Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2006 جلد چہارم
i بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وقت کی آواز حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے....اسے اپنی صفات بخشتا ہے (الفرقان مئی، جون 1967 ، صفحہ 37 ) ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اسکا سراسر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا.ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے در درکھتا ہے ، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے ، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں اور اس پر عمل کریں کیونکہ اسکی آواز کو سننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے.زمانے کی ضرورت کے مطابق یہ الہی بندے بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں.الہی تائیدات ونصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.خدائی صفات ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں.زیر نظر جلد میں ہمارے پیارے آقا اور امام حمام کی وہ قیمتی اور زریں نصائح ہم ملا حظہ کرسکیں گے.گھروں کے مسائل ہوں یا معاشرتی ، ان سب کی بابت ایسی نصائح ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں ، اپنی زندگیوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں اور معاشرے میں ایک حسین انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.دنیا بھر میں جو نفسا نفسی کا عالم ہے اور جو انسانیت کو ایک تیسری عالمگیر جنگ
ii کے دھانے پر لا کھڑا کئے ہوئے ہے انسان اپنے رب ، اپنے خالق اور مالک سے منہ موڑے ہوئے اس کی ایسی ناراضگی کا مورد بنا ہوا ہے کہ آئے دن طرح طرح کی آفات و مصائب کے عذاب کا شکار ہو رہا ہے.ان سب سے بچنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ہمدردی اور شفقت کے جذبات پر مشتمل نصائح کی جھلک بھی آپ ان خطبات میں پائیں گے.ان خطبات میں پوپ کے الزامات کا جواب بھی تفصیل سے موجود ہے.اسی طرح اس سال مغرب کے بعض اخبارات میں ایک مذموم اور انتہائی تکلیف دہ اور دل آزارمہم چلائی گئی جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو گویا چیر کے رکھ دیا.ایسے نازک موقع پر خدا کی طرف ملنے والی راہنمائی ہی کام آسکتی تھی.ان صفحات میں آپ دیکھیں گے کہ کس حکمت و دانائی اور جرات سے دنیا کے سامنے اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد مے کی خوبصورت تعلیم، روشن اور معصوم چہرے کو پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ امن عالم اب اسلام کی تعلیمات کے ساتھ ہی وابستہ ہے.اور سب سے اہم یہ کہ ایک احمدی کو اسکی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ ساری دنیا میں احمدیت اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو عام کرنا ہمارا کام ہے اپنے عمل سے اور حکمت، دانائی اور نیک نمونہ سے.اور ساتھ ہی ہمارا امام اور ہمارا قائد ہمیں یہ بھی حوصلہ دے رہا ہے کہ اس راہ میں مشکلات اور ابتلا ومصائب تو آئیں گے لیکن اے احمد یو! اے میرے جانثارو!! گھبرانا نہیں تھکنا نہیں اور ماندہ نہیں ہونا کہ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے.آپ فرماتے ہیں: پس ان ابتلاؤں سے احمدیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے.اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی وجہ سے میسیج محمدی کی قوت قدسیہ دیکھیں کہ دنیا کے ہر کونے میں احمدی اپنی جان، مال اور وقت کی قربانی کیلئے ہر وقت تیار کھڑا ہے.چاہے وہ ایشیا ہے یا امریکہ ہے یا افریقہ ہے، مشرق بعید ہے یا جزائر ہیں.ہر جگہ احمدیت کی خاطر قربانی دینے والے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور یہ
iii نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس مخالفت کے بعد ہر جگہ پر جماعت احمدیہ نے ترقی کی ہے.1974 ء میں ان لوگوں نے پاکستان میں جماعت کے خلاف کیا کچھ کرنے کی کوششیں نہیں کیں لیکن کیا جماعت کی ترقی رک گئی ؟ پھر اس فرعون سے بھی بڑا فرعون آیا اُس نے کہا پہلا تو بے وقوف تھا، صحیح داؤ استعمال کر کے نہیں گیا.کچھ کمیاں، خامیاں ،سقم چھوڑ گیا ہے ، میں اس طرح انہیں پکڑوں گا کہ احمدیوں کے خلیفہ سمیت تمام جماعت تو بہ کرتے ہوئے میرے قدموں میں گر پڑے گی ، اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا.تو کیا اس کی خواہش پوری ہوگئی ؟ خواہش پوری ہونے کا کیا سوال ہے، احمدیوں نے عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہوتے ہوئے اس کلمہ کی حفاظت میں جس کو دشمن نے ہم سے چھینا چاہا تھا پاکستانی جیلوں کو بھر دیا مگر کلمہ اپنے سینے سے نہیں اتارا.کیا اس نظارے نے غیروں کے دل نرم کرتے ہوئے غیروں کو احمدیت کی طرف مائل نہیں کیا ؟ کئی سعید فطرت مائل ہوئے اور کئی سعید روحیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آگئیں.اور ان فرعونوں کا کیا حال ہوا؟ ایک فرعون کو اس کے اپنے ہی پروردہ نے پھانسی پر چڑھا دیا اور دوسرے کو اللہ تعالیٰ نے خدا کے بندے اور اس کی جماعت کی دعاؤں کو سنتے ہوئے ہوا میں اڑا دیا.یہ ہے احمدیت کا خدا جس کا ادراک ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے آج کروایا ہے، جس کے اس وعدے کو ہم نے ہر آن پورے ہوتے دیکھا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہوں.آج بھی وہی خدا جماعت احمدیہ کی حفاظت کے لئے کھڑا ہے.آج بھی وہ اپنے بندے اور اپنے مسیح کی جماعت کی دعاؤں کو سنتا ہے.آج بھی تم ایسے نظارے دیکھو گے کہ جو دشمن ان دعاؤں کی لپیٹ میں آئے گا اس کے ٹکڑے ہوا میں بکھرتے چلے جائیں گے.اگر حکومتیں کھڑی ہوں گی تو وہ بکھر جائیں گی، اگر تنظیمیں کھڑی ہوں گی تو وہ پارہ پارہ
iv ہو جائیں گی.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ بعض دفعہ الہی جماعتوں کو امتحانوں میں سے گزرنا پڑتا ہے.ہر احمدی کا کام ہے کہ دعائیں کرتے ہوئے نہایت صبر واستقلال کے ساتھ ان امتحانوں سے گزر جائے.آخری فتح ہماری ہے اور یقیناً ہماری ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس فتح کو روک نہیں سکتی.یہ خدا کی باتیں ہیں جن کا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ 66 والسلام سے وعدہ فرمایا ہے یہ پوری ہوں گی اور ضرور پوری ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ.“ (خطبہ جمعہ 27 /اکتوبر 2006 ءجلد ہذا صفحہ 541-542) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نصائح اور ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
V فهرست خطبات مسرور 2006ء صفحہ 3 خطبہ نمبر تاریخ عنوان 1 2 6 جنوری وقف جدید کے 49 ویں سال کا اعلان 3 4 13 جنوری حضرت مسیح موعود کے ذریعہ بیعت کرنے والوں میں ایک عظیم انقلاب 17 20 جنوری ماریشس، قادیان، انڈیا کے دورہ کے حالات و واقعات 37 27 جنوری حضرت مسیح موعود کی آمد کے بعد آفات ارضی و سماوی کی کثرت 51 پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے 65 3 فروری مسیح و مہدی کی بعثت کا یہی زمانہ تھا.10 فروری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے 75 جذبات کو انگیخت کر نیوالے کارٹونوں پر رنج وغم اور مذمت کا اظہار 17 فروری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین پر مبنی حرکات پر اصرار اللہ تعالی کے 89 غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہے 24 فروری آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر بعض مغربی ممالک کے 103 دوہرے اخلاقی معیاروں کا تذکرہ 3 مارچ حضرت مسیح موعود پر جہاد کو منسوخ کرنے ، اسلامی احکامات کو تبدیل 117 کرنے کا انتہائی گھناؤنا الزام 10 مارچ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر بیہودہ حملوں کے جواب میں 131 اسلام کی خوبصورت اور پاکیزہ تعلیم کا تذکرہ 5 6 7 8 9 10 10
vi 11 12 13 14 15 16 17 17 مارچ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے ان 145 مغربی ممالک کے مرہون منت ہیں 24 مارچ | مجلس مشاورت کی اہمیت اور نمائندگان شوری کی ذمہ داریاں 157 31 مارچ اپنی اصلاح اور اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانی بھی ایک 167 انتہائی ضروری چیز ہے 7 اپریل حضرت مسیح موعود کو ماننا اسی صورت میں فائدہ دے گا جب پاک 177 تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے خدا کے آگے جھکنے والے بنیں گے 185 14 اپریل نمازوں کے قیام اور نظام وصیت کی تحریک اور محبت بھری نصائح 21 اپریل اخلاقی معجزات اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تبلیغ کے میدان اور اگلی نسلوں کی 197 تربیت کے بھی سامان پیدا کریں گے 28 اپریل خلافت کے نظام کی برکت اور رسول اللہ کی اطاعت 18 5 مئی اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے 19 20 21 22 23 24 25 12 مئی اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے ذرائع رطریق جاپان سے حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ کی پہلی بار ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا بھر میں براہِ راست نشریات 19 مئی سنگاپور، آسٹریلیا، جاپان، نجی اور نیوزی لینڈ کا تاریخی دورہ 26 مئی جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے 2 جون اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر کی پر معارف تفسیر 209 221 231 241 255 267 و جون خلافت کی برکات اور اہمیت و فضیلت اور عہدیداران کے لئے زریں نصائح 277 16 جون تعمیر مساجد کی اہمیت اور برکات اور ہماری ذمہ داری 289 23 جون اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں 301
vii 26 27 28 29 30 30 30 جون اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر سیرت مسیح موعوود کی روشنی میں 7 جولائی اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر سیرت مسیح موعود کی روشنی میں 14 جولائی اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر نصیر کا ایمان افروز پر معارف تذکرہ 313 327 345 21 جولائی جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے والے رضا کاران کے فرائض اور مہمان 361 نوازی کے اعلیٰ تقاضے 28 جولائی مہمانوں اور میز بانوں کے آداب وفرائض اور جلسہ حديقة المهدی (برطانیہ) میں پہلا جلسہ سالانہ 31 4 اگست جلسہ سالانہ برطانیہ کا اظہار تشکر 11 اگست اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا ایمان افروز تذکرہ 18 اگست اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ میں 32 33 34 ا 35 25 اگست اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب حضرت مسیح موعود کی قبولیت دعا کی روشنی میں 371 383 391 399 413 یکم ستمبر شہداء کو یا درکھنا چاہئے کہ احمدیت کی راہ میں بہایا ہوا یہ خون کبھی ضائع 429 نہیں جاتا 36 8 ستمبر صحابہ کی قبولیت دعا کے نہایت ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان | 443 37 38 39 70 0 41 15 ستمبر پوپ کا اسلام کے خلاف معترضانہ بیان اور اس پر جامع اور بھر پور تبصرہ 459 22 ستمبر دعا کی فلاسفی اور مختلف قرآنی دعاؤں کا تذکرہ 479 29 ستمبر رمضان کے مہینے کی اہمیت.اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر پہلے سے بڑھ کر 491 نظر رکھتا ہے اور اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے 6 اکتوبر دعا وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے یہ مہینہ خاص 503 بخشش اور قبولیت دعا کامہینہ ہے 13 اکتوبر واقفین نو بچوں کے والدین کے لئے ضروری نصائح 513
527 viii 20 اکتوبر | جمعہ کی اہمیت اور برکات 42 43 44 45 46 27 اکتوبر جماعت احمدیہ کے خلاف بعض ملکوں میں مخالفت کی رو اور دعاؤں کی تحریک 539 3 نومبر تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان 549 10 نومبر عائلی معاملات تقویٰ کو اختیار کرنے اور اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی تاکیدی نصائح 563 17 نومبر اپنے رب کی صحیح پہچان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی رب العالمین کی پہچان 575 کروائیں 24 نومبر اللہ تعالیٰ کی صفت ربُّ العَالَمِین کے مختلف معانی کا پر معارف تذکرہ | 583 یکم دسمبر | صرف اور صرف رت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو رب العالمین ہے کے 593 سامنے جھکنا ہوگا 8 دسمبر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں بلکہ وہ سب قوموں کا 603 رب ہے 15 دسمبر فیضان رحمانیت، یہ فیض عام ہے جو ہر ایک کو پہنچ رہا ہے 619 22 دسمبر ہر احمدی کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ اور اسلام کا صحیح تصور پیش کر کے لوگوں کو 631 بھٹکی ہوئی راہ سے واپس لائے 29 دسمبر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہے جس نے اسلام کا دفاع کرنا ہے 643 بتیں بکھیر نی ہیں اور اسلام کی صحیح اور خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانی ہے 47 48 49 49 50 51 52
خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء 3 (1) خطبات مسرور جلد چهارم مالی قربانی اصلاح نفس اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے وقف جدید کے 49 ویں سال کا اعلان فرمودہ مورخہ 06 / جنوری 2006ء ( 06 صلح 1385 هش) جلسه گاه، قادیان دارالامان تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ.ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَ نْهْرُ وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ (الصف: 11 تا 13) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی.تم جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہواور اللہ کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 4 خطبہ جمعہ 06 / جنوری 2006ء رستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں.یہ بہت بڑی کامیابی ہے.آج کے خطبے میں سب سے پہلے تو میں عالمگیر جماعت احمدیہ کو، جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں.گزشتہ خطبے میں میں نے توجہ دلائی تھی کہ ہر احمدی شکر کے مضمون کو دل میں رکھتے ہوئے آئندہ سال میں داخل ہوتا کہ گزشتہ سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو بے شمار نظارے ہم نے دیکھے ان میں اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اضافہ فرماتا رہے.اللہ تعالیٰ یہ نیا سال ہمارے لئے ہر لحاظ سے بابرکت اور مبارک فرمائے.انسان کی تو سوچ بھی اُن انعاموں اور فضلوں اور احسانوں تک نہیں پہنچ سکتی جو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر فرمارہا ہے.لیکن ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھتے ہوئے اس کے آگے جھکے، اس کے حکموں پر عمل کرے اور ان حکموں پر عمل کرنے کی انتہائی کوشش کرے حتی الوسع جس حد تک جس جس کی استعداد یں ہیں اس کو عمل کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ یہ برکتیں اور انعامات ہمیشہ جاری رہیں.اگر ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنے رہے، اس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے نیکیاں بجالاتے رہے، اپنے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے رہے تو پھر یہ وعدہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک سال یا دو سال یا تین سال کی بات نہیں ہے بلکہ ان باتوں کی طرف توجہ اور ان امور کی انجام دہی کے بعد پھر تم ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاؤ گے.ہر سال تمہارے لئے برکتیں لے کر آئے گا اور ہر گزشتہ سال تمہارے لئے برکتوں سے بھری جھولیاں چھوڑ کر جائے گا.اور پھر یہ اعمال جو ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان نعمتوں کا وارث بنائیں گے.ہر سال جنوری کے پہلے جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.اس حوالے سے مالی قربانی کے بارے میں مختصراً کچھ بتاؤں گا اور پھر گزشتہ سال تحریک وقف جدید کے ذریعے ہونے والی مالی قربانیوں کا ذکر ہو گا اور نئے مالی سال کا اعلان بھی.مالی قربانی اصلاح نفس اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مختلف پیرایوں میں اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے.پس جماعت احمدیہ میں جو مختلف مالی قربانی کی تحریکات ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور دلوں کو پاک kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 5 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء - کرنے کی کڑیاں ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَ مَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِیلِ اللهِ ﴾ (الحدید : 11) اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے.پس اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لئے مالی قربانیوں میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے بلکہ یہ بھی تنبیہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں.جیسے کہ فرماتا ہے.وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾ (البقرة - 196).اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو.پس جیسا کہ میں نے کہا یہ مالی تحریکات جو جماعت میں ہوتی ہیں ، یا لازمی چندوں کی طرف جو توجہ دلائی جاتی ہے یہ سب خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہیں.پس ہر احمدی کو اگر وہ اپنے آپ کو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی ایک بہت بڑی جماعت اس قربانی میں حصہ لیتی ہے لیکن ابھی بھی ہر جگہ بہت زیادہ گنجائش موجود ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی حکم فرمایا ہے کہ اگر آخرت کے عذاب سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننا ہے تو مال و جان کی قربانی کرو.اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر تلوار کا جہاد ختم کر دیا تو یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہی ہے جس کو کرنے سے تم اپنے نفس کا بھی اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کر رہے ہوتے ہو.یہ زمانہ جو مادیت سے پر زمانہ ہے ہر قدم پر روپے پیسے کا لالچ کھڑا ہے.ہر کوئی اس فکر میں ہے کس طرح روپیہ پیسہ کمائے چاہے غلط طریقے بھی استعمال کرنے پڑیں کئے جائیں.پھر کمپنیاں ہیں اور مختلف قسم کے تجارتی ادارے ہیں.باتوں سے اشتہاروں سے ایسی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح مال بکے اور زیادہ سے زیادہ منافع کما لیا جائے.ان اشتہاروں وغیرہ پر بھی لاکھوں خرچ ہوتے ہیں.بچوں تک کو مختلف چیزوں کی طرف راغب کرنے کے لئے، توجہ پیدا کرنے کے لئے ایسے اشتہار دیئے جاتے ہیں.ٹی وی وغیرہ پر ایسے اشتہار آتے ہیں، کوشش کی جاتی ہے کہ ماں باپ کو جن کو توفیق ہو بچے مجبور کریں کہ ان کو وہ چیز لے کر دی جائے ، اور جن میں توفیق نہیں ان میں پھر بے چینی پیدا ہوتی ہے.اس بے چینی کی وجہ یہی ہے کہ ہر ایک مادیت کی طرف جھک رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہے اور امیر ملکوں میں ، مغربی ممالک میں یہ بہت زیادہ ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تجارتیں، یہ خرید و فروخت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے.دنیا و آخرت سنوار نے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 6 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہترین تجارت یہ ہے کہ اس کی راہ میں مالی قربانی کرو.اور اس زمانے میں کیونکہ نئی نئی ایجادیں بھی ہوگئی ہیں جیسا کہ میں نے کہا ہے اور دنیا ایک ہو جانے کی وجہ سے ترجیحات بھی بدل گئی ہیں تو جہاں جہاں بھی یہ مالی قربانی ہو رہی ہے یہ ایک جہاد ہے.اسی طرح ہمارے ملکوں میں ایک کثیر تعداد ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں.افراد جماعت عموماً یا تو مالی لحاظ سے کمزور ہیں یا اوسط درجہ کے ہیں.تو جب بھی ہم میں سے، جماعت کا کوئی فرد مالی قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کا اپنی جان کا بھی جہاد کر رہا ہوتا ہے.بعض اوقات اپنے بچوں کی ضروریات کو بھی پس پشت ڈال کر قربانی کر رہا ہوتا ہے.اس کی کئی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی روایات میں آتی ہیں اور آج کل بھی موجود ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کرنے کی یہ مثالیں سوائے جماعت احمدیہ کے اور کہیں نہیں ملیں گی.حضرت مسیح موعود کے زمانے کی بات ہے قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے ایک روایت کی ہے کہ وزیر آباد کے شیخ خاندان کا ایک نوجوان فوت ہو گیا.اس کے والد نے اس کے کفن دفن کے لئے 200 روپے رکھے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لنگر خانے کے اخراجات کے لئے تحریک فرمائی.ان کو بھی خط گیا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رقم بھجوانے کے بعد لکھا کہ میرا نوجوان لڑکا طاعون سے فوت ہوا ہے میں نے اس کی تجہیز و تدفین کے واسطے مبلغ دوسوروپے تجویز کئے تھے جو ارسال خدمت کرتا ہوں اور لڑکے کو اس کے لباس میں دفن کرتا ہوں.یہ ہے وہ اخلاص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مریدوں نے دکھایا.( قاضی محمد یوسف فاروقی احمدی قاضی خیل.رسالہ ظہور احمد موعود صفحہ 70-71 مطبوعہ 30 /جنوری 1955ء) وہ ہر وقت اس سوچ میں رہتے تھے، اس انتظار میں رہتے تھے کہ کب کوئی مالی تحریک ہو اور ہم قربانیاں دیں.آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں یہ نظارے نظر آتے ہیں.اس زمانے میں مادیت پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی کا تو براہ راست اثر آپ کے صحابہ پر پڑتا تھا.آج زمانہ اتنا دور ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے کئے ہیں اس کے نظارے ہمیں دکھا رہا ہے.کئی احمدی نوجوان ایسے ہیں جو اپنی خواہشات کو مارتے ہوئے اپنی جمع پونجی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں.گزشتہ سال کی بات ہے پاکستان کی جماعتوں کے لئے جو ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا سال کے آخر میں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 7 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء اس کا پورا ہونے کا وقت آیا تو اس بارے میں مجھے صدر لجنہ لاہور نے ایک رپورٹ دی.انہوں نے بھی اپنی لجنہ کو تحریک کی تو اس وقت ایک بچی نے اپنی جہیز کی رقم میں سے بہت بڑی رقم ادا کر دی اور پرواہ نہیں کی کہ جہیز اچھا بنتا ہے کہ نہیں بنایا بنتا بھی ہے کہ نہیں.اور وہ بچی اس جلسے پہ قادیان بھی آئی تھی اور مجھے ملی.تو ایسے لوگ اس زمانے میں بھی ہیں جو اپنے مال اور نفس کا جہاد خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس بچی کی بھی شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے ، بابرکت فرمائے اور اس قربانی کے بدلے میں اسے اتنا دے کہ اس سے سنبھالا نہ جائے اور پھر اس میں برکت کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی طرف راغب ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے بے شمار قربانیاں کرنے والے جماعت کو دیتا چلا جائے.اور وہ فرشتوں کی دعاؤں کے بھی وارث ہوں کہ اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے سخنی کو اور دے اور اس جیسے اور پیدا کرتا چلا جائے.پس مالی قربانی کرنے والے ہر جگہ سے دعائیں لے رہے ہوتے ہیں.اور یوں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے اور جنت کے وارث بن رہے ہوتے ہیں.اللہ کرے کہ جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بے شمار جگہ مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے.اس کے چند نمونے میں پیش کرتا ہوں.حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی استطاعت ہو“.(بخارى كتاب الزكوة.باب اتقوا النار ولو بشق تمرة : حديث (1417 یعنی اللہ کی راہ میں قربانی کرو چاہے آدھی کھجور کے برابر ہی کرو.پس یہ جو وقف جدید کا چندہ ہے اس میں تو ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ ضرور اتنی رقم ہونی چاہئے.غریب سے غریب بھی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے سکتا ہے.جب مالی قربانی کریں گے تو پھر دعائیں بھی لے رہے ہوں گے.فرشتوں کی دعائیں بھی لے رہے ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس قربانی کی وجہ سے حالات بہتر فرمائے گا.پس ہر احمدی کو مالی قربانی کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے.نو مبائعین کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو اپنے نفس کی اصلاح کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ مالی قربانی کی جائے ، اس میں ضرور شامل ہوا جائے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 8 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء پھر اس پیغام کو پہنچانے کے لئے مالی اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے نو مبائعین کو بھی شروع میں ہی عادت ڈالنی چاہئے.اپنے آپ کو اس طرح اگر عادت ڈال دی جائے تھوڑی قربانی دے کر وقف جدید میں شامل ہوں پھر عادت یہ بڑھتی چلی جائے گی اور مالی قربانیوں کی توفیق بھی بڑھتی چلی جائے گی.حضرت مصلح موعودرضی تعالیٰ عنہ جنہوں نے وقف جدید کی تحریک شروع فرمائی تھی ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ” مجھے امید ہے کہ وقف جدید کی تحریک جس قدر مضبوط ہو گی اسی قدر اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ ہوگا“.( پیغام 3 /جنوری 1962ء) پس جماعت کی انتظامیہ کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ تمام کمزوروں اور نئے آنے والوں کو بھی مالی قربانی کی اہمیت سے آگاہ کرے، ان پر واضح کرے کہ کیا اہمیت ہے.اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ان کو آگا ہی کرائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بارے میں جو ارشادات ہیں ان سے لوگوں کو آگاہ کریں.اگر نہیں کرتے تو پھر میرے نزدیک انتظامیہ بھی ذمہ دار ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیکیوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول سے محروم کر رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا اس جہاد سے پھر نفس کے جہاد کی بھی عادت پڑے گی ، اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی ، عبادتوں کی بھی عادت پڑے گی.ایک روایت میں آتا ہے حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز عید پڑھائی آپ کھڑے ہوئے اور نماز کا آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا.جب فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی.آپ اس وقت حضرت بلال کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں.(بخاری کتاب العیدین باب موعظة الامام النساء يوم العيد حديث نمبر 978) تو یہ تھیں اس زمانے کی عورتوں کی مثالیں.اس زمانے میں بھی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانے میں بھی ایسی عورتیں ہیں جو بے دریغ خرچ کرتی ہیں.حضرت مصلح موعود نے بھی کئی مثالیں دی ہیں.خلافت ثالثہ میں بھی کئی مثالیں ہیں.خلافت رابعہ میں بھی کئی مثالیں ملتی ہیں.اب بھی کئی عورتیں ہیں جو قر بانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، اپنے زیورا تا ر کر دے دیتی ہیں.تو جب تک عورتوں میں مالی قربانی کا احساس برقرار رہے گا اس وقت تک انشاء اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والی نسلیں بھی جماعت احمدیہ میں پیدا ہوتی رہیں گی.یہ جو میں بار بار زور دیتا ہوں کہ نو مبائعین کو بھی مالی نظام کا حصہ بنائیں یہ اگلی نسلوں کو سنبھالنے کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 9 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء لئے بڑا ضروری ہے کہ جب اس طرح بڑی تعداد میں نو مبائعین آئیں گے تو موجودہ قربانیاں کرنے والے کہیں اس تعداد میں گم ہی نہ ہو جائیں اور بجائے ان کی تربیت کرنے کے ان کے زیر اثر نہ آجائیں.اس لئے نو مبائعین کو بہر حال قربانیوں کی عادت ڈالنی پڑے گی اور نو مبائع صرف تین سال کے لئے ہے.تین سال کے بعد بہر حال اُسے جماعت کا ایک حصہ بننا چاہئے.خاص طور پر نئی آنے والی عورتوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.پھر ایک روایت میں ہے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا الشُّع یعنی بخل سے بچو.یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا تھا.(مسنداحمد بن حنبل جلد 2 صفحه 159 مطبوعه بيروت) پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں بخل کا بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بڑا ہی انذار ہے اس میں.پہلی قوموں کی ہلاکت اس لئے ہوئی تھی کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تھے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پرانے احمدیوں کی بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیوں کی اہمیت کو بجھتی ہے لیکن اگر نئے آنے والوں کو اس کی عادت نہ ڈالی اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے لیت ولعل سے کام لیتے رہے تو پھر جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوفناک انذار فرمایا ہے.پس اس انعام کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی جو تو فیق دی ہے اس کا شکر بجالائیں اور آپ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی کرنے سے کبھی دریغ نہ کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کا پیغام تو پھیلنا ہی ہے یہ تقدیر الہی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں.لیکن اگر تم نے کنجوسی کی تو اپنی کنجوسی کی وجہ سے تم لوگ ختم ہو جاؤ گے جس طرح کہ حدیث میں ذکر بھی ہے اور لوگ آجائیں گے.جیسا کہ فرمایا ہے : اور جو کوئی بخل سے کام لے وہ اپنی جان کے متعلق بخل سے کام لیتا ہے.پھر فرمایا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْا أَمْثَالَكُمْ (محمد: 39) کہ اگر تم پھر جاؤ تو وہ تمہاری جگہ ایک اور قوم کو بدل کر لے کر آئے گا پھر وہ تمہاری طرح سستی کرنے والی نہیں ہوگی.پس یہ مالی قربانیاں کوئی معمولی چیز نہیں ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے.ایمان مضبوط کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہونے کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے.صحابہ کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پھل لگائے جس کا روایات میں کثرت سے ذکر آتا ہے.شروع میں یہی صحابہ جو تھے بڑے غریب اور کمزور لوگ تھے ، مزدوریاں کیا کرتے تھے.لیکن جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 10 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء بھی قسم کی کوئی مالی تحریک ہوتی تھی تو مزدوریاں کر کے اس میں چندہ ادا کیا کرتے تھے.حسب توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کیا کرتے تھے تا کہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب پانے والے بنیں، ان برکات سے فیضیاب ہونے والے ہوں جو مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہیں، جن کے وعدے کئے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا وہاں مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مد اناج وغیرہ ملتا تو اس میں سے صدقہ کرتا.تھوڑی سی بھی کوئی چیز ملتی تو صدقہ کرتا.اور اب ان کا یہ حال ہے انہی لوگوں کا جوسب مزدوری کرتے تھے.کہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ہے.(بخاری کتاب الاجارة.باب من آجر نفسه ليحمل على ظهره ثم تصدق به حدیث نمبر 2273) | پس دیکھیں کہ ابتدائی حالت کیا تھی اور آخری حالت کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان پر فضل فرمائے.ان کی قربانیوں کو کس طرح نوازا.چندوں کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صد ہا روپیہ خرچ کریں.اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے.سو مردانہ ہمت سے امداد کے لئے بلا توقف قدم اٹھانا چاہئے.جو ہمیں مدد دیتے ہیں آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 156) پس خدا کی مددد یکھنے کے لئے ہر ایک کو اپنی قربانیوں کے معیار بلند کرنے چاہئیں.پھر آپ نے فرمایا : ” تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا تعالیٰ سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 11 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذر مختاج نہیں ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے“.مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه 497498 منقول از ضمیمه ریویو آف ریجنزار دوستمبر 1903ء) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے.اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سوئیں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدا تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے.اور میں پھر جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم و برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 516) آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، اس ملک میں بھی اور پاکستان میں بھی اس کے پھیلانے کا کام وقف جدید کے سپرد ہے.پس ہر احمدی کو اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانی کا فعال حصہ بننا چاہئے.چاہے نئے آنے والے ہیں یا پرانے احمدی ہیں.اگر مالی قربانیوں کی روح پیدا نہیں ہوتی تو ایمان کی جو مضبوطی ہے وہ پیدا نہیں ہوتی.کوئی یہ نہ دیکھے کہ معمولی توفیق ہے، غریب آدمی ہوں اس رقم سے کیا فائدہ ہوگا.اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے جذبے اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 12 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء خلوص سے دیئے ہوئے ایک پیسے کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے.ایسے ہی یہ قربانی کا ذکر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس طرح بھی محفوظ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک معذور اور غریب آدمی تھے حضرت حافظ معین الدین صاحب کہ روایت میں آتا ہے ان کی طبیعت میں بڑا جوش تھا کہ وہ سلسلے کی خدمت کے لئے قربانی کریں حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ تھی کہ نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے تھے اور بوجہ معذور ہونے کے کوئی کام بھی نہیں کر سکتے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک پرانا خادم سمجھ کر لوگ محبت و اخلاص کے ساتھ کچھ نہ کچھ تحفہ وغیرہ ان کو دے دیا کرتے تھے.لیکن حافظ صاحب کا ہمیشہ یہ اصول تھا کہ وہ اس روپیہ کو جو ان کو اس طرح لوگوں کی طرف سے تحفہ کے طور پر ملتا تھا، کبھی اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ نہیں کرتے تھے ، بلکہ اس کو سلسلے کی خدمت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کر دیا کرتے تھے.اور کبھی کوئی ایسی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے نہیں ہوئی جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو چاہے وہ ایک پیسہ ڈال کر حصہ لیتے.کیونکہ جو ذاتی حیثیت تھی اس حیثیت سے جو بھی وہ قربانی کرتے تھے یہ کوئی معمولی قربانی نہیں تھی چاہے وہ پیسے کی قربانی تھی.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کئی دفعہ حافظ صاحب کی خدمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا تھا کہ حافظ صاحب بھوکے رہ کر بھی یہ خدمت کیا کرتے تھے.اصحاب احمد - جلد 13 صفحہ 293 پھر ایک اور دو بزرگوں کا نقشہ ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمایا ہے.فرماتے ہیں: ھیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام دین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں.وہ تینوں غریب بھائی جو شاید تین آنے یا چار آنے روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندے میں شریک ہیں.ان کے دوست میاں عبد العزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سوروپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.وہ سورو پیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا مگر تہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 313-314) جہاں یہ مثالیں غریب اور نئے آنے والے احمدیوں کو توجہ دلانے کے لئے ہیں وہاں جو اچھے کھاتے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 13 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء پیتے احمدی ہیں ان کے لئے بھی سوچ کا مقام ہے، ان کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ کیا وہ جو مالی قربانی کر رہے ہیں کبھی انہیں یہ احساس ہوا کہ واقعی یہ قربانی ہے.غریب آدمی تو بیچارہ اپنا پیٹ کاٹ کر چندہ دیتا ہے لیکن امراء اس نسبت سے دیتے ہیں کہ نہیں.اور اگر چندہ دینے کے بعد بھی کبھی احساس نہیں پیدا ہوا کہ کسی قسم کی قربانی کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان میں بہت گنجائش موجود ہے.جیسے میں نے بتایا کہ وقف جدید کی تحریک حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع فرمائی تھی اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: میں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ دیں اور اس کو کا میاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فرد جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندے میں حصہ نہ لئے.پس گزشتہ چند سالوں میں بھارت اور پاکستان میں، گو تھوڑی تعداد میں نئے آئے ہیں مگر افریقہ میں بڑی بھاری تعداد جماعت میں شامل ہوئی ہے.اگر آپ ان لوگوں کو جماعت کا فعال حصہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ لوگ خود اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جماعت کا فعال حصہ بننا چاہتے ہیں تو پھر کوشش کر کے مالی قربانیوں میں حصہ ڈالیں اور اس کے لئے ابتداء میں وقف جدید میں ہی چاہے حصہ لیں.پھر آہستہ آہستہ دو تین سال میں جب عادت پڑ جائے گی تو باقی مالی نظام میں بھی شامل ہو جائیں گے اور یہ اس لئے ضروری ہے تا کہ ایمان میں بھی مضبوطی پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو.پھر حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جو منصوبہ تھا کہ اس تحریک سے کیا کیا کام لینے ہیں، کس طرح پھیلانا ہے، ایک موقع پر آپ نے اس کا ذکر فرمایا اور وہی پروگرام اب بھارت کو دیا گیا ہے.وقف جدید کے تحت اس وقت تقریباً پونے بارہ سو معلمین اور مبلغین کام کر رہے ہیں.لیکن ابھی بھی میرے نزدیک کافی نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ: پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کو یا د رکھنا چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اسی قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا.اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا.اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب میری اس نئی سکیم پر عمل کیا جائے.(الفضل 11 جنوری 1958ء) kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم پھر آپ نے فرمایا کہ: 14 خطبہ جمعہ 06 / جنوری 2006 ء ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیئے جائیں جو اس علاقہ کے لوگوں کے اندرر ہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں اور وقف کے کام کرنے والے جو ہیں ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں کہ ایسے مفید کام کریں کہ لوگ متاثر ہوں یہ انہیں پڑھائیں بھی اور رشد و اصلاح کا کام بھی کریں.اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے.پس جب تک ہم اس جال کو نہ پھیلائیں گے اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اگر یہ جال صحیح طرح پھیلا ہوا ہو تو ہم نو مبائعین کو بڑی اچھی طرح سنبھال سکتے ہیں.ان کو قربانیوں کا احساس بھی دلا سکتے ہیں اور توجہ بھی دلا سکتے ہیں اور ان کو بڑی آسانی سے نظام کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں.پس اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.پھر جہاں لوگ مالی قربانیاں دیں وہاں جو معلمین اور مبلغین ہیں وہ اپنی پوری پوری استعدادوں کو استعمال کریں.یہاں ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی.جیسا کہ میں نے کہا یہ تصور ہماری انتظامیہ کے ذہن میں بھی کئی جگہ پر آ گیا ہے.جماعتی عہدیداران کے اندر بھی موجود ہے کہ ہمارے، مربیان کی معلمین کی جو تعداد ہے وہ کافی ہے.یہ صحیح نہیں ہے.اب زمانہ ہے کہ ہر گاؤں میں ، ہر قصبہ میں اور ہر شہر میں اور وہاں کی ہر مسجد میں ہمارا مربی اور معلم ہونا چاہئے.اب اس کے لئے بہر حال جماعت کو مالی قربانیاں کرنی پڑیں گی.تبھی ہم مہیا کر سکتے ہیں.پھر جماعت کے افراد کو اپنی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اپنے بچوں کی قربانیاں کرنی پڑیں گی کہ ان کو اس کام کے لئے پیش کریں، وقف کریں.اور یہ سب ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر بھی قائم ہوں.ہم نے صرف آدمی نہیں بٹھانے بلکہ تقویٰ پر قائم آدمیوں کی ضرورت ہے.آئندہ سالوں میں انشاء اللہ واقفین نو بھی میدان عمل میں آجائیں گے لیکن جو ان کی تعداد ہے وہ بھی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتے.یہ کام وسیع طور پر ہمیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آدمیوں کی ضرورت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے والے مربیان اور معلمین ہمیں مہیا فرما تار ہے.اب میں کچھ مالی جائزے پیش کرتا ہوں جو گزشتہ سال وقف جدید کی مالی قربانیوں کے تھے.کیونکہ ہم پاؤنڈوں میں Convert کرتے ہیں اور ساری دنیا کے چندے مختلف کرنسیوں میں ہوتے ہیں اس لئے ایک کرنسی بنانے کے لئے کرنسی سٹرلنگ پاؤنڈ میں رکھی جاتی ہے.جو رپورٹیں موصول ہوئی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی کل وصولی 21 لاکھ 42 ہزار پاؤنڈ ہوئی جو اللہ کے فضل سے گزشتہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 15 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء سال کی نسبت دو لاکھ پاؤنڈ زائد ہے.الحمد للہ.اور شامل ہونے والوں کی تعداد 4,66000 ہے.میں نے بھارت کو ٹارگٹ دیا تھا کہ اگر وہ کوشش کریں تو پانچ لاکھ شامل کر سکتے ہیں ابھی ان کی یہ کوشش جاری ہے لیکن ابھی تک اسے پورا نہیں کیا.بہر حال اکیاون ہزار نئے مخلصین اس وقف جدید کی تحریک میں شامل ہوئے ہیں.پاکستان، ہندوستان کی تعداد زیادہ قابل ذکر ہے.پھر جرمنی، کینیڈا، نائیجیر یا وغیرہ ہیں.نائیجیر یا میں تحریک جدید میں بھی ، وقف جدید میں بھی ، مالی قربانیوں کی طرف کافی توجہ پیدا ہو رہی ہے اور ما شاء اللہ کافی آگے بڑھ رہے ہیں.باقی افریقی ممالک کو بھی نیکیوں میں سبقت لے جانے کی روح کے تحت آگے بڑھنا چاہئے خاص طور پر غانا والے بھی اس طرف توجہ کریں.اور اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ ہندوستان میں بھی گو کہ تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن کافی گنجائش موجود ہے کیونکہ ان کی رپورٹ کے مطابق گو اس وقت جو وقف جدید کی تحریک میں جو شامل ہیں ان کی کل تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار ہے.اور گو اس سال 28 ہزار کا اضافہ ہوا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور پوری طرح کوشش کی جائے تو یہ لاکھوں میں اضافہ ہو سکتا ہے.بہر حال پوری دنیا اس کا بھی انتظار کر رہی ہوتی ہے اب دنیا بھر میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتوں کی رپورٹ یہ ہے.اس میں امریکہ اول ہے پاکستان دوم اور برطانیہ تیسری پوزیشن پہ، جرمنی چوتھی پوزیشن پر، کینیڈا پانچویں پر ہندوستان چھٹی پر، انڈونیشیا ساتویں پوزیشن پہ بلجیم آٹھویں، آسٹریلیا نویں اور دسویں پر سوئٹزر لینڈ آسٹریلیا نے بھی اس دفعہ کوشش کی ہے اپنی دسویں پوزیشن سے نویں پر آئے ہیں.پاکستان میں چندہ بالغان اور اطفال کا علیحدہ علیحدہ بھی موازنہ کیا جاتا ہے.اس لحاظ سے بالغان میں اول لا ہور، دوم کراچی اور سوئم ربوہ.اور اس میں مجموعی ترتیب کے لحاظ سے جو پہلی دس پوزیشنیں ہیں سیالکوٹ، راولپنڈی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، میر پور خاص، شیخو پورہ، فیصل آباد، سرگودھا، کوئٹہ اور نارووال اضلاع ہیں.پھر اسی طرح دفتر اطفال میں جو پہلی تین پوزیشنیں ہیں.اول کراچی ، دوئم لا ہور ، سوئم ربوہ.اور اس میں بھی جو اضلاع کی پوزیشن یہ ہے اسلام آباد اول، پھر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، راولپنڈی، میر پور خاص، فیصل آباد، سرگودھا، نارووال، کوئٹہ.تو یہ ہے ان کی وصولیوں کی کل پوزیشن.یکم جنوری 2006 ء سے وقف جدید کا نیا سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے شروع ہو چکا ہے.آج اس کا اعلان بھی میں کر رہا ہوں.یہ وقف جدید کا انچاسواں سال ہے.اللہ تعالیٰ اس سال میں پہلے سے بڑھ کر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 16 خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء ثمرات عطا فرمائے.جماعت کے مالی قربانیوں کے معیار بھی بلند ہوں اور واقفین زندگی، مربیان، معلمین کے تقویٰ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار بھی بلند ہوں اور جماعت کے ہر فرد کو اپنی اہمیت اور ذمہ داری کا احساس بھی ہو اور ہم میں سے ہر ایک، ایک تڑپ کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا پیار سمیٹنے والا ہو اور اس کوشش میں رہے اللہ سب کو اس کی توفیق دے.آج خطبہ لیٹ شروع ہوا تھا.باہر والے لوگ ایم ٹی اے کے انتظار میں بہت جلدی پریشان ہو جاتے ہیں یہاں کیونکہ بجلی کا مسئلہ رہتا ہے.ایک جزیٹر انہوں نے لگایا تھا وہ خراب ہو گیا تو دوسرا لگایا گیا اس کی صحیح طاقت نہیں تھی.اس وجہ سے ان کے سگنل صحیح نہیں جا رہے تھے اس لئے لیٹ ہوا.کیونکہ لوگ مجھے لکھنا شروع کر دیتے ہیں شاید مجھے کچھ ہو گیا ہے.تو یہ میری وجہ نہیں بلکہ بجلی کی خرابی کی وجہ ہے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء 17 (2 خطبات مسرور جلد چهارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بیعت کرنے والوں میں ایک عظیم انقلاب فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2006ء(13 صلح 1385 حش) مسجد اقصی ، قادیان دارالامان تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (سورة الجمعة آيت4) اس آیت کا ترجمہ ہے اور انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی مبعوث کیا ہے جو ابھی ایمان نہیں لائے.( جو نبی کا ذکر چل رہا ہے ).وہ کامل غلبے والا اور حکمت والا ہے.یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا.اس شخص نے یہ سوال تین دفعہ دو ہرایا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ہم میں بیٹھے ہوئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا یعنی زمین سے ایمان بالکل ختم ہو گیا تو ان میں سے ایک شخص اس کو واپس لائے گا، دوسری جگہ رجال" کا لفظ بھی ہے یعنی اشخاص واپس لائیں گے.(بخارى كتاب التفسير سورة الجمعة.....حديث نمبر 4897) تو یہ آیت اور یہ حدیث ہم میں سے اکثر نے سنی ہوئی ہے، پڑھتے بھی ہیں.لیکن آج میں اس حوالے سے نمونے کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند صحابہ کا ذکر کروں گا.جنہوں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 18 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء نے بیعت کے بعد اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کیں جن کے نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں نظر آتے ہیں.جب صحابہ نے اُس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کی وجہ سے تمام برائیوں اور گھٹیا اخلاق سے تو بہ کی.فسق و فجور، زنا، چوری، جھوٹ ، قمار بازی، شراب نوشی قبل و غارت وغیرہ کی عادتیں اُن میں سے اس طرح غائب ہوئیں، جس طرح کبھی تھیں ہی نہیں.اور نہ صرف یہ کہ یہ عادتیں ختم ہو گئیں، بلکہ اعلیٰ اخلاق اور نیکیاں بجا لانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع ہو گئی.عبادات میں مشغولیت اور قربانی کی ایسی روح پیدا ہوگئی کہ کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کچھ عرصہ پہلے اس سے بالکل الٹ تھے.اُن لوگوں کا مطلوب و مقصود صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور ان سے عشق و محبت میں فنا ہونا رہ گیا تھا.ان کے عشق و محبت کی ایسی مثالیں بھی تھیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو بھی نیچے نہیں گرنے دیتے تھے.(بخاری کتاب الوضوء باب استعمال فضل وضوء الناس حدیث نمبر 187) پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وعدے کے مطابق کہ رہتی دنیا تک اب تیرا نام ہی روشن رہنا ہے، تیرے ذریعے سے ہی بندوں نے مجھ تک پہنچنا ہے، اگر زمین میں ایسا دور بھی آیا کہ ایمان دنیا سے بالکل مفقود ہو گیا تو تب بھی میں تیرے عاشق صادق کے ذریعہ سے اسے دوبارہ دنیا میں قائم کروں گا.اس مسیح محمدی کے ذریعہ سے ایک انقلاب برپا کروں گا جس پر تیری قوت قدسی کا اثر ہو گا اور وہ اس کے ذریعہ پھر وہ مثالیں قائم کروائے گا جو تُو نے صحابہ میں پیدا کیں.حضرت امام مہدی کا ظہور ہوا.اس وقت جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ان مثالوں کے چند نمونے پیش کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نور سے فیض پا کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فر مایا تھا، اپنے صحابہ میں ، اپنے ماننے والوں میں، اپنے بیعت کرنے والوں میں کیا انقلاب عظیم پیدا کیا تھا.اس بارے میں میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے صحابہ کو کیسا پایا.آپ فرماتے ہیں کہ : میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے.اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیا ہے.میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں نا پاک دل کے لوگ انکو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں“.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315) اب میں ان پاک نمونوں کی چند مثالیں دیتا ہوں.kh5-030425
19 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم حضرت نواب محمد علی خان صاحب جو مالیر کوٹلے کے نواب خاندان سے تھے ، رئیس خاندان کے تھے، نوجوان تھے، ان میں گونیکی تو پہلے بھی تھی.لہو و لعب کی بجائے ، اوٹ پٹانگ مشغلوں کی بجائے جو نوجوانوں میں پائے جاتے ہیں، اُن میں اللہ کی طرف رغبت تھی، اچھی عادتیں تھیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت نے اس کو مزید صیقل کیا اور چمکایا.انہوں نے خود ذکر کیا ہے کہ پہلے میں کئی دفعہ نمازیں چھوڑ دیا کرتا تھا.اور دنیا داری میں پڑا ہوا تھا.لیکن بیعت کے بعد ایک تبدیلی پیدا ہوگئی.ان کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : رجبی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ (ازالہ اوہام میں یہ ذکر ہے ) قادیان میں جب وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے، پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نما ز پڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بالکل مجتنب ہیں“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 526) حضرت نواب محمد علی خان صاحب خود اپنے بھائی کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ : جن امور کے لئے میں نے قادیان میں سکونت اختیار کی میں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بارہ سال ہو گئے اور میں اپنی شومئی طالع سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا ، بدنصیبی سے، بدقسمتی سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا.اور قادیان سے مہجور تھا.صرف چند دن گاہ بگاہ یہاں آتا رہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی عمر ضائع کی.آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا.اور آخر مجھ کو یہ شعر یاد آیا کہ: ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں این خیال است و محال است و جنوں خدا کو بھی چاہنا اور گھٹیاد نیا کو بھی چاہنا یہ صرف ایک خیال ہے اور یہ ناممکن ہے اور پاگل پن ہے ) لکھتے ہیں کہ : ” یہاں میں چھ ماہ کے ارادے سے آیا تھا مگر یہاں آکر میں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتویٰ دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتا ہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہو جاتا ہے.اور میں نے خوب غور کیا تو میں نے دیکھا کہ گیارہ سال میں نہ میں نے کچھ بنایا اور نہ میرے بھائی صاحبان نے کچھ بنایا.اور دن بدن ہم باوجود اس مایوسانہ حالت کے دین بھی برباد کر رہے ہیں.آخر یہ سمجھ کر کہ کار دنیا کسے تمام نکرد، کوٹلہ کو kh5-030425
20 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم الوداع کہا اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں ہجرت کرلوں.سوالحمد للہ میں بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے کوٹلہ سے ہجرت کر لی ہے اور شرعاً مہاجر پھر اپنے وطن میں واپس اپنے ارادہ سے نہیں آسکتا.یعنی اس کو گھر نہیں بنا سکتا.ویسے وہ مسافرانہ آئے تو آئے.پس اس حالت میں میرا آنا محال ہے.میں بڑی خوشی اور عمدہ حالت میں ہوں، ہم جس شمع کے پروانے ہیں اس سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں.میرے پیارے بزرگ بھائی میں یہاں خدا کے لئے آیا ہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا کے لئے ہے.میں کوٹلہ سے الگ ہوں مگر کوٹلہ کی حالت زار سے مجھ کو سخت رنج ہوتا ہے.خداوند تعالیٰ آپ کو اور ہماری ساری برادری اور تمام کوٹلہ والوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ آپ سب صاحب اسلام کے پورے خادم بن جائیں اور ہم سب کا مرنا اور جینا محض اللہ ہی کے لئے ہو.ہم خداوند تعالیٰ کے پورے فرمانبردار مسلم بن جائیں.ہماری شرائط بیعت میں ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں، اس کی پوری اطاعت کریں یہی چیز مجھ کو یہاں رکھ رہی ہے کہ جوں جوں مجھ میں ایمان بڑھتا جاتا ہے، اسی قدر د نیا بیچ معلوم ہوتی جاتی ہے اور دین متقدم ہوتا جاتا ہے.اور خداوند تعالیٰ اور انسان کے احسان کے شکر کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے اسی طرح گورنمنٹ عالیہ کی فرمانبرداری اور شکر گزاری دل میں پوری طرح سے گھر کرتی جاتی ہے.( اصحاب احمد.جلد نمبر 2 صفحہ 126- 129 تو دیکھیں یہ تبدیلی ہے جو نواب صاحب میں پیدا ہوئی.پھر بعد میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے داماد بھی بنے.اُن کی نسل کو بھی چاہئے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں جنہوں نے دنیا کو دین کی خاطر چھوڑ دیا اور دین کو دنیا پر مقدم کیا.پھر ایک ذکر آتا ہے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں ہی ہے، آپ فرماتے ہیں: جی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب.یہ جوان صالح ، کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے.استقامت کے آثار وانوار اُس میں ظاہر ہیں.وفاداری کی علامات اور امارات اس میں پیدا ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے.اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدارا اصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیر تیں اس میں پائی جاتی ہیں.جزاهم الله خير الجزاء“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 532-533) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کچھ رقم کی ایک تحریک فرمائی تھی ، چندہ کی ضرورت تھی کہ وہاں کی جماعت سے لے کر آئیں.تو یہ خودہی اہلیہ کازیور بیچ کر لے آئے تھے اور جماعت کو پتہ بھی kh5-030425
21 خطبہ جمعہ 13 / جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم نہیں لگنے دیا اور بعد میں لوگ ان سے ناراض بھی ہوئے تھے.اس طرح اخلاص میں بڑھے ہوئے تھے.پھر حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب حضرت مسیح موعود کے عشق میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ”اے میرے آقا ! میں اپنے دل میں متضاد خیالات موجزن پاتا ہوں ، ایک طرف تو میں بہت اخلاص سے اس امر کا خواہاں ہوں کہ حضور کی صداقت اور روحانی انوار سے بیرونی دنیا جلد واقف ہو جائے اور تمام اقوام و عقائد کے لوگ آئیں اور اس سر چشمہ سے سیراب ہوں جو اللہ تعالیٰ نے یہاں جاری کیا ہے.لیکن دوسری طرف اس خواہش کے عین ساتھ ہی اس خیال سے میرا دل اندوہ گین ہو جاتا ہے کہ جب دوسرے لوگ بھی حضور سے واقف ہو جائیں گے اور بڑی تعداد میں یہاں آنے لگیں گے.تو اس وقت مجھے آپ کی صحبت اور قرب جس طرح میسر ہے اس سے لطف اندوز ہونے کی مسرت سے محروم ہو جاؤں گا.ایسی صورت میں حضور دوسروں میں گھر جائیں گے.حضور والا مجھے اپنے پیارے آقا کی صحبت میں بیٹھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا جو مسرت بخش شرف حاصل ہے اس سے مجھے محرومی ہو جائے گی ایسی متضاد خواہشات یکے بعد دیگرے میرے دل میں رونما ہوتی ہیں.قاضی صاحب نے مزید کہا کہ : ”حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میری بات سن کر مسکرا دیئے.(اصحاب احمد.جلد نمبر 6 صفحہ 10) دیکھیں کیا عشق و محبت کے پاک نظارے ہیں.پھر حضرت چوہدری محمد اکبر صاحب روایت کرتے ہیں کہ صحابی موصوف چوہدری نذر محمود صاحب تھے جو اصل متوطن اور حمہ ضلع شاہ پور تھے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے رشتہ داروں میں سے تھے وہ ڈیرہ غازی خان میں ملازم تھے.جہاں تک اس عاجز کو یاد ہے وہ روایت کرتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہونے سے پہلے ان کی حالت اچھی نہ تھی اور وہ اپنی اہلیہ کو پوچھتے تک نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک زمانے میں ہدایت بخشی اور شناخت حق کی توفیق دی جس کے بعد ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شوق ہوا چنا نچہ وہ قادیان دارالامان گئے مگر وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ حضور کسی مقدمے کی وجہ سے گورداسپور تشریف لائے ہوئے ہیں.چنانچہ وہ گورداسپور گئے اور ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت اور ملاقات کا موقع ملا جب حضور بالکل اکیلے تھے.اور چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.چنانچہ انہوں نے حضور کو دبانا شروع کر دیا اور دعا کی درخواست کی.اتنے میں کوئی اور دوست حضور کی ملاقات کے لئے آیا جنہوں نے حضور کے سامنے ذکر کیا کہ اس کے سسرال نے اپنی لڑکی بڑی مشکلوں سے اسے دی ہے ( یعنی واپس بھجوائی ہے)، اب اس نے بھی ارادہ کیا ہے کہ وہ اُن کی لڑکی کو ان کے پاس نہ بھیجے گا.( شاید آپس میں شادیاں ہوئی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 22 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء ہوں گی ).جو نہی حضور نے اس کے ایسے کلمات سنے حضور کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضور نے غصے سے اس کو فرمایا کہ فی الفور یہاں سے دور ہو جاؤ ، ایسا نہ ہو تمہاری وجہ سے ہم پر بھی عذاب آ جاوے.چنانچہ وہ اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور عرض کی کہ وہ تو بہ کرتا ہے، اسے معاف فرمایا جائے.جس پر حضور نے اسے بیٹھنے کی اجازت دی.چوہدری نذرمحمد صاحب مرحوم کہتے تھے کہ جب یہ واقعہ انہوں نے دیکھا تو وہ دل میں سخت نادم ہوئے کہ اتنی سی بات پر حضور نے اتنا غصہ منایا ہے.حالانکہ اُن کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو پوچھتے تک نہیں اور اپنے سسرال کی پرواہ نہیں کرتے.یہ کتنا بڑا گناہ ہے.وہ کہتے تھے کہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے تو بہ کی اور دل میں عہد کیا کہ اب جا کر اپنی بیوی سے معافی مانگوں گا اور آئندہ بھی اس سے بدسلوکی نہ کروں گا.چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ جب وہاں سے وہ واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی کے لئے کئی تحائف خریدے اور گھر پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کے آگے تحائف رکھ کر چھلی بدسلوکی کی ان سے منت کر کے معافی مانگی.وہ حیران ہو گئی کی ایسی تبدیلی ان میں کس طرح سے پیدا ہوگئی ہے.جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے طفیل ہے تو وہ حضور کو بید و بے شمار دعائیں دینے لگی کہ حضور نے اس کی تلخ زندگی کو راحت بھری زندگی سے مبدل کر دیا ہے.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 صفحہ 6-7) اصل میں تو یہ عورت کا وہ حق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا لیکن مسلمان اس کو بھول چکے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوبارہ اسے قائم فرمایا.پس سب سے زیادہ اسلام میں عورت کا مقام ہے جس کی قدر کی گئی ہے.مغرب تو صرف عورت کے حقوق کا شور مچاتا ہے.پھر حضرت حافظ حامد علی صاحب کا نمونہ ہے.راوی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی بعض کمزوریوں یا ہم عصری کی وجہ سے کم از کم اپنے علاقے اور نواح میں خاص عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا.حافظ صاحب ایک زمیندار خاندان کے فرد تھے اور دولت و مال کے لحاظ سے آپ کا مرتبہ بلند نہ تھا بلکہ وہ غریب تھے.مگر اس کے باوجود اپنی نیکی اور دینداری کی وجہ سے اپنے گاؤں اور نواح میں ہمیشہ عزت و محبت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.اور آج ہم جو فیض اللہ چک اور تھہ غلام نبی وغیرہ دیہات میں احمدیت کی رونق اور اثر کو دیکھتے ہیں اس میں حافظ صاحب کی عملی زندگی کا بہت بڑا دخل ہے.وہ ایک خاموش واعظ تھے اور مجسم تبلیغ تھے.انہیں دیکھ کر خواہ مخواہ حضور کی صداقت کا یقین ہوتا تھا اور اندر ہی اندر محبت کا جذ بہ بڑھتا تھا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 23 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء پ نہایت ملنسار اور وفادار اور ہمدر دطبع تھے ، دوسروں کی بھلائی چاہتے تھے.حضرت کی صحبت اور قرب نے آپ میں ایک خاص رنگ پیدا کر دیا تھا.آپ دعاؤں کی قوت کو جانتے اور دعائیں کرنے کے عادی اور آداب دعا سے واقف تھے.آپ کی زندگی ایک مخلص مومن اور خدا رسیدہ انسان کی زندگی تھی.حق کی اشاعت کے لئے آپ میں جوش اور غیرت تھی.دینی معاملے میں کبھی کسی سے نہ دیتے تھے.حق کہنے میں ہمیشہ دلیر تھے.اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عامل تھے.غرض بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.اور یہ جو کچھ تھا حضرت اقدس کی پاک صحبت کا اثر تھا.مرحوم اپنی زندگی کے بے شمار حالات و واقعات سے واقف تھے.مگر آپ کی عادت میں تھا کہ بہت کم روایت کرتے اور جب حضرت اقدس کے حالات کے متعلق کوئی سوال ہوتا تو چشم پر آب ہو جاتے اور فرماتے کہ سراسر نور کی میں کیا حقیقت بیان کروں ، کوئی ایک بات ہو تو کہوں“.(اصحاب احمد جلد نمبر 13 صفحہ 72 ) تو صحابہ جو واعظ تھے ان کے اپنے عمل تھے، وہ عملی نمونے قائم کرتے تھے.یہ نمونے ہیں جو آج ہمارے ہر واقف زندگی کے لئے ، ہر مربی کے لئے ، مبلغ کے لئے معلمین کے لئے مشعل راہ ہیں ان کو سامنے رکھنا چاہئے.پھر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا ذکر ہے.آپ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے.قادیان آئے مگر آپ کے والد صاحب حضرت مسیح موعود سے واپس بھیجنے کا وعدہ کر کے بھائی جی کو ساتھ لے گئے.گھر جا کر آپ پہ بہت سختیاں کی گئیں.اور ادائیگی نماز سے بھی روکا گیا.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ ایک زمانے میں مجھے فرائض کی ادائیگی تک سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتیں.اس زمانے میں بعض اوقات کئی کئی نمازیں ملا کر یا اشاروں سے پڑھتا تھا.ایک روز علی اصبح میں گھر سے باہر قضائے حاجت کے بہانے سے گیا.گیہوں کہ کھیتوں کے اندر وضو کر کے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص کدال لئے میرے سر پر کھڑا رہا.نماز کے اندر تو یہی خیال تھا کہ کوئی دشمن ہے جو جان لینے کے لئے آیا ہے لہذا میں نے نماز کو معمول سے لمبا کر دیا اور آخری نماز سمجھ کر دعاؤں میں لگا رہا.مگر سلام پھیر نے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک مسلمان مزدور تھا کشمیری قوم کا.جو مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوا.اور جب میں نماز سے فارغ ہوا تو نہایت محبت اور خوشی کے جوش میں مجھ سے پوچھا منشی جی! کیا یہی بات پکی ہے کہ آپ مسلمان ہیں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے لئے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 24 گواہ بنا کر بھیجا ہے کہ کم از کم تم میرے اسلام کے شاہد رہو گے.خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء (اصحاب احمد.جلد نمبر 9 صفحہ 63 ) مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کر کے بیعت کے فوائد بیان کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : " قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے، خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے پہلے نہ تھی.یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے.(اصحاب احمد جلد نمبر 14 صفحہ 56 ) پھر مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا نمونہ ہے.آپ نے اپنے قصبہ مرالی میں پہنچ کر اپنی بیعت کا اعلان کیا.اس پر قصبے میں شور برپا ہو گیا.اور شدید مخالفت کا آغاز ہو گیا.اہل حدیث مولویوں کی طرف سے مقاطعہ کرا دیا گیا.لوگ آپ کو کھلے بندوں گالی گلوچ دیتے تھے.ایسے کٹھن مرحلے پر مولانا صاحب آستانہ الہی پر جھکنے اور تہجد میں گریہ وزاری میں مصروف ہونے لگے اور خدا تعالیٰ نے آپ پر رؤیا و کشوف کا دروازہ کھول دیا اور یہ امر آپ کے لئے بالکل نیا تھا.اس طرح آپ کے لئے تسلی کے سامان ہونے لگے.سواب آپ کے ایمان و عرفان میں ترقی ہونے لگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ عشق و وفا بھی بڑھنے لگا اور آپ دیوانہ وار تبلیغ میں لگ گئے.جس پر آپ کے ماموں نے جو خسر بھی تھے آپ کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا اور پولیس سے اس بارے میں استمداد کی بھی دھمکی دی.اس لئے آپ موضع بقا پور چلے آئے جہاں آپ کی زمینداری کے باعث مقاطعہ تو نہ ہوا لیکن مخالفت پورے زور سے رہی.عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی زمرہ مخالفین میں شامل تھے البتہ بڑے بھائی مخالف نہ ہوئے.ایک روز آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ آپ میرے بیٹے کو کیونکر بُرا کہتے ہیں وہ پہلے سے زیادہ نمازی ہے.والد صاحب نے کہا مرزا صاحب کو جن کا دعویٰ مہدی ہونے کا ہے مان لیا ہے.والدہ صاحبہ نے کہا امام مہدی کے معنی ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں.ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہو گئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے اور مولوی صاحب کو اپنی بیعت کا خط لکھنے کو کہا.آپ تبلیغ میں مصروف رہے اور ایک سال کے اندر پھر والد صاحب اور چھوٹے بھائی اور دونوں بھا بھیوں نے بھی بیعت کر لی.اور بڑے بھائی صاحب نے خلافت احمد یہ اولی میں بیعت کر لی.اصحاب احمد جلد نمبر 10 صفحہ 215 ) حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی کے بارے میں حضرت مولوی عبد المغنی صاحب لکھتے ہیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 25 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء کہ : ” نام اور نمود، ریا ، ظاہر داری ، علمی گھمنڈ، تکبر ہر گز نہیں تھا.دوران قیام قادیان میں جب بھی کوئی کہتا مولوی صاحب! فوراً روک دیتے کہ مجھے مولوی مت کہو ، میں نے تو ابھی مرزا صاحب سے ابجد شروع کی ہے، الف ب شروع کی ہے.(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر 1977 صفحہ 12 اور یہ ایسے بڑے عالم تھے ان کے علم کی عظمت کی حضرت مسیح موعود نے مثال دی ہے.مدرسہ احمدیہ کے جاری کرنے کی بھی وجہ بنے تھے.حضرت میاں محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: حبی فی اللہ میاں محمد خان صاحب ریاست کپور تھلے میں نوکر ہیں ، نہایت درجہ کے غریب طبع ، صاف باطن، دقیق فہم حق پسند ہیں.اور جس قدرا نہیں میری نسبت عقیدت و ارادت و محبت اور نیک ظن ہے میں اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا.مجھے ان کی نسبت تردد نہیں کہ ان کے اس درجہ ارادت میں کبھی کچھ ظن پیدا ہو بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے.وہ بچے وفادار اور جاں نثار اور مستقیم الاحوال ہیں.خدا ان کے ساتھ ہو.ان کا نوجوان بھائی سردار علی خان بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے.یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید ورشید ہے.خدا تعالیٰ ان کا محافظ ہو“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 532 ) پھر قاضی ضیاء الدین صاحب کا نمونہ ہے.قاضی عبدالرحیم صاحب سناتے تھے کہ ایک دفعہ والد صاحب یعنی قاضی ضیاء الدین صاحب نے خوشی سے بیان کیا کہ میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود سے آپ کے ایک خادم حضرت حافظ حامد علی صاحب نے میرے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں.تو حضور نے میرا نام اور پتہ بتاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو ہمارے ساتھ عشق ہے.چنانچہ قاضی صاحب اس بات پر فخر کیا کرتے تھے.اور ( تعجب سے ) کہا کرتے تھے کہ حضور کو میرے دل کی کیفیت کا کیونکر علم ہو گیا.یہ اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ حضرت قاضی صاحب نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ میں بڑی مشکل سے تمہیں حضرت مسیح موعود کے در پر لے آیا ہوں اب میرے بعد اس دروازے کو کبھی نہ چھوڑنا.اصحاب احمد.جلد نمبر 6 صفحہ 8-9) حضرت مولوی حسن علی بھا گلوری کا نمونہ ہے.بیان اس طرح ہوا ہے کہ 13 جنوری 1894 ء میں اپنے امام سے رخصت ہو کر لاہور میں آیا اور ایک بڑی دھوم دھام کا لیکچر انگریزی میں دیا جس میں حضرت اقدس کے ذریعہ سے جو کچھ روحانی فائدہ ہوا تھا اس کا بیان کیا.جب میں سفر پنجاب سے ہو کر مدراس پہنچا kh5-030425
26 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم تو میرے ساتھ وہ معاملات پیش آئے جو صداقت کے عاشقوں کو ہر زمانے و ہر ملک میں اٹھانے پڑتے ہیں.مسجد میں وعظ کہنے سے روکا گیا.ہر مسجد میں اشتہار کیا گیا کہ حسن علی سنت و جماعت سے خارج ہے کوئی اس کا وعظ نہ سنے.پولیس میں اطلاع دی گئی کہ میں فساد پھیلانے والا ہوں.وہ شخص جو چند ہی روز پہلے شمس الواعظین جناب مولانا مولوی حسن علی صاحب ، واعظ اسلام کہلا تا تھا.صرف حسن علی لیکچرر کے نام سے پکارا جانے لگا.پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھا جاتا تھا اب مجھ سے بڑھ کر شیطان دوسرا نہ تھا.جدھر جا تا انگلیاں اٹھتیں.سلام کرتا جواب نہ ملتا.مجھ سے ملاقات کرنے کو لوگ خوف کرتے ہیں.ایک خوفناک جانور بن گیا.جب مدراس میں مسجد میں میرے ہاتھوں سے نکل گئیں تو ہندوؤں سے پیچھا ہال لے کر ایک دن انگریزی میں اور دوسرے دن اُردو میں حضرت اقدس امام زمان کے حال کو بیان کیا جس کا اثر لوگوں پر پڑا.تائیدین صفحہ 78-79) تو یہ تھے قربانی کرنے اور تبلیغ کرنے کے طریقے.اور یہ تھے وہ انقلاب جو حضرت مسیح موعود نے پیدا فرمائے.پھر حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کپور تھلوی کا ذکر ہے.پینشن پانے کے بعد حضرت منشی صاحب نے اپنی ملازمت کا محاسبہ کیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ سرکاری سٹیشنری میں غریب طلباء یا بعض احباب کو وقتا فوقتا کوئی کاغذ، قلم اور دوات یا پنسل دیتے رہے ہیں.بات یہ تھی کہ محلے کے طلبا ء بچے یا دوست احباب منشی صاحب سے کوئی چیز مانگ لیتے اور لحاظ کے طور پر منشی صاحب دے دیتے تھے.یہ ایک بہت ہی نا قابل ذکر شے ہوتی تھی اور کئی سالوں میں بھی پانچ سات روپے سے زیادہ قیمت نہ رکھتی ہوگی.لیکن منشی صاحب نے محسوس کیا کہ انہیں ایسا کرنے کا دراصل حق نہیں تھا.اعلیٰ ایمانداری کا تقاضا یہی تھا.پس آپ نے کپورتھلہ کے وزیر اعظم کو لکھا کہ میں نے اس طریق پر بعض دفعہ سٹیشنری صرف کی ہے آپ صدر ریاست ہونے کی وجہ سے مجھے معاف کر دیں تا کہ میں خدا تعالیٰ کے روبرو جوابدہی سے بچ جاؤں.ظاہر ہے کہ صدر ریاست نے اس سے در گزر کیا.اصحاب احمد - جلد 4 صفحہ (22) تو یہ تھے اعلیٰ معیار تقویٰ کے جو پیدا ہوئے.پھر منشی صاحب بوڑھے ہو گئے ان کو ہمیشہ سے، جوانی سے ہی روز نامچہ لکھنے کی عادت تھی.جب بوڑھے ہو گئے تو آپ نے یہ دیکھنا چاہا کہ میرے ذمہ کسی کا قرضہ تو نہیں ہے.روز نامچے کی پڑتال کرتے ہوئے کوئی 40 سال قبل کا ایک واقعہ درج تھا منشی صاحب نے ایک غیر احمدی سے مل کر ایک معمولی سی تجارت کی تھی اس کے نفع میں سے بروئے حساب 40 روپے کے قریب منشی صاحب کے ذمہ نکلتے تھے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 27 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء آپ نے یہ رقم حقدار کے نام بذریعہ منی آرڈر بھجوا دی تا رسید بھی حاصل ہو جائے.وہ شخص کپور حصلہ کا رہنے والا تھا.اور عجب خان اس کا نام تھا.منی آرڈر وصول ہونے کے بعد وہ اپنی مسجد میں گیا ( غیر از جماعت تھا) اور لوگوں سے کہا تم احمدیوں کو برا تو کہتے ہولیکن یہ نمونے بھی تو دکھاؤ.40 سال کا واقعہ ہے اور خود مجھے بھی یاد نہیں کہ میری کوئی رقم منشی صاحب کے ذمے نکلتی ہے.غرض منشی صاحب کا یہ عمل مصدق ہے جو حَاسِبُوْا قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا کا.(اصحاب احمد.جلد 4 صفحہ 22) حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام فرماتے ہیں کہ: ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک احمدی اور ایک غیر احمدی نمبر دار ایک گاؤں کو جارہے تھے.یہ پرانی بات ہے.موسم بہار تھا.چنے کے کھیت پکے تھے.احمدی نے راستے میں ایک ٹہنی تو ڑ کر منہ میں چنا ڈالا.پھر معایہ خیال آنے پر تھوک دیا اور تو بہ تو بہ پکارنے لگا کہ پرایا مال منہ میں کیوں ڈال لیا.اس کے اس فعل سے نمبر دار مذکور پر بہت اثر ہوا.وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ احمدی احمدیت سے پہلے ایک مشہور مقدمے باز، جھوٹی گواہیاں دینے والا، رشوت خور تھا.بیعت کے بعد اس کے اندر اتنی جلدی تبدیلی دیکھ کر کہ وہ پابند نماز، قرآن کی تلاوت کرنے والا اور جھوٹ سے مجتنب رہنے والا بن گیا ہے، نمبر دار مذکور نے بیعت کر لی اور اس کے خاندان کے لوگ بھی احمدی ہو گئے.(اصحاب احمد.جلد 10 صفحہ (85) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وطن مالوف موضع را جیکی پہنچتے ہی خداوند کریم کی نوازش ازلی نے میرے اندر تبلیغ کا ایسا بے پناہ جوش بھر دیا کہ میں شب و روز دیوانہ وار اپنوں اور بیگانوں کی محفل میں جاتا اور سلام تسلیم کے بعد امام الزمان علیہ السلام کے آنے کی مبارکباد عرض کرتے ہوئے تبلیغ شروع کر دیتا.جب گردو نواح کے دیہات میں میری تبلیغ اور احمدی ہونے کا چرچا ہوا تو اکثر لوگ جو ہمارے خاندان کو پشت ہا پشت سے ولیوں کا خاندان سمجھتے تھے مجھے اپنے خاندان کے لئے باعث ننگ خیال کرنے لگے.اور میرے والد صاحب محترم اور میرے چچاؤں کی خدمت میں حاضر ہو کر میرے متعلق طعن و تشنیع شروع کر دی.میرے خاندان کے لوگوں نے جب ان کی باتوں کو سنا اور میرے عقائد کو اپنے آبائی وجاہت اور دنیوی عزت کے منافی پایا تو مجھے خلوت و جلوت میں کوسنا شروع کر دیا.آخر ہمارے ان بزرگوں اور دوسرے لوگوں کا یہ جذبہ تنافر یہاں تک پہنچا کہ ایک روز لوگ مولوی شیخ احمد ساکن دھر یکاں تحصیل پھالیہ اور بعض دیگر علماء کو ہمارے گاؤں میں لے آئے.یہاں پہنچتے ہی ان علماء نے مجھے سینکڑوں آدمیوں کے مجمع میں بلایا اور احمدیت سے تو بہ کرنے کے لئے کہا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 28 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء میری عمر اگر چہ اس وقت اٹھارہ انیس سال کے قریب ہوگی مگر اس روحانی جرات کی وجہ سے جو محبوب ایزدی نے مجھے مرحمت فرمائی تھی میں نے ان مولویوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس بھرے مجمع میں جہاں ہمارے علاقے کے زمیندار اور نمبردار اور ذیلدار وغیرہ جمع تھے ان لوگوں کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل سنانے کی کوشش کی.لیکن مولوی شیخ احمد اور ان کے ہمراہیوں نے میرے دلائل سننے کے بغیر ہی مجھے کا فر ٹھہرا دیا اور یہ کہتے ہوئے کہ اس لڑکے نے ایک ایسے خاندان کو بٹہ لگایا ہے جس میں پشت ہا پشت سے ولی پیدا ہوتے رہے ہیں اور جس کی بعض خواتین بھی صاحب کرامات و کشوف گزری ہیں تمام لوگوں کا میرے ساتھ مقاطعہ کرا دیا.اس موقع پر میرے بڑے چا حافظ برخوردار صاحب کے لڑکے حافظ غلام حسین جو بڑے دبدبے کے آدمی تھے کھڑے ہوئے اور میری حمایت کرتے ہوئے مولویوں اور ذیلداروں کو خوب ڈانٹا.لوگوں نے جب ان کی خاندانی عصبیت کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہاں ضرور فساد ہو جائے گا اس لئے منتشر ہو کر ہمارے گاؤں سے چلے گئے.اس فتویٰ تکفیر کے بعد مجھے لا إله إِلَّا الله کی خاص توحید کا وہ سبق جو ہزار ہا مجاہدات اور ریاضتوں سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا ان علماء کی آشوب کاری اور رشتہ داروں کی بے اعتنائی نے پڑھا دیا اور وہ خدا جو صدیوں سے ہما کی طرح لوگوں کے وہم و گمان میں تھا، سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے توسط سے اپنی یقینی تجلیات کے ساتھ مجھے ذرہ حقیر پر ظاہر ہوا.چنانچہ اس ابتدائی زمانے میں جبکہ یہ علماء سوء گاؤں گاؤں میری کم علمی اور کفر کا چرچا کر رہے تھے مجھے میرے خدا نے الہام کے ذریعہ سے بشارت دی.مولوی غلام رسول جوان ، صالح، کراماتی.چنانچہ اس الہام الہی کے بعد جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بڑے مولویوں کے ساتھ مباحثات کرنے میں نمایاں فتح دی ہے وہاں میرے ذریعے سید نا حضرت امام الزمان علیہ السلام کی برکت سے انداری اور تبشیری کرامتوں کا اظہار بھی فرمایا ہے جن کا ایک زمانہ گواہ ہے.حیات قدسی.حصہ اوّل صفحہ 21-23) مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری کا ہی ذکر چل رہا تھا.کہتے ہیں کہ پوچھو کہ مرزا صاحب سے مل کر کیا نفع ہوا.اجی! بے نفع ہوئے، کیا میں دیوانہ ہو گیا تھا کہ ناحق بدنامی کا ٹوکر اسر پر اٹھا لیتا اور مالی حالت کو سخت پریشانی میں ڈالتا.کیا کہوں کیا ہوا.مردہ تھا زندہ ہو چلا ہوں، گناہوں کا اعلانیہ ذکر کرنا اچھا نہیں.ایک چھوٹی سی بات سناتا ہوں.اس نالائق کو 30 برس سے یہ قابل نفرت بات تھی کہ حقہ پیا کرتا تھا.بارہا دوستوں نے سمجھایا خود بھی کئی بار قصد کیا لیکن روحانی قویٰ کمزور ہونے کی وجہ سے اس پرانی زبر دست kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 29 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء عادت پر قابو نہ ہوسکا.الحمد للہ مرزا صاحب کی باطنی توجہ کا یہ اثر ہوا کہ آج قریب ایک برس کا عرصہ ہوتا ہے کہ پھر اس کمبخت کو منہ نہیں لگایا.(اصحاب احمد.جلد 14 صفحہ 56) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو بھی افیون کی عادت تھی انہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد افیون کو ترک کر دیا.گوڈاکٹری نقطہ نظر سے اس کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہئے کیونکہ اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے.حضرت اقدس آپ سے بوجہ آپ کے علم کے بہت محبت رکھتے تھے.جب آپ نے افیون ترک کی تو آپ سخت بیمار ہو گئے.ابھی نقاہت شامل حال ہی تھی کہ مسجد مبارک میں نماز کے لئے تشریف لائے.حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ آپ آہستہ آہستہ چھوڑتے یکدم ایسا کیوں کیا.شاہ صاحب نے عرض کیا کہ : ” حضور جب ارادہ کر لیا تو یکدم ہی چھوڑ دی.(اصحاب احمد.جلد 3 صفحہ 5 ) وہ نظارے یاد کریں جب شراب کی ممانعت کا اعلان ہوا تو مٹکوں کے مٹکے ٹوٹنے لگے.حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری بیعت سے پہلے قادیان آئے تھے.کہتے ہیں کہ ” مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں نے یہاں کے علماء میں سے ایک بڑے عالم کو دیکھا ہے اور خود مدعی مسیحیت اور مہدویت کی بھی زیارت کی.اب یہاں کے عام لوگوں کی بھی اخلاقی حالت دیکھنی چاہئے.چنانچہ اس امتحان کے لئے کہتے ہیں کہ میں لنگر خانے چلا گیا.اس وقت ابھی انہوں نے بیعت نہیں کی تھی.”جو اس وقت حضرت خلیفہ اول کے مکان کے جنوبی طرف اور بڑے کنویں کے مشرقی طرف تھا.لنگر خانے میں ایک چھوٹا سا دیکھہ تھا جس میں دال تھی اور ایک چھوٹی سی دیچی میں شور بہ تھا.میاں نجم الدین صاحب بھیروی مرحوم اس کے منتظم تھے.میں نے میاں نجم الدین صاحب سے کھانا مانگا.انہوں نے مجھ کو روٹی اور دال دی.میں نے کہا میں دال نہیں لیتا گوشت دو.میاں نجم الدین صاحب مرحوم نے دال الٹ کر گوشت دے دیا.لیکن میں نے پھر کہا کہ نہیں نہیں دال ہی رہنے دو.تب انہوں نے گوشت الٹ کر دال ڈال دی.دال اور گوشت کے اس ہیر پھیر سے میری غرض یہ تھی کہ تامیں کارکنوں کے اخلاق دیکھوں.الغرض میں نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہاں کے مختلف لوگوں سے باتیں کیں منتظمین لنگر کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی.اس سے بھی میرے دل میں گہرا اثر ہوا.دوسرے دن صبح کو تقریباً تمام کمروں سے قرآن شریف پڑھنے کی آواز آتی تھی.فجر کی نماز میں میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو نماز پڑھتے دیکھا اور یہ نظارہ بھی میرے لئے بڑا دلکش اور جاذب نظر تھا.(رجسٹر روایات نمبر 8 صفحہ 10-11) kh5-030425
30 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم تو یہ نظارے قادیان کے اس زمانے کے تھے جو انقلاب لائے جو آج بھی نظر آنے چاہئیں.حضرت شیخ عبدالرشید صاحب کا ذکر ہے.مولوی محمد علی صاحب بھوپڑی غیر احمدی یہاں آیا کرتے تھے.خوش الحان تھے.ان کے وعظ میں بے شمار عورتیں جایا کرتی تھیں.کہتے ہیں کہ دو دو تین تین ماہ یہاں رہا کرتے تھے.اس نے آ کر حضرت کی مخالفت شروع کردی، بد زبانی بھی کرتا تھا.اس کے ساتھ بھی بحث مباحثہ ہوتا رہا.شیخ عبدالرشید صاحب واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ میرے والدین نے مجھے جواب دے دیا.والدہ زیادہ بختی کیا کرتی تھیں.کیونکہ مولوی بھوپڑی کا بڑا اثر تھا.والدین نے کہا ہم عاق کر دیں گے.کئی کئی ماہ مجھے گھر سے باہر رہنا پڑا.یعنی شیخ عبدالرشید صاحب کو.کہتے کہ میرے والد صاحب میری والدہ کو کہا کرتے تھے کہ پہلے یہ دین سے بے بہرہ تھا، سویا رہتا تھا، اب نماز پڑھتا ہے، تہجد پڑھتا ہے، اسے میں کس بات پر عاق کروں.لیکن پھر بھی دنیاوی باتوں کو مدنظر رکھ کر مجھے کہا کرتے تھے کہ مرزائیت چھوڑ دو.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 12 صفحہ 29 ) دو اور صحابہ کا ذکر ہے.قیام نماز کا اہتمام بیعت کرنے کے بعد.حضرت محمد رحیم الدین صاحب اور کریم الدین صاحب کہتے ہیں جون 1894ء میں جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی اس وقت گرمی کے دن تھے.میری صبح کی نماز قضاء ہو جاتی تھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور میں عریضہ لکھا کہ میری صبح کی نماز قضا ہو جاتی ہے میرے واسطے دعا فرماویں.اس کے جواب میں حضرت صاحب نے لکھا کہ ہم نے دعا کی ہے تم برابر استغفار اور درود کثرت سے پڑھتے رہا کرو.اس دن سے ہمیشہ وقت پر آنکھ کھل جاتی رہی.آج تک صبح کی نماز قضا نہیں ہوئی سوائے شاذ و نادر سفر یا بیماری کے وقت کوئی نماز قضا ہو گئی ہو.یہ استجابت دعا کا نشان ہے اور میرے لئے ایک معجزہ ہے.الحمد للہ.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 6 صفحہ 43) کئی لوگوں سے میں پوچھتارہتا ہوں کہتے ہیں کہ آنکھ نہیں کھلتی وہ اس نسخے کو آزمائیں.حضرت بدرالدین صاحب کی بیعت کے بعد حالت کا ذکر ہے.کہتے ہیں کہ یہ خاکسار بہت چھوٹی عمر سے صراط مستقیم کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتا ہوا اہل حدیث اور شیعیت سے چل کر آریہ اور دہریہ تالابوں میں غوطے کھا رہا تھا.قریب تھا کہ بحر ضلالت و گمراہی میں غرق ہو جائے.پیارے رب اکبر نے جس کی صفت و ثناء تحریر کرنا میری طاقت و لیاقت سے بہت ہی بالا ہے اپنے فضل اور رحم کا ہاتھ بڑھا کر ڈوبتے کو تھام لیا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور لیکھر ام آریہ کا مباہلہ میرے تک پہنچا دیا.قریباً 1903 ء ہو گا میں نے جس وقت حضرت ابر رحمت کا مضمون پڑھا.میرے مردہ جسم کے اندر بجلی کی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 31 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء طرح روح داخل ہو گئی.اسی روز سے سارے خیالات ترک کر کے حضور کی تحریر و تقریر کا شیدائی بن گیا.اس کے بعد ایک عرصہ تحصیل میں صرف کر کے اور معاملے کے ہر پہلو پر غور کر کے صداقت کا قائل ہو گیا.عملی قدم اٹھاتے وقت قسم قسم کے خطرات اور مشکلات کا بھیانک منظر سامنے آیا.کمزوری سے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ صداقت کو معلوم کر لیا ہے اب خاموش ہو جانا چاہئے.لوگوں کے پاس ظاہر کر کے مشکلات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے اور خاموش ہو گیا.خاموش ہو جانے کے بعد جن کاموں کے خراب ہو جانے سے خاموشی اختیار کی تھی وہ خراب ہونے شروع ہو گئے.اور ایک کے سوا سب کے سب خراب ہو گئے.وہ ایک کام جو بھی خراب نہیں ہوا تھاوہ میرے والد مرحوم کا سود درسود کا قرضہ تھا.اس کے متعلق یہ ڈر تھا کہ احمدی ہو جانے کے بعد سا ہو کار مجھے بہت ذلیل کرے گا.(لیکن کہتے ہیں کہ ساہوکار مع تمام افراد خاندان طاعون سے ہلاک ہو گیا اور اس کا تمام مال و اسباب سرکار میں داخل ہوا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہا).تو کہتے ہیں کہ جب صرف یہی کام خراب ہونے سے باقی رہ گیا تو مجھے یہ یقین ہو گیا کہ عنقریب یہ بھی خراب ہوگا.میں نے ہر چہ باداباد کہ کر اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر بیعت کا خط لکھ دیا اور اعلان کر دیا.پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل کے دامن میں چھپا لیا اور مسیح موعود کے حضور حاضر ہو کر بیعت کر لی.اور مکرمی شیخ عرفانی صاحب کے ذریعہ حضرت سے خاص ملاقات کر کے استقلال کی خاص دعا کی.حضرت ابر رحمت نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا: ”اچھا بھئی دعا کریں گئے“.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 98 میاں محمد الدین صاحب آف کھاریاں لکھتے ہیں کہ: "میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ آریہ بر ہمود ہر یہ لیکچراروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور افسروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لا یعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں ،صفحہ 90 کے حاشیہ نمبر 4 اور صفحہ نمبر 1949 کے حاشیہ نمبر 11 پر پہنچا تو معامیری دہریت کا فور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کہ کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے.سردی کا موسم تھا جنوری 1893ء کی 19 تاریخ تھی.آدھی رات کا وقت تھا کہ جب یہی ہونا چاہئے اور ہے کہ مقام پر پہنچا.پڑھتے ہی معا توبہ کی، کورا گھڑا پانی کا بھرا ہوا باہر صحن میں پڑا تھا.تختہ چوپائی پیمائش کی میرے پاس رکھی ہوئی تھی.سرد پانی سے لاچا تہ بند پاک کیا.میر املا زم مسمی منکو سورہا تھا.وہ جاگ پڑا اور مجھ سے پوچھا کیا ہوا، کیا ہوا، لا چا مجھ کو دومیں دھوتا ہوں.مگر میں اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا.آخر منگتو اپنا سارا زور لگا کر خاموش ہو گیا.اور گیلا لا چا پہن کر نماز پڑھنی شروع کی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 32 خطبہ جمعہ 13 / جنوری 2006 ء اور منگتو دیکھتا گیا.محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتو تھک کر سو گیا اور میں نماز میں مشغول رہا.پس یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعد ازاں اب تک میں نے نماز نہیں چھوڑی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ معجزہ بیان کرنے کے لئے مذکورہ بالا طوطیہ تمہید میں نے باندھا تھا.عین جوانی میں بحالت ناکتخدا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ایمان جو ثریا سے شاید اوپر ہی گیا ہوا تھا اتار کر میرے دل میں داخل کیا.اور مسلماں را مسلماں باز کردن کا مصداق بنایا.جس رات میں بحالت کفر داخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی.( رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 46-47) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنا بھی ایک انقلاب پیدا کرنے والی چیز ہے.احباب جماعت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے.حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کی روایت ہے کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میرے بچپن کے دوست تھے.میں ان کو ملنے کے لئے ان کے ہاں گیا.راستے میں میں نے دولڑکوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا.میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے یہ دیکھا کہ دونوں قرآن کریم کی ایک آیت کے معنی پر بحث کر رہے ہیں.مجھ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت رچادی گئی ہے.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 8 صفحہ 11) یہ محبت ہے جو ہر احمدی کے دل میں پیدا ہونی چاہئے.اور یہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں پیدا کیا اور جس کو جاری رہنا چاہئے.نشی اروڑے خان صاحب کی نوکری میں دیانت داری کے بارہ میں واقعہ ہے.ایک دفعہ کسی نے ہنس کر کہا: بابا کبھی رشوت تو نہیں لی تھی ؟ منشی صاحب پر ایک خاص قسم کی سنجیدگی جو جوش صداقت سے مغلوب تھی طاری ہوئی اور سائل کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میں نے جب تک نوکری کی اور جس طرح اپنے فرض کو ادا کیا ہے اور جس دیانت سے کیا ہے اور جو فیصلے کئے ہیں اور جس صداقت اور ایمانداری کے ساتھ کئے ہیں اور پھر جس طرح ہر قسم کی نجاستوں سے اپنے دامن کو بچایا ہے سب باتیں ایسی ہیں کہ اگر ان سب کو سامنے رکھ کر میں اپنے خدا سے دعا کروں تو ایک تیرانداز کا تیر خطا کر سکتا ہے لیکن میری وہ دعا ہر گز خطا نہیں کر سکتی.( بحوالہ روزنامہ الفضل 22 ستمبر 2003 ء دیکھیں کتنا خدا پر ایمان اور یقین تھا.حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ولد شیخ مسیتا صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی کے بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دوستوں kh5-030425
33 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم میں اپنی قوت قدسیہ سے یہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز یقین کرتے تھے اور کسی سے ڈر کر جھوٹ جیسی نجاست اختیار نہیں کرتے تھے.اور حق کہنے سے رکتے نہیں تھے.اور اخلاق رذیلہ سے بچتے تھے.اور اخلاق فاضلہ کے ایسے خوگر ہو گئے تھے کہ وہ ہر وقت اپنے خدا پر ناز کرتے تھے کہ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ یقین ہی تھا کہ آپ کے دوستوں کے دشمن ذلیل و خوار ہو جاتے تھے اور آپ کے دوست ہر وقت خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہی رہتے تھے.اور خدا تعالیٰ کی معیت ان کے ساتھ ہی رہتی تھی.اور آپ کے دوستوں میں غنا تھا اور خدائے تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے تھے.اور حق کہنے سے نہ رکتے تھے اور کسی کا خوف نہ کرتے تھے.اعمال صالحہ کا یہ حال تھا کہ ان کے دل محبت الہی سے ابلتے رہتے تھے اور جو بھی کام کرتے تھے خالصتاًاللہی سے کرتے تھے.ریا جیسی ناپاکی سے بالکل متنفر رہتے تھے کیونکہ ریا کاری کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خطر ناک بدا خلاقی فرمایا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ اس میں انسان منافق بن جاتا ہے.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 6 صفحہ 66 ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے بارہ میں فرماتے ہیں: ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا.نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑ دی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے.پچھلے دنوں ان کو ایک نوکری دو سو روپیہ ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا.اس زمانہ کے دو سو روپیہ ماہوار ہزاروں ہوں گے آج کل ، شاید لاکھ بھی ہوں.”خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزار دی.صرف عربی کتابوں کو دیکھنے کا شوق رکھتے تھے.اسلام پر جو اندرونی اور بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے دفاع میں عمر بسر کر دی.باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 648 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ تھے مجاہد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے پیدا فرمائے.اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ بزرگ جارہے ہیں اس لئے ہمیں جماعت میں علماء پیدا کرنے کے لئے مدرسہ قائم کرنا چاہئے اور پھر وہ قائم فرمایا تھا.تو جو دینی علم حاصل کرنے والے ہیں، تمام دنیا میں جہاں جہاں جامعہ احمد یہ ہیں، جامعہ میں پڑھنے والے لوگ ہیں وہ ان بزرگوں کو اپنے سامنے نمونے کے طور پر رکھیں.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جنہوں نے ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا.حضرت مسیح موعودان کے بارہ میں فرماتے ہیں: اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ در حقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا.اور در حقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈر کر اپنے تقوی اور اطاعت الہی کو انتہاء تک kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 34 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء پہنچاتے ہیں.اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو تیار ہوتے ہیں.اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر میں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو میں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو.اکثر لوگ باوجود بیعت کے اور باوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہر یلے تم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے.اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو خواہ آبرو کے متعلق ہو خواہ مال کے اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ، ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتا ہے.اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ میں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتا ہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے.اور ان خدمتوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں.لیکن میں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور اپنی آبرو اور اپنی جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی رڈی چیز پھینک دی جاتی ہے.اکثر لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ ان کا اول اور آخر برابر نہیں ہوتا اور ادنی سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یا بد صحبت سے وہ گر جاتے ہیں.مگر اس جوانمر دمرحوم کی استقامت کی تفصیل میں کن الفاظ میں بیان کروں کہ وہ نوریقین میں دمبدم ترقی کرتا گیا“." (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 10 پھر فرمایا کہ: ” بے نفسی اور انکسار میں وہ اس مرتبہ تک پہنچ گیا کہ جب تک انسان فنافی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پاتا.ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتا ہے.اور اپنے تئیں کوئی چیز سمجھنے لگتا ہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہو جاتی ہے.مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھا کہ باوجود یکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنے علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی.اور آخر سچائی پر اپنی جان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل منشا ء خدا کا ہے.اور (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 47) حضرت خلیفہ امسح الاول کی مثال میں آخر پر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس جگہ میں اس بات کے اظہار کے شکر ادا کرنے کے بغیر نہیں رک سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا.میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے محبت و اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں.نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 35 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء کی ہیں.بعضوں کا ذکر کیا کہ شاید وہ قربانی نہ کرسکیں لیکن اکثریت قربانی کرنے والی تھی.ان کا ذکر فرما رہے ہیں کہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں.سب سے پہلے میں اپنے روحانی بھائی کا ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نورا خلاص کی طرح نورالدین ہے.میں ان کی بعض دینی خدمتوں کا جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.اتنی خدمت کرنے کے با وجود کتنا ز بر دست خراج تحسین ہے.ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہوا ہے اس کے تصور سے ہی قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے.وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو ان کو میسر ہیں ہر وقت اللہ اور رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں.اور میں تجربے سے، نہ صرف حسن ظن سے، یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں.اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے اور بعد میں ادا کیا بھی.ان کے بعض خطوط کی چند سطر میں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نورالدین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت واخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطر میں یہ ہیں.مولانا، مرشد نا، اما منا ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عالی جناب! میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں.اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں.یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں.اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میر انہیں آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے.اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں.دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”مولوی صاحب ممدوح کا صدق اور ہمت اور ان کی غم خواری اور جاشاری جیسے ان کے قال سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر ان کے حال سے ان کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہو رہا ہے.اور وہ محبت و اخلاص kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 36 خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء کے جذ بہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ پر فدا کر دیں.ان کی روح محبت کے جوش اور ہستی سے ان کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے.اور ہر دم ہر آن خدمت میں لگے ہوئے ہیں“.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35-37) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اللہ میاں نے وہ جماعت دکھا دی).فرمایا: ” اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنا دیا ہے اور اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آکر آباد ہوئے ہیں“.( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 585 ) پس یہ جو چند حالات میں نے بیان کئے ہیں کچھ ان بزرگوں کے خود بیان کردہ ہیں کچھ ان کے بارے میں دوسروں نے بیان کئے ہیں.کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں.یہ تمام واقعات تاریخ میں اس لئے محفوظ کئے گئے ہیں کہ ہمیں توجہ دلاتے رہیں کہ تمہارے بزرگ اپنی اصلاح نفس کرتے رہے ہیں اور اس طرح انہوں نے یہ معیار حاصل کئے ہیں.یا بیعت میں آنے کے بعد محبت و اخلاص کے اور وفا کے یہ معیار وہ دکھاتے رہے ہیں.تم بھی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعوی کرتے ہو تو اپنے ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلو تا کہ یہ آخرین کے اخلاص و وفا کا زمانہ تا قیامت چلتا رہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ چلتا رہنا ہے کیونکہ اسی مسیح محمدی کے ذریعے اسلام کی شان و شوکت کو قائم رکنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.پس کہیں ہمارے اپنے عمل اس برکت سے ہمیں محروم نہ کر دیں، بے فیض نہ کر دیں.پس قادیان کے رہنے والے بھی اور دنیا میں بسنے والے بھی تمام احمد یوں کو اس لحاظ سے ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کے ایمان و اخلاص و وفا میں ہمیشہ مضبوطی عطا فرما تا چلا جائے.حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے درمیان میں فرمایا : انشاء اللہ ایک دو دن تک قادیان سے اور تین چار دن تک بھارت سے روانگی ہو گی.آپ لوگ بھی دعا کریں، دنیا میں باقی جگہ بھی احمدی دعا کریں، اللہ تعالیٰ خیر و عافیت سے یہ سفر گزارے اور قادیان میں رہنے کے دوران یہ برکات جو ہم نے حاصل کی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہم نے دیکھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کو جاری رکھے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء 37 (3) خطبات مسرور جلد چهارم ماریشس، قادیان ، انڈیا کے دورہ کے حالات وواقعات اخلاص، محبت وفدائیت اور غیر مسلم شرفاء ومعززین کے حسن سلوک کا ایمان افروز اور روح پرور تذکرہ فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2006ء ( 20 صلح 1385 ھش ) بیت الفتوح ، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ تقریباً پونے دو ماہ سے میں لندن (یوکے) سے باہر رہا، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اور ایم ٹی اے پر بھی دیکھتے اور سنتے رہے ہوں گے یہ عرصہ دو ہفتے ماریشس میں اور پھر قادیان، انڈیا میں گزرا.اس دوران قادیان اور ماریشس کے جلسے بھی ہوئے جن کو ایم ٹی اے کے ذریعہ آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا.2005ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً 10 ملکوں کے جلسوں میں شمولیت کی توفیق ملی جن میں پہلا جلسہ سپین کا تھا اور آخری قادیان کا.الحمد للہ اس سال میں بھی جو گزرا ہے ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دیکھی ، ہر روز جو جماعت احمدیہ پر طلوع ہوتا ہے اس میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے نئی شان سے دیکھتے ہیں.اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ہے.سال میں ایک دفعہ تو ان کا ذکر ممکن ہی نہیں جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.بلکہ وقفے وقفے سے بھی اگر ذکر کیا جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے سب نظارے نہیں دکھائے جاسکتے.بہر حال عام طور پر سفر کے بعد لوگوں کی جو خواہش ہوتی ہے اس کے مطابق سفر کے کچھ حالات بیان کرتا ہوں.یعنی یہ جو سفر پیچھے گزرا اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا.سفر کے حالات کے دوران ہی مختصر البعض واقعات کا بھی ذکر ہو جائے گا.اس دورے کا پہلا سفر تقریب دو ہفتے کا ماریشس کا تھا.ماریشس ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کی آبادی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 38 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء تقریباً 12-13 لاکھ ہے.اس ملک کی اکثریت مذہبی لحاظ سے ہندو ہے، مسلمانوں کی آبادی تقریباً 16-17 فیصد ہے اور اس ملک میں احمدی چند ہزار ہیں.لیکن یہ چند ہزار احمدی بھی ماشاء اللہ جوش اور جذبے اور اخلاص اور وفا سے بھرے ہوئے ہیں اس لئے نمایاں نظر آتے ہیں.جب میں ائر پورٹ پر اترا ہوں تو بہت بڑی تعداد عورتوں، بچوں، مردوں کی استقبال کے لئے کھڑی تھی.اور جیسا کہ عموماً ہر جگہ، ہر ملک میں ، احمدیوں کے چہروں سے نظر آتا ہے، سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے.یہ کیفیت دیکھ کر بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ ہوتی ہے کہ کس طرح وہ اپنے وعدوں کے مطابق جو اس نے اپنے صحیح پاک علیہ السلام سے کئے دُور دراز کے ملکوں میں بھی اس کے نظارے ہمیں دکھاتا ہے.ماریشس کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانی کرنے والی جماعت ہے.پہلے میں وہاں بھی ذکر کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد بنانے کی طرف ان کی بہت توجہ ہے اور اچھی خوبصورت مسجدیں بناتے ہیں.صفائی کا بھی خیال رکھتے ہیں.چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی آپ چلے جائیں جہاں چند ایک احمدی موجود ہیں تو وہاں بھی جماعت کی مسجد ہے.اور محض ایک چھوٹی سی مسجد ہی نہیں بلکہ اچھی اور خوبصورت مسجد انہوں نے بنائی ہوئی ہوتی ہے اور اس مسجد میں تمام سہولتیں مہیا ہیں.روز ہل، جہاں ہماری پرانی اور مرکزی مسجد ، بہت بڑی مسجد ہے، اس کے ساتھ جماعت کے دفاتر وغیرہ بھی ہیں.اس کے اردگرد تین چار کلومیٹر کے ایریا میں جماعت کی تین چار مساجد ہیں.جس طرح ربوہ یا قادیان میں ہر محلے میں مسجد بنی ہوئی ہے یہاں بھی چھوٹی چھوٹی جگہوں پر جہاں بھی احمدیوں کی تھوڑی سی آبادی ہے وہاں مسجد بنی ہوئی ہے.اب تک جن ملکوں میں میں گیا ہوں بلکہ جہاں نہیں بھی گیا وہاں بھی میرے خیال میں اس طرح مساجد بنانے کی طرف توجہ نہیں ہے جس طرح ماریشس میں ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہمیشہ مساجد کو آباد رکھنے کی بھی توفیق عطا فرما تا چلا جائے.قربانی کرنے میں جہاں غریب اور کم آمدنی والے لوگ اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ہیں وہاں امیر آدمی بھی، پڑھے لکھے اور دنیاوی لحاظ سے اچھی پوزیشن کے احمدی لوگ بھی ہیں جو بہت سادہ مزاج ہیں اور قربانی کے اچھے معیار قائم کرنے والے ہیں.روپے پیسے نے مالی کشائش نے انہیں دین سے دور لے جانے کی بجائے اکثریت کو اخلاص و وفا میں بڑھایا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہمیشہ اخلاص و وفا میں بڑھاتا چلا جائے.کبھی ان لوگوں میں تکبر نہ آئے کیونکہ یہ تکبر ہی ہے جو دین سے دور لے جانے والا اور دنیا کے قریب کرنے والا ہوتا ہے.ان لوگوں کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے لئے دعائیں کرتے رہیں کبھی دماغ میں تکبر کا کیڑا نہ آئے.کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہو اور اس کا فضل شامل حال نہ ہو تو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 39 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے جس طرح جب جسم کمزور ہو تو بعض چھپی ہوئی بیماریاں حملہ کر دیتی ہیں اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو، اس کے آگے جھکنے والے نہ ہوں ، تو شیطان بھی فوری طور پر حملہ کرتا ہے.پس جتنے اللہ تعالیٰ کے فضل زیادہ ہوں اتنی ہی زیادہ استغفار کی ضرورت ہے، اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنے فضلوں کے سائے میں رکھے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی وہاں تقریباً 17-16 فیصد ہے لیکن وہاں برصغیر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش والے ملا ؤں والے حالات ہیں اور جماعت کے بارے میں جو غلط سلط مُلاں وہاں کہتے ہیں لوگ ان کو سن لیتے ہیں اور ان باتوں پر یقین کر لیتے ہیں، جوش میں آجاتے ہیں.شاید اس کے لئے بعض مسلمان ملکوں سے انہیں ایڈ (Aid) بھی ملتی ہو.آجکل ان نام نہاد علماء کو جہاں بھی موقع ملتا ہے، جس ملک میں بھی موقع ملتا ہے، ان کا کام صرف احمدیوں کے خلاف فتنہ پیدا کرنا ہے.بہر حال ماریشس میں بھی احمدیوں کی کافی مخالفت ہے احمدیوں کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف جب بھی ان کو موقع ملتا ہے کافی بد زبانی کرتے ہیں.کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح فساد ہو.میرے دورے کی خبر جب اخبار میں اور ٹی وی وغیرہ پر آئی تو انہوں نے بڑا سخت احتجاج کیا کہ کیوں یہ خبر دی گئی ہے.پھر جب ہمارا جہاں جلسہ ہو رہا تھا، جلسے کے آخری دن گیٹ کے سامنے بہت ہلڑ بازی کی، شور مچایا، نعرے لگائے ، گالیاں نکالیں ، میرے خلاف، جماعت کے خلاف ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف جو کچھ بک سکتے تھے بکتے رہے.جو مغلظات کہہ سکتے تھے کہتے رہے.جلسہ کے آخری دن جیسا کہ میں نے کہا کہ میرے جلسے پر جانے سے پہلے اس گیٹ کے سامنے کافی لوگ اکٹھے ہوئے تھے اور جلوس تھا اور فتنہ پیدا کرنے کا خیال تھا.وہاں کے امیر صاحب اور انتظامیہ بڑی پریشان تھی کہ کہیں کوئی احمدی اس ہلڑ بازی اور گالی گلوچ کی وجہ سے جوش میں آ کر جواب نہ دے دے اور کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جس سے پھر فساد مزید بھڑ کے.یا جب میں گزروں گا تو اس وقت کوئی احمدی ری ایکٹ (React) کرے اور پھر فساد کا خطرہ پیدا ہو.تو بہر حال اس کے سد باب کے لئے انہوں نے میرے جانے کا راستہ بدل دیا اور مجھے آخری وقت میں بتایا کہ ہم نے اس لئے راستہ بدلا ہے.ان کے فساد کی وجہ سے پولیس بھی وہاں کافی تھی، تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ ان کے شور اور گالی گلوچ کے باوجود احمدیوں نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا.اور حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر مل کر کے دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اسی طرح ایک موقع پر مخالفین نے بہت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 40 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء زیادہ فساد پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور احمدیوں نے بڑے صبر کا نمونہ دکھایا تھا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے افراد کو بڑے تعریفی کلمات سے نوازا تھا کہ یہی لوگ ہیں جو صبر کرتے ہیں، نہیں تو فساد بڑھ سکتا تھا.آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق دنیا کے ان دور دراز ملکوں میں بھی اللہ تعالیٰ جماعت کے افراد کو صبر کے نمونے دکھانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.بہر حال وہاں اگر کسی احمدی کی طرف سے ہلکا سا بھی رد عمل ظاہر ہوتا تو فساد بڑھ جانے کا خطرہ تھا اور پھر یہ جماعت پر بہت بڑا داغ ہونا تھا کیونکہ ہم تو ہمیشہ امن صلح اور پیار اور محبت کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس نے ظلم کا عفو سے انتقام لیا تھا.ہم نے تو انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں ان زیادتی کرنے والوں کو معاف کرتے رہنا ہے اور یہ معافی ہم کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی جو صحیح تعلیم ہمیں دی ہے اس پر عمل کرتے ہوئے کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جو اُسوہ رکھا ہے اس کے مطابق کرتے ہیں.اگر نظر آ سکے، یہ مخالفین کبھی احمدیوں کا دل چیر کر دیکھیں کہ کس طرح احمدی ایسے حالات میں صبر اور حو صلے کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں.پس ہمیشہ ہر احمدی کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ صبر کا نمونہ انہوں نے دکھانا ہے اور دکھاتے چلے جانا ہے اور ہمیشہ یہ آپ کا طرہ امتیاز ہونا چاہئے کہ قانون کو بھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا.لیکن اگر قانون لاگو کرنے والے کبھی یہ کہیں کہ خود سنبھال لوتو احمدی اللہ کے فضل سے ان فتنوں کو ایک منٹ میں ختم بھی کر سکتا ہے.تو یہ غلط فہمی نہ ہمارے دل میں ہے اور نہ کبھی مخالفین کے دل میں ہونی چاہئے کہ ہم کسی کمزوری کی وجہ سے صبر کرتے ہیں.بہر حال یہ مولوی لاؤڈ سپیکر پر گندے نعرے لگاتے رہے ، گالیاں بکتے رہے.جس جگہ یہ لوگ گیٹ کے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر نعرے لگا رہے تھے ، وہاں سے بعض سرکاری افسران جن کو جلسے پر مدعو کیا گیا تھا، بلایا گیا تھا وہ بھی گزر کر آ رہے تھے دوسرے معزز لوگ بھی آ رہے تھے جن میں غیر مسلم بھی تھے.تو بہر حال یہ بھی ان کی جرات ہے کہ باوجود اس ہنگامے کے انہوں نے پرواہ نہیں کی اور اس جگہ سے گزر کر جلسے میں شامل ہوئے.یہ مولوی میرے آنے کا کافی دیر تک انتظار کرتے رہے لیکن جب کافی دیر ہوگئی تو نعرہ لگا دیا کہ احمدیوں کا خلیفہ ڈر گیا ہے اب اس نے نہیں آنا چلو واپس.بہر حال کیونکہ اس وقت نماز کا وقت بھی تھا کچھ خاموشی بھی تھوڑی دیر کے لئے ہوگئی.لیکن اتفاق سے یا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ جب انہوں نے یہ نعرہ لگایا ہے، اسی وقت چند آدمی بیعت کے لئے آئے ہوئے تھے تو بیعت شروع ہوگئی.جب لاؤڈ سپیکر پر آواز باہر نکلی تو کافی شرمندہ ہوئے ہوں گے.ان کے لئے لفظ شرمندہ تو استعمال نہیں ہوسکتا، کچھ اور لفظ ہونا چاہئے.ان کو یہ تسلی ہوگئی کہ میں اندر ہوں.اب یہ بڑے پریشان تھے کہ یہ آیا کس طرح؟ بہر حال تھوڑی دیر بعد ان کی یہ گالیاں بند ہو ا بند ہوگئیں.تو kh5-030425
41 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم امیر صاحب کہنے لگے کہ یہ بول بول کر تھک گئے ہیں کیونکہ جب جواب نہ دیا جائے تو آخر انہوں نے کسی وقت تو تھکنا ہے ناں، بہر حال شرمندہ ہو کر چلے گئے.پھر جب جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی اور میں نے اپنی تقریر میں محبت، پیار اور بھائی چارے کی باتیں کیں تو جو غیر مہمان آئے ہوئے تھے ان کے چہروں سے صاف لگ رہا تھا کہ یہ تو بالکل اور دنیا ہے، باہر ہم کیا سن کر آ رہے تھے اور یہ کیا کہہ رہے ہیں.بلکہ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ ان باتوں کا ذکر تک نہیں کیا کہ باہر کوئی شور بھی پڑ رہا ہے یا نہیں.تقریر کے بعد کئی مہمان میرے پاس آئے اور انہوں نے شکریہ ادا کیا کہ آپ بڑی خوبصورت تعلیم دیتے ہیں.مولویوں کے نعروں کے باوجود بھی بعض غیر احمدی مسلمان شرفاء وہاں شامل ہوئے تھے اور مجھے جلسے کے بعد ملے بھی اور بڑی تعریف کی.ایک صاحب تو جو حلیے سے بہت کٹر قسم کے مولوی لگ رہے تھے ، میں سمجھا شاید یہ شرارت کی نیت سے آئے ہیں لیکن بڑی شرافت سے باتیں کیں اور شکریہ ادا کر کے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا وعدہ ہے.یہ لوگ جتنا مرضی دوسروں کو ڈرانے کی کوشش کریں یا ہمیں ڈرانے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ اپنے کام کرتا چلا جاتا ہے.اس کو ان لوگوں کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں.جو اللہ تعالیٰ کے منصوبے ہیں اُن میں کوئی انسانی کوشش روک نہیں ڈال سکتی.اور اپنے وقت پر انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے بھی ظاہر ہوتے چلے جائیں گے.پھر وہاں کے ملک کے صدر صاحب ہندو ہیں، بڑے شریف آدمی ہیں ، ان سے بھی ملاقات ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب دورہ فرمایا تھا اس وقت وہ ملک کے وزیر اعظم تھے.اس دورے کا بھی ذکر کرتے رہے اور انہوں نے بتایا بلکہ ان کی بیوی نے بتایا کہ اس دوران ہم نے جو تصویریں کھنچوائی تھیں وہ ہم نے اپنے گھر میں نمایاں کر کے لگائی ہوئی ہیں تا کہ ہم ان برکات سے فیض حاصل کریں جو ایسے نیک آدمیوں کی وجہ سے پہنچ سکتا ہے.بہر حال ان کا اپنا ایک نظریہ ہے اور انہوں نے بڑا محبت اور پیار کا اظہار کیا.اللہ تعالیٰ ایسے شریف النفس لوگوں کے سینے بھی کھولے.وہاں کے نائب صدر بھی جو مسلمان ہیں ان سے بھی بڑے اچھے ماحول میں احمدیت اور اسلام کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں.زیادہ تر مسلمانوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے.تو یہ شریف لوگ ہیں.یہ شر پسند مولویوں کی حرکات سے شرمندہ بھی ہوتے ہوں گے اور بہر حال مصلحتنا یا کسی وجہ سے خاموش رہتے ہیں.حالانکہ ان لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ مولوی جو ہیں اگر ان کو کھلی چھٹی دی تو یہ پیر تسمہ پاکی طرح ان کی گردنوں کو قابو کر لیں گے اور پھر جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی.صرف پاکستان میں ہی نہیں، ایسے نمونے ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں بھی ان کو کھلی چھٹی دی گئی ہے وہاں یہ اس طرح کی kh5-030425
42 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم کوششیں کرتے ہیں اور کریں گے اور اپنی فطرت دکھا ئیں گے.ہمارے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، ہمارا تو یہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے.جماعت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفت کے باوجود دنیا میں ہر جگہ بڑھ رہی ہے لیکن جن حکومتوں نے بھی ان کی پشت پناہی کی ہے یا ان سے انہیں مددملی ہے ان کے لئے ہمیشہ ابتلا ہی آیا ہے.جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اگر پاکستان کی حکومت نے ان سے جان نہ چھڑائی تو یہ پھر کبھی نہیں چھوڑیں گے آجکل وہی ہو رہا ہے.اب حکومت بھی مشکل میں ہے اور وہ مغربی ممالک جو اپنے مفاد کے لئے ان کو آگے لائے تھے وہ بھی اب پریشانی کا اظہار کرتے ہیں.اب ان کو اپنی پڑی ہوئی ہے.لیکن اب ان سے جان چھٹتی نظر نہیں آرہی.اگر گہرائی میں جائزہ لیں تو ان لوگوں کی وجہ سے ہی ملک کی ترقی کئی سال پیچھے ہو چکی ہے.اسی طرح اب دوسری مسلمان دنیا میں ہو رہا ہے.جس طرح میں نے پہلے بھی کہا ، اگر ان ملکوں نے اپنے ذہنوں کو روشن نہ کیا اور ملائیت کو سیاست اور حکومت سے علیحدہ نہ کیا تو ان تمام ملکوں کے امن بر باد ہو جائیں گے اور یہ پھر بھی ترقی نہیں کر سکیں گے بلکہ اب یہ عمل شروع بھی ہو چکا ہے اور دنیا کو نظر آ رہا ہے.ابھی بھی مسلمان ملکوں کو، حکومتوں کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم پر تو ، جماعت احمدیہ پر تو مخالفت کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ انشاء اللہ ہو گا.اس کے باوجود کہ مخالفت تھی ، دو تین وہیں کے تھے اور ایک دو باہر کے جزیروں سے مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے ، چند افراد نے بیعت بھی کی.بیعت کے بعد ملاقاتیں بھی تھیں.ایک غیر از جماعت لڑکا اپنے ایک احمدی دوست کے ساتھ ملاقات کے لئے آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے بیعت نہیں کی.کہنے لگا ابھی بعض باتوں کی وجہ سے میرے دل میں انقباض ہے، کچھ ڈانواں ڈول ہوں.میں نے اس سے مذاقاً کہا کہ آج مولویوں کا عمل بھی تم نے دیکھ لیا ہے، ہماری باتیں بھی سن لی ہیں تو ابھی بھی تمہاری تسلی نہیں ہوئی.تو بڑا شرمندہ ہوا، بہر حال میں نے اس سے کہا کہ تم نیک فطرت نظر آتے ہو، ان باتوں کے بارے میں جن میں تم تسلی نہیں پاتے اس کا اب ایک ہی علاج ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور چند دن دعا کرو پھر فیصلہ کرو.میں نے کہا مجھے امید ہے کہ تمہارا دل کھل جائے گا.چنانچہ وہ دو دن کے بعد ہی آگیا کہ جو انقباض تھا وہ دُور ہو گیا ہے اب میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.تو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار.اس نے تو انشاء اللہ آنا ہی آنا ہے چاہے مولوی جتنا مرضی زور لگا لیں.لیکن ان بد فطر توں کا انجام بھی بہت بھیانک ہونے والا ہے.انشاء اللہ.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 43 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء پھر ماریشس کے ساتھ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، روڈر گس، یہ تقریباً چھوٹے جہاز کی ڈیڑھ گھنٹے کی فلائیٹ ہے.وہاں صبح سے شام تک کا دورہ تھا.چھوٹی سی نئی جماعت ہے.آرام کے لئے اور کھانوں وغیرہ کے لئے ہوٹل میں انتظام تھا.نمازوں کے لئے مسجد گئے تھے.وہاں ہوٹل میں ہی ہمارے ساتھیوں کو ایک مصری جو بڑا پڑھا لکھا ہے ملا، وہ وہاں ٹھہرا ہوا تھا.اس نے خود ہی میرے بارے میں ہمارے ساتھیوں سے بات کرنی شروع کر دی.اس کو کچھ تعارف تھا.جب ہمارے آدمیوں نے پوچھا کہ تمہیں کس طرح تعارف ہوا، بتایا کہ اخبار اور ٹیلی ویژن سے ہوا.بہر حال اس کو ایم ٹی اے اور ویب سائیٹ (Alislam) کا پتہ دیا.تو اس طرح دوروں میں اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح احمدیت کا تعارف کرانے کا، دوسروں تک پیغام پہنچانے کے موقع مہیا فرما تارہتا ہے.پھر اس جزیرے کے گورنر جو پہلے پادری تھے لیکن بعد میں سیاست میں آگئے ان سے بھی جماعت کے بارے میں بڑی تفصیل سے باتیں ہوتی رہیں.پیغام پہنچایا.پھر مختلف جگہوں پر ماریشس میں جہاں بھی ( چھوٹا سا جزیرہ ہے ) سیر کا پروگرام بنایا وہاں مختلف ملکوں سے ٹورسٹ (Tourists) آئے ہوتے ہیں، وہ بھی تعارف حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کی توجہ اس طرف پھیرتا تھا.خود آتے تھے ، تعارف حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، بعد میں تصویر کھنچوانے کی خواہش ظاہر کرتے تھے.مختصر یہ کہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کی بھی وہاں تو فیق مجھے یا وفد کے افراد کو کسی نہ کسی طرح ملتی رہی.وہ چھوٹا سا جزیرہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے، یہاں بالکل نئی جماعت ہے.ایک مسجد ہے اور وہاں اب میں نے ایک نئی مسجد کی بنیاد رکھی ہے.بالکل چھوٹا سا جزیرہ ہے.تقریباً 36 ہزار کی آبادی ہے اور یہاں احمدی ہونے والوں کی اکثریت غریب لوگوں کی ہے، یہ پہلے پورا جزیرہ عیسائیوں کا تھا اب وہاں کچھ احمدی بھی آگئے ہیں.گوتر بیتی لحاظ سے ابھی وہ کمزور ہیں.ان کا جائزہ بھی لینے کی توفیق ملی پروگرام بنے.کس طرح ان کو بہتر کرنا ہے.بہر حال یہ لوگ بیعت کرنے کے بعد اخلاص میں بڑھ رہے ہیں.وہاں جا کر شدید خواہش پیدا ہوئی اور دعا بھی ہوئی کہ یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے، اس پورے جزیرے کو جلد سے جلد احمدیت کی آغوش میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے.بہر حال چھوٹے جزیرے ہوں یا بڑے ہوں، چھوٹے ملک ہوں یا بڑے ملک ہوں ان کی اکثریت نے انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت اور حقیقی اسلام کی آغوش میں آنا ہی آنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں میں وہ نظارے دکھائے جب ہم احمدیت کا غلبہ دیکھیں.ماریشس میں جماعت نے ایک ہوٹل میں ایک ریسیپشن (Reception) کا انتظام کیا ہوا تھا جس میں وہاں کے معززین اور سرکاری افسران آئے ہوئے تھے.نائب وزیر اعظم بھی آئے ہوئے تھے.میرا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 44 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء خیال ہے ان کے آباؤ اجداد آئر لینڈ یا سکاٹ لینڈ سے 4 نسلیں پہلے وہاں گئے ہوئے ہیں.وہیں آباد 4،4 ہیں.وہاں بھی ریسیپشن میں اسلام کی پیار و محبت کی تعلیم بتانے کی توفیق ملی.نائب وزیر اعظم بڑی دلچپسی سے بعد میں کافی دیر آدھا پونا گھنٹہ اسلام کے بارے میں ، جماعت کی تعلیم کے بارے میں ، احمدیوں اور غیر احمدیوں کے فرق کے بارے میں سوال کرتے رہے.اور ان سے اچھی گفتگو چلتی رہی.تو دوروں میں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہر طبقہ کو پیغام پہنچانے کا موقع مل جاتا ہے.ویسے اگر روٹین کے مطابق یہ پیغام پہنچانے کا کام چل رہا ہو تو شاید ایک عرصہ لگے.میڈیا بھی بہت کوریج دے رہا ہوتا ہے.اس طرح بہت سارے لوگوں کو لاکھوں کی تعداد میں پیغام پہنچ جاتا ہے.ماریشس دنیا کا کنارہ بھی کہلاتا ہے.اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان بہم پہنچائے کہ اس جزیرے کے لوگوں کو بھی اور دوسری دنیا سے آئے ہوئے لوگوں کو بھی اس کنارے میں پہنچ کر پیغام پہنچانے کی توفیق ملی.ہمارا کام تو آواز دینا ہے اللہ تعالیٰ سب کے سینے کھولے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پہچان سکیں.بہر حال ماریشس کا دورہ بھی اور جلسہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کامیاب رہا.بعض باتیں یاد بھی نہیں رہتیں، ریکارڈ میں ہوں گی.بہر حال آہستہ آہستہ وہ باتیں یاد آتی ہیں.ماریشس جماعت کے ہر فرد کو اللہ تعالیٰ جزا دے.انہوں نے بڑے اخلاص اور وفا کا مظاہرہ کیا کئی ڈیوٹی دینے والے، کئی دن تک معمولی نیند لیتے تھے شاید ایک دو گھنٹے سوتے ہوں.جس دن میں نے واپس آنا تھاوہ فلائیٹ رات کو اڑھائی بجے تھی.تو نماز مغرب اور عشاء کے بعد میں نے وہیں مسجد میں ہی لوگوں کو خدا حافظ کہہ دیا کہ رات کو لیٹ تو بہر حال کوئی نہیں آئے گا.لیکن میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں دو بجے ائر پورٹ پر پہنچا ہوں تو اس طرح لوگ اکٹھے تھے جس طرح دن کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں.بچے بھی ، عورتیں بھی ، بوڑھے اور مرد بھی ، جوان بھی.مجھے بتایا گیا کہ رات ایک بجے سے یہ لوگ آنا شروع ہو گئے تھے اور بچے بھی بالکل فریش (Fresh) تھے، کوئی اثر نہیں تھا کہ رات کا وقت ہے اور نیند آئی ہوئی ہے.سب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہائی اخلاص و وفا کا مظاہرہ کیا اور جذبات سے پُر دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.اللہ سب کو جزا دے اور جلد سے جلد احمدیت کے پیغام کو اس پورے جزیرے میں پھیلا دے.ماریشس سے روانہ ہو کر ہم صبح 11 بجے دہلی پہنچے.یہاں پہنچ کر جذبات کا ایک نیا رخ تھا کہ قادیان کے قریب پہنچ رہے ہیں.دہلی میں دو تین دن قیام رہا.اس دوران میں مختلف جگہوں سے آئے ہوئے ایسے احمدی جو جلسے پر نہیں آسکتے تھے ان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں.اسی طرح کچھ تاریخی جگہوں کی سیر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 45 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء کا بھی موقع مل گیا.آگرہ میں تاج محل اور دہلی کے کچھ تاریخی مقامات ، مینار، قلعے جو چند ایک محفوظ ہیں، کچھ تو کھنڈر بھی بن چکے ہیں ، دیکھنے کا موقع ملا.ہم جب قطب مینار دیکھنے کے لئے گئے تو وہ دیکھنے کے بعد انتظامیہ کا خیال تھا کہ یہاں سے واپس گھر ہی جانا ہے.لیکن میرے دل میں یہ تھا کہ حضرت بختیار کا کئی کے مزار پر بھی جانا ہے.میرے یہ کہنے پر انتظامیہ والے ایک دوسرے کے چہرے دیکھنے لگ گئے.انتظامیہ کا خیال تھا کہ سیکیورٹی کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ چھوٹی چھوٹی گلیاں مزار پہ جانے کے لئے ہیں اور اردگرد کا نیں ہیں اور آبادی بہت زیادہ ہے.پھر مزار سے کم و بیش سو گز پہلے ان کا طریقہ ہے کہ جوتے بھی اتروا دیتے ہیں.تو بہر حال میں نے کہا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہاں چلتے ہیں.خیر گلیوں میں سے گزر کر ہم وہاں پہنچے.جوتے اتروائے کچھ گھر کی خواتین بھی ہمارے ساتھ تھیں لیکن ایک جگہ آ کے انہوں نے عورتوں کو روک دیا کہ اس سے آگے عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں.جب ہم نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے تو کہا کہ بزرگ یہی ہمیں کہتے آئے ہیں کہ اس سے آگے عورتیں نہیں جاسکتیں.بہر حال کہاں سے روایت چلی؟ کیوں نہیں جاسکتی ہیں؟ یہ پتہ نہیں.مرد بہر حال آگے مزار تک چلے گئے وہاں جا کے کچھ لوگ دعا کر رہے تھے دوسرے بھی پہلے وہاں دعا میں لگے ہوئے تھے.جالی کے ساتھ میں نے دیکھا کچھ عورتوں کو جو مسلمان نظر نہیں آ رہی تھیں اور اس طرح قبر پہ دعا کرنے والوں کو دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ بجائے ان بزرگ کے لئے دعا مانگنے اور اپنے لئے دعا مانگنے کے یہ تو اس بزرگ سے مانگ رہے ہیں، یہاں تو شرک چل رہا ہے.تو بہر حال وہاں دیکھ کر یہی دعا کی، یہی خیال آیا کہ اے اللہ جو شخص تیرا عبد بنا، تیرا بندہ بننے کی کوشش کرتا رہا، اسے یہ لوگ شرک کا ذریعہ بنا رہے ہیں.ان مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے تاکہ تیری پہچان کر سکیں.بہت سے اور نظارے بھی سامنے آ گئے کہ کس طرح لوگوں نے ان جگہوں پر جا کر شرک پھیلایا ہوا ہے اور مسلمان کہلاتے ہیں، حالانکہ یہ سب بزرگ تو حید پر قائم تھے اور تو حید کو پھیلانے کی کوشش کرتے رہے.وہاں سے واپسی پر میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 1905ء میں یہاں آئے تھے باوجود اس کے کہ شاید کسی نے ذکر بھی کیا تھا.لیکن پھر بھی مجھے بعد میں واپسی پر خیال آیا کہ دیکھوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کن تاریخوں میں اور کس سال میں آئے تھے.میرے ذہن میں قریب کی تاریخیں تھیں.تو چیک کرنے پر یہ خوشی ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی 1905 ء کے نومبر میں گئے تھے.تو اس طرح پورے 100 سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں وہاں مزار پر جانے کا موقع ملا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مزاروں پر بھی گئے تھے لیکن حضرت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 46 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء بختیار کاکی کے مزار پر جب گئے ہیں تو ملفوظات میں اس طرح واقعہ درج ہے کہ آج حضرت بختیار کا کی کے مزار پر حضور علیہ السلام نے دعا کی اور دعا کولمبا کیا.واپس آتے ہوئے حضرت نے راستہ میں فرمایا کہ بعض مقامات نزول برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اللہ تھے اس واسطے ان کے مزار پر ہم گئے.ان کے واسطے بھی ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اپنے واسطے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی.اور دیگر بہت دعائیں کیں لیکن یہ دو چار بزرگوں کے مقامات تھے جو جلد ختم ہو گئے اور دہلی کے لوگ تو سخت دل ہیں.یہی خیال تھا کہ واپس آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے الہام ہوا ( یعنی یہ سوچتے ہوئے آ رہے تھے تو گاڑی میں بیٹھے ہوئے یہ الہام ہوا کہ : ” دست تو ، دعائے تو ، تر تم ز خدا.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 528-529 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) کہ تیرا ہاتھ ہے، اور تیری دعا اور خدا کی طرف سے رحم.تو اللہ کرے کہ دہلی والوں کے بھی اور دنیا کی دوسری آبادیوں کے بھی دل نرم ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں قبول ہوں اور دنیا کو آپ کو ماننے کی توفیق ملے.پھر اسی قسم کے سفر کا ذکر ہے، ملفوظات کا ہی ایک اور حوالہ ہے، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج کہاں کہاں کی سیر کی ؟ انہوں نے عرض کی فیروز شاہ کی لاٹ، پرانا کوٹ ، مہابت خان کی مسجد ، لال قلعہ وغیرہ مقامات دیکھے.فرمایا ہم تو بختیار کا کی ، نظام الدین صاحب اولیاء ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب وغیرہ اصحاب کی قبروں پر جانا چاہتے ہیں (یہ اس سے پہلے بتایا ، بعد میں تو آپ ہو آئے تھے ) دہلی کے یہ لوگ جو سطح زمین کے اوپر ہیں نہ ملاقات کرتے ہیں ، اور نہ ملاقات کے قابل ہیں اس لئے جو اہل دل لوگ اِن میں سے گزر چکے ہیں اور زمین کے اندر مدفون ہیں، ان سے ہی ہم ملاقات کر لیں تا کہ بدوں ملاقات واپس نہ جائیں.میں ان بزرگوں کی یہ کرامت سمجھتا ہوں کہ انہوں نے قسی القلب لوگوں کے درمیان بسر کی.اس شہر میں ہمارے حصہ میں ابھی وہ قبولیت نہیں آئی جو ان لوگوں کو نصیب ہوئی.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 499 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ دہلی میں بعض تاریخی جگہیں بھی دیکھنے کا موقع ملا جہاں مسلمان بادشاہوں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم ہیں، ان میں دہلی کا لال قلعہ بھی ہے اور تغلق آباد کا قلعہ بھی ہے تغلق آباد کا قلعہ وہ جگہ ہے جس کے ایک اونچے مقام پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر ( جب ایک دفعہ سیر پہ وہاں گئے تھے تو اس مقام پر کھڑے ہو کر ) دہلی کا نظارہ کر رہے تھے تو اس دوران اس نظارے میں اتنے محو ہو گئے کہ آپ ایک اور عالم میں چلے گئے.کسی اور دنیا میں چلے گئے.پھر آپ kh5-030425
47 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم کی ایک بیٹی کے کہنے پر آپ کی وہاں سے واپس روانگی ہوئی اور اپنے خیالات سے واپس آئے.تو اس وقت آپ کی زبان سے نکلا تھا کہ میں نے پا لیا، میں نے پا لیا.تو اس کی تفصیل کہ کیا پالیا ؟ اور ان قلعوں اور کھنڈروں اور ویرانوں کی روحانی دنیا سے مثالیں دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو تقریباً 20 سال کے عرصے پر پھیلا ہوا ہے.جلسہ پر کچھ سال لگا تار اور پھر پیچ میں کچھ وقفہ دے کر جلسوں میں تقریر فرمایا کرتے تھے.ان تقاریر میں آپ نے ہمیں روحانی دنیا کی سیر کروائی ہے.اور پھر ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.یہ مجموعہ تقاریر سیر روحانی کے نام سے اب تو ایک جلد میں شائع ہو چکا ہے.ہر پڑھے لکھے احمدی کو جو اردو پڑھ سکتا ہے اس کو پڑھنا چاہئے.جو پڑھ نہیں سکتے ہن سکتے ہیں سنیں.اس میں دنیاوی بادشاہوں کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے اس میں عبرت کے سبق بھی ہیں.اس کو پڑھ کر خوف بھی آتا ہے اور ساتھ ہی عالم روحانیت کی سیر کر کے اس بات کی خوشی بھی ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی جو تو فیق عطا فرمائی ہے اس سے ہم فیض پاتے رہیں گے اور اس سے دائی بادشاہت حاصل کرنے والوں میں شامل بھی ہوں گے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ تب ہوگا جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے والے ہوں گے ، آپ سے محبت کرنے والے ہوں گے.بہر حال پھر دہلی کا یہ سفر ختم ہوا تو آگے ہم قادیان کی طرف ٹرین پر روانہ ہوئے ، قادیان پہنچے ، آپ سب نے رپورٹس پڑھ لی ہوں گی ، ایم ٹی اے پر بھی اہل قادیان کے استقبال کے نظارے دیکھ لئے ہوں گے.اس بستی میں پہنچ کر ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے.مینارہ اسیح دُور سے ہی ایک عجیب شان سے کھڑا نظر آتا ہے.بہشتی مقبرہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا مزار ہے، دعا کر کے عجیب سکون ملتا ہے.سب جانے والے تجربہ رکھتے ہیں.الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا.قادیان میں تقریباً ایک ماہ قیام رہا.لیکن پتہ نہیں چلا کہ ایک ماہ کس طرح گزر گیا.میں تو پوری تفصیل سے قادیان پھر بھی نہیں سکا حالانکہ چھوٹی سی جگہ ہے.اس خطبے میں جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ عموماً لوگ امید رکھتے ہیں کہ سفر کے حالات و واقعات سنائے جائیں لیکن قادیان کے سفر کے حالات تو ایک حالِ دل کی کہانی ہے جو سنائی نہیں جا سکتی.بہر حال مختصر یہ کہ اب تک میں نے جو دورے کئے ہیں، سفر کئے ہیں، ان میں پہلا سفر ہے جس کی یادا بھی تک بے چین کرتی ہے اور باقی ہے.عجیب نشہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بستی کا.اس سے زیادہ کہنا کچھ مشکل ہے..kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 48 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء بہر حال شہر کا حال بھی سن لیں کچھ مختصر ابتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1991ء کے بعد سے جب سے حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے دورہ فرمایا تھا قادیان میں عمارتوں کے لحاظ سے کافی ترقی ہوئی ہے، کچھ پرائیویٹ لوگوں نے بھی گھر بنائے وہاں کی آبادی نے بھی گھر بنائے ، جماعت کی بھی عمارات بنیں.شہر کافی پھیل گیا ہے.لیکن اس کے باوجود وہاں کے رہنے والے احمدیوں کی اکثریت میں حالات کی بہتری کے باوجود ابھی تک سادگی پائی جاتی ہے اس لئے میں انہیں یہی زور دیتارہا ہوں کہ اس سادگی اور سکون کو جو ابھی تک اُن درویشوں کے اثر سے قائم ہے جنہوں نے شعائر اللہ کی حفاظت کی خاطر اپنے گھر بار، جائیدادیں رشتہ داریاں چھوڑی ہیں، ان کے بچے اسے یاد رکھیں اور اس کی جگالی کرتے رہیں.اور پھر نئے آنے والے بھی جواب وہاں آ کر آباد ہو رہے ہیں اس بستی کے تقدس کو قائم رکھنے کی کوشش کریں.کئی نومسلم نو مبائع ہیں بعض معلمین کلاس میں بھی داخل ہوئے ہیں، جامعہ میں بھی داخل ہوئے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ دینی تعلیم وغیرہ بھی حاصل کر رہے ہیں ، جماعتی روایات کا ان کو پوری طرح علم نہیں ہے اور تعلیم کا بھی پوری طرح علم نہیں ہے.تو اُن کو چاہئے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ جماعتی روایات اور قادیان کے تقدس سے پوری طرح واقف ہوں اور اس کو اپنے اندر جذب کریں یا اپنے آپ کو اس ماحول میں جذب کرنے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بستی کا ہونا چاہئے.بہر حال اکثریت جیسا کہ میں نے کہا تھا سادہ ہے، سادگی پر قائم ہے اور سکون اور امن قائم کرنے والے ہیں، اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بڑھاتا چلا جائے.وہاں کی غیر مسلم آبادی نے بھی مہمان نوازی اور تعلق کا حق ادا کیا ہے.جس گلی کوچے میں سے بھی گزرے احمدیوں کے ساتھ غیر مسلموں کے چہروں سے بھی پیارا اور تعلق کا بھی اظہار ہوتا تھا.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.وہاں قیام کے دوران جلسے کے تین دن ہی نہیں جو تقریروں کے تین دن تھے.یوں لگ رہا تھا کہ پورا مہینہ ہی جلسے کا سا سماں ہے.اور ہر وقت رونق کسی نے جو یورپ سے خود جلسے قادیان پر گئے ہوئے تھے مجھے خط لکھا کہ گلیوں اور سڑکوں پہ جتنارش تھا اور جو نظارے تھے ایم ٹی اے کے کیمرے اس طرح وہ دکھا نہیں سکے.ان کی بات ٹھیک ہے.رش کا تو یہ حال تھا کہ گوسٹ کیں چھوٹی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ آبادی اتنی نہیں لگتی تھی جتنا وہاں سڑکوں میں پھنسی ہوئی نظر آتی تھی.بعض دفعہ ٹریفک یا لوگوں کا چلنارک جاتا تھا.گلیوں میں Jam-Pack تھا.بعض لوگوں نے مجھے بتایا کہ بعض دفعہ اتنا رش تھا کہ سڑکوں پر چلتے چلتے ایک دم اگر کوئی روک آ جاتی تھی تو ملنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی.تو بہر حال بچے، بوڑھے، مرد، kh5-030425
49 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم عورتیں، قادیان کے مقامی یا ہندوستان کے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے یا باہر کے ملکوں سے آئے ہوئے مہمان جو بھی احمدی تھے اور احمدیت جن کے دلوں میں بیٹھ چکی ہے ہر ایک کے چہرے سے لگتا تھا کہ ان دنوں میں کسی اور دنیا کی مخلوق بنے ہوئے ہیں.کسی اور دنیا کے رہنے والوں کے چہرے ہیں.جلسے پر بعض دوسرے جزیروں سے ، ساتھ کے چھوٹے جزیروں سے لمبا سفر کرتے ہوئے غریب لوگ پہنچے تھے.بعضوں کا چھ سات دن کا سفر تھا.ایک دن سمندر میں سفر کیا پھر انتظار کیا پھر کئی دن ٹرین پر سفر کیا اور پھر قادیان پہنچے.قادیان میں سردی بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہ گرم علاقوں کے لوگ تھے.ان کو سردی کی عادت نہیں تھی.لیکن ایمان کی گرمی کی شدت نے اس کا شاید اُن کو احساس نہیں ہونے دیا.انتہائی صبر سے انہوں نے یہ دن گزارے ہیں.یہ نظارے صرف وہیں نظر آ سکتے ہیں جہاں خدا کی خاطر یہ سب کچھ ہو.دنیا دار تو اس قربانی کا سوچ بھی نہیں سکتا.بعض دُور دراز سے آئے ہوئے غریب لوگوں سے آنے کے بارے میں جو پوچھو تو یہی جواب دیتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں کیونکہ جلسہ ہو رہا تھا اس لئے ہم آ گئے ہیں.مختلف قومیتوں کے ، علاقوں کے لوگ قبیلوں کے لوگ آئے ہوئے تھے.مالی لحاظ سے اکثریت غریب ہے.ہندوستان بہت بڑا وسیع ملک ہے اور موسموں کا بھی بڑا فرق ہے، کہیں گرم علاقے ہیں کہیں بہت ٹھنڈے علاقے ہیں.جو گرم علاقے والے ہیں ان کو گرم کپڑوں کا تصور بھی نہیں ہے نہ ان کے پاس ہوتے ہیں.لیکن مسیح محمدی کے یہ متوالے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی دعاؤں سے جھولیاں بھرنے کے لئے کھنچے چلے آئے.ایم ٹی اے پر بھی آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا، رپورٹس بھی پڑھی ہوں گی.آنے والوں سے سنا بھی ہوگا.لیکن وہاں جو کیفیت تھی وہ دیکھنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں.بلکہ ملاقات کے وقت بعضوں کا جو حال ہوتا تھا وہ صرف میں ہی محسوس کر سکتا ہوں.پس اخلاص و وفا اور نیکی میں بڑھنے کی یہ کیفیت اگر جماعت کے افراد اپنے اندر قائم رکھے رہے اور رکھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت بھی ترقی کرتی جائے گی اور جماعت کے لوگ بھی کامیاب ہوتے چلے جائیں گے.قادیان کے جلسے پر پاکستان سے آنے والوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں.گو کہ زیادہ نہیں آ سکے لیکن 5 ہزار سے زائد وہاں سے بھی آئے تھے.ان لوگوں کے احساس محرومی اور جدائی کو بیان نہیں کیا جا سکتا.بعض نہ آنے والوں نے خطوں میں بھی اور بعض جن کو شعر و شاعری سے لگاؤ ہے انہوں نے شعروں میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا جنہیں پڑھ کر دل کی عجیب کیفیت ہوتی ہے.گو کہ آنے والوں سے وقت کی کمی وجہ سے صرف مصافحے ہوئے یا ایک آدھ لفظ کسی نے بات کہہ دی لیکن یہ چند سیکنڈ بھی جو ان لوگوں سے ملاقات کے ملے تھے وہ برسوں کی کہانی سنا جاتے تھے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 50 50 خطبہ جمعہ 20 /جنوری 2006ء اللہ تعالیٰ یہ دوریاں اور پابندیاں جلد ختم فرمائے.قادیان والے اور مہمان آتے جاتے سڑکوں پر نظر آتے تھے.جس وقت بھی جاؤ یوں لگتا تھا جس طرح ان کو پہلے سے ہی پتہ ہے کہ کس وقت میں نے سڑک پر آنا ہے.کھڑے ہوتے تھے سڑکوں پر.سلام ہو رہے ہیں ، دعائیں مل رہی ہیں، نعرے بلند ہو رہے ہیں.پھر مختلف اوقات میں میں دیکھتا رہا ہوں، بیت الدعا میں ، بیت الفکر میں ، مسجد مبارک میں لوگ یا نفل پڑھ رہے ہوتے تھے یا نفل پڑھنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے تھے.اللہ کرے کہ یہ دعاؤں اور نوافل کی عادت ان کی زندگی کا مستقل حصہ بن جائے بلکہ ہر احمدی کی زندگی کا مستقل حصہ بن جائیں.یاد رکھیں کہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور کی گئی دعائیں ہی ہیں جور بوہ کے راستے بھی کھولیں گی اور قادیان کے راستے بھی کھولیں گی اور مدینہ اور مکہ کے راستے بھی کھولیں گی ، انشاء اللہ تعالی.اس سفر میں ہوشیار پور جانے کا بھی موقع ملا اور اس گھر میں بھی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چلہ کاٹا تھا اور آپ کو موعود بیٹے کی بشارت ملی تھی یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی.ایک عرصے سے اس عمارت کی جماعتی تاریخی حیثیت ہونے کے لحاظ سے کوشش تھی کہ جماعت اس کو خرید لے.تو چند سال پہلے جماعت کو خریدنے کی توفیق ملی اس کو ٹھیک ٹھاک کرایا گیا.اس کمرے میں بھی دعا کی توفیق ملی ، مجھے بھی اور جو میرے ساتھی تھے ان کو اور قافلے کے لوگوں کو بھی.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے ہمیں ہمیشہ فیضیاب فرماتا رہے.جب قادیان پہنچا ہوں تو وہاں کے رہنے والوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے.جب واپس آرہا تھا تو جدائی کے غم کے آنسو تھے.پس قادیان والوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ اس جدائی کے غم کو دور کرنے کے لئے اور دوبارہ اور بغیر کسی روک کے ملنے کے لئے ان آنسوؤں کو ہمیشہ بہنے والا بنالیں.اور اہل پاکستان بھی اور اہل ربوہ بھی ہمیشہ اپنے آنسوؤں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے بہنے والا بنالیں.اپنی عبادتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا گڑ گڑا ئیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت فرماتے ہوئے ہماری کامیابی کی منزلیں نزدیک تر کر دے.آمین.kh5-030425
خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006ء 51 4 خطبات مسرور جلد چهارم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور جماعت کے قیام کے بعد زلازل اور طوفانوں اور آفات ارضی و سماوی کی کثرت پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2006 ء ( 27 صلح 1385 ھش ) بیت الفتوح ، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرى بِظُلْمٍ وَاهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ ﴾ ( ہود آیت 118) قادیان کے سفر پر جانے سے پہلے مجھے ایک احمدی کا خط ملا کہ آپ جلسے پر قادیان جا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ یہ سفر ہر لحاظ سے مبارک کرے لیکن یہ دعا بھی کریں کہ اس سال ان دنوں میں کوئی آسمانی آفت کوئی تباہی یا زلزلہ وغیرہ نہ آئے.یہ ڈر شاید لکھنے والے کا اس لئے تھا کہ گزشتہ دو سالوں میں یعنی 2003 ء میں بھی اور 2004ء میں بھی عین انہیں دنوں میں جب قادیان کا جلسہ ہورہا ہوتا ہے اس کی گہما گہمی ہوتی ہے دو مسلمان ملکوں میں زلزلے کی وجہ سے بڑی تباہی آئی.ایک جگہ ہزاروں اور دوسری جگہ لاکھوں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور وہ لقمہ اجل بنے.2003ء میں ایران میں زلزلہ آیا تھا اور 2004ء میں انہیں دنوں میں انڈونیشیا میں جو سب سے بڑا اسلامی ملک سونامی (Tsunami) آیا جس نے بہت زیادہ نقصان کیا.اس کا نقصان کئی اور ملکوں اور ساتھ کے ہمسایہ جزیروں میں بھی ہوا.پھر 8 اکتوبر 2005 ء کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اور خاص طور پر کشمیر میں انتہائی خوفناک زلزلے کی وجہ سے تباہی پھیلی.اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً 87 ہزار بتائی جاتی ہے.لیکن بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ تھی.خبروں سے پتہ لگتا ہے کہ صحیح اندازے، صحیح اعداد و شمار تو ابھی تک معلوم نہیں ہوئے، یا بتانا نہیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 52 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء چاہتے.بہر حال جو بھی تعداد ہے ایک بڑے وسیع علاقے میں بڑی تباہی آئی تھی اور کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے.جہاں جہاں تباہی آئی ہے، جو بچے ان کی آباد کاری کے لئے بھی ایک بڑا لمبا عرصہ درکار ہے.حکومتوں کی انٹر نیشنل ایجنسیز جو مدد کرتی ہیں، ان کے علاوہ کئی این جی اوز بھی کام کر رہے ہیں.شروع میں انہوں نے بہت کام کیا لیکن کیونکہ لمبا عرصہ کام کرنا پڑ رہا تھا، اپنے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کئی تو بیچ میں چھوڑ کر چلی گئیں اور لوگ بیچارے موسم کی شدت کی وجہ سے اور عارضی رہائش، خیموں وغیرہ کی وجہ سے سردی کا شکار بھی ہورہے ہیں، بیماری کا شکار ہو رہے ہیں.ایک خبر کے مطابق برف باری اور بارشوں کی وجہ سے اب مزید ہزاروں موتوں کا خطرہ ہے.ہم تو دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.جماعت ہیومینیٹی فرسٹ (Humanity First) کے ذریعہ سے جو ایک مدد کرنے کا ادارہ ہے جس میں بہت بڑا بلکہ 99 فیصد حصہ جماعت کے افراد کا ہے.جو مد تھی چاہے وہ رقم کی تھی یا کپڑوں لباس یا دوسروی اشیاء کی مد تھی اس علاقے میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے.پہلے حکومت نے ان کو تھوڑا سا کام دیا تھا لیکن اب حکومت کی وہاں خواہش تھی اور انہوں نے زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے کہ ایک نیورو سینٹر قائم کیا جائے جس میں ہیومینٹی فرسٹ ان کی مدد کرے.بہر حال اپنے وسائل کے لحاظ سے جس حد تک ہوسکتا ہے کریں گے کیونکہ زلزلے میں جو نقصان پہنچا، جو صدمے لوگوں کو پہنچے اس کی وجہ سے اعصابی بیماریوں کے افراد بھی بہت زیادہ ہیں.پھر 2005ء میں ہی امریکہ میں سمندری طوفان کی وجہ سے ایک بہت بڑی تباہی آئی ، پھر اور ملکوں میں سیلابوں وغیرہ کے ذریعہ سے تباہیاں آئیں، ویانا وغیرہ میں بھی، ان جگہوں پر بھی ہیومینیٹی فرسٹ نے بہت کام کیا ہے.اور جہاں بھی کام کیا احمدی کیونکہ بڑا لگ کر کام کرتا ہے ان کے کام کو سراہا گیا تو بہر حال انسانیت کے رشتے کے ناطے یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ خدمت انسا نیت کریں اور اس کے لئے کسی سے ہمیں اجر نہیں لینایہ تو ہمارے فرائض سے تعلق رکھنے والی بات ہے، فرائض میں شامل ہے.کئی احمدی ان تباہیوں اور زلزلوں کو دیکھ کر یہ بھی سوال کرتے ہیں، لکھتے ہیں کہ اس زلزلے میں تو کئی معصوم جانیں بھی ضائع ہو گئیں اور بعض احمدی کہتے ہیں اگر یہ عذاب تھا تو جو لوگ شرارتی تھے، ظالم تھے ان پر آنا چاہئے تھا معصوم بچے عورتیں کیوں اس کا شکار ہو گئیں.اس قسم کے سوالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اُس زمانے میں کئے گئے تھے جب زلزلے آئے تھے.خاص طور پر جب 1905 ء میں کانگڑہ کا زلزلہ آیا یا اور دوسری آفات دوسرے ملکوں میں آئیں، امریکہ وغیرہ میں بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان آفات پر اٹھنے والے سوالات کے جواب دیئے ہوئے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود کے حوالے سے جواب دینے سے پہلے گزشتہ سال جو زلزلہ پاکستان اور کشمیر میں آیا اس پر مختلف پاکستانی اخباروں میں علماء کی جو آراء اور بیانات آئے ہیں اور وہ مجھے اکٹھے کر کے دئے گئے ہیں ( پہلے بھی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 53 خطبہ جمعہ 27 / جنوری 2006 ء قسم کی ملک میں آفات آتی رہی ہیں ان پر لوگ لکھتے رہے ہیں ) وہ میں آپ کو بتاؤں گا.اس سے پتہ چل جائے گا کہ عام طور پر مسلمانوں کی اور ملک کی جو حالت ہے اس پر یہ علماء کیا رائے دیتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ ان کے اپنے عمل کیا ہیں.اس حالیہ زلزلے کے بارے میں بعض سوال جیسا کہ میں نے کہا اخباروں نے اٹھائے اور ملک کے غیر از جماعت علماء کے سامنے رکھے.روز نامہ پاکستان کی ایک خصوصی اشاعت شائع ہوئی تھی اس میں وہ لکھتا ہے کہ حالیہ تباہ کن زلزلے نے ہر طرف تباہی پھیلا دی ہے، ہر طرف سے چیخوں اور سکیوں کی آوازیں آ رہی ہیں.ہنستے بستے گھرانے نیست و نابود ہو گئے ہیں.جہاں کل تک قہقہے بلند ہوتے تھے وہاں موت کا گھمبیر سناٹا طاری ہو چکا ہے.انسانیت بلبلا رہی ہے، آدمیت ماتم کر رہی ہے، الفاظ مرثیوں کا روپ دھار چکے ہیں.آنکھوں کے آنسو تمام تر بہہ چکے اور چہروں کے رنگ اڑ چکے ہیں.لکھتا ہے کہ شدید ترین زلزلے نے جہاں بہت جانی اور مالی نقصان کیا وہاں بہت سے سوالات تبھی پیدا کر دیئے ہیں.کیا سوال پیدا کئے ؟ کہتے ہیں کہ کیا یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے؟ کیا یہ ہماری آزمائش ہے، اگر یہ آزمائش تھی تو پھر ایک ہی علاقے میں کیوں، اعمال کی سزا ہے تو معصوم لوگ کیوں ہلاک ہوئے؟ کیا یہ زلزلہ حضرت عیسی کی آمد کی نشانی ہے؟ تو انہوں نے مختلف علماء کو دعوت دی کہ ان کے جواب دیں تو اس فورم میں جو لوگ آئے اور جو بیان دیئے ان میں سے چند ایک میں یہاں رکھتا ہوں.سابق صوبائی وزیر مذہبی امور اوقاف زکوۃ وعشر ، ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری، ایک معروف اسلامی سکالر ہیں ، افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالیہ زلزلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عبرتناک ، بہت بڑی تنبیہ، ایک بہت بڑا سبق ہے.عوام، سیاستدان علماء و حکمران اس سے سبق سیکھیں.عوام کے لئے تو اس لئے کہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مسلمان ہو کر کلمہ پڑھ کر اپنی حرکتوں سے اسلام اور کلمہ کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے.نہ حقوق اللہ کی فکر کرتے ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کا احساس کرتے ہیں، اور جو کلمہ پڑھنے والے اور اس کو سمجھنے والے اور اس کا فہم و ادراک رکھنے والے ہیں ان کو تو انہوں نے ویسے ہی خارج کر دیا ہے.پھر آگے لکھتے ہیں کہ علماء کے لئے زلزلہ لمحہ فکریہ ہے کہ جو آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کر کے ملک کو قرآن وسنت کے نظام کا گہوارہ بنانے کی بجائے فرقہ وارانہ تعصب پھیلاتے ، ایک دوسرے کو کافرو مشرک قرار دیتے ہیں.یہاں تک کہ ان میں بعض فرقوں کے لوگ مذہبی جنون میں اس حد تک مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مخالف فرقے کے افراد کے قتل جیسے بدترین گناہ کو بھی ثواب تک ٹھہرا لیتے ہیں.حکمرانوں کے لئے یہ نا گہانی آفت عبرت ولمحہ فکر یہ ہے کہ حکمرانوں نے حصول پاکستان کا مقصد بھلا ڈالا اور انہیں عوام کی تکلیفوں کا احساس تک نہیں رہا.انہیں اقتدار کا تحفظ تو عزیز ہے مگر عوام کی جان و مال ، عزت و آبرو کا تحفظ عزیز نہیں ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 54 خطبہ جمعہ 27 / جنوری 2006 ء پھر ایک اور سکالر، شرعی عدالت کے مشیر خصوصی حافظ صلاح الدین یوسف کہتے ہیں کہ زلزلہ تازیانہ عبرت تھا ہمیں اس سے اپنی اصلاح کر لینی چاہئے.جب کفر و طغیان بڑھ جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ضرور آتی ہے.باقی یہ کہنا کہ معصوم لوگ کیوں ہلاک ہوئے تو حدیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آئے گی تو سبھی پکڑے جائیں گے، سبھی تباہ ہوں گے.صحابہ کرام نے پوچھا نیک لوگ بھی تباہ ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں نیک لوگ بھی.ان کے ہوتے ہوئے بھی عذاب آ سکتا ہے.البتہ قیامت کے دن ان کی نیتوں اور اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا.اللہ تعالیٰ مالک ہے وہ کبھی دے کر آزماتا ہے کبھی واپس لے کر آزماتا ہے، زندہ کرنا اور مارنا اس کی قدرت میں ایک نظام ہے اس تباہ کن زلزلے نے بھی جسے چاہا ہلاک کردیا اور جس کو چاہا بچا دیا.میں اس کی خوشنودی کی خواہش رکھنی چاہئے اور اس کے احکامات کی تعمیل میں لگے رہنا چاہئے.اس زلزلے کو حضرت عیسی کی آمد کی نشانی قرار نہیں دیا جا سکتا.بہر حال اتنا ہی کافی ہے کہ ہر طبقے کی بد اعمالیوں کو تسلیم کر لیا اور خود بھی ان میں شامل ہیں.حکومت میں شامل جو ہوئے.باقی یہ نشانی ہے یا نہیں یہ تو میں آگے جا کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے بتاؤں گا.پھر آگے لکھتے ہیں ہمیں اس ناگہانی آفت میں اپنے مالک کی طرف لوٹنا چاہئے اور متاثرین کی امداد میں بھی سرگرم ہونا چاہئے.اور سرگرم اگر ہے تو وہ آج بھی جماعت احمد یہ ہے ان میں سے تو اکثریت چھوڑ کر چلے گئے ہیں.پھر ان کے ایک سکالر حافظ محمد ادریس صاحب ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مال غنیمت کو ذاتی سرمایہ بنالیا جائے ، امانتوں کو مال غنیمت جان کر ہضم کر لیا جائے ، گانے بجانے والیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے ، شراب اور جو عام ہو جائے ، امانتیں نا اہل لوگوں کے سپر د کر دی جائیں، مسجدوں سے آواز میں اونچی ہونے لگیں، (یعنی ان کی مسجدوں سے ہی آواز میں اونچی ہوتی ہیں جو لڑائی جھگڑے، فساد قتل و غارت کرتے ہیں).تو لوگوں کو زلزلوں کا انتظار کرنا چاہئے.کہتے ہیں کہ یہ زلزلہ بھی ہماری کوتاہیوں اور نا فرمانیوں کی وجہ سے آیا ہے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے.اور پھر وہی کہ حضرت عیسی سے کوئی تعلق نہیں.کہتے ہیں کہ زلزلہ قدرت کی طرف سے ایک وارننگ ہے تا کہ ہم اپنے رویے تبدیل کر لیں اور اپنے مالک کی طرف رجوع کرلیں.تو اگر حقیقت میں خالص ہو کر مالک کی طرف رجوع کریں گے اور رویے تبدیل کریں گے ، ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں گے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خود بتا دے گا اور جس کا اعلان بھی ہو چکا ہے کہ "یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 55 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء پھر یہ لکھتے ہیں کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے دوری کی زندگی بن چکی ہے.تو تب بھی نہیں سمجھ رہے.باتیں تو صحیح کر رہے ہیں لیکن نتیجے غلط نکال رہے ہیں.اگر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ نہیں چمٹیں گے آنے والے مسیح کے ساتھ نہیں چمٹیں گے تو یہ دوری تو بڑھتی جائے گی کیونکہ اللہ کے رسول کے حکم کی پابندی نہیں کر رہے.پھر کہتے ہیں کہ وہ تمام علامات جو زلزلوں کی آمد کی بتائی گئی ہیں وہ آج ہمارے معاشرے میں موجود ہیں.پھر عبدالغفار روپڑی صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب تو میں نافرمانی میں حد سے بڑھ جائیں اور ظلم وفسق کی انتہا ہو جائے تو سزا ملتی ہے.پھر ایک پروفیسر عبدالرحمان صاحب لودھیانوی ہیں، کہتے ہیں کہ ارشاد باری ہے ہم ان لوگوں کو بڑے عذاب یعنی قیامت کے آنے سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں میں مبتلا کریں گے تا کہ یہ دین کی طرف لوٹ آئیں.اس فرمان الہی کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ زلزلہ ایک تنبیہ اور ایک وارننگ ہے کہ اپنے اعمال ٹھیک کر لو.عذاب اسی وقت آتا ہے جب قوم شرک و بدعت، کفر و طغیان میں بے حیائی اور خود غرضی کا شکار ہو جائے.جس مقام پر سونامی آیا وہاں بھی لوگ حدوں سے گزر چکے تھے.اس زلزلے کو قیامت کی دیگر علامات کی طرح علامت تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کو حتمی طور پر نزول عیسی کا پیش خیمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، یعنی علامت تو ہے لیکن حتمی بات نہیں ہوسکتی ، ابھی انتظار ہے.پھر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں قیامت کی بعض علامات بیان فرمائی ہیں ان کے ظہور کا مطلب یہ نہیں کہ قیامت عنقریب آنے والی ہے.ان میں سے بعض ظاہر ہو چکی ہیں ، مثلاً والدین کی نافرمانی ، بلند و بالا عمارات کی تعمیر وغیرہ.پھر کہتے ہیں کہ زلزلے کے اسباب میں حکومت کی نام نہاد روشن خیالی کی تعلیم اور عوام کی اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہے.پھر کہتے ہیں کہ زلزلے میں مبتلا ہونے کے اسباب کا اندازہ ہم بنی اسرائیل پر آنے والے عذابوں سے لگا سکتے ہیں یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق کہ جب تباہی ہوگی تو بُروں کے ساتھ سبھی ہلاک ہوں گے مگر قیامت کے روز ان کی نیتوں یا اعمال کے مطابق سلوک ہوگا.ہمیں اس زلزلے پر غور و فکر کے ساتھ ساتھ اس کے متاثرین کی امداد پر توجہ دینی چاہئے.پھر ایک شیعہ عالم ہیں حافظ کاظم رضا ، وہ کہتے ہیں کہ آج پاکستان کا ہر فرد اس زلزلے سے متاثر ہو چکا ہے یہ سانحہ مسلمانوں کے لئے تنبیہ ہے تاکہ بندے اپنے خالق کے راستے پر چل پڑیں.سب سے پہلے ہدایت کا راستہ اپنا ئیں جس مقصد کے لئے مخلوق کو خلق کیا.انسان کو انسانیت کی منزل پر فائز رکھنے کے لئے اچھے راستے کی ہدایت کی.فطرت طبع کے مطابق انسان خواہشات کی پیروی کرتا ہے.چنانچہ انسان کو سیدھی راہ پر چلانے کے لئے انبیاء وصحائف بھیجے گئے.جب بھی انسان راہ ہدایت سے ہٹنے لگا تو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 56 56 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006ء وہ تباہ ہو گیا.قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط کے قصے قرآن پاک میں موجود ہیں کہ کس کس طرح قوموں کو نیست و نابود کر دیا گیا.ظلم کرنا ہی ظلم نہیں، ظلم پر خاموشی بھی ظلم ہے.برائی کو دیکھ کر برائی سے نہ روکنا بھی جرم ہے.ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں.فتنہ فساد عام ہے.چنانچہ قدرت کی طرف سے وارننگ اور آزمائش کے طور پر زلزلے آفات وغیرہ آتی ہیں.معصوم لوگوں کی ہلاکت قدرت کی طرف سے ظلم نہیں.یہ زلزلہ انسان کے لئے تنبیہ تھا تا کہ مسلمان راہ ہدایت پر قائم رہیں.اس کے بعد پھر وہی حضرت عیسی کا ذکر اور وہی باتیں.پھر کہتے ہیں امام مہدی کے ظہور کی علامتوں میں بھی برائی کا زور وشور ہے.یعنی برائی پھیلے گی یہ بھی علامت ہے.اس لئے اس زلزلے کو بھی ان کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک قرار دے سکتے ہیں.تنبیہ اور وارنگ کے باوجود لوگوں میں برائی پھیلتی چلی گئی.تو پھر جب حد ہو جائے گی تو امام مہدی کا ظہور ہوگا.گویا ابھی حد نہیں ہوئی.پھر حافظ عبدالمنان صاحب کہتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کا نتیجہ تھا.اس میں ہلاک ہونے والے معصوم لوگوں کی وفات پر ہمیں افسوس ہے مگر ان کی ہلاکت ہمارے لئے ایک سبق ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت آ جاتا ہے تو پھر کسی کو بھی بچنے کی مہلت نہیں ملتی.ہمیں اس زلزلے کے بعد اپنے رویوں کو تبدیل کرنا چاہئے اور اپنے مالک کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.روزنامه پاکستان اشاعت خاص 14 اکتوبر 2005 ء ) اس کے علاوہ بھی بہت سارے علماء کے بیانات اس سپیشل نمبر میں آئے تھے.تو بہر حال یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ برائیاں تھیں اور ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ وارننگ دی یا عذاب آیا.لیکن اتنا ہی تسلیم کر لینا کافی نہیں ہے.مسیح و مہدی کا ظہور تو ہو چکا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو ماننے کا حکم بھی ہے دعوی کرنے والا بھی موجود ہے.خدا تعالیٰ نے زمینی اور آسمانی نشان بھی ظاہر فرما دیئے ہیں.اب بھی اگر آنکھیں بند رکھنی ہیں تو پھر اللہ ہی لوگوں کو سمجھائے گا.اور خود جو عالم بنے ہوئے ہیں، قوم کو تو یہ سمجھارہے ہیں، ان کو خود بھی تو سمجھنا چاہئے.قرآن کریم نے جو پیشگوئیاں فرمائیں وہ پوری ہو گئیں پھر چاند اور سورج نے بھی گواہی دے دی.تو اب اور مزید انتظار کے لئے رہ کیا گیا ہے.اور پھر یہیں تک نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ 1905ء سے یہ نشانات ظاہر ہورہے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں.1905ء میں کانگڑہ میں (ہندوستان میں ایک جگہ ہے ) وہاں بڑا زبر دست زلزلہ آیا تھا.قادیان تک بھی اس کا اثر آیا تھا.تو یہ جو نشانات ظاہر ہورہے ہیں یہ مسلمانوں کے لئے بھی وارننگ ہے اور غیر مسلموں کے لئے بھی وارننگ ہے.سیلابوں کے ذریعہ سے ہسمندری طوفانوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بار بار توجہ دلا رہا ہے.اس بارہ میں جو اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں.اس کے مطابق دنیا میں گزشتہ گیارہ سو سال میں جو بڑے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 57 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء بڑے زلزلے آئے ہیں ، ان کی تعداد گیارہ ہے.اور گزشتہ سو سال میں جو زلزلے آئے ہیں، بشمول 1905 ء کا کانگڑہ کا زلزلہ ( جوان اعداد میں شامل نہیں کیا گیا لیکن میں نے اس کو شامل کیا ہے انکی تعداد 13 بنتی ہے.یہ وہ زلزلے ہیں جن میں 50 ہزار یا اس سے زائد اموات ہوئیں.کانگڑہ کے زلزلے کو شامل نہیں کرتے کیونکہ وہ انکے لحاظ سے 20-25 ہزار ہیں.لیکن بعض پرانے اخباروں نے اس وقت 50-60 ہزار بھی لکھا تھا.بہر حال جو بھی اعداد تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تھا اس لئے میں نے اس کو شامل کیا ہے.کیونکہ بعض اخباروں نے اس وقت 50-60 ہزار تعداد لکھی تھی.میں نے ایک اور زاویے سے بھی دیکھا ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہی ہے اور اب جونئی صدی میں داخل ہوئے ہیں یہ بھی بڑے دعووں سے داخل ہوئے ہیں.دنیاوی ترقی کی ہی باتیں ہیں، خدا کی طرف رجوع کرنے کی باتیں نہیں ہیں.یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے اور پچھلی صدی کو جو الوداع کہا گیا ہے وہ امیر ملکوں نے بڑے شور شرابے سے ہا ہو کر کے اس کو الوداع کیا.بے تحاشار تمیں خرچ کیں، کسی کو یہ احساس نہیں ہوا کہ غریب ملکوں کو کسی طرح پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں.بڑی بڑی نشانیاں بتا دیں کروڑوں روپے خرچ کر لئے ، پاؤنڈ ز خرچ کر لئے.کروڑوں کیا بعض جگہ تو اربوں.جیسا کہ میں نے کہانئی صدی کا استقبال بھی اس طرح ہوا کہ خدا تعالیٰ کا خانہ بالکل خالی ہے.اور جو انسانی ہاتھوں سے دنیا میں بے چینی اور تباہی گزشتہ سالوں میں آئی ہے وہ اس کے علاوہ ہے.ایک جگہ کوائف ملے تھے پچھلے سوسال میں تقریباً 33 ممالک میں مختلف تباہیوں میں 9 کروڑ 50 لاکھ آدمی موت کے شکار ہوئے.1900 ء سے لے کر 2000ءتک.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ گزشتہ صدی کو بھی انہوں نے نہیں سمجھا.ساڑھے 9 کروڑ اموات کی کوئی قدر ان کے نزدیک نہیں تھی ، ان کو کسی نے نہیں دیکھا.پھر بھی ان کے لئے امن پیدا کرنے کی کوشش ، اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی کوشش نہیں کی اور اگلی صدی کے استقبال میں بھی وہ خانہ بالکل خالی رکھا.تو یہ جو زلزلے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجھوڑا ہے.قوموں کو جھنجھوڑا ہے، دنیا کو جھنجھوڑا ہے کہ ابھی بھی باز آ جاؤ.میں نے ایک جائزہ لیا تھا کہ اس نئی صدی میں جب ہم داخل ہوئے ہیں تو کیا صورت حال ہوئی ہے.تو جنوری 2001ء میں یعنی پہلے سال میں ہی انڈیا میں ایک بڑا زلزلہ آیا.تقریباً 79 ریکٹر (Rechter) سکیل پر اس کا میگنی چیوڈ (Magnitude) تھا اور اس میں تقریباً 20 ہزار سے زائد آدمی مرے.پھر 2003 ء میں ایران کا زلزلہ آیا.پھر سونامی آیا جس میں کہتے ہیں 2 لاکھ 83 ہزار موتیں ہوئیں.پھر پاکستان میں آیا ( ساری میں نہیں گن رہا) تو یہ پانچ بڑی بڑی تباہیاں نئی صدی کے پہلے پانچ سالوں میں آئی ہیں اور اندازہ ہے، ہمیں جائزہ لے رہاہوں کہ احمدیت کے سوسال پورے ہونے کے بعد 1989ء kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 58 S9 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء کے بعد بھی ان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے.اگر انسان سوچے تو یہ جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے.یہ لوگوں کو، قوموں کو یاد دلانے کے لئے ہے کہ خدا کو پہچانو، آنے والے کی آواز پر کان دھرو.ان گزشتہ 10-8 سالوں میں یا ہم کہہ سکتے ہیں احمدیت کے 100 سال پورے ہونے کے بعد سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز تقریباً ہر جگہ پہنچ چکی ہے.پھر میں نے ایک جائزہ لیا تھا کہ احمدیت کے 100 سال 1989 ء میں جو پورے ہوئے، پورے کو ائف تو نہیں ملے، مثلاً انڈیا کے ملے تھے.صرف انڈیا میں 1990 ء سے لے کر اب تک 6 بڑے زلزلے آئے ہیں جبکہ اس سے پہلے 1897 ء سے لے کر 1988 ء یہ تقریباً 1 9 سال بنتے ہیں ، 12 زلزلے آئے تھے.اور دنیا کے دوسرے ممالک اس کے علاوہ ہیں.اب یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا یہ اتفاقات ہیں یا تقدیر الہی ہے؟ یا لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لئے تنبیہ ہے؟.امریکہ میں جو سمندری طوفان قطرینہ آیا، بہت سے لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے.اس چیز کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں.ایک چرچ کے ممبر نے لکھا کہ یہ طوفان ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کی ذات حقیقت ہے.اب ایک خدا کی طرف بھی لوٹ رہے ہیں.اور ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ گناہوں کے یہی نتائج ہیں.اور بعض نے یہ بھی لکھا کہ ان گناہوں کی جگہوں پر یہ تو ایک طوفان آیا ہے بلکہ ان کے نیچے سے زلزلے بھی آسکتے ہیں، ان کے نیچے سے آتش فشاں بھی پھٹ سکتے ہیں.یہ تو سب تسلیم کرتے ہیں کہ گناہوں کی سزا ہے اور ایک خدا کی پہچان کرنی چاہئے.لیکن پھر چند دنوں بعد بھول جاتے ہیں کہ خدا کوئی چیز ہے بھی یا نہیں خدا سب طاقتوں کا مالک ہے بھی یا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اسی طرح آپ کا مسیح بھی تمام دنیا کے لئے آیا ہے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے.اس لئے یہ طوفان، یہ زلزلے، یہ سیلاب، صرف ایک علاقے کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا پر پھیلے ہوئے ہیں.ہر قوم کو، ہر ملک کو یہ وارننگ دی جا رہی ہے تو اس لحاظ سے ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ ان آفات سے نجات کا اب صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ خدا کو پہچانو اور ظلم اور نا انصافیوں کو ختم کرو.پاکستان کے دو کالم نگار لکھتے ہیں، ایک نے نوائے وقت میں 1992ء میں لکھا تھا، پرانا حوالہ ہے کہ ”ہمارے عقیدہ کے مطابق مختلف ادوار میں مختلف قوموں اور قبیلوں پر ان کی سرکشی اور گمراہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا.یہ عذاب زلزلے کی صورت میں ہو یا سیلاب یا طوفان کی شکل میں یا پھر پلیگ (Plague) یا جنگ کے انداز میں.عذاب بہر حال عذاب ہوتا ہے.پیغمبروں کا براہ راست اللہ تعالیٰ سے رابطہ اور واسطہ تھا.وہ لوگوں کو خوشخبریاں بھی سناتے تھے اور آنے والے عذاب سے بھی ڈراتے تھے.کچھ لوگ راہ ہدایت اختیار کر کے دنیوی اور اخروی عذاب سے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 59 خطبہ جمعہ 27 / جنوری 2006 ء بچ جاتے تھے اور نافرمان اور سرکش لوگ زمین کے پیٹ کی آگ کا ایندھن بن جاتے تھے“.اثر چوہان.روزنامہ نوائے وقت 16 ستمبر 1992 ء ص 4) پھر ایک لکھنے والے اثر چوہان صاحب ہیں، پھر ایک مجیب الرحمن شامی صاحب ہیں.کالم لکھتے ہیں گو کہ ہمارے خلاف بھی لکھتے ہیں، بہر حال انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پورا ملک سیلاب کی لپیٹ میں ہے پانی ہے کہ بستیوں کو ویران کرتا چلا جا رہا ہے.( یہ بھی 1992ء کا ہی ہے پرانا لکھا ہوا ہے لیکن اس سے ذرا صورت واضح ہوتی ہے ) آزاد کشمیر اور پنجاب میں قیامت کا سماں ہے.ہزاروں دیہات ڈوب چکے ہیں.لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہو چکی ہے.ہزاروں مکانات کھنڈر بن گئے ہیں.جانی نقصان بھی ہزاروں میں ہے ہلکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے.یہ سب تباہی پانی کی پیدا کردہ ہے اس کا سبب پانی ہے.پھر کہتے ہیں کہ پیدا کرنے والا اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوا.اس نے ریٹائر منٹ نہیں لی.اس نے آنکھیں بند نہیں کیں.اسے اونگھ نہیں آتی.بے خبری کی چادر اس نے نہیں اوڑھی.اس نے تو صرف یہ کیا ہے کہ وقت کی چند مٹھیاں چند انسانوں کو دے ڈالی ہیں.ان کو عمل کی مہلت دے دی ہے اور دیکھ رہا ہے کہ وہ اس مہلت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں.ایک باغی کے طور پر یا ایک فرمانبردار کے انداز میں.ایک خلیفہ کے طریقے سے یا ایک مطلق العنان بادشاہ کے لہجے میں.دیکھنے والا دیکھتا ہے، دیکھ رہا ہے کہ اس کے پانی ، اس کی ہواؤں، اس کی روشنی اور اس کی زمین کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے.اللہ کی نعمتوں کو ذاتی جائیداد بنا کر جھگڑا کرنے والے اس کے پیغام کو اس کی ہدایت کو جھٹلاتے ہیں.اس کی طرف بلانے والے کو جھوٹا قرار دیتے ہیں (ذرا غور کریں ) اس کے راستے پر چلنے کو ناممکن اور محال بتاتے ہیں.اس زمانے میں بلانے والا کون ہے اور اپنے آپ کو ان بے لگام خواہشات کو اپنا رب بناتے ہیں تو پھر آواز گونجتی ہے کہ انہوں نے ہمارے بندہ کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور وہ بری طرح جھڑ کا گیا آخر کار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہو چکا اب تو ان سے انتقام لے.تب ہم نے موسلا دھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا.اور یہ سارا پانی اس کام یعنی تباہی کو پورا کرنے کے لئے مل گیا ، جو مقدر ہو چکا تھا.(یہ قرآن شریف کی سورۃ القمر کی آیت کا حوالہ ہے) کہتے ہیں کہ یہ پانی جو ہماری زمینوں پر مل رہا ہے، زمین کے اوپر رہنے والے لاکھوں افرادزمین کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، یہ کوئی پیغام دے رہا ہے، کچھ کہہ رہا ہے، کسی کی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے.( روزنانہ جنگ 16 ستمبر 1992 ء صفحہ 4 لیکن ان کو خود احساس نہیں ہورہا.تو یہ بھی ایک آسمانی آفت کی نشان دہی کر رہے ہیں.اس کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 60 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء بارے میں بتا رہے ہیں ، بڑی اچھی بات کی جیسا کہ آیت انہوں نے لکھی ہے، کوٹ (quote) کی ہے.تو اس زمانے میں ہمیں تو ایک شخص ہی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہو گیا میری مدد کر اور اللہ تعالیٰ نے مدد کے وعدے کئے.اور پھر دیکھیں خدا تعالیٰ کی قہری تجلی ، 1905 ء سے ظاہر ہونی شروع ہوئی ہے.تو یہ کالم لکھنے والے بھی اور یہ کالم پڑھنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر نظر رکھیں جس کو انہوں نے Quote کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سب مسلمان کہلانے والے ہیں.اس بات کو جانتے ہیں علم رکھنے والے بھی ہیں، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ فَاعْتَبِرُوْا يَا اُولِى الابصار کہ پس اے سمجھ بوجھ رکھنے والو! عبرت حاصل کرو.تو اللہ کرے کہ اس بات کو یہ لوگ سمجھنے والے بھی بن جائیں.اس آنے والے نے تو دنیا کو سمجھایا اور آج بھی اس کی جماعت اللہ کے فضل سے دنیا میں پیغام پہنچا رہی ہے کہ ظالموں اور نا انصافیوں کو بند کرو، لہو و لعب میں پڑنے کی بجائے اپنے خدا کو پہچانو کیونکہ اللہ نے تو واضح فرما دیا ہے کہ فساد پھیلانے والے سرکش ہیں اور انہیں سزا ملتی ہے اور ملے گی.پہلے بھی ملتی رہی ہے.اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا بند کرو ورنہ پہلوں کا انجام بھی تمہارے سامنے ہے.اپنے ماپ تول صحیح کرو، ایک دوسرے سے حیح سلوک کرو ، تعلقات کو ٹھیک کرو، دنیا کے امن کو برباد نہ کرو.اگر تم اپنے پیدا کرنے والے کو نہیں پہچانو گے اور زمین میں ظلم اور فساد بند نہیں کرو گے تو پھر یہ آفات سامنے ہیں ، نظر آ رہی ہیں اور آتی رہی ہیں.اللہ تعالیٰ تو یونہی بستیاں تباہ نہیں کرتا.یہ آیت جو میں نے پہلے پڑھی تھی اس میں تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے خود بھی اس بات کا بہت سارے مسلمان علماء ذکر کر چکے ہیں.آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اور تیرا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو از راہ ظلم ہلاک کر دے جبکہ ان کے رہنے والے اصلاح کر رہے ہوں.پس خاص طور پر مسلمانوں کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جس نبی کے ماننے کا دعوی ہے کیا اس کی تعلیم اور سنت پر عمل کر رہے ہیں؟.یہ علماء بھی جو اخباروں میں قوم کو توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ ظلم و فساد پیدا نہ کرو خود اپنے گریبان میں بھی جھانکیں.کہیں ان کے قول و فعل میں تضاد تو نہیں.بلکہ تضاد ہے، دنیا کو نظر آتا ہے اگر تضاد نہ ہوتا تو امام وقت کو ان کو ماننے کی توفیق ملتی.اور ایسے ہی علماء جن کو ماننے کی توفیق نہیں مل رہی اور جو فساد پیدا کرتے ہیں ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانے آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.الفاظ کے سوا قر آن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اس زمانے کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی.ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے.ان میں سے ہی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 61 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے.الفاظ یہ ہیں کہ عُلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُودُ.(کنزالعمال،جلد اول، كتاب الفتن قسم الاول ص 20 حدیث نمبر 31133دار لكتب العلميه بيروت بدترین مخلوق ہوں گے اور ان میں سے بھی فتنے اٹھیں گے.اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے.یعنی تمام خرابیوں کے یہی سر چشمے ہوں گے.تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے کہ اپنے علماء کو بھی دیکھیں، ان کے قول و فعل کو دیکھیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی بہت سارے لکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ معصوم جانیں کیوں ضائع ہوتی ہیں.کچھ تو آپ نے سن لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : مکہ میں جب قحط پڑا تو اس میں بھی اوّل غریب لوگ ہی مرے.لوگوں نے اعتراض کیا کہ ابو جہل جو اس قدر مخالف ہے وہ کیوں نہیں مرا.فرمایا: ” حالانکہ اس نے تو جنگ بدر میں مرنا تھا“.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت رکھا ہوا تھا کس طرح اس نے مرنا ہے تا کہ لوگوں کے لئے نشان بنے.فرماتے ہیں کہ : ” یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلاء ہوا کرتا ہے.اور یہ اس کی عادت ہے اور پھر اس کے علاوہ یہ اس کی مخلوق ہے.اس کو ہر ایک نیک اور بد کا علم ہے.سزا ہمیشہ مجرم کے واسطے ہوا کرتی ہے.غیر مجرم کے واسطے نہیں ہوتی.بعض نیک بھی اس سے مرتے ہیں.مگر وہ شہید ہوتے ہیں اور ان کو بشارت ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ سب کی نوبت آ جاتی ہے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 650 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک سوال ہوا کہ سان فرانسسکو میں جو زلزلہ آیا ہے، یہ بھی آپ کا نشان ہے.آپ کی باتوں سے لگتا ہے تو اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ میں نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ تمام زلزلے جو سان فرانسسکو وغیرہ مقامات میں آئے ہیں یہ محض میری تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں.کیونکہ اس زمانے میں بعض جگہوں پر پیغام تو نہیں پہنچا ہو گا.فرمایا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ میری تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں، کسی اور امر کا اس میں دخل نہیں.ہاں میں کہتا ہوں کہ میری تکذیب ان زلزلوں کے ظہور کا باعث ہوئی ہے.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام نبی اس بات پر متفق ہیں کہ عادت اللہ ہمیشہ سے اس طرح پر جاری ہے کہ جب دنیا ہر ایک قسم کے گناہ کرتی ہے اور بہت سے گناہ ان کے جمع ہو جاتے ہیں.تب اس زمانے میں خدا اپنی طرف سے کسی کو مبعوث فرماتا ہے اور کوئی حصہ دنیا کا اس کی تکذیب کرتا ہے تب اس کا مبعوث ہونا دوسرے شریر لوگوں کو سزا دینے کے لئے بھی جو پہلے مجرم ہو چکے ہیں ایک محرک ہو جاتا ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 62 b خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء اور جو شخص اپنے گزشتہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اس کے لئے اس بات کا علم ضروری نہیں کہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نبی یا رسول بھی موجود ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل : 16)‘ کہ ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک ان کی طرف کوئی رسول نہ بھیج دیں.تو یہ علماء جو بحث کر رہے ہیں کہ عذاب تو آیا ہے لیکن یہ کہنا کہ حضرت عیسی کی آمد سے اس کا کوئی تعلق ہے یہ غلط ہے.ایک حصے کو تو تسلیم کر رہے ہیں، دلیل تو قرآن و حدیث سے بڑی اچھی دے رہے ہیں لیکن قرآن کریم کی انگلی بات کو مانے کو تیار نہیں.وہاں ان کی روٹی پر اثر پڑتا ہے.تو فرمایا کہ اس سے زیادہ میرا مطلب نہ تھا کہ ان زلزلوں کا موجب میری تکذیب ہو سکتی ہے.یہی قدیم سنت اللہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا سو سان فرانسسکو وغیرہ مقامات کے رہنے والے جو زلزلہ اور دوسری آفات سے ہلاک ہو گئے ہیں.اگر چہ اصل سبب ان پر عذاب نازل ہونے کا ان کے گزشتہ گناہ تھے مگر یہ زلزلے ان کو ہلاک کرنے والے میری سچائی کا ایک نشان تھے کیونکہ قدیم سنت اللہ کے موافق شریر لوگ کسی رسول کے آنے کے وقت ہلاک کئے جاتے ہیں.اور نیز اس وجہ سے کہ میں نے براہین احمدیہ اور بہت سی کتابوں میں یہ خبر دی تھی کہ میرے زمانہ میں دنیا میں بہت سے غیر معمولی زلزلے آئیں گئے اور وہ اعداد جو میں نے دیئے ہیں اس سے ثابت ہو گیا اور دوسری آفات بھی آئیں گی اور ایک دنیا ان سے ہلاک ہو جائے گی.پس اس میں کیا شک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دنیا میں زلزلوں اور دوسری آفات کا سلسلہ شروع ہو جانا میری سچائی کے لئے ایک نشان ہے.یادر ہے کہ خدا کے رسول کی خواہ کسی حصہ زمین میں تکذیب ہو مگر اس تکذیب کے وقت دوسرے مجرم بھی پکڑے جاتے ہیں جو اور ملکوں کے رہنے والے ہیں جن کو اس رسول کی خبر بھی نہیں“.تو اب تو خبر بھی دنیا میں ہر جگہ پہنچ چکی ہے عموماً.جیسا کہ نوح کے وقت میں ہوا کہ ایک قوم کی تکذیب سے دنیا پر عذاب آیا بلکہ پرند چرند و غیرہ بھی اس عذاب سے باہر نہ رہے.غرض عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کسی صادق کی حد سے زیادہ تکذیب کی جائے یا اس کو ستایا جائے تو دنیا میں طرح طرح کی بلائیں آتی ہیں.خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں یہی بیان فرماتی ہیں اور قرآن شریف بھی یہی فرماتا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ سنت اللہ اسی طرح پہ جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں.پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر پر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے.اس لئے باہر کوئی نہیں رہے گا.فرمایا کہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے آنا نَاتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا﴾ (الرعد :42) یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں.اس میرے بیان میں ان بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آ گیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 63 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006 ء نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے.اور کانگڑہ اور بھا گسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلے سے ہلاک ہو گئے.ان کا کیا قصور تھا، انہوں نے کونسی تکذیب کی تھی.سو یا در ہے کہ جب خدا کے کسی مرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہومگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے اور آسمان سے عام طور پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل شریر پیچھے سے پکڑے جاتے ہیں جو اصل مبدء فساد ہوتے ہیں.جیسا کہ ان قہری نشانوں سے جو موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے ، فرعون کا کچھ نقصان نہ ہوا.صرف غریب مارے گئے.یعنی و نشان تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے.لیکن آخر کا رخدا نے فرعون کو مع اس کے لشکر کو ختم کر دیا.یہ سنت اللہ ہے جس سے کوئی واقف کارا نکار نہیں کر سکتا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 167-164 پس یہ جو علماء کہتے ہیں کہ عذاب تو ہے لیکن مسیح کی آمد سے اس کا تعلق نہیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا قرآن کریم تو ان کی بات کو رد کرتا ہے.قیامت کے روز قوم اللہ تعالیٰ سے سوال کرے گی کہ بگڑنے کی پیشگوئیاں تو پوری ہو گئیں اور ہم انتظار میں رہے کہ مسیح و مہدی آئیں، یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور ہمارے علماء بھی انتظار کرواتے رہے اور بغیر مسیح و مہدی کو بھیجے تو نے ہم پر عذاب بھیج دیا.یہ بھی تو سوال اٹھنا چاہئے.پس قوم کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے اور اگر علماء کی نیت نیک ہے تو ان کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے.پس اب چاہے مسلمان ممالک ہوں یا ایشیا کا کوئی ملک ہو یا افریقہ ہو یا جزائر ہوں یا یورپ ہے یا امریکہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دعوے کے بعد اگر اپنی حالتوں کو نہیں بدلیں گے تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما چکے ہیں کہ : ”اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا ! تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنے چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 269) پس جہاں یہ دنیا کے لئے انذار ہے ہمارے لئے بھی فکر کا مقام ہے کہ اپنے دلوں کو پاک کریں ہم بھی کہیں ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ان لوگوں میں شامل ہو کر خدا کے حضور حاضر نہ ہوں جن کے دامن پر کسی بھی قسم کا داغ ہو.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ خدا کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 64 خطبہ جمعہ 27 /جنوری 2006ء پیغام کولوگوں تک پہنچائیں.اگر اب بھی ہم نے ہر ایک تک پیغام پہنچانے کی کوشش نہ کی تو علماء یا دوسرے لوگ تو پرے ہٹ رہے ہیں یا علماء بگاڑ رہے ہیں یا لیڈر بگاڑ رہے ہیں.انسانیت کے ساتھ ان کو کوئی ہمدردی نہیں لیکن ہمارا بھی جو انسانیت کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا دعویٰ ہے یہ صرف زبانی دعوئی ہوگا.پس دنیا کے ہر کونے میں، ہر احمدی کو، ہر شخص تک، ہر بگڑے ہوئے تک، یہ پیغام پہنچانا چاہئے کہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھکے اور اس کے حکموں پر عمل کرے.اللہ سب کو اس کی توفیق دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پڑھتا ہوں.آپ کہتے ہیں کہ : اخبار میں چھاپ دو اور سب کو اطلاع کر دو کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں.اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایا ہے کہ غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِيدًا.آجکل طاعون بہت بڑھتا جاتا ہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے.میں اپنی جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے.مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الہی نازل ہوتا ہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا.دیکھو حضرت نوح کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد عورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوح کا دعوئی اور ان کے دلائل کیا ہیں.جہاد میں جو فتوحات ہوئیں یہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں.لیکن ہر ایک میں کفار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے.کافر جہنم کو گیا اور مسلمان شہید کہلایا.ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں.ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا میں بہت مصروف ہیں کہ وہ اُن میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے.لیکن جماعت کے آدمیوں کو یا درکھنا چاہئے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے.سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو، اپنے نفس کو جذبات سے پاک رکھو.اس کے بعد حقوق عباد کو ادا کرو اور اعمال صالحہ کو پورا کرو.خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کر دعا نہ کی ہو.اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 194-195 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے حصہ پاتے ہوئے آپ کی دعاؤں کے طفیل ہم بھی اور ہماری آئندہ نسلوں میں بھی وہ تمیز قائم رہے جس سے ہمارے اور غیر میں فرق ظاہر ہوتار ہے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء 5 65 خطبات مسرور جلد چهارم مسیح و مہدی کی بعثت کا یہی زمانہ تھا قرآن وحدیث اور بزرگان امت کے اقوال اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے تائید و نصرت کے اور دیگر انذاری نشانات کے حوالے سے فرمودہ مورخہ 03 فروری 2006ء (03 تبلیغ 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا.وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل : 16) گزشتہ جمعہ کو میں نے زلزلوں، تباہیوں اور آفتوں کے حوالے سے بات کی تھی اور بتایا تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں جو زلزلہ آیا اس پر لوگوں نے بہت سارے سوال اٹھائے اور اس ضمن میں بعض سوال ایک اخبار نے علماء کے سامنے رکھے.ان سوالوں کے جواب میں تقریباً تمام علماء نے ، جیسا کہ آپ نے سنا تھا، یہ تو تسلیم کیا کہ جو آفات آرہی ہیں یہ گناہوں کی زیادتی اور خدا تعالیٰ کے حکموں سے دور ہٹنے کی وجہ سے ہیں اور سزا ہیں یا عذاب ہیں.لیکن ساتھ ہی یہ بھی انہوں نے کہا کہ اس کا حضرت عیسی کی آمد سے کوئی تعلق نہیں ہے.کیونکہ سوال کرنے والے نے یہ بھی سوال کیا تھا.اور علما ء اس کے لئے اب عام طور پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت عیسی کا دوبارہ آنا تو قرب قیامت کے وقت ہے اور ابھی تو اس kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 66 66 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء طرف سفر شروع ہوا ہے.کوئی کچھ عرصہ بتاتا ہے اور کوئی کچھ.اور ایک عالم نے تو بڑے معین کر کےسات سو کچھ سال کا عرصہ بتایا ہے کہ ابھی وقت ہے عیسی کے آنے میں.منہ سے ہی کہنا ہے نا، کونسی کسی نے ان کی باتوں پر تحقیق کرنی ہے.پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ گو مسیح و مہدی نے چودہویں صدی میں آتا ہے لیکن ابھی نہیں آیا اور ابھی چودہویں صدی ختم نہیں ہوئی ، بڑا عرصہ پڑا ہے اس کے ختم ہونے میں.پھر چودہویں صدی بھی ختم ہو گئی.بعض جاہل مولویوں نے تو (ویسے تو سارے ہی جاہل ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ نے تو نے موعود و السلام کو نہیں مانا ) کہا کہ چودہویں صدی بھی ہو گئی ہے ابھی ختم ہی نہیں ہورہی.پھر شاید کسی نے سمجھایا کہ یہ کیا جہالت کی باتیں کرتے ہو.پھر کچھ نام نہاد پروفیسروں اور ڈاکٹر علماء کو بھی اپنی علمیت کے اظہار کرنے کا موقع ملا ، لوگوں کو اکٹھا کرنے کا موقع ملا.تو انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ مسیح و مہدی کی آمد تو قرب قیامت کی نشانی ہے اس لئے ابھی وقت نہیں آیا جیسا کہ میں نے ابھی بتایا.اور بعض عرب علماء نے اپنے پہلے نظریہ کے خلاف یہ تو تسلیم کر لیا اور یہ بات مان لی کہ حضرت عیسی کی وفات ہو چکی ہے اور ساتھ یہ بھی کہنے لگ گئے کہ مسیح کی آمد ثانی کی جو احادیث ہیں وہ ساری غلط ہیں ، اب کسی نے نہیں آنا.اور یہ کہ ہم جو علماء نہیں یا بعض ملکوں میں علماء کے ادارے ہیں دین کی تجدید کرنے کے لئے یہی کافی ہیں.بہر حال اس کو غلط ثابت کرنے کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن ہٹ دھرمی ہے.اور پھر انہوں نے جماعت کے خلاف جھوٹے فتووں کی بھر مار کر دی.بعض فتوے دینے والوں نے تو ہماری طرف ایسی باتیں منسوب کیں، ایسی تعلیم منسوب کی جس کا ہماری تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے، کوئی تعلق ہی نہیں ہے.اور یہ فتوے صرف مسلمانوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت اور فساد پھیلانے کے لئے جاری کئے گئے ہیں.اور ان باتوں پہ جو ہماری طرف منسوب کی گئی ہیں ان پر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں صرف اتناہی کہتے ہیں بلکہ یہ دعا ہے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ وَالْفَاسِقِيْن.اور ان فتوے دینے والوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر د کرتے ہیں.ابھی پچھلے دنوں دو نئے فتوے بھی جاری ہوئے ہیں لیکن عام مسلمانوں سے ہمارے دل میں جو ہمدردی ہے اور جو پیغام ان تک پہنچانا ہمارے سپرد ہے یا جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں مسیح و مہدی کی بعثت کے بارے میں کچھ کہوں گا کہ آیا آنے کا یہ وقت اور زمانہ ہے یا نہیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ایک وقت تک تمام علماء اس بات پر متفق تھے کہ مسیح و مہدی کا ظہور چودہویں صدی میں ہوگا یا اس کے قریب ہوگا اور تمام پرانے ائمہ اور اولیاء اور علماء اس بات کی خبر دیتے آئے کہ یہ زمانہ جو آنے والا ہے مسیح و مہدی کے ظہور کا ہوگا اور جو اس زمانے کے لوگ تھے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانے کے یا قریب زمانے کے وہ تو مسلمانوں کے حالات دیکھ کر اس یقین پر قائم تھے کہ عنقریب مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا.اس زمانے میں جن لوگوں کو دین کا در د تھا خدا سے دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالی اسلام کی اس ڈوبتی کشتی کو سنبھال لے.بہر حال ان خبر دینے والوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے قبل کے حالات پیش کرنے والوں کے حوالے kh5-030425
67 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم میں پیش کرتا ہوں جو کہ جماعت احمد یہ سو سال سے زائد عرصے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے پیش کر رہی ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی یہ باتیں پیش کی ہیں، سامنے رکھی ہیں.لیکن کیونکہ اب پھر لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں اس لئے میں دوبارہ اس کا ذکر کر رہا ہوں اور ہمیں تو کرتے بھی رہنا چاہئے ، پیغام پہنچانے کے لئے ضروری بھی ہے تا کہ جماعت میں بھی پیغام پہنچانے کی طرف تیزی پیدا ہو، اور لوگوں پر بھی واضح ہو، کیونکہ اب خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسے ذرائع میسر فرما دیئے ہیں جس کے ذریعہ سے غیروں کی بہت بڑی تعداد کسی نہ کسی طریقے سے پیغام سن لیتی ہے.تو بہر حال پہلا حوالہ ہے حضرت نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کا.وہ چھٹی صدی ہجری کے صاحب کرامات بزرگ ہیں، ایک فارسی قصیدے میں فرماتے ہیں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ بارہ سو سال گزرنے کے بعد عجیب نشان ظاہر ہوں گے اور مہدی اور مسیح ظاہر ہوں گے.( اربعین فی احوال المهد بین قصیده فارسی صفحہ 2 تا 4.محمد اسماعیل شہید ) پھر ” حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جن کی وفات 1176 ہجری میں ہوئی فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدی ظاہر ہونے کو ہے.پھر کہتے ہیں کہ اسی طرح یہ بات ان کی کتاب تفہیمات الہیہ میں چھپی ہوئی ہے ) آپ نے امام مہدی کی تاریخ ظہور لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جس کے حروف ابجد 1268 بنتے ہیں.(حج الكرامہ صفحہ نمبر 394) پھر نواب صدیق حسن خان صاحب کے بیٹے نواب نور الحسن خان ، گوماننے والے تو نہیں لیکن انہوں نے بھی حضرت امام جعفر صادق سے مروی یہ بات کی ہے کہ امام مہدی سن 200 میں نکل کھڑے ہوں گے یعنی بعد 1000 ہجری کے بارہویں صدی میں.پھر خود ہی کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اس حساب سے مہدی کا ظہور شروع تیرہویں صدی پر ہونا چاہئے تھا.مگر یہ صدی پوری گزرگئی مہدی نہ آئے.اب چودہویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ مہینے گزرچکے ہیں.شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل رحم و کرم فرمائے“.( اقتراب الساعۃ صفحہ 221 ) دعا تو یہ کرتے ہیں لیکن مانتے نہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نواب صدیق الحسن خان نے لکھا ہے کہ نزول میسیج میں کوئی شخص چودہویں صدی سے آگے نہیں بڑھتا.یعنی جو تمام باتیں اور خبریں اور مکاشفات اور اخبار ہیں وہ تمام چودہویں صدی تک کی خبر دیتی ہیں.فرمایا کہ ترقی قمر بھی تک ہی معلوم ہوتی ہے جیسے قرآن شریف میں ہے ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيمِ﴾ (يس: 40) البد رجلد 1 نمبر 5 ، 6 مورخہ 26 /نومبر) kh5-030425
68 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم پھر ایک مولا نا ہیں سیدا بوالحسن علی ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء.یہ ماننے والوں میں سے تو نہیں ہیں بلکہ ہمارے خلاف ہی ہیں لیکن حالات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : " مسلمانوں پر عام طور پر یاس و ناامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا.1857ء کی جدوجہد کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور کسی مہم اور مؤید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی.کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرہویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے.مجلسوں میں زمانہ آخر کے فتنوں اور واقعات کا چرچا تھا.( قادیانیت صفحه 17 از مولانا سیدابوالحسن علی ندوی - مکتبہ دینیات 134 شاہ عالم مارکیٹ لاہور مطبع اول 1959) تو یہ بات ثابت کر دی ہے، اپنی باتوں سے کہہ گئے اور لوگ بھی مانتے تھے کہ مسیح موعود کا زمانہ ہے لیکن جب دعوی ہوا ماننے کو تیار نہیں تھے.پھر یہ لکھتے ہیں کہ : ” عالم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا.اس کے چہرے کا سب سے بڑا داغ وہ شرک جلی تھا جو اس کے گوشے گوشے میں پایا جاتا تھا.قبریں اور تعزیے بے محابا بج رہے تھے، غیر اللہ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی تھی.بدعات کا گھر گھر چرچا تھا.خرافات اور توہمات کا دور دورہ تھا.یہ صورتحال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرے کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے.جو پوری وضاحت اور جرات کے ساتھ تو حید وسنت کی دعوت دے اور اپنی پوری قوت کے ساتھ الا لِلَّهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ کا نعرہ بلند کرے.( قادیانیت صفحہ 218 از مولانا سیدابوالحسن علی ندوی - مکتبہ دینیات 134 شاہ عالم مارکیٹ لاہور طبع اول 1959) یہ سب کچھ ہورہا تھا اور اس زمانے میں ساروں نے تسلیم کیا اور اب بھی اس قسم کی باتوں کو سارے تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں مسیح کی ضرورت نہیں اور یہ کہ مہدی یا مسیح کا ابھی وقت نہیں آیا.یعنی جس دین کو خدا تعالیٰ نے آخری اور مکمل دین بنا کر بھیجا تھا اس کی انتہائی کسمپرسی کی حالت تھی لیکن خدا تعالیٰ کو اس کی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے دین کے ساتھ کیا ہورہا ہے.اپنے وعدوں کے خلاف نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ چل رہا تھا اور جس مسیح و مہدی کو اپنے وعدوں کے مطابق اس نے مبعوث کرنا تھاوہ نہیں کر رہا تھا.حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کی علامات کا ظہور 200 سال کے بعد ہوگا.(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الایات حدیث : 4057) ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کا یہ معنی بھی ہے کہ ہزار سال kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 69 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء کے بعد دوسوسال.یعنی 1200 سال گزرنے کے بعد علامات مکمل طور پر ظاہر ہوں گے اور وہی زمانہ مہدی کے ظہور کا زمانہ ہے.( مرقاة المفاتيح شرح مشكواة المصابيح كتاب الفتن باب اشراط الساعة الفصل الثالث روایت نمبر: 5460) تو یہ تو ان ساری باتوں سے ثابت ہو گیا کہ ظہور کا زمانہ وہی تھا جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں نہ کہ وہ جس کی آجکل کے علماء تشریح کرتے ہیں کہ ابھی اتنے سو سال پڑے ہیں یا اتنے سو سال پڑے ہیں.ان باتوں سے جو میں نے مختلف ائمہ کی پڑھی ہیں اور شاہ ولی اللہ کا اقتباس، اس سے ہم نے دیکھ لیا کہ ان سب نے مسیح و مہدی کے آنے کا وقت 12 ویں صدی کے بعد کا کوئی زمانہ بتایا ہے.یہ نہیں کہا کہ 19 ویں صدی میں یا 20 ویں صدی میں یا فلاں وقت میں آنا ہے.ہر جگہ 12 ویں صدی کا ذکر ہے.اور جب 12 ویں صدی کا ذکر ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ کم و بیش اسی زمانے میں مبعوث ہونا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو 12 ویں صدی کے مجدد تھے انہوں نے تو اور بھی معین کر دیا ہے یعنی 1268.اور یہ کم و بیش وہی زمانہ بنتا ہے جس زمانے میں مسیح موعود کے ظہور کی توقع کی جارہی تھی.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ( الجمعة :4) کے حوالے سے ایک اور نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے اعداد 1275 بنتے ہیں یعنی جس شخص نے آخرین کو پہلوں سے ملانا ہے یا ملانا تھا اُس کو اسی زمانے میں ہونا چاہئے تھا جس کے بارے میں سب توقع کر رہے تھے اور جس کی ضرورت بھی تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہی وہ سال بنتے ہیں جب میں روحانی لحاظ سے اپنی بلوغت کی عمرکو تھا اور اللہ تعالیٰ مجھے تیار کر رہا تھا.پس یہ ساری باتیں اتفاقی نہیں ہیں.ان علماء کو اگر وہ حقیقت میں علماء ہیں غور کرنا چاہئے سوچنا ہئے کہ یہ پرانے بزرگوں کی بتائی ہوئی خبریں ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں قرآن کریم نے بھی مسیح کے آنے کی کچھ نشانیاں بتائی ہیں.ان پر غور کریں اور یہ کہ کر عوام کو گمراہ نہ کریں کہ ان ساری باتوں کا، ان آفات کا مسیح کی آمد سے کوئی تعلق نہیں ہے.مسیح کی آمد کے زمانے کے تعین کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن و حدیث سے جو ثابت کیا ہے وہ بات میں بتاتا ہوں لیکن اس سے پہلے ایک حدیث بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے پتہ چلے گا کہ آجکل کے علماء جس قسم کے جواب دے رہے ہیں ان سے یہی توقع کی جاسکتی ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے یکدم نہیں چھینے گا بلکہ عالموں کی وفات کے ذریعے علم ختم ہوگا جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ انتہائی جاہل اشخاص کو اپنا سردار بنالیں گے.اور ان سے جا کر مسائل پوچھیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 70 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے.پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے.(بخارى كتاب العلم باب كيف يقبض العلم حدیث نمبر : (100) اس حدیث سے علماء وقت جنہوں نے ابھی تک مسلمانوں کو غلط رہنمائی کر کے مسیح و مہدی کی تلاش سے دور رکھا ہوا ہے، اس کو پہچاننے سے دُور رکھا ہوا ہے یا جو دُور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کا حال تو حدیث میں ظاہر ہو گیا.لیکن ان کے اس حال کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے.پس یہ حال ان علماء کا دیکھ کر ہمیں خاموش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ کوشش کر کے ہر مسلمان کو ان کا یہ حال بتانا چاہئے کہ انہوں نے تو اللہ و رسول کی بات نہ مان کر اس انجام کو پہنچنا ہے جہاں اللہ کی ناراضگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے.لیکن اے مسلمانو! اگر تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، دنیا، دین اور آخرت بچانا چاہتے ہو تو اس وقت اس زمانے کے حالات پر غور کرو اور تلاش کرو کہ یہ زمانہ کہیں مسیح موعود کا زمانہ تو نہیں ہے اور مسلمانوں کی یہ بے چارگی کی حالت اور یہ آفات وغیرہ بے وجہ کی دلوں کی سختی کا نتیجہ تو نہیں ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا اس زمانے میں مسیح موعود کی آمد کے بارے میں حدیث میں اور قرآن میں نشانیاں بھی ملتی ہیں چند ایک کا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے ذکر کروں گا.یہ تو ہم نے دیکھ لیا کہ بعد کے علماء نے بھی اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب کے زمانے کے تھے، انہوں نے بھی ، سب نے یہ تسلیم کر لیا کہ اسلام کی اور مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہے.لیکن ہم سے وعدہ تو جیسا کہ میں نے کہا، یہ تھا کہ ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھیجے گا جو ایمان کو واپس لے کر آئے گا.اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا.لیکن بہر حال یہ جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نہیں آ رہا.جب یہ آیت اتری که وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّايَلْحَقُوْا بِهِم (الجمعة : 5) تو سوال کرنے والے کے سوال پر کہ یہ آخرین کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان میں سے ایک شخص اس کو واپس لائے گا.(بخارى كتاب التفسير تفسير سورة جمعه زیر آیت و اخرين منهم.حدیث : 4897) اب ایمان ثریا پر جانے کی باتیں تو یہ لوگ کرتے ہیں.لیکن پھر یہ کہتے ہیں کہ ابھی مسیح موعود کا زمانہ نہیں آیا.اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس بات پر ہی بات ختم نہیں کر دی بلکہ اور نشانیاں بھی بتائی ہیں جن سے آخری زمانے اور دجالی زمانے کا پتہ چلتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس بات کے ثبوت کے لئے یہ دراصل آخری زمانہ ہے.جس میں مسیح ظاہر ہونا چاہئے دو طور کے دلائل موجود ہیں ، اول وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبو یہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے ہیں.جیسا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پورے ہونے کے چند گھنٹے بعد قیامت آجائے گی مطلب یہ کہ زمانہ اس طرف چل رہا ہے.فرمایا کہ جیسا kh5-030425
71 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم کہ اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا جس کی تشریح آیت ﴿وَإِذَ الْعِشَارُ عُطَّلَتْ (النور: 5) سے ظاہر ہے یعنی جب 10 ماہ کی گا بھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی.فرمایا کہ دجالی زمانے کی علامات میں جبکہ ارضی علوم وفنون زمین سے نکالے جائیں گے.بعض ایجادات اور صنعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے.وہ ہے اس وقت اونٹنی بریکار ہو جائے گی اور اس کی کچھ قدر و منزلت نہیں رہے گی.عیشاد حمل دار اونٹنی کو کہتے ہیں جو عربوں کی نگاہ میں بہت عزیز ہے اور ظاہر ہے قیامت کا اس سے کچھ بھی تعلق نہیں.کیونکہ قیامت ایسی جگہ نہیں جہاں اونٹ اونٹنی کو ملے اور حمل ٹھہرے بلکہ یہ ریل کے نکلنے کی طرف اشارہ ہے.جس طرح آجکل دوسری سواریاں بھی ہیں.فرمایا: اور حمل دار ہونے کی اس لئے قید لگا دی کہ یہ قید دنیا کے واقعہ پر قرینہ ہو اور آخرت کی طرف ذرا بھی وہم نہ جائے.یعنی دنیا پر اس کا خیال کیا جائے نہ آخرت کی طرف جانے کا.پھر فرمایا: ﴿وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ ﴾ (التكوير : 8 ) اور جس وقت جائیں ہم ملائی جائیں گی.یہ تعلقات اقوام اور بلا د کی طرف اشارہ ہے، مطلب یہ ہے کہ آخری زمانے میں بباعث راستوں کے کھلنے اور انتظام ڈاک اور تار برقی کے تعلقات بنی آدم کے بڑھ جائیں گے.اب تو اور بھی ذرائع کھل گئے ہیں آمنے سامنے بیٹھ کر تصویروں سے بھی باتیں ہو جاتی ہیں، ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے.فرمایا: ایک قوم دوسری قوم کو ملے گی اور دُور دُور کے رشتے اور تجارتی اتحاد ہوں گے اور بلاد بعیدہ کے دوستانہ تعلقات بڑھ جائیں گے.تو یہ پیشگوئی اس آخری زمانے کی ہے جو آئے روز ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں جو نظر آتی ہے.فرمایا کہ: إِذَ الشَّمْسُ كُوّرَتْ ﴾ (التكوير 2 ) - جس وقت سورج لپیٹا جائے گا یعنی سخت ظلمت جہالت اور معصیت کی دنیا پر طاری ہو جائے گی.وَإِذَا النُّفُوْسُ زُوجَتْ ﴾ (التکویر : 8) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بھی میرے ہی نشان تھا.پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دیئے ہیں.چنانچہ مطبع کے سامان، کاغذ کی کثرت، ڈاکخانوں، تار اور ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعے گل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے.اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہے ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہورہے ہیں.اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے.اخباروں اور رسالوں کا اجراء.غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی.الحکم جلد 6 نمبر 43 مورخہ 30 نومبر 1902ء صفحہ 1-2) میں ﴿إِذَ الشَّمْسُ كُوّرَتْ ﴾ (التکویر : 2) پر بات کر رہا تھا کہ فرمایا کہ سخت ظلمت، جہالت اور معصیت دنیا پر طاری ہو جائے گی.پھر فرمایا وَإِذَ النُّجُومُ انْكَدَرَتْ (التکویر : 3 ) اور جس وقت تارے گدلے ہو جائیں گے.یعنی علماء کا اخلاص جاتا رہے گا.تو جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ علماء اس kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 72 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء قرآنی پیشگوئی کے مطابق اب نو را خلاص پا ہی نہیں سکتے جب تک مسیح و مہدی کے ساتھ تعلق نہ جوڑ لیں اور ی تعلق یہ لوگ جوڑنا نہیں چاہتے.ان سے پہلے بھی اسی طرح انتظار کرتے کرتے خالی ہاتھ چلے گئے اور یہ جائیں گے.لیکن مسلم امہ یہ یادر کھے کہ ان کی ان باتوں میں آکر اپنی دنیا و عاقبت خراب نہ کریں.اللہ کے حضور جب حاضر ہوں گے تو یہ جواب کام نہیں آئے گا کہ ہمارے علماء نے غلط رہنمائی کی تھی اس لئے ہمارے گناہ ان کے سر.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں تو اللہ تعالیٰ نے صاف بتا دیا ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی پس سب کے لئے غور کرنے کا مقام ہے.پھر اس زمانے کی ایک قرآنی پیشگوئی ہے.فرمایا کہ ﴿وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ ﴾ (التكوير : 6) اور جس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے جائیں گے.مطلب ہے کہ وحشی قومیں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور ان میں انسانیت اور تہذیب آئے گی.دیکھیں یہ سب قرآنی پیشگوئیاں آج کے زمانے میں پوری ہو رہی ہیں.پھر فرمایا ﴿وَاذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ﴾ (التكوير : 11) یعنی اس وقت خط و کتابت کے ذریعے عام ہوں گے.اور کتب کثرت سے دستیاب ہوں گی.پھر ایک نشانی ﴿وَإِذَ الْبِحَارُسُحِرَتْ (التكوير : 07 ) یعنی اور جب سمندر پھاڑے جائیں گے.تو دیکھ لیں آجکل دریا بھی ملائے گئے ، سمندر بھی ملائے گئے ، نہری نظام قائم کیا گیا.تو یہ سب اس زمانے کی جدید ایجادات کی وجہ سے ہے.اور مغربی قوموں کی ترقی کے بعد ان سب چیزوں میں اور بھی زیادہ ترقی ہوئی یا دنیا میں پھیلائی گئی ہیں.پس یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ ظہور امام مہدی آخری زمانے کی نشانی اور دقبال کے آنے سے وابستہ تھا.دجال کے آنے سے ہی مسیح نے بھی آنا تھا.تو جب یہ نشانیاں پوری ہو رہی ہیں تو مسیح کی آمد کا ابھی تک کیوں انتظار ہے.مسیح کو کیوں قیامت سے ملانے کی کوشش کی جاتی ہے.صرف ایک ضد ہے، ہٹ ہے.اللہ ہی ہے جو ان کو عقل دے.پھر ایک حدیث ہے مسیح کی آمد کے نشان کے طور پر اور یہ ایسی حدیث ہے کہ اسے جب بھی احمدی پیش کرتے ہیں تو مخالف کے پاس کا اس کوئی رد نہیں ہوتا.اور وہ ہے سورج اور چاند گرہن کی.اور اس نشان کو ہم حضرت مسیح موعود کی صداقت کے طور پر پیش کرتے ہیں.اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت مرز اغلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود نہیں ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیلنج کے رنگ میں فرمایا تھا کہ یہ نشان کبھی ظاہر نہیں ہوا.تو پھر کسی اور کا دعوئی دکھا دینا چاہئے کیونکہ نشان تو ظاہر ہو چکا ہے، دو دفعہ ظاہر ہو چکا ہے.تو اس نشان کے دیکھنے کے بعد پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا زمانہ نہیں ہے.حدیث کے الفاظ یہ ہیں حضرت محمد بن علی یعنی حضرت امام باقر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے مہدی کی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 73 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء صداقت کے دو نشان ایسے ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں وہ کسی کی صداقت کے لئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے.اول یہ کہ اس کی بعثت کے وقت رمضان میں پہلی تاریخ کو چاند گرہن لگے گا.اور درمیانی تاریخ کو سورج گرہن لگے گا.اور یہ دونوں نشان کے طور پر پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوئے.(سنن دارقطنی کتاب العيدين باب صفة صلواة الخسوف والكسوف وهيئتهما صفحه 188/1 مطبع انصاری دهلی 1310ه حدیث : 1777) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” مسیح موعود کا یا جوج ماجوج کے وقت میں آنا ضروری ہے اور چونکہ اجیج آگ کو کہتے ہیں جس سے یا جوج ماجوج کا لفظ مشتق ہے.اس لئے جیسا کہ خدا نے مجھے سمجھایا ہے یا جوج ماجوج وہ قوم ہے جو تمام قوموں سے زیادہ دنیا میں آگ سے کام لینے میں استاد بلکہ اس کام کی موجد ہے.اور ان ناموں میں یہ اشارہ ہے کہ ان کے جہاز ، ان کی ریلیں ، ان کی کلیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی.اور ان کی لڑائیاں آگ کے ساتھ ہوں گی.اور وہ آگ سے خدمت لینے کے فن میں تمام دنیا کی قوموں سے فائق ہوں گے.اور اسی وجہ سے وہ یا جوج ماجوج کہلائیں گے.سو وہ یورپ کی قومیں ہیں جو آگ کے فنوں میں ایسے ماہر اور چابک اور یکتائے روزگار ہیں کہ کچھ بھی ضرور نہیں کہ اس میں زیادہ بیان کئے جائے.پہلی کتابوں میں بھی جو بنی اسرائیل کے نبیوں کو دی گئیں یورپ کے لوگوں کو ہی یا جوج ماجوج ٹھہرایا ہے.بلکہ ماسکو کا نام بھی لکھا ہے جو قدیم پایہ تخت روس تھا.سو مقر ر ہو چکا تھا کہ مسیح موعود یا جوج ماجوج کے وقت میں ظاہر ہوگا..ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 424.425) پس ائمہ نے قرآن و حدیث سے علم پا کر بتا دیا کہ مسیح موعود اس زمانے میں ہوگا.علماء سابقہ اور موجودہ نے کہا کہ اس زمانے کے حالات بتا رہے ہیں، مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ نبی ہونا چاہئے.قرآن کریم نے نشانیاں بتا دیں جن میں سے بعض کا میں نے ذکر کیا ہے.یہ آخری زمانے کی باتیں ہیں، جب یہ باتیں ہو رہی ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مسیح موعود کا زمانہ ہی ہے.پھر ایک روشن نشان جو چیلنج کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے جس کی تشریح امام باقر نے کی ہے وہ بتایا کہ مسیح موعود کے وقت میں سورج اور چاند کا گرہن لگنا تھا.تو پھر یہ کہنا کہ ابھی مسیح موعود کے آنے کا وقت نہیں آیا خدا کے غضب کو آواز دینے والی بات ہے.خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ آفات ہماری غلطیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہیں.جو آیت میں نے پڑھی ہے، اس کے آخری حصے کا جو حوالہ گزشتہ خطبہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس میں سے میں نے دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ ہم ہرگز عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں اور حجت تمام کر دیں.تو خود ہی یہ کہہ کر کہ یہ عذاب ہیں پھر اس آیت کے اس حصے پر بھی غور کریں اور بجائے یہ کہنے کے کہ مسیح موعود کے آنے کا وقت نہیں ہوایا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 74 خطبہ جمعہ 03/فروری 2006ء اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں.یا ابھی 726 یا 728 سال باقی ہیں یا 200 سال باقی ہیں.اور بجائے یہ کہنے کے کہ یہ غلط ہے جھوٹا آدمی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس انذار کو رڈ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی مانگیں.اس سے رہنمائی مانگتے ہوئے اس کی پناہ میں ان لوگوں کو آنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو عقل و شعور دے جو اس انذار کی شدت کو سمجھ نہیں رہے اور نام نہاد علماء یا دنیا کے لہو ولعب کے پیچھے بھٹک رہے ہیں.کیونکہ یہ اکٹھے نہیں ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ان کی بعض حرکتیں بیہودہ ہیں اسی وجہ سے غیروں کو بھی موقع مل رہا ہے کہ جو اسلام پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور بعض بیہودہ لغو ستم کی باتیں لکھتے اور شائع کرتے ہیں جس طرح پچھلے دنوں میں ایک کارٹون بنا کے شائع کیا گیا جس پر اب شور مچا رہے ہیں.تو یہ ان کی اپنی حرکتیں ہی ہیں جن کی وجہ سے غیروں کو موقع مل رہا.مخالفین کو موقع مل رہا ہے.اور یہ اب جماعت احمدیہ ہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق ان چیزوں کا بھی رو گرتی ہے اور اللہ کے فضل سے اس کا اثر بھی ہوتا ہے.اب ڈنمارک میں اخبار کے ایڈیٹر یا لکھنے والے نے جو معافی مانگی ہے.پہلے تو ضد میں آگئے تھے.اڑ گئے تھے کہ نہیں جو ہم نے کیا ہے ٹھیک ہے.لیکن جب ہمارا وفد ملا ، ان کو بتایا، سمجھایا تو ان کے کہنے پہ یہ معافی مانگی گئی ہے نہ کہ ان کے احتجاج پر.ان کے سامنے انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہاں تمہاری دلیل ٹھیک ہے اس پہ ہم معذرت کرتے ہیں.دوسرے یورپین ملکوں میں بھی ہو رہا ہے تو وہاں بھی جماعت کو چاہئے کہ جا کے مل کے ان کو سمجھائیں.کیونکہ بعض حرکات اپنوں کی ایسی ہیں جس کی وجہ سے اس طرح کی بیہودہ اور لغوحرکتیں غیروں کو کرنے کا موقع ملتا ہے.سورۃ تکویر میں جہاں اس زمانے کے حالات کی پیشگوئیاں ہیں وہاں اسلام کی آئندہ ترقی بھی مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی وابستہ کی گئی ہے.ان کے ذریعہ سے اکٹھے ہونے کی خبر دی گئی ہے.اس لئے ان لوگوں میں سے کسی کو اس خیال میں نہیں رہنا چاہئے کہ مسیح موعود کو مانے بغیر اسلام اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر لے گا.یا یہ لوگ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر لیں گے.جس طرح ان کا نظریہ ہے صرف خنر سیروں کو مارنا ہی تو نہیں رہ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس کے لئے تو یہ عیسائی قوم ہی کافی ہے، مارتے رہتے ہیں اور کھاتے رہتے ہیں، تو مسیح بیچارے کو آنے کی ، اس مشکل میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والے علماء کو بھی عقل دے اور مسلمان امت کو بھی کہ یہ حق کو پہچان سکیں.اللہ تعالیٰ ان کا سینہ کھولے، دماغ کھولے.ہمارا کام ان کے لئے دعا بھی کرنا ہے اور ان کو راستہ بھی دکھانا ہے، اور وہ ہمیں کرتے چلے جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء 75 6 خطبات مسرور جلد چهارم ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک کے اخبارات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کر نیوالے کارٹونوں پر رنج وغم اور مذمت کا اظہار ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اُسوہ نکھر کر سامنے آئے احمد یوں کو صحافت کا شعبہ اپنانے کی تحریک فرمودہ مؤرخہ 10 فروری 2006ء (10 تبلیغ 1385 هش) بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: وَمَا اَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ﴾ (الانبياء : 108) إنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مهينا (الاحزاب : 57-58) kh5-030425
76 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم آجکل ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے، ابھارنے والے، کارٹون اخباروں میں شائع کرنے پر تمام اسلامی دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور ہر مسلمان کی طرف سے اس بارے میں رد عمل کا اظہار ہو رہا ہے.بہر حال قدرتی طور پر اس حرکت پر ردعمل کا اظہار ہونا چاہئے تھا.اور ظاہر ہے احمدی بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عشق میں یقیناً دوسروں سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وجہ سے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا فہم و ادراک دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور کئی احمدی خط بھی لکھتے ہیں اور اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں، تجاویز دیتے ہیں کہ ایک مستقل مہم ہونی چاہئے ، دنیا کو بتانا چاہئے کہ اس عظیم نبی کا کیا مقام ہے تو بہر حال اس بارے میں جہاں جہاں بھی جماعتیں Active ہیں وہ کام کر رہی ہیں لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا اور نہ آگئیں لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ، جھنڈے جلانا اس کا علاج ہے.اس زمانے میں دوسرے مذاہب والے مذہبی بھی اور مغربی دنیا بھی اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں.اس وقت مغرب کو مذہب سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے.ان کی اکثریت دنیا کی لہو و لعب میں پڑ چکی ہے.اور اس میں اس قدر Involve ہو چکے ہیں کہ ان کا مذہب چاہے اسلام ہو ، عیسائیت ہو یا اپنا کوئی اور مذہب جس سے یہ منسلک ہیں ان کی کچھ پرواہ نہیں وہ اس سے بالکل لاتعلق ہو چکے ہیں.اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہو چکا ہے بلکہ ایک خبر فرانس کی شاید پچھلے دنوں میں یہ بھی تھی کہ ہم حق رکھتے ہیں ہم چاہے تو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کا بھی کارٹون بنا سکتے ہیں.تو یہ تو ان لوگوں کا حال ہو چکا ہے.اس لئے اب دیکھ لیں یہ کارٹون بنانے والوں نے جو انتہائی قبیح حرکت کی ہے اور جیسی یہ سوچ رکھتے ہیں اور اسلامی دنیا کا جور د عمل ظاہر ہوا ہے اس پر ان میں سے کئی لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ یہ رد عمل اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولر جمہوریت کے درمیان تصادم ہے حالانکہ اس کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے.اب تو ان لوگوں کی اکثریت جیسا کہ میں نے کہا اخلاق باختہ ہو چکی ہے.آزادی کے نام پر بے حیائیاں اختیار کی جارہی ہیں ، حیا تقریبا ختم ہو چکی ہے.بہر حال اس بات پر بھی ان میں سے ہی بعض ایسے لکھنے والے شرفاء ہیں یا انصاف پسند ہیں انہوں نے اس نظریے کو غلط قرار دیا ہے کہ اس رد عمل کو اسلام اور مغربی سیکولر جمہوریت کے مقابلے کا نام دیا جائے.انگلستان کے ہی ایک کالم لکھنے والے رابرٹ فسک (Robert Fisk) نے کافی انصاف سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے.ڈنمارک کے ایک صاحب نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولر جمہوریت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 77 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء کے درمیان تصادم ہے اس بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ بالکل غلط بات ہے، یہ کوئی تہذیبوں کا یا سیکولر ازم کا تصادم نہیں ہے.وہ لکھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار کا مسئلہ بھی نہیں ہے.بات صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر پر خدا نے براہ راست اپنی تعلیمات نازل کیں وہ زمین پر خدا کے ترجمان ہیں جبکہ یہ ( یعنی عیسائی) سمجھتے ہیں، (اب یہ عیسائی لکھنے والا لکھ رہا ہے ) کہ انبیاء اور ولی ان کی تعلیمات انسانی حقوق اور آزادیوں کے جدید تصور سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گئے ہیں.مسلمان مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور صدیوں کے سفر اور تغیرات کے باوجود ان کی یہ سوچ برقرار ہے جبکہ ہم نے مذہب کو عملاً زندگی سے علیحدہ کر دیا ہے.اس لئے ہم اب مسیحیت بمقابلہ اسلام نہیں بلکہ مغربی تہذیب بمقابلہ اسلام کی بات کرتے ہیں اور اس بنیاد پر یہ بھی چاہتے ہیں کہ ب ہم اپنے پیغمبروں یا ان کی تعلیمات کا مذاق اڑا سکتے ہیں تو آخر باقی مذاہب کا کیوں نہیں.پھر لکھتے ہیں کہ کیا یہ رویہ اتناہی بے ساختہ ہے.کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ کوئی 10-12 برس پہلے ایک فلم Last Temptation of christ ریلیز ہوئی تھی جس میں حضرت عیسی کو ایک عورت کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دکھانے پر بہت شور مچا تھا.اور پیرس میں کسی نے مشتعل ہو کر ایک سینما کو نذر آتش کر دیا تھا.ایک فرانسیسی نو جوان قتل بھی ہوا تھا.اس بات کا کیا مطلب ہے.ایک طرف تو ہم میں سے بھی بعض لوگ مذہبی جذبات کی تو ہین برداشت نہیں کر پاتے مگر ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ مسلمان آزادی اظہار کے ناطے گھٹیا ذوق کے کارٹونوں کی اشاعت پر برداشت سے کام لیں.کیا یہ درست رویہ ہے.جب مغربی رہنما یہ کہتے ہیں کہ وہ اخبارات اور آزادی اظہار پر قدغن نہیں لگا سکتے تو مجھے ہنسی آتی ہے.کہتے ہیں کہ اگر متنازعہ کارٹونوں میں پیغمبر اسلام کی بجائے بم والے ڈیزائن کی ٹوپی کسی یہودی ریبی Rabbi) کے سر پر دکھائی جاتی تو کیا شور نہ مچتا کہ اس سے اینٹی سمٹ ازم (Anti Semitism) کی بو آتی ہے یعنی یہودیوں کے خلاف مخالفت کی بو آتی ہے اور یہودیوں کی مذہبی دلآزاری کی جا رہی ہے.اگر آزادی اظہار کی حرمت کا ہی معاملہ ہے تو پھر فرانس، جرمنی یا آسٹریا میں اس بات کو چیلنج کرنا قانوناً کیوں جرم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کی نسل کشی نہیں کی گئی.ان کارٹونوں کی اشاعت ے اگر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی جو مسلمانوں میں مذہبی اصلاح یا اعتدال پسندی کے حامی ہیں اور روشن خیالی کے مباحث کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اس پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوتا.لیکن ان کارٹونوں سے سوائے اس کے کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام ایک پر تشدد مذہب ہے.ان کارٹونوں نے جہاں چہار جانب اشتعال پھیلانے کے اور کیا مثبت اقدام کیا ہے.(روز نامہ جنگ لندن - 7 فروری 2006 ، صفحہ 3،1) بہر حال کچھ رویہ بھی مسلمانوں کا تھا جس کی وجہ سے ایسی حرکت کا موقع ملا لیکن ان لوگوں میں شرفاء بھی ہیں جو حقائق بیان کرنا جانتے ہیں.kh5-030425
78 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم میں نے مختلف ملکوں سے جو وہاں رد عمل ہوئے ، یعنی مسلمانوں کی طرف سے بھی اور ان یورپین دنیا کے حکومتی نمائندوں یا اخباری نمائندوں کی طرف سے بھی جو اظہار رائے کیا گیا ان کی رپورٹیں منگوائی ہیں.اس میں خاصی تعدا دا ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے اخبار کے اس اقدام کو پسند نہیں کیا.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہیں نہ کہیں سے کسی وقت ایسا شوشہ چھوڑا جاتا ہے جس سے ان گندے ذہن والوں کے ذہنوں کی غلاظت اور خدا سے دُوری نظر آ جاتی ہے.اسلام سے بغض اور تعصب کا اظہار ہوتا ہے.لیکن میں یہ کہوں گا کہ بدقسمتی سے مسلمانوں کے بعض لیڈروں کے غلط رد عمل سے ان لوگوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل جاتا ہے.یہی چیزیں ہیں جن سے پھر یہ لوگ بعض سیاسی فائدے بھی اٹھاتے ہیں.پھر عام زندگی میں مسلمان کہلانے والوں کے رویے ایسے ہوتے ہیں جن سے یہاں کی حکومتیں تنگ آجاتی ہیں.مثلاً کام نہ کرنا، زیادہ تر یہ کہ گھر بیٹھے ہوئے ہیں، سوشل ہیلپ (Social Help) لینے لگ گئے.یا ایسے کام کرنا جن کی اجازت نہیں ہے یا ایسے کام کرنا جن سے ٹیکس چوری ہوتا ہو اور اس طرح کے اور بہت سے غلط کام ہیں.تو یہ موقع مسلمان خود فراہم کرتے ہیں اور یہ ہوشیار قو میں پھر اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں.بعض دفعہ ظلم بھی ان کی طرف سے ہو رہا ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کے غلط رد عمل کی وجہ سے مظلوم بھی یہی لوگ بن جاتے ہیں اور مسلمانوں کو ظالم بنا دیتے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ شاید مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اس توڑ پھوڑ کو اچھا نہیں بجھتی لیکن لیڈرشپ یا چند فسادی بد نام کرنے والے بدنامی کرتے ہیں.اب مثلاً ایک رپورٹ ڈنمارک کی ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا، ڈینش عوام کا رد عمل یہ ہے کہ اخبار کی معذرت کے بعد مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس معذرت کو مان لیں اور اس مسئلے کو پر امن طور پر ختم کریں تا کہ اسلام کی اصل تعلیم ان تک پہنچے اور Violence سے بچ جائیں.پھر یہ ہے کہ ٹی وی پر پروگرام آ رہے ہیں کہتے ہیں کہ یہاں کے بچے ڈینشوں کے خلاف رد عمل دیکھ کر کہ ان کے ملک کا جھنڈا جلایا جا رہا ہے، ایمبیسیز جلائی جارہی ہیں بہت ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں.وہ یہ محسوس کر رہے ہیں گویا جنگ کا خطرہ ہے اور ان کو مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں.اب عوام میں بھی اور بعض سیاستدانوں میں بھی اس کو دیکھ کر انہوں نے نا پسند کیا ہے اور ایک رد عمل یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اس دلآزاری کے بدلے میں خود ہمیں ایک بڑی مسجد مسلمانوں کو بنا کر دینی چاہئے جس کا خرچ یہاں کی فر میں ادا کریں اور کوپن ہیگن کے سپریم میئر نے اس تجویز کو پسند کیا ہے.پھر مسلمانوں کی اکثریت بھی جیسا کہ میں نے کہا کہتی ہے کہ ہمیں معذرت کو مان لینا چاہئے لیکن ان کے ایک لیڈر ہیں جو 27 تنظیموں کے نمائندے ہیں وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ اگر چہ اخبار نے معذرت کر دی ہے تاہم وہ ایک بار پھر ہمارے سب کے سامنے آ کر معذرت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 79 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء کرے تو ہم مسلمان ملکوں میں جا کر بتائیں گے کہ اب تحریک کو ختم کر دیں.اسلام کی ایک عجیب خوفناک تصویر کھینچنے کی یہ کوشش کرتے ہیں.بجائے صلح کا ہاتھ بڑھانے کے ان کا رجحان فساد کی طرف ہے.ان فسادوں سے جماعت احمدیہ کا تو کوئی تعلق نہیں مگر ہمارے مشنوں کو بھی فون آتے ہیں، بعض مخالفین کی طرف سے دھمکیوں کے خط آتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے.تو اللہ تعالیٰ جہاں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں، مشن ہیں، محفوظ رکھے اور ان کے شر سے بچائے.بہر حال جب غلط رد عمل ہوگا تو اس کا دوسری طرف سے بھی غلط اظہار ہوگا.جیسا کہ میں نے کہا کہ جب ان لوگوں نے اپنے رویے پر معافی وغیرہ مانگ لی اور پھر مسلمانوں کا رد عمل جب سامنے آتا ہے تو اس پر باوجود یہ لوگ ظالم ہونے کے، بہر حال انہوں نے ظلم کیا ایک نہایت غلط قدم اٹھایا، اب مظلوم بن جاتے ہیں.تو اب دیکھیں کہ وہ ڈنمارک میں معافیاں مانگ رہے ہیں اور مسلمان لیڈر اڑے ہوئے ہیں.پس ان مسلمانوں کو بھی ذرا عقل کرنی چاہئے کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنے رد عمل کے طریقے بدلنے چاہئیں.اور جیسا کہ میں نے کہا تھا شاید بلکہ یقینی طور پر سب سے زیادہ اس حرکت پر ہمارے دل چھلنی ہیں لیکن ہمارے رد عمل کے طریق اور ہیں.یہاں میں یہ بھی بتا دوں کہ کوئی بعید نہیں کہ ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً یہ ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دل آزاری ہو.اور ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہو سکتا ہے کہ قانونا مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے اور برصغیر پاک و ہند سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندی لگانے کی کوشش کی جائے.بہر حال قطع نظر اس کے کہ یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں، ہمیں اپنے رویے، اسلامی اقدار اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں، بنانے چاہئیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اسلام کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابتداء سے ہی یہ سازشیں چل رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ اس کی حفاظت کرنی ہے، وعدہ ہے اس لئے وہ حفاظت کرتا چلا آ رہا ہے، ساری مخالفانہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں.اس زمانے میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے، اور اس زمانے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے ہوئے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور بعد میں آپ کی تعلیم پر عمل کر تے ہوئے آپ کے خلفاء نے جماعت کی رہنمائی کی اور ردعمل ظاہر کیا اور پھر جو اس کے نتیجے نکلے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں تا کہ وہ لوگ جواحمد یوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہڑتالیں نہ کر کے اور ان میں شامل نہ ہو کر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 80 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی درد نہیں ہے، ان پر جماعت کے کارنامے واضح ہو جائیں.ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے.قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نا پاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کارروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں.اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی عشق رسول کی غیرت پر دو مثالیں دیتا ہوں.پہلی مثال عبد اللہ آتھم کی ہے جو عیسائی تھا.اس نے اپنی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے انتہائی غلیظ ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دجال کا لفظ نعوذ باللہ استعمال کیا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے بارے میں ایک مباحثہ بھی چل رہا تھا، ایک بحث ہو رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سو میں پندرہ دن تک بحث میں مشغول رہا، بحث چلتی رہی اور پوشیدہ طور پر آتھم کی سرزنش کے لئے دعا مانگتا رہا.یعنی جو الفاظ اس نے کہے ہیں اس کی پکڑ کے لئے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جب بحث ختم ہوئی تو میں نے اس سے کہا کہ ایک بحث تو ختم ہو گئی مگر ایک رنگ کا مقابلہ باقی رہا جو خدا کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب ” اندرونہ بائیبل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کے نام سے پکارا ہے.اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور سچا جانتا ہوں اور دین اسلام کو منجانب اللہ یقین رکھتا ہوں.پس یہ وہ مقابلہ ہے کہ آسمانی فیصلہ اس کا تصفیہ کرے گا.اور وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے قول میں جھوٹا ہے اور ناحق رسول کو کا ذب اور دجال کہتا ہے اور حق کا دشمن ہے وہ آج کے دن سے پندرہ مہینے تک اس شخص کی زندگی میں ہی جو حق پر ہے ہادیہ میں گرے گا بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.یعنی راستباز اور صادق نبی کو دجال کہنے سے باز نہ آوے اور بے باکی اور بد زبانی نہ چھوڑے.یہ اس لئے کہا گیا کہ صرف کسی مذہب کا انکار کر دینا دنیا میں مستوجب سزا نہیں ٹھہرتا بلکہ بے باکی اور شوخی اور بد زبانی مستوجب سزا ٹھہرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جب میں نے یہ کہا تو اس کا رنگ فق ہو گیا، چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کا پنپنے لگے تب اس نے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر دھر لئے اور ہاتھوں کو مع سر کے ہلانا شروع کیا جیسا ایک ملزم خائف ایک الزام کا سخت انکار کر کے تو بہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور بار بار کہتا تھا کہ تو بہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 81 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء تو بہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی.(مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں روحانی خزائن جلد 18 نزول مسیح صفحہ 541 پیشگوئی نمبر 42) اور پھر بعد میں بھی اسلام کے خلاف کبھی نہیں بولا.تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھنے والے شیر خدا کا رد عمل.وہ للکارتے تھے ایسی حرکتیں کرنے والوں کو.پھر ایک شخص لیکھر ام تھا جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں نکالتا تھا.اس کی اس دریدہ دہنی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو باز رکھنے کی کوشش کی.وہ باز نہ آیا.آخر آپ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی درد ناک موت کی خبر دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک اللہ اور رسول کے دشمن کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے اور نا پاک کلمے زبان پر لاتا ہے جس کا نام رام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دعاسنی اور جب میں نے اس پر بددعا کی کہ تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ 6 سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا.یہ ان کے لئے ایک نشان ہے جو بچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں.(روحانی خزائن جلد 18 نزول امسیح صفحه 549) چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ بڑی دردناک موت مرا.یہی اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سکھائے کہ اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو سمجھاؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن بیان کرو، دنیا کو ان خوبصورت اور روشن پہلوؤں سے آگاہ کرو جو دنیا کی نظر سے چھپے ہوئے ہیں اور اللہ سے دعا کرو کہ یا تو اللہ تعالیٰ ان کو ان حرکتوں سے باز رکھے یا پھر خود ان کی پکڑ کرے.اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اپنے طریقے ہیں وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس طریقے سے کس کو پکڑنا ہے.پھر خلافت ثانیہ میں ایک انتہائی بے ہودہ کتاب ”رنگیلا رسول“ کے نام سے لکھی گئی.پھر ایک رسالے ورتمان“ نے ایک بیہودہ مضمون شائع کیا جس پر مسلمانان ہند میں ایک جوش پیدا ہو گیا.ہر طرف مسلمانوں میں ایک جوش تھا اور بڑا اسخت رد عمل تھا.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلیفہ اسیح الثانی نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بھائیو! میں دردمند دل سے پھر کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑ پڑتا ہے.وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے.اب یہ حدیث کے مطابق ہے غصہ کو دبانے والا اصل میں بہادر ہوتا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 82 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء ہے.فرمایا کہ بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اسے پورا نہ کرے اس سے پیچھے نہیں ہوتا.آپ نے فرمایا اسلام کی ترقی کے لئے تین باتوں کا عہد کرو.پہلی بات یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.پہلے خود اپنے عمل ٹھیک کرو.دوسرے یہ کہ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے.اسلام کی تعلیم دنیا کے ہر شخص کو پتہ لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں، محاسن خوبصورت زندگی پتہ لگے، اُسوہ پتہ لگے.تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے.اب ہر ایک مسلمان کا عام آدمی کا بھی لیڈروں کا بھی فرض ہے.اب دیکھیں باوجود آزادی کے بہ مسلمان ممالک جو آزاد کہلاتے ہیں آزاد ہونے کے باوجود ابھی تک تمدنی اور اقتصادی غلامی کا شکار ہیں.ان مغربی قوموں کے مرہون منت ہیں ان کی نقل کرنے کی طرف لگے ہوئے ہیں.خود کام نہیں کرتے زیادہ تر ان پر ہمارا انحصار ہے.اور اسی لئے یہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے جذبات سے یہ کھیلتے بھی رہتے ہیں.پھر آپ نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے بھی شروع کروائے.تو یہ طریقے ہیں احتجاج کے، نہ کہ توڑ پھوڑ کرنا فساد پیدا کرنا.اور ان باتوں میں جو آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کی تھیں سب سے زیادہ احمدی مخاطب ہیں.ان ملکوں کی بعض غلط روایات غیر محسوس طریقے پر ہمارے بعض خاندانوں میں داخل ہو رہی ہیں.میں احمدیوں کو کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی مخاطب تھے.یہ جو اچھی چیزیں ہیں ان کے تمدن کی وہ تو اختیار کریں لیکن جو غلط باتیں ہیں ان سے ہمیں بچنا چاہئے.تو ہمارا ری ایکشن (Reaction) یہی ہونا چاہئے کہ بجائے صرف توڑ پھوڑ کے ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے ، ہم دیکھیں ہمارے عمل کیا ہیں ، ہمارے اندر خدا کا خوف کتنا ہے، اس کی عبادت کی طرف کتنی توجہ ہے، دینی احکامات پر عمل کرنے کی طرف کتنی توجہ ہے ، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی طرف کتنی توجہ ہے.پھر دیکھیں خلافت رابعہ کا دور تھا جب رشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی.اس وقت حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبات بھی دیئے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی.پھر جس طرح کہ میں نے کہا یہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں.گزشتہ سال کے شروع میں بھی اس طرح کا ایک مضمون آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں.اس وقت بھی میں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں، رابطے وسیع کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 83 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں.تو یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہے یہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہو سکتا.اس لئے اگر ہر طبقے کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پر امن طور پر یہ رد عمل ظاہر کرو اپنے رابطے بڑھاؤ اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقے میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے.جیسا کہ خود فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ﴾ (الانبياء : 108 ) کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر.اور آپ سے بڑی ہستی ، رحمت بانٹنے والی ہستی ، نہ پہلے بھی پیدا ہوئی اور نہ بعد میں ہو سکتی ہے.ہاں آپ کا اسوہ ہے جو ہمیشہ قائم ہے اور اس پر چلنے کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے.اور اس کے لئے بھی سب سے بڑی ذمہ داری احمدی کی ہے، ہم پر ہی عائد ہوتی ہے.تو بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین تھے اور یہ لوگ آپ کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں جس سے انتہائی بھیا نک تصور ابھرتا ہے.پس ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار محبت اور رحمت کے اسوہ کو دنیا کو بتانا چاہئے اور ظاہر ہے اس کو بتانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے رویے بھی بدلنے پڑیں گے.دہشت گردی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ سے بچنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی ہے.جب تک کہ آپ پر مدینہ میں آکر جنگ ٹھونسی نہیں گئی.پھر بہر حال اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دفاع میں جنگ کرنی پڑی.لیکن وہاں بھی کیا حکم تھا کہ وَقَاتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴾ (البقرة: 191) کہ اے مسلمانو! لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اپنے پر نازل ہونے والی شریعت پر عمل کرنے والے تھے.ان کے بارے میں ایسے نازیبا خیالات کا اظہار کرنا انتہائی ظلم ہے.بہر حال جس طرح یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معافی مانگ لی ہے اور ہمارے مبلغ کی بھی رپورٹ ہے کہ ان میں سے ایک نے معافی مانگی تھی اظہار کیا تھا.دوسرے مسلمانوں کو تو یہ جوش ہے کہ ہڑتالیں کر رہے ہیں تو ڑ پھوڑ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا رد عمل یہی ہے کہ توڑ پھوڑ ہو اور ہڑتالیں ہوں اور جماعت احمدیہ کا اس واقعہ کے بعد جو فوری رد عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ ہوا.احمدی کا رد عمل یہ تھا کہ انہوں نے فوری طور ان پر اخباروں سے رابطہ پیدا کیا.اور پھر یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے کہ 2006ء کی فروری میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں.یہ واقعہ تو گزشتہ سال کا ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 84 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء ستمبر میں یہ حرکت ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے کیا کیا تھا.یہ جیسا کہ میں نے کہا ستمبر کی حرکت ہے یا اکتوبر کے شروع کی کہہ لیں.تو ہمارے مبلغ نے اس وقت فوری طور پر ایک تفصیلی مضمون تیار کیا اور جس اخبار میں کارٹون شائع ہوا تھا ان کو یہ بھجوایا اور تصاویر کی اشاعت پر احتجاج کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے بارے میں بتایا کہ یہ ہمارا احتجاج اس طرح ہے ہم جلوس تو نہیں نکالیں گے لیکن قلم کا جہاد ہے جو ہم تمہارے ساتھ کریں گے.اور تصویر کی اشاعت پر اظہار افسوس کرتے ہیں.اس کو بتایا کہ ضمیر کی آزادی تو ہو گی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دوسروں کی دلآزاری کی جائے.بہر حال اس کا مثبت رد عمل ہوا.ایک مضمون بھی اخبار کو بھیجا گیا تھا جو اخبار نے شائع کر دیا.ڈینش عوام کی طرف سے بڑا اچھا رد عمل ہوا کیونکہ مشن میں بذریعہ فون اور خطوط بھی انہوں نے ہمارے مضمون کو کافی پسند کیا ، پیغام آئے.پھر ایک میٹنگ میں جرنلسٹ یونین کے صدر کی طرف سے شمولیت کی دعوت ملی.وہاں گئے وہاں وضاحت کی کہ ٹھیک ہے تمہارا قانون آزادی ضمیر کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مذہبی رہنماؤں اور قابل تکریم ہستیوں کو ہتک کی نظر سے دیکھو اور ان کی بہتک کی جائے.اور یہاں جو مسلمان اور عیسائی اس معاشرے میں اکٹھے رہ رہے ہیں ان کے جذبات کا بہر حال خیال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا.اور پھر ان کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر حسین تعلیم ہے اور کیسا اُسوہ ہے اور کتنے اعلیٰ اخلاق کے آپ مالک تھے اور کتنے لوگوں کے ہمدرد تھے، کس طرح ہمدرد تھے خدا کی مخلوق سے اور ہمدردی رشفقت کے مظہر تھے.چند واقعات جب ان کو بتائے کہ بتاؤ کہ جو ایسی تعلیم والا شخص اور ایسے عمل والا ہے اس کے بارے میں اس طرح کی تصویر بنانی جائز ہے؟ تو جب یہ باتیں ہمارے مشنری کی ہوئیں تو انہوں نے بڑا پسند کیا بڑا اسراہا.اور ایک کارٹونسٹ نے برملا یہ اظہار کیا کہ اگر اس طرح کی میٹنگ پہلے ہو جاتی تو وہ ہرگز کارٹون نہ بناتے ، اب انہیں پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے.اور ساروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ٹھیک ہے ڈائیلاگ (Dialogue) کا سلسلہ چلتا رہنا چاہئے.پھر صدر یونین کی طرف سے بھی پریس ریلیز جاری کی گئی جس کا مسودہ بھی سب کے سامنے سنایا گیا اور ٹی وی پر انٹرویو ہوا جو بڑا اچھا رہا.پھر منسٹر سے بھی میٹنگ کی.تو بہر حال جماعت کوشش کرتی ہے.دوسرے ملکوں میں بھی اس طرح ہوا ہے.تو بہر حال جہاں بنیاد تھی وہاں جماعت نے کافی کام کیا ہے.اور کارٹون کی وجہ جو بنی ہے وہ یہ ہے کہ ڈنمارک میں ایک ڈینش رائٹر نے ایک کتاب لکھی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور قرآن جو مارکیٹ میں آچکی ہے.اس کتاب kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 85 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء والے نے کچھ تصویریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا کر بھیجنے کو کہا تھا تو بعضوں نے بنائیں.وہ تصویریں تھیں اور اپنا نام ظاہر نہیں کیا کہ مسلمانوں کا رد عمل ہوگا.تو بہر حال یہ کتاب ہے جو وجہ بن رہی ہے اس اخبار میں بھی کارٹون ہی وجہ بنی تھی تو اس بارے میں بھی ان کو مستقل کوشش کرتے رہنا چاہئے اور دنیا میں ہر جگہ اگر اس کو پڑھ کر جہاں جہاں بھی اعتراض کی باتیں ہوں وہ پیش کرنی چاہئیں اور جواب دینے چاہئیں.لیکن وہاں ڈنمارک میں یہ بھی تصور ہے کہتے ہیں بعض مسلمانوں کے ذریعہ غلط کارٹون جو ہم نے شائع ہی نہیں کئے وہ دکھا کے مسلمان دنیا کو ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے.پتہ نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن ہماری اس فوری توجہ سے ان میں احساس بہر حال پیدا ہوا ہے.یہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا ان لوگوں کو تو آج پتہ لگ رہا ہے.جبکہ یہ تین مہینے پہلے کی بات ہے.006 تو جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے.خاص طور پر جو اسلام کے بارے میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصور ہے اس کو دلائل کے ساتھ رد کرنا ہمارا فرض ہے.پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں.اخباروں کو، لکھنے والوں کو سیرت پر کتا بیں بھی بھیجی جاسکتی ہیں.پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نو جوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہوتا کہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی ، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے.کیونکہ یہ حرکتیں وقتا فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں.اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہو گا تو ان چیزوں کو روکا جاسکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جاسکتا ہے.اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی.جیسا کہ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ﴾ (الاحزاب :58) یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اس نے ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے.یہ حکم ختم نہیں ہو گیا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.آپ کی تعلیم ہمیشہ زندگی دینے والی تعلیم ہے.آپ کی شریعت ہر زمانے کے مسائل حل کرنے والی شریعت ہے.آپ کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے.تو اس لئے یہ جو تکلیف ہے یہ آپ کے ماننے والوں کو جو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے کسی بھی ذریعہ سے اس پر بھی آج kh5-030425
