احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قرآنی احکامات کے تابع نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں ان جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ہر آن مومنوں پر سلامتی فرماتا رہے گا.فرماتا ہے وَادْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ خَلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمُ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَمٌ.(ابراهیم: 24) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ایسے باغات میں داخل کئے جائیں گے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ اپنے رب کے حکم کے ساتھ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں.ان کا تحفہ ان جنتوں میں سلام ہوگا.یہ نیک اعمال کیا ہیں جن کی وجہ سے ہمیں جنتیں ملیں گی اور اس کے بعد ہمیں سلامتی کا تحفہ ملے گا.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بندے کو پیدا کیا ہے.اس کے دین کی سر بلندی کے لئے کوشش ہے.دین کی خاطر مالی اور جانی قربانی کرنے کی کوشش ہے.اس کے دین کو پھیلانے کے لئے تبلیغ میں حصہ لیتا ہے.دعوت الی اللہ کرنا ہے.دنیا کو خدائے واحد کی حقیقی تصویر دکھانا ہے.نیکیوں کی تلقین کرنا ہے جس میں بہت سارے حقوق العباد آ جاتے ہیں جس کے بارے میں فرمایا کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران : 111) یعنی مومن نیکی کی ہدایت کرنے والے ہیں اور برائی سے روکنے والے ہیں.پس جہاں ایک مومن کو اپنے میں سے برائیاں ختم کرنے والا اور نیکیاں اختیار کرنے والا ہونا ہے وہاں ایک مومن سلامتی کے پیغام کو
خطبات مسرور جلد پنجم 207 خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء دوسرے تک پہنچانے والا بھی ہے.اور اس زمانے میں یہ فیض صرف احمدی کو حاصل ہے، صرف احمدی اس فیض سے فائدہ اٹھارہا ہے.یہ اعزاز صرف احمدی کو حاصل ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے کہ اسلام کے محبت و پیار کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے.پھر نیک اعمال بجالانے میں سب سے اہم کام رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے جس سے سلامتی کا پیغام ہر طرف پھیلے گا.ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ہے.اس طرف توجہ ہوگی تو معاشرے میں امن قائم ہوگا.یہ حقوق کی ادا ئیگی جس طرح اپنے بھائی کے لئے ہے اسی طرح غیر کے لئے بھی ہے.پھر نیک اعمال میں غرباء کی دیکھ بھال ہے.یہ بھی ایک ایسا کام ہے جس سے ہر طرف سلامتی کا پیغام پہنچتا ہے.پھر نیک اعمال میں امانت کا حق ادا کرنا ہے.اپنے وعدوں کا پورا کرنا ہے اور یہ ایک ایسا کام ہے جو معاشرے میں سلامتی بکھیر نے والا ہے.ان باتوں کے قرآن شریف میں ذکر آئے ہوئے ہیں.آج معاشرے کے اکثر فساد اس لئے ہیں کہ امانت کی ادائیگی صحیح طرح نہیں کی جاتی اور عہدوں کا پاس نہیں کیا جاتا.صرف اپنے حقوق کا خیال نہیں ہونا چاہئے بلکہ دوسروں کے حقوق کا خیال بھی ہونا چاہئے.جب یہ صورتحال پیدا ہوگی تو امن اور سلامتی معاشرے میں قائم ہوگی.پھر یہ ہے کہ صرف حقوق کا خیال نہیں کرنا بلکہ دوسرے کا حق نہ ہونے کے باوجود احسان کرتے ہوئے، قربانی کر کے دوسرے کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا اور پھر یقیناً معاشرے میں امن اور سلامتی اور پیار پھیلانا ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی مدد کے وقت اسے اکیلا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اور جس نے کسی مسلمان سے اس کی تکلیف دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی تکالیف میں سے تکلیف دور کر دے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے روز پردہ پوشی فرمائے گا.(بخارى كتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه حديث نمبر (2442 پھر نیک اعمال میں سے حسن ظن ہے.اکثر جھگڑے معاشرے میں بدظنیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں.معاشرے کا امن غارت ہورہا ہوتا ہے اس لئے کہ کسی بات کے خود ساختہ غیر حقیقی نتائج نکال لئے جاتے ہیں اور پھر اس پر فساد شروع ہو جاتا ہے.کئی معاملے آتے ہیں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ دو بھائیوں میں اس وجہ سے تعلقات خراب ہو گئے کہ ایک کو یہ شک پڑ گیا کہ یہ میرا مال کھا گیا ہے.دوسرے ملک میں ہونے کی وجہ سے یا بعض وجوہات کی وجہ سے کسی مشتر کہ جائیداد میں جو فروخت نہیں ہوئی، یہ شک ہو گیا کہ وہ فروخت کر کے کھا گیا ہے اور دوسرا بھائی چاہے لاکھ کہے کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے، ابھی تو جائیداد اسی طرح پڑی ہے، فروخت نہیں ہوئی لیکن کیونکہ بانی نے دل میں جگہ لے لی ہے اس لئے ماننے کا سوال ہی نہیں ہوتا تو یہ بدظنی پھر بھائی کو بھائی سے پھاڑتی ہے اور جہاں ایک دوسرے پر سلام کا تحفہ بھیجنے کا حکم ہے وہاں ناراضگیوں کے اور غلط قسم کی باتوں کے اور جذبات کو مجروح کرنے کے لئے تیر چلائے جاتے ہیں.تو ایک احمدی مسلمان کو اس سے بچنے کی انتہائی کوشش کرنی چاہئے اور حسن ظن رکھنا چاہئے.میاں بیوی کے
208 خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم جھگڑے ہوتے ہیں، اسی طرح معاشرے میں دوسرے جھگڑے ہوتے ہیں.ان میں بھی بعض تو حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو بدظنیوں کی پیداوار ہوتے ہیں اور گھروں کے امن وسکون کو برباد کر رہے ہوتے ہیں.پھر یہ بدظنی ہی ہے جس نے آج مسلمانوں کو زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے سے روکا ہوا ہے اور اسی وجہ سے اب جبکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو نہیں مانتے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والے ہوتے ہیں اور اس کے بد نتائج بھی سامنے آتے ہیں.اس کا اب یہ خمیازہ بھگت رہے ہیں.پھر نیک اعمال میں سے سچائی کا استعمال ہے اور ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یا درکھنا چاہئے کہ جھوٹ کی وجہ سے ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی بن جاتی ہے.پس السلام خدا سے فیض پانے کے لئے سچائی پر چلنا اور اس حد تک اس پر قائم ہونا ہے کہ جو چاہے حالات گزر جائیں، اپنا نقصان بھی ہو جائے تو بھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.پھر عفو ہے، معاف کرنا ، درگزر کرنا.ایسا عفو کہ جس سے امن اور محبت و پیار بڑھتا ہو.یہ بڑا ضروری ہے.ایک احمدی معاشرے میں اس بات کو رواج دینے کی بہت کوشش کرنی چاہیئے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ایسا عفو کہ جس سے امن و محبت اور پیار بڑھتا ہو.لیکن اگر ایک عادی مجرم کو عفو سے کام لیتے ہوئے درگزر کرتے چلے جائیں گے، معاف کرتے چلے جائیں گے تو وہ معاشرے کے امن وسکون کو برباد کرنے والا ہو گا.بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ غلطیاں کرتے ہیں اور کرتے جاتے ہیں.ان کی سفارشیں کرنے والے بھی بہت سارے ہوتے ہیں.احمدی کی سوچ اس سے بہت بالا ہونی چاہئے کیونکہ پھر جو عادی مجرم ہوں ان سے کسی کو سلامتی نہیں مل سکتی.ہاں تکلیفیں اور پریشانیاں ضرور ملیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ مخواہ ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے.پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الوقت بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے.پس خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ کے بخشنے کی عادت نہ ڈالو بلکہ دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے، آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں.پس جو امر محل موقع کے لحاظ سے ہو وہ کرو، جو اصلی تعلیم خدا تعالیٰ کی ہے وہی کرو.تو یہ ہے تعلیم جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنا ہے نہ کہ ایسے فیصلے کرنے ہیں جن سے معاشرے کا امن برباد ہوتا ہو.ایک مسلمان کا اصل کام یہ ہے کہ سلامتی پھیلانے والا ہو.اس لئے اگر سزا سے دوسروں کے لئے سلامتی ہے تو سزا ضروری ہے.لیکن یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کو سزا دیتے پھریں.کیونکہ بعض دفعہ اناؤں کی وجہ سے صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے پھر اپنے حقوق ہوتے ہیں تو اس لئے بھی صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے اور ختی کا رجحان ہوتا ہے تو ایسے موقعوں پر ہمیشہ جب بھی کوئی آپس میں معاملات ہوں ، بعض دفعہ کا روباری لوگوں کے معاملات آتے ہیں یا دوسرے ایسے معاملات آتے ہیں جن میں ایک دوسرے سے روزمرہ کی ڈیلنگ (Dealing) ہو رہی ہوتی ہے اور بعض لوگوں کو روزمرہ کی یہ عادت
خطبات مسرور جلد پنجم 209 خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء پڑ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں تو ایسے معاملات کو پھر نظام جماعت میں رکھنا چاہئے یا عدالت میں لے جانا چاہئے تاکہ معاشرے کی سلامتی قائم کرنے کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو سکے.پھر شکر کی عادت ہے.یہ نیک اعمال میں سے ایک عمل ہے.شکر سلامتی پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.اس ہو میں ایک تو بندوں کی شکر گزاری ہے.دوسرے خدا تعالیٰ کی شکر گزاری ہے.اور خدا کے بندوں کی شکر گزاری ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار بناتی ہے.پھر نیک اعمال میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہیں.عدل قائم کرنا ہے اور جس معاشرے میں عدل قائم ہے گا ، انصاف کے تقاضے پورے کئے جارہے ہوں گے تو پھر وہاں پر امن اور سلامتی کی فضا بھی ہوگی اور اسلام کی صحیح تصویر بھی کھینچی جارہی ہوگی.لیکن بدقسمتی سے آج بہت سے مسلمان ممالک میں انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں.آج کل پاکستان میں دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے نہ عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہے، نہ حکومت انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہے.اگر جج ہیں تو وہ اپنی اناؤں میں گرفتار ہیں.اپنے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.سیاسی جماعتیں ہیں تو وہ وکیلوں اور جوں کو اپنے پیچھے لگا کر اپنا تو سیدھا کر رہی ہیں، اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں.حکومت ہے تو انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے کی وجہ سے اس کے بس میں کچھ نہیں رہا.نتیجتا اثر کس پر پڑ رہا ہے؟ ایک عام شہری پر ، ایک غریب آدمی پر جو اپنی زندگی سے ہاتھ دھورہا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر نہ چلنے کا نتیجہ ہے کہ دوسرے تو دُور کی بات ہے اپنے ہی اس سلامتی سے بے فیض ہورہے ہیں جس کی مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے، جس کی طرف اُن کو جو اسلام سے منسوب ہونے والے ہیں توجہ دلائی گئی ہے.اور باوجود اس کے کہ یہ ایک بنیادی حکم ہے، لیکن مسلمان ہو کر اس سے فیض نہیں اٹھا ر ہے.تو ان لوگوں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ یہ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے.یہ اس زمانے کے امام کے انکار کی وجہ سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا کہ سلامتی کا پیغام دنیا میں پھیلائے.ایک شخص نے خدا کے نام پر دعویٰ کیا ہے کہ سچائی اور سلامتی اب میرے ساتھ ہے اور میرے ساتھ خدائے قادر کا وعدہ ہے اور زمانے کا امام یہ اعلان کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تمہارے ساتھ سلامتی ہے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ: مجھے میرے خدا نے مخاطب کر کے فرمایا ہے : الْاَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِى.قُلْ لِيَ الْأَرْضُ | وَالسَّمَاءُ قُلْ لِى سَلَامٌ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيتٍ مُقْتَدِرٍ.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ.يَأْتِي نَصْرُ اللَّهِ.إِنَّا سَتُنْذِرُ الْعَالَمَ كُلَّهُ إِنَّا سَتَنزِلُ أَنَا اللهُ لَا إِلهُ إِلَّا أَنَا.یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے.کہہ آسمان اور زمین میرے لئے ہے.کہہ میرے لئے سلامتی ہے.وہ سلامتی جو خدا قادر کے حضور میں سچائی کی نشست گاہ میں ہے.خدا اُن کے ساتھ ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں اور جن کا
خطبات مسرور جلد پنجم 210 خطبہ جمعہ 18 مئی 2007 ء اصول یہ ہے کہ خلق اللہ سے نیکی کرتے رہیں.خدا کی مدد آتی ہے.ہم تمام دنیا کو متنبہ کریں گے.ہم زمین پر اتریں گے.میں ہی کامل اور سچا خدا ہوں میرے سوا اور کوئی نہیں.(سراج منیر.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 83-84) تو یہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.آپ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بات منسوب کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہ ایک وعدہ کیا ہے، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالی کی تائیدات حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہر لحہ نظر آ رہی ہیں.جماعت کی ترقی ہمیں ہر آن نظر آرہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمارے ساتھ ہیں.اگر بعض جگہوں پر احمدی معمولی ابتلاء میں مبتلا کئے جارہے ہیں تو یہ چیز جماعتی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہو رہی.ان ابتلاؤں سے احمدی کا ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی مومن کی یہی شان بتائی ہے.پس مخالفین جہاں بھی احمدیت کے خلاف فساد بھڑ کانے کی کوششیں کر رہے ہیں انہیں اپنی فکر کرنی چاہئے.ہم نے تو اُس شخص کا دامن پکڑ ا ہوا ہے، ہم تو آنحضرت ﷺ کے اس عاشق صادق کے پیچھے چل رہے ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے سلامتی کا پیغام دیا.اس کے ساتھ ہونے کا وعدہ فرمایا ہے لیکن تم لوگوں کے لئے تمام نہ ماننے والوں کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی تنبیہ بھی ہے اور انذار بھی ہے جس کے نظارے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً دکھاتا رہتا ہے اور آئندہ بھی دکھائے گا.پس ان لوگوں کو ہوش کرنی چاہئے کہ تم تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والوں کے لئے انصاف کرنا نہیں جانتے جس کا حکم ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا ہے کہ سلامتی اس کے ساتھ ہے اور وہ انصاف کرنا بھی جانتا ہے.وہ اپنے بندوں کے لئے عدل وانصاف کے تقاضے بھی پورے کرتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ اس کی سلامتی کے نیچے رہیں.جن ملکوں میں بھی احمدیت کے خلاف شدت پائی جاتی ہے مخالفت ہو رہی ہے ان کے عوام کے لئے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ان نام نہاد علماء کے لئے اللہ تعالیٰ کی جو تقدیر مقدر ہے ( ان کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے، نظر آ رہا ہے کہ بُر اسلوک ہی ہونا ہے ) اس سے اللہ تعالیٰ عوام کی اس اکثریت کو جو لا علم ہے محفوظ رکھے.سری لنکا کے احمدیوں کے لئے بھی خاص طور پر دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم فرماتے ہوئے انہیں اپنی سلامتی اور حفاظت میں رکھے.آج کل وہ بڑے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں.آج بھی جمعہ پڑھا ہے تو بڑی ٹینشن (Tension) میں پڑھا ہے.لیکن اللہ کا فضل ہوا.وقت خیریت سے گزر گیا.دھمکیاں بڑی تھیں.سری لنکا کے احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے رہیں انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے وعدے یقیناً پورے ہوں گے.اللہ تعالیٰ انشاء اللہ جماعت کی ہمیشہ حفاظت فرمائے گا.پس ہمیں اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ہم نیک اعمال کر کے اُن فضلوں اور سلامتی کو حاصل کرنے والے بن سکیں جو اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کرنے والوں کے لئے مقدر کی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 8 تا 14 جون 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 211 (21) خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء (فرموده مورخه 25 مئی 2007ء 25 ہجرت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: يَهْدِى بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.(المآئدة : 17) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا کہ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسلام (آل عمران: 20) یعنی یقیناً اب اللہ کے نزدیک دین صرف اور صرف دین اسلام ہی ہے اور یہی دین ہے جس پر عمل کر کے اب انسان اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکتا ہے.کیونکہ اب یہی دین ہے جو اپنے کامل ہونے کے لحاظ سے دنیا میں سلامتی پھیلانے والا ہے.پس اس دین کو چھوڑ کر کسی دوسرے دین میں کس طرح سلامتی اور سکون مل سکتا ہے.اگر دوسرے دینوں کو دیکھیں یا تو ہمیں وہاں افراط نظر آتا ہے یا تفریط نظر آتی ہے.پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی اور خاتم الانبیاء کے ماننے والے ہیں جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِينًا (المآئدة :(4).یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا.کوئی نہیں جو اس میں کسی قسم کا ستم یا کمی نکال سکے.یہ وہ دین ہے جس میں تمام قسم کے احکام بیان کر دیئے گئے ہیں، تمام قسم کے علوم اس کامل شریعت میں جمع کر دیئے گئے ہیں.تمام قسم کی نعمتیں اور تمام علمی خزانے اس میں جمع کر دیئے گئے ہیں.روزمرہ کے معمولات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات کے احکامات تک جن سے ایک گھرانے کی سلامتی اور امن سے لے کر پوری دنیا کی سلامتی اور امن تک بھی شامل ہیں، کی ضمانت دے دی گئی ہے اور اب یہی دین اسلام ہے جسے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے.پس اگر اپنے گھروں میں بھی اور دنیا میں بھی سلامتی ، پیارا اور محبت کی خوشبو پھیلانا چاہتے ہو تو اسے اختیار کرو.پس یہ خدا تعالیٰ کا اعلان ہے اور وعدہ ہے ہر اس انسان سے جو اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم پر ایمان لائے گا اور عمل کرے گا جو اس نے قرآن کریم کی صورت میں اپنے پیارے نبی ﷺ پر اتاری ہے.اس کامل اور مکمل تعلیم کی کچھ جھلکیاں سلامتی کے حوالے سے میں گزشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں، کچھ آج بیان کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا
خطبات مسرور جلد پنجم 212 خطبہ جمعہ 25 رمئی 2007 ء اس میں گھر یلو معاملات پر بھی بحث کی گئی ہے، اس کی تعلیم دی گئی ہے.معاشرتی معاملات کو بھی بیان کیا گیا ہے.بین الاقوامی تعلقات کو قائم کرنے کے لئے بھی قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.تو بہر حال یہ مختلف صورتیں ہیں.تمام تو آج بیان نہیں ہو سکتیں کچھ حد تک آج بیان کروں گا.یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کے لئے دعائیہ کلمات منہ سے نکالتا ہے تو خود بخود اس کے دل میں دوسرے شخص کے لئے نرم جذبات پیدا ہو جاتے ہیں سوائے اس کے کہ بالکل ہی کوئی منافقانہ طبیعت کا شخص ہو جو منہ سے کچھ کہنے والا ہو اور بغل میں چھری لئے پھرتا ہو.لیکن ایک مومن جو اس یقین پر قائم ہے کہ مرنے کے بعد کی بھی ایک زندگی ہے اور مجھے کوشش کرنی چاہئے کہ مرنے کے بعد کی جس زندگی کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، جس دار السلام کا مجھے راستہ دکھایا ہے، اس کے حصول کے لئے اپنا ظاہر و باطن ایک کروں اور جیسا کہ مجھے حکم ہے اپنے بھائی کو سلامتی کے جذبات پہنچاؤں.تو صرف ظاہری منہ کی بات نہ ہو بلکہ دل کی گہرائی سے یہ سلامتی کی دعا نکلے تا کہ اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت پانے والا بنوں اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے اندھیروں سے نور کی طرف آؤں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مورد بنتے ہوئے صراط مستقیم پر چلنے والا بنوں.پس جب اس سوچ کے ساتھ ایک مومن کوشش کرتا ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ معاشرے میں کوئی اس سے نقصان اٹھانے والا ہو.بلکہ نقصان اٹھانا تو دور کی بات ہے، یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ایسے شخص سے کوئی دوسرا بے فیض رہے.اب اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے جو اخلاق کے معیاروں کو اونچا کرنے کے لئے بھی ضروری ہے، فساد اور شکوک و شبہات کو ختم کرنے کے لئے بھی ضروری ہے اور ایک دعا بھی ہے جس سے ایک دوسرے کے لئے پیارو محبت کے جذبات ابھرتے ہیں اور یہ حکم اس وقت سلام کہنے کا ہے جب تم کسی کے گھر جاؤ.بجائے اطلاع دینے کے، دوسرے طریقے اپنانے کے، بہترین طریقہ کسی کے گھر پہنچ کر اطلاع دینے کا یہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ گھر والوں کو اونچی آواز میں سلام کیا جائے.بعض امیر لوگ جن کی بڑی بڑی کوٹھیاں ہیں یا ایسے بھی گھروں والے ہیں جن کے گھروں میں گھنٹی بجنے کی آواز نہیں پہنچ سکتی تو انہوں نے گیٹ پر فون لگائے ہوتے ہیں تا کہ اس کے ذریعہ سے پیغام پہنچایا جائے.اگر گھنٹی بجائی ہے تو جب بھی گھر والا پوچھے تو پہلے سلام کیا جائے پھر نام بتایا جائے.یہ ایک ایسا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی ہدایت فرمائی ہے.فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا.ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.(النور: 28) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام بھیجو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے تا کہ تم نصیحت
خطبات مسرور جلد پنجم 213 خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء پکڑو.اور یہ سلام بھیجنا بھی ایک دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جس کے بارے میں میں آگے بیان کروں گا.اب سلامتی پھیلانے کے لئے یہ بڑا پر حکمت حکم ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کس طرح مومنین کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے.پہلی چیز تو یہ ہے کہ اونچی آواز میں سلام کرنے سے اجازت کا عندیہ لیا جائے گا.اگر اجازت مل جاتی ہے تو پھر ٹھیک ہے ورنہ اگر اہل خانہ اپنی مصروفیت یا کسی اور وجوہات کی بنا پر ملنا نہیں چاہتے تو دوسری جگہ حکم ہے کہ پھر بغیر بیر امنائے واپس آ جاؤ.ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ جواب نہ آئے تو مزید تجسس کرتے ہیں، بعض دفعہ تا کا جھانکی تک کر لیتے ہیں تو یہ بڑی بری عادت ہے.اس سے بعض دفعہ فساد پھیلتے ہیں.بعض بے تکلف دوست ہوتے ہیں تو بعض دفعہ بغیر آواز دیئے یا سلام کئے ایک شخص کسی دوسرے کے گھر میں بے تکلفی کی وجہ سے چلا جاتا ہے، گھر والے اُس وقت ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی داخل ہو.اس سے پھر رنجشیں پیدا ہوتی ہیں.اور یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے.آج کل بھی ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ ان بے تکلفیوں کی وجہ سے، ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کی وجہ سے یہ بے تکلفیاں بغیر اطلاع کے آنے سے ناراضگیوں میں بدل جاتی ہیں.جب مرد کسی کے گھر جاتے ہیں اور جس مرد کو ملنے کے لئے گئے ہیں اگر وہ گھر پر نہیں ہے تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ واپس آجائیں، اس سے سلامتی پھیلتی ہے اور دو گھر بدظنیوں سے بچ جاتے ہیں.گھر کے دوسرے فرد یا افراد کو مجبور نہیں کرنا چاہئے کہ دروازہ کھولو، ہم نے ضرور اندر بیٹھنا ہے اور جب تک صاحب خانہ یا وہ مرد گھر نہیں آجا تا ہم اس کا انتظار کریں گے.سوائے اس کے گھر کے کوئی قریبی محرم رشتہ دار ہوں ، غیروں کا تو کوئی تعلق نہیں جتنی مرضی قریبی دوستیاں ہوں.اس سے بہت ساری تہمتوں سے انسان بچ جاتا ہے، بہت سارے شکوک سے انسان بچ جاتا ہے.اور دوسرے لوگوں کی باتوں سے اس گھر میں آنے والا بھی اور گھر والے بھی بیچ جاتے ہیں ، بہت سی بدظنیوں سے بچ جاتے ہیں.تو یہ سلام پہنچانے کا طریق اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک دوسرے کے لئے سلامتی طلب کی جائے اور سلام کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آفات سے بچنا.پس سلام کا یہ رواج دونوں کو ، آنے والے کو بھی اور گھر والوں کو بھی بہت سی آفتوں اور مشکلوں سے بچالیتا ہے.آنحضرت ﷺ سلام کر کے اطلاع دینے پر اس قدر پا بندی فرمایا کرتے تھے کہ اس کے بغیر جانا آپ نے سختی سے منع کیا ہوا تھا.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے دروازے سے باہر کھڑے ہوکر بغیر سلام کئے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے دوسرے صحابی جو قریب بیٹھے ہوئے تھے انہیں فرمایا کہ باہر
خطبات مسرور جلد پنجم 214 خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء جاؤ اور اسے اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ اور سمجھاؤ کہ پہلے سلام کرو اور پھر تعارف کروا کر اور اجازت لے کر اگر اجازت مل جائے تو اندر آؤ.اس سے ایک تو دعائیہ کلمات سے لاشعوری طور پر دماغ پاک ہو کر انسان پاکیزگی اور بہتری کی بات ہی سوچتا ہے جس سے آپس کے نیک تعلقات بڑھتے ہیں.(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب استئذان حديث : 5177) صحابہ اس دعا کی گہرائی کو جانتے تھے اور پھر جو دعا آنحضرت ﷺ کے منہ سے نکلی اس کے تو صحابہ بھوکے ہوتے تھے.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ کسی صحابی کی چھوٹی عمر کی لونڈی ( لڑکی تھی وہ بازار میں کھڑی رو رہی تھی تو آنحضرت ﷺ کا اس کے پاس سے گزر ہوا.آپ نے وجہ پوچھی کہ کیوں رو رہی ہو؟ اس نے بتایا کہ فلاں کام سے مجھے گھر والوں نے بھیجا تھا اور یہ نقصان ہو گیا ہے یا اس کا کوئی حرج ہو گیا ہے اور اب میں گھر والوں کی سختی کی وجہ سے ڈر رہی ہوں.آپ ﷺ اس کے ساتھ ہو گئے اور اس گھر میں پہنچے.سلام کیا لیکن اندر سے جواب نہیں آیا.دوسری دفعہ سلام کیا پھر جواب نہیں آیا.پھر تیسری دفعہ سلام کیا تو گھر والے باہر نکلے اور سلام کا جواب دیا تو آپ نے پوچھا کہ پہلے کیوں جواب نہیں دیا تھا، کیا میرے پہلے اور دوسرے سلام کی آواز تمہیں نہیں پہنچی تھی ؟ انہوں نے عرض کی کہ ضرور پہنچی تھی.ان کا جواب کتنا پیارا تھا کہ آواز تو ہمیں پہنچ گئی تھی لیکن گھر والے کہتے ہیں کہ ہم تو اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے تھے کہ آپ سے سلامتی کی دعائیں لیں.اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ اللہ کا رسول ہم پر سلامتی کی دعا بھیج رہا ہے.جس گہرائی سے آنحضرت ﷺ سلامتی کی دعا دیتے ہوں گے اُس تک تو کوئی نہیں پہنچ سکتا اور جن کے حق میں دعا قبول ہوتی ہو گی ان کی تو دنیا و آخرت سنور جاتی ہوگی.گھر والے یہ بھی ادراک رکھتے ہوں گے کہ اگر تیسری دفعہ بھی جواب نہ دیا تو آنحضرت ﷺ واپس نہ چلے جائیں کیونکہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تین دفعہ سلام کرنے کے بعد بھی گھر والے جواب نہ دیں تو قرآنی حکم کے مطابق پھر واپس چلے جاؤ.بہر حال اس لونڈی کے ساتھ آ کے آپ نے جہاں گھر والوں کو سلامتی کی دعاؤں سے بھر دیا وہاں اس لونڈی کو بھی آپ کی وجہ سے گھر والوں نے آزاد کر دیا اور وہ بھی اس سلامتی سے حصہ لیتے ہوئے غلامی کی قید سے آزاد ہوگئی.صلى الله (مجمع الزاوائد و منبع الفوائد کتاب علامت النبوة باب في جوده علم جلد 8 صفحه 411-410) پھر صرف غیروں کے لئے ہی نہیں بلکہ یہ عمومی حکم بھی ہے کہ جب تم گھروں میں داخل ہو ، چاہے اپنے گھروں میں داخل ہو تو سلامتی کا تحفہ بھیجو، کیونکہ اس سے گھروں میں برکتیں پھیلیں گی کیونکہ یہ سلامتی کا تحفہ اللہ کی طرف سے ہے جس سے تمہیں یہ احساس رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھنے کے بعد میرا رویہ گھر والوں سے کیسا ہونا چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 215 خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء اللہ فرماتا ہے فَإِذَا دَخَلْتُمُ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمُ تَحِيَّةً مِنْ عِندِ اللهِ مُبْرَكَةً طَيِّبَةً.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (النور:62) پس جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں پر اللہ کی طرف سے ایک بابرکت پاکیزہ سلامتی کا تحفہ بھیجا کرو.اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم عقل کرو.ایسے گھروں میں رہنے والے جب ایک دوسرے پر سلامتی کا تحفہ بھیجتے ہیں تو یہ سوچ کر بھیج رہے ہوں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے.تو آپس کی محبتوں میں اضافہ ہوگا اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوگی.گھر کے مرد سے، اس کی سخت گیری سے، اگر وہ سخت طبیعت کا ہے تو اس سلامتی کے تحفے کی وجہ سے ، اس کے بیوی اور بچے محفوظ رہیں گے.اس معاشرے میں خاص طور پر اور عموماً دنیا میں باپوں کی ناجائز بختی اور کھردری (سخت) طبیعت کی وجہ سے بعض دفعہ بچے باغی ہو جاتے ہیں، بیویاں ڈری سہمی رہتی ہیں.اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ باوجو د سالوں ایک ساتھ رہنے کے میاں بیوی کی علیحد گیوں تک نوبت آ جاتی ہے، علیحد گیاں ہو رہی ہوتی ہیں، بچے بڑے ہو جاتے ہیں.خاندانوں کو ان کی پریشانی علیحدہ ہو رہی ہوتی ہے.تو اس طرح اگر سلامتی کا تحفہ بھیجتے رہیں تو یہ چیزیں کم ہوں گی.اسی طرح جب عورتیں سلامتی کا پیغام لے کر گھروں میں داخل ہوں گی تو اپنے گھروں کی نگرانی صحیح طور پر کر رہی ہوں گی اور اپنے خاوندوں کی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوں گی.جب بچوں کی اس نہج پر تربیت ہو رہی ہوگی تو جوانی کی عمرکو پہنچنے کے باوجود اپنے گھر، ماں، باپ اور معاشرے کے لئے بدی کا باعث بننے کی بجائے سلامتی کا باعث بن رہے ہوں گے.عام طور پر ٹین ایجرز (Teenagers) میں اس جوانی میں یہ بڑی بیماری ہوتی ہے، عام طور پر عادتیں کچھ بگڑ جاتی ہیں لیکن اگر شروع میں عادتیں اچھی ڈال دی جائیں تو یہ سلامتی کا پیغام بن کر گھروں میں جارہے ہوں گے.پس یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر اس سلامتی کے پیغام کو رائج کریں تا کہ ان کی اولاد میں بھی نیکی اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے سلامتی کا پیغام پہنچانے والی ہوں.اور چھوٹی عمر میں یہ عادت ڈالنی چاہئے.دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بچے سلام نہیں کر رہے ہوتے ، ماں باپ کہہ دیتے ہیں کہ حیا کی وجہ سے، شرم کی وجہ سے یہ سلام نہیں کر رہا.اگر بچے کے ذہن میں چھوٹی عمر میں ڈالیں گے کہ سلام میں حیا نہیں ہے بلکہ بری باتوں میں حیا ہے اور اس میں حیا کرنی چاہئے تو باتوں باتوں میں ہی پھر بچے کی تربیت بھی ہو جاتی ہے.بعض بچے آپس میں لڑائی جھگڑے کر رہے ہوتے ہیں ہمیں نے دیکھا ہے کہ مسجد فضل کے احاطہ میں بھی کھیل کھیل میں لڑائیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ظالمانہ طور پر ایک دوسرے کو مار بھی رہے ہوتے ہیں.اس وقت کوئی حیا اور شرم نہیں ہوتی.حالانکہ وہ چیزیں ہیں جن میں حیا مانع ہونی
خطبات مسرور جلد پنجم 216 خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء چاہئے ، جن میں شرم آنی چاہئے اور روک بننی چاہئے.پس اللہ کی سلامتی کا وارث بننے کے لئے بچوں میں بھی سلام کی عادت ڈالیں اور یہ عادت اسی صورت میں پڑے گی جب بڑے چھوٹوں کو سلام کرنے میں پہلے کریں گے.صحابہ کو اس بات کا ادراک ہونے کے بعد کہ سلام کتنی اہم چیز ہے، اس کی اتنی عادت پڑ گئی تھی کہ حدیث میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہوتے اور اگر رستے میں چلتے ہوئے کوئی درخت ہمیں الگ کر دیتا (یعنی ہم چلے جارہے ہیں اور بیچ میں کوئی درخت آ گیا ) تو جب دوبارہ آپس میں ملتے تو پھر ایک دوسرے کو سلام کہتے تھے.(الترغيب والترهيب جزء 3 الترغيب فى افشاء السلام وماجاء في فضله......حديث نمبر 3989 صفحه 373) | تو یہ تھے صحابہ کے طریقے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ معاشرے میں امن اور محبت قائم کرنے کے لئے سلام ضروری چیز ہے.یہ دعائیہ تحفہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یہ ضروری چیز ہے.اور دوسرے اس بات کے بھی بھوکے تھے کہ کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کے سلامتی کے پیغام سے فیض پاسکیں اور اس طرح سے اپنی دنیا اور عاقبت سنوار نے والے بن جائیں.اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے کس طرح قرآنی تعلیمات اور آنحضرت ﷺ کی سنت کو اپنے صحابہ میں رائج فرمایا جس سے یہ لوگ سلامتی کا پیغام پہنچانے اور سلامتی کا پیغام پھیلانے میں کس قدر کوشاں رہتے تھے.اس کی ایک دو مثالیں دیتا ہوں.در شیخ محمد علی آف مسانیاں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نماز فجر با جماعت ادا نہ کر سکا تو میں نے نماز گھر پر ہی ادا کی.نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں کسی کام سے بازار کی طرف آ رہا تھا کہ دارالا نوار کے راستے پر حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے آتے دکھائی دئے.میں نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ آج تو میں ضرور حضرت مولوی صاحب سے سلام کرنے میں سبقت لے جاؤں گا کیونکہ مولوی صاحب چھوٹے بڑے ہر ایک کو پہلے سلام کر لیا کرتے تھے.انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج تو میں ضرور کروں گا ، اس حد تک پہنچ جاؤں جہاں میری آواز پہنچ جائے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں ہی تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے حسب دستور کافی فاصلے سے بلند آواز سے اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ کہا.میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کا شرف حاصل کیا.حضرت مولوی صاحب مصافحہ کرتے ہی فرمانے لگے شیخ صاحب اگر انسان نماز با جماعت ادا کرنے سے رہ جائے تو اُسے وہ نماز مسجد میں ہی ادا کرنی چاہئے تاکہ مسجد میں نماز پڑھنے کی عادت رہے.تو کہتے
خطبات مسرور جلد پنجم 217 خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء ہیں کہ میں حضرت مولوی صاحب کی اس فراست پر حیران رہ گیا کہ کس طرح انہوں نے میرے ذکر کئے بغیر میری اس غفلت کو بھانپ لیا.“ ( نجم الہدی سوانح حضرت مولوی شیر علی صاحب صفحہ 170 مطبوعہ رضاسنز پرنٹرز لا ہور ) تو یہ تھا اُن لوگوں کا نور فراست کہ سلامتی کے پیغام کے ساتھ ساتھ نیکی کی طرف بھی انتہائی پیار سے ، شرمندہ کئے بغیر توجہ دلا دیا کرتے تھے.اسی طرح حضرت مولوی شیر علی صاحب کے بارے میں دوسری روایت ہے.مولوی عبدالرحیم صاحب عارف مبلغ سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ گھریلو زندگی آپ ( یعنی حضرت مولوی شیر علی صاحب.ناقل ) کے وجود سے گویا جنت کا نمونہ تھی جب آپ گھر میں تشریف لاتے تو بلند آواز سے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتے.اسی طرح قرآنی حکم کے مطابق کہ گھروں میں داخل ہو تو سلام کہو.” پھر جوں جوں گھر کے ایک ایک فرد سے ملاقات ہوتی ان کو الگ الگ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتے.بچوں سے مصافحہ کرتے ، چھوٹے بچوں کو پیار سے اٹھا لیتے اور کافی دیر تک خاص محویت کے عالم میں خاموش صحن میں ٹہلتے رہتے اور لبوں پر دعا ئیں جاری ہوتیں.“ (سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب مرتبہ ملک نذیر احمد ریاض صفحه 76 تو یہ تھے وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پائی اور پھر کس طرح سلامتیاں بکھیر نے والے اور محبتیں بکھیر نے والے تھے.آنحضرت ﷺ سلام کو رواج دینے اور اس کی برکات کی طرف توجہ دلانے ، سلامتی اور دعاؤں سے بھری ہوئی مجالس کے قیام کے لئے کس طرح توجہ دلایا کرتے تھے اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، ایک شخص آپ کے پاس سے گزرا اُس نے کہا السّلامُ عَلَيْكُمُ اس پر آپ نے فرمایا دس نیکیاں.پھر ایک اور شخص گزرا جس نے کہا السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله.اس پر آپ نے فرمایا 20 نیکیاں.پھر ایک اور شخص گزرا اور اس نے کہا اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه.اس پر آپ نے فرمایا 30 نیکیاں.پھر ایک شخص مجلس سے اٹھا اور اس نے سلام نہ کیا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لگتا ہے کہ تمہارا ساتھی بھول گیا ہے.جب تم میں سے کوئی بھی مجلس میں آئے تو اسے چاہئے کہ وہ سلام کہے.اگر وہ بیٹھنے کے لئے جگہ پائے تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹھ جائے اور جب کوئی کھڑا ہو تو وہ سلام کہے.الأدب المفرد لامام بخاری باب نمبر 451 فضل السلام حدیث نمبر (1015) آتے جاتے بھی سلام کہنا چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 218 خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء پھر ایک روایت میں آتا ہے ، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سلام کو پھیلاؤ.اس سے تم سلامتی میں آ جاؤ گے، تمہارے گھر بار اور معاشرہ سب سلامتی میں آ جائے گا.(الترغيب والترهيب جزء 3 الترغيب فى افشاء السلام وماجاء في فضله......حديث نمبر 3979 صفحه 372 پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سلام کو پھیلاؤ تا کہ تم غلبہ پا جاؤ.(الترغيب والترهيب جزء 3 الترغيب فى افشاء السلام وماجاء في فضله......حديث نمبر (3984 صفحه 373 پس سلام کو پھیلانے سے آپس کے محبت کے تعلقات ہوں گے اور یہ محبت کے تعلقات ایک جماعتی قوت پیدا کریں گے اور یہ جماعتی قوت اور مضبوطی ہی ہے جس سے پھر غلبہ کے سامان پیدا ہوں گے.ورنہ اگر آپس کی پھوٹ رہی ،سلامتی نہ رہی، اس کے پھیلانے کی کوشش نہ کی تو ایک طرف تو آپس کی ایک جماعت کی طاقت جاتی رہے گی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (الانفال: 47) یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہا کرو، آپس میں اختلاف نہ کیا کرو.ایسا کرو گے تو دل چھوڑ بیٹھو گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی.اور صبر کرتے رہو، اللہ یقیناً صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : "اسلامی فرقوں میں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے.پھوٹ اسلام کے لئے سخت مضر ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ - جب سے اسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بدم تنزل کرتا جاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس سلسلے کو قائم کیا تا لوگ فرقہ بندیوں سے نکل کر اس جماعت میں شامل ہوں جو بیہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور اس سیدھے راستے پر چل رہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے بتایا‘.( بدر جلد 7 نمبر 19-20 مورخہ 24 مئی 1908 صفحہ 4 پس ہر احمدی کو غور کرنا چاہئے ، یہ الفاظ ہمیں اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں.اپنے گھروں میں بھی ، اپنے آپس کے تعلقات میں بھی ہمیں زیادہ سے زیادہ محبت و پیار اور سلامتی کے پیغام کو پہنچانے والا بننا چاہئے.اس طرح معاشرے میں ، ماحول میں، اس سلامتی کے رواج سے پھر احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی بھی توفیق ملے گی.جب آج کل کے معاشرے کی فضولیات میں ایک طبقہ کی منفرد حیثیت نظر آ رہی ہوگی جو سلامتی اور محبت کی پیامبر ہے تو تبلیغی میدان میں بھی وسعت پیدا ہوگی اور اس زمانہ میں یہ دعا اور محبت اور سلامتی ہی ہے جس نے اسلام اور احمد بیت کو انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کرنا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 219 خطبہ جمعہ 25 رمئی 2007 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ آپس کی مخالفت کی وجہ سے غلبہ کی بجائے اسلام دن بدن تنزل کی طرف جا رہا ہے اس کی آج ہم واضح مثالیں دیکھ رہے ہیں.گواحمدیت کے خلاف تو سارے ایک ہیں لیکن آپس میں سب پھٹے ہوئے ہیں.اگر کہیں اکٹھے ہو جا ئیں تو ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھ سکتے.خود کش حملے کر کے مسلمان ، مسلمان کو مار رہا ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.گزشتہ دنوں ARY پر میں نے اتفاق سے ایک پروگرام دیکھا.ہندوستان اور پاکستان کے بہترین تعلقات بنانے کی طرف کس طرح توجہ کی جائے اس پر بحث ہورہی تھی.ایک تبصرہ نگار اور عالم پاکستان کی طرف سے تھے اور ایک ہندوستانی مسلمان اور ایک شاید ہندو تھے تو بات کا رخ اس طرف ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت کا رونا روتے ہو کہ ان سے اچھا سلوک نہیں ہورہا مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور پھر ان کے اندر آپس میں فرقوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے.جو ہندوستانی مسلمان تھے وہ ایران کی مثال دے کر کہنے لگے کہ وہاں شیعوں کی اکثریت ہے.سُنیوں کے ساتھ وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا اور احمدیوں کے ساتھ اگر ہو تو کیا کچھ نہیں کریں گے.تو اس پروگرام میں جو مولانا صاحب تھے ان سے اور تو کوئی جواب نہیں بن پڑا وہ اور اس پروگرام کے جو کمپیئر تھے فوراً بولے کہ احمدیوں کو چھوڑیں وہ تو غیر مسلم ہیں.تو یہ حالت ہے آج کل کے مسلمانوں کی ، کہ آپس کے تعلقات تو ٹھیک ہیں ہی نہیں اس کو تو چھوڑو، اس بات کو تو ٹال جاتے ہیں.اگر دوسروں کے ساتھ تعلقات رکھنے ہوں، جن کو غیر مسلم سمجھتے ہیں ان کو بھی چھوڑ و کیونکہ وہ غیر مسلم ہیں.پس یہ سلامتی بکھیر نہیں سکتے.احمدیوں پر ظلم اس لئے جائز ہے کہ یہ بھی غیر مسلم ہیں.ان کو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت پر یہ ظلم روا ر کھنے کی وجہ سے ہی ان کے اندر سے سلامتی اٹھ رہی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے تمام دنیا میں روحانیت اور علم و عرفان کا جھنڈا لہرایا تھا اپنے ملکوں میں ہی غیروں کے ہاتھوں محکوم اور مجبور بنے بیٹھے ہیں.کہنے کو تو آزاد ہیں لیکن اُن کا بھی وہی حال ہے کہ اُن کی جان ایک بوتل میں بند ہے اور وہ بوتل ایک جن کے پاس ہے، جس کے لئے ہر وقت جن پر نظر کئے رکھتے ہیں، کیونکہ اپنے پاس طاقت نہیں رہی اور طاقت زائل ہونے کی وجہ سے جن پر نظر کئے بغیر گزارہ نہیں ہے.پس یہ مسلمانوں کی حالت ہے، ان کے لئے دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ رحم کرے.کاش کہ یہ اس سلامتی کے پیغام کو سمجھیں جو اس زمانے میں اب آنحضرت ﷺ کے اس عاشق صادق کے ذریعہ سے ہی مقدر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، جماعت احمد یہ ہی سیدھی راہ پر چل رہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم میں سے ہر ایک اس راستے پر چلنے والا ہو جو صراط مستقیم کا
خطبات مسرور جلد پنجم 220 خطبہ جمعہ 25 رمئی 2007 ء راستہ ہے.جس پر چلنے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس پر چل کر ایک مومن ہدایت پاتا ہے، اندھیروں سے نور کی طرف آتا ہے.آج ہم دُنیا کے ان اندھیروں کو جو ہدایت اور سلامتی کے راستوں سے بھٹکانے والے ہیں دیکھتے ہیںتو اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے جس نے ہمیں اس زمانہ کے امام کو مانے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کی جماعت میں شامل فرمایا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے.ایک دعا کی طرف بھی اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی تعلیم ہمیشہ یہ رہی ہے اور انشاء اللہ رہے گی کہ پیار اور محبت کا پیغام تمام دنیا تک پہنچانا ہے.اگر اسلام اور جماعت کے خلاف غلط پرا پیگنڈہ کیا جاتا ہے تو بغیر کسی گالی گلوچ کے ہم دلائل سے اس کا جواب دیتے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ دیتے رہیں گے.یہ ہمارا فرض ہے اور اسلام کی سربلندی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پیغام جس سے پیار، محبت اور سلامتی کے چشمے پھوٹتے ہیں دنیا میں پھیلانا ہمارا مقصد ہے اور عشق رسول عربی ﷺ ہماری جان ہے.آپ کے عاشق صادق احمد ہندی علیہ الصلوۃ والسلام سے وفا ہم پر فرض ہے کہ آج اسلام کی صحیح تصویر ہم نے اس مسیح و مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی دیکھی ہے.یہ وہ چیزیں ہیں جن کی خاطر ہم اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر سکتے ہیں لیکن اس سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہو سکتے ، اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.بہر حال میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ گزشتہ چند سالوں سے عرب ممالک میں اسلام پر عیسائیت کی طرف سے ایسے حملے کئے جا رہے تھے جن کا جواب عام مسلمانوں کو تو کیا بلکہ علماء کے پاس بھی نہیں تھا اور نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے جب تک وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے فیض نہ پائیں.تو اس کے جواب کے لئے ہمارے عرب بھائیوں نے ایم ٹی اے کے دونوں ون (One) اور ٹو (Two) چینلز پر پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکریہ کے بے شمار خطوط اور فیکس عامتہ المسلمین کی طرف سے بھی اور بڑے بڑے سکالرز کی طرف سے بھی آئے کہ ہم تو بڑے بے چین تھے کہ کوئی ان کا جواب دے، ہمارے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا.آپ لوگوں نے جواب دے کر ہمارے دلوں کی تسلی اور تسکین کے سامان پیدا کئے ہیں.ہم نے اس چینل پر عیسائی علماء کو بھی بولنے کا موقع دیا تھا.جب سوال جواب ہوتے تھے تو میں نے یہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ وہ دوسرے سوال کرنے والے یا عیسائی، ہمارے جو جواب دینے والے بیٹھے ہوتے تھے ان سے زیادہ وقت لے رہے ہوتے تھے.بہر حال دونوں طرف کھل کر ڈسکشن (Discussion) کا موقع دیا جاتا تھا.بحثیں ہوتی تھیں تو لوگوں پر حق واضح ہوا ، اور حق کھل گیا.
خطبات مسرور جلد پنجم 221 خطبہ جمعہ 25 رمئی 2007 ء پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ایم ٹی اے 3 کا چینل شروع کیا گیا جو عربی پروگراموں کا چینل ہے اور یہ 24 گھنٹے عربی میں پروگرام دے رہا ہے.اس میں بھی مختلف پروگرام ہیں.اس پر وہاں کے جو عیسائی پادری اور علماء ہیں، وہ گھبرا گئے اور ان میں سے ایک نے وہاں مصر میں جو متعلقہ وزارت ہے اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے کہ احمدیوں کو کیونکر اجازت دی گئی ہے.حالانکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کسی وزارت سے اجازت نہ لی ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے.دوسرے ہمارا معاہدہ تو سیٹلائیٹ کمپنی سے ہے اور کمرشل کمپنیوں سے معاہدہ ہوتے ہیں کسی سیٹیلائٹ کی اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.بہر حال ان لوگوں کے دعوے کی قلعی کھل گئی جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور عیسائیت تبلیغ کے ذریعہ سے اور عقل سے اور دلائل سے پھیلی ہے.تو یہ بھی جو بات ہے اس جری اللہ کے حق میں ہے، اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی ایک دلیل ہے کہ جو الزام یہ لوگ اسلام پر لگاتے تھے جو کہ حقیقت میں الزام تھا کیونکہ اسلام میں سوائے سلامتی کے کچھ ہے ہی نہیں تو اللہ کے اس پہلوان کی دلیلوں سے مجبور ہو کر جبر کا ہتھیار اب انہوں نے خود اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور مقدمہ بازی کر رہے ہیں ، شور شرابے کر رہے ہیں.پس جہاں ہمیں خوشی ہے کہ اس مقدمے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا ایک اور ثبوت ہمیں مہیا کر دیا ہے، وہاں دعا کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے بچائے ، ہر شر سے جماعت کو بچائے.ان لوگوں کو بچائے جو اس پروگرام میں شامل ہیں اور ان کا کوئی حربہ بھی کبھی کارگر نہ ہو اور انشاء اللہ یہ یقینا نہیں ہوگا.کیونکہ یہ سب انتظام کسی انسان کی کوشش سے نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدے تھے ان کے پورا ہونے کے نتیجہ میں ہوا ہے.یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ جہاں ہمارے سے اختلاف رکھنے والے بعض علماء نے ہمارے خلاف اُس وقت پہلے لکھا تھا انہوں نے غیرت دکھائی ہے اور وہاں بعض عرب ممالک کے اخباروں میں عیسائیوں کو مسلمان علماء نے مخاطب کر کے لکھا ہے کہ تمہارے منہ میں جو آئے تم بک رہے تھے اور اسلام پر بے تکے اعتراضات کئے چلے جاتے تھے جبکہ اسلام کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں تھا.آج جب شریفانہ طور پر تمہیں جواب دیا جارہا ہے تو تم چیخ پڑے ہو.تو اللہ تعالی ان غیر از جماعت غیرت رکھنے والے لوگوں کو جزا دے جنہوں نے اسلام کے لئے غیرت دکھائی ہے ، آنحضرت ﷺ کے لئے غیرت دکھائی ہے.بہر حال جماعت کو دعا کرنی چاہئے کہ آج کل مختلف جگہوں پر احمدیت کے خلاف جو مخالفت کی آگ بھڑک رہی ہے دنیا میں تقریباً ہر جگہ اسی طرح ہی ہو رہا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خود ٹھنڈا کرے اور ہمارے لئے سلامتی اور امن بنادے.جس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان بھی کیا یا عیسائی بھی کیا ، ان کی طرف سے جماعت کے خلاف جیسا کہ میں نے کہا مخالفت کی فضا پیدا ہوئی ہے تو لگتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ
222 خطبہ جمعہ 25 مئی 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم کی تقدیر جماعت کے حق میں مزید کا میابیاں ہمیں دکھانے والی ہے انشاء اللہ.کیونکہ ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس جماعت سے یہی سلوک دیکھا ہے کہ مخالفین کی طرف سے مخالفتوں کی جتنی کوششیں کی گئی ہیں، اتنی زیادہ جماعت نے ترقی کی ہے.پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے آستانے پر پہلے سے زیادہ جھکتے ہوئے ان کا میابیوں کو نز دیک تر لانے والے بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 15 تا 21 جون 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 223 (22) خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء ( فرمودہ مورخہ یکم جون 2007ء ( یکم احسان 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَثْمَى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ الله لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (النساء: 37) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی ، اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے ، یقینا اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہے.گزشتہ خطبہ میں گھروں میں سلام کرنے اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے بات ہوئی تھی کہ گھروں میں سلامتی کی فضاء اللہ تعالیٰ کا سلامتی کا پیغام پہنچانے سے قائم ہوتی ہے.ان سلامتی کے تحفوں سے سلامتی کے سوتے پھوٹیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سلامتی کا پیغام پہنچانے والے خود اپنے لئے بھی دارالسلام کے دروازے کھول رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے گھر والوں کے لئے بھی یہ دروازے کھلوا ر ہے ہوتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ اسلام کا یہ سلامتی کا پیغام معاشی، معاشرتی اور بین الاقوامی سلامتیوں کا پیغام ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں اپنے گھروں میں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کے گھروں میں اس خوبصورت پیغام کو پہنچانے کی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے اس کا ذکر کیا تھا.جس سے صلح اور سلامتی کی فضا قائم کرنے اور دوسروں کو ہر قسم کے ظلموں سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا تھا.میں نے جو آیت تلاوت کی ہے یہ سورۃ النساء کی آیت 37 ہے.اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے گو براہ راست نہیں لیکن احسان کے رنگ میں جن باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ یہ، یہ کرو.ان سے سلامتی کا پیغام دنیا کو پہنچتا ہے اور ہر اس طبقے کو پہنچتا ہے جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے.اور اگر ایک انسان، ایک مسلمان، ایک مومن اس پر عمل کرے تو معاشرے میں سلامتی کی فضا قائم ہونا یقینی امر ہے.اس ایک آیت میں محبت صلح اور سلامتی کا معاشرہ قائم کرنے کے لئے جو ہدایات بیان کی گئی ہیں وہ گیارہ
224 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ہدایات ہیں جن پر عمل کر کے ایک خوبصورت معاشرہ جنم لے سکتا ہے جو سلامتی کی خوشبو سے معطر معاشرہ ہوگا.اس میں پہلی بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرو، وہ بات جو اللہ تعالیٰ کے حق سے تعلق رکھتی ہے یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ.فرمایا وَ اعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ، ایک مسلمان تبھی مسلمان کہلا سکتا ہے جب اسلام کے اس بنیادی مقصد کو سمجھنے والا ہو جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.کیونکہ اس مقصد کو حاصل کئے بغیر اسلام کی حقیقی روح پیدا نہیں ہو سکتی ، خدا تعالیٰ کی صفات کا ادراک نہیں ہوسکتا اور ایک انسان، ایک مومن صفت السلام سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے اس کی برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکتا.پس اس بنیادی چیز کو ہر مسلمان مومن کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے تا کہ سلامتی کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس سے خود بھی فیضیاب ہو سکے اور اپنے ماحول کو بھی اس سے فیض پہنچا سکے.جب اس حقیقت کو سمجھ لو ، جب اس مقصد کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالو، تو فرمایا پھر حقوق العباد کی کوشش کرو، اس کے قیام کی کوشش کرو، جس کی اس آیت میں تفصیل بیان کی گئی ہے کہ یہ نیک سلوک جو تم ایک دوسرے سے کرو گے، معاشرے کی سلامتی کی ضمانت بن جائے گا.پھر آخر میں جس بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق سے بھی ہے اور بندوں کے حقوق سے بھی ہے.اب ایک ایک کر کے میں ان حکموں کو لیتا ہوں جو معاشرے کے ہر طبقے میں صلح ، سلامتی اور پیار کی فضا پیدا کرنے اور قائم کرنے کی ضمانت دیتے ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ حکم دیا گیا کہ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ کرو.اس بات کی طرف توجہ دلا دی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے بعد تمہیں والدین کو ہر شر سے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ انہوں نے بھی تمہیں بچپن میں ہر شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی.تمہارے والدین ہی ہیں جو تمہاری صحت و سلامتی کے لئے تکلیفیں اٹھاتے رہے.پس آج بڑے ہو کر تمہارا فرض بنتا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو.ایک جگہ فرمایا اگر ان پر بڑھاپا آ جائے تو انہیں اُف تک نہ کہو، ان کی باتیں مانو.ایک جگہ فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل : 25) پس یہ دعا بھی اس لئے ہے کہ تمہارے جذبات تمہارے خیالات ان کے لئے رحم کے رہیں اور پھر یہ دوطرفہ دعا ئیں ایک دوسرے پر سلامتی برسانے والی ہوں.ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے احسان کا سلوک کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور شکر گزار بندہ بننے کا ذکر فرمایا.فرماتا ہے وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَنًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرُهَا.وَحَمْلُهُ وَفِصْلُهُ | تَلْقُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةٌ.قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (الاحقاف : 16) اور ہم نے انسان کو تاکید کی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے.
225 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ 30 مہینے ہے.یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور 40 سال کا ہو گیا تو اس نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے تو فیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی اصلاح کر دے، یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.یعنی حقیقی فرمانبردار میں تبھی بن سکتا ہوں، حقیقی اسلام میرے اندر بھی داخل ہو سکتا ہے، سلامتی پھیلانے والا میں تبھی کہلا سکتا ہوں جب ان حکموں پر عمل کرتے ہوئے جس میں سے ایک حکم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.ان کے احسانوں کو یاد کر کے ان سے احسان کا سلوک کرو.ان نعمتوں کا شکر گزار بنو.جو انسان یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو مجھے ان نعمتوں کا شکر گزار بنا جو تو نے مجھے پر کی ہیں، جو مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کی ہیں میرے والدین پر کی ہیں کہ ان کی اولا د سلامتی پھیلانے والی اور نیک اعمال کرنے والی ہو اور پھر آئندہ نسل کی سلامتی اور نیکیوں پر قائم رہنے کی بھی دعا اے خدا میں تجھ سے مانگتا ہوں.یہاں والدین کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہاں ایسے والدین کا ذکر ہے جن کی اولا دنیکیوں میں بڑھنے والی اور نیک اعمال کرنے والی ہو.پس والدین کو اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے اس کے حضور جھکتے ہوئے اولاد کی ایسی تربیت کرنی چاہئے جو سلامتیاں بکھیر نے والی ہو.جو فرمانبردار ہو ورنہ وہ ماں بھی تو تھی جس کا کان یا زبان اس کے بیٹے نے اس لئے کاٹ لی تھی کہ اگر یہ مجھے صحیح راستے پر ڈالنے والی ہوتی ، مجھے سلامتی اور فساد کا فرق بتانے والی ہوتی تو آج میں ان جرموں کی وجہ سے جو میرے سے سرزد ہوتے رہے پھانسی کے تختے پر چڑھنے کی بجائے تیرے لئے رحم اور فضل کی دعا مانگ رہا ہوتا، ہر شر سے محفوظ رہنے کی دعامانگ رہا ہوتا.پس والدین کو بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے.اس آیت میں دونوں کو توجہ دلاتی ہے.پہلے اولاد بن کر والدین کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے لئے دعا پھر ماں باپ بن کر اولاد کی اصلاح اور نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے دعا.تو یہ دعائیں ہیں جو ایک بچے عابد کو اپنے بڑوں کے بھی اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرتے ہوئے اسے سلامتی پھیلانے والا بنا ئیں گی.پھر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو.یہ حسن سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہوگا.قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دار ہیں، تمہارے والد کی طرف سے بھی اور تمہاری والدہ کی طرف سے بھی.پھر بیوی کے رحمی رشتہ دار ہیں.پھر خاوند کے رحمی رشتہ دار ہیں.دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو، ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو، ان کے لئے نیک جذبات اپنے
226 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم دل میں پیدا کرو.غرض کہ وہ تمام حقوق جو تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو، ان قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو جن سے تمہارے اچھے تعلقات ہیں، کیونکہ قریبی رشتہ داروں میں بھی تعلقات میں کمی بیشی ہوتی ہے بعض دفعہ قریبی رشتہ داروں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو.صرف ان سے نہیں جن سے اچھے تعلقات ہیں، جنہیں تم پسند کرتے ہو بلکہ جنہیں تم نہیں پسند کرتے ، جن سے مزاج نہیں بھی ملتے ان سے بھی اچھا سلوک کرو.پس یہ حسن سلوک ہر قریبی رشتہ دار سے کرنا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف ان سے نہیں جن سے مزاج ملتے ہیں بلکہ ہر ایک سے.بلکہ حکم یہ ہے کہ نہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں سے بلکہ مرد کے لئے اپنی بیوی اور عورت کے لئے اپنے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کے لئے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے.یہ سلوک ہے جو اللہ کی سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہوگا.کئی جھگڑے گھروں میں اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے لئے عزت اور احترام نہیں ہوتا.میاں اور بیوی کے سب سے قریبی رشتہ دار اس کے والدین ہیں.جہاں اپنے والدین سے احسان کے سلوک کا حکم ہے وہاں میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کے والدین سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے.بعض دفعہ خاوند زیادتی کر کے بیوی کے والدین اور قریبیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور بعض دفعہ بیویاں زیادتی کر کے خاوندوں کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو برا بھلا کہ رہی ہوتی ہیں.تو احمدی معاشرے میں جس کو اللہ اور رسول ﷺ کا حکم ہے کہ سلامتی پھیلاؤ، اس میں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں.اس کے بعد کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا، اس کے بعد کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کے طریقے بھی سکھا دیئے.یہ بھی بتا دیا کہ میرے سے تعلق رکھنا ہے تو ان اعلیٰ اخلاق کو اپناؤ جن کا اللہ اور اس کا رسول حکم دیتا ہے، ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد جبکہ ہمیں مخالفتوں کا سامنا اس لئے ہو رہا ہے کہ تم نے کیوں اس شخص کو مانا جو کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہی اللہ ہوں.احمدیت قبول کرنے کے بعد بعض لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے بھی بڑی تکلیف اٹھانی پڑی.اپنوں نے بھی رشتے توڑ دیئے.باپوں نے اپنے بچوں پر سختیاں کیں اور گھروں سے نکال دیا.اس لئے نکال دیا کہ تم نے احمدیت کیوں قبول کی.تو اس صورتحال میں ایک احمدی کو کس قدر اپنے رشتوں کا پاس کرنا چاہئے.ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ اُس شخص سے منسوب ہونے کے بعد جس کا نام خدا تعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے ہمیں کس قدر سلامتی پھیلانے والا اور رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے.پس ہر احمدی کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ ہم سلامتی کے شہزادے کے نام پر بٹہ لگانے والے نہ ہوں.اگر ہم اپنے رشتوں کا پاس کرنے والے، ان سے احسان کا سلوک کرنے والے، ان کو دعائیں دینے والے، اور ان سے دعائیں لینے والے نہ ہوں گے تو ان لوگوں سے کس طرح احسان کا سلوک کر سکتے ہیں ، ان لوگوں سے کس
227 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم طرح احسان کا تعلق بڑھا سکتے ہیں ، ان لوگوں کا کس طرح خیال رکھ سکتے ہیں جن سے رحمی رشتے بھی نہیں ہیں.بعض عہدیداروں کے بارے میں بھی شکایات ہوتی ہیں کہ بیوی بچوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا.پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں ، اس ظلم کی اطلاعیں بعض دفعہ اس کثرت سے آتی ہیں کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا انقلاب پیدا کرنے آئے تھے اور بعض لوگ آپ کی طرف منسوب ہو کر بلکہ جماعتی خدمات ادا کرنے کے باوجود ، بعض خدمات ادا کرنے میں بڑے پیش پیش ہوتے ہیں اس کے باوجود، کس کس طرح اپنے گھر والوں پر ظلم روا ر کھے ہوئے ہیں.اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو معقل دے.ایسے لوگ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں اور خلیفہ وقت کے علم میں بات آتی ہے تو پھر انہیں خدمات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے.پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں خدمات سے محروم کر دیا تو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ ایک عہدیدار کی حیثیت سے ہمیں احکام قرآنی پر کس قدر عمل کرنے والا ہونا چاہئے.سلامتی پھیلانے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے.پھر اسی آیت میں ایک یہ حکم ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیموں سے بھی احسان کا سلوک کرو کیونکہ یہ معاشرے کا کمزور طبقہ ہے پھر فرمایا مسکینوں سے بھی حسن سلوک کرو.یہ دونوں طبقے یعنی یتیم اور مسکین معاشرے کے کمزور ترین طبقے ہیں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا.اگر ان پر ظلم ہو رہا ہے تو ان کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا اور پھر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ کمزور طبقے رد عمل کے طور پر پھر فساد کی وجہ بنتے ہیں.اور فساد کی وجہ اس طرح ہے کہ پہلے چھوٹی چھوٹی باتوں اور برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں.پھر مفاد اٹھانے والے گروہ ان لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں.معاشرے کے خلاف ان کے ذہنوں میں زہر بھرتے ہیں.ایسا مایوس طبقہ جس کے حقوق رڈ کئے گئے ہوں، پھر یہ جائز سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ اپنا حق لینے کے لئے کر رہا ہے ، وہ جو مرضی چاہے حرکتیں کر رہا ہو وہ ٹھیک کر رہا ہے.اس کو یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کے یہ ہمدرد ہی اس کے خیر خواہ ہیں جو حقیقت میں اس کو معاشرے میں فساد پھیلانے کے لئے استعمال کر رہے ہوتے ہیں.غریب ملکوں میں اگر جائزہ لیں تو ایسے یتیم جن کے خاندانوں نے ، ان کے عزیزوں نے ان کا خیال نہیں رکھا یا اس حیثیت میں نہیں کہ خیال رکھ سکیں خود بھی غربت نے انہیں پیسا ہوا ہے ایسے محروم بچے پھر تربیت کے فقدان کی وجہ سے بلکہ مکمل طور پر جہالت میں پڑ جانے کی وجہ سے تعمیری کام نہیں کر سکتے اور پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں چڑھ جاتے ہیں جو ان سے ناجائز کام کرواتے ہیں.اسی طرح ایسے لوگ جو کثیر العیال ہوں جن کی اولاد میں بہت زیادہ ہیں، بچے زیادہ ہوتے ہیں ، ان کی پرورش نہیں کر سکتے ، وہ اپنے بچوں کو ، مثلاً میں نے پاکستان میں دیکھا ہے.مدرسوں کے سپر د کر دیتے ہیں، بیشمار بچے جو مدرسوں میں ہیں وہ غریبوں کے بچے ہیں.گو وہاں بظاہران کی دینی تعلیم ہورہی ہوتی ہے لیکن ایک بڑی تعداد مذہب
228 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم کے نام پر ہڑتالوں، فسادوں اور بعض دفعہ خود کش حملوں کے لئے تیار ہو رہی ہوتی ہے.جہاد کے نام پر ، جہاد کے غلط تصور سے ان کی برین واشنگ (Brain Washing) کی جارہی ہوتی ہے.اگر ایسے بہت سے قیموں کو غریب لوگوں کو سنبھالا گیا ہوتا ، ان کے معاشی مسائل نہ ہوتے ، پڑھنے کے مواقع میسر ہوتے تو بڑی تعداد اس قسم کے فتنے اور فساد کے کاموں سے بچ جاتی.ایک دفعہ میں بھیرہ کے علاقے میں گیا، بھیرہ سے نکل کر ہم دیہاتوں میں شکار کے لئے گئے تھے تو کچھ لڑ کے وہاں آگئے اور وہ مدرسے کے لڑکے تھے.ان سے باتیں شروع ہو گئیں.میں نے پوچھا کیا کچھ پڑھتے ہو، کیا کچھ کرتے ہو؟ تو انہوں نے پڑھائی کی باتیں کم بتائیں، یہ بتایا کہ ہم یہاں ہینڈ گرنیڈ بھی بناتے ہیں، ہم یہاں اپنے کارتوس بھی بھرتے ہیں بلکہ بندوقیں بنانے کی ہمیں ٹریننگ دی جاتی ہے.تو یہ حال ہے.ماں باپ ان کو دینی تربیت کے لئے بھیجتے ہیں اور وہاں جا کر ان غریب بچوں کو جو تربیت دی جارہی ہوتی ہے وہ ایسی کہ بعد میں ان کو جہاد کے نام پر غلط طور پر شدت پسندی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، فساد پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.ماں باپ بیچارے اس امید پر بیٹھے ہیں کہ کم از کم دینی علم حاصل ہو جائے گا، ہمارا بچہ بچ جائے گا لیکن یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کن ہاتھوں میں ہے جو اپنے مفاد کے لئے ان بچوں سے مذہب کے نام پر خون کروانے سے بھی دریغ نہیں کرتے.پس اس فساد سے بچنے کے لئے یہ معاشرے کا کام ہے اور وقت کی حکومت کا کام ہے کہ ایسے طبقے کو سنبھالیں ، انہیں دھت کار نے کی بجائے انہیں سینہ سے لگا ئیں.ان کو جذباتی چوٹیں پہنچانے کی بجائے زیادہ بڑھ کر ان کے جذبات کا خیال رکھیں.کیونکہ یہ کمزور طبقہ جذباتی طور پر بہت حساس ہوتا ہے.معاشرے کو اس کے جذبات کو تعمیری رخ دینے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بات اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ان سے انتہائی احسان کا سلوک نہ کیا جائے اور یہ بات جہاں معاشرے میں محروم طبقے کو عزت دلوانے والی ہوگی وہاں معاشرے کے امن اور سلامتی کی بھی ضامن ہو جائے گی اور پھر یتیموں کی خبر گیری کرنے والے مسکینوں کا خیال رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے پیار کے بھی مورد بنتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی دیکھ بھال کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح دو انگلیاں (اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے ملا کر بتایا کہ اس طرح) یعنی ایسا شخص میرے قریب ہوگا.(ابن ماجه ابواب الادب با ب حق اليتيم پھر ایک روایت میں آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کی پرورش کی جائے.(ابن ماجه ابواب الادب.با ب حق اليتيم حديث نمبر (3680 ایک روایت میں آتا ہے.آپ نے فرمایا کہ انسان کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو
خطبات مسرور جلد پنجم 229 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء حقارت کی نظر سے دیکھے.(مسلم كتاب البر والصلة.بات تحريم ظلم المسلم وخذله حدیث نمبر (6346 غریبوں اور مسکینوں کو جو بعض لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، ان کے لئے بڑی فکر والی بات ہے.میں ضمناً یہاں یہ ذکر کر دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں تیموں کی خبر گیری کا نظام ہے، پاکستان میں بھی ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے جو باقاعدہ جائزہ لے کر ان کی تعلیم کا ، ان کے رہن سہن کا مکمل خیال رکھتی ہے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی ، خاص طور پر افریقن ممالک میں بھی اللہ کے فضل سے کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی ضروریات پوری کی جائیں.اس کے لئے یتامی کی خبر گیری کے لئے ایک فنڈ ہے، اس میں بھی احباب جماعت کو دل کھول کر مددکرنی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ قیموں کی ضروریات پوری کی جاسکیں.اسی طرح غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے جو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مریم فنڈ کی تحریک کی تھی.شروع میں تو اس طرف بہت توجہ تھی اور جماعت نے بھر پور حصہ لیا، بچیوں کی شادیوں میں کوئی روک نہیں تھی.اب بھی اللہ کے فضل سے کوئی روک تو نہیں ہے لیکن جس کثرت سے، جس شوق سے جماعت کے افراد اس میں حصہ لے رہے تھے اور چندہ دیتے تھے، رقمیں آرہی تھیں اس طرح اب نہیں آرہیں.تو اس طرف بھی جماعت کو اور خاص طور پر مخیر حضرات کو توجہ کرنی چاہئے.یہ قیموں، غریبوں اور مسکینوں سے حسن سلوک ہے جو یقینا ان حسن سلوک کرنے والوں کے لئے جنت کی خوشخبری دیتا ہے.اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس دار السلام کی خوشخبری دیتے ہیں کہ انہوں نے چندلوگوں کی بہتری اور سلامتی کے لئے کوشش کی ، ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کی.ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا جو کمزوروں پر رحم کرے، ماں باپ سے محبت کرے اور خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے.(ترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق باب نمبر 48 حدیث نمبر (2494 پھر معاشرے کی سلامتی صلح اور محبت کی فضا پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو.اور صرف رشتہ دار ہمسایوں سے اچھا سلوک نہیں کرنا کہ اس میں 100 فیصد بے نفسی اور صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے حسن سلوک نظر نہیں آتا بلکہ غیر رشتہ داروں سے بھی کرنا ہے.یعنی رشتہ داروں سے حسن سلوک میں تو پسند اور نا پسند کا سوال آ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے اس کا تو تب پتہ لگے گا کہ غیروں سے بھی حسن سلوک کرو.جو غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں ان سے بھی حسن سلوک کرو.ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قدر تلقین کی گئی ، اس قدر تواتر سے آنحضرت ﷺ کو اس طرف توجہ دلائی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اب ہمسائے ہماری وراثت میں
230 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم بھی حصہ دار بن جائیں گے.تو ہمسائے کی یہ اہمیت، یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ اس کا خیال رکھنا، اس سے حسن سلوک کرنا ، اس کی ضروریات کو پورا کرنا بہت اہم ہے.کیونکہ یہ بھی ہمسائے ہیں جو گھر کی چار دیواری سے باہر قریب ترین لوگ ہیں.اگر یہ ایک دوسرے سے حسن سلوک نہ کریں، ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنیں، تو جس گلی میں یہ گھر ہوں گے جہاں حسن سلوک نہیں ہو رہا ہو گا تو وہ گلی ہی فساد کی جڑ بن جائے گی.اس گلی میں پھر سلامتی کی خوشبو نہیں پھیل سکتی.گھر سے باہر نکلتے ہی سب سے زیادہ آمنا سامنا ہمسایوں سے ہوتا ہے.ان کو اگر دل کی گہرائیوں سے سلامتی کا پیغام پہنچائیں گے تو وہ بھی آپ کے لئے سلامتی بن جائیں گے.ان مغربی ممالک میں عموماً ہر کوئی اپنے میں مگن رہتا ہے ان لوگوں کی ایک زندگی بن گئی ہے کہ اپنا گھر یا اپنے بہت قریبی.ہمسائے کا وہ تصور یہاں ہے ہی نہیں جو اسلام نے ہمیں سکھایا ہے.یہی اسلام کی خوبی ہے کہ ہر بظاہر چھوٹی سے چھوٹی بات کی طرف بھی توجہ دلا دی اور پھر اس کے نتیجے کے طور پر بڑی بڑی جنتوں کی خبریں دیں تا کہ ہر طرح سے معاشرے میں سلامتی پھیلانے کے لئے ہر مومن کوشش کرے.تو جب ان لوگوں سے سلامتی کا پیغام پہنچاتے ہوئے ہم تعلق رکھیں گے، جب ان لوگوں کو یہ پتہ چلے گا کہ یہ لوگ بے غرض ہو کر ان سے تعلق رکھ رہے ہیں ، ان کے یہ تعلق ہماری ہمدردی کے لئے ہیں، تو یہ لوگ خوش بھی ہوتے ہیں اور حیران بھی ہوتے ہیں کیونکہ اس کی ان کو عادت نہیں ہے.ان باتوں کا ، اس خوشی کے اظہار کا، ان کی باتوں اور خیالات سے بڑا واضح پتہ لگ رہا ہوتا ہے.اس تعلق کو بڑھانے کی وجہ سے فطرت کی جو آواز ہے.اگر نیک فطرت ہے تو فطرت تو ہر ایک سے یہ چاہتی ہے کہ نیکی کا سلوک ہو.فطرت کی وہ آواز ان کے اندر بھی انگڑائی لیتی ہے.وہ بھی اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے ہمارے سے نیک تعلق کی وجہ سے رابطہ رکھ رہے ہیں.کوئی مفاد یا ذاتی منفعت حاصل کرنا ان کا مقصد نہیں ہے.الا ماشاء اللہ اکثریت اس بات پر خوش ہوتی ہے.جب سے میں نے ان مغربی ممالک کے رہنے والوں کو خاص طور پر ہمسایوں سے اچھے تعلق رکھنے کی طرف توجہ دلائی تھی بعض جگہ سے بہت خوش کن رپورٹ آئی ہیں.وہی لوگ جو پاکستانی یا ایشین مسلمان ہمسایوں سے خوفزدہ تھے جب ان کے یہ تعلق بڑھنے شروع ہوئے ، عید، بقر عید پر، ان کے تہواروں پر، جب تھے ان کی طرف جانے شروع ہوئے تو اس کی وجہ سے ان میں نرمی پیدا ہونی شروع ہوگئی ، ان کے خوف بھی دور ہوئے.وہی لوگ جو اسلام کو شدت پسند اور امن بر باد کرنے والا مذہب سمجھتے تھے اسلام کی سلامتی کی تعلیم سے متاثر ہورہے ہیں.مسجد فضل کے حلقے میں بھی دو سال سے ہمسایوں کو بلا کر ان کی دعوت وغیرہ کی جاتی ہے.علاوہ اس ذاتی تعلق کے جو لوگ اپنے طور پر گھروں میں بھی کرتے ہوں گے.اس سال بھی جو انہوں نے فنکشن کیا تھا میں اس میں شامل ہوا تھا تو میں نے ہمسایوں کے تعلق میں جب ان کے سامنے اسلامی تعلیم پیش کی تو سب نے حیرت اور خوشی سے اس کو سنا اور اس کا
خطبات مسرور جلد پنجم 231 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء اظہار کیا اور شکر یہ ادا کیا اور اب تک بھی مختلف حوالوں سے مختلف موقعوں پر ان ہمسایوں کے مجھے خطوط آتے رہتے ہیں ، کارڈز بھی آتے رہتے ہیں.تو سب ہمسایوں سے حسن سلوک جہاں سلامتی کی ضمانت ہے وہاں اس سے تبلیغ کا بھی بہترین راستہ کھل جاتا ہے.اگر ان لوگوں میں مذہب سے دلچسپی نہیں ہے تو کم از کم ایسے لوگوں کے ذہنوں سے اسلام کے خلاف جو زہر بھرا گیا ہے وہ نکل جاتا ہے.اگر ہمسائیگی کی وسعت ذہن میں ہو تو پوری دنیا میں سلامتی اور صلح کی بنیاد پڑ سکتی ہے.دنیا سے فساد دُور ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ہمسائیگی تو 100 کوس تک بھی ہوتی ہے.پس آج جبکہ احمدی دنیا کے 185 سے زائد ممالک میں ہیں.بعض علاقوں میں شاید تھوڑے ہیں یا زیادہ ہیں.اپنے ارد گرد کے 100-100 میل کے علاقے کو بھی اپنی سلامتی کے پیغام سے معطر کر دیں تو دنیا کے ایک وسیع حصے میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں، اس کے خلاف جو پُر تشد داور ظلم کرنے والا ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے وہ سب داغ دھل سکتے ہیں.اگر ہم ایسا نہ کریں تو اس عہد کی کوتاہی کر رہے ہوں گے جو ہم نے اس زمانے کے امام سے باندھا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے پیار محبت کے تعلقات جس سے تمہارے حقیقی مسلمان ہونے کا پتہ چلے مزید وسیع ہونے چاہئیں ، اور وسیع ہونے چاہئیں.کیونکہ تمہارے تعلقات کی جتنی وسعت ہوگی یا وسعت ہوتی جائے گی.پُر امن اور سلامتی بکھیر نے والا معاشرہ اتنا وسیع ہوتا چلا جائے گا.کس حد تک وسعت دینی ہے ؟ سارے معاشرے کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.ایک تو ہمسائیگی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.پھر فرمایا کہ تمہارے ہم جلیس جو مجلسوں میں تمہارے ساتھ ہیں جو تمہارے ساتھ کام کرنے والے ہیں.دفتروں میں تمہارے ساتھ ہیں، کاروباری جگہوں پر تمہارے ساتھ ہیں تم سے ان سب کے ساتھ احسان کی توقع کی جاتی ہے.پھر میٹنگز ہیں، اجلاس ہیں ، آپس کے معاشرے میں بھی جلسے ہیں تو یہاں بھی پیار اور محبت اور احسان کا سلوک کرنے کا حکم ہے.اب اگر اتنا وسیع معاشرہ ہے اور معاشرے کے حقوق کا اسلام نے حکم دیا ہے کہ اگر انسان تصور کر ہے تو کوئی باہر رہ ہی نہیں جاتا اور یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دل میں کسی بھی شخص کے خلاف کسی بھی قسم کی قبض ہو بلکہ کھلے دل سے ہر ایک کو انسان سلامتی کا تحفہ بھیج رہا ہوگا، کوئی دل میں رنجش رہ ہی نہیں سکتی.بعض دفعہ اجتماعوں پر جلسوں پر بعض بدمزگیاں ہو جاتی ہیں اور پھر جلسہ بھی آ رہا ہے اور اجتماعات بھی آ رہے ہیں.تو اگر یہ سوچ ہو کہ میرے سے ان سب کے لئے احسان کے جذبات کے سوا کسی قسم کا کوئی اور اظہار نہیں ہونا چاہئے تو یہی چیز ہے جو معاشرے میں سلامتی پھیلانے والی ہو جائے گی اور حسن سلوک سے لوگ ایک دوسرے سے اچھے تعلقات بنانے والے ہو جائیں گے.
خطبات مسرور جلد پنجم 232 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء پھر معاشرے پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاؤ.جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اپنوں میں بھی اور غیروں میں بھی سلام کو رواج دو.جب کوئی مسلمان کسی کو سلام کرے تو مسلمان کے لئے یہ حکم ہے کہ اس کو پہلے سے بڑھ کر سلامتی لوٹاؤ.ایسی سلامتی جب ایک مسلمان معاشرے میں ، جب ایک احمدی معاشرے میں لوٹائی جا رہی ہوگی تو ہر قسم کے جھگڑوں اور فسادوں اور لڑائیوں اور رنجشوں کی بیخ کنی ہو جائے گی ، وہ ختم ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ احسان کا جواب احسان سے دو اور سلام کے بارے میں بھی آیا ہے کہ سلام کرو تو احسن رنگ میں اس کولوٹاؤ.تحفے کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کوئی تمہیں تحفہ دے تو بہترین رنگ میں اس کو لوٹا دیا کم از کم ویسا ہی اس کو لوٹا دو.(النساء: 87) ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک شخص آیا جس نے آنحضرت ﷺ کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا اور بیٹھ گیا.آنحضور ﷺ نے جواب دیا وَعَلَيْكُمُ السَّلام وَرَحْمَةُ الله ، پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا السَّلَامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللهِ.آپ نے فرمایا وَ عَلَيْكُمُ السَّلام وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ، تیسرا شخص آیا اس نے کہا السَّلَامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.آپ نے فرمایا وَعَلَيْكُمُ السَّلام یا شاید وَ عَلَيْكُمُ اس پر ایک قریب بیٹھے ہوئے صحابی نے پوچھا کہ باقی دو کو تو آپ نے دعائیہ کلمات کہے اور بڑا اچھا جواب دیا.اس کو صرف وَعَلَيْكُمُ کہا ہے تو آپ نے فرمایا کہ انہوں نے جتنا سلام کیا تھا اس میں گنجائش تھی کہ بہتر کر کے لوٹا سکتا ، اس لئے ان کو میں بہتر کر کے سلام واپس کرتا رہا ہوں.اس شخص نے بہترین دعائیہ کلمات کہے اس کے علاوہ کچھ اور جواب بنتا نہیں تھا تو میں نے کم از کم اس حکم کے تحت کہ وہی چیز لوٹا دو میں نے وَعَلَيْكُم کہہ کر اسی طرح کا اس کو سلام واپس کر دیا.(مجمع الزوائد للهيثمى كتاب الادب باب حد السلام حدیث نمبر (12748 تو یہ ہے سلامتی پہنچانے کے طریقے اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ.پھر فرمایا کہ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ سے مراد یہ بھی ہے کہ ساتھ کام کرنے والے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہہ دیا ہے.ماتحتی میں کام کرنے والے ہیں، افسران بالا ہیں.ان سب کے لئے نیک جذبات ہونے چاہئیں.ان سب کو سلامتی کا پیغام پہنچانا چاہئے.پھر فرمایا کہ مسافروں سے بھی یہ سلوک کرو.سفر میں جو ایک تھوڑے سے عرصہ کے لئے ساتھ ہوتا ہے.اس میں بھی تمہارے اندر حسن و احسان کی تصویر نظر آنی چاہئے تا کہ یہ معمولی وقتی تعلق بھی کوئی بداثر نہ چھوڑے.تو خدا تعالیٰ کی اپنے بندے سے یہ توقعات ہیں کہ معمولی سا بھی کوئی ایسا موقع پیدا نہ ہو جو معاشرے میں فساد یا جھگڑے کا باعث بنے.پھر فرمایا ان سے بھی یہ نیک سلوک ہو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں، تمہارے ماتحت ہیں، تمہارے
خطبات مسرور جلد پنجم ملازم ہیں.233 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ سب جاندار جو تمہارے قبضے میں ہیں ان سے احسان کا سلوک کرو.تو یہ ہے کمزور طبقے کی ، غلاموں کی عزت قائم کرنے کا اسلامی حکم کہ جن کو تم اپنا غلام سمجھتے ہو جو تمہارے ملازم ہیں ان سے بھی حتی اور ظلم نہ کرو حکم یہ ہے کہ ان سے بھی کوئی ایسا کام نہ لو جو ان کی طاقت سے باہر ہو.اگر کوئی ایسا مشکل کام ہو تو پھر ان کا ہاتھ بٹاؤ تو یہ وہ اصول ہیں جن سے معاشرہ صلح جو اور سلامتی پھیلانے والا بن سکتا ہے.یہی اصول ہے کہ ہر وقت ذہن میں ہو کہ میں نے احسان کرنا ہے جس سے محبتیں جنم لیتی ہیں.جس سے ملازم بھی مالک کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں.ورنہ ملازم سے بھی اگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کام لیا جائے تو پھر یہ ان لوگوں کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوتے ہیں جو آخر کا رسلامتی کی بجائے فساد پر منتج ہوتے ہیں.اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہو.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ آخری حکم دے کر یا اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو ان باتوں پر عمل نہیں کرتا وہ متکبر ہے نہ وہ اللہ کا سچا عابد بن سکتا ہے اور پھر اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء کو بھی قبول نہیں کرتا.تمام انبیاء کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے.بلکہ اس تکبر کی وجہ سے شیطان کے پیچھے چلنے والا ہوتا ہے کیونکہ شیطان نے تکبر کی وجہ سے ہی انکار کیا تھا.تو اس زمانے میں بھی دیکھ لیں ، یہ ان لوگوں کا تکبر ہی ہے جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے سے روک رہا ہے یا اس راستے میں روک بنا ہوا ہے اور یہی تکبر ہے جو حقوق العباد ادا کرنے میں روک بنتا ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے.یہ لوگ جو تکبر کرنے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرما چکا ہے اس لئے یہ لاکھ سلامتی کے دعوے کریں اور اس کے لئے کوشش کریں یہ کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے کہ انہوں نے اس تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام کا انکار کیا اور اس وجہ سے اس سلامتی سے محروم ہو گئے ہیں جس کا آنا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.سلامتی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے تکبر کا سلوک کرو گے، ان کا انکار کرو گے تو سلامتی سے بھی محروم ہو جاؤ گے.پس ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس امام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی.اس لئے ہمیں ان باتوں پر غور کرتے ہوئے حقیقی عابد اور صحیح رنگ میں نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرنے والا بننا چاہئے.ورنہ یہ نہ ہو کہ ہم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کی لپیٹ میں آجائے اور پھر ان نعمتوں سے محروم ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پیدا کی ہیں.ان بشارتوں سے محروم ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے مومن بندے کو دی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے
234 خطبہ جمعہ یکم جون 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم حضور جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اگر ماضی میں کوئی کمیاں ، کوتا ہیاں ہو گئی ہیں تو خدا تعالیٰ کی رحمت طلب کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے.اللہ فرماتا ہے کہ غلطی سے اگر تم کوئی کام کرتے ہو تو میں معاف کرنے والا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کا سلامتی کا پیغام ہمیں پہنچے اور ہم اس کی بخشش کی لپیٹ میں آجائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” مومن حسین ہوتا ہے.جس طرح ایک خوبصورت انسان کو معمولی اور ہلکا سا زیور بھی پہنا دیا جائے تو وہ اسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے اگر وہ بد عمل ہے تو پھر کچھ بھی نہیں.انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو اعمال میں ایک خاص لذت آتی ہے اور اس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے.وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے.گناہوں سے اسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے.نا پاک مجلس سے نفرت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خاص جوش اور تڑپ پاتا ہے.ایسا ایمان اسے حضرت مسیح کی طرح صلیب پر چڑھ جانے سے بھی نہیں روکتا.وہ خدا تعالیٰ کے لئے اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیم کی طرح آگ میں بھی پڑ جانے سے راضی ہوتا ہے.جب وہ اپنی رضا کو رضائے الہی کے ماتحت کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور ہے اس کا محافظ اور نگران ہو جاتا ہے اور اسے صلیب پر سے بھی زندہ اتار لیتا ہے اور آگ میں سے بھی صحیح سلامت نکال لیتا ہے.مگر ان عجائبات کو وہی لوگ دیکھا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر پورا یمان رکھتے ہیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 249 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہم سب کو کامل الایمان بنائے اور ہمیشہ ہم پر اپنی پسندیدگی کی نظر ڈالتے ہوئے ہمیں ہر آگ سے سلامت نکالتا ر ہے اور ہم ہر دم اس کی رحمت اور بخشش اور فضل کے نظارے دیکھتے رہیں.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 22 تا 28 جون 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 235 23 خطبہ جمعہ 8 /جون 2007ء ( فرموده مورخہ 08 جون 2007 (08 احسان 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے والدین سے لے کر معاشرے کے مختلف طبقات سے حسنِ سلوک کے بارے میں قرآنی تعلیم کا ذکر کیا تھا کیونکہ یہ حسن سلوک معاشرے میں صلح سلامتی اور امن کا ماحول پیدا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے.معاشی اور اقتصادی حالات جو ہیں ان کا بھی معاشرے کے امن وسلامتی سے بڑا تعلق ہے، اس حوالے سے آج چند باتیں کروں گا.کسی بھی معاشرے میں نسبتی لحاظ سے بھی اور واضح فرق کے لحاظ سے بھی امیر لوگ بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی ہوتے ہیں.ضرورت مند بھی ہوتے ہیں اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے والے بھی ہوتے ہیں.بعض مالی کشائش ہونے کے باوجود طبیعتوں کے بخل کی وجہ سے نہ دینی ضرورتوں پر خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے پر یہاں تک کہ اپنے قریبی عزیزوں سے حسنِ سلوک سے بھی بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں.کبھی خیال نہیں آتا کہ ان کی مالی ضرورت کا جائزہ لے کر اس مال میں سے جو خدا تعالیٰ نے انہیں دیا ہے ان پر بھی کچھ خرچ کر سکیں.نتیجہ بعض اوقات پھر رشتوں میں ایسی دراڑیں پڑنی شروع ہوتی ہیں اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ رشتوں کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے.بعض دفعہ غریب رشتہ داروں کو تکلیف میں جب ضرورت ہوتی ہے اور جب ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، ان کے قریبی عزیز ضرورتیں پوری نہیں کرتے تو یہ باتیں اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ پھر نفرتیں پنپنے لگتی ہیں.گو ایک مومن کا شیوہ نہیں کہ کسی دوسرے کی آسودگی اس کے دل میں حسد اور نفرت کے جذبات پیدا کرے.ہر اس شخص کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اپنے آپ کو ایسے جذبات سے پاک رکھنا چاہئے اور یہی ایک مومن کی شان ہے.اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ الا ماشاء اللہ جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی برکت سے اس قسم کے خیالات رکھنے والے اور دوسروں کی دولت پر نظر رکھنے والے نہیں ہیں، یا جیسا کہ میں نے کہا بہت کم ہوں گے، اکا دُکا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا غریب طبقہ، جو کم وسائل والا طبقہ ہے وہ دوسرے کے پیسوں کو دیکھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے ، اپنی طاقت سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں کرنے والا ہے.اور اگر گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو مالی لحاظ سے
خطبات مسرور جلد پنجم 236 خطبہ جمعہ 8 جون 2007ء کمزور احمدی کا معیار قربانی یعنی اس کی آمد کی نسبت سے قربانی کا جو اس کا معیار ہے وہ اپنے آسودہ حال بھائیوں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے.بہر حال جو لوگ خوشحال ہیں ، یا نسبتا زیادہ بہتر حالت میں ہیں ، ان کو اپنے ان عزیزوں کا جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں ، خیال رکھنا چاہئے کیونکہ آپس میں محبت پیار بڑھانے کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ بندے سے جب سلام کا لفظ منسوب ہو تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا شخص جس کے اخلاق، خواہشات غضب کے تابع نہ ہوں.ایک احمدی کا معیار تو یہی ہے کہ اس میں صرف اپنی خواہشات نہ ہوں بلکہ وہ اپنے بھائیوں کی خواہشات کا بھی احترام کرنے والا ہو.اپنی بہنوں کی خواہشات کا احترام کرنے والا بھی ہو.اپنے عزیزوں رشتہ داروں کی خواہشات کا احترام کرنے والا بھی ہو.غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والا بھی ہو.غصے کی وجہ سے یا کسی ناراضگی کی وجہ سے اگر کوئی ضرورت مند ہے تو کسی بھی وقت اس کو اپنی مدد سے محروم نہ کرے، اس کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچے.اس بارے میں خدا تعالیٰ کا واضح ارشاد ہمیشہ یا درکھنا چاہئے.جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بعض لوگوں نے الزام لگایا اور یہ لمب واقعہ ہے بہر حال جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی بریت ہوگئی تو اس وقت الزام لگانے والوں میں ایک ایسا شخص تھا جو ویسے تو نیک تھے، پتہ نہیں کیوں منافقین کی باتوں میں آگئے.بہر حال وہ ایسے بھی تھے جن کی ضرورت کی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدد کیا کرتے تھے.جب حضرت عائشہ کی بریت ہو گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ عہد کیا قسم کھائی کہ میں اب ساری عمر کبھی اس کی مدد نہیں کروں گا.تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسْكِيْنَ وَالْمُهجِرِينَ فِي سَبِيلِ | اللّهِ وَلْيَعْفُوا وَليَصْفَحُوا اَ لا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النور: (23) اور تم میں سے صاحب فضیلت اور صاحب توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں.پس چاہئے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے او اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.(صحیح بخاری کتاب المغازى باب حديث الافك حديث نمبر (4141 پس یہ مومنین کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا حکم ہے.باوجود اس کے کہ یہ الزام حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی پر لگا تھا.باوجود اس کے کہ الزام حضرت ابوبکر صدیق کی محبوب ترین ہستی کی بیوی پر لگا تھا جس سے آپ ﷺ کو بہت صدمہ تھا.باوجود اس کے کہ یہ الزام نہ صرف ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبوب ہستی پر تھا بلکہ خود خدا تعالیٰ کے پیارے پر یہ الزام تھا جس کی وجہ سے آپ انتہائی پریشانی میں مبتلا تھے.اللہ تعالیٰ کا وہ پیارا جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا لیکن اس کے باوجود پھر بھی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان لوگوں کو معاف کر دیا بلکہ حکم دیا کہ اے
خطبات مسرور جلد پنجم 237 خطبہ جمعہ 8 / جون 2007ء صاحب فضیلت شخص جو نبی کو سب سے زیادہ پیار کرنے والا اور اس کے گہرے دوستوں میں سے ہے اور وہ تمام لوگ جو اس زمرے میں آتے ہیں ، جو بھی حالات ہوں درگزر کرتے ہوئے اس مدد کو جاری رکھو جو کسی کی کر رہے ہو.کسی بھی قسم کی غصے کی حالت اور تکلیف تمہیں اس مدد سے نہ روکے.اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ہے، ان کو بھی بخشنے والا ہے تم کو بھی بخشے.اللہ تعالیٰ کو اپنے پیاروں سے صرف اور صرف دوسروں کے لئے سلامتی کی توقعات ہیں.پس اس مقام کو کبھی نہ ضائع ہونے دو.جب ان حالات میں ایک دوسرے کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچنے کا حکم ہے تو عام حالات میں تو بہت زیادہ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.عام حالات میں تو صلح اور سلامتی کو پھیلانے کے لئے بہت زیادہ ایک دوسرے کی معاشی ضروریات کا خیال رکھنے کا حکم ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیار کے اظہار کے لئے ، اس لئے کہ اب معاشرے کی سلامتی ایک دوسرے کی خاطر ہر قسم کی قربانی سے وابستہ ہے، انصار مدینہ نے مہاجرین کے لئے مالی ہر وا! قربانی کے بھی اعلیٰ ترین نمونے دکھائے.وہ جانتے تھے کہ وہ انصار اور مہاجر نہیں بلکہ مسلمان، مسلمان کا رشتہ قائم ہوا ہے.اب صلح اور سلامتی کی نئی روایتیں قائم ہونے جا رہی ہیں.نبی ﷺ نے جو ہمارے درمیان مواخات قائم کر دی ہے یہ کوئی دنیاوی بھائی بندی نہیں ہے.اس نبی ﷺ کی پیروی میں یہ وہ مواخات ہے جس سے اب دنیا کی سلامتی وابستہ ہے.پس ایک دنیا نے دیکھا کہ سلامتی کے جذبے سے پُر مواخات نے دنیا میں کیا کیا انقلابات پیدا کئے.پس یہ جذبہ ہے جو آج آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کے ہر فرد نے بھی دکھانا ہے جس سے پھر انشاء اللہ اس سلامتی کا دور دورہ ہوگا جس کے ساتھ آنحضرت ﷺ بھیجے گئے تھے.پس اپنے عزیزوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں.مسکینوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں.یہاں ان مغربی ممالک میں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے کشائش حاصل کر چکے ہیں اپنے عزیزوں کو ، ایسے عزیز جوز رنگیں نہیں بلکہ قرابت داری ہے، جو غریب ملکوں میں رہتے ہیں اور جن کی مالی کشائش نہیں ، ان کو بھی وقتا فوقتا تحفے بھیجتے رہا کریں.پاکستان میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی میرے علم میں بعض ایسے خاندان ہیں جو اپنی بہتر تعلیم کی وجہ سے یا بہتر کا روبار کی وجہ سے آسودہ حال ہیں اُن کو بھی اپنے اپنے ملکوں میں اپنے ضرورتمند بھائیوں کا خیال رکھنا چاہیئے اور یہ خیال ایسا ہو کہ اس میں احسان جتانا نہ ہو بلکہ اِیتَاءِ ذِي الْقُرْبی کا نظارہ پیش کر رہا ہو ، دل کی گہرائیوں سے خدمت ہو رہی ہو.اس حکم کے تابع یہ مدد ہو رہی ہو کہ دایاں ہاتھ اگر دے رہا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو.یہ طریق ہے جس سے دوسرے کی عزت نفس بھی قائم رہتی ہے.یہ طریق ہے جس سے معاشرے میں سلامتی پھیلتی ہے اور یہ طریق ہے جس سے ایک دوسرے کے لئے دعاؤں سے پر معاشرہ بھی قائم ہوتا ہے.آجکل پاکستان میں بھی مہنگائی بہت ہے، دنیا میں عمومی طور پر مہنگائی بڑھ گئی ہے اور سنا ہے کہ بعض سفید پوش جو ہیں ان کو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا بھی مشکل ہو
خطبات مسرور جلد پنجم 238 خطبہ جمعہ 8 جون 2007ء گیا ہے.لیکن احمدی کی تو بہر حال یہ کوشش ہونی چاہئے کہ یہ جو بھرم ہے ہمیشہ قائم رہے، کسی کے آگے وہ ہاتھ پھیلانے والا نہ ہو.لیکن جو عزیز رشتہ دار بہتر حالات میں ہیں ان کو چاہئے کہ ایسے طریق پر کہ جس سے کسی قسم کا احساس نہ ہو ان کی مدد کی جائے.کچھ سال ہوئے مجھے کسی نے ایک خاتون کا واقعہ بتایا.ان کے عزیز جو باہر تھے کچھ مدد کیا کرتے تھے اور اچھا گزارا اُس سے ہو جایا کرتا تھا.کچھ عرصہ اس عزیز کے حالات کی وجہ سے یا کسی وجہ سے کوئی مدد نہیں آئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ فاقے ہونے لگے، بہت مشکل سے گزارا ہونے لگا.ایک وقت کی ہی روٹی کھائی جاتی تھی.وہ خاتون کہتی ہیں کہ ایک دن میں جارہی تھی تو راستے میں مجھے آٹھ آنے یا ایک روپیہ گرا ہوا نظر آیا تو اس کو اٹھانے لگی.پھر خیال آیا کہ بس ذرا سے ابتلاء سے، امتحان سے گھبرا گئی اللہ پر تو کل چھوڑ دیا.اس روپے پر تمہاری نظر ہوگئی.پتہ نہیں کس کا ہے، کون آ کر اٹھا لے، یہ تو چوری ہے.بہر حال ان کے جو بھی احساس و جذبات تھے انہوں نے اس کو چھوڑ دیا اور حالات ایسے تھے کہ بچے بھی بیچارے بڑی مشکل سے گزارا کر رہے تھے.ان کو بھی سمجھاتی رہیں کہ حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں صبر کرنا چاہئے اور جو بھی حالات ہوں اگر غربت کے حالات ہوں تو ان میں اور زیادہ خدا کی طرف جھکنے والا بنا چاہئے.بہر حال کہتی ہیں کہ جب میں اس کے بعد گھر آئی تو کوئی صاحب آئے ہوئے تھے جو ان کو مدد بھیجا کرتے تھے.انہوں نے لفافہ دیا اس میں پہلے سے کئی گنا زیادہ رقم تھی.تو بعض لوگوں کے حالات ایسے بھی ہوتے ہیں.اگر کچھ عرصہ اور وہی رقم نہ آتی تو ہوسکتا تھا کہ اس کے بچوں میں کسی قسم کے ایسے خیالات پیدا ہو جاتے جس سے معاشرے سے نفرتیں پیدا ہوتیں ، اللہ تعالیٰ پر بدظنی پیدا ہوتی اور اسی طرح کے واقعات ہوتے ہیں جس سے پھر گھروں کی سلامتی بھی اٹھ رہی ہوتی ہے.تو ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے جو جو حکم دیئے ہیں سارے بڑے پر حکمت احکامات ہیں.بہر حال یہ بات ہو رہی تھی کہ معاشی حالات بھی سلامتی میں کردار ادا کرتے ہیں.اس بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ.(الذاريت: (20) اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورتمندوں کے لئے ایک حق تھا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ.ذلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الروم : 39) پھر آگے فرماتا ہے وَمَا آتَيْتُمُ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوا فِى اَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللهِ.وَمَا اتَيْتُم مِّنْ زَكوة تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ.(الروم: 40) اس کا ترجمہ ہے کہ پس اپنے قریبی کو اس کا حق دو نیز مسکین کو اور مسافر کو.یہ بات ان لوگوں کے لئے اچھی ہے
239 خطبہ جمعہ 8 جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اور اگلی آیت میں ہے کہ جو تم سود کے طور پر دیتے ہوتا کہ لوگوں کے اموال میں مل کر وہ بڑھنے لگے تو اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تم جو کچھ زکوۃ دیتے ہو تو یہی ہیں وہ لوگ جو اسے بڑھانے والے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی ہے کہ اپنے قریبیوں کو ، ضرورت مندوں اور مسکینوں کو ، مسافروں کو ان کا حق دو.اور حق کیا ہے؟ ان کا حق یہ ہے کہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جو لوگ بہتر حالت میں ہیں، جن کی مالی حالت بہتر ہے، جو مالی کشائش رکھتے ہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کے لئے خرچ کریں.وہ اس طبقے کے لئے خرچ کریں جن میں قریبی بھی ہیں ،ضرورت مند بھی ہیں، مسکین بھی ہیں، مسافر بھی ہیں.کیونکہ اگر معاشرے کے ہر طبقے کا خیال نہیں رکھتے ، اپنے بھائیوں کو معاشرے میں ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہو تو یہ چیز ایسے کمزور طبقے کو پھر جرائم پر مجبور کرے گی.اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے وہ بعض ایسے کام کرنے پر مجبور ہوں گے جس سے معاشرے کا امن برباد ہو گا.غریب اور ضرورت مند طبقہ اپنی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ اپنے سے بہتر کے لئے ، امیروں کے لئے ، دلوں میں بغض اور کینے پال رہا ہوتا ہے.اور ان کی سوچ سے فائدہ اٹھا کر پھر جو مفاد پرست ہیں اُن کو معاشرے میں فساد کے لئے اپنے ساتھ ملاتے ہیں.آپ دیکھ لیں کہ عموماً ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو کم از کم غریب ممالک میں یا کم ترقی یافتہ ممالک میں فساد پیدا کرنے کے لئے ایسے لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہیں جن کے مالی حالات اچھے نہیں ہوتے.ایسے لوگ امراء کے خلاف بھی آواز میں اٹھاتے ہیں.اپنے ملکوں کے جو بہتر کشائش رکھنے والا طبقہ ہے اس کے خلاف بھی آواز اٹھاتے ہیں اور حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھاتے ہیں.ہڑتالیں بھی ہوتی ہیں، قانون شکنیاں بھی ہوتی ہیں اور ملک میں فساد برپا ہو جاتا ہے.تاریخ ہمیں یہ فساد دکھاتی رہی ہے اور آج بھی ہم کئی ملکوں میں یہ حالت دیکھ رہے ہیں.تو فسادوں کے عوامل میں سے ایک بہت بڑی وجہ یہ معاشی بدحالی بھی ہے اور پھر یہ بات یہیں نہیں رکتی بلکہ ایسا طبقہ پھر خدا سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے.اس طرح جو طبقہ اپنے پیسے کو صرف اپنے تک محدود رکھتا ہے، غریبوں کا حق ادا نہیں کرتا ، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے.اسلام کا دعویٰ تو کامل اور مکمل مذہب ہونے کا ہے جس میں ہر بات کا ، ہر طبقے کی ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا ہے تا کہ معاشرہ بھی پر امن رہے اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف بھی توجہ رہے اور اس کا حق بھی ادا ہوتا رہے.پس ایک مسلمان کی پاک عملی حالتیں ہی ہیں جو اسے اسلام کا صحیح نمونے دکھانے والا بناتی ہیں.اس تعلیم کا پرتو دکھاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے ورنہ صرف مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کوئی اہمیت نہیں رکھتا.پس جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ایک حکم معاشرے کے کمزور اور غریب طبقے کی معاشی حالت کو بہتر کرنا
خطبات مسرور جلد پنجم 240 خطبہ جمعہ 8 جون 2007ء ہے اور اس کے لئے اسلام میں زکوۃ دینے کا حکم ہے ، صدقہ دینے کا حکم ہے، ایک دوسرے کو تحفے دینے کا حکم ہے.حدیث میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک دوسرے کو تحفے دواس سے محبت بڑھتی ہے.زکوۃ کی اسلام میں کتنی اہمیت ہے.اس کے لئے مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں احکامات آتے ہیں.کیونکہ یہی چیز ہے جس سے اسلامی حکومت کے خرچ بھی پورے ہوتے ہیں اور غریبوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر ذکر کیا ہے اور نماز کے قیام کے ساتھ کئی جگہوں پر اس کا ذکر فرمایا ہے.پس یہ بہت اہم چیز ہے اور جن پر یہ لاگو ہوتی ہے ان کو یہ ادا کرنی چاہئے اور اسی طرح جو صاحب حیثیت مسلمان ہے اس کے لئے اپنے مال میں سے قریبیوں اور ضرورت مندوں کے لئے بھی خرچ کرنا انتہائی ضروری ہے بلکہ فرض ہے.غریبوں اور مسکینوں اور کمزور طبقے کا خیال رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ طبقہ ہی ہے جو ملکی معیشت کی بہتری کے لئے خدمت کر رہا ہوتا ہے.کارخانوں کے مزدور ہیں یا دوسری مختلف کاروباری جگہوں پر مزدور ہیں.بڑے زمینداروں کے لئے محنت کرنے کے لئے ان کی زمینوں پر مزدور ہیں.ہمارے ملکوں میں خاص طور پر زمینداروں میں اس پر بڑا زور دیا جاتا ہے.یورپی ممالک میں تو مشینری سے اکثر کام ہو جاتا ہے لیکن تیسری دنیا میں تو مزدوروں پر بہت انحصار ہوتا ہے.لیکن یہاں بھی جو صنعتی ممالک ہیں ان کی ترقی بھی مزدوروں کی ہی مرہون منت ہے.اگر اس طبقے کی محنت اور مددشامل نہ ہو تو ملکی معیشت بھی ترقی نہیں کر سکتی.اس لئے اس غریب طبقے کو اس کا حق ادا کرنے کا حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی غربت سے فائدہ اٹھا کر اس کا حق نہ مارو، اس کو کم نہ دو.اسی طرح ان کے حق میں ان کی دوسری ضروریات کا خیال رکھنا بھی شامل ہے.اسلام ہی وہ مذہب ہے جو معاشرے میں ہر طبقے کے حق کا خیال رکھتا ہے.اس کمزور طبقے کو بھی اس کا حق دلوانے کی طرف توجہ دلاتا ہے.نہ ہی کوئی دوسرا مذ ہب اور نہ ہی کوئی اور ازم اس کا مقابلہ کر سکتا ہے.اس لئے اب دیکھ لیں وہی اِزم جو غریبوں کے حقوق کے علمبر دار بن کر اٹھے تھے آہستہ آہستہ ختم ہو گئے یا ختم ہوتے جارہے ہیں اور دنیا کی بے سکونی کی کیفیت پھر بڑھ رہی ہے کیونکہ صرف پیسے سے سکون نہیں ملتا.بلکہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے کہ میرے عابد بنو.جب دونوں فریق ، ضرورت مند بھی اور ضرورت پوری کرنے والا بھی، اس حکم کی تعمیل کر رہے ہوں گے ، جب صاحب حیثیت اس سوچ کے ساتھ اپنے کمزوروں کی مدد کریں گے کہ میں نے خدا کا پیار حاصل کرنا ہے، اس کی رضا حاصل کرنی ہے تو پھر ہی حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر توجہ پیدا ہوگی.یہ مددکوئی احسان نہیں ہے بلکہ ان کا حق ہے اور اس طرح سے جو مد دہورہی ہوگی وہ غریب طبقے کو مت سمجھ کر نہیں ہو رہی ہوگی بلکہ اس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ہو رہی ہو گی.دینے والا خود لینے والے کا ممنون ہوگا کہ اس نے قبول کیا اور لینے والا دینے والے کا
خطبات مسرور جلد پنجم 241 خطبہ جمعہ 8 جون 2007ء ممنون احسان ہو گا کہ اس نے اس کی ضروریات کا خیال رکھا اور یہ وہ صحیح معاشرہ ہوگا جو اسلامی نمونہ پیش کرتا ہو گا.جس میں ایک دوسرے کے لئے دعاؤں اور سلامتی کے نظارے نظر آئیں گے.یادرکھیں آج احمدی ہی ہے جو اس معاشرے کی صحیح تصویر پیش کر سکتا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہ عہد باندھا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کروں گا ، ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.ورنہ دنیا میں جو نفسا نفسی ہے اور جن ذاتی منفعتوں کی وجہ سے ترجیحات بدل رہی ہیں یا جن ترجیحات کی طرف دنیا چل پڑی ہے ان سے یا اُس سوچ سے اس معاشرے کے امن اور سلامتی کی توقع نہیں کی جاسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنے قریبیوں کو اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے قیموں کے تعہد اور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں یعنی ان کو پالتے پوستے ہیں ” اور مسکینوں کو فقر وفاقہ سے بچاتے ہیں.اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں“.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 357) تو یہ ہے ایک نمونہ جو مومنین کے معاشرے کا نظر آنا چاہئے.پھر دوسری آیت میں جو میں نے پڑھی تھی اس میں سے کچھ ذکر تو ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے اس میں انتہائی اہم معاشی مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہمیشہ سے معاشرے میں فساد کی جڑ رہا ہے اور آج بھی بظاہر بہتر معیشت کے لئے ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ہر شخص کو اور دنیا کے جو غریب ممالک ہیں ان کو ہمیشہ کے لئے قرضوں کے شکنجوں میں جکڑتا چلا جا رہا ہے لیکن غیر محسوس طریقے سے.اور وہ چیز جیسا کہ اس آیت کے ترجمہ میں بتایا تھا سو د ہے.خدا تعالیٰ نے سُود کی بڑی شدت سے مناہی کی ہے کیونکہ یہ غریب کو ہمیشہ کے لئے غربت کی دلدل میں دھنسا تا چلا جاتا ہے.اس آیت میں جس میں سود کا ذکر کیا گیا ہے اس سے پہلی آیت کے ساتھ موازنہ بھی مل جاتا ہے کہ سود تمہیں کیا دیتا ہے اور غریبوں کے حق کے طور پر ان کی زکوۃ اور صدقات اور تحفوں سے جو مدد کرتے ہو اس سے تمہیں کیا ملتا ہے.پہلی بات تو یا درکھو کہ جو خرچ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تم کرتے ہو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یقینی طور پر اس میں تمہاری کامیابی ہے جس کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھو گے اور اگلے جہان میں بھی اور سب سے بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ اللہ راضی ہو گیا.دوسری کامیابی ، پر امن اور سلامتی سے پر معاشرے کا قیام ہو گا.پھر مرنے کے بعد اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے دائمی جنتوں کے وارث بنو گے جہاں تمہیں ہمیشہ سلام اور سلام کے تحفے ملیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے جوسود کے کاروبار میں ملوث ہوں وہ کیا
242 خطبہ جمعہ 8 /جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم حاصل کرتے ہیں.ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ اعلان جنگ کرتا ہے اور جن کے خلاف اللہ تعالیٰ اعلان جنگ کر دے ان کا نہ اس دنیا میں کوئی ٹھکانہ ہے اور آخرت میں جو ان کی سزا ہے وہ تو ہے ہی.پھر سود کی وجہ سے معاشرے کا امن کس طرح برباد ہو رہا ہے.جو غریب ہے وہ غربت کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے.پینے والا اس سود کے پیسے سے اپنی تجوریاں بھر رہا ہوتا ہے.اور بظاہر بے تحاشہ پیسہ کمانے والا جو شخص ہے وہ اپنے خزانے بھر رہا ہوتا ہے، لیکن دل کا چین اور سکون ان میں نہیں ہوتا.کئی لوگ ہیں جو لکھتے ہیں اور کہتے ہیں بلکہ پاکستان میں میں نے دیکھے بھی ہیں کہ پیسوں کے باوجو د راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں.تو یہ عموماً سود ہی ہے جس نے ایک ملک کے معاشرے میں ملکی سطح پر بھی انفرادی سطح پر بھی پیسے کو ایک خاص طبقے کے گرد منتقل کر دیا ہے، ایک جگہ جمع کر دیا ہے.اور عموماً امیر ملکوں میں بھی جہاں بظا ہرا چھے حالات ہیں، اسی سود کی وجہ سے تقریبا ہر شخص یا اکثریت قرض کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں.اس کو محسوس نہیں کرتے اور اپنی زندگی میں اس سے با ہر نہیں نکل سکتے.گزشتہ دنوں میں یہاں ایک پروگرام تھا، یونیورسٹی میں ایک فنکشن تھا.یہ بات میں نے وہاں کی اور بتایا کہ یہ بھی ایک طرح کی غلامی ہے تو یو نیورسٹی کے چانسلر سمیت بہت سے لوگوں نے اس کی تائید کی اور ان لوگوں کا اس تائید کے بغیر گزارا نہیں ہے.یہ خدا کا کلام ہے جو سچائی سے پُر ہے اور اس کے احکامات پر عمل کئے بغیر دنیا کی نجات ہوہی نہیں سکتی اور جس طرح میں نے کہا سود غلامی کی ایک قسم ہے اور غلامی میں کبھی محبتیں نہیں پنپ سکتیں.ہمیشہ نفرتیں اٹھیں گی اور امن بر باد ہوگا.پھر ہمارے غریب ملک ہیں کہ جہاں سود پر قرضے لیتے ہیں عموماً سندھ وغیرہ میں تو ہندو اس کا روبار میں ہمیشہ زیادہ ہے لیکن بعض مسلمان بھی یہ کام کرتے ہیں اور مخصوص لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں اور یہ جو سود پر قرضے ہیں یہ تمام عمر اس قرض لینے والے کو بلکہ ان کی نسلوں کو بھی کبھی سراٹھانے نہیں دیتے.ایک امریکن اکانومسٹ ہے اس نے ہندو پاکستان کی ریسرچ پہ لکھا تھا کہ یہ لوگ ایسے ہیں جو بظاہر زمیندار بھی ہیں، جائیدادوں والے بھی ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہیں قرض لے کر اور زندگی گزارتے ہیں قرض لے کر اور اس دنیا سے جب جاتے ہیں تب بھی قرض ہوتا ہے جو آگے اولادوں کو ٹرانسفر ہو جاتا ہے.تو یہ سود ہی ہے جو ان کو اس مشکل میں گرفتار کئے ہوئے ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں تو بجائے یہ کہ نسلیں تک قرض کی زنجیروں میں جکڑیں اور پروان چڑھیں اور پھر آگے اگلی نسلوں کو ٹرانسفر کریں، بے چینی اور بے چارگی سے زندگی گزاریں وہ اس سے بچ سکتے ہیں.اور جب لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے ، قرضوں میں جکڑے ہوتے ہیں تو پھر یہ کبھی نیک جذبات دوسروں کے لئے پیدا کرنے والے نہیں ہو سکتے خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کے یہ مقروض ہوتے ہیں.پھر غریب ملکوں میں جن میں بہت سے مسلمان ممالک شامل ہیں مثلاً پاکستان ہے ویسے تو اسلام کا بہت نام
243 خطبہ جمعہ 8 /جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہے.لیکن ان کی بھی سودی نظام سے جان نہیں چھوٹ سکی.سود کا جو بھی نام رکھ لیں.بعض جگہ انہوں نے کچھ تبدیلیاں کی ہیں لیکن عملی صورت سود دینے کی ہی ہے.یہاں بھی امیر طبقہ جب بینکوں سے قرض لیتا ہے تو ادائیگی نہیں کرتا اور کچھ عرصے کے بعد وہ بڑی بڑی رقمیں معاف ہو جاتی ہیں.لیکن غریب طبقہ جو ہے وہ پتا چلا جاتا ہے ، ساری سختیاں اسی پر ہو رہی ہوتی ہیں اور یہ باتیں پھر غریبوں میں بے چینی پیدا کرتی ہیں اور کسی طبقے کی بے چینی سے معاشرے میں سلامتی اور امن نہیں رہ سکتا.تو جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی اس قدر ہے کہ غریب حقیقت میں پریشان ہے اور وہاں جو حالات ہیں اس وجہ سے امیر اور غریب کے فاصلے بڑھ رہے ہیں.جب یہ فاصلے بڑھتے ہیں تو پھر امن اور سلامتی کی ضمانت اس معاشرے میں نہیں دی جاسکتی.پس جہاں پاکستان کے احمدی اپنے ملک کے لئے دعا کریں وہاں ہمارا بھی فرض ہے کہ جو پاکستان سے باہر دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے دعا کریں کیونکہ آجکل پاکستان بھی ایک بڑے خوفناک دور سے گزررہا ہے جس میں بہت سے عوامل ہیں لیکن ایک بڑی وجہ خود غرضی کا حد سے زیادہ بڑھ جانا بھی ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور دنیا کے ہر اس ملک پر رحم کرے جو اپنوں کے ہاتھوں بھی اور غیروں کے ہاتھوں سے بھی ظلم کی چکی میں پس رہا ہے.دنیا کے امیر ممالک نے غریب ملکوں کو مدد کے نام پر ایسے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جس سے نکلنا اب ان کے لئے ممکن نہیں رہا اور یہ صورت بھی ایک غلامی کی صورت بن چکی ہے.ایسی غلامیوں میں رد عمل بھی ہوتے ہیں اور جب رد عمل ہوں تو پھر نہ صرف اس ملک کا امن اور سکون برباد ہوتا ہے بلکہ دنیا سے بھی سلامتی اٹھ جاتی ہے اور قوموں کے خلاف نفرتیں جنم لیتی ہیں اور اس خوفناک نتیجے کی جو منطقی نتیجہ ہے، جو نکلنا تھا، اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی خبر دے دی ہے.ہم مسلمانوں کو ہوشیار کر دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک سودی روپیہ نہیں بڑھتا.جس کوتم بظاہر بڑھا ہوا سمجھتے ہو وہ اللہ کی پھٹکار کی وجہ سے لعنت کی وجہ سے، بے برکت ہو جاتا ہے.پس خاص طور پر مسلمانوں کو اور مسلمان حکومتوں کو بھی اگر اپنے آپ کو ان فسادوں سے باہر نکالنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر کے ہی نکالا جا سکتا ہے.انصاف کے قاضوں پر چل کر ہی نکالا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کر کے ہی نکالا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو برائیاں معاشرے میں قائم ہو چکی ہیں.جن چیزوں کو بعض لوگ شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے لگ گئے ہیں ، ادا ئیگی حقوق سے غافل ہو چکے ہیں، ان کی طرف توجہ دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس سلامتی کے شہزادے کو بھیجا ہے، اس کو ماننا ہوگا.اس کے ماننے سے انکار کرو گے اور اس کے ماننے والوں سے ظالمانہ سلوک کرتے رہو گے تو پھر کبھی بھی ان فسادوں سے اور ان اندھیروں سے باہر نہیں نکل سکتے.ضرورتمندوں کا خیال، زکوۃ کی ادائیگی اور سود کی مناہی کی جو آیات میں نے بیان کی ہیں ان آیتوں میں ایک آیت یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الروم:42) کہ لوگوں نے جو اپنے ہاتھوں سے بدیاں کمائیں ان کے نتیجے میں فساد خشکی پر بھی غالب آ گیا اور تری پر بھی تا کہ وہ انہیں بعض اعمال کا مزہ چکھائے تا کہ شاید وہ رجوع کریں.