86 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم صادق آتی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات زندہ ہے وہ دیکھ رہی ہے کہ کیسی حرکتیں کر رہے ہیں.پس دنیا کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے.دنیا کو ہمیں بتانا ہوگا کہ جو اذیت یا تکلیف تم پہنچاتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی سزا آج بھی دینے کی طاقت رکھتا ہے.اس لئے اللہ اور اس کے رسول کی دلآزاری سے باز آؤ لیکن جہاں اس کے لئے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بارے میں دنیا کو بتانا ہے وہاں اپنے عمل بھی ہمیں ٹھیک کرنے ہوں گے.کیونکہ ہمارے اپنے عمل ہی ہیں جو دنیا کے منہ بند کریں گے اور یہی ہیں جو دنیا کا منہ بند کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے رپورٹ میں بتایا تھا وہاں ایک مسلمان عالم پر یہی الزام منافقت کا لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں کچھ کہتا ہے اور وہاں جا کے کچھ کرتا ہے، ابھارتا ہے.وہ شاید میں نے رپورٹ پڑھی نہیں.تو ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کو، اپنے قول و فعل کو ایک کر کے یہ عملی نمونے دکھانے ہوں گے.مسلمان کہلانے والوں کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ احمدی ہیں یا نہیں ، شیعہ ہیں یاسنی ہیں یا کسی بھی دوسرے مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جب حملہ ہو تو وقتی جوش کی بجائے، جھنڈے جلانے کی بجائے ، توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے ، ایمبیسیوں پر حملے کرنے کی بجائے اپنے عملوں کو درست کریں کہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے.کیا یہ آگیں لگانے سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام کی نعوذ باللہ صرف اتنی قدر ہے کہ جھنڈے جلانے سے یا کسی سفارتخانے کا سامان جلانے سے بدلہ لے لیا.نہیں ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو آگ بجھانے آیا تھا، وہ محبت کا سفیر بن کر آیا تھا، وہ امن کا شہزادہ تھا.پس کسی بھی سخت اقدام کی بجائے دنیا کو سمجھائیں اور آپ کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتا ئیں.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن میں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ آئے لیکن آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردعمل کے طور پر اپنے آپ کو ایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے.اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں.یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی، ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو.وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی آگ جو آپ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو.جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے.یہ آگ ایسی ہو جو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 87 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں.پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے.لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے.اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے ، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے ، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا رکھنے کے لئے ، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار درود بھیجنا چاہئے.کثرت سے درود بھیجنا چاہئے.اس پرفتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا﴾ (الاحزاب : 57) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر دروداور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا، بلکہ اس کے تو کئی حوالے ہیں کہ مجھ پر تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا درود بھیجنا ہی کافی ہے تمہیں جو حکم ہے وہ تمہیں محفوظ رکھنے کے لئے ہے.(بحواله تفسیر در منثور جلد 5 تفسير سورة الاحزاب آیت 57 صفحه 411 صفحه 199) پس ہمیں اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اس درود کی ضرورت ہے.باقی اس آیت اور اس حدیث کا جو پہلا حصہ ہے اس سے اس بات کی ضمانت مل گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے اور استہزاء کی چاہے یہ لوگ جتنی مرضی کوشش کر لیں اللہ اور اس کے فرشتے جو آپ پر سلامتی بھیج رہے ہیں ان کی سلامتی کی دعا سے مخالف کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر حملوں سے ان کو کبھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے اور تمام دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس زمانے میں آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر چھوڑا ہے.حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی کا ایک حوالہ ہے اقتباس ہے، کہتے ہیں کہ ایک بارمیں نے خود حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا آپ فرماتے تھے کہ درود شریف کے طفیل اور کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کئے ہیں اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 88 خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقینا کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.اور فرمایا کہ درود شریف کیا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درودشریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.اخبار الحکم جلد 7 نمبر 8 صفحہ 7 پر چہ 28 فروری 1903ء) اللہ کرے کہ ہم زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں قائم رکھنے کے لئے ، آپ کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آپ پر درود بھیجتے ہوئے ، اللہ کی طرف جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے اس کے فضل اور فیض کے وارث بنتے چلے جائیں.اللہ ہماری مدد کرے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 17 فروری 2006 ء 89 (7) خطبات مسرور جلد چهارم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین پر مبنی حرکات پر اصرار اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہے آج مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے.اس کو پہچانیں ، اس کے پیچھے چلیں اور دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے اس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہوں فرمودہ مورخہ 17 فروری 2006ء(17 تبلیغ 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں، اس سے پہلے جو دو خطبے دیئے تھے انہی کے مضمون کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا تھا.لیکن پھر جو نا زیبا اور بیہودہ حرکت مغرب کے بعض اخباروں نے کی اور جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑی اور اس پر جو رد عمل ظاہر ہوا اس بارے میں میں نے کچھ کہنا ضروری سمجھا تا کہ احمدیوں کو بھی پتہ لگے کہ ایسے حالات میں ہمارے رویے کیسے ہونے چاہئیں.ویسے تو اللہ کے فضل سے پتہ ہے لیکن یاد دہانی کی ضرورت پڑتی ہے.اور دنیا کو بھی پتہ چلے کہ ایک مسلمان کا صحیح رد عمل ایسے حالات میں کیا ہوتا.نا ہے.جہاں ہم دنیا کو سمجھاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں کسی بھی قسم کا نازیبا اظہار خیال کسی بھی طرح کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا.تم جو جمہوریت اور آزادی ضمیر کے چیمپئین kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 90 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء بن کر دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہو یہ نہ ہی جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر ہے.ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور کچھ ضابطہ اخلاق ہوتے ہیں.جس طرح ہر پیشے میں ضابطہ اخلاق ہیں ، اسی طرح صحافت کے لئے بھی ضابطہ اخلاق ہے اور اسی طرح کوئی بھی طرز حکومت ہو اس کے بھی قانون قاعدے ہیں.آزادی رائے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے کے جذبات سے کھیلا جائے ، اس کو تکلیف پہنچائی جائے.اگر یہی آزادی ہے جس پر مغرب کو ناز ہے تو یہ آزادی ترقی کی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلکہ یہ تنزل کی طرف لے جانے والی آزادی ہے.مغرب بڑی تیزی سے مذہب کو چھوڑ کر آزادی کے نام پر ہر میدان میں اخلاقی قدریں پامال کر رہا ہے اس کو پتہ نہیں ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنی ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں.ابھی اٹلی میں ایک وزیر صاحب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ بیہودہ اور غلیظ کارٹون ٹی شرٹس پر چھاپ کر پہننے شروع کر دیئے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کہا ہے میرے سے لو.سنا ہے وہاں بیچے بھی جارہے ہیں.کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا علاج یہی ہے.تو ان لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ تو ہمیں نہیں پتہ کہ مسلمانوں کا یہ علاج ہے یا نہیں لیکن ان حرکتوں سے وہ خدا کے غضب کو بھڑکانے کا ذریعہ ضرور بن رہے ہیں.جو کچھ بیوقوفی میں ہو گیا، وہ تو ہو گیا لیکن اس کو تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کرتے چلے جانا اور اس پر پھر مصر ہونا کہ ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک ہے.یہ چیز اللہ تعالیٰ کے غضب کو ضرور بھڑ کاتی ہے.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا باقی مسلمانوں کا رد عمل تو وہ جانیں لیکن ایک احمدی مسلمان کا رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ ان کو سمجھائیں ، خدا کے غضب سے ڈرائیں.جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے قادر و مقتدر خدا کے آگے جھکیں اور اس سے مدد مانگیں.اگر یہ لوگ عذاب کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں تو وہ خدا جو اپنی اور اپنے پیاروں کی غیرت رکھنے والا ہے، اپنی قہری تجلیات کے ساتھ آنے کی بھی طاقت رکھتا ہے.وہ جو سب طاقتوں کا مالک ہے، وہ جو انسان کے بنائے ہوئے قانون کا پابند نہیں ہے، ہر چیز پر قادر ہے، اس کی چاکی جب چلتی ہے تو پھر انسان کی سوچ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ، پھر اس سے کوئی بیچ نہیں سکتا.پس احمدیوں کو مغرب کے بعض لوگوں کے یا بعض ملکوں کے یہ رویے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور مزید جھکنا چاہئے.خدا کے مسیح نے یورپ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے اور امریکہ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے.یہ زلزلے، یہ طوفان اور یہ آفتیں جو دنیا میں آرہی ہیں یہ صرف ایشیا کے لئے مخصوص نہیں ہیں.امریکہ نے تو اس کی ایک جھلک دیکھ لی ہے.پس اے یورپ ! تو بھی محفوظ نہیں ہے.اس لئے کچھ خوف خدا کرو اور خدا کی غیرت کو نہ للکا رو لیکن ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ممالک یا مسلمان کہلانے والے بھی اپنے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 91 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء رویے درست کریں.ایسے رویے اور ایسے رد عمل ظاہر کریں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کو دنیا کے سامنے رکھیں، ان کو دکھا ئیں.تو یہ وہ صحیح رد عمل ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہئے.اب آجکل جو بعض حرکتیں ہو رہی ہیں یہ کون سا اسلامی رد عمل ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار دیا، اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگا دی.اسلام تو غیر قوموں کی دشمنی میں بھی عدل کو ، انصاف کو ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا، عقل سے چلنے کا حکم دیتا ہے، کجا یہ کہ پچھلے دنوں میں جو پاکستان میں ہوایا دوسرے اسلامی ملکوں میں ہو رہا ہے.بہر حال ان اسلامی ممالک میں چاہے وہ غیر ملکیوں کے کاروبار کو یا سفارتخانوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یا اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یہ سوائے اسلام کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہیں.پس مسلمانوں کو چاہئے ،مسلمان عوام کو چاہئے کہ ان غلط قسم کے علماء اور لیڈروں کے پیچھے چلنے کی بجائے ، ان کے پیچھے چل کر اپنی دنیاو آخرت خراب کرنے کی بجائے ، عقل سے کام لیں.آج مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے.اس کو پہچانیں ، اس کے پیچھے چلیں اور دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے اس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہوں کہ اب کوئی دوسرا طریق ، کوئی دوسرار ہبر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے اور چلانے والا نہیں بنا سکتا.اسلام کی شان و شوکت کو بحال کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو مسیح و مہدی کی جماعت نے ہی قائم کرنا ہے اور کروانا ہے انشاء اللہ.پس اس پر ہر ایک کو مسلمان کہلانے والوں کو بھی غور کرنا چاہئے.اور ہمیں بھی ان کو سمجھانا چاہئے اور نام نہاد علماء کی ان بحثوں میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جو آنے والا مسیح تھا ابھی نہیں آیا ، یا اس نے تو فلاں جگہ اترنا ہے یعنی مہدی نے فلاں جگہ آنا ہے.دراصل جس طرح یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے یہ ایک حدیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے.اس روایت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : اگر یہ کہا جائے کہ احادیث صاف اور صریح لفظوں میں بتلا رہی ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اترے گا اور دمشق کے منارہ شرقی کے پاس اس کا اترنا ہوگا اور دوفرشتوں کے کندھوں پر اس کے ہاتھ ہوں گے تو اس مُصرح اور واضح بیان سے کیوں کر انکار کیا جائے؟“.یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو صاف صاف kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 92 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006 ء اور کھلا کھلا بیان ہے اس سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے، یہ لوگ کہتے ہیں.تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ: اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان سے اترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ سچ مچ خاکی وجود آسمان سے اترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے.اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے.جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جگہ اترا ہے.جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اترا ہے یا ڈمیرا اترا ہے کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شکر یا وہ ڈیرا آسمان سے اترا ہے.ماسوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے تو قران شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان سے ہی اترے ہیں.بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اتارا ہے.پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اتر نا اس صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 132-133) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حدیثیں اس کی وضاحت سے بھری پڑی ہیں.تو لوگ خود تو اتنا علم نہیں رکھتے اور علماء غلط رہنمائی کرتے ہیں.آپ نے اس سے آگے فرمایا اس لئے یہودیوں نے بھی غلطی کھائی تھی اور حضرت عیسی کو قبول نہیں کیا تھا.تو بہر حال یہ ساری لمبی باتیں اور تفصیلیں ہیں ، خطبے میں تو بیان نہیں ہوسکتیں.اب جس طرح حالات بدل رہے ہیں ، احمد یوں کو بھی چاہئے کہ ان باتوں کو کھول کر اپنے ماحول میں بیان کریں تا کہ جس حد تک اور جتنی سعید روحیں بچ سکتی ہیں بچ جائیں، جو شرفاء بچ سکتے ہیں بچ جائیں.احمدی اپنے اپنے حلقے میں کھل کر ہر مذہب والے کو سمجھائیں کہ ہر مذہب کی تعلیم کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”اب میں وہ حدیث جو ابو داؤد نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کر کے اس کے مصداق کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں.سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جوابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حراث ما وراء النہر سے یعنی سمرقند سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے گا.جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی، الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے.مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے اس کی علامات خاصہ درحقیقت دو ہی ہیں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 93 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء ایک یہ کہ جب وہ صحیح آئے گا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہوگی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا“.اس بارے میں شروع کے خطبوں میں بھی ذکر ہو چکا ہے.خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی حالت بگڑی ہوئی ہے.اور کسی مصلح کو چاہتی ہے.تو فرمایا کہ: ”اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کر جواہرات علوم وحقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا“.یعنی یہ خزانے ہیں اور وہ ان کے سامنے روحانی علم کی وضاحت کرے گا.پھر فرمایا : ”یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نا دار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا.یعنی یہ پاکیزہ غذا جو سچائی کی ہے وہ ان کو ملے گی صحیح اسلام کی تعلیم ان کو ملے گی مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی اور یہ جو معرفت کا میٹھا شربت ہے یہ ان کو پلایا جائے گا.اگر یہ معرفت کا شربت پینے والے ہوتے تو غیر تعمیری قسم کا بلکہ تباہی پھیر نے والا رد عمل جو ان سے ظاہر ہوا ہے اس کی بجائے یہ ایک تعمیری رد عمل دکھاتے اور خدا کے آگے جھکنے والے ہوتے.فرمایا : ” اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پُر کر دی جائیں گی.اسلام کا جو صحیح علم ہے وہ تو ایک بڑا قیمتی خزانہ ہے، موتیوں کی طرح ہے، اس سے ان کی جھولیاں پر کرے گا.اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے ان کو دیئے جائیں گے.یہ جو قرآن کریم کی خوشبو ہے یہ ان کو ملے گی.پھر فرمایا کہ دوسری علامت خاصہ یہ ہے کہ جب وہ مسیح موعود آئے گا تو صلیب کو توڑے گا اور ختر میروں کو قتل کرے گا اور دجال یک چشم کو قتل کر ڈالے گا اور جس کا فر تک اس کے دم کی ہوا پہنچے گی وہ فی الفور مر جائے گا.سو اس علامت کی اصل حقیقت جو روحانی طور پر مراد رکھی گئی ہے یہ ہے کہ مسیح دنیا میں آ کر صلیبی زمین کی شان و شوکت کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا.اور ان لوگوں کو جن میں خنزیروں کی بے حیائی ، خوکوں کی بے شرمی یعنی سوروں کی بے شرمی وہ بھی ایک جانور ہی ہے اور نجاست خوری ہے ان پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلا کر ان سب کا کام تمام کرے گا.اور وہ لوگ جو صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں مگر دین کی آنکھ بکلی ندارد.بلکہ ایک بدنما ٹینٹ اس میں نکلا ہوا ہے ( یعنی آنکھ پر پھوڑا سا بنا ہوا ہے ) ان کو بین حجتوں کی سیف قاطعہ سے، ایسی دلیلیوں کی تلوار سے جو کاٹنے والی ہے ملزم کر کے ان کی منکرانہ kh5-030425
94 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم ہستی کا خاتمہ کر دے گا.تو یہ دلائل ہیں جن سے کاٹنا ہے تاکہ ان کے جو جھوٹے دعوے اور وجود ہیں ان کو ختم کر سکے.اور نہ صرف ایسے یک چشم لوگ بلکہ ہر ایک کافر جو دین محمدی کو بنظر استحقار دیکھتا ہے.جو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے.مسیحی دلائل کے جلالی دم سے روحانی طور پر مارا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آ کر دلیلوں سے اس کو ماریں گے.غرض یہ سب عبارتیں استعارہ کے طور پر واقع ہیں جو اس عاجز پر بخوبی کھولی گئی ہیں.اب چاہے کوئی اس کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن آخر کچھ مدت اور انتظار کر کے اور اپنی بے بنیاد امیدوں سے یاس کلی کی حالت میں ہو کر ایک دن سب لوگ اس طرف رجوع کریں گے.(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 141-143 حاشیہ) پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کیا ہے.عیسائیت جس تیزی سے پھیل رہی تھی یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اس کو روکا ہے.ہندوستان میں اس زمانے میں ہزاروں لاکھوں مسلمان عیسائی ہورہے تھے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے اس حملے کو نہ صرف روکا بلکہ اسلام کی ساکھ دوبارہ قائم کی.پھر افریقہ میں جماعت احمدیہ نے عیسائیت کی یلغار کو روکا.اسلام کی خوبصورت تصویر دکھائی، ہزاروں لاکھوں عیسائیوں کو احمدی مسلمان بنایا.تو یہ تھے مسیح کے کارنامے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک آپ کی دی ہوئی تعلیم اور دلائل کے ساتھ جماعت احمد یہ دلوں کو جیتے ہوئے منزلیں طے کر رہی ہے اور انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ایک دن یہ لوگ مایوس ہو کر رجوع کریں گے.تو یہ ہے وضاحت اس بات کی کہ کس طرح ان لوگوں کے دجل اور فریب کو ختم کرنا ہے.یہ ہے خنزیر کو قتل کرنے اور صلیبوں کو توڑنے کا مطلب اور دجال سے مقابلے کا مطلب، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.آج بھی جیسا کہ میں نے کہا جماعت احمد یہ ہی ہے جو ہر جگہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہی ہے.گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام آ رہا تھا شاید جیو یا ARY پر، یا اسی قسم کے کسی ٹی وی پر جو ایشیا سے آتے ہیں تو اس میں ایک علامہ ڈاکٹر اسرار صاحب یہ فرما رہے تھے کہ کیونکہ مسلمان علماء جاہل تھے اور دینی علم بالکل نہیں تھا.نہ قرآن کا علم تھا، نہ بائیبل کا علم تھا اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک علمی آدمی تھے، بائیل کا علم بھی رکھتے تھے ، دوسرے مذاہب کا علم بھی رکھتے تھے.اس وجہ سے انہوں نے اس وقت عیسائیوں کا مقابلہ کیا اور ان کا منہ بند کر دیا.ان کے الفاظ کا مفہوم کچھ اس قسم کا تھا.تو بہر حال یہ تو انہوں نے تسلیم کر لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی (جیسا کہ خود آپ نے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 95 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء فرمایا ) دلائل قاطعہ کے ذریعہ سے، مضبوط دلائل کے ذریعہ سے ان کو رد کیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مرز ا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں جنہوں نے اس وقت عیسائیت کے حملے روکے اور مسلمانوں کو عیسائی ہونے سے بچایا.آگے وہ اپنی اوٹ پٹانگ مختلف وضاحتیں کر رہے ہیں، مختلف وضاحتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھی کچھ بولے کہ میسج نہیں ہو سکتے.بہر حال یہ تو آج تک مانا جاتا ہے کہ اگر عیسائیت کے مقابلے پر کوئی کھڑا ہوا اور اس کی تعلیم کو دلائل سے رڈ کیا تو وہ ایک ہی پہلوان تھا جس کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہے.پس چاہے یہ لوگ آج تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے ایک دن ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ مسیحی دلائل ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیئے اور جنہوں نے دجال کا خاتمہ کیا اور آپ ہی مسیح موعود ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کا غلط اور ظاہری مطلب لینے کی وجہ سے مسلمان ابھی تک مسیح کا انتظار کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اترے گا، اس کو مزید کھولتے ہوئے کہ ان کا یہ مطلب غلط ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حدیث ہی سے وضاحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والے مسیح جس کا اس امت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی امت میں سے ایک شخص ہوگا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور اَمَّكُمْ مِنكُم لکھا ہے جس کے یہ معنی ہیں وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہوگا.چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسی کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اس حدیث میں حکم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ اسی کے حق میں ہے.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ مِنكُم کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے.اور وہ وہی مخاطب تھے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے منظم کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائمقام صحابہ ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صحابہ کا قائمقام ہے.ان کی جگہ پر ہے.اور وہ وہی ہے جس کو اس آیت مفصلہ ذیل میں قائمقام صحابہ کیا گیا ہے.یعنی یہ کہ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ﴾ (سورۃ الجمعہ 4).کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کریم کی روحانیت سے تربیت یافتہ ہے.اور اسی معنے کی رو سے صحابہ میں داخل ہے اور اس آیت کی تشریح میں حدیث ہے لوگان الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِس.اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے ،، kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 96 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پر کرنا لہذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں“.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحه 114.115) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مزید وضاحت فرمائی.فرمایا کہ: حديث لَا مَهْدِى الا عيسى جو ابن ماجہ کی کتاب میں جو اسی نام سے مشہور ہے اور حاکم کی کتاب مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے اور یہ روایت محمد بن خالد الجہنی نے ابان بن صالح سے اور ابان بن صالح نے حضرت حسن بصری سے اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے اور اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ بجز اس شخص کے جو عیسی کی خُو اور طبیعت اور طریق پر آئے گا اور کوئی بھی مہدی نہیں آئے گا.یعنی وہی مسیح موعود ہوگا اور وہی مہدی ہو گا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی خو اور طبیعت پر طریق تعلیم پر آئے گا.یعنی بدی کا مقابلہ نہ کرے گا اور نہ لڑے گا.اور پاک نمونہ اور آسمانی نشانوں سے ہدایت کو پھیلائے گا.اور اسی حدیث کی تائید میں وہ حدیث ہے جو امام بخاری نے صحیح بخاری میں لکھی ہے جس کے لفظ یہ ہیں کہ يَضَعُ الْحَرْبَ.یعنی وہ مہدی جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے دینی لڑائیوں کو قطعاً موقوف کر دے گا.اور اس کی یہ ہدایت ہوگی کہ دین کے لئے لڑائی مت کرو بلکہ دین کو بذریعہ سچائی کے نوروں اور اخلاقی معجزات اور خدا کے قرب کے نشانوں سے پھیلاؤ.سومیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص اس وقت دین کے لئے لڑائی کرتا ہے یا کسی لڑنے والے کی تائید کرتا ہے یا ظاہر یا پوشیدہ طور پر ایسا مشورہ دیتا ہے یا دل میں ایسی آرزوئیں رکھتا ہے وہ خدا اور رسول کا نافرمان ہے.یعنی اگر مسلمان دین کے نام پر لڑائی کریں تو ان کی وصیتوں اور حدود اور فرائض سے باہر چلا گیا ہے.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 429-432) اب دیکھ لیں آجکل مسلمانوں کے حالات اس کی تائید کر رہے ہیں.اگر یہ جنگیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو تیں تو اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ﴾ (الروم : (48) اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر فرض ٹھہرتا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں مل رہی تو سوچنا چاہئے.اگر جنگیں لڑنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو پھر اسلام کے نام پر تو نہ لڑی جائیں.اس زمانے میں مسلمانوں کا دوسری قوموں سے شکست کھانا یہ بھی اس بات کی خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی شہادت ہے کہ جو مسیح آنے کو تھاوہ آ گیا ہے.اور يَضَعُ الْحَرْب کے تحت دینی جنگوں کا جو حکم kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 97 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء ہے یہ موقوف ہو چکا ہے.ہاں اگر جہاد کرنا ہے تو دلائل سے کرو، براہین سے کرو.اب مسلمانوں کی اسلام کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے نتائج تو جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ہیں اور ہر آنکھ رکھنے والے کو نظر آ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ ہے کہ میں مومن کی مدد کرتا ہوں اگر مومن ہو تو.تو دو ہی باتیں ہیں یا یہ کہ یہ مسلمان مومن نہیں ہیں.یا یہ جنگوں کا وقت غلط ہے اور زمانہ ختم ہو چکا ہے.لیکن یا درکھیں ان لوگوں میں یہ دونوں باتیں ہی ہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مان کر پھر مومن تو نہیں رہ رسکتے.اور مسیح اور مہدی کے دعوے کے بعد، اس کی بات نہ مان کر اللہ تعالیٰ کی مدد کے حقدار نہیں ٹھہر سکتے.پس اس زمانے میں مسیح و مہدی کا جو دعوی کرنے والا ہے وہ یقینا سچا ہے.پھر آپ نے اپنی اس سچائی کے لئے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے، ایسا دعویٰ کیا ہے جو کوئی جھوٹا نہیں کر سکتا.آپ فرماتے ہیں کہ : میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اسی نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں جن میں سے بطور نمونه کسی قدر اس کتاب میں بھی لکھے گئے ہیں.(تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503) فرمایا کہ اگر اس کے معجزانہ افعال اور کھلے کھلے نشان جو ہزاروں تک پہنچ گئے ہیں میرے صدق پر گواہی نہ دیتے تو میں اس کے مکالمہ کو کسی پر ظاہر نہ کرتا اور نہ یقینا کہہ سکتا کہ یہ اس کا کلام ہے.پر اس نے اپنے اقوال کی تائید میں وہ افعال دکھائے جنہوں نے اس کا چہرہ دکھانے کے لئے ایک صاف اور روشن آئینہ کا کام کر دیا.(تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503 ) جو اللہ تعالیٰ کے نام کا دعویٰ کرتا ہے اگر اس کا دعوی سچا نہ ہو تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا سلوک کرتا ہے.خود ہی دیکھ لیں اللہ جھوٹے نبی کے متعلق فرماتا ہے ﴿وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الَّا قَاوِيْلِ.لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ( الحاقة : 45-46) اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کو ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر فرمایا ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ﴾ (الحاقة : 47) پھر ہم یقیناً اس کی رگ جان کاٹ دیتے.اب کوئی بتائے کہ کیا اس دعوے کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا کہ میں نبی ہوں اور مجھے تمام تائیدات حاصل ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رگ جان کائی kh5-030425
98 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم ہے یا اس وعدے کے مطابق کہ ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (الروم :48) اور ہم نے مومنوں کی مدد کرنا اپنے پر فرض ٹھہرالیا ہے، مدد کی ہے اور جماعت کی مدد کرتا چلا جارہا ہے.ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی تھی آج پوری شان کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے.آج 181 ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے یورپ میں بھی ، امریکہ میں بھی اور افریقہ کے دور دراز جنگلوں میں بھی اور پیتے ہوئے صحراؤں میں بھی اور جزائر میں بھی موجود ہیں.تو کیا یہ تمام تائیدات الہی آپ کی صداقت پر یقین کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں.اگر یہ شخص جھوٹا ہوتا تو پھراللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق اس کی پکڑ کیوں نہیں کی.کیوں اپنی طرف الہامات منسوب کرنے کی وجہ سے اسے تباہ و برباد نہ کر دیا.پس سوچنے کا مقام ہے.سوچو اور عقل سے کام لو.مسلمانوں کو میں یہ کہتا ہوں، کیوں اپنی دنیا و آخرت خراب کر رہے ہو.ایک جھوٹے کا حال تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں پاکستان میں کسی نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو تھوڑی سی آپس میں فائرنگ کے بعد انہوں نے اس کو گرفتار کر لیا اور اب جیل میں ڈالا ہوا ہے.تو یہ انجام تو فوراً ان کے سامنے آ گیا.اس سے پہلے بھی کئی ہوچکے ہیں.بہر حال، پھر آپ کی صداقت کی ایک آسمانی شہادت بھی ہے جس کا پہلے بھی میں نے ذکر کیا تھا.یعنی چاند اور سورج کا گرہن لگنا.یہ ایک ایسا نشان ہے جس میں کسی انسانی کوشش کا عمل دخل نہیں ہو سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400 سال پہلے جس طرح معین رنگ میں پیشگوئی کی تھی اور ہمیں بتایا تھا اس طرح معین طور پر اس زمانے میں بھی جبکہ سائنس نے ترقی کر لی ہے اتنے رستے بلکہ قریب کے رستے کی بھی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ رمضان کا مہینہ ہوگا فلاں تاریخ کو سورج کو گرہن لگے گا اور فلاں تاریخ کو چاند کو گرہن لگے گا.حدیث میں آتا ہے.اِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لاَ وَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ ( سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صفة صلواة الخسوف والكسوف وهيئتهما صفحه 51 جلد 1 جزء ثانی حدیث : 1777) | یعنی ہمارے مہدی کی صداقت کے لئے دو ہی نشان ہیں اور یہ صداقت کے دونوں نشان کسی کے لئے جب سے دنیا بنی ہے کبھی ظاہر نہیں ہوئے.رمضان میں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات چاند کو اور سورج گرہن کے دنوں میں سے درمیانے دن سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ یہ گرہن 1894ء میں لگا اور 13-14-15 تاریخوں میں سے 13 تاریخ کو رمضان کے مہینے میں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 99 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء چاند کو گرہن لگا.27-28-29 تاریخوں میں سے 28 تاریخ کو رمضان میں سورج کو گرہن لگا.یہ آپ کی صداقت کی بڑی واضح دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میرے علاوہ اس وقت دعوی بھی کسی کا نہیں تھا.بعض مولوی، قمر وغیرہ کی بحث میں پڑتے ہیں تو قمر تو بعض کے نزدیک دوسری رات کے بعد کا چاند اور بعض کے نزدیک تیسری رات کے بعد کا چاند کہلاتا ہے.اب کوئی دکھائے کہ کیا تائید کے اس نشان سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ کوئی دعوی موجود تھا.اگر دعوی ہے تو صرف ایک شخص کا ہے جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ بے شمار علامتیں پوری ہو رہی ہیں.اگر میں نہیں تو کوئی دوسرا آیا ہوا ہے تو دکھاؤ.کیونکہ وقت بہر حال تقاضا کر رہا ہے.لیکن یہ لوگ دکھا تو نہیں سکتے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی بچے دعوے دار ہیں کیونکہ زمینی اور آسمانی تائیدات آپ کے حق میں ہیں.اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا معیار نبوت آپ کی تائید کر رہا ہے.خود کچھ لوگ ماضی میں بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ پاک صاف شخصیت کے مالک تھے.آپ کا ماضی بھی پاک تھا، آپ کی جوانی بھی پاک تھی.علمی بھی تھے اور اسلام کی خدمت بھی آپ سے زیادہ کسی نے نہیں کی.یہ غیروں نے بھی تسلیم کیا.پھر سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اگر عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے.کیونکہ کسی کو مانے کی توفیق بھی اللہ کے فضل سے ہی ملتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اب بتلاویں اگر یہ عاجز حق پر نہیں ہے تو پھر کون آیا جس نے اس چودھویں صدی کے سر پر مجدد ہونے کا ایسا دعویٰ کیا جیسا کہ اس عاجز نے.کیا کوئی الہامی دعاوی کے ساتھ تمام مخالفوں کے مقابل پر ایسا کھڑا ہوا جیسا کہ یہ عاجز کھڑا ہوا.تَفَكَّرُوْا وَتَنَدَّمُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تَغْلُوا ، یعنی غور کرو، کچھ شرم کرو ، اللہ سے ڈرو کیوں بے حیائیوں میں آگے بڑھ رہے ہو.اور اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوی میں غلطی پر ہے تو آپ لوگ کچھ کوشش کریں کہ مسیح موعود جو آپ کے خیال میں ہے انہیں دنوں میں آسمان سے اتر آئے کیونکہ میں تو اس وقت موجود ہوں ، مگر جس کے انتظار میں آپ لوگ ہیں وہ موجود نہیں اور میرے دعوی کا ٹوٹنا صرف اسی صورت میں متصور ہے کہ اب وہ آسمان سے اتر ہی آوے تا میں ملزم ٹھہر سکوں.یہ اس وقت آپ نے ساروں کو چیلنج دیا تھا.آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دعا کریں کہ مسیح ابن مریم جلد آسمان سے اتر تے دکھائی دیں.اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ اہل حق کی دعا مبطلین کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے.یعنی جو بچے ہوں اس کی دعا جھوٹے کے مقابل kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 100 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء پر قبول ہو جایا کرتی ہے.لیکن آپ یقیناً سمجھیں کہ یہ دعا ہرگز قبول نہیں ہوگی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں.مسیح تو آپ کا لیکن آپ نے اس کو شناخت نہیں کیا.اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیں ہو گی.یہ زمانہ گزر جائے گا اور کوئی ان میں سے مسیح کو اترتے نہیں دیکھے گا“.(ازالہ اوہام حصہ اول.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 179) پھر آپ نے فرمایا : ” اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ دین اور سچائی کے دشمن ہیں.اگر اب بھی ان لوگوں کی کوئی جماعت دلوں کو درست کر کے میرے پاس آوے تو میں اب بھی اس بات کے لئے حاضر ہوں کہ ان کے لغو اور بیہودہ شبہات کا جواب دوں اور ان کو دکھلاؤں کہ کس قدر خدا نے ایک فوج کثیر کی طرح میری شہادت میں پیشگوئیاں مہیا کر رکھی ہیں جو ایسے طور سے ان کی سچائی ظاہر ہوئی ہے جیسا کہ دن چڑھ جاتا ہے.اب جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا اگر کوئی آنا چاہے تو سو سال کے بعد آج بھی دلوں کو درست کر کے آنے والی شرط قائم ہے.اور جو آتے ہیں وہ حق کو پا بھی لیتے ہیں.فرمایا کہ یہ نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں.سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے.خدا فرماتا ہے کہ میں حملہ پر حملہ کروں گا یہاں تک کہ میں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا“.فرمایا کہ : ” پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو.مجھ سے پہلے غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا اور یا تو وہ زمانہ تھا کہ اس کو صرف ایک مگار اور کذاب خیال کیا جاتا تھا.اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہو گئی کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو خدا کر کے مانتا ہے.اگر چہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے.یعنی یہ اللہ کی طرف سے یہودیوں کو جواب دیا گیا ہے کہ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے کچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو سجدہ کرتے ہیں.اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سو میں نے اگر چہ یہ دعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا میں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 101 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے.اور اللہ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں یہ سچائی ظاہر ہورہی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.فرمایا: ”سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا.اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا“.تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 408-410 ) پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوئی ہے یا پیشگوئی ہے اور ہم ہر روز اس کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.لیکن ہر مذہب و قوم کے لئے بھی یہ غور کا مقام ہے.مسیح موعود کی جماعت اللہ تعالیٰ کے ان سے کئے گئے وعدہ کے مطابق ترقی کرتی چلی جارہی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہر روز ہم ترقی کو دیکھتے ہیں.پس مسلمان بھی غور کریں ( جو احمدیوں کے علاوہ مسلمان ہیں ) کہ مسیح و مہدی جو آنے کو تھا وہ آچکا ہے.اور اس کی صداقت کے لئے قرآن و حدیث میں بے شمار ثبوت موجود ہیں.قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی مل جاتے ہیں.جن میں سے ایک دو کا میں نے ذکر بھی کیا ہے.زمانے کی حالت بھی اس کو پکار رہی ہے.اب کس انتظار میں بیٹھے ہو.کچھ تو اے لوگ سوچو.عیسائیوں کے لئے بھی جس مسیح نے دوبارہ آنا تھا آ گیا ہے.اور باقی مذاہب والوں کو بھی ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے جس نے آنا تھا وہ آ گیا ہے.اب اگر ایک دوسرے کے جذبات کا احترام سکھانا ہے تو اس مسیح و مہدی نے سکھانا ہے.اب اگر تمام مذاہب کے انبیاء کا احترام سکھانا ہے تو اُسی مسیح موعود نے سکھانا ہے.اب اگر دنیا میں امن اور پیار اور محبت پھیلانی ہے تو اسی مسیح موعود نے پھیلانی ہے.اب اگر انسانیت کو دکھوں اور تکلیفوں سے نجات دلانی ہے تو اسی مسیح موعود و مہدی موعود نے دلانی ہے.اب اگر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے kh5-030425
102 خطبہ جمعہ 17 فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم دکھانے ہیں اور بندے کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے کے طریق بتانے ہیں تو اسی مسیح و مہدی نے بتانے ہیں.پس اگر دنیا ان تمام باتوں کا حصول چاہتی ہے.تو تمام نبیوں کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور مسیح و مہدی کی تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں.ور نہ ہمیں تو اللہ تعالی کی قہری تجلی کے سائے منڈلاتے نظر آرہے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا سے خبر پا کر ہمیں بتا چکے ہیں.پس آپ جو احمدی ہیں ان سے بھی میں یہ کہوں گا کہ ہر احمدی اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرے.اور اپنی اصلاح کے ساتھ دنیا کو بھی اس انذار سے آگاہ کرے.اللہ تعالیٰ ان دنیا داروں پر رحم کرے اور ان کو حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء 103 8 خطبات مسرور جلد چهارم آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر بعض مغربی ممالک اور اخبارات کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے اور ان کے دوہرے اخلاقی معیاروں کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کثرت پڑھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑے جری اللہ مسیح اور مہدی پر ایمان لانے کی نصیحت فرمودہ مورخہ 24 فروری 2006ء(24 تبلیغ 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا﴾ (الاحزاب : 57) گزشتہ جو مضمون چل رہے ہیں یعنی گزشتہ کئی ہفتے سے جو واقعات ہورہے ہیں، آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے پر مغرب کے بعض اخباروں اور ملکوں نے جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، آج بھی مختصرا اس کے بارے میں کچھ کہوں گا.اور اس کے رد عمل میں بعض اخباروں اور ملکوں کے خلاف مسلمان ممالک میں جو ہوا چل رہی ہے اس بارے میں میں کہنا چاہتا ہوں.یہ انفرادی طور پر بھی ہیں، اجتماعی طور پر بھی ہیں، حکومتی سطح پر بھی احتجاج ہور ہے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 104 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء ہیں بلکہ اسلامی ممالک کی آرگنائزیشن (او آئی سی) نے بھی کہا ہے کہ مغربی ممالک پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ معذرت بھی کریں اور ایسا قانون بھی پاس کریں کہ آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر انبیاء تک نہ پہنچیں، کیونکہ اگر اس سے باز نہ آئے تو پھر دنیا کے امن کی کوئی ضمانت نہیں.ان ملکوں کا یا آرگنا ئزیشن کا یہ بڑا اچھا رد عمل ہے.اللہ تعالیٰ اسلامی ممالک میں اتنی مضبوطی پیدا کر دے اور ان کو توفیق دے کہ یہ حقیقت میں دلی درد کے ساتھ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ایسے فیصلے کروانے کے قابل ہوسکیں.گزشتہ دنوں ایران کے ایک اخبار نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس حرکت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے اخبار میں مقابلے کروائے گا جس میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اس سلوک کے حوالے سے ، ان کے کارٹون بنانے کا مقابلہ ہو گا.گو یہ اسلامی رد عمل نہیں ہے، یہ طریق اسلامی نہیں ہے لیکن مغربی ممالک جو آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور ہر قسم کی بیہودگی کو اخبار میں چھاپنے کو آزادی صحافت کا نام دیتے ہیں ان کو اس پر برانہیں منانا چاہئے ، جو منایا گیا.یا تو برا نہ مناتے یا پھر یہ جواب دیتے کہ جس غلطی سے دنیا میں فساد پیدا ہو گیا ہے ہمیں چاہئے کہ اب کسی مذہب یا اس کے بانی اور نبی یا کسی قوم کے بارے میں ایسی سوچ کو ختم کر کے پیار اور محبت کی فضا پیدا کریں.لیکن اس طرح کے جواب کی بجائے ڈنمارک کے اس اخبار کے ایڈیٹر نے جس میں یہ کارٹون شائع ہونے پر دنیا میں سارا فساد شروع ہوا ہے، اس نے ایران کے اس اعلان پر یہ کہا ہے کہ وہاں جو اخبار میں کارٹون بنانے کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا گیا ہے یعنی جنگ عظیم دوم میں یہودیوں سے متعلقہ جو بھی کارٹون بننے تھے وہ ایک قوم پر ظلم ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کارٹون بنے تھے.کسی نبی کی ہتک یا تو ہین کے بارے میں نہیں بننے تھے.تو بہر حال ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہم اس میں قطعاً حصہ نہیں لیں گے.اور اپنے قارئین کی تسلی کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے قاری تسلی رکھیں کہ ہمارے اخلاقی معیار ابھی تک قائم ہیں.ہم ایسے نہیں کہ حضرت عیسی کے یا ہالوکاسٹ کے کارٹون شائع کریں.اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی بھی حالت میں ایرانی اخبار اور میڈیا کے اس بد ذوق قسم کے مقابلے میں حصہ لیں.تو یہ ہیں ان کے معیار، جو اپنے لئے اور ہیں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے اور ہیں.بہر حال یہ اُن کے کام ہیں، کئے جائیں.اب دیکھیں کہ معیاروں کا یہ حال.پچھلے دنوں یہاں کے ایک مصنف نے 17 سال پہلے ایک واقعہ لکھا تھا بات لکھی تھی ، آسٹریا میں گیا اور وہاں جا کر اس پر مقدمہ ہو گیا تین سال کی قید ہوگئی.تو بہر حال یہ تو ان کے طریقے ہیں.اپنے لئے برداشت نہیں کرتے لیکن ہمیں بھی دیکھنا چاہئے کہ ہماری اپنی حالت کیا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 105 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء ہے؟ یہ جراتیں جو انہیں یعنی مغربی دنیا میں پیدا ہورہی ہیں ہماری اپنی حالت کی وجہ سے تو نہیں ہور ہیں.جو صورت ہمیں نظر آتی ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ مغربی دنیا کو پتہ ہے کہ مسلمان ممالک ان کے زیرنگیں ہیں ان کے پاس ہی آخر انہوں نے آنا ہے.آپس میں لڑتے ہیں تو ان لوگوں سے مدد لیتے ہیں.یہ جو پابندیاں یورپ کے بعض ملکوں کے سامان پر لگائی گئی ہیں اس کے خلاف احتجاج کے طور پر یہ بھی ان لوگوں کو پتہ ہے کہ چند دن تک معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہی چیزیں جو بازار سے اٹھالی گئی ہیں، اس وقت مارکیٹ سے غائب ہیں وہی ان ملکوں میں دوبارہ مارکیٹ میں آجائیں گی.اب ان ملکوں میں جو مسلمان رہتے ہیں وہ بھی یہ چیزیں کھا رہے ہیں، استعمال کر رہے ہیں.ڈنمارک میں ہی ( ڈنمارک کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج ہے ) تقریباً دولاکھ مسلمان ہیں اور کافی بڑی اکثریت پاکستانی مسلمانوں کی ہے وہ بھی تو آخر وہ چیز میں استعمال کر رہے ہیں.تو بہر حال یہ عارضی رد عمل ہیں اور ختم ہو جائیں گے.اب دیکھیں ہماری حالت.یہ جو عراق میں تازہ واقعہ ہوا ہے کہ امام بارگاہ کا گنبد بم دھماکے سے اڑایا گیا ہے.تو نتیجتا سنیوں کی مسجدوں پر بھی حملے ہوئے اور وہ بھی تباہ ہورہی ہیں.یہ کسی نے دیکھنے اور سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ تحقیق کر لیں کہ نہیں ہمیں لڑانے کے لئے دشمن کی شرارت ہی نہ ہو.کیونکہ یہ بم یہ اسلحہ جوسب کچھ لیا جارہا ہے، یہ بھی تو انہیں ملکوں سے لیا جاتا ہے.لیکن یہ اس طرح سوچ ہی نہیں سکتے.ایک تو عقل کے اندھے ہو جاتے ہیں، ان کو غصے اور فرقہ واریت میں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کرنا ہے.دوسرے بد قسمتی سے جو منافقت کرنے والے ہیں وہ بھی دشمن سے مل جاتے ہیں جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے اور ان کو سوچنے کی طرف آنے ہی نہیں دیتا.بہر حال یہ جونئی صورتحال عراق میں پیدا ہوئی ہے یہ ملک کو سول وار (Civil War) کی طرف لے جارہی ہے.آج کل تو تقریباً شروع ہے.اور اب وہاں پر لیڈروں کو بڑی مشکل پیش آ رہی ہے کہ یہ صورتحال اب سنبھالی نہیں جائے گی.مسلمان سے مسلمان کے لڑنے کی یہ صورتحال افغانستان میں بھی ہے پاکستان میں بھی ہے، ہر فرقہ دوسرے فرقے کے بارے میں پر تشدد فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، مذہب کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہوتے ہیں.جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (النساء : 94) یعنی جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہوگی اور وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ اس سے ناراض ہوگا اور اس کو اپنی جناب سے دور کر دے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 106 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء تو دیکھیں ، اب یہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں.فتنہ پیدا کرنے والے، بھڑ کانے والے ان لیڈروں کے کہنے پر جن میں اکثریت مذہبی لیڈروں کی ہے، یہ سب فتنے اُن میں پیدا ہورہے ہیں.مار دھاڑ ہورہی ہے قتل و غارت ہو رہی ہے کہ قتل کرو تو ثواب کماؤ اور جنت کے وارث بنو گے.جبکہ اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال رہا ہے اور لعنت بھیج رہا ہے.پاکستان میں، بنگلہ دیش میں یا دوسرے ملکوں میں جہاں احمدیوں کو بھی شہید کیا جاتا ہے.یہی ہیں جو جنت کا لالچ دے کر جہنم میں لے جانے والے کام کروائے جاتے ہیں.بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ یہ جو مسلمانوں کی حرکتیں ہیں ان سے مسلمانوں کے دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں اور مسلمان کی طاقت کم کرتے چلے جارہے ہیں اور ان مسلمانوں کو عقل نہیں آرہی.بہر حال یہ تو ظاہر وباہر ہے کہ یہ عقل ماری جانا اور یہ پھٹکار اس لئے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا اور نہ ہی مان رہے ہیں نہ اس طرف آتے ہیں اور آپ کے مسیح و مہدی کی تکذیب کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے اور وہ ہر احمدی کو کرنی چاہئے.اس طرف پہلے بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ خدا ان کو عقل اور سمجھ دے اور یہ منافقین اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اسلام کو بدنام کرنے والے اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے والے نہ بنیں.بہر حال جو کچھ بھی ہے جب اسلام کے دشمن ان مسلمانوں کو کسی نہ کسی ذریعے سے ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو احمدی بہر حال در دمحسوس کرتا ہے.کیونکہ یہ لوگ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں یا منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد کم علمی کی وجہ سے ان لیڈروں اور علماء کی باتوں میں آکر ایسی نامناسب حرکتیں اور کارروائیاں کر جاتی ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتے ہوئے ان لوگوں کو ، ان نام نہاد علماء کے چنگل سے چھڑائے اور یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے انجانے میں یا بیوقوفی میں اور اسلام کی محبت کے جوش میں آکر جو اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں وہ نہ بنیں.اللہ تعالیٰ ان کو سیدھی راہ بھی دکھائے ، کیونکہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے دشمن کو اسلام پر گندا چھالنے کا موقعہ ملتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی توہین آمیز حملے کرنے کا موقع ملتا ہے.پس ہر احمدی کو آجکل دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عالم اسلام اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک حالت سے دو چار ہے.اگر ہمارے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 107 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006 ء سے سچا عشق اور محبت ہے تو ہمیں امت کے لئے بھی بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں.اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جو ہم پہلے بھی کر رہے ہیں.لیکن آج میں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ دعائیں ہمیں کس طرح کرنی چاہئیں.یہ دعا کرنے کے طریقے اور اسلوب بھی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سکھائے ہیں جن سے ہماری بھی اصلاح ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کے نظارے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی ( خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے ) او پر نہیں جاتا.صلى الله (ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء في فضل الصلواة على النبي علم حدیث نمبر 486) یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ہمیں واضح فرمایا ہے.جو آیت میں نے ابھی پڑھی ہے کہ إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (الاحزاب:57) کہ یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے بھی نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو.قرآن کریم میں بے شمار احکام ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے اور ان پر عمل کرنے کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بن جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ٹھہرو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جاؤ گے، جہنم سے بچائے جاؤ گے، جنت میں داخل ہو گے.یہاں یہ حکم ہے کہ یہ اتنا بڑا اور عظیم کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو بھی اس کام پر لگایا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ خود بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے.اس لئے یہ ایسا عمل ہے جس کو کر کے تم اُس عمل کی پیروی کر رہے ہو یا اس کام کی پیروی کر رہے ہو جو خدا تعالیٰ کا فعل ہے.تو جب اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حکموں پر عمل کرنے سے اتنے بڑے اجروں سے نوازتا ہے تو اس کام کے کرنے سے جو خود خدا تعالیٰ کرتا ہے کس قدر نوازے گا.اور یہ یقیناً خالص ہو کر بھیجا گیا درود امت کی اصلاح کا باعث بھی بنے گا.اُمت کو رسوائی سے بچانے کا باعث بھی بنے گا.ہماری اصلاح کا باعث بھی بنے گا.اور ہماری دعاؤں کی قبولیت کا بھی ذریعہ بنے گا.ہمیں دجال کے فتنوں سے بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا.احادیث میں درود کے فوائد مختلف روایات میں ملتے ہیں.ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 108 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو ان میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہوگا.صلى الله (ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء في فضل الصلواة على النبى علم حدیث نمبر (484) پھر فرمایا: جو شخص دلی خلوص سے ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا اور اسے دس درجات کی رفعت بخشے گا اور اس کی دس نیکیاں لکھے گا اور دس گناہ معاف کرے گا.(کنز العمال كتاب الاذكار باب السادس في الصلاة عليه وعلى آله عليه الصلوة و السلام، حدیث نمبر 2220 اب دیکھیں دلی خلوص شرط ہے.بہت سے لوگ دعائیں کرنے یا کروانے والے یہ لکھتے ہیں کہ ہم دعا ئیں بھی بہت کر رہے ہیں آپ بھی دعا کریں اور در دو بھی پڑھتے ہیں لیکن لمبا عرصہ ہو گیا ہے ہماری دعائیں قبول نہیں ہور ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ درود کس طرح بھیجو.فرمایا کہ صَادِقٌ مِّنْ نَّفْسِهِ (جلاء الافہام صفحہ 73 بحوالہ عبدالباقی بن قانع) اس طرح بھیجو کہ خالص ہو جاؤ.درود بھیجتے ہوئے ہر کوئی اپنے نفس کو ٹولے، اپنے دل کو ٹولے کہ اس میں دُنیا کی کتنی ملونیاں ہیں اور کتنا خالص ہو کر درود بھیجنے کی طرف توجہ ہے.کتنا خالص ہو کر درود بھیجا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مدنظر رکھ کر اور آپ کے مدا راج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 38 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہیں درود بھیجنے کے طریقے.پھر آپ نے فرمایا کہ: (اے لوگو!) اس محسن نبی پر درود بھیجو جو خداوند رحمن و منان کی صفات کا مظہر ہے.کیونکہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جس دل میں آپ کے احسانات کا احساس نہیں اُس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ ایمان کو تباہ کرنے کے درپے ہے.اے اللہ ! اس اُمی رسول اور نبی پر درود بھیج جس نے آخرین کو بھی پانی سے سیر کیا ہے.جس طرح اس نے اولی کو سیر کیا اور انہیں اپنے رنگ میں رنگین کیا تھا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 109 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 6.5) اور انہیں پاک لوگوں میں داخل کیا تھا“.اس طرح خالص ہو کر درود بھیجیں گے جس سے ایک جماعتی رنگ بھی پیدا ہو جائے تو وہ ایسا درود ہے جو پھر اپنے اثرات بھی دکھاتا ہے.ایسے لوگ جو کہتے ہیں درود کا اثر نہیں ہوتا ان پر اس حدیث سے بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام سے بھی بات واضح ہو جانی چاہئے اور کبھی بھی درود بھیجنے سے تنگ نہیں آنا چاہئے بلکہ اپنے نفس کو ٹولنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو مجھ پر درود نہ بھیجے وہ بڑا بخیل ہے، کنجوس ہے.(ترمذی کتاب الدعوت باب قول رسول الله رغم انف رجل حدیث نمبر 3546) | اور اس بخل کی وجہ سے جہاں وہ بخل کرنے کا گناہ اپنے اوپر سہیڑ رہا ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی محروم ہو رہا ہوتا ہے.جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک بار درود بھیجنے والے پر اللہ تعالیٰ دس مرتبہ درود بھیجتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل کرنا تو ایسا سودا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ بھی سب دعا ئیں چھوڑ کر صرف درود بھیجا کرتے تھے.ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک کج خلقی اور بد اعتباری کی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس میراذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے.(كنز العمال جلد 1 كتاب الاذكار قسم الاقوال الباب السادس في الصلواة عليه وعلى اله 2153) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا گردنوں کو آزاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور آپ کی صحبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے یا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے.(تفسیر در منثور جلد 5 تفسير سورة الاحزاب آیت 57 صفحه 411) یہ جو آجکل کے نام نہاد جہاد ہورہے ہیں غیروں سے بھی جنگیں ہیں اور آپس میں بھی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹی جارہی ہیں.اب ان علماء سے کوئی پوچھے کہ تم جو بے علم اور ان پڑھ مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر ( جو مذہبی جوش میں آ کر اپنی طرف سے غیرت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط حرکتیں کرتے ہیں ) ، ان کی جو تم غلط رہنمائی کرتے ہو تو یہ کون سا اسلام ہے؟ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ جب تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات سنو، باتیں سنو تو آپ کے محاسن بیان کرو.آپ پر درود بھیجو.یہ تمہارے جہاد سے زیادہ افضل ہے.جان دینے سے زیادہ بہتر ہے کہ دعاؤں اور درود کی طرف توجہ دو.kh5-030425
110 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم اور اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ بجائے تشدد کے دعاؤں اور درود پر زور دو اور اس کے ساتھ ہی اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرو.اپنے نفسوں کو ٹو لو کہ کس حد تک ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں.یہ وقتی جوش تو نہیں ہے جو بعض طبقوں کے ذاتی مفاد کی وجہ سے ہمیں بھی اس آگ کی لپیٹ میں لے رہا ہے؟.پس ہمیں چاہئے کہ جہاں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں وہاں اپنے ماحول میں اگر مسلمانوں کو سمجھا سکتے ہوں تو ضرور سمجھائیں کہ غلط طریقے اختیار نہ کرو بلکہ وہ راہ اختیار کرو جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پسند کیا ہے.اور وہ راہ ہمیں بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے میری رضا حاصل کرنی ہے، جنت میں جاتا ہے تو مجھ پر درود بھیجو.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر درود نہیں بھیجتا اس کا کوئی دین ہی نہیں.پھر ایک موقع پر آپ نے فرمایا.کثرت سے اللہ کو یاد کرنا اور مجھ پر درود بھیجنا تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے.اب یہ جو رزق کی تنگی ہے.حالات کی تنگی ہے.آجکل مسلمانوں پر بھی جو تنگیاں وارد ہورہی ہیں.مغرب نے اپنے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں اور ان مسلمان ممالک کے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں ، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا جائے اور ان برکات سے فیضیاب ہوا جائے جو درود پڑھنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وابستہ کر رکھی ہیں.ایک روایت ہے.( تھوڑا سا حصہ پہلے بھی بیان کیا ہے ) اس کی تفصیل ایک اور جگہ بھی آتی ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.قیامت کے روز اس دن کے ہر ایک ہولناک مقام میں تم میں سے سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ شخص ہو گا جس نے دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا ہوگا.(تفسیر در منثور جلد 5 تفسير سورة الاحزاب آیت 57 صفحه (411) (الشفاء للقاضي الباب الرابع في حكم الصلوة عليه والتسليم فصل في فضيلة الصلوة على النبي....جلد 2 صفحه 50) دیکھیں اب کون نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ پائے.اور ہر خطرناک جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ کر نکلتا چلا جائے.یقیناً ہر کوئی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنا چاہتا ہے تو پھر یہ اس سے بچنے کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں رہنے کا طریق ہے جو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 111 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء آپ نے ہمیں بتایا ہے.اس لئے ہر وقت مومن کو درود بھیجنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے درود بھیجنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص ایک دن میں ہزار بار مجھ پر درود بھیجے گا وہ اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لے گا.(الترغيب و الترهيب للمنذرى كتاب الذكر والدعاء باب الترغيب فى اكثار الصلاة على النبی جلد2 حدیث 2515 ) | تو درود کی برکت سے جو تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہ اس دنیا کی زندگی کو بھی جنت بنانے والی ہوں گی.اور یہی عمل اور نیکیاں اور پاک تبدیلیاں ہیں جو جہاں اس دنیا میں جنت بنا رہی ہوں گی ،اگلے جہان میں بھی جنت کی وارث بنا رہی ہوں گی.حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے.پھر مجھ پر درود بھیجو.جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا.پھر فرمایا میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو یہ جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ملے گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا.جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی.صلى الله (مسلم کتاب الصلواۃ باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلى على النبي علم حدیث (384) پس یہ جو اذان کے بعد کی دعا ہے اس کو ہر احمدی کو یاد کرنا چاہئے اور پڑھنا چاہئے.درود بھیجنے کی اہمیت اور درود کے فوائد تو واضح ہو گئے لیکن بعض لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کس طرح درود بھیجیں.مختلف لوگوں نے مختلف درود بنائے ہوئے ہیں.لیکن اس بارے میں ایک حدیث ہے.حضرت کعب مجرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آپ پر سلام بھیجنے کا تو ہمیں علم ہے مگر آپ پر درود کیسے بھیجیں.فرمایا کہ یہ کہو کہ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.وَ بَارِكُ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.صلى الله (ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فى صفة الصلواة على النبي عل (483) kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 112 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006 ء تو یہ ہے.جونماز کا درود ہے وہ ذرا اور تفصیل میں ہے.پھر اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی کو خط میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”نماز تہجد اور اور اد معمولی میں آپ مشغول رہیں.تہجد میں بہت سے برکات ہیں.بریکاری کچھ چیز نہیں.بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا.وقال الله تعالى ﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70 ) درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے: اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.اَللّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.فرمایا کہ: جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے.پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پر ہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے.غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے“.مختلف قسمیں ہیں درود شریف کی ان میں سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے.یہی اس عاجز کا ورد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینے میں انشراح اور ذوق پایا جائے“.مکتوبات احمد یہ جلد اوّل صفحہ 17-18 ) تو یہ وہی درود ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں، جیسا کہ میں نے کہا ، اور زیادہ تر اسی کا ورد کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تعداد نہیں دیکھنی چاہئے.حدیث میں آیا ہے کہ جو ایک ہزار مرتبہ کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ کرتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بعض لوگوں کو تعداد بتائی.کسی کو سات سو دفعہ روزانہ پڑھنا یا گیارہ سو دفعہ پڑھنا بتایا.تو یہ حکم ہر شخص کے اپنے حالات اور معیار کے مطابق ہے، بدلتا رہتا ہے.بہر حال یہ درود شریف ہمیں پڑھنا چاہئے اس لئے میں نے جو بلی کی دعاؤں میں بھی ایک تو وہ حضرت مسیح موعود کی الہامی دعا ہے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ والِ مُحَمَّدٍ.اس کے علاوہ میں نے کہا تھا کہ درود شریف بھی پورا پڑھا جائے تو اس لئے کہا تھا کہ اصل kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 113 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء درود شریف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اس کو ہمیں اپنی دعاؤں میں ضرور شامل رکھنا چاہئے.لیکن وہی بات جس طرح حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ اتنا ڈوب کر پڑھیں کہ ایک خاص کیفیت پیدا ہو جائے اور جب اس طرح ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن رہے ہوں گے.یہ زمانہ جو آخرین کا زمانہ ہے جس زمانے سے اسلام کی فتوحات وابستہ ہیں اور یہ فتوحات ہم سب جانتے ہیں کہ تلواروں یا بندوقوں یا تو پوں اور گولوں سے نہیں ہوئیں اس میں سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہے پھر دلائل و براہین کا ہتھیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا ہے.اور اسی کے ذریعے سے انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے غالب آنا ہے.اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور برکات حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے ہم آیت میں دیکھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور مختلف احادیث سے بھی ہم نے دیکھ لیا کہ یہ سب کچھ بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے ممکن نہیں ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی بتایا ہے کہ مجھے جو مقام ملا ہے اسی درود بھیجنے کی وجہ سے ملا ہے.اور اسلام کی آئندہ فتوحات کے ساتھ بھی اس کا خاص تعلق ہے.اپنے اس مقام کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح و مہدی بنا کر دنیا میں بھیجنے کی صورت میں دیا.ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے کہ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين.اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے.صلی الله عليه وسلم“.فرمایا: "یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفصلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے.سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے“.یعنی دنیا اس کی خادم ہو جاتی ہے.اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر ٹور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں (فرشتے) لئے آتے ہیں اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھی.صلی اللہ علیہ وسلم.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 114 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006 ء 66 اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے.دین کو نئے سرے سے زندہ کرنے کے لئے ہے.لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص می کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی، جس نے زندہ کرنا ہے پتہ نہیں لگ رہا وہ کون ہے.اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا.ھذا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ الله یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے.سو وہ اس شخص میں متحقق ہے“.یعنی اس میں موجود ہے.اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی ستر ہے کہ افاضہ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے.اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.( براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 597.598 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) پس آج احیاء دین کے لئے اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑا ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو کھڑا کیا ہے اس کے چلنے سے اور اس کے دیئے ہوئے براہین اور دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتائے ہیں اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا پوری آب و تاب اور پوری شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں لہرائے گا.انشاء اللہ.اور لہراتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اور لوگوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام پر کیسے سخت دن ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم فرمایا جوکھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرے گا.اس لئے مسلمانوں کو فرمایا کہ اب اپنی ضدیں چھوڑو اور غور کرو کہ کیا اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہر طرف سے حملے ہور ہے ہیں ان کی عزت قائم کرنے کے لئے جوش میں نہیں آیا ؟ جبکہ وہ درود بھیجتا ہے.اقتباس پورا اس طرح ہے.فرمایا کہ: یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا.میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک دردر کھتے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 115 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے جس میں اس قدرسب و شتم اور تو ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گئی ہو.اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ ہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قد رسب و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا.جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں کہ اس تو ہین کے وقت میں اس صلوۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کی صورت میں کیا ہے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 8-9 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ فقرہ دیکھیں کہ اس طرح جماعت احمدیہ پر بہت بڑی ذمہ واری پڑتی ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب کرتے ہیں.پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے یقینا اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہوں گے ، بھیج رہے ہوں گے ، بھیج رہے ہیں.ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور امام الزمان کے سلسلے اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعا ئیں اس درود کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں.یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپ کی آل سے ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ مسلمہ کو بھی عقل دے، سمجھ دے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کو پہچانیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہوں جو صلح، امن اور محبت کی فضا کو دوبارہ دنیا میں پیدا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بلند کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کے باوجود آج پھر دیکھ لیں چودہ سو سال کے بعد بھی اسی مہینے میں جب محرم کا مہینہ ہی چل رہا ہے اور اسی سرزمین میں پھر مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے مگر سبق کبھی بھی نہیں سیکھا اور ابھی تک خون بہاتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اس عمل سے باز آئیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 116 خطبہ جمعہ 24 فروری 2006ء اور اپنے دل میں خدا کا خوف پیدا کریں اور اسلام کی سچی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.یہ سب کچھ جو یہ کر رہے ہیں زمانے کے امام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہو رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انکار کی وجہ سے ہورہا ہے.پس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس نے اس زمانے کے امام کو پہچانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درود پڑھیں ، دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی تا کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچالے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں امت مسلمہ کو بہت جگہ دیں.غیروں کے بھی ارادے ٹھیک نہیں ہیں.ابھی پتہ نہیں کن کن مزید مشکلوں اور ابتلاؤں میں اور مصیبتوں میں ان لوگوں نے گرفتار ہونا ہے اور ان مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑنا ہے.اور کیا کیا منصو بے ان کے خلاف ہورہے ہیں.اللہ ہی رحم کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلاتا رہے.اللہ تعالیٰ کے ہم شکر گزار بندے ہوں.اور اس کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی ہے.اور اب اس ماننے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلانے والا بنائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء 117 9 خطبات مسرور جلد چهارم حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جہاد کو منسوخ کرنے ، اسلامی احکامات کو تبدیل کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کے عہد کے خاتمہ کا الزام سراسر تہمت اور انتہائی گھناؤنا الزام ہے ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے لاکھوں کروڑوں حصے زیادہ ہے جو ہم پر اس قسم کے انتہام اور الزام لگاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق فرمودہ مورخہ 03 / مارچ 2006ء (03/امان 1385 هش) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کل لندن سے شائع ہونے والے جنگ اخبار نے ایک ایسی خبر شائع کی ہے جس کا جماعت احمدیہ کے عقائد سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اور خالصتاً شرارت سے یہ خبر شائع کی گئی ہے.نہ صرف عقائد کے خلاف ہے بلکہ جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کوئی وجود ہی نہیں ہے.یہ خبر شائد یہاں کے حوالے سے پاکستان وغیرہ میں بھی چھپی ہوگی ، کل نہیں تو آج چھپ گئی ہوگی ، kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 118 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء کیونکہ یہ اخبار اپنی بکری بڑھانے کے لئے ایسی خبریں شائع کرنے میں بڑی جلدی کرتے ہیں.سرکولیشن بڑھانے کے لئے اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرنے اور جھوٹ کے پلندے شائع کرنے کے عادی ہو چکے ہیں.ان کا جو پاکستان کا ایڈیشن ہے اس کے بارے میں ہم سب کو پتہ ہے ، سب کے علم میں ہے کہ آئے دن ہمارے بارہ میں ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں ، جھوٹ بولتے رہتے ہیں.گزشتہ دنوں میں ڈنمارک کے اخبار میں جولغو اور بیہودہ خاکے بنائے گئے تھے اور پھر دوسری دنیا میں بھی بنائے تھے، ان کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک انتہائی غم و غصے کی لہر پیدا ہوئی ہوئی ہے.ہڑتالیں ہو رہی ہیں، جلوس نکالے جا رہے ہیں.بہر حال جو بھی غصے کا اظہار ہے، جب اس کو کوئی سنبھالنے والا نہ ہو، اس بہاؤ کو کوئی روکنے والا نہ ہو، اس کو صحیح سمت دینے والا نہ ہو تو پھر اسی طرح ہی رد عمل ظاہر ہوا کرتے ہیں.کیونکہ مسلمان جیسا بھی ہو، نمازیں پڑھنے والا ہے یا نہیں، اعمال بجالانے والا ہے یا نہیں لیکن ناموس رسالت کا سوال آتا ہے تو بڑی غیرت رکھنے والا ہے، مر مٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.ان حالات میں اس خبر کو شائع کرنا اور پھر کل جمعرات کے دن شائع کرنا جبکہ آج جمعہ کے روز اکثر جگہوں پر پھر جلوس نکالنے اور ہڑتالیں کرنے اور اس طرح کے کے رد عمل کا پروگرام ہے تو یہ چیز خالصتاً اس لئے کی گئی تھی کہ احمدیوں کے خلاف فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.یہ انتہائی ظالمانہ اور فتنہ پردازی کی کوشش ہے تا کہ اس خبر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم علم مسلمانوں کو بھڑکا کر احمد یوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جائے.بہر حال یہ ان کی کوششیں ہیں کہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے جب احمد یوں کے خلاف لاعلم، کم علم مسلمانوں کو بھڑ کا یا نہ جائے.آپ میں سے کئی لوگوں نے یہ خبر پڑھی ہوگی لیکن چونکہ سب پڑھتے نہیں ہیں اس لئے میں یہ خبر پڑھ دیتا ہوں.کوپن ہیگن کے حوالے سے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے.انکے رپورٹر میں ڈاکٹر جاوید کنول صاحب، وہ کہتے ہیں کہ ڈنمارک کے خفیہ ادارے کے ایک ذمہ دار افسر نے اپنا نام اور عہدہ صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر کارٹون ایشو پر گفتگو کرتے ہوئے جنگ اخبار کو بتایا کہ تمبر 2005ء میں قادیانیوں کا سالانہ جلسہ ڈنمارک میں ہوا جس میں قادیانیوں کے مرکزی ذمہ داران نے شرکت کی ، اس موقع پر قادیانیوں کے ایک وفد نے ایک ڈینش وزیر سے ملاقات کے دوران جہاد کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہی اسلام کی حقیقی تعلیمات کے علمبردار ہیں.یہاں تک تو ٹھیک ہے، ہم نے انہیں خاص طور پر تو نہیں بتایا مگر ہمارا دعویٰ یہی ہے کہ جماعت احمد یہ ہی اسلام کی حقیقی تعلیمات کی علمبر دار ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 119 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء آگے لکھتے ہیں کہ ان کے نبی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے.ٹھیک ہے لیکن شرائط کے ساتھ منسوخ قراردے دیا ہے.پھر آگے لکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلامی احکامات ( نعوذ باللہ ) تبدیل کر دیئے ہیں.یہ سراسر اتہام اور الزام ہے.اس لئے (آگے ذرا دیکھیں اس کی شرارت ) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کا عہد ختم ہو چکا ہے.نعوذ باللہ.اخبار لکھتا ہے کہ قادیانیوں کی اس یقین دہانی پر کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کار صرف سعودی عرب تک محدود ہیں، 30 ستمبر کو ڈینش اخبار نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے 12 کارٹون شائع کئے جن کا مرکزی نکتہ فلسفہ جہاد پر حملہ کرنا تھا.اعلیٰ ڈینش افسر نے کہا کہ ہمیں جنوری کے آغاز تک اس بات کا یقین تھا کہ قادیانیوں کا دعوی سچا تھا کیونکہ جنوری تک سوائے سعودی عرب کے کسی اسلامی ملک نے ہم سے باقاعدہ احتجاج نہیں کیا تھا.او آئی سی کی خاموشی ہمارے یقین کو پختہ کر رہی تھی.اس ذمہ دار افسر نے اس نمائندے کو اس ملاقات کی ویڈیوٹیپ بھی سنائی.جس میں ڈینش اردو اور انگریزی زبان میں گفتگور یکار تھی.(روز نامہ جنگ لندن ، 02 / مارچ 2006 ، صفحہ 1 و 3) گویا اس سے باتیں تینوں زبانوں میں ہورہی تھیں.جھوٹ کے تو کوئی پاؤں نہیں ہوتے.ایسی بے بنیاد خبر ہے کہ انتہا ہی نہیں ہے، یہ ڈاکٹر جاوید کنول صاحب شاید جنگ کے کوئی خاص نمائندے ہیں.پہلے تو خیال تھا کہ ڈنمارک میں ہے لیکن اب پتہ لگا ہے کہ یہ صاحب اٹلی میں ہیں اور وہاں سے جنگ کی اور جیو کی نمائندگی کرتے ہیں.اور قانو نامی و یسے بھی جو ابھی تک مجھے پتہ لگا ہے کہ ڈنمارک کے حوالے سے یہ خبر کسی اخبار میں نہیں دے سکتے.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ الزام لگایا ہے کہ جماعت کا ستمبر میں جلسہ ہوا.جماعت احمدیہ کا گزشتہ سال کا جلسہ ستمبر میں تو وہاں ہوا ہی نہیں تھا.میرے جانے کی وجہ سے سکنڈے نیوین ممالک کا اکٹھا جلسہ ہوا تھا اور وہ سویڈن میں ہوا تھا.اور ایم ٹی اے پر ساروں نے دیکھا کہ کیا ہم نے باتیں کیں اور کیا نہیں کیں.ڈنمارک میں میرے جانے پر ایک ہوٹل میں ایک ریسیپشن (Reception) ہوئی تھی جس میں کچھ اخباری نمائندے، پریس کے نمائندے بھی تھے اور دوسرے پڑھے لکھے دوست بھی اس میں تھے.سرکاری افسران بھی تھے، ایک وزیر صاحبہ بھی آئی ہوئی تھیں اور وہاں قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حوالے سے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند تعلیم کا ذکر ہوا تھا.اور جو کچھ بھی وہاں کہا گیا تھا وہ صاف تھا، کھلا تھا.کوئی چھپ کے بات نہیں ہوئی تھی.اور اخباروں نے وہاں شائع بھی کیا تھا بلکہ تھوڑا سا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 120 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء انکے ٹی وی پروگرام میں بھی آیا تھا.اور کوئی علیحدہ ملاقات نہیں تھی اور وہی جو ریسیپشن میں میری تقریر تھی میرے خیال میں ایم ٹی اے نے بھی دکھا دی ہے.نہیں دکھائی تو اب دکھا دیں.بہر حال یہ ٹھیک ہے کہ شاید وہاں تقریر میں ہی ان لکھنے والے صاحب کی طرح لوگوں کا ذکر ہوا ہو کہ یہ چند لوگ ہیں جو اسلام کو بدنام کرنے والے ہیں ورنہ مسلمان اکثریت اس طرح کے جہاد اور دہشت گردی کو نا پسند کرتی ہے.بہر حال ہماری طرف منسوب کر کے بہت بڑا جھوٹ بولا گیا ہے.شاید کوئی جھوٹا ترین شخص بھی یہ بات کہتے ہوئے کچھ سوچے کیونکہ آج کل تو ہر چیز ریکارڈ ہوتی ہے.اور ان صاحب کے بقول اردو انگریزی اور ڈینش میں ویڈیو ٹیپ بھی موجود ہیں.تو اگر بچے ہیں تو یہ یہیں دکھا دیں ، ہمیں بھی دکھا دیں.پتہ چل جائے گا کہ کون بولنے والے ہیں، کیا ہیں.بہر حال اس جھوٹی خبر پھیلانے والے کو پہلی بات تو میں یہ ہی کہتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِین.اگر تم سچے ہو تو تم بھی یہی الفاظ دو ہر ادو.لیکن کبھی بھی نہیں دو ہرا سکتے اگر رتی بھر بھی اللہ کا خوف ہوگا.ویسے تو ان لوگوں میں خدا کا خوف کم ہی ہے.لیکن اگر نہیں بھی دوہراتے تب بھی اس شدت کا جھوٹ بول کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا کے نیچے یہ لوگ آچکے ہیں.بہر حال جماعت احمدیہ کے خلاف ایسی مذموم حرکتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور مسلسل ہورہی ہیں.اور جب بھی اپنے زعم میں ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو نا کامی کا منہ دکھاتا ہے اور جماعت احمدیہ سے اپنے پیار کا وہ اظہار کرتا ہے جو پہلے سے بڑھ کر اس کا فضل لے کر آتا ہے.جب سے یہ کارٹون کا فتنہ اٹھا ہے سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے یہ بات اٹھائی تھی اور اس اخبار کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی.اس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں.پھر دسمبر ، جنوری میں ہم نے دوبارہ ان اخباروں کو لکھا تھا اور بڑا کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا ان دنوں میں میں قادیان میں تھا جب ہمارے مبلغ نے وہاں اخبار کو لکھا تھا.ہمارے مبلغ کا اخبار میں انٹرویو شائع ہوا تھا.تو اس اخبار نے یہ لکھنے کے بعد کہ جماعت احمدیہ کا رد عمل اس بارے میں کیا ہے اور یہ لوگ توڑ پھوڑ کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کو اپنی زندگی میں ڈھال کر پیش کرنا چاہتے ہیں.آگے وہ لکھتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ( امام صاحب کا انٹرویو تھا نا کہ امام کو ان کارٹونوں سے تکلیف نہیں پہنچی بلکہ ان کا دل کارٹونوں کے زخم سے چُور ہے.بلکہ اس تکلیف نے انہیں اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ فوری طور پر ان kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 121 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء کارٹونوں کے بارے میں ایک مضمون لکھیں چنانچہ انہوں نے وہ مضمون لکھا اور وہاں ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہوا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشق ہی ہے جس نے جماعت میں بھی اس محبت کی اس قدر آگ لگا دی ہے کہ یورپ میں عیسائیت سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں آنے والے یورپین باشندے بھی اس عشق و محبت سے سرشار ہیں.چنانچہ ڈنمارک کے ہمارے ایک احمدی مسلمان عبدالسلام میڈسن صاحب کا انٹرویو بھی اخبار Venster Bladet نے 16 فروری 2006ء کو شائع کیا ہے.ایک لمبا انٹرویو ہے.اس کا کچھ حصہ میں آپ کو سناتا ہوں.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ میڈسن صاحب نے مزید کہا کہ ڈنمارک کے وزیر اعظم کو مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کرنی چاہئے تھی کیونکہ لوگ ان خاکوں کو دیکھ کر غصہ میں آتے ہیں.اگر وزیر اعظم نے مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ مسئلہ کس قدرا ہم تھا اور اس کے کیا نتائج پیدا ہو سکتے تھے.اور یہ جور د عمل سامنے آیا ہے یہ بالکل وہی ہے جو میں ان خاکوں کی اشاعت پر محسوس کر رہا تھا کہ رد عمل ہوگا.کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے لئے زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں مثال ہیں.جب ایسی ذات پر توہین آمیز حملہ کیا جائے تو یہ ہر ایک مسلمان کے لئے تکلیف دہ امر ہے.اور وہ اس پر دکھ محسوس کرتا ہے.عبد السلام میڈسن صاحب یہ کہتے ہیں کہ یولنڈ پوسٹن جو وہاں کا اخبار تھا اس کو ان خاکوں کی اشاعت سے کیا حاصل ہوا ہے.پھر آگے وہ لکھتا ہے کہ میڈسن صاحب کو بھی اس امر کی بہت تکلیف ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کئے گئے ہیں.پھر کہتا ہے کہ میڈسن صاحب نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ کے بارے میں بڑی تفصیل سے ملتا ہے کہ ان کا حلیہ مبارک کیا تھا، کیسا تھا.پھر انہوں نے لکھا کہ یہ ایک گندی بچگانہ حرکت ہے.پھر انہوں نے لکھا ہے کہ ڈنمارک میں قانون توہین موجود ہے، پہلے میرے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی مگر اب میرے خیال میں فساد کو روکنے کے لئے اس قانون کو اپلائی (Apply) کرنے کی ضرورت ہے تا کہ فسادنہ ہو.کہتے ہیں کہ باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین تو خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ خود ہی اس کی سزا دے گا.تو یہ دیکھیں ایک یورپین احمدی مسلمان کا کتنا پکا ایمان ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 122 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس گھناؤنی حرکت کرنے پر یہ ہمارے رد عمل تھے.ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے لاکھوں کروڑوں حصے زیادہ ہے جو ہم پر اس قسم کے اتہام اور الزام لگاتے ہیں.اور یہ سب کچھ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبصورت تعلیم کی وجہ سے ہے جس کی تصویر کشی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے کی ہے.جس کو خوبصورت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھایا ہے.کوئی بھی احمدی کبھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں یہ حال تھا کہ حسان بن ثابت کا یہ شعر پڑھ کر آپ کی آنکھیں آنسو بہایا کرتی تھیں.وہ شعر یہ ہے کہ: كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيُّ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ تُو تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو تیرے وفات پا جانے کے بعد اندھی ہوگئی.اب تیرے بعد جو چاہے مرے، مجھے تو صرف تیری موت کا خوف تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ کاش یہ شعر میں نے کہا ہوتا.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحه 23 روایت نمبر (33) تو ایسے شخص کے متعلق کہنا کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتا ہے یا اس کے ماننے والے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقام دیتے ہیں.بہت گھناؤنا الزام ہے.ہمیں تو قدم قدم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہونے کے نظارے آپ میں دکھائی دیتے ہیں.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں.اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم ، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 456) تو جو اپنا سب کچھ اس نور پر فدا کر رہا ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اب نہیں رہا اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مقام زیادہ اونچا ہو گیا ہے اور احمدیوں کے نزدیک حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام آخری نبی ہیں اور پھر یہ کہ ہم نے ان kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 123 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء کو یہ کہ دیا کہ ٹھیک ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے آپ آخری نبی ہیں اب ہم اخبار کو کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بناؤ.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اور لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ.انتہائی بچگانہ بات ہے کہ ہمارے کہنے پر ، صرف اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ ہم اجازت دیں اور وہ کارٹون شائع کر دیں جن کی ڈنمارک میں تعداد ہی چند سو ہے.خبر لگاتے ہوئے یہ اُردو اخبار کچھ آگے پیچھے بھی غور کر لیا کرے.ڈنمارک کی حکومت بیچاری تو شاید اتنی عقل سے عاری نہ ہولیکن یہ خبر لکھنے والے اور شائع کرنے والے بہر حال عقل سے عاری لگتے ہیں.اور سوائے ان کے دلوں میں فتنے کے کچھ نظر نہیں آتا.سوائے مسلمانوں کو انگیخت کرنے کے، بھڑ کانے کے کوئی اس خبر کا مقصد نظر نہیں آتا کہ اس نام پر مسلمان جوش میں آجاتے ہیں.اس لئے جن مسلمان ملکوں میں، بنگلہ دیش میں ، انڈونیشیا میں یا پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فضا ہے وہاں اور فساد پیدا کیا جائے.اور کوئی بعید نہیں ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر نے اس بہانے ان ملکوں میں یہ تحریک شروع کی ہو کہ حکومتوں کے خلاف تحریک چلائی جائے.کیونکہ ہم نے ابھی تک عموماً یہی دیکھا ہے کہ احمدیوں کے خلاف چلی ہوئی تحریک آخر میں حکومتوں کے خلاف اُلٹ جاتی ہے.اس لئے ان ملکوں کی حکومتوں کو بھی عقل کرنی چاہئے اور مفاد پرست ملاں یا ان عناصر کی چال میں نہیں آنا چاہئے.جہاں تک ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا تعلق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو شعر پڑھے تھے اس سے ہم نے دیکھ لیا، کچھ اندازہ ہو گیا اور ہر احمدی کے دل میں جو مقام ہے وہ ہر احمدی جانتا ہے.گزشتہ خطبات میں میں اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں.اس تعلق میں خطبات دے چکا ہوں.تکلیف کا اظہار ہم کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں.تمام دنیا میں ہماری طرف سے احتجاجی بیان بھی شائع ہوئے ہیں، پریس ریلیز بھی شائع ہوئی ہیں.اور یہ سب بیان ہم نے کوئی کسی کو دکھانے کے لئے یا کسی کی خاطر یا مسلمانوں کے خوف یا ڈر کی وجہ سے نہیں دیئے.بلکہ یہ ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق تو ڑ کر ہماری زندگی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند حوالے میں پڑھوں گا.اس سے بات مزید کھولتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : ” ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله - ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 124 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء اس عالم گزران سے کوچ کریں گے.یعنی کہ اسی ایمان کے ساتھ ہم اس دنیا سے جائیں گے.یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعے سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالی تک پہنچ سکتا ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 169-170 ) تو یہ ہے ہمارے ایمان کا حصہ اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے.تو جس کا یہ ایمان ہو اس کے بارے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کے واسطے کے بغیر وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے یا نبوت مل گئی.پھر آپ فرماتے ہیں: "صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں کچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تا شیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے، اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے“.(براہین احمدیہ حصہ چہارم.حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 557-558 ) یعنی کہ اب جو کچھ بھی ملنا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ملنا ہے.اور آپ پر ہی نبوت کامل ہوتی ہے آپ کی تعلیم سے ہی جو اندھیرے ہیں وہ دُور ہوتے ہیں اور روشنی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی اسی سے ملنا ہے.حقیقی نجات بھی اسی سے ملنی ہے اور دل کی گندگیاں اسی سے صاف ہونی ہیں جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.پھر آپ فرماتے ہیں: ”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مسجد داعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے ، آپ قوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا.اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 125 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جن کی نظیر دنیا کے کسی حصے میں پائی نہیں جاتی.یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی.یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانے میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جبکہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا.اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جبکہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر تو حید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے اور در حقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی آداب سکھلائے.جو وحشی قوم تھی اور جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے تھے ان کو انسانی آداب سکھلائے.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا ، یعنی جانور کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور بچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا.وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا.پس بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعے اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قو تیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی.اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانے کے تاخیر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت پر آپ پر ختم ہو گئے.اور چونکہ آپ صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی.اور آپ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں.اور آپ کی نبوت عامہ کا کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتداء سے تمام دنیا کے لئے ہے“.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 206-207) یہ ہے جماعت احمدیہ کی تعلیم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان آج تک قائم ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت ، نئی کتاب نہ آئے گی، نئے احکام نہ آئیں گئے.اور یہ کہتے ہیں کہ نئی شریعت لے آئے اور مرزا غلام احمد کو بالا سمجھتے ہیں.kh5-030425
126 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے.جو الفاظ میری کتاب میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں.بلکہ منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات الہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے.یعنی اس سے بولتا ہے.” اور غیب کی خبر میں اس کو دیتا ہے اس پر نبی کا لفظ ,, بولا جاتا ہے.جس سے بھی زیادہ تر اللہ تعالیٰ بولے گا ، کلام کرے گا اس پر نبی کا لفظ بولا جاتا ہے.اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے.یہ معنی نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذ باللہ منسوخ کرتا ہے.یہ الزام ہم پر لگا رہے ہیں.بلکہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ ا.’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کچی اور کامل اتباع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں“.(الحکم 10 جنوری 1904 ء صفحہ 2) پس جب دعوی کرنے والا دوٹوک الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ میں سب کچھ اس سے حاصل کر رہا ہوں اور اس کے بغیر کچھ بھی مل نہیں سکتا.اور اس کے ماننے والے بھی اس یقین پر قائم ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام صادق ہے تو پھر افتراء اور جھوٹ پر مبنی باتیں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی جائے.اور ایسے لوگ ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں.فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ یہ شیطانی قوتوں کو ( شیطان تو ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے ) حسد کی آگ ان کو جلاتی رہتی ہے.یہ جماعت کی ترقی دیکھ نہیں سکتے ان کی آنکھوں میں جماعت کی ترقی کھنکتی ہے.اور چاہے یہ جتنی مرضی گھٹیا حرکتیں کر لیس پہلے بھی یہ کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی شاید کرتے رہیں گے اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، شیطان نے تو قائم رہنا ہے یہ ترقی ان کی گھٹیا حرکتوں سے رکنے والی نہیں ہے.انشاء اللہ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ : وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا، آفتاب میں بھی نہیں تھا، وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.نہ زمینی چیز میں تھا اور نہ آسمان میں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نو ر اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں.ان ماننے والوں کو جتنا جتنا کسی کا ایمان تھا اس کے مطابق دیا گیا.اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام kh5-030425
127 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے.کہ تمام جو انسان کے حصے ہیں عقل ہے، علم ہے اور دوسرے حواس ہیں ان کی جو اعلیٰ طاقت ہے، اعلیٰ معیار ہے وہ انسان کامل کو ملا.اور پھر انسان کامل بر طبق آیت ﴿إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْامَنتِ إِلَى أَهْلِهَا ﴾.(النساء : 59) ، یعنی اس انسان کامل نے اس آیت کے مطابق کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کر و.اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے“.اور فرماتے ہیں کہ : " یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ، ہمارے مولی ، دو ہمارے ہادی نبی امی ، صادق و مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 160-162) پس یہ لوگ جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق سمجھتے ہیں اور ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان سے بالا سمجھتے ہیں.یہ بتائیں ،ان کے تو مقصد ہی صرف یہ ہیں کہ ذاتی مفاد حاصل کئے جائیں ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں.یہ اپنے علماء میں سے کسی ایک کے منہ سے بھی اس شان کیا ، اس شان کے لاکھویں حصے کے برابر بھی کوئی الفاظ ادا کئے ہوئے دکھا سکیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں.یہ اس عاشق صادق کے الفاظ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے بارے میں جسے تم لوگ جھوٹا کہتے ہو.اس شخص کی تو ہر حرکت و سکون اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھا.یہ گہرائی یہ فہم، یہ ادراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا کبھی کہیں اپنے لٹریچر میں تو دکھاؤ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور جماعت کی ہمیشہ یہی تعلیم ہے اور اس پر چلتی ہے کہ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے برداشت کر لیتے ہیں.آپ فرمایا کہ : ” ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے.مگر جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر نا پاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم مشورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں.خدا ہمیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 128 اسلام پر موت دے.ہم ایسا کام کرنانہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے“.خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 459) تو یہ ہے ہماری تعلیم.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دی ہوئی تعلیم ہے اور یہ ہے ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی بھڑکائی ہوئی آگ اور اس کا صحیح فہم اور ادراک جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیا.اس کے بعد بھی یہ کہنا کہ نعوذ باللہ خاکے بنانے کے سلسلے میں اخبار اور حکومت ڈنمارک کو احمدیوں نے Encourage کیا تھا.اس کے بعد انہوں نے خاکے شائع کئے.تو ان لوگوں پر سوائے اللہ تعالیٰ کی لعنت کے اور کچھ نہیں ڈالا جاسکتا.اب دوسری بات یہ ہے کہ جہاد کو منسوخ کر دیا ہے.اُس نے پہلی بات یہ کھی ہے لیکن اہم وہ بات تھی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونعوذ باللہ ہی نہیں مانتے یا ان کی تعلیم اب منسوخ ہو گئی ہے.دوسری بات اس نے جہاد کی منسوخی کی لکھی ہے اس بارے میں مسلمانوں کے اپنے لیڈ ر گزشتہ دنوں میں جب اُن پر پڑی ہے اور جن طاقتوں کے یہ طفیلی ہیں اور جن سے لے کر کھاتے ہیں انہوں نے جب ان کو دبایا تو انہیں کے کہنے پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ جو آج کل جہاد کی تعریف کی جاتی ہے اور یہ کہ بعض مسلمان تنظیمیں آئے دن حرکتیں کرتی رہتی ہیں یہ جہاد نہیں ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.اخباروں میں ان لوگوں کے بیان چھپ چکے ہیں.جماعت احمدیہ کا تو پہلے دن سے ہی یہ موقف ہے اور یہ نظریہ ہے اور یہ تعلیم ہے کہ فی زمانہ ان حالات میں جہاد بند ہے اور یہ مین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اسلئے تھیں کہ کفار کے حملے سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے.اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے.مگر اب کون مخالفوں میں سے دین کے لئے تلوار اٹھا تا ہے.اور مسلمان ہونے والے کو کون روکتا ہے اور مساجد میں بانگ دینے سے کون منع کرتا ہے.یعنی اذان دینے سے کون منع کرتا ہے.صرف پاکستان میں احمدیوں کو ہی منع کیا جا رہا ہے.لیکن اس کے باوجود ہم خاموش ہیں ، ہم نے تو کوئی شور نہیں مچایا.بغیر اذان کے نماز پڑھ لیتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم میں مسیح موعود کی شان میں صاف حدیث موجود kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 129 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء ہے کہ يضع الحزب یعنی مسیح موعود لڑائی نہیں کرے گا.تو پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد اصح الکتب ہے، اور دوسری طرف صحیح بخاری کے مقابل پر ایسی حدیثوں پر عقیدہ کر بیٹھتے ہیں جو صریح بخاری کی حدیث کی منافی پڑی ہے“.پس یہ جماعت احمدیہ کا نظریہ ہے اور قرآن وحدیث کے مطابق ہے.اور بانگ دہل کھلے طور پر ہم یہ اعلان کرتے ہیں، کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ اب یہ لوگ جو جہاد جہاد کرتے پھر رہے ہیں جس کی آڑ میں سوائے دہشت گردی کے کچھ نہیں ہوتا یہ جہاد نہیں ہے اور سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.ابھی کل ہی کراچی میں جو خود کش حملہ ہوا ہے یہی لوگ ہیں جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.پھر ایسے حملے میں اپنے ملک کی معصوم جانیں بھی یہ لوگ لے لیتے ہیں.یہ غلط حرکتیں کر کے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے انکاری تو یہ لوگ خود ہورہے ہیں.احمدی تو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پہنچانے کا جہاد کر رہے ہیں.کون ہے ان لوگوں میں سے جو اسلام کے پیغام کو اس طرح دنیا کے کونے کونے میں پہنچا رہا ہو.ہاں تمہاری اس دہشت گردی اور اسلام کو بدنام کرنے والی جو جہادی کوششیں ہیں ان میں احمدی نہ کبھی پہلے شامل ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ہوں گے.بہر حال یہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں ہیں، ہوتی رہی ہیں.تو اس اخبار کو بھی میں کہتا ہوں ، ان کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو، پاکستان کی طرح کہ اگر ملاں کی مرضی ہوگی یا ان کی مرضی ہو گی قانون پر عملدرآمد ہو جائے گا اور انصاف نہیں ہوگا.بہر حال کچھ نہ کچھ حد تک ان لوگوں میں انصاف ہے.ہم سارے کوائف اکٹھے کر رہے ہیں، رپورٹس منگوا رہے ہیں.یہ خبر دے کر اس افسر کے حوالے سے کہ ڈنمارک کے افسر نے کہا ہے کہ احمدیوں کی یقین دہانی پر کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم منسوخ ہو گئی ہے ہم نے یہ کارٹون شائع کئے تھے گویا ڈنمارک کی حکومت پر بھی اس سے الزام ثابت ہو رہا ہے کہ وہاں کی حکومت بھی اس کام میں ملوث ہے.جبکہ وہاں کے وزیر اعظم شور مچارہے ہیں، کئی دفعہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ اخبار کا کام ہے ہم اس کو نا پسند کرتے ہیں لیکن آزادی صحافت کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے.آزادی صحافت کیا چیز ہے، کیا نہیں وہ ایک الگ معاملہ ہے.لیکن بہر حال وہ اس چیز سے انکاری ہیں اور یہ اخبار کہہ رہا ہے کہ نہیں حکومت اس میں شامل ہے.تو اس خبر کے خلاف تو ڈنمارک کی حکومت بھی کارروائی کا حق رکھتی ہے.آج کل جبکہ مسلمان دنیا میں ڈنمارک کے خلاف آگ بھڑ کی ہوئی ہے اس اخبار نے ایک من گھڑت خبر شائع kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 130 خطبہ جمعہ 03 / مارچ 2006 ء کر کے ان کے حوالے سے شائع کی ہے یہ تو مزید اس آگ کو تیل دینے والی بات ہے، ہوا دینے والی بات ہے.ہم نے جو ان سے رابطے کئے ہیں ڈنمارک کی اعلیٰ سیکیورٹی ایجنسی کے افسر نے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے، تردید کی ہے کہ بالکل کبھی اس طرح نہیں ہوا اور نہ کوئی ہمارے پاس ایسی خبر ہے.بہر حال وہ کہتے ہیں ہم مزید تحقیق کریں گے اس سے مزید باتیں کھل جائیں گی.پہلے انہوں نے اخبار میں یہ خبر لکھی کہ اس کی ویڈیوٹیپ ہمارے پاس ہے لیکن ہم نے جو اپنے رابطے کئے تو اب یہ کہنے لگے ہیں کہ نہیں ویڈیو ٹیپ نہیں آڈیو ٹیپ ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے.یہ اپنے بیان بدلتے رہیں گے.اور یہی پاکستانی صحافت کا یا اس صحافت کا جس پر پاکستانی اثر ہے، حال ہے.لیکن بہر حال میں یہ بتا دوں کہ بات اب یہاں اس طرح ختم نہیں ہو گی.ہم پر یہ جو اتنا گھناؤنا الزام لگایا ہے اور ان حالات میں احمدیوں کے خلاف جو سازش کی گئی ہے ہم اس کو جہاں تک یہاں کا قانون ہمیں اجازت دیتا ہے انشاء اللہ انجام تک لے کر جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو ، کم از کم ان مسلمانوں کو جو شریف فطرت لوگ ہیں، ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کے اخلاقی معیار کا پتہ لگ سکے.ہم پر تو ہمیشہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا گھناؤنے الزام لگائے جاتے رہے ہیں لیکن ہم ہمیشہ صبر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد، اس تعلیم کو سامنے رکھتے رہے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ: میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کریں.قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں.نہ صرف قال سے.اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقیناً یا درکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے.اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا“.انشاء اللہ (الحکم 24 ستمبر 1904ء صفحہ نمبر 4) اللہ ہمیں ہمیشہ اس نصیحت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیتار ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے اور ان بد فطرتوں کو اب عبرت کا نشان بنائے.نوٹ:.اس اخبار نے بالآخر معذرت کی.مرتب kh5-030425
خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء 131 10 خطبات مسرور جلد چهارم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر بیہودہ جملوں کے جواب میں اسلام کی خوبصورت اور پاکیزہ تعلیم کا تذکرہ اسلام حسن اخلاق سے اور آزادی ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپ نے کئے.فرمودہ مورخہ 10 / مارچ 2006ء (10 /امان 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر غیر مسلموں کی طرف سے جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نعوذ باللہ ایسا دین لے کر آئے جس میں سوائے بختی اور قتل وغارت گری کے کچھ اور ہے ہی نہیں اور اسلام میں مذہبی رواداری، برداشت اور آزادی کا تصور ہی نہیں ہے اور اسی تعلیم کے اثرات آج تک مسلمانوں کی فطرت کا حصہ بن چکے ہیں.اس بارہ میں کئی دفعہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں سے ہی بعض طبقے اور گروہ یہ تصور پیدا کرنے اور قائم کرنے میں ممد و معاون ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے ان کے اسی نظریے اور عمل نے غیر اسلامی دنیا میں اور خاص طور پر مغرب میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لغو اور بیہودہ اور انتہائی نازیبا اور غلیظ خیالات کے اظہار کا موقع پیدا کیا ہے.جبکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض طبقوں اور گروہوں کے عمل مکمل طور پر اسلامی تعلیم اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہیں.اسلام کی تعلیم تو ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس کی خوبصورتی اور حسن kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 132 سے ہر تعصب سے پاک شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006 ء قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا ذکر ملتا ہے جس میں غیر مسلموں سے حسن سلوک ، ان کے حقوق کا خیال رکھنا ، ان سے انصاف کرنا ، ان کے دین پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا، دین کے بارے میں کوئی سختی نہ کرنا وغیرہ کے بہت سے احکامات اپنوں کے علاوہ غیر مسلموں کے لئے ہیں.ہاں بعض حالات میں جنگوں کی بھی اجازت ہے لیکن وہ اس صورت میں جب دشمن پہل کرے، معاہدوں کو توڑے، انصاف کا خون کرے، ظلم کی انتہا کرے یا ظلم کرے لیکن اس میں بھی کسی ملک کے کسی گروہ یا جماعت کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے، کس طرح اس ظلم کو ختم کرنا ہے نہ کہ ہر کوئی جہادی تنظیم اٹھے اور یہ کام کرنا شروع کر دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی جنگوں کے مخصوص حالات پیدا کئے گئے تھے جن سے مجبور ہوکر مسلمانوں کو جوابی جنگیں لڑنی پڑیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجوانہ نعروں اور عمل سے غیر مذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے اور ان میں اتنی جرات پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے ہیں اور کرتے رہے ہیں جبکہ اس سراپا رحم اور محسن انسانیت اور عظیم محافظ حقوق انسانی کا تو یہ حال تھا کہ آپ جنگ کی حالت میں بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جو دشمن کو سہولت نہ مہیا کرتا ہو.آپ کی زندگی کا ہر عمل، ہر فعل، آپ کی زندگی کا پل پل اور لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپ نے کئے ، امن میں بھی اور جنگ میں بھی ، گھر میں بھی اور باہر بھی ، روز مرہ کے معمولات میں بھی اور دوسرے مذاہب والوں سے کئے گئے معاہدات میں بھی.آپ نے آزادی ضمیر ، مذہب اور رواداری کے معیار قائم کرنے کی مثالیں قائم کر دیں.اور پھر جب عظیم فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو جہاں مفتوح قوم سے معافی اور رحم کا سلوک کیا ، وہاں مذہب کی آزادی کا بھی پورا حق دیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ﴾ (البقره:257) کہ مذہب تمہارے دل کا معاملہ ہے، میری خواہش تو ہے کہ تم سچے مذہب کو مان لو اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لو، اپنی بخشش کے سامان کر لو، لیکن کوئی جبر نہیں.آپ کی زندگی رواداری اور آزادی مذہب و ضمیر کی ایسی بے شمار روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے.ان میں.ނ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 133 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006 ء چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں.کون نہیں جانتا کہ مکہ میں آپ کی دعویٰ نبوت کے بعد کی 13 سالہ زندگی، کتنی سخت تھی اور کتنی تکلیف دہ تھی اور آپ نے اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کتنے دکھ اور مصیبتیں برداشت کیں.دو پہر کے وقت تپتی ہوئی گرم ریت پر لٹائے گئے ، گرم پتھر ان کے سینوں پر رکھے گئے.کوڑوں سے مارے گئے ، عورتوں کی ٹانگیں چیر کر مارا گیا، قتل کیا گیا، شہید کیا گیا.آپ پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے گئے.سجدے کی حالت میں بعض دفعہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپ کی کمر پر رکھ دی گئی جس کے وزن سے آپ اٹھ نہیں سکتے تھے.طائف کے سفر میں بچے آپ پر پتھراؤ کرتے رہے، بیہودہ اور غلیظ زبان استعمال کرتے رہے.ان کے سرداران کو ہلا شیری دیتے رہے، ان کو ابھارتے رہے.آپ اتنے زخمی ہو گئے کہ سر سے پاؤں تک لہولہان ہیں، اوپر سے بہتا ہوا خون جوتی میں بھی آ گیا.شعب ابی طالب کا واقعہ ہے.آپ کو، آپ کے خاندان کو، آپ کے ماننے والوں کو کئی سال تک محصور کر دیا گیا.کھانے کو کچھ نہیں تھا، پینے کو کچھ نہیں تھا.بچے بھی بھوک پیاس سے بلک رہے تھے، کسی صحابی کو ان حالات میں اندھیرے میں زمین پر پڑی ہوئی کوئی نرم چیز پاؤں میں محسوس ہوئی تو اسی کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہو.یہ حالت تھی بھوک کی اضطراری کیفیت.تو یہ حالات تھے.آخر جب ان حالات سے مجبور ہو کر ہجرت کرنی پڑی اور ہجرت کر کے مدینے میں آئے تو وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا اور حملہ آور ہوئے.مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی.ان حالات میں جن کا میں نے مختصر اذکر کیا ہے اگر جنگ کی صورت پیدا ہو اور مظلوم کو بھی جواب دینے کا موقع ملے، بدلہ لینے کا موقع ملے تو وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ پھر اس ظلم کا بدلہ بھی ظلم سے لیا جائے.کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے.لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں بھی نرم دلی اور رحمت کے اعلیٰ معیار قائم فرمائے.مکہ سے آئے ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا تمام تکلیفوں کے زخم ابھی تازہ تھے.آپ کو اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کا احساس اپنی تکلیفوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا.لیکن پھر بھی اسلامی تعلیم اور اصول وضوابط کو آپ نے نہیں توڑا.جو اخلاقی معیار آپ کی فطرت کا حصہ تھے اور جو تعلیم کا حصہ تھے ان کو نہیں تو ڑا.آج دیکھ لیں بعض مغربی ممالک جن سے جنگیں لڑ رہے ہیں ان سے کیا کچھ نہیں کرتے.لیکن اس کے مقابلے میں آپ کا اُسوہ دیکھیں جس کا تاریخ میں ، ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے.جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی.اس پر حباب بن منذر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ منتخب کی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 134 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء ہے آیا یہ کسی خدائی الہام کے ماتحت ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے؟ یا یہ جگہ آپ نے خود پسند کی ہے، آپ کا خیال ہے کہ فوجی تدبیر کے طور پر یہ جگہ اچھی ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بہتر ہے، اونچی جگہ ہے تو انہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے.آپ لوگوں کو لے کر چلیں اور پانی کے چشمے پر قبضہ کر لیں.وہاں ایک حوض بنا لیں گے اور پھر جنگ کریں گے.اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے لیکن دشمن کو پانی پینے کے لئے نہیں ملے گا.تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے چلو تمہاری رائے مان لیتے ہیں.چنانچہ صحابہ چل پڑے اور وہاں پڑاؤ ڈالا.تھوڑی دیر کے بعد قریش کے چند لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو صحابہ نے روکنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا: نہیں ان کو پانی لے لینے دو.(السيرة النبوية لابن هشام ذكر رؤيا عاتكه بنت عبد الله.....صفحه 424 دار الكتب العلمية الطبعة الاولى تو یہ ہے اعلیٰ معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا کہ باوجود اس کے کہ دشمن نے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے بچوں تک کا دانہ پانی بند کیا ہوا تھا.لیکن آپ نے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے دشمن کی فوج کے سپاہیوں کو جو پانی کے تالاب، چشمے تک پانی لینے کے لئے آئے تھے اور جس پر آپ کا تصرف تھا، آپ کے قبضے میں تھا، انہیں پانی لینے سے نہ روکا.کیونکہ یہ اخلاقی ضابطوں سے گری ہوئی حرکت تھی.اسلام پر سب سے بڑا اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ تلوار کے زور سے پھیلایا گیا.یہ لوگ جو پانی لینے آئے تھے ان سے زبر دستی بھی کی جاسکتی تھی کہ پانی لینا ہے تو ہماری شرطیں مان لینا.کفار کئی جنگوں میں اس طرح کرتے رہے ہیں.لیکن نہیں ، آپ نے اس طرح نہیں فرمایا.یہاں کہا جاسکتا ہے کہ ابھی مسلمانوں میں پوری طاقت نہیں تھی، کمزوری تھی، اس لئے شاید جنگ سے بچنے کیلئے یہ احسان کی کوشش کی ہے.حالانکہ یہ غلط بات ہے.مسلمانوں کے بچے بچے کو یہ پتہ تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور مسلمان کی شکل دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے.اس لئے یہ خوش فہمی کسی کو نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس قسم کی خوش فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آپ نے تو یہ سب کچھ، یہ شفقت کا سلوک سراپا رحمت ہونے اور انسانی قدروں کی پاسداری کی وجہ سے کیا تھا.کیونکہ آپ نے ہی ان قدروں کی پہچان کی تعلیم دینی تھی.پھر اس دشمن اسلام کا واقعہ دیکھیں جس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا.لیکن آپ نے نہ صرف اسے معاف فرمایا بلکہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے اسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت آپ نے عطا فرمائی.چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ: ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگیں کرتا رہا.فتح مکہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 135 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006 ء کے موقع پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان عفو اور امان کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر ایک دستے پر حملہ آور ہوا اور حرم میں خونریزی کا باعث بنا.اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرایا گیا تھا.لیکن مسلمانوں کے سامنے اس وقت کوئی نہیں ٹھہر سکا تھا.اس لئے فتح مکہ کے بعد جان بچانے کیلئے وہ یمن کی طرف بھاگ گیا.اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی معافی کی طالب ہوئی تو آپ نے بڑی شفقت فرماتے ہوئے اسے معاف فرما دیا.اور پھر جب وہ اپنے خاوند کو لینے کیلئے جب گئی تو عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہیں آتا تھا کہ میں نے اتنے ظلم کئے ہوئے ہیں، اتنے مسلمان قتل کئے ہوئے ہیں ، آخری دن تک میں لڑائی کرتا رہا تو مجھے کس طرح معاف کیا جاسکتا ہے.بہر حال وہ کسی طرح یقین دلا کر اپنے خاوند عکرمہ کو واپس لے آئی.چنانچہ جب عکرمہ واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس بات کی تصدیق چاہی تو اس کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا.پہلے تو آپ دشمن قوم کے سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہو گئے کہ یہ دشمن قوم کا سردار ہے اس لئے اس کی عزت کرنی ہے.اس لئے کھڑے ہو گئے اور پھر عکرمہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے.(ماخوذ مؤطا امام مالك كتاب النكاح و شرح زرقاني على مؤطا الامام مالك باب نكاح المشرك اذا اسلمت زوجته قبله، حدیث نمبر (1183) عکرمہ نے پھر پوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے ؟ یعنی میں مسلمان نہیں ہوا.اس شرک کی حالت میں مجھے آپ نے معاف کیا ہے، آپ نے مجھے بخش دیا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ ہاں.اس پر عکرمہ کا سینہ اسلام کیلئے کھل گیا اور بے اختیار کہ اٹھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ واقعی بے حد حلیم اور کریم اور صلہ رحمی کرنیوالے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گیا.(السیرۃ الحلبیہ - جلد سوم صفحه 109 مطبوعہ بیروت) تو اسلام اس طرح حسن اخلاق سے اور آزادی ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے.حسن خلق اور آزادی مذہب کا یہ تیر ایک منٹ میں عکرمہ جیسے شخص کو گھائل کر گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں اور غلاموں تک کو یہ اجازت دی تھی کہ جو مذہب چاہو اختیار کرو.لیکن اسلام کی تبلیغ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسلام کی تعلیم کے بارے میں بتاؤ کیونکہ لوگوں کو پتہ نہیں ہے.یہ خواہش اس لئے ہے کہ یہ تمہیں اللہ کا قرب عطا کرے گی اور تمہاری ہمدردی کی خاطر ہی ہم تم سے یہ کہتے ہیں.چنانچہ ایک قیدی کا ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے.سعید بن ابی سعید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف مہم بھیجی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 136 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء تو بنو حنیفہ کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لائے جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا.صحابہ نے اسے مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے تمامہ تیرے پاس کیا عذر ہے یا تیرا کیا خیال ہے کہ تجھ سے کیا معاملہ ہو گا.اس نے کہا میر اظن اچھا ہے.اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک خون بہانے والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے.اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہے لے لیں.اس کے لئے اتنا مال اس کی قوم کی طرف سے دیا جا سکتا تھا.یہاں تک کہ اگلا دن چڑھ آیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا کیا ارادہ ہے.چنانچہ ثمامہ نے عرض کی کہ میں تو کل ہی آپ سے عرض کر چکا تھا کہ اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وہیں چھوڑا.پھر تیسرا دن چڑھا پھر آپ اس کے پاس گئے آپ نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی جو کچھ میں نے کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کر دو.تو ثمامہ کو آزاد کر دیا گیا.اس پر وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے باغ میں گیا اور غسل کیا اور مسجد میں داخل ہو کر کلمہ شہادت پڑھا.اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا چہرہ ہوا کرتا تھا اور اب یہ حالت ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ہے.بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ آپ کا دین ہوا کرتا تھا.لیکن اب یہ حالت ہے کہ میرا محبوب ترین دین آپ کا لایا ہوا دین ہے.بخدا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کے شہر کو کرتا تھا.اب یہی شہر میرا محبوب ترین شہر ہے.آپ کے گھوڑ سواروں نے مجھے پکڑ لیا جبکہ میں عمرہ کرنا چاہتا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جا تو میں عمرہ کرنے کے لئے رہا تھا اب آپ کا کیا ارشاد ہے.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے خوشخبری دی، مبارکباد دی اسلام قبول کرنے کی اور اسے حکم دیا کہ عمرہ کرو، اللہ قبول فرمائے گا.جب وہ مکہ پہنچا تو کسی نے کہا کہ کیا تو صابی ہو گیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم اب آئندہ سے یمامہ کی طرف سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں آئے گا.( بخاری کتاب المغازى باب وقد بنى حنيفه - وحدیث ثمامہ بن اثال (4372 kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 137 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء ایک دوسری روایت میں ہے کہ مارنے کی کوشش کی یا مارا.اس پر انہوں نے کہا کہ کوئی دانہ نہیں آئے گا.اور یہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجازت نہ آ جائے.چنانچہ اس نے جا کے اپنی قوم کو کہا اور وہاں سے غلہ آنا بند ہو گیا.کافی بری حالت ہوگئی.پھر ابو سفیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست لے کر پہنچے کہ اس طرح بھو کے مر رہے ہیں اپنی قوم پر کچھ رحم کریں.تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ غلہ اس وقت ملے گا جب تم مسلمان ہو جاؤ بلکہ فوراً ثمامہ کو پیغام بھجوایا کہ یہ پابندی ختم کرو، یہ ظلم ہے.بچوں، بڑوں ، مریضوں ، بوڑھوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مہیا ہونی چاہئے.تو دوسرے یہ دیکھیں کہ قیدی تمامہ سے یہ نہیں کہا کہ اب تم ہمارے قابو میں ہو تو مسلمان ہو جاؤ.تین دن تک ان کے ساتھ حسن سلوک ہوتا رہا اور پھر حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوئے.آزاد کر دیا اور پھر دیکھیں ثمامہ بھی بصیرت رکھتے تھے اس آزادی کو حاصل کرتے ہی انہوں نے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں جکڑے جانے کیلئے پیش کر دیا کہ اسی غلامی میں میری دین و دنیا کی بھلائی ہے.پھر ایک یہودی غلام کو مجبور نہیں کیا کہ تم غلام ہو میرے قابو میں ہو اس لئے جو میں کہتا ہوں کرو، یہاں تک کہ اس کی ایسی بیماری کی حالت ہوئی جب دیکھا کہ اس کی حالت خطرے میں ہے تو اس کے انجام بخیر کی فکر ہوئی.یہ فکر تھی کہ وہ اس حالت میں دنیا سے نہ جائے جبکہ خدا کی آخری شریعت کی تصدیق نہ کر رہا ہو بلکہ ایسی حالت میں جائے جب تصدیق کر رہا ہو.تا کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے سامان ہوں.تب عیادت کے لئے گئے اور اسے بڑے پیار سے کہا کہ اسلام قبول کر لے.چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خادم یہودی تھا جو بیمار ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور فرمایا تو اسلام قبول کر لے.( بخاری کتاب المرضى باب عيادة المشرك حديث (5657 ایک اور روایت میں ہے اس نے اپنے بڑوں کی طرف دیکھا لیکن بہر حال اس نے اجازت ملنے پر یا خود ہی خیال آنے پر اسلام قبول کر لیا.(بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبى فمات...حدیث نمبر (1356) تو یہ جو اسلام اس نے قبول کیا یہ یقیناً اس پیار کے سلوک اور آزادی کا اثر تھا جو اس لڑکے پر آپ کی غلامی کی وجہ سے تھا کہ یقیناً یہ سچا مذہب ہے اس لئے اس کو قبول کرنے میں بچت ہے.کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ یہ سراپا شفقت ورحمت میری برائی کا سوچے.آپ یقینا برحق ہیں اور ہمیشہ دوسرے کو بہترین بات ہی کی طرف بلاتے ہیں، بہترین کام کی طرف ہی بلاتے ہیں، اسی کی تلقین کرتے ہیں.پس یہ آزادی ہے جو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 138 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء آپ نے قائم کی.دنیا میں کبھی اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوی نبوت سے پہلے بھی آزادی ضمیر اور آزادی مذہب اور زندگی کی آزادی پسند فرماتے تھے اور غلامی کو نا پسند فرماتے تھے.چنانچہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے بعد اپنا مال اور غلام آپ کو دے دیئے تو آپ نے حضرت خدیجہ کو فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھے دے رہی ہو تو پھر یہ میرے تصرف میں ہوں گے اور جو میں چاہوں گا کروں گا.انہوں نے عرض کی اسی لئے میں دے رہی ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں غلاموں کو بھی آزاد کر دوں گا.انہوں نے عرض کی آپ جو چاہیں کریں میں نے آپ کو دے دیا، میرا اب کوئی تصرف نہیں ہے، یہ مال آپ کا ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلاموں کو بلایا اور فرمایا کہ تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ بھی غرباء میں تقسیم کر دیا.جو غلام آپ نے آزاد کئے ان میں ایک غلام زید نامی بھی تھے وہ دوسرے غلاموں سے لگتا ہے زیادہ ہوشیار تھے، ذہین تھے.انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ جو مجھے آزادی ملی ہے یہ آزادی تو اب مل گئی ، غلامی کی جو مہر لگی ہوئی ہے وہ اب ختم ہوگئی لیکن میری بہتری اسی میں ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہی ہمیشہ رہوں.انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ نے مجھے آزاد کر دیا ہے لیکن میں آزاد نہیں ہوتا، میں تو آپ کے ساتھ ہی غلام بن کے رہوں گا.چنانچہ آپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہے اور یہ دونوں طرف سے محبت کا، پیار کا تعلق بڑھتا چلا گیا.زید ایک مالدار خاندان کے آدمی تھے، اچھے کھاتے پیتے گھر کے آدمی تھے، ڈاکوؤں نے ان کو اغوا کر لیا تھا اور پھر ان کو بیچتے رہے اور بکتے بکاتے وہ یہاں تک پہنچے تھے تو ان کے جو والدین تھے رشتہ دار عزیز بھی تلاش میں تھے.آخر ان کو پتہ لگا کہ یہ لڑکا مکہ میں ہے تو مکہ آگئے اور پھر جب پتہ لگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں تو آپ کی مجلس میں پہنچے اور وہاں جا کے عرض کی کہ آپ جتنا مال چاہیں ہم سے لے لیں اور ہمارے بیٹے کو آزاد کر دیں، اس کی ماں کا رورو کے برا حال ہے.تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اس کو پہلے ہی آزاد کر چکا ہوں.یہ آزاد ہے.جانا چاہتا ہے تو چلا جائے اور کسی پیسے کی مجھے ضرورت نہیں ہے.انہوں نے کہا بیٹے چلو.بیٹے نے جواب دیا کہ آپ سے مل لیا ہوں اتنا ہی کافی ہے.کبھی موقع ملا تو ماں سے بھی ملاقات ہو جائے گی.لیکن اب میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا.میں تو اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو چکا ہوں آپ سے جدا ہونے کا مجھے سوال نہیں.ماں باپ سے زیادہ محبت اب مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.زید کے باپ اور چا وغیرہ نے بڑا زور دیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا.زید کی اس محبت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 139 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006 ء علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے.اس صورتحال کو دیکھ کر پھر زید کے باپ اور چچا وہاں سے اپنے وطن واپس چلے گئے اور پھر زید ہمیشہ وہیں رہے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 112) تو نبوت کے بعد تو آپ کے ان آزادی کے معیاروں کو چار چاند لگ گئے تھے.اب تو آپ کی نیک فطرت کے ساتھ آپ پر اترنے والی شریعت کا بھی حکم تھا کہ غلاموں کو ان کے حقوق دو.اگر نہیں و سکتے تو آزاد کر دو.دے چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور بڑے غصے کا اظہار فرمایا.اس پر ان صحابی نے اس غلام کو آزاد کر دیا.کہا کہ میں ان کو آزاد کرتا ہوں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نہ آزاد کرتے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتے.(مسلم کتاب الايمان والنذر باب صحبة المماليك و كفارة.حدیث نمبر 4197) تو اب دیکھیں یہ ہے آزادی.پھر دوسرے مذہب کے لوگوں کیلئے اپنی اظہار رائے کا حق اور آزادی کی بھی ایک مثال دیکھیں.اپنی حکومت میں جبکہ آپ کی حکومت مدینے میں قائم ہو چکی تھی اس وقت اس آزادی کا نمونہ ملتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے.ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی.مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر منتخب کر کے فضیلت عطا کی.اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور چن لیا.اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا.یہودی شکایت لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے تفصیل پوچھی اور پھر فرمایا : لَا تُخَيَّرُ ونَى عَلی مُوسی کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو.(بخاری کتاب الخصومات باب ما يذكر في الأشخاص والخصومة بين المسلم واليهود حديث نمبر (2411 | تو یہ تھا آپ کا معیار آزادی، آزادی مذہب اور ضمیر ، کہ اپنی حکومت ہے ، مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے مدینہ کے قبائل اور یہودیوں سے امن و امان کی فضا قائم رکھنے کیلئے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ساتھ جو لوگ مل گئے تھے ، وہ مسلمان نہیں بھی ہوئے تھے ان کی وجہ سے حکومت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی.لیکن اس حکومت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ دوسری رعایا، رعایا کے دوسرے لوگوں کے ، ان کے جذبات کا خیال نہ رکھا جائے.قرآن کریم کی اس گواہی کے باوجود کہ آپ تمام رسولوں سے افضل ہیں، آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ انبیاء کے مقابلہ کی وجہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 140 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء سے فضا کو مکدر کیا جائے.آپ نے اس یہودی کی بات سن کر مسلمان کی ہی سرزنش کی کہ تم لوگ اپنی لڑائیوں میں انبیاء کو نہ لایا کرو.ٹھیک ہے تمہارے نزدیک میں تمام رسولوں سے افضل ہوں.اللہ تعالٰی بھی اس کی گواہی دے رہا ہے لیکن ہماری حکومت میں ایک شخص کی دلآ زاری اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے نبی کو کسی نے کچھ کہا ہے.اس کی میں اجازت نہیں دے سکتا.میرا احترام کرنے کیلئے تمہیں دوسرے انبیاء کا بھی احترام کرنا ہوگا.تو یہ تھے آپ کے انصاف اور آزادی اظہار کے معیار جو اپنوں غیروں سب کا خیال رکھنے کیلئے آپ نے قائم فرمائے تھے.بلکہ بعض اوقات غیروں کے جذبات کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا.آپ کے انسانی اقدار قائم کرنے اور آپ کی رواداری کی ایک اور مثال ہے.روایت میں آتا ہے عبدالرحمن بن ابی لیلہ بیان کرتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا.تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے.جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمیوں میں سے ہے تو دونوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ احتراماً کھڑے ہو گئے.آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اليْسَتْ نَفْسًا کیا وہ انسان نہیں ہے.(بخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازة يهودى حديث نمبر (1312) پس یہ احترام ہے دوسرے مذہب کا بھی اور انسانیت کا بھی.یہ اظہار اور یہ نمونے ہیں جن سے مذہبی رواداری کی فضا پیدا ہوتی ہے.یہ اظہار ہی ہیں جن سے ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہ جذبات ہی ہیں جن سے پیار، محبت اور امن کی فضا پیدا ہوتی ہے.نہ کہ آجکل کی دنیا داروں کے عمل کی طرح کہ سوائے نفرتوں کی فضا پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے فتح خیبر کے دوران تو راۃ کے بعض نسخے مسلمانوں کو ملے.یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کوحکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو.(السيرة الحلبية باب ذكر مغازيه ذكر غزوہ خیبر جلد 3صفحه 49) باوجود اس کے کہ یہودیوں کے غلط رویے کی وجہ سے ان کو سزائیں مل رہی تھیں آپ نے یہ برداشت نہیں فرمایا کہ دشمن سے بھی ایسا سلوک کیا جائے جس سے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے.یہ چند انفرادی واقعات میں نے بیان کئے ہیں اور میں نے ذکر کیا تھا کہ مدینہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا.اُس معاہدے کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شقیں قائم فرمائی تھیں، جو روایات پہنچی ہیں ان kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 141 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006 ء کا میں ذکر کرتا ہوں کہ کس طرح اس ماحول میں جا کر آپ نے رواداری کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اُس معاشرے میں امن قائم فرمانے کیلئے آپ کیا چاہتے تھے؟ تاکہ معاشرے میں بھی امن قائم ہو اور انسانیت کا شرف بھی قائم ہو.مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے یہودیوں سے جو معاہدہ فرمایا اس کی چند شرائط یہ تھیں کہ مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے.اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ اس شق کو یہودی توڑتے رہے مگر آپ احسان کا سلوک فرماتے رہے یہاں تک کہ جب انتہا ہو گئی تو یہودیوں کے خلاف مجبور اسخت اقدام کرنے پڑے.دوسری شرط یہ تھی کہ ہر قوم کو مذہبی آزادی ہوگی.باوجود مسلمان اکثریت کے تم اپنے مذہب میں آزاد ہو.تیسری شرط یہ تھی کہ تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی شخص جرم یا ظلم کا مرتکب ہو.اس میں بھی اب کوئی تفریق نہیں ہے.جرم کا مرتکب چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو اس کو بہر حال سزا ملے گی.باقی حفاظت کرنا سب کا مشترکہ کام ہے، حکومت کا کام ہے.پھر یہ کہ ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فیصلے کیلئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم کے مطابق کیا جائے گا.اور خدائی حکم کی تعریف یہ ہے کہ ہر قوم کی اپنی شریعت کے مطابق.فیصلہ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونا ہے کیونکہ اس وقت حکومت کے مقتدر اعلیٰ آپ تھے.اس لئے آپ نے فیصلہ فرمانا تھا لیکن فیصلہ اس شریعت کے مطابق ہوگا اور جب یہودیوں کے بعض فیصلے ایسے ہوئے ان کی شریعت کے مطابق تو اس پر ہی اب عیسائی اعتراض کرتے ہیں یا دوسرے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ جی ظلم ہوا.حالانکہ ان کے کہنے کے مطابق ان کی شرائط پر ہی ہوئے تھے.پھر ایک شرط یہ ہے کہ کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کیلئے نہ نکلے گا.اس لئے حکومت کے اندر رہتے ہوئے اس حکومت کا پابند ہونا ضروری ہے.اب یہ جو شرط ہے یہ آجکل کی جہادی تنظیموں کیلئے بھی رہنما ہے کہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں اس کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا جہاد نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ اس حکومت کی فوج میں شامل ہو جائیں اور پھر اگر ملک لڑے یا حکومت تو پھر ٹھیک ہے.پھر ایک شرط ہے کہ اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے.یعنی دونوں میں سے کسی فریق کے خلاف اگر جنگ ہوگی تو دوسرے کی امداد کریں گے اور دشمن سے صلح کی صورت میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو اگر صلح میں کوئی منفعت مل رہی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 142 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء ہے، کوئی نفع مل رہا ہے، کوئی فائدہ ہورہا ہے تو اس فائدے کو ہر ایک حصہ رسدی حاصل کرے گا.اسی طرح اگر مدینے پر حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کرینگے.پھر ایک شرط ہے کہ قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی کیونکہ مخالفین مکہ نے ہی مسلمانوں کو وہاں سے نکالا تھا.مسلمانوں نے یہاں آکر پناہ لی تھی اس لئے اب اس حکومت میں رہنے والے اس دشمن قوم سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کر سکتے اور نہ کوئی مددلیں گے.ہر قوم اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی.یعنی اپنے اپنے خرچ خود کریں گے.اس معاہدے کی رو سے کوئی ظالم یا گناہگار یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہوگا کہ اسے سزادی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے.(السيرة النبوية لابن هشام هجرة الرسول كتابه بين المهاجرين والانصار موادعة 355-354 ایڈیشن 2001ء) یعنی جیسا کہ پہلے بھی آچکا ہے کہ جو کوئی ظالم ہو گا، گناہ کرنے والا ہوگا غلطی کرنے والا ہوگا.بہر حال اس کو سزا ملے گی، پکڑ ہوگی.اور یہ بلا تفریق ہوگی، چاہے وہ مسلمان ہے یا یہودی ہے یا کوئی اور ہے.پھر اسی مذہبی رواداری اور آزادی کو قائم رکھنے کیلئے آپ نے نجران کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی عبادت کی.جبکہ صحابہ کا خیال تھا کہ نہیں کرنی چاہئے.آپ نے کہا کوئی فرق نہیں پڑتا.پھر اہل نجران کو جو امان نامہ آپ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے اس میں آپ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی ( جو نجران میں آئے تھے ) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی.ان کے گرجے ان کے عبادت خانے ، مسافر خانے خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہروں میں ہوں یا پہاڑوں میں ہوں یا جنگلوں میں ہوں ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے.ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہوگی اور اُن کی اس آزادی عبادت کی حفاظت بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا ہیں اس لئے اس کی حفاظت اس لحاظ سے بھی مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں.پھر آگے ہے کہ اس طرح مسلمان اپنی جنگی مہموں میں انہیں (یعنی نصاری کو ) ان کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کریں گے.ان کے پادری اور مذہبی لیڈر جس پوزیشن اور منصب پر ہیں وہ وہاں سے معزول نہیں کئے جائیں گے.اسی طرح اپنے کام کرتے رہیں گے.ان کی عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں ہوگی وہ کسی بھی صورت میں زیر استعمال نہیں لائی جائیں گی.نہ سرائے بنائی جائیں گی نہ وہاں کسی کو ٹھہرایا جائے گا اور نہ کسی اور مقصد میں ان سے پوچھے بغیر استعمال میں لایا جائے گا.علماء اور راہب جہاں کہیں بھی ہوں ان سے جزیہ اور خراج وصول نہیں کیا جائے گا.اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی ہوگی تو اسے مکمل kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 143 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء آزادی ہوگی کہ وہ اپنے طور پر عبادت کرے.اگر کوئی اپنے علماء کے پاس جا کر مسائل پوچھنا چاہے تو جائے.گرجوں وغیرہ کی مرمت کیلئے آپ نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمانوں سے مالی امداد لیں اور اخلاقی امداد لیں تو مسلمانوں کو مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہتر چیز ہے اور یہ نہ قرض ہوگا اور نہ احسان ہوگا بلکہ اس معاہدے کو بہتر کرنے کی ایک صورت ہوگی کہ اس طرح کے سوشل تعلقات اور ایک دوسرے کی مدد کے کام کئے جائیں.ملخص سیاسی وثیقه جات از عهد نبوی تا خلافت را شدہ از ڈاکٹر محمدحمید اللہ صفحہ 108 تا 112) تو یہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار مذہبی آزادی اور رواداری کے قیام کیلئے.اس کے باوجود پ پر ظلم کرنے اور تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کا الزام لگانا انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: پس جبکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بد چلن ہو چکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے تو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں عنان حکومت دے کر ان کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا.اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسر کرتا تھا.کوئی قانون نہیں تھا کیونکہ کسی کے ماتحت نہیں تھے اور چونکہ ان کیلئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا.اس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے.پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کیلئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کو ایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی ، فوجداری ، مالی سب ہدا یتیں ہیں.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اس کے دعوئی کی ڈگری کی.اس کا ذکر میں کر چکا ہوں.پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزا ئیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں“.یعنی یہ حکومت کا کام ہے.پھر فرماتے ہیں: ”بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 144 خطبہ جمعہ 10 / مارچ 2006ء دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے ﴿وَقُلْ لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَبَ وَالْأُمِّيِّينَ أَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغ ( الجزو 3 سورۃ آل عمران ) اور اے پیغمبر ! اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو.پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پا گئے.اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الہی پہنچادو.اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو.اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کیلئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے.اور یہ 66 جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا ، نہ بحیثیت رسالت.یعنی کہ جب آپ حکومت کے مقتدر اعلیٰ تھے تب جنگ کرتے تھے اس لئے نہیں کرتے تھے کہ نبی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.﴿وَقَاتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ( الجزو2 سورة البقرة ) - ( ترجمہ ) تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو.خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 242-243) پس جس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ شریعت اتری ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پر اترے ہوئے احکامات کے معاملے میں زیادتی کرتا ہو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتح مکہ کے موقع پر بغیر اس شرط کے کہ اگر اسلام میں داخل ہوئے تو امان ملے گی عام معافی کا اعلان کر دیا تھا.اس کی ایک مثال ہم دیکھ بھی چکے ہیں.اس کی مختلف شکلیں تھیں لیکن اس میں یہ نہیں تھا کہ ضرور اسلام قبول کرو گے تو معافی ملے گی.مختلف جگہوں میں جانے اور داخل ہونے اور کسی کے جھنڈے کے نیچے آنے اور خانہ کعبہ میں جانے اور کسی گھر میں جانے کی وجہ سے معافی کا اعلان تھا.اور یہ ایک ایسی اعلیٰ مثال تھی جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی.مکمل طور پر یہ اعلان فرما دیا کہ لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کہ جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے.ہزاروں درود اور سلام ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور ہمیں بھی اس کی تعلیم عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006ء 145 (11) خطبات مسرور جلد چهارم مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے ان مغربی ممالک کے مرہون منت ہیں جو انہیں مزید اپنے شکنجہ میں جکڑتے چلے جارہے ہیں رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا اگر مسلم اُمہ تقویٰ پر چلے تو پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق رحم ہوگا فرمودہ مورخہ 17 / مارچ 2006ء (17 /امان 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج سے تقریباً 15-16 سال پہلے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کی حالت کا نقشہ کھینچا تھا کہ اپنوں اور غیروں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا ہے، یا اُس وقت پہنچارہے تھے اور جو اب تک پہنچارہے ہیں.اور خاص طور پر عرب دنیا کی جو حالت ہے اور جس میں مزید بگاڑ پیدا ہورہا ہے اور مغرب کے بعض ممالک اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے ان عرب ممالک کی جو حالت بنا رہے ہیں یا جو اس وقت بنارہے تھے، ابھی تک وہی حالت چل رہی ہے.اس کا نقشہ جیسا کہ میں نے کہا آپ نے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 146 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006 ء اپنے خطبات میں کھینچا تھا اور کئی خطبات اس بارے میں ارشاد فرمائے تھے جس میں مسلمانوں کو بھی اس خوفناک حالت سے باہر نکلنے کے مشورے دیئے تھے اور جماعت کو بھی توجہ دلائی تھی کہ عالم اسلام کے لئے دعا کریں کیونکہ بہت ہی خوفناک حالات اسلامی دنیا اور خاص طور پر عرب دنیا کے نظر آ رہے ہیں.اسلامی دنیا کو جو مشورے آپ نے دیئے تھے اُن پر تو ظاہر ہے ہمیشہ کی طرح اسلامی دنیا کے لیڈروں نے نہ توجہ دینی تھی اور نہ دی.اور جو تجزیہ آپ نے کیا تھا اور جو نتائج اخذ کئے تھے عین اسی کے مطابق ہم نے نتائج دیکھے.دس بارہ سال کی انتہائی سختیوں کے بعد عراق کو جس طرح تہس نہس کیا گیا وہ تمام حالات ہمارے سامنے ہیں.آج بھی بظاہر پرانی حکومت کو الٹانے اور بظا ہر نئی جمہوری حکومت لانے کے باوجود جو آگ لگی ہوئی ہے یا جو آگ اس وقت لگی تھی اس میں روز بروز شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے.اب اخباروں میں ہر جگہ یہ شور ہے کہ عراق میں سول وار (Civil War) کا خطرہ ہے.کل پھر ایک بڑا خوفناک ہوائی حملہ ہوا ہے، انہوں نے یہ حملہ ریگستان میں کیا ہے، کہتے یہی ہیں کہ یہاں کچھ لوگ چھپے ہوئے تھے ، اور کچھ اسلحہ کے ڈپو تھے ان کو تباہ کرنا ضروری تھا.تو بہر حال جو آگ بھڑکی تھی وہ اب تک بھڑکتی چلی جارہی ہے.اس سے یقیناً ایک احمدی کا دل دکھتا ہے کیونکہ مسلمان کہلانے والوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کی یہ حالت انتہائی تکلیف دہ ہے.اس لئے ہمیں انتہائی درد سے مسلم امہ کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ انہیں آپس کی دشمنیوں سے بھی بچائے اور بیرونی دشمنوں سے بھی بچائے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی لیڈرشپ اور رہنمائی کو ہوش مند ہاتھوں میں دے جن کے اپنے ذاتی مفاد نہ ہوں.بدقسمتی سے مسلمانوں کو جو بھی قیادت اب تک ملی ہے، الا ماشاء الله، تمام اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے رہے ہیں اور جو ملکی مفاد کی خاطر کام کر نیوالے تھے انہیں اندرونی اور بیرونی سازشوں نے نا کام کر دیا.گزشتہ دنوں ایک کتاب نظر سے گزری.یہ کتاب ایک امریکن کی ہے اس نے اپنے ہی ملک کی حکومت کا مختصر طور پر نقشہ کھینچا ہے کہ وہ ان ملکوں میں کیا طریقہ واردات اختیار کرتے ہیں.وہ بھی اس میں ایک عرصہ تک کام کرتا رہا ہے.پہلے بھی یہ لوگ لکھتے رہے ہیں لیکن یہ نئی کتاب ہے کہ کس طرح مختلف کمپنیوں کے ذریعے سے یہ تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے قابو میں کرتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے انہیں اپنے زیر نگیں کر لیتے ہیں.اس کے مطابق اگر مختلف مالی اداروں کے ذریعے سے ان غریب ممالک کو یا ترقی پذیر ممالک کو انڈسٹری وغیرہ لگانے کے لئے کوئی امداد دی جاتی ہے یا کوئی پروجیکٹ شروع کیا جاتا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 147 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006ء ہے تو اگر سوڈالر کی امداد دی جاتی ہے تو حقیقتا صرف تین ڈالر اس قوم کے مفاد میں استعمال ہورہے ہوتے ہیں جسے امداد دی جاتی ہے اور باقی صرف احسان ہوتا ہے.اس نے لکھا ہے کہ عرب ممالک اور ایران وغیرہ کی ہمارے نزدیک ایک خاص اہمیت ہے یعنی امریکہ یا مغربی ممالک کے نزدیک ، اس لئے ان کو اپنے زیر نگیں رکھنا انتہائی ضروری ہے.اس نے لکھا ہے کہ عراق کے تیل کے ذخائر جہاں ہیں ان کی اہمیت کے علاوہ اس کے دو دریاؤں دجلہ اور فرات کی وجہ سے جو پانی کے وسائل ہیں ان کی بھی اہمیت ہے.کہتا ہے اس وجہ سے خطے کی بڑی اہمیت ہے اور اس کے مطابق ، بعض اندازے جو لگائے گئے ہیں، عراق میں سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل کے ذخائر ہیں.اس کے علاوہ جغرافیائی لحاظ سے بھی بڑی اہمیت ہے اس لئے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.یہ کتاب لکھنے والے جان پر کنز (John Perkins) ہیں انہوں نے یہ ساری صورتحال لکھی ہے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غلط لکھی ہے لیکن بعد کے جو حالات ہیں وہ بتارہے ہیں کہ جو باتیں بھی لکھیں صحیح لکھتے رہے.کیونکہ یہ کم و بیش با تیں ایسی ہیں جو اس کتاب کے لکھے جانے سے 10-12 سال پہلے ہی جیسا کہ میں نے کہا اپنے خطبات کے سلسلے میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان کر چکے ہیں.اس وقت کی خبروں کے حساب سے یعنی جب پہلی دفعہ 1991ء میں عراق پر حملہ کیا گیا تھا مغربی رہنماؤں نے یہ بیان دیئے تھے کہ ہمیں عراق کے تیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، ہمیں اگر دلچسپی ہے تو دنیا میں امن قائم کرنے میں دلچسپی ہے.اس لئے جو بھی امن کو نقصان پہنچاتا ہے اسے سزا دینی ضروری ہے اور دیکھیں اب یہ سزا اتنی سخت ہے اور اتنی لمبی ہوگئی ہے کہ 16-17 سال ہو گئے ہیں مگر وہ سزا دیتے چلے جارہے ہیں.یہ بھی مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے ان مغربی ممالک کے مرہون منت ہیں، ان کے آلہ کار بنتے چلے جارہے ہیں.ان مغربی رہنماؤں کے عراق کے تیل سے عدم دلچسپی کے دعوی کی اس کتاب نے قلعی کھولی ہے.ایران سے بھی ان لوگوں کو اس لئے دلچسپی ہے اور اس پر ان مغربی ملکوں کی بات نہ مانے پر پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں غور شروع بھی ہو چکا ہے، بلکہ کاروائی بھی شروع ہو چکی ہے کہ وہاں بھی تیل کے ذخائر ہیں کیونکہ وہاں ایک لمبے عرصے سے جو ایران کی حکومت ہے اس کو ختم کر کے اپنی مرضی کی جمہوری حکومت قائم کرنے کے منصوبے بن رہے تھے.اس کتاب والے نے یہ بھی لکھا ہے کہ شاہ ایران کے وقت میں بھی 52-1951 ء کی بات ہے جب ایک مغربی آئل کمپنی کے خلاف بعض وجوہ کی بنا پر اس وقت کے وزیر اعظم نے کارروائی کی تو ایران میں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 148 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006 ء ان ملکوں کی طرف سے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ عوام میں حکومت اور وزیر اعظم کے خلاف جلسے جلوس نکالے جانے شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں اس کی حکومت ختم ہوگئی.اور پھر شاہ ایران کے ذریعے سے اپنی من مانی کے کام کروائے گئے.تو اب گزشتہ دنوں ( 3-4 دن پہلے ) پھر اخبار میں تھا کہ آج کل امریکہ ایران کے خلاف، اس کی ایٹمی توانائی کے خلاف جو پابندیاں لگانا چاہتا ہے اگر ایران نے بات نہ مانی تو ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں گے کہ عوام کو ایرانی رہنماؤں سے علیحدہ کیا جائے ، ان کے اندر ایسی صورت حال اور بے چینی پیدا کی جائے کہ اندر سے عوام اٹھ کھڑے ہوں اور پھر یہ ہے کہ ساتھ بیرونی پابندیاں بھی لگانی شروع کی جائیں گی.تو یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں، چاہے وہ عراق ہو، ایران ہو یا کوئی اور اسلامی ملک ہو کہ اسلامی دنیا کے خلاف یہ کاروائیاں ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور خاص طور پر ایسے ممالک جن کے پاس وسائل بھی ہیں، بعض قدرتی وسائل ہیں اور امکانات ہیں کہ وہ ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہو جائیں.یا جن کے بارے میں مغرب کے بعض ملکوں کو یہ شک ہے کہ ان کے مقابل پر کھڑے ہو کر یہ ملک ان کی پالیسیوں سے اختلاف کر سکتے ہیں، تو ان کے خلاف بہر حال کارروائیاں ہوتی ہیں.پس اسلامی ملکوں کے لئے یہ غور کا مقام ہے کہ اب بھی سبق حاصل کر لیں.جو نصیحت آج سے 16 سال پہلے ان کو کی گئی تھی اس سے انہوں نے سبق حاصل نہیں کیا تھا، اس کو دوبارہ دیکھیں.ایک ملک تو راکھ کا ڈھیر ہو گیا لیکن بدقسمتی سے وہاں کے عوام کو اب بھی عقل اور سمجھ نہیں آ رہی.غلط رہنماؤں کے ہاتھوں میں جو رہنما اپنے ذاتی مفادر کھتے ہیں یا جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں، عوام بھی ان کی باتوں میں آکر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں.وہاں پچھلے دنوں مزاروں پر حملہ ہوا.اس کے علاوہ خود کش حملے ہوتے رہتے ہیں تو اپنے ہی لوگ تھے جو مرے.فرقہ واریت نے ان لوگوں کو اندھا کر دیا ہے.ہر خود کش حملہ میں اپنی قوم کے لوگ مارے جاتے ہیں، شاید ایک آدھ ان میں غیر ملکی فوجی مرتا ہو.باقی دسیوں ان کے اپنے لوگ مارے جا رہے ہوتے ہیں.یہ کہاں کی عقلمندی ہے، اور کون سا انصاف ہے یا کونسا اسلام ہے؟ جو عراق میں آجکل ظاہر ہورہا ہے.ان ملکوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے جو مغربی طاقتیں اپنے خیال میں وہاں انصاف اور جمہوریت قائم کرنے آئی ہیں وہ فائدہ اٹھارہی ہیں.ہر خودکش حملہ جو روزانہ وہاں ہوتا ہے ان کو وہاں سے نکالنے کی بجائے وہاں رکھنے کا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 149 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006 ء جواز مہیا کر رہا ہے.گو وہ کہتے یہی ہیں کہ ہم اپنے پروگرام کے مطابق چلے جائیں گے اور انخلاء شروع ہو چکا ہے اور یہ مکمل ہو جائے گا.لیکن یہ حرکتیں ، جواز بہر حال مہیا کر رہی ہیں.ٹھیک ہے اس وجہ سے ان بیرونی ملکوں کی فوجوں میں کچھ خوف کی صورت بھی پیدا ہوئی ہے.لیکن جن حکومتوں کو اپنی انا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہو ان کو کسی جانی نقصان کی پرواہ نہیں ہوتی.تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، ان مغربی ملکوں کے جو عراق کی جنگ میں ملوث ہیں مالی اور اقتصادی فوائد ہیں اس لئے بہر حال یہ کوشش کریں گے کہ اس ملک میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جائے تا کہ اس راکھ کے ڈھیر ملک کی بحالی کے کام میں اس ملک کے تیل کی دولت سے یہ خزانے بھر سکیں.گزشتہ دنوں (2-3 دن ہوئے ) اخبار میں ایک خبر تھی کہ ان مغربی ملکوں نے بحالی کے کام میں اب تک کئی بلین ڈالرز کمائے ہیں.انہی کا پیسہ انہی پر خرچ کر کے ان پر احسان بھی جتارہے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہارے لئے بحالی کے منصوبے کتنی جلدی بنا کر دیئے ہیں.پانی مہیا کر دیا بجلی مہیا کر دی ، سڑکیں بنا رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ.بنا تو رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے خزانے بھی بھر رہے ہیں.تو یہ نہایت ہی پریشان کن حالت ہے.خلیج کے بحران کے خطبات میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ مسلمان حمد ممالک ہوش میں آئیں اور ان طاقتوں سے کہیں کہ ہم ان ممالک کو جو آپس میں لڑنے والے ہیں خود ہی سنبھال لیں گے تم دخل نہ دو.لیکن یہ مسلمان ممالک بھی ان کے مددگار بنے رہے.اور ابھی تک بنے ہوئے ہیں.اب بھی اگر یہ مسلمان ملک مل کر کہیں کہ ہم مل کر امن قائم کروادیں گے اگر مغربی طاقتیں نکل جائیں، تو شاید عراق میں کوئی امن کی صورت پیدا ہو جائے اور باقی ان ملکوں میں بھی امن کی صورت پیدا ہو جائے.افغانستان کا بھی یہی حال ہے.ایران بھی ان ملکوں کے خطرناک عزائم کی لپیٹ میں آنے والا ہے.لیکن اگر یہ لوگ یہاں سے نکل جائیں اور یہ بھی آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں اور اس حدیث پر عمل کرنے والے ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنے والے ہوں کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات: 11) که مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقوی اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.تو شاید بچ جائے.ایک تو عراق کے اندر جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے صلح کی کوشش ہو تو شاید kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 150 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006 ء کامیابی ہو جائے ورنہ یہ بدامنی اور آگئیں اور خود کش حملے اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں قتل، پتہ نہیں پھر کب تک چلتا چلا جائے گا.پھر بعض طاقتوں کی ایران کے اوپر نظر ہے اور زور یہ دے رہے ہیں کہ جو ایران اپنی ایٹمی توانائی پر امن مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں ، جوہری توانائی استعمال کر رہے ہیں وہ بھی استعمال نہیں کرنا.کیونکہ اس سے پھر آگے نکل کر وہ اس کو دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال کریں گے.یہ حکومتیں اپنے لئے ہر حق رکھتی ہیں کہ ہم جو چاہیں کریں لیکن دوسرا نہیں کر سکتا.تو مسلمان ممالک اگر مل کر یہ جائزہ لے لیں ، ایران کو بھی سمجھا ئیں ، بھائی بھائی بن کے بیٹھیں اور اس بات کی تسلی کرلیں اور دنیا کو پھر اس بات کی ضمانت دے دیں کہ ہم جو مسلمان ممالک ہیں ہر چیز انسانی فلاح و بہبود کے لئے کرنے والے ہیں، غلط کام نہیں کریں گے تو سارے معاملات سلجھ جائیں گے اور سمجھ سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ پھر تم بھی ہمیں یہ ضمانت دو گے کہ آئندہ ہمارے معاملات میں تم کبھی دخل نہیں دو گے.تعمیری منصوبوں کے لئے اگر ہمیں مدد چاہئے ہوگی تو لے لیں گے، فوجی کارروائیاں ہمارے ملکوں کے خلاف نہیں ہوں گی.اگر اس طرح ہو تو معاملے سلجھ سکتے ہیں.لیکن بد قسمتی سے مسلمان ممالک بظاہر یہ کوشش کر نہیں سکتے اور ضمانت دے نہیں سکتے کیونکہ تقویٰ کی کمی کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں.سعودی عرب کی مثال ہے، یہ مثال حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے خطبات میں دی تھی کہ اس کی اسلامی دنیا سے غداریاں تاریخی نوعیت کی ہیں اور ہمیشہ دھوکہ دیتا رہا ہے.اس بات کو یہ امریکن جس کی کتاب کا میں نے ذکر کیا ہے اس نے بھی لکھا ہے کہ سعودی عرب تو اب اس طرح مغرب اور امریکہ کے شکنجے میں ہے کہ اس سے نکل نہیں سکتا.اس نے لکھا کہ موجودہ حکومت کو قائم رکھنے کی ضمانت امریکہ نے اس شرط پر دی ہے کہ ہمارے مفادات کی حفاظت کرو گے.تو اللہ تعالیٰ کا جو یہ حکم ہے کہ تقویٰ اختیار کرو، وہی ان میں ختم ہو گیا ہے تو امن کس طرح قائم کروا سکتے ہیں.حالانکہ مکہ اور مدینہ کی وجہ سے اس خاندان کا اور سعودی عرب کا مسلمانوں پر بڑا اثر ہو سکتا ہے، اگر تقویٰ سے کام لیں.اور امریکہ کا خوف رکھنے یا مغرب کا خوف رکھنے کی بجائے خدا کا خوف رکھنا ثابت کر دیں.تو تمام مسلمان ممالک جن کو ان سے شکوے بھی ہیں وہ بھی ان کی بات ماننے کے لئے تیار ہو جائیں گے.لیکن یہ اتنے بدنام ہو چکے ہیں کہ اب اگر نیک نیت ہو بھی جائیں اور یہ کوشش بھی کریں تو پھر بھی اپنی ساکھ قائم کرنے میں ان کو کئی سال لگیں گے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 151 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006ء کی فلاح کا جو وعدہ کیا ہے، یہ تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے.تو اگر اپنی دنیاوی ہوا و ہوس نہ چھوڑی تو جیسا کہ آثار ہیں عراق کے بعد اب ایران پر بھی پابندیاں ہیں اور ہو سکتا ہے اور بھی سختیاں ہوں.پھر کہتے تو یہی ہیں کہ حملہ نہیں کریں گے لیکن کوئی بعید نہیں.پھر کسی اور ملک پر پابندیاں ہوں گی اور اس کی تباہی ہوگی.پھر ایک ایک کر کے تمام مسلمان ملک اپنی ابتری اور تباہی کی طرف قدم بڑھا رہے ہوں گے یا کم از کم ان کی لسٹ میں ہوں گے.اور اگر کوئی بچنے کی صورت ہوگی تو جن کے قدرتی وسائل ہیں وہ اپنے قدرتی وسائل اپنی اقتصادیات ان لوگوں کے قبضے میں دے رہے ہوں گے.تو اسلامی دنیا کو اس طرف کسی طرح توجہ دلانے کی ضرورت ہے.جماعت کے خلفاء نے ان کو ماضی میں بھی اس بارے میں سمجھانے کی کوشش کی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بڑی تفصیل سے سمجھایا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے 16-17 سال پہلے سمجھایا لیکن ان لوگوں نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی ، کوئی وقعت نہیں دی.بلکہ دنیا کے ہر ملک میں احمدیت کی مخالفت پہلے سے زیادہ بڑھ کے ہونے لگی.اگر ہم کوشش کریں بھی تو اب بھی شاید ہماری آواز پر کوئی توجہ نہ دے.لیکن ہر احمدی کو دعا کے ساتھ ساتھ مسلمان امت کو سمجھانا چاہئے کہ امت کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے آپس میں ایک ہونے کی کوشش کرو.جو بھی زرخیز ذہن کے رہنما ہیں وہ مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ مختلف وقتوں میں جو کوششیں ہوتی رہیں کہ مسلم امہ ایک ہو جائے اور مسلمان ممالک کا خیال رکھے.اسلامی ممالک کی تنظیم بھی قائم کی گئی لیکن پھر بھی ہر معاملے میں مغرب کے دست نگر ہیں.نہ عرب ایک قوم بن کر عربوں کو اکٹھا کر سکے یعنی اس طرح اکٹھا ہونا جس سے ایک طاقت کا اظہار ہو.نہ پھر بڑے دائرے میں مسلمان ممالک ایک ہو کر اپنی حیثیت منوا سکے.اس کی کیا وجوہات ہیں.کئی وجوہات تو پہلے بیان ہو چکی ہیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بیان کی تھیں.لیکن اہم وجہ جو ہے اُس طرف یہ لوگ آنا نہیں چاہتے یعنی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تقویٰ کی راہ اختیار کرو.اور یہ راہ اب اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانے بغیر ان کومل نہیں سکتی.اس لئے یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر مسلم اُمہ تقویٰ پر چلے تو پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق رحم ہو گا اور آئے دن کی زیادتیوں اور فلموں سے ان کی جان بچے گی.لیکن یہ اگر ، بہت بڑا اگر ہے جس کی طرف جیسا کہ میں نے کہا یہ لوگ آنا نہیں چاہتے ، زمانے کے امام کو ماننے کی طرف سوچنا نہیں چاہتے.تو احمدی کی ذمہ داری صرف اتنی نہیں ہے کہ جہاں تک بس چلے ان کو سمجھائے کہ مسلمان ایک قوم kh5-030425
152 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ہونے کی کوشش کریں تا کہ ان کی دنیاوی طاقت اور ساکھ قائم ہو.دشمن کو ان کی طرف آنکھ اٹھانے سے پہلے کئی دفعہ سوچنا پڑے کیونکہ یہ ایک طاقت ہیں.یہ اظہار ہو کہ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں.یا پھر احمدی ان کے لئے دعا کریں.یہ دعا بھی بہت اہم چیز ہے بلکہ سب سے اہم چیز دعا ہی ہے اور بڑا ضروری ہتھیار ہے.اور ساتھ ہی ایک مہم کے ساتھ ان لوگوں کو ، مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی جائے کہ اس زمانے کے امام کو مانے بغیر نہ تمہاری طاقت قائم ہوسکتی ہے، نہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوسکتا ہے.ملکوں ملکوں میں فرقہ بندی ہے، یعنی اس وجہ سے اندرونی بٹوارے ہوئے ہوئے ہیں.پھر ایک ملک دوسرے ملک سے اس فرقہ بندی کی وجہ سے خار کھاتا ہے.غیروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور یہ اسی حالت زار کا نتیجہ ہے کہ عرب دنیا میں عیسائیت نے بھر پور حملہ کیا ہوا ہے.میں نے بچوں کی کہانیوں کی ایک کتاب دیکھی.اس میں حضرت عیسی کے ماننے والوں کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں پر کہانی کہانی میں فوقیت ظاہر کی گئی ہے.اور آخر میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان بچہ مایوس ہو کر عیسائیت کے بارے میں سوچتا ہے.اور آج کل کیونکہ ترقی کے لئے ، دنیا کے علوم سمجھنے کے لئے انگریزی زبان کو ضروری سمجھا جاتا ہے اس لئے انگریزی زبان سکھانے کے بہانے اس قسم کی کہانیاں بچوں میں متعارف کروائی جارہی ہیں.تو یہ بھی ایک لمبے عرصے کی منصوبہ بندی ہے.عیسائیت خود تو ان ممالک میں مذہب کے لحاظ سے آہستہ آہستہ ختم ہو گئی ہے یا ہو رہی ہے.لوگ مذہب سے لاتعلق ہیں.نام کے عیسائی ہیں عمل تو کوئی نہیں.تو ان کے خیال میں چند نسلوں کے بعد اس طریقے سے، جو اب بچوں میں اختیار کیا گیا ہے اسلام پر عمل کرنے والے بھی نہیں رہیں گے.اور یوں اِن تیل پیدا کرنے والے اور قدرتی وسائل رکھنے والے ممالک کی اقتصادیات پر بلا کسی خطرے کے ان کا قبضہ ہو جائے گا.پھر عرب دنیا میں آج کل اسلام پر پادریوں کے ذریعے سے بھی بڑے اعتراض ہورہے ہیں.اور مصر تک کے علماء جو اپنے آپ کو اسلام کا بڑا علمبر دار سمجھتے ہیں ان کو جواب نہیں دیتے.اور سنا یہ ہے کہ با قاعدہ یہ پالیسی ہے اور کہا گیا ہے کہ جواب نہیں دینا.تو یہ ان کا حال ہے.اور آج اگر ان کو جواب دینے کی جرات پیدا ہوئی ہے تو جماعت احمدیہ کو اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عرب دنیا میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے مصطفیٰ ثابت صاحب کا جو پروگرام چلایا گیا تھا یہ کافی اثر پیدا کر رہا ہے.کئی عربوں نے بڑا سراہا ہے.تو جس طرح ان مغربی ملکوں کے اپنے ہی لوگ اپنے اندر کی باتیں بعض دفعہ بتا دیتے ہیں کہ ان کو قابو کرنے کے کیا کیا طریقے ہیں، ان پر قبضہ کرنے کے کیا کیا طریقے ہیں.تجارت کے ذریعے سے، kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 153 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006 ء حکومتوں میں جوڑ توڑ کے ذریعے سے.اور بدقسمتی سے مسلمان حکومتیں بڑی جلدی اس جوڑ تو ڑ میں شامل ہو جاتی ہیں.پھر جو نہ مانے پھر طاقت کے ذریعے سے حملہ ہوتا ہے.اور اب جیسا کہ میں نے بتایا انہوں نے یہ نیا طریقہ اختیار کیا ہے.دوبارہ عیسائیت کی تعلیم کے ذریعہ سے بڑی تیزی سے اسلام پر حملے کا یہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ عیسائیت کی خوبیاں بیان کرو اور مسلمانوں میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرو.ان کو پتہ ہے کہ عیسائیت کی خوبیاں بیان کریں گے تو یہ اس کا جواب دے نہیں سکتے ، کیونکہ آج اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے علاوہ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے.اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پروگرام بڑے کامیاب چل رہے ہیں.ان لوگوں کی تو سوچنے کی صلاحیتیں ہی ختم ہو چکی ہیں کہ کس کس طریقے سے ان پر حملے ہو رہے ہیں اور کس طرح اسلام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اسلامی ممالک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے.اور یہ عقل جس طرح کہ میں نے کہا ماری جانی تھی کیونکہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانے بغیر اس کا جواب نہیں تھا اور آپ کو مان کر ہی دنیا میں اسلام کی عظمت بحال ہوئی تھی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے لوگوں کو پاک کیا تھا، شریعت کے احکامات پر عمل کرنے والا بنایا تھا، حکمت کی باتیں سکھائی تھیں، اور ایک قوم بنا کر ایک طاقت بخشی تھی اسی طرح آج بھی یہ سب کچھ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہونا ہے.کیونکہ پیشگوئیوں کے مطابق جواند ھیرا زمانہ تھا ایک ہزار سال کے عرصہ کا جس کے بعد مسیح موعود و مہدی موعود کا ظہور ہونا تھا تو اس کے بعد خود بخود یہ علم و حکمت اور دین کی باتیں تو دلوں میں بیٹھنی شروع ہو جانی تھیں.بلکہ اس چیز سے انہیں لوگوں نے فائدہ اٹھانا تھا جنہوں نے اس مسیح و مہدی کو ماننا تھا.پس اب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ تقویٰ اور یہ علم و حکمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہوتی ہے اور اسلام کا غلبہ اور اس کی ساکھ دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں نے ہی قائم کرنی ہے انشاء اللہ.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الحكيم (الجمعۃ :4).تو یہ لوگ جو سی محمدی کے ذریعے سے اس پاک نبی کی امت سے جوڑے گئے ہیں ان لوگوں نے ہی وہ کھوئی ہوئی حکمت اور دانائی کی باتیں دوبارہ دنیا میں پھیلانی ہیں.اور تقویٰ کا سبق kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 154 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006ء دینا ہے.اور یہ اس خدا کی تقدیر ہے اور اس کا فیصلہ ہے جو غالب اور حکمت والا خدا ہے.پس یہ غلبہ اور حکمت کسی کی ظاہری ہوشیاری اور چالاکی سے نہیں ملے گی بلکہ یہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ملے گی اور تقویٰ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اپنے نمائندے کے ذریعہ سے جو احکامات دیئے ہیں، اس نمائندے کے ذریعہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا ہو کر خدا تعالیٰ کا قرب پانے والا بنا ہے اس کے ذریعہ سے ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہونا ہے.پس اس لحاظ سے مسلمانوں کو سمجھانے اور تبلیغ کی ضرورت ہے ورنہ یہ جتنی مرضی چالا کیاں اور ہوشیاریاں دکھا دیں، طاقت کے مظاہرے کر لیں، جلسے جلوس نکال لیں، ان قوموں کے دجل کے سامنے ان کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی.اس کے لئے احمد پوں کو دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے اور امت کے لئے دعا کرنا سب دعاؤں سے افضل ہے.کیونکہ اس وقت یہ امت بڑی مشکل میں گرفتار ہے.پہلے ملک شام کے بارے میں یہ خبر تھی کہ اس پر سختی کے دن آنے والے ہیں لیکن بہر حال وہ بات ٹل گئی شاید انہوں نے کچھ شرائط مان لی ہوں اس لئے لیکن خطرہ بہر حال قائم ہے.اب جیسا کہ میں نے کہا ایران کے گرد گھیرا ڈالا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ یہ گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور یہی انہیں ملکوں پر سختیاں عالمی جنگ کا بھی باعث بن سکتی ہیں اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.ایک احمدی کی تو آخری وقت تک یہ کوشش ہونی چاہئے کہ یہ بلائیں ٹل جائیں.اور ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے، یہی سب سے بڑا ذریعہ ہے کہ دعا کریں.اللہ تعالیٰ نے الہاما حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امت کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی.ایک دعا کا ذکر میں کرتا ہوں کہ رَبِّ اَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمد ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 37 مطبوعہ ربوہ) کہ اے میرے رب! امت محمدیہ کی اصلاح کر.پس ان کی اصلاح کے لئے بہت دعا کی ضرورت ہے اور اصلاح کا نتیجہ ایک ہی صورت میں نظر آسکتا ہے اور وہ ہے کہ وقت کے امام کو مان لینا تا کہ ان آفات سے بچ جائیں جو زمینی بھی ہیں اور آسمانی بھی.ورنہ کوئی اصلاح کی کوشش کامیاب نہیں.سکتی، کوئی ایسی کوشش جو امام الزمان کی تعلیم سے ہٹ کر کی جائے نہ ذاتی طور پر، نہ قومی طور پر کسی کو بچاسکتی ہے اور نہ ذاتی کوششوں سے اب تقویٰ پر کوئی قائم ہو سکتا ہے.وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ہو یہ اصلاح تمہیں کہاں تک لے جائے گی اس سے کسی بہتری کی امید رکھنا خطرناک غلطی ہے“.(یعنی کہ جس میں آسانی رہنمائی نہ ہو، کیاتم نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہی سنت رکھی ہے کہ اصلاح kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 155 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006 ء کے واسطے نبیوں کو مامور کر کے بھیجا ہے، انبیاء علیہم السلام جب آتے ہیں تو بظاہر دنیا میں ایک فساد عظیم نظر آتا ہے.بھائی بھائی سے باپ بیٹے سے جدا ہو جاتا ہے.ہزاروں ہزار جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کے وقت طوفان سے ان کے مخالفوں کو تباہ کر دیا گیا.موسیٰ علیہ السلام کے وقت اور دوسرے کئی عذاب وارد ہوئے اور فرعون کے لشکر کو غرق کیا گیا.غرض خوب یا درکھو کہ قلوب کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے قلوب کو پیدا کیا ہے.نرے کلمات اور چرب زبانیں اصلاح نہیں کر سکتی ہیں.ان کلمات کے اندر ایک روح ہونی چاہئے.پس جس شخص نے قرآن شریف کو پڑھا اور اس نے اتنا بھی نہیں سمجھا کہ ہدایت آسمان سے آتی ہے تو اس نے کیا سمجھا؟“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 344-345 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے اور ہمیں ان کو بتانا چاہئے کہ یہ تمام احکامات اور یہ تمام خوشخبریاں اسلام کی ترقی کی قرآن کریم میں موجود ہیں اور اسلام کے ذریعہ سے ہی مقدر ہیں اور انشاء اللہ اسلام نے غالب آتا ہے یہ ہمارا ایمان ہے.لیکن اس کے باوجود کیونکہ امام کو نہیں مان رہے، مسلمانوں کی حالت بحیثیت مجموعی (جن کے پاس طاقت ہے.جو مسلمان ملک ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا ) روز بروز خراب ہی ہوتی چلی جارہی ہے.اس کی کیا وجہ ہے.اس کی وجہ ظاہر ہے جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ زمانے کے امام کا انکار ہے اور اس انکار کی وجہ سے تقویٰ کی راہ بھی گم ہو چکی ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ تقویٰ کی راہ گم ہو چکی ہے اور جب تقویٰ کی راہ گم ہو جائے تو پھر اصلاح کی کوششیں بھی اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے والی بات بن جاتی ہیں.اللہ کرے کہ مسلمانوں کو عقل آجائے اور وہ اس حقیقت کو سمجھنے والے بن جائیں.اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں تا کہ تقویٰ کی راہ پر قدم مارتے ہوئے اپنے اندرونی مسائل بھی حل کرنے والے ہوں اور بیرونی حملہ آوروں سے بھی محفوظ رہ سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کیونکہ تمام دنیا کے لئے ہے ، صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے اس لئے غیر مسلموں کے لئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے.یہ امیر ملک بھی اگر غریب ملکوں کو اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لئے یا اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لئے اپنا زیرنگیں کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں تو یہ ظلم ہے.اور حدیث میں آیا ہے کہ ظالم کی بھی مدد کرو.اور ظالم کی مدد اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر کی جاتی ہے.تو ہاتھ سے تو ہم روک نہیں سکتے ، دعا کا ہی ذریعہ ہے.اور دعا کی طاقت ہمارے پاس ہے لیکن یہ دعا کا بہت بڑا ہتھیار ہے اور اس کو ہمیں استعمال کرنا چاہئے اور جہاں تک ہو سکتا ہے ہمیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 156 خطبہ جمعہ 17 / مارچ 2006ء استعمال کرنا چاہئے.تمام انسانیت کے لئے دعا کرنی چاہئے.پھر رابطوں سے، تبلیغ سے اور اس کے بھی آج کل کے زمانے میں مختلف ذرائع ہیں ان لوگوں کو بتائیں کہ جن راستوں کی طرف تم جا رہے ہو.تمہاری حکومتیں تمہیں لے کر جارہی ہیں یہ تباہی کے راستے ہیں.جتنے اخراجات گولوں اور تباہی پھیلانے پر کئے جاتے ہیں اگر غریب ملکوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور صلح صفائی کی کوشش کے لئے کئے جائیں تو اگر تمہاری نیت نیک ہے اور حقیقت میں دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہو جیسا کہ دعوی ہے تو اس سے آدھے اخراجات میں بھی شاید تم اپنے مقاصد حاصل کر لو.امن کانفرنسیں ذاتی مفاد کیلئے نہ ہوں بلکہ اصلاح کے لئے اور حقیقی امن قائم کرنے کے لئے ہوں.خدا کرے کہ ان لوگوں کو عقل آ جائے اور ان ملکوں کے عوام میں یہ احساس قائم ہو جائے کہ وہ اپنے ملکوں کے سربراہوں کو ، سیاستدانوں کو ان ظالموں سے روکیں ، باز رکھیں جو انہوں نے غیر ترقی یافتہ ملکوں سے، چھوٹے ملکوں سے روا رکھا ہوا ہے.امن قائم کرنے کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بڑا خوبصورت نکتہ بیان فرمایا ہے.دنیا جب تک حُبّ الوطنی اور حب الانسانیت کے گر کو نہیں سمجھے گی اور یہ دونوں جذبات ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا.تو جب انسانیت کی فکر ہوگی اور صرف اپنے ملک کے مفاد نہیں ہوں گے بلکہ کل انسانیت کی فکر ہوگی تبھی امن قائم ہوگا اور اس کے لئے نیک نیت ہونا ضروری ہے.اللہ کرے کہ ان کو اس کی توفیق ملے ورنہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی لاٹھی چلتی ہے اور آفتوں اور طوفانوں اور بلاؤں کی صورت میں پھر اپنا کام دکھاتی ہے.اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ وارننگ تمام دنیا کو دی ہوئی ہے جو بھی خدا تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرے گا وہ اس کی پکڑ میں آئے گا.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں یہ آفتوں کے نظارے نہ دکھائے بلکہ ہمیں وہ دن دکھائے جب تمام ملک، تمام قو میں ایک ہو کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کرتے ہوئے ایک جھنڈے کے نیچے آ جائیں جو اسلام کا جھنڈا ہو اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ اپنے عمل اور دعا سے اس بارے میں بھر پور کوشش کرنے والے ہوں.kh5-030425
خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء 157 (12) خطبات مسرور جلد چهارم نظام خلافت کے بعد نظام شوری کا ایک تقدس ہے مجلس مشاورت کی اہمیت اور نمائندگان شوری کے فرائض اور ذمہ داریاں فرمودہ مورخہ 24 / مارچ 2006ء(24 /امان 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ﴾ ( آل عمران : (160) آج سے پاکستان میں وہاں کی مجلس شوری شروع ہو رہی ہے.ان دنوں میں اور ملکوں میں بھی سالانہ مجلس مشاورت ہورہی ہوتی ہیں، آج کل شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے شوری کے نمائندگان اور عہد یداران کے حوالے سے چند باتیں کہوں گا.جیسا کہ ہم جانتے ہیں جماعت میں مجلس شوری کا ادارہ نظام جماعت اور نظام خلافت کے کاموں کی مدد کے لئے انتہائی اہم ادارہ ہے.اور حضرت عمررؓ کا یہ قول اس سلسلہ میں بڑا اہم ہے کہ لَا خِلافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرة کہ بغیر مشورے کے خلافت نہیں ہے.اور یہ قول قرآن کریم کی ہدایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے عین مطابق ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے ہر اہم کام میں مشورہ لیا کرتے تھے.لیکن جیسا کہ آیت سے واضح ہے مشورہ لینے کا حکم تو ہے لیکن یہ حکم نہیں کہ جوا کثریت رائے کا مشورہ ہو اُسے قبول بھی کرنا ہے.اس لئے وضاحت فرما دی کہ مشورہ کے بعد مشورہ کے مطابق یا اُسے رد کرتے ہوئے ، اقلیت کا فیصلہ مانتے ہوئے یا اکثریت کا فیصلہ مانتے ہوئے جب ایک فیصلہ کر لو ، کیونکہ بعض دفعہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 158 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء حالات کا ہر ایک کو پتہ نہیں ہوتا اس لئے مشورہ رڈ بھی کرنا پڑتا ہے.تو پھر یہ ڈرنے یا سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا نہ ہو جائے ، ویسا نہ ہو جائے.پھر اللہ پر توکل کرو اور جس بات کا فیصلہ کر لیا اس پر عمل کرو.اس کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اس حوالے سے اُس ماحول کی بھی نشاندہی کر دی اور ہمیں وہ طریقہ بھی بتا دیا جو جماعت کا ہونا چاہئے.یہاں مخاطب گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن مراد امت سے ہے.جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں خاص طور پر اس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے بعد خلافت نے دائمی طور پر قائم ہونا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیا گیا یا جو ارشاد فرمایا گیا ہے، اصل میں تو یہ جماعت کے لئے ہے اُمت کے لئے بھی ہے لیکن جماعت کے افراد کے لئے بھی ہے.ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے اس میں عہدیداران بھی آ جاتے ہیں.سب سے بڑا مخاطب خلیفہ وقت ہوتا ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نرمی ہے اسی طرح خلیفہ وقت کے دل میں بھی نرمی ہوتی ہے اور جب تک خلافت کا نظام علی منہاج نبوت رہے گا اور خلافت کا نظام علی منہاج نبوت کا یہ نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہو چکا ہے اور جب تک یہ نظام رہے گا خلیفہ وقت کے دل میں افراد جماعت کے لئے نرمی بھی رہے گی، انشاء اللہ تعالٰی اور جیسا کہ میں نے کہا یہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہو گیا ہے اور یہ ایک دائمی نظام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ سب کچھ کسی کی کوششوں سے نہیں ہوگا یا اپنی طبیعتوں میں خود بخود تبدیلی پیدا نہیں ہوگی بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی خاص رحمت اور فضل سے ہوتا ہے اور ہو گا.اور خلافت کا یہ نظام اور پھر جماعت کا نظام، یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں سے چلتا رہے گا.اور افراد جماعت کا بھی خلافت کے ساتھ جو تعلق ہے وہ بھی اس نظام خلافت کے چلنے کی وجہ سے جاری رہے گا اور یہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہی جماعت کے افراد کے اندر پیدا کیا ہوا ہے.خلافت سے جو جوش اور محبت جماعت کو ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ہے.یہ دو طرفہ بہاؤ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے جماعت میں قائم ہے.یعنی خلیفہ وقت کو یہ حکم ہے کہ دین کے اہم کاموں میں اُمت کے لوگوں سے مشورہ لو.نرم دل رہو اور دعا کرو.لوگوں کو یہ حکم ہے کہ جب مشورہ مانگا جائے تو نیک نیت ہو کر تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے مشورہ دو.اس لئے حکم ہے کہ جن سے مشورہ لیا جائے وہ نیک ہوں اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں ہر ایک سے مشورہ لینے کا حکم نہیں ہے.اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ شَاوِرُوا الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِيْنِ (کنزالاعمال جلد 2 جزو 3 كتاب الاخلاق حرف ميم المشورة نمبر 7188 طبع ثاني 2004ء کہ سمجھدار اور عبادت گزارلوگوں سے مشورہ کرو.اس لئے جماعت میں یہ طریق رائج ہے کہ ایسے وگ جو بظاہر نظام جماعت کے پابند بھی ہوں ، مالی قربانی کرنے والے بھی ہوں، عبادتیں کرنے والے kh5-030425
159 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم بھی ہوں وہ مرکزی شوری کے لئے اپنے میں سے نمائندے چنتے ہیں جو مجلس شوری میں بیٹھ کر تقویٰ کی را ہوں پر قدم مارتے ہوئے مشورے دیتے ہیں یا دینے چاہئیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب شَاوِرْهُمْ الامر کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چہ اللہ اور اس کا رسول اس سے مستغنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میری اُمت کے لئے رحمت کا باعث بنایا ہے.پس ان میں سے جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت سے محروم نہیں رہے گا.(شعب الايمان للبهيقى جلد 6صفحه 77-76روایت نمبر7542 ایڈیشن اول 1990ء) پس یہ مشورے امت کے لئے رحمت کا باعث ہیں اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشد و ہدایت پر چلانیوالے ہیں.لیکن اس پہلی حدیث کے مطابق اگر مشورہ دینے والے اپنی عقل اور سمجھ کے ساتھ ساتھ اپنے کسی خاص کام میں مہارت کے ساتھ ساتھ عبادت گزار بھی ہوں اور نیکیوں پر قدم مارنیوالے بھی ہوں، تقویٰ پر قائم ہوں تبھی ایسے مشورے ملیں گے جو قوم کے مفاد میں ہونگے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کر نیوالے ہوں گے.اور ان مشوروں میں برکت بھی پڑے گی اور بہتر نتائج بھی برآمد ہونگے.پس یہاں ممبران جماعت پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ صرف اپنی دوستی اور رشتہ داری یا تعلق داری کی وجہ سے ہی شوری کے نمائندے منتخب نہیں کرنے بلکہ ایسے لوگ جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں، کیونکہ تم جس ادارے کے لئے یہ نمائندگان منتخب کر کے بھیجوا رہے ہو یہ بڑا مقدس ادارہ ہے اور نظام خلافت کے بعد نظام شوریٰ کا ایک تقدس ہے.اس لئے بظاہر سمجھدار اور نیک لوگ جو عبادت کرنے والے اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں اُن کو منتخب کرنا چاہئے اور جب ایسے لوگ چنو گے تبھی تم رحمت کے وارث بنو گے ورنہ دنیا دار لوگ تو پھر ویسے ہی اخلاق دکھا ئیں گے جیسے ایک دنیا دار دنیاوی اسمبلیوں میں، پارلیمنٹوں میں دکھاتے ہیں.پس افراد جماعت کی طرف سے اس امانت کا حق جو اُن کے سپرد کی گئی ہے اس وقت ادا ہو گا جب تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے شوری کے نمائندے منتخب کریں گے.پاکستان میں تو اب جماعتوں کی طرف سے اس ادا ئیگی امانت کا وقت گزر چکا ہے.کیونکہ نمائندے منتخب کر لئے ہیں آج شوری ہو رہی ہے.لیکن جن ملکوں میں ابھی نمائندے چنے جانے ہیں ان کو یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تُؤدُّوا الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا ﴾ ( النساء: 59) که امانتوں کو ان کے مستحقوں کے سپر د کرو کیونکہ وہ نمائندے خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے چنے جاتے ہیں.آپ اپنی جماعتوں سے نمائندے چن کے اس لئے بھیج رہے ہیں کہ خلیفہ وقت کو مشورہ دیں.اس لحاظ سے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے.جو لوگ کھلی آنکھ سے ظاہر انا اہل نظر آ رہے ہوں ان کو اگر آپ kh5-030425
160 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم چنیں گے تو وہ پھر شوری کی نمائندگی کا حق بھی ادا نہیں کر سکتے.یا ایسے لوگ جو بلا وجہ اپنی ذات کو ابھار کر سامنے آنے کا شوق رکھتے ہیں وہ بھی جب شوری میں آتے ہیں تو مشوروں سے زیادہ اپنی علمیت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں.تو جماعتیں جب انتخاب کرتی ہیں تو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نہ چنیں.تو یہ ہے شوری کے ضمن میں ذمہ داری افراد جماعت کی کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے نمائندگان شوری چنیں نہ کہ کسی ظاہری تعلق کی وجہ سے اور جس کو چنیں اس کے بارے میں اچھی طرح پر کچھ لیں.اس کو آپ جانتے ہوں، آپ کے علم کے مطابق اس میں سمجھ بوجھ بھی ہو اور علم بھی ہو اور عبادت گزار بھی ہو.اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا بھی ہو.اب میں نمائندگان سے بھی چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.شوری کی نمائندگی ایک سال کے لئے ہوتی ہے.یعنی جب شوری کا نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے تو اس کی نمائندگی اگلی شوری تک چلتی ہے جب تک نیا انتخاب نہیں ہو جاتا.صرف تین دن یا دو دن کے اجلاس کے لئے نہیں ہوتی.شوری کے نمائندگان کے بعض کام مستقل نوعیت کے اور عہدیداران جماعت کے معاون کی حیثیت سے کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے مستقلاً اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا جماعت کو اپنے نمائندے ایسے لوگوں کو چننا چاہئے جو ان کے نزدیک ایک تو سمجھ بوجھ رکھنے والے ہوں.ہر میدان میں ہر ایک ماہر نہیں ہوتا، کوئی کسی معاملے میں زیادہ صائب رائے رکھنے والا ہوتا ہے یا مشورہ دے سکتا ہے، کوئی کسی معاملے میں.دوسری اہم بات یہ ہے کہ عبادت گزار ہونا چاہئے اور حقیقی عبادت گزار ہمیشہ تقویٰ پر قدم مارنے والا ہوتا ہے.کیونکہ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرے.اور جہاں قرآن اور سنت کے مطابق واضح ہدایات نہ ملتی ہوں وہاں وہ اپنی سمجھ اور علم کو خدا سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کہنے کا یہ مطلب ہے کہ جب نمائندگان کو افراد جماعت اس حسن ظنی کے ساتھ منتخب کرتے ہیں تو جو نمائندگان شوری ہیں ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.وہ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اس ذمہ داری کو ادا کریں.ہمیشہ یا درکھیں کہ جماعت کے افراد نے آپ پر حسن ظن رکھتے ہوئے قرآن کریم کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے آپ کو منتخب کیا ہے کہ تُؤدُّوا الا مَنتِ إِلَى أَهْلِهَا ﴾ (سورة النساء آیت : 59) کہ امانتیں ان کے اہل کے سپر د کرو.خدا کرے کہ اکثریت نمائندگان جو وہاں شوریٰ میں آئے ہوئے ہیں ان کا انتخاب اسی سوچ کے ساتھ ہوا ہو اور کسی خویش پروری یا ذاتی پسند کی وجہ سے نہ ہوا ہو.لیکن اگر بالفرض بعض ایسے نمائندگان بھی آگئے ہیں جو ذاتی تعلق کی وجہ سے منتخب ہوئے ہیں تو میں امید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے نمائندگان کو سمجھ بوجھ کے ساتھ تقویٰ پر چلتے ہوئے مشورے دینے والا بنائے اور کبھی مجھے ایسے مشیر نہ ملیں جو دنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتے ہوئے مشورے kh5-030425
161 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم دینے والے ہوں.تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ اگر بعض نمائندگان اس معیار کو مدنظر رکھے بغیر بھی چنے گئے ہیں وہ بھی اب میری یہ بات سن کر استغفار کرتے ہوئے اپنے آپ کو تقویٰ پر چلاتے ہوئے اس امانت کی ادائیگی کا اہل بنانے کی کوشش کریں.یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے اس پر چلتے ہوئے اگر آپ عمل کریں گے تو اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچارہے ہوں گے.پس ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک امانت ہے جس کی ادائیگی کا آپ کو حق ادا کرنا ہے.اس نمائندگی کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں کہ تین دن کے لئے ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں کچھ باتیں سن لیں کچھ دوستوں سے مل لئے اور بس، صرف اتنا کام نہیں ہے، ان کا بڑا وسیع کام ہے.پھر نمائندگان یہ بھی یاد رکھیں کہ جب مجلس شوری کسی رائے پر پہنچ جاتی ہے اور خلیفہ وقت سے منظوری حاصل کرنے کے بعد اس فیصلے کو جماعتوں میں عملدرآمد کرنے کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے.تو یہ نمائندگان کا بھی فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں اور اس پر نظر رکھیں کہ اس فیصلے پر عمل ہورہا ہے یا نہیں ہور ہا اور اس طریق کے مطابق ہو رہا ہے جو طریق وضع کر کے خلیفہ وقت سے اس کی منظوری حاصل کی گئی تھی.یا بعض جماعتوں میں جا کر بعض فیصلے عہد یدار ان کی بستیوں یا مصلحتوں کا شکار ہورہے ہیں.اگر تو ایسی صورت ہے تو ہر نمائندہ شوری اپنے علاقے میں ذمہ دار ہے کہ اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کرے اپنے عہدیداران کو توجہ دلائے ، جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرے.ایک کافی بڑی تعداد عہدیداران کی نمائندہ شوری بھی ہوتی ہے.وہ اگر کسی فیصلے پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو اپنی عاملہ میں اس معاملے کو پیش کر کے اس پر توجہ دلائیں.نمائندگان شوریٰ چاہے وہ انتظامی عہدیدار ہیں یا عہد یدار نہیں ہیں اگر اس سوچ کے ساتھ کئے گئے فیصلوں کی نگرانی نہیں کرتے اور وقتا فوقتا مجلس عاملہ میں نتائج کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ نہیں لیتے تو ایسے نمائندگان اپنا حق امانت ادا نہیں کر رہے.ہوتے.اور اگر یہاں اس دنیا میں یا نظام جماعت کے سامنے ،خلیفہ وقت کے سامنے اگر بہانے بنا کر بیچ بھی جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ضرور پوچھے جائیں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کرتے.پس اس اعزاز کو کسی تفاخر کا ذریعہ نہ سمجھیں.بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر باوجود توجہ دلانے کے پھر بھی مجلس عاملہ یا عہدیداران توجہ نہیں دیتے اور اپنے دوسرے پر وگراموں کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور شوری کے فیصلوں کو درازوں میں بند کیا ہوا ہے، فائلوں میں رکھا ہوا ہے تو پھر نمائندگان شوری کا یہ کام ہے کہ مجھے اطلاع دیں.اگر مجھے اطلاع نہیں دیتے تو پھر بھی امانت کا حق ادا کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اس وجہ سے مجرم بھی ہیں.جب بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے کسی kh5-030425
162 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم رنجش کی بنا پر کوئی فرد جماعت اگر کوئی خط لکھتا ہے تو پھر جب بات سامنے آتی ہے اور جب بعض کاموں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، یا تحقیق کی جاتی ہے تو پھر یہی عہدیداران اور نمائندگان لمبی لمبی کہانیوں کا ایک دفتر کھول دیتے ہیں.امانت کی ادائیگی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب کوئی غلط بات یاستی دیکھی تو فوراً اطلاع کی جاتی.اور اگر مقامی سطح پر یہ باتیں حل نہیں ہو رہی تھیں تو اس وقت آپ باتیں پہنچاتے.جماعت کی ترقی کی رفتار تیز کرنے کا یہ ایک مسلسل عمل ہے.بعض لوگ اس خوف سے کہ ہم پر ذمہ داری نہ آ پڑے ذمہ داری سے بچنے کے لئے خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں.تو اگر اپنا جائزہ لینے کی ، اپنا محاسبہ کرنے کی ہر عہد یدار کو ہر نمائندہ شوریٰ کو عادت ہوگی اور یہ خیال ہوگا کہ مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے چنا گیا ہے اور پھر تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے مشورہ دینے کے بعد میری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ میں یہ جائزہ لیتا ہوں کہ کس حد تک ان فیصلوں پر عمل ہوا ہے یا ہو رہا ہے تو مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے کاموں میں ایک واضح تبدیلی پیدا ہوگی.جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک مسلسل عمل ہے کام کرنے کا اور جائزے لیتے رہنے کا تبھی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے.اور جماعتوں میں ایک واضح بیداری پیدا ہوگی اور نظر آ رہی ہوگی.، اب اس دفعہ بھی پاکستان کی شوریٰ میں پیش کرنے کے لئے جماعتوں نے بعض تجویزیں رکھیں اور یہ دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا ہے لیکن ان تجویزوں کو انجمن یا ملکی مجلس عاملہ شوری میں پیش کرنے کی سفارش نہیں کرتی کہ یہ تجویز گزشتہ سال یا دو سال پہلے شوری میں پیش ہو چکی ہے اور حسب قواعد تجویز تین سال سے پہلے شوری میں پیش نہیں ہو سکتی.تو اس تجویز کے آنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کم از کم اس جماعت میں جس کی طرف سے یہ تجویز آئی ہے وہاں اس فیصلے پر جو ایک سال یا دو سال پہلے ہوا تھا ، شوری نے کیا تھا اور پھر منظوری لی تھی، اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا.اور یہ بات واضح طور پر اس جماعت کے عہدیداران اور نمائندگان شوری کی سستی اور نا اہلی ثابت کرتی ہے.اور یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ خود ہی کسی کام کو کرنے کے بارے میں ایک رائے قائم کر کے اور پھر اس پر آخری فیصلہ خلیفہ وقت سے لینے کے بعد اس فیصلے کو جماعت نے کوئی اہمیت نہیں دی.یہ ستی صرف اس لئے ہے کہ جس طرح ان معاملات کا پیچھا کرنا چاہئے ، مرکز نے بھی پیچھا نہیں کیا، نظارتوں نے بھی پیچھا نہیں کیا یا ملکی سطح پرملکی عاملہ پیچھا نہیں کرتی.ترجیحات اور اور ر ہیں.اس طرح مرکزی عہدیداران بھی جب یہ توجہ نہیں دے رہے.ہوتے تو وہ بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہے ہوتے.اس کے لئے مرکزی عہدیداران کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور مقامی جماعت کے عہدیداران اور نمائندگان شوری کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہو گا اور جائزہ لینا ہوگا اور وجوہات تلاش کرنی ہوں گی کہ کیوں سال دو سال پہلے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ملکی انتظامیہ کی طرف سے یا انجمنوں کی طرف سے اس بنا پر کہ تھوڑا عرصہ پہلے کوئی تجویز پیش ہو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 163 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء چکی ہے، پیش نہ کئے جانے کی سفارش آتی ہے.ٹھیک ہے شوریٰ میں پیش تو نہ ہو لیکن اپنے جائزے اور محاسبہ کے لئے کچھ وقت ان تجاویز کی جگالی کے لئے ضروری ہے.یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ عملدرآمد نہیں ہوا.اگر تو 70-80 فیصد جماعتوں میں عمل ہو رہا ہے اور 30-20 فیصد جماعتوں میں نہیں ہو رہا تو پھر تو جائزے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن اگر 70-80 فیصد جماعتوں میں گزشتہ فیصلوں پر عمل نہیں ہورہا ہے تو لمحہ فکریہ ہے.اس طرح تو اعلیٰ مقاصد حاصل نہیں کئے جاتے.تو میں سمجھتا ہوں کہ شوری میں اس کے لئے بھی مخصوص وقت ہونا چاہئے تا کہ دیکھا جائے اپنا جائزہ لیا جائے.یہ ٹھیک ہے کہ کج بحثی نا پسندیدہ فعل ہے لیکن بحث سے بچنے کے لئے ، اپنے جائزے لینے کے لئے ، آنکھیں بند کر لینا بھی اس سے زیادہ نا پسندیدہ فعل ہے.اس جائزہ میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جن جماعتوں نے خاص کوشش کی ہے زیادہ اچھا کام کیا ہے ان کا طریقہ کار کیا تھا.انہوں نے کس طرح اس پر عملدرآمد کروایا.اس طرح پھر جب ڈسکشن (Discussion) ہوگی تو پھر دوسری جماعتوں کو بھی اپنی کارکردگی بہتر کرنے کا موقع مل جائے گا.لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے اس کا رروائی یا بحث میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی ذات پر تبصرے شروع ہو جاتے ہیں.کسی کی ذات پر تبصرہ نہیں کرنا بلکہ صرف شعبے کا جائزہ ہو.اس فیصلے پر جس پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا، اس کا جائزہ لیا جائے کہ کہاں کمیاں ہیں اور کیوں کمیاں ہیں.بہر حال ہمیں کوئی ایسا طریق وضع کرنا ہوگا جس سے قدم آگے بڑھنے والے ہوں.یہ نہیں ہے کہ ایک فیصلہ کیا اور تین سال اس پر عمل نہ کیا یا اتنا کم عمل کیا کہ نہ ہونے کے برابر ہو، اکثر جماعتوں نے ستی دکھائی اور پھر تین سال کے بعد وہی معاملہ دوبارہ اس میں پیش کر دیا کہ شوریٰ اس کے لئے لائحہ عمل تجویز کرے.تو یہ تو ایک قدم آگے بڑھانے اور تین قدم پیچھے چلنے والی بات ہوگی.پھر شوری کے نمائندگان اور عہدیداران کو چاہے وہ مقامی جماعتوں کے ہوں یا مرکزی انجمنوں کے ہوں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کی نظر میں آپ جماعت کا ایک بہترین حصہ ہیں جن کے سپر د جماعت کی خدمت کا کام کیا گیا ہے.اور آپ لوگوں سے یہ امید اور توقع کی جاتی ہے کہ آپ کا معیار ہر لحاظ سے بہت اونچا ہوگا اور ہونا چاہئے.چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو، عبادت کرنے کی طرف توجہ دینے کے بارے میں ہو، یا بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو یا خلیفہ وقت سے تعلق اور اطاعت کے بارے میں ہو.اس لئے نمائندگان اور عہدیداران کو اس لحاظ سے بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اپنی عبادتوں کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں.جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ عبادت ایک بنیادی چیز ہے جس کو نمائندگی دیتے ہوئے مدنظر رکھنا چاہئے اور ایک عام مسلمان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عبادت گزار ہو.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 164 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین ہی نہیں ہے.(الترغيب و الترهيب جلد نمبر اول حدیث نمبر 820 الترهيب من ترك الصلوة تعمدا و اخراجها.....طبع اول 1994 دار الحديث قاهره تو ایک عام احمدی کے لئے جب نمازوں کی ادائیگی فرض ہے تو عہد یدار جو ہر لحاظ سے افراد جماعت کے لئے نمونہ ہونا چاہئیں ان کے لئے تو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی کوئی نماز بغیر جماعت کے نہ ہو سوائے کسی اشد مجبوری کے.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ یہ جو دو تین دن شوری کے لئے آتے ہیں اور آئے ہیں، ان میں صرف یہی نہیں کہ ان دنوں میں ہی یہیں نمازیں پڑھنی ہیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ ہر نمائندے کو ، ہر عہد یدار کو، با قاعدہ نماز با جماعت کا عادی ہونا چاہئے.خود اپنے جائزے لیں، اپنا محاسبہ کریں، دین کی سربلندی کی خاطر آپ کے سپرد بعض ذمہ داریاں کی گئی ہیں.اگر ان میں دین کے بنیادی ستون کی طرف ہی توجہ نہیں ہے تو خدمت کیا کریں گے اور مشورے کیا دیں گے.جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے.پھر بندوں کے حقوق ہیں.نمائندگان اور عہدیداران کو اپنے دلوں کو ہر قسم کی برائیوں اور رنجشوں سے پاک کرنا ہوگا، لین دین کے معاملے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں.ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں.ہمیشہ یادرکھیں کہ ہمسائے سے حسن سلوک کا خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کی یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ صحابہ کو خیال ہوا کہ شاید یہ ہمارے دورثہ میں حصہ دار بننے والے ہیں.(صحیح بخارى كتاب الادب باب الوصاة بالجار حديث (6015 تو جب اتنی تاکید ہے ہمسائے سے حسن سلوک کی تو یہ کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جن کے سپر د جماعتی ذمہ داریاں کی گئی ہیں وہ اپنے ہمسایوں کے لئے دکھ کا باعث ہوں اور ہمسائے ان کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہوں.یا درکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمسائے کی تعریف یہ کی ہے کہ تمہارے دینی بھائی بھی تمہارے ہمسائے ہیں.یعنی ہر احمدی ہمسایہ ہے.عہد یداروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر احمدی ان کا ہمسایہ ہے اور اگر کسی احمدی کو آپ کی وجہ سے کوئی تکلیف یا دکھ پہنچتا ہے تو یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے.ایک عام احمدی جب دوسرے احمدی کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے تو گو یہ بھی بڑی تکلیف والی بات ہے لیکن وہ معاملہ ان دو اشخاص کے درمیان رہتا ہے لیکن جب ایک ذمہ دار جماعت کی خدمت کرنے والے سے کسی کو دکھ پہنچتا ہے یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ایک عام احمدی کو بعض اوقات دین سے دور لے جانے والی بھی بن جاتی ہے وہ اس کی ٹھوکر کا باعث بن رہا ہوتا ہے.اسی طرح اور بھی بہت سارے بنیادی kh5-030425
165 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم اخلاق ہیں جو جماعتی خدمتگاروں کے لئے چاہے وہ نمائندگان شوریٰ ہوں یا عہد یدار ہوں یا واقفین زندگی ہوں، سب کو ان کے اعلیٰ نمونے دکھانے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.بعض باتیں چونکہ نمائندگان شوری کے علاوہ بھی خدمتگاروں کے لئے ضروری تھیں اس لئے میں نے سب کو توجہ دلائی ہے کیونکہ یہ عہدیداروں کے اچھے نمونے ہیں جن کو دیکھ کر پھر جماعت میں بھی اچھے نمونے قائم ہوں گے.پھر ایک اور بات جس کی طرف نمائندگان شوری اور دوسرے کارکنان کو توجہ دلانی چاہتا ہوں، وہ خلیفہ وقت کی اطاعت ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا آیا ہوں کہ شوری کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانا نمائندگان شوری اور عہدیداران کا کام ہے.اور کیونکہ یہ فیصلے خلیفہ وقت سے منظور شدہ ہوتے ہیں اس لئے اگر ان پر عملدرآمد کروانے کی طرف پوری توجہ نہیں دی جارہی تو غیر محسوس طریقے پر خلیفہ وقت کے فیصلوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت کے دائرے کے اندر نہیں رہ رہے ہوتے جبکہ جن کے سپر د ذمہ داریاں کی گئی ہیں ان کو تو اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھانے چاہئیں جو کہ دوسروں کے لئے باعث تقلید ہوں، نمونہ ہوں.پس یہ جو خدمت کے موقعے ملے ہیں ان کو صرف عزت اور خوشی کا مقام نہ سمجھیں کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور بڑی عزت کی بات ہے ہمیں خدمت کا موقع مل گیا.اس کے ساتھ جب تقوی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے تب یہ عزت اور خوشی کی بات ہوگی اور تب یہ عزت اور خوشی کے مقام بنیں گے.ایک بات میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں ، شوری کے ممبران کے لئے دوبارہ یاد دہانی کروارہا ہوں کہ شوری کی بحث کے دوران جب اپنی رائے دینا چاہتے ہیں تو رائے دینے سے پہلے اس تجویز کے سارے اچھے اور برے پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے دیں نہ کہ کسی دوسرے رائے دینے والے کے فقرہ کو اٹھا کر جوش میں آجائیں.سمجھ بوجھ رکھنے والی شرط بھی اسی لئے رکھی گئی ہے کہ ہوش وحواس میں رہتے ہوئے رائے دیں.اور دوسری بات یہ کہ اظہار رائے کے وقت کسی کے جوش خطابت سے متاثر ہوکر اس طرف نہ جھک جائیں.یا اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کی رائے سن کر اس پر صاد نہ کر دیں، اس کی بات نہ مان لیں.بلکہ رائے کو پرکھیں اور اگر معمولی اختلاف ہو تو بلا وجہ کج بحثی کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن اگر واضح فرق ہو، آپ کے پاس زیادہ مضبوط دلیلیں ہوں یا دوسرے کی دلیل زیادہ اچھی ہو تو ضروری نہیں وہاں کسی رائے دینے والے سے تعلق کا اظہار کیا جائے.بہر حال آخر میں پھر یہی کہتا ہوں کہ جب شوری میں بحثوں کے بعد آپ ایک رائے قائم کر لیتے ہیں اور اس پر خلیفہ وقت کا فیصلہ لے لیتے ہیں چاہے وہ آپ لوگوں کی رائے مان لینے کی صورت میں ہو یا کسی تبدیلی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صورت میں.جب یہ جماعتوں کو عملدرآمد کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے تو امانت کا حق اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ خلیفہ وقت کا دست و بازو بن کر اس پر عملدرآمد میں جت جائیں، نہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 166 خطبہ جمعہ 24 / مارچ 2006 ء ستیاں دکھائیں اور نہ تو جیہیں نکالنے کی کوشش کریں.اگر اس طرح کریں گے تو پھر آپ کے فیصلوں میں کبھی برکت نہیں پڑے گی.اور عہدیداران کی دوسری باتیں بھی بے برکت ہو جائیں گی.پھر میں کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کے احساس کو اجاگر کریں، اس کو سمجھیں اور خدا سے مدد مانگتے ہوئے شوری کے دنوں میں اپنے اجلاس کے اوقات میں بھی اور فارغ اوقات میں بھی دعاؤں میں گزار ہیں.اور جب اپنی جماعت میں جائیں تو وہاں بھی آپ میں اس تبدیلی کا اثر مستقل نظر آتا ہو.یاد رکھیں کہ ہوشیاری، چالا کی یا علم سے نہ احمدیت کا غلبہ ہونا ہے، نہ کوئی انقلاب آنا ہے.اگر دنیا میں کوئی تبدیلی پیدا ہونی ہے تو وہ دعاؤں سے اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ہونی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اللہ جل شانہ فرماتا ہے ﴿يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَّ يُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ ﴾ (الأنفال :30) ﴿وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُونَ بِه (الحدید : 29) یعنی اے ایمان والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمھارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آجائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن را ہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 178-177) پس یہ معیار ہیں جن پر تقویٰ کے ساتھ چلنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں خوشخبری دی ہے.جیسا کہ آپ نے فرمایا تقویٰ پر چلنے سے ہی سب کچھ ملے گا.اور اگر نمائندگان شوری اور تمام عہد یداران اور تمام خدمت گزار یہ حالت اپنے اندر پیدا کر لیں تو جماعت کے تقویٰ کے معیار بھی خود بخود بڑھنے شروع ہو جائیں گے انشاء اللہ.اور پھر ہر فیصلہ جو کیا جائے گا اور ہر فیصلہ جس کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلائی جائے گی ، اس پر عملدرآمد بھی ہوگا اور اس میں برکت بھی پڑے گی.اور یہ شکوے بھی انشاء اللہ ختم ہوجائیں گے کہ اتنی کوششوں کے باوجود بھی ہمارے پروگراموں کے نتائج سامنے نہیں آئے.اللہ سب کو تقویٰ کی راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام وہ لوگ جن کو کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت کا موقع مل رہا ہے خلیفہ وقت کے دست راست بن کر رہیں.kh5-030425
خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006ء 167 (13 خطبات مسرور جلد چهارم اپنی اصلاح کے لئے اور اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانی بھی ایک انتہائی ضروری چیز ہے مال ہمیشہ جائز ذریعہ سے کماؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اچھا مال بھی پیش کر سکتے ہو جب جائز ذریعہ سے کمایا ہو فرمودہ مورخہ 31 / مارچ 2006 ء(31/امان 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح ،لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَاَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴾ (البقره: 196 ) اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس جماعت پر ، اس پیاری جماعت پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس میں شامل ہونے کے بعد افراد جماعت اپنے عہد کے مطابق مالی قربانیوں میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت کہ نیک باتوں کی یاد دہانی کراتے رہنا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً جماعت کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تا کہ اگر کوئی سست ہو رہا ہے تو اس کو اس طرف توجہ پیدا ہو جائے اور جو نئے آنے والے ہیں اور نو جوان ہیں ان کو مالی قربانیوں کا احساس ہو جائے ، اس کی اہمیت کا احساس پیدا ہو جائے کہ مالی قربانی بھی ایک انتہائی ضروری چیز ہے اور وہ اپنی اصلاح کے لئے اور اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے بن جائیں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 168 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006ء جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَنْفُقُوْا خَيْرًا لَّا نَفُسِكُمْ (التغابن : 17) کہ اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہوگا.قرآن کریم میں مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلانے کے بارے میں بے شمار ارشادات ہیں اور یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو پورا اجر دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اجر ہے اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے.اس لئے ہمیشہ اپنے مال کا بہترین ٹکڑا اس کی راہ میں خرچ کرو.جماعت احمدیہ کا جو مالی سال ہے اس کو ختم ہونے میں دو تین ماہ رہ گئے ہیں اور جو انتظامیہ ہے، مال سے متعلقہ شعبوں کو ان دنوں میں وصولیوں کی طرف توجہ دلانے کی فکر ہوتی ہے.تو اس لحاظ سے میں توجہ دلانی چاہتا ہوں تا کہ جن لوگوں کو ابھی تک اپنے لازمی چندہ جات ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی ان کو توجہ ہو جائے اور منتظمین کی پریشانی بھی دور ہو.مجھے یقین ہے اور خدا تعالیٰ کے سلوک کو دیکھتے ہوئے جو وہ جماعت سے کرتا چلا آ رہا ہے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس یقین پر قائم ہوں کہ جو بھی جماعتی ضروریات ہوں گی اللہ تعالیٰ ہمیشہ انشاء اللہ پوری فرماتا رہے گا.نئے کاموں ، نئے منصوبوں کو وہی دل میں ڈالتا ہے اور ڈالتا بھی اسی لئے ہے کہ اس کے نزدیک جماعت اس کام کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس آخری زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعے سے مالی قربانیوں کے جہاد ہونے تھے اس لئے ایک لمبے عرصے کے بعد ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے وسعت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.اس زمانے میں جبکہ ہر طرف مادیت کا دور دورہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد ہے جو مالی قربانیاں کرنا جانتی ہے اور ان نمونوں کو قائم کرنے والی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے صحابہ نے کئے.یہ مالی قربانی، قربانی تو یقیناً ہے جیسا کہ میں نے کہا لیکن اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں میں اس قربانی کی صلاحیت بھی پیدا کر دی ہے جس کے اعلیٰ ترین نمونے ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات کو ظلی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہر گز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ (البقرة 287) (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 156 ) kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 169 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد سے بعض لوگوں کے اس بہانے کی بھی وضاحت ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ تمام چندوں کی ادائیگی ہماری طاقت سے بڑھ کر ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقره: 287) کہ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت، اس کی صلاحیت، اس کی گنجائش سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا.یہ تو ٹھیک ہے کہ اللہ تعالی تکلیف نہیں دیتا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نمونے قائم فرمائے اور جن پر چلتے ہوئے صحابہ نے قربانیاں دیں وہ قربانیاں اپنے اوپر تنگی وارد کر کے ہی دی گئی تھیں.ہر ایک نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنے اوپر سنگی وارد کی اور قربانیاں دیں.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استعداد میں زیادہ تھیں انہوں نے اس کے مطابق قربانی دی، دوسرے ان کو اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ اس سلوک کا بھی علم تھا، ان کو پتہ تھا کہ میں آج اپنے گھر کا سارا سامان بھی اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی دماغی صلاحیت دی ہے اور تجارت میں اتنا تجربہ ہے کہ اس سے زیادہ مال دوبارہ پیدا کر لوں گا اور تو کل بھی تھا، یقین بھی تھا اور یقیناً اس میں اعلیٰ ایمانی حالت کا دخل بھی تھا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا جائزہ لیتے ہوئے گھر کا نصف مال پیش کر دیا اور اسی طرح باقی صحابہ نے اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں کیں اور کرتے چلے گئے.تو ہمیں اس ارشاد کہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ (البقرہ :287) کو اپنے بہانوں کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے ، خود اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے کہ مالی قربانی کی میرے اندر کس حد تک صلاحیت ہے، کتنی گنجائش ہے.کم آمدنی والے لوگ عموماً زیادہ قربانی کر کے چندے دے رہے ہوتے ہیں یہ نسبت زیادہ آمدنی والے لوگوں کے.زیادہ پیسے کو دیکھ کر بعض دفعہ بعض کا دل کھلنے کی بجائے تنگ ہو جاتا ہے.بلکہ بعض دفعہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ موصی بھی بہت کم آمدنی پر چندے دیتے ہیں اور ایسے راستے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی آمدنی کم سے کم ظاہر ہو.حالانکہ چندہ تو خدا تعالیٰ کی خاطر دینا ہے.ایسے لوگوں کا پھر پتہ تو چل جاتا ہے، پھر وصیت پر زد بھی آتی ہے.پھر معذرتیں کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں.تو چاہے موصی ہو یا غیر موصی جب بھی مالی کشائش پیدا ہو اس مالی کشائش کو انہیں قربانی میں بڑھانا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری استعدادوں کو ، کشائش کو اس لئے بڑھایا ہے کہ آزمائے جائیں.یہ دیکھا جائے کہ بیعت کے دعوئی میں کس حد تک سچے ہیں.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ : 287) کے ارشاد کے بعد اس ارشاد کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ ﴿ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ﴾ (البقرہ: 287) یعنی نیک کام کا ثواب بھی ملے گا اور اگر ٹال مٹول کر رہے ہو گے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 170 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006ء تو نقصان بھی ہوگا.بہر حال اگر دل میں ذرا سا بھی ایمان ہو تو ایسے لوگ جن کی غلطیوں کی وجہ سے ان سے چندہ نہیں لیا جاتا جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ان کی وصیت پر زد پڑتی ہے یا دوسرے لوگوں کے چندوں پہ.تو کیونکہ احمدی ہیں، دل میں نیکی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے، پھر ان کے دل بے چین ہو جاتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا پھر معافیاں مانگتے ہیں اور ان کے لئے بات بڑی سخت تکلیف دہ بن رہی ہوتی ہے.تو جب نظام جماعت نے یہ اجازت دی ہوئی ہے کہ بعض آدمی مجبوریوں کی وجہ سے شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے تو رعایت لے لیں تو سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ رعایتی شرح کی منظوری حاصل کر لی جائے، بجائے اس کے کہ غلط بیانی سے کام لیا جائے.اور میں اس بارے میں کئی دفعہ کہ بھی چکا ہوں کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی سوال جواب کے رعایت شرح مل جائے گی.تو ایک تو جو لوگ اپنی آمد غلط بتاتے ہیں وہ غلط بیانی کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں.دوسرے اس غلط بیانی کی وجہ سے اپنے پیسے میں بھی بے برکتی پیدا کر رہے ہوتے ہیں.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جس خدا نے اپنے فضل سے حالات بہتر کئے ہیں وہ ہر وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی مشکل میں گرفتار کر دے.پس خدا تعالیٰ سے ہمیشہ معاملہ صاف رکھنا چاہئے.اصل بات جو میں یہاں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مالی قربانی ذریعہ ہے تربیت کا اور نفس کو پاک کرنے کا.اگر کچھ حصہ مالی قربانی بھی کر رہے ہیں اور غلط بیانی کر کے اپنی آمد کو بھی چھپا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا مالی قربانی کرنے والوں کے لئے ان کے نفسوں کو پاک کرنے کا جو وعدہ ہے اس سے تو پھر حصہ نہیں لے رہے ہوتے.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر انسان کے دل کا حال جانتا ہے، اس کے تمام حالات جانتا ہے، کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے تو ایسی مالی قربانی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اور پھر یہ بات تربیت میں کمی کا باعث بن رہی ہوتی ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی غلط نمونے قائم کر رہی ہوتی ہے اور جھوٹ بولنے کی وجہ بھی بن رہی ہوتی ہے.اس لئے بہتر ہے کہ ایسے لوگ مکمل طور پر چندے سے رخصت حاصل کر لیا کریں اور غلط آمد بتانے کی وجہ سے جو جھوٹ کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اس سے بچ جائیں.کیونکہ جھوٹ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک کی طرف لے جانے والا ہے.پس چند ایسے لوگ جو اس قسم کے طریق اختیار کئے ہوئے ہیں ان کے لئے اس میں بڑا انذار ہے.اللہ ہر احمدی کو اس سے بچائے اور ہم مالی قربانی دلی خوشی سے کرنے والے ہوں نہ کہ بوجھ سمجھ کر.اللہ کی خاطر کی گئی قربانیوں کو اللہ کا فضل سمجھ کر کریں نہ کہ یہ خیال ہو کہ ہم جماعت پر یا خدا تعالیٰ پر کوئی احسان کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ پر احسان کسی نے کیا کرنا ہے.میں تو ان قربانیوں کو جو تم کر رہے ہوتے ہو کئی گنا بڑھا کر تمہیں دیتا ہوں تمہیں واپس لوٹا رہا ہوتا ہوں.پس یہ سودا تمہارے فائدے کے لئے ہے جیسا کہ فرماتا ہے مَنُ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 171 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006 ء يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾ (البقرة : 246) کہ کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے تا کہ وہ اس کے لئے اس کو کئی گنا بڑھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کو حاجت ہے اور وہ محتاج ہے.ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ واپس کروں گا.یہ ایک طریق ہے اللہ تعالیٰ جس سے فضل کرنا چاہتا ہے“.( بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ البقرہ آیت 246 الحکم جلد 6 نمبر 17 مؤرخہ 10 مئی 1902 صفحہ 7) پس وہ لوگ جو مالی کشائش کے بعد دل میں کنجوسی محسوس کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ سب چندے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ ہیں.پس اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے مال کا سولہواں حصہ دے رہے ہیں تو یہ ان دینے والوں کے فائدہ کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ میں تمہارے مالوں کو سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھا کر واپس دیتا ہوں.پس یہ اللہ تعالیٰ کو جو اپنے مال کا اچھا ٹکڑا کاٹ کر دے رہے ہو یہ تمہارے اپنے ہی فائدے کے لئے ہے.اس میں ایک مومن کو یہ بھی ہدایت ہے، یہ بھی فرما دیا کہ مال ہمیشہ جائز ذریعے سے کماؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اچھا مال سبھی پیش کر سکتے ہو جب جائز ذریعہ سے کمایا ہو.اللہ تعالی کو نا جائز منافع سے کمایا ہوا مال بھی پسند نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کو سود سے کمایا ہوا مال بھی پسند نہیں ہے بلکہ سختی سے اس کی مناہی ہے.رشوت کا پیسہ بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا ہے.پس جب چندہ دینے والا ان سب باتوں کو مدنظر رکھے تو پھر اس کا روپیہ، اس کی آمد، اس کی کمائی خود بخود پاک ہو جائے گی.یہ مالی قربانی اس کے لئے تزکیہ نفس کا موجب بن جائے گی.اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بن جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے جو دعائیں کی ہیں ان کا بھی وارث بن رہا ہوگا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے اس میں ایک جہاد مالی قربانیوں کا جہاد بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ اسلام کے دفاع میں لٹریچر شائع ہو سکتا ہے ، نہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو سکتے ہیں، نہ یہ ترجمے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکتے ہیں.نہ مشن کھولے جا سکتے ہیں، نہ مربیان، مبلغین تیار ہو سکتے ہیں اور نہ مربیان، مبلغین جماعتوں میں بھجوائے جا سکتے ہیں.نہ ہی مساجد تعمیر ہو سکتی ہیں.نہ ہی سکولوں، کالجوں کے ذریعہ سے غریب لوگوں تک تعلیم کی سہولتیں پہنچائی جاسکتی ہیں.نہ ہی ہسپتالوں کے ذریعہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہے.پس جب تک دنیا کے تمام کناروں تک اور ہر کنارے کے ہر شخص تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچ جاتا اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ مالی جہاد جاری رہنا ہے.اور اپنی اپنی گنجائش اور کشائش کے لحاظ سے ہر احمدی کا اس میں شامل ہونا فرض ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 172 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006 ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غریب اپنی طاقت کے لحاظ سے خرچ کرتا تھا اور امیر اپنی وسعت کے لحاظ سے خرچ کرتا تھا.غریب صحابہ بھی بے چین رہتے تھے کہ کاش ہمارے پاس بھی مال ہو تو ہم بھی خرچ کریں.جب جہاد کے لئے جانے کے لئے ، باوجود ان کی خواہش کے مالی تنگی اور سامان کی کمی کی وجہ سے ان کو پیچھے رہنا پڑتا تھا تو ان کی آنکھیں آنسو بہاتی تھیں اور ان کے دل بے چین ہوتے تھے.اور یہ اتنی سچی بے چینی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کا حال جاننے والا ہے اس نے بھی یہ گواہی دی کہ یہ بے چین دل اور آنسو بہاتی آنکھیں بناوٹ نہیں تھیں بلکہ حقیقت میں ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی.اللہ کرے کہ آج ہماری قربانیوں کی تڑپ بھی اسی طرح سچی تڑپ ہو جس طرح پہلوں کی تھی.اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے ساتھ ملاتے ہوئے پاک نمونے قائم کرنے کی توفیق دے.ہمیں اس آیت کے مطابق اس بات کا ادراک عطا فرمائے اور عمل کرنے کی توفیق دے جس کی میں نے تلاوت کی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کرو.یقیناً اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.آج جب اسلام کے خلاف ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رہنمائی میں دلائل قاطعہ کے ذریعہ سے جواب دینے کے لئے کھڑا کیا ہے اور جس کی تیاری کے لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ مالی قربانی کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایا ہے کہ اگر ہم مالی قربانیوں کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوں گے.اپنے آپ کو دین کی خدمت سے محروم کر رہے ہوں گے.اور دین کی خدمت سے محروم ہونے کا مطلب ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.پس جو چندے کے معاملے میں ستیاں دکھانے والے ہیں وہ اپنے جائزے لیں اور جو جماعتی عہد یدار نئے شامل ہونے والوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے وہ بھی ذمہ دار ہیں.پس جہاں دین کی نصرت کے لئے آسمان پر شور ہے وہاں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.ان ذمہ داریوں کو بھی ہمیں نبھانا ہوگا.اور ہم ہلاکت سے اس صورت میں بیچ سکتے ہیں جب أحْسِنُوا پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں اور اس کے نتیجہ میں خدا کی رضا حاصل کرنے والے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرنے کے طریقوں اور یہ کہ کون سا مال خرچ کرنا چاہئے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کرتے تھے.kh5-030425
173 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006ء شخص خطبات مسرور جلد چهارم چنانچہ روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے کس مال کا ثواب زیادہ ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش ہوتے ہوئے محتاجی سے ڈر کر ، مالداری کی طمع رکھ کر خرچ کرے.اور اتنی دیر مت کر کہ جان حلق میں آن پہنچے تو اس وقت تو کہے کہ فلاں کو اتنا دینا اور فلاں کو اتنا دینا، حالانکہ اب تو وہ مال کسی اور کا ہو ہی چکا.(صحیح بخاری کتاب الزكاة باب اى الصدقة افضل حدیث نمبر (1419 تو فرمایا کہ تندرستی کی حالت میں، انسان کی صحت اچھی ہو ، جوان ہو ، تو عاقبت کی فکر بھی کم رہتی ہے.اگر اس عمر میں یہ خیال آ جائے صحت کی حالت میں یہ خیال آ جائے تو پھر مال کی وجہ سے بہت سی ایسی لغویات ہیں جن میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے ، ملوث ہوسکتا ہے ان سے بچ جاتا ہے.پھر مال کی خواہش ہر انسان میں ہوتی ہے.آج کل کے زمانے میں مادیت کا بہت زیادہ دور دورہ ہے اور بہت بڑھ کر یہ خواہش ہے.اس حالت میں اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو یقیناً یہ بہت بڑی قربانی ہے.اللہ کا فضل ہے کہ جماعت میں بہت سے لوگ مال کی خواہش رکھنے کے باوجود قربانیاں کرتے ہیں.پھر اس وقت خرچ کرنا جب محتاجی کا بھی ڈر ہو.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت میں ایسی بہت مثالیں ہیں جب کسی بات کی بھی پرواہ کئے بغیر لوگ قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے جرمنی کے ایک نوجوان کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ وہ مقروض بھی تھا، شادی بھی ہونے والی تھی.ایک معمولی رقم اس نے شادی کے لئے جمع کی ہوئی تھی لیکن جب وہاں جو تحریک ہے سو (100) مساجد کی اس کے لئے چندے کی تحریک کی گئی تو وہ تمام جمع پونچھی جو اس نے شادی کے لئے جوڑی تھی لا کے پیش کر دی.پس یہ نمونے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے ہمیں دکھاتے ہیں، وہاں اُن ست لوگوں کو بھی توجہ کرنی چاہئے ، ان کو بھی توجہ دلانے والے بننے چاہئیں جو حیلوں بہانوں سے چندوں میں کمی کی درخواستیں کرتے ہیں.تو ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ مالدار ہونے کی طمع رکھتے ہیں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح پیسہ اکٹھا ہو جائے.یہ چند لوگ اُن برکتوں میں نہ شامل ہو کر جو اس قربانی کی وجہ سے ملنی ہے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں.اللہ سب احمدیوں کو عقل دے اور اس بخل سے محفوظ رکھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنے صحابہ کو مالی قربانیوں کی ترغیب دلائی اور کس طرح kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 174 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006 ء دلایا کرتے تھے اس بارے میں روایت میں یوں ذکر ملتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابوبکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم کو گن گن کر ہی دے گا.اپنی تفصیلی کا منہ بند کر کے ( یعنی کنجوسی سے ) نہ بیٹھ جاناور نہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا.یعنی نہ تو پیسہ آئے گا اور نہ نکلنے کی نوبت آئے گی.جتنی طاقت ہو، استعداد ہوا تنا خرچ کرنا چاہئے.(بخاری کتاب الزكواة باب التحريص على الصدقة حديث نمبر 1433 و باب الصدقة فيما استطاع حدیث نمبر (1434 پس بعض لوگ جو سمجھتے ہیں کہ چندے ہمارے لئے بوجھ ہیں ان کو ہمیشہ یہ نصیحت یا درکھنی چاہئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سائے میں رہے گا.(مسند احمد بن حنبل مسند عقبه بن عامر جلد 5 صفحه 895 ایڈیشن (1998 پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث قدسی بھی سنایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! خرچ کرتارہ ہمیں تجھے عطا کروں گا.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی کئی مثالیں بکھری پڑی ہیں.(ایک میں نے مثال پہلے بھی دی تھی ) جن میں اللہ تعالیٰ کی ان نوازشوں کے ذکر ملتے ہیں، اس کے نظارے نظر آتے ہیں ، اور یہ نظارے نظر آتے ہی ہیں تو لوگوں میں اتنی جرات اور ہمت پیدا ہوتی ہے کہ وہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے مال خرچ کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس طرح قربانی کرنے والے ہمیشہ عطا فرما تار ہے اور ان پر اپنے فضلوں ہمیشہ عطافرما تار کی بارش بھی برساتا رہے.چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استغفار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں.ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے.اور وصیت کی طرف توجہ تو ہوگئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے.اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں ہوتے.تو یہ واضح ہو، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں.ورنہ توقع ایک موصی سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت، غیر موصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے.تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 1/10 حصہ سے دے کر باقی چندے نہیں دے رہے تو ہو سکتا ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 175 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006 ء غیر موصی دوسرے چندے شامل کر کے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں.تو اس لحاظ سے واضح کر دوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا، چاہے وہ موصی ہیں یا غیر موصی ہیں اگر توفیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی اہم ہے.پھر ایک چیز یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل مقصد چندوں کا اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، نہ کہ پیسے اکٹھے کرنا.اس لئے بالکل صحیح طریق سے بغیر کسی چیز کو، اپنی آمد کو چھپائے بغیر، اپنے بجٹ بنوانے چاہئیں جو کہ سال کے شروع میں جماعتوں میں بنتے ہیں.اور بجٹ بہر حال صحیح آمد پہ بننا چاہئے.اس کے بعد اگر توفیق نہیں تو چندوں کی چھوٹ لی جاسکتی ہے.پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف میں عرصے سے توجہ دلا رہا ہوں کہ نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں.یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے.جب نو مبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نو مبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے.یہ رابطے پھر ہمیشہ قائم رہنے والے رابطے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہو گی.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ قرآن کریم میں مالی قربانیوں کے بارے میں بے شمار ہدایات ہیں.تو اللہ تعالیٰ جو بھی فضل فرماتا ہے ان کو اس میں بھی شامل کرنا چاہئے.پھر زکوۃ کی ادائیگی کے بارے میں بعض سوال ہوتے ہیں.یہ بنیادی حکم ہے.جن پر ز کوۃ واجب ہے ان کو ضرور ادا کرنی چاہئے اور اس میں بھی کافی گنجائش ہے.بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بنکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی اگر رقم جمع ہے تو اس پر بھی زکوۃ دینی چاہئے.پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پر زکوۃ دینی چاہئے.جو کم از کم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پر زکوۃ ہونی چاہئے.پھر بعض زمینداروں پر ز کوۃ واجب ہوتی ہے ان کو اپنی زکوۃ ادا کر نی چاہئے.تو یہ ایک بنیادی حکم ہے اس پر بہر حال توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس مالی قربانی کے ضمن میں ایک دعا کی بھی درخواست کرنی چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے ایک دفعہ اعلان کیا تھا بلکہ شاید دو دفعہ کر چکا ہوں، کہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ جور بوہ میں بن رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عل سے بڑی خوبصورت عمارت ہے اور بڑا اعلیٰ اور معیاری انسٹیٹیوٹ بن رہا ہے ، دل کی بیماریوں کے لئے.اس کے لئے میں نے دنیا کے ڈاکٹروں کو تحریک کی تھی کہ وہ اس میں خاص طور پر حصہ لیں اور قربانیاں کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کے ڈاکٹر ز نے اس کے خرچ کی بہت بڑی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے.تقریباً ایکو پیمنٹ (Equipment) وغیرہ کا سارا خرچ وہی ادا کریں گے اور یہ بہت بڑا خرچ kh5-030425