خطبات مسرور جلد پنجم 244 خطبہ جمعہ 8 /جون 2007ء پس یہ فساد جو اس زمانے میں ہمیں پھیلا ہوا نظر آتا ہے یہ ان بدیوں کی وجہ سے ہے جس میں آج کا معاشرہ ملوث ہے.یہ اس حکم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہے یا ان احکامات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے.یہ سب نظارے جو ہمیں نظر آ رہے ہیں کہ ہر مسلمان ملک اور ہر مسلمان کہلانے والا شخص با وجود آزادی کے محکوم ہے، غیروں کی نظر میں مشکوک ہے گو کہ دنیا کا ہر ملک چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلمان ہو روحانی لحاظ سے دیوالیہ ہو گیا ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے.اخلاقی برائیاں اور گراوٹیں حد سے زیادہ ہو چکی ہیں.تو یہ لوگ اگر اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو اللہ تعالیٰ کی سزا کا مزا چکھیں گے.لیکن ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ جن کی کتاب میں، جن کی شریعت میں ، ایک ایسی کتاب میں جو آخری شریعت لے کر آئی ہے اللہ تعالیٰ نے وارننگ دے دی ہے کہ جو جھٹکے مل رہے ہیں ان سے سبق حاصل کرو اور ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ جب حالات کو بدلنے کے لئے اپنے بندوں کو مبعوث کرتا ہے، جو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو ان مبعوث ہونے والوں کے پیغام کو سنو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں.حالات کی وجہ سے خود غور کرو اور ان کو تلاش کرو تا کہ خود بھی بچ جاؤ اور پھر اس پیغام کو لے کر آگے بڑھو اور دنیا کو اس تباہی سے بچاؤ.پس ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے اور ہوش کرنی چاہئے.ورنہ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی وارننگ بڑی سخت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں.زمین بالکل مر چکی ہے.یہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا ہو گیا ہے.جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں.انسانوں کے ہر طبقے میں فساد واقع ہو گیا ہے.جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے.روحانیت باقی نہیں رہی اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے.خدا پرستی اور خدا شناسی کا نام ونشان مٹا ہوا نظر آتا ہے.اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہوا اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے.خدا تعالیٰ کا شکر کرواس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے.مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اٹھاتے ہیں.الحکم جلد 7 مورخہ 31 / مارچ 1903 صفحہ 2 پس احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس نور سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشی ہے.پس اس نور کو اپنے قول سے اور اپنے عمل سے پھیلانے کی کوشش کریں تا کہ دنیا کو بھی ان آفات سے محفوظ کر سکیں جن کی طرف دنیا جارہی ہے اور جن کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ دنیا کا بہت بڑا حصہ تباہی کی لپیٹ میں آجائے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 29 جون تا 5 جولائی 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 245 24 خطبہ جمعہ 15 جون 2007 ء ( فرمودہ مورخہ 15 جون 2007 (15 احسان 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج بھی میں گزشتہ خطبہ والے مضمون کو ہی جاری رکھوں گا کہ معاشرے کے جھگڑے اور فسادوں کو ختم کرنے اور سلامتی اور امن اور پیار اور صلح کو پھیلانے کے لئے مالی لین دین کے معاہدے، تجارتی معاہدے یا قرض وغیرہ لینا دینا ہو تو کس طرح ہونے چاہئیں، اسلامی تعلیم ہمیں اس بارے میں کیا تعلیم دیتی ہے.گزشتہ خطبہ میں اس سلسلہ میں سود کا ذکر ہورہا تھا کہ سود بھی ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے میں فساد پھیلانے کی وجہ بنتا ہے اور سود کی بڑی شدت سے اللہ تعالیٰ نے مناہی فرمائی ہے.اس ضمن میں قرآنی احکامات کیا ہیں وہ ہم دیکھیں گے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سود لینے والوں کو اپنے سے جنگ کرنے والا ٹھہرایا ہے.پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کا ہر قسم کے شر سے بچ کر رہنا اور سلامتی میں رہنا اور سلامتی پھیلانا بہت زیادہ پسند ہے.جبکہ سود کے ایسے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں اور بعض مثالیں ایسی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات دیکھتے ہی دیکھتے سود خوروں کے ہاتھوں ایک اچھا بھلا صاحب جائیداد آدمی دیوالیہ ہو جاتا ہے اور در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے.ہنستا بستا گھر مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار ہو جاتا ہے.پھر ان کے بچے بھی انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں.اور یہ سب اگر مسلمانوں کے گھروں میں ہو تو اس لئے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے واضح حکم کے باوجود کہ یہ چیز نہ کرو اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور بعض دفعہ یہ سود کی رقم معمولی اور غیر ضروری اخراجات کے لئے لی جاتی ہے، تو جہاں اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کو وارننگ دی ہے کہ ضرورتمندوں کی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ وہاں قرض لینے والوں کے لئے بھی وارننگ ہے کہ بلاوجہ کے قرضوں میں مبتلا ہو کر اپنا اور اپنے گھر والوں کا امن اور سکون برباد نہ کرو.میرے علم میں ہے کہ بعض لوگ مثلاً لندن آتے ہیں اور سود خوروں سے سود پر قرض لے لیتے ہیں.کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو نیک مقصد کے لئے ، جلسہ پر آنے کے لئے یہ قرض لے کر آئے ہیں تو یہ بالکل غلط بات ہے.یہ تو اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے.اگر جج کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر وسائل نہ ہوں تو نہ کرو تو یہ بالکل غلط چیز ہے کہ یہ بہانے بنا کر آ جاتے ہیں، اور مقصد بھی ہوتے ہوں گے.تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو دھوکے میں نہیں ڈالنا چاہئے.ابھی بھی جلسہ ہو رہا ہے، انشاء اللہ لوگ آئیں گے تو جن کے وسائل ہیں انہی کو آنا چاہئے.بلا وجہ کے قرض
246 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اپنے اوپر چڑھا کر آنے کا کوئی مقصد نہیں ہے کیونکہ اس سے نہ صرف اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال رہے ہوتے ہیں بلکہ حکم کی نافرمانی کر کے سلامتی سے بھی اپنے آپ کو محروم کر رہے ہوتے ہیں اور اگر حالات کی وجہ سے بروقت ادائیگی نہ ہو سکے تو خود بھی مشکل میں گرفتار ہو جاتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو بھی مشکل میں گرفتار کر رہے ہوتے ہیں.گھروں کا سکون برباد کر رہے ہوتے ہیں.یا جو صاحب حیثیت ہیں وہ یہ کر سکتے ہیں کہ پھر اس طریقہ پر عمل کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے کہ سارا سال رقم جوڑتے رہیں تا کہ بوجھ محسوس نہ ہو.اور پھر بعض اور موقعوں پر بھی لوگ جو غیر ضروری اخراجات کے لئے قرض لے لیتے ہیں، یعنی شادی، بیاہ وغیرہ پر رسوم و رواج کے لئے.پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں تو قرض کی لعنت بہت زیادہ ہے اور غریب ملکوں میں بھی ہے.گزشتہ دنوں پاکستان کے حوالے سے ایک خبر تھی.پنجاب گورنمنٹ نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے، پستہ نہیں پاس ہو گیا ہے یا نہیں کہ سودی کاروبار کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی.یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن مسلمان ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے اپنے مالی نظام کو بھی سود کی لعنت سے پاک ہونا چاہئے ، اس کے لئے بھی ان کو کوشش کرنی چاہئے.بہر حال سودی قرض کی یہ لعنت گھروں کو برباد کرنے کا باعث بنتی ہے.احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں تو اس سے بہت زیادہ بچنا چاہئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کسی نے ذکر کیا کہ بعض مجبوریاں ایسی ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے سودی قرضے لینے پڑ جاتے ہیں.تو ہم اس پر کیا کریں؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ: جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، خدا اس کا کوئی سبب پردہ غیب سے بنادیتا ہے.افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لئے خدا تعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بنا تا کہ وہ سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو.یا درکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سود دینا اور لینا ہے.کس قدر نقصان دہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا ، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا.معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو.مثلاً نکاح ہے اس میں کوئی خرچ نہیں.طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا.بعد ازاں ولیمہ سنت ہے.سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے.انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا.بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لئے خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے.دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے.کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ؟ سؤ رکا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة: 174) یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ غفور رحیم ہے.مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ
خطبات مسرور جلد پنجم 247 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ.(البقرة: 279-280) اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے.مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے.انسان کو چاہئے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مدنظر رکھے تا کہ سُودی قرضہ اٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سُو د اصل سے بڑھ جاتا ہے.پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں.مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ.جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنی ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 434-435 جدید ایڈیشن) ہمارے ہاں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ایک بڑے طبقے میں غیر ضروری اخراجات کے لئے قرض لیا جاتا ہے، اس بات کی نشان دہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے.مثلاً نکاح پر غیر ضروری خرچ ہے، شادی ولیمہ پر غیر ضروری خرچ ہے، جماعت کے ایک طبقے میں بھی دنیا دکھاوے کی وجہ سے غیر ضروری اخراجات ہوتے ہیں.جماعت میں جو شادی کے لئے امداد دی جاتی ہے اور ایک Reasonable قسم کی رقم دی جاتی ہے کہ سادگی سے شادی ہو سکے.مگر بعض لوگ اس طرح پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ہمیں نکاح اور ولیمے کے لئے بھی اتنی اتنی رقم چاہئے.اگر امداد نہیں مل سکتی تو قرض دے دیا جائے جبکہ جانتے ہیں کہ ان میں قرض واپس کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ، وقت مقررہ پر ادا نہیں کر سکتے.پھر درخواستیں شروع ہو جاتی ہیں کہ اگر جماعت نہ دے تو ہم ادھر ادھر کہیں.لیں گے اور جب لیتے ہیں تو پھر قرض کو اتارنے کے لئے مدد کی درخواستیں شروع ہو جاتی ہیں.تو یہ ایک سلسلہ ہے جب قرض بلاضرورت لیا جاتا ہے تو اس کو یہ کہنا چاہئے کہ وہ ایک شیطانی چکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر گھروں کا سکون برباد ہوتا ہے.قرضوں کے بعد جو حالت ہوتی ہے اس سے طبیعتوں میں چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے.میاں بیوی بچوں کے تعلقات خراب ہورہے ہوتے ہیں.گھروں میں ظلم ہورہے ہوتے ہیں تو ایک عارضی خوشی کی خاطر وہ اپنے آپ کو مشکلات میں گرفتار کر لیتے ہیں چاہے بغیر سود کے ہی قرض لے کر کر رہے ہوں لیکن سود کا قرض لینا تو بالکل ہی لعنت ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سورکھانے کی تو بھوک کی حالت میں، اضطرار کی حالت میں جب انسان بھوک سے مر رہا ہو، اجازت ہے لیکن سود کی تو بالکل اجازت نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو سود پر قرض لینے والوں کو بھی اس زمرہ میں رکھا ہے جو خدا سے جنگ کرتے ہیں اور سود پر قرض دینے والا تو کھڑا ہی خدا کے حکم کے خلاف ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 248 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء بعض لوگ اپنا پیسہ، اپنی رقم معین منافع کی شرط کے ساتھ کسی کو دیتے ہیں کہ ہر ماہ یا چھ ماہ بعد یا سال بعد اتنا منافع مجھے ادا ہوگا.تو یہ بھی سود کی ایک قسم ہے.یہ تجارت نہیں ہے بلکہ تجارت کے نام پر دھوکہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سود کی جو تعریف فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے.ایک اور جگہ فرمایا یا کسی کو رقم دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے، تو فائدہ مقرر کرنا یا منافع مقرر کرنا سود کی شکل ہے.آپ نے فرمایا ” یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلا دے گا“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اس تعریف کے لحاظ سے منافع رکھ کر یعنی پہلے سے منافع معین کر کے کسی کو قرض دینا یا رقم دینا یا تجارت میں لگانا، یہ سب چیزیں سود ہیں.نفع نقصان پہ جو آپ لگاتے ہیں جو اسلام کا حکم ہے وہ ٹھیک ہے، وہ جائز ہے، وہ تجارت ہے.تو ایسے لوگ جو تجارت اور سود کو ایک ہی طرح سمجھتے ہیں ، قرآن نے ان کو سخت غلطی خوردہ بتایا ہے اور ایسے لوگوں کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ الَّذِيْنَ يَأكُلُونَ الرّبوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَنُ مِنَ الْمَسِ.ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبوا وَاَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرّبوا.فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَاسَلَفَ.وَاَمْرُةٌ إِلَى اللَّهِ.وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمُ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة : 276) کہ وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہیں ہوتے مگر ایسے جیسے وہ شخص کھڑا ہو جسے شیطان نے اپنے مس سے حواس باختہ کر دیا ہو.یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے کہا یقیناً تجارت سود ہی کی طرح ہے جبکہ اللہ نے تجارت کو جائز اور سود کوحرام قرار دیا ہے.پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ جائے اور وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا رہے گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے.اور جو کوئی دوبارہ ایسا کرے تو یہی لوگ ہیں جو آگ والے ہیں.وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.پس یہ نقشہ ہے سُود لینے والوں کا کہ مفت کی کمائی سے ان کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ دوسرے کے جذبات کا خیال نہیں رہتا.اگر ایک غریب کسان یا مزدور اپنی فصل خراب ہونے کی وجہ سے یا گھر کے بعض غیر معمولی اخراجات ہونے کی وجہ سے قرض واپس نہیں کر سکا تو ایسے شخص کو اس غریب کا کوئی خیال نہیں ہوتا جس کا سود لینے پر دل سخت ہو چکا ہوتا ہے.اس کو صرف اپنے پیسے سے غرض ہوتی ہے اور اگر نہیں ادا کر سکتے تو پھر اس رقم پر شو دور شود چلتا چلا جاتا ہے اور غریب پستا چلا جاتا ہے.پس قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے یہ جو حکم ہے کہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ اسلام مواخات کے ذریعے سے، بھائی چارے کے ذریعہ سے امن اور سلامتی پھیلانا چاہتا ہے اور مواخات کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب غریب کا خیال رکھا جائے ، اس پر بلا وجہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے ، بلکہ آسان شرائط پر اس کی ضرورت پوری کی
خطبات مسرور جلد پنجم 249 خطبہ جمعہ 15 جون 2007ء جائے.بلکہ زیادہ مستحسن یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کا پیسہ پڑا رہتا ہے وہ اپنے پیسے کو رکھنے کی بجائے لوگوں کے ساتھ جن میں کاروباری صلاحیت ہو، کاروبار میں لگائیں.بعض مسلمان ملکوں میں اب غیر سودی قرض کی سہولتیں دی جا رہی ہیں بلکہ یہاں بھی اسلامک بینکنگ (Islamic Banking) کے نام سے غیر سودی قرضے متعارف ہو رہے ہیں ( گوا بھی اس کی ابتدا ہی ہے ) اور ہمارے احمدی، احمد سلام صاحب، جو ڈاکٹر سلام صاحب کے بیٹے ہیں، انہوں نے بلاسودی بینکاری پر کافی کام کیا ہے.تو ان مغربی ممالک میں بھی ایسے احمدی جن میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ بنک کی شرائط پوری کرتے ہیں اور کاروبار بھی کرنا جانتے ہوں یا ان کے کچھ کاروبار ہوں تو انہیں اپنے کاروبار اس طرح کے قرض لے کر بنانے اور بڑھانے چاہئیں.اس طرح جہاں وہ سود سے پاک کا روبار کریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو سمیٹنے والے بھی ہوں گے اور اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے والے بھی ہوں گے.ان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی استطاعت بھی بڑھے گی.اگر ایسا کاروبار ہو گا جس میں ملازمین رکھنے کی گنجائش ہے تو ملازمین رکھ کر چند بے روزگاروں کو روزگار بھی مہیا کر رہے ہوں گے.یہاں اب اس طرف کافی توجہ پیدا ہو رہی ہے ، شاید یورپ اور اور جگہوں میں بھی ہو، اس لئے احمدیوں کو بھی اس طرف کوشش کرنی چاہئے.بہر حال متعلقہ جماعتوں کو اپنے اپنے ملکوں میں معلومات اکٹھی کر کے جماعت کے افراد کو بھی معلومات دینی چاہئیں تا کہ اپنے بھائیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے والے بن سکیں اور بعض گھروں میں معاشی بدحالی کی وجہ سے جو بے چینی ہے اس کو دور کرنے والے بن سکیں.میرے گزشتہ خطبے کے بعد بھی کئی لوگوں نے سود سے ڈر کر مجھے خط لکھے کہ ہم نے سود پر گھر لیا ہوا ہے یا فلاں چیز سود پر ہے، جائز ہے یا نہیں ؟ تو خدا تعالیٰ نے سود کو نا جائز قرار دیا ہے اور یہی فرمایا ہے کہ جب تمہیں نصیحت آ جائے تو اس پر عمل کرو اور ایک احمدی جو ہر وقت قرآن کریم پڑھتا ہے اس کو تو پتہ ہی ہے.بہر حال لوگوں نے اب بعض سوال اٹھائے ہیں.یہاں مکانوں کی مورگیج (Mortgage) ہے تو اس میں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کچھ مالی نظام ایسا ہے جس میں ایسا زیروزبر ہوا ہے کہ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.اس لحاظ سے عموماً جماعت اس بات کی اجازت دیتی ہے، پہلے خلفاء بھی دیتے رہے کہ مور تیج پر مکان لے لیا جائے.تو اس بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ اگر تو کم و بیش کرائے کی رقم کے برابر مکان کا مورگیج ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے.کچھ عرصہ بعد پھر قیمت بڑھتی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں، جن کو فکر ہوتی ہے وہ اپنے مکان بیچ کر دوسرے علاقے میں لے لیتے ہیں اور بنک کی رقم سے فارغ ہو جاتے ہیں.یہاں اس شرط کے ساتھ یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ رہائش کا مکان ہو تو اس کے لئے اجازت ہے.کاروبار کے لئے یہ اجازت نہیں ہے.اس لئے جو وصیت کرنے والے ہیں ان
خطبات مسرور جلد پنجم 250 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء کی وصیتوں پر بھی اسی نظریہ سے مورگیج کے مکان شامل کر لئے جاتے ہیں.بہر حال اگر بعض علمی لوگ تحقیق کرنے کا شوق رکھتے ہیں تو اس بارے میں اگر ان کے سامنے کوئی اور پہلو آئے تو مجھے بتا ئیں اور تحقیق کریں تا کہ اس بارے میں مزید پتہ لگ سکے.اسلام جیسا کہ میں نے کہا مواخات سے پُر معاشرے کے قیام اور ہر قسم کے جھگڑوں سے پاک معاشرے کے قیام اور صلح و صفائی اور سلامتی پھیلانے والے معاشرے کے قیام کے بارے میں توجہ دلاتا ہے.ایک تو ہم دیکھ آئے ہیں کہ سود کی بڑی سختی سے مناہی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ سود کی وجہ سے بعض جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.پھر فرمایا کہ جب تم کسی کو قرض دیتے ہو تو اگر اس کے حالات بہتر نہیں ہیں تو اس کے حالات بہتر ہونے تک اسے مہلت دو.فرماتا ہے وَ إِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ ، وَاَنْ تَصَدَّقُوا | خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة: 281) اور کوئی تنگ دست ہو تو اسے آسائش تک مہلت دینی چاہئے اور اگر تم خیرات کر دو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پس سود کا تو سوال ہی نہیں ہے جو کسی قسم کے زائد مطالبات تم کر سکو.جو تم قرض دیتے ہو اس میں بھی قرض لینے والے کے معاشی حالات کا خیال رکھا کرو کیونکہ ایک دوسرے کا اس طرح خیال رکھنا آپس کی محبت اور پیار کو بڑھانے والا ہوتا ہے.فرمایا کہ مقروض کی تنگدستی کا ہمیشہ خیال رکھو اور اگر دینے والے کی اتنی کشائش ہے کہ مجبور شخص کا قرض معاف کیا جا سکے ( اگر اس کی حقیقی مجبوری ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ بھی کرو.تمہارا ی فعل تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہوگا.یہاں میں ضمناً یہ بھی کہہ دوں کہ پہلے میں نے احمدی وکلاء کو بھی کہا تھا، بعض اسائکم (Asylum) کے کیس آتے ہیں تو احمدی وکلاء جو فیس چارج کرتے ہیں اس کو ذرا اتنی رکھا کریں کہ اس بیچارے شخص کو بالکل ہی مقروض نہ کر دیا کریں یا کم از کم یہ شرط ہو کہ اگر تمہارا کیس پاس ہو جاتا ہے تو اس کے بعد جب تمہیں کام مل جائے گا تو اس وقت معاہدے کے مطابق اتنی فیس دے دینا.لیکن بہر حال کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا کسی جگہ بھی ہو ، اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے حصہ لینا ہے تو اپنے مقروض بھائیوں سے شفقت سے پیش آؤا اور انہیں فائدہ پہنچاؤ اور یہ فائدہ ہی تمہیں پھر اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے والا بنائے گا.ایک مسلمان کو اور خاص طور پر ایک احمدی کو اس طرف نظر رکھنی چاہئے.اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالی لحاظ سے کسی پر فضلیت بخشی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی شکر گزاری کا حقیقی طریق یہ ہے کہ مالی لحاظ سے کمزور بھائیوں کی مدد کی جائے.اگر سخت رویہ رکھو گے تو پھر یا درکھواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ طاقتور ہے اور تمہارے سے بھی سختی کر سکتا
خطبات مسرور جلد پنجم 251 خطبہ جمعہ 15 جون 2007ء ہے.پس اللہ کا خوف اور اس کا تقویٰ انتہائی اہم چیز ہے.ایک مسلمان جو کسی حکم پر عمل نہیں کرتا اور ایک غیر مسلم جو کسی نیکی پر عمل نہیں کر رہا ہوتا دونوں برابر ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس طرح مثال دیتے ہیں کہ ایک غیر مسلم جو ہے وہ تو عاق شدہ بچے کی طرح ہے جس کو ماں باپ نے عاق کر دیا ہو.اگر وہ نافرمان ہو چکا ہے اور باپ کی بات نہیں مانتا تو باپ نے اس سے تعلق تو ڑ لیا ہے.وہ جو بھی کرتا رہے اس کے باپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں.لیکن ایک مسلمان کی مثال ایک ایسے بچے کی طرح ہے جو فیملی ممبر ہے.اگر وہ کوئی حرکت کرتا ہے تو پھر اسے سزا بھی ملتی ہے.اگر غلط کام کرے گا تو اس مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس جہان میں بھی سزا مل سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی سزامل سکتی ہے یا دونوں جگہ جس طرح اللہ چاہے.پس اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ چھوٹ دی ہے کہ نافرمانیوں کے باوجود نہیں پکڑا تو یہ اس لئے ہے کہ اصلاح کر لو تا کہ سزا سے بچ سکو.اس بارہ میں جو حکم ہے کہ اپنے بھائیوں کا خیال رکھو تو چاہئے کہ اپنے بھائیوں کو تنگی میں مبتلا کرنے کی بجائے ان کے لئے آسانیاں پیدا کرو، ان کے لئے سہولت پیدا کرو تا کہ سلامتی پھیلانے کی وجہ سے غریب کی دعائیں لینے والے بنو، اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بنو.اور مقروض کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مطلب نہیں کہ کسی نے قرض دے دیا تو پھر کہہ دیا کہ میرے پاس کشائش نہیں.اس کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب کسی معاہدے کا وقت مقرر کیا ہے تو اس معاہدے کو نبھانا ضروری ہے.پھر بہانے بنانے کی بجائے جس طرح بھی ہو قرض اتارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر توفیق نہیں تو پھر سچائی پر قائم رہتے ہوئے ساری صورت حال سے اپنے قرض دینے والے کو آگاہ کرنا چاہئے ، اس سے مہلت لینی چاہئے اور یہی چیزیں ہیں جو دونوں کو ، قرض لینے والے کو بھی اور قرض دینے والے کو بھی آپس میں صلح وصفائی سے رہنے اور پیار میں بڑھانے والی ہوں گی.اگر ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے تو خاص طور پر جو مقروض ہے اُسے یہ خیال نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس لئے بخش دے گا کہ میں غریب ہوں.ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ سچائی کو چھپانے والا جھوٹا ہے اور جھوٹا ہمیشہ خدا کے مقابلے پر کھڑا ہوتا ہے.اس کو اللہ تعالیٰ نے نا پسند فرمایا ہے.اگر قرض دینے والا یہ سوچ کر کہ اگر میں مقروض کی جگہ ہوتا اور حالات خراب ہوتے تو کیا میں نرمی کی توقع نہ رکھتا ؟ مہلت کی توقع نہ رکھتا؟ اس طرح اپنے مقروض سے معاملہ کرے اور اسی طرح جو قرض لینے والا ہے اگر یہ سوچ کر کہ اگر میں قرض دینے والا ہوتا تو کیا میں دھوکہ دینے والے مقروض کو برداشت کر سکتا؟ اپنے قرض لینے والے سے اس طرح معاملہ کرے تو دونوں طرف کی یہ سوچھیں پھر مثبت نتیجہ نکالنے والی ہوں گی اور اس طرف لے جائیں گی جہاں آپس میں تعلقات میں مزید بہتری پیدا ہوتی ہے اور اس طرح اس حدیث پر عمل کر رہے ہوں گے کہ حقیقی مسلمان کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو.پس یہ ایک ایسا
خطبات مسرور جلد پنجم 252 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء حکم ہے کہ اس پر عمل کرنے والا صلح پیار اور سلامتی کے علاوہ اور کچھ نہیں پھیلاتا.سود کے ضمن میں ہی ایک بات جو شاید مجھے بیان کر دینی چاہئے تھی لیکن بہر حال اب بیان کر دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأكُلُوا الرِّبوا أَضْعَافًا مُضْعَفَةً وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران: 131) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو سو دو رسُود نہ کھایا کرو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ سُود کی مناہی تو نہیں لیکن شود در سود کی مناہی ہے.اب جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ اتنے واضح احکامات کے بعد یہ تفسیر ، یہ تشریح تو ویسے ہی غلط ہے.اور یہ آیت پہلی آیات سے ٹکراتی نہیں ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد بیان کرتا ہوں جس سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے.کسی نے سرسید احمد خان کے حوالے سے اس بارہ میں بات کی تو آپ نے فرمایا: ” یہ بات غلط ہے کہ سو دو رسُود کی ممانعت کی گئی ہے اور سود جائز رکھا ہے.یعنی سُود و رکود تو حرام ہے لیکن سُود جائز ہے.فرمایا کہ شریعت کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے.یہ فقرے اسی قسم کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ گناہ در گناہ مت کرتے جاؤ.اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرو یا گناہ کرنے کی اجازت ہے.(البدر جلد 2 نمبر 10 مورخہ 27 / مارچ 1903 ء صفحہ 75 ) پھر تجارت میں جن باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو، فساد نہ ہو، رنجشیں نہ ہوں.ان سب چیزوں سے محفوظ رہنے کے لئے یا لین دین اور قرض کی شرائط کس طرح ہونی چاہئیں ، اس بارہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کیا تعلیم دیتا ہے.فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنِ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَايَابَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللهُ فَلْيَكْتُبُ.وَلْيُمْلِلِ الَّذِى عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسُ مِنْهُ شَيْئًا.فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهَا أَوْضَعِيفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ.وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكَّرَ إِحْدَاهُمَا الأخرى.وَلَايَابَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْتَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا اَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ.ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللهِ وَاقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُوْنَهَا.، بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيدٌ.وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقَ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرة: 283) یعنی اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم ایک معین مدت تک کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہئے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے اور کوئی کا تب اس سے انکار نہ کرے کہ وہ لکھے.پس وہ لکھے جیسا اللہ نے اسے
253 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم سکھایا ہے اور وہ لکھوائے جس کے ذمہ ( دوسرے کا حق ہے اور اللہ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے.پس اگر وہ جس کے ذمہ ( دوسرے کا حق ہے، بیوقوف ہو یا کمزور ہو یا استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ لکھوائے تو اس کا ولی ( اس کی نمائندگی میں ) انصاف سے لکھوائے اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرالیا کرو.اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (ایسے) گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو.( یہ ) اس لئے (ہے) کہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کرا دے.اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو انکار نہ کریں اور ( لین دین ) خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد تک ( یعنی مکمل معاہدہ) لکھنے سے اکتاؤ نہیں ، تمہارا یہ طرز عمل خدا کے نزدیک بہت منصفانہ ٹھہرے گا اور شہادت کو قائم کرنے کے لئے بہت مضبوط اقدام ہوگا اور اس بات کے زیادہ قریب ہوگا کہ تم شکوک میں مبتلا نہ ہو.( لکھنا فرض ہے ) سوائے اس کے کہ وہ دست بدست تجارت ہو جسے تم ( اسی وقت ) آپس میں لیتے دیتے ہو.اس صورت میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اسے نہ لکھو اور جب تم کوئی ( لمبی ) خرید وفروخت کرو تو گواہ ٹھہرا لیا کرو اور لکھنے والے کو اور گواہ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے.اگر تم نے ایسا کیا تو یقیناًیہ تمہارے لئے بڑے گناہ کی بات ہوگی اور اللہ سے ڈرو جبکہ اللہ ہی تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے.یہ ایک انتہائی اہم حکم ہے.لین دین کی وجہ سے معاشرے میں جھگڑوں اور فسادوں کو دُور کرنے کا اسلام کا ہر حکم اس کے خدا کی طرف سے ہونے اور کامل اور مکمل دین ہونے کی دلیل ہے.اسی طرح اب یہ حکم بھی ہے کہ آپس کے لین دین کے معاملات کو لکھ لیا کرو.یہ حکم اس زمانے میں نازل ہوتا ہے جبکہ تحریر کا رواج ابھی اپنی ابتدائی حالت میں تھا، بلکہ انتہائی ابتدائی حالت میں تھا.اور عربوں کا تو اس طرف بہت کم رجحان تھا.آج ترقی یافتہ ملکوں کو یہ فخر ہے کہ ہم نے معاہدات کو محفوظ کرنے کے کتنے پکے طریقے بنالئے ہیں.لیکن پھر بھی بڑے بڑے دھو کے ہو جاتے ہیں لیکن اس ایک آیت میں دو دفعہ یہ بیان کر کے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، ایک مومن کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارے یہ سارے دنیاوی معاملات بھی اُس وقت صحیح انجام کو پہنچ سکتے ہیں جب اللہ کا تقویٰ ہو.پھر اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے بات کی گئی ہے تو اس لئے کہ ایک مسلمان مومن کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور جو کام اس سوچ کے ساتھ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے، اس میں دھوکہ دہی کا پہلو نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ لین دین کرتے وقت تو احساس نہیں ہوتا اور ایک دوسرے کے بعض اوقات بڑے قریبی تعلقات ہوتے ہیں اس لئے لین دین کر لیتے ہیں.بڑے اعتماد کی باتیں ہوتی ہیں.لیکن کچھ عرصہ بعد یہی اعتماد، بے اعتمادی میں بدل جاتا ہے.یہی محبت نفرتوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر بعض دفعہ مقدموں تک نوبت آجاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ان تعلقات کو ہمیشہ محبت اور پیار کے دائرے میں رکھنے کے لئے فرمایا کہ قرض کی شرطیں
254 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ، کاروباری معاہدوں کی شرطیں، لین دین کی شرطیں ہمیشہ تحریر میں لایا کرو.پہلی بات تو یہ کہ قرض کی مدت ہمیشہ مقرر کرو تا کہ لینے والے کو بھی یہ احساس رہے کہ میں نے فلاں عرصے کے اندر واپس کرنا ہے اور دینے والا بھی جس کو قرض دیا گیا ہے اس کو بار بار تنگ نہ کرے.بعض دفعہ اتنا تنگ کرتے ہیں کہ قرض لینے والا سمجھتا ہے کہ میں ایک تو قرض لے کر زیر بار ہوں اور مزید اس پر پھر احسان ہوتا چلا جاتا ہے.تو فرمایا کہ اس کی تحریر لے لیا کرو اور تحریر میں مدت مقرر کرنی ہے.اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ لیتے وقت لینے والے کو یہ احساس رہے گا کہ جو میں لے رہا ہوں اس کو مقررہ مدت میں ادا بھی کر سکتا ہوں کہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے بار بار جو تقویٰ کی شرط رکھی ہے تو اس شرط پر میں پورا اتر سکتا ہوں کہ نہیں.اس لئے پھر قرض لینے والا اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے گا.اس شرط سے ان لوگوں کی یہ دلیل بھی رڈ ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شو د اس لئے مقرر کیا جاتا ہے اور ایک فائدہ اس کا یہ بھی ہے کہ سود کے خوف کی وجہ سے جلد قرض دار قرض ادا کر سکے یا اس کی کوشش کرے.سُود کا تو اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.بیسیوں لوگ ہیں، کئیوں کو میں بھی جانتا ہوں، جو سود پر قرض لیتے ہیں اور پھر تمام زندگی قرض نہیں اتارتے ، پھر قرض پر قرض چڑھتا چلا جاتا ہے یا لڑائی اور جھگڑے اور فساد ہو جاتے ہیں اور یہ قرض پھر ان کی انگلی نسلیں بھی نہیں اتار سکتیں.اگر حکومتی مالیاتی اداروں سے قرض لیا ہے تو اگر کسی طرح بچنے کی کوشش کی اور نہیں بچ سکے تو جیسا کہ میں نے پچھلے خطبے میں ذکر کیا تھا، پھر ایسے قرض لینے والے کی کوئی چھوٹی موٹی جائیداد ہو تو اس کی نیلامی ہو جاتی ہے، وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے.تو یہاں پہلے بتا دیا کہ اگر تقویٰ ہے تو پہلے سوچ لو کہ ادا بھی کر سکتے ہو کہ نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ وعدوں کی پابندی کی بڑی تلقین کرتا ہے.پھر فرمایا کہ تمہارے درمیان کوئی تیسرا شخص جو انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہو یہ معاہدہ لکھے تاکہ کسی فریق سے بے انصافی نہ ہو اور پھر تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے فرمایا کہ بعض دفعہ لینے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ قرض دینے والے نے پتہ نہیں کیا شرائط رکھوا دی ہیں تو اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حق قرض لینے والے کو دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے تم اس معاہدے کی تحریر لکھواؤ تا کہ واپسی کی جو مقررہ میعاد ہے اس میں کوئی جھگڑا کھڑا نہ کر سکو.اس حکم کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، ذہن میں رکھو کہ ایک مسلمان ہو اور مسلمان ہمیشہ معاہدوں کا پابند ہو جاتا ہے.یہ سوچ کر معاہدہ نہ لکھواؤ کہ ابھی تو لے لو جب موقع ملے گا تو دیکھی جائے گی کہ واپس کرنا ہے کہ نہیں.نہیں بلکہ ہمیشہ یادرکھو کہ اللہ کو جان دینی ہے اس لئے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے معاشرے کا امن اور سکون برباد ہوتا ہو.اگر سمجھتے ہو کہ واپسی کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ متوقع آمد اس کی متحمل ہوسکتی ہے اور نہ جائیداد اس قرض کی متحمل ہوسکتی ہے تو پھر معاہدہ نہ کرو، پھر قرض نہ لو.تو مقروض کو پابند کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ تمام امور پر غور کر کے پوری توجہ سے پھر تم معاہدہ لکھواؤ گے.اور جو شرائط ہیں، بعد میں پھر ان میں سے کم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے تو ہر موقع پر اللہ کا تقویٰ پیش نظر
خطبات مسرور جلد پنجم 255 خطبہ جمعہ 15 جون 2007ء رکھو اور اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.پھر قرآن کریم نے معاشرے کے کسی طبقے کی ضرورت کا بھی امکان نہیں چھوڑا.فرمایا کہ بعض دفعہ بے وقوف یا کم علم والے اور ضرورت مند ہو سکتے ہیں.تو ایک پاک معاشرے کا فرض ہے کہ اگر ایسے حالات ہوں تو کوئی صاحب عقل اور علم والا آدمی ان ضرورتمندوں کی نمائندگی کرے، ان کے لئے معاہدہ لکھوائے.ورنہ ہو سکتا ہے کم علم والا معاہدہ لکھواتے ہوئے بعض ایسی شرائط نہ لکھ سکے یا لکھوا سکے جو اس کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں.اس لئے ولی کا فرض ہے کہ ملکی قانون کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی نمائندگی کرے.پھر فرمایا جب معاہدہ ہو جائے تو اس پر گواہ بنائے جائیں.پہلے دو مردوں کا ذکر ہے کہ ان کو گواہ بناؤ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن پر تم دونوں فریق راضی ہو.دو عورتیں گواہ رکھنے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ عموماً اس قسم کے کاروباری اور حسابی معاملات میں عورتیں کم دلچسپی رکھتی ہیں بلکہ یہاں ایک سوال اٹھا تو اسی بنا پر میں نے جائزہ لیا تو جو انفارمیشن (Information) مجھے ملی اس کے مطابق یہاں بھی براہ راست کا روبار میں یا فنانسز میں یا اکاؤنٹس میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت بہت کم ہے اور دلچسپی کم ہے.پھر اسلام عالمگیر مذہب ہے.بعض ممالک میں تو یہ دلچسپی بہت ہی کم ہے مثلاً پاکستان میں لے لیں، اس قسم کے تجارتی بکھیڑوں میں نہ عورتوں کی اکثریت کو دلچسپی ہے اور نہ اس میں پڑتی ہیں.تو دو کی تصدیق اگر ضرورت پڑے تو گواہی کو مضبوط کر دیتی ہے اور دو مرد بھی اس لئے ہیں کہ دونوں کی گواہی ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہے.پھر اگر معاہدے میں کوئی بدمزگی ہو جائے تو حکم یہ ہے کہ ان گواہان کو اگر کسی عدالت میں یا کہیں بھی گواہی کے لئے بلایا جائے تو پھر انکار نہیں کرنا.خوشی سے وہاں پیش ہوں اور حقیقت حال کے مطابق اپنا بیان دیں تا کہ فیصلہ کر کے معاشرے کا سکون قائم رکھا جاسکے.پھر فرمایا اگر دست بدست تجارت ہے، اگر خرید وفروخت براہ راست ہورہی ہے تو ٹھیک ہے اس میں تحریر نہ لو.لیکن اس میں بھی بعض جھگڑا کرنے والے جھگڑوں کے بہانے تلاش کر ہی لیتے ہیں.اس لئے ہمیشہ لینے والے کو اچھی طرح چھان پھٹک کر کے چیز لینی چاہئے تا کہ بعد میں کسی قسم کے جھگڑے نہ ہوں.لیکن اگر کاروبار کی صورت میں لمبے معاہدے ہو رہے ہیں تو پھر اسی طرح لکھنا ہے اور گواہ مقرر کرنا ہے جس طرح پہلے قرض کے معاملے میں ذکر ہو چکا ہے.لیکن یہاں بھی فرمایا کہ اللہ کا تقوی اختیار کرو اور دینے والا اور لینے والا دونوں ہمیشہ یہ مد نظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انہیں ہمیشہ دیکھ رہی ہے.اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر قرض اور لین دین کے معاملات کا ذکر ہے جس پر عمل کر کے محبت اور سلامتی کو پھیلایا بھی جاسکتا ہے اور اس کا قیام بھی کیا جا سکتا ہے.
256 خطبہ جمعہ 15 / جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ایک اور حکم میں یہاں بیان کر دیتا ہوں جس نے آج کل بھائی کو بھائی سے دور کر دیا ہے.چند سال پہلے جن میں مثالی محبت نظر آتی تھی اب بغض ، کینے اور حسد نے ان کو ایک دوسرے کے لئے اندھا کر دیا ہے اور وہ حکم جس پر عمل نہ کرنے سے یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں مناہی فرمائی ہے.فرمایا ك وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمُ بَيْنَكُمُ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُجَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة: 189) اور اپنے ہی اموال آپس میں جھوٹ فریب کے ذریعہ نہ کھایا کرو اور نہ تم انہیں حکام کے سامنے اس غرض سے پیش کرو کہ تم گناہ کے ذریعہ لوگوں کے ( یعنی قومی ) اموال میں سے کچھ کھا سکو.تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ.دوسرے کے مال کھانے کے لئے قومی مال نہ کھاؤ.وہ بھی ایک وجہ ہے.پھر رشوت دے کر غلط فیصلے اپنے حق میں نہ کراؤ.ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھنے سے، ایک دوسرے کی جائیداد پر نظر ر کھنے سے ہمیشہ بچنا چاہئے.کسی کی جائیداد کے بارے میں عدالت بے شک دوسرے کو حق بھی دلا دے لیکن اپنے اندر ہمیشہ ٹول کر دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعی یہ میرا حق ہے ؟ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس طرح تم آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈالتے ہو.اس وجہ سے جہاں دو گھروں میں نفرتیں پلتی ہیں، معاشرے میں فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے.نا جائز مال کھانے کی وجہ سے ایسے لوگ پھر اپنے گھر کی سلامتی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.پس اس بات کی بڑی سختی سے پابندی کرنی چاہئے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو سلامتی سے محروم کرنے والے نہ ہوں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان چیزوں سے بچائے رکھے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 6 تا 12 جولائی 2007ء ص 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد پنجم 257 25 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء ( فرمودہ مورخہ 22 جون 2007 (22 راحسان 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: جب دنیا میں ہر جگہ فساد پھیلتا ہے اور سلامتی ہر جگہ سے اٹھتی نظر آتی ہے تو جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی اصلاح کے لئے ، اپنے بندوں کو اس فساد سے بچانے کے لئے انبیاء بھیجتا ہے اور جب دنیا سے تقوی بالکل اٹھ جاتا ہے اس وقت بھی انبیاء بھیجے جاتے ہیں اور آج سے چودہ سو سال قبل ہم نے دیکھا کہ جب اس زمین پر سے تقویٰ بالکل اٹھ گیا ، خشکی اور تری ، ہر جگہ پر فساد اپنے عروج پر تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت آنحضرت ﷺ پر اتار کر دنیا کو اس فساد سے بچانے کے سامان پیدا فرمائے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم نازل فرما کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اسلوب ہمیں سکھائے.جن کو پہلے انبیاء کے ماننے والے یا تو بھول چکے تھے یا ان پہلے انبیاء کو ان اعلیٰ معیاروں کے احکامات دیئے ہی نہیں گئے تھے.اور مشرکین کا جہاں تک سوال ہے وہ تو اپنی جہالت میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے.تو قرآن کریم نے ہر قسم کے احکامات کے ادا کرنے کے لئے جس اہم ترین نکتہ کی طرف قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں توجہ دلائی وہ ہے تقویٰ.پس تقویٰ ایک انتہائی اہم چیز ہے جس کا ایک انسان کو اگر فہم و ادراک حاصل ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر کار بند ہو سکتا ہے، اس کا پر تو بن سکتا ہے اور ان کو پھیلانے والا بن سکتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس اہم نکتہ پر توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ: قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پر ہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.وجہ یہ کہ تقومی ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے.اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے.اور اس قدر تا کید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے.ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطر ناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ (342)
258 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پس یہ تقویٰ ہی ہے جو دین کی بنیاد ہے اور جب تک مسلمانوں میں یہ قائم رہا وہ اللہ تعالیٰ کے سلامتی کے پیغام کو دنیا میں پھیلاتے چلے گئے اور سعید روحیں ان میں شامل ہوتی چلی گئیں اور اسلام عرب سے نکل کر ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل گیا ، مشرق بعید میں بھی پھیل گیا، افریقہ نے بھی اس کی برکتوں سے فیض پایا اور یورپ میں بھی اسلام کا جھنڈا لہرایا.لیکن جب تقویٰ کی کمی ہوتی گئی ، جب سلامتی کی جگہ خود غرضیوں نے لے لی، جب محبت پیار کی جگہ حسد، بغض اور کینہ نے لے لی تو ان انعامات اور برکات سے بھی مسلمان محروم ہوتے چلے گئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنا تقویٰ دلوں میں رکھنے والوں کے لئے مقدر کی ہوئی تھیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے بحروبر کے فسادوں کو دور کرنے کے لئے آخری تعلیم آنحضرت ﷺ پر اتاری.آج بھی یہی تعلیم ہے جس نے اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنا ہے.آج بھی یہی تعلیم ہے جس نے دنیا کے فسادوں کو اپنی سلامتی کے پیغام سے دور کرنا ہے.گو کہ وہ لوگ محروم ہو گئے جن کے دلوں سے تقویٰ نکل گیا اور خود غرضیوں اور حسد اور بغض میں بڑھ گئے لیکن خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ جو اللہ تعالیٰ کے آخری شرعی نبی تھے سے کئے گئے اس وعدے کو کہ اسلام نے ہی تمام ادیان پر غالب آنا ہے واپس نہیں لے لیا.محروم اگر ہوئے تو تقویٰ سے عاری لوگ ہوئے نہ کہ دین اسلام میں کسی قسم کی کمی ہوئی.آج اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اور اس کی ترقی کے لئے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو کھڑا کیا ہے.آج مسلمانوں کی اس کھوئی ہوئی میراث کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں نے اسلام کی صحیح تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے دلوں کو تقویٰ سے پُر کرتے ہوئے واپس لانا ہے.پس یہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ اس سلامتی کے پیغام کو ہر طرف پھیلاتا چلا جائے.ہر دل میں یہ بات راسخ کر دے کہ اسلام تشدد کا نہیں بلکہ پیار اور محبت کا علمبردار ہے.ہر سطح پر اسلام کی تعلیم امن اور سلامتی کو قائم رکھنے کی تعلیم ہے.اسلام نے قوموں اور ملکوں کی سطح پر بھی امن اور سلامتی قائم کرنے کے لئے جو خو بصورت تعلیم دی ہے اس کا مقابلہ نہ کوئی انسانی سوچ کر سکتی ہے اور نہ کوئی مذہب کر سکتا ہے.اس خوبصورت تعلیم پر عمل سے ہی دنیا کا امن اور سلامتی قائم ہو سکتے ہیں.دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے قوموں کی ایک تنظیم اقوام متحدہ کے نام سے ابھری لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا بھی حشر وہی ہوا اور ہورہا ہے جو اس سے پہلے قائم کردہ تنظیم کا تھا.اس میں بڑے دماغوں نے مل کر بڑی منصوبہ بندی کی اور بڑی منصوبہ بندی سے یہ تنظیم بنائی.اس میں کئی کمیٹیاں قائم کی گئیں.سلامتی کونسل بنائی گئی تا کہ دنیا کا امن اور سکون قائم رکھا جائے ، جھگڑوں کو نپٹایا جائے.معاشی حالات کے جائزے کے لئے کہ یہ بھی فسادوں کی ایک وجہ بنتی ہے، اس میں ایک کونسل بنائی گئی.عدالت انصاف قائم کی گئی.لیکن اس کے باوجود آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے.اس سب ناکامی کی وجہ تقویٰ کی کمی ہے.اس میں بعض
خطبات مسرور جلد پنجم 259 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء قوموں نے اپنے آپ کو دولت کا معیار رکھتے ہوئے ، یا عقل کا معیار رکھتے ہوئے ، یا طاقت کا معیار رکھتے ہوئے، یا علم کا معیار رکھتے ہوئے، تکبر کی وجہ سے یا اپنے آپ کو سب سے زیادہ امن وسلامتی کا علمبر دار سمجھتے ہوئے باقی قوموں سے بالا رکھا ہوا ہے.مستقل نمائندگی اور غیر مستقل نمائندگی کے معیار قائم کئے ہوئے ہیں جو کبھی انصاف قائم نہیں کر سکتے.بغیر روحانی آنکھ کے، اللہ تعالیٰ کی مدد اور تقویٰ کے نہ ہونے کی وجہ سے جب کسی ایک طاقت کو اکثریتی فیصلہ پر قلم پھیرنے کا اختیار ہوگا تو یہ اختیار سلامتی پھیلانے والا نہیں ہو سکتا.پس دنیا میں سلامتی اگر پھیلے گی تو اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو دی ہے جس میں تقویٰ شرط ہے.جس کی چند مثالیں اب میں یہاں پیش کرتا ہوں.تمام قوموں کے بحیثیت انسان ہونے کے بارے میں قرآن کریم ہمیں تعلیم دیتا ہے.فرمایا يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَانْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ الله عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات : 14) کہ اے لوگو یقینا ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے.تو یہ ہے اسلامی بھائی چارے کی تعلیم.اسلامی بھائی چارے کے قیام اور سلامتی کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم.ایک مومن کو جس میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے، اس بھائی چارے کی تعلیم کو اپنے اوپر مکمل طور پر لاگو کر نے اور دنیا میں پھیلانے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے.یہی وہ حکم ہے جس سے دنیا میں ایک دوسرے سے پیار محبت اور ایک دوسرے سے برادری کا تعلق قائم ہو سکتا ہے.ورنہ جتنی چاہیں یہ سلامتی کونسلیں بنالیں وہ قوموں کی بے چینی اس لئے دور نہیں کرسکتیں کہ طاقتوروں نے اپنے اختیارات دوسروں سے زیادہ رکھے ہوئے ہیں.پس دنیا کی سلامتی کی ضمانت اسی وقت دی جاسکتی ہے، دنیا کی بے چینی اسی وقت دور کی جاسکتی ہے جب قومی برتری کے جھوٹے اور ظالمانہ تصور کا خاتمہ ہو جائے گا.یہ بے چینی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک نسلی اور قومی برتری کے تکبر دل و دماغ سے نہیں نکلتے.دنیا میں سلامتی اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک یہ نسل، قوم اور ملک کی برتری کا احساس رکھنے والوں اور حکومتوں کے دماغوں میں یہ بات راسخ نہیں ہو جاتی کہ ہم آدم کی اولاد ہیں اور ہمارا وجود بھی قانون قدرت کے تحت مرد اور عوت کے ملاپ کا نتیجہ ہے اور ہم بحیثیت انسان خدا کی نظر میں برابر ہیں.اللہ کی نظر میں اگر کوئی اعلیٰ ہے تو تقویٰ کی بنا پر اور تقویٰ کا معیار کس کا اعلیٰ ہے یہ صرف خدا کو پتہ ہے.کوئی اپنے تقویٰ کے معیار کو خود Judge کرنے والا نہیں ہے.خود اس معیار کو دیکھنے والا نہیں ہے ، پر کھنے والا نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حیثیت، تمہارا دوسرے انسان سے اعلیٰ اور برتر ہونا اس کا کوئی تعلق نہ تمہاری نسل سے ہے نہ تمہاری قوم سے ، نہ تمہارے رنگ سے ہے، نہ تمہاری دولت سے ہے، نہ تمہارے اپنے معاشرے میں اعلیٰ مقام سے ہے.نہ کسی قوم کا
260 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اعلیٰ ہونا، کمز ورلوگوں پر اس کے حکومت کرنے سے ہے.دنیا کی نظر میں تو ان دنیا وی طاقتوں اور حکومتوں کا مقام ہوگا لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں نہیں.اور جو چیز خدا تعالیٰ کی نظر میں قابل قبول نہ ہو وہ بظاہر ان نیک مقاصد کے حصول میں ہی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کے لئے وہ استعمال کی جارہی ہے.اسلام کہتا ہے کہ تمام انسان جو ہیں ایک خاندان ہیں اور جب ایک خاندان بن کر رہیں گے تو پھر اس طرح ایک دوسرے کی سلامتی کا بھی خیال رکھیں گے جس طرح ایک خاندان کے افراد ، ایسے خاندان کے افراد جن میں آپس میں پیارو محبت ہو وہ رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قبیلوں اور قوموں کا صرف یہ تصور دیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.یہ پاکستانی ہے، یہ انگریز ہے، یہ جرمن ہے، یہ افریقن ہے.ورنہ بحیثیت انسان تم انسان ہو.اور جو امیر کے جذبات ہیں ، وہی غریب کے جذبات ہیں.جو یورپین کے جذبات ہیں ، وہی افریقن کے جذبات ہیں.جو مشرق کے رہنے والوں کے جذبات ہیں وہی مغرب کے رہنے والوں کے جذبات ہیں.پس ایک دسرے کے جذبات کا خیال رکھو.اگر جذبات کا خیال رکھو گے تو سلامتی میں رہو گے.پس ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیت رکھی ہیں، ہر قوم کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں ، ان سے فائدہ اٹھاؤ تا کہ دائمی پیار و محبت کو قائم رکھ سکو.پس اسلام کے نزدیک پائیدار سلامتی کے لئے یہی معیار ہے ورنہ جیسا کہ میں نے کہا جتنی بھی سلامتی کونسلیں بن جائیں، جتنی بھی تنظیمیں بن جائیں وہ کبھی بھی پائیدار امن وسلامتی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں.اور یہ قرآنی تعلیم پہلے صرف تعلیم کی حد تک ہی نہیں رہی بلکہ آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں اس پر عمل کیا.غریبوں سے لاڈ کیا، غلاموں سے پیار کیا، محروموں کو ان کے حق دلوائے ، ان کو معاشرے میں مقام دلوایا.حضرت بلال جو ایک افریقن غلام تھے وہ آزاد کر وا دیئے گئے تھے.لیکن اس وقت کوئی قومی حیثیت ان کی معاشرے میں نہیں تھی.لیکن آنحضرت ﷺ کے سلوک نے ان کو وہ مقام عطا فرمایا کہ حضرت عمر نے بھی ان کو سیدنا بلال کے نام سے پکارا.پس یہ ہیں سلامتی کے معیار قائم کرنے کے طریق.پھر حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے کھول کر بیان فرما دیا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اس لئے نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے نہ عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے.اسی طرح رنگ نسل بھی تمہاری بڑائی کا ذریعہ نہیں ہیں.پس یہ خوبصورت معاشرہ تھا جو آنحضرت ﷺ نے پیدا کیا اور یہی معاشرہ ہے جو آج مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت نے آنحضرت ﷺ کے حکم کے تحت قائم کرنا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے بین الاقوامی سلامتی کے لئے حکم دیا ہے جو کہ ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے بھی کافی ہے ان کے لئے تسلی بخش جواب ہونا چاہئے ) جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا اور تشدد کا حکم دیتا ہے.بلکہ اس کے الٹ اللہ تعالیٰ تو یہ حکم دیتا ہے کہ جو تمہیں تنگ نہیں کر رہے، جو تم سے جنگ نہیں کر رہے ( بعض احکامات کے ماتحت
خطبات مسرور جلد پنجم 261 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء جنگ کی مجبوری بھی تھی.وہ تفصیل تو یہاں بیان نہیں ہو سکتی ) جنہوں نے تمہارے خلاف تلوار نہیں اٹھائی تو نہ صرف یہ کہ ان سے کسی قسم کی سختی نہیں کرنی بلکہ ان سے نیکی کرو، ان پر احسان کرو، ان کے معاملات میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرو.چاہے وہ عیسائی ہے یا یہودی ہے یا کوئی بھی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ”بے شک ان پر احسان کرو، ان سے ہمدردی کر و انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے.(نورالقرآن.روحانی خزائن جلد 9 نمبر 2 صفحہ 435) یہ قرآن کریم کے اس حکم کے تحت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يَنْهَكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمُ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنه: 9) اللہ تمہیں اس سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش آؤ.یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.تو اس میں اس حکم کی طرف ہی اشارہ ہے جو دوسری جگہ ہے کہ اگر فساد کوروکنے کے لئے تمہیں تلوار اٹھانی پڑے تو اٹھا سکتے ہو.ایسے لوگ جو فتنہ اور فساد پیدا کرنے والے ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف تلوار اٹھائی ہے ان کے خلاف ایک قوم اور حکومت کی حیثیت سے اعلان جنگ کر سکتے ہو.لیکن اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا.جو تمہارے سے ٹکر نہیں لے رہا، جو تمہیں تنگ نہیں کر رہا، جو تمہارے سے جنگ نہیں کر رہا، جو تمہیں ختم کرنے کے درپے نہیں ہے، تو تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان سے نیکی کر و حسن سلوک سے پیش آؤ.اور یہی بات ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کا محبوب بنائے گی.اعلان جنگ ہے یا اعلان بیزاری صرف اُن کے ساتھ ہے جن کا دنیا میں فساد کے علاوہ کوئی کام نہیں.پس ایسے لوگوں سے دوستی رکھنے اور محبت بڑھانے کی اللہ تعالیٰ اجازت نہیں دیتا.لیکن جو امن میں رہ رہے ہیں ان کو بلا وجہ ان کا امن برباد کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا.یہاں بھی واضح ہونا چاہئے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق اعلان جنگ کرنا یا رد عمل کا اظہار کرنا حکومتوں کا کام ہے.ہر شخص جو چھوٹے بڑے گروپ کا ہے اگر اس طرح کرنے لگے تو اپنے ملک میں اپنی حکومتوں کے اندر ایک فساد کی صورت پیدا ہو جائے گی.اور بدقسمتی سے یہی چیز ہے جو آج کل مختلف ملکوں میں مسلمانوں میں جو شدت پسند بنے ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہورہی ہے.اپنے ملکوں میں فساد پیدا کیا ہوا ہے جس سے اسلام اور مسلمان بدنام ہورہے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے جو بین الاقوامی سلامتی اور بین المذاہب تعلقات کے لئے بڑا اہم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ
262 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمُ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (انعام: 109) اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کوگالیاں دیں گے.اسی طرح ہم نے ہر قوم کو ان کے کام خوبصورت بنا کر دکھائے ہیں.پھر اُن کے رب کی طرف اُن کو لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو اس سے آگاہ کرے گا جو وہ کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (سورۃ الانعام جزو نمبر (7) یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے کیونکہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں.اب دیکھو کہ باوجود یکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بُت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بد گوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ“.پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 460-461) تو یہ ہے معاشرے میں، دنیا میں امن و سلامتی قائم رکھنے کے لئے اسلام کا حکم.ہر گند کا جواب گند سے دینا اپنے او پر گند ڈالنے والی بات ہے.مخالف اگر کوئی بات کہتا ہے اور تم جواب میں اُن کو اُن کے بتوں کے حوالے سے جواب دیتے ہو تو وہ جواب میں خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں.یہ انتہائی مثال دے کر مسلمانوں کو سمجھا دیا کہ جب بھی بات کرو تمہارے کلام میں حکمت کا پہلو ہونا چاہئے.یہ بھی نہیں کہ بزدلی دکھاؤ اور مداہنت کا اظہار کرو.لیکن مَوْعِظَةُ الْحَسَنَة کو ہمیشہ پیش نظر رکھو.اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھو.تو جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک انتہائی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ تمہارے غلط رو عمل سے غیر مسلم خدا تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور ایک مسلمان کو خدا کی غیرت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.پھر تمہیں تکلیف ہوگی اور اپنے غلط الفاظ کے استعمال کی وجہ سے خدا کو گالیاں نکلوانے کے پھر تم ذمہ دار ہو گے.اسی طرح دوسروں کے بزرگوں کو، بڑوں کو، لیڈروں کو جب تم برا بھلا کہو گے تو وہ بھی اس طرح بڑھ سکتے ہیں.اسی لئے حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے باپوں کو گالیاں مت دو.تو کسی نے سوال کیا کہ ماں باپ کو کون گالیاں نکالتا ہے.آپ نے فرمایا جب تم کسی کے باپ کو برا بھلا کہو گے تو وہ تمہارے باپ کو گالی نکالے گا اور یہ اسی طرح ہے جس طرح تم نے خود اپنے باپ کو گالی نکالی.تو یہ سلامتی پھیلانے کے لئے اسلامی تعلیم ہے کہ شرک جو خدا تعالیٰ کو انتہائی ناپسندیدہ ہے جس کی سزا بھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں معاف نہیں کروں گا ان شرک کرنے والوں کے متعلق بھی فرمایا کہ ان سے اخلاق کے دائرہ میں رہ کر بات کرو.تمہارے لئے یہی حکم ہے کہ تمہارے اخلاق ایسے ہونے چاہئیں جو ایک مسلمان کی صحیح تصویر پیش کرتے ہیں.
خطبات مسرور جلد پنجم 263 خطبہ جمعہ 22 جون 2007 ء پس آج مسلمان کا کام ہے کہ اس خوبصورت تعلیم کا پر چار کرے.باقی رہا یہ کہ جو اسلام پر استہزاء کرنے سے باز نہیں آتے ان سے کس طرح نپٹا جائے.اس بارہ میں خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ ایسے لوگوں کی بد قسمتی نے ان کے فعل ان کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھی باتیں کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے آخر پھر اس زندگی کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے اور جب وہ خدا تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو خدا تعالیٰ انہیں آگاہ کرے گا جو وہ کیا کرتے تھے.پھر ان سے وہ سلوک کرے گا جس کے وہ حقدار ہیں.جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارِ عَنِيدٍ مَّنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيبِ نِ الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللهِ إِلَهَا آخَرَ فَالْقِيهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ ( ق : 25 تا 27) یعنی اے نگرانو! اور اے گرو ہو! تم دونوں سخت ناشکری کرنے والے اور حق کے سخت معاند کو جہنم میں جھونک دو.ہر اچھی بات سے روکنے والے، حد سے تجاوز کرنے والے اور شک میں مبتلا کرنے والے کو.وہ جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا کوئی معبود بنا رکھا تھا.پس تم دونوں اسے سخت عذاب میں جھونک دو.تو یہ اللہ تعالیٰ ان دار وغوں کو فرمائے گا.اگلے جہان میں ان سے یہ سلوک فرمائے گا.جس کام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اس بارے میں ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.آج کل رشدی کے بارے میں بڑا شور ہے.اس قسم کے جو لا مذہب ہوتے ہیں ان کا بھی کوئی نہ کوئی معبود ہوتا ہے.یاد نیا کی تنظیمیں یا دنیا کے کوئی بڑے آدمی ، یا دنیا کی حکومتوں کو انہوں نے اپنا معبود بنایا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے انتظام کیا ہوا ہے.ہمارے توڑ پھوڑ کرنے یا یہ کہنے سے کہ خود کش حملے جائز ہیں اور یہ رد عمل ہونا چاہئے.اس طرح کی باتیں کرنے سے اسلامی اخلاق کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش ہوگی اور اس غلط تصویر پیش کرنے کے علاوہ ہم کچھ نہیں حاصل کر رہے ہوتے.یا توڑ پھوڑ سے اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں.جو بکو اس اس نے اسلام کے خلاف یا آنحضرت ﷺ کے خلاف کی ہے بلکہ فرشتوں اور خدا کے خلاف بھی تھی.تو وہ سالوں پہلے کی ہے.اس کی فطرت ہے کرتا چلا جا رہا ہے.اب اگر اس کی حرکتوں پر یا جس وجہ سے بھی کوئی حکومت مسلمانوں کے جذبات کا خیال نہ رکھتے ہوئے اُسے کوئی بھی ایوارڈ دیتی ہے یا خطاب دیتی ہے تو ان سب کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں خود ان سے پیٹوں گا.دوسرے یہ کہ یہ نہیں ہے کہ یورپ میں بالکل ہی شرافت نہیں رہی اور یہاں یورپ میں مغرب میں شرفاء نہیں رہے.بے شمار لوگوں نے یہاں بھی ، انگلستان میں بھی اس پر اعتراض کیا ہے.ممبرز آف پارلیمنٹ نے بھی اعتراض کیا ہے کہ اس حرکت کا ( جو یہ نائٹ ھڈ کا خطاب دیا گیا ہے ) اس کا سوائے دنیا کے سلامتی و امن بر باد کرنے کے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کوئی مقصد اس سے حاصل نہیں ہو گا.اسی طرح جب اس نے آج سے دس بارہ سال پہلے یہ کتاب لکھی تھی بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس سے یہ کتاب لکھوائی گئی تھی کیونکہ
خطبات مسرور جلد پنجم 264 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء اب تو ثابت ہو رہا ہے کہ یہ لکھوائی گئی تھی.تو اس پر بھی یہاں کے بعض تبصرہ نگاروں نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ یہ اب ثابت شدہ ہے کہ اس کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے.یہ اکیلا نہیں ہے.اور اسلام کے خلاف ایک بڑی زبر دست سازش ہے کہ اسلام کے خلاف مزید رد عمل ظاہر کرنے کے لئے اس طرح بھڑ کا ؤ اور پھر اس موقع سے مزید فائدہ اٹھاؤ.اور اس کا موقع مسلمان دے رہے ہیں.دو چار جلوس نکالنے سے اور پھر خاموش ہو کر بیٹھ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا.جتنی بڑی سازش ہے یہ جھنڈے جلانے ، تصویر میں جلانے، پتلے جلانے یا جلوس نکالنے سے یہ سازش ختم نہیں ہو جائے گی.ان چیزوں سے تو جو مقصد یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل کریں گے.ان کے موقف کی مزید تائید ہوگی کہ اسلام ایسا ہی مذہب ہے.تو بہر حال ایسی حرکتوں کا حقیقی رد عمل مسلمانوں میں پیدا ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کو پہلے سے بڑھ کر اپنے اوپر لاگو کریں تا کہ دنیا کے منہ خود بخود بند ہو جائیں.آنحضرت ﷺ پر درود بھیجیں جس سے آپ کی اُمت روحانیت میں بھی ترقی کرنے والی ہو.آپ کے اسوہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں.لیکن یہ کام آج اگر کوئی کر سکتا ہے تو احمدی کر سکتا ہے جس نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو مانا ہے.آج اگر معترضین کے جواب دے سکتے ہیں تو احمدی دے سکتے ہیں.آج اگر اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو دکھا سکتے ہیں تو احمدی دکھا سکتے ہیں.پس آج احمدی کا فرض ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اس بارے میں کوشش کرے، پہلے سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجے.جب رشدی نے بدنام زمانہ کتاب لکھی تھی اس وقت حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ارشد احمدی صاحب سے اس کے جواب میں ایک کتاب لکھوائی تھی.جس کا نام تھا Rushdi-Haunted by his unholy ghost.اب سٹاک میں نہیں تھی ہاتھی تو بہت تھوڑی.مزید کچھ تبدیلیاں بھی ہوئی تھیں ایک باب کا جو مزید اضافہ ہے جس کے بارے میں کچھ ہدایات حضرت خلیفہ اسیح الرابع " نے دی تھیں ان کو سمجھا گئے تھے تو میں نے انہیں کہا تھا کہ اس کو دوبارہ شائع کریں.کچھ عرصہ ہوا ایک پبلشنگ کمپنی نے نام تو مجھے یاد نہیں رہا بہر حال اس نے اس کو شائع کیا تھا جو خود ہی اس کی مارکیٹنگ بھی کر رہے ہیں اور جماعت بھی اب اس کو شائع کر رہی ہے.اب جلد انشاء اللہ آ جائے گی.اس کا اُردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے.یہ پڑھے لکھے طبقے اور سنجیدہ طبقے کو دینی چاہئے تا کہ دنیا کے سامنے حقیقت بھی آئے.تو یہ ہے خدمت جس سے اسلام کے اعلیٰ اخلاق کا بھی پتہ چلے گا اور دنیا کے فساد دور کرنے کے حقیقی راستوں کا بھی علم ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتا ہے کہ دنیا کی سلامتی کا دار ومدار انصاف پر ہے اور انصاف کا معیار تمہارا کتنا بلند ہو، اس بارہ میں فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِيْنَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْط.وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَّا تَعْدِلُوا.اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.(المآئدة : (9) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی
خطبات مسرور جلد پنجم 265 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے.اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے.فرماتے ہیں کہ ” آپ کو معلوم ہے کہ جو قو میں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے.مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دینا، یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے.یہ تو آسان ہے کہ دشمن سے آدمی بیٹھ کر آرام سے بات کر لے لیکن یہ کہ دشمن کو بالکل بھول جانا اور پھر اس سے انصاف کرنا یہ بڑا مشکل کام ہے.بہت دل گردے کا کام ہے.فرماتے ہیں کہ پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا.کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے در گزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے.( نور القرآن.روحانی خزائن جلد نمبر 9 نمبر 2 صفحہ 410-409) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ محبت کرو بلکہ فرمایا کہ تمہارا محبت کا یہ معیار ہونا چاہئے کہ دشمن سے جو اپنی دشمنی کی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے.اس انتہاء کو، اس مثال کو سامنے رکھیں جو مکہ والوں نے مسلمانوں سے کی ، آنحضرت ﷺ سے کی قتل کئے ظلم کئے لیکن اس کے باوجود فرمایا کہ ایسے لوگوں سے بھی انصاف کرنا.اس سے پھر محبت بڑھتی ہے اور یہ ہے وہ سلامتی کا پیغام جو دنیا کو حقیقت میں سلامتی پہنچانے والا بن سکتا ہے.تو یہی ہے اسلام کی سچی تعلیم اور اس کے معیار.جب سچی محبت ہوگی، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے تو سلامتی کا پیغام بھی پہنچے گا.آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ بھی یہی تھا جس نے فتح مکہ کے موقع پر کفار کے بڑے بڑے سرداروں کو اسلام کی آغوش میں لا ڈالا.آپ کا یہ اُسوہ دشمنوں کے لئے سلامتی کی پناہ گاہ بن گیا.لَا تَـرِيب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا جو اعلان تھاوہ اس موقع پر اور ہمیشہ سلامتی کی خوشبو بکھیر تا چلا گیا.تو یہ ہے وہ معراج جس سے دنیا کی سلامتی وابستہ ہے.ورنہ دنیا کی جتنی بھی بڑی سے بڑی انصاف پسند حکومتیں ہیں وہ سازشیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتی رہیں گی.وہ ایسی تنظیموں کے حکموں پر چلتی رہیں گی جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت کی چابی ہے.جو ظاہر تو دنیا کی سلامتی کی دعویدار ہیں لیکن عملاً بحرو بر میں خشکی و تری میں فساد بپا کئے ہوئے ہیں.
خطبات مسرور جلد پنجم 266 خطبہ جمعہ 22 جون 2007ء تو اس ضمن میں قرآن کریم کے یہ چند احکامات تھے جو میں نے بیان کئے جن سے اس خوبصورت تعلیم کی عکاسی ہوتی ہے.اللہ کرے وہ دن جلد آئیں جب دنیا میں اسلام کی حقیقی تصویر دکھانے والی حکومتیں بھی قائم ہوں.ایسے مسلمان حکمران آئیں جو آنحضرت ﷺ کے غلام صادق اور امام الزمان کی ڈھال کے پیچھے آ کر اسلام کی سلامتی کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں جاری کرنے میں مددگار ہوں.تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں.اس بات کے حصول کے لئے آج احمدی کا کام ہے کہ دعاؤں میں لگ جائے.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور اس دنیا کو پیار محبت اور سلامتی کا گہوارہ بنا دے اور اللہ کرے ہر ایک کا ایک ہی معبود ہو.جو خدائے واحد ویگا نہ ہے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 13 تا 19 جولائی 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 267 26 خطبہ جمعہ 29 جون 2007 ء (فرمودہ مورخہ 29 جون 2007ء ( 29 /احسان 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے اصلاح اور انصاف قائم کرنے کی ، امن صلح اور سلامتی کی تعلیم کا ذکر کیا تھا اور اس بارے میں قرآنی احکامات بیان کئے تھے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ہی دنیا میں صلح اور سلامتی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور اس کی بنیاد تقویٰ پر منحصر ہے اور قرآن کریم میں تقویٰ پر قائم رہنے کا ایک مسلمان کو اس قدر تا کیدی حکم ہے اور بار بار حکم ہے کہ ایک مومن سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ دنیا کی بدامنی میں کوئی کردارادا کرسکتا ہے.اس بارہ میں قرآن کی تعلیم کا اس حوالے سے میں نے ذکر کیا تھا کہ کسی مسلمان کو نہ انفرادی طور پر ، نہ حکومتی طور پر یہ زیبا ہے کہ کسی قوم سے دشمنی کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہ کرے.اسلام ہر قوم سے صلح و آشتی کے تعلقات استوار کرنے کی ، قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے، سوائے ان کے جو براہ راست جنگوں کو مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں.اس ضمن میں آج مزید اسلامی قرآنی تعلیم کا ذکر کروں گا کہ کیوں اور کس حد تک جنگ کی اجازت ہے.اور اگر بعض صورتوں میں جنگ نہ کی جائے جس کی اسلام نے ابتدائی زمانہ میں اجازت دی تھی تو کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور کیا بھیانک نتائج اس کے نکلتے ہیں یا اُس وقت نکلنے کا امکان تھا.اس سے ثابت ہو گا کہ قتال کی اجازت دنیا کے امن وسلامتی کے لئے تھی نہ کہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے جیسا کہ آج کل اسلام مخالف پروپیگنڈا کرنے والے شور مچارہے ہیں.اگر ان مخالفین کا، یا ان کے ہمنواؤں کا ، یا ان کی حمایت میں کھڑے لوگوں کے اپنے مذہب اور ان کی حکومتوں کے عمل اور دنیا کے امن وامان کی اور سکون کی بربادی کی جو کوششیں یہ کر رہے ہیں ان کا ذکر شروع ہو تو ان کے لئے کوئی راہ فرار نہیں رہتی.لیکن ہمارا مقصد دلوں کے کینوں اور بغضوں اور حسدوں کو مزید ہوا دینا نہیں ہے اس لئے قرآنی تعلیم کے بارے میں یہاں ذکر کروں گا جس سے کہ مزید یہ کھلے گا کہ جنگوں یا قتال کی جو اجازت ملی تھی وہ کن بنیا دوں پر تھی.اس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم مزید واضح ہوتی ہے.یہ ایسی تعلیم ہے کہ کسی بھی دوسرے مذہب کی تعلیم کے مقابلے میں بڑی شان اور خوبصورتی سے اپنا مقام ظاہر کرتی ہے، اس کے پاس کوئی دوسری تعلیم پھٹک بھی نہیں سکتی.پس اس بارے میں کسی بھی احمدی کو، کسی بھی معترض اسلام کا جواب دینے میں
خطبات مسرور جلد پنجم 268 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء معذرت خواہانہ رویہ اپنانے یا اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے.قرآن کریم کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے جس کا مقصد حقوق اللہ اور حقوق العباد کا قیام ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں جو جنگیں لڑی گئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی وجوہات بیان فرمائی ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ اس کی تین وجوہات ہیں.نمبر ایک یہ کہ دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری، اپنی حفاظت اور دفاع کے لئے.دوسرے بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون جب مسلمانوں پر حملے کئے گئے تو دشمن کو سزا دینے کے لئے ، ان سے جنگ کی گئی.اسلامی حکومت تھی ،سزا کا اختیار تھا.نمبر تین بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے.ان لوگوں کی طاقت توڑنے کے لئے جو اس وقت اسلام لانے والوں پر ظلم توڑتے تھے اور ان کو محض اس لئے قتل کیا جاتا تھا، اس لئے تکلیفیں دی جاتی تھیں کہ تم مسلمان ہو گئے ہو.( مسیح ہندوستان میں ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 12 اب ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کی جو بھی صورت تھی ان صورتوں میں قرآنی تعلیم کیا ہے.اس تعلیم کو دیکھ کر ایک عام عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اُن حالات میں جن میں مسلمانوں کو قتال یا جنگ کی اجازت دی گئی تھی ، اگر اجازت نہ دی جاتی تو دنیا کا امن تباہ و برباد ہو جاتا اور سلامتی ختم ہو جاتی.یہ اتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، دوسرے مذہب کی کوئی بھی تعلیم ، نہ عیسائیت کی ، نہ یہودیت کی نہ کسی اور مذہب کی اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ.(الحج : 40) ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے، قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے.پھر فرمایا الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ.وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ | بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ الله مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج : (41) کہ وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع، ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقینا اللہ اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے.یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبے
خطبات مسرور جلد پنجم والا ہے.269 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء یعنی اس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ نمبر 1 يُقتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا کیونکہ ان پر جو ظلم ہوئے تھے بلا وجہ جو قتل کیا جارہا تھا، اس لئے ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ اب تمہاری حکومت قائم ہو گئی ہے تو جب تمہارے پر حملہ ہو یا تمہیں کوئی قتل کرنے کے لئے آئے تو لر و اور بدلہ لو.یا حکومت قائم ہے تو سزا کے طور پر قاتل کو سزا دو.پھر فرمایا دوسری بات کہ اُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ یعنی ان کے گھروں سے ان کو بلا وجہ نکالا گیا.ان کا قصور کیا ہے؟ قصور یہ کہ وہ کہتے ہیں رَبُّنَا اللہ کہ اللہ ہمارا رب ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی جو کہ مسلمانوں کو ایک لمبا عرصہ صبر کرنے اور ظلم سہنے اور ظلم میں پیسنے کے بعد دی گئی تو دنیا میں ہر طرف ظلم و فساد نظر آتا.پس یہ اصولی حکم آگیا کہ جب کوئی قوم دیر تک مسلسل دوسری قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے تو یہ اجازت دی جاتی ہے کہ جب اس کی حکومت قائم ہو تو اگر اس کے اختیارات ہیں تو وہ جنگ کرے.لیکن اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ ہے نہ کہ ظلموں کے بدلے لینے کے لئے حد سے بڑھ جانے کا حکم.اس چیز کو بھی محدود کیا گیا ہے اس پر حکمت ارشاد نے دوسرے مذاہب کے تحفظ کا بھی انتظام کروا دیا کہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو ہر مذہب کی عبادت گاہ ظالموں کے ہاتھوں تباہ و برباد کر دی جاتی جس سے نفرتیں اور بڑھتی ہیں اور سلامتی دنیا سے اٹھ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ہمیشہ سے ظالم کو ظلم سے روکنے کی اجازت ہے.پس اگر یہ اسلام کی حکومت پر الزام لگانے والے ہیں تو یہ انتہائی غلط الزام ہے.جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اس کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے.اسلام مذہب کے معاملے میں کسی پر پخت نہیں کرتا، کہتا ہے اس معاملے میں کسی پر سختی نہیں.اپنے مذہب میں نہ کسی کوز بر دستی شامل کیا ، نہ کیا جا سکتا ہے، نہ اس کا حکم ہے.مذہب ہر ایک کے دل کا معاملہ ہے، اس لئے ہر ایک اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کا حق رکھتا ہے.اس حکم میں مسلمانوں کو اس اہم امر کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ جہاں تمہاری حکومت ہے، تمہیں اس بات سے باز رہنا چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے راہب خانے ، گرجے اور معاہد ظلم سے گراؤ ورنہ پھر یہ ظلم ایک دوسرے پر ہوتا چلا جائے گا تمہاری مسجدیں بھی گرائی جائیں گی اور یوں فساد کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا.بد قسمتی سے آج بعض مسلمان ملکوں میں بشمول پاکستان بھی ، بعض مفاد پرست ملاں اسلام کے نام پر عیسائیوں کو بھی نوٹس دے رہے ہیں.پچھلے دنوں میں اخباروں میں آرہا تھا.چارسدہ میں نوٹس دیا کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے یا تمہارا گر جا گرا دیا جائے گا.چند سال پہلے گرائے بھی گئے تھے.تو یہ چیز ہے جس نے اسلام کو بدنام کیا ہے اور مخالفین اسلام کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع دیا ہے.آج مسلمانوں کو ان وجوہات کی وجہ سے ہر جگہ جو سکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ بھی اسی لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں.ورنہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے
خطبات مسرور جلد پنجم 270 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء کہ اگر فساد اور شر کو ختم کرنے کے لئے عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدداور نصرت تمہارے شامل حال رہے گی.آج ہم دیکھتے ہیں بظاہر کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت مسلمان حکومتوں کے شامل حال نظر نہیں آ رہی ، بہت ہی بری حالت میں ہیں.پھر احمدیوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں مسجد میں گرانے کی کوشش کرتے ہیں.بعض جگہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے نافرمان بن رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکت اٹھ رہی ہے.آج دیکھیں پاکستان کا حال کیا ہے، جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ، تقریباً تمام ملکوں کا یہی حال ہے.پس اگر حکومت نے ان جاہل مولویوں کو اب بھی لگام نہ دی تو یہ جنگ اللہ کے خلاف ہے.جہاں تک احمدی کا سوال ہے، احمدی تو مسیح موعود کی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے سختی کا جواب سختی سے نہیں دیتے کیونکہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں، اس کے قانون کی پابندی کی وجہ سے ٹھیک ہے ظلم سہہ لیتے ہیں، صبر کر رہے ہیں.اور یوں.بھی اب مسیح موعود کے زمانے میں توپ و تفنگ کی جو ظاہری جنگ ہے اس کی ممانعت ہے.احمدیوں نے تو اینٹ کا جواب اینٹ سے یا پتھر کا جواب پتھر سے نہیں دینا لیکن خدا تعالیٰ ضرور اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد کو آئے گا.ان اسلامی ملکوں کو جہاں جہاں بھی احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے یا احمدیوں کے خلاف قانون پاس کئے جاتے ہیں ہوش کرنی چاہئے کہ ان ظلموں کی انتہا کی وجہ سے یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض سے بھڑا کر کیا جاتا ہے تو اس ناشکری کی وجہ سے یہ بات ان پر بھی پڑ سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ صرف مسلمانوں کے لئے حکم ہے کہ اگر مسلمان مظلوم ہوں گے تو ان کو اجازت ہے کہ تلوار اٹھا ئیں یا یہ امن و سلامتی صرف مسلمانوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہے بلکہ ہر مذہب والے کے لئے یہ حکم ہے.وہ بھی اگر مظلوم ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی انتظام کرے گا.اور احمدی جو نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا آنحضرت ﷺ کے حکموں پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے ہیں.جو کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کو سب سے زیادہ اپنے دلوں میں قائم کرنے والے اور اس کی روح کو جاننے والے ہیں اور سب سے زیادہ اس کلمے پر ایمان لانے والے ہیں ، اُن پر ظلم کر کے ، ان کی مسجدوں کو گرا کر یہ لوگ خود اپنے آپ کو اس حدیث کے نیچے لاتے ہیں جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان دوسرے مسلمان پر حملہ کرتا ہے وہ مسلمان نہیں رہتا.اور مسلمان کی تعریف جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہی ہے کہ وہ کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پر یقین رکھتا ہو اور اس کا اس پر ایمان ہو.پس مسیح موعود کی جماعت نے تو کسی پر بھی ہاتھ نہیں اٹھانا کیونکہ اس وقت ہم حکومتوں کے ماتحت تو ہیں لیکن حکومت ہمارے پاس نہیں ہے اور مسیح موعود کے زمانے میں جہاد کی اس لحاظ سے ویسے بھی ممانعت کر دی گئی ہے کہ سختی
خطبات مسرور جلد پنجم 271 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء نہیں کرنی.ہم تو عام حالات میں بھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تو جو کلمہ گو ہیں ، جو اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کے خلاف ہاتھ اٹھانے کا تو سوال ہی نہیں ہے.وہ جو مرضی کرتے رہیں ہماری طرف سے ان کے لئے سلامتی کا پیغام ہی ہے.ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو دُور کرنے کے راستے انشاء اللہ تعالیٰ خود کھولنے والا ہے.آج نہیں تو کل یہ رستے انشاء اللہ تعالیٰ کھلیں گے اور احمدی انشاء اللہ ہر جگہ آزادی کا سانس لے گا.لیکن ہمیں یہ بھی فکر رہتی ہے کہ اگر یہ حکومتیں اور ان کے شر پسند لوگ باز نہ آئے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر کے مطابق جن کو دفاع کے لئے بھیجتا ہے وہ کہیں اپنی حدوں سے آگے نہ بڑھ جائیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بہت سارے ایسے ہوں جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والے نہیں ہیں.ان کے لئے تو کوئی زیادتی کی حدیں نہیں ہیں وہ پھر حدیں پھلانگتے چلے جاتے ہیں.پس ہمیں ان لوگوں کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے.یہ پیغام جہاں مظلوم مسلمانوں کے لئے تسلی کا پیغام ہے وہاں مسلمان کہلا کر پھر ظلم سے باز نہ آنے والوں کے لئے خوف کا مقام بھی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی حفاظت کی اس پیغام میں ضمانت دی ہے.مسلمان کہلا کر پھر اس پر عمل نہ کرنے والا خود اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتا ہے.تو جو بھی مسلمان کہلانے والے ہیں ان کو اسلام کو بدنام کرنے کی بجائے اس بات سے فیض پانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی زیادہ سے زیادہ تعمیل کریں، ورنہ اللہ تعالی کی مدد کبھی بھی شامل حال نہیں ہوگی.اللہ کرے کہ مسلمانوں کو عقل آ جائے اور اس حکم کے تحت ہر مظلوم کا دفاع کرنے والے ہوں اور ہر ظالم کو ظلم سے روکنے والے بنیں کیونکہ مسلمانوں کی سلامتی بھی جیسا کہ میں نے کہا اسی سے وابستہ ہے.اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الَّذِينَ إِنْ مَكَّتُهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكَوةَ وَاَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (الحج: 42) جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں اور ہر بات کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے.پس یہ ہے ان لوگوں کا کام جب ان کے پاس طاقت آجاتی ہے.جب اللہ کی مدد سے وہ ظالموں پر غالب آجائیں، جب ان کی اپنی حکومت ہو، جہاں وہ اسلامی طریق کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں تو پھر اپنے جائزے لیں اور سوچیں کہ یہ سب کچھ جو ملا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے.ہم نے اب ان لوگوں جیسا نہیں ہونا جن کا مقصد لوگوں کو ان کی آزادیوں سے محروم کرنا ہے بلکہ ایک اسلامی حکومت سے بلا امتیاز مذہب یا دوسری وابستگیوں کے ہر شہری کے لئے آزادی رائے اور ضمیر کی توقع کی جاتی ہے.ہر ایک کے لئے ملکی سیاست میں آزادی سے شمولیت کی توقع کی جاتی ہے جہاں ہر ایک کے لئے بحیثیت شہری ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں اور یہ اسلامی حکومتوں کا کام
خطبات مسرور جلد پنجم 272 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء ہے.اور اسلامی حکومت چلانے کے یہ اسلوب اس وقت آئیں گے اور شہریوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق تب ملے گی جب یہ بات ہر وقت پیش نظر ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مجھے ہر وقت دیکھ رہی ہے.میرا کسی کے بھی حقوق غصب کرنا، مجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا کیونکہ اس کی ہر چیز پر نظر ہے.پس ایک مسلمان کو یا مسلمان حکومت کو طاقت اور امن اور سلامتی مل جانے کے بعد حقیقی عبادت گزار بنا ہو گا.کیونکہ حقیقی عبادت گزار بنے بغیر ، نمازوں کے قیام کے بغیر اللہ کا خوف دلوں میں پیدا نہیں ہو سکتا.اور حقیقی نمازیں وہ ہیں جو اللہ کے خوف اور تقویٰ سے ادا کی جاتی ہیں.ورنہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہت سارے نمازی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ہلاکت بھیجی ہے.جن کی نمازیں منہ پر ماری جائیں گی.تو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہم وہ نمازیں ادا کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنے والے لوگوں کی نمازیں ہیں.پھر مالی قربانی بھی کرنی ہوگی نہ یہ کہ ظلم کرتے ہوئے دوسروں کے مال کو غصب کر جائیں.پھر نیکیوں کی تلقین ہے بری باتوں سے روکنا ہے اور یہ اللہ کے تقویٰ کے بغیر نہیں ہوسکتا.پس ان سب باتوں کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ ایک اسلامی حکومت طاقت آنے کے بعد صرف اپنی طاقت کو غلط ذرائع سے بڑھانے میں مصروف نہ ہو جائے بلکہ بلا امتیاز مذہب ونسل ہر شہری کے حقوق کی حفاظت، غریبوں کو ان کا مقام دینا یہ اس کا کام ہے تا کہ معاشرے اور ملک میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا ہو سکے.اور خاص طور پر ہر شہری کے اُس کے ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے اور اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی عبادتگاہوں کی حفاظت کی ضمانت دینا یہ ایک اسلامی حکومت کا کام ہے.کیونکہ یہی چیز ہے جو امن اور سلامتی کی بھی ضمانت ہے.پس آج تمام اسلامی حکومتوں کا کام ہے کہ اسلام کی یہ حقیقی تصویر تمام دنیا کے سامنے پیش کریں.جماعت احمدیہ کے پاس تو حکومت نہیں ہے لیکن ہم دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یہ توفیق دے کہ یہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے والے بنیں تا کہ آج اسلام پر ہر طرف سے جو حملے ہو رہے ہیں اور جو حملے دراصل اسلام کو نہ سمجھنے اور بعض مسلمانوں کے غلط رویے اور غلط حرکات کی وجہ سے ہورہے ہیں، ان کو دنیا کے ذہنوں سے نکالا جائے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنگ کی جو اجازت ہے اسلامی حکومت کو دی جاتی ہے، ان وجوہات کی وجہ سے جو پہلے بیان ہوئی ہیں.لیکن اجازت کے باوجود اس کی حدیں مقرر کی گئی ہیں، اس کے قواعد وضوابط مقرر کئے گئے ہیں، کھلی چھٹی نہیں مل گئی.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اگر دشمن ظلم کرتا ہے تو تم بھی یہ نہ ہو کہ ظلم کرنے والے بنو بلکہ جس حد تک ہو سکتا ہے، اپنی جنگ کو اس حد تک محدود رکھو کہ جہاں صرف ظلم رُک جائے.کسی قسم کی بھی زیادتی اسلامی حکومت کی طرف سے نہیں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا.إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة: 191 ) اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو.یقیناً
خطبات مسرور جلد پنجم 273 خطبہ جمعہ 29 جون 2007 ء اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.پھر فرمایا وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَاَخْرِجُوْهُمْ مِنْ حَيْثُ اَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ | وَلَا تُقتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقتِلُوكُمْ فِيهِ.فَإِنْ قَتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمُ.كَذلِكَ جَزَاءُ الكفِرِينَ.(البقرة: 192) اور ( دوران قبال، جنگ کے دوران انہیں قتل کرو ، جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا اور فت قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کریں.پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو پھر تم ان کو قتل کرو، کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے.پھر فرمایا فَإِنِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ (البقرة: (193) پس اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت مغفرت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پھر فرماتا ہے وَقتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ.فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظـلـميـنَ (البقرة: 194) اور ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین ( اختیار کرنا ) اللہ کی خاطر ہو جائے.پس اگر وہ باز آجائیں تو ( زیادتی کرنے والے ) ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی.تو یہ ہے عدل وانصاف پر مبنی اسلام کی سلامتی کی تعلیم کہ جنگ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ جنگ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہوا کوئی کام بھی ظلم پر مبنی نہیں ہوسکتا.پس اللہ کی خاطر جنگ کا مطلب ہے کہ اُن لوگوں سے لڑو جو اللہ کی عبادت سے روکتے ہیں ، جو ظلم کرتے ہیں اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ، ظلم و تعدی میں حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں.پس یہ لڑائی لڑنے کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہ ہو کہ یہ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی کیا جا رہا ہے.اگر کوئی جنگ ذاتی لالچوں ، حرصوں اور اپنی حکومت کا رسوخ بڑھانے کے لئے ہے تو ایسی جنگ اسلام میں قطعا منع ہے.اور پھر فرمایا یہ جنگ اس وقت جائز ہے جب دشمن تم پر حملے میں پہل کرے.پھر یہ بھی اجازت نہیں کہ جس قوم سے جنگ ہو رہی ہے اس کے ہر شخص سے تمہاری جنگ ہے بلکہ اگر اس طرح کرو گے تو زیادتی ہوگی اور زیادتی کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.تمہاری جنگ صرف فوجیوں سے ہونی چاہئے جو ہتھیار لے کر تمہارے سامنے آئیں.پھر فرمایا کہ جنگ کو محدود رکھو.یہ نہیں کہ دشمن کو سبق دینے کے لئے جنگ کے میدان وسیع کرتے چلے جاؤ.پھر عبادتگاہوں کے قریب بھی جنگ سے بھی منع کیا ہے.سوائے اس کے کہ دشمن مجبور کرے کجا یہ کہ ان عبادتگاہوں کو گرایا جائے.اس لئے آنحضرت ﷺ اپنے لشکروں کو خاص طور پر ہمیشہ یہ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ معبدوں اور گرجوں کی حفاظت کرنی ہے، ان کو نہیں گرانا ، ان کو نقصان نہیں پہنچانا.اور مسجد حرام کے اردگر دتو جنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
خطبات مسرور جلد پنجم 274 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء یہ تو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جو امن اور سلامتی کے ساتھ تمام دنیا کے لوگوں کو ایک ہاتھ پر جمع کر کے امت واحدہ بنانے والا ہے.اس لئے اس کا تقدس تو ہر حال میں قائم رہنا چاہئے سوائے اس کے کہ دشمن مجبور کرے اور تم پر حملہ کرے تو پھر مجبوری ہے.اللہ تعالیٰ کا جنگ کی اجازت دینے کا مقصد دنیا کے فساد کو دور کرنا ہے.اس لئے فرمایا کہ جب فتنہ ختم ہو جائے یا دشمن جنگ سے باز آ جائے تو پھر ایک مسلمان سے کسی بھی قسم کی زیادتی سرزد نہیں ہونی چاہئے.جب مذہبی آزادی قائم ہوگی تو پھر سیاسی مقاصد کے لئے جنگوں کا کوئی جواز نہیں.پس یہ ہے اسلامی تعلیم.اگر اسلام کا مقصد صرف طاقت کے زور سے اسلام کو پھیلانا ہوتا تو یہ کم نہ ہوتا کہ فَاِنِ انتَهَوا فَلا عُدْوَانَ اگر وہ باز آجائیں تو پھر ان پر کسی قسم کی گرفت نہیں ہے.پھر جنگوں کے بلاوجہ بہانے تلاش نہ کرو.ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے.جنگ صرف اس وقت تک ہے جب وہ تمہارے سے جنگ کر رہے ہیں نہ اس لئے کہ ان کے مذہب کو بدلا جائے.پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا إِنْ يَنتَهُوا يُغْفَرُ لَهُمُ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الاَوَّلِينَ (الانفال: 39) جنہوں نے کفر کیا ان سے کہہ دے کہ وہ باز آجائیں تو جو کچھ گزر چکا وہ انہیں معاف کر دیا جائے گا.لیکن اگر وہ (جرم کا اعادہ کریں تو یقیناً پہلوں کی سنت گزرچکی ہے.پھر فرمایا وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ.فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيرٌ (الانفال: 40) اور تم ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین خالصتا اللہ کے لئے ہو جائے.پس اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ اس پر جو وہ عمل کرتے ہیں گہری نظر رکھنے والا ہے.پھر فرمایا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال: 41) اور اگر وہ پیٹھ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ ہی تمہارا والی ہے.کیا ہی اچھا والی اور کیا ہی اچھا مددکرنے والا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان آنحضرت ﷺ کے ذریعہ کروایا کہ ہم یہ جنگ کوئی ظلم و تعدی کی وجہ سے نہیں کر رہے بلکہ یہ تم ہو جنہوں نے ہمیں مکہ میں بھی ظلم کا نشانہ بنایا، اب بھی تم ہم پہ جنگ ٹھونس رہے ہو.جنگ بدر کے بعد کفار سے کہا جا رہا ہے، جو کہ مکہ سے ہجرت کے تھوڑے عرصہ بعد ہی لڑی گئی تھی.ابھی تو ان تکلیفوں اور ظلموں اور زیادتیوں کی یادیں بھی تازہ تھیں جو کفار مکہ نے کیں.مسلمانوں کو جس طرح ظلم کا نشانہ بنایا گیا ، خود آنحضرت ﷺ کو جو دُ کھ اور تکلیفیں دی گئیں ان کی یادیں بھی تازہ تھیں.تو بدر کی جنگ میں جب انہوں نے حملہ کیا تو کفار کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا.اس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے.ان کو اللہ تعالیٰ پر مدد کا یقین بھی مزید مضبوط ہوا.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا کہ مسلمان کا دل بغض اور کینہ اور بدلہ لینے سے بہت بالا ہے.ہر مسلمان سے یہ توقع کی جاتی
خطبات مسرور جلد پنجم 275 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء ہے کہ وہ سلامتی کا چلتا پھرتا پیغام ہو.یہ اعلان اس لئے فرمایا کہ ہم تمہارے پرانے ظلم بھی معاف کرتے ہیں.تمہارا یہ جنگ ٹھونسنا بھی ہم معاف کرتے ہیں.اگر تم ہم سے آئندہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنا چاہو.یہ عہد کرو تو ہماری طرف سے بھی پابندی ہوگی.لیکن اگر باز نہیں آؤ گے تو پھر ہماری مجبوری ہے.جب بھی تم حملہ کرو گے، یا ہمارے ساتھیوں کو، دوسرے مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچاؤ گے تو تمہارے ظلم کو روکنے کی وجہ سے اس کا بدلہ لیا جائے گا.تو اللہ کے دین کی خاطر اور دنیا کے امن اور سلامتی کی خاطر ہمیں لڑنا پڑے گا تو لڑیں گے.یہ بھی اعتراض ہوتا ہے کہ فرمایا وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلهِ یعنی اور دین خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائے.اعتراض کرنے والے اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ تم جنگ کرتے چلے جاؤ اور اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلاتے چلے جاؤ یہاں تک کہ تمام دنیا پر اسلام پھیل جائے.تو یہ تو کم عقلی اور کم فہمی ہے اور اسلام پر الزام تراشی ہے.اگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیں اور دوسری آیات کے ساتھ دیکھیں، جن میں سے چند کا میں نے ذکر بھی کر دیا ہے تو اس سے صاف مطلب بنتا ہے کہ کیونکہ ہر شخص کے دین کا معاملہ اپنے خدا کے ساتھ ہے اس لئے جس کا جو دین ہے وہ اختیار کرے.اسلام کا پیغام پہنچانا تو ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن اس کو زبر دستی منوانا مسلمان کا کام نہیں ہے.یہ اللہ کا معاملہ ہے.اللہ کے لئے دین ہو جائے“ کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی تم کام کرو وہ خالصتا اللہ کے لئے کرو، نہ یہ کہ اسلام کو زبردستی ٹھونسو.اگر کوئی نہیں مانتا تو یہ اس کی مرضی ہے، ہر ایک کا عمل اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے پھر وہ جو چاہے گا سلوک کرے گا.آنحضرت ﷺ کی ذات پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ بھی نعوذ باللہ زبردستی لشکر کشی کیا کرتے تھے اور زبر دستی مسلمان بناتے تھے اور اسی لئے یہ جنگیں لڑی گئیں.اور اس دلیل کے علاوہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ جب بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھا کرتے تھے یا جب کوئی لشکر بھجواتے تھے یا جب کوئی غزوہ ہوتا تھا اسلم تَسُلَم يَا أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا کا پیغام بھجواتے تھے یعنی اسلام قبول کر لو تو محفوظ رہو گے.اور اس کا نتیجہ نکالنے والے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ دھمکی ہے کہ اسلام قبول کر لو ورنہ پھر ہم طاقت کے زور سے منوائیں گے.پہلی بات تو یہ کہ آنحضرت ﷺ خالصتاً تبلیغی نقطہ نظر سے یہ فرماتے تھے کہ اسلام کا پیغام ہی ہے جو سلامتی کا پیغام ہے اس لئے اس کی فرمانبرداری کرو اور اس کے سائے تلے آ جاؤ.یہ معترضین تو دنیا کی آنکھ سے دیکھتے ہیں یہ کم از کم اتنی عقل کرتے کہ بڑے بڑے بادشاہوں کو آنحضرت ﷺ نے تبلیغی خطوط لکھے اور ایک ہی وقت میں خطوط لکھے اور بقول معترضین کے کہ یہ دھمکی آمیز الفاظ ہیں تو یہ خطوط ایک ہی وقت میں دنیا کی تمام بڑی بڑی حکومتوں کو ، بادشاہوں کو لکھے جا رہے ہیں کہ اگر نہ مانو گے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ.اگر ان کے مطابق اس کے معنے لئے جائیں تو کوئی بھی عام عقل کا انسان بھی اس قسم کی حرکت نہیں کر سکتا کہ تمام دنیا سے ایک وقت میں ٹکر لی جائے جبکہ خود
خطبات مسرور جلد پنجم 276 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء اس وقت اسلام کی طاقت محدود تھی.ان کو کچھ تو عقل کرنی چاہئے ، سوچنا چاہئے.آنحضرت ﷺ نے جو خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور اس کی ذات پر آپ کو مکمل یقین تھا آپ نے یہ پیغام دیا لیکن اس لئے دیا کہ آپ انسانی ہمدردی چاہتے تھے اور آپ کو یقین تھا کہ اس دین میں ہی اب امن و سلامتی ہے.یہی دین ہے جو امن اور سلامتی پھیلانے والا دین ہے اس لئے دنیا کو اسے تسلیم کرنا چاہئے.اور اس نیت سے انہوں نے یہ پیغام مختلف بادشاہوں کو بھجوائے.آنحضرت ﷺ جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا آخری شرعی پیغام دے کر دنیا میں بھیجا سے زیادہ کوئی بھی اس یقین پر قائم نہیں ہوسکتا تھا کہ اب یہی پیغام ہے جو دنیا کی سلامتی کا ضامن ہے.پس اس لحاظ سے انہی الفاظ کے ساتھ آپ نے بادشاہوں کو بھی دعوت دی اور آپ اس ہمدردی کی وجہ سے ہر حد سے بڑھے ہوئے کو جو اسلام کوختم کرنے کے درپے تھا جنگ شروع ہونے سے پہلے یہی پیغام بھیجا کرتے تھے کہ اسلام تو امن وسلامتی اور صلح کا پیغام ہے اب جبکہ تم ہم پر جنگ ٹھونس رہے ہو ہم اب بھی اس سے گریز کرتے ہوئے تمہیں یہ سلامتی کا پیغام دیتے ہیں کہ اگر تم اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہتے ہو تو رہو.بیشک اپنے طریق کے مطابق عبادت کرو لیکن اسلام کے خلاف سازشیں کرنے اور مسلمانوں کو تنگ کرنے سے باز آ جاؤ.اور اب جبکہ تم نے ہم پہ جنگ ٹھونسی ہے اور اس کو ماننے کو تیار نہیں تو اب یہی ایک حل ہے کہ اگر تم جنگ ہارتے ہو تب بھی تمہیں فرمانبرداری اختیار کرنا پڑے گی اور اگر جنگ کئے بغیر اسلام کی فرمانبرداری اور اطاعت میں آتے ہو تب بھی ٹھیک ہے، تمہارے سارے حقوق تمہیں دیئے جائیں گے.پس یہ الزام قطعاً غلط ہے کہ نعوذ باللہ کوئی دھمکی تھی بلکہ اس کو جس طرح بھی لیا جائے یہ اس حکم کی تعمیل تھی کہ جب تک دین خالصتاً اللہ کے لئے (نہ) ہو جائے امن قائم کرنے کی کوشش کرنی ہے.ہر ایک کو مذہبی آزادی دینی ہے.تاریخ شاہد ہے کہ آپ جنگوں میں کس طرح محکوم قوم کا خیال رکھا کرتے تھے اور اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے.یہاں تک فرمایا کہ جنگ میں کوئی دھو کے بازی نہیں کرنی.آپ کے حملے بھی ہمیشہ دن کی روشنی میں ہوا کرتے تھے.حکم تھا کہ کسی بچے کو نہیں مارنا کسی عورت کو نہیں مارنا، پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل نہیں کرنا ، بوڑھوں کو نہیں مارنا بلکہ جو تلوار نہیں اٹھا تا اسے بھی کچھ نہیں کہنا چاہے وہ نو جوان ہو.پھر دشمن ملک کے اندر خوف اور دہشت پیدا نہیں کرنی لشکر جنگ میں اپنا پڑاؤ ڈالیں تو ایسی جگہ ڈالیں جہاں لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور فرمایا جو اس بات کی پابندی نہیں کرے گا اس کی لڑائی خدا کے لئے نہیں ہوگی بلکہ اپنے نفس کے لئے ہوگی اور جولڑائیاں نفس کے لئے لڑی جاتی ہیں اس میں ظلم و تعدی کے علاوہ کچھ نہیں ہوا کرتا.تو اس ظلم و تعدی کو روکنے کے لئے ہی اور اس سلامتی کو پھیلانے کے لئے ہی حکم ہے کہ تمہارا ہر کام خدا کی خاطر ہونا چاہئے.پھر دیکھیں انسانی ہمدردی کی انتہا.آپ ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دشمن کے منہ پر زخم نہیں لگانا.کوشش
خطبات مسرور جلد پنجم 277 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء کرنی ہے کہ دشمن کو کم از کم نقصان پہنچے.قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا ہے.غالبا جنگ بدر کے ایک قیدی نے بیان کیا کہ جس گھر میں وہ قید تھا اس گھر والے خود کھجور پر گزارا کرتے تھے اور مجھے روٹی دیا کرتے تھے اور اگر کسی بچے کے ہاتھ میں بھی روٹی آجاتی تھی تو مجھے پیش کر دیتے تھے.اس نے ذکر کیا کہ میں بعض دفعہ شرمندہ ہوتا تھا اور واپس کرتا تھا لیکن تب بھی ( کیونکہ یہ حکم تھا ، اسلام کی تعلیم تھی وہ باصرار روٹی مجھے واپس کر دیا کرتے تھے کہ نہیں تم کھاؤ.تو بچوں تک کا یہ حال تھا.یھی وہ سلامتی کی تعلیم ، امن کی تعلیم ، ایک دوسرے سے پیار کی تعلیم ، دوسروں کے حقوق کی تعلیم جو آنحضرت نے اپنی امت میں قائم کی.اور بچہ بچہ جانتا تھا کہ اسلام امن وسلامتی کے علاوہ کچھ نہیں.پھر کسی بھی قوم سے اچھے تعلقات کے لئے اس کے سفیروں سے حسن سلوک انتہائی ضروری ہے.آپ کا حکم تھا کہ غیر ملکی سفیروں سے خاص سلوک کرتا ہے.ان کا ادب اور احترام کرنا ہے اگر غلطی بھی ہو جائے تو صرف نظر کرنی ہے، چشم پوشی کرنی ہے.پھر اس امن قائم کرنے کے لئے فرمایا کہ اگر جنگی قیدیوں کے ساتھ کوئی مسلمان زیادتی کا مرتکب ہو تو اس قیدی کو بلا معاوضہ آزاد کر دو.تو یہ احکام ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام کی جنگیں برائے جنگ نہ تھیں بلکہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کے لئے تھیں.آزادی ضمیر و مذہب کے قیام کے لئے تھیں اور دنیا کو امن وسلامتی دینے کے لئے تھیں.پھر قیدیوں سے حسن سلوک کے بارے میں قرآنی تعلیم ہے کہ اگر کسی قیدی کو یا غلام کو فدیہ دے کر چھڑانے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو فرمایا وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَبَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَاتُوهُمْ مِّنْ مَّالِ اللهِ الَّذِى انكُمُ (النور : 34) یعنی تمہارے غلاموں یا جنگی قیدیوں میں سے جو تمہیں معاوضہ دینے کا تحریری معاہدہ کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں صلاحیت پاؤ کہ ان میں یہ صلاحیت ہے ، ان کو کوئی ہنر آتا ہے کہ وہ اس معاہدے کے تحت کوئی کام کر کے اپنی روزی کما سکتے ہیں تو تحریری معاہدہ کر لو اور ان کو آزاد کر دو اور وہ مال جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے بھی کچھ انہیں دو.یہ جو جنگوں کا خرچ ہے کیونکہ اس وقت انفرادی طور پر پورا کیا جاتا تھا تو جس مالک کے پاس وہ غلام ہے وہ اس کا کچھ خرچ برداشت کرے یا وہ نہیں کرتا تو مسلمان اکٹھے ہو کر اس کے لئے سامان کر دیں اس طرح اس کو آزادی مل جائے یا لکھ کر آزادی مل جائے یا اگر اس کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی اپنے پاس سے پوری کر دوتا کہ وہ آزادی سے روزی کما سکے اور اس طرح معاشرے کا آزاد شہری بنتے ہوئے ملکی ترقی میں بھی شامل ہو سکے کیونکہ اس کا ہنر اس کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ملک کے بھی کام آ رہا ہو گا.تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم جو ہر پہلو سے ہر طبقے پر سلامتی بکھیر نے والی ہے.ہر ایک کو آزادی دلوانے والی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو تو فیق دے کہ اللہ تعالیٰ کی اس خوبصورت تعلیم کے جو مختلف پہلو ہیں ( جو مختلف خطبات
خطبات مسرور جلد پنجم 278 خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء میں بیان کئے ہیں ) ان کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسلام کی روشن اور حسین تعلیم سے دنیا کو روشناس کروائیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: اس وقت ایک افسوسناک اعلان کروں گا.ڈنمارک کے ہمارے ایک مخلص فدائی احمدی مکرم عبد السلام میڈسن صاحب 25 جون کو بقضائے الہی وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کے والد عیسائی پادری تھے.خود بھی یو نیورسٹی میں کر چین تھیالوجی (Christian Theology) کی تعلیم حاصل کر رہے تھے ، عیسائیت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے.انہوں نے بھی پادری بنا تھا.لیکن قرآن کریم کے مطالعہ کے بعد اچانک ان کی زندگی میں انقلاب آیا اور 1955ء میں جب آپ یو نیورسٹی کے فائنل امتحان کی تیاری کر رہے تھے آپ نے عیسائیت کو ترک کیا اور اسلام قبول کیا.جس کے بعد پھر 1956ء میں ہمارے مبلغ کمال یوسف صاحب سے رابطہ ہوا جو ان دنوں میں سویڈن میں تھے ، ان کے ذریعہ پھر پوری تحقیق کر کے 1958ء میں خلافت ثانیہ میں آپ نے بیعت کی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.پھر 1958ء میں ہی آپ نے وصیت کی توفیق پائی اور اس طرح یہ سکینڈے نیوین ممالک میں پہلے موصی تھے اور 1961ء میں اپنی زندگی وقف کرنے کی درخواست بھیجی اور 15 نومبر 1962ء کو آپ کا تقرر بطور اعزازی مبلغ ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر وقت تک اس پر قائم رہے.ڈینیش کے علاوہ انگلش ، جرمن اور عربی زبان پر بھی ان کو عبور تھا اور قرآن کریم کا ڈینش ترجمہ بھی انہوں نے کیا جو پہلی بار 1967ء میں شائع ہوا.قرآن کریم کے ترجمہ کے علاوہ بھی انہوں نے جماعت کا کافی لٹریچر پیدا کیا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا ترجمہ بھی شامل ہے.ان کی بہت ساری خدمات ہیں.کچھ عرصہ سے ان کو کینسر تھا جس کی وجہ سے بیمار تھے.مجھے سلام اور دعا کے لئے پیغام بھی بھجواتے رہتے تھے.ہر خلافت سے ان کا ہمیشہ تعلق رہا.ان کی اہلیہ بھی 1960ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئی تھیں.اہلیہ اور بیٹا ان کی یادگار ہیں.دوسرے مکرم استاذ صالح جابی صاحب جو سینیگال کے ہیں یہ یکم مئی کو 68 سال کی عمر میں بقضائے الہی وفات پاگئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ سینیگال کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور بڑے اچھے داعی الی اللہ تھے تبلیغ میں مصروف رہتے تھے.آپ علاقے کے معروف عربی استاد اور عالم تھے اور آپ کے گاؤں اور نزدیک کے دوسرے دیہات سے لوگ علم حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس آتے رہتے تھے.1985ء سے انہوں نے بطور معلم جماعت کو اپنی خدمات پیش کیں اور اس عہد کو وفات تک نبھایا.اللہ تعالیٰ ہر دو بزرگوں کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.ابھی جمعہ کی نماز کے بعد ان دونوں کی نماز جنازہ غائب پڑھوں گا.انشاء اللہ ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 20 تا 26 جولائی 2007ء ص 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد پنجم 279 (27) خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء فرمودہ مورخہ 06 جولائی 2007 ء (06روفا1386 ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی: هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقَدُّوسُ السَّلمَ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبَرُ سُبْحْنَ اللَّهِ عَمَّايُشْرِكُوْنَ(الحشر:24) فرمایا.وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ، وہ بادشاہ ہے، پاک ہے ، سلام ہے، امن دینے والا ہے ، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے ،ٹوٹے کام بنانے والا ہے اور کبریائی والا ہے.پاک ہے اللہ اس سے جو شرک کرتے ہیں.جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کا ایک نام مؤمن ہے.جو ترجمہ میں نے پڑھا ہے ، اس میں مُؤْمِنُ کے معنی امن دینے والے کے کئے گئے ہیں.پس ہر شخص کا انفرادی امن بھی اور معاشرے کا امن بھی اور دنیا کا امن بھی اُس ذات کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہے جو امن دینے والی ذات ہے جس کا ایک صفاتی نام جیسا کہ آپ نے سنا الْمُؤْمِنُ ہے.پس اس نام سے فیض بھی وہی پائے گا جو اللہ تعالیٰ کے حکم صبغة الله کہ اللہ کے رنگ میں رنگین ہو، پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا.اس سے دُور ہو کر ہر امن کی کوشش رائیگاں جائے گی.ہر کوشش کا آخری نتیجہ ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش ہو گا نہ کہ امن.اور یہ امن اسی کو مل سکتا ہے جن کا ایمان کامل ہو.اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل تب ہو گا جب اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء پر بھی ایمان ہو جیسا کہ اس نے فرمایا ہے.پس آنحضرت ﷺ جو خاتم الانبیاء ہیں آپ پر ایمان لانا بھی اصل میں ایک مومن کو کامل الایمان بناتا ہے.آپ کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء پر ایمان لانے کا حکم اتارا اور ایک مسلمان کو اس کا پابند کیا.اور پھر آنحضرت ﷺ نے ایک مسلمان کو اس بات کا بھی پابند فرمایا کہ تاریک زمانے کے بعد جب میرا مسیح و مہدی مبعوث ہو گا تو اسے ماننا، اسے قبول کرنا ، اس کی بیعت میں شامل ہونا، یہ بھی تم پر فرض ہے اور وہ کیونکہ حکم اور عدل بھی ہو گا اس لئے قرآن کریم کے معارف اور احکامات کی جو تشریح وہ کرے، جو وضاحت وہ کرے اس کو ماننا اور اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہی ہے جس نے تمام مسلمانوں کو بھی اور غیر مسلموں کو بھی میرے نام پر ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا اور امت واحدہ بنانا ہے.پس آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے
خطبات مسرور جلد پنجم 280 خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء والے ہی اللہ تعالیٰ کی صفت مومن سے حقیقی فیض پانے والے ہیں ، ایمان میں بڑھنے والے ہیں ، امن میں رہنے والے ہیں اور امن قائم کرنے والے ہیں اور ہونے چاہئیں.یہ خصوصیات ہر احمدی میں ہونی چاہئیں.پس ہر احمدی کو اپنے ایمان میں ترقی کرتے ہوئے اس اہم بات کو ہمیشہ اپنے پلے باندھے رکھنا چاہئے کہ صرف منہ سے مان لینا کافی نہیں ہوگا بلکہ ایمان میں بڑھنا اس میں ترقی کرنا، یہی ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی صفت مومن سے حقیقی رنگ میں فیضیاب کرنے والا بنائے گا اور نہ اگر تعلیم پر عمل نہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ایک حصہ کو تو مان لیا کہ ہم تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہمیں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ملے اور جنہیں اس زمانے میں آپ کے غلام صادق نے پھر خوبصورت انداز میں پیش کر کے ان پر عمل کرنے کی ہمیں نصیحت فرمائی ، اس پر ہم پوری طرح کار بند ہونے کی کوشش نہ کر کے عملاً اپنے ایمان کو کمزور کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان کو مضبوط کرتا چلا جائے ، اسے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ وہ اپنی ذات میں بھی اور اپنے معاشرے میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفت مومن کا حقیقی پر تو نظر آئے.مومن کے مزید معانی جو اہل لغت اور مفسرین نے بعد میں پیش کئے ہیں ، اب میں وہ بیان کرتا ہوں.لسان العرب کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفت المؤمن کا ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ مومن وہ ہستی ہے جس نے اپنی مخلوق کو اس بات سے امن عطا کیا کہ ان پر ظلم کرے.بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مومن وہ ذات ہے جس نے اپنے اولیاء کو اپنے عذاب سے امن بخشا ہے.پہلے معنی وسعت کے لحاظ سے زیادہ وسیع دائرے میں ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت تو ہر چیز پر حاوی ہے، اس لئے ظلم کا تو سوال ہی نہیں.اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو عذاب کا سوال کیا ؟ وہ تو خود بخو دامن میں آ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے اولیاء پر جو ابتلاء آتے ہیں ، حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ وہ تو ان کا ایک امتحان ہوتا ہے جس میں سے وہ گزرتے ہیں اور بجائے شکوہ کے اللہ تعالیٰ کی مدد اور دعاؤں سے اس میں سے گزر جاتے ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 1392-391 جدید ایڈ یشن مطبوعہ ربوہ ) ابوالعباس کہتے ہیں کہ عربوں کے نزدیک الْمُؤْمِنُ کا معنی الْمُصَدِّق ہے اور مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اُمتوں سے رسولوں کی تبلیغ سے متعلق سوال کرے گا تو وہ کسی بھی رسول کی بعثت کا انکار کر دیں گے اور اپنے انبیاء کی تکذیب کریں گے.پھر امت محمدیہ لائی جائے گی اور ان سے یہی سوال کیا جائے گا تو وہ سابقہ انبیاء کی بھی تصدیق کریں گے ، اس پر اللہ تعالیٰ ان کی تصدیق کرے گا.اس معنی میں اللہ تعالیٰ کو مومن یعنی المُصَدِق کہا گیا ہے نیز محمد ﷺ اپنی امت کی تصدیق کریں گے اور یہی مضمون اس آیت کریمہ کا ہے جو فرمایا فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلّ أُمَّةٍ بِشَهِيدِ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَائِ شَهِيدًا (النساء : 42) یعنی پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے.
خطبات مسرور جلد پنجم 281 خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء پھر کہتے ہیں کہ...اور جو قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کے لئے آیا ہے کہ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مومنوں کی تصدیق کرتا ہے.بعض نے کہا ہے کہ اللہ کی صفت المومن کے معنی ہیں جو اپنے بندوں سے کئے ہوئے وعدے سچ کر دکھائے.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا، مومن وہ ہیں جو کامل ایمان والے ہیں.تمام انبیاء پر ایمان لانے والے ہیں اور یہ تمام انبیاء پر ایمان لانے کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے دی.ابو العباس کے اس اقتباس نے اسے مزید کھولا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ایک احمدی جو دراصل تمام انبیاء کی تصدیق کرنے والا ہے، ان کو ماننے والا ہے.وہی ہے جو حقیقی رنگ میں مومن ہے.آنحضرت ﷺ کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے پہلے انبیاء پر بھی اور بعد میں آنے والے پر بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ جلثا نہ نے اسلامی امت کے گل لوگوں کے لئے ہمارے نبی ﷺ کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرما یلانَا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ (المزمل: 16) اور فرمایا وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَائِ شَهِيدًا (النساء :42) مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت صرف تئیں برس تک اپنی امت میں رہے، پھر یہ سوال کہ دائمی طور پر وہ اپنی اُمت کے لئے کیونکر شاہد ٹھہر سکتے ہیں یہی واقعی جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسی " کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعینہ آنحضرت ﷺ کی شہادت متصور ہوئی.غرض شہادتِ دائمی کا عقیدہ جو نص قرآنی سے بتواتر ثابت اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلّم ہے تبھی معقولی اور تحقیقی طور پر ثابت ہوتا ہے جب خلافت دائمی کو قبول کیا جائے.شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 363) پس ہم احمدی اس ایمان پر قائم ہیں، ایک تو آخرت میں تصدیق ہوئی ہے جو ایمان بالغیب پر یقین کرتے ہوئے ہوتی ہے.دوسرے آنحضرت ﷺ کے بعد کے زمانے کی تصدیق بھی آنے والے کو ماننے پر ہونی ہے جو خاتم الخلفاء ہے.یہ مہر ہے جو کامل الایمان پر آنحضرت ﷺ کی تصدیق کی لگے گی.احمدی کی تصدیق اس اعزاز کے ساتھ ہوگی کہ ہاں اس نے پہلوں کو بھی مانا اور بعد میں آنے والوں کو بھی مانا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا تھا.اس نے کچھ کہا تھا تو آپ نے فرمایا بس کر اب تو میں اپنی ہی امت پر گواہی دینے کے قابل ہو گیا ہوں.مجھے فکر ہے کہ میری امت کو میری گواہی کی وجہ سے سزا ملے گی.الحکم جلد 7 نمبر 9 مورخہ 10 مارچ 1903 ، صفحہ 11)
خطبات مسرور جلد پنجم 282 خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء گواہی کی وجہ سے کیوں سزا ملے گی؟ اس لئے کہ ایمان لانے کا دعوی کرنے کے بعد بھی پھر جو مصدق اعظم ہیں، اللہ تعالیٰ نے جس کی تصدیق کا اختیار دیا ہے ان کے عاشق صادق کو نہیں مانا.پس یہ آنحضرت ﷺ کی تصدیق پہلوں اور آخرین دونوں کے لئے ہے.اور پھر جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت مومن کے معنی ہیں کہ جو مومنوں سے اپنے کئے ہوئے وعدے سچ کر دکھائے تو یہ وعدے بھی آج اُس خلافت کی تصدیق کی وجہ سے ہیں جو جماعت احمدیہ سے ہی اللہ تعالیٰ پورے فرمارہا ہے.کیا مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کو دین کی تمکنت حاصل ہے؟ منہ سے بے شک ڈھٹائی سے کہتے رہیں جو چاہے کہیں لیکن صورتحال ہر ایک کے سامنے ہے.پھر امام راغب اپنی لغت مفردات امام راغب میں لکھتے ہیں کہ الْمُؤْمِن کے اصل معنی ہیں طمانیت نفس حاصل ہونا اور خوف کا زائل ہونا.پھر لکھتے ہیں کہ آمن، امن پانے والا، بعض کے نزدیک اس سے مراد ہے اللہ کے حکم کے مطابق امن پانے والا اور اس لحاظ سے وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (آل عمران : 98) کا معنی ہوگا کہ جو شخص حرم میں داخل ہو جائے نہ اس : سے قصاص لیا جاتا ہے نہ اس کے اندر قتل کیا جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ حرم کی حدود سے باہر آ جائے.کہتے ہیں یہی مضمون ان آیات میں ہے.فرما یا اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا أَمِنًا (العنکبوت:68) کہ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک امن والا حرم بنایا ہے.یہ معنی جو انہوں نے کئے ہیں اس سے بھی بہت وسیع معنی ہیں.یہ اعلان اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلا اعلان ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے.جو بھی مسلمانوں کے حالات ہوئے یا ہیں، اللہ تعالیٰ نے ابھی تک ان کو توفیق دی ہے کہ اس کے تقدس کو قائم رکھیں بلکہ اصل میں تو کہنا یہ چاہئے کہ یہ تقدس اللہ تعالیٰ نے خود قائم کیا ہوا ہے.اسلام سے پہلے بھی اس کا تقدس تھا.عربوں کی جہالت کے زمانے میں بھی اس کی حیثیت حرم کی تھی اور امن کا نشان سمجھا جاتا تھا جبکہ ارد گرد کے ماحول میں اُس جہالت کے دور میں کسی بھی قسم کے امن کی ضمانت نہیں تھی.اللہ تعالیٰ کے اس امن والے گھر کی حفاظت بھی خدا تعالیٰ نے ہمیشہ خود فرمائی ہے.قرآن کریم میں وہ واقعہ درج ہے جس میں اصحاب فیل سے محفوظ رکھا تھا.اس لشکر کے سامنے اس وقت اہل مکہ کی کوئی حیثیت نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی.دنیا کو یہ بتادیا کہ یہ امن والا گھر میرا گھر ہے.اس کو دنیا کے امن کے نشان کے طور پر میں نے بنایا ہے.اس کی طرف جو بھی ٹیڑھی نظر سے دیکھے گا اس کی اپنی سلامتی اور امن کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی.پھر یہ دوسری آیت کی مثال دیتے ہیں کہ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنَا ۖ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَهِمَ مُصَلًّى وَ عَهِدْنَا إِلَى إِبْرَهِمَ وَاسْمَعِيلَ أَنْ طَهَرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
283 خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم (البقرة: 126) اور جب ہم نے اپنے گھر کولوگوں کے بار بار اکٹھا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کی جگہ پکڑو اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کے طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب گھر کو پاک صاف بناؤ.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لفظ آمنًا کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وَاذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا کہ اَمْنَا ، یہ مقام امن والا ہوگا.اس کے ایک معنے یہ ہیں یعنی اسے دوسروں سے ہمیشہ محفوظ رکھا جائے گا.دوسرے معنے یہ ہیں کہ یہ مقام دوسروں کو امن دینے والا ہوگا اور چونکہ حقیقی امن اطمینان قلب سے حاصل ہوتا ہے.اس لئے آمنا کے تیسرے معنے یہ بھی ہیں کہ اطمینان قلب بخشنے والا.( تفسیر کبیر جلد 2 زیر آیت اذ جعلنا البيت مثابة للناس صفحہ نمبر 166) امن کے ذکر کے بعد اس آیت میں مَقَامِ ابراهمَ مُصَلَّی کا جو ذکر آیا ہے اس لئے کہ اے مسلمانو! یہ لوگوں کے امن کی ضمانت بھی ہے اور ابراہیمی قربانیوں اور عبادتوں میں اس کا امن چھپا ہوا ہے.اس پر عمل کر کے ہی تم امن حاصل کر سکتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ.یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ.پھر فرمایا یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ“.پھر فرمایا کہ آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ ابرهِمَ مُصَلَّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہو گا.( اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 420-421) پس امن کی یہ ضمانت اس گھر سے منسوب ہونے والے کے لئے تب ہے جب عبادت کے بھی وہ رُخ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں، جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اس زمانے میں کیا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی تصدیق کرنے والا ہے اور ان کو امن دینے والا ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی پیروی کرنے والے ہیں.پس احمدی کو چاہئے کہ اپنی دعاؤں میں اس امن والے گھر کو بھی ہمیشہ اس لحاظ سے پیش نظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ پہلا گھر جو امن وسلامتی کا نشان ہے جس میں آج احمدی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، احمدی کے لئے وہاں داخل ہونے میں امن کی کوئی ضمانت نہیں ہے جو اس ابراہیم کے پیرو ہیں جو سب سے زیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے امن والے گھر میں داخل ہو، اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمائے کہ مسیح محمدی اور اس زمانے کے ابراہیم کے
284 خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ماننے والے امن و سکون سے اس امن والے گھر میں داخل ہو سکیں اور جب وہ وقت آئے گا اور انشاء اللہ ضرور آئے گا تو پھر دنیا دیکھے گی اور تسلیم کرے گی کہ ہاں اب اس کے حقیقی وارث اس تک پہنچے ہیں اور اب اس امن کے سمبل (Symbol) کا اثر بھی دنیا میں پیار، محبت اور امن و سلامتی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے.اس کا نقشہ خود امام راغب بھی پیش کر رہے ہیں.میسیج کی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ نیز نزول مسیح کی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ تَقَعُ الْآمَنَةُ فِي الْأَرْضِ یعنی زمین پر مسیح کے آنے سے امن و امان قائم ہو جائے گا.پس یہ امن اس مسیح سے وابستہ ہے جو آپکا ہے اور جس نے جنگ اور قتال کے خلاف آواز اٹھائی ہے.اب اس کی آواز کو سن کر بھی مسلمان نہ سمجھیں اور اس انتظار میں بیٹھے رہیں تو ان کی بد قسمتی ہے.جو یہ تشریح کرتے ہیں کہ مسیح کے آنے کے بعد اس نے کیا کرنا ہے.اگر اس کو دیکھیں گے تو اُس مسیح نے کیا امن قائم کرنا ہے جو ان کے نظریہ کے مطابق آئے گا.اس نے تو طاقت سے صلیب کو بھی توڑنا ہے، اس نے تو قتل و غارت بھی کرنی ہے.کیا قتل و غارت سے دنیا کے امن قائم ہوتے ہیں.پھر وہ کہتے ہیں کہ آئن دو معنوں میں آتا ہے ایک معنی یہ ہیں کہ کسی کے لئے امن مہیا کرنا اور اس معنی میں اللہ تعالیٰ کو مومن کہا جاتا ہے، یعنی امن عطا کرنے والا.اور امن کے دوسرے معنی ہیں.خود امن میں آ گیا.اسے طمانیت نصیب ہوگئی.الایمان یہ لفظ تو کبھی اس شریعت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ لے کر آئے ہیں.جیسا کہ اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوْا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصُّبِئُونَ (المائدة: 70 ).اور مومن اس معنی کے لحاظ سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اللہ کی ہستی اور محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا اقرار کرتے ہوئے اس کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح کے استعمال ہوتا ہے.تب ایمان سے مراد ہوتا ہے اپنے نفس کو اس طرح حق کا مطیع بنادینا کہ حق کی تصدیق کرتا ہو.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس کی تفسیر میں روح المعانی میں مومن کے لفظ کے تحت لکھا ہے کہ اپنی اور اپنے رسولوں کی اس بارے میں تصدیق کرنے والا کہ انہوں نے اس کی طرف سے، یعنی اللہ کی طرف سے جو پیغام پہنچایا ہے وہ درست ہے ، خواہ وہ یہ تصدیق اپنے قول سے کرے یا معجزات دکھانے سے کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی وضاحت میں مومن کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا کیونکہ اس کے پاس زبر دست دلائل ہوتے ہیں.لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے.وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 375)
خطبات مسرور جلد پنجم 285 خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء پس یہ ہے امن بخشنے والا خدا جس پر ایمان کی مضبوطی اسے ہر مخالف کے مقابل پر جرات دلاتی ہے.روح المعانی میں مومن کے لفظ کی مزید وضاحت میں لکھا ہے کہ المؤمن کا معنی ہے وہ جو اپنے بندوں کو سب سے بڑی گھبراہٹ یعنی قیامت کے دن سے امن بخشنے والا ہے.پھر بندوں کو اس سب سے بڑی گھبراہٹ سے اس طرح امن بخشنے والا ہے کہ ان کے دلوں میں طمانیت پیدا کر دے یا انہیں اپنی جناب سے خبر دے کر امن بخشے کہ ان پر کوئی خوف نہ ہوگا.ثعلب نے بیان کیا ہے کہ الْمُؤمِن کا معنی مصدق ہے اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے دعوی ایمان کی تصدیق کرنے والا ہے.بعض نے الْمُؤْمِین کا معنی کیا ہے وہ جو کہ زوال کے عیب سے خود امن میں ہے کہ خدا تعالیٰ پر کسی قسم کا زوال آنا محال ہے.پس یہ ہیں لفظ مومن کے چند معانی جو اللہ تعالیٰ کی ذات میں استعمال ہوتے ہیں.اللہ تعالی امن دینے والا بھی ہے، امن میں رکھنے والا بھی ہے اور ایمانوں کو مضبوط کرنے والا بھی ہے.اس لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس اللہ تعالیٰ کی ہر صفت پر اپنے کامل ایمان کے ساتھ عمل کرنے والے ہوں.خانہ کعبہ کا پہلے ذکر چل رہا تھا ، یہ اللہ کا گھر ہے.مساجد بھی اسی طرح اللہ کا گھر ہیں اور عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں.یہاں سے بھی امن کا پیغام دنیا کو پہنچتا ہے اور پہنچنا چاہئے اور مساجد کی یہی حقیقی روح ہے.لیکن آج دیکھیں مسیح محمدی کو نہ ماننے والے ان کا کیا استعمال کر رہے ہیں.گزشتہ چند دنوں سے پاکستان میں جو امن وسکون برباد ہوا ہے وہ کیا ہے؟ بظاہر مسجد ہے لیکن اندر دہشت گردوں کا اڈا بنا ہوا ہے، حکومت کے مقابلے پر کھڑے ہیں.جنگ کی صورت حال بنی ہوئی ہے.احمدیوں پر یہ الزام لگتا تھا کہ ربوہ کوسٹیٹ کے اندرسٹیٹ بنایا ہوا ہے اور اب خود لال مسجد اور جامعہ حفصہ وغیرہ کے حوالے سے یہ بیان دے رہے ہیں کہ انہوں نے قانون کو اتنا اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے کہ حکومت کے مقابلے پر کھڑے ہیں ، سٹیٹ کے اندر سٹیٹ ہے اور یہ کبھی برداشت نہیں ہوسکتی تو خود ان کے مونہوں سے ہی اللہ تعالیٰ یہ باتیں نکلواتا ہے.ان لوگوں نے امن قائم کرنا ہے؟ ان لوگوں کے دعوی ایمان کی اللہ تعالیٰ تصدیق کرے گا؟ ہم مومن اور دوسرے الفاظ کی جو تعریف سن کے آئے ہیں اس زمرے میں تو یہ نہیں آتے.اللہ تعالیٰ تو ان کی تصدیق کرتا ہے جو اپنے نفس کو حق کا مطیع بناتے ہیں اور ان کا دعویٰ حق کا ہوگا.لیکن اِن کا عمل کیا ہے؟ حکومت سے ٹکر لے رہے ہیں.جو قطعاً کھلے طور پر بغاوت ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی ہے.لیکن اگر یہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں تو جب حکومت نے ایکشن لیا تو پھر حق بھول گئے.پھر عورتوں میں شامل ہو کر برقعہ پہن کر نکل گئے.تو یہ ان کا حق ہے.کیا یہ ایمان کی مضبوطی ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 286 خطبہ جمعہ 06 جولائی 2007ء ایمان دیکھنا ہے تو آج احمدیوں میں دیکھیں جنہوں نے کلے کو اپنے سینے سے لگایا اور کلمے کو اپنے سینے سے اتر نے نہیں دیا اور اس وقت جیلیں بھر دیں.مردوں، عورتوں اور بچوں نے ایمان کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں طمانیت قلب عطا فرمائی تھی اور اپنے وعدے کے مطابق ان کو ہمیشہ خوف سے امن کی حالت میں بدلنے کے نظارے دکھائے تھے اور اس بات نے ان کے ایمانوں کو مزید مضبوطی بخشی کہ جس خدا نے یہاں وعدے پورے کئے ہیں اگلے جہان میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وعدے پورے کرے گا.پس احمدی کو ہمیشہ اپنے ایمانوں پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جس کے حصول کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے تعلیم دی ہے اور اس کے حصول کے لئے ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل کرنے والا ہو.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 27 جولائی تا 9 اگست 2007 ء ص 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد پنجم 287 (28) خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء فرموده مورخہ 13 جولائی 2007 (13 روفا1386 ہجری شمسی ) بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت مومن کا بیان ہوا تھا اور اس لفظ کی تعریف مختلف لغات اور مفسرین کے حوالہ سے بیان کی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفت مومن کے تحت امن دینے والا ہے اور اپنے انبیاء کی تصدیق کرنے والا ہے ، ان کی تائید میں نشانات و معجزات دکھانے والا ہے.اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء پر ایمان لے آئے تو وہ اپنی مخلوق کو ہر شر سے امن میں رکھتا ہے اور دنیا و آخرت میں ان ایمان لانے والوں کو طمانیت قلب عطا فرماتا ہے، اپنے انعامات سے نوازتا ہے اور اپنے مومن بندوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے فیض پانے کے لئے مومن بننا ہوگا.مومن بننے کے لئے کیا لوازمات ہیں؟ کون کون سی شرائط ہیں جن پر پورا اتر کر ایک انسان حقیقی مومن بن سکتا ہے؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ مومن کی مختلف خصوصیات بیان فرمائی ہیں کہ ایک مومن بندہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے فیض پانے کے لئے ایمان کے مدارج طے کرتے ہوئے ان باتوں کو اپنائے گا تو وہ حقیقی مومن کہلائے گا اور فیض پانے والا ہو گا.قرآن کریم کے شروع میں ہی مومن کی تعریف کا بیان شروع ہو گیا ہے.فرما یا الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُوْنَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة:4-5) مومن کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لانے والا ہے.اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ نمازوں کو قائم کرنے والا ہے.تیسری بات اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا ہے یا جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں ان کے مطابق خرچ کرنے والا ہے.چوتھی خصوصیت ، آنحضرت ﷺ پر جو تعلیم اتری، اللہ تعالیٰ کی شریعت اتری اس پر ایمان لانے والا اور پانچویں یہ کہ پہلے انبیاء پر ایمان لانے والا اور چھٹی بات یہ کہ آخرت پر یقین کرنے والا ہے.یعنی وہ باتیں جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہوں گی.ان پر یقین کرنا.
288 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پہلی بات یا خصوصیت جو ایک مومن کی بیان فرمائی گئی ہے وہ غیب پر ایمان ہے، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کہ وہ سب قدرتوں والا ہے.جب یہ کامل ایمان ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اپنے وجود کا پتہ ایک سچے مومن کو مختلف طریقوں سے دیتا ہے.اسی طرح فرشتوں پر ایمان ہے، مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان ہے، یہ سب ایمان کی مثالیں ہیں.پھر غیب پر ایمان یہ ہے کہ ہر حالت میں اپنے ایمان کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا.نیک اعمال جو کرنے ہیں وہ کسی کو دکھانے کے لئے نہیں کرنے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر حالت میں مجھے دیکھ رہا ہے، ان پر عمل کرنا ہے.دشمنوں کا خوف یا کسی قسم کی روک یا نفسانی لالچیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے نہ روکیں.یہ ایمان کی مضبوطی کی پہلی شرط ہے.مومن ہونے کے لئے دوسری اہم شرط نمازوں کا قیام ہے.نمازوں کا قیام یہ ہے کہ ایک توجہ کے ساتھ اپنی نمازوں کی نگرانی رکھنا، ان میں با قاعدگی اختیار کرنا کیونکہ اگر نمازوں میں باقاعدگی نہیں ہے، کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی ،کبھی نیند آرہی ہے تو عشاء کی نماز ضائع ہوگئی اور بغیر پڑھے سو گئے، کبھی گہری نیند سورہے ہیں تو فجر کی نماز پر آنکھ نہ کھلی.بعض لوگ نماز چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ اگر وقت پر آنکھ نہیں بھی کھلی تو جب بھی آنکھ کھلے فجر کی نماز پڑھنی چاہئے.سورج نکلے پڑھیں گے تو گھر والوں کے سامنے بھی شرمندگی ہوگی یا اپنے آپ کو احساس ہوگا اور ضمیر ملامت کرے گا کہ اتنی دیر سے نماز پڑھ رہا ہوں اور پھر اگلے دن اس احساس سے ایک مومن وقت پر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے.پھر کام کرنے والے ہیں ، کام کی وجہ سے ظہر اور عصر کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن تو وہ لوگ ہیں جو نمازوں کا قیام کرتے ہیں اور قیام کس طرح کرتے ہیں ، عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُوْنَ (المعارج: 24) اپنی نمازوں پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں.اس میں باقاعدگی رکھتے ہیں، یہ نہیں کہ کبھی نماز ضائع ہوگئی تو کوئی حرج نہیں بلکہ آگے فرمایا کہ عَلى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (المعارج: 35) نمازوں کی حفاظت پر کمربستہ رہتے ہیں.انسان جتنی کسی عزیز چیز کی حفاظت کرتا ہے، وہ نمازوں کی حفاظت عزیز ترین شے سے بھی زیادہ کرتے ہیں.ایک مومن نمازوں کی حفاظت اس سے بھی زیادہ توجہ سے کرتا ہے.اگر نماز ضائع ہو جائے تو بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.یہ حالت ہوگی تو تب ایمان میں مضبوطی آئے گی.پھر با قاعدہ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتْ بَا مَّوْقُوْتًا (النساء:104).یقینا نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے اور حقیقی مومن وہی ہیں جو نماز وقت پر ادا نہ ہو سکے تو بے چین ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں ایک شخص کی ایک دن فجر کی نماز پر آنکھ نہیں کھلی ،نماز قضاء ہوگئی ، اس کا سارا دن اس بے چینی میں اور
289 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم رو رو کر اور استغفار کرتے ہوئے گزرا.لگتا تھا کہ یہ غم اسے ہلاک کر دے گا، اگلے دن نماز کا وقت آیا ، اس کو آواز آئی کہ اٹھو اور نماز پڑھو.اس نے پوچھا کون ہو تم؟ اس نے کہا میں شیطان ہوں.پوچھا کہ شیطان کا کیا کام ہے نماز کے لئے جگانے کا؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل تم نے جو روروکر اپنی حالت بنائی تھی اور جتنا استغفار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے تم کو کئی گنا نماز کا ثواب دے دیا.میرا تو مقصد یہ تھا کہ تم ثواب سے محروم ہو جاؤ گے تو بجائے اس کے کہ تم کئی گنا ثواب لو اس سے بہتر ہے کہ میں تمہیں خود ہی جگادوں اور تم تھوڑا ثواب حاصل کرو، اتنا ہی جتنا نماز کا ملتا ہے.نہیں تو پھر رو رو کے وہی حالت کرو گے اور پھر زیادہ ثواب لے جاؤ گے تو میرا مقصد تو پورا نہیں ہوگا.تو یہ نمازیں چھوڑنے والوں کا درد ہوتا ہے.پھر ایک مومن کی نمازوں کی شان نماز پڑھتے ہوئے پوری توجہ کے ساتھ پڑھنا ہے.ایک مومن کو باجماعت نماز پڑھنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.قیام نماز اس وقت مکمل ہو گا جب باجماعت نماز کی طرف توجہ ہوگی.اس لئے حتی الوسع با جماعت نماز کی کوشش کرنی چاہئے.اس لئے حدیث میں آیا ہے کہ باجماعت نماز کا ثواب ستائیس گنا تک ہے.(مسلم کتاب الصلوة باب فضل صلوة الجماعة حديث نمبر (1362) پھر ایک مومن کی ایک یہ شان ہے کہ نہ صرف خود نمازوں کا اہتمام کرے بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کرتا رہے.جماعتی نظام بھی ایک خاندان کی طرح ہے.اس میں ہر ایک کو اپنے ساتھ اپنے بھائی کی بھی فکر کرنی چاہئے.جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے ، اپنے عزیزوں کے لئے بھی پسند کرنی چاہئے.یہ ثواب کمانے اور نیکی پھیلانے کا ذریعہ ہے.لیکن پیار سے توجہ دلانی چاہئے.جس کو توجہ دلائی جارہی ہو اس کو بھی برا نہیں منانا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَمْرُ أَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا (سورة طه : 133) اور تُو اپنے اہل کو نماز کی تلقین کرتارہ اور خود بھی نماز پر قائم رہ.پس جہاں ماں باپ، بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کو نماز کی تلقین کرنی چاہئے وہاں پر ہر احمدی کو دوسرے احمدی کو بھی پیار سے اور نظام جماعت جو اس کام پر مامور ہے ان کو بھی دوسروں کو نمازوں کی طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے.یہی چیز ہے جو مومنین کی جماعت کو مضبوطی عطا کرتی ہے.یہی چیز ہے جس سے بندے اور خدا کے درمیان ایک تعلق قائم ہوتا ہے جو بندے کو خدا کے قریب کرتا ہے اور یہ تعلق اس لئے نہیں کہ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے ہیں بلکہ اصل مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور خدا کا قرب پانا ہے.پس جب اس مقصد کے حصول کے لئے ایک دوسرے کو توجہ دلا رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو سمیٹنے والے بن رہے ہوں گے اور جماعتی مضبوطی بھی پیدا ہورہی ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ نے شرط وہی لگائی کہ خود بھی نمازوں کی طرف توجہ کرو.اپنے عمل کی شرط ضروری ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 290 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء پھر ایک سچے مومن کی ایک نشانی یہ ہے کہ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة: 4) اور جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.یعنی اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی خرچ کرتے ہیں اور یہ خرچ دولت کا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں دی ہیں ، جو کسی کو بھی دوسرے سے زیادہ عطا کی ہیں اس کو دوسروں کی بہتری کے لئے خرچ کرتے ہیں.اور یہی بے نفس خدمت ہے جو پھر ایک مومن کو دوسرے مومن کے ساتھ ایسے رشتے میں پیوست کر دیتی ہے جو پکا اور نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہوتا ہے.مومنین کی جماعت میں ایک ایکا اور وحدانیت پیدا ہو جاتی ہے، ایک مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے اور ہر سطح پر اگر اس سوچ کے ساتھ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے ، اپنی دولت اور اپنی دوسری صلاحیتوں کو خرچ کیا جائے تو ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جس میں محبت، پیار، امن اور سلامتی نظر آتی ہے.گھروں کی سطح پر خاوند بیوی کا خیال رکھ رہا ہو گا.بیوی خاوند کا خیال رکھ رہی ہوگی.ماں باپ بچوں کی بہتری کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور ذرائع کا استعمال کر رہے ہوں گے.بچے ماں باپ کی خدمت پر ہر وقت کمر بستہ ہوں گے، ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوں.ان کی خدمت کی طرف توجہ دے رہے ہوں گے.ہمسایہ، ہمسائے کے حقوق ادا کر رہا ہوگا ، غریب امیر کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال کرے گا اور امیر غریب کی بہتری کے لئے خرچ کر رہا ہو گا اور یہ سب اس لئے ہے کہ ہم مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ کرو اور اس طرح پر سب مل کر پھر جماعتی ترقی کے لئے اپنے مال اور صلاحیتوں کو خرچ کر رہے ہوں گے اور پھر وہ معاشرہ نظر آئے گا جو مومنین کا معاشرہ ہے.اللہ کے فضل سے جماعت میں مال خرچ کرنے کی طرف بہت توجہ رہتی ہے، جماعتی ضروریات کے لئے بھی احمدی بڑے کھلے دل سے قربانیاں کرتے ہیں ، ہر وقت تیار رہتے ہیں اور ہر روز اس کی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں.جون کا مہینہ جو گزرا ہے، یہ مہینہ جماعت کے چندوں کا ، جماعتی سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے.ہر سال مختلف ممالک کی جماعتوں کو فکر ہوتی ہے کہ بجٹ پورا ہو جائے اور نہ صرف بجٹ پورا ہو جائے بلکہ گزشتہ سال کی نسبت قدم ترقی کی طرف بڑھے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مومنین کی جماعت پر اس کا اظہار فرماتا ہے کہ ان کے قدم آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں.اس سال بھی اکثر ممالک کی جماعتوں نے اپنے بجٹ اور گزشتہ سال کی قربانیوں سے بہت بڑھ کر قربانیاں کی ہیں.کئی چھوٹے چھوٹے ملک بھی ہیں کہ اپنے بجٹ سے کئی کئی گنا زائد وصولی کی ہے.پاکستان میں بھی باوجود حالات خراب ہونے کے قربانیوں میں ترقی کی ہے، مثلاً کراچی کے حالات بہت خراب تھے مئی کے شروع میں جب وہاں فساد ہوئے تو امیر صاحب کراچی کا بڑی پریشانی کا فون آیا.پھر فیکس آئی کہ حالات ایسے ہیں اور سال کا آخر ہے چندوں میں کمی ہورہی ہے.خیر اللہ نے فضل فرمایا اور ہو گیا، لیکن عموماً جماعت کا مزاج یہ ہے کہ سال کے آخری مہینے کے آخری دنوں میں اپنے چندوں کی ادائیگی پوری طرح کرتے ہیں.تو جون کے آخر میں پھر کراچی کے
خطبات مسرور جلد پنجم 291 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء حالات موسم کے لحاظ سے بڑے خراب ہو گئے ، اور کہتے ہیں کہ 30 جون کو تو یہ حال تھا کہ شدید بارشیں ، سڑکوں کے او پر پانی، گھر سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا تھا اور بڑی فکر تھی ، بجٹ میں کافی کمی تھی لیکن شام تک کہتے ہیں، پتہ نہیں کیا معجزہ ہوا ہے کہ نہ صرف بجٹ پورا ہو گیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھ کر وصولی ہوگئی اور اس طرح کئی جگہوں پر ہوتا ہے.ایسی حالت میں جب کوئی گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ کی یہ خاص تائید اور مد تھی جس نے یہ ساری کمیاں پوری کردیں.یہ نظارے اللہ تعالیٰ اس لئے دکھاتا ہے کہ مسیح موعود کی یہ جماعت مومنین کی ایک سچی جماعت ہے اور ان باتوں کو دیکھ کر تم اپنے ایمانوں میں مزید مضبوطی پیدا کرو اور میرے احکامات پر عمل کرو تا کہ میرے فضلوں کو انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی حاصل کرنے والے بنو اور بنتے چلے جاؤ.پھر جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.ایک مومن کے لئے آنحضرت ﷺ پر جوتعلیم اتری ہے اسے ماننا ضروری ہے.آپ کو خاتم الانبیاء ماناضروری ہے.اس یقین پر قائم ہوں اور یہ ایمان ہو کہ قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے اور اس کے تمام احکامات ہمارے لئے ہیں اور ہمیں اس پر ایمان لانا اور ماننا اور عمل کرناضروری ہے.پھر جس طرح قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے جو انبیاء آئے تھے وہ بھی برحق تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے ، بعض کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور بہت سوں کا نہیں ہے ، ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے.اور یہ بھی ایک مومن کی خصوصیت ہے اور یہ صرف اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس نے پہلے انبیاء کی صداقت پر بھی مہر لگادی اور آنحضرت ﷺ کو یہ مہر لگانے والا بنا یا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (البقرة: 120) - وَإِنْ مِنْ أَمَةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 25) ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ہوشیار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے.اور کوئی ایسی قوم نہیں جس میں ہوشیار کرنے والا نہ آیا ہو تو ہر قوم میں جو انبیاء آئے ان کی بھی اطلاع دے دی.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے یہ اعلان کروا دیا کہ تمام قوموں میں رسول آئے ہیں اس لئے جس قوم کا بھی یہ دعوی ہے کہ اس میں نبی آیا اور نبی کا نام لیتے ہیں ان کو ماننا ضروری ہے.ایک مومن کو یہ حکم دیا کہ ان تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی تمہارے مومن ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ہے.اور پھر فرمایا کہ آخرت پر بھی یقین رکھو، یہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.اب یہ آخرت کیا ہے؟ آخرت کے معانی سیاق و سباق کے ساتھ یہ ہو سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو آپ کی غلامی میں آئے اس پر جو وحی نازل ہو اس پر بھی یقین رکھنا.جو مسیح موعود اور مہدی معہود آئے گا یقین رکھو کہ وہ آئے گا اور اس پر ایمان لے آنا، یہ بھی ایک مومن کے ایمان کا حصہ ہے.آخرت کو اُخروی زندگی بھی کہا جاتا ہے، لیکن جو پہلے معانی ہیں اس سیاق و سباق کے لحاظ سے وہ زیادہ بہتر ہیں اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فہم قرآن اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کا نتیجہ
خطبات مسرور جلد پنجم 292 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء ہیں کہ یہ معانی ہم تک پہنچے ہیں اور ہم اس پر ایمان لائے ہیں.پس یہاں یہ بیان فرما کر کہ جس طرح تمہارے لئے پہلے انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے اور آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح تمہیں اس یقین پر بھی قائم رہنا ہو گا کہ آخرین میں جو آنحضرت ﷺ کے غلام کی بعثت ہوگی اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا.آپ فرماتے ہیں کہ ” آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلی وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے، ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں.اسی امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء کے یکا یک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ کریمہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُونَ (البقرة: 5) میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے بِمَا أُنْزِلَ اِلَيْكَ سے قرآن شریف کی وحی اور مَا أُنْزِلَ مِنْ قبلگ سے انبیاء سابقین کی وحی اور اخرة سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے.اخرة کے معنی ہیں پیچھے آنے والی.وہ پیچھے آنے والی چیز کیا ہے.سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں پیچھے آنے والی چیز سے مراد وہ وحی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی کیونکہ اس سے پہلے وحیوں کا ذکر ہے.ایک وہ جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی.دوسری وہ جو آنحضرت ﷺ سے قبل نازل ہوئی اور تیسری وہ جو آپ کے بعد آنے والی تھی.( تفسیر حضرت مسیح موعود سورة البقرة آيت 5، ریویو آف ریلیجنز جلد 14 نمبر 4 مارچ اپریل 1915 صفحہ 64 حاشیہ ) پس جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی تصدیق ان مومنین کے لئے ہوگی جو پہلے انبیاء کی بھی تصدیق کریں گے اور آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والے بھی ہوں گے اور بعد میں آنے والے کو بھی ما نہیں گے.تو اس آیت نے اور وضاحت نے دلیل کو مزید مضبوط کر دیا.پس ہر ایک احمدی جو حقیقی مومن ہے اور اس ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا ہے اس کو اس پیغام کو ماننے کے بعد اپنے ایمان میں ترقی کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالانے کی طرف مزید کوشش کرنی چاہئے.پھر ایک مومن کی خصوصیت یہ ہے، جس کا قرآن کریم میں یوں ذکر آتا ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لله (البقرة: 166) یعنی اور جو لوگ مومنین ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں.پس مومن ہونے کی یہ نشانی ہے کہ ایک سچے مومن کی زندگی صرف ایک ذات کے گرد گھومتی ہے اور گھومنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ایک مومن ، مومن کہلا ہی نہیں سکتا.ایک مومن کا غیب پر ایمان ، نمازیں پڑھنا، قربانی کرنا ، انبیاء پر ایمان ، اس وقت کامل ہوگا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ان تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس شدید محبت کا کیسا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے رکھا کہ کفار بھی یہ کہہ اٹھے کہ عشق
خطبات مسرور جلد پنجم 293 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء مُحَمَّدْ رَبَّہ کہ محمد تو اپنے رب پر عاشق ہو گیا.اور آپ نے ہمیں کیا خوبصورت دعا سکھائی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے.میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے.اے اللہ اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو.(صحيح الترمذى كتاب الدعوات حدیث نمبر (3490) پس ایک مومن کا معیار اور خصوصیت یہ ہے جس کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے.کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں مل سکتی.اس لئے اس محبت کے حصول کے لئے بھی اسی کے آگے جھکنا اور اس سے دعائیں کرنا ضروری ہے.پھر مومن کی ایک خصوصیت یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ أَيْتَهُ زَادَتْهُمْ إِيْمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ (الانفال: 3) یعنی مومن تو صرف وہی ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو بڑھا دیں اور وہ جو اپنے رب پر توگل کرتے ہیں.صرف مومن ہونے کا دعویٰ ہی کافی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، جن خصوصیات کی طرف ایک مومن کو تو جہ دلائی ہے، وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان کے دل میں ہوتا ہے.وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہیں جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، یہ خوف ہے کہ میرے محبوب کے حوالے سے میرے سامنے کوئی بات کی جائے اور میں اس پر توجہ نہ دوں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ احکامات پر عمل، ان نصائح پر عمل جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کی جائیں یا جو اللہ تعالیٰ نے بھیجی ہوں وہ اس لئے کرتا ہے کہ میرا محبوب کہیں مجھ سے ناراض نہ ہو جائے.پس اس حوالے سے ہر نصیحت جو ایک مومن کو کی جاتی ہے اس کو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایک صحیح مومن اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ میرا خدا جو سب سے زیادہ پیار کرنے والا ہے میری نافرمانی سے کہیں مجھ سے ناراض نہ ہو جائے.اور دوسری بات ( یہ ہے کہ) جو ایک مؤمن کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں، جب ان نشانات کا ذکر کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ایک مومن پر ظاہر ہوتے ہیں تو یہ چیز اسے اس کے ایمان میں مزید ترقی کا موجب بنادیتی ہے.اور تیسری اہم بات ( یہ ) ہے کہ ایمان کی زیادتی کے ساتھ مومن کا معیار تو گل بڑھتا ہے.اس کا یقین
خطبات مسرور جلد پنجم 294 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء اللہ تعالیٰ کے سلوک کی وجہ سے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ایمان میں بڑھنے کے ساتھ اس کا تو گل بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اس میں وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے.وہ دنیاوی چیزوں پر گرنے کی بجائے اور انہی پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے اپنی کوشش کرنے کے بعد جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسباب کا استعمال بھی ہونا چاہئے اور محنت بھی ہونی چاہئے پھر بہتر نتائج کے لئے اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑتا ہے.اونٹ کا گھٹا باندھنے کے بعد اس رتی پر تو گل نہیں کرتا جس سے گھٹنا باندھا گیا ہے بلکہ اس مالک پر توکل کرتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے، جونگران ہے، جو حفاظت کرنے والا ہے پس یہ تو کل ہے جو ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے اور ہونا چاہئے اور یہ اس کی خصوصیت ہے.پھر ایک مومن کی نشانی یہ بتائی کہ اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دَعَوْا إِلَى اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (النور: 52) مومنوں کا قول جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے محض یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی ہیں جو مراد پانے والے ہیں.اللہ اور رسول کی کامل اطاعت تبھی ہوگی جب ان تمام احکامات کی پیروی ہوگی جو اللہ اور رسول نے دیئے ہیں.صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی کافی نہیں.مثلاً اہم معاملات میں جو مسائل اور جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں اُن میں بھی اللہ اور رسول کا حکم ہے کہ میرے امیر کی اور نظام کی اطاعت کرو.اس کی پوری پابندی کرنا بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء : 66 ) نہیں، تیرے رب کی قسم وہ کبھی ایمان نہیں لا سکتے جب تک وہ تجھے ان امور میں منصف نہ بنالیں جن میں ان کے درمیان جھگڑا ہوا ہے پھر تو جو بھی فیصلہ کرے اس کے متعلق وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور کامل فرمانبرداری اختیار کریں.یہ صرف آنحضرت کے بارے میں نہیں ہے گو پہلے مخاطب آپ ہی ہیں، اس کے بعد آپ کا نظام ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے امیر کی اطاعت اور نظام کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے.خلفاء اور نظام جماعت کی اطاعت بھی ہر ایک مومن پر جو بیعت میں شامل ہے، ماننے والا ہے، حقیقی مومن ہے، اس کی پابندی کرنا ضروری ہے.اور اطاعت اور فیصلوں کی پابندی صرف نہیں کرنی بلکہ خوشی سے ان کو مانا ہے.سزا کے ڈر سے نہیں ماننا بلکہ اطاعت کے جذبے سے اور یہی چیز ہے جو مسلمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہوگی.پس ہر احمدی کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ جھگڑوں کی صورت میں ، ( جو ذاتی جھگڑے ہوتے ہیں ) ، اپنے دماغ میں
خطبات مسرور جلد پنجم 295 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء سوچے ہوئے فیصلوں کو اہمیت نہ دیا کریں بلکہ نظام کی طرف سے جو فیصلہ ہو جائے ، قضا کی طرف سے ہو جائے جو کئی مرحلوں میں سے گزرنے کے بعد ہوتا ہے اسے اہمیت دیں.پھر بعض وقت خلیفہ وقت کی طرف سے بھی انہی فیصلوں پر صاد ہوتا ہے.اس کے باوجود یہ زور ہوتا ہے کہ نہیں ، فیصلہ غلط ہوا ہے.ٹھیک ہے، فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن فیصلہ کرنے والے کی نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے پھر فتنہ پیدا ہوتا ہے.اور پھر مسلسل اس کے خلاف باتیں کرنا اور پھر یہ کہنا کہ اب مجھے دنیا وی عدالتوں میں بھی جانے کی اجازت دی جائے تو یہ ایک مومن کی شان نہیں ہے.مومن وہی ہیں جو خوشی سے اس فیصلے کو تسلیم کر لیں.اگر کسی نے اپنی لفاظی کی وجہ سے یا دلائل کی وجہ سے اپنے حق میں فیصلہ کروالیا ہے یا غلط ریکارڈ کی وجہ سے فیصلہ کروالیا ہے اور دوسرا فریق اپنی کم علمی کی وجہ سے یا ریکارڈ میں کمی کی وجہ سے اپنے حق سے محروم بھی ہو گیا ہے تو پھر اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ غلط فیصلہ کروانے والا آگ کا گولہ لیتا ہے یا اپنے پیٹ میں بھرتا ہے تو پھر وہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہو گیا.(صحیح بخاری کتاب الشهادات باب من اقام البينة بعد اليمين حدیث نمبر (2680) مومنین کی شان یہ ہے کہ فتنے سے بچیں.نظام کے خلاف باتیں کر کے، بول کر اپنے حق سے محروم کئے جانے والا شخص اگر اپنے زعم میں ، اپنے خیال میں اپنے آپ کو صحیح بھی سمجھ رہا ہے تو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بھی ایمان سے محروم کر رہا ہوتا ہے.بعض دفعہ یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے.پس مومن کی ایک بہت بڑی خصوصیت اطاعت ہے.امن قائم کرنے کے لئے تھوڑا سا نقصان بھی برداشت کرنا ہو تو کر لینا چاہئے اور اطاعت کو ہر چیز پر حاوی کرنا چاہئے اور اس کو ہر چیز پر مقدم سمجھنا چاہئے.اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنا اور اس پر تو گل کرنا ایسی چیز ہے جس پر اللہ تعالیٰ انعامات سے نوازتا ہے اور پھر ایسے ذرائع سے مددفرماتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ مومنین کی یہ خصوصیت بیان فرماتا ہے کہ إِنَّمَا يُؤْ مِنَ بِايْتِنَا الَّذِيْنَ إِذَا ذَكَرُوا بِهَا خَرُوا سُجَّدًا وَسَبِّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (السجدة: 16) يقينا ہماری آیات پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب اُن آیات کے ذریعہ سے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے.پس جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی آیات ایک مومن کو خوف میں بڑھاتی ہیں اور اس کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں.پس خوف اور ایمان میں بڑھتے ہوئے اور اس دلی خواہش کے ساتھ
خطبات مسرور جلد پنجم 296 خطبہ جمعہ 13 جولائی 2007ء کہ اللہ تعالی کے قرب پانے والے بنہیں، مومنین تسبیح کرتے ہیں، جمد کرتے ہیں ، عبادتوں کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حوالے سے جو بات کی جائے تو پھر اطاعت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ایمان میں بڑھاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان خصوصیات کا حامل بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.: ” مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات وصدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے بجالا وے اور ہر ایک کارخیر کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہوا اور کسی تصنع و نمائش اور یاء کو اس میں داخل نہ ہو.یہ حالت مومن کی اس کے نیچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے.الغرض ہر ایک فعل اس کا اور ہر حرکت اور سکون اس کا اللہ ہی کا ہوتا ہے.اس وقت جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ میں کسی بات میں اس قدرتر ڈ نہیں کرتا جس قدر کہ اس کی موت میں.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مومن اور غیر مومن میں ہمیشہ فرق رکھ دیا جاتا ہے.غلام کو چاہئے کہ ہر وقت رضائے الہی کو ماننے اور ہر ایک رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں دریغ نہ کرے.کون ہے جو عبودیت سے انکار کر کے خدا کوا پن محکوم بنانا چاہتا ہے“.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 343-344.جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک سچا اور مضبوط رشتہ قائم کرتے ہوئے ان تمام خصوصیات کو اپنانے والے بنیں جو ایک سچے مومن کے لئے ضروری ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور ہمیں اپنے فضلوں کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھے.( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 27 جولائی تا 9 اگست 2007ء ص 15 تا 18)
خطبات مسرور جلد پنجم 297 (29) خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2007ء (20 روفا1386 ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگلے جمعہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ قریباً 24 سال سے جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہاں ہجرت ہوئی، یہ جلسہ سالانہ ، یو کے کا جلسہ سالانہ نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی جلسہ کی صورت اختیار کر گیا ہے.اور جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ جب تک خلافت کا یہاں قیام ہے اس جلسے کی بین الاقوامی حیثیت رہے گی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے یہاں آنے کے بعد جو پہلا جلسہ ہوا تھا اس کی اہمیت کے پیش نظر بلکہ بعد کے کئی سال بھی مختلف اوقات میں آپ نے یہاں کے ملکی جماعتی نظام کی ٹریننگ کے لئے ، ان کو صحیح جماعتی روایات سے متعارف کرانے کے لئے، جلسے کے مختلف شعبہ جات اور مختلف امور کی باحسن سرانجام دہی کے لئے جہاں خود بڑی محنت سے ذاتی دلچسپی لے کر جلسے کے نظام کو اپنی رہنمائی سے نوازا، وہاں مرکز سے، ربوہ سے بھی تجربہ کار، پرانے کام کرنے والے افسران ، جن کا سالہا سال جلسہ کے انتظام چلانے کا تجربہ تھا اور جماعتی روایات سے بھی واقف تھے، کو بھی یہاں کے نظام کے ساتھ مشوروں میں شامل رکھا.بہر حال چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو کے کی جماعت اس معاملے میں اتنی تربیت یافتہ ہو گئی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب لاکھوں کی تعداد میں بھی مہمان آجائیں تو یہ بغیر کسی گھبراہٹ اور انتظامی نقص کے یا دقت کے جلسے کے انتظام کو اللہ کے فضل سے احسن طریق پر سر انجام دے سکتے ہیں.بلکہ بعض دفعہ جب میں سوچتا ہوں تو یہ فکر ہوتی ہے کہ پاکستان میں بھی جب انشاء اللہ تعالی حالات بہتر ہوں گے ، جلسہ سالانہ ہو گا تو لمبے عرصے کے تعطل کی وجہ سے بہت سے کارکنان جو اس وقت جب آخری جلسہ 1983ء کا ہوا تو active تھے، اور اب بڑی عمر ہو جانے کی وجہ سے اتنے active نہیں رہے ہوں گے، بعض ان میں سے دنیا میں بھی نہیں رہے تو نئی نسل ڈیوٹیاں دینے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے جلسے کے انتظام کو کس طرح سنبھالے گی؟ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے سلوک ہے اسے دیکھ کر اور احمدیوں کی فدائیت اور ایمان کے جذبے کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ خود ہی ان فکروں کو دور کرنے کے سامان پیدا فرمائے گا.بہر حال آپ سب سے اور خاص طور پر پاکستان کے رہنے والے احمدیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی جلسے کے انعقاد کے سامان پیدا فرمائے اور ان کی یہ محرومیاں بھی دور ہوں اور ہماری فکریں جو بشری تقاضا ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ دور فرمائے.بہر حال یہ تو ضمنا دعا کی تحریک کی طرف توجہ پیدا ہوئی تھی جو میں نے کی.