176 خطبہ جمعہ 31 / مارچ 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک بہت بڑی رقم جمع بھی کر لی ہے اور وعدے بھی کئے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور یہ توفیق دے کہ وہ جلد اپنے وعدے پورے کرنے والے بھی ہوں.لیکن امریکہ کی جماعت کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ اس بہت بڑی قربانی کی وجہ سے کہیں ان کے لازمی چندہ جات میں فرق نہ پڑے.وہ بہر حال متاثر نہیں ہونے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے لئے جو بھی اللہ کی راہ میں قربانی کر رہے ہیں ان کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی اور جن اموال کی بھی ضرورت ہے وہ انشاء اللہ میسر ہو جائیں گے، مہیا ہو جائیں گے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: ”اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی دے گا اس لئے امید کی جاتی ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے ایسے مال بہت اکٹھے ہو جائیں گے.“ 66 (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 319) تو یہ تو کوئی فکر نہیں ہے کہ مال نہیں ملے گا، ضرورت پوری نہیں ہوگی.لیکن ہمیں یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں اور قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں.اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں.دعا کی ایک اور درخواست ہے کہ انشاء اللہ اس ہفتے کے دوران میں میں آسٹریلیا وغیرہ اور دوسرے چند ممالک کے چند ہفتوں کے لئے دورے پر جا رہا ہوں..دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس دورے کو با برکت فرمائے اور ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے جو وہاں کے احمدیوں کے لئے بھی بابرکت ہو.اور سفر میں بھی ہمیں حفاظت میں رکھے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 7 / اپریل 2006 ء 177 (14) خطبات مسرور جلد چہارم ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا اسی صورت میں فائدہ دے گا جب ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھکنے والے بنیں گے خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرتمرزا مسرور احمدخلیفه اسمع انام الی اللہ علی بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 07/اپریل 2006 ء(07/شہادت 1385 هش) مسجد طه ، سنگاپور تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج کل کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قسم ہافتم کی ایجادیں ہمیں نظر آتی ہیں.کام کی سہولت کے لئے انسان نے ایسی ایجاد میں کر لی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور اس جدید ٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں اس چھوٹے سے ملک کا بھی بڑا حصہ ہے.لیکن جیسا کہ ابتدائے دنیا سے ہوتا آیا ہے جب انسان مادیت پر انحصار کرنا شروع کر دیتا ہے تو روحانیت میں کمی واقع ہونی شروع ہو جاتی ہے اور یہی آجکل کی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے.دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھول چکا ہے اور دنیاوی اور مادی مفاد حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے.یہ چھوٹا سا ملک جس نے دنیاوی لحاظ سے بہت ترقی کی ہے یہاں بھی یہی صورتحال ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ صرف دنیا کی خوبصورتیوں اور حسن اور آرام و آسائش اور ایجادوں کے پیچھے پھرتا رہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 178 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 2006 ء انسان کی پیدائش کا مقصد تو بہت بڑا تھا.اتنا بڑا مقصد کہ اگر اس کو انسان حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس دنیا کی جو نعمتیں ملتی ہیں وہ تو ملیں گی ہی، دنیا سے جانے کے بعد اخروی اور دائمی زندگی کا بھی حصہ ملے گا.اگلے جہان میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا وارث بنے گا.اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات : 57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں.پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے.کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا.بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قومی اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مڈ عائھہرا رکھا ہے، خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلا شبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے“.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 414) تو یہ ہے انسان کی پیدائش کا مقصد جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کر دیا اور فرما دیا کہ کیونکہ تمہارا اس دنیا میں آنا بھی میری مرضی سے ہے اور دنیا سے جانا بھی میری مرضی سے ہوگا اس لئے تم وہی کام کرو جس کا میں نے حکم دیا ہے.اور ہر انسان کو براہ راست تو اللہ تعالی حکم نہیں دیتا بلکہ اپنی سنت کے مطابق انبیاء بھیجتا آیا ہے جو مختلف قوموں میں آتے رہے اور اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور اس کی عبادت بجالانے کی تعلیم دیتے رہے.اور یہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے اور ایک خدا کے آگے جھکنے اور اس کی عبادت کرنے کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھی انسان کو دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے.اس کے جسمانی اعضاء اور طاقتیں بھی اور اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی ایسی رکھی ہیں جو اسے دوسری مخلوق سے ممتاز کرتی ہیں.پس یہ انسان کی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جب وہ اپنی صلاحیتوں، اپنی ذہنی اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 179 خطبہ جمعہ 7 اپریل 2006 ء جسمانی طاقتوں کو دیکھے اور ان ایجادات اور سہولیات کی طرف دیکھے جو ان صلاحیتوں کی وجہ سے اسے ملیں تو بجائے خدا سے دور لے جانے کے اسے خدا کے قریب کرنے والی بنیں اور وہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے کے قابل ہو سکے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر انسان پر اللہ تعالیٰ وحی کر کے رہنمائی نہیں کرتا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک سنت رکھی ہوتی ہے اور وہ انبیاء کے ذریعہ اصلاح ہے جو وہ مختلف لوگوں میں بھیجتارہا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں اور قومی کے لحاظ سے اس قابل ہو گیا ہے کہ روحانیت کے اعلی ترین معیاروں کو حاصل کر سکے تو آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور دین مکمل کرنے اور اپنی نعمتوں کے انتہا تک پہنچنے کا اعلان فرمایا اور یہ اعلان فرمایا کہ اب قیامت تک یہی دین ہے جو قائم رہنے والا دین ہے.اگر اس کے ساتھ چمٹے رہو گے تو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے فائدے اٹھاتے رہوگے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ کچھ عرصے بعد ( آپ کی وفات کے کچھ عرصے بعد ) امت مسلمہ پر اندھیرا زمانہ آئے گا لیکن وہ مستقل اندھیرا زمانہ نہیں ہوگا بلکہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاشق صادق کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھیجے گا جو صیح و مہدی ہوگا.ایسا نبی ہوگا جو آپ کی پیروی میں آنے والا نبی ہوگا وہ آ کر پھر اس اندھیرے زمانے کو روشنیوں میں تبدیل کرے گا.وہ پھر مسلم اُمہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے روحانیت کے نور کی کرنیں بکھیرے گا.اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ کل اقوام عالم اور تمام مذاہب والوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے گا.وہ اس زمانے میں جب مادیت کا دور دورہ ہوگا بندے کو خدا سے ملانے اور اس کے مقصد پیدائش کو پہچاننے کی طرف توجہ دلائے گا.اور اس سلسلے میں یعنی مسیح و مہدی کے آنے کے بارے میں سب سے زیادہ توجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دلائی ہے کہ جب وہ آئے تو چاہے برف پر گھٹنوں کے بل پر بھی جانا پڑے اسے جا کر میر اسلام کہنا کیونکہ وہی اللہ کا پہلوان ہے جو اس اندھیرے زمانے اور مادیت کے دور میں جب دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھلا بیٹھی ہوگی میری ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق تمہیں تمہارے پیدا کرنے والے خدا سے ملائے گا تا کہ تم اپنے مقصد پیدائش کو پہچان سکو.پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور خدا کے پہلوان کو پہچانا اور مانا اور اس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہوئے.kh5-030425
180 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم لیکن ہمارا اس جماعت میں شامل ہونا ، ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننا اس صورت میں فائدہ دے گا جب ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا جو بے حد مہربان اور رحمان و رحیم خدا ہے کے آگے جھکنے والے بنیں گے.اس کی عبادت سے غافل نہیں ہوں گے.دنیا کی مادی روشنی، یہ چکا چوند دنیا کی توجہ کھینچنے والی چیزیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی نہیں ہوں گی.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہوں گے.قرآن کریم میں بے شمار احکام ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ حکم سات سو ہیں.پس ایک احمدی کو احمدیت قبول کرنے کے بعد ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنی چاہئے کہ کہیں کسی حکم کی نافرمانی نہ ہو جائے.اب مثلاً ایک حکم ہے حیا کا عورت کو خاص طور پر پردے کا حکم ہے.مردوں کو بھی حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں ، حیاد کھائیں.عورت کے لئے اس لئے بھی پردے کا حکم ہے کہ معاشرے کی نظروں سے بھی محفوظ رہے اور اس کی حیا بھی قائم رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.اب آج کل کی دنیا میں، معاشرے میں، ہر جگہ ہر ملک میں بہت زیادہ کھل ہو گئی ہے.عورت مرد کو حدود کا احساس مٹ گیا ہے.Mix Gatherings ہوتی ہیں یا مغرب کی نقل میں بدن پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوتا، یہ ساری اس زمانے کی ایسی بے ہودگیاں ہیں جو ہر ملک میں ہر معاشرے میں راہ پا رہی ہیں.یہی حیا کی کمی آہستہ آہستہ پھر مکمل طور پر انسان کے دل سے، پکے مسلمان کے دل سے، حیا کا احساس ختم کر دیتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے حکم کو چھوڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر بڑے حکموں سے بھی دوری ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دوری بھی ہو جاتی ہے.اور پھر انسان اسی طرح آخر کا ر اپنے مقصد پیدائش کو بھلا بیٹھتا ہے.اس لئے اس زمانے میں خاص طور پر نوجوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے.ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بن کر آیا تھا.پس اگر اس سے منسوب ہوتا ہے تو پھر اس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہوگا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ اس پر عمل کرنے والا بن جائے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 181 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یا در کھونری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے اور اس وقت تک یہ بیعت ، بیعت نہیں نری رسم ہے.اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرو.یعنی تقوی اختیار کرو، قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبر کرو اور پھر عمل کرو.کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے کبھی خوش نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے.اور اس کے نواہی سے بچتے رہو.اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے.سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بناتا ہے کرتا کچھ نہیں.اور اس کے مقابلہ میں حقیقی مسلمان عمل کر کے دکھاتا ہے، باتیں نہیں بناتا.پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کر رہا ہے اور میرے لئے میری مخلوق پر شفقت کر رہا ہے تو اُس وقت اپنے فرشتے اُس پر نازل کرتا ہے اور سچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اُس کا وعدہ ہے فرقان رکھ دیتا ہے.( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 615 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچا مسلمان بننے کی کوشش کرے.یہ جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دنیا میں پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ یہ سب اس زمانے کی ایجادیں یہ مسیح محمدی کی آمد کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں.قرآن کریم بھی اس زمانے کی ایجادوں کی گواہی دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ یہ ہوں گی.اور حدیثوں میں بھی اس زمانے کی ایجادوں کی پیشگوئی کی گئی ہے لیکن ایک احمدی کو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اور صرف اور صرف دنیاوی مادی چیزوں کے پیچھے ہی نہ پڑار ہے.ورنہ اگر ایک احمدی، احمدی ہونے کے بعد تقویٰ اختیار نہیں کرتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.ایسے احمدی ہونے کا کیا فائدہ کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لی اور غیروں کی دشمنی بھی مول لی.پس میں دوبارہ کہتا ہوں کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کی توفیق نصیب ہوئی اور آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا.آپ میں سے کئی لوگوں کو احمد بیت اپنے ماں باپ سے وراثت میں ملی ہے.اس لئے شاید یہ احساس نہ ہو کہ ان لوگوں نے جنہوں نے شروع میں احمدیت قبول کی تھی کتنی قربانیاں دی ہیں.اسی طرح kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 182 خطبہ جمعہ 7 / اپریل 2006 ء ہمارے ابتدائی مبلغ نے بھی بہت قربانیاں دیں.یہاں احمدیت آج سے تقریباً 70-71 سال پہلے آئی ہے اور شروع میں آنے والے مبلغ حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز تھے اور شروع کے احمدیوں میں جو تاریخ میں ملتے ہیں ایک حاجی جعفر صاحب تھے اور بہت سارے احمدیوں کے نام ہیں ان لوگوں نے شروع میں بڑی قربانیاں دی ہیں.ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ماریں بھی کھائیں اور ان دشمنوں اور مخالفین کے مارنے کی وجہ سے کئی کئی دن ان کو ہسپتال میں رہنا پڑا.ان لوگوں کی قربانیوں اور دعاؤں کے طفیل آج آپ اللہ تعالیٰ کے فضل بھی اپنے پر دیکھ رہے ہیں اور یہ جو خو بصورت مسجد اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے یہ بھی انہیں قربانیوں کا نتیجہ ہے.اس زمانے کی دعاؤں اور قربانیوں کے پھل بعد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے.اس کے علاوہ بھی بہت ساری نعمتوں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا.تو یہ قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں اور ہمیشہ پھل لاتی ہیں.جس طرح گزشتہ قربانیوں کو پھل لگے ہیں آج کی قربانیوں کو بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھل لگیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.آج بھی دنیائے احمدیت میں قربانیوں کی روح قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو انشاء اللہ بھی ضائع نہیں کرے گا.یہاں کے ہمسایہ ملکوں میں احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے احمدیوں کو انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی.گزشتہ تقریباً ایک سال سے انڈونیشیا میں احمدیوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک ہو رہا ہے.احمدی انتہائی ثابت قدمی سے احمدیت پر قائم ہیں.ہم ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں لیتے اور ایسے ظالموں پر ہم ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اور ہمیشہ جھکتے رہیں گے.یہاں اس وقت بہت سے انڈونیشین بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر انڈونیشین اس بات کا گواہ ہے کہ ابتلاء اور امتحان انکے جذبہ ایمان میں کوئی لغزش نہیں لا سکے بلکہ ایمان میں مضبوطی کا باعث بنے ہیں.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنے انڈو نیشین بہن بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اپنی قوم کے احمدیوں کو تسلی دیں کہ صبر کریں اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں.احمدیت کا ایک طرہ امتیاز ہے کہ وہ کبھی ظلم کا بدلہ لینے کیلئے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا.ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو ایسی سختی کے ظلم کے موقعوں پر خدا کے آگے جھکتے ہیں.اُس خدا کے آگے جس نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا.اُس خدا کے آگے جس نے کہا کہ میرے سے دعا مانگو میں قبول کروں گا.پس اس سے مدد مانگیں، انشاء اللہ وہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا، کبھی ضائع نہیں کرے گا، کبھی ضائع نہیں کرے گا.یا درکھیں آپ اکیلے نہیں ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.یہ عارضی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 183 خطبہ جمعہ 7 اپریل 2006 ء ابتلاء ہے انشاء اللہ گزر جائے گا.یہ ابتلاء جو آیا ہے یہ جماعت کی ترقی کیلئے آیا ہے.یا درکھیں کہ جب آپ نے اس زمانے کے مسیح و مہدی کو مان لیا تو خدا تعالیٰ کبھی آپ کی جماعت کو ضائع نہیں کرے گا.کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ہے.آپ اس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس نے مخالفین کو ان الفاظ میں مخاطب کر کے چیلنج دیا ہے: ”اے نادانو ! اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس بچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقیناً یا درکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ بیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں.کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا ؟ کبھی نہیں چھوڑے گا.کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا ؟ کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا.میں اس کے ساتھ ، وہ میرے ساتھ ہے.کوئی چیز ہمارا پیوند تو نہیں سکتی.اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو، اس کا جلال چپکے اور اس کا بول بالا ہو.کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں.اگر چہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ہا ابتلا ہو.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 23) آج ہم اس کے عینی شاہد ہیں کہ باوجود سو سال کی کوششوں کے یہ سب مخالفت کی آندھیاں احمدیت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں اور بگاڑ سکتیں بھی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا آپ کی جماعت کی ترقی اور قیامت تک دوسروں پر غلبے کا وعدہ ہے.اس لئے مجھے اس بات کی تو فکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو کوئی دنیاوی طاقت نقصان پہنچا سکے گی.فکر صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ خدا سے دُور جا کر کوئی احمدی اپنی دنیا و عاقبت خراب نہ کرے.پس ہمیشہ ہر احمدی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا کسی سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا ؟ ہمیں چاہئے کہ احمدی ہونے کے دعوے کے ساتھ ہم اپنے خدا سے بچی وفا کا تعلق جوڑیں اور جب ہمارا سچا تعلق خدا تعالیٰ سے ہوگا تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہریں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اور یاد رکھیں کہ عبادتوں کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کے محبت اور صلح کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 184 خطبہ جمعہ 7 اپریل 2006 ء پیغام کو بھی دنیا تک پہنچانا ہمارا کام ہے.کیونکہ آج دنیا کو خدا کے قریب لانے اور دنیا میں اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرتے ہوئے محبت اور بھائی چارے کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم احمدیوں کے سپرد کی گئی ہے.پس جہاں یہ باتیں آپ خود یا درکھیں وہاں اپنی اولادوں کے دلوں میں بھی اس کو اچھی طرح گاڑ دیں اور راسخ کردیں.کیونکہ جماعتوں کی زندگیاں تبھی بنتی ہیں جب نسلوں میں بھی یہ نیکیاں قائم ہوتی چلی جائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے آپ میں سے اکثر کے چہروں پر اخلاص و وفا نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ یہ اخلاص و وفا بڑھاتا چلا جائے.وہ وفا جو آپ کو حضرت مسیح موعود اور خلافت احمدیہ سے ہے کبھی ختم نہ ہو بلکہ بڑھتی چلی جائے.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”اے میری جماعت ! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کیلئے ایسا تیار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تیار کئے گئے تھے.خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے.اے سعادت مند لو گوتم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کیلئے مجھے دی گئی ہے“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63 فرمایا : ” تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الہی اور تزکیہ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ....ہر قسم کے حسد، کینہ بغض اور غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق و فجور کی ظاہری اور باطنی را ہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یا درکھو کہ انجام ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 212 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھے.اور اس پیغام کو دنیا کے محروم طبقے ، جنہوں نے ابھی تک احمدیت قبول نہیں کی ، ان تک پہنچانے کی بھی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 14/ اپریل 2006 ء 185 (15) خطبات مسرور جلد چہارم نمازوں کے قیام اور نظام وصیت کی تحریک اور محبت بھری نصائح نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے فرمودہ مورخہ 14 اپریل 2006 ء (14 رشہادت 1385 ھش ) مسجد بیت الھد کی سڈنی ( آسٹریلیا ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ 20-22 سال میں جماعت احمدیہ کے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد اس ملک میں آئی ہے.گو اس لحاظ سے تو بہت بڑی نہیں جس طرح دوسرے ملکوں میں گئی ہے لیکن خاصی تعداد یہاں بھی آئی ہے.لیکن اس ملک میں احمدیت کا آغاز آپ لوگوں کے یہاں آنے سے نہیں ہوا، اس جگہ کی احمدیت کی تاریخ صرف 20-22 سال پرانی نہیں ہے، بعض کو شاید علم نہ ہو کہ آسٹریلیا میں احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں 1903ء میں آئی ہے.اور حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحب کو قبول احمدیت کی توفیق ملی گویا اس ملک میں احمدیت کا پودا لگے سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے.ان بزرگ کو جنہوں نے اس وقت احمدیت قبول کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے جو بیعت کی قبولیت کا خط ملا اس میں جو ہدایات درج تھیں وہ آج بھی ہر احمدی کے لئے مشعل راہ ہیں.اور اگر آپ ان ہدایات کو پلے باندھ لیں تو اس ملک میں رہتے ہوئے جہاں آپ اپنا تعلق خدا سے بھی جوڑ رہے ہوں گے ایسا تعلق جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا ہوتا ہے اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خود اپنے بندے کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے والا ہوتا ہے.بندہ سوتا ہے تو خدا اس کی خاطر جاگتا ہے، بندہ دشمن میں گھر تا ہے kh5-030425
186 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم تو خدا اس کی حفاظت فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اپنے بندے کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور ایسی ایسی جگہوں سے ایسے ذرائع سے اس کی ضروریات پوری کرتا ہے کہ بندے کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا.اپنی طاقتوں کی جو تصویر اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھائی ہے، ہمیں بتائی ہے، اپنے وجود کا جو فہم اور ادراک ہمیں دیا ہے وہ صرف ایسی چیز نہیں کہ صرف قرآن کریم میں ہی درج ہے جس کا کسی کو تجربہ نہ ہو.خدا تعالیٰ کے خالص بندے اس بات کا تجربہ رکھتے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ہمیں اس کے کئی نمونے نظر آتے ہیں.اور پھر اس دنیا کے انعاموں کے ساتھ ایسے بندے جو خدا کی طرف جھکنے والے ہوں ان کی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق عاقبت بھی سنور جاتی ہے.ایسے لوگوں کو اس دنیا سے جانے کے بعد اللہ تعالی دائمی جنتوں کی بشارت بھی دیتا ہے.یہ بزرگ جن کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی حضرت صوفی موسیٰ خان صاحب ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاما نیک انجام کی خبر دی تھی.تو یقینا آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام دعاوی پر مکمل ایمان اور اپنی عملی حالت کو ان نصائح کے مطابق ڈھالنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہو گی ، ان نصائح کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو لکھوائی تھیں.پس یہ اللہ تعالیٰ پر کامل اور مکمل ایمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی تعلیم پر صدق دل سے چلنا یقینا اللہ تعالیٰ کے دنیا و آخرت کے انعاموں کا وارث بناتا ہے.آج بھی ہم اگر ان انعاموں کے وارث بننا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی تا کہ ہر وقت ہم اس کے فضلوں کے وارث ٹھہر سکیں.اب میں ان نصائح کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے حضرت صوفی صاحب کو لکھی تھیں.پہلی بات دیکھی کہ آپ کی بیعت تو قبول ہو گئی ہے اب آپ کو چاہئے کہ نمازوں کو سنوار کر ادا کریں.نماز ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مومن مومن نہیں کہلا سکتا.اور پھر یہ کہ نماز پڑھنی کس طرح ہے.سنوار کر ادا کرنی ہے.نماز کو جلدی جلدی اس لئے ادا نہیں کرنا کہ میں نے اس کے بعد اپنے دنیاوی جھمیلوں کونمٹانا ہے.نما ز سنوار کر پڑھنے میں بہت سے لوازمات شامل ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے اپنی جسمانی صفائی کا خیال رکھا جائے اور سنتی اور کسل کو دور کیا جائے.اس لئے ہمیں حکم ہے کہ وضو کر کے نماز پڑھیں.جن گھروں میں نماز کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ان کے بچوں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ صرف بچپنے میں ہی نہیں بلکہ بڑے ہو کر بھی ، جوانی میں بھی اور اس کے بعد بھی، کہ ایک تو نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور اگر کبھی کسی دوست کے ساتھ یا ویسے ہی مسجد میں آگئے تو بغیر اس بات کا خیال رکھے کہ وضو قائم ہے یا نہیں، اگر نماز کھڑی kh5-030425
187 خطبہ جمعہ 14/ اپریل 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم دیکھیں گے تو اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں.حالانکہ ظاہری اور باطنی صفائی کے لئے وضو ضروری ہے.اور یہ نما ز سنوار کر پڑھنے کی پہلی شرط ہے.قرآن کریم میں واضح طور پر اس بارے میں ارشاد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُ وَسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ (المائدة :7 ) کہ اے مومنو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ بھی اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ بھی دھولیا کرو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں بھی دھو لیا کرو.تو اس حکم سے واضح ہو گیا کہ اگر پانی کی موجودگی ہے، اسلام اتنا سخت مذہب بھی نہیں، یہ وضو کی ساری شرط پانی کی موجودگی کے ساتھ ہے.تو وضو کرنا ضروری ہے.کیونکہ جہاں یہ صفائی کے لئے ضروری ہے وہاں نماز میں توجہ قائم کرنے کے لئے پوری طرح ہوشیار کرنے کے لئے بھی ضروری ہے.اور وضو کرنے کے اہتمام سے نماز سے پہلے ہی یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ میں اللہ کے حضور جانے لگا ہوں اور دنیا داری کو جھٹک کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے.یا اس طرح پاک ہو کر حاضر ہونے کی کوشش کرنی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مسلمان اور مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا منہ دھوتا ہے تو پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کی وہ تمام بدیاں دھل جاتی ہیں جن کا ارتکاب اس کی آنکھوں نے کیا ہو.پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کی وہ تمام غلطیاں دُھل جاتی ہیں.جو اس کے دونوں ہاتھوں نے کی ہوں.یہاں تک کہ وہ گنا ہوں سے پاک اور صاف ہو کر نکلتا ہے.پھر جب وہ پاؤں دھوتا ہے تو اس کی وہ تمام غلطیاں پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دھل جاتی ہیں جس کا اس کے پاؤں نے ارتکاب کیا ہو.یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک اور صاف ہو کر نکلتا ہے.(مسلم كتاب الطهارة باب خروج الخطاء مع ماء الوضوء حدیث نمبر (465) تو یہ ہے وضو کی اہمیت.لیکن اس سے یہ بھی مطلب نہیں لے لینا چاہئے کہ جان بوجھ کر غلطیاں کرتے رہو، بدنظریاں کرتے رہو، دوسروں کے حقوق مارتے رہو، اپنے مفاد کے لئے دوسروں کو دھو کہ دیتے رہو اور پھر وضو کر لو تو پاک ہو گئے.یہ بڑا واضح حکم ہے کہ اگر تم رحمن کے بندے ہو تو پھر اس کا خوف بھی دل میں رکھو.تو جو اللہ کا خوف دل میں رکھنے والا ہوگا وہ عادی مجرم نہیں ہوگا بلکہ انجانے میں جو غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں اور ان پر وہ فکر مند رہتا ہے ان سے انسان پاک ہو جاتا ہے.پھر نماز کو سنوار کر ادا کرنے کے سلسلے میں ایک اہم بات وقت پر نماز پڑھنا ہے.یہ وقت پر نماز پڑھنے کا احساس اور عادت ہی اس وصف کو نمایاں کرنے والی ہوگی کہ یہ انسان یا مومن بندہ نما ز سنوار کر پڑھنے کی عادت اور خواہش رکھتا ہے اور اس کو عادت بھی ہے.نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ان kh5-030425
188 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتبًا مَّوْقُوْتًا) (النساء : 104 ) یعنی نماز یقیناً مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے اور یہ نمازوں کے اوقات پانچ مقرر کئے گئے ہیں اور بر وقت نماز کی ایک اہمیت ہے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی حقیقت سے ہمیں آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر وقت جو نماز کا حکم ہمارے لئے مقررفرمایا ہے وہ اپنے اندر کیا اہمیت رکھتا ہے.ہر نماز کی اہمیت آپ نے بڑی تفصیل سے بیان فرمائی.اس وقت اس تفصیل میں تو جانا ممکن نہیں ہے تاہم مختصر یہ کہ انسان کی زندگی مستقل بلاؤں اور مصیبتوں میں گھری ہوئی ہے اور شیطان ہر وقت حملے کے لئے تیار بیٹھا ہے.پھر انسان کی زندگی میں مختلف کیفیات اور حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان بلاؤں اور مصیبتوں سے بچنے کے لئے اور شیطان کے حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے اور ان مختلف کیفیات اور حالات کے مطابق جو صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہ فرض کیا ہے کہ دن کے پانچ حصوں میں اللہ کے حضور حاضر ہوا جائے اور جہاں انسان وقت پر نماز پڑھنے کی وجہ سے ان حملوں سے محفوظ رہے گا وہاں روحانیت میں ترقی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا بھی ہوگا.پس ہر احمدی کو وقت پر نماز ادا کرنے کی پابندی کرنی چاہئے اس کی اہمیت پر توجہ دینی چاہئے.اس زمانے میں جب ہر طرف مادیت کا دور دورہ ہے اس طرف توجہ دینا اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے.شیطان نت نئے طریقوں سے حملے کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رکھنے کی کوشش کرتا ہے.دل میں یہ وسو سے پیدا کرتا ہے کہ اگر تم نے اس وقت اپنا فلاں دنیاوی کام نہ کیا تو نقصان اٹھاؤ گے اس لئے پہلے اس کام کو نمٹا وہ نماز کا بھی وقت تو ہے لیکن بعد میں اسے جمع کر کے پڑھ لینا.اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ ہر زمانے میں شیطان نے مختلف طریقوں سے حملے کرنے ہیں، ہر زمانے میں انسان کی مصروفیات مختلف ہوتی ہیں.اس لئے فرمایا کہ ایسی نمازیں جو تمہاری سستیوں اور جو تمہاری دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے وقت پر ادا نہ ہونے کا احتمال ہو یا وہ احتمال رکھتی ہوں ان کی خاص طور پر حفاظت کرو.کیونکہ پھر ایک نماز سے لا پرواہی آہستہ آہستہ باقی نمازوں سے بھی غافل کر دیتی ہے.اس لئے فرمایا حفِظُوْا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطى (البقرۃ : 239 ) یعنی تم تمام نمازوں کا اور خصوصاً درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو.یہ نہیں فرمایا کہ فلاں نماز کی خاص طور پر حفاظت کرو، درمیانی نماز کی تعریف بھی مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہو سکتی ہے.ہر وہ نماز درمیانی ہے جس میں دوسری ترجیحات نماز کے مقابلے میں زیادہ ہوں اور جب انسان دوسری مصروفیات کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو تمام دوسرے دنیاوی مفادات پر ترجیح دے رہا ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایسے عبادت گزاروں کی ضروریات خود ایسی جگہ سے پوری فرما رہا ہو گا کہ جہاں سے انسان کو گمان بھی نہیں ہو سکتا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.اللہ تعالیٰ کوئی نیکی بغیر جزا کے نہیں چھوڑتا اور دونوں جہان کی نعمتوں سے نوازتا ہے.kh5-030425
189 خطبہ جمعہ 14 اپریل 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم پھر نماز میں سنوار اور نکھا رتب پیدا ہو گا جب نمازیں باجماعت ادا کی جا رہی ہوں گی کیونکہ ایک مومن پر نماز با جماعت فرض ہے.قرآن کریم کا حکم ہے کہ نماز کو قائم کرو، اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط کو قائم کرنے کی جو سنت ہمارے سامنے قائم فرمائی وہ مسجد میں جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کی ہے.ہمیں نماز با جماعت کی ادائیگی کی ترغیب دلاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ باجماعت نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے.(مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة باب فضل صلاة الجماعة حديث نمبر (1362) ایک دفعہ ایک نابینا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کی کہ مجھے راستے کی ٹھوکروں کی وجہ سے مسجد میں آنے میں دقت ہے.کیا میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟ پہلے تو آپ نے اجازت دے دی.پھر فرمایا تمہیں اذان کی آواز آجاتی ہے؟ اس نے عرض کی جی آواز تو آ جاتی ہے.آپ نے فرمایا پھر نماز کا حق یہ ہے کہ تم مسجد میں آ کر نماز ادا کیا کرو.(مسلم کتاب المساجد باب يحب اتيان المسجد على من سمع النداء حديث نمبر (1371 ایک اور روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ : "آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ نے فرمایا ( سردی وغیرہ کی وجہ سے، موسم کی جو بھی شدت ہوتی ہے اس وجہ سے) دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کر نا اور مسجد میں دُور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہ بھی ایک قسم کا رباط یعنی سرحد پر چھاؤنی قائم کرنے کی طرح ہے.آپ نے یہ بات دو دفعہ فرمائی.(مسلم كتاب الطهارة.باب فضل اسباغ الوضوء على مكاره حدیث 476-475) پس ہم یہ چھاؤنیاں اپنے دلوں کی سرحد پر قائم کریں گے تو شیطان کے حملوں سے اپنے دل کو بچا کر رکھ سکیں گے.ورنہ شیطان تو جس طرح اس نے پینج دیا ہوا ہے ہر راستے پر ہمارے پر حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے.اسی لئے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ، راستباز ، ابدال، قطب گزرے ہیں.انہوں نے یہ مدارج اور مراتب حاصل کئے؟ اس نماز کے ذریعے سے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : قُوَّةُ عَيْنِي فِی الصَّلوۃ.یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کیلئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنے آنحضرت صلی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 190 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 2006 ء 66 اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ہیں.پس کشاکش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے.( ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 605 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) نفس کی بھی بہت ساری باتیں ہیں.یہ جو دنیا کی فکریں اور پریشانیاں ہیں ان سے چھٹکارا اسی نماز کے ذریعہ سے ملتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : ” نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہ غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ با ہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے.پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں.ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے.لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 282 281) جماعت احمدیہ کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ طرہ امتیاز ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں احمدی کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمام دنیا کے احمدیوں کو اس تکلیف کا احساس ہوتا ہے.یہ ایک وحدت کی نشانی ہے پس یہ وحدت ہمارے اندر اس وقت تک قائم رہے گی جب تک ہم اپنی باجماعت نمازوں کا اہتمام کرتے چلے جائیں گے.ایک بڑا طبقہ اس طرف توجہ دیتا چلا جائے گا.اصولی طور پر تو 100 فیصد احمدیوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اور جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے رہیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ یہ وحدت بھی قائم رہے گی.یہاں کیونکہ ہر جگہ ہماری مساجد نہیں ہیں.یہاں بھی شاید لوگ فاصلے پر رہتے ہوں گے تو جو لوگ مسجد میں آ سکتے ہوں انہیں ضرور آنا چاہئے اور جو نہ آ سکتے ہوں وہ قریب کے گھر آپس میں مل کر نماز سینٹرز قائم کریں اور نماز با جماعت کا اہتمام کیا کریں.اسی طرح دوسرے شہر کے لوگ ہیں جہاں بہت فاصلے کی ڈوری ہو وہاں گھر والے اکٹھے ہو کر نماز با جماعت کی عادت ڈالیں.جس حد تک گھر اکٹھے ہو سکتے ہوں آپس میں مختلف گھر اکٹھے ہو جائیں، ایک جگہ سینٹر بنا لیں.جہاں یہ بھی ممکن نہ ہو ، وہاں گھر کے سربراہ اپنے بیوی بچوں کو اکٹھا کریں اور نماز با جماعت کی اپنے گھر میں عادت ڈالیں.اس سے جہاں باجماعت نماز ادا کرنے کی وجہ سے نماز کا 27 گنا ثواب لے رہے ہوں گے وہاں اپنے بچوں کے دلوں میں بھی نماز کی اہمیت پیدا کر رہے ہوں گے.اور یہ اہمیت جب ان بچوں کی زندگیوں کا حصہ بن جائے گی تو پھر ہمیشہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 191 خطبہ جمعہ 14 اپریل 2006 ء نما ز سنوار کر ادا کرنے والے بن جائیں گے.پھر آپ لوگ اس فکر سے بھی آزاد ہو جائیں گے کہ کہیں ہمارے بچے اس معاشرے کے رنگ میں نہ ڈھل جائیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو حقیقی نمازیں پڑھنے والے، اس کے حضور جھکنے والے ہیں نمازیں ان کو فحشاء سے بھی روکتی ہیں.نمازیں ان کی محافظ بن جائیں گی اور ان کی حفاظت کے لئے کھڑی ہو جائیں گی.اس لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے.یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے.اپنی نسلوں کو بھی اگر سنوارنا ہے، بچانا ہے تو خود بھی نمازوں کی عادت ڈالیں تا کہ بچوں کو بھی عادت پڑے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.پھر دوسری نصیحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے خط میں حضرت صوفی صاحب کو فرمائی تھی وہ تھی ، استغفار بہت پڑھتے رہیں.اپنے گناہوں پر نظر رکھتے ہوئے اور آئندہ ان سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرتا ہے تو وہ اس طرح اپنے بندے کو نوازتا ہے کہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا.ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اپنے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس آدمی کو بھی نہیں ہوتی جسے جنگل بیابان میں جب ہر طرف مایوسی ہو کھانے پینے سے لدا ہوا اس کا اونٹ گم جائے اور وہ اچانک اس کول جائے“.( بخارى كتاب الدعوات باب التوبة حديث (6308 تو دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے استغفار سے خوش ہوتا ہے.قرآن کریم نے استغفار کے فوائد کے مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (نوح:11).اپنے رب سے استغفار کرو وہ بڑا بخشنے والا ہے اور پھر تمہارے استغفار کرنے کا تمہیں فائدہ کیا ہوگا.يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (نوح:12 ) یعنی اس تو بہ اور استغفار کی وجہ سے جو بچے دل سے کی جائے گی وہ برسنے والے بادل کو تمہاری طرف بھیجے گا اور مالوں اور اولاد سے تمہاری امداد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اُگائے گا اور تمہارے لئے دریا چلائے گا.تو دیکھیں انسان کتنے فوائد حاصل کر رہا ہے.جہاں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑ رہا ہے اور روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ رہا ہے وہاں دنیاوی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہیں.اب یہاں اس ملک میں مجھے بتایا گیا ہے کہ اس علاقے میں خاص طور پر اس صوبے میں پانی کی بڑی قلت ہے اور بعض چیزوں کے لئے پانی کا استعمال بھی ممنوع ہے.آج دنیا میں ہر جگہ احمد ی ہی ہیں جو دنیا سے مشکلات دور کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں.پس اپنی عبادتوں اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنے کے عمل کو پہلے سے بڑھ کر ادا کرنے کی کوشش کریں تا کہ اپنے ساتھ ساتھ انسانیت کی تکلیفوں کو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 192 خطبہ جمعہ 14/ اپریل 2006 ء بھی دور کرنے کا باعث بن سکیں.اور سب سے بڑھ کر اس روحانی پانی سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے غیروں کو بھی سیراب کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام استغفار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : استغفار کے حقیقی اور اصلی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقے کے اندر لے لے.یہ لفظ نفر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے.یعنی جو بخشش مانگنے والا ہے اس کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے.لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنے اور بھی وسیع کئے گئے ہیں اور یہ بھی مراد ہے کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہو ڈھانک لے“.یعنی ایک آدمی نے کوئی گناہ کر لیا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ڈھانک لے.لیکن اصل اور حقیقی معنے یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا.بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قومی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے.یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے.پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا.اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقص کو خدا کی قیومیت کے ذریعے بگڑنے سے بچاوے“.ریویو آف ریلیجنز جلد اول صفحہ 192-193) اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ مفت قیوم کے ذریعے سے اپنے آپ کو بگڑنے سے ہمیشہ بچائے رکھیں.پس استغفار کا بھی ایک بہت وسیع مضمون ہے.اپنی روحانی اور جسمانی بقا اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے لئے احمدیوں کو بہت زیادہ اس طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ جن انعاموں کے ہم وارث ہو چکے ہیں، ان کو تا قیامت پاتے چلے جانے والے ہوں.پھر آپ نے ایک نصیحت یہ فرمائی تھی کہ تقوی طہارت، اللہ رسول کی سچی فرمانبرداری میں کوشش کریں، متقی وہ ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کی لغویات سے بچا کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق زندگی بسر کرنے والے ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی آجاتے ہیں اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی آجاتی ہے.پس ایک احمدی کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے.اپنی زندگی کو عبادتوں سے اور اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہم میں طاقت پیدا ہو.پس ایک متقی انسان سلجھا ہوا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 193 انسان ہے جو ہر وقت اس کوشش میں ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہے.خطبہ جمعہ 14/ اپریل 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”مبارک ہے وہ جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کرے اور بد قسمت ہے وہ جو ٹھو کر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے“.حکموں پر - ( ملفوظات جلد اول صفحہ 99 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس آپ لوگ جو اس خطہ زمین میں آئے ، بہت سے اس لئے یہاں آ کر پناہ گزین ہوئے کہ زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے اپنے ملک میں آپ پر زندگی کا دائرہ تنگ کیا گیا تھا.یہاں آ کر ذہنی یکسوئی بھی حاصل ہوئی اور مالی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے.یہ سب باتیں اس چیز کا تقاضا کرتی ہیں کہ آپ اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائیں ، ہر لحہ اور ہر آن خدا تعالی کو اپنی ڈھال بنائے رکھیں.اس دنیا کی چکا چوند خدا کی یاد سے بیگانہ نہ کر دے بلکہ مزید اس کے آگے جھکنے والا بنا دے.اللہ تعالیٰ کے تمام پر عمل کرنے والے ہوں.اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر اور اسوہ پر عمل کرنے والے ہوں.اور آپ کے غلام صادق کی بیعت میں آ کر آپ کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے کامل فرمانبرداری دکھانے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں.اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ”اے دے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو.( یعنی جو اپنے آپ کو میری جماعت میں شامل سمجھتے ہو ).آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقوی کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کوسنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو خود تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا“.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) اس ضمن میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے اور ہمیشہ جماعت میں اطاعت اور فرمانبرداری کی مثالیں قائم کرنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بعد ایک ایسا انتظام فرمایا جو نظام خلافت کے ذریعے سے ہے.اور اس نظام خلافت کے ساتھ ایک اور بھی نظام تھا.ایک تو فرمانبرداری اور اطاعت کا نظام دوسرے خدا اور رسول کا پیغام پہنچانے کے لئے اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے نظام وصیت کا اجراء.اور آج سے تقریباً 100 سال پہلے یہ اجراء ہوا تھا.اور یہ جو وصیت کا نظام آپ نے جاری فرمایا تھا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تھا.اور اس نظام میں شامل kh5-030425
194 خطبہ جمعہ 14 / اپریل 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ہونے والوں کے لئے آپ نے بے شمار دعائیں کی ہیں.اور اس نظام میں شامل ہونے والوں، بلکہ جماعت کو تقویٰ پر قدم مارنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں نصیحت کرتے ہوئے کہ: خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ : ” تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے.وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے.تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ بیچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے.انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ جو زبان سے خدا طلبی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن قدم صدق نہیں رکھتا.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 307) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : "تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اسکی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پائیں.“ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 309-308) اللہ تعالیٰ کے فضل سے دسمبر 2005ء میں حضرت مسیح موعود کے نظام وصیت کو جاری ہوئے 100 سال پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا اور 2004 ء کے جلسہ UK میں میں نے تحریک کی تھی کہ 2005 ء میں 100 سال پورے ہوں گے تو کم از کم 50 ہزار موصیان ہونے چاہئیں.تو جیسا کہ میں جلسہ سالانہ قادیان میں اعلان کر چکا ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ تعداد پوری ہو چکی ہے بلکہ اس تعداد سے بہت آگے جاچکے ہیں.اب تو جماعتیں اپنا اگلا ٹارگٹ پورا کرنے کی کوشش میں ہیں.لیکن یہاں آپ لوگوں کی دلچسپی کے لئے میں جو بات بتانے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کی جو تاریخ مرتب ہوئی ہے اس کے مطابق حضرت صوفی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ بیرون ہندوستان نظام وصیت میں شامل ہونے والے اولین موصی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب وصیت کا اعلان فرمایا تو اس کے تین مہینے کے بعد ہی انہوں نے وصیت کر دی تھی اور اس طرح آپ کی وصیت مارچ 1906 ء کی ہے.پھر اس لحاظ سے اس ملک میں یعنی اس بر اعظم میں نظام وصیت کے پہلے پھل کو بھی 100 سال ہو گئے ہیں.یہ اپریل کا مہینہ ہے.صرف ایک مہینہ ہی اوپر ہوا ہے.حضرت صوفی صاحب نے یقینا ایک تڑپ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی.اور یقینایہ کا میاب کوشش تھی ، کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجام بخیر ہونے کی خبر الہاما دی تھی.اور آپ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنے جو آپ نے اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 195 خطبہ جمعہ 14/ اپریل 2006 ء بے شمار دعائیں ہیں جو آپ نے کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ میں ترقی دے، ایمان میں ترقی دے، نفاق سے پاک کرے تو یہ صرف اتفاق نہیں ہے.اب میں سمجھتا ہوں 100 سال کے بعد بیرون ہندوستان کے پہلے موصی کے ملک میں یہ میرا دورہ ہے اور اس سے پہلے میں وصیت کرنے کی تحریک بھی کر چکا ہوں.یہاں آنے سے پہلے مجھے علم بھی نہیں تھا کہ یہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نظام وصیت کا پہلا پھل آج سے 100 سال پہلے لگ چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں یہ پھل لگا اور آج سے پورے 100 سال پہلے ایک ایسا کامیاب پھل تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے تسلی بھی کروائی کہ تمہارا انجام بھی بخیر ہوگا.تو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ بیرون پاکستان اور ہندوستان نظام وصیت کی طرف توجہ اس ملک کے احمدیوں کو اس لحاظ سے بھی خاص طور پر کرنی چاہئے کہ وہ ایک شخص تھا یا چند ایک اشخاص تھے جو یہاں رہتے تھے ان میں سے ایک نے لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کی.آج آپ کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بہت زیادہ ہیں اور 100 سال بعد اور تقریباً اس تاریخ کو 100 سال بھی پورے ہو چکے ہیں اس لئے اس لحاظ سے آپ لوگوں کو جو کمانے والے لوگ ہیں جو اچھے حالات میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.اور سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیر صاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100 فیصد جماعتی عہد یداران اس نظام میں شامل ہوں، چاہے وہ مرکزی عہدیداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہد یداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہدیداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہد یداران ہوں.گو کہ اللہ کے فضل سے مجھے بتایا گیا کہ یہاں موصیان کی تعداد کافی اچھی ہے لیکن حضرت صوفی صاحب کے حالات پڑھ کر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو اور تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو.یہ ایسا بابرکت نظام ہے جو دلوں کو پاک کرنے والا نظام ہے.اس میں شامل ہو کے انسان اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتا ہے.اب سالومن آئی لینڈ ز (Soloman Islands) میں وہاں کے ایک نئے احمدی ہیں ، انہوں نے بھی وصیت کی ہے تو جس طرح نئے آنے والے اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں اور انشاء اللہ بڑھیں گے ان لوگوں کو دیکھ کر آپ لوگوں کو بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں یہ پرانے احمدیوں کو پیچھے نہ چھوڑ جائیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت صوفی صاحب کو ان کے خط میں نمازوں میں دعائیں کرنے اور تہجد میں دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے لئے بھی دعائیں کریں اور دنیا کو حق کی پہچان کی طرف توجہ دینے کے لئے بھی دعائیں کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کس قدر خوشی ہوتی تھی کہ کسی سعید روح کو حق پہنچے حق کو پہچاننے کی توفیق ملے اور پھر آگے اس پیغام کو دوسروں تک kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 196 خطبہ جمعہ 14/ اپریل 2006 ء پہنچانے کی توفیق ملے.اس کا اظہار خط کے ان الفاظ سے ہوتا ہے.حضرت مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ : ”حضرت اقدس آپ کے اخلاص اور محبت اور خدا داد فہم رسا سے بہت خوش ہوئے اور آپ کے حق میں دعا فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کو دینی اور دنیاوی برکت دے.اور آپ کے ہدایت اور تبلیغ سے بہتوں کو فائدہ دے اور ایک جماعت کے قلوب کو اس سلسلے کی طرف متوجہ کرے آمین.تو اس خط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے احمدیت کا پیغام پہنچانے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.پس یہ میدان بھی ایسا ہے جس میں ہر احمدی کو معتین پروگرام بنا کر جت جانا چاہئے.آج دنیا کی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کو صحیح راستے کی تعین کر کے دکھائی جائے صحیح راستہ بتایا جائے اور جو روحانی بارشیں اور فضل اور روحانی پانی کی نہریں اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کی ہیں اور آپ کے لئے جاری فرمائی ہیں اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا ئیں.ہو یہ جلسے کے چند دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے میسر فرمائے ہیں کہ اس میں اپنے جائزے لیں.حضرت مسیح موعود کی توقعات کو اپنے سامنے رکھیں.اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کریں، اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولادوں کو بھی زمانے کی لغویات سے محفوظ رکھیں.آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں.اور پھر مستقل مزاجی سے اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں.آپ کی تبلیغ بھی تبھی کامیا گی جب آپ کے اندر خود بھی پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی.اللہ تعالیٰ ان دنوں میں آپ سب کو اس لحاظ سے دعائیں کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور جو با جماعت نمازیں پڑھنے اور نوافل پڑھنے کے مواقع میسر آئیں اس میں بھی باقاعدگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ جلسہ ہر لحاظ سے آپ کے لئے روحانی ترقی کا باعث بنے.آمین kh5-030425
خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء 197 (16) خطبات مسرور جلد چہارم اخلاقی معجزات اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تبلیغ کے میدان بھی ہمارے لئے کھولیں گے اور اگلی نسلوں کی تربیت کے بھی سامان پیدا کریں گے فرمودہ مورخہ 21 اپریل 2006 ء(21 رشہادت 1385 ش) مسجد بیت الھدی.سڈنی (آسٹریلیا ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو تین دن تک میرا آسٹریلیا کا دورہ انشاء اللہ اختتام کو پہنچنے والا ہے.اس دورے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ میں شمولیت اور خطابات کی توفیق ملی ، وہاں جماعت کے تقریباً تمام افراد سے انفرادی ملاقاتیں بھی ہوئیں اور دوسرے پروگرام بھی ہوئے.اس براہ راست رابطے سے بہت کچھ دیکھنے سمجھنے اور سنے کا موقع ملا.عمومی طور پر جماعت آسٹر یلیا اللہ تعالی کے فضل.اخلاص و وفا میں کسی جماعت سے بھی پیچھے نہیں ہے.تاہم بعض کمیاں بھی ہوتی ہیں جن پر نظر رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ ان کمزوریوں اور خامیوں کو دور کیا جائے.کیونکہ ہمارے معیار اور ہماری نظر تو ہمیشہ اونچی رہتی ہے اور قدم ترقی کی طرف بڑھنے چاہئیں.اور اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بیعت کرنے والوں میں دیکھنا چاہتے تھے.اس وقت یہاں کے احمدیوں کی ایک بہت بڑی اکثریت پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جو کہ مختلف وقتوں میں یہاں آتے رہے.جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ان میں پڑھے لکھے بھی ہیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 198 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء جو اپنے علم کی وجہ سے یہاں ملازمتوں کی تلاش میں آئے ، کاروباری بھی ہیں.لیکن ان میں سے بہت بڑی تعداد جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی ہے جن کو پاکستان کے حالات کی وجہ سے یہاں اسائکم ملا.اور یہ لوگ چھوٹے موٹے کاروبار کر رہے ہیں یا ملازمتیں کر رہے ہیں.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے بعض کی اولادیں اچھا پڑھ لکھ گئی ہیں، کچھ پڑھ رہی ہیں اور ماشاء اللہ اکثریت تعلیمی میدان میں اچھی ہے، یہ ایک بڑا اچھا شگون ہے کیونکہ نوجوانوں میں اگر پڑھنے کی عادت نہ ہو تو اپنی استعداد میں ضائع کرنے والے ہوتے ہیں.ان نوجوانوں کا جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق بھی ہے.جلسہ کی ڈیوٹیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب نے بڑی اچھی طرح اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں.اور بڑے جوش اور جذبے سے سارے کام کرتے رہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزار - پھر یہاں رہنے والے احمدیوں میں ارد گرد کے ملکوں میں سے نجین (Fijian) احمدیوں کی بڑی تعداد ہے چند ایک اور بھی ہیں جن میں آسٹریلین بھی ہیں اور متفرق قوموں کے بھی.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اکثریت پاکستانیوں کی ہے تمام ان پاکستانی خاندانوں کے نوجوان جو یہاں پیدا ہوئے یا پہلے بڑھے اور مجبین احمدی یا دوسرے غیر پاکستانی احمدی ان سب کی نظریں ان تجربہ کار درمیانی عمر کے یا بڑی عمر کے احمدیوں پر ہیں جو پاکستان سے آئے تھے.ان سب کے خیال میں آپ لوگ دین کو جاننے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں یا کم از کم ہونے چاہئیں.پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر آپ لوگوں نے اسے محسوس نہ کیا اور اس ذمہ داری کا جس طرح حق بنتا ہے اس کو نہ نبھایا تو اگر آئندہ آپ کی نئی نسل بگڑتی ہے، کسی کو اپنے بڑوں کی وجہ سے ٹھو کرلگتی ہے یا غیر پاکستانی احمدی جو پاکستانیوں کو دینی علم کے لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں ان کو آپ کے رویوں یا عملوں سے کوئی ٹھوکر لگتی ہے تو یقینا یہ ایک بہت بڑا ظلم ہو گا جو آپ اپنی جان پر بھی کر رہے ہوں گے اور دوسرے احمدیوں پر بھی.اس لئے ہمیشہ اپنے نمونے قائم کرنے کے لئے جائزے لیتے رہیں اور خاص طور پر دوسروں سے تعلقات نبھانے اور معاملات نمٹانے کے تعلق میں ہر احمدی کو ایک نمونہ ہونا چاہئے.لیکن پرانے احمدیوں اور ان لوگوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقعہ دیا ہے.خاص طور پر اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے اور پھر عموماً اپنے ماحول میں اپنی ایک پہچان قائم کرنی چاہئے.لیکن نو جوانوں اور غیر پاکستانی احمدیوں سے جو یہاں رہتے ہیں ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ آپ نے بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کی ہے.آپ نے مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مانا ہے ، نہ کہ کسی اور کو.اس لئے آپ کے سامنے جو نمونے ہونے چاہئیں، آپ کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 199 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء سامنے ہر وقت جو تعلیم ہونی چاہئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ کی تعلیم ہونی چاہئے اور آپ کے نمونے ہونے چاہئیں.آپ نے یہ نہیں دیکھنا کہ فلاں بڑے یا فلاں پاکستانی احمدی کے نمونے کیا ہیں بلکہ آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کیا توقعات وابستہ فرمائی ہیں.ورنہ یاد رکھیں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہنا کہ تمہیں اس لئے معاف کیا جاتا ہے کہ تم فلاں شخص کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے تھے.ہر ایک نے اپنا حساب دینا ہے.اس لئے یہ نہ دیکھیں کہ فلاں احمدی یا فلاں عہدیدار کیا کرتا ہے.یہ دیکھیں اور ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں کہ جس شخص کی بیعت میں ہم شامل ہوئے وہ خدا کی طرف سے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی جماعت سے جڑا رہنے کا ارشاد ہے.اللہ کے خلیفہ سے جو سیح و مہدی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے تعلق جوڑنے کا ارشاد ہے.پس ہر احمدی چاہے وہ پاکستان کا رہنے والا ہے یعنی پاکستان سے یہاں آکر آباد ہوا ہے یا کسی دوسرے ملک سے.نوجوان ہے یا بوڑھا ہے، مرد ہے یا عورت ہے کہ اپنے اعمال کا وہ خود ذمہ دار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ک اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.آپ فرماتے ہیں : اے عزیز و! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کیلئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی.اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو، اپنے دلوں کو پاک کرو، اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو.دوستو! تم اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو.اپنے اصلی گھروں کو یاد کرو تم دیکھتے ہو کہ ہر سال کوئی نہ کوئی دوست تم سے رخصت ہو جاتا ہے.ایسا ہی تم بھی کسی سال اپنے دوستوں کو داغ جدائی دے جاؤ گے.سو ہوشیار ہو جاؤ اور اس پر آشوب زمانے کی زہر تم میں اثر نہ کرے.اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کرو.کینہ اور بغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ.اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھلاؤ“.اربعین نمبر 4 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 442-443) پس غور کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا توقعات وابستہ رکھتے ہیں.نیک نیتی سے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم نے اس مسیح کو دیکھ لیا جس کی بہت سے پیغمبروں نے خواہش کی تھی.ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا زمانہ تھا جس میں آپ کے صحابہ نے آپ کو جسمانی طور پر بھی دیکھا اور پھر ہر روز آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے نظارے بھی دیکھے.اور ان نظاروں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ بھی کیا.لیکن آج ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر ہر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 200 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء - دن کے طلوع ہونے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ایک نئے رنگ کی بارش برستا د یکھتے ہیں تو یہ فضل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہی دیکھ رہے ہیں.یہ جو جماعت پر بارشیں ہو رہی ہیں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہے.اللہ تعالیٰ ہر دن ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا نیا جلوہ دکھا کر ہمیں آپ ہی کو دکھا رہا ہے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی ان جلووں کے پیچھے دیکھ رہے ہیں.پس اس وقت کی قدر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے چھٹتے ہوئے جو حقیقت میں آپ کے آقا و مطاع پر اتری ہوئی تعلیم ہی ہے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش رتے چلے جائیں اور اس کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے چلے جائیں.اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے کسی شخص کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اس خاتم الاولیاء کی طرف دیکھیں جس کے بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اور جس کو آپ نے قبول کیا.اپنی راہیں ہمیشہ درست رکھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے اور جس راہ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑا ہے اس راہ سے کبھی بھٹکنے والے نہ بنیں.اپنے معاملے خدا سے صاف رکھیں اور اپنا قبلہ درست رکھیں.اپنے دلوں کو پاک رکھیں ، اپنے دلوں کے داغ دھونے کی کوشش کریں.دوسروں کے دل میں جھانکنے کی کوشش نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے ، مرنے کے بعد نہ کسی دوسرے کا بوجھ ہمارے پلڑے میں ڈالنا ہے، نہ ہمارا بوجھ کسی دوسرے کے پلڑے میں ڈالنا ہے.پس دلوں کو پاک رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے دل میں ہمیشہ جھانکتے رہیں، اپنے گریبان پر ہمیشہ نظر رکھیں، اسی سے مولیٰ راضی ہو گا، اسی سے ماحول میں فتنہ وفسادختم ہو گا.اسی سے اعلیٰ اخلاق قائم ہوں گے، اسی سے کینے دور ہوں گے.اسی سے ہر کوئی اپنے آپ کو بغض اور حسد کی آگ سے بچانے والا ہوگا.اور اسی سے اخلاقی معجزات دنیا کے سامنے آئیں گے.اور دنیا کو ہماری طرف توجہ پیدا ہوگی.لیکن اگر ہم ان گھٹیا باتوں میں ہی پڑے رہے کہ فلاں میرا اچھا کھانا برداشت نہیں کر سکتا یا فلاں، فلاں کام کیوں نہیں کرتا تو نہ کبھی کینے ختم ہوں گے، نہ کبھی بغض ختم ہوں گے، نہ حسد ختم ہوں گے اور نہ اخلاقی معجزات رونما ہوں گے.یاد رکھیں یہی اخلاقی معجزات اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تبلیغ کے میدان بھی ہمارے لئے کھولیں گے اور اگلی نسلوں کی تربیت کے سامان بھی پیدا کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یقین یا د رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا.جس قدر انسان منتفی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 201 کی نسبت سزا اور ایڈا کو پسند نہیں کرتا.مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہوسکتا.خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء فرماتے ہیں : ” ہم خود دیکھتے ہیں ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے.کوئی دکھ اور تکلیف جو پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے.لیکن پھر بھی ان کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو اب بھی تیار ہیں.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو ، یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلاتمیز مذہب و قوم ہر ایک سے نیکی کرو“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 219 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تو دیکھیں یہ ہے آپ کا اسوہ ، آپ کی ہم سے توقعات کہ غیروں سے بھی ہمدردی کرو.جب غیروں سے اس قدر سلوک کرنا ہے تو آپس میں کس قدر پیارو محبت سے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ مومن کی یہ نشانی بتا تا ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان اور مکمل یقین رکھتے ہیں ان کا آپس کا سلوک رُحَمَاءُ بَيْنَهُم ﴾ (الفتح : 30) کا مصداق ہے.یعنی آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملاطفت کرنے والے ہیں.محبت اور پیار کا سلوک کرنے والے ہیں.اس لئے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے کے لئے اپنے معاملات میں جب تک شکوے شکائیتیں بند نہیں کریں گے ان لوگوں میں شمار نہیں ہو سکتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں.لیکن یہ تمام معیار کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک اللہ تعالیٰ سے مددنہ مانگیں کیونکہ شیطان جو برائیوں پر اکسانے والا ہے اس کا مقابلہ خدا کی مدد اور اس کے رحم کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانا اور اس سے مدد مانگنا ضروری ہے.اس کے رحم کو جذب کرنے کے لئے یہ باتیں بھی ضروری ہیں اور اس کے ساتھ پاک دل ہو کر برائیوں سے بچنے کی کوشش بھی کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ’ یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے یہ نہایت سخت اور دیر پا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دور ہو ہی نہیں سکتا.اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اسکی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دور کرنے والی قوت ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کر کے پامال کر سکے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے رحم سے“.ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 206 ) پس اس رحم کو جذب کرنے کے لئے جہاں خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑ میں وہاں کوشش کریں کہ ان برائیوں کو دور بھی کیا جائے.جب ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس کا فضل اور رحم اور مدد طلب کرتے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 202 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء ہوئے ایک مصتم اور پکے ارادے کے ساتھ برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمیں ان ادنی خواہشات اور نفسانی خواہشات سے بچاتا ہے.لیکن بظاہر دعا تو ہم خدا تعالیٰ سے یہ مانگ رہے ہوں گے کہ اے اللہ! مجھے میرے نفس کے کینوں سے پاک کر ، مجھے غصہ کی لعنت سے بچا.میرے اندر سے حسد کی بیماری دور کر لیکن اس کو دور کرنے کے جو طریقے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں ان کو ہم اختیار نہ کریں بلکہ ان برائیوں میں بڑھ رہے ہوں تو یہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعا نہیں ہوگی.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرو اور نہ صرف ٹھنڈا کرو بلکہ دوسرے کو معاف بھی کرو.اور نہ صرف معاف کرو بلکہ احسان کا سلوک بھی کرو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم غصے میں ہو اور اگر کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آیا ہے تو بیٹھ جاؤ.بیٹھے ہوئے ہو تو لیٹ جاؤ تا کہ تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو.منہ اور سر پر پانی کے چھینٹے ڈالو.وضو کرو.تو جب غصے ٹھنڈے کرنے کی کوشش کریں گے تو کینے بھی ختم ہوں گے اور حسد بھی ختم ہوگی.جو لوگ کام کرنے والے ہیں جو لوگ دین کا علم رکھنے والے ہیں وہ اگر اپنے رویے نہیں بدلیں گے تو دوسروں کو کیا کہہ سکتے ہیں.کام کرنے والوں سے میری مراد جماعتی خدمات کرنے والے ہیں.دوسروں کو کیا کہیں گے.کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپنے نفس کو شیطان سے محفوظ رکھو.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو کام تم نہیں کرتے اس کے بارے میں دوسرے کو بھی نہ کہو.پہلے اپنے گریبان میں جھانکو پہلے اپنا محاسبہ کرو، پہلے اپنی اصلاح کرو پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ دو.پس ہر احمدی کو ، ہر بڑے کو، ہر عہدیدار کو، ہر ذمہ دار کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے تبھی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی.اور تبھی جماعت کی ترقی کے سامان پہلے سے بڑھ کر پیدا ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے (جس کو اللہ تعالی نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے.آپ نمونہ بن رہے ہیں.فرماتے ہیں کہ : ” اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں.اور اپنے ہر ایک فعل اور حرکت و سکون میں نگاہ رکھے کہ وہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کے لئے ہدایت کا نمونہ قائم کرتا ہے.پس ہر احمدی دوسرے کے لئے ہدایت کا نمونہ قائم کرنے والا ہے.فرمایا: ”نگاہ رکھے کہ وہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کے لئے ہدایت کا نمونہ قائم کرتا ہے یا کہ نہیں.اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہاں تک تدبیر کا حق ہے، تدبیر کرنی چاہئے اور کوئی دقیقہ ( تدبیر کا) فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے.یعنی کسی میں کوئی کمی نہیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 203 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء رہنی چاہئے.یا د رکھو تقوئی اور نیکی کے حصول کے لئے تدابیر میں لگے رہنا بھی ایک مخفی عبادت ہے.اگر نیکی اور تقویٰ چاہتے ہو تو اس کے لئے تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 201 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) یہ جو تم کوششیں کرتے ہو نیکی کرنے کی یا نیک اخلاق دکھانے کی اس کو چھوٹا مت سمجھو ، تھوڑامت سمجھو اور معمولی مت سمجھو.فرمایا: ”جب انسان اس کوشش میں لگارہتا ہے تو عادت اللہ یہی ہے کہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راہ کھول دی جاتی ہے جو بدیوں سے بچنے کی راہ ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 201 حاشیہ نمبر 3 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: ”میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امارہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تو امہ ہو جاتا ہے.اور ایسی قابل قدر تبدیلی پالیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جو لعنت کے قابل تھا یا اب جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ نمبر 202 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) نفس امارہ اور اقامہ کیا ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ امارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا.جذبات پھر بے قابو ہو جاتے ہیں، جلدی غصے میں آ جاتا ہے اور برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اندازے سے نکل جاتا ہے اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے.شیطان کے پنجے میں گویا گرفتار ہوتا ہے اور اس کی طرف بہت جھکتا ہے.لیکن تو امہ کی حالت میں اپنی خطا کاریوں پر نادم ہوتا ہے اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف جھکتا ہے.مگر اس حالت میں بھی ایک جنگ رہتی ہے کبھی شیطان کی طرف جھکتا ہے اور کبھی رحمن کی طرف.پس اگر ہم اللہ سے رحم ما نگتے ہوئے رحمن کی طرف جھکنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو ایک وقت ایسا آئے گا جس میں ایک نفس کی تیسری قسم بھی ہے جسے نفس مطمئنہ کہتے ہیں وہ حاصل ہوگی.کہ جو کام بھی کرنا ہے اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کرنا ہے.یہی ایک راہ ہے جس سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے.دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے.دل کو چین اور سکون ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: جس قدروہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کے معیار کو بڑھاتا جائے گا اسی قدروہ خدا کا قرب پانے والا ہو گا.یہ دنیا داری کی چھوٹی چھوٹی باتیں نفسانی خواہشات، نام و نمود، غصہ، حسد، جھوٹ، غرض کہ تمام kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 204 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء برائیاں دور ہو جائیں گی.پس نفس مطمئنہ اور امارہ کے درمیان توامہ ہے.انسان جتنا زیادہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے گا مطمئنہ کی طرف جھکتا چلا جائے گا.پس اصل چیز اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنے کی ہے.اپنے جائزے لیتے رہنے کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو برا بھلا کہ دیا تو جس کو بُرا بھلا کہا جاتا ہے وہ اس قدر غصے میں آجاتا ہے کہ مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.جس طرح اس نے ساری زندگی برائی کی نہ ہو.فرمایا کہ اگر ہر کوئی اپنی برائیوں پر نظر رکھے تو کسی کے کچھ کہنے پر کبھی غصے میں نہ آئے اور صبر اور برداشت سے کام لے.اور جب ہر کوئی صبر اور برداشت سے کام لے گا تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مسائل اور گلے شکوے پیدا ہی نہیں ہوں گے یا پیدا ہوتے ہی ختم ہو جائیں گے.ایک بزرگ کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ وہ بازار میں جارہے تھے تو ایک شخص نے ان کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور کوئی دنیا کا عیب یا برائی نہیں تھی جو اس نے نہ نکالی ہو یا ان کو نہ کہی ہو.وہ چپ کر کے یہ ساری باتیں سنتے رہے تو برا بھلا کہنے والا شخص جب خاموش ہو گیا تو ان بزرگ نے کہا کہ اگر تو یہ تمام برائیاں جو تم نے مجھ میں گنوائی ہیں واقعی میرے اندر موجود ہیں تو میں بھی اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں تم بھی میرے لئے مغفرت کی دعا کرو.وہ گالیاں نکالنے والا شخص بے قرار ہو کر اس بزرگ سے چمٹ گیا اور کہا کہ میں غلط ہوں.یہ برائیاں آپ میں نہیں ہیں.تو ان بزرگ نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ تم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے.تو یہ طریق ہیں بات کو ختم کرنے اور نیکیوں کو پھیلانے کے ورنہ ایسے لوگ جو جھگڑے کر کے جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کاٹے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے واضح طور پر فرمایا ہے.پس اگر غلطیاں سرزد ہو جائیں تو صرف نظر سے کام لینا چاہئے.اور اگر کوئی حد سے تجاوز کر گیا ہے برداشت سے باہر ہو چکا ہے اور اس میں جماعت کی بدنامی کا بھی امکان ہے تو پھر متعلقہ بڑے نظام کو، نظام جماعت کو یا خلیفہ وقت کو اطلاع دے کر پھر خاموش ہو جانا چاہئے.دوسروں کو غیروں کو یا کسی بھی تیسرے شخص کو یہ احساس کبھی پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص یا فلاں فلاں عہدیدار ایک دوسرے کے خلاف بغض وعنا در کھتے ہیں.غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں.آج زید سے غلطی ہوئی ہے تو کل بکر سے بھی ہو سکتی ہے اس لئے کینے دلوں میں رکھتے ہوئے کبھی کسی بات کے پیچھے نہیں پڑ جانا چاہئے.ہر ایک میں کئی خوبیاں اور اچھائیاں بھی ہوتی ہیں وہ تلاش کرنے کی کوشش کریں.یہی چیز ہے جس سے محبت اور پیار کی فضا پیدا ہوگی.پس ہر ایک کو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 205 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء اپنے نمونے قائم کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ عہدیدار ہے یا عام احمدی ہے ، مرد ہے یا عورت ہے.اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کریں.جب غیر معمولی مثالی نمونے ہر جگہ قائم ہوں گے تو جماعت کی تبلیغی لحاظ سے بھی ترقی ہوگی اور تربیتی لحاظ سے بھی ترقی کرے گی.آئندہ نسلیں بھی احمدیت کی تعلیم پر حقیقی معنوں میں قائم ہونے والی پیدا ہوں گی بلکہ یہ نسلیں جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ بنیں گی.زبان ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے محبتیں بھی پنپتی ہیں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے.اس کا صحیح استعمال بھی انتہائی ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کے سوال پر اسلام کی یہ خوبی بیان فرمائی کہ وہ لا یعنی باتوں کو چھوڑ دے.بلا مقصد کی بے تکی باتوں کو چھوڑ دے ایسی باتوں کو چھوڑ دے، جن سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اعلیٰ اخلاق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے، منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کر یہ بھی دے دیا ہے“.فرمایا کہ: " اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے.جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے اپنے آپ کو نہ دیکھتا رہے، یہ اصلاح نہیں ہوتی.زبان کی بد اخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں.اس لئے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے.دیکھو کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے.پھر وہ شخص کیسا بے وقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قومی سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تربیت نہیں کرتا.ہر شخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 262 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور یہی گر ہے جس کو اگر ہر فردا پنا لے تو جماعت کی ایک امتیازی شان قائم ہوسکتی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں.مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے.اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا.پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے!“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 590 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) kh5-030425
206 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت اعلیٰ مقصد کے لئے مبعوث فرمایا تھا.آپ کی شرائط بیعت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.پس ہر احمدی جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شمار کرتا ہے اس پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ یہ عہد آپ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کر رہے ہیں.جس عہد کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ عہد بیعت میں ہم نے کیا ہے.ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دوسروں کو بھی کہنے کا ہمیں کیا حق ہے.پس جیسے کہ میں نے پہلے کہا تھا تبلیغی میدان میں ترقی کرنے کے لئے بھی اپنی عملی حالتوں کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود نے یہی فرمایا ہے کہ اگر تم خود اپنی اخلاقی حالتوں کو درست نہیں کر رہے تو دوسروں کو تم کیا کہو گے.پس اس حوالے سے دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں، اپنی عملی حالتوں کو درست کرتے ہوئے خدائے رحمن کا بندہ بنتے ہوئے اس کے اس خوبصورت اور حسین پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا اور جس کے پھیلانے کا کام اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے سپرد کیا ہے اس کو ملک میں پھیلائیں یہ اپنے جائزے لیں، دیکھیں، کہاں کہاں کمیاں ہیں، کہاں کمزوریاں ہیں ان کو پورا کرتے ہوئے اس کام کو بھی سنجیدگی سے سرانجام دینے کی کوشش کریں.اس میں ابھی بھی بہت بڑا خلا باقی ہے.جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیموں کا نظام بھی اس بارے میں پلاننگ کریں.صرف روایتی بک سٹال یا صرف عشرہ تبلیغ منانے سے مقصد حاصل نہیں ہو سکتے.صرف اتنا کام ہی کامیابی نہیں دلائے گا اس کے لئے مزید پلاننگ بھی کرنی ہوگی.انفرادی رابطے ہیں اور دوسری چیزیں ہیں.مختلف قوموں کے بارے میں جو یہاں آباد ہیں معلومات جمع کر کے پھر ان میں تبلیغ کے نئے ذرائع تلاش کریں، ہر طبقے کے پاس پہنچنے کی کوشش کریں اور پھر قائم شدہ رابطوں کو ہمیشہ قائم رکھیں ، ان کے ساتھ مسلسل تعلق اور رابطہ رکھیں.اس ضمن میں یہ بھی بات کہنی چاہتا ہوں کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے بلکہ چند ایک جو احمدی ہوئے ہیں ان کی شکایت بھی ہے کہ یہاں اکثریت کیونکہ پاکستانیوں کی ہے یہ ہمیں اپنے اندر جذب نہیں کرتے.اجلاس وغیرہ میں بھی ایسی زبان ہونی چاہئے کہ جو یہاں کی زبان ہے یعنی انگریزی میں کارروائی ہو، تا کہ جو یہاں جزائر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 207 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء سے آئے ہوئے احمدی ہیں وہ بھی سمجھ سکیں.گوا کثر کو اردو بھی آتی ہے لیکن انگریزی میں زیادہ آسانی ہے.یہاں کے رہنے والے بھی ہیں جو بچے یہاں پلے بڑھے ہیں ان کو بھی انگریزی زبان زیادہ سمجھ آجاتی ہے.سوائے چند ایک بڑی بوڑھیوں کے یا بوڑھوں کے یا ان پڑھوں کے، جن کو سمجھ نہیں آتی ان کیلئے ترجمے کا انتظام ہو سکتا ہے.یا مختصراً اُردو میں کوئی پروگرام ہو سکتا ہے.تو بہر حال غیر پاکستانی احمدیوں کے یہ شکوے دور ہونے چاہئیں کہ ہم یہاں آکر یوں محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم جماعت کا حصہ نہیں ہیں یہ بہت خطرناک صورت ہو سکتی ہے.ان نئے آنے والوں سے کام بھی لیں، ان کے شکوے دور کریں.میں نے جائزہ لیا ہے، ان نئے آنے والوں کیلئے بعض سے میں نے یہ پوچھا ہے یہ کس حد تک صحیح ہے، بہر حال مجھے ان سے جو معلومات ملی ہیں یہی ہیں کہ یہاں ان کو با قاعدہ کوئی سکھانے کا انتظام نہیں ہے.عورتوں کیلئے دینی تربیت کا تعلیم کا انتظام لجنہ کرے.مردوں کے لئے ذیلی تنظیمیں انتظام کریں، مجموعی طور پر جماعت جائزہ لے.اگر اس سلسلے میں ذیلی تنظیمیں پوری طرح فعال نہیں تو جماعتی نظام کے تحت انتظام ہواور نگرانی ہو.اور جو ذیلی تنظیمیں سست ہیں ان کے بارے میں مجھے اطلاع بھی دیں.تو جب اس طرح کام کریں گے تبھی ہر احمدی کو جماعت کا فعال حصہ بنائیں گے.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں بعض جیئن احمدیوں کو بھی شکوہ ہے کہ بعض دفعہ یہاں آکر وہ اپنے آپ کو او پر محسوس کرتے ہیں.تو ان سے میں کہتا ہوں اس کا ایک یہ بھی علاج ہے.وہ احمدی ہوئے ہیں انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور سمجھا ہے وہ اپنے آپ کو اتنازیادہ جماعتی کاموں میں لگائیں کہ انتظامیہ ان سے کام لینے پر مجبور ہو.تبلیغ کا بہت بڑا میدان خالی پڑا ہے.ہر احمدی کے لئے کھلا ہے.اس میں آگے بڑھیں ذاتی رابطے کر کے اور طریقے اپنا کر تبلیغ کا کام کریں.اس کام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں.مردوں میں تو میں نے دیکھا ہے اللہ کے فضل سے نوجوانوں میں دوسری قوموں کے بھی کافی لڑکے کام کرنے والے ہیں.بعض عورتوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو اور عورتوں کو خاص طور پر چاہئے اپنی استعدادوں کے مطابق اور اپنے دائرے کے مطابق تبلیغ کے میدان میں آگے آئیں.بہر حال انصار اللہ کی تنظیم اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم ان سب کو جائزے لینے چاہئیں کہ کیوں یہ شکوے پیدا ہوتے ہیں.چاہے وہ دو چار کی طرف سے ہی ہوں لیکن شکوے رکھنے والے بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.انصار اللہ کے صدر بھی شاید منی کے رہنے والے ہیں.وہ آسانی سے اپنے لوگوں کی نفسیات دیکھ کر پروگرام بنا سکتے ہیں.لجنہ کوبھی جائزے لینے کی ضرورت ہے.غیر پاکستانی احمدیوں کی یا ایسے نوجوان پاکستانیوں کی جو لمبے عرصہ سے ملک سے باہر ہیں اور ان کا معاشرہ بالکل بدل چکا ہے ان کی فہرست بنائیں اور پھر دیکھیں کہ ان کو کس طرح جماعت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 208 خطبہ جمعہ 21 / اپریل 2006 ء کا فعال حصہ بنایا جاسکتا ہے.اپنی کوشش کریں تا کہ ان کے شکوے دور ہو جا ئیں.بہر حال اس کیلئے جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں دونوں طرف سے دلوں کو کھولنے اور بلند حو صلے دکھانے کی ضرورت ہے.ہر طبقے کو اپنے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس کے بغیر وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت کا ایک نظام ہے اور یہ خلیفہ وقت کے ماتحت ہے اسلئے نظام کی اطاعت بھی فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو تقویٰ پر چلتے ہوئے جہاں رحمن خدا سے تعلق جوڑنے کی توفیق دے وہاں اللہ تعالیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے اور اطاعت نظام کا پابند بننے کی بھی توفیق دے.اور آج سے آپ لوگوں میں وہ روح پیدا کر دے جس کا اثر ہر دیکھنے والے کو آپ میں نظر آئے.اور آپ لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو جلد از جلد اس ملک کی اکثریت میں پھیلانے والے ثابت ہوں.آمین kh5-030425
خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء 209 (17) خطبات مسرور جلد چہارم خلافت کے نظام کی برکت سے آپ تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب حقیقی معنوں میں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں فرمودہ مورخہ 28 /اپریل 2006 ء(28 رشہادت 1385 ھش ) صووا ( جزائر نجی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا یہ شکر و احسان ہے کہ آج مجھے دنیا کے اس خطے اور ملک سے بھی براہ راست خطبہ دینے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.دنیا کا یہ حصہ دنیا کا آخری کنارہ کہلاتا ہے، یہ سب جانتے ہیں.اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کا ایک اور طرح سے نظارہ کروا رہا ہے.ایک تو وہ نظارے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھائے اور دکھا رہا ہے کہ دنیا کے کناروں تک آپ کی تبلیغ اور آپ کا پیغام ہم ایم ٹی اے کے ذریعہ سے پہنچتے ہوئے دیکھ رہے ہیں.اور 2005 ء کے جلسہ قادیان اور اس سال کے شروع میں دو خطبات جمعہ اور ایک خطبہ عید الاضحیٰ بھی قادیان.براہ راست نشر ہوئے.اللہ تعالیٰ نے مجھے وہاں سے خطبات دینے کی توفیق دی جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جیسا کہ میں نے کہا دنیا کے کناروں تک پہنچے.اور آج جیسا کہ میں نے کہا نبی کے اس شہر سے جو ( نجی کا ہی ) ایک دوسرا شہر ہے اور دنیا کا آخری کنارہ ہے یہ خطبہ دے رہا ہوں.تو ایک لحاظ سے ہم یہی سمجھتے ہیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 210 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء کہ دنیا کے آخری کنارے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام دنیا کے باقی حصوں میں پہنچانے کا سامان اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے.اللہ کرے کہ یہ کوشش جو ہم براہ راست خطبہ نشر کرنے کے لئے کر رہے ہیں، کامیاب بھی ہو اور یوں ہم اس پیشگوئی کو اس طرح بھی پورا ہوتے دیکھیں کہ پہلے یہ پیغام دنیا کے ان کناروں تک پہنچا اور اب دنیا کے کنارے سے پھر تمام دنیا میں پھیل رہا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیں اس کا شکر گزار بنانے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کا ذریعہ بنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے مسیح و مہدی ہیں جو سب جانتے ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنا کر مبعوث فرمایا.آج دنیا اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی ہیں یا نہیں.لیکن یہ ہر کوئی پکار رہا ہے اور کہہ رہا ہے، دنیا زبان حال سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ کوئی مصلح کوئی مہدی کوئی مسیح اس زمانہ میں ہونا چاہئے جو دنیا کو صحیح راستے پر چلا سکے.آج دنیا اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حقیقی رنگ کو بھول چکی ہے.نفس نے بہت سے خدا دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں جن کی ہر شخص پوجا کر رہا ہے.اپنے پیدا کرنے والے کے حق کو بھلایا جا چکا ہے.اور اس طرح نفسانفسی کا عالم ہے کہ اپنے بھائی کے حقوق چھین کر بھی اپنے حقوق قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں.آج سینکڑوں لکھنے والے اخباروں میں لکھتے ہیں خود دوسرے مسلمان بھی یہ لکھتے ہیں کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ گیا ہے عمل نہیں.تو یہی زمانہ تھا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس زمانے میں میر امسیح و مہدی ظاہر ہوگا.پس وہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان خوش قسمتوں میں شامل کیا جنہوں نے اسے قبول کیا.کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صرف قبول کر لینا ہی کافی ہے؟ نہیں بلکہ آپ کے آنے کا ایک مقصد تھا کہ بندے کا تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے قائم کروانا ہے.اور پیدا کرنے والے خدا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنا ہے.تا کہ ان دونوں طرح کے حقوق کی ادائیگی سے ہم اپنے پیدا کرنے والے خدا کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں اور یوں اس دنیا میں بھی اس کے فضلوں کو سمیٹیں یا سمیٹنے والے بنیں اور مرنے کے بعد بھی اس کی رضا کی جنتوں میں داخل ہوسکیں.پس ہمیں آپ کی تعلیم کی روشنی میں جو دراصل حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیم ہے جس کو لوگ بھلا بیٹھے ہیں ، اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 211 خطبہ جمعہ 28 اپریل 2006 ء انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں.حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے.پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی.یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں“.یعنی گناہ سے بچنے کا راستہ دکھا تا ہوں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 8 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس دیکھیں یہ سب سے بڑا مقصد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا کہ خدا کی پہچان کروائیں اور جب بندے کو خدا کی پہچان ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے.پس آپ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان لیا آپ کی بیعت میں شامل ہو گئے تو اپنا جائزہ لیں ، ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ جو مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آنے کا بیان فرمایا ہے اور سب سے بڑا مقصد یہی بیان فرمایا ہے، اور بھی مقاصد ہیں لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا سب سے بڑا مقصد ہے پھر بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے اور یہ سارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں.تو جیسا کہ میں کہہ رہا تھا اس مقصد کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.اور جب ہم اس مقصد کو سامنے رکھیں گے تو ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے اور عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوگی.اگر ہمیں اللہ کے حضور جھکنے اور اس کی پہچان کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو ہمارا یہ صرف نام کی بیعت کر لینا بے فائدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں جن کو پڑھنے کے بعد ہر آدمی اپنے آپ کو جماعت احمدیہ میں شامل کرتا ہے.اگر آپ ان کو پڑھیں تو پتہ لگتا ہے کہ آپ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں.دوسرے اس اقتباس میں جو میں نے پڑھا ہمارے ان بھائیوں کا بھی جواب آ گیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مجدد تھے، مصلح تھے ، لیکن نبی نہیں تھے.آپ نے یہ لکھ کر کہ میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی، واضح فرمایا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا درجہ عطا فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور بہت ساری جگہوں پر لکھا ہوا ہے کہ میری حیثیت نبی کی ہے اور یہ بھی کہ آپ کس حیثیت سے نبی ہیں.بہر حال میں نے یہ اقتباس پڑھا تھا تو ضمناً یہ بات بھی سامنے آ گئی.آپ کی نبوت ایسی نبوت ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 212 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی پیشگوئیوں کے مطابق آپ آئے ہیں.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی.اور آپ کے غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.اس مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ہر وقت ڈوبا رہتا تھا.آپ اپنے ایک فارسی کلام میں فرماتے ہیں: بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم کہ اللہ تعالیٰ کے بعد میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبا ہوا ہوں.اگر یہ عشق جو مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، کفر ہے، تو میں بہت بڑا کا فر ہوں.تو یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام عشق خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم.پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم تبھی حقیقی احمدی کہلا سکتے ہیں جب ہم بھی اپنے پیدا کرنے والے خدا اور اس کے آخری شرعی نبی سے عشق کرنے والے بنیں.اس کوشش میں رہیں کہ اس عشق کے معیار ہمیں بھی حاصل ہوں اور یہ کوشش کس طرح ہوگی؟ یہ تب ہوگی جب ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حکموں پر عمل کرنے والے ہوں گے، اُس تعلیم پر چلنے والے ہوں گے جو ان پاک اور نیک عملوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہے.آپ اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں: ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے، بات نہیں بنتی.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں.ایک حقوق اللہ (یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق اور دوسرے حقوق العباد یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ایک دوسرے کے حقوق.اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں.یعنی آپس میں احمدیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ حقوق ہیں.مسلمانوں کے حقوق ہیں، خواہ وہ بھائی ہے یا باپ یا بیٹا ہے.مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے.ایک دین کا ایسا رشتہ ہے جو بھائی بھائی کا رشتہ ہوتا ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی ہے.اس کے علاوہ دوسرے انسان ہیں کسی بھی مذہب کے ہوں، کسی بھی فرقے کے ہوں ،ان سب سے سچی ہمدردی کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو.یعنی کسی اپنے ذاتی مقصد کے لئے نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 213 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے، یعنی جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے ” کوئی فرق نہ آوے.اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے.بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعانہ کی جاوے، پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا.اُدْعُوْنِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : 61) میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 68 جدید ایڈ یش مطبوعہ ربوہ ) تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اپنے دو حقوق ادا کرو، ایک اللہ کا حق جو بندے پر ہے دوسرا بندے کا حق دوسرے بندے پر یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی جو مخلوق ہے، اس میں ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق.اللہ تعالیٰ کے حق کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ اللہ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور بے غرض ہو کر عبادت کی جائے.یہ نہیں کہ جب کسی مشکل میں یا مصیبت میں گرفتار ہو گئے یا پڑ گئے تو اللہ کو یاد کرنا شروع کر دیا اور جب آسائش کے ، آسانی کے دن آئے ، ہر قسم کی فکروں سے آزاد ہو گئے تو دنیا میں ڈوب گئے اور خدا کو بھول گئے.یہ نہیں ہونا چاہئے.یہ نہ ہو کہ اس بات کا خیال ہی نہ رہے کہ ہمارا ایک خدا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور سب نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ رکھیں اور عبادت کا جو بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے وہ پنجوقتہ نمازیں ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ﴿إِنَّنِي أَنَا اللهُ لا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي.وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى (ط : 15) یقینا میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ، پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر.پس اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا کہ میری عبادت اور میرا ذکر نماز کو قائم کرنے سے ہی ہو گا.اور نماز کو قائم کرنا یہ ہے کہ با قاعدہ پانچ وقت نماز پڑھی جائے اور مردوں کے لئے حکم ہے کہ باجماعت نماز پڑھی جائے.عورتیں تو نماز گھر میں پڑھ سکتی ہیں.یا درکھیں نماز کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے اس قدر فرمائی ہے کہ فرمایا کہ نماز چھوڑنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے.پس ہر احمدی کو اپنی نمازوں کی بہت زیادہ حفاظت کرنی چاہئے.جو بھی حالات ہوں، نمازوں کی طرف خاص طور پر توجہ دیں.اگر آپ نماز پڑھنے والے ہوں گے تو خدا تعالیٰ سے آپ کا براہ راست تعلق پیدا ہوگا.نہ آپ کو کسی اور وظیفہ کی ضرورت ہے، نہ کسی اور ورد کی ضرورت ہے، نہ کسی پیر فقیر کے پاس جانے کی ضرورت ہے.نماز کو ہی اپنا وظیفہ اور ورد بنالیں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 214 خطبہ جمعہ 28 اپریل 2006 ء ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے.(ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی ترک الصلوۃ 2618 ) یعنی جو نماز نہیں پڑھتا وہ مومن نہیں ہے.پس اللہ کے حکم کے مطابق اپنی نمازوں کی بہت حفاظت کریں، یہ آپ پر فرض کی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”انسان کی زاہدانہ زندگی یعنی انسان کی نیکی کی زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے.وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے، یعنی کہ جھکا رہتا ہے، روتا ہے: ”امن میں رہتا ہے“.جو انسان دعائیں مانگتا ہے وہ امن میں رہتا ہے جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے.اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ یعنی اپنے آپ کو عاجز کر کے رونا اور گڑ گڑانا.فرمایا ” خدا کے حضور گڑ اگر نے والا اپنے آپ کو ربوبیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ جو رب ہے اس کی مہربانی اور شفقت اور پیار کی گود میں اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے.یا درکھو اس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا.یعنی اس شخص نے اپنے ایمان کا مزا نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی.جس کو نماز میں مزا نہیں آیا.نماز پڑھتے ہوئے مزا آنا چاہئے تبھی ایمان کا مزا ہے.نہیں تو ایمان کے بھی زبانی دعوے ہیں.نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے بعض لوگ نماز کوتو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی دانہ کھاتے ہوئے ٹھونگیں مارتی ہے، ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کرتے ہیں.حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لئے ملا تھا.اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد ختم کرنے میں گزار دیتے ہیں.اور حضور الہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں.نماز میں دعا مانگو،نمازکو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو.فاتحہ، فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں.مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنا دیتی ہے.یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے فرق پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی، سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے.انسان کے دل میں اس سے ایک روشنی پیدا ہوتی ہے.اس لئے سورۃ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہئے.﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ سے جو شروع ہوتی ہے اس کو سورۃ فاتحہ کہتے ہیں اور اس دعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے.انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بناوے“.یہ ضروری ہے ہر انسان کے لئے کہ ایک ایسا سوالی ہو جو کسی سے سوال کرنے میں بالکل پیچھے پڑنے والا سوالی ہو جائے.اور ایسی شکل بنائے جس kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 215 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء کو بہت زیادہ کسی چیز کی ضرورت ہے.اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے.اس طرح سے چاہئے کہ پوری تضرع اور ابتہال کے ساتھ یعنی منت سے گڑ گڑا کر ، زاری کر کے روئے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے.پس جب تک نماز میں تضرع سے کام نہ لئے جب تک نماز میں روئے نہیں اور دعا کے لئے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے، نماز میں لذت کہاں“.( ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 402 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ معیار ہیں جو ہمیں حاصل کرنے چاہئیں.اپنے آپ کو دیکھیں جائزہ لیں کیا حضرت مسیح موعود کو ماننے کے بعد یہ چیزیں ہم میں پیدا ہوگئی ہیں، یہ معیار ہم نے حاصل کر لیا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض لوگ مختلف وظیفوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں بجائے اس کے کہ نماز پڑھیں اور دعائیں کریں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وظیفوں کے ہم قائل نہیں البتہ دعا کرنی چاہئے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو.بچے اضطراب اور سچی تڑپ سے، جناب الہی میں گداز ہو، یعنی ایک بے چینی سے اور ایک تڑپ کے ساتھ ، ایک شوق کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھکے ایسا کہ وہ قادر حی و قیوم دیکھ رہا ہے.اور یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ جو ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے وہ ہمیں دیکھ بھی رہا ہے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ پر دلیری نہ کرے گا.جب آدمی اس طرح نماز پڑھتا ہے اور عبادتیں کرتا ہے تو گنا ہوں سے بھی ہٹتا جاتا ہے، برائیوں اور بدیوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے.جس طرح انسان آگ یا ہلاک کرنے والی اور اشیاء سے ڈرتا ہے، خطرناک چیزوں سے انسان ڈرتا ہے، ویسے ہی اس کو گناہ کی سرزنش سے ڈرنا چاہئے.اسی طرح اس گناہ کرنے سے بھی ڈرنا چاہئے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ گناہ کرنے والے کو پکڑے گا.اگر یہ ڈر ہوگا تو بچے گا.گناہ گار زندگی انسان کے لئے اس دنیا میں مجسم دوزخ ہے جس پر عذاب الہی کی سموم چلتی ہے.فرماتے ہیں کہ گناہگار انسان کو مکمل طور پر دوزخ بنادیتی ہے.اور ایسے گناہگاروں پر اللہ تعالیٰ کے غضب کی ، غصے کی ، ناراضگی کی ہوائیں چلتی ہیں اور اس کو ہلاک کر دیتی ہیں مار دیتی ہیں.جس طرح آگ سے انسان ڈرتا ہے، اسی طرح گناہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے.ہمارا یہی مذہب ہے کہ نماز میں رو رو کر دعائیں مانگوتا اللہ تعالی تم پر اپنے فضل کی نیم چلائے.اپنے فضل کی ہوا چلائے.فرماتے ہیں کہ تمام رسولوں کو استغفار کی ایسی ضرورت تھی جیسے ہم کو ہے.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین کا فعل اس بات پر شاہد ہے.کون ہے جو آپ سے بڑھ کر نمونہ بن سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی استغفار کیا کرتے تھے، جب آپ استغفار کرتے تھے تو پھر ہمیں کس قدر کرنا چاہئے.پس یہ سنت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 216 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء قائم فرمائی کہ نمازیں پڑھتے تھے، اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے اس کے آگے گڑ گڑاتے تھے ، روتے تھے.اس طرح دعائیں کرتے تھے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی سجدے کی حالت میں ایسی کیفیت ہو جاتی تھی جیسے ہنڈیا ابل رہی ہو.یعنی اس طرح آپ تڑپتے تھے اور روتے تھے اور سینے سے ایسی آواز آتی تھی جیسے ابلتی ہوئی ہانڈی پک رہی ہو.اس میں سے ابلتی ہوئی ہنڈیا کی آواز آتی ہے.پس دیکھیں ہمیں کس قدر استغفار کرنی چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں تا کہ اپنے خدا کو راضی کریں.پھر ایک بہت بڑا حق جو ایک احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا حق ہے، وہ نظام جماعت کی اطاعت ہے.نمازوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ زکوۃ بھی ادا کرو اور رسول کی اطاعت بھی کرو.فرمایا وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون ( النور :57 ) کہ اگر چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تو پھر نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو.اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو.اس آیت سے پہلے جو آیت ہے اس میں مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے خلافت کا وعدہ ہے جو عبادت کرنے والے ہوں گے اور نیک عمل کرنے والے ہوں گے.اور عبادت کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے وہ لوگ ہیں جیسا کہ اس آیت میں فرمایا جو نمازوں کو قائم کرتے ہیں، اس طرف توجہ رکھتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی خاطر کی گئی مالی قربانی بھی عبادت ہے.اگر اللہ تعالی کی خاطر آپ مالی قربانیاں کرتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں، چندے دیتے ہیں تو وہ بھی عبادت ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ نمازوں کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.آج اگر آپ دیکھیں تو بحیثیت جماعت صرف جماعت احمدیہ ہے جو ز کوۃ کے نظام کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر مالی قربانیاں کرنے والی بھی ہے.اور اس میں خلافت کا نظام بھی رائج ہے.پس اس نظام کی برکت سے آپ سبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب حقیقی معنوں میں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں گے.اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے اور عاشق صادق کی تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے.آپ نے بیعت کر کے ایک معاملے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر لی، آپ کے اس حکم کو مان لیا کہ جب میر امسیح و مہدی ظاہر ہو تو اگر تمہیں برف کی سلوں پر بھی چل کر جانا پڑے تو اس کے پاس جانا اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 217 خطبہ جمعہ 28 اپریل 2006 ء میر اسلام کہنا.اللہ نے فضل فرمایا یہاں آپ تک یہاں احمدیت کا پیغام پہنچا اور آپ نے احمدیت کو قبول کر لیا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اتنا کر لینا ہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے مان لیا اور سلام کہ دیا.بلکہ اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہیں.خلافت اور نظام جماعت سے تعلق بھی قائم کرنا ہے.اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی ہے.اس بارے میں اب پھر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے.یعنی ایک موقع پیدا کر دیا ہے ایسے لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں نیکی تھی.” مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ.اس بات پر تمہیں کوئی فخر نہ ہو کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے، یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر به سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا.یہ ٹھیک ہے کہ ان منکرین سے بہر حال بہتر ہو جنہوں نے مسیح و مہدی موعود کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیا.اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی.حسن ظن کیا کہ جو دعویٰ کرنے والا ہے وہ سچا ہی ہے اور یہی شخص ہے جس نے آنا تھا تم نے مان لیا اور اس سے تم اللہ تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچاؤ گے لیکن کچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے.وہ ایسا چشمہ ہے جہاں سے پانی نکلتا ہے اس کے قریب تو آگئے ہو جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے.”ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے.قریب پہنچ گئے ہو اب پانی بھی پینا ہے ” پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے.یہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ اس پانی کو پینے کی بھی تمہیں تو فیق عطا فرمائے.صرف چشمے کے قریب پہنچ کے کھڑے نہ ہو جاؤ.کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا.بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کچھ نہیں ہوسکتا.یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمے سے پیئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا.کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر جو اسلام کی تعلیم ہے اس پر چلنا، قرآن کریم پر عمل کرنا.یہ ایسا پانی ہے جو زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے اس چشمے سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کروان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا حق.اللہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 218 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء کی مخلوق کے حق کیا ہیں.جیسا کہ آپ فرما چکے ہیں میں نے پہلے بھی اقتباس میں پڑھا تھا.ایک دوسرے سے سچی ہمدردی ہو.حدیث میں آتا ہے، مسلمان کو آپس میں اس طرح ہونا چاہئے جس طرح ایک جسم کا حصہ.جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام جسم کو تکلیف پہنچتی ہے پس جماعت کے ہر ممبر کو چاہئے ، ہر احمدی کو چاہئے کہ اس طرح اپنے اندر ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس پیدا کریں کہ جب ایک کو تکلیف ہو تو سب کو تکلیف ہو، اور پھر اس طرح جب ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس پیدا کریں گے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی کو اپنے سے کمتر سمجھیں یا کسی احمدی کے لئے دل میں رنجش پیدا ہو.ایک دوسرے سے ناراضگیاں پیدا ہوں، شکایتیں پیدا ہوں.اور اس ہمدردی کو حضرت مسیح موعود نے صرف آپس میں تعلق بڑھانے تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ فرمایا کہ یہی نہیں کہ یہ ہمدردیاں تم آپس میں ہی احمدی احمدی سے رکھو بلکہ فرمایا کہ بظاہر جن کو تم اپنا دشمن سمجھتے ہو یا جو تمہارے سے دشمنی کا سلوک کرتے ہیں، تمہاری مخالفت کرتے ہیں ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح تمہیں نقصان پہنچائیں ، ان کے ساتھ بھی ہمدردی کرو اور ہمدردی کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کیلئے دعا کرو اور ان تکلیف دینے والے لوگوں کیلئے بھی اپنا سینہ صاف رکھو.جب تم اس طرح سینہ صاف رکھو گے، اپنا دل لوگوں کیلئے صاف رکھو گے تو پھر یہی حقیقی معنوں میں رسول کی اطاعت ہوگی اور تم رسول کی اطاعت کرنے والوں میں شمار ہو سکتے ہو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 135 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اس بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے“.جو تمہارے سے تعلق توڑتا ہے اس سے بھی تعلق قائم کرو جو تمہیں نہیں دیتا اس کو بھی دو، کوئی کسی قسم کا تمہارا حق ادا نہیں کرتا تب بھی اس کا حق ادا کرو.جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگزر کرے“.(مسند احمد بن حنبل، مسند معاذ بن انس جلد نمبر 5 حدیث نمبر (373) جو تمہیں برا بھلا کہے گالیاں دے اس کو معاف کر دو، نظر پھیر کے اس سے چلے جاؤ بجائے لڑائی کرنے کے.تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم جس پر چلنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.جب ہم ایسے رویے اختیار کریں گے تو جماعت کے اندر بھی اور ماحول میں بھی درگزر اور قصور معاف کرنے کی فضا پیدا کریں گے.ایک دوسرے کو معاف کرنے والے ہوں گے.اور نتیجہ جھگڑوں اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 219 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء فسادوں کو ختم کرنے والے ہوں گے.پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے عاجزی اختیار کرو.کیونکہ تکبر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے.روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے عائشہ ! عاجزی اختیار کر کیونکہ اللہ تعالیٰ عاجزی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور تکبر کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے.(کنز العمال جلد نمبر 3 کتاب الاخلاق قسم الاول حدیث نمبر 57311) پس یہ حکم ایسا ہے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سوسائٹی میں امن اور محبت کی فصلیں اگا ر ہے ہوں گے کسی کو کبھی اپنی قوم کا یا خاندان کا تکبر نہیں کرنا چاہئے.تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں.ایک دوسرے کی عزت کریں، احترام کریں، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں تو یہی چیزیں ہیں جو ہر قسم کی دشمنیاں ختم کرنے والی ہوں گی.یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنے کی ضرورت ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا.اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہیں اور اس سے دعا مانگیں.آپ کے دل میں اللہ کا خوف ہو ہر وقت یہ احساس ہو کہ ایک خدا ہے جس کے سامنے ہم نے پیش ہونا ہے اور پھر ہمارا حساب کتاب بھی ہونا ہے.اگر تو یہ احساس قائم رہے گا تو جس دل میں بھی یہ احساس قائم رہے گاوہ اللہ کے حقوق ادا کرنے والا بھی ہو گا اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والا بھی ہوگا.اور ایک احمدی کے دل میں جیسا کہ میں نے کہا یہ احساس ہونا چاہئے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں.ایک احمدی میں اور دوسروں میں عبادت کے لحاظ سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لحاظ سے بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے ، اور نظر بھی آنا چاہئے.ہر ایک کو نظر آئے اور آپ کے یہ نیک نمونے ہی ہیں جو دوسروں کو آپ کے قریب کریں گے اور آپ کو یہ توفیق ملے گی کہ دنیا کو بھی اس طرف توجہ دلا سکیں کہ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے یہ راستے ہیں جن پر ہم چل رہے ہیں تم بھی آؤ اور اپنی دنیا کو بھی سنوار لو اور اپنی آخرت کو بھی سنوار لو.ہر بچہ، بوڑھا، مرد، عورت اس طرف توجہ کرے کہ ہم نے حقیقی معنوں میں خدا کا عبادت گزار بندہ بننا ہے اور مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں.جب آپ میں سے ہر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 220 خطبہ جمعہ 28 / اپریل 2006 ء ایک اپنے میں یہ انقلاب پیدا کرنے والا بن جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ جماعت کی ترقی آپ کو اس چھوٹے سے خوبصورت جزیرے میں نظر آئے گی.پس ابھی سے اپنے اندر یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کریں، اس جلسے کی برکات سے بھر پور فائدہ اٹھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان جلسوں کا مقصد یہ بیان فرمایا تھا کہ احمدیوں کے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا ہو.تو اس سے فائدہ اٹھائیں، اپنے یہ دو دن دعاؤں میں لگائیں اور پھر ان دعاؤں کو ہمیشہ زندگیوں کا حصہ بنالیں.یہ نہ ہو کہ یہاں سے جائیں تو پھر بھول جائیں کہ نمازیں بھی پڑھنی تھیں کہ نہیں، دعا ئیں بھی کرنی تھیں کہ نہیں، بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے تھے کہ نہیں.بلکہ آپ کی زندگی کا یہ حصہ بن جانی چاہئیں.اسی طرح دعاؤں کے علاوہ اس جلسے کے ماحول میں ، جب کافی یہاں اکٹھے ہوں گے جمع ہوں گے تو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بھی عادت ہونی چاہیئے.بعض دفعہ کوئی اونچ نیچ ہو جاتی ہے، اس لحاظ سے ایک دوسرے کو برداشت کریں گے تو حقوق بھی ادا ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین ) kh5-030425
خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء 221 (18) خطبات مسرور جلد چہارم اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے یہ جو ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے احمدیت کا پیغام ساری دنیا میں پھیلانا ہے اس کے لئے پہلے اپنے اندر بھی تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی جماعت سے اور خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں فرمودہ مورخہ 05 رمئی 2006 ء( 05 / ہجرت 1385 ھش) مسجد بیت المقیت، آک لینڈ ( نیوزی لینڈ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيْفَةً وَدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُقِ وَالْأَصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْعَفِلِينَ ﴾ (الاعراف: 206) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس خطبہ کے ساتھ جماعت احمد یہ نیوزی لینڈ کے جلسہ سالانہ کا آغاز ہو رہا ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ مختلف ملکوں کے جلسوں پر بتا چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے انعقاد کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں یہ تھا کہ آپ کے ماننے والوں کے دل اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے بن جائیں.اور ہر احمدی اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مالک بھی بن kh5-030425
222 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم جائے.ایک احمدی اور غیر احمدی میں بڑا واضح فرق نظر آنے لگ جائے.پس جو جلسہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے قریباً 116 سال پہلے شروع فرمایا تھا.آج اسی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش پر عمل کرتے ہوئے اور اُن مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے تمام احمدی دنیا میں جلسہ سالانہ منعقد کئے جاتے ہیں.پس آپ کا جلسہ بھی اسی مقصد کے لئے ہو رہا ہے.اس لئے سال کے دوران اگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان مقاصد کو حاصل نہیں کر سکے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے بیان فرمائے ہیں، جس مقصد کے لئے آپ نے جماعت احمدیہ کا قیام فرمایا ، جس مقصد کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا تو یہاں جب آپ خالصتاً روحانی ماحول حاصل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں.(اس دوران ٹرین گزرنے کی آواز پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ یہاں سے جہاز گزرتا ہے یا ٹرین گزرتی ہے.کہا گیا حضور ! ٹرین گزرتی ہے تو حضور انور نے فرمایا آپ کی ٹرین بھی جہاز کی طرح ہے).اور نہ صرف جلسہ کے ان دو دنوں میں اس بات کا خیال رکھیں بلکہ بعد میں بھی اس طرف توجہ دیتے رہیں.تبھی ہم احمدیت کے پیغام کو احسن رنگ میں دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں بھی ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو خدا کے قریب لا سکتے ہیں.اور اگر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا نہ کیں تو ہماری کسی بات کا اثر نہیں رہے گا.یہ جو ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے احمدیت کا پیغام ساری دنیا میں پھیلانا ہے اس کے لئے پہلے اپنے اندر بھی تبدیلیاں پیدا کرتی ہوں گی.پس ہر احمدی کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ہر وقت اس کے دل میں یہ احساس رہے کہ اب وہ احمدی ہو گیا ہے اور اگر اس میں کوئی پاک تبدیلی نظر نہ آئی تو اس کا احمدی ہونا یا نہ ہونا برابر ہے.جیسا کہ میں نے کہا، یہ احساس کہ میں احمدی ہوں اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہے تب ہو گا جب ہر وقت آپ کو یہ فکر رہے گی کہ میرے ہر عمل کو خداتعالی دیکھ رہا ہے اور جب یہ احساس ہوگا کہ میرے ہر عمل کو، میرے ہر کا م کو داد یکھ رہا ہے تو پھر اس کی یاد بھی دل میں رہے گی.پانچ وقت نمازوں کی طرف بھی توجہ رہے گی.اور اس کے باقی احکامات پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی.اگر اللہ تعالیٰ کی تمام طاقتوں کا احساس رہے گا تو ہر وقت سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے اس کو یاد رکھیں گے.اور اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں گے.اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری زبانیں اس کے ذکر سے چلتے پھرتے تر رہیں گی تو ہر وقت نیکی کی باتوں کا احساس دل میں رہے گا.اور یہی نیکی کی باتوں کا احساس ہے جو پھر انسان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتا ہے.یہ احساس پاک تبدیلیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے.تو یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی ہے کہ عاجزی سے گڑ گڑاتے ہوئے اور اللہ کا خوف دل میں قائم رکھتے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے رہو اور صبح شام اس کی پناہ مانگو، اس سے مدد مطلب کرو کہ وہ تمہیں صحیح راستے پر چلائے.اگر تم اس طرح نہیں کرو گے تو تم غافلوں میں شمار kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 223 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء ہو گے.اور جیسا کہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو دم غافل سو دم کا فر تو اسلام قبول کرنے کے بعد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت میں داخل ہونے کے بعد پھر یہ غفلتیں !! بڑی فکرمندی کی بات ہے.پس ہمیں صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے دن ڈرتے ڈرتے بسر ہونے چاہئیں یعنی یہ فکر ہو کہ اللہ ہماری کسی زیادتی کی وجہ سے ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور جب یہ فکر ہو گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں رہے گا اور اس کی یاد بھی دل میں رہے گی.اس کا ذکر بھی زبان پر رہے گا اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش بھی رہے گی.اس کی مخلوق سے اچھے تعلقات رکھنے کی طرف توجہ بھی رہے گی.نظام جماعت سے تعلق بھی رہے گا.خلافت سے وفا کا تعلق بھی رہے گا.تو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوں گی.پھر آپ نے فرمایا ہے کہ تمہاری راتیں بھی اس بات کی گواہی دیں کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی.جب راتوں کو تقویٰ سے گزارنے کا خیال رہے گا تو ہر قسم کی لغویات اور بیہودگیوں سے انسان بچار ہے گا.آج کی دنیا میں ہزار قسم کی برائیاں اور آزادیاں ہیں اور ایسی دلچسپیوں کے سامان ہیں جو اللہ کے ذکر سے غافل رکھتے ہیں.پس یہ جو آج کل نام نہاد سبھی ہوئی Civilized دنیا یا سوسائٹی میں چیزیں ہیں جس کو سوسائٹی میں بڑا رواج دیا جارہا ہے اور بڑا پسند کیا جاتا ہے عورتوں مردوں کا میل ملاپ ہے، آپس میں گھلنا ملنا ہے، اٹھنا بیٹھنا ہے، نوجوانوں کا رات گئے تک مجلسیں لگانا ہے یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کے ذکر سے دور کرنے والی ہیں.پس ہر احمدی کو ہر وقت ایسی لغویات سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا چاہئے.ہر ایسی چیز جو آپ کے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے میں روک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چیزیں کبھی ذہنی سکون نہیں دے سکتیں.انسان سمجھتا ہے کہ شاید یہ دنیا کی مادی چیز میں حاصل کر کے اس کو ذہنی سکون مل جائے گا حالانکہ ان دنیاوی چیزوں کے پیچھے جانے سے انہیں مزید حاصل کرنے کی حرص بڑھتی ہے اور کیونکہ ہر کوئی ہر چیز حاصل نہیں کر سکتا، اس کوشش میں بے سکونی بڑھتی چلی جاتی ہے.پس ہر احمدی کو ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس کے دل کا اطمینان اللہ تعالٰی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ضمانت بھی دی ہے.دنیا میں بہت ساری چیزیں بیچنے والے مارکیٹ کرنے والے، دنیاوی چیزیں بنانے والے بڑے بڑے اشتہار دیتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز خرید و تو 100 فیصدی سکون یا Satisfaction مل جائے گی ، تسلی ہوگی ، لیکن کبھی ہوتی نہیں.جتنا بڑا چاہے کوئی دعوی کرے.لیکن اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دیتا ہے کہ میرا ذکر کرنے kh5-030425
224 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم والوں کو حقیقی طور پر میرا ذکر کرنے والوں کو ، ان حکموں پر عمل کرنے والوں کو میں اطمینان قلب دوں گا.دل کو چین اور سکون ملے گا.جیسا کہ فرمایا آلا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ﴾ (الرعد: 29) یعنی سمجھ لو کہ اللہ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں.اور یہ ذکر نمازوں کے علاوہ بھی ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے بتایا ہر وقت اللہ کی یاد یہ ذکر ہی ہے.اگر اللہ کا خوف دل میں رہے تو آدمی مختلف دعا ئیں مختلف وقتوں میں پڑھتا رہتا ہے.کئی کام اس لئے نہیں کرتا کہ اللہ کا خوف آ جاتا ہے.تو اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اللہ کا ذکر صرف نمازوں میں نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہے.ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنوبِهِمْ ﴾ ( آل عمران : 192 ) یعنی عقلمند انسان اور مومن وہی ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے بھی اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں.ہر وقت ان کے دل میں اللہ کی یاد ہوتی ہے.یہ بیج مومن کی نشانی ہے کیونکہ اس ذکر سے ایمان بھی بڑھتا ہے اور انسان میں جرات بھی پیدا ہوتی ہے.ایک اور جگہ اس بارے میں فرماتا ہے کہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (الانفال:46) یعنی اے مومنو! جب تم کسی گروہ کے کسی فوج کے مقابلہ پر آؤ تو قدم جمائے رکھو.اللہ کو بہت یاد کیا کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.پس کسی برائی کے مقابلے پر کھڑا ہونے کے لئے ، دل میں جرات پیدا کرنے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا بہت ضروری.شیطان بھی انسان کا بہت بڑا دشمن ہے.آج کی دنیا میں دجل کے مختلف طریقے ہیں.دجل مختلف قسم کی فوجوں کے ساتھ حملہ آور ہو رہا ہے اور ہمارے ترقی پذیر یا کم ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ ان ترقی یافتہ ملکوں میں آکر بھی اور اپنے ملک میں بھی ان کے حملوں کی وجہ سے ان کے زیر اثر آ جاتے ہیں.اور اس نام نہاد Civilized Society کی برائیاں فوراً اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں.پس اُن کے حملوں سے بچنے کے لئے اور ہر قسم کے کمپلیکس (Complex) سے، احساس کمتری سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر انتہائی ضروری ہے.اسی سے دلوں میں جرات پیدا ہوگی ، پاک تبدیلی پیدا ہوگی.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے.فرمایا ' پس جہاں تک ممکن ہو کر الہی کرتا رہے اسی سے اطمینان حاصل ہوگا.ہاں اسکے واسطے صبر اور محنت درکار ہے.اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 240-239 جد دید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس مستقل مزاجی سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے.اگر بے صبری دکھائی جائے تو پھر اطمینان نصیب نہیں ہوتا.اگر بے صبری دکھاؤ گے تو پھر شیطان کے مقابلے کی طاقت نہیں رہے گی.اگر راستے میں ہی چھوڑ دو گے پھر پاک تبدیلیاں پیدا نہیں ہوسکیں گی.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 225 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ الا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد: 29) کی حقیقت اور فلاسفی یہ ہے کہ : ” جب انسان بچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپکو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اس سے اُسکے دل پر ایک خوف عظمت الہی کا پیدا ہوتا ہے.وہ خوف اُسکو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے.( ملفوطات جلد 4 صفحہ 355 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اس معاشرے کی بے شمار مکروہات ہیں، جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں ان سے بچنے کے لئے ذکر الہی بہت ضروری ہے اور اس سے پھر عمل کرنے کی بھی توفیق ملے گی جو ایک احمدی کو دوسروں سے ممتاز کرے گی.ایک فرق ظاہر ہوگا کہ احمدی اور غیروں میں کیا فرق ہے.پس احمدیوں کو اپنے اندر یہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ آپ کے نمونے دیکھ کر دوسرے آپ کی باتیں سن سکیں اور جب باتیں سنیں گے تو یقینا یہ باتیں دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث بنیں گی.کیونکہ اس زمانے میں آج کل کے علماء نے اسلام کی ایسی غلط تشریح کر کے جس سے اسلام کے بالکل الٹ تصویر ابھرتی ہے، اسلام کو پیش کیا ہے.جو لوگ غیر مسلم ہیں وہ اسلام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے جبکہ اسلام کی حقیقی تعلیم جو کہ ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے پیش فرمائی ہے، ایسی خوبصورت ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف کھینچا چلا آتا ہے.پس ہمیشہ یا درکھیں کہ احمدی ہونے کے بعد اپنے نیک نمونے قائم کرنا اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانا ہر احمدی کا کام اور اس کا فرض ہے.یہاں آپ میں سے اکثریت بھی سے آئے ہوئے احمدیوں کی ہے.چند فیملیاں پاکستان سے بھی آئی ہوئی ہیں.یاد رکھیں جو بھی فحچین یا پاکستانی یہاں ہیں سب کا کام اس پیغام کو پہنچانا ہے.لیکن نبی کے حوالے سے میں بات کرتا ہوں کہ نبی میں احمد بیت کوئی چالیس پچاس سال پہلے آئی تھی اور جماعت کے وہ بزرگ جن کو جماعت میں شمولیت کی توفیق ملی انہوں نے اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کیں.جماعت کی خاطر قربانی بھی دی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اپنے ہم قوموں تک بھی پہنچایا.اور پھر دیکھ لیں تھوڑے عرصے میں انہوں نے کافی بیعتیں کروا ئیں.اب جبکہ اُس وقت کے مقابلے میں آپ کی تعداد بھی کافی ہے، سہولتیں بھی زیادہ ہیں فجی میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی.لیکن اس توجہ کے ساتھ بیعتیں کروانے کی طرف کوشش نہیں ہورہی جو پہلوں نے کی.یہاں سے مجھی والے بھی سن رہے ہیں، اتفاق سے وقت بھی ایک ہے تو جونجی میں رہتے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنی تبلیغ کی کوششوں کو تیز کریں اور اپنے عملی نمونے دکھا ئیں اپنے اندر اسلام کی صحیح روح پیدا کریں.آپ لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں آپ بھی اس کوشش میں رہیں.اس پیغام کو آگے پہنچا ئیں.اپنے عملی نمونے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 226 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء بھی دکھا ئیں.یہاں تبلیغ کے لئے مختلف جگہوں پر جا کر جائزہ لیں ، چھوٹی چھوٹی جگہوں پر جائیں.گزشتہ سالوں میں دو تین دفعہ میں اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ چھوٹی جگہوں پر پیغام پہنچانے اور قبولیت کے امکانات عموماً زیادہ ہوتے ہیں، خاص طور پر تیسری دنیا میں.اُن کی مخالفت اگر ہوتی ہے تو لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہے.دنیا داری کی وجہ سے عموما نہیں ہوتی.پھر مختلف قوموں کے لوگ ہیں، نجی میں بھی اور یہاں بھی ہیں.آسٹریلیا میں بھی ہیں.یہ جو سارا علاقہ ہے ان تک پہنچیں.اُن کی زبان میں اُن کو لٹریچر دیں، ان سے مسلسل رابطے رکھیں.تعلقات بڑھا ئیں.پھر آپ کے اپنے اندر جو آپ کی اپنی طبیعتیں ہیں، رویے ہیں اگر ان میں بھی پاک تبدیلیاں ہوں گی تو آپ لوگ ان کو دوسروں سے مختلف نظر آئیں گے.اور جیسا کہ میں نے کہا، جب یہ چیزیں ان کو نظر آ رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آپ کی زبانوں پر ہو گا تو یہ جو مسلسل رابطے اور تعلق ہیں وہ دوسروں کو آپ کے قریب لائیں گے.پھر ان ملکوں میں ہمارے چند بچھڑے ہوئے احمدی بھائی بھی ہیں جو لاہوری کہلاتے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صرف مجدد مانتے ہیں اور خلافت کو نہیں مانتے.ان میں سے بھی بعض پہلے مختلف جگہوں پہ مجھے ملے ہیں، شاید یہاں بھی ہوں ، اور بعض بڑے اچھے طریقے سے ، شرافت سے ملے.تو ان سے بھی اگر مسلسل رابطے کے ذریعے سے ان کو بتاتے رہیں اور ان کے لئے دعائیں بھی کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دل بدلنے پر قادر ہے.بہر حال یہ سب کچھ کرنے کے لئے یعنی تبلیغی میدان میں آنے کے لئے ایک تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھنا ضروری ہے.دوسرے اس پاک تبدیلی کے ساتھ جس حد تک اپنے دینی علم کو بڑھا سکیں، ہر عمر اور ہر طبقے کے لحاظ سے اس علم کے حاصل کرنے کے لئے مختلف معیار ہوں گے تو کوشش کر کے یہ حاصل کرنا چاہئے.پھر بعض بنیادی چیزیں ہیں جو میں نے نوٹ کی ہیں.یہاں تو ابھی جائزہ نہیں لیا لیکن پیچھے لیتا آیا ہوں.جماعت کے متعلق، اسلام کے متعلق جن کو بنیادی چیزیں پتہ نہیں ہیں ان کو سیکھنی چاہئیں.عورتوں اور نو جوانوں کو بھی اس میں ہمیں شامل کرنا ہو گا.بعض احمدی ہیں لیکن یہ نہیں پتہ کہ احمدیت کیا چیز ہے.کیوں احمدی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کیا پیشگوئیاں فرمائی تھیں.کیا کیا پوری ہو گئیں اور اس طرح کے مختلف سوال ہیں.اور جب تک ہمارے سارے طبقے بشمول عورتیں، کیونکہ عورتوں کو ساتھ لے کے چلنا بھی ضروری ہے ان کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو مکمل کامیابیاں نہیں ہو سکتیں.گاؤں کی رہنے والی عورتوں کو عموماً اس بارے میں علم نہیں ہوتا کہ ہم احمدی کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور اس وجہ سے پھر وہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی نہیں سنبھال سکتیں.نہ تبلیغ کرسکتی ہیں.گاؤں میں رہنے والوں کی مثال تو میں نے بھی کی دی ہے یہ میرا وہاں کا جائزہ تھا.یہاں نسبتاً پڑھی لکھی عورتیں آئی ہیں لیکن یہاں آ کر حالات بہتر kh5-030425
227 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم ہونے کی وجہ سے ان عورتوں کی دلچسپیاں نہ بدل جائیں.ایمان میں مضبوطی سبھی پیدا ہوتی ہے جب اللہ تعالی سے تعلق قائم ہو.اور پھر یہ ہے کہ اپنے دینی علم میں اضافہ کرنے کی کوشش ہو.پس عورتوں کو بھی دینی علم سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.خاص طور پر ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے میں دینی علم سکھانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اور پھر ایک مہم کی صورت میں ہر مرد عورت ، جوان، بوڑھا احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں لگ جائے اس سے جہاں آپ کی اپنی حالت بہتر ہوگی ، اپنی تربیت کی طرف توجہ پیدا ہوگی وہاں تبلیغ کے لئے بھی نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے.وہاں بعض خاندانوں کے یہ مسائل بھی حل ہوں گے جو احمدی بچوں کے دوسرے مذاہب میں رشتے کی وجہ سے ، شادیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ پھر علم ہونے کی وجہ سے اور اس علم کو پھیلانے کی وجہ سے خلاف تعلیم رشتوں کی طرف زیادہ رجحان نہیں رہے گا.اور پھر اس کے ساتھ ساتھ قربانی کے معیار بھی بڑھ رہے ہوں گے.نیوزی لینڈ میں جماعت زیادہ پرانی نہیں ہے.تقریباً تمام لوگ ہی ابتدائی احمدیوں میں شامل ہوتے ہیں.آپ لوگوں کو خاص طور پر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے ، اپنی اصلاح کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.اور پھر تبلیغ کے میدان میں بھی آنا چاہئے.اپنے دینی علم کو بھی بڑھانا چاہئے.اگر آپ یہ کوشش کریں اور اگر پلاننگ کی جائے تو جس طرح آپ کے بڑوں نے کیا جیسا کہ میں نے کہا تھا تو آپ یہ پیغام بڑی جلدی بعض جگہوں پر پہنچا سکتے ہیں.میں پہلے رشتوں کی بات کر رہا تھا.ضمناً یہاں یہ بھی بتا دوں کہ مجھے پتہ ہے رشتوں کے بڑے مسائل ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے رشتوں کے کیونکہ میں نے عموماً دیکھا ہے شاید چھوٹی جگہوں پر بھی طور پر ہوں.نجی وغیرہ میں ماشاء اللہ لڑ کیاں پڑھی لکھی ہیں.یہاں بھی رشتے ہیں.آسٹریلیا میں بھی اور جگہوں پر بھی ہیں.تو اس کے لئے ایک تو جماعت کا رشتہ ناطہ کا نظام ہے اس کو فعال ہونا چاہئے.اور ویسے اگر پتہ لگے تو باہر بھی کوشش ہو سکتی ہے.اس لئے یہ جو آپ کے یہاں چار پانچ ملک ہیں ان میں با قاعدہ اس کا ہر جگہ ریکارڈ رکھا جانا چاہئے.بہر حال یہ تو ضمنا بات تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں اللہ کا قرب پانے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور اس ضمن میں اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ کی نصرت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں.ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے.بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدت رقت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں.ایک وقت میں تو دین کی طرف بڑی توجہ ہو رہی ہوتی ہے لیکن پھر جا کے ٹھہر جاتے ہیں کیونکہ ترقی کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی.اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ kh5-030425
228 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم لِي فِي ذُرِّيَّتِي (الاحقاف : 16) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما.اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں.اور اکثر بیوی کی وجہ سے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 456.جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ ) تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، جائزہ لیں تو یہ 100 فیصد حقیقت نظر آئے گی کہ ان ملکوں میں بعض خاندان اس لئے بھی ابتلا میں پڑ گئے کہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ غیروں میں شادیاں کرنے سے نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اور دین سے دور چلی جاتی ہیں.کئی ایسے دور ہٹے ہوئے ہیں جن کو اب ہٹنے کا احساس ہو رہا ہے.یہاں جو خاندان آئے ہیں ان کے حالات اپنے پہلے ملک کی نسبت بہر حال بہتر ہیں.یہ بہتری آپ کو دین سے دور لے جانے والی اور اپنی قدروں اور اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھلانے والی نہیں ہونی چاہئے.بعض دفعہ وہ جو غلطی کرتے ہیں پھر نظام جماعت کی طرف سے بعض دفعہ کوئی سختی ہو تو پھر نظام کو الزام دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو گئی یا جماعت سے نکال دیا گیا یا ہماری بدنامی کی گئی.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو گا اور دین کا علم ہوگا تو یہ صورتحال بھی پیدا نہیں ہوگی.پس خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی جماعت سے اور خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ہمیشہ یادرکھیں.ایک روایت میں آتا ہے شھر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ سے کہا اے ام المؤمنین ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کے پاس ہوتے تھے تو کونسی دعا بکثرت کیا کرتے تھے.انہوں نے فرمایا آپ اکثر یہ دعا کرتے کہ اے دلوں کے الٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثبات بخش ، ثابت قدم رکھ.آپ نے فرمایا اے ام سلمہ ! ہر آدمی کا دل اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہے جس کے لئے چاہے اس کو قائم کر دے اور جس کے متعلق چاہے اس کو ٹیڑھا کر دے.(ترمذى كتاب الدعوات باب ما جاء فى عقد التسبيح باليد باب نمبر 89 حدیث نمبر (3522 ) پس ہر احمدی کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو دے دی ہے.اس کو ہمیشہ دلوں میں بٹھائے رکھیں لیکن یہ بغیر اللہ کے فضلوں کے نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ اس کا ذکر کرنا ہے اس کو یاد رکھنا ہے.پس اپنے اندر بھی اور اپنی اولادوں کو بھی اس کی عادت ڈال دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل جو ہر قسم کے شرک سے پاک تھا، جس پر اللہ تعالیٰ کی پاک وحی نازل ہوئی اگر آپ اس کثرت سے دعا کرتے تھے تو ہمیں اس کی طرف کس قدر توجہ دینی چاہئے.پس ہمیں چاہئے کہ اس نعمت کی قدر کریں، اللہ سے مدد مانگیں، تو بہ واستغفار کرتے ہوئے ہمیشہ اس کے آگے جھکے رہیں تاکہ حقیقت میں اسلام کی صحیح تعلیم پیش کرنے والے ہوں.kh5-030425
229 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں کیا دیکھنا چاہتے ہیں.اس بارے میں آپ کا اقتباس پڑھتا ہوں.فرماتے ہیں کہ : ” حدیث میں آیا ہے کہ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهُ - اب جو تم لوگوں نے بیعت کی تو اب خدا تعالیٰ سے نیا حساب شروع ہوا ہے.کہ گنا ہوں سے تو بہ کر لی ہے، اسی طرح ہو گیا جس طرح کوئی گناہ نہیں کیا.تو اب نیا حساب شروع ہو گا.پہلے گناہ صدق و اخلاص کے ساتھ بیعت کرنے پر بخشے جاتے ہیں.اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ اپنے لئے بہشت بنا لے یا جہنم.انسان پر دو قسم کے حقوق ہیں.ایک تو اللہ کے اور دوسرے عباد کے.پہلے میں تو اسی وقت نقصان ہوتا ہے جب دیدہ دانستہ کسی امر اللہ کی مخالفت قولی یا عملی کی جائے.آدمی کسی بھی صورت میں خدا تعالیٰ کے حکم کے مخالف چلے.مگر دوسرے حقوق کی نسبت بہت کچھ بیچ بیچ کے رہنے کا مقام ہے.کئی چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جنہیں انسان بعض اوقات سمجھتا بھی نہیں.ہماری جماعت کو تو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ دشمن پکار اٹھیں کہ گو یہ ہمارے مخالف ہیں مگر ہیں ہم سے اچھے.اپنی عملی حالت کو ایسا درست رکھو کہ دشمن بھی تمہاری نیکی ، خدا ترسی اور اتقاء کے قائل ہو جائیں.تمہارے عمل ایسے ہو جائیں کہ دشمن بھی یہ کہے کہ یہ نیک آدمی ہے اور تقویٰ پر چلنے والا ہے.فرمایا کہ: ”یہ بھی یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی نظر جذ ر قلب تک پہنچتی ہے پس وہ زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ دل کو اچھی طرح جانتا ہے.زبان سے کلمہ پڑھنا یا استغفار کرنا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے جب وہ دل و جان سے کلمہ یا استغفار نہ پڑھے.بعض لوگ زبان سے اَسْتَغْفِرُ اللہ کرتے جاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ اس سے کیا مراد ہے.مطلب تو یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کی معافی خلوص دل سے چاہی جائے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے.اور ساتھ ہی اس کے فضل و امداد کی درخواست کی جائے.اگر اس حقیقت کے ساتھ استغفار نہیں ہے تو وہ استغفار کسی کام کا نہیں.انسان کی خوبی اسی میں ہے کہ وہ عذاب آنے سے پہلے اس کے حضور میں جھک جائے اور اس کا امن مانگتا رہے.عذاب آنے پر گڑ گڑانا اور وَقِنَا وَقِنَا پکارنا تو سب قوموں میں یکساں ہے.“ اب یہ علاقے بھی ایسے ہیں کہ یہاں مختلف وقتوں میں زلزلوں کا خطرہ رہتا ہے.سونامی کا خطرہ رہتا ہے.کل بھی ایک خطرہ پیدا ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ٹال دیا.تو اس شکر گزاری کے طور پر بھی مزید اس کے آگے جھکنا چاہئے.اس کے ذکر سے زبانیں تر رکھنی چاہئیں.اگر وہ تباہی آتی تو بہت بڑی تباہی آ سکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو دور فر مایا.تو ہمیشہ اللہ کے حضور جھکے رہنا چاہئے.فرمایا کہ: ”ایسے وقت میں جبکہ خدا کا عذاب چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوئے ہو ایک kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 230 خطبہ جمعہ 05 رمئی 2006ء عیسائی، ایک آریہ، ایک چوہڑا بھی اس وقت پکار اٹھتا ہے کہ الہی ہمیں بچائیو.اگر مومن بھی ایسا کرے تو پھر اس میں اور غیروں میں فرق کیا ہوا.مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ عذاب آنے سے قبل خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لاکر خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے.فرمایا کہ: ” اس نکتہ کو خوب یاد رکھو کہ مومن وہی ہے جو عذاب آنے سے پہلے کلام الہی پر یقین کر کے عذاب کو وارد سمجھے اور اپنے بچاؤ کیلئے دعا کرے.دیکھو ایک آدمی جو تو بہ کرتا ہے، دعا میں لگا رہتا ہے تو وہ صرف اپنے پر نہیں بلکہ اپنے بال بچوں پر ، اپنے قریبیوں پر رحم کرتا ہے کہ وہ سب ایک کیلئے بچائے جاسکتے ہیں.اگر نیک آدمی ہو تو اللہ تعالیٰ اس جگہ سے عذاب کو ٹال دیتا ہے اور اسکی وجہ سے پھر ساروں کا فائدہ ہو جاتا ہے.تو ایسا ہی جو غفلت کرتا ہے تو نہ صرف اپنے لئے برا کرتا ہے بلکہ اپنے تمام کنبے کا بدخواہ ہے.فرمایا کہ: ایک انسان جو دعا نہیں کرتا اس میں اور چار پائے میں کچھ فرق نہیں.یعنی اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے.ایسے لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے ﴿يَأْكُلُوْنَ كَمَا تَأْكُلُ الانْعَامُ وَ النَّارُ مَثْوَى لَّهُمْ ﴾ (سورة محمد :13: یعنی چارپایوں (جانوروں) کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے.پس تمہاری بیعت کا اقرار اگر زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی.چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں.میں ہرگز یہ بات نہیں مان سکتا کہ خدا تعالی کا عذاب اس شخص پر وارد ہو جس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے صاف ہو.خدا تعالیٰ اسے ذلیل نہیں کرتا جو اس کی راہ میں ذلت اور عاجزی اختیار کرے.یہ سچی اور صحیح بات ہے.راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو.کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیا جائے.اپنا معاملہ صاف رکھو کہ خدا کا فضل تمہارے شامل حال ہو.جو کام کر و نفسانی غرض سے الگ ہو کر کرو تا خدا تعالیٰ کے حضور اجر پاؤ“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 272-271 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالتے ہوئے اسلامی تعلیم کا صحیح نمونہ بن جائیں اور اللہ کا قرب پانے والے ہوں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس پاک چشمہ سے سیراب کرنے والے ہوں.اور یہ جلسے کے دن حقیقت میں سب میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائیں.اور آپ میں ان پاک تبدیلیوں کی وجہ سے اس ملک میں مقامی لوگوں میں بھی اسلام کا خوبصورت پیغام جلد سے جلد پھیل جائے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ان دو دنوں کو خاص طور پر دعاؤں اور ذکر الہی میں گزاریں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء 231 (19) خطبات مسرور جلد چہارم اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے سب سے پہلا کام اس کے آگے جھکنا، اس کی عبادت کرنا اس کی طرف توجہ کرنا ہے، اور تعلق جوڑنے کے لئے سب سے اہم بات اپنی عبادتوں کی طرف توجہ اور اپنی نمازوں کی حفاظت ہے پاکستان سے آنے والے احمدیوں کو ہر وقت یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ یہاں اسلام اور احمدیت کے نمائندہ ہیں سرزمین جاپان سے حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ کی پہلی بارایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطہ کے ذریعہ دنیا بھر میں براہ راست نشریات فرمودہ مورخہ 12 مئی 2006 ء (12 ہجرت 1385 ھش ) نا گویا (جاپان) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ جاپان کا جلسہ اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے.یہ خطبہ جمعہ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہ راست ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تمام دنیا میں نشر ہو رہا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اللہ تعالی آج جماعت احمدیہ پر نازل فرما رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کی ہر دن چڑھنے پر ہم اللہ تعالیٰ کی اس فعلی شہادت سے تصدیق ہوتی دیکھ رہے ہیں.لیکن صرف اسی بات پر ہی ہمیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آج ہمیں دنیا میں اپنی تائیدات کے نظارے دکھا رہا ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ وہ اپنے بندے سے کئے گئے - kh5-030425
232 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم عدے کو پورا فرما رہا ہے.لیکن روزانہ کے یہ فضل ہم پر بہت بڑی ذمہ داریاں ڈال رہے ہیں.آج ہر احمدی کو ان ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے.خاص طور پر آپ جو اس خطہ ترمین میں رہ رہے ہیں جن سے میں آج براه راست مخاطب ہوں.آپ لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے اپنے جائزے لینے ہوں گے کہ کس حد تک ہم ان ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں، کس حد تک ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو خدا کا خالص بندہ بنانے والی ہو، کس حد تک ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی حقیقی پیغام ہے اس علاقے کے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو 1902ء میں اس ملک میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف توجہ پیدا ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالب اسلام پیدا کر دے گا.پھر آپ نے اس ملک میں اسلام کی خوبیوں پر مشتمل لٹریچر شائع کر کے پھیلانے کی خواہش کا بھی اظہار فرمایا.پھر آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے.تو اس ملک کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ خواہش اور ہدایت تھی.1935ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں مبلغ بھجوائے.اپنے وسائل کے لحاظ سے انہوں نے خوب کام کیا.1959ء میں یہاں پہلے احمدی بھی ہوئے اور ماشاء اللہ خوب ایمان واخلاص میں ترقی بھی کی.پھر جنگ کی وجہ سے حالات بدلے، دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے کچھ روکیں بھی پیدا ہوئیں ، پھر اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر اس ملک کو بہت بڑا نقصان بھی ہوا.لیکن اس بہت بڑے نقصان کے بعد اپنے آپ کو ایک باہمت قوم ثابت کرتے ہوئے اس قوم نے پھر اقتصادی لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کی.لیکن دنیا کی دوسری قوموں کی طرح یہاں بھی اس ترقی کے ساتھ مادیت کی طرف زیادہ رجحان پیدا ہوا.تا ہم اس کے باوجود آج بھی ان میں مذہب کے بارے میں احترام ہے اور اسلام کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں.بعض ملنے والوں نے مجھ سے اس بات کا اظہار کیا، جن میں پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور سیاستدان بھی، کہ ہم اسلام کو جانتے نہیں ہیں ، ہمیں بتایا جائے کہ اسلام کیا چیز ہے.بہر حال اس ملک کی اقتصادی بہتری کی وجہ سے آپ جو احمدی میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے، آپ لوگوں کو یہاں آنے اور اس ملک میں کام یا کاروبار کرنے کا موقع ملا.چند ایک نے یہاں جاپانی عورتوں سے شادیاں بھی کیں.ایک دو جاپانی مردوں نے بھی پاکستانی عورتوں سے شادیاں کیں.اکثر جاپانی مرد اور عورتیں جو احمدی ہوئے وہ خود بھی اور ان کی اولادیں بھی ماشاء اللہ جماعت سے تعلق اور وفا رکھتے ہیں اور عہد بیعت پر پختگی سے قائم ہیں.بعضوں سے میری بات ہوئی تو ان میں جذباتی کیفیت طاری ہو گئی.گو کہ یہ جاپانی چند ایک ہی ہیں لیکن ان کی اولادیں انشاء اللہ تعالیٰ جب پھیلیں گی تو پھر مزید جڑیں مضبوط ہوں گی.تو جیسا کہ میں ذکر کر رہا تھا کہ اس ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کی وجہ سے kh5-030425
233 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم آپ لوگ پاکستان سے آنے والے احمدی ہیں جن کے خاندانوں میں احمدیت ایک عرصے سے آئی ہوئی ہے اور بعض صحابہ کی اولاد میں سے بھی ہیں ، ان کو ہر وقت یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ یہاں اسلام اور احمدیت کا نمائندہ ہیں.شروع میں تو ایک آدھ یہاں مبلغ ہی تھے لیکن گزشتہ 20-25 سال میں غیر جاپانی احمدیوں کی تعداد بڑھنی شروع ہوئی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ تقریباً 200 کے قریب ہیں.اگر ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو سامنے رکھے کہ اس قوم تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے تو یقیناً یہاں احمدیت کے پھیلنے کے امکانات ہیں کیونکہ ان میں سے بہت ساری سعید روحیں ہیں جو مذہب کی تلاش میں بھی ہیں.پس ہر احمدی کو چاہیے کہ صرف اس بات پر ی انحصار نہ کریں کہ مبلغین یہ کام کریں گے بلکہ خود اپنے آپ کو اس کام میں ڈالیں لیکن تبلیغ کے کام میں ڈالنے سے پہلے خود اپنے جائزے لیں کہ کس حد تک خود اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں.اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں.خود اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑیں، خود اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں ، جنہوں نے یہاں کی عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں.ان کے عزیزوں ، رشتہ داروں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام پہنچا ئیں.آپ کے اپنے عملی نمونے ہی ہیں جو ان لوگوں کی توجہ آپ کی طرف کھینچنے کا باعث بنیں گے.اگر صرف دنیاداری ہی آپ کے سامنے رہی اور دنیا داری کی طرف ہی جھکے رہے تو پھر کس منہ سے آپ اسلام کی طرف بلانے والے بہنیں گے.پس یہ عملی نمونے قائم کرنے کی کوشش کریں اور یہ تبدیلی آپ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے سب سے پہلا کام اس کے آگے جھکنا، اس کی عبادت کرنا اس کی طرف توجہ کرنا ہے، اور یہ تعلق جوڑنے کے لئے سب سے اہم بات جو آپ نے کرنی ہے اور جس کے کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے وہ اپنی عبادتوں کی طرف توجہ اور اپنی نمازوں کی حفاظت ہے اور اس کے بغیر ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑا جا سکے.یہی نمازوں کی حفاظت ہے جو آپ میں اور آپ کے بیوی بچوں میں اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا باعث بنے گی.یہی ہے جو آپ کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی خوبیوں کو دوسروں تک پہنچانے اور اس کے بہترین پھل حاصل کرنے کا باعث بنے گی.اور یہی چیز ہے جس سے آپ کی دنیاوی ضروریات بھی خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق پوری فرمائے گا.پس اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار کریں اور اس کے مقابلے پر ہر چیز کو بیچ سمجھیں ، اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہر چیز سے زیادہ تمہارے دل میں میری یاد کی اہمیت ہونی چاہئے اور یہ بھی ہو سکتا ہے جب تم ہمیشہ میرے احسانوں کو یاد کرتے رہو، میرے شکر گزار بندے بنے رہو.اور جب اس طرح شکر گزار بنو گے تو پھر سمجھا جائے گا کہ تمہاری نمازیں، تمہاری عبادتیں، میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں.اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّنِی اَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي.وَاَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى ( : 15) یقیناً میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں.پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 234 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء پس یہ حکم بہت اہمیت کا حامل ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور ذکر کرنے والوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ نماز قائم کرنے والے ہوں.نماز کو ان تمام لوازمات کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں جو اس کا حق ہے اور جس کی تعلیم ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت قائم کر کے دی ہے کہ نماز با جماعت ادا کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں نمازیں ادا کرنی ہیں.یہی چیزیں ہیں جو دین و دنیا کی حسنات لانے کا باعث بنیں گی.یہاں آکر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے کام اور اس ملک کی جو مصروف زندگی ہے مجھے اس کے ساتھ اپنے آپ کو چلانے کے لئے نمازوں کو آگے پیچھے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، اس کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں میری عبادت کرو.اور ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ معبود صرف میں ہی ہوں.یہ دنیاوی مصروفیات اور مادی چیزیں اور دنیاوی کام تمہارے معبود نہیں ہیں.یہ میری وجہ سے ہی ہے جو تمہیں سب کچھ مل رہا ہے کیونکہ میں رب بھی ہوں.فرماتا ہے ﴿رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ.هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( مریم : 66 ) آسمانوں اور زمین کا وہ رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے.پس اس کی عبادت کر اور اس کی عبادت پر صبر سے قائم رہ.کیا تو اس کا کوئی ہم نام جانتا ہے.پس یا درکھیں کہ رب اللہ تعالیٰ ہے جو تمام چیزوں کا مہیا کرنے والا ہے.ہر چیز کا وہ مالک ہے اور اسی سے ہمیں یہ نعمتیں مہیا ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جس طرح دوسری مخلوق کو مہیا کرتا ہوں اسی طرح تمہیں بھی کرتا ہوں.پس صرف یہ نہ سمجھو کہ تمہارے زور بازو سے تمہیں یہ سب کچھ مہیا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے کاروبار میں جو بظا ہر بڑے اچھے اور مفید فیصلے ہیں ان میں بھی بے برکتی پیدا کر سکتا ہے.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو کر سکتا ہے اس کے لئے بہت آسان ہے کہ جس طرح دوسرے کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں کو رزق مہیا کرتا ہے تمہیں بھی رزق مہیا کر دے.دنیا نہیں آج ہزاروں لاکھوں لوگ اپنے کاروبار میں دیوالیہ ہور ہے ہیں.اگر صرف ان کی عقل ہی کام کر رہی ہوتی تو یہ کاروبار کیوں دیوالیہ پن کا شکار ہو رہے ہوتے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہئے.ایک احمدی کا کام یہ ہے کہ مستقل مزاجی سے اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت کرتا رہے، اس کے آگے جھکا رہے اس کے حکموں پر عمل کرتا رہے.اور عبادت کے لئے جس طرح کہ میں نے پہلے بھی آیت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت اور ذکر کے لئے نماز قائم کرو.پس اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا ہر احمدی کا کام ہے.اور یہ ہمارے ہی فائدے کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ کو نہ ہماری نمازوں کی ضرورت ہے اور نہ ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے.جیسا کہ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ﴾ (سورۃ الفرقان آیت : 78 ) کہ ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پر واہ ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو.یعنی یہ تمہاری دعا اور استغفار تمہارے فائدے کے لئے ہیں.نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں.kh5-030425
235 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم پس ایک احمدی کے لئے اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.ورنہ احمدی ہونے کے بعد دعاؤں سے بے رغبتی اور نمازوں سے لا پرواہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث نہیں بنا سکتی.جلسہ پر آنے والوں کے لئے بھی اور ویسے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت دعائیں کی ہیں.ان سے اگر حصہ لینا ہے اور ان کا وارث بنتا ہے تو ہمیں اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی.احمدی ہونے کے بعد جب ہم پہلوں سے ملنے کی باتیں کرتے ہیں تو وہ نمونے بھی قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے قائم کئے.ایک روایت میں آتا ہے کہ صحابہ نماز کے علاوہ کسی عمل کو بھی ترک کرنا کفر نہ سمجھتے تھے.یعنی نماز چھوڑنا ان کے نزدیک کفر کے برابر تھا.پس یہ معیار ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.(الترغيب والترهيب جلد اول صفحه 284 الترهيب من ترك الصلوة تعمدا حدیث نمبر 834 طبع اول 1994 دار الحديث قاهره حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الہی ہے.لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بیکار کر لیتا ہے.یعنی فطرت جو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس کو دنیا داری کے دھندوں میں ڈال دیتا ہے، دوسری مصروفیات میں مشغول ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتا.دوسری چیزیں اس کے لئے زیادہ فوقیت رکھتی ہیں.فرمایا: ” بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بیکار کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے ﴿قُلْ مَا يَعْبَوا بكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ﴾ (سورة الفرقان آیت : 78) فرمایا کہ میں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں ، شرقا غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے.اس نالی پر بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب جو ہر ایک بھیڑ پر مسلط ہے ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے.میں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں.میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان آیت : 78 ) یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلا دیں.یعنی ان بھیڑوں کی گردنوں پر پھیر دیں اور یہ کہا کہ تم ہو کیا ؟.آخر گوہ کھانے والی بھیٹر میں ہی ہو.غرض خدا تعالی متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے.اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے.جیسے کلور و فام نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سلا تا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے.الحکم جلد 5 نمبر 30 مورخه 17/اگست 1901 صفحہ 1) kh5-030425
236 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم پس یہ بہت بڑا انذار ہے.انسان جوں جوں دنیاوی دھندوں میں پڑتا ہے اللہ کی عبادت سے غافل ہوتا جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل شامل حال ہو.پس ہرلمحہ، ہر وقت ایک احمدی کو اس فضل کو سمیٹنے کی فکر میں لگے رہنا چاہئے.اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو خالص ہو کر اس کے حضور ادا کی جائے.پس اپنی عبادتوں کی طرف خاص توجہ دیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کریں تا کہ خدا تعالیٰ آپ کی اور آپ کی نسلوں کی حفاظت فرمائے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کو چھوڑ نا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے.(الترغيب والترهيب جلد اول صفحه 284 الترهيب من ترك الصلوة تعمدا حدیث نمبر 834 طبع اول 1994 دار الحدیث (قاهره پہلے جو میں نے بیان کیا تھا کہ صحابہ نماز ترک کرنے کو کفر کے برابر سمجھتے تھے وہ اس لئے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پا کر نمازوں کی اہمیت کو سمجھا تھا.پس یہاں مزید ڈرایا ہے کہ نمازیں چھوڑ نا صرف دین سے انکاری ہونا ہی نہیں ہے بلکہ نمازوں کو چھوڑنے والا شرک کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے.اور جتنا زیادہ ہم دنیاوی دھندوں کی طرف بڑھتے جائیں گے اور نمازوں کی پرواہ نہ کریں گے، نمازوں میں بے احتیاطی کارجحان بڑھتا چلا جائے گا جو کہ آخر کار شرک کرنے والوں کی صف میں لا کھڑا کرے گا.پھر بچوں کو نمازوں کی عادت ڈالنے کے بارے میں حکم ہے.اکثر کو یہ حکم یاد بھی ہوگا ، سنتے بھی رہتے ہیں، لیکن عمل کی طرف بہت کم توجہ ہے.ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو نمازیں پڑھنے کی عادت ڈالیں.صرف فرض پورا کرنے کے لئے عادت نہ ڈالیں بلکہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت راسخ کر دیں تا کہ وہ یہ سمجھ کر نماز پڑھنے والے ہوں کہ یہ ہمارے فائدے کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہی ہماری دنیا و آخرت کی بقا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ والدین خود بھی اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق نہ جوڑیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال کی عمر کے بچے کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا کہ جب بچے دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو اور فرمایا اس عمر میں بچوں کو اکٹھے ایک بستر پر بھی نہ سلاؤ.تو نماز نہ پڑھنے پر سختی آپ لوگ اس وقت کر سکتے ہیں جب کہ خود آپ کے عمل ہی ایسے ہوں جو بچوں کے لئے نمونہ ہوں.نماز میں اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھی جانے والی ہوں نہ کہ دنیاوی اغراض کے لئے.اور جب اس طرح نماز میں پڑھی جائیں گی تو وہ جہاں آپ کو اور آپ کے بچوں کو اللہ کا قرب دلانے والی ہوں گی اور دنیا و آخرت سنوار نے والی ہوں گی وہاں معاشرے میں بھی اس پاک تبدیلی کا اثر نظر آئے گا.آپ کے دلوں کے کینے اور بغض بھی نکلیں گے.اور اس طرح سے ہر ایک کو جماعت کے وقار کو اونچا کرنے کی بھی فکر رہے گی.معاشرے میں بھی نیک اثر قائم ہوگا.جن لوگوں نے یہاں جاپانی عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے خاندانوں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 237 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء میں بھی احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملے گی جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں.اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نیک اثر بھی قائم ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے اپنی نسلوں کی بقا کے لئے نمازوں کے ساتھ مالی قربانی کرنے کا بھی حکم ہے.فرماتا ہے ﴿انْفِقُوْا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ ( التغابن : 17) کہ اپنے مال اس راہ میں خرچ کرتے رہو یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر رہے گا.اسی طرح اور بے شمار جگہ اللہ تعالیٰ نے نمازوں کے حکم کے ساتھ مالی قربانیوں کا ذکر فرمایا ہے.اور آج کل کے زمانے میں جب انسان کی اپنی ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں.قسم ہا قسم کی ایجادات کی وجہ سے انسانی ترجیحات اور خواہشات بھی مختلف ہو چکی ہیں.ان حالات میں مالی قربانیاں یقیناً بہت اہمیت کی حامل ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے ساتھ مالی قربانیوں کی اس زمانے میں ویسے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے.یقیناً یہ نفسوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے اس لئے اس طرف بھی توجہ دیں.یہ قربانیاں آپ کی اور آپ کی نسلوں کی دنیا و آخرت سنوارنے کی ضمانت ہیں.اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ مختلف پیرایوں میں اس کا ذکر فرمایا ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف جگہوں پر مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی ہے.ایک سوال کرنے والے کے یہ پوچھنے پر کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لیجائے اور آگ سے دور کر دے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ا سکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ.اور نمبر 2 یہ کہ نماز پڑھ اور زکوۃ دے اور صلہ رحمی کر.یعنی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو.(صحیح بخارى كتا الادب باب فضل صلة الرحم حديث نمبر (5983 عبادت اور نماز کے بارے میں میں نے پہلے کچھ تھوڑی سی تفصیل بتائی ہے.پھر اس کے بعد زکوۃ کا حکم آتا ہے.یہ جو ز کوۃ ہے یہ مالی قربانی ہے.ایک تو جن پر زکوۃ واجب ہے، اصل تعریف کے لحاظ سے جوز کوۃ کی ہے، ان کو زکوۃ دینی چاہئے دوسرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ہوتا رہا ہے زکوۃ کے علاوہ بھی ضرورت پڑنے پر آپ مالی تحریک فرمایا کرتے تھے اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق صحابہ مالی قربانیاں کیا کرتے تھے تو اس زمانے میں بھی اسی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بیعت میں آنے والوں کے لئے لازمی قرار دیا ہے کہ با قاعدگی سے مالی قربانی کریں اور چندے دیں.اور پھر بعد میں خلفاء نے اس کو با قاعدہ معین نظام کی شکل دے دی.پس ہمیشہ ہر احمدی کو یا د رکھنا چاہئے کہ مالی قربانی اس کے اپنے فائدے کے لئے ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ (البقرہ.196 ) اور اللہ کے راستے میں جان مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو.پس اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ترجیحات بدل گئی ہیں یا بدل رہی نہیں.جانی اور مالی قربانیوں کی بہت اہمیت ہے.kh5-030425
238 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم پس آپ میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.یہاں آ کر اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے، بہت سوں کے حالات میں بہتری پیدا کی ہے اس کے شکرانے کے طور پر اپنی مالی قربانیوں کے جائزے لیں.نظام نے جو شرح مقرر کی ہے کیا آپ اس کے مطابق چندے دے رہے ہیں؟ یہ چندہ بھی نفسوں کو پاک کرنے کے ذریعہ بنے گا اور اس حدیث کے مطابق جنت میں لے جانے کا ذریعہ بھی بنے گا جب خالصتا اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کے جذبے سے دیا جائے گا.جب خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی قربانیاں دی جائیں گی.اگر آمد چھپا کر ادائیگیاں کر رہے ہیں، چندے دے رہے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے.اور اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.وہ انسان کے دل کے نہاں در نہاں انتہائی گہرے گہرے جو خانے ہیں ان کو بھی جانتا ہے.اگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے پوری شرح سے چندہ نہیں دے سکتے تو صاف اور سیدھی بات کریں کہ گو میری آمد تو زیادہ ہے لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے میں پوری شرح سے چندہ نہیں دے سکتا.اور اس بارے میں کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ جو کوئی بھی مجھے لکھے گا بغیر تحقیق کے اس کو کم شرح سے چندہ دینے کی اجازت مل جائے گی جس شرح سے بھی وہ چندہ دینا پسند کرتا ہے.لیکن یہ کہہ کر کہ میری آمد ہی اتنی ہے جس پر میں چندہ دے رہا ہوں جبکہ آمد زیادہ ہو تو ایک گناہ تو کم چندہ دے کر کر رہے ہیں اور اس سے بڑا گناہ جھوٹ بول کر.اور جھوٹ کو اللہ تعالیٰ نے شرک کے برابر قرار دیا ہے.پس نمازیں بھی اور دوسری نیکیاں بھی تب ہی فائدہ دیتی ہیں جب وہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اس کے تمام حکموں پر چلتے ہوئے کی جائیں اور یہی چیزیں ہیں جو آپ کو دین و دنیا کی نعمتوں کا وارث بنائیں گی.نسلوں کی حفاظت کریں گی.آپ کے اندران پاک تبدیلیوں کی وجہ سے آپ کو دعوت الی اللہ کے کام میں مدد دیں گی.اس کے بہتر نتائج اور ثمرات حاصل ہوں گے.پس اس ذمہ داری کو بھی اللہ تعالیٰ کا ایک اہم حکم سمجھتے ہوئے ادا کریں اور اپنی عبادتوں کے ساتھ ساتھ اپنی مالی قربانیوں کے بھی معیار بڑھا ئیں.یہی باتیں ہیں جو آپ میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث بنیں گی اور اس ذریعہ سے آپ کے عملی نمونے قائم ہوں گے.اور یہ عملی نمونے جیسا کہ میں نے کہا تبلیغی میدان کھولیں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ حدیث جو میں نے پڑھی تھی اس میں ایک نصیحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ صلہ رحمی کرو یعنی اپنے قریبیوں سے، رحمی رشتہ داروں سے نیک اور اچھا سلوک کرو.ان رھی رشتہ داروں میں میاں بیوی کے ایک دوسرے کے رحمی رشتہ دار بھی شامل ہیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے.ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہئے.پس اس لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں.خاص طور پر جن لوگوں نے یہاں شادیاں کی ہوئی ہیں وہ اس بات کو خاص اہمیت دیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے سے، اپنے عملی نمونے قائم کرنے سے تبلیغ کے میدان بھی وسیع ہوں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 239 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء گے اور آپ کا آپس میں محبت و پیار بھی بڑھے گا اور نئی نسلوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہو سکے گی.پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے ہر ایک کو ہر لحاظ سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک کی اصلاح کی جو یہ کوشش ہوگی اللہ کے فضل سے بہتر نتائج لائے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: بیان میں جب تک روحانیت اور تقویٰ و طہارت اور سچا جوش نہ ہو اس کا کچھ نیک نتیجہ مرتب نہیں ہوتا ہے.وہ بیان جو کہ بغیر روحانیت اور خلوص کے ہے وہ اس پر نالے کے پانی کی مانند ہے جو موقع بے موقع جوش سے پڑا جاتا ہے اور جس پر پڑتا ہے اسے بجائے پاک وصاف کرنے کے پلید کر دیتا ہے.انسان کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ﴾ (المائدة : 106) یعنی اے مومنو! پہلے اپنی جان کی فکر کرو.اگر تم اپنے وجود کو مفید ثابت کرنا چاہو تو پہلے خود پاکیزہ وجود بن جاؤ.ایسا نہ ہو کہ باتیں ہی باتیں ہوں اور عملی زندگی میں ان کا کچھ اثر دکھائی نہ دے.ایسے شخص کی مثال اس طرح سے ہے کہ کوئی شخص ہے جو سخت تاریکی میں بیٹھا ہے اب اگر یہ بھی تاریکی ہی لے گیا تو سوائے اس کے کہ کسی پر گر پڑے اور کیا ہو گا.اسے چراغ بن کر جانا چاہئے تا کہ اس کے ذریعہ سے دوسرے روشنی پائیں“.البدر جلد 7 نمبر 19-20 مورخہ 24 مئی 1908 صفحہ 3) تو یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہم سے توقعات کہ اندھیرے میں بیٹھے ہوؤں کو روشنی دکھائیں ، نہ کہ خود بھی اس تاریکی میں چلے جائیں اور خود بھی ٹھوکریں کھاتے پھریں.اور یہ روشنی کس طرح حاصل ہوگی یہ سب کچھ روحانیت میں ترقی کئے بغیر ممکن نہیں.اور روحانیت کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور اس کے حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے.پس ہر ایک اس طرف سنجیدگی سے توجہ دے اور اپنے اندر تبدیلیوں کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اس ملک کے ہر گھر میں پہنچانے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ سب کو حقیقی معنوں میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر چلنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم میں سے ہر ایک ان دعاؤں کا وارث بن جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے.اور بخیل اور ممسک اور غافل اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 240 خطبہ جمعہ 12 مئی 2006 ء دنیا کے کیڑے نہیں ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں“.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 619،اشتہار 16 اکتوبرح 1903 جدید ایڈیشن مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش اور دعا سے حصہ پانے والا ہو.اور اگر کوئی کمزوریاں اور کمیاں ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ ہمیں دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے جو یہاں دو دن ہیں جن میں آپ اکٹھے ہو رہے ہیں، یہ خاص طور پر دعاؤں میں گزاریں اور اللہ سے بہت مدد مانگیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفسوں کو پاک کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے خوبصورت پیغام کو بھی اس علاقے میں پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے درمیان میں فرمایا کہ نماز جمعہ اور عصر کے بعد میں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا.ایک جنازہ غائب ہے ایک شہید کا.دو دن ہوئے سانگھڑ کے ہمارے ایک احمدی ڈاکٹر مجیب الرحمن پاشا صاحب اپنے کلینک کے باہر کھڑے تھے کہ انہیں نامعلوم افراد نے آکے فائر کر کے شہید کر دیا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.کوئی موٹر سائیکل پر آیا.اس نے منہ ڈھانکا ہوا تھا.فائر کر کے دوڑ گیا.سر پر زخم آیا جس سے ڈاکٹر صاحب جانبر نہ ہو سکے.تو ایک تو ان کی نماز جنازہ ہے.آپ بڑے کم گو اور خدمت کرنے والے اور چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.دوسرا جنازہ غائب جو میں کسی وجہ سے پڑھا نہیں سکا ہوں.چند مہینے پہلے میری ممانی صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی وفات ہوئی تھی.آپ حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں.مختلف جگہوں پر لجنہ میں ان کو خدمات کی توفیق ملی.بڑی ملنسار خاتون تھیں.اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے.ان دونوں کے جنازہ غائب ہوں گے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء 241 20 خطبات مسرور جلد چہارم سنگاپور ، آسٹریلیا، جاپان، نجی اور نیوزی لینڈ کا تاریخی دورہ وہاں کے مخلص احمدی احباب کے ایمان افروز حالات و واقعات خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مورخہ 19 مئی 2006 ء (19 ہجرت 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن آج میں اپنے سابقہ طریق کے مطابق جو میں رکھتا رہا ہوں، سفر کے مختصر حالات بیان کروں گا.یہ دورہ جیسا کہ آپ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دیکھا سنگا پور، آسٹریلیا، جاپان اور پیسیفک کے بعض جزائر پر مشتمل تھا جن میں نجی اور نیوزی لینڈ وغیرہ تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سفر میں بھی ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر اپنی تائیدات کے نظارے دکھائے اور ہر قدم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہمیں نظر آئے.ہمارے سفر کی پہلی منزل سنگا پور تھی.یہاں چھوٹی سی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص رکھنے والی جماعت ہے.یہاں کیونکہ بعض ایسی پابندیاں ہیں جنکی وجہ سے باہر سے کسی جانے والے کیلئے حکومتی اداروں سے تقریر وغیرہ کرنے کی اجازت لئے بغیر کوئی پبلک گیدرنگ (Public Gathering) میں تقریر نہیں ہو سکتی اس لئے وہاں جلسہ تو نہیں ہوالیکن جو چند دن ہم وہاں ٹھہرے اس میں جلسے کا ہی سماں تھا.یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے،شہر بھی ہے ملک بھی ہے، ملائشیا کے ساتھ لگتا ہے.سمندر سے ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہے اس پر ملائشیا سے جوڑنے کے لئے پل بنا ہوا ہے.اس لئے ملائشیا سے بھی کافی لوگ وہاں آگئے تھے اور ملائشیا میں بھی کیونکہ جماعت پر پابندی ہے وہاں جایا تو نہیں جاسکتا تھا لیکن آنے والوں کے چہروں سے جو حسرت تھی کہ آپ ہمارے ملک میں حالات کی وجہ سے نہیں آسکتے وہ ایک جذباتی کیفیت پیدا کر دیتی تھی.kh5-030425
242 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم بہر حال پہلے میں سنگا پور کے بارے میں مختصر بتا دوں.جیسا کہ میں نے کہا کہ سنگا پور کی جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے.چند ایک پاکستانی گھروں کے علاوہ تمام مقامی احمدی ہیں اور جس طرح سے انہوں نے اپنے کام کو سنبھالا ہوا ہے ان کے جماعت اور خلافت سے اخلاص و وفا کا جو تعلق ظاہر ہوتا ہے وہ ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل نظر آتا ہے.وہاں اس ملک میں انہوں نے ایک خوبصورت چھوٹی سی مسجد بنائی ہوئی ہے، چھوٹی تو نہیں خیر ، ہمارے اس لحاظ ( مسجد بیت الفتوح) سے چھوٹی ہے لیکن کافی بڑی مسجد ہے، دو منزلہ ہے اس میں دفاتر بھی ہیں، لائبریری وغیرہ بھی ہے.جب حضرت خلیفہ ایسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ وہاں گئے تھے تو آپ نے اس کا افتتاح فرمایا تھا.اب وہاں اسی پلاٹ میں جگہ تھی جہاں میں مشن ہاؤس کا سنگ بنیا درکھ کے آیا ہوں.ملائشیا کا تو میں نے ذکر کیا ہے کہ بعض پابندیاں ہیں اور مخالفت ہے جس کی وجہ سے وہاں کی خاصی تعداد ملاقات کے لئے سنگا پور آ گئی تھی ، ان کی عاملہ بھی آگئی تھی ، ان سے بھی میٹنگ وغیرہ ہوتی رہی.انڈونیشیا میں بھی آجکل جو حالات ہیں جیسا کہ آپ سب کو علم ہے کہ جماعت کی مخالفت زوروں پر ہے اور فی الوقت وہاں جانا بھی مشکل ہے.وہاں سے بھی کافی تعداد میں انڈو نیشین احمدی آئے ہوئے تھے اور اس بات پر ان کی بھی جذباتی کیفیت ہو جاتی تھی کہ آپ فی الحال وہاں دورہ نہیں کر سکتے.انڈو میشین طبعا جذباتی بھی ہیں لیکن اخلاص و وفا میں بہت بڑھے ہوئے بھی ہیں.جب میں نے خطبے میں ان کے موجودہ حالات کا ذکر کیا اور صبر کی تلقین کی تو بلا استثناء ہر ایک جوان، بوڑھا ، مرد، عورت سخت جذباتی ہو گئے تھے ، اس کا نظارہ آپ نے شاید ایم ٹی اے پر کچھ حد تک دیکھا ہوگا، ایم ٹی اے کا کیمرہ پوری طرح ہر چیز کی تصویر نہیں لے سکتا.میں عموماً اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتا ہوں لیکن میرے سامنے جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کی حالت دیکھ کر بڑی مشکل سے اپنے پر قابو پا رہا تھا.یہ نظارے ہمیں آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیاری جماعت میں نظر آتے ہیں جو دینی تعلق اور اخوت کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس حد تک منسلک ہیں کہ جذبات پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے.یہ سب آج مسیح محمدی کی قوت قدسی کا اثر ہے جو اس نے اپنے آقاو مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پائی ہے کہ ہر ملک میں مختلف قومیتوں اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے بعد خلافت سے کچی وفا کا تعلق رکھنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا ؟ اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے.وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا.وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 243 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور قطع رحم و غیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا.وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مردوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی.بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے.بہتیرے اُن میں ایسے ہیں جن کو سچی خوا ہیں آتی ہیں اور الہام الہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے.ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یادرکھتے اور دلوں کے نرم اور کچی تقویٰ پر قدم ماررہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی.وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے.اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے، جیسا کہ صحاب کو کھینچتا تھا.غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اخرین منهم کے لفظ سے مفہوم ہورہی ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا“.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 306-307) پس یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا یہ ہمیں آج دنیائے احمدیت کی ہر قوم میں نظر آتا ہے.میں انڈونیشینز کا ذکر کر رہا تھا ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا انکے سینوں کو اللہ تعالیٰ ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور ہر جگہ یہی نظارے دیکھنے میں آئے.میں سنگا پور کے خطبے کا ذکر کر رہا تھا، اس خطبے کے بعد یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے تھے اور اس بات پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بدلے گا اور وہ مزید تائیدات کے نظارے دیکھیں گے، انشاء اللہ.سنگا پور میں ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاوہ ، جن کی بڑی تعداد وہاں آئی ہوئی تھی بعض دوسرے ملکوں کے بھی چند لوگ آئے تھے.فلپائن، کمبوڈیا، پاپوانیوگنی ، تھائی لینڈ.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب اخلاص و وفا کے نمونے دکھانے والے تھے.بعض چند سال پہلے کے احمدی تھے، مرد بھی اور خواتین بھی لیکن خلافت سے تعلق اور وفا کے جو اظہار تھے وہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.وہاں آنے کے لئے ان کو کافی خرچ کرنا پڑا، کافی دور کے بھی علاقے ہیں.کرایہ خرچ کر کے آئے تھے.ٹکٹ کافی مہنگا ہے.ان کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ وہ خدا کا گروہ ہیں جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان دور دراز کے ملکوں کے لوگوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں ایسا تعلق پیدا کر دیا ہے کہ دیکھ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم کر حیرت ہوتی ہے.244 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء بہر حال جیسا کہ میں نے کہا گو کہ سنگا پور میں جلسہ نہیں ہوا ان ملکوں کے آنے والوں سے ملاقاتیں اور جماعت کی ترقی کے لئے آئندہ پروگرام بنانے اور ان کے جائزے لینے کے لئے جو میٹنگز ہوئیں ان سے مجھے بھی براہ راست معلومات لے کر آئندہ پروگرام بنانے کی طرف ان کی رہنمائی کا موقع ملا اور ان کو بھی نظام کو صیح سمجھنے اور کام کو آگے چلانے کا علم ہوا.کیونکہ بعض بالکل نئی جماعتیں ہیں، اور بہت سی باتوں سے لاعلم تھیں.بہر حال الحمد للہ کہ سنگا پور جانا بڑا فائدہ مند ثابت ہوا.جانے سے پہلے تو میرا خیال تھا کہ وہاں چھوٹی سی جماعت ہے، دو دن کافی ہیں.لیکن ان باہر سے آئے ہوئے نمائندگان کی وجہ سے اچھا مصروف وقت گزر گیا.سنگاپور کے تعلق میں یہ بھی بتادوں کہ وہاں تبلیغ کی کھلے عام اجازت نہیں ہے ، ہاں دکانوں پر لٹریچر یا کتابوں وغیرہ کو رکھ کر بیچا جا سکتا ہے.اور اس اجازت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں کی تبلیغ پر وہاں مسلمانوں نے بہت شور مچایا اور ہنگامہ کھڑا کر دیا تو حکومت نے ہر مذہب کی تبلیغ پر پابندی لگادی اور صرف اپنا لٹریچر بیچنے کی اجازت دی.دوسرے مسلمانوں کو تو فرق نہیں پڑتا ، نہ ان کے پاس اسلام کا حقیقی علم ہے اور نہ ہی ان کو تبلیغ سے کوئی دلچسپی ہے.اس کا اثر صرف جماعت پر پڑا، اس کی تبلیغ میں روک پیدا ہوئی.کاش مسلمان یہ سمجھ جائیں کہ آج اگر دلائل اور براہین سے کسی بھی دوسرے مذہب پر اسلام کی فوقیت ثابت کرنی ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی پیروی میں ہی ہوسکتی ہے.کیونکہ آپ نے ہی اس زمانے میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست رہنمائی حاصل کر کے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ سے ہی ہم وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جو صحابہ سے ملانے والا ہو.کاش مسلمان اس حقیقت کو سمجھ جائیں اور آج دنیا میں تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کے لئے آپ کے غلام کی مخالفت کی بجائے تائید کرنے والے ہوں.اس ضمن میں یہ ذکر کر دوں، پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ اب عرب دنیا میں عیسائیت کے مقابلے پر پابندی لگا دی گئی ہے.اور سنا ہے مختلف حکومتوں نے یہ پابندی لگائی ہے کہ عیسائیت کے جو بھی وہاں حملے ہور ہے ہیں ان کا جواب نہیں دینا.یہ کیونکہ جواب دے نہیں سکتے اور ان کے پاس دلیل کوئی نہیں.اس لئے بہتر ہے کہ جواب نہ دو.ہمارے عرب احمدی بھائیوں نے جن میں مصطفیٰ ثابت صاحب ہیں اور دوسرے عرب احمدی جو اچھے پڑھے لکھے ہیں، علم رکھنے والے ہیں ،انہوں نے یہاں MTA سے خاص طور پر عیسائیت کے اس حملے کے رڈ میں جو کہ آجکل عرب دنیا پہ بہت زیادہ ہو رہا ہے بعض عربی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 245 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء پروگرام کئے اور کر رہے ہیں اس سے عرب تو بہت خوش ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ذریعہ سے بہت سی بیعتیں بھی ہوئی ہیں.لیکن ہمارے احمدی بھائی جو اس پروگرام کے لئے عرب ملکوں سے آتے ہیں ان کو وہاں انتظامیہ اور حکومت یا حکومتی ادارے کافی تنگ کر رہے ہیں.ضمنا یہ ذکر آ گیا ہے اس لئے ان کے لئے بھی جماعت کو کہتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے.سنگا پور کے بعد آسٹریلیا کا دورہ تھا.یہ ایک وسیع ملک ہے، براعظم ہے، اس لئے یہاں دو ہفتے کا پروگرام بنایا گیا تھا لیکن میرے خیال میں یہ دو ہفتے بھی کم تھے.آسٹریلیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالا نہ بھی ہوا.اور اس دفعہ تو وہاں باہر سے بھی کافی لوگ آ کر شامل ہوئے تھے.وہاں ہماری سڈنی میں جو مسجد ہے، بڑی خوبصورت اور بہت بڑی مسجد ہے اور مین روڈ کے اوپر ہی تقریب واقع ہے اس کا نظارہ بڑا خوبصورت نظر آتا ہے، خاص طور پر رات کے وقت جب روشنی ہو.بلند مینار ہے اور ساتھ گنبد.جماعت کو یہ بہت اچھی جگہ مل گئی ہے اور اس جگہ کا رقبہ تقریباً28 را یکڑ ہے.اس مسجد کا افتتاح بھی حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.اب جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے آسٹریلیا جماعت کا اس پلاٹ میں ایک ہال تعمیر کرنے کا ارادہ ہے.اس کا سنگ بنیاد بھی میں نے رکھا.ان کا ارادہ یہ خلافت جو بلی سے پہلے تیار کرنے کا ہے.اور اس کا نام بھی انہوں خلافت سینٹینری ہال (Khilafat Centenary Hall) رکھا ہے.اس عمارت میں گیسٹ ہاؤس بھی ہو گا، ہال بھی ہوں گے، ذیلی تنظیموں کے دفاتر بھی ہوں گے اور دیگر ضروریات بھی ہوں گی.یہ کافی بڑا منصوبہ ہے.پھر بریسبن میں دس ایکڑ زمین کا ایک رقبہ خریدا گیا اس میں بھی نمازوں کے لئے ہال اور مشن ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس وغیرہ تعمیر کیا گیا ہے.اس سارے کمپلیکس کا بھی افتتاح ہوا.اسی طرح ایڈیلیڈ میں بھی جماعت نے جگہ حاصل کی ہے.تقریباً 20 ایکڑ جگہ ہے.یہاں فی الحال عارضی تعمیر کی گئی ہے، آئندہ انشاء اللہ یہاں بھی مسجد کا منصوبہ ہے لیکن جگہ اچھی ہے.یہاں پر اولو (Olive) کا پرانا باغ لگا ہوا تھا.پلا پلا یاز میتون (Olive) کا باغ بھی ان کو مل گیا.پھر سڈنی میں اور کینبرا میں ریسیپشن (Reception) بھی ہوئی.سڈنی کی Reception مسجد کے احاطے میں ہی تھی.و ہیں مہمان آئے تھے اور کینبرا کی Reception وہاں کے نیشنل میوزیم نے آرگنا ئز کی تھی.ایم ٹی اے پر آپ نے کچھ دیکھا بھی ہوگا.دونوں جگہ اچھے پڑھے لکھے لوگ، سیاستدان اور مختلف ملکوں کے ایمبیسیڈ رز آئے ہوئے تھے.آسٹریلیا میں کافی تعداد میں جین احمدی بھی اب آ کر آباد ہو گئے ہیں اور اسی طرح دوسرے جیئن بھی جن میں لاہوری یا پیغامی جماعت کے ہمارے سے ہٹے ہوئے دوست بھی کافی آباد ہوئے ہیں.تو اس Reception میں بھی دو خاندان لاہوری احمدیوں کے آئے ہوئے تھے ، اچھے شریف kh5-030425
246 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء لوگ تھے.جماعت کے افراد سے دوستانہ تعلقات ہیں.صرف ایک جھجک ہے.ان کے چہروں سے لگتا ہے کہ اب یہ مانتے ہیں کہ یہ جماعت اصل جماعت احمدیہ ہے، یہی حق پر ہے.لیکن قبول کرنے میں جھجک ہے.تو میں نے تو ان میں سے ایک دو کو کہا تھا کہ جھجک توڑیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکمل دعاوی پر ایمان لائیں.بظاہر تو انہوں نے غور کرنے کو کہا.اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق بھی دے.Reception میں اسلام کی امن کی تعلیم کے بارے میں بھی کچھ کہنے کی توفیق ملی.اسکے بعد پھر کئی ملنے والے ملے اور بہت ساری غلط فہمیاں دور کرنے کا شکریہ ادا کیا.اس Reception میں وہاں کے اٹارنی جنرل بھی آئے ہوئے تھے انہوں نے مجھے بعد میں کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اسلام کے بارے میں بہت کچھ پتہ ہے لیکن تم نے بعض بالکل نئی باتیں بتائی ہیں.ان لوگوں سے کافی باتیں بھی ہوتی رہیں.کینبر ا وہاں کا لیپیٹل (Capital) ہے کینبرا (Canbra) میں جس میوزیم میں Reception کا انتظام کیا گیا تھا وہ وہاں کا نیشنل میوزیم ہے وہاں مختلف ملکوں کے ایمبیسیڈ رز بھی آئے ہوئے تھے، امریکہ کے بھی شاید ایمبیسیڈ رنمبر دو موجود تھے اور اس طرح دوسرے ملکوں کے سفراء بھی تھے ، آسٹریلیا کے امیگریشن منسٹر بھی تھے اور سینٹ کے ممبر بھی تھے، مختلف چرچوں کے بڑے پادری بھی تھے تو وہاں بھی امن کے بارے میں اسلام کی تعلیم بتانے کا موقع ملا کہ کیا ہے.اس میں میں نے بتایا، کہ ہر مسلمان کا عمل چاہے وہ اسلام کے نام پر کرے یا ذاتی حیثیت سے کرے اگر اس کا کوئی بھی فعل معاشرے کے امن کو نقصان پہنچانے والا ہے تو تم لوگ فوراً اس کو اسلام کے کھاتے میں ڈال کر اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنا شروع کر دیتے ہو.اگر کوئی عیسائی ایسی حرکت کرے یا دوسرے مذاہب والے کریں تو اس کو اس کے مذہب سے منسوب نہیں کیا جاتا کہ یہ اس مذہب کے ماننے والے نے حرکت کی ہے.بعد میں وہاں پر امیر جماعت آسٹریلیا محمود احمد بنگالی صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک سفیر جو ایک اسلامی ملک کے سفیر ہیں اور جہاں احمدیت کی مخالفت بھی آجکل زوروں پر ہے وہ محمود صاحب کو کہنے لگے کہ یہ بات جو انہوں نے کی ہے.( جو وہاں میں نے Reception میں تقریر کی تھی مختصر سا خطاب کیا تھا.) بڑی سچی بات ہے لیکن ایسے مجمع میں جہاں بڑے بڑے ملکوں کے نمائندے ہوں تم لوگ ہی یہ کہہ سکتے ہو، ہم میں تو اتنی جرات نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور سمجھ دے اور یہ اس زمانے کے امام کے انکاری ہونے کی بجائے اس کو ماننے والے بن جائیں جس نے اسلام کی خوبیوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے ماننے والوں کے ایمان میں ترقی کا ذریعہ بنے ہیں.جب اس غلام صادق کو مان لیں گے تو یہ جراتیں اور تو ہمتیں خود بخود پیدا ہو جائیں گی اور کسی کو جرات نہیں رہے گی کہ اسلام پر اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہودہ اور لغو حملے کر سکیں.تو جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ وہاں پادری بھی آئے ہوئے تھے وہ وہاں کے kh5-030425
247 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم بڑے چرچوں کے نمائندے تھے انہوں نے بھی مجھے بعد میں یہ کہا کہ بات تو تم نے ٹھیک کی ہے کہ مسلمان کی ہر غلط حرکت اسلام کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے اور باقی مذہب والوں سے ایسا سلوک نہیں ہوتا.ان کے دلوں پر اس وقت کیا بیتی ہے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے.لیکن بہر حال کافی دیر اچھے ماحول میں میرے ساتھ احمدیت اور جماعت کے حالات اور اس طرح کے دوسرے موضوعات پر باتیں کرتے رہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف طبقوں میں اور مختلف ملکوں کے نمائندوں تک بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملتی رہی اور تربیتی کاموں کی بھی توفیق ملتی رہی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہتر نتائج ظاہر فرمائے.آسٹریلیا کے بعد نجی کا دورہ تھا.یہاں بھی جلسہ تھا اور اللہ تعالی کے فضل سے جلسہ میں جماعتی تربیتی امور پر باتیں ہوئیں.یہاں مختلف جگہوں پر چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں.جزائر فجی میں جو ایک بڑا مین جزیرہ ہے وہ نبی کہلاتا ہے، اس میں چار جماعتوں میں جانے کی توفیق ملی اور اس کے علاوہ دو جزیروں میں(VANUALEVU) وانوالیو اور تاوے یونی.اگر میں صحیح تلفظ بول رہا ہوں تو ) بہر حال وہاں بھی میں گیا.پھر مارو جو نجی میں ناندی کے قریب جگہ ہے یہاں بھی لجنہ ہال کا افتتاح تھا.چھوٹی مسجد کے احاطے میں ہے، یہاں بھی گیا.نبی بھی ایک بہت خوبصورت ملک ہے اور قدرتی حسن اور خوبصورتی کے لحاظ اس کا مقابلہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ یہاں کے لوگوں کو بھی حقیقی حسن کی پہچان کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کا حسن ہے اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیم کا حسن ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ہے.یہ نفی کے رہنے والے احمدیوں کا کام ہے کہ اس پیغام کو اس حسن کو ، اس خوبصورتی کو اپنے ہم قوموں تک پہنچائیں.جیسا کہ میں ذکر کر رہا تھا ایک اور جزیرے میں بھی چھوٹے جہاز پر جانے کا موقع ملا، لمباسہ ان کا ایک شہر ہے وہاں پہنچے جہاں سے پھر تقریباً 40-45 منٹ کی ڈرائیو (Drive) پر ایک چھوٹا قصبہ ہے.یہاں جماعت نے تین سال پہلے ایک ہائر سیکنڈری سکول قائم کیا تھا.ماشاء اللہ عمارت وغیرہ بڑی اچھی ہے اور طلباء کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے بالکل ریموٹ (Remote) علاقے میں دور دراز علاقے میں ہے.یہاں نئے ہوم اکنامکس بلاک کا بھی افتتاح کیا.اس دور دراز علاقے کے احمدیوں سے بھی ملاقاتیں کیں جن کا فنجی آنا مشکل تھا.پھرتاوے یونی جہاں ڈیٹ لائن گزرتی ہے وہاں بھی گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کو پورا ہوتے دیکھا.وہاں جو بورڈ لگایا ہوا ہے اس میں ڈیٹ لائن کو جس طرح نقشے پر سے گزارا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ اس جزیرے کو جہاں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے وہ کل یعنی گزری ہوئی کل Yesterday لکھا ہوا ہے اور جہاں ابھی سورج چڑھنا ہے یعنی مغرب اس کو kh5-030425
اس پرتی 248 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء Today لکھا ہوا ہے یعنی آج.ہمارے ساتھ ہمارے ایک احمدی جغرافیہ دان تھے.ان سے میں نے پوچھا کہ یہ کس طرح ہو گیا کہ آج کی تاریخ تو سوائے اس جگہ کے اور کہیں نہیں ہے اس کو آپ Yesterday کہہ رہے ہیں اور جہاں یہ تاریخ ابھی شروع ہونی ہے اس کو Today لکھا ہوا ہے.انہوں نے پہلے بڑی دلیلیں دیں لیکن بعد میں چپ کر گئے.پتہ نہیں کہ واقعی ان کو سمجھ آ گئی تھی اور چپ کر گئے تھے یا لحاظ میں چپ کر گئے تھے یا کنفیوژن تھی.بہر حال میں نے انہیں کہا.جو بھی ہے آپ خود پہلے پر کلیئر (Clear) ہوں پھر مجھے بتائیں کہ کیا وجہ ہے.یہ ضمناً اس لئے میں نے ذکر کر دیا کہ مجھے تو اس کی سمجھ نہیں آئی.جغرافیہ دان یا جو دوسرے اس کا علم رکھنے والے ہیں اگر وہ اس کی مجھے کوئی وضاحت کر سکیں جس سے اس کا جواز سمجھ آ سکے تو وہ علم میں اضافے کا موجب ہوگا.بظاہر تو میرا خیال ہے یہ مغرب والوں کا چکر ہے کہ اپنے آپ کو Today بنایا ہوا ہے اور دوسروں کو پیچھے کر دیا.اس جزیرے میں بھی یہاں شہریوں کے مختلف طبقات اور چرچ کے پادری جو بنیادی طور پر نیوزی لینڈ کے رہنے والے تھے ان کو بھی اسلام کے امن اور بھائی چارے کا پیغام پہنچایا.نبی میں صووا جو ان کا لیپٹیل ہے، اس میں بھی ایک پڑھے لکھے طبقہ میں جس میں سرکاری افسران بھی تھے بعض ملکوں کے سفیر بھی تھے Reception پر بلایا ہوا تھا بلکہ اس ملک کے نائب صدر جو آجکل قائمقام صدر بھی ہیں وہ بھی اس میں آگئے.اس میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم اور محبت اور بھائی چارے کے بارے میں بیان کیا.برطانیہ کے سفیر بھی اس میں شامل ہو گئے تھے، اسی طرح آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں کے بھی.اچھی گیدرنگ (Gathering) تھی.ہوتے تو یہ لوگ سیاستدان اور مذہب سے لاتعلق ہیں لیکن ان کا شاید اس حد تک فائدہ ہو جاتا ہو کہ اسلام کی کسی حد تک صحیح تصویر ان کے سامنے آ جاتی ہے اور پھر بلا وجہ جو دل کے بغض اور کینے اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں ہوتے ہیں وہ اگر ختم نہیں ہوتے تو کم از کم کم ہو جاتے ہیں اور یہ بھی ان کو پتہ چل جاتا ہے کہ جماعت احمد یہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے والی جماعت ہے.نجی میں ہی ایک دن میں صبح اٹھا ہوں.فجر کی نماز کی تیاری کر رہا تھا تو پاکستان سے ناظر صاحب اعلیٰ کا فون آیا کہ خیریت ہے.خبر آئی ہے کہ بڑا سخت سونامی (Tsunami) کا خطرہ ہے.اس دن نیوزی لینڈ بھی جانا تھا وہاں بھی کچھ علاقوں میں خطرہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ زلزلے کا سارا اثر پانی کے اندر ہی دب کر رہ گیا.خبروں میں جو بی بی سی کے ذریعہ سے میں تفصیل سن رہا تھا اس سے لگتا تھا کہ ٹونگا، جس کے قریب یہ زلزلہ آیا تھا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا.نماز پر جب میں نے وہاں کے مقامی لوگوں سے پوچھا کہ ٹونگا کا کیسا علاقہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ بالکل پلین (Plain) ہے.تو یہاں ہماری نئی kh5-030425
249 خطبات مسرور جلد چہارم خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء نئی جماعت ابھی قائم ہوئی ہے.نبی کے جلسے پر بھی یہ لوگ آئے ہوئے تھے اور بڑے مخلص لوگ تھے.اس بات پر کہ قریب ہی زلزلہ بھی ہے، سونامی کا خطرہ بھی ہے، پہاڑی علاقہ بھی نہیں اونچا پہاڑی علاقہ ہو تو محفوظ ہونے کا امکان ہوتا ہے.تو ان کے لئے فکر پیدا ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا نماز پڑھ کر جب واپس آئے تو خبر تھی کہ سب محفوظ ہے اور ٹونگا سے ہی کسی عورت کا پیغام بی بی سی والے سنا رہے تھے کہ یہ ختم ہو گیا.اللہ کرے کہ دنیا اب وقت کے امام کو پہچان لے اور ان آفات سے محفوظ ہو جائے.ورنہ آج یہاں اور کل وہاں جو طوفان آ رہے ہیں اور بظاہر جو بعض جگہوں کو بڑا نقصان نہیں ہورہا تو یہ وارننگ ہے.اگر آج بھی خدا کو نہ پہچانا تو جو تباہیوں کے نمونے ہم نے دیکھے ہیں وہ دوبارہ بھی نظر آ سکتے ہیں.اللہ رحم کرے.آج ہر ملک کے احمدی کو چاہئے کہ اپنے ملک کے لوگوں کو یہ پیغام پہنچانے میں لگ جائیں ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نہ جزائر محفوظ رہیں گے، نہ یورپ محفوظ رہے گا، نہ امریکہ محفوظ رہے گا، نہ ایشیا محفوظ رہے گا.خدا ان لوگوں کو عقل اور سمجھ دے اور وہ اپنے خدا کو پہچاننے والے ہوں.نجی میں قریب کے جزائر میں طوالو ہے، کر باتی ہے، ٹونگا ہے جس کا میں نے ذکر کیا اور ونواٹو ہے.یہاں سے بھی نمائندے آئے ہوئے تھے.مالی لحاظ سے ان لوگوں کے اتنے اچھے حالات نہیں ہیں، غریب لوگ ہیں.لیکن اس کے باوجود بعض خاندان وہاں آئے ہوئے تھے.چند سال پہلے وہ احمدی ہوئے ہیں.لیکن جذبات اور اخلاص کا اظہار بہت زیادہ تھا.ان ملکوں کے نمائندوں سے بھی میٹنگ ہوئی اور تبلیغی اور تربیتی منصوبوں کے بارے میں ان کو سمجھایا.اللہ تعالیٰ اپنا نور مکمل طور پر ان چھوٹے چھوٹے جزیروں میں پھیلا دے جہاں چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں اور مکمل طور پر ان کو احمدیت اور حقیقی اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے اور قبول فرمائے.فنجی کے بعد نیوزی لینڈ کا دورہ تھا.اللہ کے فضل سے یہاں کی جماعت کافی بڑھ گئی ہے اور اکثریت نجین احمدیوں کی ہے.نجی سے لوگ مائیگریٹ (Migrate) کر کے یہاں نیوزی لینڈ آ گئے ہیں.گو کہ یہاں ابھی تک مبلغ نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان لوگوں نے اپنے آپ کو سنبھالا ہوا ہے.اچھا انتظام کیا ہوا تھا.یہاں بھی Reception تھی.یہاں بھی وہی اسلام کی تعلیم بیان کرنے کی توفیق ملی.وہاں کے مقامی ماؤری قبیلے کے جو بڑے سردار تھے اور پارلیمنٹ میں ایم پی بھی ہیں وہ بھی آئے ہوئے تھے اور ایک منسٹر بھی آئے ہوئے تھے.ابھی تک مقامی جماعت مسجد کی باقاعدہ شکل بنانے اور مبلغ بلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی.اور زیادہ تر ان کے نزدیک حالات کی وجہ سے مصلحت کے چکر میں وہ kh5-030425
250 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء پڑے ہوئے تھے.جو وزیر آئے ہوئے تھے ان موصوف سے میں نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ بظاہر تو کوئی روک نہیں ہے آپ مسجد بھی باقاعدہ بنا سکتے ہیں اور بنا ئیں.اس وقت وہاں آکلینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے اڑھائی ایکٹر زمین خریدی ہوئی ہے اور اس میں تعمیر بھی ہوئی ہے.دو بڑے ہال ہیں، گو جماعت پوری کی پوری اس میں نماز پڑھ سکتی ہے دفتر ہے لائبریری وغیرہ ہے، گیسٹ ہاؤس ہے لیکن مسجد کی با قاعدہ شکل یعنی مینارے وغیرہ کے ساتھ مسجد نہیں بنائی گئی گو کہ ہال قبلہ رخ ہے.جس طرح میں نے کہا، مشنری کی بھی ان سے بات کی تو انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ مدد کریں گے.اب وہاں کے نیشنل پریذیڈنٹ صاحب کا کام ہے کہ ان سے رابطہ کریں.اور مشنری بلوانے کی کوشش کریں.اگر مبلغ آ جائیں تو تربیت میں بہت فرق پڑتا ہے.اللہ کرے کہ یہ وزیر صاحب بھی اپنے وعدے کے پابند ر ہیں اور جماعت کسی مصلحت کا مزید شکار نہ ہو.ویسے ماشاء اللہ اچھی مخلص جماعت ہے اور بڑی ہمت اور اخلاص سے سب نے ڈیوٹیاں وغیرہ بھی دیں.نوجوانوں نے بھی ، ان کے لئے پہلا موقع تھا اتنے بڑے انتظام کا اور ذمہ داری کے ساتھ انتظام کو نبھانے کا اور انہوں نے نبھایا اور اچھا نبھایا.جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ آسٹریلیا میں فحسین لاہوری احمدی تھے جو یہاں بھی ہیں.نجی سے نیوزی لینڈ میں بھی آکر آباد ہوئے ہیں.اور تین چار نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں.ان لاہوری محین میں سے بہت سارے جماعت میں داخل بھی ہو چکے ہیں اور خلافت سے کامل اطاعت رکھتے ہیں.وہاں ایک دو خاندان، ویسے تو کئی ہوں گے، ابھی ایک دو خاندان ایسے ہیں جو جماعت کے مزید قریب آرہے ہیں یا کم از کم تعلق کی وجہ سے آجاتے ہیں، جلسے پر بھی آئے ہوئے تھے.ایک فیملی نے ان میں سے مجھ سے بعد میں وقت لیا.کوئی آدھ گھنٹے تک ان کو میں نے سمجھایا.ان کا بیٹا احمدی ہو گیا تھا.اچھا مخلص نوجوان ہے اس نے بڑے درد سے مجھے کہا تھا کہ دعا کریں کہ میرے ماں باپ بھی احمدیت قبول کر لیں.تو بہر حال ان کے ماں باپ سے بھی کافی تفصیلی بات ہوئی.باپ کچھ زیادہ اکھڑ تھے، بوڑھے زیادہ نہیں تھے.60 سال کے تھے لیکن اکھڑ پن بعض طبیعتوں میں آجاتا ہے.اسی بات پر اڑے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی نہیں ہیں اور لٹریچر انہوں نے پڑھا نہیں ہوا تھا.ان کو میں نے کہا کہ آپ اور کچھ نہ پڑھیں ، ایک چھوٹی سی کتاب ہے ایک غلطی کا ازالہ وہ پڑھ لیں.اور بھی کئی جگہ پر ( یہ بحث ) ہے لیکن اس سے آپ کی تسلی ہو جائے گی.تو بہر حال انہوں نے کہا اچھا میں دیکھوں گا ، پڑھوں گا.بیٹے نے کہا میرے پاس ہے.باپ کہنے لگے کہ مجھے سوچنے کا موقع دیں.ویسے وہاں مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ان (پیغامیوں) کی جو انتظامیہ ہے اس کی طرف سے یہ ( ہدایت) ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 251 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء کا لٹریچر سارا نہیں پڑھنے دیتے یا شائع نہیں کرتے تا کہ ان کو نبوت کے بارے میں صحیح حقیقت نہ پتہ لگ جائے.لیکن ان سے ملاقات کے دوران میں یہ دیکھ رہا تھا کہ ان کی اہلیہ کے چہرے پر ایک تبدیلی آرہی ہے.اور وہ تبدیلی چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی.اگلے دن پھر وہ اپنے بیٹے کے ساتھ آئیں اس سے پہلے انہوں نے بیعت فارم بھی بھیج دیا اور آنسوؤں سے رونے لگیں اور کہا کہ میرا میاں تو احمدی ہوتا ہے یا نہیں.آپ میری بیعت لے لیں مجھے آپ کی باتیں سن کر تسلی ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو استقامت عطا فرمائے اور ان سب بچھڑے ہوؤں کو عقل اور سمجھ عطا کرے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام دعاوی کو ماننے والے ہوں اور حقیقت کو پہچاننے والے ہوں.Reception کا میں نے ذکر کیا تھا.ماؤری قبیلے کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے جیسا کہ میں نے کہا، جو لیڈر بھی ہیں اور پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں انہوں نے بھی اس کے بعد مجھے کہا کہ ( آپ نے) اسلام کی بڑی خوبصورت تعلیم بیان کی ہے.یہی انصاف ہے اور یہی ہم چاہتے ہیں کیونکہ وہ لوگ بڑا محروم طبقہ ہے اس لحاظ سے کہ مقامی لوگ ہیں لیکن ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں.باہر والوں نے ان جزیروں پر بھی قبضہ کر لیا.اللہ تعالیٰ ان کو صرف اچھا کہنے والے نہ بنائے بلکہ حقیقت کو سمجھنے والا بھی بنائے.اس کو قبول کرنے والے ہوں.آسٹریلیا کے ضمن میں ایک بات رہ گئی تھی.وہاں سالو من آئی لینڈز سے چھ مقامی احمدیوں کا ایک وفد جلسے پر آیا تھا ماشاء اللہ وہ لوگ بھی اخلاص میں بڑی ترقی کر رہے ہیں.ان میں ایک وہاں کے رائل خاندان کے ہیں جس میں سے ایک شخص چیف چنا جاتا ہے، نو احمدی ہیں.ان کے آئندہ چیف چنے جانے کے بھی امکانات ہیں.اچھے پڑھے لکھے ہیں اپنے پورے خاندان کے ساتھ احمدی ہوئے تھے.وہاں اللہ کے فضل سے کافی خاندان احمدی ہو گئے ہیں.اب سالومن آئی لینڈز میں جماعت نے گزشتہ سال زمین خرید کر مشن ہاؤس بھی خرید لیا ہے.گھانا سے معلم بھی بھیجے ہوئے ہیں.ان چیف کے ماتحت وہاں کچھ جزیرے بھی ہیں اور کشتیوں پر ہر جزیرے سے رابطہ ہے اور ان کا آپس میں کئی گھنٹوں کا سفر ہوتا ہے.بہر حال اس احمدی نے اپنے چیف بننے کے لئے دعا کے لئے بھی کہا.اللہ کرے کہ جب وقت آئے تو اللہ تعالیٰ ان کو موقع دے اور پھر ان کے ذریعے تمام جزائر کو احمدیت میں شمولیت کی توفیق بھی دے.کیونکہ بہت سارے لوگ چیف کو بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں.یہ نو احمدی اخلاص میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ ان کی شکل دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یہ نو احمدی ہیں اس طرح اخلاص ، وفا، ادب، احترام، حیا آنکھوں میں تھی اور ہر عمل سے ٹپک رہی تھی کہ دیکھ کے حیرت ہوتی تھی حالانکہ وہاں کے مقامی لوگ ہیں kh5-030425
252 خطبات مسرور جلد چہارم خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء اور پھر انہوں نے وصیت کے نظام میں بھی شمولیت اختیار کر لی ہے.تو یہ جو عجیب عجیب نظارے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کے کئے گئے وعدے کے مطابق ہیں کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ، ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں.اور خود اللہ تعالیٰ اس کا انتظام فرما رہا ہے.ان کے دلوں میں احمدیت اور حقیقی اسلام کی محبت گڑتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اخلاص و وفا میں مزید بڑھاتا چلا جائے.نیوزی لینڈ میں ڈاکٹر کلیمنٹ ریگ کے پوتے اور پوتی سے بھی ملنے کا موقع ملا.ان سے رابطہ بھی اللہ کے فضل سے اتفاق سے ہو گیا.پہلے تو مجھے نصیر قمر صاحب نے چلنے سے پہلے لکھا تھا کہ اس طرح یہ وہاں رہتے ہیں.اور ان کے بارے میں بتاتا ہوں کہ کون تھے.پھر نیشنل پریذیڈنٹ کو ہم نے لکھا انہوں نے انٹرنیٹ پر مختلف آرگنائزیشن سے رابطہ کر کے پتہ کروایا کیونکہ یہ ایک مشہور سائنسدان تھے، ان کے خاندان کا پتہ لگ گیا.یہ ڈاکٹر کلیمنٹ صاحب جو ہیں یہ 1908ء میں ہندوستان آئے تھے اور یہ مختلف جگہوں پر یچر دیتے رہے.نیوزی لینڈ کے رہنے والے تھے اور آسٹرانومی کے ماہر تھے.لاہور میں جب انہوں نے لیکچر دیئے تو وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو پتہ چلا انہوں نے ان کا لیکچر سنا اور اس کے بعد ان سے رابطہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں بتایا تو ڈاکٹر کلیمنٹ نے حضرت مسیح موعود کو ملنے کی خواہش کا اظہار کیا.پہلے تو کہا کہ ابھی چلیں میرے ساتھ.انہوں نے کہا ابھی تو نہیں چل سکتے ، وقت لے کے.تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وقت لیا اور 12 مئی 1908 ء کو پہلی ملاقات ہوئی اور پھر 18 مئی 1908 کو دوسری ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وقت لے کے انہوں نے کی اور بڑی تفصیل سے مختلف موضوعات پر سوال و جواب ہوئے.کائنات کے بارے میں روح کے بارے میں، مذہب کے بارے میں ، خدا تعالیٰ کے بارے میں.تو بہر حال ان سوالوں کی ایک لمبی تفصیل ہے، جو ملفوظات میں بھی اور ریویو کے انگریزی حصے میں بھی چھپی ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب نے اس گفتگو کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عرض کیا.میں تو سمجھتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے جیسا کہ عام طور سے علماء میں مانا گیا ہے مگر آپ نے تو اس تضاد کو بالکل اٹھا دیا ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں.پھر ڈاکٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود کا شکریہ ادا کیا اور اس گفتگو کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دوسمنگز (Sittings) ہوئی تھیں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت پر جو اس کے اثرات تھے.اس کا ذکر حضرت مفتی صادق صاحب نے پھر ایک اور مجلس میں حضور کی خدمت میں کیا.یہ 23 مئی وفات سے چند دن قبل کا واقعہ ہے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 253 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء کہ اس کی طبیعت میں اتنا فرق پڑ گیا ہے کہ بالکل خیالات بدل گئے ہیں.کہیں تو وہ حضرت عیسی کی مثالیں دیا کرتا تھا اور کفارہ کا ذکر کیا کرتا تھا مگر اب اپنے لیکچروں میں خدا کی کبریائی اور بڑائی بیان کرتا ہے.اور پہلے ڈارون کی تھیوری کا قائل تھا مگر اب کیفیت یہ ہے کہ ڈارون کا قول ہے اس طرح ذکر کر کے بات کرتا ہے.اور اپنے لیکچروں میں یہ شروع کر دیا ہے جو حضرت مسیح موعود نے اس کو سمجھایا تھا کہ حقیقت میں انسان اپنی حالت میں خود ہی ترقی کرتا ہے.تو یہ ڈاکٹر صاحب بعد میں حضرت مفتی صاحب سے رابطہ میں رہے گو کہ صحیح ریکارڈ نہیں ہے لیکن غالب امکان ہے کہ حضرت مسیح موعود کی صحبت کی وجہ سے ایمان لے آئے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے.ان کے پوتے اور پوتی کو جب پتہ چلا ان سے رابطہ کیا ان کو بتایا کہ میں اس طرح آ رہا ہوں اور ملنا بھی ہے تو انہوں نے بھی ملنے کا اظہار کیا اور Reception میں آئے اور بعد میں دونوں بیٹھے بھی رہے باتیں ہوتی رہیں دونوں کافی بڑی عمر کے ہیں.یعنی بڑی عمر سے مراد 60-55 سال کے.پوتے کو زیادہ علم نہیں تھا لیکن پوتی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مسلمان ہو گئے تھے اور ہندوستان سے واپس آنے کے بعد پہلی بیوی نے علیحدگی لے لی تھی.انہوں نے دوسری شادی ہندوستان میں کی تھی اور بتایا کہ ہم اس دوسری بیوی کی نسل میں سے ہیں.مزید میں نے استفسار کیا کا غذات کے بارے میں کہ کس طرح مسلمان ہوئے ، کب بیعت کی ، کس طرح کیا.انہوں نے بتایا کہ ان کے بہت سارے کاغذات تھے لیکن آگ لگنے کی وجہ سے وہ سارا ریکارڈ ضائع ہو گیا، کوئی خط و کتابت محفوظ نہیں ہے.لیکن بہر حال اس بات پر انہوں نے یقینی کہا کہ ان کی موت اسلام کی حالت میں ہوئی تھی اور وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے رہے تھے.اور اس لحاظ سے قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے تھے اس لئے احمدی ہوئے ہوں گے.بہر حال ان کی قبر بھی وہاں قریب ہی آکلینڈ میں ایک جگہ پر ہے.ان کے پوتے اور پوتی کو بھی لٹریچر دیا.نیوزی لینڈ کے پریذیڈنٹ صاحب کو بھی کہا کہ ان سے رابطہ رکھیں.اللہ کرے کہ ان لوگوں کے دل میں بھی حق کی پہچان کی طرف توجہ پیدا ہو جائے.پھر اس سفر کا آخری ملک جاپان تھا یہاں کا بھی دورہ تھا.یہاں بھی اللہ کے فضل سے جاپانی جو مقامی ہیں اس وقت 10-12 ہیں، جنہوں نے رابطہ کیا تھا یا رابطے میں کچھ نہ کچھ رہتے ہیں ان کے مسائل حل کرنے اور تربیتی امور پر توجہ دلانے اور اس طرح باقاعدہ باقی جماعت کو بھی تربیتی امور کی طرف توجہ دلانے کی توفیق ملی.جلسہ بھی ہوا.جاپانی احمدیوں میں ان دنوں میں جتنے دن میں وہاں رہا پہلے دن جوان کا رویہ تھاوہ میں دیکھتارہا ہوں ہر روز اس میں ایک تعلق اور وفا کی کیفیت بڑھتی رہی ، تبدیلی محسوس ہوتی رہی.اللہ کرے کہ یہ لوگ بھی اپنی قوم میں اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کا ذریعہ بن جائیں اور حضرت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 254 خطبہ جمعہ 19 رمئی 2006 ء مسیح موعود کی خواہش کو پورا کرنے والے ہوں جو آپ نے جاپان کے بارہ میں کہی تھی کہ ان لوگوں میں مذہب کی طرف رجحان ہے.یہاں جاپان میں بھی کئی منسٹرز اور ایم پی وغیرہ ملنے کے لئے آئے تھے، Reception میں بھی آئے تھے.اچھا اثر لے کر گئے ہیں.ایک ممبر پارلیمنٹ نے تو مجھے کہا کہ ہمیں اسلام کے بارے میں زیادہ پتہ نہیں ہے اس لئے ہم جلد ہی مغرب کے معترضین کے زیر اثر آ جاتے ہیں ہمیں اسلام کے بارے میں بتائیں.ان سے علیحدہ بھی کافی لمبی گفتگو ہوتی رہی.اللہ کرے کہ وہاں کی جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اسلام کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کرنے والی بنے.سب دعا کریں کہ اس سفر کے بہترین نتائج نکلیں اور جلد سے جلد ہم اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو ہر ملک میں لہراتا دیکھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کے مطابق ہر روز خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تاثیرات سے نور اور یقین پانے والے ہوں.آمین kh5-030425
خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء 255 (21) خطبات مسرور جلد چہارم یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے ہمارے احمدی معاشرہ میں ہر سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ احمدی نسل میں پاک اور صاف سوچ پیدا کی جائے.جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ حسد ، بدگمانی ، بدظنی اور دوسرے پر عیب لگانے اور جھوٹ ایسی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے مہم چلائی جائے فرمودہ مورخہ 26 مئی 2006ء (26 / ہجرت 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے کسی ناراضگی یا کسی غلط فہمی یا بدظنی کی وجہ سے اس حد تک اپنے دلوں میں کینے پالنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے شخص کا مقام اوروں کی نظر میں گرانے کے لئے ،معاشرے میں انہیں ذلیل کرنے کے لئے ، رسوا کرنے کے لئے.ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے پھر اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور اس بات سے بھی دریغ نہیں کرتے کہ یہ من گھڑت اور جھوٹی باتیں مجھے kh5-030425
256 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم پہنچائیں تا کہ اگر کوئی کارکن یا اچھا کام کرنے والا ہے تو اس کو میری نظروں میں گرا سکیں.اور پھر یہی نہیں بلکہ بڑے اعتماد سے بعض لوگوں کے نام گواہوں کے طور پر بھی پیش کر دیتے ہیں اور جب ان گواہوں سے پوچھو، گواہی و تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ گواہ بیچارے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں جس کی گواہی ڈلوانے کے لئے کوشش کی جارہی ہے.اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ میں ان جھوٹی باتوں پر یقین کر کے جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے ضرور اسے سزا بھی دوں.گویا یہ شکایت نہیں ہوتی ایک طرح کا حکم ہوتا ہے.بہت سی شکایات درست بھی ہوتی ہیں.لیکن اکثر جو ذاتی نوعیت کی شکایات ہوتی ہیں وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے آتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص مجرم ہے اور اس کو فوری پکڑیں.ان باتوں پر میں خود بھی کھٹکتا ہوں کہ یہ شکایت کرنے والے خود ہی کہیں غلطی کرنے والے تو نہیں، اس کے پیچھے دوسرے شخص کے خلاف کہیں حسد تو کام نہیں کر رہا.اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ حسد کی وجہ سے یہ کوشش کی جارہی ہوتی ہے کہ دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے.یہ حسد بھی اکثر احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اس خیال کے دل میں نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ خدا جھوٹے اور حاسد کی مدد نہیں کرتا.اور حسد کی وجہ سے یا بدظنی کی وجہ سے دوسرے پر الزام لگانے میں بعض لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے.آج کل کے معاشرے میں یہ چیز میں عام ہیں اور خاص طور پر ہمارے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں تو یہ اور بھی زیادہ عام چیز ہے.اور اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی بعض دفعہ ایسی گھٹیا سوچ رکھ رہے ہوتے ہیں اور دنیا میں یہ لوگ کہیں بھی چلے جائیں اپنے اس گندے کریکٹر کی کبھی اصلاح نہیں کر سکتے یا کرنانہیں چاہتے.اور آج کل کے اس معاشرے میں جبکہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے، غیروں سے گھلنے ملنے کی وجہ سے ان برائیوں میں جن کو ہمارے بڑوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر ترک کیا تھا بعضوں کی اولادیں اس سے متاثر ہورہی ہیں.ہمارے احمدی معاشرہ میں ہر سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ احمدی نسل میں پاک اور صاف سوچ پیدا کی جائے.اس لئے ہر سطح پر جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خاص طور پر یہ برائیاں، حسد ہے، بدگمانی ہے، بدظنی ہے دوسرے پر عیب لگانا ہے اور جھوٹ ہے اس برائی کو ختم کرنے کے لئے کوشش کی جائے، ایک مہم چلائی جائے.کچھ عرصہ ہوا ہر برائی کو لے کر میں نے ایک ایک خطبہ بڑی تفصیل سے اس بارے میں دیا تھا اور اللہ تعالی kh5-030425
257 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کے فضل سے اس کے اچھے نتائج بھی نکلے تھے لیکن انسان کی فطرت ہے کہ اگر بار بار یاد دہانی نہ کرائی جائے تو بھول جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فَذَسِحر کا حکم دیا ہے.اس یاددہانی سے جگالی کرنے کا بھی موقع ملتارہتا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو اگر اصلاح کے لئے ذراسی توجہ دلا دی جائے تو اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں.ان کو صرف ہلکی سی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے.ہاں بعض ایسے بھی ہیں جو کوئی نصیحت سن کر یا کوئی خطبہ سن کر جو کبھی میں نے کسی خاص موضوع پر دیا یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں نہیں بلکہ فلاں کے بارے میں ہے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے خطبے کا حوالہ دے کر مجھے بھی لکھتے ہیں کہ آپ نے فلاں خطبہ دیا تھا اس کے حوالے سے میں آپ کو لکھ رہا ہوں کہ فلاں عہد یدار یا فلاں احمدی ان حرکتوں میں ملوث ہے، ان برائیوں میں گھرا ہوا ہے اس کی اصلاح کی طرف آپ توجہ دیں.اور جیسا کہ میں نے کہا اگر تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ اس برائی میں وہ شکایت کنندہ خود گرفتار ہے.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ جب بھی کوئی نصیحت سے یا خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملے میں توجہ دلائی جائے تو سب سے پہلا مخاطب اپنے آپ کو سمجھے.اگر اپنی اصلاح کرنی چاہتے ہیں، اگر معاشرے سے گند ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنا چاہتے ہیں تو یہ تمام برائیاں ایسی ہیں.ان کو اپنے دلوں سے نکالیں.اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ہمیں توجہ دلائی ہے.پس یہ اہم بیماریاں ہیں جو انسان کے اپنے اندر سے بھی روحانیت ختم کرتی ہیں اور پھر شیطانیت کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں اور معاشرے کا امن وسکون بھی برباد کرتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزہ کتاب میں ان سے بچنے کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ ایک مومن ہرلمحہ پاکیزگی اور روحانیت میں ترقی کرتا چلا جائے.اس مقصد کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تا کہ روحانیت میں ترقی کی طرف ہمیں لے کر چلیں اور ایک احمدی نے آپ سے عہد بیعت باندھا ہے.اگر اس عہد بیعت کے بعد بھی برائیوں میں مبتلا رہے اور معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا کرتے رہے تو پھر اس عہد بیعت کا کیا فائدہ ہے.پس ہر ایک کو پہلے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، نیکی کے جو احکامات ہیں انکی جگالی کرتے رہنا چاہئے اور جب اپنے آپ کو ہر طرح سے پاک وصاف پائیں تو پھر دوسرے پر الزام لگانا چاہئے.اب ان برائیوں کے بارے میں ذرا تفصیل سے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے میں حسد کو لیتا ہوں.kh5-030425
258 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے.(ابو داؤد) كتاب الادب، باب فی الحسد و حدیث نمبر (4903 تو اگر انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو تو وہ یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا کہ میرے اندر بڑی نیکی ہے اور یہ کہ یہ نیکی ہمیشہ میرے اندر قائم بھی رہنی ہے.پس اگر کسی سے کوئی نیکی کی بات ہوتی ہے تو اللہ کا خوف رکھنے والے اور حقیقت میں نیک بندے اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کرتے ہیں.اور ہر احمدی کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے نیکیوں کو اپنے اندر قائم رکھنے کی کوشش کرے اور سب سے زیادہ جو نیکیوں کو جلا کر خاک کرنے والی چیز ہے اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں اور جیسا کہ اس حدیث میں جو میں نے پڑھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حسد ہے.پس اس حسد کی بیماری کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں.تمام زندگی کی نیکیاں حسد کے ایک عمل سے ضائع ہوسکتی ہیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان آگ میں داخل نہیں ہوگا جس نے کسی کا فر و مارا ہوگا اور پھر میانہ روی اختیار کی ہو اور مومن کے پیٹ میں اللہ کی راہ میں پڑی ہوئی غبار اور جہنم کی پیپ دونوں جمع نہیں ہوں گے اور نہ کسی شخص میں ایمان اور حسد جمع ہوسکتا ہے.66 ( سنن نسائی، کتاب الجهاد باب فضل من عمل في سبيل الله على قدمه حدیث نمبر (3109) یعنی اس موجودہ زمانے کے لئے اصل میں بعد والی دونوں چیزیں ہیں.یعنی حسد کرنے والے کی حالت ایسی ہے جیسے جہنم کی پیپ پینے والے کی.اللہ تعالیٰ پر جو ایک مومن کا ایمان ہے، حسد اس کو ضائع کرنے کا بھی باعث بنتا ہے.یا حسد کرنا جو ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جہنم میں لے جانے والی چیز ہے.پس یہ انتہائی خوف کا مقام ہے.یہ حسد کرنے والے دوسرے کو عارضی اور وقتی طور پر جو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اس کا تو مداوا ہو جاتا ہے لیکن یہ اس حسد کی وجہ سے اپنے ایمان کو ضائع کر کے پھر جہنم اپنے اوپر سہیٹر رہے ہوتے ہیں.اس لئے کسی کی ترقی دیکھ کر کسی کا خلافت کے ساتھ زیادہ قرب دیکھ کر کسی پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دیکھ کر حسد کرنے کی بجائے اس پر رشک کرنا چاہئے اور خود وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 259 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء سے عرض کی گئی کہ لوگوں میں سے کون افضل ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مغموم القلب اور صدوق اللسان.اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمیں صدوق اللسان کا تو علم ہے.یہ مغموم القلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک وصاف دل جس میں کوئی گناہ ، کوئی کبھی اور کوئی بغض ، کینہ اور حسد نہ ہو.(سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، باب الورع والتقوى حدیث نمبر (4216 پس ایک سچے مسلمان کی نشانی، ایک بچے احمدی کی نشانی اور اس کا مقام یہ ہے کہ مغموم القلب بننے کی کوشش کرے.گناہوں سے بچے ، اپنے دل کے ٹیڑھے پن کو دور کرے، بغض، کینہ اور حسد سے بچتے ہوئے اپنے پر جہنم حرام کرے اور اس دنیا میں بھی پُر سکون زندگی کی وجہ سے جنت حاصل کرنے والا ہو اور آخرت میں بھی جنت کا وارث بنے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں گزشتہ اقوام کی حسد اور بغض کی بیماری راہ پا گئی ہے اور یہ مونڈھ کر رکھ دینے والی ہوتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈھتی ہے بلکہ یہ دین کو مونڈھ دیتی ہے، مجھے قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ اور تم کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں باہمی محبت پیدا نہ کرو اور میں تمہیں اس کا گر بتاتا ہوں وہ یہ کہ تم آپس میں سلام کو رواج دو.(مسند احمد بن حنبل، مسند الزبير بن العوام، جلد نمبر 1 حدیث نمبر 1412صفحه نمبر 451-450 عالم الكتب ایڈیشن 1998ء بيروت) پس یہ بات بھی ہر احمدی کو اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے.آپس کے سلام محبت پیدا کرنے کے لئے ہیں.یہ نہیں ہے کہ اوپر سے تو سلام کر رہے ہوں اور اندر سے بغض اور کینے اور حسد کی وجہ سے دوسروں کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کر رہے ہوں.شکایت کے جھوٹے پلندوں کی بھر مار ہو رہی ہو.اگر دل اس دو عملی سے پاک اور صاف نہیں ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ دل پاک نہیں ہے اور اس میں کامل ایمان بھی نہیں ہے.پھر بغیر سوچے سمجھے دوسرے پر عیب لگانے کی عادت ہے، الزام لگانے کی عادت ہے.ایسے لوگوں کو جو دوسرے پر عیب لگاتے ہیں خدا تعالیٰ نے فاسق اور ظالم کہا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے کہ ولا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقَ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ﴾ (الحجرات : 12) اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام kh5-030425
260 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء بگاڑ کر نہ پکارا کرو، ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے.اور جس نے تو بہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں.پس ہر احمدی کو جس نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے اس کو اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہئے اور اپنے آپ کو اس بُرے نام یعنی فاسق ہونے سے بچانا چاہئے.فاسق وہ شخص ہے جو نیکی سے ہٹا ہوا ہو اور بدکار ہو.پس کسی دوسرے پر بدکاری کا یا کوئی اور الزام لگانے یا عیب تلاش کرنے کی بجائے ، اس کے پیچھے پڑ جانے کی بجائے اور اس وجہ سے خود اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس بات کا مجرم ٹھہر نے کی بجائے ، ہر ایک کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیئے اور اس ظلم سے باز آنا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر وہ بھول جاتا ہے.(الترغيـب و الـتـرهـيـب بـاب الترهيب من ان يامر بمعروف و ينهي عن المنكرجلد نمبر 3 حدیث نمبر 3455 صفحه 242 دار الحديث قاهره ایڈیشن 1994ء) پس اگر اس سنہری اصول کو ہر ایک یادر کھے اور اپنے ایمان پر نظر رکھے اور ہر بات اور ہر عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ خدا تعالیٰ مجھے جو ہر وقت دیکھنے والا ہے، غیب کا بھی علم رکھتا ہے اور موجود کا بھی علم رکھنے والا ہے، دل کا بھی حال جاننے والا ہے، تو بجائے دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے انسان اپنی عاقبت کی فکر میں انسان لگا رہے گا.بشرطیکہ جیسا میں نے کہا اللہ کی ذات پر یقین ہو.اور مجھے امید ہے کہ ایک احمدی کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہے اور میں نے دیکھا ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ یاد دہانی کرانے پر کئی لوگوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اللہ کرے کہ یہ سب ہوتی رہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بدظنی سے بچو، کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو.اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو.اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو.حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ بر تو جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.(مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الظن حدیث نمبر (6431 | مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور وہ اس پر ظلم نہیں کرتا.اسے رسوا نہیں کرتا ، اسے حقیر نہیں جانتا، اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے.یعنی مقام تقویٰ دل ہے اور سب سے بڑا تقویٰ کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے فرمایا ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان کی تین چیزیں، دوسرے مسلمان پر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 261 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء حرام ہیں.اس کا خون، اس کی آبرو اور اس کا مال.(مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم و خذله.....حدیث نمبر 6436) اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھتا، نہ تمہاری صورتوں کو اور نہ تمہارے اموال کو بلکہ اس کی نظر تمہارے دلوں پر ہے.اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو، دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو.اور اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.(مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم و خاله......حدیث نمبر 6437-6438 | (مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم و خذله.حدیث نمبر 6436) پس یہ وہ معیار ہے جو ایک احمدی کو حاصل ہونا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لیتا ہے، جس کی اعلیٰ مثال ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی ہے.فرمایا کہ عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو.یعنی عیب تلاش کروں پھر اس کی مشہوری کروں اور پھر اس کو بدنام کروں اس معاملے میں نہ لگے رہو کیونکہ اس سے معاشرے میں فساد پیدا ہوتا ہے، بگاڑ پیدا ہوتا ہے.پس ان چیزوں سے بچنا چاہئے.یہاں فرمایا کسی عیب کی ٹوہ میں نہ لگے رہو.اگر کسی میں برائی بھی ہے تب بھی اس کو تلاش نہ کرو.کجا یہ کہ جو برائی ہو بھی نہ وہ بھی کسی کی طرف منسوب کر کے پھر اس کو معاشرے میں بدنام کیا جائے.ایک احمدی کا تو کام ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کی حفاظت کرے جو ایک مسلمان کا فرض ہے نہ کہ اس کو بدنام اور رسوا کرے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو دردانہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آگ سے اس کے چہرے کی حفاظت فرمائے گا.(ترمذی.كتاب البر والصله باب ماجاء في الذب عن عرض المسلم حديث نمبر (1931) پس ہر وقت اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کتنے گناہ انسان سے سرزد ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کسی کو اگر پکڑنے لگے تو انسان کا تو کچھ بھی نہیں رہتا.اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ دوسرے کی عزت کی حفاظت کرے تاکہ اپنے چہرے کو آگ سے بچا سکے ورنہ پتہ نہیں اپنے اعمال اس قابل ہیں بھی کہ نہیں کہ کسی کو جہنم کی آگ سے بچا بھی سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا kh5-030425
262 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں“.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19) پس ایسی تہمتیں لگانے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اپنی جماعت سے خارج کر دیا ہے.اگر خدا کے خوف کی کوئی رمق بھی ایسے لوگوں کے دل میں ہے جو دوسروں پر تہمتیں لگا کر ان کا امن وسکون برباد کرتے رہتے ہیں تو وہ تو بہ کریں، اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں.اور پھر سچے دل کے ساتھ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں.جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے.ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں.حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی برا قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا ہے اَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَّأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ ﴾ (الحجرات: 13) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں.( بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد چہارم صفحہ 219 زیر سورۃ الحجرات) پھر ایک برائی بدگمانی ہے، بدظنی ہے، خود ہی کسی کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ فلاں دو آدمی فلاں جگہ بیٹھے تھے اس لئے وہ ضرور کسی سازش کی پلانٹنگ کر رہے ہوں گے یا کسی برائی میں مبتلا ہوں گے.اور پھر اس پر ایک ایسی کہانی گھڑ لی جاتی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا.اور پھر اس سے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں.دوستوں کے تعلقات میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں.معاشرے میں بھی فساد پیدا ہوتا ہے.اس لئے قرآن کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس برائی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے.فرمایا ياَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا ﴾ (الحجرات: 13) که اے ایمان والوں بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجسس سے کام نہ لیا کرو.پس اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اسی سے ذاتی تعلقات میں بہتری کی بنیاد قائم رہے گی اور اسی سے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو گا.بعض لوگ بعض کے بارے میں بدظنیاں صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ذلیل کیا جائے اور دوسروں کی نظروں سے گرایا جائے اور اگر کسی جماعتی عہد یدار kh5-030425