298 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم آج کا یہ خطبہ یعنی جلسہ سالانہ سے ایک ہفتہ پہلے کا جو خطبہ ہوتا ہے.یہ عموماً میں کارکنان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے دیتا ہوں ، جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب یو کے جماعت کے کارکنان جلسہ سالانہ جن میں بچے بھی ہیں عورتیں بھی ہیں ، بوڑھے مرد بھی ہیں اور جوان مرد بھی ہیں، یہ سب اپنے کام کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بڑی عمدگی سے ڈیوٹیاں دیتے ہیں.لیکن کیونکہ یاددہانی کا بھی حکم ہے تا کہ پرانے کارکن بھی اور نئے شامل ہونے والے کارکنان بھی اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیں اور اپنے سے ہر قسم کی کمزوریوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں اور پھر میزبانی سے متعلق آنحضرت ﷺ کے اسوہ کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے آقا کی اتباع میں جو نمونے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے آ جاتے ہیں اور ان سے بھی ہماری رہنمائی ہوتی رہتی ہے اس لئے یہ یاد دہانی کرواتا ہوں.مہمان نوازی ایک ایسا وصف ہے جس کا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کے ذکر میں فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ جَائَتْ رُسُلُنَا إِبْرَهِمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلْمًا قَالَ سَلْمَ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَائَ بِعِجْلٍ حَنِيْذ (هود: (70) اور یقینا ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوشخبری لے کر آئے.انہوں نے سلام کہا، اس نے بھی سلام کہا اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے آیا.پس مہمان نوازی یہی ہے کہ اپنے عمل سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہ ہو کہ مہمان آ گیا تو مصیبت پڑ گئی.بلکہ مہمان کو پتہ بھی نہ چلے اور اس کی خاطر مدارات کا سامان تیار ہو جائے.جو بہترین کھانا میسر ہو، جو بہترین انتظام سامنے ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے.رہائش کا جو بہترین انتظام مہیا ہو سکتا ہے، مہمان کے لئے مہیا کیا جائے.اس آیت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ضرور اتنی خاطر داری ہو کہ ایک دو مہمان آئے ہیں تو بے تحاشا کھانا تیار کیا جائے ، بچھڑے کی مہمان نوازی کے بغیر اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا یا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے.اُس زمانے میں وہ لوگ بھیٹر بکریاں پالنے والے تھے ، بازار تو تھے نہیں کہ بازار گئے اور چیز لے آئے ، بھیٹر میں موجود تھیں اور وہی فوری طور پر میسر آ سکتی تھیں تو اصل چیز اس میں یہ ہے کہ مہمان سے بغیر پوچھے کہ کھانا کھاؤ گے یا نہیں اس کی مہمان نوازی کے سامان تیار کر لئے جائیں.آنحضرت ﷺ نے مہمانوں کو دودھ بھی پیش کیا.آپ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے.کھجوریں میسر ہوئیں تو وہ بھی پیش کیں.اگر گوشت یا کوئی اور اچھا کھانا ہے تو وہ مہمانوں کو کھلا دیا.تو اصل اسلامی خلق جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے خوش دلی سے مہمان نوازی کرنا ہے.مہمان کو یہ احساس نہ ہو کہ میرا آنا میز بان کے لئے بوجھ بن گیا ہے.بلکہ حضرت ابراہیم کے مہمانوں نے تو یہ محسوس کیا کہ کھانے کی طرف ہمارا ہاتھ نہ بڑھنا حضرت ابراہیم کے دل میں تنگی پیدا کر رہا ہے.جس کی پھر انہوں نے وضاحت بھی کی کہ ہم لوڈ کی طرف جا رہے ہیں.تو یہ اسلامی خلق ایسا ہے کہ ہر مسلمان کو اس کو اپنا نا ضروری ہے.مختلف رنگ میں دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے.پس یہ ایسی تعلیم ہے جس کا ایک احمدی کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مہمان بن کر آ رہے ہوں ان کا کس قدر خیال ہونا چاہئے.ہر احمدی جو آپ کی بیعت میں شامل ہے وہ خود
خطبات مسرور جلد پنجم 299 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء اس بات کا اندازہ کر سکتا ہے کہ جس سے پیار ہو اس کی طرف منسوب ہونے والے تو ہر چیز سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں.پس ہمیں ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے پیارے کے مہمان آ رہے ہیں جو ہمیں بہت پیارے ہیں اور اس نیت سے ان کی خدمت کرنی ہے.اس جذبے کے ساتھ ہر کارکن اگر مہمانوں کی خدمت کرے گا تو اس خدمت کا لطف ہی اور ہوگا.پس چاہے آپ کے عزیزوں میں سے جلسے کے لئے ذاتی مہمان آرہے ہوں یا جماعتی انتظام کے تحت جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کا انتظام کیا گیا ہے اور اس مہمان نوازی کی جوڈ یوٹیاں مختلف لوگوں کے سپرد کی گئی ہیں، ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی حتی الوسع خدمت کی تو فیق پانی چاہئے.بعض ( مہمان) مجھے ملے ہیں، پہلی دفعہ پاکستان سے باہر نکلے ہیں.یہاں ان کا کوئی عزیز بھی نہیں ہے.یہ خالصتاً اس لئے آئے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہو جا ئیں گے اور خلیفہ وقت سے ملاقات بھی ہو جائے گی.زبان کا بھی ان کو مسئلہ ہے، کئی بہت سادہ مزاج ہیں، جو دیہاتی ماحول کے ہیں لیکن پر خلوص دل رکھنے والے ہیں.ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھنی چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا کہ یہی انبیاء کی سنت ہے، یہی اسلامی خلق ہے اور یہی آنحضرت ﷺ کا اسوہ ہے.اور الہی جماعت میں شامل ہونے کا دعوی کرنے والے اپنے خلق کے یہی نمونے دکھاتے ہیں اور ہم احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے کے بعد سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر عمل کرنے والے ہیں اور ہونے چاہئیں.تو ہماری طرف سے تو اول طور پر اس خُلق کا اظہار ہونا چاہئے.آنحضرت ﷺ نے تو ایک جگہ ایمان کی نشانی مہمان کا احترام بتائی ہے جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے تین باتیں آپ نے بیان فرمائیں کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے.جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے.اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار...حدیث نمبر (47) اور مہمان کی یہ عزت صرف اپنے تک ہی محدود نہیں ہے.اپنے عزیزوں تک ہی محدود نہیں ہے، اپنے قریبیوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر مہمان قطع نظر اس کے کہ اس کا دین اور مذہب کیا ہے، عزیز داری ہے کہ نہیں، اس کی مہمان نوازی کا آپ نے حکم دیا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو مسافروں کا حق بتایا ہے اس میں بھی مہمان نوازی آتی ہے.تو آنحضرت ﷺ کی سنت کیا تھی ؟ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا.حضرت رسول اللہ ﷺ کے ہاں مہمان بنا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لانے کے لئے فرمایا جو اس کا فر نے پی لیا.پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا.اگلی صبح اس نے اسلام قبول کر لیا تو آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کے لئے ارشاد فرمایا، دودھ
خطبات مسرور جلد پنجم 300 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء لایا گیا اس نے پی لیا.پھر آپ نے دوسری بکری کا دودھ لانے کے لئے فرمایا تو وہ دوسرے دن پورا دودھ ختم نہ کر سکا.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کا فرسات آنتوں سے.(صحیح بخارى كتاب الاطعمة باب المؤمن يأكل فى معى واحد ).کھانے کے طور پر تو ہم یہ مثال دیتے ہیں لیکن یہی مہمان نوازی ہے، اس میں مہمان نوازی کا جو خلق نظر آتا ہے یہ ہے کہ جتنا بھی مہمان کھائے خوشی سے اس کو مہیا کیا جائے.بغیر کسی قسم کا اظہار کئے کہ کیا مشکل ڈال دی کہ ایک بکری سے پیٹ نہیں بھرا ، دو سے نہیں بھرا، تین سے نہیں بھرا.تو جب تک اس کا پیٹ نہیں بھر گیا، اس کی تسلی نہیں ہو گئی ، آپ اس کی مہمان نوازی کا حق ادا فرماتے رہے اور کسی بھی قسم کا ایسا اظہار نہیں ہونے دیا جس سے مہمان شرمندہ ہو یا کسی اظہار سے اس کی ناراضگی ہو.پھر عارضی مہمان نوازی نہیں مستقل مہمان نوازی بھی آپ فرما یا کرتے تھے.آپ کی اس مہمان نوازی کی شفقت سے فیض اٹھانے والے کئی کئی دن بلکہ مہینوں آپ کی مہمان نوازی سے فیض اٹھاتے تھے لیکن کوئی تکلف نہیں ہوتا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروا دیا کہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص: 87) اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں.جو کچھ بے تکلفی سے میسر ہوتا تھا آپ مہمانوں کو پیش فرما دیتے تھے.جو بہتر طور پر کر سکتے تھے ان کی ضروریات پوری فرما یا کرتے تھے.حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے دو ساتھی جن کی محنت اور مشقت کی وجہ سے قوت سماعت اور بصارت متاثر ہوئی تھی.آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے پاس آئے مگر ان میں سے کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی.پھر ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ہمیں اپنے گھر والوں کے پاس لے گئے.وہاں پر تین بکریاں تھیں.آپ نے فرمایا ان کا دودھ دوہا کرو.ہم میں سے ہر ایک اپنا اپنا حصہ پی لیتا اور رسول کریم ﷺ کی طرف آپ کا حصہ لے جاتے.آنحضرت ﷺ رات کے وقت تشریف لاتے اور سلام کرتے.آواز اتنی اونچی نہ ہوتی کہ سویا ہوا بیدار ہو جائے.جو جاگ رہا ہوتا وہ سن لیتا.پھر آپ نوافل کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے ، نوافل ادا کرتے.اور پھر نماز فجر ادا کرتے.پھر اس کے بعد، وہیں آپ کے پاس پینے کے لئے دودھ لایا جاتا جو آپ پی لیتے.(ترمذی کتاب الاستيذان والادب باب كيف السلام حدیث نمبر ( 2719) تو بے تکلف مہمان نوازی یہی ہے کہ ان ضرورتمندوں کو کہہ دیا کہ ٹھیک ہے تم اب لمبا عرصہ میرے مہمان ہو یہ بکریاں ہیں ان کا دودھ دو ہو، خود بھی پیدا اور میرے لئے بھی رکھو.پھر جیسا کہ میں نے کہا آپ کی مہمان نوازی میں تکلف کوئی نہیں ہوتا تھا جو میسر ہوتا تھا مہمان کے سامنے پیش فرما دیتے تھے.حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور کی میز بانی سے میں نے اس طرح لطف اٹھایا کہ آپ نے بکرے کی
خطبات مسرور جلد پنجم 301 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء ران بھنوائی پھر مجھے اس میں سے کاٹ کاٹ کر آپ عنایت فرماتے تھے.حضور ﷺ بھی کھانا تناول فرما رہے ہوتے تھے.اگر کوئی ملاقاتی آجاتا تو اسے بھی کھانے میں بغیر تکلف کے ساتھ شامل کر لیتے تھے.پھر جب فتح مکہ ہوئی اور بڑے بڑے وفود آپ کے پاس آنے لگے تو خود ان کا استقبال بھی فرماتے تھے، انہیں عزت و احترام دیتے تھے ، ان کے لئے رہائش اور کھانے وغیرہ کا بندوبست فرماتے تھے، مختلف صحابہ میں مہمان نوازی کے لئے ان کو بانٹ دیتے تھے اور پھر مہمانوں سے دریافت فرماتے کہ تمہارے بھائیوں نے تمہاری مہمان نوازی کا حق ادا کیا کہ نہیں ؟ تو یہ تھے آپ ﷺ کے مہمانوں سے حسن سلوک کے طریقے.پھر یہ ہے کہ اگر کوئی مہمان آتا تو پہلے آپ اپنے گھر سے جائزہ لیتے تھے کہ کوئی کھانے کی چیز میسر ہے کہ نہیں، اس مہمان کی اچھی طرح مہمان نوازی ہوسکتی ہے یا نہیں.اگر کچھ میسر نہ ہوتا تو پھر دوسرے صحابہ سے پوچھتے کہ اس مہمان کو کون اپنے ساتھ لے جائے گا.اس طرح کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مہمان آیا ، آپ نے اپنے گھر سے پتہ کروایا ، کھانے کو کچھ نہیں تھا.تو ایک انصاری صحابی نے کہا کہ میں اس کو اپنے گھر لے جاتا ہوں اور اس واقعہ میں مہمان کے لئے احترام اور قربانی کی ایک عجیب جھلک نظر آتی ہے.روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا.آپ نے اپنی ازواج کی طرف پیغام بھجوایا.انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں.اس پر حضور ﷺ نے صحابہ سے فرما یا اس مہمان کے کھانے کا بندو بست کون کرے گا.ایک انصاری نے عرض کی کہ حضور میں انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ اس کے ساتھ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارات کا انتظام کرو.بیوی نے جوابا کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے.انصاری نے کہا کہ کھانا تیار کرو پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو بہلا کر سلا دو.چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا اور چراغ جلایا.بچوں کو بھوکا ہی سلا دیا.پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور چراغ بجھا دیا.پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے رہے اور چٹخارے لیتے رہے تا کہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی میرے ساتھ کھا رہے ہیں.اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا اور وہ خود بھو کے سور ہے.صبح جب یہ انصاری حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے رات والے عمل سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنس دیا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں.(بخاری کتاب المناقب باب ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة حديث نمبر (3798 دیکھیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں مہمان نوازی کی کتنی اہمیت ہے کہ اس انصاری کی منفر د قسم کی مہمان نوازی سے خدا
خطبات مسرور جلد پنجم 302 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء عرش پر خوش ہور ہا تھا اور اس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بھی دی کہ اے محمد دیکھ تجھے کس قسم کے ایثار اور قربانی کرنے والے لوگ میں نے دیئے ہیں جو دوسروں کی خاطر کس طرح قربانی کرتے ہیں.آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے.(سنن الترمذى كتاب الزهد باب ماجاء في حفظ اللسان حدیث نمبر (2413 | پس مہمانوں کے حق کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور جو مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بلانے پر روحانی مائدہ حاصل کرنے کے لئے آ رہے ہوں جو اس لئے دور دراز سے خرچ کر کے آ رہے ہوں کہ پاکستان میں جلسوں پر پابندی ہے.ہمیں جس فیض سے محروم کر کے دنیاوی حکومتوں نے روکیں کھڑی کر رکھی ہیں اس سے فیضیاب ہونے کے لئے ہم سے جو بھی بن پڑتا ہے کرتا ہے اور کرنا چاہئے.اگر اپنے اوپر بوجھ ڈال کر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے فیضیاب ہوا جا سکتا ہے جو آپ نے جلسے والوں کے لئے کیں تو ہونا چاہئے.کئی مخلصین یہاں آتے ہیں، میں نے پہلے بھی کہا کہ نہ انہوں نے یہاں سے کوئی دنیوی مفاد حاصل کرنا ہے، نہ ان کا کوئی عزیز یہاں ہے جس سے ملنا ہے.کوئی ذاتی مفاد نہیں، خالصتاً صرف جلسے کے لئے چند دن کے لئے آئے ہیں اور جلسے کے بعد چلے جائیں گے.بعض بڑی عمر کے عورتیں بھی اور مرد بھی مجھے ملے ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے ہم ویزے کے حصول کی کوشش کر رہے تھے لیکن ویز انہیں ملتا تھا.تو اس دفعہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرما دیا اور ویزامل گیا.جب یہ لوگ ملتے ہیں تو انتہائی جذباتی کیفیت ہوتی ہے.بعضوں کی تو روتے ہوئے ہچکی بندھ جاتی ہے.انتہائی اخلاص اور وفا کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے.تو یہ مہمان ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر آنے والے مہمان ہیں.ان کی مہمان نوازی پر یقینا اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو گا.پس کارکنان جلسہ کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ثواب کا موقع عطا فر مایا اور یہ ان کے لئے بہترین موقع ہے جس سے ان کو فائدہ اٹھانا چاہئے.کسی مہمان کی عزت اس کے ظاہری رکھ رکھاؤ کی وجہ سے نہیں کرنی کسی کی سادگی کو نہ دیکھیں بلکہ اس اخلاص کو دیکھیں جس کے ساتھ وہ یہاں جلسہ سننے کے لئے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقاﷺ کی اتباع میں کیا نمونے قائم فرمائے.ایک دفعہ سید حبیب اللہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا ( آپ ملنے آئے تھے ) کہ آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 163 جدید ایڈیشن) تو اپنی صحت کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی ، آنحضرت ﷺ کی اس بات کو یا د رکھا کہ مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور اس حق کی ادائیگی کے لئے آپ باہر تشریف لائے.
خطبات مسرور جلد پنجم 303 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء ایک مشہور واقعہ ہے، کئی دفعہ ہم نے سنا کہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے مہمان خانہ کے کارکنان کو کہا کہ ہمارے بستر یکہ سے اتارو اور سامان لایا جائے ، چار پائیاں بچھائی جائیں.تو لنگر خانہ کے ان ملازمین نے کہا کہ سامان اپنا خودا تاریں، چار پائیاں آپ کو مہیا ہو جائیں گی.اس بات پر دونوں مہمان بڑے ناراض ہوئے ، رنجیدہ ہوئے اور فوراً اسی یکہ میں بیٹھ کر ، اسی ٹانگے میں بیٹھ کر واپسی کے لئے روانہ ہو گئے.تو منشی ظفر احمد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات جب مولوی عبدالکریم صاحب کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو جانے دو، ایسے جلد باز لوگوں کو روکنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ بڑی جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہنا بھی مشکل تھا تیزی سے یعنی تیز قدم چلتے ہوئے ان کے پیچھے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ چند خدام بھی ہمراہ تھے.کہتے ہیں میں بھی ساتھ تھا تو نہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکہ مل گیا اور حضور کو جب انہوں نے آتے دیکھا تو اس کو کھڑا کیا اور اس سے اتر گئے.حضور نے انہیں واپس چلنے کا فرمایا اور ساتھ بڑی معذرت کی کہ آپ کو بڑی تکلیف پہنچی ہے.چنانچہ وہ واپس ہوئے تو حضور نے انہیں یکہ پر سوار ہونے کے لئے فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ پیدل چلتا ہوں آپ ٹانگے میں بیٹھ کر چلے جائیں.لیکن وہ شرمندہ ہوئے اور سوار نہ ہوئے.اس کے بعد جب مہمان خانے پہنچے تو حضور نے خود ان کے بستر اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر جب یہ حالت دیکھی تو خدام نے فوری طور پر ان کا سامان اتارا، انتظام کیا.حضور نے ان کے لئے دونواڑی پلنگ منگوائے ، ان کے بستر کروائے ، ان سے کھانے وغیرہ کا پوچھا.اس علاقے کے لوگ زیادہ چاول کھانے والے تھے.جب تک کھانے کا انتظام نہیں ہو گیا وہیں تشریف رکھی.پھر ( حضور کا یہ معمول تھا کہ جتنے دن وہ وہاں ٹھہرے، روزانہ ایک گھنٹے کے قریب ان کے پاس آکر بیٹھتے تھے.ایک تقریب ہوتی تھی ، تقریر وغیرہ فرماتے تھے ) جس دن انہوں نے واپس جانا تھا صبح کا وقت تھا اس دن بھی حضور نے دو گلاس دودھ منگوا کر انہیں پلایا اور پھر نہر تک انہیں چھوڑ نے بھی گئے.(سیرت المہدی حصہ چہارم غیر مطبوعہ روایت نمبر 1071 صفحه 477 تا 479) تو صرف یہ نہیں کہ ان کو ایک دفعہ واپس لے آئے اور بس مہمان نوازی ختم ہوگئی.بلکہ با قاعدہ جتنے دن وہ رہے انہیں پوچھتے رہے روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب جاکے ان کے پاس بیٹھتے رہے اور ان کی دلداری بھی کرتے اور ان کے سوالوں کے جواب بھی عطا فرماتے تھے.انہیں اپنی مجلس سے فیضیاب فرماتے رہے تو یہ تھے آپ کی مہمان نوازی کے طریقے.پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں 1901ء میں ہجرت کر کے قادیان آیا تو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تھا، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے رہنے کے لئے جو کمرہ دیا وہ حضور کے
خطبات مسرور جلد پنجم 304 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء اوپر والے مکان میں تھا ، اس میں صرف دو چھوٹی چھوٹی چار پائیاں بچھ سکتی تھیں.کہتے ہیں چند ماہ ہم وہاں رہے.ایک دن کا واقعہ وہ سناتے ہیں کہ یہ کمرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر اور صحن سے اتنا قریب تھا کہ باتوں کی آواز آیا کرتی تھی.تو کہتے ہیں کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ بے انتہا مہمان آ گئے پورا گھر بھی بھرا ہوا تھا، جو رہائش کی جگہیں تھیں وہ بھی بھری ہوئی تھیں.تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکرام ضیف پر مہمان نوازی پر حضرت بی بی صاحبہ (حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کو پرندوں کا ایک واقعہ سنایا تو کہتے ہیں کیونکہ میں بالکل ساتھ تھا اس لئے صاف آواز میں سن رہا تھا.فرمایا کہ دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی ، رات اندھیر تھی ، قریب کوئی بستی نہیں دکھائی دی وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ گیا اور اس درخت کے اوپر ایک پرندے کا آشیانہ تھا ، گھونسلہ تھا، پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا.( یہ ساری ایک حکایت ہے ) کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانے کے نیچے آ بیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں.تو مادہ نے بھی اس سے اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کیا کہ ٹھنڈی رات ہے ہم اس کو گرمی کس طرح پہنچا سکتے ہیں.تو انہوں نے کہا کہ اپنا تنکوں کا گھونسلہ (آشیانہ ) توڑ کر نیچے پھینک دیتے ہیں اس کو آگ لگا کر یہ آگ سینکے گا ؟ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر جب مسافر نے اس کو اٹھا کر کے آگ لگائی تو وہ آگ سینکنے لگا سردی کا موسم تھا.پھر ان پرندوں نے سوچا کہ اب اور مزید مہمان نوازی کیا کی جاسکتی ہے؟ اب ہمیں چاہئے کہ ان کے لئے کچھ کھانے کا انتظام کریں اور کھانے کے لئے ہمارے پاس کچھ ہے نہیں ، تو یہی ایک قربانی ہم دے سکتے ہیں کہ خود اس آگ میں جا کر گر جائیں.چنانچہ وہ دونوں پرندے اس آگ میں گر گئے اور مہمان نے ان کو بھون کے کھالیا.تو یہ حکایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت اماں جان کو سنائی کہ مہمان نوازی کے لئے قربانی کے یہ معیار ہونے چاہئیں.مطلب یہ ہے کہ قربانی کرنی چاہئے ، یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو آگ میں ڈال لے.پس ہر کارکن کو اس سوچ کے ساتھ ہر مہمان کا خیال رکھنا چاہئے کہ اُس کی مہمان نوازی کا حق ادا ہو، اُس کی ضرورت کا خیال رکھا جائے ، اس کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے، اپنی تکلیفوں کی کچھ پرواہ نہ کی جائے، کیونکہ حق ادا کرنے کے لئے تکلیفیں تو بہر حال برداشت کرنی پڑتی ہیں.حضرت مسیح موعود نے ایک دفعہ لنگر کے انچارج کو بلا کر کہا تھا کہ دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الا کرام جان کر تواضع کرو ، سب مہمان تمہاری نظر میں ایک ہونے چاہئیں.ہر ایک کی اس طرح خدمت کر وہ مہمان نوازی کرو ” سردی کا موسم ہے تو چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.فرمایا کہ ” تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو،
305 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم جماعت اتنی پھیل گئی ہے کہ جو عہدیداران اور کارکنان ہیں ان پر ہی حسن ظن ہے کہ وہ نیک نیتی سے اپنے سارے کام بجالانے والے ہوں.ان سب کی خوب خدمت کرو، اور اگر کسی کے گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلے کا انتظام کر دو“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 492.جدید ایڈیشن) جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ یہ دیکھے بغیر کہ کون امیر ہے اور کون غریب ہے، کس کے کپڑے اچھے ہیں کس کے بڑے ہیں، جو مہمان ہے اس کی مہمان نوازی کرنا ہم پر فرض ہے.پس یہ واقعات جو آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے اور جو چند نمونے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دکھائے یہ صرف اس لئے ہیں کہ ہم ان نمونوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک دفعہ پھر ہمیں موقع دیا ہے کہ مہمان نوازی اور خدمت کر کے ہم جلسے کی برکات سے فیض اٹھانے والے ہوں گے ان برکتوں کے وارث بنے والے ہوں گے ثواب حاصل کرنے والے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان مہمانوں کی خدمت کے لئے مقدر کی ہیں.اس لئے تمام کارکنان شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ پورے خلوص سے ہر وقت ان مہمانوں کی خدمت پر کمر بستہ رہیں.مختلف شعبہ جات کے کارکنان ہیں، ان شعبہ جات میں رہائش بھی ہے، ٹرانسپورٹ ہے، خوراک، صفائی، آب رسانی طبی امداد ، جلسه گاه وغیرہ اور ہر ایک کے اپنے اپنے فرائض اور ڈیوٹیاں ہیں اور ہر ایک کا مہمان سے واسطہ پڑتا ہے.اس لئے ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے، ان کی باتیں سنیں اور ان کا خیال رکھیں.مہمانوں کی طرف سے بعض دفعہ غلط نہی کی وجہ سے زیادتی بھی ہو جاتی ہے.لیکن پھر بھی کارکن کا کام یہی ہے کہ صبر اور حو صلے سے اسے برداشت کرے.بعض لوگ ایسے ملکوں سے آئے ہیں جہاں بعض سہولتیں نہیں ہیں یا مختلف قسم کے ان کے طریق رائج ہیں.بعض چیزوں کا وہ خیال نہیں رکھتے ، ارادہ نہیں بلکہ پتہ نہیں ہوتا کہ کس طرح کس چیز کو استعمال کرنا ہے یا کس لحاظ سے کس حد تک صفائی کا خیال رکھنا ہے.مثلاً ٹائیٹ وغیرہ کی صفائی ہے تو جو کارکنان صفائی پر مقرر ہیں خود کر دیا کریں.بجائے یہ بولنے کے کہ مہمان آئے اور گند کر کے چلے گئے.آنحضرت ﷺ نے تو یہ اسوہ ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ ایک جو غیر مسلم آیا تھا اور بستر گندہ کر کے چلا گیا تو آپ نے صرف اس لئے اس بستر کو خود صاف کیا کہ وہ میرا مہمان ہے.تو یہ نمونے ہمارے سامنے اس لئے ہیں کہ ہم ان پر عمل کرنے والے بنیں.صبر اور حو صلے سے اور اعلیٰ اخلاق سے ہر ایک سے سلوک کریں اور ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں.بغیر ماتھے پر بل لائے اپنے فرائض انجام دیں.بہر حال ہر کارکن کے لئے بنیادی چیز جیسا کہ میں کئی دفعہ دوہرا چکا ہوں کہ صبر ، حوصلہ اور اعلیٰ اخلاق ہیں.اس کا خیال رکھنا چاہئے اور پھر اس کے ساتھ سب سے اہم چیز
خطبات مسرور جلد پنجم 306 خطبہ جمعہ 20 جولائی 2007ء دعا ہے اس کی طرف بھی توجہ رہے.دعا کے بغیر تو ہمارا کوئی کام نہیں ہوسکتا اور کارکنان دعاؤں کے ساتھ ساتھ جو سارا دن اپنے کام کے دوران کرتے ہیں، نمازوں کی پابندی کی طرف بھی توجہ رکھیں.اللہ تعالیٰ خوش اسلوبی سے تمام کارکنان کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کسی بھی قسم کی بدمزگی نہ ہو.مہمان بھی آپ سے خوش ہوں اور آپ مہمانوں سے خوش ہوں.بارشوں کی وجہ سے بڑی فکر ہے، بعض انتظامات میں مشکلات پیش آسکتی ہیں.اس کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور بارشیں ہمارے کسی کام میں روک نہ بنیں.آج بھی یہاں آتے ہوئے جو 20-25 منٹ میں لیٹ ہوا ہوں، حالانکہ بارش کی وجہ سے اپنے وقت سے 5-6 منٹ پہلے روانہ ہوا تھا، اس کے باوجود سڑکیں بلاک تھیں ،ہسڑکیں بند تھیں ،ٹریفک جام تھا، کہیں پانی کھڑا تھا تو ہم لیٹ ہو گئے.حدیقۃ المہدی میں اس طرح کی روکیں ہیں کیونکہ زمین نرم ہے اس لئے وہاں مختلف شعبہ جات کو بعض کاموں میں دقت بھی پیدا ہوسکتی ہے.اس لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے آسانیاں پیدا کرے اور کسی قسم کی روک نہ بنے اور مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے.دوسری ایک دعا کی تحریک میں کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ آجکل ہر ایک کو پتہ ہے کہ پاکستان کے حالات دن بدن بگڑتے چلے جارہے ہیں اور اب تک سینکڑوں قتل ہو چکے ہیں.مسلمان ، مسلمان کو قتل کر رہا ہے حالانکہ حدیث میں ہے کہ جو مسلمان مسلمان کو قتل کرے وہ مسلمان ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے قتل کرنے والوں کے لئے قرآن کریم میں بھی لعنت اور عذاب اور جہنم کا بہت سخت انذار فرمایا ہے.تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ان لوگوں کو عقل دے اور ملک کو بھی بچائے ، کیونکہ جب اس طرح اندر سے دشمنیاں اٹھتی ہیں، اندر سے کمزوری پیدا ہوتی ہے پھر باہر کے دشمن بھی فائدہ اٹھاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ملک کو محفوظ رکھے، اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے جو حقیقت کو سمجھتے نہیں اور اپنی تباہی کا خودسامان پیدا کر رہے ہیں.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 10 تا 16 اگست 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 307 (30) خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2007 (27 روفا1386 ہجری شمسی) بمقام حدیقۃ المہدی.آلٹن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.موسم کی وجہ سے انتظامیہ بھی فکر مند ہے کیونکہ موسم تمام ملک میں خراب ہی ہے اور بعض لوگ بھی شاید اس خوف سے کہ بے آرامی نہ اٹھانی پڑے یا بچوں کے ساتھ دقت نہ پیش آئے یا پیچھے اپنے گھروں کا خوف رکھتے ہوئے ہچکچائیں.تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور دونوں طرف کے لوگوں کی پریشانیاں دور فرمائے ، انتظامیہ کی پریشانیاں بھی دور فرمائے اور جو مہمان آرہے ہیں ان کی بھی پریشانیاں دور فرمائے.ہمیشہ یادرکھیں کہ یہ جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدائی منشاء کے مطابق شروع کیا تھا تاکہ آپ کے ماننے والے ایک خاص ماحول میں چند دن گزار کر علمی اور روحانی ترقی کی طرف لے جانے والے خطابات سن کر اپنی دینی، علمی اور روحانی حالت کو سنوارنے والے بنیں.پس یہ دن انتہائی برکت کے دن ہیں اور جب ہم خالصتا اللہ تعالیٰ کے مسیح کے جاری کردہ روحانی پروگرام میں شمولیت کے ارادے سے یہاں آئیں گے تو یقینا ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کی طرف بھی مائل ہوں گے اور ان دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل ہو جائے گی کہ اے میرے قادر مطلق خدا ! اے زمین و آسمان کے مالک خدا! ہم تیرے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس مجلس میں آئے ہیں جہاں تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے نام کی سربلندی کے لئے منصوبے بنائے جاتے ہیں تلقین کی جاتی ہے.اس لئے اس موسم کو بھی جو تیرے ہی تابع ہے ہمارے پروگراموں میں کسی بھی قسم کی روک ڈالنے سے روکے رکھ.تو یقینا اللہ تعالیٰ موسم کے بداثرات سے بچاتے ہوئے ہمیں اپنے پروگراموں کے احسن طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے گا اور موسم ہمارے پروگراموں میں کسی بھی روک کا باعث نہیں بنے گا انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.مجھے یاد ہے ربوہ میں جب جلسے ہوا کرتے تھے تو سردیوں میں دسمبر کے مہینے میں جلسہ ہوتا تھا اور بعض دفعہ
خطبات مسرور جلد پنجم 308 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء بارش بھی ہو جایا کرتی تھی اور جلسہ گاہ بھی کھلے آسمان تلے تھی.نیچے بھی کچھ نہیں، کچی زمین یا پرالی بچھی ہوتی تھی اور کھلا آسمان ( یہاں تو پھر گھاس ہے، کچھ حد تک کیچڑ بھی کم ہے اور آپ کے اوپر مارکی بھی لگی ہوئی ہے ) اس کے باوجود لوگ بیٹھ کر جلسے کے پروگرام بڑے اطمینان سے سنتے تھے، ان کے ایمانوں کی گرمی میں کبھی موسم حائل نہیں ہوا کبھی موسم کی شدت حائل نہیں ہوئی.قادیان میں شدید سردی میں ہندوستان کے ایسے علاقوں سے بھی لوگ آتے ہیں جہاں سردی نہیں پڑتی ، درمیانہ موسم رہتا ہے اور ان کو سردی کی عادت ہی نہیں اور اس وجہ سے ان کے پاس گرم کپڑے بھی نہیں ہوتے لیکن سخت گہر میں بھی ہم نے دیکھا کہ وہ آرام سے بیٹھے جلسہ سنتے ہیں اور بڑے شوق سے جلسے کے لئے آتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے گھانا کا دورہ فرما یا تھا تو جماعت سے خطاب کے دوران شدید بارش شروع ہو گئی.کھلا میدان تھا ، او پر کوئی مار کی نہیں تھی، کوئی اوپر سایہ نہیں تھا.اتنی شدید بارش تھی کہ با وجود چھوٹی سی چھتری کے جو حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے اوپر رکھی ہوئی تھی ، آپ بھی بھیگ گئے تھے.چھتری بھی کوئی کام نہیں کر رہی تھی اور لوگ بھی بارش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خاموشی سے کھڑے رہے اور کم از کم بیس پچیس منٹ یا آدھا گھنٹہ شدید بارش میں بھیگتے رہے لیکن مجال ہے کہ کوئی ادھر سے اُدھر ہوا ہو بلکہ جہاں کھڑے تھے وہاں اتنا پانی کھڑا ہو گیا کہ ان کے پاؤں بھی ٹخنوں سے اوپر پانی میں ڈوبے ہوئے تھے.بوٹ ، جرا ہیں، کپڑے سب بھیگے ہوئے تھے.پھر دو سال پہلے جب میں نے تنزانیہ کا دورہ کیا ہے تو لجنہ کے خطاب کے دوران شدید بارش ہو گئی.وہاں مارکیاں بھی اتنی مضبوط نہیں ہوتیں اور نیچے پولز (Pols) کی سپورٹ بھی اتنی زیادہ نہیں تھی.بارش اتنی شدید تھی کہ مار کی کی چھت جو کہ پوری طرح تکون نہیں تھی اس کے تکون نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا صحیح طرح نکاس نہیں ہور ہا تھا.اور پانی اوپر جمع ہونا شروع ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ مار کی پانی کے وزن سے پھٹ گئی اور پانی ایک شدید شرائے سے نیچے آیا لیکن عورتیں اور بچے خاموشی سے بیٹھے رہے.کہا جاتا ہے کہ عورتوں میں صبر نہیں ہوتا ، ادھر ادھر ہو جاتی ہیں.افریقہ کے دور دراز ملک کے لوگ جن میں نو مبائعین بھی تھے جو پہلی دفعہ جلسہ سننے کے لئے آئے تھے خاموشی سے بیٹھے رہے.مجال ہے جو کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو.کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر انہوں نے ساری تقریر سنی اور مجھے احساس نہیں ہوا کہ اتنی شدت سے پانی ان کے اوپر آرہا ہے.جب بھی پانی آتا تھا ایک طرف ہو جاتی تھیں.کچھ بھیگ بھی گئیں اور اس کے پھٹنے کے بعد بھی جیسا کہ میں نے کہا مسلسل بارش ہوتی رہی اور مختلف جگہوں سے مار کی پھٹتی رہی اور پانی ان کے اوپر گرتا رہا اور تھوڑا بہت بھی نہیں بلکہ شرائے سے نیچے گرتا رہا لیکن
خطبات مسرور جلد پنجم 309 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء عورتیں اور بچے خاموشی سے بیٹھے رہے.تو موسم ایک احمدی کے جوش ایمان پر کوئی اثر نہیں ڈالتا، چاہے وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا ایشیا کا رہنے والا ہو یا یورپ کا رہنے والا ہو.یہاں مجھے کسی نے کہا کہ شاید باہر سے آئے ہوئے لوگ تو آجائیں لیکن یہاں کے پرانے مقامی لوگ موسم کی شدت کی وجہ سے شاید خوفزدہ ہوں اور نہ آئیں.لیکن اللہ کے فضل سے اس وقت بھی پنڈال (مارکی ) میں کافی لوگ بیٹھے ہیں اور ٹریفک کی وجہ سے باہر پھنسے ہوئے بھی ہیں.تو اللہ کے فضل سے کافی تعداد میں لوگ آئے ہیں.اور موسم کی شدتیں ہمارے ایمانوں کی گرمی میں کبھی روک پیدا نہیں کر سکیں اور نہ انشاء اللہ کریں گی.اس لئے مجھے امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی ہے کہ بارش ہوتی رہے اور ہم اس موسم میں جلسہ سنیں تو جلسے کا انتظام درہم برہم نہیں ہو گا اور آپ سب لوگ اس سے مکمل تعاون کریں گے.اور جیسا کہ میں نے کہا کچھ لوگ آبھی رہے ہیں اور کچھ لوگ راستے میں ہوں گے.مزید آنے کا پروگرام بھی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ حاضری پر بھی زیادہ اثر نہیں پڑے گا.تاہم یہ دعا ضرور مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بداثرات سے ہم سب کو بچائے اور یہ بارش اور یہ موسم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لئے ہوئے نہ ہو.آنحضرت ﷺ انشاء اللہ ایسے موسموں میں جب ہوا اور آندھی اور طوفان اور بارش کی شدت ہوتی تھی تو یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَخَيْرَمَا أُرْسِلَتْ بِهِ ۖ وَأَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِهَا وَشَرِ مَا فِيهَا وَشَرِمَا أُرْسِلَتْ بِهِ (صحیح مسلم کتاب صلاة الاستقاء باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم حدیث نمبر (1969) اے اللہ ! میں اس بارش، ہوا، آندھی، طوفان کی تجھ سے ظاہری اور باطنی خیر و بھلائی چاہتا ہوں اور وہ خیر بھی چاہتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اور میں اس کے ظاہری اور باطنی شر سے اور اس شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے.پس اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے ، اس کے سامنے جھکیں رہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر حال میں ہمیں خیر پہنچے اور اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچائے.ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں پر زور دیں، جیسا کہ میں نے کہا برطانیہ بارشوں اور طوفانوں کی زد میں ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک بھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں ان دنوں میں ایک جگہ جمع ہو کر دعاؤں کا یہ موقع دیا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے آگے تو کوئی مشکل نہیں ہے کہ محکمہ موسمیات کی اس پیشگوئی کے باوجود کہ آئندہ دو تین دن میں بارشیں ہوتی رہیں گی، ہمیں ان بارشوں سے محفوظ رکھے اور ہمارا جلسہ بخیر و خوبی اختتام کو پہنچے اور ہم جلسہ کی برکات سمیٹ کر بیٹھیں.اللہ تعالی ہمیں ہمیشہ اپنے انعاموں کا وارث بنا تار ہے.
310 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اس وقت جلسہ کے تعلق سے کچھ توجہ مہمانوں کو بھی دلانا چاہتا ہوں.کچھ باہر سے آنے والے اس جلسہ میں پہلی دفعہ شامل ہورہے ہیں اور اکثریت کو کئی سالوں سے آنے والوں کی ہے لیکن اس اکثریت کو بھی بعض امور کی یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح چند باتوں کی طرف کارکنان کو بھی توجہ دلاؤں گا گو کہ پہلے بہت سی باتوں کی طرف توجہ دلا چکا ہوں.آنحضرت ﷺ نے مہمانوں اور میزبانوں کو ایک حدیث میں اس طرح تو جہ دلائی ہے کہ مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے، آپ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی تکریم کرے.اس کی خصوصی مہمان نوازی ایک دن رات ہے.جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک ہے اور تین دن سے زائد صدقہ ہے.مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اتنا عرصہ مہمان نواز کے پاس ٹھہرا رہے کہ میزبان کو تکلیف میں ڈالے.ابوداؤد کتاب الاطعمة باب فى الضيافة حديث نمبر 3748) ایک مومن کے لئے مہمان کی مہمان نوازی بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی ایک شرط ہے اور فرمایا کہ مہمان کی تکریم کرے.تکریم کیا ہے؟ یعنی خوش دلی سے اس کی مہمان نوازی کرے، کھلے ہاتھوں سے اس کا استقبال کرے، گھر میں لائے ، اس کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے اس کے جذبات کو تکلیف پہنچے.اس کی عزت افزائی کرے اور نہ صرف منہ سے بلکہ اپنے ہر عمل سے بھی مہمان سے انتہائی خلوص کا سلوک کرے اور اس کو کسی بھی عمل سے یہ اشارہ تک نہ ہو کہ اس کا آنا میزبان کے لئے مشکل کا باعث بن گیا ہے.اپنے وسائل کے لحاظ سے بہترین رنگ میں اس کی رہائش اور خوراک کا انتظام کرے اور یہ سب کچھ ایک مومن اپنے مہمان کے لئے اس لئے کر رہا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے اور ہر ایک کے اپنے اپنے وسائل اور بعض مجبوریاں ہوتی ہیں اس لئے فرمایا کہ ایک دن تو تکلیف برداشت کر کے بھی تکریم کرنا پڑے تو کرو اور خاص تکلف کرو، یہی تکریم ہے.اس کے بعد پھر عمومی مہمان نوازی ہے اور مہمان کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم بھی حقیقت کو سامنے رکھو اور اپنے میزبان پر زیادہ بوجھ نہ بنو.اور اس کو یہ بتانے کے لئے کہ تمہارا اپنے میزبان پر زیادہ بوجھ ڈالنا اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ فعل نہیں ہے، فرمایا تین دن سے زیادہ کی مہمان نوازی پھر صدقہ بن جاتا ہے اور صدقہ تو صرف انتہائی غریب اور ضرورت مند کو دیا جاتا ہے.پس یہ ایسا سمویا ہوا حکم ہے جو مہمان اور میزبان دونوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان کے حقوق و فرائض کیا کیا ہیں اور اس کو بلاوجہ کے تکلفات سے بھی بچاتا ہے.اسی طرح میزبان کو بھی جیسا کہ میں نے کہا توجہ دلاتا ہے اور مہمان کو بھی تا کہ دونوں کے تعلقات محبت اور پیار قائم رہیں.تو جب تک میزبان کا خیال
خطبات مسرور جلد پنجم 311 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء کرتے ہوئے مہمان اس پر ناجائز بوجھ نہیں ڈالے گا اس وقت تک محبت و پیار کا تعلق قائم رہے گا.تو یہ مہمان کو کہا ہے اگر تم نا جائز بوجھ ڈال رہے ہو اور لمبی مہمان نوازی چل رہی ہے تو پھر یہ مہمان نوازی نہیں بلکہ پھر یہ صدقہ بن جاتا ہے اور صدقہ بھی زبر دستی کا جو تم اس سے لے رہے ہو.پس ایک حسین معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریق اپنے حق کو پہچان کر ادا کریں.یہاں جلسے پر دوسرے ممالک سے لوگ آتے ہیں.فاصلے اور جہازوں کی سیٹوں کی بکنگ کی وجہ سے زیادہ ٹھہرنا پڑتا ہے، مجبوری ہے.اس لئے جماعتی نظام بھی پندرہ دن کی مہمان نوازی کرتا ہے.پس تمام مہمان جو خالصتاً اس مقصد کے لئے آئے ہیں کہ جلسہ سے استفادہ کریں اور دعاؤں کے وارث بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں، اس بات کا خیال رکھیں کہ بجائے اس کے کہ جماعتی نظام یا ان کے دوست احباب ایسا اظہار کریں جس سے اکرام ضیف پر زد پڑتی ہو تو خود ہی اپنے پروگرام ایسے رکھیں کہ پندرہ دن میں یا جو بھی انہوں نے پہلے آکر اپنے میزبان کو وقت بتایا ہے واپسی ہو جائے.پاکستان سے آنے والوں کی بھی اکثریت تو مجھے ملی ہے جو جلدی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور خالصتاً جلسے کی نیت سے آئے ہیں لیکن بعض یہاں رہ کر اپنے کام بھی کرتے رہتے ہیں اور جماعت پر بوجھ بھی ڈالتے ہیں.اسی طرح چند ایک ایسے بھی ہیں جو اسائلم کی نیت سے آتے ہیں.گزشتہ سال بھی اسی طرح کچھ لوگ آئے تھے تو ہمیشہ میں واضح کرتا ہوں ، اب بھی واضح کر دوں کہ جلسہ پر آنے والے چاہے وہ ہندوستان سے آئے ہیں یا بنگلہ دیش سے آئے ہیں یا پاکستان سے آئے ہیں یا کسی بھی ملک سے آئے ہیں ان کو برٹش ایمبیسی نے ویزا اس لئے دیا ہے کہ انہوں نے جلسہ میں شامل ہونا ہے.پس یہ اعتماد جو ایمبیسیز جماعت کے ممبران پر کرتی ہیں، انہیں ٹھیس نہ پہنچائیں اس سے جماعت کی بھی بدنامی ہوتی ہے اور آئندہ سال کے لئے جو لوگ جلسہ پر آنا چاہتے ہیں انہیں بھی اس وجہ سے کہ تمہارے کچھ لوگ جلسہ کے نام پر گئے تھے اور واپس نہیں آئے ، ویزا دینے سے انکار ہو جاتا ہے.اس بارے میں ایک اور بات یا درکھیں کہ چند لوگوں نے یورپ کے دوسرے ممالک میں جا کر اسائلم کیا تھا، اس کی بھی اجازت نہیں ہے.پس ہمیشہ یا درکھیں کہ جلسہ پر آنے کی نیت کو نیک رکھیں اور جلسہ کی برکات سے فیضیاب ہونے کے بعد جتنی جلدی واپسی ہوسکتی ہے کریں.پھر ایک بات جس کی طرف مہمانوں اور میز بانوں دونوں کو توجہ دلانی چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس میں سے باہر سے آنے والے ملکوں کے مہمان بھی ہیں ان کو توجہ دلانی ہے اور یہاں اس ملک کے رہنے والے جو اس جلسہ میں
خطبات مسرور جلد پنجم 312 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء شامل ہورہے ہیں ان کو بھی تو جہ دلانی ہے کہ یہ جلسہ جس کی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خالص دینی مقاصد کے حصول کے لئے رکھی ہے اس میں ہر جگہ اور ہر موقع پر اسلامی اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ جاتی ہے.پس مجھے آپ ہر چیز کے بارے میں بتادیں، آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے.اس پر میں نے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جس پر عمل کرنے لگوں تو جنت میں داخل ہو جاؤں.آپ نے فرمایا کہ سلام کو رواج دو، کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور اس وقت نماز پڑھو جبکہ لوگ سور ہے ہوں تو پھر سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے.(ترمذی ابواب صفة القيمة حديث نمبر (2485 ایک دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے اس میں ہے کہ " جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے اسے بھی سلام کرو.“ (صحیح بخاری کتاب الاستيذان باب السلام للمعرفة وغير المعرفة حديث نمبر 6236) تو یہ ہیں اسلامی اخلاق، کہ سلام کو رواج دو کیونکہ جب سلام پہنچا رہے ہو گے تو امن وسلامتی کا پیغام ایک دوسرے کو دے رہے ہو گے اور دل سے نکلے ہوئے اس پیغام سے دلوں کی نفرتیں اور کدورتیں بھی دور ہوتی ہیں.بعض عزیزوں ، رشتہ داروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی ختم ہو جاتا ہے.سلام کرنا تو دور کی بات ہے ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے.اللہ اور اس کا رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجو.پس ان دنوں میں اس ماحول سے فائدہ اٹھائیں.جن میں آپس میں رنجشیں ہیں وہ اس خود ساختہ دیوار کو گرا میں ان رنجشوں کو ختم کریں اور بڑھ کر ایک دوسرے کو سلام کریں تا کہ جس روحانی ماحول سے فیض اٹھانے کے لئے آئے ہیں اس کی حقیقی برکات سے مستفید ہوسکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ نئے شامل ہونے والے اور پرانے احمدی ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے اور اس طرح رشتہ تو دود و تعارف ترقی پذیر ہوگا.اگر پرانے رشتوں اور تعلقات میں ہی دراڑیں پڑ رہی ہوں گی تو نے رشتے بھی پھر مضبوطی والے نہیں ہوں گے.ان کا اثر پھر نئے رشتوں پر بھی پڑ رہا ہوگا.پس ان دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں نئے تعارف حاصل کر کے محبت میں بڑھ رہے ہوں وہاں اس روحانی ماحول کی برکت سے اپنے ٹوٹے ہوئے رشتے بھی جوڑیں اور سلامتی
خطبات مسرور جلد پنجم 313 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء پھیلائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں.یہ ایک دوسرے کو سلام کرنے کے نظارے اس کے علاوہ بھی عمومی طور پر نظر آنے چاہئیں.جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سلام کو رواج دو، چاہے ایک دوسرے کو جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کریں اور یہی چیز تو ڈ دو تعارف کا باعث بنے گی، ایک دوسرے سے محبت بڑھے گی.اس سلام کرنے میں ڈیوٹی والے بھی شامل ہیں اور دوسرے شاملین کے لئے بھی ، ان کو بھی حکم ہے کہ ہر ایک کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہئے تا کہ یہ سلامتی کی فضا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی بنے.کھانا کھلاؤ، ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرو.یہ بھی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے.پھر فرما یا صلہ رحمی کرو.اپنے رشتوں کا احترام کرو اور پھر فرمایا فرض نمازوں کے علاوہ نفلی نمازوں کی طرف بھی توجہ دو.ان دنوں تو یہاں اجتماعی انتظام کے تحت رہنے والی اکثریت تو نفلوں کی طرف توجہ کرتے ہیں.ایک بہت بڑی تعداد جو گھروں میں رہتی ہے جو یہاں قیام گاہوں میں نہیں رہ رہی ان تین دنوں میں اپنی فرض نمازوں کا بھی اہتمام کریں اور نفلوں کا بھی اہتمام کریں.بجائے اس کے کہ دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ رات گئے تک باتیں کرتے رہیں اور مجلسیں جماتے رہیں اور وقت پر نہ سوئیں.جس سے صبح اٹھنا مشکل ہو جائے.وقت پر سوئیں اور نوافل بھی پڑھیں تا کہ اس جلسہ کے روحانی ماحول سے حقیقی رنگ میں فائدہ اٹھا سکیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول اس بات کی ضمانت فرماتے ہیں کہ یہ باتیں پھر تمہیں جنت میں لے جانے والی ہوں گی.سلام کو رواج دینے کے سلسلے میں صحابہ کا طریق بھی بتادوں.روایت میں ہے کہ ایک دن ایک صحابی اپنے ایک دوسرے صحابی دوست کے گھر گئے سلام کیا اور کہا کہ آؤ بازار چلیں.وہ ان کے ساتھ ہو لئے کچھ دیر بازار میں پھر پھرا کر واپس آگئے اور کوئی چیز نہیں خریدی.چند دنوں کے بعد پھر یہ پہلے صحابی دوبارہ اپنے دوست کے پاس گئے کہ آؤ بازار چلیں.تو پہلے صحابی نے پوچھا کہ چند دن پہلے بھی آپ گئے تھے اور پھر پھرا کر واپس آگئے تھے اور بازار میں کچھ خریدا تو تھا نہیں تو آج بھی اگر اسی طرح کرنا ہے تو آپ کو بازار جانے کی ضرورت کیا ہے.کہنے لگے کہ میں تو بازار اس لئے جاتا ہوں کہ لوگ ملتے ہیں وہ ہمیں سلام کہتے ہیں ہم انہیں سلام کہتے ہیں اور اس طرح ہم ایک دوسرے کو سلامتی کی دعاؤں سے نوازتے ہیں اور آپس کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے.الادب المفرد باب من خرج يسلم ويسلم علیه حدیث نمبر 1037) صحابہ تو اس طرح سلام کو رواج دیا کرتے تھے اور مختلف طریقے سوچتے تھے.تو یہ ایک دوسرے کو دعائیں دینا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا بھی عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کا باعث بنتا ہے جس کے لئے مومن کو توجہ کرنی چاہئے اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے یہ ماحول آپ کے لئے مہیا فرمایا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 314 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء بعض انتظامی باتوں کی طرف بھی توجہ دلا دوں.سب جلسہ میں شامل ہونے والوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بارش کی وجہ سے بعض انتظامی وقتیں پیدا ہو سکتی ہیں اور بارش کے حوالے سے سب سے زیادہ کاروں کی پارکنگ کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے.اس کے لئے جلسہ کی انتظامیہ نے یہ انتظام کیا ہے کہ یہاں سے دو تین میل کے فاصلے پر ایک پکی بہت بڑی پارکنگ کرائے پر لی ہے.آپ میں سے اکثر دیکھ کر بھی آرہے ہوں گے.تو وہاں سے منی بسز کے ذریعہ سے یہاں لانے اور لے جانے کا انتظام بھی ہے.اس لئے اس بارہ میں تمام شامل ہونے والے انتظامیہ سے مکمل اور بھر پور تعاون کریں اور اس بات پر ضد نہ کریں کہ ہم نے حدیقہ المہدی کی پارکنگ میں ہی کار پارک کرنی ہے.سوائے اس کے کہ انتظامیہ خود آپ کو اجازت دے.انہوں نے اب کچھ حد تک اجازت دینی شروع کی ہے.زمین بارش کی وجہ سے کافی نرم ہے اس لئے انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں اور اسی طرح پارکنگ کی جگہ سے منی بسر سے جو لانے لے جانے کا انتظام ہے وہاں بھی صبر اور حو صلے سے اپنی باری کا انتظار کریں.ایک ڈسپلن کے ذریعہ سے آئیں اور جائیں.گزشتہ سال جماعت کے ڈسپلن سے یہاں کی پولیس اور لوگ بہت متاثر ہوئے تھے.اس تاثر کو کسی بھی صورت میں زائل نہ ہونے دیں بلکہ پہلے سے زیادہ پابندی کرتے ہوئے ثابت کریں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں ڈسپلن کا اور تنظیم کا مظاہرہ کرنے والے لوگ ہیں.ایک اور اہم بات سیکیورٹی کے حوالے سے ہے.سب شامل ہونے والوں سے میں کہنا چاہتا ہوں اور تمام شعبہ جات کے کارکنان سے بھی اور جلسہ میں شامل ہونے والوں سے بھی کہ اپنے اردگر دما حول پر نظر رکھیں.دنیا کے حالات اس قسم کے ہیں کہ کسی بھی قسم کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس ضمن میں ، میں خواتین سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ چیکنگ سے وہ بُرا مان جاتی ہیں، اس لئے مکمل تعاون کریں.اگر آپ کو کوئی چیک کر لے تو اس میں کوئی بے عزتی کی بات نہیں ہے.میں نے سنا ہے کہ بعض شکوہ کرتے ہیں کہ ہم فلاں عہد یدار کی عزیز یا خود عہد یدار ہیں اور اس کے باوجود انہیں چیک کیا گیا.ہر عہدیدار یا کسی عزیز کو ہر ڈیوٹی والا تو جانتا نہیں ہے.بعض دفعہ عورتوں کو بیگوں کی وجہ سے زیادہ چیک کرنا پڑتا ہے یہ مجبوری ہے.میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مردوں کو بھی چیک کیا جائے تو انہیں بر انہیں منانا چاہئے.جھے یادہے کہ ربوہ میں مسجد تھی میں معہ و عیدین پر چینگ ہوتی ہےاور کئی دفعہ مجھ بھی چیک کیا گیا.میں نے تو کبھی برانہیں منا یا بلکہ جب حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے مجھے امیر مقامی بنایا تو تب بھی ایک دفعہ مجھے چیک کیا گیا.تو چیکنگ میں کبھی برانہیں منانا چاہئے.آپ کا مکمل تعارف ہر خادم کو نہیں ہوتا جیسا کہ میں نے آپ کو کہا.تو اس
خطبات مسرور جلد پنجم 315 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء لئے اس نظام سے بھی مکمل طور پر تعاون کریں اور یہ اعتراض پیدا نہ ہو ک مجھے کیوں چیک کیا گیا ہے.حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ایک واقعہ ہے کہ قادیان میں جب احرار کا خطرہ تھا اور خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار یا دوسری قبروں کی وہ لوگ بے حرمتی نہ کریں تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بہشتی مقبرہ میں خدام کا پہرہ لگوایا اور کو ڈنمبر دیئے کہ جو بھی ہو اگر کوئی کوڈ نمبر کے بغیر اندر آنے کی کوشش کرے اس کو اندر نہیں آنے دینا تو ایک دفعہ چیک کرنے کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الثانی خود چھپ کر گئے.غالباً رات کا وقت تھا.خدام نے روکا.آپ نے اپنا نام بتایا.خدام نے کہا نہیں اس طرح اجازت نہیں مل سکتی جب تک آپ اپنا کوڈ نمبر نہیں بتا ئیں گے اور اس بات پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ یہ خدام ہیں جنہوں نے اپنی صحیح ڈیوٹی دی ہے.تو یہ جو انتظام ہے یہ ہمارے اپنے ہی فائدے کے لئے ہے.اس میں کسی بھی قسم کی برا منانے والی بات نہیں ہے.لیکن ڈیوٹی والی خواتین ہیں یا مرد ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اپنے رویوں سے کسی بھی قسم کا ایسا اظہار نہیں کرنا چاہئے جس سے تختی، کرختگی یا کسی بھی طرح کا یہ احساس ہو کہ آپ دوسرے سے عزت سے پیش نہیں آتے.بعض بلاوجہ کی سختی کرتے ہیں، گزشتہ سال بھی شکایات آتی رہی تھیں.اللہ تعالیٰ اس جلسے کو بابرکت فرمائے اور ہر ایک کو ہر لحاظ سے اپنی حفاظت میں رکھے اور کوئی ایسی بات نہ ہو جو کسی کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنے اور جیسا کہ میں نے کہا عمومی طور پر سب شامل ہونے والوں اور ڈیوٹی والوں کو اپنے ماحول پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ یہ سیکیورٹی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.جب ہر ایک چوکس ہوگا تو شرارت کرنے والوں کو آسانی سے شرارت کا موقع نہیں ملتا.لیکن اس بارے میں ایک بات یاد رکھیں کہ اگر کوئی مشکوک مرد یا عورت کو دیکھیں تو اس پر نظر رکھیں اور حفاظت کے شعبہ کو اطلاع کریں.خود براہ راست اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور سیکیورٹی والوں کے آنے تک اس پر نظر رکھیں.ہر ایک خود بھی اس بات کی پابندی کرے کہ اپنے شناختی کارڈ ہمراہ رکھیں بلکہ سامنے رکھیں اور کارکنان کی طرف سے شناختی کارڈ دکھانے کا جب بھی مطالبہ ہو تو فوراً ان کو دکھا دیں.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ گزشتہ سال تمام فکروں کے باوجود اس علاقے کے لوگ ہمارے ڈسپلن اور تنظیم سے بہت متاثر ہوئے تھے اس سال بھی خاص طور پر اس کا خیال رکھیں.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی توفیق دے.ان دنوں میں اپنے لئے اور اپنے گھروں میں پیچھے چھوڑے گھر والوں کے لئے بھی دعائیں کریں.آنحضرت ﷺ سفر پر جاتے ہوئے جو دعائیں کرتے تھے ان میں سے ایک اس طرح سے ہے.حضرت عبد اللہ بن ساجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر پر روانہ ہوتے تھے تو
خطبات مسرور جلد پنجم 316 خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء سفر کی مشقتوں اور غمگین ہو کر واپس لوٹنے، کام سنورنے کے بعد اس کے بگڑنے اور مظلوم کی بددعا اور اہل وعیال اور اموال میں بُرا منظر دیکھنے سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے.(مسلم کتاب الحج باب ما يقول اذار كب الى سفر الحج حدیث نمبر (1342 اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ہر شر سے محفوظ رکھے.نہ سفر کی صعوبتیں ان کو نقصان پہنچائیں ، نہ موسم کی شدت انہیں کوئی نقصان پہنچائے اور خیریت سے گھروں کو جائیں.جلسہ پر شامل ہونے والوں کو دعائیں دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس جلسے پر جس قدرا حباب محض اللہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر قدم کا ثواب ان کو عطا فرمائے.آمین ثم آمین.پھر آپ فرماتے ہیں : بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب جو اس لہی جلسے کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہمت و غم دور فرما دے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفران کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا! اے ذوالمجد والعطاءاے رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت و طاقت تجھی کو ہے.آمین ثم آمین.اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 282 جدید ایڈیشن) مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 17 تا 23 اگست 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 317 31 خطبه جمعه 03 اگست 2007 ء فرموده مورخه 03 اگست 2007 (03) ظہور 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت المهدی ، لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر اور احسان ہے کہ گزشتہ اتوار UK کا اکتالیسواں جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اختتام کو پہنچا تھا.یہ جلسہ سالانہ نمائندگی کے لحاظ سے اب عالمگیر جلسہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں کہا تھا کہ جب تک خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی رہے گی اس کی بین الاقوامی حیثیت رہے گی اور اس لحاظ سے جماعت UK کی ذمہ داریاں بھی جلسہ پر زیادہ بڑھ گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا ہر فرد مرد، عورت، بچہ جوان اس ذمہ داری کو خوب سمجھتا اور نبھاتا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کارکنان کو جزا دے جو کسی بھی طرح ان مہمانوں کی خدمت بجالا رہے تھے اور اب تک یہ خدمت بجالا رہے ہیں.اس دفعہ جیسا کہ تمام شاملین جلسہ نے دیکھا کہ جلسہ سے کئی ہفتے پہلے بھی اور جلسہ کے دوران بھی غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا.بلکہ اس موسم کے ناموافق حالات کو دنیا میں ہر احمدی نے جو بھی اس جلسہ کے پروگرام کو سن رہا تھا ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دیکھا.جہاں اس جلسے میں موسم کی وجہ سے جلسے کے انتظامات کو چلانے میں بعض دقتیں پیش آئیں وہاں وہ لوگ جو جلسہ میں شامل ہوئے انہیں بعض مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا خاص طور پر کاروں کی پارکنگ کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے بہت دقتوں کا سامنا کرنا پڑا.لیکن اس کے باوجود اکثریت نے بلکہ چند ایک کے سوا تمام شاملین نے انتظامیہ سے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی اور تمام مہمانوں نے عموماً حوصلہ ہی دکھا یا ، تاہم بعض شامل ہونے والوں کی طرف سے بے صبری کے مظاہرے میرے علم میں آئے ہیں جن سے انہوں نے بعض نو مبائعین اور غیروں پر اچھا اثر نہیں چھوڑا.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کی مثال ایک سفید چادر سے دی جاسکتی ہے اور اس سفید چادر پر ایک ہلکا سا نشان یا قطرہ بھی اگر کسی دوسرے رنگ کا ہو گا تو وہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آئے گا اور آتا ہے.اس لئے اپنے اعلیٰ نمونے دکھانے کی طرف ایک احمدی کو بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے.ایک احمدی کا صبر اور وسعت حوصلہ ایک خصوصی امتیاز ہے اور ہونا چاہئے اس کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ میری حیثیت ایک احمدی کی حیثیت ہے.اگر کوئی کہیں چند بے صبرے مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ڈیوٹی والا کوئی وہاں موجود نہ ہو تو اس موقع پر باقی احمدیوں کو ایسے
خطبات مسرور جلد پنجم 318 خطبه جمعه 03 / اگست 2007 ء لوگوں کو سمجھا نا چاہئے کہ جس مقصد کے لئے تم یہاں آئے ہو وہ تو اس رویہ کی اجازت نہیں دیتا.بہر حال اگر یہ صحیح ہے کہ بعض بے صبری کے مظاہرے ہوئے تو ایسے اظہار کرنے والوں کو بہت استغفار کرنا چاہئے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا عموماً لوگ حقیقت کو سمجھتے رہے اور انتظامیہ سے متعلق زیادہ شکوے شکایت پیدا نہیں ہوئے اور انہوں نے انتظامیہ سے تعاون کیا.اللہ تعالیٰ ان سب بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جزا دے.مجھے پتہ ہے کہ بعض جگہ بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں.بہر حال اس موسم نے ایک بہت بڑا فائدہ انتظامیہ کو یہ پہنچایا کہ بعض حالات میں یا ایسی موسمی شدت کی صورتحال میں جو مسائل پیدا ہو سکتے تھے ان کی طرف انتظامیہ کو تو جہ دلا دی کیونکہ اسلام آباد میں پہلے جلسے ہوتے تھے، وہاں جلسے ہونے کی وجہ سے سوائے ابتدائی چند ایک جلسوں کے جن میں کچھ نہ کچھ دقت پیدا ہوئی عموماً بڑے آرام سے جلسے ہو جایا کرتے تھے.موسم میں بھی اتنی شدت نہیں ہوتی تھی دوسرے ایک لمبا عرصہ کاروں اور لوگوں کے چلنے کی وجہ سے وہاں کی زمین بھی کافی حد تک بیٹھ گئی تھی ، نرم نہیں تھی اور پکی سڑکیں بھی قریب تھیں.ہمسائیوں سے پارکنگ کے لئے اچھی اور پکی جگہ مل جاتی تھی.پھر رشمور میں 2005 ء میں جلسہ ہوا تو وہاں بھی کیونکہ حکومت کے محکمہ کی جگہ تھی اور بڑے فنکشنز کرنے کے لئے ہی انہوں نے وہ جگہ بنائی ہوتی تھی بلکہ بنائی ہوئی ہے.پھر بارش بھی صرف ان دنوں میں ہوئی لیکن جلسے کے دنوں میں نہیں ہوئی.اس سال کی طرح کئی ہفتے سے لگا تار بارشیں نہیں ہو رہی تھیں.تو ان باتوں نے انتظامیہ کو لگتا ہے یہ احساس ہی کبھی نہیں ہونے دیا کہ اگر موسم کے خراب ترین حالات ہو جائیں تو کیا کرنا ہے اور کیا کرنا چاہئے.بہر حال اس سال کا یہ تجربہ کروا کر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انتظامی امور کی طرف انتظامیہ کو بھی توجہ دلا دی ہے.اس سال جو افسران انتظامیہ کے تھے ، بشمول امیر صاحب جس طرح تین چار دن جلسے کے دنوں میں ان لوگوں کے رنگ اڑے رہے ہیں وہ واقعی ان کے لئے بھی بڑی پریشانی تھی.مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالی آئندہ یہ بہتر پلاننگ کریں گے.بہر حال اللہ کی طرف سے جو بھی امتحان ہوتا ہے وہ کام میں بہتری کی راہیں کھولتا ہے اور جو جو کمزوریاں ہمارے سامنے آتی ہیں ان کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اصلاح ہوتی ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی اصلاح ہوگی اور نہ صرف ان امور کی اصلاح ہوگی بلکہ مزید گہرائی میں جا کر غور کرنے سے بعض ایسے امور کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی جن کے پیدا ہونے کے بہت دُور کے امکانات ہیں.بہر حال اکثر لوگوں کی یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے 2008ء کے جلسے کے انتظامات ہر لحاظ سے بہترین کرنے کی طرف اس سال تو جہ دلا دی ہے.تو آئندہ سال لوگوں کی حاضری بھی شاید جو یہاں سب سے زیادہ حاضری کبھی ہوتی ہے اس سے شاید چار پانچ ہزار زیادہ ہی ہو.بعض کا خیال ہے اگر برٹش ایمبیسی نے ویزے دینے میں کھلے دل کا مظاہرہ کیا تو شاید اس سے بھی زیادہ حاضری ہو جائے.جو عموماً حاضری ہوتی ہے اس سے 8-10 ہزار زیادہ ہو جائے تو بہر حال جتنی بھی حاضری ہو UK کی جماعت مہمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھال سکتی ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 319 خطبه جمعه 03 / اگست 2007 ء لیکن بعض کمزوریوں کے ظاہر ہونے سے مجھے امید ہے کہ اب سب کام کرنے والوں پر اتنا اثر ہوگا کہ زیادہ بہتر طور پر سنبھال سکیں گے اور انتظامات کا معیار بھی پہلے سے اچھا ہو گا.اس سال موسم کی حالت کو دیکھتے ہوئے اور حدیقہ المہدی میں بارشوں کی وجہ سے زمین کی حالت کے مدنظر کاروں اور ویگنوں کی پارکنگ کے لئے متبادل انتظام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ایک ادارے کی پارکنگ بھی حاصل کی گئی تھی جو حدیقہ المہدی سے دو تین میل کے فاصلے پر ہے.لیکن ایک غلطی ہوئی کہ یہ فیصلہ ہوا کہ کاروں میں آنے والے اپنی سواریاں حدیقۃ المہدی میں اتارتے جائیں اور پھر پارکنگ کی جگہ ڈرائیورز کاریں لے جائیں اور ڈرائیورز کو پھر وہاں سے بسوں کے ذریعہ لایا جائے.تو اس وجہ سے سواریاں اتارتے ہوئے اتنا وقت لگ جاتا تھا.کہ لمبی قطار اس علاقے کی سرکاری سڑک پر بھی لگنی شروع ہوگئی اور اس سے پولیس والے گھبرا گئے کہ علاقے کی سڑکیں بلاک ہونی شروع ہو گئی ہیں ، حالانکہ یہاں فٹ بال کے میچ ہوتے ہیں اور دوسرے فنکشنز ہوتے ہیں تو سڑکیں بلاک ہو جاتی ہیں لیکن یہاں چونکہ مسلمانوں کا سوال تھا اس لئے انہوں نے کچھ زیادہ ہی گھبراہٹ دکھائی.قریب کے جو چھوٹے دو قصبے تھے ان کے گھروں کے سامنے بھی کاروں کی لائنیں لگنی شروع ہوگئیں اور عارضی طور پر ذرا زیادہ کاریں کھڑی ہوئیں تو گھر والوں میں بھی بے چینی پیدا ہوئی.بہر حال یہ طریق اتنا کامیاب نہ ہوا اور پھر رات کو واپسی کے وقت بھی کاروں کی سواریوں کو واپس پارکنگ تک بسوں کے ذریعہ سے لے جایا گیا تو پھر کچھ تھوڑی دیر کے لئے بدمزگی ہوئی.بہر حال عمومی طور پر لوگ آرام سے سوار ہوئے.چند ایک ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مسائل کھڑے کرنے والے ہوتے ہیں، چاہے تھوڑی دیر کے لئے ہو کچھ بدمزگی ہو جاتی ہے اور اس بدمزگی کی وجہ سے جانے والے مسافر عورتیں، بچے مرد بھی کچھ گھبرا گئے اور انتظامیہ بھی تھوڑی سی گھبرا گئی.اس لئے وہ وقتی معمولی پریشانی بہت زیادہ نظر آنے لگی اور ہر ایک نے اپنی اپنی ایک کہانی بنالی.دن کے وقت پولیس کے رویہ سے بھی کچھ پریشانی تھی.تو بہر حال انتظامیہ کو میرے خیال میں اب پتہ لگ گیا ہے کہ اتنی قریب پارکنگ شاید مناسب نہیں یا پھر گاڑیاں سیدھی پارکنگ میں جائیں.جہاں انتظار گاہ ہوتی ، کوئی شیڈ ہوتا، چائے وغیرہ کا انتظام ہوتا، غسل خانے کا انتظام ہوتا ،عورتوں بچوں نے جانا ہوتا ہے اور وہاں سے پھر بسوں کے ذریعہ سے تمام لوگ جلسہ گاہ لائے جاتے.بہر حال یہ تجربہ اتنا کامیاب نہیں ہوا اور پھر کیونکہ فوری طور پر ہنگامی نوعیت کا انتظام کیا گیا تھا.اس لئے معاونین اور منتظمین کی بھی اس پارکنگ کی جگہ پر کمی رہی.یہ جگہ ایم اوڈی (MOD) کی جگہ کہلاتی ہے جو بہتر ثابت نہیں ہوئی.پھر اگلے دن وہاں سے پارکنگ چھوڑنی پڑی.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ گھروں کے سامنے کار میں زیادہ عرصہ کھڑی ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان میں سے سڑکوں پر ہی پارکنگ کر لی اور پھر مسافروں کو لاتے لے
خطبات مسرور جلد پنجم 320 خطبه جمعه 03 / اگست 2007 ء جاتے وقت تھوڑی سی بدمزگی بھی ہوئی جو جلد بازوں کی وجہ سے ہوئی اس لئے ڈسپلن بھی خراب ہوا ر استے بھی رُکے.ہمیشہ ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ ایک احمدی کے ساتھ احمدیت کے نام کا جو اعزاز لگا ہوا ہے اس کے بعد فرد جماعت کی حیثیت کوئی ذاتی نہیں ہے اور خاص طور پر جماعتی فنکشنز میں.بلکہ کسی بھی احمدی کی کسی بھی حرکت کا اثر جماعت پر ہوتا ہے، کوئی بھی حرکت اگر ہو تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں شخص نے یہ حرکت کی بلکہ غیروں کی اگر نظر ہو تو یہ کہا جاتا ہے کہ احمدی نے یوں کیا ، یا جماعت کے افراد نے یوں کیا.اس لئے اس بات کا ہر احمدی کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے اور جیسا کہ دوسرے دن کے تجربہ سے پتہ چلا کہ شروع میں ہی پارکنگ کا انتظام اسلام آباد میں اور لندن والوں کے لئے بیت الفتوح اور مسجد فضل کے قریب جو لوگ رہتے ہیں ، بیت الفتوح میں ہونا چاہئے تھا.اسی طرح بعض اور جگہیں بھی مقرر کی جاسکتی تھیں جہاں سے زیادہ تعداد میں بسیں چلائی جا سکیں.اسی طرح حدیقہ المہدی میں ابھی سے اگلے سال کی پلاننگ ہونی چاہئے.اس سال بھی کچھ کاروں کی پارکنگ حدیقہ المہدی میں کی گئی لیکن کیچڑ کی وجہ سے بہت سی کاروں کو بہت مشکل سے نکالا گیا.اگر پلاننگ ہو تو اسلام آباد اور لندن سے بسوں کے ذریعہ سے لانے سے پھر چند ہزار، دو تین ہزار کاروں کا حدیقہ المہدی میں بھی انتظام ہو سکتا ہے.ایسے لوگ جو روزانہ واپس آنے والے نہ ہوں ان کی کاریں وہیں کھڑی رہ سکتی ہیں، کیونکہ بعض وہاں رہائش رکھتے ہیں.اسلام آباد میں جو رہائش رکھتے ہیں ان کی کاریں اسلام آباد میں کھڑی رہیں تو بسوں میں آنے سے ایک تو علاقے کے لوگ پریشان نہیں ہوں گے ، چھوٹی سڑکیں ہیں وہ بھی بلاک نہیں ہوں گی ، پولیس لوگوں کو پریشان نہیں کرے گی ، جو کھانا اور دوسرا سامان لانے والی گاڑیاں ہیں ان کا راستہ بھی نہیں رکے گا.جو بسیں اسلام آباد سے چلیں گی وہ بھی آسانی سے اور تیزی سے حدیقہ المہدی پہنچ سکتی ہیں تو ہر لحاظ سے لوگ پریشانی سے بچیں گے.ابھی تک حدیقہ المہدی کی جگہ پر ہم بعض کام نہیں کر سکتے.کھانے اور پکانے کا انتظام وہ اسلام آباد میں ہے اور کھانا پک کر اسلام آباد سے آتا ہے.وہاں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کے لئے بھی.اگلے سال انشاء اللہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے جیسا کہ میں نے کہا اس لئے انتظامیہ کو بھی اور افراد جماعت کو بھی اس لحاظ سے اپنے آپ کو تیار کر لینا چاہئے تا کہ حتی الوسع بہترین انتظام کے تحت جلسے کی تمام کارروائی ہو سکے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں افریقہ کے جلسوں اور پاکستان کے جلسوں اور قادیان کے جلسوں کی مثال دی تھی کہ کس طرح لوگوں نے صبر کا مظاہرہ کیا اور کرتے ہیں.تو اس جلسے میں یہ نظارہ یہاں کے ممبران جماعت اور دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے افراد نے بھی دیکھا دیا.عورتیں بچے بسوں کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے بارش میں بھیگتے رہے اور بڑے آرام سے کھڑے رہے.معمولی سا کہیں واقعہ پیش آیا ہو گا لیکن عمومی طور پر بڑے آرام سے انتظار میں
خطبات مسرور جلد پنجم 321 خطبه جمعه 03 / اگست 2007 ء کھڑے رہے بعض چار پانچ گھنٹے تک کھڑے رہے بلکہ اکثر نے شاید رات کا کھانا بھی نہیں کھایا.تو اُن کو یوں کھڑا دیکھ کر کچھ دیر کے لئے میں بھی ان کے پاس گیا تو یوں کھڑے ہنس رہے تھے اور خوش تھے جیسے انتہائی آرام دہ موسم میں کھڑے ہوں، حالانکہ اس وقت بارش ہو رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ جماعت بھی عجیب جماعت ہے.پیار آتا ہے اس جماعت پر.بچوں کو، بوڑھوں کو عورتوں کو بھیگتے دیکھ کر مجھے بے چینی شروع ہوگئی تھی بلکہ پوری رات ہی بے چینی رہی.میں استغفار بھی کرتا رہا، اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت و سلامتی کی بھیک بھی مانگتا رہا کہ اس موسم کی وجہ سے ان کو تکلیف نہ ہو.اگلے دن کی حاضری دیکھ کر تسلی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور عمومی طور پر لوگ کل کے موسم کی شدت سے محفوظ رہے، وہی چہرے اکثر نظر آ رہے تھے.تو اس بات پر بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے موسم کے بداثرات سے عمومی طور پر ہمیں محفوظ رکھا.جیسا کہ میں نے کہا کہ اکا دُکا کے علاوہ عموما مہمانوں اور شامل ہونے والوں نے انتظامات میں کسی قسم کا کوئی شکوہ نہیں کیا.مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض جگہ مہمانوں کو کھانا بھی فوری طور پر متبادل انتظام کرنے کی وجہ سے نہیں مل سکا یا صحیح طور پر نہیں مل سکا.موسم کی وجہ سے کچھ تعداد کو اسلام آباد میں مار کی لگا کر جلسہ سنوایا گیا، کچھ کو بیت الفتوح میں جلسہ سنوایا گیا.کچھ غلطی سے مسجد فضل آگئے تھے کہ یہاں سے بسیں لے جائیں گی لیکن وہاں سے انتظام نہیں تھا جس کی وجہ سے دقت کا سامنا کرنا پڑا.بہر حال مختلف جگہ جو بھی صورتحال ہوئی انتظامیہ اور امیر صاحب نے اس پر معذرت کی ہے اور سب مہمانوں تک بھی معذرت پہنچانے کا کہا ہے اور ان سے بعض جگہ پر معمولی کو تا ہیاں بھی ہوئی ہیں اس پر بھی ان کو شرمندگی ہے.تو مجھے امید ہے تمام مہمان جن کو کسی بھی قسم کی تکلیف سے گزرنا پڑا اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے انتظامیہ سے درگذرکریں گے اور معاف فرمائیں گے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ کچھ پولیس کی وجہ سے معاملہ بگڑا، انہوں نے کچھ جلد بازی دکھائی ،گزشتہ سال بھی بعض دفعہ لمبی لائینیں لگی تھیں لیکن گزشتہ سال جو افسر تھا وہ ذرا ٹھنڈے مزاج کا تھا اگر اس سال بھی وہی مزاج رکھنے والا افسر ہوتا تو شاید پچہتر فیصد ٹریفک کے معاملات آرام سے حل ہو جاتے.بہر حال یہ بھی ایک تجربہ ہے.یہ پتہ چل گیا کہ ہر قسم کے انتظامات میں مزید گہرائی تک جانے کی ضرورت ہے.سرکاری افسران سے واسطہ اور رابطہ میں بھی صرف خوش منہی سے کام نہیں لینا چاہئے.ہر انسان کا مزاج مختلف ہوتا ہے.اس لئے پلاننگ ہمیشہ بدترین حالات کو سامنے رکھ کر ہونی چاہئے اور اس طرح کی پلاننگ سے پھر کم سے کم پریشانی کا سامنا ہوتا ہے.یہ جو کمزوریاں میں دکھا رہا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بہت اجاگر ہوئی تھیں، معمولی باتیں بھی ہمیں ذہن میں رکھنی
خطبات مسرور جلد پنجم 322 خطبه جمعه 03 اگست 2007 ء چاہئیں تا کہ بہتر سے بہتر کی طرف ہمارا قدم بڑھتا چلا جائے.عمومی طور پر جلسہ کا انتظام بہت اچھا تھا، اور جب ہم اپنی کمزوریاں سامنے رکھیں گے تو مزید بہتر ہوگا انشاء اللہ.شامل ہونے والوں اور غیر مہمانوں کی اکثریت نے اور بعد میں پولیس انتظامیہ نے بھی انتظامات کو سراہا ہے تعریف کی ہے اور ہمیں اس بات پر شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ٹریننگ کے خود سامان پیدا فرما دیے اور ہمیشہ کسی نہ کسی ذریعہ سے پیدا فرماتا رہتا ہے.یہی ایک مومن کا کام ہے کہ کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے بہتری کی طرف قدم بڑھاتا رہے.جیسا کہ میرا عموما طریق ہے جلسہ کے بعد کے خطبہ میں شکر کے مضمون کے تحت کارکنوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اس لئے آج میں تمام ناظمین منتظمین اور معاونین کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ سب نے بڑی محنت سے اور بہت اچھا کام کیا ہے.مختلف شعبہ جات میں مختلف طبقات کے والنشیئرز (Volunteers) تھے.کھانا پکانا، کھانا کھلانا کھانے کو مختلف قیام گاہوں میں پہنچانا، ٹرانسپورٹ کا انتظام اور اسی طرح صفائی کا انتظام، پانی کا انتظام، رہائش کا انتظام بے انتہا انتظامات ہیں ان میں مختلف والنٹیئر ز تھے.ہر ایک نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی بساط کے مطابق بہت اچھا کام کیا ہے اور موسمی شدت یا روک ان کے کام میں روک نہیں بن سکی.ہر ایک نے بغیر کسی عذر اور نخرے کے ہر قسم کا کام کیا ہے.یہاں کے پیدائشی جن کے بارہ میں بعض کے ماں باپ کو فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں جماعت سے اعلیٰ معیاری وابستگی رکھیں گے یا نہیں، بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں ان سب نے بڑا اچھا مظاہرہ کیا.تمام معاونین نے مزدوروں سے بھی بڑھ کر کام کیا، بعض نے شاید اتنا شدید کیچڑ جو وہاں حالت ہو گئی تھی پہلی دفعہ دیکھا ہوگا اور اس پر یہ کہ پھر صرف دیکھا نہیں اس کیچڑ میں کام کرنے کے لئے جانا بھی پڑا اور پھر کاروں کو اس کیچڑ میں سے نکالنا بھی پڑا اور جب کاروں کے پہیوں سے کیچڑ اڑتا تھا تو کیچڑ کی بوچھاڑ ہو رہی ہوتی تھی اور پیچھے دھکا لگانے والے کارکنوں کا کیچڑ کی وجہ سے حلیہ بگڑ جا تا تھا.لیکن روزانہ رات ڈیڑھ دو بجے تک یہ والنٹیئرز اللہ کے فضل سے بڑی محنت سے کام کرتے رہے.یوگنڈا کے جو وزیر آئے ہوئے تھے جنہوں نے اپنے صدر یوگنڈا کا پیغام بھی پڑھا تھا.مجھے انہوں نے کہا کہ میں یہ معاونین اور یہ سارے کام کرنے والے کارکنان کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں کہ مختلف طبقات اور علمی قابلیت کے لوگ ہیں اور بغیر کسی دنیاوی فائدہ اور لالچ کے صرف جماعت اور خدا کی خاطر انتہائی محنت اور عاجزی سے ایسے کام کر رہے ہیں جن کو پیسے لے کر بھی شاید بعض لوگ کرنا پسند نہ کریں.میں نے انہیں کہا کہ یہی تو احمدیت کی خوبصورتی ہے، یہی تو وہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کیا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 323 خطبه جمعه 03 / اگست 2007 ء جماعت کے کام کرنے کے لئے ایک عجیب جذبہ ہوتا ہے.یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ سامنے کیا ہے.کام کا ارادہ کیا اور بس پھر اس میں کود پڑے اور یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں رہنے والے ہر احمدی میں ہے ہر ملک کی جماعت میں ہے.بعض کارکنان اس دفعہ تو بارش کی وجہ سے سارا سارا دن اور ساری ساری رات بارش میں بھیگتے رہے ہیں لیکن اپنے سپر د جو کام تھے ان میں حرج نہیں ہونے دیا.بعضوں کے پاس تو برساتیاں بھی نہیں تھیں بلکہ میں صدر خدام الاحمدیہ سے کہتا بھی رہا کہ کم از کم ان کو رین کوٹ (RainCoat) لے دیں کیونکہ چھتریاں لے کے تو پھر کام نہیں ہوسکتا تھا.لیکن رین کوٹ بھی نہیں مل رہے تھے، بلکہ علاقے کی دکانوں ، لندن اور دوسرے شہروں میں جور بڑ کے فل بوٹ ہوتے ہیں جو ولنگٹن کہلاتے ہیں وہ بھی تقریباً میرا خیال ہے جلسے پر آنے والوں نے بھی اور والنٹیئرز نے بھی خریدے اور تمام دکانوں سے خالی ہو گئے.تو ایک فائدہ ولنگٹن کی انڈسٹری کو ہمارے جلسہ سے یہ بھی ہو گیا کہ ان کی بکری ہو گئی.اللہ تعالیٰ ان سب کارکنان کو بہترین جزا دے اور ان کے ایمان میں مزید ترقی دے اور ان کو آئندہ پہلے سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق ملے.پس آنحضرت صلی ایم کے اس ارشاد کے تحت کہ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ الله (سنن الترمذى | كتاب البر والصلة باب ما جاء في الشكر لمن احسن الیک حدیث نمبر (1954) یعنی جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا.میں سب کا رکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ سب کو بہترین جزا دے.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے ان لوگوں کے بھی شکر گزار ہوتے ہیں جن سے انہیں کسی قسم کا فیض پہنچ رہا ہو اور ان معاونین نے اپنے آراموں کو تج کر بعض نے چوبیس گھنٹے لگا تار کام کیا یا شاید چوبیس گھنٹوں میں سے ایک دو گھنٹے سوتے ہوں.لوگوں کو آرام پہنچانے کے لئے کام کیا.پس جلسہ پر شامل ہونے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ ان کے شکر گزار بنیں اور شکر گزاری کا بہترین طریق یہ ہے کہ ان کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان سب کو پہلے سے بڑھ کر اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے کسی کو اس کا تجربہ ہوا ہے تو ان کی غلطیوں کو بھول جائیں.چھوٹی بچیاں ، عورتیں ، مرد سب نے بے نفس ہو کر یہ خدمات سرانجام دی ہیں اور ان کا رکنان سے بھی میں کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فوج میں شامل ہونے کی توفیق بخشی اور آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق بخشی.یا درکھیں آئندہ سال کا چیلنج بہت بڑا ہے پس اس جذبے سے ہمیشہ خدمت پر کمر بستہ رہیں اور کبھی اس کو ٹھنڈا نہ ہونے دیں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.ایم ٹی اے کے کارکنان نے بھی چوبیس گھٹنے تمام پروگراموں کو بڑے احسن رنگ میں کوریج دی اس پر بے
خطبات مسرور جلد پنجم 324 خطبه جمعه 03 اگست 2007 ء شمار خطوط جہاں ایم ٹی اے کو آ رہے ہیں وہاں مجھے بھی براہ راست خطوط آ رہے ہیں.دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی جذبات سے مغلوب ہیں اور شکر گزاری کے جذبات سے بھرے پڑے ہیں.خاص طور پر پاکستان سے بیشمار خطوط آئے ہیں کہ ہم ان کا رکنان کے لئے دعا گو ہیں جنہوں نے ہمیں بھی اس روحانی مائدے کے فیض سے محروم نہیں رکھا.اور ان کارکنوں کا یہ حال تھا کہ انہوں نے براہ راست پروگرام پہنچانے کے لئے بے تحاشا کام کیا اور انتھک محنت کی.لوگوں کا بھی یہی اظہار ہے کہ بعض دفعہ ہمیں لگتا تھا کہ ہم جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے ہیں.پس یہ ایم ٹی اے کے کارکنان بھی جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کے شکریہ کے مستحق ہیں.بعض کا رکن تو مجھے پتہ لگا ہے کئی دنوں سے جاگنے کی وجہ سے کیونکہ سارے نظام کو اس جنگل میں سیٹ کرنا، اس پر وقت لگتا ہے تا کہ بہترین لائیو (Live) پروگرام دنیا کو دکھایا جا سکے.تو انہوں نے کئی دن پہلے سے ہی محنت شروع کر دی تھی.تو ان میں سے بعض لوگ جاگنے کی وجہ سے اتنے نڈھال ہو گئے تھے اور بعض کی تھکاوٹ کی وجہ سے، نیند کے غلبہ کی وجہ سے بہت بری حالت تھی ایسے بھی تھے جو کیچڑ میں گر گئے اور پتہ نہیں چلا کہ گرے ہیں اور وہیں کیچڑ میں پڑے سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد ساتھیوں نے دیکھا تو زمین پر گرا پڑا ہے.اٹھا کر لائے پوچھا کیا ہوا ہے؟ کہ میں تو فلاں کام کے لئے نکلا تھا.یہ مجھے نہیں پتہ کہ پیر پھسلا ہے یا نیند کے غلبہ کی وجہ سے گرا ہوں مجھے تو بہر حال پتہ نہیں لگا.لیکن وہاں جب گرے تو وہیں پڑے پڑے کھلے موسم میں سوئے ہوئے ہیں.کیا یہ نمونے کسی دنیاوی مقصد کے لئے دکھائے جاتے ہیں.پس ایم ٹی اے کے کارکنان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں اور یہی ان کی شکر گزاری ہے.اکثریت ان میں سے والنٹیئرز کی ہے.جیسا کہ میں نے یوگنڈا کے غیر از جماعت وزیر صاحب جو مہمان آئے ہوئے تھے کی مثال دی ہے اسی طرح بعض پروفیسر اور افسران دوسرے ممالک سے بھی آئے ہوئے تھے جو احمدی نہیں ہیں.کرغیزستان، قزاقستان نائیجیریا ، مراکش اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے تھے.تو سب سے میں نے ملاقات میں ان کے تاثرات پوچھے تھے ، ہر ایک جلسے کے انتظام اور پروگرام سے بہت متاثر ہوا ہے اور یہی کہا ہے کہ جو اسلام تم پیش کرتے ہو حقیقت میں یہی اسلام ہے.ایک پروفیسر کرغیزستان کے تھے ، ان کا یہ تاثر تھا کہ اس موسم نے تم لوگوں کو کیا ڈسٹرب کرنا ہے.اگر تم ان لوگوں کو کہو کہ مارکی کی بجائے باہر جا کر کیچڑ میں سجدہ کریں تو یہ سب لوگ باہر جا کر کیچڑ میں بھی سجدے کریں گے اور نمازیں پڑھیں گے ان کو کسی چیز کی پرواہ نہیں.یہ چیز ایسی ہے جس نے مجھے بہت متاثر کیا.( میرا خیال ہے کہ کرغیزستان کے نہیں بلکہ کسی اور ملک کے تھے ) بہر حال یہ ان کا تاثر تھا.پس یہ باتیں ہمیں شکر گزاری میں بڑھاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی
325 خطبه جمعه 03 / اگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم قوت قدمی عطا فرمائی جس کی وجہ سے آپ کو اطاعت اور قربانی کے نمونے دکھانے والی جماعت عطا ہوئی.اس دفعہ امریکہ سے بھی مقامی امریکن احمدیوں کا وفد آیا تھا.کافی بڑا وفد تھا، اکثریت ایفرو امریکن کی تھی.بعض نئے احمدی بھی اس میں شامل تھے ، بالکل نوجوان بھی تھے جلسے کے نظارے دیکھ کر اور مجھ سے مل کر جو جذبات سے مغلوب ہو جاتے تھے وہ ایک عجیب نظارہ ہوتا تھا.اپنے ملک میں بھی جلسہ دیکھتے ہیں لیکن ان کا بیان ہے کہ اس جلسہ کا اثر ہی کچھ اور تھا جو ابھی تک ہم محسوس کر رہے ہیں.ان کو اس جلسہ کا ماحول ہی بالکل مختلف لگا ہے.پھر موسمی حالات کے باوجود شامل ہونے والوں اور خاص طور پر کارکنوں کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر ان میں بھی ایک نئی روح پیدا ہوئی ہے.محبت اور بھائی چارے میں بڑھے ہونے کے نظاروں کے بھی ہر ایک کے اپنے تجربات ہیں جن کا بیان بہت لمبا ہے اور مشکل بھی ہے کیونکہ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو محسوس کی جاسکتی ہیں ان کو اپنے الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں.اسی طرح مجھے کینیڈا سے آئے ہوئے امیر صاحب کینیڈا نے بھی لکھا کہ موسم کی شدت کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ لوگ کم آئیں گے لیکن میں نے دیکھا کہ اس طرح ہی حاضری ہے.عورتیں بھی جو اپنے چھوٹے بچوں کو بچوں کی گاڑی میں بٹھا کے جارہی تھیں ، پاس سے کارمیں گزرتی تھیں کیچڑ اور پانی کے چھینٹے اچھل کر ان پر پڑتے تھے لیکن انہوں نے پرواہ نہیں کی اور اللہ کے فضل سے جلسے کے پروگرام کے لئے شامل ہوئیں.مجھے بھی کسی نے کہا کہ خواتین نہیں آئیں گی ، بہت کم آئیں گی.تو میرا یہی جواب تھا کہ صرف وہ جو اپنا زیور اور کپڑے دکھانے کے لئے شامل ہوتی ہیں وہ نہیں آئیں گی باقی اللہ کے فضل سے تمام عورتیں شامل ہوں گی.تو بہر حال یہ جلسہ اپنی تمام برکات سے مستفیض کرتے ہوئے گزر گیا.ہر احمدی کو جو کسی بھی حیثیت سے جلسہ میں شامل ہوا اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ یہ شکر گزاری ہی ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے مزید انعاموں کا وارث بنائے گی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کا وعدہ قرآن کریم میں فرمایا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ (ابراهیم: 8) یعنی اے لوگو اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.پس ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ کے شکر گزار بنے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انعاموں کو مزید بڑھاتا چلا جائے اور آئندہ سال پہلے سے بڑھ کر اپنے فضلوں سے نوازے اور ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرمائے اور اس جلسہ کے تجربات سے صرف UK کی جماعت ہی فائدہ نہ اٹھائے بلکہ تمام دنیا کی جماعتیں اور ان کی جماعتی انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے جائزے لینے چاہئیں کیونکہ دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا بھی عقلمندی ہے اور اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے کہا خلافت جوبلی کے جلسے منعقد ہونے ہیں جن میں انتظامات کی بھی
خطبات مسرور جلد پنجم 326 خطبه جمعه 03 / اگست 2007 ء وسعت ہوگی.یہاں کی انتظامیہ تو اپنی کمیوں اور غلطیوں کو لال کتاب میں اس جلسہ کے لئے ( جو ہر جماعت میں بنائی جاتی ہے ) لکھ لے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ ان کا مداوا بھی کرے گی.لیکن دوسرے لوگ جو یہاں نمائندے آتے ہیں ان کو بھی اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی چاہئے.انہیں بھی اپنی اصلاح کے لئے ان باتوں کو نوٹ کر لینا چاہئے تا کہ آئندہ سال جیسا کہ میں نے کہا جلسوں میں جو وسعت ہوگی اس میں بہترین انتظام ہوگا.خاص طور پر جن ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں جلسوں میں شامل ہوں گا ان کے انتظامات زیادہ وسعت کے متقاضی ہوں گے.تو زیادہ پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا.اس لحاظ سے بھی تمام دنیا کی جماعتیں بھی جائزے لیں اور ان جلسوں کا جو مقصد ہے وہ ہم حاصل کرنے والے ہوں.ہمیں ہمیشہ اس بات کو یا درکھنا چاہئے کہ ہر احمدی کو چاہے وہ دنیا کے کسی ملک میں بس رہا ہے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یادر کھے کہ تقویٰ پیدا ہو گا تو شکر گزاری کے جذبات بھی بڑھیں گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (آل عمران: 124) اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم شکر گزار بنو.پس حقیقی شکر گزار بھی وہی ہوسکتا ہے جو اللہ کا خوف رکھتا ہو.اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو.اس بات کا فہم و ادراک رکھتا ہو.اور اس جلسے میں شمولیت کا فائدہ بھی تبھی ہوگا جب اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.جب ہم اس طرح زندگیاں گزاریں گے تو حقیقی شکر گزار بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق مزید انعامات اور برکات حاصل کرنے والے ہوں گے اور پہلے.بڑھ کر ہم پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات کی بارش ہم پر ہوگی، انشاء اللہ.پس پھر میں کہتا ہوں کہ ہر احمدی اس بات پر شکر گزار ہو کہ اس نے مسیح موعود کا زمانہ پایا جس کا انتظار کرتے لوگ دنیا سے رخصت ہو گئے اور آپ کے بلانے پر اس جلسے میں آئے اور شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے افضال و برکات کو اترتے ہوئے دیکھا.کام کرنے والوں کے اخلاص و وفا کو دیکھا ، غیروں کو متاثر ہوتے دیکھا.شکر گزاری کے یہ جذبات جتنے بڑھیں گے اور تقویٰ میں ترقی کے ساتھ شکر گزاری جتنی زیادہ ہو گی اتنے ہی اللہ تعالیٰ کے انعامات کو سمیٹنے والے بنتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ شکر گزاری کی حقیقی روح کو سمجھنے والے ہوں.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 24 تا 30 اگست 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 327 (32) خطبه جمعه 10 اگست 2007 ء فرموده مورخہ 10 راگست 2007ء(10 رظہور 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاِ نْهْرُ ۖ كَلَّمَا رُزِقْوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوْا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةً وَهُمْ فِيهَا خَلِدُوْنَ (البقرة: 26) جلسہ سالانہ کے خطبات سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کی صفت مومن کے تحت یہ بیان کر رہا تھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اس سے حقیقی رنگ میں فیض پانے والے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس صفت المؤمن کے تحت ایک مومن کے کیا اوصاف ہونے چاہئیں جن کے بعد ایک بندہ حقیقی رنگ میں اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اس کے انعامات کا حصہ دار بنے گا ، آج بھی میں اسی مضمون کو جاری رکھتا ہوں.ایک مومن کی اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ اعمال صالحہ بجالانے والا ہوتا ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ پر ایمان ہوگا ، اس کے فرشتوں پر ایمان ہوگا، اس کی کتابوں پر ایمان ہوگا، اس کے رسولوں پر ایمان ہوگا ، یومِ آخرت پر ایمان ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا نام جب ایک مومن کے سامنے لیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں موجزن ہو گی اور اس کا دل اس بات سے بھی خوفزدہ ہو گا کہ کہیں میں کوئی ایسی بات نہ کروں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنے.تو لازماً پھر جب ایسی حالت ہوگی تو پھر اس کے دل میں یہ خیال ہر وقت غالب رہے گا کہ میں وہی اعمال بجالا ؤں جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اعمال ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.پس ایک مومن کو ایسے صالح اعمال بجالانے چاہئیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہو.اگر یہ بات ایک انسان میں پیدا ہو جائے تو یہ اسے حقیقی مومن کی صف میں کھڑا کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ کامل الایمان کی تعریف کرتے ہوئے اور افراد جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی ترکیب سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو، گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو، گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیے ہیں.بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے
328 خطبه جمعه 10 / اگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم سانپ ہیں.سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر.عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل.امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 11-12) یہ وہ چند باتیں ہیں، یہ وہ اعمال ہیں جن کے بجالانے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے اور ان کو بجالانے والا نیک اور صالح کہلا سکتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے سلسلے میں شمولیت کرنے والوں کے لئے شرط قرار دیا ہے.اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ، اس بات پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخرین میں مبعوث ہونے والا آنحضرت ﷺ کا غلام صادق یہی ہے جس کی ہم نے بیعت کی ہے، جس کی جماعت میں ہم شامل ہیں ، جو تقوی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نیک اعمال کے کرنے کی ہم سے توقع کر رہا ہے تو پھر اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے بڑی سنجیدگی سے ہر احمدی کو ان باتوں کی طرف توجہ دینی ہوگی تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں.اور پہلی بات جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے وہ ہے تو حید کو زمین پر پھیلانے کی کوشش.خدا تعالیٰ پر ایمان صرف اسی بات کا نام نہیں کہ ہم نے اپنے منہ سے خدا تعالیٰ پر اپنے ایمان کا اعلان کر دیا یا کہہ دیا کہ ہمارے دلوں میں اللہ کا بڑا خوف ہے بلکہ اس کی عملی شکل دکھانی ہوگی اور وہ کیا ہے؟ تو حید کے قیام کی کوشش.اور توحید کے قیام کی عملی کوشش اس وقت ہوگی جب ہم سب سے پہلے اپنے دلوں کو غیر اللہ سے پاک کریں گے.دنیاوی خواہشات کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو اپنے دلوں سے نکال کر باہر پھینکیں گے.ذاتی منفعتیں حاصل کرنے کے لئے دنیاوی چالاکیوں اور جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے.اپنے کاموں کو، اپنے کاروباروں کو، اپنی نمازوں پر ترجیح نہیں دیں گے.اپنے بچوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے اپنے عمل سے اور اپنے قول سے ان کی تربیت کریں گے، ان کے لئے نمونہ بنیں گے.اپنے ماحول میں خدا تعالیٰ کی توحید کا پر چار کریں گے.پس جب یہ باتیں ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور استعدادوں کے ساتھ کر رہے ہوں گے تو تب ہی تو حید کے قیام کی کوشش ہوگی اور تبھی ہم اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کر رہے ہوں گے.پھر نیک اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”بندوں پر رحم کرو.کوئی مومن نہ صرف دوسرے مومن پر بلکہ کسی انسان پر زبان سے یا ہاتھ سے یا کسی بھی طریق سے ظلم نہ کرے.آنحضرت ﷺ نے تو مومن کی نشانی یہ بتائی ہے کہ مومن وہ ہے ) جس سے تمام دوسرے انسان محفوظ رہیں.پس مومن کی پہچان ہی رحم ہے.ظلم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.جب یہ رحم ایک مومن کے دل میں دوسروں کے لئے ہر وقت موجزن ہو گا تبھی وہ رحمان خدا پر حقیقی ایمان لانے والے کہلا سکیں گے اور آپس کے تعلقات میں تو ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ اس طرح ہے جیسے ایک جسم کے اعضاء.
خطبات مسرور جلد پنجم 329 خطبہ جمعہ 10 راگست 2007 ء پس جب تعلق کا یہ تصور ہر احمدی میں پیدا ہوگا تو بے رحمی اور ظلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کو پہنچی ہوئی تکلیف، بلکہ ہلکی سی تکلیف بھی اپنی تکلیف لگے گی اور یہ ایک احمدی کی سوچ ہونی چاہئے.پھر آپ نے فرمایا کہ مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ مومن دوسرے مومن کی تکلیف کو بھی اپنی تکلیف سمجھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے معیار بہت اونچے دیکھنا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ صرف مومن کی تکلیف کو محسوس ہی نہیں کرنا بلکہ جب تمہارے دل میں رحم کا جذبہ دوسرے کے لئے پیدا ہو جائے تو مزید ترقی کرو.اس رحم کے جذبے کو صرف اپنے دل تک ہی نہ رکھو، وہیں تک محدود نہ رہے بلکہ اس کا اظہار بھی ہو.اور اظہار کس طرح ہو؟ فرمایا اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بھلائی کی کوشش کرتے رہو.لوگوں کو فیض پہنچانے کے لئے اگر قربانی بھی کرنی پڑے تو کرو.اپنے ایمان کے اعلیٰ معیار کے وہ نمونے دکھاؤ جو پہلوں نے دکھائے تھے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے کہ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ (الحشر: 10) اور وہ خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے.آنحضرت ﷺ نے دعویٰ نبوت سے پہلے بھی اپنی پاک فطرت کے نمونے دکھائے اور یہ نمونے دکھاتے ہوئے دوسروں کی بھلائی کی خاطر، دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کوششیں کیں اور حلف الفضول جو ایک معاہدہ ہے جو تاریخ میں آتا ہے وہ اُسی کی ایک کڑی ہے.اور نبوت کے بعد تو دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ان کی بھلائی اور خیر چاہنے کے لئے آپ کے جو عمل تھے اس کے نظارے ہمیں آپ کی زندگی میں تیز بارش کی طرح نظر آتے ہیں اور یہی آپ کے نمونے اور قوت قدی تھی جس نے یہ روح صحابہ میں پھونک دی جس کی وجہ سے وہ دوسروں کی بھلائی چاہنے میں بڑھتے چلے گئے.اور اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مخلوق کی بھلائی کے لئے بھی بلا تفریق مذہب وملت وہ نظارے دکھائے جو ہمارے لئے قابل تقلید ہیں اور مشعل راہ ہیں.عورتیں، بچے دیہاتوں سے آتے ہیں کہ آپ سے اپنی بیماری کے لئے دوائیاں لیں اور آپ بغیر کسی اعتراض کے اس فیض سے کئی گھنٹے تک لوگوں کو فیضیاب کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ غریب لوگ ہیں اس علاقے میں ڈاکٹر نہیں ہے ، ان کے پاس پیسے نہیں، خرچ نہیں کر سکتے تو ان سے ہمدردی کا یہ تقاضا ہے کہ ان کی ضرورت پوری کی جائے.باوجود اس کے کہ آپ کے بے انتہا کام تھے اور اس زمانے میں ایک چو کبھی لڑائی تھی جو تمام ادیان باطلہ سے آپ لڑ رہے تھے لیکن مخلوق کی بھلائی کا اس قدر جذبہ تھا کہ اس کے لئے وقت نکال رہے ہیں اور گھنٹوں اس کام کے لئے مصروف ہیں.پھر اس اقتباس میں جو میں نے پڑھا آپ ہمیں توجہ دلاتے ہیں کہ کسی پر تکبر نہ کرو، گوتمہارا ما تحت ہی ہو.اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا ما تحت بنایا ہے، تمہارے زیرنگین کیا ہے تو اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ تمہاری مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے سامان بہم پہنچایا، بعض لوگوں کو تمہاری خدمت پر مامور کیا.ایک مومن کی یہ شان ہے کہ جتنے
خطبات مسرور جلد پنجم 330 خطبه جمعه 10 اگست 2007 ء اختیارات وسیع ہوں اتنی زیادہ عاجزی ہونی چاہئے ، اتنی زیادہ شکر گزاری ہونی چاہئے ، ہمیشہ یہ یاد رکھو کہ ہمارا ہر عمل وہ رہنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہے.اور اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے بچنے کے بارے میں کیا فرماتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے وَلَا تُصَعِرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلِّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (لقمان: 19) اور نخوت سے اپنے گال لوگوں کے سامنے نہ پھلا اور زمین میں تکبر سے مت چل.اللہ یقینا ہر شیخنی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ نا پسند ہیں جو فخر کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے، اگر یہ دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے میرا دل ڈر جاتا ہے تو پھر ہر قسم کے تکبر سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہوگا.با اختیار اور صاحب عزت ہونا ایک مومن کو ، اگر اس کے دل میں حقیقی ایمان ہے، عاجزی اور شکرگزاری میں بڑھاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے تو غلاموں کی بھی عزت نفس کا اس قدر خیال رکھا ہے کہ فرمایا کہ اپنے غلاموں کو میر اغلام یا میری لونڈی کہہ کے نہ پکارو بلکہ میرالڑکا یا لڑ کی کہہ کر پکارا کرو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی فرمایا کہ گالی مت دو خواہ دوسرا شخص گالی دیتا ہو.اور یہی گر ہے جس سے مومن کی زبان ہمیشہ صاف رہتی ہے.ایک مومن کو تو ہمیشہ پاک زبان کا استعمال کرنا چاہئے.گالی کی تو اس سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی.اپنے آپ کو کسی کی گالی سن کر پھر اس سے روکنا نہ صرف زبان کو پاک رکھتا ہے بلکہ ذہن کو بھی بہت سے غلط کاموں کے کرنے سے بچاتا ہے.گالی سن کر انسان کا فطری رد عمل یہی ہوتا ہے کہ انسان غصے میں آجاتا ہے اور اس کے رد عمل کے طور پر بھی جس کو گالی دی جاتی ہے یا بُرا بھلا کہا جاتا ہے، وہ بھی اسی طرح الفاظ دوسرے پر الٹاتا ہے.پس جب یہ ارادہ ہو کہ انہی الفاظ میں جواب نہیں دینا جو غلط الفاظ دوسرے نے استعمال کئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے، تو یہ بہت بڑی نیکی ہے اور یہ نیکی ایک بہت بڑے مجاہدے سے حاصل ہوگی.یہ آسان کام نہیں ہے.اور یہ مجاہدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک خدا تعالیٰ پر کامل ایمان نہ ہو اور ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب نہ ہو اور پھر یہی چیز ہے جس سے صبر کے معیار بڑھیں گے.ایک مومن کو تو یہ ضمانت میسر ہے کہ اگر کسی کی غلط زبان پر یا غلط بات پر یا غلط حملوں پر تم صبر کرتے ہو تو فرشتے جواب دیتے ہیں.جب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ڈھال بھی بنا دیا ہے اور ہماری طرف سے جواب دینے کے لئے بھی مقرر کر دیا ہے تو پھر اس سے بہتر اور کیا سودا ہو گا.پھر اس سے بڑھ کر صبر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں خوشخبری دی ہے کہ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ یہ نوید اللہ تعالیٰ ہمیں سناتا ہے.اور پھر فرمایا کہ ان مومنوں کے رب کی طرف سے جو صبر کرتے ہیں ان پر اس صبر کی وجہ سے برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں گی.اور الٹا کر جواب نہ دینا صرف ایک مومن نہ صرف اس سے اپنے دل و دماغ کو غلاظت سے بچاتا ہے بلکہ فرشتوں کی دعاؤں سے بھی حصہ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں بھی حاصل کرتا ہے اور پھر معاشرے میں امن قائم کرنے والا بھی بنتا ہے، مزید جھگڑوں اور فسادوں سے معاشرے کو محفوظ رکھتا ہے.گالی کا جواب گالی سے دینے سے بعض دفعہ
331 خطبات مسرور جلد پنجم خطبہ جمعہ 10 راگست 2007 ء دوسرا فریق مزید طیش میں آجاتا ہے.اس کے حمایتی جمع ہو جاتے ہیں، دوسرے فریق کے حمایتی جمع ہو جاتے ہیں، اس گالی پر بعض دفعہ ایسی خطرناک لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ قتل تک ہو جاتے ہیں.پس جب مومن کا مطلب ہی امن سے رہنے والا اور امن پھیلانے والا ہے تو اس سے ایسے امن کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی جس کے نتائج فتنہ وفساد پر منتج ہوں.پس اگر ان بھیانک نتائج سے بچنا ہے تو پھر اس کا علاج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دو، غریب اور حلیم اور نیک نیت ہو جاؤ.پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے اور یہ سب کچھ عاجزی اور عقل سے چلتے ہوئے برداشت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومن کہلاؤ گے.پس یہ اور اسی طرح دوسرے اخلاق اپنانے والی اور بُرائیوں سے روکنے والی جو باتیں ہیں ، یہی ہیں جو انسان کو ایک مسلمان کو ایک حقیقی مومن بناتی ہیں اور جب تک ایک مسلمان نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتارہے گا اور اپنی عبادتوں کے ساتھ اعمال صالحہ بجالا تارہے گا جن میں سے ابھی کچھ کا بیان ہوا ہے تو وہ حقیقی مومن کہلانے والا رہے گا.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایک مسلمان توجہ کے ساتھ ان باتوں پر عمل نہیں کرتا جو خدا تعالیٰ نے بتائی ہیں تو پھر اس کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ امَنَّا کہ ہم ایمان لے آئے بلکہ ہماری ابھی یہ حالت ہے جو اسلمنا والی ہے کہ ہم نے بیعت تو کر لی، فرمانبرداری تو کچھ حد تک قبول کر لی لیکن ایمان کامل نہیں ہوا.کیونکہ اگر حقیقتا ایمان دل میں پیدا ہو گیا ہے تو پھر تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کی کوشش ہر ایک میں نظر آنی چاہئے.اور ہم دنیا میں حقیقی انقلاب اسی وقت لاسکیں گے جب ہمارا ایمان اس معیار کی طرف جا رہا ہوگا جس میں عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے کی کوشش ہو رہی ہوگی.اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دلوں میں پیدا ہوگا اور اس کے لئے کوشش ہو رہی ہوگی.اعمالِ صالحہ بجالانے کے لئے بھی ایک تڑپ ہوگی جو ایک مومن میں بڑھتی چلی جاتی ہے اور ان باتوں کے ساتھ ہم پھر اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسول ﷺ کے حقیقی ماننے والے بھی ہوں گے جو حظ عظیم پر پہنچا ہوا تھا، بڑے بلند مقام پر پہنچا ہوا تھا اور جس کی نمازیں بھی اور تمام اعمال بھی جس کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر تھیں.جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلنے کا حکم دیا ہے تو آپ نے جو نمونے قائم کئے ان کی طرف چلنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.پس جب یہ معیار حاصل کرنے کی طرف آگے بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے ایمان لانے والوں کو خوشخبری دیتا ہے اور وہ فرماتا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے کہ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ امَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْانْهرُ خوشخبری دے دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رَزْقًا قَالُوْا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِها جب ان باغات میں سے، ان جنتوں میں سے جو اُخروی جنتیں ہیں ان کو بطور رزق پھل دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا جا چکا ہے.وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس ملتا جلتا رزق لا یا گیا تھا اور ان کے لئے ان باغات میں پاک بنائے ہوئے جوڑے ہوں گے وَهُمْ فِيهَا خَلِدُوْنَ.(البقرة : 26) اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے
خطبات مسر و رجلد پنجم ہوں گے.332 خطبہ جمعہ 10 راگست 2007 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے اعمال کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے ندیاں بہ رہی ہیں.اس آیت میں ایمان کو اللہ تعالیٰ نے باغ سے مثال دی ہے اور اعمال صالحہ کو نہروں سے.جو رشتہ اور تعلق نہر جاریہ اور درخت میں ہے وہی رشتہ اور تعلق اعمال صالحہ کو ایمان سے ہے.پس جیسے کوئی باغ ممکن ہی نہیں کہ بغیر پانی کے بڑوں سرسبز اور ثمر دار ہو سکے ( پانی کے بغیر پھل نہیں لگ سکتے ، درخت سرسبز نہیں رہ سکتا اسی طرح پر کوئی ایمان جس کے ساتھ اعمال صالحہ نہ ہوں مفید اور کارگر نہیں ہوسکتا.پس بہشت کیا ہے وہ ایمان اور اعمال ہی کے مجسم نظارے ہیں.وہ بھی دوزخ کی طرح کوئی خارجی چیز نہیں ہے بلکہ انسان کا بہشت بھی اس کے اندر ہی سے نکلتا ہے.یادرکھو کہ اُس جگہ پر جو راحتیں ملتی ہیں وہ وہی پاک نفس ہوتا ہے جو دنیا میں بنایا جاتا ہے.پاک ایمان پودا سے مماثلت رکھتا ہے اور اچھے اچھے اعمال، اخلاق فاضلہ یہ اس پودا کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں جو اس کی سرسبزی اور شادابی کو بحال رکھتے ہیں.اس دنیا میں تو یہ ایسے ہیں جیسے خواب میں دیکھے جاتے ہیں مگر اس عالم میں محسوس اور مشاہدہ ہوں گئے“.فرمایا کہ: ”یہی وجہ ہے کہ لکھا ہے کہ جب بہشتی ان انعامات سے بہرہ ور ہوں گے تو یہ کہیں گے کہ هَذَا الَّذِى رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأَتُوْا بِهِ مُتَشَابِهًا (البقرة:26 ) اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دنیا میں جو دودھ یا شہر یا انگور یا انار وغیرہ چیزیں ہم کھاتے پیتے ہیں وہی وہاں ملیں گی.نہیں ، وہ چیزیں اپنی نوعیت اور حالت کے لحاظ سے بالکل اور کی اور ہوں گی.ہاں صرف نام کا اشتراک پایا جاتا ہے اور اگر چہ ان تمام نعمتوں کا نقشہ جسمانی طور پر دکھایا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بتادیا گیا ہے کہ وہ چیز میں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت پیدا کرنے والی ہیں.ان کا سر چشمہ روح اور راستی ہے.رُزِقُنَا مِنْ قَبل سے یہ مراد لینا کہ وہ دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں ، بالکل غلط ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اس آیت میں یہ ہے کہ جن مومنوں نے اعمالِ صالحہ کئے ، انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا جس کا پھل وہ اس دوسری زندگی میں بھی کھائیں گے اور وہ پھل چونکہ روحانی طور پر دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے اس لئے اُس عالم میں اُس کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں.اور یہ وہی روحانی ترقیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کی ہوتی ہیں اس لئے وہ عابد و عارف ان کو پہچان لیں گے، میں پھر صاف کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ جہنم اور بہشت میں ایک فلسفہ ہے جس کا ربط باہم اسی طرح پر قائم ہوتا ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 21 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اعمال کی یہ سرسبزی اسی وقت تک قائم ہوگی جب تک اعمال صالح ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے ہم اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے.پس مومنوں کو یہ خوشخبری صرف انگلی زندگی کے لئے نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے اس دنیا میں بھی نیک عمل کرنے والوں اور اس کی
333 خطبہ جمعہ 10 راگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم رضا کے حصول کے لئے کوشاں رہنے والوں کو ان پھلوں کے مزے چکھاتا ہے ، ان پھلوں کو دکھاتا ہے جو قبولیت دعا کے ذریعہ سے بھی ہوتے ہیں.ایک مومن کی روحانی ترقی کی وجہ سے اس کا دل سکون اور قناعت کی صورت میں ہوتا ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے، یہ بھی ان پھلوں میں سے ہے.دینی اور دنیاوی نعمتیں بھی ایک مومن کو اس دنیا میں ملتی ہیں اور یہ دنیاوی نعمتیں اس کا مقصود نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کی وجہ سے جو ایک مومن خدا کی رضا کے حصول کے لئے بجالاتا ہے یا بجالا رہا ہوتا ہے، اسے عطا فرماتا ہے.پس ہر عمل صالح تب ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس کو بجالا رہے ہوں گے.ورنہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ نمازیں پڑھنے والے ہیں جن کی نمازیں ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں حالانکہ نماز پڑھنا نیک عمل ہے.اسی طرح بہت سے لوگ بعض دفعہ بہت خرچ کرتے ہیں لیکن ان میں ایمان نہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نہیں کر رہے ہوتے بلکہ دنیا دکھاوے کے لئے کر رہے ہوتے ہیں اس لئے وہ عمل ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا.ایک شخص ، ایک یہودی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بارش میں جانوروں کو دانہ ڈال رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ اجر دیا کہ اس کو ایمان نصیب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جو عمل ہوگا وہ ایمان میں بھی بڑھاتا ہے، ایمان نصیب بھی کرتا ہے اور اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بناتا ہے اور آخرت میں بھی بناتا ہے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ درختوں کی سرسبزی کے لئے پانی ضروری ہے اسی طرح ایمان کی مضبوطی اور سرسبزی کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں.تمام وہ نیک اعمال بجالانے ضروری ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں.جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں ، جو ایمان میں بڑھنے کے لئے ہیں.پس اس سوچ کے ساتھ ہر احمدی کو اپنی عبادتیں بھی کرنی چاہئیں اور دوسرے اعمال بھی بجالانے چاہئیں تاکہ ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ہم وارث بنتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ اسی سوچ کے ساتھ ہر احمدی کو زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:.بھی جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ میں دو نماز جنازہ پڑھاؤں گا.ایک تو صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ کا ہے، جو میری خالہ تھیں اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی حضرت ام ناصر کے بطن سے بیٹی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی بہو تھیں، مرزا حمید احمد صاحب کی بیوی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے بچوں کی آمین لکھی ، حضرت مرزا ناصر احمدخلیفہ مسیح الثالث سے ان تک کے بچوں کی ، اس میں آپ کے بارے میں بچپن میں یہ لکھا کہ ”عزیزہ سب سے چھوٹی نیک فطرت ، اس آمین کا ایک مصرعہ ہے ).بڑی صبر کرنے والی تھیں، تو گل کا اعلیٰ مقام تھا، نیک تھیں ، ملنسار تھیں ، بڑی دعا گو تھیں.نماز میں بڑے انہماک اور توجہ سے ادا کرتیں.ان کی نمازیں بڑی لمبی ہوا کرتی تھیں.کئی کئی گھنٹے مغرب کی نماز عشاء تک اور عشاء کی نماز
خطبات مسرور جلد پنجم 334 خطبہ جمعہ 10 راگست 2007 ء آگے کئی گھنٹے تک تو میں نے ان کو پڑھتے دیکھا ہے اور یہ روزانہ کا معمول تھا.اللہ کے فضل سے بڑی دعا گو غریب پرور خاتون تھیں.آپ کو خلافت سے بڑا تعلق تھا.مجھے بھی بڑی عقیدت سے خط لکھا کرتی تھیں.جماعتی طور پر پہلے سترہ سال لاہور کی نائب صدر لجنہ رہیں.1967ء سے 1983 ء تک لاہور میں صدر لجنہ رہیں.اللہ کے فضل سے لاہور کی لجنہ کے لئے بڑا کام کیا.عالمی بیعت کے دنوں میں ایک سبز کوٹ پہلے حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ عالی پہن کرتے تھے اور اب میں پہنتا ہوں ، یہ کوٹ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے ان کے خاوند محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب کے حصہ میں آیا تھا.جب حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے یہاں ہجرت کی تو یہ کوٹ انہوں نے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کو دیا کہ آپ جب تک وہاں ہیں اس کوٹ کو آپ جب بھی پہنیں میرے لئے بھی دعا کیا کریں.اس کے بعد مرزا حمید احد صاحب کی وفات تو حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے زمانے میں ہوگئی تھی.صاحبزادی امتہ العزیز نے یہ کوٹ دے دیا.پھر حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کی وفات کے بعد میں نے ان کو کہا کہ یہ کوٹ آپ لوگوں نے امانتا دیا ہوا تھا تو انہوں نے مجھے اپنی بیٹیوں سے پوچھ کر لکھ کر دیا کہ یہ کوٹ اب عالمی بیعت کی ایک نشانی بن چکا ہے، اس لئے ہم اس کو خلافت کو ہبہ کرتے ہیں اور انہوں نے یہ تبرک خلافت کے لئے دے دیا.ان کے لئے جماعت کو بھی دعا کرنی چاہئے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک تبرک، چھوٹا سا کپڑا بھی کوئی نہیں دیتا، بڑی قربانی کر کے یہ کوٹ دیا ہوا ہے.آپ کی تین بیٹیاں ہیں.ایک مصطفی خان صاحب لاہور کی اہلیہ ہیں جو حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے بیٹے ہیں.دوسری امتہ الرقیب ہیں جو ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب جو ربوہ کے ہیں ان کی بیگم ہیں اور تیسری کوثر حمید ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان نیکیوں پر قائم فرمائے جوان میں تھیں.دوسرا جنازہ نعیمہ سعید صاحبہ اہلیہ ملک سعید احمد رشید صاحب مربی سلسلہ کا ہے.ان کے نانا ، دادا، پڑدادا یہ سب صحابی تھے.عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی کی پوتی تھیں اور منشی عبدالرحمن صاحب کی پڑپوتی تھیں.علاوہ واقف زندگی کی بیوی ہونے کے ان کی لجنہ میں بھی کافی خدمات ہیں.لجنہ ہو میو کلینک انہوں نے بڑی اچھی طرح چلا یا اور اپنی بیماری کے باوجود بڑی ہمت اور محنت سے کام کرتی رہیں.ان کی تقریباً جوانی کی ہی عمر تھی.یہ 49 سال کی عمر میں فوت ہو گئیں.ان کے بچے ہیں.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی صبر دے اور ان کی دعائیں اپنے بچوں کے لئے قبول فرمائے.ان کا ہمیشہ حافظ و ناصر رہے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 31 اگست تا 6 ستمبر 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 335 (33) خطبہ جمعہ 17 راگست 2007 ء فرموده مورخه 17 اگست 2007 ء (17 ظہور 1386 ہجری شمسی ) بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی بار یک تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب اپنے تئیں دُور کر لئے جاتے ہیں.پس جیسا کہ پہلے بھی قرآنی تعلیم کی روشنی میں بیان کرتا آیا ہوں کہ جو بھی عمل اللہ تعالیٰ کی رضا سے دور لے جانے والا ہے وہ ایمان سے دور لے جانے والا ہے.اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم میں بے شمار جگہ جو مومن کی تعریف اور مومنین کے لئے جو احکامات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو کھول کر پیش فرمایا ہے اور اپنی جماعت کے افراد کو اس معیار پر دیکھنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے جس سے ایمان کے اعلیٰ معیار حاصل ہوں اور ہم میں سے ہر ایک پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اُس سلوک سے حصہ لینے والا بنے جو اللہ تعالیٰ ایک مومن سے فرماتا ہے.پس اس سلوک کا حامل بننے کے لئے تقویٰ کی راہوں کی تلاش کرنی ہو گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ” مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جو تقویٰ کی باریک اور تنگ را ہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں.اور تقویٰ کی باریک راہوں کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ” انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہوٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209-210)
خطبات مسرور جلد پنجم 336 خطبہ جمعہ 17 راگست 2007 ء آپ نے یہ فرمایا ہے کہ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں.اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے یعنی اللہ کا خوف ہر عمل سے پہلے اس کی موجودگی کا احساس دلائے.یہ پیج تمہارے دل میں پیدا ہونا چاہئے اور کسی کام کو سرانجام دینے سے پہلے یہ احساس اور یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، یہ احساس ہر وقت دل میں موجود رہے.انتہائی عاجزی سے اور ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنا.یہ حالت ایسی ہے کہ جس کی مثال بیج سے دی جاسکتی ہے اور پھر جب یہ خشوع پیدا ہو جائے اور تمام لغو باتوں کو انسان ترک کر دے تو پھر انسان کے دل کی زمین جو ہے اس پر ایمان کا نرم نرم سبزہ نکلتا ہے ، وہ بیج پھوتا ہے، اس کھیت میں ہریالی نظر آنے لگتی ہے.اور یہ نرم سبزہ ایسا ہوتا ہے کہ بہت نازک ہوتا ہے.ایک بچے کے پاؤں کے نیچے بھی آجائے تو کچلا جاتا ہے.پس اس بات پر راضی نہیں ہو جانا چاہئے کہ میرے اندر بہت خشوع پیدا ہو گیا ہے.میں نے اس وجہ سے لغویات کو بھی ترک کر دیا ہے یا اس کے ترک کرنے کی طرف کافی ترقی کرلی ہے بلکہ اس نرم پودے کی حفاظت کے لئے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں.آپ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایمان کی مضبوطی کے لئے پھر اپنے محبوب مال میں سے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.اس کی ضرورت ہے.جب یہ مالی قربانی ہو تو پھر ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں.اس کی شاخیں پھوٹ پڑتی ہیں جو اس میں کسی قدر مضبوطی پیدا کرتی ہیں.پھر ان ٹہنیوں کو مزید مضبوط کرنے کے لئے شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے.قدم قدم پر شیطان نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں.جو مختلف طریقوں سے نفس کو بھڑکا کر بُرائیوں کی طرف مائل کرتا ہے اور نیکیوں سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے ہر جگہ اس سے بچنا ہر مومن کا کام ہے.بُرائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ، شیطان کے دھوکے میں نہ آنا اور جب یہ صورت پیدا ہو گی تو فرمایا پھر ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر اس پودے کو جو ٹہنیوں کی حد تک مضبوط ہو گیا، لیکن ابھی مضبوط تنے پر کھڑا ہونا باقی ہے، اس کو مضبوط تنے پر کھڑا کرنے کے لئے اپنے وہ تمام عہد جو تم نے خدا سے اور خدا کی خاطر اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے کئے ہیں ان کی حفاظت کرو، اپنی تمام امانتوں کی حفاظت کرو.اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات امانتیں ہیں ان کی حفاظت کرنا ، ان کو موقع محل کے مطابق بجالا نا ضروری ہے اور یہ امانتیں ایمان کی شاخیں ہیں.پس یہ تمام چیزیں پھر ایمان کے درخت کو مضبوط تنے پر کھڑا کر دیتی ہیں اور تنا ان کو خوراک مہیا کرتا ہے.ایمانی عہدوں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایمانی عہدوں سے مراد وہ عہد ہیں جن کا انسان بیعت کرتے وقت اور ایمان لاتے وقت اقرار کرتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جن شرائط پر ہم نے بیعت کی ہے وہ ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئیں اور جب اس عہد کی حفاظت کر رہے ہوں گے.اس کا
337 خطبات مسرور جلد پنجم خطبہ جمعہ 17 اگست 2007 ء خلاصہ ( جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں میں نے بیان کیا تھا) خدا کی توحید کا قیام ، آنحضرت ﷺ کی مکمل پیروی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام فیصلوں پر حکم اور عدل ماننا ہے، مخلوق کے حقوق ادا کرنا ، خلافتِ احمدیہ کی اطاعت کرنا تو پھر یہ ایمان کا درخت مضبوط تنے پر قائم ہو جائے گا اس کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور جب یہ صورت پیدا ہوگی تو پھر ایک مومن کا فعل خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہوگا.اللہ تعالیٰ اس کو ہمیشہ شیطان سے بچانے اور اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کے سامان پیدا فرماتا رہے گا.کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایک دنیا وی دوست اپنے دوست کے لئے کوشش کر کے اس کے فائدے کے سامان کرے اور خدا تعالیٰ جو سب دوستوں سے زیادہ وفا کرنے والا ہے وہ اپنے دوست کو ، ایک مومن کو ، با وجود اس کے چاہنے کے ( کہ خدا تعالیٰ اسے ایمان میں مضبوط رکھے اور شیطان سے اسے بچا کر رکھے، اس کے حملوں سے محفوظ رکھے ) یوں اندھیروں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کبھی بھی نہیں ہو گا.اگر تم میری طرف بڑھ رہے ہو اور ایمان کی مضبوطی کی کوششیں کر رہے ہو تو میرا قرب حاصل کرنے والے ہو گے.ایک جگہ فرماتا ہے کہ اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ (البقرة: 258) كه اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے وہ ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے.پس یہ جو اللہ تعالیٰ مومنوں سے دوستی کا اعلان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ مومنوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائے گا ، ان کو ایک نور دکھائے گا تو یہ اعلان ہے کہ تمہاری کوشش تمہارے ایمان کی مضبوطی کی کوشش تمہیں یقینا ترقیات نصیب کرے گی.تمہیں روحانی ترقی میں بڑھائے گی ، پھر اس کی وجہ سے تمہاری جسمانی ضروریات بھی پوری فرمائے گا.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں نیک نیت سے کوشش ضروری ہے.دنیا کی طرف دوڑنے والوں کو تو پتہ نہیں دنیا ان کی خواہش کے مطابق ملتی بھی ہے کہ نہیں.کیونکہ بہت سے جو دنیا کمانے والے ہیں اور خدا کو بھولنے والے ہیں ان میں سے اکثریت کیا بلکہ سارے ہی بے چینی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں.لیکن خدا کی خاطر خالص ہو کر اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والوں کو خدا بھی ملتا ہے اور دنیا بھی ان کے در کی لونڈی ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو خدا تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا.ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے.پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا.یہ جو آپ نے فرمایا کہ اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطے تک پہنچے گی.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر خاص احسان ہے کہ ہر انسان کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، اس کی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں، اس کی اپنی استعدادوں کی انتہا کے مطابق اس کا ٹارگٹ مقررفرماتا ہے.پس ایمان کی مضبوطی اور اللہ کے نور سے حصہ لینے کے لئے اپنی استعدادوں کے انتہائی نقطے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 338 خطبہ جمعہ 17 راگست 2007 ء پھر وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت (70) کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجالائے.یہ نہ کرے کہ پانی اگر ہیں ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے.ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے.پھر اس اُمت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا اور تزکیہ نفس سے کام لے گا تب قرآن شریف کے وعدے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 224-223 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ دوستی کا حق ادا کرتا ہے، اس دنیا میں بھی انعامات سے نوازتا ہے، دنیاوی ضروریات بھی پوری کرتا ہے، روحانی ترقیات سے نوازتا ہے.اس دنیا کو بھی جنت بناتا ہے اور مرنے کے بعد بھی ہمیشہ رہنے والی جنت میں مومن کو رکھے گا.غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومنین کے ساتھ قرآن میں بے شمار وعدے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پورا فرماتا ہے اور آج بھی ہم ان کو مختلف شکلوں میں پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ، دیکھتے ہیں.ہزاروں احمدی اس وعدے کے مطابق اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں.خلافت کا جاری نظام بھی خدا تعالیٰ کے وعدوں میں سے ایک بہت بڑا وعدہ ہے جو مومنین کے سکون کے لئے اور ان کو تمنت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.احمدیوں کے ساتھ ، مومنین کی جماعت کے ساتھ ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سچا تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ، گزشتہ سو سال سے ہم یہ وعدہ بڑی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور ایک احمدی کی سکون اور آرام کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے.کئی قسم کے فتنہ اور فساد سے احمدی بچے ہوئے ہیں جن میں جو دوسرے ہیں وہ ڈوبے پڑے ہیں.مجھے ایک دوست نے بتایا کہ جب یو کے میں گزشتہ دنوں جلسہ ہوا تھا تو امریکہ میں ان کے ایک دوست ان کو ملنے آئے.اس وقت میری تقریر شروع ہونے والی تھی ، میرے حوالے سے بتایا کہ ان کی تقریر ہے میں تو ابھی ٹی وی پر سنے لگا ہوں آپ بیٹھ کے میرا ذرا انتظار کر لیں.تو انہوں نے کہا میں بھی آپ کے ساتھ سنتا ہوں.شیعہ دوست تھے پاکستان سے امریکہ آئے ہوئے تھے.پڑھے لکھے آدمی تھے پوری تقریر انہوں نے سنی اور اس کے بعد کہنے لگے کہ مجھے مذہب سے ویسے زیادہ دلچسپی نہیں ہے لیکن آج مجھے پتہ لگا ہے کہ کیوں احمدی دوسروں سے مختلف ہیں.احمدی میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے اسلام کی راہنمائی کرنے کے لئے ایک انتظام کیا ہوا ہے جو ہمارے اندر نہیں.ایک آواز کے ساتھ تم لوگ اٹھتے بیٹھتے ہو.تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ جماعت کے حق میں پورا ہورہا ہے.پھر قرآن کریم کے وعدوں میں سے اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے میں مومنوں کا مددگار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ بڑے واشگاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ تم دنیا میں پھر لو ، تاریخ مذاہب پر نظر ڈال لو، کہیں بھی تمہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ نبیوں کی جماعت کا اور مومنوں کا آخری نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہو.عارضی ابتلا اور
خطبات مسرور جلد پنجم 339 خطبہ جمعہ 17 راگست 2007 ء مشکلات بے شک آتے ہیں.لیکن آخر کار دشمن و کافر تباہ ہو جاتے ہیں.مومنین کے مخالفین کے حصہ میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں آتا.پس یہ ایک ایسا اصول ہے جو آنحضرت ﷺ سے قبل کے انبیاء اور مومنین کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا.آنحضرت ﷺ کے ساتھ بھی اور مسلمانوں میں مومنین کے لئے بھی قائم فرمایا اور آپ کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے حقیقی ایمان لانے والوں کے لئے یہ معیار قرار دے دیا کہ انجام کار کافروں کی تباہی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کافروں کی تباہی ، انکار کرنے والوں کی تباہی اور مومنوں کی کامیابی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو مُكَفِّرِین و مُكَذِّبِین ہیں ان کا بد انجام ہوگا اور بد انجام کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذلِكَ بِاَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَاَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمُ ( محمد (12) یہ اس لئے ہے کہ اللہ ان لوگوں کا مولیٰ ہوتا ہے جو ایمان لائے اور کافروں کا یقیناً کوئی مولیٰ نہیں ہوتا.پس حقیقی مومن اور تقویٰ پر قدم مارنے والوں کا مولیٰ اور دوست وہ عظیم جاہ و جلال والا خدا ہے جس کی بادشاہت تمام زمین و آسمان پر حاوی ہے.پس جو ایسے جاہ و جلال اور قدرت رکھنے والے خدا کی آغوش میں ہو کیا اسے مخالفین کا مکر اور ان کی تدبیریں کچھ نقصان پہنچاسکتی ہیں؟ یقینا نہیں کبھی نہیں.کیونکہ جو خدا تعالیٰ پر کامل ایمان لاتا ہے خدا اس کی حفاظت کے سامان پیدا فرماتا ہے.یہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی مدد فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم: (48) یعنی مومنوں کی مدد کر نا ہمارا فرض ہے.پس یہ ہے مومنوں کا خدا جو کی لمحہ بھی اپنے مومن بندوں سے غافل نہیں.یہ زمین و آسمان کا مالک خدا جس کو نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ آتی ہے، ہر وقت اپنے مومن بندے کی پکار پر ہر جگہ پہنچ جاتا ہے.پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے اس خدا سے تعلق جوڑتے ہیں اور خشوع اور تقویٰ میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں.جو خدا اپنے مومن بندے کی حفاظت و نصرت کے لئے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے، اس کو ماننے والے ہیں.پس ہمیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آئے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی بیعت میں آنے والے ہی حقیقی مومن ہیں، ایک تو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ صرف یہ ایک عمل کہ ہم بیعت میں آگئے کافی نہیں، بلکہ ہم نے اپنے اعمال کے بیج کی حفاظت کر کے اس کے اُگنے کے سامان کرنے ہیں.پھر اس کے اُگنے کے بعد نرم سبزے کی حفاظت کرنی ہے.پھر نرم سبزے نے جب ٹہنیوں کی صورت اختیار کرنی ہے اس کی نگہداشت کرنی ہے، اسے ہر قسم کے کیڑے مکوڑوں اور جانوروں سے محفوظ رکھنا ہے.پھر اس پودے کی نگہداشت رکھتے ہوئے اسے مضبوط تنے پر کھڑا کرنا ہے، تب جا کر یہ ثمر آور درخت بنے گا، پھل دینے والا درخت بنے گا جو فائدہ پہنچائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو تمام اعمال اور اخلاق کے جامع ہوتے ہیں وہی متقی
خطبات مسرور جلد پنجم 340 خطبہ جمعہ 17 اگست 2007 ء کہلاتے ہیں.فرمایا کہ اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہو تو اسے متقی نہیں کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں.کسی ایک نیکی کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو نیک نہ سمجھے تقویٰ پر قدم مارنے والا نہیں جب تک تمام اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں.پس ایک تو یہ بات ہر وقت ہر احمدی کو ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے تمام نیکیوں کو اختیار کرنا اور ان میں بڑھتے چلے جانا ضروری ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کا دوست ہے اس لئے ان کی حفاظت فرماتا ہے اور کافر اس لئے تباہ ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں.اب اس مدد کو اور رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا کہ صرف دوست نہیں ہے اور صرف حفاظت ہی نہیں کرتا بلکہ مومنوں کو یہ ضمانت ہے کہ مومنوں کو کافروں پر فوقیت ہو گی.اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے ایسے سامان پیدا فرمائے گا کہ جیت یقیناً مومنوں کی ہوگی ، غلبہ یقیناً تمہارا ہوگا.مخالفین کی کثرت سے ان کے ساز و سامان سے، ان کے مکروں سے، ان کی حکومتوں سے تم پریشان نہ ہو.ان کے حملے تمہارے ایمانوں میں کمزوری پیدا نہ کریں.یاد رکھو کہ دشمنوں کے جتھے تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ انبیاء اور مومنین کی جماعت ہی آخر کار غالب آتی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے ذریعوں سے دشمن کی تباہی کے سامان کرتا ہے جو ایک عام آدمی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا.جنگ بدر کے ذکر میں اللہ فرماتا ہے کہ اس وقت تمہاری کیا حیثیت تھی.آنحضرت ﷺ تڑپ تڑپ کر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کر رہے تھے کہ اگر آج مومنین کی چھوٹی سی جماعت ختم ہوگئی تو پھر اے اللہ ! تیرا نام لیوا اس دنیا میں کوئی نہیں ہوگا اور اس جنگ میں ساز وسامان اور تعداد کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی اور کفار کی کوئی نسبت ہی نہیں تھی.لیکن نتیجہ کیا نکلا.ان دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے جو آنحضرت ﷺ نے کیں اور مومنین کے ایمان کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور کفار کی اس کثرت کو بے بس اور مغلوب کر دیا.ہر طرف ان کی لاشیں بکھری پڑی تھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمُ (الانفال : 18) یعنی یا درکھو کا فروں کو تم نے نہیں مارا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مارا تھا اور پھر آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رمى (الانفال: 18) کہ جب تم نے مٹھی بھر کنکر پھینکے تھے تو تو نے نہیں پھینکے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکے تھے.پس اس جنگ میں کافروں کو ذلیل و خوار کر دیا.وہ جو مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے آئے تھے کہ آج مٹھی بھر مسلمان ہیں ان کو ختم کر دیں گے خود نہایت ذلیل و خوار ہو کر گئے.اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دلائی کہ یہ میری مدد کی اور اس وعدے کی (کہ غلبہ انشاء اللہ تمہارا ہے ) ایک جھلک ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 341 خطبہ جمعہ 17 اگست 2007 ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَ كُمُ الْفَتْحُ وَإِنْ تَنْتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِنْ تَعُودُوا نَعُدْ.وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِتَتْكُمُ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ.وَاَنَّ اللهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ (الانفال : (20) پس اے مومنو! اگر تم فتح طلب کیا کرتے تھے تو فتح تو تمہارے پاس آگئی اور اے منکر و اب بھی اگر تم باز آ جاؤ تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم شرارت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی عذاب کا اعادہ کریں گے اور تمہارا جتھہ تمہارے کسی کام نہ آئے گا خواہ کتنا ہی زیادہ ہوا اور یہ جان لو کہ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے.پس فتح کا یہ نشان اس زمانے میں یقینا مومنوں کے ایمان میں مضبوطی قائم کرنے والا بنا.صحابہ کے ایمان مضبوط ہوئے اور یہ بات قرآن کریم میں فرما کر مومنوں کو اور خاص طور پر آخرین کو جنہوں نے مسیح و مہدی کو مانا ہمیشہ کے لئے تسلی دلا دی کہ اللہ کی مدد ہمیشہ مومنوں کے ساتھ ہے اس لئے تم مخالفین کے جتھے اور کثرت سے نہ ڈرو.ان کی حکومتوں سے نہ ڈرو، ان کی تدبیروں سے نہ ڈرو بلکہ اعلان کرو کہ تمہاری کثرت تمہارے یہ سب مکر و فریب اور یہ سب کوششیں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں الہام فرما کر تسلی دلائی.کئی دفعہ یہ الہام ہوا ہے کہ يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.( تذکرہ صفحہ 35 ایڈیشن چہارم مطبوعه ربوہ ) کچھ حصے میں نے پڑھے ہیں.کہ اے احمد! اللہ تعالیٰ نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے.جو کچھ تو نے چلایا وہ تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا تعالیٰ نے چلایا ہے.کہہ کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہوں.پس اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ اعلان کروانا یقینا اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ آخری فتح آپ کی جماعت کی ہوگی.آپ کی زندگی میں بھی انتہائی مشکل حالات آئے ، ان کا سامنا آپ کو کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپ کو کامیاب فرمایا.آپ کی حفاظت فرمائی ، آپ کی مدد فرمائی.آپ کے بعد مومنین کی جماعت پر بھی بڑے شدید حالات آئے اور ہم نے ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے دیکھے.پس یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا سلوک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کی دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ہر فرد کو اس یقین پر قائم رہنا چاہئے کہ یقیناً خدا تعالیٰ کی تائیدات آپ کے ساتھ اور آپ کی جماعت کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ جو ہوا ئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی کامیابی کے لئے چلا رہا ہے اسے اب کوئی نہیں روک سکتا.اگر اللہ تعالیٰ پہلے مومنین کوفتوحات نصیب کرتا آیا ہے اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہا ہے تو آج بھی وہ سچے وعدوں والا خدا مومنین کے ساتھ ہے اور احمدیت کے غلبہ کو اب کوئی نہیں روک سکتا.لیکن اس بات کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فتح دکھائی اور آئندہ بھی دکھائے گا اور وہ مومنوں کے
خطبات مسرور جلد پنجم 342 خطبہ جمعہ 17 راگست 2007 ء ساتھ ہے اور کا فرذلیل وخوار ہوں گے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی کامل اطاعت کرو اور کسی کے حکم سے منہ نہ پھیرو.یہ بات پھر ایمان میں مضبوطی پیدا کرے گی اور تم خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھتے چلے جاؤ گے.یہ فتح کے وعدے مومنین کے ساتھ ہیں، کامل اطاعت گزاروں کے ساتھ ہیں، جماعت کی لڑی میں پروئے جانے والوں اور خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے والوں کے ساتھ ہیں.پس اللہ اور رسول کی کامل اطاعت کرنے والے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان دعاؤں کے جو آپ نے جماعت کے حق میں کی ہیں حصہ دار بنیں گے، ان دعاؤں کے وارث بنیں گے.اور اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اور تائید اور حفاظت کے وعدے ان سب کے حق میں پورے ہوں گے جو حقیقی مومن ہیں.اللہ تعالیٰ ہر موقع پر جب بھی ضرورت ہوگی مومنین کی مدد کو آئے گا جیسا کہ ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور ان کے دشمن کو جو جماعت کو نقصان پہنچانا چاہیں گے ہمیشہ خائب و خاسر کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک جگہ حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسا جھپٹ کر آتا ہے جیسا ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھنے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 438 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس رسوائی اور نا کا می حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین کا مقدر ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ خدا آپ کی جماعت کے ساتھ ہے.اگر ہم تقویٰ اور ایمان کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں گے تو اپنی زندگی میں یہ فتوحات اور غلبہ کے نظارے دیکھیں گے.پس اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اور اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے ہوئے یہ معیار قائم کرنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس پر با قاعدگی سے کوشش کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ان انعاموں کا وارث بنائے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:.انشاء اللہ تعالیٰ میں جرمنی کے سفر پر جا رہا ہوں.اس مہینہ کے آخر میں وہاں ان کا جلسہ سالانہ ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ اس سفر کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور بے انتہا فضلوں سے ہر آن نواز تار ہے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 7 تا 13 ستمبر 2007 ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 343 34 خطبہ جمعہ 24 راگست 2007 ء فرمودہ مورخہ 24 اگست 2007 (24 رظہور 1386 ہجری شمسی بمقام نن سپیسٹ.(ہالینڈ) تشہد ، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی: أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيَاتِ اَنْ يُخْسِفَ اللهُ بِهِمُ الْأَرْضَ اَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ (النحل: 46) آج مادیت کی وجہ سے، مادیت پسندی کی وجہ سے انسان بعض اخلاقی قدروں سے دُور، مذہب سے دُور اور خدا سے دُور جا رہا ہے اور بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ تمام وہ نعمتیں اور وہ چیزیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے انہیں انسان کے تابع کیا ہوا ہے اور پھر اس اشرف المخلوقات کو جو دماغ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے وہ نت نئی ایجادیں کر کے اپنی سہولت اور حفاظت کے سامان کر رہا ہے.پس یہ بات ایسی ہے کہ جو انسان کو اس بات کی طرف توجہ دلانے والی بنی چاہئے کہ وہ اپنے خدا کا شکر گزار بنے ، اپنے مقصد پیدائش کو سمجھے ، جو کہ اس خدائے واحد کی عبادت کرنا ہے جس نے یہ سب نعمتیں مہیا کی ہیں، جس نے یہ تمام نظام پیدا کیا اور انسان کی خدمت پر لگایا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو نہ صرف سمجھتے نہیں بلکہ اس کے خلاف چل رہے ہیں اور مادیت پسندی اور مادیت پرستی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ نہ صرف مذہب سے تعلق نہیں رہا بلکہ مذہب کا مذاق اڑانے والے بن رہے ہیں، انبیاء کے ساتھ استہزاء کرنے والے ہیں اور ایسا طبقہ بھی ہے جو خدا کے وجود کا نہ صرف انکاری ہے بلکہ مذاق اڑانے والا ہے.خدا سے انکار کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے، بڑی پسندیدہ کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے.یورپ اور مغرب میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو خدا سے دُور جارہے ہیں جو اس قسم کا بیہودہ لٹریچر پیدا کر رہے ہیں اور ایسے پیدا کردہ لٹریچر کو پسند کرنے والے ہیں اور اس بات میں یہ لوگ اس لحاظ سے مجبور ہیں ان کی بیچارگی بھی ہے کہ ان کو ان کے مذہب نے دل کی تسلی نہیں دی.ایک خدا کی بجائے جو سب طاقتوں کا سرچشمہ اور ہر چیز کا خالق ہے، اس کو چھوڑ کر جب یہ لوگ ادھر ادھر بھٹکتے ہیں اور کئی خداؤں کے تصور کو جگہ دیتے ہیں، دعا کے فلسفے اور دعا کے معجزہ سے نا آشنا ہیں اور زندہ خدا کے تعلق سے
344 خطبہ جمعہ 24 اگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم نا آشنا ہیں.تو پھر ظاہر ہے کہ یہ جو ایسے لوگ سوچتے ہیں ان سوچنے والے ذہنوں کو خدا اور مذہب کے بارے میں یہ بات بے چینی میں بڑھاتی ہے کہ تصور تو مذہب کا ہے لیکن ہمیں کچھ حاصل نہیں ہورہا.یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ایک خدا کو بھول گئے ہیں اور یہی چیز ان کو مذہب سے دور لے جارہی ہے، جیسا کہ میں نے کہا، بعض اس میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ خدا کے تصور سے ہی انکاری ہیں اور صرف انکاری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر استہزاء آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں.پھر ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کے بغض اور کینے میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہر روز اسلام، بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ اور قرآن کریم پر نئے سے نئے انداز میں حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں.قرآن اور آنحضرت ﷺ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا قرآن کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں.تو بہر حال یہ لوگ اور پہلی قسم کے لوگ جو میں نے بتائے جو مذہب سے دور ہٹے ہوئے ہیں اور خدا کے تصور کو نہ ماننے والے ہیں یہ بھی تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ان سب کو نظر آ رہا ہے کہ مذہب کا اور خدا کی ذات کا صحیح تصور پیش کرنے والی اگر کوئی تعلیم ہے تو اب صرف اور صرف اسلام کی تعلیم ہے ، قرآن کریم کی تعلیم ہے.بعض سے تو اسلام اور آنحضرت ﷺ سے بغض اور کینے کا اظہار اس قدر ہوتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں ، ان پڑھی لکھی قوموں میں ، مغرب میں، جو اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ اور آزادی کا علمبر دار اور دوسروں کے معاملے میں دخل نہ دینے کا دعوی کرنے والے ہیں یہاں ایسے لوگ ہیں جو تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں اور اسلام دشمنی نے ان کو بالکل اندھا کر دیا ہے.گزشتہ دنوں یہاں ایک سیاسی لیڈر جن کا نام خیرت ولڈ رز (Geert Wilders) تھا انہوں نے ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے اپنے دل کے بغض اور کینے کا اظہار کیا ہے.ان کی ہرزہ سرائی آپ میں سے بہت سوں نے سنی ہوگی.دنیا کو بھی پتہ لگے، لکھتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ سچائی کو خود دیکھیں.ان لوگوں کی یہ بڑی دجالی چالیس ہوتی ہیں.پھر کہتے ہیں کہ اس بات کا آغاز محمد ﷺ سے شروع ہوتا ہے جس طرح اکثر مسلمان ان کی محبت بھری شخصیت کی خاکہ کشی کرتے ہیں حقیقت میں وہ ویسے نہیں تھے.جب تک وہ مکہ میں رہے اور یہاں پر بھی صرف قرآن کے کچھ حصے وجود میں آئے اس وقت تک تو ان کی شخصیت میں محبت تھی لیکن جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی گئی اور خاص طور پر مدینے میں رہائش کے زمانے میں وہ بتدریج تشدد آمیز طبیعت کی طرف مائل ہوتے گئے (نعوذ باللہ ).پھر لکھتے ہیں کہ سورۃ 9 آیت 5 میں آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح عیسائیوں، یہودیوں اور مرتدوں کے خلاف تشدد پر اکسایا گیا ہے.اکثر آیات ایک دوسرے کی ضد ہیں.پھر بائبل کی تعریف کی ہے.خیر اس کا ایک علیحدہ موضوع ہے، میں نہیں چھیڑتا.
خطبات مسرور جلد پنجم 345 خطبہ جمعہ 24 /اگست 2007 ء پھر لکھتے ہیں قرآن میں حکومت اور مذہب کی علیحدگی کا کوئی تصور نہیں ہے، اس سے آپ انکار نہیں کر سکتے کہ نہ صرف محمد (نعوذ باللہ ) ایک تشدد پسند شخصیت تھے بلکہ قرآن خود بھی متشددانہ خیالات پر مبنی کتاب ہے.پھر ایک اور اخبار میں لکھتا ہے کہ میں خدا کی عبادت کا سن سن کر تنگ آ گیا ہوں ، اخبار میں بیان دیتے ہوئے خیرت ولڈ رز (Geert Wilders) نے صرف قرآن پر پابندی لگانے کا ہی مطالبہ نہیں کیا بلکہ سیاسی رہنماؤں پر بھی تنقید کی کہ دہشت گرد مسلمانوں کو ملک میں جگہ دے رہے ہیں یعنی یہ بے چارے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ میں اسلام سے تنگ آ گیا ہوں اب کوئی مسلمان یہاں ہجرت کر کے نہیں آنا چاہئے ہمیں ہالینڈ میں اللہ کی عبادت کا سن سن کر بھر چکا ہوں، ہمیں ہالینڈ میں قرآن کے تذکرے سے تنگ آ گیا ہوں، نعوذ باللہ اس فاشسٹ (Fascist) کتاب پر پابندی لگائی جائے.فاشزم کا اظہار تو یہ خود کر رہے ہیں.اب آنحضرت ﷺ پر انہوں نے پہلا اعتراض کیا ہے کہ جس طرح عمر بڑھتی گئی نعوذ باللہ تنشد و آمیز طبیعت کی طرف مائل ہوتے گئے ، صاف ظاہر ہے کہ بغض اور کینے نے انہیں اتنا اندھا کر دیا ہے کہ قرآن پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور قرآن کو یہ لوگ ویسے بھی پڑھتے ہی نہیں، ادھر اُدھر سے سنی سنائی باتیں کرتے ہیں اور قرآن تو خیر کیا پڑھنا تھا، یہ تاریخ کو بھی مسخ کر رہے ہیں.جو ان سے بہت زیادہ علم رکھنے والے عیسائی تھے وہ بھی جو اعتراض نہیں کر سکے انہوں نے وہ اعتراض بھی کر دیا.پتہ نہیں کہاں کہاں سے یہ اعتراض ڈھونڈ نکالے ہیں.سورۃ مائدہ نہ صرف مدنی سورۃ ہے بلکہ اس بارے میں ساری روایتیں یہی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے آخری سال میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس میں دشمنی اور تشد دکو ختم کرنے کی اور انصاف قائم کرنے کی کیا ہی خوبصورت تعلیم ہے.یہ کہتے ہیں کہ مدینے میں آکر تشد د کی تعلیم بڑھ گئی.یہ آخری سورۃ جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں نازل ہوئی اس کی تعلیم کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (سورة المائدة آيت (9) که کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو تم انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے.اب یہ دکھائیں، یہ خوبصورت تعلیم ان کے یا کسی اور مذہب میں کہاں ہے.لیکن جن کو بغض اور کینے نے اندھا کر دیا ہو، ان کو سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی.اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی فرما دیا ہے کہ جو اندھے ہیں ان کو تم نے راستہ کیا دکھانا ہے، ان کو تم نے روشنی کیا دکھانی ہے، کوشش کر لو نہیں دکھا سکتے.پھر یہ صاحب کہتے ہیں کہ سورۃ توبہ کی آیت 5 میں عیسائیوں ، یہودیوں اور مرتدوں کے خلاف تشدد پر اکسایا ہے.اگر آنکھوں کے پردے اتار کر دیکھیں، قرآن کریم کو صاف دل ہو کر پڑھیں تو خود ان کو نظر آئے گا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین سے جنگ کی اجازت دی ہے جو باز نہیں آتے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کر رہے ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں.اور اب جبکہ اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو حکم ہے کہ ایسے مشرکین سے جو تم سے جنگ کر
خطبات مسرور جلد پنجم 346 خطبہ جمعہ 24 اگست 2007 ء رہے ہیں تم بھی جنگ کرو کیونکہ وہ تمہارے خلاف فتنہ فساد اور جنگ کی آگ بھڑکا رہے ہیں مختلف قبائل کو بھی بھڑ کا رہے ہیں اور صرف یہی نہیں جس طرح یہ فرماتے ہیں کہ سب کو قتل کر دینا ہے بلکہ اس میں قید کا بھی حکم ہے کہ قید کرو، ان کو محصور کرو، ان پر نظر رکھو، تا کہ وہ ملک میں فتنہ وفساد کی آگ نہ بھڑ کا ئیں.اگر خیرت ولڈرز (Geert Wilders) صاحب کے نزدیک ایسی صورت میں بھی کھلی چھٹی ہونی چاہئے ، اگر ہر ایک کو اجازت ہے تو پھر یہ اپنے ملک میں پہلے سیاسی لیڈر ہیں جو تمام مجرموں کو کھلی چھٹی دلوانے کے لئے قانون پاس کروائیں گے کہ ہر کوئی جو چاہے کرتا پھرے.یہ مجرم کسی خاص مذہب کے نہیں ہوں گے.مجرم تو ہر قوم اور ہر مذہب میں ہیں پھر صرف مسلمانوں کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں جو امن سے ملک میں رہ رہے ہیں، جو ملک کے قانون کی پابندی کر رہے ہیں.اور آخر پر اپنے کینے کا اظہار اس طرح کر دیا کہ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اصل میں تو یہ صاحب خدا تعالیٰ کے خلاف ہیں ، اسلام کے زندہ اور واحد خدا کے خلاف ہیں.کیونکہ ان کو یہ نظر آ رہا ہے کہ یہی ایک ایسا دین ہے جو دلیل سے ہر ایک کا منہ بند کرنے والا ہے اس لئے دلیل سے کام نہیں بنے گا، وہ تو ان کے پاس ہے نہیں ، ملک کے قانون پاس کر کے سختی سے کام کرو تو پھر ہی بات بنے گی.تو یہی ہارے ہوؤں کی نشانی ہوتی ہے.خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم ہار گئے.ہالینڈ میں وقتا فوقتا اسلام کے خلاف باتیں اٹھتی رہتی ہیں، ابال اٹھتارہتا ہے.عورتوں کے پردے کے بارے میں اٹھا اور کبھی کسی معاملے میں اٹھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام ڈچ قوم ایسی ہے، شرفاء بھی ان میں ہیں، لیڈرز میں بھی اچھے لوگ ہیں، مختلف قسم کے لوگوں میں اچھے لوگ ہیں اور انہوں نے اس بات پر جو قرآن کریم کے بارے میں انہوں نے کی اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں کی ، رد عمل کا اظہار بھی کیا ہے، ان کے ایک ممبر پارلیمنٹ ہیں ہالبے زائل سترا (Helbe Zelstra) یا جو بھی نام ہے یہ اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ آپ کو مذہبی آزادی سلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے.پھر براؤن داکسل بلوم (Jeroen Dijselbloem) لکھتے ہیں کہ ولڈرز (Wilders) اپنے راستہ سے بھٹک گیا ہے.ہالینڈ میں آپ جس طرح کے عقیدے پر ایمان رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں.ایک اور پارٹی کے لیڈر نے لکھا (یہ ممبر پارلیمنٹ ہیں ) کہ تمام حدود کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے، ولڈرز (Wilders) کو ایک ریشسٹ (Raciest) کا نام دینا چاہئے.پھر ایک وکیل جو کو نسلر رہے ہیں ، انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اس کی اس حرکت پر پولیس میں کیس درج کروایا ہے.ایک خاتون نے بھی اس کی بات کو ر ڈ کیا ہے.اسی طرح ایک نے لکھا کہ کتابوں پر پابندی لگانا دراصل ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہے.یہاں کی کابینہ نے بھی ولدرز (Wilders) کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات دے کر ہالینڈ میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کی بے عزتی کی گئی ہے.وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ ہالینڈ میں قرآن پر پابندی کا کوئی خیال نہیں.بہر حال یہاں شرفاء بھی ہیں اور اس قسم کے لوگ بھی ہیں.
347 خطبہ جمعہ 24 /اگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ہر احمدی کا فرض ہے کہ جہاں مخالفین کے اعتراض کو رڈ کریں، ان کو جواب دیں وہاں ان شرفاء کا شکر یہ بھی ادا کریں جو ابھی تک اخلاقی قدریں رکھے ہوئے ہیں.اُن تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچائیں.ان کے اندر جو نیک فطرت اور انصاف پسند انسان ہے، اس کو ایک خدا کا پیغام پہنچائیں.آج دنیا میں جو ہر طرف افراتفری ہے اس کی وجوہات بتائیں کہ تم لوگ خدا سے دور جا رہے ہو، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو ، ان میں بھی ایک خدا کا پیغام پہنچائیں ان کو بتائیں کہ دل کا چین اور سکون دنیا کی چکا چوند اور لہو و لعب میں نہیں ہے، نفقہ میں نہیں ہے.دلی سکون کے لئے یہاں کے لوگ نشہ کی بہت آڑ لیتے ہیں ، ہر قسم کا نشہ کرتے ہیں.ان کو بتا ئیں کہ اصل سکون خدا کی طرف آنے میں ہے، اس لئے اس خدا کو پہچا نو جو واحد اور تمام قدرتوں کا مالک ہے.جولوگ حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور مذہب سے دور جانے والے ہیں یا مذ ہب اور خاص طور پر اسلام سے استہزاء کرنے والے ہیں، ان کے پیچھے نہ چلو.اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کی پکڑ بھی کرتا ہے، ولڈرز (Wilders) جیسے لوگوں کو بھی بتائیں کہ اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دو، اور اللہ کی غیرت کو نہ بھڑ کا ؤ.آج کل جو یہ طوفان اور زلزلے دنیا میں آرہے ہیں، پانی کے طوفان ہیں، کہیں ہواؤں کے طوفان ہیں، کہیں زلزلے آ رہے ہیں.یہ وارننگز ہیں کہ حد سے زیادہ بڑھنے والے اس کی لپیٹ میں بھی آسکتے ہیں، کوئی دنیا کا ملک محفوظ نہیں ہے، کوئی دنیا کا شخص محفوظ نہیں ہے.ہالینڈ تو ویسے بھی ایسا ملک ہے جس کا اکثر حصہ سمندر سے نکالا ہوا ہے، طوفان تو بلندیوں اور پہاڑوں کو بھی نہیں چھوڑتے ، یہ تو برابر کی جگہ ہے بلکہ بعض جگہ نیچی بھی ہے.1953ء میں یہاں طوفان آیا تھا جس نے بڑی آبادی کو نقصان پہنچایا تھا اس کے بعد ان لوگوں نے ، یہاں کی حکومت نے بچاؤ کے لئے ایک بڑا منصوبہ بنایا جس میں دریاؤں کے منہ پر سمندر میں بہت سارے بند باندھے گئے، روکیں بنائی گئیں، ڈیم بنائے گئے ، یہ منصوبہ جہاں مختلف جگہوں پر ہے ڈیلٹا ورکس کہلاتا ہے، ہمیں بھی اسے دیکھنے گیا تھا، یہ ایک اچھی انسانی کوشش ہے لیکن دنیا میں آج کل جس طرح طوفان آرہے ہیں، کوئی بھی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے.ہمارے ساتھ وہاں گائیڈ تھا، مجھے کہنے لگا کہ اس کی وجہ سے ہم نے آئندہ کے لئے ہالینڈ کو محفوظ کر دیا ہے.تو میں نے اس سے کہا کہ یہ کہو کہ محفوظ کرنے کی جو بہترین کوشش ہو سکتی تھی ہم نے کی ہے.اصل تو خدا جانتا ہے کہ کب تک کے لئے تم نے اس کو محفوظ کیا ہے، اور کب تک یہ حفاظت رہے گی.کہنے لگا کہ بالکل ٹھیک ہے.اس کے بعد جتنی دیر بھی وہ مجھے تفصیل بتا تا رہا، ہر فقرے کے ساتھ یہی کہتا تھا کہ یہ کوشش ہے، کیونکہ ایسے طوفان عموماً 200 سال بعد آتے ہیں.لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب طوفان آئے اور کس حد تک یہ محفوظ رہ سکے.بہر حال اس دوران میں جب بھی وہ مجھے کوئی تفصیل بتا رہا تھا، کم از کم چار پانچ مرتبہ اس نے خدا کی خدائی کا اقرار کیا اور بیان کیا کہ ہاں اگر اللہ محفوظ رکھے تو ہم رہ سکتے ہیں.تو یہاں ایسے لوگ ہیں جن کو اگر سمجھایا جائے تو ایک خدا کا تصور فوراً بھرتا
خطبات مسرور جلد پنجم 348 خطبہ جمعہ 24 /اگست 2007 ء ہے.آفت میں گھرے ہوں تو اللہ کہتا ہے کہ اس وقت میرا نام ہی لیتے ہیں اور کوئی خدا یاد نہیں آتا.اس نے مجھے کہا کہ وزیٹرز بک (Visitor's Book) پر اپنے تاثرات لکھ دو، دستخط کرو تو میں نے اس پر یہی لکھا کہ یہ ایک اچھی انسانی کوشش ہے اور کوشش کے لحاظ سے ایک زبر دست منصوبہ ہے جو ملک کو بچانے کے لئے انجینئرز نے بنایا ہے.لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصل منصو بے خدا تعالیٰ کے ہیں اور حقیقی حفاظت میں رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ رہنی چاہئے.تو بہر حال آج کل دنیا جس مادیت پرستی میں پڑی ہوئی ہے ، اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے، مغرب بھی اسی طرح ہے اور مشرق بھی اسی طرح ہے ، سب خدا کو بھولے ہوئے ہیں.پھر بعض طبقے جو مزید آگے بڑھے ہوئے ہیں وہ پھر اللہ تعالیٰ کی غیرت کو بھڑ کانے والے بھی ہیں ، نہ صرف بھولے ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بیہودہ گوئی بھی کرتے ہیں.یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کے عذاب کو آواز دینے والی ہیں.پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اتمام حجت کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائے.اسلام کی صحیح تصویر دنیا کو دکھا ئیں.عیسائیوں کو بھی، یہودیوں کو بھی ، لا مذہبوں کو بھی اور مسلمانوں کو بھی جو تمام نشانات دیکھنے کے با وجود مسیح موعود کا انکار کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی ، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 268 مطبوعہ لندن) گزشتہ 100 سال کا جائزہ لیں تو زلزلوں اور آسمانی آفات کی تعداد گزشتہ کئی 100 سال سے زیادہ ہے.گزشتہ گیارہ بارہ سو سال میں اتنی آفات نہیں آئیں جتنی گزشتہ 100 سال میں آئی ہیں.اس سال بھی کئی زلزلے اور طوفان آئے اور دنیا میں کئی جگہ آئے ، یہ انسان کو وارننگ ہے کہ خدا کو پہچانو.ہر احمدی کا کام ہے کہ جہاں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے دنیا کو بھی بتائے کہ ان آفات سے بچنے کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ایک خدا کو پہچا نو اور اس کے پیاروں کو ہنسی ٹھٹھے کا نشانہ نہ بناؤ.ساری دنیا میں اس سال چند مہینوں میں جو قدرتی آفات آئی ہیں، ان کا مختصر جائزہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں ،کبھی یہ نہیں ہوا کہ چند ماہ میں دنیا کا ہر خطہ کسی نہ کسی آفت کی لپیٹ میں آ گیا ہو لیکن اس سال آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ آفات آ رہی ہیں.ان کو بتائیں کہ اب بھی وقت ہے کہ انسان خدا کو پہچانے.یہ چھوٹے درجہ کی جو آفات ہیں یہ انتہائی درجہ کی بھی ہو سکتی ہیں.پس ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر دنیا تک خدا کا پیغام پہنچانے والا بن جائے.میں نے جو معلومات لی تھیں، پتہ نہیں ی کمل بھی ہیں کہ نہیں لیکن اس کے مطابق اس سال فروری میں انڈو نیشیا میں Floods آئے ، 3لاکھ چالیس ہزار آدمی
349 خطبہ جمعہ 24 راگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم گھروں سے بے گھر ہو گئے.پھر 2 زلزلے آئے 6.4 اور 6.3 ریکٹر سکیل میں میگنی چیوڈ تھا.پھر چند گھنٹوں کے وقفے سے انڈونیشیا، سماٹرا میں زلزلہ آیا.پھر سولومن آئی لینڈز پیسیفک میں زلزلہ آیا، بہت بڑا زلزلہ تھا، بڑی تباہی پھیلائی اور ہزاروں آدمی بے گھر ہو گئے.ریکٹر سکیل پر 8.1 میگنی چیوڈ تھا.پھر پاکستان میں Floods آئے، کراچی میں بارشوں سے بے تحاشا Floods آئے.ہزاروں آدمی بے گھر ہو گئے کئی مرے، کہتے ہیں کہ بلوچستان میں تقریباً 25 لاکھ آدمی متاثر ہوئے.80 ہزار گھر تباہ ہو گئے ، ساڑھے 6 ہزار گاؤں برباد ہو گئے.پھر جون میں پاکستان میں سائیکلون (Cyclone) کا خطرہ تھا، بہر حال وہ مل گیا لیکن دوسری طرف بلوچستان کی طرف چلا گیا ، وہاں تباہی پھیلائی.پھر جون میں بنگلہ دیش میں ایک بہت بڑا طوفان آیا جس سے بڑی تباہی ہوئی.پھر جولائی میں انڈیا میں Floods آئے ، پھر جولائی میں یو کے میں بھی Floods آئے اور آدھا یو کے ڈوب گیا اس سے پہلے جو طوفان آ چکے ہیں اس سے جرمنی وغیرہ ہر جگہ متاثر ہوئے تھے.پھر پاکستان میں آسمانی بجلی گرنے سے بڑی تباہی ہوئی، پھر جاپان میں زلزلہ آیا اس کا بھی 6.8 میگنی چیوڈ تھا.پھر اگست میں امریکہ میں طوفان آئے ، کئی عمارتیں گر گئیں ، کافی تباہی ہوئی.چین میں پل گر گئے جو طوفان سے Collapse ہوئے اور کافی تباہی ہوئی.نارتھ کوریا میں بارشوں اور Flood سے تباہی ہوئی.پھر پیرو میں زلزلہ آیا، اس نے بڑی تباہی مچائی.پاکستان میں اس کے بعد پھر دوبارہ Floods آئے تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے بارہ میں میں نے مختصر بتایا ہے، یہ توجہ دلانے والی ہیں.آسٹریلیا میں طوفان سے بڑی تباہی آئی ، ان کی بڑی بڑی موٹر ویز ڈوب گئیں ، بلکہ بہ گئیں جس کا وہاں تصویر نہیں تھا.پھر برکینا فاسو افریقہ میں پچھلے دنوں بارش ہوئی ، خوفناک تباہی آئی، دو لاکھ آدمی متاثر ہوئے.پھر ہوائی (Hawai) میں ہریکین (Hurricane) سے تباہی آئی اور ساتھ زلزلہ بھی آیا اور وہ کہتے ہیں ہوائی میں اس قسم کے طوفانوں اور زلزلوں کا بہت کم امکان ہوتا ہے.پھر بحیرہ عرب (Arabian Sea) میں طوفان آیا ، کہتے ہیں دوسرے سمندروں میں تو ایسا طوفان آتا ہے، لیکن اس قسم کا طوفان بحیرہ عرب میں کبھی نہیں آتا.وہی طوفان خشکی پر بھی چڑھ سکتا تھا جس کو ٹراپیکل سائیکلون (Tropical Cyclone) کہتے ہیں.البامہ (Alabama) میں طوفان آیا، پہلے وارننگ تھی ، انہوں نے بڑی تیاری کی تھی ، اس کے باوجود اس نے بڑی تباہی پھیلائی.کہتے ہیں کہ اس میں ایک ہائی سکول کی ایک عمارت گر گئی ، عمارت میں لوگوں نے پناہ لی ہوئی تھی ، دوسری جگہ پناہ لی تو وہ عمارت تباہ ہو گئی اور اس طرح بہت ساری عمارتیں تباہ ہو گئیں.جہاں لوگ پناہ لیتے تھے اسی کو یہ ٹارنینڈو ( Tornado) اڑا کر لے جاتا تھا.اسی طرح جنوبی افریقہ میں بھی بڑا طوفان آیا.یہ ساری چیزیں بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کر رہی ہے اور انسان کو اس طرف توجہ دلا رہی ہے کہ ایک خدا کی پہچان کرو اور حد سے آگے نہ بڑھو، انبیاء کا اور خدا کا استہزاء نہ کرو.یہ آیت جوئیں نے تلاوت کی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا وہ لوگ جنہوں نے بُری تدبیریں کیں امن میں ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان کے پاس عذاب وہاں سے آ جائے
350 خطبہ جمعہ 24 راگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم جہاں سے وہ گمان نہ کرتے ہوں.تو اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ بُری تدبیر کرنے والے اللہ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے ہیں.جب یہ لوگ حد سے بڑھتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی چکی چلتی ہے.پس یہ بظاہر جو چھوٹے چھوٹے طوفان اور زلزلے ایک تسلسل کے ساتھ اس سال دنیا میں آئے ہیں ، ان سے عبرت حاصل کرنی چاہئے.مغرب کو بھی اور مشرق کو بھی اور ہر مذہب والے کو بھی.مسلمانوں کو بھی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی.اس بات کو سوچیں اور وجہ تلاش کریں کہ کیوں خدا کا عذاب بھڑ کا ہے.آواز دینے والے کی اس آواز پر غور کریں ، جو آپ نے فرمایا تھا کہ میں نہ آیا ہوتا تو بلاؤں میں تاخیر ہو جاتی.پس اگر ان بلاؤں سے بچنا ہے تو اس آنے والے کی آواز پر مسلمانوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور عیسائیوں کو بھی غور کرنا ہو گا اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی غور کرنا ہوگا اور لامذہب والوں کو بھی غور کرنا ہوگا.ورنہ پھر آواز دینے والے کا یہ اعلان بھی ہے کہ : ”اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں اور اسے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے پ رہا.مگر اب وہ ہیت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں.پھر آپ فرماتے ہیں: ” خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ.اور وہ چپ ر (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 269 مطبوعہ لندن) پس یہ پیغام ہے جو آج ہر احمدی نے دنیا میں، دنیا کی بقا کے لئے ، دنیا کو بچانے کے لئے دینا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی خدا کی حقیقی پہچان کی توفیق دے اور دنیا کو بھی اس واحد خدا کی پہچان کرانے والا بنائے تا اس واحد اور یگانہ خدا کے عذاب کی بجائے ہم اس کے رحم کو حاصل کرنے والے بن سکیں.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 14 تا 20 ستمبر 2007 ء ص 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد پنجم 351 35 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء فرموده مورخه 31 راگست 2007 (بمطابق 31 ظهور 1386 ہجری شمسی) بمقام مئی مارکیٹ ،منہا ئیم (جرمنی) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج اس خطبہ کے ساتھ ہی جماعت احمد یہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.ہم پر اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا انعام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر مایا کہ سال میں ایک دفعہ ہم جمع ہو کر اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے سامان بہم پہنچائیں.ایسے پروگرام بنا ئیں جو ہمیں خدا تعالیٰ سے قریب کرنے والے اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہوں.اس ارادے اور اس نیت سے یہ دن گزاریں کہ ہم نے اعلیٰ اخلاق اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں.آپس میں محبت، پیار اور تعلق کو بڑھانا ہے، رنجشوں کو دور کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی ہے، ہر قسم کی لغویات سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے.بظاہر یہ چند باتیں ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے بیان فرمایا.لیکن یہی باتیں ہیں جو انسان کے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والی ہیں.پس جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس جلسہ میں شامل ہونا اپنے اندر ایک بہت بڑا مقصد رکھتا ہے.اگر خدا کی رضا کے حصول کی کوشش نہیں ہو رہی ، اگر تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں ہورہی، اگر اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے بندوں کے حقوق ادا نہیں ہور ہے تو پھر جلسہ پر آنے کا مقصد پورا نہیں ہورہا اور اگر یہ مقصد پورا نہیں کرنا تو پھر اس جلسہ پر آنے کا فائدہ بھی کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ئیں بھی صرف انہی کے حق میں پوری ہوں گی جو اس مقصد کو سمجھ رہے ہوں گے ، اس غرض کو سمجھ رہے ہوں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ کا اجراء فرمایا تھا.آپ فرماتے ہیں کہ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے پیر زادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں.بلکہ وہ علت غائی یعنی وہ بنیادی وجہ وہ مقصد ” جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں، اصلاح خلق اللہ ہے.پس ہر احمدی جو دنیا میں کسی بھی جگہ بسنے والا ہے.جب اپنے ملک کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوتا ہے یا اب بعض ذرائع اور سہولتوں کی وجہ سے بعض احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے آسانی اور وسائل مہیا فرمائے ہوئے ہیں دوسرے ممالک کے جلسوں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں.( یہاں بھی اس وقت بہت سے مختلف ممالک سے بعض احمدی آئے
خطبات مسرور جلد پنجم 352 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء ہوئے ہیں جو جلسہ میں شمولیت کی نیت سے آئے ہیں).ان سب شامل ہونے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جلسہ کے انعقاد کا جو مقصد تھا اسے پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر یہ مقصد پیش نظر نہیں ، اگر جلسہ کے پروگراموں نے ایک احمدی کی روحانی اور اخلاقی حالت میں کوئی بہتری پیدا نہیں کی تو ایسے شامل ہونے والوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کراہت کا اظہار فرمایا ہے.اگر تقویٰ میں ترقی نہیں تو 20 ہزار یا 25 ہزار یا 30 ہزار کی حاضری بے مقصد ہے.تعداد بڑھنے سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد پورا نہیں ہوتا.آپ کی بعثت کا مقصد تو تب پورا ہو گا جب ہم تقویٰ میں ترقی کریں گے.آپ فرماتے ہیں: ” تمام مخلصین ، داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولا کریم اور رسول مقبول ﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مگر وہ معلوم نہ ہو.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 248 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم پر ڈالی ہے اور یہ کتنی بڑی توقع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہے.آپ تمام محبتوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت ہم پر غالب دیکھنا چاہتے ہیں.کوئی ایسی محبت نہ ہو جو اس محبت کا مقابلہ کر سکے.اللہ اور رسول کی محبت تمہارے دل میں قائم ہونی چاہئے.دنیا کی محبت آپ ہمارے دلوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ دنیا سے لاتعلق ہو جاؤ اور بالکل ہی جنگلوں میں جا کے بیٹھ جاؤ.آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے تو یہ بھی کفران نعمت ہے.اگر کوئی زمیندار ہے اور اپنے کھیت کا حق ادا نہیں کرتا ، اپنی زمینداری کا حق ادا نہیں کرتا تو یہ بھی کفران نعمت ہے.اگر کوئی تاجر ہے یا کسی کا روبار میں ہے یا ملازم ہے اور ان کاموں کی طرف توجہ نہیں دیتا جو اس کے سپرد ہیں، جن کی اس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے تو یہ بھی غلط ہے.لیکن اس کے باوجود ایک احمدی کے دل میں سب سے زیادہ محبت خدا کی ہو، اس کے رسول کی ہو.دنیا کی یہ قیمتیں ایک احمدی کو دنیا دار بنانے والی نہ ہوں ، اس کو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور لے جانی والی نہ ہوں.یہ کاروبار، یہ دنیاوی نعمتیں ایک احمدی کو تقویٰ سے دور ہٹانے والی نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور لے جانے والی نہ ہوں، عبادتوں کو بھلانے والی نہ ہوں ، اعلیٰ اخلاقی قدروں کو ہم سے چھینے والی نہ ہوں.یہ کاروبار اور یہ دنیاوی نعمتیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں یہ ہمیں اللہ کی مخلوق کے حقوق غصب کرنے والی نہ بنائیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا غلبہ اور رسول ﷺ کی محبت کا غلبہ ہمیں اس تعلیم پر چلانے والا ہو جو تعلیم ہمیں قرآن کریم نے دی ہے.اس محبت کی وجہ سے ہم اس اُسوہ پر چلنے والے ہوں جو آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا ہے.تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے ہم ان راہوں پر چلنے والے ہوں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے
خطبات مسرور جلد پنجم 353 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء متعین فرمائی ہیں اور جن پر چل کر آنحضرت ﷺ نے ہمیں دکھایا اور جن کا اس زمانے میں اعلیٰ ترین نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمایا اور اپنی جماعت سے اس تقویٰ کے معیار کے حاصل کرنے کی توقع کی ہے.پس جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی کو اس مقصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی کے لئے یہ موقع میسر فرمایا ہے تا کہ پاکیزہ ماحول کے زیر اثر زیادہ تیزی سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ تو حیلہ نکالا ہے، یہ تو ایک ذریعہ ہے، ایک بہانہ ہے کہ تقویٰ میں جلد سے جلد ترقی ہو، تمہارے لئے تربیت کا ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ورنہ صرف یہی نہیں کہ جو جلسہ میں شامل ہوں انہوں نے ہی اپنے معیار اونچے کرنے ہیں.ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوا ہے، اس وقت آپ کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والا ہوگا جب اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائے گا.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں ” خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جود نیا سے مفقود ہوگئی تھی اور وہ حقیقی تقوی وطہارت جو اس زمانے میں پائی نہیں جاتی تھی اسے دوبارہ قائم کرے“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 214-213 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں سوائے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو ، آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب بچ بچ تقویٰ کی راہوں پر قدم ما رو گئے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) پھر ایک جگہ آپ نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے اور توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہماری جماعت ' تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بننے کی کوشش کرئے“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 581 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں ”خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اسی کی تو حید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرئے“.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان ارشادات کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور خاص طور پر آپ جو اس جلسے میں اپنی روحانیت کی ترقی کے لئے شامل ہورہے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اور اس نیت سے ہر احمدی کو جلسوں میں شامل ہونا چاہئے.تقویٰ میں ترقی کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ ماحول میسر کر کے مہیا فرمایا ہے.تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جیسا کہ ان چند مختصر اقتباسات میں جومیں نے پیش کئے ہم نے دیکھا
354 خطبات مسرور جلد پنجم خطبہ جمعہ 31 /اگست 2007 ء ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شمار ہی اسے کیا ہے جس میں حقیقی تقویٰ اور طہارت پیدا ہو اور اپنی عملی حالتوں کو درست کرتے ہوئے اولیاء بنے کی کوشش کرے.اور اولیاء کیا ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرنے والے ہیں.ان کی زبانیں ذکر الہی سے تر رہتی ہیں.ان کی راتیں اور دن عبادتوں میں گزرتے ہیں.دنیاوی کاموں میں، جو ان کو پڑتے ہیں ، ان میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے.ان کے ہر عمل سے خدا کی رضا کی تلاش کی جھلک نظر آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”یا درکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ( النور: (38) جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں.اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو، مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچے میں رہے گا.اسی طرح پر جولوگ خدا کے ساتھ سا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کوفراموش نہیں کرتے“.الحکم جلد 8 نمبر 21 مورخہ 24 جون 1904 صفحہ (1) پس اللہ تعالی کی یہ یاد اور اس کا ذکر ہراحمدی کا مطمح نظر ہو، مقصد ہو.جہاں زبان ہر وقت ذکر الہی کر رہی ہو وہاں دل کی یہ حالت ہو کہ میں ہر اس عمل کو بجالانے والا بنوں جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.ہر اس عمل سے، ہر اس کام سے بچنے والا بنوں جس کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ میری ہر حرکت و سکون خدا تعالیٰ کی نظر کے سامنے ہے اس لئے میرے سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنے.پس یہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی حالت کے پیدا کرنے کے لئے سال میں ایک دفعہ چند دن کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ کے لئے بلایا ہے.پس اے وہ تمام احمد یو! جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ عہد بیعت باندھا ہے کہ اے امام الزمان ! جو ایمان ہمارے دلوں سے نکل کر ثریا پر چلا گیا تھا اور جسے تو دوبارہ پھر اس دنیا پر، اس زمین پر واپس لایا ہے اور وہ قرآنی تعلیم جس نے ہمیں خیر امت بنایا تھا لیکن ہم دنیا داری میں پڑ کر اسے بھلا بیٹھے تھے ، جسے تو نے پھر ہماری زندگیوں کا حصہ بنانے کے لئے ہم میں جاری فرمایا ہے اور خود اس کے پاک نمونے قائم فرمائے ہیں ، ہم عہد کرتے ہیں کہ اب یہ ایمان اور یہ تعلیم ہمارے دلوں کا ، ہمارے عملوں کا ہمیشہ کے لئے حصہ بنی رہے گی ، انشاء اللہ.ہم اب اپنی زبانوں کو خدا تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ذکر الہی سے تر رکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ك يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا (الاحزاب (42) یعنی اے مومنو! اللہ کا بہت ذکر کیا کرو.
355 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم پس اللہ تعالیٰ نے یہ موقع مہیا فرمایا ہے کہ اس بات کی یاددہانی ہو جائے اور ان دنوں میں ذکر الہی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے ، عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تاکہ تقویٰ کے معیار بڑھیں اور ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے والے بنیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے گا.پس تقویٰ میں بڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ظاہر ہوگا جس کا ایک ذریعہ حقوق اللہ کی ادائیگی ہے اور یہ حق عبادتوں اور ذکر الہی سے حاصل ہوگا.اس نکتے کو حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ کی مناسبت سے یوں بیان فرمایا تھا کہ کیونکہ یہ جلسہ شعائر اللہ میں سے ہے اور اس میں شامل ہونے کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روحانیت میں ترقی کا حصول بتایا ہے جس کا ایک بہت بڑا ذریعہ عبادت و ذکر الہی ہے.اور ذکر الہی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور بہت سارے فائدوں میں سے اس کا بہت بڑا اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ اُذْكُرُوا اللَّهَ يَذْكُرُكُمْ یعنی اگر تم ذکر الہی کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہارا ذ کر کرے گا.پس خوش قسمت ہے وہ شخص جس کا ذکر اس کا آقا، اس کا مالک، اس کا پیدا کرنے والا اور مالک حقیقی کرے، اس پر لطف و احسان فرمائے.پس ان دنوں میں اس اہم امر کی طرف ہر ایک کو بہت توجہ دینی چاہئے.چاہے وہ جلسہ گاہ میں بیٹھ کر جلسہ سننے والے مرد ہیں یا عورتیں ہیں یا مختلف جگہوں پر خدمت پر مامور ڈیوٹی والے مرد ہیں یا لجنہ و ناصرات ہیں.کل بھی میں نے کارکنان اور کارکنات کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ذکر الہی کی طرف ان دنوں میں خاص توجہ دیں.ڈیوٹی دینے والے بھی جب بھی ڈیوٹی دے رہے ہوں ذکر الہی کی طرف توجہ رکھیں جس طرح باقی شاملین جلسہ ذکر الہی کی طرف توجہ رکھتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر تو ہمارا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا.پس اس بنیادی بات کو ہر ایک کو پلے باندھ لینا چاہئے.جو کام ہم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ایک نمائندے کے کہنے پر خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں اس میں اگر ہم عبادت اور ذکر الہی کو جتنی اہمیت دینی چاہئے وہ نہیں دیں گے تو نہ تو خدا تعالیٰ کے اس نمائندے کے ساتھ سچا تعلق جوڑنے والے بن سکتے ہیں اور نہ ہی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ: ” آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گئے.یہ ایک ایسا فقرہ ہے کہ اس سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہئیں.ہم یہ پڑھتے ہیں ، سنتے ہیں، جماعتی پروگراموں میں کئی دفعہ یہ الفاظ بینرز پر بھی ہم لکھے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن سرسری نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کو دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں یا تھوڑی دیر کے لئے توجہ پیدا ہوتی ہے تو وہ وقتی ہوتی ہے.پس بہت فکر کا مقام ہے، ہر فقرہ اور ہر لفظ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے، ہمیں جھنجھوڑنے والا ہے.ہم لاکھ کہتے رہیں، ہم احمدی ہیں لیکن اگر عرش کے خدا نے ہمیں اُس فہرست میں شامل نہیں کیا تو ہمارا احمدی ہونے کا دعوی بھی بیکار ہے اور ہمارا ان جلسوں میں آنے کا مقصد بھی فضول
356 خطبہ جمعہ 31 اگست 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ہے.پس ان دنوں میں خوب دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑیں، ذکر خدا پر زور دیں اور ظلمت دل مٹاتے جائیں.یہاں بہت سی علمی ، تربیتی اور روحانی بہتری پیدا کرنے کے لئے تقاریر ہوں گی انہیں سنیں.اللہ تعالیٰ کے حضوران تقریروں کو سنتے ہوئے یہ عہد کریں اور مدد مانگیں کہ اے خدا ہم نیک نیت ہو کر تیرے مسیح کے بلانے پر دلوں کی اصلاح کے لئے حاضر ہوئے ہیں.لیکن یہ اصلاح ہم اپنے زور بازو سے نہیں کر سکتے ، تیری مدد کی ضرورت ہے.اگر اِيَّاكَ نَسْتَعِین کی دعا سنتے ہوئے تُو نے ہماری مدد نہ کی تو ہم تیری عبادت کے معیار حاصل نہیں کر سکتے.پس اے میرے پیارے خدا تجھ کو تیرا ہی واسطہ کہ ہمیں ضائع ہونے سے بچا.جس نیک مقصد کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اس سے وافر حصہ ہمیں عطا فرما کہ تیرے فضل کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں.ہمارے دلوں کو اتنا پاک اور صاف کر دے کہ جو کچھ ہم سنیں اس سے صرف علمی اور ادبی حظ اور لطف نہ ٹھا ئیں بلکہ ان تربیتی اور روحانی معیاروں کو اونچا کرنے والی باتوں کو ہم اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں، ان پر عمل کرنے والے ہوں ، ان کو اپنی نسلوں میں جاری کرنے والے ہوں.پس جب ہم نیک نیت ہو کر جلسے کے پروگراموں سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں گے، دعائیں کرتے ہوئے تمام نیک باتوں کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے والے بن سکیں گے.اس انقلاب سے حصہ لینے والے بن سکیں گے جس انقلاب کے لانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور پھر دنیا میں بھی انقلاب لانے والے بنیں گے انشاءاللہ.پس اس انقلاب کے لئے بنیادی اور سب سے اہم چیز دعا اور ذکر الہی ہے جب یہ عادت ہم اپنے اندر پیدا کرلیں گے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پیدا کر لیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ، اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے احکامات کے مطابق ہم مزید احکامات پر بھی عمل کریں گے.حقوق العباد ادا کرنے والے بھی بن جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسے کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جمع ہونے سے آپس میں تو ڈ دو تعارف بڑھے گا.اس مقصد کو حاصل کرنے والے بنیں گے تو تو ڑ دو تعارف کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ آپس کی محبت اس تعارف سے پیدا ہو.تو جب نئے تعلقات کو فروغ دیا جائے گا اور ایک دوسرے سے محبت بڑھانے کے سامان کئے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے پرانے تعلقات میں پہلے سے بڑھ کر بہتری پیدا کرنے کی کوشش ہوگی.اگر کسی وجہ سے کوئی رنجشیں پیدا ہو چکی ہیں تو انہیں دُور کرنے کی کوشش ہوگی ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہ صرف فضول گوئی اور بد کلامی سے بچے رہیں گے بلکہ پیار اور محبت پیدا کر رہے ہوں گے.نہ صرف لڑائی جھگڑوں سے بیچ رہے ہوں گے بلکہ پرانے لڑائی جھگڑوں پر ایک دوسرے سے معذرتیں اور
خطبات مسرور جلد پنجم 357 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء معافیاں مانگ رہے ہوں گے.ذاتی اناؤں کے جال سے نکل رہے ہوں گے.کئی شکایات یہاں سے مجھے آتی ہیں، ذرا ذراسی بات پر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہو جاتے ہیں، جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور بعض کو پھر مجبوراً دکھی دل کے ساتھ سزا بھی دینی پڑتی ہے کیونکہ نظام جماعت کا تقدس تمام رشتوں سے زیادہ ہے، ہر رشتے سے بالا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے حقیقی تعلق ہے تو اپنی حرکتوں پر پشیمان ہوتے ہوئے آپس میں پیدا ہوئی ہوئی دراڑوں کو نہ صرف اس محبت کی وجہ سے جوڑنے والے ہوں گے بلکہ محبت کے تعلقات پیدا کریں گے.آنحضرت ﷺ کے حکم پر عمل کرنے والے بنیں گے کہ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کو اس کی زبان اور ہاتھ سے کبھی تکلیف نہیں پہنچتی ، نہ پہنچنی چاہئے.پھر ان دنوں میں جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جمع ہوتے ہیں ، اس کے آگے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں مانگ رہے ہیں، کامل ایمان کے ساتھ ذکر الہی میں مشغول ہیں، کامل فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چل رہے ہیں تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی بھی موقع پر نظام جماعت کی فرمانبرداری سے باہر ہوں.ایک طرف تو یہ کوشش ہو کہ ہم آسمان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں لکھے جائیں اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے قائم کردہ نظام جماعت کی اطاعت سے باہر جارہے ہوں.پس یہ دو عملیاں نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے کبھی نہیں دکھا سکتے اور نہ کبھی دکھاتے ہیں.ان دنوں میں دلوں کے اس میل کو بھی دعاؤں کے ذریعہ سے، اصلاح کے ذریعہ سے دھونے کا موقع ملتا ہے.اگر اصلاح کی غرض سے اس جلسے میں شامل ہوئے ہیں اور کوئی میلہ سمجھ کر شامل نہیں ہوئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ جلسہ کوئی میلہ نہیں ہے، تو یقیناً پھر دلوں کے میل بھی دھوئیں گے.بعض دفعہ روز مرہ کی زندگی میں بھی اور جلسہ کے دنوں میں بھی ایک عام احمدی کی رنجشیں اور جھگڑے عہدیداران سے بھی ہو جاتے ہیں.تو ایسی صورت میں اگر یہ ذہن میں ہو کہ اس جلسے کا مقصد کیا ہے تو ہر ایک احمدی اپنے پرانے جھگڑے بھی ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر یہاں کوئی تلخی کی صورت پیدا ہوئی ہے تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کرے گا.عہد یداران اور جلسے کے دنوں میں ڈیوٹی دینے والے بھی اس بات کا خیال رکھیں کل بھی میں نے یہی کہا تھا کہ اخلاق کے اعلیٰ معیار سب سے زیادہ ڈیوٹی دینے والوں سے ظاہر ہونے چاہئیں کہ بحیثیت کارکن اور عہدیداران کی زیادہ ذمہ داری ہے.اس لئے ان میں برداشت کا پہلو بھی زیادہ ہونا چاہئے یا برداشت پیدا کرنے کی ان کو زیادہ کوشش کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 358 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء ان میں عفو اور درگذر کا پہلو بھی زیادہ ہونا چاہئے اور انہیں دوسروں کے لئے نمونہ بننے کے لئے اپنی عبادتوں اور دوسرے اخلاق کے معیار اونچا کرنے کی بھی دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے.پس اگر عہدیدار اپنے آپ کو عہدیدار کی بجائے خادم سمجھیں اور افراد جماعت اپنے عہد یداران کو نظام جماعت چلانے کے لئے خلیفہ وقت کے مقرر کردہ کا رکن سمجھیں تو یہ تعلقات ہمیشہ محبت اور پیار کے تعلق کی صورت میں رہیں گے جو پھر خلیفہ وقت کے تابع ہو کر دنیا کو امن اور سلامتی کا حقیقی پیغام دینے والے ہوں گے، دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کو پورا کرنے والے ہوں گے.ان راہوں پر چلنے والے ہوں گے جن راہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں.ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہوں گے جن معیاروں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں: "اے سعادت مند لوگو ! آپ میں سعادت تھی تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو، زمانے کے امام کو قبول کیا.اب سعادت کا پہلا قدم تو تم نے اٹھا لیا، آگے آپ فرماتے ہیں ”اے سعادت مند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے ایک قدم سعادت کا تو تم نے اٹھالیا، نیک فطرت تھی قبول کر لیا، اب اپنے آپ پر اس تعلیم کو بھی لاگو کر و جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی ہے.فرماتے ہیں ” تم خدا کو واحد لاشریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو نہ آسمان میں سے، نہ زمین میں سے.خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا“.دنیاوی کام ہیں ان سے تمہیں منع نہیں کرتا.ذریعے ہیں ان سے تمہیں منع نہیں کرتا، تو کل اگر اللہ تعالیٰ پر کرنا ہے تو اس کے لئے حکم ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو.دو لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوانجات نہیں ، سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ.انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے.اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا.سو تم دل کے مسکین بن جاؤ.عام طور پر بھی بنی نوع کی ہمدردی کرو جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہوسکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو.خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجالاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے.نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے، کیونکہ انسان کمزور ہے.ہر ایک بدی جو دُور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دُور ہوتی ہے.اپنی طاقت
خطبات مسرور جلد پنجم 359 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء سے کوئی بدی دُور نہیں کر سکتے اس لئے دعائیں مانگو اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلا و، بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رُو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جا ئیں“.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63 مطبوعہ لندن) یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قائم کردہ معیار جس کی طرف آپ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے.نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ.یہ بڑا اچھا موقع اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے اگر ان دنوں میں ہر ایک خود اپنا محاسبہ کرے تو اپنی تصویر خود سامنے آجائے گی.اگر نیک نیتی سے اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے تو ان نفسانی کینوں اور غصوں کا حال خود معلوم ہو جائے گا.تکبر سے بچو فرمایا یہ تکبر ہی ہے جو نا فرمان بنا تا ہے.تکبر ہی ہے جس نے انبیاء کا انکار کر وایا اور یہ تکبر ہی ہے جو نظام جماعت یا عہدیداران کے خلاف دوسرے کو بھڑکا تا ہے اور یہ تکبر ہی ہے جو آپس میں بھی ایک دوسرے سے لڑاتا ہے.پھر حقیقی ہمدردی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے پیدا کر و تبھی تمہاری باتوں کا اثر ہوگا تبھی تمہاری تبلیغ مؤثر ہوگی.کئی لوگ ہمارے جلسوں میں شامل ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی آتے تھے ، قادیان کا ماحول دیکھتے تھے اور اس ماحول کا ہی اثر ان پر ہوتا تھا.ان لوگوں کے اخلاق کا اثر بھی ان لوگوں پر ہوتا تھا جو احمدی ہو جاتے تھے.اب بھی دنیا کے مختلف ممالک میں جب جماعت کے جلسے ہوتے ہیں اور لوگ آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک اثر لے کر جاتے ہیں اور بعض ان میں سے پھر بیعت کر کے جماعت میں بھی شامل ہو جاتے ہیں.تو ہر ایک کو یہ یاد رکھنا چاہئے اور ہر ایک کو یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ہر احمدی کے چہرہ کے پیچھے آج احمدیت کا چہرہ ہے.پس ہمیشہ یا درکھو تمہارے قول اور عمل میں تضاد نہ ہو بھی تمہاری دعوت الی اللہ میں برکت پڑے گی.جماعت کی نیک نامی کا باعث بھی تم تبھی بنو گے جب ہمیشہ سچائی پر قائم ہو گے.کسی کی بُرائی نہ چاہو.ذاتی منفعت اور فائدہ تمہیں کسی سے بُرائی پر مجبور نہ کرے.ہمیشہ یادرکھو کہ تمہارے ہر عمل کو خدا دیکھ رہا ہے.ہر وقت دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کے آگے جھکو اور اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرو اور ہمیشہ یادرکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت تمہیں تبھی فائدہ دے گی جب ہر حالت میں تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو گے.صرف دعوے اور نعرے کبھی کام نہیں آئیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار دیکھنے کی کس قدر تڑپ تھی اور کس درد سے
خطبات مسرور جلد پنجم 360 خطبہ جمعہ 31 راگست 2007 ء آپ نے جماعت کے لئے دعائیں کی ہیں اس کا ایک نمونہ میں آپ کو دکھا تا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا.اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کر دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادے میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کر دے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لاجس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 364 اللہ تعالیٰ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام نیک تمناؤں اور دعاؤں کو ہمارے حق میں پورا فرمائے.ہم میں کبھی کوئی بھی ایسا نہ ہو جائے جو اپنی بدبختی اور بدقسمتی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے کاٹا جائے.اے اللہ! تو ہم پر ہمیشہ اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر پھیلائے رکھ اور ہمیں ہمیشہ اپنے محبوب اور خاتم الانبیاء کے عاشق صادق کی جماعت سے جوڑے رکھ اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو ان فضلوں اور انعاموں کا وارث بنا جن کا تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین ( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 21 تا 27 ستمبر 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 361 (36 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء فرمودہ مورخہ 07 ستمبر 2007ء بمطابق 07 رتبوک 1386 ہجری شمسی بمقام Martin Buber Schole Hall گروس گیراو (جرمنی) تشہد ، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: الحمد للہ ! گزشتہ اتوار کو جماعت احمد یہ جرمنی کا سالانہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اختتام کو پہنچا.آج اس جلسے کے حوالے سے ہی کچھ باتیں کروں گا.ان جلسوں کی تیاری کے لئے ہر سال ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جن کے سپرد مختلف کام کئے جاتے ہیں.ایک شوق ہوتا ہے، ایک لگن ہوتی ہے جس کے تحت تمام ڈیوٹیاں دینے والے اپنے فرائض ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں.مجھے بھی جلسے سے پہلے دنیا کے ہر اس ملک سے جہاں جلسے منعقد ہو رہے ہوتے ہیں احمدی خط لکھ رہے ہوتے ہیں کہ دعا کریں تمام انتظامات بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچیں.یہی حال جرمنی کے کارکنان اور مختلف شعبہ جات کے افسران کا ہوتا ہے.بہر حال یہ جماعت کا ایک مزاج ہے، ان کی تربیت ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کی تربیت کر کے احمدی کا خدا تعالیٰ سے پیدا کیا ہے اور اس رب العالمین اور رحمن اور رحیم کی پہچان کروائی ہے جس نے اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ذریعے اپنی صفات کا فہم و ادراک ہمیں عطا کروایا.ہمیں اپنے عطا کردہ وسائل اور طاقتوں کا صحیح اور استعدادوں کے مطابق استعمال کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس سے سارے ڈیوٹیاں دینے والے جلسے کے انتظامات اپنی عقل کے مطابق بہترین رنگ میں کرنے کے قابل ہوئے اور جیسا کہ میں نے کہا اس عرصہ میں جب انتظامات کی تیاری ہو رہی تھی ، خود بھی ان سب کارکنوں کی دعاؤں کی طرف توجہ رہی اور مجھے بھی دعا کے لئے لکھتے رہے کیونکہ اس کے بغیر ہر احمدی جانتا ہے کہ ہمارا کام ادھورا ہے اور اگر یہ نہیں تو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا دعویٰ صرف دعوی رہے گا.پس ہمارے کام میں برکت بھی اسی لئے پڑتی ہے کہ ہم اس خدا کے آگے جھکنے والے ہیں جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے اور وہ تمام مراحل میں ہماری کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے ان میں برکت ڈالتا ہے.پس جہاں جلسے کا کامیاب انعقاد اور اختتام ہر کارکن کے لئے سکون اور خوشی کا باعث بنتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کے اس پیار بھرے سلوک کو اسے اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکنے والا اور شکر گزار بنانا چاہئے.اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد پنجم 362 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء کے اس حکم کو ہمیشہ یادرکھیں کہ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ (ابراهیم : 8) یعنی اے لوگو ! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.پس اللہ تعالیٰ کے یہ انعام پہلے سے بڑھ کر نازل ہوں گے اگر ہم اس کا شکر گزار بندہ بنے رہیں گے.اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ خلافت جو بلی سال کا جلسہ آ رہا ہے.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ حاضری بھی اس سال سے زیادہ ہوگی اور انتظامات بھی اس سال سے شاید زیادہ وسیع کرنے پڑیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو بھی پہلے سے بڑھ کر یا د رکھیں کہ تمہارے انتظامات کی بہتری میری مرہونِ منت ہے.اس لئے ہمیشہ میرے پہلے انعاموں پر ، احسانوں پر ، رحمانیت کے جلوے دکھانے پر پہلے سے بڑھ کر شکر گزار بندے بنتے ہوئے میرے آگے جھکنے والے بنو.انتظامات کی احسن رنگ میں سرانجام دہی کو صرف اپنی ہوشیاری اور چالا کی اور عقل اور محنت پر محمول نہ کرو بلکہ میری خاطر کئے گئے کاموں میں، اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے کاموں میں، اُسی وقت برکت پڑے گی جب اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنتے ہوئے ، جب اللہ تعالیٰ کا عبد شکور بنتے ہوئے، اللہ کے آگے جھکتے ہوئے اس کا شکر گزار بنو گے.پھر اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ جتنی چاہے کام میں وسعت پیدا ہو جائے ، جتنی چاہے بظاہر انتظامات میں دقتیں نظر آتی ہوں، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کے لئے ہر وقت موجود ہوگا، بلکہ پہلے سے بڑھ کر انعامات اور افضال کی بارش برسائے گا.پس اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے دل و دماغ کو تازہ رکھیں گے تو یہ شکر گزاری بڑھے گی اور شکر گزاری کا اظہار ہوگا جس سے فضلوں کی بارش ہمیشہ جماعت پر ہوتی رہے گی.آنحضرت ﷺ کا کیا اُسوہ تھا.آپ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! مجھے ذکر کرنے والا اور اپنا شکر کرنے والا بنا.(سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب مايقول الرجل اذا سلّم حدیث نمبر (1510) پھر شکر گزاری کے لئے آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان بھی ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے، دوسرے فرمایا اللہ کے ان بندوں کا بھی شکر گزار بنو جنہوں نے تمہاری کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی معاملے میں مدد کی.کیونکہ اگر تم اللہ کی مخلوق سے فیض پاکر اس کے شکر گزار نہیں بنتے تو پھر اللہ تعالیٰ کے شکر کی عادت بھی تم میں پیدا نہیں ہو گی.پس جماعتی انتظامات جس کے لئے انتظامیہ کوشش کرتی ہے اس کے لئے جماعتی انتظامیہ کو بھی اور ان لوگوں کو بھی ، ان تمام کارکنان کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں جلسے کے انتظامات میں کوئی کردار ادا کیا ہو، کوئی کام کیا ہو، کوئی خدمت کی ہے جس سے جلسے کے کاموں میں آسانی پیدا ہوئی ، جس سے لوگوں کو سہولت سے جلسہ سننے کا موقع فراہم ہوا.بڑے آرام اور سکون سے تمام لوگوں نے ، نہ صرف جلسہ سنا بلکہ رہائش، کھانے اور دوسرے انتظامات میں بھی کم سے کم تکلیف میں یہ دن گزرے.ظاہر ہے جب ایسے وسیع انتظامات
خطبات مسرور جلد پنجم 363 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء ہوتے ہیں تو گھر جیسی سہولت تو بہر حال نہیں ہوتی، سفر میں کچھ نہ کچھ تکلیف تو برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ بہتر انتظامات کی حالات کے مطابق انتظامیہ کوشش کرتی ہے اور کارکنان اس کے مطابق کام کرتے ہیں اور یہ کام کارکنان کے اخلاص کی وجہ سے انجام کو پہنچتا ہے جس میں مرد بھی شامل ہیں ، عورتیں بھی شامل ہیں ، لڑکے بھی، لڑکیاں بھی اور سب ایک جوش کے ساتھ یہ کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا یہ مزاج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کیا ہے اور یہ غیروں کو بھی نظر آتا ہے.مالٹا کے ایک ممبر پارلیمنٹ اور انڈونیشیا سے آئے ہوئے دو بڑے اسلامی سکالرز یہ اعتراف کر گئے ہیں کہ آپ کے انتظامات میں ایک عجیب ڈسپلن تھا اور اسی طرح اور غیر مسلم عیسائی، بلغاریہ سے بھی آئے ہوئے تھے اس بات کو دیکھ کر حیران ہوتے تھے اور اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ تم لوگ عجیب قسم کے لوگ ہو، کس طرح جلسے کے تمام انتظام خود ہی بغیر کسی حکومتی مدد کے کر لیتے ہو.اور پھر اس بات پر بھی حیران تھے کہ ڈسپلن (Discipline) بھی جیسا کہ میں نے کہا کس طرح عمومی طور پر قائم رہتا ہے اور ڈسپلن کا بڑے احسن طریق پر شامل ہونے والے کی طرف سے بھی اور ڈیوٹی دینے والوں کی طرف سے بھی اس کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے.ہم احمدی اپنے مزاج کے مطابق بعض دفعہ جس کام کو کم معیار کا سمجھتے ہیں، یہ لوگ اس کو بھی اعلیٰ معیار کا سمجھتے ہیں.بعض دفعہ بعض بے قاعدگیاں جو ہمیں برداشت نہیں ہو رہی ہوتیں ، ان کے لئے ناریل ہوتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ غیروں کے آگے جماعت کی عزت و وقار قائم رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس فضل کے شکرانے کے طور پر بھی ہمارے معیار مزید بہتر ہونے چاہئیں، مزید بہتر ہونے کی کوشش ہونی چاہئے اور اس کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور اس کا ذکر کرنے کے معیار بھی پہلے سے بڑھنے چاہئیں اور جب تک ہم اس سوچ کے ساتھ اپنے امور سرانجام دیتے رہیں گے ، ان کو سرانجام دینے کی کوشش کرتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہماری مشکلات خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی.ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود بخود آسانیاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی.پاکستان سے آنے والے بھی اور دوسرے ممالک سے آنے والے بھی ، جرمنی کے جلسے کو دیکھ کر اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ یہاں کے کارکنان عموماً ایک مشین کے گل پُرزوں کی طرح بغیر کسی دقت کے بغیر کسی ہنگامے کے کام کر رہے ہوتے ہیں.گو کہ یہ مزاج اب میرے خیال میں جہاں جہاں بھی جماعت کے جلسے ایک عرصے سے ہو رہے ہیں اور بڑے جلسے ہوتے ہیں، یو کے کے جلسوں میں بھی اور باقی جلسوں میں بھی قائم ہو چکا ہے اور ایک لمبے عرصہ کے جلسوں کے انعقاد کی وجہ سے کارکنان عموماً دنیا میں جہاں بڑی جماعتیں ہیں اس وجہ سے کافی تجربہ کار ہو
خطبات مسرور جلد پنجم 364 خطبہ جمعہ 17 ستمبر 2007 ء چکے ہیں.لیکن جرمنی میں شروع سے ہی یہ مزاج اس لئے ہے کہ پاکستان سے بہت سے ایسے لوگ یہاں آکر آباد ہوئے ، جرمنی کی جماعت نے جب وسعت اختیار کرنا شروع کی تو ابتدا میں ہی یہاں ایسے لوگ آئے جن کو کام کا تجربہ تھا جو پاکستان کے جلسوں میں ڈیوٹیاں دیا کرتے تھے.خدام الاحمدیہ کے تحت ٹرینینگ ہوتی رہی.بلکہ جیسا کہ میں ایک دفعہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ اب جب انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان میں جلسے ہوں گے تو یہ فکر پیدا ہوتی ہے کہ ٹرینگ نہ ہونے کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے، وہاں کے انتظامات میں کوئی دقت نہ ہو اور جب انشاء اللہ تعالیٰ وہاں جلسہ ہو گا تو وہ بھی اتنا بڑا اور وسیع ہوگا کہ یو کے اور جرمنی کے دونوں جلسے ملا کر بھی شاید وہاں دس گنا زیادہ حاضری ہو.لیکن بہر حال یہ فکر بھی رہتی ہے اور یہ تسلی بھی کہ جب موقع آتا ہے اللہ تعالیٰ خود انتظامات بھی فرما دیتا ہے.وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی کام کر ہی لیتا ہے ، روٹین کا کام چاہے کریں نہ کریں لیکن احمدی مزاج میں ہنگا می کام کرنے کی بڑی صلاحیت ہے.بہر حال میں جرمنی کے کارکنان کی آرگنائزڈ (Organized) طریقے پر کام کرنے کی بات کر رہا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لحاظ سے یہ بڑا آرگنا ئزڈ جلسہ ہوتا ہے.اس میں انتظامی لحاظ سے بڑا ٹھہراؤ ہوتا ہے.یو کے سے آئے ہوئے ایک عزیز نوجوان سے میں نے پوچھا کہ تمہیں UK کے جلسہ میں اور جرمنی کے جلسہ میں کیا فرق نظر آیا؟ تو اس کا فوری جواب یہ تھا کہ یہاں کا جلسہ زیادہ آرگنا ئز ڈ لگتا تھا.اس کی زیادہ وجہ تو یہی ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان سے آئے ہوئے ٹرینڈ کارکنان کا میسر آ جانا اور ان کا آگے پھر دوسروں کو بھی ٹریننگ دینا لیکن یہ سُن کے شاید یو کے والے پریشان ہورہے ہوں ، ان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.ایک لمبے عرصے کی ٹریننگ کے بعد ان کے معیار بھی بڑے بلند ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں انتظامات کی بہتری کا نظر آنا اس جگہ کے میسر آنے کی وجہ سے بھی ہے جو جگہ مئی مارکیٹ یا من ہائم میں جماعت کو جلسے کے لئے ملی ہے جس میں بہت سے انتظامات موجود ہیں.ایسا انفراسٹرکچر (Infrastructure) میسر ہے جس کی وجہ سے بہت سے کام نہیں کرنے پڑتے ، جس کی وجہ سے دوسرے کاموں میں بہتری کی زیادہ کوشش ہو جاتی ہے.اتنی بڑی جگہ کا بہت سی سہولتوں کے ساتھ ملنا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس کا شکر گزار بننا چاہئے.گو کہ بعض قسم کی پابندیاں بھی ہیں جن میں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن یہ پابندیاں بھی ہمارے فائدے کے لئے ہیں ، ہمارے کاموں میں بہتری پیدا کرنے کے لئے ہیں، ان کے معیار بلند کرنے کے لئے ہیں.مثلاً محکمہ صحت یا جو بھی محکمہ ایسے معاملات سے تعلق رکھتا ہے اس نے لنگر خانہ کے معیار صفائی کو بہتر بنانے کا کہا تھا.یہ تو بڑی اچھی بات ہے ، صفائی اور نظافت تو ایمان کا حصہ ہے اور بہت سے باہر سے آنے والوں نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ اس دفعہ ڈائننگ ہال کا معیار صفائی بھی بہت اچھا تھا.
365 خطبہ جمعہ 17 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم پھر برتنوں کی صفائی دھلائی کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے ہمارے ایک انجینئر نے دیگیں دھونے کے لئے ایک سیمی آٹو میٹک (Semi Automatic) مشین بنائی ہے جس میں مزید بہتری پیدا کر کے اس کو آٹو میٹک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ایک منٹ میں ایک دیگ اس طرح چمک جاتی ہے جیسے کبھی اس کو استعمال ہی نہیں کیا گیا ہو، بالکل نئی ہو.تو یہ بھی اس دفعہ کے بہتر انتظامات میں ایک نئی چیز شامل ہوئی ہے.میں نے انجینئر صاحب کو کہا ہے کہ اور ایسی مشینیں بنائیں اور اس میں مزید بہتری پیدا کریں اور اس کو پیٹینٹ (Patent) کروالیں.دنیا کے مختلف جگہوں پر جہاں بڑے جلسے ہوتے ہیں، پہلے تو ہم ان کو یہ صفائی کرنے کے لئے دیں گے.بڑی سادہ اور کار آمد مشین ہے.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور ہمارے دل اس شکر گزاری میں اور بھی بڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو ایسے دماغ عطا فرمائے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ کس طرح کم سے کم خرچ میں ایسی چیزیں بنائی جائیں ، ایسی ایجادیں کی جائیں جو جماعت کے مختلف شعبوں میں کام آ سکیں.پس یہ جو دوسروں کو آپ کام کرنے والوں کے بہتر انتظامات نظر آتے ہیں، ہر سال اس میں بہتری پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جو یہ توفیق دیتا ہے کہ اپنے دماغ کو کام میں لا کر جماعتی ضروریات کے لئے ایجادات کریں، یہ چیزیں کسی بھی کام کرنے والے کے ذہن میں کسی قسم کا تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے بلکہ مزید عاجزی سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جائیں، شکر گزاری میں مزید بڑھتے چلے جائیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں خدمت کی توفیق دے رہا ہے.اور یہ عاجزی اور شکر گزاری اُس وقت حقیقی عاجزی اور شکر گزاری کہلائے گی جیسا کہ میں نے کہا کہ جب اپنی عبادتوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہوں گے.اپنی ہر کوشش کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھیں گے اور اس کا فضل جائیں گے.ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ کے فضل جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے اور جماعت بن کر رہنے کی وجہ سے ہیں.نظام جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے ہیں.اطاعت کے جذبے کے تحت ہر خدمت بجالانے کی وجہ سے ہیں.پس اس چیز کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور اطاعت نظام کا جذ بہ پہلے سے بڑھ کر اپنے دلوں میں پیدا کریں.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش کرتا رہے.اطاعت نظام کے اعلیٰ نمونے دکھائے.ہمیشہ یادرکھیں کہ اطاعت خلافت، اطاعت نظام سے منسلک ہے.اگر کسی کا غلط رویہ دیکھیں، نظام جماعت کے کسی پرزے، کسی عہد یدار کی اصلاح چاہتے ہوں تو خلیفہ وقت کو اطلاع کر سکتے ہیں لیکن اطاعت سے انکار کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں.پس جلسوں کی غیر معمولی کامیابی کی
خطبات مسرور جلد پنجم 366 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء حقیقی شکر گزاری کا بھی صحیح طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بھی امتیازی اور نمایاں تبدیلی پیدا ہو اور نظام جماعت کی اطاعت کا بھی بہترین نمونہ بنیں.ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھیں کہ آنحضرت ﷺ ہمارے اطاعت کے کیا معیار دیکھنا چاہتے تھے؟ کیا تعلیم ہمیں دی ہے اور وہ یہ کہ تمہارا حق ادا ہورہا ہے یا نہیں ہورہا لیکن تمہارا یہ فرض ہے کہ سنو اور اطاعت کرو.ان لوگوں پر جن پر تمہارے حقوق ادا کرنا فرض ہے اُن پر اُن کے عملوں کا بوجھ ہے اور تمہارے پر تمہارے عملوں کا بوجھ.پس اللہ تعالیٰ خود ایسے حق ادا نہ کرنے والے عہدیداروں سے پوچھ لے گا.جماعت احمدیہ پر تو اللہ تعالیٰ کا یہ بھی بہت بڑا فضل ہے اور احسان ہے کہ خلافت کی نعمت سے نوازا ہے اور اس کو اپنے انعاموں میں سے ایک انعام کہا ہے.پس یہ انعام بھی اس لئے ہے کہ اس نے حق کا ساتھ دینا ہے.خلیفہ وقت کسی کی پارٹی نہیں ہوتا.کسی سے ایسا رویہ اختیار نہیں کرتا کہ یہ اظہار ہورہا ہو کہ اس کی طرفداری کی جارہی ہے.اگر کوئی شکایت ہو تو خلیفہ وقت کو اطلاع دی جا سکتی ہے.پس نئے احمدی بھی اور پرانے احمدی بھی یہ نمونے قائم کریں تو جماعتی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں.جلسے کے دنوں میں میں نے مقامی جرمن لوگوں سے ایک میٹنگ کی ، جو نو مبائع تھے اور چند مہینے پہلے احمدی ہوئے، کچھ چند سال پرانے بھی تھے.وہاں ایک نو مسلم جرمن نے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی عہد یدار رہ چکا ہو اور اب عہد یدار نہ ہونے کی وجہ سے نئے عہدیداروں سے مکمل طور پر تعاون نہ کر رہا ہو، اس کی اطاعت نہ کر رہا ہو تو اس کا کیا علاج ہے؟ کس طرح اصلاح کی جائے ؟ یہاں اصلاح کا سوال تو بعد میں آتا ہے اس سوال نے تو مجھے ویسے ہی ہلا دیا ہے کہ پاکستان سے آئے ہوئے احمدیوں نے اپنے یہ نمونے قائم کئے ہیں کہ جب تک عہد یدار رہے نظام کی اطاعت پر تقریر بھی کرتے رہے اور اطاعت کی توقع بھی کرتے رہے.جب عہدہ ختم ہوا تو بالکل ہی گھٹیا ہو گئے.پاکستانیوں کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ آپ سے اعلیٰ نمونے کی توقع کی جاتی ہے.اگر یہی مثالیں قائم کرنی ہیں تو آپ نے تو اپنی پرانی تربیت بھی ضائع کر دی اور جلسوں کے مقاصد کو بھی ضائع کر دیا.دوسرے یہ یا درکھیں کہ تمام قوموں نے انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت اور حقیقی اسلام میں شامل ہونا ہے اور ہر قوم نے نظام جماعت میں شامل ہو کر اپنے ملکوں کا نظام بھی خود چلانا ہے.اس لئے اس خیال سے اپنے ذہنوں کو پاک کریں کہ ایک نیا آیا ہوا جرمن ہم پر کس طرح مسلط کیا جاسکتا ہے یا وہ ہمارا عہد یدار کس طرح بن سکتا ہے؟ اس بات سے کہ آپ عہدیدار نہیں بنے اور نیا آیا ہوا عہدیدار بن گیا ، آپ کو استغفار کا زیادہ خیال آنا چاہئے ، استغفار میں زیادہ بڑھنا چاہئے کہ ہماری کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقع ہم سے لے کر ان نئے شامل ہونے والوں کو دے دیا جو اخلاص و وفا اور اطاعت نظام اور اطاعت خلافت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں.پس ایسے بد خیالات رکھنے والے اپنی اصلاح
خطبات مسرور جلد پنجم 367 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء کریں.اُس جز من کو تو میں نے یہی کہا تھا کہ ان لوگوں کو پیار سے سمجھا ئیں، ان کے لئے دعا کریں.اگر پھر بھی باز نہیں آتے تو امیر صاحب کو لکھیں.اگر امیر صاحب کے کہنے پر بھی اصلاح نہیں کرتے تو مجھے لکھیں تا کہ ایسے لوگوں کے خلاف پھر تعزیری کارروائی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو نیک اور اخلاص میں بڑھے ہوئے لوگ چاہیں نہ کہ خود سر اور خود پسند لوگ ، نہ کہ وہ لوگ کہ جب تک مفاد ہو ا طاعت پر زور دیتے رہیں اور جب مفاد نہ رہا تو اطاعت بھی ختم ہوگئی.جرمن کو احمدی ماشاء اللہ نظام جماعت کو سمجھنے میں بھی بہت ترقی کر رہے ہیں.ایک جرمن نو جوان نے سوال کیا کہ ایک طرف جماعت کا کام ہے، یعنی جماعتی نظام کا جو جماعت کے کسی عہدیدار کی طرف سے ان کے سپرد کیا جاتا ہے.دوسری طرف ذیلی تنظیموں ، خدام، انصار اور لجنہ کے کام ہیں جو ان کے عہدیداروں کی طرف سے سپر د کئے جاتے ہیں.مثلاً ایک ہی وقت میں مجھے جماعتی عہدیدار بھی ایک کام کہتا ہے اور خدام الاحمدیہ کا عہدیدار بھی ایک کام کہتا ہے اور میرا دل بھی نوجوان ہونے کی وجہ سے یہی چاہتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا کام کروں تو اُس وقت کس کام کو پہلے سرانجام دوں؟ مجھے ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے.اس کو تو میں نے اس کا تفصیلی جواب دیا تھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ جماعتی نظام ایک مرکزی نظام ہے اور خدام، لجنہ اور انصار ذیلی تنظیمیں ہیں اور گو یہ ذیلی تنظیمیں بھی براہِ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں ، ان سے ہدایات لیتی اور اپنے پروگرام بناتی ہیں لیکن جماعتی نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور خلیفہ وقت کے قائم کردہ نظاموں میں سے سب سے بالا نظام ہے.ہر ذیلی تنظیم کا مبر جماعت کا بھی ممبر ہے اور جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے وہ جماعتی نظام کا پابند ہے.اگر کوئی جماعتی عہد یدار کسی نوجوان کو کسی خادم کو بحیثیت فرد جماعت کوئی کام سپرد کرتا ہے اور اس دوران خدام الاحمدیہ کے عہدیدار کی طرف سے بھی کوئی کام سپرد ہوا ہے تو وہ خادم جس کے سپر د جماعتی عہدیدار نے کام سپرد کیا ہے، بحیثیت خادم نہیں بلکہ بحیثیت فرد جماعت خدام الاحمدیہ کے متعلقہ افسر کو اطلاع کر کے کہ جماعت کے عہدیدار نے میرے سپر دفلاں فوری کام کیا ہے، اس لئے میں اس کو پہلے کرنے کے لئے جا رہا ہوں، اس کام کو پہلے کرے اور خدام الاحمدیہ یا کسی بھی ذیلی تنظیم کا کام بعد میں.یہ تو ہے ہنگامی موقع پر لیکن عام طور پر روٹین (Routine) کے جو کام ہوتے ہیں، اس کا سالانہ کیلنڈر جماعت کا بھی بن جاتا ہے اور ذیلی تنظیموں کا بھی اور جماعت کا کیلنڈر کیونکہ پہلے بن جاتا ہے اس لئے ذیلی تنظیمیں اپنے پروگرامز اس کے مطابق ایڈ جسٹ کریں مثلاً اجتماع ہے، ٹورنامنٹس ہیں اور مختلف جلسے ہیں.اگر ہنگامی طور پر کوئی جماعتی پروگرام کسی جگہ بن جاتا ہے تو جماعتی پروگرام بہر حال ذیلی پروگراموں پر مقدم ہے.ذیلی تنظیموں کے جو
368 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم پروگرام ہیں ان میں براہ راست جماعتی انتظامیہ کو دخل دینے کا حق نہیں ہے، یہ بھی واضح ہونا چاہئے.خدام الاحمدیہ کے کام میں مقامی صدران یا امیر وغیرہ کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتے.نہ لجنہ کے کام میں نہ انصار اللہ کے کام میں، باوجود اس کے کہ ان کا نظام بالا ہے.اگر امراء خلاف تعلیم سلسلہ اور خلاف روایت ذیلی تنظیموں سے کوئی کام ہوتا ہوا دیکھیں تو فوری طور پر متعلقہ ذیلی تنظیم کے صدر کو بلا کر سمجھائیں، اگر مقامی طور پر ہو رہا ہے تو امیر کو اطلاع دی جائے پر اور قائد کو سمجھایا جائے اور پھر فوری طور پر خلیفہ وقت کو اطلاع دینی ضروری ہے.کیونکہ جماعتی روایات کا تقدس بہر حال قائم کرنا ضروری ہے.لیکن یہ فرق یاد رکھنا چاہئے کہ پروگراموں میں براہ راست دخل اندازی نہیں کی جاسکتی.بعض اور جگہوں سے بھی یہ سوال اٹھتے ہیں اس لئے میں ان کو مختصر بیان کر رہا ہوں.لجنہ کے اجلاسوں کے بارے میں بھی واضح کر دوں کہ بعض لجنہ کی تنظیموں سے یہ سوال اٹھتے رہتے ہیں کہ مردوں کے جو ماہانہ اجلا سات ہوتے ہیں اس میں لجنہ کو بھی لازماً شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے.اس بارہ میں واضح ہو کہ لجنہ کے کیونکہ اپنے ماہانہ اجلاس ہوتے ہیں اس لئے جماعتی ماہانہ اجلاسوں میں لجنہ کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ان کا شامل ہونا ضروری ہے.ہاں جو بڑے جلسے ہیں، جیسے سیرت النبی کا جلسہ ہے یوم مسیح موعود ، یوم مصلح موعود، یوم خلافت و غیرہ یا اور کوئی پروگرام جو مرکزی طور پر یا ریجن کے طور پر بنتے ہوں ان میں لجنہ ضرور شامل ہو.اس کے علاوہ لجنہ خود بھی اپنے یہ اجلا سات اور جلسے کر سکتی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذیلی تنظیمیں بنانے کا یہ مقصد تھا کہ جماعت کے ہر طبقے کو جماعتی ایکٹیوٹیز (Activities) میں شامل کیا جائے تاکہ ترقی کی رفتار میں تیزی پیدا ہو.ہر ایک کا اپنا اپنا ایک لائحہ عمل ہو تا کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسابقت کی روح پیدا ہو.گاڑی کی پڑی کی طرح، لائن کی طرح دونوں برابر چل رہے ہوں ، کہیں ٹکراؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے.اس کی قدر کریں تا کہ اسلام اور احمدیت کی گاڑی اس پڑی پر منزلوں پر منزلیں طے کرتی چلی جائے اور ہم اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہراتا ہوا دیکھیں.جلسہ کے حوالے سے ایک بات میں عورتوں کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں.عموماً عورتوں کی یہ شکایت ہوتی تھی کہ ان کی مارکی میں پروگراموں کے دوران شور بہت ہوتا ہے.میری تقریر کے دوران بھی بچوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ حد تک شورر رہتا تھا.تو میں نے انتظامیہ کو کہا تھا کہ یوکے میں بھی اس طرح ہوتا ہے یہاں بھی یہی کریں کہ بچوں والی عورتوں کی علیحدہ مار کی ہو تا کہ جو مین مار کی ہے اس میں شور کم سے کم ہو.عورتیں بے شک خود شور مچارہی ہوں ، باتیں کر رہی ہوں لیکن بچوں کی موجودگی کی وجہ سے ان کو بہانہ مل جاتا ہے کہ بچے شور کر رہے ہیں.بہر حال اس دفعہ
خطبات مسرور جلد پنجم 369 خطبہ جمعہ 17 ستمبر 2007 ء غیر معمولی طور پر عورتوں نے میری تقریر کے دوران خاموشی کا مظاہرہ کیا اور اس خاموشی کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.میں اس بات پر خوش بھی تھا اور اس بات کا افسوس بھی کر رہا تھا کہ یہ میری بدظنی تھی کہ عورتیں بچوں کی آڑ میں خود باتیں کرتی رہتی ہیں.لیکن میری یہ خوش نہیں تھوڑی دیر کے بعد ہی دور ہو گئی اور پتہ لگ گیا کہ یہ میری بدظنی نہیں تھی کیونکہ میری تقریر کے علاوہ عورتوں نے خاموشی اختیار نہیں کی اور ایک بڑا طبقہ مسلسل باتیں کرتارہا اور ڈیوٹی والیوں کے کہنے پر بھی خاموش نہیں ہوتی تھیں.کسی کا جواب تھا کہ پہلے فلاں کو چپ کر اؤ پھر میں چپ کروں گی.کسی نے یہ جواب دیا کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد تو ہم ملے ہیں.ہمارے خاوند تو ملنے بھی نہیں دیتے تو ہم اب بیٹھ کر باتیں بھی نہ کریں.اور جو بیچاری نیک نیتی سے جلسہ سننے کے لئے آئی تھیں ، وہ جو بیچاری اس نیت سے آئی تھیں اور اس شور کی وجہ سے ان پروگراموں سے استفادہ نہیں کر سکیں ان میں سے بہت ساری ایسی تھیں جنہوں نے رونا شروع کر دیا کہ ہمیں پروگرام بھی سنے نہیں دے رہیں.سنا ہے ایک دفعہ تو اتنا شور تھا کہ مائیکر وفون سے بھی آواز نہیں آ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک سال جلسہ ہی اس لئے منعقد نہیں کیا تھا کہ جو جلسے کا مقصد ہے اسے پورا نہیں کیا جاتا.میں بھی یہ سوچ رہا ہوں کہ لجنہ کا وسیع پیمانے پر جلسہ ہی بند کر دیا جائے اور چھوٹے چھوٹے ریجنل جلسے کئے جائیں اور پھر اگر تربیت ہو جائے، تسلی ہو جائے تو پھر مرکزی جلسہ کریں.یا پھر دوسری صورت یہی ہے کہ تھوڑا سا ان کو توجہ دلانے کے لئے میں لجنہ میں براہ راست خطاب بند کر دوں اور جب تک یہ اطلاع نہیں مل جاتی کہ اس سال تمام پروگرام لجنہ نے خاموشی سے سنے ہیں اس وقت تک وہاں خطاب نہ کیا جائے.مجھے پتہ ہے ، احساس ہے کہ عورتوں کی کافی تعداد جو خالصتاً جلسہ کی نیت سے آتی ہیں ان کے لئے بہت تکلیف دہ ہو گا.لیکن علاج کے لئے بعض دفعہ کڑوی گولیاں دینی پڑتی ہیں.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک سال جلسہ نہیں کیا تھا، حالانکہ بڑے اخلاص سے بڑی تعداد جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئی تھی تو یہاں بھی ایک صورت کی جائے تا کہ شاید اصلاح ہو جائے.یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف ٹو مبائعات جو بڑے آرام سے اور شوق سے جلسہ سنتی ہیں اور میں پچیس سال تک کی لڑکیاں ، عورتیں جن میں فی الحال کم باتیں کرنے کا شوق ہے، ان کو جلسہ پر یا مرکزی اجتماع پر آنے کی اجازت ہو اور باقیوں پر پابندی لگادی جائے اور صرف یہاں نہیں بلکہ میں اب سوچ رہا ہوں کہ اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے مختلف ملکوں میں اس طرح کے جائزے لوں جہاں بڑی جماعتیں ہیں.عورتوں کو اتنی مرتبہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اپنے مقام کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا کریں لیکن بہت کم اثر ہوتا ہے.میری تقریر کے دوران لجنہ کی مارکی میں اس قدر خاموشی تھی کہ میں سمجھا تھا کہ
خطبات مسرور جلد پنجم 370 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء ضرور میری باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن میرے مارکی سے باہر نکلنے کے بعد ہی وہاں شور شروع ہو گیا.وہی ہنگامہ، وہی باتیں اور سارے پروگراموں کے دوران اسی طرح ہوتارہا.یا درکھیں اگر اسی طرح کی حرکتیں ہوتی رہیں تو یہ پرانے احمدیوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ نئے آنے والے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں اور پُرانوں کو جلسے کا صرف ایک مقصد یاد رہ گیا ہے کہ آپس کے تعلقات بڑھاؤ.یاد رکھیں کہ ہر عمل جو موقع محل کے لحاظ سے نہ کیا جائے ، بے شک صحیح اور اچھا ہو، وہ عمل صالح نہیں کہلا تا.میں سمجھتا ہوں ک لجنہ کی تنظیم بھی نچلی سطح سے لے کر ، اپنے شہر کی تنظیم سے لے کر مرکزی سطح تک تربیت میں اس کمی کی ذمہ دار ہے.بڑے بڑے مسائل یاد کرنے سے بہتر ہے پہلے اپنی تربیت کریں.جیسا کہ میں نے کہا جماعت میں نئے شامل ہونے والے اپنے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں اور دنیا کے ہر ملک میں بڑھ رہے ہیں اُن کو دیکھ کر جہاں خوشی ہوتی ہے کہ نئے آنے والے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نیکی اور اخلاص میں بڑھنے والے ملک ملک میں عطا کئے ہیں اور عطا فرما رہا ہے اور دل سے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات نکلتے ہیں ، وہاں یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ پرانے احمدیوں کی قربانیوں کو کہیں ان کی اولادیں ضائع نہ کر دیں.جرمنوں میں میں نے دیکھا ہے خاص طور پر نو جوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جو احمدی ہو رہے ہیں اسلام کی پیاری تعلیم کا بہت اثر ہے.کوشش کرتے ہیں کہ حتی الوسع ہر حکم کو مانیں اور ہر حکم کی پابندی کریں.وقتی اطاعت نہیں بلکہ مستقل اطاعت کا جو اپنی گردن پر ڈالیں.اس وقت یہاں نو مبائعین کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور اس تھوڑی سی تعداد میں بھی اطاعت اور خدمت کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے.یہ لوگ نمایاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں.لیکن انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی دور نہیں ہے جب یہ تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہونے والی ہے.اس لئے میں جرمن احمد یوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اسلام کی تعلیم جہاں اپنی زندگیوں پر لاگو کریں وہاں شمع ہدایت بنتے ہوئے اپنے ہم وطنوں میں بھی یہ تعلیم پھیلائیں.اسلام کی جو روشنی آپ کو ملی ہے اس شمع سے دوسروں کے دل بھی روشن کریں.اسلام کے خوبصورت پیغام سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں.اس تاثر کو دھوئیں کہ اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے.گزشتہ دنوں یہاں جرمنی میں کچھ لڑ کے گرفتار ہوئے ، کچھ جرمن اور کچھ ترک لڑکے تھے جو دہشت گردی کرنے والے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے ٹرینینگ لے کر آئے تھے.ایک بڑے نقصان سے اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو بیچا
خطبات مسرور جلد پنجم 371 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء لیا ہے.ان بھٹکے ہوؤں تک بھی اسلام کی صحیح تعلیم پہنچا ئیں اور اپنے ہم قوموں کو بتا ئیں کہ اس اسلام کو اسلام نہ سمجھو جس کا اظہار ان لوگوں سے ہو رہا ہے بلکہ حقیقی اسلام کے لئے ہمارے پاس آؤ، ہماری بات سنو.پس یہ پیغام پہنچانے کے لئے جامع پروگرام بنائیں اور یہی شکر گزاری اور اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کا طریق ہے.پاکستانی احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ اپنی حالتوں میں پہلے سے بڑھ کر تیزی کے ساتھ تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اپنی حالتوں میں انقلاب لانے کی کوشش کریں.یہی صحیح شکر گزاری کا طریق ہے.یہی اپنے بزرگوں کے نام کو زندہ رکھنے کا طریق ہے جنہوں نے احمدیت کی خاطر قربانیاں دی تھیں.یہی آپ کا جماعت میں شامل ہو کر صحیح حق ادا کرنے کا طریق ہے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.جلسہ کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں گیارہ سعید فطرت مردوں، عورتوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے.مردوں میں بھی دستی بیعت ہوئی، بہت ساروں نے دیکھا ہو گا ، جس میں دورانِ سال بعض نئے شامل ہونے والوں اور جلسہ کے دوران بھی پانچ یا چھ مردوں نے بیعت کی جو احمدی ہوئے تھے.اس وقت بھی میں نے ان مرد نو مبائعین کی عجیب جذباتی کیفیت دیکھی تھی.لیکن اس دفعہ بہت سوں کو علم نہیں، میں بتادوں کہ میں نے براہ راست جرمن عورتوں میں بھی بیعت لی ہے اور اس طرح لی تھی کہ اپنی بیوی کا ( محرم کا ہاتھ پکڑا جا سکتا ہے) ہاتھ پکڑ کے اور باقی عورتوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اور پھر چین (Chain) بن کے 60-70 عورتوں نے اس طرح بیعت کی اور بیعت کرنے والیوں میں بعض بالکل نئی تھیں، ان کو احمدیت قبول کئے کچھ عرصہ ہوا تھا.عموماً تو تمام عورتیں ہی اس وقت جذباتی کیفیت میں تھیں لیکن خاص طور پر ان نئی شامل ہونے والیوں کی حالت عجیب تھی ، جن کی احمدیت کی زندگی صرف چند دن یا چند مہینے تھی.اس قدرا خلاص اور جذبات کا اظہار کر رہی تھیں کہ صاف نظر آرہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں آکران میں ایک انقلاب آ گیا ہے.بیعت کے الفاظ شروع ہوتے ہی انہوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا.بیعت کے بعد جو دعا ہوئی اس میں بھی ان کی تڑپ بیان سے باہر ہے اور جب میں وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا ہوں تو مجھے بتایا گیا کہ پھر وہ سجدہ شکر بجالانے کے لئے سجدہ میں پڑ گئیں.یہ اس معاشرے کی وہ نو جوان تھیں جس نے خدا کو بھلا دیا ہوا ہے.لیکن خدا کے مسیح اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق سے تعلق جوڑ کر انہوں نے اس دنیا اور
خطبات مسرور جلد پنجم 372 خطبہ جمعہ 7 ستمبر 2007 ء اپنے معاشرے کوٹھکرا کر واحد دیگا نہ خدا سے پیاراور صدق و وفا کا زندہ تعلق قائم کر لیا ہے.پس جلسہ کی یہ بھی برکات ہیں اور یہ برکات ہمیں تبھی فائدہ دیں گی جب ہم ہمیشہ شکر گزاری کرتے چلے جائیں گے، ہمیشہ اپنے عہد بیعت میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جائیں گے، ہمیشہ شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کامل فرمانبردار بنتے چلے جائیں گے.اور تبھی ہر فرد جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا ایک مفید رکن بنے والا کہلا سکے گا، جب ان باتوں پر عمل ہوگا ورنہ ایک خشک ٹہنی کی طرح ہو گا جو بے فائدہ ہے جو جلانے کے کام آتی ہے.تو ہر احمدی کو خشک ٹہنی بنے کی بجائے سرسبز اور ثمر آور شاخ بننے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا صحیح عبد بنتے ہوئے اور اس کا شکر گزار بنتے ہوئے ان برکات سے فائدہ اٹھانے والا بننا چاہئے جن کے حصول کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا جاتا ہے اور جس مقصد کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے جاری فرمائے تھے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورمحه 28 ستمبر تا 4 اکتوبر 2007 ء ص 5 تا 8 |
خطبات مسرور جلد پنجم 373 (37) خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2007ء بمطابق 14 رتبوک 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 184) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تا کہ تم تقوی اختیار کرو.یہ ہے روزوں کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور حکم.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سال پھر ہمیں موقع دیا کہ اس نے ہماری روحانی ترقی کے لئے جو بہترین انتظام فرمایا ہوا ہے اس میں شامل ہورہے ہیں.گنتی کے یہ چند دن ، جوکل سے شروع ہوئے ، ان میں سے گزر رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اگر ہم نے تقوی میں ترقی کرنی ہے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، اپنی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دلوانا ہے، اپنی دینی ، اخلاقی اور روحانی حالت بہتر کرنی ہے تو ان دنوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ روزے جو تم پر فرض کئے گئے ہیں یہ روحانیت میں ترقی اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور دنیا میں پہلے بھی انبیاء کے ماننے والوں کی روحانی ترقی کے لئے ، ان کے تزکیہ نفس کے لئے ، ان کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے یہ فرض کئے گئے تھے.پس یہ ایک اہم حکم ہے.اس کی پابندی ہی ہے جو ہمیں تقوی کے معیاروں کو اونچا کرنے والی بنائے گی.پہلے انبیاء کے ماننے والوں نے بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پایا اور اس کے فضلوں کے وارث ہوئے ، جنہوں نے بے چون و چراں خدا تعالیٰ کے حکموں کی پابندی کی.جب بھی خدا تعالیٰ نے اپنے احکامات کسی نبی پر اتارے جب دنیا کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے، وہی لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے اور اس کے احکامات سے حصہ لینے والے بنے جنہوں نے اُن بھیجے ہوؤں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہوئے اس تعلیم پر عمل کیا اور اُن احکامات پر چلتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن پر اتارے تھے اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بڑھاتے رہے.جب انکاری ہوئے تو جہاں روحانی معیار گرے وہاں دنیا وی طور پر بھی شان و شوکت کھو بیٹھے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر بھی فرمایا ہوا ہے.پس اللہ تعالیٰ جب انبیاء کے ماننے والوں کو تقویٰ پر چلنے کی تلقین کرتا ہے تو یہ بھی فرماتا ہے کہ تم تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کر کے دنیا و آخرت کے
374 خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم انعامات سے حصہ لینے والے بنو گے، اُس کی جنتوں کے وارث بنو گے جیسا کہ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جنتنِ (الرحمن : (47) یعنی جو بھی اپنے رب کی شان سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں ہیں.اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کے مقام کو پہچانو کہ تمام قدرتوں کا وہی مالک ہے.اسی کا خوف سب سے زیادہ تمہارے دلوں پر ہونا چاہئے.پھر اس دنیا میں بھی اس کی جنتوں سے حصہ لو گے اور اُخروی زندگی میں بھی اُس کے انعامات اور جنتوں کے وارث ٹھہرو گے.پس ہر احمدی مسلمان کو تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقام کی پہچان ضروری ہے.اور یہ پہچان اس وقت ہوگی جب خالص اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرو گے اور اللہ تعالیٰ نے ان احکامات میں سے ایک حکم رمضان میں روزوں کی پابندی کا ہمیں دیا.ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسی کتاب کو ماننے والے ہیں جو کامل اور مکمل کتاب ہے.اس کتاب کے ماننے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو کمال تک پہنچانے کا اعلان فرمایا ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس شریعت کے ماننے والے ہیں جس کو تا قیامت قائم رکھنےکا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس آخری شرعی نبی ﷺ کو ماننے والے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء کہہ کر تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل بنا دیا ہے.پہلے رسول اپنی قوم کو تقویٰ پر قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن قوموں کی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے احکامات لاتے رہے.لیکن قرآن کریم تمام دنیا کی تمام قوموں اور تمام زمانوں کی اصلاح کے لئے احکامات لے کر آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا.تقوی پر قائم رکھنے کے لئے وہ احکامات لے کر آیا جو آج بھی تمام قوموں اور اس زمانے کے لئے تازہ ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ چیزیں ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں یہ احکامات جو اُترے اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر انعام اور احسان کیا، یہ ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں؟ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اس آخری شرعی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کے کمال کا ذکر فرمایا ہے ان کے حصول کی کوشش کریں.یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کارلائیں.وہ مجاہدہ کریں جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں راستہ دکھایا ہے، ہمیں حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا العنکبوت : (70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.پس اللہ سے ملنے کے لئے مجاہدہ کرنا اور کوشش کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ انہیں ہی اپنے راستوں کی طرف آنے کی رہنمائی فرماتا ہے جو خالص ہو کر اس کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہی کو تقویٰ پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے جو خود بھی تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُنہی کی طرف دوڑ کر آتا ہے جو کم از کم خود چل کر اس کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقویٰ کے حصول کے لئے ان کوششوں میں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوششوں میں ، ایک
خطبات مسرور جلد پنجم 375 خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء بہت بڑا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کو بنایا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے انعاموں کے حصول کے لئے جو حقیقی کوشش کرتا ہے وہ گنا ہوں سے پاک کر دیا جاتا ہے.اسے نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بن جاتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حدیث میں ہے ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے مابین ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے.(صحیح بخاری.كتاب الجهاد والسير باب فضل الصوم في سبيل الله حدیث نمبر (2840 یعنی موسم سرما اور گرما کے درمیان جتنا فرق ہے ، اس سے ستر گنا زیادہ فرق کر دیتا ہے.یہ ایک مثال ہے کہ اس سے آگ اتنی دور کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھنا ضروری ہے جیسا کہ اس نے حکم دیا.کسی قسم کا دنیاوی مقصد نہ ہو.خالص اُس کی رضا کا حصول مقصد ہو تو اللہ تعالیٰ مجاہدہ کرنے والے کو نہ صرف آگ سے بچاتا ہے بلکہ اپنی رضا کی جنتوں میں بھی داخل فرماتا ہے.اس کو دین بھی ملتا ہے اور دنیا بھی ملتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: " خدا تعالیٰ کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی نا کام نہیں رہتا.اس کا سچا وعدہ ہے اَلَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: (70) خدائے تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جو یا ہوا جس نے کوشش کی وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا.دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے، راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا ؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں.اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا.رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 161-162 ) | پس اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں ہمیں موقع دیا ہے، اس مہینے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے داخل کیا ہے جس میں روزہ رکھنے والوں کے لئے ، ان روزہ رکھنے والوں کے لئے جو خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے روزہ رکھتے ہیں، آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق روزے کی جزا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے پر لے لی ہے.ایک اور جگہ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ ڈھال بن جاتا ہے.بندے اور آگ کے درمیان روزہ ایک ڈھال بن جاتا ہے.روزہ اللہ کے بندے اور آگ کے درمیان ایک مضبوط قلعہ اور حصار بن جاتا ہے جس کی دیواروں سے پار ہو کر آگ کبھی اللہ تعالیٰ کے بندے کو جلا نہیں سکتی.یہ ایک حدیث قدسی ہے.یعنی آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے، اس حدیث کی تفصیل ایک اور جگہ بخاری میں اس طرح آئی ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ابنِ آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے.پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا
خطبات مسرور جلد پنجم 376 خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء دوں گا اور روزے ڈھال ہیں.جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں تو روزے دار ہوں.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، ، ، روزے دار کی منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے.روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں.ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہوگا.(بخاری کتاب الصوم.باب هل يقول اني صائم اذا شتم حدیث نمبر (1904 ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ عز وجل کی خاطر رکھا جاتا ہے اور روزہ رکھنے والے کا اجر صرف اللہ عز وجل کو ہی معلوم ہے.اللہ تعالیٰ نیکیوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ جو نیکیاں کرنے والے ہیں اور جو اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہیں ان کو میں سات سو گنا تک اجر دیتا ہوں اور اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہوں.تو روزوں کا اجر اس بیان کردہ حد سے بڑھ جانے والا ہے.کتنا بڑھاتا ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو پتہ ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات، اُس کی صفات لا محدود ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جزا بھی لا محدود ہے.پس یہ انسانی تصور سے ہی باہر ہے کہ کتنا اجر ہو گا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ الہ تعالی کوہی پتہ ہے.لیکن بعض حدود اللہ تعالیٰ نے روزہ کے ساتھ لگا دی ہیں کہ اس لامحدود اجر پانے کے لئے تمہیں اپنی حدوں میں بھی قائم رہنا ہوگا ، ان احکامات کی تعمیل کرنی ہوگی.صرف فاقہ نہیں کرنا بلکہ کچھ مجاہدے کرنے ہوں گے ، بُرائیوں کو چھوڑنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں آیا.ہر قسم کے نفسانی اور شہوانی جذبات سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی بلکہ جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعض جائز باتوں کو بھی خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑنا ہو گا.جب یہ حالت ہو گی تو وہ روزہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہوگا.یہ بُرائیاں چھوڑنا ہی ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہوگا.لیکن یہ وقتی چھوڑ نا نہیں ہے، ان بُرائیوں سے وقتی طور پر کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی بلکہ مستقلاً یہ عادت ڈالنی ہوگی.جب یہ حالت ہوگی تو وہ روزہ پھر اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ جس کو انسان کی پاتال تک کی خبر ہے وہ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ جانتا ہے کہ بندے کے کسی بھی فعل کے پیچھے اس کی کیا نیت ہے.وہ ذات جو حاضر اور غائب کا علم رکھتی ہے اگر اس کی صفات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر روزہ دار روزہ رکھتا ہے اور مجاہدہ کرتا ہے تو پھر وہ روزہ اس کے لئے جزا بن جائے گا.جو روزہ اس نیت سے رکھا جائے گا کہ آج میں ان نفسانی اور شہوانی باتوں سے دور جارہا ہوں، ان کو ترک کر رہا ہوں تو صرف رمضان کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ،تب ہی وہ روزہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوگا ، خدا کی خاطر رکھا جانے والا کہلا سکے گا.کسی گالی کے جواب میں جب وہ یہ کہتا ہے کہ میں روزہ دار ہوں ، تمہاری لغویات کا جواب نہیں دے سکتا تو یہ مطلب نہیں کہ روزہ کھول لوں پھر جواب دے دوں گا، پھر تمہیں دیکھ لوں گا کہ تم کتنے پانی میں ہو.پھر میں تمہیں دیکھ لوں گا کہ تم میرے سے زیادہ طاقتور ہو یا نہیں ، ابھی فی الحال میں جھگڑا نہیں کر سکتا ہمیں روزہ دار ہوں.نہیں بلکہ روزہ ایک ٹریننگ کیمپ Training Camp) ہے جس میں ان بُرائیوں کے چھوڑنے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے اور یہی ایک مجاہدہ ہے جو روزہ دار نے کرنا ہے.خدا کی طرف بڑھنے کے صحیح قدم اسی وقت اٹھا سکیں گے جب ایک
خطبات مسرور جلد پنجم 377 خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء انسان مستقل مزاجی سے اپنے اوپر ان بُرائیوں کو چھوڑنے کا عمل جاری رکھے گا تبھی وہ آخری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا.کیا صرف 30 دن کی جو نیکیاں ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے وہ مقام عطا فرمائے گا جو اس کی رضا کا مقام ہے اور بندہ خوش ہو گا ؟ نہیں، بلکہ اس لئے خوش ہو گا کہ ایک رمضان کے روزوں نے میرے اندر بُرائیاں ختم کیں.میری نفسانی اور شہوانی حالتوں کو دور کرنے کی کوشش کی وجہ سے، میری استغفار کی وجہ سے ، میری اس کوشش کی وجہ سے کہ میں اللہ کی خاطر بُرائیوں کو ترک کرنے والا بنوں اللہ تعالیٰ نے مجھے بُرائیوں سے دور کیا.اور زندگی کا ہر رمضان جو اس کوشش کی نیت سے آئے گا اور سال کا ہر مہینہ جو اس رمضان میں حاصل کردہ نیکیوں کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے گزرے گا، سال کا ہر دن ان تہیں دنوں کی ٹریننگ کی وجہ سے بُرائیوں سے دور کرتے ہوئے گزرے گا تو آخر کو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا اور وہ مقام ہوگا جہاں بندہ خوش ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بُرائیوں کو رمضان کی برکتوں کی وجہ سے مجھ سے دُور کیا اور مجھے رمضان کی وجہ سے میری نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کا موقع عطا فر مایا.میں نے خالص ہو کر اس کی خاطر روزے رکھے اور ان روزوں کے مجاہدے سے اپنے اعمال کی اصلاح کی کوشش کی ، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کئے اور آج میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن رہا ہوں.پس رمضان آیا ہے تو اپنی عبادتوں کے معیار بھی ہمیں بلند کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے اعمال پر نظر رکھتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے.ایک طالب علم کی طرح جو امتحان کی تیاری کے لئے محنت کرتے ہوئے راتوں کو دن کر دیتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم بھی اپنی راتوں کو ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی خاطر گزارنے کی کوشش کریں گے تو وہ رحیم و کریم خدا ، وہ مستجاب الدعوات خدا اپنے وعدے کے مطابق ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر ڈالے گا.ہمیں ان راستوں کی طرف لائے گا جو اس کی رضا کے راستے ہیں.ہمیں ان انعامات سے نوازے گا جن سے وہ اپنے خاص بندوں کو نوازتا.ہے.ہمارے تقویٰ کے معیاروں کو وہاں تک لے جائے گا جہاں اس کا قرب حاصل ہوتا ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ نے روزہ کو ڈھال بنایا ہے تو اس ڈھال کا استعمال بھی آنا چاہئے.اگر ڈھال صحیح طرح اپنے سامنے نہ رکھی جائے ، اگر اُس کو مضبوطی سے نہ پکڑا جائے تو حملہ آور کا ایک ہی وار اس کو ہوا میں اڑا دیتا ہے اور ڈھال، ڈھال کا کام نہیں دے سکتی.پس شیطان جو سب حملہ آوروں سے زیادہ خطرناک حملہ آور ہے اس کے وار سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ترقی کرنے ، اپنی راتوں کو زندہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مضبوط پکڑنے سے ہی روزے کی اس ڈھال سے ایک مومن صحیح فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ ٹرینگ کے دن اللہ تعالیٰ نے ہمیں میسر فرمائے.جہنم کی آگ سے بچنے کے لئے روزہ تبھی قلعہ کا کردارادا کرے گا جب قلعہ کے ہر دروازے پر اپنی عبادتوں اور اعمال کے پہرے بٹھائے جائیں گے.پھر یہ پہرے اور مضبوط قلعہ کی دیوار میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کھڑی کی ہیں، جہنم کی آگ سے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہر ایک مومن بندے کو بچائیں گی.
378 خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور تقویٰ پر قدم مارنا ہی ایک مومن بندے کی زندگی میں انقلاب لاتے ہوئے ، ایک مومن بندے کو اس دنیا کی نعماء سے بھی بہرہ ور کرے گا اور آخرت میں بھی.پس ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اس مہیا کردہ انتظام سے فائدہ اٹھائیں.اس کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق یہ دن گزارتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کریں.آنحضرت ﷺ سے پہلے جو نبی آئے، پہلوں کی جو تعلیم تھی وہ تو عارضی زمانے کے لئے تھی ختم ہوگئی.وہ تعلیم تو عارضی تقوئی عطا کرنے کے لئے تھی اور تعلیم کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس میں وہ تازگی نہیں رہی ، تقویٰ نہیں رہا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اسلام کی تعلیم تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.قرآن کریم کے احکامات تو ہمیشہ کے لئے قائم ہیں.دوسرے مذاہب کے روزوں میں تو نفسانی خواہشات داخل ہو گئی ہیں.ہماری تو تعلیم بھی زندہ ہے اور احکامات بھی اصل حالت میں قائم ہیں.پس ہمیں اپنے تقویٰ کے معیاروں کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیشہ جد و جہد کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے.ہمیں تقویٰ کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو بلند سے بلند مقام حاصل کرنے کے لئے راستے دکھائے ہوئے ہیں، انہیں حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ سیڑھیاں بھی مہیا فرمائی ہوئی ہیں جن پر ہم نے چڑھنا ہے جس کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنی استعدادوں کے مطابق اُن بلندیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ایک کے بعد دوسرا قدم بڑھاتے ہوئے اوپر چلتے چلے جانا چاہئے.اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر امت بنا کر عبادتوں کی بلندیوں کے راستے بھی دکھا دیئے ہیں اور اعمالِ صالحہ کی بلندیوں کے راستے بھی دکھا دیئے ہیں.پس ہم خیر امت تبھی کہلا سکیں گے جب یہ معیار حاصل کرنے والے ہوں گے.ایک کے بعد دوسرا معیار حاصل کرنے کی سعی کرتے چلے جائیں گے، کوشش کرتے چلے جائیں گے.پس اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کئے گئے یہ اعمال ہی ہیں جو تقویٰ کہلاتے ہیں ، جس کے حصول کے لئے رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان میں تقویٰ کے حصول کے لئے مجاہدہ کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدرتز کیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لئے تسلی اور سیری کا باعث ہے.اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے ، انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے“.(الحكم جلد11نمبر 2 مورخه 17/جنوری 1907ء صفحه 9)
خطبات مسرور جلد پنجم 379 خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء پس یہ ہے روزہ دار کا مقصد جس سے اللہ کا قرب اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے اور ایسے بندے کو اللہ تعالیٰ پھر بڑھ کر اپنی آغوش میں لے لیتا ہے، اسے اپنی معرفت عطا فرماتا ہے، اپنے انعامات سے نوازتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت اور معرفت کی راہیں کھول دیتا ہے.جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : 70) یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں“.فرمایا کہ: ”ہم میں سے ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بنا پر خدا جو کئی اپنا مقصد رکھ کر“.(الحكم جلد 8 نمبر 18 مورخه 31/مئی1904ء صفحه2) یعنی ان کا مقصد خدا تعالیٰ کی تلاش ہوتا ہے وہ لوگ ہیں جو صحیح کوشش کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ خدا کی رضا کا حصول اپنا مقصد بناتے ہوئے اس رمضان میں سے گزریں اور ہمارے روزے خالصتہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہوں.خدا کی معرفت بھی ہمیں حاصل ہو جو مستقل ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے اور ہمیں ہر آن تقویٰ میں بڑھانے والی رہے.حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:.اس وقت میں چند مرحومین جن کی گزشتہ دنوں میں وفات ہوئی، گوان کے جنازے ہو گئے ہیں لیکن ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بھی ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، ان کا بزرگوں سے تعلق ہے.ایک تو ہیں محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ.یہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم کی اہلیہ تھیں.94 سال کی عمر میں 5 ستمبر 2007 ء کو ان کی وفات امریکہ میں ہوئی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی خواجہ عبید اللہ صاحب کی بیٹی تھیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ہی ان کا رشتہ حضرت شمس صاحب سے کروایا تھا.1932ء میں ان کا نکاح ہوا تھا.ان کی قربانیوں کی مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1956ء کے لجنہ کے اجتماع کے موقع پر فرمایا تھا.کہ ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.وہ شادی کے تھوڑے عرصے بعد یورپ گئے ، یورپ میں تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.ان کے واقعات سن کر بھی انسان کو رقت آتی ہے.ایک دن ان کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ اماں ابا کسے کہتے ہیں.سکول میں سارے بچے اتنا ابا کہتے ہیں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا اتنا کہاں گیا ہے.کیونکہ وہ بچے ابھی تک تین تین، چار چار سال کے تھے کہ شمس صاحب تبلیغ کے لئے لندن چلے گئے.یہاں لندن میں تبلیغ کے لئے رہے ہیں اور جب واپس آئے تو بچے 17-18 سال کے ہو چکے تھے.تو انہوں نے بڑی قربانی سے بچوں کو پالا اور بغیر شکوہ لائے پیچھے علیحدہ رہیں.اس وقت حالات ایسے تھے مبلغین کی فیملیاں ساتھ نہیں ہوتی تھیں.