263 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006 ء سے یا خلیفہ وقت سے اس کا خاص تعلق ہے تو اس تعلق میں دُوری پیدا کی جائے اور اکثر پیچھے ذاتی عناد ہوتا ہے.جب بدظنیاں شروع ہوتی ہیں تو پھر بجس بھی بڑھتا ہے اور پھر ہر وقت یہ بدظنیاں کرنے والے اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسرے کے نقائص پکڑیں اور اسکی بدنامی کریں.ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا.بڑا قریبی آدمی تھا.اس کا نام ایاز تھا.انتہائی وفادار تھا اور اپنی اوقات بھی یادرکھنے والا تھا.اس کو پتہ تھا کہ میں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرنے والا تھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یادر کھنے والا تھا.ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جارہاتھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے.تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جود وسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کو بادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کریں.اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے.انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا ہو.بادشاہ کو بہر حال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا.بدظن نہیں ہوا.اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں.آ جائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا.اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے.تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے.اس نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی نظر بار بار سامنے والے پہاڑ کی طرف اٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے ، جائزہ لینا چاہئے ، تو جب میں گیا تو میں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیر کمان تھی تا کہ جب بادشاہ کا وہاں سے گزر ہو تو وہ تیرا کا وار آپ پر چلائے.تو جوسب باقی سردار وہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے.تو اس واقعہ سے ایک سبق بدظنی کے علاوہ بھی ملتا ہے کہ ایاز ہر وقت بادشاہ پر نظر رکھتا تھا.ہر اشارے کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا.پس یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت کا دعوئی ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہراحمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 264 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006ء کے ہر حکم کو ماننے کے لئے بلکہ ہر اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.خلیفہ وقت کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ان باتوں پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو تبھی بیعت کا حق ادا ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی طرح کے ایک بدظنی کے بارے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کر سکتے اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے.انسان ایک آدمی کو بد خیال کرتا ہے اور آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے“.فرمایا ”کتابوں میں میں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ تھے انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ میں اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھوں گا.ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچے ( دیکھا ) کہ ایک شخص ایک جوان عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے اور ایک بوتل پاس ہے اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے ان کو دُور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ میں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں مگر ان دونوں سے تو میں اچھا ہی ہوں.اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا ایک کشتی آرہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھار رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور انکی جان بچ گئی.پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہوئیں نے تو چھ کی جان بچائی ہے.اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو.یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جوان نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے.شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور میں ایک ہی اس کی اولاد ہوں.قومی اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لئے جوان نظر آتی ہے.خدا نے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو.پھر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ: ” خضر کا قصہ بھی اسی بناء پر معلوم ہوتا ہے.سوء ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا، یعنی بدظنی جلدی سے نہیں کرنی چاہئے " تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 568,569 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے.وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنی ادنی سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں.اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو.اس لئے اول ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 265 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006ء ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے.اور انس پیدا ہوتا ہے.اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلا کینہ بغض حسد وغیرہ سے بچارہتا ہے“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 215,214 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور پھر یہ ہے کہ یہ نیک ظن ہے جس سے عبادتوں میں حسن پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوتا ہے.اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نصر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیا کہ آپ نے فرما یا حُسْنُ الظَّنِ مِنْ حُسْنِ العِبَادَة کہ حسن ظن تو حسن عبادت ہے“.(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فى حسن الظن حدیث نمبر (6094 پس جہاں بدظنیاں جہنم میں دھکیلتی ہیں تو حسن ظن عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اس معیار کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.بدظنیاں جب پیدا ہوتی ہیں تو اپنی خود ساختہ کہانیوں میں زور پیدا کرنے کے لئے پھر انسان جھوٹ کا بھی سہارا لیتا ہے اور اپنی باتوں میں اس کی بے تحاشا ملونی کر دیتا ہے.اور جھوٹ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے، شرک کے برابر ٹھہرایا ہے.پس ہر احمدی کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ احمدی اس وقت کہلا سکتا ہے جب سچائی پر قائم ہوگا اور ہر قتم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک رکھے گا.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچائی فرمانبرداری کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور فرمانبرداری جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور ایک شخص مسلسل سچ بولتا رہتا ہے.یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق ہو جاتا ہے.اور جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی دوزخ میں لے جاتی ہے.اور ایک شخص مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے.یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کذاب لکھا جاتا ہے.(بخاری کتاب الادب باب قول الله تعالی یا ايها الذين امنوا اتقو الله و كونوا.حدیث 6094 اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بھی کبھی بھی جھوٹ کا سہارا لے کر کوئی کذاب بننے والا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں.اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 266 خطبہ جمعہ 26 رمئی 2006ء چھوڑ دو اور ان کو اپنایار، دوست مت بناؤ اور خدا سے ڈرو اور بچوں کے ساتھ رہو.اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو، ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو“.( نور القرآن ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 408 ) کبھی مذاق کے طور پر بھی جھوٹ نہ ہو.پس یہ جو الزام تراشیاں کرنے والے لوگ ہوتے ہیں.ان کو بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہئے.اپنے ایمان کی بھی حفاظت کریں اور دوسروں کے ایمان کی بھی.ان کو ابتلاء میں ڈال کر ان کو ٹھوکر سے بچائیں اور اس جھوٹ کی وجہ سے شیطانوں کو اپنے اوپر نازل ہونے سے بچائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس بات کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین kh5-030425
خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء 267 (22) خطبات مسرور جلد چہارم اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر کی پر معارف تفسیر آج احمدی ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے حقیقی مخاطب بھی ہیں اور مصداق بھی ہیں اب بھی وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس دنیا میں دیکھنے کے لئے اس مسیح محمدی کو مانیں.اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت مسلمان امت پر کس طرح نازل ہوتی ہے فرمودہ مورخہ 02 جون 2006ء (02 / احسان 1385 هش) مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الَّا تَشْهَادُ ﴾ (المؤمن :52) اللہ تعالیٰ جب اپنے انبیاء دنیا میں بھیجتا ہے تو ان کے دل اس یقین سے پُر کرتا ہے کہ زندگی کے ہر لحہ پر ، ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ ان کا معین و مددگار ہو گا.اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کا یہ یقین ہی ہے جو انہیں تو کل میں بڑھاتا چلا جاتا ہے اور جو انبیاء کی تاریخ ہمارے سامنے ہے جس کی معراج ہمیں آنحضرت صلی اللہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 268 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے کیسے کٹھن اور مشکل حالات اور مقامات سے اللہ تعالیٰ اپنے ان خاص بندوں کو اپنی نصرت فرماتے ہوئے نکال کر لے آتا ہے اور پھر اس کے بعد یہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے نظارے انبیاء کے وقت میں، ان کی زندگی میں ان کے ماننے والے اور اس تعلیم پر عمل کرنے والوں میں ہم دیکھتے ہیں.اور پھر بعد میں جو اس حقیقی تعلیم کے ساتھ چھٹے رہتے ہیں جو کہ وہ انبیاء لے کر آئے وہ لوگ یہ نظارے دیکھتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے فضلوں سے حصہ پانے کی معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے اور آپ پر ایمان اور آپ کی تعلیم پر مکمل عمل اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور نصرتوں کا حصہ دار بناتا ہے اور اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کی دنیاو آخرت سنوارتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے وعدہ ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ یقیناً ہم اپنے رسول کی اور ان کی جو ایمان لائے ہیں اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں بہت سی آیات میں اپنی صفت ناصر اور نصیر کا مختلف پہلوؤں اور مختلف مضامین کے ساتھ بیان فرمایا ہے.رسول اور مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے مدد کے وعدے کئے اس کا ایک نمونہ ہم اس آیت میں دیکھ چکے ہیں جو میں نے پڑھی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اور کن لوگوں کی خدا نے مدد کی ، کن انعامات کے ساتھ مدد کی ، کن مختلف حالات میں مدد کی جبکہ ایک لحاظ سے بعضوں پر مایوسی کی کیفیت طاری تھی اور اس طرح کے کئی مضمون ہیں.آج میں کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ذکر میں کچھ آیات آپ کے سامنے رکھوں.اگر ہم لغت میں دیکھیں تو اس لفظ نَضر اور نصر یا ناصر کے بڑے وسیع معنے ملتے ہیں.مثلاً النضر کا مطلب ہے مددگار ، بارش.النفرة کا مطلب ہے مدد ، بہترین مدد، بارش.تو یا درکھنا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ ناصر بنتا ہے اور نصرت فرماتا ہے، مدد کرتا ہے، مددگار ہوتا ہے تو ایک عام انسانی سوچ والی مدد نہیں ہوتی بلکہ اس کی مدد ایسی کامل اور بھر پور اور زندگی بخش اور بارش کی طرح برسنے والی مدد ہوتی ہے جس میں کوئی سقم نہیں ہو سکتا اور اس مدد کے مقابل پر کوئی مخالف ٹھہر نہیں سکتا.لیکن اس مدد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ بنا اور وہ حالت پیدا کرنا ضروری ہے جو انبیاء پیدا کرنا چاہتے ہیں.بلکہ یہ کہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ ہی کے طفیل یہ مددمانی ہے اور وہ مدد حاصل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.وہ حالت ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو آپ سہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے.پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام جیسی نعمت سے نوازا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 269 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد تو ہم نے بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں کی تعمیل کر دی ہے.اب اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یقینا ہمیں ان لوگوں میں شمار ہونا چاہئے جن کی اللہ تعالی مدد فرماتا ہے یا جن سے مددفرمانے کا وعدہ فرمایا ہے.پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی وجہ سے ہم میں وہ کیفیت پیدا ہو گئی ہے؟ جب ہر لمحہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی ہم پر بارش ہوتی ہے یا ہو رہی ہے.ایسی مدد جو ہماری زندگیوں میں وہ نمو پیدا کرنے والی ہو جس سے ہر طرف آنکھوں کو روشن کرنے والا اور دل کو لبھانے والا سبزہ نظر آتا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ایمان لانے والوں سے اس سلوک کا اظہار فرمایا ہے کہ اس دنیا میں بھی اُن کا مددگار ہوگا اور اگلے جہان میں بھی ، جبکہ ہر چیز کی گواہی ہوگی حتی کہ اپنے اعضاء کی بھی گواہی ہوگی اور وہاں پھر کوئی غلط بیان نہیں دیا جا سکتا.جو بھی گواہی ہوگی وہ حقیقت بیان کرنے والی ہوگی اور جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر صحیح عمل کرنے والے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمانے کا وعدہ کیا ہے اس وقت جو ایسے لوگ ہوں گے ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق نصرت فرماتے ہوئے بخشش کا سلوک فرمائے گا اور اپنی بخشش کی چادر میں لپیٹ لے گا.من حیث الجماعت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء سے، اپنے پیاروں سے وعدے کے مطابق ہمیشہ مددفرمائی ہے اور فرماتا ہے لیکن انفرادی طور پر بھی اپنی حالتوں کو خالصتا اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالتے ہوئے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی نصرت کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس خوشخبری سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہ میں کامل ایمان والوں کی دنیا و آخرت میں مدد کروں گا.آج احمدی ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے حقیقی مخاطب بھی ہیں اور مصداق بھی ہیں.دوسرے مسلمان جنہوں نے اس زمانے کے امام کو نہیں مانا وہ تو خود ہی اپنے آپ کو اس خوشخبری سے باہر نکال رہے ہیں کیونکہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے دعوے کے باوجود آپ کے بعض حکموں پر عمل نہیں کیا اور پیشگوئیوں کی تصدیق نہیں کی.اور یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر آج ہم اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے نظارے مسلمانوں پر اس وعدے کے مطابق پورے ہوتے نہیں دیکھ رہے.اگر کوئی کہے کہ نہیں، یہ غلط ہے.مسلمانوں کی موجودہ حالت کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر ہمیں کوئی یہ دکھائے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نصرت کا وعدہ کہاں ہے.یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.اگر کوئی کمی ہے، کوئی کمزوری ہے تو مسلمانوں کے ایمان کی حالت میں ہے.ورنہ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ نہ ماننے والوں اور کفار کے منصوبے خاک میں نہ ملیں.پس اب بھی وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس دنیا میں دیکھنے کے لئے اور اگلے جہان میں گواہوں کے کھڑے ہونے سے پہلے اس kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 270 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء مسیح محمدی کو مانیں.ماننے کے حکم کے سب سے پہلے مخاطب مسلمان ہیں.اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت مسلمان امت پر کس طرح نازل ہوتی ہے.پس آج کل کے حالات کی وجہ مسلمانوں کی عمومی کمزوری اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار بھی ہے.ورنہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ گزشتہ انبیاء سے کئے گئے وعدے تو اللہ تعالیٰ پورے فرماتا رہا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام نبیوں کے سردار ہیں اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں زمین و آسمان پیدا نہ کرتا اگر تجھے پیدا نہ کرتا، ایسے اعلیٰ پائے کے نبی اور خاتم الانبیاء سے کئے گئے وعدے اللہ تعالیٰ پورے نہ فرماتا.ہم پھر ہمدردی کے جذبے سے اور مسلم امہ سے محبت کی وجہ سے کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ سوچیں اور غور کریں، مسلمان ملکوں میں احمدیت اور امام الزمان کی مخالفت کی بجائے اس کے مددگار بنیں، اس پر ایمان لائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو پورا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر لمحہ اور ہر آن مسلمانوں کا مددگار ہو.آج ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے مومنین کی جماعت جنہوں نے حقیقی طور پر زمانے کے امام کو مانا ہے اور جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں، ان کے ساتھ تو پورے ہورہے ہیں.اس جماعت کے ساتھ تو پورے ہو رہے ہیں اور من حیث الجماعت ہم ہر روز ایک نئی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.پس ہر احمدی کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کو مزید حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو پہلے سے بڑھ کر دنیا کو پہنچانے کی کوشش کرے.دنیا کو بتائیں کہ اگر زمانے کے امام کو نہیں مانو گے تو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم رہو گے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ، اس انذار کے مطابق ان کے خلاف نبی بھی گواہ کھڑے ہوں گے، فرشتے بھی گواہ کھڑے ہوں گے بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ جسم کے تمام اعضاء بھی گواہی دیں گے کہ باوجود پیغام پہنچنے کے باوجود مسیح موعود کا دعوئی سننے کے تم لوگوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ مخالفت کی اور مخالفت میں بھی اتنے بڑھے کہ احمدیوں پر ظلم کی وہ داستانیں رقم کرنے لگے جو بعض پہلے انبیاء کی قو میں اپنے انبیاء اور ان سے مانے والوں سے کرتی ہیں.بلکہ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں بھی ظلم ہوتے رہے.لیکن اس سلوک سے جماعت کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ہر موقع پر ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور مدد کے نظارے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بڑھ کر ہمیں دکھائے اور مخالفت کی ہر آندھی جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت سے اور اونچا اڑا کر لے گئی.ہم کسی حکومت پر کسی تنظیم پر نہ تو بھروسہ کرتے ہیں، نہ ہی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 271 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء مدد مانگتے ہیں.ہماری مددتو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مانگتے ہوئے اسی سے وابستہ رہی ہے.ہاں بعض گروہوں کی بعض حرکتوں کا، ان کی تصویر دکھانے کے لئے ، ان کا چہرہ دکھانے کے لئے ، دنیا کو بتاتے ضرور ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ بعض جگہوں پر بعض ملکوں میں کیا کچھ ہورہا ہے.لیکن یہ توقع کبھی نہیں رکھی کہ یہ لوگ ہمارے معین و مددگار ہیں یا ان لوگوں پر ہمارا بھروسہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ ﴿إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا (المومن :52) ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے.میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد کر سکتا ہے.اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْل ہے.دنیا اور دنیا کی مدد میں ان لوگوں کے سامنے گالمیت ہوتی ہیں.یعنی ایک مردے کی طرح ہوتی ہیں اور وہ مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں“.( ملفوظات جلد اول صفحه 107-108 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تو یہ تو ہے ہمارا مدد کا ایک تصور اور ایک تعلیم جس پر ہم عمل کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا.اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ناصر نصیر.اب میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنے انبیاء سے مدد کے سلوک کے اور ان کے مشکل وقت میں دشمن کے خلاف مدد کے نظارے دکھائے ہیں ان کی کچھ مثالیں دیتا ہوں.حضرت نوح کی پکار پر اللہ تعالیٰ نے کس طرح دعا کو قبول کیا اور ظالموں سے نجات دلائی.اس کا ذکر قرآن کریم میں یوں آتا ہے ﴿وَنُوْحًا إِذْ نَادَى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَالَهُ فَنَجَّيْنَهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ.وَنَصَرُنَهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِايْتِنَا.إِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَهُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ (الانبیاء :77-78) اور نوح کا بھی ذکر کر جب قبل از میں اس نے پکارا تو ہم نے اسے اس کی پکار کا جواب دیا اور اسے اور اس کے اہل کو ایک بڑی بے چینی سے نجات بخشی.اور ہم نے اس کی اُن لوگوں کے مقابل مدد کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا تھا.یقیناً وہ ایک بڑی بدی میں مبتلا لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا.جس طرح حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے کشتی کے ذریعہ سے بچایا تھا اور دعا قبول کرتے ہوئے قوم کو غرق کیا تھا اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے طاعون کا نشان دے کر فرمایا کہ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا إِنَّ الَّذِيْنَ kh5-030425
272 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ - ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا.جولوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں یہ خدا کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھ پر.یہ الہام ہوا جو قرآنی آیات ہیں.اس پر آپ نے کشتی نوح تحریر فرمائی اور اس میں اپنی تعلیم بیان فرمائی کہ جو اس پر ایمان لائیں اور عمل کریں وہ محفوظ رہیں گے.اسی طرح آپ نے فرمایا جو آپ کا گھر ہے جو بظاہر اینٹوں اور گارے کا گھر ہے، جو اس دار میں پناہ لے گا وہ محفوظ رہے گا.تو یہ آپ سے اللہ تعالیٰ کا مددکا وعدہ تھا.اور جب و با پھوٹی تو ایک دنیا نے دیکھا کہ احمدی محفوظ رہے اور بڑی شان سے یہ وعدہ اور یہ الہام پورا ہوا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور بھی بے شمار الہامات ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اسی تائید و نصرت کے سلسلے میں بعض واقعات بھی ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا میں اس وقت یہاں صرف مختلف واقعات کے بارے میں قرآن کریم کی آیات پیش کر رہا ہوں.انشاء اللہ باقی باتیں آئندہ بھی ہوں گی.پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعہ ہے.جب مخالفین نے آپ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی کس طرح مدد فرمائی اور مخالفین کی تمام تدبیریں ناکام و نامراد ہو گئیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالُوْا حَرِقُوْهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُمْ إِنْ كُنتُمْ فَعِلِيْن قُلْنَا يَنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَسَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَاَرَادُوْا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَهُمُ الْاخْسَرِيْنَ ﴾ (الانبیاء: 69-71) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے کہا اس کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کر وا گر تم کچھ کرنے والے ہو.ہم نے کہا اے آگ ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر.اور انہوں نے اس سے ایک چال چلنے کا ارادہ کیا تو ہم نے ان کو کلیہ نا مراد کر دیا.پھر حضرت موسی کے بارے میں آتا ہے کہ وَلَقَدْ مَنَنا عَلَى مُوْسَى وَهَرُوْنَ.وَنَجَّيْنَهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ.وَنَصَرْنَهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْعَلِمِينَ ﴾ (الصفت : 115-117) اس کا ترجمہ یہ ہے.اور یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا تھا اور اُن دونوں کو اور اُن کی قوم کو ہم نے بہت بڑے کرب سے نجات بخشی تھی اور ہم نے ان کی مدد کی.پس وہی غالب آنے والے بنے.دیکھیں فرعون کے مقابلے پر کس طرح موسیٰ کو غلبہ عطا فرمایا تھا.اس کی تفصیل میں جانے کے لئے تو وقت نہیں ہے.ویسے بھی یہ ایک علیحدہ مضمون ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.یہاں میں اس وقت یہ کہتا ہوں کہ آج مسلمان جو نعرے لگاتے ہیں کہ فلاں فرعون ہے اور فلاں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 273 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء فرعون ہے تو یہ جو واقعات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں یہ اس لئے ہیں کہ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بھی یہ نظارے دکھائے جائیں گے بشرطیکہ وہ اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.اگر فرعون پیدا ہوں گے تو فرعونوں کے سر کچلے جائیں گے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت یہ نظارے دیکھتی ہے.اگر مسلمانوں نے بھی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ابھی تک نہیں مانا، یہ نظارے دیکھنے ہیں تو اپنے آپ کو بھی کامل اور مکمل مومن بنانا ہو گا تب یہ نظارے نظر آئیں گے.پس فرعونوں پر غالب آنے کے لئے اپنی حالتوں پر غور کرنا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ کہاں کہاں کمیاں ہیں.اور جو کمی ہمیں نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ زمانے کے مسیح کا انکار کر رہے ہیں.جب تک موسیٰ کے ساتھ نہیں جڑیں گے فرعونوں پر غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا.پھر جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظاروں کی معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے، آپ کی ذات میں ہمیں نظر آتی ہے جس کے بے شمار واقعات ہیں ان واقعات کو تو میں اس وقت نہیں لے رہا.لیکن قرآن کریم میں جو بعض مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے چند ایک کو بیان کروں گا.ایک مثال تو ہجرت کے وقت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا معجزہ دکھایا جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے.قرآن کریم نے اس واقعہ کا یوں ذکر فرمایا ہے کہ ﴿ إِلَّا تَنصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْهُمَا فِي الْغَارِإِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلَى.وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ (التوبة :40) اس کا ترجمہ یہ ہے، اگر تم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ بھی کرو تو اللہ پہلے بھی اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا وطن سے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا.جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا.اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے.اور اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پایہاں تک ہی آ کر ختم ہو جاتا ہے.لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گز راور دخل کیسے ہوگا.مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے، کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں کی آواز میں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 274 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر بھی سن رہے تھے.ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھے آئے ہیں لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ آپنے رفیق صادق صدیق کو فرماتے ہیں.یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے زبان ہی سے فرمایا.کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں اشارہ سے کام نہیں چلتا.یعنی یہ فقرہ بولا تو یقینا آپ نے اونچی آواز میں بولا ہوگا اور کہا ہوگا کیونکہ اشارے سے تو کام نہیں چلتا.فرمایا کہ 'باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں.اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے.یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے کہ اللہ تعالی مددفرمائے گا.(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورة التو به آیت 40 ، جلد 2 صفحه 628) پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے موقع پر کس طرح آپ کی دعاؤں کو سنا اور مددفرمائی اور بہت تھوڑے سے مسلمانوں کے ذریعے سے جن کے پاس پوری طرح اسلحہ بھی نہیں تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک لحاظ.تقریبا نہتے تھے، تربیت یافتہ اسلحے سے لیس جنگجو کفار کو شکست دلوائی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَّانْتُمْ اَذِلَّةٌ.فَاتَّقُوْا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (آل عمران : 124) اور یقینا اللہ بدر میں تمہاری نصرت کر چکا ہے جبکہ تم کمزور تھے.پس اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم شکر کر سکو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سلسلے میں اور اس بات کو اپنے زمانے کے ساتھ جوڑتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد از لیہ کی مدد تھی.جس وقت 313 آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل دو تین لکڑی کی تلوار میں تھیں اور ان 313 میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے.اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی.اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا.اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعا کی اَللَّهُمَّ اِنْ أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا یعنی اے اللہ اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا.فرماتے ہیں کہ: ”سنو! میں بھی یقیناً اسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر کا معاملہ ہے.اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے.وہی بدر اور اَذِلَّةٌ کا لفظ موجود ہے.کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسلام پر ذلت نہیں آئی ؟.نہ سلطنت ظاہری میں شوکت ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 275 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء فرماتے ہیں کہ : ایک یورپ کی سلطنت منہ دکھاتی ہے تو بھاگ جاتے ہیں اور کیا مجال ہے جوسر اٹھائیں.اس ملک کا کیا حال ہے؟ ہندوستان کی بات کر رہے ہیں.کیا اَذِلَّة نہیں ہیں.ہندو بھی اپنی طاقت میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں.کوئی ایک ذلت ہے جس میں ان کا نمبر بڑھا ہوا ہے.جس قدر ذلیل سے ذلیل پیشے ہیں وہ ان میں پاؤ گے.ٹکڑ گدا مسلمان ہی ملیں گے.جیل خانوں میں جاؤ تو جرائم پیشہ گرفتار مسلمان ہی پاؤ گے.شراب خانوں میں جاؤ کثرت سے مسلمان.اب بھی کہتے ہیں ذلت نہیں ہوئی؟ کروڑ ہانا پاک اور گندی کتابیں اسلام کے رد میں تالیف کی گئیں.ہماری قوم میں مغل ، سٹیڈ کہلانے والے اور شریف کہلانے والے عیسائی ہو کر اسی زبان سے سید المعصومین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو کو سنے لگے.صفدر علی اور عمادالدین وغیرہ کون تھے؟ اُمہات المومنین کا مصنف کون ہے ؟ یہاں مسلمانوں کا ذکر کیا ہوا ہے کہ اس وقت کے زمانے میں یہ حالت تھی.آج کل بھی دیکھ لیں بعض جگہ اسی طرح کے حالات ہیں.فرماتے ہیں کہ: ”جس پر اس قدر واویلا اور شور مچایا گیا اور آخر کچھ بھی نہ کر سکے.اب جو کچھ ہوا ، شور شرابے کے بعد کیا ہوا.سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے.سب کچھ بھول بھال گئے ہیں.جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وقتا فوقتا فتنے اٹھتے رہتے ہیں اور پھر اسلام کے خلاف جو ایک محاذ بنا ہوا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: "اس پر بھی کہتے ہیں کہ ذلت نہیں ہوئی.کیا تم تب خوش ہوتے کہ اسلام کا استتار ہا ہا نام بھی باقی نہ رہتا.تب محسوس کرتے کہ ہاں اب ذلت ہوئی ہے !!!.آہ! میں تم کو کیونکر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہو رہی ہے.دیکھو! میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدر کا زمانہ ہے.اسلام پر ذلت کا وقت آچکا ہے.مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے.چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھا دوں.اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو.اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.( بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، زیر سورۃ آل عمران آیت 124 جلد 2 صفحہ 150-149 ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی شان تو قائم ہونی ہے اور احمدیت کے ذریعے سے قائم ہوئی ہے.گو کہ مخالفین اور دشمن اور جو اسلام کے خلاف ہیں وہ بھی اس وقت پورا زور لگا رہے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں : اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور نا تو ان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا.پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اس نے اسلام کی نصرت کی ؟“.( بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، زیر سورۃ آل عمران آیت 124 جلد 2 صفحہ 150 ) یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کو، آپ کی آمد کو دیکھ کے پریشان نہ ہو، تعجب نہ کرو.یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا.مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کا ساتھ دیں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 276 خطبہ جمعہ 02 جون 2006ء پس ہر احمدی کو بھی چاہئے کہ یہ پیغام بڑے زور سے دنیا کو پہنچائیں ، خاص طور پر اسلامی دنیا کو پہنچا ئیں.جن حالات کا نقشہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے کھینچا ہے بعینہ وہی حالات ہم دیکھ رہے ہیں.ہر طرف سے مختلف طریقوں سے دجل سے کام لے کر بھی اور طاقت کے استعمال سے بھی مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اپنی شرائط پر ان سے معاہدے کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں.پس یہ زمانہ تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آئے اور وہ اس کی سنت کے مطابق اس کے خاص بندوں کے آنے سے ہی آتی ہے.آج یہ دعویٰ بھی موجود ہے.مسلمانوں کو بھی اس پر سوچنا چاہئے بجائے اس کے کہ مسلمان ممالک مسیح محمدی کی مخالفت میں کھڑے ہو کر اس کے ماننے والوں پر ظلم ڈھائیں ، اس کے ہاتھ مضبوط کریں تا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو.اللہ تعالیٰ سب کو عقل دے اور مسلمان امت پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل کرنے والی ہو جس کا نقشہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں کھینچا ہے.فرمایا کہ وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَا وَكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبَتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ (الانفال : 27).اور یاد کرو جب تم بہت قلیل تھے اور زمین میں کمزور شمار کئے جاتے تھے اور ڈرا کرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لے جائیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا تا کہ تم شکر گزار بنو.پس یہ شکر گزاری اسی وقت ہو سکتی ہے اور ہم ان نعمتوں کے وارث تبھی ہو سکتے ہیں ، پہلوں سے تبھی مل سکتے ہیں، یہ نظارے تبھی نظر آئیں گے جب اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور اللہ تعالیٰ کی مد د تب نظر آئے گی جب مسیح محمدی کے ہاتھ مضبوط کریں گے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے، سمجھ دے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق دے.ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق دے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے ہم ہمیشہ ہرلمحہ اور ہر آن دیکھتے چلے جائیں.یہ مضمون انشاء اللہ آگے بھی چلے گا.حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے درمیان فرمایا : کل انشاء اللہ تعالیٰ میں نے یورپ کے سفر پر جانا ہے، اجتماعات اور جلسہ وغیرہ دو تین ملکوں جرمنی، ہالینڈ، بلجیم میں ہیں.دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور نصرت فرماتا رہے.اور ہر لحاظ سے یہ سفر بابرکت ہو.اور جس مقصد کے لئے یہ سفر اختیار کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ ہر آن اپنی مدد اور نصرت کے نظارے ہمیں دکھاتا رہے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء 277 23 خطبات مسرور جلد چہارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے جڑے رہنے کی جماعت کے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں خلافت کی برکات اور اہمیت وفضیلت اور نظام جماعت کے متعلق پر معارف ارشادات اور عہد یداران کے لئے زریں نصائح فرمودہ مورخہ 09 جون 2006ء ( 09 / احسان 1385 ھش) مئی مارکیٹ.منہائیم جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ.ذَلِكَ خَيْرٌ واَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ ( النساء: 60) جماعت احمدیہ میں خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت پر جو اس قدر زور دیا جاتا ہے یہ اس لئے ہے کہ جماعتی نظام کو چلانے کے لئے یک رنگی پیدا ہونی ضروری ہے اور اس زمانے کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہونی ہے وہ عــلــی مِنْهَاجِ النُّبُوَّة ہوتی ہے وروہ دانگی خلافت ہے اور جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 278 خطبہ جمعہ 09 جون 2006 ء نے بھی فرمایا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.پھر آپ نے فرمایا کہ: ” خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس دائمی قدرت کے ساتھ وابستہ رہنے کے لئے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے جڑے رہنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے، اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں جن سے باہر نکلنے کا کسی احمدی کے دل میں خیال تک پیدا نہ ہو.بہت سارے مقام آسکتے ہیں جب نظام جماعت کے خلاف شکوے پیدا ہوں.ہر ایک کی اپنی سوچ اور خیال ہوتا ہے اور کسی بھی معاملے میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں، کسی کام کرنے کے طریق سے اختلاف ہو سکتا ہے.لیکن نظام جماعت اور نظام خلافت کی مضبوطی کے لئے جماعتی نظام کے فیصلہ کو یا امیر کے فیصلہ کو تسلیم کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت نے اس فیصلے پر صاد کیا ہوتا ہے یا امیر کو اختیار دیا ہوتا ہے کہ تم میری طرف سے فیصلہ کر دو.اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور اس سے جماعتی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو خلیفہ وقت کو اطلاع کرنا کافی ہے.پھر خلیفہ وقت جانے اور اس کا کام جانے.اللہ تعالیٰ نے اس کو ذمہ دار اور نگران بنایا ہے اور جب خلیفہ، خلافت کے مقام پر اپنی مرضی سے نہیں آتا بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کو اس مقام پر اس منصب پر فائز کرتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے کسی غلط فیصلے کے خود ہی بہتر نتائج پیدا فرمادے گا.کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ خلافت کی وجہ سے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا.مومنوں کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے احکامات کی بجا آوری کریں اور اس کے رسول کے حکموں کی پیروی کرنے کی کوشش کریں اور کیونکہ خلیفہ نبی کے جاری کردہ نظام کی بجا آوری کی جماعت کو تلقین کرتا ہے اور شریعت کے احکامات کو لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے اس کی اطاعت بھی کرو اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی کرو.اور افراد جماعت کی یہ کامل اطاعت اور خلیفہ وقت کے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے کئے گئے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اپنے بنائے ہوئے خلیفہ کو دنیا کے سامنے رُسوا ہونے سے بچانے کے لئے برکت ڈال دے گا.کمزوریوں کی پردہ پوشی فرما دے گا اور اپنے فضل سے بہتر نتائج پیدا فرمائے گا اور من حیث الجماعت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 279 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو ہمیشہ بڑے نقصان سے بچالیتا ہے اور یہی ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا جماعت سے اور خلافت احمدیہ سے سلوک دیکھا ہے اور دیکھتے آئے ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ يا يُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوْا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأَوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء:60 ) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی.اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو.اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.یعنی تمہارا کام اطاعت کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پوری پیروی کرو.پہلے اپنے آپ کو دیکھو کہ تم اللہ کے حکموں کی پیروی کر رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے جو احکامات اتارے ہیں، پہلے تو ان کا فہم و ادراک حاصل کرو، کیا وہ تمہیں حاصل ہو گیا ہے.اور جب مکمل طور پر حاصل ہو گیا ہے تو پھر اُن احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ اور جب ایک شخص خود اس پر عمل کرنے لگ جائے گا اور اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کر رہا ہوگا تو پھر وہ شاید اپنے خیال میں یہ کہنے کے قابل ہو سکتا ہے کہ ہاں اب میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں.لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ، یہ آیت ہمیں کچھ اور بھی کہتی ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم علمی اور عملی لحاظ سے احکام شریعت کے بہت پابند ہیں اور علم رکھنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو غیب کا علم بھی رکھتا ہے اور حاضر کا علم بھی رکھتا ہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے اس کا علم بھی رکھتا ہے اس کو پتہ تھا کہ اگر صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا کہہ دیا تو کئی نام نہاد علماء اور بزعم خویش سنت رسول پر چلنے والے پیدا ہوں گے اور جو جماعت کی برکت ہے وہ نہیں رہے گی اور ہر ایک نے اپنی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوگی اور اپنے محدود علم کو ہی انتہا سمجھیں گے اور آج ہم مسلمانوں میں دیکھتے ہیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے.لیکن یہ جو زعم ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکم پر عمل کر رہے ہیں ، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوا کر ختم کر دیا کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد اس کو ماننا ضروری ہے اور پھر اس کے بعد جو خلافت عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة قائم ہوتی ہے اس کی اطاعت بھی ضروری ہے.ورنہ یہ دعوی ہے کہ ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کر لی.اور پھر اس سے آگے اللہ تعالیٰ نے نظام جماعت میں یکرنگی پیدا کرنے کے لئے اور اس نظام کی حفاظت کے لئے یہ بھی فرما دیا کہ اولوالامر کی بھی اطاعت کرو.صرف مسیح موعود کو جو مان لیا اس کے بعد جو نظام مسیح موعود کی جماعت میں ، نظام خلافت کے قائم ہونے سے قائم ہوا ہے اس کی بھی اطاعت کرو.آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی kh5-030425
280 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم توفیق عطا فرمائی ہے.اور ہم اس نظام میں پروئے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف بھی توجہ دلا تارہتا ہے اور ہم دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح بکھرے ہوئے نہیں بلکہ خلافت کی برکت کی وجہ سے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے وعدے کے مطابق علوم ظاہری و باطنی سے پر ، ذہین اور فہیم ، ایسا موعود بیٹا عطا فر مایا جس نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے ہم میں چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر ملکی اور پھر مرکزی سطح پر ایک ایسا جماعتی ڈھانچہ بنا کر دے دیا جس میں نہ صرف جماعت کے انتظامی معاملات بلکہ تربیتی، تبلیغی، تعلیمی، تمام قسم کے معاملات جو ہیں، سب کا ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے.پھر جماعت کے ہر طبقے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے ، ہر طبقے کے ہر شخص کو جماعتی معاملات میں شامل کرنے اور اس کو اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ذیلی تنظیموں، خدام، اطفال، لجنہ ، ناصرات، انصار کا قیام فرمایا.آج یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر وہ شخص، ہر وہ بچہ اور جوان اور عورت جس کا اپنی تنظیموں سے ابتدائی عمر سے رابطہ ہے وہ ان تنظیموں میں شمولیت کی وجہ سے جماعتی ڈھانچے اور اطاعت کے مضمون کو سمجھتے ہیں.ان تنظیموں میں ابتداء سے حصہ لینے والے کو علم ہے کہ ان کی حدود کیا ہیں، اس کی ذیلی تنظیموں کی حدود کیا ہیں جماعتی نظام کی اہمیت کیا ہے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کس طرح کرنی ہے.لیکن بعض دفعہ دنیا داری کی وجہ سے اپنی اہمیت اور انا کی وجہ سے بعض لوگوں کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور باوجود اس اہمیت کا علم ہونے کے کہ اطاعت میں کتنی برکت ہے بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے اگر جماعتی نظام متاثر نہ بھی ہوتو پھر بھی بعض کمزور ایمان والوں یا نئے آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتے ہیں.مثلاً اگر کوئی کمیشن کسی بارے میں قائم ہوا ہے کہ تحقیق کر کے بتا ئیں ، بعض لوگوں کے بعض معاملات کی رپورٹ دیں یا بعض دفعہ کوئی معاملہ خلیفہ وقت کی طرف سے بھجوایا جاتا ہے کہ اس بارے میں جائزہ اور رپورٹ دیں تو تحقیق کرنے کے بعد یا جائزہ لینے کے بعد جور پورٹ بھجوائی جاتی ہے اگر خلیفہ وقت اس کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کرے تو اور کچھ نہیں کہہ سکتے تو جماعت میں یا کم از کم اس طبقے میں یہ بات کہہ کر بے چینی پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو یوں لکھا تھا پتہ نہیں نیشنل امیر نے یا مرکزی عاملہ نے رپورٹ بدل کر بھیج دی ہے یا خلیفہ وقت نے اس کے الٹ فیصلہ دیا ہے.بہر حال ہم نے تو یہ رپورٹ نہیں دی تھی.تو یہ ایسی بات ہے جو یقیناً جماعت میں فتنے کا باعث بن سکتی ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسی باتوں سے احتراز کرنا چاہئے.اگر کسی سطح پر آپ لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا ہے تو اس کو فضل الہی سمجھیں اور اُن حدود کے اندر ہی رہیں جو مقرر کی گئی ہیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں.بعض لوگ بیوقوفی اور کم علمی کی وجہ سے ایسی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 281 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء باتیں کرتے ہیں ، بعض اپنی انا کی وجہ سے.اور مختلف ملکوں میں ایسے معاملات اکا دکا اٹھتے رہتے ہیں اور توجہ دلانے پر پھر احساس بھی ہو جاتا ہے اور معافی بھی مانگتے ہیں.لیکن آج میں خطبے میں اس بات کا ذکر اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ یہ سب کو بتادوں کہ جو فتنے کے لئے یہ باتیں کرتے ہیں ان کے علم میں آجائے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کافی میچور (Mature) ہو چکی ہے.اپنی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور ایسے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کا موقع دے دیا ہے وہ بھی اپنی نظر اور سوچ کو اپنی ذات کے محور سے نکالیں.پھر بعض لوگ اپنی رائے اور عقل کو سب سے بالا سمجھتے ہیں وہ بھی اس خول سے نکلیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں عقل رکھنے والے بھی بہت ہیں.علم رکھنے والے بھی بہت ہیں ، تقویٰ پر چلنے والے بھی بہت ہیں تعلق باللہ والے بھی ہیں، اس لئے ہر خدمت گزار جس کو کسی بھی سطح پر خدمت کا موقع ملتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے اور کامل اطاعت کے ساتھ اس خدمت کی برکات سے فیض اٹھائیں ورنہ اگر کوئی بھی عہدیدار کسی بھی سطح پر کھلے دل سے اور بغیر کوئی خیال دل میں لائے خلیفہ وقت کی اطاعت نہیں کرے گا تو اس کے عہدے کی حدود میں اس سے نیچے کام کرنے والے بھی اس کی اطاعت نہیں کریں گے.اور کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایک وقت تک ایسے لوگوں کو موقع دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا خدمت کو اللہ کا فضل سمجھیں ، ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی وہاں تک پردہ پوشی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے جب تک کہ ان کی خدمت جماعت کے مفاد میں رہے.یہاں میں خطبہ دے رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ صرف یہاں نہیں بلکہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض عہدیدار اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے تکبر اور انانیت میں پڑے ہوئے ہیں.ان کو بھی اپنے خول سے باہر آنا چاہئے.کیونکہ یہی عادت بن چکی ہے کہ جہاں خطبہ دیا جارہا ہو، لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی مخاطب ہیں.بلکہ جہاں جہاں بھی یہ بیماریاں یا برائیاں ہیں اور ہر جگہ کے وہ لوگ ، لوگوں کے خطوط کے ذریعہ سے میرے علم میں آتے رہتے ہیں، ہر اس جگہ پر جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے ذہنوں میں خناس سمایا ہوا ہے ان کو اس سے باہر نکلنا چاہئے اور استغفار کرنی چاہئے.دوسرے نیشنل امراء سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کسی بھی قسم کی تحقیق کے لئے کمیشن بناتے ہیں تو تلاش کر کے تقویٰ شعار لوگوں کے سپرد یہ کام کیا کریں.یا اگر میرے پاس کسی کمیشن کے بنانے کی تجویز دی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے نام آیا کریں جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں اور اطاعت کے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں.کسی بھی فریق سے ان کا کسی بھی قسم کا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 282 خطبہ جمعہ 09 /جون 2006ء تعلق نہ ہو.اسی طرح امراء اور مرکزی عہدیداران کو بھی میں کہتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ جماعت کے تعاون اور اطاعت کے معیار بڑھیں تو خود خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل اس طرح کریں جس طرح دل کی دھڑکن کے ساتھ نبض چلتی ہے.یہ معیار حاصل کریں گے تو پھر دیکھیں کہ ایک عام احمدی کس طرح اطاعت کرتا ہے کیونکہ ایک احمدی کے لئے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اور اس یقین پر قائم ہے کہ اب یہ سلسلہ خلافت چلنا ہے انشاء اللہ اور جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ دائگی اور ہمیشہ رہنے والا سلسلہ ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان میں ترقی کرنے والے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں گے، تو احمدی کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ اطاعت اولوالامر کے طور پر خلیفہ وقت کی اطاعت ہے.پھر مرتبے کے لحاظ سے ہر سطح پر جماعتی نظام کا ہر عہد یدار قابل اطاعت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نظام اور اولوالامر کی اطاعت یہ معیار بنے گی تمہارے ایمان کی حالت کی اور اس بات کی کہ حقیقت میں تم یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.اس یقین پر قائم ہو کہ مرنے کے بعد خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں یہ سوال بھی ہونا ہے کہ تم نے اپنی بیعت کے بعد اپنی اطاعت کے معیار کوکس حد تک بڑھایا ہے.وہاں غلط بیانی ہو نہیں سکتی.کیونکہ جسم کے ہر عضو نے گواہی دینی ہے اور اس دن کسی کا کوئی عضو بھی اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہو گا اس کی اپنی بات نہیں مانے گا بلکہ وہی کہے گا جو حق ہے، حقیقت ہے اور بیچ ہے.پس اگر آخرت پر یقین ہے اور بہتر انجام چاہتے ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کے ہر حکم کو بھی مانو.اس کی کسی بات کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھو.کیسے ہی حالات ہوں اطاعت کا دامن کبھی نہ چھوڑو.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس سے دنیاوی حاکم بھی مراد ہیں.ان کی اطاعت کرنا بھی فرض ہے اور سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیر شرعی حکم دیں تم نے اطاعت کرنی ہے.تو یہ عمومی حکم ہر ایک کے لئے ہے.عہد یداروں کے لئے بھی ہے اور عام احمدی کے لئے بھی ہے.بلکہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹنے کا حکم اس لئے ہے کہ اگر کوئی دنیاوی حاکم کوئی ایسا حکم دے جو غیر شرعی ہو تو اللہ اور رسول سے رہنمائی لو قرآن اور سنت سے رہنمائی لو.جماعتی نظام میں تو تمہیں یہ حکم نہیں ملنا جو خلاف شریعت ہو.نہ خلیفہ وقت کی طرف سے شریعت کے خلاف کوئی حکم دیا جائے گا.دنیاوی حاکموں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو، بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو.خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بدعملیوں کے سبب آتی ہے.ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے.مومن kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 283 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو.خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو“.الحکم جلد5 نمبر 19 مورخہ 24 مئی 1901 صفحہ 9) تو ہر احمدی کو یہ سوچنا چاہئے کہ حکم عمومی طور پر ہر ایک کے لئے ہے.اس نے تو بہر حال اپنے نظام اور جو بھی عہدیدار ہے اس کی اطاعت کرنی ہے کیونکہ وہ خلیفہ وقت کا قائم کردہ نظام ہے.لیکن عہد یداروں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اگر اطاعت کے معیار بڑھانے ہیں تو خود بھی اطاعت کے اعلیٰ نمونے قائم کریں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نو ر اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے“.اپنی جو نفسانی خواہشات، انائیں، جھوٹی عزتیں ہیں ان کو اطاعت کے لئے ذبح کرنا پڑتا ہے.ہر سطح پر ہر احمدی کو ایک عام احمدی سے لے کر ( عام تو نہیں بلکہ ہر احمدی خاص ہے کیونکہ اس نے زمانے کے امام کو مانا ہے، عام سے میری مراد یہ ہے کہ ایک احمدی جو عہد یدار نہیں ہے، اس سے لے کر ) بڑی سے بڑی سطح کے عہدیدار تک، ہر ایک کو اپنی نفس کی خواہشات کو کچلنا ہوگا.اور وہ اسی وقت پتہ لگتا ہے جب اپنے خلاف کوئی بات ہو.جہاں تک دوسروں کے معاملات آتے ہیں، ہر ایک بڑھ بڑھ کر اپنی سچائی ظاہر کرنے کے لئے گواہیاں دے رہا ہوتا ہے.لیکن جہاں اپنا معاملہ آجائے یا اپنے بچوں کا معاملہ آ جائے وہاں جھوٹ کو بنیاد بنالیا جاتا ہے.فرمایا کہ: ” اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بڑوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی.اگر یہ نفس کو ذبح نہیں کرتے تو اس کے بغیر اطاعت ہی نہیں کرتے اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے“.بڑے بڑے جو دعوی کرنے والے ہیں کہ ہم عبادت کرنے والے ہیں اور ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں اور اللہ کو ایک جاننے والے ہیں اور اس کا تقویٰ ہمارے دل میں ہے، خوف ہے.جب اپنے معاملے آتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا تو پھر یہ سب چیزیں نکل جاتی ہیں.پھر نفس بت بن کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے.پس دیکھیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ اپنے نفس کی انا کود با نا بہت مشکل ہے.پس اگر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو صرف زبانی نعروں سے یہ رضا حاصل نہیں ہوگی کہ ہم ایک خدا kh5-030425
284 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم کو ماننے والے ہیں اور اس کی عبادت کرنے والے ہیں بلکہ امام الزمان ، اس کے خلیفہ اور اس کے نظام کے آگے یوں سرڈالنا ہوگا کہ انانیت کی ذراسی بھی ملونی نظر نہ آئے، کچھ بھی رمق باقی نہ رہے.ورنہ تو یہ انانیت کے بُت اس نظام کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے بلکہ پھر یہ خلیفہ وقت کے مقابلے پہ بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.وہاں سے بھی اطاعت سے باہر نکل جاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.اور وہی شخص جو یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ میں سب سے بڑا موحد ہوں، خدا کی عبادت کرنے والا ہوں، شرک کرنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی اس شرک سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے والا ہو.اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے نفس کی خواہشات اور اناؤں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور وہ نمونے قائم کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت میں قائم کرنا چاہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم ، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.فرمایا کہ اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے.اب اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اولوالامر کی اطاعت ہے اور اولوالامر میں نظام جماعت کا ہر شخص شامل ہے.ایک احمدی بھی جو عہد یدار نہیں ہے اور وہ بھی جو عہدیدا ر ہے.ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہد یدار کی اطاعت کرے.ہر احمدی ہر عہدیدار کی اطاعت کرے.فرمایا کہ: اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے.اس میں یہی تو ستر ہے.یہی ایک راز ہے، یہی اصل بات ہے اور یہی جڑ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے“.،، الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10 فروری 1901 صفحہ 1) پس یہ اطاعت کے معیار ہیں جو ایک احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس سے توحید کا قیام ہونا ہے.پس اس کے لئے ہر احمدی کو، ہر مرد کو، ہر عہد یدار کو، ہر ممبر جماعت کو ، ہر مربی اور مبلغ کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تو حید کے قیام کا جو کام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر دفرمایا ہے اس کو ہم آگے سے آگے لے جاسکیں.انشاء اللہ.پس جیسا کہ میں نے کہا سب سے پہلے اس کے لئے عہد یدار یا کوئی بھی شخص جس کے سپر دکوئی بھی kh5-030425
285 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم خدمت کی گئی ہے اپنا جائزہ لے اور اطاعت کے نمونے قائم کرے کیونکہ جب تک کام کرنے والوں میں اطاعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی روح پیدا نہیں ہوگی ، افراد جماعت میں وہ روح پیدا نہیں ہوسکتی.پس ہر لیول پر جو عہد یدار ہیں چاہے وہ مقامی عاملہ کے ممبر یا صدر جماعت ہیں، ریجنل امیر ہیں یا مرکزی عاملہ کے ممبر یا امیر جماعت ہیں اپنی سوچ کو اس سطح پر لائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمائی ہے کہ اپنی، اپنے نفس کی خواہشات کو ، اناؤں کو ذبح کرو.اور جب یہ مقام حاصل ہوگا تو پھر دل اللہ تعالیٰ کے نور سے بھر جائے گا اور روح کو حقیقی خوشی اور لذت حاصل ہوگی ایسا مومن جو کام بھی کرے گا - وہ یہ سوچ کر کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کر رہا ہے اور یہی ایک مومن کا مقصد ہونا چاہیئے.پس جہاں جماعتی عہدیداران یہ روح اپنے قول و فعل سے جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کریں وہاں مربیان اور مبلغین کا بھی کام ہے کہ اپنے قول و فعل کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے جماعت کی اس نہج پر تربیت کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چاہتے ہیں.ذیلی تنظیمیں اپنی اپنی مجالس میں اس طریق پر اپنی متعلقہ تنظیموں کے ممبران کی تربیت کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش ہے.اور جب اطفال اور ناصرات کے لیول سے یہ تربیتی اُٹھان ہو رہی ہوگی تو بہت سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل جو اس معاشرے میں پیدا ہورہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہورہے ہوں گے.ہمارے بچے معاشرے کے غلط اثرات سے بیچ رہے ہوں گے.اس وجہ سے گھروں کا امن اور سکون پہلے سے بڑھ کر قائم ہورہا ہوگا.پس اس اطاعت کے معیار کو بڑھانے کے لئے ہر سطح پر کوشش کریں، ہر سطح پر ، ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدیدار کی اطاعت کرے.احباب جماعت اپنے عہد یداران کی اطاعت کریں اور سب مل کر خلافت سے بچے تعلق اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں.یہاں میں مربیان، مبلغین کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک تو جیسا کہ میں نے کہا کہ جہاں جہاں بھی وہ ہیں اپنے اعلیٰ نمونے دکھاتے ہوئے امراء کی اطاعت کے نمونے دکھائیں اور اگر امیر میں یا عہدیدار میں کوئی ایسی بات دیکھیں جو جماعتی روایات کے خلاف ہو تو عہد یداران کو اور امیر کو علیحدگی میں توجہ دلائیں.حدیث میں یہی آیا ہے کہ اگر کسی امیر میں گناہ دیکھو تو تب بھی تم اس کی اطاعت کرو.توجہ دلا ؤ اور اس کے لئے دعا کرو، اور اگر وہ عہدیدار اور امیر پھر بھی اپنی بات پر زور دیں اور آپ یہ سمجھتے ہوں کہ جماعتی مفاد متاثر ہو رہا ہے تو پھر خلیفہ وقت کو اطلاع کردیں لیکن یہ تاثر کبھی بھی جماعت میں نہیں پھیلنا چاہئے کہ مربی اور امیر کی آپس میں صحیح انڈرسٹینڈنگ (Understanding) نہیں ہے یا آپس میں تعاون نہیں ہے.دوسرے یہ بھی مربیان کو خیال رکھنا چاہئے کہ مربی کے لئے کبھی بھی جماعت کے کسی فرد کے ذہن kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 286 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ فلاں مربی یا مبلغ کے فلاں شخص سے بڑے قریبی تعلقات ہیں اور اگر کوئی معاملہ اس کے سامنے پیش کیا جائے تو فلاں مربی یا مبلغ یا واقف زندگی اس کی ناجائز طرفداری کرے گا.مربی ، مبلغ یا کسی بھی مرکزی عہدیدار کا یہ کام ہے کہ اپنے آپ کو ہر مصلحت سے بالا رکھ کر ، ہر تعلق کو پس پشت ڈال کر جماعتی مفاد کے لئے کام کرنا ہے اور جماعت کے افراد کے لئے عمومی طور پر بھی اور بعض معاملات اٹھنے پر خاص طور پر بھی ایسا رویہ رکھیں اور تربیت کریں کہ فریقین ہمیشہ اطاعت کے دائرے میں رہیں.یہ مربیان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جماعت میں اطاعت کی روح پیدا کر دیں.کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دینی علم سے بھی نوازا ہوا ہے.پس اس طرف خاص توجہ دیں.جماعت میں جماعت کی روح پیدا کرنے کے لئے بنیادی چیز ہی یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد میں اطاعت کا جذبہ اور روح پیدا کر دیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت کی طرف بہت توجہ دلائی ہے.جیسا کہ میں نے جو آیت تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اطاعت کرنے والوں کا ہی انجام اچھا ہے.بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ انجام بخیر ہو، تو انجام بخیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بہت اہم راستہ ہمیں دکھا دیا ہے کہ اللہ اور رسول اور اولوالامر کی اطاعت کرو اور اپنے اوپر یہ لازم کر لو تو اللہ تم پر رحم فرماتے ہوئے پھر تمہارا انجام بخیر کرے گا.اس بارہ میں کہ کس حد تک ہمیں اطاعت کرنی چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے امیر کی اطاعت، میری اطاعت ہے اور میری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور میرے امیر کی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور میری نافرمانی خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے.تو اس حد تک اطاعت کا حکم ہے.اس کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ یہی ہماری بنیاد ہے ، یہی ہماری اساس ہے اور اس کے بغیر جماعت کا تصور ہی نہیں ہے.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (آل عمران : 133 ) کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ رحم کئے جاؤ تو اللہ تعالیٰ کا یہ رحم حاصل کرنے کے لئے اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی ہوگی.وہ اطاعت جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے حدیث میں آتا ہے کہ امیر کی اطاعت کرو گے تو میری اطاعت کرو گے اور میری اطاعت کرو گے تو خدا کی اطاعت کرو گے.پس اللہ تعالیٰ کا یہ رحم حاصل کرنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.اطاعت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آسان کام نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے اطاعت کے دائرے میں ہی ایک احمدی نے رہنا ہے.بہت سی باتیں عہدیداران یا امراء کی طرف سے ایسی ہوتی ہیں جو طبیعت پر گراں گزرتی ہیں.لیکن جماعت کے وقار اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 287 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء اپنی عاقبت کے لئے ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس صبر کا ثواب بھی ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضر تصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے حاکم سے نا پسندیدہ بات دیکھے وہ صبر کرے کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہوا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی.(بخارى كتاب الأحكام باب السمع وطاعة الامام ما لم تكن معصية حديث نمبر 1444) | پس اس جاہلیت کی موت سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے اطاعت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو جہالت سے بچاتے ہوئے ہدایت پر قائم رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہوتی ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے توفیق طلب کرنی چاہئے کہ ہم سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو.اب خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.اس لئے آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکو اور اس سے دعا مانگو، اس سے توفیق طلب کرو کہ وہ اس انا نیت کوختم کرے اور صحیح اطاعت کی روح پیدا کرے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہورہی ہے اُسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو.باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں ، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحا بہ کی تھی“.الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10 فروری 1901 ء صفحہ 2) اور صحابہ کی اطاعت کا کیا حال تھا.اس کی ایک مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.بہت دفعہ سن چکے ہیں.وہ نظارہ اپنے سامنے رکھیں جب شراب کی حرمت کا حکم آیا تو کچھ صحابہ بیٹھے شراب پی رہے تھے جب اعلان کرنے والے نے اعلان کیا تو ایک صحابی اٹھے اور ایک سوٹی لے کر شراب کے مٹکوں کو تو ڑنا شروع کر دیا.کسی نے کہا جا کے پتہ تو کر لو کہ اصل میں حکم کیا ہے، واضح ہے بھی یا نہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی ہے کہ نہیں.تو انہوں نے کہا: نہیں، جوسُن لیا پہلے اس پر عمل کرو.یہی اطاعت ہے.اس کے بعد پتہ کر لینا کہ کیا اصل حکم تھا.تو یہ جذبہ ہے جو ہر ایک کو پیدا کرنا ہوگا.یہ نہیں کہ ہمیں علیحدہ طور پر کچھ کہیں گے تو تب ہم عمل کریں گے ورنہ نہیں.kh5-030425
288 خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم عمومی طور پر ہر بات جو اس زمانے میں اپنے اپنے وقت میں خلفاء وقت کہتے رہے ہیں.جو خلیفہ وقت آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، جو تربیتی امور آپ کے سامنے رکھے جاتے ہیں.ان سب کی اطاعت کرنا اور خلیفہ وقت کی ہر بات کو ماننا یہ اصل میں اطاعت ہے اور یہ نہیں ہے کہ تحقیق کی جائے کہ اصل حکم کیا تھا؟ یا کیا نہیں تھا؟ اس کے پیچھے کیا روح تھی ؟.جو سمجھ آیا اس کے مطابق فوری طور پر اطاعت کی جائے تبھی اس نیکی کا ثواب ملے گا.ہاں اگر کوئی کنفیوژن ہے تو بعد میں اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے.پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے اطاعت کے معیارا ایسے بلند کرے اور اس تعلیم پر چلنے کی پوری کوشش کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہے.جوں جوں جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل ہورہے ہیں.لیکن بہت سے نئے آنے والے کم تربیت کی وجہ سے بعض نئی باتیں لے آتے ہیں.اس لحاظ سے پرانے احمدی، معاشرے کے زیر اثر آ رہے ہیں اور جو بنیادی حکم ہے اس کو بھول جاتے ہیں.اس لئے استغفار کا حکم ہے اور استغفار ہر ایک کو بہت زیادہ کرنی چاہئے.استغفار کی بہت ضرورت ہے اور یہی اللہ کا حکم ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ ترقی کے دنوں میں تم استغفار بہت کرو.کیونکہ یہ استغفار ایمانوں کو بھی مضبوط کرتی رہے گی اور اطاعت کے معیار بھی بڑھاتی رہے گی اور اس سے برائیاں دور ہوں گی.ہمیں ہر وقت یا د رکھنا چاہئے کہ ہمارے اندر نہ کسی خاندان کی چھاپ نظر آئے ، نہ کسی کلچر کی چھاپ نظر آئے ، نہ کسی ملک کا باشندہ ہونے کی چھاپ نظر آئے.اگر کوئی چھاپ نظر آئے تو اس اسوہ حسنہ کی چھاپ نظر آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور ہمارے سامنے ہے اور جسے نکھار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج ہمارے سامنے پیش فرمایا.اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے تو حید کے لئے صحابہ کی سی وحدت اپنے اندر پیدا کریں اور ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر اطاعت کے معیار دکھانے کی کوشش کرے.یہی چیز ہے جو جماعت کا وقار بلند کرنے والی ہے اور جماعت کی ترقی کا باعث بننے والی ہے اور انشاء اللہ بنے گی.اللہ ہر احمدی کو تو فیق دے کہ وہ جماعت کے وقار اور تقدس کی خاطر اپنی اناؤں کو ختم کرتے ہوئے اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو، نہ کہ اپنے آپ کو جماعت سے کاٹ کر جاہلیت کی موت مرنے والا ہو.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہر ایک پر اپنا فضل فرمائے.آمین kh5-030425
خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء 289 (24) خطبات مسرور جلد چہارم تعمیر مساجد کی اہمیت اور برکات اور ہماری ذمہ داری جماعت احمد یہ جرمنی کو مساجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور ہر سال کم سے کم پانچ مساجد تعمیر کرنے کی تحریک فرمودہ مورخہ 16 جون 2006 ء ( 16 احسان 1385 ش) بیت السبوح - فرینکفورٹ (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَآتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أَوْلَئِكَ أَنْ يَكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ﴾ (التوبة: 18) اس وقت میں آپ کے سامنے دو باتیں رکھنا چاہتا ہوں، توجہ دلانا چاہتا ہوں.ان میں سے پہلی بات تو مساجد کی تعمیر کے بارہ میں ہے.جماعت جرمنی کے سپر د حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک کام کیا تھا اور اس بات کا اظہار فرمایا تھا کہ اتنے سالوں میں (چند سال کا معین ٹارگٹ دیا گیا تھا ) ، 100 مساجد تعمیر کرنی ہیں.اور یہ پہلا ٹارگٹ 1989ء میں دیا تھا اور میرا خیال ہے کہ اس وقت یہ ٹارگٹ جماعت جرمنی کے افراد کی تعداد اور ان کی استطاعت کا اندازہ لگا کر حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دیا تھا کہ دس سال میں سو مساجد بنانی ہیں.بہر حال جب ایک عرصہ گزرگیا اور یہ ٹارگٹ پورا نہ ہوا.یا اس کی طرف اُس طرح پیشرفت نہ ہوئی جس کی انہیں توقع تھی تو پھر 1997 ء کے جلسے میں انہوں نے اس طرف توجہ دلائی.kh5-030425
290 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم جس کے بعد پھر کچھ تیزی پیدا ہوئی اور چند مساجد بنیں یا سنٹر خریدے گئے.پھر 2003 ء میں جب میں پہلی دفعہ یہاں جلسہ پر آیا تو امیر صاحب نے چند مساجد کا افتتاح مجھ سے کروایا.اس وقت میں نے امیر صاحب کو کہا تھا کہ آئندہ جب میں آؤں تو کم از کم پانچ مساجد تیار ہوں.یا جتنی جلدی آپ پانچ مساجد تیار کر لیں گے اس وقت میں اپنا جرمنی کا دورہ رکھ لوں گا.بہر حال یہ کام اب تیزی سے جاری رہنا چاہئے.تو بہر حال جماعت جرمنی نے اس طرف پھر توجہ کی اور نتیجہ جب میں 2004ء کے جلسے پر آیا تو پانچ مساجد کا افتتاح ہوا.بعض لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ یہ ٹارگٹ بہت بڑا ہے، اس کو ہم پورا نہیں کر سکتے تو اس وجہ سے بلا وجہ کی ہماری سبکی ہورہی ہے اور ان کے خیال میں میری نظر سے جماعت جرمنی گر رہی ہے.یہ بالکل غلط سوچ اور خیال ہے.مسجد کی تعمیر کا جو ٹارگٹ آپ کو دیا گیا، جس کو آپ نے قبول کر لیا اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں، اور اسے پورا کرنا چاہئے.ہر سال 10 مساجد کی تعمیر کی بجائے میں نے ہر سال 5 مساجد کی تعمیر کا جوٹارگٹ دیا ہے، اس کو پورا کریں.یہ کہہ کر کہ مساجد کی تعمیر بہت مشکل کام ہے اس سے بہر حال آپ نے پیچھے نہیں ہٹنا.انشاء اللہ تعالی.مومن کی یہ شان نہیں ہے.اگر ٹارگٹ سامنے نہیں رکھیں گے تو پھر آپ لوگ بالکل ڈھیلے پڑ جائیں گے.یہ سوچ جو پیدا ہو رہی ہے کہ جو رقم جمع ہوئی ہے یا ہو رہی ہے اس سے مسجد کی بجائے کچھ اور منصوبے شروع کئے جائیں جس سے جماعت کو زیادہ فائدہ ہوگا.یہ بالکل غلط خیال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جہاں تم جماعت کی ترقی چاہتے ہو وہاں مسجد کی تعمیر کر دو.الفاظ میرے ہیں، کم و بیش مفہوم یہی ہے.تو اگر اس سوچ کے ساتھ مسجدیں بنائیں گے کہ آج اسلام کا نام روشن کرنے کے لئے اور آج اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے ہم نے ہی قربانیاں کرنی ہیں اور کوشش کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا ، اور ہمیشہ فرماتا ہے، فرما تا رہا ہے.اور اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہوتے ہیں، اس کے فضل کے نظارے بھی ہم دیکھتے ہیں.اگر یہ دعا کریں گے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ﴾ (البقرة : 128) اے ہمارے رب ہماری طرف سے اسے قبول کر لے جو بھی قربانی کی جارہی ہے.تو یقینا یہ دعا کبھی ضائع نہ ہوگی.اور آپ کو اپنا یہ خیال خود بخود غلط معلوم ہوگا کہ مسجدوں کے منصوبوں کی ضرورت نہیں ہے.بلکہ کچھ اور منصوبے ہمیں کرنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمانا صرف جوش دلانے کے لئے نہیں تھا بلکہ ایک درد تھا، ایک تڑپ تھی ، ایک خواہش تھی کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانے کے لئے مساجد کی تعمیر کی جائے.جب آپ نے یہ ارشاد فرمایا آپ نے یہ نہیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 291 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء فرمایا تھا کہ ہندوستان میں مسجد میں تعمیر نہ کرو یا فلاں علاقے میں نہ کرو، بلکہ ہر جگہ مسجدیں تعمیر کرنے کا آپ نے اظہار فرمایا تھا.حالانکہ اس وقت بھی ہندوستان میں مسجد میں بنائی جا رہی تھیں اور آج بھی بنائی جا رہی ہیں.لیکن یہ جو مسجد میں جماعت احمدیہ کے علاوہ کہیں بنائی جاتی ہیں یا موجود ہیں یہ مسجد میں اس زمانے کے امام کا انکار کرنے والوں کی ہیں اور انکار کرنے والوں کی طرف سے بنائی جارہی ہیں.تقویٰ پر بنیا در کھتے ہوئے نہیں بنائی جارہی ہوتیں.یہ اس لئے بنائی گئی تھیں ، بنائی جارہی تھیں اور بنائی جارہی ہیں کہ فلاں فرقے کی مسجد اتنی خوبصورت ہے اور اتنی بڑی ہے ہم نے بھی اس سے بہتر مسجد بنانی ہے یا اور بہت سی مساجد کے اماموں کی ذاتی دلچسپیاں ہیں جن کی وجہ سے مسجد میں بڑی بنائی جاتی ہیں.جن کو مجھے اس وقت چھیڑنے کی ضرورت نہیں.لیکن جماعت احمدیہ کی جو مسجد بنتی ہے.وہ نہ تو دنیا دکھاوے کے لئے بنتی ہے اور نہ دنیا دکھاوے کیلئے بنی چاہئے.وہ تو قربانیاں کرتے ہوئے قربانیاں کرنے والوں کی طرف سے بنائی جانے والی ہونی چاہئے.اور اس تصور، اس دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور کی جانی چاہئے کہ اے اللہ اسے قبول فرمالے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کو آباد کرنے والے بھی ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں تو فرما چکا ہے کہ یہ آیت جسکی میں نے تلاوت کی ہے کہ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخر اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر ایمان لائے.اور پھر وَاقَامَ الصَّلوةَ وَآتَى الزَّكوة اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے.وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا الله اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے.فَعَسَى أَوْلَئِكَ أَنْ يَكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبۃ :18) پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں.پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ میں کامل مومن بندہ بنا کیونکہ مومن بنا بھی تیرے فضلوں پر ہی منحصر ہے، تیرے فضلوں پر ہی موقوف ہے.آخرت پر ہمارا ایمان یقینی ہو.جب تیرے حضور حاضر ہوں تو یہ خوشخبری سنیں کہ ہم نے مسجد میں تیری خاطر بنائی تھیں.تیری عبادت ہر وقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر تھی اور تیرے دین کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہمارے مقاصد میں سے تھا.پس اسی لئے ہم مسجد میں بناتے ہیں اور بناتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہم نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہے.کوئی نام نمود، کوئی دنیا کا دکھاوا ہمارا مقصد نہ تھا.اے اللہ ہماری تمام مالی قربانیاں تیری خاطر تھیں کہ تیرا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے اور تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں سر بلند ہو.اور تیرا تقوی ہمارے دلوں میں اور ہماری نسلوں کے دلوں میں قائم ہو اور ہمیشہ قائم رہے.تو نے ہمیں ہدایت دی کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا.اس کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی.جس کو ٹو نے اس زمانے میں دوبارہ دین اسلام کی حقیقی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 292 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا.پس ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے اس ہدایت سے ہمیں محروم نہ کر دینا بلکہ خود ہمیں ہدایت دیئے رکھنا.خود ہمیں سیدھے راستے پر چلائے رکھنا.اے اللہ تو دعاؤں کو سننے والا اور دلوں کا حال جاننے والا ہے.ہماری ان عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کوسن، ہماری اس نیک نیت کا بدلہ عطا فرما جو ان مساجد کی تعمیر کے پیچھے کار فرما ہے کہ تیرا نام دنیا کے اس علاقے میں بھی ظاہر ہو جہاں ہم مسجد تعمیر کرنے جارہے ہیں.ہماری نیتیں تیرے سامنے ہیں تو ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے تو ہماری پاتال تک سے بھی واقف ہے.تو وہ بھی جانتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں.پس ہمیں اپنا قرب عطا فرما اور ہمیں مزید مسجدیں بنانے کی توفیق دیتا چلا جا اور ہم پر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صادق فرما کہ جو شخص اللہ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے اللہ بھی اس کے لئے جنت میں اُس جیسا گھر تعمیر کرتا ہے.پس تو ہمیں حقیقی مومنوں میں شمار فرما.آج احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ایسی سوچ کے ساتھ مسجد تعمیر کرتے ہیں اور مسجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیاں دیتے ہیں، اور مسجدوں کو آبا در کھتے ہیں.لیکن بعض کمزور بھی ہوتے ہیں جو مالی قربانیاں تو دے دیتے ہیں لیکن مسجدوں کو آباد کرنے میں ان سے سنتی ہو جاتی ہے.اس کے لئے بھی ہر احمدی کو خاص کوشش کرنی چاہئے ، ہر انتظام کو خاص کوشش کرنی چاہئے.یہ کہنا کہ فلاں شہر میں مسجد اتنی دور ہے، شہر سے دور بنی ہوئی ہے، اس لئے آبادی مشکل ہے.یہ سب نفس کے بہانے ہیں.اگر ارادہ ہو اور نیت نیک ہو تو آج یہاں ہر ایک کو اس ملک میں اور مغربی ممالک میں سواری میسر ہے جس پر آسانی سے مسجد میں جاسکتے ہیں.بہانے تلاش کرنے ہیں تو سو بہانے مل جاتے ہیں.مثلاً ایک لکھنے والے نے مجھے لکھا کہ جرمنی میں ہماری جو مسجدیں بن رہی ہیں وہ آبادی سے باہر بن رہی ہیں، کمرشل امیر یا یا انڈسٹریل ایریا ہے وہاں بن رہی ہیں.کیا جماعت جرمنی ، یا جو بھی مسجدیں بنانے والی کمیٹی ہے، وہ وہاں کے رہنے والے جرمنوں کے لئے مسجدیں بنا رہی ہے یا احمد یوں کے لئے بنا رہی ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اللہ سے امید رکھنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے.جو پہلے بھی میں نے بتائی ہے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا کہ اے اللہ اس قربانی کو قبول فرما.﴿إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾ (البقرة : 128 ).تو دعاؤں کو سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.ہماری نیت یہ ہے کہ مسجدیں بنانے سے ہماری عبادتوں میں بھی باقاعدگی پیدا ہو اور یہ مسجد یہاں تیرے مسیح کی خواہش کے مطابق احمدیت کی تبلیغ کا ذریعہ بھی بنے.اس کے لئے ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے ، ہماری قربانی کو قبول کرتے ہوئے اس مسجد کے ارد گرد ہمیں اس قوم میں سے بھی نمازی عطا فرمادے، تو اللہ تعالیٰ یقیناً ایسی دعاؤں کو kh5-030425
293 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم سنتا ہے.کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مسجد میں تعمیر ہوں اور پھر اس کو آباد رکھنے کی بھی پوری کوشش ہو.آپ لوگ نیک نیتی سے مسجدیں بناتے چلے جائیں گے تو آبادیاں خود بخود وہاں پہنچ جائیں گی.اب مسجد فضل لندن کو دیکھ لیں اس وقت کے مبلغ نے یا شاید کسی احمدی نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ بہت دُور جگہ ہے.یہاں کوئی نہیں آئے گا.تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا نہیں جو جگہ مل گئی ہے یہ ٹھیک ہے یہیں بنائیں.آج دیکھ لیں جو مسجد فضل لندن کی یہ جگہ ہے، کس طرح آباد ہے.یہ علاقہ رہائش کے لحاظ سے بھی مہنگے علاقوں میں شمار ہوتا ہے.پھر آسٹریلیا میں سڈنی میں مسجد بنائی گئی تو جنگل تھا.رقبہ بڑا مل گیا جماعت نے وہاں لے لیا.حال یہ تھا کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ بعض گلیوں کے جو شرارتی لڑکے ہوتے ہیں، اُچکے قسم کے لڑکے ہوتے ہیں.ان کا اور چوروں اور ڈاکوؤں کا بھی روزانہ اس جنگل میں ڈیرہ رہتا تھا.ہر روز کوئی گروہ جنگل میں چھپنے کے لئے آ جاتا تھا.اور اس علاقے میں سڈنی میں ہماری یہ ایک مسجد تھی.یا ایک مشنری صاحب کا گھر تھا.میرا خیال ہے کہ اس زمانے میں شکیل منیر صاحب ہوتے تھے.اور وہ گھر بھی ٹین اور لکڑی کی دیوار سے بنا ہوا تھا.تو کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے مشنری صاحب روزانہ رات کو پولیس کو فون کر رہے ہوتے تھے کہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے.کبھی پولیس خود وہاں ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ سے چوروں ڈاکوؤں کی سرچ (Search) کر رہی ہوتی تھی.تو ان میاں بیوی کی جو اکیلے رہتے تھے راتیں بھی شاید جاگ کر گزرتی ہوں لیکن بہر حال اب وہی علاقہ آباد ہونا شروع ہو گیا ہے اور قریب قریب آبادیاں آ رہی ہیں.جنگل بھی کافی کٹ گیا ہے.ابھی بھی وہاں جو احمدی رہ رہے ہیں جو مسجد سے قریب ترین احمدی بھی ہے وہ بھی ہیں پچیس منٹ کی ڈرائیو (Drive) پر ہے.لیکن پھر بھی وہ خوش ہیں کہ ہماری مسجد ہے اور قریب ہے.اس کو دور نہیں سمجھتے.یہاں اس ملک میں تو کسی جگہ بھی میرے خیال میں کسی شہر کی مسجد بھی اتنی دور نہیں ہے کہ جو قریب ترین احمدی بھی ہو وہ چھپیں تمیں منٹ کی ڈرائیو (Drive) پر ہو.اس لئے یہ بہانے ہیں کہ مسجد ویرانے بن گئی یا ایسے علاقے میں بن گئی جہاں رہائشی علاقہ نہیں ہے.اس لئے ہم مسجد جا نہیں سکتے.پھر یہ لکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ سوائے اس کے جس نے نئی نئی کار چلانی سیکھی ہو اور کار چلانے کا شوق ہو وہ مسجد چلا جائے تو چلا جائے اور کوئی اتنی دور مسجد میں نہیں جا سکتا.پس ان بہانوں کو چھوڑ دیں کہ مسجد میں اتنی دور ہیں.یہ بھی ان بے چاروں پر بدظنی ہے جو مسجد میں جاتے ہیں کہ کار چلانے کے شوق میں مسجد آتے ہیں.عبادت کرنے کے شوق کے لئے مسجد نہیں آتے.مسجد میں بہر حال ہمیں ان بہانوں سے بچتے ہوئے آباد کرنی چاہئیں اور آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جماعت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 294 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء کی ترقی کے لئے مساجد کی تعمیر ضروری ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی خواہش تھی کہ یورپ میں اگر ہم اڑھائی ہزار مسجدیں بنالیں تو تبلیغ کے بڑے وسیع راستے کھل جائیں گے.ابھی تو ہمارے پاس پورے یورپ میں چند مساجد ہیں جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے.پس ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے.اور اگر آپ پختہ ارادہ کر لیں تو یقینایہ کوئی ایسالباسفر نہیں ہے.اور یہ کوئی ایسا مشکل ٹارگٹ نہیں ہے کہ آپ حاصل نہ کر سکیں.پھر حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بھی بڑے غور کے بعد ( جیسے کہ میں نے کہا ہے یہ ٹارگٹ آپ کو دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر خلفاء بھی یہی کہتے رہے تو ان ارشادات کو سننے کے بعد یہ بات تو ختم ہو گئی کہ مسجدوں کی ابھی ضرورت نہیں ہے، جماعت کچھ کم ہے.کہیں اور پیسے خرچ کئے جائیں.اب صرف آپ کا مسئلہ یہ رہ گیا کہ جہاں مساجد بنائی جا رہی ہیں وہاں بنائی جائیں یا ذ را با ہر نکل کر بنائی جائیں یا شہروں کے اندر بنائی جائیں.اور سال میں کتنی بنائی جائیں؟ یہ جو سوال ہے کہ اگر شہر سے با ہر نکل کر بنے تو وہاں نمازی نہیں آتے اس کے بارے میں کچھ تو میں وضاحت کر چکا ہوں، اس لئے اپنی سوچ کو بدلیں.اس کے علاوہ بعض عملی وقتیں بھی ہیں جو صرف جرمنی میں نہیں ہیں بلکہ بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں.جو پلاٹ شہروں کے ساتھ بالکل اندر ہوں بڑے مہنگے ہوتے ہیں.پارکنگ کے مسائل ہوتے ہیں.مسجد بنانے کیلئے اجازت کے مسائل ہیں.اور اس طرح کے کئی اور مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں.ان ملکوں میں مقامی لوگوں اور کونسل سے بڑی بحث و تمحیص کے بعد کہیں جا کر مسجد بنانے کی اجازت ملتی ہے.تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ ہمارے وسائل کے لحاظ سے ہمیں نسبتا بہتر ، اچھے پلاٹ کہاں مل سکتے ہیں.اس کے مطابق لینے کی کوشش کرنی چاہئے اور لئے جاتے ہیں.اب آپ دیکھ لیں آپ کے کئی شہر ہیں.جماعتیں ہیں جو بعض قصبوں اور شہروں میں مساجد بنانا چاہتی ہیں.لیکن انکے پلاٹ کے حصول اور مسجد کی تعمیر کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے باوجود خواہش ہونے کے ابھی تک جماعتیں اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکیں.اب برلن کی مسجد یہاں بن رہی ہے.وہی دیکھ لیں بڑی دقتیں پیدا ہو رہی ہیں.میری یہ شدید خواہش ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس خواہش کی جلد از جلد تکمیل ہو جائے کہ برلن مسجد بن جائے.خلافت ثانیہ سے برلن میں مسجد بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے.ہندوستان کی لجنہ نے اس کیلئے رقم جمع کی تھی لیکن بعض وجوہات کی بناپر مسجد تعمیر نہ ہوسکی.پھر وہی رقم مسجد فضل لندن میں خرچ ہو گئی.بہر حال ابھی ایک عرصہ سے کوشش کی جارہی ہے.لیکن کبھی پلاٹ کے حصول میں دقت، وہ ملا تو کونسل کے اعتراضات، وہ دور ہوئے تو علاقے کے لوگوں کے اعتراضات، وہ دور ہوئے تو بعض شرارتی عنصر جس کا کام شور شرابا کرنا ہے، ان کی طرف سے طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 295 خطبہ جمعہ 16 جون 2006ء بہر حال امید ہے کوششیں جاری ہیں کہ جلد تعمیر ہو جائے گی ، انشاء اللہ تعالی.آپ لوگ بھی دعا کریں اور دنیا کے احمدی بھی دعا کریں کہ یہ مسجد تعمیر ہو جائے.کیونکہ یہ ایسٹ جرمنی میں ہماری پہلی مسجد ہوگی.اور آج کل جو اسلام کو بدنام کرنے والا ایک تصور پیدا کیا جارہا ہے اسکی وجہ سے یہ ساری روکیں پیدا ہو رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ یہ تعمیر جلد مکمل ہو جائے اور پھر ان کو جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کی جو خوبصورت اور حسین تعلیم ہے اسکے بارے میں پتہ چلے گا اور وہ بتائی جائے گی انشاء اللہ تعالی.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بھی یورپ میں مسجد میں بنانے کی خواہش تھی اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بھی یہ خواہش تھی اور انہوں نے آپ لوگوں کی استعدادوں کو دیکھتے ہوئے دس سال میں 100 مساجد بنانے کی تحریک فرمائی.لیکن کچھ مستیوں اور کچھ معاشی حالات کی وجہ سے یہ تعمیر نہ ہو سکی.پھر میں نے حالات کے مطابق امیر صاحب کو کہا کہ پانچ مسجد میں ہی ہر سال بنائیں.کیونکہ جرمنی جماعت کی سابقہ روایات کو دیکھ کر میرا خیال تھا اور ہے کہ جو بھی حالات ہوں آپ اتنی مساجد ہر سال بنا ئیں گے اور اللہ کے فضل سے بنا سکنے کی پوزیشن میں ہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ جرمنی یورپ کا پہلا ملک ہوگا جہاں کے سو شہروں یا قصبوں میں ہماری مساجد کے روشن مینار نظر آئیں گے اور جس کے ذریعہ سے اللہ کا نام اس علاقے کی فضاؤں میں گونجے گا جو بندے کو اپنے خدا کے قریب لانے والا بنے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو یہ کام مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.لیکن امیر صاحب کو میرے یہ کہنے پر کہ آپ لوگ پانچ مسجد میں کم از کم بنائیں یا مزید توجہ دیں.لوگوں نے یہ تاثر لے لیا ہے کہ شاید میں امیر صاحب سے یا جماعت جرمنی سے ناراض ہوں تو یہ بالکل غلط تاثر ہے.ہاں اگر آپ لوگ خدا نہ کرے، خدا نہ کرے، خدا نہ کرے مکمل طور پر اس بات سے انکاری ہو جائیں کہ مسجد میں بن ہی نہیں سکتیں تو پھر میری ناراضگی بہر حال حق بجانب ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی نہیں لائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.میرے توجہ دلانے پر اور ذیلی تنظیموں کے سپرد یہ کام کرنے پر کہ آپ لوگوں نے مساجد کی تعمیر کے لئے اپنی تنظیموں کو توجہ دلانی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مثبت نتائج پیدا ہوئے ہیں.خدام الاحمدیہ نے ہر سال ایک ملین یورو دینے کا وعدہ کیا تھا اور اللہ کے فضل سے اپنے وعدے سے بڑھ کر ادا ئیگی کی ہے.الحمد للہ.گزشتہ سال بھی انہوں نے 1.2 ملین دیا.اس سال کا وعدہ بھی 1.1 ملین کا تھا اور اس سے زائد اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصولی ہو چکی ہے.الحمد للہ.تو اگر نیک نیتی ہو، اللہ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہو، اس کے نام کی سربلندی مقصد ہو، اسلام اور احمدیت کا جھنڈا دنیا میں لہرانا چاہتے ہوں تو کوئی معاشی روکیں اور دوسری ضروریات کے جو بہانے ہیں وہ راہ میں حائل نہیں ہو سکتے.اسی طرح انصار اللہ نے بھی kh5-030425
296 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم میرا خیال ہے پانچ لاکھ یورو کا وعدہ کیا تھا.اور لجنہ نے بھی پانچ لاکھ کا.میرے پاس ان کی رپورٹ تو نہیں ہے.لیکن مجھے امید ہے کہ جو بھی انہوں نے وعدہ کیا تھا یہ بھی پورا کر چکے ہوں گے یا کرنے کے قریب ہوں گے.یہ تو مجموعی حالت ہے.لیکن بعض جماعتیں اور مجالس ایسی ہیں جوست ہیں.وہ اپنے جائزے لیں کہ کہاں کہاں کیا کمزوریاں ہیں، کہاں کمیاں ہیں، کہاں نفس کے بہانے ہیں، کہاں بے تو جہگی ہے مجھے امید ہے کہ اگر ان کمزوروں کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ بہتر نتائج سامنے آئیں گے.ذیلی تنظیموں میں میرے خیال میں انصار اللہ میں ابھی گنجائش موجود ہے ان کو کوشش کرنی چاہئے.تو بہر حال جیسے کہ میں نے پہلے کہا تھا اس تاثر کو اب ختم کر دیں کہ توجہ میں اس لئے دلا رہا ہوں اور ٹارگٹ میں کمی میں نے اس لئے کی ہے کہ کوئی ناراضگی تھی، یہ تاثر ختم ہونا چاہئے.اور جن کے خیال میں اگر ناراضگی تھی ( اول تو تھی نہیں) مگر جن کے خیال میں تھی تو ان کو بجائے باتیں بنانے کے اور اعتراض کرنے کے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے.اور ایسے لوگوں کو بھی میری یہ نصیحت ہے کہ بلا وجہ خود ہی نتیجے اخذ نہ کر لیا کریں اس سے بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.اس ضمن میں یہ بھی بتادوں کہ 1997ء میں جب حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ توجہ دلائی تھی تو اس پر ایک تو بعض مرکزی اداروں نے وعدے کئے تھے.وہ وعدے جن اداروں نے پورے کر دیئے تھے ان کی ادائیگی وکالت مال کے ذریعہ سے جماعت جرمنی کو کر دی گئی تھی.اور جن کے وعدے پورے نہیں ہوئے تھے یا ابھی تک نہیں ہوئے وہ میں نے وکالت مال کو کہا ہے کہ جائزہ لے کر وصولی کی کوشش کریں.اسی طرح حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کی خدمت میں بعض لوگوں نے انفرادی طور پر بھی بعض وعدے کئے تھے، جو جرمنی سے باہر کے تھے.وہ بھی امید ہے وصول ہو چکے ہوں گے.جو نہیں ہوئے ان کے لئے میں نے کہا ہے کوشش کریں تا کہ اس سلسلہ میں کچھ نہ کچھ مدد ہو جائے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع " نے 1997ء میں ہی یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ حضرت سیدہ مہر آپا مرحومہ ( جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی نہ کی بیگم تھیں ) کی طرف سے مساجد کے لئے وعدہ ادا ہو گا.کیونکہ حضرت سیدہ مہر آپا نے اپنی جو ساری جائیداد تھی وہ جماعت کے نام کر دی تھی تو حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے فرمایا تھا کہ جو بھی اس کی آمد ہوگی اس میں سے ہر سال کچھ نہ کچھ ادا ئیگی ہوتی رہے گی.( کوئی معین وعدہ کیا تھا جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ).اور وہ ادا ئیگی بہر حال ہوتی رہی ہے.اگر کوئی پچھلے سالوں کا بقایا ہے تو وہ ادا ہو جائے گا.لیکن کیونکہ اور جگہوں پر بھی خرچ ہوتا ہے تو آئندہ بھی اس مقصد کے لئے ان کی جو گنجائش نکل سکتی ہے اسے دیکھ لیں گے.امید ہے کہ جب تک آپ مسجدیں بنا نہیں لیتے ، انکی kh5-030425
297 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم طرف سے بھی ہر سال دس ہزار یورو کا وعدہ آتا رہے گا.اللہ تعالیٰ ان کی جائیداد میں برکت ڈالے.بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مساجد کی تعمیر کے لئے جور تم جمع ہوئی.( شروع میں جماعت نے بہت قربانی دی تھی ) اس سے بعض سنٹر خریدے گئے.ان میں بیت السبوح بھی شامل ہے جن پر بڑی رقم خرچ ہوگئی.ان کی بجائے پہلے مساجد بنانی چاہئے تھیں.تو اس بارے میں پہلے بھی میں ایک دفعہ مختصراً کہہ چکا ہوں کہ جو کام خلیفہ وقت کی اجازت سے ہوئے ہوں ان پر زیادہ اظہار خیال نہیں کرنا چاہئے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی اجازت سے ہی بیت السبوح خریدی گئی تھی اور بعض دوسری عمارتیں اور جگہیں بھی خریدی گئی تھیں.پھر بعض علاقے کے احمدیوں کو بعض جماعتوں کو ایک اور فکر ہے کہ انہوں نے یعنی وہاں کی مقامی جماعت نے اپنے وعدے کے مطابق ایک مسجد کی تعمیر کے لئے جتنی رقم کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ادا ئیگی کر دی ہے اور وہاں مسجد میں نہیں بنیں.اب ان کو مزید نہیں کہنا چاہئے.اُن کے خیال میں وہ رقوم جو انہوں نے دیں وہ دوسری مساجد میں خرچ ہو گئیں.تو یا درکھیں جماعتوں کا ، یا جن کا بھی یہ خیال ہے ان کا کام تھا کہ اپنی جگہ پر پلاٹ تلاش کرتے.اب میں نے مسجد کی تعمیر کے لئے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ تعمیر کے سلسلہ میں امید ہے کہ بہتری ہوگی.لیکن اگر ایسی جماعتوں میں جہاں ابھی تک مسجد تعمیر نہیں ہوئی اور مسجد کی تعمیر کے برابر جتنی ان کو ضرورت پڑ سکتی ہے وہ رقم ادا کر چکے ہیں تو ان کو چاہئے کہ جگہ تلاش کریں.جب بھی جگہ ملے گی ، پلاٹ ملے گا ان کو رقم انشاء اللہ مہیا ہو جائے گی.پھر مسجد کی تعمیر کی اجازت لیں تو تعمیر کے لئے بھی انشاء اللہ رقم مہیا ہو جائے گی.لیکن یہ کام کرنا کہ پلاٹ بھی لینا اور اس پر تعمیر کی اجازت بھی لینا آپ لوگوں کا کام ہے.اگر جماعت جرمنی نے اور دوسرے پراجیکٹ یعنی مسجدوں کے اور پراجیکٹ شروع کر دیئے ہیں اور رقم وہاں لگ گئی ہے.اور آپ کا ، ایسی جماعت کا نمبر اس وجہ سے پیچھے چلا گیا ہے تو وہ فکر نہ کریں، مجھے بتائیں.ایسی جماعتیں جو اتنی رقم جمع کر چکی ہیں کہ جس سے مسجد بن سکے اور جو ہمارا کم از کم اندازہ ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت میں مسجد کا کام اس رقم کی وجہ سے نہیں رکے گا.چاہے مسجد کا چھٹا نمبر ہو یا ساتواں نمبر ہو یا آٹھواں نمبر ہو.چاہے پانچ مسجدیں بن رہی ہوں.لیکن اگر مالی استطاعت ہے تو یہ کہہ کر کہ ہم اتنی رقم ادا کر چکے ہیں کہ اس سے ایک مسجد بن جائے اس لئے اب ہماری جماعت مزید ادائیگی نہیں کرے گی ، یہ غلط طریق کار ہے.اپنے ہاتھ روکنے نہیں چاہئیں بلکہ جو کمزور جماعتیں ہیں ان کی مدد کے لئے مسجد کے فنڈ میں ادا ئیگی کرتے رہیں اور کرتے رہنا چاہئے.حدیث آپ نے سن لی ہے کہ مسجد بنانے والا جنت میں اپنا گھر بناتا ہے.تو جنت میں جتنے بھی گھر بن جائیں.اتنا ہی زیادہ بخشش کا سامان ہو رہا ہوگا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 298 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء پس آپ اس لحاظ سے بے فکر رہیں کہ ہماری طرف پوری طرح توجہ نہیں دی جا رہی.اگر مقامی جماعت اور مرکزی کمیٹی جگہ پسند کرتے ہیں.تو جرمنی کی جماعت کے پاس اگر فوری طور پر رقم میسر نہیں بھی ہو گی تب بھی اس کا انتظام ہو جائے گا.انشاء اللہ.آپ پلاٹ خریدنے والے بنیں.پس آپ لوگ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے آزاد ہو کر اللہ کی خاطر مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ دیتے چلے جائیں اور دیتے چلے جانے والے بنتے رہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس سے آپ کی تبلیغ کے راستے کھلیں گے.دوسری اہم چیز یہی ہے کہ تبلیغ کی طرف کوشش ہو.اس کے لئے اپنی حالتوں کو درست کرنے کے بعد، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کے بعد، اپنی مسجدوں کو پیار و محبت کا نشان بنانے کے بعد، جس سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے پیغام کے ساتھ پیارو محبت کا پیغام ہر طرف پھیلانے کا نعرہ بلند ہو، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اپنے علاقے کے ہر شخص تک پہنچا دیں.یہی پیغام ہے جواللہ تعالی کی پسند ہے.اور یہی پیغام ہے جس سے دنیا کا امن اور سکون وابستہ ہے.یہی پیغام ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ہے.آج روئے زمین پر اس خوبصورت پیغام کے علاوہ کوئی پیغام نہیں جو دنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنا سکے اور بندے کو خدا کے حضور جھکنے والا بنا سکے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.کہ ﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ) (حم السجدة :34) - یعنی اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.پس یہ کامل فرمانبرداری جس کی ہر احمدی سے توقع کی جاتی ہے اس وقت ہوگی جب نیک ، صالح عمل ہو رہے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی ہو رہی ہوگی.اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے اور پھر ایسے لوگ جب دعوت الی اللہ کرتے ہیں تو ان کی سچائی کی وجہ سے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.اور ان نیک کاموں کی وجہ سے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے بھی منظور نظر ہو جاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد بھی فرماتا ہے.تبلیغی میدان میں ان کی روکیں دور ہو جاتی ہیں.وہی مخالفین جو مساجد کی تعمیر میں روکیں ڈال رہے ہوتے ہیں وہی جو مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہی جو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے علاقے میں مسلمان عبادت کی غرض سے جمع ہوں جب آپ کے عمل دیکھیں گے، آپ کی عبادتیں دیکھیں گے، آپ کی پیشانیوں پر ان لوگوں کو نشان نظر آئیں گے جن سے مومن کی پہچان ہوتی ہے.ایسے ظاہری نشان نہیں جیسے آجکل دکھاوے کے لئے لگا لئے جاتے ہیں.مجھے کسی نے بتایا کہ کراچی میں وہ جائے نماز خرید نے کے لئے گیا تو جس دکاندار سے جائے نماز خریدی اُس نے چند پڑیاں بھی لاکر دیں.انہوں نے کہا یہ کیا kh5-030425
299 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ہے.اس نے کہا یہ مصالحے ہیں اس کو رگڑو گے تو ماتھے کی جلد پر ایسا نشان پڑے گا اور یہ مصالحہ لگاؤ گے تو ماتھے کی جلد پر ایسا نشان ڈل جائے گا.تو یہ ہیں ان لوگوں کے نشانات.ایسے لوگوں کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کی نمازیں بھی الٹا کر ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے پھر اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ تم ایسے کام کرو گے اور تم اپنا ہر فعل خدا کی خاطر کرو گے اور کامل فرمانبردار بن جاؤ گے تو پھر تمہاری ان کوششوں کو اللہ تعالیٰ اس طرح پھل لگائے گا کہ جو تمہارے دشمن ہیں وہ بھی تمہارے دوست بن جائیں گے.جیسا کہ فرماتا ہے.﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (حم السجدة :35) کہ ایسی چیز سے دفاع کر جو بہترین ہو.تب ایسا شخص جس کے اور تیرے در میان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا.پس بہترین دفاع اسلام کی خوبصورت تعلیم سے، اور اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے ہوگا.یہ سب الزامات جو آج اسلام پر لگائے جاتے ہیں اُن کو عملی نمونے کے ساتھ دھونے کے لئے ، اس پیغام کو پہنچانا بہت ضروری ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جائے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سمجھ لے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.عجب ، خود پسندی ، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے.جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں“.پھر فر مایا: ”اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟.اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اس پر صبر کیا جائے.یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے اس کے بارے میں ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا.اور یہ سزا اس سزا سے بہت بڑھ کر ہوگی جو انتظامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو.یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے.خوش اخلاقی ایک ایسا جو ہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 50-51 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ اعمال صالحہ کا معیار ہے جو ہم نے اپناتا ہے.اور اس سے تبلیغی راستے بھی کھلیں گے.اور اس سے ہماری آپس کی رنجشیں اور کدورتیں بھی دور ہوں گی.کیونکہ نیک نمونے دکھانے کے لئے ، احمدی معاشرے کا وقار قائم کرنے کے لئے آپس میں بھی محبت پیار سے رہتے ہوئے رنجشیں دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.kh5-030425
300 خطبہ جمعہ 16 جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ صبر کرو.تو آپس میں زیادہ بڑھ کر صبر کے نمونے دکھانے چاہئیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ یہ برداشت اور صبر کی سزا لڑنے کی سزا سے زیادہ سخت ہے.اور جب اس نیت سے اپنوں اور غیروں کی سختیاں برداشت کریں گے کہ میری بے صبری اللہ کا پیغام پہنچانے میں کہیں روک نہ بن جائے تو اللہ تعالیٰ ہر طرف سے اپنے فضلوں کی بارشیں برسائے گا انشاء اللہ.آپ کو نئے پھل بھی استقامت دکھانے والے اور آگے نیکیوں کو پھیلانے والے عطا ہوں گے اور مسجدوں کی تعمیر میں جو روکیں ہیں وہ بھی دور ہوں گی.اور ان قربانیوں کی وجہ سے جو جذبات اور مال کی قربانیاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے مال و نفوس میں بھی برکت عطا فرمائے گا.پس اس طرف خاص کوشش کریں.آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان پاک نمونوں کو دیکھتے ہوئے جو ہم میں سے بعض احمدیوں کے ہیں، یا اکثر احمدیوں میں کہنا چاہئے اور جن کی وجہ سے تبلیغی میدان میں بیعتیں ہوتی ہیں یہ بہت ہی مد و معاون ثابت ہوئے ہیں.ان نمونوں کو دیکھنے کی وجہ سے جو بیعتیں ہوئی ہیں، جو بھی ان نمونوں کو دیکھتے ہوئے جماعت میں داخل ہوئے ہیں وہ آگے احمدیت کا پیغام پہنچاتے ہیں اور ہر دن ان کو احمدیت پر مضبوطی سے قائم کرتا چلا گیا ہے.اور جو کمزور احمدیوں کی صحبت میں رہے وہ ٹھوکر کھا گئے یا ٹھو کر کے قریب پہنچ گئے.پس استغفار کرتے ہوئے ، اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں کہ استغفار کا ہی حکم اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں ہمیں دیا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء 301 25 خطبات مسرور جلد چہارم اللہ تعالیٰ کی صفتِ ناصر اور نصیر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی نصرت ہر موقع پر فرما کران کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتا ہے اور اپنی تائیدات کے نظارے دکھاتا ہے فرمودہ مورخہ 23 جون 2006ء (23 /احسان 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ.إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ.وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَلِبُونَ الصَّفت : 172 تا 174) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور بلاشبہ ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے حق میں ہمارا یہ فرمان گزر چکا ہے کہ یقینا وہی ہیں جنہیں نصرت عطا کی جائے گی اور یقیناً ہمارالشکر ضر ور غالب آنے والا ہے.سفر پہ جانے سے پہلے جو جمعہ تھا اس میں میں اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر کے بارے میں بتا رہا تھا اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی نصرت ہر موقع پر فرما کر ان کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 302 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء ہے، فکروں کو دور فرما دیتا ہے اور اپنی تائیدات کے نظارے دکھاتا ہے.اور ان نظاروں کی انتہا اور معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہم پورا ہوتے دیکھتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے بے انتہا واقعات ہیں جہاں ہمیں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت نظر آتی ہے.میں نے اس خطبے میں قرآن کریم سے، ہجرت کے وقت اور پھر جنگ بدر میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی ، وہ آیات پیش کی تھیں اور ان کی مختصر وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں کی تھی.جیسا کہ میں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے ان ساروں کو بیان کرنا تو ممکن نہیں ان میں سے کچھ روایات کے حوالے سے میں اس وقت آپ کے سامنے رکھوں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح فرشتوں کی فوج کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت فرما تا رہا.آپ کی زندگی میں آپ کے دعویٰ نبوت کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن ہر موقع پر آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور جیسا کہ تمام انبیاء سے ہوتا چلا آیا ہے دشمن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ابتداء میں ہی نبی کو نقصان پہنچا کر یا اس کی جماعت کو نقصان پہنچا کر ختم کر دیا جائے.یا ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس سے نبی کا دعویٰ جھوٹا ہونے کا خیال لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے.اور سب سے بڑھ کر یہ کوشش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے زمانے میں ہوئی.آپ کے ماننے والوں پر سختیاں کی گئیں، آپ پر بے انتہا ظلم کئے گئے، آپ کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا جس کی وجہ سے آپ کے خاندان کو ، اور آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو شعب ابی طالب میں ان ظلموں سے بچنے کے لئے جانا پڑا اور وہاں تقریباً تین سال تک رہے.وہاں خوراک کا کوئی ایسا ذخیرہ تو تھا نہیں.کچھ عرصہ بعد بھوک اور پیاس کی سختیاں سب کو، بچوں کو اور بوڑھوں کو اور عورتوں کو برداشت کرنی پڑیں.بھوک اور پیاس سے بچے ، بڑے سب بیقرار تھے.حالت یہ تھی کہ ایک صحابی نے رات کے وقت چلتے ہوئے اپنے پاؤں کے نیچے آنے والی کسی نرم چیز کو اٹھا کر کھا لیا کہ اپنی بھوک مٹا سکیں.وہ کہتے ہیں کہ مجھے آج تک نہیں پتہ لگا کہ میں نے کیا کھایا تھا.بہر حال تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرما دیا کہ بائیکاٹ کا معاہدہ جو قریش کے بعض قبائل نے کیا تھا اور جس کی وجہ سے آپ کو اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھائی میں جانا پڑا اور وہاں جا کے رہنا پڑا.یہ معاہدہ کعبہ کی دیوار پر لٹکایا گیا تھا تا کہ ہر ایک قبیلے کو پتہ لگ جائے اور کوئی خلاف ورزی نہ کرے.اس معاہدے کے بارے میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چچا ابوطالب سے فرمایا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 303 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء کہ مجھے میرے خدا نے بتایا ہے کہ جو معاہدہ کعبہ کی دیوار پر لٹکایا گیا ہے وہ تمام کا تمام کیڑے نے کھا لیا ہے اور صرف خدا کا نام اس پر باقی رہ گیا ہے.چنانچہ ابو طالب نے خانہ کعبہ جا کر قریش کے بڑے بڑے سردار جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان سے کہا کہ اس طرح میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں.چنانچہ جب وہ اس معاہدے کو دیکھنے گئے تو اس کی حالت بالکل وہی تھی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھی.چنانچہ اس پر جو نرم دل سرداران قریش تھے انہوں نے کہا اب بہت ہو چکی کیونکہ پہلے بھی ان میں سے بعضوں کے دل نرم ہورہے تھے اور وہ چاہتے تھے یہ کسی طرح ختم ہو، اس لئے قطع تعلقی اب بند ہونی چاہئے.تو یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہی تھی جس کی وجہ سے معاہدہ اس طرح ختم ہوا.یہ ٹھیک ہے کہ کچھ عرصہ تک آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو ایک امتحان سے گزرنا پڑا لیکن اس بات کی طاقت اس وقت کسی میں نہ تھی کہ ان سرداران قریش کے مقابلے پر اس گھائی سے باہر آکر اپنے روزمرہ کے معمولات کے مطابق زندگی گزار سکیں.یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد ہی تھی جس نے ایسا انتظام فرما دیا.اس معاہدے کا کچھ بھی نہ رہا اور چند شرفاء کے دل میں اس وجہ سے خوف اور ہمدردی کے جذبات بھی پیدا ہوئے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے حق میں تائید و نصرت کی ہوائیں چلاتا ہے.ایسے مواقع دکھاتا ہے جو غیروں کو بھی نظر آئیں.گوراستے میں عارضی مشکلات آتی ہیں لیکن آخر کا ر خدا کا گروہ ہی غالب آتا ہے.اور اس وعدے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ پر تو گل کی وجہ سے انبیاء اور ان کی جماعتیں اللہ کے پیغام کو آگے بھی پہنچاتی ہیں اور اس کے ساتھ چھٹی رہتی ہیں اور باوجود سختیاں اور تکلیفیں برداشت کرنے کے ان کے قدم پیچھے نہیں ہٹتے اور ان کے دلوں میں کبھی ور غیر اللہ کا کوئی خوف پیدا نہیں ہوتا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام نبیوں کے سردار، خاتم الانبیاء تھے آپ پر بھی مشکلات کے بہت زیادہ ایسے موقعے آئے جو زیادہ کڑی مشکلات تھیں، بہت زیادہ سخت مشکلات تھیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کے غیر معمولی نظارے بھی دکھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پانچ مواقع آپ کی زندگی کے ایسے ہیں جو انتہائی غیر معمولی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بغیر ان سے نکلنا محال ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.انکے اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ: یادر ہے کہ پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا.اگر آنجناب در حقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 304 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضر ورقتل کریں گے.دوسر اوہ موقعہ تھا جب کہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابو بکر کے چھپے ہوئے تھے.تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جبکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا.اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگرکوئی کارگر نہ ہوئی.یہ ایک معجزہ تھا.چوتھا وہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا.پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے.پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبر دست دلیل اس بات پر ہے کہ در حقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا“.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 263-264 حاشیہ ) شعب ابی طالب کی قید سے باہر آنے کے کچھ عرصے بعد ہی حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ انتقال کر گئے.ان دو شخصیتوں کا قریش مکہ کو کچھ تھوڑا بہت لحاظ تھا.ابو طالب کے بزرگ ہونے کی وجہ سے اور حضرت خدیجہ ایک مالدار عورت تھیں، کافی اثر و رسوخ تھا.ان کی وفات کے بعد تو سب قریش اس بات پر قائم ہو گئے تھے کہ اب تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر صورت میں ختم کرنا ہے کیونکہ اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے.چنانچہ تمام سرداروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم تمام سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ قتل میں شامل ہوں گے تاکہ بنی ہاشم کے لئے کسی بدلے کی صورت نہ بن سکے اور وہ بدلہ نہ لے سکیں.تمام سرداروں کے مقابلے پر آنا اُن کے لئے مشکل ہوگا.لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش کا پتہ لگ گیا.چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کا فیصلہ کیا.اس قتل کی سازش کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے جو میں نے ابھی اقتباس پڑھا ہے کہ یہ بڑا سخت موقع تھا جب قریش نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا.تمام سردار قریش تلواریں تانے کھڑے تھے لیکن بے وقوفوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے جس منصوبہ بندی کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے ( تا کہ کسی پر الزام نہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 305 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء آئے ) جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ تو سب سے زیادہ اس نبی کی حفاظت اور نصرت فرماتا ہے.بیسیوں واقعات ان کفار کی نظر میں پہلے بھی گزر چکے تھے.وہ اس بات کے خود بھی گواہ تھے لیکن پھر بھی ان کو عقل نہ تھی.ابو جہل جو اس سارے پروگرام کا سرغنہ تھا وہ بھول گیا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک تاجر کا حق دلوانے کے لئے ابو جہل کے دروازے پر گئے تھے تو کیا نظارہ اس نے دیکھا تھا کہ آپ کی مدد کے لئے دو خونخوار اونٹ آپ کے دائیں بائیں کھڑے تھے تا کہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.تو اس کی وجہ سے اس نے آپ کے کہنے کی فوراً تعمیل بھی کی اور اس تاجر کا قرضہ بھی دے دیا.بہر حال جب منصوبہ بندی کر کے یہ سب لوگ آپ کے دروازے کے باہر گھیرا ڈال کر کھڑے تھے اور گھیراؤ کیا ہوا تھا تو آپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگوں کی امانتیں دے کر ان کو یہ ہدایت دے رہے تھے کہ ان کو واپس لوٹا کر صبح آجانا اور تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ تا کہ کفار اگر دیوار پر سے جھانکیں اور دیکھیں تو یہی سمجھیں کہ میں لیٹا ہوا ہوں اور آپ ہجرت کیلئے تیاری کرنے لگے.آپ نے حضرت علی کو یہ بھی فرمایا کہ دشمن تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکے گا.یہ یقین تھا آپ کو نہ صرف اپنی ذات کے بارے میں بلکہ اپنے ماننے والوں کے بارے میں بھی کہ یہ بچے ایمان والے ہیں.آج کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ظاہر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عظیم نظارے نظر آنے ہیں اس لئے اے علی ! تم جو میرے دین پر مکمل ایمان لاتے ہو بے فکر رہو دشمن تمہیں کوئی بھی گزند نہیں پہنچا سکے گا.پھر آپ بڑے آرام سے ان دشمنوں کے درمیان سے ہی نکل گئے.نہ کوئی خوف اور نہ فکر کہ باہر دشمن کھڑا ہے اگر پکڑا گیا تو کیا ہوگا.یہ تو خیر فکر تھی ہی نہیں کہ پکڑا جاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اجازت سے یہ ہجرت ہو رہی تھی اسلئے دل اس یقین سے پُر تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی حفاظت فرمائے گا اور ہر قدم پر مددفرماتے ہوئے محفوظ رکھے گا.مکہ سے نکلتے ہوئے آپکو بڑا صدمہ بھی تھا.آپ نے یہ الفاظ کہے کہ مکہ ! تو مجھے ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے.خیر وہاں سے نکل کر آپ کو حضرت ابو بکر بھی راستے میں مل گئے (جن سے پروگرام پہلے ہی طے تھا) اور آپ انکو ساتھ لے کر غار ثور کی طرف چل پڑے.وہاں پہنچ کر حضرت ابو بکر نے غار کو اچھی طرح صاف کیا تمام سوراخوں کو اچھی طرح بند کیا جو غار میں تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اب آپ اندر تشریف لے آئیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور بے فکر ہو کر حضرت ابو بکر کی ران پر سر رکھ کر سو گئے.کوئی اور ہو تو فکر سے ایسے حالات میں نیند اڑ جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ شامل حال رہنے کا اس قدر یقین تھا کہ کسی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 306 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء قسم کی فکر کا کوئی شائبہ تک نہ پیدا ہوا.چنانچہ اگلے آنے والے وقت نے بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت سے دل پر از یقین تھا.اللہ تعالیٰ نے بھی کسی طرح نصرت فرمائی.فوراً مکڑی کو حکم دیا کہ غار پر جہاں درخت لگا ہوا تھا اس کے اوپر جالائن دو.اور کبوتر کو حکم ہوا کہ گھونسلہ بھی بنا دو اور انڈے دے دو.تو اللہ تعالیٰ نے یہ حفاظت اور نصرت کے جو فوری سامان فرمائے تھے یہ غیر معمولی نشان تھا.قریش جب تعاقب کرتے ہوئے غار کے قریب پہنچے تو وہاں پہنچ کر دیکھ رہے تھے کہ پاؤں کے نشان تو یہاں تک آ رہے ہیں اور اکثر نے کہا کہ یہاں آ کر یا تو ان لوگوں کو زمین نگل گئی ہے یا آسمان پر چڑھ گئے ہیں.ایسی صورت حال میں وہ غار میں نہیں جاسکتے جبکہ مکڑی نے جالا بھی بنا ہوا ہے اور گھونسلہ بھی ہے.اس صورت میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ کسی کو غار میں جھانکنے کا خیال ہی نہیں آیا.اور کسی نے کہا بھی تو دوسروں نے اس کو رڈ کر دیا.تو کفار کے دل میں غار میں نہ جھانکنے کا یہ خیال آنا بھی اللہ تعالیٰ کی اس نصرت کی وجہ سے تھا جو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرما رہا تھا.یہ لوگ اتنا قریب تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے شدید گھبرا گئے تھے.لیکن آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبۃ : 40) کوئی فکر نہ کر واللہ ہمارے ساتھ ہے.تو یہ دوسرا موقع تھا جب دشمن قریباً آپ کے سر پر پہنچ گیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا تعالیٰ کی مدد پر اتنا یقین تھا کہ کوئی پرواہ نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دوسرے واقعہ کا ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو تائید فرماتے ہوئے اس خطرناک حالت سے نکالا.پھر تیسرا واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان کیا ہے وہ احد کی لڑائی کا ہے.یہ ایسا موقع ہے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے ورنہ اُس وقت جو حالات تھے وہ ایسے تھے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی دنیا دار اس سے بچ کر نکل سکے.اس جنگ میں مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے جب جنگ کا پانسہ پلٹا اور کفار نے دوبارہ حملہ کیا تو ایک افراتفری کا عالم تھا.اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد صرف چند جاں نثار صحابہ رہ گئے تھے.لیکن کفار کے بار بار کے حملے جو ایک ریلے کی صورت میں ہوتے تھے وہ بھی اتنے سخت ہوتے تھے کہ یہ چند لوگ بھی سامنے کھڑے نہیں رہ سکتے تھے، ایک طرف بٹ جاتے تھے اس وجہ سے تتر بتر ہو جاتے تھے.اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ جاتے تھے.اس موقع پر تیروں کی بارش بھی آپ پر ہوئی جو صحابہ میں سے زیادہ تر حضرت طلحہ نے اپنے ہاتھ پر لی.اور تلواروں سے بھی حملے ہوئے اور اسی موقعے پر جب صحابہ ادھر ادھر ہوئے تو اس وقت جو بھی تلواریا تیر آتا تھا اللہ تعالیٰ اس سے بچالیتا تھا تا ہم دو پتھر دشمن کے پھینکے ہوئے آپ کو لگے اور آپ زخمی ہو گئے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 307 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ایسے حالات میں جو نتیجہ نکلنا چاہئے اور دشمن کی جو کوشش تھی کہ آج مسلمانوں کو مکمل طور پر شکست کا سامنا کرنے پڑے اور آج موقع ہے کہ ان کو ختم کر دیا جائے یا اتنی کمر توڑ دی جائے کہ یہ اٹھنے کے قابل نہ رہیں تو یہ نتیجہ جو وہ نکالنا چاہتے تھے اور دشمن کی جو کوشش تھی کہ بالکل ختم کر دینا ہے، آپ کو قتل کرنے کی بھی نعوذ باللہ کوشش تھی جو نا کام ہوئی.ایسے حالات میں سوائے اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کے یہ ہو نہیں سکتا.مسلمانوں کو مکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے جو نقصان اٹھانا پڑا اور اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ نکلا لیکن دشمن کو جس آخری نتیجے کی تمنا تھی ، خواہش تھی وہ اللہ تعالیٰ نے پوری نہ ہونے دی.پھر ( حضرت مسیح موعود نے تو اس کا ذکر نہیں کیا لیکن قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے ) حنین کی جنگ میں جب مسلمانوں کو اپنی تعداد دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ اب ہم بہت بڑی تعداد میں ہو گئے ہیں ، بارہ ہزار کا لشکر ہے کون ہم پر غالب آ سکتا ہے.کیونکہ اس لشکر میں نئے آنے والے مسلمان بھی شامل تھے لیکن ان نئے آنے والوں میں ایمان کی کمزوری بھی تھی.شروع میں ایک حملے کے بعد ایسی حالت پیدا ہوئی کہ شکست کی صورت پیدا ہونی شروع ہو گئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدے کے مطابق کہ میرا لشکر ہی غالب آتا ہے اپنی نصرت فرماتے ہوئے ان بدلے ہوئے مخالف حالات کو مسلمانوں کے حق میں بدل دیا.یہاں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہاری اکثریت یا تمہاری عقل یا تمہاری طاقت غالب نہیں آئے گی بلکہ ہر غلبہ میری نصرت کا مرہون منت ہے اس لئے ہمیشہ مجھ سے ہی مدد مانگو.اس نکتے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی سمجھتے تھے اور پرانے صحابہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پائی وہ بھی سمجھتے تھے لیکن نئے آنے والوں کو علم نہیں تھا.تو بہر حال اس جنگ میں جیسا کہ میں نے کہا بعض کمزور ایمان والے بھی تھے اور کیونکہ فورا فتح مکہ کے بعد ہی یہ جنگ لڑی گئی تھی اور اکثر کے ایمان ایسے پختہ ابھی نہیں ہوئے تھے نہ تربیت تھی اور کچھ ویسے بھی دل سے ایمان بھی نہیں لائے ہوئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا جہاں تک سوال ہے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے آپ کی دعا کا تو ہمیشہ یہ حال رہتا تھا جس کی حالت ہمیں جنگ بدر کے واقعہ میں نظر آتی ہے کہ کس طرح تڑپ تڑپ کر آپ اللہ سے نصرت مانگ رہے تھے.آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہ کہنا پڑا کہ آپ کو اتنی فکر کیوں ہے.اللہ کا آپ سے وعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ آپ کی تائید و نصرت فرمائے گا.تو بہر حال جنگ حنین میں یہ مسلمانوں کے ایمان کی کمزوری تھی جس کا نتیجہ شروع میں مسلمانوں نے دیکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ کا تو ہر جنگ میں دعا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 308 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء پر اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اتنا یقین ہوتا تھا لیکن باوجود یقین ہونے کے کبھی دعا کا ساتھ نہیں چھوڑا.جب بھی کوئی جنگ ہوئی ہوتی مہم سر کرنی ہوتی آپ ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کرتے تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! تو ہی میرا سہارا ہے اور تو ہی میرا مددگار ہے اور تیری ہی دی ہوئی توفیق سے میں جنگ کر رہا ہوں.(مسند احمد بن حنبل، مسند انس بن مالك حديث نمبر 12940 صفحه 476 عالم الكتب بيروت ایڈیشن (1998ء) تو دعا تو آپ ہمیشہ کیا کرتے تھے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اس میں کمزور ایمان والوں کی وجہ سے نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر فرمایا ہے.فرماتا ہے لقد نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِيْنَ) (التوبہ : 25 ) کہ یقینا اللہ بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کر چکا ہے خاص طور پر حسنین کے دن بھی جب تمہاری کثرت نے تمہیں تکبر میں مبتلا کر دیا تھا.پس وہ تمہارے کسی کام نہ آ سکی اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی.پھر تم بیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے.یعنی تمہاری کثرت تعداد یا اس وجہ سے تکبر جو بعض نئے آنے والے مسلمانوں کے دل میں پیدا ہو گیا تھا یہ کسی کام نہ آسکا کہ ہماری تعداد زیادہ ہے، ہم طاقتور ہیں، ہمارے پاس ہتھیار بہت زیادہ ہیں.اُس وقت پہلا حملہ جیتنے کے باوجود شکست کی صورت پیدا ہوگئی لیکن ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت ہی کام آئی اور وہ اس لئے کہ اللہ کا اپنے رسول اور بچے اور پکے مومنوں سے وعدہ ہے کہ میں تمہارا مددگار بنوں گا اور یہ بتادیا کہ اصل فتح تمہاری پہلے بھی اور آئندہ بھی میری نصرت کی وجہ سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ہے جس کو میں ہمیشہ قبول کرتا ہوں اور اس نصرت اور دعا کا نتیجہ ہے کہ اس جنگ میں بھی حالات بدلے اور پھر مسلمانوں نے آخر نتیجہ فتح پائی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اَنْزَلَ اللهُ سَكِيْنَتَهُ عَلَى رَسُوْلِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَفِرِيْنَ ﴾.(التوبہ : 26 ) پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے.اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کیا تھا اور کافروں کی ایسی ہی جزا ہوا کرتی ہے.پس یہ جو فتح تھی یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کی وجہ سے تھی اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے دلوں میں سکیت بھی پیدا کر رہا تھا اور مددبھی فرمارہا تھا جو دشمنوں کو بھی نظر آ رہی تھی.حارث بن بدل نے بیان کیا کہ میں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لئے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 309 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء آیا.آپ کے سارے صحابہ شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے مگر حضرت عباس بن عبد المطلب اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہما نہیں بھاگے تھے.تو حضور نے زمین سے ایک مٹھی لی اور ہمارے چہروں پر پھینک دی تو ہم شکست کھا گئے.پس یہی خیال کیا جارہا تھا کہ ہر شجر اور حجر ہماری تلاش میں ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی مدداور لشکروں کو مخالفین نے بھی دیکھا.ان کو بھی نظر آ رہا تھا کہ یہ مسلمانوں کی فوج نہیں لڑا رہی بلکہ کوئی اور لڑ رہا ہے.اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت ہے جو فرشتوں کے ذریعے سے حملہ آور ہو رہی ہے.بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ تھا کہ آج اس جگہ کی ہر مخلوق ہمارے خلاف ہے.مٹی کا ایک ذرہ بھی ہمارے خلاف ہے.درخت، پتے اور ہر چیز ہمارے خلاف چل رہی ہے اور جنگ لڑ رہی ہے.تو یہ تھے اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے.اور چوتھا واقعہ جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یہودیہ نے ہلاک کرنے کی خوفناک سازش کی تھی.وہ زہر دینا تھا جس کی کافی مقدار آپ کو دی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے مددفرمائی اور اس منصوبے کو ظاہر کر دیا.روایت میں ذکر آتا ہے کہ ایک یہودی سردار کی بہن نے آپ کو ایک بھنی ہوئی ران پیش کی اور اس پر اچھی طرح زہر لگا دیا.آپ تصحابہ کے ساتھ بیٹھ کر اس کو کھانے لگے.کچھ صحابہؓ نے پہلے بھی کھانا شروع کر دیا.لیکن آپ نے جب منہ میں لقمہ ڈالا تو فوراً پتہ لگ گیا.آپ نے فوراً کہا کہ اس کو چھوڑ دو.اس یہود یہ کو بلایا گیا.تو اس نے تسلیم کیا اور پھر وہ کہنے لگی کہ آپ کو کس نے بتایا ہے ؟ آپ نے گوشت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس نے.پھر آپ نے اس سے پوچھا تمہارا اس سے مقصد کیا تھا.تم کیا چاہتی تھی؟ ہمیں کیوں ہلاک کرنا چاہتی تھی ؟ تو کہتی ہے کہ میرا خیال تھا کہ اگر آپ اللہ کے نبی ہیں، رسول ہیں تو اس زہر سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس زہر سے محفوظ رکھے گا.اور اگر نہیں تو ہماری جان چھوٹ جائے گی.(ابو داؤد كتاب الديات باب فى من سقى رجلا...حدیث نمبر (4510 تو بہر حال اس زہر کا اثر جو تھا وہ بشری تقاضے کے تحت ایک انسان پر جو ہونا چاہئے وہ آپ پر تھوڑا سا ہوا.آپ کے گلے پر اثر رہا.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی مددفرماتے ہوئے ایک تو پہلے آپ کو آگاہ کر دیا کہ یہ زہر ہے.پھر باقی جو اس کے خطرناک نتائج ہو سکتے تھے اس سے بھی محفوظ رکھا.پھر پانچواں واقعہ جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر کیا ہے.یہ بھی بڑا عظیم واقعہ ہے کہ بادشاہ وقت کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی کس طرح مدد فرمائی.اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 310 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء یہودیوں نے ایک دفعہ کسری کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی.سازشیں تو کرتے رہتے تھے کہ کسی طرح آپ کو نقصان پہنچا ئیں.اور کچھ نہیں تو یہ طریقہ آزمایا گیا کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوا ہے اور وہ طاقت پکڑ رہا ہے اور کسی وقت تمہارے خلاف بھی جنگ کرے گا.وہ بھی بہر حال کچھ ٹیڑھا سا انسان تھا.اس نے یمن کے گورنر کو حکم بھیجا کہ اس طرح میں نے سنا ہے کہ عرب میں ایک شخص ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، تم اسے فوراً پکڑ کر گرفتار کرو اور گرفتار کر کے میرے پاس بھجوا دو.چنانچہ گورنر نے دو آدمی بھیجے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ تم کوئی سختی نہ کرنا.بادشاہ کو دھو کہ لگا ہے ورنہ عربوں میں کیا طاقت ہے کہ وہ کسری کے مقابل پر کھڑے ہوں.اس کو کیا پتہ تھا کہ ایک وقت ان میں وہ طاقت آنے والی ہے.لہذا جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا کہ کس طرح آئے ہو؟ انہوں نے بادشاہ کا پیغام دیا کہ آپ کے خلاف یہ شکایتیں بادشاہ کو پہنچی ہیں جس کی وجہ سے اس نے کہا ہے کہ آپ کو گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کیا جائے.لیکن ساتھ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ یمن کے گورنر نے ہمیں کہا تھا کہ سختی نہیں کرنی.بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے دو تین دن انتظار کرو پھر جواب دوں گا.انہوں نے کہا ٹھیک ہے، انتظار کر لیتے ہیں لیکن یہ ہم بتادیں کہ آپ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں.ایسا نہ ہو کہ آپ جواب نہ دیں اور پھر بادشاہ غصے میں آ کر حملہ آور ہو جائے.اگر ایسا ہو گیا تو عرب کی خیر نہیں وہ پھر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا.بہت طاقتور بادشاہ ہے.آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں دو دن انتظار کرو.پھر دوسرے دن آئے تو آپ نے ان کو پھر کہا کہ ٹھہرو.پھر وہ تیسرے دن آئے لیکن آپ یہی کہتے رہے کہ ابھی ٹھہر و.تو تیسرے دن انہوں نے کہا کہ اب تو ہماری معیاد ختم ہوگئی ہے.بادشاہ ہم سے بھی ناراض ہو جائے گا.آپ ہمارے ساتھ چلیں.تو آپ نے فرمایا: پھر میرا جواب سنو کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار ڈالا ہے.جاؤ یہاں سے چلے جاؤ اور اپنے گورنر کو بھی اطلاع کر دو.خیر وہ یمن آئے اور انہوں نے گورنر سے کہا کہ انہوں نے تو ہمیں یہ جواب دیا ہے.گورنر بہر حال سمجھ دار تھا.اس نے کہا کہ اگر اس نے ایران کے بادشاہ کو یہ جواب دیا ہے تو کوئی بات ہوگی اس لئے تم بھی انتظار کرو.چنانچہ وہ انتظار کرتے رہے اور دس بارہ دن گزرنے کے بعد جب جہاز وہاں آیا تو انہوں نے آدمی مقرر کیا ہوا تھا کہ دیکھو کوئی خبر آئے تو بتانا.تو انہوں نے بتایا کہ ایک جہاز تو آیا ہے، اس پر پہلے بادشاہ کا جھنڈا نہیں ہے اور طرح کا جھنڈا ہے.تو گورنر نے کہا جلدی سے ان سفیروں کو لے کر آؤ جو بادشاہ نے بھجوائے ہیں، کوئی پیغام لائے ہوں گے.تو جب وہ سفیر گورنر کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 311 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء بادشاہ نے ایک خط آپ کے نام دیا ہے.اس نے خط دیکھا اس پر مہر بھی دوسرے بادشاہ کی تھی.جب اس نے خط کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ پہلے بادشاہ کی سختیوں کو دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے اس لئے فلاں رات کو ہم نے اس کو قتل کر دیا تھا اور اب ہم اس کی جگہ پر بیٹھ گئے ہیں.یہ وہی رات تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ آج میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ہے.اور اس نے یہ بھی لکھا کہ سب سے میری اطاعت کا عہد لو اور یہ بھی پیغام دیا کہ پہلے بادشاہ نے عرب کے ایک آدمی کو پکڑنے کے لئے جو حکم بھیجا تھا اس کو منسوخ کر دو.یہ چیز ایسی تھی جس کو دیکھ کر فوراً اس گورنر کے دل میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک تعلق پیدا ہوا اور اسلام کا دل میں ایک رعب پیدا ہوا اور کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا.تو اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کس طرح مدد فرماتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت تو فرمائی تھی اور ہمیشہ فرما تا رہا لیکن آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کی مدد اور نصرت حاصل کرنے کی طرف متوجہ رہے اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی.حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے کہ اے رب ! میری مدد فرما اور میرے خلاف (دشمن کی مددنہ فرما اور مجھے کامیابی عطا فرما اور میرے مقابل پر دشمنوں کو کا میاب نہ کر.میرے لئے موافقانہ تدبیر کر اور میرے خلاف تدبیر نہ کر.اور میری راہنمائی فرما اور میرے لئے ہدایت مہیا فرما اور ہر وہ شخص جو میرے خلاف حد سے بڑھ جائے ، اس پر مجھ کو کا میاب فرما.صلى الله (جامع ترمذى.كتاب الدعوات.باب في دعاء النبي نمبر ) تو یہ دعا ہے جو آپ کرتے تھے اور یہ دعا بڑی جامع دعا ہے جو ہر ایک کو کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علو اور مرتبہ ظاہر کیا ہے.اور وہ سورۃ ہے ﴿أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحبِ الْفِيْل (الفیل :2) یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھا ر ہے تھے.اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید و ناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا ؟ یعنی ان کا مکر الٹا کر ان پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دیئے.ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی.بجٹیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کر کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 312 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے.یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور تدابیر عمل میں لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے، کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی.جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب کبھی اصحاب الفیل پیدا ہوتب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 110.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس اب اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تائید و نصرت کے لئے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند اور عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے اور اس کے ذریعہ سے انشاء اللہ تعالیٰ تائید و نصرت فرماتا رہے گا ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے طلبگار ہوتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط کرتے چلے جائیں اور جو وعدے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہیں اُن کو ہم کسی تکبر یا عقل یا کسی اور وجہ سے ضائع کرنے والے نہ ہوں.ایسا نہ ہو کہ وہ ہماری زندگیوں میں نظر نہ آئیں بلکہ ہمارے دلوں میں کبھی اس کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو.اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں اس حیثیت سے جو اللہ تعالیٰ نے نصرت کے وعدے فرمائے ہیں ان کو ہم اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے بھی دیکھیں اور ہماری زندگیوں کا وہ حصہ بھی بنیں.kh5-030425
خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء 313 (26) خطبات مسرور جلد چہارم اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہر قدم پر تائید و نصرت کا سلوک اس کے عشق کی وجہ سے ہے جو آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھا فرمودہ مورخہ 30 / جون 2006 ء (30 را حسان 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح ، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِاَعْدَآئِكُمْ.وَكَفَى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَّكَفَى بِاللَّهِ نَصِيرًا﴾ (النساء: 46) آج اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہر قدم پر جو سلوک فرمایا ہے اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کوشش کروں گا.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہر قدم پر تائید ونصرت کا سلوک نظر آتا ہے اور یہ سب اس سے عشق کی وجہ سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھا.آپ فرماتے ہیں: kh5-030425
314 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں“.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحه (119) پھر آپ فرماتے ہیں: ”جو شخص اس زمانے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے وہ بلا شبہ قبر میں سے اٹھایا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی اس کو بخشی جاتی ہے نہ صرف خیالی طور پر بلکہ آثار صحیحہ صادقہ اس کے ظاہر ہوتے ہیں اور آسمانی مد دیں اور سماوی برکتیں اور روح القدس کی خارق عادت تائید میں اس کے شامل حال ہو جاتی ہیں اور وہ تمام دنیا کے انسانوں میں سے ایک متفر دانسان ہو جاتا ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ (221) پس اس زمانے میں یہ منفر دانسان جس کے ساتھ اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں شامل حال رہیں اور ہر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی اور خارق عادت نشانات دکھائے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور جیسا کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے جو بھی نظارے دکھائے اور جو آج تک دکھاتا چلا جارہا ہے یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی وجہ سے ہے.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اور آپ کی جماعت کے ساتھ بھی اپنی نصرت دکھانے کا وعدہ ہے اور جب تک ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے رہیں گے اور آپ کے ساتھ بے تعلق اور عشق کو قائم رکھیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان برکات سے ہمیشہ فیض پہنچا تار ہے گا اور اپنی نصرت کے دروازے بھی ہم پر کھولے گا.انشاء اللہ.ایک روایت میں آتا ہے حضرت معاویہ بن مُرّہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد پا تا رہے گا.جو بھی انہیں چھوڑے گا وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.خدا تعالیٰ کا میری امت سے یہ سلوک قیامت تک جاری رہے گا.ابن ماجه باب اتباع سنة رسول الله الا الله حدیث نمبر (6) اور یہ گروہ یقیناً آخرین کا گروہ ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے.پس kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 315 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء آج احمدیوں کا فرض ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ آ جاؤ کہ اسی میں خیر ہے اب اسلام کی ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑنے سے ہی وابستہ ہے.اب دنیا کی بقا اس مسیح و مہدی کے ساتھ وابستہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مسیح و مہدی سے اپنی نصرت کا وعدہ فرمایا ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.کچھ الہامی فقرات بھی ہیں کہ : بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 623 بقیہ حاشیه در حاشیہ نمبر 3) اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آ گیا اور اب وہ وقت آ رہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا.نزول مسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 511 پیشگوئی 14) پھر آگے فرمایا: 'پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں.جناب الہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اس کی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں.وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا.وہ خدا جو ذوالجلال اور زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا ہے.تمہاری مدد کرے گا.یہ انگریزی کا الہام ہے کہ دی ڈیز نشل کم وہن گا ڈشیل ہیلپ یوگلوری بی ٹو دس لارڈ "The days shall come when God shall help you".اور پھر آگے ہے کہ The Glory be to this Lord God maker of earth and heaven.حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے ایک دن بھا گنا ہی تھا“.براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 623 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) فرماتے ہیں کہ : ہر ایک برکت ( جو تجھے کولی ہے ) وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہے.وہ انسان بڑی برکت والے ہیں جن کی برکتیں کبھی اور کسی زمانے میں منقطع نہیں ہوں گی.ایک وہ یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی طرف سے اور جس کے فیضان سے یہ تمام برکتیں تجھ پر اتاری گئی ہیں.اور دوسرا وہ انسان جس پر یہ ساری برکتیں نازل ہوئیں“.فرماتے ہیں: ” ( یعنی یہ عاجز ، یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام " کہہ اگر میں نے افترا kh5-030425
316 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کیا ہے اور خدا کے الہام سے نہیں بلکہ یہ بات خود بنائی ہے تو اس کا وبال میرے پر ہوگا اور میں اس جرم کی سزا پاؤں گا.نہیں، بلکہ حق یہ بات ہے کہ خدا نے اس رسول کو یعنی تجھ کو بھیجا ہے.اور اس کے ساتھ زمانے کی ضرورت کے موافق ہدایت یعنی راہ دکھلانے کے علم اور تسلی دینے کے علم اور ایمان قومی کرنے کے علم اور دشمن پر حجت پوری کرنے کے علم بھیجے ہیں.اور اس کے ساتھ دین کو ایسی چھنکتی ہوئی شکل کے ساتھ بھیجا ہے جس کا حق ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا بدیہی طور پر معلوم ہو رہا ہے.صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے.خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانے میں یہ ثابت کر کے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام سیمیں بیچ ہیں اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دینوں پر ہر ایک برکت اور دقیقہ معرفت اور آسمانی نشانوں میں غالب ہے.یہ خدا کا ارادہ ہے کہ اس رسول کے ہاتھ پر ہر ایک طرح پر اسلام کی چمک دکھلا دے.کون ہے جو خدا کے ارادوں کو بدل سکے.خدا نے مسلمانوں کو اور ان کے دین کو اس زمانے میں مظلوم پایا اور وہ آیا ہے کہ تا ان لوگوں اور ان کے دین کی مدد کرے.یعنی روحانی طور پر اس دین کی سچائی اور چمک اور قوت دکھلاوے اور آسمانی نشانوں سے اس کی عظمت اور حقیت دلوں پر ظاہر کرے.اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.جو چاہتا ہے کرتا ہے.اپنی قوت اور امنگ کے ساتھ زمین پر چل یعنی لوگوں پر ظاہر ہو کہ تیرا وقت آ گیا اور تیرے وجود سے مسلمانوں کا قدم ایک محکم اور بلند مینار پر جا پڑا.محمدی غالب ہو گئے.وہی محمد جو پاک اور برگزیدہ اور نبیوں کا سردار ہے.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.وہ جو فوجوں کا مالک ہے وہ اس طرف توجہ کرے گا یعنی آسمان سے تیری بڑی مدد کی جائے گی.اور تمام فرشتے تیری مدد میں لگیں گے اور ایک بڑا نشان آسمان سے ظاہر ہو گا.اس نشان سے اصل غرض یہ ہے کہ تا لوگوں کو معلوم ہو کہ قرآن کریم خدا کا کلام اور میرے مونہہ کی باتیں ہیں.یعنی وہ کلام میرے مونہہ سے نکلا ہے.خدا کے احسان کا دروازہ تیرے پر کھولا گیا ہے اور اس کی پاک رحمتیں تیری طرف متوجہ ہورہی ہیں اور وہ دن آتے ہیں ( بلکہ قریب ہے ) کہ خدا تیری مدد کرے گا.وہی خدا جو جلال والا اور زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے“.فرمایا: ” ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دے گا.سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے.میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہور ہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں.اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے؟“.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 265-267) kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 317 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ صرف دعوئی ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ میں آسمانی نشانوں سے یا علمی معارف کے نشانوں سے اور ہر قسم کی تائید و نصرت تیرے لئے دکھاؤں گا.بلکہ ہم نے دیکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مسیح و مہدی کے لئے بے شمار نشانات دکھائے جو بڑی شان سے آپ کی تائید میں اپنی چمک دکھا رہے ہیں اور دکھاتے رہے ہیں.اس وقت میں چند ایک کا ذکروں گا.سب سے پہلے تو ایک ایسا نشان ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے مہدی کے لئے ایک ایسا نشان ہو گا جو دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو.اور یہ ایک ایسا تائیدی نشان ہے جو آسمان پر ظاہر ہوا اور چاند اور سوج کو گرہن لگا کر آپ کے مددگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے کھڑا کر دیا.پھر طاعون کا نشان ہے.آپ کی سچائی کے مددگار کے طور پر ظاہر ہوا.زلزلوں کا نشان ہے.علمی میدان میں آپ کے بہت کارنامے ہیں.ایک اسلامی اصول کی فلاسفی کے مضمون کا ہے.خطبہ الہامیہ ہے.تفاسیر ہیں.پھر دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کے نشانات ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کے اپنے وعدے کے مطابق مالی ضرورت کے اپنے وقت پر پورا ہونے کے نشانات ہیں.پھر لوگوں کے دلوں کو بغیر کسی انسانی کوشش کے آپ کی طرف پھیر کر اللہ تعالیٰ نے نشانات دکھائے.غرض کہ بے شمار نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آپ کے لئے تائید و نصرت کا پتہ دیتے ہیں.ان میں سے سب کا تو مشکل ہے لیکن چند ایک کا میں ذکر کروں گا.سورج گرہن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اور مجملہ نشانوں کے ایک نشان خسوف و کسوف رمضان میں ہے.کیونکہ دار قطنی میں صاف لکھا ہے کہ مہدی موعود کی تصدیق کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک نشان ہوگا کہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ وہ گرہن لگ گیا اور کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مجھ سے پہلے کوئی اور بھی ایسا مدعی گزرا ہے کہ جس کے دعوی کے وقت میں رمضان میں چاند اور سورج کا گرہن ہوا ہو.سو یہ ایک بڑا بھاری نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ظاہر کیا.“ گرہن تو لگتے رہے لیکن کبھی بھی ایسا موقع نہیں آیا کہ اس وقت کوئی دعویٰ موجود ہو.اب چاند اور سورج گرہن پر اس وقت کے علماء تو یہ بحث کرتے رہے، اس روایت کے بارے میں بھی کہ اس کے بعض راوی کمزور ہیں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 318 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یہ حدیث ایک پیشگوئی پر مشتمل تھی جو اپنے وقت پر پوری ہو گئی.پس جبکہ حدیث نے اپنی سچائی کو آپ ظاہر کر دیا تو اس کی صحت میں کیا کلام ہے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 293-294) اس کی صحت پر اب کیا اعتراض ہو سکتا ہے.تو جنہوں نے نہ ماننا ہو ان کے پاس تو سو بہانے ہوتے ہیں.جو ضد میں بڑھ جائیں اور عقل پر پردے پڑ جائیں ان کو اللہ تعالیٰ کی واضح تائیدات بھی نظر نہیں آتیں اور یہ ضدی طبیعتیں ہر زمانے میں پیدا ہوتی رہتی ہیں، آج بھی یہ ضدی طبیعتیں موجود ہیں.گزشتہ دنوں ایک صاحب جن کا نام (ویسے یہ تو عیسائی ہیں ) Dr.David McNaughtan ہے.انہوں نے انٹرنیٹ پر ایک مضمون لکھا کہ Flaws in the Ahmadiya Eclipse Theory.یعنی جماعت احمدیہ کے گرہن کے نظریہ کے سقم.یہ پتہ نہیں کہ ان صاحب کو خود ہی اس تحقیق کا خیال آیا یا کسی مسلمان کے کہنے پر.کیونکہ انہوں نے آخر پر جو ریفرنس دیئے ہوئے ہیں اس میں کویت کے کسی صاحب نے معلومات دی ہیں ان کا بھی حوالہ ہے.تو بہر حال جو بھی صورت ہو انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سورج گرہن کے لئے جو درمیانی دن رکھا گیا ہے اس میں سورج گرہن نہیں لگ سکتا.اور اس طرح چاند گرہن کی بھی پہلی تاریخ 13 نہیں بنتی بلکہ 12 بنتی ہے.بہر حال یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپ کی مدد کے لئے لوگوں میں سے بھی سلطان نصیر کھڑا کر تا رہے گا.ہمارے پروفیسر صالح الہ دین صاحب حیدر آباد انڈیا کے ہیں.انہوں نے ان صاحب کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب دیئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ ان کو غلطی لگی ہے.دراصل تاریخیں یہی بنتی ہیں، یا کم از کم اس زمانے میں قادیان میں جو چاند سورج گرہن نظر آیا اس کی یہ تاریخیں تھیں.لیکن اصل چیز جو دیکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ دعویٰ کے وقت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دعویٰ پہلے موجود تھا اس وقت یہ تائیدی نشان ظاہر ہوا جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.بہر حال مکرم صالح الہ دین صاحب کا مضمون ایک اچھا علمی مضمون ہے.انٹرنیٹ پر امید ہے انشاء اللہ آ جائے گا.یہ ذکر میں نے اس لئے ساتھ کر دیا کہ بعض لوگوں کو ڈاکٹر ڈیوڈ صاحب کا مضمون پڑھ کر سوال اٹھ سکتے ہیں.ایک تو یہ ہے کہ اگر اور احمدی بھی اس فیلڈ میں ہوں ان کو بھی مزید تحقیق کرنی چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے.دوسرے یہ مضمون انہوں نے لکھ کے اس کا کافی حد تک رد کیا ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 319 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء رسالہ نورالحق میں حضرت مسیح موعود نے اس کی مزید وضاحت بھی فرما دی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: جیسا کہ تدبر کرنے والے پر پوشیدہ نہیں اور اس کی تائید وہ حدیث کرتی ہے جو دار قطنی نے امام محمد بن علی سے روایت کی ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں وہ کبھی نہیں ہوئے یعنی کبھی کسی دوسرے کے لئے نہیں ہوئے جب سے کہ زمین آسمان پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ رمضان کی رات کے اول میں ہی چاند کو گرہن لگنا شروع ہو گا.اور اسی مہینے کے نصف باقی میں سورج گرہن ہوگا.نور الحق حصہ دوم روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 196) پروفیسر صالح الہ دین صاحب اور پروفیسر جی ایم بالب ( یہ شاید ہندو ہیں ) نے ایک فہرست تیار کی ہے جس میں سورج اور چاند گرہن کی تفصیل بتائی ہے کہ کتنے لگے اور کس طرح لگے اور کب لگے ؟ اس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ صرف 1894 ء کا سال ایسا ہے کہ چاند کو گرہن رات کے شروع حصہ میں لگنا شروع ہوا.( جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ رمضان کی رات کے اول میں ہی چاند کو گرہن لگنا شروع ہوگا.) تو انہوں نے ثابت کیا ہے کہ 1894 ء کا سال ایسا ہے کہ رات کے شروع حصہ میں لگنا شروع ہوا تو بہر حال جو عقل رکھتے ہیں، جو بینا ہیں جن کی نظر تھی ، ان کو تو نظر آ گیا کہ یہ نشان ہے.اگر دل صاف نہ ہو تو کثرت اعجاز بھی اثر نہیں کرتی.لیکن جن کو خدا ہدایت دینا چاہے وہ ان پڑھ اور جنگلوں میں بھی رہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے دیتا ہے.بہت پرانی بات ہے.غالباً 1966 ء کی.میں سرگودھا کے علاقے میں وقف عارضی پر گیا تو ایک دور دراز گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں ایک بہت بوڑھی عورت ملیں.جب ہم نے اپنا تعارف کرایا کہ ربوہ سے آئے ہیں، احمدی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں بھی احمدی ہوں اور ہم لوگ چاند سورج گرہن کو دیکھ کر اس زمانے میں احمدی ہوئے تھے.یہ کہتی ہیں میں چھوٹی تھی اور میرے والدین اس وقت ہوتے تھے تو اس علاقے میں بالکل جنگل میں، دیہات میں، دیہاتی ان پڑھ لوگ بھی چاند سورج گرہن کا نشان دیکھ کر احمدی ہو گئے.تو اللہ نے بہت سوں کو اس زمانے میں بھی اس نشان سے ہدایت دی تھی.پھر جیسا کہ میں نے کہا بعض ایسے نشانات ہیں جن کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تائید میں زمین پر ہوا اور ہوتا چلا جا رہا ہے.اور وہ ہیں زلزلے اور طاعون.یہ ثابت شدہ حقیقت ہے اور اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد سے زلزلوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے.اس طرح طاعون نے بھی آپ کے زمانے میں تباہی مچائی اور آج کل ایڈز بھی طاعون کی ایک قسم ہے تو ہر سال اس سے بھی لاکھوں افراد موت کی لپیٹ میں آ رہے ہیں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 320 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: میری تائید میں خدا تعالیٰ کے نشانوں کا ایک دریا بہہ رہا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 199) آپ فرماتے ہیں کہ: "میں نے زلزلے کی نسبت پیشگوئی کی تھی جو اخبار الحکم اور البدر میں چھپ گئی تھی کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے.جو بعض حصہ پنجاب میں ایک سخت تباہی کا موجب ہوگا.اور پیشگوئی کی تمام عبارت یہ ہے زلزلہ کا دھکا.عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَمَقَامُهَا.چنانچہ وہ پیشگوئی 4 را پریل 1905 ء کو پوری ہوئی.پھر فرمایا کہ: ”میں نے پھر ایک پیشگوئی کی تھی کہ اس زلزلے کے بعد بہار کے دنوں میں پھر ایک زلزلہ آئے گا.اس الہامی پیشگوئی کی ایک عبارت یہ تھی.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی“.چنانچہ 28 فروری 1906ء کو وہ زلزلہ آیا اور کوہستانی جگہوں میں بہت سا نقصان جانوں اور مالوں کے تلف ہونے سے ہوا.پھر فرماتے ہیں کہ : "پھر میں نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ کچھ مدت تک زلزلے متواتر آتے رہیں گے.ان میں سے چار زلزلے بڑے ہوں گے اور پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہو گا.چنانچہ زلزلے اب تک آتے ہیں اور ایسے دو مہینے کم گزرتے ہیں جن میں کوئی زلزلہ نہیں آ جاتا.اور یقیناً یاد رکھنا چاہئے کہ بعد اس کے سخت زلزلے آنے والے ہیں.خاص کر پانچواں زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہو گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ یہ سب تیری سچائی کے لئے نشان ہیں“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 231) تو آپ کے زمانے میں بھی یہ نشان ظاہر ہوئے لیکن اب پھر ہم دیکھتے ہیں دنیا میں یہ آفتیں آ رہی ہیں.احمدیوں کا یہ کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح و مہدی کے لئے یہ نشانات دکھائے اور اب بھی دکھا رہا ہے.اس لئے اس سے بچنے کے لئے اس عافیت کے حصار کے اندر آجاؤ.زلزلوں اور طاعون کے سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: یادر ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی اور زلزلوں اور طاعون کا آنا ایک مقدرا مر تھا.یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیح کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا.پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس حدیث میں مسیح موعود kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 321 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء کو ایک ڈائن قرار دیا گیا ہے جو نظر کے ساتھ ہر ایک کا کلیجہ نکال لے گا.بلکہ معنے حدیث کے یہ ہیں کہ اس کے نَفَحَاتِ طَيِّبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوں گے تو چونکہ لوگ ان کا انکار کریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا.یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود کا سخت انکار ہو گا جس کی وجہ سے ملک میں مری پڑے گی اور سخت سخت زلزلے آئیں گے اور امن اٹھ جائے گا.ورنہ یہ غیر معقول بات ہے کہ خوانخواہ نیکوکار اور نیک چلن آدمیوں پر طرح طرح کے عذاب کی قیامت آوے.یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بھی نادان لوگوں نے ہر ایک نبی کو منحوس قدم سمجھا ہے اور اپنی شامت اعمال ان پر تھاپ دی ہے.مگر اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتا ہے اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے.اور سخت عذاب بغیر نبی کے قائم ہونے کے آتا ہی نہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ) (بنی اسرائیل : 16 ).پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبتناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے.اے غافلو ! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے جس کی تم تکذیب کر رہے ہو.بغیر قائم ہونے کسی مُرسَلِ الہی کے یہ وبال تم پر کیوں آ گیا جو ہر سال تمہارے دوستوں کو تم سے جدا کرتا اور تمہارے پیاروں کو تم سے علیحدہ کر کے داغ جدائی تمہارے دلوں پر لگاتا ہے.آخر کچھ بات تو ہے.کیوں تلاش نہیں کرتے.(تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 399-401 ) ہر ملک میں دیکھ لیں آج کل زلزلے آ رہے ہیں، آفتیں آ رہی ہیں ، اس بیماری کی وجہ سے موتیں ہورہی ہیں.اب لاکھوں تک پہنچ چکی ہیں.پھر جیسا کہ میں نے کہا تھا اللہ تعالیٰ کے آپ کی تائید و نصرت میں علمی نشان بھی ہیں.ایک مضمون لکھوایا جس میں قرآن کریم کے معجزات آپ نے بیان فرمائے اور پہلے سے اعلان فرما دیا کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرماتے ہوئے آپ کی مدد فرمائی.اس مضمون کے بارے میں پہلے ہی آپ نے ایک اشتہار شائع فرما دیا تھا جو یوں تھا کہ: ”سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری.جلسہ اعظم مذاہب جو لا ہور ٹاؤن ہال میں 26-27-28 دسمبر 1896ء کو ہو گا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے.جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 322 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء سے ایک نشان اور خاص اُس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے.اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گامیں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آ جائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے.مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور اس نور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اسے اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی.اور ہرگز قادر نہیں ہوں گے کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں.خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس کی پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جوار دگر د پھیل گیا.اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ اللهُ أَكْبَر خَرِبَتْ خَيْبَر.اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں.اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.اِنَّ اللهَ مَعَكَ إِنَّ اللَّهَ يَقُوْمُ اَيْنَ مَا قُمْت یعنی خدا تیرے ساتھ ہے خداو میں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کر کے ان معارف کے سننے کے لئے تشریف لائیں.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 299-301 حاشیہ) چنانچہ یہ مضمون پڑھا گیا تو اپنوں اور غیروں نے اس کی تائید و نصرت الہی کی گواہی دی.جس کا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 323 66 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء بہت پہلے آپ نے اعلان فرما دیا تھا.ایک اخبار اس زمانے میں تھا جرنل و گوہر آصفی کلکتہ سے.اس نے لکھا کہ غرض اس جلسہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اس میدان مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے.پھر کہتا ہے کہ اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلّت و ندامت کا قشقہ لگتا.مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچالیا.بلکہ اُس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین، مخالفین بھی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے، بالا ہے.صرف اس قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی“.(روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 17.زیر تعارف کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی، مطبوعہ لندن) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ نبوت سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں الہامات کے ذریعہ سے مدد و نصرت کا یقین دلاتے ہوئے یہ بتا دیا تھا کہ اسلام کی فتح اب آپ کے ساتھ وابستہ ہے.اس بارے میں 1883ء کا ایک الہام ہے.اس کے الفاظ یوں ہیں : حَمَاكَ اللهُ نَصَرَكَ اللهُ، رَفَعَ اللهُ حُجَّةَ الْإِسْلَامِ، جَمَالٌ.هُوَ الَّذِي أَمْشَاكُمْ فِي خدا تیری حمایت کرے گا.خدا تجھ کو مدد دے گا.خدا حجت اسلام کو بلند کرے كُلّ حَالٍ گا ، جمال الہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تحقیہ کیا ہے.66 تذکرہ صفحہ 174 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) یعنی تمہیں پاک صاف کیا ہے.تو پھر ایک علمی معجزہ جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت شامل حال تھی خطبہ الہامیہ تھا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : 11 / اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو.تمہیں قوت دی گئی اور نیز یہ الہام ہوا.كَلامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَدُنْ رَبِّ كَرِيْم - یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی.اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 324 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہوگی.سُبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا.کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا“.(حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 375-376) جب آپ کو یہ الہام ہوا تھا کہ آج تم عربی میں تقریر کر و.تم کو قوت دی گئی ہے اور یہ کلام سلام يُفْصِحَتْ مِنْ لَدُنْ رَبِّ كَرِیم یعنی کلام میں فصاحت بخشی گئی ہے جیسا کہ میں نے بتایا.تو یہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا اس کو سنتے ہی آپ نے اپنے بہت سے خدام کو اطلاع دی اور پھر مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اول) کو بھی ہدایت فرمائی کہ وہ عید کے وقت قلم دوات اور کاغذ لے کر آئیں تا کہ خطبہ کولکھ سکیں.تو اس خطبہ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تھوڑ اسا مختصر سا اردو کا خطبہ بھی دیا پھر حضور نے عربی خطبہ شروع فرمایا.اس کی رپورٹ یہ ہے کہ : يَا عِبَادَ اللہ سے فی البدیہہ عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا.آپ نے ابھی چند فقرے کہے تھے کہ حاضرین پر جن کی تعداد کم و بیش 200 تھی وجد کی ایک کیفیت طاری ہو گئی.محویت کا یہ عالم تھا کہ بیان سے باہر ہے.خطبہ کی تاثیر کا وہ اعجازی رنگ پیدا ہو گیا کہ اگر چہ مجمع میں عربی دان معدودے چند تھے مگر سب سامعین ہمہ تن گوش تھے“.غرض یہ ایک ایسا روح پرور نظارہ تھا کہ 1300 سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک مجلس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ حالت تھی ( لکھنے والے کہتے ہیں ) کہ آپ کی شکل وصورت ، زبان اور لب و لہجہ سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ آسمانی شخص ایک دوسری دنیا کا انسان ہے جس کی زبان پر عرش کا خدا کلام کر رہا ہے.خطبہ کے وقت آپ کی حالت اور آواز میں ایک تغیر محسوس ہوتا تھا.ہر فقرہ کے آخر میں آپ کی آواز نہایت دھیمی اور باریک ہو جاتی تھی.اس وقت آپ کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ سرخ اور نہایت درجہ نورانی.خطبہ کے دوران میں حضور نے خطبہ لکھنے والوں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو اسی وقت پوچھ لیں.ممکن ہے کہ بعد میں میں خود بھی نہ بتا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 325 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء سکوں تو اس وجہ سے مولوی عبد الکریم صاحب اور ( حضرت خلیفہ اول) مولانا نورالدین صاحب کو جو خطبہ نویسی کے لئے مقرر تھے بعض دفعہ الفاظ پوچھنے پڑتے تھے.پھر رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ خود حضرت اقدس علیہ السلام جو اس وقت آسمانی انوار و برکات کے مورد تھے.آپ کے اندر اس وقت اتنی غیبی قوت کام کر رہی تھی کہ جیسا آپ نے بعد ازاں بتایا کہ آپ یہ امتیاز نہیں کر سکتے تھے کہ میں بول رہا ہوں یا میری زبان سے فرشتہ کلام کر رہا ہے.کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس کلام میں میرا دخل نہیں.خود بخود برجستہ فقرے آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے.بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے ہی نظر آ جاتے تھے.سامنے ایک کیفیت پیدا ہو جاتی تھی.اور ہر ایک فقرہ ایک نشان تھا.اس طرح جوں جوں آپ پر کلام اتر تا گیا آپ بولتے گئے.یہ سلسلہ کافی وقت تک جاری رہا.جب یہ کیفیت زائل ہوگئی تو حضور نے خطبہ ختم کر دیا اور آپ کرسی پر تشریف فرما ہو گئے اور پھر اس اعجازی خطبے کے بعد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے دوستوں کی درخواست پر خطبے کا ترجمہ سنانا شروع کیا.اس کے لئے آپ کھڑے ہوئے تو لکھنے والے کہتے ہیں کہ زبان کے خیالات مختلف ہوتے ہیں.ہر ایک کا انداز مختلف ہوتا ہے.اور فوری ترجمہ بھی ساتھ ساتھ کرنا ایک نہایت مشکل ہے.مگر روح القدس کی تائید سے آپ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب) نے اس فرض کو بھی خوبی سے ادا کیا اور ہر شخص عش عش کر اٹھا.مولوی صاحب موصوف ابھی اردو ترجمہ سنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس فرط جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں گر گئے.آپ کے ساتھ حاضرین نے بھی سجدہ شکر ادا کیا.سجدہ سے سراٹھا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ مبارک.یہ گویا قبولیت دعا کا نشان ہے.( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه 85-83) پس یہ چند مثالیں ان نشانات کی تھیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں دکھائے اور میں نے ابھی بیان کئے ہیں.اور بھی بہت سارے ہیں لیکن وقت کی وجہ سے اتنے ہی بیان کر رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” اس بندہ حضرت عزت سے اسی کے فضل اور تائید سے اس قدرنشان ظاہر ہوئے ہیں کہ اس تیرہ سو برس کے عرصہ میں افراد امت میں سے کسی اور میں ان کی نظیر تلاش کرنا ایک طلب محال ہے.تمام وہ لوگ جو اس امت میں قطب اور غوث اور ابدال کے نام سے مشہور ہوئے ہیں.ان کی تمام زندگی میں ان کی نظیر ڈھونڈو پھر اگر نظیر مل سکے تو جو چاہو کہو.اور نہ خدائے غیور اور قدیر سے ڈر کر بے باکی اور گستاخی سے باز آ جاؤ“.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 336) kh5-030425
326 خطبہ جمعہ 23 / جون 2006 ء خطبات مسرور جلد چہارم اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور زمانے کے امام کو پہچاننے کی توفیق دے اور آپ کی گستاخی سے یہ باز آ جائیں.ورنہ ہم روز نظارے دیکھتے بھی ہیں اور اس سے بڑھ کر بھی نظارے دکھائے جا سکتے ہیں کیونکہ خدائے غیور اور قدیر کی پکڑ بڑی سخت ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا: گزشتہ دنوں میں UK کی شوریٰ ہو رہی تھی.اس شوری کے دوران UK جلسہ کے لئے آلٹن کی جو نئی جگہ لی گئی ہے ، اس کے بارے میں لوگوں کو تجس تھا کہ کیا نام رکھا گیا ہے.تو میں نے کہا تھا کہ صرف شوری کو نہیں بلکہ جمعہ کے دوران بتا دوں گا.اس کے نام تو مختلف آئے تھے.بعض لوگوں نے تجویز کئے تھے لیکن جو میں تجویز کر رہا ہوں وہ نام ہے حَدِيْقَةُ الْمَهْدِى kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 327 (27) خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 اللہ تعالیٰ کی صفتِ ناصر اور نصیر سیرت مسیح موعود علیہ الصلوة کی روشنی میں والسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف مختلف فوجداری مقدمات میں مخالفین کی ناکامی و نامرادی اور آپ کی باعزت بریت اور دشمنوں کی ذلّت فرموده مورخہ 07 / جولائی 2006 ء(07/وفا 1385 حش) مسجد بیت الفتوح ، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ خطبے میں ، میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید و نصرت میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانات کا ذکر کیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر دکھائے یعنی چاند اور سورج گرہن.پھر زمین پر آفات کی صورت میں ہونے والے نشانات.پھر اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ایسے علمی نشانات جن کی اس زمانے میں کوئی نظیر نہیں پیش کر سکتا.آج میں اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی اس تائید و نصرت کی چند مثالیں پیش کروں گا جو اُس نے آپ کی فرمائی اور ایسے دشمن کے خلاف اللہ تعالیٰ نے فرمائی جس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح دنیا کے سامنے آپ کو رسوا اور خائب و خاسر کیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر اپنے اس جری اللہ کی مددفرمائی، دشمن کی ہر کوشش الٹی پڑ گئی.اور ان کی طاقت یا حکومت ان کے کوئی کام نہ آ سکی.ان بے شمار نشانات میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے دکھائے میں وہ چند مثالیں پیش کروں گا جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت اہم قرار دیا ہے اور یہ بھی تفصیل سے تو
خطبات مسرور جلد چہارم 328 بیان نہیں ہوسکتیں ، بہر حال کچھ حد تک پیش کروں گا.خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”میرے لئے بھی پانچ موقعے ایسے پیش آئے تھے جن میں عزت اور جان نہایت خطرہ میں پڑ گئی تھی.(1) اوّل وہ موقع جبکہ میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلارک نے خون کا مقدمہ کیا تھا.(2) دوسرے وہ موقعہ جبکہ پولیس نے ایک فوجداری مقدمہ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی کچہری میں میرے پر چلایا تھا.(3) تیسرے وہ فوجداری مقدمہ جو ایک شخص کرم الدین نام نے ہم مقام جہلم میرے پر کیا تھا.(4) وہ فوجداری مقدمہ جو اسی کرم دین نے گورداسپور میں میرے پر کیا تھا.(5) پانچویں جب لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی لی گئی اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگایا تھا تا میں قاتل قرار دیا جاؤں.مگر وہ تمام مقدمات میں نامرادر ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 263 حاشیہ) اب میں ان کی تفصیل بیان کرتا ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.یہ بھی خلاصتہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے مقدمے کے بارے میں اپنی کتاب تریاق القلوب میں فرماتے ہیں کہ 29 جولائی 1897ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے کچھ نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور میں اس کو دور سے دیکھ رہا ہوں.اور جبکہ وہ قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے.پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا کہ مَا هَذَا إِلَّا تَهْدِيدُ الْحُكّام یعنی یہ جود یکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہوگی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا قَدِ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُون ترجمہ: مومنوں پر ایک ابتلاء آیا یعنی بوجہ اس مقدمہ کے تمہاری جماعت ایک امتحان میں پڑے گی.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ لَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الْمُجَاهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِيْنَ.یہ میری جماعت کی طرف خطاب ہے کہ خدا نے ایسا کیا تا خدا تمہیں جتلاوے کہ تم میں سے وہ کون ہے کہ اس کے مامور کی راہ میں صدق دل سے کوشش کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنے دعوئی بیعت میں جھوٹا ہے.سوا ایسا ہی ہوا.ایک گروہ تو اس مقدمہ اور دوسرے مقدمہ میں جو مسٹر ڈوئی صاحب کی عدالت میں فیصلہ ہوا صدق دل سے اور کامل ہمدردی سے تڑپتا پھرا.اور انہوں نے اپنی مالی اور جانی کوششوں میں فرق نہیں رکھا.اور دکھ اٹھا کر اپنی سچائی دکھلائی.اور دوسرا گروہ وہ بھی تھا کہ ایک ذرہ ہمدردی میں شریک نہ ہو سکے.سوان کے لئے وہ کھڑکی بند ہے جو ان صادقوں کے لئے کھولی گئی.پھر یہ الہام ہوا کہ :
خطبات مسرور جلد چہارم 329 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 بلا گزارد با محبت با وفا صادق آن باشد که ایام یعنی خدا کی نظر میں صادق و شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کومحبت اور وفاکےساتھ گزارتا ہے.پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک اور موزون کلمہ ڈالا گیا لیکن نہ اس طرح پر کہ جو الہام جلی کی صورت ہوتی ہے بلکہ الہام خفی کے طور پر دل اس مضمون سے بھر گیا ، یعنی دل میں خیال تھا کہ الہام ہے.اور وہ یہ تھا.گر قضا را عاشقی گردد عاشقی گردد اسیر بوسد آں زنجیر را کز آشنا یعنی اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہوا.پھر اس کے بعد یہ الہام ہوا.إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ.إِنِّي مَعَ الْافْوَاجِ آتِيْكَ بَغْتَةً.يَاتِيْكَ نُصْرَتِي.إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالْعُلَى - ترجمہ یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا.یعنی انجام بخیر و عافیت ہوگا.میں اپنی فوجوں کے سمیت (جو ملائکہ ہیں ) ایک ناگہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا.میں رحمت کرنے والا ہوں.میں ہی ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے یعنی میرا ہی بول بالا رہے گا.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق.( اور پھر اخیر حکم ابراء) یعنی بے قصور ٹھہرانا.پھر بعد اس کے الہام ہوا وَفِيهِ شيءٌ.یعنی بریت تو ہو گی مگر اس میں کچھ چیز ہوگی.( یہ اس نوٹس کی طرف اشارہ تھا جو بری کرنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ طرز مباحث نرم چاہئے.) پھر ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ بَلَجَتْ آيَاتِی کہ میرے نشان روشن ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہو جائیں گئے“.فرماتے ہیں: ” چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس مقدمے میں جو 1897ء ( کتاب میں 1899ء لکھا ہوا ہے وہ لگتا ہے کتابت کی غلطی ہے) میں عدالت مسٹر ہے.آر.ڈریمنڈ صاحب بہادر میں فیصلہ ہوا.عبدالحمید ملزم تھا اس نے اقرار کیا کہ اس کا پہلا بیان جھوٹا تھا.پھر الہام ہوا کہ لواء فتح.یعنی فتح کا جھنڈا.پھر بعد اس کے الہام ہوا کہ اِنَّمَا أَمْرُنَا إِذَا أَرَدْنَا شَيْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَهُ كُنْ فَيَكُوْن یعنی ہمارے امور کے لئے ہمارا یہی قانون ہے کہ جب ہم کسی چیز کا ہو جانا چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہو جا.پس وہ ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں نے یہ الہام بہت سارے لوگوں کو پہلے سے بتا دیا تھا اور اس پیشگوئی کی خبر کر دی تھی کہ اگر ان سب کے نام لکھنے بیٹھوں تو صفحوں کے صفحے ان کے بھر جائیں جن کو میں نے اطلاع دی تھی.
330 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم پھر آپ اس مقدمے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”یہ مقدمہ اس طرح پیدا ہوا کہ ایک شخص عبدالحمید نام (جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) کو بعض عیسائیوں نے جوڈا کٹر ہنری مارٹن کلارک سے تعلق رکھنے والے تھے سکھلایا کہ وہ عدالت میں یہ اظہار دے کہ اس کو مرزا غلام احمد نے یعنی اس راقم نے حضرت مسیح موعود اپنے بارے میں فرماتے ہیں ).قادیان سے اس غرض سے بھیجا ہے کہ تا ڈاکٹر کلارک کو قتل کر دے.اور نہ صرف سکھلایا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ ایسا اظہار نہیں دے گا تو وہ قید کیا جائے گا.اور ایک یہ بھی دھمکی دی کہ اس کا فوٹو لے کر اس کو کہا گیا (اس کی تصویر کھینچی گئی اور کہا گیا کہ اگر وہ بھاگ بھی جائے گا تو اس فوٹو کے ذریعہ سے پھر پکڑا جائے گا.چنانچہ اس نے مجسٹریٹ ضلع امرتسر کے سامنے یہ اظہار دے دیا اور وہاں سے میری گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری ہوا.اور حضور فرماتے ہیں کہ: میں اس جگہ ناظرین کی پوری دلچسپی کے لئے صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے حکم کی نقل ذیل میں لکھتا ہوں.اور وہ یہ ہے ”عبدالحمید اور ڈاکٹر کلارک کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے عبد الحمید کو ڈاکٹر کلارک ساکن امرتسر کے قتل کرنے کی ترغیب دی.اس بات کے یقین کرنے کے لئے وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد مذکور نقض امن کا مرتکب ہوگا یا کوئی قابل گرفت فعل کرے گا جو باعث نقض امن اس ضلع میں ہوگی.اس بات کی خواہش کی گئی ہے کہ اس سے حفظ امن کے لئے ضمانت طلب کی جائے.واقعات اس قسم کے ہیں کہ جس سے اس کی گرفتاری کے لئے وارنٹ کا شائع کرنا زیر دفعہ 14 ضابطہ فوجداری ضروری معلوم ہوتا ہے.لہذا میں اس کی گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کرتا ہوں اور اس کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ آکر بیان کرے کہ کیوں زیر دفعہ (فلاں فلاں جو بھی تھی )." حفظ امن کے لئے ایک سال کے واسطے ہیں ہزار روپیہ کا مچلکہ اور ہیں ہزار روپیہ کی دو الگ الگ ضمانتیں اس سے نہ لی جائیں.اس پہ مجسٹریٹ نے دستخط کئے تھے.اس حکم کی تاریخ یکم تمبر 1897ء تھی اور آپ فرماتے ہیں کہ اس وارنٹ سے مطلب یہ تھا کہ تا مجھے گرفتار کر کے حاضر کیا جائے.اور سزا سے پہلے گرفتاری کی ذلت پہنچائی جائے.مگر یہ تصرف غیبی کس قدر ایک طالب حق کے ایمان کو بڑھاتا ہے کہ باوجود یکہ امرتسر سے ایسا وارنٹ جاری ہوا.مگر خدا تعالیٰ نے جیسا کہ مندرجہ بالا الہامات میں اس کا وعدہ تھا اس وارنٹ سے بھی عجیب طور پر محفوظ رکھا.اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر حکم کے مطابق یہ وارنٹ عدالت سے جاری ہو جاتا تو قبل اس کے کہ 7 / اگست 1897 ء کا حکم انتقال مثل کے لئے نفاذ پا تا وارنٹ کی تعمیل ہو جاتی.کیونکہ امرتسر اور قادیان میں صرف 35 کوس (35 میل) کا فاصلہ ہے.پھر فرمایا: ” اور وہ حکم جو 7 اگست 1897ء کو مجسٹریٹ ضلع امرتسر نے اس مقدمے کے بارہ میں دیا
خطبات مسرور جلد چهارم 331 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 تھا وہ یہ ہے ”میں نے وارنٹ جاری کرنا روک دیا ہے کیونکہ یہ مقدمہ میرے اختیار میں نہیں ہے.اس نے یہ نوٹس بھجوایا.فرماتے ہیں کہ اس حکم کی تفصیل یہ ہے کہ جب صاحب بہادر مجسٹریٹ ضلع امرتسر یکم اگست 1897ء کو میری گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کر چکے تو ان کو 7 اگست 1897ء کو یعنی حکم سے 6 دن کے بعد ہدایات مذکورہ بالا غور کرنے سے پتہ لگا کہ اس حکم میں غلطی ہوئی.اور انہوں نے سمجھا کہ میرے اختیار میں نہیں تھا کہ میں ایک ایسے ملزم کی گرفتاری کے لئے جو غیر ضلع میں سکونت رکھتا ہے وارنٹ جاری کرتا.تب انہوں نے اپنے حکم وارنٹ کو جو عدالت سے نکل چکا تھا اس طرح پر روکنا چاہا کہ 7 اگست 1897 ء کو صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ کے نام تار دی کہ ہم سے وارنٹ کے اجراء میں غلطی ہوئی ہے ، وارنٹ کو روک دیا جائے.لیکن اگر وہ وارنٹ در حقیقت یکم اگست 1897ء کو جاری ہو جاتا تو اتنی مدت بعد یعنی 7 اگست 1897ء کو اس کو روکنا ایک فضول امر تھا کیونکہ ان دونوں ضلعوں میں تھوڑا ہی فاصلہ تھا.مدت سے اس وارنٹ کی تعمیل ہو چکتی.اور گرفتاری کی ذلت اور مصیبت ہمیں پیش آ جاتی.لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ایسی ہوئی کہ اب تک ہمیں بھید معلوم نہیں کہ وہ وارنٹ باوجود چھ دن گزر جانے کے عدالت مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ میں پہنچ نہ سکا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اب جب ایک نظر سے انسان ان الہاموں کو دیکھے جن کو ابھی ہم لکھ آئے ہیں جن میں رحمت اور نصرت کا وعدہ ہے اور دوسری طرف اس بات کو سوچے کہ کیونکر عدالت امرتسر کا پہلا وار ہی خالی گیا.تو بیشک اس کو اس بات پر یقین آجائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کا تصرف تھا تا وہ اپنے الہامی وعدہ کے موافق اپنے بندہ کو ہر ایک ذلّت سے محفوظ رکھے کیونکہ گرفتار ہو کر عدالت میں پیش کئے جانا اور ہتھکڑی کے ساتھ حکام کے سامنے حاضر ہونا یہ بھی ایک ذلّت ہے جس سے دشمنوں کو خوشی پہنچتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” دوسرا نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ظہور میں آیا کہ صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ یعنی کپتان ایم ڈبلیوڈ گلس صاحب کے دل میں یہ خدا تعالیٰ نے یہ ڈال دیا کہ اس مقدمہ میں وارنٹ جاری کرنا مناسب نہیں.بلکہ سمن کافی ہو گا.لہذا انہوں نے 9 اگست 1897 ء میرے نام ایک سمن جاری کیا جس کی نقل ذیل میں لکھتا ہوں اور وہ یہ ہے.دد من.....بنام مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضی ذات مغل ساکن قادیان مغلاں پرگنہ بٹالہ ضلع گورداسپور ہ.جو کہ حاضر ہونا تمہارا بغرض جوابدہی الزام دفعہ 107 ضابطہ فوجداری ضرور ہے.لہذا تم کو اس تحریر کے ذریعہ سے حکم ہوتا ہے کہ بتاریخ 10 / ماہ اگست 1897ء کو اصالتا یا بذریعہ مختار ذی اختیار یا جیسا ہو موقع پر بمقام بٹالہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس حاضر ہو.اور اس باب میں تاکید جانو.( تو پہلے جو
خطبات مسرور جلد چہارم 332 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 وارنٹ جاری ہوا تھا وہ صرف ایک پیشی ہو گئی کہ آکر وضاحت کر دیں.اور مولوی اس خوشی میں تھے کہ وارنٹ جاری ہو چکا ہے اور ان کا خیال تھا کہ امرتسر کی عدالت میں ہی ہے.ریل پر جاتے بھی تھے کہ جا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذلت دیکھیں.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ مولوی حضرات : ” لہذا اس تماشا کے دیکھنے کے لئے آئے کہ یہ شخص وارنٹ سے گرفتار ہو کر آئے گا.اور اس کی ذلت ہماری بہت سی خوشی کی باعث ہوگی اور ہم اپنے نفس کو کہیں گے کہ اے نفس اب خوش ہو کہ تو نے اپنے دشمن کو ذلیل ہوتے دیکھ لیا.مگر یہ مراد ان کی پوری نہ ہوئی بلکہ برعکس اس کے خود ان کو ذلت کی تکالیف اٹھانی پڑیں.اگست کی 10 تاریخ کو اس نظارہ کے لئے مولوی محمد حسین صاحب موحدین کے ایڈووکیٹ اس تماشا کے دیکھنے کے لئے کچہری میں آئے تھے تا اس بندہ درگاہ کو ہتھکڑی پڑی ہوئی اور کانٹیبلوں کے ہاتھ میں گرفتار دیکھیں اور دشمن کی ذلت کو دیکھ کر خوشیاں مناویں“.(وہ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں ہتھکڑی پڑی دیکھنا چاہتے تھے.لیکن یہ بات ان کو نصیب نہ ہوسکی.بلکہ ایک رنج وہ نظارہ دیکھنا پڑا.اور وہ یہ کہ جب میں صاحب مجسٹریٹ ضلع کی کچہری میں حاضر ہوا تو وہ نرمی اور اعزاز سے پیش آئے اور اپنے قریب انہوں نے میرے لئے کرسی بچھوادی.اور نرم الفاظ سے مجھ کو یہ کہا کہ گوڈاکٹر کلارک آپ پر اقدام قتل کا الزام لگاتا ہے مگر میں نہیں لگاتا.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ ڈپٹی کمشنر ایک زیرک اور دانشمند اور منصف مزاج مجسٹریٹ تھا.اس کے دل میں خدا نے بٹھا دیا کہ مقدمہ بے اصل اور جھوٹا ہے اور ناحق تکلیف دی گئی ہے.اس لئے ہر ایک مرتبہ جو میں حاضر ہوا وہ عزت سے پیش آیا اور مجھے کرسی دی.اور جب میں اس کی عدالت سے بری کیا گیا تو اس دن مجھ کو عین کچہری میں مبارکباد دی.اور اس کے مقابلے پر جو مولوی صاحب ذلت دیکھنا چاہتے تھے ان کا کیا حال ہوا؟ انہوں نے وہاں پہنچ کے کرسی مانگی تو اس کو انکار ہو گیا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب مولوی صاحب نے کرسی مانگی تو ” صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ان کو جھڑک دیا اور کہا کہ تمہیں کرسی نہیں مل سکتی.یہ تو رئیس ہیں اور ان کا باپ کرسی نشین تھا اس لئے ہم نے کرسی دی.سو جو لوگ میری ذلت دیکھنے کے لئے آئے تھے ان کا یہ انجام ہوا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”میری عادت نہیں تھی کہ کسی کو ملوں اور نہ میرا کسی سے کچھ تعارف تھا.پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ میں عزت کے ساتھ بری کیا گیا.اور حاکم مجوزہ نے ایک تبسم کے ساتھ مجھے کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپ بڑی کئے گئے.سو یہ خدا تعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجودیکہ
333 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کر لیا تھا.مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب ایڈووکیٹ ، موحدین تھے.اور ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت صاحب وکیل تھے.اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب تھے.اور جنگ احزاب کی طرح بالاتفاق ان قوموں نے میرے پر چڑھائی کی تھی.لیکن خدا تعالیٰ نے مجسٹریٹ ضلع کو ایسی روشن ضمیری بخشی کہ وہ مقدمہ کی اصل حقیقت تک پہنچ گیا.پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ خود عبد الحمید نے عدالت میں اقرار کر دیا کہ عیسائیوں نے مجھے سکھلا کر یہ اظہار دلایا تھا ورنہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ مجھے قتل کے لئے ترغیب دی گئی تھی.اور صاحب مجسٹریٹ ضلع نے اسی آخری بیان کو صحیح سمجھا اور بڑے زور شور کا ایک چٹھا لکھ کر مجھے بری کر دیا اور خدا تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری بریت کو مکمل کرنے کے لئے اسی عبدالحمید سے پھر دوبارہ میرے حق میں گواہی دلائی تا وہ الہام پورا ہو جو براہین احمدیہ میں آج سے ہیں برس پہلے لکھا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ فَبَرَّأَ هُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوْا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيْهَا یعنی خدا نے اس شخص کو اس الزام سے جو اس پر لگایا جائے گا بری کر دیا ہے یعنی بری کر دیا جائے گا“.اب دیکھو کہ اس بندہ درگاہ کی کیسی صفائی سے بریت ثابت ہوئی.ظاہر ہے کہ اس مقدمہ میں عبدالحمید کے لئے سخت مضر تھا کہ اپنے پہلے بیان کو جھوٹا قرار دیتا.کیونکہ اس سے یہ جرم عظیم ثابت ہوتا ہے کہ اس نے دوسرے پر ناحق ترغیب قتل کا الزام لگایا.اور ایسا جھوٹ اس سزا کو چاہتا ہے جو مر تکب اقدام قتل کی سزا ہوتی ہے.اگر وہ اپنے دوسرے بیان کو جھوٹا قرار دیتا جس میں میری بریت ظاہر کی تھی تو اس میں قانونا سزا کم تھی.لہذا اس کے لئے مفید راہ یہی تھی کہ وہ دوسرے بیان کو جھوٹا کہتا مگر خدا نے اس کے منہ سے سچ نکلوا دیا.جس طرح زلیخا کے منہ سے حضرت یوسف کے مقابل پر اور ایک مفتری عورت کے منہ سے حضرت موسٹی کے مقابل پر سچ نکل گیا تھا.سو یہی اعلیٰ درجہ کی بریت ہے جس کو یوسف اور موسیٰ کے قصے سے مماثلت ہے.اور اسی کی طرف اس الہامی پیشگوئی کا اشارہ تھا کہ بَراً هُ اللهُ مِمَّا قَالُوْا.کیونکہ یہ قرآن شریف کی وہ آیت ہے جس میں حضرت موسیٰ کی بریت کا حال جتلانا منظور ہے.غرض میرے قصے کو خدا تعالیٰ نے حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ کے قصے سے مشابہت دی اور خود تہمت لگانے والے کے منہ سے نکلوا دیا کہ یہ تہمت جھوٹ ہے.پس یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے اور کس قدر عجائب تصرفات الہی اس میں جمع ہیں.فالحمد لله على ذالك“.تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 341-351) کپتان ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس مقدمہ سے بری فرمایا تھا ان پر کس طرح اس دوران میں تصرف الہی ہوا.اس کا بیان ایک غیر از جماعت نے یوں دیا ہے.
خطبات مسرور جلد چہارم 334 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 راجہ غلام حیدر صاحب جو ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے ریڈر تھے ان کا بیان ہے کہ ” جب عدالت ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں تم ابھی جا کر ہمارے لئے ریل کے کمرے کا انتظام کرو.وہ کہتے ہیں کہ میں سٹیشن سے نکل کر برآمدے میں انتظام کرنے کے بعد کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سڑک پر ٹہل رہے ہیں اور کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر جاتے ہیں.چہرہ پریشان ہے.میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ صاحب آپ باہر آ جا رہے ہیں میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھا دی ہیں وہاں جا کے آپ تشریف رکھیں.وہ کہنے لگے کہ منشی صاحب آپ مجھے کچھ نہ کہیں.میری طبیعت خراب ہے.انہوں نے کہا بتا ئیں تو سہی کہ آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہے.اس کا مناسب علاج کیا جاسکے.اس پر وہ کہنے لگے کہ میں نے جب سے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کر کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہگار نہیں ، ان کا کوئی قصور نہیں.پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اس کنارے کی طرف جا تا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کام نہیں کیا، یہ سب جھوٹ ہے.پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے، میں نے یہ کام نہیں کیا.کپتان ڈگلس صاحب کہنے لگے کہ اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا صاحب آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھے ، سپر نٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں ان کو بلا لیتے ہیں شاید ان کی باتیں سن کر آپ تسلی پا جائیں.تو ڈگلس صاحب نے کہا ٹھیک ہے سپر نٹنڈنٹ صاحب کو بلا لو.چنانچہ انہیں جب بلایا گیا تو سر ڈگلس نے انہیں کہا کہ دیکھو یہ حالات ہیں.میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے میں سٹیشن پر ٹہلتا ہوا اور گھبرا کر اس طرف جاتا تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں.مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے.پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں مرزا صاحب مجھے کھڑے نظر آتے ہیں.تو میری حالت پاگلوں کی سی ہو رہی ہے.تم اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتے ہو.مدد کرو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا.تو سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کہا کہ آپ نے عبدالحمید کو عیسائی پادریوں کے سپرد کیا ہوا ہے اس کو پولیس کی تحویل میں دے دیں تو سارا کچھ ٹھیک ہو جائے گا.اس سے اصل حقیقت پتہ کر لیتے ہیں.لیکن جب وہ پولیس کی تحویل میں آیا تو جس طرح اس سے بیان لئے جا رہے تھے تب بھی وہ مان نہیں رہا تھا کیونکہ انسپکٹر پولیس وغیرہ مخالفین کے ساتھ تھے.تھوڑی دیر تک سپر نٹنڈنٹ نے جب دیکھا کہ یہ کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تو اس نے خود ہی عبد الحمید کو اپنے پاس بلایا اور پوچھ گچھ شروع کی تو اس
335 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم نے وہی اپنی داستان جو پہلے لکھوائی ہوئی تھی اور جو پہلا بیان تھا وہی دو ہرایا.سپر نٹنڈنٹ صاحب نے کہا تم وقت ضائع نہ کرو.تمہیں اب واپس ان کے پاس نہیں جانا بلکہ یہاں سے تمہیں گورداسپور لے کر جائیں گے.تو اتنا کہنا تھا کہ عبدالحمید جس نے کہا تھا کہ قتل کے لئے مجھے مرزا صاحب نے بھیجا ہے.وہ زار و قطار رونے لگا اور ان کے پیروں میں پڑ گیا اور صاف بیان دیا کہ یہ سب کچھ میں ان لوگوں کے کہنے بیان دے رہا ہوں.اس کے علاوہ اس کے خلاف دوسری گواہیاں بھی کچھ عرصے بعد عدالت میں پہنچ کیں.تو بہر حال اس طرح اس نے اپنا بیان بدل دیا.اور جب وہ سارا بیان دوبارہ عدالت میں آیا تو جیسا کہ بیان ہو چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حج نے بری کر دیا“.( ملخص از تاریخ احمدیت جلد اول صفحه 631 تا 633 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) دوسرا مقدمہ ( وقت کے لحاظ سے مختصر کر رہا ہوں ) جس کا ذکر آپ نے کیا ہے مولوی محمد حسین بٹالوی کی درخواست پر ڈوئی صاحب کی عدالت میں پیش ہوا تھا جبکہ اس کی رپورٹ اور درخواست بھی مولوی محمد حسین کی طرف سے دلوائی گئی تھی.اس مقدمہ کی بھی لمبی تفصیل ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف یہ درخواست دی تھی کہ آپ مجھے قتل کروانا چاہتے ہیں.اور اس کی بنیاد ایک مباہلہ کا چیلنج بنایا.بہر حال حکومتی مشینری کی بھی بہت سی گواہیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف وہاں پیش کی گئیں.پولیس نے بڑی کوشش کی اور اس مقدمے کے لئے ہر جگہ جائے اتنا شور مچایا گیا کہ مولوی صاحب نے جیب میں چاقو رکھا ہوتا تھا وہ لوگوں کو دکھاتے تھے اور بھڑکاتے تھے.مقدمے کی فیس کے لئے لوگوں سے پیسے بھی اکٹھے کئے گئے.بڑی رقم اکٹھی ہوگئی.اور پھر اس میں مدد کے لئے ہندو اور عیسائی بھی آگئے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان سب باتوں کے باوجود کوئی فکر نہ تھی.آپ نے ایک احمدی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ : ” یہ آخری ابتلاء ہے جو محد حسین کی وجہ سے پیش آ گیا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے راضی ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا.مخالفوں نے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیا ہے اور خدا تعالیٰ کے کام فکر اور عقل سے باہر ہیں“.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول مکتوب نمبر 65 صفحہ 25 بار اول بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 39 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) اس مقدمے میں بھی دشمن نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.بڑے تفصیلی بیان ہوئے.جیسا کہ میں نے کہا اس کی بڑی لمبی تفصیل ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا تھا کہ آپ کی بریت ہوگی.چنانچہ اپنے ایک خط میں جو آپ نے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو لکھا.آپ فرماتے ہیں کہ اب فوجداری مقدمے کی تاریخ 14 فروری 1899ء ہوگئی ہے دراصل بات یہ ہے کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیت بخیر نہیں.جمعہ کی رات مجھے یہ خواب آئی ہے کہ ایک لکڑی یا پتھر کو میں نے
خطبات مسرور جلد چهارم 336 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 جناب الہی میں دعا کر کے بھینس بنا دیا ہے.اور پھر اس خیال سے کہ ایک بڑا نشان ظاہر ہوا ہے سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں.رَبِّيَ الْاعْلَى رَبِّيَ الْاعْلٰی.میرے خیال میں ہے کہ شاید اس کی تعبیر یہ ہو کہ لکڑی اور پتھر سے وہی سخت اور منافق طبع حاکم مراد ہو اور پھر میری دعا سے اس کا بھینس بن جانا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ہمارے لئے ایک مفید چیز بن گئی ہے جس سے دودھ کی امید ہے.اگر یہ تاویل درست ہے تو امید قوی ہے کہ مقدمہ پلٹا کھا کر نیک صورت پر آ جائے گا.اور ہمارے لئے مفید ہو جائے گا اور سجدہ کی تعبیر دیکھی ہے کہ دشمن پر فتح ہو.الہامات بھی اس کے قریب قریب ہیں.( تذکرہ صفحہ 275 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر حقیقۃ المہدی میں آپ نے اس کے بارے میں ذرا تفصیل بیان فرمائی ہے.فرمایا کہ ” مجھے 21 رمضان المبارک 1316 ہجری جمعہ کی رات کو جس میں انتشار روحانیت مجھے محسوس ہوتا تھا اور میرے خیال میں تھا کہ یہ لیلۃ القدر ہے اور آسمان سے نہایت آرام اور آہستگی سے مینہہ برس رہا تھا ایک رؤیا ہوا.یہ رویا اُن کے لئے جو ہماری گورنمنٹ عالیہ کو ہمیشہ میری نسبت شک میں ڈالنے کے لئے کوشش کرتے ہیں میں نے دیکھا کہ کسی نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ اگر تیرا خدا قادر خدا ہے تو تو اس سے درخواست کر کہ یہ پتھر جو تیرے سر پر ہے بھینس بن جائے.تب میں نے دیکھا کہ ایک وزنی پتھر میرے سر پر ہے جس کو کبھی میں پتھر اور کبھی لکڑی خیال کرتا ہوں.تب میں نے یہ معلوم کرتے ہی اس پتھر کوزمین پر پھینک دیا.پھر بعد اس کے میں نے جناب الہی میں دعا کی کہ اس پتھر کو بھینس بنا دیا جائے اور میں اس دعا میں محو ہو گیا.جب بعد اس کے میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پتھر بھینس بن گیا ہے.سب سے پہلے میری نظر اس کی آنکھوں پر پڑی.اس کی بڑی روشن اور لمبی آنکھیں تھیں.تب میں یہ دیکھ کر کہ خدا نے پتھر کو جس کی آنکھیں نہیں تھیں ایسی خوبصورت بھینس بنا دیا جس کی ایسی لمبی اور روشن آنکھیں ہیں خوبصورت اور مفید جاندار ہے خدا کی قدرت کو یاد کر کے وجد میں آ گیا اور بلا توقف سجدہ میں گرا.اور میں سجدہ میں بلند آواز سے خدا تعالیٰ کی بزرگی کا ان الفاظ میں اقرار کرتا تھا کہ رَبِّيَ الَّا عَلَى رَبِّيَ الْا تَعْلَی.اور اس قدر اونچی آواز تھی کہ میں خیال کرتا ہوں کہ وہ آواز دُور دُور تک جاتی تھی.تب میں نے ایک عورت سے جو میرے پاس کھڑی تھی جس کا نام بھا تو تھا اور غالباً اس دعا کی اس نے درخواست کی تھی یہ کہا کہ دیکھ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے جس نے پتھر کو بھینس بنا کر آنکھیں عطا کیں.اور میں یہ اس کو کہہ رہا تھا کہ پھر یکدفعہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے تصور سے میرے دل نے جوش مارا اور میرا دل اس کی تعریف سے پھر دوبارہ بھر گیا اور پھر میں پہلی طرح وجد میں آکر سجدہ میں گر پڑا.اور ہر وقت یہ تصور میرے دل کو خدا تعالیٰ کے آستانہ پر یہ کہتے ہوئے گراتا تھا کہ یا الہی تیری کیسی بلندشان ہے.تیرے کیسے عجیب کام ہیں کہ تو نے ایک بے جان پتھر کو بھینس بنا دیا.اس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں جن سے وہ سب کچھ دیکھتا ہے.اور نہ
337 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم صرف یہی بلکہ اس کے دودھ کی بھی امید ہے.قدرت کی باتیں ہیں کہ کیا تھا اور کیا ہو گیا.میں سجدہ میں ہی تھا کہ آنکھ کھل گئی.قریباً اُس وقت رات کے چار بج چکے تھے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.فرمایا کہ میں نے اسکی تعبیر یہ کی کہ وہ ظالم طبع مخالف جو میرے پر خلاف واقعہ اور سراسر جھوٹ باتیں بنا کر گورنمنٹ تک پہنچاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہونگے.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خواب میں ایک پتھر کو بھینس بنا دیا اور اس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں اسی طرح انجام کار وہ میری نسبت حکام کو بصیرت اور بینائی عطا کرے گا اور وہ اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے.یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب“.اور الہامات جو اس خواب کے موید ہیں یہ ہیں : إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُوْنَ أَنْتَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَأَنْتَ مَعِيَ يَا إِبْرَاهِيمُ.يَأْتِيْكَ نُصْرَتِي إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ.يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَ كِ.غِيْضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ.سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَّبِّ رَّحِيْمِ.وَاَمْتَازُوْا الْيَوْمُ أَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ إِنَّا تَجَالَدْنَا فَانْقَطَعَ الْعَدُوُّ وَاسْبَابُهُ.وَيْلٌ لَّهُمْ أَنَّى يُؤْفَكُوْنَ.يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَيُوْثَقُ وَ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الْابْرَارِ.وَإِنَّهُ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرِ.شَاهَتِ الْوُجُوْهُ.إِنَّهُ مِنْ آيَةِ اللهِ وَإِنَّهُ فَتْحٌ عَظِيمٌ.اَنْتَ اسْمِيَ الأعْلَى وَأَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ مَحْبُوبِيْنُ.اِخْتَرْتُكَ لِنَفْسِي قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ.یعنی خدا پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے اور تو پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے.اور تو میرے ساتھ ہے اے ابراہیم.میری مدد تجھے پہنچے گی.میں رحمن ہوں.اے زمین! اپنے پانی کو یعنی خلاف واقعہ اور فتنہ انگیز شکایتوں کو جو زمین پر پھیلائی گئی ہیں نگل جا.پانی خشک ہوگیا اور بات کا فیصلہ ہوا.تجھے سلامتی ہے یہ رب رحیم نے فرمایا.اور اسے ظالمو! آج تم الگ ہو جاؤ.ہم نے دشمن کو مغلوب کیا اور اس کے تمام اسباب کاٹ دیئے.ان پر واویلا ہے کیسے افتراء کرتے ہیں.ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا.اور خدا نیکوں کے ساتھ ہو گا.وہ ان کی مدد پر قادر ہے.منہ بگڑیں گے.خدا کا یہ نشان ہے اور یہ فتح عظیم ہے.تو میرا وہ اسم ہے جو سب سے بڑا ہے.اور تو محبوبین کے مقام پر ہے میں نے تجھے اپنے لئے چنا.کہہ میں مامور ہوں اور تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں“.حقیقت المہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 443-446) ( مسجد میں الارم بجنے پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ یہ کیا ہے، بتایا گیا کہ فائر کا الارم ہے فرمایا فائر کہاں ہو گی؟.یہ الارم کسی وجہ سے بجا ہے دیکھیں چیک کروائیں.الارم صرف بند نہ کر دیں بلکہ سارے پھر کے چیک بھی کرلیں ) اس دن حضرت اقدس اپنے احباب کے ساتھ کثیر تعداد میں گورداسپور میں فیصلہ سننے کے لئے تشریف لے گئے.مولوی محمد حسین صاحب بھی خوش تھے کہ آج ہمارا حریف عدالت کے کٹہرے میں مجرم قرار پائے گا.اور انہیں فتح عظیم حاصل ہوگی.مگر جیسا کہ آپ کو قبل از وقت بتایا گیا تھا اب وہ پتھر دل
خطبات مسرور جلد چہارم 338 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 حاکم آپ کی دعا کی برکت سے ایک منصف اور عادل کی شکل میں بدل چکا تھا.چنانچہ اس نے حضرت اقدس کی شائستہ اور متین تحریرات کے مقابل پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ابوالحسن تبتی کے دشنام آلود اشتہارات دیکھے اور وہ ہکا بکا رہ گیا.اور اس نے پولیس کا بڑی محنت سے بنایا ہوا مقدمہ خارج کر دیا.اور مسٹر جیم ڈوئی نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ گندے الفاظ جومحمد حسین اور اس کے دوستوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعہ سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جوئی کراتے.اور وہ حق اب تک قائم ہے.مسٹر ڈوئی ، عدالت کی کرسی پر بیٹھ کرمحمد حسین بٹالوی کو فہمائش کر رہے تھے کہ آئندہ وہ تکفیر اور بد زبانی سے باز رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: منجملہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کے ایک یہ نشان ہے کہ وہ مقدمہ جومنشی محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ کی رپورٹ کی بنا پر دائر ہو کر عدالت مسٹر ڈوئی صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ میرے پر چلایا گیا تھا جو فروری 1899 ء کو اس طرح پر فیصلہ ہوا کہ اُس الزام سے مجھے بری کر دیا گیا.اس مقدمہ کے انجام سے خدا تعالیٰ نے پیش از وقت مجھے بذریعہ الہام خبر دے دی کہ وہ مجھے آخر کار دشمنوں کے بد ارادے سے سلامت اور محفوظ رکھے گا.اور مخالفوں کی کوششیں ضائع جائیں گی.سوایسا ہی وقوع میں آیا.جن لوگوں کو اس مقدمہ کی خبر تھی ان پر پوشیدہ نہیں کہ مخالفوں نے میرے پر الزام قائم کرنے کے لئے کچھ کم کوشش نہیں کی تھی بلکہ مخالف گروہ نے ناخنوں تک زور لگایا تھا“.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ (30) پھر تیسرا مقدمہ کرم دین جہلمی صاحب کے ساتھ تھا.اس کا بھی ایک لمبا اور تکلیف دہ سلسلہ چلتا رہا.اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جولائی 1902ء میں اپنی ایک تصنیف نزول امسیح لکھ رہے تھے.اس دوران مولوی کرم دین ساکن بھیں نے حضرت مسیح موعود اور حضرت حکیم فضل دین صاحب کے نام خطوط لکھے کہ پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑوی کی کتاب سیف چشتیائی ، دراصل مولوی محمد حسین فیضی کا علمی سرقہ ہے.مولوی کرم دین صاحب نے اس امر کے ثبوت میں حضرت مسیح موعود کو کارڈ بھی ارسال کیا جو پیر صاحب موصوف نے ان کے نام گولڑہ میں بھیجا تھا.اور جس میں پیر صاحب موصوف نے محمد حسن صاحب فیضی کے نوٹوں کا اپنی کتاب میں درج کرنے کا اعتراف کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کتاب نزول اسیح لکھ رہے تھے.حضور علیہ السلام کو یہ خط پہنچے جو حضور نے اپنی کتاب میں درج کر دیئے.اسی طرح ایڈیٹر اخبار الحکم نے اس بنا پر 17 ستمبر کو ایک مضمون شائع کیا جس میں ان خطوط کی نقول درج کر دیں.جب یہ خط شائع ہو گئے تو مولوی کرم دین صاحب مکر گئے کہ
339 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم میں نے تو یہ نہیں لکھا اور یہ سب خطوط جعلی ہیں.نیز لکھا کہ مرزا صاحب کی نعوذ باللہ اہلیت کی آزمائش کے لئے میں نے اسے دھو کہ دیا ہے.اور خلاف واقعہ خطوط لکھے اور لکھوائے اور ایک بچے کے ہاتھ سے نوٹ لکھوا کر محمدحسین فیضی کے نوٹ ظاہر کئے.اور آگے کہا کہ مرزا صاحب کا تمام کاروبار معاذ اللہ مکر وفریب ہے اور آپ اپنے دعوی میں کذاب اور مفتری ہیں.تو یہ ساری باتیں تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے باوجود اس حق کے جو ان کو تھا کہ ازالہ حیثیت عرفی کے لئے عدالت سے رجوع کر سکتے تھے، آپ نے نہ کیا کہ مولوی کرم دین صاحب خود ہی اس کی تردید کر دیں گے.لیکن تین مہینے گزر جانے کے با وجود جب مولوی صاحب نے تردید نہ کی تو اس پر حکیم فضل دین صاحب نے جو مینیجر ضیاء الاسلام پریس قادیان تھے اور مولوی کرم دین صاحب نے ان کے نام پہلے خطوط لکھے تھے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ لوگ تھے ، انہوں نے مولوی کرم دین پر استغاثہ دائر کر دیا.اور اس دوران میں جب عدالت کی کارروائی ہو رہی تھی مولوی کرم دین صاحب نے زیر طبع کتاب نزول امسیح کے اوراق پیش کئے اور مستغیث (جس نے استغاثہ کیا تھا) حکیم فضل دین صاحب سے تصدیق کرانا چاہی.حکیم فضل دین صاحب نے اس بات پر مولوی کرم دین پر ایک اور استغاثہ کر دیا کہ کیونکہ میں پریس کا مینیجر ہوں اور یہ کتاب ابھی چھپی نہیں ، اس لئے میری ملکیت تھی اس نے یہ کاغذات بھی چوری کئے ہیں.اور اسی طرح شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کے خلاف بھی مولوی صاحب نے زہر اگلا تھا اس لئے شیخ صاحب نے بھی مولوی کرم دین کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ کر دیا تو اس طرح کئی استغاثے اکٹھے ہو گئے.ان استغاثوں کے جواب میں مولوی کرم دین صاحب نے اسٹنٹ کمشنر جہلم کے پاس عدالت میں ایک مقدمہ کر دیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عبداللہ صاحب کشمیری اور شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے نام ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کر دیا کہ میرے بہنوئی مولوی محمد حسن فیضی کی سخت توہین کی گئی ہے.اس مقدمہ پر حضور علیہ السلام اور دوسرے رفقاء کے نام وارنٹ جاری ہو گئے اور عدالت میں پیشی کی تاریخ پڑ گئی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مقدمہ دائر ہونے کی خبر پر مخالف اخبارات نے بڑی خوشی کا اظہار کیا.چنانچہ لاہور کے اخبار پنجاب سما چار نے لکھا کہ مرزا قادیانی صاحب پر نالش ہے.اس کا طرز تحریر بھی جہاں تک پڑھا ہے ملک کے لئے کسی طرح مفید نہیں بلکہ بہت دلوں کو دکھانے والا ہے.اگر عدالت نالش کو سچا سمجھے تو مناسب ہے کہ سزا عبرت انگیز دیوے تا کہ ملک ایسے شخصوں سے جس قدر پاک رہے ملک اور گورنمنٹ کے لئے مفید ہے.( تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 260 تا 263 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تو یہ تو تھا دشمنوں کا حال.پھر اس نے ازالہ حیثیت عرفی کا جو استغاثہ کیا تھا یہ مقدمہ مواهب الرحمن کے صفحہ 129 کے الفاظ کی بنا پر تھا جس میں ان کے لئے کذاب لعین اور بہتان عظیم کے الفاظ استعمال
340 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم کئے گئے تھے.چنانچہ مولوی صاحب نے عدالت میں بیان دیا کہ 7 جنوری 1903ء کو مرزا غلام احمد قادیانی نے مواہب الرحمن جو اس کی اپنی تصنیف ہے اور جو ضیاء الاسلام پریس میں چھپی تھی اس کے صفحہ نمبر 129 پر ہتک آمیز الفاظ میری بابت درج کئے.اس عبارت میں جو کذاب ، مھین کا لفظ لکھا گیا ہے وہ قرآن شریف میں ایک خاص کا فرولید بن مغیرہ کی نسبت لکھا گیا ہے.اور اس لفظ کے کہنے سے مجھ کو گویا اس کا فر سے تشبیہ دی گئی ہے.اب اس کو ذہن میں رکھیں تو آگے فیصلے میں پتہ لگے گا کہ عدالت نے کیا کہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا.اب یہ ان لوگوں کی طرف سے ابتداء ہے.کیا معلوم خدا تعالیٰ ان کے مقابلے میں کیا کیا تدابیر اختیار کرے گا.یہ استغاثہ ہم پر نہیں، اللہ تعالیٰ پر ہی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مقدمہ کر کے تھکانا چاہتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا زور آور حملوں سے سچائی ظاہر کر دے گا.اس وقت یہ پورا زور لگائیں تاکہ قتل کے مقدمے کی حسرتیں نہ رہ جائیں کہ کیوں چھوٹ گیا.یہ لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے جو خدا کی طرف سے پیش کرتا ہوں مگر وہ دیکھ لیں گے کہ اِكْرَاماً عجیبا کیسا ہوا.مقدمہ ابھی ابتدائی حالت میں ہی تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے انجام کے بارے میں بھی بتا دیا.چنانچہ 28 جنوری 1903ء کو الہام ہوا.اِنَّ اللَّهَ مَعَ عِبَادِهِ واسيك یعنی خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ تیری غم خواری کرے گا.پھر 29 جنوری کو الہام ہوا سَاكْرِمُكَ إِكْرَامًا عَجِيْبًا یعنی شاندار رنگ میں تیری عزت قائم کی جائے گی.17 فروری 1903ء کو الہام ہوا يَوْمَ الْاِثْنَيْنِ وَفَتْحُ الْحُنَيْن روز دوشنبہ اور حسین والی فتح.اس کے چھ ماہ بعد 18 راگست 1903ء کو الہام ہوا.سَأَكْرِمُكَ بَعْدَ تَوْهِيْنِكَ یعنی تیری اہانت کے بعد تجھے عزت عطا کی جائے گی.پھر 28 جون کو ایک الہام ہوا.اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُوْنَ فِيْهِ آيَتٌ لِلسَّائِلِينَ.کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس فریق کے ساتھ ہوگا اور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا جو پرہیز گار ہے اور خدا سے ڈر کر بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتا ہے.اور بنی نوع کا وہ سچا خیر خواہ ہے.سو انجام کا ران کے حق میں فیصلہ ہوگا.تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں کہ ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے ان کے لئے یہ ایک نشان بلکہ کئی ایک نشان ظاہر ہوں گے.( تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 279 278 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں سفر کی مزید تفصیل بیان فرماتے ہیں : ”جب میں 1904 ء میں کرم دین کے فوجداری مقدمہ کی وجہ سے جہلم میں جا رہا تھا.تو راہ میں مجھے الہام ہوا أرِيْكَ بَرَكَاتٍ مِنْ كُلِّ طَرْفِ یعنی ہر ایک پہلو سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا.اور یہ الہام اسی وقت تمام جماعت کو سنا دیا گیا بلکہ اخبار الحکم میں درج کر کے شائع کیا گیا.اور یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی
خطبات مسرور جلد چهارم 341 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 کہ جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمینا دس ہزار سے زیادہ آدمی ہو گا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے.اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کی کچہری کے ارد گرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے.گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دوسوعورت بیعت کر کے اس سلسلے میں داخل ہوئی اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا.اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دیئے اور تحفے پیش کئے.فرماتے ہیں کہ : ” اور اس طرح ہم ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پوری کی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 263-264 پھر فرماتے ہیں کہ : "کرم دین جہلمی کے اس مقدمہ فوجداری کی نسبت پیشگوئی ہے جو اس نے جہلم میں مجھ پر دائر کیا تھا.جس پیشگوئی کے یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے رَبِّ كُلُّ شَيْ ءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِی وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِی اور دوسرے الہامات بھی تھے جن میں بریت کا وعدہ تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس مقدمہ سے مجھ کو بری کر دیا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 224) تو جہلم کے مقدمے کے بعد بلکہ اس کی کڑی ہے گورا دسپور میں کرم دین صاحب نے ایک مقدمہ کیا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : "کرم دین نام ایک مولوی نے فوجداری مقدمہ گورداسپور میں میرے نام دائر کیا اور میرے مخالف مولویوں نے اس کی تائید میں آتما رام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جا کر گواہیاں دیں اور ناخنوں تک زور لگایا اور ان کو بڑی امید ہوئی کہ اب کی دفعہ ضرور کامیاب ہوں گے اور ان کو جھوٹی خوشی پہنچانے کے لئے ایسا اتفاق ہوا کہ آتما رام نے اس مقدمہ میں اپنی نافہمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کے لئے مستعد ہو گیا.اُس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتما رام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا.چنانچہ یہ کشف میں نے اپنی جماعت کو سنا دیا اور پھر ایسا ہوا کہ قریباً ہمیں پچھپیں (20-25) دن کے عرصہ میں دو بیٹے اس کے مر گئے.اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتما رام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا.اگر چہ فیصلہ لکھنے میں اس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی مگر اخیر پر خدا نے اس کو اس حرکت سے روک دیا لیکن تاہم اس نے سات سورو پہیہ جرمانہ کیا.اس کی الگ تفصیل ہے کہ عدالت میں کس طرح جرمانہ ہوا.بہر حال فرماتے ہیں کہ پھر ڈویژنل حج کی عدالت سے عزت کے ساتھ میں بری کیا گیا اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرا جرمانہ واپس ہوا.مگر آ تمارام کے دو بیٹے واپس نہ آئے.پس جس خوشی کے حاصل ہونے کی کرم دین کے مقدمہ میں ہمارے مخالف مولویوں کو تمنا تھی وہ پوری
خطبات مسرور جلد چهارم 342 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 نہ ہوسکی اور خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی کے مطابق جو میری کتاب مواہب الرحمن میں پہلے سے چھپ کر شائع ہو چکی تھی میں بری کیا گیا.اور میرا جرمانہ واپس کیا گیا اور حاکم مجوز کو منسوخی حکم کے ساتھ یہ تنبیہ ہوئی کہ یہ حکم اس نے بے جا دیا.یعنی آتما رام کو تنبیہ بھی ہوئی.مگر کرم دین کو جیسا کہ مواہب الرحمن میں شائع کر چکا تھا سزا مل گئی اور عدالت کی رائے سے اُس کے کذاب ہونے پر مہر لگ گئی.جو کہتا تھا مجھے کذاب کہا ہے.اور ہمارے تمام مخالف مولوی اپنے مقاصد میں نامرادر ہے.افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدرمتواتر نامرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ در پردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملہ سے اس کو بچاتا ہے.اگر بد قسمتی نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کے ہر ایک حملہ کے وقت خدا نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا.اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے اس سے خبر بھی دے دی کہ وہ بچائے گا.اور ہر ایک مرتبہ اور ہر ایک مقدمہ میں خدا تعالیٰ مجھے خبر دیتا رہا کہ میں تجھے بچاؤں گا.چنانچہ وہ اپنے وعدہ کے موافق مجھے محفوظ رکھتا رہا.یہ ہیں خدا کے اقتداری نشان کہ ایک طرف تمام دنیا ہمارے ہلاک کرنے کے لئے جمع ہے اور ایک طرف وہ قادر خدا ہے کہ ان کے ہر ایک حملہ سے مجھے بچاتا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 124-125 ) پھر پانچواں واقعہ جو آپ نے بتایا وہ لیکھرام کا واقعہ ہے.اس کے متعلق پیشگوئی تھی اس کے مطابق وہ کیفر کردار تک پہنچا.جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی انتہا کی ہوئی تھی.آخر اللہ تعالیٰ کی پکڑنے ، اپنے پیارے نبی کی غیرت نے اس کو پکڑا اور اس کی تمام تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتائی کہ میں اس کو پکڑوں گا اور کس طرح اس کا انجام ہوگا.آپ نے اس بارے میں پیشگوئی فرمائی اور باوجود تمام تر حفاظتی تدابیر کے کوئی اس کو بچا نہ سکا.یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے.بہر حال اس کے قتل کے بعد اس پیشگوئی کی بنا پر جو حضرت مسیح موعود نے اس کے انجام کی کی تھی حکومت کے کارندوں نے بھی کوششیں کیں اور لوگوں نے بڑا شور مچایا اور آپ پر الزام لگایا گیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آپ کی ہر لحاظ سے یہاں بھی بریت فرمائی.آپ کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی لیکن پولیس کے ہاتھ کچھ نہ آیا.اور اس قتل کے بعد تو آریوں کے جذبات بڑے سخت مشتعل ہو گئے تھے.ہر طرف آگ لگ گئی تھی.پولیس بڑی کوشش کر رہی تھی کہ مجرم کو پکڑے.اس شخص کا جس نے قتل کیا تھا حلیہ بھی اشتہار میں دیا گیا لیکن ایک آدمی جو اس حلیہ کا پکڑا گیا تو لیکھرام کی بیوی نے کہا نہیں ، یہ وہ نہیں.یہ کوئی کشمیری تھا.ایک احمدی کو بھی پکڑا گیا.بعد میں وہ بھی رہا کر دیئے گئے.پکڑ دھکڑ کے علاوہ تلاشیاں بھی ہوئیں.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر کی بھی تلاشی ہوئی جیسا کہ میں نے
خطبات مسرور جلد چهارم 343 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 کہا.جب پولیس نے تلاشی لینی تھی تو افسروں کے آنے سے چند منٹ پیشتر آپ سراج منیر کی ایک کاپی پڑھ رہے تھے.جس میں یہ مضمون تھا کہ لیکھرام کے قتل سے آپ پر ویساہی ابتلا آیا جیسے مسیح علیہ السلام کے دشمنوں نے خود بھی ایذا رسانی کی کوششیں کی تھیں اور گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی تکلیف دی تھی.مگر میرے معاملے میں تو اب تک صرف ایک پہلو ہے.کیا اچھا ہوتا کہ گورنمنٹ کی دست اندازی کا پہلو بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور اور انسپکٹر میاں محمد بخش ( جس نے پہلے بھی کئی کوششیں کی تھیں) اور کچھ ہیڈ کانسٹیبلز اور پولیس کی بھاری نفری نے آکر حضرت مسیح موعود کے گھر کو گھیر لیا.اس سے پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب نے پولیس کے آنے کی خبر کہیں سے سن لی تھی.وہ سخت گھبرائے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں جا کر بڑی پریشانی کے عالم میں عرض کی کہ پولیس گرفتاری کے لئے آ رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسکرائے اور فرمایا میر صاحب ! دنیا دار لوگ خوشیوں میں سونے چاندی کے کنگن پہنا کرتے ہیں ، ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے.پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا مگر ایسا نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں ( اپنے طریقے ہیں اللہ تعالیٰ کی گورنمنٹ کے.) اس وقت حضرت پیر منظور محمد صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بتایا کہ حضرت اقدس پر پولیس کی اطلاع کا ہلکا سا بھی اثر نہیں تھا.اور بدستور اپنی کا پی پڑھتے جارہے تھے.لیکن جب پولیس نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے کام بند کر دیا اور فوراً جا کر دروازہ کھول دیا.پھر وہ جو سپر نٹنڈنٹ پولیس تھے.انہوں نے ٹوپی اتار کر کہا کہ مجھے حکم آگیا ہے کہ میں قتل کے مقدمے میں آپ کے گھر کی تلاشی لوں.تلاشی کا نام سن کر آپ کو اس قدر خوشی ہوئی جتنی اس ملزم کو ہوسکتی ہے جسے کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہوگی.چنانچہ حضور نے فرمایا کہ آپ اطمینان سے تلاشی لیں.اور میں مدد دینے میں آپ کے ساتھ ہوں.اس کے بعد آپ اسے دوسرے افسروں سمیت مکان میں لے گئے.اور پہلے مردانہ اور پھر زنانہ مکان میں تمام بستے ( بیگ) وغیرہ ان کو دکھائے.تو ایک بیگ جب کھولا تو اس میں وہ کاغذات برآمد ہوئے جو پنڈت لیکھرام نے نشان نمائی کے لئے اپنے قلم سے حضور کے نام لکھے تھے.بہر حال بڑی دیر تک تلاشی جاری رہی.بعض تالے پرانے تھے ، چابیاں گم گئی تھیں تو ٹرنک تو ڑ کر بھی تلاشی لی گئی لیکن ان کو کچھ نہیں ملا اور تلاشی کے دوران آپ کے چہرہ مبارک پر کسی قسم کی فکر و تشویش نہیں تھی.قعطاً کوئی آثار ہی نہیں تھے.بلکہ آپ بڑے مطمئن اور خوش تھے.حضور کے گھر کی تلاشی کے بعد جو مہمان خانہ تھا، آگے پر لیس تھا ، حضرت خلیفہ اول کا گھر تھا اس کی بھی تلاشی لی گئی.الماریاں وغیرہ دیکھی گئیں یہاں تک کہ پتھر کی سل جو گندم پینے کے لئے تھی وہ بھی کھول کھال کے دیکھی
344 خطبہ جمعہ 07 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم گئی.تو بہر حال حضرت اماں جان اس تلاشی کا نقشہ یوں بیان کرتی ہیں کہ میں بیٹھی ہوئی تھی تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہا ( چھوٹے سے بچے تھے ) پنجابی بولا کرتے تھے کہ اماں او پائی یعنی سپاہی کو پائی کہہ رہے تھے.بہر حال ڈیوڑھی میں سے جب جھانک کے دیکھا تو سپاہی کھڑے تھے.پھر کہتے ہیں کہ اتنی دیر میں مسجد کا دروازہ کھٹکا اور پتہ لگا کہ سپاہی آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا ٹھہرو میں آتا ہوں.پھر آپ نے بڑے اطمینان سے جو اپنا بیگ تھا وہ بند کیا اور مسجد کی طرف گئے وہاں مسجد میں جو انگریز کپتان تھا اس کے ساتھ دوسرے پولیس کے آدمی بھی تھے.تو انہوں نے کہا گھر کی تلاشی لینے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ساری تلاشی دلوائی.اور حضرت اماں جان کہتی ہیں کہ اس تلاشی کے دوران میں ایک خط نکلا جس میں لیکھرام کے قتل پر کسی احمدی نے حضرت مسیح موعود کو مبارکباد لکھی تھی.دشمنوں نے جھٹ کپتان صاحب کے سامنے وہ خط رکھ دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس ایک خط کو کیا دیکھتے ہو اس طرح کے تو بہت سارے خط میرے پاس مبارکبادوں کے آئے ہیں.اور لا کے ایک بڑا سا تھیلا سامنے رکھ دیا کہ یہ ہیں جو مبارکباد کے خط آئے ہوئے ہیں.تو بہر حال کپتان صاحب نے کہا.نہیں نہیں ہم کچھ نہیں دیکھتے.پھر نیچے کمرے میں بیسمنٹ میں جانے لگے، اس کا دروازہ چھوٹا تھا.اماں جان کہتی ہیں وہاں بچارے کپتان صاحب کا سر ٹکرا گیا اور بڑی سخت چوٹ لگی اور بیٹھ گئے تو آخر پر تلاشی لینے والوں کا ظاہراً یہ انجام ہوا.بہر حال ان کو کچھ نہیں ملا اور ناکام و نامراد واپس چلے گئے.تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ 599 تا 01 جدید ایڈیشن مطبوعه ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جیسا کہ پہلے میں نے بتایا تھا کہ لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی لی گئی.اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگا دیا تا میں قاتل قرار دیا جاؤں.مگر وہ تمام مقدمات میں نامرادر ہے.تو ہمیشہ کی طرح اس مقدمہ میں بھی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا باقی مقدموں میں بھی دشمن ہمیشہ ناکام و نا مراد ہی رہے.اور اللہ تعالیٰ کے اس شیر پر کبھی کوئی ہاتھ نہ ڈال سکا.اس طرح اور سینکڑوں نشانات ہیں جو اللہ تعالی نے آپ کی تائید و نصرت میں دکھائے جو یقیناً ہمارے ایمان میں تازگی اور ترقی کا باعث بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اور ہر آن اپنے ایمان میں بڑھاتا چلا جائے.اور احمدیت پر ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر ہمارا یقین بڑھتا چلا جائے.
خطبات مسرور جلد چهارم 345 (28) خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر و نصیر کا ایمان افروز پر معارف تذکرہ فرموده مورخہ 14 جولائی 2006ء(14 /وفا 1385 هش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ دو خطبوں سے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا ذکر چل رہا ہے یہ تائید و نصرت اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی بھی کرتا ہے اور اُن کے بعد اُن کی قائم کردہ جماعتوں سے بھی یہ سلوک کرتا ہے تا کہ ایسے تائیدی نشان دکھا کر مومنین کے ایمانوں کو مضبوط کرتا رہے.گزشتہ دو خطبوں میں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق مرزا غلام احمد قادیانی مسیح الزمان اور مہدی دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آسمانی تائیدات اور دشمنان احمدیت کے آپ پر کئے گئے حملوں سے محفوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے غیر معمولی نشانات کے چند نمونے پیش کئے تھے.اللہ تعالیٰ کی یہ مدد اور نصرت اپنے پیاروں کے لئے ان کے اس دنیا سے اپنے مالک حقیقی کے پاس چلے جانے سے ختم نہیں ہو جایا کرتی بلکہ جیسا کہ میں نے کہا ہے ان کی جماعتوں سے بھی اللہ تعالیٰ یہ سلوک رکھتا ہے.بلکہ جہاں جماعت کے ساتھ بحیثیت جماعت اس نصرت کے نظارے نظر آتے ہیں وہاں انفرادی طور پر بھی اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے نمونے جاری رہتے ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت کے ساتھ جماعتی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے نشانات دکھائے جو افراد جماعت کے از دیا ایمان کا باعث بنے.جماعتی طور پر تو ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد مخالفین کو یہ خیال ہو گیا کہ اب یہ جماعت گئی کہ گئی لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ:
خطبات مسرور جلد چہارم 346 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے“.(رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 ) ہم نے دیکھا کہ یہ بات کس طرح سچ ثابت ہوئی اور حضرت خلیفہ اسیح الاول کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا پہنا کر مخالفین کی خوشیوں کو پامال کر دیا اور مومنین پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے.پھر خلافت ثانیہ کے وقت میں ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی کس طرح مدد و نصرت فرمائی.اندرونی اور بیرونی مخالفین کی کوششوں اور خواہشوں کو پامال کر کے احمدیت کی کشتی کو اس بالکل نوجوان لیکن اولوالعزم پسر موعود کی قیادت میں آگے بڑھاتا چلا گیا اور جماعت کو ترقیات پر ترقیات دیتا چلا گیا.اور دنیا کے بہت سے ممالک میں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت کی وجہ سے احمدیت کا جھنڈ ا خلافت ثانیہ میں لہرایا گیا.پھر خلافت ثالثہ میں انتہائی سخت دور آیا اور دشمن نے جماعت کو، افراد جماعت کو مایوس اور مفلوج کرنے کی کوشش کی اور اپنے زعم میں جماعت کے ہاتھ کاٹ دیئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت وفضل سے جماعت کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹنے دیا.یہ قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا بلکہ ایک دنیا نے دیکھا کہ مخالفین کے نہ صرف ہاتھ کئے بلکہ گردنیں بھی اڑا دی گئیں اور یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہیں.پھر خلافت رابعہ کے دور میں مخالفین نے خیال کیا کہ اب ہم نے ایسا داؤ استعمال کیا ہے یا مخالفین کے ایک سرغنے نے خیال کیا کہ اب میں نے ایسا داؤ استعمال کیا ہے کہ اب جماعت احمد یہ ہر طرف سے بندھ گئی ہے، اس کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ اپنی موت آپ مر جائے گی.لیکن جیسا کہ بے شمار الہامات سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری مددکروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس خلیفہ راشد کی بھی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور دشمن اپنی تمام تر تدبیروں اور مکروں کے باوجود نظام خلافت کو مفلوج اور ختم کرنے میں ناکام و نامراد ہوا.بلکہ اپنے وعدے کے مطابق کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.( تذکر صفحہ 260 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ نے ایسے راستے کھلوائے اور اس طرح مدد فرمائی کہ دشمن بیچارہ دانت پیستارہ گیا.اور ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہے.پھر حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد مخالفین اس امید پر تھے کہ شاید اب یہ انتہا ہو چکی ہے اس لئے شاید اب جماعت کا زوال شروع ہو جائے لیکن بے وقوفوں کو یہ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منصوبے کیا ہیں.اللہ تعالیٰ نے جس مسیح الزمان کو اپنی تائید و نصرت کے وعدوں کے ساتھ اس
خطبات مسرور جلد چهارم 347 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 ہے.زمانے میں بھیجا ہے وہ نصرت نہ مخالفین کی خواہشوں سے ختم ہونی ہے، نہ ان کی کوششوں سے ختم ہونی ہے، انشاء اللہ.اور نہ کسی وقت یا کسی خاص فرد کے ساتھ یہ نصرت وابستہ ہے.یہ نصرت کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیاری جماعت سے وابستہ ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس میں روک نہیں بن سکتی.اللہ تعالیٰ کی نصرت کے وعدے ہر قدم پر ، ہر روز ہم دیکھتے ہیں.اس طرح جماعتی لحاظ سے اللہ تعالیٰ سارا سال اور ہر روز جو نصرت ہمیں دکھاتا ہے اس کا تذکرہ تو انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ پر ہو گا.اس کی تفصیل تو اس وقت میں یہاں بیان نہیں کر رہا.اس وقت میں نے تمہید آ یہ بتایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مخالفوں کی خوشیوں کو پامال کرتا رہا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ انفرادی طور پر بھی اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی مدد کے نظارے دکھاتا.جس کا اس نے ہم لوگوں سے وعدہ کیا ہوا ہے جو اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں.اور جن کو اپنے نمونے قائم کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور حکم دیا ہے کہ نمازوں کو قائم کرو، مالی قربانیوں میں آگے بڑھو اور اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ اور رسول اور نظام خلافت کی مکمل اطاعت کرو.تو پھر دیکھو گے کہ تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھائے گا.اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور پھر آپ کے خلفائے راشدین کے زمانے میں ہمیں تاریخ یہ نمونے دکھاتی ہے، بتاتی ہے.مسیح محمدی کے ماننے والوں میں بھی انتہائی کڑے وقتوں میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نظارے ہم دیکھتے ہیں.اس وقت میں ایسے ہی بزرگوں کے چند واقعات پیش کرنے لگا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مسیح و مہدی کے ماننے والوں اور میدان عمل میں کام کرنے والوں کی مختلف مواقع پر مددفرماتا رہا ہے اور آج بھی فرما رہا ہے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ان کو یہ نظارے دکھاتا ہے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ایک جگہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ موضع گڑھو جو ہمارے گاؤں سے تقریباً ڈیڑھ کوس کے فاصلے پر واقع ہے گیا.کیونکہ اس گاؤں کے اکثر لوگ ہمارے خاندان کے حلقہ ارادت میں داخل تھے.یعنی ان کے مرید تھے.اس لئے میں نے یہاں کے بعض آدمیوں کو احمدیت کی تبلیغ کی اور واپسی پر اس موضع کی ایک مسجد ( اس گاؤں کی ایک مسجد ) کے برآمدے میں اپنی ایک پنجابی نظم کے کچھ اشعار جو سید نا حضرت مسیح موعود کی آمد سے متعلق تھے لکھ دیئے.اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت گاؤں کے نمبر دار چوہدری اللہ بخش تھے وہ کہیں مسجد کے غسل خانے
348 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم میں طہارت کر رہا تھا.اس نے مجھے مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا اور راستہ میں وہاں کے امام مسجد مولوی کلیم اللہ نے بھی مجھے دیکھا.تو کہتے ہیں کہ یہ جب دونوں آپس میں ملے تو انہوں نے میرے جنون احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے مسجد کے برآمدے میں ان اشعار کو پڑھا.اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب ہماری مسجد اس مرزائی نے پلید کر دی ہے یہ تجویز کیا کہ سات مضبوط جوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا جائے جو میری مشکیں باندھ کر، پکڑ کر ان کے پاس لے آئیں.کہتے ہیں پھر ان کا منصوبہ یہ تھا کہ میرے ہاتھوں ہی میرے لکھے ہوئے اشعار کو مٹوا کر مجھے قتل کر دیا جائے.چنانچہ انہوں نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سات جوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا مگر اس زمانے میں میں بہت تیز چلنے والا تھا اس لئے میں ان جوانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے گاؤں آ گیا اور وہ خائب و خاسر ناکام لوٹ گئے.تو دوسرے دن اسی گاؤں کا ایک باشندہ جو والد صاحب کا مرید تھا اور ان لوگوں کے بدار ا دوں سے واقف تھا صبح ہوتے ہی ان کی (یعنی ان کے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.اور سارا ماجرا کہہ سنایا.کہتے ہیں والد صاحب نے یہ سننے کے بعد مجھ سے کہا کہ جب ان لوگوں کے تمہارے متعلق ایسے ارادے ہیں تو احتیاط کرنی چاہئے.کہتے ہیں کہ جب میں نے اپنے والد صاحب سے یہ سنا تو وضو کر کے نماز شروع کر دی اور اپنے مولیٰ کریم سے عرض کیا کہ یہ لوگ مجھے تیرے پیارے مسیح کی تبلیغ سے روک دیں گے؟ اور کیا میں اس تبلیغ کرنے سے محروم رہوں گا ؟.یہ دعا میں بڑے اضطراب اور قلق سے مانگ رہا تھا کہ مجھے جائے نماز پر ہی غنودگی سی محسوس ہوئی اور میں سو گیا اور سونے کے ساتھ ہی میرا غریب نواز خدا مجھ سے ہمکلام ہوا اور نہایت رافت اور رحمت سے فرمانے لگا وہ کون ہے جو تجھے تبلیغ سے روکنے والا ہے.اللہ بخش نمبر دار کو میں آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈال دوں گا.تو کہتے ہیں صبح ہوتے ہی میں ناشتہ کر کے اس گاؤں میں پہنچا.( گڑھو نام تھا یا جو بھی ) اور جاتے ہی اللہ بخش نمبر دار کا پتہ پوچھا.لوگوں نے کہا کہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا اس کے لئے ایک الہی پیغام لایا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ اللہ بخش آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا اور کوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو ٹال سکے.تو کہنے لگے کہ وہ تو موضع لالہ چک جو گجرات سے مشرق کی طرف کچھ فاصلے پر ہے وہاں گیا ہوا ہے.کہتے ہیں میں نے پھر کہا کہ تم لوگ گواہ رہنا کہ وہ آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا.کوئی نہیں جو اس تقدیر کو ٹال سکے.یہ پیغام سنتے ہی کہتے ہیں کہ وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان پر سناٹا چھا گیا اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی اللہ بخش بیمار ہوا ، خونی اسہال ہوئے اور سینے میں دردو غیرہ ہوئی.وہاں لالہ چک میں بیمار ہو گیا اور چند دن میں یہ بیماری اتنی بڑھی کہ اس کے رشتہ دار اس کو گجرات ہسپتال لے کر گئے اور وہاں جا کے وہ ٹھیک گیارہویں دن اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا اور اپنے موضع گڑھو کا قبرستان بھی اسے نصیب نہ ہوا.حیات قدسی.حصہ اول صفحہ 23-24
349 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم پھر ایک واقعہ حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر لکھتے ہیں کہ جولائی 1939 ء کا واقعہ ہے کہ گھانا کی ڈ گو بہ قوم کا نو جوان حج بیت اللہ اور دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد مکہ مکرمہ سے واپس آکر گھانا کے ایک گاؤں صراحہ نامی میں قیام پذیر ہو گیا اور غالبا اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے اس نے ہمارے خلاف پراپیگینڈہ شروع کر دیا کہ میں مکہ سے آیا ہوں اور امام مہدی کا ظہور ابھی نہیں ہوا.احمدی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ان کا پراپیگنڈہ اتنا زور پکڑ گیا کہ اس علاقے کے ایک چیف رئیس محمد نامی جو تھے وہ کہتے ہیں میرے پاس سالٹ پانڈ آئے اور اس شخص کے زہریلے پراپیگنڈے کے بارے میں کہا کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنی چاہئے.میں نے انہیں کہا کہ میں کچھ ضروری کاموں میں مصروف ہوں.میرے کسی شاگرد کو لے جائیں.لیکن جو وہاں کے چیف آئے تھے انہوں نے مولانا صاحب کو یہی زور دیا کہ آپ خود جائیں.کہتے ہیں چنانچہ میں خود اس گاؤں میں پہنچا.ارد گرد کی جماعتوں کے احباب بھی وہاں پہنچ گئے.میں نے اس مخالف نوجوان سے عربی میں گفتگو کرنی چاہی لیکن وہ آمادہ نہ ہوا اور لایعنی عذر کرنے لگا.اس پر گاؤں والوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں علامات مہدی پر تقریر کروں.چنانچہ میں نے پونے دو گھنٹے اس موضوع پر تقریر کی جس کے بعد سامعین کو اعتراضات اور سوالات کی کھلی دعوت دی گئی.مگر کسی نے کوئی معقول سوال نہ کیا.کہتے ہیں اور یوں میں ایک رات گزار کر واپس آ گیا.لیکن کہتے ہیں کہ گھانا کا ملکی رواج یہ ہے کہ اگر کسی دو پارٹیوں میں مقابلہ ہو جائے تو جو پارٹی جیت جاتی ہے وہ فتح کے نشان کے طور پر سفید لٹھے کی پٹیاں سروں اور ہاتھوں پر باندھ کر اور سفید جھنڈے ہاتھوں میں لے کر شہر میں جلوس نکالتے ہیں اور اپنی فتح کا اعلان کرتے ہیں.تو دوسری پارٹی نے باوجود اس کے کہ کوئی جواب نہیں دے سکے، یہ جلوس نکالا اور اعلان کیا کہ ہماری فتح ہوئی ہے اور مہدی ابھی نہیں آیا کیونکہ زلزلہ نہیں آیا.مہدی ظاہر ہوتا تو زلزلہ ضرور آتا.( گھانا کے اس علاقے میں عمو ما زلزے بہت کم آتے ہیں یا شاید آتے ہی نہ ہوں.میں نے اپنے آٹھ سالہ قیام میں نہیں دیکھا کہ کبھی زلزلہ آیا ہو ).بہر حال یہ لکھتے ہیں کہ جب مجھے ان کی اس حرکت کی اطلاع ملی تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک ہفتہ بڑے الحاح اور درد سے دعا کی کہ الہی ان مخالفوں کے مطالبہ کے مطابق اور صداقت مہدی علیہ السلام کے اظہار کے لئے زلزلے کا نشان دکھا.حضرت مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک زلزلے کا نشان بھی تو ہے.چنانچہ کہتے ہیں کہ اس دعا کا اتنا اثر تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اب اس ملک میں زلزلے کا نشان ضرور دکھائے گا اور میں نے اس علاقے میں تین مقامات پر جلسے کئے اور ہر جگہ تمام واقعات بیان کر کے اعلان کر دیا کہ اب مہدی علیہ السلام کی صداقت کے اظہار کے لئے زلزلہ ضرور آئے گا اور اُن زلازل کا ذکر بھی کیا جو اس سلسلے میں پہلے آچکے تھے.چنانچہ ابھی دو ہی مقام پر جلسہ ہوا تھا اور تیسرے
خطبات مسرور جلد چہارم 350 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 مقام کی جگہ کا انتظام کیا جا رہا تھا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کو عشاء کے وقت سارے گھانا میں شدید زلزلہ آیا.اور زلزلے سے دوسرے روز جب میں ہیڈ کوارٹر سالٹ پانڈ واپس جا رہا تھا تو جہاں سے میں گزرتا لوگ مجھے دیکھ کر تعجب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس شخص نے کہا تھا زلزلہ ضرور آئے گا جو آ گیا ہے اور مشرکین اور عیسائی بھی اپنے دو تارے بجا بجا کر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا مہدی آ گیا ہے کیونکہ زلزلہ آ گیا ہے.تو کہتے ہیں پھر اس زلزلے کے بعد میں نے عربی اور انگریزی میں ٹریکٹ شائع کر کے امام مہدی کے آنے کی بشارتیں دیں اور اس وجہ سے پھر اس قریب کے علاقے میں ہی 180 افراد نے بیعت کر لی.روح پرور یا دیں.مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحه 77-79 شیخ زین العابدین صاحب اور حافظ حامد علی صاحب اپنے مشرقی افریقہ کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہماری تائید و نصرت فرمائی اس لئے کہ ان کو یہ یقین تھا کہ حضرت صاحب کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں.ان کا واقعہ یہ ہے.کہتے ہیں کہ ہم جہاز پر روانہ ہوئے اور اس میں ایک ہزار افراد سفر کر رہے تھے.ابھی افریقہ پہنچنے میں چند روز باقی تھے کہ کپتان نے آدھی رات کو اعلان کر دیا کہ جہاز طوفان میں گھر گیا ہے اور خراب ہو گیا ہے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں.لوگ دعا کریں.شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بھائی حامد علی صاحب نے مجھے جگایا.میں نے دریافت کیا کہ لوگ کیوں روتے ہیں.حافظ صاحب نے مجھ سے وعدہ لے کر کہ میں غم نہ کروں بات بتلائی اور کہا کہ دعا کرو.میں نے کہا کہ جہاز غرق نہیں ہو سکتا اس پر مسیح کے دو حواری بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ کے مامور نے مجھے خوشخبری دی تھی ( یہ حضرت مسیح موعود کے وقت کی بات ہے ) کہ تم دونوں بھائی افریقہ جاؤ وہاں سے صحیح سلامت اور فائدہ حاصل کر کے آؤ گے.تو بھائی حامد علی نے کہا کہ کیا پتہ حضور کے الفاظ کی تعبیر کچھ اور ہو.(الفاظ تعبیر طلب ہوں ).میں نے کہا ہر گز نہیں.میرا ایمان اور یقین ہے کہ میں نے جو حضور کے منہ سے سنا ہے وہی ہو گا چنانچہ اس وقت دعا میں شامل ہو گئے.تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد کپتان نے اعلان کیا کہ اب امن ہو گیا ہے اور جہاز خطرے سے باہر ہو چکا ہے.قریباً چوتھے روز ہم مشرقی افریقہ پہنچے اور جہاز آٹھ دن وہیں کھڑا رہا.پھر وہ زنجبار کو روانہ ہوا اور راستہ میں ایک دن کے بعد غرق ہو گیا.( ان کو چھوڑنے کے بعد ).کہتے ہیں میرے چچا شہاب الدین صاحب نے بٹالہ میں ایک اخبار میں یہ خبر پڑھی.سودا سلف سامان لینے گئے تھے.تو انہوں نے گھر آ کر بھائی فقیر علی کو بتایا.انہوں نے کہا گھر میں نہیں بتانا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں یہ خبر ضرور پہنچانی ہے.دونوں قادیان آئے اور حضرت صاحب سے مل کر رونے لگ پڑے.حضور نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ خبر بیان کی اور کہا کہ وہ دونوں غرق ہو گئے ہوں گے.فرمایا ہر گز نہیں.(دیکھیں آپ کو کتنا یقین تھا) وہ زندہ ہیں اور جاؤ اور جا کر دیکھو.