380 خطبہ جمعہ 14 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم اس زمانے میں مبلغین اور ان کی بیویوں نے بھی بڑی قربانی دی ہوئی ہے.مرحومہ موصیبہ تھیں.بڑی نیک خاتون تھیں.منیر الدین صاحب شمس کی والدہ تھیں جو ہمارے وکیل التصنیف ہیں اور ان کے علاوہ بھی چار بیٹے ہیں.دوسری خاتون سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ہیں.ان کی بھی عمر تقریباً 95 سال تھی.6 ستمبر 2007ء کو وفات ہوئی.جنازہ ان کا ہو گیا ہے.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں.ان کا رشتہ بھی حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے پر مولانا ابوالعطاء صاحب سے تجویز کیا تھا اور خود ہی نکاح پڑھایا تھا.آپ بھی بڑی نیک عبادت گزار تھیں.مولانا عطاء المجیب صاحب راشد جو ہمارے امام مسجد ہیں ان کی والدہ تھیں.ان دونوں بزرگوں کا خلافت سے بھی بڑا گہرا تعلق تھا.یہ یہاں لندن میں رہتی تھیں اور مجھے ملتی بھی رہتی تھیں.ایک عجیب پیار، وفا اور اخلاص کا تعلق ان کی آنکھوں سے جھلکتا تھا.آپ 1/8 کی موصیہ تھیں.تیسری خاتون ناصرہ بیگم صاحبہ ہیں جو چوہدری سید محمد صاحب کی اہلیہ تھیں ، ان کی 84 سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے.یہ بھی ایک صحابی کی بیٹی تھیں جو موضع و نجواں ضلع گورداسپور میں رہتے تھے.ان کا نام چوہدری فقیر محمد صاحب تھا.ان کے والد 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت شہید ہو گئے تھے اور جب لوائے احمدیت کے لئے کپڑا تیار کیا جا رہا تھا تو ان کے والد نے خود اپنے ہاتھ سے کپڑا تیار کیا تھا اور بڑے نڈر داعی الی اللہ تھے.یہ خود بھی بڑی نڈر داعی الی اللہ تھیں اور عورتوں کو اپنے ساتھ لے جا کر تبلیغ کرتی رہتی تھیں.ان کے چار بیٹے ہیں ، جن میں سے ایک تو ہمارے مبلغ امریکہ ہیں داؤ د حنیف صاحب.دوسرے ان کے بیٹے یہاں ہیں منور صاحب جو جماعت کے سیکرٹری امور عامہ ہیں.یہ سب خواتین بڑی نیک، خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والی، دعا گو بزرگ تھیں.اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولادوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے اور قائم رکھنے کی تو فیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخه 5 تا 11 اکتوبر 2007ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 381 38 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007 ء فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2007ء بمطابق 21 رتبوک 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشهد ، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ.وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.(البقرة: 185-186 ) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ گنتی کے چند دن ہیں پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے.جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے.پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لئے بہت اچھا ہے اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے، اگر تم علم رکھتے ہو.رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہو گا.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا، اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کر واس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تا کہ تم شکر کرو.گزشتہ خطبہ میں رمضان میں روزوں کی فرضیت کا ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے روزے فرض قرار دیئے ہیں جو ایک مجاہدہ ہے اور مجاہدہ ہی ہے جس سے تقوی میں ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیات میں جو میں نے تلاوت کی ہیں اس کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں.یہ گنتی کے چند دن جو تمہاری تربیت کے لئے تمہیں مجاہد بنانے کے لئے رکھے گئے ہیں تمہارے لئے اس لئے فرض کئے گئے ہیں کہ انسان کی زندگی کا جو مقصد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا عابد بننا، اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر ظلم نہیں کرتا گو کہ روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ ایک مجاہدہ بھی ہے بعض دفعہ تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے لیکن ظلم نہیں ہے کہ روزہ
382 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے.لیکن جو طاقت رکھتے ہیں ان کے لئے اور اگر عارضی طور پر بعض مجبوریوں کی وجہ سے تم روزہ نہیں رکھ سکتے مثلاً کوئی ہنگامی سفر آ گیا ہے، کوئی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے روزے رکھنا مشکل ہے تو فرمایا فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ اُخَرَ.پھر دوسرے دنوں میں یہ تعداد پوری کرو.پس کسی کو یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ میں بیمار ہو گیا ہوں یا سفر آ گیا ہے تو اس رعایت کی وجہ سے کہ ان دنوں میں روزے نہ رکھو ایسی حالت میں روزے معاف ہو گئے ہیں.نہیں، اگر ایمان میں ترقی چاہتے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوتو جب صحت ہو جائے یا جو روزے ہنگامی سفر کی وجہ سے ضائع ہوئے ہیں، چھوڑے گئے ہیں، انہیں رمضان کے بعد پورا کرنا ضروری ہے اور یہی ایک متقی کی نشانی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے جو سہولت دی ہے اس سہولت سے فائدہ کا جواز اس وقت تک ہے جب تک وہ حالت قائم ہے جس کی وجہ سے سہولت ملی ہے.لیکن یہاں یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ بیماری بھی ایسی ہو حقیقی تکلیف دہ بیماری ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنا مشکل ہو، بہانے نہ ہوں.جس طرح جن لوگوں کا کام ہی سفر ہے مثلاً ڈرائیور ہے یا کاروبار کے لئے یا ملازمت کی وجہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے لمبا سفر کرنا پڑتا ہے، تو ان کے لئے سفر نہیں ہے.یہ میں اس لئے کھول کر بتا رہا ہوں کہ ایک طبقے میں خاص طور پر جن ملکوں میں موسم کی شدت ہوتی ہے بلاوجہ روزے نہ رکھنے کا جواز تلاش کیا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچانے کا ان دنوں میں ہمیں موقع عطا فرمایا ہے اس لئے اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے.اللہ تعالیٰ کو اپنے حقیقی بندوں کا ، ان بندوں کا جو اس کی رضا کے راستے تلاش کرتے ہیں، خود ہی خیال رہتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی مریض اور مسافر کو سہولت دے دی ہے.پھر فرماتا ہے کہ جو روزے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے لئے فدیہ ہے، پھر وہ ایک مسکین کو روزہ رکھوائے.لیکن جو بعد میں روزے پورے کر سکتے ہیں وہ بھی اگر فدیہ دیں تو ٹھیک ہے، ایک نفل ہے، تمہارے لئے بہتر ہے.لیکن جب وہ حالت دوبارہ قائم ہو جائے ،صحت بحال ہو جائے یا جو وجہ تھی وہ دور ہو جائے تو پھر رمضان کے بعد روزے رکھنا ضروری ہے باوجود اس کے کہ تم نے فدیہ دیا ہے ، یہی چیز ثواب کا باعث بنے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو کبھی امید نہیں کہ پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے.دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ بیمار جن کی عارضی بیماری ہے دور ہوگئی.ایک وہ بیمار جن کی بیماری مستقل ہے اور بعد میں ان کو روزہ رکھنے کا موقع نہیں مل سکتا.تو فرمایا کہ جن کو کبھی امید نہیں کہ روزہ رکھنے کا موقع مل سکے، مثلاً ایک نہایت بوڑھا، ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اور سال بھر اسی طرح گزر جائے گا ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور فدیہ دیں باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزہ کے رکھنے سے معذور سمجھا جاسکے.بدر جلد6 نمبر 43 مورخه 24/اکتوبر (1907ء (صفحه 3
خطبات مسرور جلد پنجم 383 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007 ء پس یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ صرف فدیہ دے کر، اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں ، چھوٹی یا عارضی بیماری میں بھی فدیہ دیا جا سکتا ہے اور یہ ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نفل کے طور پر تمہارے لئے بہتر ہے.پس اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے روزہ فرض کیا ہے لیکن اسلام کیونکہ دینِ فطرت ہے اس لئے یہ ختی نہیں کہ کیونکہ تم نے روزہ نہیں رکھا اس لئے تمہارے اندر تقویٰ پیدا نہیں ہوسکتا، تم اللہ تعالیٰ کی رضا کبھی حاصل نہیں کر سکتے.فطری مجبوریوں سے فائدہ تو اٹھاؤ لیکن تقوی بھی مد نظر ہو کہ ایسی حالت ہے جس میں روزہ ایک مشکل امر ہے تو اس لئے روزہ چھوڑا جا رہا ہے، نہ کہ بہانے بنا کر.پھر اس کا مداوا اس طرح کرو کہ ایک مسکین کو روزہ رکھواؤ.یہ نہیں کہ بہانے بناتے ہوئے کہہ دو کہ میں روزہ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتا، پیسے میرے پاس کافی موجود ہیں ، کشائش ہے، غریب کو روزہ رکھوا دیتا ہوں.ثواب بھی مل گیا اور روزے سے جان بھی چھوٹ گئی.نہ یہ تقویٰ ہے اور نہ اس سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.اگر نیک نیتی سے ادا نہ کی گئی نمازوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازیوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں تو جو فدیہ نیک نیتی سے نہ دیا گیا یا بدنیتی سے دیا گیا ہوگا، یہ بھی منہ پر مارا جانے والا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ فدیہ تو اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے.ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے یعنی ایسے خود ہی ایسے راستے کھول دیں گے جہاں جائز نا جائز کی وضاحتیں شروع ہو جائیں گی، تشریحیں شروع ہو جائیں گی ، فرمایا کہ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں.اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی.بدر جلد 6 نمبر 43 مورخه 24/ اکتوبر 1907ء صفحه (3) پس جب انسان بہانوں سے نرمی اور سہولت کے راستے تلاش کرتا ہے تو دین سے ہٹتا چلا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ.وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.پس جو شخص دلی خوشی سے اور فرمانبرداری کرتے ہوئے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کے لئے بہتر ہوگا اور اگر تم علم رکھتے ہو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے.ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ علاوہ روحانی ترقی کے روزہ تمہاری جسمانی صحت کے لئے بھی ضروری ہے اور آجکل کی سائنس اور ڈاکٹر ز بھی یہ ہی کہتے ہیں.پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ہمیشہ پہلے اس حکم کو ذہن میں رکھے کہ تقویٰ کے لئے روزہ کی فرضیت کی گئی ہے
384 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم اور تقویٰ کے لئے مجاہدہ ضروری ہے.خدا کی رضا کے حصول کے لئے اس کی راہ میں قربانی ضروری ہے.ہاں یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہماری حالتوں اور ہماری مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے جو سہولتیں ہمیں مہیا فرمائی ہیں ان سے اس حد تک فائدہ اٹھائیں جو جائز ہے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والے نہ بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور میں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے.اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہلِ دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں.بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صیح نہیں.تکلفات کا باب بہت وسیع ہے.اگر انسان چاہے تو اس ( تکلف ) کی رو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے.مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا تعالیٰ اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ در دول ایک قابل قدر شے ہے.حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں.فرمایا کہ ”جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے ( کشف میں ) ملا اور انہوں نے کہا کہ تو نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل.فرماتے ہیں کہ اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کر کے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے“.(ملفوظات جلد دوم صفحه 564 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه تو یہ ہے اصل روح جس کے تحت روزہ رکھنا چاہئے.اور ہر مومن کو، ہر احمدی کو یہ روح اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بہانہ جوئیوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے.اللہ کرے کہ ہم سب اس تعلیم اور اس روح کو سمجھنے والے ہوں.اس عظیم ہدایت سے فیض پانے والے ہوں جو قرآن کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اتاری ہے، جس میں ایسی باتیں ہیں جو بغیر کسی مقصد کے بیان نہیں کی گئیں.اللہ تعالیٰ کا ہر حکم بڑا با مقصد ہے، ہمارے فائدہ کے لئے ہے بلکہ اس نے ان تمام باتوں کا احاطہ کیا ہوا ہے جو روحانی اور اخلاقی قدریں بڑھانے والی ہیں.قرآن کریم میں ایسی باتیں بھی بیان ہوئی ہیں جن کا دنیاوی علوم سے بھی واسطہ ہے.ان کے لئے بھی یہ تعلیم ہر قسم کے دلائل اور براہین اپنے اندر لئے ہوئے ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 385 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007 ء قرآن کریم جہاں سابقہ دینوں پر اپنی برتری ثابت کرتا ہے وہاں اس کے علوم و معرفت کے خزانے موجودہ اور آئندہ علوم کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہیں.کونسا علم ایسا ہے جو اس میں بیان نہ ہوا ہو.وہ علوم جن کے متعلق چودہ سو سال پہلے ایک عام مسلمان کو ، قرآن کریم پڑھنے والے کو کوئی فہم و ادراک نہیں تھا ، وہ اس میں بیان ہوئے ہوئے ہیں جو آج سچ ثابت ہورہے ہیں.تو یہ مختلف خزا نے جو قرآن کریم میں بھرے ہوئے ہیں، یہ احکامات جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہوئے ہیں، یہ ایک علیحدہ مضمون ہے اس وقت یہاں ان کا ذکر نہیں ہوگا.اس وقت رمضان کے حوالے سے میں بات کر رہا ہوں.جس آیت کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس سے اگلی آیت بھی جوئیں نے تلاوت کی ہے، اس میں بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ یعنی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں اور جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا ہے.پس یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا.محدثین تاریخوں کے اختلاف کے ساتھ عموماً قرآن کریم کے نزول کو رمضان کے مہینے میں بتاتے ہیں کہ اس کا آغاز رمضان میں ہوا جس میں آنحضرت ﷺ پر پہلی وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (سورة العلق: (2) یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے پیدا کیا ہے.پس اس پہلی وحی سے جو اُتری اس سے اس طرف توجہ دلا دی کہ تمام کا ئنات اور ہر چیز کو پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے.اس لئے وہی حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے.اس سورۃ کو یعنی سورۃ علق کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ اللہ کا قرب پانے کے لئے اس کے حضور سجدہ اور عبادت ہی ایک ذریعہ ہے.پس قرآن کریم کا اس مہینے میں نزول سب سے پہلی توجہ اس طرف دلاتا ہے کہ اس شکرانے کے طور پر کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا جس کی تعلیم پر عمل کر کے ایک مومن اس کا قرب پانے والا بن سکتا ہے، ہمیں حکم دیا کہ تم عبادتوں کی طرف توجہ دو اور عبادات میں نکھار پیدا کرنے کے لئے ، تزکیۂ نفس کے لئے ، ایک عبادت جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائی وہ رمضان کے روزے ہیں.یہ ایک ایسا مجاہدہ ہے، یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی جزا بھی خدا تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو بتایا ہے.پس تبھی بار بار ان چند آیات میں روزوں کی تفصیلات اور احکامات دیئے ہیں کہ ایک مومن ان کی اہمیت کو سمجھنے میں کوتاہی نہ کرے.پہلی آیت میں بھی فرمایا کہ روزوں کی طاقت اگر کسی وجہ سے نہ ہو تو دوسرے دنوں میں پورے کر لو، لیکن روزے فرض ہیں.اس سے پہلے فرمایا تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں اس میں پھر قرآن کے نزول کا ذکر کر کے فرمایا اور یہ کہ قرآن تمہارے لئے ہدایت کا باعث ہے.اس کا ذکر کر کے پھر اس طرف توجہ دلائی کہ روزے فرض ہیں.کسی وجہ سے نہ رکھ سکو تو بعد میں پورے کر لو.پس روزوں کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کا بار بار ذکر فرمایا جارہا ہے.یہ عبادت ایسی ہے جو اصلاح عمل کا ذریعہ بھی بنتی ہے.اس سے اعمال کی اصلاح بھی
خطبات مسرور جلد پنجم 386 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007ء ہوتی ہے، بہت سی بُرائیوں سے انسان خدا کی خاطر بچتا ہے ، بہت سی جائز باتوں کو وقتی طور پر خدا کی خاطر ترک کرتا ہے.تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خود اس کی جزا اپنے آپ کو قرار دیا ہے اور یہ سب باتیں یعنی عبادت کی تفصیلات بھی اور نیک اعمال کی تفصیلات بھی اور برے اعمال کی تفصیل بھی ، یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرما دی ہیں اور یہ فرما کر کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ فرمایا کہ یہ قرآن جو ہم نے رمضان میں اتارا ہے یا رمضان کی بابت اتارا ہے یہ ایک عظیم کتاب ہے، هُدًى لِلنَّاسِ ہے، تمام انسانوں کے لئے ہدایت اپنے اندر لئے ہوئے ہے.ہر زمانے کے انسان کے لئے ہدایت ہے.اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے.یہاں شریعت مکمل ہوگئی بشر طیکہ کوئی اس ہدایت کو لینے والا بنے ، اس سے فائدہ اٹھانے والا بنے.ورنہ جو ظلم پر تلے ہوئے ہیں، جو اپنی جان پر ظلم کرنا چاہتے ہیں، دین کو تو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ، اپنی جان پر ہی ظلم کر رہے ہیں.وہ قرآن کو سن کر بھی خسارے میں رہتے ہیں.لیکن جو بھی نیک نیتی سے یہ ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت بھی ایسی کہ فرمایا وَبَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ یعنی یہ ایسی ہدایت ہے کہ جس میں حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے دلائل بھی ہیں اور کھلے نشانات بھی ہیں.پس بدقسمت ہے وہ جو دلائل اور نشانات کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے لیکن خوش قسمت ہیں ہم جو اس کتاب کو ماننے والے ہیں جو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت کا صرف دعوی نہیں بلکہ قرآن کریم نے ہمیں ہر ہدایت پر عمل کرنے کی جو نصیحت کی ہے، جب حکم دیا ہے تو اس کی دلیل بھی دی ہے کہ جب عمل کرو گے تو اس کے فوائد کیا ہوں گے.اگر عمل نہیں کرتے تو اس کے نقصانات کیا ہیں.اگر تم بُرائیاں کر رہے ہو تو ان کے کیا نقصانات ہیں.پھر یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے جو ہم اس قرآن کو مانتے ہیں کہ قرآن اپنے حق پر ہونے کی دلیل بھی پیش کرتا ہے.اپنے آخری اور کامل دین ہونے کی دلیل بھی پیش کرتا ہے.شرعی کتاب ہونے کی دلیل بھی پیش کرتا ہے اور باطل کو صرف باطل کہہ کر رد نہیں کرتا بلکہ تمام ادیان باطلہ کے باطل ہونے کے دلائل بھی دیتا ہے.پس فرمایا کہ جب ایسی کتاب تمہیں مل جائے تو اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے تمہیں اپنی کوشش زیادہ کرنی چاہئے ، عبد بننے کے معیار بڑھانے کے لئے تمہیں ان ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہیں اور اُن میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان کے روزے رکھو تا کہ اپنے روحانی معیار کو بڑھا سکو.اور جب ان روزوں کی وجہ سے روحانی معیار بڑھیں، اللہ کا قرب حاصل ہو تو اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو، اس نے ہم پر جو احسان کیا ہے کہ ہمیں اس گروہ میں شامل کیا جو اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والے ہیں.ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمایا جنہوں نے اس قرآن کو تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھا، اس کے حکموں پر سے اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گزر گئے بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے بنے.اس بات پر شکر کرتے ہوئے جب ہم قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں گے، اس ہدایت سے فیض یاب ہونے والے ہوں گے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اتاری ہیں ، رمضان کے روزوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پورا کرنے والے ہوں گے تو
خطبات مسرور جلد پنجم 387 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007 ء اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں اور زیادہ نیکیوں کی توفیق دے گا.ہمیں روزوں کی وہ جزا دے گا جس کی کوئی حد نہیں ہے.پس رمضان کے مہینے کو اس لحاظ سے بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن کریم ایک کامل اور مکمل ہدایت کے ساتھ ہم پر اتارا جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بنے.بلکہ ہر سال اس بات کی یاد کر وا کر کہ یہ ہدایت تمہارے لئے اس ماہ میں اتاری ہے یا جس کا نزول اس ماہ میں شروع ہوا تھا، ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ جہاں شکر گزاری کے طور پر اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار اس مہینے میں قائم کرو، روزے رکھو جو ایک مجاہدہ بھی ہے، وہاں اخلاقی قدروں کو بھی بلند کرنے والے بنو.ان تمام احکامات پر بھی عمل کرنے والے بنو تا کہ نفس کے شر سے دور ہوتے چلے جاؤ اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ س ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے، کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم ( روزہ) تجلی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جاوے دُوری حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کودیکھ لیوے.(ملفوظات جلد دوم صفحه 562-561 جدید ایڈیشن مطبوعه (ربوه پس یہ جو ماحول اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دنوں میں مہیا فرمایا ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اس مہینے میں ایسی نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس سے حقیقت میں تزکیہ نفس ہو.ہر نماز کے ساتھ اگر نفس کا محاسبہ ہو تو پھر ہی تزکیہ نفس کی طرف قدم بڑھیں گے.ہر نماز خالصتہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہو کر غیر اللہ سے آزاد ہو کر ادا کرنے کی کوشش ہوگی تو تبھی تزکیہ نفس میں محمد ہوگی ، ہر نماز اس سوچ سے ادا ہو رہی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو تزکیہ نفس میں قدم تیزی سے آگے بڑھیں گے.تزکیہ نفس یہ انہی لوگوں کا کرے گا جو غیب میں بھی اپنے خدا سے ڈرتے ہوں اور اس سوچ اور دعا کے ساتھ اس کے حضور حاضر ہوں کہ اے اللہ ! اس رمضان میں جو تو نے مجھے داخل ہونے کا موقع دیا ہے تو تو اس کی برکات سے مستفید فرما اور مجھے میری نمازیں اپنی رضا حاصل کرنے کے لئے اور میرے نفس کی غلاظتوں کو مجھ سے دور کرنے والی بنا کر ادا کرنے کی توفیق دے.رمضان کا جو ماحول ہے اور اس میں جو نمازوں کی خوبصورت ادائیگی ہوگی یہی ہے جو تز کیہ نفس کرنے والی ہو گی.نفس امارہ جو شیطان کے قبضہ میں ہے ہر انسان کو بُرائیوں کی ترغیب دیتا ہے، اس سے انسان روزوں میں
خطبات مسرور جلد پنجم 388 خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2007 ء زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد دُور ہو سکتا ہے کیونکہ شیطان ان دنوں میں جکڑا جاتا ہے.پس نمازیں جو خالصتا شیطان سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہیں، یہ جلد انسان کو نفس لوامہ کی منزلوں سے گزارتی ہوئی نفس مطمئنہ کی منزلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی چلی جائیں گی.اگر ہم اس سوچ سے نماز میں ادا کر رہے ہوں گے اور جب روزوں کا مجاہدہ اس کے ساتھ شامل ہو گا جب نوافل اس میں مضبوطی پیدا کر رہے ہوں گے تو پھر ہر ایک پر اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو اس کی استعدادوں کے مطابق ظاہر کرتا ہے.أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ میں یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ گو کہ نزولِ قرآن کی ابتدا ( اس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے ) اس میں ہوئی اور اس کے بعد سال کے دوسرے مہینوں میں بھی قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا لیکن ہر سال رمضان میں جتنا بھی نازل شدہ قرآن تھا اس کا دور جبریل آنحضرت ﷺ کے ساتھ آ کر کرتے تھے.قرآن کریم کے نازل ہونے کی رمضان کے مہینے میں یہ خاص برکت ہے یا رمضان کے مہینے کو یہ ایک خاص برکت ہے کہ سال کے دوران یا اس عرصہ میں جتنا بھی قرآن کریم نازل ہوتا تھا، اس کا دور مکمل کیا جاتا تھا.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ آپ کی زندگی کا جو آخری رمضان تھا اس میں جبریل نے یہ دور آپ کے ساتھ دو دفعہ کیا.صلى الله (صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن على النبي علم.پس اس لحاظ سے بھی ہمیں توجہ کرنی چاہئے کہ اس مہینے میں جہاں ہم رمضان کے روزے رکھ رہے ہوں، جہاں ہم اپنی عبادتوں کو فرض نمازوں اور نوافل کو پہلے سے بڑھ کر توجہ اور خوبصورت انداز سے ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں وہاں قرآن کریم کی تلاوت، ترجمہ اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے.یہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی جماعتی نظام کے تحت درس کا انتظام بھی ہے، درس سنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے پھر جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، قرآن کریم کے احکام کو پڑھ کر اپنے اوپر لاگو کرنے کی بھی ہمیں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے.تبھی ہم حقیقت میں رمضان سے فیض پانے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے کہلانے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی تمام برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 12 تا 18 اکتوبر 2007 ء ص 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد پنجم 389 39 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2007ء بمطابق 28 رتبوک 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم رمضان سے گزر رہے ہیں.جس کا آج سولہواں روزہ ہے.یہاں تو باقی چودہ دن رہ گئے ہیں.باقی دنیا میں بھی چاند دیکھنے کے بعد جہاں عید کا فیصلہ ہوتا ہے.کہیں تیرہ روزے بقایا رہ گئے ہیں، کہیں چودہ روزے.تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ ہماری روحانی اور اخلاقی حالتوں کو سدھارنے کے لئے اپنی رضا کے حصول کی کوشش کے لئے ، ہماری بخشش کے سامان مہیا فرمانے کے لئے، ہماری دعاؤں کی قبولیت کے لئے خاص طور پر مقرر فرمایا ہے.یہ آیت جوئیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے.اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.یہ آیت قرآن کریم میں ان آیات کے بیچ میں رکھی گئی ہے جن میں رمضان کے روزوں کی فرضیت اور اس سے متعلقہ دوسرے احکام ہیں.پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مہینہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول ، گناہوں کی بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہلاک ہوا و شخص جس نے رمضان کو پایا اور وہ بخشا نہ گیا.( سنن ترمذى كتاب الدعوات باب قول رسول الله رغم انف رجل حدیث نمبر (3545) پھر ایک حدیث ہے.جو حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے ،اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.(صحیح بخاری کتاب الصوم.باب فضل من صام رمضان )
خطبات مسرور جلد پنجم 390 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء تو یہ گناہوں کی بخشش کے خاص نظارے ہمیں اس لئے نظر آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے روزوں کے مجاہدے کے ساتھ ایک خاص توجہ سے، خالص اس کا ہوتے ہوئے ، اپنے حضور جھکنے والوں کو ایک مقام دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی تلاش کرنے والوں ، اسے پکارنے والوں کو جواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے.گو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی ہر وقت ہی ان لوگوں کی دعاؤں کو سنتا ہے جو خالص اس کا ہوتے ہوئے اسے پکارتے ہیں.لیکن رمضان میں ایک خاص ماحول عبادات کا بن جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس مہینے میں پہلے سے بڑھ کر اپنے بندوں کی پکارسن رہا ہوتا ہے.جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے، اس میں رمضان کی اہمیت بیان کی گئی ہے.حضرت سلمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ لگن ہونا چاہتا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام کرنے کو فل ٹھہرایا ہے.هُوَ شَهُرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ.وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے اور جس نے اس میں کسی روزے دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے بھی پیاس نہیں لگے گی.(کنز العمال جلد 8 فصل فى فضله وفضل رمضان حدیث نمبر (24271 | پس رحمت کے دن بھی گزر گئے اور اب ہم مغفرت کے دنوں سے گزر رہے ہیں اور چند دن بعد ، تین چار دن بعد آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے جو جہنم سے نجات دلانے والا ہے.اس میں وہ رات بھی ہے جو دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے اور خاص رات ہے، اس میں جس کو وہ رات میسر آ جائے اللہ تعالیٰ اس کی کی ہوئی دعاؤں کو قبول کرتا ہے.پس یہ چند دن ہمیں اب اس طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں کہ اس مہینے کے فیض سے فیضیاب ہونے کی کوشش کریں.اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کی کوشش کریں.اس کی مغفرت کی چادر میں لپٹنے کی کوشش کریں.اپنے آپ کو اس زندگی میں بھی دنیا داری کی غلاظتوں کی جہنم سے نکالنے کی کوشش کریں اور آخرت کی جہنم سے بھی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں.اپنے اس تمام قدرتوں والے خدا کی تلاش کریں جو اپنے بندے کی پکار پہ کہتا ہے کہ اِنِّی قَرِيبٌ.لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض شرائط رکھی ہیں ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے تبھی اس کی رحمت حاصل ہوگی تبھی اس کی مغفرت کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹنے والے ہوں گے.تبھی ہر قسم کی جہنم سے اپنے آپ کو دور کرنے والے ہوں گے اور تبھی ہم اپنی دعاؤں کے قبول ہونے کے نظارے دیکھیں گے.اس آیت کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”جب میرے بندے میرے بارہ میں سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں.یعنی جب وہ لوگ جو
391 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم اللہ رسول پر ایمان لائے ہیں یہ پتہ پوچھنا چاہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاویں.تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دُور ہیں.جب کوئی دعا کرنے والوں میں سے، جو تم میں سے دعا کرتے ہیں، دعا کرے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں.یعنی میں اس کا ہم کلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اوراس دعاکو پا جگہ ہوں.میرے اور اور اس کی دعا کو پایہ قبولیت میں جگہ دیتا ہوں.پس چاہئے کہ قبول کریں حکم میرے کو اور ایمان لاویں تا کہ بھلائی پاویں.جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحه 146 مطبوعه لندن) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو کہ تمہیں یہ ماحول بھی میسر آ گیا ہے جو دعاؤں کی قبولیت کا ماحول ہے.اس مہینہ میں شیطان جکڑا بھی گیا ہے، جنت بھی قریب کر دی گئی ہے.لیکن اس کے باوجود فیض وہی پائے گا جو میری شرائط کی پا بندی کرے گا جن میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اس یقین پر قائم ہو کہ خدا ہے.خدا کی ذات پر ایسا پختہ یقین ہو جس کو کوئی چیز بھی ہلا نہ سکے.یہ یقین ہو کہ زمین و آسمان اور اس کے درمیان جو کچھ ہے اس کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، ہر چیز کا مالک ہے ، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے.اس نے اپنی ربوبیت کی وجہ سے بلا امتیاز مذہب اور قوم ہر ایک کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھا ہوا ہے حتی کہ چرند پرند بھی سب اس کی ربوبیت سے فیض پارہے ہیں.ہوا پانی روشنی کھانے پینے کی چیزیں اس نے سب کو مہیا کی ہوئی ہیں.وہ تمام صفات کا جامع ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اس کا کوئی بیٹا ہے.پس پہلی شرط یہ ہے کہ جامع الصفات خدا پر پختہ یقین ہو.دوسری بات یہ کہ صرف یہ یقین نہیں کہ خدا ہے، کوئی پیدا کرنے والا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی کامل ہو اور یہی کوشش ہو کہ اب جو بھی ایمان ہمیں میسر ہے اور جو بھی ہماری دعائیں ہیں وہ اس نے ہی قبول کرنی ہیں اور اس کو حاصل کرنے کی ہم نے کوشش کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کا وصل ڈھونڈھنے کی ہم نے کوشش کرنی ہے.اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.اس کے لئے ہم نے اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے ، خدا ترسی پیدا کرنی ہے، اپنے آپ کو پاک کرنا ہے.اور یہی ایمان کامل کرنے کا ذریعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسے بناویں کہ میں اُن سے ہمکلام ہو سکوں.(لیکچر) لاهور روحانی خزائن جلد 20 صفحه 159 اور یہ مقام جو ہے ایمان کامل ہونے پر ہی ملتا ہے.اس لئے ایمان کامل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.یعنی اس بات پر ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے انہیں قبول کرتا ہے بلکہ جب ایمان میں ترقی ہوتی ہے، اس کا قرب حاصل ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ بندے سے بولتا بھی ہے.رحمانیت کی وجہ سے یا اس کے صدقے جو خدا تعالیٰ نے انعامات کئے ہیں، جب بندہ اس کے قریب ہوتا ہے، جب ایمان میں ترقی کرتا ہے تو رحیمیت کے جلوے بھی وہ دکھاتا
392 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم ہے.قبولیت دعا کے جلوے بھی دکھاتا ہے.یہ پختہ ایمان بھی اللہ تعالیٰ پر ہو.پھر دعا ئیں بھی قبول ہوتی ہیں.پھر تیسری بات یہ کہ ایمان بھی کامل ہو.گو کہ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں لیکن اب اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی ﷺ کو فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ اب تیرے ساتھ جڑ کر ہی دنیا قبولیت دعا کے نظارے دیکھ سکتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق اب اسی کا ہو گا جو میرے نبی پر کامل ایمان لانے والا ہو گا.فرمایا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی یعنی جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں اور اے محمد ﷺ تو ہی ہے جو میرے بندوں کی حقیقی رہنمائی کر سکتا ہے، ان بندوں کو راستہ دکھا سکتا ہے جو میری تلاش میں ہیں.اس لئے آنحضرت ﷺ پر بھی ایمان کامل ہوگا تو خدا تعالیٰ تک رسائی ہوگی.باقی مذاہب بھولی بسری یادیں بن چکے ہیں.گو تمام انبیاء پر ایمان بھی ضروری ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے راستے دکھانے کا اختیار صرف اب اے محمد ! تجھے ہی ہے اور تجھ پر ایمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ تیری بتائی ہوئی جو پیشگوئیاں ہیں ان پر بھی کامل یقین ہو.اس بات پر بھی یقین ہو اور اس پر ایمان بھی ہو کہ نشانات اور پیشگوئیاں پوری ہونے پر تیرے غلام صادق کو جب خدا تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا ہے تو اس کو ماننا بھی ایمان کی ایک شرط ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانیں گے وہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر کامل ایمان لانے والے ہوں گے اور وہی قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر مشاہدہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہی لوگ ہیں جو میری ” اِنِّی قَرِيبٌ “ کی آواز سنیں گے.پھر چوتھی بات یہ کہ سوال خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہو ، خدا کو پانے کے لئے ہو.یہ خواہش ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے مل جائے.جب اس نیت سے سوال ہو گا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بارے میں سوال ہوگا ، میری لقاء حاصل کرنے کے لئے سوال ہوگا تو بندہ مجھے قریب پائے گا.اگر خدا کو پکارنے کا مقصد صرف اپنی دنیاوی ضروریات کو پورا کرنا ہی ہوگا.اگر خدا صرف اس وقت یاد آئے گا جب کوئی دنیاوی خواہش پوری کرنی ہو، نہ کہ اللہ تعالیٰ کا وصال اور اس کا پیار حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو پھر یکطرفہ بات ہوگی.یہ تو خود غرضی ہے.اگر میرا جواب سننا ہے تو فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی پر بھی عمل کرنا ہوگا.میری بات پر لبیک کہنا ہوگا تبھی تمہیں میری طرف سے جواب بھی ملے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چاہئے کہ میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لاویں.تاکہ ان کا بھلا ہو.(پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحه (472 پھر دعا کی قبولیت کے لئے پانچویں بات یہ ہے کہ انسان تمام گنا ہوں سے بچنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ " أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی میں تو بہ کرنے والے
393 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم کی توبہ قبول کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ بچے دل سے تو بہ کرنے والا کرتا ہے.فرماتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر تو بہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا.سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خدا تعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اس نے تو بہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“.البدر.جلد 2 نمبر 14 مورخه 24 اپریل 1903ء صفحه 107) پس جب گنا ہوں سے بچنے کی کوشش ہوگی اور ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارا بھی جار ہا ہوگا کہ اے خدا تو کہاں ہے؟ میں تیرے نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں ، ان گناہوں سے چھٹکارا پانے کی دعا کرتا ہوں، اور مجھے ان سے چھٹکارا دلا.تو یہ دعا پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے والی ہوگی اور قبولیت کا درجہ پائے گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جھکنے والا بندہ فَانِي قَرِيبٌ کی آواز سنے گا.پس گنا ہوں سے نجات حاصل کرنے کی دعا بھی اللہ تعالیٰ کا عبد بنانے کے لئے دعاؤں کی قبولیت کے لئے ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ “ یا درکھو کہ سب سے اول اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گنا ہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے.ساری دعاؤں کا اصل اور جزو یہی دعا ہے کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مظہر ہو جاوے تو پھر دوسری دعا ئیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں ، وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں.ملفوظات جلد 3 صفحه 617 جدید ایڈیشن مطبوعه (ربوه پس اپنی دوسری حاجات بھی اگر پوری کرنی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے اس نسخے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.جیسے آپ فرماتے ہیں." تم اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش اور اس کے لئے دعا کرو تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ہر مشکل گھڑی میں اس کے کام آئے گا.اس کو اِنِّی قَرِيبٌ کا نظارہ دکھائے گا اور اسے اپنی آغوش میں لے گا ، ضروریات اس کی پوری کرے گا.پھر یہ بات پہلے بھی آگئی ہے لیکن اس کو علیحدہ بھی رکھا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قبولیت دعا کے لئے دین کو دنیا پر مقدم کرنا بھی ضروری ہے.دین کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دنیا کی لہو ولعب چھوڑ نا ضروری ہے.ہمارے عہد میں بھی ایک فقرہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا ، خدام الاحمدیہ کے عہد میں بھی ہے.اسی طرح آٹھویں شرط بیعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر
394 خطبات مسرور جلد پنجم خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء عزیز سمجھے گا.پس یہ ہے دین کو دنیا پر مقدم سمجھنا کہ ایک انسان ایک احمدی کو ، اپنے ہر عمل سے جو بھی عمل وہ کرتا ہے اس سے پہلے یہ خیال رہے کہ میں مسلمان ہوں.میں وہ مسلمان ہوں جس نے آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو بھی مانا ہوا ہے.اس لئے میری یہ کوشش ہے کہ میرے سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جس سے دین کی عزت پر کوئی حرف آتا ہے.مجھے اپنی اور اپنے خاندان سے زیادہ اللہ کے دین کی عزت پیاری ہے.دین کی عزت کی خاطر اگر دنیاوی نقصان اٹھانا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا.یہ عہد کرے ہر احمدی تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی دعاؤں کو سنوں گا اور قبولیت دعا کے نظارے دکھاؤں گا.پھر ساتویں بات یہ ہے کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.(الحکم جلد 9نمبر2مورخه 13/جنوری 1905ء صفحه 3) یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ ہیں اور مستقل مزاجی سے یہ حالت جاری رہنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.(ملفوظات جلد چهارم صفحه 207 جدید ایڈیشن) پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بنی یعنی چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں.اس بات کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی عملی حالتوں کو سنوارنے کی اور بڑھانے کی ضرورت ہے.ہمیں اپنی ایمانی حالتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب پانے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے اور یہ ایک ایسی دعا ہے جو باقی دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنتی ہے.مومن کا قدم ایک جگہ پر رک نہیں جاتا.جب ایک مومن نیک اعمال بجالاتا ہے تو ان میں بھی مختلف درجے ہیں.ترقی کا میدان کھلا ہے.ایک مومن جب ایمان لاتا ہے تو ایمان میں بڑھنے کے درجے ہیں.پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے ان درجوں میں بڑھنے کی کوشش اور دعا ہونی چاہئے.جتنے درجے بڑھیں گے اتنا خدا کا قرب حاصل ہوگا ، اتنی جلدی بندے کو اس کی پکار کا جواب ملے گا.پھر آٹھویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قانون قدرت بنایا ہوا ہے اس کے اندر رہتے ہوئے دعا ہو تو وہ دعا سنی جاتی ہے.اگر اس سے باہر ہے تو وہ دعا قبولیت کا درجہ نہیں رکھتی.جتنا بھی انسان چیختا چلاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تمہاری وہی دعائیں سنوں گا جو میری تعلیم اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ہوں.پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری ضروری شرط ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو.ایک حکم یہ ہے.حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے قرآن کریم میں اس کے مختلف احکامات ہیں.لیکن اگر ایک انسان دوسرے کے حقوق غصب کر رہا ہو اور پھر اللہ سے مانگے کہ میں تو دوسروں کے حقوق غصب کر رہا ہوں پر تو مجھ پر رحم فرما تو یہ دعا قبول نہیں ہوتی.
خطبات مسرور جلد پنجم 395 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء بعض باپ ماؤں سے بچے چھین لیتے ہیں یا بعض مائیں باپوں کو بچوں کے ذریعہ تکلیف پہنچاتی ہیں اور نہ صرف یہ کہ دونوں طرف کے لوگ خود یہ دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ بچوں سے باپ کا یا ماں کا سایہ دُور رہے بلکہ مجھے بھی دعا کے لئے لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ماں کے یا باپ کے سائے سے محروم رکھے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حکم تو یہ ہے کہ نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف دو، نہ باپ کو بچے کی وجہ سے تکلیف دو اور جب ایسے جھگڑے ہوتے ہیں اور قضاء میں مقدمے بھی جاتے ہیں.دونوں طرف سے حقوق کا تعین بھی ہو جاتا ہے، پھر ایسی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے حقوق غصب کر رہے ہوتے ہیں.تو ایسی جو دعائیں ہیں اس عمل کے بعد پھر وہ بھی قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی تعلیم کے خلاف کاموں کو قبول نہیں کرتا ، قبولیت کا درجہ نہیں دیتا.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی لکھا ہے کہ ایک شخص خانہ کعبہ میں حج پر گیا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ میری محبوبہ کا خاوند اس سے ناراض ہو جائے تاکہ وہ مجھے مل جائے.ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک چور نے بتایا کہ میں چوری پر جانے سے پہلے دو نفل نماز پڑھتا ہوں کہ اللہ میاں مجھے کامیابی عطا کرے.تفسير كبير جلد 2 صفحه (405 یعنی نعوذ باللہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے ظلم اور بدکاری میں شامل کرنا چاہتے ہیں.اسی طرح بعض نام نہاد پیر ہیں اور بزرگ ہیں وہ بھی اپنی دعاؤں کی قبولیت کے دعوے کرتے ہیں.بعض جاہل ان سے بڑے متاثر ہو رہے ہیں.بعض ایسی کہانیاں قبولیت دعا کی اپنی بیان کر رہے ہوتے ہیں جو سراسر جھوٹی اور خلاف عقل اور خلاف قانون شریعت ہوتی ہیں.اسی طرح ٹونے ٹو ٹکے کرنے والے لوگ ہیں.جاہلوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نہ تو ایسی دعاؤں کو سنتا ہے اور نہ ہی ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے قریبی ہیں یہ سب جھوٹے دعوے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم احمدی جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اس جہالت سے پاک ہیں.پس اپنی دعاؤں کو اس طریق پر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایسی دعائیں کروانی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر لے جانے والی ہوں اور اللہ کا قرب دلانے والی ہوں.پھر نویں بات جو دعاؤں کی قبولیت کے لئے ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے یہ ہے کہ دعا ئیں صرف تکلیف اور تنگی کے وقت نہ مانگی جائیں.ایسے حالات میں نہ ہوں کہ جب تکلیف اور تنگی پہنچی تو دعائیں کی جارہی ہوں بلکہ امن اور اچھے حالات میں بھی خدا کو یا درکھا جائے.صرف رمضان میں ہی نیک اعمال کی طرف توجہ پیدا نہ ہو بلکہ عام دنوں میں بھی نیکیوں کی طرف توجہ ہوتو پھر رمضان میں کی گئی دعائیں بھی پہلے سے بڑھ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوتی ہیں.پھر دسویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق دعا کرنے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ
خطبات مسرور جلد پنجم 396 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء اس میں جلد بازی نہ ہو.تھوڑے عرصے کے بعد بندہ تھک نہ جائے کہ میں نے دعا کی اور قبول نہیں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یا درکھو کوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اٹھا سکتا.جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں میں لگا نہ رہے.آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو حضرت یعقوب کا پیارا بیٹا یوسف جب بھائیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اس کے لئے دعائیں کرتے رہے.اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا.چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا.آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف کو لے ہی آئیں.اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے.مگر انہوں نے یہی کہا کہ میں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں میں محروم رکھنا ہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا.نبی کو جواب دے دیتا.عام انسان کی نسبت ایک عام مومن کی نسبت، نبی کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بہت زیادہ ہوتا ہے.فرماتے ہیں مگر اس سلسلے کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا.وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازے پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے“.(الحكم جلد 6 نمبر 46 مورخه 24/ دسمبر 1902ء صفحه 2.تفسیر حضرت مسیح موعود جلد نمبر 2 صفحه 724) اللہ تعالیٰ تو بہت کریم ہے.جتنی دیر تک دعائیں مانگتے رہو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ انکار کر دے بلکہ جو کنجوس ترین آدمی ہے اس کے دروازے پر بھی جاؤ تو اگر مانگنے والا لمبا عرصہ بیٹھا رہا تو وہ بھی کچھ نہ کچھ اس کو دے دیتا ہے.پس مستقل مزاجی اور صبر بھی دعا کرنے کی بہت اہم شرط ہے.یہی الہی جماعتوں کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے.جتنا زیادہ دعا کا موقع ملتا ہے اللہ کا بھی یہ سلوک رہا ہے کہ اتنے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے کھلتے ہیں.پس پاکستان میں بھی اور بعض دوسرے ممالک میں بھی جہاں احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جارہی ہیں اُن کو یہ فکر نہیں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رکھیں ، انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور ضرور آئے گی اور ظلمت کے تمام بادل چھٹ جائیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی گھٹائیں آئیں گی ، انشاء اللہ.گوا بھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر احمدی کا ہاتھ تھاما ہوا ہے لیکن پہلے سے بڑھ کر اس کے نظارے دیکھیں گے.اس رمضان سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے در پر پڑ جائیں کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں ہمارے قریب تر آیا ہوا ہے.یہ ابتلاؤں کی گرمی اور رمضان کی گرمی یقیناً ہماری دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دلانے والی ہیں.پس ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد پنجم 397 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007 ء پھر دعا کی قبولیت کے لئے گیارھویں بات یہ ہے کہ دعا کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.تضرع اور زاری کی جائے ، ایسی تفرع اور زاری جو بچے کی طرح آہ و بکا کرنے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اس کی چینیں دودھ کو جذب کر لاتی ہیں؟ (تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحه (652) جب وہ پکارتا ہے تو ماں کے دودھ کو کھینچ لاتا ہے.یہ مثال دے کر آپ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تضرع اور زاری سے کی گئی دعا ئیں جو ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہیں اور پھر قبولیت کا درجہ پاتی ہیں.آپ فرماتے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلا ہٹ ایسی ہی اضطراری ہو.تو وہ اس کے فضل اور رحم کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے.آپ فرماتے ہیں: ” چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زاری و ابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جائے ، اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے.“ ملفوظات جلد 3 صفحه 616 جدید ایڈیشن مطبوعه (ربوه پس اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے ، اس کی باتوں پر لبیک کہتے ہوئے ، اس پر ایمان کامل کرتے ہوئے جو دعائیں کی جائیں گی ، وہ خدا تعالیٰ کے حضور سے جواب پانے والی ہوں گی.اور پھر فرمایا کہ ایسے لوگ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو يَرُشُدُونَ کے زمرہ میں آتے ہیں تو پھر ہدایت یافتہ ہوں گے.ان کو جو راستہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا بتا دیا اس پر وہ ہمیشہ کے لئے چلتے چلے جائیں گے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر لبیک کہنے والے ہوں گے.ایمان میں ترقی کی منازل طے کرتے چلے جانے والے ہوں گے.پھر وہ یہ سوال نہیں کریں گے کہ بتا اللہ کہاں ہے.بلکہ آنحضرت ﷺ کے دامن سے جڑ کر وہ اعلیٰ معیار کو حاصل کرتے ہوئے اپنے محبوب کو آمنے سامنے دیکھنے والے ہوں گے.وہ آنحضرت ﷺ کی حدیث کے مطابق اس مقام سے ترقی کریں گے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے بلکہ وہ اپنی عبادتوں میں وہ معیار حاصل کرنے والے ہوں گے جس میں وہ بھی خدا کو دیکھ رہے ہوں گے.پس اس رمضان میں ہمیں یہ معیار حاصل کرنے چاہئیں.جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں تو ہماری نماز یں اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے روزے کی معراج بن جائیں گی اور ہمارے روزے ہماری نمازوں کی معراج بن جائیں گے.
خطبات مسرور جلد پنجم 398 خطبہ جمعہ 28 /ستمبر 2007 ء رمضان جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رمض سے نکلا ہے اور رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں اور رمضان میں دو تپشیں ہیں.ایک کھانا پینا اور جسمانی لذتوں کو چھوڑنا اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک جوش پیدا ہونا.ملفوظات جلد 1 صفحه 136 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَلْيَسْتَجِيبُوالی کہ میری آواز پر لبیک کہو.ہم اس تپش پر جو رمضان نے ہمارے اندر پیدا کر دی ہے.زیادہ سے زیادہ ان روزوں اور ان عبادتوں سے فیض اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے عمل کریں اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر پہلے سے بڑھ کر عمل کرنے والے بنیں کہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ دو.پھر حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دو.حقوق العباد کی ادائیگی بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے.بلکہ جو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کرتا.پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے کہ میرے بندے میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں.ہر دو قسم کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے جیسا کہ میں پہلے بتا کر آیا ہوں.تبھی ہم حقیقی ہدایت یافتہ کہلانے والے ہوں گے تبھی خدا تعالیٰ ہماری باتوں کا جواب دے گا.پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن رمضان کے بارہ میں اترا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کے احکامات اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلانے والے اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلانے والے ہیں.رمضان میں ایک مومن اس طرف خاص طور پر توجہ پیدا کرے.ان ہر دو حقوق کی ادائیگی کے لئے ایک جوش پیدا کرے.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص روزے دار کا روزہ افطار کروائے اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے.اور رمضان کے دنوں میں خود آنحضرت ﷺ کا اپنا عمل بھی کیا تھا.روایت میں آتا ہے کہ رمضان میں صدقہ خیرات اور دوسروں کی مدد میں اپنا ہاتھ اتنا کھلا کر لیتے تھے کہ جس طرح ایک تیز ہوا چل رہی ہوتی ہے اسی طرح آپ خرچ کر رہے ہوتے.(بخارى كتاب الصوم.باب اجود ما كان النبي عل الله يكون في رمضان) یہ اس لئے تھا کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم بھی ہے، اس پر بھی رمضان میں پہلے سے بڑھ کر عمل ہو.پس ہر مومن کا بھی فرض ہے کہ ایمان میں ترقی کے لئے اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے خاص طور پر اس مہینے میں توجہ دے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہر سال رمضان
خطبات مسرور جلد پنجم 399 خطبہ جمعہ 28 /ستمبر 2007 ء کے روزے مقرر کر کے ہمیں اللہ تعالیٰ یہ توجہ دلاتا ہے کہ یہ مہینہ جس میں قرآن اترا اور یہ احکامات جن کے بارے میں قرآن کریم کی تعلیم ہے اس رمضان میں روحانی ترقی کے لئے روزے رکھتے ہوئے ، روحانی ترقی میں ایک تپش پیدا کرتے ہوئے اس طرف خاص توجہ دو اور ہدایت پانے والوں میں شامل ہو جاؤ.ان ہدایت یافتہ لوگوں میں جن کے معیار ہمیشہ اونچے سے اونچے ہوتے جاتے ہیں.ان اعمال کے بجالانے میں ایک ذوق پیدا کر وجو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں.تبھی رمضان تمہیں فائدہ دے گا اور تبھی تم لبیک کہنے والے ہو گے.تبھی تم ایمان میں ترقی کرو گے یا کرنے والے کہلاؤ گے.تبھی تم ہدایت یافتہ کہلاؤ گے اور تم اللہ تعالیٰ کے پیار کی آواز ”میرے بندے کا صحیح لقب پانے والے ہو گے تبھی اللہ تعالیٰ کے قرب کے نشان دیکھو گے تبھی اُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَان کے نظارے دیکھو گے اور تبھی اللہ تعالیٰ کی جنتوں میں داخل ہونے والے بن سکو گے.پس اس آیت میں اس بات کی وضاحت کر دی کہ کیوں تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں اور کیوں رمضان سے قرآن کی خاص نسبت ہے.اس لئے کہ تپش کا ایک خاص ماحول میسر آ کر روزے کے ساتھ قرآن پر غور کر کے، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر غور کر کے معیاروں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے اور سال کے دوران جو کوتاہیاں اور ستیاں ہو گئی ہیں ان کا مداوا ہو سکے.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے خالص بندے سے خدا تعالیٰ نے توقع کی ہے.ہم اپنی روحانی تپش کے وہ معیار حاصل کریں جن سے ہماری دعائیں عرش تک پہنچ کر اجابت کا درجہ حاصل کرنے والی ہوں اور ہم اسلام اور احمدیت کا جھنڈا تمام دنیا پر ہرا تا ہوا دیکھیں.خطبہ ثانیہ کے درمیان فرمایا.ایک افسوسناک خبر ہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں ہمارے دو ڈاکٹر صاحبان شہید کر دیئے گئے.ان دنوں رمضان میں بھی یہ احمدیوں کو شہید کر کے سمجھتے ہیں کہ بڑا ثواب کمارہے ہیں.پہلے تو ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ہیں.یہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے وقت میں جب وقف منظور ہوا تھا تو ان کو بورڈاکٹر گیمبیا بھجوایا گیا تھا.پھر یہ سیرالیون نائیجیریا، گھانا، لائبیریا مختلف جگہوں پر رہے اور بڑی خدمات انجام دیتے رہے.شروع میں ڈاکٹروں کے حالات بڑے سخت تھے.بڑی قربانی سے انہوں نے وہاں اپنا وقت گزارا.پھر 1990ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی اجازت سے واپس کراچی آگئے تھے انہوں نے وہاں کلینک کھولا.وہاں بھی آپ حلقہ کے صدر رہے.سیکرٹری اصلاح وارشاد بھی رہے.اچھے پُر جوش داعی الی اللہ تھے.مریضوں کو بھی تبلیغ کیا کرتے تھے.ان کے ذریعہ سے کئی بیعتیں ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے مخالفین کی آپ پر نظر تھی اور بعض دفعہ کافی دھمکیاں وغیرہ بھی ملتی رہیں.
خطبات مسرور جلد پنجم 400 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2007ء 20 ستمبر کو کلینک سے جب گھر آ رہے تھے تو ان کو اغواء کیا اور پھر راستے میں گولیاں مارکر ، فائر مار کر شہید کر دیا.وہیں ان کی لاش پڑی رہی.دو دن کے بعد اس جگہ سے ان کی لاش ملی.ان کے بچے بھی ڈاکٹر ہیں.ہمارے دوسرے شہید بھی ڈاکٹر ہیں.پروفیسر ڈاکٹر شیخ مبشر احمد صاحب.یہ بھی کراچی کے ہیں.ان کو 26 ستمبر کو شہید کیا گیا.یہ کلینک میں آئے ہیں کار سے باہر نکل رہے تھے کہ دو آدمی جو وہاں کھڑے تھے انہوں نے ان کو فائر کر کے شہید کر دیا.فوری طور پر ان کو زخمی حالت میں کلینک لے جایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور شہادت پائی.گزشتہ سال 2006ء میں ان کے بھانجے بھی اسی جگہ شہید کئے گئے تھے.کالج آف نرسنگ کے پرنسپل تھے.جناح ہسپتال میں پروفیسر تھے.اچھے سوشل ورکر تھے.غریبوں سے ہمدردی کرتے تھے.کسی بھی نافع الناس وجود کو یہ لوگ نہیں چھوڑتے اور صرف اس لئے کہ کیونکہ یہ احمدی ہے.اللہ تعالیٰ ہر دوشہداء کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کوصبر کی تو فیق عطا فرمائے.ابھی انشاء اللہ جمعہ کی نماز کے بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب پڑھوں گا.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 19 تا 25 اکتوبر 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 401 (40) خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء فرمودہ 5 /اکتوبر 2007ء بمطابق 5 را خاء 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَايُحْيِيكُمُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّةٌ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ.(الانفال : 25) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو.جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو، جب وہ تمہیں بلائے تا کہ وہ تمہیں زندہ کرے اور جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے اور یہ بھی جان لو کہ تم اس کی طرف اکٹھے کئے جاؤ گے.جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ہراحمدی بھی اور ہر وہ شخص بھی جو بیعت کر کے جماعت میں نیا داخل ہوتا ہے تو وہ حقیقت میں یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ کو مسیح و مہدی مان کر اپنے آپ کو دراصل اس گروہ میں شامل کرنے کا اعلان کرتا ہوں جو حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں.وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ آج میں اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم میں بیان کردہ تمام احکامات اور تمام پیشگوئیوں پر ایمان لانے والا بنتا ہوں.وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ آج میں حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء ﷺ کی تمام پیشگوئیوں پر کامل ایمان لانے والا بنتا ہوں.وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ آج میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہوں تا کہ ایک روحانی زندگی پاؤں.اگر اس کے سوا کسی کے ذہن میں کوئی بات آتی ہے تو وہ اس دعوے میں جھوٹا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں.اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر پابندی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے پہلے تو شرائط بیعت میں بڑے واضح طور پر بیان فرما دیا ہے کہ احمدیت ہے ہی خدا اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پابندی کا نام.جیسا کہ بیعت کی تیسری شرط میں بیان ہوا ہے کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے میں مداومت اختیار کرے گا.پھر پانچویں شرط میں ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا.پھر چھٹی شرط میں ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کریگا
402 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک عمل میں دستور العمل قرار دے گا.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر ایمان لانا اور آپ کی بیعت میں آنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنے اور نئی روحانی زندگی حاصل کرنے کے لئے ہے.پس خوش قسمت ہے ہر وہ شخص جو اس مقصد کے لئے جماعت میں شامل ہوتا ہے اور جماعت میں رہتا ہے.خوش قسمت ہیں ہم جو اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق پر ایمان لا کر اللہ اور اس کے رسول کی پکار کو سننے والے بنے تا کہ احیاء موٹی کا نظارہ دیکھیں ، اپنے مردہ جسموں کو زندہ ہوتا دیکھیں.پس ہم پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مان کر مسیح و مہدی مان کر ہم گویا آنحضرت ﷺ کا درجہ نعوذ باللہ گرانے والے ہیں.یہ سراسر احمد یوں پر الزام ہے.آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) آنحضرت ﷺ کے اس مقام اور یہ کہ کس طرح آپ نے مردوں کو زندہ کیا اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک رسول آیا تا کہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صد ہا سال سے بہرے ہیں.کون اندھا ہے اور کون بہرا ؟ وہی جس نے تو حید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر تو حید کو قائم کیا.وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے با اخلاق انسان یعنی بچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا.یعنی ایسے اعلیٰ اخلاق اور ایسے متوازن اخلاق کی تعلیم دی جس پر چل کر کسی قسم کے ظلم کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا.بلکہ انصاف، عدل اور ایتاء ذی القربیٰ کی تعلیم ہے اور پھر با اخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الہی رنگ سے رنگین کیا.وہی رسول، ہاں وہی آفتاب صداقت، جس کے قدموں پر ہزاروں مردے، شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اٹھے“.مجموعه اشتهارات جلد دوم صفحه 8 جدید ایڈیشن مطبوعه (ربوه پس یہ ہے وہ انسان کامل جس نے یہ انقلاب پیدا کیا اور یہ وہ انسان کامل ہے جس کے غلام صادق کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اپنے آقا و مطاع کی غلامی میں مردوں کو زندہ کرنے کے لئے بھیجا ہے.پھر آنحضرت ﷺ کے اس مقام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور جگہ اس طرح فرماتے ہیں کہ واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورے سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مر چکی تھی اورخدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید : 18) یعنی اس بات کو سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے.پھر اسی کے مطابق آنحضرت ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِنْهُ (المجادلة: 23) یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدددی.اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے.ایمان لانے کے بعد پھر ایمان میں
403 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم بڑھاتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قو تیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرما تا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خدا تعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے.اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور..قطعی طور پر بجز اس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے جو بتوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریم سے ملتی ہے اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مُردے ہیں جن میں اس حیات کی روح نہیں ہے اور حیات روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قوی ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہو جاتے ہیں.(آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحه 194 تا 196) | جوالفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ ﷺ کے مقام ومرتبہ کے بارے میں بیان فرمائے ہیں کیا کوئی برابری کرنے والا یا برابری کا خیال کرنے والا ایسے الفاظ استعمال کر سکتا ہے؟ پس ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق اس بات کے ماننے والے ہیں کہ روحانی زندگی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی ذات کو بنایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو آپ کے عاشق صادق اور ایک ادنیٰ غلام ہیں جنہیں اس زمانے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو زندگی بخشنے کے لئے آپ کی متابعت میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے تا کہ پھر سے دنیا میں وہ گر وہ قائم ہو جو اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے روحانی زندگی حاصل کرنے کے لئے ، اپنی روحانیت کو نکھارنے کے لئے ،اس امام کے ہاتھ پر جمع ہو جائے.مسلمانوں کا یہ کہنا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے آنحضرت ﷺ کو مان لیا ہے اس لئے اب کسی اور کو ماننے کی ضرورت نہیں ، یہ ان کی غلطی ہے.یہ امام جس کی قرآن کریم میں پیشگوئی ہے اور جس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ جب وہ آئے تو میر اسلام کہنا ، اس پر ایمان لانا بہر حال ضروری ہے ، اس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا.تبھی ایک مسلمان روح القدس سے تائید یافتہ کہلا سکتا ہے جب اس امام پر بھی کامل ایمان ہو.پس ایمان مکمل کرنے کے لئے اور روحانی زندگی کے لئے اس زمانے کے امام کا ماننا ضروری ہے اور لازمی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو بھی سامنے رکھنا چاہئے جیسا کہ ایک جگہ فرمایا کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ (النساء: 137) یعنی اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ.ایمان تو پہلے ہی لے آئے ہو پھر دوبارہ کیوں کہا گیا کہ ایمان لاؤ ؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں کا ایمان لانے کا جو دعویٰ ہے وہ صرف منہ کی باتیں ہیں.اس لئے اے ایمان لانے والو! حقیقی مومن کہلانے کے لئے اپنے دلوں کو ایمان سے بھر و.اور اس زمانے میں ایک مسلمان حقیقی مومن اس وقت کہلائے گا جب آنحضرت ﷺ کے اس عاشق صادق پر بھی ایمان لانے والا ہو گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ
404 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم الصلوۃ والسلام کی جماعت کے خلاف آجکل دنیا میں مختلف جگہ پر جو محاذ کھڑا ہے، یہ محاذ کھڑا کرنے کی بجائے مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے.کچھ غور کریں کہ ایمان کی مضبوطی کی طرف بلانے والا ، ایمانوں کو زندگی بخشنے والا کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا دعویٰ کیا ہے؟ خود اپنے بارے میں وہ کیا کہتا ہے؟ اس کا اپنا مقام کیا ہے ؟ آنحضرت ﷺ کو کیا مقام دے رہا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ ” مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کا فرنہیں.لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ مرا عقیدہ ہے اور لكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ.(الاحزاب : (41) پر آنحضرت ﷺ کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قد ر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت ﷺ کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں.کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں.اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط نہی ہے.اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے ور تکفیر سے باز نہیں آتا وہ یقیناً یا در کھے کہ مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا.میں اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانے کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلّہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا“.(کرامات الصادقين.روحانی خزائن جلد 7 صفحه 67 | پس بجائے اس کے کہ اس غلام صادق کی تکذیب کر کے اپنے ایمانوں کو کمزور کیا جائے ، اپنے ایمانوں کو جلا بخشنے کے لئے ، اپنے مُردہ دلوں کو زندہ کرنے کے لئے اس زمانے کے امام پر ایمان لائیں جس پر ایمان لانا ضروری ہے.اس غلام صادق اور کامل الایمان پر ایمان لائیں جس کی پیشگوئی آج سے چودہ سو سال پہلے خدا اور اس کے رسول ﷺ نے کی تھی.غور کریں کیا اُن حالات میں کوئی تبدیلی آگئی ہے؟ کیا اُن حالات میں کوئی بہتری پیدا ہوگئی ہے جن حالات کے بارے میں فکر کا اظہار ہر در در کھنے والا مسلمان سو سال پہلے کر رہا تھا اور اس پیشگوئی کے انتظار میں تھا کہ کب وہ شخص مبعوث ہوا اور ہماری اصلاح کرے اور مسلمانوں کو رہنمائی میسر آئے.اگر غور کریں تو حالات بد سے بدتر ہوئے ہیں اور ہوتے چلے جا رہے ہیں.مسلمانوں کی یہ حالت باوجود ظاہراً حکومتیں قائم ہو جانے اور آزادی کے نعروں کے مزید خراب ہی ہورہی ہے.روحانی طور پر مرتے چلے جارہے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ کہیں کوئی کمی ہے اور کمی یہی ہے کہ جس کو نبی کریم ﷺ نے سلام بھیجا تھا اس کے خلاف آہستہ آہستہ پہلے تو اکا دُکا مولوی مخالفت کرتے تھے، پھر مخالفت کے کچھ گروہ بنے ، اب اسلامی حکومتیں بھی اکٹھی ہو کر منصوبے بنا رہی ہیں.لیکن جو چراغ اللہ تعالیٰ نے روشن کیا ہے وہ کسی مخالف کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا.
405 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پس بجائے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف چل کر اپنی دنیا و عاقبت خراب کرنے کے اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے، اس سے مدد مانگنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ یا اللہ ! جس امت کے بارے میں تو نے فرمایا تھا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : 111) یعنی تم سب اُمتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو لیکن اس کے ظاہری حالات تو ایسے نظر نہیں آتے.دوسروں کی اصلاح کیا کرنی تھی ، ہمارے تو اپنے حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں.پس جب درددل سے یہ دعائیں کی جائیں گی تو اللہ تعالیٰ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے، ان کو سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو صحیح رہنمائی کرتا ہے.لیکن اُمت کی اکثریت تو غلط اور مفاد پرست علماء اور حکام کے پیچھے چل پڑی ہے اور اپنے دل کا جو اخلاص ہے اس کو ان کے پیچھے چل کر ضائع کر رہی ہے.یہ دعا بھی آج اُمت کی ہمدردی میں، آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والوں کی ہمدردی میں اگر کوئی کرنے والا ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کے افراد ہی ہیں.آپ نے ہی یہ دعا کرنی ہے کہ اے اللہ ! ان کے دلوں کو پاک کر، ان دلوں پر تیرا ہی قبضہ ہے.آخر یہ لوگ ہمارے محبوب آقا اور مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.ان لوگوں کو عقل دے کیونکہ بجز تیرے ان کے سینوں کو کھولنے والا اور ان کے دماغوں کو روشن کرنے والا اور کوئی نہیں.اب سوائے تیرے ان کو کوئی نہیں بتا سکتا کہ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے؟ اے اللہ ! تو ان کو بتا کہ صرف منسوب ہونے سے زندگی نہیں ملتی بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ جس بات کی طرف بلا رہے ہیں ، جن باتوں کو کرنے کا حکم دے رہے ہیں، ان کی طرف جانے اور ان پر عمل کرنے سے زندگی ملتی ہے.پس اے اللہ! ان لوگوں کے دلوں پر سے زنگ اتار دے.ان کو زمانے کے امام کی مخالفت کرنے کی بجائے اسے پہچانے کی تو فیق عطا فرما.پس یہ دعا کرنا بھی آج ایک احمدی کی ذمہ داری ہے بلکہ فرائض میں داخل ہے ، ورنہ ہم اپنے فرائض کی بجا آوری کرنے والے نہیں کہلا سکتے.ان نام نہاد علماء نے احمدیت کے بارے میں غلط باتیں پھیلا کر عجیب خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہوا ہے.کئی سعید فطرت ہیں جو احمدیت کو سچ سمجھ کر قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے معاشرے کے خوف سے خاموش ہو جاتے ہیں.کئی مرد اور خواتین جرأت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں.احمدیت قبول کرتے ہیں تو پھر عزیزوں اور رشتہ داروں کی طرف سے ، ماحول کی طرف سے طرح طرح کے ظلم سہنے پڑتے ہیں.گزشتہ دنوں ایک رپورٹ تھی کہ ایک لڑکے نے احمدیت قبول کی تو اس کے گھر والوں نے اسے باندھ کر خوب مارا اور کئی دن گھر میں باندھے رکھا.ابھی چند دن ہوئے سوئٹزر لینڈ سے ایک اطلاع آئی تھی ، ہمارے ایک احمدی نے خط لکھ کر یہ اطلاع دی تھی کہ
406 خطبات مسرور جلد پنجم خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء ایک پاکستانی سوئٹزرلینڈ میں ہیں ، احمدیت کا مطالعہ کر کے اور احمدیت کو سچ سمجھ کر بیعت کرنا چاہتے تھے.انہوں نے پاکستان میں اپنے عزیزوں سے اس بات کا اظہار کیا تو ایسی ایسی کہانیاں جن کا احمدیت سے دُور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ان کو احمدیت کے بارے میں سننے کو ملیں کہ حیرت ہوتی ہے.یہ صرف ان نام نہاد علماء کی احمدیت کے بارہ میں غلط رنگ میں پھیلائی ہوئی باتوں کا اثر ہے جس کے پھیلانے کی انہیں وہاں کھلی چھٹی ہے، جو چاہے وہ احمدیت کے بارے میں کہیں اور احمد یوں پر پابندی ہے کہ تمہاری اصل تعلیم کیا ہے اس کا اظہار نہیں کر سکتے.بلکہ اس شخص نے لکھا ہے کہ ایک قریبی عزیز نے اسے فون پر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم واقعی سنجیدہ ہوتو پھر قتل ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ کیونکہ تمہارے احمدیت قبول کرنے کے بعد میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو تمہیں قتل کرے گا.تو یہ حالات ہیں.یہ ان لوگوں کی سوچ ہے.کیا یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنے والوں کا کام ہے؟ کیا انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی اس غم اور غصے کی حالت کے اظہار کے بارے میں نہیں سنا جب آپ نے لڑائی کے دوران زیر ہونے کے بعد کلمہ پڑھنے والے شخص کے ایک مسلمان کے ہاتھ سے قتل ہونے پر فر مایا تھا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس میں خالص کلمہ بھرا ہوا ہے یا بناوٹی کلمہ ہے.دنیا میں ہر قسم کی طبائع ہوتی ہیں.کمزور بھی ہیں، جرات والے بھی ہیں.جو کمزور ہیں وہ تو ڈر جاتے ہیں لیکن جرات والے بہر حال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں.کئی جرات والے باجود سختیوں کے سچائی قبول کرتے ہیں.کئی جرات مند حق کے مقابلے پر کسی بھی ظلم کی پرواہ نہیں کرتے.پس خوش قسمت ہیں وہ جو فرعونوں کو جرات کے ساتھ یہ جواب دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضِ (طه: 73) پس جو تیرا زور لگتا ہے لگا لے إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا (طه: 73) تو صرف اس دنیا کی زندگی کو ختم کر سکتا ہے.پس وہ احمدی جن کو آج پاکستان میں شہید کیا جا رہا ہے ، ان کا بھی یہ جواب ہے ، اور ہر احمدی کا جو ایمان پر قائم ہے یہی جواب ہے.اور جو نئے احمدی ہوتے ہیں اور شدید مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں، ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ دعاؤں سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور ہمیشہ یہ جواب دیں کہ فاللهُ خَيْرٌ حفظا (يوسف : 65) کہ اللہ سب سے بہتر ہے اور سب سے زیادہ قائم رہنے والا ہے.اور جو بہتر ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے وہ دشمنوں سے بھی نمٹے گا اور نیک اعمال کی جزا بھی دے گا.ان کے جماعت میں شامل ہونے پر ان کو بہترین جزا دے گا.جیسا کہ میں نے کہا کہ جو چراغ اللہ تعالیٰ نے روشن کیا ہے، اسے انسانی پھونکیں بجھا نہیں سکتیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اس چراغ کا نو رلوگوں پر اس طرح اتارتا ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں بھی جمع ہو کر اس کے مقابلے میں روکیں کھڑی کرنے کی کوشش کریں تو اس کو روک نہیں سکتیں.وہ اس روشنی کو ، اس نور کو دلوں میں اترنے سے روک نہیں
407 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم سکتیں.کئی بیعتیں ہر سال ہوتی ہیں.کئی نیک فطرت حضرت مسیح موعود کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں اور ان تک حضرت مسیح موعود کے اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوئی انسانی کوشش نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ خود اُن کے دلوں کے دروازے کھولتا ہے اللہ تعالیٰ خود ان پر اپنے محبوب ﷺ کے عاشق صادق کی سچائی ظاہر کرتا ہے.ابھی گزشتہ دنوں عرب کے ایک ملک سے ایک رپورٹ آئی تھی.مصلحتنا بعض نام میں نہیں پڑھوں گا.لکھنے والے لکھتے ہیں کہ میں ان دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید و نصرت کے بڑے واضح نشانات مشاہدہ کر رہا ہوں اور سعید فطرت لوگوں سے رابطہ ہو رہا ہے.کہتے ہیں کہ چند دن قبل ایک دوست نے ایم ٹی اے کے سٹوڈیو میں رابطہ کیا اور وہاں سے ان دوست کا پتہ کیا اور پھر ان کے ساتھ رابطہ کیا تو رابطہ کرنے والے صاحب کے بارے میں یہ رپورٹ دینے والے لکھتے ہیں کہ یہ صاحب ایک سادہ طبیعت کے آدمی ہیں اور صوفیاء میں سے ہیں.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ انڈیا کے ایک گاؤں میں ہیں اور کچھ شریر لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے ہیں اور ان کے سینے میں داخل ہو جاتے ہیں اور حضور کی وہی صورت تھی جو انہوں نے بعد میں دیکھی.اس کے علاوہ کئی دفعہ حضور کی خواب میں زیارت کر چکے ہیں اور ابھی چند دن قبل انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت ﷺ کی شکل مبارک کے بالکل مطابق دیکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے اور یہ دوست جنہوں نے لکھا ہے ، کہتے ہیں کہ جب میں نے کسی بات کی وضاحت کرنی چاہی تو انہوں نے مجھے روک دیا کہ ایمان میرے دل میں گڑ چکا ہے، مجھے اب کسی قسم کی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.پھر یہ لکھتے ہیں کہ دو دن قبل ایک نوجوان نے فون کیا اور وقت مانگا.چنانچہ یہی صاحب جنہوں نے بیعت کی ہے، کہتے ہیں ایک اور پرانے احمدی کے ساتھ میں ان سے بات کرنے گیا تو اس نو جوان کے والد صاحب بھی وہاں تھے جو صوفیاء کی جماعت سے منسلک ہیں اور جب باپ سے بات شروع ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ 20 سال قبل انہوں نے خواب میں آنحضرت ﷺ کی تصویر ایک دیوار پر ٹنکی دیکھی تھی اور اب جب ایم ٹی اے کے سٹوڈیو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو ہو بہو وہی تصویر ہے.تو یہ ہے عاشق صادق اور غلام صادق کی نشانی.کہتے ہیں کہ ہو بہو وہی تصویر ہے جو میں نے 20 سال قبل دیکھی تھی.انہوں نے کہا کہ وہ جماعتی عقائد سے متفق ہیں اور بتایا کہ ایک دفعہ وہ کسی کا ڈش انٹینا سیٹ کر رہے تھے اور چینل سیٹ کرتے ہوئے جو پہلی تصویر انہیں نظر آئی وہ اس خط لکھنے والے کی تھی.ہمارے عربی پروگراموں میں بھی آتے ہیں، تو انہوں نے سمجھا تھا کہ انہیں میرے ذریعہ سے پیغام پہنچے گا ، پھر انہوں نے بیعت کر لی.پھر کہتے ہیں اس ملاقات کے دوران ہی ایک فون آیا.ایک صاحب نے ٹیلیفون ڈائریکٹری سے ان کے گھر کا فون نمبر لیا اور گھر سے موبائل نمبر لیا، یہ گھر پہ نہیں تھے.پھر
408 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ملاقات کا وعدہ کیا اور ملاقات پر بتایا کہ وہ پڑھے لکھے انسان ہیں اور امریکن یونیورسٹی بیروت سے 60 کی دہائی میں فارغ التحصیل ہوئے اور پھر 70 کی دہائی میں فوج میں ایک آفیسر کے طور پر رہے اور پھر سعود یہ ائر فورس میں بھی رہے.انہوں نے بتایا انہیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، خصوصاً تصوف کی کتابوں کا بہت شوق ہے.پھر بتایا کہ گزشتہ خیالات پر اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں کہ مخالفین کی کتابیں پڑھ کر جماعت کو کا فرسمجھتا تھا کیونکہ جماعتی کتا ہیں باوجود کوشش کے میسر نہ تھیں.اب وہ ہمارے چینل کے پروگرامز با قاعدگی سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؓ کی صداقت ان کے دل میں نقش ہو چکی ہے اور تصوف میں ادراک رکھنے کی وجہ سے حضور اقدس کی کتابوں میں بیان معرفت کے نکات کو فور اسمجھ جاتے ہیں، بلکہ محفوظ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے الفاظ کسی جھوٹے کے منہ سے نہیں نکل سکتے بلکہ یہ کلام ایک عارف حقیقی کا کلام ہے.پھر یہ کہتے ہیں کہ اکثر لوگ پہلے بحث کرتے تھے ، اعتراضات اٹھاتے تھے، دلائل اور براہین کا مطالبہ کرتے تھے لیکن اب اس کے بالکل برعکس ایسی ہوا چلی ہے کہ جو لوگ ملتے ہیں متفق ہوتے ہیں اور بہت سارے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دیدار کرایا ہوتا ہے.تو اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور رہنمائی فرماتا ہے.لیکن ہمارا بھی کام ہے کہ ان لوگوں کی رہنمائی کے لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.پس اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ تو ہر روز اپنی تائید ونصرت کے نظارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھا رہا ہے، لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہماری بھی ذمہ داری ہے، جو خدا تعالیٰ نے لگائی ہے کہ جو تمہارے وسائل ہیں، جس حد تک تم دلوں کو پاک کر دینے والے اس پیغام کو پھیلانے میں کردارادا کر سکتے ہو تم ادا کرو تا کہ اس ثواب سے، اُن برکات سے حصہ لینے والے بن سکو جو اللہ تعالیٰ کے اس مسیح و مہدی ، جری اللہ کی جماعت سے وابستہ رہنے والوں کے لئے مقدر ہیں.پس اس مقصد کو بھی ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے.نیکی اور تقوی کے اعلیٰ مدارج کی تلاش میں ہر احمدی کو رہنا چاہئے.ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور اس کو مقصد بنانا چاہئے کہ میں نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر جس زندگی کو حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے، کیا حقیقت میں میرے اندر اس زندگی کے آثار نظر آ رہے ہیں جس کا آپ نے دعوی کیا تھا.کہ میرے ماننے والوں کی زندگی میں پیدا ہوگی.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی غرض اس جماعت سے یہ ہے کہ گمشدہ معرفت کو دوبارہ دنیا میں اس جماعت کے ذریعہ قائم کر دے.پس اس گمشدہ معرفت کو قائم کرنے کے لئے جہاں ہمیں اپنے اعمال پر نظر رکھنی ہوگی، جہاں
خطبات مسر در جلد پنجم 409 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء اپنے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہوگی ، وہاں دوسروں تک بھی اس گمشدہ معرفت کے پیغام کو پہنچانے کے انتظام کرنے ہوں گے.اپنے ماحول میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو پہنچانا ہوگا کہ اس زمانے میں معرفت کا جام اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں دیا ہے.آؤ اور اس سے فیض پاؤ اور دائمی زندگی حاصل کرو.آپ فرماتے ہیں: ”میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے.مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے، وہ ہر گز نہیں مرے گا.وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں ، اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا.لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے، دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سر چشمہ سے انکار کیا.جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کرسکتا“.(ازاله اوهام ، روحانی خزائن جلد 3صفحه104) پس اس سلسلے میں اب ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ ایک نئے جوش کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں لیکن یہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ مومن کا کوئی کام بغیر دعا کے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا.رمضان کے یہ دن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے مہیا فرمائے ہیں اس کے آخری عشرے میں سے ہم گزر رہے ہیں.ان میں سب سے اہم دعا یہی ہے جو اگر ہم کریں تو ہماری باقی تمام دعاؤں کو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا ( انشاء اللہ تعالی ).اللہ تعالیٰ جب ہماری دعاؤں میں اپنی مخلوق کی تڑپ دیکھے گا ، جب آنحضرت ﷺ کی امت کے لئے تڑپ دیکھے گا، جب اپنے دین کی اشاعت کے لئے تڑپ دیکھے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے تڑپ سے کی گئی دعاؤں کو دیکھے گا تو یقیناً ہماری دوسری ضروریات کو اپنے وعدے کے مطابق خود بخود پورا فرمائے گا.پس رمضان کے یہ جو باقی چند دن ہیں ، اپنی روحوں کو زندہ کرنے کے لئے ، اُمتِ مسلمہ کی زندگی کے لئے اور انسانیت کی زندگی کے لئے خاص دعاؤں میں ہم گزار ہیں تو ہم یقینا ایک بہت بڑے انقلاب کو بر پا ہوتا دیکھیں گے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ خودرو یا صادقہ کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنے مسیح کی آمد کی خبر دے رہا ہے اور یہ ایک جگہ نہیں دنیا میں کئی اور جگہوں پر ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ خود سعید فطرت لوگوں کو جگارہا ہے.دراصل یہ تو اس فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے جس نے اپنی دعاؤں سے آج سے 1400 سال پہلے لاکھوں مردوں کو تھوڑے دنوں میں زندہ کر دیا تھا اور آج آپ ﷺ کے عاشق صادق کا زمانہ بھی انہی دعاؤں کا فیض پا رہا ہے جو آپ ﷺ نے اپنے عاشق صادق کے زمانے کے لئے کی تھیں.دراصل یہ زمانہ بھی آنحضرت ﷺ کا زمانہ ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات مسرور جلد پنجم 410 خطبه جمعه 05 اکتوبر 2007ء والسلام نے لکھا ہے کہ آپ کا زمانہ تو آپ کی بعثت سے شروع ہو کر اب قیامت تک پر حاوی ہے.پس یہ ہمارا زمانہ بھی آنحضرت ﷺ کا زمانہ ہی ہے.پس ہم تو اگر اپنی کوشش کریں گے اور ان کوششوں اور دعاؤں سے اپنے آپ کو اور انسانیت کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی کامیابی دیکھنے والے ہوں گے تو وہ ہماری کسی بڑائی یا ہماری دعاؤں یا کسی کام کا اثر نہیں ہو گا بلکہ آقا وغلام سے اللہ کے کئے گئے وعدوں کی وجہ سے ہوگا.ہماری دعائیں اگر بار آور ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے اپنے محبوب اور اس کے عاشق صادق سے کئے گئے وعدے کے مطابق ہوں گی اور پھر اس باران رحمت سے ہم بھی فیضیاب ہو رہے ہوں گے.پس ان بقیہ دنوں میں غلبہ اسلام کے لئے مسلم امہ کی روحانی زندگی کے لئے ، اور ان کے روحانی زندگی سے بھر پور مقام حاصل کرنے کے لئے، اپنی روحانیت کے لئے اور اپنی زندگیوں کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے ہر احمدی کو بہت دعائیں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 126اکتوبر تا 1 نومبر 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسر در جلد پنجم 411 41 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2007ء بمطابق 12 را خاء 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.وَإِذَا رَاَوُا تِجَارَةً اَوْ لَهُوَاءِ انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا.قُلُ مَا عِندَ اللهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهُوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ.وَاللهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ.(الجمعة: 10 تا 12) آج ہم اس رمضان کے آخری دن سے گزر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں پھر اپنی رحمت سے اس سال اپنے گناہوں کی بخشش کے سامان پیدا کرنے ، نیکیوں کو احسن رنگ میں بجالانے اور ان پر دوام اختیار کرنے اور اپنی رضا کے حصول کے لئے عطا فرمایا.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ سب جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات کے نزول کے ان خاص دنوں سے فیض پایا.آج یہ جو جمعہ کا دن ہے ، اس دن کی اپنی بھی ایک خاص اہمیت ہے اور اس دن کی اہمیت کا رمضان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس کی اہمیت کے بارہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے اور احادیث میں بھی آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد کی مختلف رنگ میں وضاحت فرمائی ہے.گو کہ عامتہ المسلمین کی اکثریت اور بعض احمدی بھی سمجھتے ہیں کہ یہ رمضان کا جو آخری جمعہ ہے اس کی خاص اہمیت ہے اور ایک مومن قبولیت دعا کے نظارے بھی اس جمعہ میں عام جمعوں سے زیادہ دیکھتا ہے.اس لئے عموما ہم دیکھتے ہیں کہ اخباروں میں اس آخری جمعہ کے حوالے سے جسے ایک غلط نام دے کر جمعۃ الوداع بھی کہا جاتا ہے، بڑی خاص اہمیت کے ساتھ مسلمان ممالک میں ، مساجد میں جمعہ کی حاضری کی تصاویر اور اماموں کے خطبات کے حوالے سے خبریں شائع کی جاتی ہیں.بعض اخبار تو سپیشل ایڈیشن بھی شائع کرتے ہیں.میڈیا کے اس غلط انداز نے رمضان کے اس آخری جمعہ کے بارہ میں یہ غلط تصور پیدا کر دیا ہے کہ چاہے سارا سال نمازیں بھی نہ پڑھو، جمعہ بھی نہ پڑھو، صرف جمعۃ الوداع پر جا کر جمعہ پڑھ لو تو تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں.انہی غلط قسم کی بدعات نے قضاء عمری کا تصور بھی پیدا کیا ہوا ہے.یہ انتہائی غلط تصور ہے.اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اور احسان ہے کہ ہم جو احمدی ہیں ہم اس بدعت سے عموما بچے ہوئے ہیں.
خطبات مسرور جلد پنجم 412 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے تو ہمیں نیکیوں پر قائم رہنے کی ، ان میں دوام اختیار کرنے کی ، ان میں ایک با قاعدگی اور تسلسل رکھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ تسلسل اگر رہے گا تو اللہ تعالیٰ غلطیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر فرماتا رہے گا اور ایسے انسان کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے جس کا یہ عمل ہوگا.اس بارہ میں ایک حدیث میں آتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر انسان کبائر گناہ سے بچے تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور رمضان سے اگلا رمضان ان دونوں کے درمیان ہونے والی لغزشوں کا کفارہ بن جاتا ہے.(الترغيب والترهيب جلد اول.كتاب الجمعة.الترغيب فى صلوة الجمعة والسعى اليها و ما جاء في فضل يومها و ساعتها حديث نمبر (1031) یعنی پہلی بات تو یہ یاد رکھو اور ہمیشہ یاد رکھو اور ذہن سے اس چیز کو نکال دو کہ سارا سال جو چاہے انسان کرتا رہے ، جانتے بوجھتے ہوئے گناہوں میں ملوث رہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی نہ کرے، ان سے بے اعتنائی برتے تو پھر بھی جمعتہ الوداع کے دن اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کر دے گا یا جمعۃ الوداع گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جائے گا.یا بعض سمجھتے ہیں کہ ایک حج کر لیا تو پاک ہو گئے اور اب پھر سے وہی دھو کے اور فتنے اور فساد کی اجازت مل گئی ہے.حکم ہے کہ کہائر سے بچیں.بڑے بڑے گناہوں کی بہت سی مثالیں ہیں.دوسرے کے مال میں ناجائز تصرف یتیموں کا مال کھانا بھی کبائر میں ہے.جو کام انسان خود نہیں کرتا دوسروں کو کہنا کہ یہ کرو یہ بھی غلط ہے.آپس میں دوگروہوں کو لڑا دینا، دو آدمیوں کے تعلقات خراب کر کے فتنہ پیدا کرنا بھی کبائر میں سے ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے.تو ایک مومن جس کو اللہ کا خوف ہو، صرف یہ نہیں سمجھتا کہ چوری نہیں کی ، زنا نہیں کیا، ڈاکہ نہیں ڈالا قتل نہیں کیا تو یہی بڑے گناہ ہیں، ان سے بچ گیا تو گویا میرا معاملہ صاف ہو گیا.نہیں، بلکہ دھو کے سے کسی کا مال کھانا ، چاہے وہ کسی شخص کا کھا رہا ہو یا حکومت کا کھا رہا ہو ، پھر آپس میں دو دوستوں میں پھوٹ ڈلوانا تعلقات خراب کرنا یہ سب باتیں اور اسی قسم کی اور باتیں بھی کبائر گناہ ہیں.پس جب انسان ایک کوشش کے ساتھ ان برائیوں سے بچے گا ، اگر غلطی سے کوئی حرکت ہو جاتی ہے تو استغفار کرے گا تو فرمایا کہ پھر پانچ نمازیں جو سنوار کر ادا کی ہوئی نمازیں ہیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ اور رمضان سے اگلے رمضان کے درمیان جو چھوٹی موٹی لغزشیں تمہارے سے ہو جائیں گی، انسان کمزور ہے، کمزوروں سے ہو جاتی ہیں، ایسی باتیں جو جان بوجھ کر کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے نہ کی گئی ہوں ، ان سے اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے گا ، ان کو معاف فرمائے گا اور یہ نمازیں اور یہ جمعہ اور یہ رمضان جنہیں نیکیوں کے حصول کے لئے اور برائیوں سے بچتے ہوئے ایک انسان ادا کرے گایا ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر یہ چھوٹی موٹی لغزشوں کا کفارہ بن جائیں گی.تو دیکھیں آنحضرت نے کہیں نہیں فرمایا کہ جمعتہ الوداع معافی کے سامان پیدا کرے گا.بلکہ پہلے نیک اعمال
413 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کی کوشش، اللہ سے اس کی مغفرت طلب کرنا اور جو عبادات مقرر کی گئی ہیں ان کو ادا کرنا ہے اور یہی ہے جو چھوٹی موٹی برائیوں کا کفارہ بن سکتا ہے.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.اللہ فرماتا ہے ، ترجمہ اس کا یہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.اور جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلا وا دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے.تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.تو اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جمعہ کے دن جب تمہیں نماز کے لئے بلایا جائے تو فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ.اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھو.تمہارے لئے سب سے مقدم جمعہ ہونا چاہئے کیونکہ یہی عبادت ہے جس سے تمہارے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالیٰ سے نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو وہ عطا کر دیتا ہے اور اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ گھڑی اور وقت بہت مختصر ہے (بخارى كتاب الجمعة باب الساعة التى فى يوم الجمعة حديث نمبر (935 جیسا کہ ہم نے دیکھا، اس سے مراد جمعہ کی نماز ہے اور خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے.تو یہ جمعہ کا مقام ہے کہ دعا کی قبولیت کی ایک گھڑی ہے جس میں تم جو خیر اللہ سے طلب کرو، اللہ عطا فرماتا ہے.پس تم یہ نہ سمجھو کہ تمہاری تجارتیں تمہیں فائدہ پہنچا رہی ہیں.تمہیں کیا ضمانت ہے کہ اگر تم تجارت کی خاطر جمعہ کی نماز چھوڑ و تو ضرور تمہیں اس میں تمہاری تو قعات کے مطابق فائدہ ہوگا اور نفع ہوگا.لیکن اللہ کا رسول ﷺ اس بات کی تمہیں اطلاع دیتے ہیں کہ اگر اس دن ان اوقات میں تم اللہ سے خیر اور بھلائی طلب کر رہے ہو تو وہ تمہیں ضرور ملے گی بشرطیکہ تم کبائر سے بچنے کی شرط بھی پوری کر رہے ہو.پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ جب ایک مسلمان کو ، ایک مومن کو ، جمعہ کی نماز پر بلایا جائے تو جلدی کرو اور تجارتیں چھوڑ دو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے.کہیں نہیں فرمایا کہ رمضان کے آخری جمعہ کے لئے تو تجارتیں چھوڑ دو کیونکہ اس میں خاص طور پر دعائیں قبول ہوں گی اور باقی جمعوں کو تجارتوں کی خاطر چھوڑ بھی دیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا.
خطبات مسرور جلد پنجم 414 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء آنحضرت ﷺ نے ہمیں جمعہ کی اہمیت بلکہ اس کے فرض ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ ضرور فرمایا ہے کہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا ایسا حق ہے جو واجب ہے ، سوائے غلام ، عورت، بچے اور مریض کے.(سنن دارقطني ، كتاب الجمعة باب من تجب عليه الجمعة حديث نمبر 1561 ) یہ سب لوگ معذور ہیں، مجبور ہیں اور مجبوری کے زمرے میں آتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے.جہاں جائز عذر ہے وہاں چھوٹ بھی دی ہوئی ہے لیکن دنیا داری کو خدا کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا اور نہ ہی برداشت ہو سکتا ہے.حدیث کے الفاظ ہیں کہ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ - لغت والے حق جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے بارہ میں ہو تو اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ایسا قول یا عمل جو اس طرح ہو کہ جس طرح پر اس کا ہونا ضروری ہے اور جس وقت اس کا ہونا ضروری ہے.اور واجب یہاں ان معنوں میں آئے گا کہ یہ ایسا فرض ہے کہ جس کے نہ کرنے سے انسان قابل ملامت سمجھا جائے.پس یہ الفاظ جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائے بڑی اہمیت کے حامل ہیں.یعنی جمعہ کی نماز ایک ایسا فرض ہے جس کی ادائیگی اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کے مقررہ وقت پر کی جائے ورنہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا ، قابل ملامت ہوگا.پس جمعہ کا چھوڑنا یا اس کو کوئی اہمیت نہ دینا، بڑا ہی فکر کا مقام ہے.پھر اللہ تعالیٰ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ جب تم نے اپنی تجارت پر ، اپنے کاروبار پر جمعہ کو اہمیت دی، جب تم نے میرے اس مقرر کردہ فریضے کی ادائیگی میں اپنے مادی مفاد کی کچھ پرواہ نہیں کی، تو یہ نہ سمجھو کہ میں نے تمہارا یہ عمل بغیر کسی انعام کے چھوڑا ہے نہیں، بلکہ اب جبکہ تم نے یہ فریضہ ادا کر دیا ہے تو اپنے کاروباروں میں ، اپنی تجارتوں میں بیشک مصروف ہو جاؤ.اب ان کاموں میں تمہاری اس عبادت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل رکھ دیا ہے.اب تم دنیا کی منفعتیں حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں برکت پاؤ گے.لیکن ان کاروباروں کے دوران بھی تم اللہ کا ذکر کرتے رہنا، اسے بھول نہ جانا.اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے رہنا.تمہاری توجہ اس طرف رہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کاروبار پر فضل فرمایا ہے تو میں اس کے احکامات کی تعمیل پہلے سے بڑھ کر کروں گا.کاروباروں کو ہوشیار یوں، چالاکیوں سے نا جائز منافعوں کا ذریعہ نہ بناؤ.اللہ کا جب حقیقی ذکر ہوگا تو خدا کا خوف بھی ہمیشہ رہے گا اور جب خدا کا خوف رہے گا ، اس کے ذکر سے زبان تر رہے گی تو یہی چیز پھر تمہاری آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ ہوگی.پھر تمہارے پر اس کی طرف سے مزید کامیابیوں اور فلاح کے دروازے کھلیں گے.آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لیکن جو لوگ میرے اس حکم کو سن کر بھی جمعہ کو اہمیت نہیں دیتے ، میری اس بات کو توجہ سے نہیں سنتے کہ اللہ کا ذکر کرنا ہی دراصل ہمیشہ کی فلاح کا باعث ہے بلکہ ان کے دل دنیا کی تجارتوں اور لہو ولعب میں ہی
خطبات مسرور جلد پنجم 415 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء گرفتار ہیں اور اے نبی ! اللہ کے اس حکم کی طرف بلانے پر تیری آواز پر کان نہیں دھرتے تو ایسے لوگ منافق ہیں.اس بارے میں آنحضرت ﷺ نے بڑا انذار فرمایا ہوا ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے بلا وجہ جمعہ چھوڑ اوہ اعمال نامے میں منافق لکھا جائے گا جسے نہ تو مٹایا جا سکے گا اور نہ ہی تبدیل کیا جاسکے گا.(مشكوة كتاب الصلواة.باب وجوبها الفصل الثالث صفحه 121 ) پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جب وہ کوئی تجارت دیکھتے ہیں ، دل بہلا وا د یکھتے ہیں اور اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے دوڑ پڑتے ہیں اور تَرَكُوكَ قَائِمًا تجھے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں یعنی تیری بات پر کان نہیں دھرتے یہ ان منافقین کے بارہ میں ہے.ورنہ آنحضرت ﷺ کے تو ایسے جانثار صحابہ تھے جنہوں نے سخت سے سخت حالات اور جنگوں میں بھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑا.دوسری اس بات کی اہمیت اس زمانے کے لئے ہے جب مسلمان دنیا داری میں ملوث ہیں.یہ زمانہ جس میں لہو ولعب کے بھی قسم ہا قسم کے سامان میسر ہیں اور تجارتیں اور کاروبار بھی ایک خاص کشش لئے ہوئے ہیں اور عملاً مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جمعہ کی نماز کی طرف کم توجہ دیتی ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں منافقین کے آپ کی آواز پر کان نہ دھرنے سے آپ اکیلے نہیں تھے ، گو منافقین یہی تصور کرتے تھے کہ ہم نے اکیلا چھوڑ دیا، اس وقت صحابہ کا ایک گروہ کثیر آپ کے ساتھ تھا.لیکن اس زمانہ میں جب دنیا داری بہت زیادہ آچکی ہے اور مسلمانوں کی اکثریت صرف عید کی نمازیں پڑھتی ہے یا پھر جیسا کہ غلط تصور پیدا ہو چکا ہے جمعتہ الوداع کی نماز پڑھتے ہیں تو یہ اس زمانے کے مسلمانوں کے لئے خاص طور پر قابل توجہ ہے.آنحضرت ﷺ اس بارہ میں انذار فرما چکے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہروہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ پڑھنا فرض کیا گیا ہے.سوائے مریض، مسافر عورت، بچے اور غلام کے.جس شخص نے لہو ولعب اور تجارت کی وجہ سے جمعہ سے لاپرواہی برتی ، اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہی کا سلوک کرے گا.یقیناً اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد والا ہے.(سنن دارقطني.كتاب الجمعة.باب من تجب عليه الجمعة حديث نمبر (1560) | پس اللہ تعالی کی لاپر واہی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ ہر ذی شعور جس میں اللہ کا خوف ہے، خوب سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لا پرواہی سے مراد تبا ہی اور بربادی ہے.نہ دین ملتا ہے اور نہ دنیا ملتی ہے.من حیث الجماعت اگر آج مسلمانوں کی حالت دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے احکامات کی بجا آوری نہ کر کے ، اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پس پشت ڈال کر یہ حالت ہے.اور آخرت کا نقشہ کہ وہاں سلوک کیا ہوگا ؟ ایک روایت میں یوں کھینچا گیا ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 416 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء حضرت سمرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز جمعہ پڑھنے آیا کرو اور امام کے قریب ہو کر بیٹھا کرو اور ایک شخص جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے جنت سے پیچھے رہ جاتا ہے حالانکہ وہ جنت کا اہل ہوتا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 مسند سمرہ بن جندب حدیث نمبر (20373 ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے حضور جمعوں کے حساب سے بیٹھے ہوں گے.پس کس قدر بدنصیبی ہے کہ بعض اعمال کی وجہ سے جنت کا اہل ہوتے ہوئے بھی صرف جمعہ نہ پڑھنے کی وجہ سے جنت سے دور کر دیا جاتا ہے.پھر آنحضرت ﷺ جمعہ چھوڑنے والوں سے خود کس قدر ناراضگی کا اظہار فرماتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو جمعہ چھوڑتے ہیں ان کے متعلق میرا دل چاہتا ہے کہ میں کسی اور شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں جمعہ سے پیچھے رہنے والوں کے گھروں کو آگ لگا دوں.(مسلم.كتاب المساجد ومواضع الصلواة باب فضل للصلواة الجمعة وبيان التشديد فى التخلف عنها حديث نمبر (1370) | پس اس انذار کو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.آنحضرت ﷺ کی اس کیفیت کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.آپ تو رحمتہ للعالمین ہیں.آپ کا دل تو جانوروں اور پرندوں کے لئے بھی پیار محبت اور رحمت سے بھرا ہوا ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ کے احکامات سے کسی کو ہٹا ہوا دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میں جمعہ نہ پڑھنے والوں کے گھروں کو آگ لگا دوں.یہ اظہار بھی اس ہمدردی کی وجہ سے ہے جو آپ کے دل میں اپنی قوم کے لئے تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اتنا قریب آیا ہوا ہے تمہاری دنیا وی تجارتوں اور مفادات اور رونقوں کے مقابلے میں ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ تمہارے مفادات کے سامان کر رہا ہے پھر بھی تم نہیں لے رہے.یہ اظہار اس لئے نہیں کہ میں کر دوں گا.یہ اظہار اس لئے ہے کہ ایسے نافرمانوں کو جمعہ کی اہمیت کا اندازہ ہو.اللہ اپنی رحمتیں بانٹ رہا ہے اور تم لے نہیں رہے.سمجھ رہے ہو کہ گھر کے آرام یا تجارتیں یا دنیاوی فائدے جمعہ کے اجر سے زیادہ فائدہ دے رہے ہیں.آپ کیا فرما رہے ہیں کہ اگر میرے سے پوچھو تو پھر میں تمہیں بتاؤں کہ اس دنیا وی آرام و آسائش، کھیل کود اور تجارتوں کو اگر تمہیں آگ لگا کر ، ان سے چھٹکارا پاتے ہوئے بھی جمعہ کے لئے آنا پڑے تو آؤ اور ان سے بچو اور جمعہ کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ روحانیت میں ترقی کرو، تا کہ قبولیت دعا کے نظارے دیکھو ، تا کہ خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرو اور دائمی تجارتوں کے وارث بن جاؤ جن میں کبھی کوئی خسارہ نہیں.آج ہمیں غیر قوموں کی ، مذہب سے بھٹکے ہوؤں کی رونقیں اور تجارتیں اور دولتیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں اور نتیجہ اپنے اس مقصد کو بھول رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے میں ہی سب برکات ہیں اور اس کے بلانے پر آنے پر
417 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہی تمام تجارتیں ہیں ، ایسی تجارتیں ہیں جو ہمیشہ کے لئے فائدہ دینے والی ہیں.تو یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ سن لو یہ دنیا کی رونقیں اور تجارتیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں.پس ہم میں آج اگر تھوڑی تعداد بھی دوسروں کی نقل میں صرف جمعۃ الوداع کو اس لئے اہمیت دے رہی ہے کہ آج گناہ بخشوا لئے ، اب اگلے سال دیکھی جائے گی تو ایسے سب لوگ انتہائی غلطی پر ہیں.ہاں اگر اس لئے آئے ہیں کہ آج کے جمعہ سے فیضیاب ہوتے ہوئے ، اس کی برکات سے فیضیاب ہوتے ہوئے اب جمعوں کی حاضری میں با قاعدگی اختیار کرنی ہے تو یہ بہترین اور با برکت ترین دن ہے ایسے شخص کی زندگی میں جس میں ایسا انقلاب پیدا ہوا.اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا جمعوں کی خاص اہمیت ہے کیونکہ سامان لہو ولعب بھی بہت ہے اور تجارتوں کی لالچیں بھی بہت ہیں.اس لئے ان سے بچنا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑے اجر کا باعث ہے، اس کا ثواب بھی بہت بڑا ہے.لیکن ایک احمدی کو اس لحاظ سے بھی اس جمعہ کی اہمیت کو مد نظر رکھنا چاہئے اور اس پیغام کو پھیلانا چاہئے کہ یہ زمانہ جس میں سے ہم گزررہے ہیں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی اس سورۃ یعنی سورۃ الجمعہ میں اترے ہوئے احکامات کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.اس سورۃ میں وَاخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: 4) کا اعلان بھی ہے کہ ایک دوسری قوم بھی ہے جن میں وہ اسے بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں.پس اس میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے بھیجنے کی خوشخبری اور اعلان تھا جس نے ایک جماعت بنانے کے لئے مسلمانوں کو جمع کرنے کے لئے ، انہیں جمعہ کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے آواز دینی تھی.جو مبعوث ہوا اور اس نے آواز دی اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس کو مانا کہ ہم آواز پر لبیک کہتے ہوئے فلاح کے راستوں کی تلاش کی غرض سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں.ہم وہ نہیں جو صرف سال کے سال جمعہ پڑھنے والے ہیں بلکہ ہم وہ ہیں جنہوں نے اصل کو پالیا.اس اصل کو پالیا ہے کہ مَا عِندَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ یعنی جو اللہ کے پاس ہے وہ اس دل بہلاوے اور تجارت سے بہتر ہے.اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم نے تیرے اس اعلان کو خوب سمجھا ہے جو تو نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے ذریعہ سے کرایا تھا اور جس کا فہم و ادراک ہمیں حقیقت میں اس افضل الرسل کے عاشق صادق نے کروایا کہ وَاللهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ که الله تعالى رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.اور ایسی ایسی جگہوں سے رزق دیتا ہے جہاں سے بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا.پس ہم کس طرح رسول کو اکیلا چھوڑ کر لہو ولعب اور کھیل کود میں مبتلا ہو سکتے ہیں.یہ ہے وہ فہم وادراک جو کم از کم ہر احمدی میں جمعہ کی اہمیت کے بارہ میں ہونا چاہئے.پس ہمیشہ یاد رکھو کہ احمدی یہ بھی نہ بھولے کہ زمانہ کے امام کو مان کر مسیح موعود کو مان کر ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں.ہمارے جمعے اب عام جمعے نہیں رہے.ہماری اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کی کوشش اب سطحی نہیں رہی کہ عمل کر لیا، کر لیا، نہ کیا تو کوئی حرج نہیں.ہم نے تو اپنے جمعوں کی بھی
418 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم حفاظت کرنی ہے.اپنی نسلوں کے جمعوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اور جو تمام مسلمانوں اور تمام قوموں کو دین واحد پر جمع کرنے کا کام ہمارے سپرد ہوا ہے اس کی بجا آوری بھی کرنی ہے.اگر ہمارے جمعوں میں باقاعدگی نہیں ، اگر ہمارے جمعوں میں ایک خاص توجہ نہیں تو ہماری بیعت کا دعوی بھی بے فائدہ ہے.ہمارا قول وفعل کا تضاد بھی قابل فکر ہے.میں نے نسلوں کی تربیت کی بات کی ہے تو یہ بھی ذکر کر دوں کہ بعض بیویاں ، بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے بارہ میں دعا کے لئے لکھتی ہیں کہ دعا کریں کہ انہیں نمازوں میں با قاعدگی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے ، انہیں جمعوں میں با قاعدگی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے.اس بات سے خوشی بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی عابدات عطا کی ہوئی ہیں جن کو اپنی نمازوں کے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کی بھی فکر ہے.لیکن اس بات سے خوشی کے ساتھ ایک فکر بھی گھیر لیتی ہے کہ اگر ان خاوندوں کی ، ان باپوں کی اصلاح نہ ہوئی جو دین کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے تو ان کے بچے بھی ان کی دیکھا دیکھی وہی عمل نہ شروع کر دیں.آج کے زمانے میں جیسا کہ میں نے بتایا کھیل کو د لہو و لعب کی قسمیں بھی بے انتہا ہیں، دین سے بے تو جہگی کہیں ان نئی نسلوں کو بھی لہو ولعب میں مبتلا نہ کر دے.جماعت کے بچے اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، دین سے اور خدا سے اتنے دور نہ چلے جائیں جہاں سے واپسی مشکل ہو جائے.پس اس زمانے میں ایک احمدی کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی ہیں.ایک امانت جو ہمارے سپرد ہے ، ایک عہد جو ہم نے کیا ہے اس کا حق ادا کرنا ہے اور یہ حق دعا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ادا نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے جمعے میں وہ گھڑی رکھی ہے جس میں وہ اپنے سے مانگی ہوئی ہر خیر کی دعا قبول فرماتا ہے.اور اس سے بڑی خیر کی دعا کیا ہوگی کہ ہم اللہ سے اپنی نسلوں کے اس سے مضبوط تعلق کی دعا مانگیں تا کہ وہ دین جو اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے اس پر قائم رہنے ، اس پر اپنی نسلوں کو قائم رکھنے اور اس کے پھیلانے میں ہمارا بھی کردار ہو اور ہم حقیقت میں جمعہ کا حق ادا کرنے والے ہوں.ہم حقیقت میں اُس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا.اور آپ نے آخرین میں بھی ایک جماعت پیدا کر دی جو پہلوں سے ملے اور وہ مقام حاصل کیا اور انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی جو پہلوں نے کیا تھا.انہوں نے اپنی عبادتوں کے معیار بھی حاصل کئے ، اپنے تعلق باللہ کے بھی مقام حاصل کئے.ہم میں سے بہت ہیں جن کو اس بات پر فخر ہے کہ ہم ان صحابہ کی اولادیں ہیں جن کو پہلوں سے ملنے کا مقام ملا.یہ فخر کسی کام نہیں آئے گا اگر ہم نے اپنے اعمال میں بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاک تبدیلیاں پیدا نہ کیں.پس فکر کا مقام ہے اور بہت فکر کا مقام ہے.اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے آنے کا انقلاب تو اب آتا ہے.تمام دنیا نے آپ کے جھنڈے تلے آنا ہے،
419 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم انشاء اللہ، کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے ، شعائر اللہ کی حفاظت کرتے ہوئے اس انقلاب کا حصہ بنا ہے تبھی ہم اس زمانے اور ان جمعوں کی برکات سے فیضیاب ہونے والے کہلا سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ارشاد پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ: خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے.پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا.یہ اس طرف اشارہ تھا کہ پھر تمام نعمت جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: (10) کی صورت میں ہوگا ، وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہوگا.وہ جمعہ اب آ گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعود کے ساتھ مخصوص رکھا ہے.اس لئے کہ اتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں.اول تکمیل ہدایت ، دوم تکمیل اشاعت ہدایت.اب تم غور کر کے دیکھو تکمیل ہدایت تو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کامل طور پر ہو چکی لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو، جبکہ آنحضرت ﷺ بروزی رنگ میں ظہور فرما دیں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے.یہی وجہ ہے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله اس شان میں فرمایا گیا ہے.تمام مفسرین نے بالا تفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.در حقیقت اظہار دین اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آ گیا ہے.چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں.ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہوسکتی ہے.اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے.ریلوں کے ذریعہ سے سفر آسان کر دئے گئے ہیں.غرض جس قدر آئے دن نئی ایجاد میں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں.اس لئے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِہ کہا کر فرمائی تھی.یہ وہی زمانہ ہے جو الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة: 4) کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے.اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.اس وقت رسول اللہ ﷺ کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے.اتمام نعمت کا وقت آپہنچا ہے لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں.مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائے گا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دے گا کہ اس کا نذیر سچا ہے“.(ملفوظات حضرت مسیح موعو جلد دوم صفحه 134-135 جدید ایڈیشن)
420 خطبات مسرور جلد پنجم خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا کہ یہ جو زمانہ ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں تمام دینوں نے جمع ہونا ہے اور اس میں اشاعت ہدایت کا کام تکمیل کو پہنچنا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا ہی زمانہ ہے.یہی وہ زمانہ ہے جس میں تمام دین میدان میں نکلے ہوئے ہیں بلکہ وہ بھی جو خدا کو نہیں مانتے ان اشاعت کے سامانوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دنیا کو ورغلانے میں لگے ہوئے ہیں، ہدایت سے دور لے جانے میں لگے ہوئے ہیں.اس وقت تمام دوسرے فرقے اور مذاہب بشمول عیسائیت اور دوسرے بھی احمدیت کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی مقدر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے وقت کی چند ایجادات کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اُسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہی.آج دیکھیں سیٹلائٹ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے اس میں مزید وسعت پیدا کر دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائیدات کے طور پر ایم ٹی اے اور انٹرنیٹ بھی آپ کو مہیا فرما دیا ہے جس کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام ہو رہا ہے.یہ سب دین واحد پر جمع کرنے کے سامان ہیں جیسا کہ آپ نے فرمایا.پس اللہ تعالی تو یہ انتظامات فرمارہا ہے لیکن ہمیں بھی اس کے حکموں پر چلتے ہوئے اس زمانہ میں اپنی سوچوں کو وسعت دیتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ اپنی اور اپنی نسل کی فکر کرتے ہوئے اس انقلاب میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں ہم اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی کے نظارے دیکھتے ہوئے فیض پانے والے ہوں.پس اس زمانے میں ہر احمدی کو عبادتوں اور دعاؤں کے معیار کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.صرف رمضان اور رمضان کا آخری جمعہ نہیں بلکہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازیں اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان ہمارے اندر پاکیزگی پیدا کرنے والا ہو.اللہ ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے اور ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرمائے جو فتح اور کامرانی کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے.پس آج ہمیں اس جمعہ میں یہ عہد کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزے کے ساتھ اس جمعہ کی عبادت کی توفیق عطا فرمائی ہے تو ہم اس مقصد کو سب سے پہلے اپنے اوپر لاگو کرنے والے بنیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے اور اس کے لئے اپنی تمام برائیوں اور بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی کوشش کریں.تمام نا پاکیوں کو پاکیوں میں بدلنے کی کوشش کریں.پس یہ تھوڑا سا وقت جو روزے کے اختتام اور رمضان کے اختتام میں اور جمعہ کے اختتام میں رہ گیا ہے اس میں ذکر الہی سے اپنی زبانیں تر رکھیں.بقیہ وقت اس بات کو ذہن میں رکھ کر اس کی جگالی کریں کہ ہم نے رمضان میں جو نیکیوں کی کوشش اور عبادات کی کوشش، اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، مالی قربانیوں کی کوشش
421 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم کی ہے.تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدے پورے کرنے کی ان دنوں احمدی بہت کوشش کرتے ہیں تو ان تمام اعمال اور ان نیکیوں کو اس جمعہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے.اے اللہ ! ہمیں اب ان عبادتوں ، ان دعاؤں ان نیکیوں ، ان حقوق کی ادائیگیوں میں ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق عطا فرما.ہمارا آئندہ ہر کام اور ہر عمل تیری رضا کا حصول ہو جائے جس کی برکات سے تو ہمیشہ ہمیں متمتع فرماتا ہے.ہمیں ان انقلابات کے نظارے دکھانا جن کا وعدہ تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے.اپنے پیار کرنے والے اللہ سے ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ دعا ئیں جب ہر ایک احمدی کے دل سے آج کے دن یکجائی صورت میں ابل کر نکلیں گی تو ہر دل سے نکلی ہوئی دعا کا یہ سوتا لاکھوں کروڑوں سوتوں کی صورت میں جمع ہو کر اس تیز بہاؤ والے دریا کی صورت اختیار کر لے گا جس کے سامنے آیا ہوا ہر گند صاف ہو جاتا ہے.ایک دوسرے کی دعاؤں کی مدد سے ہمارے دلوں کے میل اسی طرح دھلتے چلے جائیں.پس آج کی دعاؤں کو اس شفاف پانی کے دھارے کی صورت بنادیں، یہ شفاف پانی کا دھارا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بنایا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی بنتا ہے اور بنے گا اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے فیض پاتے ہوئے ہمارے دلوں کی کدورتوں اور میلوں کو مزید دھوتا چلا جائے گا اور ہم نیکیوں پر دوام اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مزید رضا اور اس کا قرب پانے والے بنتے چلے جائیں اور قبولیت دعا کے نظاروں کو دیکھنے والے ہوں.دلوں کی پاکیز گیوں کو دیکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے پیار کو دیکھنے والے ہوں.دشمن سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے ہوں اور اپنے آخری مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی حکومت اپنے دلوں میں بھی اور دنیا کے دلوں میں بھی قائم کرنے والے ہوں.اللہ کے پیارے رسول ﷺ کے دین کا جھنڈا جو اس زمانے میں مسیح موعود کے سپرد کیا گیا ہے اسے اس جمعہ کی برکات سے تمام دنیا میں لہراتا ہوا دیکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں کہ دین واحد پر اس مسیح موعود نے اب جمع کرنا ہے.پس یہ جمعہ جو دائمی برکات کا حامل ہے اور برکات سے فیضیاب کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اسے دیکھنے اور پانے کی توفیق عطا فرمائے.بعید نہیں کہ ہماری دعاؤں کے دوران اس وقت بھی ہمیں وہ گھڑی میسر آ گئی ہو جو قبولیت دعا کی گھڑی ہوتی ہے.خدا کرے ایسا ہی ہو.رمضان کے آخری دن میں خاص طور پر ہر بیمار، مجبور ، ضرورتمند کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.تمام دین کی خدمت کرنے والوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.تمام واقفین زندگی کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.وہ بچے جن کے والدین نے ، بچوں نے خود اپنے آپ کو وقف کیا ہے ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عہد نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.مالی قربانی کرنے والوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں.امت مسلمہ کو اپنی
خطبات مسرور جلد پنجم 422 خطبہ جمعہ 12 اکتوبر 2007ء دعاؤں میں یاد رکھیں.تمام انسانیت کو دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر تکلیف اور تباہی سے ان سب کو بچائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: اس وقت میں ایک ذکر کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ ہمارے میں سے اکثریت کو پتہ ہے کہ ہمارے ایک فدائی کارکن، بڑے فدائی احمدی مکرم ملک خلیل الرحمن صاحب 5 اکتوبر کوگزشتہ جمعہ وفات پاگئے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بڑے پرانے جماعت کے خدمت کرنے والے کارکنوں میں سے تھے.جب ایم ٹی اے شروع ہوا ہے اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے خطبات، تقریروں اور درسوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتے رہے.پھر میرے بھی خطبات اور تقریروں کے ترجمے انہوں نے کئے.اور گزشتہ جمعہ کو بھی جمعہ پر جانے کے لئے تیار ہو کر بیٹھے تھے کہ مسجد جا کرتر جمہ کا فرض ادا کرنا ہے لیکن اسی دوران ان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور جانبر نہ ہو سکے.پہلے تو پتہ بھی نہیں لگ رہا تھا کہ تکلیف کیا ہے.شام کے وقت پتہ لگا کیونکہ اس وقت وہ گھر میں اکیلے تھے.اکثر اعتکاف بیٹھا کرتے تھے.بڑے دعا گو تھے اور اعتکاف میں جو بڑا اہتمام کیا جاتا ہے، عام طور پر لوگ بڑے بڑے بستر لے کر آتے ہیں، وہ ایک رضائی یا لحاف لے آتے تھے اور بغیر تکیہ کے اس کو آدھے کو نیچے بچھا لیا کرتے تھے اور آدھے کو اوپر.یہ ان کے بعض ساتھیوں نے بتایا.بستر کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا کہ مسجد میں اگر آئے ہیں اور دعا کے لئے آئے ہیں تو زیادہ وقت دعاؤں میں ہی گزرے اور درود شریف بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے.یہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے اعتکاف میں ان کے ایک دوست نے بتایا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو ظلم ہے کہ اے خداوند من گنا ہم بخش، ہر وقت ترنم سے پڑھتے رہتے تھے ، گنگناتے تھے.ان کے ایک دوست نے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا جب حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے نفس مطمئنہ پر ایک خطبہ دیا تھا یا درس میں بیان فرمایا تھا تو جب سے میں نے سنا ہے میں تو اس وقت سے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ نفس مطمئنہ نصیب ہو جائے.اور علاوہ ترجمہ کی خدمت کے شروع میں قائد خدام الاحمدیہ بھی رہے اور اس کے علاوہ نیشنل سیکرٹری سمعی بصری تھے.سیکرٹری تعلیم تھے.ریجنل ناظم انصار اللہ بھی رہے.ریڈنگ جماعت کے صدر کے طور پر خدمات ادا کرتے رہے.اور گزشتہ سال ان کو یہاں یو کے میں جماعت احمدیہ کے پریس سیکرٹری کا کام بھی میں نے سپرد کیا تھا.بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے اس کو نبھایا اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک نوجوان نے مجھے لکھا کہ باوجود اس کے کہ میں نا تجربہ کار تھا، نوجوان تھا لیکن جب بھی میں نے ان کو کوئی مشورہ دیا تو بڑی عاجزی سے اس کو سنتے تھے.کبھی یہ نہیں کہا کہ تم کون ہو مشورہ دینے والے.اگر بہتر ہوتا تھا تو قبول کر لیتے تھے نہیں تو بڑی حکمت سے سمجھا دیا کرتے تھے کہ اس میں یہ یہ نقصانات ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے، ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے اور سب کو صبر عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 2 تا 8 نومبر 2007ء ص 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد پنجم 423 (42) خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء فرموده مورخه 19 اکتوبر 2007 ء بمطابق 19 را خاء1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ (فاطر: 11) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جو بھی عزت کے خواہاں ہیں ، پس اللہ ہی کے تصرف میں سب عزت ہے ، اسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ لوگ جو بُری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے ، ان کا مکر ضر ور ا کارت جائے گا.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عزیز ہے، جس کا قرآن کریم میں قریباً سو دفعہ بیان ہوا ہے.یہ بیان مختلف آیات میں مختلف مضامین کے ساتھ اور ایک آدھ بار اس کے علاوہ دوسری صفات کے ساتھ مل کر ہوا ہے.اس صفت کے اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے اہل لغت نے جو مختلف معانی کئے ہیں وہ میں بیان کرتا ہوں.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ العَزِیز وہ جو غالب ہوا اور مغلوب نہ ہو.یعنی جو دوسروں کو دبا لے اور اُسے کوئی دبانہ سکے، اس پر غلبہ نہ پاسکے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یعنی وہ يقين غالب اور بڑی حکمت والا ہے.پھر امام راغب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون: (9) اس کا ترجمہ ہے اور عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے.عزت کا مطلب بھی قوت، طاقت اور غلبہ ہے.یہ لکھتے ہیں کہ وہ عزت جو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو حاصل ہے یہی ہمیشہ باقی رہنے والی دائگی اور حقیقی عزت ہے.پھر لکھتے ہیں کہ آیت مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ، اس کے معنی ہیں کہ جو شخص معزز بنا چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے عزت حاصل کرے.کیونکہ سب قسم کی عزت خدا ہی کے قبضہ قدرت میں ہے.امام راغب قرآنی آیات کے حوالے سے ہی عمو ماً معانی بیان کرتے ہیں.
424 خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پھر لسان العرب میں اس کے معنی یوں بیان ہوئے ہیں.الْعَزِیزُ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے ناموں میں سے ایک نام ہے.زجاج کہتے ہیں کہ عزیز وہ ذات ہے جس تک رسائی ممکن نہ ہو اور کوئی شے اسے مغلوب نہ کر سکتی ہو.بعض کے نزدیک العَزِیزُ وہ ذات ہے جو قوی ہو اور ہر ایک چیز پر غالب ہو.یہ بھی کہا گیا ہے کہ الْعَزِیزُ وہ ذات ہے جس کی کوئی مثل نہیں.اَلْمُعِزّ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور وہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عزت عطا کرتا ہے.العز ذلّت کے مقابلے پر عزت استعمال ہوتا ہے اَلْعِزُّ کا اصل مطلب قوت ، شدت اور غلبہ ہے، الْعِزُّ وَالْعِزَّةُ کے معانی ہیں الرّفْعَةُ وَالْإِ مُتِنَاعُ.وہ بلندی کہ جس تک رسائی نہ ہو سکے.اس ساری وضاحت کا خلاصہ یہ نکلا کہ عزیز خدا تعالیٰ کا نام ہے جو کاملیت اور جامعیت کے لحاظ سے صرف خدا تعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے اور وہی ہے جس کی طرف تمام عزتیں منسوب ہیں.وہی ہے جو اپنے پر ایمان لانے والوں اور اپنے رسول کو طاقت وقوت عطا فرماتا ہے جو ان کے غلبہ کا موجب بنتی ہے.پس اس غالب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق جوڑنا ہی ایک انسان کو قوت و طاقت عطا فرماتا ہے.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ قرآن کریم میں تقریباً سو جگہ مختلف مضامین اور حوالوں کے تحت اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ذکر ہے.اس بارے میں بعض مفسرین نے بعض آیات کی جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں تا کہ اس کے مزید معنی کھل سکیں.علامه فخر الدین رازی اَمْ عِنْدَ هُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ (سورة ص : (10) کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ عزیز کی صفت بیان کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ نبوت کا منصب ایک عظیم منصب اور ایک بلند مقام ہے اور اس کو عطا کرنے پر قادر ہستی کے لئے ضروری ہے کہ عزیز ہو یعنی کامل قدرت رکھنے والی ہستی ہو اور وھاب ہو یعنی بہت زیادہ سخاوت کرنے والی ہو اور اس مقام پر فائز صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی کامل قدرتوں والا اور کامل الجود ہے.( یعنی سخاوت اور بخشش کرنے والا ہے.) (تفسیر کبیر امام رازى تفسير سورة ص زیر آیت نمبر (10) | یہ آیت جس کی علامہ رازی نے وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز بیان کی ہے یہ اصل میں کافروں کے اس سوال کے جواب میں ہے جو اس آیت سے پہلی آیت میں بیان ہوا ہے جب کافروں نے کہا تھا ک ءَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا (سورة ص : 9) کیا ہماری ساری قوم میں سے اسی پر ذکر نازل ہوا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرا رب جو غالب اور بخشنہا ر ہے کیا اس کی رحمت کے خزانے انہی کافروں کے پاس ہیں جسے چاہے یہ دیں، جسے چاہیں نہ دیں.اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ہمارے جیسا شخص ہے اس پر کس طرح نبوت اتر سکتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت کے خزانے تمہارے پاس نہیں ہیں بلکہ میں جو غالب اور تمام قدرتوں والا ہوں ہمیں ہی جسے چاہے خزانے دیتا ہوں.تم تو میری مخلوق ہو.تکبر کس بات کا ہے؟ پس اللہ جسے مناسب سمجھتا.اپنی رحمت کے خزانوں میں سے دیتا ہے اور نبوت کا انعام اسے ہی دیتا ہے جس کے لئے سمجھتا ہے کہ یہ بہترین طور پر
خطبات مسرور جلد پنجم 425 خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس پیغام کو پہنچائے گا.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی یہی اعترض ہوتا ہے.عیسائی ، مسلمان کئی ہیں جو یہ اعتراض کرتے ہیں، مسلمانوں میں سے تو اکثریت ہے جنہوں نے قبول نہیں کیا ان کا یہی اعتراض ہے کہ مسیح و مہدی ایک عام آدمی؟ یہ الہام اور یہ نبوت کا مقام مرزا غلام احمد قادیانی کو کس طرح مل گیا ؟ کیا اس عام آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنانا تھا؟ ایک عیسائی عورت نے بھی جرمنی میں مجھ سے ایک سوال کیا کہ دور دراز پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک شخص کو کیوں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا دیا، یہ کس طرح ہو گیا ، جس کا پیغام بھی باہر نہیں پہنچ سکتا تھا.چھوٹی سی جگہ ہے، اس زمانے میں کوئی ذرائع نہیں تھے.تو میں نے اس سے یہی کہا تھا کہ جواب تمہارے سوال میں ہی آ گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے جب اپنی رحمت کا خزانہ کھولا تو اس پیغام کے پہنچانے کے لئے انتظام بھی کر دیا.آج جرمنی میں بھی تم یہ پیغام سن رہی ہو.تمہیں بھی یہ پیغام پہنچ گیا ہے.دنیا کے 189 ممالک میں یہ پیغام پہنچ گیا ہے.تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ مقام بخشا گیا جو غالب ہے، جو سب عزتوں کا مالک ہے، جو اپنے پیاروں کو غلبہ عطا فرماتا ہے بلکہ اس سے منسلک مومنین کی جماعت سے بھی وعدہ ہے کہ غلبہ عطا فرمائے گا.عرب کہتے ہیں کہ عرب سے باہر مسیح و مہدی کس طرح ہوسکتا ہے؟ باقی دنیا میں بسنے والے مسلمان کہتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ پنجابی کس طرح مسیح و مہدی ہو سکتا ہے؟ حدیثوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ یہ نشانیاں پوری نہیں ہوئیں، ظاہری معنوں کو دیکھتے ہیں.اس پیغام پر غور نہیں کرتے جو احادیث میں بیان ہوا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کر کے فرمایا کہ پہلے انبیاء سے بھی یہ سوال ہوا تھا.آنحضرت ﷺ سے بھی یہی سوال ہوا اور ظاہر ہے جب آپ کے عاشق صادق نے مبعوث ہونا تھا تب بھی یہی سوال ہونا تھا.اس لئے مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں عزیز ہوں، میں وہاب ہوں.تم لوگ جو قرآن کریم پڑھنے والے ہو اس بات پر غور کرو.رحمت کے خزانوں کا بھی میں مالک ہوں تم نہیں.جس کو مسیح و مہدی بنانے کے لئے میں نے مناسب سمجھا ، بنا دیا.قرآن میں بھی جیسا کہ میں نے کہا بیان فرما دیا کہ جب آئندہ کبھی موقع آئے تو اس پر غور کروتا کہ تمہیں ٹھوکر نہ لگے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے کہ پیغام کو سمجھنے والے بنیں.یہ بات بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی کہ جس پر اپنی رحمت اتارتا ہوں، جسے انعام سے نوازتا ہوں، پھر اس کی مدد بھی کرتا ہوں.اور مدد کرنے اور فتح دینے کا اعلان بھی صفت عزیز کے تحت بڑے زور دار طریق سے فرمایا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ.(المجادلة:22) امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر کے تحت بیان کرتے ہیں کہ افضل طور پر تمام رسولوں کا غلبہ حجت اور دلائل سے متعلق ہے سوائے اس کے کہ ان میں سے بعض نے دلائل کے غلبے کے ساتھ تلوار کا غلبہ بھی شامل کر دیا لیکن
426 خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم بعض انبیاء کے ساتھ یہ صورتحال نہیں.اس کے بعد فرمایا قومی کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی نصرت کرنے کی قوت رکھتا ہے اور وہ عزیز یعنی غالب ہے اور کوئی اسے اپنی مراد کے حصول سے روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے سوا سب ممکن الوجود ہیں اور اللہ واجب الوجود ہے.یعنی باقی سب تو مخلوقات ہیں، ان کا وجود ممکن ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وجود حق ہے، ہمیشہ سے ہے اور جو واجب الوجود ہے وہ ممکن الوجود پر غالب ہوتا ہے.(تفسير كبير امام رازى تفسير سورة المجادله زیر آیت (22) | پھر روح المعانی میں كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِى إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ کے تحت علامہ ابو الفضل شہاب الدین آلوی لکھتے ہیں کہ لَا غُلبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی یعنی حجت اور تلوار یا اس کے متبادل کے ساتھ یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ غالب آئیں گے.رسولوں کے غلبہ میں یہ بات کافی ہے کہ حجت کے علاوہ ان رسولوں کے زمانے میں ان کی حقانیت ثابت ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے دشمنوں کو مختلف قسم کے عذابوں سے ہلاک فرما دیا.جیسے قوم نوح ، قوم صالح اور قوم لوط وغیرہ اور ہمارے نبی ﷺ کے مخالفین کو جنگ کے ذریعہ سے ہلاک کیا.اگر چہ ان جنگوں کے نتائج بعض دفعہ ( ڈول کی طرح) ناموافق بھی رہے لیکن انجام کار آنحضرت ﷺ کو ہی غلبہ حاصل ہوا.اسی طرح آپ کے بعد آپ کے متبعین کے ساتھ بھی یہی سلوک ہے (لیکن ایک شرط کے ساتھ ) جب ان کا جہا د رسولوں کے جہاد کی طرح خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو.ملک سلطنت اور دنیاوی اغراض کے لئے نہ ہو تو ایسے مجاہدین غالب اور منصور رہیں گے.تاہم بعض مفسرین نے صرف دلائل کا غلبہ ہی مرا دلیا ہے لیکن یہ اس سے اختلاف کرتے ہیں.(تفسير روح المعانى تفسير سورة المجادله زیر آیت نمبر (22 تو یہ جہاد کی جو اغراض بتائی گئی ہیں یہ اغراض آج تلوار سے جہاد کرنے والوں پر پوری نہیں اتر رہیں.اسی لئے غلبہ بھی نہیں مل رہا.خدا کی صفت قوی اور عزیز میں تو کمی واقع نہیں ہوئی.تو صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے عمل میں کمی واقع ہوئی ہے.نیتوں میں فتور ہے.اس لئے نتیجہ موافق نہیں نکل رہا.ابو محمد عبد اللہ قرطبی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو دلائل کے ساتھ بھیجا اور وہ دلائل کے ساتھ غالب آئے.تو یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے یہ دلائل کی جنگ کا زمانہ ہے اور مسیح موعود کی جماعت یہ جنگ ان براہین اور دلائل سے لڑ رہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کو عطا فرمائے تھے.زمین کے کناروں سے لوگ اس مرکز کی طرف آہستہ آہستہ جمع ہورہے ہیں جس کو دلائل کی تلوار دی گئی، جو اسلام کے محاسن ایسے خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے کہ دل گھائل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھی الہاما یہ فرمایا تھا کہ كَتَبَ الله لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِيِّ.وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ “ (یعنی) خدا نے قدیم سے لکھ رکھا ہے یعنی مقرر کر رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے یعنی کو کسی قسم کا مقابلہ آ پڑے جو لوگ خدا کی طرف سے ہیں وہ مغلوب نہیں ہوں گے اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے.مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے.(تذکره صفحه 317ایڈیشن چهارم مطبوعه (ربوه
خطبات مسرور جلد پنجم 427 اور پھر یہ الہام بھی ہوا اِنَّهُ قَوِيٌّ عَزِيزٌ کہ وہ قوی اور غالب ہے.خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء تذکره صفحه 406 ایڈیشن (چهارم) لیکن یہ بھی واضح فرما دیا جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے کہ یہ غلبہ اور فتح جنگ اور قتال کے ذریعے سے نہیں ہو گی بلکہ دلائل کا جہاد ہوگا اور انشاء اللہ تعالیٰ اسی سے غلبہ ملے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ انَا وَرُسُلِي (المجادلة: 22) یعنی خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء (ﷺ) کا نام پاکر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت ﷺ تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ جس زمانے میں ان مولویوں اور ان کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بد زبانی کے حملے شروع کئے اس زمانے میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا.گو چند دوست جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے میرے ساتھ تھے اور فرمایا کہ اس وقت ( جب آپ نے یہ لکھا تھا ) خدا تعالیٰ کے فضل سے 70 ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے جو نہ میری کوشش سے اتنی تعداد ہوئی ہے بلکہ اس ہوا کی تحریک سے جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دوڑے ہیں.اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلے کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جانکاہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر گئے.یہاں تک کہ حکام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں ، خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایا اور ہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دیئے اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں.مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا.پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا.کیا کوئی نذیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا.پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام ونشان نہ رہے.مگر وہ ختم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پر ند اس پر آرام کر رہے ہیں.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحه 380-384 پس یہ تعداد جو بڑھ رہی ہے اور آج دنیا کے 190 کے قریب ملکوں میں جماعت احمد یہ پھیل گئی ہے.
428 خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم اللہ تعالیٰ کے اسی وعدے کے مطابق ہے جو طاقتور ہے اور جن پر اپنی رحمت کا انعام نازل فرماتا ہے انہیں پھر غلبہ بھی عطا فرماتا ہے.پس بجائے اس کے کہ یہ اعتراض ہو کہ ایک عام آدمی کو کس طرح مقام مل گیا مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر غور کرنا چاہئے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں بھی یہ پیغام پہنچائیں اور یہ پیغام پہنچانے کا فریضہ احسن رنگ میں سر انجام دینا چاہئے.ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ.اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ میرے ساتھ آپ کا مقابلہ تقویٰ سے بعید ہے کیونکہ آپ لوگوں کی دستاویز صرف وہ حدیثیں ہیں جن میں سے کچھ موضوع اور کچھ ضعیف اور کچھ ان میں سے ایسی ہیں جن کے معنی آپ لوگ سمجھتے نہیں.مگر آپ کے مقابل پر میرا دعویٰ علی وجہ البصیرت ہے اور جس وجی نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں اور آنے والا مسیح موعود یہی عاجز ہے، اس پر میں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ میں قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ ایمان صرف حسن اعتقاد سے نہیں بلکہ وحی الہی کی روشنی نے جو آفتاب کی طرح میرے پر چمکی ہے یہ ایمان مجھے عطا فرمایا ہے.جس یقین کو خدا نے خارق عادت نشانوں کے تواتر اور معارف یقینیہ کی کثرت سے اور ہر روزہ یقینی مکالمہ او مخاطبہ سے انتہا تک پہنچا دیا ہے اس کو میں کیونکر اپنے دل میں سے باہر نکال دوں.کیا میں اس نعمت معرفت اور علم صحیح کو رد کر دوں جو مجھ کو دیا گیا ہے یا وہ آسمانی نشان جو مجھے دکھائے جاتے ہیں میں ان سے منہ پھیر لوں یا میں اپنے آقا اور اپنے مالک کے حکم سے سرکش ہو جاؤں، کیا کروں؟ مجھے ایسی حالت سے ہزار دفعہ مرنا بہتر ہے کہ وہ جو اپنے حسن و جمال کے ساتھ میرے پر ظاہر ہوا ہے میں اس سے برگشتہ ہو جاؤں.یہ دنیا کی زندگی کب تک؟ اور یہ دنیا کے لوگ مجھ سے کیا وفاداری کریں گے تا میں ان کے لئے اس یار عزیز کو چھوڑ دوں.میں خوب جانتا ہوں کہ میرے مخالفوں کے ہاتھ میں محض ایک پوست ہے جس میں کیڑا لگ گیا ہے.وہ مجھے کہتے ہیں کہ میں مغز کو چھوڑ دوں اور ایسے پوست کو میں بھی اختیار کرلوں.مجھے ڈراتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں لیکن مجھے اُسی عزیز کی قسم ہے جس کو میں نے شناخت کر لیا ہے کہ میں ان لوگوں کی دھمکیوں کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا.مجھے اس کے ساتھ غم بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسرے کے ساتھ خوشی ہو.مجھے اس کے ساتھ موت بہتر ہے یہ نسبت اس کے کہ اس کو چھوڑ کر لمبی عمر ہو.جس طرح آپ لوگ دن کو دیکھ کر اس کو رات نہیں کہہ سکتے.اسی طرح وہ نور جو مجھ کو دکھایا گیا میں اس کو تاریکی نہیں خیال کر سکتا اور جبکہ آپ اپنے ان عقائد کو چھوڑ نہیں سکتے جو صرف شکوک اور تو ہمات کا مجموعہ ہے تو میں کیونکر اس راہ کو چھوڑ سکتا ہوں جس پر ہزار آفتاب چمکتا ہوا نظر آتا ہے.کیا میں مجنون یا دیوانہ ہوں کہ اس حالت میں جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے روشن نشانوں کے ساتھ حق دکھا دیا ہے پھر بھی میں حق کو قبول نہ کروں.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزار ہا نشان میرے اطمینان کے لئے میرے پر ظاہر ہوئے جن میں
429 خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم سے بعض کو میں نے لوگوں کو بتایا اور بعض کو بتایا بھی نہیں اور میں نے دیکھا کہ یہ نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور کوئی دوسرا بجز اس وحدہ لاشریک کے ان پر قادر نہیں اور مجھ کو ماسوا اس کے علم قرآن دیا گیا اور احادیث کے صحیح معنے میرے پر کھولے گئے.پھر میں ایسی روشن راہ کو چھوڑ کر ہلاکت کی راہ کیوں اختیار کروں ؟ جو کچھ میں کہتا ہوں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں اور جو کچھ آپ لوگ کہتے ہیں وہ صرف ظن ہے.اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (النجم: 29) اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اندھا ایک اونچی نیچی زمین میں تاریکی میں چلتا ہے اور نہیں جانتا کہ کہاں قدم پڑتا ہے.سو میں اس روشنی کو چھوڑ کر جو مجھ کو دی گئی ہے تاریکی کو کیونکر لے لوں جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا میری دعائیں سنتا اور بڑے بڑے نشان میرے لئے ظاہر کرتا اور مجھ سے ہمکلام ہوتا اور اپنے غیب کے اسرار پر مجھے اطلاع دیتا ہے اور دشمنوں کے مقابل پر اپنی قومی ہاتھ کے ساتھ میری مدد کرتا ہے اور ہر میدان میں مجھے فتح بخشا ہے اور قرآن شریف کے معارف اور حقائق کا مجھے علم دیتا ہے تو میں ایسے قادر اور غالب خدا کو چھوڑ کر اس کی جگہ کس کو قبول کرلوں.میں اپنے پورے یقین سے جانتا ہوں کہ خدا وہی قادر خدا ہے جس نے میرے پر تجلی فرمائی اور اپنے وجود سے اور اپنے کلام اور اپنے کام سے مجھے اطلاع دی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ قدرتیں جو میں اس سے دیکھتا ہوں اور وہ علم غیب جو میرے پر ظاہر کرتا ہے اور وہ قومی ہاتھ جس سے میں ہر خطرناک موقع پر مدد پاتا ہوں وہ اسی کامل اور بچے خدا کے صفات ہیں جس نے آدم کو پیدا کیا اور جو نوح پر ظاہر ہوا اور طوفان کا معجزہ دکھلایا.وہ وہی ہے جس نے موسیٰ کو مدد دی جبکہ فرعون اس کو ہلاک کرنے کو تھا.وہ وہی ہے جس نے حضرت محمد مصطفی علت اللہ سید الرسل کو کافروں اور مشرکوں کے منصوبوں سے بچا کر فتح کامل عطا فرمائی اسی نے اس آخری زمانے میں میرے پر تجلی فرمائی.براهین احمدیه جلد پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه 296-298) | پس یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عزیز خدا کا اپنے ساتھ سلوک کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان اور اس اعلان کے بعد جو آپ نے مخالفین کو مخاطب کر کے فرمایا آپ کئی سال زندہ رہے اور چیلنج بھی دیا.کوئی مخالف آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا اور کسی مخالف کا کوئی حربہ بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا.کیونکہ یہ اس بچے خدا کا آپ سے وعدہ تھا جو اپنے فضل سے جب اپنا انعام اتارتا ہے تو اس کے پھر بہترین نتائج بھی پیدا فرماتا ہے.اپنے غالب اور قوی ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہے.آج دنیا میں جماعت احمدیہ کی ترقی انہی باتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے.لیکن دشمن پہلے بھی انبیاء کی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہے اور آج بھی لگے ہوئے ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.مختلف جگہوں سے کبھی مار دھاڑ کبھی دوسرے ظلموں کی اور کبھی اِکا دُکا احمدیوں کی شہادتوں کی خبریں بھی آتی ہیں.لیکن آج تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچی پیروی کرنے والوں کے ایمانوں کو یہ دھمکیاں اور یہ ظلم کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے.ان کے ایمانوں کے پائیز ثبات میں کبھی
430 خطبہ جمعہ 19 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم لغزش نہیں آئے گی.پس ہمارا کام یہ ہے کہ جہاں اپنے ایمان کی مضبوطی اور ثبات قدم کے لئے اس خدا کے حضور جھکیں وہاں ان ظلموں سے بچنے اور فتح کے نظارے دیکھنے کے لئے بھی اُس قومی اور عزیز خدا کو ہی پکاریں جو اپنے انبیاء سے کئے گئے وعدے ہمیشہ سچے کرتا آیا ہے اور سچے مومنوں سے بھی اس کا یہی وعدہ ہے کہ ان کو بھی غلبہ عطا فرمائے گا.وہ آج بھی انشاء اللہ تعالیٰ اسی غلبہ کو سچ کر کے دکھائے گا، بلکہ دکھا رہا ہے.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہماری کامیابی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑے رہنے سے ہی مقدر ہے.تمام عزتیں اب زمانے کے امام کے ساتھ رہنے سے ہی ملنی ہیں.کیونکہ یہی ہے جو آنحضرت ﷺ کا غلام صادق ہے اور اس کے ساتھ جڑنا آ نحضرت ﷺ کے ساتھ تعلق جوڑنا ہی ہے.پس اس میحو مہدی کے ساتھ حقیقی تعلق ہی اعمال کی بلندیوں پر بھی لے جانے والا ہوگا.جیسا کہ میں نے کہا کہ آج بعض جگہ احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں، ان کو بعض جگہ بڑی بے دردی سے ظلم کی چکی میں پیسا جارہا ہے یا شہید کیا جاتا ہے.انہیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ قربانیاں ان کا مقام اونچا کرنے والی ہیں اور دشمن کی تدبیریں انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اکارت جانے والی ہیں.آخر کار اس دنیا میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے مسیح کے غلبہ کو دیکھیں گے اور ذلت کا سامنا کریں گے اور اللہ کہتا ہے کہ بعد میں بھی، انگلی زندگی میں بھی، اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اندر آئیں گے.پس ہمارا کام یہ ہے کہ حتی الوسع کوشش کریں کہ ایسے ظالموں کے پنجوں سے اُن معصوم لوگوں کو چھڑانے کی کوشش کریں اور انہیں قوی و عزیز خدا کی پناہ میں لانے کی کوشش کریں جو غلط فہمیوں کی وجہ سے ان لوگوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور اُن کو اس جال سے نکال کر قوی و عزیز خدا کے ساتھ ان کا حقیقی تعلق جوڑنے کی کوشش کریں.وہی ہے جو عزت اور غلبہ دینے والا خدا ہے اور اس کے ساتھ جڑے بغیر اب کوئی نجات کا دوسرا راستہ نہیں ہے.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنا یہ فرض بھی ادا کرنے والے بنیں.پاکستان کے لئے بھی دعا کے لئے میں کہنا چاہتا ہوں.سیاستدانوں نے اپنی سیاست چمکانے اور جھوٹی اناؤں اور عزتوں کے لئے پوری قوم اور ملک کو داؤ پر لگایا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل دے اور بجائے سیاست کھیلنے کے لوگوں کے لئے ان کے اندر ہمدردی اور رحم کے جذبات ابھریں اور وہ بھی قوم پر رحم کریں.بلا وجہ سینکڑوں آدمیوں کو ذرا ذراسی بات پر اپنی اناؤں کی خاطر مروا ر ہے ہیں.کل ہی ایک جلوس میں جو خوفناک طور پر بم پھٹے ہیں اس میں سینکڑوں آدمی مر گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سیاستدانوں کو بھی عقل دے اور لوگوں کو بھی عقل دے کہ وہ ان لوگوں کے جال سے نکلنے کی کوشش کریں.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 9 تا 15 نومبر 2007ء ص 5 تا 7 )
خطبات مسرور جلد پنجم 431 43 خطبہ جمعہ 26 /اکتوبر 2007ء فرموده مورخه 26 اکتوبر 2007ء بمطابق 26 را خاء 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا اسلام پر اعتراض کرنے والے ایک بہت بڑا اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے خدا کا جو تصور پیش کیا ہے وہ نعوذ باللہ بڑے ظالم اور ایسے قاہر خدا کا تصور ہے جو صرف عذاب دینے والا ہے اور اپنے ماننے والوں کو ختی اور تشد د کا حکم دیتا ہے.اس دنیا میں بھی سزادینے والا ہے.اور مرنے کے بعد بھی جہنم کا عذاب ہی لوگوں کے حصے میں آئے گا.یہی باتیں قرآن کریم میں پیش کی گئی ہیں.ہالینڈ میں ان کے منسٹر یا ایم پی تھے انہوں نے بھی اس قسم کا سوال اٹھایا تھا.پوپ صاحب نے بھی اسلام کے پیش کردہ خدا کا اسی طرح مذاق اڑایا تھا اور اسی طرح دوسرے بھی ہیں جو چاہے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں یا خدا کی ہستی کے انکاری ہیں، اکثر اسلام کی مثال دے کر یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اسلام کا خدا بڑا جابر ، ظالم اور قاہر خدا ہے جس کی ہستی میں ، جس کے احکامات میں کوئی حکمت نہیں ہے اور خدا کی طرف منسوب ہونے والے سب احکامات نعوذ باللہ بے دلیل اور بے حکمت ہیں اور نتیجتا اسلام زبر دستی کرنے والا اور پر تشد د مذہب ہے اور اس وجہ سے مسلمانوں میں سختی اور تشہ دکار جحان زیادہ پایا جاتا ہے.یہ بات تو واضح ہے کہ ان اعتراض کرنے والوں نے نہ تو قرآن کریم کو پڑھا جو پڑھنے کا حق ہے اور نہ ان کو سمجھ آ سکتا تھا اور نہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی.ان کے دل کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے ہیں.اگر ان کے دل کینوں اور بغض سے بھرے ہوئے نہ ہوں، اگر ان لوگوں میں انصاف کی نظر ہو تو دیکھیں کہ اسلام میں سب سے زیادہ خدا کی ہستی کی دلیل دی گئی ہے.اس کی صفات ایسی مثالیں دے کر سمجھائی گئی ہیں کہ اگر انصاف کی آنکھ بند نہ ہوتو اسلام میں خدا کے خوبصورت تصور سے زیادہ خوبصورت تصور کہیں نظر نہیں آتا اور نہ ہی آ سکتا ہے.اسلام میں تو خدا کے حسن واحسان کا تصور ابتدا میں ہی پہلی سورۃ میں ہی بیان ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے حسن و احسان کا تصور سورۃ فاتحہ سے یوں پیش فرمایا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ : ” قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے، یعنی تمام صفات صرف اللہ کے نام میں ہیں " تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے یعنی صحیح، درست اور حقیقی ثابت ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کا ملہ اس میں پائی جاویں.پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اس میں پائی گئی تو حسن
432 خطبہ جمعہ 26 اکتوبر 2007ء 66 خطبات مسرور جلد پنجم اس کا ظاہر ہے.اسی حسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا نام نور ہے، جیسا کہ فرمایا اللهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالأَرْضِ (النور: 36) یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے.ہر ایک نو ر اسی کے نور کا پر تو ہے لیکن اس نور کو دیکھنے کے لئے تعصب کی عینکیں اتارنی ہوں گی.لیکن جو شیطان کی پیروی پر تلے ہوئے ہوں وہ اپنے کئے کا خمیازہ بھگتے ہیں اور اللہ پھر انہیں نور کی بجائے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے.پس اگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حسن نظر نہیں آتا یا اللہ کی ہستی کی پہچان نہیں ہوتی تو یہ دیکھنے والے کا قصور ہے جو اپنے دل کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھتے ہیں.اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حسن دیکھنا ہو، اس تصور کو دیکھنا ہو جو اسلام پیش کرتا ہے تو اپنے دل کے دروازوں اور کھڑکیوں کو کھولنا ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ کے احسان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ” احسان کی خوبیاں اللہ تعالیٰ میں بہت ہیں جن میں سے چار بطور اصل الاصول ہیں.چار بنیادی چیزیں ہیں اور ان کی ترتیب طبیعی کے لحاظ سے پہلی خوبی وہ ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں رب العالمین کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا یعنی جہاں تک کسی چیز کی کوئی طلب ہو سکتی ہے ، ضرورت کسی چیز کی ہوسکتی ہے، اس کو ضرورت کے مطابق وہاں تک، اس کی ضروریات کو پہنچانا.اور اس میں ہر ایک کی مختلف چیزوں کی مختلف اجسام کی اپنی اپنی طلب اور ضرورت ہے اگر جانوروں میں سے لیں تو جانوروں کی ، جمادات کی ، پودوں کی ، درختوں کی تو جس چیز کی تمام چیزوں کو ضرورت ہو، اس کی انتہا تک پہنچنے کا انتظام کرنا یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے.آپ فرماتے ہیں کہ تمام عالموں میں یہ جور بوبیت کی صفت ہے وہ جاری ہے جس میں عالم سماوی بھی ہیں اور عالم ارضی بھی ہیں، زمین و آسمان کے تمام عالم میں جو بھی جس چیز کی بھی ضرورت ہے، جس چیز کی بھی مخلوق کے لئے اور اس کی پرورش کے لئے ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : "ربوبیت الہی اگرچہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے یعنی جو بھی چیز موجود ہے، اس نے ہی اس کو پیدا کیا ہے اور جو بھی چیز ظاہر ہوئی ہے یا ہورہی ہے اس کی پرورش کرنے والی بھی خدا تعالیٰ کی ذات ہے.لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا رب العالمین ہے تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہور میں لاسکتا ہے“.پھر فر مایا کہ دوسرے درجہ کا احسان رحمانیت ہے.فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے، اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی.یعنی جس کی زندگی کسی
433 خطبہ جمعہ 26 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم جاندار کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی ، اس کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی وہ اسے مہیا کی گئیں، جس میں جسم کی بناوٹ اور اعضاء وغیرہ بھی شامل ہیں.مثلاً پرندے ہیں.ہوا میں اڑتے ہیں.ان کے جسم کی بناوٹ ایسی ہے کہ اونچا اڑنے والے، زیادہ سفر کرنے والے جو پرندے ہیں، جن کو تیز ہوا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے سامنے کا سینہ انتہائی مضبوط بنایا گیا ہے، بڑا لمبا لمبا سفر کر کے مرغابیاں اور دوسرے پرندے دُور دراز علاقوں سے آتے ہیں.اسی طرح دوسری مخلوق ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ اسی طرح انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کی ہیں.انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے، کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے.پھر فرماتے ہیں کہ " تیسری خوبی خدا تعالیٰ کی ، جو تیسرے درجے کا احسان ہے، رحیمیت ہے.قرآن شریف کی اصطلاح کے رو سے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے.یہ احسان صرف انسان کے لئے ہے ربوبیت اور رحمانیت سے تو دوسری مخلوق بھی فائدہ اٹھا رہی ہے لیکن رحیمیت صرف اور صرف انسان کے لئے مخصوص ہے اور اگر اس سے انسان فائدہ نہ اٹھائے ، اپنے رحیم خدا کونہ پہچانے تو وہ بھی جانوروں اور پتھروں کی طرح ہے.آپ فرماتے ہیں، چوتھا احسان سورۃ فاتحہ میں فقرہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّین میں بیان فرمایا گیا ہے.فرمایا کہ اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے.رحیمیت میں انسان اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے، دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر اس کو کامیابی عطا فرماتا ہے.اس کی دعائیں سنتا ہے اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے.(تفسیر سورة الفاتحه از حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه 83 تا (85) یعنی ان دعاؤں کا پھر پھل ملتا ہے.پس اسلام کا تو یہ خدا کا تصور ہے کہ اس کی بنیادی صفات کو پہچانو تو اس کا حسن اور اس کا احسان ایک انسان پر ظاہر ہو جاتا ہے اور ایک مومن اپنے خدا کی صفات کا مزید فہم و ادراک حاصل کرتا ہے.اگر مَالِكِ يَوْمِ الدِّين فرمایا ہے تو بندے پر چھوڑا ہے کہ اس کے حسن واحسان کو دیکھتے ہوئے اس کی صفات کو سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر نیک اعمال بجالاؤ گے ، دعا اور عبادت کرو گے تو نیک جزا پاؤ گے.اگر بد اعمال کرو گے تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا.لیکن فرمایا کہ سزا جو تمہیں ملے گی، ہر عمل کا بدلہ اس کے مطابق ملتا ہے اللہ تعالی ظلم نہیں کرتا.اس لئے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو پہچانو اور اس سے اس کی جزا اور انعام حاصل کرنے کے لئے اس کی طرف جھکو، یہ نہ ہو کہ گنا ہوں میں دھنستے چلے جاؤ اور پھر سزا ملے اور پھر کہو کہ اسلام کا خدا سزا دینے والا ہے.خدا کو بھلا دو، اس کے آگے نہ جھکو اور پھر یہ کہو کہ خدا نے ہم پر رحم کیوں نہیں کیا ؟ اسلام کا خدا ایک طرف کہتا ہے کہ میں رحمن ہوں ، دوسری طرف ہم پر رحم نہیں کر رہا.