خطبات مسرور جلد چہارم 351 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 تمہارے گھر میں جو ڈاک آئے گی اس میں ضرور تمہارے بھائیوں کا خط ہوگا اور میری طرف بھی خط آ رہا ہے.اگر مجھے پہلے خط پہنچا تو میں آپ کو پہنچا دوں گا اور اگر آپ کو پہلے مل گیا تو مجھے پہنچا دینا.اصحاب احمد جلد 13 صفحہ 24 23) مولانا صادق سماٹری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 6 مارچ 1942 ء تک جاپان سارے انڈونیشیا پر مسلط ہو چکا تھا اور اپنی من مانی کارروائیاں کرنے لگا تھا.کسی کے متعلق کوئی شکایت پہنچے تو اس کی موت کا یہی بہانہ بن جاتی.کوئی تفتیش ہوتی نہ تحقیقات.فیصلہ سنا دیا جاتا.بلکہ عموماً اسے سنانا بھی ضروری نہ سمجھا جاتا.فوراً اسے نافذ ہی کر دیا جاتا.کہتے ہیں میرے متعلق بھی جاپانی حکومت نے قتل کا فیصلہ کیا.اطلاع دینے والے نے بتایا کہ میرے متعلق دو شکایات بھیجی ہیں.نمبر ایک یہ کہ جماعت احمد یہ انگریزی حکومت کی مداح ہے.نمبر دو یہ کہ تمام علماء اسلام سماٹرا نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جاپان کی انگریزوں اور امریکہ سے یہ جنگ جہاد فی سبیل اللہ ہے.میں نے ایسا فتویٰ دینے سے انکار کیا بلکہ اس کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے.تو کہتے ہیں کہ اس پر میں نے جماعت کو تلقین کی کہ نماز تہجد کی ادائیگی کا التزام کیا جائے اس میں با قاعدگی اختیار کی جائے اور دعا کی جائے اور اگر کسی کو کوئی خواب آئے یا کشف یا کوئی نظارہ نظر آئے تو مجھے بتایا جائے.کہتے ہیں اس تحریک کے بعد میں خود بھی ہر وقت دعا میں مشغول ہو گیا بلکہ ہمہ تن دعا بن گیا.اور ہر وقت اپنے حقیقی مولا پر نظر تھی.کہتے ہیں مجھے خوب یاد ہے کہ چوتھی رات تہجد کی نماز کے بعد فجر سے پہلے میں ذرا لیٹا تو ایک دیوار پر موٹے حروف میں لکھا ہوا دکھائی دیا کہ دانی ایل نبی کی کتاب کی پانچویں فصل پڑھو.اذان ہوئی نماز فجر کے لئے اٹھا دوستوں کو جو حاضر تھے اپنے خواب سے مطلع کیا.دانی ایل نبی کی کتاب کی پانچویں فصل دیکھی.اس میں کیا لکھا تھا؟ لکھا تھا کہ بخت نصر کے بعد اس کا بیٹا بِلْشَضّر (Belshazzar) بادشاہ ہوا.یہ بت پرست بھی تھا اور ظالم بھی.اس نے ایک خواب دیکھا تھا ایک لمبا خواب ہے ) اس کی اس نے لوگوں کو اکٹھا کر کے تعبیر پوچھی لیکن ان سب نے کہا ہم کو اس کی تعبیر نہیں آتی.آخر دانی ایل بادشاہ کے حضور حاضر کیا گیا اور اس نے کہا اے بادشاہ! یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس میں لکھا یہ گیا ہے کہ (ان کی کچھ زبان ہے) جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے تیری مملکت کا حساب کیا اور اسے تمام کر ڈالا یعنی ختم کر دیا.اور پھر دوسرے لفظ کے یہ معنے ہیں کہ تو ترازو میں تو لا گیا اور کم نکلا اور تیسرے لفظ کے یہ معنے ہیں کہ تیری سلطنت منقسم ہوئی اور مادیوں اور فارسیوں کو دی گئی.جس دن نبی دانی ایل نے یہ تعبیر بتائی اسی دن بلشر (Belshazzar) قتل ہوا اور دارا مادی نے 62 برس کی عمر میں مملکت سنبھالی.تو انہوں نے یہ خواب دیکھی تھی کہ اس فصل کو پڑھو اور جب وہ پڑھی گئی تو یہ اس کا مضمون تھا.تو اس پہ وہ کہتے ہیں کہ اس سے بالوضاحت معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی حکومت کا بھی وہی حشر ہوگا جو بلشضر
352 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم حکومت کا ہوا تھا.میرا یہ خواب اپریل 1945 ء کے آخر یا مئی کے ابتداء کا ہے.اور اس وقت کئی ہندو سکھ دوستوں کو بھی یہ خواب سنادیا گیا تھا.چنانچہ اسی سال 14 اگست کو نا گا سا کی اور ہیروشیما پر ایٹم بم برسائے گئے اور جاپانی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا گیا.انہی دنوں جاپانی حکومت کے کاغذات میں سے ایک خط نکلا جس میں 23-24 اگست 1945 ء کی رات 65 آدمیوں کے قتل کا فیصلہ درج تھا اور سر فہرست خاکسار کا نام تھا.یعنی مولانا صادق صاحب کا تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کو محفوظ رکھا.کہتے ہیں کہ گویا اس فیصلے کے نافذ ہونے میں صرف دس دن باقی تھے کہ خدائے قادر و قیوم نے جو اپنے عاجز بے کس بندوں کی سنتا ہے جاپانی حکومت کو تباہ کر دیا اور قبل اس کے کہ وہ خدا کے اس عاجز بندے پر ہاتھ ڈالے اس کے ہاتھ بلکہ تمام قومی کوشل کر کے رکھ دیا.کہتے ہیں کہ خوب یا درکھئے ، جو کچھ ہوا وہ میری ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ جو کچھ ہوا مسیح الزمان ، مهدی دوراں مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کے اظہار کے لئے بطور نشان آسمانی ظاہر ہوا کیونکہ اسی پیارے کی پیروی کی وجہ سے مجھے مجرم گردانا جار ہا تھا.برہان ہدایت عبد الرحمان مبشر صاحب صفحہ 205 تا 208 ) وو 466 حضرت مولانا شیخ واحد صاحب لکھتے ہیں کہ 1968ء میں ہم نے نجی کے مشہور شہر یا میں احمد یہ مشن کی برانچ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ایک مناسب حال مکان بھی خرید لیا.تو اس شہر میں ہماری شدید مخالفت شروع ہوگئی.مخالفین کوشش کرنے لگے کہ جیسے بھی ہو تبلیغ اسلام کا یہ مشن "با" شہر میں کامیاب نہ ہونے پائے اور ہمارے قدم وہاں نہ جمیں.اس وقت ہمارے مخالفین کا سرغنہ وہاں ایک صاحب اقتدار شخص ابو بکر کو یا نامی تھا.چنانچہ اس نے اور دیگر مخالفین نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ احمد یوں کئے ”با مشن کی عمارت کو جلا دیں گے.تاہم کہتے ہیں کہ ہم سے جس قدر ممکن ہو سکا ہم نے حفاظتی انتظامات کئے.پولیس سٹیشن بھی ساتھ تھا ان کو بھی بتایا.پولیس نے کہا کہ ہم نگرانی رکھیں گے.پھر بھی ایک رات کسی طرح مخالفین کو مشن کو نقصان پہنچانے کا موقع مل گیا اور ان میں سے کسی نے ہمارے مشن ہاؤس کے ایک حصے میں تیل ڈال کر آگ لگا دی اور یہ یقین کر کے کہ اب آگ ہر طرف پھیل جائے گی کیونکہ لکڑی کا حصہ تھا لکڑی کو تو فوراً آگ لگ جاتی ہے اور ہمارے مشن ہاؤس کو خاک سیاہ کر دے گی آگ لگاتے ہی آگ لگانے والا وہاں سے چلا گیا، بھاگ گیا.لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ہمیں پتہ لگنے سے پہلے ہی وہ آگ بغیر کوئی نقصان پہنچائے خود ہی بجھ گئی یا بجھا دی گئی.بہر حال کہتے ہیں ہم سفر پر تھے اگلے دن جب ہم واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ عمارت کے اس طرف جہاں اکثر حصہ لکڑی کا تھا آگ لگائی گئی تھی جس سے چند لکڑی کے تختے جل گئے مگر وہ آگ بڑھنے سے قبل ہی بجھ گئی.چنانچہ اسی روز اس کی مرمت بھی کرا دی گئی.کہتے ہیں جہاں نقصان ہوا تھا اس کا جائزہ لے رہے تھے تو مبلغ انچارج مولانا نور الحق صاحب انور نے اس جلے ہوئے کمرے پر کھڑے ہو کر بڑے دکھ بھرے انداز میں آہ بھر کر
353 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم کہا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی اشاعت کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے خدا اس کے اپنے گھر کو آگ لگا کر راکھ کر دے.چنانچہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کے چند روز بعدا چانک با“ میں ہمارے مخالفین کے سرغنہ ابو بکر کو یا کے گھر کو آگ لگ گئی اور باوجود بجھانے کی ہر کوشش کے اس کا وہ رہائشی مکان سارے کا سارا جل کر راکھ ہو گیا.( روح پرور یادیں.از مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحہ 94,95) زمولانامحمد پھر مولانا غلام حسین صاحب کے متعلق ہے، کہتے ہیں کہ جب انگریز واپس آنے لگے تو دونوں طرف سے گولہ باری ہو رہی تھی ایک گولے کے پھٹنے سے محلے میں جہاں وہ رہتے تھے آگ لگ گئی اور آگ نے بڑھتے بڑھتے ان کے گھر کی جگہ کے قریب آنا شروع کر دیا ، بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی.احباب جماعت اس کو دیکھ کر بڑے پریشان ہو گئے.مولوی صاحب کے مکان کے پاس لکڑیاں جل رہی تھیں خیال تھا کہ سامان کا نکالنا بھی مشکل ہے.اُس وقت آدمیوں نے سامان نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے منع کر دیا اور کہا فکر نہ کر و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا الہام ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.آگ انجمن احمد یہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور اور بے بس بندوں کی آواز کو سنا اور ان کی دعا کو قبول فرمایا اور مولوی صاحب کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ آگ فوراً پلٹ گئی اور بیچ سے چند مکان چھوڑ کر آگے پیچھے گھروں کو جلا دیا لیکن اتنا حصہ محفوظ رہا.اور جو ساتھ کے مکان تھے وہ بھی محفوظ رہے.( الفضل 6 فروری 46 صفحہ 4) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چوہدری تھے خان صاحب جو گاؤں مذکور غازی کوٹ کے رئیس اور مخلص احمدی تھے انہوں نے وہاں ایک تبلیغی جلسے کا انتظام کیا اور علاوہ مبلغین اور مقررین کے ارد گرد کے احمدی احباب کو بھی اس جلسے میں شمولیت کی دعوت دی.جلسہ دو دن کے لئے مقرر کیا گیا.جب غیر احمدیوں کو اس جلسے کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنے علماء کو جونش گوئی اور دشنام دہی میں خاص شہرت رکھتے تھے ، گالیاں نکالنے میں بڑے مشہور تھے.(ان کے پاس گالیوں کے سوا کچھ نہ تھا.آج بھی یہی حال ہے.) ان کو بھی دعوت دی اور ہماری جلسہ گاہ کے قریب ہی اپنا سائبان لگا کر اور سٹیج بنا کر حسب عادت سلسلہ حقہ اور اس کے پیشواؤں اور بزرگوں کے خلاف سب و شتم شروع کر دیا.گالیاں دینی اور فضول بکواس شروع کر دی.کہتے ہیں کہ ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک طرف سے سخت آندھی اٹھی اور اس طوفان باد نے انہیں کے جلسے کا رخ کیا اور ایسا اودھم مچایا کہ ان کا سائبان اڑ کر کہیں جا گرا ، قناتیں کسی اور طرف جاپڑیں اور حاضرین جلسہ کے چہرے اور سرگرد سے اٹ گئے.یہاں تک کہ ان کی شکل دکھائی نہ دیتی تھی.
خطبات مسرور جلد چهارم حضرت مسیح موعود نے بھی لکھا ہے : 354 کبھی وہ ہو کے خاک دشمنوں کے سر پر پڑتی ہے خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 106) یہ حال ان کا ہور ہا تھا، یہاں تک کہ ان کی شکلیں بھی دکھائی نہ دیتی تھیں.کہتے ہیں کہ بارہ بجے دو پہر تک جو غیر احمدیوں کا پروگرام تھا وہ سب آندھی اور طوفان باد کی نظر ہو گیا.اور ہمارا جلسہ بارہ بجے کے بعد شروع ہونا تھا.کہتے ہیں سب سے پہلے میری تقر ریتھی آندھی کا سلسلہ ابھی تک چل رہا تھا کہ مجھے سٹیج پر بلایا گیا.میں نے سب حاضرین کی خدمت میں عرض کیا کہ سب احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جلسے کو ہر طرح سے کامیاب کرے.چنانچہ میں نے سب حاضرین سمیت ہاتھ اٹھائے اور خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی اے مولیٰ کریم ! تو نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مخلص و مومن اور فاسق و کافر برابر نہیں ہو سکتے اور تجھے معلوم ہو کہ غیر احمد یوں کے جلسے کی غرض تیرے پاک مسیح کی ہجو کرنا اور تکذیب کے سوا کچھ نہیں تھا اور ہماری غرض تیرے پاک مسیح کی تصدیق اور توثیق کے سوا اور کچھ نہیں.اگر دونوں مقاصد میں تیرے نزدیک کوئی فرق ہے تو اس آندھی کے ذریعے سے اس فرق کو ظاہر فرما اور اس آندھی کے مسلط کرنے والے ملائکہ کو حکم دے کہ اس کو تھام لیں تا کہ ہم جلسے کی کارروائی کو عمل میں لا کر اعلائے کلمتہ اللہ کرسکیں.میں ابھی دعا کر ہی رہا تھا اور سب احباب بھی میری معیت میں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے کہ یکدم آندھی رک گئی اور پھر ایسی رکی کہ پہلے ٹھنڈی ہوا چلنی شروع ہوئی اور پھر چند منٹ میں بالکل ختم ہو گئی.تو وہی ہوا کہ وہ دشمنوں کے سر پر پڑی اور ہمارا جلسہ جو شروع ہوا تو بند ہوگئی.کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کے یہ سب کرشمے اس کے پاک مسیح اور نائب الرسول اور اس کے عظیم الشان خلفاء کی خاطر اور ان کی برکت سے ظاہر ہوئے.الحمد للہ علی ذالک.ر حیات قدسی حصہ سوم صفحہ 26-27) پھر مولانا غلام رسول صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر چار افراد ہندوستان کے دورے کے لئے گئے.کہتے ہیں ہم پہلے کلکتہ گئے پھر ٹا ٹانگر جمشید پور گئے.اس میں مولوی محمد سلیم صاحب ، مہاشہ محمد عمر صاحب اور گیانی عباداللہ صاحب شامل تھے.کہتے ہیں کیرنگ میں بڑی جماعت ہے جو مولوی عبد الرحیم صاحب پنجابی کے ذریعہ قائم ہوئی تھی ، کیرنگ کے ارد گرد کے دیہات میں بھی ہم تبلیغ کرنے کی غرض سے جاتے رہے.ایک دفعہ ایک گاؤں کی طرف جا ر ہے تھے کہ راستے میں ایک سانپ عجیب نمونہ کا دیکھا.ہم بلندی کی طرف جارہے تھے اور وہ بہت بڑا سانپ
355 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم نشیب میں جارہا تھا.اس کا نقشہ انہوں نے کھینچا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے ان کو محفوظ رکھا.کہتے ہیں کہ کیرنگ سے ہم بھدرک پہنچے.یہ خان صاحب مولوی نور محمد کا آبائی وطن تھا.خان صاحب پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے.بھدرک میں علاوہ دیگر شرفاء اور معززین کے ایک ہندو مہنت سے بھی ملاقات ہوئی جو وہاں کے رئیس تھے انہوں نے ہماری ضیافت کا انتظام بھی کیا اور اپنی وسیع سرائے میں ہمیں جلسہ کرنے اور لیکچر دینے کی اجازت دی.اس سرائے کے ایک حصے میں ہندوؤں کے بتخانوں کی یادگاریں اور بتوں کے مجسمے جا بجا نصب تھے.جب ہماری تقریر شروع ہوئی تو اوپر سے ابر سیاہ برسنا شروع ہو گیا یعنی بارش شروع ہو گئی.کالے بادل آگئے.تمام چٹائیاں اور فرش بارش سے بھیگنے لگے.اس وقت احمدیوں کے دلوں میں لیکچروں میں رکاوٹ کی وجہ سے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی.کہتے ہیں میرے دل میں بھی سخت اضطراب پیدا ہوا.اور میرے قلب میں دعا کے لئے جوش بھر گیا.میں نے دعا کی کہ اے مولی ! ہم اس معبد اصنام میں یعنی بتوں کے اس گھر میں تیری توحید اور احمدیت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں اور تیرے پاک خلیفہ حضرت مصلح موعودؓ کے بھیجے ہوئے آئے ہیں.لیکن آسمانی نظام اور ابر وسحاب کے منتظم ملائکہ بارش برسا کر ہمارے اس مقصد میں روک بننے لگے ہیں.میں یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ قطرات بارش جو ابھی گرنے شروع ہی ہوئے تھے یکدم بند ہو گئے اور جو لوگ بارش کے خیال سے جلسہ گاہ سے اٹھ کر جانے لگے تھے میں نے ان کو آواز دے کر روک لیا.کہا کہ اب بارش نہیں برسے گی اور اطمینان سے بیٹھ کر تقریر میں سنو.اور تھوڑی دیر بعد کہتے ہیں مطلع بالکل صاف ہو گیا.(حیات قدسی حصہ سوم صفحہ 24-25) مولانا محمد صادق صاحب انڈونیشیا کا اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ پاڈانگ شہر میں چوہدری رحمت علی صاحب مرحوم ایک احمدی درزی مکرم محمد یوسف صاحب کی دکان پر بیٹھے تھے کہ ہالینڈ کے ایک عیسائی بشپ پادری اپنے ساتھیوں سمیت تبلیغ کرتے ہوئے وہاں آ نکلے اور مولانا صاحب سے ان کا اسلام اور عیسائیت پر تبادلہ خیالات شروع ہو گیا جسے سننے کے لئے لوگ بکثرت وہاں جمع ہو گئے.اسی اثناء میں موسلا دھار بارش ہونے لگی.اس علاقہ میں جب بارش شروع ہو تو کئی کئی گھنٹے رہتی ہے.تو بحث کرنے کے بعد جب وہ پادری صاحب دلائل کا مقابلہ نہ کر سکے اور عاجز آگئے تو اپنی شکست اور نا کامی پر پردہ ڈالنے کے لئے حضرت مولانا صاحب کو انہوں نے کہا کہ اگر واقعی عیسائیت کے مقابلہ میں تمہارا مذہب اسلام سچا اور افضل ہے تو اس وقت ذرا اپنے اسلام کے خدا سے کہئے کہ وہ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھائے اور اس موسلا دھار بارش کو یکدم بند کر دے.چنانچہ اس کا یہ مطالبہ کرنا ہی تھا کہ مولانا صاحب نے بلا حیل و حجت اپنے زندہ خدا پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے بڑی پر اعتماد آواز میں بارش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.اے بارش ! تو اس وقت خدا کے حکم سے تھم جا اور اسلام کے زندہ اور بچے خدا کا ثبوت دے.کہتے ہیں کہ
خطبات مسرور جلد چہارم 356 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 اسلام کے خدا پر قربان جائیے کہ اس کے بعد چند منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ بارش تھم گئی اور وہ پادری اور سب حاضرین اللہ کے عظیم نشان پر بڑے حیران رہ گئے ، انگشت بدنداں رہ گئے.روح پرور یا دیں.از مولا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحہ 63-64 مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری کہتے ہیں کہ ایک بار سیرالیون میں جب تھا تو وہاں علماء نے چیفوں کو خوش کرنے کے لئے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ سگریٹ ، تمباکو، پائپ اور نسوار وغیرہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا.روزہ رکھ کے یہ بے شک استعمال کر لو کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ چیزیں پیٹ میں نہیں جاتیں.تو جب ہم ان کو صحیح باتیں بتاتے تھے تو وہ بڑے ناراض ہوتے تھے اور چیف اس بات پر ہمارے تھے بھی واپس کر دیتے تھے.تو اسی طرح کے ایک چیف نے ایک جگہ ان کو جہاں جماعت تھی وہاں گاؤں والے باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے.تو چیف نے ان کو کہا کہ تم نے ان لوگوں کو میری نافرمانی پر اکسایا ہے اور خود بھی ہماری عائد کردہ پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہو.اس لئے تمہیں گاؤں میں نماز پڑھانے کی اجازت نہیں ہے.اور اگر تم نے گاؤں میں نماز پڑھائی تو میں تم سب کو یہاں سے نکال دوں گا.اور پھر اس نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ ہندوستانی ہمارے گاؤں میں ہلاکت اور تباہی چاہتا ہے تم لوگ گاؤں میں انہیں باجماعت نماز نہ پڑھنے دو.ایسا نہ ہو کہ ہم پر عذاب آ جائے ہمارے علماء کے نزدیک یہ بات گاؤں پر آسمانی و با اور عذاب کا موجب بن سکتی ہے.تو خیر وہ کہتے ہیں کہ بات سن کے بڑا فکر مند تھا کہ رمضان بھی شروع ہونے والا ہے اور باجماعت نمازیں بھی لوگوں نے پڑھنی ہیں وہ کہاں پڑھیں گے تو اسی فکر میں وہ کہتے ہیں کہ میں ایک معلم کو لے کر باہر چلا گیا اور دعا کی کہ الہی تو ہی ہمارا چارہ ساز اور حاجت روا ہے کسی تدبیر سے ہم اس مصیبت کو دور نہیں کر سکے.ہم تو بے شک نالائق اور گناہ گار ہیں، کمزور ہیں مگر تیرا اسلام ، تیرا قرآن، تیرا رسول، تیرا مہدی اور مسیح بچے ہیں.تو سچے وعدوں والا ہے.تیری یہ جماعت کچی ہے.تو اپنے حقیر بندوں کی معجزانہ طور پر مددفرما کہ یہ اس وقت بے یارو مددگار ہیں اور ان کے ہموطنوں نے ہی ان کا جینا محض سچائی قبول کرنے کی وجہ سے مشکل کر رکھا ہے.پھر کہتے ہیں میں نے حضرت مسیح موعود کی آڑے وقت کی دعا کے الفاظ بڑی رقت سے دوہرائے.کہتے ہیں تھوڑی دیر بعد دعا کے دوران ہی بارش شروع ہو گئی.اس سے انہوں نے یہ شگون لیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا قبول کر لی ہے.تو کہتے ہیں اپنے گاؤں میں واپس آئے.پھر چیف سے کہا.چیف نہ مانا.ابھی ہم اس پریشانی میں وہاں بیٹھے ہی تھے کہ بڑے چیف کا آدمی وہاں اپنے یونیفارم میں آیا اور اس نے اس چیف کو ایک خط دیا کہ چیف کا یہ حکم ہے کہ کیونکہ سیرالیون میں مذہبی آزادی ہے اس لئے کسی فرقے کو بھی کسی طرح بھی عبادت کرنے سے نہیں روکنا.تو فور اوہاں جماعت کے جو لوگ تھے ان کے لئے نشان ظاہر ہوا اور سب سجدہ شکر بجالانے لگے.روح پرور یادیں از مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری صفحہ 329-331
خطبات مسرور جلد چهارم 357 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 ایک دن حاجی غلام احمد صاحب ساکن بنگہ کو ایک غیر احمدی شخص جھجو خان نے کہا کہ اگر آج بارش ہو جائے تو میں احمدی ہو جاؤں گا.شدت کی گرمی پڑ رہی تھی حاجی صاحب نے احمدی احباب کی محبت میں نہایت سوز وگداز سے دعا کی ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بادل آسمان پر چھا گئے اور زور کی بارش برسنے لگی.چھجو خان صاحب اپنی بات کے پکے تھے.انہوں نے فوراً احمدیت قبول کر لی.اصحاب احمد جلد وہم صفحہ 106) مولانا نذیر احمد صاحب مبشر لکھتے ہیں کہ 1940ء میں میں گھانا میں تھا.اس وقت گولڈ کوسٹ کہلاتا تھا، کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ میرے چیمبر پاٹ میں ایک سیاہ سانپ داخل ہوا ہے جس کا منہ پاٹ کے اندر کی طرف ہے اور دم پاٹ کے کنارے پر ہے.مجھے اس وقت بیدار ہوتے ہی یہ تفہیم ہوئی کہ دشمن میرے در پئے آزار ہے.چنانچہ اسی روز فجر کی نماز کے بعد جب میں مبلغین کلاس کے طلباء کو قرآن کریم با ترجمہ پڑھا رہا تھا میں نے طلباء کو بتایا کہ گزشتہ شب میں نے ایسا خواب دیکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن مجھ کو یا جماعت کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے.کہتے ہیں کہ ابھی گفتگو میں نے ختم نہیں کی تھی ، کہ ان طلباء میں سے ایک طالب علم نے مجھے مخاطب کر کے کہا مولوی صاحب آپ کا خواب پورا ہو گیا.وہ دیکھیں ہمارے مشن ہاؤس کے گرد دو درجن پولیس کے آدمی گھیرا ڈالے کھڑے ہیں.چنانچہ کہتے ہیں میں وہاں گیا تو پولیس والے کھڑے تھے.ایک سادہ لباس والا میری طرف آیا اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے.مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے اس کو ہنس کے کہا میرے خلاف کوئی وارنٹ گرفتاری لائے ہو؟ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ہاں یہ آپ کی تلاشی کے وارنٹ ہیں.پھر سپاہی بھی آگئے.اس وارنٹ میں لکھا ہے کہ آپ کے پاس ٹرانسمیٹر ہے جس کے ذریعے آپ جرمنی کو خبریں پہنچا رہے ہیں اور آپ کے پاس اسلحہ بھی ہے کہتے ہیں میں نے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا کہ بے شک میری اور مشن ہاؤس کی تلاشی لے لو اور جہاں اسلحہ اور ٹرانسمیٹر رکھا ہوا ہے اپنے قبضہ میں لے لو.چنانچہ انہوں نے تلاشی لینی شروع کی.انہیں نظر کیا آنا تھا.بہر حال ناکام ہوئے.پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے فنانشل سیکرٹری کے دفتر کی بھی تلاشی لینی ہے مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی.پھر انہوں نے سکول کے ہوٹل کی تلاشی لینی چاہی تو میں نے انہیں کہا کہ وارنٹ تو صرف میرے گھر کے ہیں لیکن بہر حال تم لوگ تلاشی لے لوتا کہ تمہاری تسلی ہو جائے.جب ساری تلاشی لی اور ناکامی ہوئی اور ان کو کچھ نہیں ملا تو شرمندہ ہو کر چلے گئے.اللہ میاں کا فوری انتقام اس طرح ظاہر ہوا.کہتے ہیں کہ یہاں سے فارغ ہونے پر پولیس کو رپورٹ ملی کہ قریب ہی ایک گاؤں میں شراب کشید کی جارہی ہے.( پولیس کو موقع ملتا ہے نا کہ جہاں جائیں وہاں کچھ نہ کچھ آمدنی ہو جائے.ان ملکوں میں پولیس اتنی صاف تو ہوتی نہیں).تو وہ وہاں پہنچ گئے.وہاں جا کے مجرم کو پکڑ لیا اور انسپکٹر نے ابھی بوتل اپنے ہاتھ میں پکڑی ہی تھی کہ ان مجرموں میں سے کسی نے شراب کی بوتل ان کے
358 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم ہاتھ میں توڑ دی جس سے اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا.پھر راستے میں اس کا ر کا جس پر وہ آ رہا تھا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور اس کی گاڑی ایک گہرے کھڑ میں جاگری.اس کی بیوی نے بھی اس سے کہا کہ تم نے جواحمدیوں کے امیر مولوی مبشر کے ساتھ سلوک کیا ہے اس کی وجہ سے یہ سب تمہارے ساتھ ہورہا ہے.ان سے معافی مانگو.کہتے ہیں کہ دراصل یہ شرارت ایک متعصب اسٹنٹ ڈپٹی کمشنر کی تھی جو کیتھولک تھا.چنانچہ یہ تلاشی وغیرہ کا سلسلہ ختم ہوا تو میں نے چیف کمشنر کے پاس پہنچ کر شکایت کی کہ آپ کی پولیس نے اس طرح ہمارے خالص مذہبی اور تبلیغی مشن سے زیادتی کی ہے.اس پر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کس پر شک ہے.میں نے کہا میرا خیال ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر سالٹ پانڈ نے سب کچھ کروایا ہے.چنانچہ کچھ عرصے بعد اس کی تبدیلی کر کے اس کو ڈپٹی کمشنر بنا دیا گیا.کہتے ہیں اس پر میں نے تہجد میں دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میرے مولیٰ ! وہ شخص جس نے تیرے دین کی توہین کی یا کرائی اسے یہ ترقی کیسی ملی.یعنی اسے تو عبرتناک سزاملنی چاہئے تھی.کہتے ہیں میری دعا کے چند دن بعد اس متعصب دشمن اسلام پر وہاں کے ایک بخار بلیک واٹر فیور (Black Water Fever) یعنی کالے خونی بخار کا حملہ ہوا اور اس سے فوت ہو گیا.روح پرور یادیں از مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری صفحہ 82 تا 80 اب دیکھیں جانوروں کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کس طرح ڈالتا ہے.ہمارا ایک وفد ڈیرہ غازیخان میں کسی جگہ گیا اور ان دنوں وہاں گرمی بڑی تھی.ٹانگے پر جا رہے تھے.تو گھوڑا گرمی سے تھک کر گر گیا.بڑی کوشش کی انہوں نے کہ اُسے اٹھا ئیں لیکن گھوڑ انہیں اٹھا.ملک مولا بخش صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے گھوڑا نہیں اٹھتا تو پیدل روانہ ہو گئے.اگلے گاؤں جانا تھا.باقی لوگ ٹانگے کے پاس کھڑے رہے.اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ دور سے ایک شخص سفید گھوڑے پر سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا آرہا ہے.انہوں نے خیال کیا کہ شخص اگر واقف ہو اور گھوڑا تانگے کو لگ سکے تو ہم اسے جوت لیں گے اور اس کا سوار تانگے پر سوار ہو جائے گا.لیکن جب سوار نے مقامی دوستوں کو سلام نہ کیا تو یہ سمجھے کہ یہ کوئی اجنبی شخص ہے.سوار اسی طرح گھوڑا سرپٹ دوڑائے چلا جارہا تھا.جب وہ گھوڑا ملک صاحب کے پاس پہنچا تو خود بخود رک گیا اور وہ سوار اترا اور اس نے ملک صاحب سے کہا کہ آپ اس گھوڑے پر بیٹھ جائیں.یہ شخص کوئی قادر بخش تھا اور آپ کا واقف تھا.ملک صاحب نے عذر کیا کہ آپ چلیں میں پیدل آ جاتا ہوں.لیکن اس نے کہا.کوئی بات نہ کریں.اس پر بیٹھ جائیں.یہ ایک عجیب واقعہ ہے.چنانچہ دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ چند سال سے میں روزانہ اس گھوڑی پر بستی رنداں سے ( ڈیرہ غازیخان میں ایک گاؤں ہے ) اپنے حلقہ میں جاتا ہوں.اور کبھی اس نے کان تک نہیں بلایا اور میرے اشارے پر چلتی ہے مگر آج نہ معلوم کیا ہوا کہ جب گاؤں سے میں نکلا ہوں تو یہ واپس مڑ گئی اور بھاگنا شروع کر
خطبات مسرور جلد چهارم 359 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 دیا.اور میں نے بہت کوشش کی ہے روکنے کی لیکن نہیں رکی.یہ دیکھئے اس کو روکنے کے لئے باگیں کھینچے کھینچتے میرے ہاتھ بھی سرخ ہو گئے ہیں.لیکن آپ کے پاس پہنچ کر خود بخودبھہر گئی ہے.آپ اس پر سوار ہو جائیں.چنانچہ اس گھوڑی نے ملک صاحب کو بڑے آرام سے اگلے گاؤں کوٹ چٹھہ پہنچا دیا جہاں جانا تھا.تو کہتے ہیں کہ عین وقت پر غیب سے نصرت الہی کے پہنچنے کی وجہ سے ملک صاحب یہ سمجھتے تھے کہ وفد چونکہ حضرت مسیح موعود کے سلسلہ کا ایک کام کرنے کو گیا تھا اور ملک صاحب پیدل چلنے کے عادی نہ تھے بالخصوص موسم گرما میں، اس لئے خدا تعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام وسہولت پہنچا دی.گھوڑے کے دل میں ڈال دیا کہ تم وہیں جا کر رکو.(اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ 154) حضرت مسیح موعود دعا کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ : ”اے میرے خدا! مجھے اکیلا مت چھوڑ جیسا کہ اب میں اکیلا ہوں اور تجھ سے بہتر کون وارث ہے.یعنی اگر چہ میں اس وقت اولا د بھی رکھتا ہوں اور والد بھی اور بھائی بھی بہت دنوں کی بات ہے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں.لیکن روحانی طور پر ابھی میں اکیلا ہی ہوں.اور تجھ سے ایسے لوگ چاہتا ہوں جو روحانی طور پر میرے وارث ہوں.فرماتے ہیں یہ دعا اس آئندہ امر کے لئے پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ روحانی تعلق والوں کی ایک جماعت میرے ساتھ کر دے گا جو میرے ہاتھ پر تو بہ کریں گئے.فرماتے ہیں ” میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزار ہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گنا ہوں سے تو بہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے.ہرگز ایسا صاف نہیں ہو سکتا.اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفا دار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد ان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے.فرمایا غرض خدا کی شہادت سے ثابت ہے کہ پہلے میں اکیلا تھا اور میرے ساتھ کوئی جماعت نہ تھی.اور اب کوئی مخالف اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ اب ہزار ہا لوگ میرے ساتھ ہیں.پس خدا کی پیشگوئیاں اس قسم کی ہوتی ہیں جن کے ساتھ نصرت اور تائید الہی ہوتی ہے“.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 249) ایسے لوگ جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے نیکیوں پر قائم ہو اور اللہ اور رسول کے دامن کو پکڑ لو.اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں سے ہی ایسے لوگ دکھاتا ہے ( جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے ) جن کی قبولیت دعا اور اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد چہارم 360 خطبہ جمعہ 14 جولائی 2006 کے اُن کی مدد اور نصرت کے نمونے ہم نے دیکھے.بعض واقعات میں نے بیان کئے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ کے حضور دعا کی تھی اور جس کا ذکر جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اقتباس میں کیا ہے.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہمیشہ اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ایسے لوگ پیدا کرتا رہے جن کی زندگیوں میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آتے رہیں.اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے اخلاص و وفا میں بڑھتے ہوئے ہمیشہ خلافت احمدیہ کے استحکام اور مضبوطی کے لئے بھی کوشش کرتے رہیں.اس کے مددگار اور معاون بنتے رہیں.آمین
خطبات مسرور جلد چهارم 361 (29) خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے والے رضا کاران کے فرائض اور مہمان نوازی کے اعلیٰ تقاضے جلسہ کے دنوں میں باوجود ڈیوٹیوں کے بوجھ کے اور باوجود نا قابل برداشت چیزوں کا سامنا کرنے کے ہمیشہ مسکراتے رہنے کی کوشش کریں فرمودہ مؤرخہ 21 / جولائی 2006ء(21 /وفا 1385 ھش) مسجد بیت الفتوح ،لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آجکل یہاں احمدی ماحول میں جلسہ سالانہ کی رونقیں شروع ہو چکی ہیں، الحمد للہ.اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ کو ایک اور جلسہ کی برکات دکھانے کے سامان پیدا فرما رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اور برطانیہ کے مردوزن اس جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں.ایک بہت بڑی تعداد تو ایسی ہے جو جلسے کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے تیاریاں کر رہی ہے اور بڑی بے چین ہے اور ایک تعداد کارکنان کی ہے وہ بھی اب خاصی تعداد ہو چکی ہے، عورتیں، مرد اور بچے ملا کر تقریباً پانچ ہزار کارکنان ہیں.تو یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والے ہیں اور بے چین ہیں کہ جلد جلسے کی ڈیوٹیاں شروع ہوں اور وہ اس خدمت کو بجالا سکیں اور ثواب حاصل کرنے والے بنیں جو مہمان نوازی کرنے سے ملتا ہے.اور پھر یہ مہمان نوازی تو ایسے مہمانوں کی مہمان نوازی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں جو اپنے روحانی علمی اور اخلاقی معیاروں میں بہتری کے لئے جمع ہورہے ہیں.جو خدا تعالیٰ کے دین کی باتیں سننے کے لئے جمع ہو رہے ہیں.بہر حال یہ جو
362 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم خدمت کرنے والے ہیں ان میں بچے بھی ہیں ، جیسا کہ میں نے کہا جو ان بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں، بڑی عمر کے لوگ بھی اور تجربہ کار لوگ بھی شامل ہیں اور ہر ایک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دنوں میں ایک ہی طرح پر جوش نظر آتا ہے.نئی جلسہ گاہ پر وقار عمل شروع ہیں.وہاں بڑے جوش سے کام ہورہے ہیں اور پھر یہ ڈیوٹیاں دینے والے اس انتظار میں ہیں کہ جلد وہ دن آئیں جب جلسہ شروع ہو اور ہم اپنی ڈیوٹیاں شروع کریں کیونکہ بعض ڈیوٹیاں جلسے کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہیں.اور اس طرح پھر خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں.گو بعض قسم کی ڈیوٹیاں جیسا کہ میں نے کہا شروع ہو چکی ہیں.جلسہ گاہ کی تیاری کے لئے پہلے سے تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور کچھ انشاء اللہ تعالیٰ پرسوں جب معائنہ ہو گا تو اس کے بعد سے کافی حد تک شروع ہو جائیں گی اور مکمل طور پر 100 فیصد ڈیوٹیاں تو جلسہ کے دن سے ہی شروع ہوتی ہیں.اس خطبے میں جو جلسے سے ایک جمعہ پہلے کا خطبہ ہے عموماً برطانیہ کے رہنے والوں ، خاص طور پر ان کارکنان کو جو ڈیوٹیاں دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، ان کو ان کی ڈیوٹیوں کے بارے میں یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ آپ نے اپنے فرائض کس طرح ادا کرنے ہیں، کس طرح مہمان نوازی کرنی ہے، کس طرح ان لوگوں کی خدمت کرنی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نیک مقصد کے لئے جمع ہورہے ہیں جو ان کو روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے جانے والا مقصد ہے.گو کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ تمام کارکنان جن کو کسی بھی ڈیوٹی کے لئے مقرر کیا گیا ہے، بڑے پر جوش ہیں اور ان میں سے بہت سارے خط لکھ کر دعا کے لئے بھی کہتے ہیں اور اگر ملاقات ہو تو زبانی بھی دعا کے لئے کہتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہمارے سپر د جو کام ہوا ہے ہم احسن رنگ میں اسے سرانجام دے سکیں اور کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو مہمانوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو یا جلسے کے انتظام میں خرابی کا باعث ہو یا انتظامیہ کے لئے پریشانی کا موجب بنے یا مجھے لکھتے ہیں کہ آپ کے لئے کسی قسم کی تکلیف کا باعث ہو.ظاہر ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی میں کوئی بھی خلل یا کوئی بھی خرابی یا ان کے کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہونے سے مجھے سب سے زیادہ تکلیف کا احساس ہو گا اور ہونا چاہئے کیونکہ U.K کے جلسے کا تصور خود بخود غیر محسوس طور پر مرکزی جلسے کا ہو گیا ہے.کیونکہ پاکستان سے ہجرت کے بعد یہی ایک جلسہ ہے جس میں باقاعدگی سے خلیفہ وقت کی شمولیت ہوتی ہے اور جب لوگ اس سوچ اور اس نظریہ کے ساتھ دور دراز ملکوں سے اس جلسے میں شمولیت کے لئے آتے ہیں کہ غیر اعلانیہ طور پر ہی سہی لیکن ہے یہ مرکزی جلسہ، کیونکہ خلیفہ وقت اس میں موجود ہوگا اور خلیفہ وقت کی اس
خطبات مسرور جلد چهارم 363 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 جلسہ میں موجودگی میں وقت گزارنے کا زیادہ سے زیادہ ہمیں موقع ملے گا تو ظاہر ہے پھر مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان پیارے مہمانوں کی مہمان نوازی کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے اور ان کی تکلیف پر تکلیف پہنچنی چاہئے.اس لئے اپنی فکر کو دور کرنے کے لئے اس خطبے میں جو جلسے سے ایک ہفتے پہلے کا خطبہ ہے، جیسا کہ میں نے کہا کارکنان کو ان کی ڈیوٹیوں کے بارے میں توجہ دلائی جاتی ہے تا کہ وہ مہمانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں.یہ توجہ اس لئے بھی دلائی جاتی ہے کہ عموماً تو ہر کارکن بڑے جوش سے اس انتظار میں ہے کہ ہم ڈیوٹیاں دیں لیکن کارکنان کی یاد دہانی کے لئے کہ ان کو جو کام پہلے کرنے والے ہیں ان کی یاددہانی ہو جائے اور پھر بہت سارے نئے بھی شامل ہو رہے ہوتے ہیں، ان کو بھی پتہ لگ جائے.ان نئے شامل ہونے والوں میں بچے بھی ہوتے ہیں جو بچپن کی عمر سے اطفال کی ڈیوٹیوں میں شامل ہورہے ہوتے ہیں یا اطفال کی عمر سے خدام کی ڈیوٹیوں میں جو زیادہ ذمہ داری کا کام ہے اس میں شامل ہورہے ہوتے ہیں، ان کو توجہ دلائی جائے اور نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ ہو جائے ، ان کو بھی مہمان نوازی کی اہمیت کا پتہ لگ جائے.تو جیسا کہ میں نے کہا ہے عمومی طور پر تو سب جوان، بچے، بچیاں ، لڑکے، مرد اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے بڑے پر جوش ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان مہمانوں کی خدمت کا موقع ملے، لیکن یاد دہانی معیار کو مزید بہتر کرنے اور خامیوں پر نظر رکھنے میں مدد دیتی ہے.سواس لئے مختصرا ایک بات کی طرف میں توجہ دلاؤں گا.باتیں تو بہت ساری ہیں لیکن اس بات میں باقی باتیں آ جائیں گی.اس ضمن میں جو بڑی ضروری بات ہے، ہمیشہ میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے بعض مہمانوں کا علم ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو یا تو بڑی توقعات رکھتے ہیں یا طبعا اتنے حساس ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے کسی بھی کارکن یا میز بان کی طرف سے ذراسی بھی اونچ نیچ نہیں ہونی چاہئے.بعض مہمان غلطی پر ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن ایک کارکن کا، ایک میزبان کا کام یہ ہے کہ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے ہر حال میں مہمان کا خیال رکھے اور اسے کسی بھی قسم کی ناراضگی کا موقع نہ دے ، گو کہ بعض صورتوں میں یہ بڑا مشکل کام ہے لیکن جب آپ نے جلسے کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تو پھر ظاہر ہے کہ قربانی بھی کرنی پڑے گی اور جب اپنے جذبات کی قربانی کرتے ہوئے اس مشکل کام کو سر انجام دیں گے تو تبھی اللہ تعالیٰ کے حضور زیادہ ثواب کے حقدار ٹھہریں گے.
364 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم ہم تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس نے مہمان نوازی کے ایسے اعلیٰ معیار قائم فرمائے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ کیا اعلیٰ معیار تھے.آپ کی برداشت اور بلند حوصلگی کا مقابلہ ہی نہیں ہے لیکن وہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.جب آپ اپنی امت کو نصیحت کرتے تھے یا اپنے ماننے والوں یا صحابہ کونصیحت کرتے تھے یا جو نصیحت ہمیں آپ نے کی ہے، اس کے اعلیٰ نمونے بھی آپ نے دکھائے ہیں.دیکھیں جب ایک مہمان آتا ہے، غیر مسلم ہے، ہوتا ہے اور زیادہ کھانے کی وجہ سے یا کسی وجہ سے رات کو اپنے پر کنٹرول نہیں رہا یا شرار تا بستر گندہ کر کے چلا گیا تو آپ نے برانہیں منایا بلکہ صبح جب جا کے دیکھا تو خود ہی اس کو دھونے لگے.تو جیسا کہ میں نے کہا وہ تو ایک غیر تھا اور پتہ نہیں کس نیت سے یہ خراب کر کے گیا تھا.لیکن آپ نے اس کی غیر حاضری میں بھی اسے یہ نہیں کہا کہ یہ کیا کر گیا ہے.بلکہ صحابہؓ کہتے ہیں کہ باوجود ہمارے کہنے کے کہ ہمیں موقع دیں خود ہی بستر دھوتے رہے کہ نہیں وہ میرا مہمان تھا.آپ کی یہ بلند حوصلگی اور یہ نمونہ آپ نے اس لئے ہمارے سامنے قائم فرمایا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے.پس آپ کے مہمان جن کی مہمان نوازی آپ کے سپرد کی گئی ہے، جن کی مہمان نوازی کرنے کا انشاء اللہ تعالیٰ اب موقع مل رہا ہے، یہ تو وہ مہمان ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر یہاں جمع ہورہے ہیں، اس لئے جمع ہورہے ہیں کہ اللہ کے دین کی باتیں سنیں، اس لئے جمع ہورہے ہیں کہ خدا کے مسیح نے انہیں بلایا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے.اور اس لئے بلایا ہے کہ سال میں ایک دفعہ جمع ہو اور اپنی تربیت کرو، اپنی روحانیت کو بہتر بناؤ.ان سے کسی ایسے انتہائی فعل کی تو توقع نہیں کی جاسکتی جیسا کہ اس کا فرنے اس قسم کا گھٹیا کام کیا تھا لیکن اگر کسی مہمان کی طبیعت کی تیزی کی وجہ سے اس کے منہ سے کوئی سخت قسم کے الفاظ نکل جاتے ہیں یا وہ سخت الفاظ استعمال کر لیتا ہے تو کارکنان کو ہمیشہ درگزر سے کام لینا چاہئے اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ان کی باتوں کا برانہیں منانا چاہئے کیونکہ اس سے پھر مزید بدمزگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہر احمدی سے ہونا چاہئے ، چاہے وہ مہمان ہو یا میز بان ہو، مرد ہو یا عورت ہولیکن ہر دوسرے کا فعل اس کے ساتھ ہے.آپ جو کارکنان ہیں، میں آپ سے اس وقت مخاطب ہوں.مہمانوں کو تو نصیحت میں بعد میں کروں گا کہ آپ لوگوں کو ان دنوں میں بہت زیادہ وسیع حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اچھے اخلاق کی ایک اعلیٰ مثال قائم کرنی چاہئے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے قُولُو الِلنَّاسِ حُسْنًا ( البقرہ: 84 ) یعنی لوگوں سے نرمی
365 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم سے بات کیا کرو.تو یہ بات جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے، اخلاق کو قائم کرنے کا ایک گر ہے.یہ صرف خاص حالات کے لئے ہی نہیں ہے اور صرف خاص لوگوں سے ہی متعلق نہیں ہے بلکہ ہر وقت ہر ایک سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ.جب ایسی حالت پیدا ہوگی تو جہاں معاشرے میں آپس کا تعلق بڑھے گا ، وہاں ایمان میں بھی ترقی ہو گی.عمومی طور پر جب یہ حکم ہے تو ان دنوں میں خاص طور پر اس حکم کی بہت زیادہ پابندی کرنی چاہئے.پس کارکنوں کو چاہئے کہ ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہیں.جہاں وہ ان اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے مہمان نوازی کا حق ادا کرتے ہوئے ثواب کما رہے ہوں گے اور پھر نتیجہ یہ بات ان کے ایمان میں ترقی کا باعث بن رہی ہوگی، وہاں اس وجہ سے کہ انہوں نے دوسرے کی غلط بات پر ویسا ہی رد عمل ظاہر نہیں کیا ، ایسے کارکنان دوسرے شخص کو بھی یہ احساس دلانے کا باعث بنیں گے کہ احمدی معاشرہ نرمی، پیار، محبت اور بھائی چارے کا معاشرہ ہے.ہم یہاں اپنی تربیت کے لئے جمع ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اور یہختی کی باتیں تو اس مقصد سے مکمل طور پر تضا د رکھتی ہیں.اتنا تضاد ہے کہ جس طرح بعد المشرقین ہوتا ہے.پس آپ کا ، کارکنان کا خاموش رہنا اور سختی کی بات پر بھی نرمی سے جواب دینا بلکہ اپنی طبیعت پر جبر کرتے ہوئے انتہائی خوش خلقی سے جواب دینا دوسرے کو اس کی غلطی کا احساس دلانے کا اور اصلاح کرنے کا ایک عملی جواب ہو گا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اعلیٰ اخلاق دکھاتے ہوئے خوش خلقی کا مظاہرہ کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میزان میں حسن خلق سے زیادہ وزن رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہے مَا مِنْ شَيْءٍ يُوْضَعُ فِي الْمِيْزَانِ أَثْقَلَ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ (سنن ترمذى كتاب البر والصله بابماجاء في حسن الخلق حدیث نمبر (2002) کہ میزان میں حسن خلق سے زیادہ وزن رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور اچھے اخلاق کا مالک ان کی وجہ سے صوم وصلوٰۃ کے پابند کا مقام حاصل کر لیتا ہے.اچھے اخلاق ایک نمازی کا درجہ دے جاتے ہیں، نیکیوں کی توفیق ملتی ہے، پھر اللہ کا خیال آتا ہے اور عملاً پھر ہر نیکی دوسری نیکی کی طرف لے کر جاتی ہے.انسان کی نیکیوں کا جو پلڑا ہے اس میں سب سے زیادہ وزن والی چیز حسن خلق ہے.ایک ترازو میں اگر نیکیاں رکھی جائیں تو جب نیکیوں کا وزن بڑھتا جائے گا تو سب سے زیادہ وزن ڈالنے والی جو چیز ہوگی وہ اچھے اخلاق ہیں اور نرمی سے مسکراتے ہوئے بات کرنا ہے.پس ان دنوں میں باوجود ڈیوٹیوں کے بوجھ کے، باوجود نا قابل برداشت چیزوں کا سامنے کرنے کے، ہمیشہ مسکراتے رہنے کی کوشش کریں اور یہ جو خوش خلقی کی ظاہری حالت کارکنان اپنے پر طاری کریں گے ، چاہے دل نہ بھی چاہ رہا ہو تب بھی کرنی ہے، تو اس سے آپ کے بعض جو فوری رد عمل ہیں وہ بھی کنٹرول میں رہیں گے.
366 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم دیکھیں ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشکلات میں گھرا ہوا تو کوئی شخص نہیں تھا.بھی کوئی پریشانی ہے، کبھی دشمنوں کی پریشانی ہے، کبھی جنگ کی پریشانیاں ہیں ، کبھی کسی قسم کی تکلیفیں ہیں اور آپ سے زیادہ تو کسی کو تکلیفیں نہیں آئیں ، سوچا بھی نہیں جا سکتا اور پھر یہ فکر کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام سپرد کیا ہے اس کو مکمل کرنے کی ذمہ داری بھی ادا کرنی ہے.اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمہ وقت پریشانیوں میں گھرا ہوا انسان ہے اور امت کی فکر اس قدر کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور یہ فکر اس لئے ہے کہ ان کی اصلاح کی جو ذمہ واری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے ، وہ کس طرح پوری ہوگی.اور جس قدر تقویٰ آپ میں تھا وہ تو کسی اور میں ہو نہیں سکتا اور اس وجہ سے جتنا تقویٰ زیادہ ہو اللہ تعالیٰ کے خوف کا معیار بھی اتنا بڑھ جاتا ہے، وہ بھی اتنا ہی اونچا تھا.اس امت کے لئے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے اتنی پریشانی تھی کہ آپ خود فرماتے ہیں کہ مجھے تو سورۃ ھود نے بوڑھا کر دیا ہے.کیونکہ اسی سورۃ میں ان ذمہ داریوں کا حکم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری تو کوئی لے لیتا ہے کہ میں اصلاح کرلوں گا، دوسرے کی ذمہ داری لینا بہت مشکل کام ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اللہ تعالیٰ کا حکم تھا) یہ ذمہ واری لی اور اس فکر میں لی اور دعاؤں میں وقت گزارتے ہوئے اس کام کو پھر باحسن سرانجام بھی دیا.لیکن بہر حال ایک فکر ہمیشہ آپ کو رہی اور پھر اپنے زمانے کے مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ تا قیامت آنے والے مسلمانوں کی فکر بھی آپ کو رہی.اتنی ذمہ داریوں کے باوجود اور ایسی حالت کے باوجود آپ کے حسن خلق کا معیار کیا تھا کہ ایک صحابی عبد اللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس کو تبسم فرمانے والا نہیں پایا.کسی کا اتنا ہنستا مسکراتا چہرہ نہیں دیکھا جتنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا.تو یہ ہیں معیار ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے.پھر آپ نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص نرمی سے محروم کیا گیا وہ خیر سے بھی محروم کیا گیا.پس نیکیاں کمانے اور خیر سمیٹنے کا یہ موقع ہے جو سال کے بعد ہمیں مل رہا ہے، اس میں ہر احمدی کو اور خاص طور پر کارکنان کو کوشش کرنی چاہئے کیونکہ مہمان نوازی کے ساتھ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی کے ساتھ، مہمان کی سخت بات پر درگزر کرنا اور اپنے آپ کو کنٹرول کرنا بھی حسن خلق ہے، یہ باتیں یقینا آپ کو خیر و برکت سے بھر دیں گی بلکہ بے شمار خیر اور برکتیں اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں دے گا.مہمانوں کے نازک جذبات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 292 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد چهارم 367 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 پس یہ بھی ایک سبق ہے مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کے لئے کہ ایک تو مہمان سے سختی نہیں کرنی.دوسرے اگر مہمان میں کوئی کمزوری ہے تو وہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح آپ کسی کی اصلاح کا باعث بھی بن جائیں گے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لئے مناسب ہے کہ سب کو واجب الا کرام جان کر تواضع کرو.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 492 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ اصول ہمیشہ یاد رکھیں خاص طور پر شعبہ مہمان نوازی اور خوراک والے یہ بات پلے باندھ لیں کہ کسی مہمان کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ فلاں مہمان کو زیادہ پوچھا گیا اور فلاں کو کم یا فلاں کے لئے بیٹھنے کے لئے زیادہ بہتر جگہیں تھیں اور فلاں کے لئے کم.ٹھیک ہے بعض جگہیں بنائی جاتی ہیں، بعضوں کا تقاضا ہے، مریضوں کے لئے ، بیماروں کے لئے یا ایسے مہمانوں کے لئے جو کسی خاص ملک کے نمائندے ہیں اور ان کو وہاں زبان کی وجہ سے بٹھانا پڑتا ہے یا پھر ایسے ہیں جو غیر ہیں وہ آتے ہیں لیکن عمومی طور پر جو مهمان نوازی کا اصول ہے، سب مہمانوں سے ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے.اس دفعہ پاکستان سے اور دوسرے ملکوں سے بھی بہت سے مہمان آئے ہیں اور آ رہے ہیں ، جو پہلی دفعہ ملک سے باہر نکلے ہیں.تعلیم بھی معمولی ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے.کئی ایسے ہیں جو مجھے ملے ہیں اور بڑے جذباتی رنگ میں بتایا کہ ہم جلسے میں شامل ہونے کے لئے اور آپ کو ملنے کے لئے آئے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کا خاص طور پر خیال رکھیں.یہ نہ سمجھیں کہ غریب آدمی ہے تو اس کا خیال نہیں رکھنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کسی کے پھٹے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ اس کو مہمان نوازی کی ضرورت نہیں، مہمان مہمان ہے.کچھ تو آنے والے لوگ اپنے عزیزوں کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن بعض جماعتی نظام کے تحت بھی ٹھہرے ہوئے ہیں اور جلسے کے تین دنوں میں تو ان سب نے جماعتی مہمان ہی ہونا ہے.یہاں کی جو بعض چیزیں ہیں ان سے بعضوں کو نا واقفیت ہو گی ، ان کے لئے بالکل نئی ہوں گی تو ان کا خیال رکھیں اور بغیر ان کو کسی قسم کا احساس دلائے ان کی خدمت کریں.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس ان کے عزیز یا دوست مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں وہ شروع میں تو بڑے جوش سے گھر میں مہمان لے جاتے ہیں، دعوت بھی دیتے ہیں لیکن بعد میں بدمزگی پیدا ہو جاتی ہے.اپنے بہت ہی قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کی خدمت تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن جو واقف
خطبات مسرور جلد چہارم 368 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 کار یا کسی حوالے سے کسی دوسرے عزیز سے تعلق رکھنے والا اگر مہمان بن کر ٹھہرا ہوا ہے تو اس سے وہ ان قریبیوں والا سلوک نہیں ہوتا.تو یا درکھیں کہ ان کا بھی اسی طرح خیال رکھیں.جب مہمان نوازی کی ذمہ داری اپنے سپر دلی ہے تو ان کا بھی اسی طرح خیال رکھنا ہوگا جس طرح اپنے قریبیوں کا رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دوسروں کی تکلیف کا کتنا احساس تھا ، ایک روایت میں اس کا ذکر آتا ہے کہ گورداسپور کے سفر میں، جو مقدمے کے لئے کیا گیا تھا ( کچھ جمعے پہلے میں نے اس سفر کی تفصیل بتائی تھی ) بہت سے احباب بھی آپ کے ساتھ تھے اور اس مقدمے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے آنے کو حضور علیہ السلام یہ سمجھتے تھے کہ یہ میری وجہ سے آئے ہیں اور اس لحاظ سے میرے مہمان ہیں.بابو غلام محمد صاحب آپ کے ایک صحابی تھے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم گورداسپور پہنچے، سردی کے دن تھے تو رات کو کھانے کے بعد حضور نے ہم سب کو حکم دیا کہ تھکے ہوئے ہو سو جاؤ.کہتے ہیں ہم سب اپنے اپنے بستر بچھا کر لیٹ گئے تو کچھ دیر بعد ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام خاموشی سے اٹھے اور لالٹین ہاتھ میں لے کر ہاتھ سے ٹول ٹول کر جو سوئے ہوئے لوگ تھے ہر ایک کے بستر کا جائزہ لینے لگے اور جس کے بستر کو بھی ہلکا دیکھا ( ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ، باہر سردی تھی) اس پر اپنے بستر سے کوئی نہ کوئی چادر یا کمبل یا موٹا کپڑا لا کر ڈال دیتے تھے.کہتے ہیں کہ اس طرح چھ سات لوگوں کو اپنے بستر کی مختلف چیزیں دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈھانکا.تو آپ کو یہ فکر اس لئے تھی کہ یہ لوگ آپ کی خاطر آئے ہوئے ہیں.تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 210) پس آج ہمارا فرض ہے کہ اس سنت کو قائم رکھتے ہوئے آپ کی خاطر ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خاطر آئے ہوئے لوگوں کی بھر پور مہمان نوازی کریں.اس دفعہ پاکستان میں تو برٹش ایمبیسی نے کافی کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے اور کافی لوگوں کو ویزے دیئے ہیں، اللہ ان کو جزا دے.اب ہمارے مہمان نوازی کے نظام کا بھی اور یہاں کے لوگوں کا بھی یہ فرض ہے کہ جہاں بھی آنے والے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی مہمان نوازی کے اعلیٰ نمونے قائم کریں.ہمارے دیہاتوں کے لوگ آج بھی بہت مہمان نواز ہیں.شہروں سے رابطوں کی وجہ سے بعض برائیاں بھی ان میں آگئی ہیں، بعض اچھی باتیں ختم بھی ہوگئی ہیں لیکن ابھی بھی مہمان نوازی کا جو وصف ہے دیہاتوں میں قائم ہے اور یہ دنیا میں تقریباً ہر جگہ ہے.اس لئے ان آنے والے مہمانوں کو اپنی مہمان نوازی کے نمونوں سے بتائیں کہ اعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی کا جو خُلق ہے صرف پاکستان یا دوسرے غریب ملکوں کے دیہاتوں کے رہنے والوں کا خلق نہیں ہے بلکہ اس زمانے کے امام کو ماننے کے بعد یہ
خطبات مسرور جلد چہارم 369 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 خلق ہر احمدی کا خاصہ ہے، چاہے وہ یورپ میں رہتا ہو یا امریکہ میں رہتا ہو یا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتا ہو اور اخلاقی قدریں باوجود معاشرتی روایات اور معیار زندگی مختلف ہونے کے وہی ہیں جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہیں، جس کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھائے ہیں.پس اعلیٰ اخلاق اور مہمانوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے اور خوش خلقی سے بات کرنا یہ ان دنوں میں خاص طور پر آپ کی ایک پہچان ہونی چاہئے.یہ بھی یا درکھیں کہ اس دفعہ انشاء اللہ یہ جلسہ نئی جگہ حديقة المھدی میں منعقد ہورہا ہے.اس علاقے کے لوگوں کو بعض فکر میں تھیں، جب زمین لی گئی تو بہت زیادہ اس طرف سے اپوزیشن بھی ہوئی تھی ، جو جماعتی رابطوں کی وجہ سے دور کرنے کی کوشش کی گئی اور تقریباً دور ہو گئیں اور پھر انصار اللہ کی اس علاقے میں جو چیریٹی واک ہوئی ہے اس نے بھی کافی اثر کیا اور اس علاقے کے لوگوں کے شبہات کو دور کر دیا ہے.پس اس کو مزید مضبوط کرنا بھی آپ لوگوں کا ، خاص طور پر ڈیوٹی دینے والوں کا کام ہے.یہ خیال رکھیں کہ ٹریفک بھی صحیح طرح کنٹرول ہورہا ہو، لوگوں کی صحیح رہنمائی بھی ہو رہی ہو، علاقے کے لوگ بھی اگر آئیں تو ان پر بھی نیک اور اچھا اثر قائم ہو، تاکہ وہ آئندہ وقت میں بھی کسی قسم کے مسائل کھڑے نہ کریں.اس لئے بعض دفعہ ڈیوٹی دینے والے اوور ایکسائیڈ (Over excited) ہو جاتے ہیں ، دیکھتے ہی نہیں کہ سامنے کون ہے.کسی وجہ سے ٹریفک کنٹرول کرتے کرتے بعضوں سے زیادتی ہو بھی جاتی ہے تو اس بارے میں بڑی احتیاط کریں اور پہلے سے بڑھ کر اپنے نمونے دکھا ئیں.عموماً تو اللہ کے فضل سے سارے ہی بڑے ٹرینڈ (Trained ) ہیں اور اچھی ڈیوٹیاں دینے والے ہیں.اس دفعہ بعض ڈیوٹیاں تقسیم بھی ہوئی ہیں.گزشتہ سال بھی ، رشمور (Rushmore) میں جلسے کی وجہ سے ہوئی تھیں.کچھ رہائش کا اور کچھ کھانے کے انتظامات کا انتظام اسلام آباد میں بھی ہوگا.اس لئے اس بات کا خیال رکھیں کہ اسلام آباد کے ماحول میں بھی اپنی ان روایات کو قائم رکھنا ہے جو ہمیشہ سے ہمارے کارکنان کا خاصہ رہی ہیں.وہاں کے لوگوں کو بھی کسی قسم کی شکایت نہ ہو.عموماً وہاں لمبے عرصے تک بعض لوگوں کو شکایتیں ہوتی رہتی ہیں، کچھ تو تنگ کرنے کے لئے بھی کرتے ہیں لیکن ہمیں کسی کو بھی موقع نہیں دینا چاہئے.ہو سکتا ہے کہ دو جگہوں پر تقسیم ہونے کی وجہ سے بعض صیغوں کے جو افسران ہوں ان سے ہر وقت رابطہ نہ ہو سکے کہ وہ اسلام آباد میں نہ ہوں ، تو اس صورت میں ہر کارکن کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ذمہ دار ہے اور پہلے سے بڑھ کر اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ سب احسن رنگ میں جلسہ کی ڈیوٹیاں ادا کرسکیں اور حضرت مسیح
خطبات مسرور جلد چہارم 370 خطبہ جمعہ 21 جولائی 2006 موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس جلسے پر آنے والے مہمانوں کو آپ لوگوں میں سے کسی سے بھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہو.ہمیشہ یادرکھیں کہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے اس لئے ہمیشہ ہر وقت اپنے آپ کو دعا میں مصروف رکھیں اور اپنے کسی اچھے کام کو اپنے تجربے یا علم پر محمول نہ کریں کہ یہ کام میرے تجربے یا علم کی وجہ سے ہوا ہے بلکہ ہر اچھا کام جو ہم میں سے کوئی بھی انجام دیتا ہے یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہے.اس لئے اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کے حضور جھکنا بہت ضروری ہے.پس ان دنوں میں جہاں آنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی دعاؤں میں وقت گزاریں وہاں کارکنان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنے اس خدا کو کبھی نہ بھولیں جو ہمیشہ ہماری مددفرماتا رہا ہے.افسران صیغہ جات بھی یادرکھیں کہ وہ اس افسری کے ذریعہ سے قوم کی خدمت پر مامور کئے گئے ہیں.جہاں انہوں نے اپنے کام کا جائزہ لینا ہے وہاں تربیتی لحاظ سے اپنے کارکنان کا بھی جائزہ لیتے رہنا ہے اور ہر وقت یہ کوشش کرنی ہے کہ مہمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے والے ہوں اور دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اپنے کام انجام دینے والے ہوں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت ہمارے پاس ایک معزز مہمان ہیں.مہمانوں کی مہمان نوازی کا ذکر چل رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے آج ایک معزز مہمان دیئے ہیں، یہ الحاج ڈاکٹر احمد تیجان کا با صاحب ہیں جو سیرالیون کے صدر مملکت ہیں.وہ یہاں دورے پر آئے ہوئے تھے تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جمعہ ہمارے ساتھ مسجد میں پڑھیں گے.اللہ تعالیٰ ان کی نیک خواہشات کو پورا کرے اور ان کو جزا دے اور ان کے ملک میں امن اور سلامتی کے مستقل حالات پیدا کرے.اور ان دنوں میں یہ بھی دعا کریں ، دعا ئیں تو اب شروع ہو جانی چاہئیں، جلسے کے دنوں میں بھی ہوتی رہیں گی، اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو اپنی پہچان کرواتے ہوئے اور ایک دوسرے کی پہچان کرواتے ہوئے امن اور آشتی اور صلح کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا کرے.
خطبات مسرور جلد چہارم 371 (30 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 مہمانوں اور میزبانوں کے آداب وفرائض اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی ذمہ داریاں اور انکے لئے ضروری ہدایات حديقة المهدی (برطانیہ) میں پہلا جلسہ سالانہ فرمودہ مورخہ 28 / جولائی 2006ء (28 /وفا 1385 ش) حدیقۃ المہدی، ہمپشائر ، برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج شام سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ با قاعدہ شروع ہو رہا ہے.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں جلسہ سالانہ کا آغاز تو عملاً جلسہ کی تیاریوں سے شروع ہو جاتا ہے، جب کارکنوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ جلسہ آ رہا ہے اور ہم اس کی تیاری کر رہے ہیں اور پھر مہمانوں کی آمد کے ساتھ یہ احساس بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.اس دفعہ مہمان کچھ جلدی آنے شروع ہو گئے تھے اس لئے جلسے کی رونقیں بھی جلد نظر آنے لگ گئی تھیں.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں کہا تھا کہ اس دفعہ پاکستان وغیرہ ممالک سے بہت بڑی تعداد ایسے مہمانوں کی آئی ہے جو کہ پہلی دفعہ ملک سے باہر نکلے ہیں یا یہاں آئے ہیں اور ایک خاصی تعدا د سادہ مزاج اور دیہاتی لوگوں کی ہے اس لئے ان کی مہمان نوازی میں اس سادگی کی وجہ سے فرق نہیں آنا چاہئے.لیکن ان آنے والے مہمانوں کو بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ایک خاص مقصد لے کر اس جلسے
خطبات مسرور جلد چهارم 372 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 میں شامل ہو رہے ہیں، آپ لوگوں کے ذہنوں میں یہ چیز راسخ ہونی چاہئے ، یہ بات ہر وقت ہمیشہ رہنی چاہئے کہ آپ کے یہاں آنے کا مقصد کسی دنیاوی میلے میں شامل ہونا نہیں بلکہ اپنی روحانی ترقی کے لئے آئے ہیں.آنے والے مہمانوں میں ایک بڑی تعداد اور اکثریت تو یہاں UK میں رہنے والے احمدیوں کی ہے پھر ایک خاصی تعداد جرمنی اور یورپ کے ممالک کے رہنے والے احمدیوں کی ہے جو یہاں آتے ہیں.پھر اس کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے احمدی ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد، جیسا کہ میں نے کہا ، پہلی دفعہ یہاں آئی ہے اور یہاں کے حالات اور بعض طور طریقوں سے ناواقف ہیں.کچھ ہر سال آنے والے مہمان بھی ہیں جن کے عزیز رشتہ دار یہاں ہیں.پھر دنیا کے مختلف ممالک جن میں افریقہ، ایشیا، روس وغیرہ کے ممالک شامل ہیں، ان میں سے احمدی بھی اور بعض مہمان بھی ہمارے جلسے میں شمولیت کے لئے آئے ہوئے ہیں.تو جہاں تک غیر از جماعت مہمانوں کا تعلق ہے ان کی مہمان نوازی کرنا صرف با قاعدہ ڈیوٹی پر مقرر کارکنان کا کام نہیں ہے بلکہ جن کے ساتھ وہ مہمان آئے ہیں وہ بھی ان کی ضروریات کا خیال رکھیں کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے، باقی جو احمدی مہمان ہیں ان کو میں ان کی بعض ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.یہاں UK کے رہنے والے احمدی اور اسی طرح یورپ کے ممالک کے رہنے والے احمدیوں کے بعض رشتہ دار، دوست، واقف کار مختلف شعبہ جات میں ڈیوٹی دے رہے ہوں گے.تو آپ لوگ جو اس مقصد کے لئے آئے ہیں کہ اس روحانی ماحول سے فائدہ اٹھا ئیں اور جلسے کی برکات سے فیضیاب ہوں تو آپ کا یہ کام ہے کہ اپنی توجہ اسی مقصد پر مرکوز رکھیں.نہ تو آپ کو ان تین دنوں میں کسی بھی واقف کار کارکن سے غیر ضروری تو قعات ہونی چاہئیں کہ وہ آپ کی رائج طریق سے ہٹ کر مہمان نوازی یا خدمت کرے، نہ ہی آپ ان کا رکنوں کو مجبور کریں.بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اپنے واقف کار کا رکن سے غلط توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ اپنی ڈیوٹی کی مجبوری کی وجہ سے وہ تو قعات پوری نہ کر سکیں تو پھر شکوے، شکایتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ دیکھیں جی فلاں رشتہ دار نے ، فلاں میرے قریبی نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا.تو جہاں میزبانوں کو، مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے والوں کو مختلف قسم کی ڈیوٹیاں دینے والوں کو یہ حکم ہے کہ مہمان کی عزت اور احترام اور اکرام کریں، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچا ئیں ، ان سے خوش خلقی سے پیش آئیں ، وہاں مہمان کو بھی یہ حکم ہے کہ تم بھی بلاوجہ خدمت کرنے والوں پر، گھر والوں پر جن کے گھر تم ٹھہرے ہوئے ہو، کسی قسم کا بوجھ نہ بنو، ان سے غلط توقعات وابستہ نہ
خطبات مسرور جلد چهارم 373 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 کرو.نظام جماعت نے ان ڈیوٹی دینے والوں کی بعض حدود مقرر کی ہوئی ہیں ان حدود سے نکل کر غلط طور پر ان کی حمایت لینے کی کوشش نہ کرو اور ان کام کرنے والوں کے احسانمند ہوں اور ان سے خوش خلقی سے پیش آنے کی کوشش کریں.اسی طرح جو لوگ لندن میں باہر کے ممالک سے آ کر یا یہاں دوسرے شہروں سے آ کر اپنے رشتہ داروں کے پاس، عزیزوں کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ان کے احسان مند ہوں اور ان کی مہمان نوازی پر شکر گزاری کے جذبات رکھیں.یہ خوش خلقی ، لحاظ اور احسانمندی اور شکر گزاری جب مہمانوں کی طرف سے بھی ہوگی تو تب اس معاشرے کی بنیاد پڑے گی جو خدا کی خاطر ایک دوسرے سے تعلق جوڑنے اور اللہ اور رسول کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں.یہ ان لوگوں کا معاشرہ ہوتا ہے جوان تعلیمات پر عمل کرنے والا ہوتا ہے.دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکرام ضیف یا مہمان نوازی یا مہمان کے عزت و احترام کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ کہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ناراض مہمان کو منانے کے لئے اس کے پیچھے تیز تیز جا رہے ہیں تا کہ اس کو پکڑ کر لائیں اور اسے منائیں.کہیں رات کو موسم کی خرابی کے باوجود، شدت کے باوجود مہمان کے لئے دودھ لے کر آرہے ہیں.کہیں مہمانوں کے لئے اپنے گھر کے تمام بستر بھی دے کر بیوی بچوں سمیت سردی میں رات گزار رہے ہیں.کہیں مہمانوں کو فرماتے ہیں کہ تکلف نہ کیا کرو جو ضرورت ہو اس کا اظہار کر دو تا کہ تکلیف نہ ہو.کبھی لنگر خانے والوں کو فرمارہے ہیں کہ مختلف علاقے کے لوگوں کے مزاج اور خوراک کی عادات مختلف ہوتی ہیں ان کا خیال کیا کرو اور ان سے پوچھ کر ان کے مزاج کے مطابق خوراک تیار کر دیا کرو.بعض مہمانوں کے پان وغیرہ تک کا خیال فرما رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم خوش ہوتے ہیں جب مہمان تشریف لائیں اس لئے مہمان بھی بوجھ نہ سمجھا کریں.اور یہ سب نمونے آپ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلتے ہوئے دکھاتے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی نظام بھی یہی کوشش کرتا ہے کہ مہمان نوازی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرے اور انفرادی طور پر جن لوگوں کے گھروں میں مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی یہی جذ بہ دکھاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں.لیکن یہاں میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جلسے کے دنوں میں کیونکہ رش بہت زیادہ ہوتا ہے، بہت بڑی تعداد ہوتی ہے اور آجکل تو دنیائے احمدیت کے ہر ملک سے مختلف طبقات سے لوگ آتے ہیں اور نظام جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ایک کی مہمان نوازی کرتا ہے.کوشش یہ ہوتی ہے کہ بعض قوموں
خطبات مسرور جلد چہارم 374 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 کے جو معززین ہوتے ہیں ان کی رہائش اور خوراک کے انتظام کو جس حد تک آرام دہ بنایا جا سکتا ہے بنایا جائے کہ یہ بھی حکم ہے کہ جب تمہارے پاس کسی قوم کے معزز لوگ آئیں تو ان کو عزت دو اور احترام سے پیش آؤ.لیکن اس کے علاوہ احمدیوں کی بھی ان کے مزاج کے مطابق مہمان نوازی ہوتی ہے.جماعتی نظام کے تحت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لنگر اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ مختلف طبائع ، مزاج اور علاقوں کے رہنے والوں کے لئے ان کی پسند کی خوراک مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن پھر بھی انتظام میں لمیاں رہ سکتی ہیں.اگر کسی وقت کسی کی صحیح طور پر مہمان نوازی نہ ہو سکے، کہیں کمی رہ جائے ، مزاج کے مطابق کھانا نہ ملے تو مہمان کا کام نہیں ہے کہ برا منائے.اگر مزاج کے مطابق نہیں ہے تو پھر بھی صبر شکر کر کے، بغیر انتظامیہ پر یا کام کرنے والے کارکنان پر اعتراض کئے ، کھانا کھا لینا چاہئے یا پھر بغیر اعتراض کے وہاں سے آجائیں اور کسی کارکن کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ تمہارا کھانا میرے پسند یا معیار کے مطابق نہیں ہے اس لئے میں نہیں کھا رہا.بازار میں، یہاں جلسے کے دنوں میں بازار لگتے ہیں، مختلف قسم کی چیزیں ملتی ہیں وہاں جا کر اپنی خواہش پوری کر سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مہمان کو میز بان کی طرف سے جو کچھ پیش کیا جائے وہ خوشی سے کھائے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس طرح مہمانوں کا خیال رکھتے تھے لیکن ان دنوں میں جب رش ہوتا تھا، جلسے کے دن ہیں، کسی خاص مقصد کے لئے لوگ آئے ہوتے ہیں، آپ فرمایا کرتے تھے کہ تمام مہمانوں سے ایک جیسا سلوک کرو، اگر کسی کی خاص ضرورت ہے تو وہ اس ضرورت کو خود پوری کرے.چنانچہ ایک واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے.مولوی غلام حسن صاحب پشاوری اور ان کے ہمراہیوں کے لئے خاص طور پر چند کھانوں کا انتظام کرنے پر آپ نے فرمایا : ” میرے لئے سب برابر ہیں، اس موقع پر امتیاز اور تفریق نہیں ہو سکتی.سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا ہونا چاہئے ، یہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے.مولوی صاحب کے لئے الگ انتظام ان کی لڑکی کی طرف سے ہو سکتا ہے اور وہ اس وقت میرے مہمان ہیں اور سب مہمانوں کے ساتھ ہیں.اس لئے سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جائے.خبر دار کوئی امتیاز کھانے میں نہ ہو.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرتبہ یعقوب علی عرفانی جلد اول صفحہ 157) تو ایسے مہمانوں کے لئے یہ نصیحت ہے جو بعض دفعہ کھانے میں کسی قسم کی کمی کا احساس دلاتے ہیں.پھر بعض لوگ رہائش پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ ہمیں علیحدہ رہنے کی عادت ہے، ہمارے لئے علیحدہ
خطبات مسرور جلد چہارم 375 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 انتظام ہونا چاہئے.تو جماعتی نظام کے تحت اگر آپ آئے ہیں تو پھر اس کو بخوشی قبول کرنا چاہئے جو جماعت کا انتظام ہے.ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ رہائشیں مقرر نہیں کی جاسکتیں.کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے خبر دار کوئی امتیاز نہ ہو.تو مہمانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ انتظامیہ بھی بعض دفعہ مجبور ہوتی ہے.اصل مقصد وہ روحانی غذا ہے جو کھانے کے لئے آپ یہاں آتے ہیں اس کی طرف توجہ دیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی نظام اب اتنا فعال ہے کہ مختلف ذریعوں سے کمیوں اور خامیوں کی نشاندہی ہو رہی ہوتی ہے.انتظامیہ خود اس طرف نظر رکھتی ہے اس لئے اگر کبھی کوئی ایسا موقع آ جائے تو ناراض نہ ہوں اور جیسا کہ میں نے کہا خوش خلقی کے مظاہرے کریں.ہر وقت ہر احمدی سے ان دنوں میں خوش خلقی کے مظاہرے ہونے چاہئیں.یہ جو قُولُوا للنَّاسِ حُسْنًا﴾ (البقرة: 84 ) کا حکم ہے جس کا گزشتہ خطبہ میں میں نے کارکنوں کو توجہ دلاتے ہوئے ذکر کیا تھا، اس کے مخاطب آپ جلسے میں شامل ہونے والے بھی ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ مخاطب ہیں کیونکہ اکثریت تعداد تو شاملین کی ہوتی ہے.اگر ان شامل ہونے والوں کے اخلاق کے معیار کم ہو جائیں تو ماحول کا امن زیادہ خراب ہونے کا امکان ہے.شامل ہونے والے جہاں اپنے غصے کی وجہ سے یا کسی ایسی بات کی وجہ سے جو چھنے والی اور کاٹ دار ہو، طنزیہ ہو ، کارکنوں کے لئے تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں وہاں ان کارکنوں کی ڈیوٹی دینے کی صلاحیتوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں.اور پھر انتظامیہ کے لئے بھی مشکلات کھڑی کرتے ہیں کیونکہ ہر ایک کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوتا ، باوجود اس کے کہ انتظامیہ بھی کوشش کرتی ہے اور یہی ان کی ہر وقت کوشش ہوتی ہے، میں بھی یاددہانی کرواتا ہوں کہ کارکن ڈیوٹی دینے والے، یا دینے والیاں، عورتیں بچیاں کسی مہمان کی طرف سے کسی قسم کی بد اخلاقی پر اسی طرح کے رد عمل کا اظہار نہ کریں.لیکن پھر بھی بعض دفعہ ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے.تو جلسہ میں شامل ہونے والے مہمان کی ذراسی بے احتیاطی اور جذبات پر کنٹرول نہ ہونا پورے ماحول کو خراب کر دیتا ہے.پھر ایسے شخص کے، جس نے ڈیوٹی دینے والے سے بدمزگی کی ہوتی ہے، حمایتی بھی پیدا ہوتے ہیں جو بعض دفعہ چھوٹی سی بات کو اور زیادہ بھڑ کا دیتے ہیں.اس طرح ڈیوٹی دینے والے کے بھی حمایتی پیدا ہو جاتے ہیں اور ایک گروہ بندی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.پھر شامل ہونے والے بعض ایسے ہوتے ہیں اور اکا دُکا یہ واقعات ہو بھی جاتے ہیں کہ یہاں آپس میں پرانی رنجشوں کے حوالے سے ایک دوسرے پر طنز یہ فقرے چست کرنے سے لڑائی جھگڑے تک نوبت آجاتی ہے.تو ایسے گھٹیا کام کرنے والے چاہے ایک دو گھر ہی ہوں ، پورے ماحول کو خراب کر دیتے ہیں.اس لئے اس بات کا خیال رکھیں کہ جلسے کے ماحول میں کسی قسم کی ایسی بدمزگی پیدا نہ ہو جو ماحول پر برا اثر ڈالنے والی ہو.اگر ایسے ہی جذبات بھڑ کے ہوئے ہیں اور
376 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چهارم کنٹرول نہیں ہے تو بہتر ہے پھر جلسے میں شامل نہ ہوں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسے کو خالصہ لکھی جلسہ قرار دیا ہے اس لئے ہر آنے والا یہاں اس سوچ کے ساتھ آئے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سنا اور انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشیں کبھی پیدا نہیں ہونے دینی اور اپنی برداشت کو بڑھانا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسلام کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ انسان بیکار اور فضول باتوں کو چھوڑ دے.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ ہم یہاں اسلام سیکھنے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کے عہد کی تجدید کرنے کے لئے آئے ہیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدیوں کو مٹانے کے لئے ایک دوسرے سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آنا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے.پس ان دنوں میں کوئی اگر بری بات بھی دیکھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے پیش نظر صبر کریں اور ہمیشہ ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں.اس سے بھی بدیاں دور ہوں گی ، اس سے بھی آپ کے اخلاق مزید اور بہتر ہوں گے.بعض دفعہ بعض باتیں تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور خاص طور پر جب ایسی جگہ ہوں جہاں بہت سے لوگ ہوں تو شرمندگی کی وجہ سے انسان زیادہ غصے میں آجاتا ہے، زیادہ غصے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے.لیکن اس ماحول کو پر امن رکھنے کے لئے ہر ایک کو حو صلے اور صبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ بات جتنی بڑھائیں، ماحول کو خراب کرتے چلے جائیں گے.اس ضمن میں ایک لطیفہ میں آپ کو سناتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض دفعہ کس طرح اپنے صحابہ کے اس قسم کے جوش کو جو غصہ کی وجہ سے ہوتا تھا دھیما کیا کرتے تھے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ قادیان میں آوارہ کتے بہت ہو گئے ، ان کی وجہ سے شور وغل رہتا تھا.پیر سراج الحق صاحب نے بہت سے کتوں کو زہر دے کر مارڈالا.اس پر بعض لڑکوں نے پیر صاحب کو چڑانے کے واسطے ان کا نام پیر گتے مار رکھ دیا.پیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں شا کی ہوئے کہ لوگ مجھے گتے مار کہتے ہیں.حضرت صاحب نے تقسم کے ساتھ فرمایا کہ اس میں کیا حرج ہے.دیکھیں حدیث شریف میں میرا نام ( حضرت مسیح موعود اپنے بارے میں بتاتے ہیں ) سور مارلکھا ہے، کیونکہ مسیح کی تعریف میں آیا ہے کہ يَقْتُلُ الْخِنْزِيْرَ پیر صاحب اس پر بہت خوش ہو کر چلے آئے.اور ان کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا.ذکر حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 162-163) تو دیکھیں کس خوبصورتی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے غصے کو دور فرما دیا.پس اس ماحول میں جو کہ خالص روحانی ماحول تصور کیا جاتا ہے اگر کوئی غصہ دلانے والی بات سنیں بھی تو ٹال کر
377 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں.یہاں اس نئی جگہ پر حديقة المهدی میں یہ ہمارا پہلا جلسہ ہورہا ہے انشاء اللہ تعالی.اب شروع ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے کامیاب کرے.اور شامل ہونے والے جتنا زیادہ اعلیٰ اخلاق اور قانون اور قواعد کی پابندی کا مظاہرہ کریں گے اتنا زیادہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے آئندہ جلسوں کے یہاں انعقاد کے لئے آسانیاں پیدا ہوں گی.پس جہاں یہ ایک بچے احمدی مسلمان کی ذاتی ذمہ داری ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کا خیال رکھے وہاں یہ جماعتی ذمہ داری بھی بن گئی ہے کہ آپ کی ذراسی حرکت ، چاہے وہ جلسہ گاہ کے اندر ہو یا اس پورے حدیقہ کے کسی بھی کونے میں ہو یا باہر سڑک پر ہو، وہ صرف آپ کے اخلاق کا عکس نہیں دکھا رہی ہوتی بلکہ اس سے اس علاقے میں جماعتی تصویر ابھر رہی ہوگی.پس آپ سب کا یہ فرض ہے کہ کسی بھی رنگ میں کوئی ایسا موقع پیدا نہیں ہونے دینا جس سے علاقے میں کسی قسم کا غلط تصور جماعت کے بارے میں ابھرے، نہ ہی آپس کے معاملات میں، نہ ہی قریب کی آبادیوں کے ساتھ معاملات میں.بعض دفعہ ٹریفک وغیرہ کی وجہ سے بدمزگی ہو جاتی ہے، کبھی بھی موقع نہیں دینا کہ رش کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہو یا آپ کسی قاعدہ قانون کو توڑنے والے ہوں غلطی اگر دوسرے کی بھی ہو تو تب بھی آپ معافی مانگ لیں.یہی بات ہے جو آپ کے اعلیٰ اخلاق کا تصور اس علاقے میں قائم کرے گی.اس سال علاقے کے بہت سے لوگوں کی نظریں آپ پر ہیں.پس اپنے اعلیٰ اخلاق سے ان لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے ، جماعت کے لئے اور اسلام کے لئے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کردیں.ایک اور بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، پاکستان سے یا دوسرے ممالک سے جو احباب آئے ہیں وہ یا درکھیں کہ سوائے ان کے جو اپنے بچوں یا انتہائی قریبی عزیزوں کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں باقی جو مہمان بھی ہیں وہ جلسے کے بعد جلد از جلد واپس اپنے وطن جانے کی کوشش کریں.جماعتی نظام کے تحت ان کی مہمان نوازی تو ہو رہی ہے لیکن مہمانوں کو بھی یہ حکم ہے کہ بلاوجہ کا بوجھ نہ بنو.بعض لوگ اس لئے بھی لمبا ٹھہر جاتے ہیں کہ رہنے کی جگہ تو جماعت نے دے دی ہے، کچھ عرصہ ٹھہر کر کچھ کام وغیرہ کر لیں گے تاکہ کرایہ پورا ہو جائے یا کچھ پیسے کمالئے جائیں.یہ سوچ جلسے کی نیت سے آنے والوں کی نہیں ہونی چاہئے.اگر یہ سوچ رکھنی ہے تو جماعت کے مہمان نہ ہوں پھر اپنا انتظام خود کریں.لیکن اس صورت میں بھی ویزے کی مدت ختم ہونے سے بہت پہلے واپس چلے جانا چاہئے.اول تو یہ سوچ ہی غلط ہے، اکثریت نے جو ویزے لئے ہوئے ہیں وہ یہ لکھ کر دے کر آئے ہیں کہ جلسے کے لئے جارہے ہیں کیونکہ جس سے بھی میں نے پوچھا ہے اس نے یہی بتایا ہے.ایمبسی والوں نے آپ لوگوں پر اعتماد کر کے ویزا دیا ہے اور یہ اعتماد اس لئے ہے کہ جماعت کی ایک ساکھ ہے.پس اس بات کا بھی آپ
خطبات مسرور جلد چہارم 378 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 لوگوں نے خیال رکھنا ہے کہ آپ کی ایسی حرکت سے جس کی قانون آپ کو اجازت نہیں دیتا جماعت کی بدنامی ہوتی ہے.پس کوشش کریں کہ جس للہی مقصد کے لئے آپ نے سفر اختیار کیا ہے اس کو ہی صرف اور صرف مقصد رہنے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے، یہ دعا کریں کہ اے اللہ ہم تجھ سے اس سفر میں بھلائی اور تقویٰ چاہتے ہیں.تو ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے سفر جب ان دعاؤں سے بھرے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے آپ کی جھولیاں بھر دے گا.کیونکہ جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بے شمار دعائیں کی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کا وارث بنائے.ان دنوں میں جب آپ اس نیک مقصد کو پیش نظر رکھ کر دعائیں کر رہے ہوں گے اور کوئی دنیاوی لالچ یا خواہش آپ کے پیش نظر نہیں ہوگی اور اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے اور پیچھے رہنے والے سب عزیزوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کر رہے ہوں گے کہ اے ہمارے خدا! میں پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختیوں سے، نا پسندیدہ اور بے چین کرنے والے مناظر سے، مال اور اہل وعیال میں برے نتیجے سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے.تو خلوص نیت سے کی گئی یہ دعا آپ کے سفر کو ہمیشہ آسان رکھے گی اور آپ کے گھروں کو بھی خوشیوں سے بھرے گی.اور وہ سکون اور چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک آپ کو اپنے گھر والوں اور اولاد کی طرف سے عطا کرے گی جو دنیا کمانے کی خواہش سے آپ کو حاصل نہیں ہو سکتی.پس ان دنوں میں اپنے آپ کو ہر وقت ہر قسم کی دعاؤں اور نیک خواہشات سے بھرے رکھنے کی کوشش کریں.جلسہ کے پروگراموں کو غور سے اور توجہ سے سنیں ، نمازوں کے اوقات میں 100 فیصد حاضری نمازوں کی ہونی چاہئے کیونکہ اس ماحول کے آداب اور تقدس کا یہی تقاضا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا.اب دوبارہ بھی دو ہراتا ہوں کہ ان دنوں کو بالخصوص ذکر الہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزاریں کیونکہ آج امت مسلمہ پر مخالفین اسلام طاقتوں کی طرف سے ظالمانہ کارروائیاں کی جارہی ہیں، ان کا مداوا آپ کی دعاؤں نے ہی کرنا ہے.پس اس لحاظ سے بھی بہت دعائیں کریں.کچھ اور بھی بعض ہدایات میں بتاتا ہوں.نعروں کے ضمن میں یا درکھیں کہ ہر کوئی اپنی مرضی سے نعرے نہ لگائے.اگر کسی بات پر دل سے کوئی نعرہ پھوٹتا ہے، ایسا جوش ظاہر ہوتا ہے تو بے شک لگالیں لیکن پھر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک آدمی کی دیکھا دیکھی ہر کونے سے، ہر بلاک سے نعروں کی آواز میں آنے لگ
379 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم جائیں.اگر جذبات ہوں جو خود بخود ظاہر ہورہے ہوں تب تو نعرہ لگانے میں کوئی حرج نہیں لیکن نقل نہیں ہونی چاہئے.جماعتی مرکزی انتظام کے تحت نعرے کا انتظام ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا ان ایام میں پورے التزام سے نمازوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں.صرف جلسہ سننے والے ہی نہیں بلکہ کارکنان کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی ، جہاں بھی وہ ڈیوٹیاں دے رہے ہیں وہاں نماز کی ادائیگی کا انتظام کریں.ان کے افسران کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں اور جو جلسے کے نظام کا شعبہ تربیت ہے وہ بھی اس کی نگرانی رکھے.پھر بچوں کے لئے علیحدہ مار کی ہے جس میں بچوں والی مائیں اپنے بچوں کو لے کر بیٹھتی ہیں تو اس مارکی میں ہی بچوں کو لے کر بیٹھیں، مین (Main) مار کی میں نہ عورتیں اور نہی مرد کسی بچے کے ساتھ آئیں.کیونکہ بعض اوقات چھوٹے بچے ہیں شرارت کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں یا روتے ہیں جس کی وجہ سے دوسروں کی نمازوں میں بھی وہ سکون نہیں رہتا یا جلسے کی کارروائی اگر ہو رہی ہے تو اس میں وہ سکون نہیں ہوتا صحیح طرح سن نہیں سکتے ، تو اس بات کا خیال رکھیں.پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ مین مارکی میں بچوں کی کسی شرارت کی وجہ سے یا شور کی وجہ سے اگر کوئی دوسرا بچوں کو روکے، چاہے آرام سے ہی روک رہا ہو تو ماں باپ کو غصہ آ جاتا ہے.اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہر قسم کی بدمزگی سے بچنے کے لئے بچوں والے، بچوں کے لئے مختص جگہ میں بیٹھیں.یہ بات جلسے پر آنے والے بھی یاد رکھیں.بہت سارے جیسا کہ میں نے کہانے بھی آئے ہوئے ہیں اور بازار والے بھی یا درکھیں اور ہمیشہ کی طرح شعبہ تربیت بھی یادر کھے کہ بازار جلسہ کے دوران بند رہنے چاہئیں اور کوئی کسی چیز کی تلاش میں ادھر ادھر نہ پھرے بلکہ جلسہ کے دوران جلسے کی کارروائی کو مکمل طور پر سنے.پھر فضول گفتگو سے اجتناب کریں، یہ پہلے میں بتا چکا ہوں، آپس میں باتیں وقار سے کریں، نرمی سے کریں.پھر یہ کہ بعض دفعہ نو جوانوں کی ٹولیاں ہوتی ہیں جو ٹولیاں بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر بڑی اونچی اونچی باتیں بھی ہو رہی ہوتی ہیں، قہقہے بھی لگ رہے ہوتے ہیں تو خاص طور پر ایسے حالات میں جب قریب ایسے لوگ بیٹھے ہوں جو آپ کی زبان نہ سمجھتے ہوں تو پھر بعض دفعہ بدمزگی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے خیال رکھنا چاہئے.پھر گاڑیوں کو پارک کرتے وقت خیال رکھیں.اس دفعہ لگتا ہے یورپ سے بھی کافی تعداد آئی ہے.اس لئے کاریں بھی کافی ہوں گی تو پارکنگ کا خاص طور پر خیال رکھیں.کبھی اپنی گاڑیاں ایسی جگہ پر پارک نہ کریں جہاں منع کیا جائے.ٹریفک کے قواعد کوملحوظ رکھیں یہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا، جلسہ گاہ میں شعبہ
خطبات مسرور جلد چہارم 380 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 پارکنگ کے منتظمین سے مکمل تعاون کریں اور مکمل طور پر جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں قانون اور قواعد کی پابندی کریں.پھر صفائی کا خیال رکھیں ، ٹائیلٹس کی صفائی ہے، دوسری صفائی ہے.یہ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے.یہاں اس جلسہ گاہ میں تو عارضی انتظام ہے اس لئے خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کیونکہ یہ صفائی بھی اور جتنی ہم ہر بات میں توجہ دیں گے ہمارے لئے آئندہ آسانیاں پیدا کرے گی اور جتنی گندگی پھیلائیں گے اتنی مشکلات پیدا ہوں گی.پھر خواتین گھومنے پھرنے کی بھی زیادہ شوقین ہوتی ہیں اس لئے وہ زیادہ احتیاط کریں.نہا.علاقے میں، نہ باہر پھریں.اگر اس علاقے کو دیکھنے کی خواہش ہے، نیا علاقہ ہے، نئی جگہ ہے، بڑا وسیع رقبہ ہے، سیر کرنے اور پھرنے کو دل چاہتا ہے تو جلسہ کی کارروائی کے بعد جو وقت ہے اس میں بیشک پھریں، جلسے کے دوران نہیں.لیکن یہ یاد رکھیں کہ اس دوران بھی جب باہر نکلیں تو پردے کا ضرور خیال ما.سوائے اس کے جو احمدی نہیں ہیں ، جو کسی احمدی کے ساتھ آئی خواتین ہیں ، ان کا تو پردہ نہیں ہوتا.احمدی خواتین بہر حال پردے کا خیال رکھیں.ان لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے، غیروں کو بھی اگر اپنے ساتھ لانے والیاں اپنی روایت کے متعلق بتائیں تو وہ ضرور لحاظ رکھتی ہیں.اکثر میں نے دیکھا ہے ہمارے فنکشنز میں سکارف ، دوپٹہ یا شال وغیرہ اوڑھ کر آتی ہیں.تو یہ ان غیروں کی بھی بڑی خوبی ہے.صرف ان کو تھوڑا سا بتانے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ہے احمدی خواتین بہر حال جب با ہر نکلتی ہیں تو پردے میں ہونی چاہئیں اور اگر کسی وجہ سے پردہ نہیں کر سکتیں تو پھر ایسی خواتین میک اپ وغیرہ بھی نہ کریں.سر بہر حال ڈھانپا ہونا چاہئے کیونکہ یہ خالص دینی ماحول ہے، اس میں حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان تمام باتوں پر عمل کریں جس کا ہم سے دین تقاضا کرتا ہے.پھر میں دوبارہ کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ مہمانوں کی عزت کریں ، اکرام کریں، خدمت کریں ، اس کو اپنا شعار بنائیں، محبت اور خلوص سے ہر قربانی کرتے ہوئے خدمت کریں.مہمان بھی جیسا کہ میں نے کہا ہے نظم وضبط کا خیال رکھیں اور منتظمین جلسہ سے پورا پورا تعاون کریں کبھی کوئی شکایت کا موقعہ نہ دیں، کھانے کا ضیاع نہ کریں.کھانے کے آداب میں بھی یہی ہے کہ جتنا کھانا ہو اتنا پلیٹ میں ڈالا جائے، جلسے کے دنوں میں کھانا بہت ضائع ہوتا ہے اور یہاں اس علاقے میں پھر آپ جب کھانا ضائع کریں گے تو ظاہر ہے باہر گند ڈالیں گے.اکثر کو ڈسٹ بن میں پھینکنے کی عادت نہیں ہوتی اس سے پھر صفائی متاثر ہوتی ہے.تو مہمان اس بات کا خیال رکھیں.لیکن جو کارکنان کھانے کی ڈیوٹی پر متعین ہیں وہ
خطبات مسرور جلد چہارم 381 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 بہر حال مہمانوں کو جب سمجھا ئیں کھانا لیتے ہوئے تو نرمی سے بات کریں ہختی نہ کریں.کھانا کھانے والے کوشش یہ کریں کہ جس جگہ کھانے کھاتے ہیں وہیں اپنے برتن نہ پھینک آیا کریں ، ڈسپوزایبل ( Disposable ) برتن اور چیزیں استعمال ہوتی ہیں، ان کو ڈسٹ بن میں پھینک کر آیا کریں تاکہ ساتھ ساتھ صفائی ہوتی رہے.کارکنان پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑے.مہمان جو آئے ہوئے ہیں وہ خود اپنی صفائی کا خیال رکھیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جماعتی جلسوں میں شرکت انہیں میلہ سمجھ کر نہیں کرنی چاہئے کہ میل ملاقات اور خرید وفروخت یا فیشن کا اظہار مقصود ہو.اور عورتوں کے لئے خاص طور پر ، اکٹھی ہو ئیں ، باتیں کیں اور بس قصہ ختم ہو گیا.تو اس بات کا خیال رکھیں اور انتظامیہ بھی خیال رکھے کہ اس جلسے کو کبھی میلے کی صورت نہ اختیار کرنے دیں.یہ وہ بات ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جلسے کا ایک خاص مقصد قرار دیتے ہوئے خاص طور پر اس سے روکا ہے.پھر یہ ہے کہ بعض دفعہ باہر سے آنے والے اپنے واقف کاروں سے شاپنگ وغیرہ کے لئے قرض لیتے ہیں، اس قرض لینے سے بھی پر ہیز کریں کیونکہ یہ قناعت ختم کرنے والی چیز ہے.اور پھر ہاتھ کھلتا چلا جاتا ہے اور یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ یہ قرض پھر واپس بھی کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ جس مقصد کے لئے آپ آئے ہیں وہ خزانہ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانٹنا چاہتے ہیں.حفاظتی نقطہ نگاہ سے نگرانی کرنا اور اپنے ماحول پر گہری نظر رکھنا ہر ایک کا کام ہے بلکہ فرض ہے.اجنبی آدمی اگر ہو، کوئی مشتبہ آدمی دیکھیں، کسی پر شک ہو تو نگرانی رکھیں.چھیڑ چھاڑ نہ کریں لیکن نگرانی رکھیں اور انتظامیہ کو اگر اطلاع دینے کا وقت ہو تو اطلاع دیں.نہیں تو کم از کم اس کے ساتھ رہیں.کیونکہ اگر دوسرے کو یہ احساس ہو جائے کہ میری نگرانی ہو رہی ہے تو وہ شرارت نہیں کرتا.اور اسی لئے چیکنگ کا انتظام ،ٹکٹوں اور کارڈز کا انتظام بڑا سخت کیا گیا ہے.اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے بلکہ بڑی خوش دلی سے اس انتظام کے تحت ہر ایک کو اپنی چیکنگ کروانی چاہئے.پھر یہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے جو انتظامات ہیں وہاں مختلف جگہوں پر داخلے سے قبل، ایک تو جلسہ گاہ میں آتے ہوئے ہے ناں، جہاں بھی جانا ہے اگر چیکنگ ہوتی ہے تو جو بھی کارکنان ہیں ان سے آرام چیکنگ کروالیا کریں اور کارکنان بھی چیکنگ کرتے ہوئے نرمی سے، پیار سے توجہ دلائیں کہ اپنا کارڈ چیک کروا کر جائیں.قیمتی چیزیں جو ساتھ لائے ہوئے ہیں یا کوئی نقدی وغیرہ ہے اس کی حفاظت کی
382 خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006 خطبات مسرور جلد چہارم ذمہ داری خود ہر ایک کی ہے، انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہوگی.اور سب سے ضروری بات یہ ہے جیسا کہ میں پہلے بھی دو دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہر گز عام دنیاوی جلسوں یا میلوں کی طرح اس جلسہ کو نہ سمجھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کے طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے.بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے“.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395 ) پھر فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 362 جدید ایڈیشن نظارت اشاعت ربوہ ) پھر آپ دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب جو اس کہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں، خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہمت و غم دور فرمادے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفران کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا! اے ذُو الْمَجْدِ وَالْعَطَا اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 282 جدید ایڈیشن) پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی دعاؤں سے ہر ایک نے حصہ لینا ہے تو ان دنوں کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے دنوں میں بدل دیں.اللہ کرے سب میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوں جو ہماری اس نئی جگہ حديقة المهدی کے نام کی مناسبت سے ہم میں سے ہر ایک میں یہ روح پیدا کر دے کہ حقیقت میں ہم نے مسیح و مہدی کے خوبصورت باغ کا خوبصورت ، خوشبو دار اور خوش رنگ پھول اور پھل بننا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق دے.
خطبات مسرور جلد چهارم 383 31 خطبہ جمعہ 04 / اگست 2006 جلسہ سالانہ برطانیہ کے بخیر و خوبی اختتام اور اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کے جذبات کا اظہار تشکر اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر اتنے غیر معمولی انعامات اور افضال نازل ہورہے ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں فرموده مورخه 04 اگست 2006 ء(04 رظہور 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُوْلًا مِنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ ايْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّالَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونَ﴾ (البقرة : 152 153) جلسے کے بعد جو پہلا جمعہ آتا ہے اس کے خطبے میں، جلسہ سالانہ جو بخیر و خوبی اختتام تک پہنچتا ہے اور اس میں جو اللہ تعالیٰ کی برکات شامل ہوتی ہیں، اس میں جو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے نوازتا ہے، اس کا ذکر کیا جاتا ہے.شکر کے مضمون پر کچھ بیان کیا جاتا ہے.سو اس لحاظ سے آج کا خطبہ بھی اسی شکر کے مضمون پر ہے.اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر اتنے غیر معمولی انعامات اور افضال نازل ہورہے ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں، ہر لمحہ، ہر قدم پر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آتے ہیں.جلسے کے دوسرے دن کی تقریر میں میں نے کچھ کا ذکر کیا تھا کیونکہ سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں تھا، بہر حال وہ ذکر اور واقعات آہستہ آہستہ چھپتے رہیں گے.اس وقت میں صرف ان باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے شکر
خطبات مسرور جلد چهارم 384 کے ساتھ ساتھ بندوں کا شکریہ ادا کرنے سے بھی ہے.خطبہ جمعہ 04/اگست 2006 اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہمیشہ ہر اک کو پیش نظر رکھنا چاہئے ، ہر اس شخص کو جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کرنے کی سچی تڑپ ہے، جو یہ چاہتا ہے کہ میری دنیا و عاقبت سنور جائے ، جو اس یقین پر قائم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں در اصل خدا کے منہ کی باتیں ہیں.آپ فرماتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ الله یعنی جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا.(سنن ترمذى كتاب البر والصلة باب ما جاء فى الشكر لمن احسن اليك حديث نمبر (1954) پس اس لحاظ سے سب سے پہلے تو میں اس علاقے کے لوگوں اور لوکل کونسل کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ان حالات کے باوجود اور ان خبروں کے باوجود جو اُن کو ہمارے بارے میں غلط رنگ میں پہنچائی گئی تھیں اور جس کی وجہ سے وہاں کے رہنے والے لوگ بڑے پریشان تھے کہ احمدی آرہے ہیں تو پتہ نہیں کس قسم کا گند یہاں ہو جائے گا.اور اسلام کے خلاف جو غلط پروپیگنڈا کرنے کی وجہ سے عام طور پر عوام کے ذہنوں میں ان مغربی ممالک میں یہ تصور قائم ہے کہ مسلمان کا مطلب ہی دہشت گردی ہے یہ لوگ بہت زیادہ خوفزدہ تھے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کی حالت بدلی اور کچھ رابطوں اور تعلقات اور میٹنگز ، اور جیسا کہ میں نے جلسہ سے پہلے بھی بتایا، تھا چیریٹی واک وغیرہ کی وجہ سے ان کے شبہات دور ہوئے اور پھر انہوں نے بلاوجہ بختی اور ضد نہیں دکھائی اور اس علاقے کی تقریباً تمام آبادی اگر ہمارے حق میں نہیں ہوئی تو کم از کم مخالفت چھوڑ دی اور یہ دیکھنے پر آمادہ ہو گئے کہ دیکھیں یہ لوگ کس طرح اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو بھی جلسہ کے ماحول میں آئے یا اس سڑک سے بھی گزرے جو ہمارے جلسہ گاہ کے سامنے سے گزرتی ہے تو اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ہم جس بات سے ڈرتے تھے اور کونسل کی جلسہ منعقد کرنے کی اجازت کے بعد بھی ہمیں بعض لوگوں نے آپ لوگوں کے بارے میں جن باتوں سے ڈرایا ہوا تھا آپ لوگ تو اس سے بالکل مختلف نکلے.پس یہ لوگ حقیقت پسند بھی ہیں اچھی بات کی تعریف بھی کر دیتے ہیں.انہوں نے کھل کر تعریف بھی کی اس لئے ہم بھی شکر گزاری کے جذبات کی وجہ سے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس جگہ میں جلسہ منعقد کرنے میں نہ صرف روک بننے سے پر ہیز کیا بلکہ جب حقیقت کھل گئی تو تعریف بھی کی.اس لئے ایک تو ہماری انتظامیہ کو چاہئے کہ کونسل کو اور لوگوں کے نمائندوں کو بھی اس تعاون پر تحریراً شکر یہ ادا کریں، خط لکھیں ویسے تو مجھے امید ہے کہ لکھ دیا ہوگا اگر نہیں تو اب لکھ دیں گے.پھر جیسا کہ میں نے جلسے پر بھی ذکر کیا تھا یہ زمین ہم نے جس مالک سے لی ہے اس کے سابقہ مالک نے بھی ہمارے ساتھ خوب تعاون کیا اور نہ صرف انہوں نے بلکہ ان کے پورے خاندان نے ، مثلاً جو بجری والی سڑک کے کچھ تھوڑے سے حصہ پر بجری ڈال کر سڑک پکی کی گئی تھی اس کو بنانے اور اس پر رولر وغیرہ
خطبات مسرور جلد چهارم 385 خطبہ جمعہ 04 / اگست 2006 پھیرنے کے لئے کافی ہیوی رولر مشینری تھی تا کہ اچھی طرح بجری دبا کر مضبوط سڑک ہو جائے ).اس میں ان کی 19 سالہ ایک بیٹی نے بڑا کام کیا اور کئی کئی گھنٹے وہ یہ بھاری مشینری چلاتی رہی.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.بلکہ میں تو اس کو کہہ رہا تھا کہ یہ کام ایسا ہے جو بڑا مشکل اور سخت کام تھا کہ شاید بعض مرد بھی نہ کر سکیں.غرض کہ یہ سارا خاندان بیوی بچے اور سابق مالک کیتھ ، ان کے بوڑھے والد جن کی شاید 70 سال سے زائد عمر ہے اس طرح ایک جذبے سے اور ہم میں گھل مل کر کام کر رہے تھے جیسے کوئی پرانے احمدی بڑے اخلاص سے بھرے ہوئے کام کرتے ہیں.تو جہاں تک دوستی نبھانے کا تعلق ہے اور اخلاق کا تعلق ہے، اچھے اخلاق دکھانے کا تعلق ہے اس میں واقعی ان کا عمل متاثر کن تھا.اللہ تعالیٰ ان کی دین کی آنکھ بھی روشن کرے اور سچائی کو پہچان کر وہ اپنے اخلاص میں بھی بڑھ جائیں.دینی اخلاص میں بھی بڑھ جائیں.تو یہ دعا بھی ان لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ یہ بھی شکر گزاری کے جذبات کا ایک عمدہ اور اعلیٰ اظہار ہے.پھر مسٹر کیتھ نے علاقے کے لوگوں اور کونسل کو ہمارا جلسہ منعقد کرنے کی اجازت اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے.ایک ایک ہمسائے کے پاس گئے ، ان کو بتایا کہ جومختصر عرصے میں میں نے ان لوگوں کو سمجھا ہے یہ وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو.یہ لوگ تو کچھ اور ہی چیز ہیں.تو ان لوگوں اور اس فیملی کے ہم بہر حال شکر گزار ہیں ورنہ ان کو کیا پڑی تھی ، زمین بیچ کر ایک طرف بیٹھ جاتے کہ تم جانو اور تمہارا کام جانے ہم نے تمہاری وکالت کرنے اور راہ ہموار کرنے کی کوئی ذمہ داری تو نہیں لی ہوئی ، زمین بیچنی تھی بیچ دی.تو یہ ان کا بہت بڑا خلق ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.اور اللہ کے فضل سے ایسا پُر امن ماحول رہا کہ پولیس جو ٹریفک کیلئے آئی ہوئی تھی وہ بھی دیکھ کر حیران تھی کہ کس طرح ٹریفک کنٹرول ہو رہا ہے.بلکہ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ تمہارے خدام تو اس طرح ٹریفک کنٹرول کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے پولیس کی ٹریننگ لی ہوتی ہے.چند گھنٹے کے بعد وہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے تھے.بہر حال ہر جگہ سے انکو اچھا تاثر ملا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کامیاب ہوا.پھر ہمارے والٹنظیر ز ( volunteers) شکریہ کے مستحق ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ دنیائے احمدیت میں جہاں بھی چلے جائیں یہ کام کرنے والے کارکن میسر آ جاتے ہیں جو لگا تارکی کئی گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں اور یہی حال یہاں اس جلسہ میں بھی ہم نے دیکھا.اگر تھکتے بھی ہیں تو اظہار نہیں کرتے.اکثر کی ڈیوٹیاں ان کے پیشوں اور بعض کی ان کے مزاج سے بھی مختلف ہوتی ہیں.لیکن مجال ہے جو ماتھے پر بل آئے.بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں.ان میں بچے بھی ہیں، جوان بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں ، عورتیں بھی ہیں، بچیاں بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر مجھے ان کارکنان کے اچھے کام کی تعریف ہی لوگوں نے لکھی ہے، جو شامل بھی ہوئے تھے اور جو کام کرنے والے بھی تھے.بعض سر پھروں کی وجہ سے اگا دُگا واقعات ہو جاتے ہیں، جہاں اپنے مزاج کی وجہ سے بعض کارکن ماحول کو خراب کر دیتے ہیں اور
386 خطبه جمعه 04/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم باوجود سمجھانے کے اپنے اختیارات سے تجاوز کر جاتے ہیں، تو انتظامیہ کو چاہئے کہ ایسے کارکن یا کارکنات جو ہیں ان کی ڈیوٹی ایسی جگہوں پر نہ لگائیں جو پبلک ڈیلنگ (Public dealing) کی جگہ ہو.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا عمومی طور پر ڈیوٹیوں کے معیار لڑکیوں کے ، لڑکوں کے، عورتوں مردوں کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے رہے اور یقیناً وہ سب شکریہ کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے، ان کے اخلاص و وفا کو بڑھائے ، ان میں یہ روح مزید بڑھاتا چلا جائے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی یہ ڈیوٹیاں ہمیشہ سر انجام دینی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دیگر احکامات پر بھی عمل کرتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہنا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جو خطوط اور ٹیکسیں مجھے آئی ہیں، تمام دنیا نے ان سب کام کرنے والوں کو بڑی دعائیں دی ہیں.اس نئی جگہ پر جو پہلے جلسے کا انعقاد ہوا ہے، بہت سی سہولیات میسر نہیں تھیں.فوری طور پر تھوڑے وقت میں کام شروع کیا گیا اور شروع میں کام کرنے والی ٹیموں نے بڑی محنت سے اس جگہ کو اس قابل بنایا جس میں پانی کی سپلائی اور سیوریج وغیرہ کے پائپ ڈالنے کا کام تھا اور ایک کافی بڑی جگہ پر وسیع رقبے پر اب تقریباً مستقل یہ سہولت مہیا ہوگئی ہے جو آئندہ بھی انشاء اللہ کام آتی رہے گی.ان سب کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جزا دے جنہوں نے یہ کام کیا.یہ سب کارکنان جیسا کہ میں نے کہا سب دنیا کے احمدیوں کی دعائیں لے رہے ہیں.پھر تمام دنیا کے احمدیوں کو جلسہ میں براہ راست شامل کرنے میں جو کر دار ایم ٹی اے کے کارکنان ادا کرتے ہیں وہ سب پر ظاہر ہے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے اپنے والنٹیئر بھی اس قابل ہو گئے ہیں کہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ تمام نظارے دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور سوائے اس کے جو براہ راست شامل ہونے کی برکت ہے اور ایسے جذبات ابھرتے ہیں جو ٹیلیویژن پر دیکھ کر شاید نہ ابھرتے ہوں، اس کے علاوہ جہاں تک انسانی کوششوں کے اندر رہتے ہوئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جلسے کے ماحول کو دکھانے اور اس میں جذب کرنے کا سوال ہے، میرے خیال میں شاید 19 ،20 کی کوئی کمی رہتی ہو تو رہتی ہو ورنہ دنیا کا ہر احمدی گھر جلسہ گاہ کی تصویر بنا ہوتا ہے.بعض لوگ تو اپنے خاندان کو اکٹھا کر لیتے ہیں اور جلسے کا سماں ان کے گھروں میں بندھا ہوتا ہے.اور بعض لوگ ان دنوں میں یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ کھانا بھی وہی پکائیں جو ہمارے جلسہ کے دنوں میں لنگر خانہ میں پک رہا ہوتا ہے.بہر حال ان ایم ٹی اے کے کارکنوں کے تمام دنیا کے احمدی شکر گزار ہیں.سامنے سکرین پر آنے والے کارکنوں کے علاوہ بے شمار کارکنات، بچیاں، عورتیں اور دوسرے رضا کار ہیں جو بڑے اخلاص و وفا سے یہ کام کر رہے ہوتے ہیں.آپ سب دیکھنے والے ان کے لئے دعا تو کر رہے ہیں اور کرتے ہوں گے، ان کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا اور طاقتوں اور صلاحیتوں کو ہمیشہ
387 خطبہ جمعہ 04/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم بڑھاتا چلا جائے اور ان سب لوگوں کے لئے شکریہ کے جذبات کے ساتھ ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ ہم بھی حقیقی شکر گزار اس ذات کے بنیں جو اپنے مسیح و مہدی سے کئے گئے وعدوں کے مطابق خود وہ حالات پیدا کر رہا ہے جن میں اگر ہم غور کریں تو پتہ چلے گا کہ کسی انسانی کوشش کا عمل دخل نہیں.ایسے حالات جس سے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہر لحہ نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے بلکہ اعلان فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تم پر ہمیشہ پڑتی رہے بلکہ پہلے سے بڑھ کر پڑے تو ہمیشہ اس کے لئے یہ نسخہ یا درکھو کہ میرے شکر گزار بنو.جیسا کہ وہ فرماتا ہے ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ (ابراهیم :) یعنی اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ اگر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور بڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں توفیق دیتا چلا جائے کہ ہم اس کے شکر گزار بنیں اور اس کی نعمتوں سے حصہ پاتے چلے جائیں اور شکر صرف منہ زبانی کا شکر نہیں ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کر کے جو ہمارے شکر کی عملی تصویر ہے وہ سامنے آئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ ہمیں اس مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے کہ شکر گزار بنو، کہیں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو معاف کرتا ہے اس بات کو تمہیں شکر گزاری میں بڑھانا چاہئے ، کہیں اپنے فضلوں کی طرف توجہ دلا کر شکر گزار بننے کی طرف توجہ دلائی کہیں تنگیوں کو دور کرنے کی وجہ سے شکر گزاری کی طرف توجہ دلاتا ہے، کہیں فرماتا ہے کہ میں نے تم پر جو تعلیم اتاری ہے اس کی وجہ سے بھی تم شکر گزاری میں بڑھو، کہیں فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں طوفانوں اور تکلیفوں سے آزاد کیا ہے اس پر شکر گزار بندے بنو، میرے انعاموں کی اگر صحیح قدر ہے تو شکر گزار بنو.غرض کہ مختلف حالات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میرے صحیح عبد بنا چاہتے ہو تو شکر گزار ہوتا کہ مزید فضل بڑھاؤں.اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کیا ہے؟ کہ اس کے عبادت گزار بندے بنیں، اس کے حکموں پر عمل کریں.جیسا کہ فرماتا ہے بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَ كُنْ مِنَ الشَّكِرِين ﴾ (الزمر:67) یعنی بلکہ اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا.پس شکر گزاری کی جو معراج ہے، یہی ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس عبادت کے طریقے ہمیں اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ تعلیم اتاری ہے.آپ کا عمل کیا تھا؟ یہ کہ ساری ساری رات اس مچھلی کی طرح تڑپتے رہتے تھے جو پانی سے باہر ہو.اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے ہیں، اس کی بخشش طلب کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف کر رہے ہیں ، جب پوچھا جاتا ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہو چکے ہیں.پھر آپ کیوں اتنا تڑپتے ہیں، تو جواب ملتا ہے کہ میں اس انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:.
388 خطبہ جمعہ 04 / اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم حمق حقیقت سے نا آشنا استغفار کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جس قدر یہ لفظ پیارا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونی پاکیزگی پر دلیل ہے ، وہ ہمارے وہم و گمان سے بھی پرے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عاشق رضا ہیں اور اس میں بڑی بلند پروازی کے ساتھ ترقیات کر رہے ہیں.جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کرتے ہیں اور اظہار شکر سے قاصر پا کر تدارک کرتے ہیں.یہ کیفیت ہم کس طرح ان عقل کے اندھوں اور مجزوم القلب لوگوں کو سمجھا ئیں ، ان پر وارد ہو تو وہ سمجھیں.جب ایسی حالت ہوتی ہے احسانات الہیہ کی کثرت آکر اپنا غلبہ کرتی ہے تو روح محبت سے پر ہو جاتی ہے اور وہ اچھل اچھل کر استغفار کے ذریعہ اپنے قصور شکر کا تدارک کرتی ہے.یہ لوگ خشک منطق کی طرح اتنا ہی نہیں چاہتے کہ وہ قومی جن سے کوئی کمزوری یا غفلت صادر ہو سکتی ہے وہ ظاہر نہ ہوں.نہیں وہ ان قومی پر تو فتح حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں.وہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کر کے استغفار کرتے ہیں کہ شکر نہیں کر سکتے.یہ ایک لطیف اور اعلیٰ مقام ہے جس کی حقیقت سے دوسرے لوگ نا آشنا ہیں ، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حیوانات، گدھے وغیرہ انسانیت کی حقیقت سے بے خبر اور نا واقف ہیں.یعنی وہ لوگ جن کو اس مقام کا نہیں پتہ.اسی طرح پر انبیاء ورسل کے تعلقات اور ان کے مقام کی حقیقت سے دوسرے لوگ کیا اطلاع رکھ سکتے ہیں.یہ بڑے ہی لطیف ہوتے ہیں اور جس جس قدر محبت ذاتی بڑھتی جاتی ہے اسی قدر یہ اور بھی لطیف ہوتے جاتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 633،632، جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے کہ اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي لَكَ شَاكِرًا لكَ ذَاكِرًا یعنی اے میرے اللہ تو مجھے اپنے شکریہ بجالانے والا اور بکثرت ذکر کرنے والا بنا.(سنن ابی داؤد كتاب الصلوة باب ما يقول الرجل اذا سلم حدیث نمبر (1510) پھر آپ کے بارے میں ایک اور روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشی پہنچتی تو آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے.(سنن ابی داؤد کتاب الجهاد باب في سجود الشكر حديث نمبر 2774) | پھر ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ دعا میں بہت ہی کوشش سے کام لو تو تم یہ کہو کہ اے اللہ اپنے شکر اور اپنے ذکر اور اپنے اچھے طریق سے عبادت کرنے میں ہماری مدد فرما - اللَّهُمَّ أَعِنَّا عَلَى شُكْركَ وَذِكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (مسند احمد بن حبنل مسندابی هریرة جلد نمبر 3 حدیث نمبر 7969 صفحه 184) | ایک دوسری روایت میں حضرت معاذ بن جبل سے یہ روایت ہے کہ ان سے بہت محبت کا اظہار کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے آخر میں ان
389 خطبه جمعه 04 / اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم کلمات کو ادا کر نا کبھی ترک نہ کرنا یعنی اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَ شُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 حدیث معاذ بن جبل حدیث نمبر 22470 صفحه 380 ایک روایت میں مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں، یہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے تمام معاملے خیر پر مشتمل ہیں اور یہ مقام صرف مومن کو حاصل ہے کہ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر شکر بجالاتا ہے، (الحمدللہ پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے.تو یہ امر اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ صبر کرتا ہے تو یہ امر بھی اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے.(صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق باب المومن امره کله خیر حدیث نمبر 7394).پس جلسے میں شامل ہونے والے اور کام کرنے والے دونوں اس بات کو یا درکھیں کہ جہاں وہ یہ دعا کر کے اور صبر کر کے اللہ تعالی سے خیر حاصل کر رہے ہوں گے، کوئی خوشی پہنچے تو الحمدللہ پڑھتے ہیں، تکلیف پہنچے تو صبر کرتے ہیں ، آپس میں چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھنا چاہئے اور اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے آپس کے تعلقات میں بھی مضبوط بندھن قائم کر رہے ہوتے ہیں.تو اس جلسے میں بھی اگر کوئی جیسا کہ میں نے کہا کہ واقعات ہو گئے ہیں تو اسی طرح عمل کرنا چاہئے، یہی رد عمل ظاہر ہونا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو تو فیق دے اور ہر ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پر حکمت باتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے ہوئے ہمیشہ ان پر عمل کرنے والا ہوتا کہ یہ باتیں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں اور اس کا شکر گزار بندہ بنانے والی ہوں.جو آیات میں نے تلاوت کی تھیں ان کا ترجمہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَاذْكُرُوْنِيْ اَذْكُرْتُ وَاشْكُرُوْالِيْ وَلَا تَكْفُرُونِ ﴾ (البقرة : 153) که پس میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یا درکھوں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو.پس جب اللہ تعالیٰ اس قدر فضل کرنے والا ہے تو جہاں ہم اس بات کا ہمیشہ شکر کریں کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہیں اور اس میں شامل ہو کر ان برکات میں شامل ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری ہیں، اس تعلیم سے حصہ لے رہے ہیں اور لینے کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ پر نازل ہوئیں، وہ پر حکمت اور پر معارف باتیں سیکھ رہے ہیں جس سے عرفان الہی حاصل ہو ، وہاں ہم اس بات پر بھی شکر گزار ہیں کہ ہمیں اس زمانے میں اس بات کی بھی توفیق دی کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جس نے در حقیقت ان پر حکمت باتوں کو ہم پر واضح کیا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے طریقے سکھائے.دنیا کو یہ باتیں اب صرف اور صرف آخرین کے اس امام کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان حکمت اور عرفان کی باتوں کو سیکھنے کے لئے ہی جلسے کا آغاز
390 خطبہ جمعہ 04/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم فرمایا تھا.پس ان جلسوں کو بھی ہم میں شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بننا چاہئے کیونکہ اس ماحول نے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بننے کا صحیح فہم اور ادراک عطا کیا.ہمیں ان مقررین کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے اس طرف ہماری راہنمائی کی.ان کے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عرفان کو مزید بڑھائے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے ان تمام احکامات پر عمل کرنے والے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں دیئے.اور جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں گے تو وہ سچے وعدوں والا خدا فرماتا ہے کہ میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا اور تمہیں انعامات سے نوازتا رہوں گا اور جن نعمتوں کو ہم آج بہت سمجھ رہے ہیں ، اس سے بھی زیادہ نعمتیں عطا کروں گا.پس ان نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے شکر گزاری میں بڑھتے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر شکر گزاری کے جذبات پیدا نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے حضور جھکے رہنے سے ہی حاصل ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے اس کے حضور جھکتے ہوئے یہ دعائیں مانگنے کی طرف ہر احمدی کو توجہ کرنی چاہئے کہ اے اللہ مجھے تقویٰ اور پر ہیز گاری میں بڑھاتا کہ میں تیرا حقیقی عبادت گزار بن جاؤں اور ہمیشہ تیرے فضلوں اور انعاموں کا وارث ٹھہروں.اے اللہ ! مجھے ہمیشہ قناعت سے رہنے اور ہر حال میں اپنی نعمتوں اور فضلوں کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھنے کی توفیق عطا فرما تا کہ میں تیرا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ بن جاؤں.اے اللہ ! میرے دل میں دوسروں کے لئے وہی جذبات پیدا کر جن کی میں اپنے لئے دوسروں سے توقع رکھتا ہوں تا کہ حقیقت میں ان لوگوں میں شمار کیا جاؤں جو تیرے مومن بندے ہیں.اے اللہ مجھے ہمیشہ اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کی توفیق عطا فرما تا کہ اس عمل سے تیری رضا کو حاصل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بن سکوں.اے اللہ ! میرے دل و دماغ میں حکمت اور دانائی کی باتیں پیدا کر ، مجھے اپنا عرفان عطا فرما، میرے دل کو مردہ ہونے سے بچا اور پھر مجھے اس بات کی بھی توفیق عطا فرما کہ یہ باتیں مجھے تیرا شکر گزار بندہ بننے میں اور زیادہ بڑھانے والی ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات مسرور جلد چهارم 391 (32) خطبه جمعه 11/اگست 2006 اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا ایمان افروز تذکرہ زمانے کے امام کے ساتھ چمٹنے سے اللہ تعالیٰ ان ماننے والوں کو بھی ہر ایک کے اپنے تعلق کے معیار کے مطابق جو اس کا خدا تعالیٰ سے ہے، اپنی صفات کے جلوے دکھاتا ہے فرمودہ مورخہ 11 اگست 2006ء (11 رظہور 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیات قرآنی کی تلاوت فرمائی: هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ ) (المؤمن : 66) أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ءَ إِلَهُ مَّعَ اللَّهِ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (النمل :63) اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مجیب ہے جس کے معنے ہیں دعا کو سننے والا یا ایسی ہستی جس سے جب سوال کیا جائے اور دعا مانگی جائے تو عطا کرتا ہے، نوازتا ہے ، قبول کرتا ہے.پس یہ اسلام کا خدا ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور زندگی بخش ہے، جو مضطر کی دعاؤں کو سن کر اپنے وجود کا ثبوت دیتا ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں جس نے ہمیں اس خدا کی پہچان کروائی.جو ہمیں مایوسیوں کی گہری کھائیوں سے نکال کر امیدوں کی روشنی عطا فرماتا ہے اور پھر صفت مجیب کا مزید فہم وادراک عطا کرتے ہوئے اپنے انعامات اور فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے وہ راستے دکھاتا ہے جو اس کے قرب کو حاصل کرنے والے اور اس کی بلندیوں پر لے جانے والے ہیں.پھر ہماری یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کی جماعت میں شامل ہیں جس نے آپ
392 خطبه جمعه 11/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے طفیل ان راستوں کو دوبارہ صاف کر کے ، ان راہوں پر ہمیں ڈالا جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا صحیح فہم و ادراک حاصل کرنے والے بنیں اور اس طرف ہمیں توجہ پیدا ہو.اس نے ہمیں بتایا کہ اسلام کا خداوہ خدا ہے جو سنتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے.دعا مانگو تو جواب بھی دیتا ہے.آپ نے دنیا کو یہ چیلنج دیا کہ آؤ اس زندہ خدا کی پہچان مجھ سے حاصل کرو کیونکہ اس زمانہ میں اس کی پہچان کروانے والا اور اس کو دکھانے والا میں ہوں.آپ فرماتے ہیں:.ہمارا زندہ حی و قیوم خدا ہم سے انسان کی طرح باتیں کرتا ہے ہم ایک بات پوچھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں تو قدرت کے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ جواب دیتا ہے، دعا ئیں قبول کرتا ہے اور قبول کرنے کی اطلاع دیتا ہے.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 448) پس اس زمانے میں ہمیں زمانے کے امام کے ساتھ جڑ کر دعاؤں کی قبولیت کا بھی فہم و ادراک حاصل ہوا.اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھنے کا بھی فہم حاصل ہوا.اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کا بھی ادراک حاصل ہوا کیونکہ زمانے کے امام کے ساتھ چمٹنے سے اللہ تعالیٰ ان ماننے والوں کو بھی ہر ایک کے اپنے تعلق کے معیار کے مطابق جو اس کا خدا تعالیٰ سے ہے، اپنی صفات کے جلوے دکھاتا ہے.پس قرآن کریم کا یہ دعوئی صرف دعوی نہیں کہ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اسے پکارو، کامل تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے بلکہ عملاً اس کے نمونے بھی دکھاتا ہے.پس اس اعلان سے اگر فائدہ اٹھانا ہے تو اس شرط پر عمل کرنا ہوگا کہ صرف اور صرف وہی معبود ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لئے باقی سب کچھ چھوڑ نا ہوگا.اور جب دنیا کے تمام ذرائع خدا کے مقابلے پر پیچ سمجھ کر چھوڑیں گے اور خالصہ اسی کے ہو کر اس کو پکاریں گے پھر وہ ان پکارنے والوں کی پکار سنے گا، نوازے گا اور قبول کرے گا.ہمیشہ ہمارے ذہن میں دعا کرتے ہوئے یہ بات ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی ہمارا رب ہے.جب اس نے بغیر مانگے ہمارے لئے اتنے انتظامات کئے ہوئے ہیں تو جب ہم خالص ہو کر اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت کریں گے ، اس کے احکامات پر عمل کریں گے تو کس قدر وہ پیارا خدا جو اپنے بندوں سے بے انتہا پیار کرتا ہے، ہماری طرف توجہ کرتے ہوئے اپنے انعاموں اور فضلوں سے ہمیں نوازے گا.اللہ تعالیٰ نے تو خود کہہ دیا ہے کہ میں دعائیں سنتا ہوں، مجھے پکاروتا کہ میں تمہاری سنوں تو پھر کس قدر بد قسمتی ہے کہ ہم ضرورت کے وقت دوسری چیزوں پر.زیادہ انحصار کریں، دوسروں پر زیادہ انحصار کریں اور اپنے پیارے رب کو پکارنے کی طرف کم توجہ ہو.دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا کو قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.
393 خطبه جمعه 11 / اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کی سب سے بڑی دلیل یہ دی ہے کہ اس کی طاقتیں لامحدود ہیں صرف اور صرف وہی ذات ہے جو بے قرار کی دعا کو سنتا ہے.لیکن پھر بھی اکثر لوگ اس بات کو بھول کر اس طرف جھکتے ہیں ، اُن کو خدا سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو خدا کی مخلوق ہیں.پس یہ اعلان ہی اصل میں اسلام کی بنیاد ہے کہ مجھے پکارو ، میں سنوں گا.اور ایمان میں مضبوطی سبھی پیدا ہوتی ہے جب ایک سچا مسلمان اس بات کا خود تجربہ کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے شرائط رکھی ہیں.اس نے بھی بندوں کو کچھ راستے دکھائے ہیں کہ ان پر چل کر میرے پاس آؤ.تو ان راستوں کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے.تبھی وہ ہمیں زمین کے وارث بنائے گا.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس زمانے میں ان راستوں کی واضح پہچان ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کروائی ہے.پس اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل کرنا بھی ہمارا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اور جس کی وضاحت اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے.اپنے قرب کی پہچان اور اپنے بندوں کی پکار کو سننے کا اعلان اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں فرمایا ہے کہ ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ لیکن فرمایا کہ تم بھی اس بات پر عمل کرو کہ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ رْشُدُونَ﴾ (البقرة:187).یعنی چاہئے کہ وہ بھی میری عبادت کریں.اللہ کے بندے بھی میری عبادت کریں، میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے ایسا ایمان ضروری شرط ہے جو تمام دنیاوی ذریعوں کو پیچھے پھینک دے اور اللہ تعالیٰ پر مضبوط ایمان ہو، اس کے احکامات پر مکمل عمل ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:.پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسا بناویں کہ میں ان سے ہم کلام ہوسکوں.اور مجھ پر کامل ایمان لاویں تا ان کو میری راہ ملے.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 159) اور جب یہ کامل ایمان پیدا ہو جائے تو پھر اس بندے کے لئے جو بہترین ہو ( کیونکہ بندہ غیب کا علم نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ جو بہترین سمجھتا ہے ) اس کے مطابق اسے نوازتا ہے.ضروری نہیں ہوتا کہ ہر دعا اسی رنگ میں پوری ہو جائے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ بندے کے لئے کیا بہتر ہے.بہر حال جب انسان دعا کرتا ہے اور خالص ہو کر کرتا ہے تو اللہ تعالی سنتا ہے.اور یہی دعا ہی ہے جس سے پھر خدا تعالیٰ کی پہچان ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے.دنیا میں جس قدر قو میں ہیں، کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو.کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعا کروں تو یہ
394 خطبه جمعه 11/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم مجھے جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے، جو قرآن نے پیش کیا ہے ، جس نے کہا اُدْعُوْنِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾ (المؤمن : 61) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا.اور یہ بالکل سچی بات ہے.کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو.وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا ر ہے آخر اس کی دعاؤں کا جواب اسے ضرور دیا جاوے گا.قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لئے جو گوسالہ پرستی کرتے ہیں اور گوسالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے.الَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا ﴾ (ط : 90) کہ وہ ان کی بات کا کوئی جواب ان کو نہیں دیتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه 147-148 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا سکھائی ہے اور نہ صرف اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے بلکہ اپنی نسلوں کے ایمان کے لئے بھی تا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے آگے جھکے رہنے اور اس سے مانگنے کا یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل چلتا ر ہے.اور اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم دعا ئیں بھی کرتے ہیں.نماز میں التحیات میں بیٹھے ہوئے ، درود شریف کے بعد، اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ہے کہ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ (ابراهیم : 41 ).کہ اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی.اے ہمارے رب اور میری دعا قبول کر.پس جب ایک درد کے ساتھ ہم یہ دعا ہمیشہ مانگتے ہیں گے.نہ کہ صرف ان دعاؤں کی طرف توجہ رہے گی جو کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے ہی اللہ کے حضور مضطر بن کر مانگی جاتی ہیں.تو یہ بات ہمارے ایمان میں اضافے کا باعث بنے گی.اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والا بنائے گی.اور وہ مجیب خدا اس وقت اس دعا کی وجہ سے جو خالصہ اس کی رضا کے حصول کے لئے کی جارہی ہوگی ، دوسری دعاؤں کو بھی قبول فرمائے گا.اللہ تعالیٰ اس دعا کا صحیح فہم و ادراک ہمیں عطا فر مائے اور آخرین کے امام کو مان کر ایمان میں ترقی کی جو ایک روح ہم میں دوبارہ پیدا ہوئی ہے وہ بڑھتی چلی جائے.اور وہ مجیب خدا ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے ہمیشہ اس جماعت کو نماز قائم کرنے والوں کی جماعت بنائے رکھے.پھر اس بات کے ساتھ کہ مضبوط ایمان ہو، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے سے دعائیں مانگو اور خالص ہو کر مانگو.اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ مختلف دعائیں مانگنے کے طریقے کیا ہیں؟ فرمایا کہ وہ طریقے یہ ہیں کہ جو میری مختلف صفات ہیں ان کے حوالے سے اپنی مختلف قسم کی جو ضروریات ہیں ان کے لئے دعا مانگو.یہ بات بندے اور خدا کے تعلق کو مزید قرب دلانے والی ہوگی ، قریب کرنے والی ہوگی، ایمان میں بڑھانے والی ہوگی اور قبولیت دعا کا ذریعہ بنے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا
خطبات مسرور جلد چہارم 395 خطبه جمعه 11/اگست 2006 ہے.وَلِلَّهِ الْاسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف : 181 ) اور اللہ ہی کے سب خوبصورت نام ہیں پس ان ناموں سے اسے پکارا کرو.اس مجیب خدا نے مختلف جگہوں پر دعا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس کے سلیقے اور طریقے بھی سکھائے ہیں جن پر ہم میں سے ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے کیونکہ اس میں ہماری بقا ہے.اللہ تعالیٰ کس طرح ہمیں نواز نا چاہتا ہے.یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہوگی کہ وہ تو ہمیں نو از نا چاہتا ہے لیکن ہم اس مجیب خدا کو نہ پکار میں بلکہ دوسروں کی طرف ہماری توجہ ہو اور پھر نہ پکار کر اس کے انعاموں سے محروم رہیں.خدا تعالیٰ تو اپنی مخلوق سے پیار کی وجہ سے ہمیں یہ راستے دکھاتا ہے.ورنہ اس کو ہماری پکار اور ہماری دعاؤں کی ضرورت تو نہیں ہے.بندہ ہے جس کو خدا سے تعلق کی ، اس کی مدد کی ضرورت ہے، اس کو پکارنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ﴾ (الفرقان : 78) تُو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا.پس اللہ کو بھی ان لوگوں کی پرواہ ہے جو دعا کرنے والے ہیں.پس اگر اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے تو ہر چیز کے حصول کے لئے اسی خدا کو پکارنے کی ضرورت ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اگر تمہیں جوتی کا ایک تسمہ بھی چاہئے تو اس خدا سے مانگو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی انہیں الفاظ میں الہام ہوا تھا اور نظارہ دکھایا گیا تھا کہ بھیڑوں کی ایک لائن ہے جو زمین پر لیٹی ہوئی ہیں اور ایک شخص ان پر چھری پھیرتا چلا جاتا ہے اور ساتھ یہ کہتا ہے کہ تم تو بے حیثیت بھیڑیں ہی ہو، تمہاری حیثیت تو کوئی نہیں.پس یہ الہام بھی ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ مانگتے رہنے والے ہوں اور اس امام سے جڑے رہتے ہوئے ، اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اس مجیب خدا کو پکارنے والے بہنیں اور اس پر کامل ایمان لا کر اس کے حکموں پر عمل کریں اور ان لوگوں میں سے نہ بنیں جو مشکل کے وقت تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اور آسانی اور آسائش میں بھول جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم لوگ سمندر میں ، پانی میں پھنسے ہوتے ہوتو پکارتے ہو، آہ وزاری کرتے ہو.جب وہ تمہیں خشکی میں لے آتا ہے تو پھر تم بھول جاتے ہو کہ خدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.یا درکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم ہے.اس میں کبھی سستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو.پھر دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبر دست ثبوت ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ (البقرة : 187 ) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے؟ تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اُسے جواب دیتا ہوں.یہ جو اب کبھی رویا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے.اور علاوہ بریں دعاؤں کے
خطبات مسرور جلد چهارم 396 خطبه جمعه 11/اگست 2006 ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو 66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 207 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 232 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حل کر دیتا ہے.“ پھر آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعا ئیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو.جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے بر باد نہیں کیا کرتا.لیکن جو سستی میں زندگی بسر کرتا ہے اسے آخر فرشتے بیدار کرتے ہیں.اگر تم ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یا درکھو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بہت پکا ہے، وہ کبھی تم سے ایسا سلوک نہ کرے گا جیسا کہ فاسق فاجر سے کرتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہئے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے.جو لوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے.میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں، خیالی بات نہیں.جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو اللہ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اسے آسان کر دیتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبر دست اثر والی چیز ہے.بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے.دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دور ہوتی ہیں.دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے.اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی.سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے.اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ایمان ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے.اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خدا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 205 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:.دعا ایک زبر دست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے.کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کو جذب کرنے والی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتی ہے.جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے.ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے.یعنی کوشش کرنا ضروری ہے.عمل بھی کرنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے، اسباب سے کام لے.اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ
خطبات مسرور جلد چهارم 397 خطبه جمعه 11/اگست 2006 آداب الدعا سے نا واقعی ہے اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے.اور نرے اسباب پر گر رہنا‘ صرف دنیاوی کوششیں کرتے رہنا اور دعا کو لاشی محض سمجھنا یہ دہریت ہے.یعنی خدا تعالیٰ کا انکار ہے ، مذہب سے دوری ہے.یقینا سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے.جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی.وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں.لیکن جو دعاؤں سے لا پروا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے.وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے.ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی.اس لئے یا درکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے.یہی دعا اس کے لئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے.‘“ 66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 148-149 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ہم خوش قسمت ہیں، جیسے کہ میں نے کہا، کہ زمانے کے امام نے دعا کی فلاسفی کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا اور واضح فرمایا.اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا صحیح فہم وادراک عطا فر مایا.پس آج ہم نے نہ صرف اپنی بقا کے لئے ، اپنی ذات کی بقا کے لئے ، اپنے خاندان کی بقا کے لئے ، جماعت احمدیہ کی ترقیات کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ امت مسلمہ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پوری انسانیت کی بقا کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ کرنی ہے جس کی آج بہت ضرورت ہے.پس ہر احمدی کو ان دنوں میں ( ان دنوں سے میری مراد ہے ہمیشہ ہی ) اور آج کل خاص طور پر جب حالات بڑے بگڑ رہے ہیں، بہت زیادہ اپنے رب کے حضور جھک کر دعائیں کرنی چاہئیں.مضطر کی طرح اسے پکاریں.بے قرار ہو کر اسے پکاریں.آج امت مسلمہ جس دور سے گزر رہی ہے اور مسلمان ممالک جن پر یشانیوں میں مبتلا ہیں اس کا حل سوائے دعا کے اور کچھ نہیں.اور دعا کے اس محفوظ قلعے میں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا آج احمدی کے سوا اور کوئی نہیں.پس امت مسلمہ کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اندرونی اور بیرونی فتنوں سے نجات دے.ان کو اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق دے جو آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم امت کو دیا تھا.یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالی اس دنیا سے ظلم ختم کرے.انسان اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع کرے.اسے پہچان کر اپنی ضدوں اور اناؤں کے جال سے باہر نکلے.خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کو آواز نہ دے بلکہ اس کی طرف جھکے.اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے والا ہو، اس بات کو سمجھنے والا ہو کہ میری طرف آؤ، خالص ہو کر مجھے پکارو تا کہ میں تمہاری دعاؤں کو سن کر اس دنیا کو جس کو تم سب کچھ سمجھتے ہو ، جو کہ حقیقت میں عارضی اور چند روزہ ہے، تمہارے لئے امن کا گہوارہ بنادوں تا کہ پھر نیک اعمال کی وجہ سے تم لوگ میری دائمی جنت کے وارث بنو.
398 خطبات مسرور جلد چهارم خطبه جمعه 11 /اگست 2006 جیسا کہ میں نے کہا ہم احمدی تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور درد دل کے ساتھ ظالم اور مظلوم دونوں کے لئے دعا کر سکتے ہیں اور اپنے خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ اس امت پر رحم فرما اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کے صدقے رحم فرماتے ہوئے ان لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا فرما، ان کو دوست اور دشمن کی پہچان کی توفیق عطا فرما، ان کو اس زمانے کے امام کو پہچاننے کی توفیق عطافرما.پھر جیسا کہ میں نے کہا اس دنیا کیلئے ، انسانیت کیلئے بھی دعا کریں.دنیا بڑی تیزی سے اپنی اناؤں اور ضدوں کیوجہ سے تباہی کے گڑھے کی طرف جارہی ہے.اپنے خدا کو بھلا چکی ہے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز دے رہی ہے.ظلم اتنا بڑھ چکا ہے کہ اسے انصاف کا نام دیا جارہا ہے، اللہ ہی ان لوگوں پر رحم کرے.پہلے بھی میں نے کہا ہے اپنے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ احمدیت کے مخالفین اور دشمنوں کو ناکام و نامراد کر دے.جیسا کہ ہمیشہ سے الہی جماعتوں سے ہوتا آیا ہے کہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ تو چلتا چلا جائے گا اور یہ ہوتا رہا ہے بھی ترقیات بھی ہوتی ہیں.یہ بھی ایک سچائی کی دلیل ہے کہ جب دلیل دوسرے کے پاس نہ ہو تو پھر وہ سختیاں کرتا ہے.تو ان مخالفتوں سے نہ تو حدی ڈرتے ہیں اور نہ انشاءاللہ ڈریں گے.یہی چیز ایمان میں ترقی اور جماعت کی ترقی کا باعث بنتی ہے اور یہ مخالفتیں ہمیشہ کھاد کا کام دیتی ہیں لیکن اس مخالفت کی وجہ سے مخالفین کا جو بدانجام ہونا ہے، انسانی ہمدردی کے ناطے ہم ایسے لوگوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ اپنے بد انجام سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس سے بچ سکیں.اور اپنے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے ان انعاموں سے محروم نہ رہ جائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر فرمائے ہوئے ہیں.دشمن کا ہر شر اور ہر کوشش ہمارے ایمان میں ترقی اور خیر کے سامان لانے والی ہو.ہم میں سے ہر ایک استقامت دکھانے والا ہو.ہماری نیک تمنائیں ہمیشہ اللہ تعالی سے قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں اور اس کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تمام ان نیک صفات کی پناہ میں لے لے جن کا ہمیں علم ہے یا نہیں اور اپنی مخلوق کے ہر شر سے ہمیں بچائے.آمین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:- ایک دعا کے لئے بھی میں کہنا چاہتا ہوں.پروگرام کے مطابق اس ہفتے میں امریکہ کے سفر کا انشاء اللہ تعالیٰ ارادہ ہے لیکن ائیر پورٹس پر کل کے جو واقعات ہوئے ہیں، ان کی وجہ سے بعض لوگوں کو بڑی فکر بھی ہے.تو بہر حال دعا کریں، ہمارا تو ہر کام میں دعا پر انحصار ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر با برکت سفر ہوگا تو انشاء اللہ تعالیٰ جو بھی روکیں ہوں گی اللہ تعالیٰ دور فرما دے گا.اور ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں.کسی قسم کی کوئی ایسی بات نہ ہو جو شماتت اعداء کا باعث بنے.امریکہ والے بھی سوچ سمجھ کر جذبات سے بالا ہو کر پھر مجھے مشورہ دیں.
خطبات مسرور جلد چهارم 399 (33) خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق باللہ اور آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا دشمن کو بھی یقین تھا فرمودہ مورخہ 18 اگست 2006ء(18 رظہور 1385 هش) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروایا کہ قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ﴾ ( آل عمران : 32) یعنی تو کہہ کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اس صورت میں وہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور بخش دے گا ، تمہارے گناہ معاف کر دے گا.جس ہستی کا ، جس شخصیت کا اللہ تعالیٰ سے یہ تعلق ہو کہ اس کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے اور اس کے واسطے سے دعا مانگنے سے گناہ معاف ہو جائیں اس کا اپنا تعلق خدا تعالیٰ.کس قدر عظیم ہو گا اور اس کی عام باتوں کو بھی یقیناً خدا تعالیٰ دعا کے رنگ میں قبول کر لیتا ہوگا.اللہ تعالیٰ کے اس اظہار کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ میں بشری تقاضے کے تحت ایک عام بات بھی کروں تو وہ دعا کا رنگ اختیار کر سکتی ہے اور کسی دوسرے کے لئے ابتلاء یا امتحان کا موجب بن سکتی ہے.اس لئے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب سے یہ شرط رکھی ہے کہ اے میرے ނ
400 خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم پروردگار میں بھی ایک عام آدمی اور عام انسانوں کی طرح غصے میں آ جاتا ہوں اور خوش بھی ہوتا ہوں جس طرح دوسرے لوگ خوش ہوتے ہیں پس اگر میں کسی انسان کے بارے میں بددعا کروں اور وہ درحقیقت اس کا اہل نہ ہو تو میری یہ دعا ہے کہ اے میرے اللہ ! میری یہ بددعا اس کی پاکیزگی اور قیامت کے دن درجات کی بلندی کا باعث بن جائے.پس یہ تھا آپ کو اپنے خدا پر اپنی دعاؤں کی قبولیت کے بارے میں یقین.اور یہ اس لئے تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ محبوب اپنے محبوب کی ذراسی بات کو بھی ٹال دے.آپ کے اس مقام کا دشمن کو بھی یقین تھا، وہ چاہے آپ کے خدا کی طرف سے ہونے کے قائل تھے یا نہیں یا دعا کی قبولیت کے قائل اس طرح تھے جس طرح ایک مسلمان ہوتا ہے یا نہیں.کیونکہ اکثر لوگ متاثر ہونے کے باوجود اپنی اناؤں کے جال میں پھنس کر اس کو کچھ اور نام دیتے ہیں، یہ نہیں کہتے کہ اللہ کے تعلق کی وجہ سے دعائیں قبول ہوتی ہیں.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا آپ کی بات کے پورے ہونے کے دشمن بھی قائل تھے جبھی تو جنگ احد میں ایک کافر نے آپ کے نیزے سے لگے ہوئے ہلکے سے زخم پر بھی شور مچا دیا تھا کہ مر گیا، مر گیا.لوگوں نے کہا کہ اتنا ہل کا سا زخم ہے، اس سے تم کس طرح مرجاؤ گے؟ اس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دفعہ کہا تھا کہ تم میرے ہاتھ سے مرو گے تو آج اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر تھوک بھی دیتے تو خدا کی قسم میں مرجاتا.(السيرة النبوية لابن هشام غزوة احد شأن عاصم بن ثابت صفحه 535,536 ایڈیشن (2001) | چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ وہ اس زخم سے ہی چند روز میں مرگیا.آپ نے یہ جو دعا مانگی تھی کہ میری بددعا کا اگر کوئی اہل نہ ہو تو اسے دعا میں بدل دینا لیکن یہ دشمن اسلام اس بات کا اہل تھا، اس لئے اپنے انجام کو پہنچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119,118) اس وقت میں اللہ تعالیٰ کے اس محبوب، پیارے اور عالی مرتبے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مختلف
401 خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم مواقع پر آپ کی باتوں اور دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دے کر اپنا پیارا ہونے کا جو اللہ تعالیٰ نے اظہار فرمایا ہے، اس کا ذکر کروں گا.ظاہر ہے اس عظیم نبی کی زندگی کے ان قبولیت دعا کے واقعات کا احاطہ تو نہیں ہو سکتا، بیشمار واقعات ہیں.مختلف مواقع کی چند جھلکیاں پیش کی جاسکتی ہیں جو اس وقت میں پیش کروں گا.ایک روایت میں آتا ہے مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ جب قریش نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور نافرمانی کی تو آپ نے ان کے خلاف یہ دعا کی - اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعِ كَسَبْعِ يُوْسُفَ (بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الدخان باب ربنا اكشف عنا العذاب...حدیث نمبر (4822) اے اللہ ! میری مشرکین کے مقابلے پر اس طرح سات سالوں کے ذریعہ سے مددفرما جس طرح تو نے یوسف کی سات سالوں کے ذریعہ سے مدد فرمائی تھی.مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا یہاں تک کہ ہر چیز کو اس نے ملیا میٹ کر دیا، یہاں تک کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار کھایا اور زمین سے دھوئیں کی مانند چیز نکلنے لگی.ابوسفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم تو ہلاک ہوگئی ہے، اللہ سے دعا کریں وہ ان سے اس عذاب کو دور کر دے.آپ نے دعا کی اور فرمایا تم پھر اس کے بعد سرکشی کرنے لگ جاؤ گے.دعا تو میرے سے کردار ہے ہو لیکن دوبارہ وہی حرکتیں کرو گے.مسلمانوں کے ساتھ کفار نے جو ظلم کیا اس پر جب اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا عذاب قحط سالی کی صورت میں نازل ہوا تو پھر بنی نوع کی ہمدردی کی جو تڑپ آپ کے دل میں تھی اس کے تقاضا کے تحت دشمن کے حق میں دعا کی کہ عذاب دور ہو جائے.لیکن ساتھ یہ بھی فرما دیا، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مجھے علم ہے کہ تم بھی جس طرح پہلے کرتے رہے تھے یہ عذاب دور ہونے کے باوجود بعد میں وہی حرکتیں کرو گے لیکن پھر بھی میں تمہاری تکلیف کی وجہ سے تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ دشمن کو بھی آپ کی دعاؤں پر یقین تھا لیکن اناؤں اور ضد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے تھے.بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب عذاب دور کر دیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں.اسی طرح نبیوں کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑ گیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرمار ہے تھے کہ ایک بدو کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک ہو گئے ، پس اللہ سے ہمارے لئے دعا کریں.آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے.راوی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں
402 خطبه جمعه 18 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم آسمان پر ایک بھی بادل کا ٹکڑ انظر نہیں آتا تھا، لیکن خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپ نے ابھی ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بادل پہاڑوں کی مانند امڈ آئے ، ابھی آپ منبر سے بھی نہیں اترے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک پر بارش کے قطرات دیکھے، پھر لگا تارا گلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی.پھر وہی بد و کھڑا ہوا اور راوی کہتے ہیں کہ وہ بدو یا کوئی اور شخص، بہر حال جو بھی شخص کھڑا ہوا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! اب تو مکانات گرنے لگے ہیں اور مال بہنا شروع ہو گیا ہے، پس آپ ہمارے لئے دعا کریں.آپ نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اے اللہ ان بادلوں کو ہمارے اردگرد لے جا اور ہم پر نہ برسا.آپ جس بادل کی ٹکڑی کی طرف بھی اشارہ کرتے تو وہ پھٹ جاتی اور اس بارش سے مدینہ ایک حوض کی مانند ہو گیا تھا.کہتے ہیں کہ وادی کنات ایک مہینے تک بہتی رہی ، جو شخص بھی کسی علاقے سے آتا تو اس بارش کا ذکر کرتا تھا.(بخارى كتاب الجمعة باب الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة حديث نمبر 933) دیکھیں اللہ تعالیٰ کا سلوک کہ بارش اس وقت تک ہوتی رہی جب تک دوباره دعانه کردی که ارد گرد کے علاقوں میں تو ہو جائے لیکن یہاں سے ہٹ جائے.اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو ایسے حالات ہی پیدا نہ کرتا جس سے اتنے قحط کی حالت پیدا ہو جاتی جس سے مسلمان بھی تنگ آئے ہوئے تھے اور پھر بارش اگر ہوتی تو اتنی ہوتی جتنی ضرورت تھی.لیکن اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی مومنوں کی جماعت کو آزمانے اور ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے اور نبی کے زیادہ سے زیادہ معجزات دکھانے کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جو مومنوں کے لئے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں اور کافروں کے لئے بھی توجہ پیدا کرنے کی وجہ بنتے ہیں.اسی طرح بڑے امتحانوں ، ابتلاؤں میں بھی ہوتا ہے تا کہ مومنوں کے ایمان میں مضبوطی آئے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان امتحانوں سے گزرنا چاہئے ، بہر حال مومنوں اور انبیاء کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آخری نتیجہ مومنوں کے حق میں ہی ظاہر فرماتا ہے.اس بات کا تو ضمناً ذکر آ گیا، بیان میں یہ کر رہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت دعا کے واقعات اور کس طرح وہ مجیب خدا آپ کی باتوں کو پورا فرما تا تھا.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! اپنے خادم انس کے لئے دعا کریں.آپ نے دعا کی اے اللہ ! اس کے اموال اور اس کی اولاد میں برکت ڈال دے اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈال.(بخاری کكتاب الدعوات باب دعوة النبي عل الله لخادمه بطول العمر وبكثرة المال حديث نمبر (6344) چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس کا ایک باغ تھا، اس دعا کے بعد سال میں دو دفعہ پھل دیتا
خطبات مسرور جلد چهارم 403 خطبہ جمعہ 18 اگست 2006 تھا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے لئے کثرت مال اور اولاد کی جو دعا مانگی تھی اس کے نتیجہ میں حضرت انس کی زندگی میں 80 کے قریب آپ کے بیٹے اور پوتے اور پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں اور آپ نے 103 یا بعض روایتوں میں آتا ہے کہ 110 سال تک عمر پائی.(اسد الغابة جلد اوّل زير اسم انس بن مالك بن النضر صفحه 178 ، م مطبع دار الفكر بيروت (1993ء ایک اور روایت میں آپ کی دشمن کے لئے بددعا اور اس کی قبولیت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے.حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل اور قریش کے چند لوگوں نے مشورہ کیا.مکہ کے ایک کنارے پر اونٹ ذبیح کئے گئے تھے، انہوں نے بھیجا اور وہ اونٹ کی اوجڑی اٹھا لائے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لا کر رکھ دیا.حضرت فاطمہ آئیں اور اسے آپ کے اوپر سے اٹھایا.اس پر آپ نے فریاد کی اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال ، اے اللہ ! تو قریش کو خود سنبھال، اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال.راوی کہتے ہیں کہ یہ بددعا ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابو معیط وغیرہ کے متعلق تھی.عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بدر کے میدان میں مقتولین میں دیکھا.(بخارى كتاب الجهاد والسير باب الدعاء على المشركين بالهزيمة والزلزلة حديث نمبر (2934 یہ تھا انجام ان سرداران قریش کا جنہوں نے مکہ میں آپ کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا اور جن کی وجہ سے آپ کو اس شہر سے ہجرت کرنی پڑی ، جو آپ کا شہر تھا.اور ہجرت کے وقت آپ نے مکہ کی طرف دیکھ کر یہ فرمایا تھا کہ اے بستی تو تو مجھے بہت پیاری ہے لیکن تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سرداران قریش کے لئے بددعا کی تو اس لئے نہیں کہ آپ کے دل کی سختی تھی.آپ کے دل کی نرمی کی تو کوئی انتہا نہیں تھی تبھی تو طائف کے سفر پر لوگوں کے ظلم کے باوجود جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہاڑوں کا فرشتہ یہ پیغام لے کر آیا کہ اگر چاہیں تو دو پہاڑوں کو ملا دوں اور لوگوں کو بیچ میں ہیں دوں.آپ نے فرمایا نہیں نہیں ، انہیں میں سے اللہ کی عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے.یہ تھا آپ کا بنی نوع سے ہمدردی کا معیار کہ باوجود اجازت کے بددعا نہیں کی لیکن قوم کے لیڈر چونکہ بددعا کے مستحق تھے، ان کے لئے کی.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمر والد وسی اور ان کے ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! دوس قبیلے نے اسلام کی دعوت کا انکار کر دیا ہے اس لئے آپ ان کے خلاف بددعا کریں کسی نے کہا کہ اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا.
خطبات مسرور جلد چہارم 404 خطبه جمعه 18 /اگست 2006 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا کی کہ اے اللہ تو دوس قبیلے کو ہدایت دے اور ان کو لے آ.(بخارى كتاب الجهاد و السير باب الدعاء للمشركين بالهدى ليتالفهم حدیث نمبر (2937 اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ملتی ہے کہ طفیل بن عمرو ایک معزز انسان اور عقلمند شاعر تھے.جب وہ مکہ آئے تو قریش کے بعض لوگوں نے ان سے کہا کہ اے طفیل ! آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں اور اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عجیب فتنہ برپا کر رکھا ہے، نعوذ باللہ.اس نے ہماری جماعت کو منتشر کر دیا ہے.وہ بڑا جادو بیان ہے.باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان اس نے جدائی ڈال دی ہے.ہمارے ساتھ جو بیت رہی ہے وہی خطرہ ہمیں تمہاری قوم کے بارہ میں بھی ہے.پس ہمارا یہ مشورہ ہے کہ نہ تم اس شخص سے بات کرنا اور نہ اس کی کوئی بات سننا.طفیل کہتے ہیں کہ کفار مکہ نے اتنی تاکید کی کہ میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ میں اس شخص کی بات نہیں سنوں گا اور کوئی بات کروں گا بھی نہیں.لیکن مجھے پتہ تھا کہ بیت اللہ میں موجود ہیں تو وہاں جاتے ہوئے میں نے اپنے کانوں میں روئی ڈال لی تا کہ غیر ارادی طور پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کانوں میں نہ پہنچے.کہتے ہیں کہ جب میں بیت اللہ میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے.میں بھی قریب جا کے کھڑا ہو گیا تو کہتے ہیں کہ آپ کی تلاوت کے چند الفاظ کے سوا میں کچھ نہ سن سکا.مگر جو سنا وہ مجھے اچھا کلام محسوس ہوا.میں نے اپنے دل میں کہا، میرا برا ہو میں ایک عقلمند شاعر ہوں، برے بھلے کو خوب جانتا ہوں، آخر اس شخص کی بات سننے میں حرج کیا ہے.اگر تو اچھی بات ہوگی تو میں اسے قبول کر لوں گا اور بری ہوگی تو چھوڑ دوں گا.طفیل کہتے ہیں کہ کچھ دیر انتظار کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے تو میں آپ کے پیچھے ہولیا، جب آپ گھر میں داخل ہونے لگے تو میں نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم نے آپ کے بارے میں یہ کہا ہے اور میں اللہ کی قسم دے کے کہتا ہوں کہ مجھے اتنا ڈرایا ہے کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ڈالی ہوئی تھی کہ آپ کی بات نہ سن سکوں.مگر اللہ تعالیٰ نے پھر بھی مجھے آپ کا کلام سنوا دیا اور جو میں نے سنا ہے وہ بہت عمدہ ہے.آپ خود مجھے اپنے دعوے کے بارے میں بتائیں.کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآن شریف بھی پڑھ کر سنایا.کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے اس سے خوبصورت کلام اور اس سے زیادہ صاف اور سیدھی بات کوئی نہیں دیکھی.چنانچہ میں نے اسلام قبول کر لیا اور حق کی گواہی دی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ! میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور لوگ میری بات مانتے ہیں.میرا ارادہ واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلانے کا ہے، آپ میرے لئے دعا کریں.کہتے ہیں اگلے دن جب میں اپنے قبیلے میں پہنچا تو میرے
405 خطبه جمعه 18 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم بوڑھے والد مجھے ملنے آئے تو میں نے انہیں کہا کہ آج سے میرا اور آپ کا تعلق ختم ہے.والد نے سبب پوچھا.میں نے کہا کہ میں نے تو اسلام قبول کر کے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی ہے.والد کہنے لگے کہ اچھا پھر میرا بھی وہی دین ہے جو تمہارا ہے.(ان کو اپنے بیٹے کی نیکی اور لیاقت پر یقین تھا ).پھر میں نے انہیں کہا کہ غسل کر کے اور صاف کپڑے پہن کر آئیں میں آپ کو اسلام کی تعلیم کے بارے میں کچھ بتا تا ہوں.انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر کہتے ہیں میں نے انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا.پھر کہتے ہیں کہ میری بیوی میرے پاس آئی.میں نے اس سے کہا کہ تم مجھ سے جدا ر ہو، تم سے کوئی تعلق نہیں رہا.اس نے وجہ پوچھی.میں نے اسے بتایا کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں.چنانچہ اس نے بھی سنا اور اسلام قبول کر لیا.اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قبیلے دوس کو اسلام کی طرف دعوت دی مگر انہوں نے میری دعوت پر توجہ نہ کی تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے نبی! دوس قبیلے کے لوگ اسلام قبول نہیں کرتے.آپ ان کے خلاف بد دعا کریں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی اے اللہ ! دوس قبیلے کو ہدایت فرما، جیسا کہ پہلے روایت میں آیا ہے اور اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طفیل کو یہ توجہ بھی دلائی کہ آپ واپس جا کر نرمی اور محبت سے پیغام حق پہنچائیں.چنانچہ وہ گئے اور آرام سے تبلیغ شروع کر دی.لیکن آگے آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کس طرح قبول ہوئی ، یہ قبیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے طفیل جنگ احزاب کے بعد اسلام لایا.اس کے بعد پھر طفیل بن عمرو مدینہ ہجرت کر آئے اور ان کے ساتھ 70 خاندان اور بھی تھے.حضرت ابو ہریرہ بھی اس قبیلے کے تھے جو ان 70 خاندانوں کے ساتھ مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے.(السيرة النبوية لابن هشام قصة اسلام طفيل بن عمرو الدوسی، صفحه 278,277 | تو دعا کی قبولیت کا جب وقت آیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے دیکھیں کس طرح پورا فرمایا اور آہستہ کی تبلیغ سے ان کے دل نرم ہونے شروع ہوئے اور ایک وقت میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا.اور اس دعا کے طفیل ایسے ہدایت یافتہ ابو ہریرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے جو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات ہم تک پہنچا کر ہمارے لئے بھی ہدایت کا باعث بن رہے ہیں.حضرت ابو ہریرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے طفیل اپنی والدہ کے قبول اسلام کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا تھا، ایک دن میں نے انہیں تبلیغ کی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ناپسندیدہ باتیں کہیں.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت
خطبات مسرور جلد چهارم 406 خطبہ جمعہ 18 اگست 2006 دیتا تھا تو وہ انکار کرتی تھی ، آج میں نے دعوت دی تو انہوں نے آپ کے متعلق نازیبا باتیں کیں جنہیں میں نا پسند کرتا ہوں.آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری والدہ کو ہدایت دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کہ اے اللہ ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے.کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوش خوش واپس ہوا.جب میں گھر کے دروازے کے پاس آیا تو وہ بند تھا، میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سنی تو کہا اے ابو ہریرہ ادھر ہی ٹھہر جاؤ.ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی تو اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کی والدہ نے غسل کیا، کپڑے پہنے، دو پٹہ اوڑھا اور دروازہ کھول دیا.پھر انہوں نے کہا کہ اے ابو ہریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں.ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور خوشی سے میں رورہا تھا ، میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! خوش ہو جائیں، خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دی.آپ نے اللہ کی حمد و ثناء کی اور نیک کلمات ادا فرمائے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ ، یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے اور میری ماں کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنا دے اور ان کو ہمارا محبوب بنادے.ابوہریرہ کہتے ہیں اس پر آپ نے دعا کی کہ اے اللہ اپنے اس بندے ابو ہریرہ اور اس کی والدہ کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنادے اور مومنین کو ان کا محبوب بنادے.(مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابی ہریرة الدوسی حدیث نمبر 6396) دیکھیں ایک تو آپ کی والدہ کے قبول اسلام کی صورت میں فوری قبولیت دعا کا اثر اور دوسری دعا اس طرح قبول ہوئی ، جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بے شمار احادیث حضرت ابو ہریرہ کی روایت کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں جن کی وجہ سے حضرت ابو ہریرہا کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.آج تک ایک سچا مسلمان جب بھی کسی روایت کوسنتا ہے جو ابو ہریرہ کی طرف سے آتی ہے یا کسی بھی حدیث کو ( حضرت ابو ہریرہ کی بات ہورہی ہے اس لئے ) جب کسی روایت کو سنتا ہے جو اس کی ہدایت کا باعث بنتی ہے تو حضرت ابو ہریرہ کے لئے دعا بھی نکلتی ہے اور ان کے لئے محبت کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں.اور ہونے چاہئیں.جنہوں نے آخری سالوں میں آنے کے باوجود بے شمار روایات ہم تک پہنچا ئیں اور اس نیک کام کرنے کے لئے کئی کئی دن فاقے برداشت کئے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے اس لئے نہیں اٹھتے تھے کہ کہیں کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے.پس یہی لوگ تھے جو اللہ اور رسول کی محبت کی وجہ سے مومنوں کے بھی محبوب بن گئے اور اب رہتی دنیا تک انشاء اللہ بنتے چلے جائیں گے.
407 خطبہ جمعہ 18 اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم حضرت ابو ہریرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہر وقت موجود رہنے اور آپ کی بابرکت باتیں سننے اور انہیں یا در رکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ جب آپ شروع میں آئے ہیں تو ذہن اتنا تیز نہیں تھا، تمام باتیں یاد نہیں رہتی تھیں تو بڑے فکر مند ہوتے تھے.چنانچہ انہوں نے ایک روز اپنی اس کمزوری کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی.حضرت ابو ہریرہ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ سے جو باتیں سنتا ہوں بھول جاتا ہوں.آپ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے چادر پھیلائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی.کہتے ہیں اس دعا کے بعد بہت ساری باتیں اور حدیثیں میں نے سنیں مگر میں ان میں سے ایک بھی بات نہیں بھولا.(ترمذى كتاب المناقب باب مناقب لابی هریرة حدیث نمبر (3835 اور آج دیکھیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ آپ کی روایات ہم تک پہنچیں اور آج سب سے زیادہ قابل اعتبار راویوں کی صف میں آپ صف اول میں شمار ہوتے ہیں.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کے مال میں خیر و برکت کی دعا دی.کہتے ہیں اس کے بعد جس چیز کو ہاتھ لگاتے تھے اس میں خیر و برکت پیدا ہو جاتی تھی.چنانچہ روایت میں اس طرح ذکر ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر و برکت کی دعا دی.عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے نتیجے میں خدا کا اتنا فضل ہوا کہ اگر میں کسی پتھر کوبھی اٹھاتا تھا تویہ امید ہوتی تھی کہ اس کے نیچے سونا ہوگا.اسی کشائش اور آسودگی کی حالت میں جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے ترکہ کے سونے کو کلہاڑوں سے توڑ کر تقسیم کیا گیا تھا.آپ کی چار بیویاں تھیں اور ہر بیوی کے حصے میں ایک ایک لاکھ دینار آئے.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیماری کے دوران ایک بیوی کو طلاق دی تھی اور اس کو 80 ہزار دینار دینے کا ارشاد فرمایا تھا.آپ کی وصیت کے مطابق جو صدقات اور وظائف وہ اپنی زندگی میں دیا کرتے تھے ان کے لئے 50 ہزار درہم الگ مقرر کئے.(الشفاء لقاضی عیاض جلد اوّل باب الرابع فيما اظهره على يديه من المعجزات صفحه200ایڈیشن2002ء) پھر جنگ احزاب کا واقعہ ہے.جنگ احزاب میں بڑے بڑے قبائل اکٹھے ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں کی اس وقت انتہائی خوف کی حالت تھی.اس وقت آپ نے مسلمانوں کو فتح اور کفار کی شکست کے لئے دعا کی.چنانچہ روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ
خطبات مسرور جلد چہارم 408 خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کے خلاف یہ دعا کی کہ اَللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيْعَ الْحِسَابِ اهْزِم | الاحْزَابَ اللَّهُمَّ اهْزِمُهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ - ( بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق و هي الاحزاب حدیث نمبر (4115) اے اللہ جو کتاب کو اتارنے والا ہے اور حساب لینے میں بہت تیز ہے تو گروہوں کو شکست دے، اے اللہ انہیں پسپا کر اور ہلا کر رکھ دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود بیرونی حملہ اور اندرونی منافقت کے اللہ تعالیٰ نے کس طرح مدد فرمائی.وہ لوگ جو مدینے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے آئے تھے، کس طرح خائب و خاسر ہو کر واپس چلے گئے.منافق قبیلہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے نامراد اور برباد کر دیا.اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ بنونضیر کو ان کی غداری کی وجہ سے جب مدینہ سے جلا وطن کیا گیا تو انہوں نے اسلام کے خلاف سب طاقتوں کو جمع کر کے مدینہ پر حملے کا ارادہ کیا اور تقریباً دس ہزار سے پندرہ ہزار فوج تیار کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور اس زمانے میں یہ بہت بڑی فوج تھی.اس حملے کی خبر پا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اور حضرت سلمان فارسی کے مشورے کے مطابق مدینہ میں رہ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس کے لئے حضرت سلمان فارسی کے مشورے کے مطابق ہی مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تا کہ کوئی دشمن اندر نہ آسکے.اور غربت کا زمانہ تھا، خندق کھود نے کے بعد اندرتو محصور ہو گئے لیکن راشن کی کمی کی وجہ سے اور خوراک کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت بہت نازک تھی.تو اس عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے کئی نشانات دکھائے اور کئی قبولیت دعا کے واقعات بھی ہوئے ، یہ بتانے کے لئے کہ تمہاری دعا قبول ہوئی اور دشمن تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.اللہ تعالیٰ نے آئندہ بڑی بڑی بادشاہتوں کے زیر نگیں ہونے کی خوشخبریاں بھی آپ کو دیں.چنانچہ جب آپ بھوک سے نڈھال تھے ، صحابہ کا بھی یہی حال تھا، آپ نے اور صحابہ نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے.صحابہ خندق کھودرہے تھے کہ اس وقت راستہ میں ایک چٹان آگئی جوٹوٹ نہیں رہی تھی تو آپ نے کدال لے کر وہ چٹان تو ڑی اور اس توڑنے کے دوران جب آپ نے تین دفعہ کدال ماری تو وہ چٹان ٹوٹی.اور ہر دفعہ جب آپ کدال مارتے تھے تو ایک حکومت کے ملنے کا نظارہ اللہ تعالیٰ آپ کو دکھاتا تھا.چنانچہ پہلی دفعہ جب آپ نے کدال ماری تو کدال مارنے پر آپ کو مملکت شام کی چابیاں دی گئیں اور سرخ محلات دکھائے گئے ، دوسری دفعہ جب آپ نے کدال ماری تو اس پر فارس کی کنجیاں آپ کو دی گئیں اور مدائن کے سفید محلات آپ کو دکھائے گئے اور پھر جب تیسری دفعہ آپ نے چٹان پر ضرب لگائی تو یمن کی چابیاں آپ کو دی گئیں اور صنعا کے دروازے آپ کے لئے کھولے گئے.
خطبات مسرور جلد چهارم 409 خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 اس وقت آپ پر ہنسنے والے ہنستے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ صرف اس جنگ جیتنے کی دعا قبول ہوئی ہے بلکہ آئندہ کی حکومتیں ملنے کی بھی میں اطلاع دیتا ہوں.اس موقع پر آپ کی دعا سے خوراک میں برکت پڑنے کا بھی واقعہ ہوا.ایک صحابی جابر بن عبد اللہ نے آپ کے چہرے پر نقاہت اور بھوک کے آثار دیکھ کر گھر جا کر اپنی بیوی سے پتہ کیا کہ کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں کچھ جو کا آٹا ہے اور ایک چھوٹی بکری ہے.انہوں نے بکری ذبح کی اور انہیں کہا کھانا پکاؤ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر اطلاع کرتا ہوں.تو بیوی نے کہا کہ زیادہ مہمان نہ آجائیں، مجھے ذلیل نہ کروانا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دینا.تو جا بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کچھ کھانا ہے ، آجائیں ، تناول فرما ئیں.آپ نے پوچھا کتنا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ایک چھوٹی سی بکری ہے اور جو کی چند روٹیاں ہیں.آپ نے فرمایا یہ بہت ہے.پھر آپ نے آواز دے کر کہا کہ انصار اور مہاجر سارے دعوت پر آ جاؤ.حضرت جابر کہتے ہیں کہ میرے ہاتھ پیر پھول گئے ، بہت برا حال ہوالیکن آپ نے کہا کہ جاؤ جب تک میں نہ آ جاؤں سالن کی ہنڈیا چولہے پر رہنے دینا اور اس کو نہ اتارنا اور نہ روٹی پکانا شروع کرنا.پھر آپ نے خود آ کر اپنے سامنے روٹی پکوانی شروع کی اور اپنے ہاتھ سے کھانا تقسیم کرنا شروع کیا.اور آپ کی دعا کی قبولیت کے معجزے سے سب نے سیر ہو کر کھانا کھالیا.(بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق و هى الاحزاب حدیث نمبر (4101 پھر دیکھیں آپ کی دعا کی قبولیت کے باوجود بنو قریظہ کی منافقت اور دس سے پندرہ ہزار فوج کے با وجود اللہ تعالیٰ نے اس طرح فتح عطا فرمائی کہ دشمن کو اپنی پڑ گئی.اس کا مختصر قصہ یوں ہے کہ جب محاصرہ لمبا ہو گیا تو رات کے وقت اتنی سخت آندھی آئی کہ جس نے کفار کے بہت بڑے کیمپ میں جو کھلی جگہ پر تھا کھلبلی مچا دی.خیمے اکھڑ گئے ، قناتوں کے پردے ٹوٹ کر اڑ گئے ، ہنڈیاں جو چولہوں پر پڑی ہوئی تھیں الٹ گئیں اور ریت اور کنکر کی بارش نے لوگوں کے کان ، ناک، آنکھ اور منہ ہر چیز بند کر دیا.وہ آگئیں جو عرب کے دستور کے مطابق قومی نشان کے طور پر جلائی جاتی تھیں ، وہ بجھ گئیں.یہ دیکھ کر وہم پرست کفار کے حوصلے بہت پست ہو گئے اور جو پہلے ہی ایک لمبے محاصرے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہورہے تھے، واضح طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آرہی تھی کیونکہ ایک تو لمبا محاصرہ پھر اتنی بڑی فوج، اس کے کھانے پینے اور انتظامات کا سامان تو ان کی بھی کافی بری حالت تھی.ان کو اس چیز سے بہت دھکہ لگا.چنانچہ ابوسفیان جو اس سارے لشکر کا سپہ سالار تھا، کئی قبیلوں نے مشترکہ طور پر اس کو اپنا سالار بنایا تھا، وہ اپنے لشکر کو لے کر واپس چلا گیا اور ان کے دیکھا دیکھی باقی بھی جانے شروع ہو گئے اور صبح تک یہ میدان بالکل صاف ہو گیا.جو
410 خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے، خود ان کو اپنی پڑ گئی اور چلے گئے.چنانچہ جب یہ ہو گیا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد یہ دعا کرتے تھے اور اس وقت کی کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ اَعَزَّ جُنْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَ غَلَبَ الاحْزَابَ وَحْدَهُ فَلَا شَيْءَ بَعْدَهُ (بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق و هي الاحزاب حدیث نمبر 4114) کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو اکیلا ہے اس نے اپنے لشکر کو عزت دی اور اپنے بندے کی مدد کی اور کیلے ہی احزاب کو مغلوب کیا ، اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے.دیکھیں ایک وقت تھا جب دشمن آپ کو مکہ میں آپ کو ختم کرنے کے درپے تھا.اس کے ظلم سے تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی لیکن پھر مدینہ میں بھی دشمن حملہ آور ہوتے رہے.جنگ بدر ہوئی، احد ہوئی، احزاب ہوئی لیکن پھر مدینہ میں بھی جنگ بدر میں یہ لوگ جس طرح حملہ آور ہوئے اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن دعا کی کہ اگر آج مسلمان شکست کھا گئے تو کفار نے ان میں سے پھر کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا اور پھر اے خدا! تیرا نام لیوا دنیا میں کوئی نہیں رہے گا.اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، فتح تمہاری ہے اور غلبہ اسلام کا ہے انشاء اللہ تعالی.اور تاریخ شاہد ہے کہ دشمن نے عبرتناک شکست کھائی.پہلی روایت میں میں اوپر بیان کر آیا ہو کہ کس طرح بدر کی جنگ میں دشمن کے سردار واصل جہنم ہوئے.پھر اُحد کی جنگ ہوئی اور باوجود دشمن کے حق میں پانسہ پلٹنے کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت بڑے نقصان سے محفوظ رکھا.پھر جنگ احزاب کی تھوڑی سی تفصیل آپ نے سنی ہے اور قبولیت دعا کے نظارے بھی دیکھے ہیں.تو اللہ تعالیٰ تسلی دیتا ہے کہ جب ایک تھے تو اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دشمن تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکے.اے میرے پیارے نبی میں تو تیری پہلے دن کی دعائیں سن چکا ہوں اور ان کو قبولیت کا درجہ دے چکا ہوں اور تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ دین اب قیامت تک ختم ہونے والا نہیں بلکہ تمام دینوں پر غالب آنا ہے.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے گزشتہ امتیں پیش کی گئیں، میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ ایک گروہ ہے اور کسی کے ساتھ چند افراد ہیں اور کسی نبی کے ساتھ دس افراد ہیں اور کسی نبی کے ساتھ پانچ افراد ہیں اور کوئی نبی اکیلا ہی ہے.اسی اثناء میں میں نے ایک بڑا گروہ دیکھا، میں نے پوچھا اے جبریل! کیا یہ میری امت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ آپ افق کی طرف دیکھیں، جب میں نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ
411 خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے.مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ مجھے کہا کہ دوسری طرف بھی افق پر دیکھو، جب ادھر دیکھا تو وہاں بھی لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا.تو جبریل نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں 70 ہزار لوگ ایسے ہیں جو بلا حساب اور بغیر سزا کے جنت میں داخل ہوں گے.میں نے پوچھا یہ کیوں؟ تو جبریل نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دم درود نہیں کرتے اور نہ ہی بد فال لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر تو کل کرتے ہیں.اس پر عکاشہ بن محصن کھڑے ہو گئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ایسے لوگوں میں شامل فرمائے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ تو اسے ان لوگوں میں شامل کر دے.اس پر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے.حضور نے فرمایا ء کا شہ تم پر سبقت اور پہل حاصل کر چکا ہے.(بخاری كتاب الرقاق باب يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب حدیث نمبر (6541 پس یہ جو روایت ہے، یہ پیشگوئی ہے، جس میں آپ کی دعاؤں کی تا قیامت قبولیت کا نظارہ دکھایا گیا ہے.آپ کو جنگ احزاب میں تو تین بڑی طاقتوں کی کنجیاں دی گئی تھیں.یہاں اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ تمام دنیا کی اکثر آبادی آپ کی امت میں شامل ہو گی.اللہ تعالیٰ آپ کو بتا رہا ہے کہ آپ کے غلام صادق جس نے آخرین کو پہلوں سے ملانا ہے، کی جماعت نے ، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو تمام باطل دینوں پر غالب کرنا ہے.اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ آپ کی امت میں تا قیامت نیکیوں پر قائم رہنے والے اور صالح عمل کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود رہے گی اور آپ کو تسلی دلائی ہے کہ آپ کی دعاؤں کا اثر تا قیامت آپ کی سچی پیروی کرنے والوں کو پہنچتا رہے گا، آپ کی دعاؤں سے وہ حصہ لیتے رہیں گے.اور آپ نے یہ بھی نصیحت کر دی کہ صرف میری دعا سے ہی نہیں بلکہ نیک اعمال کر کے ان نیک لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو بغیر حساب جائیں گے، تمہارے نیک عمل اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں اور وہ تمہاری غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے تمہیں جنت میں ڈال دے، کوشش کرو کہ اس کے فضلوں کو جذب کرو.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، ہمیں جتنی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوگی اتنی زیادہ اور اتنی جلدی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں.حصہ لیتے چلے جائیں گے، ان برکات کے وارث بنتے چلے جائیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچی پیروی کرنے والوں کا حصہ ہیں، اتنی جلدی ہم دشمن اسلام اور دشمن احمدیت کو خائب و خاسر ہوتا دیکھ لیں گے ، اتنی جلدی ہم فرعونوں اور ہامانوں کی تباہی کے نظارے دیکھ لیں گے.پس فانی فی اللہ کی دعاؤں سے فیض پانے کے لئے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرتے ہوئے اس کے آگے جھکتے
خطبات مسرور جلد چہارم 412 خطبہ جمعہ 18/اگست 2006 چلے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا :.گزشتہ جمعہ میں نے امریکہ کے دورہ کے بارے میں کہا تھا کہ دعا کریں اور امریکہ کی جماعت کو بھی اس بارے میں کہا تھا.تو دنیا کی مختلف جگہوں سے، ملکوں سے احمدیوں کے خطوط فیکسیں آئیں ، جنہوں نے اپنی خوا ہیں لکھیں اور پریشانی کے اظہار کئے.اور ساروں کے یہی مشورے تھے کہ نہ جائیں اور پھر امریکہ والوں نے بھی بڑا سوچ کے یہ فیصلہ کیا، کچھ واضح طور پر تو نہیں کیا، لیکن دونوں طرف کی آپشن دے دی کہ آئیں بھی اور نہ بھی آئیں.بہر حال پھر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ فی الحال نہ جایا جائے.وہاں سے بہت سارے لوگوں نے مجھے انفرادی طور پر بھی لکھا ہے.تو بہر حال پچھلے دودنوں سے جو واقعات ہو رہے ہیں وہ بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ نہ جانے کا فیصلہ ٹھیک ہی ہوا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کسی اور موقع پر انشاء اللہ بہتر حالات فرمائے گا تو چلے جائیں گے.دوسرے میں ایک یہ بات کرنا چاہتا تھا کہ دنیا سے خاص طور پر پاکستان سے جلسے کے دنوں میں مبارکباد کے اور جلسے کی کامیابی کے بہت سارے خطوط آئے ہیں.ہماری ڈاک کی ٹیم کوشش تو یہ کر رہی ہے کہ ان کے جواب دیئے جائیں لیکن ان کی تعداد کوئی تقریباً 30,25 ہزار ہے اور جہاں تک میرا سوال ہے میں تو دستخط کر دیتا ہوں، تھکتا نہیں ہوں لیکن جواب لکھنے مشکل ہیں.اس لئے ہو سکتا ہے کہ سب کو جواب نہ پہنچیں.تو اس پیغام کے ذریعہ سے میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں.دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ہمیشہ احمدیت کی ترقی کے نظارے ہمیں دکھاتا رہے اور اپنی تائید و نصرت کے جلوے دکھائے اور اپنی حفاظت اور پناہ میں ہم سب کو ر کھے.
خطبات مسرور جلد چهارم 413 (34) خطبه جمعه 25 /اگست 2006 اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کی روشنی میں گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے مخالفین کی انتہائی کوششوں بلکہ بعض حکومتوں کی کوششوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ترقی...یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں ہی ہیں جو آج تک قبولیت کا شرف پا رہی ہیں اور ان کے پیچھے یقینا وہ دعائیں بھی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مسیح و مہدی کے لئے کی ہیں فرموده مؤرخہ 25 /اگست 2006 ء (25 رظہور 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ گزشتہ سے پہلے خطبہ میں میں نے کہا تھا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے مسیح و مہدی کو مانے کی توفیق عطا فرمائی جو اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ہیں اور جس نے آج اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں ہمیں دعائیں کرنے کے طریقے اور سلیقے سکھائے.اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشانات دکھا کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین کامل اور
414 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم ایمان کامل پیدافرمایا، آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج دے کر فرمایا کہ تم لوگ جو اٹھتے بیٹھتے مجھے گالیاں دیتے ہو اور کافر و دجال کہتے ہو ( نعوذ باللہ ) میرے سے مقابلہ کرو اور اس کے لئے آپ نے اور باتوں کے علاوہ قبولیت دعا کا پہینج بھی دیا لیکن کسی کو مقابلے پر آنے کی جرات نہیں ہوئی.آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر طلوع ہوتا ہے وہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے مخالفین کی انتہائی کوششوں بلکہ بعض حکومتوں کی کوششوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت کو ترقی کرتے ہوئے دیکھتا ہے.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی دعائیں ہی ہیں جو آج تک قبولیت کا شرف پا رہی ہیں اور ان کے پیچھے یقینا وہ دعا ئیں بھی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مسیح و مہدی کے لئے کی ہیں.آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبولیت دعا کے چند واقعات پیش کروں گا جن سے اللہ تعالیٰ کا آپ سے جو سلوک ہے کہ کس طرح آپ نے مختلف مواقع پر اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کے لئے دعائیں کیں.آپ ان کے ایمان میں اضافے کے لئے دعائیں کرتے تھے یا جماعت کی ترقی کے لئے آپ دعائیں کرتے تھے یا علمی معجزات دکھانے کے لئے دعائیں کرتے تھے تو جن کے سامنے یہ دعائیں کی گئیں، اللہ تعالیٰ ان ایمان لانے والوں کو ان دعاؤں کی قبولیت کے نشان دکھا کر ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بناتا ہے، بلکہ آج تک یہ واقعات پڑھ کر اور جن خاندانوں کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ان کی نسلوں میں روایتاً چلتے رہنے سے ان سب کے ایمان میں اضافے کا باعث بناتا چلا جا رہا ہے.آپ کے قبولیت دعا کے نشانات تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ چند ایک کا میں ذکر کروں گا.پہلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنی باریکی سے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرتے تھے اور کسی بشری تقاضے کے تحت غیر ارادی طور پر کہیں جو کوئی کمی رہ جاتی تھی تو احساس ہوتے ہی فورا مداوا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کو پورا کرنے کے لئے دعا بھی کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر شہر سے واپس آئے تو مکان میں جب داخل ہورہے تھے تو کسی سوالی نے (سائل نے ) دور سے سوال کیا.اس وقت بہت سارے لوگ وہاں تھے.ان ملنے والوں کی آوازوں میں اس سوالی کی آواز دب گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اندر چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دور ہو جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کانوں میں اس سائل کی
415 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم دکھ بھری آواز گونجی تو آپ نے باہر آ کر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اس وقت یہاں سے چلا گیا ہے.اس کے بعد آپ اندرون خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا.تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر اسی سائل کی ( سوالی کی ) پھر آواز آئی اور آپ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ میں کچھ رقم رکھ دی اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے.(سیرت طیبہ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 73,72 اب بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے.سائل آیا، سوال کیا لیکن لوگوں کے رش کی وجہ سے آپ صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے.لیکن جب احساس ہوا کہ یہ تو ایک سائل تھا، فوراً طبیعت بے چین ہو گئی ، باہر آ کر آپ دریافت فرماتے ہیں.اور اس کے چلے جانے پر یہ نہیں کہا کہ چلا گیا تو کوئی بات نہیں بلکہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! تو اسے واپس بھیج دے تا کہ میں اس کی ضرورت پوری کر سکوں اور پھر اللہ تعالیٰ بھی اس بے چین دل کی دعا فوراً قبول فرمالیتا ہے.مسیح موعود کے ہاتھوں جہاں دنیا نے روحانی بیماریوں سے دنیا نے نجات حاصل کرنی تھی اور کی.جو چور اور ڈاکو تھے وہ بھی مسیح موعود کے ہاتھوں ولی بنے ، وہاں اس مسیح موعود کی دعاؤں سے جسمانی بیماروں نے بھی شفا پائی جس کے بے شمار واقعات ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ہی فرماتے ہیں کہ کابل سے آئی ہوئی ایک غریب مہاجر احمدی عورت تھی جس نے غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعود کے دم عیسوی سے شفا پائی.ان کا نام امتہ اللہ بی بی تھا.خوست کی رہنے والی تھیں جو کابل میں ہے.وہ کہتی ہیں کہ جب وہ شروع شروع میں اپنے والد اور چچا سید صاحب نور اور سید احمد نور کے ساتھ قادیان آئیں تو اس وقت ان کی عمر بہت چھوٹی تھی اور ان کے والدین اور چا چی حضرت سید عبداللطیف شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد قادیان چلے آئے تھے.امتہ اللہ صاحبہ کہتی ہیں کہ بچپن میں ان کو آشوب چشم کی سخت بیماری تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے وہ آنکھ کھولنے کی طاقت نہیں رکھتی تھیں.ان کے والدین نے بہت علاج کروایا مگر کوئی فرق نہیں پڑا اور تکلیف بڑھتی گئی.ایک دن جب ان کی والدہ پکڑ کر ان کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگیں تو وہ یہ کہتے ہوئے بھاگ گئیں کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی.چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے گھر پہنچ گئی اور حضور کے سامنے جاکے روتے ہوئے عرض کی کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف
خطبات مسرور جلد چہارم 416 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 ہے اور درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے میں بہت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتی ، آپ میری آنکھوں پر دم کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا تو میری آنکھیں واقعی خطرناک طور پر ابلی ہوئی تھیں اور میں درد سے بے چین ہو کر کراہ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی انگلی پر اپنا تھوڑ اسا لعاب دہن لگایا اور ایک لمحے کے لئے رک کر ( جس میں شاید دعا فرمائی ہو ) بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی انگلی میری آنکھوں پر آہستہ سے پھیری اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہو گی.وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد آج تک جبکہ میں 70 سال کی بوڑھی ہو چکی ہوں کبھی ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دکھنے نہیں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دم کی برکت سے میں اس تکلیف سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی ہوں.کہتی ہیں جس وقت دم کیا تھا اس وقت میری عمر صرف دس سال تھی اور آج ساٹھ سال ہو گئے ہیں اور آنکھوں میں کبھی تکلیف نہیں ہوئی.(سیرت طیبه از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 284,283 حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے بچپن کے ایک واقعہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت میر صاحب ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے اور حالت بہت تشویشناک ہوگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے متعلق دعا کی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبِّ رَّحِیمِ یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے.چنانچہ اس کے جلد بعد حضرت میر صاحب توقع کے خلاف بالکل صحت یاب ہو گئے اور خدا نے اپنے میسیج کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی.(سیرت طیبہ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 287,286) پھر حضرت میاں بشیر احمد صاحب جن کے حوالوں کا ذکر آ رہا ہے، ان کو بھی بچپن میں آنکھوں کی تکلیف تھی.جب ہر قسم کے علاج ناکام ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے لئے دعا کی اور دعانے پھر شفا کا معجزہ دکھایا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود فرماتے ہیں کہ :- ایک دفعہ بشیر احمد میر الڑ کا آنکھوں کی بیماری سے بیمار ہو گیا اور مدت تک علاج ہوتا رہا کچھ فائدہ نہ ہوا.تب اسکی اضطراری حالت دیکھ کر میں نے جناب الہی میں دعا کی تو یہ الہام ہوا بَرَّقَ طِفْلِی بَشِیر یعنی میرے لڑکے بشیر نے آنکھیں کھول دیں.تب اسی دن اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اسکی آنکھیں اچھی ہو گئیں.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 89 بقیہ حاشیہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حقیقۃ الوحی میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.
417 خطبہ جمعہ 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم سردار نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبدالرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہیں دیتی تھی ، گویا مردہ کے حکم میں تھا.اس وقت میں نے اس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے.تب میں نے جناب الہی میں عرض کی کہ یا الہی ! میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِه یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الہی کے کسی کی شفاعت کر سکے.تب میں خاموش ہو گیا.بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا إِنَّكَ أَنْتَ الْمَجَاز یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی.تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیا تھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے.“ انہوں نے بعد میں لمبی عمر پائی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 230,229) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : 5 / اگست 1906ء کو ایک دفعہ نصف حصہ اسفل بدن کا میرا بے حس ہو گیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی.یعنی جو نچلا دھڑ تھا وہ بے حس ہو گیا اور ٹانگیں بالکل سہار نہیں سکتی تھیں اور فرماتے ہیں.کہ اور چونکہ میں نے یونانی طبابت کی کتابیں سبقاً سبقاً پڑھی تھیں اس لئے مجھے خیال گزرا کہ یہ فالج کی علامات ہیں.ساتھ ہی سخت درد تھی.دل میں گھبراہٹ تھی کہ کروٹ بدلنا مشکل تھا.رات کو جب میں بہت تکلیف میں تھا تو مجھے شماتت اعداء کا خیال آیا مگر محض دین کے لئے نہ کسی اور امر کے لئے.تب میں نے جناب الہی میں دعا کی کہ موت تو ایک امر ضروری ہے مگر تو جانتا ہے کہ ایسی موت اور بے وقت موت میں شامت اعداء ہے.تب مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرِ.إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْزِى الْمُؤْمِنِین یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے اور خدا مومنوں کو رسوا نہیں کیا کرتا.پس اسی خدائے کریم کی مجھے قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو اس وقت بھی دیکھ رہا ہے کہ میں اس پر افتراء کرتا ہوں یا سچ بولتا ہوں کہ اس الہام کے ساتھ ہی شاید آدھ گھنٹہ تک مجھے نیند آ گئی اور پھر جب یکد فعہ آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مرض کا نام ونشان نہیں رہا.تمام لوگ سوئے ہوئے تھے اور میں اٹھا اور امتحان کے لئے چلنا شروع کیا تو ثابت ہوا کہ میں بالکل تندرست ہوں.تب مجھے اپنے قادر خدا کی قدرت عظیم کو دیکھ کر رونا آیا کہ کیسا قادر ہمارا خدا ہے اور ہم کیسے خوش نصیب ہیں کہ اس کی کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور
418 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم اس کے رسول کی پیروی کی.اور کیا بد نصیب وہ لوگ ہیں جو اس ذو العجائب خدا پر ایمان نہیں لائے.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 245 246 ) جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ طاعون بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تائیدی نشانوں میں سے ایک نشان کے طور پر بھیجا تھا ، جس سے ہندوستان میں لاکھوں آدمی موت کا لقمہ بنے.اور اللہ تعالیٰ نے آپکو بتایا تھا کہ آپکے ماننے والے اور گھر میں رہنے والے اس بیماری سے محفوظ رہیں گے.یہ بہت بڑا نشان تھا لیکن انہیں دنوں میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تیسرے صاحبزادے تھے، وہ تیز بخار کی وجہ سے بہت شدید بیمار ہو گئے ، جس پر حضرت اقدس کو بڑی فکر ہوئی.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود فرماتے ہیں کہ :- طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میر الڑ کا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بے ہوش ہو گیا اور بے ہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا.مجھے خیال آیا کہ اگر چہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑ کا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اس نے فرمایا ہے.اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِی الدَّارِیعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا.اس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا.قریباً رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے.تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدا نخواستہ اگر لڑ کا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کیلئے بہت کچھ سامان ہاتھ آ جائے گا.اسی حالت میں میں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معا کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسر آ گئی جو استجابت دعا کیلئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی میں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے.تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا.فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں اور ہذیان اور بیتابی اور بیہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی.مجھے اس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الہی طاقتوں اور دعا قبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 88,87 حاشیہ)
خطبات مسرور جلد چهارم 419 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 طاعون کے نشان کے طور پر ملک میں پھیلنے اور اس بیماری کے آپ کی دعا سے پھیلنے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:- ا کہترواں نشان جو کتاب ستر الخلافہ کے صفحہ 62 پر میں نے لکھا ہے یہ ہے کہ مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے میں نے دعا کی تھی یعنی ایسے مخالف جن کی قسمت میں ہدایت نہیں.سو اس دعا سے کئی سال بعد اس ملک میں طاعون کا غلبہ ہوا اور بعض سخت مخالف اس دنیا سے گزر گئے...اور اس کے بعد یہ الہام ہوا.اے بسا خانہ دشمن کہ تو ویراں کر دی.یعنی تو نے کئی دشمنوں کے گھروں کو ویران کر دیا.اور یہ الحکم اور البدر میں شائع کیا گیا اور پھر مذکورہ بالادعائیں جو دشمنوں کی سخت ایذاء کے بعد کی گئیں جناب الہی میں قبول ہو کر پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب ان پر آگ کی طرح برسا اور کئی ہزار دشمن جو میری تکذیب کرتا اور بدی سے نام لیتا تھا ہلاک ہو گیا.لیکن اس جگہ ہم نمونہ کے طور پر چند سخت مخالفوں کا ذکر کرتے ہیں.چنانچہ سب سے پہلے مولوی رسل با با باشندہ امرتسر ذ کر کے لائق ہے جس نے میرے رڈ میں کتاب لکھی اور بہت سخت زبانی دکھائی اور چند روزہ زندگی سے پیار کر کے جھوٹ بولا.آخر خدا کے وعدہ کے موافق طاعون سے ہلاک ہوا.پھر بعد اس کے ایک شخص محمد بخش نام جو پٹی انسپکٹر بٹالہ تھا عداوت اور ایذا پر کمر بستہ ہوا اور وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا.پھر بعد اس کے ایک شخص چراغ دین نام ساکن جموں اٹھا جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا تھا جس نے میرا نام دجال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت نے مجھے خواب میں عصا دیا ہے تا میں عیسی کے عصا سے اس دجال کو ہلاک کروں سو وہ بھی میری اس پیشگوئی کے مطابق جو خاص اس کے حق میں رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں اس کی زندگی میں ہی شائع کی گئی تھی 4 / اپریل 1906 ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا.کہاں گیا عیسی کا عصا جس کے ساتھ مجھے قتل کرتا تھا ؟ اور کہاں گیا اس کا الہام کہ اِنِّی لَمِنَ الْمُرْسَلِيْن؟ افسوس اکثر لوگ قبل تزکیہ نفس کے حدیث النفس کو ہی الہام قرار دیتے ہیں اس لئے آخر کار ذلت اور رسوائی سے ان کی موت ہوتی ہے اور ان کے سوا اور بھی کئی لوگ ہیں جو ایذا اور اہانت میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خدا تعالیٰ کے قہر سے نہیں ڈرتے تھے اور دن رات ہنسی اور ٹھٹھا اور گالیاں دینا ان کا کام تھا آخر کار طاعون کا شکار ہو گئے جیسا کہ منشی محبوب عالم صاحب احمدی لاہور سے لکھتے ہیں کہ ایک میرا چا تھا جس کا نام نوراحمد تھا وہ موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد کا باشندہ تھا اس نے ایک دن مجھے کہا کہ مرزا صاحب اپنی مسیحیت کے دعوے پر کیوں کوئی نشان نہیں دکھلاتے.میں نے کہا کہ ان کے نشانوں میں سے ایک نشان طاعون ہے جو پیشگوئی کے بعد آئی جو دنیا کو کھاتی جاتی ہے.تو اس بات پر وہ بول اٹھا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوئے گی بلکہ یہ طاعون
420 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چهارم مرزا صاحب کو ہی ہلاک کرنے کے لئے آئی ہے اور اس کا اثر ہم پر ہرگز نہیں ہو گا مرزا صاحب پر ہی ہوگا اسی قدر گفتگو پر بات ختم ہو گئی.جب میں لاہور پہنچا تو ایک ہفتہ کے بعد مجھے خبر ملی کہ چا نور احمد طاعون سے مر گئے اور اس گاؤں کے بہت سے لوگ اس گفتگو کے گواہ ہیں اور یہ ایسا واقعہ ہے کہ چھپ نہیں سکتا.“ پھر فرماتے ہیں کہ:- میاں معراج دین صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ مولوی زین العابدین جو مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کردہ تھا اور مولوی غلام رسول قلعہ والے کے رشتہ داروں میں سے تھا اور دینی تعلیم سے فارغ التحصیل تھا اور انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مقرب مدرس تھا.اس نے حضور کے صدق کے بارہ میں مولوی محمدعلی سیالکوٹی سے کشمیری بازار میں ایک دکان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا.پھر تھوڑے دنوں کے بعد بمرض طاعون مر گیا اور نہ صرف وہ بلکہ اس کی بیوی بھی طاعون سے مرگئی اور اس کا داماد بھی جو محکمہ اکاؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا طاعون سے مر گیا.اسی طرح اس کے گھر کے سترہ آدمی مباہلہ کے بعد طاعون سے ہلاک ہو گئے.“ فرماتے ہیں کہ :.یہ عجیب بات ہے، کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب، مفتری اور دجال تو میں ٹھہر امگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں.کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے اور پھر ذلت اور رسوائی بھی.اور میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہور میں ایک ٹھیکہ دار تھا وہ سخت بے ادبی اور گستاخی حضور کے حق میں کرتا تھا اور ا کثر کرتا ہی رہتا تھا.میں نے کئی دفعہ اس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا.آخر جوانی کی عمر میں ہی شکار موت ہوا.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235 تا 238) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبولیت دعا پر اس قدر یقین تھا کہ اگر آپ بعض دفعہ خطوں میں صرف اتنا ہی کہ کر بھیج دیتے تھے کہ ہم نے دعا کی تو اس سے ان کے دل یقین سے پُر ہو جاتے تھے کہ دعا یقینا ہمارے حق میں قبول ہوگی.اس طرح کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ میرا دادا جسے لوگ عام طور پر خلیفہ کہتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت مخالف تھا اور آپ کے حق میں بہت بد زبانی کیا کرتا تھا اور والد صاحب کو بہت تنگ کیا کرتا تھا.والد صاحب نے اس سے تنگ آ کر حضرت مسیح موعود کو دعا کے لئے خط لکھا.
421 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم حضرت مسیح موعود کا جواب گیا کہ ہم نے دعا کی ہے.والد صاحب نے یہ خط تمام محلے والوں کو دکھا دیا اور کہا کہ حضرت صاحب نے دعا کی ہے اب دیکھ لینا خلیفہ گالیاں نہیں دے گا.دوسرے تیسرے دن جمعہ تھا.ہمارا دادا حسب دستور غیر احمدیوں کے ساتھ جمعہ پڑھنے گیا مگر وہاں سے واپس آکر غیر معمولی طور پر حضرت مسیح موعود ( علیہ الصلوۃ والسلام) کے متعلق خاموش رہا.حالانکہ اس کی عادت تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر آنے کے بعد خصوصاً بہت گالیاں دیا کرتا تھا.لوگوں نے اس سے پوچھا کہ آج مرزا صاحب کے متعلق خاموش کیوں ہو؟ اس نے کہا کسی کے متعلق بد زبانی کرنے سے کیا حاصل ہے.اور مولوی نے بھی آج جمعہ میں وعظ کیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ کیسا ہی برا ہو ہمیں بدزبانی نہیں کرنی چاہئے.لوگوں نے کہا اچھا یہ بات ہے؟ ہمیشہ تو تم گالیاں دیتے تھے اور آج تمہارا یہ خیال ہو گیا ہے.بلکہ اصل میں بات یہ ہے کہ بابو ( کہتے ہیں کہ میرے والد کو لوگ بابو کہا کرتے تھے ) کل ہی ایک خط دکھا رہا تھا کہ قادیان سے آیا ہے اور کہتا تھا کہ اب خلیفہ گالی نہیں دے گا ( یعنی یہ آدمی جو گالیاں دیا کرتا تھا).مولوی رحیم بخش صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد باوجود کئی دفعہ مخالفوں کے بھڑ کانے کے میرے دادا نے کبھی حضرت مسیح موعود کے متعلق بدزبانی نہیں کی اور کبھی میرے والد صاحب کو احمدیت کی وجہ سے تنگ نہیں کیا.(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 51 روایت نمبر 78) آپ کی دعا سے بارش کے دو واقعات کا بھی میں ذکر کر دیتا ہوں.شیخ محمد حسین صاحب پنشنر حج اسلامیہ پارک لاہور لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ حضور لاہور میں میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر فروکش تھے، جنوری کا مہینہ تھا سن یاد نہیں.رات دس بجے کے قریب کا وقت تھا.اس سال بارش نہیں ہوئی تھی.حاضرین میں سے کسی نے کہا حضور دعا کریں بارش ہو کیونکہ بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار نظر آ رہے ہیں.حضور نے نہ دعا کی نہ کوئی جواب دیا اور باتیں ہوتی رہیں.پھر اس نے یا کسی اور نے بارش کے لئے دعا کو کہا مگر پھر بھی حضور نے کوئی توجہ نہ کی.کچھ دیر بعد پھر تیسری دفعہ کسی نے دعا کے لئے کہا.اس پر حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی.اس وقت چاند کی چاندنی تھی اور آسمان بالکل صاف تھا مگر حضور کے ہاتھ اٹھتے ہی ایک چھوٹی سی بدلی نمودار ہوئی اور بارش کی بوندیں پڑنی شروع ہو گئیں.اور ادھر حضور نے دعا ختم کی ادھر بارش تھم گئی.صرف چند منٹ ہی بارش ہوئی اور آسمان صاف ہو گیا.تاریخ احمدیت لا ہور صفحہ 290) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بھی ایک واقعہ ہے جس میں قبولیت دعا بھی ہے اور یہ بھی کہ دعا کس حد تک کروانی چاہئے.منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی لکھتے ہیں کہ میں اور منشی اروڑا صاحب اکٹھے قادیان
خطبات مسرور جلد چہارم 422 خطبہ جمعہ 25 /اگست 2006 میں آئے ہوئے تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا اور چند دن سے بارش رکی ہوئی تھی.جب ہم قادیان سے واپس روانہ ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سلام کے لئے حاضر ہوئے تو منشی اروڑا صاحب مرحوم نے حضرت صاحب سے عرض کیا، حضرت گرمی بڑی سخت ہے.دعا کریں کہ ایسی بارش ہو کہ بس او پر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی.حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھا او پر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ہو.مگر ساتھ ہی میں نے ( منشی ظفر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ) ہنس کر عرض کیا کہ حضرت یہ دعا انہیں کے لئے کریں، میرے لئے نہ کریں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر مسکرا دیئے اور ہمیں دعا کر کے رخصت کیا.منشی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت مطلع بالکل صاف تھا اور آسمان پر بادل کا نام و نشان تک نہ تھا.مگر ابھی ہم بٹالہ کے راستہ میں یکہ پر بیٹھ کر تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ سامنے سے ایک بادل اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چھا گیا اور پھر اس زور کی بارش ہوئی کہ راستہ کے کناروں پر مٹی اٹھانے کی وجہ سے جو خندقیں یا نالیاں سی بن گئی تھیں وہ پانی سے لبالب بھر گئیں.اس کے بعد ہمارا یکہ جو ایک طرف کی خندق کے پاس سے چل رہا تھا یک لخت الٹا اور اتفاق ایسا ہوا کہ منشی اروڑ ا صاحب خندق کی طرف کو گرے اور میں اونچے راستہ کی طرف گرا جس کی وجہ سے منشی صاحب کے اوپر اور نیچے سب پانی پانی ہو گیا.کہتے ہیں کہ میں بیچ رہا.کیونکہ خدا کے فضل سے چوٹ کسی کو بھی نہیں آئی تھی اس لئے میں نے منشی اروڑ ا صاحب کو اوپر اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا.لو او پر اور نیچے پانی کی اور دعائیں کرالو.اور پھر حضرت صاحب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ہم آگے روانہ ہو گئے.(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 97,96) لگتا ہے کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب بہت محتاط بھی تھے، دعاؤں پر یقین تو یقینا دونوں کو ہی ہوگا.لیکن ان کو پتہ تھا کہ اگر فوری پوری ہوگئی تو راستہ کا سفر ہے، کوئی واقعہ پیش ہی نہ آ جائے.اپنی ایک دعا کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اس جگہ ایک تازہ قبولیت دعا کا نمونہ جو پہلے اس سے کسی کتاب میں نہیں لکھا گیا ناظرین کے فائدہ کے لئے لکھتا ہوں.وہ یہ ہے کہ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے تھے.منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولی عہد کے ماتحت رعایا کی طرح قرار دئیے گئے تھے اور انہوں نے بہت کچھ کوشش کی مگر ناکام رہے اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقابہ سے اپنی دادرسی چاہیں اور اس میں بھی کچھ امید نہ تھی کیونکہ ان کے برخلاف قطعی طور پر حکام ماتحت نے فیصلہ کر دیا تھا.“
خطبات مسرور جلد چهارم 423 خطبہ جمعہ 25 /اگست 2006 وہ بھی نواب خاندان کے تھے لیکن نوابی کیونکہ دوسروں کو مل گئی تھی اس لئے ان کو بالکل ہی رعایا بنا دیا گیا تھا اور انہیں حقوق نہیں دیئے گئے تھے.بہر حال جب یہ مقدمہ پیش ہوا تو جہاں پر فیصلہ ہونا تھا انہوں نے ، سب افسران نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ یہ ان کے حق میں نہیں ہو سکتا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :- اس طوفان غم و ہمت میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے انہوں نے صرف مجھ سے دعا کی ہی درخواست نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے تو وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بلا توقف لنگر خانہ کی مدد کے لئے ادا کریں گے.چنانچہ بہت سی دعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہوا کہ اے سیف اپنا رخ اس طرف پھیر لے.تب میں نے نواب محمد علی خاں صاحب کو اس وحی الہی سے اطلاع دی.بعد اس کے خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور صاحب بہادر وائسرائے کی عدالت سے ان کے مطلب اور مقصود اور مراد کے موافق حکم نافذ ہو گیا.تب انہوں نے بلا توقف تین ہزار روپیہ کے نوٹ جو نذر مقرر ہو چکی تھی مجھے دیدیئے اور یہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا.“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 338 339) آپ کی قبولیت دعا پر غیروں کو بھی یقین تھا.چنانچہ ایک ہندو کے آپ کو دعا کے لئے عرض کرنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :.شرمپت کا ایک بھائی بشمبر داس نام ایک فوجداری مقدمہ میں شاید ڈیڑھ سال کے لئے قید ہو گیا تھا تب شرمت نے اپنی اضطراب کی حالت میں مجھ سے دعا کی درخواست کی.چنانچہ میں نے اس کی نسبت دعا کی تو میں نے بعد اس کے خواب میں دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیا ہوں جس جگہ قیدیوں کے ناموں کے رجسٹر تھے اور ان رجسٹروں میں ہر ایک قیدی کی میعاد قید لکھی تھی.تب میں نے وہ رجسٹر کھولا جس میں بشمبر داس کی قید کی نسبت لکھا تھا کہ اتنی قید ہے اور میں نے اپنے ہاتھ سے اس کی نصف قید کاٹ دی اور جب اس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل کیا گیا تو مجھے دکھلایا گیا کہ انجام مقدمہ کا یہ ہوگا کہ مثل مقدمہ ضلع میں واپس آئے گی اور نصف قید بشمبر داس کی تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہو گا.اور میں نے وہ تمام حالات اس کے بھائی لالہ شرمیت کو از ظہور انجام مقدمہ بتلا دیئے تھے اور انجام کا رایسا ہی ہوا جو میں نے کہا تھا.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 232) یعنی اس کی آدھی سزا معاف ہو گئی ، پوری سزا تو معاف نہیں ہوئی لیکن آدھی سزا معاف ہو گئی اسی خواب کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دیکھی تھی.
424 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1880ء سے 1884 ء تک براہین احمدیہ کی چار جلدیں تصنیف فرمائیں.یہ وہ زمانہ تھا جب عیسائیت کا عروج تھا اور ہر طرف اسلام پر تابڑ توڑ حملے ہورہے تھے، خود مسلمان اسلام کے بارے میں مشکوک ہو کر اسلام چھوڑ رہے تھے.اس وقت کوئی بھی اسلام کو بچانے کے لئے کھڑا نہیں ہوا.آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے ثابت فرمایا کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری نبی ہیں اور آپ نے چیلنج کیا کہ جو دلائل میں نے اس کتاب کی چار جلدوں میں دیئے ہیں ان کے تیسرے چوتھے یا پانچویں حصے کے برابر بھی اگر کوئی دلیل پیش کر دے تو دس ہزار روپے کا انعام دوں گا.لیکن کوئی مقابل پر نہیں آیا اور مسلمان علماء بشمول مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں بہت سخت مخالف ہو گئے تھے اور جو اہل حدیث کے بڑے لیڈر تھے انہوں نے بھی اس کتاب کی خوب تعریف کی.بہر حال اس کتاب نے دشمنوں کے منہ بند کر دیئے اور عیسائیت کے حملوں کے سامنے بند باندھ دیا بلکہ صرف بند نہیں باندھ دیا ان کو مقابلے کے میدان سے ہی دوڑا دیا اور آج تک وہ دوڑے ہوئے ہیں.لیکن جب آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف فرمائی تو اس کی اشاعت کے لئے اس وقت آپ کے مالی حالات ایسے نہیں تھے ، وسعت نہیں تھی ، بڑے تنگ حالات تھے.اس بات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑے پریشان تھے کہ اس کی اشاعت کس طرح ہوگی ، کس طرح اسلام کے دفاع کے لئے اپنی اس تصنیف کو دنیا کے سامنے پیش کروں گا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور اس پریشانی کو دور فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کتاب کی اشاعت کو بھی ایک نشان قرار دیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ :.” جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا.مجھے کسی سے تعارف نہ تھا.تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو یہ الہام ہوا هُرِ إِلَيْكَ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبًا جَنِيا...(ترجمہ) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی.چنانچہ میں نے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے سب سے اول خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف خط لکھا.پس خدا نے جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ان کو میری طرف مائل کر دیا اور انہوں نے بلا توقف اڑھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ اڑھائی سورو پہیہ دیا.“ اس زمانے میں روپے کی بڑی قیمت تھی تو اس سے کافی کام ہوا ہو گا.فرماتے ہیں کہ :.پھر دوسری دفعہ اڑھائی سو روپیہ دیا اور چند اور آدمیوں نے روپیہ کی مدد کی اور اس طرح پر وہ
خطبات مسرور جلد چہارم 425 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 کتاب باوجود نومیدی کے چھپ گئی اور وہ پیشگوئی پوری ہو گئی.یہ واقعات ایسے ہیں کہ صرف ایک دو آدمی ان کے گواہ نہیں بلکہ ایک جماعت کثیر گواہ ہے جس میں ہندو بھی ہیں.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 350) اس کتاب کے ضمن میں بتادوں کہ گو بہت سے لوگوں نے آپ کی اعانت کی مددفرمائی.لیکن بعض علماء نے انگریزی گورنمنٹ کے ڈر سے لینے سے انکار کر دیا.اس واقعہ کی تفصیل حیات طیبہ میں شیخ عبدالقادر صاحب نے لکھی ہے کہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے پہلے آپ کو لکھا کہ ٹھیک ہے مجھے جلدیں بھیج دیں، پھر انکار کیا.نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم اہل حدیث کے ایک مشہور عالم تھے اور والیہ بھوپال نواب شاہجہان بیگم سے ان کی شادی ہوئی تھی.شادی کر لینے کی وجہ سے شاید ان کی شہرت میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا.آپ نے دینی کتابوں کی اشاعت کے لئے بھی خاص جد و جہد کی تھی.اس لئے حضرت اقدس نے نواب صدیق حسن خان صاحب کو ایک درد دل رکھنے والا مسلمان سمجھ کر براہین احمدیہ کی اشاعت میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی تحریک پر تو انہوں نے 15 ، 20 جلدیں خریدنے پر آمادگی کا اظہار کیا مگر پھر دوبارہ یاد دہانی پر گورنمنٹ انگریزی کے خوف کا بہانہ بنا کر صاف انکار کر دیا اور براہین احمدیہ کا پیکٹ جو انہیں پہنچ چکا تھا اسے چاک کر کے ، پھاڑ کر واپس بھیج دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک مرید حافظ احمد علی صاحب کا بیان ہے کہ جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت اقدس اپنے مکان میں ٹہل رہے تھے، کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اور نہایت بری طرح اس کو خراب کیا گیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا چہرہ متغیر ہوا اور غصے سے سرخ ہو گیا.کہتے ہیں کہ عمر بھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے غصے کی حالت میں نہیں دیکھا.آپ کے چہرے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ میں غیر معمولی ناراضگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، آپ بدستور ادھر ادھر ٹہلتے رہے اور خاموش تھے کہ یکا یک آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے.اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کر لو، نیز یہ دعا کی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے.اس کے بعد جب براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ حضور نے تحریر فرمایا تو اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نواب صاحب کے اس خلاف اخلاق فعل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:.”ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خدا وند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے ( خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے ).(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 320)
426 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 خطبات مسرور جلد چہارم حضرت اقدس کی اس تحریر کے کچھ مہینوں بعد اس گورنمنٹ انگریزی نے جس کی خوشنودی کی خاطر نواب صاحب نے براہین احمدیہ کے خریدنے سے انکار کیا تھا، آپ پر ایک سیاسی مقدمہ بنا دیا اور نوابی کا خطاب بھی نواب صدیق حسن خان سے واپس لے لیا جس کی وجہ سے نواب صاحب کو بے انتہا پریشان ہونا پڑا.ان مسائل سے نکلنے کے لئے انہوں نے بہت کوشش کی ، بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی.اس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:.نواب صاحب صدیق حسن خان پر جو یہ ابتلا پیش آیا وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے.انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کر کے واپس بھیج دیا تھا.میں نے دعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے سو ایسا ہی ظہور میں آیا.“ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 470 حاشیہ) نواب صاحب کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا ( کچھ عرصے کے بعد ان کو احساس ہو گیا تھا کہ میرے سے غلطی ہو گئی ہے) پھر انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑے انکسار کے ساتھ بذریعہ خط دعا کی درخواست کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:.تب میں نے اس کو قابل رحم سمجھ کر اس کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی آخر کچھ مدت کے بعد ان کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے.“ ( تتمہ حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 470) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کی قبولیت کے ایک علمی معجزے کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے لکھا ہے کہ اپنے ابتدائی ایام تصانیف میں ( جب شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتابیں لکھ رہے تھے ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی کتاب عربی زبان میں نہیں لکھی تھی بلکہ تمام تصانیف اردو میں یا نظم کا حصہ فارسی میں لکھا.ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور کچھ عربی میں بھی لکھیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی سادگی اور بے تکلفی سے فرمایا کہ میں عربی نہیں جانتا.مولوی عبدالکریم صاحب بے تکلف آدمی تھے، انہوں نے عرض کیا کہ میں کب کہتا ہوں کہ حضور عربی جانتے ہیں، میری غرض تو یہ ہے کہ کوہ طور پر جایئے اور وہاں سے کچھ لائیے.فرمایا ہاں دعا کروں گا.( ان کا مطلب یہ تھا کہ دعا کریں، اللہ میاں سے مانگیں ) اس کے بعد آپ تشریف لے گئے اور جب دوبارہ باہر تشریف لائے تو ہنستے ہوئے فرمایا کہ مولوی
خطبات مسرور جلد چہارم 427 خطبہ جمعہ 25 /اگست 2006 صاحب میں نے دعا کر کے عربی لکھنی شروع کی تو یہ بہت ہی آسان معلوم ہوئی.چنانچہ پہلے میں نے نظم ہی لکھی اور کوئی سو شعر عربی میں لکھ کر لے آیا ہوں، آپ سنئے.یہ عربی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پہلی تصنیف تھی اور کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہوئی.اس کے بعد آپ نے کئی کتا بیں عربی میں تصنیف کیں اور زمانے بھر کے علماء کو چیلنج کیا کہ کوئی آپ کے مقابلے میں ایسی فصیح و بلیغ معنی و معارف اور حقائق سے پُر عبارت عربی زبان میں لکھ کر دکھائے مگر کسی کو طاقت نہیں ہوئی کہ اس مقابلے کے لئے کھڑا ہوتا.لکھتے ہیں کہ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام کاروبار کا انحصار دعاؤں پر تھا.آپ کی زندگی کے اوقات کا اکثر حصہ دعاؤں میں گزرتا تھا.ہر کام سے قبل آپ دعا ئیں کیا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کو بھی دعاؤں کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے.دعا کو آپ ایک عظیم الشان نعمت یقین کرتے تھے کسی اور ذریعے کو آپ ایسا عظیم التاثیر نہیں بتلاتے تھے جیسا کہ دعا ہے اور دعا کو اسباب طبعیہ میں سے ایک سبب بتلاتے تھے.سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 527,526) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:.یادر ہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے بلکہ استجابت دعا کی مانند اور کوئی بھی نشان نہیں.کیونکہ استجابت دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الہی میں قدر اور عزت ہے.اگر چہ دعا کا قبول ہو جانا ہر جگہ لازمی امر نہیں.کبھی کبھی خدائے عزوجل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے.لیکن اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ مقبولین حضرت عزت کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابت دعا کے مرتبہ میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ہزار ہا میری دعائیں قبول ہوئی ہیں.اگر میں سب کو لکھوں تو ایک بڑی کتاب ہو جائے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 334) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.دعا اور استجابت میں ایک رشتہ ہے کہ ابتداء سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا برابر چلا آتا ہے.جب خداتعالی کا ارادہ کسی بات کے کرنے کیلئے توجہ فرماتا ہے تو سنت اللہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مخلص بندہ اضطرار اور کرب اور قلق کے ساتھ دعا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنی تمام ہمت اور تمام توجہ اس امر کے ہو جانے کے لئے مصروف کرتا ہے.تب اُس مرد فانی کی دعائیں فیوض الہی کو آسمان سے بھینچتی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن سے کام بن جائے.یہی دعا ہے جس سے خدا پہچانا
خطبات مسرور جلد چہارم 66 428 خطبه جمعه 25 /اگست 2006 جاتا ہے اور اس ذوالجلال کی ہستی کا پتہ لگتا ہے جو ہزاروں پردوں میں مخفی ہے.دعا کرنے والوں کیلئے آسمان زمین سے نزدیک آ جاتا ہے اور دعا قبول ہو کر مشکل کشائی کے لئے نئے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں اور ان کا علم پیش از وقت دیا جاتا ہے اور کم سے کم یہ کہ میخ آہنی کی طرح قبولیت دعا کا یقین غیب سے دل میں بیٹھ جاتا ہے.جس طرح کہ کیل گڑ جاتی ہے اس طرح لگتا ہے کہ دل میں کوئی چیز کھب گئی ہے.کیونکہ دعا قبول ہوگئی ہے، دل یہ گواہی دیتا ہے.فرماتے ہیں کہ : ”سچ یہی ہے کہ اگر یہ دعا نہ ہوتی تو کوئی انسان خداشناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا.دعا سے الہام ملتا ہے.دعا سے ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ کلام کرتے ہیں.جب انسان اخلاص اور توحید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے جو لوگوں سے پوشیدہ ہے.دعا کی ضرورت نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے دنیوی مطالب کو پاویں بلکہ کوئی انسان بغیر ان قدرتی نشانوں کے ظاہر ہونے کے جو دعا کے بعد ظاہر ہوتے ہیں اس بچے ذوالجلال خدا کو پاہی نہیں سکتا جس سے بہت سے دل دُور پڑے ہوئے ہیں.نادان خیال کرتا ہے کہ دعا ایک لغو اور بیہودہ امر ہے مگر اسے معلوم نہیں کہ صرف ایک دعا ہی ہے جس سے خداوند ذوالجلال ڈھونڈ نے والوں پر تجلی کرتا اور آنا القادر کا الہام انکے دلوں پر ڈالتا ہے.ہر ایک یقین کا بھوکا اور پیاسا یا در کھے کہ اس زندگی میں روحانی روشنی کے طالب کے لئے صرف دعا ہی ایک ذریعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بخشا اور تمام شکوک و شبہات دور کر دیتا ہے کیونکہ جو مقاصد بغیر دعا کے کسی کو حاصل ہوں وہ نہیں جانتا کہ کیونکر اور کہاں سے اس کو حاصل ہوئے.“ لصد ایام اسلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 240,239 ) اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں پر مزید یقین عطا فرمائے اور اپنے فضل سے اس کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے تا کہ خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین اور اس کے قادر و توانا ہونے کا فہم و ادراک ہمیں اس کے قریب تر کرتا چلا جائے اور ہم اس کے مقربوں میں شمار ہونے لگ جائیں.
خطبات مسرور جلد چهارم 429 (35) خطبه جمعه یکم ستمبر 2006 مکرم مرز اعبدالحق صاحب، مکرم مولانا جلال الدین صاحب قمر، مکرمہ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ اور مکرم ماسٹر منور احمد صاحب شہید گجرات کا ذکر خیر اور ان کے لئے دعاؤں کی تحریک شہداء کو یا درکھنا چاہئے کہ احمدیت کی راہ میں بہایا ہوا یہ خون تو کبھی ضائع نہیں جاتا فرمودہ مؤرخہ یکم ستمبر 2006ء ( یکم رتبوک 1385 ہش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ.وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنُبَوثَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا إِلَّا تَهْرُ خَلِدِينَ فِيْهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ ﴾ ( العنكبوت: 58-59) گزشتہ دنوں میں سلسلے کے چند بزرگوں کی وفاتیں ہوئی ہیں، یہ موت فوت کا عمل تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے.جو اس دنیا میں آئے گا اس نے جانا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ یعنی ہر چیز جو اس زمین پر ہے وہ فانی ہے اور آگے فرمایا کہ وینقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴾ (الرحمن : 28) اور صرف تیرے رب کی ذات باقی رہنے والی ہے جو جلال اور اکرام والی ہے.پس دنیا میں جو آیا اس نے چلے جانا ہے، کسی نے پہلے کسی نے بعد کسی نے لمبی عمر پا کر، کسی نے جلدی.پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ خدا سے چمٹے رہتے ہیں اور اس کی پناہ میں آ
430 خطبه جمعه یکم تمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم جاتے ہیں.اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پچھلوں کے لئے بھی یہ نمونہ چھوڑ کر جاتے ہیں کہ دنیا کی فانی چیزوں کے پیچھے نہ دوڑ نا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا.اگر یہ تمہیں مل گئی تو تمہیں دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں.وہ اپنے عمل سے اپنے پیچھے رہنے والوں کو ، اپنی نسلوں کو یہ سبق دے کر جاتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی تا کہ اللہ تعالیٰ کے اُس انعام کے مصداق ٹھہریں جس نے فرمایا ہے کہ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَرَتِهِ ﴾ (البقرة: 113 ) یعنی جو بھی اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے.پس ایسے لوگ جو اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دیتے ہیں اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے حصہ لیتے ہیں اور آخرت میں بھی انشاء اللہ حصہ لیں گے.اور آخرت کا حصہ ظاہر ہے کہ مرنے کے بعد ملنا ہے.اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد ملنا ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ہر جان کو موت آنی ہے اور موت آنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر تمہارا میری طرف لوٹنا ہے اور جب میری طرف لوٹو گے تو ہم انہیں جنہوں نے نیک عمل کئے ہوں گے ضرور بالضرور جنت میں ایسے بالا خانے دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.پس نیک عمل کرنے والوں کا یہ ایسا عمدہ اور اعلیٰ اجر ہے کہ اس کے برابر کوئی اور اجر ہو نہیں سکتا.پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے نیک اعمال کے ایسے اجر پائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنتوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے.ہمارے جو بزرگ گزشتہ دنوں فوت ہوئے ہم امید رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کے مستحق ہوئے ہوں، حقدار ٹھہرے ہوں.اُن لوگوں نے اپنی زندگیاں اس طرز پر ڈھالنے کی کوشش کی کہ نیک اعمال بجالائیں.اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اور انسانیت کی خدمت میں گزاریں.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر جو بھی چھوٹی سی کوشش انہوں نے کی اس کا کئی گنا بڑھ کر اجر عطا فرمائے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں.کہ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے.وہاں بیٹھے ہوئے صحابہ نے ان کی تعریف کی.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہوگئی.پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی برائی کی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی.حضرت عمر نے جو پاس بیٹھے ہوئے تھے عرض کیا حضور ! کیا واجب ہوگئی.آپ نے فرمایا جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے برائی کی اس کے لئے دوزخ واجب ہو گئی.تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو یعنی نیکی اور بدی میں تمیز کی تم لوگوں کو تو فیق دی گئی ہے.( بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی المیت حدیث نمبر (1367)
431 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم پس کسی بھی مرنے والے کے ماحول کے لوگ جب اس کی نیکیوں کی گواہی دے رہے ہوں تو یقیناً یہ اس کے حق میں دعا ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے مرنے والوں کو اجر دیتا ہے.اللہ کرے کہ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو جنت کے بالا خانوں میں جگہ دے.یہ ایسے لوگ تھے جو آخرین میں شمار ہوئے.پھر حتی الوسع اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے خدمات دینیہ ادا کرنے کی توفیق پائی.ہزاروں لوگوں نے ان کے جنازوں میں شرکت کرنے کی توفیق پائی.جن سے بھی ان لوگوں کا واسطہ پڑا انہوں نے ان کے لئے تعریفی کلمات ہی کہے.میرے پاس مختلف لوگوں کے جن سے ان کا واسطہ تھا.تعزیتی خطوط آئے ہیں اور ہر ایک نے ان کی نیکیوں کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان بزرگوں کے درجات بلند کرتا چلا جائے.کیونکہ بعد میں بھی ان کے لئے دعائیں کرنی ضروری ہیں.خاص طور پر جو فوت ہونے والے ہیں ، وفات یافتگان ہیں ان کی اولادوں کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرتے رہو جو ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنیں گے.پھر فوت ہونے والوں نے جن لوگوں کے ساتھ نیکیاں کیں ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اب میں ان بزرگوں کا مختصر اذکر خیر کروں گا.ان میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب مرحوم ہیں، مولانا جلال الدین صاحب قمر ہیں، صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ ہیں اور اسی طرح ایک شہید ماسٹر منور احمد صاحب جو گجرات میں گزشتہ دنوں اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے.حضرت مرزا عبدالحق صاحب وہ بزرگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تقریباً 106 سال کی لمبی عمر عطا فرمائی.آپ کی پیدائش جنوری 1900ء کی تھی.آپ کے بھائی اور چچا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی لیکن آپ نے بیعت نہیں کی کیونکہ آپ چھوٹے ہی تھے.لیکن نیک فطرت تھے تحقیق کا مادہ چھوٹی عمر میں بھی تھا.جو متاثر کرنے والی بات تھی اس سے متاثر بھی ہوتے تھے.1913ء میں حضرت خلیفہ اُسیح الثانی (یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانے کی بات ہے ) ایک دفعہ شملہ تشریف لے گئے تو حضرت مرزا صاحب بھی ان دنوں وہیں تھے.ان کی عمر اس وقت صرف 14 سال تھی لیکن دینی علم کے حصول اور تحقیق کا مادہ تھا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی جب شملہ گئے ، جیسا کہ میں نے کہا یہ خلافت اولی کا زمانہ تھا.تو حضرت مرزا صاحب کے ذہن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کا کچھ اور ہی تصور تھا.لیکن جب خلیفتہ اسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی مجالس میں بیٹھے تو آپ کی نیکی اور علم کا آپ کی طبیعت پر بڑا گہرا اثر ہوا.مجھے
خطبات مسرور جلد چہارم 432 خطبه جمعه یکم ستمبر 2006 بھی ایک دفعہ انہوں نے یہ سارا قصہ سنایا تھا.بہر حال حضرت خلیفہ اسی الاول کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کی اور اس بیعت کے رشتے کو اس طرح نبھایا کہ کوشش کی کہ اپنا حلیہ بھی وہی رکھیں جو ظاہری طور پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا تھا.چنانچہ مجھے ایک دفعہ انہوں نے خود بتایا کہ بیعت کے بعد پھر میں نے یہ کوشش کی کہ جو لباس حضرت خلیفہ اسیح الثانی پہنتے ہیں اسی طرح کا لباس پہنوں.چنانچہ شلوار قمیص اور کوٹ اور سر پر پگڑی ہاتھ میں سوئی وغیرہ اس طرح رکھنی شروع کی.(جیسا کہ میں نے کہا) تاکہ میں اسی حالت میں رہوں ، اس حالت میں بننے کی کوشش کروں اور وہ حالت اپنے اوپر طاری کروں کہ وہ ہر وقت یادر ہے جس کی میں نے بیعت کی ہے اور پھر جب یہ عادت پڑ گئی تو بہر حال اسی طرح ان کی زندگی ڈھل گئی.گو آپ خلافت ثانیہ میں جماعت میں شامل ہوئے تھے لیکن اس فکر اور کوشش میں کہ میں نے اب احمدیت کا صحیح نمونہ بنا ہے تقریباً صحابہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیا تھا.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے کہنے پر لاء (Law) کا امتحان پاس کیا اور کچھ عرصہ بعد آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کی درخواست پیش کی.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے جواب دیا کہ آپ اپنی پریکٹس جاری رکھیں اور اپنے ا آپ کو زندگی وقف ہی سمجھیں.چنانچہ انہوں نے ساری ہی زندگی اس کا پاس کیا.گو آپ پہلے بھی علمی ذوق رکھنے والے تھے اور دینی علم کی طرف بڑی رغبت رکھتے تھے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے اس ارشاد کے بعد تو اور بھی زیادہ کوشش کی.ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ میں نے تو 9 سال کی عمر میں ( جبکہ بچہ تھا ) دینی مسائل پر غور کرنا شروع کر دیا تھا.اور ماشاء اللہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فوج میں داخل ہوئے تو آپ کے علم و عرفان کو چار چاند لگ گئے.چنانچہ آپ کے جلسہ سالانہ پر بڑے علمی خطابات ہوتے تھے.کئی کتابیں لکھی ہیں.بڑے علمی کام کئے ہیں.قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے رہے ،سرگودھا میں ان کے کئی شاگر د ہیں.مجھے الفضل سے پتہ لگا کہ جب صداقت حضرت مسیح موعود پر آپ کی کتاب شائع ہوئی تو ایک بزرگ نے مرزا صاحب کو لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتایا ہے کہ یہ کتاب میں نے اپنے حضور قبول کی ، میرا خیال ہے کہ یہ کتاب بھی صداقت حضرت مسیح موعود پر اُن کی جلسہ سالانہ کی ہی تقریر تھی.بہر حال آپ کی شخصیت ایک گہرے علمی اور دینی ذوق رکھنے والی تھی.بغیر تیاری کے بھی کسی مضمون پر بولنا شروع کرتے تھے تو خوب حق ادا کر دیتے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کو ایسے علمی اور روحانی افراد عطا فرماتا رہے جو ہمیشہ سلطان نصیر ثابت ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار خلفاء کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی.