434 خطبه جمعه 26 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم میں جو مرضی عمل کرتا چلا جاؤں، مجھے اس کی کوئی سزا نہیں ملنی چاہئے.اس دنیا میں بھی انسان قانون بناتا ہے تو اس جزا سزا کے قانون کو اپنے سامنے رکھتا ہے جو اس دنیا میں ہے، ان کی احتیاطیں کرتا ہے لیکن خدا جو عزیز ہے، غالب ہے، قدرتوں والا ہے، قدیر ہے، اس کو یہ لوگ پابند کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں، خدا تعالیٰ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے اور پھر اس نظریے کا پرچار کیا جاتا ہے.اسلام کے خلاف غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں.لیکن جو اسلام پر اعتراض کرنے والے عیسائیوں میں سے ہیں وہ جو دلیل پیش کرتے ہیں، وہ یہ ہے ) کہ اپنے گناہوں کا کفارہ دوسرے سے کرائیں جو کسی طرح بھی حکمت کی بات نظر نہیں آتی.کیا دنیا کے قانون میں اس کو مانتے ہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی.اگر یہ چیز اپنے دنیاوی قانون میں نہیں ہے تو پھر یہ احمقانہ نظر یہ خدا تعالیٰ کے قانون میں کیوں ٹھونسنا چاہتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کی بھی ہے کیونکہ وہ مالک ہے اس لئے اس کی مرضی ہے کہ اس کے باوجود کہ بندہ کو اپنے کئے کی سزا مل سکتی ہے، وہ بخشنے کی طاقت اور قدرت بھی رکھتا ہے.دنیاوی قانون تو اگر قصور ہے تو اس کی سزا دے گا لیکن اللہ تعالیٰ قصوروں کو بخشنے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.تو اسلام کا خدا با وجود عزیز ہونے کے باوجود تمام طاقتیں اور قوتیں رکھنے کے، غالب ہونے کے پھر رحمت اور بخشش کی نظر سے ہی اپنے بندے کو دیکھتا ہے، سوائے اس کے کہ بندہ حد سے زیادہ زیادتیوں اور ظالموں پر تلا ہوا ہو.تمام انبیاء کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ظلم اور زیادتی حد سے بڑھ گئے تب اللہ تعالیٰ کا عذاب یا پکڑ آئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے سوچا کہ دوزخ کے سات دروازے کیوں ہیں اور جنت کے آٹھ دروازے کیوں ہیں.تو مجھے سمجھایا گیا کہ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک زائد دروازہ بخشش کا رکھا ہوا ہے.تو اللہ تعالیٰ با وجود غالب ہونے کے بخشش بھی اپنے بندوں مخلوق اور انسانوں پہ بہت کرتا ہے.پس کیا ایسے بخشنہا راور بندوں کی ربوبیت اور رحمانیت کرنے والے خدا کا تصور جابر اور ظالم کا ہو سکتا ہے؟ یہ معترضین کی کم عقلی اور کم علمی ہے.اسلام کا خدا کا تصور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اللہ کے نام میں ہے جو تمام صفات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آجکل تو حید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہور ہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا ہے لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے ، نہ کہ ایک مردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا اس کو آخر کا راسی خدا کی طرف آنا پڑے گا جو اسلام نے پیش کیا ہے کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پستہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه (52
435 خطبہ جمعہ 26 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم گزشتہ جمعہ کو میں نے اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کا ذکر کیا تھا یعنی ایسا خدا جو قوی ہے اور غالب ہے اور سب طاقتوں کا مالک ہے، اسے کبھی مغلوب نہیں کیا جا سکتا.آج اس اعتراض کے حوالے سے دوبارہ اسی صفت کا ذکر کروں گا خدا با وجود عزیز ہونے کے نہ سزادینے میں جلد باز ہے، نہ اپنے بندے کی پکڑ کے انتظار میں رہتا ہے.جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے، یہاں یہ بھی بتادوں کہ صفت عزیز کا جب قرآن کریم میں ذکر آیا ہے.تو جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بھی بتایا تھا کہ سوائے چند ایک مقامات کے دوسری صفات کے ساتھ ذکر ہے اور جب صفت عزیز کا استعمال ہوا ہے تو نصف جگہ تقریباً عزیز کے ساتھ حکیم کی صفت کا استعمال ہوا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بھی ہر فیصلہ حکمت کے ساتھ کرتی ہے، اور پھر صفت عزیز کا استعمال صفت رحیم کے ساتھ ہوا ہے، صفت حمید کے ساتھ ہوا ہے، وہاب کے ساتھ ہوا ہے، غفور کے ساتھ ہوا ہے اور کریم کے ساتھ ہوا ہے.اور جہاں صفت عزیز کے ساتھ سزا دینے یا اپنے قومی یا ذو انتقام ہونے کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، یعنی انتقام لینے والا ، سزا دینے والا یا قومی کا اظہار ہوا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے وجوہات بیان فرمائی ہیں کہ کیوں اللہ تعالیٰ انتقام لیتا ہے، کیوں سزا دیتا ہے، یا طاقت کا اظہار کرتا ہے ، اور یہ ذکر کل دس بارہ جگہ ہوا ہے.پس اگر کوئی انصاف کی آنکھ سے دیکھے، اپنے ماحول پر نظر ڈالے، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت پر غور کرے، تو سوال ہی نہیں کہ رحیمیت کی طرف توجہ پیدا نہ ہو اور جو اس حد تک بغاوت پر آمادہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی پہچان ہی نہیں کرنا چاہتا تو اللہ تعالی با وجود عزیز ہونے کے فرماتا ہے کہ اس کی سزا اُس کو اگلے جہان میں دوں گا.مرنے کے بعد اس سے معاملہ کروں گا.سوائے ان کے جنہوں نے انبیاء کے ماننے والوں کے ساتھ زیادتی کی ، انبیاء کے ساتھ زیادتی کی ، ان کا جینا اجیرن کر دیا ہے، معاشرے کی زندگی اجیرن کر دی انہیں اس دنیا میں بھی سزا ملتی رہی.پس جو اللہ تعالیٰ کا قانون توڑے اور حد سے بڑھنے والا ہو، اس کے پیاروں سے استہزاء کرنے والا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اس لئے پکڑ کرتا ہے تا کہ جو قوم اس طرح کر رہی ہے ان میں سے اگر کسی کی اصلاح ہو سکتی ہے تو اصلاح ہو جائے یا بعد میں آنے والی قو میں بھی ان سے عبرت پکڑیں اور اپنے انبیاء کا استہزاء نہ کریں.ان کے لئے ایسا عبرت کا نمونہ ہو جو ان کی اصلاح کا باعث بنے.پس ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ ذ وانتقام اور قوی ہونے کا اظہار کرتا ہے تاکہ دنیا کو پتہ لگے کہ خدا عزیز ہے، اس کو یا اس کے پیاروں کو یا اس کے ماننے والوں کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیرا ایسے لوگوں کو بھسم کر دیا کرتی ہے.اس کی چند مثالیں میں قرآن کریم سے دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے کہ مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَانْزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِايْتِ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ.وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ (آل عمران : 5) یعنی ان سے پہلے لوگوں کے لئے ہدایت کے طور پر اور اُسی نے فرقان نازل کیا.یقیناًوہ
436 خطبہ جمعہ 26 /اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم لوگ جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان کے لئے سخت عذاب مقدر ہے اور اللہ کامل غلبہ والا اور انتقام لینے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ اُن سے انتقام لیتا ہے جو بار بار کی نصیحت کے باوجود اور باوجود اس کے کہ تورات اور انجیل میں ( اس کو اگر سیاق و سباق سے پڑھیں تو ان میں ) بھی یہ ذکر ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو یعنی ان کی جو بنیادی تعلیم تھی وہ تو ایک خدا کی عبادت کی ہے.بعد میں بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں اور بندے کو خدا بنایا گیا یا شرک کی تعلیم دی گئی.پھر یہ بھی تعلیم تھی کہ بعد میں آنے والے کو جس نے خاتم الانبیاء کا اعزاز پاتے ہوئے آنا ہے اس کو بھی قبول کرنا ہے.پھر بھی اگر عبادت کا حق ادا نہیں کرتے اور نہ صرف عبادت نہیں کرتے بلکہ شرک میں مبتلا ہو اور آنے والے کو قبول کرنے کی بجائے اس کی دشمنی میں بھی حد سے بڑھے ہوئے ہو تو پھر یا درکھو کہ ایسے منکرین پھر کامل غلبہ والے کی پکڑ اور عذاب کے نیچے آتے ہیں.پھر قرآن کریم فرماتا ہے یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَانْتُمْ حُرُمٌ.وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاء مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيَا بَلِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسْكِيْنَ اَوْعَدْلُ ذلِكَ صِيَامًا لِيَذُوقَ وَبَالَ اَمْرِهِ.عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ.وَمَنْ عَادَ فَيَنْتَقِمُ اللهُ مِنْهُ، وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُوانْتِقَام (المائدة : 96) کہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، شکار مارا نہ کرو جب تم احرام کی حالت میں ہو.( یہ حج کے احکامات کے ساتھ ہے ) اور تم میں سے جو اسے جان بوجھ کر مارے تو اس کی سزا کے طور پر کعبہ تک پہنچنے والی ایسی قربانی پیش کرے جو اس جانور کے برابر ہو جسے اس نے مارا ہے.اس کا فیصلہ تم میں سے دو صاحب عدل کریں یا پھر اس کا کفارہ مسکینوں کوکھانا کھانا یا پھر اس کے برابر روزے رکھنا ہے تا کہ وہ اپنے فعل کا نتیجہ چکھے، اللہ نے درگزر کیا ہے اس سے جو گزر چکا.پس جو اعادہ کرے گا تو اللہ ان سے انتقام لے گا اور اللہ کامل غلبہ والا اور انتقام لینے والا ہے.اب میں یہاں صرف دشمنوں یعنی مخالفین کا بیان نہیں کر رہا بلکہ وہ آیت لی ہے جن میں انتقام کا ذکر عزیز کے ساتھ ہے.یعنی چار جگہ قرآن کریم میں یہ آیات ہیں.اب یہاں بھی مومنوں کو یہ حکم ہے کہ یہ کام جس کے نہ کرنے کا حکم ہے وہ نہیں کرنا.اگر کرتے ہو تو اس کی سزا بھگتنی پڑے گی.یہاں انتقام کا مطلب ظلم سے بدلہ لینا نہیں ہے جیسے کینہ ور ظلم سے بدلہ لیتا ہے، بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس قانون کو توڑنے کی سزا ملے گی اور اللہ عزیز ہے، غالب ہے اور برے کام کی سزا دیتا ہے.پھر ایک جگہ مخالفین کے تعلق میں فرمایا ہے کہ فَلا تَحْسَبَنَّ اللهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُوانْتِقَامٍ (ابراهیم: 48 ).پس تو ہر گز اللہ کو اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرنے والا نہ سمجھ یقینا اللہ تعالیٰ کامل غلبہ والا اور ایک سخت انتقام لینے والا ہے.یہاں رسول کو اور ماننے والوں کو تسلی دلائی ہے کہ مخالفین جیسا بھی زور لگا لیں ، جتنا چاہیں تدبیریں کرلیں، آخر کار ان کا انجام برا ہے کیونکہ انہوں نے اس خدا کے پیارے
437 خطبه جمعه 26 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم سے ٹکر لی ہے جو غلبہ والا اور سزادینے والا ہے.پس ایسے لوگ اپنی زیادتیوں سے باز نہ آنے کی وجہ سے سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور یہ تسلی ہے رسول کو، اللہ کے نبی کو اور اس کے ماننے والوں کو جیسا آنحضرت ﷺ کو دی تھی.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے والوں کو بھی تسلی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا بلکہ جس طرح پہلے وعدہ پورا کرتا آیا ہے، آج بھی مخالفت سے باز نہ آنے والوں کے حصے میں رسوائی ہے اور ان کی سزا مقدر ہے.پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَهْدِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُّضِلَّ أَلَيْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِى انتِقَامِ (الزمر : 38) اور جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں.کیا اللہ کامل غلبے والا اور انتقام لینے والا نہیں ہے؟ یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دلائی ہے کہ جو اللہ سے تعلق جوڑنے والے ہیں، انہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور مخالفین کے لئے یہ بات لکھی گئی ہے کہ ان کو اس مخالفت کی وجہ سے ضرور سزا ملے گی جو وہ الہی جماعتوں کی کرتے ہیں تا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ، ہدایت سے ہٹ کر ان کے ساتھ نہ مل جائیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بِعَزِيزِ ذِي انْتِقَام.یہ کہ کر مومنوں کو ، ہدایت پانے والوں کو بھی تسلی دلائی ہے کہ تم ان دھمکیوں سے نہ ڈرو، اللہ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے ہدایت کے راستے پر چلنے کی توفیق مانگتے رہو.وہ غالب خدا یقینا تمہارے مخالفین کو پکڑے گا اور ہمیشہ پکڑتا آیا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت صالح کا ذکر کر کے فرمایا کہ قوی اور عزیز خدا نے حضرت صالح کے دشمنوں کو نابود کر دیا اس لئے کہ وہ حد سے بڑھنے والے تھے، اس قوم نے باوجود تنبیہ کے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس اونٹنی کی کونچیں بھی کاٹ دیں جس سے منع کیا گیا تھا.تو پھر قوی اور العزیز خدا نے عذاب دکھایا.پھر آل فرعون کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَذَّبُوا بِایتِنَا كُتِهَا فَاخَذْنَهُمْ أَخْذَ عَزِيزِ مُقْتَدِرٍ (القمر: (43) انہوں نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں کامل غلبہ والے اور طاقتور اور مقتدر کی طرح پکڑ لیا.پس یہ بیان کر کے اُن لوگوں کو بھی توجہ دلائی جو ظلم میں حد سے بڑھنے والے ہیں.خدا اور اس کے رسول ﷺ کا انکار اور استہزاء کرنے والے ہیں کہ تم لوگ بھی اپنی حدوں کے اندر رہو.آج بھی جو استہزاء اور زیادتیوں میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی یہ واضح حکم ہے، انذار ہے کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ اب قیامت تک ممتد ہے، قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور آپ کے عاشق صادق کے آنے کے بعد یہ پیغام دنیا تک پھیل چکا ہے.اس لئے استہزاء اور دلآزاری کی باتوں اور حرکتوں سے باز آ جاؤ ورنہ قادر، غلبہ والا خدا تمہیں پکڑنے کی طاقت رکھتا ہے.تمہیں خدا کی طرف سے اپنی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ملی ہوئی.اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہیں خدا کی طرف سے کوئی ضمانت مل گئی ہے تو یہ تمہاری غلام نہی ہے.پس اسلام کے خدا پر اعتراض کرنے کی بجائے ، رسول کریم ﷺ پر استہزاء کرنے کی بجائے ، اللہ کا خوف اپنے
438 خطبه جمعه 26 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم دلوں میں طاری کرو.اسلام نے جس خدا کا تصور پیش کیا ہے اس نے تمام انبیاء کو وعدہ کے مطابق دشمن سے بچایا ہے.کیا یہ لوگ ایسے خدا کا تصور پیش کرنا چاہتے ہیں جو اپنے پیاروں کو دشمن سے بھی بچانے کی طاقت نہ رکھتا ہو.اللہ فرماتا ہے کہ اگر اللہ اپنے پیاروں کی حفاظت کرنے والا نہ ہو، اگر خدا اپنی طاقت اور غلبہ والا ہونے کا اظہار کرنے والا نہ ہو تو دنیا میں فساد پڑ جائے ، اسی لئے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت بھی دی گئی تھی.جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ تشدد کا حکم ہے تو اجازت اس لئے دی گئی تھی کہ اپنی حفاظت کریں اور فساد سے بچنے کے لئے یہ ضروری چیز ہے.سورۃ حج میں اس کا بیان ہوا ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ " وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا.وَلَيَنْصُرَنَّ الله مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِیز (الحج: 41) یعنی اگر خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجد میں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں.اس جگہ خدا تعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کا میں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبضہ کرے تو تو ان کی عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں“.ان کو چھیڑا نہ جائے ، ان کو گرایا نہ جائے.اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلے کے لئے مامور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقراء کے خلوت خانوں سے تعرض نہ کرے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدر تعصب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گر جاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے.ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اذن دے دیا ہے“.چشمه معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحه 393-394 تفسیر حضرت مسیح موعود جلد سوم صفحه 333-334) پس کیا ایسے حالات میں جبکہ دنیا کا امن قائم کرنا ہو ان لوگوں کے نزدیک ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے؟ کیا اگر ان اعتراض کرنے والوں پر اس طرح حملہ ہو اور ان کو مسلسل تنگ کیا جاتا رہے تو وہ ہتھیار اٹھا ئیں گے کہ نہیں.ہتھیار بنانے کے کارخانے اور جدید ترین ہتھیار اور جدید ترین اسلحہ سے لیس فوجیں تو ان ملکوں کی ہیں جن کے بعض لوگ اسلام پر شدت پسند ہونے کا اعتراض کرتے ہیں.یا یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا خدا تشدد کی تعلیم دیتا
439 خطبہ جمعہ 26 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہے اور حکمت سے عاری ہے.کیا ظلم کو روکنے کے لئے اور دفاع کے لئے مقابلے کا حکم پر حکمت ہے یا حکمت سے عاری ہے.پس اللہ فرماتا ہے کہ میں باوجود غلبہ رکھنے کے بلاوجہ مخلوق پر ظلم کرتے ہوئے طاقت کا اظہار نہیں کرتا.لیکن جو میرے بندوں پر ظلم کرتے ہیں ، ان کے خلاف ہیں، انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں ،ان کے خلاف پھر میں صفت عزیز کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں.جہاں تک مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کا ادراک دلانے کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانُ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ تُكُمُ الْبَيِّنَتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة: (210) پس اگر تم اس کے بعد پھسل جاؤ کہ تمہارے پاس کھلے کھلے نشانات آچکے ہیں تو جان لو کہ اللہ کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.یعنی اگر تم ان نشانات کو دیکھنے اور قبول کرنے کے بعد صحیح طرح عمل نہیں کرتے اور ڈگمگاتے رہے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ دیتے رہے اور جب اللہ تعالیٰ تمہیں طاقت دیتا ہے تو پھر اس کا غلط استعمال کرتے رہے ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا نہ کرتے رہے تو یاد رکھو تمہارے اوپر بھی ایک غالب خدا موجود ہے جو تمہیں تمہارے ان ظلموں کی وجہ سے پکڑ سکتا ہے اور تمہارے سے تمہاری طاقت اور اختیارات چھین سکتا ہے.پس ہمیشہ اس کے حکموں پر چلو، اس پر ایمان رکھو، اس پر ایمان کو مضبوط کرو.اللہ تعالیٰ نے تمہیں تو فیق دی ہے کہ ایسے عزیز اور حکیم خدا کو مانا جس کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں.اگر اس خدا پر ایمان میں مضبوط نہیں ہوتے رہو گے اور اس کے احکامات پر عمل نہیں کرتے رہو گے ،حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دو گے تو اس کی سزا کی پکڑ میں آسکتے ہیں.اور اس کی سزا کسی ظلم کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ اس حکمت کے تحت ہوگی کہ تمہاری اصلاح ہو.پس یہ عزیز اور حکیم خدا کا تصور ہے اسلام کو ماننے والے کے لئے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پیش فرمایا ہے کہ ظلموں کا تو سوال ہی نہیں، اگر حقوق کی صحیح ادائیگی بھی نہیں ہورہی تو اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہو.آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسلام اور خدا تعالیٰ پر ہونے والے اعتراضات کے رد کے لئے عزیز اور حکیم خدا کا صحیح تصور پیش کرے جو حسن و احسان میں بھی یکتا ہے اور اگر بندوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑتا ہے تو پھر زبردستی اور ظلم سے نہیں پکڑتا بلکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑتا ہے اور حد سے بڑھے ہوؤں کو اس لئے پکڑتا ہے کہ دنیا میں امن اور سلامتی قائم ہو.جہاں یہ پیغام ہم نے غیر مذہب والوں کو دینا ہے، ان کے اعتراضات رڈ کرنے ہیں وہاں مسلمانوں کو بھی یہ پیغام ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہم عزیز خدا کو مانتے ہیں جس کا قرآن نے تصور دیا ہے لیکن یاد رکھو کہ یہ حکم بھی ہے کہ نشانات دیکھ کر پھسلونہ.عزیز وحکیم خدا کا تصور تب حقیقی رنگ میں مکمل ہو گا جب مسیح موعود جو آنحضرت ﷺ کے طل ہیں، غلام ہیں، ان کی شریعت کو دنیا پر لاگو کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں، جن کا آنا بھی عزیز اور حکیم خدا کی طرف سے ہے ، ان کے ساتھ اب دین کے غلبہ کا وعدہ ہے.پس اس دعوئی اور مسیح موعود کے پیغام
440 خطبہ جمعہ 26 اکتوبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پر غور کرو کہ یہ بھی حکمت سے خالی نہیں اور حکیم خدا کی طرف سے ہے، عزیز خدا کی طرف سے ہے جس نے انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ عطا فرمانا ہے.اللہ مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق دے اور ہمیں خدا تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں حقیقی طور پر پہنچانے کی توفیق دے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبہ کے دن دیکھنے والے ہوں.اس وقت میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے مجھے پٹنہ کی تکلیف تھی ، ڈاکٹروں نے چیک وغیرہ کیا ہے.پہلے تو سنا کرتے تھے ، اردو میں محاورہ تھا علاج دنداں اخراج دنداں لیکن اب ڈاکٹروں نے یہ محاورہ بنا دیا ہے کہ علاج پتہ ، اخراج پینہ.ڈاکٹروں کا آپریشن کا مشورہ ہے.اگلے ہفتہ میں انشاء اللہ آپریشن ہو گا.تو یہ دعا کریں کہ جو زندگی ہے اللہ تعالیٰ فعال زندگی دے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والی زندگی دے اور خود اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 6 تا 22 نومبر 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسر در جلد پنجم 441 44 خطبہ جمعہ 02 / نومبر 2007 ء فرمودہ مورخہ 02 نومبر 2007ء بمطابق 02 / نبوت 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد فضل ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے اذن پا کر جب بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ آپ سے ہر بیعت کرنے والا ایسی عقد اخوت و محبت رکھے گا جس کی مثال کسی بھی دنیاوی رشتہ میں نہ ملتی ہو.یعنی محبت، پیار، بھائی چارے اور خادمانہ حالت کا ایسا بے مثال تعلق ہو جس کا کوئی دنیا وی رشتہ اور تعلق مقابلہ نہ کر سکے.کوئی بھی تعلق اگر مقابلے پر آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق کے مقابلہ میں اس کی ذرہ بھی وقعت نہ ہو.یہ ایک ایسی شرط ہے جو سوائے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے نبھانی بہت مشکل ہے.لیکن اس کے باوجود ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوایا آج ہو رہا ہے ، خوشی سے اس شرط پر آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام کی بیعت میں آتا ہے اور کوئی خوف یا عذر اس بات پر نہیں ہوتا کہ یہ تعلق کس طرح نبھاؤں گا.آج بھی اگر کسی احمدی کو کوئی تعزیر ہو یا نا راضگی کا اظہار ہوتو الا ماشاء اللہ بھی یہی لکھتے ہیں کہ ہم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں اور بیوی بچوں سے تو جدائی برداشت کر سکتے ہیں لیکن جماعت سے علیحدہ رہنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے با ہر نکلنا ہمیں برداشت نہیں.تو یہ تعلق جیسا کہ میں نے کہا سوائے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے نبھانا مشکل ہے اور یہ جماعت کے ہر فرد پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیعت کیونکہ اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر لی تھی، یہ جماعت کی کشتی بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے مطابق تیار ہوئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے والے دلوں کو اس تعلق میں مضبوط بھی کرنا تھا اور محبت بھی اس قدر بڑھانی تھی کہ وہ تمام دنیاوی رشتوں سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتے کو عزیز رکھیں.آپ کے محبوں کا گروہ بڑھانے کا اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین پر پھیلائے گا“.(تجلیاتِ الهیه روحانی خزائن جلد 20صفحه 409
442 خطبہ جمعہ 02 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پس ہر بیعت کنندہ اپنے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت محسوس کرتا ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور بیعت کرنے کے بعد یا آپ سے بیعت کا فہم و ادراک حاصل کرنے کے بعد، آپ سے عقیدت اور محبت میں ایک احمدی بڑھتا چلا جاتا ہے.یہ سب کچھ اس خدا کے فضل کی وجہ سے ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا تھا اور پھر اس وعدہ کو پورا کرتے ہوئے جیسا کہ میں نے کہا سعید فطرت لوگوں کو آپ سے تعلق اور محبت میں سب رشتوں سے زیادہ بڑھا دیا.پس خوش قسمت ہیں ہم احمدی جن کے دلوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کی محبت میں سرشار کیا ہوا ہے.جب تک ہم اس محبت کی آبیاری اور اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش اللہ کے آگے جھکتے ہوئے ، اپنے نیک اعمال بجا لاتے ہوئے اور اپنے آنکھ کے پانی سے کرتے رہیں گے، ہم اس محبت اور تعلق کے فیض سے فیض اٹھاتے چلے جائیں گے.ان انعاموں کے وارث بنتے چلے جائیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ والصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.اللہ کرے کہ یہ محبت بڑھتی چلی جائے اور اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور سلامتی سے حصہ دار بنتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی نے اپنے مجنوں کے گروہ کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی تربیت کی ہے کہ نسلاً بعد نسل اس محبت کا سلسلہ چلتا چلا جارہا ہے.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا تھا نئے آنے والوں میں بھی یہ محبت ترقی پذیر ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ آپ کی وفات کا وقت قریب ہے تو آپ نے رسالہ الوصیت تحریر فرمایا تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی وفات کی خبر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: سواے عزیز و جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیر و ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.(رساله الوصيت روحانی خزائن جلد 20صفحه 305-306)
443 خطبہ جمعہ 02 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم جب اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ کے ماننے والوں کے دلوں میں آپ کے لئے محبت پیدا ہوئی تھی اور یہ محبت سب دنیاوی محبتوں کے رشتوں پر حاوی ہو گئی تھی اور حاوی ہے تو قدرتی بات ہے کہ آپ کے وقت میں جو آپ سے محبت کرنے والے تھے ان کے دلوں میں پریشانی اور غم پیدا ہوا ہو گا.آپ نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اس سے تمہارے دل غمگین اور پریشان نہ ہوں.یہ کشتی جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی نظر کے سامنے تیار کروائی ہے اسے یو نبی نہیں چھوڑے گا بلکہ میرے جانے کے بعد تمہارے دلوں کی سکینت کے لئے دوسری قدرت بھی تمہیں دکھلائے گا.پس بحیثیت مسیح موعود اور امام الز مان آپ فرماتے ہیں میری محبت تمہارے دلوں میں قائم رہے.لیکن میرے نام پر میری نمائندگی میں جو دوسری قدرت خدا تمہیں دکھلائے گا اس سے بھی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہمیشہ پکڑے رہنا کیونکہ دوسری قدرت ہمیشہ رہنے والی ہے.خلافت کا ادارہ اب اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہمیشہ رہنے والا ہے.یہ کہہ کر کہ خلافت اب ہمیشہ تمہارے ساتھ رہنی ہے خلافت کی اہمیت اور اس سے تعلق محبت اور عقیدت کے بارے میں بھی بتا دیا.یہ بتا کر کہ میں جو اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی پہلی قدرت ہوں تم نے جو میرے ساتھ محبت اور عقیدت اور اطاعت کا عہد کیا ہے میرے ہی نام پر بیعت لینے والوں سے اس عہد کو نبھانا ،خلافت کی محبت کی چنگاری بھی دلوں میں آپ نے پیدا کر دی.یہ کہہ کر کہ یہ وعدہ تمہاری نسبت ہے اور ہمیشہ ہے، اپنے ماننے والوں کے دلوں کو تیار کر دیا کہ یہ وعدہ جو خدا تعالیٰ نے دوسری قدرت دکھانے کا کیا ہے تبھی پورا ہو گا جب دلوں میں اس قدرت کے لئے محبت پیدا کرو گے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے یہ وعدہ فرمایا ہے اور ان سے ہی وعدہ فرمایا ہے جو ایمان میں بڑھنے والے ہیں.ان سے ہی وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اس یقین پر قائم ہیں کہ خلافت خدا کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے جس کی بیعت میں آنا ضروری ہے.پس تمام سعید فطرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو سمجھ گئے اور خلافت کے ہاتھ پر جمع ہو کر خلیفہ وقت سے بے لوث اور بے مثال عقیدت اور اخوت کا نمونہ دکھایا اور آج تک دکھلا رہے ہیں.یہی بات جماعت کی مضبوطی اور تمکنت کا باعث بن رہی ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ وہ تمہیں وہ کچھ دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.ہر احمدی ہر روز یہ نظارہ دیکھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہرلمحہ اور ہر آن پورے ہورہے ہیں.پس یہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق پیدا کی ہے یہ وہ جماعت ہے جس کے ہر فرد بچے، جوان ، مرد، عورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے.پس یہ جماعت احمدیہ کی سچائی اور اس کے اس تمام قدرتوں کے مالک اور واحد و یگانہ خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے.یہ دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یقیناً وہی مسیح و مہدی ہیں جنہوں نے اس زمانے میں مبعوث ہونا تھا اور جن کے آنے کی پیشگوئی
444 خطبہ جمعہ 02 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی.یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ کے بعد نظام خلافت یقینا سچا اور راشد نظام ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں لانے کا کام کیا ہے اور خلافت احمدیہ کا نظام بھی اسی اہم کام کے لئے قائم کیا گیا ہے.آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آنے کا مطلب ہے کہ خدائے واحد دیگانہ کی عبادت اور اس کے احکامات کی تعمیل.پس یہ خلافت احمد یہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت اصل میں آنحضرت ﷺ اور خدا تعالیٰ سے محبت کی ہی کڑیاں ہیں.آج دنیا میں ان محبت کرنے والوں میں جو وحدانیت نظر آ رہی ہے ، وہ خدا تعالیٰ کی محبت کے راستے تلاش کرنے کے لئے ہے.آج دنیا کے 190 ممالک کے مختلف نسلوں اور رنگوں اور زبانوں کے بولنے والوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اور آپ کے بعد خلافت کے لئے جو محبت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ایک زبر دست تائیدی نشان ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف رنگوں اور زبانوں کو ایک نشان بتایا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے کہ وَمِنْ ايته خَلْقُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ الْسِنَتِكُمْ وَالْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لایتِ لِلْعَلِمِينَ - (الروم : 23) یعنی اس کے نشانوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بھی ہے.اس میں تمام جاننے والوں کے لئے بڑے نشان ہیں.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سن کر مختلف مذاہب، رنگ نسل اور زبانوں کے اختلاف کے باوجود آپ کے ہاتھ پر سعید فطرت لوگ جمع ہورہے ہیں اور آپ کے ہاتھ پر یہ جمع ہونا اور پھر آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے جو نظام خلافت جاری ہے اس کے ساتھ محبت کا یہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ کے ان تائیدی نشانوں میں سے ایک نشان ہے.اللہ تعالیٰ نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے تھے یہ ان وعدوں کے پورا ہونے کے نشانات میں سے نشان ہے.گزشتہ خطبے میں میں نے اپنے آپریشن کا بتایا تھا تو دنیا کے مختلف کونوں کے رہنے والوں نے جس محبت اور پیار کا اظہار کیا اس نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیاری جماعت سے پیار میں کئی گنا بڑھا دیا.عجیب عجیب اظہار تھے جو احمدیوں نے کئے تھے.کوئی کہ رہاتھا کہ اگر پتے بدلے جاسکتے ہیں تو میر اپتہ حاضر ہے.کوئی کسی طرح محبت کا اظہار کر رہا تھا، کوئی کسی طرح کبھی یہ خط آ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو ایک جسم کی طرح ہے اور خلافت تو اس میں دل کی حیثیت رکھتی ہے.اگر عام مسلمان کو تکلیف ہو تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسا محسوس کرو جیسا اپنے جسم کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو اگر دل کو تکلیف ہو جائے تو کیا حال ہوتا ہے، یہ ان کی دلیل تھی.جذبات سے مغلوب خطوط تھے.گو کہ یہ پتہ کا جو آپریشن ہے بڑا معمولی سا آپریشن ہے اور نئے طریق کار سے اگر آپریشن کے دوران یا بعد میں کوئی
445 خطبہ جمعہ 02 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پیچیدگی نہ ہو تو زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی.لیکن پھر بھی جب سے انہوں نے سنا پڑھے لکھے لوگ بھی جن کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے بلکہ ڈاکٹر ز بھی ، ان پڑھ بھی، عام آدمی بھی ، افریقہ کے رہنے والے بھی اور جزائر کے رہنے والے بھی، یورپ کے رہنے والے بھی ، امریکہ میں رہنے والے احمدی بھی اور ایشیا کے رہنے والے احمدی بھی بڑی فکرمندی کا اظہار کرنے لگے تھے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگے اور اس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ انتہائی پیار اور تشکر کے جذبات ان کے لئے ابھرے.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان مُحِبّوں اور پیاروں کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے.ہر رنج اور ہر غم سے ان کو محفوظ رکھے.مختلف قوموں اور رنگوں میں اس تعلق نے جو وحدانیت پیدا کی ہے اسے ہمیشہ قائم رکھے.جیسا کہ میں نے کہا مشرق سے بھی ، مغرب سے بھی ، شمال سے بھی ، جنوب سے بھی، ہر ملک کے رہنے والے نے اس طرح جذبات کا اظہار کیا ہے کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری ہوتی ہے.بعض خطوں سے تو میں فکر مند ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان پیاروں کے لئے میں بھی اتنا تڑپتا ہوں یا نہیں؟ اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیاروں سے میرے پیار کے معیار بھی بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں.پہلے بھی میں ایک دفعہ درخواست دعا کر چکا ہوں کہ دعا کریں کہ اپنے فرض کو احسن رنگ میں ادا کر سکوں.اب پھر دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر محبت اور پیار کے ساتھ حق ادا کرنے کی توفیق دے.جب تک جماعت اور خلافت میں یہ دو طرفہ محبت قائم رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کا قیام اور استحکام رہے گا اور انشاء اللہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق خلافت دائگی ہے یہ محبت بھی دائمی رہے گی ، اس میں کوئی شک نہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جذبات میں نے دیکھے ہیں وہ یہی بتارہے ہیں اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ یقینا سچا ہے اور یہ انعام ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے فدائی اور شیدائی اب دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک میں ہیں.سچے محبوں کا جو گروہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمایا تھا اس نے اپنی نسلوں میں بھی محبت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے.آج نئی قوموں سے شامل ہونے والے بھی اسی جذبے سے سرشار ہیں.اس سال یو کے جلسہ پر جونئی شامل ہونے والی جماعتیں تھیں، اس سال کے ممالک تھے ان ملکوں میں سے ایک نو مبائع احمدی آئے تھے.برازیل کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے وہاں کے رہنے والے ہیں.اب ہمارا وفد جب دوبارہ فرانس سے وہاں گیا تو انہوں نے بتایا کہ جلسے کے بعد جا کر ان نو مبائع نے ایک نئے جوش اور جذبے سے تبلیغ کی مہم شروع کی ہوئی ہے اور اخلاص و محبت کا اظہار اس قدر ہے کہ لوگ حیران ہوتے تھے.ہر وقت خلافت سے محبت کا ذکر کرتے رہتے ہیں.کئی بیعتیں انہوں نے جا کر کروائی ہیں.تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے وعدے کا پورا ہونا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی محبت اور اسلام کی محبت دلوں میں پیدا ہورہی ہے.
خطبات مسرور جلد پنجم 446 خطبہ جمعہ 02 / نومبر 2007ء پس اللہ کا یہ فضل اب اس قدر بڑھ چکا ہے اور لوگوں کو اس کا فہم و ادراک اس قدر ہو چکا ہے کہ اب فتنہ پرداز لاکھ کوشش کریں یہ پودے جو اب تناور درخت بن چکے ہیں وہ اب ان کو ہلا نہیں سکتے.کوئی طاقت نہیں ہے جو اب ان کو اکھیڑ سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا تعلق اپنے رب سے اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ اب کوئی طوفان کوئی آندھی اسے ہلا نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو کہ قدرت ثانیہ کا دیکھنا بھی تمہارے لئے ضروری ہے اور یہ دائمی ہے اور یہ وعدہ تمہارے لئے ہے اس خوبی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیاروں نے پکڑا ہے کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس حبل اللہ کے پکڑنے کی برکت سے جماعت کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جا رہا ہے.یہ وہ درخت ہے جو سدا بہار، سرسبز درخت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے قائم اور سرسبز رکھے.کبھی ہم میں سے کوئی سوکھے پتے کی طرح اس سے علیحدہ ہو کر گرنے والا نہ ہو اور ہمیشہ ہم وہ فیض پاتے چلے جائیں جن کی اس دوطرفہ تعلق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر ہمیں خوشخبری عطا فرمائی ہے.ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مضبوط تعلق اور اس کا فیض ہمارے ایمان کی مضبوطی اور دعاؤں سے مشروط ہے.پس اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مزید مضبوط کرتے چلے جائیں.دعاؤں سے اس شجرہ طیبہ کی آبیاری کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی تو فیق عطا فرمائے.میں ان تمام احمدی ڈاکٹر صاحبان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس دوران میں ہمہ وقت موجود رہ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا.اللہ تعالیٰ آپریشن کرنے والے ڈاکٹر جن کا نام مارکوس ریڈی (Marcuis Reddy) | ہے ان کو بھی جزا دے ان کے ساتھ ہمارے احمدی ڈاکٹر مظفر احمد صاحب تھے جو سر جن ہیں.پارک سائیڈ ہسپتال میں یہ آپریشن ہوا تھا.وہاں کی انتظامیہ نے بھی بہت تعاون کیا ہے بلکہ یوں لگ رہا تھا جس طرح کسی احمدی ہسپتال میں ہی یہ آپریشن ہو رہا ہے.اس بات پر وہاں کا سٹاف، ڈاکٹر اور لوگ حیران تھے کہ آپریشن میں ہر ایک مریض کو کچھ نہ کچھ فکر ہوتی ہے.مجھے کہ رہے تھے کہ تم بالکل نارمل ہو.بلکہ کہنے لگے کہ تمہاری گھبراہٹ اور بلڈ پریشر بالکل نارمل ہے جبکہ ہمیں تمہارے سے زیادہ ہے.میں نے سوچا کہ انکو کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل کس طرح ہوتا ہے.اور لاکھوں احمدیوں کی دعائیں کیا کام کر رہی ہیں.کیونکہ ان لوگوں میں عموماً یہ خانہ تو خالی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب دعا کرنے والوں کو بھی جزا دے اور ہمیشہ ان کی نیک تمنائیں اور دعائیں پوری فرماتا رہے.(مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخه 23 تا 29 نومبر 2007 ء ص 5 تا 8
خطبات مسر در جلد پنجم 447 45 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007 ء فرمودہ مورخہ 09 نومبر 2007ء بمطابق 109 رنبوت 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ.أَوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (التوبة: 71) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں.یہی ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا.یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے.اس آیت میں، جیسا کہ ترجمہ سے سب نے سن لیا، مومن مردوں اور مومن عورتوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خوبصورت نشانیاں یا صفات جس گروہ یا جماعت میں پیدا ہو جائیں وہ حقیقی ایمان لانے والوں اور ایمان لانے والیوں کی جماعت ہے.جیسا کہ ہم نے دیکھا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنین کی جماعت کی سات خصوصیات بیان فرمائی ہیں.پہلی خصوصیت یہ کہ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں.ایسے محبت کرنے والے ہوتے ہیں جو ہر وقت ایک دوسرے کی مدد پر کمر بستہ ہوں.دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں، نیکیوں کا پرچار کرنے والے ہیں.جہاں وہ اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر چاہتے ہیں ، دوسروں کے لئے بھی خیر چاہنے والے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نیکیاں قائم کر کے اور پیار اور محبت قائم کر کے ایک ایسی جماعت بنادیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر سچے دل سے عمل کرنے والی ہو.تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ بری باتوں سے روکتے ہیں.ہر ایسی بات جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نفی ہوتی ہے اس سے روکتے ہیں.ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرنے والے ہیں.ظالم کو ظلم سے روکنے
خطبات مسرور جلد پنجم 448 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء والے ہیں اور مظلوم کی دادرسی اور مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں.اس کے لئے اگر قربانی بھی کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے تا کہ امن ، سلامتی ، محبت پیار اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو.اور چوتھی بات یہ بیان فرمائی کہ نماز قائم کرتے ہیں.نماز جو کہ دین کا ستون ہے جس کے بارے میں حکم ہے کہ اس کا خاص خیال رکھو ورنہ مومن ہونے کا دعوی بے معنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بے شمار جگہ پر نماز کی تاکید فرمائی ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے.خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے“.ملفوظات جلد 2 صفحه 184 جدید ایڈیشن مطبوعه (ربوه پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے ، استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے.جتنے بھی ورد ہیں ان کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے تخت و ہم دُور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں“.(ملفوظات جلد 3 صفحه 311-310 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوه پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نماز کو سنوار کر پڑھنا، وقت پر پڑھنا، جماعت کے ساتھ پڑھنا، یہ ایک مومن کی خصوصیات ہیں اور ہونی چاہئیں.پھر پانچویں بات یہ بتائی کہ مومن زکوۃ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں.اس کی تفصیل میں آگے جا کر بیان کروں گا.اور چھٹی بات یہ بیان کی کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر خوشدلی سے عمل کرتے ہیں.اور ساتویں بات یہ کہ ایسے مومن جو ان خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے ایمان والوں سے ہمیشہ رحمت اور شفقت کا سلوک فرماتا ہے.ہمیشہ یا درکھو کہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی یہ خصوصیات اس خدا نے بیان کی ہیں جو بہت حکمت والا اور کامل غلبہ والا ہے.پس اس حکیم اور عزیز خدا سے تعلق جوڑ کر اور اس کے حکموں پر عمل کر کے ہمارے اندر بھی حکمت اور دانائی پیدا ہو گی تبھی ہمارے اندر اس حکمت کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے سے پیدا ہوئی یا ہوگی ، جماعتی مضبوطی ، انصاف اور عدل قائم ہوگا.اس حکمت کی وجہ سے من حیث الجماعت ہمارے اندر سے جہالت کا خاتمہ ہو گا اور ہم عقل اور حکمت سے چلتے ہوئے جہاں اپنے آپ کو مضبوط کرتے چلے جائیں گے،
449 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم آپس میں محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے والے بنیں گے، وہاں اس پر حکمت پیغام کو، اُس پیغام کو جو خدائے واحد و یگانہ کا فہم وادراک حاصل کروانے والا پیغام ہے، اس پیغام کو جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور امام الزمان کو دنیا میں ہر بشر تک پہنچانے کے لئے بھیجا ہے اس مسیح و مہدی کی غلامی میں دنیا میں اس پیغام کو ہم پھیلانے والے بنیں گے اور پھر نتیجتا اس غلبہ کو دیکھنے والے بنیں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے.اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کر کے ہم اُن انعامات کے وارث بنیں گے جن کا خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے.پس یہ خوشخبری ہے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو کہ اگر تم ان خصوصیات کے حامل ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ کے اس عظیم پیغام کو جس کا ہر ہر لفظ اپنے اندر حکمت کے سمندر لئے ہوئے ہے.دنیا میں پھیلانے والے اور اسلام کے غلبہ کے دن دیکھنے والے بن سکتے ہو.اللہ تعالیٰ کی صفات کا پر تو بنے اور اس سے فیض اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کم از کم وہ خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی صفت جو عزیز اور حکیم ہے، اس سے فیضیاب ہو سکیں.یہ خصوصیات ہم اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو تب ہی وہ غالب اور حکیم خدا ہماری زبانوں کو وہ طاقت عطا فرمائے گا جس سے اللہ تعالیٰ کا حکیمانہ پیغام دنیا کو پہنچا کر ہم اسلام اور احمدیت کا غلبہ دیکھ سکتے ہیں.پس اس اہم مقصد کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا چاہئے تا کہ جو عہد بیعت اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے کہ ہم جان ، مال ، وقت اور عزت کو اسلام کے پھیلانے کے لئے ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار ر ہیں گے ، اس کو پورا کرنے والے بنیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ زکوۃ کے بارے میں بعد میں بیان کروں گا اب میں اس طرف آتا ہوں جو ز کوۃ یا مالی قربانی کا مضمون ہے.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ جو نومبر کا مہینہ ہے اس میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے.اکتوبر میں تحریک جدید کا سال ختم ہوتا ہے اور یکم نومبر سے نیا سال شروع ہو جاتا ہے.نومبر کے پہلے جمعہ میں عموماً تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن اس دفعہ بوجوہ یہ اعلان نہیں ہو سکا تو آج میں اس کا بھی اعلان کروں گا اور اس حوالے سے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی اس خصوصیت کا مزید ذکر کروں گا کہ وہ زکوۃ دیتے ہیں.زکوۃ کیا چیز ہے اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی راہ میں مال کا حصہ نکالنا تا کہ وہ مال پاک ہو، اللہ تعالیٰ کی اطاعت
450 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کا اظہار ہو اور پھر اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت ڈالے اور اسے بڑھاتا رہے.پس ایک مومن اپنے ضرورت مند بھائیوں کی ضرورت کے لئے ، دینی ضروریات کے لئے ، غلبہ اسلام کے لئے جو مال خرچ کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے یہ سودا کر رہا ہوتا ہے کہ اس ذریعہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید جذب کرنے والا بنے.اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو مزید بڑھائے تاکہ دنیا کی نعمتوں سے بھی فائدہ اٹھائے اور پھر مزید خرچ کر کے اور زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنے.یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں گھاٹے کا سودا ہی نہیں ہے.ایک طرف سے ڈالتے جاؤ ، دوسری طرف سے کئی گنا بڑھا کر حاصل کرتے چلے جاؤ.دنیاوی چیزوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب مال خرچ کر کے کوئی چیز حاصل کرتے ہیں تو اس کی قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ اس کی قیمت ادا کی جاتی ہے.عقلمند انسان ہر ایک چیز کی قدر دیکھ کر ہی اس کی قیمت ادا کرتا ہے اور اُس کی قدراتنی ہی ہوتی ہے جتنا کہ جیسا کہ میں نے کہا اس پر خرچ کیا گیا ہو.اس سے استفادہ ایک حد تک کیا جا سکتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس چیز سے استفادہ اور اس کی قدر میں کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ایک وقت میں وہ چیز بالکل بے کار ہو جاتی ہے.پھر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کسی بھی صنعت میں پیداوار حاصل کرنے کے لئے جب خام مال کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس خام مال کا کچھ حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور 100 فیصد اس پر خرچ کئے گئے مال سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.گو کہ ان نقصانات کا اندازہ کرتے ہوئے جو اس طرح ضائع ہوتے ہیں ، ایک کارخانہ دار یا اس کو بنانے والا اس کی قیمت اتنی مقرر کر دیتا ہے کہ اس کا نقصان بھی پورا ہو جائے اور کچھ منافع بھی ہو جائے.پھر اور بہت سے عوامل ہیں ، اگر وہ اثر ڈالیں تو بعض دفعہ منافع بھی نقصان میں چلا جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو ضمانت دی ہے که مال بڑھے گا.ایک جگہ فرمایا کہ سات سو گنا بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بڑھا دے گا.پس مومنین کو ایسی تجارت کی طرف توجہ دلائی کہ گو یہ پیسہ تم دنیاوی ذرائع استعمال کر کے حاصل کرتے ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے حکموں کے مطابق خرچ کرتے ہو تو پھر جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے جماعت کی مضبوطی کا باعث بن رہے ہوتے ہو، جہاں اپنی عاقبت سنوار رہے ہوتے ہو ، وہاں اس بات سے بھی آزاد ہو جاتے ہو کہ بعض عوامل اثر انداز ہو کر تمہاری تجارتوں کو نقصان نہ پہنچائیں.اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ کی آیت 273 میں فرماتا ہے کہ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَا نُفُسِكُمْ.وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَقَ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقرة : 273) کہ جو مال بھی تم خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدہ میں ہے جبکہ تم
خطبات مسرور جلد پنجم 451 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا کبھی خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرتے ہو وہ تمہیں بھر پور واپس کر دیا جائے گا اور ہر گز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھر پور کا لفظ استعمال ہو تو وہ ایسا بھر پور ہے جس کا انسانی سوچ احاطہ بھی نہیں کر سکتی.ایک انسان اپنا کاروبار کرتا ہے تو کاغذ پنسل لے کرضر میں تقسیمیں دے کر، آج کل کمپیوٹ کا زمانہ ہے تو کمپیوٹر پر بیٹھ کر بڑی پلانگ کر کے، بڑی فیر پیٹیاں (Feasibilities) بناتا ہے.پانچ فیصد، دس فیصد تک منافع نکالنے کی کوشش کرتا ہے، یا کوئی بہت ہی منافع کمانے والا ہے تو اس سے بھی بڑھ جائے گا اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض حالات میں جب کسی چیز کی طلب بڑھ جاتی ہے تو کوئی بلیک مارکیٹ کرنے والا ہو تو وہ بہت ہی زیادہ سو فیصد منافع رکھ لیتا ہے.یہ اس کی حد ہوتی ہے اور پھر جب اس نے یہ کچھ کر لیا تو اس نے دنیاوی فائدہ تو اٹھا لیا لیکن غلط منافع اور ذخیرہ اندوزی سے گناہگار بھی ہوا اور اس ذریعہ سے کمایا ہوا پیسہ پھر پاک پیسہ کہلانے والا نہیں ہوتا.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، اس وجہ سے کہ اللہ کی محبت اور اس کے احکامات کی تکمیل مال کی محبت پر حاوی ہے جو تم خرچ کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھر پور طور پر واپس لوٹاتا ہے.ایسا خرچ بھر پور طور پر واپس لوٹا یا جاتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے.دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی سنور جاتا ہے.مال بھی پاک ہوتا ہے اور ایسا پاک مال کمانے والے پھر لوگوں کی مجبوری سے فائدے اٹھانے والے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ غلط طریق پر مال کمانے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں امیر لوگ بھی ہیں ، اوسط درجہ کے بھی ہیں ، غریب بھی ہیں اور کیونکہ یہ مومنین کی جماعت ہے اس لئے ہر طبقہ اس فکر میں ہوتا ہے کہ میں جو بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے مال دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کروں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کا وارث بنوں.ایسے لوگ بھی جماعت میں گزرے ہیں، نہ صرف گزرے ہیں بلکہ اب بھی ہیں جو اپنی روزمرہ ضروریات کے لئے وظیفہ پر گزارہ کرتے ہیں لیکن جب خلیفہ وقت کی طرف سے مالی قربانی کی تحریک ہو تو اس وظیفہ کی رقم میں سے بھی پس انداز کر کے ایک شوق اور جذبے کے ساتھ چندہ دینے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اپنے پر نظارے دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کئی ممالک میں ہزاروں احمدی ہیں جو اس اصل کو سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے کاروبار کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے بھر پور طور پر لوٹائے جانے کے نظارے دیکھتے ہیں.ایک صاحب نے لکھا کہ میں نے اپنا تحریک جدید کا وعدہ کئی گنا بڑھا دیا تھا.میں ذاتی طور پر انہیں جانتا ہوں، توفیق سے بڑھ کر انہوں نے وعدہ کیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ جو بھی وعدہ انہوں نے کیا تھا اللہ تعالیٰ
452 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم نے اس کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا فرما دیئے.اس سال پھر انہوں نے جو وہ وعدہ کیا تھا اس سے دو گنا وعدہ کر دیا.تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق کہ وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 4 ) اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اسے خیال بھی نہ ہوگا، ایسا انتظام کیا کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہو گئیں اور وعدہ بھی پورا ہو گیا.اور لکھتے ہیں کہ اس پر اپنے اس سچے وعدوں والے خدا کی حمد سے دل بھر گیا.لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے دل جتنے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جائیں ہم کبھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے.اس لئے ہمیشہ اپنے دلوں کو حد سے بھرا رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ کہا ہے کہ جتنا تم شکر کرو گے اتنا بڑھاؤں گا اور اللہ جب بڑھاتا ہے تو کئی گنا کر کے بڑھاتا ہے.تو ہمارا شکر تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا جہاں تک اللہ تعالیٰ اس کا اجر دیتا اور بڑہاوا کرتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی حمد کرنے والوں اور اس پر تو کل کرنے والوں کے ایمان کو اور بڑھاتا ہے.یہی صاحب لکھتے ہیں کہ سیکرٹری تحریک جدید نے جب کہا کہ اتنا وعدہ کر دیا ہے کہ کس طرح ادا کرو گے تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہیں فکر ہے تو اس خدا کو میری فکر نہیں ہوگی جس کی رضا چاہنے کے لئے اور جس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے میں نے وعدہ کیا اور یہ خرچ کر رہا ہوں.تو یہ حوصلے اور یہ تو کل احمد یوں میں اس لئے ہے کہ انہوں نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے اور بیعت میں آکر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حاصل کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان میں بڑھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے.ان کو اس بات پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے.ان کو اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر کی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں.اُن کا اس بات پر قومی ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالصتاً اپنی خاطر کئے گئے ہر عمل کی بھر پور جزا دیتا ہے، اُن کو اس بات پر بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہر خوف کو امن میں اور ہر غم کو خوشی میں بدل دیتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ يُنفِقُونَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُون (البقره: 275 ) کہ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی ، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی تو ان کے لئے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غم کریں گے.پس جو خالصتا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا ہر خوف ، ہر غم اللہ تعالیٰ دُور کر دیتا ہے.وہ اللہ کے ہو جاتے ہیں اور اللہ اُن کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے.جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور
خطبات مسرور جلد پنجم 453 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007 ء اللہ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اُسے اُس کے مالک کے لئے بڑھاتا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی جیسے تم میں کوئی اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے.(صحیح بخارى باب الصدقة من كسب طیب حدیث (1410) پس یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مال بڑھاتا ہے قرآن کریم میں بھی ہے اور حدیث سے بھی واضح ہوا.لیکن اس شرط کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا جسے اللہ قبول فرماتا ہے پاک کمائی میں سے ہو جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.ایسی کمائی نہ ہو جو دھوکے سے کمائی گئی ہو، جو غریبوں کو لوٹ کر کمائی گئی ہو.اللہ تعالیٰ اس مال کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جو پاک ذریعہ سے کمایا گیا ہو اور پاک دل کے ساتھ پاک کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہو.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو ہمارے دلوں اور ہمارے مالوں کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانی کی طرف توجہ دلاتا ہے.پس جب تک ہم اپنی پاک کمائیوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا چاہتے ہوئے خرچ کرتے چلے جائیں گے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجر پاتے چلے جائیں گے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، ہمارا ہر عمل ہمیں جماعتی طور پر مضبوط کرتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہمارے ذرائع بھی وسیع تر ہوتے چلے جائیں گے اور ہم مومنین کی جماعت بن جائیں گے جو بنیان مرصوص کی طرح ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی ہے جس پر کوئی غلبہ نہیں پاسکتا ہے، جس میں کوئی رخنہ نہیں ڈال سکتا.ایسے لوگوں کی جماعت ہوتی ہے جو ہمیشہ عزیز خدا کی صفت عزیز کے جلوے دیکھنے والے ہوتے ہیں اور یقینا یہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنائی ہے مومنین کی وہ جماعت ہے جو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے مالی قربانیوں میں بڑھ کر پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے بھی دیکھتے ہیں.ہم نے دیکھا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی تائید سے جو تحریک مخالفین کے حملوں کو رو کنے اور دنیا میں تبلیغ اسلام کے لئے جاری کی تھی جو یقینا اس حکیم اور عزیز خدا سے تائید یا فتہ تھی اور بڑی حکمت سے پر تھی اور نظر آ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت نے دنیا میں پھیلنا ہے اور غلبہ حاصل کرنا ہے، جس کے تائید یافتہ ہونے کا ثبوت آج کل ہم دیکھتے ہیں تو دنیا میں پھیلے ہوئے جو جماعت کے مشن ہیں، مساجد ہیں اور پھر ہر سال جو سعید روحیں جماعت میں شامل ہوتی ہیں ان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں.احرار جو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے اٹھے تھے ، یہ دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے تھے کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، ان کا تو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کہاں گئے لیکن جماعت احمدیہ تحریک جدید کی برکت سے، مالی قربانیوں کی برکت سے، ایک ہونے کی برکت سے، اللہ اور رسول کی اطاعت کی برکت سے، خلافت کی آواز پر لبیک کہنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ
454 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کی رضا حاصل کرنے کے لئے مالی قربانیوں کی برکت سے (جیسا کہ میں نے کہا ) دنیا کے 189 ممالک میں پھیل چکی ہے اور ہر ملک کا نیا شامل ہونے والا احمدی، مومنین کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد نیک اعمال بجالانے اور اطاعت میں بڑھنے والا ہے اور مالی قربانیوں کی روح کی طرف توجہ دینے والا بنے کی کوشش کر رہا ہے.پس یہ ہیں اس حکیم اور عزیز خدا کی قدرت کے نظارے جو جماعت کے حق میں وہ دکھا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اس گروہ میں شامل رکھے جو ابْتِغَاء لِوَجْهِ الله کے نمونے دکھانے والے ہوں اور ہم اسلام کے غلبہ کے نظارے دیکھنے والے ہوں.اب میں تحریک جدید کے دفتر اول ، دوئم سوئم ، چہارم اور پنجم کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے روا یتا گزشتہ سال میں جماعت نے جو مالی قربانیاں دی ہیں، مختلف پہلوؤں سے جو جائزہ لیا جاتا ہے،اس کا بھی ذکر کر دیتا ہوں.تحریک جدید کا سال جیسا کہ میں نے بتایا 31 اکتو بر کوختم ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جور پورٹس آئی ہیں.( مکمل رپورٹس بعض اوقات وقت پر نہیں پہنچتیں) ان کے مطابق جماعت احمد یہ عالمگیر نے مجموعی طور پر تحر یک جدید کی مد میں 36لاکھ 12 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کی ہے.اس میں پاکستان اور امریکہ کی کرنسیاں بھی گزشتہ سال میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، مسلسل گرتی رہی ہیں اور جب کرنسی کا موازنہ کیا جاتا ہے، جب پاؤنڈز سے مقابلہ کیا جائے تو گو کہ ان کی قربانیاں بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہیں لیکن وہ اتنی نظر نہیں آ رہی ہوتیں.لیکن اس کے باوجود یہ وصولی گزشتہ سال کی نسبت ایک لاکھ دس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.مجموعی طور پر وصولی کے لحاظ سے بھی نمبر وار جماعتوں کا ذکر کر دوں.ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی پاکستان ہی پہلے نمبر پر ہے.اور پاکستان کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، وہاں اتنی افراتفری اور ڈسٹربنس (Disturbance) ہے کہ کاروباری حضرات کے کاروبار اُس طرح نہیں رہے، بلکہ اکثر جماعتیں تو جب آخری مہینہ رہ جاتا ہے پریشانی کا اظہار ہی کرتی رہی ہیں کہ چندے پورے نہیں ہورہے.پھر ا کثریت پاکستان میں غریب لوگوں کی ہے.لیکن یہ غریب بھی چندہ دیتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے خوف اور غم دور کر دے گا.اگر تم میری مرضی کے لئے خرچ کرو گے تو تمہیں بڑھا کر دے گا.تو وہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں.اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اگلے وقت کی روٹی کس طرح ملے گی اور قربانیاں کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں.بہر حال پہلے نمبر پر پاکستان ہے، پھر نمبر 2 امریکہ ہے، نمبر 3 برطانیہ ہے، نمبر 4 جرمنی ہے، نمبر 5 کینیڈا ہے، (جرمنی اب پیچھے جا رہا ہے، برطانیہ اوپر آ رہا ہے ، نمبر 6 انڈونیشیا ہے نمبر 7 ہندوستان، نمبر 8 آسٹریلیا نمبر 9 بلجیم، نمبر 10 ماریشس اور افریقن ممالک میں نائیجیر یا اول نمبر پر ہے.تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد میں بھی بعض ملکوں میں بہت اضافہ ہوا ہے، جن میں پاکستان،
455 خطبات مسر در جلد پنجم خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء ہندوستان، جرمنی، برطانیہ، انڈونیشیا، تنزانیہ، بنین اور نائیجیریا شامل ہیں.اس سال چندہ دینے والوں کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے وہ گزشتہ سال کی نسبت 16 ہزار زائد ہے.اتنے لوگ اس میں شامل ہیں اور کل تعداد 4 لاکھ 68 ہزار ہے.گزشتہ سال جو تعداد پیش کی گئی تھی ، کچھ حساب ٹھیک نہیں لگایا گیا تھا، کچھ جمع تفریق میں غلطی ہوگئی ، اعداد کچھ غلط تھے ، کچھ جماعتوں کی رپورٹ صحیح نہیں تھیں، تو ان کا خیال تھا کہ اس دفعہ ٹوٹل تعداد نہ دی جائے بلکہ یہ بتایا جائے کہ اتنا اضافہ ہوا لیکن ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، دنیا کے لئے تو نہ ہم مالی قربانیاں کرتے ہیں اور نہ کر رہے ہیں، نہ یہ دنیا ہمارے پیش نظر ہے.ہم جب تک اپنی کمزوریوں کو سامنے نہیں رکھیں گے، ان پر نظر نہیں رکھیں گے ترقی کی رفتار کا بھی پتہ نہیں لگا سکتے.تو یہ تو بہر حال حتمی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 16 ہزار کی تعداد میں ان ملکوں میں زائد اضافہ ہوا ہے، زائد لوگ شامل ہوئے جو باقاعدہ پلاننگ کر کے اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو چندوں میں بڑھائیں، مزید تعداد کو شامل کریں.بعض جگہوں کی رپورٹیں گزشتہ سال جب حساب کر رہے تھے ٹھیک نہیں تھیں اس لئے بظاہر لگے گا کہ کم ہیں لیکن مجموعی طور پر اضافہ ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ جب ہم اپنے جائزے لیں گے، جب ہم اپنی کمزوریوں پر بھی نظر رکھیں گے تو تبھی ہمارے کام میں بھی برکت پڑے گی اور کیونکہ نیک نیتی سے اس طرف توجہ ہوگی اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بنیں گے.اصل مقصد تو ہمارا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اللہ تعالیٰ سے تو کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے.اس لئے کسی بھی قسم کا خوف کرنے کی ضرورت نہیں.بندوں سے تو ہم نے اجر نہیں لینا.ہمارا اجر تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس کی خاطر قربانیاں ہو رہی ہیں.بہر حال مجموعی طور پر ان ملکوں میں 16 ہزار نئے افراد بھی شامل ہوئے.پھر میں نے دفتر اول کے مرحومین کی تحریک کی تھی ، جن کی کل تعداد تین ہزار سات سو تینتا لیس تھی اس میں سے بھی تین ہزار چارسو چوالیس مرحومین کے کھاتے جاری ہو گئے جو ان کے ورثاء نے کروائے اور دوسوننانوے کھاتہ جات کو مجموعی مد سے ، مرکز میں جو لوگوں نے مد جمع کروائی تھی ، اس میں سے دوبارہ جاری کیا گیا ہے ، تو اس لحاظ سے دفتر اول کے تمام مرحومین کے کھاتے جاری ہو چکے ہیں.پاکستان کا اپنا بھی ایک موازنہ پیش کیا جاتا ہے کہ کس کس جماعت نے کتنی ادا ئیگی کی اور اول دوئم اور سوئم پوزیشن آئی.تو اس لحاظ سے لاہور نمبر ایک پر ہے، ربوہ دوسرے نمبر پر اور کراچی تیسرے نمبر پر ہے.بعض پاکستان کی جماعتیں بھی پیش کی جاتی ہیں.پاکستان کی جماعتوں کا ہمیشہ سے موازنہ کیا جاتا ہے، ان کو امید اور توقع ہوتی ہے کہ ان کا بھی نام لیا جائے تو نمایاں قربانی کرنے والی پاکستان میں دس جماعتیں ہیں.راولپنڈی، اسلام آباد نمبر 3 ملتان، نمبر 4 کوئٹہ، نمبر 5 کنری، نمبر 6 ساہیوال نمبر 7 حیدر آباد، نمبر 8 بہاولپور، نمبر 9 نواب شاہ نمبر 10 ڈیرہ غازی خان
456 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم اور پاکستان کے ضلعوں میں سیالکوٹ نمبر 1، فیصل آباد نمبر 2، گوجرانوالہ نمبر 3 ، میر پور خاص نمبر 4، سرگودھا نمبر 5 شیخو پورہ نمبر 6 ، بہاولنگر نمبر 7،نارووال نمبر 8، اوکاڑہ نمبر 9 اور سانگھڑ اور قصور دسویں نمبر پر ہیں.اس کے علاوہ بعض چھوٹی قربانی کرنے والی جماعتوں نے اچھی قربانی کی ہے، واہ کینٹ کھوکھر غربی ، 166 مراد ہے، لدھڑ کرم سنگھ ہے، گھٹیالیاں خورد ہے، بشیر آبادسندھ ہے، صابن دستی ( بدین ) ، لودھراں، میانوالی، بہر حال یہ پاکستان کی قربانیوں کے نمونے ہیں، ان غریب لوگوں کے جو غربت کے باوجود پہلے نمبر پر رہے.اب انگلستان میں جماعت کی پہلی دس پوزیشنز مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے اس طرح ہیں، حلقہ مسجد فضل پہلے نمبر پر نمبر 2 پر دوسٹر پارک نمبر 3 پر ہے بریڈ فورڈ نمبر 4 پر کن تھورپ ہے، نمبر 5 گلاسگو نمبر 6 پر ٹوٹنگ، نمبر 7 پہ مانچسٹر نمبر 8 پر ہڈرزفیلڈ نمبر 9 پر برمنگھم ایسٹ اور نمبر 10 پر نیومولڈن.سکنتھو میں نے گزشتہ سال چندوں کا بھی حساب دیا تھا کہ فی کس چندہ دینے والی جماعتوں میں سے انگلستان کی کونسی جماعتیں اچھی ہیں.اس دفعہ اس لحاظ سے پہلی پانچ جماعتوں کا بھی جائزہ پیش کر دیتا ہوں.نمبر 1 سکن تصورپ ہے، یہ پہلے پیچھے تھے، میں نے ان کو کہا تھا کہ اکثر ڈاکٹر ہیں اور آگے آسکتے ہیں تو ان کا فی کس چندہ 237 پاؤنڈ ہے، دوسرے نمبر پر مسجد فضل لندن ہے اس کا 100 پاؤنڈ فی کس ہے، تیسرے نمبر پر دوسٹر پارک ہے ان کا 80 پاؤنڈ ہے، چوتھے نمبر پر نیومولڈن ہے ان کا 68 پاؤنڈ ہے.پانچویں نمبر پر برمنگھم ہے یہ 41 پاؤنڈ ہے.لیکن یہ تو میں نے بڑی جماعتیں لی ہیں، بعض چھوٹی جماعتیں بھی ہیں، جن کی تعداد بھی تھوڑی ہے لیکن وہاں اچھے کمانے والے ہیں اس لئے ان کے فی کس چندے اس لحاظ سے بڑھ گئے ہیں.ان کی اگر تعداد کو دیکھیں تو 8-10-15 آدمی ہیں.شاید ان کو یہ خیال ہو کہ اگر چہ تھوڑے ہیں لیکن ہمارا بھی ذکر ہونا چاہئے تو اس لحاظ سے میں ذکر کر دیتا ہوں کہ سکنتھو رپ پھر بھی پہلے نمبر پر ہی ہے ، 237 کے حساب سے.اور ڈیون کارنوال جو ہے 158 پاؤنڈ نمبر 2 ہے یہاں تھوڑے سے احمدی ہیں.سپن ویلی میں 117 پاؤنڈ اور ساؤتھ ایسٹ لندن میں 102 پاؤنڈ فی کس اور مسجد فضل لندن 100 فی کس (جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے ) لیکن اگر بڑی تعداد کے حساب سے دیکھیں تو مسجد فضل دوسرے نمبر پر ہے اور مجموعی قربانی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے.امریکہ والوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے نام بھی لے دیئے جائیں تو ان کی وصولی کے لحاظ سے یا ادائیگی کے لحاظ سے نمبر ایک سلی کان دیلی، نمبر 2 شکاگو ویسٹ نمبر 3 نارتھ ورجینیا، نمبر 4 لاس اینجلس ایسٹ اور نمبر 5 ڈیٹرائٹ.اللہ تعالیٰ ان سب چندہ دہندگان کو بہترین جزا دے.ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.ان
457 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کے پاک مالوں کو بڑھاتا چلا جائے اور یہ سب تمام قدرتوں کے مالک خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حاصل کرنے والے بنیں.اُن خصوصیات کے حامل بنیں جو مومنین کی جماعت کا خاصہ ہیں.جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ گزشتہ سال شامل ہونے والوں کے اعداد و شمار میں غلطی سامنے آئی ہے ایک تو جماعتیں ، خاص طور پر افریقن ممالک میں اعداد و شمار کو خاص طور پر چیک کیا کریں.دوسرے گو کہ زیادہ ادا ئیگی کرنے والی جماعتوں کے شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن افریقہ کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں بہت ساری گنجائش موجود ہے اور اگر وہاں مبلغین اور عہدیداران کوشش کریں تو یہ تعداد میرے خیال میں اگلے سال دو گنی بھی ہو سکتی ہے.اگر ستی ہے تو کام کرنے والوں کی ہے جن کے سپر دذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں.جس سعید فطرت نے احمدیت قبول کی ہے اس نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور مومنین کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے احمدیت قبول کی ہے.عہدیداران بھی اور مربیان بھی اُسے جب تک ان باتوں کا صحیح اور اک نہیں پیدا کروائیں گے ان کو کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ ان تحریکات کی کیا اہمیت ہے.پس جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تحریک جدید اور وقف جدید میں نو مبائعین کو خاص طور پر ضرور شامل کریں.چاہے وہ معمولی سی رقم دے کر شامل ہوں اور اُن کو ان خصوصیات میں سے کسی سے بھی محروم نہ رہنے دیں جو مومنین کی جماعت کا خاصہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہر فرد جماعت اور عہدیداران کو اس روح کو سمجھنے کی توفیق دے اور قربانیوں میں بڑھنے کی توفیق دے.ایک افسوسناک خبر بھی ہے، ہمارے سیرالیون کے رہنے والے ایک مبلغ یوسف خالد ڈوروی صاحب گزشتہ دونوں وفات پاگئے اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُونَ.انہوں نے پاکستان میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کی تعلیم حاصل کی ، جامعہ پاس کیا اور اس کے بعد پھر سیرالیون میں مختلف ریجنز میں خدمات بجالاتے رہے.گزشتہ سال بلکہ اس سال ہی جماعت کے نائب امیر اوّل مقرر ہوئے تھے اور وفات کے وقت جامعہ احمدیہ سیرالیون کے پرنسپل تھے.جہاں بھی ان کو خدمت کا موقع ملا، ہمیشہ نہایت محنت سے ، اخلاص سے اور جانفشانی سے خدمات بجالاتے رہے.پاکستان میں قیام کے دوران ہی ولیہ صاحبہ سے آپ کی شادی ہو گئی تھی.ان کا نام حلیمہ بھی ہے.یہ وہی بچی ہیں جن کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ 1970ء میں اپنے دورہ سیرالیون سے واپسی پر پاکستان ساتھ لے کر آئے تھے اور گھر میں ہی بیٹی بنا کر بچوں کی طرح رکھا.28 /1اکتوبر کو، ان کی طبیعت خراب ہوئی تھی میٹنگ میں آئے ہوئے تھے وہیں اچانک بیہوش ہو گئے اور ٹسٹ (Test) وغیرہ سے پتہ لگا کہ بیاٹائٹس ہے.بہر حال ایک دن بعد ہی Coma میں چلے گئے اور 2 نومبر کو وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون اللہ کے فضل سے موصی تھے اور بڑے
458 خطبہ جمعہ 09 / نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم فدائی خدمت گزار احمدی تھے.اس سے پہلے بھی ہمارے دو مبلغین وہاں وفات پاچکے ہیں جو جامعہ سے پاس شدہ تھے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے نقش قدم پر چلنے والے اور بہت سارے مبلغین ہمیں عطا فرمائے جو قربانی کا جذبہ رکھنے والے ہوں اور ان لوگوں سے بڑھ کر خدمات دینیہ انجام دینے والے ہوں کیونکہ آئندہ آنے والا بوجھ افریقہ پر بہت بڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ انہیں میں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو اس تربیت کے کام کو سنبھالنے والے بھی ہوں.مرحوم کی اہلیہ حلیمہ ولیہ صاحبہ اور چار بیٹیاں ہیں اور دو بیٹے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر کی توفیق دے، ان کا کفیل ہو ، مرحوم کے درجات بلند فرمائے ، ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں میں جگہ دے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: مجھے یہ کہنا یا دنہیں رہا تھا ابھی انشاء اللہ نمازوں کے بعد میں یوسف ڈوروی صاحب کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 30 نومبر 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 459 46 خطبہ جمعہ 16 نومبر 2007ء فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2007ء (16 رنبوت 1386 ہجری شمسی ) بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَمى.قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ.وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ.وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِح.وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَاعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة: 221) وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِازْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجِ.فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِى مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوفٍ.وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة: 241) وَالْمُطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قُرُوءٍ.وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ.وَبُعُولَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ.وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.(البقرة: 229) یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو معاشرے کے کمزور طبقے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ اس طبقہ میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، معاشرے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں، زور آور اور طاقتور جس طرح چاہیں ہم سے سلوک کرتے رہیں.ہر آیت کے آخر پر عزیز اور حکیم کے الفاظ استعمال کر کے یہ احساس اس کمزور طبقے میں بھی پیدا کر دیا کہ اگر طاقت والے تمہارے سے زیادتی کریں اور تمہارے حقوق ادا نہ کریں تو ان کے اوپر ایک عزیز اور غالب خدا ہے جو پھر زیادتی کرنے والوں کو پکڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو میرے پر حکمت احکامات پر صیح طور پر عمل نہیں کرتے ، میں جو سب طاقتوں کا سر چشمہ ہوں ، ان کو پکڑ وں گا.اسی طرح قرآن کریم کو الہی کتاب ماننے والوں کو بھی توجہ دلا دی کہ یہ حقوق ایسے نہیں کہ اگر تم ادا نہ کرتے ہوئے زیادتی بھی کر جاؤ تو کوئی حرج نہیں.فرمایا ہمیشہ ایک مسلمان کو، ایک مومن کو یا د رکھنا چاہئے کہ ان باتوں پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ معاشرے کے امن کی ضمانت ہیں.ان پر عمل نہ کر کے صاحب اختیار لوگ معاشرے کے امن کو برباد کرنے والے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر ایمان کا دعوی کر کے ، اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر پھر کمزوروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور معاشرے کے امن کو برباد کرنا قابل گرفت ہے.کمزور طبقے
460 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم پر توجہ نہ دے کر اس طبقے میں جو بے چینی پیدا ہوگی اور پھر بعض اوقات شدید رد عمل بھی ظاہر ہوتا ہے تو ایسے رد عمل کے اظہار کا باعث وہ لوگ بن رہے ہوں گے جن کے ذمہ حقوق کی ادائیگی تھی ، حالات کو سنوارنے کی ذمہ داری تھی لیکن انہوں نے اپنے فرض کا حق ادا نہیں کیا.پس اس فرض کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ، ایسے لوگوں کو جو فرض ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حقوق ادا نہ کرنے والو، یا ظلم سے حق مارنے والو! ہمیشہ یا درکھو کہ ایک غالب، عزیز خدا تمہارے اوپر ہے اور اس کے حکموں پر عمل نہ کر کے وہ احکام جو حکمت سے پُر احکام ہیں ان پر عمل نہ کر کے تم پھر امن ، سلامتی اور پیار قائم کرنے والے معاشرے کے قیام میں روک ڈالنے والے بن رہے ہو.اور یہ چیز اس غالب خدا کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں ہے.پس توجہ کرو ، حکمت اختیار کرو حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دو تا کہ وہ عزیز خدا جو عزیز ورحیم بھی ہے تم پر رحم کرتے ہوئے صفت عزیز کے نظارے تمہیں تمہارے حق میں دکھائے.ان آیات میں سے جو میں نے تلاوت کی ہیں، پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اور وہ تجھ سے قیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں.تو کہہ دے کہ ان کی اصلاح اچھی بات ہے اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر ر ہو تو وہ تمہارے بھائی بندے ہی ہیں اور اللہ فساد کرنے والے کا ، اصلاح کرنے والے سے فرق جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ضرور مشکل میں ڈال دیتا ، یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.اس آیت میں یتامیٰ کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور یتامیٰ کے تعلق میں قرآن کریم میں اور بھی بہت ساری جگہوں پر ذکر ملتا ہے جس میں ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان پر شفقت ا ہاتھ رکھنے کا حکم ہے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائی کے ساتھ ایک نیک فطرت بھائی کیا سلوک کرتا ہے.بڑا بھائی ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہے کہ میرا بھائی پڑھائی میں بھی اچھا ہو، صحت میں بھی اچھا ہو ، اخلاق میں بھی اچھا ہو، جماعتی کاموں میں دلچسپی لینے والا ہو، اس کا اٹھنا بیٹھنا اچھے دوستوں میں ہو.جہاں پڑھائی کی طرف توجہ دے وہاں کھیلنے کی طرف بھی توجہ دے تا کہ اس کی صحت بھی اچھی رہے.اگر کسی محبت کرنے والے کا بھائی بیمار ہو جائے تو بے چین ہوتا ہے.اس کی تیمارداری اور اس کے علاج کی طرف بھر پور توجہ دیتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے معاشرے کے یتیم تمہارے بھائی ہیں.ان سے نیک سلوک کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو، ہمیشہ یہ بات تمہارے ذہن میں رہے کہ ان کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہے.ان کو معاشرے کا ایک فعال حصہ بنانا ہے.یہ نہیں کہ اگر ان کے ماں باپ یا بڑے بہن بھائی نہیں ہیں جو ان کو سنبھال سکیں تو ان کو ضائع کر دو.فرمایا کہ یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے.مومن تو وہ ہے جوان یتیموں کا خیال رکھتے ہوئے انہیں معاشرے کا مفید وجود بنانے کی کوشش کرتا ہے.اسلام کی جو ہے کہ پیار بھی کرو اور سختی کے وقت سختی بھی کرو اور ہمیشہ اصلاح کا پہلو مدنظر رہے.یہ چیز اپنے یتیم بھائیوں اور
461 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء خطبات مسر در جلد پنجم بچوں کے لئے بھی سامنے رکھو، جس طرح تم اپنے بچوں اور چھوٹے بھائیوں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہو اور یہ جذبات رکھتے ہوئے انہیں بگڑنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہو، غلط بات پر ٹوکتے اور سمجھاتے ہو، نیک باتوں کی تلقین کرتے ہو، نہ زیادہ سختی کرتے ہو کہ وہ باغی ہو جائیں اور نہ پیار کا سلوک کرتے ہو کہ وہ لاڈ میں بگڑ جائیں.پس قرآن کریم کی پہلی ہدایت یتامی کے بارے میں یہ ہے کہ ان کی اصلاح ہمیشہ مدنظر رکھو تا کہ وہ معاشرے کا فعال جزو بن سکیں.اور فرمایا کہ اصلاح اس طرح مد نظر ہو جس طرح تم اپنے قریبی عزیز اور پیاروں کی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہو.ہمیشہ مد نظر ہو کہ وہ تمہارے بھائی ہیں.ان کا خیال رکھنا تمہارا فرض ہے.دوسری جگہ تیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعفًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (النساء: 10) یعنی اور جولوگ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ اپنی کمزور اولا د چھوڑ گئے تو ان کا کیا بنے گا، ان کو اللہ کے ڈر سے کام لینا چاہئے اور چاہئے کہ وہ صاف اور سیدھی بات کریں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زندگی اور موت کا تو کسی کو نہیں پتہ، اس لئے اللہ کا خوف رکھتے ہوئے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کی جزا دیتا ہے تم قیموں کا خیال رکھوتا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کو بھی ہر قسم کے ہم و غم سے محفوظ رکھے.پس ہمیشہ تیموں کی ضرورتوں کا خیال رکھو اور خاص طور پر جو دین کی خاطر جان قربان کرتے ہیں ان کا تو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے تاکہ ان کے بچوں کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کر کے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے.بلکہ ہر شہید کی اولاد کو اس بات پر فخر ہو کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کر کے دائمی زندگی پالی اور ہمارے سر بھی فخر سے اونچے ہو گئے.ہمیشہ ایسے بچوں کو یہ خیال رہے کہ دنیا وی لحاظ سے جماعت نے اور افراد جماعت نے ہمیں یوں اپنے اندر سمو لیا ہے اور ہماری ضروریات اور ہمارے حقوق کا یوں خیال رکھا ہے جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا رکھتا ہے.جس طرح ایک باپ اپنے بچے کا رکھتا ہے.ہمیشہ ان بچوں میں یہ احساس رہے کہ ہماری تربیت کا ہمارے بھائیوں نے بھی اور جماعت نے بھی حق ادا کر دیا ہے.اگر کسی بچے کا باپ اس کے لئے جائیداد چھوڑ کر مرا ہے تو اس کے قریبی اور اردگرد کے لوگ اس کی جائیداد پر نظر رکھتے ہوئے اسے ہڑپ کرنے کی کوشش نہ کریں، ختم کرنے کی کوشش نہ کریں.جھوٹے طریقے سے یتیم کو اس کے باپ کی جائیداد سے محروم کرنے کی کوشش نہ کریں.بلکہ حکم یہ ہے کہ احتیاط سے استعمال کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ (بنی اسرائیل: 35) اور تم یتیم کے مال کے پاس اس کے جوانی کے پہنچنے تک بے احتیاطی سے نہ جاؤ.یعنی یہ نہ ہو کہ پرورش کے بہانے اس کا مال سارا لگا دو.اگر تمہارے حالات اچھے ہیں تو جہاں اپنے بچوں کو کھلاتے پہناتے ہو اس کے لئے بھی خرچ کرو.اور اگر حالات ایسے نہیں کہ
خطبات مسرور جلد پنجم 462 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء پرورش کر سکو اور یتیم کے ماں باپ نے اگر کوئی مال چھوڑا ہے تو پھر اس میں سے احتیاط سے صرف اتنا ہی خرچ کرو جس سے اس کی ضرورت، جو حقیقی ضرورت ہے پوری ہو جائے اور جب وہ ہوش و حواس کی عمر کو پہنچ جائے تو پھر اس کا مال اسے واپس کر دو.بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض قریبی بھی یتیم کا مال اس کی بلوغت کو پہنچنے کے بعد اس کے حوالے نہیں کرتے.ماں باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر مستقل تصرف کئے رکھتے ہیں کہ ہم نے اس پر خرچ کیا ہے.اللہ تعالیٰ کو یہ چیز انتہائی نا پسند ہے یتیم کی پرورش کے لئے نیت صاف ہونی چاہئے.اگر نیتوں میں فتور آ جائے تو با وجود اس کے کہ بظاہر ایک شخص یتیم کی پرورش کر رہا ہوتا ہے، دوسروں کی نظر میں بڑا قابل تعریف ہوتا ہے کہ اس نے اپنے قریبی یا کسی بھی یتیم کی اچھی پرورش کی ہے یا کر رہا ہے لیکن اصل میں تو اس یتیم کے پیسے سے ہی پرورش کر رہا ہوتا ہے، ہر ایک کو تو نہیں پتہ ہو گا.اور نہ صرف یہ کہ وہ پیسہ پرورش میں استعمال کر رہا ہوتا ہے بلکہ اس سے خود بھی فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے.زیادہ مقصد خود فائدے اٹھانے کا ہوتا ہے.اور جب یتیم کو بڑے ہو کر پتہ چلتا ہے کہ اس کی جائیداد تو اس کی پرورش کے نام پر اس کی پرورش کرنے والاختم کر چکا ہے، یا حیلوں بہانوں سے اسے دینا نہیں چاہتا تو پھر فساد شروع ہو جاتا ہے.بھائیوں بھائیوں میں ڈوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، ماموؤں ، چچاؤں اور بھائیوں بھتیجوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، رنجشیں بڑھتی ہیں، مقدمہ بازیاں شروع ہو جاتی ہیں.جماعتی نظام کے تحت اگر آتے ہیں تو مقدمے قضاء میں آ جاتے ہیں یا پھر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں.بعض لوگ جو خود ہی معاملات اندر ہی سمیٹنا چاہتے ہیں وہ پھر بعض دفعہ اصلاح احوال کے لئے مجھے لکھتے ہیں کہ ہمارے حق دلوائے جائیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو تو دھوکہ نہیں دے سکتے.اللہ اصلاح کرنے والے کا فساد کرنے والے سے فرق جانتا ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا علم کامل ہے.وہ انسان کی پاتال تک سے واقف ہے.وہ جانتا ہے کہ یتیم کی پرورش کے شوق کے پیچھے نیت کیا ہے.معاشرے کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے، عدالتوں میں تو مقدے جیتے جا سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.اللہ تعالیٰ تو ایک مومن سے یہ توقع رکھتا ہے کہ یتیم کا مال کھانے کا تو سوال ہی نہیں، تم ایک محبت کرنے والے بھائی کی طرح یتیم سے سلوک کرو.نہ صرف اس کی پرورش کرو بلکہ اگر ہو سکے تو ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے میں اگر توفیق ہے تو اپنے پاس سے بھی خرچ کر دو.ان کو کسی کام پر کسی کا روبار میں لگاؤ تا کہ وہ معاشرے کا فعال اور مفید حصہ بن سکیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَا عَنَتَكُم اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا تمہیں ایسا حکم دیتا جس سے تمہیں تکلیف ہوتی تمہیں حکم دیتا کہ اگر کسی یتیم کا باپ جائیداد چھوڑ گیا ہے تو تم نے پھر بھی اس پر تصرف نہیں کرنا اور یتیم کی جائیداد کی ایک ایک پائی اسے واپس لوٹانی ہے اور پرورش پر بھی خود خرچ کرنا ہے.پس اللہ نے
463 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء خطبات مسر در جلد پنجم اگر تمہیں کسی تکلیف میں نہیں ڈالا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ جو جائز سہولت دی ہے کہ یتیم کے مال میں سے اس کی پرورش پر خرچ کر سکتے ہو اس سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ اور اس کا مال دونوں ہاتھوں سے لگا دو.پس ہمیشہ یا درکھو کہ نا جائز طریقے سے یتیم کا مال کھانے سے تم پکڑ کے نیچے آؤ گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَمَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا (النساء : 11) جو لوگ ظلم سے یتیموں کے مال کھاتے ہیں وہ یقینا اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں.پس یتیم کی پرورش ، اس کے مال کی حفاظت، اس کو معاشرے کا فعال حصہ بنانا، ایک انتہائی اہم حکم ہے.یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر انسان کہے کہ اس طرف توجہ نہ بھی دی تو کوئی حرج نہیں.اللہ تعالیٰ اس آیت کے آخر میں جو میں نے تلاوت کی تھی فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.یہ کہہ کر پھر توجہ دلا دی کہ گو کہ یتیم کمزور ہے ، اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے یا دوسرے سے لے سکے لیکن معاشرے کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے، جو لوگ یتیم کے نگران بنائے گئے ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یتیم تو عزیز نہیں ہے، غالب نہیں ہے، طاقت والا نہیں ہے لیکن ان کے اوپر ایک عزیز اور غالب خدا ہے، اس کا ہاتھ ہے جو تمہارے سمیت کا ئنات کی ہر چیز پر غالب ہے اور اگر یتیم کے حقوق کی حق تلفی کرو گے تو خدا تعالیٰ ضرور تم پر پکڑ کرے گا.پس اللہ تعالیٰ جو حکیم ہے، اس نے حکمت کے تحت اگر تمہیں یہ چھوٹ دی ہے کہ حسب ضرورت کم از کم مال یتیم کے مال میں سے خرچ کر سکتے ہو تو تمہیں بھی ہمیشہ حکمت کے پیش نظر یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور عارضی فائدوں کی بجائے دُور رس نتائج کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے جس سے معاشرے کا فساد بھی ختم ہو، آپس میں محبت و پیار اور بھائی چارے کی فضا بھی پیدا ہو اور پرورش کرنے والے خود بھی اپنے پیٹوں میں آگ بھرنے سے محفوظ رہیں اور جلنے کے عذاب سے بھی بچے رہیں.پھر دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں معاشرے کے ایک اور کمزور طبقہ یعنی بیوہ کا ذکر ہے.ایک تو عورت ویسے ہی عمو ماً معاشرے میں کمزور سمجھی جاتی ہے.اس پر اگر وہ بیوہ ہو جائے تو اکثر معاشرے اس کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے.خاص طور پر کم ترقی یافتہ معاشروں میں اور ایسے معاشروں میں بعض پڑھے لکھے جو لوگ ہیں وہ بھی پھر ماحول کے زیر اثر زیادتی کر جاتے ہیں.مسلمانوں کو تو خاص طور پر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے.ترقی یافتہ ممالک تو آج عورت کے حقوق کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن ہمیں تو قرآن کریم نے چودہ صدیاں پہلے ہی ان حقوق کی طرف توجہ دلا دی اور اگر اُس زمانے کی معاشرتی روایات کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے لیکن نہ صرف اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق قائم کئے بلکہ اُس
خطبات مسر در جلد پنجم 464 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007ء معاشرے میں جہاں بالکل حقوق ادا نہیں کئے جاتے تھے صحابہ کی کایا پلٹ گئی اور ان پر عمل کر کے دکھایا.اس آیت کا ترجمہ یہ ہے، اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں ان کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اس بارہ میں وہ خود جو معروف فیصلہ کریں اور اللہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے.تو یہاں اللہ تعالیٰ نے بیوہ کا ایک مدت تک اپنے خاوند کے گھر میں رہنے کا حق قائم کر دیا.عورت کے بارے میں یہ تو حکم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں ہیوگی کی صورت میں اپنی عدت پوری کرے جو 4 ماہ 10 دن تک ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک سال تک رہ سکتی ہے اگر وہ چاہے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا رجحان رکھتے تھے اور اس سے یہ استنباط کرتے تھے کہ عدت کی مدت کے علاوہ جو چار ماہ دس دن ہے، ایک سال کی اجازت ہے.آپ کا یہ رجحان تھا کہ عورت کو جتنی زیادہ سے زیادہ سہولت دی جاسکتی ہے اس آیت کی رُو سے دینی چاہئے.بعض دفعہ جب جائیداد کی تقسیم ہو تو اگر مرنے والے کا مکان ہو تو جو مکان ورثے میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ اگر کسی اور کے حصے میں آ گیا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تب بھی وہ صبر کرے اور ایک سال تک عورت کو تنگ نہ کرے، بیوہ کو تنگ نہ کرے.کیونکہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے بھی یہ لکھا ہے اور آج بھی یہ اسی طرح ہو رہا ہے کہ اگر مثلاً عورت کے اولا د نہیں ہے یا کسی کے دو بیویاں ہیں یا تھیں تو پہلی بیوی کی اولاد یا اگر عورت کے اولاد نہیں تو مرد کے والدین یا اور دوسرے رشتہ دار، بیوہ، جس کے حصے میں مکان کی جائیداد نہ آئی ہو، اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک سال تک اس کا حق ہے اور کسی وارث کا حق نہیں بنتا کہ اس معاملے میں بیوہ پر دباؤ ڈالا جائے اور اسے تنگ کیا جائے ہاں اگر وہ خود جانا چاہیں تو بیوگی کی عدت پوری کر کے جاسکتی ہیں.یہ فیصلہ عورت کے اختیار میں دیا گیا ہے.عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ معروف فیصلہ کرے یعنی ایسا فیصلہ جو قانون اور شریعت کے مطابق ہو.پس ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ عزیز اور حکیم خدا کا حکم ہے.آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عورتوں کو ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبور کرو گے اور اس کے رشتہ داروں اور قریبیوں میں بھی اگر اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا تو اس کی مجبوری سے کوئی دوسرا نا جائز فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور دُور کے امکان کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی پر حکمت حکم فرمایا ہے.عورت کے خاوند کے قریبیوں کو بھی تنبیہ کی ہے کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ خدا کی ذات عزیز اور غالب ہے.اگر اس کے حکموں پر عمل نہیں کرو گے تو اس کی پکڑ کے نیچے آؤ گے.اس میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے.ایک تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ عورت کو ایک سال تک گھر
465 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم میں رہنے دو، دوسرے بیوہ کوحق دیا ہے کہ اگر وہ شادی کر کے یا کسی وجہ سے ایک سال سے پہلے بھی گھر چھوڑ دیتی ہے تو یہ اس کا معروف فیصلہ ہے.پھر عزیزوں رشتہ داروں کو اس میں روک نہیں بننا چاہئے کہ اب یہاں ضرور ایک سال رہو.بعض تنگ کرنے کے لئے بھی کہہ دیتے ہیں.بعض دفعہ رشتہ دار چاہتے ہیں کہ بیوہ شادی نہ کرے حالانکہ بیوہ کی شادی بھی ایک مستحسن عمل ہے.تو ایسے روک ڈالنے والوں کے جواب میں حضرت خلیفہ مسح الاول نے وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ کی بڑی لطیف تشریح فرمائی ہے.فرمایا کہ بعض لوگ بیوہ کی شادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے.خاص طور پر ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں بعض خاندانوں میں بہت زیادہ شدت پسندی ہے کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے کہ بیوہ شادی کرے.”میرا نام عزیز ہے اور میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں.میں حکم دیتا ہوں کہ شادی کرے.کیونکہ حکمت کے تقاضے کے تحت یہ حکم ہے اس لئے وہ سب جو میرے حکم سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ میں عزیز اور غالب ہوں.سب عزتیں میری طرف منسوب ہیں اس لئے میرے حکموں کی پابندی کرو اور جھوٹی عزتیں تلاش نہ کروتا کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کی صفات سے فیض پانے والے ہو.حقائق الفرقان جلد اول صفحه (375 پھر تیسری آیت عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہے.اور جو مطلقہ عورت ہے اس کے حق کے بارے میں ہے کہ اگر طلاق ہو جاتی ہے تو عورت کے لئے مقررہ عدت ہے جو متعین کردہ ہے اس کے بعد وہ آزاد ہے کہ شادی کرے.دوسری جگہ حکم ہے کہ تم ان کی شادی میں روک نہ بنو.بلکہ شادی میں مدد کرو اور اب وہ خود ہوش والی ہے اس لئے اگر وہ شادی کا فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے.لیکن عورتوں کو حکم ہے کہ طلاق کے بعد اگر تمہیں پتہ چلے کہ حاملہ ہو تو اپنے خاوند کو بتا دو، چھپانا نہیں چاہئے.اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے نہیں بنی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انتقام لینے لگ جاؤ اور جو اس بچے کا باپ ہے اس کو نہ بتاؤ کہ تمہارا بچہ پیدا ہونے والا ہے.اللہ فرماتا ہے کہ تمہارے بتانے سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ رجوع کرے اور گھر آباد ہو جائے.فرمایا کہ خاوند زیادہ حق دار ہے کہ انہیں واپس لے لے اور گھر آباد ہو جائیں اور رنجشیں دور ہو جائیں.دوسرے قریبیوں اور رشتہ داروں کو بھی حکم ہے کہ اس میں وہ روک نہ بنیں.بعض دفعہ قریبی اور رشتہ دار بھی لڑکی کو خراب کر رہے ہوتے ہیں.وہ اگر خاموش بھی ہے بلکہ رجوع کرنے پر رضامند بھی ہے تو قریبی شور مچادیتے ہیں کہ ایک دفعہ طلاق ہوگئی اب ہم لڑکی کو واپس نہیں بھیجیں گے.انا اور عزتوں کے معاملے اٹھ جاتے ہیں.کئی معاملات میرے پاس بھی آتے ہیں.حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں.بعض بچیاں پھر خط لکھتی ہیں کہ ہم دونوں
466 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اناؤں نے یہ مسئلہ بنالیا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رشتہ داروں کو اس تعلق کے دوبارہ قائم ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے.اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو پھر جھوٹی غیرتوں کے نام پرلڑکی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا عورتوں پر.یہ آیت تو میں نے پڑھی تھی.اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیتا ہوں.فرمایا کہ " اور مطلقہ عورتوں کو تین حیض تک اپنے آپ کو روکنا ہوگا اور ان کے لئے جائز نہیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کر دی ہے.اور اس صورت میں ان کے خاوند زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں واپس لے لیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہیں.اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ان پر ہے حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے اور اللہ کامل غلبے والا اور حکمت والا ہے.پس انسان ہونے کے ناطے اور ایک ایسے رشتے کے لئے جو ایک عہد پر قائم ہوا ہے مردوں کو بھی حکم ہے کہ عورت کے حقوق ادا کرو.عورت کو بھی حکم ہے کہ مردوں کے حقوق ادا کرو.اور جب دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو گے تو رشتہ پائیدار ہوگا.پس یہ حکم عورت کے حق قائم کرنے والا ہے.اسلام کے یہی خوبصورت احکامات تھے جنہوں نے معاشرے کی کایا پلٹ دی.اسلام سے پہلے عربوں نے عورتوں کو ہر قسم کے حق سے محروم کیا ہوا تھا بلکہ کسی مذہب نے بھی اس طرح حقوق قائم نہیں کئے جس طرح اسلام نے کئے ہیں.آنحضرت ﷺ نے بے شمار جگہ عورتوں کے حق قائم فرمائے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَاهْلِهِ وَ أَنَا خَيْرُكُمْ لَا هُلِي.(سنن ترمذی باب فضل ازواج النبي عل حدیث : 3895) یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں بہترین ہے اور میں تم سب میں اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا - وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء : 20) کہ اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کرو.اگر تم میں کوئی شخص اپنی بیوی کو نا پسند بھی کرتا ہو تو پھر بھی یاد رکھو کہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کونا پسند کرو مگر خدا تعالیٰ نے اس میں تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے بڑی خیر مقدر کر رکھی ہو.پس مرد کو بھی اپنے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے.بلکہ اس کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس چیز پر قدرت رکھتا ہے کہ انجام بہتر فرمائے.آئے دن طلاقیں ہو جاتی ہیں اس لئے مردوں کو بھی غور کر کے سوچ سمجھ کے پھر فیصلے کرنے چاہئیں اور اس امر کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی
خطبات مسر در جلد پنجم 467 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ تم اس بات کو نا پسند کرو لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس میں بہتری رکھی ہو.اگر خدا کی رضا کے لئے اور دعا کرتے ہوئے یہ سلوک اپنی بیوی سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.جو گھر تباہی کے کنارے پر ہوتے ہیں، ٹوٹنے والے ہوتے ہیں اگر ان کے بچے ہیں تو بچے گھروں میں سہمے ہوئے ہوتے ہیں ، وہی گھر پھر اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں کے لئے پُر امن اور پیار اور محبت قائم رکھنے والے بن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مرد اور عورت دونوں کو ایک نصیحت یہ بھی فرما دی کہ حقوق کے لحاظ سے گو تم دونوں برابر ہولیکن مرد کو انتظامی لحاظ سے اور بعض طاقتوں کے لحاظ سے بعض ذمہ داریوں کے لحاظ سے فوقیت حاصل ہے.اس لئے عورت کو اس بات کا بھی مرد کو مارجن (Margin) دینا چاہئے.مردوں کو بھی فرمایا کہ تمہیں اگر قوام ہونے کے لحاظ سے فضیلت دی ہے تو ان ذمہ داریوں کو سمجھنا اور سنبھالنا بھی تمہارا کام ہے.گھر کے انتظامات اور اخراجات کے لئے رقم مہیا کرنا بھی تمہارا کام ہے.یہ نہیں کہ گھر میں پڑے رہو اور بیوی کو کہو کہ جاؤ جا کر باہر کماؤ اور کام کرو.یہاں مغربی معاشرہ میں بعض گھروں میں یہ بھی ہو رہا ہے.بیوی بچوں کی تمام ذمہ داری اٹھانا تمہارا کام ہے.پس اللہ تعالیٰ نے جو عزیز اور حکیم ہے عورتوں اور مردوں کے حقوق قائم فرما دئے.اور مردوں کو آخر پر عزیز اور حکیم کے الفاظ استعمال کر کے اس طرف توجہ دلا دی کہ یا درکھو عورتوں پر جو فوقیت تمہیں ہے اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا کیونکہ وہ عزیز خدا تمہارے اوپر ہے.تمہارے سارے عمل دیکھ رہا ہے.اس کی حکومت ہے.اس کی تم پر نظر ہے.تم اپنے اہل سے غلط سلوک کر کے پھر اس کی پکڑ میں آؤ گے.پس اپنی حاکمیت کو، اپنی فوقیت کو عورتوں پر اس حد تک جتاؤ جہاں تک تمہیں اجازت ہے اور اپنے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رکھو.اور اگر ان باتوں کو مد نظر رکھو گے تو پھر اس حکیم خدا کی حکمت سے بھی فائدہ اٹھاؤ گے جس نے تمہیں فوقیت دی ہے.پس یہ کامل غلبہ والے اور حکمت والے خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں جن سے معاشرہ کا امن قائم ہوتا ہے.گھروں کا سکون قائم ہوتا ہے.نیکیاں پھیلتی ہیں.اس پر حکمت تعلیم کا حسن دوبالا ہو کر پھیلتا چلا جاتا ہے.لیکن اگر ان باتوں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو جہاں معاشرے کا امن برباد ہوگا وہاں ایسا شخص پھر اس عزیز اور غالب خدا کی پکڑ میں بھی آئے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر حکمت تعلیم کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا تھا.پاکستان کے جو آج کل حالات ہیں ہر ایک کے سامنے ہیں اور حکومت بھی ، سیاستدان بھی اور نام نہاد اسلام کے علمبردار بھی ہر ایک ملک کی تباہی کے در پے ہے.اللہ تعالیٰ اس ملک
468 خطبہ جمعہ 16 / نومبر 2007 ء خطبات مسرور جلد پنجم کو بچائے جو بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا.جماعت احمدیہ کی بھی اس کے لئے قربانیاں ہیں.کئی جانیں قربان ہوئی تھیں اس کے لئے.تو ایک تو وطن کی محبت کا تقاضا ہے، حکم ہے، حق بنتا ہے کہ اس کے لئے دعا کریں.بہت سے پاکستانی جو باہر کے ملکوں میں ہیں گو کہ خبریں سنتے ہیں، دیکھتے ہیں لیکن یہ اندازہ نہیں کہ اس وقت ملک کس طرف جا رہا ہے.لگتا ہے کہ یہ لوگ اس کو بربادی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اگر عقل ان کے مقدر میں نہیں تو پھر کوئی سامان پیدا فرمائے جس سے ایسے لوگ اوپر آنے والے ہوں جو ملک کا ، وطن کا عوام کا دردر کھنے والے ہوں.ہم یہاں بیٹھے دعا کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے اور خاص طور پر اس کے لئے دعا کریں.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 7 تا 13 دسمبر 2007ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 469 (47) خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2007ء بمطابق 23 رنبوت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا آج دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر طرف ایک افرا تفری کا عالم ہے.چاہے وہ مشرقی ممالک ہوں یا مغربی ، ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک ہوں یا ترقی پذیر بانسبتی لحاظ سے غیر ترقی یافتہ بعض ملک یا ملکوں کے رہنے والے اپنے ملکوں کے اندر فسادوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور خوف کا شکار ہیں.بعض دوسرے ممالک اور حکومتوں کی دخل اندازیوں کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں.بعض دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور خوف کا شکار ہیں.یہ دہشت گردی سیاسی وجوہات کی وجہ سے ہو یا نام نہاد مذہب کی وجہ سے.نام نہاد میں اس لئے کہتا ہوں کہ مذہب کے نام پر یا مذہب کی طرف منسوب کر کے جو دہشت گردی ہوتی ہے اور اس منسوب کرنے والوں میں جیسا کہ میں نے کہا کچھ تو مذہب کے نام پر کرنے والے ہیں اور کچھ خود ساختہ تصور پیدا کر کے اور خاص طور پر اسلام کے خلاف تصور پیدا کر کے پھر اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں.بہر حال مذہب کبھی بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اور خاص طور پر اسلام کی تعلیم تو کلیتا اس حرکت کے خلاف ہے اور پھر کسی حکومت میں رہ کر اس کا شہری ہو کر پھر اس قسم کی حرکتیں کرنا تو کسی بھی صورت میں اسلام میں قابل قبول نہیں ہے.لیکن بدقسمتی ہے کہ انسانیت اور خدا کی مخلوق پر بعض طبقات کی طرف سے ظلم خدا کے نام پر ہوتا ہے.پھر بعض ممالک جنگ کے خوف کی وجہ سے پریشان ہیں.بعض کو قدرتی آفات نے گھیرا ہوا ہے اور ان ملکوں میں بسنے والے پریشانی اور خوف کا شکار ہیں.غرض کہ آج ہر ہمدرد انسانیت اور خدا کا خوف رکھنے والا دل اس امر کی طرف متوجہ ہے اور غور کرتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مکمل طور پر کہیں بھی کسی کو اطمینان قلب اور امن نصیب نہیں ہے اور اس درد کے ساتھ فی زمانہ صرف احمدی سوچتا ہے.مجھے ڈاک میں اکثر خطوط ملتے ہیں کہ دنیا کے امن کے لئے ، ملک کے امن کے لئے دعا کریں.یہ خطوط لکھنے والے گو کہ چند ایک ہوں گے لیکن مجھے علم ہے، کئی ذریعوں سے علم ہوتا رہتا ہے کہ اکثریت احمدیوں کی دنیا کے یا اپنے اپنے ملکوں کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے کہ کس قسم کے پریشان کن حالات ملکوں میں، دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں.اور یہ جو سوچ ہے یہ اس انقلاب کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پیدا کیا.
خطبات مسر در جلد پنجم 470 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء یہ جذبات اس وجہ سے احمدی کے دل میں پیدا ہوتے ہیں کہ اُس کی ایمانی حالت کو اس زمانے کے امام نے بدلا ہے.خدا کا خوف اور خدا کی مخلوق سے ہمدردی اس کے دل میں پیدا کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف جگہ پر اپنی بعثت کی غرض بیان فرمائی ہے.آپ یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہوگئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ ومراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے، یہ یقین اور یہ بھروسہ ہر گز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں.زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.سوئیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.“ (كتاب البريه روحانی خزائن جلد 13 صفحه 291-293 حاشیه ) پھر آپ فرماتے ہیں.وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں.(لیکچر لاهور روحانی خزائن جلد 20 صفحه 180 آپ فرماتے ہیں ” قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں، ایک تو حید و محبت و اطاعت باری عز اسمه دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.ازاله اوهام روحانی خزائن جلد 3 صفحه (550 پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کی اصلاح کے لئے اُس وقت بھیجا جب دنیا میں ہر طرف فساد اور خود غرضی کا دور دورہ تھا.اس امام کو ماننے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُن برائیوں اور فسادوں سے بچنے کے راستے دکھا دیئے.اب یہ ہر احمدی کا کام ہے کہ تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشش کرے.خدا سے ذاتی تعلق پیدا کرے.مخلوق کی ہمدردی میں ہر وقت کوشاں رہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمدردی کے جذبہ کے تحت ان فرائض کی ادائیگی کے لئے حتی المقدور کوشش کرتی ہے.اور اس وجہ سے ہی کہ ہمارے دلوں میں ہمدردی ہے، ہمیں ان لوگوں کو ان آفات کی اور ان فسادات کی وجوہات بھی بتانی چاہئیں.دنیا کے ہر شخص تک یہ پیغام پہنچانا چاہئے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اپنے اپنے حلقہ احباب میں بھی ، اخباروں کو خطوط لکھ کر یا دوسرے ذرائع استعمال کر کے دنیا کو اب
471 خطبات مسرور جلد پنجم پہلے سے زیادہ کوشش کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر خدا کو نہیں پہچانو گے ، اگر اس کے قوانین پر عمل نہیں کروں گے تو یہ بے چینی کبھی ختم نہیں ہوگی، یہ فساد کبھی ختم نہیں ہوں گے، یہ ارضی اور سماوی آفات کبھی ختم نہیں ہوں گی.اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے ساتھ استہزاء اور حد سے زیادہ زیادتیوں میں بڑھنا اور اس پر ڈھٹائی اور ضد سے قائم رہنا یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو کبھی دنیا کا امن اور سکون قائم نہیں رہنے دیں گی.اب آفات کو ہی لے لیں ، جہاں ان کی شدت بڑھ رہی ہے، ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.ان موسمی آفات کو زمینی ، موسمی اور مختلف تغیرات کی وجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے والی چیز ہے اور دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ سو سال پہلے ایک شخص نے دعوی کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور میری تائید میں اللہ تعالیٰ زمینی اور سماوی نشانات دکھائے گا.زلزلے آئیں گے، آفتیں آئیں گی ، تباہیاں ہوں گی اگر لوگوں نے توجہ نہ دی.اور اس کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ باتیں سچ ہوتی نظر آ رہی ہیں.زلزلے بھی اس کثرت اور اس شدت سے آ رہے ہیں جن کی مثال سو سال پہلے کی تاریخ میں نہیں ملتی.اب گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں بڑا سخت طوفان آیا.کہتے ہیں کہ 47 سال بعد ایسا طوفان آیا ہے.اس میں ایک اندازے کے مطابق 15 ہزار اموات متوقع ہیں.متوقع اس لئے کہ ابھی تک سیلاب زدہ علاقوں میں، طوفان زدہ علاقوں میں مکمل طور پر رسائی نہیں ہوسکی کہ نقصان کا اندازہ لگایا جا سکے.6لاکھ افراد بے گھر ہوئے.اس علاقے میں احمدیوں کی بھی کچھ تعداد ہے، جن کا مالی نقصان ہوا ہے.ظاہر ہے طوفان جب آتے ہیں تو مالی نقصان تو ہوتا ہے.لیکن ابھی تک اطلاع کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ احمدیوں کو محفوظ رکھے.ہیومینیٹی فرسٹ کے رضا کار ، یو کے سے بھی اور کینیڈا سے بھی مدد کا سامان لے کر وہاں جا رہے ہیں.جماعت ہمدردی کے جذبے کے تحت وہاں کام کرنے جا رہی ہے اور ہر اس جگہ پہنچتی ہے جہاں بھی کوئی ستم زدہ یا مصیبت زدہ مدد کے لئے پکارے.گزشتہ ایک دو سال سے احمدیوں کے حالات بنگلہ دیش میں مُلاں نے کافی تنگ کئے ہوئے ہیں.جلسے جلوس توڑ پھوڑ مسجدوں کو نقصان پہنچانا.اب مُلاں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ ان پڑھ اور معصوم عوام کو اسلام کے نام پر ابھار کر ظلم کروائے جائیں اور وہ کروارہے ہیں.لیکن اس کے باوجود جماعت ہر ضرورت مند کی مدد کرتی ہے کیونکہ یہ ایک احمدی کی امتیازی خصوصیت ہے اور ہونی چاہئے اور یہی فرق ہے جو ایک احمدی اور غیر میں ہے.اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میرے کاموں میں سے ایک اہم کام بنی نوع سے ہمدردی ہے.پھر بنگلہ دیش کیا، پاکستان جہاں احمدیوں کے خلاف ایک ظالمانہ قانون بنا کر احمدیوں کی مذہبی آزادی کے حق
472 خطبہ جمعہ 23 نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کو غصب کیا گیا.خدائے واحد ویگانہ کا حقیقی فہم و ادراک رکھنے والے اور ہر قسم کے شرک سے پاک معصوم احمدیوں کو الله اکبر کہنے پر پابندی لگا دی گئی.عشق رسول عربی ﷺ سے سرشار لوگوں کو حضرت خاتم الانبیاءمحمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجنے سے منع کیا گیا اور اس جرم کی سزا یا ان جرموں کی سزا کئی سال قید ہے.یہ الگ بات ہے کہ احمدیوں کے دلوں سے نہ یہ قانون اللہ تعالیٰ کی محبت چھین سکے ، نہ عشق رسول کے اظہار سے دلوں پر پابندی لگا سکے.لیکن کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ان ظلموں کے باوجود جب پاکستان میں تقریباً دو سال ہوئے شدید زلزلہ آیا جس سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے.کئی آبادیاں زمین میں دفن ہو گئیں، کئی آبادیاں زمین بوس ہوگئیں تو اس وقت بھی ان سب ظلموں کے با وجود، جو حکومت اپنے قانون کے تحت احمدیوں سے روا رکھتی ہے جماعت نے دل کھول کر آفت زدہ اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی کیمپ لگائے ، کئی مہینے خوراک مہیا کی ، علاج معالجہ کی سہولت مہیا کی.باوجود اس کے کہ ہمارے کیمپ میں دوائیوں اور دوسری اشیاء کے سٹور پر ایک دفعہ مخالفین نے آگ بھی لگا دی لیکن ہمدردی کے جذبے کے تحت ہم نے اس کام میں فرق نہیں آنے دیا.پھر زلزلے کے بعد اعصابی امراض کی شکایت بھی بڑھ جاتی ہے، لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں تو کشمیر کے ایک علاقے میں اعصابی امراض کے لئے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے ہیومینیٹی فرسٹ نے اعصابی امراض کا ایک وارڈ بنایا، جسے پورا Equiped کیا.تو ہم نے تو ان کے ظلم کے باوجود اپنا کام کیا اور کئے جاتے ہیں کہ ہماری فطرت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات پیدا کر دی ہے کہ تم نے بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی کرنی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کی حمایت میں وارننگ دیتا ہے اور دیتا چلا جارہا ہے اگر ان لوگوں کو سمجھ آ جائے.اب دیکھیں ایک زلزلہ آیا.ملک کے ویسے حالات پہلے کیا تھے؟ اور پھر اس میں بد سے بدتر حالات ہوتے چلے جارہے ہیں.سیاسی بھی ، معاشی بھی.اب پاکستان میں ہر طرف بے چینی ، فساد قتل و غارت عام پھیلا ہوا ہے.حکومت وقت کچھ کہتی ہے تو اس بات کے مخالف حکومتی کارندے کھڑے ہو جاتے ہیں.حکومت ایک بات کہتی ہے تو عدلیہ دوسری بات کہہ دیتی ہے.سیاستدان ہیں، وہ ملک کی ہمدردی کی بجائے ، ذاتی اناؤں اور عزتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں.پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ لاقانونیت زوروں پر ہے.قانون توڑنے والے بھی اور قانون نافذ کرنے والے بھی اور عدل قائم کرنے والے بھی سب اس دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ اپنی عزتوں کی حفاظت کی جائے اور ملک کو داؤ پر لگایا دیا جائے.پہلے اسلام آباد میں حکومت کے اندر حکومت تھی.اب سوات میں بغاوت پھیلی ہوئی ہے.وہی لوگ جو حکومت کے پروردہ تھے وہی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں.سوات میں دیکھیں کیا ہو رہا ہے.ایک اخبار میں ایک کالم نویس نے کھل کر یہ لکھا ہے کہ یہی شخص جس نے سوات میں اپنی الگ حکومت قائم کی
473 خطبات مسرور جلد پنجم ہے، حکومت کے سامنے سب کچھ کرتا رہا بلکہ اسے حکومت کی مدد بھی حاصل رہی اور جب وہ زور پکڑ گیا اور بغاوت پر آمادہ ہو گیا تو اب حکومت وہاں فوج کا استعمال کر رہی ہے.فوج ملک کے اندر امن و امان قائم کرنے کے لئے استعمال ہورہی ہے.باہر کے دشمن سے تو کوئی خطرہ نہیں، اندر کا دشمن جو سب سے زیادہ خطر ناک ہے وہ ملک کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہے اور فوج کا کام اب اس کو کنٹرول کرنا رہ گیا ہے.74ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے اور ربوہ کو کھلا شہر قرار دینے والے جو یہ کہتے تھے کہ ربوہ میں احمدیوں نے اپنی حکومت قائم کی ہے.اب یہ بتائیں کہ احمدیوں نے اپنی حکومت قائم کی ہوئی تھی یا اب مختلف جگہوں پر ملک کے اندر حکومتیں قائم ہو چکی ہیں.بعض جگہ تو حکومت بالکل بے بس نظر آتی ہے.احمدی تو قانون کی پابندی کرنے والے ہیں، ہمیشہ رہے ہیں، اور رہیں گے انشاء اللہ.انہوں نے تو قانون کے احترام میں اپنی ملکیتی زمین جو دار النصر میں دریا کی طرف، دریا کے قریب ، ربوہ کی زمین تھی وہاں پر قبضہ کرنے والوں سے لڑائی کی بجائے قانون کا سہارا لیا.لیکن قانون وہی ہے کہ طاقت والے سے ڈرو اور طاقت والے کے کام کرو.ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ تو کر دیا کہ اس وقت تک کوئی فریق اس پر کسی قسم کا تصرف نہیں کر سکتا، کوئی تعمیر نہیں کر سکتا جب تک کورٹ فیصلہ نہ کرے.لیکن آج 30-32 سال کے بعد بھی کورٹ کو فیصلہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی.احمدی تو اس حکم کی پابندی کر رہے ہیں.لیکن دوسرا فریق جو اسلام کے نام پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کا گروپ ہے تعمیر پر تعمیر کرتا چلا جارہا ہے اور جب ہائی کورٹ کو کہو کہ یہ ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور یہ ہتک عدالت ہے تو کورٹ کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہتک ہماری ہو رہی ہے، تمہیں کیا فرق پڑتا ہے.بالکل دوہرے معیار ان کے حکموں اور فیصلوں کے ہو گئے ہیں.کہنے کو عدلیہ بڑی انصاف پسند ہے.غرض کہ ہر طبقہ ، ہر محکمہ، کرپشن کے جو اعلیٰ ترین معیار ہیں ان کو چھو رہا ہے.نیکی کے معیار حاصل نہیں کر رہے، برائیوں کے معیار حاصل کرنے کی طرف دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس کی وجہ وہی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمانی حالتیں انتہائی کمزور ہوگئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے.پس آج کل تو لگتا ہے کہ ان نام نہاد اسلام کے ٹھیکے داروں کا ایمان دنیا اور اس کے جاہ و مراتب ہیں.یہ سارے فساد جو ملک میں ہورہے ہیں اور آفات بھی جو آ رہی ہیں ، اگر غور کریں تو اس کا سبب زمانے کے امام کا نہ صرف انکار بلکہ اس کا استہزاء اور اس کے ماننے والوں پر ظلم ہے.اب ایمر جنسی پاکستان میں نافذ ہوئی تو فورا ساتھ ہی دستور کو بھی کا لعدم قرار دے دیا.یہ علیحدہ بحث ہے کہ اختیار ہے یا نہیں یا اس کی کیا قانونی اور آئینی حیثیت ہے لیکن جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس.ملک میں یہی ہوتا آیا ہے.انہوں نے ایمر جنسی بنائی اور دستور کو کالعدم کر دیا.لیکن یہ قانون اتنے جوش اور
474 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم غصے میں بھی نہیں بنایا گیا.اتنے ہوش و حواس ان کے قائم رہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی جو شقیں ہیں وہ قائم رہیں گی ، ان کو نہیں چھیڑا گیا.خاص طور پر اناؤنس کیا گیا کہ وہ قائم ہیں.تو آج کل چاہے وہ حکمران ہیں یا سیاستدان ہیں یا کوئی بھی ہے خدا سے زیادہ ان کو خوف ان لوگوں کا ہے جو مذ ہب کے نام پر فساد پیدا کرتے ہیں اور ہر حکومت انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتی ہے.پس جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ملک کے لئے دعائیں کریں اور دعاؤں کے ساتھ جو پاکستان میں رہنے والے احمدی ہیں، کسی کو بھی کسی بھی طرح کسی بھی شکل میں ان فسادوں میں حصہ دار نہیں بننا چاہئے.با وجود اس کے کہ ہم پر زیادتیاں ہوتی ہیں اور ہورہی ہیں اور آئندہ بھی ہوں گی ، ہم نے قانون کی پابندی کرنی ہے اور وقت کی حکومت کے خلاف کسی قسم کا بھی جو فساد ہے اس میں حصہ نہیں لینا.ہمارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.ہاں یہ ضرور ہے اور جس حد تک ہو سکے یہ کرنا چاہئے کہ اپنے اپنے حلقے میں، اپنے دائرے میں ان لوگوں کو یہ بتانا چاہئے کہ سوچو، غور کرو کہ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں دخل اندازی کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا؟.یہ ہلکے ہلکے جو جھٹکے دیئے جا رہے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے تو نہیں؟ اب غیر لکھنے والے بھی لکھنے لگ گئے ہیں.(غیر سے مراد جو احمدی نہیں ہیں ان کے اپنے لوگ) اور کہنے والے یہ کہنے لگ گئے ہیں، اخباروں میں بھی آتا ہے، اور جگہ بھی بیانات آتے ہیں، گزشتہ کسی خطبہ میں کچھ بیان پڑھ کر بھی سنائے تھے کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے کی وجہ سے ہے.لیکن ان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ خدا تعالیٰ کیوں ناراض ہو رہا ہے ؟ غور کریں کہ کیوں ناراض ہو رہا ہے.ایک دعویٰ کرنے والے نے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا میری تائید میں نشانات دکھائے گا.ان نشانوں کو دیکھو اور غور کرو اور خدا کے بھیجے ہوئے کے انکار سے باز آؤ.اللہ تعالیٰ ظالم کو نہیں چھوڑتا.دنیا کے نمونے ہمارے سامنے ہیں.پاکستان میں صرف ظالمانہ قانون ہی اسمبلی نے پاس نہیں کیا بلکہ اس وجہ سے کئی احمدی صرف اس لئے شہید کئے گئے اور آج تک کئے جارہے ہیں کہ وہ احمدی ہیں، وہ زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں.اس قانون نے جرات دلائی ہے کہ ظالم اپنے ظلموں پر بڑھتا چلا جارہا ہے.گواب حکومت نے ، عدالت نے بعض جگہ ایسے ظالموں کو ایک دو کیسز میں سزائیں بھی دی ہیں لیکن جب تک ظالمانہ قانون قائم ہے جو حکومت بھی آئے گی وہ ان ظلموں میں برابر کی شریک ہوگی.بہر حال ہم نے ان دنیا والوں سے تو کچھ نہیں لینا لیکن ہمدردی کے جذبات سے اور یہ بات کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ، ہم حکومت کو بھی اور عوام کو بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اگر امن قائم کرنا ہے اور خدا کی پکڑ سے باہر آنا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرو.
475 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اپنے ہمسایہ ملک افغانستان سے سبق سیکھو جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دو شہید کئے گئے.جن کے ذکر میں آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس مصیبت اور اس سخت صدمے سے تم غمگین اور اداس مت ہو کیونکہ اگر دو آدمی تم میں سے مارے گئے تو خدا تمہارے ساتھ ہے.وہ دو کے عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا اور وہ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے“.تذكرة الشهادتين.روحانی خزائن جلد (20 صفحه (73 پس آج بھی جو شخص احمدیت کی وجہ سے شہید کیا جاتا ہے اور اپنے ایمان پر حرف نہیں آنے دیتا وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں سے حصہ پانے والا ہے.کیا ان دو کو شہید کر کے احمدیت کا جو پودا تھا اس کو بادشاہ وقت نے اکھیڑ دیا ؟ کیا دنیا سے اس وجہ سے احمدیت ختم ہوگئی ؟ آج گو تھوڑی تعداد میں ہی سہی لیکن احمدی افغانستان میں بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق قومیں جماعت میں شامل کی ہیں.ہر قوم کے سعید فطرت جماعت میں شامل ہورہے ہیں لیکن آپ نے افغانستان کی سرزمین کے بارے میں جو اندار فر مایا تھا اس کو ہم آج تک پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں.آج تک افغانستان میں بے امنی کی کیفیت ہے.خدا کے مسیح کے الفاظ یہ ہیں کہ ”ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.تذكرة الشهادتين.روحانی خزائن جلد 20 صفحه 74 ) فرماتے ہیں ”اے کابل کی زمین ! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بدقسمت زمین ! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے“.تذكرة الشهادتين.روحانی خزائن جلد 20 صفحه 74 پس ہر عقل رکھنے والے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے یہ کافی ثبوت اس بات کا ہونا چاہئے کہ جو شخص ان الفاظ کا کہنے والا ہے وہ یقیناً خدا کا مرسل ہے.خدا کی طرف منسوب کر کے ایک بات کہہ رہا ہے اور آج سو سال بعد تک ہم ان الفاظ کے اثرات دیکھ رہے ہیں.وہ بادشاہ جو مولویوں سے ڈر گیا تھا کیا اسے کوئی مولوی بچا سکا؟ یا اس کے خاندان کو بچا سکا؟ اور پھر آج تک کی بے امنی کی کیفیت کیا اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ یہ الفاظ، یہ انذار خدا کے خاص بندے کے ہیں؟ میں صرف اہل وطن کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عقل کے ناخن لو حکومت بھی اور پڑھے لکھے عوام بھی کہ لوگوں کو خدا نہ بناؤ ، خدا کا حقیقی خوف اپنے دل میں پیدا کرو.پاکستان کی سرزمین مسلمانوں کی آزادی کے لئے لی گئی تھی اور اس سوچ کے ساتھ قائداعظم نے یہ ملک بنایا تھا کہ مسلمانوں کو ظلم سے نکالا جائے.اسلام کی خوبصورت تعلیم کو لاگو کیا
476 خطبات مسرور جلد پنجم جائے ، اس طرح کہ تمام مذاہب کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کا حق دیا جائے.انصاف کے ساتھ پاکستان کے ہر شہری کے حقوق ادا ہوں، بلا امتیاز اس کے کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے.لیکن اگر حکومتیں دوسروں کے مذہب میں دخل اندازی شروع کر دیں، اگر انصاف کا فقدان ہو، اگر ایک طبقے کے حقوق پامال ہوں اور دوسرے کے لئے کہا جائے کہ ٹھیک ہے جو کر رہا ہے وہ کرے، اگر ہتک ہے تو عدالت کی ہے تمہیں کیا ؟ تو یہ انصاف نہیں ظلم ہے.پس جب دنیاوی انصاف کے تقاضے بھی پورے نہ کئے جائیں اور اللہ والوں کو مذہب کے نام پر ظلم کی چکی میں پیسا جائے تو ایسے لوگ ، ایسی حکومتیں پھر خدا تعالیٰ کے انعاموں کی حقدار نہیں ٹھہر تھیں.اس لئے اہل وطن بھی اللہ کا خوف کریں، ہم احمدی بھی سب سے بڑھ کر اپنے وطن سے محبت کرنے والے ہیں.پاکستان کی خاطر ہم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں.تقسیم کے وقت بھی جب پاکستان معرض وجود میں آیا ، اُس وقت بھی ہم نے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور اس کے لئے بڑا کردار ادا کیا.پاکستان کی آزادی میں احمدیوں کا سب سے زیادہ کردار ہے اور مختلف جنگوں میں بھی.آج بھی ہم اہل وطن کی خدمت اور ملک کی ترقی کے لئے اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں جیسا کہ زلزلہ زدگان کی امداد کے سلسلہ میں بیان کر چکا ہوں.آج میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی احمدی ہی ہیں جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہیں جو سب سے زیادہ پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لئے کوشش کرتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں اور ہمارا کام بھی یہی ہے کہ اس کوشش میں اہل وطن کو اپنے اپنے حلقہ میں جیسا کہ میں نے کہا بتا ئیں کہ خدا کا خوف کرو اور ملک کو داؤ پر نہ لگاؤ.پاکستان میں بہت بڑی تعدا د احمدیوں کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے پاکستان بچا ہوا ہے.ورنہ یہ جو نام نہاد محب وطن ہیں ، ان کے کام ایسے نہیں ہیں کہ جو پاکستان کو بچاسکیں.ان کی تو ہر کوشش ایسی ہے کہ پاکستان کے توڑنے کے درپے ہیں.ہر ایک نے پاکستان کو داؤ پر لگایا ہوا ہے.حیرت ہوتی ہے خبریں دیکھ کر.یہاں یورپین پارلیمنٹ کی کارروائی میں نے ٹی وی پر دیکھی ، وہاں ایک ممبر پارلیمنٹ اس بات سے سخت اختلاف کر رہی تھیں اور بڑی شدت سے اس بات کا رڈ کر رہی تھیں کہ پاکستان کی امداد بند کی جائے کیونکہ بعض پاکستانی سیاسی حلقوں سے ہی یہ شور تھا.ان کی دلیل یہ تھی کہ غریب عوام پر اس کا اثر ہو گا.جس مقصد کے لئے ہم امداد دے رہے ہیں وہ جاری رہنی چاہئے.یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ پاکستان کو امداد لینی چاہئے یا نہیں ، ضرورت ہے کہ نہیں لیکن میں سوچ بتا رہا ہوں.جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارے سیاستدانوں میں ایک لیڈر صاحبہ یہ فرما رہی تھیں اور اسی طرح دوسرے لیڈر بھی کہ یورپین یونین اور یورپی ممالک پر زور دیا جائے کہ پاکستان کی امداد بند کریں اور پھر اس طرح حکومت دباؤ میں آئے گی.تو یہ ہیں ملک کے ہمدرد جو شور مچاتے ہیں کہ ہم ہی ملک کو بچانے والے
477 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہیں.غیروں کو بلایا جاتا ہے ، ان سے کوششیں کرائی جاتی ہیں کہ آؤ اور ہماری مدد کرو بلکہ بعض تو اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ گو الفاظ میں تو نہیں لیکن عملاً یہ دعوت دے رہے ہیں کہ آؤ اور ہمارے ملک کو سنبھالو.پس یہ لوگ تو ملک کے ہمدرد نہیں بلکہ ملک کو نقصان پہنچانے والے ہیں.اس بات پر فخر ہے، یہ لیڈر اس بات پر بڑے خوش ہیں کہ ہم نے 90 سالہ مسئلہ حل کر دیا.اللہ رحم کرے ہمارے ملک پر بھی اور ان عقل کے اندھوں کی بھی آنکھیں کھولے.اگر ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو ایسے لیڈر ملک کو دے جو ملک کا در در کھنے والے ہوں، غریبوں کا خیال رکھنے والے ہوں.اپنی ذاتی اناؤں اور مفادات کی بجائے ملک کے مفاد میں کام کرنے والے ہوں.پس اس لحاظ سے ہر احمدی کو دعا کی طرف توجہ دینی چاہئے.خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کو جو پاکستان میں بھی رہتے ہیں اور باہر کی دنیا میں بھی رہتے ہیں.پھر انڈونیشیا کے جو جماعتی حالات ہیں ان کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں.آج کل پھر وہاں ابال آیا ہوا ہے.بعض دور دراز کے چھوٹے قصبوں میں جہاں احمدی تھوڑی تعداد میں ہیں انہیں پھر ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے.ان کے گھروں پر حملے کئے جارہے ہیں.مسجدوں پر حملے کر کے انہیں گرایا جارہا ہے.ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے تا کہ جماعت چھوڑ دیں.اور مقامی طور پر اس کی پشت پناہی بعض حکومتی ادارے کر رہے ہوتے ہیں تا کہ اس فساد کے حوالے سے پھر حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ کیونکہ اس وجہ سے احمدیوں کی جانوں کو خطرہ ہے ( وہی پاکستان والی حکمت عملی اور یا کم از کم جواب جو بیرونی دنیا کو پاکستانی حکومتیں دیتی ہیں کہ ان کی جانوں کو خطرہ ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہونے کا خدشہ ہے ).اس لئے ان کو اسمبلی میں حکومتی سطح پر غیر مسلم قرار دیا جائے تبھی امن قائم ہو سکتا ہے.تو بڑی پلاننگ سے اب انہوں نے یہ ترکیب استعمال کی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ ان کے تمام مکروں کو توڑنے والا ہے اور انشاء اللہ توڑے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ ان کا یہ خیال کہ ہم اس طرح احمدیت کا خاتمہ کریں گے کبھی بھی صحیح ثابت نہیں ہو سکتا.یہ ان لوگوں کی بڑی خام خیالی ہے.پچھلے سو سال سے زائد عرصہ سے یہ کوشش ہو رہی ہے لیکن جہاں بھی کوشش ہوئی ہمیشہ نا کام ہوئے ہیں.اگر کسی انسان کا کام ہوتا تو کب کی جماعت احمد یہ ختم ہو چکی ہوتی.لیکن یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ بڑھے گا اور پھولے اور پھلے گا انشاء اللہ.کوئی نہیں جو اس کو ختم کر سکے.پس اس بات کی تو کوئی فکر نہیں کہ یہ لوگ احمدیت کو ختم کر سکیں یا انڈو نیشیا سے ختم کر سکیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی بڑے مضبوط ایمان کے اور قربانیاں کرنے والے احمدی ہیں.اگر کہیں کوئی اکا دُکا خوفزدہ ہو کر کچھ عرصہ کے لئے کوئی کمزوری ایمان دیکھاتا ہے یا یہ کسی کو خوفزدہ کر لیں تو اللہ تعالی اس سے زیادہ مضبوط ایمان کے احمدی عطا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ یہی سلوک رہا ہے.پاکستان میں غیر مسلم قرار دے کر
478 خطبات مسرور جلد پنجم اس زعم میں کہ احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا کیا نتیجہ نکلا ؟ احمدیت کو تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بڑھ کر وسعت عطا کی.دوسرے نے اور بھی سخت قانون بنایا کہ اب تو کوئی راہ فرار نہیں ہے.لیکن اس سے بھی زیادہ تیزی سے احمدیت پھیلی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پیغام پہنچانے کے وہ وسائل بھی مہیا فرما دیئے جو اگر انسانی منصوبہ بندی ہوتی تو شاید اس پر عمل کرنے کے لئے ہمیں مزید کئی سال درکار ہوتے.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یہ ہر روز نئی شان سے پورا ہوتا ہے.اس لئے اس کی تو کوئی فکر نہیں کہ یہ احمدیت کو ختم کر سکیں گے یا احمدی کے ایمان کو متزلزل کر سکیں گے لیکن یہ فکر ضرور ہے اور اس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے.انڈو نیشیا کے احمدی اور دنیا کے رہنے والے ہر جگہ کے احمدی بھی ہمیشہ یہ یا درکھیں کہ انہوں نے قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا.قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کریں.کسی مخالفت کی وجہ سے ہمدردی خلق سے ہاتھ نہیں اٹھانا.کسی مخالفت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو جوحقیقی اسلام کا پیغام ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسوہ رسول ﷺ کی تعلیم ہے اس کو پھیلانے سے پیچھے نہیں ہٹنا.پس یہ کام تو ہم نے کرنا ہے.اس کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑیں گی ، ابتلاء بھی آئیں گے.الہی جماعتوں کے ساتھ ہمیشہ یہ سلوک ہوتا بھی رہا ہے.لیکن انشاء اللہ تعالی، اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آئے گی.ہمیشہ آتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر اپنی قدرت کے نظارے اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے.ہمارا کام پیغام پہنچانا اور ہمدردی بنی نوع ہے جو ہم نے کرنی ہے.انڈونیشیا میں جب سونامی آیا تھا تو جس علاقے میں یہ سمندری طوفان تھا، اس میں اس سے پہلے بڑی شدید مخالفت تھی.وہاں جا کر بھی ہم نے ان لوگوں کی ضرورتیں پوری کیں اور انہوں نے ہمارے سے مدد بھی حاصل کر لی.تو ہمارے دل تو ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمدردی بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ تیار ہیں اور اس ہمدردی سے پُر رہتے ہیں.ہم نے خدمت کرنی ہے.ان لوگوں نے ، جو ڈنگ مارنے والے ہیں ، ان کی فطرت میں ڈنگ مارنا ہے جس طرح گائے اور بچھو کا قصہ ہے.ایک بچھونے گائے کو کہا کہ مجھے دریا پار کرا دو.اس نے اپنی کمر پر اس کو سوار کر لیا.دریا پار ہو کے جب وہ بچھوا تر نے لگا.تو اس نے گائے کو ڈنگ مارلیا.تو کسی نے کہا تمہیں بچھو کو دریا پار کرانے کی ضرورت کیا تھی.اس نے کہا میری فطرت میں جو اللہ تعالیٰ نے کام رکھا ہے وہ میں کر رہی ہوں اور اس کی فطرت میں جو ڈنگ مارنا ہے وہ اس نے کرنا ہے.تو ہم نے تو خدمت انسانیت کرنی ہے اور اگر کوئی مجبور ہے تو اس کی مدد کرنی ہے قطع نظر اس کے کہ ان لوگوں نے کیا سلوک کرنا ہے.جزا اُن سے نہیں لینی بلکہ خدا تعالیٰ کے پاس ہمارے اجر ہیں اس لئے وہ تو ہم نے کرتے رہنا ہے.جو اُن کا کام ہے وہ یہ کرتے
479 خطبہ جمعہ 23/نومبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم ہیں.ہمارا کام دنیا کو ہر لحاظ سے فیض پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر فیض پہنچانا ہے.پس اس کے لئے ہر احمدی کو اپنی بھر پور کوشش کرتے رہنا چاہئے.دعاؤں اور صبر کے ساتھ یہ کام کرتے چلے جانا چاہئے.خدا تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ظلم ہوتے ہیں ان سے تم نے تھکنا نہیں بلکہ اپنے کام تم صبر سے کئے چلے جاؤ ، جو تمہاری ذمہ داریاں ہیں ان کو ادا کرتے چلے جاؤ اور دعا کرتے رہو.فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة و إِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخشِعِينَ (البقرة: 46) اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یہ یقینا عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہیں.پھر فرمایا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ، إِنَّ اللهَ مَعَ الصبِرِينَ(البقرة: 154) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد مانگو.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس یہ آیات تسلی دلا رہی ہیں کہ نہایت عاجزی سے خدا کے حضور جھکے رہو.یہ ظلم جو مخالفین کی طرف سے ہو رہے ہیں یہ امتحان ہیں.صبر یہی ہے کہ ثابت قدم رہو.یہ تختیاں اور تنگیاں تم پر وارد کی جارہی ہیں ان کے خلاف کسی بھی دنیاوی مدد کی بجائے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر اور جو تعلیم اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے اس پر عمل کرو اور برائیوں سے بچو.انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور ضرور آئے گی اور آخری فتح انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ انشاء اللہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے غلبہ پانا ہے، آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت نے دنیا پر غالب آنا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ اپنے رسولوں کے حق میں فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُوانْتِقَام (ابراهیم (48) پس تو ہرگز اللہ کو اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرنے والا نہ سمجھ.یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور ایک سخت انتقام لینے والا ہے.پس ہر احمدی کو تسلی رکھنی چاہئے کہ انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید ہمیشہ اپنے پیارے کی جماعت کے ساتھ ہے.لیکن یہ دعا بھی مانگیں کہ ان لوگوں کی بے عقلی اور ظلم اور جلد بازی کی وجہ سے یہ کہیں ذُو انتقام خدا کی پکڑ میں نہ آجائیں.وہ غلبہ تو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمانا ہے لیکن اللہ کہتا ہے کہ میں عزیز بھی ہوں ، دو انتقام بھی ہوں اور جو وارننگ مختلف شکلوں میں اللہ تعالیٰ دے رہا ہے اس کو یہ لوگ سمجھنے والے ہوں.مخالفین پر واضح کر دیں کہ ہم تو واضح نشان دیکھ کر زمانے کے امام کو مان چکے ہیں.اس لئے تم عارضی طور پر تو ہمیں تکلیف پہنچاسکتے ہو، چاہے وہ انڈو نیشیا میں ہے یا بنگلہ دیش میں ہے یا سری لنکا میں ہے یا پاکستان میں ہے یا کسی بھی
480 خطبات مسرور جلد پنجم اور ملک میں.تو عارضی تکلیفیں تو تم ہمیں پہنچا سکتے ہو.لیکن اس قبولیت کی وجہ سے، اس ایمان کی وجہ سے، جو دلوں کا سکون ہم نے حاصل کیا ہے وہ دلوں کا سکون تم ہم سے نہیں چھین سکتے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے کہ وہ حقیقی مومنوں کو اطمینان قلب عطا فرماتا ہے.پس ہم تو ہمیشہ اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور یہ دعا بھی کرتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم (الفاتحه : 6) تاکہ تم لوگوں کی ظلم اور زیادتی کی وجہ سے کہیں ہم اپنے راستہ سے نہ بھٹک جائیں اور یہ نہ ہو کہ ہم ظلم کا جواب ظلم سے دینے لگ جائیں.یہ نہ ہو کہ ہم میں بے صبری پیدا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو بھول جائیں کہ اِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِین.پس ہمارا کام صبر کرنا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں.اور اس تعلیم کے مطابق کام کئے جائیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتاری اور جس کا فہم و ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عطا فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوئی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بد بختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان کے ساتھ سخت کراہت سے پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جولوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجے سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ ہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد (20 صفحه 30 اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ اس صدق کے قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق ، آپ کی خواہش کے مطابق حقیقی رنگ میں احمدیت کی تعلیم کو، اسلام کی تعلیم کو سمجھنے والے ہوں.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 14 تا 20 دسمبر 2007ء ص 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد پنجم 481 48 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2007ء بمطابق 30 رنبوت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَئِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران : 19) جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد نیکی اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا ادراک اپنے اندر پیدا کرنا ، اس کے قیام کے لئے عملی تصویر بنا اور دنیا میں بھی اس کو قائم کرنا ہے.اُس خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا.اس کی بے شمار مخلوق اس زمین میں ہی ہے اور یہ زمین کا ئنات کا اتنا معمولی حصہ ہے کہ اس کی حیثیت ایک نقطے سے زیادہ نہیں ہے.پس ہم جو انسان کہلاتے ہیں اور بعض بڑے فخر اور تکبر سے زمین پر چل رہے ہوتے ہیں ، ان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے اس بے حیثیتی کے باوجود ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کا مقام دیا ہے اور ہمارے سپرد بعض کام کئے ہیں اور ہماری پیدائش کی ایک غرض یہ بتائی ہے کہ اس کا ہم نے عابد بننا ہے.لیکن دنیا کی اکثریت اس غرض پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ دنیا کی لہو ولعب نے ، اس کھیل کو د نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.شیطان نے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا ہے.لیکن وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پر ایمان لانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں، وہ اس غرض کو یا در رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ جو تمام قدرتوں کا مالک ہے، غالب ہے، جس نے زمین و آسمان پیدا کیا ہے، خالق ہے، بے شمار قسم کی مخلوق اس زمین پر اُس نے پیدا کر دی ہے.اُس کو اس زمین پر اپنی عبادت کروانے اور اپنی بادشاہت کے قیام کے لئے کسی انسان کی مدد کی ضرورت نہیں تھی.لیکن اس نے اپنے بندوں کو عقل و شعور دے کر اس طرف توجہ دلائی کہ میں نے تمہیں اس عقل و شعور کے ساتھ یہ آزادی بھی دے دی ہے کہ میرے انبیاء جو تعلیم میری طرف سے لے کر آئیں ان پر ایمان لا دیا انکار کر دو.یہ تمہاری آزادی ہے.اگر عقل اور علم کا صحیح استعمال کرو گے تو ایمان لانے والے اور اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہو گے.تو پھر میں تمہیں ان لوگوں میں شمار کروں گا جو میری بادشاہت کے قائم کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں.جو انکار کریں گے ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو شیطان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں.
482 خطبات مسر در جلد پنجم پس فرماتا ہے کہ میرے بندے اور مجھے معبود سمجھنے والے وہی لوگ ہیں جو میری تعلیم اور میرے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں.وہ احکامات جو میں نے انبیاء کے ذریعہ سے نازل فرمائے اور جن کی انتہا آنحضرت ﷺ پر آخری شرعی کتاب قرآن کریم کی صورت میں ہوئی.اب کوئی احکامات لانے والا نہیں مگر وہی جو آنحضرت ﷺ کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے.پس اس تعلیم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں بھیجا تا کہ دنیا کو معبود حقیقی کی پہچان کروائیں.خدا میں اور اس کی مخلوق میں جو دُوری پیدا ہو گئی ہے، جو فاصلے بڑھ گئے ہیں اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں، ان کو ختم کر کے اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان حقیقی تعلق قائم کریں.اب ہم میں سے ہر ایک کا یہی کام ہے کہ اس مشن کو آگے بڑھائے تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے کہلا سکیں گے تبھی ہم خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں میں شمار ہوسکیں گے.خدا تعالیٰ تو زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کا خالق ہے.وہ عزیز ہے.وہ مالک ہے.پہلے بھی میں بتا چکا ہوں.ہر چیز پر قادر ہے.جب چاہے اور جس پر چاہے غلبہ پاسکتا ہے.پھر اس کو ہماری جو ہم عاجز بندے ہیں، ان کی اپنی بادشاہت کے قیام کے لئے مدد کی کیا ضرورت تھی.بادشاہت تو پہلے ہی اسی کی ہے.تو جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو ایک اختیار دیا ہے کہ یہ اچھا ہے، یہ بُرا ہے اور مجھے معبود حقیقی سمجھنے والے ہمیشہ میری عبادت کرنے والے ہیں.نیکیاں کرنے والے ہیں.تقویٰ پر قائم رہنے والے ہیں اور آگے ان باتوں کو دنیا میں پھیلانے والے ہیں.اور جب بندے یہ عمل کر رہے ہوں گے تو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے والے بن رہے ہوں گے اور اس کے بدلے میں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہترین جزا پانے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری جنتوں کے وارث ہوں گے.اس کے مقابلے میں شرک کرنے والے، خدا کے مقابلے میں غیر اللہ کے پیچھے چلنے والے، سزا پانے والے لوگ ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کی ضرورت نہیں بلکہ بندے کی ضرورت ہے کہ معبود حقیقی کا صحیح ادراک اپنے اندر پیدا کرے اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والا بنے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو اس غرض کے لئے بھیجتا ہے تا کہ اُن کے ذریعہ سے معبود حقیقی ہونے کا پتہ دے.وہ انبیاء اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے اور اس کے پیغام کو پہنچانے والے ہوتے ہیں اور جوان انبیاء کے مخالفین ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں پر ظلم و تعدی کرتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے عزیز ہونے کا جلوہ دکھاتے ہوئے اپنے انبیاء کی مدد کرتا ہے، انہیں غالب فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ اپنے معبود حقیقی ہونے کا ذکر فرمایا ہے کہ میں اپنے انبیاء کے مخالفین کو ان کی جماعتوں کے مخالفین کو، ان لوگوں کو جو میری صحیح رنگ میں عبادت کرنے والے ہیں ، میرے پیغام کو سمجھنے والے
483 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم ہیں ان کے مخالفین کو ہمیں سزا دیتا اور پکڑتا ہوں اور ان کا نام ونشان تک مٹا دیتا ہوں.اور بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے، بلکہ اکثر دفعہ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ساتھ ان کی زندگی میں تو یہ خاص سلوک رکھا ہے کہ ان کے مخالفین عبرت کا نشان بن جاتے ہیں.اگر اپنے نبی کے مقابلے میں آنے والے کسی کو محفوظ کیا تو تب بھی اسے عبرت کا نشان بنادیا جیسا کہ حضرت موسیٰ کے مقابلے پر فرعون کو.فرعون جو خدائی کا دعوی دار تھا.جس کو یہ زعم تھا کہ تمام لوگ میری رعایا ہیں.مجھے سجدہ کرنے والے ہیں.میرے سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے اور خدا کیا چیز ہے؟ موت سامنے دیکھ کر اس نے جب معافی مانگنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب وقت گزر چکا ہے.اب تمہاری بقیہ زندگی اور اس کے بعد تمہاری لاش یہ عبرت کا نشان بنی رہے گی کہ یہ خدائی کا دعوی کرنے والا تھا جو عبرت کا نشان بنارہا اور عبرت کا نشان بن کر آج تک پڑا ہے.پس فرعون کا یہ انجام اس غالب خدا نے کسی بندے کے ذریعہ سے تو نہیں کروایا تھا.اس کا یہ انجام تو اس پانی کی وجہ سے ہوا تھا جس کا چڑھنا اور اترنا خدا کے حکم کے مطابق تھا.پس اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت، اپنی بادشاہت قائم کروانے کے لئے نہیں چاہئے بلکہ بندوں کو جو اس کے حکموں پر چلنے والے ہیں جزا دینے کے لئے ہے اور پھر اتنا بڑا انعام کہ تم میری وحدانیت کو قائم کر کے میری بادشاہت کے قیام کرنے والوں میں شمار ہورہے ہو.پھر دیکھیں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ خدا کا سلوک جسے خدا نے تمام دنیا میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا.ایک یتیم بچہ جو بچپن سے ہی خاموش اور علیحدہ رہنے والا تھا لیکن خدا نے آپ ﷺ پر ہی نظر ڈالی کیونکہ آپ سب سے بڑے عابد تھے.اللہ تعالی بتانا چاہتا تھا کہ تم اس شخص کو جس کا بچپن یتیمی میں گزرا.جو اپنے کام سے کام رکھنے والا ہے.بظاہر دنیا کی نظر میں کمزور ہے.لیکن میں نے اسے بچپن سے ہی اپنے اُس کام کے لئے چن کر تیار کر لیا ہے جو دنیا کی رہنمائی کا کام ہے اور یہ میرا وہ حقیقی عابد ہے جس کے مقابلے کا کوئی عابد نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسانوں میں میری صفات کا کوئی حقیقی پر تو ہو سکتا ہے تو یہ انسان کامل ہے.پس اے مکہ والو! جسے آج تم کمزور سمجھ رہے ہو، کل یہ تمہارا حکمران ہوگا.مکہ کے ابتدائی حالات دیکھیں.کیا کیا ظلم تھے جو آپ پر روا نہیں رکھے گئے یا وہ ظلم آپ کے ماننے والوں پر نہیں ہوئے.ان کے واقعات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ آپ کے خلاف قتل تک کے منصوبے ہوئے لیکن فتح مکہ اس بات پر گواہ ہے کہ وہ معبود حقیقی جو عزیز اور غالب ہے جس کے آگے آپ مجھکتے تھے.اس کے آگے اس کا عابد بندہ اور کامل انسان ہی آخر کو غالب آیا اور کفار مکہ کے وہ بُبت جن کی تعداد 360 تک پہنچی ہوئی تھی کچھ کام نہ آ سکے.وہ بت جو انہوں نے خدا کے مقابلے پر گھڑے ہوئے تھے وہ ان کے کسی بھی کام نہیں آسکے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قُلْ اَرُونِيَ الَّذِينَ الْحَقْتُم بِه شُرَكَاءَ كَلَّا بَلْ هُوَ اللهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سبا: (27) تو کہہ دے کہ مجھے وہ دکھاؤ تو سہی جنہیں تم نے شرکاء کے طور پر ان کے ساتھ ملا دیا ہے.ہرگز ایسا نہیں بلکہ وہی اللہ ہے جو کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.
484 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پس فتح مکہ اور آنحضرت ﷺ کی زندگی میں عرب کے وسیع علاقہ میں بلکہ باہر تک بھی اسلام کا پھیل جانا اُس معبود حقیقی کے عزیز ہونے کا بڑا روشن نشان ہے جس کی عبادت آنحضرت ﷺ نے کی اور اپنے ماننے والوں سے کروائی اور پھر وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنے والے بنے.وہ شریک جو کفار نے اللہ تعالیٰ کے بنا کر خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے ، وہ تو ان کے کچھ کام نہیں آسکے.غلبہ تو اسی عزیز خدا کو حاصل ہوا جس کی عبادت میں حکمت ہے.بتوں کی عبادت میں کیا حکمت ہو سکتی ہے.اگر ہے تو اللہ تعالیٰ کا چیلنج ہے کہ دکھاؤ.لیکن نہیں دکھا سکتے.کوئی بھی شریک جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہے جس کو تم طاقتور سمجھتے ہو اس کی طاقت کا اظہار تو کر کے دکھاؤ لیکن نہیں کر سکتے.پھر آنحضرت ﷺ کا دور ختم نہیں ہو گیا.آپ کی وفات کے بعد یا آپ کے خلفاء کی وفات کے بعد ہر صدی میں اللہ تعالیٰ کی حکومت دلوں میں قائم کروانے اور بچے اور واحد و یگانہ خدا کی پہچان کروانے کے لئے مجدد پیدا ہوتے رہے.اور پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی بشارت اور پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے.آپ کا ابتدائی زمانہ دیکھیں کیا تھا.اپنے گھر والوں کی عدم توجہ کا شکار.اس لئے کہ دنیا سے بے رغبتی تھی.اس لئے کہ صرف اور صرف معبود حقیقی سے لو لگائی ہوئی تھی جس کی وجہ سے بعض دفعہ گھر والے آپ کے لئے کھانے وغیرہ کا بھی کوئی خیال نہیں رکھتے تھے.لیکن جب معبود حقیقی نے آپ کو اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے چنا تو وہی شخص جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ دیکھ لو مسجد کے کسی کونے میں پڑا ہو گا یا یہ الفاظ سننے کو ملتے تھے کہ یہ لڑکیوں کی طرح شرماتا ہے اور لوگوں کے سامنے آنے سے ڈرتا ہے.وہی کمزور شخص معبود حقیقی کا حقیقی عبد بنا اور تمام دنیا نے اس کے علم و عرفان سے پر کلام کے وہ نظارے دیکھے کہ حیران و ششدر رہ گئے.وہی جولڑکیوں کی طرح شرمانے والا کہلاتا تھا، جادو بیان مقرر کہلایا.آج اس کے علم کلام کو دنیا حیرت کی نظر سے دیکھتی ہے.کئی عرب جو انصاف کی نظر سے دیکھنے والے لوگ ہیں.آپ کا عربی کلام پڑھ کر مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ کلام خدا کے کسی خاص تائید یافتہ بندے کا ہی ہو سکتا ہے.آج اس شخص کو ماننے والے جو دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں یہ اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود جس طرح چاہتا ہے اپنی بادشاہت قائم کرتا ہے.ہمیں تو خدا تعالیٰ پاک لوگوں سے تعلق جڑوا کر اپنے حقیقی معبود ہونے کا فہم و ادراک دلوار ہا ہے تا کہ ہم اس معبود حقیقی کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کر کے اس کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں.پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ عرب کے اس فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تھیں جس نے ہزاروں لاکھوں مردے زندہ کر دیئے اور آج بھی اس فانی فی اللہ کے عاشق صادق کی دعائیں ہی ہیں جو جماعت کی ترقی کا باعث بن رہی ہیں اور اگر ہماری کسی کوشش میں کوئی پھل لگ رہا ہے تو ان دعاؤں کے طفیل ہی لگ رہا ہے اور ہم مفت میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنے والے کہلا رہے ہیں.لیکن ہم یہ پھل اس وقت تک کھاتے رہیں گے جب تک ہم
خطبات مسرور جلد پنجم 485 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء اس معبود حقیقی کی طرف جھکتے چلے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کے مقام عبودیت کا حقیقی فہم و ادراک دلواتے ہوئے ہمیں اس اُسوہ پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک رسول آیا تا کہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صد ہا سال سے بہرے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ کون اندھا ہے اور کون بہرا، وہی جس نے تو حید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر تو حید کو قائم کیا.وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے با اخلاق انسان یعنی بچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا اور پھر با اخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الہی رنگ سے رنگین کیا.وہی رسول، ہاں وہی آفتاب صداقت ، جس کے قدموں پر ہزاروں مردے شرک اور دہریت اور فسق و فجور کے جی اٹھے.(مجموعه اشتهارات جلد دوم صفحه 8 جدید ایڈیشن مطبوعه (ربوه پس حقیقی با اخلاق وہی ہے جو ظاہری اخلاق سے ترقی کر کے معبود حقیقی کی پہچان کرے اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ آپ دنیا کو معبود حقیقی کی پہچان کروانے کے لئے آئے تھے اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا بھی یہی مقصد ہے اور آپ کو ماننے والوں ، وہ جوحقیقی ماننے والے ہیں، کا بھی یہی مقصد ہونا چاہئے.کہ صرف ظاہری دنیا وی اخلاق ہی سمح نظر نہ ہوں بلکہ معبود حقیقی کا حقیقی عابد بننے کی ہم کوشش کریں اور دنیا کو بھی اس سے آگاہ کریں.ظاہری دنیا وی اخلاق رکھنے والے جن کا خدا کا خانہ خالی ہے ان کا حال تو حضرت خلیفہ ثانی نے ایک دفعہ یوں بیان فرمایا تھا کہ ایک مجلس ہوئی جس میں بہت پڑھے لکھے لوگ اور بڑے با اخلاق اور بڑے معاشرے کے اعلیٰ اخلاق کے کہلانے والے اور سوبر (Sober) کہلانے والے لوگ تھے.اس مجلس میں دوستوں نے کہا کہ ہم تکلف، تصنع اور رکھ رکھاؤ سے تنگ آ گئے ہیں.یہ ضرورت سے زیادہ تکلف شروع ہو گیا ہے.اس تکلف نے ہماری زندگیاں اجیرن کر دی ہیں تو آج کی اس مجلس میں جو دوست بیٹھے ہیں یہ بے تکلف ہونی چاہیئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھا کہ دائرہ اخلاق میں رہتے ہوئے بے تکلفی کی مجلس ہو گی.لیکن فرماتے ہیں کہ وہاں ایسا طوفان بدتمیزی تھا اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں تھیں کہ وہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا.کچھ عرصہ ہوا مجھے بھی ایک عزیز نے بتایا کہ پاکستان میں جو بظاہر پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا طبقہ ہے یا کہلاتا ہے.ان ہے.ان کی مجالس میں اتنی اخلاق سوز اور بے ہودہ حرکتیں ہوتی ہیں کہ ان مجالس میں کوئی احمدی تو کیا وہاں کوئی بھی شریف آدمی جس میں ذرا بھی شرافت ہو نہیں بیٹھ سکتا.تو ان لوگوں کی یہ حرکتیں تو ہوں گی کیونکہ معبود حقیقی سے دور جانے والے ہیں.
486 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اس کی پہچان کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے.معبود حقیقی کی بادشاہت تو اس وقت قائم ہوگی جب نیکی اور تقوی قائم ہوگا یا اس کی بادشاہت قائم کرنے والے تب کہلا سکیں گے جب اعلیٰ اخلاق، دنیاوی اخلاق کے ساتھ دینی اخلاق کے بھی اعلیٰ معیار حاصل ہوں گے، عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار حاصل ہوں گے.پس اس زمانے میں بھی با اخلاق اور باخدا بننے والے وہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے پھر اس کے حقیقی حسن کو سمجھا اور دیکھا ہے اور آج بھی ہمیں حقیقی کا میابیاں اُسی وقت حاصل ہوں گی جب ہم باخدا انسان بنے کی کوشش کریں گے.معبود حقیقی کو پہچانیں گے.پس اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر احمدی کو اس اصل کو پکڑنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری کامیابی ، ہماری ترقی چاہے انفرادی ہو، چاہے جماعتی ہو اس کا راز معبود حقیقی کی عبادت میں ہے.اللہ تعالیٰ نے صفت عزیز کے ذکر میں قرآن کریم میں اس طرف توجہ دلائی ہے.تمام انبیاء کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے اور آج بھی مومنین کی ترقی اسی سے وابستہ ہے.اس وقت میں قرآن کریم کی چند آیات پیش کرتا ہوں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود حقیقی ہونے کے ساتھ صفت عزیز کا ذکر فرمایا ہے.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے آل عمران کی 19 ویں آیت ہے.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاف پر قائم رہتے ہوئے شہادت دیتا ہے کہ اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور فرشتے بھی اور اہل علم بھی یہی شہادت دیتے ہیں کوئی معبود نہیں مگر وہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا.اس آیت سے پہلے کی آیات میں بھی ایمان لانے والوں کے استغفار کا بیان ہے اور پھر یہ کہ وہ صبر کرنے والے ہیں.سچ بولنے والے ہیں.فرمانبردار ہیں.اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر اپنے معبود حقیقی کے آگے استغفار کرتے ہوئے جھکنے والے ہیں.پس ایسے لوگ ہیں جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانتے ہیں اور اس کی بادشاہت اپنے دلوں میں قائم کرتے ہیں اور دنیا میں بھی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں.پس یہ گواہی جو اللہ نے دی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے یہ گواہی فرشتے بھی دیتے ہیں اور علم رکھنے والے بھی دیتے ہیں.یہ یونہی گواہی نہیں ہے اللہ تعالیٰ یہ بات انصاف کے ساتھ کر رہا ہے.علم رکھنے والے کون لوگ ہیں جو گواہی دے رہے ہیں؟ یہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں اسی طرح انبیاء کی تعلیم کو حقیقی طور پر ماننے والے ہیں.ایسے لوگ جو خدائے واحد کی پرستش نہیں کرتے وہ چاہے جتنا بھی اپنے آپ کو اہل علم کہیں ، اپنے آپ کو عقل و شعور والا کہیں ، اللہ تعالیٰ کی گواہی یہ ہے کہ وہ دنیا وی آنکھ رکھنے والے تو ہیں لیکن دین کی آنکھ ان کی اندھی ہے.اپنے مقصد پیدائش کو وہ بھولنے والے ہیں.جو یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ کسی نبی نے کہا کہ مجھے خدا کے برابر ٹھہراؤ وہ جھوٹے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ اولوا علم تو انبیاء ہوتے ہیں اور وہ کبھی یہ حرکت نہیں کر سکتے.پس یقینا یہ الزام جو حضرت عیسی پر لگایا جاتا ہے یہ بعد میں آنے والوں کا الزام ہے جو آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے برابر
487 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ہیں.انہوں نے تو کبھی نہیں کہا اور نہ کہ سکتے تھے.وہ تو اللہ تعالیٰ کے سچے نبی تھے.قرآن کریم کی رو سے ایسے لوگ اہل علم نہیں کہلا سکتے.اللہ تعالیٰ تو واحد ہے، غالب ہے اور حکمت والا ہے.کیا جب وہ عزیز ہے اور سب طاقتوں کا مالک ہے تو کیا اسے کسی مددگار معبود کی ضرورت ہے؟ اس طرح تو پھر ہر خدا اپنی اپنی مرضی کرنے لگ جائے گا اور تمام کائنات کا نظام تہ و بالا ہو جائے گا.یہ گواہی اللہ تعالیٰ نے دی ہے.اسلام تو خدا تعالیٰ کا یہ تصور پیش کرتا ہے کہ اس کا ہر فعل حکمت سے پُر ہے.کیا یہ حکمت ہے کہ مقابلے پر اور خدا کھڑے ہوں؟ ایک عام عقل کا آدمی بھی ایسی حکمت سے عاری بات نہیں کر سکتا کہ اس کے دائرہ اختیار میں کوئی دوسرا ہر وقت دخل دینے والا ہے.کجا یہ کہ خدا تعالیٰ جو عزیز ہے اور تمام دوسری صفات کا بھی جامع ہے اس کی طرف یہ باتیں منسوب کی جائیں.تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سورۃ المومن میں فرماتا ہے کہ تَدْعُونَنِيْ لا كُفَرَ بِاللَّهِ وَاشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِى بِهِ عِلْمٌ وَّاَنَا اَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ (المومن: 43) کہ تم مجھے بلا رہے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا انکار کر دوں اور اس کا شریک اسے ٹھہراؤں جس کا مجھے کوئی علم نہیں اور میں کامل غلبے والے اور بے انتہا بخشنے والے خدا کی طرف بلاتا ہوں.پس یہ عقل والوں کا جواب ہے.یہ انبیاء کا جواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کوسکھایا اور انبیاء کے ذریعے سے ان کے ماننے والوں کو سکھایا.اور جگہوں پر یہ بھی ہے کہ تم جس طرف بلا رہے ہو اس کی دلیل کیا ہے.کیا ایسے خداؤں پر میں ایمان لاؤں جو کسی قسم کا نفع یا نقصان کی طاقت نہیں رکھتے.یہ تو ایسی باتیں ہیں جو عقل سے عاری لوگوں کی باتیں ہیں.میرا خدا تو وہ غالب خدا ہے جو میرے گناہوں کو بخشنے والا ہے اگر میں اس کے آگے جھکتے ہوئے استغفار کروں.پس یہ جہالت کی باتیں تم تو کر سکتے ہو، میں نہیں کر سکتا.جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مکمل ادراک ہو چکا ہے.کیونکہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے نورا ایمان سے بھر دیا.یہ ایک مومن کا جواب ہوتا ہے.اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہو میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو.پس میں تو تمام طاقتوں والے خدا کی طرف بلاتا ہوں جو تمہیں نجات دے گا اور تم استغفار کرتے ہوئے اس کے آگے جھکوتا کہ اب تک جو برائیاں ہو چکی ہیں اس سے بخشے جاؤ اور نجات پاؤ اور پھر جب ایمان میں ترقی کرو گے، اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نجات سے اوپر کے بھی راستے ہیں.جیسا کہ فرمایا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (المومنون :2-3) یقیناً مومن فلاح پاگئے، اپنی مراد کو پہنچ گئے.صرف گنا ہوں سے بخشش نہیں ہوتی بلکہ جو ایمان میں ترقی کرتے ہیں.جو یہ تڑپ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کریں.پھر وہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں.ان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں.ہر نئے درجے پر پہنچ کر انہیں مزید نئے درجے حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.پس یہ ہے معبود حقیقی سے تعلق پیدا کرنے والوں کا مقام کہ درجوں کے بڑھنے کے بعد درجے ختم نہیں ہو جاتے بلکہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے.اب کوئی ہوش مند یہ فیصلہ کر سکتا ہے
488 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم کہ شرک کر کے آگ کے عذاب میں پڑے؟ وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا فہم و ادراک عطا فر ما دیا کیا وہ یہ سوچ سکتا ہے کہ ان لوگوں کی باتیں سن کر آگ کا عذاب سہیڑے؟ بجائے اس کے کہ جو اونچی چوٹیاں ہیں ، نیکیوں کی تلاش ہے ان کو حاصل کرے.پھر اللہ تعالیٰ سورۃ الحج میں فرماتا ہے مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج: 75) انہوں نے اللہ کی ایسی قدر نہیں کی جیسا اس کی قدر کا حق تھا.یقینا اللہ تعالیٰ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے.یعنی تم اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کو اپنی طاقتوں پر قیاس نہ کرو.اور اپنی طاقتوں پر قیاس کرتے ہوئے یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کی طاقتیں بھی محدود ہیں.وہ قومی ہے.عزیز ہے اور اس کی طاقتیں لامحدود ہیں.تم کو اس کی طاقتوں کا اندازہ نہیں ہے.اس لئے شریک ٹھہراتے ہو.تو یا درکھو اللہ تعالیٰ تو بہت طاقت والا ہے.اس کی قوتوں کا اندازہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے.اگر عقل کا صحیح استعمال ہوا اور زمین اور آسمان کی پیدائش پر ہی غور کرو تو اندازہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کیا کیا عجائبات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت اور اس سے پہلی آیت کو جوڑ کر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ.وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذَّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِدُوهُ مِنْهُ، ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ.إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج : 74-75) کہ جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو، وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ کبھی سے چیز واپس لے سکیں.ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں.کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے.نہ اس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے.ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 374-375 | جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ خدا کی حقیقی صفات کا ادراک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے احمدیوں میں پیدا کیا ہے.دوسرے اس تک پہنچ ہی نہیں سکتے.دوسرے مسلمان آج کل با وجود آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے، اللہ تعالیٰ کی صفات کا حقیقی ادراک نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ کو عزیز ماننے کے باوجود، سب قدرتوں کا مالک ماننے کے با وجود بعض ایسے نظریات رکھتے ہیں جن سے لاشعوری طور پر خدا کے شرک کا اظہار ہوتا ہے.مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر بیٹھنا سمجھنا.ابھی بہت بڑا طبقہ اس نظریے پر قائم ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کا ظاہری طور
خطبات مسرور جلد پنجم 489 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء پر پرندے پیدا کرنا.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ انسان یا جو بھی اس کے مقابلے پر شریک کھڑے کئے جائیں ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، کجا یہ کہ تم کہتے ہو کہ فلاں انسان نے زندہ پرندے بنا کر پیدا کر دیئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ لکھا ہے.( یہ لطیفہ ہی ہے ) کہ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ مسیح نے پرندے پیدا کئے ہیں اور ہوا میں جو پرندے اڑ رہے ہیں ان میں سے کچھ مسیح نے پیدا کئے ہوں گے کچھ خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں.تو آپ ان میں کوئی فرق کر کے دکھا سکتے ہیں؟ جن سے پتہ لگے کہ مسیح کے پیدا کردہ پرندے کون سے ہیں اور خدا تعالیٰ کے پیدا ہونے والے پرندے کون سے ہیں.تو مولوی صاحب پنجابی میں کہنے لگے.اے تے ہن مشکل اے اور دونوں رل مل گئے نہیں“.(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 406 ) کہ اب تو یہ بہت مشکل بات ہو گئی ہے کیونکہ جو مسیح نے پرندے پیدا کئے تھے اور جو اللہ تعالیٰ نے پرندے پیدا کئے تھے اب دونوں اس طرح مل گئے ہیں کہ ان کی پہچان مشکل ہے.یہاں بیٹھے ہوئے ہوا میں پہچانے نہیں جا سکتے کہ کون کس کا پیدا کیا ہوا ہے.تو یہ حال ہے ہمارے بعض علماء کا جن کے پیچھے چل کر بعض معصوم لوگ اپنے ایمان کو بھی خراب کرتے ہیں.پس احمدی کو اس واحد خدا کی طرف ہمیشہ جھکنا چاہئے جو سب طاقتوں کا سر چشمہ ہے.ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے.کوئی نہیں جو اس کی طاقتوں کا مقابلہ کر سکے اور یہی خدا کی بادشاہت دلوں میں پیدا کرنے کا طریق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجاثية : 38) اور اسی کی ہے ہر بڑائی آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی اور وہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.پس اس خدا کے سامنے ہمارا ہر وقت سر جھکے رہنا چاہئے.ہر قسم کے شرک سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس معبود حقیقی کے آگے ہمیں جھکنا چاہئے کہ اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے.وہی ہے جو تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہے.عزیز خدا ہے، حکیم خدا ہے جس کے ساتھ وابستہ رہ کر غلبہ عطا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے، ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں مُنادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں.اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحه 21-22 )
490 خطبہ جمعہ 23 /نومبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم پھر آپ فرماتے ہیں: ”اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہما را ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قومی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے.اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے نہ اس کے تصرف سے.نہ اس کے خلق سے اور ہزاروں در و داور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے.جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا سچا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بے شمار حسن والا ، احسان والا ، اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں“.(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحه 363 | پس ہمیں اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنے خدا سے اتنا تعلق پیدا کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلق کو دیکھ کر اور اس کے ہمارے حق میں صفت عزیز کے اظہار کو دیکھ کر اور تمام دنیا میں نیکی اور تقویٰ کے قائم کرنے کی خواہش اور کوشش کو دیکھ کر اور ہمارے غلبہ کو دیکھ کر غیر کے منہ سے بھی یہ الفاظ نکلیں جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ (الحجر: 3) یعنی با اوقات وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا یہ چاہیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے.پس ہماری عبادتوں کے معیار، ہمارا خدا تعالیٰ پر انحصار اور ہمارا مقصد جب تک اس حد تک نہ چلا جائے کہ دوسرے مجبور ہوں کہ اس کا اظہار کریں ہمارا عبد بنے کا دعویٰ اور ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے کوشش مکمل نہیں ہوگی.یہ ٹھیک ہے کہ عبادتیں کسی کو دکھانے کے لئے نہیں کرنی.نیکی اور تقویٰ کسی سے انعام کے لئے نہیں دکھانا.لیکن اس لئے ضرور ہونا چاہئے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے سفیر ہیں اور ہمارا مقصد دنیا میں خدا اور رسول ﷺ کی بادشاہت قائم کرنا ہے.آج کی دنیا میں یہ بہت بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج کو ہر احمدی کو قبول کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی عابد اور موحد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 21 تا 27 دسمبر 2007 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 491 49 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء فرمودہ مورخہ 07 دسمبر 2007ء بمطابق 07 فتح 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا گزشتہ چند خطبوں سے صفت عزیز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف آیات میں جو مختلف مضامین بیان کئے ہیں اُن کا ذکر کر رہا تھا.جیسا کہ میں نے صفت عزیز کے مضمون کے شروع میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے صفت عزیز کا جہاں بیان فرمایا ہے ان آیات میں تقریباً نصف جگہ پر عَزِیز اور حکیم کو ملا کر بیان کیا ہے.تو آج میں صفت حکیم کا بیان کروں گا.گو کہ صفت عزیز کے ساتھ آیات کی وضاحت میں صفت حکیم کا بھی کچھ بیان ہو چکا ہے لیکن اس لفظ حکیم کے لغوی معنی اور ان معنوں کے اللہ تعالیٰ کی ذات کے تعلق میں یعنی لفظ حکیم جب خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بولا جاتا ہے، جب اس کی صفت کا بیان ہوتا ہے، تو اس کے حقیقی معنی کیا ہیں، پہلے اس کا بیان صحیح طریقے سے نہیں ہو سکا ، وہ میں آج مختلف لغات اور تفسیروں سے بیان کروں گا.لسان العرب میں لکھا ہے.کہا گیا ہے کہ الحکیم حکمت والے کو کہتے ہیں.عربی کے الفاظ یہ ہیں کہ قیل الْحَكِيمُ ذُو الْحِكْمَة یعنی حکمت والے کو حکیم کہتے ہیں اور الحكمة سے مراد یہ ہے کہ افضل ترین اشیاء پر ، افضل علوم کے ذریعہ اطلاع پانا.اور اس کو بھی الحکیم کہتے ہیں جو مختلف امور کے اسرار ورموز کو مد نظر رکھ کر انہیں عمدگی اور مہارت سے بجالائے.یعنی افضل ترین اشیاء بہترین اشیاء مثلاً پیدائش کے لحاظ سے ،خصوصیات کے لحاظ سے، بناوٹ کے لحاظ سے، مقام کے لحاظ سے،مرتبہ کے لحاظ سے، علم کے لحاظ سے ، غرض ہر لحاظ سے جو بہترین چیزیں ہیں ان کا کامل علم اور مکمل طور پر احاطہ کرنا.یہ حکمت سے مراد ہے.اور پھر ان کی گہرائی تک علم حاصل کرنا اور وَالحَکیم عالم اور صاحب حکمت کو بھی الحکیم کہتے ہیں.پھر لکھا ہے کہ حدیث میں قرآن کریم کی صفت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ وَهُوَ الذَّكُرُ الحَکیم یعنی یہ قرآن تمہارے لئے حاکم ہے اور تم پر حاکم ہے یا یہ ایسی محکم کتاب ہے جس میں کوئی اختلاف اور اضطراب نہیں.صاف احکام ہیں، کوئی ابہام نہیں، جن سے کسی قسم کے نقصان کا احتمال کرتے ہوئے انسان ڈرے.لیکن اس کے سمجھنے کے لئے تقویٰ شرط ہے.صاف دل ہونا شرط ہے.اس محکم کتاب کو ، جو خدائے حکیم کی طرف سے نازل ہوئی، سمجھنے کے لئے اپنی استعدادوں کے مطابق حکیم ہونا ضروری ہے تب ہی اس کے محکم ہونے کی سمجھ آئے گی.
خطبات مسرور جلد پنجم 492 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے ایک جگہ فرمایا ہے کہ: علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے.دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے.صرف ونحو طبعی، فلسفہ، ہیئت و طبابت پڑھنے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم وصلوٰۃ کا پابند ہو اور امر الہی اور نواہی کو ہر وقت مد نظر رکھتا ہو، اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکومت کے نیچے رکھے.بلکہ بسا اوقات عموماًدیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلبگار دہر یہ منش ہو کر ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں.آج دنیا کے سامنے ایک زبر دست تجر بہ موجود ہے.فرماتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ باوجود یکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں.دنیاوی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں.اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت ہی قابل شرم ہے.لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوئے ہیں ہم تو اُن کا ذکر بھی نہیں کر سکتے.مگر علوم آسمانی اور اسرار قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے.اس میں توبتہ النصوح کی ضرورت ہے.جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھالے اور اس کے جلال اور جبروت سے لرزاں ہو کر نیازمندی کے ساتھ رجوع نہ کرے قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قوی کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں.پس اس کے لئے تقوی بطور کر دبان کے ہے یعنی ایک سیڑھی کے طور پر ہے.ایک اوپر لے جانے والا جو کوئی ذریعہ ہے، اس طور پر تقویٰ ہے.اس کو سمجھنے کے لئے تقویٰ ایک انتہائی ضروری چیز ہے.فرماتے ہیں کہ پھر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ بے ایمان ، شریر، خبیث النفس، ارضی خواہشوں کے اسیر، ان سے بہرہ ور ہوں.اس واسطے اگر ایک مسلمان ، مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف ونحو، معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو، دنیا کی نظر میں شیخ الکل فی الکل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر تز کیہ نفس نہیں کرتا تو قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا“.فرماتے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی توجہ ارضی علوم کی طرف بہت جھکی ہوئی ہے اور مغربی روشنی نے تمام عالم کو اپنی نئی ایجادوں اور صنعتوں سے حیران کر رکھا ہے.مسلمانوں نے بھی اگر اپنی فلاح اور بہتری کی کوئی راہ سوچی تو بد قسمتی سے یہ سوچی ہے کہ وہ مغرب کے رہنے والوں کو اپنا امام بنالیں اور یورپ کی تقلید پر فخر کریں.یہ تو نئی روشنی کے مسلمانوں کا حال ہے.جو لوگ پرانے فیشن کے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو حامی دین متین سمجھتے ہیں ، ان کی ساری عمر کی تحصیل کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ صرف ونحو کے جھگڑوں اور الجھیڑ وں میں پھنسے
خطبات مسرور جلد پنجم 493 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء ہوئے ہیں اور ضالین کے تلفظ پر مرمٹے ہیں.کہ ضالين کس طرح کہنا ہے." قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں اور ہو کیونکر جبکہ وہ تزکیہ نفس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے“.(ملفوظات جلد اوّل صفحه 282-283 جدید ایڈیشن) | تو آپ نے فرمایا کہ جونئی روشنی کے چاہنے والے ہیں وہ بھی تقویٰ سے عاری ہیں اور جو اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں وہ بھی تقوی سے عاری ہیں اور جب تک تقوی نہ ہو قر آنی علوم حاصل نہیں ہوتے.پھر اس کے معنی کے لحاظ سے میں آگے چلتا ہوں.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ حکمت کا مطلب علم اور عقل کی مدد سے حق بات تک پہنچ جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے صاحب حکمت ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کی اشیاء کے بارہ میں معرفت اور ان کو غایت درجہ تک تکمیل اور عمدگی کا حامل بنا کر وجود میں لانا.یعنی اللہ تعالیٰ کی کسی بھی چیز اور اس کی تکمیل کے بارے میں جو معرفت ہے اس کو عمدگی کا حامل بنا کر وجود میں لانا ، کوئی اس میں نقص نہ رہنے دینا.اور انسان کے صاحب حکمت ہونے سے مراد ہے، ان وجود میں لائی گئی اشیاء کی معرفت حاصل کر لینا اور بھلائی کے کام کرنا.اللہ تعالیٰ کی پیدائش کے بارے میں معرفت حاصل کرنا علم حاصل کرنا.تو دنیاوی علم حاصل کرنا بھی جو کہلاتا ہے وہ منع نہیں ہے.قرآن کریم میں اس کی طرف رہنمائی بھی فرمائی گئی ہے.لیکن تقوی سے عاری ہو کر صرف اسی کو سب کچھ سمجھنا اور دین کا خانہ خالی رکھنا ، یہ چیز حکمت سے عاری ہے.پھر کہتے ہیں کہ جب اللہ کے بارہ میں کہا جائے کہ وہ حکیم ہے تو اس سے وہ معانی مراد نہیں ہوتے جو معانی کسی انسان کو حکیم کہنے سے ہوتے ہیں.اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الیس اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَكِمِينَ (التين : 09) کہ اللہ تعالی سب حاکموں سے بڑھ کر حا کم ہے، یہ بھی اسی لفظ سے نکلا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف لغات کے حوالے سے حکمت اور حکیم کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں.الْحَکیم کا ایک معنی عالم کا ہے.پھر ایک معنی صَاحِبُ الْحِكْمَة کے ہیں ( حکمت والا ).ایک معنی تمام کاموں کو اچھی طرح کرنے والا.جس کے کاموں کو کوئی بگاڑ نہ سکے.اور حکمت کے معنے ہیں، عدل ، علم، حلم یعنی دانائی.پھر ایک معنی ہیں ہر وہ بات جو جہالت سے روکے، ہر وہ کلام جو سچائی کے موافق ہو.بعض کے نزدیک اس کے معانى وَضْعُ الشَّيْ ءٍ فِی مَوْضِعِہ کے ہیں.یعنی ہر امر کو اس کے مناسب حال طور پر استعمال کرنا.نیز اس کے ایک معنی صَوَابُ الْامْرِ وَسِدَادُهُ.بات کی حقیقت اور اس کا مغز حکم جو حکیم کا مادہ ہے، اس کے معانی ہیں.اصلاح کی خاطر کسی کو کام سے روکنا اور اسی وجہ سے جانور کی لگام کو حَكَمَة کہتے ہیں.تفسیر کی کتاب روح المعانی میں آیت قَالُوا سُبحَنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيمُ (البقرة: 33) کی علامہ محمود آلوسی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں فرشتوں نے علم کو بکمالہ اللہ تعالیٰ کی
خطبات مسرور جلد پنجم 494 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء طرف منسوب کیا اور پھر اس کے بعد اس کی صفت حکیم کا اقرار کیا کیونکہ ان پر حقیقت کھل گئی تھی.یہ آگے پھر تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں، الحِكْمَة کے معانی ہیں : روکنا.اسی سے سواری کے منہ میں ڈالی جانے والی لگام کو الحكمة کہتے ہیں، کیونکہ وہ اسے کبھی سے روکتی ہے.نیز علم کوبھی حکمت کہتے ہیں کیونکہ یہ طریق اس کام میں بگاڑ پیدا ہونے میں روک بنتا ہے اور حکیم کے معانی ہیں ذُو الحِكْمَة: یعنی حکمت والا اور بعض نے حکیم کے معانی یہ کئے ہیں کہ وہ جو اپنی تمام مخلوقات کو محکم طور پر بنانے والا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفسیر کی ہے جس کو میں اختصار سے یہاں بیان کرتا ہوں.اس آیت کو سمجھنے کے لئے گزشتہ آیات کو بھی دیکھنا ہو گا.یہ جو آیت تھی لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (البقرة: 33) اس سے پہلی آیات ہیں.و إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الارْضِ خَلِيفَةً.قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ.قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُونَ (البقرة: 31 یعنی اور یا درکھ جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.انہوں نے کہا کیا تو اس میں وہ بنائے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہائے.جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں.اس نے کہا یقینا میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.پھر اگلی آیت میں آتا ہے کہ وَعَلَّمَ آدَمَ الْاسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَآئِكَةِ فَقَالَ اَنْبِتُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنتُمْ صدِقِينَ (البقرة : 32) اور اس نے آدم کو تمام نام سکھائے.پھر ان مخلوقات کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ مجھے ان کے نام بتلا ؤ اگر تم سچے ہو.اس پر فرشتوں نے کہا کہ قَالُوا سُبحَنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ انْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (البقرة: 33) انہوں نے کہا کہ پاک ہے تو ہمیں کسی بات کا کچھ علم نہیں سوائے اس کے جس کا تو ہمیں علم دے.یقینا تو ہی ہے جو دائمی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے.جیسا کہ ہم الْحَکیم کے لغوی معنی میں دیکھ آئے ہیں کہ اس کے معنی حکمت والا اور تمام کاموں کو اچھی طرح کرنے والا ہیں یعنی جسے کوئی بگاڑ نہ سکے.پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ بات کی حقیقت اور اس کے مغز تک پہنچنا.یہ تمام معنی اقرب نے کئے ہیں.بہر حال یہ آیت اور اس سے پہلے کی جو آیات ہیں ، جو میں نے ابھی پڑھ کر سنا ئیں، ترجمہ ہم نے سن لیا ان سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیا معاملہ در پیش تھا.اس پر فرشتوں نے کہا کہ ہمیں جتنا تو نے سکھایا ہے اتنا ہی ہمیں علم ہے.پہلے انہوں نے کہا آدم کو کیوں پیدا کرنے لگا ہے؟ فساد پیدا کرنے کے لئے ؟ جب اللہ تعالیٰ نے سب کچھ معاملہ سامنے رکھا تو اس پر ان کا جواب تھا، ہمیں تو وہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا.ہم اس بات کا بہر حال احاطہ نہیں کر سکتے جو تیرے علم میں ہے کیونکہ تو توالعلیم بھی ہے اور ا الْحَکیم بھی.یعنی تو بہت جاننے والا اور بہت زیادہ حکمت والا ہے.ہم نے تو ظاہری امور کو مد نظر رکھ کر یہ کہ دیا تھا کہ آدم کی وجہ سے خونریزی اور فساد پیدا
495 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم ہوگا اور فرشتوں نے بھی جو یہ کہا تھا اپنے علم کے مطابق غلط نہیں کہا تھا.آج دیکھ لیں دنیا میں فساد اور خونریزی بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.دنیا اس سے بھری پڑی ہے تو اس کا نعوذ باللہ یہ مطلب بھی نہیں کہ فرشتوں کا علم خدا تعالیٰ سے زیادہ تھا.بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ بتایا کہ میں جو خلیفہ بنانے لگا ہوں ، یہ وجہ فساد نہیں ہوں گے اور فرشتوں نے فورا سمجھ لیا.اس لئے انہوں نے کہا کہ اے اللہ تو یقینا علیم اور حکیم ہے ، ہم اب سمجھ گئے ہیں کہ ابن آدم جو خونریزی کریں گے، جو فساد ہوگا اس کی ذمہ داری آدم پر نہیں ہوگی بلکہ اس کی وجہ بیرونی دشمنی یا اندرونی کمزوری ہوگی.وہ وجود ہوں گے جو اندرونی طور پر کمزور ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے خلیفہ نے تو نیکیوں اور اعمال صالحہ کی تلقین کی لیکن بیرونی دشمنوں نے اس وجہ سے فساد پھیلایا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اور اندرونی طور پر بعض نے عمل نہ کیا جس کی وجہ سے کمزوریاں بڑھتی گئیں اور فساد پھیلتا گیا.تمام انبیاء کی امتوں کو بعد میں ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا.پس اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ بتایا اور فرشتے اس بات کو سمجھ گئے کہ آدم کی خلافت کے نتیجے میں خونریزی اور فساد تو ہو سکتے ہیں اور ہوں گے لیکن ایسے وجودوں کا ظہور بھی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات کے حامل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے مظہر ہوں گے.سو اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق آدم کو صفات الہیہ کی تعلیم دی اور آدم نے اس پر عمل کر کے بتادیا کہ صفات الہیہ کا کامل ظہور بغیر ایسے معبود کے جس میں خیر اور شتر کی طاقتیں رکھی ہوں نہیں ہو سکتا.پھر وہ دونوں میں سے ایک کو اختیار کرے اور خیر کی طاقتوں کو محبت الہی کے جذبے سے سرشار ہو کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اختیار کرے.فرشتوں میں تو یہ طاقتیں نہیں ہیں انہوں نے تو وہی کرنا ہے جس کا حکم ہے.اس لئے کسی شاعر نے کہا ہے.فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ پس جیسا کہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے خیر اور تقویٰ شرط ہے اور جب یہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی صفات بھی انسان اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ صفات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے اندر پیدا کیں اور انسان کامل کہلائے.پس فرشتوں نے آدم کی پیدائش پر بھی یہ اقرار کیا اور ہرنبی کی پیدائش پر بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کا علم محدود ہے اور انسان کا اُن کے مقابل پر علم لامحدود ہے اور اس بات سے انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ الہ تعالیٰ الْعَلِیم اور الْحَكِيم ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ضمن میں ایک یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ آدم کے واقعہ کی تفصیل بیان کرنے سے پیدائش عالم کی غرض اور حکمت بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں الہام الہی کا ظہور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور جو لوگ نبیوں پر معترض ہیں وہ گویا اس بات پر اعتراض کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی غرض کو کیوں پورا کرنے لگا ہے.آج کل کے معترضین مسلمانوں میں سے بھی ہیں.باوجود اس کے کہ یہ
496 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم آیت پڑھتے ہیں پھر سمجھتے نہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں.اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ ہر زمانے میں خیر کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے چنیدہ بندے بھیجتا ہے اور اس زمانہ میں اس نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے تو اس پر کیا اعتراض ہے.جو لوگ اعتراض کرتے ہیں تو پھر یہ بالواسطہ خدا تعالیٰ کی انسانی پیدائش کی غرض پر اعتراض ہے.پس سوچنے والوں کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے.پھر آپ نے ایک نکتہ یہ بیان فرمایا کہ جب فرشتوں نے عرض کی لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا تو اس کا صرف اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ ہمیں اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا بلکہ اس کی گہرائی میں دیکھیں تو یہ مطلب ہے کہ فرشتوں نے یہ اعتراف کیا کہ ہمارا علم اس طرح نہیں بڑھتا جس طرح انسان کا بڑھتا ہے اور اُسے یعنی انسان کو اسے بڑھانے کی مقدرت بھی حاصل ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو طاقت اور قدرت دی ہے.اور پھر فرشتوں نے اس بات سے یہ اعتراف کیا کہ ہمارے اندر وہی ایک قسم کی طاقتیں ہیں جو تُو نے ہمارے اندر رکھی ہیں اور ان طاقتوں کے ساتھ ہم انسان کے متنوع اور جامع علوم کو نہیں پہنچ سکتے.یعنی فرشتوں کا اقرار ہے کہ ہم سمجھ گئے ہیں کہ انسان کی پیدائش میں حکمت ہے اور انسان کے سپر دایسا کام ہے جو ہم نہیں کر سکتے.اگر بعض انسان صرف شتر پھیلانے والے ہیں تو اس پیدائش کی حکمت کا رد اس وجہ سے نہیں کیا جاسکتا.پھر اس متنوع قسم کے کاموں کے ساتھ جو تسبیح اور تحمید کرنے والے ہیں وہ اس میں فرشتوں سے بھی بڑھ جاتے ہیں.(ملخص از تفسیر کبیر جلد 1 صفحه 322-321) شیخ اسماعیل تھی لکھتے ہیں کہ الْحِكْمَة وہ معارف حقہ اور احکام شریعہ ہیں جن کے ذریعہ نفوس کی تکمیل ہوتی ہے، الحکیم جو حکمت و مصلحت کے تقاضے کے مطابق کام کرے.بزرگ و برتر اشیاء کی معرفت اعلیٰ ترین علم کے ذریعہ حاصل کرنے کو حکمت کہتے ہیں اور تمام اشیاء میں سے معزز ترین اور بالاترین خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس کے سوا کوئی دوسرا اس کی معرفت کی کنہ کو نہیں جانتا.پس اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس وجہ سے کہ وہ بالا اور معزز ترین اشیاء کو بلند ترین علم کے ذریعہ سے جانتا ہے.کیونکہ عظیم ترین علم وہ ازلی دائمی علم ہے جس کا زوال متصور نہ ہو، کوئی تصور نہ نہ کر سکے اور وہ علم اس چیز کے حالات سے، جس کے متعلق وہ علم ہے، ایسی کامل مطابقت رکھتا ہے کہ اس میں ذرہ بھر بھی اختفاء یا شبہ کی گنجائش نہیں ہے.کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ، کوئی مشتبہ نہیں اور یہ وصف صرف اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے.ہاں بسا اوقات ایسے شخص کو بھی حکیم کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی صنعت کاری کی بار یک در بار یک تفصیلات کا علم رکھتا ہو اور اس چیز کو کمال عمدگی سے بناتا ہو.اور اس پہلو سے بھی تمام کمال صرف اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے کیونکہ وہی حکیم مطلق ہے.اور جو شخص تمام اشیاء کی معرفت رکھتا ہوگا اللہ کا عرفان نہ رکھتا ہو وہ حکیم کہلانے کامستحق نہیں ہوسکتا.کیونکہ اسے عظیم اور بزرگ ترین چیز یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا.
خطبات مسرور جلد پنجم 497 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء کہ دنیاوی چیزوں میں ترقی بھی بڑی کر لی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ بند ہے اس لحاظ سے وہ حکمت سے عاری ہیں.با وجود تمام دنیاوی ترقیوں کے اس تعریف کی رو سے ان کو حکیم نہیں کہا جا سکتا.پھر کہتے ہیں کہ حکمت تمام علوم میں سے سب سے زیادہ شرف رکھنے والا علم ہے اور کسی علم کی جلالت شان معلوم (یعنی جس چیز کا علم حاصل کیا جائے اس کی شان، بزرگی اس کا جلال ہے) کی جلالت شان کے مطابق ہوتی ہے کسی علم کی جو بڑائی ہے ، اس کی جوشان ہے وہ جس کے بارے میں علم حاصل کیا جائے اس کی شان کے مطابق ہوتی ہے." اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر تو کوئی صاحب شرف نہیں ہو سکتا.اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرلے وہ حکیم ہے اگر چہ دیگر رسمی علوم میں وہ کمزور ہی ہو.اس کی زبان بہت روانی سے نہ چلتی ہو.اس کا بیان بظاہر بہت زور دار نہ بھی ہو.ہاں بندے کی حکمت کی اللہ تعالیٰ کی حکمت سے نسبت ایسی ہی ہے جیسے بندے کو حاصل اللہ کی معرفت کی خود اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کی معرفت سے نسبت ہے.یعنی حکمت کا بھی وہی معیار ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بڑی وسیع ہے.اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے بارے میں جو معرفت ہے، جو علم ہے اتنا بندے کو تو نہیں ہوسکتا.پس جتنا بندے کا معیار اس علم کے حاصل کرنے کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہے.اور جوعلم اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے بارے میں ہے ان کے درمیان جو فرق ہے وہی انسان کی اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے درمیان فرق ہے.آگے پھر کہتے ہیں کہ لیکن اگر چہ بندے کی حاصل حکمت کو اللہ کی حکمت سے بہت دُور کی نسبت ہے لیکن پھر بھی یہ بندے کو حاصل ہونے والی حکمت تمام معرفتوں میں سے نفیس ترین اور اپنی خوبی کے اعتبار سے کثیر ترین ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے تو یقیناً اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی اور نصیحت تو صرف عنظمند ہی حاصل کرتے ہیں.یہ ایک آیت کی تشریح ہے جومیں نے پڑھی.پھر کہتے ہیں کہ ہاں یہ بات درست ہے کہ جسے پھر اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے اس کا کلام اس کے غیر سے مختلف ہوتا ہے.کیونکہ ایسا شخص چیزوں کی جزئیات میں کم ہی جاتا ہے بلکہ اس کا کلام اجمالی ہوتا ہے نیز وہ عارضی اور دنیاوی مصالح کی بجائے اُن امور کی طرف توجہ کرتا ہے جو عاقبت میں نفع بخش ہوتے ہیں اور جبکہ اس کے کلمات کلیہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے طفیل لوگوں کے نزدیک بھی واضح ترین ہوتے ہیں اس لئے بسا اوقات لوگ اس کے کلام کے لئے حکمت کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس قسم کا کلام کرنے والے شخص کے لئے حکیم کا لفظ بولتے ہیں اور یہ ویسا ہی مضمون ہے جیسا کہ حضرت سید الانبیاء ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ راسُ الحِكْمَةِ مَخَافَةُ الله یعنی اللہ کا خوف ہی اصل حکمت ہے.تقویٰ ہی اصل حکمت ہے.حضرت ابن عباس کے نزدیک حکیم وہ ہے جو مجرموں کا مواخذہ کرتے ہوئے حکمت کے تقاضوں کو ترک نہیں کرتا.اس کی تشریح کر رہے ہیں کہ فَانُ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ تَكُمُ الْبَيِّنْتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ
498 خطبات مسرور جلد پنجم خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء حَكِيمٌ (البقرة: 210) تو کہتے ہیں کہ عزیز وہ ہے جو اپنے امر پر غالب ہے.کوئی چیز اسے تم سے نافرمانوں سے انتقام لینے سے نہیں روکتی.لیکن وہ حکیم بھی ہے جو مجرموں کا مواخذہ کرتے ہوئے حکمت کے تقاضوں کو ترک نہیں کرتا.پھر دوسری آیت کے بارے میں ہی بیان کرتے ہیں کہ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنُ.قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِى.قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِيْنَكَ سَعيًا ، وَاعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ (البقرة: 261) کہ اور کیا تو نے اس پر بھی غور کیا جب ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب ! مجھے دکھلا کہ تو مر دوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اس نے کہا کیا تو ایمان نہیں لا چکا؟ اس نے کہا کیوں نہیں؟ مگر اس لئے پوچھا ہے کہ میرا دل مطمئن ہو جائے ، اس نے کہا تو چار پرندے پکڑ لے اور انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لے.پھر ان میں سے ایک ایک کو پہاڑ پر چھوڑ دے پھر انہیں بلا.وہ جلدی کرتے ہوئے تیری طرف چلے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے.ابن عباس کہتے ہیں یہاں صرف حکیم کے معنی استعمال کئے ہیں کہ اپنے تمام افعال میں حکمت بالغہ سے کام لینے والا ، اس کے افعال کی بناروزمرہ کے اسباب پر نہیں کیونکہ وہ خارق عادت نشان دکھانے سے عاجز نہیں بلکہ اس کے جملہ افعال اپنے اندر بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں لئے ہوئے ہیں.نشانات اللہ تعالیٰ دکھا سکتا ہے اور ایسے ایسے عجیب نشان دکھاتا ہے کہ بندہ وہاں تک پہنچ نہیں سکتا.اس آیت میں حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے نشان مانگا ہے جس کا ذکر ہے اور اس پر خدا تعالیٰ کا جواب یہ ہے جو ابھی پڑھا گیا.مفسرین اس کو ظاہری ایمان پر محمول کرتے ہیں اور بعض کی عجیب عجیب اس بارے میں تفسیریں ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کی تفسیر کی ہے.میں اس کا مختصر ذکر کرتا ہوں جو اس کی حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے.اس میں حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی کہ احیاء موتی کا کام جو میرے سپرد ہے وہ کس طرح ہوگا؟ مردوں کو یعنی روحانی مردوں کو زندہ کرنے کا کام جو میرے سپرد ہے وہ کس طرح ہوگا ؟ تو اے اللہ ! تو ہی مجھے دکھا کہ قوم میں زندگی کس طرح پیدا ہوگی جبکہ میں بوڑھا ہوں اور کام بھی بے انتہا اہم ہے.یہ کس طرح پورا ہوگا ؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چار پرندے لے کر ان کو سدھا، انہیں پہاڑوں پر رکھ دے وہ تیری طرف آئیں گے.تو اس کی تشریح میں فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کر.وہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے احیاء دین کے کام کی تعمیل کریں گے اور یہ روحانی پرندے حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف ہیں، ان میں سے دو کی حضرت ابراہیم نے براہ راست تربیت کی اور دو کی بالواسطہ.پہاڑ پر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے رفیع الشان، رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے.اور چار پرندوں کو علیحدہ علیحدہ پہاڑ پر رکھنے سے یہ بھی
499 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم مراد ہے کہ احیاء دین چار مختلف وقتوں میں ہوگا.ایک تو پہلے زمانے میں ہوا.پھر کیونکہ حضرت ابراہیم نے دعا بھی کی تھی کہ میں اپنی اولاد کے بارے میں بھی یہ نشان دیکھنا چاہتا ہوں یعنی بعد میں آنے والوں میں بھی یہ نشان ظاہر ہو کہ وہ احیاء موتی کرنے والے ہیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری قوم چار مرتبہ مُردہ ہوگی اور ہم چار مرتبہ زندہ کریں گے.چنانچہ حضرت موسی کے زمانے میں پہلے یہ آواز بلند ہوئی جو حضرت ابراہیم کی آواز تھی.پھر حضرت عیسی کے ذریعہ سے آواز بلند ہوئی.پھر آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے آواز بلند ہوئی اور اب اس زمانہ میں چوتھی مرتبہ وہ آواز بلند ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے بلند ہوئی.پس پہلا پرندہ موسوی امت تھی ، دوسرا پرندہ عیسوی امت تھی اور تیسرا پرندہ آنحضرت ﷺ کی امت تھی جن پر آپ کا جلالی ظہور ہوا اور چوتھا پرندہ جمالی ظہور کی مظہر جماعت احمدیہ ہے جن کے ذریعہ سے حضرت ابراہیم کے قلب کو راحت پہنچی اور نزدیک اور دُور کی اولاد کے زندہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نظارے دکھائے اور یہی خدا تعالیٰ کے عزیز اور حکیم ہونے کا اظہار ہے اور یہ زندہ ہونا اب ہم پر بحیثیت احمدی ایک ذمہ داری بھی ڈالتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جو احیاء موتی اس زمانے میں ہونا تھا اس نے دائمی رہنا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی پر حکمت تعلیم جو تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اس سے چھٹے رہنا ضروری ہے تا کہ ہر فرد جماعت احیاء موتی کا نظارہ دکھانے والا بھی ہوا اور دیکھنے والا بھی ہو.پس جب تک ہم تقویٰ پر قائم رہیں گے یہ نظارے انشاء اللہ دیکھتے رہیں گے.پھر حضرت ابن عباس ایک مثال میں بیان کرتے ہیں کہ اَفَغَیرَ اللَّهِ ابْتَغِی حَكَمًا.سورۃ الانعام کی 115 ویں آیت ہے.کہتے ہیں کہ حکم اپنے معنے کے اعتبار سے حاکم سے وسیع تر مفہوم رکھتا ہے.حکم اس حاکم کو کہتے ہیں جس کا کوئی ہمسر نہ ہو اور جسے اس کام کے لئے بطور خاص مختص کیا گیا ہو.اسی وجہ سے حکم کی صفت صرف عادل کے لئے آتی ہے یا اس کے لئے استعمال ہوتی ہے جسے بار بار فیصلے کرنے کا موقع ملتا ہے.یہ جو آیت ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ جو میرا احکم ہے اس کے علاوہ کسی اور کوئیں کیوں حکم بناؤں کسی اور کے پاس فیصلے کروانے کے لئے کیوں جاؤں؟ یا فیصلے کرانے کے لئے اللہ کے علاوہ دوسرے انسانوں کو کیوں بلاؤں؟ جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے اور وہ سب سے زیادہ بہترین فیصلہ کرنے والوں میں سے ہے.مخالفین دین آج جتنا بھی شور مچاتے رہیں کہ ہم فیصلہ کرتے ہیں، ایک مومن کا یہی جواب ہونا چاہئے اور ہوتا بھی ہے کہ افَغَيْرَ اللهِ ابْتَغِى حَكَمًا (الانعام: 115) یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ میں کوئی اور فیصلے کرنے والا ڈھونڈوں؟ مجھے تو کسی دوسرے کی حاجت نہیں ہے.میں تو اس یقین سے پر ہوں اور میں اس یقین پر قائم ہوں کہ اللہ جو حکیم اور حکم ہے اس نے ایک ایسی پر حکمت تعلیم کی طرف میری رہنمائی کر دی ہے اور ایسے فیصلہ گن نشان دکھا دیئے ہیں کہ مجھے ضرورت نہیں کسی اور کے پاس جانے کی.جس مرضی نام نہاد عالم کی یا بڑے آدمی کی
500 خطبہ جمعہ 07 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم تحریریں لے آؤ جو میرے خلاف ہیں اگر خدا تعالیٰ کا فیصلہ میرے ساتھ ہے تو کوئی پرواہ نہیں کہ تم کتنا شور مچاتے ہو.تمہارے دنیاوی منصب تو لوگوں کی حمایت کے مرہون منت ہیں اور جب اسمبلیاں اور عدالتیں اور حکومتیں فیصلہ کرتی ہیں تو شور مچانے والوں کی اور بعض اوقات شرپسندوں کی طاقتوں کو دیکھتی ہیں لیکن میرا خدا جو غالب بھی اور حکیم بھی ہے جب فیصلہ دیتا ہے تو وہ فیصلہ ہے جو ہماری دنیا و آخرت سنوار نے والا فیصلہ ہے.پس ایسے خدا کے علاوہ مجھے کسی منصف کی ضرورت نہیں ہے.آج ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے ہیں.آج ہم قرآنی پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھ کر اس یقین پر قائم ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی اور خدا کی کتاب حضرت عیسیٰ کو فوت شدہ قرار دے کر آنے والے مسیح کی آمد کا اعلان کر رہی ہے.خدا کی کتاب آنحضرت ﷺ کی اُمت میں سے ہی مسیح و مہدی کی آمد کا اعلان کر رہی ہے.تو پھر عدالتیں یا حکومتیں یا اسمبلیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں کہ ہم ان کے فیصلوں کو تسلیم کریں اور خدا تعالیٰ کے فیصلے کو جو احْكُمُ الْحَاكِمِین ہے رو کر دیں.پس اس فیصلے کو جو عزیز حکیم خدا نے کیا ہے رو کرنے والے رد کئے جائیں گے.ہمیں زور لگانے والے، یا ہمیں کہنے والے کہ اس کو رڈ کر دو، وہ خود ر د کئے جائیں گے اور ہم انشاء اللہ ہمیشہ کی طرح کامیابی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں گے.اس لئے چاہے وہ پاکستان کی اسمبلی ہو یا کسی اور ملک کی اسمبلی ہو ہمیں اُن کے فیصلوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں.کیونکہ ان کے فیصلے تقویٰ سے عاری اور جہالت کے پلندے ہوتے ہیں.آج اگر کسی حکم نے فیصلہ کرنا ہے اور ہمیشہ سے جو حکم فیصلہ کرتا آیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور وہی سب سے بڑا حکم ہے، منصف ہے، بیج ہے جس نے فیصلے کئے ہیں اور ان کے فیصلوں کے مطابق ہم اسی دین پر قائم ہیں جو محد مصطفی ﷺ لے کر آئے تھے اور انشاء اللہ مرتے دم تک قائم رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اس حکیم خدا کی صفت حکیم کو بھی اپنانے کی توفیق دے اور ہمیشہ حکمت سے چلنے والے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے احکامات پر حقیقی طور پر تقویٰ سے چلتے ہوئے عمل کرنے والے ہوں.ضمنا میں یہ بھی بتا دوں کہ آج کل ایم ٹی اے پر ایک پروگرام مولانا دوست محمد صاحب شاہد دے رہے ہیں جو 1974ء کی اسمبلی کے بارے میں حالات پر ہے.وہاں ماشاء اللہ بڑی حقیقت بیانی ہورہی ہے.خوب کھول کھول کر ان کے کچے چٹھے بیان ہو رہے ہیں اور مخالفین کے پاس ان کا جواب نہ اُس وقت تھا جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث اسمبلی میں پیش ہوئے تھے، نہ آج ہے اور نہ بھی ہو سکتا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ احمد یت ہی ہے جس نے ہمیشہ صحیح راستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اظہار اپنے ہر ماننے والے پر بھی کرنا ہے اور دنیا میں بھی پھیلانا ہے.( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 28 دسمبر 2007 ء تا 3 جنوری 2008 ء ص 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد پنجم 501 (50) خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2007ء بمطابق 14 فتح 1386 ہجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا آج میں اللہ تعالیٰ کی صفات سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے یا اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے رنگ میں سب سے زیادہ رنگین ہونے والے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ مظہر حقیقی جن سے زیادہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کا رنگ اپنے اوپر نہیں چڑھا سکتا، یعنی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کا صفت حكيم کے حوالے سے ذکر کروں گا.آپ اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جن کی پیدائش زمین و آسمان کی پیدائش کی وجہ بنی.جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں.پس آپ کا مقام اور آپ کے مبارک کلمات کی اہمیت ایسی ہے کہ ایک مومن کی ان پر نظر رہنی چاہئے.ایک تو وہ تزکیہ نفس کے لئے تعلیم اور حکمت کی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کے ذریعہ ہمیں بتا ئیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے گما اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ابْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّالَمُ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرة: 152) جیسا کہ ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے تمہارا رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور اس کی حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن کا تمہیں پہلے کچھ علم نہ تھا.دوسرے آپ کے حکم، قول، عمل اور نصیحت جو روز مرہ کے معمولات سے لے کر قومی معاملات تک پھیلی ہوئی ہیں جس میں آپ کی ہر ایک بات ہر عمل، ہر نصیحت، ہر کلمہ ، ہر لفظ جو ہے وہ اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہے.اور در اصل تو آپ کا قول عمل اور نصائح جو قرآن کریم کی پر حکمت تعلیم ہیں ، اس کی تفسیر ہیں جو آپ کے ہر قول اور فعل میں جھلکتی ہیں.پس یہ اُسوہ حسنہ جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہر قول و فعل کو پُر حکمت بنانے کے لئے بھیجا ہے.یہی ہے جس کے پیچھے چل کر ہم حکمت و فراست کے حامل بن سکتے ہیں.يَتْلُوا عَلَيْكُمُ اتنا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ تمہیں پاک کرنے اور تمہارے فائدے کے لئے یہ نبی جو بھی تمہیں سناتا ہے وہ یا ہمارا اصل کلام ہے جو سنایا جاتا ہے یا اس کی وضاحت ہے.اس لئے اس نبی کی کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جسے تم سمجھو کہ
502 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم بے مقصد اور حکمت سے خالی ہے.اور پھر یہ نبی صرف تمہیں حکم نہیں دیتا کہ ایسا کرو.ایسا نہ کرو.نصیحت نہیں کرتا بلکہ عملی نمونے بھی دکھاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس اسوہ حسنہ پر عمل کرو جو اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی ﷺ نے قائم فرمایا.پس ہر مومن کو آنحضرت ﷺ کی ہر بات کو سمجھنا چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے.اگر واضح طور پر سمجھ نہ بھی آئے تو یہ ایمان ہو کہ یقیناً اس میں کوئی حکمت ہے اور ہمارے فائدے کے لئے ہے.یہی سوچ ہے جو ایک مومن کی شان ہونی چاہئے ، مومن کے اندر ہونی چاہئے.اب میں آنحضرت ﷺ کی چند احادیث پیش کرتا ہوں جس میں مختلف امور بیان فرماتے ہوئے آپ نے ہماری عملی تربیت بھی فرمائی ہے.سب سے پہلے تو یہ حدیث پیش کرتا ہوں.ایک حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ اَالْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّة الْمُؤْمِنِ حَيْثُ مَا وَجَدَهَا فَهُوَ اَحَقُّ بِهَا.(سنن ابن ماجه.كتاب الزهد باب الحكمة حديث : 4169) حضرت ابو ہریرہ سے یہ روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حکمت اور دانائی کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے.جہاں کہیں وہ اسے پاتا ہے وہ اس کا زیادہ حقدار ہوتا ہے.اس میں جہاں یہ واضح فرمایا کہ حکمت کی بات کہیں سے بھی ملے خواہ وہ غیر مذہب والے سے ملے، غریب سے ملے، بچے سے ملے تمہارے خیال میں کوئی جاہل ہے، کم پڑھا لکھا ہے اس سے ملے لیکن یہ دیکھو کہ بات کیا ہے.اگر حکمت ہے تو اس کو اپنالو کیونکہ تم اس کے حقدار ہو.اسے تکبر سے رد نہ کر دیا یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ مجھے پتہ ہے وہی سب کچھ ہے.بلکہ غور کرتے ہوئے اسے اختیار کرو.اب دیکھیں وہ ایک بچے کی حکمت کی بات ہی تھی جو اس نے بزرگ کو کہی تھی.واقعہ آتا ہے بارش میں ایک بچہ چلا جار ہا تھا تو بزرگ نے کہا کہ دیکھو بچے آرام سے چلو کہیں پھسل نہ جانا.بچے نے کہا کہ اگر میں پھسلوں گا تو صرف مجھے چوٹ لگے گی لیکن آپ تو قوم کے راہنما ہیں ، روحانی راہنما ہیں.آپ اگر پھلے تو پوری قوم کے پھسلنے کا خطرہ ہے، متاثر ہونے کا خطرہ ہے.تو بڑی حکمت کی بات ہے جو ایک بچے کے منہ سے نکلی.دوسرے اس طرف توجہ دلائی کہ ایک مومن کو فضولیات سے بچتے ہوئے حکمت کی باتوں کی تلاش رہنی چاہئے.اگر اس سوچ کے ساتھ ہم اپنی زندگی گزاریں گے تو بہت سی لغویات اور فضول باتوں سے بچ جائیں گے.پھر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رشک دو آدمیوں کے متعلق جائز ہے.ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا رہے.اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلے کرتا ہے اور اسے
خطبات مسرور جلد پنجم 503 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء دوسروں کو سکھاتا ہے.(صحیح بخاری کتاب الاحكام باب اجر من قضى بالحكمة حديث (7141 اس میں مومنوں کے ذمے یہ کام بھی کر دیا کہ حکمت کو آگے بھی پھیلا ؤ.حاصل بھی کرو اور پھر آگے پھیلاؤ تمہارے تک محدود نہ رہ جائے.اگر کوئی پُر حکمت اور علم کی بات ہے تو مومن کی شان یہی ہے کہ اسے آگے پھیلاتا چلا جائے تا کہ حکمت و فراست قائم کرنے والا معاشرہ قائم ہو.ایسی مجالس جن میں حکمت کی باتیں ہوتی ہوں آنحضرت ﷺ نے اُنہیں نِعْمَ الْمَجْلِس کا نام دیا ہے.عون بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود) نے کہا کہ کیا ہی عمدہ وہ مجلس ہے کہ جس میں حکمت والی باتیں پھیلائی جاتی ہیں.یہ براہ راست آنحضرت ﷺ کی طرف تو روایت نہیں ہے.لیکن یہ انہوں نے سنا اور فرمایا کہ کیا ہی عمدہ مجلس ہے جس میں حکمت کی باتیں پھیلائی جائیں اور جس میں رحمت کی امید کی جاتی ہے.(سنن الدارمي.باب من هاب الفتيا مخافة السقط حديث : 292) تو یہ ہماری مجالس کے معیار ہونے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ لغو مجالس سے اٹھ جاؤ.ایسی مجالس سے بھی اٹھ جاؤ جہاں دین کے خلاف باتیں ہو رہی ہوں.مذہب پر منفی تبصرے ہو رہے ہوں.خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق فضول باتیں ہو رہی ہوں.اگر تمہارے علم میں ہے تو سمجھانے کے لئے اور اس لئے کہ کچھ لوگوں کا بھلا ہو جائے اور یا جو کوئی بھی صاحب علم ہیں وہ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے اگر ایسی مجلس میں بیٹھ جاتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر دیکھیں کہ یہ لوگ صرف ڈھٹائی سے کام لے رہے ہیں، سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر ایسی مجلس سے اٹھ جانے کا اللہ تعالی کا بھی حکم ہے.کیونکہ پھر فرشتے ایسی مجلسوں پر لعنت بھیجتے ہیں.اور ایک مومن کو تو ایسی مجلس کی تلاش ہونی چاہئے جس میں حکمت کی باتیں ہوں.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے دومرتبہ یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکمت عطا کرے.(سنن الترمذى.كتاب المناقب باب مناقب عبدالله بن عباس حدیث: 3823) آپ کے نزدیک اس کی اتنی اہمیت تھی.یہ اتنا بڑا تحفہ تھا کہ آپ نے دعادی.پھر علم اور حکمت کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ایک اور انداز جس کا جنگی قیدیوں کے سلسلہ میں روایت میں ذکر آتا ہے، یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان قیدیوں کو جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں اختیار دیا کہ اگر وہ انصار کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو آزاد ہوں گے.چنانچہ بچے جب لکھنے پڑھنے کے قابل ہو جاتے تھے تو ان قیدیوں کو جو جنگی قیدی تھے ، آزاد کر دیا جاتا تھا.یہ اہمیت تھی آپ کی نظر میں علم کی.طبقات لابن سعد جلد 2 صفحه 260
504 خطبہ جمعہ 14 /دسمبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم حکمت کے ایک معنی علم بھی ہیں کیونکہ علم دماغ روشن کرنے کا باعث بنتا ہے.جہالت کو ختم کرتا ہے.آنحضرت ﷺ نے اس حکمت کے پیش نظر یہ حکم دیا تھا کہ دماغ روشن ہوں گے تو بہترین طریق پر اسلام کا پیغام آگے پہنچا سکیں گے.اگر آپ ﷺ کے ذہن میں یہ بات ہوتی جس کا آج کل آپ ﷺ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ تلوار کے زور پر ساری دنیا کو زیرنگیں کرنا چاہتے تھے تو یہ حکم پھر آپ کبھی نہ دیتے کہ جو اتنے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے گا اس کو آزادی مل جائے گی.بلکہ اس کی جگہ یہ ہوتا کہ اگر جرمانہ دے کر رہائی نہیں پاسکتے تھے تو اگر کوئی قیدی لڑائی کا خاص قسم کا ہنر اور فن جانتا ہے تو وہ سکھائے گا تو رہائی ہوگی.لیکن آپ نے تو علم وحکمت کی طرف اپنی امت کو توجہ دلائی.پس ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ آج ہمارے غالب آنے کے ذرائع بھی علم و حکمت ہی ہیں.تبلیغ کے لئے ایسے ذرائع استعمال کئے جائیں جو حکمت سے پُر ہوں.اس لئے علم سیکھنے کی طرف بھی ضرور توجہ ہونی چاہئے.اس بارے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں قرآن میں بھی حکم فرمایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے.اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (النحل : 126).اپنے رب کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو.یقینا تیرا رب ہی اسے جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے.پس یہ حکم ہے تبلیغ کرنے والوں کو کہ موقع محل کے لحاظ سے حکمت سے بات کرو.دوسرے کے بارے میں بھی صحیح علم ہوتا کہ صحیح دلیل کے ساتھ جواب دے سکو اور صرف خشک دلیلوں اور کج بحثی میں نہ پڑو.مومن کو حکمت اور فراست ہوتی ہے اور علم کے ساتھ یہ بڑھتی ہے.اگر ڈھٹائی نظر آئے دوسرے فریق میں تو جیسے کہ پہلے بھی میں نے کہا تھا، حکمت یہی ہے کہ پھر ایسی مجلس سے اٹھ جاؤ اور اللہ تعالی کا حکم بھی یہی ہے یا بحث ختم کر دو جب تک کہ دوسرا فریق دلیل اور حکمت سے بات کرنے پر تیار نہ ہو اور یہی طریق عموماً تبلیغ میں دوسرے کے دل کو نرم کرنے اور بات سنے کا ذریعہ بنتا ہے اور بنے گا.باقی یہ کہ ہدایت کسی کے حصہ میں آتی ہے کہ نہیں یہ اللہ تعالیٰ کو ہی پتہ ہے.ہمارا کام حکمت سے پیغام پہنچاتے چلے جانا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے جسے ہم مختلف مضامین کے ساتھ کئی دفعہ پڑھ چکے ہیں بن چکے ہیں.علی بن حسین سے روایت ہے کہ حضرت صفیہ زوجہ مطہرہ رسول کریم ﷺ نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ آنحضرت ﷺ کو ملنے گئیں جبکہ آپ مسجد میں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے.رات کے وقت کچھ دیر باتیں کیں اور پھر وہ واپس
خطبات مسر در جلد پنجم 505 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء جانے لگیں.رسول کریم ﷺ دروازے تک چھوڑنے گئے.جب آپ مسجد کے دروازے تک پہنچیں جو حضرت اُم سلمہ کے حجرہ کے ساتھ تھا تو انصار میں سے دو شخص ان دونوں کے پاس سے گزرے اور رسول اللہ ﷺ کو سلام کر کے تیزی سے چل پڑے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ٹھہرو.یہ صفیہ بنت کی ہے.ان دونوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! اور یہ بات ان دونوں کو گراں گزری.آپ نے فرمایا: یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کے دوڑنے کی طرح دوڑتا ہے اور میں ڈرا کہ وہ تمہارے دلوں میں بدگمانی نہ ڈالے.(صحيح بخارى كتاب الادب، باب التكبير والتسبيح عند التعجب حديث : 6219) | اب دیکھیں بدظنی سے بچانے کے لئے آپ نے فوری طور پر یہ پر حکمت فیصلہ فرمایا.یہ سبق ہے کہ دوسرے کو کسی بھی قسم کی ٹھوکر لگنے سے بچانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اگر کوئی اتنا ہی بدقسمت ہے کہ جس نے بدظنیوں پر اڑے رہنا ہے تو اور بات ہے ورنہ ہر ایک کو دوسرے کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے.خاص طور پر عہدیداران کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے کسی بھی صورت میں کوئی ایسی حرکت نہ ہو جو کسی کی ٹھوکر کا باعث بنے.ضروری نہیں کہ بڑے بڑے معاملات ٹھوکر کا باعث بنتے ہیں بعض دفعہ بڑی معمولی باتیں دوسرے کی ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں تو ایسی صورت میں وضاحت کر کے شکوک کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ دوسراٹھوکر سے بچے اور اپنے ایمان کو ضائع ہونے سے بچائے.اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ دوسرے گھروں میں اجازت لے کر داخل ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا (النور: 28) یعنی اپنے گھروں کے سوا کسی دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت اور سلام کے داخل نہ ہو.یہ بڑا پر حکمت اور اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ دلانے والا حکم ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ کے حجرے کے سوراخ میں سے اندر جھانکا جبکہ نبی کریم کنکھی سے سر کھارہے تھے یا کنگھی کر رہے تھے.تو آپ نے فرمایا اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ تو جھانک رہا ہے تو میں یہ کنگھی تیری آنکھ میں چھوتا.پھر فرمایا دیکھنے کی وجہ سے ہی گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہے.(صحیح بخارى كتاب الديات.باب من اطلع في بيت قوم ففقئوا ح ا حدیث : 6901) تو آنحضرت کو یہ برداشت نہیں تھا کہ جن اعلیٰ اخلاق کو قائم کرنے کے لئے آپ آئے ہیں اور جس پر حکمت تعلیم کو پھیلانے کے لئے آپ آئے ہیں کوئی اس سے ذرا بھی پرے ہٹنے والا ہو.آپ نے بڑی سختی سے اُس جھانکنے والے کا نوٹس لیا اور اُسے بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی کہ اگر مجھے پتہ لگ جاتا تو میں یہ کنگھی تیری آنکھ میں چبھو دیتا.
506 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم پھر ایک حکم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ مومن اس پر تو کل کریں.لیکن بعض اس کو غلط سمجھتے ہیں اور جو اسباب اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں ان کا استعمال نہیں کرتے اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ ہوا کہ اسباب کے استعمال نہ کرنے کے بارے میں پوچھا.کیونکہ یہ حکمت سے عاری بات ہے.اسباب بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہوئے ہیں اس لئے ان کا استعمال ضروری ہے.تو ایسے پوچھنے والے ایک شخص نے جب حضرت رسول کریم ﷺ سے یہ سوال پوچھا کہ کیا میں اونٹ کا گھٹنا باندھ کے خدا پر توکل کروں یا اونٹ کو کھلا چھوڑ دوں اور خدا پر توکل کروں تو حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا أَعْقِلُهَا وَتَوَكَّلُ.اونٹ کا گھٹنا باندھو اور توکل کرو.(سنن الترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق باب 60 حدیث 2517) | پھر قومی معاملات میں آپ کے پر حکمت فیصلے تھے.غزوہ اُحد میں سب جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ایک پر حکمت فیصلہ کو نہ ماننے کی وجہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا اور خود آنحضرت ﷺ کی ذات کو بھی جسمانی نقصان پہنچا، زخم آئے ، دانت شہید ہوا.مسلمانوں کی جنگ کے بعد جو حالت تھی گو کہ اس کو شکست تو نہیں کہنا چاہئے لیکن فتح حاصل کرتے کرتے پانسہ پلٹ گیا تھا.بہر حال جب جنگ ختم ہوئی تو مسلمانوں کا زخموں اور تھکن کی وجہ سے بہت برا حال تھا تو ” غزوہ اُحد کے اگلے دن جب کہ رسول کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ مدینہ پہنچ چکے تھے تو رسول کریم ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ کفار مکہ دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہے ہیں.کیونکہ بعض قریش ایک دوسرے کو یہ طعنے دے رہے تھے کہ نہ تو تم نے محمد (ﷺ) کو قتل کیا ( نعوذ باللہ ) اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال و متاع پر قبضہ کیا.اس پر رسول کریم ﷺ نے ان کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا.حضور ﷺ نے اس بات کا اعلان کروایا کہ ہم دشمن کا تعاقب کریں گے اور اس تعاقب کے لئے میرے ساتھ صرف وہ صحابہ شامل ہوں گے جو گزشتہ روز غزوہ اُحد میں شامل ہوئے تھے.الطبقات الكبرى لابن سعد جلد دوم صفحه 274 غزوه رسول الله صلى الله عليه وسلم حمراء الاسد) یہ آپ کا ایک پر حکمت فیصلہ تھا کہ مسلمانوں کا حوصلہ بلند رہے.وہ لوگ جو جنگ سے آئے ہیں، تقریب ہاری ہوئی صورت حال تھی ، وہ مایوس نہ ہو جائیں کہیں.ان کے حوصلے بھی بلند ر ہیں اور دشمن پر رعب بھی پڑے کہ یہ نہ سمجھو کہ تم فتح حاصل کر کے گئے ہو بلکہ یہ تو معمولی سا پانسہ پلٹ گیا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب یہ تعاقب میں گئے تو دشمن کو جرات نہ ہوئی کہ واپس مڑیں اور حملہ کریں.وہ چلے گئے.اللہ تعالیٰ نے کیونکہ آپ کو تمام دنیا کی راہنمائی اور حکمت کے لئے مبعوث فرمانا تھا.اس لئے آپ کو زمانہ نبوت سے پہلے ہی پر حکمت تعلیم پھیلانے کے لئے حکیم خدا نے تیار کر لیا تھا اور آپ کے فیصلے نبوت سے پہلے بھی ایسے تھے جن کو لوگ پسند کرتے تھے.ان میں سے ایک واقعہ جو تعمیر کعبہ کا واقعہ ہے اس کا ذکر آتا ہے کہ حجر اسود کی
507 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم تنصیب کے لئے قبائل کا باہم اختلاف ہو گیا اور نوبت آپس میں جنگ تک پہنچ گئی.چار پانچ دن تک اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا.ایک دن قریش جمع ہوئے اور آپس میں مشورہ کیا تو ابو امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مكتوم، جو قریش کے سب سے بوڑھے شخص تھے اس نے کہا کہ اے قریش آپس میں یہ طے کر لو کہ تمہارے اس اختلاف کا وہ شخص فیصلہ کرے گا جو کل سب سے پہلے بیت اللہ میں آئے گا.چنانچہ انہوں نے یہ تجویز مان لی اور اگلے روز انہوں نے دیکھا کہ سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے والے رسول اللہ ﷺ تھے.چنانچہ انہوں نے آپ کو دیکھا اور کہا یہ امین آ گیا.ہم خوش ہو گئے.یہ حمد ﷺ ہیں.چنانچہ وہ ان کے پاس پہنچے اور قریش نے اپنا سارا جھگڑا آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا کہ ایک کپڑا لاؤ.چنانچہ آپ کو کپڑا پیش کیا گیا.آنحضور ﷺ نے کپڑا بچھایا اور حجر اسود کو اٹھا کر اس چادر پر رکھ دیا.پھر آپ نے ہر قبیلہ کے سردار کو کہا کہ اس چادر کا کونہ پکڑ لو اور پھر سب مل کر حجر اسود کو اٹھاؤ اور اس کی جگہ کے قریب لے کر آؤ.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ نے پھر وہاں سے اٹھا کر حجر اسود کو اس کی اصل جگہ پر رکھ دیا.آپ نے یہ ایسا پر حکمت فیصلہ کیا تھا جس نے وہاں ان قبائل کو قتل و غارت سے بچالیا.ان کی جنگیں تو پھر سالہا سال تک چلتی تھیں.پتہ نہیں کتنے قتل ہو جاتے اور کب تک ہوتے چلے جاتے.آپ کو حکمت سے خدا تعالیٰ نے کس طرح بھرا.اس کے بارہ میں ایک روایت آتی ہے.حضرت انس بن ما لک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور جبرائیل نازل ہوئے.انہوں نے میرا سینہ کھولا.پھر اسے آب زمزم سے دھویا.پھر ایک سونے کا طشت لائے جو کہ حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا.پھر اسے میرے سینے میں انڈیل دیا.پھر اسے بند کر دیا.پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ورلے آسمان کی طرف لے گئے.(صحيح بخارى كتاب الصلاة باب كيف فرضت الصلاة في الاسراء حديث : 349) | ہشام بن زید بن انس روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اور اس نے اَلسَّلامُ عَلَيْكَ کہا یعنی تجھ پر ہلاکت ہو.آپ نے اس کے جواب میں فرمایا عَليكَ تم پر.پھر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں پتہ چلا ہے کہ اس نے کیا کہا تھا.پھر آپ نے بتایا کہ اس نے اَلسَّامُ عَلَيْكَ کہا تھا.صحابہ نے یہودیوں کی یہ حرکت دیکھی تو آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں.آنحضور ﷺ نے فرمایا نہیں، اسے قتل نہ کرو اہل کتاب میں سے کوئی شخص جو تمہیں سلام کہے تو تم اس کو وَعَلَيْكُمْ“ کہہ کر جواب دے دیا کرو.(صحیح بخاری.كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم.باب اذاعرض الذمى......حديث : 6926) بجائے اس کے کہ جھگڑ افسادلڑائیاں پیدا ہوں مختصر جواب دو اور جھگڑوں سے بچو.
508 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم سعید بن ابی سعید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول کریم ﷺ نے نجد کی طرف مہم بھیجی جو بنو حنیفہ کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لائے.جس کا نام شمامہ بن اثال تھا.صحابہ نے اسے مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا.رسول کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے تمامہ! تیرے پاس کیا عذر ہے یا تیرا کیا خیال ہے کہ تجھ سے کیا معاملہ ہوگا.اس نے کہا میر اظن اچھا ہے.اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک خون بہانے والے شخص کو قتل کریں گے.اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدر دانی کرنے والا ہے.اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جنتا چاہے لے لیں.یہاں تک اگلا دن چڑھ آیا.آپ پھر تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا کیا ارادہ ہے؟ چنانچہ ثمامہ نے عرض کیا میں تو کل ہی آپ سے عرض کر چکا تھا کہ اگر آپ انعام کریں تو آپ ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے.آپ نے اس کو وہیں چھوڑا یہاں تک کہ تیسرا دن چڑھ آیا.آپ نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی جو کچھ میں نے کہنا تھا کہہ چکا ہوں.آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو.تمامہ مسجد کے قریب کھجوروں کے باغ میں گیا غسل کیا اور مسجد میں داخل ہو کر کلمہ شہادت پڑھا اور کہا اے محمد ﷺ بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا چہرہ ہوا کرتا تھا اور اب یہ حالت ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ہے.بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا دین ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ حالت ہے کہ میرا محبوب ترین دین آپ کا لایا ہوا دین ہے.بخدا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کے شہر کو کرتا تھا.اب یہی شہر میرا محبوب ترین شہر ہے.آپ کے گھڑ سواروں نے مجھے پکڑ لیا جب کہ میں عمرہ کرنا چاہتا تھا.آپ اس کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں.رسول اللہ ﷺ نے اسے خوشخبری دی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم فرمایا.جب وہ مکہ پہنچا تو کسی نے کہا کیا تو صابی ہو گیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں میں محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں.(بخاری کتاب المغازى باب وفد بنى حنيفه وحديث ثمامة بن اثال حديث : 4372) تو آپ نے تین دن تک اسے اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرنے کا بڑا پر حکمت طریقہ اختیار فرمایا تا کہ یہ دیکھ لے کہ مسلمان کس طرح عبادت کرتے ہیں.کتنا ان میں خلوص ہے.اپنے رب کے آگے کس طرح گڑ گڑاتے ہیں.کس طرح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں.اور کیا تعلیم آپ ﷺ اپنے ماننے والوں کو دیتے ہیں.کوئی براہ راست تبلیغ نہیں تھی.صرف روزانہ یہ پوچھتے تھے کہ کیا ارادہ ہے تا کہ دیکھیں کہ اس کو اثر ہوا ہے کہ نہیں اور تیسرے دن آپ کے نور فراست نے یہ پہچان لیا کہ اب اس میں نرمی آ گئی ہے.اس لئے بغیر کسی اقرار کے اس کو چھوڑ دیا اور پھر جو نتیجہ نکلا اس سے ثابت ہوا کہ آپ کا خیال صحیح تھا.اس نے اسلام قبول کر لیا.پھر صلح حدیبیہ کا ایک واقعہ ہے کس طرح آپ کی قیافہ شناسی تھی اور حکمت سے آپ نے ایک کام کروا دیا جس کا
509 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم قریش کے ایک سردار پر اثر ہوا.جب صلح حدیبیہ کے دوران عروہ بن مسعود نے واپس جا کر قریش کو بتایا (اس کو حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے سیرۃ خاتم الانبیاء میں اپنے انداز سے بیان فرمایا ہے ) کہ لوگو! میں نے دنیا میں بہت سفر کیا ہے.بادشاہوں کے دربار میں بھی شامل ہوا ہوں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے سامنے بطور وفد کے بھی پیش ہوا ہوں مگر خدا کی قسم جس طرح میں نے محمد ﷺ کے صحابیوں کو محمد ﷺ کی عزت کرتے دیکھا ہے ایسا میں نے کسی اور جگہ نہیں دیکھا.عروہ کی یہ گفتگوسن کر قبیلہ بنو کنانہ کے ایک رئیس نے جس کا نام حلیس بن علقمہ تھا قریش سے کہا کہ اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں محمد ﷺ کے پاس جاتا ہوں.انہوں نے کہا ہاں بے شک جاؤ.( کوئی فیصلہ کر کے آؤ.) چنانچہ یہ ی شخص حدیبیہ میں آیا اور جب آنحضور ﷺ نے اُسے دُور سے آتے دیکھا تو صحابہ سے فرمایا کہ یہ شخص جو ہماری طرف آ رہا ہے ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے منظر کو پسند کرتا ہے.پس فورا آپ نے یہ پر حکمت فیصلہ فرمایا.اور حکم دیا.( کیونکہ آپ جنگ و جدل کو نہیں چاہتے تھے اور نہ وہاں جنگ و جدل کے لئے گئے تھے بلکہ امن سے حج کرنا چاہتے تھے ).آپ نے فرمایا کہ فوراً اپنی قربانی کے جانوروں کو اکٹھا کرو اور سامنے لاؤ تا کہ اسے پتہ لگے اور احساس ہو کہ ہم کس غرض سے آئے ہیں.چنانچہ صحابہ اپنے قربانی کے جانوروں کو ہنکاتے ہوئے اور تکبیر کی آواز بلند کرتے ہوئے سامنے جمع ہو گئے کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ یہ جس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے یہ لوگ قربانی کے مناظر کو بہت پسند کرتے ہیں.اس لئے آپ نے فورا یہ فیصلہ فرمایا کہ ان کی طبیعت کے مطابق فورا عمل کیا جائے اور صحابہ اپنی قربانی کی بھیڑوں کو ہانکتے ہوئے اور تکبیر کی آواز بلند کرتے ہوئے جمع کر کے اس کے سامنے لے آئے.جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگا سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! یہ تو حاجی لوگ ہیں.انہیں بیت اللہ کے طواف سے کس طرح روکا جاسکتا ہے.چنانچہ وہ جلد ہی قریش کی طرف واپس لوٹ گیا اور قریش کو کہنے لگا کہ میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے جانوروں کے گلوں میں قربانی کے ہار باندھ رکھے ہیں اور ان پر قربانی کے نشان لگائے ہوئے ہیں.پس یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ انہیں طواف کعبہ سے روکا جائے.لیکن بہر حال کیونکہ اس وقت کفار کی، قریش کی دو مختلف را ئیں تھیں.ایک اجازت دینا چاہتا تھا.دوسرانہیں چاہتا تھا.اس لئے بہر حال اس سال فیصلہ یہی ہوا کہ حج نہیں ہو گا اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس کے بہتر نتائج پیدا فرمائے.(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین حصه سوم.صفحه 758) پھر فتح مکہ کے موقع پر بھی تاریخ میں ابو سفیان کا ایک واقعہ درج ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اسے اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے.جب ابوسفیان گرفتار ہو کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا.تو محمد رسول ﷺ نے اسے فرمایا: مانگو کیا مانگتے ہو.کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے.آپ تو بڑے رحیم و کریم ہیں اور پھر میں آپ کا رشتہ دار بھی ہوں ، بھائی ہوں اور میرا کوئی اعزاز بھی ہونا چاہئے کیونکہ اب میں مسلمان بھی ہو
خطبات مسرور جلد پنجم 510 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء گیا ہوں.آپ نے فرمایا اچھا جاؤ مکہ میں اعلان کر دو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گھسے گا اسے پناہ دی جائے گی.کہنے لگا یا رسول اللہ میرے گھر میں کتنے لوگ آجائیں گے.اتنا بڑا شہر، میرے گھر میں کتنے لوگ امن پائیں گے.آپ نے فرمایا کہ اچھا جاؤ.جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گا اسے امان دی جائے گی.ابوسفیان نے کہایا رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ بھی چھوٹی سی جگہ ہے کتنے لوگ اس میں چلے جائیں گے پھر بھی لوگ رہ جائیں گے.آپ نے فرمایا اچھا جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لیں گے انہیں بھی پناہ دی جائے گی.اس نے کہا یا رسول اللہ گلیوں والے جو ہیں وہ بیچارے کیا کریں گے؟ تو آپ نے فرمایا اچھا؟ آپ نے ایک جھنڈا بنایا اور فرمایا کہ یہ بلال کا جھنڈا ہے.ابی رویحہ ایک صحابی تھے.آپ نے مدینہ میں جب مہاجرین اور انصار کی آپس میں مواخات شروع کی تھی اور ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنایا تھا، توابی رویہ کو بلال کا بھائی بنایا تھا.مصلح موعود لکھتے ہیں یہ ان کی اپنی رائے ہے کہ شاید اس وقت بلال وہاں نہیں تھے یا کوئی اور مصلحت تھی تو بہر حال آپ نے بلال کا جھنڈا بنایا اورابی رویحہ کے سپر د کر دیا جو انصاری تھے اور فرمایا کہ یہ بلال کا جھنڈا ہے.یہ اسے لے کر چوک میں کھڑا ہو جائے اور اعلان کر دے کہ جو اس جھنڈے تلے کھڑا ہو جائے گا، جھنڈے تلے آ جائے گا اس کی بھی جان بخشی کر دی جائے گی.ابوسفیان نے کہا ٹھیک ہے.اب کافی ہے.مجھے اجازت دیں.میں جا کر اعلان کرتا ہوں.تو کیونکہ قریش مکہ کا جو سر دار تھا وہ خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا.اس لئے گھبراہٹ کی کوئی ایسی بات تو تھی نہیں.وہ مکہ میں داخل ہوا اور اس نے اعلان کر دیا کہ اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کرلو اور کوئی باہر نہ نکلے.خانہ کعبہ میں چلے جاؤ اور یہ بلال کا جھنڈا ہے جو اس کے نیچے آجائے ان سب کو پناہ دی جائے گی.ان سب کی جان بخشی جائے گی اور کچھ نہیں کہا جائے گا.لیکن اپنے ہتھیار باہر لا کر پھینک دو.تو لوگوں نے اپنے ہتھیار باہر لاکر پھینکنا شروع کر دیئے اور حضرت بلال کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہو گئے.اس واقعہ کا حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ اس میں جو سب سے عظیم الشان بات ہے وہ بلال کا جھنڈا ہے کہ رسول کریم ﷺ بلال کا جھنڈا بناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اسے پناہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمد رسول اللہ ﷺ تھے.مگر آنحضرت ﷺ نے اپنا کوئی جھنڈا کھڑا نہیں کیا.آپ کے بعد قربانی کرنے والے حضرت ابو بکر تھے، حضرت عمرؓ تھے، حضرت عثمان تھے، حضرت علی تھے لیکن کسی کا بھی جھنڈا کھڑا نہیں کیا گیا.اس کے بعد خالد بن ولید تھے اور لیڈر تھے سردار تھے وہاں کسی کا جھنڈا نہیں بنایا.آنحضرت نے اگر جھنڈا بنایا تو حضرت بلال کا بنایا.آپ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا تھی.اس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جو حملہ ہونے لگا تھا، ابوبکر دیکھ رہے تھے کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اس کے بھائی بند ہیں.انہوں نے خود بھی کہ دیا
511 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء وہ خطبات مسرور جلد پنجم تھا کہ یا رسول اللہ ! کیا اپنے بھائیوں کو ماریں گے.وہ ان ظلموں کو بھول چکے تھے جو مسلمانوں پر کئے جاتے تھے.حضرت عمر تھے تو انہوں نے بظاہر آ نحضرت ﷺ کی خدمت میں یہی عرض کیا کہ ان کا فروں کو مار ہیں ، ان سے بدلہ لیں لیکن دل میں یہی کہتے ہوں گے کہ ہمارے بھائی ہیں.اگر بخشے جائیں تو اچھا ہے.اسی طرح حضرت عثمان ہیں علی ہیں یا باقی جو سردار تھے سب کی رشتہ داریاں اور ہمدردیاں کسی نہ کسی صورت میں مکہ کے رہنے والوں کے ساتھ تھیں.صرف ایک شخص تھا جس کی مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی.جس کی ملکہ میں کوئی طاقت نہیں تھی.جس کا مکہ میں کوئی ساتھی نہ تھا اور اس کی بیکسی کی حالت میں اس پر وہ ظلم کیا جاتا تھا جو نہ ابو بکر پہ ہوا، نہ حضرت عمر پہ ہوا ، نہ حضرت علی پر ہوا، نہ حضرت عثمان پر ہوا اور نہ آنحضرت ﷺ پر.مکہ میں اس طرح ہوا کہ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر حضرت بلال کو ننگا لٹا دیا جاتا تھا.ان کو نگا کر کے تپتی ریت پر لٹایا جاتا تھا.پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نو جوان ان کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہ کہو خدا کے سوا اور کئی معبود ہیں.کہو مد رسول اللہ جھوٹے ہیں ، (نعوذ باللہ ) اور جب وہ مارتے تھے تو بلال آگے سے اپنی حبشی زبان میں یہی کہتے تھے اَسهَدُ أن لا إله إلا الله، أَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله وشخص آگے سے یہی جواب دیتے تھے کہ جتنا مرضی ظلم کر لو میں نے جب دیکھ لیا کہ خدا ایک ہے تو دوکس طرح کہہ دوں اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو میں کس طرح کہوں کہ وہ نہیں ہیں ، وہ جھوٹے ہیں.اس پر وہ انہیں اور مارتے تھے.گرمیوں میں اور سردیوں میں بھی نگا کر کے پتھروں پر گھیسٹتے تھے.اُن کی کھال زخمی ہو جاتی تھی.چمڑا اکھڑ جاتا تھا لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ اسهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله، اَسْهَدُ اَنْ لا إِلهُ إِلَّا الله اور محمد اللہ کے سچے رسول ہیں.تو حضرت بلال کے دل میں یہ خیال آ سکتا تھایا آیا ہو گا کہ آج ان بوٹوں کا بدلہ لیا جائے گا.آج اُن ماروں کا معاوضہ مجھے ملے گا.لیکن آنحضرت ﷺ نے جب ابوسفیان کو یہ فرمایا کہ جو تمہارے جھنڈے تلے آ جائے ، جو خانہ کعبہ میں آجائے ، دروازے بند کر لے ان سب کو معاف کیا جاتا ہے.تو بلال کے دل میں یہ خیال آیا ہو گا کہ اپنے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں اچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ کس طرح لیا جائے گا ؟ کیونکہ وہ دن ایسا تھا کہ اس دن صرف اس شخص کو تکلیف پہنچ سکتی تھی جس کا وہاں کوئی نہیں تھا اور جس پر بے انتہا ظلم ہوئے تھے.تو آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کے بدلے کا ایک نیا طریقہ نکالا.آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال کے ظلموں کا میں بدلہ لوں گا اور ایسا بدلہ لوں گا کہ جس سے میری نبوت کی شان بھی باقی رہے اور بلال کا دل بھی خوش ہو جائے.آپ نے فرمایا بلال کا جھنڈا کھڑا کرو اور مکہ کے سردار جو جوتیاں لے کر حضرت بلال کے سینے پر نا چا کرتے تھے، جو اُن کے پاؤں میں رسی ڈال کے انہیں گھسیٹا کرتے تھے، جو انہیں تپتی ریت پر لٹاتے تھے کہ کہہ دو کہ اللہ ایک نہیں ہے
512 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اور محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول نہیں ہیں تبھی تمہاری جان بچے گی اور تم آزادی سے زندگی گزارسکو گے.اُن کے لئے آنحضرت ﷺ نے اعلان فرمایا کہ اس بلال کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ جس پر تم ظلم کیا کرتے تھے اور آج اس بلال کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ہی تمہاری جان بھی بچے گی اور تمہارے بیوی بچوں کی جان بھی بچے گی.تو حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے کے لئے تیار ہوا ہے ، اس کو طاقت ملی ہے اس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا.بلال کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑا گیا اور عرب کے وہ رؤسا جو اُنہیں پیروں کے نیچے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول نہیں ہیں اور جھوٹے ہیں ، وہی لوگ اب دوڑ دوڑ کر اپنے بیوی بچوں کے ہاتھ پکڑ کر اور لا لا کر بلال کے جھنڈے تلے جمع کر رہے تھے تا کہ ان کی جان بچ جائے تو یہ بدلہ لیا جارہا تھا.اُس وقت بلال کا دل اور ان کی جان کس طرح محمد رسول ﷺ پر نچھاور ہو رہی ہوگی.وہ کہتے ہوں گے کہ خبر نہیں کہ میں نے ان کفار سے بدلہ لینا تھا کہ نہیں ، یالے بھی سکتا تھایا نہیں لیکن اب وہ بدلہ لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینے پر پڑتی تھیں اس کے سر کو آنحضرت ﷺ نے میری جوتی پر جھکا دیا ہے.(ماخوذ از سیر روحانی صفحه (561 تا 563 پھر اس پر حکمت فیصلے نے بلال کے جھنڈے تلے آنے والوں کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ جسے تم غلام سمجھتے تھے وہ جس کا کوئی قبیلہ، کوئی رشتہ دار ملکہ میں نہیں تھا.وہ جسے ایک حقیر اور پاؤں کی ٹھوکر سے اڑانے والا شخص سمجھ کر تم نے اس پر ظلم کی انتہا کر دی تھی.آج سن لو اور دیکھ لو کہ طاقت والے تم نہیں ، غالب تم نہیں، عزیز تم نہیں، عزیز تو بلال کا خدا ہے.عزیز تو محمد رسول ﷺ کا خدا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ تو اس عزیز حکیم خدا کی صفات اپنائے ہوئے ہیں اور یہ صفات اپنائے ہوئے ہیں.اس طرح غلبہ کے بعد بدلہ لیتے ہیں جس میں تکبر اور نخوت نہیں.ہوش وحواس سے عاری ہوکر دشمن کو تہس نہیں نہیں کرتے بلکہ حکمت سے ایسے فیصلے کرتے ہیں جس میں بدلہ بھی ہے اور تمہیں اپنی غلطیوں کا احساس دلانے کی طرف توجہ بھی ہے.آج حکمت کا تقاضا ہے کہ اس عزیز خدا کی پہچان کروانے کے لئے تمہاری نظروں میں جو کمترین انسان تھا بلکہ تم اسے جانوروں سے بھی بدتر سمجھتے تھے اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کے لئے تمہیں کہا جائے تا کہ تمہیں یہ بھی احساس ہو کہ جب تم بلال کے لئے ظلم کی بھٹیاں جلاتے تھے اور اپنے زعم میں اپنے آپ کو عزیز سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ اس ذلیل اور حکمت سے عاری شخص پر ظلم کرو تو یا اپنے دین سے پھر جائے گا.اُس دین سے پھر جائے گا.جو تمہارے خیال میں حکمت سے عاری دین ہے.ان ظالموں کا سرغنہ ابوالحکم کہلاتا
513 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم تھا اور اُس کے حکم سے یہ سارے ظلم ہوتے تھے.مکہ والوں کو یہ بتانے کے لئے بھی یہ پر حکمت فیصلہ تھا کہ تم جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے تھے.تم جو نام نہاد ابوالحکم کے پیچھے چل پڑے تھے جو حقیقت میں ابو جہل تھا.تم جو خدا کو عزیز خیال نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے بتوں کو ہر چیز پر غالب سمجھتے تھے آج دیکھ لو کہ حکمت اور عزت تمہارے پاس تمہارے سرداروں کے پاس یا تمہارے بتوں کے پاس ہے یا اس سے بے آسرا اور دنیا کی نظر میں اُس حبشی غلام کے پاس ہے جس نے اپنی فراست، دل کی صفائی اور حکمت سے اس نور کو پہچان لیا جو خدا کی طرف سے آیا اور جس کے مقدر میں غلبہ تھا.پس آج اس غلام کے جھنڈے تلے آ جاؤ جو عزیز اور حکیم خدا کو مانتا ہے.وہ بلال جس کی حکمت اپنے رب کے رنگ میں رنگین ہو کر مزید نکھر آئی ہے.پس آج اس حکمت کو بھی سمجھ لو کہ طاقت کوئی چیز نہیں.ظالم کبھی نہیں پنپتا اور کبھی ہمیشہ نہیں رہتا.انسان کو اگر اشرف المخلوقات بنا کر اللہ تعالیٰ نے صاحب حکمت و فراست بنایا ہے تو اس کا صحیح استعمال کرو اور دوسرے انسان کے ذہن و دل اور مذہبی آزادی پر قبضہ نہ کرو.دوسروں کے جذبات کا خیال رکھو کہ یہ نہ کرنا حکمت سے عاری لوگوں کی باتیں ہیں..پس آنحضرت ﷺ نے یہ عمل دکھا کر قریش مکہ اور رؤسائے مکہ کو یہ باور کرا دیا کہ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ عزیز صرف خدا کی ذات کو سمجھو.اگر کوئی حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے تمہارے زیر نگیں ہے تو اس کو غلامی کی زنجیروں میں اس طرح نہ جکڑو کہ کل جب حالات بدل جائیں جس کا کسی کو علم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے تو پھر تم زندگی کی بھیک مانگتے پھرو.پس رسول اللہ ﷺ نے یہ اعلان فرما کر اس پر حکمت فیصلے سے جہاں قریش مکہ کو سزا سے بچایا وہاں عملاً یہ اعلان بھی فرما دیا کہ غلامی کا بھی آج سے خاتمہ ہے.ظلموں کا بھی آج سے خاتمہ ہے.آج لَا تَشُرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کا اعلان صرف میرا نہیں بلکہ میرے ماننے والوں کا بھی ہے.ماننے والوں میں سے اُن کمزور لوگوں کا بھی ہے جو تمہاری غلامی کے عرصہ میں تمہارے ظلموں کی چکی میں پستے رہے.اس حسین اور پُر حکمت فیصلے نے بلال کو بھی احساس دلا دیا کہ اے وہ کمزور انسان جس نے کئی سال پہلے فراست اور حکمت سے کام لیتے ہوئے اللہ کے پیغمبر ﷺ کو پہچانا تھا.آج جب کہ تیری حکمت مزید نکھر آئی ہے ان سے یہ انتقام لے کہ جو تیرے جھنڈے تلے جمع ہوں انہیں اپنے جھنڈے تلے جمع کر کے محمد رسول اللہ کے جھنڈے تلے جمع کر اور جو تیرے آگے جھکنے والے ہیں.جو تیرے قدموں پر جھکنے والے ہیں انہیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنا دے.اور پھر دنیا نے بعینہ یہ نظارہ دیکھا اور اسی طرح ہوتے دیکھا کہ وہ لوگ جو یہ ظلم کرتے تھے مسلمانوں پر اور اللہ کے مقابلے میں بت بنائے ہوئے تھے وہی اللہ کے آگے جھکنے والے بن گئے.آج احمدی بھی یا درکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ نظارہ دہرایا جانے والا ہے اور ہم نے کسی سے دشمنی کا بدلہ ظلم اور
خطبات مسرور جلد پنجم 514 خطبہ جمعہ 14 دسمبر 2007ء انتقام سے نہیں لیتا بلکہ وہ راستہ اختیار کرنا ہے جو ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسوہ سے پیش فرمایا.مخالفین احمدیت بھی یا درکھیں کہ تم جو احمدیوں کو عقل سے عاری سمجھتے ہو کہ انہوں نے مسیح موعود کو مان کر یہ بڑا غلط فیصلہ کیا ہے.یہ وقت بتائے گا کہ عقل سے عاری کون ہے اور عقل والا کون ہے.غلط فیصلہ کرنے والا کون ہے اور صحیح فیصلہ کرنے والا کون ہے.پس مخالفتیں بند کرو اور عزیز خدا کے سامنے جھکو اور اس سے حکمت مانگو.یہ ظلم جو احمدیوں پر ہو رہا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا.فتح ہماری ہے اور یقینا ہماری ہے اور آج ہر ایک کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب یہ نظارے قریب ہونے والے ہیں.ظلم احمد یوں پر ہوتے ہیں مختلف ملکوں میں جہاں مسلمان حکومتیں ہیں یا علماء کا زور ہے زیادہ ہوتے ہیں.آج بھی ایک افسوس ناک اطلاع ہے شہادت کی.یہ شیخو پورہ کے ایک نوجوان ہمایوں و قارا بن سعید احمد صاحب ناصر ہیں ان کو 7 دسمبر کوشیخو پورہ میں نامعلوم افراد نے شہید کر دیا.اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ آئے اور فائر کر کے شہید کر دیا.ان کی عمر 32 سال تھی.بڑے شریف النفس تھے اور خدام الاحمدیہ شیخوپورہ کے فعال رکن تھے.ناظم تربیت نو مبائعین تھے.انشاء اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کا خون ضرور رنگ لائے گا اور لانے والا ہے.اس کی تو ہمیں کوئی فکر نہیں ہے لیکن مخالفین کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور یہ جو پہلے واقعات ہیں ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ اس حد تک نہ بڑھو کہ بعد میں تم لوگوں کو شرمندگی ہو.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے.ابھی انشاء اللہ نمازوں کے بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھوں گا.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 4 تا 11 جنوری 2008ء ص 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد پنجم 515 51 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2007ء بمطابق 21 فتح 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 130) اس کا ترجمہ ہے کہ اور اے ہمارے رب! تو اُن میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے.یقینا تو ہی کامل غلبے والا اور حکمت والا ہے.یہ آیت جوئیں نے تلاوت کی ہے ، کل عید کے خطبہ پر بھی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے ضمن میں میں نے پڑھی تھی.لیکن صرف اتنا ذکر ہوا تھا کہ ایک عظیم رسول کے دنیا میں آنے کی دعا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزی سے کی.اور اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم رسول آنحضرت ﷺ کی صورت میں مبعوث فرمایا جس کی زندگی اور موت، قربانیاں اور عبادتیں مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گئی تھیں.وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جو انسان کامل کہلایا جو رسول بھی تھا اور جس کے مقام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افضل الرسل بھی ہے اور خاتم النبیین بھی ہے.کل عید کے حوالے سے میں نے صرف قربانی کا ذکر کیا تھا کہ آپ نے قربانی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنے صحابہ میں بھی وہ روح پھونکی جس نے اپنی جان کو خدا کی امانت سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانے کی کوشش کی اور کسی بھی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا.لیکن اس آیت میں حضرت ابراہیم نے جو دعا کی تھی وہ چار باتوں کی تھی کہ میری نسل میں سے آنے والا نبی ان باتوں میں وہ معیار قائم کرے جو نہ پہلوں نے کبھی قائم کئے ہوں اور نہ بعد میں آنے والے اس تک پہنچ سکیں.یعنی پہلوں میں تو اس لئے یہ اعلیٰ معیار قائم نہیں ہو سکتے کہ انسانی ذہن اور روحانیت کے معیار ابھی اس معراج تک نہیں پہنچ سکے تھے جن تک اللہ تعالیٰ نے انسانی ارتقاء کے ساتھ اسے پہنچانا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فراست اور یقیناً الہام سے بھی نظر آرہا تھا کہ انسان کی ذہنی علمی
516 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اور روحانی ترقی بہت دور تک جانی ہے اور ایک زمانہ آئے گا جب یہ منازل حاصل ہوں گی.تو آپ نے یہ دعا کی کہ اے میرے خدا جب تیری تقدیر کے تحت وہ زمانہ آئے جب روحانی علمی اور ذہنی جلا اور ترقی کا زمانہ ہو تو اے میرے خدا! اس وقت روحانی ترقیات کے حصول کے لئے جو نبی تو مبعوث فرمائے ، انسان کو نئے علوم سے متعارف کرانے اور اپنی ہستی کے ثبوت کے لئے دلائل سے پر تعلیم تو جس نبی پر اتارے، کائنات کے اسرار ورموز جس نبی کے ذریعہ سے ظاہر فرمائے ، وہ رسول ، وہ آخری شرعی کتاب کو لانے والا رسول اے خدا! میری دعا ہے کہ وہ میری نسل میں سے ہو اور بنی اسماعیل کی نسل میں سے ہو اور اس کے لئے آپ نے چار چیزیں اللہ تعالیٰ سے اس عظیم رسول کے لئے مانگیں.پہلی بات آپ نے یہ عرض کی کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اينك جوان پر تیری آیات تلاوت کرے.دوسری بات یہ کہ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب انہیں کتاب کی تعلیم دے.تیسری بات یہ کہ کتاب کی تعلیم کے ساتھ حکمت سکھانے والا بھی ہو اور پھر چوتھی بات یہ کہ جن لوگوں میں مبعوث ہو اور جو قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں ان سب کا تزکیہ بھی ہمیشہ کرنے والا ہو اور ایسی تعلیم ہو جس کے ذریعہ سے ہمیشہ تزکیہ ہوتا چلا جائے.اور آخر میں یہ دعا کی کہ اے خدا! تو الْعَزِيزِ ہے، کامل غلبہ والا ہے اور الْحَکیم ہے، بڑی حکمت والا ہے.تیری جیسی عزیز ہستی ہی ایسا کامل انسان پیدا کر سکتی ہے اور تجھ جیسی حکیم ہستی ہی اُس نبی کو وہ حکمت عطا کر سکتی ہے جس سے وہ یہ تمام امور سر انجام دے سکے.پس حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی کہ میری اس قربانی اور میری بیوی اور بیٹے کی اس قربانی کو ہم تبھی تیری درگاہ میں قبول سمجھیں گے جب یہ تمام خصوصیات رکھنے والا سب نبیوں سے افضل اور تیرا پیارا ہماری نسل میں سے ہو اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہو.جس طرح تو نے یہ احسان کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی نشاندہی کر کے اس کی تعمیر ہم سے کرائی ہے تا کہ اس جگہ کو مرجع خلائق بنا دے، لوگوں کے آنے کی جگہ بنادے.اسی طرح یہ بھی ہماری دعا قبول فرما کہ تیرے علم کے مطابق جو عظیم رسول مبعوث ہوتا ہے جس نے آکر آئندہ نسل انسانی کو اپنے کمال کے نمونے دکھانے ہیں وہ ہماری نسل میں سے ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سورۃ بقرہ میں جس میں اس آیت کا بیان ہوا ہے جو حضرت ابراہیم کی دعا تھی ، اسی میں آگے جا کے فرماتا ہے کہ ابراہیم نے دعا کی تھی اس رسول کیلئے جو عظیم رسول اور عظیم شریعت لانے والا رسول ہے، ہمیں نے وہ دعا قبول کر لی اور تم میں وہ رسول بھیج دیا.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ايتَنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرة : 152) اور پھر قرآن کریم میں سورہ جمعہ میں اس بات کا دوبارہ ذکر کیا ہے.فرمایا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ
خطبات مسرور جلد پنجم 517 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ الله وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ.وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مبِينِ (الجمعة: 3) پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور اس کی حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن کا تمہیں پہلے علم نہ تھا.اور پھر دوسری آیت میں فرمایا ( وہی چیز دوبارہ ) کہ وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظ رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.لیکن ان دونوں آیات میں اور پہلی آیت میں جو حضرت ابراہیم کی دعا تھی ایک بظاہر معمولی ترتیب کا فرق ہے جو نظر آتا ہے.لیکن یہ فرق کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم ہے اس نے خاص حکمت سے رکھا ہے گویا قرآن کریم کا ہر ہر لفظ اور نہ صرف لفظ بلکہ اس کی ترتیب بھی اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہے.قرآن کریم پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی ترتیب نہیں ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو قرآن کریم کی آیات پر غور کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور جب تک دل پاک نہ ہوں یہ صلاحیت پیدا بھی نہیں ہو سکتی.یہ فرق جو حضرت ابرا ہیم کی دعا میں ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے پہلی چیز جو مانگی تھی وہ یہ تھی کہ جو تیری آیات تلاوت کرے دوسری بات انہیں تعلیم دے.تیسری بات اپنی حکمت دے.اور چوتھی بات یہ کہ ان کا تزکیہ کرے.تو یہ دعا کی ترتیب ہے جو حضرت ابراہیم نے مانگی.اور جب اللہ تعالیٰ اگلی آیتوں میں قبولیت دعا کی بات کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ میں نے یہ رسول مبعوث کر دیا جو تمہیں یہ باتیں سکھاتا ہے اس ترتیب میں انگلی باتوں میں ایک فرق ہے.پہلی بات یہ کہ آیات پڑھ کر سناتا ہے.یہ الفاظ ترتیب کے لحاظ سے جو دعا کے الفاظ تھے ان کے مطابق ہیں.دوسری بات یہاں دیکھی کہ تمہیں پاک کرتا ہے ، تمہارا تزکیہ کرتا ہے.دعا میں یہ تزکیہ کے الفاظ سب سے آخر میں تھے.کتاب سکھانے اور حکمت سکھانے کی ترتیب آگے دونوں وہی ہیں جو پہلی دعا میں تھیں.تو بہر حال یہ جوتر تیب میں فرق ہے اس میں بھی ایک حکمت ہے جو بعد میں انشاء اللہ بیان کروں گا.اس وقت پہلے میں اس بات کو لیتا ہوں جو حضرت ابراہیم نے دعا کی تھی اور خاص طور چارا مور کی جو استدعا اللہ تعالیٰ کے حضور اس عظیم رسول کے لئے کی تھی.ان چار باتوں کا مطلب کیا ہے.آیات کیا چیز ہیں؟ کتاب کیا ہے؟ حکمت کیا ہے؟ اور تزکیہ کیا ہے؟
518 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا مانگی تھی کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايشك یعنی وہ تیری آیات انہیں پڑھ کر سنائے.تو آیات کے مختلف معانی اہل لغت اور تفسیر نے کئے ہیں.اس کے معنی نشان کے بھی ہیں.اس کے معنی معجزات کے بھی ہیں.آیت کے معنی ایسی عبرت کی بات کے بھی ہیں جو دوسروں کے لئے نصیحت کا باعث بنے.پھر آیت کے معنی وہ بھی ہیں کہ ہر چیز جس سے دوسری چھپی ہوئی چیز کا پتہ لگے یہ بھی آیت کہلاتی ہے.آیت کے معنی ٹکڑوں کے بھی ہیں.جیسے قرآن کریم کی آیات ہیں.غرض اس کے بہت سے معانی ہیں.تو اس کا یہاں مطلب یہ ہوگا کہ وہ تعلیم جو اس پاک نبی پر اترے، اس کو لوگوں کو سنائے اور اس میں جن نشانات اور معجزات کا ذکر ہو وہ بتا کر لوگوں کے ایمانوں کو تازہ کرے اور ایسے دلائل لوگوں کے سامنے پیش کرے جن سے ان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا ہو.اُن لوگوں کا ان دلائل کوسن کر اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا ہو جائے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تفسیر بڑی تفصیل سے بیان فرمائی ہے، اس پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے لطیف نکات پیش فرمائے ہیں جن سے میں استفادہ کر کے خلاصہ پیش کر رہا ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا تھا ، ہم نے آیت کے معنی میں دیکھا ہے کہ اس کے معنی ٹکڑے کے بھی ہیں تو یتلوا عَلَيْهِمُ اينك میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو تعلیم آنحضرت ﷺ پر اترے گی وہ ایک وقت میں نہیں اترے گی بلکہ ٹکڑوں میں اترے گی.تو اس بارے میں جو دعا کی گئی تھی کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابنك اور پھر اس کی قبولیت کے تعلق میں خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ اس تعلیم کا اتر نا پہلے دن سے ہی ٹکڑوں کی صورت میں تھا.یہی اللہ تعالی کی اس میں حکمت تھی اور یہ فیصلہ تھا.اس لئے یہی دعا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے کروائی اور اس کو قبول فرمایا تا کہ اس کو بھی ایک نشان بنا دے.قرآن کریم کے اس طرح ٹکڑوں میں اترنے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نشان کے طور پر پیش فرمایا ہے جبکہ دشمن اس پر اعتراض کرتا ہے کہ ٹکڑوں میں کیوں اتری ہے.قرآن کریم دشمن کے اس اعتراض کو یوں پیش فرماتا ہے کہ لَوْلَا نُزِلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةَ واحِدَةً (الفرقان : 33 ) یعنی اس پر سارے کا سارا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اترا.دشمن کو تو یہ اعتراض نظر آ رہا ہے.لیکن مومن کو دعا کی قبولیت کا نشان نظر آ رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ 23 سال کے عرصہ پر پھیل کر قرآن کریم کا اترنا قرآن کریم کی سچائی کی بھی دلیل ہے اور آنحضرت ﷺ کی سچائی کی بھی دلیل ہے کہ ایسے ایسے سخت حالات آئے ، سخت جنگیں ہوئیں یہاں تک کہ خود آنحضرت ﷺ کی ذات مبارکہ کو بھی نقصان پہنچایا پہنچانے کی کوشش کی گئی.ایک یہودیہ نے زہر دینے کی کوشش کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو فور بتا دیا اور آپ نے منہ سے لقمہ نکال دیا اور زہر کا اثر نہیں ہوا
519 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم لیکن بہر حال اس کی تکلیف آپ کو آخر تک رہی.پھر جنگ اُحد میں آپ کو بڑے گہرے زخم آئے.جنگوں میں آپ کو بڑی تکالیف پہنچیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جب تک قرآن کریم کو مکمل طور پر نازل نہیں کر دیا دین کامل ہونے اور نعمت تمام ہونے کا اعلان نہیں فرما دیا آپ کی ذات پر کوئی حملہ جان لیوا ثابت نہ ہوسکا.آپ کی وفات طبعی طور پر ہوئی.پس یہ آیات کا ٹکڑوں میں اترنا بھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عظیم رسول پر ایک عظیم تعلیم کے اترنے کا بھی نشان ہے اور یہی اس تعلیم کی خوبصورتی بھی ہے.اس کے ٹکڑوں میں اترنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کا انسان ابھی اس قابل نہیں تھا کہ ایک دم میں اس تعلیم کو سمجھ سکتا بلکہ بہت سی باتیں بعض صحابہ کو بھی سمجھ نہیں آتی تھیں.لیکن دوسرے نشانات اور معجزات دیکھ چکے تھے اس لئے ایمان کامل تھا.یا ان کی سمجھ اتنی تھی جتنا ان کا علم اس زمانے میں تھا.بعض زیادہ پڑھے لکھے نہیں بھی تھے لیکن ان کا ایمان کامل تھا ان نشانات کو دیکھ چکے تھے.یاد آیا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان کامل ہونے کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ غالباً حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا واقعہ ہے.اُن کو کسی نے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے بارے میں کہا تھا یا ثناء اللہ صاحب کے بارہ میں.بہر حال ان دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں کہ کبھی ان کی مجلسوں میں بیٹھ کر ان کے اعتراضات سنے ہیں جو مرزا صاحب پر کرتے ہیں اور جو تقریر کرتے ہیں اور جو وہ دلیلیں پیش کرتے ہیں.تو انہوں نے کہا میں نے سنے تو نہیں لیکن وہ بھی میں سن لیتا ہوں.اس کے بعد انہوں نے کہا میرا ایمان تو اور بھی مضبوط ہوگا ان اعتراضات نے مجھے کیا کرنا ہے.میں نے تو وہ چہرہ دیکھا ہوا ہے جس نے میرے ایمان کو کامل کیا ہوا ہے.تو ان لوگوں کا علم تھا یا نہیں چہرہ دیکھ کے بھی ایمان کامل تھا بہر حال بہت ساری باتیں سمجھ نہ آنے کے باوجود ان کا ایمان کامل تھا اور اس زمانے میں علم بھی نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے تو مستقبل کی پیشگوئیاں قرآن کریم میں بیان فرمائی ہوئی ہیں.آج انسانی ذہن کی ترقی اور سائنسی ترقی نے انسان کو ان آیات کو سمجھنے کی نئی سوچیں بھی عطا فرمائی ہیں.مثلاً ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اپنے ہر تجربہ کی بنا میں قرآن کریم کی آیات پر رکھتا ہوں.تو بہر حال یہ نشانات تھے جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہم پر ظاہر ہوئے اور اس زمانے میں بھی جب آنحضرت ﷺ پر آیات نازل ہوئی تھیں تو آپ کے ماننے والوں کو ان ٹکڑوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں آسانی ہوتی تھی.ایک یہ بھی مقصد ٹکڑوں میں نازل ہونے کا تھا.آیت کے معانی مخفی چیزوں کی علامت بنا کر ظاہر کرنا بھی ہے.پس آنحضرت ﷺ نے اس تعلیم کی وجہ سے اللہ تعالی کوجو دنیا دار کونظر نہیں آتا، ایسے نشانات ہمنجزات اور علامات بتا کرجو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری ، ان آیات کی
520 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم وجہ سے خدا تعالیٰ کے وجود سے لوگوں کو روشناس کروایا.اللہ تعالیٰ کی ہستی لوگوں پر ظاہر فرمائی جس کو لوگ بھول چکے تھے.ہر مذہب اور قوم ظاہری یا مخفی شرک میں مبتلا تھی اور ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) یعنی خشکی اور تری میں لوگوں میں کاموں کی وجہ سے فساد پڑا ہوا تھا.اور وہ کام کیا تھے ؟ یہی کہ خدا کو دنیا بھول بیٹھی تھی.بظاہر مذہب کا لبادہ اوڑھنے والے بھی خدا کو بھلا بیٹھے تھے اور ظاہری شرک نے بھی انتہا کی ہوئی تھی.آج کل بھی یہی حالات ہیں.ان حالات کا بھی ذکر میں بعد میں کسی وقت آئندہ خطبوں میں کروں گا.تو آپ پر جو آیات اتریں ان کے ذریعہ سے ان لوگوں کو جو آپ کی پیروی کرنے والے تھے خدا تعالیٰ کی ذات کا ادراک پیدا ہوا.ان کو اس ہستی پر یقین کامل ہوا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا کوئی خدا ہے.ہر چیز کی پیدائش کے پیچھے کسی ہستی کا ہاتھ ہے جو خدا کی ذات ہے.تو آپ نے یہ ادراک پیدا فرمایا کہ اس کو پہچانو اور اس کو پہچاننے کی یہ علامات ہیں.حضرت ابراہیم کو یقینا اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا دیا ہوگا.تبھی انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ جب وہ وقت آئے تو جس طرح میں نے شرک کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے اور تیری توحید کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے اے خدا ! جب وہ زمانہ آئے جو میرے وقت سے بھی زیادہ خطر ناک اور تو حید کو بھلانے والا زمانہ ہے اور اُس وقت دنیا پر تو اپنی ہستی اور اپنے وجود سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے رسول بھیجے تو اے خدا ! وہ رسول میری نسل میں سے ہو.وہ دنیا کو وہ علامتیں بتائے جن کے ذریعہ تیری پہچان دنیا کو ہو.ایسے دلائل بتائے جن کو مان کر دنیا تیری تلاش کرے اور تو ان کو نظر آ جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے وہی دیکھ سکتے ہیں جو مجھے تلاش کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں.ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.پس ملنے کے راستے دکھانے والے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی علامتیں بتانے والے یہی عظیم رسول ہیں جن کا نام محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ والصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت :70) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اس کے لئے آنحضرت ﷺ کا نمونہ اور اُسوہ حسنہ ہے.بہت سے لوگ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سبز پوش یا گیروے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ پھونک مار کر کچھ بنادیں.یہ بیہودہ بات ہے.ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطرناک گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں“.(ملفوظات جلد چهارم صفحه 240 جدید ایڈیشن)
خطبات مسرور جلد پنجم 521 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء پس نشان دکھانا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے سپرد فرمایا ہے.آپ نے ہمیں ان آیات کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاریں یہ بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لئے اس کی راہ میں کوشش اور جہاد ضروری ہے.پس یہ نشانی بتادی.اب کوشش کرنا تمہارا کام ہے.علامات بتا دیں، دلائل دے دیئے کہ خدا ہے اور ہونا چاہئے.دنیا کو پیدا کرنے والا ہے، زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے تمہاری کوشش ضروری ہے.پس اللہ تعالیٰ پیروں فقیروں کے ذریعہ سے نہیں ملتا.اللہ تعالیٰ تو آنحضرت ﷺ کے بتائے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے آپ کو بتائے ہوئے جو طریق ہیں ان پر عمل کرنے اور چلنے سے ملتا ہے.اور پھر اگر خدا تعالیٰ کی علامتوں کا پتہ کرنا ہے تو پھر معجزات ہیں جو آنحضرت ﷺ نے دکھائے.وہ معجزے بھی ، اعجازی نشان بھی سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ نے ہی دکھائے ہیں.پیروں فقیروں کے اعجازی نشان زیادہ نہیں ہو سکتے.اُن اعجازی نشانوں کو چھوڑ کر جو آنحضرت ﷺ نے دکھائے یہ جو نام نہاد فقیروں کے معجزات ہیں، پیروں فقیروں کے معجزات کے نام پر جو دھو کے ہیں ان کو خدا سے ملنے کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہئے.یہ خود اپنے نفس پر بھی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے.آنحضرت ﷺ کے نشانات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے.پس اللہ اس تک خود پہنچتا ہے جو ان علامات کے مطابق جو آنحضرت ﷺ نے بتائیں اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے.اُس طریق کے مطابق تلاش کرتا ہے جو آنحضرت ﷺ نے اپنی آیات میں بیان کئے ہیں.پس اس کے مطابق ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو تلاش کریں.پھر مفردات جولغت کی ایک کتاب ہے اس میں وَمَا نُرْسِلُ بِالآیتِ إِلَّا تَخُوِيْفًا (بنی اسرائیل: (60) یعنی ہم تو صرف خوف دلانے کے لئے آیات بھیجتے ہیں، سے مراد انہوں نے آیت کے ایک معنے عذاب بھی کئے ہیں جو مختلف شکلوں میں آتا ہے اور پہلے انبیاء کے وقت بھی آتا رہا ہے.ان سب کا اللہ تعالیٰ نے آیات کے رنگ میں ذکر کیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس حوالے سے آیت کے یہ معنی لئے ہیں اور یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اشک سے یہ استنباط بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے خلاف عذاب کی خبریں دے گا.( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 191 زیر آیت ربنا وابعث مهم رسولا منهم ) اور آپ ﷺ کا زمانہ کیونکہ قیامت تک منتج ہے اس لئے قرآن کریم میں جو پرانے انبیاء کے واقعات بیان کئے گئے ہیں یہ تنبیہ ہے تمام دنیا کو بھی اور آپ کے ماننے والوں کو بھی کہ ان واقعات سے عبرت حاصل کرو.پس آج بھی ان آیات کی جو آپ نے بیان کیں، جو آپ پڑھا کرتے تھے ، جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاریں اسی طرح یہ وضاحت پوری ہو رہی ہے کہ عذاب انہیں پر آتے ہیں یا آنے ہیں جو خدا کی خدائی پر ہاتھ ڈالنے والے ہیں، یا ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.ظلم وستم میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں.صرف نبی کو نہ مانا عذاب کا باعث نہیں بنتا.گو کہ یہ بھی بڑی بد قسمتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس پر اتنا
522 خطبہ جمعہ 21 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم ناراض نہیں ہوتا.لیکن جب انتہا سے زیادہ فتنہ وفساد اور ظلم بڑھ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے.بدقسمتی سے مسلمان جو سب سے پہلے قرآن کریم کے مخاطب ہیں وہ بھی اس کو بھول رہے ہیں اور اپنی حدوں سے تجاوز کر جاتے ہیں.اور ان آیات سے سبق نہیں لیتے جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے اور تمام دنیا کو بھی اور ہمیں بھی ان آیات کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں عطا کیا ہے تا کہ ہم صحیح طور پر اس کی ذات کا فہم وادراک حاصل کرنے والے ہوں اور اس کے آگے جھکنے والے ہوں.باقی جو خصوصیات ہیں وہ میں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 11 تا 17 جنوری 2008ء ص 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد پنجم 523 52) خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2007ء بمطابق 28 فتح 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی فرمائی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ.وَيُزَكِّيْهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 130) گزشتہ خطبہ میں آنحضرت ﷺ کی ذات کے حوالے سے حضرت ابراہیم کی دعا کا ذکر ہوا تھا جس میں آنحضرت ﷺ کی ذات میں چار باتوں کے وہ معیار پورا ہونے کی حضرت ابراہیم نے دعا کی تھی جو عظیم رسول کے ذریعہ کامل اور مکمل ہونے والے تھے اور ان کا ذکر کر کے میں پہلی خصوصیت کے بارے میں بتا رہا تھا یعنی يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اينك جو اُن پر تیری آیات پڑھ کر سنائے.ہم آیات کے مختلف معانی دیکھ چکے ہیں یعنی آیات نشانات اور معجزات بھی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی باتیں بھی ہیں ، ایمان کی طرف راہنمائی کرنے والی باتیں بھی ہیں، عذاب سے بچنے والی باتوں کی طرف توجہ دلانا بھی ہے ، آئندہ ہونے والے واقعات کی پیشگوئیاں بھی ہیں.زمین و آسمان میں مختلف موجودات، نباتات، جمادات وغیرہ کے بارے میں علم بھی ہے، تمدن کے صحیح راستے بتانے والی باتیں بھی ہیں.پس آنحضرت ﷺ کے ذریعہ قرآن کریم میں اپنی ان آیات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو بتایا اُسے آنحضرت ﷺ نے ہم تک پہنچایا.جیسا کہ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ اینا.یہ نبی ، یہ عظیم رسول تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور یہ اتنے مختلف النوع اور تفصیلی مضامین ہیں اور مختلف حوالوں سے بیان ہوئے ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں.ان میں سے چند ایک آیات میں نے لی ہیں جو پیش کرتا ہوں.گزشتہ خطبہ کے آخر پر مفسرین کے حوالے سے آیت کا ایک مطلب عذاب بتاتے ہوئے سورۃ بنی اسرائیل کے اس حصہ کا بیان کیا تھا کہ وَمَا نُرْسِلُ بِالْأَيْتِ إِلَّا تَخْوِيْفَا (بنی اسرائیل : (60) یعنی اور ہم نشانات نہیں بھیجتے مگر تدریجا ڈرانے کی خاطر.یہ پوری آیت یوں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُّرْسِلَ بِالْآيَتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الا وَّلُونَ.وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا.وَمَا نُرْسِلُ بِالْأَيْتِ إِلَّا تَخْوِيْفًا (بنی اسرائیل: (60)
524 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم اور کسی نے ہمیں نہیں روکا کہ ہم اپنی آیات بھیجیں سوائے اس کے کہ پہلوں نے ان کا انکار کر دیا تھا اور ہم نے شمود کو بھی ایک بصیرت افروز نشان کے طور پر اونٹنی عطا کی تھی.پس وہ اس سے ظلم کے ساتھ پیش آئے اور ہم نشانات نہیں بھیجتے مگر تدریجا ڈرانے کی خاطر.پس اصل میں یہ آیت اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے نشانات بھیجتا ہے اور وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُرْسِلَ بِالایت یعنی کسی بات نے ہمیں نہیں روکا کہ ہم اپنے نشانات بھیجیں، اپنے نبیوں کی تائید میں نشانات اتاریں، معجزات دکھا ئیں.پس اللہ تعالیٰ جو تمام قوتوں کا سر چشمہ ہے، عزیز اور غالب ہے اس نے جہاں اس میں اُن لوگوں کو ڈرایا کہ ثمود کی اونٹنی کے نشان سے سبق حاصل کرو، وہاں یہ بات آج کے زمانے کے لوگوں کے لئے بھی ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے لئے کہ قرآن کریم کی آیات تمہارے سامنے اس آخری نبی اور عظیم رسول ﷺ نے پیش کی تھیں.اس لئے کہ تم جو پڑھنے والے ہو سبق حاصل کرتے رہو.یہ نہ سمجھو کہ پرانے لوگوں کے واقعات قصہ پارینہ بن گئے.اللہ تعالیٰ معجزات دکھانے اور پکڑنے پر اب بھی قادر ہے اس لئے کبھی غافل نہ ہونا.اللہ کی یاد کو بھی نہ بھلانا.اللہ کے نام پر جو یہ اعلان کرے کہ چودھویں صدی کی پیشگوئیوں پر غور کرو اور ان نشانات کو دیکھو جو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح و مہدی کے لئے اتارے ہیں ان کو سرسری نظر سے نہ لو.تکذیب اور تکفیر کو انتہا تک پہنچا کر اس کی اہانت کے مرتکب نہ ہو.اس کے ماننے والوں کے دلوں پر چوٹ لگا کر یہ نہ سمجھو کہ نشانات دکھانے والا خدا اپنی اس طاقت کو کھو بیٹھا ہے یا اُس کا جو یہ فعل ہے ختم ہو گیا ہے.وَمَا مَنَعَنَا کا اعلان کر کے اللہ تعالیٰ جس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہے اس پر غور کرو.اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرمارہا ہے کہ ہم نشانوں کو بد انجام سے ڈرانے کے لئے بھیجا کرتے ہیں.نشانات تو اللہ تعالیٰ آج بھی بہت دکھا رہا ہے لیکن اگر دیکھنے والی آنکھ دیکھے.غرض اس قسم کے بیشمار واقعات کا قرآن کریم میں پرانے انبیاء کے حوالے سے ذکر ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں.اُن آیات میں بیان فرمائے ہیں جن میں پہلے انبیاء کی قوموں کا ذکر ہے.یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی تائید میں معجزات دکھاتا ہے اور کس طرح اپنے معجزات اور نشانات دکھائے اور کس طرح تو میں تباہ ہو ئیں.تو یہ سب کچھ جو قرآن کریم میں ہمیں بتایا گیا، کیا یہ سب ہمیں کہانیاں سنانے کے لئے ہے؟ کیا یہ اس بات کی ضمانت دینے کے لئے ہے کہ تم جو چاہو کرو، بیشک بے عملی کی زندگی گزارو، بیشک ظالموں میں بڑھتے چلے جاؤ، استہزاء کرو، تعدی کرو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ؟ اگر یہ سوچ ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہت بڑا الزام ہے.پس عقلمند وہی ہے جو ان عبرت کے واقعات سے سبق سیکھتا ہے.