433 خطبه جمعه یکم ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم آخر تک اللہ کے فضل سے ذہنی طور پر بالکل ایکٹو (Active) تھے.اور آپ نے ہمیشہ کامل اطاعت اور فرمانبرداری سے کام کیا.میرے ساتھ بھی آخری دم تک انہوں نے وفا اور اطاعت کا نمونہ دکھایا.اپنے خطوط میں ہمیشہ اس بات کا احساس کراتے تھے کہ انجام بخیر ہونے کے لئے دعا کریں.تقریباً ہر سال جلسے پر یہاں آیا کرتے تھے.گزشتہ سال بھی آئے تھے اور انتہائی محبت اور پیار اور خلوص کا اظہار فرماتے رہے.خلافت سے جو وفا اور خلوص کا تعلق تھاوہ تو تھا ہی لیکن اس ناطے کہ مرکزی عہدیدار خلیفہ وقت کے مقرر کردہ ہیں ان عہدیداروں کی بھی نہایت عزت اور احترام فرمایا کرتے تھے.میں جب ناظر اعلیٰ تھا، جب بھی کسی کام کے لئے ربوہ تشریف لایا کرتے تھے تو صحت کی پرواہ کئے بغیر اور باوجود کمزوری صحت کے اور میرے کہنے پر بھی کہ جہاں آپ ٹھہرے ہوئے ہیں وہیں رہا کریں میں ملنے کے لئے وہیں آجاتا ہوں خود دفتر تشریف لایا کرتے تھے اور ایک عہدیدار کے لئے ان کی آنکھوں سے احترام چھلک رہا ہوتا تھا.یہ جومیں نے کہا ہے کہ ان کی جو کمزوری تھی اس کے باوجود بھی ان کی یہ بڑی خوبی تھی کہ آخری سالوں میں جو پچھلے چند سال گزرے ہیں، خلیفہ وقت نے جن کمیٹیوں کا بھی ان کو ممبر بنایا تھایا جو کمیٹیاں ان کے سپر د تھیں ان میں ہمیشہ خرابی صحت کے باوجود بھی شامل ہوا کرتے تھے.سرگودھا سے سفر کر کے آتے تھے اور آخر تک جیسا کہ میں نے کہا ما شاء اللہ دماغی طور پر بڑے ایکٹو (Active) رہے.بڑے صائب الرائے تھے لیکن دوسروں کی رائے بھی بڑے حوصلے سے سنتے تھے اور اس کی قدر کرتے تھے.1988ء میں یہاں حضرت خلیفة أسبح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کے مسائل اور خاص طور پر زمینداروں کے مسائل پر ایک کمیٹی بنائی تھی تو مجھے بھی اس کا ممبر بنایا تھا اور مرزا صاحب اس کے صدر تھے.جب بھی آپ میٹنگ پر تشریف لاتے تو ہر ایک کو موقع دیتے کہ اپنی رائے کا اظہار کرے اور پھر اس رائے کو وزن بھی دیتے تھے.بحث کرنے کا کھل کے موقع دیتے تھے.پھر جب ایک جھوٹے مقدمے میں جو میرے خلاف ہوا تھا کہ میں نے ربوہ کے بس اڈے پر ایک بورڈ پرلکھی ہوئی قرآنی آیت کو برش پھیر کر یا کوچی کر کے مٹایا ہے.اس میں جب مجھے ملوث کیا گیا اور کافی دنوں کی بحث کے بعد جب آخر پہلے سے کئے ہوئے فیصلے کے مطابق عدالت نے مجھے مجرم بنا دیا تو اگلے دن جب ہم تھا نہ ربوہ سے چنیوٹ جا رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ہماری گاڑی کے قریب سے حضرت مرزا صاحب کی گاڑی گزری ہے اور ان کے چہرے سے پریشانی ٹپک رہی تھی.خیر چنیوٹ عدالت کے صحن میں مرزا صاحب سے ملاقات ہو گئی ، ہماری گاڑی میں آکر بیٹھ گئے.اس وقت بھی بیمار تھے، میں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی.فرمانے لگے اس وقت مجھے اپنی کوئی تکلیف نہیں ہے.
خطبات مسرور جلد چہارم 434 خطبه جمعه یکم ستمبر 2006 بہر حال لمبا وقت بیٹھے رہے.گو بظاہر ہمیں تسلیاں بھی دیتے رہے اور ہم بھی ان کو کہتے رہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن ان کے چہرے پر اس وقت بڑی فکر مندی کے آثار تھے اور مستقل وہاں بیٹھے ہوئے دعاؤں میں مصروف رہے، دعا ئیں اور باتیں ساتھ چلتی رہیں.غرض ان کی زندگی کے بیشمار واقعات ہیں.ان کو یہ بھی بہت بڑا اعزاز حاصل تھا کہ 1922 ء سے، جب سے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے با قاعدہ شوری کا نظام جماعت میں قائم فرمایا آپ کو شوری میں شمولیت کرنے کی توفیق ملی.آپ تقریباً 84 سال تک جماعتی خدمات کی توفیق پاتے رہے اور خوب توفیق پائی.اللہ تعالی ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے.حضرت مرزا صاحب کی ایک اور بات بھی ان کے کسی عزیز نے لکھی کہ ہم ان سے ملنے کے لئے گئے.آپ بیمار تھے.بستر پر لیٹے ہوئے تھے.تو باہر لوگوں کا رش تھا.بستر پر لیٹے ہوئے ہی لوگ آرہے تھے اور مل رہے تھے.یہ دو پہر سے پہلے یا بعد کا وقت تھا میں نے ان سے کہا کہ یہ تو ملاقات کا وقت نہیں ہے.لوگوں کو بھی کچھ خیال کرنا چاہئے کہ وقت پر آیا کریں اور آپ کو اس حالت یعنی بیماری میں آ کر نہ ملیں تو فرمانے لگے کہ امیر کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا.اگر امارت کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں پھر ہر وقت ہر ایک کا حق ہے کہ آئے اور اپنے مسائل بیان کرے.تو یہ دوسرے امراء کے لئے بھی بڑا سبق ہے.اللہ تعالیٰ جماعت میں آئندہ بھی ایسے علم و عرفان اور وفا سے بھرے ہوئے وجود پیدا فرما تا رہے.ان کی اولاد کو بھی توفیق دے کہ ہمیشہ احمدیت اور خلافت سے وفا کرنے والے رہیں.پھر گزشتہ دنوں ہونے والے فوت شدگان میں مولانا جلال الدین صاحب قمر ہیں.آپ بھی جماعت کے بڑے پرانے خادم اور فدائی بزرگ تھے.وفات کے وقت آپ کی عمر 83 سال تھی.لمبا عرصہ فلسطین اور مشرقی افریقہ کے ملکوں میں تبلیغ کے فرائض سرانجام دیتے رہے.مختلف زبانوں کو جانتے تھے جو ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہئے.عربی، فارسی انگریزی اور مشرقی افریقہ کی بعض مقامی زبانیں بھی جانتے تھے.جامعہ میں پڑھانے کی بھی ان کو توفیق ملی.بڑے سادہ مزاج تھے.مجھے امید ہے کہ ان کے شاگرد آج دنیا میں پھیلے ہوں گے.تقریباً گیارہ سال تک انہوں نے جامعہ میں بھی پڑھایا تو یہ شاگرد جنہوں نے مولانا صاحب سے پڑھا ان کا فرض ہے کہ اپنے استاد کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.ان کی اولاد نہیں تھی.پھر میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ، صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ کا جو میری خالہ بھی تھیں بلکہ ہم دونوں میاں بیوی کی خالہ تھیں.مجھے بچپن سے ہی ان سے تعلق تھا.ان کے گھر آنا جانا تھا.بڑی غیر معمولی.
435 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم طبیعت کی مالک تھیں.بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ایک دوسرے کے گھروں کے اندر ہی دروازے کھلتے تھے.تو اس وجہ سے کہ دروازہ بیچ میں ہی ہے، بے وقت ان کے گھر چلا جایا کرتا تھا.لیکن مجال ہے جو کسی وقت بھی کم از کم میرے سامنے یہ اظہار کیا ہو کہ کوئی بیزاری چہرے سے ٹپکتی ہو یا کسی قسم کا اظہار کیا ہو کہ بے وقت کیوں آتے ہو.ہمیشہ خالہ ہونے کا حق ادا کیا کہ جس وقت مرضی آؤ گھر پہ حق ہے.اور ہمیشہ اپنا ر کھلا رکھا.اس طبیعت کی وجہ سے اور بے تکلفی کی وجہ سے بعض دفعہ باتوں باتوں میں ان کے ساتھ زیادتی بھی ہو جاتی تھی.یا احساس ہوتا تھا کہ زیادتی ہوگئی ہے.لیکن وہ ہمیشہ برداشت کر جاتی تھیں.کبھی اس کا اظہار نہیں کیا.اس لحاظ سے بھی بڑی غیر معمولی طبیعت تھی.خلافت سے بے انتہا محبت کا تعلق تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے بھائی تھے.خلافت کے بعد وہ احترام دیا جو خلافت کا حق ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے جو دوسرے بڑے بہن بھائی ہیں انہوں نے ایک دفعہ باتوں میں ان سے پوچھا کہ پہلے تو نام لیتے تھے اب ادب اور احترام کے دائرے میں ان کو مخاطب کرنے یا ان سے بات کرنے کے لئے آپ کس طرح ان کو مخاطب کرتی ہیں.تو کہنے لگیں کہ اب وہ خلیفہ وقت ہیں.میں تو خلیفہ وقت ہی کہتی ہوں تا کہ خلافت کا احترام قائم رہے.اور ذاتی رشتوں پر خلافت کا رشتہ مقدم رہے.میرے بارے میں کسی نے پوچھا کہ اب کس طرح مخاطب کریں گی.تو فرمانے لگیں کہ میرے نزدیک خلافت کا رشتہ سب سے مقدم ہے.جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتی تھی اسی طرح ان کو مخاطب کروں گی.خلافت کے بعد اپنی خالاؤں میں میری سب سے پہلی ملاقات شاید ان سے ہوئی اور ان کی آنکھوں میں، الفاظ میں، بات چیت میں جو فوری غیر معمولی احترام میں نے دیکھا وہ حیران کن تھا.گو کہ میرے جو باقی بڑے رشتے تھے انہوں نے بھی اسی طرح اظہار کیا ہے، لیکن ان کو اور میری ایک اور بزرگ ہیں ان کو میں نے فوری طور پر مل لیا تھا اور پہلا موقع تھا اس لئے فوری دل پر نقش ہو گیا.پھر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ ان کا جائیداد اور زمینوں کا انتظام مشتر کہ چلتا تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے اپنی زندگی میں وہ انتظام میرے سپرد کیا ہوا تھا.تو ان کی وفات کے بعد جب میں نے ان کے بچوں کو کہا کہ اپنے انتظامات سنبھال لو.تو ان کو بھی کہا کہ اس طرح علیحدہ کریں.احمد نگر کی زمینوں کا حساب اور انتظام تھا.پہلے تو زبانی بھی اظہار کرتی رہیں.پھر اب اس دفعہ مجھے لکھ کر اس پریشانی کا اظہار کیا کہ کہیں کسی ناراضگی کی وجہ سے تو میں یہ انتظام نہیں چھوڑ رہا.ان کو سمجھایا کہ جب میرا براہ راست انتظام نہیں اس لئے بہتر ہے کہ اپنا اپنا خود سنبھالیں تو کہنے لگیں کہ میں اسی لئے پریشان
خطبات مسرور جلد چہارم 436 خطبه جمعه یکم ستمبر 2006 ہوں کیونکہ میرے سے یہ برداشت نہیں کہ کسی بھی حالت میں خلیفہ وقت کی ناراضگی کا باعث بنوں.یہ ان کی ذاتی چیز تھی، ذاتی معاملہ تھا لیکن اس میں بھی گوارا نہ کیا کہ خلیفہ وقت کی مرضی کے خلاف ذرا سا بھی کام ہو.غریبوں اور ضرورتمندوں کا بڑا خیال رکھنے والی، دعا اور صدقہ کرنے والی بزرگ تھیں.کوئی دعا کے لئے کہہ دیتا تو یا درکھتی تھیں.ہمارے ایک مربی صاحب ہیں جن کا میدان عمل میں کہیں دورے پر جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہو گیا اور بہت بری طرح ایکسیڈنٹ ہوا، ٹانگیں کئی جگہ سے ٹوٹ گئیں ، اب تک بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں، انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے ایکسیڈنٹ کے بعد ہسپتال سے ان کو دعا کے لئے فون کیا تو فرمانے لگیں کہ تمہارے لئے روزانہ نفل بھی پڑھ رہی ہوں اور صدقہ بھی نکالتی ہوں.تو جماعتی کارکنوں کے لئے بڑا ور در رکھتی تھیں.خلافت سے محبت کے سلسلے میں ایک اور بات ( بتا دوں ).اب جب اس دفعہ جلسہ پہ آئی ہوئی تھیں.بڑی کمزور تھیں اور ہلکا ہلکا بیماری کا اثر بھی چل رہا تھا.کسی نے کہا کہ آپ اب گھر آرام سے رہیں، دوبارہ نہ آئیں آپ کی صحت ٹھیک نہیں ہے.کہنے لگیں کہ میں تو خلیفہ وقت سے ملنے کے لئے آتی ہوں.اور جب تک ہمت ہے آتی رہوں گی.خلافت سے انتہائی محبت تھی.اب جاتے ہوئے ان کو گیسٹ ہاؤس میں جب میں مل کر آیا ہوں کہ جا رہی ہیں تو اللہ حافظ.رات کو ملا ہوں اگلے دن صبح ان کی فلائیٹ تھی.تو جب ائیر پورٹ پر جانا تھا تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے آکر بتایا کہ بی بی امتہ الباسط صاحبہ باہر کار میں بیٹھی ہوئی ہیں.میں نے کہا میں تو کل مل آیا تھا.خیر باہر گئے تو ملاقات ہوئی.دعا کے لئے انہوں نے کہا، ان کو دعا کر کے رخصت کیا.اور اللہ کے فضل سے خیریت سے پاکستان پہنچ گئیں لیکن بہر حال اللہ کی تقدیر تھی چند دن کے بعد بیماری کا دوبارہ شدید حملہ ہوا.ہارٹ اٹیک ہوا اور وفات ہوگئی.ان کے گھر پلنے والے ایک لڑکے نے جواب تو جوان بچوں کے باپ بھی ہیں.مجھے لکھا کہ یہاں جرمنی جب آتیں ( وہ آجکل جرمنی میں ہیں).تو ہمارے گھر ضرور آتیں، یہ لڑکا بھی سیالکوٹ کے کسی گاؤں سے آیا.ان کے والد یا والدہ کوئی ان کو چھوڑ گیا تھا اور وہیں پلا بڑھا ہے.لکھا ہے کہ جب میرے پاس آتیں تو میرے بچوں کو کہتیں کہ میں تمہاری دادی ہوں اور جیسا کہ میں نے کہا اس بچے کو اس کے ماں یا باپ اس وقت کسی گاؤں سے ان کے پاس چھوڑ گئے تھے.اور حضرت میر داؤ د احمد صاحب اور بی بی امہ الباسط صاحبہ نے اس لڑکے کو پالا تھا.پڑھایا لکھایا اور یہ ان کی ایک بڑی خوبی تھی جس سے ایک دفعہ تعلق قائم ہو جاتا تھا اس کو خوب نبھاتی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.
خطبات مسرور جلد چہارم 437 خطبه جمعه یکم تمبر 2006 ان کی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ نصرت کے میاں غلام قادر شہید ہوئے تو اس کو بھی بڑا حوصلہ دیا اور خوب سنبھالا اور ہر طرح خیال رکھا.گو کہ عزیزہ کی اب دوسری شادی ہو چکی ہے لیکن اس کے بچوں کو اور اس کو خود بھی بعد میں سنبھالا دیتی رہیں.اور ماں کی دعائیں جو سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہیں ، ان کی وہ دعا ئیں تو انشاء اللہ تعالیٰ ان بچوں کے لئے کام آتی رہیں گی.عزیزہ نصرت اور اس کے بچوں کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عزیزم مرزا غلام قادر شہید کے بچوں کو بھی ہمیشہ اپنی حفظ وامان میں رکھے اور اُن کے والد اور نانی کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو ہمیشہ کی طرح خود ہی اپنے فضلوں سے پورا فرما تا رہے.اور ان بچوں کے دادا دادی کو بھی صحت دے اور ان کو شہید کے بچوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ان کے دوسرے بچوں کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ نیکیوں پر چلائے.خلافت سے پیار اور محبت اور اطاعت اور فرمانبرداری اور اخلاص ووفا کا تعلق ان کی خواہش سے بڑھ کر عطا فرمائے.اور اپنی بزرگ ماں کے لئے ان کو دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے.چوتھا ذ کر ایک شہید کا ہے.ان کا نام ماسٹر منور احمد صاحب ہے.یہ گجرات کے رہنے والے تھے.جیسا کہ ظالموں کا ہمیشہ سے احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک رہا.جب دل چاہے، جس احمدی کو مارنے کو دل چاہے مار دیتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں.قانون بھی احمدی مقتول کا نام سن کر خاموش ہو جاتا ہے کہ مارنے والے نام نہاد مسلمان نے جنت کمائی ہے.جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، جہنم ان کا ٹھکانہ ہے.بہر حال 22 /اگست کو صبح دو نامعلوم افراد ان کے دروازے پر آئے جو موٹر سائیکل پر سوار تھے.جب منور صاحب نے دروازہ کھولا ، باہر نکلے تو ان دونوں نے اندھا دھند فائرنگ کی اور ان کو پانچ گولیاں لگیں، فوری طور پر ان کو ہسپتال پہنچایا گیا.لیکن زخموں کی تاب نہ لا کر وہیں وفات پا گئے.ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.بڑا بچہ گیارہ سال کا ہے، پھر 7 سال کا پھر تین سال کا.اللہ خودان بچوں کو سنبھالنے کے سامان پیدا فرمائے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.جماعت کے بھی بڑے اچھے کا رکن تھے.خدمات سرانجام دیتے تھے.دشمن سمجھتا ہے کہ آج احمدیوں کی ملک میں کوئی نہیں سنتا، قانون انکی حفاظت نہیں کرتا.اسلئے ان کو شہید کر کے انکے خیال میں قتل کر کے جتنا ثواب کمانا ہے کمالو لیکن ان کو یا درکھنا چاہئے کہ احمدیت کی راہ میں بہایا ہوا یہ خون تو کبھی ضائع نہیں جاتا.اللہ تعالیٰ نے تو اس طرح جان قربان کرنے والوں کو زندہ کہا ہے.پس جو اللہ تعالیٰ کی خاطر مرتے ہیں وہ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے اور انکے دشمنوں سے اللہ تعالیٰ خود ہی بدلہ بھی لے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا.اللہ تعالیٰ ظالموں کو
خطبات مسرور جلد چہارم 438 خطبه جمعه یکم ستمبر 2006 کیفر کردار تک پہنچائے.ملک میں رہنے والوں کی آنکھیں کھولے.اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھتے ہیں اور پھر بھی ان لوگوں کو معقل نہیں آتی.آج اگر ملک بچا ہوا ہے تو احمدیوں کی وجہ سے بچا ہوا ہے.اسلئے احمدی بڑے درد سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے ملک کو پاک کرے اور اس ملک کو بچالے.جیسا کہ میں نے کہا شہید کے بچوں کے لئے بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان پر اپنا فضل فرما تار ہے.وفات یافتگان کا ذکر ہوا ہے تو اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریق تھا.ان کے بارے میں آپ نے کیا نصیحت فرمائی کہ کس طرح دعا کی جائے.آپ کا اسوہ کیا تھا ؟ اس بارے میں چند احادیث بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ اس پر عمل کر کے ہم اپنے لئے بھی اور وفات یافتگان کے لئے بھی اللہ کا رحم اور مغفرت حاصل کرنے والے ہوں.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمی کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو ان کی وفات ہو چکی تھی اور ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور آنحضور نے آتے ہی پہلے ان کو بند کیا.پھر حضرت ابو سلمی کے اہل میں سے کسی نے نوحہ کی غرض سے بلند آواز نکالی ، اونچی آواز میں ماتم کرنے کی کوشش کی تو نوحہ کی آواز سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے لوگوں کے لئے صرف خیر کی بات کرو.کیونکہ ملائکہ ہر وہ بات جو تم کرتے ہوا سے امانت رکھتے ہیں.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی.اے اللہ! ابوسلمیٰ کی بخشش فرما اور ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کے درجات بلند فرما اور اس کے پیچھے رہنے والوں میں اس کا اچھا جانشین بنا.اے رب العالمین ! ہمیں بخش دے اور اس کی بھی بخشش فرما.اے اللہ ! اس کی قبر کو کشادہ فرما.اور اس کے لئے اسے منور فرما.(سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب تغميض المیت.حدیث نمبر 3118) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا اور اس میں یہ دعا کی.یہ جنازے کی دعا ہے نو جوانوں کو بھی یاد کرنی چاہیے کہ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَتِنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيْرِنَا وَكَبِيْرِنَا.وَذَكَرِنَا وَأَنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا.اَللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَاحْيه عَلَى الْإِسْلَامِ.وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ.اَللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَهُ - اے ہمارے خدا! ہمارے زندوں کو ، ہمارے وفات پانے والوں کو ، ہمارے چھوٹوں کو ، اور ہمارے بڑوں کو ، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو اور ہم میں سے جو حاضر ہیں اور جو غائب ہیں سب کو بخش دے، اے ہمارے خدا جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ.اور جس کو تو ہم میں سے وفات دے اُسے ایمان پر وفات دے.اے ہمارے خدا تو اس مرنے والے کے ثواب سے ہمیں محروم نہ کر اور
خطبات مسرور جلد چہارم 439 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 2006 اس کے بعد ہر قسم کے فتنہ سے ہمیں محفوظ رکھ.(ترمذى كتاب الجنائز باب ما يقول في الصلواة على الميت حدیث نمبر 1024) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین کے بعد خود بھی استغفار کرتے تھے اور لوگوں سے بھی مخاطب ہو کر فرماتے تھے یہ حساب کا وقت ہے اپنے بھائی کے لئے ثابت قدمی کی دعا مانگو.اور مغفرت طلب کرو.(ابوداؤد) كتاب الجنائز باب الاستغفار عند القبر للميت حديث نمبر 3221 طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ خدا جنت میں ایک بندے کا مرتبہ بلند فرماتا ہے تو بندہ پوچھتا ہے اے پروردگار مجھے یہ مرتبہ کہاں سے ملا تو خدا فرماتا ہے کہ تیرے لڑکے کی وجہ سے کہ وہ تیرے لئے استغفار کرتا رہا ہے.پس اولاد کو اپنے مرنے والوں کے درجات کی بلندی کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی بے حساب جانے دے اور ہم پر بھی رحم اور فضل فرمائے.حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیار کی وفات پر فرمایا.آل جعفر کے لئے کھانا تیار کرو.ان کو ایک ایسا امر در پیش ہو گیا ہے جو ان کو مصروف رکھے گا.(ابوداؤد کتاب الجنائز باب في صنعة الطعام لاهل البيت.حدیث نمبر (3132) | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے جب کا رقضا کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے یعنی کوئی فوت ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں.فرمایا نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 233 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ یہاں اس طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی.ہمسایوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جماعتی انتظام کے تحت لنگر میں جو کھانا پکتا ہے وہیں سے آ جائے.اگر تو ہمسائے نہ ہوں پھر تو جماعت کا فرض ہے کرتی ہے اور کرنا چاہئے.لیکن اگر ارد گر داحمدی ہمسائے رہتے ہوں تو ان کو اپنے فرض کو ادا کرنا چاہئے.اور اس طرف خاص توجہ دیں.اور دنیا میں ہر جگہ جماعت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.سوگ منانے کے ضمن میں حضرت زینب بنت ابی سلمیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ میں ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی ، ان دنوں آپ کے والد حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے میری موجودگی میں زردرنگ کی خوشبو منگوائی.پہلے اپنی لونڈی کو لگائی پھر اپنے ہاتھ اور اپنے رخساروں پر ملی اور ساتھ ہی فرمایا : خدا کی قسم ! مجھے خوشبو لگانے کی کوئی خواہش نہیں.مگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا
خطبات مسرور جلد چہارم 440 خطبہ جمعہ یکم ستمبر 2006 اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان لانے والی کسی بھی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی مرنے والے کا سوگ کرے.البتہ بیوی اپنے خاوند کے مرنے پر چار ماہ دس دن سوگ میں گزارتی ہے.(بخاری کتاب الجنائز باب احداد المرأة على غير زوجها حديث نمبر 1280، كتاب الطلاق باب تحد المتوفى عنها زوجها اربعة اشهر و عشرًا حدیث نمبر 5334 ) جنازے میں شامل ہونے کے بارے میں روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ثواب کی نیت سے جاتا ہے اور اس کے دفن ہونے تک ساتھ رہتا ہے تو وہ دو قیراط اجر لے کر واپس لوٹتا ہے.اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر سمجھو اور جو شخص دفن ہونے سے پہلے واپس آ جاتا ہے تو وہ صرف ایک قیراط کا ثواب پاتا ہے.(بخاری کتاب الایمان باب اتباع الجنائز من الايمان حدیث نمبر (47) اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.خاص طور پر ربوہ میں ہمیں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جس محلے میں کوئی احمدی وفات پا جاتا ہے تو اس محلے کے لوگوں کا فرض ہے کہ اس جنازے کے ساتھ جایا کریں لیکن باہر سے موصیان کے جنازے ربوہ میں آتے ہیں تو ان کے لئے وہاں جماعتی طور پر انتظام ہونا چاہئے.خدام الاحمدیہ کو بھی انتظام کرنا چاہئے کہ جنازے میں کافی لوگ شامل ہوا کریں.پھر فوت شدہ کی خوبیوں کا ذکر کرتے رہنے کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے وفات یافتگان کی خوبیاں بیان کیا کرو.اور ان کی کمزوریاں بیان کرنے سے احتراز کرو.(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فى النهى عن سب الموتى حديث نمبر 4900) ابھی جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ میں ان سب کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا تھا وہ امریکہ کے جلسے سے متعلق ہے.امریکہ میں میں نے جانا تھا لیکن حالات کی وجہ سے پروگرام ملتوی کرنا پڑا تو میرا خیال تھا کہ آج اس حوالے سے کچھ کہوں گا کیونکہ آج ان کے جلسے کا پہلا دن ہے.لیکن پھر وفات یافتگان کے ذکر کی وجہ سے اس مضمون کو چھوڑنا پڑا.لیکن مختصراً میں ان کو اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں.یہ جلسے جس مقصد کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں ورنہ ان جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں.
خطبات مسرور جلد چهارم 441 خطبه جمعه یکم تمبر 2006 جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں.آپ لوگوں نے یہ ذکر سنا کہ کس طرح ہمارے بزرگ اپنی زندگیاں بسر کرتے رہے.دعاؤں اور نیکیوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالیں تا کہ دنیا کے ہر کونے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے فیض پانے والوں کا ایسا گروہ تیار ہو جائے جو تو حید کو قائم رکھنے والا اور اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق قائم کرنے والا ہو.اور یہ کام اللہ کے فضل کو جذب کرنے سے ہی ہو گا.اور اللہ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے ، عبادات کی ضرورت ہے.پس ان تین دنوں میں امریکہ میں جلسہ ہو رہا ہے یا دنیا میں کہیں اور کسی جماعت میں اگر جلسے ہو رہے ہیں تو اس سوچ کے ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں.اللہ تعالیٰ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھ دیتا ہوں اس کو ہر وقت سامنے رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچنے والی مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس.تریاق ہو جاتا ہے.مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں.تھکتے نہیں.کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے.مبارک تم جبکہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے.اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کیلئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے.کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں، نہایت کریم و رحیم ، حیا والا ، صادق وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لوتا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دعا کرنے
خطبات مسرور جلد چهارم 442 خطبه جمعه کیم تمبر 2006 والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی گویا کہ وہ کوئی اور خدا ہے حالانکہ کوئی اور خدا نہیں.مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا یہی وہ خوارق ہے.غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھودیتا ہے.اس دعا کے ساتھ روح پچھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے.لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222 تا 224 پس اس جلسے پر ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں.نمازوں پر بہت زور دیں.امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو مادی لحاظ سے اس وقت بہت زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے.اس میں رہتے ہوئے ہر احمدی کو اپنے آپ کو اس کی گندگیوں سے محفوظ رکھنے کی اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی انتہائی ضرورت ہے اور یہی جلسے کا فیضان ہے، یہی جلسے کا فیض ہے کہ آپ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر لیں.اگر خدامل گیا تو ہم نے اپنے زندگی کے مقصد کو پالیا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات مسرور جلد چهارم 443 (36 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کے نہایت ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان آج روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی عبادتوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے ، جو روشن ستاروں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں فرموده مؤرخہ 08 ستمبر 2006ء (08 رتبوک 1385 ہجری شمسی) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے عرب کے رہنے والے مشرکین کی ایسی کا یا بیٹی کہ انہیں ایک خدا کی عبادت کرنے والا اور ہمہ وقت اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر کرنے والا بنادیا.ان لوگوں نے اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں اپنی راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے گزارنا شروع کر دیا.اُن لوگوں نے جہاں اپنے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھے.وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خود اپنی قبولیت کے نشانات بھی دیکھے.اور یہی قبولیت کے نشانات اور اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان تھا جس نے ان کو مزید تو کل کرنے والا اور دعاؤں پر یقین کرنے والا بنا دیا اور پھر وہ اُس مقام تک پہنچ گئے جہاں وہ ہر روز اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے انہیں خدا تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک عطا کیا.ان کی عبادتوں
خطبات مسرور جلد چهارم 444 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 نے اللہ تعالیٰ کو ان سے راضی کیا.اور وہ اپنے پیارے خدا سے اس طرح راضی ہوئے کہ دنیا کی ہر لالچ کو انہوں نے ٹھوکروں سے اڑا دیا.اور وہ لوگ بعد میں آنے والوں کے لئے ہدایت کا باعث بنے.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے یہ سند حاصل کی جس کا ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے.حضرت عمرؓ بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی کہ اے محمد ! تیرے صحابہ کا میرے نزدیک ایسا مرتبہ ہے جیسے آسمان میں ستارے ہیں.بعض بعض سے روشن تر ہیں لیکن نور ہر ایک میں موجود ہے.پس جس نے تیرے کسی صحابی کی پیروی کی میرے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہو گا.حضرت عمر بن خطاب نے یہ بھی کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے.(مشكوة كتاب المناقب الصحابة الفصل الثالث صفحه 554 ) پس ان روشن ستاروں نے دنیا کو ہدایت دی.ایک دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچایا، ایک دنیا کو اپنے پیدا کرنے والے خدا کے قریب کیا، عرب سے باہر کی دنیا میں یہ صحابہ گئے اور اللہ تعالیٰ پر توکل ، ایمان اور دعاؤں سے لوگوں نے اُن کے ہاتھوں سے دنیا میں معجزے عمل میں آتے دیکھے.پھر جب بڑی بڑی طاقتوں نے جو ہدایت کی ان قندیلوں کو بجھانا چاہتی تھیں، جو انہیں ختم کرنے کے در پے تھیں اُن سے ٹکر لی تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اور اپنی دعاؤں کی قبولیت دیکھتے ہوئے انہوں نے ان طاقتوں سے مقابلہ کیا تو میدان پر میدان مارتے چلے گئے.اس کی ایک دو مثالیں یہاں پیش کرتا ہوں.تاریخ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ ایران کے خلاف جب جنگ ہوئی تو سب لوگ تستر کے مقام پر جمع ہوئے.اور اہل فارس کے سپہ سالار ہرمزان اور ان کی ایرانی افواج اور پہاڑوں پر رہنے والے اور اہواز کے لشکر خندقوں میں بیٹھے تھے.حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو ان کی امداد کے لئے بھیجا اور اہل بصرہ پر حاکم بنا دیا.اور باقی تمام علاقہ پر ابوسبر کو مقرر کیا.مسلمانوں نے کئی مہینے تک ان کا محاصرہ کئے رکھا، اکثر کو تہ تیغ کیا.اس محاصرے میں حضرت براء بن مالک جو حضرت انس بن مالک کے بھائی تھے شہید ہو گئے.ان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے سو مرتبہ مبارزت کی تھی اور آخری بار شہید ہو گئے تھے.آپ ہی کی طرح مجزأة بن ثور اور کعب بن سُور اور اہل کوفہ اور اہل بصرہ میں سے متعد دلوگ شہید ہوئے تھے.جنگ ستر کے دوران مشرکین نے ان پر اسی (80) با حملہ کیا اور کبھی یہ غالب آتے اور کبھی وہ.بہت شدید جنگ ہوتی رہی.جب آخری حملہ میں شدید جنگ ہو رہی تھی تو مسلمانوں نے حضرت براء
445 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم کی خدمت میں عرض کی کہ اے براء بن مالک اپنے رب کو قسم دیں کہ وہ ان کو ہماری خاطر شکست دے دے.آپ نے دعا کی اَللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ لَنَا وَاسْتَشْهِدْنِی کہ اے اللہ ان کو ہماری خاطر شکست دے اور مجھے شہادت عطا فرما.( اپنی شہادت کی بھی ساتھ دعا کی ) آپ مستجاب الدعوات تھے.ان کی دعا ئیں بڑی قبول ہوتی تھیں.اس دعا کے بعد مسلمانوں نے دشمنوں کو شکست دی اور ان کو ان کی خندقوں میں داخل ہونے پر مجبور کر دیا.اور پھر حملہ کر کے ان کے شہر میں داخل ہو گئے اور شہر کا احاطہ کر لیا.التاریخ الکامل لابن اثیر جلد 2 صفحہ 368 حالات سنه ثمان عشرة دار الكتاب العربی بیروت 1997 ء ) ایک دوسری روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں آتا ہے ، 18 ہجری کا واقعہ ہے.نہاوند میں حضرت سعد بن ابی وقاص مسلمانوں کے کمانڈ رتھے.جراح بن سنان الاسدی نے حضرت عمر کی خدمت میں ان کے خلاف شکایات بھیجیں.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں محمد بن مسلمہ کی ڈیوٹی تھی کہ جو شخص کسی کی شکایت کرتا آپ اس کی تحقیق کیا کرتے تھے.وہ سعد کو ساتھ لے کر اہل کوفہ میں گھومے پھرے اور ان سے ان کے بارے میں پوچھتے تھے.جس کسی دوست کو بھی انہوں نے پوچھا سب نے اس کی تعریف کی سوائے ان لوگوں کے جو الجراح الاسدی کی طرف مائل ہو چکے تھے وہ خاموش رہے وہ کچھ نہ بولتے تھے اور نہ ہی وہ انہیں کوئی الزام دیتے تھے.( یہ جو طریقہ ہے یہ بھی سچ بولنے کے خلاف ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں غلط کام کی تائید کی جارہی ہے.بہر حال کہتے ہیں کہ) یہاں تک کہ محمد بن مسلمہ ، بنی عبس میں پہنچے اور ان سے پوچھا.اسامہ بن قتادہ نے کہا: اللہ گواہ ہے وہ نہ تو برابر تقسیم کرتا ہے اور نہ ہی فیصلہ میں عدل کرتا ہے اور نہ ہی جنگ میں لڑنے جاتا ہے.اس پر سعد نے کہا: اے اللہ! اگر اس نے دکھاوے، جھوٹ اور سنی سنائی بات کی ہے تو اس کی نظر اندھی کر دے اور اس کے اہل وعیال کو بڑھا دے، اسے فتنوں میں ڈال.پس وہ اندھا ہو گیا.اسکی دس بیٹیاں تھیں.پھر حضرت سعد نے ان فتنہ پردازوں کے خلاف دعا کی.اے اللہ! اگر یہ لوگ شرارت فخر کے اظہار اور دکھاوے کے لئے نکلے ہیں تو ان پر جنگ مسلط کر.(اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے جنگ کی اور الجراح حضرت حسن بن علی کے حملے کے وقت تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا، قبیصہ پتھروں سے کچلا گیا اور اربد تہ تیغ ہوا.التاریخ الکامل لابن اثیر جلد 2 صفحہ 390-391 حالات سنة ثمان عشرة دار الكتاب العربی بیروت 1997ء) تو ان صحابہ کی دعاؤں کا یہ اثر ہوتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی خوشخبری دی تھی کہ صرف یہی لوگ نہیں جن پر میرے پیار کی نظر ہے جو تیرے اردگر دروشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور دنیا کی ہدایت کا موجب بن رہے ہیں.جن کی دعاؤں کو میں تیری وجہ سے قبولیت کا درجہ دیتا ہوں اور دوں گا.تیرا چلایا ہوا یہ سلسلہ
خطبات مسرور جلد چہارم 446 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 ختم نہیں ہوگا.بلکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تجھے خوشخبری دیتا ہوں.کہ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (الجمعة :4 ) کہ تیری اتباع میں ایک شخص آخرین میں بھی مبعوث ہوگا، جو ابھی ان سے نہیں ملے.لیکن وہ مبعوث ہو کر تیری پیروی کی وجہ سے ان میں بھی ایک روحانی انقلاب پیدا کر دے گا.وہ بھی قبولیت دعا کے خارق عادت نشانات دکھائے گا اور اس کے ماننے والے بھی دعا کی قبولیت کے خارق عادت نشانات دکھائیں گے.آج ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت میں ایسے بہت سے لوگ دیکھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کے نشانات دکھا کر دوسروں کے لئے اتمام حجت یا ہدایت یا ایمان میں زیادتی کا باعث بنایا.ایسی چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں.پہلی مثال مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی ہے.کہتے ہیں ، موضع دھدرہ میں جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے، جب میں تبلیغ کے لئے جاتا تو وہاں کا ملاں محمد عالم لوگوں کو میری باتوں کے سننے سے روکتا اور اس فتویٰ کفر کی جو مجھ پر لگایا گیا تھا جا بجا تشہیر کرتا.آخر اس نے موضع مذکور کے ایک مضبوط نوجوان جیون خان نامی کو جس کا گھرانہ جتھے کے لحاظ سے بھی گاؤں کے تمام زمینداروں پر غالب تھا میرے خلاف ایسا بھڑکا یا کہ وہ میرے قتل کے درپے ہو گیا اور مجھے پیغام بھجوایا کہ اگر تم اپنی زندگی چاہتے ہو تو ہمارے گاؤں کا رخ نہ کرنا ورنہ پچھتانا پڑے گا.میں نے جب یہ پیغام سنا تو دعا کے لئے نماز میں کھڑا ہو گیا اور خدا کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی.تب اللہ تعالیٰ نے جیون خاں اور ملاں محمد عالم کے متعلق مجھے الہا ما بتایا کہ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وتَبَّ.مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ - اس القائے ربانی کے بعد مجھے دوسرے دن ہی اطلاع ملی کہ جیون خاں شدید قولنج میں مبتلا ہو گیا ہے اور ملاں محمد عالم ایک بداخلاقی کی بنا پر مسجد کی امامت سے الگ کر دیا گیا ہے.پھر قولنج کے دورے کی وجہ سے جیون خاں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ چند دنوں کے اندروہ قوی ہیکل جوان مشت استخوان ہو کر رہ گیا.(ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا ).اور اس کے گھر والے جب ہر طرح کی چارہ جوئی کر کے اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے تو اس نے کہا کہ میرے اندر یہ وہی کلہاڑیاں اور چھڑیاں چل رہی ہیں جن کے متعلق میں نے میاں غلام رسول را جیکی والوں کو پیغام دیا تھا.اگر تم میری زندگی چاہتے ہو تو خدا کے لئے اسے راضی کرو.اور میرا گناہ معاف کراؤ ورنہ میرے بچنے کی کوئی صورت نہیں.(بہر حال کہتے ہیں ) ان کے رشتہ دار میرے پاس آئے.اور ملاں نے ان کو کافی روکا تھا کہ نہ جاؤ.گاؤں کے نمبردار کو ساتھ لے کر آئے.اس نے مولوی صاحب کے متعلق ) جواب دیا کہ میاں صاحب اگر چہ ہماری برادری کے آدمی ہیں مگر ان کے
خطبات مسرور جلد چہارم 447 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 گھرانے کی بزرگی کی وجہ سے آج تک ہمارا کوئی فردان کی چار پائی پر بیٹھنے کی جرات نہیں کرتا.میں تو ڈرتا ہوں کہیں اس قسم کی باتوں میں کوئی بے ادبی نہ ہو جائے.(بہر حال ) آخر کار وہ ہمارے نمبر دار کو لے کر مولوی صاحب کے والد صاحب کے پاس گئے.(اور کہتے ہیں کہ ) میرے چچا میاں علم دین صاحب اور حافظ نظام دین صاحب کے ہمراہ میرے پاس آئے اور سروں سے سب رشتہ داروں نے پگڑیاں اتار کر میرے پاؤں پر رکھ دیں اور چھینیں مار مار کر رونے لگے کہ اب یہ پگڑیاں آپ ہمارے سر پر رکھیں گے تو ہم جائیں گے ورنہ یہ آپ کے قدموں پر دھری ہیں.یہ حالت دیکھ کر میرے والد اور چچا نے سفارش کی کہ ان کو معاف کر دو.آخر میں مان کر اپنے بزرگوں کی معیت میں ان کے ساتھ دھدرہ پہنچا.جیون خاں نے جب مجھے آتا ہوا دیکھا تو میری تو بہ، میری تو بہ کہتے ہوئے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے.اور اتنا رویا اور چلایا کہ اس کی گریہ وزاری سے اس کے تمام گھر والوں نے بھی رونا پیٹنا شروع کر دیا.اس وقت عجیب بات یہ ہوئی کہ جیون خاں جس کو علاقے کے طبیب لا علاج سمجھ کر چھوڑ گئے تھے ، ہمارے پہنچتے ہی افاقہ محسوس کرنے لگا اور جب تک ہم وہاں بیٹھے رہے وہ آرام سے پڑا رہا.مگر جب ہم گاؤں کی طرف واپس جانے لگے تو پھر اس کے درد میں وہی اضافہ ہو گیا.اس کے رشتہ داروں نے پھر مجھے بلایا.اور کہا کہ آپ یہیں رہیں اور جب تک جیون خان پوری طرح ٹھیک نہ ہو جائے آپ ہمارے گھر ہی تشریف رکھیں اور اپنے گاؤں نہ جائیں.(حضرت مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ) ادھر محمد عالم اور اس کے ہم نواؤں نے جب میری دوبارہ آمد کی خبر سنی تو جا بجا اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ وہ مریض جسے علاقے کے اچھے اچھے طبیب لاعلاج بتا چکے ہیں، اب لب گور پڑا ہوا ہے، یہ مرزائی اسے کیا صحت بخشے گا.یہ باتیں جب میرے کانوں میں پہنچیں تو میں نے جوش غیرت کے ساتھ خدا کے حضور جیون خان کی صحت کے لئے نہایت الحاح اور توجہ کے ساتھ دعا شروع کر دی.چنانچہ ابھی ہفتہ عشرہ بھی نہ گزرا تھا کہ جیون خاں کو خدا نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اعجازی برکتوں کی وجہ سے دوبارہ زندگی عطا فرما دی اور وہ بالکل صحت یاب ہو گیا.اس کرشمہ قدرت کا ظاہر ہونا تھا کہ اس گاؤں کے علاوہ گردو نواح کے لوگ حیرت زدہ ہو گئے اور جابجا اس کا چرچا کرنے لگے کہ آخر مرزا صاحب کوئی بہت بڑی ہستی ہیں جن کے مریدوں کی دعا میں اتنا اثر پایا جاتا ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے جلالی اور قہری ہاتھ نے ملاں محمد عالم کو پکڑا اور اس کی روسیاہی اور رسوائی کے بعد اسے ایسے بھیا تک مرض میں مبتلا کیا کہ اس کے جسم کا آدھا طولانی حصہ بالکل سیاہ ہو گیا اور اسی مرض میں اس جہان سے کوچ کر گیا.حیات قدسی حصہ اول صفحہ 26 تا 28 ) پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ موضع جاموں بولا جو
448 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم ہمارے گاؤں سے جانب شمال دو کوس کے فاصلہ پر واقع ہے وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے.جب انہوں نے جیون خان ساکن دھدرہ کی بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا تو ان میں سے خان محمد زمیندار میرے والد صاحب کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے تپ دق کے عارضہ میں مبتلا ہے.آپ از راہ نوازش میاں غلام رسول صاحب کو فرمائیں کہ وہ کسی وقت ہمارے گھر ٹھہریں اور جان محمد کے لئے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی صحت عطا فرما دے.چنانچہ ان کی درخواست پر والد صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا.میں وہاں چلا گیا وضو کر کے نماز میں اس کے بھائی کیلئے دعا شروع کر دی.سلام پھیرتے ہی میں نے اس سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہے.گھر والوں نے جواب دیا کہ بخار بالکل اتر گیا ہے اور کچھ بھوک کی حالت بھی محسوس ہوتی ہے.چنانچہ اس کے بعد چند ہی دنوں کے اندر اس کے کمزورنا تو اں جسم میں طاقت آ گئی اور چلنے پھرنے لگ گیا.آپ فرماتے ہیں کہ اس نشان کو دیکھ کر اگر چہ ان لوگوں کے اندر احمدیت کے متعلق کچھ حسن ظنی پیدا ہوئی مگر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے اور اگر انہوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینے کی اٹھائیسویں تاریخ کی درمیانی شب قبر میں ڈالا جائے گا.چنانچہ میں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اور یہ الہام الہی کا غذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیر احمدیوں کو دے دیا اور تلقین کی کہ اس پیشگوئی کو تعیین موت کے عرصے سے پہلے ظاہر نہ کریں.اس کے بعد میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں قادیان چلا آیا اور یہیں رمضان مبارک کا مہینہ گزارا.خدا تعالیٰ کی حکمت کہ جب جان محمد بظاہر صحت یاب ہو گیا اور جابجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی انیسویں رات ( میرا خیال ہے یہ شاید غلطی ہے.اٹھائیس یا انیسویں جو بھی رات تھی.یا وہاں غلط ہے یا یہاں غلط ہے ) اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا.اور اس کے مرنے کے بعد جب ان غیر احمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی.مگر افسوس ہے کہ پھر بھی ان لوگوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا.حیات قدسی حصہ اول صفحہ 28 تا 30 نشان دیکھتے ہیں پھر بھی اثر نہیں ہوتا.حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب جو سکھ خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور پھر حق کی تلاش کرتے ہوئے احمدی ہو گئے.احمدی ہونے کے بعد ان کو تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا.گو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
449 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم صحابہ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے لیکن سردار عبدالرحمن صاحب کو تبلیغ کی طرف غیر معمولی توجہ تھی.اس کی ایک وجہ تھی.اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ آپ کی بقیہ عمر کی مدت کتنی رہ گئی ہے.جب یہ مدت پوری ہونے کے قریب آئی تو ماسٹر صاحب نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی ، بڑے روئے ، گڑ گڑائے کہ یا الہی ابھی تو میرے بچوں کی تعلیم و تربیت مکمل نہیں ہوئی.بہت سی ذمہ داریاں میرے سر پر ہیں، میرے سپرد ہیں، میری عمر میں اضافہ فرمایا جائے.کہتے ہیں کہ ابھی دومنٹ ہی دعا میں گزرے ہوں گے کہ آپ کو الہام ہوا.وَ أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ - يعنى اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی عمر میں اضافہ کر دیا کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نافع وجود بن جائیں.اس پر آپ نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کو تبلیغ احمدیت بہت پسند ہے اس لئے آپ نے تبلیغی اشتہارات شائع کئے اور روزانہ تبلیغ کرنے لگے اور پہلی بار جو مدت بتائی گئی تھی اس سے کئی سال زیادہ گزر گئے.اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 131 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا یہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.اس پر ہر احمدی کو بھی توجہ کرنی چاہئے.اپنی قبولیت دعا کے ضمن میں وہ ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ 1908ء میں جب میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا تو میرے ساتھ ہندو، مسلمان اور چار پانچ عیسائی بھی تھے.ایس پی کلاس میں ٹرینینگ حاصل کرتے تھے.ان میں ایک پٹھان لڑکا یوسف جمال الدین اور ایک مشن سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا، پھر عیسائی ہو گیا تھا.تو ان عیسائیوں نے مجھے عصرانہ پر بلایا (چائے کی دعوت پر بلایا ) اور کہا کہ آپ نے اچھا کیا کہ سکھوں کا مذہب ترک کر کے اسلام اختیار کیا.اب ایک قدم اور آگے بڑھائیں اور عیسائی بن جائیں.ٹرینڈ ہو کر مسلمان آپ کو کیا تنخواہ دیں گے.ہم تو یہاں سے فارغ ہوتے ہی تین تین سو روپے) پر متعین ہو جائیں گے.مسلمانوں سے آپ کو چالیس پچاس روپے ملیں گے، زیادہ سے زیادہ سورو پیٹل جائے گا.تو میں نے انہیں کہا کہ میں زندہ خدا کا شائق ہوں.اگر تم زندہ خدا سے میرا تعلق جوڑ دو تو میں عیسائی ہو جاتا ہوں.یوسف جمال الدین نے پوچھا زندہ خدا سے کیا مراد ہے.کہتے ہیں کہ میں نے کہا انجیل میں لکھا ہے کہ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو کھولا جائے گا ڈھونڈ و تو خدا کو پاؤ گے.اور قرآن کریم میں بھی لکھا ہے کہ بحالت اضطرار دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے.اگر یہ نعمت عیسائیت میں دکھا دو تو میں عیسائی ہو جاؤں گا.تو کہنے لگے کہ ویدوں میں اور انجیل میں اور قرآن کے بعد وحی الہام کا سلسلہ تو بند ہو گیا ہے، اب الہام نہیں ہوسکتا.میرے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی سنتا اور دیکھتا تو
خطبات مسرور جلد چہارم 450 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 ہے لیکن بولتا نہیں.کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ جو ذات سنتی اور دیکھتی ہے وہ بول بھی سکتی ہے.میں نے کہا ابھی مجھے اس مجلس میں الہام ہو گیا ہے.(وہاں بیٹھے بیٹھے ہی ماسٹر عبدالرحمن صاحب کو الہام ہو گیا کہ پہلے سوال بتا دیا جائے گا.تو طلباء نے کہا کہ ہم نے تو نہیں سنا.اس پر یہ کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ تمہارا خون خراب ہو گیا ہے.اسے قادیان سے درست کر لو تو تم کو بھی الہام کی آواز سنائی دے گی.کہتے ہیں کہ دوسرے تیسرے دن میں لیٹا تھا.تکیہ پر سر رکھتے ہی کشفی حالت طاری ہو گئی اور مجھے ریاضی کا (حساب کا ) پر چہ سامنے دکھایا گیا.لیکن کہتے ہیں مجھے پہلا سوال ہی یا در ہا.امتحانوں میں وہ سوال جو میں نے لڑکوں کو بتادیا تھا وہ آ گیا.یہ دیکھ کر باقی جہاں حیرت میں ڈوب گئے ، ایک شخص عبدالحمید جو ایم اے تھے اور کسی جگہ کے ہیڈ ماسٹر ٹریننگ کے لئے آئے ہوئے تھے ، اور دہر یہ تھے، ان کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ یہ بات سن کے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہو گئے.کسی نے کہا یہ اتفاق ہوا ہے.آخر بحث چلتی رہی.پھر سب نے کہا کوئی اور امرغیب دکھاؤ.اس پر میں نے کہا اچھا میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ قادر ہے کوئی اور غیب دکھا دے.کہتے ہیں کہ انہیں دنوں میں مجھے الہام ہوا بچہ ہے بچہ ہے، بچی نہیں ہے.یہ کہتے ہیں کہ ان دنوں میرے گھر میں ولادت ہونے والی تھی تو ان لڑکوں نے جو عیسائی ہندو وغیرہ دوسرے غیر احمدی تھے انہوں نے صوفی غلام محمد صاحب کے ذریعہ جو وہاں پڑھتے تھے، ان کی بیوی سے قادیان سے میرے گھر کے حالات پتہ کروائے تو پتہ چلا کہ میرے گھر میں ولادت ہونے والی ہے.چنانچہ دو تین ماہ بعد ان کی بیوی کا خط آیا کہ سردار عبدالرحمن صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے.کہتے ہیں کہ میں نے ان سب کی دعوت کی اور انہیں کہا کہ اگر تم گرجے یا مندر یا ٹھا کر دوارے میں جا کر پوجا پاٹ کرتے رہو اور وہاں سے کوئی جواب نہ آئے تو سمجھو کہ خدا کی عبادت نہیں کر رہے بلکہ مصنوعی خدا کی خود ساختہ تصویر ہے جس کی عبادت کرتے ہو.کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ اب میری قبولیت دعا کی وجہ سے جو میں نے پیشگوئیاں کی تھیں ان کی تحریری شہادت دے دو.یوسف خاں اور پیٹر جی ایک عیسائی تھے وہ بہانے بناتے رہے.تو اس پر میں نے ان کو کہا کہ اگر گواہی لکھ دو تو پاس ہو جاؤ گے ورنہ فیل ہو جاؤ گے.چنا نچہ نتیجہ نکلا تو سارے لڑکے پاس تھے اور وہ دونوں فیل تھے.( اصحاب احمد جلد 7 صفحہ 73 تا 75 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب کی قبولیت دعا کے بارے میں مولوی عبد الرحیم صاحب عارف مبلغ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری جماعت میں ماسٹر صاحب پڑھا رہے تھے تو ایک خط آنے پر بڑے فکرمند ہو گئے اور ٹہلنے لگے.پھر ایک کھڑکی کی طرف منہ کر کے دعا کرنے لگے.تو میرے دریافت کرنے پر فرمایا
خطبات مسرور جلد چہارم 451 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 کہ پھر بتاؤں گا.ایک مشکل میں پڑ گیا ہوں تم بھی دعا کرو.چنانچہ چند گھنٹے کے بعد آپ نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا.ڈاکیا ایک منی آرڈ رلایا ہوا تھا.فرمایا کہ عزیز بشیر احمد کا مونگ رسول سے خط آیا ہے ( سردار بشیر احمد ان کے بیٹے تھے جو مونگ میں پڑھتے تھے ) کہ آپ نے خرچ نہیں بھیجا مجھے تکلیف ہے.اور ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے کہیں سے روپیہ کی امید نہیں تھی.میں نے دعا کی تھی کہ اے اللہ تو رازق ہے بچہ پردیس میں ہے.میرے پاس رقم نہیں، تیرے پاس بے انتہا خزانے ہیں تو کوئی سامان کر دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ سامان کر دیا.تھوڑی دیر بعد ان کے پیسوں کا انتظام ہو گیا.( اصحاب احمد.جلد 7 صفحہ 75 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) قبولیت دعا کے ضمن میں حضرت مولانا شیر علی صاحب کی دعا سے امتحان میں کامیابی کا بھی ایک عجیب ذکر ملتا ہے.حافظ عبدالرحمن صاحب بٹالوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کا معمول تھا کہ یونیورسٹی کے امتحانات جب شروع ہوتے تو حضرت مولوی صاحب بلا ناغہ روزانہ تشریف لاتے اور لڑکوں کی معیت میں نہایت الحاج سے دعا فرماتے.پھر تمام لڑکے ہال میں داخل ہو جاتے.ایک دفعہ مولوی صاحب دعا کر کے آ رہے تھے کہ ہائی سکول کی بورڈنگ کے قریب ملے.میں نے عرض کیا کہ حضور میری بچی نے ایف اے میں فلاسفی کا امتحان دینا ہے اس کے لئے دعا کریں.تو شفقت کا پیکر بغیر کوئی جواب دیئے میرے ساتھ ہو لیا اور دوبارہ ہائی سکول کے برآمدے میں پہنچ کر میری بچی کے لئے لمبی دعا کروائی.اور آپ پر خاص رقت کی کیفیت تھی دعا کے بعد فر مایا آپ کی بچی کامیاب ہوگئی ہے.چنانچہ وہ فلاسفی میں ضلع گورداسپور بھر میں فرسٹ آئی.سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحہ 234) یہ عجیب واقعہ ہے جو عبدالمجید صاحب سیال بی اے ایل ایل بی بیان کرتے ہیں کہ 1943ء کا ذکر ہے کہ مجھے میٹرک کے امتحان میں شریک ہونا تھا لیکن پانچ چھ ماہ کا طویل عرصہ بے مصرف گزر جانے کے باعث میری ہمت جواب دے رہی تھی.میں عجیب قسم کی ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا.ان دنوں میری رہائش بیت الظفر ( کوٹھی چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ) میں تھی اور حضرت مولوی صاحب گیسٹ ہاؤس میں ترجمۃ القرآن کا کام کرتے تھے (مولوی صاحب نے قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ).حضرت مولوی صاحب کے ساتھ قرابت مہربانی اور تلطف کے تعلق خاص کی وجہ سے ان کو میرے حالات کا خوب علم تھا.آپ چاہتے تھے کہ میں میٹرک کے امتحان میں ضرور شریک ہوں.چنانچہ آپ کے ہمت دلانے پر میں نے لیٹ فیس کے ساتھ داخلہ بھیج دیا.آپ نے مجھے تاکید فرمائی کہ جب پہلا پرچہ ہو جائے
خطبات مسرور جلد چهارم 452 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 تو مجھے بتانا کہ کیسا ہوا ہے.میں انشاء اللہ دعا کروں گا تم بغیر کسی فکر کے دل جمعی کے ساتھ امتحان دیتے جاؤ.جب میں انگلش کا پرچہ دے کر آیا.تو نہایت مایوسی کے لہجے میں حضرت مولوی صاحب سے ذکر کیا کہ صرف دو چار نمبر کا پرچہ کر سکا ہوں.آپ اس وقت اپنے گھر کے چبوترے پر تشریف فرما تھے.میری کارگزاری سن کر مسکرائے اور فرمایا میں نے تمہارے لئے خاص دعا کی ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ مجید کو کہو کہ پر چوں پر رول نمبر تو لکھ آئے باقی ذمہ داری ہم لے لیں گے.نیز یہ بھی فرمایا کہ جب تک نتیجہ نہ نکلے اس بات کا کسی سے ذکر نہ کریں.کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ میرے تمام پرچے نہایت خراب ہوئے تھے جن میں سے کسی ایک میں بھی کامیابی کی امید نہ تھی.لیکن میری حیرانی کی حد نہ رہی جب میٹرک کا نتیجہ نکلا تو میں 444 نمبر لے کر سیکنڈ ڈویژن میں کامیاب ہو گیا.(سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحہ 253-254) حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ہی فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو مجھ پر ابتداء میں حسن ظن تھا.بلکہ قبولیت دعا کے واقعات دیکھ کر ان کی اہلیہ صاحبہ جو شیعہ مذہب رکھتی تھیں ان کو بھی حسن ظن ہو گیا تھا اور اکثر دعا کے لئے کہتی تھیں.ایک دفعہ ان کا چھوٹا لڑکا بشر حسین بعمر چھ سات سال سخت بیمار ہو گیا.ڈاکٹر صاحب خود بھی توجہ سے اس کا علاج کرتے تھے اور دوسرے ماہر طبیبوں سے بھی اس کے علاج کا مشورہ کرتے تھے.لیکن بچے کی بیماری دن بدن بڑھتی چلی گئی.یہاں تک کہ ایک دن اس کی حالت اس قدر نازک ہو گئی کہ ڈاکٹر صاحب اس کی صحت سے بالکل مایوس ہو گئے.اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کا وقت نزع آ چکا ہے گورکنوں کو قبر کھود نے کے لئے کہنے کے واسطے اور دوسرے انتظامات کے لئے باہر چلے گئے.اس نازک حالت میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے بڑے عجز وانکسار سے اور چشم اشکبار سے (روتے ہوئے) مجھے بچہ کے لئے دعا کے واسطے کہا.میں ان کے الحاح اور عاجزی سے بہت متاثر ہوا.اور میں نے یہ پوچھا کہ رونے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے.انہوں نے بتایا کہ بعض رشتہ دار عورتیں اندر بشیر کی مایوس کن حالت کے پیش نظر ا ظہار غم والم کر رہی ہیں.میں نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ سب بشیر کی چارپائی کے پاس سے دوسرے کمرے میں چلی جائیں اور بجائے رونے کے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں لگ جائیں اور بشیر حسین کی چار پائی کے پاس جائے نماز بچھا دی جائے تا میں دعا میں اور نماز میں مشغول ہو جاؤں تو بشیر حسین کی والدہ نے اس کی تعمیل کی.کہتے ہیں کہ من مجھے اس وقت سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا بیان فرمودہ قبولیت دعا کا گر یاد آ گیا اور کمرے سے باہر نکل کر کیلیا نوالی سڑک کے کنارے جا کھڑا ہوا.اور ضعیف اور بوڑھی غریب عورت کو جو وہاں سے گزررہی
453 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم تھی آواز دے کر بلایا.اس کی جھولی میں روپیہ ڈالتے ہوئے اسے صدقہ کو قبول کرنے اور مریض کے لئے جن کے واسطے صدقہ دیا تھا دعا کرنے کے لئے درخواست کی.اس کے بعد میں فوراً مریض کے کمرے میں واپس آکر نماز و دعا میں مشغول ہو گیا.اور سورہ فاتحہ کے لفظ لفظ کو خدا تعالیٰ کی خاص توفیق سے حصول شفا کے لئے رقت اور تضرع سے پڑھا.اس وقت میری آنکھیں اشکبار اور دل رقت اور جوش سے بھرا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ ہی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمانہ کا جلوہ ضرور دکھائے گا.کہتے ہیں کہ پہلی رکعت میں میں نے سورہ یسین پڑھی اور رکوع و سجود میں بھی دعا کرتا رہا.جب میں ابھی سجدے میں ہی تھا کہ بشیر حسین چار پائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میرے شاہ جی کہاں ہیں ؟.میری ماں کہاں ہے؟ میں نے اس کی آواز سے سمجھ لیا کہ دعا کا تیر نشانے پر لگ چکا ہے.اور باقی نماز اختصار سے پڑھ کر سلام پھیرا.میں نے بشیر حسین سے پوچھا کہ کیا بات ہے.اس نے کہا میں نے پانی پینا ہے.اتنے میں بشیر کی والدہ آئیں اور مجھے باہر سے ہی کہنے لگیں کہ مولوی صاحب آپ کس سے باتیں کر رہے تھے.میں نے کہا کہ اندر آ ئیں.اور جب وہ پردہ کر کے کمرے میں آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ عزیز بشیر چار پائی پر بیٹھا ہے.اور پانی مانگ رہا ہے.تب انہوں نے اللہ کا بہت شکر کیا اور بچے کو پانی پلایا.( حیات قدسی جلد پنجم صفحہ 31-32) حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے بارے میں بابا اندر صاحب جو ان کے ملازم تھے وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ شاہ صاحب گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے دائیں کلائی ٹوٹ جانے کی وجہ سے بیمار تھے.کورٹ سے بار بار سمن آتے تھے.( کسی گواہی کے لئے آتے ہوں گے ) ڈپٹی کیشو داس کی عدالت میں مقدمہ تھا شہادت کے لئے حاضر ہونا تھا.تو مجسٹریٹ نے یہ سمجھ کر کہ آپ عمداً حاضری سے گریز کر رہے ہیں.سول سرجن سیالکوٹ کی معرفت حاضری کا حکم نامہ بھجوایا اور ناراضگی کا اظہار کیا.سول سرجن کے تاکیدی حکم پر آپ کو مجبوراً حاضر ہونا پڑا.عدالت سے باہر مجسٹریٹ پاس سے گزرا.(آپ کھڑے تھے وہ قریب سے گزرا ) اس کی ہیئت سے غصہ ظاہر ہوتا تھا ( اس کی حالت سے غصہ ظاہر ہو رہا تھا ) آپ نے مجھے کہا کہ ڈپٹی صاحب خفا معلوم ہوتے ہیں.خوف ہے کہ مجھ پر نا پسندیدہ جرح کر کے میری خفت نہ کریں ( یعنی وہ بلاوجہ مجھے طنزیہ فقروں سے شرمندہ کرنے کی کوشش نہ کرے).اس لئے وضو کے لئے پانی لاؤ تا کہ عدالت کی طرف سے آواز پڑنے سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر لوں.چنانچہ آپ نے نہایت خشوع و خضوع سے نفل ادا کئے.آپ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو مجسٹریٹ نے اپنا سر پکڑ لیا اور ریڈر کو کہا میرے سر میں شدید درد شروع ہو گیا ہے.میں پچھلے کمرے میں آرام کرتا ہوں تم ڈاکٹر
454 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم صاحب کی شہادت قلمبند کر لو.ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر ریڈر دستخط کرانے گیا تو مجسٹریٹ نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے خرچے کا کاغذ بھی تیار کر لو اور کمرہ عدالت میں آکر دونوں پر دستخط کر دیئے.اور خرچہ دلا کر جانے کی اجازت دے دی.باہر آ کر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا : اندر! دیکھا اسلام کا خدا، اس کی نصرت اور معجزات کیا عجیب شان رکھتے ہیں.تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحه 15-16 ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ہی ایک اور روایت ہے.یہ انہی بابا اندر کی ہے کہ آپ اکثر دعا کرتے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ انڈین میڈیکل سروس میں آ جائے.انہوں نے عرض کیا کہ ایسی ترقی کے لئے ولایت میں تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے.فرمایا کہ ہمارا خدا ہر چیز پر قادر ہے.سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے جنگ عظیم دوئم میں خدمات سرانجام دینے کی درخواست دے دی اور ان کو ملازمت میں لے لیا گیا.جب آپ والد صاحب کی ملاقات کے لئے آئے.تو پوچھنے پر بتایا کہ کندھوں پر کراؤن ، آئی ایم ایس ہو جانے کی وجہ سے ہیں.تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو! میرے بیٹے کو میرے خدا نے آئی ایم ایس کر دیا اور میری دعا قبول کر لی.تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحہ 16) ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے ہیں.حکیم محمد امین صاحب نے لکھا ہے کہ ایک احمدی لڑکی کی تدفین کے موقع پر ایک غیر احمدی معمر دوست ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کو بہت دعائیں دینے لگے.انہوں نے بتایا کہ آس پاس کی احمدی جماعتوں کے قیام میں ڈاکٹر صاحب کی کوششوں کا اہم حصہ ہے.آپ بہت بزرگ اور تہجد گزار تھے.ہر جمعہ کے روز آپ ایک قربانی کر کے تقسیم کرتے تھے.مریض دُور دُور سے علاج کے لئے آتے تھے کیونکہ مشہور تھا کہ آپ دوا کے ساتھ جو دعا کرتے ہیں اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے.( تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحہ 15) آج بھی یہی نمونہ ہمارے احمدی ڈاکٹر دکھاتے ہیں اور دکھانا بھی چاہئے کیونکہ شافی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اس لئے اس شافی خدا سے ہمیشہ چھٹے رہنا چاہئے.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : فیضان ایزدی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت را شدہ کے طفیل اور تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی میں منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور
455 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم حاجتمندوں کے لئے دعا کرتا تھا مولا کریم اسی وقت میرے معروضات کو شرف قبولیت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا.چنانچہ ایک موقع پر جب میں موضع سعد اللہ پور گیا.تو میں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو ، جو چوہدری عبداللہ خاں صاحب نمبردار کے برادر زادہ تھے اور ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے ، مسجد کی دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ بے طرح دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف کی وجہ سے نڈھال ہو رہے تھے.میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے 25 سال سے پرانا دمہ ہے جس کی وجہ سے زندگی دوبھر ہوگئی ہے.میں نے علاج معالجہ کی نسبت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ڈور ڈور کے قابل طبیبوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروا چکا ہوں مگر انہوں نے اس بیماری کو موروثی اور مزمن ہونے کی وجہ سے لا علاج قرار دے دیا ہے.اسی لئے اب میں اس کے علاج سے مایوس ہو چکا ہوں.میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی بیماری کو لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ کے فرمان سے لا علاج قرار نہیں دیا.آپ اسے لاعلاج سمجھ کر مایوس کیوں ہوتے ہیں؟.کہنے لگے اب مایوسی کے سوا اور کیا چارہ ہے.میں نے کہا ہمارا خدا تو فَعَالُ لِمَا يُرِيد ہے اس نے فرمایا ہے کہ لَا تَايْتَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ.إِنَّهُ لَا يَايْتَسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُوْنَ ) یعنی پاس اور کفر تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن ایمان اور یاس اکٹھے نہیں ہو سکتے.اس لئے آپ نا امید نہ ہوں اور ابھی پیالے میں تھوڑا سا پانی منگوائیں.میں آپ کو دم کر دیتا ہوں.کہتے ہیں کہ انہوں نے اسی وقت پانی منگوایا اور میں نے اللہ تعالیٰ کی صفت شافی سے استفادہ کرتے ہوئے اتنی توجہ سے اس پانی پر دم کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی اس صفت کے فیوض سورج کی کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے.اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ پانی افضال ایز دی اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی برکت سے مجسم شفا بن چکا ہے.چنانچہ جب میں نے یہ پانی چوہدری اللہ داد صاحب کو پلایا تو آن کی آن میں دمہ کا دورہ رک گیا.اور پھر اس کے بعد کبھی انہیں یہ عارضہ نہیں ہوا.حالانکہ اس واقعہ کے بعد چوہدری صاحب قریباً 15-16 سال تک زندہ رہے.اور اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت بھی نصیب فرمائی اور آپ خدا کے فضل سے مخلص اور احمدی مبلغ بن گئے.حیات قدسی حصہ اول صفحہ 49 تا 51) مولوی عبد القادر صاحب، مولوی محب الرحمن صاحب کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آخری عمر میں آپ بہت بیمار ہوئے.ڈاکٹروں نے کہ دیا کہ پھیپھڑے بالکل گل چکے ہیں.چند یوم کے مہمان ہیں.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.ایک
خطبات مسرور جلد چہارم 456 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 دن خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے.اس نے آپ کا سینہ چاک کیا.پھیپھڑے نکال کر دکھائے جو بالکل گل سڑ چکے تھے.پھر ان کو پھینک دیا اور ان کی بجائے صحیح و سالم پھیپھڑے رکھ دیئے.اس رؤیا کے بعد آپ تندرست ہو گئے.اور کئی سال عمر پائی.اور طبعی موت سے وفات پائی.تاریخ احمدیت لاہور.صفحہ 158 ) حضرت خلیفہ اسی الاول کا واقعہ ہے کہ 1909 ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ قادیان میں لگا تار آٹھ روز بارش ہوتی رہی.جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم نے یہاں سے باہر ایک نئی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گر گئی.آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفہ امسیح الاول نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں.دعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں نے آج وہ دعا کی ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی.یہ دعا بارش کے بند ہونے کی تھی.دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہورہی تھی.اور اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ 71 طبع اول 1960ء مطبوعہ ربوہ ) ان بزرگوں کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات ہیں اور یہ سلسلہ آج تک اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا ہوا ہے.آج بھی ہم دیکھتے ہیں، ہمارے مبلغین بھی میدان عمل میں دیکھتے ہیں اور دوسرے خدام سلسلہ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک روا رکھا ہوا ہے کہ ان کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ احمدیوں کو قبولیت دعا کے نشانات دکھاتا ہے.جیسا کہ ہم دیکھ بھی چکے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کو بھی ایسے لوگ عطا فرما تا رہا ہے اور فرما رہا ہے جو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہے ہیں اور بن رہے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک نظارہ جماعت کے ایسے برگزیدہ لوگوں کے بارے میں دکھایا تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں نے دیکھا کہ رات کے وقت میں ایک جگہ بیٹھا ہوں ( رات کا وقت ہے میں ایک جگہ بیٹھا ہوں ) اور ایک اور شخص میرے پاس ہے.تب میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا بہت سارے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں.تب میں نے ان ستاروں کو دیکھ کر اور انہی کی طرف اشارہ کر کے کہا.آسمانی بادشاہت پھر معلوم ہوا کہ کوئی شخص دروازے پر ہے اور کھٹکھٹاتا ہے.جب میں نے کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک سودائی ہے جس کا نام میراں بخش ہے.اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اندر آ گیا.اس
457 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم کے ساتھ بھی ایک شخص ہے مگر اس نے مصافحہ نہیں کیا اور نہ وہ اندر آیا.اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ آسمانی باشاہت سے مراد سلسلے کے برگزیدہ لوگ ہیں.جن کو خدا از مین پر پھیلا دے گا.اور اس دیوانے سے مراد کوئی متکبر مغرور متمول یا تعصب کی وجہ سے کوئی دیوانہ ہے خدا اسکو تو فیق بیعت دے گا.اور پھر الہام ہوا کا تَخَفْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا گویا میں کسی دوسرے کو تسلی دیتا ہوں کہ تو مت ڈر بے شک خدا ہمارے ساتھ ہے“.( بدر جلد 2 نمبر 45 مورخہ 8 نومبر 1906ءصفحہ 3.الحکم جلد 10 نمبر 38 مورخہ 10 نومبر 1906 صفحہ 1) پس آج روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی عبادتوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو روشن ستاروں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں.جنہوں نے پہلوں سے مل کر دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بننا ہے اور آسمانی بادشاہت کو پھر سے دنیا میں قائم کرنا ہے.ہر دل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنی ہے.ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ” پیر بنو.پیر پرست نہ بنو “ اور ”ولی بنو.ولی پرست نہ بنو “ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خاتم الاولیاء اور خاتم الخلفاء کی پیروی کرتے ہوئے اپنی عبادتوں کو سنوارتے ہوئے ، قبولیت دعا کے نظارے دیکھتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لیے.کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقعہ بہر حال مل جائے گا.اس وقت کی دعاؤں میں خاص تاثیر ہوتی ہے.کیونکہ وہ بچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں.جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 182 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پھر آپ فرماتے ہیں: ساری عقدہ کشائیاں دعا کے ساتھ ہو جاتی ہیں.ہمارے ہاتھ میں بھی اگر کسی کی خیر خواہی ہے تو کیا ہے.صرف ایک دعا کا آلہ ہی ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے.کیا دوست کے لئے اور کیا دشمن کے لئے.ہم سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ نہیں کر سکتے.ہمارے بس میں ایک ذرہ بھر بھی نہیں ہے مگر جو خدا ہمیں اپنے فضل سے عطا کر دے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 132 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری مددفر ما تار ہے اور ہم ان نصیحتوں پر عمل کرنے والے ہوں.ایک بات میں کہنی چاہتا ہوں.گزشتہ جمعہ میں نے دعا کی غرض سے بزرگوں کا ذکر کیا تھا.جو میں
458 خطبہ جمعہ 08 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ضروری ہے.صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ کے ذکر میں میں نے ان کی دوسری باتیں بتائی تھیں لیکن کسی جماعتی خدمت یا علمی خدمت کا ذکر نہیں کیا تھا.لجنہ کا کام تو خیر آپ کرتی رہی ہیں اور بڑا لمبا عرصہ کیا ہے.لیکن جو سب سے زیادہ اہم کام ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خاوند حضرت میر داؤد احمد صاحب کے ساتھ مل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سے مختلف عنوانات کے تحت حوالے نکالے اور انہیں یکجا کیا ہے جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے، چھپی ہوئی کتاب ہے.یہ بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا.اور ان دنوں میں میں خود بھی ان کو دیکھتا رہا ہوں.میں نے نوٹ میں رکھا بھی تھا لیکن کسی وجہ سے رہ گیا.بہر حال میں جب بھی ان کے گھر جاتا تھا دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے حوالوں کو دیکھ رہے ہوتے تھے یا پروف ریڈنگ کر رہے ہوتے تھے اور بڑا لمبا عرصہ انہوں نے یہ کام کیا ہے.گھنٹوں بیٹھے ہوئے ہیں.اب یہ ایسا کام ہے جس سے کافی حد تک کسی بھی موضوع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فوری حوالہ بھی مل جاتا ہے.اور جہاں یہ چیز ہوتی ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہو جاتی ہے.میر داؤ د احمد صاحب نے جو پیش لفظ لکھا ہے اس میں صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ کے بارے میں یہ ذکر بھی کیا ہے کہ ”میرا دل اپنی رفیقہ حیات کے لئے ممنونیت کے جذبات سے لبریز ہے جنہوں نے اقتباسات کی تلاش، نقل ، تصحیح اور پھر کاپی پڑھنے میں مسلسل بڑے حو صلے اور محنت سے میرا ہاتھ بٹایا.“ 66 ( حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام اپنی تحریروں کی رو سے، جلد اول ، پیش لفظ ، نظارت اشاعت ربوہ ) تو اللہ تعالیٰ ان دونوں پر اپنے پیار کی نظر رکھے.انہوں نے یہ بہت اہم کام کیا ہے.اس کی اہمیت کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی فرمایا تھا کہ اس کا ترجمہ کریں جو کہ پھر انہوں نے Essence of Islam کے نام سے انگریزی میں کیا.دو جلدیں ان کی زندگی میں شائع ہو گئیں اور دو بعد میں چھپی ہیں اور مزیدا بھی چھینی ہیں کیونکہ ابھی بھی جو حوالے ان دونوں میاں بیوی نے اکٹھے کئے تھے انگریزی ٹرانسلیشن میں تمام عناوین کو ابھی تک Cover نہیں کیا جاسکا.چار جلدوں کے باوجود یہ بہت بڑا کام تھا کیونکہ اس سے لوگوں کو شوق پیدا ہورہا ہے.یہاں ایک انگریز احمدی خاتون نے مجھے کہا کہ براہین احمدیہ کا ترجمہ کب ہو رہا ہے.کیونکہ میں نے کچھ حوالے اس کے پڑھے ہیں.دل چاہتا ہے کہ اب پوری کتاب پڑھی جائے.تو یہ جو حوالوں کے ترجمے ہیں یہ لوگوں میں اصل کتابوں کے پڑھنے کا بھی شوق پیدا کرتے ہیں.تو میں نے سوچا کہ اس لحاظ سے بھی ان کا کام بیان کر دوں تا کہ لوگ ان کو اس لحاظ سے بھی دعاؤں میں یا درکھیں.
خطبات مسرور جلد چهارم 459 37 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 جرمنی میں ایک یو نیورسٹی میں لیکچر کے دوران پوپ کے اسلام کے خلاف معترضانہ بیان پر جامع اور بھر پور تبصرہ اسلام کی جبر کے خلاف اور مذہبی آزادی کے حوالے سے خوبصورت تعلیم بعض انصاف پسند عیسائی مستشرقین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخراج تحسین فرمودہ مورخہ 15 ستمبر 2006 ء (15 تبوک 1385 ہش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کل ایک خبر آئی تھی کہ پوپ نے جرمنی میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران بعض اسلامی تعلیمات کا ذکر کیا اور قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی دوسرے لکھنے والے کے حوالے سے ایسی باتیں کی ہیں جن کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے.یہ ان کا ایک طریقہ ہے، بڑی ہوشیاری سے دوسرے کا حوالہ دے کر اپنی جان بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور بات بھی کہہ جاتے ہیں.پوپ صاحب نے بعض ایسی باتیں کہہ کر قرآن کریم ، اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک ایساغلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے مسلمانوں میں تو ایک بے چینی پیدا ہوگئی ہوگی ، اس سے اُن کے اسلام کے خلاف اپنے دلی جذبات کا بھی اظہار ہو جاتا ہے.پوپ کا ایسا مقام ہے کہ وہ چاہے کسی
خطبات مسرور جلد چہارم 460 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 حوالے سے بھی بات کہتے ، ان کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ ایسی بات کا اظہار کیا جاتا.اس وقت جبکہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف مغرب میں کسی نہ کسی حوالے سے نفرت کے جذبات پیدا کئے جارہے ہیں ، پوپ کا ایسی بات کرنا جلتی پر تیل ڈالنے والی بات تھی.چاہے تو یہ تھا کہ وہ کہتے کہ گو آج بعض شر پسند اسلامی تنظیموں نے متشددانہ طریق اپنایا ہوا ہے لیکن اسلام کی تعلیم اس کے خلاف نظر آتی ہے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہئے تا کہ معصوم انسانیت کو تباہی و بربادی سے بچایا جا سکے.اس کی بجائے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو اس راستے پر لگانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کی تعلیم تو ہے ہی یہ.میرا خیال تھا کہ پوپ سمجھے ہوئے انسان ہیں اور عالم آدمی ہیں اور اسلام کے بارے میں بھی کچھ علم رکھتے ہوں گے لیکن یہ بات کر کے انہوں نے بالکل ہی اپنی کم علمی کا اظہار کیا ہے.جس مسیح کی خلافت کے وہ دعویدار ہیں اس کی تعلیم پر چلتے ہوئے ان کو تو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی ، اس نے تو دشمن سے بھی نیک سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی طرف غلط باتیں منسوب کر کے ایک طرف تو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا گیا ہے ( جیسا کہ میں نے کہا ہے ) اور پھر رد عمل کے طور پر جن کو جذبات پر کنٹرول نہیں ہے وہ ایسی حرکتیں کر جائیں گے جس سے مسلمانوں کے خلاف ان کو مزید Propaganda کا موقع مل جائے گا.دوسرے پوپ کے پیروکار اور مغرب میں رہنے والے لوگ جو اسلام کو شدت پسند مذہب سمجھتے ہیں ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف مزید نفرت پھیلے گی.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور دنیا کو فتنے اور فساد سے بچائے.احمدیوں کو تو ہمیشہ ہی یہ دعا کرنی چاہئے اور یہ جو سوال اٹھائے گئے اور آگے اپنا لیکچر دیا.دعا کے ساتھ ہر ملک میں اس کے جواب بھی دینے چاہئیں.ہمارے تو یہی دو ہتھیار ہیں جن سے ہم نے کام لینا ہے، کسی اور رد عمل کا نہ کبھی احمدی سے اظہار ہوا ہے اور نہ انشاء اللہ ہوگا.میں پوپ کے اعتراضات کا خلاصہ پڑھ دیتا ہوں جو انہوں نے قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے.جرمنی سے یہ تفصیل منگوائی گئی ہے.کہتے ہیں کہ میں نے ایک مکالمہ پڑھا تھا جس کا متن ایک یونیورسٹی کے پروفیسر نے شائع کیا ہے اور یہ پرانا مکالمہ ایک علم دوست قیصر مینوئیل اور ایک فارسی عالم کے درمیان 1391ء میں انقرہ میں ہوا تھا اور پھر وہی عیسائی عالم اس کو تحریر میں لایا.لیکن ساتھ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کیونکہ یہ مکالمہ عیسائی عالم کی طرف سے شائع ہوا ہے اس لئے انہوں نے اپنی زیادہ بات کی ہے.اپنی ایمانداری کا تو یہیں پتہ لگ گیا کہ مسلمان عالم کی باتوں کا ذکر بہت کم ہے اور اپنی باتیں زیادہ کی ہیں.بہر حال (جو سوال اٹھائے ہیں ) وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے اس لیکچر میں ایک نکتے پر بات کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ اس میں قیصر جہاد کا ذکر کرتا ہے اور قیصر کو یقینا علم تھا کہ مذہب کے معاملے میں اسلام میں جبر نہیں ہے.سورۃ بقرہ کی آیت 256 کا حوالہ دے رہے ہیں.آگے کہتے ہیں قیصر یقینا قرآن میں
461 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 مقدس جنگ یا جہاد سے متعلق بعد کی تعلیمات سے بھی واقف تھا.قرآن میں اس حوالے سے جو تفصیلات درج ہیں مثلاً اہل کتاب سے اور کفار سے مختلف قسم کا سلوک کیا جانا چاہئے ( یہ انہوں نے اپنی طرف سے حوالہ دے دیا ہے ) اور یہ کہتے ہیں کہ قیصر حیران کن ترش الفاظ میں اپنے شریک گفتگو سے بنیادی سوال کرتا ہے اور اس پر مزید کہتا ہے کہ مذہب اور جبر کا آپس میں کیا تعلق ہے.پھر کہتے ہیں کہ مجھے دکھاؤ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون سی نئی چیز لے کر آئے ہیں.تمہیں صرف بُری اور غیر انسانی تعلیمات ہی ملی ہیں جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ ان کے لائے ہوئے مذہب کو تلوار کے زور سے پھیلایا جائے.إِنَّا لِلہ.اس کے بعد کہتے ہیں قیصر تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ کیوں مذہب کو طاقت کے زور سے پھیلا نا عقل کے خلاف ہے.یہ تعلیم خدا کی ذات اور روح کی ماہیت سے متصادم ہے.کہتا ہے کہ خدا کو خونریزی پسند نہیں اور عقل و عمل خدا کی ذات سے متصادم ہے.ایمان روح کا پھل ہے جسم کا نہیں.پھر آگے کہتے ہیں کہ قیصر جس کی تربیت یونانی فلسفے کے تحت ہوئی تھی اس کے لئے مذکورہ بالا جملہ ایک واضح حقیقت ہے جب کہ اسلامی تعلیم کے مطابق خدا ایک مطلق ماورائیت کا حامل وجود ہے اور کسی ارضی کیٹیگری (Category) کا پابند نہیں حتی کہ معقولیت کا بھی نہیں.اور پھر آگے فرانسیسی ماہر اسلامیات کے حوالے سے ابن حزم کی ایک بات quote کی ہے کہ کوئی شے خدا کو ہم پر سیچ ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی.اگر وہ چاہے تو انسان کو بت پرستی بھی کرنی پڑے گی ( پتہ نہیں ابن حزم نے کہا بھی تھا کہ نہیں، کوئی حوالہ آگے نہیں ہے ).پھر وہ لکھتے ہیں کہ کیا یہ عقیدہ کہ خدا خلاف عقل کام نہیں کر سکتا یہ یونانی عقیدہ ہے یا یہ ازلی اور فی ذاتہ ایک حقیقت ہے.میرے خیال میں یہاں یونانی فکر کی یا خدا پر ایسے ایمان کی جو بائبل پر مبنی ہو آپس میں گہری مطابقت نظر آتی ہے.(خیر باقی تو لمبا لیکچر ہے ).اس میں جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک تو خود ہی اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ قیصر کے اپنے الفاظ فارسی عالم کے جوابات کے مقابلے میں مفصل ہیں اور جس عیسائی نے اپنی یہ داستان لکھی ہے، ظاہر ہے کہ اس نے اپنی بڑائی ظاہر کرنے کیلئے اپنی دلیلوں کو مضبوط کرنا تھا، دوسری طرف کی دلیلیں تو دی نہیں گئیں، یقیناً انصاف سے کام نہیں لیا گیا ہو گا.بہر حال یہ جو کچھ بھی تھا، ہم مسلمان کیا سمجھتے ہیں، ہم احمدی کیا سمجھتے ہیں اس بارہ میں میں قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے مختصر بیان کرتا ہوں.زیادہ تو بیان نہیں ہوسکتا لیکن پوپ کیلئے ان سوالوں کے انشاء اللہ جوابات تیار کئے جائیں گے اور انہیں پہنچانے کی کوشش بھی کی جائے گی تاکہ وہ اسلام کی صحیح تعلیم سے اگر ابھی تک بے بہرہ تھے، ناواقف تھے تو اب ان کو کچھ پتہ لگ جائے، بشرطیکہ اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے انصاف سے اس کو پڑھیں اور غور کریں.ہمارے دل میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا بہت احترام ہے.ہم انہیں اللہ تعالیٰ کا نبی مانتے
462 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم ہیں بلکہ ہر قوم میں جتنے بھی انبیاء آئے سب کو مانتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں.عیسائیوں کو بھی مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام کرنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا کہ قیصر کا حوالہ دے کر پوپ صاحب یہ کہتے ہیں کہ سورۃ بقرہ کی آیت 256 کا قیصر کو یقینا علم تھا.اور یہ آیت لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ﴾ (البقرة : 257) ہے.یعنی دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے.کہتے ہیں یہ سورۃ ابتدائی سورتوں میں سے تھی.اتنی ابتدائی بھی نہیں ، یہ مدینہ کے ابتدائی ایک دو سال کی ہے.لیکن قیصر کو بعد کی سورتوں کا بھی علم تھا اور جہاد سے متعلق بعد کی تعلیمات سے بھی واقف تھا.واقف تو پتہ نہیں وہ تھا یا نہیں لیکن تعصب کی نظر ضرور رکھتا تھا.کہتے ہیں کہ قرآن میں کفار اور اہل کتاب کے بارے میں مختلف سلوک کرنے کی ہدایت ہے جبکہ مذہب میں جبر کا کوئی تصور نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں نعوذ باللہ بُری اور غیر انسانی تعلیمات ہی ملیں گی اس کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا.جیسا کہ آپ نے فرمایا ( بقول اُن کے، نعوذ باللہ ) کہ اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے.خود ہی ایک بات غلط طور پر منسوب کر کے جس کا اسلام کی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ، خود ہی یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ یہ خلاف عقل باتیں ہیں جو خدا کے انصاف سے متصادم ہیں.کہتے ہیں کہ ایک ذی عقل کو قوت یا زور اور ہتھیار در کار نہیں ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ایک ذی عقل کو ہتھیار اور طاقت کی ضرورت نہیں.یہ تو انہوں نے بالکل ٹھیک بات کی ہے.بالکل ضرورت نہیں ہے.لیکن آجکل کی جو ان کی بڑی بڑی طاقتیں ہیں یہ ہزاروں میل دور بیٹھی ہوئی قوموں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے طاقت کا استعمال کیوں کر رہی ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے نہیں دیا.پہلے یہ لوگ اپنے لوگوں کو سمجھائیں کہ کیا صحیح کر رہے ہیں، کیا غلط کر رہے ہیں.پھر عیسائیت کی تاریخ میں جو آپس کی جنگیں ہیں وہ نظر نہیں آتیں؟ وہ کس کھاتے میں ڈالتے ہیں؟ پھر سپین میں جو کچھ ہوا وہ کس کھاتے میں ہے؟ جو انکیوئز یشن (Inquisition) ہوئی اس کی تفصیل تو میں یہاں بیان نہیں کرتا ، ان سب کو علم ہے.اب جو یہ فرماتے ہیں کہ وہ بعد کی تعلیمات سے بھی واقف تھا.مذہب پھیلانے کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیا تھا، اس واقف کا رکو تو اس کا پتہ نہیں تھا لیکن وہ عمل کیا تھا، وہ ہمیں پیش کرتا ہوں.اسلام دین فطرت ہے.اس نے یہ تعلیم تو یقینا نہیں دی کہ اگر تمہارے ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو.جن کو تعلیم دی گئی ہے وہ بتائیں کہ کس حد تک اس پر عمل کر رہے ہیں.ان کی تعلیم کے یہی سقم ہیں جنہوں نے اس زمانے میں عیسائیوں کو عیسائیت سے دور کر دیا ہے.اتوار کے اتوار جو ایک ہفتے کے بعد چرچ میں جانا ہوتا ہے اس میں بھی اب کوئی نہیں جاتا سوائے بوڑھوں اور بوڑھیوں کے.چرچوں کو انہوں نے دوسرے فنکشنز کے لئے کرائے پر دینا شروع کر دیا ہے.مغربی دنیا میں
خطبات مسرور جلد چهارم 463 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 بے شمار جگہوں پر چرچوں پر For Sale کے بورڈ لگے ہوئے ہیں.امریکہ کے ایک پروفیسر ایڈون لوئیس (Edwin Lewis) نے لکھا کہ بیسویں صدی کے لوگ مسیج کو خدا ماننے کے لئے تیار نہیں.پھر سینٹ جونز کالج آکسفورڈ کے پریذیڈنٹ سر سائرل لکھتے ہیں کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے مردوں اور عورتوں کا ایک بڑا حصہ اب عیسائی نہیں رہا.اور شاید یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ ان کی اکثریت اب ایسی ہے.اسی طرح افریقہ کے بارہ میں ان لوگوں کے مختلف بیانات ہیں، خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تعلیم اب ختم ہو رہی ہے تو ان کو پتہ ہے اس لئے ایک ہی حل رہ گیا کہ اسلام کے خلاف غلط قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جائیں.جبر کے بارہ میں اسلام کا جو نظریہ غیر مسلم پیش کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ کہتے ہیں کہ قیصر کو قرآن کے احکامات کا علم تھا.تو دیکھ لیں قرآن کیا کہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ (الكيف : 30) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروا دیا کہ تم دنیا کو بتا دو کہ اسلام حق ہے اور تمہارے رب کی طرف سے ہے.پس جو چاہے اس پر ایمان لائے اور جو چاہے انکار کر دے کیونکہ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ﴾ (البقره: 257 ) کا حکم ہے.پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمُ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ (یونس: 109 ) یعنی اے رسول ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا ہے پس جو شخص ہدایت کو قبول کرے گا اس کا فائدہ اسی کے نفس کو ہو گا اور جو غلط راستے پر چلے گا اس کا و بال بھی اس کی جان پر ہے.میں کوئی تمہاری ہدایت کا ذمہ دار نہیں ہوں.اس کا عملی نمونہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا.چنانچہ جب بنو نضیر کو اپنی بعض زیادتیوں اور حرکتوں کی سے جلا وطنی کی سزاملی تو انصار نے اپنی اولاد کو جو انصار نے پیدائش کے وقت بنو نضیر کو دے دی تھی ، ان سے واپس لینا چاہا تو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں جو تم دے چکے وہ دے چکے اب دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ، یہ اب ان کے پاس ہی رہیں گے.(ابوداؤد كتاب الجهاد باب في الاسيريكره على الاسلام حدیث نمبر (2682 یہ آپ کی تعلیم ہی تھی جس کی وجہ سے آپ کے خلفاء اور صحابہ اس بات کو سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرتے تھے.چنانچہ حضرت عمرؓ کے ایک غلام خود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ مسلمان ہو جاؤ لیکن میرے انکار پر آپ یہ کہتے کہ ٹھیک ہے، اسلام میں جبر نہیں ہے.اور جب آپ کی
خطبات مسرور جلد چهارم 464 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 وفات کا وقت قریب آیا تو فرمایا کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ، جہاں جانا چاہتے ہو چلے جاؤ.تو اسلام میں آزادی مذہب کی یہ تعلیم اور یہ عمل ہیں.ایک غلام پر بھی سختی نہیں کی گئی.اور پوپ صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کے مذہب میں ظلم او سختی رکھی گئی ہے.پھر قرآن کریم فرماتا ہے.﴿وَقُلْ لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَبَ وَالْا مِّيِّنَ وَ أَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ﴾ ( آل عمران:21 ) اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو کہہ دے کہ جنہیں کتاب دی گئی ہے اور جو اتی ہیں یعنی بے علم ہیں کہ کیا تم اسلام کو قبول کرتے ہو.پس اگر وہ فرمانبرداری اختیار کریں ، اسلام قبول کر لیں تو وہ ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو تیرے ذمہ صرف پہنچادینا ہے.اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھ رہا ہے.یعنی اب یہ خدا کا کام ہے وہ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کو پکڑنا ہے، کس کو سزا دینی ہے، کس سے کیا سلوک کرنا ہے.پس یہ احکام ہیں.اور یہ آخری آیت جو میں نے پڑھی ہے، یہ فتح مکہ کے بعد کی ہے جب طاقت تھی.پس بودے اعتراضات کی بجائے ان کو عقل اور انصاف سے کام لینا چاہئے.اسلام میں جبر کی ایک بھی مثال نہیں ملتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے جبر کیا.آپ کو تو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی منافقت سے اسلام قبول کرے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک کا فرقیدی پیش ہوا اور اس نے آپ سے عرض کی کہ مجھے قید کیوں کیا گیا ہے، میں تو مسلمان ہوں.آپ نے فرمایا اب نہیں پہلے اسلام لاتے تو ٹھیک تھا، اب تم جنگی قیدی ہو اور رہائی حاصل کرنے کے لئے مسلمان بن رہے ہو.آپ نے اس کو جبر سے مسلمان بنانا نہیں چاہا.آپ تو چاہتے تھے کہ دل اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں.چنانچہ بعد میں اس قیدی کو دو مسلمانوں کی آزادی پر آزاد کر دیا گیا.اسلام میں جنگوں کا حکم صرف اُس وقت تک ہے جب تک دشمن جنگ کر رہا ہے یا فتنے کے حالات پیدا کر رہا ہے.جب حالات ٹھیک ہو جائیں اور فتنہ ختم ہو جائے تو فرمایا تمہیں کوئی حق نہیں کہ جنگ کرو.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلَّهِ.انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّلِمِينَ ﴾ (البقرة : 194) یعنی اے مسلمانو! تم اُن کفار سے جنگ کر و جو جنگ کرتے ہیں، اس وقت تک کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اور ہر شخص اپنے خدا کے لئے نہ کسی ڈر اور تشدد کی وجہ سے) جو دین بھی چاہے رکھ سکے.اور اگر یہ کفار اپنے ظلموں سے باز آجائیں تو تم بھی رک جاؤ کیونکہ تمہیں ظالموں کے سوا کسی کے خلاف جنگی کارروائی کرنے کا حق نہیں ہے.یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اُن کفار سے جو تم سے لڑتے ہیں ، اُس وقت تک لڑو کہ ملک میں فتنہ ندر ہے.اس کے بارے میں ایک جگہ ذکر آیا ہے.ابن عمر کہتے ہیں کہ ہم نے اس حکم الہی کی تعمیل یوں کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب مسلمان بہت تھوڑے تھے اور جو شخص اسلام لا تا
خطبات مسرور جلد چهارم 465 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 تھا اس کو کفار کی طرف سے اسلام کے راستے میں دکھ دیا جاتا تھا.بعض کو قتل کر دیا جا تا تھا اور بعض کو قید کر دیا جا تا تھا.پس ہم نے اس وقت تک جنگ کی کہ مسلمانوں کی تعداد اور طاقت زیادہ ہوگئی اور نومسلموں کے لئے فتنہ نہ رہا.اس کے بعد جب کفار کی طرف سے فتنہ ختم ہو گیا تو بات ختم ہوگئی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ (المائدة آیت 9) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو، یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو.اللہ یقیناً اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.پس یہ انصاف تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک انقلاب پیدا کیا اور بعد میں بھی یہ انقلاب پیدا ہوا.اگر صحابہ کی زندگیوں کو دیکھیں ، ان کے جائزے لیں تو پتہ لگتا ہے کہ جو انقلاب ان میں آیا وہ زبر دستی دین بدلنے سے نہیں آتا بلکہ اس وقت آتا ہے جب دل تبدیل ہو جائیں.اس وقت آتا ہے جب دشمنوں سے بھی ایسا حسن سلوک ہو کہ دشمن بھی گرویدہ ہو جائے.چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر عکرمہ جو شدید ترین مخالف اسلام تھا اور جو فرار ہو گیا.جب اس کی بیوی نے اس کو واپس لانے کے لئے آپ سے معافی کی درخواست کی اور آپ نے معاف فرما دیا تو پھر ان میں ایسا انقلاب آیا جو تلوار کے زور سے نہیں لایا جا سکتا.ایمان میں وہ ترقی ہوئی جو بغیر محبت کے نہیں ہو سکتی.اخلاص سے اس طرح دل پر ہوئے جو بغیر محبت کے نہیں ہو سکتے.قربانی کے معیار اس طرح بڑھے جو دلوں کے بدلنے کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتے.انہوں نے اسلام کی خاطر جو غیرت دکھائی وہ اس تعلیم کو سمجھنے سے ہی پیدا ہوسکتی ہے.اور پھر صحابہ نے محبت اور اسلام کی غیرت کے ایسے ایسے نمونے دکھائے کہ تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے.یہی عکرمہ جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، ان کے بارہ میں آتا ہے کہ پہلے ہر لڑائی میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑا اور اپنی کوششیں اسلام کو مٹانے کے لئے صرف کر دیں بالآخر جب مکہ فتح ہوا تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کو اپنے لئے موجب ذلت سمجھ کر مکہ سے بھاگ گیا.اور جب وہ مسلمان ہو گئے تو اخلاص کا یہ حال تھا کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں انہوں نے باغیوں کا قلع قمع کرنے میں بے نظیر جانثاریاں دکھائیں.اور کہتے ہیں کہ جب ایک جنگ میں سخت گھمسان کا رن پڑا اور لوگ اس طرح کٹ کٹ کر گر رہے تھے جیسے درانتی کے سامنے گھاس کتا ہے، اُس وقت عکرمہ ساتھیوں کو لے کر عین قلب لشکر میں جا گھسے بعض لوگوں نے منع کیا کہ اس وقت لڑائی کی حالت سخت خطرناک ہو رہی ہے اور اس طرح دشمن کی فوج میں گھسنا ٹھیک نہیں ہے.لیکن عکرمہ نہیں مانے
خطبات مسرور جلد چہارم 466 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ میں لات اور عزی کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا ہوں.آج خدا کے رستہ میں لڑتے ہوئے پیچھے نہیں رہوں گا.اور جب لڑائی کے خاتمہ پر دیکھا گیا تو ان کی لاش نیزوں اور تلوار کے زخموں سے چھلنی تھی.ان کی مالی قربانی کے بارہ میں آتا ہے کہ غنیمت کا جتنا مال عکرمہ کو ملتا تھا وہ صدقہ دے دیا کرتے تھے.خدمت دین میں بے دریغ خرچ کرتے تھے.تو یہ تبدیلیاں جو دلوں میں پیدا ہوتی ہیں یہ تلوار کے زور سے پیدا نہیں ہوتیں.(اصابہ واسد الغابہ واستیعاب) غیر مسلموں کا الزام ہے کہ زبر دستی مذہب تبدیل کرتے تھے تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو ان باتوں کو جھٹلاتے ہیں.ہم دیکھ ہی آئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کیا تھی.ایک واقعہ کا ذکر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ یعنی جو مسلمان کسی ایسے غیر مسلم کے قتل کا مرتکب ہوگا جو کسی لفظی یا عملی معاہدہ کے نتیجہ میں اسلامی حکومت میں داخل ہو چکا ہے وہ علاوہ اس دنیا کی سزا کے، قیامت کے دن بھی جنت کی ہوا سے محروم رہے گا.پھر آپ کے خلفاء کا کیا طریق تھا.روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرنے میں سختی کی جارہی تھی.یہ دیکھ کر حضرت عمر فور ارک گئے اور غصہ کی حالت میں دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے.عرض کیا گیا کہ یہ لوگ جزیہ ادا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی طاقت نہیں ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان پر وہ بوجھ ڈالا جائے جس کی یہ طاقت نہیں رکھتے ، انہیں چھوڑ دو.میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دنیا میں لوگوں کو تکلیف دیتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے عذاب کے نیچے ہو گا.چنانچہ ان لوگوں کو جزیہ معاف کر دیا گیا.(كتاب الخراج فضل فى من تجب عليه الجزية ) حضرت عمرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی ارشادات کے ماتحت اپنی غیر مسلم رعایا کا اس قدر خیال تھا کہ انہوں نے فوت ہوتے وقت خاص طور پر ایک وصیت کی جس کے الفاظ یہ تھے کہ میں اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا سے بہت نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے،ان کے معاہدات کو پورا کرے، ان کی حفاظت کرے، ان کے لئے ان کے دشمنوں سے لڑے اور ان پر قطعا کوئی ایسا بوجھ یا ذمہ داری نہ ڈالے جوان کی طاقت سے زیادہ ہو.(كتاب الخراج صفح 720 ) اگر زبر دستی مسلمان کیا جاتا تو پھر یہ صورت کیوں ہوتی.پھر خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آنحضرت
خطبات مسرور جلد چهارم 467 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ ہوا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محاصل کی وصولی کے لئے اپنے صحابی عبداللہ بن رواحہ کو بھیجا کرتے تھے.آپ کی تعلیم کے ماتحت عبداللہ بن رواحہ فصل کی بٹائی میں اس قدر نرمی سے کام لیتے تھے کہ فصل کے دو حصے کر کے یہودیوں کو اختیار دے دیتے تھے کہ ان حصوں میں سے جو حصہ تم پسند کرو لے لو اور پھر جو حصہ پیچھے رہ جاتا تھاوہ خود لے لیتے تھے.(ابوداؤد كتاب البيوع باب في المساقاة حديث نمبر (3410) جیسا کہ میں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور تعامل کے ماتحت حضرت عمرؓ کو اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا کے حقوق اور آرام کا بہت خیال تھا.وہ اپنے گورنروں کو تاکید کرتے رہتے تھے کہ ذمیوں کا خاص خیال رکھیں اور خود بھی پوچھتے رہتے تھے کہ تمہیں کوئی تکلیف تو ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ذمیوں کا ایک وفد حضرت عمر کی خدمت میں پیش ہوا تو حضرت عمرؓ نے ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے.انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے مسلمانوں کی طرف سے حسنِ وفا اور حسنِ سلوک کے سوا کچھ نہیں دیکھا.(طبری جلد 5 صفحہ 2560) جب شام فتح ہوا تو مسلمانوں نے شام کی عیسائی آبادی سے ٹیکس وصول کیا لیکن اس کے تھوڑے عرصے بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا جس پر شام کے اسلامی امیر حضرت ابو عبیدہ نے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کو واپس کر دیا اور کہا کہ جنگ کی وجہ سے جب ہم تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ ٹیکس اپنے پاس رکھیں.عیسائیوں نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں کو دعا دی اور کہا خدا کرے تم رومیوں پر فتح پاؤ اور پھر اس ملک کے حاکم بنو.( کتاب الخراج ابو یوسف صفحہ 80 تا 82، فتوح البلدان بلاذری صفحہ 146) مسلمانوں کا یہ سلوک تھا.چنانچہ جب دوبارہ فتح ہوئی اور مسلمان پھر واپس آئے تو پھر اسی طرح ٹیکس وصول ہونا شروع ہو گیا.اب یہ بتائیں کہ کیا اس کو زبر دستی کہتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر الزام لگانے والے اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں، تاریخ پڑھیں تو ان کو نظر آئے گا کہ آپ غیر مسلموں کا کتنا در درکھتے تھے.اسلام کی دعوت دیتے تھے تو پیار اور نرمی کے ساتھ کہ اس شخص کی جان کے لئے فائدہ ہے.ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اپنے غلبہ اور حکومت کے زمانے میں بھی غیر مسلموں کے احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ مدینے میں ایک یہودی نوجوان بیمار ہو گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.اور اس کی حالت کو نازک پا کر آپ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی.وہ آپ کی تبلیغ سے متاثر ہوا
468 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم مگر چونکہ اس کا باپ زندہ تھا اور اس وقت پاس ہی کھڑا تھاوہ ایک سوالیہ شکل بنا کے اپنے باپ کو دیکھنے لگا.باپ نے بیٹے سے کہا کہ اگر تم قبول کرنا چاہتے ہو تو کر لو.چنانچہ لڑکے نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک روح آگ کے (بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبي) عذاب سے بچ گئی.اب اس قرآنی تعلیم سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی چند مثالوں سے جو میں نے بیان کی ہیں ظلم کی اور جو الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اس کی حقیقت تو واضح ہو گئی.یہ تو پتہ چل گیا کہ اسلام کس طرح پھیلا ہے.اور شروع میں جو میں نے بتایا تھا کہ چین میں کیا سلوک ہوا اس سے ان لوگوں کی حقیقت بھی واضح ہو گئی.انصاف پسند عیسائی مستشرقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہیں.اس کی بھی میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں.کارلائل صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”ہم لوگوں ( یعنی عیسائیوں ) میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک پرفن اور فطرتی شخص اور جھوٹے دعویدار نبوت تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تو وہ ہے.اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی جاتی ہیں.جو جھوٹی باتیں متعصب عیسائیوں نے اس انسان ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت بنائی تھیں اب وہ الزام قطعاً ہماری روسیاہی کا باعث ہیں.اور جو باتیں اس انسان ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی زبان سے نکالی تھیں 1200 برس سے 18 کروڑ آدمیوں کے لئے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں.(اُس وقت 18 کروڑ تھے جب انہوں نے لکھا تھا).اس وقت جتنے آدمی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کلام پر اعتقاد رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر اور کسی کے کلام پر اس زمانے کے لوگ یقین نہیں رکھتے.میرے نزدیک اس خیال سے بدتر اور نا خدا پرستی کا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے کہ جھوٹے آدمی نے یہ مذہب پھیلایا.(Thomas Carlyle, 'On Heros-Worship and the Heroic in History' Pages 43&44 U of Nebraska Press (1966) پھر سرولیم میور( یہ کافی متعصب بھی ہیں ، بعض باتیں غلط بھی لکھی ہوئی ہیں ) یہ بھی لکھتے ہیں کہ ” ہم بلا تامل اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ کے واسطے اکثر تو ہمات باطلہ کو جن کی تاریکی مدتوں سے جزیرہ نمائے عرب پر چھا رہی تھی کالعدم کر دیا.بلحاظ معاشرت کے بھی اسلام میں کچھ کم خوبیاں نہیں ہیں.مذہب اسلام اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ اس میں پر ہیز گاری کا ایک ایسا درجہ موجود ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں ہے.66 (Sir William Muir The Life of Muhammad' Vol.IV.Page 534.Kessinger Publishing.(1st published 1878, this edition 2003) پھر ایڈورڈ گین لکھتے ہیں ” حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سیرت میں سب سے آخری بات جو
469 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم غور کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ ان کی رسالت لوگوں کے حق میں مفید ہوئی یا مضر؟ جولوگ آنحضرت ( رت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سخت دشمن ہیں وہ بھی اور عیسائی اور یہودی بھی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو باوجود پیغمبر برحق نہ ماننے کے اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دعویٰ نبوت ایک نہایت مفید مسئلے کی تلقین کے لئے کیا تھا.گو وہ یہ کہیں کہ صرف ہمارے ہی مذہب کا مسئلہ اس سے اچھا ہے.گویا وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے ہمارے مذہب کے تمام دنیا کے اور مذاہب سے مذہب اسلام اچھا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے خون کے کفارے کو نماز و روزہ و خیرات سے بدل دیا جو ایک پسندیدہ اور سیدھی سادی عبادت ہے.یعنی جو انسان کی قربانی بتوں پر ہوتی تھی اس کو معدوم کر دیا.آنحضرت نے مسلمانوں میں نیکی اور محبت کی ایک روح پھونک دی ، آپس میں بھلائی کرنے کی ہدایت کی اور اپنے احکام اور نصیحتوں سے انتقام کی خواہش اور بیوہ عورتوں اور یتیموں پر ظلم وستم کو روک دیا.قو میں جو ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں وہ اعتقاد وفرمانبرداری میں متفق ہو گئیں اور خانگی جھگڑوں میں جو بہادری بیہودہ طور سے صرف ہوتی تھی وہ نہایت مستعدی سے غیر ملک کے دشمن کے مقابلے پر مائل ہوگئی.| (Edward Gibbon'The History of the Decline and Fall of the Roman Empire' Vol.V.Page 231.Penguins | Classics(1st published 1788.this edition 1996) پھر جان ڈیون پورٹ لکھتے ہیں اس بات کا خیال کرنا بہت بڑی غلطی ہے کہ قرآن میں جس عقیدے کی تلقین کی گئی ہے اس کی اشاعت بزور شمشیر ہوئی.کیونکہ جن لوگوں کی طبیعتیں تعصب سے مبراء ہیں وہ بلا تامل اس بات کو تسلیم کریں گے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین جس کے ذریعہ سے انسانوں کی قربانی کے بدلے نماز اور خیرات جاری ہوئی اور جس نے عداوت اور دائمی جھگڑوں کی جگہ فیاضی اور حسن معاشرت کی ایک روح لوگوں میں پھونک دی.وہ مشرقی دنیا کے لئے ایک حقیقی برکت تھا اور اسی وجہ سے خاص کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ان خون ریز تدبیروں کی ضرورت نہ ہوئی جن کا استعمال بلا استثناء اور بلا امتیاز حضرت موسی نے بت پرستی کے نیست و نابود کرنے کے لئے کیا تھا.پس ایسے اعلیٰ وسیلہ کی نسبت جس کو قدرت نے بنی نوع انسان کے خیالات و مسائل پر مدت دراز تک اثر ڈالنے کے لئے پیدا کیا ہے گستاخانہ پیش آنا اور جاہلانہ مذمت کرنا کیسی لغو بات ہے.(John Devonport 'An Apology for Muhammad and the Quran'.(1st published 1869) ایڈورڈ گبن صاحب لکھتے ہیں ” مسلمانوں کی لڑائیوں کو ان کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مقدس قرار دیا تھا مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی حیات میں جو مختلف نصیحتیں کیں اور نظیر میں قائم کیں ان سے خلفاء نے دوسرے مذاہب کو آزادی دینے کا سبق حاصل کیا.ملک عرب میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خدا کی عبادت گاہ اور ان کا مفتوحہ ملک تھا.اگر وہ چاہتے تو وہاں کے بہت سے دیوتاؤں کے ماننے والوں اور بت پرستوں کو شرعاً نیست و نابود کر سکتے تھے، مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
خطبات مسرور جلد چہارم 470 انصاف کو قائم فرما کر نہایت عاقلانہ تدبیریں اختیار کیں“.خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 (Edward Gibbon'The History of the Decline and Fall of the Roman Empire' Vol.V.Page 315.Penguins Classics(1st published 1788.this edition 1996) کاؤنٹ ٹالسٹائے لکھتے ہیں کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک عظیم المرتبت مصلح تھے جنہوں نے انسانوں کی خدمت کی.آپ کے لئے یہ فخر کیا کم ہے کہ آپ امت کو نور حق کی طرف لے گئے اور اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ امن و سلامتی کی دلدادہ ہو جائے.زہد و تقویٰ کی زندگی کو ترجیح دینے لگے.آپ نے اسے انسانی خونریزی سے منع فرمایا.اس کے لئے حقیقی ترقی اور تمدن کی راہیں کھول دیں.اور یہ ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جو اس شخص سے انجام پاسکتا ہے جس کے ساتھ.کوئی مخفی قوت ہو اور ایک شخص یقیناً عام اکرام و احترام کا مستحق ہے.(Count Tolstoy.Islamic Network.accessed from http://www.islaam.net/main/) پھر برنارڈ شا لکھتے ہیں کہ ازمنہ وسطی میں عیسائی راہبوں نے جہالت اور تعصب کی وجہ سے مذہب اسلام کی بڑی بھیا نک تصویر پیش کی ہے.بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی.انہوں نے تو حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا.میں نے ان باتوں کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ ہیں.(George Bernard Shaw 'The Genuine Islam' Vol.1 No.8 (1936) accessed from Wikipedia from:http://en.wikipedia.org/wiki/Non-Islamic-views -of- Muhammad) پھر ایک عیسائی مؤرخ پریورنڈ با سورتھ سمتھ کہتے ہیں کہ مذہب اور حکومت کے رہنما اور گورنر کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ایک وجود میں جمع تھیں.آپ پوپ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک.آپ قیصر تھے لیکن قیصر کے جاہ وحشم سے بے نیاز.اگر دنیا میں کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اس نے باقاعدہ فوج کے بغیر محل شاہی کے بغیر اور لگان کی وصولی کے بغیر صرف خدا کے نام پر دنیا میں امن و انتظام قائم رکھا تو وہ صرف محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں.آپ کو اس ساز وسامان کے بغیر ہی سب کی سب طاقتیں حاصل تھیں“.(R.Bosworth Smith 'Muhammad and Muhammadanism' pade 262.Book Tree.(1st published 1876, this edition 2002) پھر پر نگل کینیڈی صاحب لکھتے ہیں کہ کھلے لفظوں میں ( کہا جائے تو ) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) زمانے کے عظیم انسان تھے.آپ کی حیران کن کامیابی کے لئے ہمیں لازماً ان کے حالات زمانہ کو سمجھنا چاہئے.حضرت عیسی کی پیدائش کے ساڑھے پانچ سو سال بعد آپ اس دنیا میں تشریف لائے.اس زمانے میں یونان، روم اور بحیرہ عرب کی ایک سو ایک ریاستوں کے تمام قدیم مذاہب اپنی افادیت کھو چکے تھے.اس کی جگہ رومن حکومت کا دبدبہ ایک زندہ حقیقت کا روپ دھار چکا تھا اور شہنشاہ قیصر روم کے مطابق
471 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم حکومت وقت کی پرستش اور اطاعت گویا رومی حکومت کا مذہب بن چکا تھا.یہ بجا کہ دیگر مذاہب بھی موجود تھے مگر وہ اپنے مذہب کے باوجود اس نئی عوامی روش کے پابند ہو چکے تھے.لیکن شہنشاہیت رو ما دنیا کوسکون نہ دے سکی.چنانچہ مشرقی مذاہب اور مصر، شام اور ایران کی تو ہم پرستی نے رومی سلطنت میں نفوذ شروع کیا اور مذہبی لوگوں کی اکثریت کو زیر اثر کر لیا.ان تمام مذاہب کی مہلک خرابی یہ تھی کہ وہ کئی پہلوؤں سے قابل شرم حد تک گر چکے تھے.عیسائیت جس نے چوتھی صدی میں سلطنت روما کو فتح کیا تھا، رومن اقتدار اپنا چکی تھی.اب عیسائیت وہ خالص فرقہ نہ رہا تھا جس کی تعلیم اسے تین صدیاں قبل دی گئی تھی ، وہ سراسر غیر روحانی تمول پسند اور مادیت زدہ ہو چکی تھی.پھر کیسے چند ہی سالوں میں اس حالت میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا ؟ ہاں یہ کیسے ہوا کہ 650 ء میں ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ) دنیا کا ایک بہت بڑا خطہ پہلے کے مقابل پر ایک مختلف دنیا میں تبدیل ہو گیا.بلا شبہ یہ تاریخ انسانی کا ایک نہایت شاندار باب ہے.پھر یہ انقلاب آگے بڑھا انتہا پرست عیسائیوں اور مستشرقین کی مخالفانہ رائے کے باوجود ان..گہرے اثرات میں کوئی کمی نہیں آسکتی جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی نے تاریخ عالم پر ثبت کئے.ماننا پڑتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انسان کے برپا کردہ انقلاب کی اعلیٰ ترین مثال ہیں.(Pringle Kennedy.'Arabian Society at the time of Muhammad'.pages 8,10,18,21) ایس پی سکاٹ لکھتے ہیں کہ اگر مذہب کا مقصد اخلاق کی ترویج، برائی کا خاتمہ، انسانی خوشی و لک خوشحالی کی ترقی اور انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا جلا ہے اور اگر نیک اعمال کی جزا اسی بڑے دن ملنی ہے جب تمام بنی نوع انسان قیامت کے دن خدا کے حضور پیش کئے جائیں گے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بلاشبہ خدا کے رسول تھے ، ہر گز بے بنیاد اور بے دلیل ( دعوی ) نہیں ہے.(S.P.Scott, History of The Moorish Empire in Europe.' Page 126) کافی حوالے ہیں لیکن میں مختصر کرتا ہوں.World Faith"، Ruth Cranston" میں لکھتے ہیں کہ محمد عربی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا.ہر جنگ جو انہوں نے لڑکی مدافعانہ تھی.وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لئے اور ایسے اسلحہ اور طریق سے لڑے جو اس زمانے کا رواج تھا.یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ چودہ کروڑ ( یہ 1950ء کے قریب کی پرانی بات ہے ) عیسائیوں میں سے جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کر دیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو ہلاک کیا ہو.ساتویں صدی کے تاریکی کے دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہور ہے ہوں، عرب کے نبی کے ہاتھوں ہونے والی ان ہلاکتوں کا آج کی روشن بیسویں صدی کی ہلاکتوں سے مقابلہ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں.جو مل انکیوئز یشن (Inquisition) اور صلیبی جنگوں کے زمانے میں
خطبات مسرور جلد چہارم 472 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 ہوئے اس کے بیان کی تو حاجت ہی نہیں جب عیسائی جنگجوؤں نے اس بات کو ریکارڈ کیا کہ وہ ان مسلمان بے دینوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان ٹخنے ٹخنے خون میں لت پت تھے“.(Ruth Cranston ' World Faith', p:155 Ayer publishing (1949) پھر ڈیون پورٹ لکھتے ہیں یہ بات یقینی طور پر کامل سچائی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر مسلمان مجاہدین اور ترکوں کی جگہ ایشیا کے حکمران مغربی شہزادے ہو گئے ہوتے تو مسلمانوں کے ساتھ اس مذہبی رواداری کا سلوک نہ کرتے جو مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ کیا.کیونکہ عیسائیت نے تو اپنے ان ہم مذہبوں کو نہایت تعصب اور ظلم کے ساتھ تشددکا نشانہ بنایا جن کے ساتھ ان کے مذہبی اختلافات تھے“.(John Davonport ,'An Apology for Muhammad and the Qoran' (1st published 1869) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مضمون پڑھنے والے نے ایک یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن شریف میں لوگوں کو زبر دستی مسلمان بنانے کا حکم ہے.(فرماتے ہیں کہ ) معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو نہ اپنی ذاتی کچھ عقل ہے اور نہ علم صرف پادریوں کا کاسہ لیس ہے.کیونکہ پادریوں نے اپنے نہایت کینہ اور بغض سے جیسا کہ ان کی عادت ہے، محض افتراء کے طور پر اپنی کتابوں میں یہ لکھ دیا ہے کہ اسلام میں جبر مسلمان بنانے کا حکم ہے.سو اس نے اور اس کے دوسرے بھائیوں نے بغیر تحقیق اور تفتیش کے وہی پادریوں کے مفتر یا نہ الزام کو پیش کر دیا.قرآن شریف میں تو کھلے کھلے طور پر یہ آیت موجود ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَيِّ ( البقرہ : 257) یعنی دین میں کوئی جبر نہیں، تحقیق ہدایت اور گمراہی میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو گیا ہے.پھر بھی جبر کی کیا حاجت ہے.تعجب کہ باوجود یکہ قرآن شریف میں اس قدر تصریح سے بیان فرمایا ہے کہ دین کے بارے میں جبر نہیں کرنا چاہئے پھر بھی جن کے دل بغض اور دشمنی سے سیاہ ہور ہے ہیں.ناحق خدا کے کلام پر جبر کا الزام دیتے ہیں.اب ہم ایک اور آیت لے کر منصفین سے انصاف چاہتے ہیں کہ وہ خدا سے ڈر کر ہمیں بتلاویں کہ کیا اس آیت سے جبر کی تعلیم ثابت ہوتی ہے یا برخلاف اس کے ممانعت جبر کا حکم بپایہ ثبوت پہنچتا ہے.اور وہ آیت یہ ہے کہ ﴿ وَاِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلمَ اللهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ ﴾ (الجز نمبر 10 سورۃ التوبہ ) اگر تجھ سے اے رسول! کوئی مشرکوں میں سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دے دو اور اس وقت تک اس کو اپنی پناہ میں رکھو کہ وہ اطمینان سے خدا کے کلام کو سن سمجھ لے اور پھر اُس کو اس کی امن کی جگہ پر واپس پہنچا دو.یہ رعایت ان لوگوں کے حق میں اس وجہ سے کرنی ضرور ہے کہ یہ لوگ اسلام کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر قرآن شریف جبر کی تعلیم کرتا تو یہ حکم نہ دیتا کہ جو کا فرقرآن شریف کو سننا چاہے تو جب وہ سن چکے
خطبات مسرور جلد چہارم 473 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 اور مسلمان نہ ہو تو اُس کو اُس کی امن کی جگہ پہنچا دینا چاہئے بلکہ یہ حکم دیتا کہ جب ایسا کا فرقا بو میں آجاوے تو وہیں اُس کو مسلمان کر لو.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 232-233) اگلا سوال جو انہوں نے اٹھایا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جس کو عقل تسلیم نہیں کرتی.اسلام کا خدا تو ایسا خدا ہے جو اپنے وجود کو تسلیم کرانے کے لئے انسانوں کو عقل کی طرف بلاتا ہے.اگر یہ تصور ہرایک میں ہے کہ خدا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس کا مالک ہے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ تمام قدرتوں کا مالک ہے.اسلام کے خدا کے نظریہ پر استہزاء اڑانے کی بجائے عقل اور تدبر کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفہ فطرت سے نظر آ رہا ہے.اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کا شنس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه 15) پھر آپ فرماتے ہیں کہ " جاننا چاہئے کہ جس خدا کی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اس کی اس نے یہ صفات لکھی ہیں.هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ.هُوَا الرَّحْمَنُ الرَّحِيْمُ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ.هُوَ اللهُ الخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.أَجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمِ.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.اَللهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ - یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے، جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آجائے.اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی.اور یہ جو فر مایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں.اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خو بیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کا ملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ ، اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو وہ سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا، وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کرنا ظلم ہے.پس اسلام تو ہر قسم کے شرک سے پاک ہے.یہ ظلم اور شرک تو عیسائی کر رہے ہیں جو اللہ کے ایک نبی کو خدا بنا کر کھڑا کر دیا ہے.پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے.یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے.اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں
خطبات مسرور جلد چہارم 474 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 کر سکتا.ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سراپا دیکھ سکتے ہیں.مگر خدا کا سراپا د یکھنے سے قاصر ہیں.پھر فرمایا کہ وہ عالم الشہادۃ ہے.یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا.وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا.اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہو گا.سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے.پھر فرمایا هُوَ الرَّحْمٰنُ یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے، نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں ان کے لئے سامان راحت میتر کرتا ہے.جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے اور اس کام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ رحمن کہلاتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الرّحیم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا.اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلا تا ہے.اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.اور پھر فرمایا ملِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے.اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو.اور آپ کچھ نہ کرتا ہو.وہی کار پرداز سب کچھ جزا سزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو.اس کو ضرورت تو کوئی نہیں.وہ سب قدرتوں کا مالک ہے.اس کو یہ ضرورت نہیں کہ خدا ان کی کونسل بنائے.اور پھر وہ کونسل ان کی مدد کرے.تو اگر عقل کی بات کا سوال ہے کہ اسلام کے خدا کا ایسا تصور ہے جس کو عقل تسلیم نہیں کرتی.عقل تو اُن کے تصور کو تسلیم نہیں کرتی کہ تین خدا بنائے ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی جمہوری طور پر حکومت چلے گی اگر ایک بھی ان میں سے راضی نہ ہو تو فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے.فرماتے ہیں کہ اور پھر فرمایا الْمَلِكُ الْقُدُّوس یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں.اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی.یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے.اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر اور دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا.تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا.اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے لئے قانون بناتے
475 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم ہیں بات بات پر بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں ت ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں.ماں کے دودھ کی طرح پیتے ہیں.پس یہ اسلام کا خدا ہے جو ہر ظلم سے پاک ہے.مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تو وہ کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوداع کہتا.بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے.پھر فرمایا السلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے، اس کے معنے بھی ظاہر ہیں.کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا ، لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو اس کے بدنمونے کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوْا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهُ.وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِدُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ.إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ (الحج: 74-75) جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک ملتھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگر ؟ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ کبھی سے چیز واپس لے سکیں.ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں.کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے.نہ اس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے.ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے.اور پھر فر مایا کہ خدا ان کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا.اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا.کیونکہ اس کے پاس زبر دست دلائل ہوتے ہیں.لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے.وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اور پھر فرمایا کہ اَلْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کام بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے اور فرمایا هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاسْمَاءُ الْحُسْنی یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا پیدا کرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا ، رحم میں تصویر کھینچنے والا ہے.تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آسکیں سب اُسی کے
476 خطبات مسرور جلد چہارم خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 نام ہیں اور پھر فرمایا يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی.اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں.اور پھر فرمایا عَلى كُلِّ شَيْ ءٍ قدیر یعنی خدا بڑا قادر ہے.یہ پرستاروں کے لئے تسلی ہے کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا امید رکھیں.اور پھر فرمایا رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.أَجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا ، رحمن ، رحیم اور جزاء کے دن کا آپ مالک ہے.اس اختیار کوکسی کے ہاتھ میں نہیں دیا.ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سننے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا.اور پھر فرمایا الْحَيُّ الْقَيُّوْم یعنی ہمیشہ رہنے والا اور تمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا.یہ اس لئے کہا کہ وہ ازلی ابدی نہ ہو، تو اس کی زندگی کے بارے میں بھی دھڑ کا رہے گا شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو جائے.اور پھر فرمایا کہوہ خدا اکیلا خدا ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا اور نہ کوئی اس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس“.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 372 تا 376) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے دراصل پولوی مذہب ہے، نہ سی.کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی.اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتے رہے اور بعد ان کی وفات کے ان کا بھائی یعقوب بھی جو اُن کا جانشین تھا اور ایک بزرگ انسان تھا، توحید کی تعلیم دیتا رہا.اور پولوس نے خوامخواہ اس بزرگ سے مخالفت شروع کر دی اور اس کے عقائد صحیحہ کے مخالف تعلیم دینا شروع کیا.اور انجام کار پولوس اپنے خیالات میں یہاں تک بڑھا کہ ایک نیا مذہب قائم کیا اور توریت کی پیروی سے اپنی جماعت کو بکلی علیحدہ کر دیا اور تعلیم دی کہ مسیحی مذہب میں مسیح کے کفارہ کے بعد شریعت کی ضرورت نہیں اور خون مسیح گناہوں کے دور کرنے کے لئے کافی ہے، توریت کی پیروی ضروری نہیں یہ اور پھر ایک اور گند اس مذہب میں ڈال دیا کہ ان کے لئے سو کھانا حلال کر دیا.حالانکہ حضرت مسیح انجیل میں سو رکو نا پاک قرار دیتے ہیں.تبھی تو انجیل میں ان کا قول ہے کہ اپنے موتی سوروں کے آگے مت پھینکو.پس جب پاک تعلیم کا نام حضرت مسیح نے موتی رکھا ہے تو اس مقابلہ سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ پلید کا نام انہوں نے سوررکھا ہے.اصل بات یہ ہے کہ یونانی سور کو کھایا کرتے تھے جیسا کہ آجکل تمام یورپ کے لوگ سؤ رکھاتے ہیں.اس لئے پولوس نے یونانیوں کے تالیف قلوب کے لئے سو ر بھی اپنی جماعت کے لئے حلال کر دیا.حالانکہ توریت میں لکھا ہے کہ وہ ابدی حرام ہے اور اس کا چھونا بھی نا جائز ہے.غرض اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 374-375)
خطبات مسرور جلد چهارم 477 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 پوپ صاحب نے جو یہ کہا کہ یونانی فکر اور خدا پر ایسے ایمان کی جو کہ بائبل پر مبنی ہے گہری مطابقت ہے اصل میں یہ حضرت عیسی کا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ یونانیوں کو خوش کرنے کے لئے کوشش تھی.جو انصاف پسند عیسائی ہیں ان کو پتہ ہے، وہ کہتے ہیں اسلام کا خدا کیا ہے.ایڈورڈ گبن صاحب لکھتے ہیں کہ ” محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مذہب شکوک و شبہات سے پاک وصاف ہے.قرآن خدا کی وحدانیت پر ایک عمدہ شہادت ہے.مکہ کے پیغمبر نے بتوں کی، انسانوں کی اور ستاروں کی پرستش کو معقول دلائل سے رڈ کر دیا.وہ اصول اول یعنی ذات باری تعالیٰ جس کی بنا عقل و وحی پر ہے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت سے استحکام کو پہنچی.چنانچہ اس کے معتقد ہندوستان سے لے کر مرا کو تک موحد کے لقب سے ممتاز ہیں“.(Edward Gibbon 'The History of the Decline and Fall of the Roman Empire' Vol.V.Pages | 177-178.Penguins Classics(1st published 1788,this edition 1996) پس یہ اسلام کا خدا ہے جو عقل سے غور کرنے والے کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ معقول عقلی دلائل اسلام کے خدا میں ملتے ہیں.آخر میں میں ہر احمدی سے یہ کہتا ہوں کہ اسلام کے خلاف جو محاذ کھڑے ہورہے ہیں اُن سے ہم کامیابی سے صرف خدا کے حضور جھکتے ہوئے اور اس سے مدد طلب کرتے ہوئے گزر سکتے ہیں.پس خدا کو پہلے سے بڑھ کر پکاریں کہ وہ اپنی قدرت کے جلوے دکھائے.جھوٹے خداؤں سے اس دنیا کو نجات ملے.آج اگر یہ لوگ اپنی امارت اور طاقت کے گھمنڈ میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں تو ہماری دعاؤں کے تیروں سے انشاء اللہ تعالیٰ ان کے گھمنڈ ٹوٹیں گے.پس اُس خدا کو پکاریں جو کائنات کا خدا ہے.جو رب العالمین ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہے تا کہ جلد تر اس واحد ولا شریک خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے.مسلمان ملکوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اپنے فروعی اختلافات کو ختم کریں، آپس کی لڑائیوں اور دشمنوں کو ختم کریں.ایک ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں.اور ایسے عمل سے باز آجائیں جن سے غیروں کو ان پر انگلی اٹھانے کی جرات ہو.اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے.آج بھی میں کچھ لوگوں کے جنازہ غائب پڑھاؤں گا.ایک تو مکرم پیر معین الدین صاحب کا جنازہ ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے داماد تھے، اس لحاظ سے میرے خالو بھی تھے.انہوں نے جامعہ میں پڑھا یا فضل عمر ریسرچ میں کام کیا.علمی آدمی تھے علمی ذوق رکھتے تھے، واقف زندگی تھے.دوسرا جنازہ مکرمہ آمنہ خاتون صاحبہ کا ہے جورہ گیا تھا.یہ حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کی اہلیہ
خطبات مسرور جلد چهارم 478 خطبہ جمعہ 15 ستمبر 2006 تھیں.انہوں نے بھی غانا میں حضرت مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے ساتھ بڑی قربانی سے بڑا لمبا عرصہ گزارا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.ایک جنازہ میجر سعید احمد صاحب کا ہے.یہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے داماد تھے.ان کے دو بیٹے واقف زندگی ہیں ایک مربی ہیں اور ایک نائب وکیل التعلیم ہیں.سید حسین احمد اور سید جلید احمد.اور ایک ہمارے ماریشس کے مربی ہیں، مظفر احمد سدھن صاحب، ان کی والدہ وفات پا گئی ہیں، ان کا جنازہ غائب بھی ہم ابھی پڑھیں گے.اور ایک محد نگر کے ہمارے مربی عبدالناصر منصور صاحب کی والدہ سرور بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر ریاض احمد صاحب بھی وفات پاگئی ہیں..انہوں نے ساتھ خط لگایا ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.سب کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ سب مرحومین کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.
خطبات مسرور جلد چهارم 479 38 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 2006 دعا کی فلاسفی اور مختلف قرآنی دعاؤں کا تذکرہ دعاؤں کی قبولیت کے جو لوازمات ہیں ان کو پورا کرنے والے بنیں گے تو انشاء اللہ ، اللہ کے وعدے کے مطابق دعائیں قبول بھی ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دعا کی قبولیت کے فلسفہ کو سمجھتے ہوئے اپنی دعاؤں کے معیار کو بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے فرموده مؤرخہ 22 /ستمبر 2006 ء(22 رتبوک 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح ،لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے جس کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ اس سے ہر ضرورت کے وقت مانگے اور اس کے لئے دعا کرے، حتی کہ جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہے تو خدا سے مانگے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین رہے، یہ احساس رہے کہ ہر بڑی سے بڑی چیز بھی اور ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اگر کوئی دینے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس کے فضل کے بغیر ہمیں کچھ نہیں مل سکتا.برائیوں سے بچنا ہے تو اس سے دعا مانگو کہ اے اللہ! مجھے برائیوں سے بچا.نیکیاں بجالانی ہیں تو اس کے آگے جھکتے ہوئے ، اس سے توفیق مانگتے ہوئے نیکیاں بجالانے کی توفیق حاصل کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ ہم نیکیاں بجالا سکتے ہیں، نہ برائیوں سے بچ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہ ہم جہنم کی آگ سے بچ سکتے ہیں، نہ اس کے فضل کے بغیر ہم دنیاو آخرت کی جنت کے نظارے دیکھ سکتے ہیں.پس جب سب کچھ اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ملنا ہے تو کس قدر ضروری ہے کہ ہم
480 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم ہر معاملے میں خدا کو یا در کھتے ہوئے اس سے مانگیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور دنیاو آخرت سنوار نے کے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ﴿ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان:78) کہ تو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے، انہیں کو ملتی ہے کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعا اور تو حید کو اختیار کرتے ہیں.اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار ہو جاتے ہیں.خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اول صفحہ 563-564 بقیہ حاشیہ نمبر 11 پھر اس بارے میں فرمایا کہ ان کو کہہ دے کہ اگر تم نیک چلن انسان نہ بن جاؤ.اور اس کی یاد میں مشغول نہ رہو تو میرا خدا تمہاری زندگی کی پرواہ کیا رکھتا ہے“.( تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جلد نمبر 3 صفحہ 545) آپ فرماتے ہیں کہ مومن شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق کام کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَايَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : 78) خدا کو تمہاری پر واہ ہی کیا ہے اگر تم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعا ئیں نہ مانگو.فرمایا کہ یہ آیت بھی اصل میں پہلی آیت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاریات: 57) کی شرح ہے.الحکم جلد 7 نمبر 14-31/ مارچ 1903ء صفحہ 6.ملفوظات جلد سوم صفحہ 185 جدید ایڈیشن) یعنی قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبّى لَوْ لاَ دُعَاؤُكُمْ کی جو آیت ہے اس میں اس کی تفسیر بیان کی گئی ہے.یعنی اس میں اس حکم کی مزید وضاحت آ گئی کہ انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت کرنا ہے.فرمایا ”خدا تعالیٰ دین سے غافلوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے پرواہ نہیں کرتا.پس ثابت ہوا کہ جو دین سے غافل نہ ہوں ان کی ہلاکت اور موت میں خدا تعالیٰ جلدی نہیں کرتا“.الحکم جلد 9 نمبر 5 مؤرخہ 10 فروری 1905 صفحہ 5 - ملفوظات جلد چہارم صفحه 461 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) فرمایا ” دعا میں لگے رہو...ایک انسان جو دعا نہیں کرتا اس میں اور چار پائے میں کچھ فرق نہیں اس میں اور جانور میں کچھ فرق نہیں.الحکم جلد 11 نمبر 32 مؤرخہ 10 ستمبر 1907 صفحہ 6 - ملفوظات جلد پنجم صفحہ 272 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ہمیں ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ ایک انتہائی ضروری حکم ہے اور ہماری زندگیوں کے لئے انتہائی
خطبات مسرور جلد چهارم 481 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 2006 اہم امر ہے ، ضروری ہے کہ ہماری توجہ ہمیشہ دعا کی طرف رہے اور پھر اس سے بڑی خوشی کی بات اور ہماری بچت کی ضمانت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ بھی فرما دیا کہ گو کہ تمہاری دنیا اور آخرت کے سنوارنے کے لئے دعا ضروری ہے.مجھے اس سے کوئی فائدہ نہیں لیکن مجھے تمہارے اس امر سے بہت خوشی پہنچتی ہے، جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ میرا ایک بندہ شیطان کے جال میں پھنسنے سے بچ رہا ہے.تو میں تمہاری ان دعاؤں کو جو خالص میری رضا حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہیں اور مجھ پر توکل کرتے ہوئے کی جاتی ہیں ضرور سنتا ہوں اور جو متکبر ہیں ان کا ٹھکا نہ تو جہنم ہے.فرماتا ہے کہ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيْنَ (المؤمن:61) اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو ہمیں تمہیں جواب دوں گا.یقینا وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: استجابت دعا کا مسئلہ در حقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے.ایک شاخ ہے.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ اور شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھو کے لگتے ہیں.اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق جاذبہ ہے.یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے.سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.تب اس کی روح اُس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب میں جو اُس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے.تب اللہ جلشانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور اگر قحط کے لئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے“.یعنی ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس سے کام مکمل ہو جائے.” یعنی باذنہ تعالیٰ وہ
482 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اُس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے“.( برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 9-10) اس میں آپ نے دعا کی قبولیت کا فلسفہ بیان فرمایا ہے کہ اگر دعا کی حقیقت کا پتہ ہے تو قبولیت دعا کا بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دعا کا فلسفہ کیا ہے، بندے اور خدا میں ایک دوسرے کو اپنے اندر جذب کرنے کی ایک قوت ہے اور یہ قوت کس طرح کام کرتی ہے؟ فرمایا کہ اس میں پہل اللہ تعالیٰ کرتا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے.اگر غور کریں تو انسان کی پیدائش سے پہلے ہی یہ رحمانیت کے جلوے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ہر قدم پر، ہر لمحے انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا چلا جاتا ہے.کس طرح بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے، یہ بھی رب العالمین کا بڑا وسیع مضمون ہے.بہر حال خلاصہ یہ کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں اور رحمتوں کو یادر کھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمائے ہیں اور ایک سعید اور نیک فطرت بندہ ، ایک مومن بندہ ان چیزوں کو یاد بھی رکھتا ہے اور اس کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق، ہر وقت اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے تیار رہنا، ہر وقت اس کے پیار کو سمیٹنے کے لئے اس کے حکموں پر نظر رکھنا ، ہر وقت اس کی رضا کے حصول کی لگن دل میں رکھنا یہ ایک سچے مومن کی نشانی ہے تو خالصہ اللہ ہو کر اگر پوری سچائی کے ساتھ ، صاف دل کے ساتھ ایک مومن اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے اور زیادہ نزدیک ہو جاتا ہے.اور جب خدا تعالیٰ اپنے بندے کے اس قدر نزدیک ہو جائے کہ وہ اور بندہ ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں.پھر جب بندہ دعا کرتا ہے تو ایسی حالت میں کی گئی دعا ایسے ایسے عجیب معجزے دکھاتی ہے جو ایک آدمی کے تصور میں بھی نہیں آ سکتے.پس یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.عام دنیا میں بھی مشاہدہ کر کے دیکھ لیں کہ جب تکلیف کے وقت خالص ہو کر کوئی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو اس وقت کیونکہ دنیا کی ہر چیز سے بے رغبتی ہوتی ہے، دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی ، مشکل میں پھنسا ہوتا ہے، مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جھک رہا ہوتا ہے ،صرف اور صرف اللہ کی ذات سامنے ہوتی ہے، تکلیفوں نے اس شخص کے اندر ایک کیفیت پیدا کی ہوتی ہے.اس لئے اکثر لوگ جو ایسی حالت میں دعائیں کر رہے ہوتے ہیں وہ قبولیت دعا کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں.پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کو ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے اس کے قریب تر ہونے کی کوشش کرتا رہے، ایک کام ہونے کے بعد، ایک تکلیف دور ہونے کے بعد اس کے قریب ہونے کی کوشش کو ترک نہ کر دے تو پھر مستقل اللہ تعالیٰ استجابت دعا کے نظارے دکھاتا ہے، قبولیت دعا کے نظارے دکھاتا
483 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم ہے.پس اللہ تعالیٰ کی عنایات کو ہر وقت اپنے اوپر برستا ر کھنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تر رہنے کی کوشش کی جائے.پھر ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ تمام تر دنیاوی اسباب کو اور دنیا کی جو بھی چیزیں ہیں ان کو اس بندے کی دعامانگنے کی صورت میں اس کی ضروریات پوری کرنے کے کام میں لگا دیتا ہے.تمام زمینی اور آسمانی ذرائع اپنے بندے کی مدد کے لئے کھڑے کر دیتا ہے.کبھی اللہ تعالیٰ بندے کی دعا قبول کرتے ہوئے بادلوں سے بارش برساتا ہے تو کبھی دشمن کے حق میں اپنے بندے کی بددعا سنتے ہوئے قحط اور آفات کے سامان پیدا کر دیتا ہے.پس یہ حالت جو ایک مومن کے دل میں قبولیت دعا کے لئے پیدا ہونی چاہئے ، یہی وہ حالت ہے جو ہر احمدی کو اپنے دل میں پیدا کرنی چاہئے.ایک خطبے میں میں نے بزرگوں کی قبولیت کے واقعات بیان کئے تھے.وہ لوگ اس مقام پر پہنچے ہوئے تھے کہ جب ان کی ایسی حالت ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول کرتا تھا.اب بھی اللہ تعالیٰ جماعت کے لوگوں کی دعا قبول کرتا ہے، آج بھی وہی خدا ہے، اُس نے اپنے دروازے بند نہیں کر دیئے ، صرف ایک سچی کشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا یہ جلوہ بھی دیکھیں کہ وہ جو مادی ضرورتیں پوری کرتا ہے اس سے سب کا فرو مومن فائدہ اٹھا رہے ہیں.ایک مومن کو وہ طریق بھی بتائے کہ تم کس طرح مختلف اوقات میں پکار و اور کس طرح تم میرے قریب آؤ اور میں مزید تمہارے قریب آؤں جہاں دونوں قریب ترین ہو جائیں.فرمایا : قفل ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيَّامًا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاسْمَاءُ الْحُسْنَى (بنی اسرائیل : 111 ) تو کہہ دے کہ خواہ اللہ کو پکارو، خواہ رحمن کو جس نام سے بھی تم پکار وسب اچھے نام اسی کے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے مختلف نام ہیں، مختلف صفات ہیں.تم اپنی ضرورت کے مطابق میرے ناموں کا حوالہ دے کر میری صفات کا حوالہ دے کر مجھے پکارو تو میں اپنے ناموں کا اتنا پاس رکھنے والا ہوں کہ جب میرے بندے کی وہ حالت بن جاتی ہے جو میں پہلے بیان کر آیا ہوں کہ کیا حالت ہونی چاہیئے ؟ تو اگر میری رحمانیت کی ضرورت ہے تو اس صورت میں بندے کے لئے رحمانیت جوش میں آئے گی ، اگر رحیمیت کی ضرورت ہے تو بندے کے لئے رحیمیت جوش میں آئے گی.اگر وہاب نام سے پکارو گے اور اس کی ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے.غرض کہ اللہ کے جو بے شمار نام ہیں اور یہ تمام نام اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو سننے کے لئے ہی ہمیں سکھائے ہیں ، یہ سب صفات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس لئے ظاہر فرمائیں کہ ان کا فہم و ادراک حاصل کرتے ہوئے ، ان صفات کے حوالے سے اس کو پکارا جائے.پس مومن کو چاہئے کہ جب ہمارا خدا ہم پر اتنا مہربان ہے، ہمیں اس طرح
خطبات مسرور جلد چہارم 484 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 2006 راستے دکھاتا ہے کہ کسی طرح میرے بندے شیطان کے چنگل سے بچیں اور اس طرح آخرت کے عذاب سے بچ جائیں تو اس کے خالص عبد بنتے ہوئے اس کے حضور دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے.آج میں نے چند قرآنی دعا ئیں چینی ہیں.اب دیکھیں یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے کہ ہمیں مختلف مواقع کی دعائیں سکھا دیں.پہلے انبیاء کی دعائیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہمیں سکھا دیں تا کہ ہم جہاں ان سے فیض اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں وہاں اپنی دنیا و آخرت سنوار نے والے بھی بن جائیں.جب اللہ تعالیٰ ہم پر احسان فرماتے ہوئے اپنے انعامات سے نوازتا ہے تو اس پر متکبر ہونے کی بجائے فخر کرنے کی بجائے اللہ کے حضور جھکنا چاہئے.کسی کو کوئی اعلیٰ ملا زمت مل جائے تو اس کا دماغ عرش پہ پہنچ جاتا ہے.کسی کو فائدہ مند کاروباریل جائے تو اس کے پاؤں زمین پر نہیں سکتے.کسی کو اچھے خاندان میں پیدا ہونے پر فخر کھائے جارہا ہے.کسی کو اپنی دماغی صلاحیتوں پر بڑا فخر ہوتا ہے.پھر وہ نہ بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے.لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایک نیک بندے کی مثال دیتے ہوئے ایک دعا سکھاتا ہے کہ ان چیزوں پر فخر کرنے کی بجائے اللہ کے آگے جھکو گے تو اس کے فضلوں کے وارث بنو گے.یہ سورۃ یوسف کی آیت ہے.فرمایارَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَأْوِيْلِ الْاحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّالْحِقْنِي بِالصَّلِحِيْنَ (يوسف: 102) اے میرے رب تو نے مجھے امور سلطنت میں سے حصہ دیا اور باتوں کی اصلیت سمجھنے کا علم بخشا.اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے، مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرے میں شمار کر.یعنی یہ جو سب نعمتیں مجھے عطا کی ہیں تیرے اس سلوک کی آئینہ دار ہیں کہ میرے تیری طرف صدق اور سچائی سے بڑھنے کو تو نے قبول کیا اور مجھے یہ مقام عطا فر مایا اور میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح دنیا میں یہ دوستی کے نظارے دکھائے آخرت میں بھی تو میرا دوست ہو گا.اسلئے میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے کامل فرمانبرداروں کی حالت میں وفات دینا تا کہ آخرت میں بھی میرا ان لوگوں کے ساتھ جوڑ ہو جو صالحین ہیں.تیرا قرب پانے والے ہیں.جنکے مقام ہر آن ، ہر وقت ، ہر لمحہ جنت میں بلند ہوتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ دعا صرف ہمیں ایک واقعہ کی صورت میں بیان نہیں فرمائی بلکہ اسلئے بیان کی ہے کہ اس پر عمل کرنے کیلئے مومن کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے تاکہ نیک اعمال کر کے وہ بھی صالحین کے گروہ میں شمار ہو سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنی رحمانیت کے نظارے دکھاتے ہوئے تمہارے لئے یہ جو زمین و آسمان پیدا کیا ہے اس پہ غور کرو.ستارے ہیں، چاند ہے، سورج ہے، فضا میں مختلف قسم کی گیسز
485 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم ہیں، مختلف قسم کی نہیں ہیں جو بعض اجرام فلکی کے نقصانات سے تمہیں محفوظ رکھے ہوئے ہیں.ہر ایک چیز اپنے اپنے بتائے ہوئے وقت ، رفتار اور دائرے میں گردش کر رہی ہے.پھر رات اور دن ، چاند اور سورج ہماری زمین کی پیدائش پر اثر انداز ہو رہے ہیں.یعنی زمین میں جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں، مختلف موسم ہیں، بارش ہے ، سردی ہے، گرمی ہے اور اسکے حساب سے اللہ تعالیٰ نے مختلف فصلیں اور پھل، درخت اور پورے مہیا کئے ہوئے ہیں.باغ وغیرہ ہیں جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو.تو جو لوگ ان چیزوں پر غور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہیں، اس پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں وہ اس بات پر بھی قائم ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے.اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارہ میں جو بتایا وہ اگر حق ہے تو آخرت بھی حق ہے.پس یہ سب دیکھ کر ایک مومن دعا کرتا ہے کہ ہماری غلطیوں کو ، کوتاہیوں کو معاف فرما.انکی وجہ سے ہمیں کسی پکڑ میں نہ لے لینا اور ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا.یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں سکھائی ہے.فرماتا ہے الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْارْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : 192 ) وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں، کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمان و زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور بے ساختہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہر گز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا.پاک ہے تو پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یا الہی تو اس سے پاک ہے کہ کوئی تیرے وجود سے انکار کر کے نالائق صفتوں سے تجھے موصوف کرے.ایسی باتیں تیری طرف منسوب کرے جو مکمل اور کامل نہیں ہیں جو تیرے مقام سے بہت گری ہوئی چیزیں ہیں.جن میں کمزوریاں، خامیاں اور سقم ہیں.” سوتو ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا.یعنی تجھ سے انکار کرنا عین دوزخ ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 120) فرمایا ” مومن وہ لوگ ہیں جو خدائے تعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں عجائب صنعتیں موجود ہیں ان میں فکر اور غور کرتے رہتے ہیں اور جب لطائف صنعت الہی ان پر کھلتے ہیں.یعنی اس کائنات کے جو باریک سے باریک راز ہیں وہ اُن پر کھلتے ہیں جب وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کے نظارے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدایا تو نے ان صنعتوں کو بے کار پیدا نہیں کیا.یعنی وہ لوگ جو مومن خاص ہیں صنعت شناسی اور ہیئت دانی سے دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے.یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء ہیں ان کو دیکھ کر
خطبات مسرور جلد چهارم 486 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 2006 اور اللہ تعالیٰ نے جو مختلف چیزیں پیدا کی ہیں ان کی شکلیں دیکھ کر ، آسمان اور زمین میں جو مختلف چیزیں چاند ، سورج، ستارے ہیں، دنیا کی پیدائش ہے ، اس کو دیکھ کر فرمایا کہ دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے کہ مثلاً اسی پر کفایت کریں کہ زمین کی شکل یہ ہے اور اس کا قطر اس قدر ہے اور اس کی کشش کی کیفیت یہ ہے اور آفتاب اور ماہتاب اور ستاروں سے اس کو اس قسم کے تعلقات ہیں بلکہ وہ صنعت کی کمالیت شناخت کرنے کے بعد اور اس کے خواص کھلنے کے پیچھے صانع کی طرف رجوع کر جاتے ہیں.جب ان چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں تو پھر وہ دیکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے اس کو پیدا کرنے والا کون ہے.اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں“.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد نمبر 2 صفحہ 143-144) جب اس پیدا کرنے والے کا پتہ لگ جاتا ہے، خدا تعالیٰ کی عظمت کا پتہ لگتا ہے، خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا پتہ لگتا ہے تو پھر ایمان میں اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے، جب یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ ان سب چیزوں کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے تو اس کی ہستی اور طاقتوں پر اور یقین بڑھتا ہے.پھر اس بات کا بھی یقین بڑھتا ہے کہ ان سب کو پیدا کرنے والا وہ زندہ خدا ہے جس نے اپنی عبادت کرنے کے لئے بھی کہا ہے، دعائیں مانگنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور عمل کے حساب سے اچھے اور بُرے اعمال سے بھی آگاہ کیا ہے.تو پھر وہ پکارتا ہے کہ اے اللہ! مجھے نیک عملوں کی بھی توفیق عطا فرما تا کہ میں آگ کے عذاب سے بچوں اور تیرے پیار کی نظر ہمیشہ مجھ پر پڑتی رہے.پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّلِحِيْنَ (الشعراء:84) اے میرے رب مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شمار کر.پس یہ دعا بھی بڑی اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ فراست بھی دے، حکمت بھی دے، جو کام سپر د ہوں ان کو احسن رنگ میں انجام دینے کی توفیق بھی عطا فرمائے.جو جماعتی ذمہ داریاں سپرد ہوئی ہیں، جہاں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے صحیح فیصلے کرنے کی توفیق دے اور ترقیات سے بھی نوازے.ایک بندہ جب یہ کہتا ہے کہ ترقیات سے بھی نواز تو اس لئے یہ ساری چیزیں مانگتا ہے تا کہ اے خدا میں تیری رضا کی خاطر کام کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاؤں.پھر یہ بھی دعا ہے کہ مجھے اپنے احکامات کا فہم و ادراک عطا فرما اور ان خصوصیات کے حاصل ہونے کی وجہ سے میں تیرے صالح بندوں میں شمار ہوں اور یہ نیکی کا معیار بھی بڑھتا چلا جائے.پھر فرمایاوَ اجْعَلْ لِى لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِيْنَ (الشعراء: 85 ) اور میرے لئے آخرین میں سیچ کہنے والی زبان مقدر کر دے.اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ بھی اس بات کی گواہی
خطبات مسرور جلد چهارم 487 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 2006 دیں کہ میں نے ہمیشہ حق وصداقت کا ساتھ دیا ہے، حکمت اور عقل سے فیصلے کئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہمیشہ پیش نظر رہا ہے اور اے اللہ ! میں پچھلوں میں بھی ان نیک کاموں سے یاد کیا جاؤں.پھر سب سے اہم یہ دعا سکھائی کہ وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ (الشعراء: 86) اور مجھے نعمتوں والی جنتوں کے وارثوں میں سے بنا.ایسی جنت کا وارث بنا جہاں میں تیری تمام نعمتوں کو حاصل کرتا چلا جاؤں ، جنت میں میرے درجے بڑھتے چلے جائیں.یہ ذکر خیر اور لوگوں کی دعائیں اور اولاد کی نیکیاں اور دعائیں آخرت میں بھی ایک مرنے والے کے درجے بڑھاتی چلی جاتی ہیں.پس اس جہان کی یہ نیکیاں اور حکمت کی باتیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک لوگوں میں شمار، جنت میں بہتر مقام دلوانے والا بن جاتا ہے.پس جب انسان کو جنت میں اعلیٰ درجوں کی دعا کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تولا ز ما یہاں بھی وہ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.دنیا میں نیک نام اولاد کی وجہ سے بھی ہوتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا بھی سکھا دی کہ اس دنیا کو جنت بنانے کے لئے اور آخری جنت کے وارث بننے کے لئے اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو اور ان کے لئے سب سے بڑی دعا ان کا تقویٰ پر قائم رہنا ہے.چنانچہ فرمایا وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان آیت : 75 ) اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں ( بیویوں ) اور اپنی اولاد سے، آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر.اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نکاح سے ایک اور غرض بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم میں یعنی سورۃ الفرقان میں اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا یعنی مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر.اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزند نیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش رو ہوں.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفرقان زیر آیت نمبر 75، آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 23) پھر فرمایا کہ انسان کو سوچنا چاہئے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہئے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے لیکن جب ایک خاص اندازہ سے گزرجاوے تو ضرور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا
488 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم کیا جیسا کہ فرمایا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاریات : 57 ) اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتا ہے اور پوراحق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کے لئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی؟ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑ نا چاہتا ہے.خود کونسی کمی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے.پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے ، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سییات رکھنا جائز ہوگا.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعوی ہی دعوئی ہو گا.جب تک کہ وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوی میں کذاب ہے.جھوٹا ہے.” صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیا نہ زندگی بناوے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولا دحقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں.لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی ہی نامور اور مشہور ہو ، اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 560-561 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا کہ ” غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہئے.اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے“.اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ” خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی.حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی.یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیدا ہو گئے تھے.اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں 66 اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں......فرمایا: ” پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں.نہ کبھی اُن کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں.
خطبات مسرور جلد چہارم 489 خطبہ جمعہ 22 ستمبر 2006 66 میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں.فرمایا: ”لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اسلئے کہ وہ خادم دین ہو.بلکہ اسلئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو.اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا.نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے.یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہوسکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا.یعنی قریبی تعلقات اور رشتوں کو نہیں سمجھتا.جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا (الفرقان آیت: 75) یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرمادے اور یہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں.اور آگے کھول کر کہہ دیا وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا اولا دا گر نیک اور متقی ہو تو ان کا امام ہی ہوگا.اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے“.(احکم جلد 5 نمبر 35 مورخہ 24 ستمبر 1901ء صفحہ 10-12 - ملفوظات جلد اول صفحہ 562-563 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہیں وہ معیار جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہر احمدی میں اس کی اولاد کے بارے میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے آپ نے اس قرآنی حکم کے مطابق اولاد کو ڈھالنے کے لئے تربیت اور دعا پر بہت زور دیا تھا.اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے اس کے لئے ہر کوئی پہلے اپنی حالت بدلے ورنہ یہ دعا اپنے نفس کو دھوکہ ہے اور جھوٹ ہے.اپنے نفس کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں.فرمایا کہ متقی اولاد کے لئے پہلے خود صالح اعمال بجالانے ہوں گے.دعا کی قبولیت کے لئے اپنی وہ حالت بنانی ہوگی جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا ہے.جب یہ حالت بن جائے گی تو پھر انشاء اللہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، دعائیں قبول ہوں گی.پس ہر احمدی بچہ عمومی طور پر جماعت کی امانت ہے اور ہر وہ احمدی جس نے اپنے بچے وقف نو میں دیئے ہوئے ہیں کہ وہ دین کے خادم بنیں، وہ اس گروہ میں شامل ہوں جو دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا گروہ ہے ، وہ ایسے بچوں کے باپ ہیں جنہوں نے ایک عمر کو پہنچنے کے بعد اسماعیل کی طرح اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش
خطبات مسرور جلد چہارم 490 خطبہ جمعہ 22 /ستمبر 2006 کیا ہے.ایسی صورت میں اُن باپوں کو بھی تو وہ نمونہ دکھانا ہوگا جو حضرت ابراہیم کا نمونہ ہے.پس دعاؤں کی قبولیت کے جو لوازمات ہیں ان کو پورا کرنے والے بنیں گے تو انشاء اللہ ، اللہ کے وعدے کے مطابق دعائیں بھی قبول ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دعا کی قبولیت کے فلسفے کو سمجھتے ہوئے اپنی دعاؤں کے معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور بھی قرآنی دعائیں ہیں جو انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.آج بھی نماز جمعہ کے بعد چند افراد کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.ایک تو ہمارے سیرالیون کے رہنے والے سیرالیونی مبلغ سلسلہ ہارون جالو صاحب وفات پاگئے ہیں.جامعہ احمدیہ پاکستان سے پڑھے ہوئے تھے.یہ بیمار ہوئے تھے، شاید انکو کینسر ہوا تھا.ان کی عمر چھوٹی ہی تھی، میرا خیال ہے انکی عمر 51 سال تھی.ان کے تین بچے اور بیوہ ہیں.سیرالیون میں ان کی تدفین ہوئی ہے.ان کا جنازہ غائب ہوگا.دوسرے قادیان کے عبدالسلام صاحب درویش ہیں.یہ بھی 18 ستمبر کو وفات پاگئے.مینجر پریس کے طور پر خدمت بجالاتے رہے اور بڑے دلیر، بہادر محنتی اور وفا سے کام کرنے والے انسان تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.تین بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.پھر ہمارے سندھ کے رہنے والے چوہدری محمدعلی بھٹی صاحب ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو اپنی زمینوں پر بھجوایا تھا، بہی خدمت کی.اسی طرح انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ، حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی بھی لمبا عرصہ خدمت کی.اور ان کے ایک جوان لڑکے جامعہ کے طالب علم تھے، مبارک احمد بھٹی صاحب 1971ء کی جنگ میں شہید ہو گئے.آپ نے بڑے صبر سے صدمہ برداشت کیا.نیز ان کے ایک داماد گھانا میں ہمارے واقف زندگی ڈاکٹر ہیں.بڑے شریف اور مخلص انسان تھے.ناصر آباد، حیدر آباد سندھ میں ایک چھوٹی سی جگہ ہے.جب بھی وہاں آتے تھے، اکثر و ہیں رہتے تھے، اس بڑی عمر میں بھی وہ مسجد کی رونق تھے.پھر ایک جنازہ داؤ دزمان صاحب، ان کی اہلیہ اور بیٹی کا ہے.یہ کیلگری میں رہنے والے ہیں.اس فیملی کا بھی گزشتہ دنوں ایک ایکسیڈنٹ ہوا جس میں دونوں میاں بیوی اور چھوٹی سی گیارہ ماہ کی بیٹی سب ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے.داؤد زمان صاحب کے نانا نے بھی حضرت مصلح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور لڑکی کے دادا نے بھی حضرت مصلح موعود کے زمانے میں ہی بیعت کی تھی.مخالفت میں بڑے ثابت قدم رہے.شازیہ اسلم جو فوت ہوئی ہیں یہ اشرف ناصر صاحب مرحوم جو مربی سلسلہ تھے ان کی بھتیجی.ان سب کے جنازے ابھی نماز جمعہ کے بعد ہوں گے.
خطبات مسرور جلد چهارم 491 (39) خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 رمضان کے مہینے کی یہ بھی اہمیت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر پہلے سے بڑھ کر نظر رکھتا ہے اور اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے.اس رمضان میں ان دعاؤں کا صحیح ادراک حاصل کرتے ہوئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ قیام نماز کا عادی بن جائے اور پھر اس کو اپنی نسلوں میں بھی اور دوسروں میں بھی پھیلانے والا ہو خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مؤرخہ 29 ستمبر 2006 ء(29 رتبوک 1385 هش ) مسجد بیت الفتوح ،لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ ہفتہ سے رمضان شروع ہے.یہ مہینہ ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن اتارا اور فرمایا کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة:186) رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.تپس اس ہدایت سے تبھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب اس کو پڑھ کر اس پر عمل بھی کیا جائے.اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت سے احکامات اتارے جو ہمارے کرنے کے لئے ہیں.بہت سے احکامات ایسے اتارے جن میں بعض قسم کی باتوں سے روکا گیا ہے.پھر بہت سی دعائیں سکھائیں جو گزشتہ انبیاء کی دعائیں ہیں اور ایسی دعائیں بھی سکھائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی گئیں اور قرآن کریم میں
خطبات مسرور جلد چهارم 492 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 ان دعاؤں کے بیان کرنے کا مقصد امت کو اس طرف توجہ دلانا تھا کہ مختلف قسم کے حالات پیدا ہوں تو اُن حالات کے پیش نظر قرآن کریم میں جو مختلف قسم کی دعائیں ہیں وہ دعائیں کرو.یقینا اللہ تعالیٰ نے یہ مختلف قسم کی دعائیں قرآن کریم میں اس لئے جمع کی ہیں تا کہ ایک مومن بندہ ان سے فائدہ اٹھائے.اور خالص ہو کر اس کی صفات کے حوالے سے، اس حوالے سے کہ اے خدا تو نے خود یہ دعا ئیں ہمیں سکھائی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے جب اس سے دعائیں مانگے تو خدا تعالیٰ قبول فرماتا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس کا میں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا.اللہ تعالیٰ کے پید ایسے احسانات ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں جو اُس کے حضور خالص ہو کر جھکنے والے کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والے ہو تھی ہیں.آج بھی میں اسی مضمون کو جاری رکھوں گا جو قرآن کریم میں سکھائی گئی دعاؤں کا مضمون ہے.رمضان کے مہینے کی یہ بھی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس مہینے میں پہلے سے بڑھ کر اپنے بندے پر نظر رکھتا ہوں ، اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے.پس ہمیں اُن اعمال کی ضرورت ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے تا کہ ہماری یہ معمولی کوششیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوں.اللہ تعالیٰ ان دنوں میں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پہلے سے بڑھ کر ، عام حالات سے بڑھ کر اپنے بندے پر مہربان ہوتا ہے.معمولی نیکیاں بھی بہت بڑے اجر پالیتی ہیں.بھول چوک اور غلطیوں سے اللہ تعالیٰ صرف نظر فرماتا ہے.پس ہر مومن کو ان دنوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا روزے اور عبادتوں کی وجہ سے شیطان جکڑ ا جاتا ہے.اس کے آگے روکیں کھڑی ہو جاتی ہیں، ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ شیطان کی کوئی پیش نہیں جاتی.پس اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے لئے بڑی بدقسمتی کی بات ہو گی کہ وہ رمضان پائے ، وہ اپنی زندگی میں رمضان دیکھے اور پھر اپنے گناہ نہ بخشوائے.اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے کی طرف مزید کوشش نہ کرے.آج پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مہینے میں داخل فرمایا ہے.شیطان جکڑا ہوا ہے، نیکیوں کے کئی گنا بڑھ کر اجر مل رہے ہیں.ہمیں چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک اس سے بھر پور فائدہ اٹھائے اور اٹھانے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی نیکیوں میں سے سب سے زیادہ اس کی عبادت، اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق نمازوں کے پڑھنے سے دلچسپی ہے.اللہ تعالیٰ کو اس طرح نمازوں کی ادائیگی پسند ہے جس طرح اس نے بتایا ہوا ہے.جب اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے
493 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم ہوئے ، اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اُن تمام شرائط پر عمل کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں نمازیں ادا کرتا ہے تو وہ ایسی نمازیں نہیں ہوتیں جو الٹا کر منہ پر ماری جانے والی نمازیں ہوں.اور یہی مقصد انسان کی پیدائش کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.ہر نیکی کی طرح نمازیں پڑھنے کی یہ توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے.اس لئے قرآن کریم میں ہمیں ایسی دعا سکھائی جو نہ صرف ہمارے لئے بلکہ ہماری نسلوں کے لئے بھی ہے.اور جب نسلاً بعد نسل جب یہ دعا مانگی جاتی رہے گی تو اللہ تعالیٰ اپنی اس دعا کے طفیل جو اس نے ہمیں سکھائی ہے عبادت کرنے والے بھی پیدا فرماتا چلا جائے گا.فرماتا ہے کہ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِى رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ (ابراھیم :41) اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی.اے ہمارے رب اور میری دعا قبول کر.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے انبیاء کے ذریعہ سے دعا ئیں سکھائی ہیں.یہ دُعا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگی تھی کہ جس طرح مجھے نمازوں پر قائم کیا ہے اسی طرح میری نسلوں میں بھی قائم کرتارہ.اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن کی نسل میں سے وہ نبی بر پا ہونے والا تھا جو تمام نبیوں سے افضل تھا اور ہے، یہ دعا اُس نبی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی مانگی تھی تا کہ آپ کی امت میں بھی نمازی پیدا ہوتے چلے جائیں.پس یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ مقام کو بھی ظاہر کرنے والی ہے کہ آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی دعائیں کر رہے ہیں.اور یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے سکھائی ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا حضرت ابراہیم علیہ السلام تو نماز قائم کرنے والے تھے، آپ نے یہ دعا کی کہ میں بھی نمازیں قائم کرنے والوں کا امام ہوں اور ہمیشہ رہوں اور میری نسلیں بھی ہمیشہ نمازیں قائم کرنے والے بناتی چلی جائیں.اور پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا کا علم دے کر ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ آپ سبھی اس مقام تک پہنچے ہوئے ہیں.جہاں آپ نماز قائم کرتے ہوئے اپنی امت کیلئے بھی نمازیں قائم کرنے والے پیدا ہونے کیلئے دعا کرتے ہیں.دوسرے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تو اللہ تعالیٰ نے نبی پیدا فرمائے تھے اور گو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی لیکن آپ کی امت کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری اُمت میں سے بھی میں ایسے نیک فطرت علماء پیدا کرتا رہوں گا جو بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہیں اور اس زمانے میں یہ نیک فطرت علما ء وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس زمانے کے مسیح و مہدی کو مان لیا.وہ علماء جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے والے اور عبادتیں کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے.وہ علماء نہیں جو آج کل سیاست میں گرفتار ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا کوئی معمولی اور عارضی دعا نہیں تھی بلکہ یہ دعا قیامت تک کے
خطبات مسرور جلد چہارم 494 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 لئے تھی اور آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے علاوہ کوئی نہیں جو نماز کے قیام کی کوشش کرتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تو بہت سے نبی پیدا ہوئے لیکن صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر قائم رہنے والے ہی ہیں جو قیام نماز کی کوشش کرتے ہیں.آج تمام دنیا میں صرف نیک فطرت مسلمان ہیں جو نماز کے قیام کے لئے کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی تمام دنیا میں قیام نماز کو رائج فرمانا تھا، کیونکہ آپ ہی وہ واحد نبی ہیں جو تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کو ابوالانبیاء بھی کہا جاتا ہے ان سے بھی یہ دعا کہلوائی جو پیشگوئی کا بھی رنگ رکھتی ہے.پس یہ پیشگوئی پوری ہوئی.اللہ تعالیٰ نے اس دعا کا قرآن کریم میں ذکر کر کے اُمت کی بھی ذمہ داری لگا دی کہ قیام نماز کے لئے کوششیں کرتے رہو.کیونکہ قیام نماز خدائے واحد کے آگے جھکنے اور وحدانیت کو قائم کرنے کی بھی ایک علامت ہے.پس آخری زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے جس موعود فرزند اور مسیح و مہدی نے آنا تھا اس نے یہ وحدانیت پیدا کر کے قیام نماز بھی کرنا تھا.پس آج جماعت احمدیہ کی یہ ذمہ واری لگائی گئی ہے جو مسیح محمدی کی جماعت ہے، جس کو آج دنیا کے کونے کونے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پھیلا دیا ہے، کہ دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی وقت کے لحاظ سے ( مختلف اوقات ہوتے ہیں ) نماز کا وقت آئے تو قیام نماز کی کوشش کرتے رہیں تا کہ اس وجہ سے جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت بھی اور ہر احمدی بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں.اکثر ہم میں سے نماز میں درود شریف کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے جو دعائیں پڑھتے ہیں ان میں یہ دعا بھی پڑھتے ہیں.تو اس پر غور کریں.ایک فکر کے ساتھ اس دعا کی قبولیت مانگنی چاہئے تا کہ نسلوں میں بھی اور جماعت کے ہر فرد میں بھی قیام نماز کی طرف توجہ رہے.یہ دعا تو خالص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے ہے.کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول نہ کرے اور لوٹا دے.رمضان کے ان دنوں میں، جب تقریبا ہر ایک کو نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوتی ہے ایک فکر کے ساتھ ، غور کر کے یہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بعد میں بھی قیام نماز ہوتا رہے گا.اور یہ دُعا یقیناً استجابت کا مقام حاصل کرے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے.پس اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہمیں بھی اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ میں نے کہا آج کل اس کا بہترین موقع ہے.اور یہی چیز ہے جس سے وہ مقام حاصل ہو گا جس سے ایک بندہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن کر اس کے قریب ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس برکت کو حاصل کرنے کے لئے یہ موقع عطا فرمایا ہے.ایک دفعہ پھر ہمیں رمضان میں داخل فرمایا ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے.
495 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ القُرْآنُ (البقرة:186) سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے“.یعنی نماز تزکیہ نفس کرتی ہے.اور فرمایا کہ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جاوے.اس سے دوری پیدا ہو جائے.نیکیوں میں ترقی کرے اور تجلی قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لئے“.( بدر جلد 1 نمبر 7 مورخہ 12 / دسمبر 1902ء صفحہ 52 - ملفوظات جلد دوم صفحہ 561-562 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس برائیوں سے بچنے کے لئے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اس مہینے میں خاص طور پر ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور یہ کوشش ہو کہ اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرے اور سنوار کر ادا کرتے رہنے کے لئے دعا کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل ہمیشہ جاری رہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس دعا کا فہم و ادراک عطا فر ماتے ہوئے اس دعا کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے تاکہ ہمیشہ جماعت کے لئے قیام نماز ایک طرہ امتیاز رہے.پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی بتائی کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ لرَّحِيمُ (البقرة: 129 ) اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دوفرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریت میں سے بھی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر تو بہ قبول کرتے ہوئے جھک جا.یقینا تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو دیکھیں ہمیشہ قیام نماز کو جاری رکھنے اور قائم رکھنے کے لئے عبادتوں کو زندہ رکھنے کے لئے یہ دعا سکھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے گروہ پیدا کرتا چلا جائے جو حقیقت میں عبادت اور قربانیوں کے مقصد اور فلسفے کو سمجھتے ہوئے عبادتیں کرنے والے اور قربانیاں کرنے والے ہوں.اور اے خدا! یہ سب تیرے خاص فضل اور رہنمائی سے ہوگا.اس لئے ہمیشہ ایسے لوگ اور گروہ پیدا فرما تارہ جن کو تیری براہ راست رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہے، ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو ہنمائی کرنے والے ہوں.( ہر ایک کو تو علیحدہ علیحدہ نہیں الہام ہوتا.اور کبھی یہ نہ ہو کہ تیری رہنمائی سے یہ امت محروم ہو جائے.یہاں اس دعا کی انتہا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہوتی ہے.اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ دعا کی اور دنیا نے دیکھا کہ عرب کے ان وحشیوں میں کیا انقلاب آیا کہ وہ لوگ ایسے باخدا انسان بنے جن کی راتیں عبادت کرتے ہوئے اور دن اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیاں کرتے ہوئے گزرتے تھے.اور آپ کی یہ دعا صرف آپ کے وقت تک محدود نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد چهارم 496 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 کے حضور تا قیامت قبولیت کا درجہ پاگئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کی معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں حاصل ہوئی.جیسا کہ میں نے کہا اب آپ کی امت اس کے دائمی نظارے دیکھنے لگی ، اس میں دائمی نظارے نظر آنے لگے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو مکمل طور پر کبھی بگڑنے نہ دیا.ایک ہزار سال کا اندھیرا زمانہ آیا اس میں بھی اللہ تعالیٰ اولیاء امت اور مجددین کے ذریعہ سے عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھاتا چلا گیا.مجد دین اور اولیاء کے ذریعہ ہمیشہ ایک گروہ ایسار ہا جو صحیح طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے والا رہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے.پھر مجدد آخر الزماں اور خاتم الخلفاء اور خاتم الاولیاء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے مبعوث فرمایا جنہوں نے اسلام کی صحیح تعلیم اور عبادت کے صحیح طریقے ہمیں سکھائے.آپ نے ہمیں بتایا کہ موقع ومحل کے حساب سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے بجالانے والا ہر صحیح عمل ہی اصل میں صحیح طور پر قربانی اور عبادت کہلا سکتا ہے.پس جہاں حقوق اللہ کی بجا آوری اور عبادت کا صحیح طریق ضروری ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق حقوق العباد ادا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنتا ہے.اور یہی زندگی کا اصل مقصد ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی طرف ہی اُن کی دعا قبول کرتے ہوئے جھکتا اور رحم فرماتا ہے جو حقوق اللہ بھی ادا کرنے والے ہوں اور حقوق العباد بھی بجالانے والے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے بارے میں مختلف سوال کرنے والوں کو جو آپ سے پوچھا کرتے تھے ان کے حالات کے مطابق مختلف قسم کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے.مثلاً کسی کے سوال کرنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ فرمایا جہاد کرنا ہے.کسی کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے فرمایا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی مالی قربانی ہے.کسی کو جو عبادتوں میں کمزور تھا فرمایا کہ تہجد کی ادائیگی سب سے بڑی نیکی ہے.کسی کو جو جہاد سے ڈرنے والے تھے فرمایا کہ جہاد کر نا سب سے بڑی نیکی ہے.کسی کو رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے.پس حالات کے مطابق عمل کرنا ہی اصل میں صحیح نیکی ہے اور یہ نیکیاں ہی پھر عبادت کا رنگ بھی رکھتی ہیں.پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود مسیح نے جن باتوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے وہ عبادتوں اور قربانیوں کے صحیح طریق ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے حملے کی وجہ سے ایک وقت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تلوار کے جہاد کو ضروری قرار دیا تھا تو آج مناسک کا معیار ، قربانی کا معیار قلم کا جہاد ہے تبلیغ اسلام ہے، اسلام کا خوبصورت پیغام جو امن اور صلح کا پیغام ہے، اس کو دنیا میں پہنچانا ہے.پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن اور اسلام کی تعلیم کوسمجھ کر جو تعلیم ہمیں دی
خطبات مسرور جلد چہارم 497 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 ہے اور جس طرف ہمیں بلایا ہے وہی اصل عبادت اور قربانی کا طریق ہے جسے ہراحمدی نے اپنانا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی خلاف اسلام یا شریعت کے خلاف حکم نہیں دیا بلکہ جن معاملات کو ، جن باتوں کو غلط سمجھ کر بعض علماء نے جن کو اتنا فہم و ادراک نہیں تھا پھیلانا چاہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے بارہ میں صحیح رہنمائی کی کہ حقیقت میں کیا چیز ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ اس دعا کے ساتھ ، اس تعلیم کے ساتھ ، اس صحیح اسلامی تعلیم کے ساتھ چھٹے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں پہنچائی ، ہمیں سکھائی ، تا اللہ تعالیٰ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرماتے ہوئے ہم پر رحم فرماتا رہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا ہی ثمرہ ہیں جنہوں نے اس زمانے میں صحیح رہنمائی کرنی تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی بخشش اور رحم طلب کرنے کیلئے بعض دعا ئیں سکھائی ہیں.بعض دعائیں میں مختصراً بغیر کسی تفصیل کے پڑھتا ہوں.فرمایا وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرُ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنِ (المؤمنون: 119) تو کہہ اے میرے رب ! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.پھر ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی کہ ربَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران:17) اے ہمارے رب یقیناً ہم ایمان لے آئے پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پھر انجام بخیر کی اور بخشش کی دعا سکھائی ، ثابت قدم رہنے کی دعا سکھائی کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْعَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( آل عمران : 194) کہ اے ہمارے رب ! یقیناً ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا جو ایمان کی منادی کر رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ.پس ہم ایمان لے آئے.اے ہمارے رب پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ موت دے.یہ دعا بھی جیسا کہ میں نے کہا ایمان میں مضبوطی حاصل کرنے کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے اور انجام بخیر کے لئے ہے.کہ اے اللہ ! ہم نے اس زمانے کے امام کو مان کر جو روحانی ترقی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہیں ہمارے گناہوں کی زیادتی ، ہماری کمزوریاں، ہماری کو تا ہیاں اس میں روک نہ بن جائیں.اس زمانے کے امام کو ماننے کے بعد ، قبول کرنے کے بعد اپنی شامت اعمال کی وجہ سے ہم اس روشنی سے بے بہرہ نہ رہ جائیں جو اصل میں تیرے نور کی روشنی ہے اور جو اس آنے والے نے ہمیں دی ہے.پس ہمارے گناہ بخش اور آئندہ بھی ان گناہوں سے بچا اور اس دعویدار کے دعوئی پر مکمل ایمان لانے والوں اور ان برکات سے حصہ پانے والوں میں ہمیں شامل کرتا رہ جو اس کے ساتھ مقدر
خطبات مسرور جلد چہارم 498 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 ہیں.اور جب ہمارا آخری وقت آئے تو اس صورت میں جائیں کہ نیکیوں میں ہمارا شمار ہو.پھر ایک دعا سکھائی کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( آل عمران : 148) کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی بھی.اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کا فرقوم کے خلاف نصرت عطا کر.پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے جو یہ دعا ئیں ہمیں سکھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ گناہ نہ بخشنے والا ہوتا تو یہ دعا نہ سکھاتا.پس یہ ہے ہمارا خدا جو ہمیں یہ دعائیں سکھا رہا ہے کہ ہم نیکیوں پر قائم رہیں اور گزشتہ گناہوں کی معافی مانگیں.پھر یہ بھی ہو کہ ہم کہیں جان بوجھ کر ان برائیوں کو دُہرانے والے نہ ہوں ، ان غلطیوں میں دوبارہ پڑ جانے والے نہ ہوں.آجکل پاکستان سمیت بعض ملکوں میں احمدیوں کے خلاف جو وقتا فوقتا کوئی نہ کوئی شوشہ اٹھتا رہتا ہے، محاذ کھڑے ہوتے رہتے ہیں تو ہمیں اس دعا کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے تا کہ ثبات قدم بھی رہے ہم اپنے دین پر قائم بھی رہیں اور مخالفین کے خلاف اللہ تعالی مددبھی فرما تار ہے.پھر ایک دعا سکھائی کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الخسِرِيْنَ (الاعراف:24) کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم گھانا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحم کو سمیٹنے کے لئے یہ بہت اہم دعا ہے.بعض گناہ لاعلمی میں ہو جاتے ہیں، احساس نہیں ہوتا اس لئے مستقلاً استغفار بہت ضروری ہے تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بداثرات سے محفوظ رکھے اور برائیاں کرنے سے بھی بچاتا رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے جب کوئی سزا آتی ہے، کوئی پکڑ آتی ہے تو خدا پر شکوے شروع ہو جاتے ہیں.بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو دیکھیں کہ خود کتنی نیکیاں کرنے والے ہیں، کس حد تک اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں.فرمایا کہ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے.بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کروایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہو، اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے.انسان کے جسم کا ہر عضو گناہ کرتا ہے.تو ہر ایک سے بچنے کی کوشش کرنی
499 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چہارم چاہئے.فرمایا کہ آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہیئے.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِيْن (الاعراف : 24).یہ دعا اول ہی قبول ہو چکی ہے“.( بدر جلد 1 نمبر 9 مورخہ 26 دسمبر 1902 ء صفحہ 66.ملفوظات جلد دوم صفحہ 577 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اس دعا کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے کیونکہ آج کل تو حضرت مسیح موعود کے زمانے سے بھی زیادہ گناہ اور ظلمت پھیل چکا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے محفوظ رکھے اور اللہ کی رحمت ہمیشہ شامل حال رہے.آپ نے فرمایا تھا کہ آج کل حضرت آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے تو اس طرف بہت توجہ دیں.پھر اسی دعا کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں ” دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہوا تو اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی حربہ کام نہ آیا.آخر شیطان پر آدم نے فتح بذریعہ دعا پائی اور وہ دعا یہی تھی کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِيْنَ.“ ( بدر جلد 2 نمبر 10 مورخہ 27 / مارچ 1903 ء صفحہ 77.ملفوظات جلد سوم صفحه 171 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا کہ ”ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا ، یعنی آدم نے شیطان سے اپنے آپ کو بچایا تھا.اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا، نہ تلوار سے...آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی.اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہوگی.الحکم جلد 7 نمبر 12 مورخہ 31 مارچ 1903 صفحہ 8 ملفوظات جلد سوم صفحہ 190-191 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) پس جہاں یہ دعا ذاتی طور پر مانگنی چاہئے وہاں جماعتی ترقی کے لئے بھی یہ دعا بہت ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو آدم کہا، اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو آدم کہا ہے.پھر دنیا و آخرت کی حسنات کے لئے ایک دعا سکھائی کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : 202) کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت سے یہ دعا پڑھا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی فرمایا کرتے تھے کہ صرف آخرت کی حسنات نہ مانگو بلکہ دنیا کی حسنات بھی مانگو.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت فرمائی جو بیماری کے باعث کمزور ہوتے ہوئے بہت دبلا پتلا ہوگیا تھا، چوزے کی طرح ہو گیا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے ہو اس نے جواب دیا ہاں ، پھر اس نے بتایا کہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ ! جو سزا تو مجھے
500 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 خطبات مسرور جلد چهارم آخرت میں دینے والا ہے وہ مجھے اس دنیا میں دے دے.یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ ! تم اس کی طاقت نہیں رکھتے کہ خدا کی سزا اس دنیا میں حاصل کرو.تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے کہ اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے اللہ تو ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.راوی کہتے ہیں کہ جب اس بیمار نے یہ دعا کی تو اللہ کے فضل سے شفایاب ہو گئے.صحت مند ہو گئے.(مسلم كتاب الذكر والدعاء.باب كراهة الدعاء بتعجيل العقوبة في الدنيا اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تو بہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونوں سنور جاتے ہیں.اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونوں میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے.دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار (البقرة : 202) اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھی آرام اور آسائش کے سامان 66 عطا فرما اور آنے والے جہاں میں آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.دیکھو دراصل ربَّنا کے لفظ میں تو بہ ہی کی طرف ایک بار یک اشارہ ہے.کیونکہ رَبَّنَا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس رب کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا.رب کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو.یعنی وہ جو کسی چیز کی انتہا کو آہستہ آہستہ ایک پراسس (Process) میں سے گزار کر انتہا تک پہنچا دیتا ہے.اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں.بہت سے خدا بنائے ہوئے ہوتے ہیں.اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے.ہوشیار یوں، چالا کیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے.تو وہی اس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا رب ہے.غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک بچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور ربَّنا کی پُر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا.پس جب ایسی دل سوزی اور جاں گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے تو بہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ ربَّنَا یعنی اصل اور حقیقی رب تو تو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے.اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور
خطبات مسرور جلد چہارم 501 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں، تیرے آستانہ پر آتا ہوں.تو جب اس طرح دعا کریں گے، اللہ تعالیٰ پھر توجہ کرتا ہے.فرمایا ” غرض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے.جب تک انسان کے دل سے دوسرے رب اور ان کی قدرومنزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا.بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا رب بنایا ہوا ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں گزارا مشکل ہے.جھوٹ کے بغیر گزارا مشکل ہے.بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو اپنا رب د بنائے ہوئے ہیں.ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں.سوان کے ارباب وہ چیزیں ہیں.دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقعہ بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اس کا رزق آ سکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے.غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت؟ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس دَر کے نہ ہو.اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے.غرض رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً....الخ ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ بیچ ہیں.آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں.تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے.طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن ، فقر و فاقے ، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے ، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن.جو بے تحاشاد نیاوی مسائل ہیں.فرمایا ” غرض یہ سب آگ ہیں.تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا.جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ.(الحکم جلد 7 نمبر 11 مورخہ 24 / مارچ 1903ء صفحہ 9-10 ملفوظات جلد سوم صفحہ 144-145 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دو باتوں کی طرف خاص توجہ دلائی ہے.ایک تو یہ کہ خالص ہو کر یہ دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو شرک سے اپنے آپ کو پاک کرتا ہے.فرمایا رَبَّنَا کا
خطبات مسرور جلد چہارم 502 خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2006 لفظ یہ تقاضا کرتا ہے کہ باقی تمام جھوٹے خدا جو دل میں بنائے ہوئے ہیں ان سے نجات حاصل کر کے میں تیرے پاس آیا ہوں.دوسرے یہ کہ جب آخرت کی حسنات کے ساتھ دنیا کی حسنات مانگی ہیں تو اس دنیا میں بھی جو انسان کے ساتھ متفرق قسم کے مسائل لگے ہوئے ہیں بعض دفعہ وہ دل کو بے چین کر دیتے ہیں.جب انسان ان مسائل میں الجھا ہوتا ہے، بعض لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس آگ میں جل رہے ہیں.لوگ بڑے پریشانی کے خطوط بھی لکھتے ہیں.پس یہ دعا اگر صحیح معنوں میں کی جائے گی تو شرک سے بچاتے ہوئے آخرت کے عذاب سے بھی بچا رہی ہوگی.کیونکہ جب دعا کرنے والا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی دعا مانگتے ہوئے اس دنیا کی پریشانیوں کی آگ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہوگا تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے.پس یہ بڑی جامع دعا ہے اور جس طرح پہلی دعا جو میں نے شروع میں پڑھی تھی.جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ درود شریف کے ساتھ عموماً وہی دعا لکھی ہوتی ہے.دعا ئیں اور بھی پڑھی جاسکتی ہیں.لیکن پہلی دعا کی طرح یہ دعا بھی نماز میں پڑھی جاتی ہے اور عام طور پر یہ دونوں دعائیں ہی جماعت کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں جو میں نے شروع میں اور آخر پر پڑھیں.اس لئے احمدی اس کو زیادہ پڑھتے ہیں.اس لئے ہر قسم کی آگ سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے عبادت بڑی ضروری ہے جس کی شکل اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلی دُعا میں قیام نماز بتائی.پس اس رمضان میں ان دعاؤں کا صحیح فہم وادراک حاصل کرتے ہوئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ قیام نماز کا عادی بن جائے اور پھر اس کو اپنی نسلوں میں بھی اور دوسروں میں بھی پھیلانے والا ہو.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.
خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء 503 40 خطبات مسرور جلد چهارم دعازبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے یہ مہینہ خاص بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے ان دنوں میں خاص طور پر ہر احمدی کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے خطبه جمعه فرموده 6 اکتوبر 2006ء (6 را خاء 1385 ش) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ (سورة البقره : 187) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے.مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قومی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہ سکتے ہیں.جب یہ حالت میسر آ جاوے تو یقینا سمجھو کہ باب اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے.یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبر دست ہے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 203 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس دعا کا طریق یہ ہے کہ اپنے پر ایسی حالت طاری کی جائے کہ یہ احساس ہو کہ اب میں اللہ تعالیٰ kh5-030425
504 خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کے حضور اسی طرح پہنچ گیا ہوں کہ جس طرح قبولیت دعا یقینی ہے.پہلے میں کئی بزرگوں کے واقعات سنا چکا ہوں کہ فلاں کے لئے دعا کی یا فلاں وقت دعا کی تو ایسی حالت طاری ہوگئی کہ یقین ہو گیا کہ اب میری دعا قبول ہو گئی.رمضان کے اس مہینے میں جب عبادت کی طرف ایک خاص رجحان ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کی طرف خاص طور پر متوجہ ہوتا ہے.وہ فرماتا ہے کہ روزے دار کی جزا میں خود ہو جاتا ہوں.وہ لوگ جو خالص ہو کر اللہ کی خاطر یہ عبادت بجالا رہے ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اتنی جزا دیتا ہے کہ جو شمار میں نہیں آسکتی.ان کے یہ روزے دنیا کو دکھانے کے لئے نہیں رکھے جارہے ہوتے بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی خاطر ر کھے جاتے ہیں.ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کے دکھاوے کی خاطر نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اسی طرح روزے بھی رکھ رہے ہوتے ہیں.وہ جو خالصتا اللہ کی خاطر روزے رکھ رہے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بہت نوازتا ہے بلکہ فرمایا کہ ان کی جزا میں خود ہو جاتا ہوں.تو یقیناً ان حالات میں کی گئی جو عبادتیں ہیں اور جو دعائیں ہیں وہ مقبولیت کا درجہ پاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں روزوں کی فرضیت اور اس سے متعلقہ مسائل کا ذکر فرمایا ہے تو ساتھ ہی یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ (سورة البقرة: 187) یعنی اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سو چاہئے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.پس ہر مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا دعائیں قبول کروانے کی بعض شرائط ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا ہو اور اس کی مکمل پابندی کرنے والا ہو، اللہ کا خوف ہو.پھر جب ایک مومن اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر اس طرح گرتا ہے، یہ حالت اپنے پر طاری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو جواب دیتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزوں کے حکم کے ساتھ اس آیت کو بھی رکھا ہے، تو ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ مہینہ میری خاص بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے اس لئے اس میں خالص ہوتے ہوئے ، اس مہینے کی قدر کو پہچانتے ہوئے میری طرف آؤ تا کہ میں پہلے سے بڑھ کر تمہاری دعاؤں کو قبول کروں.پس ان دنوں میں ہر احمدی کو خاص طور پر دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 505 خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجے کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے.ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.بے چینی ہو رہی ہوتی ہے.جب انتہائی درجے کا اضطرار پیدا ہو جاتا ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان پیدا ہو جاتے ہیں.پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں.پس یہ کیفیت ہے.جب ہم اپنے اندر ایسی کیفیت پیدا کر لیں تو ہم میں سے ہر ایک خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق قبولیت دعا کے نظارے دیکھے گا.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس رمضان میں اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اللہ کے آگے جھکنے اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آج پھر میں چند قرآنی دعائیں آپ کے سامنے پیش کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر ، مختلف مواقع پر قرآن کریم میں ہمیں بتائی ہیں.ایک دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی وہ اپنے اور پہلوں کے لئے حصول مغفرت اور دلوں میں سے کینوں کو دور کرنے کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ نیک بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اس طرح دعا کرتے ہیں.کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ (الحشر: 11) اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے ہیں اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کوئی کینہ نہ رہنے دے.اے ہمارے رب یقینا تو بہت شفیق اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس میں جہاں اپنے لئے بخشش کی دعا سکھائی گئی ہے کہ تم اپنے لئے دعا مانگو وہاں ان لوگوں کے لئے بھی جو پہلے ایمان لانے والے ہیں، پہلے گزر چکے ہیں بخشش کی دعا مانگنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا استحقاق نہیں ہوتا.جو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق جوڑے گا ، جو تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو گا ، جو بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کرنے والا ہوگا اور پھر جن پر اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے گا ان کو خدمت دین کی زیادہ توفیق ملتی ہے.وہ آگے آنے والوں میں بھی ہوتے ہیں، ان کو دیکھ کر دوسروں میں حسد اور کینے کے جذبات پیدا نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ایسے لوگوں پر رشک آنا چاہئے.ان جیسا بننے کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اپنی حالتوں کو بھی بدلنا چاہئے اور اپنے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں جیسا بنا جواللہ کا قرب پانے والے ہیں، یا تقویٰ پر چلنے والے ہیں، جو بے نفس ہو کر جماعتی خدمات کرنے والے ہیں، جو تیرے ایسے بندے ہیں جو خالصتا تیری رضا پر چلنے والے ہیں، جن پر تیرے فضلوں کی بارش برستی نظر آ رہی ہے.جب اس طرح kh5-030425
506 خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحم بھی اس وقت جوش میں آئیں گے اور پھر قبولیت دعا کے نظارے بھی دیکھیں گے.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں.کیونکہ جب پاک ہو کر سب کے لئے بخشش کی دعا کر رہے ہوں گے ، سب کینے اور بغض اور رنجشیں دلوں سے نکل رہی ہوں گی ، جب دلوں کے کینے ختم ہو رہے ہوں گے اور ایک پاک اور محبت کرنے والا معاشرہ جنم لے گا، جہاں ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کی فضا نظر آ رہی ہوگی تو پھر یہ دعائیں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی بخشش کو مزید حاصل کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے.پس یہ انتہائی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رؤوف اور رحیم کو جذب کرنے کے لئے اپنے ساتھ اپنے بھائیوں کے لئے بھی دعا کی جائے اور دلوں کو کینوں سے پاک کیا جائے.اگر ہمارے دوسرے مسلمان بھائی یہ دعا سمجھ کر کریں تو جہاں اپنی بخشش کے سامان کر رہے ہوں گے وہاں احمدیوں کے لئے ان کے دلوں میں جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے وہ بھی دور ہو گا.ان کو بھی اللہ تعالیٰ زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے گا.پس ہمارے مخالفین کو بھی جو بلاوجہ ادھر ادھر سے باتیں سن کر مخالفت میں آگے بڑھے ہوئے ہیں چاہیے کہ صرف دیکھا دیکھی مخالفت نہ کریں بلکہ غور کریں ، سوچیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی دعائیں سکھائی ہیں قرآن کریم سارے پڑھتے ہیں اس پر غور کریں.وہ لوگ بھی اس رمضان سے فائدہ اٹھائیں اور امت کی حالت پر غور کریں کہ امت کی یہ حالت کیوں ہو رہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والوں کو آپ نے اپنے ایمان کو مکمل کرنے کی خبر دی تھی.اس پر غور کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ما نہیں اور جو لوگ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہلے مان کر ایمان میں سبقت لے جاچکے ہیں، ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے ان جیسا بننے کی کوشش کریں.اللہ کرے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی یہ فہم اور ادراک حاصل ہو جائے.بہر حال احمدیوں کو چاہئے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور اس قرآنی تعلیم پر عمل کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ " جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد ر کھوور نہ ہو نکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لئے ہے کہ با ہم اتحاد ہو.برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو.اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.kh5-030425
507 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء فرمایا ” میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اوّل خدا کی تو حید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی.كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( آل عمران : 104) یا در کھوتالیف ایک اعجاز ہے.یادرکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے.اس کا انجام اچھا نہیں.میں ایک کتاب بنانے والا ہوں.آگے ذکر کیا ہے کہ اس میں نام چھاپوں گا.فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازیگر نے دس گز کی چھلانگ ماری ہے.دوسرا اس میں بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پھر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے.یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی.وہ ضرور ہو گی.تم کیوں صبر نہیں کرتے.جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ تعالیٰ ایک صالح جماعت پیدا ہوگی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے.بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یادرکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں، جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں.میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا.ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے.اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے.خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سرسبز نہیں کر سکتا.بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے ، پس ڈرو.میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 336 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے اور مغفرت کے لئے اور قوم کے سیدھے راستے پر چلنے کے لئے بھی ایک دعا ہے.فرمایا: رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ آنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الممتحنة: 5-6 ).اے ہمارے رب تجھ پر ہی ہم تو کل کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم جھکتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے.اے ہمارے رب ہمیں ان لوگوں کے لئے ابتلاء نہ بنا جنہوں نے کفر کیا اور اے ہمارے رب ہمیں بخش دے.یقیناً تو کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے.رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا فرما کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اے اللہ تیری باتوں اور حکموں پر عمل نہ کر کے ہم کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے احمدیت اور اسلام کمزور ہو اور اس وجہ سے مخالفین اور کفار کو موقع ملے کہ وہ اسلام پر حملہ کریں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 508 خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء دیکھیں آج کل یہی ہو رہا ہے، جس کو موقع ملتا ہے اسلام پر حملہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.پس اس دُعا کی فی زمانہ بہت ضرورت ہے اور جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں ان دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں جو کفار کو، غیر مسلموں کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ اسلام پر حملے کریں.مسلمانوں کو نعرے لگانے اور توڑ پھوڑ کی حد تک تو فکر ہے، ذرا سی کوئی بات ہو جائے تو توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے، نعرے شروع ہو جاتے ہیں، جلوس نکل آتے ہیں.اس کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں.یہ کرنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ مقصد پورا ہو گیا.اسی وجہ سے اور ان کے انہی عملوں کی وجہ سے پھر مخالفوں کو مختلف طریقوں سے اسلام پر حملے کرنے کا مزید موقع ملتا ہے اور جو جری اللہ ان حملوں سے اسلام کو بچارہا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا یہ مسلمان اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اللہ اور رسول کا حکم نہ مان کر کافروں کے لئے اسلام کے خلاف فتنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں اور نتیجہ پھر اللہ تعالیٰ کی بخشش سے بھی محروم ہور ہے ہیں.پس یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ جو غالب اور حکمت والا ہے ہمیں اور تمام امت کو اپنی اس صفت سے متصف کرتے ہوئے حکمت عطا فرما تا کہ ایسی باتوں سے باز رہیں جو اسلام کو نقصان پہنچانے والی ہیں اور ہم جلد تیرے دین کے غلبے کے دن ہم جلد دیکھیں.پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے سکھائی ہے.وہ دعا یہ ہے کہ رَبِّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ أَنْ أَسْتَلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهِ عِلْمٌ وَالَّا تَغْفِرْلِيْ وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِنَ الخسِرِينَ (هود: 48) کہ اے میرے رب یقینا میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے وہ بات پوچھوں کہ جس کے مخفی رکھنے کی وجہ کا مجھے کوئی علم نہیں ہے.اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا.سیہ دعا سکھا کر اس امر سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پر حکمت کاموں کے بارے میں کوئی شکوہ نہ کیا جائے.مثلاً دعا ہے.ایک آدمی دعا کرتا ہے تو اس کے بارے میں بھی شکوے ہو جاتے ہیں کہ میں نے تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دعا کی تھی پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہیں کی.اللہ سے شکوے ہوتے ہیں کہ اے اللہ کیوں میری دعا قبول نہیں کی.اگر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر غور کر رہے ہیں تو یہ بات سامنے رہے گی کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے.اس کو تمام آئندہ آنے والی باتوں کا بھی علم ہے.اس کو یہ بھی علم ہے کہ ہر ایک کے دل میں کیا ہے.اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ کیا چیز میرے بندے کے لئے ضروری اور فائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ ہے.اس لئے کسی قسم کے شکوے کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے.وہ اپنے بندے کی بعض باتوں کو اس لئے رد کرتا ہے کہ وہ انہیں اس کے لئے بہتر نہیں سمجھتا.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بعض وعدے بھی کرتا ہے، ان کو بعض باتیں سمجھا دیتا ہے لیکن اجتہادی غلطی کی وجہ سے بندہ kh5-030425
509 خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم سمجھ نہیں سکتا.کیونکہ الفاظ واضح نہیں ہوتے اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی تاویل یا تشریح کچھ اور ہو رہی ہوتی ہے.یہ دعا حضرت نوح کی ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے میں غلطی کی.اللہ تعالیٰ نے ان کے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب حضرت نوح نے بیٹے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ اے اللہ میاں ! میرا بیٹا تو میرے اہل میں ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں مجھے سب پتہ ہے کہ کون اہل میں ہے اور کون نہیں اور اس کی تعریف کیا ہے.کیونکہ اس کے دل میں نہ موجودہ حالت میں ایمان ہے اور نہ اس کی آئندہ ایمانی حالت ہونی ہے اس لئے وہ تیرے اہل میں شمار نہیں ہو سکتا اس لئے یہ دعا نہ مانگ.پس یہ جواب سن کے حضرت نوح نے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش اور اس کا رحم ما نگا.تو یہ واقعہ اور دعا سکھا کر ہمیں بھی توجہ دلائی ہے کہ تمہارے ساتھ زندگی میں ایسے واقعات پیش آسکتے ہیں.پس کبھی شکوہ نہ کرنا.جس طرح میرے اس نیک بندے نے فوراً اللہ کے پیغام کو سمجھتے ہوئے استغفار کی ، اگر کبھی کسی قسم کا امتحان یا ابتلاء آئے تو شکوے کی بجائے استغفار کرو، اس کا رحم مانگو.تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرو، صدقہ دو اور دعا کرو اور پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ واور پھر یہ دعا بھی ساتھ کرتے رہو کہ اے اللہ میں تیرے سامنے فضول سوال کرنے کی بجائے ہمیشہ تیری رضا پر راضی رہنے والا بنوں.کیونکہ یہ حالت اللہ کے فضل سے ملتی ہے اس لئے فضول سوالوں سے بچنے کی بڑی ضروری دعا ہے تا کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی نظر اپنے بندے پر پڑتی رہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے.یہ شکوے اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہوتے ہیں اور آخر کار بندے کو نقصان پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کا تو کچھ نہیں جاتا.اس لئے ایسی حالت میں خاص طور پر جب انتہائی مایوسی اور صدمے کی حالت ہو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ جھکنا چاہئے تا کہ ہر قسم کے شرک سے، انتشار ذہن سے بندہ محفوظ رہے.پھر روحانی ترقی اور مغفرت الہی حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير" (التحریم: 9) اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے یقیناً ہر چیز پر جسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.اس دعا سے پہلے ان لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے جن لوگوں کے حق میں یہ دعا قبول ہوگی.یہ وہ لوگ ہیں جو خالص تو بہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں.فرمایا یا يُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوْا تُوْبُوْا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِى الله النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ (التحریم: 9) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی طرف خالص توجہ کرتے ہوئے جھکو.بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے دامن میں نہریں بہتی ورنہ یہ kh5-030425
510 خطبہ جمعہ 06 /اکتوبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم ہیں.جس دن اللہ نبی کو اور اُن کو رسوا نہیں کرے گا جو اس کے ساتھ ایمان لائے.ان کا نور ان کے آگے بھی تیزی سے چلے گا اور ان کے دائیں بھی.پھر آگے وہ وہی کہیں گے جو دعامیں نے پڑھی ہے.تو اپنی برائیوں کے دور کرنے کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے.اور برائیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہو اور دعا بھی ہورہی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے خالص تو بہ کرنے والوں کی دعا کو بھی سنتا ہے اور ان کی برائیاں دور کرتے ہوئے جیسا کہ اس نے فرمایا انہیں جنتوں میں داخل کرتا ہے اور انہیں ایسا نور دیتا ہے جو ان کے دائیں بھی چلتا ہے اور ان کے آگے بھی چلتا ہے.پس خوش قسمت ہوں گے ہم اگر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے فائدہ اٹھائیں.خوش قسمتی سے ہمیں رمضان میں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے اس رمضان کے مہینے میں روزوں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے، جب مغفرت کے دروازے مکمل طور پر کھول دیئے جاتے ہیں، بخشش کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اپنی برائیوں پر نظر کرتے ہوئے انہیں چھوڑنے کی کوشش کریں.سچی توبہ کریں کہ آئندہ بھی ان برائیوں میں نہیں پڑیں گے.اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے تو خود ہی ہر ایک کے سامنے آ جائے گا کہ کون کون کن کن برائیوں میں مبتلا ہے اور کون کون سی برائیاں چھوڑی ہیں اور چھوڑنی ہیں تو پھر یقیناً اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جنت کے نظارے دیکھیں گے.سچی توبہ کے بعد پھر قدم پہلے سے آگے بڑھیں گے.مزید نیکیوں کی توفیق ملے گی اور یہی نیکیاں اگلے جہان میں بھی کام آنے والی ہیں اور وہاں بھی درجے بڑھتے چلے جائیں گے.جنت میں استغفار کی جو دعا ہے اس کا کیا مطلب ہے یا کیا حکمت ہے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ بہشتی لوگ بھی استغفار کیا کریں گے.ان کا استغفار گناہوں کے لئے نہیں ہوسکتا کیونکہ بہشت میں کوئی گناہ نہیں ہوگا اور نہ وہ اپنی دنیاوی زندگی کے گناہوں کے لئے استغفار کیا کریں گے کیونکہ ہمیں اس سے پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ بہشت میں داخل ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف کئے جائیں گے.آیت اس طرح ہے عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَ نْهَارُ پس ان کا استغفار گزشتہ گناہوں کے لئے نہیں.خود اس آیت میں ہمیں پتہ ملتا ہے ، اس لئے جونو راہل جنت کو ملے گا وہ ان کو اس نور کے مقابل میں ناقص نظر آئے گا جو ا بھی ان کو نہیں ملا.اس نقص کو محسوس کر کے وہ خدا سے دعا کریں گے کہ ہمارا نور پورا کر اور ہماری اس ناقص حالت کو ڈھانپ دے مگر وہ کبھی نور سے سیر نہیں ہوں گے کیونکہ خدا کے نور کی کوئی حد نہیں.اس لئے وہ ہمیشہ اور زیادہ نور مانگتے رہیں گے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ استغفار روحانی ترقی کے لئے ایک دعا ہے.چونکہ روحانی ترقی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 511 خطبہ جمعہ 06 اکتوبر 2006 ء کی کوئی حد نہیں اس لئے انبیاء علہیم السلام ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں اور ہمیشہ زیادہ نور مانگتے رہتے ہیں.وہ بھی اپنی روحانی ترقی پر سیر نہیں ہوتے اس لئے ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں کہ خدا ان کی ناقص حالت کو ڈھانچے اور پورا روشنی کا پیمانہ دے.اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اپنے نبی کوفرماتا ہے قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا یعنی ہمیشہ علم کے لئے دعا کرتارہ کیونکہ جیسا خدا بے حد ہے ایسا ہی اس کا علم بھی بے حد ہے.القصہ جنت کا استغفار صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ استغفار اور گناہ لازم ملزوم نہیں ہیں اور یہ کہ ہمارا استغفار اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ خدا ہماری کمزوریوں کو ڈھانچے اور روحانی ترقی کے لئے طاقت دے.عیسائی بڑے ظالم ٹھہریں گے اگر وہ اب بھی اصرار کریں گے کہ استغفار ہمیشہ گزشتہ گناہوں کی معافی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے.“ ریویو آف ریلیجنز جلد 2 صفحہ 243-244 تغییر حضرت مسیح موعود جلد نمبر 8 صفحہ 174 تا 175 تفسیر سورۃ تحریم) پھر سورۃ بقرہ کی آخری آیت ہے جس میں ہمیں مختلف دعا ئیں سکھائی گئی ہیں کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِيْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَابِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكَافِرِين (البقرة : 287 ) کہ اے ہمارے رب ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے.اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ان کے گناہوں کے نتیجہ میں تو نے ڈالا ہے.اور اے ہمارے رب ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو.اور ہم سے در گزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر.تو ہی ہمارا والی ہے ، پس ہمیں کا فرقوم کے مقابل پر نصرت عطا کر.یعنی جیسا کہ ترجمے سے سب واضح ہو گیا کہ اے اللہ جو کام تو نے ہمیں کرنے کے لئے دیئے ہیں اگر ہم وہ کرنے بھول جائیں یا پوری طرح نہ کر سکیں تو ہماری کمزوری سمجھ کر معاف کر دینا اور اس بات پر ہمیں نہ پکڑنا.یہ نہ ہو کہ ہمارے اس بھولنے سے ہماری ترقی رک جائے اور ترقی میں کمی آ جائے یا ہمارے میں سے چندلوگوں کی بھول چوک سے ہماری ترقی رک جائے یا کمی آ جائے.یہ دعا واقفین زندگی کو ، عہد یداران کو جو جماعتی خدمات کر رہے ہوتے ہیں خاص طور پر کرنی چاہئے.پھر یہ ہے کہ أوْ أَخْطَأنَا کہ یا اللہ ایسا بھی نہ ہو کہ ہماری کوئی خطا جو ہمارے کسی کام کے غلط طریق پر کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے اس کے بداثرات ظاہر ہوں.تو ہمیشہ ہمیں ہماری خطاؤں کے بداثرات سے محفوظ رکھنا اور ہمارا مواخذہ نہ کرنا.پھر اگلی دعا ہے کہ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرً ا یعنی اے اللہ ہمیں اُن اعمال سے محفوظ رکھ جو گناہ کی طرف لے جانے والے اعمال ہیں اور گناہ ہیں.اور اسی طرح ہم کسی ایسے عہد کے نیچے بھی نہ آئیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 512 خطبہ جمعہ 06 /اکتوبر 2006ء جس کو توڑنے کی وجہ سے ہماری پکڑ ہو.بلکہ ہمیشہ ہمیں ان باتوں سے بچائے رکھا اور ہماری کسی غلطی کی وجہ سے، ہماری کسی بدعہدی کی وجہ سے کسی چھوٹی سی بھول چوک کی وجہ سے ہم سزا نہ پائیں، ہمیشہ تیری مغفرت کا سلوک دیکھنے والے ہوں.ایک سچے احمدی کے لئے تو ایک چھوٹی سی سزا بھی روحانی لحاظ سے بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے.ہر احمدی کا جماعت سے، خلافت سے ایک روحانی تعلق ہے، اس لئے کسی وجہ سے ذراسی بھی سزادی جائے تو بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے.مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ صرف یہی پابندی لگادی جائے کہ تمہاری فلاں غلطی کی وجہ سے تمہیں اجازت نہیں کہ خلیفہ وقت کو خط لکھو تو اس پر بھی لوگ بڑے بے چین ہو جاتے ہیں.ایک سچا احمدی جو ہے اس کی بے چینی سے عجیب کیفیت ہورہی ہوتی ہے کہ مجھ پر یہ پابندی لگ گئی اور میں عجیب روحانی اذیت میں مبتلا ہوں.تو ہمیشہ ہر قسم کی غلطیوں سے اور پھر ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے دعامانگنی چاہئے.پھر یہ بھی کہ ہماری طاقت سے بڑھ کر کسی قسم کی دنیوی تکلیف بھی نہ پہنچے ، نہ روحانی نہ دنیوی.اور ہماری غلطیوں اور بھول چوک سے درگزر کرتے ہوئے اے اللہ ہمیشہ ہم سے عفو کا سلوک رکھنا اور ہمیں ہمارے غلط کاموں کی وجہ سے پکڑنے کی بجائے اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اور آئندہ بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ یہی سلوک رکھ اور ہمیں ہماری ایسی غلطیوں سے بچائے رکھ اور رحم کرتے ہوئے ہم پر نظر کر اور اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں اُن ترقیات سے نواز تارہ جو جماعت کے لئے مقدر ہیں.تو ہمارا مولا ہے.آخر کو ہم تیری جماعت کہلانے والے ہیں ، ہم ہر ایک کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہی وہ واحد جماعت ہیں جو خدا تعالیٰ کی جماعت ہے.جس نے خدا تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان لاتے ہوئے اور آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے اس زمانے کے مسیح اور مہدی کو مانا ہے.ہم ہی وہ لوگ ہیں جو تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تیرے مسیح موعود کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.پس ہم پر نظر کرم کر اور اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں ترقیات سے نوازتا رہ.عفو اور بخشش اور رحمت کا سلوک ہم سے کر.ہماری جماعتی کمزوریاں بھی دور فرما اور ہماری انفرادی کمزوریاں بھی دور کرتے ہوئے ہمیں مخالفین اور کا فرقوم پر فتح عطا فرما اور ہماری غلطیوں کی وجہ سے یہ ترقیات رک نہ جائیں.اور پھر نتیجہ ہم تیری پکڑ میں آئیں بلکہ اپنے دین کی ترقی کے نظارے ہمیں دیکھا.اللہ تعالیٰ ہماری یہ دعا اور باقی دعائیں بھی قبول کرے اور ہم اس رمضان میں اپنی دعاؤں کی قبولیت دیکھتے ہوئے اس دور میں داخل ہوں جو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے حق میں ایک غیر معمولی انقلاب کا دور ہو.پس دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں میں لگ جائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطافرمائے.(آمین) kh5-030425
خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 2006 ء 513 41 خطبات مسرور جلد چهارم واقفین نو بچوں کے والدین کو خصوصا اور ہر احمدی کو عموما یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی اولاد سے نوازے جو حقیقت میں دین کی خادم بنے والی اور صالحین میں شمار ہو.خود بھی ماں باپ کی خدمت کریں اور بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنی ماؤں کی خدمت کرنے والے ہوں خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 /اکتوبر 2006ء(13 رتبوک 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج بھی میں قرآن کریم کی متفرق دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا.یہ جو رمضان کا مہینہ جا رہا ہے اور اب ہم آخری عشرے میں قدم رکھ رہے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر دکھاتا ہے.اس میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو اپنے خاص قرب اور قبولیت سے نوازتا ہے.تو ایک احمدی کو ان خاص دنوں میں اور خاص وقت سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جہاں ہم اپنی زبان میں اپنے لئے دعائیں کرتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں، اپنے عزیزوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں وہاں وہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہیں یا جو دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں اور جن کو سب kh5-030425
514 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006 ء سے بڑھ کر قبولیت کا درجہ حاصل ہوا.آپ ہی تھے جن کو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کے سب سے زیادہ آداب اور صحیح طریق آتے تھے.یا پھر جماعت میں رائج بعض ایسی دعا ئیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاما فرما ئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کے بتائے ہوئے راستے اختیار کرتے ہوئے اپنے لئے بھی ، اپنے عزیزوں کے لئے بھی، اولاد کے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی دعائیں کرنے کی توفیق پانے والے ہوں اور ہماری یہ دعائیں قبولیت کا درجہ پانے والی بھی ہوں.ہماری ان دعاؤں کا سلسلہ عارضی اور رمضان کے بعد ختم ہونے والا نہ ہو یا اپنے مقصد کو جس کے لئے دعائیں کی جارہی ہیں حاصل کرنے کے بعد ہم دعائیں کرنی بند نہ کر دیں.یہ نہ ہو کہ جب ہم مشکل میں ہوں تو دعائیں کرنے والے اور بے چین ہو ہو کر دعا کے لئے خط لکھنے والے ہوں ( بعض لوگ مجھے خط لکھتے ہیں ) اور جب اللہ تعالیٰ اس مشکل سے نکال دے تو پھر نمازوں کا بھی خیال نہ رہے.ایک احمدی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوا ہے اس طرز پر نہیں چلنا ، اس طرز پر اپنی زندگی نہیں گزارنی کہ کام نکل گیا تو اللہ تعالیٰ کو بھول گئے ، رمضان ختم ہو گیا تو نمازوں اور دعاؤں کی طرف توجہ نہ رہی.ہماری دعائیں ہمیشہ اور مستقل رہنے والی دعائیں ہونی چاہئیں ، ہر دن ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور قبولیت دعا پر یقین میں بڑھاتے چلے جانے والا ہونا چاہئے.احمدی کے قدم نیکیوں میں ایک جگہ رک نہیں جانے چاہئیں.بلکہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کے مضمون کو سمجھتے ہوئے ، نیکیوں کو سمجھتے ہوئے نیکیوں میں آگے سے آگے قدم بڑھانے والا ہونا چاہئے.ہر معاملے میں نظر اللہ تعالیٰ کی طرف ہونی چاہئے کیونکہ مومن وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے انعاموں پر بھی اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکنے والا ہونا چاہئے اور اگر کوئی امتحان آئے تو تب بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکنا چاہئے.ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ جس طرح وہ کہتے ہیں نافصلی بٹیرے یا فصلی کو ے کہ جب فصل ہوتی ہے تو نیچے آ جاتے ہیں، اس کی طرح صرف غرض پر ہی اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینی ہے یا رمضان میں تو اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کر لی اور اس کے بعد بھول جائیں کہ عبادتیں بھی فرض ہیں، اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر نے بھی ضروری ہیں.پس ہمیشہ ایک مومن کو شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور جھکنے والا رہنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو انعامات سے ہمیشہ نواز تار ہے.اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا سے حصہ پانے والے ہوں جس میں آپ نے فرمایا کہ میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 515 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006 ء اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں.اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کا وارث بنے والا ہو.اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی اور نمازوں کی طرف توجہ صرف عارضی اور رمضان کے دوران ہی نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنی رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کبھی اس کی عبادت سے، اس کے حضور دعاؤں سے غافل نہ ہوں اور کبھی ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کی طرف اس قدر جھک جائیں کہ دنیا کے کیڑے کہلا ئیں بلکہ ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جن کے نمونے سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے دراصل دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو.پس جب ہماری یہ حالت ہوگی تو انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے ہمارے لئے ہر حال میں سکینت کے سامان پیدا فرمائے گا، اپنے فضلوں سے بھی نوازتا رہے گا اور ہماری دعائیں بھی قبولیت کا درجہ پاتی رہیں گی.اب جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ میں آج متفرق دعا ئیں آپ کے سامنے رکھوں گا، چند دعائیں پیش کرتا ہوں.جو سب سے پہلی دعائیں نے لی ہے وہ نیک اعمال بجالانے کی توفیق حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کی دعا ہے.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَ اَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِيْنَ (سورة النمل : 20) اے میرے رب! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر.انسان نیکیوں کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بھی اس کی دی ہوئی توفیق سے ہی ملتا ہے.جن لوگوں کو دعاؤں کا فہم و ادراک نہیں ، جن لوگوں کو خدا کی قدرتوں کا صحیح فہم نہیں وہ اگر کوئی کامیابی حاصل کر لیں تو وہ اس کو اپنی صلاحیتوں پر محمول کرتے ہیں، اپنے ہنر یا اپنی کوشش یا اپنے علم کی طرف منسوب کرتے ہیں.لیکن ایک نیک بندہ ہمیشہ ہر انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اے اللہ یہ تیر افضل ہے جس کی وجہ سے مجھے انعام ملا ہے اور اس پر میں تیرا شکر گزار ہوں اور اس شکر گزاری کے اظہار کے طور پر مزید تیرے آگے جھکتا ہوں ، تو مجھے توفیق دے کہ ہمیشہ تیرا شکر گزار رہوں اور کبھی میرے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو تجھے پسند نہ ہو.میرا شمار ہمیشہ نیکوکارلوگوں میں ہو، نیک کام کر نیوالے لوگوں میں ہو، ایسے احمدیوں میں ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان کو دیکھ کر دوسروں کو خدا یاد آ جائے.دوسروں کو بھی توجہ پیدا ہو کہ نیکیاں کمانے کیلئے ، خدا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 516 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006ء کا قرب حاصل کرنے کیلئے وہ نمونے حاصل کرنے چاہئیں، وہ طریق اختیار کرنے چاہئیں جو ایسے احمدی کے ہیں جن کو دیکھ کر لوگوں کو خدا یاد آتا ہے.ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان اور انعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی تصدیق کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونا بھی ہے اور پھر آپ کی جماعت میں شامل ہو کر ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس انعام سے بھی نوازا ہے جس کا گزشتہ پندرہ سو سال سے مسلمان انتظار کر رہے ہیں اور جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے، جس کے مسلمانوں میں قائم نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، تفرقہ پڑا ہوا ہے اور وہ آپس میں بکھرے ہوئے ہیں.باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے پاس حکومتیں بھی ہیں ، تیل کی دولت بھی ہے، دوسرے قدرتی وسائل بھی ہیں لیکن غیروں نے انکو اپناز سرنگیں کیا ہوا ہے.ہر ملک کا دوسرے ملک کے خلاف ایسا رویہ ہوتا ہے کہ جس طرح دو دشمنوں کا ہے، رنجشیں ہیں، مسلمان ملکوں میں آپس میں رنجشیں بڑھتی چلی جارہی ہیں، ہر فرقہ دوسرے فرقے کی گردنیں مارنے پر ہر وقت تیار بیٹھا ہے، ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، علماء مسلمانوں کی غلط رہنمائی کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اسلام میں اتنی خوبصورت تعلیم دی ہوئی ہے لیکن اسکے باوجود مسلمانوں کی یہ حالت کیوں بنی ہوئی ہے؟ صرف اسلئے کہ آنے والے مسیح و مہدی کے انکاری ہیں.پس ایک احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر گزار ہونا چاہئے کہ آج دنیا میں ایک احمدی کی پہچان مختلف رنگ میں ہے.احمدی جہاں بھی ، جب بھی شرفاء میں تعارف حاصل کرتا ہے اور اسلام کی تعلیم کے صحیح پہلو سامنے رکھتا ہے تو ہر جگہ اس کی عزت کی جاتی ہے.پس اس عزت اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر احمدی کو شکر گزار ہونا چاہئے اور یہ شکر گزاری اللہ تعالی کے فضل.پھر مزید نیکیوں کی توفیق بھی دیتی ہے اور نیک اعمال پھر اللہ تعالیٰ کے قرب کے معیار مزید بڑھانے میں مدد دیتے ہیں اور اس طرح ایک بچے احمدی کا محور صرف اور صرف خدا تعالی کی ذات رہ جاتا ہے جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو نیک اعمال بجالانے اور شکر گزاری کی توفیق عطا فرمائے.پھر دوسری دعا جو میں نے لی ہے یہ اولاد کے بارے میں ہے.ہر مرد عورت کی جب شادی ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اولاد ہو.اگر شادی کو کچھ عرصہ گزر جائے اور اولاد نہ ہو تو بڑی پریشانی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے.مجھے بھی احمدیوں کے کئی خط روزانہ آتے ہیں جن میں اس پریشانی کا اظہار ہوتا ہے، دعا کے لئے کہتے ہیں.لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اولاد کی خواہش ہمیشہ اس دعا کے ساتھ کرنی چاہئے کہ نیک صالح اولاد ہو جو دین کی خدمت کرنے والی ہو اور اعمال صالحہ بجالانے والی ہو.اس کے لئے سب سے ضروری بات والدین کے لئے یہ ہے کہ وہ خود بھی اولاد کے لئے دعا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 517 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 2006 ء کریں اور اپنی حالت پر بھی غور کریں.بعض ایسے ہیں جب دعا کے لئے کہیں اور ان سے سوال کرو کہ کیا نمازوں کی طرف تمہاری توجہ ہوئی ہے، دعائیں کرتے ہو؟ تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح تو جہ ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہے.میں اس طرف بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ اولاد کی خواہش سے پہلے اور اگر اولاد ہے تو اس کی تربیت کے لئے اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے یا جو اولا د موجود ہے وہ نیکیوں پر قدم مارنے والی ہو اور قرۃ العین ہو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک دعا حضرت زکریا کے حوالے سے ہمیں سکھائی ہے کہ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاءِ ( آل عمران : 39) کہ اے میرے رب مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریت عطا کر یقینا تو بہت دعا سنے والا ہے.ایسی پاک نسل عطا کر جو تیری رضا کی راہوں پر چلنے والی ہو.اور جب انسان یہ دعا کر رہا ہو تو خود اپنی حالت پر بھی غور کر رہا ہوتا ہے کہ کیا میں ان سارے حکموں پر عمل کر رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیئے ہیں؟ پھر ایک جگہ حضرت ابراہیم کی اس دعا کا ذکر ہے، فرمایا رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِيْنَ (الصفت : 101) اے میرے رب مجھے صالحین میں سے وارث عطا کر، مجھے نیک صالح اولا دعطا فرما.پس جو والدین اولاد کے خواہش مند ہوں انہیں نیک اولاد کی خواہش کرنی چاہئے اور پھر اولاد کی تربیت بھی اس کے مطابق ہواور جیسا کہ میں نے کہا اولاد کی تربیت کے لئے سب سے پہلے اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں.واقفین نو بچوں کے جو والدین ہیں انہیں خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے جس انعام سے نوازا تھا اس نے تو قربانی کا بھی اعلیٰ معیار قائم کر دیا.پس جو والدین اپنے بچوں کو وقف نو میں شامل کرتے ہیں انہیں خصوصاً اور دوسروں کو بھی ، عام طور پر ہر احمدی کو دعا کرتے رہنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں ایسی اولاد سے نوازے جو حقیقت میں دین کی خادم بننے والی ہو، جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کو تلاش کرنے والی ہو اور صالحین میں شمار ہو.اولاد کی اصلاح کے ضمن میں ایک اور قرآنی دعا اَصْلِحُ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (الاحقاف : 16) که میرے بچوں کی بھی اصلاح فرما، کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا داور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے ان کی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 518 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006 ء 66 وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں بڑی سخت مصیبتیں آجایا کرتی ہیں تو اولاد کے لئے بہت دعا کرنی چاہئے.فرمایا " تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے.“ احکم جلد 12 نمبر 16 مورخہ 2 / مارچ 1908 صفحہ 6، ملفوظات جلد پنجم صفحہ 456جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر والدین کا وجود ہے، یہ ایسا وجود ہے کہ انسان تمام عمر بھی ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں اتار سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ سلوک کریں، تمہارے سے حتی کریں، نرمی کریں، ہم نے ہر حال میں ان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرنا ہے.تم نے ان کی کسی بری لگنے والی بات پر بھی اُف تک نہیں کہنی.صبر سے ہر چیز کو برداشت کرنا ہے.ہمیشہ ان سے نرمی اور پیار کا معاملہ رکھنا ہے کیونکہ تمہارے بچپن میں ان کی جو تمہارے لئے قربانیاں ہیں تم ان کا احسان نہیں اتار سکتے.اور یہ کہ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے لئے اس طرح دعا کیا کرو کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا ( بنی اسرائیل :25) که اے میرے رب ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی.حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مٹی میں ملے اس کی ناک مٹی میں ملے اس کی ناک.یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے.یعنی ایسا شخص قابل مذمت ہے، بڑا بد بخت اور بد قسمت ہے.لوگوں نے عرض کی کونسا شخص ؟ تو آپ نے فرمایاوہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا.(مسلم کتاب البر والصلة باب رغم انف من ادرك ابويه ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ جس نے رمضان پایا اور اپنے گناہ نہ بخشوائے اور والدین کو پایا اور اپنی بخشش کے سامان نہ کروائے.( سنن ترمذى كتاب الدعوات باب قول رسول اله رغم انف رجل آپ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.پھر پوچھنے والے نے پوچھا، سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.پھر تیسری دفعہ پوچھا آپ نے فرمایا تیری ماں اور چوتھی دفعہ پوچھنے پرفرمایا تیرا باپ.(بخاری كتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة تو اس بات کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ماں باپ کے احسانوں کا ایک انسان بدلہ نہیں اتار سکتا لیکن دعا اور حسن سلوک ضروری ہے.اس سے کچھ حد تک آدمی اپنے فرائض کو ادا کر سکتا ہے اور اسی سے بخشش ہے.اس ضمن میں ایک بات یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جب معاشرے میں برائیاں پھیلتی ہیں تو پھر ہر طرف kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 519 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006 ء سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں.بعض دفعہ ماں باپ کی طرف سے بھی شکائتیں ہوتی ہیں.بعض لوگ خود تو ماں باپ کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں جو بڑی اچھی بات ہے، کرنی چاہئے.لیکن اپنے بچوں کو اس طرح ان کی ماں کی خدمت کی طرف توجہ نہیں دلا رہے ہوتے جس کی وجہ سے پھر آئندہ نسل بگڑنے کا احتمال ہوتا ہے.تو آپ بھی ماں باپ کی خدمت کریں اور بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنی ماؤں کی خدمت کرنے والے ہوں.اور بعض دفعہ جب ایک انسان بچوں کے سامنے اپنی بیوی سے بدسلوکی کر رہا ہو گا، اس کی بے عزتی کر رہا ہو گا تو عزت قائم نہیں رہ سکتی.اس لئے ماؤں کی عزت قائم کروانے کے لئے اور بچوں کی تربیت کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی بیویوں کی ، اپنے بچوں کی ماؤں کی عزت کریں.اب میں بعض قرآنی دعا ئیں جن میں مخالفین کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی گئی ہے پیش کرتا ہوں.یہ دعائیں ہو سکتا ہے بعضوں کو یاد بھی ہوں لیکن بعض کو یاد نہیں ہوں گی.لیکن جب میں یہ دعائیں پڑھوں تو آپ لوگ میرے ساتھ پڑھتے جائیں یا آمین کہتے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں مخالفین کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور رحم فرمائے اور ہمیشہ اپنے پیار کی نظر ہم پر ڈالے، ثبات قدم عطا فرمائے.بعض جگہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو احمدیوں کے لئے برداشت سے باہر ہوتے ہیں تو کبھی کسی احمدی کے لئے کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ جہاں وہ ٹھو کر کھانے والا ہو.ہمیشہ ہم میں سے ہر ایک ان برکتوں کا وارث بنتا ر ہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کی ہیں.ایک دعا ہے رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (المؤمنون: 27) اے میرے رب میری مدد کر کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلا دیا.پھر رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِى الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (التحریم: 12) اے میرے رب میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش.یہ وہ دعا ہے جو فرعون کی بیوی نے کی تھی.احمدیوں کے لئے تو بعض ملکوں میں بڑے شدید حالات ہیں.کئی فرعون کھڑے ہوئے ہوئے ہیں.پھر ایک دعا ہے رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ (الاعراف: 90) اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.انِّى مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (سورۃ القمر : 11) میں یقیناً بہت مغلوب ہوں میری مدد کر.فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَ نَجِّنِي وَ مَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (الشعراء: 119) پس میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما، مجھے اور میرے ساتھ ایمان والوں کو نجات عطا فرما.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 520 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006ء فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ الْقَوْمِ الْفَسِقِيْنَ (المائدہ : 26) ہمارے درمیان اور فاسق قوم کے درمیان فرق کر دے.اس دعا کو بھی آجکل بہت پڑھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے اور مسلمان ملکوں میں جماعت کے لئے راستے کھولے تا کہ ان کو صحیح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچایا جا سکے اور اس راستے میں جو روکیں ہیں ، جو سختیاں ہیں جوان مسلمان کہلانے والوں نے احمدیوں پر روار کھی ہوئی ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سب کو دور فرمائے.رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِيْنَ (آل عمران : 54) اے ہمارے رب ہم اس پر ایمان لے آئے جو تو نے اتارا اور ہم نے رسول کی پیروی کی.پس ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے.اور یہ بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ اس پر قائم رہیں.رَبِّ اَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّيطِيْنِ وَ اَعُوْذُبِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُوْنِ (المؤمنون: 98, 99) اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب کہ وہ میرے قریب پھٹکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے لے کر اب تک ہمیشہ شیطانوں نے وسوسے ڈالنے کی کوشش کی ہے.مسلم امت میں جن لوگوں کے پاس منبر تھا، جولوگ بظاہر نام نہاد دین کے علمبردار سمجھے جاتے تھے ان لوگوں نے امت کو ورغلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس قسم کے وسوسے ڈال کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی ہیں.اس لئے ان لوگوں کے وسوسوں سے جو شیطانوں کا رول ادا کر رہے ہیں ہمیشہ پناہ مانگنی چاہئے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعائیں ہیں.حضرت ابو بردہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کی طرف سے خوف محسوس کرتے تھے تو ان الفاظ میں دعا کرتے تھے کہ اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِى نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ (سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب ما يقول الرجل اذا خاف قوما) کہ اے اللہ ہم تجھے ان کے سینوں کے مقابل پر رکھتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں.یعنی ہم ان کے شر سے تیری حفاظت میں آتے ہیں.ثبات قدم کے لئے، دین پر مضبوطی سے قائم رہنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی.شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام سلمی رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ اے ام المومنین جب رسول اللہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 521 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006 ء صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس ہوتے تھے تو ان کی اکثر دعا کیا ہوا کرتی تھی ؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِيْنِكَ.(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب في عقد التسبيح باليد) اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم کر دے.حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کثرت سے دعائیں کیں کہ ہم کو ان میں سے کچھ بھی یاد نہ رہا.چنانچہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آپ نے بہت سی دعائیں کی ہیں مگر ہمیں تو ان دعاؤں میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسی دُعا نہ بتا دوں جو ان سب دعاؤں کی جامع ہے.پھر فرمایا کہ تم لوگ یہ دعا کیا کرو اللَّهُمَّ اِنَّانَسْتَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ وَ اَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله.(سنن ترمذی کتاب الدعوات با ب في عقد التسبيح باليد) اے اللہ! ہم تجھ سے اس خیر کے طالب ہیں جس خیر کے طالب تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہم ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے پناہ طلب کی تھی اور اصل مددگار تو ہی ہے اور تجھ ہی سے ہم دعائیں مانگتے ہیں اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ تو ہم نیکی کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور نہ ہی شیطان کے حملوں سے بچنے کی قوت.پھر ابو ہانی بتاتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمن الحُبلی سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ، وہ دونوں کہتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ نے فرمایا کہ تمام بنی نوع انسان کے دل خدائے رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں میں ایک دل کی مانند ہیں، وہ اسے جیسا چاہتا ہے پھیرتا ہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اللَّهُمَّ مُصَرِفَ الْقُلُوْبِ صَرِّق قُلُوْبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ.(مسلم کتاب القدر باب تصريف الله تعالى القلوب كيف شاء اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت میں پھیر دے.اطاعت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی ہے.اس کے لئے خاص طور پر یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے.ظالموں کے ظلم سے نجات پانے کے لئے جو دعا آپ نے سکھائی اس کا ایک روایت میں ذکر آتا ہے.خالد بن عمران روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم kh5-030425
522 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم اپنے صحابہ کے لئے یہ دعا ئیں کئے بغیر مجلس سے کم ہی اٹھتے تھے کہ اے اللہ ! ہمیں اپنی خشیت یوں بانٹ جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے اور ایسی اطاعت کی توفیق عطا فرما جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے.اور تو ہمیں ایسا یقین عطا کر جس سے تو ہم پر دنیا کے مصائب آسان کر دے.اور تو ہمیں ہمارے کانوں ، ہماری آنکھوں اور ہماری قوتوں سے تب تک فائدہ اٹھانے کی توفیق دے جب تک تو ہمیں زندہ رکھے اور اسے ہمارا وارث بنا.اور ہمارے اوپر ظلم کرنے والے سے ہمارا انتقام لینے والا تو ہی بن.اور ہم سے دشمنی رکھنے والے کے مقابل پر ہماری مدد فرما.ہمارے مصائب ہمارے دین کی وجہ سے نہ ہوں.اور دنیا کمانا ہی ہماری سب سے بڑی فکر اور ہمارے علم کا مقصود نہ ہو.اور تو ہم پر ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے.(سنن ترمذى كتاب الدعوات باب في عقد التسبيح باليد پھر حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ میری مدد کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا اور میری نصرت کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا اور میرے حق میں تدبیر کر مگر میرے خلاف تدبیر نہ کرنا اور مجھے ہدایت دے اور ہدایت کو میرے لئے آسان بنا دے اور مجھے پر زیادتی کرنے والے کے خلاف میری مدد کر.اے اللہ مجھے اپنا بہت شکر کرنے والا ، کثرت سے تیرا ذکر کرنے والا ، تجھ سے بہت ڈرنے والا اور اپنا بے حد مطیع اور اپنی طرف جھکنے والا ، بہت نرم دل اور جھکنے والا بنادے.اے اللہ میری توبہ قبول کر اور میرے گناہ دھوڈال اور میری دعا قبول کر اور میری دلیل کو مضبوط بنادے اور میری زبان کو درستگی بخش اور میرے دل کو ہدایت عطا کر اور میرے سینے کے کینے کو دور کر دے.(سنن ترمذی کتاب الدعوات ) اب بعض دعا ئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہیں جو الہامی دعائیں ہیں.ان میں سے ایک دعا ہے رَبِّ احْفَظْنِي فَإِنَّ الْقَوْمَ يَتَّخِذُوْنَنِي سُخْرَةً اے میرے رب میری حفاظت کر کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے کی جگہ ٹھہرالیا.“ (بدرجلد2 نمبر 48 مؤرخہ 29 نومبر 1906ءصفحہ 3.الحکم جلد 10 نمبر 40 مورخہ 24 نومبر 1906 صفحہ 1.تذکرہ صفحہ 578 ایڈیشن چہارم) پھر ستمبر 1906ء کا الہام ہے رَبِّ لَا تُبْقِ لِى مِنَ الْمُحْزِيَاتِ ذِكْرًا.اے میرے رب میرے 66 لئے رسوا کرنے والی چیزوں میں سے کوئی باقی نہ رکھ.“ الحكم جلد 10 نمبر 31 مورخہ 10 ستمبر 1906ء.الحکم جلد 10 نمبر 32 مؤرخہ 17 ستمبر 1906 صفحہ 1.تذکرہ صفحہ 568 ایڈیشن چہارم) 66 رَبِّ اجْعَلْنِي غَالِبًا عَلَى غَيْرِی.اے میرے رب مجھے میرے غیر پر غالب کر.“ ( بدر جلد نمبر 32 مؤرخہ 8 راگست 1907ء صفحہ 4 ، الحکم جلد 11 نمبر 28 مؤرخہ 10 راگست 1907ء صفحہ 2) kh5-030425
523 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا طُعْمَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ.اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کی خوراک نہ بنا.“ البشریٰ مرتبہ حضرت پیر سراج الحق صاحب صفحہ 53.تذکرہ صفحہ 684 ایڈیشن چہارم) رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِنَ السَّمَاءِ، رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَ أَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ، رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّد، رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ أَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ (تحفه بغداد، روحانی خزائن جلد 7 صفحه 25 اے میرے رب مجھے دکھلا کہ تو کیونکر مردوں کو زندہ کرتا ہے، اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر ، اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے، اے میرے رب امت محمدیہ کی اصلاح کر.اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.“ يَا رَبِّ يَارَبِّ انْصُرْ عَبْدَكَ وَاخْذُلْ اَعْدَانَكَ إِسْتَجِبْنِى يَا رَبِّ اسْتَجِبْنِي إِلَامَ يُسْتَهْزَأُ بِكَ وَ بِرَسُولِكَ.وَحَيَّامَ يُكَذِبُوْنَ كِتَابَكَ وَيَسُبُّوْنَ نَبِيَّكَ بِرَحْمَتِكَ اسْتَغِيْثُ يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ يَا مُعِيْنُ - آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 569) اے میرے رب اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمن کو ذلیل ورسوا کر.اے میرے رب میری دعاسن اور اسے قبول فرما.کب تک تجھ سے اور تیرے رسول سے تمسخر کیا جائے گا اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بدکلامی کرتے رہیں گے.اے ازلی ابدی ، اے مددگار خدا میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں.گزشتہ کچھ عرصے سے مغرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں یا قرآن کریم کے بارے میں یا اسلام کے بارے میں مستقل کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں.تو اس کے لئے ان دنوں میں خاص طور پر بہت دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور ان کے شر سے بچائے.پھر الہام ہے ” يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ إِنَّ رَبِّي رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ - اے جی اے قیوم میں تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں.یقیناً میرا رب آسمان اور زمین کا رب ہے.“ (الحکم جلد 3 نمبر 22 مورخہ 23/جون 1899 صفحہ 8.تذکرہ صفحہ 297 ایڈیشن چہارم) امت مسلمہ کے لئے دعا کریں کہ رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 266.تذکرہ صفحہ 37 ایڈیشن چہارم) kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 524 اے میرے رب العزت امت محمدیہ کی اصلاح فرما.پھر ایک ہے اے ازلی ابدی خدا مجھے زندگی کا شربت پلا.“ 66 خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 2006 ء ( بدر جلد6 نمبر 14 مورخہ 4 را پریل 1907ء.الحکم جلد 11 نمبر 12 مورخہ 10 /اپریل 1907 صفحہ 1.تذکرہ صفحہ 600.ایڈیشن چہارم) پھر مئی 1906ء کا الہام ہے رَبِّ فَرِّقَ بَيْنَ صَادِقٍ وَّ كَاذِب.یعنی اے میرے خدا صادق اور کا ذب میں فرق کر کے دکھلا.“ احکام جلد 10 نمبر 20 مؤرخہ 10 / جون 1906 ء.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 411 حاشیہ تذکرہ صفحہ 532 ایڈیشن چہارم) آجکل مختلف جگہوں پر دنیا میں مسلمان ملکوں میں ملاں بھی بڑا تیز ہوا ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں ایسے نازیبا اور گھٹیا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ ان کو سن کر سینہ چھلنی ہو جاتا ہے.یہ دعا بہت کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ یا تو ان کو عقل دے یا پھر ایسا واضح فرق دکھلائے اور ان کو اپنے انجام تک پہنچائے کہ جو دوسروں کے لئے بھی عبرت بن جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری آزمائشیں اور تکالیف دور کر دے اور ہمارے دلوں کو ہر قسم کے غم سے نجات دے دے اور ہمارے کاموں کی کفالت فرما اور اے ہمارے محبوب ہم جہاں بھی ہوں ہمارے ساتھ ہو اور ہمارے نگوں کو ڈھانپے رکھ اور ہمارے خطرات کو امن میں تبدیل کر دے.ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا ہے اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے.دنیا و آخرت میں تو ہی ہمارا آقا ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.اے رب العالمین میری دعا قبول فرما.“ ( ترجمه از عربی عبارت تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 182 ) مسلمانوں کے جو بڑے بڑے علماء ہیں، سردار بنے پھرتے ہیں ان کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اے مسلمانوں کے شیوخ اور رہنماؤ گواہ رہو کہ میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے اس سے تمہارے لئے ہدایت طلب کرتا ہوں.اے میرے رب! اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارہ میں میرے تضرعات کوسن.میں تیرے نبی خاتم النبیین و شفیع المذنین ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں.اے میرے رب! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحراء سے اپنے حضور میں لے آ.اے میرے رب ! ان لوگوں پر رحم کر جو مجھ پر لعنت ڈالتے ہیں اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں.ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما.ان کی خطاؤں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 525 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006 ء اور گناہوں سے درگزر فرما.انہیں بخش دے اور انہیں معاف فرما.ان سے صلح فرما.انہیں پاک وصاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ پہچان سکیں.اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس سے درگز رفر ما کیونکہ یہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں.اے میرے رب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ اور ان کے بلند درجات اور راتوں کے اوقات میں قیام کرنے والے مومنین اور دو پہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القری مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ ! تو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا.تو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما.انہیں وہ کچھ سمجھا جو تو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کی راہوں کا علم عطا کر.جو کچھ گزر چکا وہ معاف فرما.اور آخر میں ہماری دعا یہ ہے کہ تمام تعریفیں بلند آسمانوں کے پروردگار کے لئے ہی ہیں.“ ( ترجمه از عربی عبارت.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 23,22) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنی دعائیں کی ہیں، اتنے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، پھر بھی یہ قوم کو برائیوں اور بگاڑ کی طرف لیتے چلے جارہے ہیں.اس کے بعد تو اللہ تعالیٰ جو تقدیر چلاتا ہے اور جو اس کا منطقی نتیجہ نکلنا چاہئے وہ نکلے گا انشاء اللہ.لیکن ہمیں بہر حال دعا کرنی چاہئے ، اگر ان کے لئے اصلاح مقدر ہے تو اللہ تعالیٰ جلد ان کی اصلاح فرمائے تاکہ یہ مزید گناہوں سے بچ جائیں اور قوم مزید بگڑنے سے محفوظ رہے.ورنہ ایسے لوگ جو سردار ہیں، جنہوں نے قوم میں تفرقہ پیدا کیا ہوا ہے ان کو پھر اللہ تعالیٰ خود نبیٹے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعاؤں کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے.ہر ایک امر کے لئے کچھ آثار ہوتے ہیں اور اس سے پہلے تمہیدیں ہوتی ہیں.ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.بھلا اگر ان کے خیال کے موافق یہ زمانہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آکر ان کو سلطنت دلائی تھی تو چاہئے تھا کہ ظاہری طاقت ان میں جمع ہونے لگتی ہتھیار ان کے پاس زیادہ رہتے ،فتوحات کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جاتا.مگر یہاں تو بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے.ہتھیار ان کے ایجاد نہیں ، ملک و دولت ہے تو اوروں کے ہاتھ ہے، ہمت و مردانگی ہے تو اوروں میں.یہ ہتھیاروں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج.دن بدن ذلت اور kh5-030425
526 خطبہ جمعہ 13 /اکتوبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم اد بار ان کے گرد ہے.جہاں دیکھو، جس میدان میں سنو انہیں کو شکست ہے.بھلا کیا یہی آثار ہوا کرتے ہیں اقبال کے؟ ہرگز نہیں.یہ بھولے ہوئے ہیں.زمینی تلوار اور ہتھیاروں سے ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے اور بے دینی اور لاند ہی کا رنگ ایسا ہے کہ قابل عذاب اور مورد قہر ہیں.پھر ایسوں کو کبھی تلوار لی ہے؟ ہر گز نہیں.ان کی ترقی کی وہی بچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں.ان کو اب اگر مدد آوے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے، نہ اپنی کوششوں سے.اور دعا ہی سے ان کی فتح ہے، نہ قوت بازو سے.یہ اس لئے ہے کہ جس طرح ابتدا تھی انتہا بھی اسی طرح ہو.آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی.اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہوگی.“ 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 191,190 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس آدم ثانی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حتی المقدور اپنی کوششیں کرنے والے بن سکیں.الفضل انٹر نیشنل 03 نومبر تا 09 نومبر 2006 ء kh5-030425
خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء 527 (42) خطبات مسرور جلد چهارم قرآن کریم اور احادیث میں جمعۃ الوداع کا کوئی تصور نہیں ملتا، ہاں جمعہ کی اہمیت ہے اور بہت اہمیت ہے.جمعہ کے دن قبولیت دعا کی ایک خاص گھڑی آتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے فرمودہ مورخہ 20 /اکتوبر 2006 ء(20 / نبوت 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوْا إِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَائِماً قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرزقِينَ.(الجمعة: 10 تا 12) آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے اور انشاء اللہ دو تین دن تک یہ رمضان کا مہینہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے.خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی استعداد اور بساط کے مطابق کوشش کی کہ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں اور اس کا پیار، اس کی محبت اور اس کی رضا حاصل کرنے والوں میں شامل ہو سکیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ابھی دو تین دن باقی ہیں، جو اس رمضان سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا سکے وہ ان kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 528 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء بقیہ دنوں میں ہی اگر سچے دل سے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن سکتے ہیں.کیونکہ خالص ہو کر اس کی راہ میں گزرا ہوا ایک لمحہ بھی انسان کی کایا پلٹ سکتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کو ماں باپ سے بھی زیادہ بڑھ کر پیار کرتا ہے.وہ جب اپنے بندے کو اپنے ساتھ چمٹاتا ہے تو وہ بندہ وہ نہیں رہتا جو پہلے تھا.اس ایک بچے اور خالص لمحے کی دعا انسان کو برائیوں سے اتنا دور لے جاتی ہے، اس کی طبیعت میں اتنا فرق ڈال دیتی ہے جو مَشْرِقین کا فرق ہے.پس اللہ تعالیٰ کی ذات سے مایوسی کا تو کوئی سوال ہی نہیں ، صرف ان راستوں پر چلنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کو پانے کے راستے ہیں.اللہ تعالیٰ کو پانے کے وہ اسلوب سیکھنے کی ضرورت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائے جو ایک عرصے سے بھولی بسری یادیں بن چکے تھے اور جن کو دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھا.پس ہم وہ خوش قسمت ہیں جو اس امام کو ماننے والے ہیں جس نے ان راستوں کو صاف کر کے ہماری ان کی طرف راہنمائی فرمائی.ہمارے ذہنوں کی گرد بھی جھاڑی جس سے بدعات اور غلط روایات سے ہمارے ذہن پاک و صاف ہوئے ، جس میں آجکل غیر احمدی معاشرہ ڈوبا ہوا ہے.بہت ساری غلط روایات ہیں جو ان میں راہ پکڑ گئی ہیں، بدعات کا دخل ہو گیا ہے جس سے ان کی بعض باتیں اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی تھی کوسوں دور چلی گئی ہیں اور ان باتوں میں ایک جمعتہ الوداع کا تصور بھی ہے.جبکہ قرآن کریم اور احادیث میں جمعۃ الوداع کا کوئی تصور نہیں ملتا.ہاں جمعہ کی اہمیت ہے اور بہت اہمیت ہے، جس کا میں ان آیات کی روشنی میں جو میں نے تلاوت کی ہیں اور احادیث کی روشنی میں ذکر کروں گا.لیکن اس سے پہلے میں نہایت افسوس سے اس بات کا ذکر کروں گا کہ امام الزمان کی بیعت میں آنے کے با وجود اور باوجود اس کے کہ خلفاء احمدیت اس تصور کو ذہنوں سے نکالنے کے لئے بارہا اس طرف توجہ دلا چکے ہیں بعض احمدی بھی معاشرے کی اس برائی اور بدعت کا شکار ہو کر جمعہ کی اہمیت کو بھلا کر جمعۃ الوداع کا تصور ذہنوں میں بٹھائے ہوئے ہیں.اور ایسے لوگ چاہے زبان سے اس بات کا اقرار کریں یا نہ کریں اپنے حال سے، اپنے عمل سے یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں.عموماً سارا سال مساجد میں جمعوں پر جو حاضری ہوتی ہے، رمضان کے دنوں میں خاص قسم کا ماحول بنے کی وجہ سے جمعوں میں حاضری اس سے بہت بہتر ہو جاتی ہے.لیکن رمضان کے آخری جمعہ میں یہ حاضری رمضان کے باقی جمعوں کی نسبت بہت آگے بڑھ جاتی ہے جس سے صاف ظاہر ہورہا ہوتا ہے کہ آج توجہ زیادہ ہے.یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مرکز میں یا جہاں خلیفہ وقت نماز جمعہ پڑھا رہے ہوں وہاں اس جمعے میں شامل ہونے کی لوگ زیادہ کوشش کرتے ہیں kh5-030425
529 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم جو ٹھیک ہے لیکن اگر جماعتیں جائزہ لیں تو ہر مسجد میں رمضان کے آخری جمعہ کی حاضری پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہے.پس یہ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جاؤ، جمعہ پڑھ لو اور گناہ بخشوا لو.یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان میں پہلے سے بڑھ کر بندے کے ساتھ بخشش کا سلوک فرماتا ہے.لیکن بندے کو بھی اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے حتی الوسع اس تعلیم پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر جمعہ کے دن کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن جمعۃ الوداع کی کسی اہمیت کا تصور نہیں ملتا.بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس آخری جمعہ میں جو رمضان کا آخری جمعہ ہے، یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اس جمعہ سے اس طرح گذریں اور نکلیں کہ رمضان کے بعد آنے والے جمعہ کی تیاری اور استقبال کر رہے ہوں اور پھر ہر آنے والا جو جمعہ ہے وہ ہر نئے آنے والے جمعہ کی تیاری کرواتے ہوئے ہمیں روحانیت میں ترقی کے نئے راستے دکھانے والا بنتا چلا جائے اور یوں ہمارے اندر روحانی روشنی کے چراغ سے چراغ جلتے چلے جائیں اور یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو اور ہر آنے والا رمضان ہمیں روحانیت کے نئے راستے دکھاتے چلے جانے والا رمضان ہو، نئی منازل کی طرف راہنمائی کرنے والا رمضان ہو جس کا اثر ہم ہر لمحہ اپنی زندگیوں پر بھی دیکھیں اور اپنے بیوی بچوں پر بھی دیکھیں اور اپنے ماحول پر بھی دیکھیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہمیں قرآن اور حدیث سے جمعہ کی اہمیت پتہ چلتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں جو حکم اتارا ہے، وہ سب سے پہلے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لو گو جوایمان لائے ہو، جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پھر اگلی آیت میں فرمایا: پس جب نماز ادا کی جا چکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.پھر فرماتا ہے: اور جب وہ کوئی تجارت یا دل پہلا وہ دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا چھوڑ دیں گے.تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلا وے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.تو دیکھیں کتنا واضح حکم ہے، کوئی ابہام نہیں ہے کہ کون سے جمعہ کی طرف بلایا جائے ؟ صرف حکم ہے تو یہ کہ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کی طرف بلایا جائے تو اس پیارے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے دوڑو.kh5-030425
530 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ تھوڑ اسا یہ کام رہتا ہے اسے پورا کر لوں پھر جاتا ہوں.یہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ خطبہ شروع ہونے کے وقت اس مسجد کا ہال نصف سے بھی کم بھرا ہوتا ہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنا شروع ہوتے ہیں اور جگہ بھرتی چلی جاتی ہے.صرف یہاں نہیں ، باقی دنیا میں بھی یہی حال ہے بلکہ بعض لوگ خطبہ ثانیہ کے دوران آرہے ہوتے ہیں.بعض کو تو کام سے رخصت کی مجبوریاں ہیں، بعض کو بعض دفعہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن بعض عادی بھی ہوتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جتنا دیر سے جاسکیں ، جتنا لیٹ جا سکیں جایا جائے تاکہ نماز میں شامل ہو کر فوری واپس آجائیں یا تھوڑا سا خطبے کا حصہ سن لیں تو یہی کافی ہے.حالانکہ حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور پہلے آنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کی قربانی کرے.پھر بعد میں آنے والا اس کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرے، پھر مینڈھا یعنی بھیڑ بکرا، پھر مرغی اور پھر انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح، پھر جب امام منبر پر آ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر کو سننا شروع کر دیتے ہیں.(بخاری كتاب الجمعة باب الاستماع الى الخطبة يوم الجمعة تو دیکھیں جمعہ کے لئے جلدی آنے کی اہمیت کس طرح واضح فرمائی.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بعض کام کرنے والے لوگ ایسے ہیں جن کو مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جس میں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ جمعہ پہ وقت پر جانا ہے.اکثر یہاں بہت سارے لوگ میرے سامنے مسجد کے اگلے حصے میں بیٹھے ہوتے ہیں، تقریباً نوے فیصد شاید وہی چہرے ہوتے ہیں اور آج بھی وہی ہیں.ان میں سے بعض کو میں جانتا ہوں وہ کام بھی کرتے ہیں اور عموماً یہاں اکثر لوگ اپنے کام کر رہے ہیں، کوئی ٹیکسی چلا رہا ہے کوئی دوسرے کام کر رہا ہے.تو یہ جلدی آنے والے بھی اور لیٹ آنے والے بھی اور نہ آنے والے بھی ، ان کے کاموں کی نوعیت تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے، تو وقت پر نہ آنا صرف نفس کا بہانہ ہے.آخر جو وقت پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں، یہ بھی تو اپنے کام کا حرج کر کے آ رہے ہوتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یا درکھیں کہ جمعہ کی نماز پر جلدی آؤ اور اپنی تجارت، اپنے کاروبار اور اپنے کام چھوڑ دیا کرو اور ہمیشہ یادرکھو کہ رزق دینے والی ذات خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ، بظاہر نقصان اٹھاتے ہوئے بھی جمعہ کے لئے آؤ گے تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرما دے گا کہ جس نقصان سے تم ڈر رہے ہو وہ نہیں ہو گا اور اگر بالفرض کہیں کوئی تھوڑی بہت کمی رہ بھی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس وجہ سے تمہیں اور ذریعوں سے برکتوں سے بھر دے گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 531 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 2006 ء جمعہ پر تم جو ستی دکھاتے ہو اور بے احتیاطی کرتے ہو یہ اپنی بے علمی کی وجہ سے کرتے ہو.اگر تمہیں علم ہو کہ اس کے کتنے فوائد ہیں اور اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فضلوں سے نوازے گا تو اتنی سستیاں اور بے احتیاطیاں کبھی نہ ہوں اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کبھی یہ بے احتیاطی ہو بلکہ ہمیشہ اس کوشش میں رہو گے کہ اونٹ یا گائے کی قربانی کا ثواب حاصل کرو.پس ہر احمدی کو ہمیشہ جمعہ کی اہمیت کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور چھوٹے چھوٹے بہانے تراش کر یا تلاش کر کے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرنی چاہئے.جمعہ کا خطبہ اور نماز آنے جانے سمیت زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا معاملہ ہے.اور بعض لوگ جو دوسرے کام ہیں ان میں بغیر کام کے ہی بے تحاشا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں.مکرم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ایک بات مجھے یاد آئی ، یہیں کہیں کسی مغربی ملک میں ان کا غیروں میں لیکچر تھا ، جگہ کونسی تھی یہ تو مجھے پوری طرح مستحضر نہیں لیکن بہر حال وہاں انہوں نے اسلامی عبادات کا ذکر فرمایا اور جمعہ کی مثال بھی دی کہ ہفتے بعد جمعہ ایک لازمی عبادت ہے، اس کے متعلق حکم ہے کہ ضرور پڑھو.بعض لوگوں کے نزدیک یہ بہت بڑا بوجھ ہے.انہوں نے فرمایا کہ اس میں کتنا وقت لگ جاتا ہے؟ پھر انہوں نے وقت کی مثال اس طرح دی کہ جتنا وقت دو برج (Bridge) کھیلنے والے اپنی اس برج کی کھیل کو ختم کرنے میں لگاتے ہیں اس سے کم وقت اس میں لگتا ہے.یہ برج جو ہے یہ بھی تاش کھیلنے کی ایک قسم ہے.تو لہو ولعب کی طرف تو توجہ ہو جاتی ہے، جمعہ کی طرف توجہ نہیں ہوتی.پس دنیا داروں کو سمجھانے کے لئے انہوں نے اس کی مثال دی تھی.اسی طرح دوسری بے فائدہ کھیلیں ہیں، بعض گئیں ہانکنے میں وقت لگا دیتے ہیں، بیٹھے رہتے ہیں لیکن جمعہ پر آنے کے لئے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اتنا وقت ہوگا ، جائیں گے، بیٹھنا پڑے گا، خطبہ لمبا ہو گیا تو کیا کریں گے.جماعت پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی نہ کوئی ضرور نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے.بعض عورتیں اور لڑکیاں بڑی فکر سے اپنے خاوندوں کے بارے میں دعا کے لئے بھتی ہیں کہ ہمارے میاں کو جمعہ پر جانے کی عادت نہیں اور اکثر بہانے بنا کر جمعہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں، کوئی وجہ نہیں ہوتی.دعا کریں کہ جمعہ پر جانے کی عادت پڑ جائے.ایک حدیث میں جمعہ ضائع کرنے والوں کے بارے میں آتا ہے، جس میں جمعہ کی اہمیت اور جمعہ نہ پڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذکر ہے.حضرت ابو جعد ضمری روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تساہل کرتے ہوئے لگاتار تین جمعے چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے.(سنن ابی داؤد كتاب الصلواة باب التشدد في ترك الجمعة ) اب دیکھیں کس قدر انذار ہے، جمعہ چھوڑنے کے کس قدر بھیا نک نتائج پیدا ہورہے ہیں.ایسے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 532 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء لوگوں کے دل پھر اللہ تعالیٰ سخت کر دیتا ہے اور ان کے اپنے عمل کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہو رہی ہوتی ہے، جمعہ سے لا پرواہی کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہو رہی ہوتی ہے.دیکھ لیں کہ یہاں لگا تار تین جمعے چھوڑنے پر انذار کیا ہے، رمضان کا آخری جمعہ چھوڑنے کا یہاں ذکر نہیں ہے.یعنی جو لگا تا رتین جمعے چھوڑے گا اس کا دل سخت ہو جاتا ہے، اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے.یہ نہیں کہا گیا کہ جو رمضان کا آخری جمعہ چھوڑتا ہے یا لگا تار تین رمضان آخری جمعہ پر نہ جائے تو اس کا دل سخت ہوگا.اس لئے جمعہ کی اہمیت کو بہت زیادہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور اس کے علاوہ اپنی ہر قسم کی عبادتوں کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ جو بہت زیادہ بخشنہار ہے، اس سے اپنے گناہوں کے بخشوانے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے اور اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر انسان کبائر گناہ سے بچے تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور رمضان - اگلا رمضان ان دونوں کے درمیان ہونے والی لغزشوں کا کفارہ بن جاتا ہے.(الترغيب والترهيب كتاب الجمعة باب الترغيب فى صلاة الجمعة و السعى اليها یعنی اگر انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے تو ان چھوٹی موٹی غلطیوں سے اور لغزشوں سے اور گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے اس عمل کی وجہ سے صرف نظر فرماتا رہے گا جو وہ اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، اپنی نمازوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے اور جمعہ پر باقاعدگی اختیار کرتے ہوئے اور پھر رمضان کے روزے رکھتے ہوئے کرتا ہے.ہر نماز پڑھنے کے بعد جب اگلی نماز کا انتظار ہو اور انگلی نماز انسان پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس دوران کی غلطیاں معاف فرما دیتا ہے، پھر ہفتے کے دوران جو غلطیاں ہوں وہ جمعہ کے جمعہ معاف فرما دیتا ہے.اسی طرح اگر سال کے دوران کچھ غلطیاں ہیں تو رمضان میں اللہ تعالیٰ بخشش کے دروازے کھولتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے.تو دیکھیں یہاں صرف جمعہ کا یا جمعۃ الوداع کا ذکر نہیں بلکہ روزانہ نمازوں کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.پھر ہر جمعہ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.یہاں یہ نہیں لکھا ہوا، جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قضائے عمری پڑھ لی تو گناہ معاف ہو گئے ، اسی طرح جمعتہ الوداع پڑھ لیا تو گناہ معاف ہو گئے.بلکہ ہر جمعہ جو ہے وہ اگلے جمعہ تک کی غلطیوں کا کفارہ بنتا ہے.پھر جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ جمعہ پر آنے جانے اور خطبہ سننے میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے لگتے ہیں کیونکہ جو مسجدوں کے قریب کے لوگ ہیں وہی آئے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تھوڑ اسا وقت ہے، جب تم جمعہ ادا کر چکو تو بے شک اپنے کاموں پر چلے جاؤ اور جو اپنے دنیاوی کام ہیں وہ سارے کرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو.اللہ تعالیٰ نے یہ دنیاوی نعمتیں اور یہ کاروبار جو صحیح کاروبار ہیں تمہیں kh5-030425
533 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم پنے فضل سے ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے عطا کئے ہوئے ہیں.پس اس فضل سے فائدہ اٹھاؤ.اس میں اس طرف بھی اشارہ ہو گیا کہ ناجائز کاروبار، دھوکہ دہی کے کاروبار جو ہیں ان سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جو نواہی ہیں اس سے بیچ کر ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث بن سکتے ہو، ان کو کر کے نہیں.پس اپنی ملازمتوں میں ، اپنے کاروباروں میں جائز اور نا جائز کے فرق کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھو.یہ نہیں کہ ان لوگوں کی طرح ناجائز کاروبار کر کے اور کالا دھن کما کر اور سمگلنگ کر کے پھر حج پر چلے گئے اور سمجھ لیا کہ ہم پاک ہو گئے ہیں اور ہمارے پچھلے گناہ بخشے گئے.جیسا کہ اس حدیث میں جو میں نے پڑھی تھی آتا ہے کہ جمعہ کفارہ ہے، یہ اس صورت میں کفارہ بنتا ہے جب انسان بڑے گناہوں سے بچے ، جب کبائر سے بچے.اور پھر ان سے بچنے کیلئے اس آیت میں یہ بھی فرمایا کہ للہ تعالیٰ کا ذکر بچنے کا ایک ذریعہ ہے.اللہ کا ذکر کرنے والے ایک تو اللہ کا خوف رکھیں گے، نا جائز کام نہیں کریں گے اور یہ ذکر تمہارے دلوں کو اطمینان بھی بخشے گا.ناجائز منافع خوری اور نا جائز کاروبار کی طرف جو توجہ ہے وہ نہیں رہے گی ، قناعت پیدا ہوگی.اور ذکر ، پھر اس طرف بھی توجہ دلا رہا ہے کہ جمعہ پڑھ کر پھر نمازوں سے چھٹی نہیں ہوگی بلکہ اس کے بعد عصر کی نماز بھی ہے پھر مغرب کی نماز ہے پھر عشاء کی نماز ہے.اور یہ سلسلہ پھر اسی طرح چلنا ہے ، اس طرف بھی ہر ایک کی توجہ رہنی چاہئے.اور اس ذکر سے پھر فضل بڑھتے چلے جائیں گے اور چھوٹی موٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ بھی ہوتا چلا جائے گا.پس ہمیشہ اس طرف توجہ رکھو کہ ذکر کرنا ہے.پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ جن کے دل ہر وقت دنیاوی چیزوں کی طرف مائل رہتے ہیں، جھکے رہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے والے نہیں.ان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا فہم اور ادراک ہی نہیں.انہوں نے اپنی تجارتوں کو ہی اپنا خدا بنا لیا ہوا ہے.اپنے کاروباروں کو اپنا خدا بنالیا ہوا ہے.عبادتوں کی بجائے کھیل کود میں ان کا دل زیادہ لگا ہوا ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ تاش کھیلنے والے گھنٹوں تاش کھیلتے رہیں تو انہیں وقت کے ضائع ہونے کا احساس نہیں ہوتا، تو فرمایا کہ جن کے دل ایمان سے خالی ہیں یا ایمان صرف منہ کی جمع خرچ ہے وہ عبادت کی طرف توجہ دینے والے نہیں ہیں، قربانیاں کرنے والے نہیں ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو صحابہ قربانیاں کر نیوالے تھے.انہوں نے مال، جان ، وقت اور عزت ہر چیز کو اسلام کی خاطر قربان کر دیا تھا.سوائے چند ایک منافقین کے جو جان بچاتے تھے، ان کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے.پس جو تجارت اور کھیل کود کی طرف توجہ دینے والے ہیں یہ اس زمانے کے لوگ ہیں جبکہ مختلف طریقوں سے، دلچسپیوں سے شیطان ان کو اپنی طرف بلاتا ہے اور ان دلچسپیوں کے بے تحاشا سامان kh5-030425
534 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء پیدا ہو گئے ہیں.اس سورۃ جمعہ میں اس زمانے میں مسیح موعود کے آنے کا بھی ذکر ہے.یہ لوگ جو کھیل کود اور تجارتوں میں مشغول ہیں، مسیح موعود کی آواز پر بھی کان نہیں دھرتے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سنے کو تیار نہیں، اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے.لیکن وہ لوگ جو صحیح مومن ہیں، جنہوں نے مسیح موعود کو مانا ہے ان کو تو یہ حکم ہے کہ تمہارا کام تو عبادتوں کو زندہ رکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھنا ہے.اگر حضرت مسیح موعود کو مانے کا انعام حاصل کرنے کے باوجود ذکر الہی کی طرف توجہ نہیں دو گے تو یاد رکھو کہ اللہ اور اس کے رسول اور مسیح موعود کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے کیونکہ تمہاری بیعت سے تو ان کو کوئی غرض نہیں.تمام قسم کی نعمتیں جو تم حاصل کر رہے ہو ان کا سر چشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، ہر قسم کے رزق تو اس سے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو نعمتیں ہیں وہ ان دل بہلاوے کی چیزوں سے اور تجارتوں سے بہت بہتر ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو پھر ان نعمتوں سے بھی محروم رہو گے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر احمدی کو اس بات کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا بنائے.بھی یہ نہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے لا پرواہی برتنے والا ہو.ایک حدیث میں آتا ہے ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ پڑھنا فرض کیا گیا ہے.سوائے مریض، مسافر، عورت، بچے اور غلام کے.جس شخص نے لہو ولعب اور تجارت کی وجہ سے جمعہ سے لا پرواہی وہ برقی اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہی کا سلوک کرے گا.یقینا اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد والا ہے.(سنن دار قطنی کتاب الجمعة باب من تجب عليه الجمعة) پس فکر کے ساتھ جمعوں کی ادائیگی کرنی چاہئے اور جو استثناء ہیں ان کا اس حدیث میں ذکر ہو گیا کہ مریض کی مجبوری ہوتی ہے، نہیں جا سکتا.پھر مسافر ہے، بعض دفعہ مجبوری سے سفر کرنے پڑتے ہیں اس لئے مسافر کے بارے میں بھی آگیا کہ اگر کوئی مسافر ہے.لیکن جو عمداً بغیر کسی وجہ کے جبکہ وقت بدلا جا سکتا ہے جمعہ کے دن سفر کرتے ہیں، ان کی کوئی مجبوری نہیں ہے، ان کو بہر حال بچنا چاہئے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے سفر کو پسند فرماتے تھے تا کہ جمعہ سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائیں.اسی طرح عورت کیلئے ضروری نہیں کہ وہ جمعہ پر ضرور آئے ، عید پر آنا ہر عورت کیلئے ضروری ہے.جو بھی ہوش و حواس رکھنے والی عورت ہے اس کیلئے عید پر آنا تو بہر حال ضروری ہے، ہر حالت میں آنا ضروری ہے.لیکن جمعہ پر آنا ہر عورت کیلئے ضروری نہیں ہے اسلئے یہ استثناء ہے.اسی طرح غلاموں کو بھی مجبوریاں ہوتی ہیں، ان کو بھی چھوٹ دی گئی ہے.بعض حالات میں وہ مجبور ہوتے ہیں ،ان کو کوئی گناہ نہیں.kh5-030425
535 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم پھر جمعہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا ذکر فرمایا کہ جمعے کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ وہ اس کو عطا کر دیتا ہے.حدیث کے الفاظ ہیں.وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلَّى - ہے.(بخاری كتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة بعض اور روایات ہیں اور حدیثوں کی جو مختلف تشریح کرنے والے ہیں وہ اس پر یہ کہتے ہیں کہ صرف نماز پڑھنے کے دوران ہی نہیں بلکہ خطبہ جمعہ بھی جمعہ کا حصہ ہے یہ بھی اسی طرح اس میں آ جاتا ہے، صرف کھڑے ہونا نہیں.اور بعض اس سے زیادہ وقت دیتے ہیں کہ یہ وقت شام تک چلتا ہے.تو بہر حال اس حدیث میں یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ وہ اس کو عطا کر دیتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ گھڑی بہت مختصر ہے، بہت تھوڑی ہے.پس اس موقع سے ہر ایک کو فائدہ اٹھانا چاہئے ، اپنے لئے بھی دعائیں کریں، جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں.کسی کو کیا پتہ کہ وہ گھڑی کس وقت آنی ہے، اس لئے پہلے وقت میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ تو بہر حال واضح ہے کہ جمعہ کا خطبہ نماز کا حصہ ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جمعہ کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں، یہ ایک میموریل تھا جو جمعہ کی رخصت کی بدلی کے وقت وائسرائے کو بھیجا گیا تھا.تو بہر حال اس میں جمعہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کر کے اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعہ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے ( اذان دی جائے ) تو تم دنیا کا ہر ایک کام بند کر دو اور مسجدوں میں جمع ہو جاؤ.اور نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گناہگا رہے.اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدرعید کی نماز کی بھی تاکید نہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات.جلد دوم صفحہ 580-581 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اب میں گزشتہ خطبوں کے مضمون کی طرف آتے ہوئے آج بھی چند دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا.جیسا کہ ہم نے ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دیکھا ہے کہ جمعہ کے دوران ایک ایسی گھڑی آتی ہے جو قبولیت کا درجہ رکھتی ہے، پس اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.ایک دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے وہ آج کل کے حالات کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے.kh5-030425
536 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کیونکہ آج کل جو معاشرے کا حال ہے ، گندگیوں میں ڈوبا ہوا ہے.وہ دعا ہے رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ (العنکبوت:31) کہ اے میرے رب اس فساد کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد کر.آجکل جیسا کہ میں نے کہا دنیا تمام قسم کی برائیوں میں ملوث ہے اور اس وجہ سے فساد پھیلا ہوا ہے.اور یہی لہو ولعب ہے جس نے مسلمان کہلانے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے وہ مسیح موعود کو بھی ماننے سے انکاری ہیں.اور سورۃ جمعہ کی جو آخری آیت ہے ، جیسا کہ میں نے بتایا تھا اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کی چکا چوند سے تم خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہو جس کی وجہ سے امام الزمان کی مدد کرنے کی بجائے اسے چھوڑ کر ایک طرف کھڑے ہو گئے ہو.پس موجودہ زمانے کی برائیوں سے بچنے کے لئے جب کہ سفروں کی سہولتیں بھی میسر ہیں ، سیٹلائٹ رابطوں کی وجہ سے تمام دنیا تقریبا ایک ہو چکی ہے، ایک خبر دوسری جگہ فوراً پہنچ جاتی ہے، تصویر یں پہنچ جاتی ہیں، ایک دوسرے کے کلچر پہنچ رہے ہیں، روایات پہنچ رہی ہیں، برائیوں کے سمجھنے کے معیار ہی بدل گئے ہیں.بعض چیزوں میں احساس ہی نہیں رہتا کہ فلاں چیز برائی ہے، غور کرنے کی صلاحیتیں ختم ہو چکی ہیں تو اس دعا کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ ہر احمدی اور اس کی نسلیں چاہے وہ مشرق کا ہے، چاہے وہ مغرب کا ہے، ہر قسم کے گند سے اور برائیوں سے محفوظ رہے اور پھر اس طرح فتنوں اور فسادوں سے بیچار ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دعا سکھائی، جو اپنے آپ کو سیدھے راستے پر چلانے اور اپنی خواہشات، اعمال اور اخلاق کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق چلانے کے لئے بہت ضروری ہے.اور آجکل جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتا دیا ہے کہ اتنی مختلف النوع برائیاں پھیلی ہوئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے بغیر ان سے بچنا اور ان سے نجات بہت مشکل ہے.اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو یہ دعا ہے، یہ بھی اس زمانے کے لئے بڑی ضروری ہے.حضرت زیاد بن علاقہ اپنے چا عتبہ بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللهم انى اَعُوْذُبِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَ الْأَعْمَالِ وَالَّا هُوَاءِ.(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب جامع الدعوات) کہ اے میرے اللہ میں بُرے اخلاق اور بُرے اعمال اور بُری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں.پھر بخشش اور مغفرت کے لئے ایک دعا ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رَبِّ اغْفِرْلِيْ خَطِيئَتِي وَ جَهْلِيْ وَإِسْرَافِي فِى أَمْرِى كُلِّهِ وَانْتَ اَعْلَمُ بِهِ مِنِّى اللَّهُمَّ اغْفِرْلِيْ خَطَايَايَ وَعَمَدِيْ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 537 خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 2006 ء وَجَهْلِي وَجِدَى وَكُلُّ ذلِكَ عِنْدِى اللّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَ مَا أَعْلَنْتُ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَاَنْتَ عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.(بخاری کتاب الدعوات باب قول النبي صلى الله عليه وسلم اللهم اغفرلى) کہ اے میرے رب! میری خطائیں، میری جہانتیں، میری تمام معاملات میں زیادتیاں جو تو مجھے سے زیادہ جانتا ہے مجھے بخش دے.اے میرے اللہ ! مجھے میری خطائیں ، میری عمداً کی گئی غلطیاں، جہالت اور سنجیدگی سے ہونے والی میری غلطیاں مجھے معاف فرما دے اور یہ سب میری طرف سے ہوئی ہیں.اے اللہ ! مجھے میرے وہ گناہ بخش دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو مجھ سے بعد میں سرزد ہوئے ہیں اور جو میں چھپ کے کر چکا ہوں اور جو میں اعلانیہ کر چکا ہوں.مقدم و مؤخر تو ہی ہے اور تو ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والا ہے.پس اللہ ہی ہے جو ہمیں معاف رکھنے کی طاقت رکھتا ہے.ان دنوں میں اگر بچے اور کھرے ہو کر اس کے آگے جھکیں گے تو یقیناوہ طاقت اور قدرت رکھتا ہے کہ ہماری کایا پلٹ دے اور قبولیت دعا کا ایک لمحہ بھی ہماری دنیا اور آخرت سنوار نے والا بن جائے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا ہے آپ فرماتے ہیں.”خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہم تیرے گناہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے.تو ہم کو معاف کر اور دنیا اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 44 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس جو غلطیاں ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور ہر شر سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو محفوظ رکھے.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں ”دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ.جوصرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے کچھ بھی چیز نہیں.جب دعا کرو تو بجر صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ.“ جو فرض نمازیں ہیں ان کے علاوہ بھی یہ عادت بناؤ کہ علیحدگی میں نفل پڑھو اور پھر ذکر الہی کرو اور اپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو.اور فرمایا کہ اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت رحیم و کریم ہے اور تیرے بے انتہا مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو.اور میری پردہ پوشی فرما.اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جاوے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.“ (مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 6.5) 66 kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 538 خطبہ جمعہ 20 /اکتوبر 2006ء اللہ کرے کہ ہم رمضان سے ان دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھتے ہوئے نکلیں اور خالص اللہ کے ہو جائیں اور صرف اللہ کے ہو جائیں اور جو دنیا کی لہو ولعب ہے اسکی ہمارے سامنے مٹی کی ایک چٹکی کے برابر بھی قیمت نہ ہو.خطبہ ثانیہ میں حضور انور نے فرمایا:.ایک افسوسناک خبر ہے.سری لنکا کی مسجد کے ہمارے خادم مسجد عبداللہ نیاز صاحب کو 14 اکتوبر کو مخالفین دشمنوں نے شہید کردیا.انالله و انا اليه راجعون.ان کی والدہ ابھی زندہ ہیں جن کی عمر 6 9 سال ہے اور ان کے تین بیٹے ، ایک بیٹی اور بیوہ ہیں.یہ خادم مسجد کے طور پر خدمت سرانجام دے رہے تھے اور بڑی سنجیدگی سے اور وقف کی روح کے ساتھ کام کرتے تھے.مسجد کو کھولنا، بند کرنا ، صفائی اور اذانیں وغیرہ دینا.بچوں کو قرآن کریم ناظرہ بھی پڑھاتے تھے.14 اکتوبر کو صبح 4 بجے مخالفین نے ان کی رہائش گاہ کے نزدیک ہی چاقوؤں اور تلواروں سے حملہ کر کے ان کو شہید کر دیا، یہ اس وقت نماز کے لئے مسجد آ رہے تھے.وہاں بھی آج کل بڑی رو چلی ہوئی ہے ، پاکستان سے ایک مولوی لٹریچر اور ٹرینینگ وغیرہ لے کر آیا ہے اور مسلمانوں کو خوب بھڑ کا رہا ہے کہ یہ مرتد لوگ ہیں ان کو قتل کرو یہ ثواب ہے اور سب سے بڑا جہاد یہی ہے.اس رمضان میں اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو ان احمد یوں کو قتل کر دو.اور وہ خود عمرہ پر چلا گیا ہے اور ان کو تاریخ دے گیا ہے کہ 30 یا 31 اکتوبر کو میں واپس آؤں گا، اس وقت تک احمدیوں کے جتنے بڑے بڑے عہدیداران ہیں ان کو شہید کر دو ( وہ تو خیر قتل کرنا ہی کہتے ہیں) پھر جب میں واپس آ جاؤں گا تو ان کی مسجد پر قبضہ کریں گے.تو بہر حال یہ ان کے منصوبے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ہر شر سے جماعت کو محفوظ رکھے اور ان کے منصوبوں سے بچائے.جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے عقل مقدر کی ہوئی ہے اور ماننا مقدر ہے ان کو عقل آ جائے ورنہ پھر عبرت کا نشان بنائے.پھر ہمارے ایک پاکستانی احمدی آجکل وہاں گئے ہوئے ہیں، 21 سالہ نوجوان ہیں گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں ان پر بھی حملہ ہوا تھا.وہ مسجد سے گھر آرہے تھے تو ان پر بھی چاقوؤں اور تلواروں سے حملہ کیا.ان کے دونوں ہاتھ زخمی ہو گئے ، لوگ پہنچ گئے.بہر حال ان کو بچا لیا.کسی طرح سے بچت ہو گئی.ہسپتال میں داخل ہیں علاج ہو رہا ہے.ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے آخر پر حضور انور نے فرمایا:.ابھی میں جمعہ کی نماز کے بعد شہید کا نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.kh5-030425
خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 2006 ء 539 (43) خطبات مسرور جلد چهارم آجکل جماعت احمدیہ کے خلاف بعض ملکوں میں مخالفت کی رو چلی ہوئی ہے اور اس میں تیزی آرہی ہے.ہو سکتا ہے کہ کچھ اور ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آئیں خدا جماعت احمدیہ کی حفاظت کے لئے کھڑا ہے.آج بھی وہ اپنے بندے اور اپنے مسیح کی جماعت کی دعاؤں کو سنتا ہے.آج بھی تم ایسے نظارے دیکھو گے کہ جو دشمن ان دعاؤں کی لپیٹ میں آئے گا اس کے ٹکڑے ہوا میں بکھرتے چلے جائیں گے فرموده مؤرخہ 27 اکتوبر 2006 ء(27 /اخاء 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آجکل جماعت احمدیہ کے خلاف بعض ملکوں میں مخالفت کی رو چلی ہوئی ہے.پہلے تو صرف ان ممالک میں مخالفت ہوتی تھی جہاں اسلامی حکومتیں ہیں یا اسلامی ممالک ہیں لیکن اب ان میں سری لنکا اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے ہیں.جس ملک میں بھی مسلمانوں کی تعداد کچھ اچھی ہو اور وہ ملک ترقی یافتہ نہ ہو وہاں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ احمدیت کی مخالفت ضرور ہوتی ہے.بعض مسلمان ممالک جن کے پاس تیل کی دولت ہے وہ اس بات کو کار ثواب سمجھتے ہیں کہ جہاں بھی احمدیت کا اثر قائم ہو رہا ہے وہاں ضرور مخالفت کی جائے اور ان کو اس کام کے لئے نام نہاد علماء یا ملاں مل جاتے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اپنا اثر قائم کرنا اور دنیا کی دولت کمانا ہوتا ہے.پھر غریب حکومتیں ان کی بعض امدادوں کی وجہ سے جماعت کی مخالفت کرتی ہیں.افریقہ میں بھی مثلاً گنی کراکری ہے اور بعض دوسرے ممالک ہیں جہاں جماعت کی رجسٹریشن kh5-030425
540 خطبہ جمعہ 27 /اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کی اجازت نہیں ہے.کیونکہ بعض مسلمان حکومتیں جو ان کو مدد دیتی ہیں پسند نہیں کرتیں اور یہ اپنی امداد کے متاثر ہونے کی وجہ سے جماعت کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں.لیکن ان حکومتوں کو ، ان دنیا داروں کو جن کا کل دائرہ صرف دنیاوی اسباب کے اندر ہے یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دینا چاہے یہ لوگ جتنا چاہیں زور لگالیں اس کو ہدایت سے نہیں روک سکتے.یہ خدا تعالیٰ کا اعلان ہے اور اگر ان میں ہمت ہے تو خدا سے لڑ کر دکھا ئیں.جماعت کے افراد کو تنگ کرنا، مارکٹائی کرنا حتی کہ جان تک لینے سے بھی دریغ نہ کرنا ان کے خیال میں جماعت کو کمزور کر دے گا، لوگوں میں خوف پیدا کر دے گا.ان عقل کے اندھوں کو جو مسلمان کہلانے کا دعوی کرتے ہیں اپنی تاریخ پڑھ کر اور اس تعلیم کو دیکھ کر جو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری، جو یہ بتاتی ہے کہ مومن ابتلاؤں اور امتحان سے گھبرایا نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنے والے مرتے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں.ان لوگوں کو پھر بھی عقل نہیں آتی کہ مخالفت میں اندھے ہوئے ہوئے ہیں ان کی ہر مخالفت کے بعد اور ان کے ہر احمدی کو شہید کرنے کے بعد احمدیت کا قدم پہلے سے کہیں آگے چلا جاتا ہے.ترقی کی رفتار اس جگہ پر پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے.کیا اللہ تعال کا یہ سلوک احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا ثبوت ہے یا جھوٹے ہونے کا؟ لیکن جن کی آنکھوں پر پردہ پڑ جائے ، جن کے مقدر میں گمراہی لکھی گئی ہو ان کی آنکھوں پر پردے پڑے رہیں گے.یہ نام نہاد علماء اور لیڈر جو اپنی دکان چمکانا چاہتے ہیں خود بھی گمراہی کے گڑھے میں گرنے والے ہیں اور قوم کو بھی اسی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں.پس جو بھی مسلمان کہلانے والے ہیں ان کو خود ہوش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہر جان نے اپنا بوجھ آپ اٹھانا ہے.اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل دی ہے، جب اللہ تعالیٰ کے واضح ارشادات موجود ہوں، زمانے کے امام کے آنے کی تمام نشانیاں پوری ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہوں تو تم ان علماء کے پیچھے چلنے کی بجائے عقل کے ناخن لیتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ، اس سے اس کی مدد مانگتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول نے جو کہا تھا اور جودو اور دو چار کی طرح واضح ہے اس پر عمل کرو.جو لوگ عقل رکھتے ہیں اور ان علماء کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزانہ ایسی بیعتیں آتی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعہ راہنمائی کی ہے یا انہوں نے کسی اتفاقی حادثے کی وجہ سے احمدیت کے حق میں کوئی نشان پورا ہوتے دیکھ لیا ہے.پس جب تک دلوں کو صاف کر کے فکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے نہیں جھکیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی پھر ایسے دلوں کو پاک نہیں کرتا.پس احمدیت کی مخالفت میں زیادہ بڑھنے کی بجائے اپنی عاقبت کی فکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے.ملاں اور معاشرے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ جواب کام نہیں آئے گا کہ میں ملاں اور معاشرے کے ڈر کی وجہ سے احمدیت کو قبول نہیں کر سکا.بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ آجکل بعض جگہ احمدیت کی مخالفت کی رو کچھ زیادہ ہے، اس میں تیزی آ رہی ہے اور ہو سکتا ہے کچھ اور kh5-030425
541 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آئیں.اس مخالفت کی آگ کو ہوا دینے کے لئے ہر شریر گروہ کو پاکستانی ملاں ملا ہوا ہے، جس سے یہ ٹریننگ لیتے ہیں یا یہ ملاں خود وہاں چلا جاتا ہے اور فضا کو خراب کرتا ہے تا کہ احمدیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی پیدا کی جائے اور جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ، ان کے زعم میں احمدیت کو ختم کرنے کی کوششیں ہیں.لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس مخالفت کی وجہ سے جو احمدیت کے خلاف محاذ کھڑا کر کے یہ کرتے ہیں اس مخالفت نے ہمیشہ احمدیت کیلئے کھاد کا کام کیا ہے اور ہم پہلے سے بڑھ کر احمدیت کی ترقی کے نظارے وہاں دیکھتے ہیں.اس لحاظ سے ہم مخالفین اور ملاں کے شکر گزار بھی ہیں کہ وہ ہمارے راستے صاف کرتے رہتے ہیں، جن لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف نہیں ہوتی وہ بھی احمدیت کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ دیکھیں یہ کیا چیز ہے جس کے خلاف ملاں اتنا بھرا بیٹھا ہے اور ایک صاف دل انسان جب ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر احمدیت کو قریب سے دیکھتا ہے تو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا حسن اسے جماعت احمدیہ میں ہی نظر آتا ہے اور اُس کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ایک خوشبو دار اور شیریں پھل کی طرح احمدیت کی آغوش میں گر پڑے.پس ان ابتلاؤں سے احمدیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے.اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی وجہ سے مسیح محمدی کی قوت قدسیہ دیکھیں کہ دنیا کے ہر کونے میں احمدی اپنی جان ، مال اور وقت کی قربانی کیلئے ہر وقت تیار کھڑا ہے.چاہے وہ ایشیا ہے یا امریکہ ہے یا افریقہ ہے، مشرق بعید ہے یا جزائر ہیں.ہر جگہ احمدیت کی خاطر قربانی دینے والے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور یہ نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس مخالفت کے بعد ہر جگہ پر جماعت احمدیہ نے ترقی کی ہے.1974ء میں ان لوگوں نے پاکستان میں جماعت کے خلاف کیا کچھ کرنے کی کوششیں نہیں کیں لیکن کیا جماعت کی ترقی رک گئی ؟ پھر اس فرعون سے بھی بڑا فرعون آیا اُس نے کہا پہلا تو بے وقوف تھا، صحیح داؤ استعمال کر کے نہیں گیا.کچھ کمیاں ، خامیاں ، سقم چھوڑ گیا ہے ، میں اس طرح انہیں پکڑوں گا کہ احمدیوں کے خلیفہ سمیت تمام جماعت تو بہ کرتے ہوئے میرے قدموں میں گر پڑے گی ، اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا.تو کیا اس کی خواہش پوری ہو گئی ؟ خواہش پوری ہونے کا کیا سوال ہے، احمد یوں نے عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہوتے ہوئے اس کلمہ کی حفاظت میں جس کو دشمن نے ہم سے چھینا چاہا تھا پاکستانی جیلوں کو بھر دیا مگر کلمہ اپنے سینے سے نہیں اتارا.کیا اس نظارے نے غیروں کے دل نرم کرتے ہوئے غیروں کو احمدیت کی طرف مائل نہیں کیا ؟ کئی سعید فطرت مائل ہوئے اور کئی سعید روحیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آگئیں.اور ان فرعونوں کا کیا حال ہوا ؟ ایک فرعون کو اس کے اپنے ہی پروردہ نے پھانسی پر چڑھا دیا اور دوسرے کو اللہ تعالیٰ نے خدا کے بندے اور اس کی جماعت کی دعاؤں کو سنتے ہوئے ہوا میں اڑا دیا.یہ ہے احمدیت کا خدا جس کا ادراک ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ kh5-030425
542 خطبہ جمعہ 27 /اکتوبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم وسلم کے غلام صادق نے آج کروایا ہے، جس کے اس وعدے کو ہم نے ہر آن پورے ہوتے دیکھا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہوں.آج بھی وہی خدا جماعت احمدیہ کی حفاظت کے لئے کھڑا ہے.آج بھی وہ اپنے بندے اور اپنے مسیح کی جماعت کی دعاؤں کو سنتا ہے.آج بھی تم ایسے نظارے دیکھو گے کہ جو دشمن ان دعاؤں کی لپیٹ میں آئے گا اس کے ٹکڑے ہوا میں بھرتے چلے جائیں گے.اگر حکومتیں کھڑی ہوں گی تو وہ بکھر جائیں گی ، اگر تنظیمیں کھڑی ہوں گی تو وہ پارہ پارہ ہو جائیں گی.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ بعض دفعہ الہی جماعتوں کو امتحانوں میں سے گزرنا پڑتا ہے.ہر احمدی کا کام ہے کہ دعائیں کرتے ہوئے نہایت صبر و استقلال کے ساتھ ان امتحانوں سے گزر جائے.آخری فتح ہماری ہے اور یقیناً ہماری ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس فتح کو روک نہیں سکتی.یہ خدا کی باتیں ہیں جن کا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے یہ پوری ہوں گی اور ضرور پوری ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے میں پاکستان کے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ آجکل جو حالات ہیں ان میں دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دیں.یہ جو مقدمے بن رہے ہیں ، حکومت کی طرف سے ہمارے تربیتی رسائل الفضل وغیرہ پر آئے دن جو پابندیاں لگائی جاتی ہیں، حکومت کا ایک اہلکار اٹھتا ہے اور انتظامیہ پر دہشت گردی کی دفعہ لگا دیتا ہے اور اُن دہشت گردوں کو جو حقیقت میں دہشت گرد ہیں جو بغیر کسی وجہ کے روزانہ درجنوں جانیں لے لیتے ہیں ، جو قانونی کارروائی کرنے والے کو شہید کر کے اس لئے بچ جاتے ہیں کہ مرنے والا احمدی تھا، جو کئی معصوم عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر دیتے ہیں ان کو کوئی ہاتھ نہیں لگا تا کہ ان کے بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ تعلقات ہیں، یہ ان کے پروردہ ہیں.لیکن الفضل اخبار یا جماعت کا کوئی رسالہ جو جماعت کی تربیت کیلئے نکالا جاتا ہے ان کے پرنٹر پر مینیجر پر ، پبلشر پر اس لئے مقدمہ کر دیا جاتا ہے کہ اس رسالے میں یہ کیوں لکھا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور مرزا غلام احمد قادیانی اس کے مسیح اور مہدی ہیں.اگر یہ دہشت گردی ہے تو ہزار جان سے ہمیں یہ دہشت گردی منظور ہے.ہندوستان میں جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں احمدیت کی مخالفت ہے ایک احمدی معلم کو شہید کر کے لاش کو اس لئے درخت کے ساتھ لٹکا دیا کہ اس نے کہا تھا کہ امام مہدی آ گیا ہے.بنگلہ دیش میں مسجدوں پر حملے، پتھراؤ ، مار دھاڑ اور شہادتیں اس لئے ہو رہی ہیں کہ احمدی اعلان کرتے ہیں کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَان ( آل عمران : 194 ) کہ اے ہمارے رب ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا تھا.انڈونیشیا میں جماعتی عمارات پر پتھراؤ کیا جاتا ہے، مسجدوں میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، اس لئے کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے آنے والے مسیح اور مہدی کو کیوں مان لیا ہے اور ان لوگوں نے کیوں ان بدفطرت ملاؤں کا ساتھ نہیں دیا جو اندر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 543 خطبہ جمعہ 27 /اکتوبر 2006ء ہی اندر اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور جن کو حکومتیں اپنے مقاصد میں استعمال کرنا چاہتی ہیں.لیکن پھر دیکھیں ، ان دور بیٹھے ہوئے احمدیوں پر بھی آفرین ہے اور ان کے اخلاص اور وفا اور ایمانی حالت کو دیکھ کر رشک آتا ہے جن میں سے بہت ساروں نے کسی خلیفہ سے ملاقات نہیں کی ،سوائے اس کے کہ اب ایم ٹی اے کے ذریعہ خلیفہ وقت کی آواز پہنچنے لگ گئی ہے، جنہوں نے ان تمام تکلیفوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو انہیں دی گئیں مسیح اور مہدی کے ہاتھ پر کئے ہوئے وعدہ کو پورا کر دکھایا اوران کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی.سری لنکا میں بھی آجکل ایک ملاں جس کے صوبائی حکومت سے کچھ تعلقات ہیں، اس تک پہنچ ہے اور جو پاکستان سے ٹرینینگ لے کر آیا ہے، احمدیوں پر حملے کروا رہا ہے.اور یہ حملے کرائے کے بدمعاشوں کے ذریعہ کروائے جارہے ہیں.بہت ساری مقامی آبادی اس سے تقریبالا تعلق ہے.باہر سے غنڈے لا کر احمد یوں پر حملے کروا کر اسلام کی خدمت کی جارہی ہے کہ رمضان کے مہینے میں احمدیوں کو شہید کرو تو ثواب ہوگا.پھر جیسا کہ میں نے کہا آجکل بلغاریہ میں بھی حالات بگڑے ہیں.جماعت کے خلاف حکومتی سطح پر ایک مہم چل رہی ہے.میرا خیال ہے اس ملک میں بھی ہے کوئی تیرہ چودہ فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے.یقینا تیل کے ڈالر حاصل کرنے والا کوئی ملاں اپنی جیبیں بھرنے کیلئے حکومت کو غلط راستے پر ڈال رہا ہے.ہائی کورٹ میں کیس ہے لیکن ان ملکوں کی ہائی کورٹ کا بھی وہی حال ہے جو ہمارے بعض ملکوں میں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو انصاف کرنے اور صحیح فیصلے کرنے کی توفیق دے جو اگر انصاف کے ساتھ ہو تو یقیناً جماعت کے حق میں ہوگا.یہاں کی جماعت گو کہ نئی جماعت ہے لیکن اخلاص و وفا میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے.ملاقات میں ان پر بہت زیادہ جذباتی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.جرمنی جلسہ پر ان کے مختلف گروہ بدل بدل کے آتے رہتے ہیں، تو اکثر ان سے وہاں ملاقات ہو جاتی ہے.عجیب ان کی جذباتی کیفیت ہوتی ہے.ان کے لئے بھی تمام دنیا کی جماعتوں سے دعا کرنے کی درخواست ہے.اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور یقین میں مزید بہتری پیدا کرے، ترقی کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ہر امتحان اور ابتلاء سے کامیابی سے گزار دے.لیکن ان سب کو میں کہتا ہوں اور پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ اللہ کے آگے جھکو، اللہ کے آگے جھکو، اللہ کے آگے جھکو.یہ عارضی امتحان ہیں جو گزرجائیں گے.اس قادر مطلق کا ہاتھ ہم پر ہے.اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم ما نگتے ہوئے اس امتحان کو دعاؤں کے ذریعہ ہلکا کرنے کی کوشش کرو.دعائیں کریں اور دعائیں کریں اور پھر دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی پکڑ کے نظارے ہم نے پہلے بھی اس دنیا میں دیکھے ہیں، کچھ کا میں ذکر کر آیا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کو تنگ کرنے والوں اور ان کو تکلیفیں دینے والوں کو میں اگلے جہان میں بھی پکڑوں گا.وہ اس وقت اپنی بد بختی کی وجہ سے سزا پر چلا ئیں گے تو ان کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی.اس وقت ان کی چلا ہٹ اور معافیاں کسی کام نہیں آئیں گی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے بارے میں فرمایا ہے کیونکہ یہ دعا کیا کرتے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 544 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 2006 ء تھے اس لئے اس وقت ان کے مخالفین کو کہا جائے گا کہ جن سے تم ہنسی ٹھٹھا کرتے تھے آج یہ کامیاب ہیں اور تم ذلیل ہو کر جہنم کی آگ میں پڑے ہوئے ہو.اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرنے کیلئے آج کل جو دعائیں پڑھنی چاہئیں ان میں یہ دعا بھی ہے.رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ.اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے پس تو ہمیں بخش دے، ہم پر رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سے بہترین ہے.پس جو مومن دعا کرتے ہوئے اور مخالفین کے ہنسی ٹھٹھے تکلیفوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایمان لانے پر خوش ہے اور استقامت دکھاتا ہے اور اس یقین پر قائم ہے کہ خدا تعالیٰ یہاں اور اگلے جہان میں اس ایمان پر قائم رہنے کی بہترین جزا دے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو پورا فرما تا ہے اور وعدے کو پورا فرماتے ہوئے ضرور رحم فرمائے گا اور بخشش کے سامان فرمائے گا.اللہ کے راستے میں کی گئی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں.پس ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کی طرف بہت زیادہ زور دیں، توجہ دیں.یہ جو رمضان کے بعد کے دن ہیں، یہ مہینہ جو شوال کا مہینہ کہلاتا ہے اس کی بھی اس لحاظ سے اہمیت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں عموماً شروع کے چھ دن روزے رکھا کرتے تھے اور یوں رمضان کے روزے ملا کر پینتیس یا چھتیں روزے پورے سال کے قائمقام روزے بن جاتے ہیں.گویا یہ فلی روزے بھی اللہ کی مغفرت اور رحمت کے کھینچنے کا ذریعہ ہیں اور سنت ہیں.ان دنوں میں بھی بہت سے احمدی روزے رکھتے ہیں.تو خاص طور پر جماعت کے لئے بھی دعاؤں پر بہت زور دیں اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کو جذب کرنے کی طرف بھی توجہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.و صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے کہ نوافل سے مومن میرا مقرب ہو جاتا ہے.ایک فرائض ہوتے ہیں دوسرے نوافل.یعنی ایک تو وہ احکام ہیں جو بطور حق واجب کے ہیں اور نوافل وہ ہیں جو زائد از فرائض ہیں اور وہ اس لئے ہیں تا کہ فرائض میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو نوافل سے پوری ہو جاوے.لوگوں نے نوافل صرف نماز ہی کے نوافل سمجھے ہوئے ہیں.نہیں یہ بات نہیں ہے.ہر فعل کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں.انسان زکوۃ دیتا ہے تو کبھی زکوۃ کے سوا بھی دے.رمضان میں روزے رکھتا ہے کبھی اس کے سوا بھی رکھے.قرض لے تو کچھ ساتھ زائد دے“.یعنی کسی سے قرض لیا ہے تو جب قرض کی واپسی کرنی ہے تو ساتھ کچھ زائد بھی دو ” کیونکہ اس نے مروت کی ہے.قرض دینے والے نے مروت کی تھی.فرمایا: نوافل متم فرائض ہوتے ہیں.نفل کے وقت دل میں ایک خشوع اور خوف ہوتا ہے کہ فرائض میں جو قصور ہوا ہے وہ پورا ہو جائے.یہی وہ راز ہے جو نوافل کو قرب الہی کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے گویا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 545 خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 2006 ء خشوع اور تذلل اور انقطاع کی حالت اس میں پیدا ہوتی ہے اور اسی لئے تقرب کی وجہ میں ایام بیض کے روزے،شوال کے چھ روزے یہ سب نوافل ہیں.پس یاد رکھو کہ خدا سے محبت تام نفل ہی کے ذریعہ ہوتی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرماتا ہے کہ پھر میں ایسے مقرب اور مومن بندوں کی نظر ہو جاتا ہوں ، یعنی جہاں میرا منشاء ہوتا ہے وہیں ان کی نظر پڑتی ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 437 جدید ایڈیشن - مطبوعہ ربوہ ) پس دعاؤں اور نوافل کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ جلد وہ راستے بھی کھولے جب احمدی مسلمان ممالک میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو آزادانہ اور آسانی سے پہنچاسکیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض دعائیں ہیں وہ میں پڑھتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے.حضرت صہیب سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو داخل ہونے سے پہلے اسے دیکھتے ہی یہ دعا کرتے.اے اللہ جو ساتوں آسمانوں اور جن پر یہ سایہ مگن ہیں ان کا رب ہے اور جو ساتوں زمینوں اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ان کا رب ہے اور جو شیاطین ہیں اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں ان کا رب ہے اور جو ہواؤں اور جن اشیاء کو وہ بکھیرتی پھرتی ہیں ان کا رب ہے ، ہم تجھ سے اس بستی اور اس کے باشندوں کی بھلائی کے طالب ہیں اور ہم اس بستی کے شر اور اس کے رہنے والوں کے شر ، اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں.(المستدرك للحاكم كتاب المناسك باب الدعاء عند روية قرية يريد دخولها ) پھر ایک دعا سکھائی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی پریشانی ہوتی تھی تو یہ دعا کرتے تھے يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمَ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتْ.اے حی و قیوم خدامیں تیری رحمت کا طلبگار ہوں.(سنن ترمذى كتاب الدعوات.باب ما جاء في عقد التسبيح باليد ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس دعا کو بہت پڑھا کرو.حضرت عبید بن رفاعہ الزرقی بیان کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد میں مشرکین کے واپس پلٹ جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں درست کر لو اور میرے رب کی تعریف کرو.صحابہ نے آگے پے صفیں باندھ لیں تب آپ نے یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ سب حمد اور تعریف تجھے حاصل ہے.جسے تو فراخی عطا کرے اسے کوئی تنگی نہیں دے سکتا اور جسے تو تنگی دے اسے کوئی کشائش عطا نہیں کر سکتا.جسے تو گمراہ قرار دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.جسے تو نہ دے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا اور جسے تو عطا کرے اس سے کوئی روک نہیں سکتا.جسے تو دور کرے اسے کوئی قریب نہیں کر سکتا اور جسے تو قریب کرے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں.اے اللہ ہم پر اپنی برکات فضل kh5-030425
546 خطبات مسرور جلد چهارم خطبہ جمعہ 27 /اکتوبر 2006 ء اور رزق کے دروازے کھول دے.اے اللہ میں تجھ سے ایسی دائمی نعمتیں مانگتا ہوں جو کبھی زائل نہ ہوں، ختم نہ ہوں.اے اللہ میں تجھ سے غربت وافلاس کے زمانہ کے لئے نعمتوں کا تقاضا کرتا ہوں اور خوف کے وقت امن کا طالب ہوں.اے اللہ جو کچھ تو نے ہمیں عطا کیا اس کے شر سے اور جو تو نے نہیں دیا اس کے شر سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں.اے اللہ ایمان ہمیں محبوب کر دے اور ہمارے دلوں میں پیدا کر دے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بنا.اے اللہ ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے، مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ رکھ اور صالحین میں شامل کر دے.ہمیں رسوا نہ کرنا، نہ ہی کسی فتنے میں ڈالنا.اے اللہ ان کا فروں کو خود ہلاک کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں.ان پر تختی اور عذاب نازل کر.اے اللہ ان کا فروں کو بھی ہلاک کر جن کو کتاب دی گئی کہ یہ رسول حق ہے.(مسند احمد بن حنبل، مسند المكيين پھر حضرت عباس کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ عظمت والا اور بردبار ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا رب ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمانوں اور زمین اور عرش بریں کا رب ہے.(بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء عند الكرب.حديث نمبر (6346 | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی چند دعائیں ہیں.ایک دُعا تو آپ کو پڑھنے کی تلقین کی گئی اور آپ کو الہانا سکھائی گئی.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِی.اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے.اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری مدد کر اور مجھ پر رحم کر.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 101) پھر آپ کو ایک دعا سکھائی گئی.رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ.اے خدا ہم میں اور ہمارے دشمنوں میں فیصلہ کر.( تذکرہ صفحہ 701 ایڈیشن سوم 1969ء) اور اے ازلی ابدی خدا بیٹریوں کو پکڑ کے آاے ازلی ابدی خدا میری مدد کے لئے آ.رَبِّ اِنی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ وَسَحِقْهُمْ تَسْحِيقًا...اے میرے خدا میں مغلوب ہوں میرا انتظام دشمنوں سے (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107) لے.پس ان کو پیس ڈال.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- تم کو چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو.اور اس کے فضل کو طلب کرو.ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں.رکوع، قیام، قعدہ ،سجدہ وغیرہ.پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے.فجر ، ظہر ، عصر ، شام اور عشاء.ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں.یہ سب دعا ہی کے ( ملفوظات جلد اول صفحہ 234 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) لئے مواقع ہیں“.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 547 خطبہ جمعہ 27 /اکتوبر 2006 ء پس ہمارا کام ہے کہ دعا کرتے چلے جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مختلف وقتوں کی مختلف حالتوں کی دعائیں سکھائی ہیں.اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حالات کے مطابق بعض دعائیں بتائیں جو میں پہلے بھی بتاتا رہا ہوں ان کو ہمیں دہرانا چاہئے ، پڑھنا چاہئے.اور سب سے بڑی بات جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ پہلے فرائض کی ادائیگی اور پھر نوافل کی طرف توجہ بہت ضروری ہے.آخر میں پھر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھ کر آپ کے خلاف جو ہرزہ سرائی کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کا خوف کھانے کی طرف توجہ دلاتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.”اے سونے والو بیدار ہو جاؤ.اے غافلو اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا.یہ رونے کا وقت ہے، نہ سونے کا.اور تضرع کا وقت ہے، نہ ٹھٹھے اور بنسی اور تکفیر بازی کا.دعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا ئم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو اور نیز اُس نور کو بھی جو رحمت الہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کیلئے تیار کیا ہے پچھلی راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو اور ناحق حقانی سلسلہ کے مٹانے کیلئے بددعا ئیں مت کرو اور نہ منصوبے سوچو.خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا.وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بیوقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا اور اپنے بندہ کا مددگار ہوگا اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے.پھر وہ جو دانا و بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودہ کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کر رہا ہے.جبکہ تم انسان ہو کر ایسا کام کرنا نہیں چاہتے پھر وہ جو عالم الغیب ہے جو ہر ایک دل کی تہ تک پہنچا ہوا ہے.کیوں ایسا کام کرے گا.پس تم خوب یا درکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلوار میں مار رہے ہو.سو تم ناحق آگ میں ہاتھ مت ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑ کے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے.یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہو جاتے اور نیز یہ اس اپنی عمر تک ہرگز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے.( یہ آئینہ کمالات اسلام کا حوالہ ہے جو 1893 ء میں لکھی گئی تھی اب تو 117 سال ہو چکے ہیں ) کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گزرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افترا کر کے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہے پھر اس مدت مدید کے سلامتی کو پالیا ہو.افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآن کریم کی ان آیتوں کو یاد نہیں کرتے جو خود نبی کریم کی نسبت اللہ جلشانہ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افترا کرتا تو میں تیری رگ جان کاٹ دیتا.پس نبی کریم سے زیادہ ترکون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افترا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 548 خطبہ جمعہ 27 /اکتوبر 2006 ء کر کے اب تک بچار ہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو.سو بھائیو نفسانیت سے باز آؤ اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے خاص ہیں ان میں حد سے بڑھ کر ضد مت کرو اور عادت کے سلسلہ کو تو ڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو تا تم پر رحم ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے.سوڈرو اور باز آجاؤ.کیا تم میں ایک بھی رشید نہیں.وَ اِنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِنُصْرَةٍ مِّنْ عِنْدِهِ وَيَنْصُرُ عَبْدَهُ وَيُمَزِّقُ أَعْدَاءَهُ وَلَا تَضُرُّوْنَهُ شَيْئًا.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 53 تا 55 ) یعنی اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اپنی جناب سے مدد اور نصرت کے ساتھ آئے گا اور اپنے بندے کی تائید و نصرت فرمائے گا.اور اس کے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور تم اس کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے.پس پہلے آپ نے سمجھایا.پھر آخر میں یہ دعا کی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ عذاب طلب کر رہے ہیں.آپ کا دل بہت نرم تھا اس لئے پہلے سمجھایا ہے اور خود بھی قوم کی ہدایت کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے.ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:.میں اس بیماردار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گیں ہوں“.بڑا افسردہ ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا، ہمارے ہادی اور راہنما ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی مکتوبات احمد یہ جلد ششم حصہ اول صفحہ 98 ) کا الہام بخش.لیکن اگر کوئی زبر دستی اللہ تعالیٰ کے عذاب کو آواز دے رہا ہے تو پھر اس کے متعلق کیا کیا جا سکتا ہے.اگر اب یہ لوگ جو ایذا اور تکلیفوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے سے باز نہیں آتے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بد گوئی کرتے رہیں گے تو پھر خدا کی اس چکی نے تو چلنا ہے جو ایسے لوگوں کیلئے مقدر ہے.لیکن پھر بھی ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس درد سے نکلی ہوئی دعا کو سن لے اور ان لوگوں کو عقل دے جو استہزاء، بنسی اور ظلم میں تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو بہت ساروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.ہم پھر اللہ تعالیٰ سے رحم مانگتے ہوئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قوم کو عقل دے اور وہ ان ظالموں سے اپنے آپ کو بچائیں.kh5-030425
خطبہ جمعہ 03 /نومبر 2006 ء 549 (44) خطبات مسرور جلد چهارم تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان فرمودہ مورخہ 03 نومبر 2006ء ( 03 / نبوت 1385 ھش ) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلا نْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ.(البقرة : 273) آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے مالی قربانی کے حوالے سے کچھ کہوں گا.آج عمومی طور پر جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے خلفاء وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس قابل ہو گئی ہے جہاں وہ ہر قسم کی قربانی کے فلسفے کو سمجھتی ہے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد اس بات کا فہم حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ الہی جماعتوں کی ترقی کے لئے جان، مال ، وقت اور عزت کی قربانی انتہائی اہم ہے.بعض سختیوں اور امتحانوں اور قربانیوں میں سے گزر کر ہی پھر اس منزل کے آثار نظر آتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ الہی جماعت میں شامل ہوتا ہے.قربانیوں کے معیار حاصل کرنے سے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے اس بات کا موقع دے رہا ہے کہ ہم فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کی روح کو سمجھتے ہوئے نیکی کے مواقع حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ یہی تمہارا مطمح نظر ہونا چاہئے.اگر صالحین میں شمار ہونا ہے تو پھر کوشش کر کے ہی نیکیوں میں آگے بڑھنا ہوگا تبھی تم یہ مرتبہ پاسکتے ہو.ہمیشہ یا درکھو کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گے تو ان قربانیوں اور نیکیوں سے ہی اللہ کے فضل سے اللہ کا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چہارم 550 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006 ء قرب پاؤ گے.یہ مالی اور جان کی قربانیاں تمہاری فلاح کا ذریعہ بنیں گی.پیشگی کی زندگی تمہیں ان قربانیوں سے ہی حاصل ہو گی.پس آج اللہ تعالیٰ کے حکموں کا یہ ادراک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر حاصل ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو حاصل ہے.آج دین کی خاطر اگر وقت کی قربانی کوئی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے.آج دین کی خاطر اگر اولاد کی قربانی کوئی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے.آج دین کی خاطر اگر مال کی قربانی کوئی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے.آج دین کی خاطر اُس روح کو سمجھتے ہوئے اور اُس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جس کی طرف ہمیں زمانے کے امام نے توجہ دلائی ہے اور اس راستے پر ڈالا ہے اور دین پر مضبوطی سے قائم کیا ہے، کوئی جان کی قربانی دے رہا ہے تو وہ احمدی ہے.پس یہ ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں آخرین کے گروہ میں شامل کر کے ان پہلوں سے ملایا ہے جو دین کی خاطر عظیم قربانیاں دیتے چلے گئے.ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی حالتوں پر ہر وقت نظر رکھتے ہوئے ان پہلوں کی قربانی کو ہر وقت سامنے رکھیں جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان کر دیا.تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ان فضلوں کے وارث ٹھہریں گے، اس کا قرب پائیں گے، اپنی دنیا و آخرت سنواریں گے اور آگے اپنے بچوں کی ہدایت کے سامان پیدا کریں گے.پس آج ہم سب جو یہ قربانیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کریں یا حاصل کر سکیں تو اب ہمیں اپنی ہر قربانی کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے تابع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے.اگر ہم نے اس بات کو نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے تو ہمارا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا دعوی ہے کہ آج ہم ہر قسم کی قربانیوں کا فہم وادراک رکھتے ہیں یا یہ کہ صرف احمدی کو یہ فہم حاصل ہے اور احمدی کی قربانی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.دنیا میں دوسرے مسلمان بھی قربانیاں کرتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ دوسروں کے لئے اپنا مال خرچ کرتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں.لوگوں کی ہمدردی اور ان کی مدد کے لئے انہوں نے ادارے بھی کھولے ہوئے ہیں.عیسائیوں نے ، یہودیوں نے اور دوسرے مذہب والوں نے بڑی بڑی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں جہاں وہ غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور بہت کرتے ہیں.لیکن اس سب خدمت اور ہمدردی کے پیچھے وہ جذ بہ نہیں ہے کہ خدا کی رضا حاصل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے یہ سب خدمت کرنی ہے.عارضی طور پر متاثر ہو کر کسی چیریٹی میں مدد تو کر دیں گے.لیکن یہ جذ بہ نہیں کہ اللہ کا حکم ہے اس لئے مدد کرنی ہے یا اللہ کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے خرچ کرنا ہے.اللہ کی مخلوق کی خدمت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنی ہے.بعض لوگ دولت بھی ایسے ذرائع سے کماتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں ہے.ان کے دولت کمانے کے ذریعے ناجائز ذریعے ہوتے ہیں لیکن اپنی کمپنیوں کے بجٹ میں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 551 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006 ء چیریٹی کے لئے بھی کچھ رقم مختص کر دیتے ہیں تاکہ حکومت کے ٹیکسوں سے چھوٹ مل جائے.تو یہ سب قربانیاں جو کی جا رہی ہوتی ہیں یا ان کے خیال میں جو قربانیاں کی جا رہی ہوتی ہیں یہ عارضی اور سطحی اور اکثر اوقات دنیا دکھاوے کے لئے بھی ہوتی ہیں.لیکن ایک احمدی کی جو قربانی ہے اور جو ہونی چاہئے اس کا مقصد جیسا کہ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے اور اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ کرو.اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی خدمت کرے اور اگر مالی قربانی کر رہا ہے تو وہ بھی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی آمد سے کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَانْفُسِكُمْ یعنی جو کچھ بھی تم اپنے اچھے مال میں سے خرچ کرتے ہو وہ تمہیں فائدہ دے گا، وہ تمہارے فائدہ کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ نے خیر کا لفظ استعمال کر کے ہمیں یہ توجہ دلا دی ہے کہ تم جو مالی قربانیاں کرو، ایک تو یہ کہ محنت سے اور جائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال میں سے کرو، یہ نہیں کہ شراب کی دکانوں پر کام کر کے یا سؤر بیچنے والی دکانوں پر کام کر کے یا پھر کوئی ایسا کام کر کے جو غیر قانونی ہو، پیسہ کما کر اس پر چندہ دے دو یا جس طرح نا جائز منافع خور کرتے ہیں کہ نا جائز پیسہ کما کر تھوڑی سی رقم غریبوں پر خرچ کر دی یا حج کر لیا اور سمجھ لیا کہ پیسہ پاک ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے ایسا پیسہ نہیں چاہئے.اللہ کی راہ میں جو تم خرچ کرو اس میں خیر ہونی چاہئے.وہ جائز ہونا چاہئے اور پھر تم جو یہ جائزہ پیسہ کما رہے ہو اس پر چندہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق ہی دو، یہ نہیں کہ آمد تو لاکھ روپے ہے اور چندہ دس روپے دیے دیا اور سمجھ لیا کہ میں نے قربانی کا حق ادا کر دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے رقم کی ضرورت نہیں ہے، میں غنی ہوں.اس قربانی کے ذریعے سے میں تمہیں آزمارہا ہوں کیونکہ یہ سب تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے.پس یہ جو فر مایا فَلا نَفُسِكُم - قربانی کرتے ہوئے یہ فقرہ تمہارے ذہن میں رہنا چاہئے اور جب یہ سوچ ہوگی تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھو کہ تم اس حکم پر چل رہے ہو کہ وَمَا تُنْفِقُوْنَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ الله کہ تم اللہ کی رضا جوئی کے سوا کچھ خرچ نہیں کرتے اور جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہے اس کے بارے میں فرمایا تُوَفَّ إِلَيْكُم وہ بھر پور طریقے سے تمہیں لوٹایا جائے گا.اللہ تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا، تمہاری بھلائی کے لئے تم سے قرض مانگتا ہے تو سات سو گنا کر کے تمہیں واپس لوٹاتا ہے.لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سے کچھ چھپایا نہیں جا سکتا، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے.پاک مال ہوگا، اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے ہو گا تو بڑھا کر لوٹایا جائے گا.ناجائز مال اور دھو کے سے یا غلط طریقے سے کمائے ہوئے مال کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں ، وہ اس کو قبول نہیں کرے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا احمدیوں پر بڑا احسان ہے کہ ہر احمدی مالی قربانی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے اور اس کا نیک ذرائع سے ہی کمایا ہوا مال ہوتا ہے.بعض دفعہ بعض لوگ غلط فہمی kh5-030425
552 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم میں بعض کام کر جاتے ہیں لیکن عموماً نیک مال کی اور قربانی کی قبولیت کی تصدیق بھی فوری ہو جاتی ہے.میں جانتا ہوں بعض زمیندار ہیں وہ اپنا چندہ عام بھی دیتے ہیں اور پوری شرح سے بلکہ شاید زائد دے دیتے ہیں کیونکہ پہلے بجٹ لکھوا دیتے ہیں، تحریک جدید وغیرہ میں بھی اس امید پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کہ فصل یا باغ کی آمد ہو جائے گی اور بظاہر ایسی آمد والی فصل نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے.وہ اپنے وعدے بڑھا کر لکھوا رہے ہوتے ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ احمدی زمیندار کی فصل ساتھ والے ہمسایوں سے بہت اچھی ہوتی ہے، بہت بہتر ہوتی ہے.مجھے کئی زمینداروں نے اپنے واقعات سنائے ہیں، غیر آ کر پوچھتے ہیں کہ تمہاری فصل بظاہر ہمارے جیسی تھی ، کیا وجہ ہے کہ ایسی اچھی نکل آئی ہے تو احمدی زمیندار کا یہی جواب ہوتا ہے کہ کیونکہ اس میں اللہ کا حصہ ہے اس لئے بہتر نکل آئی ہے.اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو خرچ کر رہے ہیں وہ اپنے وعدے کے مطابق اُسے بہتر کر کے ہمیں لوٹا رہا ہے.اسی طرح کا روبار میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے.جو چندہ دینے والے ہیں ان کے کاروباروں میں بہت برکت ہوتی ہے.تو اللہ تعالیٰ جو یہ نمونے ہمیں دکھاتا ہے تو یہ دکھا کر اپنے بندوں کے ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے اور اس یقین پر قائم کرتا ہے کہ یہاں جو اس طرح انعامات ہو رہے ہیں تو اگلے جہان کے بارے میں جو انعامات کی نوید سنائی ہے وہ بھی غلط نہیں ہے وہ بھی یقینا سچی ہے.آج پرانے احمدی خاندانوں میں سے بہت سے اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے باپ دادا نے جو قربانیاں دی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اولادوں کو کتنا نوازا ہے بعض بزرگوں کی قربانیاں تو پھلوں سے اس قدر لدی ہوئی ہیں کہ اولادوں کے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہے.جن کو اس بات کا پتہ ہے یا ادراک ہے کہ یہ فضل ان قربانیوں کا نتیجہ ہیں وہ پھر اللہ سے سودا کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر مالی قربانی پیش کرتے ہیں.تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سو دے کہ وہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کی قوت قدسیہ سے جو انقلاب آیا اور صحابہ نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جان، مال کی جو قربانیاں کیں وہ ہمیں آپ کے غلام صادق کی جماعت میں بھی نظر آتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی جب ضرورت پڑی، کسی نے اپنے بیٹے کے کفن کی رقم چندے میں بھیج دی، کسی نے اپنی پس انداز کی ہوئی تمام رقم دینی ضروریات کے لئے چندہ میں دے دی، کسی نے اپنی تمام آمد اللہ تعالیٰ کے مسیح کے قدموں میں لا کر ڈال دی یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہنا پڑا کہ بس آپ لوگ بہت قربانیاں کر چکے ہیں، کافی ہیں ، مزید کی ضرورت نہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد خلفاء کی طرف سے جب بھی کوئی تحریک kh5-030425
553 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم ہوئی افراد جماعت نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مالی قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے.ابھی کل ہی مجھے ایک دوست کا خط ملا ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ تحریک جدید کا نیا سال شروع ہونے والا ہے، میں اپنا وعدہ تین ہزار روپے لکھواؤں اور بیوی بچوں کی طرف سے اور بزرگوں کی طرف سے ملا کے میں اس سال اس کو بڑھا کر پانچ ہزار کر دیتا ہوں.تو کہتے ہیں خیال آیا کہ ادا کس طرح ہوگا ؟ لیکن میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ میں نے بہر حال اللہ کی توفیق سے انشاء اللہ، اتنا ہی یعنی پانچ ہزار روپے کا وعدہ لکھوانا ہے.کہتے ہیں اتنے میں ایک صاحب آئے اور ایک لفافہ مجھے دے گئے ، کھولا تو اس میں تین ہزار روپے تھے، کسی نے عید کے تھنے کے لئے بھیجے تھے.تو کہتے ہیں میں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر کر رہا تھا کہ ابھی تو سوچا ہی تھا کہ بڑھانا ہے تو اللہ تعالیٰ نے نواز دیا.اسی دوران پھر ایک اور صاحب آئے ، ایک لفافہ آیا جس میں پانچ ہزار روپے تھے، باہر سے کسی دوست نے ان کو تحفہ بھیجا تھا.تو کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابھی تو میں نے ارادہ ہی کیا ہے کہ وعدہ بڑھانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش شروع ہو گئی ہے.تو اللہ تعالیٰ جس طرح اس نے فرمایا ہے بھر پور کر کے لوٹاتا ہے تو انہوں نے کہا چلو جب اس طرح آ رہا ہے تو وعدہ ہی پانچ ہزار کی بجائے دس ہزار کر دو اور پھر اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تو یہ وعدہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک شروع ہوا ہے، تمہارا کیا ارادہ ہے؟ بیوی نے بھی اپنا وعدہ بڑھایا کہ میرا بھی اتنا لکھوا دیں.میں ان کو ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں ان کے ذرائع ایسے نہیں ہیں کہ آسانی سے اتنا دے سکیں لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کا فہم و ادراک ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی پر یقین ہے، دین کی ضرورت کا خیال ہے، خلافت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام سمجھتے ہیں، اس لئے بے خوف ہو کر یہ قدم اٹھایا.اللہ تعالیٰ ان کے اور ایسے بہت سے دوسرے لوگوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.مالی جائزہ پیش کرنے کے سے پہلے میں ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریک جدید کا آغا ز فرمایا تو اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی مختلف سالوں میں اس تحریک جدید کے بارے میں جماعت کی رہنمائی فرماتے رہے کہ اس کے کیا مقاصد ہیں اور کس طرح ہم ان مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت شروع میں آپ نے جماعت کے سامنے 19 مطالبات رکھے اور پھر بعد میں مزید بھی رکھے.یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو تربیت اور روحانی ترقی اور قربانی کے معیار بڑھانے کے لئے بہت ضروری ہیں اور آج بھی اہم ہیں ، جماعتوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے.مثلاً پہلا مطالبہ سادہ زندگی کا ہے.آج جب مادیت کی دوڑ پہلے سے بہت زیادہ ہے اس طرف kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 554 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006ء احمدیوں کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.کیونکہ سادگی اختیار کر کے ہی دین کی ضروریات کی خاطر قربانی دی جا سکتی ہے.بعض لوگوں کو بلاضرورت گھروں میں بے تحاشا مہنگی سجاوٹیں کرنے کا شوق ہوتا ہے، سجاوٹ تو ہونی چاہئے ، صفائی بھی ہونی چاہئے، خوبصورتی بھی ہونی چاہئے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سجاوٹ صرف مہنگی چیزوں سے ہی ہوتی ہے.تو بہت سارے ایسے بھی ہیں جو پیسے جوڑتے ہیں تا کہ سجانے کی فلاں مہنگی چیز خریدی جائے، بجائے اس کے کہ یہ پیسے جوڑیں کہ فلاں کام کے لئے چندہ دیا جائے.پھر شادیوں ، بیاہوں پر فضول خرچیاں ہوتی ہیں.اگر یہی رقم بچائی جائے تو بعض غریبوں کی شادیاں ہوسکتی ہیں، مساجد کی تعمیر میں دیا جا سکتا ہے، اور کاموں میں دیا جا سکتا ہے مختلف تحریکات میں دیا جا سکتا ہے.پھر آپ نے اس وقت ایک یہ مطالبہ بھی کیا کہ دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب تیار کیا جائے.آجکل اسلام پر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے ہورہے ہیں.اکثر ملکوں میں خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے مجلس سلطان القلم اچھی آرگنا ئز ہے، لیکن ابھی بھی اس میں بہتری کی گنجائش ہے.پھر آجکل مغربی معاشرے میں نام نہا د صوفی ازم بہت چلا ہوا ہے اس سے متاثر ہو کر مغرب میں نوجوان غلط راہوں پر چل پڑے ہیں.مغربی معاشرے میں خدا تعالیٰ کی ذات کو بھی بہت نشانہ بنایا جا رہا ہے.پچھلے دنوں کسی نے ایک کتاب بھی لکھی جو کرسمس سے پہلے آئی اور یہاں کی بہترین کتاب بیسٹ سیلر (Best Seller) کتاب کہلاتی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کی نفی اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی نفی کرنے کی کوشش کی گئی ہے.خدا تعالیٰ کے وجود سے انکار بھی یہاں مغرب میں فیشن بنتا جا رہا ہے.تو جماعتی پروگرام کے تحت بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس چیز پر نظر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اپنے بچے، لڑکے، نوجوان بچیاں ان چیزوں سے متاثر نہ ہوں.اس کے جواب کے پروگرام بنا ئیں.صرف یہ کہنا کہ نہیں ، فضول ہے اس کی بجائے با قاعدہ دلیل کے ساتھ جواب تیار ہونے چاہئیں.جو مختلف سوال اٹھ رہے ہیں وہ یہاں مرکز میں بھی بھجوائیں، مجھے بھی بھجوائیں تا کہ ان کے ٹھوس جواب بھی تیار کئے جائیں.پھر ایک مطالبہ وقف عارضی کا ہے اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.باہر کی دنیا میں (باہر سے مراد یورپ اور مغربی ممالک، افریقہ وغیرہ) اگر آرگنائز کر کے اس مطالبے پر سارے نظام پر کام کیا جائے تو اپنوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی اور تبلیغ کے لحاظ سے بھی بہت بہتری پیدا ہوگی ، جماعتیں اس طرف بھی توجہ کریں.پھر وقف بعد از ریٹائر منٹ ہے.ان مغربی ممالک میں بھی جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور یہاں کیونکہ حکومت کی طرف سے، اداروں کی طرف سے سہولتیں ملتی ہیں اس لئے جو احمدی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سہولیات لے رہے ہیں ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے پیش کرنا چاہئے.جماعت سے مالی مطالبہ نہ ہو کیونکہ ان کی ضروریات تو ان سہولتوں سے جو وہ حکومت سے یا اداروں سے لے رہے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 555 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006ء ہیں یا پنشن وغیرہ سے جو رقم ملی ہے اس سے پوری ہو رہی ہیں.بعض لوگ تو ریٹائر منٹ کے بعد دوبارہ کام تلاش کرتے ہیں کیونکہ بعض ایسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا ہوتا ہے، بچے وغیرہ ابھی پڑھ رہے ہوتے ہیں.تو بہر حال جن کی ذمہ داریاں ایسی نہیں ہیں اور اگر صحت اچھی ہے تو ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے رضا کارانہ طور پر پیش کرنا چاہئے.لیکن بعض دفعہ ذہنوں میں یہ بات آ جاتی ہے کہ شاید ہم رضا کارانہ کام کر کے جماعت پر کوئی احسان کر رہے ہیں، تو اگر اپنے آپ کو پیش کرنا ہو تو اس سوچ کے ساتھ آئیں کہ اگر ہم سے کوئی جماعتی خدمت لے لی جائے تو جماعت اور خدا تعالیٰ کا ہم پر احسان ہوگا.ایک مطالبہ نو جوانوں کا بیکاری کی عادت ختم کرنے کا تھا.یہ بھی بڑی خطرناک بیماری ہے اور بڑھتی جا رہی ہے.پاکستان میں بعض بے کار نوجوان اس لئے بے کار ہیں کہ یا تو ان کے جو رشتہ دار، والدین، بھائی وغیرہ باہر ہیں وہ باہر سے رقم بھیج دیتے ہیں اس لئے ذمہ داری کا احساس نہیں.یا اس امید پر بیٹھے ہیں کہ باہر جانا ہے.اب باہر جانا بھی اتنا آسان نہیں رہا، ان لوگوں کو بھی غلط امیدوں پر نہیں بیٹھنا چاہئے.اور جو آتے ہیں ان کے بھی یہاں اتنی آسانی سے کیس پاس نہیں ہوتے.اس لئے بلا وجہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور دھوکے میں نہ رہیں.اپنے نفس کو دھوکہ نہ دیں اور اپنے آپ کو سنبھالیں.جماعت اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارے میں معین پروگرام بنانا چاہئے اور نو جوانوں کو سنبھالنا چاہئے.یہ لوگ جو فارغ بیٹھے ہیں، فارغ بیٹھے یہ مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا کسی طرح باہر جانے کا انتظام ہو جائے ، بعض لڑکوں کے ماں باپ لکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے حالات خراب ہیں باہر بلوا لیں.باہر بلوانا کون سا آسان ہے.یا ہماری شادی باہر کروا دیں یا جو بھی ذریعہ ہو.اور ایسے لوگوں میں سے جب کسی کی شادی یہاں ہو جاتی ہے اور یہاں آ جاتے ہیں تو جب ان ملکوں میں ان کا Stay پکا ہو جاتا ہے تو پھر بیویوں پر ظلم کرنے شروع کر دیتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں.یہ بھی ایک غلط رو خاص طور پر پاکستان میں اور ہندوستان میں چل پڑی ہے.ایسے نوجوانوں کو میں کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں محنت کی عادت ڈالیں اور محنت کر کے کھائیں.اس دوران میں اگر باہر کا کوئی انتظام ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن صرف اس لئے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہنا کہ باہر جانا ہے، اس سے بہت ساری غلط قسم کی عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور بہت ساری برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر وہ برائیاں معاشرے میں ، اس ماحول میں پھیلتی شروع ہو جاتی ہیں.اسی طرح بعض ایسے ہیں جو یہاں آ کر بھی ہنر نہیں سیکھتے ، زبان نہیں سیکھتے ، اور ذراسی کوئی تکلیف ہو جائے تو بیماری کا بہانہ کر کے گھر بیٹھ جاتے ہیں.کیونکہ مد دل جاتی ہے اس لئے کام نہیں کرتے.بیکاری کی عادت کے خلاف ایسی مہم یہاں بھی چلانے کی بہت ضرورت ہے.بہر حال یہ چند مطالبات میں نے بیان کئے ہیں، جماعتیں اپنے حالات کے مطابق جائزہ لیں اور kh5-030425
556 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم دیکھیں کہ اس وقت کس مطالبے کی طرف یا کتنے مطالبات کی طرف اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس سے جہاں معاشی اور معاشرتی مسائل حل ہوں گے وہاں جماعتوں میں تربیت اور قربانی کے معیار بھی بڑھیں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی میں ایک بچے احمدی کی روح پیدا فرمائے.اب میں کچھ کوائف پیش کرتا ہوں.تحریک جدید کا یہ سال جو اکتوبر میں ختم ہوا ہے، اس میں جماعتوں کی طرف سے جو رپورٹس آئی ہیں ( تقریباً بڑی جماعتوں کی رپورٹس تو آہی جاتی ہیں ، بعض دفعہ چھوٹی جماعتیں رہ جاتی ہیں).اس کے مطابق تحریک جدید کی کل وصولی 35لاکھ پانچ ہزار پاؤنڈ کی ہے.الحمد للہ.اور اللہ کے فضل سے جماعتوں کی مجموعی رپورٹ میں وصولی کے لحاظ سے پاکستان نمبر ایک پہ ہے، پھر امریکہ ہے، پھر تیسرے نمبر پہ برطانیہ، پھر جرمنی، پھر کینیڈا، پھر انڈونیشیا، پھر ہندوستان، آسٹریلیا، بیلجیئم، ماریشس اور سوئٹزر لینڈ.افریقہ کے ممالک میں نائیجیر یا پہلے نمبر پر ہے.لیکن غانا کی طرف سے میرا خیال ہے رپورٹ نہیں آئی، غانا والوں کو بھی ذرا تھوڑا سا اپنے آپ کو ایکٹو (Active) کرنا چاہئے.ایک میدان میں ذرا تیز ہوتے ہیں تو دوسرے میدان کو بھول جاتے ہیں.جماعتوں میں رپورٹیں بھجوانے کی جو کمزوری ہے اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور با قاعدہ رپورٹس بھجوایا کریں.چندہ تحریک جدید ادا کرنے والوں کی جو تعداد ہے، اس میں جو افراد شامل ہوئے ان کی تعداد 4 لاکھ 82 ہزار 460 ہے، جو گزشتہ سال سے 40 ہزار زیادہ ہے.اسی طرح دفتر اول کا میں نے اعلان کیا تھا کہ اس میں کھاتے جاری کئے جائیں تو اللہ کے فضل سے تمام کھانہ جات جاری ہو چکے ہیں.پاکستان والوں کا اول دوم سوم کا ایک علیحدہ مقابلہ بھی ہوتا ہے.(پاکستانی خاص طور پر بڑے شوق سے سن رہے ہوتے ہیں) تو پاکستان کی جماعتوں میں راولپنڈی اور پھر اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ، کنری.یہ کنری چھوٹی سی جماعت ہے اور غریب بھی ہے، ان لوگوں کی آمد کا معیار اتنا اچھا نہیں ہے.کچھ کاروباری ہیں اور کچھ زمیندار بھی ہیں، یہاں پانی کی بہت کمی رہتی ہے اس کے باوجود میرے خیال میں ان لوگوں کی قربانی کا معیار اللہ کے فضل سے بہت اچھا ہے.پھر پشاور ہے، پھر بہاولپور ہے، خانیوال ہے، ڈیرہ غازی خاں ہے.اور ضلعوں میں سیالکوٹ، سرگودھا، گوجرانوالہ، میر پورخاص، شیخوپورہ، بہاولنگر ، حیدرآباد، نارووال، اوکاڑہ ،سانگھڑ اور قصور.اس دفعہ میں نے یہاں یو کے کا بھی تھوڑ اسا جائزہ لیا ہے.آپ کو بھی ذرا تھوڑا سا جھنجوڑا جائے.دیکھتے ہیں اس جائزے کے بعد آپ شرمندہ ہوتے ہیں یا مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا.بریڈ فوڈ کا جو جائزہ سامنے آیا ہے ان کی وصولی گزشتہ سال 14 ہزار 500 پاؤنڈ تھی ، اس سال پچھلے سال سے ایک ہزار پاؤنڈ کم kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 557 خطبہ جمعہ 03 /نومبر 2006ء ہوگئی.قدم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف ہے، ترقی معکوس ہو گئی ہے.اور پچھلے سال انہوں نے پر ہیڈ (Per Head) 49 پاؤنڈ سے زیادہ چندہ دیا تھا.اور اس سال وہ چندہ بھی گر کے 22 پاؤنڈ رہ گیا ہے.پھر تحریک جدید میں تعداد بھی نصف سے کم شامل ہے.ایک وجہ یہ پیش کریں گے کہ ہم مسجد بنار ہے ہیں جس کی خاطر بڑی قربانیاں ہو رہی ہیں.بڑی اچھی بات ہے، ضرور بنائیں لیکن مسجدیں دنیا میں ہر جگہ بن رہی ہیں اور قربانیاں بھی بڑھ رہی ہیں.پھر میں نے ایک اور جماعت برمنگھم کا بھی جائزہ لیا.اس میں بھی شامل ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے پچھلے سال یہاں 53.96 پاؤنڈ پر ہیڈ (Per Head) ادا ئیگی تھی اور اس سال شکر ہے 54.62 ہے ا اور ٹوٹل میں بھی تقریباً سات آٹھ سو پاؤنڈ کی رقم کا تھوڑا اضافہ ہوا ہے.حالانکہ برمنگھم میں تو فی الحال کسی مسجد کا بہانہ بھی نہیں ہے.لندن میں میں نے ایک جائزہ یہ لیا کہ یہاں جو جماعتیں ہیں، میری خواہش تھی اور اس خواہش کے مطابق ہی نتیجہ نکلا ہے کہ ان میں سے مسجد فضل کی ادائیگی سب سے بہتر ہے.اور فی کس ادا ئیگی 101 پاؤنڈ ہے.حالانکہ یہاں بھی وہی کمائی کرنے والے، اسی طرح کے لوگ رہتے ہیں.تو یہ سب سے بڑھ کے ہے.اور میرا خیال ہے سارے انگلستان میں سب سے زیادہ بڑھ کے ادا ئیگی کرنے والے مسجد فضل کے حلقے ہیں اور انہوں نے ٹوٹل وصولی میں اضافہ بھی تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زائد کا کیا ہے.بیت الفتوح والوں کا فی کس چندہ پچھلے سال سے گر گیا ہے.34 پاؤنڈ تھا اور اس سال 23 پاؤنڈ رہ گیا ہے.یہاں ان پر کون سا خاص بوجھ پڑا ہے.ٹوٹنگ کی جماعت کے چندہ دینے والوں کی تعداد تو بڑھ گئی ، گزشتہ سال 255 چندہ دینے والے تھے اور اس سال 382 ہیں لیکن فی کس چندہ کی ادائیگی 4 پاؤنڈ کم ہو گئی ہے.تو یہ ہے آپ کا جائزہ.اب جماعتیں خود سوچ لیں.دنیا کے جائزے میں میں پہلے بتا چکا ہوں انگلستان تیسرے نمبر پر آیا ہے.اس لحاظ سے آپ کا کچھ تھوڑا سا تسلی بخش ہے مگر اتنا بھی نہیں.تیسرے نمبر پر آنے کے باوجود بعض بڑی جماعتوں میں ادا ئیگی کم ہے.دنیا میں ایک جائزہ میں نے یہ لیا ہے کہ کس ملک نے فی کس زیادہ چندہ دیا ہے تو امریکہ کا 91 پاؤنڈ اور U.K کا 45.85 بنتا ہے.مسجدوں کی بات ہوئی تھی.اللہ کے فضل سے امریکہ کا رجحان بھی آج کل بڑی تیزی سے مسجدیں بنانے کی طرف ہے.انہوں نے کئی مساجد بنائی ہیں اور مزید بنانی ہیں، زمینیں خرید رہے ہیں.ٹھیک ہے وہاں بہت آمدنی والے لوگ بھی ہیں لیکن بہر حال قربانی بھی اس لحاظ سے بہت کر رہے ہیں.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے میں نے تحریک کی.اس میں انہوں نے بہت بڑی رقم kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 558 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006 ء دی.اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان اور اخلاص میں برکت ڈالے، آمدنیوں میں برکت ڈالے.تو انگلستان امریکہ کا نصف ہے، 45 پاؤنڈ فی کس، جبکہ ڈالر اور پاؤنڈ کی جو آپس کی نسبت ہے وہ بھی نصف ہے، 2 ڈالر ہوں تو ایک پاؤنڈ بنتا ہے.کینیڈا 26 پاؤنڈ ، ان میں بھی گنجائش ہے.ان کا بھی کہنا ہے کہ مسجد میں بنا رہے ہیں، جلسہ گاہ بھی خریدی لیکن گنجائش وہاں موجود ہے.جرمنی 18 پاؤنڈ، ان میں بھی کافی گنجائش ہے.تو ایک یہ ہے.پاکستان سے جو رپورٹ آئی ہے، وہ با قاعدہ دفتر اول دوم سوم کے لحاظ سے تفصیلی رپورٹ آتی ہے.ایک تو باہر کی جماعتوں کو بھی اپنی رپورٹس ان دفاتر کے حساب سے بھجوانی چاہئیں جن کا نام آپ کی قواعد کی کتاب میں Phase یا Stage رکھا ہوا ہے.پہلے سال آسانی کے لئے میں جماعتوں کو کہتا ہوں کہ دفتر پنجم جو میرے دور میں شروع ہوا، جس کا میں نے اعلان کیا تھا، اس سے شروع کریں کہ اس میں گزشتہ تین سال میں کتنے لوگ شامل ہوئے اور آئندہ جو شامل ہوں گے ان کا اندراج ہوتا کہ پتہ لگے کہ اس دفتر میں کتنی تعداد ہے.اس کو مکمل کر کے پھر دوسرے دفاتر میں دیکھتے جائیں کہ کتنی کتنی تعداد ہے.یہ ریکارڈ درست ہونا چاہئے.تحریک جدید کے شروع میں جو بزرگ جماعت کی خدمت کرتے رہے ،میں نے ان کے ناموں کو دیکھا تو دعا کی غرض سے اور اس لئے کہ ان کی اولادوں کو ذرا احساس ہو اور ان میں سے اگر کوئی خدمت نہیں کر رہا تو ان میں احساس پیدا ہو اور وہ بھی آئندہ آگے بڑھیں.تو اس تحریک کے بعد 1935ء میں شروع کا جو پہلا دستہ گیا تھا اس میں مولوی غلام حسین صاحب ایاز سنگا پور گئے، صوفی عبدالغفور صاحب چین گئے.صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب جاپان گئے، چوہدری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی ہانگ کانگ گئے ، حافظ مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری جاپان، حاجی احمد خان صاحب ایاز ہنگری و پولینڈ ، محمد ابراہیم صاحب ناصر ہنگری، ملک محمد شریف صاحب گجراتی سپین واٹلی ، مولوی رمضان علی صاحب ارجنٹائن ، مولوی محمد دین صاحب البانیہ.حضرت مصلح موعودؓ نے مشورہ کر کے اور بالکل معمولی رقم دے کر جب ان کو بھیجا تھا تو اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ میں نے مبلغین کی جو سلیکشن کی ہے تو صرف یہ دیکھا تھا کہ جرات سے کام کرنے والے ہیں، لیاقت کا زیادہ خیال نہیں رکھا تھا.پھر دوسرا گروپ گیا جس میں ملک عطاء الرحمان صاحب فرانس، چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ انگلستان ، حافظ قدرت اللہ صاحب ہالینڈ ، چوہدری اللہ دتہ صاحب فرانس، چوہدری کرم الہی صاحب ظفر سین، چوہدری محمد اسحاق صاحب سپین، مولوی محمد عثمان صاحب اٹلی ، اسی طرح ابراہیم خلیل صاحب اٹلی ، غلام احمد صاحب بشیر ہالینڈ ( شامل تھے ).kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 559 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006 ء مبلغین کے لئے بھی میں یہاں یہ بھی بتادوں کہ یہ فوری فیصلہ ہوا کہ بشارت احمد صاحب نسیم کو غانا بھجوانا ہے.ان کو صرف چند گھنٹوں کا وقت ملا کہ چند گھنٹوں میں تیار ہوں اور غانا کے لئے روانہ ہو جائیں.آجکل ہوتا ہے کہ ہمیں اتنی تیاری کا وقت مل جائے، یہ ہو، وہ ہو.تو بہر حال یہ لوگ بڑی قربانیاں کرنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس میں پڑھنا چاہتا ہوں.فرماتے ہیں.” میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے.اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے.اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سو میں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 516) ایک تاریخی واقعہ ہے جو میں بتانا چاہتا ہوں، جس کا ہم میں سے بہتوں کو علم نہیں ہو گا اور دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس ملک میں احمدیت کو جلد پھیلائے.1946ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے الفضل میں ایک اعلان شائع ہوا تھا، اس کا کچھ حصہ میں پڑھتا ہوں.فرماتے ہیں.اٹلی سے عزیزم ملک محمد شریف صاحب مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ شریف دو تسا ایک البانوی سرکردہ اور رئیس جو البانیہ اور یوگوسلاویہ دونوں ملکوں میں رسوخ اور اثر رکھتے تھے ( دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور البانیہ کی سرحد پر رہنے والے یوگوسلاویہ کے باشندے اکثر مسلمان ہیں اور بارسوخ ہیں.اور دونوں ملکوں میں ان کی جائیدادیں ہیں.عزیزم مولوی محمد الدین صاحب اس علاقے میں رہ کر تبلیغ کرتے رہے ہیں.ان کے ذریعہ سے وہاں کئی احمدی ہوئے ، بعد میں مسلمانوں کی تنظیم سے ڈر کر انہیں یوگوسلاو بین حکومت نے وہاں سے نکال دیا اور وہ اٹلی آگئے ) اور جو یوگوسلاویہ کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندے تھے، جنگ سے پہلے احمدی ہو گئے تھے اور بہت مخلص تھے.انہیں البانیہ کی موجودہ حکومت نے جو کیمونسٹ ہے، ان کے خاندان سمیت قتل کروا دیا ہے.ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ کیمونسٹ طریق حکومت کے مخالف تھے اور جو مسلمان اس ملک میں اسلامی اصول کو قائم رکھنا چاہتے تھے ان کے لیڈر تھے.انا لله وانا اليه راجعون“.kh5-030425
560 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم پھر آگے فرماتے ہیں کہ مرتے تو سب ہی ہیں اور کوئی نہیں جو الہی مقررہ عمر سے زیادہ زندہ رہ سکے.مگر مبارک ہے وہ جو کسی نہ کسی رنگ میں دین کی حمایت کرتے ہوئے مارا جائے.شریف دوتسا کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ یورپ کے پہلے احمدی شہید ہیں اور الْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّمِ کے مقولہ کے ماتحت اپنے بعد میں آنے والے شہداء کے لئے ایک عمدہ مثال اور نمونہ ثابت ہو کر وہ ان کے ثواب میں شریک ہوں گے.پھر فرمایا کہ یہ واقعہ ہمارے لئے تکلیف دہ بھی ہے اور خوشی کا موجب بھی.تکلیف کا موجب اس لئے کہ ایک با رسوخ آدمی جو جنگ کے بعد احمدیت کی اشاعت کا موجب ہو سکتا تھا ، ہم سے ایسے موقعہ پر جدا ہو گیا جب ہماری تبلیغ کا میدان وسیع ہورہا تھا اور خوشی کا اس لئے کہ یورپ میں بھی احمدی شہداء کا خون بہایا گیا.وہ مادیت کی سرزمین جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دور بھاگ رہی تھی اور وہ علاقہ جو کیمونزم کے ساتھ دہریت کو بھی دنیا میں پھیلا رہا تھا وہاں خدائے واحد کے ماننے والوں کا خون بہایا جانے لگا ہے.یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا.اس کا ایک ایک قطرہ چلا چلا کر خدا تعالیٰ کی مدد مانگے گا.اس کی رطوبت کھیتیوں میں جذب ہو کر وہ غلہ پیدا کرے گی جو ایمان کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے گرم اور کھولتا ہوا خون پیدا 66 کرے گا.پھر فرمایا ” اب یورپ میں توحید کی جنگ کی طرح ڈال دی گئی ہے.مومن اس چیلنج کو قبول کریں گے اور شوق شہادت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہو.اور سعادت مندوں کے سینے کھول دے.فرماتے ہیں ”اے ہندوستان کے احمد یو! ذرا غور تو کرو تمہاری اور تمہارے باپ دادوں کی قربانیاں ہی یہ دن لائی ہیں.تم شہید تو نہیں ہوئے مگر تم شہید گر ضرور ہو.افغانستان کے شہداء ہندوستان کے نہ تھے.مگر اس میں کیا شک ہے کہ انہیں احمدیت ہندوستانیوں ہی کی قربانیوں کے طفیل حاصل ہوئی.مصر کا شہید ہندوستانی تو نہ تھا مگر اسے بھی ہندوستانیوں ہی نے نور احمدیت سے روشناس کروایا تھا.اب یورپ کا پہلا شہید گو ہندوستانی نہ تھا مگر کون تھا جس نے اس کے اندر اسلام کا جذبہ پیدا کیا.کون تھا جس نے اسے صداقت پر قائم رہنے کی ہمت دلائی؟ بے شک ایک ہندوستانی احمدی.اے عزیز و! فتح تمہاری سابق قربانیوں سے قریب آ رہی ہے.مگر جوں جوں وہ قریب آرہی ہے تمہاری سابق قربانیاں اس کے لئے ناکافی ثابت ہو رہی ہیں.نئے مسائل نئے زاویہ نگاہ چاہتے ہیں.نئے اہم امور ایک نئے رنگ کی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں...پھر آپ نے فرمایا ”پس اے عزیز و! کمریں کسی لو اور زبانیں دانتوں میں دبا لو.جو تم میں سے قربانی کرتے ہیں وہ اور زیادہ قربانیاں کریں.اپنے حوصلہ کے مطابق نہیں، دین کی ضرورت کے مطابق اور جو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 561 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006 ء نہیں کرتے قربانی کرنے والے انہیں بیدار کریں.اور تحریک جدید میں زیادہ شامل کریں.روزنامه الفضل قادیان دا رالامان مورخہ 12 جولائی 1946ء) اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے براہ راست مخاطب ہندوستان کے احمدی تھے جن کی اکثریت تھی اور اس وقت احمدیوں کی اکثریت تھی بھی ہندوستان میں سے، وہیں خطبہ نشر ہوتا تھا.ایم ٹی اے کا کوئی نظام تو تھا نہیں.یہ 1946 ء کی بات ہے، اس کے بعد ان کی اکثریت پاکستان میں آباد ہو گئی یا ان کی اولادیں اس وقت پاکستان میں آباد ہیں یا اس وقت ان میں سے بعض کی اولادیں مغربی ممالک میں آکر آباد ہو گئی ہیں یا آباد ہونے کی کوشش کر رہی ہیں.تو پاکستان میں رہنے والے احمدیوں نے آج بھی اس پیغام کو یاد رکھا ہوا ہے.جیسا کہ میں نے ادائیگیوں کی صورتحال اور ا.پوزیشن بتائی ہے، اس سے واضح ہے.باوجود غربت کے، باوجود روپے کی ویلیو (Value) نہ ہونے کے انہوں نے اتنا بڑا قربانی کا ایک معیار قائم کیا ہے کہ دیکھ کے حیرت ہوتی ہے.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ پیغام دیا اس وقت شاید احمدیت کے نام پر ہندوستان میں کوئی احمدی شہید نہیں ہوا تھا.لیکن اس کے بعد اس پیغام کے سننے والوں میں سے بھی بعض شہداء کی صف میں شامل ہو گئے اور بے خوف و خطر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیئے اور ان کی اولادوں میں سے بھی بہت سوں نے اللہ کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں اور ابھی تک کرتے چلے جا رہے ہیں.اور جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ اپنی جانوں کے ساتھ اپنے مال بھی بے دریغ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں.پس ان لوگوں کی اولادوں اور ان خاندانوں سے وابستہ احمدیوں کو جو آج دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں اور مالی لحاظ سے بہت بہتر ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور آپ بھی ان انعامات کے وارث تبھی ٹھہریں گے جب اپنی قربانیوں کے معیار میں بہتری پیدا کریں گے اور اس روح کو اپنے اندر قائم کریں گے کہ آج دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کے لئے ہم نے ہر قسم کی قربانیاں دینی ہیں.اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کے مقامی باشندوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ آپ نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ میں سے بہت سوں نے ہر قسم کی قربانیوں کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے ہیں تو اپنے ہم وطنوں میں جو احمدیت قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں آگئے ہیں یہ روح پیدا کریں کہ اگر پہلوں سے ملنا ہے تو پھر آخرین کی جماعت کے لئے ان قربانیوں کو بھی ہنسی خوشی پیش کرنا ہوگا جن قربانیوں کا اللہ تعالیٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بڑھ چڑھ کر اپنے مالوں کو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 562 خطبہ جمعہ 03 نومبر 2006 ء اللہ کی راہ میں پیش کریں تا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام تمام دنیا کو باحسن پہنچایا جاسکے.پس آج دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ دین کی اشاعت کے لئے اپنے پاک مالوں میں سے قربانی پیش کرنے کے لئے نہ صرف تیار رہیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر پیش کریں.اور اس کے بدلے میں یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح وارث بنیں گے جس طرح وہ لوگ بنے جنہوں نے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح تمام دنیا میں ہر احمدی کو خواہ کسی بھی ملک یا نسل کا ہے خلافت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.لیکن میں پاکستانی احمدیوں سے امید رکھتا ہوں کہ وہ جو یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے کرتے آ رہے ہیں حتی المقدور کوشش کریں گے کہ یہ ان کے پاس ہی رہے.آپ کی قربانیوں کی تاریخ جماعت احمدیہ کی بنیاد کے دن سے ہے جبکہ باقی دنیا کی تاریخ احمدیت اتنی پرانی نہیں اور اسی طرح قربانیوں کی تاریخ اتنی پرانی نہیں.پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.آپ کی ہر قربانی کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ پھل پھول بخشا ہے اور آئندہ قربانیاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر پھل پھول لائیں گی.آج سب سے زیادہ جان کی قربانیاں پیش کیں تو پاکستانی احمدیوں نے کیں.مسلسل ذہنی ٹارچر اور تکلیفیں برداشت کی ہیں تو پاکستانی احمدیوں نے کی ہیں.باوجود نا مساعد حالات کے مالی قربانیوں میں بڑھنے کے معیار کو پاکستانی احمدیوں نے قائم رکھا ہے.اللہ تعالیٰ کبھی یہ قربانیاں ضائع نہیں کرے گا.انشاء اللہ.بلکہ کامیابیوں کے آثار بڑے واضح طور پر نظر آنے لگ گئے ہیں اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ جب راستے کی ہر روک خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گی.لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قربانیوں کو دعاؤں میں سجا کر پیش کریں اور پیش کرتے رہیں اور رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا کی آواز ہر دل سے نکلتی رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء 563 (45) خطبات مسرور جلد چهارم آج کل عائلی جھگڑوں کی شکایات پھر بہت زیادہ ہوگئی ہیں.ہر احمدی اپنا اور اپنے گھر کا جائزہ لے.اگر ہمارے اپنے گھروں میں نرمی اور اعلیٰ اخلاق کے نظارے نظر نہیں آرہے تو ہم نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو رستہ کیا دکھانا ہے عائلی جھگڑوں کی مختلف وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے تقومی کو اختیار کرنے اور اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی تاکیدی نصائح فرمودہ مورخہ 10 نومبر 2006 ء (10 نبوت 1385 ھش) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: ياَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَّ نِسَاءَ وَاتَّقُو اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء: 2) آجکل پھر عائلی جھگڑوں کی شکایات بہت زیادہ ہو گئی ہیں.میاں بیوی کے جو معاملات ہیں، آپس کے جھگڑے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے ایسے بیہودہ اور گھناؤ نے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں یا مردوں کی طرف سے یا سرال کی طرف سے ایسے ظالمانہ رویے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم ذکر سامنے نہ ہو کہ نصیحت کرتے kh5-030425
564 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم رہو، نصیحت یقیناً فائدہ دیتی ہے تو انسان مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ان بگڑے ہوؤں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح و مہدی کی غلامی اور نمائندگی میں نصیحت کرنے کے فرمان الہی کے مطابق نصیحت کرتے چلے جانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے یقینا ان میں شرافت کا کوئی بیج تھا جس سے یہ نیکی کا شگوفہ پھوٹا ہے کہ احمدیت قبول کر لی اور اس پر قائم ہیں.پس اللہ کے حکم کے مطابق اور جو کام ذمہ لگایا گیا ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہ نصیحت کرو یقیناً اللہ برکت ڈالے گا، میں اللہ تعالیٰ کے اس برکت ڈالنے کے سلوک کی امید کرتے ہوئے آج پھر اس بارے میں کچھ سمجھانے کی کوشش کروں گا.اللہ تعالیٰ میرے الفاظ میں اثر پیدا کر دے کہ اجڑتے ہوئے گھر جنت کا گہوارہ بن جائیں گو کہ میں گزشتہ خطبات میں اشارہ بھی اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں لیکن آج ذرا کچھ وضاحت سے یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کر کن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے منفی کردارادا کر رہے ہیں.ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخر کار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا.آپ فرماتے ہیں کہ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں.“ پھر آپ فرماتے ہیں ” خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں.انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اس کو ملیں جن کے رو سے اس کو یقین آجائے کہ خدا ہے“.پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئے.اور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں.اگر ہمارے اپنے گھروں میں نرمی اور اعلیٰ اخلاق کے نظارے نظر نہیں آرہے تو ہم نے گم گشتہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ کیا دکھانا ہے؟ ہم تو خودان گم گشتہ kh5-030425
565 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم لوگوں میں شامل ہیں، ہم تو خود اپنی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں.پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے ، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے ؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہوگا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کو بھی لینا ہوگا، عورت کو بھی لینا ہوگا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہوگا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے.یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں.تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑ کا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 30-40 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں.اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ اپنی ملکیت کا حق جتانے کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے پھر لڑکیاں ناراض ہو کر گھر چلی جاتی ہیں.یہ بھی غلط طریقہ ہے ، لڑکے کا کام ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے لیکن بیویوں کو بھی ان کا حق دے.جب ایسی صورت ہوگی تو پھر بیویاں عموماً خاوند کے ماں باپ کی بہت خدمت کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسی بھی بہت ساری مثالیں ہیں کہ ساس سسر کو اپنے بچوں سے زیادہ اپنی بہوؤں پر اعتماد ہوتا ہے.یہ نہیں کہ خدانخواستہ جماعت میں نیکی اور اخلاق ر.ار ہے ہی نہیں، بالکل ختم ہی ہو گئے ہیں، اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیکی پر قائم ہے.مگر جو مثالیں سامنے آتی ہیں وہ پریشان کرتی ہیں کہ یہ اتنی بھی کیوں ہیں؟ جو جائزہ میں نے یہاں لیا ہے اگر کینیڈا میں ، امریکہ میں یا یورپ کی جماعتوں میں لیا جائے تو وہاں بھی عموماً یہی تصویر سامنے آئے گی.پس شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول (Level) پر جماعتی اور ذیلی تنظیموں میں فعال ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اسلام نے ہمیں اپنے گھر یلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے.ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں.اللہ رحم کرے.اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جارہے ہوتے ہیں،نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں.ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تا کہ ہم kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 566 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں.اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو.تو نکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب وقبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے.کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا ، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گا جس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضا کے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے.میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں.یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے ، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہورہا ہوتا ہے.آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہوگی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خدا تعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے.جب تقویٰ پر چلتے ہوئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہوگا تو پھر بھڑ کانے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہو اس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خاوند کو جانتا ہوں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، ابھی معاملہ صاف کر لیتے ہیں.اور ایسا شخص جو کسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے اگر وہ سچا ہے تو یہ بھی نہیں کہے گا کہ اپنے خاوند سے یا بیوی سے میرا نام لے کر نہ پوچھنا، میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ تم پوچھنے لگ جاؤ.بات کر کے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈالنے والا ہے ، اس میں فاصلے پیدا کرنے والا ہے اور جھوٹ سے کام لے رہا ہے.اگر کسی کو ہمدردی ہے اور اصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گا جس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو.پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا احترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے ، چاہے وہ کہنے والا کتناہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تا کہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے.اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا.پہلے بھی میں ذکر کر آیا ہوں کہ کیونکہ تقویٰ پر نہیں چل رہے ہوتے ، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہیں ہوتا اس لئے بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آکر یا ماحول کے اثر کی وجہ سے اپنی بیوی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 567 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء پر بڑے گھناؤنے الزام لگاتے ہیں یا دوسری شادی کے شوق میں ، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگا دیتے ہیں.اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہئے.اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کروں گا تو خود ہی خلع لے لے گی اور میں حق مہر کی ادائیگی سے (اگر نہیں دیا ہوا) تو بچ جاؤں گا تو یہ بھی انتہائی گھٹیا حرکت ہے.اول تو قضاء کو حق حاصل ہے کہ ایسی صورت میں فیصلہ کرے کہ چاہے ضلع ہے حق مہر بھی ادا کرو.دوسرے یہاں کے قانون کے تحت، قانونی طور پر بھی پابند ہیں کہ بعض خرچ بھی ادا کرنے ہیں.اب میں بعض عمومی باتیں بتا تا ہوں.اگر علیحدگی ہوتی ہے تو بعض لوگ یہاں قانون کا سہارا لیتے ہوئے بیوی کے پیسے سے لئے ہوئے مکان کا نصف ، اپنے نام کر لیتے ہیں.قانون کی نظر میں تو شاید وہ حقدار ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم نے بیوی کو ڈھیروں مال بھی دیا ہے تو واپس نہ لو، کجا یہ کہ بیوی کے مال پر بھی ڈاکے ڈالنے لگ جاؤ ، اس کی چیزیں بھی قبضے میں کرلو.پھر بعض دفعہ بہانہ جو مردوں کی طرف سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ نافرمان ہے، بات نہیں مانتی ، میرے ماں باپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتی بلکہ ان کی بے عزتی بھی کرتی ہے، میرے بہن بھائیوں سے لڑائی کرتی ہے، بچوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتی ہے، یا گھر سے باہر محلے میں اپنی سہیلیوں میں ہمارے گھر کی باتیں کر کے ہمیں بدنام کر دیا ہے.تو اس بارے میں بڑے واضح احکام ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّتِي تَخَافُوْنَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ( النساء: 35) اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو ان کو پہلے تو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو پھر اگر ضرورت ہو تو انہیں بدنی سزا دو.یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمجھاؤ، اگر نہ سمجھے اور انتہا ہو گئی ہے اور ارد گرد بد نامی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو پھر سختی کی اجازت ہے لیکن اس بات کو بہانہ بنا کر ذرا ذراسی بات پر بیوی پر ظلم کرتے ہوئے اس طرح مارنے کی اجازت نہیں کہ اس حد تک مارو کہ زخمی بھی کر دو، یہ انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے ، آپ نے فرمایا کہ اگر کبھی مارنے کی بھی ضرورت پیش بھی آجائے تو مار اس حد تک ہو کہ جسم پر نشان نظر نہ آئے.یہ بہانہ کہ تم میرے سامنے اونچی آواز میں بولی تھی ، میرے لئے روٹی اس طرح کیوں پکا ئی تھی ، میرے ماں باپ کے سامنے فلاں بات کیوں کی، کیوں اس طرح بولی، عجیب چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، ان باتوں پر تو مارنے کی اجازت نہیں ہے.پس اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم خدا کا خوف کریں.568 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایک انتہائی قدم جو اٹھایا اور اس پر تمہیں اس کو سزا دینے کی ضرورت پڑی تو یا د رکھو کہ اب اپنے دل میں کینے نہ پالو.جب وہ تمہاری پوری فرمانبردار ہو جائے ، اطاعت کرلے تو پھر اس پر زیادتی نہ کرو.فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (النساء:35).پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر تمہیں ان پر زیادہ کا کوئی حق نہیں ہے.یقیناً اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے.یادرکھو اگر تم اپنے آپ کو عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سے بہت بڑا، مضبوط اور طاقتور ہے.عورت کی تو پھر تمہارے سامنے کچھ حیثیت ہے بلکہ برابری کی ہی حیثیت ہے لیکن تمہاری تو خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لئے اللہ کا خوف کرو اور اپنے آپ کو ان حرکتوں سے باز کرو.پھر یہ معاملات بھی اب سامنے آنے لگے ہیں کہ شادی ہوئی تو ساتھ ہی نفرتیں شروع ہو گئیں بلکہ شادی کے وقت سے ہی نفرت ہوگئی.شادی کی کیوں تھی؟ اور بدقسمتی سے یہاں ان ملکوں میں یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ رہی ہے ، شاید احمد یوں کو بھی دوسروں کا رنگ چڑھ رہا ہے حالانکہ احمدیوں کو تو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنے دین کا رنگ چڑھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تھی.پس ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرضی کی شادی نہیں ہوئی تب بھی پہلے اکٹھے رہو، ایک دوسرے کو سمجھو، اس نصیحت پر غور کرو جس کے تحت تم نے اپنے نکاح کا عہد و پیمان کیا ہے کہ تقویٰ پر چلنا ہے، پھر سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی اگر نفرتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو کوئی انتہائی قدم اٹھاؤ اور اس کے لئے بھی پہلے یہ حکم ہے کہ آپس میں حکمین مقرر کرو، رشتہ دار ڈالو سوچو، غور کرو.دونوں طرف کے فریقوں کو مختلف قسم کے احکام ہیں.افسوس کی بات یہ ہے، گو بہت کم ہے لیکن بعض لڑکیوں کی طرف سے بھی پہلے دن سے ہی یہ مطالبہ آ جاتا ہے کہ ہماری شادی تو ہو گئی لیکن ہم نے اس کے ساتھ نہیں رہنا.جب تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ لڑکے یا لڑکی نے ماں باپ کے دباؤ میں آکر شادی تو کر لی تھی ورنہ وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتے تھے.تو ماں باپ کو بھی سوچنا چاہئے اور دو زندگیوں کو اس طرح بر باد نہیں کرنا چاہئے.لیکن لڑکوں کی ایک خاص تعداد ہے جو پاکستان ، ہندوستان وغیرہ سے شادی ہو کر ان ملکوں میں آتے ہیں اور یہاں آ کر جب کاغذات پکے ہو جاتے ہیں تو لڑکی سے نباہ نہ کرنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیتے ہیں ، اس پر ظلم اور زیادتیاں شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء: 20) کہ ان سے نیک سلوک کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 569 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء ساتھ زندگی بسر کرو اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں ، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر نا پسندیدگی ، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پاسکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے.وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا.اور ہے حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں ہے، بلکہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مجھے راستے میں مل گیا، میں نے اس کو اس آیت کی روشنی میں سمجھایا.وہ وہاں سے سیدھا اپنے گی گیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں نے تمہارے سے بڑا دشمنوں والا سلوک کیا ہے لیکن آج حضرت مولانا نورالدین صاحب نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، ہمیں اب تم سے حسن سلوک کروں گا.حضرت خلیفہ اسیح الاول فر ماتے ہیں کہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اس کو انعامات سے نوازا اور اس کے ہاں چار بڑے خوبصورت بیٹے پیدا ہوئے اور جنسی خوشی رہنے لگے.اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تو اللہ تعالیٰ یہ انعامات دیتا ہے.پس جولڑ کے پاکستان وغیرہ ملکوں سے یہاں آ کر پھر چند روز بعد اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں ہے یا بعض لڑکے پاکستان سے اپنے ماں باپ کے کہنے پر یہاں لڑکیاں لے آتے ہیں اور بعد میں جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں آئی ہم نے ماں باپ کے کہنے پر مجبوری سے یہ شادی کر لی تھی تو وہ ذرا اپنے جائزے لیں.جیسا کہ میں نے کہا یہ لڑکے جن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں دو قسم کے ہیں ، ایک تو یہاں کے رہنے والے، شادی کر کے لائے اور یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ عرصہ دیکھیں گے، طبیعت ملتی ہے کہ نہیں ملتی ، کیونکہ یہاں کے ماحول میں یہی سوچ ہو گئی ہے کہ پہلے دیکھو طبیعت ملتی ہے کہ نہیں اور اگر طبیعت نہیں ملتی تو ٹھوکر مار کے گھر سے نکال دو اور یہ لوگ پھر فوری طور پر یہاں اپنی شادیاں اور نکاح رجسٹر بھی نہیں کراتے کہ لڑکی کو کوئی قانونی تحفظات حاصل نہ ہو جائیں اور یہاں رہ کر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے.اور ایسے معاملات میں والدین بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں.بہر حال پھر جماعت ایسی بچیوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کے یہ عمل ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی جماعت میں رہنے کے حقدار نہیں ہیں.kh5-030425
570 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم دوسری قسم کے لڑکے وہ ہیں جو باہر سے آکر یہاں کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اور فوری طور پر نکاح رجسٹر کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب نکاح رجسٹر ہو جائے اور ان کو ویز اوغیر ہل جائے تو پھر ان کو لڑکیوں میں برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر علیحدگی اور اپنی مرضی کی شادی.تو یہ دونوں قسم کے لوگ تقویٰ سے ہٹے ہوئے ہیں.اپنی جانوں پر ظلم نہ کریں، جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں اور تقویٰ پر قائم ہوں، تقویٰ پر قدم ماریں، تقویٰ پر چلیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے ظلم کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر بھی ایک بالا ہستی ہے جو بہت طاقتور ہے.پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھروں میں ہر وقت لڑائیاں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا تو فیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے.اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے.لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.اکٹھے رہ کر اگر مزید گنا ہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے.گزشتہ دنوں جماعت کے اندر ہی کسی ملک میں ایک واقعہ ہوا، بڑا ہی درد ناک واقعہ ہے کہ اسی طرح سارے بہن بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہ رہے تھے کہ جائنٹ فیملی (Joint Family) ہے.ہر ایک نے دو دو کمرے لئے ہوئے تھے.بچوں کی وجہ سے ایک دیورانی اور جٹھانی کی آپس میں ان بن ہو گئی.شام کو جب ایک کا خاوند گھر میں آیا تو اس نے اس کے کان بھرے کہ بچوں کی لڑائی کے معاملے میں تمہارے بھائی نے اور اس کی بیوی نے اس طرح باتیں کی تھیں.اس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ بندوق اٹھائی اور اپنے تین بھائیوں کو ماردیا اور اس کے بعد خود بھی خود کشی کر لی.تو صرف اس وجہ سے ایک گھر سے چار جنازے ایک وقت میں اٹھ گئے.تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے.تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں.اس آیت کی تشریح میں کہ لَيْسَ عَلَى الاعْمِي حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوْا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَتِكُمْ أَوْبُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْبُيُوْتِ أَخَوَاتِكُمْ ( النور : 62 ) کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں ، لولے ڑے پر کوئی حرج نہیں ، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا kh5-030425
571 خطبہ جمعہ 10 نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ، حضرت خلیفہ اسیح الاول فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں.اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو.فرماتے ہیں دیکھو یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے ) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں ، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھر الگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے.تو دیکھیں یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی.تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے.میں نے کئی دفعہ بعض بچیوں سے پوچھا ہے، ساس سر کے سامنے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں.اور آخر پر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پر ظلم کر رہی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو محبتیں پھیلانے آئے تھے.پس احمدی ہو کر ان محبتوں کو فروغ دیں اور اس کے لئے کوشش کریں نہ کہ نفرتیں پھیلائیں.اکثر گھروں والے تو بڑی محبت سے رہتے ہیں لیکن جو نہیں رہ سکتے وہ جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ اگر توفیق ہے اور سہولتیں بھی ہیں، کوئی مجبوری نہیں ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ علیحدہ رہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول" کا یہ بہت عمدہ نکتہ ہے کہ اگر ساتھ رہنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر قرآن کریم میں ماں باپ کے گھر کا علیحدہ ذکر کیوں ہے؟ ان کی خدمت کرنے کا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا ، ان کی کسی بات کو برا نہ منانے کا، ان کے سامنے اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے ، اس کی پابندی کرنی ضروری ہے.بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے ، اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے ، اس کی پابندی بھی ضروری ہے.یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے.پس اصل چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے اور ظلم جس طرف سے بھی ہو رہا ہو ختم کرنا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا ہے.جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ بعض مرد اس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں ، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں.لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں، طاقت زیادہ ہے، باہر پھر نا زیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں.لیکن یا درکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھارہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں.پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑیں.بعض تو ظالموں میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بچوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور پھر بھی kh5-030425
572 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم احمدی کہلاتے ہیں.ماں بیچاری چیخ رہی ہے چلا رہی ہے.ماں پر غلط الزام لگا کر اس کو بچوں سے محروم کر دیتے ہیں.حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ اٹھانے کے لئے غلط الزام نہ لگاؤ.اور پھر اس مرد کے، ایسے باپ کے سب رشتہ دار اس کی مدد کر رہے ہوتے ہیں.ایسے مرد اور ساتھ دینے والے ایسے جتنے رشتہ دار ہیں ان کے متعلق تو جماعتی نظام کو چاہیے کہ فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف تعزیری کا رروائی کی سفارش کرے.یہ دیکھیں کہ قرآنی تعلیم کیا ہے اور ایسے لوگوں کے کرتوت کیا ہیں.؟ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض عہدیدار بھی ایسے مردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں سے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا جا رہا ہوتا.تو یہ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں.ایسے مرد اپنی اناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مرجاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کا رروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظام جماعت ہو گیا تو تب بھی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی ، اپنی انا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں.وقف نو کے حوالے سے یہاں ضمنا میں یہ بھی ذکر کر دوں کہ اگر ان کا بچہ واقف نو ہوتو والدین کے اخراج کی صورت میں اس کا بھی وقف ختم ہو جاتا ہے.اس لئے جماعتیں ایسی صورت میں جہاں جہاں بھی ایسا ہے خود جائزہ لیا کریں.پاکستان میں تو وکالت وقف نو اس بات کا ریکارڈ رکھتی ہے لیکن باقی ملکوں میں بھی امیر جماعت اور سیکر ٹریان وقف نو کا کام ہے کہ اس چیز کا خیال رکھیں.اور پھر معافی کی صورت میں ہر بچے کا انفرادی معاملہ خلیفہ وقت کے سامنے علیحدہ پیش ہوتا ہے کہ آیا اس کا دوبارہ وقف بحال کرنا ہے کہ نہیں ؟ اس لئے ریکارڈ رکھنا بھی ضروری ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کوختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے.اس لئے جماعتی عہدیدار بھی اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ وہ جس نظام جماعت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں کام کر رہا ہے.اس لئے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا اولین فرض ہے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ہر ایک کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے.فیصلے کرتے وقت، خلیفہ وقت کو سفارش کرتے وقت ہر قسم کے تعلق سے بالا ہو کر سفارش کیا کریں.اگر کسی کی حرکت پر فوری غصہ آئے تو پھر دو دن ٹھہر کر سفارش کرنی چاہئے تا کہ کسی بھی قسم کی جانبدارانہ رائے نہ ہو.اور فریقین بھی یا درکھیں کہ بعض اوقات اپنے حق لینے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ نا جائز حق مانگتے ہیں.( تو انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے ) پس جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو پیش نظر رکھیں ، تقوی.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 573 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی.آپ جو نا جائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مرتکب ہورہے ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے ناجائز فیصلہ کروا لیتے ہو تو اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو.تو تقویٰ سے دور ہوں گے تو پھر یقینا شرک کی جھولی میں جاگریں گے.پس استغفار کرتے ہوئے اللہ سے اس کی مغفرت اور رحم مانگیں، ہمیشہ خدا کا خوف پیش نظر رکھیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض ماں باپ بچوں کو دوسرے ملک میں لے گئے یا انہیں چھپا لیا یا کورٹ سے غلط بیان دے کر یا دلوا کر بچے چھین لئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدہ کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے ، اور نہ والد کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ دیا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے اور ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کرو گے تو یا درکھو اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز جانتا ہے.وہ جانتا بھی ہے اور دیکھ بھی رہا ہے.اور اللہ پھر ظالموں کو یوں نہیں چھوڑا کرتا.پس اللہ سے ڈرو، ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ جس طرح آپ پر آپ کی ماں کا حق ہے اسی طرح آپ کے بچوں پر ان کی ماں کا بھی حق ہے.جیسا کہ میں نے کہا اور جائزہ میں بھی سامنے آیا عموماً با پوں کی طرف سے یہ ظلم زیادہ ہوتے ہیں.اس لئے میں مردوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھیں.ان کے حقوق دیں.اگر آپ نیکی اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں تو الا ماشاء اللہ عموماً پھر بیویاں آپ کے تابع فرمان رہیں گی.آپ کے گھر ٹوٹنے والے گھروں کی بجائے ، بننے والے گھر ہوں گے جو ماحول کو بھی اپنے خوبصورت نظارے دکھا رہے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک صحابی کو نصیحت کا ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے بچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ مدت رکھتے ہیں.یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا.میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں.اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ kh5-030425
574 خطبہ جمعہ 10 /نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو.بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لا تَهْلِه یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا.عزیز من، انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا.اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجالاتا ہوں.اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے.خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے.بیویوں پر رحم کرنا چاہئے.اور ان کو دین سکھلانا چاہئے.اور در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقا ایک ذرا درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد ہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں.اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.سومیں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے.ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدرا اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے.زیادہ کیا لکھوں.والسلام“.الحکم جلد 9 نمبر 13 مورخہ 17 اپریل 1905 صفحہ 6 اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا پر چلاتے ہوئے ان خوبصورت اعمال کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 17 نومبر 2006 ء 575 (46) خطبات مسرور جلد چهارم تمام دنیا میں لوگ اپنے خدا کو بھولتے جارہے ہیں.مسیح محمدی کے ماننے والوں کا کام ہے کہ اپنے رب کی صحیح پہچان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی ربّ العالمین کی پہچان کروائیں فرمودہ مورخہ 17 نومبر 2006 ء(17 رنبوت 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رب ہے.اللہ تعالیٰ نے اس صفت کا اظہار اور اعلان قرآن کریم کی پہلی ہی سورۃ میں فرمایا ہے اور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العالمین یعنی ہر قسم کی تعریف کا اللہ تعالیٰ ہی مستحق ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.رب کے معنی مفسرین نے اور اہل لغت نے بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں جس میں پیدا کرنے سے لے کر کسی چیز کے درجہ کمال تک پہنچانے کے درمیان جتنے بھی ادوار ہیں ان سب کو یہ لفظ اپنے اندر سمیٹتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر کبیر میں مختلف روایات کے حوالے سے اس کی وضاحت فرمائی ہے.مثلاً مفردات کے حوالے سے یہ درج ہے کہ رب کے معنی کسی چیز کو پیدا کر کے تدریجی طور پر کمال تک پہنچانے کے ہیں.عربی زبان میں بعض دفعہ رب کا لفظ انسان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.اگر انسان کی طرف منسوب ہو تو صرف تربیت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں یہ لفظ ماں باپ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے اور یہ دعا سکھائی گئی ہے.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّنِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل : 25) کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما کیونکہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ، میری تربیت کی.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 576 خطبہ جمعہ 17 نومبر 2006 ء پھر اقرب جو لغت کی ایک کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ رب کے معنی مالک کے بھی ہوتے ہیں، سردار اور مطاع کے بھی ہوتے ہیں اور رب کے معنی مصلح کے بھی ہوتے ہیں.بحرمحیط میں ہے کہ رب کے معنے خالق کے بھی ہیں.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ رب کا لفظ بغیر اضافت کے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے آتا ہے اور اضافت کے ساتھ اللہ اور غیر اللہ دونوں کے ساتھ آتا ہے.مثلَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ابَائِكُمُ الْاوَّلِين (الشعراء: 27) یہاں رب کے لفظ کے ساتھ جو کم کا لفظ لگایا گیا ہے یا آبَاءِ كُمْ کا لفظ لگایا گیا ہے یعنی تمہارا رب یا تمہارے باپ دادا کا رب، یہ اضافت ہے، زائد چیز آگے بیان کی گئی ہے.پس جب اللہ کے علاوہ رب کا لفظ کسی کے ساتھ لگتا ہے تو جیسا کہ بتایا اس میں صرف اضافت کے ساتھ لگ سکتا ہے.مثلاً رَبُّ الدَّار گھر کا مالک یا رَبُّ الْفَرَس گھوڑے کا مالک.خالی رب کا لفظ جہاں بھی استعمال ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے استعمال ہوگا..حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ لسان العرب اور تاج العروس میں جو لغت کی نہایت معتبر کتابیں ہیں لکھا ہے کہ زبان عرب میں رب کا لفظ سات معنوں پر مشتمل ہے اور وہ یہ ہیں.مَالِكَ، سَيِّد، مُدَبّر ، مُرَبّى، قيم، مُنْعِم ، مُتَمِّم.چنانچہ ان سات معنوں میں سے تین معنے خدا تعالیٰ کی ذاتی عظمت پر دلالت کرتے ہیں.منجملہ ان کے مالک ہے اور ما لک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہو یعنی وہ مالک ہے کہ جو اس کے ماتحت ہے، جو اس کی ملکیت میں ہے اس پر اس کا مکمل قبضہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لا سکتا ہو.ایسا قبضہ ہو کہ جس طرح بھی چاہے اس کو استعمال میں لاسکتا ہے.اور بلا اشتراک غیر اس پر حق رکھتا ہو اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پاسکتا کیونکہ قبضہ تامہ اور تصرف تام اور حقوق تامہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلم نہیں." من الرحمن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 152-153 ، حاشیہ) یعنی مکمل قبضہ بھی ہو، مکمل طور پر اس پر اختیار بھی ہو ، جس طرح چاہے استعمال کرے اور مکمل طور پر اس پر حق بھی رکھتا ہو.تو فرمایا کہ یہ چیز سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے کسی کے لئے نہیں.مالک کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے الفاظ میں فرمائی ہے.رب کے معنوں میں جو باقی الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کو بھی میں یہاں مختصراً بیان کر دیتا ہوں تا کہ اس لفظ کی وسعت کا مزید علم ہو سکے.ایک لفظ اکسید استعمال ہوا ہے.سید کا لفظ عزت اور شرف کے معنوں میں بطور لقب کے استعمال ہوتا ہے اور ہر نوع میں سے اعلیٰ اور افضل شئی کو سید کہا جاتا ہے مثلاً القُرْآنُ سَيِّدُ الكَلام یعنی قرآن سب کلاموں کا سردار ہے.پس سید کا مطلب یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ اور افضل اور معزز جس کی اطاعت لازم ہو.kh5-030425
577 خطبہ جمعہ 17 /نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم پھر رب کے معنوں میں المُدَبر کا لفظ ہے.لغت میں دبر کا مطلب ہے کہ کسی کے بعد یا پیچھے آیا دَبَّرَ الامر کا مطلب ہے کہ کسی چیز کی عاقبت اور نتیجے کے بارے میں سوچا اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ کسی کام کو ایسے طور پر چلایا کہ وہ صحیح نتیجہ پیدا کرے.پس المدبر کا مطلب ہے کہ ہر کام کے آخری نتیجہ پر نظر رکھنے والا اور اس کو ایسے طریق پر چلانے والا کہ اس کا صحیح نتیجہ نکلے.پھر اس کے ایک معنے قیم کے بھی ہیں.یعنی کسی چیز کی نگرانی اور درست کرنے والا.اللہ تعالیٰ کے القیم ہونے کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کے کام بنا تا ، ان کو سہارا دیتا اور صحیح راستے پر قائم رکھتا ہے.پھر اس کا ایک مطلب المُنْعِم بھی ہے.لغت میں نَعَم کا مطلب ہے کوئی چیز نرم و نازک ہوگئی.اسی سے نعمت ہے جس کا مطلب ہے اچھی اور خوشحالی کی حالت.انعام کا مطلب ہے کسی کو بھلائی اور خیر پہنچانا، کسی پر احسان کرنا.پس المُنعِم کا مطلب ہوا وہ ذات جو بھلائی اور خیر اور خوشحالی سے نوازے اور دوسرے سے احسان کرے.پھر رب کے معانی میں ایک لفظ میسم اور مصمم استعمال ہوا ہے.یہ تمام سے ہے اور کسی چیز کے تمام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی انتہا اور کمال کو پہنچ جائے یہاں تک کہ کسی بیرونی چیز کا محتاج نہ رہے.الْمُتَمِّم، الْمُقِم کا مطلب ہے کہ ہر کام کو پورا کرنے والا ، ہر حاجت کو پورا کرنے والا اور ہر نقص کو دور کرنے والا غریبوں کی بھوک ختم کرنے والا.پس ان سب کو اگر جمع کر لیں تو اس کا یہ مطلب بنے گا کہ وہ ہستی جو سب سے اعلیٰ ہے، افضل ہے، معزز ہے جس کی اطاعت لازم ہے.جس کے کام میں کسی غلطی کا امکان ہی نہیں ہے، کسی کام کا آخری نتیجہ بھی اس کے علم میں ہے، اس لئے اس سے راہنمائی کی ضرورت ہے.وہی ہے جو اپنی مخلوق کے کام بناتا ہے، ان کو سہارا دیتا ہے اور انہیں صحیح راستے پر رکھتا ہے.وہ بندے کی بھلائی اور خوشحالی کے سامان پیدا فرماتا ہے.حاجتیں پوری کرنے والا ہے.ہر کام کی طاقت و قدرت کا مالک ہے، ہر کام کی قدرت رکھتا ہے، کسی کا محتاج نہیں ہے، مالک گل ہے.تو یہ رب کے لفظ کی وضاحت ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں یہ لفظ بے شمار جگہ استعمال کیا ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ابتداء میں پہلی سورۃ میں ہی رب کے لفظ کو استعمال کر کے ہمیں اپنی طاقتوں اور قدرتوں کا اعلان فرما کر اپنے حضور جھکنے اور تمام فیض صرف اور صرف رب العالمین سے حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اسی طرح قرآن کریم کے آخر میں بھی فرمایا ہے کہ میں رب ہوں.ہر قسم کی برائیوں سے مشکلوں سے، ابتلاؤں سے، امتحانوں سے جن میں ذاتی بھی ہیں، معاشرتی بھی ہیں، دینی بھی ہیں، دنیا وی بھی ہیں ، ان سب سے اگر بچنا ہے تو میری پناہ میں آ جاؤ.اس کی تفصیل آخر میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں فرمائی.پس وہی ذات ہے جو حقیقی رب ہے، اس سے دور ہو کر نہ تمہاری دنیارہ سکتی ہے نہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم دین رہ سکتا ہے.578 خطبہ جمعہ 17 /نومبر 2006 ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رب العالمین کی وضاحت کرتے ہوئے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اس کا خلاصہ میں پیش کرتا ہوں.پہلی بات تو یہ کہ اس جہان کا خالق تمام نقصوں سے پاک ہے اور تمام خوبیاں اس کے اندر جمع ہیں.دوسرے یہ کہ وہ ہر چیز کی گنہ اور حقیقت سے واقف ہے.گزری ہوئی ، موجودہ اور آئندہ آنے والی ہر چیز کی حقیقت اس پر واضح ہے.سائنس دان ریسرچ کرتے ہیں ، نئی نئی معلومات دیتے ہیں، انکشافات کرتے ہیں تب بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کا علم کامل ہو گیا.ایک سائنسدان ایک نظریہ پیش کرتا ہے پھر عر صے بعد دوسرا اس کے رد میں مزید دلیلیں نکال دیتا ہے.سوائے اسے جسے خدا تعالی راہنمائی فرمائے.اور وہ بھی ایک حد تک علم حاصل کر سکتا ہے کسی چیز کا کامل احاطہ نہیں کر سکتا.تیسری بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کامل حمد کا مالک ہے.اور کامل حمد کا مالک ہو کر ہی رب العالمین کہلا سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں.چوتھی بات یہ بیان کی کہ انسان کے اندر جو بھی خصوصیات ہیں، لیاقت ہے، جسمانی یا روحانی ترقیات ہیں، یہ سب اس رب العالمین کے انعامات ہیں.انسان کو اپنے کسی فعل کی خوبی بیان کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنی چاہئے کیونکہ حقیقی تعریف کا وہی مستحق ہے.لیکن رب کی صحیح پہچان نہ رکھنے والے اپنی کامیابی کو، اپنے کسی اچھے کام کو اپنی بڑائی کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ مومن کا کام نہیں.پانچویں بات یہ بیان کی کہ حمد کور بوبیت اور عالمین سے جوڑ کر یہ بتایا کہ انسان کو حقیقی خوشی اس وقت ہونی چاہئے جب اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ظاہر ہو اور اس کو ظاہر کرنے کے لئے اس کی خواہش اور کوشش یہ ہوگی کہ صرف اپنے فائدے پر ہی خوش نہ ہوتا رہے بلکہ دنیا کے نقصان پر نظر رکھے اور ہر ایک کو آرام پہنچانے کی کوشش ہو.پس اپنے رب کا صحیح ادراک رکھنے والا کبھی کسی کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچتا.چٹھی بات یہ بیان کی کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے.یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواہر ایک کی ربوبیت قابل غور ہے اور ارتقاء کے قانون کے ماتحت ہے.اس میں Evolution ہے.یعنی دنیا میں کوئی چیز نہیں جس کی ابتداء اور انتہا یکساں ہو بلکہ ادنی سے ترقی کر کے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے اور پھر ایک حد تک پہنچ کر دوبارہ زوال شروع ہو جاتا ہے.قرآن کریم کی مختلف آیات میں اس ارتقاء کا بیان ہوا ہے.صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس میں کوئی تغیر نہیں.اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ خدا کے علاوہ تمام چیزیں مخلوق ہیں کیونکہ جو چیز ترقی کرتی ہے یا جس میں تغیر یا تبدیلی واقع ہوتی ہے وہ از خود kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 579 خطبہ جمعہ 17 نومبر 2006 ء نہیں ہو سکتی.دوسرے یہ بھی ثابت ہوا کہ ارتقاء کا جو مسئلہ ہے یہ بالکل درست ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو ادنیٰ سے اعلیٰ تک لے کر جاتا ہے اور ہر چیز اس دائرے کے اندر ہے.اور ساتویں بات یہ ہے کہ رب کے معنے کسی چیز کو مختلف وقتوں اور مختلف درجوں میں ترقی دے کر کمال تک پہنچانا ہیں.اس لئے ارتقاء بھی مختلف درجوں اور وقتوں میں حاصل ہوتا ہے.آٹھویں بات یہ ہے کہ ارتقاء اللہ تعالیٰ کے وجود کے منافی نہیں ہے بلکہ اس ترقی کی طرف قدم سے وہ قابل تعریف اور حمد کا مستحق ٹھہرتا ہے اور مومن ہر ترقی پر الْحَمْدُ لِلہ پڑھتا ہے.نویں بات یہ کہ انسان لا متناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اس کا قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہئے.علم میں آگے بڑھو، نیکیوں میں آگے بڑھو، عبادتوں میں آگے بڑھو اور پھر رب العالمین کا شکر ادا کرو کہ اس نے اپنی ربوبیت کے تحت ہمیں یہ مواقع عطا فرمائے.صوفیاء کی قسم کے بعض نام نہاد بزرگ ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو پالیا ہے اس لئے اب عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے، نمازوں کی بھی ضرورت نہیں ہے، جو حاصل کرنا تھا کر لیا.جبکہ صفت ربّ جو ہے وہ تو انسان کو انتہا تک کے راستے دکھاتی چلی جارہی ہے.اور آخری بات یہ ہے کہ اسلام کیونکہ رب العالمین کی صفت کا کامل مظہر ہے اور سب دنیا کی طرف آیا ہے، پہلے مذاہب کی طرح صرف ان خاص قوموں کی طرف نہیں آیا جن میں وہ نبی مبعوث ہوئے تھے، لہذا اسلام کے آنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی کامل حمد شروع ہوگئی ہے.یعنی اسلام ہے جو اس رب العالمین نے جسمانی عالم میں بھی اور روحانی عالم میں بھی اتحاد کے لئے اب بھیجا ہے.تمام قوموں کا ، تمام ملکوں کا ایک ہی خدا ہے جو رب العالمین ہے.پس اس رب کی طرف اکٹھا ہونے میں ہی آج دنیا کی بقا ہے اور نجات ہے.پس ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس رب کا جورب العالمین ہے، تمام جہانوں کا رب ہے ، وہ جو کائنات کی تمام مخلوق کو پیدا کرنے والا اور ان کو نقطہ انتہاء تک پہنچنے کی طرف لے جانے والا ہے، اس رب کا پیغام تمام دنیا کو پہنچا کر تمام دنیا کو اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کریں.یہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم ساری دنیا کو رب العالمین کی پہچان کروا سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ قرآن کریم کے شروع میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور آخر میں بھی ربوبیت پر قائم رہنے کی دعا سکھائی ہے تا کہ ایک مومن اس کو مالک گل اور معبود گل سمجھتے ہوئے ، اس کی طرف جھکتے ہوئے ہر شر سے اس کی پناہ میں رہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 580 خطبہ جمعہ 17 نومبر 2006 ء نے قرآن کریم میں سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک تقریبا تمام سورتوں میں ہی مختلف مقامات پر اپنی ربوبیت کا حوالہ دے کر احکامات دیئے ہیں یا دعا ئیں سکھائی ہیں.یہ سب باتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہر احمدی ستوں کو دور پھینکے ، اپنے رب کے ساتھ مضبوط تعلق جوڑے اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرے.کسی قسم کی تکلیف اور عارضی روکوں سے کسی احمدی کے قدموں میں کبھی لغزش نہ آئے.دیکھیں تکلیفوں کا جہاں تک ذکر ہے اس کے بارے میں بھی قرآن کریم نے اصحاب کہف کے بارے میں بتایا.اور قرآن کریم کے جو سیپارے ہیں اگر ان کی ترتیب دیکھی جائے تو یہ سورۃ قرآن کریم کے تقریبا نصف میں آتی ہے، اس میں انہیں لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے رب کی خاطر ، واحد و یگانہ رب کی خاطر تکلیفیں اٹھا ئیں، ظلم سے قبل ہوئے لیکن ہمیشہ اپنے رب کی پہچان کی ، اس کے آگے جھکے اور بالآخر اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنے.تو ایک تو ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں ہمیں اپنے رب کے ساتھ تعلق میں بہت مضبوط ہونا چاہئے.مشکلات کے جو حالات اصحاب کہف پر آئے اس کا تو کچھ بھی حصہ ہمارے حصہ میں نہیں آیا.لیکن انہوں نے ان حالات کے باوجود اپنے رب کو نہیں چھوڑا.ہم تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے دین کامل کیا ہے.جہاں احمدیت مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے وہاں بھی دوراتنا مشکل نہیں ہے جو دوران پر آئے تھے یا مختلف اوقات میں آتے رہے.اکثر احمدی جو ہیں وہ بڑے آسان اور آرام دہ حالات میں گزارا کر رہے ہیں اس لئے ہمیں سب سے زیادہ اپنے رب کی پہچان کرتے ہوئے ، اس کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اس کی طرف ہمیشہ جھکے رہنا چاہئے.ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے دین کامل کیا.ہمیں اُن لوگوں سے زیادہ اپنے رب کا فہم و ادراک دیا جتنا اصحاب کہف کو تھا.تو اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بڑھ کر ہماری مدد کرنے والا ہے ہر احمدی کو اپنے رب سے تعلق میں بڑھتے چلے جانا چاہئے.عسر اور کیسر تنگی اور آسائش ہر حالت میں یہ رب ہی ہے جس سے ہماری ترقیات وابستہ ہیں.پس ہر احمدی کو اس صفت پر غور کرتے ہوئے اپنے رب سے تعلق مضبوط تر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دوسرے ان مغربی ممالک میں ، بلکہ اب تمام دنیا میں ہی جو لوگ اپنے خدا کو بھولتے جارہے ہیں، ایک خدا کو چھوڑ کر ، جس کو اختیار کرنے کی وجہ سے ان کو انعام ملا تھا، تین خداؤں کے چکر میں آگئے اور پھر نتیجہ مذہبی طور پر عملاً ایک طرح سے دیوالیہ ہو گئے ، جو کہ ظاہر ہے اس حالت میں ہونا تھا اور پھر ان میں سے بہت بڑی تعداد خدا کی بھی منکر ہوگئی.تو مسیح محمدی کے ماننے والوں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 581 خطبہ جمعہ 17 /نومبر 2006 ء کا یہ کام ہے کہ اپنے رب کی صحیح پہچان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی یہ بتائیں کہ اُن مضبوط ایمان والوں کے اپنے رب کے ساتھ چمٹے رہنے کا نتیجہ تھا کہ آج عیسائیت دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.اس لئے اپنے خدا کی جو رب العالمین ہے پہچان کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے انبیاء کی صحیح تعلیم پر غور کرو، ان پیشگوئیوں پر غور کرو اور اس خاتم الانبیاء کو پہچانو جس کے بارے میں پیشگوئی تھی.یہی تمہاری نجات کا ذریعہ ہے، یہی تمہاری بے چینیوں کو دور کرنے کا حل ہے کیونکہ اس کے بغیر تمہاری زندگیوں میں سکون نہیں آسکتا.اور جیسا کہ میں پہلے وضاحت کر آیا ہوں کہ رب العالمین کے ماننے والے صرف اپنی بھلائی نہیں سوچتے بلکہ دوسروں کو بھی نقصان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.پھر اس کے بعد رب العالمین کا لفظ ہے.جیسا پہلے بیان کیا گیا ہے اللہ وہ ذات ( متجمع ) جميع صفات کا ملہ ہے جو تمام نقائص سے منزہ ہو اور حسن اور احسان کے اعلی نکتہ پر پہنچا ہوا ہو.“ یعنی تمام صفات اس میں مکمل طور پر جمع ہیں اور اس کی خوبصورتی انتہائی نقطہ کو پہنچی ہوئی ہے تا کہ اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں اور روح کے جوش اور کشش سے اس کی عبادت کریں.اس لئے پہلی خوبی احسان کی صفت رب العالمین کے اظہار سے ظاہر فرمائی ہے، جس کے ذریعہ سے کل مخلوق فیض ربوبیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے ،مگر اس کے بالمقابل باقی سب مذہبوں نے جو اس وقت موجود ہیں اس صفت کا بھی انکار کیا ہے.مثلاً آریہ جیسا ابھی بیان کیا ہے یہ اعتقادر کھتے ہیں کہ انسان کو جو کچھیل رہا ہے وہ سب اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور خدا کی ربوبیت سے وہ ہرگز ہرگز بہرہ ور نہیں ہے، کیونکہ جب وہ اپنی روحوں کا خالق ہی خدا کو نہیں مانتے اور ان کو اپنے بقاو قیام میں بالکل غیر محتاج سمجھتے ہیں، تو پھر اس صفت ربوبیت کا بھی انکار کرنا پڑا.ایسا ہی عیسائی بھی اس صفت کے منکر ہیں کیونکہ وہ مسیح کو اپنا رب سمجھتے ہیں اور رَبُّنَا الْمَسِيحَ رَبُّنَا الْمَسِيحِ کہتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو جَمِيعَ مَا فِي الْعَالَم کا رب نہیں مانتے یعنی اللہ تعالیٰ کو پوری دنیا ، گل عالم ، گل کا ئنات کا رب نہیں مانتے.بلکہ مسیح کو اس کے فیض ربوبیت سے باہر قرار دیتے ہیں اور خود ہی اس کو رب مانتے ہیں.اسی طرح پر عام ہندو بھی اس صداقت سے منکر ہیں کیونکہ وہ تو ہر ایک چیز اور دوسری چیزوں کو رب مانتے ہیں.بر ہم سماج والے بھی ربوبیت تامہ کے منکر ہیں.کیونکہ وہ یہ اعتقا در کھتے ہیں کہ خدا نے جو کچھ کرنا تھا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 582 خطبہ جمعہ 17 /نومبر 2006 ء وہ سب یکبار کر دیا اور یہ تمام عالم اور اس کی قوتیں جو ایک دفعہ پیدا ہو چکی ہیں ،مستقل طور پر اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ ان میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا اور نہ کوئی ان میں تغیر و تبدل واقع ہو سکتا ہے.ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اب معطل محض ہے.اب اللہ تعالیٰ کا کوئی کام ہی نہیں رہا.غرض جہاں تک مختلف مذاہب کو دیکھا جاوے اور ان کے اعتقادات کی پڑتال کی جاوے تو صاف طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کے قائل نہیں ہیں.یہ خوبی جو اعلیٰ درجہ کی خوبی ہے اور جس کا مشاہدہ ہر آن ہو رہا ہے، صرف اسلام ہی بتاتا ہے اور اس طرح پر اسی ایک لفظ کے ساتھ ان تمام غلط اور بیہودہ اعتقادات کی بیخ کنی کرتا ہے جو اس صفت کے خلاف دوسرے مذاہب والوں نے خود بنالئے ہیں.“ الحکم 10 مئی 1903 ء صفحہ 2.ملفوظات جلد دوم صفحہ 35-36.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہر آن ہر احمدی کو رب العالمین کے مشاہدہ اور عرفان میں بڑھاتا چلا جائے اور دوسروں کو بھی اس خدا کی پہچان کرانے والا بنائے تا کہ تمام دنیا صرف اور صرف ایک خدا کی عبادت کرنے والی ہو اور اس کی شکر گزار بن جائے جو ہم سب کا رب ہے اور رب العالمین ہے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 24 /نومبر 2006 ء 583 (47) خطبات مسرور جلد چهارم مسلمانوں نے زمانے کے امام کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کو محدود کر دیا ہے اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین کے مختلف معانی کا پر معارف تذکرہ فرمودہ مورخہ 24 نومبر 2006ء (24 رنبوت 1385 ھش ) مسجد بیت الفتوح، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ خطبے میں میں نے اللہ تعالیٰ کی صفت رب کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے کچھ وضاحت کی تھی اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھا تھا، اسی مضمون کو آج بھی جاری رکھوں گا.اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رب العالمین کی صفت کی جو وضاحت فرمائی تھی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس میں تمام صفات جمع ہیں، وہ بھی جن کا ہمیں علم ہے اور وہ بھی جن کا ہمیں علم نہیں اور یہ تمام صفات انتہائی نقطہ کمال تک پہنچی ہوئی ہیں.وہ ہر نقص سے پاک ہے اور حسن و احسان کے اعلیٰ نقطے پر پہنچا ہوا ہے جو اس کی صفات سے ظاہر ہوتا ہے.یہ حسن اور احسان خوبصورتی کے اُس اعلیٰ نقطہ تک پہنچا ہوا ہے کہ جس کا انسان احاطہ نہیں کر سکتا.رب العالمین کے بندے پر جو انعامات اور فضل ہیں یہ خالصہ اللہ تعالیٰ کی دین ہیں نہ کہ بندے کا کمال، یہ ایک ایسا احسان ہے جس کا مقابلہ تو کیا احاطہ بھی نہیں کیا جا سکتا.آپ فرماتے ہیں کہ احسان کی یہ صفت رب العالمین کے اظہار سے ظاہر فرمائی ہے اور اس صفت ربوبیت سے اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق جو اس کا ئنات میں موجود ہے، جسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے ، جو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 584 خطبہ جمعہ 24 /نومبر 2006 ء سائنس دانوں کے علم میں آئی ہے یا نہیں آئی ، یہ سب فائدہ اٹھا رہی ہے.اگر انسان اپنے پر ہی نظر ڈالے تو روز مرہ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات نظر آتے ہیں.کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان ایسے تجربات سے گزرتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور احسان کی وجہ سے اس واقعہ کے بدنتائج سے محفوظ رہتا ہے.کئی لوگوں کے ساتھ حادثات ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ایسا حادثہ ہوا ہے اور کار کا اس طرح حال ہوا تھا کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اس حالت میں اندر بیٹھی ہوئی سواریاں بیچ کس طرح گئیں ؟ خراش تک نہیں آئی اور صحیح سالم باہر آ گئیں.تو ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں.میرے ساتھ بھی غانا میں کئی ایسے واقعات ہوئے جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی صفت رب پر یقین بڑھتا ہے، بعض دفعہ وہاں کے حالات ایسے خراب ہوتے تھے کہ بہت ساری ضرورت کی چیزیں مہیا نہیں ہو سکتی تھیں لیکن حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہمارا اور بچوں کا سامان کرتا رہا، پرورش فرما تا رہا، بہت سارے مواقع پر خطر ناک حالات سے محفوظ رکھا.اس کے علاوہ بھی زندگی میں کئی مواقع آتے ہیں اور یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے.اگر ہر ایک اپنے پر نظر ڈالے تو اللہ تعالیٰ کی صفت رب ہی ہے جو بہت ساری باتوں سے اسے محفوظ رکھتی ہے، بچاتی ہے، اسکی پرورش کرتی ہے اور جس کے احسانوں کے نیچے انسان دبا ہوا ہے.رب العالمین صرف مشکل سے ہی نہیں نکال رہا بلکہ احسان یہ ہے کہ اسکے ساتھ انعامات کی بارش بھی ہورہی ہے.صرف تکلیف دور کرنے کا احسان نہیں ہے بلکہ انعامات سے نوازنے کا احسان بھی ہے.اگر دل مردہ نہ ہو جائیں اور احساس مر نہ جائیں تو انسان اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور بوبیت کا کبھی شمار نہیں کر سکتا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں توجہ دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ساتھ یہ علی نقطہ پر پہنچا ہوا احسان کا جو سلوک ہے، یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور ایک مومن بندے کی اس طرف توجہ ہونی چاہئے کہ وہ اس ذات کی طرف کھنچے اور متوجہ ہو جس کے انعاموں اور احسانوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے.اور اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے اس کے ایسے عبادت گزار بنیں اور اس کی ایسی عبادت کریں جو روح کے جوش سے ہو رہی ہو ایسی عبادت ہو جس میں ایک کشش ہو ، صرف خانہ پری والی عبادت نہ ہو.پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے شکرانے کا اظہار جو ایک مومن بندے کی طرف سے ہونا چاہئے.اس مضمون کے مختلف پہلو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کہاں کہاں اور کس طرح کام کرتی ہے.بیشمار جگہ پر اس کا ذکر ہے.احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے بندے کو نوازتا ہے.پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی مختلف زاویوں سے ہمیں کھول کر بتایا ہے کہ اس صفت کے تحت اللہ تعالیٰ کتنے احسانات kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 585 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006ء اور انعامات سے نواز رہا ہے.پرانے مفسرین میں علامہ رازی کی بھی اچھی تفسیر ہے.انہوں نے اس بات کی جو تفسیر کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے اس وجہ سے کہ وہی ہے جو ہر چیز کو جب تک وہ برقرار اور باقی ہے، بقا عطا کر رہا ہے.یعنی وہی قائم رکھتا ہے، وہی سہارا دیتا ہے، پیچ راستے پر ڈالتا ہے، کسی بھی چیز کی بقا کے لئے جو کچھ ضروری ہے وہ مہیا فرمارہا ہے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ مُربّی یعنی پرورش اور تربیت کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو اس غرض سے پرورش اور تربیت کرتے ہیں تا وہ مُربی خود اس سے فائدہ اٹھائے.یعنی تربیت کرنے والا خود اُس سے فائدہ اٹھائے جس کی وہ تربیت کر رہا ہے.دوسرے وہ جو اس غرض سے پرورش کرتے ہیں تا وہ شخص جس کی پرورش کی جارہی ہے وہ فائدہ حاصل کر سکے ( ذاتی فائدہ نہ ہو بلکہ دوسرے کے فائدہ کے لئے ) تو کہتے ہیں کہ مخلوقات میں سے سب کی تربیت و پرورش پہلی قسم کی ذیل میں آتی ہے کہ انسان اگر کسی کی پرورش کر رہا ہے تو اسلئے کر رہا ہے تا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے.کیونکہ وہ دوسرے کی پرورش اور تربیت اس مقصد سے کرتے ہیں تا اس سے خود بھی فائدہ اٹھا ئیں خواہ یہ فائدہ از قسم جزا ہو یا تعریف و مدح میں ہو.یعنی چاہے اس سے ایسا فائدہ پہنچ رہا ہو جو ظاہری و مادی فائدہ ہو یا اس لئے کسی کو رکھا ہو.بعضوں نے اپنے ساتھ لوگ رکھے ہوتے ہیں، تعریف کرنے کیلئے حوالی موالی اکٹھے کئے ہوتے ہیں.جبکہ دوسری قسم کا مربی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! میں نے تمہیں اس لئے پیدا کیا تا کہ تم مجھ سے فائدہ حاصل کرو نہ کہ اس غرض سے کہ میں تم سے فائدہ اٹھاؤں.پس اللہ تعالیٰ دیگر تمام پرورش کرنے والوں اور احسان کرنے والوں کے برخلاف پرورش و تربیت کرتا اور احسان فرماتا ہے.پھر وہ آگے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے غیر کی ربوبیت کئی جہتوں سے مختلف ہوتی ہے.ایک فرق تو یہ بیان کر دیا جو میں نے پہلے پڑھا ہے.دوسرا فرق یہ ہے کہ کوئی بھی غیر اللہ جب کسی کی تربیت کرتا ہے تو جتنی اسکی تربیت کرنا چاہے اس کے خزانے میں اتنی کمی واقع ہوتی جاتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ نقصان اور کمی کے عیب سے بہت بلند و بالا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (الحجر:22) پھر تیسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو دیگر محسن ہیں جب کوئی محتاج ان کے سامنے اپنی ضرورت کے لئے اصرار کرے تو ناراض ہو جاتے ہیں اور اس غریب، ضد کرنے والے کو اپنی عطا سے محروم کر دیتے ہیں.جبکہ اللہ تعالیٰ کا سلوک اس سے برعکس ہے.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّ اللهَ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 586 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006 ء تَعَالَى يُحِبُّ الْمُلَحِيْنَ فِی الدُّعَاءِ یعنی اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو دعا میں الحاح اور تکرار کرتے ہیں.چوتھا فرق یہ ہے کہ ماسوی اللہ حسنین ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان سے مانگا نہ جائے وہ نہیں دیتے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تو کسی سوال کرنے والے کے سوال سے قبل ہی عطا کر دیتا ہے.چنانچہ دیکھ لیں جب آپ ماں کے پیٹ میں جنین تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی پرورش کی اور اس وقت بھی کی کہ جب آپ عقل سے عاری تھے اور سوال کر ہی نہیں سکتے تھے.یعنی اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی آپ کی حفاظت کی اور احسان فرمایا جبکہ آپ عقل و ہدایت سے محروم تھے.پانچویں بات یہ کہ ماسوی اللہ محسن کا احسان اس محسن کے فقر، غیر حاضری یا موت کی وجہ سے منقطع ہو جاتا ہے.یعنی جو احسان کرنے والا ہے اگر اس کے حالات خراب ہو جائیں یا موجود نہ ہو یا مر جائے تو احسان ختم ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا سلسلہ تو کسی صورت میں منقطع نہیں ہوتا.پھر یہ کہ اللہ کے سواحسن کا احسان دیگر قوموں کو چھوڑتے ہوئے صرف کسی ایک قوم تک محدود ہوتا ہے، اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ علی العموم تمام عالم کو اپنے احسان سے نوازے جبکہ اللہ تعالیٰ کے احسان اور تربیت کا فیض ہر ایک وجود تک پہنچ رہا ہے.جیسا کہ فرما یارَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف 157) کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.یہ تمام امور ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی رَبِّ الْعَالَمِین اور تمام مخلوقات کو اپنے احسان کا فیض پہنچانے والا ہے.اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن فرمایا ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جسمانی فائدہ پہنچارہا ہوتا ہے وہاں روحانی فائدہ بھی پہنچاتا ہے.اور صرف یہی نہیں کہ جسمانی فوائد ہی دے رہا ہے بلکہ مختلف قوموں میں مختلف جگہوں پر مختلف حالات میں اللہ تعالیٰ مصلح اور نبی بھیجتارہتا ہے تا کہ انسانوں کی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ صفت رب، ربوبیت اور تربیت کی طرف اشارہ کرتی ہے.آخری سورتوں میں صفت رب کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے آئندہ آنے والے زمانے میں بھی انسان کی تربیت کا وسیلہ بنایا ہے.جیسا کہ وہ ماقبل بھی انسان کی تربیت کرتا چلا آ رہا ہے.یا گویا بندوں کی زبان سے کہا گیا ہے کہ اے میرے اللہ تربیت و احسان تیرا کام ہے، پس تو مجھے فراموش نہ کرنا اور میری امید کو نا مراد نہ کرنا.سورۃ الفلق اور الناس کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ اس میں صفت رب کا ذکر یہ بتانے کے لئے کیا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ وہ ذات ہے جس کی ربوبیت اور احسان ، اے بندے ! تجھ سے کبھی بھی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 587 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006 ء منقطع نہ ہوگی.پس یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آئندہ بھی نبوت کا راستہ کھلا ہے مصلح کا راستہ کھلا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تربیت کے لئے مبعوث فرماتا ہے، جس کو دوسرے مسلمان نہیں مانتے.تو رب کی صفت پر اگر یقین ہو اور ایمان ہو تو پھر اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالی آئندہ بھی نبی بھیج سکتا ہے جبکہ ہمارے دوسرے دوست کہتے ہیں کہ نہیں بھیجتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تمام دنیا کا خدا ہے.اور جس طرح اس نے تمام قسم کی مخلوق کے واسطے ظاہری جسمانی ضروریات اور تربیت کے مواد اور سامان بلا کسی امتیاز کے مشترک طور پر پیدا کئے ہیں اور ہمارے اصول کے رُو سے وہ رب العالمین ہے اور اس نے اناج ، ہوا، پانی ، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں اسی طرح وہ ہر ایک زمانے میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتا فوقتا مصلح بھیجتا رہا ہے.جیسے علامہ رازی نے بھی لکھا تھا کہ سوال کرنے والے کے سوال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ جب دیکھ لیتا ہے کہ دنیا بگڑ رہی ہے، حالات خراب ہو رہے ہیں تو اس وقت مصلح بھیج دیتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جن قوموں یا مذ ہبوں کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی کو خاص کیا ہوا ہے جیسا کہ (اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس میں آریوں کا اور یہودیوں یا عیسائیوں کا ذکر کیا ہے ) ان کا خیال یہ ہے کہ صرف انہیں میں ہی مصلح آ سکتے ہیں، انہیں میں نیک لوگ پیدا ہو سکتے ہیں، انہیں میں نبی آ سکتے ہیں، اسرائیلیوں سے باہر کوئی نبی نہیں آ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ اس بات سے اللہ تعالیٰ کو تمام جہانوں کا رب نہیں سمجھتے لیکن اسلام کے خدا کا تصوررت العالمین کا ہے، اسلئے قرآن کریم کی ابتداء ہی اس لفظ سے ہے.آپ فرماتے ہیں: ” پس ان عقائد کے رد کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِین اور جابجا اس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں.بلکہ خدا نے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا اور قرآن شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے اُن کے مناسب حال ان کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے.وَاِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر : 25 ) کہ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 588 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006ء فرمایا کہ سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لا نا ہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ ربّ العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے.ہر جگہ کا، ہر ملک کا رب ہے.اور تمام ملکوں کا وہی رب ہے اور تمام فیضوں کا وہی سر چشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتے ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے.خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے.یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا.یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی.یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا.پس اس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھیرایا.“ پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 442,441) پس اس زمانے میں ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے نتیجہ میں ہمیں یہ فیض ملا.اس سے ہم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگ میں اپنی اس صفت کے بارے میں ذکر فرمایا ہے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بھی ذکر کیا تھا کہ بیسیوں جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت رب کا ذکر فرمایا ہے اور مومنوں کو مختلف طریقوں سے یہ احساس دلایا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ تمہاری بقا اور تمہاری سلامتی چاہے وہ جسمانی ہو یا روحانی ہو، اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ سب میری ذات سے وابستہ ہے، میں جو تمہارا رب ہوں اس لئے ہمیشہ میری طرف جھکو اور مجھ سے مانگتے رہو.فرمایا کہ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَخِرِيْنَ (المؤمن :61 ) اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا.یقینا وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ یاد رکھو تمہاری ضروریات کو پورا کرنے والا میں ہوں.اب تک جو کچھ تمہیں ملا اور تم نے زندگی گزاری وہ میرے احسانوں کی وجہ سے تھا، میرے انعاموں کی وجہ سے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 589 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006 ء تھا.اس لئے ہمیشہ یاد رکھو کہ کسی اور کے حضور نہیں جھکنا بلکہ ذہن میں ہمیشہ یہ رہنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات ہیں جو ہمارا رب ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمیشہ مجھے پکارو میں دعا ئیں سننے والا ہوں ، اپنی ضروریات میرے حضور پیش کرو میں ان کو پوری کروں گا.پس اگر میری عبادت نہیں کرو گے تو صفت ربوبیت کی وجہ سے جو دنیاوی ضرورتیں اللہ تعالیٰ پوری کر رہا ہے وہ کرتا رہے گا لیکن پھر قیامت والے دن ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا.اس لئے فرمایا ہمیشہ عبادت کی طرف توجہ دو.پھر فرماتا ہے اللهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ اللَّهَ لَدُوْ فَضْلِ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُوْنَ (المؤمن : 62 ) کہ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے رات کو بنایا تا کہ تم اس میں تسکین پاؤ اور دن کو دکھانے والا بنایا یقینا اللہ لوگوں پر بہت فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر انسان شکر نہیں کرتے.پچھلی آیت سے آگے یہ آیت ہے.اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنی صفت ربوبیت کے تحت ہماری تسکین کے لئے کتنے سامان ہمارے لئے مہیا فرمائے ہیں.پس یہ سب کچھ تقاضا کرتا ہے کہ اس کا شکر گزار بندہ بنا جائے.فرمایا دن اور رات بنا کر تمہارے کام اور آرام کے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں ، وقت کی تعیین کر دی.اگر کام اور آرام کے لئے تمہاری فطرت میں بعض باتیں رکھی تھیں تو وہ حالات بھی پیدا فرما دیئے ہیں جن سے تم زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکو، ان پر غور کرو اور شکر گزار بندوں میں سے بنو.پھر فرمایا ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلّ شَيْءٍ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّى تُوْفَكُوْنَ (المؤمن : 63 ) يه ہے اللہ تمہارا رب ، ہر چیز کا خالق ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پس تم کہاں بہکائے جاتے ہو.پھر دوبارہ وہی فرمایا کہ اتنے احسانات ہیں جن کو تم گن نہیں سکتے.پس یا درکھو کہ شکر گزار بندے بنتے ہوئے ، اس کے آگے جھکتے ہوئے اسی کی عبادت کرنی ہے.اس سے مانگنے کے لئے کسی اور رب کی تلاش نہ کرو.شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنے رب کے حکموں کی نافرمانی نہ کرو.ہمیشہ یا درکھو کہ وہی ایک معبود ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں.ورنہ تم اگر کسی اور کو معبود سمجھ رہے ہوتو پھر بھٹکتے پھرو گے.پھر فرمایا كَذلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِيْنَ كَانُوْا بِايْتِ اللَّهِ يَجْحَدُوْنَ (المؤمن : 64 ) اسی طرح وہ لوگ بہکائے جاتے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّ صَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَتِ ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ فَتَرَكَ اللهُ رَبُّ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 590 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006ء العلمين (المؤمن : 65 ) یعنی اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار کی جگہ بنایا اور آسمان کو تمہاری بقا کا موجب بنایا اور اس نے تمہیں صورت بخشی اور تمہاری صورتوں کو بہت اچھا بنایا اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق عطا کیا یہ ہے اللہ تمہارا رب.پس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو تمام جہانوں کا رب ہے.پس کسی کے بہکاوے میں آنے کی بجائے اس خدا سے تعلق جوڑو جس نے تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہاری بقا کے سامان پیدا فرمائے.زمین و آسمان کی بے شمار مخلوق تمہاری خدمت کے لئے لگائی تمہیں خوبصورت شکل عطا کی تمہیں رزق بخشا.یہ سب چیزیں، یہ سب باتیں تمہیں اس طرف توجہ دلاتی رہیں کہ تمہارا ایک رب ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کے آگے جھکے رہو گے تو انعامات میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا.شکر گزار بندے بنو گے تو اور اضافہ ہوگا، اور ملے گا، تمہاری جسمانی اور روحانی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں گی.پھر فرمایا هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّاهُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (المومن : 66 ) وہی زندہ ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اُسے پکارو.کامل تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.تو یہ ساری آیتیں لگا تار اسی طرف توجہ دلا رہی ہیں، ایک ہی سورۃ کی آیتیں ہیں اور ترتیب وار ہیں.پھر دوبارہ اسی پر زور دے رہا ہے، فرماتا ہے کہ ان جسمانی اور روحانی نعمتوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھو اور ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالص ہو کر اللہ کی عبادت کرو کیونکہ وہی زندہ خدا ہے، باقی ہر چیز کو فنا ہے.پس دنیا کی فانی چیزوں کے پیچھے نہ دوڑو بلکہ اس زندہ خدا سے تعلق جوڑ و وکل کا ئنات کا رب ہے کیونکہ اسی میں تمہاری روحانی اور جسمانی بقا ہے.پس اللہ تعالیٰ بار بار ہمیں جن مختلف انعاموں اور احسانوں کا ذکر فرما کر اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اسے ہی رب العالمین سمجھیں تو یہ سب ہماری بہتری کے لئے ہے اسے پتہ ہے کہ انسان جلد شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے اس لئے بچتا ر ہے.پس یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ہمارا رب جو بہت پیار کرنے والا رب ہے، ہمیں ہمارے بہتر انجام کے راستے دکھا رہا ہے کہ یہ راستے ہیں جن پر چل کر ہم اپنا انجام بہتر کر سکتے ہیں ورنہ شیطان تو راستے پہ کھڑا ہے.اللہ تعالیٰ کو جو ہمارا رب ہے اس کو تو ہماری کسی بات کی ضرورت نہ ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے نیک کاموں پر خوش تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس لئے نہیں کہ اس کو ضرورت ہے کہ بندے اس کی تعریف کریں یا اس کی عبادت کریں.اس کی خوشی اس لئے ہے کہ اس کے بندے نیک رستے پر چلنے والے ہیں، جہنم کے عذاب سے بچنے والے ہیں.اپنے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 591 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006 ء نیک بندوں اور جوسید ھے راستے پر لوٹ آنے والے ہوں، کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو اس ماں سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جس کو اپنے گم شدہ بچے کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے.نیک کام کرنے پر ہمارا رب کس طرح نوازتا ہے، اس کا ایک حدیث میں ذکر آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو پاک کمائی میں سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کرے اور پاکیزہ چیز ہی اللہ کی طرف جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے پھر اسے بڑھاتا جاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے پچھیرے ( گھوڑے کے بچے ) کی پرورش کرتا ہے.(بخاری کتاب التوحيد باب قول الله تعالى تعرج الملئكة والروح اليه وقوله اليه يصعد الكلم الطيب.) گھوڑے کا بچہ تو ایک عمر تک آ کے رک جاتا ہے.فرمایا یہ جو تم صدقے کرتے ہو وہ یہاں تک بڑھاتا ہے کہ وہ پہاڑ جیسا بڑا ہو جاتا ہے.تو یہ ہیں ہمارے رب کے احسان کرنے کے معیار.کیا ایسے رب کو چھوڑ کر بندہ کسی اور طرف جانا پسند کرے گا یا کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.لیکن لاشعوری طور پر ہم سے کئی ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہوتی ہیں، اس کی تعلیم کے خلاف ہوتی ہیں، اس کے احکامات کے خلاف ہوتی ہیں.تو اس لئے ہمیشہ اس کی مغفرت طلب کرتے رہنا چاہئے اور مغفرت طلب کرنے کے راستے بھی ہمارے اسی رب نے ہمیں دکھائے ہیں اور سکھائے ہیں تا کہ یہ انعاموں اور احسانوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ میرے سے استغفار کرتے رہو، میرے سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہوتا کہ میں تم پر انعامات اور احسانات کی بارش کرتار ہوں.پس اس زمانے میں ہر احمدی کو چاہئے کہ ہمیشہ رَبُّنَا اللہ کو اپنے ذہن میں دو ہرا تار ہے، جبکہ ہر ایک نے بہت سے رب بنائے ہوئے ہیں جو ظاہری نہیں چھپے ہوئے ہیں، شرک انتہا کو پہنچا ہوا ہے، زمانے کے امام کا انکار کر کے خود مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کو محدود کر دیا ہے اور کر رہے ہیں کہ زمانے کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی نبی نہیں بھیج سکتا جبکہ اس کی ضرورت ہے.ایک طرف ضرورت کا اظہار کر رہے ہیں، دوسری طرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے بھی انکاری ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے میں اس صفت کے تحت بغیر مانگے بھی دیتا ہوں اور حالات کو بہتر کر رہا ہوتا ہوں، تو یہاں مانگا بھی جا رہا ہے تب بھی نہیں دے رہا اس لئے کہ خود انہوں نے اس صفت کو محد و دکر دیا ہے.جو آیا ہوا ہے اس کو مانے کو تیار نہیں ، یہ تصور ہی نہیں کہ کوئی نبی یا مصلح آ سکتا ہے اور یہ لوگ پھر اس کا نتیجہ بھی بھگت رہے ہیں، بے امنی اور بے سکونی کی کیفیت خاص طور پر مسلمان ملکوں میں ہر جگہ طاری ہے، تو ان حالات میں ایک احمدی ہی ہے جسے اپنے اللہ کی ربوبیت کا صحیح فہم و ادراک ہے اور ہونا چاہئے.kh5-030425
592 خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم اگر ہم نے بھی اپنے فرض ادا نہ کئے ، اپنی عبادتوں کو زندہ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہ بنے اور اس انعام اور احسان کی قدر نہ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر مایا ہے اور اس تعلیم کے مطابق اپنے آپ کو نہ ڈھالا جو آپ نے ہمیں دی ہے اور جو آپ ہم پر لاگو کرنا چاہتے تھے، ہم میں دیکھنا چاہتے تھے، جس کی آپ ہم سے توقع رکھتے ہیں، تو ہمارے دعوے پھر صرف دعوے ہی ہوں گے کہ ہم نے اپنے رب کو پہچان لیا ہے اور ہم اس کی عبادت کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ صرف دعووں پر تو جو زائد انعامات ہیں وہ نہیں دیا کرتا ، اللہ تعالیٰ نے کہا ہے خالص ہو کر میرے آگے جھکو.اللہ کرے کہ ہم حقیقی معنوں میں اپنے رب کی پہچان کرنے والے ہوں تا کہ دوسروں کو بھی اس حسن سے آگاہ کر سکیں اور دنیا میں ایک رب کی عبادت کرنے والے زیادہ سے زیادہ پیدا ہوں تا کہ امن اور سکون قائم ہو.kh5-030425
خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء 593 (48) خطبات مسرور جلد چهارم یا درکھیں جب اس زمانے کے پکارنے والے اور مسیح و مہدی کی آواز کو سنا ہے تو تمام دوسرے رتوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے صرف اور صرف رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جورب العالمین ہے سامنے جھکنا ہوگا اور اس کی تسبیح کرتے ہوئے اور اس کی حمد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنی ہوں گی فرمودہ مورخہ یکم دسمبر 2006 ء ( یکم فتح 1385 هش) مسجد بیت الفتوح ، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: قُلْ إِنِّي نُهِيْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَ نِيَ الْبَيِّنَتُ مِنْ رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنِ (المؤمن : 67) گزشتہ خطبے میں صفت رب کا ذکر کرتے ہوئے میں نے بعض آیات پیش کی تھیں جن میں اللہ تعالیٰ کے ان حکموں پر توجہ دلائی گئی تھی جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو میری عبادت کی طرف توجہ کر دور نہ یاد رکھو کہ اپنے انجام کے تم خود ذمہ دار ہو گے.اللہ فرماتا ہے کہ دیکھو میں تمہیں واضح طور پر بتا چکا ہوں کہ تمہارا خدا ایک واحد و یگانہ خدا ہے جو تمہارا رب ہے اور جو رَبَّنَا کی آواز پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے.پھر صرف ضرورت کے وقت لگائی ہوئی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 594 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء تمہاری صداؤں اور دعاؤں کا ہی کیا ذکر ہے، تمہارے مانگے بغیر ہی تمہارے دنیاوی آرام و آسائش کے لئے تمہارے سکون کے لئے رات اور دن بنا کر ہر ایک انسان پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا ہے، اور ایک بہت بڑا احسان ہے.اس احسان کے بدلے میں ایک مومن بندے سے سوائے شکر کے جذبات کے کسی اور اظہار کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے ایک مومن سے کسی دوسرے اظہار کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی.پس اس شکر گزاری کے جذبات کے نتیجہ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب ہے اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے اور کبھی کوئی ایسا موقع نہ آئے جب تم شیطان کے بہکاوے میں آ جاؤ.اس لئے ہوش کرو اور ہمیشہ ان نعمتوں کو یاد کرتے رہو جن میں زمین و آسمان اور اس کے اندر اور درمیان کی کائنات کی ہر چیز شامل ہے اور جس میں اس نے تمہاری بقا کے سامان مہیا کئے ہوئے ہیں.پھر تمہاری جسمانی ساخت ہے، تمہارے قوی ہیں، تمہارے اعضاء ہیں، تمہاری اچھی شکلیں ہیں، تمہارے کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے کے لئے بے شمار رزق اور نعمتوں کی قسمیں تمہیں مہیا کی ہیں.دیکھیں فصلوں میں سے ہی اللہ تعالیٰ نے جو ہمارا رب ہے، ہمارے لئے مختلف قسم کی چیزیں مہیا فرمائی ہیں ،کھانے کے لئے خوراک کا بھی انتظام ہے جس کی بے شمار قسمیں ہیں، پینے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ کی نباتات میں سے ہی مہیا ہو جاتے ہیں تن ڈھانپنے کے لئے کپڑوں کا انتظام ہے وہ بھی فصل میں سے مہیا ہو جاتا ہے.پھر خشکی اور تری کے پرندے اور جانور ہیں، اُن میں بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے کے سامان مہیا فرمائے ہیں.سمندر کے پانی کے اندر رہنے والی چیزوں میں بھی ہسمندر کے اوپر بھی ، پانی کے اوپر رہنے والے پرندوں میں سے بھی اور خشکی میں رہنے والے پرندوں اور جانوروں میں سے بھی.پھر ان میں سے کھانے کے سامان کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں کے لئے پینے کے سامان بھی مہیا فرمائے ہیں.سردی گرمی سے بچانے کے لئے بھی جانوروں میں سے سامان مہیا فرمایا اور سواری کے سامان بھی مہیا فرمائے ہیں.خوبصورت لباس مہیا کرنے کے لئے ہمارے رب نے ایک کیڑے کو اس کام پر لگایا ہوا ہے جو محنت کرتا ہے اور ہمارے لئے اچھا ریشم مہیا کرتا ہے، جس کو پہن کر اکثر لوگ بجائے شکر گزاری کے جذبات کے اس کو اپنے لئے بڑائی اور تفاخر کا ذریعہ بنالیتے ہیں.پھر اس زمانے میں اگر جانوروں کو سواری کے استعمال کے لئے متروک کیا یا کم استعمال میں آئے تو زمین سے ایک ایسی توانائی مہیا کر دی جس کی مدد سے زمین کے سفر بھی آسان ہو گئے ہیں ، سمندر کے سفر بھی آسان ہو گئے ہیں، فضاؤں کو بھی اس کی مدد سے انسان نے منظر کر لیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمین و آسمان کی جو نعمتیں مہیا فرمائی ہیں، زمین و آسمان کی جو چیزیں ہمارے رب نے ہماری خدمت کے لئے لگائی ہوئی ہیں یہ بے شمار ہیں جن کے نام لیتے چلے جائیں تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 595 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء افسوس ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کی بجائے کہ کن کن انعامات سے اس نے انسان کو نوازا ہے، اللہ تعالیٰ سے جو رب العالمین ہے منہ موڑ رہی ہے.لیکن یہ چیز ایک احمدی سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اُس کا شکر گزار بنتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے طریق پر اس کی عبادت کی جائے.نظر دوڑا کر دیکھ لیں ، غور کر کے دیکھ لیں ، ہمیں صرف اور صرف وہی ایک رب نظر آئے گا جو قرآن کریم نے ہمیں دکھایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی طرف رہنمائی فرمائی ہے یہی وہ رب ہے جو ہمیں یہ ساری نعمتیں مہیا فرمارہا ہے جورب العالمین ہے.پس وہی ہے جو یہ سب نعمتیں دینے کی وجہ سے تعریف کا حقدار ہے اور عبادت کے لائق ہے نہ کہ چھوٹے چھوٹے رب جو انسان نے بنائے ہوئے ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے جو کچھ بھی دینے کی طاقت نہیں رکھتے اور جن کو اپنے آپ کو بچانے اور سنبھالنے کے لئے دوسروں کی مدد کی ضرورت ہے.پس ان سب باتوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تعلیم اتار کر یہ اعلان کروا دیا، جیسا کہ میں نے پہلے تلاوت میں کہا تھا قُلْ إِنِّي نُهِيْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ کہ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اُن کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، کسی اور کے آگے جھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سیدھا راستہ دکھائے جانے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا کہ میں نافرمانوں میں شامل ہو جاؤں.میں اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھ چکا ہوں جو میرے ایمان کو مضبوطی بخشتے ہیں.پس میں اللہ کے حکم سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَبِّ الْعَلَمِيْن کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کا کامل فرمانبردار ہو جاؤں.میں نا شکر گزارلوگوں کی طرح ، رب کی پہچان نہ کرنے والے لوگوں کی طرح، غیر اللہ کی طرف نہیں جھک سکتا.اتنے روشن نشانوں اور اپنے رب کے اتنے احسانوں کے بعد سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں کسی اور کی عبادت کروں.پس اب ہمارے قدم اسی رب العالمین کی عبادت کی طرف بڑھیں گے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد بے یار و مددگا اور بغیر کسی راہنما کے نہیں چھوڑ دیا.بلکہ اس زمانے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اپنے وعدے کے مطابق ہماری حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایک منادی کو اتار دیا ہے.جہاں اللہ تعالیٰ ہماری مادی اور ظاہری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی ربوبیت کے جلوے دکھا رہا ہے وہاں مسیح و مہدی موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی غذا کا بھی انتظام فرما دیا.ہمیں اپنی طرف آنے والے راستوں کی نشاندہی بھی کر دی ہے اور رہنمائی کرنے کے لئے ایک رہنما بھی عطا فرما دیا ہے.ہم اُس رہنما کو ماننے والے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَان کہ اے ہمارے رب یقیناً ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا ہے جو ایمان کی طرف منادی کر رہا تھا، جو تیری طرف سے بھیجا ہوا تھا اور ہم kh5-030425
596 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم اس کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں، تیرے اس انعام کی ہم قدر کر رہے ہیں اور تجھ سے ہی دعا مانگتے ہیں کہ اب ایمان میں بھی ہمیں کامل رکھنا.ایک ذی شعور انسان ، ایک عقل مند انسان ، ایک مومن جو اللہ تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ کر ایمان لایا ہے، جس کی رہنمائی فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، وہ یہ سب کچھ دیکھ کر اس بات کا نہیں سوچ سکتا کہ اپنے رب کا کامل فرمانبردار نہ بنے.پس احمدی کا یہ اعلان ہے اور ہونا چاہئے کہ ہم تو اپنے رب کے حکم کے مطابق جو رب العالمین ہے اس کے تمام حکموں پر عمل کرتے ہوئے کامل فرمانبرداری سے اس کے آگے جھکتے ہیں اور اس کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفَرْعَنَّا سَيَاتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَار ( آل عمران:194) کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری تمام برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے.ہم عاجزی سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اب جبکہ ہم نے اس امام کو مان لیا ہے، تیرے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہماری یہ دعا قبول فرما کہ ہم اب کبھی کسی قسم کی برائیوں میں نہ پڑیں، کسی بھی قسم کی غلطیوں کا ارتکاب ہم سے نہ ہو، ہمیشہ گنا ہوں سے بچتے رہیں، پس اے ہمارے خدا تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں ہر قسم کی برائیوں سے بچائے رکھ، جب ہمارا واپسی کا وقت آئے ، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا وقت آئے تو ہم میں سے ہر ایک کا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو نیک لوگ ہیں، ہمارا شمار ان لوگوں میں سے ہو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ایمانوں کو درست اور قوی کیا ، اپنے ایمانوں کو ہمیشہ دنیا کے گندا اور گردوغبار سے بچائے رکھا.لیکن یہ بات ہمیں ہمیشہ یادرکھنی چاہئے کہ اگر ہماری دعاؤں کے ساتھ ہمارے عمل مطابقت نہیں رکھتے ہوں گے تو پھر ہماری فرمانبرداری کبھی کامل فرمانبرداری نہیں کہلا سکتی اور جب کامل فرمانبرداری نہ ہو تو پھر دعا بھی نہیں رہتی بلکہ ہمارے منہ سے نکلے ہوئے کھو کھلے الفاظ ہوتے ہیں.پس ہمیں ہمیشہ اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ منادی کی آواز سن کر ہم جو اعلان کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم تجھے گواہ بنا رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ، کیا ہمارا یہ اعلان حقیقت پر مبنی ہے؟ کیا یہ کامل فرمانبرداری والا ایمان ہے؟ کیا ہم نے سچائی کو سمجھتے ہوئے اپنے رب کو گواہ بنا کر اس کو پکارا ہے؟ یا ماحول کے زیراثر یہ آواز لگائی ہے، یہ صدا دی ہے اور ہمیں صفت رب کا صیح طرح فہم و ادراک نہیں ہے اور یہ پکار صرف زبانی جمع خرچ ہے، کھوکھلا دعویٰ ہے، یہ کھوکھلا نعرہ ہمارے کسی کام نہیں آئے گا.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی طور پر اس روح کو سمجھنے کی توفیق دے جو اس دعا کے پیچھے ہونی چاہئے ، اپنے رب کو پکارتے ہوئے ہمیں اپنے اندر ایک درد کی کیفیت محسوس ہو ، ہم اپنے رب کو درد سے پکار کر اپنے آپ کو نیکوں میں شامل کرنے کی درخواست کر رہے ہوں، اللہ سے یہ دعا مانگ رہے ہوں کہ ہمیں حقیقی نیک بنا دے.پھر یہ بھی جائزے لینے ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں اور ہم کسی حد تک آپ کی خواہشات پر آپ کی تعلیم پر عمل کر رہے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم ہیں.597 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء جب ہم اپنے رب سے نیکیوں پر چلنے اور اس پر قائم رہنے کے لئے دعامانگتے ہیں تو اس نظر سے کہ وہ رب العالمین ہے اور ہمارے رب کے احکامات تمام زمین و آسمان پر لاگو ہیں.ہمارے رب کی تعلیم یورپ کے لئے بھی ہے اور امریکہ کے لئے بھی ہے، ایشیا کے لئے بھی ہے اور جزائر کے لئے بھی ہے.اسی طرح افریقہ کے لئے بھی ہے.اس کرہ ارض کے لئے بھی ہے اور تمام زمین و آسمان اور کائنات کے لئے بھی ،تمام کائنات اس کے تصرف میں ہے.جہاں بھی انسان موجود ہے یا آئندہ جب کبھی وہاں پہنچے گا تو ہمارے ربّ کے تمام حکم اس پر لاگو ہوں گے.اتنی وضاحت میں اس لئے کر رہا ہوں کہ میں جب خطبے یا تقریر میں کوئی بات کرتا ہوں تو بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ یہ ہدایت صرف اس جگہ کے لئے ہے جہاں خطاب ہو رہا ہے.ایک احمدی کا یہ رویہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ کسی بھی احمدی کو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ میں جس ملک میں خطبہ یا تقریر میں کوئی بات کروں جو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے حوالے سے ہے تو وہ صرف اسی ملک کے لئے ہے.بلکہ جہاں جہاں بھی احمدی موجود ہیں وہ سب اس کے مخاطب ہوتے ہیں.جب ہم یہ سمجھیں گے تو تبھی ہم میں یکرنگی پیدا ہوگی اور تبھی ہم ایک رب العالمین کے ماننے والے کہلا سکیں گے.گزشتہ دنوں میں ایک خطبہ میں نے عائلی تعلقات ، گھریلو ، میاں بیوی کے تعلقات اور ساس بہو کے تعلقات پر دیا تھا، پھر لجنہ اماءاللہ.UK کے اجتماع پر پردے کے بارے میں عورتوں کو توجہ دلائی تھی اور اس پر زور دیا تھا تو سنا ہے کہ بعض ملکوں میں بعض عورتیں اور مرد یہ پوچھتے ہیں یا آپس میں باتیں کر رہے ہیں کہ کیا یہ باتیں جن پر توجہ دلائی گئی ہے صرف U.K کے لئے ہیں یا ہم سب اس کے مخاطب ہیں.پہلے وقتوں میں تو شاید بعض خاص جگہوں کے لئے بعض باتیں کہی جاتی ہوں لیکن اب تو دنیا ہر جگہ قریبی رابطے ہونے کی وجہ سے ایک ہو گئی ہے اس لئے برائیاں بھی تقریباً مشترک ہو چکی ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہمیں MTA کی نعمت سے نوازا ہے تا کہ اس رب ، جورب العالمین ہے کی تعلیم سے ہٹنے والوں کو فوری طور پر توجہ دلائی جا سکے.اگر ایک جگہ برائی پھیل رہی ہے تو نیکی بھی فوری طور پر اس جگہ پہنچ جانی چاہئے.پس ہر احمدی جہاں کہیں بھی ہو، اگر تو یہ مجھتا ہے کہ وه وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَب العلمین یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کا کامل فرمانبردار ہو جاؤں ، کا مخاطب ہے تو پھر وہ باتیں جو ہمارے رب نے ہمیں بتائی ہیں، جو میں نے اپنے خطبے اور تقریر میں بیان کی ہیں اور جو مختلف وقتوں میں بیان کرتا ہوں وہ دنیا میں ہر جگہ کے احمدی کے لئے ہیں.اس لئے عمل نہ کرنے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں بلکہ ہر ایک کو اس کا مخاطب سمجھنا چاہئے.جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری اور اللہ کے حکموں پر عمل کرنے اور اس کی عبادت کی طرف توجہ رہے گی تو تبھی ہم kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 598 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء اپنے رب کو مخاطب کر کے نیکوں کے ساتھ وفات کے وقت شامل ہونے کی دعا کر رہے ہوں گے، یہ دعا کر رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اپنے تمام احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما تا کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جو کامل فرمانبردار ہوں اور صرف تیری عبادت کرنے والے ہوں اور جو فَادْخُلِي فِى عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِی ( الفجر : 30-31) کے انعام کے حاصل کرنے والے ہوں.ایک مومن کا کام تو یہ ہے کہ یہ مقام حاصل کرنے کے لئے ایمان لانے کے بعد، یہ اعلان کرنے کے بعد کہ میں ایمان لے آیا، رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ (النمل:20 ) ( کہ اے میرے رب تو مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے پر کی ہے ) کی دعا مانگتے ہوئے اس اللہ کے شکر گزار ہوں، اپنے رب کے شکر گزار ہوں جس نے ہم پر یہ فضل فرمایا ہے کہ ایمان کی توفیق بخشی.اور پھر اس کے ساتھ ہماری توجہ اس طرف ہونی چاہئے اور ہمیں یہ دعا کرنے والے ہونا چاہئے کہ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ (النمل: 20) کہ اے میرے رب ان نیک اعمال بجالانے کی مجھے توفیق دے جو تجھے پسند ہوں اور پھر اس کے نتیجہ میں تو ہمیں اپنی رحمت میں سمیٹتے ہوئے اپنے نیک بندوں میں شامل کر لے.رفضلوں.پس نیک نیتی سے یہ دعا کرنے والے اور اعمال صالحہ بجالانے والے اللہ تعالیٰ کے فض فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِی کا انعام حاصل کرنے والے ہوتے ہیں.پس جب ہم اپنے رب سے دعائیں مانگتے ہیں جو ہمارے رب نے ہمیں سکھائی ہیں تو ضروری ہے کہ اس کے لوازمات بھی پورے کئے جائیں اور یہ لوازمات جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے اعمال صالحہ ہیں.پس یہ کہنا کہ یہ خطبہ فلاں کے لئے ہے اور یہ تقریر فلاں کے لئے ہے، اپنے آپ کو اپنی دعاؤں سے محروم کرنے والی بات ہے.ایک طرف تو ہم کہیں کہ ہم اپنے رب سے دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں اپنا قریب ترین مقام عطا فرما لیکن دوسری طرف ہم کہیں کہ دعا تو یہی ہے لیکن یہ دعا ہم اپنی شرائط پر مانگنا چاہتے ہیں.دنیا میں بھی کہیں یہ طریق نہیں کہ مانگنے والے کہیں کہ مجھے دو بھی اور دو بھی میری شرطوں کے مطابق.ایسے شخص کو دنیا پاگل کے علاوہ اور کیا کہے گی ؟ ایسے شخص کو بیوقوف سمجھا جائے گا.لیکن دنیاوی معاملات میں بعض اوقات ہو بھی جاتا ہے.گزشتہ دنوں کسی نے مجھے لکھا کہ میرا رشتہ نہیں ہوتا ، نظارت رشتہ ناطہ پاکستان تعاون نہیں کرتا.جب میں نے رپورٹ لی تو پتہ لگا کہ رشتے تو کئی تجویز کئے ہیں لیکن پسند نہیں آئے اور وجہ یہ تھی کہ لڑکے نے کہا کہ رشتہ میری شرط کے مطابق ہونا چاہئے.خود یہ صاحب میٹرک پاس ہیں، تعلیم معمولی ہے اور شرط ی تھی کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو، ایم اے ہو اور کام کرتی ہو، کما کے لانے والی ہو، شادی پر مجھے مکان بھی ملے، دس بیس لاکھ روپیہ نقد بھی ملے ، میرا خرچ بھی اٹھائے اور پھر یہ کہ صرف خرچ ہی نہ اٹھائے بلکہ مجھے کام کرنے کے لئے نہ سرال والے اور نہ ہی لڑکی کچھ کہے، جب مرضی ہو کام کروں یا نہ کروں.تو ایسے شخص kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 599 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء کو ذہنی مریض کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے.ایسے رشتوں اور ایسے لڑکوں پر تو رشتہ ناطہ کو توجہ ہی نہیں دینی چاہئے تھی پتہ نہیں کیوں وہ تجویز کرتے رہے)، کیونکہ اگر ایسے لوگوں سے ہی واسطہ رہا تو رشتے ناطے کا عملہ بھی کہیں ذہنی مریض نہ بن جائے.افسوس ہے کہ خیر کا مطالبہ تو ہوتا ہے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرتا.لیکن عملی صورت بعض جگہ اس طرح نظر آ جاتی ہے کہ شادی کے وقت تو کچھ نہیں کہتے اور کوئی شرط نہیں لگاتے لیکن شادی کے بعد عملی رویہ یہی ہو جاتا ہے، بعضوں کی شکایات آتی ہیں.لڑکی والوں سے غلط قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں.اگر مرضی کا جواب نہ ملے اور مطالبات پورے نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور فساد اور لڑکیوں کو طعنے وغیرہ ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی عقل دے اور رحم کرے.پس ایک بے وقوف اور ظالم کے علاوہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہوتا ہے، کیونکہ انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر ظلم تو کوئی نہیں کر سکتا ) ایسا شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہوتا ہے.ایسے شخص کے علاوہ جس کو اپنے رب کی صفت ربوبیت کا کوئی فہم و ادراک نہیں ہے جس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے رب نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہوئے ہیں اور ہم پر احسان کرتے ہوئے جو احکامات دیئے ہیں ان پر عمل کر کے ہم ان دعاؤں سے فیض پاسکتے ہیں جو ہمارے رب نے ہمیں سکھائی ہیں، اس کے بغیر نہیں.تو ایک دعا جو سورۃ الشعراء کی تین آیات ہیں اس میں یہ سکھائی ہے کہ رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا والْحِقْنِي بِالصَّلِحِيْنَ وَاجْعَلْ لِى لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِيْنِ وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ (الشعراء: 84 تا 86) کہ اے میرے رب مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں میں سچ کہنے والی زبان مقدر کر دے اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا.پس ایسے لوگ جو اپنے رب کی پہچان نہیں رکھتے اور عقل سے عاری ہیں ان کی باتیں سن کر یہی دعا ہے جو ہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے کی تھی.پس ہمیں ہمیشہ اپنے رب سے عقل کی اور حکمت کی اور صحیح باتوں کو اختیار کرنے کی اور ان پر قائم رہنے کی دعامانگنی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ اعمال صالحہ بجالانے کی طرف توجہ رہنی چاہئے جس کی اللہ تعالیٰ نے بارہا ہمیں تلقین فرمائی ہے، بارہا ہمیں توجہ دلائی ہے اور بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کے علاوہ نیک لوگوں میں شامل ہونے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے، ان لوگوں میں شامل ہونے کا جو سچائی پر ہمیشہ قائم رہے، جنہوں نے سچ بات کہی ، شرک اور جھوٹ کے خلاف جہاد کر کے حقوق اللہ بھی قائم کئے اور حقوق العباد بھی قائم کئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے نیکیاں پھیلانے والے اور سچ کہنے والے بنے ، جن کو ہمیشہ اُن کی نیکیوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور پیچھے رہنے والے لوگوں میں بھی ان کی نیکیوں کی وجہ سے ان لوگوں کے تذکرے ہوتے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 600 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء ہیں اور ایسے لوگوں کی دعا قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی نعمتوں کا وارث بناتا ہے.پس سچائی کو قائم رکھنے اور بچوں میں شمار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ صحیح تعلیم اور حکمت پر قائم رہنے کی دعا کرتے رہیں.انبیاء کا دائرہ وسیع ہوتا ہے وہ اس دائرے میں اپنے رب سے مانگتے ہیں اور ہر مومن کا دائرہ ہر ایک کی اپنی استطاعت کے مطابق ہوتا ہے، اُن صلاحیتوں کے مطابق ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو عطا کی ہیں.لیکن سچائی کا بنیادی سبب ہمیشہ ہر ایک کو پیش نظر رہنا چاہئے تا کہ زندگی میں بھی اور بعد میں بھی بچوں میں ہی ذکر ہو اور ان کا بچوں میں ہی شمار ہو.پس اس پہلو سے بھی ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو، کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو سچائی کے خلاف ہو.اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اپنے رب کے احسانوں کا شکر ادا کر سکے اور اس کے انعاموں کا وارث بن سکے.ملازمت کرنے والا ہے یا کوئی بھی کام کرنے والا ہے تو محنت اور ایمانداری سے کام کرے، لوگوں سے معاملات ہیں تو ان کے حقوق کا خیال رکھے.جماعتی ذمہ داریاں ہیں، چاہے اعزازی خدمت کی صورت میں ہے یا وقف زندگی کارکن کی صورت میں ہے ان میں کبھی کسی قسم کی شستی یا سچائی سے ہٹی ہوئی بات سامنے نہ لائے.ہر ایک شام کو اپنا جائزہ لے تاکہ پتہ لگے کہ کس حد تک صدق پر قائم ہے، ضمیر گواہی دے کہ ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا اور راتیں بھی اس بات کی گواہی دیں کہ تقویٰ سے رات بسر کی.اگر دن اور رات میں ہماری سچائی اور تقویٰ کے معیار رہے تو کامیابی ہے لیکن اگر معیار گر رہے ہیں تو اس دعا کے حوالے سے کہ ہم نے آنے والے منادی کو سنا، منادی کو مانا یہ بات غلط ہو جائے گی ، یہ جھوٹ ہے، اپنے نفس سے بھی دھوکہ ہے اور خدا تعالیٰ جو ہمارا رب ہے اس سے بھی دھوکہ ہے.پس رَبَّنَا کی صدا تب قبولیت کا درجہ رھتی ہے جب سچے دل کے ساتھ تمام احکامات اور عہد بیعت پر قائم رہنے کی کوشش ہو.انسان کمزور ہے، غلطیاں کرتا ہے لیکن ان کو دُور کرنے کی کوشش کرنا اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگنا بھی ضروری ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا ( شاید گزشتہ خطبے میں یا اس سے پہلے ) کہ ہمارا رب اتنا مہربان ہے کہ اُس نے ہمیں بخشنے کے لئے ہمیں استغفار کے طریقے بھی سکھائے ہیں تا کہ ہم خالص ہو کر اس کے حضور جھکیں.اور اس کے حضور خالص ہو کر کی گئی استغفار کو اللہ تعالیٰ قبولیت کا درجہ دیتا ہے اور اسے قبول فرماتا ہے.فرماتا ہے قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَلَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْم (القصص : 17) اس نے کہا اے میرے رب یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ، پس مجھے بخش ، تو اس نے اسے بخش دیا یقیناً وہی ہے جو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو یہ جو دُعا یہاں بیان کی گئی ہے یہ قصہ کہانی کے طور پر نہیں لکھی گئی.بلکہ اس لئے بتائی ہے کہ اگر تم خالص ہو کر اپنے رب سے مانگو تو وہ تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا.پس جب دل سے دعا نکلے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق بخشش کا سلوک فرماتا ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 601 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء اللہ تعالیٰ ہر احمدی سے ایسا سلوک فرمائے اور ہر احمدی اپنے رب کی مغفرت کی چادر میں لپیٹنے کے بعد ہمیشہ اس حکم کا مصداق بن جائے اور اس پر عمل کرنے والا ہو کہ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السجدِينَ ( الحجر : 99) یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا.پس یا درکھیں جب اس زمانے کے پکارنے والے اور مسیح و مہدی کی آواز کو سنا ہے تو تمام دوسرے رتوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے صرف اور صرف رت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جورب العالمین ہے کے سامنے جھکنا ہوگا اور اس کی تسبیح کرتے ہوئے اور اس کی حمد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنی ہوں گی.ہمیں وہ سجدہ کرنا ہو گا جس کی اس زمانے کے امام نے ہمیں پہچان کروائی ہے.وہ سجدہ جو صرف اور صرف رب العالمین کے در پر کیا جاتا ہے کیونکہ وہی ایک رب ہے اور اس کے علاوہ کوئی رب نہیں جو کسی مومن کے دل میں بستا ہو یا کسی احمدی کے دل میں بس سکتا ہو.پس ایک احمدی کی توجہ ہر وقت اُس رب کے آگے جھکے رہنے کی طرف ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ : دیکھو دراصل ربنا کے لفظ میں تو بہ ہی کی طرف ایک بار یک اشارہ ہے کیونکہ ربَّنَا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور رتوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس رب کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا.رب کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو.اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہیں.بہت سے رب بنائے ہوئے ہیں.یہ رب کی جمع ہے.اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے رب ہوتے ہیں.اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے حسن یا مال یا دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا رب ہے.غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہوکر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور ربنا کی پُر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانہ پر نہ گرے، تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا.پس جب ایسی دل سوزی اور جاں گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے تو بہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ ربَّنَا یعنی اصلی اور حقیقی رب تو تو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے.اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں، تیرے آستانہ پر آتا ہوں.غرض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے جب تک انسان کے دل سے دوسرے رب اور ان کی قدر و منزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا.بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا رب بنایا ہوا ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں kh5-030425
602 خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم گزاراہی مشکل ہے.اس کے بغیر گزارا نہیں.بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہو کو اپنا رب بنائے ہوئے ہیں.ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں ہے.سوان کے ارباب وہ چیزیں ہیں.دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقعہ بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اس کا رزق آ سکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے.غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت؟ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اس در کے نہ ہو.اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے.غرض رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً....الخ ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ بیچ ہیں“.الحکم جلد 7 نمبر 11 مورخہ 24 مارچ 1903 ء صفحہ 9-10 ملفوظات جلد سوم صفحہ 144-145 جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے رب کی پہچان کروائے اور صرف اور صرف وہی ذات ہو جس کے آگے ہم سب سجدہ کرنے والے ہوں.kh5-030425
خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء 603 (49) خطبات مسرور جلد چهارم اللہ تعالی کی ربوبیت کسی خاص قو مر تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے فرمودہ مورخہ 08 / دسمبر 2006 ء(08 / فتح 1385 هش) بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: للہ تعالیٰ جورب العالمین ہے اُس کی صفت ربوبیت ایک تو عام ہے جس سے ہر انسان ، چرند، پرند بلکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اور ہر ذرہ فیض پا رہا ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : رب العالمین کیسا جامع کلمہ ہے اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 42 حاشیہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اور یہ کہہ کر حقیقت سے ہمیں خبر دے دی کہ وہ رب العالمین ہے یعنی جہاں تک آبادیاں ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے خواہ اجسام خواہ ارواح ان سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے.یعنی چاہیے مادی جسم ہو، چاہے روح ہو، اس کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے.جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے اور تمام عالموں پر ہر وقت، ہر دم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور جزا سزا کا جاری ہے.(کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 41-42 حاشیہ) kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 604 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء تو یہ اللہ تعالیٰ کا ایک عام فیض ہے جو ہر چیز کے حصے میں آ رہا ہے یا ہر چیز اس سے فیض پارہی ہے، حصہ لے رہی ہے، لیکن اس کی ربوبیت کا ایک امتیازی سلوک اُن لوگوں سے ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اور ان میں سب سے اول نمبر پر انبیاء علیہم السلام ہیں اور انبیاء میں سے سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آج میں اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کے بعض واقعات کا ذکر کروں گا جو اللہ تعالیٰ کے خاص سلوک کے حصہ دار بنے اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے تمام انعاموں کی طرح صفت ربوبیت سے بھی سب سے بڑھ کر فیض پانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.میں چند واقعات یہاں بیان کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کی خواہشات اور ضرورتوں کو پورا فرمایا کرتا تھا اور نہ صرف براہ راست آپ بلکہ آپ کی وجہ سے آپ کے صحابہ بھی اُن انعاموں سے حصہ لیتے تھے جو صفت ربوبیت کے تحت اللہ تعالیٰ آپ پر فرماتا تھا.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پیدائش کے وقت سے، بلکہ اس سے بھی پہلے سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا ایک روشن نشان ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر لحد رت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جلووں کی شان دکھانے والا ہے جس کا بیان نہ کسی طرح سمیٹا جا سکتا ہے، نہ ختم ہوسکتا ہے.اس میں روحانی معجزات کے جلوے بھی ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا پتہ چلتا ہے اور ظاہری مادی معجزات بھی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے پیارے کے ساتھ اپنی صفت کا اظہار فرمایا کرتا تھا.سب سے پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ربوبیت کے ایک عظیم روحانی جلوے کا ذکر کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” رب العالمین کی صفت نے کس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نمونہ دکھایا.آپ نے عین ضعف میں پرورش پائی.کوئی موقع مدرسہ، مکتب نہ تھا جہاں آپ اپنے روحانی اور دینی قومی کونشو و نما دے سکتے.کبھی کسی تعلیم یافتہ قوم سے ملنے کا موقع ہی نہ ملا.نہ کسی موٹی سوٹی تعلیم کا ہی موقع پایا اور نہ فلسفہ کے باریک اور دقیق علوم کے حاصل کرنے کی فرصت ملی.پھر دیکھو کہ باوجود ایسے مواقع کے نہ ملنے کے قرآن شریف ایک ایسی نعمت آپ کو دی گئی جس کے علوم عالیہ اور حقہ کے سامنے کسی اور علم کی ہستی ہی کچھ نہیں.جو انسان ذراسی سمجھ اور فکر کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھے گا اس کو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کے تمام فلسفے اور علوم اس کے سامنے بیچ ہیں اور سب حکیم اور kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 605 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006 ء فلاسفر اس سے بہت پیچھے رہ گئے.الحكم 17 اپریل 1900ء صفحہ 3.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد نمبر صفحہ (171) تو دیکھ لیں جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم زندہ کتاب تھی، اُس وقت اور اُن حالات کے مطابق اُن لوگوں کے لئے نصیحت تھی، اُن کے سوالوں اور اُن کی ضروریات کو پورا کر رہی تھی ، آج اس زمانے میں جب انسان کے سامنے نئے نئے مضامین اور ایجادات ہیں تو اس بارے میں بھی یہ کتاب خبر دے رہی ہے اور یہ سب معجزے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کسی دنیاوی علم اور فلسفے کو جاننے والے کا کام نہیں ہے بلکہ اس رب العالمین کا کام ہے جس نے پہلے دن سے ہی آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا.آپ کے اٹھنے بیٹھنے، آپ کے مزاج ، آپ کی تربیت کی انفرادیت اس زمانے میں بھی ہر ایک کو نظر آتی تھی.یہ سب تربیت کسی اکیڈمی کی یا کسی ادارے کی یا کسی شخص کی مرہون منت نہیں تھی بلکہ یہ تربیت، یہ سب ٹریننگ براہ راست اس رب العالمین کا کام تھا.تو آپ کے ان سب علوم کو نہ جاننے بلکہ پڑھنا تک نہ جاننے کی گواہی قرآن کریم نے دی ہے.پہلی وحی پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مَا أَنَا بِقَارِی کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا ، تو فرشتے نے تین دفعہ اپنے ساتھ لگا کر بھینچا لیکن ہر دفعہ آپ کا یہی جواب ہوتا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اقرأ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (العلق : 2 ) اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے سب اشیاء کو پیدا کیا ہے.اور پھر دیکھ لیں اس رب نے جس نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے، آپ کے ذریعہ سے علوم و معرفت کے وہ خزانے ہم تک پہنچائے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.اور معترضین ، جن میں آج کے پوپ بھی شامل ہو گئے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ قرآن نے نیا کیا دیا؟ اس پہلی وحی میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے یہ اعلان فرما دیا تھا کہ رب کا تصور تو ہر مذہب میں ہے لیکن ہر مذہب نے اس میں بگاڑ پیدا کر لیا ہے اور اس رب کے تصور کو بگاڑنے کے بعد چھوٹے چھوٹے رب پیدا کر لئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس بندے کے ذریعہ سے رب کی پہچان کرو جس کی ہر بات کا آغاز ہی اپنے رب کے نام کے ساتھ ہوتا ہے جو خالصتاً میری پرورش میں پروان چڑھا ہے اور اس کے علوم و معرفت کے کمالات کا منبع بھی میں ہی ہوں.لیکن جنہوں نے ظلم پر ہی کمر کس لی ہو اور جہالت اور بغض اور عناد ان کا شیوہ ہوان کو کچھ نظر نہیں آتا کہ کیا نئی چیز دی.قرآن نے پہلے ہی اس کا اعلان فرما دیا ہے کہ یہ جو تعلیم ہے ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی.ایسے لوگوں کو اس دشمنی کی وجہ سے قرآن کریم کے نشانات اور آیات بجائے فائدہ دینے کے اور اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ان کو خسارے میں بڑھا ئیں گے.پس یہ ان کی قسمت ہے.kh5-030425
606 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم بہر حال ربوبیت کے اس عظیم اظہار کے ذکر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روز مرہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے جو نظارے ہمیں نظر آتے ہیں، اس کا میں ذکر کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بیان تو کبھی ختم نہیں ہوسکتا تاہم چند واقعات پیش کرتا ہوں.ایک سفر کا واقعہ ہے جس کے دوران ایک قافلے نے ایک جگہ پڑاؤ کیا لیکن سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے فجر کی نماز کے لئے وقت پر کسی کی آنکھ نہیں کھلی، ساروں کی آنکھ دیر سے کھلی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے کوچ کرو، یہاں نہیں ٹھہر و.پھر کچھ فاصلے پر جا کر وضو وغیرہ کر کے نماز پڑھی گئی.اس کے بعد ایک صحابی نے پیاس کی شکایت کی کہ پیاس لگ رہی ہے، وہاں پانی کی کمی تھی.آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو پانی لینے کے لئے بھیجا.اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا کیا انتظام فرمائے جو اپنوں کے ایمان میں بھی اضافے کا باعث بنے اور غیر کو بھی حیران کر گئے.یہ ایک لمبی حدیث ہے، پہلے حصے کو چھوڑ کر میں اتنا حصہ لیتا ہوں.یہ لکھا ہے کہ لوگوں نے آپ کے پاس پیاس کی شکایت کی ، آپ اترے اور کسی شخص کو آواز دی اور حضرت علی کو بلایا اور فرمایا کہ تم دونوں جاؤ اور پانی ڈھونڈ کر لاؤ.اس پر وہ دونوں چل پڑے اور ایک عورت کو اپنے اونٹ پر سوار پانی کے دو مشکیزوں یا دو پکھالوں کے درمیان بیٹھے ہوئے دیکھا اور انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ تو اس نے کہا میں نے کل اس وقت وہاں پانی دیکھا تھا اور ہمارے آدمی اب پیچھے ہیں.دونوں نے اس کو کہا کہ چلو.اس نے پوچھا کہاں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس.وہ عورت مسلمان نہیں تھی، کہنے لگی وہی جسے صابی کہتے ہیں.انہوں نے کہا ہاں وہی ہے، بہر حال تم چلو.اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے اور آپ کو سارا واقعہ بتایا.حضرت عمران کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو اس کے اونٹ سے نیچے اتارا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا اور اس میں ان دو مشکیزوں کے دہانوں سے پانی ڈالا اور ان کے اوپر کے دہانوں کے منہ تسموں سے، ڈوری سے بند کر دیئے جس طرح پہلے بند تھے اور نیچے کے دہانے چھوڑ دیئے اور لوگوں میں اعلان کر دیا کہ پانی لے لو، پیو بھی اور پلاؤ بھی ، وہ کہتے ہیں جس نے جتنا چاہا پانی پیا اور پلایا.آگے اس کا بیان ہے اس پانی کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا تھا، اتنی فراونی سے اس پانی کو خرچ کیا جا رہا تھا کہ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ میں ایک دن کی مسافت سے پانی لے کے آئی ہوں پتہ نہیں اب میرے پانی کا کیا بنے گا.لیکن کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ان مشکیزوں سے لوگ ایسی حالت میں ہے کہ ہمیں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 607 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء معلوم ہوتا تھا کہ وہ اُس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی ہیں، یعنی جب وہ عورت پانی کی وہ مشکیں لے کر آ رہی تھی تو یہ سب پانی نکالنے کے بعد بھی بجائے اس کے کہ اس کی پانی کی مشکیں خالی ہوتیں دیکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ بھری ہوئی تھیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس عورت کے لئے کچھ اکٹھا کرو.کہتے ہیں کہ اس کے لئے خشک کھجوریں اور کچھ آٹا اور کچھ ستو وغیرہ اکٹھے کئے گئے یہاں تک کہ اس کے لئے بہت ساری خوراک جمع ہو گئی.اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کیا اور ایک کپڑے میں ڈال کر وہ کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو ہم نے تمہارے پانی سے کچھ بھی کم نہیں کیا لیکن اللہ ہی ہے جس نے ہمیں پلایا.اس کے بعد وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور کسی نے اس سے پوچھا کہ اے فلانی تجھے کس چیز نے روکا تھا؟ کہنے لگی عجیب بات ہوئی ہے.مجھے دو آدمی ملے اور مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جس کو صابی کہتے ہیں اور اس نے اللہ کی قسم ایسا ایسا کیا اور وہ اس اور اُس یعنی اس نے زمین و آسمان کی طرف اشارہ کیا، کے درمیان تمام لوگوں سے بڑھ کر جادو گر ہے.تو دیکھیں اس بیابان میں جہاں دُور دُور تک پانی کا نشان نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو بھیج کر ان سب کیلئے پانی کا انتظام فرمایا.تو یہ ہے اسلام کا رب جو حاجت کو پورا کرتا ہے.پیاسوں کی پیاس بجھائی.بظاہر اس عورت کو ایک ذریعہ بنایا تھا کہ قانون قدرت بھی استعمال ہو لیکن اس پانی میں اتنی برکت ڈالی کہ اسکے پانی کے مشکیزوں میں کمی کا کیا سوال ہے، پانی پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا جس نے اس عورت کو بھی حیران کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بتادیا کہ یہ نہ سمجھو کہ ہمیں پانی مہیا کرنے والی تم ہو، نہ یہ سمجھو کہ ہم نے ظلم سے تمہارا پانی چھین لیا ہے.یہ ایک ظاہری ذریعہ تھا جس کو ایک مومن انسان کو استعمال کرنا چاہئے ورنہ ہمیں پالنے والا اور ہماری ضروریات کو پورا کرنے والا ہمارا رب ہے جس نے ہمیں بھی پانی پلایا اور تمہیں بھی کسی قسم کی کمی نہیں آنے دی.اس نے اس بات پر حیران ہو کر اپنے گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ وہ ایک بہت بڑا جادوگر ہے لیکن اس کو کیا پتہ تھا کہ یہ جادو نہیں ، یہ تو رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے بندے اور اس کے ساتھیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنی ربوبیت کا اظہار تھا.اور پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندے میری صفات کا رنگ اختیار کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون اس میں رنگین ہوسکتا تھا.آپ نے اس عورت کے پانی میں کمی نہ ہونے کے باوجود بلکہ زیادتی کے باوجود اس کی اس خدمت کی وجہ سے اس کے لئے کھانے کا سامان جمع کروایا جو اس کے اونٹ پر لاد دیا.یہ بھی احسان تھا جو صفت ربوبیت کی وجہ سے ہی آپ نے کیا تھا.تو یہ kh5-030425
608 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم عورت اُن مسلمانوں کو پانی پلا کر یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی پلا کر اللہ تعالیٰ کے احسان سے بھی حصہ لے گئی کہ پانی میں کوئی کمی نہ ہوئی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان سے بھی حصہ لے گئی.پھر ایک واقعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جس کو مختلف صفات کے ساتھ ، مختلف رنگ میں پیش کیا جاتا ہے.لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ رب کا ایک مطلب غریب کی بھوک ختم کرنے والے کا بھی ہے.اس واقعہ کی تفصیل ہم ابو ہریرہ سے ہی سنتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں.ابتدائی ایام میں بھوک کی وجہ سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا یا زمین سے لگاتا تا کہ کچھ سہارا ملے.ایک دن میں ایسی جگہ پر بیٹھ گیا جہاں سے لوگ گزرتے تھے.میرے پاس سے حضرت ابو بکر گزرے.میں نے ان سے ایک آیت کا مطلب پوچھا.میری غرض تھی کہ مجھے کھانا کھلائیں گے مگر وہ آیت کا مطلب بیان کر کے گزر گئے.پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا وہ بھی اسی طرح گزر گئے.کہتے ہیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ سے بھی اس آیت کا مطلب پوچھا.آپ نے تبسم فرمایا.میری حالت دیکھی ،مسکرائے اور میرے دل کی کیفیت کو بھانپ لیا.آپ نے بڑے مشفقانہ انداز میں فرمایا کہ اے ابو ہریرہ ! میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! حاضر ہوں.آپ نے فرمایا میرے ساتھ آؤ.میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیا.جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچے اور اندر جانے لگے تو کہتے ہیں میں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی.آپ کی اجازت سے اندر چلا گیا.آپ اندر گئے تو دیکھا کہ وہاں دُودھ کا ایک پیالہ پڑا ہوا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ گھر والوں نے بتایا کہ فلاں شخص یا فلاں عورت تحفہ دے گئی ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ! کہتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا سب صفہ میں رہنے والوں کو بلا لاؤ.یہ لوگ اسلام کے مہمان تھے اور ان کا نہ کوئی گھر بار تھا نہ کاروبار.جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقے کا مال آتا تو ان کے پاس بھیج دیتے اور خود کچھ نہ کھاتے اور اگر کہیں سے تحفہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفّہ والوں کے پاس بھی بھیجتے اور خود بھی کھاتے.تو بہر حال کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں ان کو بلا لاؤں، مجھے بڑا نا گوار گزرا، ایک پیالہ دودھ کا ہے اور یہ سارے آجائیں گے تو یہ کس کس کے کام آئے گا.میں سب سے زیادہ ضرورت مند ہوں تا کہ پی کر مجھے کچھ طاقت ملے، لیکن بہر حال حضور کا ارشاد تھا تو میں بلا لایا.پھر کہتے ہیں کہ سب لوگ آگئے اور اپنی اپنی جگہ پر جب بیٹھ گئے تو kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 609 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ باری باری یہ پیالہ سب کو پکڑا تے جاؤ.کہتے ہیں تب میں نے دل میں خیال کیا کہ اب تو یہ دودھ مجھے نہیں مل سکتا.بہر حال کہتے ہیں میں پیالے کو ہر آدمی کے پاس لے جاتا رہا، سارے اچھی طرح سیر ہو کر پیتے رہے، آخر میں پیالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کے فرمایا کہ اباھتر ! میں نے کہا یا رسول اللہ.آپ نے فرمایا اب تو صرف ہم دونوں رہ گئے ہیں.میں نے کہا حضور ٹھیک ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ بیٹھو اور خوب پیو، جب میں نے بس کیا تو فرمایا ابو ہریرہ اور پیو.میں پھر پینے لگا.جب میں پیالے سے منہ ہٹاتا تو آپ فرماتے ابو ہریرہ اور پیو، جب اچھی طرح سیر ہو گیا تو عرض کیا کہ جس ذات نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اس کی قسم اب تو بالکل گنجائش نہیں.چنانچہ میں نے پیالہ آپ کو دے دیا.آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی پھر بسم اللہ پڑھ کر دُودھ نوش فرمایا.(بخارى كتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه وتخليهم من الدنيا ) تو یہ ہے رب ، جورب العالمین بھی ہے جس نے ظاہری اسباب کے قانون کے تحت ایک دودھ کا پیالہ مہیا فرمایا اور پھر اس میں اتنی برکت ڈالی کہ وہ کئی بھوکوں کی بھوک ختم کرنے کے کام آ گیا.پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے بغیر روزہ رکھنے سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ تو سحری کے بغیر روزہ رکھتے ہیں.آپ نے فرمایا تم میں سے کون میری مانند ہے، میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے.بعض مواقع ایسے آتے ہوں گے کہ بھوک کا احساس اس طرح نہیں ہوتا.مگر جب لوگ سحری کے بغیر روزے سے باز نہ آئے تو آپ نے ایک دن ان کے ساتھ سحری کے بغیر روزہ رکھا، پھر ایک اور روزہ رکھا، پھر جب لوگوں نے چاند دیکھا تو حضور نے فرمایا اگر چاند نظر نہ آتا تو میں کئی دن تک تمہارے لئے اسی طرح روزہ رکھتا جاتا.گویا ان لوگوں کے باز نہ آنے کی وجہ سے سزا کے طور پر اور یہ بتانے کے لئے فرمایا کہ تمہاری استعدادیں میرے برابر نہیں ہوسکتیں ، میں تو اللہ کا نبی ہوں.(بخارى كتاب الصوم باب التفكيل لمن اكثر الوصال اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے غلام صادق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چھ ماہ مسلسل روزے رکھے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایام جوانی میں ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 610 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء سنت خاندان نبوت ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کا جو نور ہے اس سے حصہ پانے کے لئے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے روزے رکھنا بھی سنت نبوی ہے ، انبیاء کی سنت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں یہ سنت اہل بیت اور رسالت کو بجالاؤں“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس دوران مجھ پر عجیب عجیب مکاشفات کھلے.کئی سابقہ انبیاء اور اولیاء سے ملاقاتیں ہوئیں.عین بیداری کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت حسین ، حضرت علی اور حضرت فاطمہ کو دیکھا.پھر فرماتے ہیں کہ ”جب میں نے چھ ماہ کے روزے رکھے تو ایک طائفہ، ایک وفد انبیاء کا مجھے ملا اور انہوں نے کہا کہ تم نے کیوں اپنے نفس کو مشقت میں ڈالا ہوا ہے اس سے باہر نکل.تو فرماتے ہیں کہ ” جب اس طرح انسان اپنے آپ کو خدا کی راہ میں مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ ماں باپ کی طرح رحم کر کے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہے.تو اس طرح اپنے بندے کا خیال کرنا بھی صفت رب کا ہی فیض ہے.بہر حال انبیاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا علیحدہ سلوک ہے، اس کا سب سے زیادہ اظہار آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہوا اور پھر ہر ایک کے ساتھ اپنے اپنے لحاظ سے ہوتا ہے.ان روزوں کے دنوں میں حضرت مسیح موعود کی خوراک چند لقھے تھے بلکہ لکھا ہے کہ چند تو لے خوراک ہو گئی.تو اللہ تعالیٰ اپنے آقا کی غلامی میں آپ کو یہ جلوہ دکھا رہا تھا لیکن ہر کوئی یہ نہیں کر سکتا.عام مسلمانوں کے لئے تکلیف مالا يطاق تھی ، طاقت سے باہر تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سحری کھانے کے روزہ رکھنے سے خود ہی روکا تھا.پھر ایک واقعہ جو معجزے میں بیان کیا جاتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے تحت ہی ہے.جب جنگ میں بھوکوں کو کھانا کھلایا اور ایک ہزار صحابہ نے کھانا کھایا.جنگ خندق کے موقع پر جب ایک صحابی نے گھر جا کر اپنی بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کو ہے؟ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دیکھی ہے.بھوک سے بہت تکلیف والی حالت تھی میرے سے برداشت نہیں ہو سکی.تو اس نے کہا کہ چھوٹی سی بکری ہے اور کچھ تھوڑا سا آتا ہے.تو انہوں نے بکری ذبح کر کے دی کہ اس کو پکاؤ اور آٹا گوندھو میں بلا کے لاتا ہوں.ان کا نام جابر تھا.کہتے ہیں میں گیا اور بڑی آہستگی سے تا کہ کوئی اور نہ سن لے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے پاس کچھ گوشت اور جو کا آتا ہے، ان کے پکانے کے لئے میں اپنی بیوی سے کہہ آیا ہوں، آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ تشریف kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 611 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء لے چلیں اور کھانا کھا لیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ارد گرد دیکھا اور آواز دی کہ سب انصار اور مہاجرین میرے ساتھ چلو، کھانا کھا لو، جابر نے ہماری دعوت کی ہے.تو کہتے ہیں اس پر تقریباً ایک ہزار لوگ جن کا فاقے سے برا حال تھا، وہ صحابی آپ کے ساتھ ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اپنی بیوی سے کہنا کہ جب تک میں نہ آ جاؤں ہانڈی چولہے سے نہیں اتارنی اور روٹیاں بھی پکانی شروع نہیں کرنی.انہوں نے اپنی بیوی کو جا کے اطلاع کی تو انہوں نے کہا اب کیا ہوگا؟ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچتے ہی بڑے اطمینان سے جہاں کھانا پک رہا تھا ہانڈی اور آٹے پر دعا فرمائی.پھر آپ نے فرمایا کہ روٹیاں پکانی شروع کر دو اور اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ کھانا تقسیم کرنا شروع کر دیا.جابر کہتے ہیں کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس کھانے میں سب لوگ سیر ہو کر اٹھ گئے اور ابھی ہماری ہنڈیا اُسی طرح ابل رہی تھی اور آٹا اسی طرح پک رہا تھا.(بخاری کتاب المغازی حالات غزوه احزاب وفتح الباری جلد 7 صفحه 304-307) | تو اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب سلوک ہے ، ظاہری سامان تو پیدا فرمائے لیکن جیسا کہ صفت رب کے یہ معنے ہیں کہ بھوکے کو کھانا کھلانا ضرورت پوری کرنا ، حاجتیں پوری کرنا وہ اس ذریعہ سے معمولی سی دنیاوی مدد کے ساتھ اپنے جلوے دکھاتا گیا.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کا بندوں کو یہ بھی حکم ہے کہ تم میرے رنگ میں رنگین ہو.میری صفات اپنانے کی کوشش کرو اور اللہ کے بندے ایک دوسرے کا بھی خیال رکھیں.اس سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا کی ربوبیت یعنی نوع انسان اور غیر انسان کا مربی بننا اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے اگر ایک خدا کی عبادت کا دعویٰ کرنے والا خدا کی اس صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے، یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کرلے تا کہ اپنے محبت کے رنگ میں آجائے“.(اشتہا ر واجب الاظہار.مورخہ 4 /نومبر 1900ء - مشمولہ تریاق القلوب - تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 186) یہاں جو حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ انسان اور غیر انسان کا مربی بنا اور اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ انسان کا کام ہے.یہاں مربی سے مراد صرف تربیت کرنے والا نہیں جو عام معنے رائج ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سر پرست اور پرورش کرنے والا بنا.تو یہ نہم وادراک کہ اللہ تعالیٰ کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 612 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء رنگ میں رنگین ہونا ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاخْلَاقِ اللہ کا نمونہ بنا ہے صحابہ میں بہت زیادہ تھا اور ہر ایک اپنے اپنے علم کے مطابق اس پر عمل کیا کرتا تھا.روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکڑا اپنے عزیزوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے.اس میں ایک مسطح بن اثاثہ بھی تھا.جب افک کا واقعہ ہوا تو اس نے بھی حضرت عائشہ کے متعلق غلط باتیں کیں.لوگوں میں وہ باتیں پھیلائیں.اور جب اللہ تعالیٰ کی وحی کے بعد حضرت عائشہ کی بریت ثابت ہو گئی تو حضرت ابو بکر نے قسم کھائی کہ اب میں کبھی بھی اس کی مدد نہیں کروں گا.جب قسم کھالی تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی کہ وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوْا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسْكِيْنَ وَالْمُهجِرِيْنَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا الاتُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيم ( النور : 23) اور تم میں سے صاحب فضیلت اور صاحب توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں.پس چاہئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بعد پھر وظیفہ جاری فرما دیا اور یہ عہد کیا کہ میں وظیفہ کبھی بند نہیں کروں گا.اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا نمونہ اور فوری رد عمل اور اس کی تعلیم کا یہ عرفان ہے کہ فوری طور پر اس قسم کو تو ڑ دیا جس کا توڑ نا کوئی گنا نہیں.جو قسم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کھائی جائے اس کو تو ڑنا جائز اور ضروری ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس کی ربوبیت کے تحت جو تمہارے ساتھ سلوک ہو رہا ہے ، انسانوں سے سلوک ہو رہا ہے، جس میں رحم بھی ہے بخشش بھی ہے اور بہت سے دوسرے فیض بھی ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لئے تمہیں بھی ان کو اختیار کرنا چاہئے اور کسی بھی چیز کے خلاف دلوں میں کینے پیدا نہیں ہونے چاہئیں.ضرورت مند کی ضرورت پوری ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ فلاں آدمی ایسا ہے، فلاں عہدیدار کے ساتھ صحیح تعلقات نہیں ہیں یا فلاں بات فلاں کو غلط کہہ دی ہے تو اس کو اگر ضرورت بھی ہے تو اس کی مدد نہیں کرنی.اس کی ضرورت پوری کرنا ، اس کی مدد کرنا، اس کی بھوک مٹانا ایک علیحدہ چیز ہے اور انتظامی معاملات اور ان پر ایکشن (Action) لینا ایک علیحدہ چیز ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اختیار کرنے کے بعد یا ایسا کام کرنے کے بعد جو اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے ایک بندہ، بندہ ہی رہتا ہے اور رب کے برابر نہیں پہنچ سکتا.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 613 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء بعض دفعہ بعض لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ ہم جن کی ضروریات پوری کر رہے ہیں شاید ان کے رب بن گئے ہیں.وہ بہر حال بندہ ہے پس ایک تو یہ کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نرمی کا سلوک کرنا چاہئے ، دوسرے آپ نے اس حد تک احتیاط کی کہ فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے غلام کو بھی عہد می یعنی اے میرے بندے، کہہ کر نہ پکارے کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو بلکہ یہ کہے کہ اے میرے غلام اور نہ ہی کوئی غلام اپنے مالک کو ربنی یعنی میرے رب کہے بلکہ وہ سیدی یعنی اے میرے آقا کہہ کر پکارے.(صحیح مسلم كتاب الالفاظ باب حكم الطلاق لفظة العبد والامة تو مُرسی بن کر سر پرست بن کر کسی کے مالک بن کر اس کو پالنے کی ذمہ داری ادا کر نے کے بعد بھی بندہ بندہ ہی رہتا ہے اور رب ، ربّ ہے، اس کی صفات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا.جبکہ انسان کا دائرہ محدود ہے تو یہ ساری احتیاطیں بھی انسان کے ذہن میں ہونی چاہئیں.جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں بھی ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے مسیح و مہدی عطا فرمایا جس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات کا ، رب العالمین کا فہم و ادراک عطا فرما کر پہلوں سے ملایا، جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ربوبیت کو ختم نہیں کر دیا بلکہ یہ سلسلہ جاری ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کی صفات کی پہچان اور اس کے اور اک کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا ادراک حاصل ہوا و ہاں ہمارے پیارے ربّ کے آپ کے ساتھ سلوک کے نظارے بھی نظر آتے ہیں.جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کئے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی پہچان کروانے کے لئے آنا ضروری تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجودلوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں“.پھر آپ فرماتے ہیں: ” خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے فرمایا : ”نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے.اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقت اس کے ذریعہ سے دکھاتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: kh5-030425
614 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن اور جابجا اس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں بلکہ خدا نے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا.اور قرآن شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے ان کے مناسب حال ان کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے.جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے وَاِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر : 25) کہ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا.سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا ربّ ہے اور تمام زمانوں کا رب ہیاور تمام مکانوں کا رب ہے اور تمام ملکوں کا وہی ربّ ہے اور تمام فیوض کا وہی سرچشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اُسی سے ہے اور اُسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے.خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہورہا ہے.یہ اس لئے ہوا کہ تاکسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا.یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی.یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا.پس اس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا.اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا.پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 441-442) پرانے زمانے میں انبیاء اپنی اپنی قوموں کے لئے آتے رہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جب آپ کو تمام دنیا کے لئے رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجا تو تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کر دیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے، تمام نبیوں کے جامع تھے اب میں خاتم الخلفاء ہوں اور اس زمانے میں تمام دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں.اب ہمارا کام ہے کہ یہ پیغام ہر شخص تک پہنچائیں تا کہ کسی کو یہ احساس نہ رہے یا اس علم سے محروم نہ رہے کہ اس زمانے میں ہماری اصلاح کے لئے کوئی نبی نہیں آیا.ہم خوش قسمت kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 615 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء ہیں جنہوں نے اس زمانے کے امام کو جو نبی اللہ ہے مان کر اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا فہم و ادراک حاصل کیا.پس اس میں بڑھنا اور مزید فیض اٹھانے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا کام ہے.صفت ربوبیت کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے اللہ تعالیٰ کا جو سلوک تھا اب میں اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ابتدا سے ہی دنیا داری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے کوئی دنیا داری کا کام نہیں کرتے تھے بلکہ قرآن میں ہر وقت غور کرنا اور اس میں غرق رہنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف کو لگائے رکھنا آپ کا کام تھا اس لئے دنیاوی ضروریات کے لئے اپنے والد صاحب پر آپ کا بڑا انحصار تھا.جب آپ کے والد صاحب کی وفات کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی تو جو ایک ظاہری انسانی بشری تقاضا ہوتا ہے اس کے تحت آپ کو فکر ہوئی جس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ” جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس الہام کو میں نے یہاں نہیں بتایا ، بہر حال ایک الہام ہوا تھا کہ وفات کا وقت قریب ہے تو بشریت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا.تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا الَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عبدہ، یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں یہ ھنس گیا.پس مجھے اس خدائے عزوجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا.میر اوہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفل نہیں ہوگا“.(کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 194-195 حاشیہ) ایک الہامی دعا کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : پہلے اس سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْنِي مُبَارَكًا حَيْثُمَا كُنتُ یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کر کہ ہر جگہ میں بودو باش کروں برکت میرے ساتھ رہے.پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی قبول فرمائی.پہلے دعا سکھائی پھر قبول فرمائی.اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اول آپ ہی الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے“.براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 621 - حاشیہ در حاشیہ نمبر (3) kh5-030425
616 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء خطبات مسرور جلد چهارم اس طرح کے بے شمار الہامات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعا ئیں سکھائیں اور پھر انہیں قبول فرمایا.تو جہاں یہ قبولیت دعا کے نشانات ہیں ربوبیت کے جلوے کا بھی اظہار ہے.ایک دو اور مثالیں میں دے دیتا ہوں.ایک الہام ہے رَبِّ أَخِرْ وَقْتَ هَذَا أَخَرَهُ اللهُ إِلى وَقْتِ مُسَمًّى “ کہ اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور میں کسی قدر تاخیر کر دے.تو اگلا حصہ ہے اَخَّرَهُ اللَّهُ إِلى وَقْتِ مُسَمًّى که خدا نمونہ قیامت کے زلزلہ کے ظہور میں ایک وقت مقررہ تک تاخیر کر دے گا.(تذکرہ صفحہ 556-557) پھر ہے کہ رَبِّ أَخْرِجْنِي مِنَ النَّارِ کہ اے میرے رب مجھے آگ سے نکال.اور اگلا حصہ پھر الہام ہوتا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی اَخْرَجَنِي مِنَ النَّارِ کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے آگ سے نکالا.( تذکرہ صفحہ 612) یہاں بھی پہلے دعا سکھائی پھر قبولیت کا نشان.پھر ایک دعا ہے رَبِّ اَرِنِى انْوَارَكَ الْكُلِيَّةَ اے میرے رب مجھے اپنے وہ انوار دکھا جو مُحيطِ كُل ہوں.إِنِّي أَنَرْتُكَ وَاخْتَرْتُكَ کہ میں نے تجھے روشن کیا اور تجھے برگزیدہ کیا.یہاں بھی وہی اظہار ہے.( تذکرہ صفحہ 534) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: کچھ تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مجھ کو خواب آیا تھا کہ ایک جگہ میں بیٹھا ہوں یک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ غیب سے کسی قدر روپیہ میرے سامنے موجود ہو گیا ہے.میں حیران ہوا کہ کہاں سے آیا.آخر میری رائے ٹھہری کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے نے ہماری حاجات کے لئے یہاں رکھ دیا ہے.پھر ساتھ الہام ہوا کہ إِنِّي مُرْسِلٌ إِلَيْكُمْ هَدِيَّة کہ میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی میرے دل میں پڑا کہ اس کی یہ تعبیر ہے کہ ہمارے مخلص دوست حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب ایک فرشتہ کے رنگ میں متمثل کئے گئے ہوں گے اور غالباوہ روپیہ بھیجیں گے اور اس خواب کو عربی زبان میں اپنی کتاب میں لکھ دیا.از مکتوب 6 مارچ 1895ء بنام سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی مکتوبات احمد یہ جلد 5 حصہ اول صفحہ 3 بحوالہ تذکرہ صفحہ 225-226 ) چنانچہ تصدیق ہوگئی اور الہام پورا ہو گیا.فرماتے ہیں کہ 18 برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصّهْرَ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 617 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء والنسب ترجمہ: وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود 66 66 تمہاری نسب کو شریف بنایا..فرماتے ہیں: ” اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے.یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا جو دہلی ہے.حضرت اماں جان سے جب دوسری شادی ہوئی تھی یہ اس وقت کا واقعہ ہے.” اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی...اور جیسا کہ لکھا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہوگئی..فرماتے ہیں: ”سوچونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا دحمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے“.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 273 تا 275 ) تو دیکھیں کہاں وہ وقت کہ والد صاحب کی وفات کا سن کر آپ کو فکر ہو رہی ہے کہ ضرورت کی چیزیں اب کس طرح میسر ہوں گی اور کہاں اللہ تعالیٰ کی تسلی کہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.جب یہ کہہ دیا تو اس تسلی کے بعد اس ربّ العالمین نے تمام جہان کی مدد کے لئے آپ کے خاندان کی بنیاد ڈالی ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ اس خاندان کی بنیاد جس نے تمام جہان کی مدد کرنی ہے.تو یہ ہے وہ رب جس نے ہمیں اپنا چہرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل میں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں.جب خدا تعالیٰ کی پرورش نہ ہوتو کوئی پرورش نہیں کر سکتا.دیکھو جب خدا تعالیٰ کسی کو بیمار ڈال دیتا ہے تو بعض دفعہ طبیب کتنا ہی زور لگاتے ہیں مگر وہ ہلاک ہو جاتا ہے.طاعون کے مرض کی طرف غور کرو.سب ڈاکٹر زور لگا چکے مگر یہ مرض دفع نہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 618 خطبہ جمعہ 08/دسمبر 2006ء ہوا.اصل یہ ہے کہ سب بھلائیاں اسی کی طرف سے ہیں اور وہی ہے کہ جو تمام بدیوں کو دور کرتا ہے.پھر فرماتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن (الفاتحہ: 2) سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور تمام پرورشیں ، تمام جہان پر اسی کی ہیں“.(البدرنمبر 24 جلد 2صفحه 186.مورخه 3 جولائی 1903 ملفوظات جلد سوم صفحہ 349 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) آخر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دُعا پڑھتا ہوں جس کا ذکر حدیث میں یوں ملتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرب کے وقت میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو سب سے بڑا اور بردبار ہے، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو عرش عظیم کا رب ہے، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو آسمانوں اور زمین کو پالنے والا ہے اور عرش کریم کا ربّ ہے.(بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الكرب ) اصل میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ کی ذات اور رب العالمین کے سامنے جھکنا ہی تھا.ہوسکتا ہے کہ روایت کرنے والے نے بعض خاص حالات میں زیادہ شدت سے آپ کو کسی وقت یہ دعا کرتے دیکھا ہو اور اس کا اظہار ہوا ہو.تو بہر حال یہ ایک جامع دعا ہے جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے رب کی صحیح پہچان کرنے کی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2006 ء 619 50 خطبات مسرور جلد چهارم فیضان رحمانیت تمام ذی روحوں پر محیط ہے.یہ فیض عام ہے جو ہر ایک کو پہنچ رہا ہے اور اس میں انسانوں یا حیوانوں کے قومی کے کسب اور عمل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں فرمودہ مورخہ 15 / دسمبر 2006ء(15 / فتح 1385 هش) مسجد بیت الفتوح ، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ.هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمِ (الحشر: 23) وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.غیب کا جانے والا ہے اور حاضر کا بھی.وہی ہے جو بن مانگے دینے والا ، بے انتہا رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.گزشتہ خطبوں میں میں صفت رب کا ذکر کر رہا تھا.اس صفت کا قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ہی ذکر شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ میں نے بتایا تھا بلکہ اس کی ابتداء میں ہی ، پہلی صفت جو اللہ تعالیٰ کی بتائی گئی ہے وہ رب ہے.اور اس صفت رب کا قرآن کریم میں ابتداء سے لے کر آخر تک مختلف رنگ میں ذکر ہوا ہے.اس کی کچھ مثالیں میں نے پیش کی تھیں.بہر حال آج جس صفت کا ذکر میں کرنے لگا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن ہے.جس کا ذکر پہلی سورۃ یعنی سورۃ فاتحہ میں صفت ربّ کے بعد کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا کا نام سورۃ فاتحہ میں بعد صفت kh5-030425
620 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم رب العالمین، رحمن آیا ہے.جیسا کہ فرمایا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَن“.پھر آپ فرماتے ہیں : ” فیضان رحمانیت ایسا تمام ذی روحوں پر محیط ہو رہا ہے کہ پرندے بھی اس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر رہے ہیں اور چونکہ ربوبیت کے بعد اسی فیضان کا مرتبہ ہے اس جہت سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں رب العالمین کی صفت بیان فرما کر پھر اس کے رحمن ہونے کی صفت بیان فرمائی تا تر تیب طبعی ان کی ملحوظ رہے.اس بات کو کھولنے کے لئے کہ صفت رحمانیت کیا ہے اور کس طرح تمام ذی روح اس سے فیض حاصل کر رہے ہیں اس کے لغوی معنے اور مختصر تفسیر میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الفاظ میں اور ایک آدھ پرانے مفسرین سے بھی ذکر کروں گا.مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ رحمت ایسی نرمی کو کہتے ہیں جو اس شخص پر احسان کئے جانے کی مقتضی ہو.یعنی ایسی نرمی ہو جس سے کسی شخص پر احسان کیا جائے ، اس کا تقاضا کرتی ہو.ضرورت ہو احسان کی جس پر رحم کیا جا رہا ہے.کبھی رحمت کا لفظ محض نرمی کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، صرف احسان نہیں ہے بلکہ نرمی ہے اور کبھی محض ایسے احسان کے معنے میں استعمال ہوتا ہے جس کے ساتھ نرمی شامل نہ ہو، احسان تو ہو نرمی نہ ہو.اس کی مثال انہوں نے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ رَحِمَ اللهُ فلانا یعنی اللہ تعالی نے فلاں پر احسان فرما دیا ہے.اور جب رحمت کا لفظ اللہ تعالی کے لئے استعمال ہو تو محض احسان کے معنے میں ہی آتا ہے اور نرمی او سختی کے جذبات کو انہوں نے انسان کے ساتھ مختص قرار دیا ہے.پھر کہتے ہیں کہ اگر انسانوں کے حوالے سے آئے تو اس سے مراد نرمی کرنا ہے اور شفقت کے جذبات کے ساتھ مائل ہونا ہے.پھر کہتے ہیں اسی مفہوم میں حدیث قدسی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم کو پیدا کیا تو فرمایا میں رحمن ہوں تو رحیم ہے، میں نے تیرا نام اپنے نام میں سے بنایا ہے.پس جس نے تجھے جوڑا میں بھی اس سے اپنا تعلق جوڑوں گا اور جس نے تجھے کاٹا میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا.تو یہ رحم کا رحمی رشتہ سے تعلق ہے.یہ جو قریبی رشتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کو جوڑا گیا ہے.پھر کہتے ہیں کہ جو حدیث پڑھی گئی ہے اس میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رحمت دو پر مشتمل ہے، ایک الرّفة نرمی اور دوسرے الْإِحْسَان، احسان کرنا.یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رَحْمَنُ الدُّنْيَا ہے اور رَحِیمُ الْآخِرَةِ ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا احسان اس دنیا میں مومن و کافر ہر ایک پر عام ہے جبکہ آخرت میں صرف مومنین سے ہی مختص ہوگا اور اس مضمون کے بارے میں کہتے ہیں معنوں پر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 621 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء کہ مندرجہ ذیل آیت ہے.وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَاكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ (الاعراف: 157) کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.پس میں ضرور اس کو ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.پھر اقرب الموارد میں لکھا ہے کہ رحم کا معنی ہے اس کے لئے دل میں نرمی کے جذبات پیدا ہوئے ، اسے بخش دیا اور مہربانی کے جذبات کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوا.اِسْتَرْحَمَ اس سے مہربانی اور شفقت چاہی.رحم جس طرح کہ میں نے پہلے بتایا تھا انہوں نے بھی اسی طرح لکھا ہے کہ رحم ماں کے پیٹ میں بچہ کی نشو و نما پانے کی جگہ، پھر قرابت ، قریبی رشتہ.الرحمن کے بارے میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک ہے اور صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے.الرَّحْمَة دل کی نرمی ، شفقت کے ساتھ میلان کا جذ بہ جو دوسرے سے حسن سلوک کرنے اور عفو کرنے کا تقاضا کرتا ہے.پھر لسان العرب میں لکھا ہے الرَّحْمَةُ : دل کی نرمی اور شفقت کے جذبات کے ساتھ میلان اور مغفرت.انہوں نے رحمان اور الرحیم دو صفات لکھی ہیں کیونکہ روٹ ایک ہے.اس میں لکھتے ہیں کہ ان میں سے رحمن مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی اس کے معنے میں کثرت پائی جاتی ہے، وہ اس طرح کہ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور اسے گھیرے ہوئے ہے.پھر کہتے ہیں رحمن صفت صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے.پھر کہتے ہیں کہ رحمت کا لفظ اگر انسانوں کے حوالے سے استعمال ہو تو اس کے معنے ہیں دل کی نرمی اور دل کا مہربانی کے ساتھ مائل ہونا.اگر رحمت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی ، احسان اور رفق.پھر یہ ایک اور معنے دیتے ہیں الْغَيْث یعنی ضرورت کے وقت آنے والی فائدہ مند بارش کو بھی اللہ تعالیٰ نے رحمۃ قرار دیا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی برستی ہے.تو ان سب سے یہ مطلب ہے یا جو اس کی تعریف وضع ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ رحمن خدا کے معنے ہیں انعام کرنے والا اور فضل و احسان کرنے والا، مہربانی سے توجہ کرنے والا اور رزق دینے والا.اور یہ جو احسان اور انعام اور فضل اور مہربانی کرنا اور رزق دینا ہے یہ ہر چیز پر حاوی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ فیضان رحمانیت ہر ذی روح پر محیط ہو رہا ہے.علامہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ الرحمن وہ ایسے انعام کرنے والی ہستی ہے کہ بندوں میں ایسے انعامات کی مثال ممکن نہیں.66 kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 622 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء رحمانیت کے جلوے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ ابراہیم بن ادھم کے بارے میں بیان ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کے ہاں مہمان تھا تو انہوں نے میرے سامنے کھانا رکھا.کھانا کھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک کوا آیا اور میرے سامنے سے ایک روٹی اُٹھا کر لے گیا.کہتے ہیں کہ میں بڑا حیرت زدہ ہو کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا کہ دیکھوں یہ کیا کرتا ہے، کہاں لے جاتا ہے.تو وہ ایک ٹیلے پر اتر اجہاں ایک آدمی بندھا ہوا پڑا تھا، کسی آدمی کو باندھ کے کسی اونچی جگہ پر کسی اونچے ٹیلے یا پہاڑی پر رکھا ہوا تھا، اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے.تو میں نے دیکھا کہ کوے نے روٹی اس بندے کے آگے پھینک دی.(تفسیر کبیر از علامه فخرالدین رازى تفسير سورة الفاتحه الفصل الثالث في تفسير قوله الرحمن الرحيم) رحمانیت کا یہ ایک جلوہ انہوں نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے.پھر ایک واقعہ انہوں نے لکھا ہے کہ میں دریا کے کنارے کھڑا تھا.اتنے میں میں نے دیکھا کہ موٹا سا بچھو آیا اور دریا میں ایک بڑا سا مینڈک تھا، بچھو اس کے اوپر بیٹھ گیا.کہتے ہیں کہ میں بھی کشتی میں بیٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا کہ دیکھوں یہ کہاں جاتے ہیں.تو عجیب واقعہ ہوا ہے کہ اگلے کنارے پر پہنچ کے بچھو وہاں سے اترا اور ایک طرف چل پڑا میں بھی پیچھے پیچھے گیا، تو دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی سور ہا تھا اور ایک سانپ اس پر حملہ کرنے والا تھا، بچھو نے جا کر اس کو ڈنگ مارا اور سانپ نے بچھو کو کاٹا.دونوں مر گئے اور آدمی بچ گیا.تو یہ بھی انہوں نے ایک قصے میں بیان کیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رب کے بعد دوسری صفت رحمن کی ہے اور بعض معنے ایسے ہیں جو رب میں بھی آ رہے تھے.رب کے معنے اصل یہ ہیں کہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا ، تمام زمین و آسمان کی پیدائش اس میں شامل ہے اور رحمان کے معنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ وہ بغیر کسی اجر کے نعمتیں مہیا کر رہا ہے“.اس کی ایک مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے یہ دی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ سورہ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں یعنی جو چار صفات بیان ہوئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے.مثلاً پہلی صفت رب العالمین ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مظہر ہوئے جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء: 108) جیسے رب العالمین عام ربوبیت کو چاہتا ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 623 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء وسلم کے فیوض و برکات اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لئے قرار پائی.پھر دوسری صفت رحمن کی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں.یہاں ایک اور بات ہوگئی، پیچھے کسی لغت میں کسی بیان کرنے والے مفسر نے لکھا کہ رحمن صرف خدا کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ رحمن کی صفت انسانوں میں بھی ہو سکتی ہے اور انسان کامل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے زیادہ ہے.بلکہ آپ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ ایک عام آدمی بھی اس کا نمونہ بنتا ہے اور اس کو یہ نمونہ دکھانا چاہئے.اس کے لئے آپ نے مثال دی ہے کہ جو کام تم بغیر کسی اجر کے کرتے ہو، لوگوں کی بھلائی کے لئے خدمت خلق کا کام کرتے ہو وہ اسی صفت کے تابع ہو کر کرتے ہو، اور کرنا چاہئے.بلکہ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ جنہوں نے میری بیعت کی ہے اگر وہ اس صفت کو نہیں اپناتے تو اپنی بیعت میں اور وعدے میں جھوٹے ہیں.پس اس طرف بھی ہر احمدی کو بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے.خدمت خلق کے سلسلے میں ضمناً بات آگئی ہے تو کہہ دوں کہ جماعت میں غریبوں کی شادیوں کے سلسلہ میں ، علاج کے سلسلے میں تعلیم کے سلسلے میں ایک نظام رائج ہے.بچوں کی شادیوں کے لئے حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مریم فنڈ جاری فرمایا تھا.یہ بڑی اچھی، بہت بڑی خدمت خلق ہے، جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.پھر مریضوں کا علاج ہے، خاص طور پر غریب ملکوں میں ، پاکستان میں بھی افریقن ممالک میں بھی اور دوسرے غریب ممالک میں بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس فنڈ میں خدمت خلق کے جذبہ سے پیسے دیں، چندہ دیں صدقات دیں تو اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو اپنانے کی وجہ سے اس کی رحمانیت سے بھی زیادہ سے زیادہ فیض پائیں گے.پھر اسی طرح تعلیم ہے، بچوں کی تعلیم پر بڑے اخراجات ہوتے ہیں، بڑی مہنگائی ہے.اس کے لئے جن کو توفیق ہے ان کو دینا چاہئے.اسی طرح بات چلی ہے تو میں ذکر کر دوں پاکستان میں بھی ، ربوہ میں بھی اور افریقہ میں بھی جماعت کے ہسپتال ہیں ، وہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے.ان کو گو کہ تنخواہ بھی مل رہی ہوتی ہے اور ایک حصہ بھی مل رہا ہوتا ہے لیکن شاید باہر سے کم ہو.تو بہر حال خدمت خلق کے جذبے کے تحت ڈاکٹروں کو بھی اپنے آپ کو وقف کرنا چاہئے.چاہے تین سال کے لئے کریں، چاہے پانچ سال کے لئے کریں یا ساری زندگی کے لئے کریں.لیکن وقف کر کے آگے آنا چاہئے اور یہی چیزیں ہیں جو پھر ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کریں گی اور ان پر اتنے فضل ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ان پر جلوہ گر ہوگی.اور پھر ایسے ایسے طریقوں سے اللہ تعالیٰ رحمانیت کی صفت دکھاتا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے دو واقعات بیان کئے کہ kh5-030425
624 66 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم کس طرح مدد کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ لفظ الرحمن کے ایک اپنے بھی خاص معنے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اذن الہی سے صفت الرحمن کا فیضان انسان اور دوسرے حیوانات کو قدیم زمانے سے حکمت الہیہ کے اقتضاء اور جو ہر قابل کی قابلیت کے مطابق پہنچتا رہا ہے.کیا ہے رحمن کا خاص معنی ؟ کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے صفت الہی کا صفت رحمان کا جو فیض ہے، جو فائدہ ہے وہ انسان کو بھی پہنچ رہا ہے اور حیوانات کو بھی پہنچ رہا ہے اور ہمیشہ سے پہنچ رہا ہے یا جس چیز کو بھی ضرورت ہے، یہ عام فیض ہے.فرمایا ” حکمت الہیہ کے اقتضاء اور جو ہر قابل کی قابلیت کے مطابق پہنچتا رہا ہے ، نہ کہ مساوی تقسیم کے طور پر.اور اس صفت رحمانیت میں انسانوں یا حیوانوں کے قومی کے کسب اور عمل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں بلکہ یہ للہ تعالیٰ کا خالص احسان ہے.تو یہ فیض ہے جو عام ہے، ہر ایک کو پہنچ رہا ہے.پھر فرمایا کہ ”جس سے پہلے کسی کا کچھ عمل بھی موجود نہیں ہوتا اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عام رحمت ہے، جس میں ناقص یا کامل شخص کی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا.حاصل کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا فیضان کسی عمل کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ کسی استحقاق کا ثمرہ ہے نہ کسی کا حق ہے جس کا یہ پھل مل رہا ہے بلکہ یہ ایک خاص فضل ایزدی ہے جس میں فرمانبرداری یا نافرمانی کا دخل نہیں.بعض چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہیں، جن سے فرمانبردار بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور نا فرمان بھی بلکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے جو مشرک ہیں.جن کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں نہیں بخشوں گا وہ بھی فائدہ اٹھا ر ہے ہیں اور یہ فیضان ہمیشہ خدا تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کے مطابق نازل ہوتا ہے، اس میں کسی اطاعت ، عبادت ، تقویٰ اور زہد کی شرط نہیں.اس فیض کی بنا مخلوق کی پیدائش ، اس کے اعمال ، اس کی کوشش اور اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی رکھی گئی ہے.اس لئے اس فیض کے آثار انسان اور حیوان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی پائے جاتے ہیں.اگر چہ یہ فیض تمام مراتب وجود اور زمان و مکان اور حالت اطاعت و عصیان میں جاری و ساری رہتا ہے.یہ فیض جو ہے یہ ہر حالت میں جاری ہے.اطاعت کرو، گناہ کرو، نافرمانی کرو، ہر حالت میں جاری ہے.فرمایا کہ " کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت نیکوکاروں اور ظالموں سب پر وسیع ہے.اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا چاند اور اس کا سورج اطاعت گزاروں اور نافرمانوں کبھی پر چڑھتا ہے.اور خدا تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اس کے مناسب حال قومی کے ساتھ پیدا کیا ہے.اور اس نے ان سب کے معاملات کا ذمہ لیا ہے.اور کوئی بھی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں.اُسی نے ان کے لئے درخت پیدا کئے اور ان درختوں سے پھل پھول اور خوشبوئیں پیدا کیں.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 625 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء اور یہ ایسی رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کیلئے مہیا فرمایا.اس میں متقیوں کیلئے نصیحت اور یاد دہانی ہے.یہ نعمتیں بغیر کسی عمل کے اور بغیر کسی حق کے اس بے حد مہربان اور عظیم خالق عالم کی طرف سے عطا ہوئی ہیں اور اس عالی بارگاہ سے ایسی اور بھی بہت سی نعمتیں بخشی گئی ہیں.جو شمار سے باہر ہیں.مثلاً صحت قائم رکھنے کیلئے ذرائع پیدا کرنا اور ہر بیماری کیلئے علاج اور دواؤں کا پیدا کرنا، رسولوں کا مبعوث کرنا اور انبیاء پر کتابوں کا نازل کرنا، یہ سب ہمارے رب ارحم الراحمین کی رحمانیت کا پر ارحم ہے.یہ خالص فضل ہے جو سی کام کرنے والے کے کام یا گریہ وزاری یا دعا کے نتیجے میں نہیں ہے.اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 92-95 تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 42 تا 44 جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جس طرح رحمان خدا ہماری دنیاوی ضروریات پوری کر رہا ہے ان کے لئے ہمیں مختلف چیزوں سے نوازتا ہے اور اس کا یہ فیض عام ہے.اس کی پیدا کی ہوئی بعض چیزوں سے امیر و غریب سب برابر کا حصہ لے رہے ہیں.اسی طرح روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے تحت ہی انسانوں کی اصلاح کے لئے ان کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے سلسلہ نبوت ورسالت جاری فرمایا ہوا ہے.قرآن کریم میں بے شمار آیات میں اس صفت رحمن کا ذکر ہے اور اس حوالے سے بہت سی جگہوں پر اللہ تعالی کی عبادت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.انبیاء نے بھی جب بھی نیکیوں کی تلقین کی ہے ہمیشہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر یہی اعلان کیا ہے کہ ہم جو بھی تمہیں نیکی کی باتیں بتارہے ہیں، اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، اس محسن کی طرف بلا رہے ہیں، رحمن خدا کی طرف بلا رہے ہیں اس کے بدلے میں ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے بلکہ یہ سب کچھ تمہاری بھلائی کے لئے تمہیں بتایا جا رہا ہے کہ صرف اس دنیا کے انعاموں سے فائدہ نہ اٹھاتے رہو، ناشکرے نہ بنو بلکہ اس کی طرف جھکو بھی.ٹھیک ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے نظارے اس دنیا میں ہر ایک کے لئے ہیں اور وہ دکھاتا چلا جائے گا چاہے اس کا شکر گزار بن رہے ہو یا نہیں.اس کی بعض چیزیں عام ہیں.ہر ایک کے لئے اس کا فیض ہے.لیکن یہ چیزیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں یا مائل کرنے والی ہونی چاہئیں کہ اس کی عبادت کرو، اس کے حکموں پر عمل کرو.تو اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ یہی فرمایا ہے کہ تمہاری جو بحث ہو رہی ہے کہ انکار کے باوجود، میری نافرمانیوں کے باوجود، جس سے ہر ایک فیض پارہا ہے یہ اس صفت رحمانیت کا جلوہ ہے.اگر رحمانیت نہ ہوتی تو انسانوں کی اکثریت اپنے ظلموں کی وجہ سے تباہ ہو جاتی.ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ گذلِكَ أَرْسَلْنَكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ kh5-030425
626 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوا عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمَن قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ (الرعد:31) یعنی اسی طرح ہم نے تجھے ایسی امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی امتیں گزر چکی تھیں تا کہ تو ان پر وہ تلاوت کرے جو ہم نے تیری طرف وحی کیا حالانکہ وہ رحمن کا انکار کر رہے ہیں، تو کہہ دے وہ میرا رب ہے.میرا کوئی معبود اس کے سوا نہیں.اس پر میں تو کل کرتا ہوں اس کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے.اس آیت سے دو آیتیں پہلے کافروں نے سوال اٹھایا تھا کہ ہمارے انکار کی وجہ سے ہمیں نشان کیوں نظر نہیں آتا؟ تو اس کا ایک جواب تو وہیں اسی وقت دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہلاک کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، بعض دفعہ نشان دکھا کر ہدایت دیتا ہے.تو یہاں پر یہ بتایا کہ اے انکار کرنے والو! تم لوگ اپنے انکار کے بدلے میں سزا یا نشان چاہتے ہو تو واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کی جو صفت رحمانیت ہے یہ نشانات کو ٹال رہی ہے.اور تم یہ کہ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نشان کیوں نہیں دکھاتا ؟ تو یہ صرف اس لئے نہیں ہورہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مہلت دے رہا ہے بلکہ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھا رہا ہے.ورنہ اگر یہ صفت نہ ہوتی تو تمہاری حرکتیں دیکھ کر بھی کا میں تمہیں تباہ و برباد کر چکا ہوتا.پھر حضرت موسیٰ کی قوم کا ذکر ہے.جب انہوں نے رحمان خدا کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنایا تو حضرت ہارون نے انہیں رحمن خدا کا حوالہ دے کر توجہ دلائی تھی کہ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يقُوْمِ إِنَّمَا فُتِبْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُوْنِي وَاَطِيْعُوا أَمْرِی (طه :91) اس کا ترجمہ ہے کہ حالانکہ ہارون اس سے پہلے ان سے کہہ چکا تھا کہ اے میری قوم تم اس کے ذریعہ سے آزمائے گئے ہو یقیناً تمہارا رب بے انتہا رحم کرنے والا ہے.پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو.تو حضرت ہارون نے یہی کہا کہ رحمن خدا کو چھوڑ کر اس آزمائش اور ابتلاء میں کیوں پڑ رہے ہو.بچھڑے کو معبود بنا کر شرک قائم کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کیوں دعوت دے رہے ہو.اتنے نظارے دیکھنے کے بعد بھی، اتنے انعامات دیکھنے کے بعد بھی تمہیں عقل نہیں آ رہی.اللہ تعالیٰ نے تو بہت بڑا احسان کیا کہ اپنی رحمانیت کے جلوے تمہیں دکھا رہا ہے، مختلف موقعوں پر تمہیں دکھائے اور تم نے اس کو چھوڑ کر ایک کھوکھلی چیز کو معبود بنایا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت جو ہے اس کی وجہ سے تم لوگ بچے ہوئے ہور نہ یہ جو حرکت ہے وہ تمہیں تباہ کرنے والی حرکت ہے.یہ بہت بڑا ظلم ہے جس سے تباہ ہو سکتے ہو.اور فرماتے ہیں کہ عقل کرو اور میری پیروی کرو.میری بات مانو اور سیدھے راستے پر آجاؤ.پس یہ رحمان خدا کے احسان ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیاء کے ذریعہ سے قوموں کی راہنمائی فرماتا رہتا ہے.اور آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر تمام دنیا کی راہنمائی کے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 627 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء لئے بھیجا اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر راہنمائی فرمائی.سورہ فرقان میں آتا ہے وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمَنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمَنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا (الفرقان:61) اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمن کے حضور سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ رحمن ہے کیا چیز ؟ کیا ہم اس کو سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دیتا ہے.اور ان کو اس بات نے نفرت میں اور بھی بڑھا دیا.پھر اگلی آیات میں ہے تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِى السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَجَعَلَ فِيْهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِيْرًا.وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ اَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا ( الفرقان : 62-63 ) بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس آسمان میں ایک روشن چراغ یعنی سورج اور ایک چمکتا ہوا چاند بنایا.اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا.اس کے لئے جو چاہے نصیحت حاصل کرے یا جو شکر کرنا چاہے.پھر فرمایا وَ عِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَمًا (الفرقان: 64) اور حمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جوابا کہتے ہیں سلام.تو ان آیات میں کافروں کو جواب دیا گیا ہے کہ تم رحمن خدا کے بارے میں پوچھتے ہو کہ وہ کون ہے.رحمن خدا وہ ہے جس نے آسمان میں سورج اور چاند پیدا کئے جو تمہارے فائدہ کے لئے ہیں.سورج اور چاند ہے جس کی روشنی سے تمہاری اور نباتات کی زندگی وابستہ ہے.تمہاری مادی زندگی بھی اسی رحمن سے وابستہ ہے اور تمہاری روحانی زندگی بھی اسی رحمن سے وابستہ ہے.اور اس زمانے میں بھی جو آج کا ہمارا زمانہ ہے یہی سوال اٹھتا ہے، گومنہ سے نہ سہی اپنے عمل سے، اپنے فعل سے.تو اس زمانے میں بھی جو روحانی سورج آج سے چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا، اس سے روشنی پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہ روشنی آگے پھیلائی ہے.اس لئے اس زمانے میں بھی اس کو قبول کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ چاند بھیجا اس کو قبول کرو اور نہ جیسا کہ میں نے کہا، قبول نہ کرنے والے بھی اصل میں آجکل یہی سوال کر رہے ہوتے ہیں کہ کون رحمان خدا؟.ایک طرف اظہار ہے کہ مسلمانوں کی حالت بری ہے، کسی مصلح کو آنا چاہئے کسی نبی کو آنا چاہئے دوسری طرف عملا اللہ تعالیٰ کی صفت سے ہی انکار کر رہے ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد، اس روشنی کے بعد جو لمبے عرصہ کے لئے ایک اندھیرا چھایا تھا اور اب پھر اس زمانے میں kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 628 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2006ء اس اندھیرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں روشنی عطا کی ہے، یہ رحمن خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی روشنی ہے.اللہ تعالیٰ کی جو یہ صفت رحمانیت ہے اس کا انکار کرنے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھاؤ اور قبول کرو.کیونکہ اگر نہیں کرتے جیسا کہ میں نے کہا، تو لاشعوری طور پر خدا کی اس صفت کا انکار ہو گا.ہم وہ خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے مان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی لیکن صرف اسی پر راضی نہیں ہو جانا بلکہ اب یہ ہمارا کام ہے، ہمیں یہ حکم ہے ، عاجزی کے ساتھ ، عاجزی اختیار کرتے ہوئے خدا کی عبادت کرو، عبادتوں پر زور دو اور جو مخالفین کے تکبر کا جواب ہے وہ نرمی اور ملائمت اور سلام سے دو، ان کے لئے دعا کرو کیونکہ یہی رحمن خدا کے بندوں کا کام ہے.ان آیات کی تشریح میں جو میں نے پہلے پڑھی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمَنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمَنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَجَعَلَ فِيْهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِيْرًا وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ اَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَمًا.“ (الفرقان : 61-64) یہ ساری آیات لکھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”یعنی کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمن کو سجدہ کرو تو وہ رحمن کے نام سے متنفر ہو کر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے؟.( پھر بطور جواب فرمایا ) رحمن وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائی ہے.یعنی وہ بے انتہا برکتوں والی ذات ہے اور اسی سے تمام بھلائیاں اور خیر پھوٹتی ہیں جو ہمیشہ رہنے والی ہیں." جس نے آسمان میں برج بنائے.برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا ہے.کائنات بنائی اس میں سورج اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کا فرومومن کے روشنی پہنچاتے ہیں.اسی رحمن نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائے جو کہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں.تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اٹھا وے“.ان گہری باتوں سے حکمت کی عقل کی باتوں سے فائدہ اٹھائے.اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے.اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر مستعد ہو وہ شکر کرے.رحمن کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بردباری سے چلتے ہیں.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرو اور اس کی طرف بہت توجہ ہونی چاہئے.پھر فرمایا " رحمان کے حقیقی پرستاروہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بُردباری سے چلتے ہیں.جو نرمی سے چلتے ہیں، جو عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے kh5-030425
629 خطبہ جمعہ 15/دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں.یعنی اگر کوئی سختی سے پیش آتا ہے تو سلام کہہ کر اور نرمی سے رحمت کے الفاظ استعمال کر کے ان کو جواب دیتے ہیں.ان لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں.نرمی سے ان کو جواب دیتے ہیں.یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں.اب احمدیوں کو بے انتہاء گالیاں پڑتی ہیں، گالیوں کا جواب گالیوں سے نہیں دیا جاتا بلکہ دعا دیتے ہیں.” اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں وہ ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ رحمان بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور دوسری بیشمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے.پس ان آیات میں خدا تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمان کا لفظ ان معنوں کر کے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہر یک بُرے بھلے پر محیط ہو رہی ہے.جیسا کہ ایک جگہ اور بھی اسی رحمت عام کی طرف اشارہ فرمایا ہے.عَذَابِي أُصِيْبُ بِهِ مَنْ اَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ ءٍ (الاعراف: 157) یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچاتا ہوں.اور میری رحمت نے ہر یک چیز کوگھیر رکھا ہے.تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت کی وجہ سے معاف کرنے کی طرف زیادہ راغب ہے.اور پھر ایک اور موقعہ پر فرما یا قُلْ مَنْ يُكْلَؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ (الانبياء: 43) یعنی ان کا فروں اور نافرمانوں کو کہہ کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے.یعنی اس کی رحمانیت کا اثر ہے کہ وہ کافروں اور بے ایمانوں کو مہلت دیتا ہے اور جلد تر نہیں پکڑتا.بعض لوگ سوال کر دیتے ہیں نا کہ جماعت پر ، احمدیوں پر اتنے ظلم ہو رہے ہیں کیوں عذاب نہیں آتا ؟ تو اصل میں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے.پھر ایک اور جگہ اسی رحمانیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَفْتٍ وَيَقْبِضْنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمن (الملك : 20) یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کبھی وہ بازو کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں.رحمان ہی ہے کہ ان کو گرنے سے تھام رکھتا ہے.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اول صفحه 447 تا 450 حاشیہ نمبر 11 تو اللہ تعالی کا جو یہ فیض ہے وہ ہر چرند پرند ہر ذی روح پر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا حاوی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس رحمن خدا کی پہچان کی توفیق عطا فرمائے.اس کا فیض عام اور اس کی رحمت جو ہر چیز پر حاوی ہے ، ہمیں اس کی عبادت کی طرف مزید توجہ دلانے والی ہو اور پھر اس فیض کو اپنی زندگیوں پر kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 630 خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2006 ء لاگو کر کے، بے لوث ہوکر ہم حقوق العباد ادا کرنے والے بنیں.اُن لوگوں کی اصلاح کی بھی فکر کریں جو ہمیں گالیاں دیتے ہیں.یہ لوگ بات سننے کو تیار نہیں ہیں لیکن جو ایسے سخت دل لوگ ہیں ان کے لئے دعا تو کر سکتے ہیں.ہوسکتا ہے کہ ہماری دعائیں رنگ لائیں ( انشاء اللہ تعالیٰ ).دل ایک دن نرم ہو جائیں اور انشاء اللہ ہوں گے.اس سلسلے میں بھی بہت دعا کرنی چاہئے.انسانیت کے لئے عموماً کہ وہ حق کو پہچانیں اور امت مسلمہ کے لئے خصوصا کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو رحمتہ للعالمین کی طرف منسوب کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ان لوگوں کو تباہی اور بربادی سے بچالے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:.ایک دعا کے لئے میں نے کہنا تھا انشاء اللہ دو تین دن تک میں جرمنی کے سفر پر جا رہا ہوں وہاں انہوں نے کافی بھر پور جماعتی پروگرام بنائے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور انشاء اللہ تعالیٰ قادیان کے جلسے کا آخری خطاب بھی 28 دسمبر کو وہیں سے ہوگا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سفر بھی بابرکت فرمائے اور پروگرام میں بھی ہر طرح کامیابی عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء 631 (51) خطبات مسرور جلد چهارم ہر احمدی کا کام ہے کہ اٹھے اور خدا تعالیٰ اور اسلام کا صحیح تصور پیش کر کے لوگوں کو بھٹکی ہوئی راہ سے واپس لائے جرمن ایک باعمل قوم ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ اگر آج کے احمدی نے اپنے فرائض تبلیغ احسن طور پر انجام دیئے تو اس قوم کے لوگ ایک عظیم انقلاب پیدا کر دیں گے فرموده مورخہ 22 / دسمبر 2006 ء (22 فتح 1385 ھش) مسجد بیت السبوح ، فرینکفورٹ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج کل مغرب میں، مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف ایک لحاظ سے بڑی شدید رو چلی ہوئی ہے، بعض کھل کر ذکر کرتے ہیں، بعض بظاہر مسلمانوں کے ہمدرد بن کر اسلام کی تعلیم کی بعض خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فی زمانہ ان پر عمل نہیں ہو سکتا اور ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو اسلام کی تعلیم پر اس لئے اعتراض کرتا ہے کہ وہ مذہب کے ہی خلاف ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات اور وجود کے ہی وہ لوگ منکر ہیں اور ان کا نظریہ یہ ہے کہ خدا کی ذات کا تصور ہی ہے جس نے دنیا میں یہ سب فساد پھیلا یا ہوا ہے.جیسا کہ میں نے اپنے ایک گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ انگلستان میں بھی ایک کتاب چھپی ہے جس kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 632 ا خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء کو اس سال کی بہترین کتابوں میں شمار کیا جا رہا ہے اور اس کو سب سے زیادہ بکنے والی کتاب کہتے ہیں.اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کی نفی کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اسی طرح جرمنی میں بھی اسلام اور خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق لغو اور بیہودہ باتیں کی گئی ہیں جیسا کہ یہاں جب پوپ آئے تھے تو انہوں نے یونیورسٹی میں اپنے لیکچر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام میں خدا کے تصور کے بارے میں ہرزہ سرائی کی تھی.ایسی باتیں کیں کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ اس مقام کے شخص بھی جو امن کے دعوی دار اور محبتیں پھیلانے کے دعویدار ہیں ایسی باتیں کر سکتے ہیں.لیکن جس آزادی کے نام پر انہوں نے باتیں کیں یا بعض لیڈروں کے بیانوں میں دیکھنے میں آتی ہیں یا مختلف اوقات میں اسلام کے بارے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہایت گھٹیا اور دل آزار باتیں اخباروں میں لکھی جاتی ہیں.اس آزادی نے اپنا پھیلاؤ اس حد تک کر لیا ہے کہ یہاں کے جو رہنے والے اور کچھ نہ کچھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں اس آزادی نے ان کے مذہب عیسائیت اور حضرت عیسی جو ان کے یعنی عیسائیوں کے تصور کے مطابق خدا ہے، کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.اور یہاں گزشتہ دنوں اوپرا (Opera) میں جو ایک ایسا گھٹیا قسم کا ڈرامہ دکھایا گیا ہے جس پر عیسائیت یا مذ ہب سے ہٹی ہوئی اکثریت نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کو جائز قرار دیا ہے اور نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ پسند بھی کیا.یہ ستم ظریفی اس حد تک ہے کہ بعض مسلمان تنظیموں کے لیڈروں نے بھی اس کو جائز قرار دیا اس میں ترک لیڈر بھی شامل ہیں، دوسرے بھی ہیں.بہر حال مذہب سے لگاؤ رکھنے والا ایک عیسائی طبقہ ایسا بھی ہے اور بعض پادریوں نے بھی جب ہمارے لوگوں نے ان سے رابطہ کیا، بات کی تو انہوں نے احمدیوں کے احتجاج کو جائز قرار دیا اور اس حرکت کو غلط اور دوسروں کے جذبات سے کھیلنے والی اور آزادی اظہار کے نام پر دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی قرار دیا اور خدا اور انبیاء کی عزت پر حملہ قرار دیا.اور حقیقت بھی یہ ہے کہ آزادی کے نام پر دوسروں کے جذبات سے کھیل کر پھر یہ کہتے ہیں کہ اس پر اعتراض کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ مغرب کی آزادی ضمیر و اظہار کے خلاف آواز اٹھا رہے ہو اور پھر ایسا شخص جو بھی یہ آواز اٹھائے گا اس کو پھر ہمارے معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے.پھر جہاں تمہارا ملک ہے، وطن ہے، وہاں جاؤ.اپنے لئے یہ لوگ بڑے حساس جذبات رکھتے ہیں.اپنے لئے یہ اصول ہے کہ ہم جو چاہیں کریں، جس طرح آزادی سے اپنی زندگی گزارنا چاہیں گزاریں.جس طرح چاہیں جس کو چاہیں جو مرضی کہیں.اپنے لباس کا معاملہ آتا ہے تو جیسے چاہیں کپڑے پہنیں یا نہ پہنیں، بازاروں میں ننگے پھریں.لیکن اگر ایک مسلمان عورت خوشی سے اپنے سر کو kh5-030425
633 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ڈھانک لے، اسکارف باندھ لے تو ان کو اعتراض شروع ہو جاتا ہے.مختلف موقعوں پر ایسا شوشہ چھوڑ کے اصل میں مسلمانوں کو ، نو جوانوں کو اسلام سے، دین سے بدظن کرنے کے لئے ، بد دلی پیدا کرنے کے لئے یہ مختلف نوعیت کے اعتراضات اسلام پر اٹھاتے رہتے ہیں.اصل بات تو یہ ہے کہ دنیا ( جس میں مغرب پیش پیش ہے ) مذہب سے دُور ہٹ رہی ہے اور ہٹنا چاہتی ہے کیونکہ ان کے پاس جو بھی مذہب ہے اس میں زندگی نہیں ہے.زندگی دینے والا نہیں ہے انہوں نے تو بندے کو خدا بنا کر شرک میں مبتلا ہو کر آخر کو پھر اس حد تک جانا تھا جو ہم دیکھ رہے ہیں.لیکن مسلمان کہلانے والے بھی دنیا پرستی سے یا دنیا والوں کے خوف سے یا شعوری اور لاشعوری طور پر شرک خفی یا ظاہری میں مبتلا ہو کر اس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مذہب سے اور خدا سے دور لے جانے والی منزل ہے.ماضی میں بھی اس قبیل کے لوگ تھے جنہوں نے انبیاء کا انکار کیا، ان سے استہزا کیا، برائیوں اور شرک میں ڈوب گئے اور پھر اس کے نتیجہ میں ان پر عذاب بھی آئے.اللہ تعالیٰ نے تو انبیاء اس لئے بھیجے تھے یا بھیجتا ہے کہ ان کو مان کر بگڑے ہوئے لوگ راہ راست پر آجائیں اور اس دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں.لیکن انکار کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد باوجود وارننگ کے اور باوجود سمجھانے کے اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور عذاب کے نیچے آگئی ہے.بعض کی تاریخ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ ہم تک پہنچائی اور ان برائیوں کا ذکر کیا جو ان قوموں کے لوگوں میں رائج تھیں.آج دیکھ لیں وہ کونسی برائی ہے جو گذشتہ قوموں میں تھی اور جس کا خدا تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور آج کل کے لوگوں میں نہیں ہے اور انبیاء کے سمجھانے کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا سوائے چند لوگوں کے وہ ان برائیوں سے نہیں رکے تھے.ان قوموں کے لوگ بے حیائیوں میں بڑھے ہوئے تھے، اخلاقی برائیوں میں بڑھے ہوئے تھے، تجارتوں کی دھو کے بازیوں میں حد سے بڑھے ہوئے تھے.یہ لوگ اگر چھوٹے پیمانے پر دھو کے بازی نہیں کرتے تو بڑے پیمانے پر دھو کے بازیاں ہو رہی ہوتی ہیں.اپنے ہم قوموں سے نہیں کرتے تو غیر قوموں سے دھو کے بازیاں ہو رہی ہوتی ہیں.تو یہ سب کچھ یہاں بھی چل رہا ہے.جھوٹ میں وہ لوگ انتہا تک پہنچے ہوئے تھے جو آج بھی ہمیں نظر آتا ہے.شرک میں وہ لوگ بڑھے ہوئے تھے جو آج بھی ہم دیکھتے ہیں.غرض کہ مختلف قوموں میں مختلف برائیاں ایسی تھیں جن میں وہ حد سے بڑھے ہوئے تھے اور انبیاء کے سمجھانے پر باز نہیں آتے تھے.تو پھر جس کی مخلوق ہو جس نے کسی خاص مقصد کے لئے انسانوں اور جنوں کو اس دنیا میں بھیجا ہے.اس کے مقصد کو پورا نہیں کرو گے تو اس کے عذاب کو سہمیٹر نے والے بنو گے.یہی منطقی نتیجہ ان حرکتوں کا نکلتا تھا اور ماضی میں نکلتا رہا اور آئندہ بھی نکلے گا اور ہم نکلتا دیکھ بھی رہے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 634 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء ہیں.ورنہ پہلی قو میں حق رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں کہ ہمیں تو ان برائیوں کی وجہ سے سزاملی اور ہمارے بعد میں آنے والے آرام سے رہے ان کو کوئی سزا نہیں ملی.اللہ کیونکہ مالک بھی ہے بعض کو اس دنیا میں سزا ملتی ہے بعض کو مرنے کے بعد لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق ایسے لوگ پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے ضرور آتے ہیں.یہ جو آج کل کہتے ہیں نا کہ خدا تعالیٰ ظالم ہے.یہ خدا تعالیٰ نہیں ہے جو انبیاء کے ذریعہ سے لوگوں کی ایسی حالت کر دیتا ہے جس سے وہ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں بلکہ یہ اس قماش کے وہ لوگ ہیں جو اپنے ظلموں کی وجہ سے سزا پاتے ہیں.اگر انسانی قانون کو حق ہے جو انسان کا بنایا ہوا قانون ہے جو اکثریت کے رڈ کرنے سے تو ڑا بھی جاسکتا ہے، بدلا بھی جا سکتا ہے، کم و بیش بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خلاف چلنے والے کو سزا ملے.ویسے تو کہتے ہیں ہم انسانیت کے بڑے ہمدرد ہیں مثلاً یورپی ممالک میں عمر قید تو کسی شخص کو دیتے ہیں.ایک انتہائی سزا انہوں نے اپنے لئے مقرر کی ہوئی ہے کہ عمر قید ہی دینی ہے.بہر حال قانون ہے کہ کسی کو پھانسی نہیں دینی کیونکہ انسان کی جان لینا انسانیت نہیں ہے.بہر حال جب قتل کیا جائے تو جو قتل کر دے اس کو سزا نہیں دینی اور جو قتل ہوا، مقتول کا خاندان چاہے ساری زندگی اس کے بد نتیجے بھگتار ہے.تو بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ جب ان لوگوں کو اس بات کا حق ہے کہ مجرم کو سزا دیں، کم دیں، زیادہ دیں، جس کو بہتر سمجھتے ہیں دیں لیکن سزا دیتے ہیں.تو وہ جو مالک کل ہے اس کو کیوں حق نہیں ہے کہ اس کا قانون توڑنے والے کو سزا دے.لیکن یہ لوگ جو مذہب کا مذاق اڑانے والے ہیں ان کے پاس اس بات کے رو کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ حق حاصل ہے یا نہیں حاصل ، اس لئے کچھ تو اس قسم کے لوگ انجانے میں اور اکثریت جان بوجھ کر مذہب کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے.مذہب کی وہ بگڑی ہوئی شکل پیش کرتے ہیں جو انسان کی خود ساختہ ہے، نہ کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بعضوں پر اتارے گئے احکامات ہیں اور اس غلط تصویر کو پیش کر کے پھر کہتے ہیں کہ یہ وہ تعلیم ہے جو انبیاء لاتے ہیں اور یہ علیم ہے جوان انبیاء کے خدا نے ان پر اتاری ہے.پھر کہتے ہیں کہ پس ثابت ہو گیا کہ انبیاء بھی نعوذ باللہ فتنہ فساد و ظلم کرنے والے تھے اور خدا بھی ایسا ہی ہے.اب یہاں جو او پیرا (Opera) کا میں ذکر کر رہا تھا اس میں ڈرامہ رچایا گیا ہے جس میں انبیاء کی ہتک کی گئی ہے اس میں کہانی یہ بیان کی گئی کہ ایک جہاز سمندر کے طوفان کی زد میں آگیا.بادشاہ نے سمندر کے دیوتا کو کہا اس نے یہ دعا کی کہ اگر وہ محفوظ طریقے پر خشکی پر پہنچ گیا تو سب سے پہلے جس شخص کو دیکھے گا اس کی قربانی پیش کرے گا.اتفاق سے سب سے پہلا شخص جس پر اس کی نظر پڑی وہ اس کا اپنا بیٹا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 635 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء تھا.تو اس نے اپنا ارادہ بدل لیا.سنا ہے یہ کہانی تین سال پہلے بھی دو ہرائی گئی ہے.تو پہلے جو کہانی تھی اس میں یہ تھا کہ اس پر خدا ناراض ہو جاتا ہے اور دیوتا ناراض ہو جاتا ہے، قوم پر بڑی تباہی آتی ہے.اس پر بادشاہ اپنی قربانی پیش کرتا ہے تو عذاب ٹلتا ہے.اب کیونکہ مذہب کا بھی مذاق اڑانا تھا اور خاص طور پر مسلمانوں کو ٹارگٹ بنانا تھا، نشانہ بنانا تھا.اس لئے اب کہانی میں ذراسی تبدیلی کر کے ایک یونانی دیوتا اور ایک حضرت بدھ، حضرت عیسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلط قسم کی منظر کشی کر کے نہایت ظالمانہ فعل کے مرتکب ہوئے ہیں.بہر حال اب کہانی کو اس ظالمانہ منظر کشی کے بعد اس طرح بدلا گیا ہے کہ بادشاہ نے قربانی نہ کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس میں اب کہتے ہیں کہ وہ ٹھیک تھا اور انسانی عقل کو خدا کے ظالمانہ فیصلے پر غالب آنا چاہئے تھے.اور انبیاء کو اب انہوں نے خدا تعالیٰ کے عمومی ظلموں (نعوذ باللہ ) کے اظہار کے سمبل (Symbol) کے طور پر پیش کیا ہے.تو یہ ڈرامہ یہاں ایک دفعہ دکھایا جا چکا ہے اور چند دن تک دوسری دفعہ بھی ان کا دکھانے کا ارادہ ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان دنیا داروں کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے انبیاء کی بڑی غیرت رکھتا ہے.یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ہتک کے بھی مرتکب ہوتے ہیں، اس نبی کی ہتک کے بھی مرتکب ہوتے ہیں جس عظیم نبی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر میں نے تجھے پیدا نہ کرنا ہوتا تو یہ زمین و آسمان پیدا نہ کرتا.تو جس خدا کی ربوبیت اور رحمانیت کے صدقے یہ لوگ دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہورہے ہیں اسی پر الزام لگارہے ہیں.جس درخت پر، جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں.تو ان کو کوئی کہے کہ ظالم اور ناشکرے تو تم ہواے دنیا دارو! اور عقل کے اندھو!.مجھے پتہ چلا ہے کہ اس کو زیادہ اٹھانے والے وزراء اور بڑے لوگ ہیں کیونکہ جو تھیٹر کی ڈائریکٹر جو عورت تھی شاید اس نے ایک دفعہ اس بات کو ، اس چیز کو کاٹنے کا فیصلہ کیا تھا کہ انبیاء کا حصہ کاٹ دیا جائے.لیکن ان وزراء اور بعض لوگوں نے کہا نہیں ضرور دکھاؤ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں.ان لوگوں کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ ان کا اپنا یہ حال ہے کہ اخلاقی برائیوں کی انتہا میں ڈوبے ہوئے ہیں.غلاظت میں مبتلا ہیں اور حد سے بڑھے ہوئے ہیں.انہوں نے تو یہ کہنا تھا کہ ایسی برائیوں کو پھیلاؤ تا کہ ان پر پردہ پڑا ر ہے.مذہب کے تو وہ خلاف ہیں.پھر ایک اور بات بھی اس میں عجیب ہے کہ اس میں حضرت موسی کو کہیں ظاہر نہیں کیا گیا.ہم قطعا یہ نہیں کہتے کہ ان کو بھی کرنا چاہئے تھا.ہمارے نزدیک تمام انبیاء قابل احترام ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.لیکن ان کی نیت کا پتہ چلتا ہے کہ کیا ہے.بعض کا یہ خیال ہے، اخباروں والوں کا بھی ، کہ یہودیوں کو اس سے ٹھیس پہنچے گی.لیکن اتنی سی بات نہیں ہے.میرے خیال میں اس سے بہت آگے کی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 636 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء بات ہے.یہ اسلام کے خلاف بھی ایک بہت گہری سازش ہے.اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کو دشمن کے ہر شر سے بچائے.آج دشمنوں کی ان حرکتوں کا جواب دینا اور دنیا کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا کام ہے.پس ان کو بتائیں ، ہر احمدی اپنے ہر جاننے والے غیر کو بتائے.ان مسلمانوں کو بھی ہر احمدی بتائے جو فقط نام کے مسلمان ہیں کہ کیوں ان بیہودہ حرکتوں پر ہاں میں ہاں ملا کر اپنے آپ کو نجات دلانے کے بعد آگ کے گڑھے میں گرا رہے ہو.اور عیسائیوں اور لامذہبوں اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی بتائیں کہ انبیاء کا آنا دنیا کی ہمدردی کے لئے ہوتا ہے.ان کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلموں سے نکالنے کے لئے بھیجتا ہے نہ کہ ظلم کرنے کے لئے.آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ خدا جو اسلام کا خدا ہے جس نے اپنی صفت رحمانیت کے جلوے دکھاتے ہوئے تمہاری ان ظالمانہ حرکتوں کے باوجود تمہیں نعمتوں سے نوازا ہوا ہے اس کی طرف آؤ اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو.اس بات کو اپنے ذہنوں سے نکالو کہ خدا تعالیٰ نعوذ باللہ کبھی ظلم کر سکتا ہے.وہ تو انبیاء کو تمہاری ہمدردی کے لئے بھیجتا ہے تاکہ تمہیں برائیوں سے پاک کرے، جیسا کہ وہ خود انبیاء سے اعلان کرواتا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُوْمِنِيْنَ (الشعراء: 4 ) کہ شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں مومن نہیں ہوتے.ان انبیاء کی خواہش ہوتی ہے تو صرف اس قدر کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والے ہوں ، اپنے مقصد پیدائش کو جاننے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے صرف دنیاوی انعامات نہیں بلکہ روحانی انعامات بھی حاصل کرنے والے بنیں.وہ اپنی راتوں کی نیندیں لوگوں کے غم میں ہلکان کر لیتے ہیں کہ وہ ایمان لائیں اور اللہ کی رضا حاصل کریں.پس یہ اسلام کی تعلیم ہے جس میں تمہارے لئے نجات ہے اور اللہ کی رضا بھی ہے.پس اگر کسی سمندر یا پانی یا ہوا کے خدا کا تصور ہے تو وہ تم انسانوں کا پیدا کیا ہوا تصور ہے.اسلام کا خدا تو ایک خدا ہے.سب طاقتوں کا مالک خدا ہے.جو غیب کا علم بھی جانتا ہے اور حاضر کا علم بھی جانتا ہے.اس خدا نے جو اسلام کا خدا ہے اپنی پاک تعلیم جو قرآن کریم میں اتاری ہے اس کے مطابق ہمیں یہ بتایا ہے کہ جب ایسے باغیانہ رویے رکھنے والے لوگ سمندری طوفانوں میں پھنس جاتے ہیں تو پھر مجھے یاد کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ہم بچ گئے اور خشکی پر پہنچ گئے تو ضرور تیری عبادت کریں گے تو ہمیں بچالے.لیکن جب خشکی پر پہنچتے ہیں تو پھر خدا کو بھول جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے اور رحم کی وجہ سے ہی اپنے انبیاء بھیجتا ہے تا کہ اپنے بندوں کو شیطان کے چنگل سے نکالے.اور وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم تم سے اس خدمت کا کوئی اجر نہیں مانگتے ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے kh5-030425
637 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم ك إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (هود : 52) میرا اجر اس ہستی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے.اور یہ پیغام بھی ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس قوم کے ہر فرد تک پہنچا دے کہ اے بھولے بھٹکے ہوئے لوگو! اے اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹے ہوئے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم کرتے ہوئے اس زمانے میں بھی اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی میں اپنا ایک نبی مبعوث فرمایا ہے.پس بجائے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام تراشی کرنے اور اللہ تعالیٰ پر بدظنی کرنے کے اور نعوذ باللہ اس رحمن خدا کو ظالم قرار دینے کے، اس خدا کی پناہ میں آ جاؤ جو ماں باپ سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہوتا ہے.وہ اپنے بندے کو آگ سے بچانے کے لئے دوڑ کر آتا ہے بشر طیکہ بندہ بھی اس کی طرف کم از کم تیز چل کر آنے کی کوشش تو کرے.سنو اس زمانے کے امام اور اللہ تعالیٰ کے اس نبی نے کس پیار اور ہمدردی سے اپنے مبعوث ہونے کے مقصد سے آگاہ کیا.آپ فرماتے ہیں : ” وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں“.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180) پس آج ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علم و عرفان اور دلائل کے بے بہا خزانے دے کر اس کام کے لئے کھڑا کیا ہے.ہر احمدی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سچا عہد بیعت ہے اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اس عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے بھی اور اس جذ بہ ہمدردی کے تحت بھی جس کے اظہار کا ہمیں اس طرح حکم ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہو، اپنے بھائی کے لئے پسند کرو اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمارے سپر دفرمایا ہے اس قوم کے ہر فرد تک پہنچا ئیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور اس کے عملی نمونے ہم آج کل دیکھ بھی رہے ہیں.عملاً یہی کچھ ہو رہا ہے کہ اس کدورت کی وجہ سے اس بدظنی اور میل کی وجہ سے جو نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے بندے اور خدا میں پیدا کر دی ہے بندے اور خدا میں دُوری پیدا ہوگئی ہے.kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 638 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء ہر احمدی کا کام ہے کہ اٹھے اور خدا تعالیٰ کے تصور کی صحیح تصویر اور اسلام کا صحیح تصور پیش کر کے ان لوگوں کو اس بھنگی ہوئی راہ سے واپس لائے اور اکثریت کے دل میں خدا تعالیٰ اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کے مقدس بندوں کے لئے محبت اور اخلاص کے جذبات پیدا کر دیں تا کہ تمام انسانیت جنگوں کی بجائے سچائی پر قائم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والی بنے اور روحانیت میں ترقی ہو اور اگر ایسا ہو جائے گا تو پھر یقینا خدا پر الزام لگانے والے اس کے آگے جھکنے والے بن جائیں گے.انشاء اللہ.چند لوگوں کی حرکتوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں.انشاء اللہ تعالیٰ اس قوم میں احمدیت پھیلے گی اور جس طرح آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے جرمن احمدی اپنے ہم قوموں کے اس ظالمانہ رویے سے شرمندہ ہورہے ہیں.آئندہ انشاء اللہ لاکھوں کروڑوں جرمن احمدی ان لوگوں کے خدا اور انبیاء کے بارہ میں غلط نظریہ رکھنے پر شرمندہ ہوں گے.جرمن ایک باعمل قوم ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگر آج کے احمدی نے اپنے فرائض تبلیغ احسن طور پر انجام دیئے تو اس قوم کے لوگ ایک عظیم انقلاب پیدا کر دیں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ اسیح الثانی نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جرمن قوم کا کیریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلدی تعمیر کر لیا کہ حیرت ہوتی ہے.پھر فرمایا کہ جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اس روح کو بلند کرنے کے لئے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی.پس ہمارا یہ کام ہے کہ پیغام پہنچانا ہے جس میں ابھی بہت گنجائش ہے.لٹریچر جو یہاں آپ کے پاس ہے اس کا بھی میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک وقت میں چھپا اور ایک مہم کی صورت میں لگتا ہے کہ چند ہزار میں تقسیم ہوا اور پھر خاموشی سے بیٹھ گئے.بجائے اس کے کہ دوبارہ اس کی اشاعت کرتے.یا پھر سٹاک میں موجود ہے، کافی تعداد میں سٹاک میں پڑا ہوا ہے ، وہ بھی غلط ہے کہ تقسیم نہیں ہوا.آجکل موقع کی مناسبت سے لٹریچر آنا چاہئے اور یہ جو سوال اٹھتے ہیں یہ آج کے سوال نہیں ہیں.یہ ہمیشہ سے اٹھ رہے ہیں.ان کے جواب تیار پڑے ہیں.صرف آگے پہنچانے کی ضرورت ہے.ہر احمدی کے پاس یہ لٹریچر ہونا چاہئے.ہر احمدی مرد، عورت، بوڑھے اور جو ان کو حالات کے مطابق بھی اور عمومی تبلیغی لٹریچر بھی ہر جرمن تک پہنچانا چاہئے یا پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے.آجکل انٹرنیٹ اور ای میل وغیرہ کا استعمال بھی اس کام کے لئے ہورہا ہے.اس کے بارے میں بھی غور کریں کہ کس طرح استعمال کرنا ہے ، کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.اس کے غلط استعمال جو ہور ہے ہیں تو اس کا صحیح استعمال کیوں نہ کیا جائے.وقتا فوقتا ہر مبر پارلیمنٹ ، ہروزمیر، ہر بڑے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 639 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء افسر، ہر اخبار، ہر لیڈر جو بھی ہے اور ہر پڑھے لکھے تک احمدیت اور اسلام کا تعارف جو حقیقی تعارف ہے پہنچا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے زمانے میں ایک اشتہار شائع فرمایا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ جہاں تک بھی ڈاک کا انتظام موجود ہے وہاں میں اس کو ہندوستان میں پہنچاؤں گا.پھر آپ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:- فرماتے ہیں کہ : ” قرآن کی اشاعت کے لئے کھڑے ہو جاؤ.اور شہروں میں پھرو.پھر فرماتے ہیں ، انگریزی ولایتوں میں ( اس میں تمام یورپین ممالک شامل ہیں ) ایسے دل ہیں جو تمہاری مددوں کے انتظار کر رہے ہیں اور خدا نے تمہارے رنج اور ان کے رنج میں راحت لکھی ہے.تم اس شخص کی طرح چپ مت ہو جو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے اور بلایا جائے اور پھر کنارہ کرے.کیا تم ان ملکوں میں ان بھائیوں کا رونا نہیں سنتے اور ان دوستوں کی آواز میں تمہیں نہیں پہنچتیں ؟ کیا تم بیمار کی طرح ہو گئے اور تمہاری سنتی اندرونی بیماری کی طرح ہوگئی اور اسلام کے اخلاق تم نے بھلا دیئے اور تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی کو بھلا دیا ؟ تم نے مومنوں کا خُلق بھلا دیا.اے لوگو! قیدیوں کے چھڑانے کے لئے اور گمراہوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہو جاؤ.اپنے زمانہ کے ہتھیاروں اور اپنے وقت کی لڑائیوں کو پہچانو.فرمایا ”ہمارا زمانہ دلیل اور برہان کے ہتھیاروں کا محتاج ہے.ہر گز ممکن نہیں جو بغیر حجت قائم کرنے اور شبہات دور کرنے کے تمہیں فتح ہو.اور بلا شبہ روحیں اسلامی صداقت طلب کرنے کے لئے حرکت میں آگئی ہیں.(نورالحق الحصة الثانية - روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 247 تا 252 عربی تحریر کا اردو تر جمہ ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو ہمیشہ یاد رکھیں.جرمن نو احمدیوں کو بھی کہتا ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں شامل ہونے کا موقع دیا ہے پہلے سے بڑھ کر اس ہمدردی کے جذبات کے ساتھ احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام اپنے ہم قوموں تک پہنچائیں تا کہ یہ لوگ ایک خدا کو پہچان کر اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اگر اہل امریکہ و یورپ ہمارے سلسلہ کی طرف توجہ نہیں کرتے تو وہ معذور ہیں اور جب تک ہماری طرف سے ان کے آگے اپنی صداقت کے دلائل نہ پیش کئے جاویں وہ انکار کا حق رکھتے ہیں.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 150-151 جدید ایڈیشن مطوعه ربوہ ) kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 640 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا لٹریچر اور تبلیغ کا ہر ذریعہ اختیار کرنا چاہئے.چند ہزار میں لٹریچر شائع کر کے پھر بیٹھ رہنا کہ وہ کروڑوں کی آبادی کے لئے کافی ہو گا جنت الحمقاء میں بسنے والی بات ہے.ٹھیک ہے ہمارے وسائل ایک حد تک ہیں لیکن جو ہیں ان کا تو صحیح استعمال ہونا چاہئے.ایک طرف توجہ ہوتی ہے تو دوسری طرف بھول جاتے ہیں.پس صرف مرکزی سطح پر نہیں بلکہ ہر ریجن میں ، ہر شہر میں ، ہر اُس علاقے میں جہاں احمدی بستے ہیں یا نہیں بستے ایک تعارفی پمفلٹ چھوٹا سا پہنچ جانا چاہئے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا دوسرے الیکٹرانک ذرائع کا استعمال کریں.پوپ کی تقریر کے جواب میں انہوں نے ایک چھوٹا سا جواب تیار کیا تھا تو میرے کہنے پر کہ ایک تفصیلی کتابچہ شائع کریں جرمنی کی جماعت وہ جواب تیار کر رہی ہے.ان کو مرکز سے اور دوسری مختلف جگہوں سے ہم نے مواد مہیا کر دیا تھا.یہ مرکزی طور پر تیار ہو رہا ہے اور اب تک تیار ہو جانا چاہئے تھا.بہر حال میرے خیال میں آخری مراحل میں ہے.اللہ کرے کہ جلد چھپ جائے تو پوپ کو بھی اور یہاں کے ہر پڑھے لکھے شخص کے ہاتھ میں پہنچ جانا چاہئے جس سے پتہ چلے کہ اسلام کا خدا کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کیا ہے اور آپ کا اسوہ حسنہ کیا ہے.وہ ہستی جس کو یہ ظلم اور دہشت گردی اور شدت پسندی کا سمبل (Symbol) سمجھتے ہیں وہ تو سراپا رحم ہے.رحمتہ للعالمین کا لقب پانے والا ہے.جو سب سے بڑھ کر پیار محبت اور عاجزی کا علمبر دار ہے اور تعصب کی نظر سے نہ دیکھنے والے غیروں نے بھی جس کی تعریف کی ہے.پس یاد رکھیں کہ لڑ پچر اورتبلیغی مواد مہیا کرنا جہاں ملکی مرکز کا کام ہے وہاں میدان عمل میں اسے ہر گھر میں پہنچانا نہیں بلکہ ہر ہاتھ میں پہنچانا ہر چھوٹے بڑے، بوڑھے، جوان کا کام ہے.آپ کا کام ہے مستقل مزاجی سے اس کام میں جتے رہنا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.نتائج پیدا کرنے کی ذمہ داری خدا تعالیٰ کی ہے لیکن اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو طریق بتایا ہے وہ بہر حال اختیار کرنا ہوگا.ور نہ اپنی غلطیوں اور سستیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے والی بات ہوگی.تبلیغ کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرما دیا کہ صالح اعمال بجالانے والے ہو اور مکمل طور پر فرمانبردار ہو.نظام جماعت کا احترام ہو اور اطاعت کا مادہ ہو تبھی دعوت الی اللہ بھی کر سکتے ہو اور تم اس کا پیغام جو پہنچاؤ گے وہ اثر رکھنے والا بھی ہوگا.کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ کی مدد بھی حاصل ہوگی.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی باتوں کو پسند کرتا ہے جو ان خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں.فرماتا ہے کہ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ المُسْلِمِين ( حم سجدہ: 34) یعنی اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 641 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء اور نیک اعمال بجالاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.پس اپنی حالتوں کو سب سے پہلے اس تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہوگا جس کی آپ تبلیغ کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ ہوگی تو پھر نتائج بھی نکلیں گے کیونکہ کوئی دعوت الی اللہ، کوئی تبلیغ، کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی ، اس وقت تک ثمر آور نہیں ہو سکتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کے لئے اس کے حضور خالص ہو کر جھکنا اور تمام وہ حقوق جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہیں ادا کرنا ضروری ہے.تمام ان باتوں پر ، ان حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی ہے.خدا تعالیٰ سے ہر قسم کا معاملہ صاف رکھنا ضروری ہے.بندوں کے حقوق ادا کرنے ضروری ہیں.رحمی رشتوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے اور اپنے ماحول کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے.جہاں جہاں ، جس وقت کوئی احمدی جہاں کھڑا ہے اس کے اردگرد جو بھی اس سے مدد کا طالب ہے اس کی مدد کرنا ضروری ہے.اگر تبلیغ کرنے والے کے پیغام پہنچانے والے کے اپنے عمل تو یہ ہوں کہ اس کے ماں باپ اس سے نالاں ہیں، بیوی بچے اس سے خوفزدہ ہیں، عورتیں ہیں تو اپنے فیشن کی ناجائز ضروریات کے لئے اپنے خاوندوں کو تنگ کر رہی ہیں، ہمسائے ان کی حرکتوں سے پناہ مانگتے ہیں، ذراسی بات پر غصہ آ جائے تو ماحول میں فساد پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نیک اعمال نہیں ہیں.ایسے لوگوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا.اپنے نمونے بہر حال قائم کرنے ہوں گے.اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں گے تو اللہ تعالی ، انشاء اللہ برکت ڈالے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی ادائیگی کرنے والے ہیں اور نیک نمونے قائم کرنے والے ہیں اور کامل اطاعت کرنے والے ہیں تو اس وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بنیں گے.یا درکھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تجھے غلبہ عطا کروں گا.یہ غلبہ یورپ میں بھی ہے اور ایشیا میں بھی ہے، افریقہ میں بھی ہے اور امریکہ میں بھی انشاء اللہ ہوگا.اور جزائر کے رہنے والے بھی اس فیض سے خالی نہیں ہوں گے انشاء اللہ.پس آپ کا کام ہے کہ خالص اللہ کے ہوکر کامل فرمانبرداری دکھاتے ہوئے اور اعمال صالحہ بجالاتے ہوئے اس کے پیغام کو پہنچاتے چلے جائیں تاکہ ان برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے والے کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھ دی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یورپ اور امریکہ میں اسلام اور احمد بیت کا پیغام پہنچانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں امید کرتا ہوں کہ کچھ تھوڑے زمانے کے بعد عنایت الہی ان میں سے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 642 خطبہ جمعہ 22 /دسمبر 2006 ء بہتوں کو اپنے خاص ہاتھ سے دھکا دے کر کچی اور کامل توحید کے اس دارالامان میں داخل کر دے گی جس کے ساتھ کامل محبت اور کامل خوف اور کامل معرفت عطا کی جاتی ہے.یہ امید میری محض خیالی نہیں ہے بلکہ خدا کی پاک وحی سے یہ بشارت مجھے ملی ہے.لیکچر لا ہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180-181) پس یہ کام تو ہونا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ نے تمام سعید روحوں کو اسلام کی آغوش میں لانا ہے.یہ مخالفین اور یہ مذہب سے ہنسی ٹھٹھا کے جو موقعے پیدا ہور ہے ہیں یا ہوتے ہیں یہ ہمیں اپنے کام کی طرف توجہ دلانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں کہ آخری فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کیا ہوا ہے لیکن تمہارے میں جو سستی پیدا ہوگئی ہے اس کو دور کر کے اللہ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اللہ کی نظر میں بہترین بات کہنے والے بن کر اسلام کا حقیقی نجات کا پیغام اپنے ملک کے ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا دو کہ یہ آج سب سے بڑی خدمت انسانیت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء 643 (52 خطبات مسرور جلد چهارم آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہے جس نے اسلام کا دفاع کرنا ہے.اللہ کے بندوں کو اللہ کے حضور جھکنے والا بنانا ہے محبتیں بکھیرنی ہیں اور اسلام کی صحیح اور خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانی ہے.انشاء اللہ ہماری مسجدوں کے میناروں سے اللہ تعالیٰ کے نور کی کرنیں پھیلنی چاہئیں 1385/2 فرمودہ مورخہ 29 / دسمبر 2006 ء ( 29 / فتح 1385 ش) بمقام بیت السبوح، فرینکفورٹ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس دفعہ میں اس موسم میں امیر صاحب کے کہنے پر، جماعت جرمنی کی دعوت پر اس لئے آیا ہوں کہ امیر صاحب کی خواہش تھی کہ جو مساجد سال میں تعمیر ہوئی ہیں ان کا افتتاح ہو جائے.وہ ایک مہینہ پہلے مجھے بلانا چاہتے تھے لیکن میں نے یہ دسمبر کا آخر رکھا تھا اور بعض مساجد کا سنگ بنیاد بھی رکھنا ہے.ان سے یا یہ کہنا چاہئے کہ جماعت جرمنی سے وعدہ تو میرا یہ تھا کہ ہر سال پانچ مساجد بنائیں گے تو افتتاح کیلئے آؤں گا.لیکن ابھی تک اس سال کی جو بنائی گئی ہیں، جن کا افتتاح ہونا ہے صرف تین ہیں.تو ان مساجد کیلئے افتتاح کے لئے آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اب آپ سے تین پر راضی ہو گیا ہوں کہ چلو کچھ تو ہاتھ آیا.میرا زیادہ مقصد اور خواہش جو مجھے یہاں لائی ہے وہ برلن کی مسجد کا سنگ بنیاد ہے.کیونکہ یہاں مسجد تعمیر کرنا بھی جماعت کیلئے ایک چیلنج ہے.آج کل کے حالات کے لحاظ سے بھی اور تاریخی اعتبار سے بھی اس جگہ کی خاص اہمیت ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو برلن میں مسجد بنانے کی بڑی خواہش تھی اس کے لئے چندہ بھی جمع کیا گیا جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں لیکن حالات کی وجہ سے پھر وہ رقم لندن kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 644 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء الفضل کی تعمیر میں خرچ کر دی گئی.برلن کی مسجد کیلئے جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں عورتوں نے چندہ جمع کیا تھا اور بڑی قربانی کر کے انہوں نے چندہ جمع کیا تھا.لجنہ نے اس زمانہ میں ہندوستان میں یا صرف قادیان میں، زیادہ تو قادیان میں کہنا چاہئے ہوتی تھیں، تقریباً ایک لاکھ روپیہ جمع کیا تھا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کیا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی ، بڑی خطیر رقم تھی اور زیادہ تر قادیان کی غریب عورتوں کی قربانی تھی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.کسی نے مرغی پالی ہوئی ہے تو بعض مرغی لے کے آجاتی تھیں.کوئی انڈے بیچنے والی ہے تو انڈے لے کر آ گئی.کسی کے گھر میں بکری ہے تو وہ بیکری لے کر آ گئی.کسی کے گھر میں کچھ نہیں ہے تو گھر کے جو برتن تھے تو وہی لے کر آ گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک دفعہ تحریک جو کی تھی میرا خیال ہے کہ یہی تحریک تھی.فرماتے ہیں کہ میں نے جو تحریک کی تو عورتوں میں اس قدر جوش تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ سب کچھ گھر کا سامان جو ہے وہ دے دیں.ایک عورت نے اپنا سارا زیور جو تھا سارا چندے میں دے دیا.اور گھر آئی اور کہنے لگی کہ اب میرا دل چاہتا ہے کہ ( غریب سی عورت تھی معمولی زیور تھا) کہ اب میں گھر کے برتن بھی دے آؤں.اس کے خاوند نے کہا کہ تمہارا جوز یور تم نے دے دیا ہے کافی ہے.تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس وقت میرا اتنا جوش ہے کہ میرا اگر بس چلے تو تمہیں بھی بیچ کے دے آؤں.تو گو کہ جواب صحیح نہیں ہے لیکن یہ اس جوش کو ظاہر کرتا ہے جو قربانی کیلئے عورتوں میں تھا.حیرت ہوتی تھی اس وقت کی عورتوں کی قربانی دیکھ کر اور آج کل جو آپ اس وقت کے حالات کے مقابلے میں بہت بہتر حالات میں ہیں تو کہنا چاہئے انتہائی امیرانہ حالت میں رہ رہے ہیں.فرق بڑا واضح نظر آتا ہے.آپ لوگ آج شاید وہ معیار پیش نہ کر سکیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے جو ان لوگوں نے کئے تھے.کچھ عرصہ ہوا آپ کے صدر صاحب انصار اللہ نے مجھے لکھا کہ انصار اللہ نے 100 مساجد کیلئے وعدہ کیا ہوا ہے.پانچ لاکھ یا جتنا بھی تھا.جو میں نے ٹارگٹ دیا تھا ساروں کو اور فلاں فلاں اخراجات ہو گئے ہیں اس لئے مرکز ہمیں اتنے عرصہ کے لئے کچھ قرض دے دے تا کہ انصار اللہ اپنا وعدہ پورا کر سکے.تو میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ بالکل اس کی امید نہ رکھیں.یہ گندی عادت جو آپ ڈالنا چاہتے ہیں اپنے آپ کو اور پھر ایک آپ کو جو یہ گندی عادت پڑے گی تو باقی تنظیموں کو بھی پڑے گی.اس کو میں نہیں ہوتے دوں گا خود ہمت کریں، خود رقم جمع کریں.انہوں نے وعدہ پورا کیا یا نہیں کیا مجھے نہیں پتہ لیکن بہر حال انکار ہو گیا تھا.تو میں نے سوچا تھا کہ اگر انہوں نے زیادہ زور دیا یا کسی اور تنظیم نے لکھا تو پھر میں ان کو یہی جواب دوں گا کہ اب میں پاکستانی احمدیوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے ان امیر بھائی بہنوں کی مدد کریں کیونکہ یہ ہمت ہار رہے ہیں.اور کچھ تھوڑا بہت جوڑ کر آنہ دو آنے چندہ جمع کریں اور ان لوگوں کو بھجوا kh5-030425
645 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم دیں.لیکن میرا خیال ہے کہ میرا انصار اللہ کو جو جواب تھا وہ کافی اثر کر گیا اور امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب آپ لوگ خود اپنے پاؤں پر ساری تنظیمیں کھڑی ہوں گی.تو بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ اس مسجد کی جو برلن میں مسجد انشاء اللہ شروع ہوگی.میرے نزدیک یہ بڑی اہمیت کی حامل ہے جس کو تقریباً 86 سال بعد حالات ٹھیک ہونے پر ہم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انشاء اللہ بنائیں گے.اللہ تعالیٰ نے آج جرمنی کو پھر ایک کر کے ، دونوں جرمنی جو مغربی اور مشرقی جرمنی تھے ایک کر کے، دیوار برلن گرا کر ایسے حالات پیدا فرمائے ہیں کہ ہم وہاں مسجد بنانے کی خواہش کی تکمیل کرنے لگے ہیں انشاء اللہ.اس لئے ایک تو یہ ہے کہ فوری حالات ابھی سازگار ہیں فوری فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے تعمیر شروع ہو جائے گی اور جلدی ختم بھی ہو جائے.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ 2 جنوری 2007 کو وہاں سنگ بنیا د رکھا جائے گا.آپ بھی اور یہاں ایم ٹی اے کی وساطت سے دنیا کے احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے حالات ٹھیک رکھے اور یہ سنگ بنیاد رکھا بھی جائے اور مسجد کی تکمیل بھی ہو جائے.حکومتی اداروں کی طرف سے اللہ کے فضل سے اجازت مل چکی ہے.لیکن مقامی لوگوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جن کو نیشنلسٹ کہتے ہیں، جو شدید مخالفت کر رہے ہیں.چند ماہ پہلے جو علاقے کی کونسل کے لیڈرز نے سب کو اکٹھا کیا تھا کہ اس معاملے کو سلجھایا جائے تو ان لوگوں نے میٹنگ نہیں ہونے دی تھی اور اتنی شدید مخالفت کی تھی کہ ہمارے لوگ مشکل سے وہاں سے بیچ کر واپس آسکے تھے.تو اس لحاظ سے بہت دعا کی ضرورت ہے.گزشتہ مہینے کی بات ہے کہ آپ کے امیر صاحب جب لندن میں مجھے ملے تھے اور بڑے پریشان تھے اور کوئی فیصلہ نہیں کر سک رہے تھے کہ مسجد کی بنیاد میں رکھوں یا کس طرح رکھی جائے یا کیا کیا جائے ، جماعت بھی فیصلہ نہیں کر رہی تھی.تو میں نے انہیں کہا انشاء اللہ تعالیٰ میں سنگ بنیاد رکھوں گا اور یہ کوئی بات نہیں کہ حالات کی وجہ سے بنیا د رکھنے کے لئے نہ جاؤں.میں نے امیر صاحب سے کہا کہ انشاء اللہ جائیں گے اور اللہ مددفرمائے گا.یہ سر پھروں کا جو گروہ ہے وہ ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کر لے گا ، چند ایک پتھر پھینک دے گا.تو یہ چیزیں ہمارے راستے میں روک نہیں بننی چاہئے.تو امیر صاحب نے مزاقاً کہا کہ جرمن پتھر نہیں پھینکتے ،ٹماٹر مارتے ہیں.تو بہر حال جو بھی ہوا نتظامیہ کچھ فکر مند ہے.لیکن اگر نیک مقصد کیلئے اللہ کا گھر بنانے کیلئے اس کی عبادت کرنے کیلئے اور اس کی عبادت کرنے والے پیدا کرنے کیلئے اور اسلام کا محبت اور امن کا پیغام پہنچانے کیلئے اگر ہم اللہ کے حضور جھکتے ہوئے ، اس سے عجز سے دعائیں مانگتے ہوئے کہ وہ قادر توانا ہے جس نے ہمیں ہر آن آفات و مشکلات سے بچایا ہے مدد فرمائے اور ہم اس نیک کام کو انجام دیں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آسانیاں پیدا فرمائے گا.جرمن قوم عمومی طور پر اتنی سخت نہیں ہے جتنا کہ وہاں اظہار ہورہا ہے.برلن میں جیسا اظہار کیا جارہا kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 646 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء ہے ایک تو نیشنلسٹ ہیں وہ قوم پرست جو ہیں ہر قوم میں ہوتے ہیں.اور مشرقی جرمنی میں ایک لمبے عرصے کے حالات کی وجہ سے ایک خاص رد عمل ہے.وہ لوگ زیادہ کھردرے ہو چکے ہیں.بہر حال لیکن دوسری بد قسمتی یہ ہے کہ بعض مسلمان گروپوں نے اس فضا کو اور زیادہ بگاڑا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ کسی بات کا یا کم از کم کسی مسلمان گروپ کا، جماعت کا یقین کرنے کو تیار نہیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل.احمدی ہے جس نے اسلام کا دفاع کرنا ہے.اللہ کے بندوں کو اللہ کے حضور جھکنے والا بنانا ہے.محبتیں بکھیرنی ہیں اور اسلام کی صحیح اور خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانی ہے.انشاءاللہ ނ پس ایک تو مسجد بننے کے دوران بھی وہاں کے رہنے والے لوگ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی قسم کی بدمزگی نہ ہو.اگر مخالفین کی طرف سے سخت رویہ اختیار کیا جائے تو آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.کل قادیان کے جلسہ کے دوران میں نے جو تقریر کی تھی اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا حوالہ دے کر یہی بتایا تھا کہ ہمارے لئے حکم یہی ہے کہ صبر کرو اللہ تعالیٰ وقت پر سب کچھ ظاہر فرمائے گا، آسانیاں پیدا فرمائے گا.انگلستان میں جب ہارٹلے پول کی مسجد کی بنیا درکھی گئی اور وہاں تعمیر شروع ہوئی تو وہاں بھی بعض اسلام مخالف گروپوں نے نوجوانوں نے تعمیر کے دوران پتھر وغیرہ پھینکے تھے.پتھر مارتے تھے، شیشے توڑتے تھے تو یہ حرکتیں وہاں بھی ہوتی تھیں.لیکن جماعت کے نمونے اور مثبت رد عمل کی وجہ سے اردگرد کے ہمسایوں نے کچھ عرصہ کے بعد ہمارا دفاع کرنا شروع کر دیا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہر کوئی اس بات کی تعریف کرتا ہے کہ آپ لوگوں نے ہمارے غلط تاثر کو جو اسلام کے بارے میں تھا اس کو بالکل دھو دیا ہے.پس یہ تاثر جو یہاں بھی پیدا کیا گیا ہے یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ زائل ہو جائے گا.لیکن آپ لوگ کوشش کر کے اسلام کی تعلیم بھی ان لوگوں کو بتا ئیں.یہ آپ کا فرض ہے اور بتانی ہوگی.ان کو بتائیں کہ ہم یہ مسجد اس گھر کے نمونے اور اس مقصد کے لئے بنا رہے ہیں جو خدا کا پہلا گھر تھا اور جس کی بنیادیں رکھتے ہوئے ان باپ بیٹا نے جو دعائیں کی تھیں، وہ تھیں.رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة: 129 ) کہ اے ہمارے رب ہم اپنے دوفر ما نبردار بندے بنادے.ہماری ذریت میں سے بھی اپنی فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا.تو ایسے بندے بنا دے جو تیرے حکموں پر چلنے والے ہوں.تیرے بھی حقوق ادا کرنے والے ہوں اور تیری مخلوق کے بھی حقوق ادا کرنے والے ہوں محبت پیار اور امن کا پیغام دنیا میں پھیلانے والے ہوں.اور صرف ہم نہیں بلکہ ہماری اولادیں بھی ان نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی ہوں.ہمارا مقصد تو اس گھر کی بنیاد سے، اس گھر کی تعمیر سے یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرنے والے بنیں.ہمیں عبادت کے وہ طریق سکھا جس سے ہم تیرا پیار حاصل کر سکیں اور ہمیشہ ہم تیری راہ میں تیری خاطر قربانی kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم کرنے والے اور تیری عبادت کرنے والے رہیں.647 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء پھر اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی یہ بھی دعا ہمیں بتائی کہ اِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيْلَ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ (البقرة : 128 ) کہ اے ہمارے رب ہماری دعائیں قبول فرما، ہماری قربانیاں قبول فرما، تیری عبادت کی طرف توجہ رکھنے اور تیرے حکموں پر عمل کرنے کی ہماری جو کوشش ہے اپنے فضل سے اس کو قبول فرماتے ہوئے اس میں برکت ڈال دے.اور اس سے پہلے جو آیت ہے اس میں ذکر یہ ہے کہ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدَ امِنًا (البقرة 127 ) پس آپ لوگ یہ اعلان کریں کہ ہماری مسجد میں اس گھر کی تنتبع میں ہیں، جہاں بھی بنتی ہیں، جہاں بھی بنیں گی ، جس علاقے میں جہاں بھی بن رہی ہیں یہ اس شہر میں جہاں پر تعمیر ہو رہی ہیں امن کا پیغام پہنچانے اور امن قائم کرنے اور پیار محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے والوں کی دعاؤں کے لئے بنیں گی.اس لئے تم لوگ بے فکر رہو.ہماری مسجد سے تم دیکھو گے کہ اللہ کے حضور جھکنے والوں کے چشمے پھوٹیں گے.ہماری مسجدوں کے میناروں سے اللہ کی آخری اور کامل شریعت کی تعلیم کے نور کی کرنیں ہر سو پھیلیں گی.پس ہم سے کسی قسم کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے.ہم تو دنیا کے خوفوں کو دور کرنے والے ہیں.ہم تو دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اپنی قربانیاں دینے والے لوگ ہیں.ہم تو وہ لوگ ہیں جو اپنے حقوق چھوڑ کر دوسروں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں.پس یہ پیغام یہاں کے ہر باشندے کو پہنچا ئیں اور اس کیلئے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کریں.تو انہیں میں سے آپ دیکھیں گے کہ جو نیک فطرت لوگ ہیں آپ کے دفاع کیلئے نکلیں گے.جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ تجربہ ہو چکا ہے اس ملک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی یہاں جرمنی میں بھی بعض علاقوں میں.ہماری مسجدیں بنی ہیں تو پہلے وہی لوگ جو اعتراض کرتے تھے.جن کو ہماری مساجد کا ان کے علاقوں میں تعمیر ہونے پر اعتراض تھا اب وہ خود بڑھ کر ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں.پس اگر آپ لوگ نیک نیت ہو کر قربانیاں دیتے ہوئے مسجدیں بنانے کی کوشش کریں گے تو برلن میں ایک نہیں کئی مسجدیں بنانے والے انشاء اللہ بن جائیں گے.پس شرط یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ قربانیاں دیتے چلے جائیں اور عاجزی سے دعائیں کرتے چلے جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان حقیر قربانیوں اور کوششوں کو قبول فرمائے.یہ نہیں کہ وعدہ پورا کرنے کیلئے جماعت سے ہی قرض مانگنے لگ جائیں جیسا کہ میں نے مثال دی ہے.دنیا میں بے شمار غریب جماعتیں ہیں جن کی مدد کرنی ہوتی ہے.اگر آپ جو صاحب توفیق ہیں ان کو ہی رقم دے کر رقم بلاک کر دی جائے تو دنیا میں جو بے شمار مساجد بن رہی ہیں، جن کی مدد کرنی پڑتی ہے مشن ہاؤسز بن رہے ہیں، دوسرے تبلیغ کے منصوبے ہیں تو وہ پھر اس رقم کے بلاک ہونے کی وجہ سے پورے نہیں ہو سکتے.پس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں اور قربانیاں کر کے جیسا کہ میں نے کہا عاجزی سے اللہ کے حضور التجا کریں.کہ اے اللہ ہماری قربانیاں قبول فرما اور اس سے زیادہ کی بھی توفیق دے.مالی قربانی نام ہی اس بات کا ہے کہ اپنے پر نگی وارد کر کے اللہ کی راہ میں خرچ کیا kh5-030425
648 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم جائے.اللہ کے فضل سے جرمنی میں ایسے لوگ ہیں جو اس معیار پر پہنچے ہوئے ہیں.لیکن ابھی بھی بہت جگہوں پر بہت گنجائش ہے.آپ کی جان، مال، وقت کی قربانی ہی ہے جس نے جرمنوں کے دل جیتنے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اس ملک میں اسلام کے بارے میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے بارے میں خبر پہنچنے کی وجہ سے توجہ پیدا ہو گئی تھی.اگر دنیا کے حالات اور کچھ ہماری بستیوں کی وجہ نہ ہوتی تو یہاں بہت کام ہوسکتا تھا.لیکن اب آپ نے اس کا مداوا کرنا ہے اور ہونا چاہئے.یہاں میں ایک خط کا ذکر کرتا ہوں جو ایک جرمن عورت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کولکھا تھا.یہ بدر قادیان 1907ء میں کسی رپورٹ میں درج ہے.ایک عورت تھیں مسز کیرولین.انہوں نے لکھا کہ میں کئی ماہ سے آپ کا پتہ تلاش کر رہی تھی تا کہ آپ کو خط لکھوں اور آخر کار مجھے ایک شخص ملا ہے جس نے مجھے آپ کا ایڈریس دیا ہے.بلکہ ایڈریس جو دیا وہ بھی اس طرح ہے.لفافے پر لکھا ہوا تھا، بمقام قلر دیان علاقہ کشمیر ملک ہند، تو تب بھی قادیان پہنچ گیا.میں آپ سے معافی چاہتی ہوں کہ میں آپ کو خط بھتی ہوں کہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ خدا کے بزرگ رسول ہیں اور مسیح موعود کی قوت میں ہو کر آئے ہیں اور میں دل سے مسیح کو پیار کرتی ہوں.مجھے ہند کے تمام معاملات کے ساتھ اور بالخصوص مذہبی امور کے ساتھ دلچپسی حاصل ہے.میں ہند کے قحط بیماری اور زلازل کی خبروں کو افسوس کے ساتھ سنتی ہوں.مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ مقدس رشیوں کا خوبصورت ملک اس قدر بت پرستی سے بھرا ہوا ہے.ہمارے لارڈ اور نجات دہندہ مسیح کے واسطے جس قدر جوش آپ کے اندر ہے اس کے واسطے میں آپ کو مبارک باد کہتی ہوں اور مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر آپ اپنے اقوال چند سطور کے مجھے تحریر فرما دیں.میں پیدائش سے جرمن ہوں اور میرا خاوند انگریز تھا.اگر چہ آپ شاندار قدیمی ہندوستانی قوموں کے نور کے اصلی پوت ہیں.تا ہم میرا خیال ہے کہ آپ انگریزی جانتے ہوں گے.وہ بھتی ہیں کہ اگر ممکن ہو تو مجھے اپنا ایک فوٹو ارسال فرما ئیں.کیا دنیا کے اس حصہ میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتی ہوں.آپ یقین رکھیں پیارے مرزا کہ میں آپ کی مخلصانہ دوست ہوں.کیرولین ( دستخط ).تو یہ اس زمانے کی بات ہے جب رابطے اتنے آسان نہیں تھے جو آج کل ہیں.یہاں کوئی احمدی نہیں تھا، پتہ نہیں انہوں نے کہاں سے ایڈریس لیا.آج تو آپ یہاں ہزاروں میں ہیں.تبلیغ بھی کرتے ہیں اور مسجد میں بھی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.گو کہ مادیت کی طرف دنیا آج پہلے سے زیادہ ہے، مذہب سے ہٹی ہوئی ہے.لیکن ایک بے چینی بھی ساتھ ہی ہے.اس لئے دنیا کی بے چینی دور کرنے کی کوشش کریں.اِن لوگوں کو اسلام کی خوبیاں بتائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر جماعت کا اور اسلام کا تعارف کروانا چاہتے ہو تو جس علاقے میں کوشش کرنا چاہتے ہوں وہاں مسجد kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 649 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء بنا دو.اس کا میں پہلے بھی کئی دفعہ ذکر چکا ہوں کہ مسجدیں ہی ہیں جو تمہارا تعارف کروائیں گی.پس مسجدوں کا جال آپ کی تبلیغ میں آسانیاں پیدا کرے گا.اس لئے اس طرف خاص طور پر کوشش کریں.اللہ کرے کہ ہم یہ کام جلد سے جلد سرانجام دینے والے بن جائیں.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مشرقی جرمنی میں اس پہلی ایک مسجد پر خوش نہ ہو جائیں بلکہ اور مسجدیں بنانے کی بھی کوشش کریں.اللہ تعالی سامان پیدا فرمائے.پھر برلن میں جماعت کی تاریخ اور مسجد بنانے کے حوالے سے خلافت ثانیہ کے دور میں ایک تاریخ کا صفحہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں لکھا ہے کہ جرمنی میں سب سے پہلے پروفیسر فرنیزی ایل ایل ڈی اور ڈاکٹر او سکا جیسے قابل مصنفوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور ان کے دیکھا دیکھی برلن کے کالجوں کے پروفیسروں اور طلباء میں بھی تحقیق سلسلہ کی جستجو پیدا ہوگئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارادہ یہاں شاندار اسلامی مرکز قائم کرنے کا تھا اور اسی لئے مسجد برلن کی تحریک بھی آپ نے فرمائی.مگر جرمنی کے حالات بدل گئے اور کاغذی روپیہ کی عملی صورت بھی منسوخ ہو گئی.سونے کا سکہ بھی جاری ہو گیا.مسجد برلن کیلئے پہلے تمہیں ہزار کا اندازہ کیا گیا تھا پھر 15 لاکھ روپے کا اندازہ ہوا.تو ان حالات کی بناء پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تعمیر مسجد کا کام ملتوی کر دیا اور فیصلہ فرمایا کہ یورپ میں دومرکز رکھ کر طاقت تقسیم کرنے کی بجائے دار التبلیغ لندن ہی مضبوط کیا جائے اور اس سے وسط یورپ میں تبلیغ اسلام ہو.یہ فیصلہ مارچ 1924 ء میں ہوا اور مئی 1924 ء میں یہاں جرمنی میں جو مشن ہاؤس تھا وہ بند کر دیا گیا.آج جماعت پر اللہ کا فضل ہے کہ یہاں جرمنی کی جماعت احمدیہ اور مسجدوں کے علاوہ اس کے ساتھ ساتھ برلن کی مسجد کی تعمیر کی بھی تیاری میں ہے.اور جہاں 13 لاکھ روپیہ مشکل سے آتا تھا آج بہت ساری مساجد پر رو پیہ خرچ کر رہے ہیں اور اس کے باوجود میرا اندازہ ہے کہ اگر روپوں میں اسے دیکھا جائے تو سات آٹھ کروڑ روپے کا خرچ ہو جائے گا.پس ان فضلوں کو ہمیں شکر گزاری کی طرف اور زیادہ مائل کرنے والا ہونا چاہئے.پہلے سے بڑھ کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو یہاں کے لوگوں تک پہنچائیں.اور آپ کا جو پیغام ہے، آپ نے جو مسجدیں بنانی ہیں اور آپ کے رویے جو ہیں ان کی وجہ سے یہ مسجد میں جو ہیں اس ملک میں امن کا شمبل (Symbol) بن جائیں.امن و آشتی کا ایک نشان بن جائیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہماری مسجدوں کے میناروں سے اللہ تعالیٰ کے نور کی کرنیں پھیلنی چاہئیں جس کا ادراک ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی خوبصورت تعلیم کے ذریعہ سے کروایا ہے تو جب تک ہم اس نور کو پھیلانے والے نہیں بن سکیں گے تب تک ہم مسجدوں کے حقوق ادا نہیں کر سکیں گے.اس لئے مسجدوں کی تعمیر کے مقصد کو جاننے والا بنا ہو گا کہ مقصد کیا ہے اور ہم نے کیا کرنا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَاتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أَوْلِئِكَ اَنْ يَكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة : 18) الله kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 650 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے.پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں.یہ وہ سبق ہے، یہ وہ حکم ہے، جو ہر حدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بغیر اللہتعالیٰ پر کامل و مکمل ایمان کے یہ دعویٰ غلط ہے کہ ہم اللہ کا گھر بنا رہے ہیں جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے.اللہ پر ایمان کی شرائط جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں وہ کیا ہیں؟ صرف اتنا کہہ دینا کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں.یہ کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے لئے بعض شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے پر ایمان لانے والے کی ایک شرط یہ ہے کہ ایمان لانے میں سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتا ہو.فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ امَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: 166) ہر غیر اللہ کاروبار روپیہ جائیدادسونا چاندی زیور رشتہ دار اولاد کی ایک مومن کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہئے ، نہ کسی مخفی شرک میں مبتلا ہو، نہ کسی ظاہری شرک میں مبتلا ہو.ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسجدوں میں ہر قسم کے لالچ اور مفاد سے بالا ہو کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے آتے ہیں.پھر ایک نشانی اللہ پر ایمان والوں کی یہ بتائی کہ جب اللہ کا نام ان کے سامنے لیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں.فرمایا اِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (الانفال : 3 ) کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ان کے سامنے بیان کئے جائیں تو فوراً توجہ کرتے ہیں ڈرتے ہیں کہ نافرمانی سے کہیں پکڑے نہ جائیں، کسی گرفت کے نیچے نہ آجائیں.مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض لوگ چاہے چند ایک ہی ہوں یہاں یا دنیا میں کہیں بھی بڑے انہماک سے خطبے بھی سنتے ہیں، جماعت کے اجلاسوں میں بھی شامل ہوتے ہیں لیکن عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا کام ہے اللہ رسول کی باتیں بتانا.انہوں نے بتا دیں تم نے بھی سن لیں ہیں نے بھی سن لیں لیکن کروں گا وہی جو میرا دل کرے گا.یعنی فیصلہ درست ہے لیکن پر نالہ وہیں رہتا ہے.تو ایسے لوگ خود ہی جائزے لیں کہ وہ ایمان کی کس حالت میں ہیں.ایمان لانے والوں کی پھر ایک نشانی یہ ہے کہ ہر دن ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے.ہر روز ایک نئی پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.اپنے یہ جائزے اب آپ نے خود لینے ہیں کہ کیا ہر دن جو چڑھتا ہے وہ آپ کے ایمان میں اور آپ کے اندر اللہ کے خوف میں زیادتی کا باعث بنتا ہے یا وہیں ڑکے ہوئے ہیں جہاں کل تھے.ایک نشانی یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں، اس کا پہلے بھی ذکر کیا ہے، تو یہ نہیں کہتے کہ ہم نے سن لیا جو دل چاہے گا کریں گے.بلکہ کہتے ہیں سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہ ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا.پس اگر یہ جواب نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی کامل نہیں اور پھر مسجدیں آباد کرنے والوں میں شمار نہیں ہو سکتے.یہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف فرمائی ہے.kh5-030425
651 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء خطبات مسرور جلد چهارم پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کی ایک نشانی یہ ہے، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لانے والے وہ لوگ ہیں جو سجدہ کرتے ہیں اور کامل فرمانبرداری سے سجدہ کرتے اور اللہ کی تسبیح و تحمید کرنے والے ہوتے ہیں.یہ نہیں ہے کہ ایمان لا کر کہتے ہوں کہ ہاں ہم ایمان لائے اللہ پر ایمان کا دعوی ہو اور پھر اللہ رسول کے مخالفین کے ساتھ محبت کا سلوک بھی ہو.ایک طرف تو یہ دعویٰ ہو کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا اور دوسری طرف امام کے مخالفین کے ساتھ دوستیاں بھی ہوں تو یہ دونوں چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں.ایمان کی نشانی تو یہ ہے کہ تم اللہ اور رسول اور نظام سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے بنو.دلوں میں کبھی اس بارے میں بال نہیں آنا چاہئے کہ یہ کیوں ہوا وہ کیوں ہوا بھی تم کامل الایمان کہلا سکتے ہو.غرض اور بہت ساری باتیں جن پر اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرنے والوں کو کار بند ہونا چاہئے ، ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے.اسی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے ایک بات یہ بتائی گئی کہ یوم آخرت پر ایمان ہو.اب اگر یوم آخرت پر حقیقی ایمان ہو تو ایسی باتیں انسان کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان میں کمزوری پیدا کرنے والی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ شیطان کے وساوس بہت ہیں اور سب سے زیادہ خطرناک وسوسہ اور شبہ جو انسانی دل میں پیدا ہو کر اسے خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَة کر دیتا ہے، آخرت کے متعلق ہے، کیونکہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا بڑا بھاری ذریعہ منجملہ دیگر اسباب اور وسائل کے آخرت پر ایمان بھی ہے.اور جب انسان آخرت اور اس کی باتوں کو قصہ اور داستان سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ رڈ ہو گیا.اور دونوں جہاں سے گیا گزرا ہوا اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کو خائف اور ترساں بنا کر معرفت کے سچے چشمے کی طرف کشاں کشاں لئے آتا ہے.اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہو سکتی.پس یا درکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور پڑ جاتا ہے.پس جسے آخرت کا خوف ہوگا اس کو سچی معرفت بھی ہوگی.وہی نیکیوں میں ترقی بھی کرے گا اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرے گا.اور ایسے لوگوں کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے پھر عبادت قرار دیا ہے اور یہ مسجد میں آباد کرنے والے لوگ ہیں.پھر فرمایا کہ مسجدیں آباد کرنے والے نماز کا قیام کرنے والے ہیں.مسجد کیلئے تھوڑا سا چندہ دے کر یہ نہیں سمجھتے کہ ہم نے جماعت پر بڑا احسان کر دیا ہے کہ مسجد کی تعمیر میں رقم دے دی ہے بلکہ مسجد میں تعمیر کرنے کے بعد ان کی آبادی کی فکر کرتے ہیں.نماز با جماعت کیلئے مسجدوں میں آتے ہیں.فجر کی نماز پر بستروں میں پڑے اینٹھتے نہیں رہتے.آج کل تو یہاں بڑی لمبی راتیں ہیں گرمیوں کی راتوں میں اکثر کی ایمانی حالتوں کا پتہ چلتا ہے.پس نماز با جماعت کی طرف بھی ایک فکر کے ساتھ توجہ ہونی چاہئے.پھر مسجدیں آباد کرنے والوں کی نشانی یہ بتائی کہ زکوۃ ادا کرنے والے ہیں.ایک دفعہ مسجد کی تعمیر میں چندہ دے کر ایک بڑی رقم بھی اگر دے دی ہے تو اس کے بعد آزاد نہیں ہو گئے بلکہ زکوۃ اور دوسرے kh5-030425
خطبات مسرور جلد چهارم 652 خطبہ جمعہ 29 /دسمبر 2006 ء جماعتی چندوں کی طرف بھی ایک فکر کے ساتھ متوجہ رہتے ہیں.اگر یہ توجہ قائم رہے گی اور اللہ کا خوف سب خوفوں پر غالب رہے گا کوئی ایسی حرکت نہیں ہوگی جو خلاف اسلام اور خلاف شرع ہو بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں گے تو پھر آپ کو مسجدیں وہ نظارے پیش کریں گی جو عابدوں اور زاہدوں کے نمونوں سے نظر آتے ہیں.یہ لوگ پھر اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں اور جس مقصد کو لے کر اٹھتے ہیں اس میں پھر کامیابیاں حاصل کرتے چلے جاتے ہیں.وہ اپنی دعاؤں کے تیروں سے مخالفین کے حملوں کو نا کام کر دیتے ہیں.پس اس سوچ کے ساتھ مسجدیں بنائیں اور انہیں آباد کریں تو جہاں آپ اپنی عاقبت سنوار رہے ہوں گے، اپنی آخرت سنوار رہے ہوں گے وہاں دنیا کی قسمت بھی سنوار نے والے بن رہے ہوں گے.ورنہ دنیا میں ایسی مساجد ہیں اور خاص طور پر اس زمانے میں جو مسلمانوں نے خود ہی اسلام کی شکل بگاڑ دی ہے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو آواز دینے والی ہیں.اس حالت کا نقشہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے.حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہ رہے گا ، الفاظ کے سواقر آن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اس زمانے کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی.لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِّنَ الْهُدَى ، علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے.ان میں سے فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے.(مشکوۃ المصابيح - كتاب العلم الفصل الثالث - حدیث نمبر ۲۷۶) تو کیا ان مسجدوں میں نمازیں نہیں ادا کی جاتیں.آج کل تو ہمارے مخالف زیادہ زور سے پڑھ رہے ہوتے ہیں.ظاہری نمازیں پڑھتے ہیں سب کچھ کرتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ نے شرط بتائی ہے ایمان کی اس کو وہ زمانے کے امام کو نہ مان کر پورا نہیں کر رہے.پس یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا ہے اس پر اور زیادہ اللہ تعالی کے آگے جھکیں اور اس کے بتائے ہوئے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں تا کہ یہ فضلوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں.پس آج جب ہم نئی مساجد بنا رہے ہیں اس سوچ کے ساتھ بنائیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اس کی تعمیر اور آبادی کرنی ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.kh5-030425
اشاریہ (1) آیات قرآنیہ (2) احادیث.(3) مضامین (4) اسماء (5) مقامات.(6) کتابیات 3......9........13........32.......44......52.....
3 آیات قرآنیہ آیت کے ساتھ اس کا نمبر اور بعد میں کتاب کا صفحہ نمبر ہے ) لا اكراه في الدين (257) 1,132,462 البقرة قولوا للناس حسنا (84) و من اسلم وجهه الله (113) رب اجعل هذا بلدا أمنا (127) ربنا تقبل منا (128) اذ يرفع ابراهيم القواعد(128) 364 430 647 290, 292 647 ليس عليك هداهم (283) لا يكلف الله نفسا (287) ربنا لا تؤاخذنا ان نسينا (287) آل عمران 463, 472 549 168, 169 511 ربنا واجعلنا مسلمين لك (129) 495,646 رب هب لي من لدنك (39) والذين امنوا اشد حبا الله (166) شهر رمضان الذي (186) 650 491 144, 464 ربنا اننا أمنا فاغفر لنا (17).وقل للذين أوتوا الكتاب والاميين (21) 517 497 اذا سألك عبادي (187)503 ,93,395 83, 144 قل ان كنتم تحبون الله(32) وقاتلوا في سبيل الله (190) ربنا أمنا بما انزلت (54) وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة (194) 464 ولقد نصركم الله ببدر (124) وانفقوا في سبيل الله (196) 5,167,237 حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطى (239) 399 520 274 اطيعوا الله والرسول لعلكم ترحمون (133) 286 188 من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا (246) 498 170 ربنا اغفر لنا ذنوبنا واسرافنا في امرنا (148) وشاورهم في الامر (160) 157
4 الذين يذكرون الله قياما و قعودا (191) | رحمتی وسعت كل شيء(157) 586,621 485 عذابی اصیب به من اشاء(157) ربنا اننا سمعنا مناديا (194) 497542 | والله الاسماء الحسنى (181) 596 629 395 واذكر ربك في نفسك تضرعا (206) 221 النساء يا ايها الناس اتقوا (2) وعاشروهن بالمعروف (20) والتي تخافون نشوزهن (35) والله اعلم باعدائكم (46) 563 568 567 313 الانفال اذا ذكر الله وجلت قلوبهم(3) واذكروا اذ انتم قليل (27) واذكروا الله كثيرا (46) التوبه 650 276 224 تؤدوا الامانات الى اهلها (59) 159160 اطيعوا الله واطيعوا الرسول (60) 277279 و من يقتل مومنا متعمدا (94) 105 ان الصلواة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا (104) المائده 188 يا ايها الذين امنوا اذا قمتم الى الصلواة (7) 187 472 وان احد من المشركين (7) انما يعمر مساجد الله (18) 289,649 لقد نصركم الله في مواطن (25,26 308 الا تنصروه فقد نصره الله (40) لا تحزن ان الله معنا (40) 273 306 فمن اهتدى فانما يهتدى لنفسه (109) 463 هود يا ايها الذين أمنوا كونوا قوامين لله شهداء رب انى اعوذ بك ان اسئلك (48) 508 بالقسط (9) 465 فافرق بيننا وبين القوم الفاسقين (25) 520 الاعراف ربنا ظلمنا انفسنا (24) ربنا افتح بيننا(90) 498 519 ان اجرى الا على الذي فطرني(52) 637 وما كان ربك ليهلك القرى (118) 51 يوسف لا تايئسوا من روح الله (88) لا تشريب عليكم اليوم (93) 455 144
5 رب قد اتيتني من الملك (102) الرعد 484 طة اننى انا الله لا اله الا انا فاعبدني(15) 213,233 الا بذكر الله تطمئن القلوب (29) 224,225 الا يرجع اليهم قولا (90) 394 كذلك ارسلناك في امة (31) 626 انا ناتى الارض ننقصها من اطرافها (42) 62 ابراهيم لئن شكرتم لازيدنكم (8) 387 ولقد قال لهم هارون من قبل (91) 626 الانبياء قل من يكلؤكم بالليل والنهار (43) 629 قالوا حرقوه وانصروه (71-69) رب اجعلني مقيم الصلوة (41) 394493 ونوحا اذ نادي من قبل (78-77) الحجر وان من شيء الا عندنا خزائنه(22) 585 272 271 وما ارسلناك الا رحمة للعالمين(108) الحج 75,83,622 فسبح بحمد ربك وكن من الساجدين (99) 601 بنی اسرائیل ان الذين تدعون من دون الله (75-74 475 المومنون وما كنا معذبين حتى نبعث رسولا (16) 62,321 رب انصرني بما كذبون (27) من اهتدى فانما يهتدى(16) 65 رب ارحمهما كما ربینی صغیرا (25) 518 575 519 رب اعوذ بك من همزات الشيطان (98) 520 ربنا أمنا فاغفر لنا.....وانت خير قل ادعوا الله او ادعوا الرحمن (111) 483 الراحمين (110) الكهف النور فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر (30) 463 وقل رب اغفر وارحم(119) مریم رب السموات والارض (66) 234 ولا يأتل اولوا الفضل(23) واقيموا الصلواة وأتوا الزكوة (57) 544 497 612 216
6 ليس على الاعمى حرج (62) الفرقان 570 واذا قيل لهم اسجدوا للرحمن(64-61) 627 ربنا هب لنا من أزواجنا (75) 487 روم وكان حق علينا نصر المومنين (48) 96,98 الاحزاب ان الله وملائكته (57) 75,87,103,107 قل ما يعبؤ بكم ربي لو لا دعاؤكم (78) 34 ان الذين يؤذون الله وسوله (58) 85 235, 395, 480 فاطر الشعراء لعلك باخع نفسك(4) 636 وان من امة الاخلا فيها نذير (25) 587 يس رب هب لي حكـمـا والحقني والقمر قدرناه منازل (40) بالصالحين(84) 486,599 الصافات واجعل لى لسان صدق في الآخرين (85) 486 رب هب لي من الصالحين (101) واجعلني من ورثة جنة النعيم(86) 487 ولقد مننا على موسى(115) فافتح بينى وبينهم فتحا(119) النمل 519 رب اوزعنی ان اشكر (20) 515598 امن يجيب المضطر (63) القصص قال رب انی ظلمت نفسی (17) العنكبوت 391 600 67 517 272 301 ولقد سبقت كـلـمـتـنـالـعبـادنــا المرسلين.......(173-172) الزمر بل الله فاعبد وكن من الشاكرين(67) 387 المومن انا لننصر رسلنا(52) 267, 271 ادعوني استجب لكم(61)1394,481,588 رب انصرني على القوم المفسدين (31) 536 الله الذي جعل لكم الليل(62) كل نفس ذائقة الموت (59-58) 429 ذلكم الله ربكم (63) 589 589
الله الذي جعل لكم الارض فرارا (66-65) قل اني نهيت ان اعبد(67) 391,590 593 حم السجدة ومن احسن قولا ممن دعا الله (35-34) 298,299,640 الاحقاف اصلح لي في ذريتي (16) 517 محمد ياكلون كما تاكل الانعام(113) 230 7 القمر رب انی مغلوب فانتصر (11) الرحمن كل من عليها فان (28) الحديد 519 429 الى وما لكم الا تنفقوا في سبيل الله (11) 5 ان تتقوا الله يجعل لكم فرقانا (29) 166 الحشر ربنا اغفر لنا ولاخواننا (11) 505 هو الله الذي لا اله الا هو (23) 473,619 وان تتولوا يستبدل قوما غيركم (39) 9 الممتحنه ربنا عليك توكلنا واليك انبنا(6-5) 507 الفتح رحماء بينهم (30) الحجرات انما المؤمنون اخوة (11) 201 149 الصف يا ايها الذين امنوا هل ادلكم (12-11) 13 الجمعة ولا تلمزوا انفسكم ولا تنابزوا(12) 259 و آخرين منهم لما يلحقوا بهم (4),17,69,70 اجتنبوا كثيرا من الظن (31) الذاريات 262 95,157,243,446 يا ايها الذين امنوا اذا نودی وما خلقت الجن والانس(57) 178,480,488 للصلوة (12-10) 527
8 التغابن التكوير وانفقوا خيرا لانفسكم (17) 168237 واذا الشمس كورت واذا العشار عطلت (2,8,11) 71 الفجر فادخلی فی عبادی (31-30) 598 العلق اقرأ باسم ربك الذي خلق (2) 605 الفيل الم تر كيف فعل ربك باصحاب الفيل (2) 311 509 519 629 97 191 التحريم ربنا اتمم لنا نورنا واغفر لنا (9) رب ابن لي عندك بيتا (12) الملك أولم يروا الى الطير فوقهم (20) الحاقة ولو تقول علينا (47) نوح استغفروا ربكم (12-11)
189 410 139 96 96 455 95 365 384 466 521 96 96 376 6 احادیث 229 | قرة عيني في الصلوة لا اله الا وحده اعزّ جُندَهُ لا تخيروني على موسى لا مهدى الا عيسى 388 389 388 التائب من الذنب اللهم اجعلنى لك شاكرًا اللهم اعنى على ذكرك اللهم اعنى على شكرك اللهم اعنى عليهم بسبع 401 لكل داء دواء اللهم اغفر لحينا.دعائے جنازہ 438 لو كان الايمان معلقاً با لثريا مامن اللهم ان اهلكت هذه العصابة 274 ما من شئى يوضع في الميزان 520 من لا يشكر الناس لا يشكر الله اللهم انا نجعلك اللهم انى اعوذ بك من منكرات 536 من قتل معاهدًا لم يرح رائحة الجنة یا مقلب القلوب ثبت قلبي يضع الحرب يقتل الخنزير احادیث بالمعنی آپ پر اوجڑی رکھ دینا اور آپ کا کفار مکہ کا نام 403 لے کر بد دعا کرنا اور اس کی قبولیت آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کر کے 7 306 308 آنحضرت یہ جنگ کرتے تو یہ دعا کرتے 521 408 586 98 265 574 536 الاخلاق اللهم مصرف القلوب اللهم منزل الكتب ان الله تعالى يحب المسلمين في الدعاء ان لمهدينا آيتين حسن الظن من حسن العبادة خيركم خيركم لاهله رب اغفرلی خطیئتی و جهلی علماء هم شر من تحت اديم السماء 61 آنحضرت ﷺ کا جنگ یا مہم سے پہلے دعا کرنا
10 آنحضرت ﷺ کا سحری کے بغیر روزہ رکھنا اور 609 اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو فرمانا کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے آنحضرت علیہ کا عید کے بعد عورتوں میں وعظ اور عورتوں کا مالی قربانی کرنا آنحضرت ﷺ کا یہودی جنازہ کا احترام میں کھڑا 140 ہونا 8 اللہ لوگوں سے علم یکدم نہیں چھینے گا 174 69 69 انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اپنے مال کے 174 سائے میں رہیں گے ایک جنازہ پر فر ما یا واجب ہوگئی ایک دوسرے سے حسد نہ کرو جاسوسی نہ کرو 430 261 آنحضرت ﷺ کثرت سے یہ دعا پڑھتے : اے 228 ایک صحابی کی دعا کہ جو آخرت میں سزا دینی ہے 499 : اس دنیا میں دے دو دلوں کو الٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثبات بخش ایک کا فرقیدی لایا گیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں 464 آنحضرت ﷺ کی دعا: اے رب میری مددفرما 311 | فرمایا پہلے اسلام لاتے تو ٹھیک تھا اور میرے خلاف دشمن کی مددنہ فرما ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے 149 ایک مسلمان کے لئے بدقسمتی ہے کہ رمضان آنحضرت ﷺ کے وضو کے پانی کو بھی نیچے نہ گرنے دینا ابوداؤد کی حدیث ، حراث کی تشریح اپنے بندے کی تو بہ پر اللہ اتنا خوش ہوتا ہے 18 92 191 پائے اور گناہ نہ بخشوائے ایک نابینا کا مسجد نہ آنے کی رخصت طلب 189 فرمانا کیسا اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے 260 ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی 60 285 نہ رہے گا اگر امیر میں گناہ دیکھو تب بھی اس کی اطاعت کرو 285 اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو اگر جوتی کا تسمہ بھی چاہیئے تو خدا سے مانگو 17,70 395 اے ابن آدم خرچ کرتا رہ میں تجھے عطا کروں گا اے محمد تیرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں 652 174 444 اذان دیتے ہوئے سنو تو وہی الفاظ دہراؤ پھر مجھ 111 باجماعت نماز پڑھنا اکیلے نما زپڑھنے سے 189 پر درود بھیجو ستائیس گنا افضل ہے اللہ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھتا اللہ عاجزی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے 219 بخل سے بچو 261 بطنی سے بچو اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے کس مال کا ثواب 173 9 260
11 بد قسمت وہ جس نے رمضان پایا اور والدین کو 518 جو ایک بار درود بھیجے گا اللہ دس بار رفعت بخشے گا 108 لیکن بخشش کے سامان نہ کروائے پاک کمائی سے ایک کھجور صدقہ کو بڑھانا پانچ نمازیں ، جمعہ سے دوسرا جمعہ تدفین کے بعد استغفار اور دعا تم میں حسد اور بغض کی بیماری راہ پاگئی یہ مونڈھ کر رکھ دینوالی ہے جامع دعا.....اللهم انا نسئلك عن خير ماسالك 591 532 438 جو دن میں ایک ہزار مرتبہ درود بھیجے گا 111 جو شخص اپنے حاکم سے نا پسندیدہ بات دیکھے وہ 287 صبر کرے جو شخص مجھ پر درود نہیں بھیجتا اس کا کوئی دین نہیں 259 جو مجھ پر درود نہ بھیجے وہ بخیل ہے 521 جب اللہ کی گرفت آئے گی تو سبھی پکڑے 54 اللہ جائیں گے جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے 492 چندہ صدقہ دینے کے لئے صحابہ کا مزدوری کرنا حسد سے بچو 110 109 10 258 حضرت علی کی روایت :شاوروا الفقهاء 158 المجاهدين حیا ایمان کا حصہ ہے 180 دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے 107 جب تک درود نہ بھیجا جائے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جب کوئی خوشی کی خبر پہنچے تو سجدے میں گر جاتے 388 دل نہ چاہنے کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا اور 189 187 مسجد جانا جب مسلمان مومن بندہ وضو کرتا ہے جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں 164 رسول الله عے سے زیادہ کسی کو تبسم فرمانے والا 366 ﷺ جمعہ پر سب سے پہلے آنے کی فضیلت جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی جمعہ نہ پڑھنے والے پر اللہ کی ناراضگی جنازے میں شامل ہونے پر ثواب 530 نہیں پایا.534 سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ قطع تعلق کرنے 218 35 والے سے تعلق قائم کرنا 531 سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق ماں 440 سچائی فرمانبرداری کی طرف راہنمائی کرتی ہے جنت کے قریب لے جانیوالی، اللہ کی عبادت اور 237 شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے نماز ، زکوۃ اور صلہ رحمی ظالم کی بھی مدد کرو جو اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کرتا ہے 261 غلام کو مارنے پر ناراضگی کا اظہار کا 518 265 39 155 139
260 320 159 12 قحط سالی کے خاتمہ کے لئے بارش کی دعا 401 مسلمان دوسرے کا بھائی ہے قیامت کی علامات کا ظہور 200 سال کے بعد 68 مسیح موعود کے دم سے لوگ مریں گے ہوگا مشورہ میری امت کے لئے رحمت ہے قیامت کے دن سب سے نزدیک میرے وہ ہو 108 مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے تمام 1389 گا جو زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب 110 وہ ہوگا جس نے درود زیادہ بھیجا معاملے خیر پر مشتمل مومن کے پیٹ میں اللہ کی راہ میں پڑی ہوئی 258 غبار اور جہنم کی پیپ دونوں جمع نہیں ہو سکتے کثرت سے اللہ کو یاد کرنا اور درود بھیجنائنگی کے 110 دور کرنے کا ذریعہ ہے کج خلقی کی بات ہے کہ کسی کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے کسوف و خسوف کسی نبی کے ساتھ ایک گروہ اور ایک بڑا گروہ 109 72 میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ سے مدد پاتا رہے گا میرے امیر کی اطاعت میری اطاعت ہے نماز کا چھوڑ نا کفر کے برابر 314 286 235 410 نماز کا چھوڑ نا انسان کو شرک اور کفر کے قریب 236 کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز 214 ترک نماز ہے کوئی اپنے غلام کو قیدی کہہ کر نہ پکارے کر دیتا ہے نوافل سے مومن میرا مقرب ہو جاتا ہے 544 613 وفات پر گھر والوں کے لئے کھانا کھلانے کی 439 لوگوں میں سب سے افضل مغموم القلب اور 259 صدوق اللسان تلقین وفات یافتگان کی خوبیاں بیان کرو مٹی میں ملے ناک...جس نے بوڑھے ماں 518 ہمسائے سے حسن سلوک کا حکم باپ کو پایا اور خدمت کر کے جنت میں داخل نہ 440 164 87 297 ہوسکا مجھ پر اللہ اور فرشتوں کا درود بھیجنا کافی ہے تمہیں حکم تمہیں محفوظ کرنے کے لئے ہے مسجد بنانے والا جنت میں گھر بناتا ہے
501 182 541 541 224 315 155 13 Li مضامین دنیا کی قسما قسم کی آگ اور اس سے آزادی ضمیر کی حدود کسی بھی مذہب کی بچنے کی دعا مقدس ہستیوں کے بارے میں نازیبا ابتلاء جماعت کی ترقی کے لئے آتا ہے ساری اظہار خیال آزادی کے زمرہ میں نہیں دنیا کے احمدیوں کی دعائیں آپ کے ساتھ آتا.مغرب میں آزادی کے دہرے معیار نام نہاد آزادی کے نقصانات 89 632 632 آزادی صحافت آزادی ضمیر کی حدود 104 پاکستان یا دیگر علاقوں میں آفات زلزلے اور تباہیوں کی وجہ..آفات سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ وقت کے امام کو پہچان لیا جائے ورنہ کسی کی حفاظت کی ضمانت نہیں 65 249 ہیں ابتلا سے احمدیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے 1974ء جماعت پر آنے والا ابتلاء اور اس کے ثمرات ہر قسم کے کمپلیکس اور احساس کمتری سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے کے لئے ذکر الہی کی ضرورت ہے احمدی / احمدیت آج احمدیوں کا فرض ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ آ جاؤ اسی میں ان آفات اور تباہیوں سے بچنے کا ایک خیر ہے ہی ذریعہ کہ خدا کو پہچانیں اور ظلم اور نا ایک احمدی کے فرائض انصافی کو ختم کریں 58
14 ایک احمدی کے دل میں عشق رسول احمدیت دینی تعلق اور اخوت میں صحابہ کہیں بڑھ کر ہے 122 کے مشابہ جماعت 242 احمدی نسل میں پاک اور صاف سوچ احمدیت پر خدا تعالیٰ کے مسلسل فضل اور اور 232 پیدا کرنے کے لئے نظام جماعت اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں 233 191 دنیا میں احمدی ہی مشکلات دور کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں جماعت احمد یہ ایک وحدت میں پروٹی 256 270 ذیلی تنظیموں کو کوشش کرنی چاہئے ہر احمدی مسیح موعود کے پیغام کو پہلے سے بڑھ کر دنیا کو پہچانے کی کوشش کرے ایک احمدی کی ذمہ داری کہ وہ مسیح موعود ہوئی ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی کے ارشادات کے مطابق قرآن کی احمدی کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام دنیا کے تعلیمات پر عمل کرے 180 احمد یوں کا اس کا احساس ہوتا ہے اس زمانے میں ہر احمدی کو چاہئے کہ احمدیت کی راہ میں بہایا ہوا خون کبھی ہمیشہ ربنا اللہ کو اپنے ذہن میں دہراتا رہے ہر احمدی کا فرض ہے کہ قوم کے ہر فرد تک مسیح موعود کے اس پیغام کو پہنچائے اور خدا اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کرے 591 637,638 احمدیوں کے اخلاص اور وفا کا تذکرہ 543 جماعت احمدیہ کے ایمان کا حصہ ہے نبی 123 اکرم ﷺ سے محبت کرنا ضائع نہیں جاتا احمدیت کا...امتیاز ہے کہ وہ ظلم کا بدلہ لینے کے لئے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتا 190 437 182 دشمن احمدیت سے خدا خود بدلہ لے گا 437 احمدیت کی مخالفت میں کھڑے فرعون اور دعا کی تحریک اخلاق اعلیٰ اخلاق اپنانے کی نصیحت اور اہمیت 519 205,206 خوش اخلاق اپنانے کی ضرورت واہمیت 365 احمدیت کی مخالفت کی یہ آندھی جماعت کو اذان کے بعد کی دعا ہر احمدی کو یاد کرنا اللہ کے فضل اور نصرت سے اونچا اڑا کر لے گئی 270 اور پڑھنا چاہئے 111
244 15 پاکستان میں احمدیوں کو اذان دینے کی کاش مسلمان سمجھ جائیں کہ اگر اسلام کی فوقیت ثابت کرنی ہے تو آنحضرت کے غلام صادق کی پیروی میں ہی ہوسکتی ہے 128 191,238 ممانعت استغفار کی اہمیت اور فوائد 388 اسلام کی اصل.کہ مجھے پکارو میں سنوں گا 393 استغفار کی بابت حضرت مسیح موعود کے 191 تا اسلام کی خوبصورت تعلیم جس میں غیر 131,132 461 565 78 145 516 131 631 مسلموں سے حسن سلوک اور جبر کے خلاف تعلیم ہے 192 510 ارشادات جنت میں استغفار کی دعا کا فلسفہ اسلام کی ترقی کے لئے تین باتوں کا اسلام کی خوبصورت تعلیمات اور عہد کریں.۱.خشیت اللہ.۲.تبلیغ آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اسلام ۳.مسلمانوں کو اقتصادی اور اسلام کی خوبصورت تعلیم گھر یلو تعلقات کی تمدنی غلامی سے نجات 82 بابت اسلام کی ترقی اور بقا حضرت مسیح موعود اسلام کو بدنام کرنے کا باعث مسلمان کے ساتھ وابستہ ہے 315 لیڈر اور عام مسلمانوں کا رویہ ہی ہے جو اسلام نے غالب آنا ہے اور ہمارا ایمان مغربی ممالک میں اپنایا ہوا ہے ہے اسلام/مسلمانوں کی کمزور حالت، پھر جنگ بدر کا معاملہ ہے خاص طور پر اسلامی دنیا میں مسیح موعود کی 155 274,275 عالم اسلام کی بدتر حالت عالم اسلام اور مسلمانوں کی یہ بدتر حالت اور اس کی وجہ امام کا انکار اسلام پر یہ اعتراض کہ برداشت اور آزادی کا تصور نہیں اس کا جواب اسلام کی تعلیمات پر اعتراضات اور 276 275 بعثت کا پیغام بڑے زور سے پہنچا ئیں اسلام کی شان تو قائم ہونی ہے اور احمدیت کے ذریعہ قائم ہونی ہے اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کی جرات 246 اس کا پر حکمت جواب
16 اسلام کا خدا صفت رحمانیت کے جلوے کیسا قادر ہمارا خدا ہے اور ہم کیسے خوش دکھانے والا اسلامی ممالک کی تنظیم کی ناکامی اسلامی دنیا کو خلفاء سلسلہ نے ہمیشہ سمجھانے کی کوشش کی ہے ہمارے اندر نہ کسی خاندان کی چھاپ نظر آئے نہ کسی کلچر کی نہ کسی ملک کا باشندہ 636 151 151 نصیب ہیں اللہ تعالیٰ کی قہری تجلی کے سائے منڈلاتے نظر آ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ اور آنحضرت کا ان کا مظہر کامل ہونا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عام ہے.ہونے کی اگر کوئی چھاپ نظر آئے تو اس ہر احمدی کا اپنے رب کے ساتھ مضبوط اسوہ حسنہ کی جو آنحضرت نے قائم فرمایا اور مسیح موعود نے پیش کیا حضرت مسیح موعود کا ایک اشتہار کہ ہندوستان بھر میں جہاں ڈاک کا انتظام ہے پہنچانے کا عزم اور ہمارے لئے پیغام اصلاح کا کام انبیاء کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے اطاعت نظام کی اہمیت اور برکت 288 639 154,155 208 216 '277 تعلق ہو صفت رب العالمین لفظ رب کے مختلف معانی اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کے بعض واقعات جو اللہ کے (صفت ربوبیت کے تحت) خاص سلوک کے حصہ دار بنے 417 102 622 603 580 583 576 604 صفت رب کی ایمان افروز تفسیر ، سیرت النبی اور سیرت مسیح موعود کے حوالوں سے 575 صفت رب العالمین کے نظارے حضور ہر بات جو خلفاء وقت کہتے ہیں ان سب کی انور کی زندگی میں.غانا میں 584 619 620 622 391 صفت رحمن کی تفسیر رحمن کی لغت رحمانیت کے دو واقعات صفت مجیب کا تذکرہ 288 287 اطاعت کرنا اصل میں اطاعت ہے صحابہ کی اطاعت کا نمونہ اور مثال الله اصفات الہیہ
17 صفت مجیب سیرت النبی ﷺ کے آئینہ میں 399 امیر ا نیشنل امراء کو ہدایت کہ تحقیق کے لئے صفت مجیب حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کمیشن بنا ئیں تو تقویٰ شعار لوگوں کے سپرد کے آئینہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت نصیر کی پر معارف تفسیر نصر کی لغت 413 267 268 کام کیا کریں یہ امت بڑی مشکل میں گرفتار ہے دعاؤں کی ضرورت......صفت ناصر نصیر سیرت النبی ﷺ کی روشنی امت مسلمہ کی کمزور حالت کا سبب مسلمانوں میں 301 کی کمزوری اور مسیح موعود کا انکار 281 154 270 صفت ناصر نصیر سیرت مسیح موعود علیہ 313 امت مسلمہ کے لئے دعائیں کرنے کی اپیل 146 327 امن کے قیام کا بنیادی نکتہ حب الوطنی السلام کی روشنی میں اور حب الانسانیت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید اور نصرت ہم ہمیشہ امن، صلح اور پیار او رمحبت کا میں ظاہر ہونے والے نشانات اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں اور رسولوں سے نصرت کے واقعات اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر جماعت احمدیہ کے حق میں 313 271 345 نعرہ لگانے والے لوگ ہیں انبیاء کے انکار اور ان سے استہزاء کی سزا کا ملنا ایک اٹل قانون قدرت ہے انٹرنیٹ میں آنے والے ایک عیسائی کا مضمون جماعت احمدیہ کے گرہن کے امراء امرکزی عہدیدران اگر چاہتے نظر یہ میں سقم کے عنوان پر ہیں کہ تعاون اور اطاعت کے معیار بڑھیں تو خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل اس طرح کریں 282 انٹرنیٹ اور ای میل کے نظام کو بہتر اور مفید رنگ میں استعمال کرنا انجام بخیر کے لئے اللہ اور رسول اور اولو الامر کی اطاعت اپنے اوپر لازم کر لیں 156 40 633 318 638 286
386 355 152 9 262-265 264 409 408 463 555 181 18 بد فطرت مولویوں اور مخالفین کے بھیانک ایم ٹی اے کے کارکنان کا شکریہ انجام کی خبر انسان کی پیدائش کا مقصد....42 178 بارش کا احمدیت کی صداقت کے لئے انسانیت اور وطن سے محبت امن کے بند ہونا قیام کا مرکزی نکتہ صدر انصار الله جرمنی انصاف کی اہمیت، جس کی وجہ سے آنحضرت نے انقلاب پیدا کیا اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کریں انگوئز یشن 156 644 465 196 471 بچوں کی کہانیوں کی کتاب جس میں عیسی کے ماننے والوں کو محمد کے ماننے والوں پر فوقیت دی گئی ہے بخل سے بچو بدظنی کے نقصانات اور اسلامی تعلیم اوپیرا میں دکھایا جانے والا ایک ڈرامہ بدظنی کی بابت حضرت مسیح موعود کا ایک جس میں انبیاء کی ہتک کی گئی.اسلام کے بیان فرموده واقعه خلاف ایک سازش اولاد کی خواہش کا اصل مدعا اولاد کی خواہش نیک اور خادم دین ہونے کی کرنی چاہئے ایڈز ایک قسم کی طاعون 635 487 516 319 ایم ٹی اے تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ 346 بنوقریظہ کی منافقت اور سزا بنو نضیر کا جلا وطن کیا جانا بنونضیر کی جلاوطنی کے وقت انصار کا اپنی اولاد کا واپس لینا اور آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ نہیں دین کے معاملے میں جبر نہیں بے کاری کے مضرات اور اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت بیعت کے متعلق حضرت مسیح موعود کا 152 244 ایم ٹی اے کے ذریعہ عرب دنیا میں اسلام کے دفاع میں پروگرام اور ان کی مقبولیت ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا کے کناروں ارشاد کہ اس کے مفہوم کو پورا کرنے کی تک مسیح موعود کے پیغام کا پہنچنا 209 کوشش کریں
19 ج جامعہ احمدیہ.دنیا میں جہاں جہاں جلسہ کو میلہ نہ سمجھیں جلسہ کے دنوں میں ذکر الہی اور درود جامعہ احمدیہ ہیں وہ ان بزرگوں کو اپنے شریف زیادہ پڑھیں سامنے نمونے کے طور پر رکھیں 33 جبر کے بارہ میں اسلام کا نظریہ جو غیر مسلم پیش کرتے ہیں اس کی حقیقت 463 ایک جرمن عورت کا حضرت مسیح موعود کی خدمت میں خط جرنلزم.نوجوان زیادہ سے زیادہ اس شعبہ میں جائیں جلسہ: uk کے جلسے کا تصور خود بخود غیر 648 85 جلسہ میں شامل ہونے والوں کو نصیحت کہ جلد 381 378 377 واپس جائیں اور کام وغیرہ نہ کریں جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے والوں کے 361 لئے نصائح اور آداب میز بانی و مہمانی حضور انور کا سال 05ء میں مختلف ممالک کے دس جلسہ ہائے سالانہ میں شمولیت جلسہ کی کامیابی پر دنیا بھر سے خاص طور 370 37 پر پاکستان سے مبارک باد کے خطوط اور محسوس طور پر مرکزی جلسے کا ہو گیا ہے اور اس کی وجہ جلسہ کا مقصد پاک تبدیلی کا قیام جلسہ سالانہ کے مقاصد اور احمد یوں کی ذمہ داری جلسہ سالانہ کے انتظامات میں......362 220 221 حضور کا شکر یہ ادا کرنا 412 جلسہ امریکہ کے دورے سے حضور انور کا 440 ارشاد جماعت احمدیہ پر ہونے والے غیر معمولی انعامات انتظامیہ اور مالک زمین اور اس کی فیملی 384 جمعہ کے دن سفر اگر مجبوری نہ ہو تو بچنا 385 چاہئے کا غیر معمولی تعاون اور شکریہ جمعہ کی اہمیت جلسہ سالانہ کے بخیر و خوبی اختتام پر شکر کا اظہار 383 جمعۃ الوداع کا غلط تصور 442 383 534 529 528 جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی جنازے میں شامل ہونے کے لئے توجہ 440 ذمہ داریاں اور مہمان و میزبان کے 371 جنت میں استغفار کی دعا کی حکمت آداب 382 جنگ احد 510 304,410
جنگ بدر کے موقعہ پر آپ کی نصرت جنگ بدر 274 133 20 20 یہ زمانہ مالی قربانیوں کے جہاد کا بھی ہے اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل جنگ خندق کے دوران آنحضرت کو محلات طور پر پورا نہیں کیا جا تا اس وقت تک یہ دکھائے جانا 408 مالی جہاد جاری رہنا ہے جنگ احزاب میں حضور کی دعا اور قبولیت 407 جھوٹ کبھی مذاق کے طور پر بھی نہ ہو جنگ خندق کے موقعہ پر حضرت جابر کی حنین کی جنگ دعوت اور کھانے کو برکت دیا جانا جنگ حنین کے موقعہ پر تائید و نصرت کا نظاره جنگ تستر اور براء بن مالک کی دعا جہاد کے بارے جماعت احمدیہ کا موقف اور اس کی وضاحت آج کل کے ”جہاؤ سے بہتر ہے کہ دعاؤں اور درود کی طرفہ توجہ کریں 610 307 309 444,445 128 109 جھوٹ کے نقصانات اور برائی جھگڑوں کے نقاصانات اور ان کو ختم کرنے کے طریق.یہ جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں جوبلی دعاؤں میں درود شریف شامل کرنے کی حکمت چ - ح - خ چاند سورج گرہین کا نشان چاند سورج گرہن کے متعلق ایک عیسائی کا انٹرنیٹ پر اعتراض 171 266 265 204 112 317 318 چاند سورج گرہن حدیث اور اس کی تفصیلات 98 موجودہ زمانے کی جنگیں یہ تو جہاد نہیں 109 چندہ نیز دیکھیں’مالی قربانی حضرت مسیح موعود نے تلوار کا جہاد ختم کیا نو مبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں 175 5 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء تو یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہے جہاد کی موقوفیت ، دلائل اور براہین سے نے اس قربانی کو لازمی قرار دیا ہے شرح کے مطابق چندہ دینے کی جہاد کریں 97 ضرورت اور افادیت 237 238
21 مالی تحریکات اور لازمی چندہ جات خدا تمام چندوں کی ادائیگی ضروری ہے اگر حالات ایسے نہیں تو اجازت لیں 174 حضرت مسیح موعود کے زمانے میں مالی قربانی کے نظارے، بیٹے کے کفن کی رقم 552 چندے میں دے دی چندہ دینے والوں کے اموال میں غیر 552 معمولی برکت کے نظارے 553 256 257-259 258 212 573 180 440 52 5 8 10 10 تعالیٰ کے پاک حکموں کے مطابق ہیں وقف جدید سے دوسرے چندوں میں اضافہ ہوگا صحابہ کا صدقات ادا کرنے کے لئے مزدوری کرنا چندوں کی اہمیت وضرورت چندہ جات کی اہمیت اور یہ کہ چندے حسد کا پس منظر اور جس کی بنیاد پر دوسروں ہماری طاقتوں سے بڑھ کر نہیں ہیں چندہ جات تربیت اور نفس کو پاک کرنے کا ذریعہ 168 170 کو رسوا کرنے کے لئے خلیفہ وقت کی نظروں سے گرانے کی کوششیں حسد کی برائی اور اس کے نقصانات چندوں کی ادائیگی میں غلط بیانی کرنے حسد کی بیماری کو معمولی چیز نہ سمجھیں والوں کو انذار 170 حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اہمیت اور ضرورت چندے اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ ہیں 171 یر زمانہ مالی قربانیوں کے جہاد کا بھی ہے 171 حقوق کے معاملہ میں اسلامی تعلیمات چندوں میں کستی دکھانے والے جائزہ لیں اور عہدیداران کا فرض 172 بچوں کو ماؤں کے حوالے سے تکلیف دہ اقدامات جرمنی میں ایک نوجوان کی مالی قربانی کا معاشروں میں حیا کی کمی اور اس کے دور اخلاص شادی کے لئے جمع کی چندہ دینے والوں کے بعض استفسارات مثال کے طور پر صرف وصیت کا چندہ 173 174 رس نقصانات خدام الاحمدیہ انتظام کرے کہ جنازے میں کافی لوگ شامل ہوا کریں خدمت انسانیت ہمارا فرض ہے ذیلی تنظیموں کا نہیں
22 خدمت خلق کے مختلف کام اور ان میں خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل اس حصہ لینے کی تحریک مریم شادی فنڈ، طرح کریں جس طرح دل کی دھڑکن مریضوں کا علاج، غریب ممالک کی کے ساتھ نبض چلتی ہے طرف توجہ تعلیم ، ڈاکٹروں کا وقف 623 282 خلافت کی اطاعت کی ضرورت واہمیت 278 خدمت دین کو فضل الہی سمجھیں اور اپنی خلافت احمد یہ دائمی خلافت ہے حدود کے اندرر ہیں اور اطاعت......280 277 خلافت ہال آسٹریلیا کا سنگ بنیاد 245 خدمت دین تقویٰ اور خدا کے فضل سے یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت ملتی ہے نہ کہ کسی استحقاق کے نتیجہ جہاں خطبہ دیا جاتا ہے صرف وہ مراد اور مخاطب نہیں ہوتے خلیفہ وقت کا خطبہ سن کر بعض لوگوں کا یہ 505 281 کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو تیار رہنا چاہئے خلیفہ وقت کو حضرت مسیح موعود کے 263 مہمانوں کا خیال اور ان کی تکالیف دور کہنا کہ یہ ہمارے بارے میں نہیں 363 217 193 165 572 436 کرنے کے لئے کارکنان کو ہدایات.....حالانکہ سب سے پہلا مخاطب اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے 257 کرنے کی ضرورت خلافت اور نظام جماعت سے تعلق پیدا خلافت احمدیہ کی تائید و نصرت اور ترقیات 346 تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کا نظام بغیر مشورے کے خلافت نہیں حضرت مسیح موعود کی آمد کے بعد خلافت کا 157 خلافت خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس کا طرز عمل خلیفہ وقت کو سفارش کرنے اور فیصلے کرنے میں انصاف کو مد نظر رکھیں خلافت سے محبت و عقیدت کا اظہار 158 228 271 قیام دائمی ہے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی خلافت سے جوڑے رکھیں ہم کسی حکومت کی تنظیم پر نہ بھروسہ کرتے ہیں نہ مدد مانگتے ہیں
23 خلیفہ کا خطبہ یا تقریر ہر احمدی کے لئے ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہو 597 صحابہ آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کی قبولیت کے راز خلیفہ وقت کے خطبات سنا لیکن عمل نہ روئے زمین پر پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو دعاؤں او رعبادتوں کے کرنے کا فیصلہ کر لینا درست امر نہیں انہیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہئے 650 ذریعہ خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے کی تلقین خلیج کے بحران کے خطبات اور خلیفہ بعض قرآنی دعاؤں کا بیان 149 المسیح الرابع کی عالم اسلام کو نصائح بعض قرآنی دعاؤں کی بابت تفسیر و خاموش رہنا بھی سچ بولنے کے خلاف ہے 445 تشریح خودکش حملے اسلام کی بدنامی کا باعث 129 دعا کی ضرورت اور اہمیت وز دعائیں ہیں جور بوہ کے راستے بھی کھولیں گی اور قادیان اور مدینہ اور مکہ کے بھی 50 443 457 493,501 505 473 دعا کی قبولیت کا فلسفہ 482 حضورانور کی بیان فرمودہ قرآنی دعائیں 484 دعا کی طاقت ہمارے پاس ہے 155 اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے جو یہ امت محمدیہ اور عالم اسلام کے لئے دعائیں ہمیں سکھاتا ہے....دعاؤں کی اپیل اور یہ کہ دعائیں کس اس آخری زمانہ میں دعا ہی کے ذریعہ طرح کرنی چاہئیں 106 دعا سب سے ضروری ہتھیار ہے دعاؤں کی اہمیت اور برکات دعا کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات قبولیت دعا کے نشانات پانے والے غلامان محمد جو جماعت احمدیہ کو ملے صحابہ مسیح موعود کو آپ کی دعا کا یقین 152 393 395 446 420 498 سے غلبہ ملے گا نہ کہ تلوار سے 498 دعا کی بابت تفصیلی ارشادات 503 ہمیشہ مجھے پکارو، اپنی ضروریات میرے 589 حضور پیش کرو..آنحضرت ﷺ کی ایک جامع دعا.....جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے 618
24 24 حضرت مسیح موعود کی بعض دعاؤں کا ہر قسم کے کمپلیکس اور احساس کمتری سے بیان بعض متفرق دعائیں رب كل شيء خادمك دعائے جنازہ یاد کرنے کی تحریک درود شریف کی حکمت اور برکات درود شریف کے فوائد اور برکات 522 536 546 438 87 107 اپنے آپ کو آزاد رکھنے کے لئے ذکر الہی کی ضرورت ہے رزیس یش رشتہ ناطہ کے نظام کو فعال ہونا چاہئے نجی اور آسٹریلیا میں رشتہ ناطہ کے مسائل اور راہنمائی 224 227 اپنی زبان حال سے مصلح یا مہدی یا مسیح غیروں میں شادیوں کے تباہ کن نقصانات 228 210 رمضان کی اہمیت اور برکات کا اقرار کر رہے ہیں دنیا کی اکثر آبادی کا امت محمدیہ میں زکوۃ بنیادی حکم ہے.بہر حال توجہ شامل ہونے کی پیشگوئی ڈاکٹرز کے لئے نمونہ ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب، دوا کے ساتھ دعا 411 454 دینے کی ضرورت ہے زكوة زکوۃ کی اہمیت اور فرضیت ڈاکٹرز کو وقف کی تحریک اور اس کی برکات 623 زلازل اور آفات ارضی و سماوی ڈیٹ لائن کے بارے جغرافیہ دانوں پیشگوئیوں کے عین مطابق ہیں اور صاحب علم حضرات کو دعوت کہ زلزلوں میں معصوم لوگوں کے مارے 492 175 216 237 51 5 yesterday today 248 وضاحت کریں جانے پر سوال اور جواب 52,61 گزشتہ زمانے میں آنے والے زلازل کا 57 جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے والے رضا ریکارڈ اور اس میں الہی حکمت کاروں کا شکریہ ذکر الہی کی اہمیت 386 زلزلہ اور دیگر آفات پر پاکستان کے علماء 223 کی رائے اور تبصرہ جات زلزلوں کی بابت حضرت مسیح موعود کی تائید میں نشانات 53 320
25 زلزلہ.گھانا میں امام مہدی کی صداقت مجلس شوری کا ادارہ انتہائی اہم ادارہ ہے 157 157 159 159 مجلس شوری کی اہمیت اور تقدس نصائح اور ذمہ داریاں مجلس مشاورت کے نمائندگان کے انتخاب کے لئے اصولی ہدایات نظام شوری ایک مقدس ادارہ 349 4 600 کے لئے نشان سال نو کی مبارکباد سچائی اور صدق سچائی اور صدق اختیار کرنے کی نصیحت اور اس کی اہمیت اگر کوئی مجبور نہ ہو تو جمعہ کے روز سفر سے نمائندگان شوری کو نصائح اور ذمہ داری 160 534 بچنا چاہئے اور جمعرات کو سفر مسنونہ ہے ہر ایک سے مشورہ لینے کا حکم نہیں نیک 158 7 18 443 446 238 320 اور متقی لوگوں سے صط.ع.غ صحابہ آنحضرت ﷺ کے مالی قربانی کے واقعات 439 57 51 229 248 سوگ کی مدت اور ام حبیبہ کا نمونہ سونامی سونامی کے نقصانات سونامی کا خطرہ جو اللہ نے ٹال دیا سونامی کا خطرہ اور اللہ کا خاص فضل ملائیت کو سیاست اور حکومت سے علیحدہ صحابہ حضرت مسیح موعود کی بیعت کے نہ کیا تو ملکوں کے امن برباد ہو جائیں بعد ایمان افروز انقلاب کا تذکرہ صحابہ آنحضرت و حضرت مسیح موعود کی گے 42 سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں کی قبولیت کے ایمان افروز سیرت النبی میہ کے جلسوں کی اہمیت 82 واقعات ہر احمدی شکر کے مضمون کو دل میں رکھتے صحابہ حضرت مسیح موعود کی قبولیت دعا ہوئے آئندہ سال میں داخل ہو 4 کے واقعات شکر کے جذبات کا اظہار، جلسہ کے بخیر و صلہ رحمی کی اہمیت اور افادیت طاعون اور زلزلے مسیح موعود کی تائید کا نشان 383 خوبی اختتام پر شوری مجلس شوری
22 8 63 80 426 26 طاعون مسیح موعود کی صداقت کا ایک نشان 419 زلزلوں اور دیگر آفات کے عذاب کا مسیح طاعون جس سے ہندوستان میں لاکھوں اموات ہوئیں طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں امریکہ کی مالی معاونت طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے لئے ڈاکٹر ز کو تحریک 418 557 175 کی آمد سے تعلق مسیح موعود کی دعا سے.عربی تصنیف کا علمی معجزه عورت کے اصل حقوق جو اسلام نے دئے ہیں مغرب صرف حقوق کا شور مچاتا ہے اللہ تعالیٰ عاجزی کو پسند کرتا ہے اور اس عورتوں کا مالی قربانیوں میں خرچ کرنا 219 عہدیدار خدمت دین کو فضل الہی سمجھیں کی برکات و اہمیت مسلمان ممالک پر کی جانے والی سختیاں اور کامل اطاعت کا رنگ اختیار کریں اپنے عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہیں 154 آپ کو عقل کل نہ سمجھیں عائلی جھگڑے اور ان کی بابت مفید نصائح 563 عہد یداران جماعت کے لئے ہدایات و شادی شدہ لوگوں کے لئے الگ الگ گھروں کی اسلامی تعلیم..میاں بیوی کے حقوق بیوی کے حقوق اور مردوں کے بے جا تصرفات اور اصولی احکامات 571 566 567 نصائح دوسروں پر الزام اور عیب لگانا اس برائی کے نقصانات عیسائیت کا عرب دنیا پر حملہ حضرت مسیح موعود کا عیسائیت کو چیلنج 281 201 259 152 94 عائلی جھگڑوں کا ایک خوفناک المیہ عبادت کی اہمیت اور ضرورت 570 213,234 عیسائی مذہب در اصل پولوی مذہب ہے 476 غصہ سے بچنے کی اہمیت اور ایک بزرگ کا قصہ جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے غیر مسلم رعایا سے حسن سلوک مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے 164 خدا کرے تم پھر اس ملک کے حاکم بنو 203 466 467
27 غیر مسلموں سے حسن سلوک کی اسلامی آنحضرت ﷺ کی تو ہین پر اپنی حرکات پر تعلیمات اور نمونہ 466 فقک فتح مکہ پر دشمنوں سے حسن سلوک فرقہ واریت کے بھانک نقصانات 465 105 اصرار اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہے ایک احمدی اور صحیح مسلمان کا رد عمل کیا ہو کارٹون پر مسلمان ممالک کا ردعمل ہمیشہ یہ آپ کا طرہ امتیاز ہونا چاہئے کہ اسلامی نہیں ہے قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا 40 قرآن کی اشاعت کے لئے کھڑے ہو مغربی ممالک کے اخبارات میں اسلام کے خلاف کارٹون وغیرہ کے بارے مہم جاؤ اور شہروں میں پھرو 639 مالی قربانی اصلاح نفس اور اللہ کا قرب اور حضور انور کی راہنمائی حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری کارٹون کے فتنہ کے خلاف سب سے 4 پہلے جماعت احمدیہ نے بات اٹھائی ہے ( نیز دیکھیں’ چندہ) کارٹون کی اشاعت پر ہمارا رد عمل ایسا ایک امریکن کی کتاب کہ تیسری دنیا کے ہو جس سے آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور ممالک کو کیسے قابو میں کرتے ہیں حضرت مسیح موعود کی کتابیں پڑھنا بھی ایک اسوہ نکھر کر سامنے آئے 80 مسلمانوں کی بے ہودہ حرکتوں کی وجہ انقلاب پیدا کرنے والا امر ہے سے غیروں کو یہ موقع مل رہا ہے مغربی ممالک کے اخبارات میں 74 89 89 91 103 120 146 32 کمیشن بنانے کے لئے امراء کو ہدایات 281 ل.من کارٹون کی اشاعت پر دکھ اور مذمت کا نجی میں رہنے والے لاہوری بچھڑے بھائی 226 اظہار اور اس سلسلہ میں نصائح اور لائحہ عمل 75 کارٹون کی اشاعت اور اس کا پس منظر 84 تبلیغ کے لئے لٹریچر اور دیگر ذرائع اختیار کرنے کی نصائح 640
167 237 237 28 28 بیٹے کی تجہیز و تکفین کی رقم لنگر خانہ میں احباب جماعت کی مالی قربانی اور مالی قربانی ( نیز دیکھیں چندہ) مالی قربانیوں کی اہمیت و ضرورت اور قابل رشک واقعات مالی قربانی کی ضرورت اور اہمیت 6 5-6 216 اخلاص ہر احمدی کو یا د رکھنا چاہیئے کہ مالی قربانی اس کے اپنے فائدے کے لئے ہے اپنے نفس کو پاک کرنے اور اپنی نسلوں کی بقا کیلئے نمازوں کے ساتھ قربانی کا نفس کی اصلاح کا ایک ذریعہ مالی قربانی بھی حکم ہے ہے 7 ایک احمدی اور دوسروں کی قربانیوں میں نمایاں فرق 9 مالی قربانی کوئی معمولی چیز نہیں 550 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والے 420 صحابہ کی مالی قربانی کا تذکرہ 12 مغرب کے مذہب میں زندگی ہے نہ جب تک عورتوں میں مالی قربانی کا احساس برقرار رہے گا قربانی کرنے والی نسلیں بھی جماعت احمدیہ میں پیدا ہوتی رہیں گی 8 زندگی دینے والا خدا مربیان اور مبلغین کے فرائض اور ہدایات.اپنے قول وفعل کے اعلیٰ 633 285 نمونے قائم کرتے ہوئے جماعت کی اس نہج پر تربیت کریں 7 آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی مالی قربانیوں کے واقعات ایک بچی کا اپنے جہیز کی رقم چندہ میں صرف مبلغین پر ہی انحصار نہ کریں کام دے دینا 7 کی عادت ڈالیں 233 مریم شادی فنڈ اور افراد جماعت کو مالی قربانی اصلاح نفس اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے 4 خدمت خلق کے اس کام میں حصہ لینے کی تحریک 623 مستشرقین کا آنحضرت کو خراج عقیدت 468
270 91 227 223 573 256 90 523 مسیح محمدی کو مانیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ 29 648 مسجدوں کی اہمیت جماعت اور اسلام کا تعارف کروانا تعالی کی تائید و نصرت مسلمان امت پر چاہتے ہو تو مسجد بنا دو مسجد فنڈ میں دائیگی کرنے کی اہمیت 648 297 کس طرح نازل ہوتی ہے آج مسلمان بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا جہاں تم جماعت کی ترقی چاہتے ہو وہاں تعین کرنے کے لئے مسیح موعود کی بعثت مسجد کی تعمیر کرو.حضرت مسیح موعود کا ہوئی ہے اس کی جماعت میں شامل ارشاد 290 ہوں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خواہش کہ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور قرب الہی یورپ میں ڈھائی ہزار مساجد بنائیں 294 کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود مساجد کی تعمیر کے متعلق اسلامی احکام کی نصائح اور جرمنی جماعت اور دیگر جماعتوں کی بظاہر مہذب سوسائٹی اور معاشرے کی راہنمائی ہماری مساجد جہاں بھی بنیں گی امن 289 دیگر مکروہات اور احمدیوں کو اجتناب کی نصیحت اور پیار و محبت اور بھائی چارے کی فضا امور معاشرت کی بابت حضرت مسیح اور دعاؤں کے لئے بنیں گی 647 موعود کا ایک خط مسلمان ممالک میں تقویٰ کی کمی اور معاشرتی برائیاں حسد، بدظنی ، عیب لگانا ایک دوسرے.150 مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اپنے مسائل چلائی جائے مغربی ممالک سے حل کرواتے ہیں 147 وغیرہ ان کو ختم کرنے کے لئے ایک مہم مغرب بڑی تیزی سے مذہب کو چھوڑ کر مسلمان ملکوں میں ملاں کی تیزیوں کے آزادی کے نام پر ہر میدان میں اخلاقی مقابل پر.....دعا کی تلقین 524 قدریں عیاں کر رہا ہے مغرب میں اسلام کے بارے پھیلے شر سے بچنے کے لئے ایک دعا
30 30 ملاں کی مارلیش اور دیگر ممالک میں مخالفت 39 نعروں کے بارے ہدایات جلسہ میں 378 نوجوانوں میں اگر پڑھنے کی عادت نہ ملائیت کو سیاست اور حکومت سے علیحدہ ہو تو اپنی استعدادیں ضائع کرنے نہ کیا تو ان ممالک کے امن برباد ہو جائیں گے 42 والے ہوتے ہیں خلیفہ وقت کی جب بھی کوئی نصیحت سنے شر پسند مولوی پیر تسمہ پا بن جاتے ہیں تو سب سے پہلا مخاطب اپنے آپ کو 198 جن حکومتوں نے ان کی پشت پناہی کی ان کو ابتلا آیا 257 41 نظارت رشتہ ناطہ پاکستان ان بدفطرتوں کا انجام بہت بھیانک نظام کی اطاعت اور برکات ہونے والا ہے 42 نظام جماعت کی اطاعت کی اہمیت مہمان نوازی کی بابت حضرت مسیح نماز کے لئے آنکھ نہ کھلنے پر نسخہ موعود کے ارشادات 366 نماز با جماعت کی اہمیت اور حکمت حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کا فکر اور ان کے حقوق کا خیال مہمانوں کے لئے نصائح میثاق مدینہ حضرت مسیح موعود نبی تھے نماز کے آداب اور برکات و اہمیت 598 283 216 30 190 186 نماز کی اہمیت اور برکات 493 363 373 نماز کی ضرورت اور اہمیت 213233 بچوں کو بھی نماز کی عادت ڈالنے کی 140 ضرورت 236 211 نزول مسیح کی بابت احادیث اور حضرت کریں.مسیح موعود کی راہنمائی 91 حضرت مسیح موعود کی تعلیم اور آپ کے پہنچانا ہر احمدی کا کام اور فرض ہے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے ہونے نیک نمونہ دکھانے کی ضرورت نمونہ بنیں اور مسیح موعود کا نمونہ اختیار 202 نیک نمو نے قائم کرنا اور احمدیت کا پیغام 225 229 چاہئیں 199
517 13 11 8 7 7 3 76 507 52 73 31 نیک نمونے اعمال صالحہ کا معیار پیش کرنے واقفین نو بچوں کے والدین کے لئے کی اہمیت وضرورت 299 خصوصی توجہ کی حامل دعا نوافل سے قرب الہی اور یہ کہ نوافل صرف وقف جدید کی اہمیت وقف جدید کے سپر د حضرت مسیح موعود کا یہ 544 نماز میں ہی نہیں ہر فعل کے ساتھ...نو مبائعین کو بھی مالی قربانی اور وقف پیغام گاؤں گاؤں قریہ قریہ پھیلانے کا کام جدید میں شامل ہونا چاہئے 7 ہے نیک فنی جس سے عبادتوں میں حسن پیدا وقف جدید سے صدر انجمن اور تحریک 265 ہوتا ہے و، هی وطن سے محبت امن کے قیام کا بنیادی چاہئے جدید کے چندوں میں اضافہ ہوگا نو مبائعین کو بھی اس میں شامل ہونا یہ نہیں کہ ضرور اتنی شرط ہونی چاہئے وقف جدید کے 44 ویں سال کا اعلان 156 215 وظیفوں کے ہم قائل نہیں دعا کرنی چاہئے آسٹریلیا کے بارے حضور انور کی ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا د میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں توحید اور آپس میں محبت او رہمدردی ( حضرت مسیح موعود ) ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ پاکستان کے زلزلہ زدگانکی مدد 195 194 193 187 439 خواہش کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو بیرون ہندوستان میں اولین موصی نظام وصیت کی اہمیت وضو کی اہمیت فوت ہونے والے کے گھر کھانا بھیجنے کا با قاعدہ اہتمام کرنے کی تحریک والدین کے اخراج کی صورت میں یا جوج ماجوج آگ سے کام لینے والی قوم 572 واقف نو کا وقف ختم ہو جاتا ہے.سیکرٹریان وقف نو کوضروری نصیحت
32 32 آتمارام اکسٹرا اسٹنٹ عبد اللہ آتھم آدم مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے آدم کہا اسماء 341,342 حضرت ابوبکر کا اپنے عزیزوں کی مدد کرنا 80 حضرت ابو بکر کی مالی قربانی 499 ابوبکر کو یا آمنه خاتون 477 حضرت ابو جعد ضمری ابان بن صالح 96 ابو جہل حضرت ابراہیم 599 حضرت ابو در دا حضرت ابراہیم کی تائید ونصرت 272 حضرت ابوسبر 612 169 352,353 531 61,305,403 261 444 137,401,409,439 309 438 302,304 467 حضرت ابراہیم کی ایک دعا رب اجعلنی مقیم ابوسفیان الصلوة 493 ابوسفیان بن حارث حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری 29,32 ابو سلمی ابراہیم بن ادھم ابراہیم خلیل ابن حزم 622 | ابوطالب 558 حضرت ابو عبیدہ 461 حضرت ابو قتادہ 68 حضرت ابن عباس 311,410,522,618 حضرت ابو مسعود انصاری حضرت ابن عمر ابوالحسن تبتی 10 464,521 حضرت ابو موسی اشعری 444,536 338 حضرت ابو ہائی 521 سیدا بوالحسن علی ندوی حضرت ابوامامه ابو بردہ بن عبد الله 68 521 520 حضرت ابو ہریرہ 135,139,173,189,258,260 | 265,384,388,403,410,438,440,492,518, حضرت ابو بکر 10,109,274,304,305,306 | حضرت ابو ہریرہ کے لئے آنحضور کی دعا 532,535,591 407 307,465
33 آپ کا اپنی والدہ کے اسلام کی ہدایت کا دعا کروانا 405,406 امتہ اللہ بی بی خوست کی رہنے والی اور وہ خوش نصیب جس کی 415 439 228,438,520 453,454 آپ کا بھوک کی حالت میں آیت کا مطلب پوچھنا اور حضور کا آنکھوں پر مسیح محمدی نے انگلی پھیر اور...ور دودھ پلانا رض 608 حضرت ام حبیبہ ابی بن خلف اثر چوہان 403 حضرت ام سلمی 59 بابالاندر 110,111,308,430,499 ڈاکٹر احمد تیجان کا با.صدر سیر الیون کا بیت الفتوح میں جمعہ حضرت انس پڑھنے کے لئے آنا 370 حضرت انس کے اموال اور اولاد میں برکت کی دعا اور حاجی احمد خان ایاز 558 غیر معمولی قبولیت حافظ احمد علی 425 حضرت انس بن مالک ما 401 96,401,444 سید احمد نور ارید 445 پیدا ہوئی 649 415 | ڈاکٹر اوسا کا، جرمنی کے باشندے جنہیں احمدیت کی جستجو حضرت منشی اروڑا خان صاحب 32,421,422 | ایاز محمود غزنوی بادشاہ کا ایک وفادار غلام اور حاسدوں کی اسامه بن قتاده 445 ناکام سازش ڈاکٹر اسرار کا حضرت مسیح موعود کو خراج تحسین عیسائیوں کے ایڈورڈ گین 263 468,469,477 94 پروفیسر ایڈون لوئیس، امریکہ کے پروفیسر کا یہ لکھنا کہ لوگ 463 471 470 351 45 30 635 444 خلاف کامیاب اسلام کا دفاع حضرت اسماء 174 مسیح کو خدا ماننے کے لئے تیار نہیں اشرف ناصر 490 ایس پی سکاٹ چوہدری اللہ بخش 347,348 ریورنڈ با سورتھ سمتھ چوہدری اللہ داد 455 بخت نصر چوہدری اللہ دتہ 558 حضرت بختیار کا کئی کے مزار پر حضور انور کا دعا فرمانا حضرت امام دین کشمیری 12 حضرت بدرالدین صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ کا ذکر خیر اور ان کی جماعتی اور حضرت بدھ علی خدمات کا تذکرہ 431,434,437,458 حضرت براء بن مالک
34 =4 حضرت برخوردار برنارڈشاہ بشارت احمد نسیم بشمر داس 28 ثمامہ بن اثال کی قید اور آزادی ضمیر کی ایک مثال 136 470 حضرت جابر 559 حضرت جابر بن عبد الله 534,610,611 8,409 423 جان پر کنز کی کتاب جس میں ذکر ہے کہ امریکہ تیسری دنیا کے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب 344,414 ممالک پر کیسے کنٹرول کرتا ہے بشیر احمد سردار حسین 415,416,420 | جان محمد 146,147 448 451 ڈاکٹر جاوید کنول.جنگ اخبار لندن کا جھوٹا ر پورٹر 118,119 452 | جبریل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی جراح بن سنان الاسدی محموداحمدصاحب مصلح موعود 8,43,232,193,354,431,32 حضرت امام جعفر صادق 434,558,575,278,638,643,644,649| حاجی جعفر صاحب، ابتدائی احمدی سنگا پور کے آپ کی خواہش کہ یورپ میں ڈھائی ہزار مساجد بنائیں 294 مولانا جلال الدین قمر صاحب کا ذکر خیر آپ کے احسانات جماعت پر اور ذیلی تنظیموں کا قیام 280 سید جلید احمد آپ کا تعلق آباد قلعہ کی سیر کرنا اور پالیا“ 46 میاں جمال الدین صاحب آپ کا رنگیلا رسول کتاب پر رد عمل اور نصیحت 81 جھجو خان آپ کے اسلامی دنیا کو سمجھا کی کوشش 151 پروفیسر جی ایم باب آپ کی دعا کا معجزہ شفا 455,456 مسٹر جے آرڈریمنڈ صاحب آپ کا ایک تاریخی اعلان 559 مسٹر جیم ڈوئی حضرت بلال بلشفر بھانو پر نگل کینڈی پیٹر جی 8 جیون خان 351 چراغ دین.طاعون سے ہلاک ہونا 336 میاں چراغ دین صاحب 470 | حارث بن بدل 450 حضرت حافظ حامد علی صاحب 411 445 67 182 431,434 478 12 357 319 329 338 446,447,448 419 421 308 22,350
35 35 ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ حسان بن ثابت 454 مسٹرڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور 328,335,338 122 ڈاکٹر ڈیوڈ کا انٹر نیٹ پر ایک اعتراض چاند سورج گرہن حسن بصری حسن بن علی مولوی حسن علی بھاگلپوری 96 445 28 کے بارے میں جان ڈیون پورٹ لاله رام بھجدت حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحب.آسٹریلیا کے پہلے احمدی چوہدری رحمت علی صاحب اور ان کے نام حضرت مسیح موعود کا خط سید حسین احمد خالد بن عمران خان محمد حباب بن منذر 478 521 448 133 185,186 مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے ایم.اے مولوی رسل بابا 318 469,472 333 355 420 419 رشدی کی کتاب کے رد میں خطبات اور ایک کتاب خلیفہ رابع نے لکھوائی ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین حضرت خدیجہ کا دیا ہوا مال آنحضرت ﷺ نے تقسیم فرمایا 138 مولوی رمضان علی صاحب حضرت خدیجہ کی وفات خسرو پرویز شاه فارس حضرت خیر الدین دارا مادی دانی ایل نبی زلیخا 264 Ruth Cranston 12 351 351 304 رئیس محمد.چیف گھانا 304 ڈاکٹر ریاض احمد رابرٹ فسک Robert Fisk حضرت زبیر بن عوام حضرت میر داؤ د احمد صاحب 435,458 حضرت زیاد بن علاقہ داؤد زمان ڈارون ایم ڈبلیوڈ گلس 490 253 331,333 زیڈ.وہ غلام جو آپ نے آزاد فر ما دیا تھا 82 335 558 349 478 76 471 259 333 536 138 مولوی زین العابدین.طاعون سے ہلاک ہونا 420 ڈگلس کے سامنے حضرت مسیح کا بار بار آنا....کہ میں گناہ گار نہیں 334 شیخ زین العابدین حضرت زینب بنت ابی سلمی 350 439
36 سینٹ جونز کالج آکسفورڈ کے پریذیڈنٹ سرسائزل کا مولانا صادق سماٹری.آپ کی معجزانہ حفاظت الہی 351 کہنا کہ یورپ اور امریکہ کے مردوں عورتوں کا بڑا حصہ پروفیسر صالح الہ دین صاحب عیسائی نہیں رہا 463 صدیق امرتسری صاحب حضرت پیر سراج الحق صاحب 376,523 نواب صدیق حسن خان صاحب 318,319 356,358 67 425,426 سرور بیگم 478 ان کا براہین احمدیہ کو چاک کرنا حضرت سعد بن وقاص کی بد دعا 445 صفدر علی.جو عیسائی ہو گیا میجر سعید احمد حضرت سعید بن ابی سعید 478 135 حافظ صلاح الدین یوسف حضرت صہیب 275 حضرت سلمان فارسی حضرت سہل بن حنیف شازیہ اسلم شاه ایران شاہجہان بیگم، والیہ بھوپال 17,70,408 حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب 140 490 54 38,545 21 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع 41,433 435,478 147,148 آپ کا عالم اسلام کی دگرگوں حالت کا نقشہ 145,147 425 آپ کا جرمنی کو تعمیر ماجد کا ٹارگٹ دینا 289,294 حضرت شاہ ولی اللہ 46,67,69 آپ کا سفر قادیان 48 شرمپت 423 حضرت طفیل بن عمر والد وسی کا قبول اسلام کا واقعہ 404, 403 حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی معجزانہ شفا 418 حضرت طلحہ 306 شکیل منیر صاحب شہاب الدین شہر بانو شہر بن حوتب شعبہ بن ربیعہ حضرت مولانا شیخ واحد صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب 293 حضرت منشی ظفر احمد صاحب 20,421,422 350 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب 451 617 آپ کا اسلامی عبادات پر ایک لیکچر اور جمعہ کی طرف توجہ دلانا 531 228 403 352 21 چوہدری ظہور احمد باجوہ حضرت عائشہ عباداللہ گیانی حضرت عباس 558 219,612 354 آپ کی قبولیت دعا کے واقعات 451,452 مرزا عبدالحق صاحب کا ذکر خیر صاحب نور.سید 309,546 434 431 415 آپ کی ایک کتاب جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہری 432
37 آپ کا اسی طرح کا لباس پہنا جو خلیفہ ثانی پہنتے 432 صوفی عبد الغفور 329,330,333,334,335 | شیخ عبدالقادر عبدالحمید عبدالحمید ایم.اے عبدالرحمان 450 مولوی عبد القادر 521 صوفی عبد القدیر نیاز 558 425 455 558 عبدالرحمان بن ابی لیلہ حضرت حاجی سیٹھ عبد الرحمان صاحب 140 حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی 33,186 616 حضرت عبد الرحمان بن عوف کے مال میں خیر و برکت کی دعا 407 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب عبدالله حضرت ماسٹر عبدالرحمان صاحب، آپ کی قبولیت دعا 448 چوہدری عبداللہ خان آپ کا الہام و اما ما ينفع.449,451 449 عبداللہ صاحب کشمیری 324,325,426 33,415 401,403 455 339 حافظ عبدالرحمان بٹالوی پروفیسر عبدالرحمان لدھیانوی عبد الرحمان مبشر مولوی عبدالرحیم پنجابی عبدالرحیم خان.بیماری سے شفا پانا مولوی عبدالرحیم عارف حضرت شیخ عبدالرشید صاحب 451 55 55 352 354 417 450 30 حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کا قبولیت دعا کا واقعہ عبد السلام در ویش قادیان 453 490 عبد السلام میڈیسن کا ایک انٹر ویو جو کارٹونز کی اشاعت کے رد عمل میں اخبار میں شائع ہوا حضرت میاں عبد العزیز پٹواری عبدالغفار روپڑی مولوی عبد الغفور جالندھری 121 12 55 558 عبداللہ نیاز.سری لنکا کے خادم مسجد کی شہادت 538 عبد اللہ بن ابی اوفی حضرت عبد اللہ بن جعفر حضرت عبد اللہ بن حارث حضرت عبد اللہ بن رواحہ حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن عمرو 407 439 366 467 388 258 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص 9,69,111,521 حضرت عبد اللہ بن مسعود عبدالمجید سیال حافظ عبدالمنان عبد الناصر منصور حضرت عبید بن رفاعه عتبہ بن ربیعہ عتبه بن مالک حضرت عدی بن حاتم 110,265 451 56 478 545 403 536 7
38 ملک عطاء الرحمان عقبہ بن ابو معیط حضرت عقبہ بن عامر عکاشہ بن محصن عکرمہ بن ابو جہل کو معاف کر دینا 558 حاجی غلام احمد صاحب 403 غلام احمد بشیر صاحب 174 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی.حضرت مسیح موعود علیہ 411 134,135 الصلوة والسلام 357 558 50,54,95,119,198,210, |330,331,339,340 613 627,628 عکرمہ کی معافی اور بعد میں دین کی راہ میں جاشاری 465,466 آپ کی بعض بیان فرمودہ دعائیں 526,537,546-522 عکرمہ.خدا کی راہ میں سارا مال صدقہ کر دینا 466 آپ مظہر صفت ربوبیت.بعض واقعات نعکرمہ سے فتح مکہ کے موقعہ پر سلوک.....عکرمہ کا قبول اسلام کے بعد اموال غنیمت صدقہ کر دینا 466 آپ کی تلقین کہ فوت ہونے والے کے گھر کھانا تیار کر 465 آپ کو ماننے کی اہمیت وضرورت 447 کے بھیجنا 60,305,606,652 آپ کی قوت قدسیہ میاں علم دین حضرت علی ملاعلی قاری عمادالدین.جو عیسائی ہو گیا حضرت عمر حضرت عمر کی مالی قربانی آپ کا غیر مسلم رعایا سے حسن سلوک 68 439 32,33 آپ کو مانے بغیر تقومی کی راہ نہیں مل سکتی اور تقویٰ کے بغیر 275 اسلامی ممالک کا اتحاد نہیں ہو سکتا 151 107,444,445,466 آپ کے دم سے جسمانی شفا پانے کے واقعات 415 169 | آپ کے صحابہ کا اخلاص 6 466 آپ کا خط صوفی حسن موسیٰ خان صاحب آسٹریلیا 186 آپ کے ایک غلام کا کہنا کہ عمر نے کئی دفعہ مجھے کہا کہ مسیح موعود اور حقوق العباد اسلام لے آؤ میرے انکار پر کہتے کہ ٹھیک ہے.اسلام مسیح موعود کا بیمار ہونا اور معجزانہ شفا میں جبر نہیں 414 417 463 آپ کا اپنے صحابہ کی مالی قربانی کے اخلاص کا ذکر 12 آپ کا غیر مسلموں سے حسن سلوک اور خلیفہ کو نصیحت 466 علماء اس وقت تک نو را خلاص پا نہیں سکتے جب تک مسیح و آپ کاقول لا خلافة الا بالمشورة حضرت عمران حضرت عیسی 157 مہدی کے ساتھ تعلق نہ جوڑیں 72 606 مسیح و مہدی کی بعثت کا زمانہ یہی تھا بزرگان سلف کے 52,54,62,65,66,104,635 اقول اور پیشگوئی کے مطابق حضرت عیسی کے بارے فلم اور ایک سینما ونذرآتش کیا جانا 77 آپ کے عشق رسول ﷺ کی دومثالیں 65-74 80 حضرت عیسی کے بارے ہمارے دل میں بہت احترام ہے 461 آپ کے ظہور کی پیشگوئیاں ، اسیح الموعود کا نزول 56
39 صرف مسیح موعود کو مان لینا کافی نہیں.اس مقصد کو حاصل | مسیح موعود کی دعا سے بارش کے واقعات کرنا ضروری ہے جو لے کر مسیح موعود آئے 210 آپ کا رویا 421 336 آپ کی بعثت کا مقصد اور ایک احمدی کی ذمہ داری 211 آپ کا ایک رؤیا، روپیہ بھیجے جانے کی بشارت 616 آپ کے بارے یہ کہنا کہ آپ صرف مجدد یا مصلح آپ کا رویا.قل ما يعبؤبكم تھے نبی نہیں تھے آپ کی تائید میں نشانات 211 319 مسیح موعود.”ہمارا زمانہ دلیل اور برہان کے ہتھیاروں کا محتاج ہے.“ آپ کی ایک احمدی سے نیک توقعات اور نصائح 239 مولوی غلام حسن پیشاوری آپ کا دوسروں کی تکلیف کا احساس 368 آپ کے لئے پانچ مواقع اور خدا کی تائید و نصرت 328 حافظ غلام حسین مولانا غلام حسین 235 639 374 28 353 غلام حسین ایاز.سنگا پور کے ابتدائی مبلغ 182,558 آپ کا عیسائیوں کو چیلنج اور اسلام کا کامیاب دفاع 94 راجہ غلام حیدر آپ کا عیسائیوں سے مقابلہ اور ڈاکٹر اسرار احمد کا خراج تحسین آپ کا اپنے دعویٰ پر حلفا اقرار و اظہار 94 97 334 حضرت مولانا غلام رسول را جیکی 347,353,354 آپ.قبولیت دعا کے نشان.آپ کا ایک الہام تبت يدا ابي لهب 446,447,448,452,453,454 آپ کے ساتھ الہی تائیدات اور جماعت کی ترقی کا منظر 98 مولوی غلام رسول قلعہ والے آپ کا حضرت بختیار کاکی کے مزار پر تشریف لے جانا 45 ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری آپ کا درودشریف پڑھنے کی بابت خط آپ کا عشق رسول علی اللہ 112 122 میاں غلام قادر صاحب شہید با بو غلام محمد صاحب 420 53 437 368 450 331 403 621 آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے مولوی کو ایک صوفی غلام محمد صاحب نصیحت اور لمحہ فکریہ 547 مرزا غلام مرتضیٰ امت مسلمہ میں مسیح موعود کے خلاف نفرت کی دیواریں حضرت فاطمہ کھڑی کرنے والے 520 علامه فخر الدین رازی آپ کا پیغام حق کو پہنچانے میں اپنا اسوہ اور اس میں فرعون ہمارے لئے پیغام اور ہماری ذمہ داری 639 63,155,272 اگر فرعون پیدا ہوں گے تو فرعونوں کے سر کچلے جائیں گے آپ کو ماننے کی خوش نصیبی اور ہماری ذمہ داری 528 آج اللہ کے فضل سے جمات یہ نظارے دیکھتی ہے جب تک موسیٰ کے ساتھ نہیں جڑیں گے فرعونوں پر غلبہ حاصل آپ کا چھ ماہ روزے رکھنا 609 نہیں ہوسکتا 273
40 40 احمدیت کے مخالف فرعون اور ان کا انجام 541 | مسز کیرولین، ایک جرمن عورت جس نے پروفیسر فر نیزی ایل ایل ڈی.جرمنی - احمدیت حضرت مسیح موعود کی خدمت میں خط لکھا 649 ڈپٹی کیشو داس کی جستجو کرنے والے حکیم فضل دین صاحب فقیر علی قادر بخش حافظ قدرت اللہ صاحب قیس بن سعد قیصر روم قیصر مینوئل کا مکالمہ کار لائل حافظ کاظم رضا کا ؤنٹ ٹالسٹائے چوہدری کرم الہی ظفر 338,339 350 358 445 558 140 470 460,461 468 55 470 558 648 لیکھرام کا قتل اور مخالفانہ کارروائیاں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک 453 30,81,328 342,344 330,332,333 ڈاکٹر مارٹن کلارک کا مقدمہ اور خدا تعالیٰ کی تائید 328 تا 335 مبارک احمد بھٹی مجزاه بن ثور ڈاکٹر مجیب الرحمان پاشا صاحب مجیب الرحمان شامی 490 444 240 59 مولوی محب الرحمان 455 منشی محبوب عالم صاحب حضرت محمد علی آپ کا یہودی نوجوان کی عیادت 419 446,459 467 کرم دین بھیں 338,339,340,341,342 آپ کی بعض فرمودہ دعائیں 520,522,545,635 کرم الدین بھیں کا مقدمہ اور خدائی نصرت 328 تا 342،338 آپ کا پانی کو برکت دے کر بڑھا دینا کریم بخش 420 کسری کا آنحضرت ﷺ کو گرفتار کرنے کا حکم اور اللہ تعالیٰ 606 کی تائید و نصرت کعب بن سور کعب بن عجر مولوی کلیم اللہ 304,310 444 111 348 آپ صفت ربوبیت کے مظہر سیرت کے بعض واقعات 604 تا 613 آپ کا وفات یافتگان کے بارے اسوہ آپ کی ابوسلمی کی عیادت اور وفات پر دعا 438 438 443 143 388 آپ کی قوت قدسیہ آپ کا بحیثیت بادشاہ مقدمات کا فیصلہ کرنا ڈاکٹر کلیمنٹ ریگ کا تعارف اور ان کے پوتے سے حضور آپ کے استغفار کی حکمت انور کی ملاقات 252 آپ کا فرمانا کہ رب سے شرط رکھی ہے کہ بددعا کیتھ.حدیقہ المہدی کے سابق مالک اور ان کی فیملی کا کروں تو اگر وہ اس کا اہل نہیں تو....غیر معمولی تعاون 385.400
311 246 263 240 558 54 478 416 67 32 5 200 41 آپ کو اپنی دعاؤں پر یقین اور کفار کو اس کا احساس 400 آپ کو خانہ کعبہ قرار دینا آپ کی دعا سے خوراک میں برکت آپ کی دعائیں 409 محمود صاحب مبلغ آسٹریلیا 400 تا 412 | محمود غزنوی آپ کا اپنے صحابہ کو مالی قربانی کرنے کی طرف توجہ دلانا 174 محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا منور احمد صاحب آپ کے خلاف مضامین کی اشاعت.ذیلی تنظیموں کو توجہ دلانا کہ مضامین لکھیں رابطے وسیع محمد ابراہیم ناصر حافظ محمد ادریس کریں.آنحضرت ﷺ کی خوبیاں بیان کریں 82 حضرت میر محمد اسحاق صاحب 558 558 21 31 559 454 338,419 96 72 445 آپ اور اسلام کے خلاف مہم کے جواب میں آپ کی بیماری سے شفا پانا منصوبہ بندی کے مختلف پہلو 85 محمد اسماعیل شہید آپ سے عشق ہر احمدی کی ذمہ داری ہے 212 شیخ محمد اسماعیل آپ کے آداب مہمان نوازی آپ کا حسن اخلاق اور خوش خلقی 364 چوہدری محمد اسحاق سیالکوٹی 366 چوہدری محمد اسحاق آپ پر اعتراض کہ ایسا دین لائے جس میں مذہبی حضرت چوہدری محمد اکبر صاحب میاں محمد الدین صاحب آف کھاریاں 131 رواداری ، برداشت اور آزادی کا تصور نہیں آپ کی رحمت اور دشمنوں سے بھی حسین اخلاق کا مظاہرہ 133 مولوی محمد الدین صاحب آپ کی تائید ونصرت کے نظارے 273 حکیم محمد امین آپ کی ہجرت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام منشی محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر کی تحریر 273 157 محمد بن خالد الجهنی حضرت محمد بن علی.امام باقر محمد بن مسلمہ مولوی محمد حسین بٹالوی 332,333,335,337,338,424 452 421 338,339 143 123 آپ گہرا ہم کام میں مشورہ لیتے تھے آپ کا بلند مقام اور آپ کی قوت قدسیہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات آپ کو قتل کرنے کی سازش اور آپ کا ہجرت کر جانا 304 ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب آپ کی زندگی میں آنے والے پانچ مواقع.شیخ محمد حسین حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں 303 مولوی محمد حسین فیضی آپ کا سوشل بائیکاٹ اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت 302 ڈاکٹر محمدحمید اللہ
مولوی محمد دین صاحب حضرت محمد رحیم الدین صاحب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مولوی محمد سلیم صاحب 42 558 30 29 354 558 433 حضور انور پر ہونے والا ایک جھوٹا مقدمہ حضور انور کے سپر دخلیفہ رابع کی زمینوں کا حساب 435 حضورانور کا اپنے دورہ ماریشس و قادیان کا ذکر اور تاثرات 37 حضور انور کا اپنے دورہ آسٹریلیا، نجی، نیوزی لینڈ ملک محمد شریف گجراتی ملک محمد شریف 559 اور جاپان کا ذکر اور تاثرات، اللہ کی تائید و نصرت کے واقعات حضرت مفتی محمد صادق صاحب 252,253,376 مسطح بن اثاثہ 241 مولانا محمد صادق صاحب مولانا محمد صدیق امرتسری 355 350,353 شیخ مسیتا مصطفیٰ ثابت صاحب حضرت معاذ بن انس محمد عالم ایک مخالف ملاں اور اس کا عبرتناک انجام 446,447 مظفر سدھن 558 مولوی محمد عثمان صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب 19,240,417,456 حضرت معاذ بن جبل آپ کا دعا کا کہنا اور لنگر خانہ کے لئے تین حضرت معاویہ بن مرة ہزار کی نذر ماننا 422,423 | میاں معراج دین چوہدری محمد علی بھٹی مولوی محمدعلی بھوپڑی مولوی محمد علی سیالکوٹی مہاشہ محمد عمر صاحب محمد یوسف قاضی محمد یوسف صاحب 490 30 420 354 365 612 32 244 478 218 388 314 420 حضرت حافظ معین الدین صاحب کا مالی قربانی کے لئے جوش 12 پیر معین الدین منگو 477 31 ماسٹر منور احمد شہید کا ذکر خیر 431,437,438 حضرت موسی 143,155,338,469,625,635 حضرت موسیٰ کی تائید و نصرت 272 358 حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب.خلیفة المسیح | ملک مولا بخش الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت سیدہ مہر آپا کا ساری جائیداد جماعت کے نام کرنا سرگودہا.حضور انور کا وقف عارضی پر تشریف لے جانا اور اور جرمنی کی مساجد کے لئے حضرت خلیفہ رابع کی طرف ایک بوڑھی عورت کا بتانا کہ ہم چاند گرہن کا نشان دیکھ کر احمدی ہوئے تھے 319 سے وعدہ پیر مہر علی شاہ 296 338
43 میران بخش چوہدری تھے خان میاں نجم الدین صاحب بھیروی حضرت چوہدری نذر محمد صاحب 456 | حضرت مولانا حکیم نورالدین ، حضرت خلیفہ المسیح الاول 353 34,324,325,346,431,432,452,469,571 29 آپ کی بارش بند ہونے کی دعا 21 مولوی نور محمد مولانا نذیر احمد مبشر 349,357,477,478 ولید بن عتبہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم.ام المومنين 344,617 ولید بن مغیرہ نصرت صاحبہ بنت امة الباسط صاحبہ نصیر قمر صاحب نظام الدین اولیاء حافظ نظام دین حضرت نعمت اللہ ولی حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه حضرت نوح حضرت نوح کی تائید و نصرت نوراحمد بھٹی.بھڑی چٹھہ نواب نورالحسن خان نور نور الحسن نورالحق انور 437 سرولیم میور 252 46 447 67 240 62,64,155,509 271 419,420 67 319 352 حضرت ہارون ہارون جالو مربی سلسله سرالیون هرمزان ڈاکٹر یعقوب بیگ 456 355 403 340 468 272,626 490 444 46 حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب 31,32,339 حضرت یوسف یوسف جمال الدین یوسف خان 374,426,427 333 449 450
44 مقامات آزاد کشمیر 59 افغانستان آسٹریا 15,104,176,227,241,248,251,556 | البانيه دورہ کے تاثرات اور تفصیلات 197,245,247 امرتسر 105,149.560 558 330,331,332,409 آسٹریلیا کے بارے میں حضور انور کی خواہش کہ امریکہ 15,52,98,148,150,249,369,463 یہاں کا ہر احمدی موصی ہو 195 541,556,557,558,565,639,541 آسٹریلیا سڈنی میں تعمیر ہونے والی مسجد امریکہ میں سمندری طوفان کے ذریعہ تباہی 293 امریکہ کو خدا کے مسیح کی وارننگ کا محل وقوع آسٹریلیا میں احمدیت کی تاریخ سڈنی آسٹریلیا بیت الہدیٰ آک لینڈ - نیوزی لینڈ آگرہ تاج محل 52 90 175 185 امریکہ کا طاہر انسٹی ٹیوٹ کے لئے مالی قربانی مریکہ کے دورہ کے لئے دعا کی تحریک اور مشورہ 398 185 221,250,253 امریکہ کے دورہ کی بابت نہ جانے کا فیصلہ وو 412 45 امریکہ کے جلسہ پر حضور انور کی ہدایات اور پیغام لٹن میں جلسہ کے لئے خریدی گئی جگہ ” حدیقہ اور دعا المهدی آئرلینڈ اٹلی اٹلی کے ایک وزیر کی بے ہودہ حرکت احمد نگر ادرحمه ضلع شاہ پور ارجنٹائن اسلام آباد اسلامیہ پارک لاہور 326 44 119,558,559 90 435 21 558 15,556 421 440,441,442 امریکہ میں اسلام اور احمدیت کا پیغام پھیل جانے کی حضرت مسیح موعود کو ملنے والی بشارت انڈونیشیا 642 15,51,123,242,243,351,556 انڈونیشیا میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم اور ان کا اخلاص و وفا انڈونیشیا میں جماعت کی مخالفت انڈیا انگلستان 182 542 37,57,58 76,557,558,646 فریقہ 13,98,372,463,539,541,556,623 | انگلستان میں شائع ہونے والی کتاب جس میں 641 اللہ تعالیٰ کے وجود کی نفی 631
45 اوکاڑہ ایڈیلیڈ آسٹریلیا میں مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ ایران 556 245 51,57,147,149,150,151,471 ایران کے اخبار کا مقابل پر کارٹون بنانے کا اعلان 104 بلغاریہ میں جماعت کی مخالفت بنگلہ دیش بنگلہ دیش میں مخالفت ایران کے سیاسی حالات اور ان کا پس منظر 147,148 بھارت نیز دیکھیں ہندوستان 154 بھاگسر ایران کی مشکلات ایران کی جنگ کے موقعہ پر فتح کے لئے دعا 444,445 بہاولپور ایشیا کا شہر بٹالہ برطانیہ برلن 63,90,249,372,541,641 | بہاولنگر 352,353 بھدرک 331,338,350,419,422 بھڑی چٹھہ 15,248,362,556 بھوپال 645,649 بھیں برلن کی مسجد کا سنگ بنیا د اور اس کی تفصیلات 643 بيت السبوح برلن کی مسجد کے لئے عورتوں کا چندہ جمع کرنا، عورتوں کی بیت الفتوح قرمانی...کے واقعات......644 پاپوا نیو گنی برلن کی مسجد کی تعمیر اور حائل مشکلات اور خلیفہ ثانی کی پاڈانگ خواہش 294 پاکستان میں آنے والا زلزلہ اور...543 123 106,542 357 13,14,15,36 63 556 556 355 419 425 338 297 557 243 355 51 برلن میں جماعت اور مسجد کی تاریخ کا ایک ورق 649 پاکستان کے دو کالم نگاروں کی آفات پر رائے 58 برمنگھم بریڈ فورڈ بریسبن میں مشن ہاؤس کی تعمیر بستی رنداں 557 پاکستان 556 245 13,14,15,49,52,57,105,117 123,159,162,197,198,233,248,362,367,368 371,372,436,556,558,561,568,569,572,623 بلغار 358 پاکستان یا دیگر علاقوں میں آنے والی زلازل اور 444 تاہیوں کی وجہ 15,276,556 پاکستان میں...مجلس شوری اور نصائح 65 157 539 پاکستان میں احمدیوں کو اذان دینے کی ممانعت 128
46 پاکستان میں ملائیت کی وجہ سے ابتلاء اور مسائل 42-41 | جاپان پاکستان میں احمدیوں کے خلاف کارروائیاں 106 پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ہونے والے واقعات اور جاپان میں احمدیت کی تاریخ تنبیہ اگر ملک بچا تو احمد یوں کی وجہ سے 241,351,558 232 232 جاپان کے احمدیوں کا اخلاص و محبت 438 جاپان میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی حضرت مسیح موعود پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کی مالی قربانیوں کا علیہ السلام کی توجہ اعزاز 562 جاپان دورہ کے تاثرات پاکستان کے غیر ممالک میں بسنے والے احمدی خاندانوں جاموں والا.موضع کی مالی قربانیاں اور ان کی ذمہ داری 561 جرمنی 232 253-254 447 15,276,292,298,372,357,436, پاکستان میں احمدیوں اور جماعتی رسائل پر مقدمات اور ان 460,543,556,558,630,643,647,648,649 حالات میں دعاؤں کی تلقین پاکستانی ملاؤں کی شرارتیں 542 جرمنی میں اسلام اور خدا کے بارے میں لغو باتیں 632 541 انشاء اللہ اس قوم میں احمدیت پھیلے گی 638 پاکستان ایک مولوی کا احمدیوں کے خلاف سری لنکا جرمن قوم کی خصوصیات اور ہماری ذمہ داری 638 538 جرمن نواحمدیوں کے لئے حضور انور کا پیغام 639 میں پراپیگنڈہ پاکستان سمیت احمدیوں کے خلاف محاذ اور اس کے لئے دعا 498 جرمنی میں پوپ کا ایک لیکچر پرانا کوٹ پشاور پنجاب پولینڈ 46 جرمنی میں تعمیر مساجد اور ذیلی تنظمیں 459 295 556 جرمنی یورپ کا پہلا ملک ہوگا جہاں کے سوشہروں میں 59,320 | ہماری مساجد کے روشن مینار نظر آئیں گے 295 558 جرمنی کے سپرد 100 مساجد کا کام اور اس کے متعلق تاوے یونی جزیرہ ، جہاں ڈیٹ لائن گزرتی ہے 247 راہنما اصول و ہدایات تغلق آباد 289 444 جرمنی کے ایک نو جوان کی مالی قربانی شادی کے لئے 46 جمع کی گئی رقم چندے میں دے دی 173 98,249,541,641 241 35,419 328,339,340,341 تھائی لینڈ ٹا ٹانگر جمشید پور 243 جزائر 354 جزائر پیسیفک ٹوٹنگ 557 جموں ٹونگا 248,249 جہلم
چنیوٹ حافظ آباد 47 433 | روڈرگس : ماریشس کے ایک چھوٹے سے جزیرہ پر 558 419 حضور انور کا ورود مسعود روس 43 372 حدیقہ المہدی uk کے جلسہ کے لئے خریدی گئی جگہ 326 زنجبار حیدر آباد حیدر آباد انڈیا خانیوال خوست 382 369,371,377 سالٹ پانڈ 556 318 556 415 350 349,350,358 سالومن آئی لینڈز.مشن ہاؤس کی خرید.اور یہاں کے نو احمدی کے اخلاص کا تذکرہ سان فرانسکو 195,251 62 سان فرانسسکو میں آنے والا زلزلہ اور حضرت مسیح موعود کا خیبر کے یہودیوں کے محاصل کی وصولی اور نرمی 467 دھدرہ موضع دہلی 446,448 45,46 تبصره سانگھڑ سبین 61 240,556 ڈنمارک 78,79,104,105,118,119,121 سپین اور انکوئز یشن 123,128,129,130 سڈنی ڈنمارک اور دیگر مغربی ممالک کے اخبارات میں توہین آمیز سرگودہا 37,558 462 245 15,433,556 کارٹون کی اشاعت اور جماعت کا رد عمل اور نصائح 76 سرگودہا.حضور انور کا وقف عارضی پر تشریف لے جانا اور 74,83 ایک بوڑھی عورت کا بتانا کہ ہم چاند گرہن کا نشان دیکھ کر ڈنمارک کے اخباروں کا معافی مانگنا ڈنمارک میں جماعت احمدیہ کا رد عمل اور اس کی تفصیل 84 احمد کی ہوئے تھے 319 ڈیرہ غازہ خان 358,556 سری لنکا میں جماعت کی مخالفت اور پاکستانی ملا کی شرارت 543 را جیکی- موضع را ولپنڈی ربوه 27 15,556 15,319,433,440,623 سعد اللہ پور سعودی عرب سعودی عرب مغرب اور امریکہ کے شکنجے میں ربوہ: دعا ئیں بھی کریں جور بوہ کے راستے بھی کھولیں سکاٹ لینڈ گی اور قادیان اور مدینہ اور مکہ کے بھی 50 369 سماٹرا سمر قند 455 119,147 150 44 351 92
سندھ سنگا پور سنگا پور - مسجد طه 48 490 558 177 182 سنگا پور میں احمدیت کی تاریخ اور قربانیاں حضورانور کے دورہ کی تفصیلات 245-241 سنگا پور - سوئٹزرلینڈ سیالکوٹ سیرالیون 15,556 15,436,453,556 356 سیرالیون کے صدر مملکت کا بیت الفتوح جمعہ کے لئے حاضر 143,310,443,444 عرب دنیا پر عیسائیت کا حملہ 152 عرب دنیا میں عیسائیت کے جواب دینے پر پابندی 244 غارثور غازی کوٹ 305 353 غانا 15,556,559 فارس فارس کی کنجیاں دئے جانا 304 408 نجی دورہ کے تاثرات 207,241,247,249 247,249 ہونا شام ملک شام کی مشکلات مملکت شام کی چابیاں دیا جانا 370 467,471 154 نجی دنیا کے آخری کنارہ سے حضور انور کا خطبہ 209 226 فنجی میں تبلیغ کرنے کے لئے ہدایات 408 نجی میں احمدیت کی تاریخ اور وہاں کے احمدیوں کی ذمہ داری 225 شام فتح ہونے کے بعد جب دوبارہ ملک چھوڑنا پڑا تو فرانس عیسائیوں کا دعا دینا کہ خدا دوبارہ تمہیں لائے 467 فرینکفرٹ شعب ابی طالب میں محصور ہو جانا اشمله صراحہ - گھانا کا گاؤں صنعا کے دروازے کھولے جانا - صورا فنجی طوالو عراق 302 فلپائن 431 فلسطین 15,556 فیروز شاہ کی لاٹ 349 408 209,248 249 146,148,149,151 فیصل آباد فیض اللہ چک قادسیه قادیان 76,558 289 243 434 46 15,556 22 140 7,57,120,209,318,330,331, 339,341,350,376,415,421,422,448,450 630,644,646,648 عراق کی صورت حال جوسول وار کی طرف لے جا رہا ہے اس کا پس منظر 105,146 قادیان میں لگا تار آٹھ دن بارش ہونا اور خلیفہ اول کا دعا
354,355 490 452 245,246 15,556,558,565 348,431,437 347,348 539 15,538,556 کیرنگ 49 456 قادیان میں نمازوں اور تلاوت کے نظارے 29,30 کیلگری کیلیانوالی کینبرا کینیڈا گجرات گڑھو گنی کرا کری (افریقہ) گوجرانوالہ 47 44-50 331 556 415 52,57,63 27 15 قادیان کا سفر الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا قادیان اور انڈیا کے دورے کی تفصیلات قادیان مغلاں قصور کابل کانگڑہ 298,299 129 گولڈ کوسٹ گولڑہ کپورتھلہ کراچی گورداسپور 21,328,331,334,335,337,338 کراچی جائے نماز خریدنے پر ماتھے پر نشان لگانے والی پڑیا پیش کرنا کراچی میں خود کش حملہ کریباتی کشمیری بازار 341,368,451 357 338 348,357,490 249 51,52,648 گھانا ( نیز دیکھیں غانا‘) گھانا میں امام مہدی کی صداقت کے طور پر زلزلہ 349,350 420 لاله چک، گجرات 303 348 7,15,68,252,339,419,420,421,449 خانہ کعبہ آنحضرت ﷺ کوقرار دیا جانا 311 لاہور ٹاؤن ہال کمبوڈیا گری کوپن ہیگن کوٹ چٹھہ کویت 321 354 ممباسہ جماعت کا قائم کردہ ہائر سیکنڈری سکول اور ایک 243 556 بلاک کا افتتاح لندن 78,118 مارو میں لجنہ ہال کا افتتاح 359 318 ماریشس 247 37,373,557,643,649 ماریشس کے صدر مملکت کی تعریف اخلاص 247 37,478,556 41 151,556 حضور انور کا دورہ ماریشس کا تفصیلی ذکر اور ان کا
اخلاص مالیر کوٹلہ مد بینه 50 37-44 19,417,422 478 83,133,140,151,310,410 نارووال ناگا ساکی ناگویا.جاپان، سے پہلی مرتبہ خلیفہ مسیح کا خطبہ ناندی دعائیں ہی ہیں جو مد ین اور مکہ کے راستے کھولیں گی 50 نائیجیریا مدینہ کے گرد خندق کھدوانا اور اس کی تفصیل مدینہ میں مذہبی آزادی کی مثالیں مسجد اقصی قادیان مسجد فضل لندن مسجد فضل لندن کی تعمیر کے ابتدائی حالات مشرق بعید مشرقی افریقہ 139 17 294,557 293 541 434 نجد اہل نجران کا وفد اور مذہبی آزادی نهاوند نیوزی لینڈ نیوزی لینڈ دورہ کے تاثرات نیوزی لینڈ کے جلسہ سے خطاب وانوالیو.جزیرہ 15,556 352 کا خطبہ 231 247 15,556 135 142 445 227,241,248 249-253 221 247 حضرت مسیح موعود کے حکم پر حافظ حامد علی صاحب کا افریقہ کا سفر اور وزیر آباد کے ایک مخلص احمدی کا جوان بیٹا فوت ہوا لیکن اس کی غیر معمولی تائید و نصرت مشرقی جرمنی 350 646,645 152,471,560 تجہیز وتکفین کی رقم لنگر خانہ کے اخراجات کے لئے دے دینا 6 ونوالو ویانا 249 52 مکہ 161,133,138150305,307,349,404 ہارٹلے پول: مسجد کے سنگ بنیاد پر بعض مخالفین کا رد عمل اور جو 410,465 جماعت کے صبر کا نیک ثمرہ دعائیں ہی ہیں جو مدینہ اور مکہ کے راستے کھولیں گے 50 ہالینڈ 241,242,243 ہانگ کانگ ملائشیا املتان منہائم ، جرمنی مونگ رسول میر پور میر پور خاص ہمبرگ شہر کی تعمیر 646 276,355,558 558 638 ہندوستان 94,194,252,253,275,291,354 | 556 277 451 15 556 375,556,560,561,568,644,648 ہندوستان میں احمدی معلم کی دردناک شہادت 542 ہندوستان جہاں تک ڈاک کا انتظام ہے حضرت مسیح موعود کا
ایک اشتہار کو پہنچانے کا عزم ہندوستان میں طاعون سے لاکھوں اموات 51 639 418 یورپ انگریزی ولایتوں میں ایسے دل ہیں جو تمہاری مددوں کے لئے انتظار کر رہے ہیں ہندوستان کی لجنہ کا برلن مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا 294 یورپ کے پہلے احمدی شہید شریف دو تسا ہنگری ہوشیار پور حضور انور کا تشریف لے جانا ہیروشیما یمامه یمن یمن کی چابیاں دئے جانا 639 560 558 یورپ میں ڈھائی ہزار مساجد کی تعمیر کیخلیفہ ثانی کی خواہش 294 50 یورپ کو بھی خدا کے مسیح نے وارننگ دی ہوئی ہے اس لئے 352 خدا کی غیرت کو نہ للکارو 136 اے یورپ تو بھی امن میں نہیں 90 63 597 310 یو.کے، نیز دیکھیں ”انگلستان، لندن، برطانیہ 408 یو.کے تحریک جدید کی ادائیگی کا جائزہ رپورٹ 556.ادا 98,105,121,249,275,372,369,379 565,639,641 یوگوسلاویہ 559
52 42 آریہ دھرم کتابیات 487 | التاریخ الکامل لابن اثیر 445 محضرت علی کی زندگی اور قرآن ڈینش الترغيب والترهيب 111,164,235,236,260,532 | رائٹر کی کتاب 84 آئینہ کمالات اسلام 123,166,314,427,523,525 71,88,126,130,171,235,283,284 287,320,338,339,340,419,574,605 140 110,407 13,32,,353,542,561 547,548 السيرة الحلبيه 68,69,259,314 الشفاء- قاضی عیاض الفضل سنن ابن ماجه سنن ابو داؤد 92,258,265,309,388,438 اربعین 439,440,467,520,531 رسالہ الوصیت اربعین فی احوال المهد بين 199 67 امہات المومنین انجام آتھم ازالہ اوہام 11,19,20,25,92,94,100,124,559 | انجیل استیعاب اسد الغابه 466 اندرانہ بائبل 403,466 انوار الاسلام اسلامی اصول کی فلاسفی 178,323,476,485,321 ایام اصلح اصابه 466 ایک غلطی کا ازالہ 176,194,278,346 275 12,18,318,322 449 80 183 73,243,428 250 اصحاب احمد 12,20,21,23,24,25,26,27,29 بخاری, 136,137, 7,8,10,17,18,70,128,129 140,164,173,174,237,265,287,401,402,403,404 351,357,359,422,450,451,456,466 408,409,410,411,430,440,468,518,530,535, 537,544,546,591,609,611,618 109,625 67 576,621 67,239,320,419 براہین احمدیہ 114,124,315,333,351,425,482 523,615,629 اعجازاح اقتراب الساعة اقرب الموارد البدر
53 براہین احمدیہ کا انقلاب انگیز اثر 31 تریاق القلوب 317,325,328,333,338,611,617 | ایک انگریز احمدی خاتون کا براہین کے انگریزی تفسیر حضرت مسیح موعود ترجمہ کا استفسار کرنا 458 تفسیر در منثور براہین احمدیہ کی اعانت اور اعانت نہ کرنے والے 425 تفسیر کبیر براہین احمدیہ کی تصنیف بھی ایک نشان ہے براہین احمدیہ حصہ پنجم 424 تفسیر کبیر از امام رازی 171,262,274,275 87,109,110 575 622 201 پرانے مفسرین میں علامہ رازی کی بھی اچھی تفسیر ہے 585 482 تفہیمات الہیہ 67 352 فتح خیبر کے دوران یہود کو تو رات کے نسخے واپس کر دینا 140 بركات الدعا برہان ہدایت روزنامه پاکستان 53,56 جلاء الافہام 108 پنجاب سما چار پیغام صلح تابعین احمد تاج العروس 339 128,588,614 454 576 روز نامہ جنگ 59,77 جنگ اخبار لندن کی ایک جھوٹی خبر اور اس پر تبصرہ 119, 117 چشمه صیحی چشمه معرفت تاریخ احمدیت 344,368 340 325,335,339 مج الكرامه 325,335,339,340,344,368 476 144,304,423,473 67 تاریخ احمدیت لاہور تائید حق تبلیغ رسالت تجلیات الہیہ تحفہ بغداد تحفہ گولڑویہ حقیقة المهدی 96,336,337 حقیقۃ الوحی 63,97,168,314,320,324,341,342 | 421,456 26 473 101,321 523 96,524 359,400,416,417,418,420,423,425,426 427,546 425 حیات طیبہ حیات قدسی 28,348,354,355,447,448,453,455 تذکره 154,323,336,346,522,523,524,546 خطبہ الہامیہ کا نشان تذكرة الشهادتين 616 دار قطنی 34,184 دافع البلاء ترندی 109,111,228,261,311,365 107,108 دیباچہ تفسیر القرآن 384,407,439,518,521,522 536,545 ذكره حبيب 323 73,98,317,534 419 139 376
54 رجسٹر روایات صحابہ 22,930,31,32,33 کتاب الخراج رنگیلا رسول 81 کتاب دانیال روح پرور یادیں 350,353,356,358 کشتی نوح ریویو آف ریلیجنز 11,192,252,511 سیاسی وثیقہ جات از ڈاکٹر حمید اللہ سر الخلافہ سرمه چشم آریہ 143 419 486 466,467 351 193,262,603 طاعون کے نقصان کے ساتھ حضرت مسیح موعود کا کشتی نوح تحریر فر مانا کنز العمال لسان العرب سیر روحانیہر احمدی جو اردو پڑھ سکتا ہے اس کو پڑھنا لیکچر سیالکوٹ 272 61,108,109,158,219 576,621 125,442 393,637 190 چاہئے جو پڑھ نہیں سکتے سن سکتے ہیں سنیں 47 لیکچر لاہور سیرت ابن ہشام 134,142,400,405 لیکچر لدھیانہ سیرت المہدی السيرة الحلبيه 122,421 135 مجموعہ اشتہارات 10,11,240,382,535 سیرت طیبہ 415,416 سیرت حضرت مسیح موعود " مرزا غلام احمد اپنی تحریروں کی رو سے خلیفہ ثالث کا چوہدری ظفر اللہ صاحب کو انگریزی ترجمہ کا فرمانا 374,427 مرقاة المفاتیح شرح مشکوۃ المصابيح سیرت حضرت مولانا شیر علی 451,452 مستدرک حاکم سیف چشتیائی شعب الایمان.بیہقی شہادت القرآن طبری رسالہ ظہور احمد فتح اسلام فتوح البلدان قادیان کے آریہ اور ہم مشكوة مفردات امام راغب مکتوبات احمدیہ قادیانیت ابوالحسن ندوی کتاب البريه 338 159 382 467 6 36 467 190,201,203,205,211,213,215,218,224,225, 122 228,230,252,264,265,271,299,312,366 68 367,368,388,394,396,397,439,457,480, 615 69 96,545 111,139,187,189,260,261,389,406 411,500,518,521,613 مسند احمد بن حنبل 9,218,259,308,388,389,546 444 620 112,335,537,548,616 ملفوظات 33,46,61,64,108,115,155,181,184
55 488,489,495,499,501,503,507,518,526,537 یولنڈ پوسٹن - اخبار جس نے کارٹون شائع کئے 121 پوسٹن-اخبار منن الرحمن مواہب الرحمن موطا امام مالک نزول امسیح سنن نسائی نسیم دعوت نوائے وقت نور الحق نور القرآن ورتمان اخبار Arbaian Society at the time of 545,546,582,602,618,639 Muhammad 471 576 An Apology for Muhammad469,472 339,340,342 Essence of Islam 458 135 History of the Moorish Muhammad 36,81,338,339 and Muhammadanism 470 258 On Heroes Worship and 468 392 The History of the Decline 469,470 58,59 477 639 The Life of Muhamma 468 266 World Faith 472 81 449