525 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارہ میں یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ کیونکہ اللہ کی قدرتیں اور طاقتیں لامحدود ہیں اس لئے وہ اپنے نشانات ہر قوم کے لئے مختلف دکھاتا ہے.اس لئے یہ نہیں ہوا کہ حضرت موسی چکے لئے بھی وہی نشانات دکھائے گئے جو حضرت نوع کے لئے یا قوم لوط اور عاد اور ثمود کے لئے بھی وہی ایک طرح کے نشانات ظاہر ہوئے.کسی کو اللہ تعالیٰ نے کسی طرح پکڑا اور کسی کو کسی طرح.پس اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف ہر وقت دل میں رکھنا چاہئے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے جذب کرنے والے بن سکیں.اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے.صرف عذاب کے نشانات نہیں دکھاتا بلکہ بشارتیں بھی دیتا ہے.سزائیں بھی دیتا ہے تو اس وقت دیتا ہے جب لوگ حد سے بڑھ جاتے ہیں.بعض اسلام پر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں جبر اور عذاب کی باتیں زیادہ ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: 157) یعنی میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے ہی بہت سے عذاب ٹل جاتے ہیں یا لمبی مہلت مل جاتی ہے.پس بندے کا کام ہے کہ استغفار کرے تو بہ کرے، اللہ تعالیٰ کی حدود سے بار بار باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے.پس مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ہمیں یہ حدود بتا کر اور ان واقعات کی نشاندہی کر کے جو اُن قوموں کے لئے نشان بن گئیں، اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے صحیح رہنمائی کر دی.پس ان حدود کی پابندی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.ان حدود کی پابندی کریں تا کہ مومن بن کر اور نیک اعمال کر کے ان بشارتوں کے حصہ دار بنیں ، ان بشارتوں سے حصہ لینے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے مقدر کی ہیں اور جس کے بارے میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُونَ الصَّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا (الكهف : 3) اور ایمان لانے والوں کو جو نیک اور ایمان کے مناسب حال کام کرتے ہیں ان کو بشارت دے کہ ان کے لئے خدا کی طرف سے اچھا اجر مقدر ہے.اور اچھا اجر حاصل کرنے والے جو صحیح مومن ہیں وہ پھر ایک مسلسل عمل کی حالت میں رہتے ہوئے جس میں نیک اعمال بجالانے کی کوشش ہو اس طرح مسلسل عمل کرتے رہتے ہیں اور پھر یہ ایسی حالت ہوتی ہے جس میں ایمان بگڑتا نہیں.پس مومن کو چاہئے کہ قرآن کی تعلیم جو ایک کامل کتاب ہے ، آیات سے پُر ہے ، پہلوں کے نشانات کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں، آئندہ کے لئے اس میں پیشگوئیاں ہیں ، ان سے سبق حاصل کرے اور آئندہ آنے والی باتوں پر غور کرے نیک اعمال کی طرف توجہ کرے تا کہ اجر حسنہ پائے.نشانوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کس قسم کے دو مختلف نشانات ہوتے ہیں، بشارتیں بھی ہوتی ہیں، انذار بھی ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.1.نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں“.جس
526 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے.2.نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کر سکتے ہیں.تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اور نافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدائے تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو.اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کے لئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار ہیں.اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے ان مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینے پر دست شفقت و تسلی رکھنا مقصود ہوتا ہے.سو مومن قرآن شریف کے وسیلے سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے.تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتا انسان میں ہے، جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے.مومن با برکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پا تارہتا ہے.اگر وہ صحیح طور پر اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے والا ہو تو آخری دن تک اس کو بشارتیں ملتی رہتی ہیں.اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے.اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن اُن کے نزول سے یقین اور معرفت اور قوت ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ آلاء ونعماء الہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ.یعنی وہ ان چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور اس کے احسانات ہیں.”وجلیہ وخفیہ “ جو احسانات و انعامات ظاہر بھی ہیں اور مخفی بھی ہیں ” حضرت باری عز اسمہ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں محبت اور عشق میں دن بدن بڑھتا جاتا ہے..اس قسم کے نشانات، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور احسانات جو ظاہری بھی ہیں اور چھپے ہوئے بھی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انسان پر نازل ہوتے ہیں جو خوشخبریاں دینے والے نشانات ہیں ان کی وجہ سے پھر ایک انسان اللہ تعالیٰ کی محبت و عشق میں بڑھتا چلا جاتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے یہاں تک کہ اس نے ان نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے بچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ.ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (يونس: (65) یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں نا پیدا کنار ترقیاں
خطبات مسر در جلد پنجم 527 خطبہ جمعہ 28 /دسمبر 2007ء کرتے جائیں گے.ایسی ترقیاں کرتے جائیں گے جو نہ ختم ہونے والی ہوں گی.یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ملیں گی.فرمایا کہ : ” اور تبشیر کے نشانوں کو پالینا ، یہی فوز عظیم ہے ( یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہی مقام تک پہنچا دیتا ہے ).اگر خدائے تعالیٰ کے گل نشانوں کو قبری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف کی غرض سے ہی بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں.ظاہری طور پر بے معنی باتیں ہیں.جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے کہ نشان دوغرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے“.(بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود عليه الصلواة والسلام.سورة بنی اسرائیل زیر آیت (60) | پس یہ ہے حقیقت ہر دو قسم کے نشانوں کی کہ مومن کے لئے بشارتیں ہیں.وہ نشانات ہیں جو اسے نیکی اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہیں اور پھر اللہ کا قرب دلانے والے ہیں.جبکہ غیر مومن کے لئے ، انکار کرنے والے کے لئے ، اس میں انذار ہے ، قہری نشانات ہیں.اور جو اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی فعل کبھی محدود نہیں ہوتا انہیں یہ سمجھایا گیا ہے اور قرآن کریم میں انذاری واقعات بیان کئے گئے ہیں تا کہ وہ اس سے سبق حاصل کر سکیں.پس عقلمند ہے وہ جو ان سے سبق لیتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف حوالوں سے یہ ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ کر کون لوگ ایمان لاتے ہیں.ان میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں یا کون لوگ ہیں جن میں یہ خصوصیات ہوں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے.مثلاً سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِايْتَنَا أَنْ أَخْرِجُ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُم إِلَى النُّورِ.وَذَكِّرْهُمْ بِأَيْمِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (ابراهیم: 6) اور یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنے نشانات کے ساتھ یہ اذن دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لا اور انہیں اللہ کے دن یاد کرا.یقیناً اس میں ہر بہت صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے بہت سے نشانات ہیں.یہاں حضرت موسیٰ کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان حالات میں جن میں سے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم گزرے تھے، ان کا صبر و شکر ان کے کام آیا تھا اور فرمایا کہ اس صبر و شکر میں نشانات ہیں.پس قرآن کریم میں یہ ذکر کرنے کا مطلب ہے کہ مسلمان بھی اس نکتہ کو سمجھیں.لیکن صبر اور شکر کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ جو ہو، جس طرح بھی ہو، جس حال میں بھی ہو، گھر بیٹھ جاؤ اور کہ دوہم صبر وشکر کر رہے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انعامات کی اس طرح قدر کرو جس پر شکر گزاری بھی ہو اور قناعت بھی ہوا اور صبر بھی ہو.
خطبات مسر در جلد پنجم 528 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء آنحضرت ﷺ جو حضرت موسیٰ سے بڑھ کر شرعی احکامات لائے ، وہ آخری شریعت لائے جس پر دین اپنے کمال کو پہنچ گیا.تو آپ کے ماننے والوں کے صبر و شکر کے معیار بھی بہت اونچے ہونے چاہئیں تبھی وہ اُن حقیقی انعامات کے وارث ٹھہریں گے جو آپ سے وابستہ ہیں.حضرت موسیٰ کی قوم نے جب تک انعامات کی قدر کی ، فیض پاتے رہے.جب انعامات کی قدر نہیں کی تو ان سے انعامات چھین لئے گئے.یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صبر اور شکر ایک مسلسل عمل اور جد و جہد کو چاہتا ہے.ایک استقلال کے ساتھ ان نیکیوں پر چلتے چلے جانے کا نام صبر اور شکر ہے جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں حکم دیا ہے.ایک تسلسل سے اس جہادا کبر کی ضرورت ہے جو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کے ذریعہ سے کرنا ہے جس میں اپنے نفس کی صفائی بھی ہے اور تبلیغ بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی شکر گزاری بھی ہے اور یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں اور یہی چیز صبر وشکر کے زمرہ میں آتی ہے تاکہ تسلسل قائم رہے اور ان انعامات پر ایک بندہ ، ایک مومن، اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو.فی زمانہ اللہ تعالیٰ کی اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی کہ جب اسلام کی نہایت کسمپرسی کی حالت تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی صورت میں ایک جری اللہ مبعوث فرمایا جو آ نحضرت ﷺ کا حقیقی غلام ہے.اس عظیم رسول کا غلام ہے جس نے موسیٰ کی قوم سے بڑھ کر ظلمت میں ڈوبے ہوؤں کو نور عطا فرمایا.حضرت موسی کی مثال دینے سے یہ مطلب نہیں کہ حضرت موسیٰ کا مقام آنحضرت ﷺ سے بڑا تھا، اس لئے ان کے نمونے پر چلو.بلکہ یہ مثال ہے کہ رسولوں کو ہم اس مقصد کے لئے بھیجتے ہیں کہ وہ قوموں کو اندھیروں سے نور کی طرف لائیں اور جو قو میں اس چیز کے حصول کے بعد یعنی نور کی طرف آنے کے بعد مستقل مزاجی سے قائم رہتی ہیں وہ آیت اللہ بن جاتی ہیں.جوست ہو جاتی ہیں ، صبر اور شکر کے نمونے نہیں دکھاتیں ان سے نعمتیں چھن جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول اللہ ﷺ ! مسلمانوں کو بھی بتا دے کہ اس اصول کو پکڑ کر رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کی ان آیات کے جو تبشیری آیات ہیں حقدار کہلائیں گے.پس اس اصل کو پکڑتے ہوئے اُس نعمت کی بھی قدر کرو جو اس زمانے میں مسیح موعود کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی تا کہ پھر کھوئی ہوئی عظمت واپس آئے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَذَكَرْهُمْ بِأَيْمِ اللهِ یعنی انہیں اللہ کے دن یاد کرا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ظلمت سے نور کی طرف نکالنے کا اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ طریق بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی طرف توجہ دلا.انہیں بتا کہ مومنین کے ساتھ کتنی بشارتیں وابستہ ہیں.کیا کیا انعامات مومنین کے لئے ہیں.دوسرے یہ کہ سزاؤں سے خوف دلایا جائے.پس یہ حالات قرآن کریم میں محفوظ کر کے مسلمانوں کو مستقل نصیحت فرما دی کہ تمہاری نظر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے
529 خطبہ جمعہ 28 /دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم انعامات پر رہنی چاہئے اور پھر دوسری اس چیز پر رہنی چاہئے کہ جو نا فرمانی کرنے والے ہیں ان کو نا فرمانی کی صورت میں جو سزائیں ملیں ، جو عذاب آئے ان پر نظر رکھو.تبھی ایک انسان شیطان کے حملوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو یہ بات سمجھنے کا فہم و ادراک عطا فرمائے.( ملخص از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 445) اللہ تعالیٰ قرآن کریم سورۃ النحل میں فرماتا ہے وَاللَّهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاحْيَابِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةٌ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (النحل: 66) اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کر دیا.یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا نشان ہے جو (بات ) سنتے ہیں.اس پانی اتارنے میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے لئے جو بات سنتی ہے نشان بتایا ہے، یعنی پانی کا اتر نا نشانی ہے سننے والوں کے لئے.جبکہ اسی سورۃ کی پچھلی آیات میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّكُمْ اور یہ جو پانی اتارا ہے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ پانی میں نے تمہارے لئے اتارا.اس کے بارے میں ان آیات میں فرماتا ہے کہ اس پانی سے تم پیتے بھی ہو اور جانور بھی پیتے ہیں، اور تمہارے درخت اور فصلیں بھی تیار ہوتی ہیں جو تمہارے فائدے کے لئے ہیں.لیکن یہ جو میں نے ابھی آیت پڑھی ہے اس میں جیسا کہ میں نے کہا اور ہم نے ترجمہ دیکھا کہ زمین کے زندہ کرنے کے لئے جو پانی اتارا اس میں نشان ہے سننے والوں کے لئے اور پانی کا سننے سے تو کوئی تعلق نہیں ہے.پانی کا تعلق جیسا کہ پہلی آیت میں بیان ہوا ہے پیاس بجھانے اور فصلوں اور پودوں کی پرورش سے ہے.تو یہاں جو سننے کے ساتھ اس پانی کے اُترنے کو ملایا ہے اس کا کچھ اور مطلب ہوگا.کچھ اور مراد ہونی چاہئے.اس کے لئے جب اس آیت سے پہلی آیت دیکھتے ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تجھے پر اس لئے اتاری ہے کہ جن باتوں کے متعلق پہلی امتوں نے اختلاف پیدا کیا ہوا ہے، ہر ایک اپنے آپ کو صحیح سمجھتی ہے، ان اختلافات کو کھول کر بیان کریں تا کہ مسیح تعلیم اور حقیقت کا انہیں پتہ چلے.اور جو اس پر ایمان لائیں انہیں اس کے ذریعہ سے ہدایت اور راہنمائی حاصل ہو.اور یہ مومنین کی جماعت ایسی بن جائے جن پر رحمتیں نازل ہوں.پھر اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مردہ زمین کو زندگی بخشنے میں سننے والوں کے لئے نشانات پائے جاتے ہیں.پس یہاں پانی سے مراد روحانی پانی ہے جو انبیاء کے ذریعہ سے آسمان سے نازل ہوتا ہے جو سب سے اعلیٰ اور مصفی حالت میں آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا.جس نے بہت سے مردوں کو زندگی بخشی.پرانی امتوں کے جو آپس کے اختلافات تھے اور قضیے تھے وہ چکائے.اختلافات ختم کئے.پس یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے جو سننے والوں کے لئے زندگی بخش کلام ہے.یہاں سننے سے مراد صرف سنا نہیں ہے بلکہ اسے قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا بھی ہے.پس اس روحانی پانی کا فائدہ اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کے لئے ہی ہے نہ کہ ان لوگوں کے لئے جو فرقہ
530 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء خطبات مسرور جلد پنجم بندیوں اور تفرقہ بازیوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور اپنی فرقہ بندیوں کی وجہ سے باوجود اس کتاب کے موجود ہونے کے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.عجیب و غریب تو جیہیں اور تفسیر میں اس کی بیان کی جاتی ہیں.اس زندگی بخش پانی کو مسلمانوں نے اپنے لئے اس وجہ سے بے فیض کر لیا ہے کہ اس کو سمجھ نہیں سکے.اس زمانے میں جب آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے مبعوث ہونا تھا وہی فیض پاسکتے تھے جو اس عاشق صادق کی تفسیروں کو غور سے سنے جس کی خود اللہ تعالیٰ نے راہنمائی فرمائی ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ اعلان کیا کہ میں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پڑے.براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه (145 پس اب قرآنی فیض کے چشمے جو ہیں وہ بھی اسی عاشق صادق کی صحبت سے جاری ہونے ہیں.پس عقل والوں کے لئے غور اور فکر کا مقام ہے.کان رکھنے والوں کے لئے سننے کا پیغام ہے.پس توجہ کریں اور سنیں.پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةٌ لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ (هود: 104) یقیناً اس بات میں ایک عظیم نشان ہے اس کے لئے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو.یہ وہ دن ہے جس کے لئے لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور یہ وہ دن ہے جس کی شہادت دی گئی ہے.پس جب ایک مومن ان واقعات کو پڑھتا ہے جو پہلی قوموں پر ہو چکے ہیں.یعنی ان کے ظلموں اور زیادتیوں کی وجہ سے ان پر عذاب آئے یا ان آیات کو پڑھتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ میں ظلم و زیادتی کرنے والوں کو پکڑوں گا اور آخرت کا عذاب بہت سخت عذاب ہے تو ایک مومن کی روح کانپ جاتی ہے وہ اپنی اصلاح کی مزید کوشش کرتا ہے.ہر قسم کے ظلم سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے.بلکہ ایک مومن کی تو یہ شان ہے اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہی سکھایا ہے اور یہی اُسوہ ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ جب بادل یا آندھی وغیرہ آتے تھے اور جب آپ اُن کو دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے بچنے کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعا کیا کرتے تھے.پس مومن ان سب باتوں کو دیکھ کر اپنا جائزہ لیتے ہیں اور ان میں خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے.عذاب اور پہلے واقعات ، یہی چیز ہے جو مومن کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہیں.اللہ کرے کہ آنحضرت ﷺ کی امت کا ہر فرد، آپ سے منسوب ہونے والا ہر شخص اس حقیقت کو دل کی گہرائی سے سمجھنے والا ہو کہ ظلم و تعدی اور حد سے بڑھی ہوئی نافرمانی اور بغاوت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو توڑ مروڑ کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا خدا کے ہاں قابل مواخذہ ہے.اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو بھی سب سے بڑھ کر ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.ایک دُعا کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں.جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے حالات آج کل
خطبات مسر در جلد پنجم 531 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء انتہائی نا گفتہ بہ ہیں.حکومت بھی بظاہر لگتا ہے کہ بالکل مجبور ہو چکی ہے ، نہ ہونے کے برابر ہے اور ہر چیز دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں میں ہے.اسلام کا نام لے کر اسلام کے احکامات کے خلاف حرکتیں کی جارہی ہیں.اللہ کا رسول تو یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہی نہیں ہے جس نے دوسرے مسلمان کو مارا اور یہاں ہر ایک دوسرے کو مارنے پر تلا ہوا ہے.ہر روز درجنوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں.دہشت گردی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے.کئی بچے یتیم ہو رہے ہیں، کئی عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں.کیوں کے سہاگ اجڑ رہے ہیں.لیکن ان کو کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے، کس طرف یہ لوگ جارہے ہیں.تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور سمجھ دے.احمدیوں کا تو اس ملک کے قیام میں بھی حصہ ہے.احمدیوں کے خون اس ملک کے قیام کے وقت بھی ہے ہیں.احمدیوں کے خون اس ملک کی تعمیر میں بھی بہے ہیں.احمدیوں کے خون اس ملک کی حفاظت کے لئے بھی ہے ہیں.اور یہ وطن سے محبت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم آج بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں.کیونکہ اب جو حالات ہیں ویسے بھی ہمارے پاس اور کوئی طاقت نہیں جو ظلم کو روک سکیں.ظلم سے روکنے کے لئے ایک چیز جو ہمارے پاس ہے وہ دُعا ہے.اس لئے دُعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں.پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی بہت زیادہ دعائیں کریں.دنیا کے دوسرے ملکوں میں جو پاکستانی احمدی رہ رہے ہیں وہ بھی اس ملک کے لئے دعا کریں.بلکہ دنیا میں رہنے والے غیر پاکستانی احمدی بھی دعا کریں کہ پاکستانی احمدیوں کا ان ملکوں پر یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے پہلے جا کر وہاں اس زمانے کے امام کا پیغام پہنچایا اور انہیں وہ راستے دکھائے اور انہیں وہ تعلیم دکھائی اور اس آسمانی پانی سے آگاہ کیا جو اس زمانے کے امام کے ذریعے ہم تک پہنچا.تو احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کو آج کل پاکستانی احمدیوں کے لئے اور ان کے ملک کے لئے دعا کرنی چاہئے.احمدی جو پاکستان میں ہیں اپنے ماحول میں بھی اس طرف توجہ کریں.غیروں میں بھی ان کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے، ان کو توجہ دلائیں کہ تم لوگ یہ کس ڈگر پر چل پڑے ہو.اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک ملک دینے کی صورت میں جو احسان کیا تھا جہاں تم آزادی سے رہ سکتے ہو، کیوں اس کی بربادی پر تلے ہوئے ہو.جو قو میں انعامات کی قدر نہیں کرتیں پھر وہ انعامات سے محروم کر دی جاتی ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنے ماحول میں اس طرف توجہ بھی دلائیں جہاں تک ان کا اثر ہے اور دُعا بھی بہت کریں بلکہ دنیا کے رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ دعا کریں اور بہت دعا کریں.حالات انتہائی خطرناک ہوتے چلے جارہے ہیں حد سے زیادہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور جو بم
532 خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2007ء خطبات مسر در جلد پنجم پھٹتے ہیں یا گولیاں چلتی ہیں یا قتل ہوتے ہیں اس کے رد عمل کے طور پر بجائے اس کے کہ غور وفکر کر کے کوئی حل سوچا جائے، کوئی عقلمندی سے پلاننگ کی جائے ، اس کی بجائے پھر مار دھاڑ توڑ پھوڑ اور تباہی کی طرف پھر توجہ ہو جاتی ہے اور مزید تباہیاں پھیلتی چلی جارہی ہیں.درجنوں موتیں روزانہ ہورہی ہیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے.عوام تو عموماً شریف ہیں، زیادہ تر عوام تو اس میں ملوث نہیں ہوتے لیکن جو شرارتی طبقہ ہے، جو ملک کی تباہی کے در پے ہے اگر ان کا یہی مقدر ہے کہ اُن میں عقل نہیں آنی اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر ہے تو کم از کم پھر ان پر پکڑ جلدی آئے تا کہ یہ ملک محفوظ رہے اور شرفاء محفوظ رہیں اور بچے محفوظ رہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ اس ملک میں جلد امن قائم ہو جائے.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل لندن مورخہ 18 تا 24 جنوری 2008ء ص 5 تا 8 )
اشاریہ مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز صاحب (1) آیات قرآنید.(2) احادیث مبارکہ (3) مضامین.(4) اسماء (5) مقامات.(6) کتابیات.3........8.......12.........33.....39.......44.......
آیات قرآنیہ آیت کے ساتھ اس کا نمبر اور بعد میں کتاب کا صفحہ نمبر ہے ) الفاتحه غير المغضوب عليهم ولا الضالين (7) 111 ان الذين آمنوا والذين هاجروا (219) البقرة ومما رزقناهم ينفقون (4) والذين يومنون بما انزل(5) ونحن نسبح بحمدك (31) واستعينوا بالصبر والصلوة(46) 289 292 158 479 والذين يتوفون ويذرون(229) واذ قال ابراهیم ربی ارنی (261) وما تنفقوا من خير (273) الذين ينفقون أموالهم (275) الذين ياكلون الربو (276) 70.68 459 298 450 452 248 الم تعلم ان الله له ملك السموات (108) 107 يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله (280-279) 204 بلى من اسلم وجهه (113) وان كان ذو عسرة (281) انا ارسلناك بالحق بشير ا (120) 291 247 250 واذ جعلنا البيت مثابة(126) ربنا وابعث فيهم(130) 283 523.515 كما ارسلنا فيكم رسولا (152) 516،501 والذين آمنوا اشد حبا لله (166) فمن اضطر غیر باغ (174) ولا تاكلوا أموالكم بينكم (189) وقاتلوا في سبيل الله (191) واقتلوهم (192) فان انتهوا (194-193) 292 246 256 يا ايها الذين امنوا اذاتداينتم (283) 252 يغفر لمن يشاء(285) 139 آل عمران من قبل هدى للناس(5) شهد الله انه لا اله الا هو (19) ان الدين عند الله الاسلام(20) 435 481 211 110 282 272 قل اللهم مالك الملك (27) 273 273 و من دخله كان آمنا (98) كنتم خير امة اخرجت للناس (111) 405،1 وان زللتم من بعد ما جاء تكم (210) 498،439 | تامرون بالمعروف(111) 206
4 فاتقوا الله لعلكم تشكرون (124) 324 الانعام يا ايها الذين آمنوا لا تاكلوا الربو (131) 252 - كتب ربكم على نفسه الرحمة (55) 62 الذين(109) والذين اذا فعلوا فاحشة (136) 126 ولا تسبوا الذين (109) ولله ملك السموات والارض (190) 123 افغير الله ابتغى حكما (115) النساء لهم دار السلام عند ربهم (128) 261-262 499 197 وليخش الذين لو تركوا (10) 461 قل ان صلاتی و نسکی (163) 42، 124 ان الذين ياكلون اموال اليتامى (11) 463 وعاشروهن بالمعروف (20) واعبدوا الله ولا تشركوا (37) 223،89 الاعراف 466 ربنا ظلمنا انفسنا ( 24 ).اس دعا کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی تلقین فكيف اذا جئنا من كل امة(42) ان الله لا يغفر ان يشرك(49) تؤدوا الامانات الى اهلها (59) فلا وربك لا يومنون (66) و من يطع الله (70) وكان الله غفورا رحيما (101) 280 90 137 294 60 139 ولا تفسدوا في الارض (57) 31 67 ان رحمت الله قريب من المحسنين (57)70 رحمتي وسعت كل شيء(157) الانفال 525 انما المومنون الذين اذا ذكر الله(4-3) 147، 293 يا ايها الذين آمنوا استجيبوا (25) 401 ان الصلواة كانت على المومنين (104) 288 قل للذين كفروا ان ينتهوا (40-39) 274 يا ايها الذين آمنوا آمنوا ابالله(137) 403 واطيعوا الله ورسوله (47) المائده اليوم اكملت لكم (4) 419 التوبه 218 والمومنون والمومنات بعضهم (71) 447 يا ايها الذين آمنوا كونوا قوامين (9) 264 لقد جاء كم رسول من انفسكم (128) 73 الم تعلم ان الله له ملك (41) والله يعصمك من الناس (68) 101 143 يونس لهم البشرى في الحياة الدنيا (65) 526 لا تثريب عليكم اليوم (93) ان الذين آمنوا والذين هادوا (70) 284 يا ايها الذين آمنوا لا تقتلوا الصيد (96) 436 هود يهدى به الله من اتبع رضوانه (17)211،198 ولقد جاءت رسلنا ابراهيم(70) 133 298
ان في ذلك لآية (104) يوسف فالله خیر حفظا (65) حفظا(65) الرعد جنت عدن يدخلونها (25-24) 5 530 يابت لا تعبدوا الشيطن (46-45) 23 406 وقالوا اتخذ الرحمن ولدا (94-89 27 طه سلام عليكم بما صبرتم (25) 205 198 اقم الصلواة لذكرى (15) ان الساعة آتية(16) الا بذكر الله تطمئن القلوب (29) 151 فاقض ما انت قاض(73) ابراهيم و امر اهلك بالصلواة (133) 152 97 406 289 ولقد ارسلنا موسیٰ بآياتنا (6) لئن شكرتم لازيدنكم(8) وأدخل الذين امنوا(24) 527 325 206 الانبياء قلنا یا نار کونی بردا(70) 119 الحج قل لعبادى الذين آمنوا يقيموا الصلواة (32) 148 اذن للذين يقاتلون (41-40) يقاتلون(41-40) ولا تحسبن الله مخلف وعده (48) 436، 479 | ولو لا دفع الله الناس(41) النحل وان تعدوا نعمت الله (19) والله انزل من السماء ماء(66) قل نزله روح القدس (103) 57 529 165 268 438 271 الذين ان مكنهم (42) الملك يومئذ لله الواحد(57) 96، 100 ما قدروا الله حق قدره (75) 488 المومنون ادع الى سبيل ربك بالحكمة (106) 504 قد افلح المومنون (3-2) بنی اسرائیل النور وقل رب ارحمهما كما ربينى (25) 224 ولا يأتل اولوا الفضل (23) ولا تقربوا مال اليتيم (35) 461 وما نرسل بالآيات الا تخويفا (60) 523 الكهف يبشر المومنين الذين(3) فلعلك باخع نفسك(7) 525 75 487 236 یا ايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوتا(28) 505،212 والذين يبتغون الكتاب (34) الله نور السموات والارض (36) انما كان قول المومنين اذا (52) اقيموا الصلواة (57) 277 432 294 151
173.123 483 423 291 22.21 198 110 424 424 97 300 107 6 152 ان الله وملائكته(57) سبا قل اروني الذين الحقتم (27) فاطر من كان يريد العزة(11) وان من امة الاخلا فيها نذير (25) يس انما تنذر من اتبع الذكر (12) سلام قولا من رب(59) اولم يروا انا خلقنا (72) ص أ انزل عليه الذكر (9) ام عندهم خزائن رحمة (10) ام نجعل الذين آمنوا(29) وما انا من المتكلفين (87) الزمر ذلكم الله ربكم(7) ومن يهد الله فما له من مضل (38) 437 33.31 487 63 489 224 لا تقنطوا من رحمة الله(54) المومن تدعونني لا كفر بالله (43) ادعوني استجب لكم (61) الجاثيه وله الكبرياء في السموات (38) الاحقاف ووصينا الانسان (16) واتوا الزكواة (57) اطيعوا الرسول لعلكم ترحمون (57) 152 فاذا دخلتم بيوتا (62) الفرقان 215 518 202 79 12 22 22 204 282 520 لو لا نزل عليه القرآن (33) عباد الرحمن الذين(64) الا من تاب و آمن (71) الشعراء العلك باخع نفسك (4) القصص واذا سمعوا اللغو اعرضوا(56) العنكبوت اولم يروا انا جعلنا حرما امنا(68) والذين جاهدوا فينا (70) الروم و من آيته خلق السموات والارض (23)444 238 238 520.243 89 295 404 70 فات ذا القربى حقه(39) وما اتيتم من ربا(40) ظهر الفساد في البر (42) لقمن ان الشرك لظلم عظيم (14) السجدة انما يومن بآياتنا (16) الاحزاب ما كان محمد ابا احد(41) 175 و كان بالمومنين رحيما (44)
162 يتلوا عليهم (3) 7 الحجرات يا ايها الناس انا خلقناكم من ذكر (14) 133، 259 و آخرين منهم (4) 417 يا ايها الذين آمنوا اذا نودی(12-10) 411 ق 24 423 واذا راؤا تجارة (12) المنافقون ولله العزة (9) الطلاق ويرزقه من حيث لا يحتسب (4) 452،154 124 288 288 القلم وانك لعلى خلق عظيم (5) نوح على صلاتهم دائمون(24) على صلاتهم يحافظون (35) الانفطار 263 230 القيا في جهنم كل كفار (7) الذاريات وفى اموالهم حق للسائل (20) نجم ان الظن لا يغنى من الحق شيئا (29) 429 97 437 427.425 402 ليجزى الذين اساؤا (32) القمر كذبوا بآياتنا كلها(43) المجادله كتب الله لا غلين (22) و ایدهم بروح منه (23) الحديد اعلموا ان الله يحيى الارض (18) 402 وما ادراك ما يوم الدين (20-18) 99 المطففين الحشر هو الله الذي لا اله الا هو (24) ان كتب الفجار لفى سجين (8) 279 الممتحنه لا ينهاكم الله عن الذين(9) الصف ويل يومئذ للمكذبين (11) التين 100 101 261 اليس الله باحكم الحاكمين (9) 493 ليظهره على الدين كله(10) مفسرین کا اتفاق کہ یہ مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے الزلزال 419 فمن يعمل مثقال ذرة (89) 97.34.26 الجمعة الكوثر هو الذي بعث في الاميين (3) 516 انا اعطيناك الكوثر (4-2) 175
8 اعقلها وتوكل 506 احادیث احادیث بالمعنی جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی اللهم انى اسئلك خيرها 309 آنحضرت کا سینہ آب زمزم سے میں سے اللہ کی راہ میں دی 452 اللهم انى اسئلك......آندھی دھویا جانا 507 تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجات نہ 41 اور طوفان کو دیکھ کر دعا 86 ایک یہودی کا السلام علیکم کہنا507 دے گا اللهم اني اعوذ بك من زوال اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ تو جھانک آنحضرت کا اسامہ اور حسن کو پیار نعمتك رہا ہے تو میں یہ مکھی تیری آنکھ میں کرنا بين الكفر والايمان ترك چھوتا الصلاة 148 505 41 ایک یہودی لڑکے کی عیادت اور شیطان انسان کے جسم میں خون اسلام قبول کرنے کی دعوت 40 تقع الامنة في الارض 284 کے دوڑنے کی طرح 505....شرکین کے لئے بددعا کرنے پر الجمعة حق واجب على كل رشک دو آدمیوں کے متعلق جائزہ فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں مسلم 414 ہے 502 مبعوث کیا گیا 40 رسول اللہ سے زیادہ گھر والوں.سے جمعہ پر نہ آنے والوں کے گھر کو حب الوطن من الايمان 155 آگ لگا دینے کا ارادہ 416 لوگ اللہ کے حضور جمعوں کے رحم کا سلوک کرنے والا نہ دیکھا 40 خیر کم خيركم لاهله 466 الكلمة الحكمة ضالة المومن 502 حساب سے بیٹھے ہوں گے 416 فرشتوں نے آپ کا سینہ چاک نماز جمعہ پر آیا کرو، امام کے قریب کیا....دل کو صاف کیا 39 الولاك لما خلقت الافلاك 162 ہوکر بیٹھا کرو 416 آنحضرت صحابہ کے لئے دعا کے من لا يشكر الناس 323 جمعہ فرض ہے اور جس نے اس سے بغیر کم ہی مجلس سے اٹھتے 38 من لم يدع الله سبحانه غضب لا پرواہی کی اللہ اس سے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کی لا پرواہی کرے گا 415 ایک دعا عليه 58 38
9 شخص کا قبیلہ کے خلاف بددعا ایک شخص جس نے خوف خدا کی وجہ سے آپس میں سلام کو رواج دو 195 کرنے کی درخواست پر آپ کا رحم اپنی راکھ اڑا دینے کی وصیت کی 32 پہلی قوموں کی بیماریاں تم میں داخل کی دعا کرنا 38 اللہ نے رحمت کو سو حصوں میں پیدا ہو رہی ہیں بغض اور حسد 194 اونٹنی کے مالک کو فرمایا کہ اس پر کیا ہے زائد بوجھ نہ لا دو 37 30-31 بہترین اسلام کھانا کھلانا اور سلام اگر مومن کو اللہ کی سزا کے بارے کرنا 194 پرندے کے انڈے اٹھانے پر معلوم ہو جائے تو جنت کی کوئی امید سلام اللہ کے ناموں میں سے ایک 37 30 30 ہے 194 آنحضرت کا ارشاد جو رحم کرے خواہ کسی ذبح کئے جانے رحمت صرف بد بخت سے چھینی جاتی آنحضرت کا ایک گھر والوں کو سلام والے جانور پر ہو...37 ہے کہنا ان لوگوں کا اس محبت میں مومنوں کو آپس میں رحم ، محبت کرنے ایک عورت اپنے گمشدہ بچے کو جواب نہ دینا کہ حضور دوبارہ سلام میں ایک جسم کی طرح پائے گا 36 ڈھونڈتے ہوئے سینے سے لگاتی..کہیں گے جماعت رحمت سے علیحدگی عذاب 36 فرمایا کیا تم گمان کرتے ہو کہ یہ اسے ایک صحابی کا بغیر سلام کئے اندر آنا اہل جنت کی تین نشانیاں انصاف آگ میں پھینک دے گی 27 اور اسے طریق سمجھانا 213 پسند حاکم ، کثرت سے صدقات اللہ نے کہہ چھوڑا ہے کہ میری رحمت مسلمان مسلمان کا بھائی ہے 207 کرنے والا رحم کرنے والا محتاج ہو مگر سوال نہ کرے 36 214 میرے غضب پر فوقیت لے گئی 27 اللہ کا نام سلام ہے اسے درمیان 205 بوڑھے کو جگہ نہ دینے پر فرمایا جو نبی اکرم جب بسم اللہ الرحمن الرحیم میں پھیلاؤ ہمارے بزرگوں کی عزت نہیں کرتا پڑھتے تو رحمن کے لفظ پر آپ کی السلام علیکم کہنے پر آپ کا جواب نہ دینا آنکھوں میں آنسو آ جاتے 26 35 232 وہ ہم میں سے نہیں تم رحم کرو تم پر تم کیا جائے گا 34 اللہ نے رحم کوفرمایا کہ کیا تو یہ پسند اللہ اسے اپنی حفاظت میں رکھے گا رحم کرتا کہ میں اس سے تعلق جوڑوں جو کمزوروں پر رحم کرے 229 جو تجھ سے جوڑے 24 انسان کی بدبختی کے لئے کافی ہے کہ آنحضرت کا بچوں سے پیار اور ایک شخص کا کہنا کہ میرے دس بچے ہیں 34 ایک شخص کا چھوٹے بچے کو پیار کرنا ایک دوسرے کو تھے دو اس سے وہ مسلمان کو حقارت سے دیکھے 229 240 بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کی اور آنحضرت کا فرمانا کہ اللہ اس محبت بڑھتی ہے وہ شخص سلامتی والا ہے جس کے ہاتھ پر ورش کی جائے سے رحم کرتا ہے بنی اسرائیل میں ننانوے قتل کرنے اور زبان سے لوگ محفو ظ ر میں 197 یتیم کی دیکھ بھال کرنے والا جنت والا شخص اور خدا کی مغفرت 32 کونسا اسلام افضل ہے؟ 196 میں اس طرح ہے 33 228 228
10 سلام کو پھیلاؤ تا کہ تم غلبہ پا جاؤ 218 | آنحضرت کا حضرت حسن کو چومنا | فرمایا میں بھی اللہ کے فضل کے بغیر سلام کو پھیلاؤ 218 اور ایک شخص کا کہنا کہ میرے دس جنت میں نہیں جاسکتا 123 السلام علیکم کہنے پر دس نیکیاں 217 بچے ہیں 88 بنی اسرائیل کے تین آدمیوں ، کوڑھی ، کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ کتے کو پانی پلانے پر پخش 87 گنجا اور نا بینا کی آزمائش 108 پر کلمہ بناوٹی ہے 406 شاخ راستے سے ہٹانے پر جنت 87 اس کا رحم اس کے غصہ پر غالب جس نے بلا وجہ مجھے چھوڑ اوہ منافق میری دعا فوت شدہ کے لئے باعث آجاتا لکھا جائے گا 415 رحمت ہے 87 101 ایک سفر میں زاد راہ کم ہونا اور حضور ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ آپ کا ایک غریب عورت کا جنازہ کی دعا سے برکت 414 پڑھنا 86 167 شراب کی حرمت کا اعلان اور صحابہ ادا کرنا واجب ہے جمعہ اور قبولیت دعا کی گھڑی 413 جب بادل آتے یا ہوا چلتی تو آپ کی اطاعت کا بے مثال جذ بہ 167 پریشانی میں ٹہلتے 85 آ اللہ کسی امت کو درجہ تقدیس عطا نہیں کرتا جس میں کمزوروں کا حق پانچ نمازیں ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور رمضان سے اگلا رمضان ان کے درمیان ہونے والی لغزشوں کا ہوا کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ رحمت اور 412 عذاب دونوں کو ہوتی ہے 85 نہیں دیا جاتا جب وہ (امام) آئے تو میرا سلام ایک بدو کا سخت کلامی کرتے ہوئے 403 مال مانگنا کفاره کہنا 85 167 دم کرنے کے لئے یہ دعا سکھلائی 166 عام مسلمان کو تکلیف ہو تو ایسا محسوس ایک شخص کے پاؤں پر پاؤں آنے ترتی تہلیل اور تقدیس کولازم پکڑ 16 کرو کہ جیسے اپنے جسم کو 444 سے نبی اکرم کا اپنی بکریاں عطا کرنا 84 اسلامی سپہ سالاروں کو حکم کہ کسی بھی اے اللہ جس کو میں نے سخت الفاظ 76 کوئی صبح ایسی نہیں کہ ایک منادی کرنے والا منادی کرتا ہے سبحان مذہب کے عبادت خانے مسمار نہ کہے ہوں.438 فرشتے نمازی کے لئے دعا کرتے الملك القدوس کئے جائیں.75 166 آنحضرت وتر میں جو سورتیں پڑھا بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ وہ ہیں شریک نہ ٹھہرائیں 90 نماز میں سکھائی جانے والی ایک دعا 75 کرتے اور پھر دعا کرتے 166-165 عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس آپ کے رات اور دن قرآن کی عملی آنحضرت کی ایک دعا سبوح سے بھلائی سے پیش آیا کرو 89 تصویر تھے 124 قدوس..165 آنحضرت کا ایک گھر میں کھانا عبادت کے دوران آپ کے پاؤں سلام کرو جسے تم جانتے ہو یا نہیں م کر نے تم جانتے تناول فرمانا اور دعا کرنا 88 مبارک متورم ہو جاتے 123 جانتے 312
11 135 ایک صحابی کا عرض کرنا کہ مجھے ایسی غلط فیصلہ کروانے والا آگ کا گولہ ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے عمل بتائیں کہ میں جنت میں داخل پیٹ میں بھرتا ہے 295 بارہ میں جوابدہ ہے ہو جاؤں.سلام کو رواج دو، کھانا نماز با جماعت کا ثواب ستائیس گنا نیکیاں اور بدیاں لکھی جاتی ہیں نیکی 289 کا ارادہ کیا لیکن کر نہ سکا تو بھی ایک کھلایا کرو.312 مهمان نوازی ایک دن رات ہے 310 تک ہے آنحضرت کا اس شخص کو معاف نیکی 131 جو مسلمان مسلمان کو قتل کرے وہ کر دینا جو قتل کرنے آیا تھا 143 ذکر الہی کرنے والوں کی تلاش میں مسلمان ہی نہیں 306 تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے 302 اے میرے بندو! میں نے اپنے فرشتے 130 او پر ظلم حرام کیا ہوا ہے 142 حلال اور حرام واضح ہیں اور درمیان آپ کے ہاں تین مہمان اور ان کی اللہ تعالیٰ ہر رات ورلے آسمان پر مہمان نوازی میں بے تکلفی 300 اترتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مومن ایک آنت سے کھاتا ہے 300 آنحضرت کا مہمان کا فر جوسات بکریوں کا دودھ پی گیا 299 میں متشابہات ہیں 129 149 قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا مانگے تا میں اسے عطا کروں 141 کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے آنحضرت بستر پر لیٹتے ہوئے یہ فرمایا: نماز وقت پر پڑھنا 149 دعا پڑھتے 140 آنحضرت کے صحابہ نماز کے علاوہ بدیوں کے باوجود بخشش کا وعدہ کسی عمل کو بھی ترک کرنا کفر نہ سمجھتے 140 உ 149 تین باتیں: 1.اچھی بات کہے یا صرف شرک نہ ہو خاموش رہے 2.پڑوسی کی عزت ایک شخص کا خوف خدا کی بناء پر اپنے آپ نمازوں کی صف بندی اور صنفیں 3 - مہمان کا احترام 299 کو جلا کر راکھ کر دینے کی وصیت 139 سیدھا کرنے کا اہتمام 149
12 آخرت آ.الف مضامین جماعت احمد یہ اللہ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے 200 احمدیت کی تعلیم ہمیشہ یہ ہے کہ پیار اور محبت کا پیغام آخرت پر ایمان اور اس کی کیفیت اور اس سے مراد دنیا تک پہنچانا ہے 291 220 احمدیت خیر امت ہے اور اس کو ثابت کرنے کے آخرت سے مراد مسیح موعود اور اس پر ایمان لانا بھی ہے 292.291 لئے نیک نمونے کی ضرورت ہے 4 آفات زمینی وسماوی اور ان سے بچنے کی تدبیر 471 احمدیت کا پیغام پہنچانا اور یہ ہماری باقی دعاؤں کی آگ دنیا کے کسی بھی خطہ میں جماعت کے خلاف قبولیت کا باعث ہوگا بھڑکائی گئی آگ ضرور ٹھنڈی ہوگی آل فرعون احرار کی مخالفت اور تحریک جدید 199 437 453 409 احمدیت کی غرض گمشدہ معرفت کا دوبارہ قیام 408 احمدیت قبول کرنے والوں کی مخالفت 405 دنیا کے کسی بھی خطہ میں جماعت کے خلاف بھڑکائی 199 402 گئی آگ ضرور ٹھنڈی ہوگی احتیاط، جماعت میں روپے پیسے کے استعمال میں احمدیت قبول کرنا خوش قسمتی ہے خدا اور اس کے رسول کے احکامات کی پابندی کا نام احتیاط اور مزید توجہ کی ضرورت احیائے موتی 11 احیائے موتی حضرت ابراہیم کا دعا مانگنا 498 احمدیت جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد نیکی تقویٰ اور خدا کی وحدانیت کا ادراک 481 احمدیت ہے 401 احمدیہ جماعت امن پسند اور پیار پھیلانے والی جماعت ہے جرمنی کے ایک MP کا اظہار خیال 19 احمدیت کے چراغ کو دنیا کی تمام طاقتیں بھی بجھا نہیں سکتیں 406 احمدیت کا دوست اللہ تعالیٰ ہے جو سب سے زیادہ وہ احمدی جن کی مخالفت کی جاتی ہے اور شہید کیا جاتا وفا کرنے والا ہے 201 ہے ان کا جواب کیا ہونا چاہیے 406
13 کوئی مخالفت شہادت اور ظلم احمدیت کو نقصان نہیں ہر احمدی کو دو امور کی طرف خاص طور پر توجہ دینے کی 429 ضرورت ہے 1.نماز 2.مالی قربانی 152،148 پہنچا سکا احمدیت کی تاریخ کا اہم دن 23 مارچ اور حضرت بے رحم حاکموں کی ظلم کی چکی میں پسنے والے احمدی 113 یہ دعا کریں 39 مسیح موعود کا اسلام کے لئے دفاع رویا صادقہ کے ذریعہ دنیا بھر میں احمدیت کی تائید 409 اسلامی ملکوں میں جہاں احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے یا ہر احمدی کو عبادتوں اور دعاؤں کے معیار کو سمجھنے کی قانون پاس ہو رہا ہے ان کو وارننگ ہورہا 270 کوشش کرنی چاہیے ایک احمدی کی ذمہ داریاں.ایک امانت ، ایک عہد احمدیوں پر اظہار عقیدہ پر پابندی 418 احمدی پر ہونے والے مظالم اور نصیحت 430،429 420 احمدیت پر ہونے والے ظلم اور ان کی بے بسی 219 جس کا حق ادا کرنا ہے.....احمدی کی امن عالم کے لئے تڑپ اور دعا 469 آج احمدی بھی یا درکھیں کہ، فتح مکہ کا یہ نظارہ 406 513 ایمان دیکھنا ہے تو آج احمدیوں میں دیکھیں جنہوں دہرایا جانے والا ہے نے کلے کو اپنے سینے سے لگایا اور اترنے نہیں دیا اور جماعت کے خلاف جب بھی آگ بھڑکائی گئی یا جبیلیں بھر دیں، جانوں کے نذرانے پیش کئے 286 بھڑکائی جائے گی وہ ضرور ٹھنڈی ہوگی 199 احمدیت کے مخالفین کی بھول ہے کہ ان کی مخالفت ہر احمدی کی خصوصیت اور ذمہ داری کہ وہ امن قائم کرنے والے ہوں 280 ہر احمدی جب بیعت کرتا ہے تو کیا اعلان کرتا ہے 401 206 احمدیوں کو برگشتہ کر سکتی ہے حضرت مسیح موعود کی جماعت کا تعلق اپنے رب سے اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ اب کوئی طوفان کوئی آندھی 446 ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسلام اور خدا پر ہونے والے اسے بلا نہیں سکتی اعتراضات کے رڈ کے لئے عزیز اور حکیم خدا کا صحیح احمدیت کا غلبہ اور فتح.جنگ اور قتال کے ذریعہ نہیں 439 بلکہ دلائل کا جہاد ہوگا تصور پیش کرے 427 احمدی کی ذمہ داری.مغرب میں اسلام کے خلاف اخراجات.جماعت میں روپے پیسے کے استعمال 78 میں احتیاط اور مزید توجہ کی ضرورت 11 ہرزہ سرائی ایک احمدی کی ذمہ داری کہ وہ نیک نمونے بنے 3 اخلاقی گراوٹ سے بچانے اور تربیت کے لئے احمدیت کا پیغام ہر فرد تک پہنچانا ہی شکر گزاری کا کوشش اور اس کے لئے فنڈز کی اہمیت 11 اسامکم جلسہ پر آنیوالے مہمانوں کو ہدایت کہ کسی بھی ایک طریق ہے 2 311 ملک میں اسائلم کی اجازت نہیں 52 احمدی زمینداروں کو خصوصی نصیحت
14 اسلام اسلامی بینکنگ اور غیر سودی قرضے اسلام ایک کامل اور مکمل دین، محبت اور سلامتی کا اسلامی جنگوں کی وجوہات دین 211 249 268 اسمبلی : 1974 کی اسمبلی کے بارے میں ایم ٹی اے اسلام کے محبت و پیار کے پیغام کو پہنچانے کا اعزاز 207 پر مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے پروگرام کا صرف احمدی کے پاس ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم سے ناواقفیت کی وجہ سے تذکرہ مغرب میں اعتراض اور استہزاء 3 اصرار: برائیوں کا اصرار لے ڈوبتا ہے اسلام کی صحیح تعلیم بتانے کے لئے ایک مہم چلانے کی اصلاح نفس کی اہمیت اور ضرورت ضرورت 3 اطاعت اسلام کا دفاع کرنے والا واحد اگر کوئی ہے تو وہ نظام جماعت کی اطاعت کی اہمیت احمدی ہے اسلام اور آنحضرت کے خلاف مغرب میں ہرزہ سرائی اور اس کی مذمت 500 106 160 2 118 اطاعت اور اس کی اہمیت اور اس کے تقاضے 294 77 اسلام ایک مذہب اور اس سے فیض اٹھانے کے طریق اور برکات 203 الله اقوام متحدہ اور اس کی ناکامی کی وجوہات 258 سورہ فاتحہ اور خدا کا حسن واحسان 431 292 434 439 اسلام تشدد کا نہیں پیار اور محبت کا علمبردار 258 اللہ سے محبت کرنا اور اس کی اہمیت اسلام کی امن و محبت کی ایسی تعلیم ہے کہ اسی پر عمل اسلام کے خدا کا تصور ”اللہ میں ہے جو تمام صفات کرنے کے ساتھ دنیا کا امن وابستہ ہے 258 کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اسلامی بھائی چارے کی تعلیم 259 ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسلام اور خدا پر ہونے والے دنیا میں امن اور سلامتی اسلامی تعلیم کے ساتھ وابستہ اعتراضات کے رڈ کے لئے عزیز اور حکیم خدا کا صحیح ہے اور اس ضمن میں اسلامی تعلیم 258 تا 266 تصور پیش کرے اسلام کی کسمپرسی اور مسیح موعود کی بعثت 528 اسلام پر عیسائیت کا حملہ اور دعا کی تحریک 220 اسلام پر اعتراض کہ قرآن نے ایک ظالم اور قاہر خدا کا اسلام پر اعتراض کہ قرآن نے ایک ظالم اور قاہر خدا کا تصور پیش کیا ہے جو صرف عذاب دینے والا ہے 431 تصور پیش کیا ہے جو صرف عذاب دینے والا ہے 431 مغرب اور یورپ کی دیکھا دیکھی مسلمان کہلانے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسلام اور خدا پر ہونے والے والے بھی رحمن (خدا) سے عملاً تعلق توڑ چکے ہیں 24 اعتراضات کے رڈ کے لئے عزیز اور حکیم خدا کا صحیح اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس 439 کے احکامات پر عمل کیا جائے تصور پیش کرے 110
15 اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت دل میں رکھو 125 125 صفت رحیم کا تذکرہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر رحم.دو مثالیں 32 57.54 203.193 صفت السلام 4400435-4300423 <490482.466*459 اللہ پیروں فقیروں کے ذریعہ سے نہیں ملتا آنحضرت صفت عزیز کے بتائے ہوئے طریق پر 521 خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری شرط بیعت 401 صفت قدوس 1640157 دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ذریعہ ہے کہ لوگ صفت قدوس تفسیر سیرت و حدیث کی روشنی میں رحمن خدا کو سمجھیں 23 عذاب کی وجہ، خدا عذاب نہیں دیتا انسان اپنی صفت مالک شرارتوں سے اس کا باعث بنتا ہے صفات الهيه: 27 صفت مالک کی تفسیر 1770165 1550147 95 صفت مالکیت آنحضرت کی سیرت کی روشنی میں 143 اللہ تعالیٰ کی رضا اور فضل حاصل کرنے کے لئے اس کی صفت مومن 296 287 2860279 صفات پر غور کرنا اور اپنے آپ کو ڈھالنا ضروری ہے 103 الہامات (حضرت مسیح موعود جواس جلد میں مذکور ہیں ) صفات الہیہ میں رنگین ہونے والے المل ترین انا الله ذوالمنن آنحضرت مال 73 صفات الہی کو تفسیر یا معافی کرتے ہوئے ہمیشہ مد نظر رکنا چاہیے 159 اذا عزمت فتوكل على الله انه قوى عزيز الارض والسماء معك قرآن کے معنی کرنے کا ایک گر/ اصول یہ ہے کہ کوئی ایسے معنی نہ کئے جائیں جو صفات الہی کے انى معك يا ابن رسول الله خلاف ہوں 159 سلام عليك يا ابراهيم اللہ کی صفات کا سب سے زیادہ ادراک آنحضرت | سلام علی ابراهیم کو تھا 124 غرست لك بيدى اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات اور ان کا اظہار 26 كتب الله لاغلبن صفت حکیم (آنحضرت کے حوالہ سے ) 501 تا 515 يا احمد فاضت الرحمة صفت "حکیم" 491تا515،500 تا522 میں تجھے برکت پر برکت دوں گا صفت رحمن کا پر معارف بیان 21 تا 42 دنیا میں ایک نذیر آیا 177 114 427 209 119 199 201 43 426 43 145 144
16 میں تیری تبلیغ کو اور اس کے لئے پورے ہونے امن کے نظارے 119.118 معاشرہ میں محبت اور امن و سلامتی کی فضاء پیدا سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کر و لی کرنے کے لئے گیارہ ہدایات 224-223 دین واحد تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں میری محبت دلوں میں بٹھائے گا 119 احمدی کی امن عالم کے لئے تڑپ اور دعا 469 202 ہر احمدی کی خصوصیت اور ذمہ داری کہ وہ امن قائم 441 کرنے والے ہوں 280 بادشاہوں کا دکھایا جانا جو احمدیت میں شامل ہوں اموال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی اہمیت اور گے 145 جماعت کا اخلاص 290 امام مہدی نیز دیکھیں حضرت مسیح موعود انتخابات: جماعتی انتخابات کے حوالہ سے نصائح 137 امام مہدی / حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا ضروری ایم ٹی اے اور انٹرنیٹ تبلیغ کے ذرائع 420 403 انجمن کی جائیداد ( قادیان) واپس لینے میں حضرت ہے مسلمانوں کی حالت زار اور اس کی وجہ کہ امام کی صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمات 185 404 انسان انسان ایک عاجز چیز ہے اس کو کسی بات پر مخالفت 142 امت مسلمہ کے لئے ایک نصیحت.زمانے کے امام فخر نہیں کرنا چاہیے کو مان کر ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تب تک سزا ملتی انصاف ہمیشہ احسان اور بخشش کی دعا مانگنی چاہیے جائے گی 110 انصاف یا نیکی کا زعم نہیں امام کی ذمہ داریاں اور فرائض اور مقام 135 عدل و انصاف کی اہمیت 126 209 انصار الله جرمنی کی تعمیر کردہ مسجد جو جرمنی کی سب امت مسلمہ کے لئے ایک نصیحت.زمانے کے امام سے بڑی مسجد ہے کو مان کر ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تب تک سزا ملتی ARY کے ایک پروگرام کا تذکرہ 110 18 219 جائے گی امت محمدیہ کی کمزور حالت اور اس کے لئے ایجادات اور مسیح موعود کا زمانہ 419 تا 420 ایڈز کی خوفناک تباہی اور مالک خدا کی گرفت.اور 405 دعا کرنے والی جماعت امت کی اکثریت غلط اور مفاد پرست علماء کے پیچھے نوجوانوں کو نصیحت چل پڑی ہے 405 106 ایمان دیکھنا ہے تو آج احمدیوں میں دیکھیں جنہوں احمدیت خیر امت ہے اور اس کو ثابت کرنے کے نے کلے کو اپنے سینے سے لگایا اور اترنے نہیں دیا اور لئے نیک نمونے کی ضرورت ہے جیلیں بھر دیں ، جانوں کے نذرانے پیش کئے 286 4
17 وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے ایم ٹی اے ایم ٹی اے کے کارکنان اور محنت 155 بینکنگ اسلامی 500،201 اسلامی بینکنگ اور غیر سودی قرضے 323 بیوه 249 249 ایم ٹی اے 3العربیہ.نئے چینل کا اجراء اور اس کی بیوہ کے حقوق اور ان کا خیال رکھنے کی اہمیت اور اہمیت و افادیت 119 تحریک 463 ایم ٹی اے ون اور ٹو اور تھری کے چینل اور ان کی عدت کی مدت کے علاوہ بیوہ ایک سال تک شوہر افادیت و اہمیت ایم ٹی اے کا وسیع حلقہ 221.220 114 ایم ٹی اے اور عرب دنیا میں احمدیت کا نفوذ 408-407 کے مکان میں رہ سکتی ہے 464 بیوہ کی شادی اور نام نہا د عزت کا ڈھونگ 465 بیوی ایم ٹی اے اور انٹرنیٹ - تبلیغ کے ذرائع 420 بیوی کے فرائض اور ذمہ داریاں 1974 کی اسمبلی کے بارے میں ایم ٹی اے پر مولانا 138 پرندے کے انڈے اٹھانے پر نبی اکرم کا ارشاد کہ دوست محمد شاہد صاحب کے پروگرام کا تذکرہ 500 واپس رکھ دو ب، پ، ت 37 پیروں فقیروں کے نام نہاد معجزات اور نفس کا دھوکا 521 بچوں کو پیار کرنا، ان کی تربیت کرنا یہ رحم کے جذبہ اللہ پیروں فقیروں کے ذریعہ سے نہیں ملتا آ نحضرت کے تحت ہونا چاہیے 88 216 کے بتائے ہوئے طریق پر پیغام 521 بچوں میں بھی سلام کی عادت ڈالیں غریب بچوں کو احسن رنگ میں سنبھالنا ضروری ہے حضرت مسیح موعود کا عرب دنیا کے نام ایک پیغام 120 وگر نہ فساد پھیلانے کے وہ باعث بنیں گے 228 خلیفہ اسیح الخامس کا عرب دنیا کو مسیح موعود کے نمائندہ بغض اور حسد کی بیماریاں اور ان کے نقصان 194 کی حیثیت سے خطاب اور دعوت 122-121 اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ ایک صحابی کا بیان تاریخ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اہمیت کا دن کرنا 88 23 مارچ اور پس منظر 113 تباہی ، دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ذریعہ ہے کہ بیعت کا آغاز اور پس منظر 23 مارچ اور شرائط کا لوگ رحمن خدا کو سمجھیں اعلان و غیره 23 114 جنگوں اور موسمی تغیرات کی وجہ سے دنیا تباہی کی ہر احمدی جب بیعت کرتا ہے تو کیا اعلان کرتا ہے 401 طرف بڑھ رہی ہے 80
18 رمضان کے آخری عشرہ میں دعاؤں کی تحریک 409 تبلیغ کے لئے اپنے نمونے دکھانے کی ضرورت 4 مساجد کی تعمیر میں دیگر مالی تحریکات کی وجہ سے روک تبلیغ کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعمیر کی طرف بھی توجہ کریں 5 نہیں بننی چاہیے تجارت 17 وقف جدید میں زیادہ سے زیادہ اور بچوں کو شمولیت تجارت اور فرض وغیرہ کی بابات اصولی راہنمائی 252 کی تحریک جمعہ کی خاطر تجارتیں چھوڑ دو تحریک 15 413 میں یہ اعلان کرتا ہوں باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں بیوہ کے حقوق اور ان کا خیال رکھنے کی اہمیت اور تحریک 463 کے سپر دوقف جدید کی تحریک کرے 16 مغربی ممالک میں بھی ہمسایوں سے حسنِ سلوک کی تحریک اسلام پر عیسائیت کا حملہ اور دعا کی تحریک 220 تحریک جدید 230 421 453 خلیفہ کی طرف سے مالی قربانی کی تحریک پر بڑے احرار کی مخالفت اور تحریک جدید سکون سے چندے دینے والے مخلصین 451 تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان 454،449 چندوں کی تحریک ہمیشہ ہوگی 12 ہر اس احمدی کو جو بے رحم حاکموں کے ماتحت ہیں یہ دعا کرنی چاہیے دعا کی تحریک 39 445 تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدے رمضان کے آخری عشرہ میں پورا کرنے والوں کے لئے دعا 421 تحریک جدید کا چندہ کئی گنا بڑھا کر دینا با وجود کم 451 240 دعا کی تحریک مصر کی عدالت میں عیسائیوں کی طرف طاقت کے اور خداتعالی کا تو فیق دینا تحفہ دینے کی نصیحت اور اہمیت 421 تربیت : بچوں کو پیار کرنا، ان کی تربیت کرنا یہ رحم 221 سے احمدیوں پر مقدمہ کے سلسلہ میں عمومی دعاؤں کی تحریک پاکستان کی نا گفتہ بہ حالت اور دعا کی تحریک 530 کے جذبہ کے تحت ہونا چاہیے 88 پاکستان کے سیاسی حالات اور دعا کی تحریک 467 تعزیر: نظام کی طرف سے ملنے والی سزا اس کا فلسفہ 35 تعلقات وسیع کرنے کی طرف توجہ اور اس کی پاکستان کے لئے دعا کی تحریک پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 243 306 افادیت 231 پاکستان میں بھی جلسہ کے انعقاد کے لئے دعا کی عہدیداران کا فرض ہے کہ گھر یلو تعلقات میں بھی تحریک 297 حسن سلوک کا مظاہرہ کریں 227
19 297 تفسیر قرآن کے معنی کرنے کا ایک گر / اصول یہ | جلسہ سالانہ برطانیہ کی مرکزی حیثیت ہے کہ کوئی ایسے معنی نہ کئے جائیں جو صفات الہی جلسہ سالانہ اور کارکنان اور میزبان و مہمان نوازی کے فرائض اور نصائح و ہدایات 298 تا 316،306 کے خلاف ہوں 159 حضرت ابراہیم کا أرنی کیف تحی الموتی اور جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو ہدایات اور ان حضرت مصلح موعود کی تفسیر تقومی اور اس کی اہمیت 498 258.257 کے فرائض 309 جلسہ سالانہ لندن پر شامل ہونے والوں کی ذمہ صرف تعداد کے پیچھے نہ پڑیں تقویٰ کا معیار مد نظر ہو 4 داریاں اور بے صبری کرنے والوں کو استغفار کی نگبر کے نقصانات 233 نصیحت 317 تو بہ: ایک شخص کا نناوے قتل کے بعد تو بہ کی طرف جلسہ سالانہ لندن پر آنے والوں کو ہدایت کہ کسی بھی ملک میں اسامکم کی اجازت نہیں توجہ ہونا توحید توحید کا پیغام پہنانے کی ذمہ داری 33.32 81 311 جلسہ پر آنے کے لئے بعض لوگوں کا سود پر قرض 245 لے کر آنا.بالکل غلط بات ہے مسیح موعود نے فرمایا کہ میرا کام یہ ہے کہ آسمانی جلسہ سالانہ برطانیہ موسمی اثرات کے باعث بعض نشانوں کے ساتھ تو حید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں 6 وقتوں اور خامیوں کے پیش نظر اصولی ہدایات تو کل اور اسباب ج، چ، ح، خ 506 3260317 موسمی اثرات اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے جادو اور ٹونا ٹوٹکہ جیسے فضول کام اور احمد یوں کو ان والوں کا جذ بہ اخلاص لغو کاموں سے بچنے کی تلقین 90 308.307 جلسہ پر آنیوالے مہمانوں کو ہدایت کہ کسی بھی ملک جانوروں سے رحمت کا ارشاد اور احادیث 37 میں اسالکم کی اجازت نہیں جلسه سالانه 311 پاکستان میں بھی جلسہ کے انعقاد کے لئے دعا کی لال کتاب میں جلسہ سالانہ کی غلطیوں کو نوٹ تحریک 297 کیا جائے 325 جمعه جلسہ سالانہ کی اہمیت اور اس کے بنیادی مقاصد 307 جمعہ کی اہمیت 421 411 413 417 جلسہ سالانہ لندن کی بین الاقوامی حیثیت خلیفہ ایسیح سب سے مقدم جمعہ ہونا چاہیے 317 | جمعہ اور ایک احمدی کی دہری ذمہ داری وجہ سے
20 20 اپنی نسلوں کے جمعوں کی حفاظت 418 چنده جمعۃ الوداع کا غلط تصور 412،411 چندوں کی اہمیت اور برکات خطبہ جمعہ بھی نماز کا حصہ ہے خطبہ کا مقام اور آداب 150 چندوں کی ضرورت اور برکت جنازہ: ایک غریب عورت کی نبی اکرم نے نماز چندوں کی تحریک ہمیشہ ہوگی جنازہ پڑھی 86 152 12 12 چندے کی شرح کی بابت اعتراض اور جواب 153 حضرت مسیح موعود کا ایک نوجوان کی نماز جنازہ چندہ نہ دینے والوں کی تنقید کہ جماعت کے پاس پڑھانا اور فرمانا کہ جب تک بہشت میں داخل نہ بہت پیسہ ہے 53 12 کرالیا......جنت دوزخ کے سات اور جنت کے آٹھ تمہارے مالوں میں کچھ کمی ہوگی یہ خیال کبھی نہیں آنا چاہیے کہ مالی قربانی کی وجہ سے 10 دروازوں کی حکمت 434 بچوں میں قربانی (چندوں) کی عادت ڈالیں 15 مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینا اور حکمت 438 سور کا گوشت بیچنے والوں سے چندہ نہ لینے کی پابندی 154 اس اعتراض کا جواب کہ اسلام میں حکم ہے کہ جنگ حجۃ الوداع اور آنحضرت کا خطاب کرتے چلے جاؤ تمام دنیا پر اسلام پھیل جائے 275 حجر اسود تعمیر کعبہ اور حجر اسود کی تنصیب 506 بغض اور حسد کی بیماریاں اور ان کے نقصان 194 جنگ 260 جنگ کے بارے اسلامی تعلیم اور اعتراضات کا حسن ظن کی افادیت اور بدظنی کے بھیانک نتائج جواب اسلامی جنگوں کی وجوہات جنگ بدر 2780267 268 274 اور نقصان حقوق 207 جہاد جو جہاد خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے ہو ایسے مجاہد غالب رہیں گے 427 حقوق اللہ کی ادائیگی اور اس کا طریق 224 حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور اس کی احمدیت کا غلبہ اور فتح.جنگ اور قتال کے ذریعہ نہیں افادیت 427 حقوق کی ادائیگی اور اس کی اہمیت بلکہ دلائل کا جہاد ہوگا جھگڑے : آپس میں جھگڑے اور ان کی بنیادی دوسروں اور رشتہ داروں کے حقوق 224 167 239 وجہ.پھر نظام کی طرف سزا ملتی ہے 195 اپنے عزیزوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ جھنڈا: فتح مکہ کے موقعہ پر جھنڈے کے نیچے پناہ کا کریں اعلان 237 510 حقوق العباد کی اہمیت اور مسیح موعود کی بعثت 194
حقوق العباد کی اہمیت حکایت 21 67 خلافت سے محبت کے تقاضے کہ اپنی ذمہ داریوں پر نظر ہو 136 حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ حکایت ،ایک حجرہ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا خلافت سے نشین کے دل میں لحم البقر کی خواہش حکمت 127 بلا مشروط اطاعت کا قابلِ قدر جذ بہ واخلاص 187 499 502 خلیفہ خلیفہ ایچ کا احباب جماعت سے دعا کی فتح مکہ اور ابوسفیان کی گرفتاری اور آنحضرت کا پر درخواست کرنا اور ان کے لئے دعا گورہنا 135 509 حضور انور کی دعا کی تحریک، پتہ کے آپریشن کے حکمت اعلان دوزخ کے سات اور جنت کے آٹھ دروازوں کی حکمت حکومت: اسلامی حکومتوں کے فرائض 434 271 لئے 440 حضور کے پتہ کے آپریشن پر احباب جماعت خدا کا منشاء ہے کہ اب دنیا میں اس پاک نبی ﷺ کی کا اظہار محبت حکومت قائم کرے 443-444 ہی خلیفہ اسیح الخامس کا عرب دنیا کو مسیح موعود کے 118 خاندان: عہد یداران اور خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد کے لئے قابلِ تقلید نمونہ 181 نمائندہ کی حیثیت سے خطاب اور پیغام 121 خلیفہ کی طرف سے مالی قربانی کی تحریک پر بڑے سکون سے چندے دینے والے مخلصین 451 خط: احمدی عورتیں، عابدات جو اپنی اولادوں، خلق: بڑوں کے لئے جگہ خالی کرنا ایک ایسا خلق خاوندوں اور بھائیوں کی نیک تربیت کے لئے دعائیہ خط لکھتی ہیں 418 خطبہ جمعہ بھی نماز کا حصہ ہے خطبہ کا مقام اور آداب 150 خلافت ہے جو ہر احمدی میں ہونا چاہیے.35 اخلاقی گراوٹ سے بچانے اور تربیت کے لئے کوشش اور اس کے لئے فنڈز کی اہمیت 11 خلافت کی دائی خوشخبری اور اس کی اطاعت کی ذمہ خواب، دیکھیں’ رویا“ داری اور تقاضے 152 د، د، ذ، ر، ز خلافت احمد یہ جماعت کا رشتہ اور اس کی اہمیت 115 دار القضاء کے فیصلوں کو اہمیت دینے اور اطاعت کی خلافت اور نماز کا گہرا تعلق ہے جماعت اور خلافت لازم وملزوم ہیں 150 نصیحت 294 136 درود شریف پر مداومت شرائط بیعت میں سے 401
22 22 درویشان قادیان کی محبت و وفا186182،180 پاکستان کی نا گفتہ بہ حالت اور دعا کی تحریک 530 دعا دعا کا فلسفہ اور رحیمیت کا تعلق 62 پاکستان کے سیاسی حالات اور دعا کی تحریک 467 پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 243 ہر احمدی کو عبادتوں اور دعاؤں کے معیار کو سمجھنے کی پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 306 420 پاکستان میں بھی جلسہ کے انعقاد کے لئے دعا کی کوشش کرنی چاہیے بے رحم حاکموں کی ظلم کی چکی میں پسنے والے احمدی تحریک 297 39 خانہ کعبہ اور احمدی کو دعاؤں کی تحریک کہ اس میں یہ دعا کریں ایک صحابی کو دم کرنے کے لئے یہ دعا سکھلائی 166 داخلے کے سامان ہوں لوگوں کا آپ کے لئے بددعا کی درخواست کرنا اور دنیا 38.37 283 دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ذریعہ ہے کہ لوگ آپ کا دعا کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کی ایک دعا 38 رحمن خدا کو سمجھیں 86 23 جنگوں اور موسمی تغیرات کی وجہ سے دنیا تباہی کی آندھی یا طوفان کو دیکھ کر جو دعا سکھائی ہمیشہ احسان اور بخشش کی دعا مانگنی چاہیے انصاف یا طرف بڑھ رہی ہے نیکی کا زعم نہیں 126 80 دوزخ کے سات اور جنت کے آٹھ دروازوں کی 434 آنحضرت بستر پر لیٹتے ہوئے دعا پڑھتے 140 حکمت بارش اور طوفان کے وقت آنحضرت کی دعا 309 دوستی اور صلہ رحمی کا خیال رکھنے کی نصیحت 34 315 دہشت گردی کی تعلیم کبھی بھی مذہب نہیں دیتا اور سفر پر جانے کے لئے حضور کی دعا آنحضرت کی رکوع میں ایک دعا.سبوح قدوس خاص طور پر اسلام تو کلیۂ خلاف ہے رب الملائكة والروح 469 165 دیانت: ایک غریب خاتون کا تذکرہ باجود سخت تنگی ہر اس احمدی کو جو بے رحم حاکموں کے ماتحت ہیں یہ میں دیانتداری اور توکل کا معیار دعا کرنی چاہیے دعا کی تحریک 39 ڈاکٹر 238 445 احمدی ڈاکٹر ز کیلئے اسوہ حضرت مسیح موعود ہیں خاص دعا کی تحریک مصر کی عدالت میں عیسائیوں کی طرف طور پر واقفین زندگی سے احمدیوں پر مقدمہ کے سلسلہ میں عمومی دعاؤں کی تحریک 51 221 احمدی ڈاکٹر صاحبان کا شکریہ اور دیگر ڈاکٹر...421 جنہوں نے آپریشن کیا 446
23 23 ذکر الہی کی اہمیت ذمہ داری، نیز دیکھیں احمدی“ 295 زمانہ یہ زمانہ بھی آنحضرت کا زمانہ ہے 409 مختلف ذمہ داریاں اور ان کی ادائیگی کے حوالہ سے تم انشاء اللہ وہ زمانہ دیکھنے والے ہو جب محمد کے نام ذکر 139 لیواؤں کی اکثریت ہر جگہ دیکھو گے 78 آخرین کے زمانے کا نقشہ سورۃ جمعہ میں بتایا گیا آخرین کے زمانے کا نقشہ سورۃ جمعہ میں بتایا گیا ہے.اور ہماری ذمہ داریاں رحمت : آنحضرت کی سیرت رحمی رشتوں کو نبھانے کی اہمیت 24 39 25 ہے.اور ہماری ذمہ داریاں 24 امت مسلمہ کے لئے ایک نصیحت.زمانے کے امام کو مان کر ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تب تک سزا ملتی رحیمیت سے فیض پانے کے لئے عمل صالح اور جائے گی استغفار بنیادی چیزیں بھی رحیم سے مراد حد مع الله 62 58 رشتہ داروں سے حسن سلوک کی اہمیت 207 زمیندار سندھ کے احمدی زمینداروں کو ایک نصیحت 9 احمدی زمینداروں کو خصوصی نصیحت 110 52 رشتہ داروں سے حسن سلوک کی نصیحت 225 زہر: آنحضرت کو زہر دینے کی کوشش 518 رمضان کے آخری عشرہ میں دعاؤں کی تحریک 409 زیور: پر زکوۃ دینے کا خصوصی حکم س، ش، ص رویا صادقہ کے ذریعہ دنیا بھر میں احمدیت کی تائید 409 رو یا حضرت مسیح موعود کی ، سفید پرندے اور اس کے مصداق ہالینڈ کے احمدی 1 سچائی اختیار کرنے کی نصیحت عرب کے ایک صوفی منش کا خواب ، حضرت مسیح سزا موعود کی زیارت زكوة زکوۃ کی فرضیت و اہمیت زکوۃ کی اہمیت وافادیت 407 153 208 سزا نظام کی طرف سے سزا اصلاح کے لئے ہوتی ہے.سزا اور رحم کا موازنہ 34 152 نظام کی طرف سے ملنے والی سزا اس کا فلسفہ 35 240 سزا اور عفو میں توازن کی کیوں ضروری ہے 208 زکوۃ ایک مالی قربانی اور اس کی اہمیت اور فضیلت 449 آنحضرت کا جنگ میں شامل نہ ہونے پر صحابہ کو سزا زکوۃ اور چندہ جات کی اہمیت 153 دینا 35
24 سلام سور کے گوشت پکانے یا بیچنے پر پابندی اور جرمنی سلام کو رواج دینے کی نصیحت اور صحابہ کا نمونہ کہ میں اس پر عمل جو عمل نہیں کریں گے ان سے چندہ بازار نکل جاتے صرف سلام کرنے کے لئے 313 نہیں لیا جائے گا وغیرہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ کا سلام کرنے کے بارہ سورہ فاتحہ اور خدا کا حسن و احسان میں اسوہ 216 وتر میں آنحضرت جو سورتیں پڑھتے 154 431 165 43-56 سلام کے بارے آنحضرت کے ارشادات 217 سیرت مسیح موعود سلام کو رواج دینے کی تلقین اور اس کی برکات.رحمت و مودت کے واقعات تفصیلی احکامات اور آداب 212 تا 219 سیکیورٹی کے حوالہ ذمہ داریاں اور انتظامیہ سے سلام کو رواج دینا معاشرے میں امن کا بہترین تعاون، چیکنگ پر برا منانے کی ضرورت نہیں ،حضور ذریعہ ہے بچوں میں بھی سلام کی عادت ڈالیں سلامتی 194 216 کا اپنا واقعہ 314 شراب کی حرمت کا اعلان اور صحابہ کی اطاعت کا بے مثال جذبہ 167 شرائط بیعت سلامتی کا پیغام اور سلام کو رواج دینے کی اہمیت 232 سلامتی کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کی نصیحت اور شرائط بیعت اس کے فوائد اور گیارہ ہدایات 223 بین الاقوامی سلامتی کے رہ نما اصول 258 تا 266 114 شرائط بیعت اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں 401 شرائط بیعت میں سے ایک شرط عقد اخوت و محبت“ اور احمدی 441 90 معاشرے میں فساد کی بنیاد اور اس کے نقصانات 241 شرک سود کے بھیانک نتائج اور فساد کا باعث 245 شرک کی اقسام اور ان سے بچنے کی نصیحت 140 مالی لین دین ، تجارتی معاہدات اور قرض وغیرہ سود کی شرک کی مذمت بات اصولی ہدایات اور زریں نصائح 245 تا 256 شرک کی مختلف اقسام اور اس کے تباہ کن نقصانات 25 معین منافع پر رقم دینا بھی سود کی ایک قسم ہے 248 شرک معاف نہیں کروں گا (نساء: 49) 140 بلا سود بینکاری اور احمدی دوستوں کو اس کی طرف توجہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ شرک کے خلاف ہمیشہ جہاد 249 کرتا رہے کرنے کی تحریک 90
25 25 شرک کا خوفناک ترین پہلو عیسائی عقائد خدا کا بیٹا صحابہ کی اطاعت کا عالم اور آنحضرت کی قوت اور مریم 27 قدسیه صحابہ حضرت مسیح موعود کا مقام 71 167-168 شکر اور جلسہ سالانہ کا اختتام کا رکنان کا شکریہ 322 صحابہ کی اولادوں کی اہم ذمہ داریاں 72-71 دوسرے ملکوں میں بسنے کی نعمت پر شکر گزاری کا ایک صحابہ کی اولاد ہونے کا فخر کسی کام نہ آئے گا جب حصہ یہ ہے کہ احمدیت کا پیغام ہر فرد تک پہنچا ئیں تک اعمال....اور مساجد کی تعمیر اور اطاعت ہے شعر الله يغضب ان تركت سؤاله گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں محمد عربی با دشاہ ہر دوسرا جنہیں عیش میں یاد خدا نہ رہی اے خداوند من گنا ہم بخش فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا 2 58 55 صفات ، دیکھیں زیر لفظ الله 418 صفیں نماز میں صف بندی اور صفیں سیدھی کرنے کی اہمیت صلح حدیبیه 149-150 508 173 صلہ رحمی کا اور دوستی کا خیال رکھنا چاہیے 34 196 عرب کے ایک صوفی منش کا خواب ، حضرت مسیح 422 موعود کی زیارت 495 ط، ع، غ طلاق اور عورت کے حقوق 407 465 4 شہید کی اولاد کا مقام اور خیال رکھنے کی نصیحت 461 عبادت کی اہمیت اور اس کے فوائد انشاء اللہ ان شہیدوں کا خون ضرور رنگ لائے گا 514 ہر احمدی کو عبادتوں اور دعاؤں کے معیار کو سمجھنے 94 کوشش کرنی چاہیے 420 ایک نواحمدی محمد اشرف کی شہادت ایک صحابی کی شہادت کی آرزو کہ میرے حلق پر تیر عدت کی مدت کے علاوہ بیوہ ایک سال تک شوہر لگے 94 کے مکان میں رہ سکتی ہے 464 شیطان کا نماز کے لئے اٹھانا غیر ضروری اخراجات کے لئے قرض لینے کی عادت ہے یا قانون پاس ہو رہا ہے ان کو وارننگ 270 ایک شیطانی چکر اور اس کے نقصان 247 احمدیت پر ہونے والے ظلم اور ان کی بے بسی 219 289 ظلم، اسلامی ملکوں میں جہاں احمدیوں پر ظلم ہو رہا صحابه عدل و انصاف صحابہ کا آپس میں سلام کا رواج 216 | عدل و انصاف کی اہمیت 209
26 26 ایک شخص جس پر قتل کا الزام تھا اور وہ انصاف کی دعا | عورتوں کو خاص طور پر زیور پرز کو ادا کرنے کا حکم 153 کرتا رہا عذاب 125 احمدی عورتیں.عابدات جو اپنی اولادوں ، خاوندوں اور بھائیوں کی نیک تربیت کے لئے دعائیہ خط لکھتی ند کے پیارے ( محمد ) پر ظالمانہ حملے عذاب کو ہیں دعوت دے رہے ہیں 80 عہدیداران 418 عذاب کی وجہ، انسان اپنی شرارتوں سے اس کا عہدیداران جماعت کی ذمہ داریاں اور خلافت کی باعث بنتا ہے عرب 27 احسن رنگ میں مدد کے تقاضے اور خلیفہ وقت کی ان کے لئے دعا ئیں 136-137 عرب کی حالت آنحضرت کی قوت قدسیہ سے عہد یدار ان کی اموال اور دیگر کاموں کے حوالہ سے انقلاب 169 ذمہ داریاں 138 عرب دنیا کے نام حضرت مسیح موعود کا ایک پیغام 120 جماعت کا کام ہے کہ ایسے عہدیداروں کو منتخب کریں عیسائیت سے زچ ہونے والے عرب مسلمان جواس کے اہل ہوں اور احمدیوں کے ذریعہ تائید 118 137 عہدیداران اور خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد عرب کے سعید فطرت لوگوں کا احمدیت کی طرف کے لئے قابل تقلید نمونہ رجحان 407 181 عہد یداران کا فرض ہے کہ گھر یلو تعلقات میں بھی عرب کے ایک صوفی منش کا خواب ، حضرت مسیح حسن سلوک کا مظاہرہ کریں موعود کی زیارت 407 عفو عفو سے امن اور محبت و پیار بڑھتا ہے 208 227 عیادت: لالہ شرمیت کی عیادت کے لئے حضرت مسیح موعود کا جانا 44 عیسائیت کا اسلام پر حملہ اور احمدیوں کے جوابی حملہ پر عفو احمدی معاشرے میں اس کو رواج دینے کی بوکھلاہٹ اور ایک عدالت میں مقدمہ 221-220 ضرورت ، عفو اور سزا میں توازن علم کی اہمیت آنحضرت کی نظر میں 208 503 اسلام پر عیسائیت کا حملہ اور دعا کی تحریک 220 غریب علم و حکمت ہمارے غالب آنے کے ذرائع 504 غریب بھائیوں کا دوسرے لوگ خیال رکھیں 235 عورتوں کے حقوق کا قیام اور آنحضرت 89 کمزور ( غریب ) احمدی کا معیار قربانی آسودہ حال عورتوں کے حقوق اور اسلام کی تعلیمات 467-463 سے زیادہ بہتر ہوتا ہے 236
27 ایک غریب خاتون کا تذکرہ باجود سخت تنگی میں قانون احمدی کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتا 204 ، 206 دیانتداری اور توکل کا معیار 238 قرآن کریم 291 غریب بچیوں کی شادی کے لئے مریم فنڈ 229 قرآن آخری شرعی کتاب غریب بچوں کو احسن رنگ میں سنبھالنا ضروری ہے قرآن کی حقانیت حضرت مسیح موعود کا مشن تھا اور وگرنہ فساد پھیلانے کے وہ باعث بنیں گے 228 جماعت سے بھی آپ چاہتے تھے کہ قرآن اور 506 آنحضرت سے سچا عشق ہو غزوہ احد 116 انشاء اللہ غلبہ حضرت مسیح موعود کا ہی مقدر ہے 420 قرآن کی اعلی تعلیم اور مغرب کی اس کے خلاف ف ق ک گ ہرزہ سرائی 78 عظیم الشان فتح مکہ آج احمدی بھی یاد رکھیں کہ یہ قرآن اور آنحضرت کے بارے ہالینڈ کے MP 513 کی ہرزہ سرائی اور اس کی مذمت اور وارننگ 77 نظارہ دہرایا جانے والا ہے احمدیت کا غلبہ اور فتح جنگ اور قتال کے ذریعہ نہیں قرآن شریف کی حکومت کو قبول کرنا شرائط بیعت بلکہ دلائل کا جہاد ہوگا 427 فتح مکہ اور ابوسفیان کی گرفتاری اور آنحضرت کا پر حکمت اعلان 509 میں سے ہے 401 23 سال کے عرصہ پر پھیل کر اتر نا قرآن اور رسول انسان ایک عاجز چیز ہے اس کو کسی بات پر فخر نہیں کی سچائی کی دلیل ہے کرنا چاہیے 142 قرض 518 مالی لین دین ، تجارتی معاہدات اور قرض وغیرہ سود کی صحابہ کی اولاد ہونے کا فخر کسی کام نہ آئے گا جب تک اُن کے نمونہ کے مطابق اعمال میں پاک تبدیلیاں نہ کیں 418 بات اصولی ہدایات اور زرمیں نصائح 245 تا 25 بلا وجہ قرض لینے سے باز رہنا چاہیے 245 فرقہ : تفرقہ بازی کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت سود پر قرض لے کر جلسہ پر آنا غلط بات ہے 245 زار فساد 218-219 غیر ضروری اخراجات کے لئے قرض لینے کی عادت احمدی کہیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتا.فساد اور لغو قضاء عمری کا غلط تصور 247 411 ایک شیطانی چکر اور اس کے نقصان سے بچنے کی نصیحت 204 دارالقضاء کے فیصلوں کو اہمیت دینے اور اطاعت کی قومی اور ذاتی طور پر کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے نصیحت 294 معاشرے میں فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو قیدی 67 موبائل فون کے بے جا استعمال کے نقصان 150 قیدیوں سے حسن سلوک کی تعلیم 277
28 28 قیدیوں سے اسلام کی رحم لانہ تعلیم اور موجودہ | لجنہ کا جرمنی میں تعمیر مسجد کے لئے چندہ جمع کرنا اور نام نہاد مہذب دنیا 78 اس کی حکمت 19 جنگی قیدیوں کے بارے کہ جو بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا مال: اموال کی نگرانی اور ذمہ داریاں 139-138 دیں تو وہ آزاد کامیابی 503 مالی قربانی کی اہمیت اور برکات 152 ہر احمدی کو دو امور کی طرف خاص طور پر توجہ دینے کی حضرت مسیح موعود کی کامیابی اور غلبہ مقدر ہے 144 ضرورت ہے 1.نماز 2.مالی قربانی 152،148 کشف مجلس حضرت مسیح موعود کا کشف جس میں امراء اور ملکوں کو کیا ہی عمدہ وہ مجلس ہے جس میں حکمت کی باتیں دکھایا گیا جو احمدیت میں داخل ہوں گے 145 پھیلائی جائیں سرخی کے چھینٹوں کا کشف 145 503 مجالس میں بے تکلفی کے نام پر اخلاق سوز حرکات 485 مدرسے پاکستانی مدر سے اور خود کش حملے 228 کمزوروں اور غریبوں سے حسن سلوک کی نصیحت 233 کمزور (غریب) احمدی کا معیار قربانی آسودہ حال غریب بچیوں کی شادی کے لئے مریم فنڈ 229 سے زیادہ بہتر ہوتا ہے گرہن 236 مسجد مسجد کے آداب 149 چاند سورج گرہن اور مسیح موعود کی صداقت 117 مسجد کی تعمیر بھی خدا کا شکر ادا کرنے کا ایک رنگ ہے 2 سور کا گوشت بیچنے والوں سے چندہ نہ لینے کی پابندی 154 مسجد کی اہمیت و افادیت دوسروں کی توجہ کھینچنے کا ل،م،ن ذریعہ 5 لال کتاب میں جلسہ سالانہ کی غلطیوں کو نوٹ جماعت اور اسلام کو پھیلانا ہے تو مسجدیں بناؤ 6 مساجد کی تعمیر میں دیگر مالی تحریکات کی وجہ سے روک نہیں بنی چاہیے کیا جائے 325 مساجد کا مقام اور پاکستان میں ان کی حالت اور لال مسجد و غیره 285 17 برطانیہ کا ہر سال پانچ مساجد کی تعمیر کا اعلان 17 مسجد برلن کاسنگ بنیا داور دیگر کوائف 18 انصار الله جرمنی کی تعمیر کردہ مسجد جو جرمنی کی سب عورتوں کو صف بندی کے لئے باقاعدہ اہتمام کا سے بڑی مسجد ہے ارشاد الجنہ اماءاللہ جر منی 18 150 لجنہ کا جرمنی میں تعمیر مسجد کے لئے چندہ جمع کرنا اور 28 اس کی حکمت 19
29 29 مساجد کا مقام اور پاکستان میں ان کی حالت اور سیرت مسیح موعود لال مسجد و غیره مسلمان 285 43-56 رحمت و مودت کے واقعات دنیا کے نام حضرت مسیح موعود کا ایک پیغام 120 مسلمانوں کی حالتِ زار اور اس کی وجہ کہ امام کی حکایت : حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ، ایک مخالفت 404 تفرقہ بازی کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت زار حجر ونشین کے دل میں لحم البقرہ کی خواہش 127 عرب کے ایک صوفی منش کا خواب ، حضرت مسیح 218-219 مغرب اور یورپ کی دیکھا دیکھی مسلمان کہلانے موعود کی زیارت 407 والے بھی رحمن ( خدا ) سے عمال تعلق توڑ چکے ہیں 24 عہدیداران اور خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کر و علی کے لئے قابل تقلید نمونہ 181 دین واحد ، الهام عیسائیت سے زچ ہونے والے عرب مسلمان اور قرآن کی حقانیت حضرت مسیح موعود کا مشن تھا اور جماعت سے بھی آپ چاہتے تھے کہ قرآن اور 119 انشاء اللہ غلبہ حضرت مسیح موعود کا ہی مقدر ہے 420 احمدیوں کے ذریعہ تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام 118 آنحضرت سے سچا عشق ہو 116 احمدیت کی تاریخ کا اہم دن 23 مارچ اور حضرت حضرت مسیح موعود کا کشف جس میں امراء اور ملکوں کو 113 مسیح موعود کا اسلام کے لئے دفاع اسلام کی کسمپرسی اور مسیح موعود کی بعثت 528 دکھایا گیا جو احمدیت میں داخل ہوں گے 145 سرخی کے چھینٹوں کا کشف 145 نماز کے بارے حضرت مسیح موعود کے ارشادات 151 حضرت مسیح موعود کا عرب دنیا کے نام ایک پیغام 120 مسیح موعود نے فرمایا کہ میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ تو حید کو دنیامیں دوبارہ قائم کروں ہمدردی اور جذبہ رحم حضرت مسیح موعود کے ارشادات 93 حضرت مسیح موعود کا ایک نوجوان کی نماز جنازہ خلیفتہ اسیح الخامس کا عرب دنیا کو مسیح موعود کے نمائندہ پڑھانا اور فرمانا کہ جب تک بہشت میں داخل نہ کی حیثیت سے خطاب اور دعوت 122-121 رویا حضرت مسیح موعود کی سفید پرندے اور اس کے 53 1 كراليا......حقوق العباد کی اہمیت اور مسیح موعود کی بعثت 194 مصداق ہالینڈ کے احمدی احمدی ڈاکٹرز کے لئے اسوہ حضرت مسیح موعود ہیں صحابہ حضرت مسیح موعود کا مقام ایجادات اور مسیح موعود کا زمانہ 419 تا 420 خاص طور پر واقفین زندگی 51 71
30 30 معاشرہ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے ہدایات اور 309 معاشرے کے امن وسلامتی کے لئے یہ بھی اہم ہے فرائض معاشی اور اقتصادی اعتبار سے بہتر افراد اپنے کمزور میڈیکل مٹھی ( سندھ) میں وقف جدید کے تحت 235 میڈیکل سہولتیں اور ہسپتال 9 بھائیوں کا خیال رکھیں معاشرہ میں محبت اور امن و سلامتی کی فضاء پیدا نبی کی بعثت اس کی صفت رحمانیت کے تحت ہوتی ہے 22 525 147 52 کرنے کے لئے گیارہ ہدایات 224-223 نشانات کی اقسام اسلامی معاشرے کی بنیادی صفت دوسروں کی نصیحت کے فوائد اور اہمیت تکلیف کا احساس اور رحمت کے جذبات 36 احمدی زمینداروں کو خصوصی نصیحت معاہدات کے بارے راہنمائی 255-253 احمدی پر ہونے والے مظالم اور نصیحت 430،429 معجزات اور نشانات کی حکمت اور ان کا نزول تحفہ دینے کی نصیحت اور اہمیت 523-524 240 دارالقضاء کے فیصلوں کو اہمیت دینے اور اطاعت کی نصیحت 294 مقدمہ عیسائیت کا اسلام پر حملہ اور احمدیوں کے جوابی حملہ پر بوکھلاہٹ اور ایک عدالت میں مقدمہ 221-220 شرک کی اقسام اور ان سے بچنے کی نصیحت 140 ملا رشتہ داروں سے حسن سلوک کی نصیحت 225 دوستی اور صلہ رحمی کا خیال رکھنے کی نصیحت 34 نام نہاد علماء اور ملاؤں کا دین صرف فساد ہے 206 سلامتی کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کی نصیحت اور ملاں اور جماعت احمدیہ کی مخالفت مورگیج کے بارے اصولی رہنمائی مومن کی صفات 471 249 447-448 اس کے فوائد اور گیارہ ہدایات 223 سندھ کے احمدی زمینداروں کو ایک نصیحت 9 سچائی اختیار کرنے کی نصیحت 208 313 شہید کی اولاد کا مقام اور خیال رکھنے کی نصیحت 461 مومن کا مقام اور اس کی خصوصیات 296-287 سلام کو رواج دینے کی نصیحت مہمان نوازی مہمان نوازی کی اہمیت اور برکات 298 احمدی کہیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتا.فساد اور لغو ایک صحابی گھرانے کی مہمان نوازی میں ایثار سے بچنے کی نصیحت چراغ بجھا دینا 301 204 امت مسلمہ کے لئے ایک نصیحت.زمانے کے امام ایک غیر مسلم مہمان آنحضرت کے پاس آیا اور بستر کو مان کر ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تب تک سزا ملتی 110 جائے گی 305 گندہ کر دینا
31 ایڈز کی خوفناک تباہی اور مالک خدا کی گرفت.اور نیکی نیک اعمال نو جوانوں کو نصیحت 106 کمزوروں اور غریبوں سے حسن سلوک کی نصیحت 233 والدین کو نصیحت کہ اولاد کی تربیت کیسے کریں اور ان کی ذمہ داری 225 نیکی کا گمان یا زعم کبھی نہیں ہونا چاہیے 125 ہونا نیک اعمال دین کی خاطر مالی قربانی اور جانی ، دعوت الی اللہ اور حقوق العباد 206 نظام کی اطاعت کی اہمیت اور اس کے خلاف باتیں ہمیشہ احسان اور بخشش کی دعا مانگنی چاہیے انصاف یا 295 نیکی کا زعم نہیں و، ه ،ی کرنے کا نقصان.ایمان سے محرومی نظام کی طرف سے ملنے والی سزا اور اس کا فلسفہ 35 آپس میں جھگڑے اور ان کی بنیادی وجہ.پھر نظام وارننگ کی طرف سے سزا ملتی ہے 195 126 اسلامی ملکوں میں جہاں احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے یا یتیم کی نگہبانی کرنے کی اہمیت اور نظام جماعت قانون پاس ہو رہا ہے ان کو وارننگ میں اس کا اہتمام نماز نماز اور خلافت کا گہرا تعلق ہے 229 150 نماز کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینے کی ضرورت 148 نماز کے بارے حضرت مسیح موعود کے ارشادات 151 والدین والدین سے حسن سلوک کی تلقین 270 224 والدین کو نصیحت کہ اولاد کی تربیت کیسے کریں اور ان کی ذمہ داری وتر میں آنحضرت جو سورتیں پڑھتے نماز میں آنحضرت کی سکھائی ہوئی ایک دعا 75 نماز کی اہمیت نماز پنجوقتہ کا التزام اور شرائط بیعت نمازوں کے قیام کی بابت نصائح 448 401 288 225 165 155 وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے وقف جدید وقف جدید کی تحریک اور نئے سال کا اعلان 7 ہر احمدی کو دو امور کی طرف خاص طور پر توجہ دینے کی معلمین وقف جدید کی پر خلوص محنت اور مساعی کا ضرورت ہے 1.نماز 2.مالی قربانی 152،148 تذکره 8 9 نماز فجر ایک بار نہ پڑھنے کا اتنا دکھ کہ شیطان نے کہا وقف جدید کا ساری دنیا میں پھیلایا جانا 289 مغربی ممالک میں مزید گنجائش اور انفرادی تجزیہ 14 اٹھو نماز پڑھ لو نوافل کی اہمیت نومبائعین کی ذمہ داری 149 11 وقف جدید میں زیادہ سے زیادہ اور بچوں کو شمولیت کی تحریک 15
229 32 32 میں یہ اعلان کرتا ہوں باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں | ہمسایہ ہمسایوں سے حسن سلوک کی اہمیت 16 کے سپر دوقف جدید کی تحریک کرے تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدے رمضان کے مغربی ممالک میں بھی ہمسایوں سے حسنِ سلوک کی آخری عشرہ میں پورا کرنے والوں کے لئے دعا 421 تحریک 230 احمدی ڈاکٹر ز کیلئے اسوہ حضرت مسیح موعود ہیں خاص ہمسائیگی دوستی اور صلہ رحمی کا خیال رکھنا چاہیے 34 طور پر واقفین زندگی 51 ہندو: سندھ میں ہندؤوں کی مشکلات اور تبلیغ کے وکیل: احمدی وکلاء کو جو سائکم کا کیس لیتے ہیں ان کو لئے دقتیں فیس کے بارہ میں ہدایت ہجرت ہجرت کا وسیع تر مفہوم اور اہمیت 250 68 8 ہیومینٹی فرسٹ اور بنگلہ دیش میں خدمات 471 یتیم کی نگہبانی کرنے کی اہمیت اور نظام جماعت مغربی ممالک میں ہجرت کرنے والوں کی میں اس کا اہتمام ذمہ داریاں ہمدردی 68 229 یتیموں اور مسکینوں سے حسن سلوک کی تلقین 227 تیموں کی خیر خواہی اور حقوق کی ادائیگی 460 ہمدردی اور جذبہ رحم حضرت مسیح موعود کے ارشادات 93 یہودی : آنحضرت کی ایک یہودی لڑکے کی عیادت بنی نوع انسان سے ہمدردی اور احمد یہ جماعت اور اسلام قبول کرنے کی تحریک اور اسلام قبول 40 کرنے پر آپ کا خوش ہونا 470-471
آ، ا، ب،ث ابو جہل آدم کی خلافت کی اہمیت 2 16-161 ابو درداٹھ ابراہیم 498،298،234،27 ابوذر ย ابو سعید حضرت ابراہیم کی دعا، ایک عظیم رسول 515-519 58 ย 194 کی بعثت ابن المبارک ابن زبیر ابن عباس 499،415،131 ابن عمر ابن مسعود ابوالحسن الترمذی ابوالحکم ابوالعباس 33 اسماء 132،78 ام سلمه 505 ابوسفیان ابو طلحة 218 حضرت ام ناصر کا مکان.جہاں 140 ، 142 حضرت مسیح موعود کے کثرت سے 32، 139 قدم پڑے ہیں 511.510 185 حضرت امام الدین صاحب منشی 168 167 کا تب کتب حضرت مسیح موعود 51 426،98 ابو عبد الله القرطبی علامہ 58 ، 98، 426 المتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نواب ، حضرت 112 ابوعلی فارسی ابو مسعود ابو موسی 58 149 196 امة الحفیظ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی وفات اور ان کی نیکیوں کا تذکره 111 187 ابوہریرہ 508،502،452،413،27 امت الرؤف 498.497.503 140.38 38 193 512 280 ابوذر ابی بن کعب ابی رویحہ 507 39 510 لمته النصیر بیگم صاحبہ صاحبزادی 182 انس 84 ابوالفضل شہاب الدین آلوسی علامہ 426 ابوامامه 86.37 احمد سلام ابن ڈاکٹر عبدالسلام 249 حضرت انس بن مالک 40،35 507.167 ارشد احمد صاحب کی کتاب سلمان ایوب صادق صاحب، مرزا ایوب ابو امیہ مغیرہ بن عبد اللہ 507 رشدی کی کتاب کے جواب میں 264 بیگ صاحب کا.حضرت مسیح موعود کا حضرت ابوبکر 510،75 اسامہ بن زید حضرت ابوبکر کا ایک شخص کی مالی امداد اسحاق بند کر دینا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد 236 شیخ اسماعیل التھی حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب 181 اسماعیل ابو جعفر محمد علامہ 193 اقرع بن حابس 41 498 496 498 88 عیادت کا خط لکھنا 45 براہ، حضرت بسیرہ.حضرت 218 166 حضرت میاں بشیر احمد صاحب 52 509.91.53
34 حضرت بشیرالدین محمود احمد صاحب بن عبد بن زہرہ (قبیلہ ) 167 خلیل الرحمن ملک کا ذکر خیر 422 مصلح موعود، خلیفہ اسیح الثانی بیگم صاحبہ حضرت میاں وسیم احمد د، ر، زہس ،ش، ص 160،157،99،28،11، 161 ، صاحب کے لئے دعا کی تحریک 191 184 182 181 180.162 ثعلب 285 داؤد علیہ السلام 173 حضرت داؤڈ کا ایک عجیب قضائی 185، 251،190، 283 ، 489، تمامہ بن اثال کی گرفتاری اور قبول فیصلہ جود عا کے ذریعہ ہوا 128 493 494، 509،498، 518، اسلام 314-71.48.528 محمود آپ کی بیان فرمودہ سورۃ الفاتحہ میں ثناء اللہ صفات الہیہ کی ترتیب 102 حضرت مصلح موعود اور وقف جدید کا جابر، حضرت قیام 7 508 525 519 97.58-59 دعا امام رازی امام راغب 284،282،196 رشدی ایسے لوگوں کا خدا نے خود ج ، ح، خ، انتظام کیا ہوا ہے وہ خود نپٹے گا263 جریر بن عبد الله حضرت مصلح موعود اور لفظ ”مالک جواہر لعل نہرو کی تفسیر 96 415 34 185 حارث بن ہشام 132 رضیہ منیر صاحبہ اہلیہ منیر احمد عارف صاحب زربی 104 35 منشی زین العابدین صاحب کا اولاد آپ کی خواہش برلن میں تعمیر مسجد کی حامد علی صاحب، حضرت 52 کے لئے درخواست دعا اور آپ کا دیر اور دیگر تفصیلات 19 حامد مہر کی عیادت ایک تنگ و تاریک تک دعا کرنا آپ کا ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا اور متعفن گھر میں نکاح پڑھنا 112 44 92 حضرت سیدہ ساره بیگم صاحبہ 182 حبیب اللہ صاحب سید 302 سر سید احمد اور سود کے بارے ایک خلیفہ اسیح الثانی کا تحریک جدید کا حبیب اللہ سیال چوہدری کی شہادت فتویٰ 252 اجراء اور پس منظر اور ثمرات 453 اور ان کا ذکر خیر آپ کا یہ استنباط کہ عدت کے علاوہ حسین ایک سال تک بیوہ رہ سکتی ہے 464 حسن بن علی 260 155 41 88 سراج الحق صاحب حضرت پیر 53 سرور شاہ صاحب حضرت مولوی 182 سعید بن ابی سعید 508 ڈاکٹر حضرت حشمت اللہ صاحب 184 سعید بن عبد الرحمن 165 بلال حضرت بلال پر ظلم و ستم 511 حلیس بن علقمه حضرت بلال کے جھنڈے کے نیچے خالد بن عمران پناہ کا اعلان 510 خالد بن ولید 509 38 510 حضرت مرز اسلطان احمد صاحب 49 حضرت مسلمہ حضرت سمرہ 167 416
35 حضرت سہل سہیل بن عمرو 197 133 خواجہ عبدالرحمن صاحب 53 ڈاکٹر عبد اللہ 44 مولوی عبدالرحیم عارف 217 حضرت عبداللہ سنوری 146،145 249 عبد الله ( ابی بن ابی سلول کے بیٹے ( 168 شرمیت رائے ، لالہ 44 ڈاکٹر عبدالسلام حضرت مولوی شیر علی 217-216 ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی اہلیہ کی عبدالمالک العزرمی 58 صالح جابی صاحب سینی گال کی وفات اور ذکر خیر 111 ،112 | حضرت عثمان 511،510،58 وفات اور ذکر خیر حضرت صالح حضرت صفیہ 278 437 504 ڈاکٹر عبدالسلام ہر تجربہ کی بناء قرآن حضرت عروہ بن مسعودؓ 509 کی آیات پر رکھتے 519 حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ 185،181 عبدالسلام میڈسن کی وفات اور ذکر عطاء بن ابی رباح 85 ط، ظ، ع، غ خیر، سکینڈے نیوین ممالک کے پہلے عکرمہ بن ابو جہل 132 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب، خلیفہ موصی 278 رض علوی صاحب، گورنر سری لنکا 206 اصیح الرائع 229 ، 264 ، 297 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب 54، حضرت علی 511،510 50.303 422-314 حضرت علیؓ کا ایک مخالف کو گرانا اور آپ کا وقف جدید کا ممبر بننا اور عبداللطیف صاحب اوور سیئر چوہدری منہ پر تھوکنے پر چھوڑ دینا 169 7 کا ذکر خیر 134 حضرت علی بن حسین 504 ابتدائی تاریخ وصورت حال حضرت طفیل بن عمر والد وسی 40 حضرت عبداللہ بن ابوبکر 84 حضرت عمر 511،510،260 حضرت منشی ظفر احمد صاحب عبداللہ بن ابی کا نبی کریم کی شان حضرت عمرؓ کا پہلے سے ایمان لائے 519،303 | میں گستاخی اور اس کے بیٹے کا جذبہ صحابہ کی خاطر نو جوان قریش کو پیچھے حضرت عائشہ 124،85 ،165 ،236 ایمان و محبت رسول 168 ہٹاتے جانا.....حضرت عبدالله بن بسر 88 عون بن عبد الله عاد حضرت عامر 525 129 71 503 حضرت عبداللہ بن ساجد 315 حضرت عیسی علیہ السلام 173 ، 499 میر عباس علی صاحب 55 عبد الله بن شقيق العقیلی 149 امام غزالی عبد الحفيظ 92 196 حضرت عبداللہ بن عباس 159 غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت حضرت عبد الحق مرزا صاحب 156 حضرت عبد اللہ بن عمرو 34 ، 194 مرزا حضرت عبد الرحمن بن عوف 37 حضرت عبداللہ بن عمر 135 ، 207 12،10،6،4،3،2،1، 21، 26، 499 حضرت مولوی عبد الرحمن جٹ 180 ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ 149، آپ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے 187 | 159ء502،416،205،166 میں کوشش کرنی چاہیے 28
36 53 ہے 284 آپ سے اور خلیفہ وقت سے محبت کا حضرت مسیح موعود کا جانوروں کے مسیح موعود کے زمانہ سے امن وابستہ والہانہ اظہار 443-444 لئے رحم آپ چاہتے تھے کہ جماعت کو قرآن آپ کا بغیر سوال کے عطا کرنا مختلف آپ کے صحابہ کا سلام کرنے کا اسوہ 216 اور آنحضرت سے سچا عشق ہو 116 واقعات آپ آنحضرت کے عاشق صادق 47 آپ کا پیش کردہ خدا کے حسن و آپ کا عیادت کے لئے خط لکھنا اور اور ایک ادنی غلام ہیں 403 احسان کا تصور 431 اظہار محبت 45 آپ پر اعتراض کہ یہ ایک عام آدمی ہے آپ کا عرب دنیا کے نام ایک پیغام 120 آپ کا گریہ وزاری کرنا طاعون کے نبوت کا مقام کس طرح مل گیا ؟ 425 آپ کا اسلام کے دفاع کے لئے آپ کا قوم کے لئے غم اور دعائیں 55-54 دنوں میں 54 آپ کا مشن آنحضرت اور قرآن کی آپ کا مشن اور آپ کی سچائی کی حملے اور خدمات حقانیت 115 نشانیاں 117 113 غلام حسین چوہدری 112 آپ اور جماعت کے خلاف جب آپ کا مہمان نوازی میں اسوہ 305-302 حضرت غلام رسول را جیکٹی 127 را بھی مخالفت کی آگ بھڑکائی گئی وہ آپ کو آنحضرت کے مقام کا صحیح منشی غلام محمد امرتسری 51 سلامتی کا باعث ہوگی 199 ادراک اور فہم تھا 29 غیرت ولڈرز Geert.ہالینڈ کا حضرت مسیح موعود سے آنکھوں پر حضرت مسیح موعود کی ایک عرب صوفی MP جس نے قرآن اور آنحضرت لعاب لگانے والی بچی.....91 کی خواب میں زیارت 407 کے خلاف ہرزہ سرائی کی 77 حضرت مسیح موعود کی غریبوں سے آپ کی بعثت کا مقصد اور آپ کو ف، ق، ل،م ہمدردی 52.خدا تعالیٰ کی مدد کے ساتھ آپ کا پیدا 47 ماننے والوں کی خوش قسمتی 470 فتح محمد شیخ آپ کی بیان فرمودہ تفسیر رحیم 59 تا 64 | فخر الدین رازی 158 ، 425،424 آپ کی تحریرات میں آنحضرت کا حضرت فضالہ بن عبید 166 آپ کا اعلان اور عقیدہ کہ میں کافر کرده انقلاب 484 نہیں.لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میرا عقیدہ ہے اور خاتم النبیین پر میرا ایمان ہے 404 اعلیٰ وارفع مقام 403-402 حضرت حکیم مفتی فضل الرحمن صاحب آپ کی عربی تحریرات کے متعلق کے لئے دعا اور معجزانہ شفا 92 عرب دنیا کے تاثرات کہ یہ خدا کے فقیر محمد قائد اعظم آپ کا اکرام ضیف کے بارہ میں تائید یافتہ بندے کا کلام ہے 484 قتادہ 52 475 158 پرندوں کا ایک واقعہ سنانا 304 آپ کی لوگوں سے ہمدردی (سیرت قدرت اللہ سنوری 92 آپ کی بعثت کا مقصد 2 کے واقعات) 190 509
37 کسری کمال یوسف 509 278 آنحضرت سے حضرت مسیح موعود آنحضرت کے بارے حضرت مسیح کا عشق اور آپ کو ہی آپ کے مقام موعود کی غیرت کا اظہار 82 حضرت لوط علیہ السلام 525 کا عرفان تھا، چند اقتباسات 115 آنحضرت کے ساتھ خدا کا سلوک کہ ڈاکٹر مارکوس ایڈی 446 آنحضرت کا رحمة للعالمین ہونا بالآخر آپ غالب آگئے 483 حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه اور آپ سے بددعا کی درخواست پر آپ کے مقام کو گرانے کا الزام 402 182 183 آپ کا رد عمل مجاہد 159 37 حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی آنحضرت کے صفت رحیمیت کے صحت کے بارے میں بشارت 91 حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مظہر کے طور پر واقعات 83 تا 90 محمد اشرف صاحب ایک مخلص احمدی 20,22,23,24,29,38,73,78,81 آنحضرت کا صفت مالکیت کا اظہار نو مبائع کی شہادت، نڈر اور دلیر داعی ,183,116,120,122,162,163,173 احادیث وسیرت کی روشنی میں 143 الی اللہ 103،93 ,280,401,405,483,500,499 آنحضرت کا فتح مکہ پر عام معافی محمد بن اسحاق 501,509,510,511,512,520 کا اعلان 133 محمد حسین بٹالوی 159 519 آنحضرت کا قوم کے لئے غم اور رحم کا حضرت مفتی محمد صادق صاحب 303 عشق محمد ربه 292 محمد علی شیخ آف مسانیاں 216 75 آپ کا مسیح موعود کو ماننے کا حکم 279 جذبہ آنحضرت اللہ کے رنگ میں رنگین آنحضرت کا مخلوق سے رحمت کے محمد نصیب منشی ہونے والے اعلیٰ اور اکمل ترین فرد 73 لئے بے چینی کا عالم 30 آنحضرت اور قرآن کے بارے میں آنحضرت کا مردہ دنیا کو نئے سرے علامہ محمود آلوسی سے زندہ کرنا 402 48 محمود الحسن قریشی صاحب 156 493 حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ، خليفة مغرب اور ہالینڈ کے MP کی ہرزہ سرائی آنحضرت کو خاتم الانبیاء ماننا بہت المسيح الخامس ايده الله اور اس کی مذمت اور وارنگ 800-77 آنحضرت اور قرآن کا مقام ارشادات حضرت مسیح موعود 174 ضروری ہے 291 حضور انور کی دعا کی تحریک، پتہ کے آنحضرت کی سیرت رحمت 39 آپریشن کے لئے 440 آنحضرت کی شبیہ مبارک میں حضور کے پتہ کے آپریشن پر اظہار آنحضرت اور آپ کی مہمان نوازی حضرت مسیح موعود کی زیارت 407 محبت کا اسوہ 298 443-444 آنحضرت کی قوت قدسیہ ارشادات حضرت مسیح کے پرندے پیدا کرنا، آنحضرت جانوروں اور پرندوں حضرت مسیح موعود 163 مولوی کا حضرت مسیح موعود کو جواب 489 آنحضرت کے اعلی و اور فع مقام تھا 402 | ڈاکٹر مظفر احمد صاحب 446 کے لئے رحمت 37
حضرت معاذ بن جبل 90 نصیر احمد معاویہ بن قره مغيرة مقداد بن اسود 37 300 300 نعمان بن بشیر 38 48 129.36 حضرت نوح علیہ السلام 525 حافظ نور احمد صاحب 49 چوہدری منیر احمد عارف صاحب کی حضرت مولوی نور الدین صاحب، وفات، خدمات سلسلہ اور ذکر خیر 103 خلیفة اسح الاول 152،92،49 حضرت موسیٰ علیہ السلام 173 مهدوی 528،527،525،499 نہال سنگھ 58 وضین ، جس نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کیا تھا 88 ولیہ صاحب (حلیمہ ) جنہیں خلیفہ ثالث سیرالیون سے لائے اور اپنی بیٹی بنا کر بچوں کی طرح رکھا 457 160،159،158 ہشام بن زید 49 507 ہمایوں وقار کی شہادت 514 حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب يسوع میناء (آزاد کردہ غلام) 37 صحت کی دعا کی درخواست 178 ن، و،ه،ی حضرت مرزا وسیم احمد صاحب کی حضرت مرزا ناصر احمد، خلیفتہ اسیح الثالث نجاشی 500-308-187.180 509 نذیر احمد ریاض ملک 217 پیدائش کے بارے ایک رؤیا 182 81 حضرت یعقوب علیہ السلام 498 حضرت مرزا یعقوب بیگ صاحب 46 آپ کی قادیان میں رہ کر خدمت حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب اور قربانی کا جذبہ 184 آپ کی وفات ، خدمات اور نیکیوں اور اخلاص کا تذکرہ 192-179 54.51.49.48.47.45.44 حضرت یوسف علیہ السلام 133 ،498 نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت ام آپ کی قربانی کا تذکرہ علاقہ عرب یوسف خالد ڈوروی، سیرالیون کے.المومنين 184،182، 304،46 سے ایک نسبت 183 مبلغ کی 457
39 آسٹریلیا آ،ا،ب،پ 454.16 اسلام آباد 17 ،472،455 اسلام آبا دلندن 320 مقامات انگلستان کی پہلی دس جماعتیں تحریک بشیر آباد جدید اوکاڑہ ایران 456 456 219 456 بنگلہ دیش 199، 479،311،206 بنین بہاولپور 455 455 456.17 13 افریقہ 258،16،13،10 ایشیاء 445،309،258،118 بہاولنگر 445،320،309 | بدر 218 بھارت افریقہ کے ممالک کو چندہ جات کی برازیل کے قریبا یک جزیرہ کے بھیرہ طرف توجہ کرنے کی تحریک 154 پر جوش نو مبائع تبلیغ کے لئے جوش بیت الفتوح افریقہ میں خلیفہ اسیح کی تقریر کے رکھنے والے خلافت سے محبت کرنے دوران بارش اور سامعین اور عورتوں والے فدائی کاصبر وسکون افغانستان امرتسر 308 475 188 445 بیروت بيلجيثم 228 320-321 408 454.16 پاکستان ،7،1، 8، 9، 16، 28 ، برطانیہ 455،454،16 برطانیہ اور دوسرے ممالک کے لئے 93 ، 112، 151، 180 ، 183، غیر معمولی موسمی اثرات کی وجہ سے 206.199.191.185.184 امریکہ 9، 14،13، 16، 111 ، دعا کی تحریک 309 237 229 <227 <219 320.311.302.255.246| 17454.445.324.191.118 118، 454،445،324،191، برطانیہ کا ہر سال پانچ مساجد کا وعدہ 17 323، 406، 454، 455، 456 492.456 برلن میں مسجد کی تعمیر، حضرت مصلح موعود 485.479.457 انڈونیشیا 16 ، 454،206، 479 کی خواہش اور دوسری تفصیلات 19 پاکستان احمدیوں کی دعاؤں سے بیچا انڈونیشیا میں جماعت کی مخالفت برما اور احمدیوں کو نصیحت 477 برمنگم انڈو نیشیا میں سونامی اور جماعت کی برمنگم ایسٹ خدمات 478 103 15 456 476 ہوا ہے پاکستان اور احمدیوں کے خلاف مذہبی آزادی کے حق کے خلاف بریڈ فورڈ 456،15 ظالمانہ قوانین 471
40 پاکستان اور لاقانونیت کا زور 472 پاکستان میں شہید کئے جانے والے جرمنی اور مساجد کی تعمیر 18 پاکستانی سیاستدانوں کا پوری قوم اور احمدیوں کو نصیحت 406 جرمنی کی جماعت کا حضور انور کے اس ملک کو داؤ پر لگانا 430 پاکستان میں قربانی کے معیار ارشاد پر سختی سے عمل کرنا اور اظہار پاکستان سے آنے والے سادہ بڑھانے کا ذکر اور دوسرے ممالک خوشنودی کہ سور کا کاروبار کرنے مزاج مہمان جو صرف جلسہ کے کے لئے قابل تقلید نمونہ 16-14 والے اس کو چھوڑ دیں 154 پاکستان میں ہونے والے فسادات جرمنی کی لجنہ کا وعدہ کہ برلن مسجد کا لئے آتے ہیں معیار 299 290 پاکستان کا مالی قربانی کا قابل رشک اور احمدیوں کو دعا کرنے اور فسادات خرج خود برداشت کریں گی 19 میں حصہ نہ لینے کی تحریک474 جرمنی کے ایک MP کا اظہار خیال پاکستان کی لجنہ کے خرچ سے تعمیر پاکستان میں آنے والا زلزلہ اور کہ جماعت احمد یہ امن پسند اور پیار ہونے والی مسجد ہیگ 5 احمد یہ خدمات 472 پھیلانے والی جماعت ہے 19 پاکستان کی نا گفتہ بہ حالت اور دعا پاکستان.خوف خدا پیدا کرنے کی جرمنی میں ایک عیسائی عورت کا حضور نصیحت اور افغانستان سے سبق انور سے سوال کہ پنجاب کے چھوٹے کی تحریک 530 پاکستان کی آزادی میں اور خدمت سیکھنے کی میں احمد یہ کردار 476 پٹیالہ 475 145 سے گاؤں سے شخص کو اللہ نے کیوں مسیح موعود بنا دیا ؟ 425 پاکستان کے سیاسی حالات اور دعا پنجاب 425،118 | | جھنگ کی تحریک 467 پھالیہ پاکستان کے قیام میں احمدیوں کا پیرس 531 103.93 492 حديقة المهدی خ ت ، ٹ، ج ، ح ، حلقہ مسجد فضل پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 243 تنزانیہ 455،308 حیدرآباد 112 509 319.306 456 455 پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 306 تھر کے رہنے والے ہندو اور غربت 8 خدیجہ مسجد برلن کی مسجد کا نام اور ٹوٹنگ پاکستان میں ایمر جنسی کا نفاذ 473 پاکستان میں بھی جلسہ کے انعقاد جاپان جده 456 79 181 تفصیلات 20 ڈ، رہیں ،ش ڈنمارک 454 455 ڈیٹرائٹ 278 456 کے لئے دعا کی تحریک 297 پاکستان میں سود کی برائی 243242 جرمنی 445،425،16،14
41 ڈیرہ غازی خان ڈیون کارنوال راولپنڈی 455 456 455.17 سری لنکا میں احمدیت کی مخالفت اور شیخوپورہ 51445617 صبر کی تلقین.یہ آگ ٹھنڈی ہو ص، ط ، ع ، ف ق جائے گی اور مخالف اس میں جلتے صابن دستی (بدین) 456 ربوہ 17 ، 187،184،134، رہیں گے 200-210 طائف.سفر طائف اور آنحضرت 473.455.314-307-297 سری لنکا میں ملاؤں کا فساد اور کا عفورحم مانگنا عرب 143 258.163.48.1 ربوہ کی اہمیت ایک نمونہ ہے احمدیت کے خلاف قانون شکنی کی سرگرمیاں نمازوں کی طرف بطور خاص توجہ سکاٹ لینڈ 205 14 دلانے کا ارشاد 151 سکنتھو رپ سلیکان ویلی 456 ربوہ کی زمین پر غاصبانہ قبضہ اور فاضل کا فرانس 46 16 45615 فرانس میں دعوت الی اللہ کے کام کی تعریف 16 456.17 کورٹ کی بزدلی اور ہتک 473 سندھ کے احمدی زمینداروں کو ایک فیصل آباد ربوہ کی آباد کاری اور اس کی تاریخ نصیحت.مزدوروں سے حسن سلوک 9 قادیان 28 ، 44 ، 45، 48، 49، میں ایک نام چوہدری عبداللطیف سندھ میں ہندؤوں میں تبلیغ کے 182،180،179،178،118ء صاحب اوور سیئر کا بھی ہے 134 لئے مشکلات ربوہ کے بارے سٹیٹ بنائے سنور جانے کے اعتراض پر اللہ کا ان کے سوات 8 145 472 191.186 185 184 183 453-320-308-303-192 قادیان کو خالی کروانے کی ایک مونہوں سے اب خود نکلوانا 285 سوئٹزرلینڈ 406،405،16 سازش اور حضرت میاں وسیم صاحب 318 456 456،17 جرأت مندانہ حکمت اور دعائیں اور ر شمور (لندن) سیالکوٹ سانگھڑ سیرالیون 457 قربانی کا جذبہ 186 ساؤتھ ایسٹ لندن 456 سیرہ تحصیل پھالیہ 93 قادیان کے رہنے والے احمدیوں کا سین ویلی 456 مقام اور ذمہ داریاں 191 ساؤتھ ویسٹ ریجن 15 سینیگال کے ابتدائی احمدی صالح قادیان میں شرارت اور فتنہ کے موقعہ ساہیوال 455 جابی کا تذکرہ سرگودھا 456،156،17 شام سری لنکا 199، 479 شکاگوویسٹ 278 71.48 456 پر بہشتی مقبرہ میں پہر 3150 قزاقستان 324 قصور 456
اخلاص کرغزستان پر آئے ہیں یہ غلط ہے 245 لودھراں لودھیانه ماریشس ک گ ، ل ، م الدھڑ کرم سنگھ ک، گ، ل،م لکھنو کابل کارنوال 91 15 الندن کراچی منڈی بہاؤالدین 103 492،323 | منڈی بہاؤالدین میں ایک شہادت 45517 لندن مسجد کا علاقہ 15 کا ذکر کراچی مالی قربانی اور احباب کا لندن آنے والے بعض کا سود پر قرض منی پور آسام 290 324 472.190.47 510 93 303 456 456 17 42 456 184 ملتان 455 لے کر آنا کہ نیک مقصد کے لئے جلسہ میانوالی میرپور کعبہ اور اس کی خدائی حفاظت 282 ، مچسٹر 456 49 454 456-15 میر پور خاص ن، و، ه ، ی نارتھ ایسٹ ریجن 15 خانہ کعبہ اور احمدی کو دعاؤں کی مٹھی نارتھ ورجینیا 8 تحریک کہ اس میں داخلے کے مٹھی ہسپتال کا قیام 9 نارووال 456 456 سامان ہوں کنری کھوکھر غربی 283 455 455 456 مدینہ مراکش مسانیاں کینیڈا 325،189،16،14 مسجد اقصیٰ قادیان 190 471.454 مسجد اقصیٰ 186 مسجد اقصیٰ ربوه 510.168.167 324 216 314 نائیجریا 455،454،324،103 نائیجیریا کی ترقی اور پاک تبدیلی پر اظہار خوشنودی نگر پارکر 8 نگومبو ( سری لنکا) 200 155 508 گجرات گلاسگو گوجرانوالہ کھانا گھٹیالیاں خورد لاس اینجلس 17 456 456.17 308 456 456 مسجد فضل 321،230-320 نن سپیٹ کا سینٹر 5 مسجد مبارک مشرق بعید 186 258 نواب شاہ نیو مولڈن 455 456 مکہ 483،274،265،81 والٹن ایئر پورٹ 184 511-510-507 فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان اور واہ کینٹ لاہور 16، 17، 455،184،48 قریش سے خطاب 133 ووسٹر پارک 456 456.15
ہالینڈ کو ایک وارننگ 80 ہڈرزفیلڈ 43 456 یورپ 13،9، 19، 118 ، 249 ، ہالینڈ کے ایک میئر کا اعتراض کہ ہندوستان 1 ، 9، 10، 11، 14، 15، 492،445،309،263،258 اسلام نے ایک عذاب دینے والا خدا 16، 28، 179، 185، 187، 219 یورپ کا اسلام کے خدا پر اعتراض | پیش کیا ہے 431 ہالینڈ کے ممبر پارلیمنٹ کی آنحضرت اور قرآن کے بارے ہرزہ سرائی کی مذمت اور وارننگ 77 246 ، 308 ، 454،311، 455 کرتے ہوئے مذاق اڑانا 431 ہندوستان کی جماعت کو نصائح یوگنڈا 324 تربیتی اور تبلیغی پروگرامز کے بارہ یوگنڈا کے صدر کا پیغام جلسہ پر پڑھا میں ہالینڈ میں بسنے والے پاکستانی اور ہندوستانی احمدیوں کی ذمہ داریاں 1 ہوشیار پور 13 188 322 جانا یوگنڈا کے وزیر کا کارکنان جلسہ ہالینڈ میں مساجد کی تعمیر کی طرف ہیگ مسجد کی تاریخ اور پس منظر 5 سالانہ کا اخلاص دیکھ کر متاثر تحریک اور ضرورت ایک تجزیہ 5 بیمن ہالینڈ 77،18،5،1 132 یو کے 471،112،14 ہونا 322 166 مراد 456
44 کتابیات بخاری 24 ، 27 ، 32 ، 33 ، 34 ، ترمزی 35 ، 38، 39، 58، 88، آ، ا، ب، پ،ت 193 166.149.148.89.88.87.75.41.40.30 302300 293 229 130.125.123.109.101 403-204.121 506.503.466.323.312 158 144.141.139.135.131 $236.207.196.194.167 116.73 <413-312-301.300.295.194.37.33, تفسیر ابن کثیر تفسیر الجامع لاحکام القرآن 58 ، 99 الادب المفرد 33 ، 37، 194، 295 300 312،301، 413، تفسیر حضرت مسیح موعود 154 162 آئینہ کمالات اسلام 55،51 ابن عساکر اتمام الحجه اربعین 313.217 283 508.507.505.503.453 527.292 ازالہ اوہام 409 اسلامی اصول کی فلاسفی 59 پیغام صلح 241، 284 ، 488 تاج العروس اصحاب احمد اعجازاح اقرب انجیل انوار العلوم 92 66.60 157 436 162 تجلیات الهیه تحفہ گولڑویہ 530.429 203.113 262 157.96 441 28 براہین احمدیہ 21 ، 51 ، 69، 70، تفسیر روح البیان 158 ، 193 تفسیر سورۃ فاتحہ تفسیر طبری 433 193 تفسیر کبیر تفسیر کبیر رازی 97،59، 98، $283.162.96.71 529.521.496.489 426.424 البدر 252،143،31 تذکرۃ الشہادتین 198 ،475 157 436 忆吧 ایام الصلح 22، 64،57،59 تذكرة المهدى 64.57.59.22 102،95 ، 257 | الترغیب والترہیب 195 ، 205 ، 174 ، 438 53 چشمه معرفت ،26 ،108،82 412-218-216 حقائق الفرقان 160 ، 465 تذکره 43، 119 ، 144 ، 145، تفسیر مجمع البیان 146 ، 199 ، 201، 426 427 | تورات
45 حقیقة الوحی 116،74 سیرت خاتم النبيين 509 مسند احمد 30 ،36،34، 37 ، 38 ، ا حکم 29 ، 76 ، 152 ، 244 ، 281 سیرت طیبہ از مرزا بشیر احمد صاحب 91 166،140،39 ، 197 ،416 السيرة النبوية ( ابن ہشام ( 168 مسیح ہندوستان میں 268 121 حمامة البشرى حیات قدسی 127 ، 129 الشفالقاضی عیاض 85، 143 مشکوة 167، 415 روح المعانی 284، 493،426 | شحنه حق 51 مفردات امام راغب 57 95 ریویو آف ریلیجنز 292 شرح السنہ 166 493.423.282.197.157 سراج منیر 210 سرمه چشم آریہ س ،ش، ض، ط شہادت القرآن 281 ضمیمہ رسالہ جہاد 6 51، 164 | طبقات ابن سعد 506،503 مکتوبات احمد یہ 55 ملفوظات 6، 62، 63، 93، 106 ، سنن ابن ماجہ 32 ،87،85 173.169.164.120 199.198.176 175 ک، ل م 502،228،90 | کتاب البریہ سنن ابو داؤد 214، 310 کرامات الصادقین سنن الدارمی 404 126 503.89 $280 248 247 <234 470.2 $419.305.302 296 111.60 520.493.448.434 96.66 سنن النسائی ،86، 165 ، 166 کشتی نوح 93، 117 ، 489 من الرحمن سنن دارقطنی 415،414 كشف الخفاء سیر روحانی 512 سیرت احمد از قدرت اللہ سنوری صاحب 92 155 ن، و لسان العرب 96، 280 ، 491،424 حجم الہدی سوانح حضرت مولوی شیر لیکچر لاہور مثنوی ملا روم 470 51 سیرت المہدی 303،53،52 مجمع الزوائد 232،214 علی صاحب 217 مجم الہدی 163 ، 171 ، 172 نزول ایح سیرت حضرت مسیح موعود از عرفانی مجموعہ اشتہارات 81، 114 ، نسیم دعوت صاحب ،44، 45، 47، 48، 54.52.51.50.49 485.402-316.115 427 490 نور القرآن 261،76 ،265 مسلم 40، 85، 86، 109، 150.142.141.124 الوصية 480،442،118 سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحب 217 168، 229، 289، 299، Rushdi-Haunted by | سیرت حلبیہ 84 ، 132 ، 133 309 ،315، 416 264 Lis